صحيح بخاري ميں ہے
مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ
جو شخص قسم کھانا چاہے، اسے چاہيے کہ وہ اللہ کي قسم کھائے يا خاموش رہے
الله کے نبي صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ہے کہ
خبردار الله کے سوا کسي کي قسم نہ کھاؤ – (بخاري : کتاب مناقب الانصار ، باب:ايام الجاہليہ
جس نے الله کے سوا کسي اور کي قسم کھائي اس نے شرک کيا
(ابو داؤد : کتاب ايمان و النذور ، باب:في کراہيتہ الحلف بالاباء)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب غیر ثابت اقوال
مصنف عبد الرزاق ح 15948 اور مصنف ابن ابی شیبہ ح 12228 میں اس کو مجاہد تابعی نے حدیث نبوی کہا ہے لیکن یہ ارسال قابل قبول نہیں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينُ صَبْرٍ، فَمَنْ شَاءَ بَرَّهُ، وَمَنْ شَاءَ فَجَرَهُ»
مجاہد نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت کی قسم کھائی اس پر اس کی ہر آیت کے بدلے قسم ہوئی
مجاہد صحابی نہیں ہیں لہذا یہاں سند میں انقطاع ہے
سنن الکبری البیہقی میں اس کو حسن بصری نے حدیث نبوی قرار دیا ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَرَدَسْتَانِيُّ، أنبأ أَبُو نَصْرٍ الْعِرَاقِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْوَلِيدِ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينُ صَبْرٍ، مَنْ شَاءَ بَرَّ، وَمَنْ شَاءَ فَجَرَ “
الإبانة الكبرى لابن بطة میں بھی حسن بصری کا قول ہے کہ یہ حدیث نبوی ہے
حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، وَعَوْنٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَبِكُلِّ آيَةٍ مِنْهَا يَمِينٌ»
حسن بصری نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت کی قسم کھائی تو اس کی ہر آیت پر قسم کھا لی
یہ روایت منقطع ہے – حسن بصری صحابی نہیں ہیں
یعنی مجاہد اور حسن بصری نے اس کو مرسل روایت کیا ہے جو قابل قبول نہیں ہے
مجاہد اور حسن بصری مدلسین بھی ہیں ان کی روایت میں اس کا خطرہ بھی ہوتا ہے یہاں تو صحابی کا نام ہی سرے سے نہیں لیا گیا
ابن مسعود رضی الله عنہ سے منسوب اقوال
مصنف عبد الرازق 15946 ميں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «مَنْ كَفَرَ بِحَرْفٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَقَدْ كَفَرَ بِهِ أَجْمَعَ، وَمَنْ حَلَفَ بِالْقُرْآنِ فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ مِنْهُ يَمِينٌ»
ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا جس نے قرآن کے ایک حرف کا بھی کفر کیا اس نے تمام قرآن کا کفر کیا اور جس نے قرآن کی قسم کھائی اس پر اس کی ہر آیت کے بدلے قسم ہوئی
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
سند ميں إبراهيم النخعي ہيں جن کا کسي صحابي سے سماع نہيں ہے
وقال علي بن المديني إبراهيم النخعي لم يلق أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
امام علی نے کہا إبراهيم النخعي کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے
المحلی میں ہے
وَرُوِّينَا مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ: أَتَيْت مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ السُّوقَ فَسَمِعَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: أَمَا إنَّ عَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينًا.
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ نے کہا میں ابن مسعود رضی الله عنہ کے ساتھ بازار میں نکلا پس ایک شخص کو سنا جس نے سورہ بقرہ کی قسم کھائی- پس ابن مسعود نے کہا اس پر اس کی ہر آیت کی قسم ہو گئی
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
ابْنُ فُضَيْلٍ، وَوَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ لَقِيَ اللَّهَ بِعَدَدِ آيَاتِهَا خَطَايَا»
دونوں کی سند میں سعيد بن سنان البرجمي، أبو سنان الشيباني ہے
وقال أبو طالب: قال أحمد بن حنبل: أبو سنان، سعيد بن سنان، كان رجلاً صالحاً، ولم يكن يقيم الحديث. «الجرح والتعديل»
وقال ابن إبراهيم بن هانىء: سَمِعتُهُ يقول (يعني أحمد بن حنبل) : سعيد بن سنان، ليس حديثه بشيء. «بحر الدم»
امام احمد کے نزدیک حدیث میں کوئی چیز نہیں ہے
کتاب التفسير من سنن سعيد بن منصور میں یہی ابن مسعود کا قول کہا گیا ہے
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ (عَبْدِ اللَّهِ) بْنِ مُرَّة ، عَنْ أَبِي كَنِف ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ فِي سُوقِ الرَّقيق، إِذْ سَمِعَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِنَّ عَلَيْهِ لِكُلِّ آية منها يمينًا
اس کی سند میں أبو كَنِف العَبْدي، مجهول الحال ہے اس سے الشعبي اور عبد الله بن مرة نے روایت کیا ہے
یعنی ابن مسعود رضی الله عنہ سے یہ قول ثابت نہیں ہے البتہ جو اس کو ثابت سمجھتے ہیں ان کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس کا مطلب ہے کہ ہر آیت کے بدلے کفارہ دینا ہو گا – یہ قول ابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) کا کتاب حكاية المناظرة في القرآن مع بعض أهل البدعة میں ہے
وَقَالَ عبد الله بن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ من حلف بِالْقُرْآنِ فَعَلَيهِ بِكُل حرف كَفَّارَة
اور عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا جس نے قرآن کی قسم کھائی اس پر اس کے ہر حرف کے بدلے کفارہ ہے
ابن المنذر کی رائے
کتاب الإشراف على مذاهب العلماء از أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) میں ہے
وقال أحمد: ما أعلم شيئاً يدفعه.
وقال أبو عبيد: يكون يميناً واحدة.
وقال النعمان: لا كفارة عليه.
احمد نے کہا میں نہیں جانتا کہ یہ قسم کیسے رد ہو گی
ابی عبید نے کہا یہ قسم ہو گی
ابو حنیفہ نے کہا اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے
احناف کی آراء
احناف متقدمین قرآن پر قسم کھانے کو غیر شرعی کہتے تھے –
کتاب المبسوط از محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ) میں ہے
وَكَانَ بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ يَقُولُ فِي قَوْلِهِ وَالرَّحْمَنِ: إنْ أَرَادَ بِهِ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ يَمِينٌ، وَإِنْ أَرَادَ بِهِ سُورَةَ الرَّحْمَنِ لَا يَكُونُ يَمِينًا؛ لِأَنَّهُ حَلِفٌ بِالْقُرْآنِ.
بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ نے کہا اپنے ایک قول میں الرحمان کی قسم کھائی – پس اگر اس سے اس کا ارادہ الله کے نام پر قسم کھانا تھا تو قسم واقع ہو گئی لیکن اگر ارادہ سوره الرحمان پر قسم کھانا تھا تو نہیں ہوئی کیونکہ یہ قرآن کی قسم ہوئی
یہی بات علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) نے کتاب بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں بیان کی ہے
وَحُكِيَ عَنْ بِشْرٍ الْمَرِيسِيِّ فِيمَنْ قَالَ وَالرَّحْمَنِ أَنَّهُ إنْ قَصَدَ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ حَالِفٌ وَإِنْ أَرَادَ بِهِ سُورَةَ الرَّحْمَنِ فَلَيْسَ بِحَالِفٍ فَكَأَنَّهُ حَلَفَ بِالْقُرْآنِ
احناف کی فقہ کی کتاب الهداية في شرح بداية المبتدي از المرغيناني (المتوفى: 593هـ) کے مطابق
ومن حلف بغير الله لم يكن حالفا كالنبي والكعبة ” لقوله عليه الصلاة والسلام: ” من كان منكم حالفا فليحلف بالله أو ليذر ” وكذا إذا حلف بالقرآن لأنه غير متعارف قال رضي الله عنه معناه أن يقول والنبي والقرآن أما لو قال أنا بريء منهما يكون يمينا لأن التبري منهما كفر.
جس نے غیر الله کی قسم لی جیسے نبی کی یا کعبہ کی تو یہ قسم نہ ہو گی جیسا کہ قول نبوی ہے کہ جو قسم لے وہ الله کی قسم لے .. اور اسی طرح قرآن کی قسم (شریعت میں ) متعارف نہیں ہے کہنے کا مقصد ہے کہ اگر کہے نبی کی قسم یا قرآن کی قسم (تو قسم نہ ہو گی لیکن) اگر کہے میں تم دونوں سے بريء ہوں تو قسم واقعہ ہو گی کیونکہ ان دونوں (قرآن اور نبی) سے برات کرنا کفر ہے
شرح صحیح البخاری میں ابن بطال نے لکھا
وقال أبو حنيفة: من حلف بالقرآن فلا كفارة عليه. وهو قول عطاء، وروى عن على ابن زياد عن مالك نحوه
ابو حنیفہ نے کہا جس نے قرآن کی قسم کھا لی اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے اوریہی قول عطا بن ابی رباح کا ہے اور ایسا ہی قول امام مالک سے على ابن زياد نے روایت کیا ہے
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں عینی نے لکھا
وَقَالَ أَبُو يُوسُف: من حلف بالرحمن فَحنث إِن أَرَادَ بالرحمن الله فَعَلَيهِ كَفَّارَة يَمِين، وَإِن أَرَادَ سُورَة الرَّحْمَن فَلَا كَفَّارَة
امام ابو یوسف نے کہا جس نے رحمان کی قسم لی اور پھر قسم ٹوٹی اور اس کا ارادہ رحمان سے الله تعالی تھا تو کفارہ ہے اور اگر مراد سوره الرحمان تھی تو کفارہ نہیں ہے
احناف متاخرین میں اس قول کو چھوڑ دیا گیا – صدر الدين عليّ بن عليّ ابن أبي العز الحنفي (المتوفى 792 هـ) نے کتاب التنبيه على مشكلات الهداية میں لکھا
قوله: (وكذا إذا حلف بالقرآن لأنه غير متعارف). ينبغي أن يكون الحلف بالقرآن يمينًا لأنه قد صار متعارفًا في هذا الزمان، كما هو مذهب الأئمة الثلاثة وغيرهم، ولا يلتفت إلى من علل كونه ليس يمينًا بأنه غير الله على طريقة المعتزلة وقولهم بخلقه
المرغيناني کا قول کہ کہ قرآن کی قسم غیر متعارف ہے- اب ہونا چاہیے کہ قرآن پر بھی قسم کھا لی جائے کہ یہ اب واقع ہو گی اس دور میں کیونکہ یہ اس زمانے میں متعارف ہو چکی ہے جیسا کہ تین ائمہ اور دیگر کا مذھب ہے اور اس کی علت کے قول کی طرف التفات مت کرو کہ یہ قسم نہ ہو گی کہ یہ طريقة المعتزلة ہے ان کے خلق قرآن کے قول پر
کتاب رد المحتار على الدر المختار میں ابن عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) لکھتے ہیں
وَكَذَا يُفِيدُ أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ قَسَمٍ الْحَلِفُ بِغَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى بَلْ هُوَ مِنْ قَسَمِ الصِّفَاتِ وَلِذَا عَلَّلَهُ بِأَنَّهُ غَيْرُ مُتَعَارَفٍ
یہ فائدہ دیتا ہے کہ قرآن کی قسم ان میں سے نہیں جو غیر الله کی قسم کھانا ہے بلکہ یہ قسم صفات پر ہے اور اس وجہ سے اس پر علت ہے کہ یہ غیر متعارف ہے
محمد ثناء الله کی تفسیر المظہری میں ہے
لو حلف بالقران يكون يمينا عند الائمة الثلاثة وعند ابى حنيفة لا يكون يمينا لعدم العرف
اگر قرآن کی قسم کھا لی تو ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ہو گئی اور ابو حنیفہ کے نزدیک نہیں ہوئی کہ یہ جانی نہیں جاتی
ملا قاری کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں
قَالَ صَاحِبُ الْهِدَايَةِ: وَكَذَا إِذَا حَلَفَ بِالْقُرْآنِ لِأَنَّهُ غَيْرُ مُتَعَارَفٍ يَعْنِي: وَمِنَ الْمُقَرَّرِ أَنَّ صِفَةَ اللَّهِ لَا تَكُونُ يَمِينًا إِذَا كَانَ الْحَلِفُ بِهَا مُتَعَارَفًا
صَاحِبُ الْهِدَايَةِ نے کہا کہ اگر قرآن کی قسم لی تو یہ غیر متعارف ہے یعنی مقرر یہ ہے کہ صفات الله کی
قسم نہیں لی جا تی کیونکہ قسم لینا (سب جانتے ہیں) مُتَعَارَفً ہے
ابو حنیفہ کے الفاظ کا مطلب ہے کہ قسم عربوں میں الله کی ذات کی ہی لی جاتی ہے وہی شریعت نے بتائی ہے – لہذا کلامی بحث سے اس میں غیر متعارف قسم شامل نہیں کی جا سکتی -خیال رہے کہ خلق قرآن کی بات کا آغاز معتزلہ نے کیا تھا
مالکی فقہاء کی رائے
مالکی فقہ میں امام مالک سے دو متخالف قول منسوب ہیں
کتاب التبصرہ از علي بن محمد الربعي، أبو الحسن، المعروف باللخمي (المتوفى: 478 هـ) کے مطابق
وقيل لابن القاسم فيمن حلف بالقرآن أو بالكتاب، أو بما أنزل الله تعالى: أترى ذلك كله (5) يمينًا؟ قال: أحسنُ ذلك والذي تكلمنا فيه: أن كل ما سمى من ذلك يمين؛ يريد: أنه اختلف فيه، وروى علي بن زياد، عن مالك إذا قال: لا والقرآن، لا والمصحف؛ ليس بيمين، ولا كفارة على من حلف به فحنث
اور ابن قاسم سے کہا گیا کہ کسی نے قرآن پر قسم کھائی یا جو الله نے نازل کیا اس پر – اپ اس کو کیسا دیکھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے اور ایسا ہم کہتے ہیں اس میں جو بھی ہے وہ قسم واقع ہوئی- اور علی بن زیاد کی روایت ہے کہ امام مالک نے کہا نہ قرآن کی قسم ہے نہ مصحف کی اس کی قسم نہیں ہے اور نہ اس پر کفارہ ہے اگر ٹوٹ جائے
کتاب التوضيح في شرح المختصر الفرعي لابن الحاجب از خليل بن إسحاق بن موسى، ضياء الدين الجندي المالكي المصري (المتوفى: 776هـ) کے مطابق
ولا فرق بني أني حلف بالقرآن، أو بسورة منه أو آية، رواه ابن حبيب، وفي العتبية عن ابن حبيب لزوم الكفارة في الحالف بالتوراة والإنجيل
اس میں کوئی فرق نہیں کہ قرآن کی قسم کھائی جائے یا کسی سورت کی یا آیت کی – ابن حبیب نے اس کو روایت کیا – اور العتبية میں ہے ابن حبیب سے ہے کہ اس پر کفارہ لازم ہے اگر کوئی توریت و انجیل کی قسم کھائے
متاخرین مالکیہ میں یہ قول مشہور ہے کہ کتاب اللہ کی قسم ہو جاتی ہے
(المسالِك في شرح مُوَطَّأ مالك از القاضي محمد بن عبد الله أبو بكر بن العربي المعافري الاشبيلي المالكي (المتوفى: 543هـ
میں ہے
ورَوَى ابنُ زيادٍ عن مالك في “العُتْبِيَّة” فيمن حَلَفَ بالمُصْحَفِ أنّه لا كفَّارةَ عليه. قال ابنُ أبي زَيدٍ “هي روايةٌ مُنْكَرَةٌ، والمعروفُ عن مالك غير هذا” وإن صحَّتْ فإنّها محمولةٌ على أنّه أرادَ الحالِفَ بذلك جِسْم المصحف دون المكتوب فيه
اور ابن زیاد نے امام مالک سے میں روایت کیا ہے کہ جس نے مصحف کی قسم لی اس پر کفارہ نہیں ہے- ابن ابی زید نے کہا یہ روایت منکر ہے اور معروف امام مالک سے ہے اس سے الگ ہے اور اگر اس کی صحت ہو تو اس کو محمول کیا جائے گا کہ جب حلف لینے والی کی اس سے مراد مصحف کا جسم ہو نہ کہ وہ جو اس میں لکھا ہے
شوافع کی رائے
کتاب البيان في مذهب الإمام الشافعي از أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي (المتوفى: 558هـ) کے مطابق
وقال أبو حنيفة وأصحابه: (إذا حلف بالعلم.. لم يكن يمينا، وإذا حلف بكلام الله أو بالقرآن.. لم يكن يمينا) . فمنهم من قال: لأن أبا حنيفة كان يقول: (القرآن مخلوق) .ومنهم من قال: لم يكن يقول: القرآن مخلوق، وإنما لم تجر العادة بالحلف به.
دليلنا: ما روى ابن عمر – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا -: أن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: «القرآن كلام الله، وليس بمخلوق» . وإذا كان غير مخلوق.. كان صفة من صفات الذات، كعظمة الله، وجلاله.
ولو حلف بالقرآن.. كان يمينا، سواء نوى اليمين، أو لم ينو أو أطلق، فكذلك هذا مثله. والأول أصح. هذا مذهبنا. وقال أبو حنيفة: (لا يكون يمينا؛ لأن حقوق الله تعالى طاعته، وذلك محدث) .
ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ اگر الله کے علم کی قسم لی تو قسم نہیں ہو گی اور اگر کلام الله اور قرآن کی قسم لی تو بھی قسم نہیں ہو گی- پھر ان احناف میں سے کچھ نے کہا ابو حنیفہ کا کہنا تھا قرآن مخلوق ہے اور ان میں سے کچھ نے کہا : ابو حنیفہ نے نہیں کہا کہ قرآن مخلوق ہے بلکہ یہ قسم عموما نہیں لی جاتی- ہم شوافع کی دلیل ہے جو ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے قرآن الله کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے اور جب کہا مخلوق نہیں ہے یہ الله کی صفت میں سے ایک ہوا جیسے اس کی عظمت اور جلال – اگر قرآن کی قسم کھا لی .. تو قسم ہو گئی … اور ابو حنیفہ کا کہنا ہے قسم نہیں ہوئی کیونکہ الله کے حقوق اس کی اطاعت ہے جو محدث ہے
راقم کہتا ہے یعنی امام ابو حنیفہ کا کہنا تھا کہ قسم کھانا مخلوق کا عمل ہے جو الله نے تخلیق کیا ہے ایسا عمل محدث ہے – مزید کہتا ہے الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ وَلَيْسَ بِمَخْلُوقٍ کے الفاظ سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے
وہابیوں کی رائے
سعودي دائمي کميٹي اللجنة الدائمة کا فتوى رقم (4950) ہے
يجوز الحلف بآيات الله إذا كان قصد الحالف الحلف بالقرآن ؛ لأنه من كلام الله وكلامه سبحانه صفة من صفاته ، وأما إن أراد بآيات الله غير القرآن ، فإنه لا يجوز .
يہ جائز ہے کہ الله کي آيات کي قسم کھائي جائے اگر مقصد قرآن سے قسم لينا ہو کيونکہ يہ کلام الله ہے اور کلام الله کي صفات ميں سے ہے اور اگر مراد وہ نشانيياں ہيں جو آيات الله نہيں ہيں تو جائز نہيں ہے
يعني قرآن کي آيات کي قسم کھانا وہابييوں کے نزديک صحيح ہے کيونکہ يہ مسئلہ صفات سے ان کے نزديک جائز ہے
وہابي محمد بن صالح العثيمين فتوي ميں کہتے ہيں
وأما الحلف بالقرآن الكريم فإنه لا بأس به، لأن القرآن الكريم كلام الله – سبحانه وتعالى – تكلم الله به حقيقة بلفظه مريدًا لمعناه وهو – سبحانه وتعالى – موصوف بالكلام ، فعليه يكون الحلف بالقرآن الكريم حلفًا بصفة من صفات الله – سبحانه وتعالى – وذلك جائز.
قرآن کي قسم کھانا جائز ہے
امام بخاری کا موقف
امام بخاري نے صحيح ميں باب قائم کيا ہے بَابُ الحَلِفِ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَصِفَاتِهِ وَكَلِمَاتِهِ باب قسم کھانا الله کي عزت کي اس کی صفات کی اس کے کلام کی – اس باب ميں بخاري نے حديث ذکر کي کہ جہنم ميں جب الله قدم رکھے گا تو وہ بولے گي قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ بس بس تيري عزت کي قسم – ليکن اس باب ميں کلام اللہ پر قسم کھانے کي کوئي حديث بخاري کو نہيں ملي ہے
عزت کی قسم کھانا عربوں میں معروف ہے- یہ فعلی صفت نہیں جیسا کہ کلام یا سماع یا بصر ہے – عزت شخصيت سے متعلق ہی ہے جیسے جلال و اکرام- بحث اس میں ہے کہ کلام الله کی قسم لی جا سکتی ہے یا نہیں
قرآن میں سورة الشعراء مين ہے ساحروں نے فرعون کی عزت کی قسم لی
قالوا بعزة فرعون إنا لنحن الغالبون
ایسا اکثر ہوتا ہے کہ صحیح میں باب ہے لیکن اس سے متعلق حدیث نہیں ملی اور اس کے تحت کچھ بیان نہیں ہوا- لہذا یہاں اس باب سے مطلقا یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ امام بخاری کی بھی یہی رائے تھی
ابن حزم کی رائے
کتاب المحلی میں ہے
فَهِيَ يَمِينٌ وَعَلَيْهِ كَفَّارَةٌ إنْ حَنِثَ؛ لِأَنَّ كَلَامَ اللَّهِ تَعَالَى هُوَ عِلْمُهُ
قرآن کی قسم ہے اس پر کفارہ ہے اگر ٹوٹ جائے کیونکہ یہ الله کا کلام ہے جو اس کا علم ہے
======================================================
شیعہ امامیہ کی رائے
کتاب الشيعة في الميزان از محمد جواد مغنية کے مطابق
قال الشيعة الإمامية : لا يتحقق معنى اليمين إِلا إذا كان القسم باللّه وأسمائه الحسنى وصفاته الدالة عليه صراحة، فمن حلف بالقرآن والنبي والكعبة، وما إلى ذلك لا يكون القسم شرعياً، ولا يترتب على مخالفته إِثم ولا كفارة، ولا تُفصل به الدعاوى في المحاكمات، ووافقهم على ذلك أبو حنيفة. قال الشافعي ومالك وابن حنبل تنعقد اليمين إذا كان الحلف بالمصحف، وتفرد ابن حنبل عن الجميع بأنها تنعقد بالحلف بالنبي
شیعہ امامیہ کہتے ہیں : قسم حق نہیں ہو گی الا یہ کہ اگر قسم الله کی یا اسماء الحسنی کی یا صفات جن پر صریح دلائل ہوں ان کی لی جائے- پس جس نے قرآن کی یا نبی کی یا کعبہ کی یا اسی طرح کی قسم لی تو یہ شرعی قسم نہیں ہے اور نہ اس قسم کی مخالفت پر گناہ ہے یا کفارہ ہے … اور اس میں ان کی موافقت کی ہے ابو حنیفہ نے – شافعی ، مالک اور احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ قسم ہو جائے گی اگر مصحف کی قسم لی اور احمد بن حنبل کا تفرد ہے ان سب پر جن کا کہنا ہے کہ اگر نبی کی قسم لی تو ہو جائے گی
راقم کہتا ہے ایسی قسم کھانا جس کا حدیث میں حکم نہ ہو بدعت ہے – یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کو الله کا ذکر کرنا معلوم ہے لیکن اس طرح جس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کسی اور طرح نہیں – اسی طرح ابو حنیفہ کا قول صواب ہے کہ قرآن کی قسم کا حکم نہیں دیا گیا ہے یہ شریعت میں معلوم نہیں ہے
ابن حزم کی بعض آراء صحیح ہیں بعض سے اتفاق نہیں ہے
ابو شہر یار کیا ابن حزم کی بات صحیح ہونے کے لئے اس سے اتفاق ہونا ضروری ہے
اپ کے الفاظ کا مطلب سمجھ نہیں سکا
جزاک الله
علمی تھریڈ بنایا آپ نے
بعض لوگ قرآن کی قسم کھاتے ہیں اور بعض کلمے کی قسم تو ایسی قسم کھانا بدعت ہے؟
جی امام ابو حنیفہ کی رائے میں ایسی قسم بدعت ہے اور ظاہر ہے قابل رد ہے دین میں مردود ہے
یہی میری رائے ہے
السلام علیکم
بھائی کیا شرک اکبر اور
شرک اصغر کی قرآن حدیث
میں کوئی دلیل ھے کیا؟
شرک تو شرک ہی ھے نا
چہوٹے بڑے کی کوئی حد لگائی گئی ھے
تو اس وضاحت کریں.
شرک شرک ہے
اکبر وہ جو ظاہر میں کھلا شرک ہو
اصغر وہ جس کو نفاق کا یا دکھاوے کا نام دیا جاتا ہے مثلا کوئی نیکی کسی کو دکھانے کو کی تو شرک اصغر ہوا
اس قسم کی تقسیم بعض لوگوں نے کی ہے دلیل یہ دی گئی ہے
کہ یہ نفس کو الہ بنانا ہے اس بنا پر شرک ہے
نفس کو الہ بنانا صرف اپنے من کی کرنا ہے اور صحیح و غلط کی تمیز کے بغیر – یہ کس درجے میں ہو رہا ہے یہ بحث ہے – مثلا گناہ کرنا بھی یہی ہے کہ نفس پر چلا جائے لیکن اس میں پشیمانی ہو تو اس کو الہ بنانا نہیں کہہ سکتے
نفس کو الہ بنانا اس قدر ہو کہ رسول کا انکار کر دیا جائے تو ظاہر ہے یہ کفر ہے اور قرآن میں اسی کا ذکر ہے
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (23)
http://quran.ksu.edu.sa/tafseer/tabary/sura45-aya23.html
لهذا میں سمجھتا ہوں کہ نفس کو اس قسم کا الہ بنا لیا کہ رسول کو مانتے ہوئے بھی انکار ہو رہا ہو یعنی دنیا پرستی کی حد ہو جائے تو یہ کفر اور نفاق کا اعلی درجہ ہے
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کی قسم کھائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا إن اللہ ینہاکم أن تحلفوا بآبائکم، من کان حالفا فلیحلف باللہ أو لیصمت .
”خبردار ! اللہ نے آپ کو آباء واجدادکی قسمیں اٹھانے سے منع کیا ہے، جسے قسم اٹھانی ہو اللہ کی قسم اٹھائے۔”
(صحیح البخاری : 6646، صحیح مسلم : 1646)
عمر بن خطاب نے اپنے آباد اجداد کی قسم کھائی اس روایت کے متعلق آپ کی تحریر درکار ہے جزاک اللہ
⇑باپ کی قسم کھانا کیا حدیث میں ہے؟ کیا عمری کہنا اپنی قسم کھانا ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/%d9%85%d8%aa%d9%81%d8%b1%d9%82/
میں نے کہا تھا کہ روایت میں متن میں راوی نے غلطی کی ہے
بخاری کی اس، روایت کے مطابق غیر اللہ کی قسم عمر رضی اللہ عنہ نے کھائی جبکہ ابوداؤد کی روایت میں ہے غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے؟
غیر اللہ کی قسم شرک ہے اس پر کوئی صحیح السند روایت نہیں ہے
سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا محمد بن العلاء، حدَّثنا ابنُ إدريسَ، قال: سمعتُ الحسنَ ابن عُبيد الله، عن سعْد بن عُبيدة، قال: سمع ابنُ عُمر رجلاً يحلفُ: لا والكعبة، فقال له ابنُ عمر: إني سمعتُ رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – يقول: “مَن حلَفَ بغيرِ الله فقد أشركَ
مسند احمد میں ہے
سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ
عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: لَا وَأَبِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَهْ، إِنَّهُ مَنْ حَلَفَ بِشَيْءٍ دُونَ اللهِ، فَقَدْ أَشْرَكَ
اس کی سند میں راوی سعد بن عبيدة أبو حمزة السلمي الكوفي کو خارجی کہا جاتا ہے
أحاديث معلة ظاهرها الصحة از أبي عبدالرحمن مقبل بن هادي الوادعي میں ہے
هذا الحديث إذا نظرت إلى سنده وجدتهم رجال الصحيح، ولكنه منقطع قال البيهقي (10ص29) : وهذا مما لم يسمعه سعد بن عبيدة من بن عمر
بظاہر اس کی سند میں رجال صحیح ہیں لیکن یہ منقطع ہے بیہقی نے کہا اس کو سعد بن عبيدة نے ابن عمر سے نہیں سنا
پھر ذکر کیا
وجاء بيان المجهول أنه محمد الكندي كما في “مسند أحمد” (ج2ص69) ومحمد الكندي ترجمته في “الجرح والتعديل” لابن أبي حاتم (ج8ص132) وهو مجهول
اس روایت کو کسی مجہول محمد الكندي سے سعد بن عبيدة نے لیا تھا
بہت بہت شکریہ آپ کا۔
یہ بھی بتا دیجئے کہ امام طحاوی کی یہ تاویل درست ہے کہ غیر اللہ کہ قسم کھانا شرک اصغر ہے اسلام سے خارج کرنے والا شرک نہیں ہے؟
امام طحاوی ( (321 فرماتے ہیں:
وَلَکِنَّہُ أُرِیدَ أَنْ لَا یَنْبَغِی أَنْ یُحْلَفَ بِغَیْرِ اللہِ تَعَالَی , وَکَانَ مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللہِ فَقَدْ جَعَلَ مَنْ حَلَفَ بِہِ کَمَا اللہِ تَعَالَی مَحْلُوفًا بِہِ , وَکَانَ بِذَلِکَ قَدْ جَعَلَ مَنْ حَلَفَ بِہِ أَوْ مَا حَلَفَ بِہِ شَرِیکًا فِیمَا یَحْلِفُ بِہِ، وَذَلِکَ عَظِیمٌ فَجُعِلَ مُشْرِکًا بِذَلِکَ شِرْکًا غَیْرَ الشِّرْکِ الَّذِی یَکُونُ بِہِ کَافِرًا بِاللہِ تَعَالَی خَارِجًا مِنَ الْإِسْلَامِ .
”مراد یہ ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانادرست نہیں ، غیر اللہ کی قسم کھانے والا ،اسے قسم میں اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے۔تو گویا غیر اللہ کی قسم کھانے والے نے شرک کا ارتکاب کیا ،لیکن یہ شرک وہ نہیں ، جس سے انسان دائرہ اسلام سے خار ج ہو جائے۔”
(مشکل الاثار للطحاوی : 2/297۔298)
مطلب یہ کہ غیر اللہ کی قسم اٹھانے والا، شرک اصغر کا مرتکب ہے۔جو کہ حرام و ممنوع ہے۔اس سے انسان اسلام سے خارج نہیں ہوتا کہ یہ اعتقادی نہیں بل کہ عملی شرک ہے۔
مجھے شرک کی اقسام کا کسی حدیث سے علم نہیں ہے
شرک ، شرک ہے
اب چونکہ روایت ہی صحیح نہیں تو اس پر مبنی تشریحات ہی درست نہیں
طحاوی نے روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے بات کی ہے
جس کی ضرورت مجھے نہیں ہے
غیر اللہ کی قسم کھانا ممنوع ہے لیکن کرنے والا مشرک بھی نہیں
اس سے زیادہ معلوم نہیں کیونکہ اس پر نص صحیح درکار ہے