مرجان مصطفى سالم الجوهري المتوفی ١٤٣٦ ھ / ٢٠١٥ جس كا قلمي نام أبو عمرو عبد الحکیم حسان تھا اس نے کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان لکھی جس میں اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا – اس شخص نے اہرام مصر اور آثار قدیمہ کو منہدم کرنے کا فتوی دیا یہ مصر میں قید میں ٢٠١٥ میں ہلاک ہوا – یہ كلية أصول الدين جامعہ ازہر کا طالب علم تھا اور بعد میں افغانستان میں ملا عمر کا استاد تھا – یہ یمن سے افغانستان منتقل ہوا اور سلفی جہادی سوچ رکھتا تھا- اس شخص نے جماعة الجهاد الإسلامي کی بنیاد رکھی اور حکمرانوں کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے مزاحمت کے دوران معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا – سن ٢٠٠٣ میں اس کی سوچ کا علمبردار اسامہ بن لادن تھا جس کو سفید گھوڑے پر سوار دکھایا جاتا یا گویا وہ افغانوں کا مہدی تھا جو قدیم خراسان سے ظاہر ہونے کو تھا – ان کے پشتبان طالبان اس کے سحر میں گرفتار تھے جو اپنے آپ کو انہی جھوٹی موضوع روایات کا محور سمجھ رہے تھے جو ظہور مہدی کے حوالے سے ہیں جن کو سلفی و دیوبندی حضرات نے تعویذ کی طرح گلے میں ڈال رکھا ہے سلفی جہادی ابن تیمیہ کی متشدد سوچ سے ابھرنے والی تنظیمیں ہیں جن کی پشت پر بہت سے عرب علماء ہیں اور ان کے ہتھیار کے طور پر برصغیر و افغانستان کے مسلمان ردعمل ظاہر کرتے ہیں – دوسری طرف برصغیر کے دیوبندی حلقوں میں بھی امام مہدی کا چرچا تھا یہاں سرفراز خان صفدر اپنی کتاب توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام میں لکھ رہے تھے کہ طالبان نما مخلوق مسیح علیہ السلام کے ساتھ خواب میں دیکھی- مفتی شامزی نے بھی امام مہدی پر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں کیا موضوع روایت ہوتی کیا مدلس راوی ہوتا ہے ان کو اس سے کوئی سرورکار نہ تھا – بس ایک تلاطم روایات تھا جس میں صحیح اور غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز مٹ چکی تھی- الغرض مدرسوں میں ایک کلائمیکس کا وقت تھا علماء کا سرور دیکھنے والا تھا اور نوک قلم سے جھلک رہا تھا
لیکن افسوس ایک عفریت اپنے عقب سے نکلنے کو تھا- شوق جہاد میں نظر و فکر کے تجزیے رخصت پر جا چکے تھے اور مہدی آخر الزمان کی رن میں آمد کے نوبت کے شور میں سلفی و دیوبندی عوام واپس سنن اربع کی کتب کو کھنگال کر روایات مہدی جمع کررہی تھیں
کہتے ہیں جب کسی چیز کا وقت نہ ہو اور اس کا انتظار کیا جائے تو اس کا ردعمل ختم نہیں ہوتا ہمارے لئے اہل کتاب کی تاریخ تھی کہ کس طرح ہر دور میں مسیح کا انتظار کرتے رہے اور اصلی تک کو قتل کرنے کے در پے ہوئے کہ علماء کی رائے اصلی مسیح کی رائے سے موافقت نہ رکھتی تھی – علمائے یہود نے اس کا حل نکالا کہ الله کو مجبور کر دو کہ مسیح کو بھیجے لہذا جنگ کی اگ بھڑکاو – جنگ ہو گی مسیح آئے گا (جس کے لئے الله قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اس کو بجھا دیتا ہے) – یہی انداز ان جہادی گروہوں کا ہوا کہ جہاد کرو مہدی آئے گا گویا ایک شعر پر ایمان لائے کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے – جبکہ یہ شعر ہی غلط ہے یہ شاعرانہ بات ہے وحی الہی نہیں-
علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں
سن ٧٠ کی دہائی میں مطووں کی فوج میں سے ایک، محمد بن عبد الله القحطانی کو خیال آیا کہ میں مہدی ہوں ایک جماعت کثیر کو لیا حرم پر قابض ہوا اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے جہنم واصل ہوا – اس کے ساتھ جن علماء کا اٹھنا بیٹھنا تھا ان کو بچا لیا گیا کچھ واپس برصغیر بھی پہنچے- اس وقت اس دبی چنگاری کو بجھا دیا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن سلفی علماء اپنے من پسند لوگوں کو بچا لے گئے- ایک عالم عبد الله بن زيد آل محمود المتوفی ١٤١٧ ھ نے سچ بولتے ہوئے المہدی کی روایات کو کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر میں رد کیا اور صاف کہا کہ یہ ایک اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد سلفی سوچ واپس متحرک ہوئی اور عبد العزيز بن عبد الله بن باز کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ) نے اپنی کتاب الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر میں عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا اور اگر آپ کتاب دیکھیں تو ٤١١ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کوئی علمی بات نہیں ایک منقطع روایت کو دس سے اوپر دفعہ لکھا گیا ہے کہ اس کی سند جید ہے – افسوس درس حدیث دینے والے چوٹی کے علماء میں اتنی قابلیت نہیں کہ ایک دفعہ ہی سند چیک کر لیں بھلا کیا روایت ہے سنئے مسند الحارث بن أبي أسامة کی روایت ہے
حدثنا إسماعيل بن عبد الكريم، حدثنا إبراهيم بن عقيل، عن أبيه، عن وهب بن منبه، عن جابر -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «ينزل عيسى ابن مريم، فيقول أميرهم المهدي: تعال صلِّ بنا، فيقول: لا، إن بعضهم أمير بعض، تكرمة الله لهذه الأمة
جابر رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک عیسیٰ ابن مریم نازل ہونگے اور ان سے امیر المہدی کہیں گے آ جائیں نماز پڑھائیں پس وہ کہیں گے نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں اللہ نے اس امت کی تکریم کی ہے
یہ روایت منقطع ہے- کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل کے مطابق
وهب بن منبه قال بن معين لم يلق جابر بن عبد الله
وهب بن منبه کے لئے ابن معين کہتے ہیں ان کی ملاقات جابر بن عبد الله سے نہیں ہوئی
اس کتاب میں ابن معین کہتے ہیں وھب کی روایت ابن جابر سے ایک کتاب سے تھی ، یہ بھی کہا ان کے پاس ایک صحیفہ تھا
هو صحيفة ليست بشيء
وہ صحیفہ کوئی چیز نہیں
حمود بن عبد الله اس کتاب میں بس یہی راگ لاپتے رہے کہ ابن قیم اس کا ذکر کتاب المنار المنيف میں کرتے ہیں کہتے ہیں وهذا إسناد جيد اس کی سند جید ہے – مسلک پرستی یہ نہیں تو اور کیا ہے
انہی حلقوں میں ایک رجحان مدخلیت بھی ہے- یعنی اس سلسلے میں اس قدر لٹریچر آ موجود ہوا ہے کہ الہی توبہ جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ایڈونچرازم کا درس ہے – تکفیر ہے – مغربی ملکوں میں پڑھنا حرام ہے، ان کی سیر حرام ہے، ان میں جانا حرام ہے – ضابطہ اخلاق اور تہذیب کا عملا جنازہ ہی اٹھا دیا گیا ہے اور ہر جانب سے نئے افکار کو پیش کیا جا رہا ہے کسی کو شام میں اب سفیانی نظر آ رہا ہے (یہ بھی ضعیف روایت ہے ) – ایک اور بات جو ان گروہوں میں مشترک ہے وہ ہے کفار و اہل کتاب سے دوستی کی بحث
اب ہم پوچھتے ہیں
ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا
کیا آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا
جب مسلمان کا دوسروں سے معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں
اہل کتاب سے شادی ہو سکتی ہے دوستی نہیں! مطلب آپ بات سمجھ نہ پائے
بقول حافظ
چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطاست
سخن شناس نئی ، دلبرا، خطا اینجاست
بعض آیات کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا
ایک اور کتاب دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار یا الولاہ و البراء از صالح بن الفوزان میں بھی اسی خارجی طرز کا انداز ہے موصوف غیر مسلموں کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے حتی کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو کاتب کی نوکری تک نہ دی جائے (صفحہ ١٨ اور ١٩)- جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بنو امیہ کے خلفاء نے اہل کتاب کو اپنی بیرو کریسی میں شامل کیا انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا لیکن یہ روایت بیہقی شعب ایمان کی ہے
أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيُّ بِالْكُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ دُحَيْمٌ , نا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ , نا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ , عَنْ أَسْبَاطٍ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ , عَنْ أَبِي مُوسَى , فِي كَاتِبٍ لَهُ نَصْرَانِيٍّ عَجِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ كِتَابِهِ , فَقَالَ: إِنَّهُ نَصْرَانِيٌّ قَالَ أَبُو مُوسَى: فَانْتَهَرَنِي وَضَرَبَ فَخِذِي وَقَالَ: ” أَخْرِجْهُ ” وَقَرَأَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] , وَقَالَ: {لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51] , قَالَ أَبُو مُوسَى: وَاللهِ مَا تَوَلَّيْتُهُ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ , قَالَ: ” أَمَا وَجَدْتَ فِي أَهْلِ الْإِسْلَامِ مَنْ يَكْتُبُ لَكَ لَا تُدْنِهِمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللهُ , وَلَا تَأْمَنْهُمْ إِذَا خَانَهُمُ اللهُ , وَلَا تُعِزَّهُمْ بَعْدَ إِذْ أَذَلَّهُمُ اللهُ
اسباط بن نصر روایت کرتا ہے سماک سے وہ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ سے وہ ابو موسی سے کہ عمر رضی الله عنہ نے ان کے نصرانی کاتب پر تعجب کیا اور دلیل میں سوره ممتحنہ اور المائدہ کی آیات سنائی
اسکی سند میں سماک بن حرب کا تفرد ہے کتاب المختلطين از العلائي کے مطابق وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن حجة
نسائی کہتے ہیں جس میں یہ منفرد ہو وہ حجت نہیں ہے دوم اسباط بن نصر خود ایک ضعیف راوی ہے
صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩) ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں
اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے
اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے
ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی
اصل میں اس قبیل کے علماء کا غلطی یہ ہے کہ آیات کو جو مشرکین مکہ کے لئے تھیں ان کو آج کل کے اہل کتاب پر لگا دیتے ہیں اور جو احکام اہل کتاب کے لئے تھے ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں اور جو ان کی نہ سنے اس کو منافق قرار دے دیتے ہیں اور مسند رسالت پر براجمان ہونے کی کوشش میں ہیں اگرچہ زبان سے اس کے انکاری ہیں لیکن وہ عمل جو خالص وحی الہی سے ہی ممکن ہیں ان کی تلقین کرتے پھرتے ہیں مثلا کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے اختلاف ہوا تو اس پر مرتد کا فتوی جڑنا ، ان کی بیویوں کو علیحدگی کا حکم دینا ، ان کے حمل گروانا ، پھر معاشی بائیکاٹ اور کوئی انکی پارٹی کا جوان مرد عامی ذہین اٹھ کر ایسے صحیح العقیدہ مخالفین کو قتل کر دے تو اس گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا
اس خوف و دہشت میں رہنے والے علماء جس تفسیاتی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اسی میں اپنے معتقدین کو بھی مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ دین تو نصیحت کا نام ہے کچھ اور نہیں
مشرکین مکہ کا دھرم ختم ہوا تو وہ ایک فطری عمل تھا- اس پر نوشتہ دیوار آ چکا تھا لوگ جوق در جوق اسلام میں آ رہے تھے پرانے مندروں کے بچے کچھے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان کے بت توڑے اور مندر ڈھا دیے گئے لیکن یہ صرف عرب میں ہوا- مسلمانوں نے مصر فتح کیا لیکن فرعونوں کی مورتیاں آج تک باقی رہیں – کسی من چلے کو خیال نہ آیا کہ ان تو توڑا جائے- یہ آج ان سلفی علماء کو ہی خیال کیوں آیا؟ بدھآ کے بتوں تو نہیں توڑا گیا اور عباسی خلافت تک آتش کدہ نوبہار البوزی میں اگ جلتی رہی – ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کو اسی وقت بجھا دیا جاتا
مدینہ کی سیاست ایک وقتی نوعیت کی چیز تھی- جس میں منافق اور یہود کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ تھا جس میں ان کا مقصد تھا کہ رسول الله کو کسی طرح مشرکین مکہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے اور ہم واپس مدینہ کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس کا منصوبہ الگ تھا اس تناظر میں آیات نازل ہوئیں کہ جس نے رسول الله کی مخالفت کی وہ منافق ہے اور کافر سے درپردہ دوستی سے منع کیا گیا وہ دور گزر گیا
امت مسلمہ اتنی وسیع ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس کو کوئی ختم نہ کر سکے گا لہذا علماء کو چاہیے اس نفسیاتی خوف سے باہر نکلیں اور تہذیب کے دائرے میں بین المذآھب ڈائلاگ کرنا سیکھیں
Dr. Zakir naik kay bhi to bain-ul-mazahib dialogue kertay haian. Aur kafi log musalman ho rahay haian.
آپ کو اس بات ابھی اور سمجھنا ہو گا
ہم اہل کتاب کو کس دین کی طرف بلا رہے ہیں وہ اسی سلفی سوچ کے پر چارک ہیں جس کی نیو ہی غلط رکھی گئی ہے
اس میں حدیث کو قرآن پر قاضی سمجھا جاتا ہے اور قرآن کے دیے گئے عقیدہ کو ضعیف حدیث سے رد کیا جاتا ہے
اس بلاگ میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ مہدی کے باطل عقیدہ کی وجہ سے جو جنگ و جدل کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے اور اس کے حاملین کو اس کی تحقیق کرنا چاہیے
بعض مخصوص سلف کے متبعین مثلا ذاکر صاحب بھی اس عقیدے کے حامل ہیں جو غلط ہے
السلام و علیکم رحمت الله
مذکورہ بالا امام مہدی سے متعلق تحقیق سے مکمل اتفاق ہے – کہ یہ نظریہ ضعیف روایت اور اہل تشیع کی کتابوں میں دیے گئے فرمودات سے کشید کیا گیا ہے
لیکن کفار کی دوستی سے متعلق آپ کے نظریہ سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا- (دوستی درحقیقت قلبی موافقت کا نام ہے) – قران میں الله رب العزت کا ارشاد ہے کہ
(فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة -المائدة : ٥٢
” پس (آپ صل الله علیہ و آ له وسلم) نے دیکھا کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی یہود و نصاری میں گھستے چلے جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم پر کوئی گردش دوراں نہ آ جائے۔
اگرچہ مذکورہ آیت نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور کے منافقین کی ریشہ دوانیوں کے نتناظرمیں نازل ہوئی – لیکن اس آیت کا حکم بہرحال قیامت تک کے لئے نافذ العمل ہے- ورنہ دوسری صورت میں تو آج ہم کسی پرمنافق یا کافر ہونے کا حکم ہی نہیں لگا سکتے؟؟ کیوں کہ جو ہندو یا عیسائی یا پھر یہودی گھرانے میں پیدا ہو گیا وہ ہمارے نزدیک کافر ہے- اور جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا وہ مسلمان – جب کہ نبی کریم کے دور میں ایسا نہیں تھا -جو وحی کے احکامات پر ایمان لاتا تھا وہ مسلمان اور جوانکار کرتا تھا وہ کافر اورجو دل سے ایمان کو قبول نہیں کرتا تھا وہ منافق- اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی مشرک بھی نہیں ہو سکتا کہ جس ماحول میں اس نے پرورش پائی تو وہ وہی کچھ کرے گا – مطلب یہ کہ اگر ہم قرآن کی آیات کا اطلاق اس بنیاد پرکریں کہ فلاں آیت کا تعلق نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دورسے خاص ہے تو پھر احکامات الہی کا الله ہی حافظ- – پھر اس پر کیسے عمل ہو؟؟
آپ کی بات میں ایک چیز صحیح ہے کہ منافقین ہو سکتے ہیں لیکن کیا چیز نفاق ہے ؟ الله کے رسول کی مخالفت میں کسی اور سے دوستی گاڑھنا- یہاں اس بلاگ میں اسی پر بات کی گئی ہے کہ دین کی مخالفت میں دوستی کرنا نفاق ہے
اس میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں – ہم اپنے طور پر کسی کے نفاق کا تعین نہیں کر سکتے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر وحی اتی تھی انکو اس کا پتا تھا اور صورت حال کنڑول میں رہی اور قرآن کی آیات بھی اس دور کی بات کرتی ہیں
لیکن جب صحابہ کا دور خلافت شروع ہوتا ہے تو کہیں بھی یہ منافق کی آصطلاح نہیں ملتی -وفات رسول کے دن تک منافق ہیں اور دوسرے ہی دن ان کا کوئی تذکرہ نہیں
شیعہ مکتب فکر نے اس نفاق کی بات کو بعض صحابہ پر لگایا جن کی عدالت میں کسی کو شک نہ تھا
لیکن اہل سنت میں نفاق کی آصطلاح استمعال ہونا بند ہو گئی کیونکہ اب وھبی اشارات ملنا بند ہو گئے اہل تشیع میں نفاق کی آصطلاح چلتی رہی کیونکہ ان کے مطابق امام پر وحی اتی ہے اس کو پتا چلتا ہے کہ کون منافق ہے کون نہیں ہے
یہ نفاق کی آصطلاح تابعین کے دور میں بھی نہیں ملتی
ہاں عباسی خلافت میں زندیق کی آصطلاح ملتی ہے جس سے مراد عباسی خلافت کے وہ خراسانی مخالف تھے جن پر زنادقه کا الزام لگا کر عباسی خلفاء نے خاتمہ کیا جن سے اصلا انکو سیاسی خطرہ تھا
اس کے بعد زندیق کی آصطلاح محدثین ان راویوں کے خلاف استمعال کرنے لگ گئے جن کو یہ نا پسند کرتے تھے اور یہ لفظ جرح و تعدیل میں آ گیا
انگریز کی اسلامی ممالک پر غلبہ کے بعد ہمارے ہاں منافق کی آصطلاح واپس استمعال ہونے لگی
قرآن کا حکم یقینا رہے گا لیکن آپ ظواہر کو دیکھ سکتے ہیں باطن کو نہیں اور نفاق کا تعلق باطن سے ہے لھذا قرآن کی یہ آیات قیامت تک ایسے لوگوں پر اتمام حجت کریں گی لیکن ہم خود کسی کے بارے میں نفاق کی آصطلاح نہیں لگا سکتے
ہاں کفر کا فتوی ظاہر پر لگتا ہے جس پر اگر شواہد ہوں تو لگے گا
منافقین کا فیصلہ الله نے اپنے پاس رکھا ہے کہ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کہ جہنم کی تہہ میں سب سے نیچے- ان پر تلوار چلانے کا حکم نہیں دیا
الله نے ان کو چھوٹ دی تاکہ وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ یہ اپنے جسموں کو چھوڑیں کفر کی حالت میں یعنی اچھی طرح گناہ سمیٹ کر جہنم کی تہہ میں جائیں
نفاق کا تعین تو دور حاضر بلکہ ہر دور میں کیا جا سکتا ہے – قرآن کریم اور احادیث نبوی میں جا بجا منافق کی علامات بتائی گئی ہیں- سوره البقرہ کا پہلا رکوع منافقین کی واضح علامت سے پرہے- ظاہر ہے کہ یہ علامات صرف نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دورتک محدود نہیں ہیں- صحیح احادیث نبوی میں بھی ہے منافق کی یہ علامات بیان ہوئی ہیں کہ بات بات پر جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں نماز میں سستی کرتے ہیں وعدہ خلافی کرتے ہیں غیر مسلموں سے محبت و موافقت رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ –
اموی دور میں مسلمانوں کے درمیان شروع ہونے والی خانہ جنگوں کے باوجود کم از کم مسلمانوں میں یہ ضرور ایک اچھی چیز تھی کہ یہ لوگ یہود و نصاریٰ کے مقابلے میں بحثیت مجموئی متحد قوم تھی اوریہ لوگ ان یہودیوں کے نظریات و عقائد اور ثقافت سے نفرت رکھتے تھے- اب چاہے وہ حضرت عبدللہ بن زبیررضی الله عنہ ہوں یا یزید بن معاویہ رحم الله کا دور خلافت ہو یا پھرعبید الله بن زیاد ہو یا حجاج بن یوسف یا طارق بن زیاد ہو یا سلطان صلاح الدین ایوبی کا دورحکمرانی ہو- یہ لوگ باہمی اجتہادی اختلافات کے باوجود یہود و نصاریٰ کے خلاف ایک مضبوط دیوار بنے رہے- البتہ اٹھارویں صدی میں برصغیر اورانیسویں صدی میں سرزمین عرب میں آل سعود کے دورمیں انگریزوں کےغلبے نے ایک ایسی فضا پیدا کردی کہ مسلمانوں میں ایسے علماء و مشایخ پیدا ہوگئے جو ان یہودی و نصرانیوں سے دوستی کے خواہاں تھے تا کہ ایک تو جہاد کی عزمیت نہ اٹھانی پڑے اور دوسری طرف دنیا کی آسائش و شان و شوکت خریدی جا سکے – اور ظاہر ہے انھیں انہی فتوؤں پر انحصار کرنا تھا جس سے ان (یہود و ہنود ) کی دوستی کو جائز قرار دیا جا سکے- ظاہر ہے جب مسلمانوں میں میں سرسید احمد خان ، پرویز چکڑالوی ، فروہی ، غامدی جیسے علماء و مشایخ پیدا ہونگے جن کا مشن ہی یہی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں غیر مسلموں سے دوستی جائز ہونے کے فتاواجات جاری کیے جائیں – تو پھران کے مقلبلے میں ایسے متشدد علماء و مشائخ کا پیدا ہونا بھی ایک فطری امر بن جاتا ہے جو بات بات پرلوگوں میں کفر و نفاق کی علامات ڈھونڈھتے پھرتے ہیں
آپ کی بات یہاں تک صحیح ہے کہ منافق کی علامت بتائی گئی ہے اور یہ لوگوں میں موجود ہے- آج ہر دوسرا شخص
امانت میں خیانت کرتا ہے
جھگڑے میں گالی دیتا ہے
وعدہ خلافی کرتا ہے
کیا یہ ہر دوسرا شخص منافق ہے؟
آپ اس حدیث کو مذھب سے نکال کر دیکھیں یہ تو عام معاشرہ کی بات ہے
جس پر یہودی ہو یا نصرانی ہو یا ہندو ہو یا بدھمت کا ہو سب کہیں گے کہ یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ وعدہ خلافی اچھی بات نہیں امانت میں خیانت صحیح نہیں اور گالی نہیں دینی چاہے
راقم کے خیال میں بعض نشانیاں ایک وقت اور زمانے کی ہوتی ہیں ان میں ایک علاقائی روایت اور ماحول کا اثر بھی ہوتا ہے آپ اس کو اس طرح ہر ایک پر نہیں لگا سکتے
ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ ایک معاشرہ میں کوئی وعدہ خلافی نہ کرتا ہو امانت میں خیانت نہ کرتا ہو اور گالی نہ دیتا ہو یہ معاشرہ سے الگ نہیں کیا جا سکتا اس بنا پر کوئی اگر کسی کو قتل کرے تو کیا اس کو آپ بولیں گے کہ تم غلط ہو ؟ کیونکہ روایت میں تو یہی بیان ہوا ہے اس سے مفر نہیں
اسی طرح اگر کوئی یہود و نصاری سے معاہدہ ہوتا ہے تو اس کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے دو قومیں بلا معاہدہ کچھ نہیں کرتی
انٹرنیشنل قانون میں اس کو دیکھا جاتا ہے لھذا ان ممالک جن پر آپ کو اعتراض ہے وہ کسی نہ کسی معاہدہ کے تحت ہی کچھ کر رہے ہوتے ہیں اور اس پر آپ کو روکنا اس علاقے کے لوگوں کا کام ہے جو بلوہ کیے بغیر قانون کے دائرۂ میں یہ بات اپنی حکومت تک پہنچائیں اس طرح اچھل کود بلوؤں سے خود مخالفین کا موقف کمزور پڑ جائے گا
میرا خیال ہے ہمیں ان مفرط علماء کا دفاع نہیں کرنا چاہیے جو تشدد کی راہ اختیار کیے ہوئے ہیں جن کے پاس ان جنگوں کا کوئی حتمی نتیجہ نہیں ہے بلکہ صرف اس سےفساد برپا ہو رہا ہے ایسی جنگ جو شروع کی جا سکتی ہو لیکن اس کا ختم کرنا آپ کے بس میں نہ ہو اس کو نہیں کرنا چاہیے یہ اجتماعی خود کشی ہے
جو حرام ہے
افسوس آپ کو مسلمان حکمرانوں میں اگر کوئی چیز پسند آئی تو صرف یہ کہ
“ایک اچھی چیز تھی کہ یہ لوگ یہود و نصاریٰ کے مقابلے میں بحثیت مجموئی متحد قوم تھی”
یعنی اپس میں ایک دوسرے کا قتل کرنے کے باوجود اگر ان میں یہ چیز اچھی تھی خوب بات کہی آپ نے
یعنی غیر مسلموں سے تعصب ہی “اصل” مذھب ہے تو مذھب میں انسانیت کی خدمت نام کی کوئی چیز نہیں رہے گی
آپ غیر مسلموں کے خلاف ہیں ؟ تو آپ ان تک دین کیسے پہنچائیں گے ؟ کیا مذھب کا فریضہ صرف یہی ہے کہ ان سے اگر کوئی بات کرے تو اس پر نفاق کا فتوی لگا دو ؟
میرا خیال ہے آپ یہاں غلطی پر ہیں
مسلمان کی حیثیت سے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نفاق کے بارے میں اسلام ہمیں کیا حکم دیتا ہے ؟؟- یہود و ہنود کا اس معاملے میں کیا رویہ ہے – کیا وہ امانت میں خیانت کرتے ہیں یا نہیں- وعدہ خلافی کرتے ہیں یا نہیں- ان کو منافقوں کے صف میں شامل کیا جائے یا نہیں ؟؟؟ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے- اگرغیر مسلم کوئی اچھا کام کرتے ہیں – تو ہمیں ان کو دیکھ کر اچھا کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے- بلکہ ہمیں یہ دیکھ کر اچھا عمل کرنا چاہیے کہ ہمارا دین ہم سے اس اچھے کام کا تقاضہ کرتا ہے اورہربرے کام سے روکتا ہے
جب یہود و ہنود سے دوستی کی ممانعت پر بات کی جاتی ہے تو اکثرہمارے نام نہاد میڈیا پرست علماء و مشائخ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دوستی اور حسن سلوک میں فرق کرنا ضروری ہے- نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے بھی یہودی اور مشرکین کے قبائل سے جو معاہدے کیے تھے ان میں دوستی کا عنصرہرگزموجود نہیں تھا- صرف معامله حسن سلوک تک تھا – ورنہ یہ یہودی اور مشرکین آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کو کبھی اتنی تکالیف اور آزمائشوں میں نہ ڈالتے- اورجب اورجہاں ان یہودی قبائل کی طرف سے معاہدوں کی خلاف وزی کی گئی وہاں پھرمسلمانوں کی تلوار نے ہی فیصلہ کیا- افسوس کہ آج ان میڈیا پرست علماء و مشائخ نے لفظ “شدت پسندی” کو مسلمانوں کے لئے کلنک کا ٹیکہ بنا دیا – اور کچھ جہادی تنظیموں نے بھی اس کا غلط استمعال کیا – جب کہ درحقیقت یہ لفظ “شدت پسندی” قرآن میں اصحاب رسول کے وصف کے طور پر بیان ہوا ہے- مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ -ترجمہ : محمد (صل الله علیہ و آ له وسلم ) الله کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں (اصحاب رسول) وہ کفار کے معاملے میں “شدت پسند” ہیں- آپس میں رحم دل ہیں”- اتنا کچھ واضح ہونے کا باوجود ہمارے علماء و مشائخ آج بھی یہود و ہنود سے دوستی کے دروازے ڈھونڈھتے پھرتے ہیں- یہ یہود و نصاریٰ جتنا مرضی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے رہیں چاہے جتنا مرضی انٹرنیشنل قوانین کی دھجیاں بکھیریں لیکن ہمارے یہ درباری ملا قرآن و احادیث نبوی کی ایسی توجیہات پیش کرتے ہیں کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان غیرمسلموں سے دوستی کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض اوقات واجب ہے-
یہ بات آپ بھی شاید اچھی طرح جانتے ہوں کہ نہ ختم ہونے والی جنگوں کا آغازکس کی طرف سے کیا گیا ہے – ہاں یہ الگ بات ہے کہ چند تنظیمیں چاہے اسلامی ہوں یا غیر اسلامی کافی عرصہ سے کراے کے قاتل کے طور پر کام کررہی ہیں-اس کے پیچھے کیا چیز کار فرما ہے یہ شاید آپ بھی جانتے ہوں –
باقی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین اور قرون اولیٰ میں مسلم حکمرانوں کی باہمی جنگیں اورقتال کا تعلق ہے تواگرچہ تاریخ میں اس کو کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن جو کچھ ہوا وہ کم از کم ان پاک ہستیوں کی طرف سے جان بوجھ کر نہیں کیا گیا تھا- اجتہادی غلطیوں اوربعض شر پسندوں کی شرارت کی وجہ سے ہوا – افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کواورخوصوصاً غیر مسلموں کو یہ تصور دیتے ہیں کہ ہم الله کے نبی اوران کے اصحاب سے زیادہ قرآن کو سمجھنے والے ہیں اور قتال کے خلاف ہیں – دوسرا جو مرضی کرلے ہم ان پر وار نہیں کریں گے- لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ الله رب العزت ہی ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ اگرتم پر ظلم ہوتو تمہیں اجازت ہے کہ تم اس کے بقدر بدلہ لے سکتے ہو- نیوٹن کے قوانین کے علمبردار شاید یہ بھول جاتا ہیں کہ نیوٹن کا پہلا قانون ہی یہی کہتا ہے کہ “ہرعمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے جو سمت میں مخالف اور برابر ہوتا ہے” – جب ہمارے ہاں کے یا آل سعود کے حکمران یہود و نصاریٰ کو گلے لگا کر ان کا منہ اور گال چوم کر استقبال کریں گے تو پھروہاں اسامہ بن لادن جیسے انسانوں کا پیدا ہونا ایک فطری امربن جاتا ہے
والسلام
میڈیا کے علما علما نہیں ھیں نہ ھی ھمارے نزدیک ان کی کوئی حیثیت ھے
آپ کی رائے سے راقم مکمل اتفاق نھیں کرتا لیکن اس کو بلا تبصرہ یھاں لگا دیا ھے
کیا آپ اپنی ان باتوں کے حوالے دے سکتے ہیں
———-
ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا
کیا آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا
نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں
————————
احادیث پوری پیش کریں پلیز – تا کہ ہمارے علم میں اضافہ ہو
ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا
صحیح بخاری حدیث ٢٢٩٧ میں ہے
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیروکار پایا۔ اور ابوصالح سلیمان نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا۔ ان سے یونس نے، اور ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا۔ جب آپ برک غماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا، ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان (اپنے وطن سے)نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے۔ کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی (اپنے وطن سے) نہیں نکل سکتا۔ اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے۔ اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی۔ پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو اس کی تاکید کر دینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کر لیا کریں۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں، اور قرآن کی تلاوت کریں، لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں اور نہ اس کا اظہار کریں، کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کرنے لگے۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے۔ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ اب آپ ظاہر ہو کر وہاں نماز پڑھنے لگے۔ اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے۔ پس پھر کیا تھا مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے، لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ۔ اگر وہ اس پر تیار ہو جائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں، پھر تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہو کہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کر دیں۔ کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑ دیں۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا۔ اب یا تو آپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کر دیں۔ کیونکہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان توڑ دی گئی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے۔ جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جلدی نہ کرو، امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! کیا آپ کو اس کی امید ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ضرور! چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے، انہیں چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے۔
————————-
کیا آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا
باب: اگر کوئی مسلمان دار الحرب یا دار الاسلام میں کسی حربی کافر کو اپنا وکیل بنائے تو جائز ہے
حدیث نمبر: 2301
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یوسف بن ماجشون نے بیان کیا، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے صالح کے دادا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے امیہ بن خلف سے یہ معاہدہ اپنے اور اس کے درمیان لکھوایا کہ وہ میرے بال بچوں یا میری جائیداد کی جو مکہ میں ہے، حفاظت کرے اور میں اس کی جائیداد کی جو مدینہ میں ہے حفاظت کروں۔ جب میں نے اپنا نام لکھتے وقت رحمان کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ میں رحمن کو کیا جانوں۔ تم اپنا وہی نام لکھواؤ جو زمانہ جاہلیت میں تھا۔ چنانچہ میں نے عبد عمرو لکھوایا۔ بدر کی لڑائی کے موقع پر میں ایک پہاڑ کی طرف گیا تاکہ لوگوں سے آنکھ بچا کر اس کی حفاظت کر سکوں، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور فوراً ہی انصار کی ایک مجلس میں آئے۔ انہوں نے مجلس والوں سے کہا کہ یہ دیکھو امیہ بن خلف (کافر دشمن اسلام) ادھر موجود ہے۔ اگر امیہ کافر بچ نکلا تو میری ناکامی ہو گی۔ چنانچہ ان کے ساتھ انصار کی ایک جماعت ہمارے پیچھے ہو لی۔ جب مجھے خوف ہوا کہ اب یہ لوگ ہمیں آ لیں گے تو میں نے اس کے لڑکے کو آگے کر دیا تاکہ اس کے ساتھ (آنے والی جماعت) مشغول رہے، لیکن لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور پھر بھی وہ ہماری ہی طرف بڑھنے لگے۔ امیہ بہت بھاری جسم کا تھا۔ آخر جب جماعت انصار نے ہمیں آ لیا ا تو میں نے اس سے کہا کہ زمین پر لیٹ جا۔ جب وہ زمین پر لیٹ گیا تو میں نے اپنا جسم اس کے اوپر ڈال دیا۔ تاکہ لوگوں کو روک سکوں، لیکن لوگوں نے میرے جسم کے نیچے سے اس کے جسم پر تلوار کی ضربات لگائیں اور اسے قتل کر کے ہی چھوڑا۔ ایک صحابی نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں کو بھی زخمی کر دیا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اس کا نشان اپنے قدم کے اوپر ہمیں دکھایا کرتے تھے۔
/
———-
نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا
حدیث نمبر: 2068
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، قَالَ: ذَكَرْنَا عِنْدَ إِبْرَاهِيمَ الرَّهْنَ فِي السَّلَمِ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي الْأَسْوَدُ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ”أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى طَعَامًا مِنْ يَهُودِيٍّ إِلَى أَجَلٍ، وَرَهَنَهُ دِرْعًا مِنْ حَدِيدٍ”.
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا کہ ابراہیم نخعی کی مجلس میں ہم نے ادھار لین دین میں (سامان) گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسود نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کچھ غلہ ایک مدت مقرر کر کے ادھا خریدا اور اپنی لوہے کی ایک زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔
/
——————-
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں
اس کا انساب کی کتب میں ہے
کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان لکھی جس میں اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا
———–
صاف کہا کہ یہ ایک اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد سلفی سوچ واپس متحرک ہوئی اور عبد العزيز بن عبد الله بن باز کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ) نے اپنی کتاب الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر میں عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا اور اگر آپ کتاب دیکھیں تو ٤١١ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کوئی علمی بات نہیں
———–
صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩) ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں
اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے
اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے
ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی
———-
ان سب حوالہ جات کو مکمل لنک کے ساتھ پیش کریں تا کہ حقیقت وازہ ہو – اب ایک عام بندہ کس طرح سمجہے گا بغیر حوالوں کے –
میری مطلب ہے کہ کتابوں کے سکیں یا لنک دیے جائیں
ایک لنک تو یہ ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%85%D8%B9%DB%8C%D8%A7%D8%B1.23025/
اگر مزید وضاحت ہو حوالوں کے ساتھ تو زیادہ بہتر ہو گا
جزاک الله خیر
یہ ایک بے لا تبصرہ ہے – یہی اس کا انداز ہے – اس میں جو ضروری حوالہ جات ہیں ان کو بیان کر دیا گیا ہے
یہ عوام کے لئے ہے بھی نہیں جہادی گروپس کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ جو وہ کر رہے ہیں صحیح نہیں ہے اور وہ اس بلاگ کے حوالہ جات کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو
یہ لنک بھی چیک کر لیں
link
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=296776
اس اثر کی اسناد صحیح نہیں ہیں
الله آپ کو جزایۓ خیر دے – آپ نے ہمیشہ حقیقت بیان کی ہے – جو آج کل کے علماء شائد قیامت تک نہ بیان کر سکیں
آج کل کے علماء کس کو دھوکہ دے رہے ہیں – کیا ان کو خدا کا خوف نہیں رہا
ساری حقیقت سامنے ہونے کے باوجود علماء عوام کو سچ نہیں بتاتے اور دعوه کرتے ہیں کہ اہل حق صرف وہی ہیں
آج کل کی صورت حال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم مسلمان کتنی گمراہی میں جا رہے ہیں
جزاک الله خیر
الله ہم سب کو حق کی طرف ہدایت دے
آمین
ہم تک جو شواہد آئے ہیں ہم ان کو مسخ نہیں کریں گے ان شاء الله
کیا یہ ویب سائٹ بھی آپ کی ہے
لنک
http://abrahamicfaiths.net/1605160615781592158517401606-1605172915831740-157516081585-15751606-17051746-166215851578158815831583-15931602157515741583.html
یہ ویب سائٹ راقم کی نہیں کسی بھائی کی ہے
آپ سے اس کا حوالہ مانگا تھا- اگر تھریڈ ہو جاتا ہو بہتر ہوتا
===================
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں
===================
جی آجکل فرصت نہیں مل رہی کہ اس کو دیکھ سکوں
ابو شہر یار بھائی الله آپ کو لمبی عمر دے اور آپ دین کی خدمات کرتے رہیں – آپ آپ سے جہادی علماء کے حوالے سے ہی بات کرنی ہے – پلیز آپ جواب ضرور دیں
آج کل جو تنظیمیں جہاد کے نام پر ایک دوسرے سے جنگ کر رہی ہیں انہوں نے ایک چیز متعارف کروائی ہے جس کا نام انہوں نے “جہاد نکاح” رکھا ہے
تیونس کے مفتی نے کہا ہے کہ یہ اخلاقی عتبار سے صحیح نہیں
کچھ کا استدلال صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے ممکن ہے
صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّبَتُّلِ وَالخِصَاءِ) صحیح بخاری: کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
(باب: مجرد رہنا اور اپنے کو نامرد بنا دینا منع ہے)
5075
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ لَنَا شَيْءٌ فَقُلْنَا أَلَا نَسْتَخْصِي فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ ثُمَّ رَخَّصَ لَنَا أَنْ نَنْكِحَ الْمَرْأَةَ بِالثَّوْبِ ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
حکم : صحیح 5075
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے ، ان سے اسمٰعیل بن ابی خالد بجلی نے ، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کو جایا کرتے تھے اور ہمارے پاس روپیہ نہ تھا ( کہ ہم شادی کرلیتے ) اس لئے ہم نے عرض کیا ہم اپنے کو خصی کیوں نہ کرالیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا ۔ پھر ہمیں اس کی اجازت دے دی کہ ہم کسی عورت سے ایک کپڑے پر ( ایک مدت تک کے لئے ) نکاح کر لیں ۔ آپ نے ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ کر سنا ئی کہ ” ایمان لانے والو ! وہ پاکیزہ چیزیں مت حرام کرو جو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں اور حد سے آگے نہ بڑھو ، بے شک اللہ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا “ ۔
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/5075
———–
کیا ان جہادیوں کے ان جرائموں کو متعارف کرانے والے اس تاریخی کتاب کے مصنف نہیں ہیں
تاريخ عجائب الآثار في التراجم والأخبار میں عبد الرحمن بن حسن الجبرتي المؤرخ
(المتوفى: 1237هـ)
لکھتے ہیں کہ
وفيه سافر أيضا حسن باشا طاهر وفيه نزل الدالاتية إلى بولاق وكذلك الكثير من العسكر وحصل منهم الازعاج في أخذ الحمير والجمال قهرا من أصحابها ونزلوا بخيولهم على ريب البرسيم والغلال الطائبة إلى بناحية بولاق غير واضحة بدران وخلافها فرعتها واكلتها بهائمهم في يوم واحد ثم انتقلوا إلى ناحية منية السيرج وشبرا والزاوية الحمراء والمطرية والأميرية فأكلوا زروعات الجميع وخطفوا مواشيهم وفجروا بالنساء وافتضوا الأبكار ولاطوا بالغلمان وأخذوهم وباعوهم فيما بينهم حتى باعوا البعض بسوق مسكة وغيره وهكذا تفعل المجاهدون
http://shamela.ws/browse.php/book-11998#page-1552
پلیز وضاحت کر دیں اور ان باتوں کو اپنے اس تھریڈ میں بھی شامل کریں
آپ کے جواب کا منتظر
صحیح بخاری کی حدیث میں متعہ کا ذکر ہے کہ دور نبوی میں سفر میں اس کی اجازت دی گئی جو بعد میں ختم ہوئی
اس کا مطلب یہ نہیں کہ زبر دستی مسلمانوں کو لونڈی غلام بنا دیا جائے
یہ لوگ جب جنگ یا اپنا مخصوص جہاد کرتے ہیں تو اخلاقیات کی حدود کو لانگ جاتے ہیں اس میں زیادہ تر اصول یہ ہوتا ہے کہ کفار یا اہل کتاب نے ایسا فلاں مقام پر کیا لہذا ہم بھی کریں گے – اس میں اصول یہ نہیں ہوتا کہ کتاب و سنت میں کیا حکم ہے