اسلامی تاریخ کو قلم بند کرنے کا سلسلہ محمد بن اسحاق اور ان کے معاصرین نے بنو عباس کے دور میں کیا – اس سے قبل تاریخ کو قلم بند کرنے کا کام اس قدر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا – ابن اسحاق کے شاگرد ابن ھشام نے سیرت نبوی پر پہلی تالیف ابن اسحاق کی روایات پر ہی مرتب کی – ابن اسحاق یہود و نصرانییوں کے لئے اپنی کتاب کو دلچسپ بنانا چاہتے تھے لہذا بہت سی نصرانی روایات کو اپنی کتاب میں شامل کر دیا مثلا نسطوری راہب سے منسوب بحيرا کے قصوں کو اپنی کتاب میں شامل کر دیا
دوسری طرف بنو عباس کے دور میں شیعہ ، روافض، خوارج سب اپنے اپنے حساب سے سیاسی روایات بھی بیان کر رہے تھے اور محدثین بلا تہذیب ان کو مسانید میں جمع کر رہے تھے – بعض کتب تاریخ کو محدثین نے جلا بھی دیا یا وہ معدوم ہو گئیں – تاریخ کی کتب کو جلا کر یا چھپا کر تاریخ کو نہیں بدلا جا سکتا
واقدی نے امام احمد کے دور میں اپنی کتب مرتب کیں اور واقدی کے شاگرد ابن سعد نے طبقات کو مرتب کیا – اسی دور میں محدث ابن ابی شیبہ نے کتاب المصنف ابن ابی شیبہ میں جنگ جمل و جنگ صفین کے حوالے سے ضعیف روایات کو جمع کیا (ان روایات پر اس کتاب میں تحقیق کی گئی ہے) – ابن ابی شیبہ کے بعد امام احمد نے اپنی مسند میں ضعیف روایات کی بھر مار جمع کی ہے – یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ امام احمد نے واقدی سے مسند میں روایت نہیں کیا ہے لیکن مسند احمد اور واقدی کی کتب میں روایات کا متن ایک ہے – امام احمد نے اور طرقوں سے وہی متن بہم پہنچایا ہے جو واقدی کی کتابوں میں تھا – محدثین کا طریقہ کار تھا کہ ضعیف یا کذاب راوی کی روایت بھی لکھی جاتیں تھیں جس کو اعتبار کہا جاتا تھا – اعتبار محدثین کی اصطلاح ہے کہ ضعیف و کذاب راوی یا غیر معتبر راوی کی روایات کو لکھا جائے تا وقتہ کہ ان کا شاہد بہتر سند سے مل جائے – مسند احمد میں اسی منہج پر کام چل رہا تھا یہاں تک امام احمد کے بعد ان کے بیٹے عبد الله نے یہ کام جاری رکھا اور ان کے بعد أبو بكرٍ القَطِيعيُّ نے یہ کام کیا
تیسری صدی کے بیچ میں امام بخاری و مسلم نے اپنی اپنی کتب صحیح پیش کیں – بہت سی احادیث جو متقدمین محدثین کے نزدیک ضعیف یا کم درجے کے راویوں سے تھیں وہ اس طرح صحیح کے درجے پر پہنچا دی گئیں جن سے اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان روایات کا ایک دلدل سا بنا گیا اس میں حدیث کساء، حدیث مباہلہ، حدیث عمار کا قتل شامل ہیں جن کو محدثین رد کر چکے تھے یا کر رہے تھے
چوتھی صدی میں ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ نے اپنی کتب کی تالیف کی – ابن حبان نے لا تعداد مجہول راویوں کو کتاب الثقات میں شامل کر دیا- اس طرح روایت ک کی تصحیح کے حوالے سے اہل سنت کے موقف میں تبدیلی آ گئی اور جو روایات پہلے ردی کی ٹوکری میں تھی اب وہ نکال نکال کر مسجدوں کے منبروں پر خطبوں میں بیان ہونے لگیں- اس طرح لا تعداد مجہولین ایک آن میں درجہ ثقاہت پر پہنچ گئے- کتاب الثقات میں مجہولین کے حوالے سے ابن حبان کا نقطۂ نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی ثقہ کسی مجہول سے روایت کر دے تو وہ اس مہجول الحال و مجہول العین کو ثقہ کے درجہ پر لے جاتے تھے اور سر کا تاج بناتے تھے
اسی دوران ابن جریر طبری المتوفی ٣١٠ ہجری نے اپنی کتاب التاریخ مرتب کی- طبری نے اس میں ہر قسم کا مواد جمع کر دیا گیا – اس طرح یہ کتاب تاریخ کے حوالے سے تمام فرقوں کے لئے مصدر کی حیثیت اختیار کر گئی-
پانچویں صدی کے محدث امام حاکم المتوفی ٤٠٥ ھ نے کتاب المدخل میں بہت سے راویوں پر جرح کی لیکن پھر کسی مرض تغیر کا شکار ہوئے اور صحیحین پر اپنا استدراک امت کو پیش کیا – اس میں جا بجا ٹھوکریں کھائی اور بہت سی روایات کو صحیح قرار دے دیا جو بخاری و مسلم کی شرط پر نہیں تھیں- چھٹی صدی میں اس کے بعد ابن جوزی المتوفی ٥٩٧ ھ آئے جو احادیث کے معاملے میں متشدد متصور کیے گئے – ان کی کتاب الموضوعات بہت مشہور ہوئی – لیکن اپنی تاریخ کی کتاب المنتظم اور ذم یزید میں سخت رجعت قہقری کا مظاہرہ کیا اور حق یہ ہے حق ادا نہ ہوا –اس دور میں حنابلہ بغداد دو حصوں میں بٹ چکے تھے – ایک امیر یزید کی تعریف کرتا ایک شدید تنقیص کرتا – ابن جوزی گروپ بندی کا شکار ہوئے اور تاریخ میں صحیح و سقم کو انہوں نے الگ نہ کیا جس کی اس وقت شدید ضرورت تھی –
ساتویں صدی میں ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) نے حدیث خلافت تیس سال رہے گی کو رد کیا لیکن ان کی سنی نہ گئی
آٹھویں صدی میں الذھبی ہوں یا ابن کثیر دونوں نے اپنی کتب تاریخ میں ضعیف روایات سے دلیل لے کر ان کو مکدر کر دیا – اگرچہ انہوں نے بعض روایات پر جرح کی بھی کی اور بعض کے انقطاع کا ذکر کیا – فتووں میں رہی سہی کسر امام ابن تیمیہ و ابن قیم نے پوری کر دی کہ ان روایات کو صحیح قرار دے دیا جو سخت ضعیف تھیں مثلا حرہ میں قبر نبوی سے اذان کی آواز آنا- ساتھ ہی معاویہ رضی الله عنہ کو بادشاہ قرار دے دیا
مورخین مثلا الذھبی یا ابن کثیر وغیرہ ان مورخین میں سے ہیں جنہوں نے پہلے سے تصورات قائم کر کے تاریخ کو رقم کیا ہے – تاریخ کو اس طرح پرکھنے اور پڑھنے کا رواج اب دنیا میں معدوم ہو چلا ہے – لہذا اس کو جدید غیر جانب دار خطوط پر استوار کرنا از بس ضرروری ہے – پہلے سے چند تصورات قائم کر کے ان کے تحت روایات کی شرح کرتے رہنا جدید تاریخ بینی میں اب معدوم بات ہے –
غیر جانب داری کا عنصر بر قرار رکھنا تبھی ممکن ہے جب متن پر تنقیدی انداز اختیار کیا جائے جس کو Criticism Textual کہتے ہیں –دوسری طرف ہمارے عصر حاضر کے روایتی علماء کو نہ تو تواریخ عالم کا علم ہے نہ ادیان عالم پر کوئی سنجیدہ کام انہوں نے کیا ہے بلکہ صرف متقدمین کی کتابوں کا سرقه کیا ہے – ان کا کام بس یہ ہوتا ہے کہ پارینہ آراء کو برقرار رکھا جائے اور ہر چیز پر ان کرم فرماؤں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب روایات جمع بھی کر رکھی ہیں – روایات کی صرف جرح و تعدیل کرنے والے علماء کا یہ گمان ہے کہ اگر راوی ثقہ ہوں اور سند متصل ہو تو جو بھی کہا گیا وہ آٹو میٹک صحیح ہو جاتا ہے – اس فکر و منہج سے جو تضاد جنم لیتا ہے اس کی جھلک اپ مسند احمد کی تحقیقات میں دیکھ سکتے ہیں جس میں ہر قسم کا رطب و یابس بھرا ہے – عصر حاضر کے عرب محققین دکتور شعیب الأرنؤوط ، دکتور احمد شاکر اور ناصر الدین البانی نے مسند احمد کی بعض تاریخی روایات کو صحیح کہا ہے لیکن جب ہم ان عرب محققین کی ان آراء کا تقابل صحیح بخاری سے کرتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایک ہی سانس میں مسند کی روایات کو بھی صحیح گردان رہے ہوتے ہیں اور صحیح بخاری کو بھی قبول کرتے ہیں جبکہ دونوں کا متن ایک دوسرے کی تغلیظ کر رہا ہوتا ہے- ان محققین کی آراء کو قبول کرنے سے خود صحیح بخاری کی روایات ہی مشکوک ہو جاتی ہیں – لہذا صرف راوی کو دیکھ کر یا کسی پرانے عالم کی رائے کو دیکھ کر حدیث کو صحیح قرار دے دینا اور متن پر کوئی تحقیق نہ کرنا ایک بے کار و عبث مشقت ہے- یہ فکری تضاد راقم کی اس کتاب کو پڑھ کر عیاں ہو جائے گا – اپ کو بس کیمپ بدل کر دیکھنا ہو گا کہ راوی کس کیمپ میں ہے اور کیا روایت کر رہا ہے-
صحیح خطوط پر تحقیق کی ضرورت آج جس قدر ہے پہلے نہیں تھی – اس کی وجہ مشرق وسطی کا بدلتا نقشہ ہے جہاں شیعہ سنی کی بنیاد پر تفریق گہری ہوتی جا آ رہی ہے – انٹرنیٹ کی بدولت وہ تاریخی روایات جو شام غریباں میں ہی سننے کو ملتی تھیں یار دوست ذکر کرتے تھے اور لوگ بھول جاتے تھے اب ہر وقت نظروں کے سامنے لائی جا رہی ہیں – آج امام مہدی کو کوئی مدینہ میں تو کوئی عراق میں ڈھونڈ رہا ہے – کوئی خلافت قائم کرنے جا رہا ہے جبکہ قریشی النسل ہونے کا سرٹیفکیٹ کسی کے پاس نہیں – کوئی بیان کر رہا ہے کہ حجر اسود کوفہ منتقل کیا جائے گا- عوام تو عوام علماء بھی مغالطوں کا شکار ہیں – ان مغالطوں کی پیداوار اصل میں روایات ہیں جن کو حدیث رسول سمجھ کر مستقبل کی پیشنگوئی قرار دے دیا گیا تھا اور دلائل النبوه میں لکھ دیا گیا تھا –
اب ازراہ مثال کچھ مغالطوں کا ذکر کرتے ہیں
.
.
.
بہر کیف تاریخ کا مطالعہ نہ کرنے اور صرف روایات کی تصحیح کرتے رہنے سے جو مغالطے جنم لے رہے ہیں ان کی ایک جھلک اپ کو دکھائی گئی ہے –
الغرض صحیح تاریخ کے حوالے سے جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا یہاں تک کہ مصر سے سن ٢٠٠٩ ع میں ١٣ جلدوں میں صحيح وضعيف تاريخ الطبري ، محمد بن طاهر البرزنجي – محمد صبحي حسن حلاق کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے – یعنی ١٣ صدیوں بعد مسلمانوں نے تاریخ کے اس ضخیم مصدر کی تہذیب و تحقیق کی ہے –
ان تمام روایات کو نہ صرف بطور تاریخ پڑھنا بلکہ ان کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے اور اس کتاب کا مدعا یہی ہے-
الغرض خلافت حاصل کرنے اور اس کو قائم رکھنے کی کی مسلمانوں کی کاوش کو سمجھا جانا ضروری ہے – یہ ضروری ہے کہ تاریخی روایات چاہے وہ صحیح بخاری و مسلم میں ہی کیوں نہ ہوں ان کو صرف مذھب سمجھ کر نہ پڑھا جائے بلکہ اس میں راوی کے رجحانات کا تعین کیا جائے اور اس کی مستقبل بینی یا پیش بندی کو دیکھا جائے جو وہ حدیث رسول کے پردے میں بیان کر رہا ہے – اس کی وجہ ہے کہ لوگوں نے رسول الله پر جھوٹ تک باندھا ہے اور احتمال ممکن ہے ہم کو ان کے کذب کی خبر نہ پہنچی ہو- اس میں یہ بھی ممکن ہے حدیث صحیح ہو لیکن راوی خود اس کے فہم پر مغالطہ میں ہو ، یہ بھی سکتا ہے کہ راوی سامعین و
مغالطہ جان بوجھ کر دیے رہا ہو – اس قسم کے احتمالات و امکانات موجود ہیں- قارئیں سے درخواست ہے کہ اغلاط کی نشاندہی کریں اور اگر کسی مسئلہ میں وہ زاویہ نگاہ الگ رکھتے ہیں تو آگاہ کریں کیونکہ تحقیق کا باب کھلا رکھنا چاہیے –
یہ کتاب نہ ہوتی اگر اسلامک بلیف ویب سائٹ پر قارئین سوال نہ کرتے – یہ کتاب اصلا ان سوالات کا جواب ہیں جو ملک اعوان صاحب، وجاہت صاحب، لولی آل ٹائم ، انعم شوکت صاحبہ، جواد صاحب، عائشہ بٹ صاحبہ نے گزشتہ سالوں میں کیے ہیں – راقم اس حوالے سے ان سب کا شکر گزار ہے
اب ہم کتاب کا آغاز کرتے ہیں
ابو شہر یار
٢٠١٨
Sir apne kha k khilafat 30 saal wali hadith ik ravi ki wajh se zaef hai jab k usi ravi ki dosri hadith jis mn us ne kha us mn khilafat o malokiat o badshahat ko rehmat kha hai kya yeh riwayt b zaef hai agr sahih hai to q .mn wahn apki behs samjh nai saki
Jazak Allah for this book
دونوں ضعیف ہیں
ان دونوں میں تضاد ہے ایک میں ہر قسم کی خلافت رحمت ہے اور دوسری میں صرف ٣٠ سال
اس پر میں نے اس کا تضاد دکھایا ہے
======ص ٧٢ ===
البانی ایک طرف تو اس روایت کو صحیح کہتے ہیں جس میں بھنبوڑنے والی بادشاہت کا ذکر ہے دوسری طرف
فطر کی روایت کو جید کہہ کر اس کو الله کی رحمت بھی کہتے ہیں یہ مثال ہے کہ علxء کا ضعیف احادیث کو
زیادہ دیکھنا صحیح نہیں کیونکہ ان کو خود اپنی تضاد بیانی کا یاد نہیں رہتا
=============
Ap ne kha waqia harra wale topic mn likga k kaaba ibne zubair k wafat pr jala or hir likha usne tameer kiya .. Kya makkah pr hamla 2 bar hoa .. Phli baar toh ibne zubair ne tameer kia dosri baar jab inki wafat pr jala to phir kis ne tameer kiyA
مکہ پر حملہ ایک بار ہوا اس میں کعبہ جلا اور ابن زبیر کا قتل ہوا
———
کعبہ اسی دور میں دو بار منہدم ہوا
ایک بار ابن زبیر نے خود کیا اس کو زمین سے ملا دیا پھر ایک تعمیر کی جو ان کے بقول رسول الله نے امت سے چھپا دی
تھی
جب ابن زبیر کا قتل ہو گیا اور کعبہ جل گیا تو پھر تعمیر کی گئی اور واپس ویسا کیا گیا جیسا رسول الله نے امت پر چھوڑا تھا
اس طرح دو بار اس دور میں بنا
میری امت کا ایک گروہ قیامت تک قتال کرتا رھے گا___
اس حدیث کے بارے وضاحت فرمائے ؟
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2018/06/بلا-عنوان.pdf
اس کتاب میں اس قسم کی روایات پر صفحہ ٤١ سے بحث کی گئی ہے
Ap ne ik shah wali Allah ka qol naql kia tha k sabit nai k yazeed nehussain r.a ko marne ka hukm dia bahawala de sakty hai
کس صفحہ پر لکھا ہے ؟
Muje yad nai … Ap k ilm mn hai to bta feim
میں عموما صوفیوں کے اقوال نقل نہیں کرتا اور شاہ ولی اللہ کا مجھے اس قسم کا کوئی حوالہ یاد نہیں ہے
السلام و علیکم و رحمت الله
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
ويح عمار، تقتله الفئة الباغية، يدعوهم إلى الجنة، ويدعونه إلى النار
اے عمار تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا- تم ان کو جنت کی طرف بلاؤ گے اور وہ تم کو آگ کی طرف
صحیح بخاری کی اس روایت کی اسنادی و تاریخی اہمیت اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کی بحث سے قطع نظر-ایک اور بحث بھی اس زمن میں زیر نظر رہی ہے
“صحیح بخاری کی اس روایت کے بارے صحیح بات یہ ہے کہ امام بخاری نے یہ الفاظ ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا” اپنی صحیح بخاری میں درج نہیں کیے تھے، یہ صحیح بخاری میں راویوں کا ادراج اور اضافہ ہے۔
ابو مسعود الدمشقی متوفی 401ھ نے اپنی کتاب ’’اطراف الصحیحین‘‘ میں کہا ہے کہ یہ الفاظ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، امام بخاری نے نقل نہیں کیے ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ متوفی 458ھ اپنی کتاب دلائل النبوہ میں کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اس روایت کو ’تقتله الفئة الباغية‘‘ کے الفاظ کے بغیر نقل کیا ہے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ متوفی 488ھ نے اپنی کتاب ’’الجمع بین الصحیحین‘‘ میں کہا ہے کہ یہ الفاظ امام بخاری نے صحیح بخاری میں درج نہیں کیے تھے، یا اگر کیے بھی تھے تو انہیں حذف کر دیا تھا۔ ابن الاثیر الجزری متوفی 606ھ کہتے ہیں کہ میں نے صحیح بخاری کے ایک نسخے میں، وہ بھی متن میں نہیں بلکہ حواشی میں یہ الفاظ دیکھے ہیں جبکہ بقیہ نسخوں میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ امام مزی متوفی 742ھ اپنی کتاب تحفہ الاشراف میں اور امام ذہبی متوفی 748ھ اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں کہتے ہیں کہ یہ الفاظ صحیح بخاری کی روایت میں نہیں ہیں- صحیح بخاری کے اصل نسخوں میں ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، کے الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح بخاری کے شارح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ صحیح بخاری میں ادراج یعنی اضافہ ہے اور امام بخاری نے انہیں صحیح بخاری میں درج کرنے کے بعد نکال دیا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس حدیث کے راوی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے خود کہا تھا کہ انہوں نے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنے جبکہ بقیہ روایت سنی ہے
آپ اس بارے میں کیا کہیں گے ؟؟
وعلیکم السلام
یہ چیز میرے علم میں نہیں تھی
حمیدی (المتوفى: 488هـ) نے صحیحین کے متن کو ملا کر اس پر کتاب لکھی ہے جس کا نام الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم
ہے
اس میں جو متن لکھا ہے اس میں قتل کا ذکر نہیں ہے
حمیدی کے دور میں صحیح بخاری میں الفاظ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، موجود نہیں تھے
السَّادِس عشر: عَن عِكْرِمَة من رِوَايَة خَالِد الْحذاء عَنهُ: قَالَ لي ابْن عَبَّاس ولابنه عليٍّ: انْطَلقَا إِلَى أبي سعيد فاسمعا من حَدِيثه. فَانْطَلَقْنَا، فَإِذا هُوَ فِي حائطٍ يصلحه، فَأخذ رِدَاءَهُ فاحتبى، ثمَّ أنشأ يحدثنا حَتَّى أَتَى على ذكر بِنَاء الْمَسْجِد فَقَالَ: كُنَّا نحمل لبنةً لبنةً، وعمارٌ لبنتين لبنتين، فَرَآهُ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فَجعل ينفض التُّرَاب عَنهُ وَيَقُول: ” وَيْح عمارٍ، يَدعُوهُم إِلَى الْجنَّة ويدعونه إِلَى النَّار ” قَالَ: يَقُول عمار: أعوذ بِاللَّه من الْفِتَن.
———
حمیدی نے کہا
فِي هَذَا الحَدِيث زِيَادَة مَشْهُورَة لم يذكرهَا البُخَارِيّ أصلا فِي طريقي هَذَا الحَدِيث، ولعلها لم تقع إِلَيْهِ فيهمَا، أَو وَقعت فحذفها لغرضٍ قَصده فِي ذَلِك
اس حدیث میں ایک مشہور ذیادت ہے جس کو اصل میں بخاری نے اس طرق پر نہیں لکھا ہے اور ہو سکتا ہے وہ ان تک اس طرق سے نہ پہنچا ہو یا آیا تو انہوں نے حذف کیا
پھر تائید میں لکھا ہے
قَالَ أَبُو مَسْعُود الدِّمَشْقِي من كِتَابه: لم يذكر البُخَارِيّ هَذِه الزِّيَادَة، وَهِي فِي حَدِيث عبد الْعَزِيز بن الْمُخْتَار، وخَالِد بن عبد الله الوَاسِطِيّ، وَيزِيد بن زُرَيْع، ومحبوب بن الْحسن، وَشعْبَة، كلهم عَن خَالِد الْحذاء. وَرَوَاهُ إِسْحَاق بن عبد الْوَهَّاب هَكَذَا. وَأما حَدِيث عبد الْوَهَّاب الَّذِي أخرجه البُخَارِيّ دون هَذِه الزِّيَادَة فَلم يَقع إِلَيْنَا من غير حَدِيث البُخَارِيّ. هَذَا آخر معنى مَا قَالَه أَبُو مَسْعُود.
ابو مسعود دمشقی نے اپنی کتاب میں کہا امام بخاری نے اس ذیادت کا ذکر نہیں کیا جس کو عبد الْعَزِيز بن الْمُخْتَار، وخَالِد بن عبد الله الوَاسِطِيّ، وَيزِيد بن زُرَيْع، ومحبوب بن الْحسن، وَشعْبَة، ان سب نے
خَالِد الْحذاء سے روایت کیا تھا – بلکہ اس کو عبد الْوَهَّاب کی سند سے تخریج کی اس زیادت کے بغیر
———–
راقم نے اس کی سند دیکھی
٤٤٨
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ يُصْلِحُهُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَاحْتَبَى، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى أَتَى ذِكْرُ بِنَاءِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: يَقُولُ عَمَّارٌ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الفِتَنِ
یہ عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ کی سند سے ہے
٢٨١٢
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ لَهُ وَلِعَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ائْتِيَا أَبَا سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَأَتَيْنَاهُ وَهُوَ وَأَخُوهُ فِي حَائِطٍ لَهُمَا يَسْقِيَانِهِ، فَلَمَّا رَآنَا جَاءَ، فَاحْتَبَى وَجَلَسَ، فَقَالَ: كُنَّا نَنْقُلُ لَبِنَ المَسْجِدِ لَبِنَةً لَبِنَةً، وَكَانَ عَمَّارٌ يَنْقُلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَمَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسَحَ عَنْ رَأْسِهِ الغُبَارَ، وَقَالَ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، عَمَّارٌ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ
یہاں عبد الوہاب کی سند سے ہے تو اس میں الفاظ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، موجود ہیں
یہ روایت دو مقام پر صحیح میں ہے ٤٤٧ اور ٢٨١٢ پر اور دونوں میں الفاظ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، موجود ہیں
اس سے معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کے نسخوں میں بعد میں ان الفاظ کو واپس ڈالا گیا ہے جو ابن السكن وكريمة کی سند سے تھے
———
وممن نفى هذه الزيادة المزي في « تحفة الإشراف » (3/427) قال: وليس فيه « تقتل عماراً الفئة الباغية » وأثبتها جمع من أهل العلم فذكر الحافظ ابن حجر في « الفتح » (1/646) أنها وقعت في رواية ابن السكن وكريمة وغيرهما وفي نسخة الصغاني التي ذكر أنه قابلها على نسخة الفربري.
—–
ابن حجر نے کہا
قال الحافظ ابن حجر في « الفتح » (1/646): « ويظهر لي أن البخاري حذفها عمداً وذلك لنكتة خفية، وهي أن أبا سعيد الخدري أعترف أنه لم يسمع هذه الزيادة من النبي، فدل على أنها في هذه الرواية مدرجة، والرواية التي بينت ذلك ليست على شرط البخاري وقد أخرجها البزار من طريق داود بن أبي هند عن أبي نضرة عن أبي سعيد فذكر الحديث في بناء المسجد وحملهم لبنة لبنة وفيه فقال أبو سعيد فحدثني أصحابي ولم أسمعه من رسول الله أنه قال: « يا ابن سمية تقتلك الفئة الباغية » وبن سمية هو عمار وسمية أسم أمه، وهذا الإسناد على شرط مسلم وقد عين أبو سعيد من حدثه بذلك ففي مسلم والنسائي من طريق أبي سلمة عن أبي نضرة عن أبي سعيد قال حدثني من هو خير مني أبو قتادة فذكره فاقتصر البخاري على دون غيره وهذا دال على دقة فهمه وتبحره في الإطلاع على علل الأحاديث
ظاہر ہے بخاری نے ان الفاظ کو عمدا حذف کیا اور اس میں ایک مخفی نکتہ ہے وہ یہ کہ ابو سعید نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اس حدیث کو نبی علیہ السلام سے نہیں سنا پس یہ دلالت کرتا ہے کہ روایت میں یہ الفاظ مدرج تھے
جزاک الله
لیکن پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ صحیح بخاری کے کن نسخوں پراعتبار کیا جائے؟؟ – اسطرح تو بخاری کی کسی بھی روایت کا بارے میں یہ ابہام پیدا ہو سکتا ہے کہ ان میں بعض الفاظ حذف ہوے ہیں یا بعض روایات میں امام بخاری نے عمداً الفاظ کا اضافہ کیا ہے وغیرہ ؟؟
علامہ شبیراحمد ازہرمیرٹھی نے اسی کو بنیاد بنا کر بخاری پر کتاب لکھی “صحیح بخاری کا مطالعہ: بخاری کی کچھ کمزور احادیث کی تحقیق و تنقید”-
حدیث عمار یاسر پر انہوں نے صفہ ١٠٢ پر اعتراض کیا ہے
https://www.scribd.com/document/125498232/Sahih-Bukhari-Ka-Mutala?ad_group=xxc1xx&campaign=VigLink&medium=affiliate&source=hp_affiliate
آپ نے حمیدی (المتوفى: 488هـ) کی جس روایت کا حوالہ دیا ہے
عَن عِكْرِمَة من رِوَايَة خَالِد الْحذاء عَنهُ: قَالَ لي ابْن عَبَّاس ولابنه عليٍّ: انْطَلقَا إِلَى أبي سعيد فاسمعا من حَدِيثه. فَانْطَلَقْنَا، فَإِذا هُوَ فِي حائطٍ يصلحه، فَأخذ رِدَاءَهُ فاحتبى، ثمَّ أنشأ يحدثنا حَتَّى أَتَى على ذكر بِنَاء الْمَسْجِد فَقَالَ: كُنَّا نحمل لبنةً لبنةً، وعمارٌ لبنتين لبنتين
اس کا ذکر شبیراحمد ازہرمیرٹھی نے اپنی مذکورہ کتاب میں صفہ ١٠٤ اور ١٠٥ پر کیا لیکن ان کے نزدیک یہ روایت مرسل ہے ؟؟ -ان کے نزدیک خَالِد الْحذاء نے نہ یہ روایت حسن سے سنی نہ حسن کے بھائی سعید سے
علامہ شبیراحمد میرٹھی کے مطابق بخاری کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ – (لَبِنَةً) کچی اینٹ کو کہتے ہیں جب کہ مسجد نبوی کی تعمیر پہاڑی پتھروں سے ہوئی تھی ؟؟
یعنی بخاری کی حدیث عمار میں کئی علتیں ہیں ؟؟
میرے نزدیک تو یہ سرے ہی منکر ہے
اور بخاری سے سو سال پہلے ہی لوگ اس کو رد کر رہے تھے
انسانی کاوش میں غلطی ممکن ہے یہ نسخہ انسانوں کے ہی مرتب کردہ ہیں
السلام و علیکم رحمت الله
انساب الاشراف ابو الحسن احمد بن یحٰیی بن جابر بن داؤد البلازری میں کیا کوئی ایسی روایت موجود ہے کہ جس میں ہے کہ
حسن رضی الله عنہ نے اپنے باپ علی رضی الله عنہ کو کوفہ جانے یا کوفہ کو ریاست کا دار الخلافہ بنانے سے منع کیا تھا – اور جب علی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں متعدد فتنے نمودار ہوے (یعنی جمل، صفین ، نہروان، خوارج وغیرہ کے فتنے) – تو لوگوں نے دیکھا کہ علی اپنے بیٹے حسن کے پیچھے چھپ رہے ہیں- شرمندگی کی بنا پر ؟؟
روایت کا متن درکار ہے
شکریہ
وعلیکم السلام
میں نے ڈھونڈھنے کی کوشش کی لیکن ہنوز اس متن کی روایت نہیں ملی