امام ابن تیمیہ، امام ابن الجوزی (حنبلی)، امام غزالی، شاہ ولی الله محدث دہلوی ، امام اشعری وغیرہ نے “علم کلام” پر اپنے اپنے منفرد نظریات پیش کیے ہیں- آپ کی اس سے متعلق کیا رائے ہے ؟؟
اس موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ بھی ملا ہے- جو کسی حافظ محمّد اشرف صاحب نے “امام ابن تیمیہ اورعلم کلام” کے عنوان سے کافی تفصیلاً لکھا ہے- لنک یہاں ہے – جب بھی آپ کے پاس وقت ہو اس کا مطالعہ کیجئے اور پھر اپنے نظریات ہوسکے تو پیش کریں
ابھی مذکورہ تحقیق میرے زیر مطالعہ ہے- جب مکمل ہوگی تو اس پر کچھ کہہ سکوں گا – موازنہ کے طور پراس موضوع سے متعلق آپ کا یہ تھریڈ بھی میرے زیر مطالعہ رہے گا
وعلیکم السلام
آپ کو اس میں بے شمار مختلف اقوال ملیں گے جو ہاہم مخالف ہوں گے کیونکہ اس میں آج کل سب جھوٹ بول رہے ہیں
آپ کا سوال اہم ہے – اب جو میں جواب دوں گا وہ میری تحقیق ہے – لہذا یہ ذہن میں رکھتے ہوئے اس کو پڑھیں
——————–
سوال
علم الکلام کس علم کو کہتے ہیں ؟؟
جواب
علم کلام کا مطلب اللہ تعالی کے ناموں پر بحث ہے اس کی ذات سے متعلق جو قرآن و حدیث میں آیا ہے اس کو کیسے سمجھا جائے اس پر بحث ہے
—————
متکلمین کون تھے؟؟
جواب
تکنیکی طور تو متکلم وہ سب ہیں جو عقائد میں بحث کر رہے ہوں
محدثین ہوں یا معتزلہ ہوں یا بدعتی فرقوں والے ہوں یہ سب متکلم تعریفا بنتے ہیں لیکن چوتھی صدی کے امام اشعری نے اس پر باقاعدہ بحث کی اور
اب متکلم وہ کہلاتے ہیں جو اسماء و صفات کی تاویل کرتے ہیں
یہ متکلم اصل میں اہل کتاب سے بحث کرتے تھے لیکن بعد میں مسلمان اپس میں ہی بحث کرنے لگے
اہل سنت کے اس میں کئی گروہ ہوئے
مفوضہ- صفات کے الفاظ کی تاویل نہ کرنے والے اور ان کا مطلب جاننے کا بھی انکار کرنے والے
اس میں امام مالک پیش پیش ہیں جو کہتے عرش معلوم ہے لیکن اللہ کی اس پر استوی کی کیفیت سے لا علم ہیں
امام مالک . معاذ کی موت پر عرش کے ہلنے یا صحیح بخاری کی رحمان کی صورت والی روایات کی روایت کرنے سے منع کرتے تھے
میری رائے آیات صفات پر مفوضہ والی ہے
دوسرا گروہ مجسمیہ ہیں جو جعد بن درہم سے منسوب ہے
اس میں حنابلہ کے ایک گروہ کے مطابق امام احمد ہیں اور ان کے بیٹے ہیں
ان کے مطابق ان کا رب جسم ہے جو چلتا ہے – ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر جاتا ہے
بھاگتا بھی ہے – اور اس کے دانت تک ان کے نزدیک ثابت ہیں
اس گروہ کے نزدیک ہر وہ چیز جو صفت پر آئی ہے اس کی تاویل نہیں کی جائے گی اس کو ظاہر پر جیسا آیا لیا جائے گا
یہ عقیدہ اہل حدیث اور وہابیوں کا ہے اس گروہ نے اپنا نام سلفی رکھا ہوا ہے کہ یہ مجسمیہ کا عقیدہ سلف سے ملا ہے
تیسرا گروہ محدثین و متکلمین غیر مجسمیہ کا ہے
اس میں وہ محدثین ہیں جو صفات میں تاویل کرتے ہیں مثلا امام ترمذی اور امام بخاری
حنابلہ کے ایک گروہ کے مطابق امام احمد بھی انہی میں سے تھے
اس گروہ میں حنبلی ابن جوزی بھی ہیں
امام اشعری بھی اسی گروہ میں سے ہیں
امام ابن حجر اور نووی بھی اسی گروہ کے ہیں
میرے نزدیک احادیث صفات کی تاویل کی جائے گی
چوتھا گروہ جھم بن صفوان یا جھمی عقائد والوں کا ہے جن کا ایک نام صوفی بھی ہے
یہ اپنے رب کو کائنات میں ہر مقام پر مانتے ہیں
ان کے نزدیک اللہ کا عرش تمام کائنات میں پھیلا ہوا ہے
کرسی والی آیت اس کی دلیل ہے
ان کا رب ایک انرجی یا نور کی مانند ہے
اس میں تمام صوفیاء شامل ہیں چاہے کسی بھی فقہی مسلک کے ہوں
آجکل یہ دیو بندی اور بریلوی ہیں
یہ بحث کا اسٹارٹ امام اشعری سے کرتے ہیں لیکن یہ جاتے جھم بن صفوان کے مذھب کی طرف ہیں
————
میری رائے مفوضہ اورموولہ کا مکسچر ہے
آیات قرآن میں مفوضه والی
اور احادیث پر موولہ والی
اور بعض مقام پر ابن حزم جیسی
————–
سوال
امام ابن تیمیہ، امام ابن الجوزی (حنبلی)، امام غزالی، شاہ ولی الله محدث دہلوی ، امام اشعری وغیرہ نے “علم کلام” پر اپنے اپنے منفرد نظریات پیش کیے ہیں- آپ کی اس سے متعلق کیا رائے ہے ؟؟
جواب
امام اشعری چوتھی صدی کے ہیں اسماء و صفات میں تاویل کے قائل ہیں
امام ابن تیمیہ آٹھویں صدی کے ہیں حنبلی ہیں عقیدے میں مجسمیہ حشویہ ہیں اسماء و صفات کی تاویل کو رد کرتے ہیں
امام ابن جوزی پانچویں صدی کے ہیں حنبلی ہیں لیکن مجسمیہ حشویہ کے بد ترین مخالف ہیں -میں ابن جوزی کو اس مسئلہ میں حق پر سمجھتا ہوں
امام غزالی چھٹی صدی کے ہیں عقیدے میں جھمی صوفی ہیں
شاہ ولی اللہ جھمی صوفی ہیں
جھمی صوفی کا مطلب ہے کہ وہ اپنے رب کو تمام کائنات میں موجود سمجھتے ہوں
—————
جب آپ اہل حدیث دیو بندی یا بریلوی فرقوں کی کتب یا ابن تیمیہ کی کتب دیکھیں تو یہ معتزلہ کو بحث میں لے اتے ہیں
اس طرح خلط مبحث کرتے ہیں جبکہ بحث اہل سنت کے فرقوں می اپس میں ہو رہی ہوتی ہے
اسی طرح تو دی پائنٹ جواب نہیں دیتے مشکل جملے اور اصطلاحات ڈال کر بحث کو الجھاتے ہیں
پھر یہ سب امام مالک کو اپنی اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں
لیکن یہ سب فرقے امام مالک کے خلاف کہتے ہیں
امام بخاری اگر صحیح میں تاویل کریں تو صالح المنجد کا کہنا ہے کہ یہ قول کسی عرب نحوی کا تھا
امام ترمذی تاویل کریں تو ابن تیمیہ کہتا ہے ترمذی کا قول جھمی فلسفیوں جیسا ہے
اس طرح یہ ان اماموں کا رد کر کے اپنے اپنے موقف پر آ جاتے ہیں
آپ نقطۂ نظر اور دوسرے فرقوں کے نقطۂ نظر سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم الکلام کافی پیچیدہ ہے یا بنا دیا گیا
آپ کے مذکرہ نظریات سے متعلق بحث اس کتاب میں بھی موجود ہے- خاص کر صفحہ ٩٠ سے آگے ابن تیمیہ کی موقف کی تفصیلات اور ان کا برخلاف ابن
جوزی اور غزالی وغیرہ کے موقف کا موازنہ موجود ہے- اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علم کلام کی وجہ سے فرقے در فرقے بنتے گئے – یہاں تک کہ حنبلیوں میں بھی گروہ بن گئے- مذکورہ کتاب کے مطابق اشعریوں اور ماتریدیوں میں بھی اس علم میں باہم اختلاف رونما ہوا
السلام عليكم
آپ کے جماعت کا توحید اسماء وصفات کےبارے میں کیا عقیدہ ہے
و علیکم السلام
ہم اس میں اشعریہ ہیں یعنی آیات صفات کی تاویل کرتے ہیں
السلام علیکم و رحمت الله و برکاتہ
کچھ سوالات کے مختصر جوابات درکار ہیں
علم الکلام کس علم کو کہتے ہیں ؟؟
متکلمین کون تھے؟؟
امام ابن تیمیہ، امام ابن الجوزی (حنبلی)، امام غزالی، شاہ ولی الله محدث دہلوی ، امام اشعری وغیرہ نے “علم کلام” پر اپنے اپنے منفرد نظریات پیش کیے ہیں- آپ کی اس سے متعلق کیا رائے ہے ؟؟
اس موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ بھی ملا ہے- جو کسی حافظ محمّد اشرف صاحب نے “امام ابن تیمیہ اورعلم کلام” کے عنوان سے کافی تفصیلاً لکھا ہے- لنک یہاں ہے – جب بھی آپ کے پاس وقت ہو اس کا مطالعہ کیجئے اور پھر اپنے نظریات ہوسکے تو پیش کریں
https://archive.org/details/IbnTaimiyahAurIlmEKalaamByMd.Shareef
ابھی مذکورہ تحقیق میرے زیر مطالعہ ہے- جب مکمل ہوگی تو اس پر کچھ کہہ سکوں گا – موازنہ کے طور پراس موضوع سے متعلق آپ کا یہ تھریڈ بھی میرے زیر مطالعہ رہے گا
https://www.islamic-belief.net/%D9%83%D8%AA%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%88%D8%AD%D9%8A%D8%AF-%D9%88-%D8%A3%D9%84%D8%A3%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B3%D9%86%D9%8A/
جزاک الله
وعلیکم السلام
آپ کو اس میں بے شمار مختلف اقوال ملیں گے جو ہاہم مخالف ہوں گے کیونکہ اس میں آج کل سب جھوٹ بول رہے ہیں
آپ کا سوال اہم ہے – اب جو میں جواب دوں گا وہ میری تحقیق ہے – لہذا یہ ذہن میں رکھتے ہوئے اس کو پڑھیں
——————–
سوال
علم الکلام کس علم کو کہتے ہیں ؟؟
جواب
علم کلام کا مطلب اللہ تعالی کے ناموں پر بحث ہے اس کی ذات سے متعلق جو قرآن و حدیث میں آیا ہے اس کو کیسے سمجھا جائے اس پر بحث ہے
—————
متکلمین کون تھے؟؟
جواب
تکنیکی طور تو متکلم وہ سب ہیں جو عقائد میں بحث کر رہے ہوں
محدثین ہوں یا معتزلہ ہوں یا بدعتی فرقوں والے ہوں یہ سب متکلم تعریفا بنتے ہیں لیکن چوتھی صدی کے امام اشعری نے اس پر باقاعدہ بحث کی اور
اب متکلم وہ کہلاتے ہیں جو اسماء و صفات کی تاویل کرتے ہیں
یہ متکلم اصل میں اہل کتاب سے بحث کرتے تھے لیکن بعد میں مسلمان اپس میں ہی بحث کرنے لگے
اہل سنت کے اس میں کئی گروہ ہوئے
مفوضہ- صفات کے الفاظ کی تاویل نہ کرنے والے اور ان کا مطلب جاننے کا بھی انکار کرنے والے
اس میں امام مالک پیش پیش ہیں جو کہتے عرش معلوم ہے لیکن اللہ کی اس پر استوی کی کیفیت سے لا علم ہیں
امام مالک . معاذ کی موت پر عرش کے ہلنے یا صحیح بخاری کی رحمان کی صورت والی روایات کی روایت کرنے سے منع کرتے تھے
میری رائے آیات صفات پر مفوضہ والی ہے
دوسرا گروہ مجسمیہ ہیں جو جعد بن درہم سے منسوب ہے
اس میں حنابلہ کے ایک گروہ کے مطابق امام احمد ہیں اور ان کے بیٹے ہیں
ان کے مطابق ان کا رب جسم ہے جو چلتا ہے – ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر جاتا ہے
بھاگتا بھی ہے – اور اس کے دانت تک ان کے نزدیک ثابت ہیں
اس گروہ کے نزدیک ہر وہ چیز جو صفت پر آئی ہے اس کی تاویل نہیں کی جائے گی اس کو ظاہر پر جیسا آیا لیا جائے گا
یہ عقیدہ اہل حدیث اور وہابیوں کا ہے اس گروہ نے اپنا نام سلفی رکھا ہوا ہے کہ یہ مجسمیہ کا عقیدہ سلف سے ملا ہے
تیسرا گروہ محدثین و متکلمین غیر مجسمیہ کا ہے
اس میں وہ محدثین ہیں جو صفات میں تاویل کرتے ہیں مثلا امام ترمذی اور امام بخاری
حنابلہ کے ایک گروہ کے مطابق امام احمد بھی انہی میں سے تھے
اس گروہ میں حنبلی ابن جوزی بھی ہیں
امام اشعری بھی اسی گروہ میں سے ہیں
امام ابن حجر اور نووی بھی اسی گروہ کے ہیں
میرے نزدیک احادیث صفات کی تاویل کی جائے گی
چوتھا گروہ جھم بن صفوان یا جھمی عقائد والوں کا ہے جن کا ایک نام صوفی بھی ہے
یہ اپنے رب کو کائنات میں ہر مقام پر مانتے ہیں
ان کے نزدیک اللہ کا عرش تمام کائنات میں پھیلا ہوا ہے
کرسی والی آیت اس کی دلیل ہے
ان کا رب ایک انرجی یا نور کی مانند ہے
اس میں تمام صوفیاء شامل ہیں چاہے کسی بھی فقہی مسلک کے ہوں
آجکل یہ دیو بندی اور بریلوی ہیں
یہ بحث کا اسٹارٹ امام اشعری سے کرتے ہیں لیکن یہ جاتے جھم بن صفوان کے مذھب کی طرف ہیں
————
میری رائے مفوضہ اورموولہ کا مکسچر ہے
آیات قرآن میں مفوضه والی
اور احادیث پر موولہ والی
اور بعض مقام پر ابن حزم جیسی
————–
سوال
امام ابن تیمیہ، امام ابن الجوزی (حنبلی)، امام غزالی، شاہ ولی الله محدث دہلوی ، امام اشعری وغیرہ نے “علم کلام” پر اپنے اپنے منفرد نظریات پیش کیے ہیں- آپ کی اس سے متعلق کیا رائے ہے ؟؟
جواب
امام اشعری چوتھی صدی کے ہیں اسماء و صفات میں تاویل کے قائل ہیں
امام ابن تیمیہ آٹھویں صدی کے ہیں حنبلی ہیں عقیدے میں مجسمیہ حشویہ ہیں اسماء و صفات کی تاویل کو رد کرتے ہیں
امام ابن جوزی پانچویں صدی کے ہیں حنبلی ہیں لیکن مجسمیہ حشویہ کے بد ترین مخالف ہیں -میں ابن جوزی کو اس مسئلہ میں حق پر سمجھتا ہوں
امام غزالی چھٹی صدی کے ہیں عقیدے میں جھمی صوفی ہیں
شاہ ولی اللہ جھمی صوفی ہیں
جھمی صوفی کا مطلب ہے کہ وہ اپنے رب کو تمام کائنات میں موجود سمجھتے ہوں
—————
جب آپ اہل حدیث دیو بندی یا بریلوی فرقوں کی کتب یا ابن تیمیہ کی کتب دیکھیں تو یہ معتزلہ کو بحث میں لے اتے ہیں
اس طرح خلط مبحث کرتے ہیں جبکہ بحث اہل سنت کے فرقوں می اپس میں ہو رہی ہوتی ہے
اسی طرح تو دی پائنٹ جواب نہیں دیتے مشکل جملے اور اصطلاحات ڈال کر بحث کو الجھاتے ہیں
پھر یہ سب امام مالک کو اپنی اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں
لیکن یہ سب فرقے امام مالک کے خلاف کہتے ہیں
امام بخاری اگر صحیح میں تاویل کریں تو صالح المنجد کا کہنا ہے کہ یہ قول کسی عرب نحوی کا تھا
امام ترمذی تاویل کریں تو ابن تیمیہ کہتا ہے ترمذی کا قول جھمی فلسفیوں جیسا ہے
اس طرح یہ ان اماموں کا رد کر کے اپنے اپنے موقف پر آ جاتے ہیں
جزاک الله
آپ نقطۂ نظر اور دوسرے فرقوں کے نقطۂ نظر سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم الکلام کافی پیچیدہ ہے یا بنا دیا گیا
آپ کے مذکرہ نظریات سے متعلق بحث اس کتاب میں بھی موجود ہے- خاص کر صفحہ ٩٠ سے آگے ابن تیمیہ کی موقف کی تفصیلات اور ان کا برخلاف ابن
جوزی اور غزالی وغیرہ کے موقف کا موازنہ موجود ہے- اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علم کلام کی وجہ سے فرقے در فرقے بنتے گئے – یہاں تک کہ حنبلیوں میں بھی گروہ بن گئے- مذکورہ کتاب کے مطابق اشعریوں اور ماتریدیوں میں بھی اس علم میں باہم اختلاف رونما ہوا