قرآن یقینا محفوظ ہے ٢

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں کس کس نے  جمع القرآن کیا ؟ کیا  جمع کرتے وقت کچھ آیات مفقود ہوئیں ؟

جواب

المحبر از  محمد بن حبيب بن أمية بن عمرو الهاشمي، بالولاء، أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ) کے مطابق ٦ لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن جمع کیا

سعد  بن عبيد بن النعمان بن قيس

 أبو الدرداء  عويمر بن زيد بن قيس

 ابى بن كعب بن قيس بن عبيد

 زيد  بن ثابت بن الضحاك

 معاذ  بن جبل بن عمرو

 أبو زيد  ثابت بن زيد بن النعمان ابن مالك

صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ جَمَعَ القُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: ” أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ

انس رضی الله عنہ سے قتادہ نے پوچھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں قرآن کس کس نے جمع کیا ؟ انھوں نے جواب دیا چار نے جو سب انصار میں سے تھے : أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ

جمع القرآن  تمام صحابہ کا عمل نہیں تھا کیونکہ  ہزاروں صحابہ کو قرآن یاد تھا اور سب اس کی تلاوت کرتے تھے لیکن چونکہ تمام قریشی نہیں تھے اس لئے عرب میں ہی میں تلفظ کی معمولی تبدیلی تھی مثلا جیسے اردو ہندوستان پاکستان میں بولی جاتی ہے لیکن لکھنو  میں بولی جانے والی اردو وہ نہیں جو حیدر آباد ہندوستان میں بولی جاتی ہے یا پاکستان میں یا دلی میں بولی جاتی ہے بعض تلفظ کی تبدیلی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ہو جاتی ہے لیکن اس سے مفھوم میں کوئی تبدیلی نہیں اتی – زبان میں اس لچک کی  وجہ سے قرآن کو سات حروف  پر نازل کیا گیا اور اس وجہ سے بظاہر دو قراتین الگ الگ محسوس ہوتیں لیکن ایک ہی تھیں

منسوخ القرات یا مفقود آیات؟

واضح رہے آیات کا منسوخ ہونا اور ان کا مصحف میں نہ لکھا جانا دو الگ باتیں ہیں قرآن کی بہت کی آیات منسوخ القرات ہیں لیکن حکم باقی ہے اسی طرح بہت سی منسوخ ہیں جن کی قرات کی جاتی ہے لیکن حکم باقی نہیں ہے

لیکن یہاں بحث اس پر ہے کہ کیا کچھ ایسا بھی تھا جو قرآن میں نہ لکھا جا سکا- بعض سطحی قسم کے لوگوں نے منسوخ القرات کی بات کو آیات کے مفقود ہونے سے ملا دیا جو صحیح نہیں ہے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ” لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ قَدْ أَخَذْتُ الْقُرْآنَ كُلَّهُ وَمَا يُدْرِيهِ مَا كُلَّهُ؟ قَدْ ذَهَبَ مِنْهُ قُرْآنٌ كَثِيرٌ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: قَدْ أَخَذْتُ مِنْهُ مَا ظَهْرَ مِنْهُ “

ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب اور انہوں نے نافع اور انہوں نے ابنِ عمر سے کہ انہوں نے کہا: کوئی یہ نہ کہے کہ اس نے تمام  قرآن پا لیا ہے، اور اسے کیا پتہ کہ اس کا تمام  کیا ہے، اس میں سے بہت سآ  قرآن چلا گیا ، بلکہ اسے کہنا چاہیے: میں نے اس سے (قرآن سے) وہی کچھ لیا ہے جو اس میں ظاہر ہوا ہے

اس روایت کو  إسماعيل بن إبراهيم بن مقسم الأسدي  المعروف بابن عُلَيَّة ،  أيوب بن أبى تميمة   كيسان السختياني پیدائش ٦٨ ھ –  المتوفی ١٣١ ھ –   کے واسطے سے  بیان  کر رہے ہیں – ایوب مدلس ہیں اور  اس مخصوص روایت کی تمام اسناد میں ان کا تفرد ہے اور ہر سند عن سے ہے- ظاہر ہے یہ محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں

شارحین کے مطابق  اس سے مراد قرآن کی  منسوخ القرات آیات کا ذکر ہے جن کی تعداد کا علم نہیں کیونکہ وقتا فوقتا قرآن میں سے کچھ آیات واپس لی گئیں اور ان کی قرات منسوخ کر دی گئی اور الفاظ اٹھ گئے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ لِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ: يَا زِرُّ، كَأَيِّنْ تَعُدُّ؟ أَوْ قَالَ: كَأَيِّنْ تَقْرَأُ سُورَةَ الْأَحْزَابِ؟ قُلْتُ: اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ آيَةً، أَوْ ثَلَاثًا وَسَبْعِينَ آيَةً. فَقَالَ: «إِنْ [ص:321] كَانَتْ لَتَعْدِلُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَإِنْ كُنَّا لَنَقْرَأُ فِيهَا آيَةَ الرَّجْمِ» . قُلْتُ: وَمَا آيَةُ الرَّجْمِ؟ قَالَ: (إِذَا زِنًا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ. وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ) “

زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ  کہتے ہیں  اُبی بن کعب نے مجھ سے کہا: اے زِر تم نے سورۃ الاحزاب میں کتنی آیات شمار کیں اور پڑھیں؟ میں نے کہا: بہتر یا تہتر، اس نے کہا: یہ طوالت میں سورۃ بقرۃ جتنی تھی اور ہم اس میں رجم کی آیت بھی پڑھا کرتے تھے، تو میں نے ان سے کہا: رجم کی آیت کیا ہے؟ ابی  نے کہا: (إِذَا زِنًا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ. وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)

یعنی رجم کی آیت جس کی تلاوت منسوخ ہوئی وہ سوره الاحزاب میں تھی

الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ  کا خلیفہ المہدی کے دور میں انتقال ہوا یہ بھی مدلس تھے اور ابو داود کہتے ہیں جب صرف حدثنا کہیں اسی وقت قبول کرتے یہاں ان کا عنعنہ ہے لہذا ضعیف سند ہے-  ان کے دادا أبو أمية مولى عمر بن الخطاب تھے یعنی عمر کے آزاد کردہ غلام تھے

الألوسي کہتے ہیں وكل خبر ظاهره ضياع شيء من القرآن إما موضوع أو مؤوّل

ہر وہ خبر جس میں  قرآن میں کسی چیز کے ضائع ہونے کی بات ہے وہ گھڑی ہوئی یا  بڑھ ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کی قرآن کے حوالے سے  تین عجیب روایات

عَبد اللهِ بْن لَهِيعَة عباسی خلفاء کے منظور نظر تھے اور یہ پہلے قاضی ہیں جن پر اسلام میں رشوت لینے کا الزام ہے

سن ١٥٥ ہجری میں السفاح کے دور میں ان کو خلیفہ بنا دیا گیا یہ ایک حدیث پیش کرتے جو  كتاب الفتن از ابو نعیم میں ہے

 حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ يَدُومَ الْحِمْيَرِيُّ، سَمِعَ تُبَيْعَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: «يَعِيشُ السَّفَّاحُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، اسْمُهُ فِي التَّوْرَاةِ طَائِرُ السَّمَاءِ»

السفاح چالیس سال زندہ رہیں گے ان کا نام توریت میں آسمانی پرندہ ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ  مدلس ہے اور عن سے روایت نا قابل قبول ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کو آخری عمر میں اختلاط ہوا اس لئے اس کی روایات مطلقآ قبول نہیں کی جاتیں

ابْنِ لَهِيعَةَ نے اپنی  کتب سے روایات بیان کیں لیکن جب لوگوں کو شک ہوا تو سن ١٧٠ ہجری میں مرنے سے چار سال قبل  اس کی کتب جل گئیں

ابْنِ لَهِيعَةَ نے قرآن کے حوالے سے تین عجیب روایات بیان کیں

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ بَجَالَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، مَرَّ بِرَجُلٍ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ (النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ، وَهُوَ أَبُوهُمْ) فَقَالَ عُمَرُ: «لَا تُفَارِقْنِي حَتَّى نَأْتِيَ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ» . فَأَتَيَا أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقَالَ: «يَا أُبَيُّ، أَلَا تَسْمَعُ كَيْفَ يَقْرَأُ هَذَا هَذِهِ الْآيَةَ؟» فَقَالَ أُبَيُّ: «كَانَتْ فِيمَا أُسْقِطَ» . قَالَ عُمَرُ: ” فَأَيْنَ كُنْتَ عَنْهَا؟ فَقَالَ: شَغَلَنِي عَنْهَا مَا لَمْ يَشْغَلْكَ

عبد الغفار بن داود نے ابْنِ لَهِيعَةَ سے اور اس نے علی بن دینار سے روایت کیا اس نے بَجَالَةَ  سے روایت کیا  کہ عمر بن الخطاب ایک آدمی کے پاس سے گزرے  جو   مصحف میں پڑھ رہا تھا، النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ، وَهُوَ أَبُوهُمْ  (سورۃ احزاب آیت 6)، تو عمر نے اس سے کہا: جب تک اُبی بن کعب نہ جائیں تم مجھے چھوڑ کر مت جانا ، اور جب اُبی بن کعب آ گئے تو عمر نے ابی سے کہا: اے اُبی تم نے سنا یہ کیسے تلاوت کرتا ہے ؟ ابی نے کہا گویا کہ یہ  اس (قرآن) میں (لکھنے)  سے رہ گئی عمر نے اس شخص کو کہا تم کو یہ کہاں سے ملی؟ اس نے کہا میں اس میں مشغول رہا اور آپ اس اس میں مشغول نہیں رہے

  بَجَالَةُ بْنُ عَبَدَةَ التَّمِيمِيُّ الْبَصْرِيُّ کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے کتاب  المعرفة از بیہقی کے مطابق امام الشافعی کہتے ہیں یہ مجھول ہے

روایت آوٹ پٹانگ ہے  –  ابی بن کعب رضی الله عنہ  نے جب عثمان  رضی الله عنہ کے دور میں قرآن جمع کیا تو پھر بھی نہیں لکھا

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ الْكَلَاعِيِّ، أَنَّ مَسْلَمَةَ بْنَ مُخَلَّدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ لَهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ: أَخْبِرُونِي بِآيَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ لَمْ تُكْتَبَا فِي الْمُصْحَفِ، فَلَمْ يُخْبِرُوهُ، وَعِنْدَهُمْ أَبُو الْكَنُودِ سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، فَقَالَ مَسْلَمَةُ: (إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)

ابو عبید نے کہا کہ ہمیں ابن ابی مریم نے ابْنِ لَهِيعَةَ سے اور انہوں نے یزید بن عمرو المغافری سے اور انہوں نے ابی سفیان الکلاعی سے روایت کیا کہ مسلمۃ بن مخلد الانصاری نے انہیں ایک دن کہا: مجھے قرآن کی ایسی دو آیتیں بتاؤ جو مصحف میں نہیں لکھی گئیں تو انہوں نے اسے نہیں بتایا، ان کے ہاں ابو الکنود سعد بن مالک موجود تھا تو ابو مسلمۃ نے کہا: “(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ابی سفیان الکلاعی مجھول ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کہنا چاہتا ہے کہ ١٢٠ سال پہلے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں جو قرآن جمع ہوا اس میں تمام آیات نہیں لکھی گئیں خاص طور پر سوره الاحزاب پر اس کی خاص نظر ہے- اس کے مطابق اس میں ٢٠٠ کے قریب آیات تھیں اور اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو باپ کہا گیا تھا- افسوس اسی قرآن میں ہے

ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شئی علیما

اور محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے لیکن الله کا رسول ہے اور الله ہر چیز سے باخبر ہے

عَبد اللهِ بْن لَهِيعَة نے روایت میں  بتایا کہ قرآن میں اس میں تھا جو  نفس سوره سے  ہی متصادم ہے

آیت  جوروایت میں مفقود بتائی گئی ہے

(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

اس متن کی قرآن میں آیات ہیں اور ان کو ہی ملا کراس روایت میں ایک نئی آیت بنا دی گئی ہے لہذا اس روایت کا مقصد صرف موجودہ قرآن پر شک پھیلانا ہے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ” كَانَتْ سُورَةُ الْأَحْزَابِ تُقْرَأُ فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَتَيْ آيَةٍ، فَلَمَّا كَتَبَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ لَمْ يَقْدِرْ مِنْهَا إِلَّا عَلَى مَا هُوَ الْآنَ

 ہمیں ابن ابی مریم نے ابْنِ لَهِيعَةَ  سے اور انہوں نے ابی الاسود (مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الأَسَدِيُّ الْمَدِينِيُّ) سے اور انہوں نے عروۃ بن الزبیر سے اور انہوں نے عائشہ سے کہ انہوں  نے کہا: رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  کے دنوں میں سورۃ الاحزاب پڑھی جاتی تھی اور اس میں دو سو آیتیں ہوتی تھیں مگر جب عثمان نے قرآن جمع کیا تو اس میں اتنی پر ہی قادر ہو سکے جو  اس میں اب ہیں

الانتصار للقرآن میں  أبو بكر الباقلاني المالكي (المتوفى: 403هـ) کہتے ہیں

فجوابُنا عن كل ما يردُ من هذا الجنس أنه مما كان قرآناً رُفع ونُسخت تلاوتُه، وذلك ما لا ينكره ولا يُدفعُ في الجملة أن يكون الله سبحانَه قد أنزلَ  قرآناً كثيراً ثم نسخَ تلاوتَه وإن كنَّا لا نتيقن صحة كل خبر من هذه الأخبار.

پس ہمارا جواب اس قسم کی تمام روایات پر یہ ہے ہے قرآن میں تھا جو اٹھ گیا اور اس کی تلاوت منسوخ ہوئی اور یہ ایسی بات ہے جس کا انکار نہیں ہے اور نہ ہی اس کا رد کرتے ہیں کہ الله سبحانہ نے قرآن میں بہت کچھ نازل کیا پھر اس کی تلاوت منسوخ کی  اگرچہ  ہم اس قسم کی تمام خبروں کی صحت پر یقین نہیں کرتے

اہل تشیع کے علماء میں أبو جعفر الطوسي  کتاب التبيان: 1/ 394  کہتے ہیں

قد جاءت أخبار متضافرة بأنه كانت أشياء في القرآن نسخت تلاوتها وعددها، وذكر منها أن سورة الأحزاب كانت تعادل سورة البقرة في الطول

بلا شبہ  روایات آئی ہیں کہ قرآن میں ایسی  چیزیں تھیں جن کی تلاوت منسوخ ہوئی اور ان کو گنا گیا اور ذکر کیا گیا ہے کہ سوره الاحزاب میں آیات سوره بقرہ برابر تھیں

یعنی یہ بات کہ سوره الاحزاب میں منسوخ آیات تھیں اہل تشیع کے ہاں بھی قبول کی جاتی ہے

  الخلع والحفد کی حقیقت

بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ اس نام کی سورتیں تھیں ان کا متن کیا تھا ؟ اس پر روایات میں ہے

مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يَقْنُتُ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ فِي الْفَجْرِ، غَيْرَ أَنَّهُ يُقَدِّمُ الْآخِرَةَ وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخ‍َيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ

عبد الرزاق ، حسن بن عمارہ سے وہ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ سے وہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ سے وہ علی سے روایت کرتے ہیں کہ علی نماز فجر میں ان دو سورتوں سے قنوت کرتے اور کہتے

اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخ‍َيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ

یہ دعائے قنوت ہے نہ کہ سورتیں – لیکن بعض میں اس کو دو سورتیں کہا گیا ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا قَنَتَ فِي الْفَجْرِ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ، وَلَا نَكْفُرُ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»

یہاں سند میں  عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ کہا گیا ہے جبکہ مصنف عبد الرزاق میں سند میں  نام عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ  ہے دونوں مقام پر اس کو سورتیں کہا گیا ہے –  عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ  مجہول ہے لگتا ہے یہ  حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ کی غلطی سے ہوا ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کو قرات کہا گیا ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، فِي قِرَاءَةِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»

مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ نے کہا  ابی بن کعب کی قرات میں تھا

سند میں جعفر بن برقان الكلابي ضعیف ہے

مصنف ابن ابی شبیہ میں ہے کہ ابن مسعود رضی الله عنہ نے دعا قنوت سکھائی

حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: عَلَّمَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ أَنْ نَقُولَ فِي الْقُنُوتِ يَعْنِي فِي الْوِتْرِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكُ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي، وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ»

طبرانی الکبیر کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ، ثنا أَبِي، ثنا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: «أَمَّنَا أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ بِخُرَاسَانَ فَقَرَأَ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ

عِيْسَى بنُ يُوْنُسَ بنِ أَبِي إِسْحَاقَ عَمْرِو بنِ عَبْدِ اللهِ الهَمْدَانِيُّ کہتے ہیں میرے باپ نے میرے دادا ابو اسحاق سے روایت کیا کہ خراسان میں أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ   المتوفی ٨٧ ھ  کی بدولت ہم ایمان لائے اور وہ وہاں دو سورتیں إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ پڑھتے تھے

واضح رہے کہ أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ ایک اموی تھے جن کو خراسان پر گورنر خلیفہ عَبْدِ المَلِكِ بنِ مَرْوَانَ  مقرر کیا تھا جو شیعہ نہ تھے لیکن  اس روایت کو بیان کرنے والے ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ  شیعہ مشھور ہیں

ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ جو خود ایک کٹر شیعہ تھے ان کے مطابق ابو امیہ کے دور تک ان سورتوں کی تلاوت ہو رہی تھی – اغلبا ابو اسحاق ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ کو مغالطہ ہوا کہ یہ سورتیں ہیں جبکہ یہ دعا قنوت تھی جو آج تک کی جاتی ہے اور مصحف کا حصہ نہیں ہیں

مصنف عبد الرزاق  اور ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَأْثِرُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي الْقُنُوتِ … بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللَّهُمَّ إِنَّا، نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ

ابن جریج   کہتے ہیں عَطَاءٌ   کے واسطے سے وہ کہتے ہیں   عبيد بن عمير بن قتادة بن سعد أبو عاصم الليثي  کو سنا انہوں نے بیان کیا عمر نے نماز میں قنوت کیا اور . بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، پڑھ کر اللَّهُمَّ إِنَّا، نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ پڑھی – بعض کا اس پر گمان گیا کہ اگربسم الله پڑھی گئی ہے تو گویا یہ سورت ہے

بسم الله پڑھنے سے یہ قطعی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قرآن ہے یا نہیں کیونکہ بسم الله کو قرآن میں آیت سمجھ کر نہیں لکھا گیا بلکہ سنت کا طریقہ ہے تلاوت سے پہلے اس کو پڑھا جاتا تھا اس پر علماء  کا اختلاف ہے کہ کیا بسم الله سوره الفاتحہ کا حصہ ہے اور یہ اختلاف بھی صرف سوره الفاتحہ پر ہے – جمہور علماء کی رائے میں بسم الله قرآن کا حصہ نہیں ہے

روایت کو علماء صحیح کہتے ہیں لیکن وہ اس سے دلیل نہیں لیتے کہ یہ سورتیں ہیں مثلا کتاب إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل  میں البانی اس روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں

قلت: قد ثبت القنوت قبل الركوع عن عمر من عدة طرق صحيحة عنه

میں کہتا ہوں یہ ثابت ہے کہ عمر رکوع سے قبل قنوت کرتے تھے جو بہت سے صحیح طرق سے مروی ہے

سورةِ الخلْعِ کے الفاظ کہے جاتے ہیں

اللهمَّ إِنّا نَستعينُك ونَستغفرُك، ونُثْني عليكَ ولا نَكْفُرُك، ونَخلعُ ونَتركُ مَنْ يَفجرُك

سورةِ الحَفْدِ کے الفاظ کہے جاتے ہیں

اللهمَّ إِيّاك نَعْبُد، ولك نُصَلّي  ونَسجد، وإِليكَ نَسْعى ونَحْفِد، نَرجو رحمتَك ونَخشى عَذابَك، إِنَّ عذابَك  بالكفارِ مُلْحِق

کتاب البرهان في علوم القرآن از الزركشي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق

وَأَنَّهُ ذَكَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَقْرَأَهُ إِيَّاهُمَا وَتُسَمَّى سُورَتَيِ الْخَلْعِ وَالْحَفْدِ

اور ذکر کیا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم ان کی قرات کرتے تھے اور اس  کو الْخَلْعِ وَالْحَفْدِ   سوره کہا گیا ہے

اسی طرح کہا جاتا ہے ابی بن کعب کے قرآن میں ایک سو سولہ سورتیں تھیں یعنی موجودہ قرآن کے علاوہ دعائے قنوت بھی اس کے آخر میں لکھی ہوئی تھی

البرهان للزركشي

اب کوئی یہ بتائے کہ کیا یہ دعائے قنوت کوئی ایسا کلام ہے جس سے ایمانیات میں کوئی کمی اتی ہو یہ تو دعآ کے کلمات ہیں اور امت کی ایک کثیر تعداد ان الفاظ کو قنوت میں پڑھتی ہے الرزقانی  کتاب مناهل العرفان في علوم القرآن میں کہتے ہیں

وهذا الدعاء هو القنوت الذي أخذ به السادة الحنفية

اور یہ دعا ہے جو قنوت میں ہے جس کو سادات حنفیہ نے لیا ہے

 لہذا الخلع والحفد  مفقود ہیں  ایک شوشہ ضرور ہے لیکن اس شوشے میں جان نہیں ہے

ابن جوزی اپنی کتاب فنون الأفنان في عيون علوم القرآن میں لکھتے ہیں کہ

وجملة سوره على ما ذكر عن أُبي بن كعب رضي اللَّه عنه مائة  وست عشرة سورة. وكان ابن مسعود رضي اللَّه عنه يُسقط
المعوذتين، فنقصت جملته سورتين عن جملة زيد. وكان أُبي بن  كعب يُلحقهما ويزيد إليهما سورتين، وهما الحَفدة والخَلع.
إحداهما،: “اللهم إِنا نستعينك ونستغفرك … “، وهي سورة  والْأُخرى: (اللهم إياك نعبد … ) ، وهي سورة الحفد.  فزادت جملته على جملة زيد سورتين، وعلى جملة  ابن مسعود أربع سور. وكل أدى ما سمع، ومصحفنا أولى بنا أن نتبع.

اور وہ جملہ سورتیں جو ابی بن کعب کے حوالے سے ذکر کی گئی ہیں ان کی تعداد ١١٦ ہے اور ابن مسعود نے المعوذتين  کو مصحف  میں سے گرا دیا اس سے دو سورتیں کم ہوئیں جو زید بن ثابت کے پاس تھیں- اور ابی بن کعب اس میں دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور وہ ہیں : الخَلع ایک ہے  “اللهم إِنا نستعينك ونستغفرك … “ اور دوسری ہے اللهم إياك نعبد …  جو سورہ الحفد ہے پس ان پر دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور ابن مسعود اس طرح چار سورتوں کا انکار کرتے یعنی  ( المعوذتين  اور الحَفدة والخَلع کا ) … اور ہمارے لئے جو مصحف ہے ہمارے لئے اولی ہے کہ اس کی اتباع کریں

ابن قتیبة بھی اپنی کتاب تأویل مشکل القرآن میں ذکر کرتے ہیں کہ

وأما نقصان مصحف عبد الله بحذفه (أمّ الکتاب) و (المعوّذتین) ، وزیادة أبیّ بسورتی القنوت- فإنا لا نقول: إن عبد الله وو أبیّا أصابا وأخطأ المهاجرون والأنصار، ولکنّ (عبد الله) ذهب فیما یرى أهل النظر إلى أن (المعوذتین) کانتا کالعوذة والرّقیة وغیرها، وکان یرى رسول الله، صلّى الله علیه وآله وسلّم، یعوّذ بهما الحسن والحسین وغیرهما ، کما کان یعوّذ بأعوذ بکلمات الله التّامة ، وغیر ذلک، فظنّ أنهما لیستا من القرآن

ابن مسعود کے مصحف میں   کمی تھی کہ سورہ الفاتحہ محذوف تھی اور المعوّذتین اور – اور ابی بن کعب کے مصحف میں  قنوت پر دو سورتیں تھیں  تو اس پر ہم یہ نہیں کہتے کہ ابن مسعود یا ابی بن کعب  ٹھیک تھے اور باقی مہاجرین و انصار نے خطا کی لیکن ابن مسعود نے اس کو اہل نظر کی طرح دیکھا کہ سورہ فلق و الناس سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے تعوذ کیا اور دم کیا اور اسی طرح دیگر سے اور دیکھا کہ رسول الله نے حسن و حسین کو اس سے تعوذ کیا اور دیگر کو جیسے وہ أعوذ بکلمات الله التّامة سے تعوذ کرتے تھے  پس انہوں نے گمان کیا کہ قرآن سے نہیں ہیں

پھر آگے لکھتے ہیں کہ

وإلى نحو هذا ذهب أبیّ فی (دعاء القنوت) ، لأنه رأى رسول الله، صلّى الله علیه وآله وسلّم، یدعو به فی الصلاة دعاء دائما، فظن أنه من القرآن، وأقام على ظنه، ومخالفة الصحابة

اور اسی  طرح ابی بن کعب گئے اس طرف کہ دیکھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں دعا قنوت نماز میں دائمی پڑھتے تو وہ سمجھے یہ قرآن میں سے ہے اور ان کا یہ ظن برقرار رہا اور صحابہ نے اس ظن کی مخالفت کی

طرفہ تماشہ ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عثمان رضی الله عنہ نے قرآن میں سے ان سورتوں کو نکال دیا دوسری طرف بنو امیہ کے خلیفہ عبد الملک کے دور تک کہا جاتا ہے کہ ان کو پڑھا جا رہا تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مغالطہ نو مسلموں کوہوا جن کو جمع القران کی جزیات تک کا علم نہ تھا

الله ہم کو ایمان پر قائم رکھے امین

5 thoughts on “قرآن یقینا محفوظ ہے ٢

  1. Islamic-Belief Post author

    سوره الاحزاب کے حوالے سے اس روایت کی سند ہے
    حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْهَيْثَمِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَتْ سُورَةُ الْأَحْزَابِ

    اس میں ابن لھیعہ ہے جو سخت ضعیف اور مجروح ہے

    Reply
  2. Aysha butt

    Kya phli ilhami kitabein mukamml tor pr badli ya un k maani o mafhoom ko badla gya islie unko tehreef shuda kha jata hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ان میں بعض مقام صحیح حالت میں معلوم ہوتے ہیں اور بعض تبدیل شدہ ہیں

      Reply
  3. wajahat

    کیا یہ حوالے صحیح ہیں – مجھے یہ نہیں ملے

    ابو القاسم بغوی (متوفی317ہج) کہ اسکو «محيی السنہ» کے نام سے بھی ياد کیا جاتا ہے، اس نے اس بارے میں لکھا ہے کہ

    و سأل رجل أحمد و أنا أسمع ، بلغني أن نصاري يكتبون المصاحف فهل يكون ذلك ؟ قال : نعم ، نصاري الحيرة كانوا يكتبون المصاحف . و إنما كانوا يكتبونها لقلّة من كان يكتبها۔

    ایک بندے نے احمد سے پوچھا کہ: میں نے سنا ہے کہ نصاری بھی قرآن کو لکھا کرتے تھے، کیا یہ بات صحیح ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ: ہاں، حیرہ کے رہنے والے نصاری قرآن کو لکھا کرتے تھے، اس لیے کہ پڑھے لکھے مسلمان کم تھے۔

    البغوی ، أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز ، جزء فی مسائل عن الإمام أحمد بن حنبل ، ج 1 ، ص 21
    ابن قيم الجوزيہ (متوفی 751ہج) نے کتاب بدائع الفوائد میں اور شمس الدين زركشی (متوفی772ہج) نے کتاب مختصر الخرقی کی شرح میں لکھا ہے کہ

    و قال رجل لأحمد بلغني أن نصاري يكتبون المصاحف فهل يكون ذلك؟ قال: نعم، نصاري الحيرة كانوا يكتبون المصاحف و إنما كانوا يكتبون لقلة من كان يكتبها فقال رجل: يعجبك ذلك؟ فقال لا يعجبنی

    ایک بندے نے احمد سے پوچھا کہ: میں نے سنا ہے کہ نصاری بھی قرآن کو لکھا کرتے تھے، کیا یہ بات صحیح ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ: ہاں، حیرہ کے رہنے والے نصاری قرآن کو لکھا کرتے تھے، اس لیے کہ پڑھے لکھے مسلمان کم تھے۔
    ایک دوسرے شخص نے پوچھا کہ: کیا تم نے اس جواب سے تعجب کیا ہے ؟ اس نے کہا: نہیں

    الزرعی الدمشقی ، محمد بن أبی بكر أيوب أبو عبد الله (مشهور به ابن القيم الجوزية ) بدائع الفوائد ، ج 4 ، ص 851 ، تحقيق : هشام عبد العزيز عطا – عادل عبد الحميد العدوی – أشرف أحمد الج ، ناشر : مكتبة نزار مصطفی الباز – مكة المكرمة ، الطبعة : الأولی، 1416 – 1996

    الزركشی المصری الحنبلی ، شمس الدين أبی عبد الله محمد بن عبد الله ، شرح الزركشی علی مختصر الخرقی ، ج 1 ، ص 49 ، تحقيق : قدم له و وضع حواشيه: عبد المنعم خليل إبراهيم ، ناشر : دار الكتب العلمية – لبنان، بيروت ، الطبعة : الأولی ، 1423هـ – 2002م،

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حوالہ صحیح ہے – اپ پہلے بھی یہ سوال کر چکے ہیں

      جزء في مسائل عن أبي عبد الله أحمد بن حنبل المؤلف: أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز بن المَرْزُبان بن سابور بن شاهنشاه البغوي (المتوفى: 317هـ) تحقيق: أبي عبد الله محمود بن محمد الحداد
      الناشر: دار العاصمة، الرياض
      الطبعة: الأولى، 1407 هـ

      وَقَالَ: وَسَأَلَ رَجُلٌ أَحْمَدَ وَأَنَا أَسْمَعُ: بَلَغَنِي أَنَّ نَصَارَى يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ فَهَلْ يَكُونُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ نَصَارَى الْحَيْرَةِ كَانُوا يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ، وَإِنَّمَا كَانُوا يَكْتُبُونَهَا لِقِلَّةِ مَنْ كَانَ يَكْتُبُهَا.
      فَقَالَ رَجُلٌ: يُعْجِبُكَ ذَلِكَ؟ ! قَالَ: لا مَا يُعْجِبُنِي.

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *