کتاب روایات ظہور مہدی
مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
راقم سن ٢٠٠٠ ع سے روایات مہدی و مسیح پر تحقیق کر رہا ہے – راقم اپنی تحقیقات کو حرف آخر نہیں کہتا بلکہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جہت میں مزید باب کھلیں گے اگر مسئلہ مہدی پر غیر جانبداری سے تحقیق ہو- افسوس امام ابن خلدون نے مسئلہ پر کلام کیا تھا لیکن ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا – یہ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ اپنے عبقری اذہان کی ناقدری کرتے ہیں – اس کتاب کو ٢٠١٥ میں اس ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا- کتاب میں صرف اہل سنت کے نظریہ مہدی پر غور کیا گیا ہے جس کو بعض لوگ عقیدہ سمجھ رہے ہیں – نظریہ مہدی کے پس پردہ کیا مذہبی و سیاسی افکار ہیں ؟ ان پر غور کیا گیا ہے – اس کی جڑیں وہ احادیث و آثار ہیں جو محدثین نے اپنی کتابوں میں سب سے آخر میں نقل کیں -کتاب میں تاریخی حقائق کے میزان پر روایات مہدی کا جانچا گیا ہے – اس سلسلے میں رہنمائی جرح و تعدیل کی کتب سے ملتی ہے کہ متقدمین محدثین اس سلسلے میں کسی بھی مرفوع قول نبوی کو صحیح نہیں قرار دیتے تھے مثلا امام وکیع بن جراح اور عبد الرحمان بن المہدی وغیرہ
عصر حاضر میں شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد پر ایک گروہ مدینہ میں مہدی تلاش کر رہا ہے اور اپنا مخالف کوئی اصفہانی فارسی دجال بتاتا ہے – دوسری طرف شیعہ ہیں جنہوں نے امام مہدی کو مافوق الفطرت قرار دے دیا ہے جو ابھی تک اپنے غار میں ہیں
مسلمانوں میں اس بنا پر مشرق وسطی کا پورا خطہ خون کی ہولی میں نہا رہا ہے – اپنی سیاست کی بساط احادیث رسول و اہل بیت کے نام پر بچھا کر نوجوانوں کو شطرنج کے مہروں کی طرف جنگ و جدل میں دھکیلا جا رہا ہے – داعش اور اس قبیل کی فسادی تنظیموں نے عراق میں خلافت بھی بنا لی ہے اور ابھی نا معلوم کتنی معصوم مسلمان لڑکیوں کو خلیفہ کی مخالفت کے جرم میں لونڈی بنایا جا رہا ہو گا ؟ پتا نہیں کس کا سر کاٹا جا رہا ہو گا ؟ اور دلیل روایت سے لی جا رہی ہو گی – اب یہ تو ظاہر فساد ہے اور پس پردہ معصوم بنے یہ علماء ہیں جو چپ سادھے لونڈی کو کھنگالنے والی روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں کہ اس کو سر بازار کھول کر دیکھا جا سکتا ہے – افسوس شام کے عرب محقق البانی اس طرح کی روایات کو صحیح الاسنا د کہہ گئے ہیں – شام کے فضائل پر کتابیں جو لوگ بھول چلے تھے البانی نے ان پر تعلیق لکھی– اور نهایة العالم (عالم کا اختتام ) نام کی کتب نے لوگوں کو اس طرف لگا دیا کہ قرب قیامت ہے ، مہدی انے والا ہے – ساتھ ہی مدخلیت (ربیع المدخلی سے منسوب تکفیری سوچ) مدینہ سے نکلی جو ایک وبا کی طرح عربوں میں پھیلی اور مصر سے یہ تکفیری سوچ عرب سے ہوتی اسامہ بن لادن کے ساتھ افغانستان پہنچی اور ایک وبا کی طرح عالم اسلام میں پھیلی
اب ایک کے بعد ایک مہدی آ رہے ہیں اور آئیں گے
ایک عام مسلمان آخر کیا کرے – مسئلہ کے حل کے لئے کہاں جائے؟ مسجدوں میں محراب و منبر سے نظریہ مہدی کی تبلیغ کی جاتی ہے اور دعوی کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے کی تمام احادیث صحیح ہیں – ہر بدلتی صدی میں قائلین ظہور مہدی کے تضاد لا تعداد ہیں مثلا ایک روایت جو ثوبان رضی الله عنہ سے مروی ہے اس کے مطابق عرب کے مشرق سے ، خراسان سے جھنڈے آئیں گے اور ان میں الله کا خلیفہ المہدی ہو گا – اس روایت کو متقدمیں محدثین رد کرتے تھے – لیکن بعد میں لوگ آئے جنہوں نے علم چھپایا اور اس روایت کو صحیح کہا – اس کے بعد خراسان میں طالبان آ گئے – مخالف حلقوں میں اب ثوبان والی روایت ضعیف قرار پائی اور واپس وہی محدثین کی آراء پیش کرنے لگ گئے کہ یہ روایت صحیح نہیں – ام سلمہ رضی الله عنہا سے مروی ایک حدیث ہے کہ تین خلفاء کے بیٹوں میں فساد ہو گا وغیرہ (اس کی تفصیل کتاب میں ہے) اس کو البانی نے ضعیف کہا تھا لیکن اس کو صحیح مان کر کتابوں میں پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ حوثی نکل آئے اب واپس البانی کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ یہ ضعیف تھی – اس طرح مہدی و مسیح کے نام پر سیاست جاری ہے جس میں علماء پس پردہ کام کر رہے ہیں
راقم کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کاش یہ علماء دیدہ بینا کے ساتھ اس ظلم سے کنارہ کشی کرتے
اے کاش
ہمارے گراں قدر ناقدین نے ہماری توجہ چند کتب کی طرف کرائی ہے – ایک عبد العليم البستوي کتاب الاحاديث الواردة في المهدي في ميزان الجرح والتعديل ہے جو مدینہ یونیورسٹی میں ایک مقالہ کے طور پر لکھی گئی تھی اور دوسری کتاب مہدی علیہ السلام سے متعلق صحیح عقیدہ میں عبد الہادی عبد الخالق مدنی جو سعودی عرب میں الاحسا ء سے چھپی ہے – اس کے علاوہ اردو میں اس مسئلہ مہدی پر جو کتب ہیں ان سے بھی استفادہ کیا گیا ہے – لہذا محقیقن کی آراء کو کتاب هذا میں حواشی میں اور بعض مقام پر متن میں شامل کر دیا گیا ہے تاکہ قارئین کے آگے صرف ہماری رائے ہی نہ ہو تو وہ پوری دیانت سے جو راقم کہنا چاہتا ہے اس کو سمجھ سکیں
الله مومنوں کا حامی و ناصر ہو اور ان کو شر اور فتنہ مہدی و دجال سے محفوظ رکھے
امین
ابو شہریار
٢٠١٧
الله آپ کو جزایۓ خیر دے – آپ نے بہت ہی علمی تحقیق کی ہے
السلام علیکم
یہ کتاب آپ پہلے بھی اپلوڈ کرچکے تھے؟ اگر یہ وہ پہلی والی کتاب ہے تو کیا اس میں آپ نے کچھ مزید معلومات کا اضافہ کیا ہے یا وہی پرانا ایڈیشن ہے؟ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ روایات مہدی والی ایک کتاب میں نے آپ کی ہی ویب سائٹ سے پہلے بھی ڈاونلوڈ کی تھی؟ اگر یہ وہی ہے تو پھر دوبارہ ڈاونلوڈ نہیں کرتا ہوں؟
و علیکم السلام
حمیر بھائی یہ کتاب اب کافی الگ ہے – اس میں بنیاد اور فہرست وہی ہے جو پہلے تھی لیکن اب اس میں قائلین مہدی کے دلائل ان کی کتابوں سے ڈالے گئے ہیں اور حواشی میں بھی اضافہ ہے
اپ اس کو بھی داؤن لوڈ کریں
قائلین مہدی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب احادیث کے علاوہ اصحاب رسول کے اقوال اور تابعین کے اثار سے بھی دلیل لیتے ہیں
کتاب میں ان اقوال و اثار کو بھی شامل کیا گیا ہے
اس کے علاوہ مسئلہ مہدی کے تواتر کے دعوی کی اور قلعی کھولی گئی ہے
لہذا اگر کوئی صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ نظریہ مہدی کہاں سے آیا تو ٢٠١٥ والا ایڈیشن کافی ہے
لیکن اگر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ قائلین کیا فلسفے دیتے ہیں اور کیسے تلبیس کرتے ہیں تو ان کے لئے یہ نیا ایڈیشن ہے
شکریہ برادر
جی بہتر میں نے یہ کتاب ڈاونلوڈ کرلی ہے،
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
السلام و علیکم و رحمت الله –
جزاک الله
آپ کی کتاب میں نظریہ خروج مہدی کے حقائق سے متعلق کافی علمی معلومات دی گئی ہیں
خروج المہدی منتظر قدیم و جدید سیاسی افکار کے تناظر سے متعلق معلومات اس کتاب میں بھی موجود ہے (لنک نیچے دیا گیا ہے)- محمود احمد عباسی (جنھیں اہل سنّت کے علماء ناصبی کہتے ہیں) انہوں نے اپنی کتاب تحقیق سید و سادات میں اس نظریہ پر بڑے موثر انداز میں تحقیق و تنقید کی ہے – اس کا مطالعہ بھی مفید رہے گا (تحقیق سید و سادات – صفحہ ١٩١ -٢٢٣)-
file:///C:/Users/jawad.ali/Downloads/Tahqeeq%20Sayyad%20o%20Sadaat.pdf
وعليكم ألسلام ورحمة الله
شکریہ
محمود احمد عباسی کی کتاب کے حوالے کا شکریہ یہ کتاب راقم نے کئی سال پہلے خریدی تھی لیکن اس کو پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا – اگرچہ عباسی صاحب کی اور کتابیں پڑھیں ہیں –
اپ کے تذکرہ کے بعد اس کو دیکھا تو اس میں محمد بن عبد الله سے متعلق ایک اور بات ملی (ص ١٩٢) کہ ان کے گلے میں خرخرآہٹ تھی
روایات جو اہل سنت کے پاس ہیں ان کے مطابق الله مہدی کی اصلاح ایک رات میں کر دے گا اغلبا اس نقص کی طرف اشارہ ہے
البتہ عباسی کا یہ کہنا کہ محمد نے ١٤٥ میں خروج کیا مکمل صحیح نہیں کیونکہ جیسا کہ راقم نے اپنی کتاب میں تحقیق سے واضح کیا محمد کی بیعت ١٢٥ ھ میں ہوئی اور پھر اور واقعات ہونے کے بعد ١٤٥ میں اس نے خروج کیا یعنی یہ تحریک کئی سال خفیہ رہی اور اس کے حامی شیعہ و سنی دونوں تھے کیونکہ بنو امیہ کے خلاف بنو عباس بھی تھے جو نسلا اہل بیت میں سے ہیں لیکن سنی تھے اور محمد بن عبد الله بھی شیعہ روافض جیسا نہ تھا
اگرچہ راقم کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ اس تحقیق میں منفرد نہیں ہے کہ المہدی کی روایات محمد بن عبد الله بن حسن بن حسن کی وجہ سے بنائی گئی ہیں
بحر الحال امید ہے ہماری تفصیلی کتاب مزید راز افشا کرے گی
جزاک الله
شکریہ – جی ہاں اس موضوع پر
مزید تفصیل کی گنجائش باقی ہے – لیکن دیوبندی اور اہل حدیث علماء سیاسی تناظر کو پس پشت ڈال کر کہتے ہیں کہ جب مہدی سے متعلق اکثر روایت حسن, صحیح یا پھر متواتر کے درجے پر ہیں تو اس کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قدیم دور میں کس کس نے مہدی ہونے کا دعوی کیا – ان کا کہنا ہے کہ رافضی افکار کی بنیاد پر ہم نظریہ مہدی کا متعلقاً انکار نہیں کرسکتے
بہرحال آپ کی تفصیلی کتاب جو مزید راز افشا کرے گی – اس کا انتظار رہے گا
یہ ان کے نزدیک بچوں کا کھیل بن گیا ہے اگر شیعہ مہدی ہے تو ہمارا سنی مہدی ہے
مہدی مہدی کھیل رہے ہیں
روایات میں کوئی دم نہیں جن کو متقدمین و سلف کے محدثین رد کر چلے ان کو متواتر کہہ کر قبول کر لینا عقائد گھڑنے کے مترادف ہے
بحر الحال مزید راز افشائی سے مراد یہی کتاب ہے جو جس کا لنک اس بلاگ میں ہے
السلام علیکم
مہدی کے خروج پر ایک ستارہ نمودار ہو گا اس کا ذکر امام البرزنجی نے اشراط الساعة میں کیا ہے اس پر اپ کی کیا رائے ہے ؟
وعلیکم السلام
اپ نے ایک اہم نشانی کی طرف توجہ کرا دی اس کے حوالے سے کتاب میں اضافہ کر دیا گیا ہے
کتاب کو دوبارہ داؤن لوڈ کر لیں اور باب ٤ روایات ، علم هیئت اور مسیح دیکھیں
سنن ابن ماجہ میں عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے حدیث رايات سود یعنی کالے جھنڈوں والی روایت مروی ہے
میں نے شیخ البانی کی کتب دیکھی ہیں ان میں سمجھ نہیں آئی کہ کیا یہ صحیح ہے حسن ہے ضعیف ہے
اپ کچھ روشنی ڈالیں
حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا معاوية بن هشام حدثنا علي بن صالح عن يزيد بن أبي زياد عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله قال بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ أقبل فتية من بني هاشم فلما رآهم النبي صلى الله عليه وسلم اغرورقت عيناه وتغير لونه قال فقلت ما نزال نرى في وجهك شيئا نكرهه فقال إنا أهل بيت اختار الله لنا الآخرة على الدنيا وإن أهل بيتي سيلقون بعدي بلاء وتشريدا وتطريدا حتى يأتي قوم من قبل المشرق معهم رايات سود فيسألون الخير فلا يعطونه فيقاتلون فينصرون فيعطون ما سألوا فلا يقبلونه حتى يدفعوها إلى رجل من أهل بيتي فيملؤها قسطا كما ملئوها جورا فمن أدرك ذلك منكم فليأتهم ولو حبوا على الثلج.
اس روایت کو ابن کثیر وهذا إسناد قوي قرار دیتے تھے
كتاب الفتن والملاحم
البستوی اس کو حسن لغیرہ کہتے تھے
عبد المحسن بن حمد بن عبد المحسن بن عبد الله بن حمد العباد البدر اس کو اسناد قوی کہتے تھے
حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري کتاب إتحاف الجماعة بما جاء في الفتن والملاحم وأشراط الساعة
میں ابن مسعود کی روایت پر کہا
رواه: ابن ماجه بإسناد، والحاكم في “مستدركه”، وقال: “صحيح على شرط الشيخين”، ووافقه الذهبي في “تلخيصه”
————
البانی نے اس روایت ابن ماجہ حدیث 4082 پر بہت موقف بدلے ہیں مثلا
صحيح وضعيف سنن ابن ماجة میں اس کو ضعیف کہا ہے وہاں حوالہ میں الروض النضير (647) لکھا ہے سنا ہے البانی نے اس کتاب کی عدم طباعت کا حکم دیا تھا
یہاں یہ روایت ضعیف ہے
لیکن کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں جا کر یہی روایت حسن بن جاتی ہے البانی وہاں حدیث رقم ٨٥ میں بحث میں لکھتے ہیں
فقد أخرجه ابن ماجه (2 / 517 ـ 518) من طريق علقمة عن ابن مسعود مرفوعا نحورواية ثوبان الثانية، وإسناده حسن بما قبله، فإن فيه يزيد بن أبي زياد وهو مختلف فيه فيصلح للاستشهاد به
ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت حسن ہے
اس کی تخریج ابن ماجہ نے کی ہے کے طرق سے جیسا کہ ثوبان کی روایت ہے ، اور اس کی اسناد حسن ہیں .. اور اس میں یزید بن ابی زیاد ہے جو مختلف فیہ ہے پس اس سے استشہاد کیا جا سکتا ہے
الضعیفہ رقم 5203 میں البانی اسی روایت کو ضعیف بھی قرار دیتے ہیں
قلت: وهذا إسناد ضعيف
میں البانی کہتا ہوں یہ اسناد ضعیف ہیں
———
https://elaph.wordpress.com/2010/09/02/جواب-من-هم-الرايات-السود-وقت-المهدى؟-خ/
اس روایت کو سلمان بن فهد العودة ضعیف کہنے لگے
فالحديث لا يثبت لا من طريق ثوبان، ولا من طريق ابن مسعود – رضي الله عنه
اسی روایت کو الشريف حاتم بن عارف العونی حسن کہتے ہیں
.
أخرجه ابن ماجة (رقم 4082)، والبزار في مسنده (رقم 1556-1557)، والعقيلي في (الضعفاء) ترجمة يزيد بن أبي زياد (4/1494)، وابن عدي، ترجمة يزيد بن أبي زياد (7/276)، من طريق يزيد بن أبي زياد، عن إبراهيم النخعي، عن علقمة بن قيس النخعي، عن عبد الله بن مسعود به مرفوعاً.
وقال عنه ابن كثير في (البداية والنهاية 9/278):”إسناده حسن”، وحسنه الألباني أيضاً في (سلسلة الأحاديث الضعيفة رقم 85).
قلت: وهو كما قالا عن إسناده، في الظاهر قابل للتحسين.
اس حدیث کے بارے میں کیا کہیں گے آپ
4084- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَأَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ” يَقْتَتِلُ عِنْدَ كَنْزِكُمْ ثَلاثَةٌ، كُلُّهُمُ ابْنُ خَلِيفَةٍ، ثُمَّ لا يَصِيرُ إِلَى وَاحِدٍ مِنْهُمْ، ثُمَّ تَطْلُعُ الرَّايَاتُ السُّودُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، فَيَقْتُلُونَكُمْ قَتْلا لَمْ يُقْتَلْهُ قَوْمٌ “، ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا لا أَحْفَظُهُ، فَقَالَ: ” فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ، فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ “۔
راقم کی کتاب میں اس پر تبصرہ موجود ہے یہ مضطرب المتن اور منقطع السند ہے
اس روایت کو آج کل غیر مقلدین ضعیف کہتے ہیں
لیکن بن باز فتاوى نور على الدرب ج ٤ ص ٢٨٧ میں اس سے دلیل لیتے تھے
عند موت خليفة فيخرج المهدي، ويبايع ويقيم العدل في الناس سبع سنوات أو تسع سنوات
مہدی کا خروج ایک خلیفہ کی موت پر ہو گا جو سات یا نو سال رہے گا
اردو فتوی والے کہتے ہیں
خلیفہ وقت کی موت کے بعد نئے خلیفہ کی بیعت پر اختلاف ہو گا بالآخر امام مہدی ( محمد بن عبداللہ) کی بیعت پر لوگ متفق ہو جائیں گے ۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2398/0/
———
شعیب کہتے ہیں سات یا نو سال ثابت نہیں اور البانی کہتے تھے خلیفہ والی یہ ہی روایت صحیح نہیں
یہ تضاد سے بھر پور باتیں ان لوگوں کو مبارک ہوں
شطط شملھم وفرق جمعھم کی تصویر بنے سب مہدی کا باجا بجا رہے ہیں اور ایک دوسرے کا ہی رد کر رہے ہیں
السلام و علیکم و رحمت الله
مہدی سے متعلق روایت میں “اردو فورم” والوں نے تلبیسی سے کام لیا ہے-
مندرجہ حدیث کا عربی متن دیکھئیے :
عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ: « یَکُوْنُ اخْتِلاَفُ عِنْدَ مَوْتِ خَلِیْفَۃٍ فَیَخْرُجُ رَجُلٌ مِّنْ بَنِیْ ھَاشِمٍ فَیَاْتِیْ مَکة ، فَیَسْتَخْرِجُه النَّاسُ مِنْ بَیْتِہٖ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ فَیُجَھَّزُ اِلَیْہِ جَیْشٌ مِنَ الشَّامِ حَتَّٰی اِذَا کَانُوْا بِالْبَیْدَاء خُسِفَ بِھِمْ ، فَیَاْتِیْہِ عَصَائِبُ الْعِرَاقِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ » رَوَاہُ الطِّبْرَانِیُّ (مجمع الزوائد، كتاب الفتن، باب ما جاء في المهدي: 7/ 12399) (صحیح)-
اردو ترجمہ :
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’ ایک خلیفہ کی وفات پر لوگوں میں اختلاف ہو جائے گا بنو ہاشم کا ایک آدمی ( مدینہ سے ) مکہ آئے گا لوگ اس کو گھر سے نکال کر (مسجد حرام میں ) لے آئیں گے حجراسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس کی بیعت کریں گے شام سے ایک لشکر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کے لیے آئے گا جب وہ بیداء کے مقام پر پہنچے گا تو اسے دھنسا دیا جائے گا اس کے بعد عراق اور شام سے علماء وفضلاء امام مہدی کے پاس ( بیعت کے لیے ) آئیں گے ۔‘‘ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
اہل حدیث کے نزدیک وہ تمام روایات ضعیف ہیں جن میں قطب و ابدال کا ذکر ہو- ابن تیمیہ رحم الله نے بھی اپنی کتاب “الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان” میں ایسی تمام روایات کو منگھڑت قرار دیا جن میں لفظ “ابدال” استمال ہوا ہے – لیکن اردو فورم والوں کی طرف سے اس مذکورہ روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے عَصَائِبُ الْعِرَاقِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ کا ترجمہ “عراق اور شام سے علماء وفضلاء” کیا گیا ہے –
الله ہدایت دے (آمین
شکریہ بہت
اچھا ہو اگر اس سلسلہ کو بر قرار رکھا جائے اور یھاں قائلین ظہور مہدی (چاہے وہ دیوبندی ہیں، بریلوی ہوں ، اہل حدیث ہوں ، وہابی ہوں) کی اس قسم کی ان کی تمام تلبیسات جمع کر دی جائیں تاکہ اولو الالباب دیکھیں کہ مولویوں نے کیسا جال بنا ہے
کہتے ہیں نشتر زنی کرنے میں ہی صحت کا راز پنہاں ہے
درست فرمایا آپ نے
اس سلسلہ کو بر قرار رہنا چاہیے
دور جدید کے علماء و مشائخ نفس پرستی کا شکار ہیں -اب یہی دیکھ لیں کہ دیوبندی ہوں یا بریلوی ہوں ،یا اہل حدیث علماء- یہ سب “صحیحین” بخاری و مسلم کی مخالفت میں ایک لفظ نہیں سن سکتے اور اس پر شک و شبہات رکھنے والے کو جھٹ سے منکرین حدیث میں شمار کرنے لگتے ہیں- لیکن دوسری طرف نظریہ مہدی کو امّت مسلمہ کا متفقہ “عقیدہ” بھی قرار دیتے ہیں اور اس عقیدے سے رو گردانی کرنے والے پر منکر حدیث اور کبھی کفر تک کا حکم لگا دیتے ہیں – جب کہ بخاری و مسلم دونوں نظریہ مہدی سے خالی ہیں -سوال ہے کہ ان علماء و مشائخ نے نظریہ مہدی پر متواتر کا حکم لگاتے وقت یہ کیوں نہ سوچا کہ اس طرح تو امام اسماعیل بخاری و مسلم رحم الله کا “عقیدہ” بھی مشکوک ہو جاتا ہے اور وہ بھی منکرین حدیث میں شمار ہو جاتے ہیں بوجہ نظریہ مہدی کے قائل نہ ہونے کے سبب؟؟- صرف یہی نہیں بلکہ امام مالک رحم الله جنھیں احادیث پر سب سے پہلے کتاب موطاء امام مالک مدون کرنے کا اعزاز حاصل ہے -وہ بھی ان بد عقیدہ مسلمانوں میں شمار ہوںگے جو نزول امام مہدی کے بارے میں کوئی خبر یا عقیدہ نہ رکھتے تھے حتیٰ کہ اس سے متعلق موطا ء میں ایک بھی روایت داخل نہ کی
الله ہدایت کے راستے پر گامزن کرے (آمین
جی بالکل صحیح کہا اپ نے بلکہ اس میں اضافہ کروں امام نسائی نے بھی اپنی کسی کتاب میں المہدی سے متعلق ایک بھی روایت نقل نہیں کی
دوم ایک اور ویب سائٹ جو اہل حدیث کی ہے اس پر لکھا ہے امام عقیلی نے کہا مہدی کی روایت صالح ہیں
لیکن پوری بات نہیں لکھی اس کی تفصیل کتاب میں ہے کہ عقیلی نے اصل میں کہا سب سے بہتر وہ روایت ہے جس میں نام کا ذکر ہے لیکن مہدی علوی یا فاطمی ہو گا ان روایات کو سختی سے رد کر دیا پھر نام والی روایت کے راوی عاصم بن بھدلہ کو بھی ضعیف قرار دیا اور اپنی کتاب ضعفآ الکبیر میں ترجمہ دیا
اب یہ دھوکہ نہیں تو اور دجالی پنا کس کو کہتے ہیں ؟
جی صحیح فرمایا
باوجود اس کے کہ امام نسائی اہل بیعت کی محبّت میں غلو اور سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص میں شہرت رکھتے تھے- فرماتے تھے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے فضائل میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے کوئی قول ثابت نہیں- سوائے اس قول کے کہ جس میں ہے کہ “الله معاویہ کا پیٹ نہ بھرے” – اس کے باوجود ان کا اپنی سنن میں نظریہ مہدی کو داخل نہ کرنا ایک قابل غور طلب اور انتہائی اہم امر ہے
شیعہ نے بھی ایک کتاب اپنے بلاگ میں دال دی ہے امید ہے کہ آپ کی نظر سے گزری ہو گی
لنک
https://ahlubait.files.wordpress.com/2017/02/d8a7d985d8a7d985-d985db81d8afdb8c-d8b9d984db8cdb81-d8a7d984d8b3d984d8a7d985.pdf
اس کتاب میں اہل سنت کی کتب سے اہل سنت کے مہدی کو ثابت کیا گیا ہے
کتاب دلچسپ ہے اور اہل سنت کے ان علماء کا ذکر ہے جنہوں نے روایات مہدی کو صحیح قرار دیا ہے
اگر اس کتاب کو ہماری کتاب سے ملا کر پڑھا جائے تو مرض مہدی میں افاقہ ہو گا
اپ دیکھ سکتے ہیں البانی کی تصحیح اور البستوی کی تصحیح میں فرق ہے جن کو البستوی صحیح کہتا ہے البانی ان کو ضعیف کہتا ہے اور بن باز اسی ضعیف سے فتووں میں دلیل لیتا ہے
اصل بات یہ ہے کہ وہابی سن ١٩٧٨ سے مہدی کی جن روایات کو صحیح کہہ رہے تھے اور جن کی بنا پر عرب افغانستان جا رہے تھے اس سین کا ڈراپ سین ہو چکا ہے لہذا اگرچہ غیر مقلد غیر وہابی البانی نے بعض روایات کو ضعیف کہا تھا لیکن ان کا ذکر نہ ہوا بلکہ بقول شخصے البستوی کے انسائکلوپیڈیا کا ذکر ہوتا رہا
اب واپس برصغیر کے غیر مقلدین البانی کے حوالے دے رہے ہیں البستوی اور بن باز کے فتوی مکمل نقل نہیں کرتے
شیعہ نے ایک کتاب
عبداللہ ابن سبا: حقائق کی روشنی میں
لنک
https://ahlubait.files.wordpress.com/2017/02/d8b9d8a8d8afd8a7d984d984db81-d8a7d8a8d986-d8b3d8a8d8a7.pdf
کتاب اس نقطہ نظر سے مرتب کی گئی ہے کہ
اول ابن سبا کے بارے میں جو لوگ بات کر رہے ہیں اس میں لوگ غیر معروف و مجھول ہیں
جواب
شیعہ مذھب کی سب سے معتبر کتاب الکافی ہے ان میں ٢١٢٥ مرتبہ سند میں لکھا ہے عدة من أصحابنا ہمارے بہت سے اصحاب جن کا نام ہی نہیں لیا گیا تو ان سب کو رد کیا جانا چاہیے
دوم
اہل سنت کی کتب کی جن روایات میں ان صاحب نے جرح کی ہے وہ راوی مختلف فیہ ہیں جن پر دونوں طرح کا کلام ہے مثلا محمدبن عثمان بن ابی شیبہ
تاریخ کے سلسلے میں اس قسم کے راویوں کی روایت لی جاتی ہے ، عقیدہ میں نہیں
سوم
کیا یہودی عقائد ، اہل تشیع نے اختیار نہیں کیے؟
جواب
کتاب
Ali in Biblical Clouds
پڑھ لیں اس میں سب موجود ہے