فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ اٹھویں صدی کے ائمہ مثلا ابن تیمیہ و ابن کثیر و ابن قیم سلف ہیں اور وہ سلف کے مذھب پر ہیں – راقم کہتا ہے سلف سے دین لینے کا کوئی حکم قرآن و حدیث میں نہیں ہے – دین میں کتاب اللہ و حدیث کے بعد صرف اصحاب رسول و تابعین کے اقوال کی اہمیت ہے
بد ترین مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ ان علماء کے نزدیک معاویہ رضی الله عنہ خلفاء راشدین کی صف سے خارج ہیں – ان کو یہ فرقے بادشاہ قرار دیتے ہیں گویا کہ دین میں بادشاہ کا منصب کوئی معیوب بات ہو- قرآن میں سلیمان و داود و طالوت کو ملک یعنی بادشاہ ہی قرار دیا گیا ہے- رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ایک اور چیز کو بھی لازم پکڑنے کا حکم فرما رہے ہیں اور وہ دوسری چیز جماعت، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے – یہ ناممکن ہے کہ کاتب الوحی کو یا سفیر اسلام معاویہ جن کی تربیت رسول صلی الله علیہ وسلم نے کی ہو وہ راشد یا ہدایت یافتہ نہ ہوں بلکہ ان فرقوں کے تیسری اور آٹھویں صدی کے مولوی ہوں – حدیث معلوم ہے کہ دین کا کوئی کام جو غیرصحابی کرے اس کا محشر میں وہ وزن نہ اٹھے گا جو ایک صحابی کے عمل سے اٹھے گا- تو پھر کس طرح نام نہاد سلف کا فہم اصحاب رسول کے فہم سے بڑھ کر ہے ؟
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح طور پر فرماتے ہیں :
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء : ١١٥)
اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ بری جگہ ہے۔
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے (جہنم میں جانے کا سبب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ مؤمنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی بیان کیا ہے۔ یہ بات (مؤمنوں کی راہ) یعنی جمہور اصحاب رسول کا ذکر یہاں کیوں لایا گیا ؟ صرف یہ گوش گزار کرانے کے لئے اجماع صحابہ ہی اصل حجت ہے ، بعد کے مولویوں کے فتوے ہرگز اس زمرے میں نہیں آتے – معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کے سال کو عام الجماعہ کہا جاتا ہے یعنی وہ سال جس میں تمام امت پھر جمع ہوئی-
پھران سلفی بدعتی فرقوں کی جرات و غرور کا یہ عالم ہے کہ یہ اصحاب رسول اللہ تک کو غلط عقیدہ پر قرار دے دیتے ہیں یا کہتے ہیں وہ صحیح عقائد بھول جاتے تھے
وقول النبي صلى الله عليه وسلم ”” هذا شىء كتبه الله على بنات آدم ”۔۔۔۔
کتاب الحیض شروع میں ہی یہ امام بخاری لائے ہیں نبیؐ کا قول
سوال یہ ہے کہ امام بخاری نے جن راویوں سے سنا وہ سند کیوں نہیں ہے امام بخاری ڈائریکٹ قول النبیؐ لائے ہیں؟
یہ صحیح میں سندا موجود ہے
294 – حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ القَاسِمِ، قَالَ: سَمِعْتُ القَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ [ص:67]، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: خَرَجْنَا لاَ نَرَى إِلَّا الحَجَّ، فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، قَالَ: «مَا لَكِ أَنُفِسْتِ؟». قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ» قَالَتْ: وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ