جنگ بدر کے اختتام پر اپ صلی الله علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی لاشیں ایک کنواں میں ڈلوا دیں اور تیسرے روز اپ اس قلیب یا کنواں کی منڈھیر پر آئے اور مشرکین مکہ کو نام بنام پکار کر کہا کہ
کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ سچا پایا؟
عمر رضی الله عنہ اور دیگر اصحاب نے کہا اپ گلے ہوئے جسموں سے خطاب کر رہے ہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس پر کہا یہ اس وقت سن رہے ہیں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی موقعہ پر ابن عمر رضی الله عنہ نے رائے پیش کی کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ تھا اس کی خبر عائشہ رضی الله عنہا کو ہوئی انہوں نے اس کی تاویل کی کہ یہ علم ہونا تھا کہ کفار نے حق جان لیا اور مردے نہیں سنتے
ابن رجب تفسیر میں لکھتے ہیں
قد وافقَ عائشةَ على نفي سماع الموتى كلامَ الأحياءِ طائفة من العلماءِ. ورجَّحَهُ القاضي أبو يعْلى من أصحابِنا، في كتابِ “الجامعِ الكبيرِ” له. واحتجّوا بما احتجتْ به عائشةُ – رضي الله عنها -، وأجابُوا عن حديثِ قليبِ بدرٍ بما أجابتْ به عائشة – رضي الله عنها – وبأنه يجوزُ أن يكونَ ذلك معجزةً مختصةً بالنبيِّ – صلى الله عليه وسلم –
علماء کا ایک گروہ عائشہ سے موافقت کرتا ہے مردوں کے سننے کی نفی پر جب زندہ ان سے کلام کریں – اور اسی کو راجح کیا ہے قاضی ابویعلی ہمارے اصحاب (حنابلہ) میں سے کتاب جامع الکبیر میں اور دلیل لی ہے جس سے عائشہ رضی الله عنہا نے دلیل لی ہے اور اس سے جائز ہے کہ یہ معجزہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر خاص تھا
آیت فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (52) کی تفسیر محاسن التأويل میں محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ) لکھتے ہیں
وقال ابن الهمام: أكثر مشايخنا على أن الميت لا يسمع استدلالا بهذه الآية ونحوها. ولذا لم يقولوا: بتلقين القبر. وقالوا: لو حلف لا يكلم فلانا، فكلمه ميتا لا يحنث. وأورد عليهم قوله صلّى الله عليه وسلّم في أهل القليب (ما أنتم بأسمع منهم) وأجيب تارة بأنه روي عن عائشة رضي الله عنهما أنها أنكرته. وأخرى بأنه من خصوصياته صلّى الله عليه وسلّم معجزة له. أو أنه تمثيل
ابن الھمام نے کہا: ہمارے اکثر مشایخ اس آیت سے اور اسی طرح کی دیگر آیات سے استدلال کر کے اس موقف پر ہیں کہ میت نہیں سنتی – اس وجہ سے وہ نہیں کہتے قبر پر تلقین کے لئے- اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی قسم لے کہ فلاں سے کلام نہ کرو گا پھر اس کی موت کے بعد کلام کر لیا تو قسم نہیں ٹوٹے گی- اور اس پر آیا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول ” تم سماع میں ان سے بڑھ کر نہیں” – اور جواب دیا جاتا ہے کہ روایت کیا گیا ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے اس سماع کا انکار کیا ہے اور دوسرا جواب ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے ان کے لئے معجزہ ہے یا ان کے لئے مثال ہے
کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) لکھتے ہیں
ثُمَّ قَالَ وَتَارَةً بِأَنَّ تِلْكَ خُصُوصِيَّةٌ لَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مُعْجِزَةٌ وَزِيَادَةُ حَسْرَةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ
پھر کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص ہے معجزہ ہے اور کافرین پر حسرت کی زیادتی ہے
معلوم ہوا کہ قلب بدر کے واقعہ کو علماء معجزہ کہتے آئے ہیں اسی چیز کا اعادہ البانی نے بھی کیا ہے کہ یہ معجزہ تھا
لیکن بعض علماء نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ مردہ ہر وقت سنتا ہے جب بھی کوئی اسکو پکارے مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم – اور عصر حاضر کے حیات فی القبر کے اقراری غیر مقلدین بھی تدفین کے فورا بعد مردے کے سماع کے قائل ہیں
معجزہ کی سادہ فہم تعریف لغت میں دیکھی جا سکتی ہے اس کے علاوہ اصول کی کتب میں بھی ہے – قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-
لیکن ایک صاحب جھنجھلا کر کہتے ہیں
معجزہ ۔۔ یا ۔۔ خرق عادۃ کی یہی تعریف کسی آیت ، یا حدیث شریف یا کسی صحابی سے ثابت کریں
بہت خوب یعنی مناظرہ بازی کے انچھر پھینکے جا رہے
دیکھتے ہیں معجزہ میں کیا اقوال ہیں ظاہر ہے یہ اصطلاح اصول و علم کلام کی ہے جو قرآن میں نہیں ہے نہ حدیث میں تو پھر ان لوگوں سے عارفانہ کلام کیوں ادا ہو رہا ہے
مجموعة الرسائل والمسائل میں ابن تيمية الحراني (المتوفى : 728هـ) لکھتے ہیں
وإن كان اسم المعجزة يعم كل خارق للعادة في اللغة وعرف الأئمة المتقدمين كالإمام أحمد بن حنبل وغيره – ويسمونها: الآيات – لكن كثير من المتأخرين يفرق في اللفظ بينهما، فيجعل المعجزة للنبي، والكرامة للولي. وجماعهما الأمر الخارق للعادة.
اور اگرچہ معجزہ کا اسم لغت میں عام طور سے خارق عادت کے لئے ہے اور ائمہ متقدمین جیسے امام احمد اور دیگر اس کو جانتے ہیں– اس کو نام دیا ہے آیات کا لیکن متاخرین میں سے اکثر نے ان الفاظ میں فرق کیا ہے تو معجزہ کو کیا نبی کے لئے اور کرامت کو کیا ولی کے لئے اور ان سب کو امر خارق عادت کیا
النبوات از ابن تیمیہ الدمشقي (المتوفى: 728هـ) کے مطابق
ليس في الكتاب والسنة لفظ المعجزة وخرق العادة وليس في الكتاب والسنة تعليق الحكم بهذا الوصف، بل ولا ذكر خرق العادة، ولا لفظ المعجز، وإنّما فيه آيات وبراهين
کتاب و سنت میں معجزہ یا خارق عادت کا لفظ ہی نہیں ہے نہ کتاب و سنت میں اس وصف پر کوئی حکم ہے نہ خرق عادت کا ذکر ہے نہ لفظ معجزہ کا بلکہ اس میں آیات و براہین ہیں
اس کے بعد ابن تیمیہ اپنی مختلف کتب میں معجزہ اور خارق عادت کے لفظ کے بجائے آیات اور براہین کے الفاظ بولنے پر زور دیتے ہیں اور اشاعرہ ، معتزلہ اور امام ابن حزم کے اقوال کا رد کرتے ہیں لب لباب یہ ہے
سلفي | المعتزلة وابن حزم و علماء ظاہر | اشاعرہ |
والشيخ رحمه الله يوضح أن خرق العادة وعدم المعارضة هذا من صفات المعجزة، ليس من حدودها.
فالآيات التي أعلم الله بها رسالة رسله، وصدّقهم، لا بُدّ أن تكون مختصةً بهم، مستلزمةً لصدقهم؛ فإنّ الإعلام والإخبار بأنّ هذا رسول، وتصديقه في قوله: إنّ الله أرسلني، لا يُتصوّر أن يوجد لغير رسول. __________
الآيات التي جعلها الله علامات: هي إعلامٌ بالفعل الذي قد يكون أقوى من القول، فلا يُتصوّر أن تكون آيات الرسل إلا دالّة على صدقهم، ومدلولها أنّهم صادقون، لا يجوز أن توجد بدون صدق الرسل البتة.
ابن تیمیہ کے نزدیک کرامات غیر نبی بھی خرق عادت ہیں جن کا صدور ممکن ہے اور ان کو آیات نہیں کہا گیا ہے
اس طرح کو انبیاء کرتے ہیں وہ آیات ہیں اور جو شعبدہ باز ساحر کرتے ہیں وہ معجزہ ہے |
لا يُثبتون النبوة إلا بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة.
انظر: شرح الأصول الخمسة للقاضي عبد الجبار المعتزلي ص 585-586. والمحلى لابن حزم 136. والدرة فيما يجب اعتقاده له أيضاً ص 194.
إن خرق العادة لا يكون إلا للأنبياء.
معتزلہ اور امام ابن حزم کے نزدیک جو خرق عادت بات انبیاء سے صدور ہو وو معجزہ ہے اور غیر نبی سے یہ ممکن نہیں لہذا کرامت کوئی چیز نہیں |
المعجزات عند الأشاعرة هي ما تعجز قدرات العباد عنها
إنّه إذا لم يقدر على الفعل، فلا بُدّ أن يكون عاجزاً، أو قادراً على ضدّه.
أور متأخروا الأشاعرة حذفوا القيد الذي وضعه المتقدمون ولهذا لما رأى المتأخرون ضعف هذا الفرق؛ كأبي المعالي ، والرازي ، والآمدي ، وغيرهم حذفوا هذا القيد
أور المعجزة عند الأشاعرة دعوى النبوة وعدم المعارضة وليست الآية بجنسها معجزة النبوات أز ابن تيميه
— فيُثبتون النبوة بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة، أو بطريق الضرورة، إلا أنّ طريق المعجزة عندهم هي أشهر الطرق. انظر: المواقف للإيجي ص 349، 356، 357. والإرشاد للجويني ص 331. والإنصاف للباقلاني ص 93. والبيان له ص 37-38. وجوزوا أن يأتي غير الأنبياء بمثل ما أتوا به ولو لم يدعوا النبوة، فسووا بين خوارق الأنبياء والأولياء والسحرة والكهان
متقدمین اشاعرہ کے نزدیک معجزہ وہ چیزیں ہیں جو صرف الله کی قدرت سے ممکن ہیں جو انسان نہ کر سکتا ہو
متاخرین کے نزدیک آیات معجزہ کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کا صدور نبی، غیر نبی دونوں سے ممکن ہے جس میں غیر نبی نبوت کا دعوی نہیں کرتا خوراق انبیاء اور خوارق اولیاء کا لفظ بولا گیا ہے
|
ابن تیمیہ کی اصطلاحی تعریف کو قبول کرتے ہوئے عصر حاضر کے وہابی علماء نے کہا ہے
منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ) قرانی لفظ الآية پر
لکھتے ہیں
لأن هذا التعبير القرآني والآية أبلغ من المعجزة لأن الآية معناها العلامة على صدق ما جاء به هذا الرسول، والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره، لكن التعبير بـ “الآية” أبلغ وأدق وهي التعبير القرآني فنسمي المعجزات بالآيات هذا هو الصواب.
یہ قرانی تعبیر ہے اور آیت کا لفظ معجزہ سے زیادہ مفھوم والا ہے کیونکہ آیت کا معنی علامت ہے اس سچ پر جو یہ رسول لایا ہے اور معجزہ کسی شعبدہ باز یا انسان کے ہاتھ پر ہوتا ہے جس میں اس کو دوسروں سے بڑھ کر قوت ہوتی ہے کہ دوسرے عجز کا شکار ہوتے ہیں لیکن آیت کی تعبیر ابلغ اور دقیق ہے اور یہ قرانی تعبیر ہے پس ہم معجزات کو آیات کہیں گے جو ٹھیک ہے
شرح العقيدة السفارينية – میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين لکھتے ہیں
المعجزات: جمع معجزة، وهي في التعريف أمر خارق للعادة يظهره الله سبحانه وتعالى على يد الرسول شهادة بصدقه، فهو يشهد بصدقه بالفعل وهو إظهار هذه المعجزة.
معجزات: جو معجزہ کی جمع ہے یہ تعریف ہے خرق عادت کام پر جو اللہ تعالی کرتے ہیں رسول کے ہاتھ پر سچ پر بطور شہادت کہ وہ سچائی کو دیکھتا ہے بالفعل اور یہ معجزہ کا اظہار ہے
اصلا ابن تیمیہ اور غیر مقلدین اس گروہ صوفیا میں سے ہیں جو غیر نبی کے ہاتھ پر کرامت مانتے ہیں اور اسی چیز کو اپنی کتابوں میں ابن تیمیہ معجزہ کہتے ہیں – لہذا یہ کھل کر نہیں کہنا چاہتے کہ معجزہ صرف الله کا فعل ہے نبی کے ہاتھ پر
ابن تیمیہ سے منسلک لوگوں کے تضادات دیکھیں
ابن تیمیہ کے نزدیک نبی کے ہاتھ پر جو فعل خرق عادت ہوا وہ معجزہ نہیں ہے- جو غیر نبی کرے وہ معجزہ ہے
منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)کہتے ہیں
والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره
اور معجزہ وہ ہے جو شعبدہ باز کے ہاتھ پر ہو
اور اہل حدیث مولانا عبد المجید سوہدری کہتے ہیں
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کرامات-اہل-حدیث.74916/
اہل حدیث
ترجمہ محمد جونا گڑھی
وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور جب آپ کوئی معجزه ان کے سامنے ﻇاہر نہیں کرتے تو وه لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزه کیوں نہ ﻻئے؟ آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں
7:203
وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو پھر کوئیمعجزه لے آؤ تو کرو اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راه راست پر جمع کر دیتا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے
6:35
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَمُنُّ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَعلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزه تمہیں ﻻ دکھائیں اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے
14:11
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کیے اور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزه اللہ کی اجازت کے بغیر ﻻ سکے پھر جس وقت اللہ کا حکم آئےگا حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس جگہ اہل باطل خسارے میں ره جائیں گے
40:78
یھاں یہ اہل حدیث عالم آیات کا ترجمہ معجزہ کرتے ہیں لیکن کچھ اہل حدیث معجزہ لفظ سے ہی الرجک ہیں
غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ قلیب بدر معجزہ تھا
لیکن یہی عالم بعد میں کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین پر جوتوں کی چاپ سنتے ہیں تو قلیب بدر معجزہ کیسے ہوا ؟
لہذا معجزہ کی تعریف بدلتے رہتے ہیں
جو لوگ معجزہ کی تعریف ہی بدلتے رهتے ہوں ان سے اب کیا توقع کی جائے کہ وہ معجزہ کو معمول بنا دیں گے اور معمول کو معجزہ
بقول حسرت
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
ایک بہن نے محدث فورم پر ایک سوال کیا تھا جو مجھے ابھی ابھی ملا ہے – میں ایک عام آدمی ہوں . دینی علم نارمل ہی ہے – محدث فورم پر میں علماء سے پوچھ رہا ہوں لیکن وہ کہ رہے ہیں کہ
کہاں کہاں دیکھتے پھریں گے؟؟؟
آپ انکی بات کرتے ہیں ذرا قادیانیوں کی ویبسائٹ دیکھیں، عیسائیوں کے کی دیکھیں، شیعوں وغیرہ سب کی دیکھیں. اتنے اچھے انداز میں دلائل دیں گے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے. اسی لۓ میرا مشورہ ہے کہ زیادہ ادھر ادھر نہ پھریں. اگر آپ دل کو مطمئن کرنا ہی چاہتے ہیں تو علماء حق کی کتابوں کا مطالعہ کیجۓ جو انکے رد میں لکھی گئ ہیں.
لنک
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%D9%86%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D8%B0%D8%A7%D8%A8-%D9%82%D8%A8%D8%B1.26386/page-10#post-267612
———–
اب آپ سے ہی سوال کر لیتا ہوں – میری اردو کی لکھی اتنی اچھی نہیں میں اس بہن کا سوال وہاں سے کاپی پیسٹ کرتا ہوں
ایک بہن نے اسی فورم پر ایک بہت خوبصورت جواب دیا ہے – مجھے ابھی ابھی ملا ہے –
کیا یہ بات بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہے کہ بدر کے کنوئیں کے کفار سے کلام کرنا معجزہ ہے
اور جب موسٰی نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔۔۔(البقرہ 60)
موسٰی سن بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں غالب با حکمت تو اپنی لاٹھی ڈال دے موسٰی نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کے گویا وہ ایک سانپ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔(النمل 10)
اور اپنا ہا تھ اپنے گریبان میں ڈال وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے۔۔۔۔(النمل 12)
جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا “اے چیونٹیوں اپنے گھروں میں گھس جاؤ ایسا نا ہو کہ بے خبری میں سلیمان اور اسکا لشکر تمہیں روند ڈالے، اسکی بات سے سلیمان مسکرا کر ہنس دیۓ۔۔۔۔۔۔۔۔(النمل18،19)
اور کہنے لگے لوگوں ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھایٔ گیٔ ہیں۔۔۔۔۔۔۔(النمل 16)
پس ہم نے ہوا کو ان کے ما تحت کر دیا وہ آپ کے حکم سے جہاں آپ چاہتے نرمی سے پہنچا دیا کرتی۔۔۔۔( ص 36)
اپنا پاؤں مارو یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے۔۔۔۔ (ص 42)
لیجیے یہ انبیاء کے معجزات تھے ان آیات میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ یہ سب معجزات ہیں تو کیا آپ ان معجزات کا انکار کر دیں گے؟؟؟؟
ایک سوال میرا سب سے ہے – ایک بہن نے اسی فورم پر ہی پوچھا ہوا ہے-
لنک
http://forum.mohaddis.com/threads/ح…اعِ-موتٰی-کے-منکر-تھے.9911/page-8#post-103048
حدیث مردے کے سننے کا بتاتی ہے اور بولنے کا بھی مگر مردے کا سننا ثابت کرنے پر تو بہت بحث کی جاتی اسکے بولنے پر کیوں نہیں؟؟؟
جی اپ کی بات سے ثابت ہو گیا جو راقم کہتا رہا ہے کہ ان کا ارتقاء جاری ہے
٢٠١٣ میں قلیب بدر معجزہ تھا ایک شیعہ کے رد میں سارے کہہ رہے تھے یہ معجزہ ہے کسی کی بھون پہ جوں نہ رینگی
اب آج ٢٠١٦ میں کہا جا رہا ہے معجزہ کیسے ؟ معجزہ کی تعریف کرو
اور اچھا ہوا یہ بحث چڑھ گئی اور ہم نے جب کتب دیکھیں تو پتا چلا یہ قبیل تو معجزہ کی تعریف ہی بدلتا رہا ہے
کبھی کچھ کبھی کچھ
معجزہ خالصتا متکلمین کی اصطلاح ہے جس کی تعریف کا بھی اختیار انہی کے پاس ہے کسی علم کلام کے انکاری ابن تیمیہ سے اس کی تعریف نہیں کرائی جا سکتی
بھائی آپ کیوں ترجمہ کی غلطیاں کرتے ہو . لوگوں کو گمراہ نہ کرو آپ نے ترجمہ کی یہ غلطیاں کی ہیں – توبہ کرو
لنک
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%D9%86%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D8%B0%D8%A7%D8%A8-%D9%82%D8%A8%D8%B1.26386/page-10#post-267650
اس میں ترجمہ کی کوئی غلطی نہیں کہ اس کو غلط بیانی کہا جائے
مثلا یہ جاہل کہتا ہے کہ اس کا ترجمہ غلط ہے
————-
وأجابُوا عن حديثِ قليبِ بدرٍ بما أجابتْ به عائشة – رضي الله عنها – وبأنه يجوزُ أن يكونَ ذلك معجزةً مختصةً بالنبيِّ – صلى الله عليه وسلم –
یہاں عربی کے سرخ رنگ میں الفاظ کا ترجمہ بالکل غلط اور مضحکہ خیز ہے، اتنی غلطی تو عربی پڑھنے والا چوتھے سال کا طالب علم بھی نہیں کرتا ۔
اور اس جہالت پر طرہ یہ کہ امام ابن رجبؒ جیسے عبقری کے علمی کلام پر طبع آزمائی کا شوق سوار ہے ،
——
اس احمق نے عبارت کو صحیح سے پڑھا بھی نہیں اور بکواس کرنے لگا اس میں رجب پر کیا تنقید کی گئی ہے
جو ترجمہ میں حصہ رہ گیا اس میں ہے کہ
قلیب بدر کا جواب دیا گیا ہے جو عائشہ رضی الله عنہا نے جواب دیا
یہ الفاظ ابن رجب نے بولے لیکن یہ اضافی تسلسل ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انہوں نے کہا کہ واحتجّوا بما احتجتْ به عائشةُ لوگوں نے دلیل لی جس سے عائشہ رضی الله عنہا نے دلیل لی اور جواب دیا جو عائشہ رضی الله عنہا نے دیا یہ تکرار ہے اس سے جو ترجمہ کیا گیا ہے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا
بے تکی باتیں کر کے یہ شخص علماء نے اوپر بد نما داغ ہے جس کو وہاں صرف اس لئے رکھا گیا ہے کہ بات میں الجھاؤ اور ترجمہ میں نقص نکال کر بحث کو تمسخر کی طرف موڑ دیا جائے
اور چند بندر اس پر لائیک اور متفق کے ریکاڈ دیتے رہیں اس طرح اس شخص کے تعلی اور کبر کی تسکین ہوتی ہو گی
اس قسم کے چھچھورے مولویوں کو راقم اپنی گلی میں بھی نہیں نے دیتا لہذا آئندہ اس قسم کی فضول باتیں یہاں مت بیان کیا کریں
ہمیں علم ہے کہ اپ سعودی عرب میں ہیں لہذا پاکستانی مولویوں سے عربی کی غلطیاں کیوں پوچھتے ہیں
ترجمہ کسی بھی عرب مولوی یا عرب سے کرا لیں- کیا ترجمانی غلط کی گئی ہے یا ایسا غلط ہے کہ مفھوم بدل جاتا ہے تو راقم اس کو دیکھے گا
خود بھی محنت کرنا سیکھیں اور عقل سے سمجھیں یہاں کی بات وہاں اور وہاں کی یہاں سے کوئی فائدہ نہیں
تقلید سے نکلیں
قلیب بدر کے واقعہ کا ”معجزہ“ ہونے کا ثبوت فراہم کر دیں۔
http://www.urdumajlis.net/threads/%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%B9-%D9%85%D9%88%D8%AA%DB%8C%D9%B0-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D9%85%D8%B1%D8%AF%DB%92-%D8%B3%D9%86%D8%AA%DB%92-%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%9F.5656/
قلیب بدر کا واقعہ خاص واقعہ ہے ، جس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مُردے ہر وقت سنتے ہیں اور ہر بات سنتے ہیں۔ اسی طرح یہ واقعہ اس پر بھی دلالت نہیں کرتا کہ دوسرے مُردے بھی سنتے ہیں
اپ نے جو لنک اہل حدیث کی ویب سائٹ سے بھیجا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ یہ خاص ہے یہ کیسے خاص ہے کس نے بتایا؟
اپ کے اس بلاگ کا کوئی جواب ابھی تک محدث فورم پر نہیں دیا گیا جبکہ اس پر جواب طلب کیا گیا ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%D9%86%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D8%B0%D8%A7%D8%A8-%D9%82%D8%A8%D8%B1.26386/page-12#post-267870
اپ کے خیال میں وہ جواب کیوں نہیں دے رہے؟
اصل میں دین کو پیشہ بنا لینے کے بعد ان دھندہ کرنے والے علماء کا حال احبار سے کم نہیں ہے یہ اس کا جواب نہیں دیں گے کیونکہ ابن تیمیہ جو ان کا قدیم صنم ہے وہ کہتا تھا کہ معجزہ غیر بنی کے لئے ہے اور قلیب بدر کو معجزہ نہیں ایک عموم مانتا تھا
اہل اصول کے ہاں مشھور ہے
لا مشاحۃ فی الاصطلاح
اصطلاح میں کوئی جھگڑا ( قباحت ) نہیں
یہ قاعدہ فقہاء اور اہل اصول کے ہاں معروف ہے
لیکن معجزہ میں مشاحۃ ہے کیوں آخر اس تعریف کو بدلنے کی ابن تیمیہ کو کیوں ضرورت پیش آئی؟
یہاں اس پر یہ غیر مقلدین پھنس گئے ہیں گلے کی چھچوندر کی طرح نہ اگل رہے ہیں نہ نگل رہے ہیں
غیر مقلدین قلیب بدر کو معجزہ کہتے ہیں سماع الموتی کا انکار کرتے ہیں لیکن جیسے ہی ابن تیمیہ کا نام اتا ہے زبان کنگ ہو جاتی ہے کہ گویا سماع الموتی میں سانپ سونگھ گیا ہو
اسی کو طاغوت پرستی کہتے ہیں اور یہ جہلاء کا ٹولہ اپنے اپ کو توحید کا علم بردار کہتا ہے
راقم کہتا ہے شرم سے چلو میں ڈوب مرو
سورۃ النمل
فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ (79) إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (80) وَمَا أَنْتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ (81)
ترجمہ۔ اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تحقیق تم نہیں سناتے مردوں کو اور نہیں سناتےبہروں کو جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلیں اور نہیں تم ہدایت کرنے والےاندھوں کو گمراہی کے بعد ،آپ صرف ان لوگوں کو سناتے ہو جو کہ ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں، پس وہ مسلمان ہیں۔
علامہ عمادالدین ابن کثیر لکھتے ہیں
انک لا تسمع الموتیٰ یعنی تم انہیں کوئی ایسی شے نہیں سنا سکتے جو انہیں نفع پہنچائے ، لہذا اسی طرح یہ کفار جو کہ مردوں کی طرح ہیں جن کے دلوں پر پردے ہیں اور جن کے کانوں میں کفر والا ثقل اور بھاری پن ہے، اسی لئے فرمایا ولا تسمع الصم الدعا اذا ولو مدبرین کیونکہ وہ سننا چاہتے ہی نہیں، انہوں نے دیدہ دانستہ اپنے آپ کو بہرہ بنا رکھا ہے، ان تسمع الا من یومن الخ یعنی آپ کی ہر بات کو وہ لوگ قبول کریں گے جن کے دلوں کے اندر نفع دینے والے حواس (کان اور آنکھیں) موجود ہیں اور وہ لوگ ایسی بصیرت کے مالک ہیں جو اللہ تعالیٰ اور جو کچھ اس کی طرف سے اس کے رسولوں کی زبانی معلوم ہوا ہے، اس کی اطاعت واتباع کے لئے آمادہ اور کمر بستہ ہیں۔
link
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AF%D9%81%D9%88%D9%86-%D9%85%D8%B1%D8%AF%DB%92-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%86%D8%AA%DB%92%DB%94.9896/page-5#post-268227
ابن کثیر سماع الموتی کے قائل ہیں – قرآن میں جب الله تعالی مثال دیتے ہیں تو وہ مثال سچی ہونی چاہیے ورنہ کلام کا عیب ہو جائے گا
الله نے کفار کی مثال مردوں سے دی اب ابن کثیر یا یہ لوگ کہتے ہیں مردہ سنتا ہے لیکن کافر نہیں سنتا
ابن کثیر اس عقیدہ میں گمراہ ہیں اور ان کی بات جھل ہے کہا ” تم انہیں کوئی ایسی شے نہیں سنا سکتے جو انہیں نفع پہنچائے” تو کیا ایسی بات سنا سکتے ہیں جس میں نقصان ہو؟
بحث سماع کی ہے بات اچھی یا بری ہے اس کی نہیں ہے
آلات سماع کان اور دماغ گوشت کے ہیں جو سڑ جاتے ہیں زمین کی سطح پر انسان میں سے کسی کا کان خراب ہو جائے تو وہ سن نہیں پاتا اور یہ لوگ کہہ رہے ہیں وہ زمین میں سنتا ہی رہتا ہے
اہل حدیث کہتے ہیں مردہ کو قیامت تک قبر میں عذاب ہو رہا ہے اور یہ مردہ جس کا کان نہیں چیخ مارتا ہے (گویا اس کا گلا اور پھیپھڑا ہے) جب وہ چیخ خود ہی نہیں سن سکے گا تو چیخ کیوں مارتا رہے گا
دیوبندی اور بریلوی کہتے ہیں مردہ ہر وقت سنتا ہے قبروں سے فیض لو ان مردوں سے بات کرو سنیں گے
قرآن کی مثال سے ظاہر ہے مردہ کو سنانا ممکن نہیں
آیت کی وضاحت کر دیں
إنك لا تسمع الموتى ولا تسمع الصم الدعاء إذا ولوا مدبرين} [27: 80]
کہا جاتا ہے
منکرین سماع موتیٰ کا دعویٰ یہ ہے کہ اموات اور اہل قبور نہیں سنتے ، تو قرآن کریم کی عبارت یوں ہونی چاہئے لا یسمع الموتیٰ یا لا یسمع من فی القبور ، لیکن قرآن کریم میں ان کا کہیں ذکر نہیں۔
یہ آیات کفار کے بارے میں ہیں ،انک لا تسمع الموتیٰ اور وماانت بمسمع من فی القبور میں کفارکو اموات اور اہل قبور کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے،کیونکہ وہ اپنے سنے ہوئے آیات اور احکامات نبویہ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے
اسی لئے فرمایا ولا تسمع الصم الدعا اذا ولو مدبرین کیونکہ وہ سننا چاہتے ہی نہیں، انہوں نے دیدہ دانستہ اپنے آپ کو بہرہ بنا رکھا ہے
سماع الموتی کے قائلین کے نزدیک آیت کا مطلب ہے کہ کفار سن سکتے ہیں لیکن دانستہ بہرے بنے ہوئے ہیں کہ گویا سن نہ رہے ہوں لہذا مردے بھی سن رہے ہوتے ہیں پس وہ جواب نہیں دیتے
اس کے قائل سلف میں ابن تیمیہ ابن کثیر ابن حجر وغیرہم ہیں
ہم سماع الموتی کے انکاری ہیں اور یہ بات امثال قرآن کی ہے کہ قرآن اگر کوئی مثال دے تو سچی ہو ورنہ کلام کا نقص ہو گا
آیت میں یہ نہیں ہے کہ مردے جواب نہیں دیتے آیت میں ہے کہ اپ نبی ان کو نہیں سنا سکتے لہذا مردے اور کفار ایک ہیں دونوں نہیں سنتے اسی طرح بہرا ہے جس کو پکارا جائے تو نہیں سنتا
إنك لا تسمع الموتى ولا تسمع الصم الدعاء إذا ولوا مدبرين
بے شک اپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جن وہ پلٹ کر جائیں
یہاں مردے کو کیا سنا سکتے ہیں کیا نہیں کوئی ذکر نہیں کیونکہ وہ عدم قابلیت کی بنا پر مطلقا نہیں سنتا جبکہ بہرے کے لئے پکار کا لفظ ہے کیونکہ ان میں بعض کچھ سن بھی لیتے ہیں
(وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ) [فاطر: 22]
اپ قبر والوں کو نہیں سنا سکتے
یعنی جو قبروں میں مدفون ہیں ان کو بھی نہیں سنا سکتے اور موتی جو قبروں سے اوپر ہیں ان کو بھی نہیں سنا سکتے
الله نے کہا
أَوَ مَن كَانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْنَاهُ
تو جو میت ہو اس کو ہم زندہ کریں گے
یعنی موت القوّة العاقلة کا زوال ہے مردوں میں تعقل نہیں ہوتا شعور نہیں ہوتا وہ سمجھ نہیں سکتے موت کا مطلب
: زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة.
نحو: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ
[الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله: إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى
المفردات في غريب القرآن از راغب اصفہانی
السلام عليكم!
جناب محدث فورم پرمیں نے ایک مضمون پڑھا ہے جس میں ابن تیمیہ اور ابن قیّم کے بارے ميں لکھا ہے کہ قران کی جس آیت سے مردوں کے سننے کی نفی ھوتی ھے قران کی اسی آیت سے ان دونوں حضرات نے مردوں کا سننا ثابت کیا ہے- اس
مضمون کا لنک آپ کو ارسال کئے دیتا ہوں آپ کا مختصر تبصرہ درکار ھے-
[منکرین عذاب قبر ! | Page 13 | محدث فورم [Mohaddis Forum]] is good,have a look at it! http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%D9%86%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D8%B0%D8%A7%D8%A8-%D9%82%D8%A8%D8%B1.26386/page-13
اصل میں آیت میں ہے کہ الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے
یہ آیت ان کفّار کے متلعق ہے جو دعوت توحید کو نہیں سن رہے لہذا ان کو مردوں سے تشبیہ دی گئی کہ گویا یہ مردے ہیں
الله کی قدرت سے کیسے انکار ہے لیکن اس کا نظم ہے کہ مردے نہیں سنتے اگر سن لیا تو یہ الله کی قدرت کا خاص نمونہ ہے یا عرف عام میں معجزہ ہے
اب حدیث میں الفاظ ہیں کہ مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے تو اس کو سماع الموتی کے قائلین عموم مانتے ہیں کہ یہ تمام مردے دفن ہونے پر سنتے ہیں لیکن لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ یہ استثنی ہے جبکہ یہ خاص نہیں بنتا استثنیٰ تو تب ہوتا جب قلیب بدر میں مردوں نے سنا
بحر الحال ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کا عقیدہ واضح اور معلوم ہے کہ مردہ نہیں سنتا جو سب کو پتا ہے
اہل حدیث حضرت جب ایک طرف قلیب بدر کے مردوں کا سننا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ مانتے ہیں اوریہ بھی کہتے ہیں کہ یہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے
لنک
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%82%D9%84%DB%8C%D8%A8-%D8%A8%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A8%DB%8C-%D8%B5%D9%84%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D9%88%D8%B3%D9%84%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D8%B3%D9%86%DB%8C.31326/
—
اس بات کے قائلین کے درج ذیل نام سعودی عرب کے ایک عالم احمد القصیر نے بتائے ہیں :
سیدنا انس ؓ کے شاگردجناب قتادة ، اور امام البيهقي (نقله عنه الحافظ ابن حجر ، في الفتح (7/324).) ،
علامہ المازري (المعلم بفوائد مسلم )،
علامہ ابن عطية ، علامہ ابن الجوزي (كشف المشكل (1/148) ،
علامہ ابن قدامة (المغني (7/352) ، (10/63) ،
علامہ السهيلي (الروض الأنف (***) .نقله عنه الحافظ ابن حجر في الفتح (7/354) ،
علامہ ابن الهمام (فتح القدير ، لابن الهمام (2/104 ) ،
والقاضي أبي يعلى (نقله عنه الحافظ ابن رجب ، في « أهوال القبور » ، ص (133 )،
والألباني .(مقدمة الألباني على كتاب « الآيات البينات في عدم سماع الأموات »
قال قتادة: « أحياهم الله حتى أسمعهم قوله ، توبيخاً وتصغيراً وَنَقِيمَةً وحسرة وندماً ».(أخرجه البخاري في صحيحه ، في كتاب المغازي ، حديث (3976 )
وقال ابن عطية:« فيشبه أن قصة بدر هي خرق عادة لمحمد صلى الله عليه وسلم ، في أن رد الله إليهم إدراكاً سمعوا به مقاله ، ولولا إخبار رسول الله صلى الله عليه وسلم بسماعهم لحملنا نداءه إياهم على معنى التوبيخ لمن بقي من الكفرة ، وعلى معنى شفاء صدور المؤمنين منهم ».(المحرر الوجيز (4/270 ، 436 )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ملتقى أهل الحديث
—–
اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ
لنک
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%82%D8%A8%D8%B1%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AF%D9%81%D9%88%D9%86-%D9%85%D8%B1%D8%AF%DB%92-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%86%D8%AA%DB%92%DB%94.9896/page-13#post-270772
کیا ان کو الله کا خوف نہیں
السلام علیکم بھائی
اہل حدیثوں کا ایک نیا موقف سامنے آیا ہے اب یہ لوگ جوتوں کی چاپ سننے کو معجزہ کہہ رہے ہیں
کہتے ہیں
واضح رہے کہ یہاں پر{ تسمع} فرمایا گیا ہے۔ یعنی ” آپ نہیں سنا سکتے ” ۔ تو اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ اگر سنانا چاہے تو سنا سکتا ہے کہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ جیسا کہ قلیب بدر میں حضور کا مردوں سے خطاب فرمانا یا قرع نعال والی حدیث وغیرہ سے ثابت ہے کہ یہ سب خرق عادت اور معجزے کے قبیل میں سے ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%D8%B1%D8%AF%DB%92-%D8%B3%D9%86%D8%AA%DB%92-%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%A2%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%81%D8%B3%DB%8C%D8%B1-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%AF%D9%84%D8%A7%D9%84%D8%8C%D8%AC%D9%88%D8%A7%D8%A8-%D8%AF%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%DB%81%DB%92.31741/#post-248970
معجزہ تو غیر انبیاء کے ساتھ ہوتا ہی نہیں – یہ تو انبیاء کی خصوصیت ہے
لہذا جوتوں کی چاپ سننے کو معجزہ قرار دینا انوکھی دریافت ہے
السلام عليكم :
ھر مُردے کو دفن کے بعد دفناکر جانے والوں کی جوتوں کی چاپ سننے والا ماننا، کیا یہ قرآن کا کفر ھے یا نہیں ۔…….؟؟؟؟؟؟
و علیکم السلام
کوئی بھی ایسا عقیدہ رکھنا جو قرآن کی آیات سے متصادم ہو کفر ہے
اس بنا پر ہر مردے کے سماع کا عقیدہ رکھنا کفر ہے
اللہ تعالی معجزہ انبیاء پر خلق کرتا ہے معجزے کا خالق اللہ تعالی ہے
تو معجزے کو مخلوق کھنے والا کافر کیسے ہوسکتا ہے؟ معجزے کے متعلق وضاحت کریں اگر معجزہ اللہ تعالی کا فعل معجزہ اللہ کی صفت مانی جائے تو اللہ کی صفت انبیاء کے ھاتھ پر ظاھر ہونا کیا شرک نہیں ہے؟
انبیاء کے ہاتھ پر کچھ ظاہر نہیں ہوتا – ہم اردو میں ان الفاظ کو بول دیتے ہیں لیکن قرآن میں حدیث میں یہ فلسفہ موجود نہیں ہے
معجزہ کی تعریف ہے کہ قانون قدرت سے الگ اتنا بڑا کام ہو جو انسانی عقل کو معلوم ہو کہ سوائے اللہ کے کوئی نہیں کر سکتا
اس کی خبر انبیاء کو دی گئی کہ ان سے عوام جب نشانی کا مطالبہ کرے گی تو من جانب اللہ قانون قدرت سے الگ ایک کمال ہو گا
اللہ تعالی معجزہ انبیاء پر تخلیق نہیں کرتا – الفاظ سے بچیں – یہ قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ اللہ تعالی معجزہ انبیاء پر تخلیق کرتا ہے ؟
اللہ تعالی نے تو بتایا کہ ایک معجزہ ہو گا اور انبیاء نے بس اس کی خبر کی
صحیح الفاظ ہوں گے کہ اللہ تعالی نے انبیاء کے لئے معجزہ یا آیت کو ظاہر کیا
اللہ امر کرتا ہے یعنی حکم کرتا ہے اور تخلیق کرتا ہے
قرآن میں آیت اللہ کو اللہ کے حکم کے تحت بتایا گیا ہے
ان کو مخلوق کے تحت نہیں بیان کیا گیا
معجزہ اللہ کے حکم سے ہے اس کی خلق میں سے نہیں ہے
اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے
ایک مرد عورت سے مل کر بچہ بناتا ہے کیا یہ اللہ کو مخلوق کو بنانے میں شریک ہے ؟ ظاہر ہے کہ نہیں کیونکہ یہ قانون قدرت ہے جب تک اس بچے میں روح نہ ہو تو تو زندگی نہیں ہوتی اور روح کا جسم میں آنا یا نکلنا اللہ کے خلق و امر کا حصہ ہے یعنی اللہ یہاں خلق بھی کر رہا ہوتا ہے اور حکم بھی کر رہا ہوتا ہے
اس میں انسان کا کوئی کمال نہیں ہے
لہذا معجزہ صرف خلق یا مخلوق نہیں ہے اس میں اللہ کا حکم شامل ہے اور جہاں حکم اللہ آ جائے اس کو اللہ کی جانب لیا جائے گا
اس طرح معجزہ مخلوق نہیں ہے حکم اللہ کے درجے میں بھی ہے
اور انبیاء اللہ کے حکم میں شریک نہیں ہیں
انسانوں کو حیرت میں ڈالنے کے لئے اللہ کا قانون قدرت سے کچھ الگ کرنا اس کو انبیا کا عمل نہیں کہا جا سکتا
تمام معجزے اللہ کا عمل ہیں نہ کہ انبیاء کے – انبیاء کا تعلق ان سے صرف یہ ہے کہ نبی نے اس کی خبر کی اور
جب معجزہ ہوا تو بھی کسی نبی نے اس کو اپنا ذاتی فعل نہیں کہا
اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالی نے معجزہ نبی کا ذاتی عمل بنا دیا تو یہ حکم اللہ میں شرک ہے
اسی لئے قرآن میں اذنی یعنی میرے حکم کے الفاظ ہیں یعنی ہم نے اس چیز کا قدرت کو حکم کر دیا کہ جب رسول اللہ عصا پھینکے تو وہ سانپ بن جائے
جب سلیمان ہوا کو بولے کہ رخ بدلو تو فرشتے اس ہوا کو رخ بدل دیں
جب عیسیٰ مردے کو بولیں کہ اللہ کے حکم سے جی اٹھ تو فرشتے اس کی روح اس جسم میں ڈال دیں
اس طرح قانون قدرت میں تبدیلی انبیاء نہیں کر رہے تھے بلکہ الله کے حکم سے زمین یا فرشتے یا دیگر مخلوقات کر رہی تھیں
مشرک اقوام کی پہلی گمراہی یہی ہوتی ہے کہ یہ اللہ کو خالق مانتے ہیں لیکن پھر کہتے ہیں اس نے اس شرک کا حکم دیا ہے اور اب یہ قوت تخلیق اللہ کی طرف سے انسان کو مل گئی ہے
یہاں انبیاء میں قوت معجزہ کی بات ہو رہی ہے کہ اللہ نے یہ قوت و صفت ان کو عطا کر دی – یہ سب کفریہ جھل و شرک ہے
جزاک اللہ ــ اصلاح کرنے کےلیئے بھت بھت شکریہ دراصل اس معاملے پر بھت ٹائم پھلے سعید سے بات ہوئی تو اس نے معجزے کو مخلوق قرار دیا تھا تب سے میرے ذھن میں یہی بات پک چکی تھی پھر سے اس معاملے پر ایک صاحب نے بات کی لیکن آپ نے بلکل درست وضاحت کی ہے سعید کی اس معاملے پر یوٹیوب پر تقریر بھی موجود ہے اس کو 17منٹ 20 سیکنڈ کے بعد سن لیں اور ایک چھوٹا سا تبصرہ بھی کردیں شکریہ
https://youtu.be/BaXojEvaSls?si=3S05tEsbtG62ACpj
و علیکم السلام
سعید نے کہا
2:40
الله اپنی صفت دیتا ہے تو اللہ صوفی میں حلول کرتا ہے
١٦:٢٨
اللہ اپنی صفت کسی کو نہیں دیتا – دینے کا طلب ہے کہ اس نے اپنا وجود دے دیا
تبصرہ
یہ کسی بھی تصوف کی کتاب میں نہیں ہے – صوفیا کے نزدیک تو اللہ مخلوق میں موجود ہے جس کو وحدت الوجود کہتے ہیں
اور اس میں تمام مخلوق شامل ہے – سعید لوگوں کی ذہن سازی کر رہا ہے کہ اگر ہم عقیدہ رکھیں کہ اللہ صفت مخلوق (عیسیٰ ) کو دیتا ہے تو اس قول کو قبول کرنے سے ہم مشرک نہ ہوں گے کیونکہ صوفیا کا مذھب ہمارے مذھب سے الگ ہے
سعید نے کہا
12:30
اللہ کی صفت کا مقابلہ مخلوق سے نہیں کیا جا سکتا
١٦:٠٠
اللہ کا سمیع و بصیر ہونا
تبصرہ
یہ ڈوج دے رہا ہے کیونکہ اللہ ایک انسان کی طرح سمیع و بصیر نہیں ہے
اللہ نے اپنے اپ کو
السمیع و البصیر
کہا ہے
اللہ نے اپنے اپ کو العلی بھی کہا ہے
اور علی ایک صحابی کا نام بھی ہے
لیکن ال عربی میں جب اتا ہے تو وہ اس کو باقی اسماء سے الگ کر دیتا ہے
سعید نے کہا
١٧:٠٠
حنیف نے لکھا کہ اللہ تعالی نے عیسیٰ کو صفت دی تو حنیف کو اس میں مغالطہ ہوا وہ معجزے کو اللہ کی صفت سمجھا
معجزے اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ اللہ خلق کرتا ہے
تبصرہ
معجزہ غیر اللہ کی صفت ممکن نہیں ہے
وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ
اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے
یعنی معجزہ صرف اللہ کے حکم سے ہی ممکن ہے
جو چیز صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں وہی اللہ کی صفت کہی جاتی ہے
اگر معجزہ اللہ کے حکم سے نہیں تو اس کا مطلب ہے معجزہ اللہ نے نہیں بلکہ انبیاء نے کیا اور انبیاء سے کہیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ سب کمالات ان کی کاوش سے ہوئے ہیں
سعید نے کہا
١٩:٠٠
معجزہ اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ کو اللہ کی صفت کہنا شرک ہے
معجزہ اللہ کی خلق ہیں
تبصرہ
معجزہ کا لفظ قرآن و حدیث میں نہیں ہے معجزہ کی تعریف ہے
اللہ کا ایسا فعل جو قانون قدرت سے الگ ہو اتنا بڑا ہو کہ انسانی عقل کو معلوم ہو کہ انسان کے بس میں نہیں ہے
اس کو معجزہ کہتے ہیں
سانپ کو لکڑی میں واپس بدلنا موسی کا عمل ہے یا یہ اللہ کا حکم ہے ؟ ظاہر ہے یہ اللہ کے حکم سے ہے
جب یہ عظیم بات حکم اللہ کی وجہ سے ہو تو اس کام کو مخلوق کا عمل نہ کہا جائے گا
اس کو اللہ تعالی کی نشانی کہا جائے گا
سعید نے کہا
١٩:٢٥
اللہ نے موسی کو نو نشانی عطا کیں
٢٩:٢٥
معجزہ اللہ کا فعل ہے اور فعل کیا ہے
اللہ کا امر
کن فیکون ہے
تبصرہ
سورہ الاسرا میں ہے
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ ءَايَٰتٍ بَيِّنَٰتٍۢ
ہم نے موسی کو نو نشانیاں دیں
عطا کا لفظ عربی کا ہے لیکن قرآن میں آیت اللہ دینے پر یہ نہیں آیا – عطا کا ترجمہ کر سکتے ہیں
ایسا دینا کہ اس پر مکمل کنٹرول اس شخص کا ہو جائے جس کو عطا ہوا
لیکن یہاں لفظ ءَاتَيْنَا ہے جس کو مطلب دینا ہے
لیکن یہ عطا کے مفہوم پر نہیں ہے
یہ
dedicate
کے مفہوم پر ہے
یعنی یہ نو نشان ال فرعون کے لئے ہیں ان کو دکھائے جائیں گے موسی کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
اور یہ بات ال فرعون کو بھی معلوم تھی وہ کہتے موسی اپنے رب سے دعا کر
یعنی قرآن میں واضح کیا گیا کہ موسی کا ان آیت پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
جو بھی تھا وہ اللہ کے حکم سے ہو رہا تھا
لہذا ان نو نشان کی اابتداء اللہ کے امر یعنی حکم سے ہوتا ہے
اللہ کا امر حکم ہے اور حکم کلام ہے
کلام الله مخلوق نہیں
اگر معجزہ اللہ کا امر ہے کن فیکون ہے تو یہ اللہ کا حکم ہے جو غیر مخلوق ہے
یہ تو بنیادی بحث ہے جو کام صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں کوئی حکم صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں
تو وہ غیر اللہ کی صفت نہیں ہے
بحث اس پر ہوئی چاہے کہ کس طرح ہوا ؟ تو ظاہر ہے معجزہ الله کے امر و حکم سے ہوا
اس کے نتیجے میں اگر کچھ نیا خلق ہوا تو وہ مخلوق ہے
مثلا موسی کا عصا سانپ بن گیا تو سانپ مخلوق ہے
لیکن سانپ معجزہ نہیں ہے – لاٹھی کا سانپ میں کے وجود میں بدلنا معجزہ ہے
یہی اللہ کی نشانی ہے کہ اس نے حکم دیا اور لکڑی ایک زندہ شی میں بدل گئی
اینڈ پروڈکٹ سانپ ہے لیکن ہم اینڈ پروڈکٹ کو نہیں دیکھ رہے ہم تو اس کمال کو معجزہ کہتے ہیں یا
process
کو معجزہ کہتے ہیں
اگر کوئی جاہل
process
کی بجائے
اینڈ پروڈکٹ
یعنی سانپ کو معجزہ کہے
تو اس سے سوال کیا جائے کہ سانپ تو انسان پالتے ہیں ہندو ان کو دودھ پلاتے ہیں
یہ ال فرعون کے پاس بھی ہوں گے
تو سانپ کو معجزہ کس نے کہا ہے
کوئی متکلم و محقق نہیں گزرا جس نے اینڈ میں ببنے والی مخلوق کو معجزہ کہا ہو
بعض اوقات معجزہ ہوا اور کوئی نئے چیز نہیں بنتی مثلا انسان مرا – عیسیٰ نے اللہ کے حکم سے زندہ کر دیا
اب اس کو عیسیٰ کا معجزہ اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ ان کی قوم کو اللہ کا یہ کمال و معجزہ و آیت دکھائی گئی
نہ کہ عیسیٰ کو قوت الاحیا الموتی مل گئی
جو بھی شخص معجزہ کو خلق کے تحت لے گا وہ گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی کرے گا
قرآن میں لفظ آیت بولا گیا ہے – متکلمین نے انسانوں کو سمجھانے معجزہ کا لفظ استعمال کیا ہے
یعنی عقل کو عجز یا کمزور کرنے والا اللہ کا فعل و حکم
اس میں اللہ خلق و حکم دونوں کرتا ہے
اللہ کے رسول صرف اس کی خبر کرتے ہیں کہ فلاں پہاڑ سے اوٹنی نکلے گی
یعنی چٹان ، گوشت و خون میں بدلے گی
اس میں پہاڑ کو حکم کیا جا رہا ہے گوشت میں بدلے
نتیجتا اینڈ پروڈکٹ اوٹنی نکلتی ہے
تبدیلی کا عمل ہے جو پہاڑ نے کیا
انسانی عقل عاجز ہو گی
اس process
کو ہم معجزہ کہہ رہے ہیں
قرآن اس کو آیت اللہ کہتا ہے
بس اتنا ہمارے لئے کافی ہے
سعید نے کہا
٢٩:٣٠
پورے قرآن میں معجزے کو کہیں نہیں لکھا کہ یہ اللہ کی صفت ہے
تبصرہ
صفت کا لفظ غیر قرانی غیر قریشی ہے
امام ابن حزم کے مطابق اس کا استعمال بھی حرام ہے
ہم کو اسماء اللہ کا بتایا گیا ہے اور جو کام صرف اللہ کرتا ہو وہی اس کا اسم ہے
قرآن میں ہے
قل إنما الآيات عند الله
سورہ الانعام
کہو آیات اللہ (معجزات)، اللہ کی طرف سے ہیں
جن باتوں کو نسبت صرف اللہ کی طرف ہو وہ اس کا اسم ہیں
اور یہ اللہ کے نام
القادر کے تحت ہے
کہ وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے
نبی یا مخلوق جو چاہتی نہیں کر سکتی ٠ ان کو حکم رب کا انتظار کرنا پڑتا ہے
لہذا یہ بے ٹکی تان کرنا کہ قرآن میں معجزہ کو صفت نہیں کھا گیا معنی چست؟ قرآن میں نہ تو صفت کا لفظ ہے
نہ معجزے کا لہذا ان دونوں کو ہٹا کر اگر سمجھیں تو یہ سب اسما الحسنی نے تحت سمجھنا ہو گا کہ اصل میں اللہ القادر ہے
وہ نبی کی قوم کو اپنی نشانی دکھاتا ہے
ایک چیز کو دوسری سے بدل کر
یا مردہ کو زندہ کر کے
وغیرہ
سعید نے کہا
٣٤:٠٠
پورے قرآن میں اللہ کے اذن کی definition
نہیں ہے
تو ہم کیسے اس پر بحث کریں گے ؟
تبصرہ
تو سعید کیوں معجزے پر بحث کر رہا ہے
جو ہے ہی اللہ کے اذن کے تحت ؟
سعید نے کہا
٣٩:٠٠
اللہ نے قرآن کو عربی زبان میں بنایا ہے
یعنی اللہ نے عربی میں قرآن تخلیق کیا ہے
اللہ نے اپنے کلام کو عربی میں کنورٹ کر کے نازل کیا
تبصرہ
بلا شبہ زبان مخلوق ہے
لیکن جب اللہ اس زبان میں کلام کرے تو وہ کلام، کلام اللہ ہے
اور مخلوق نہیں ہے
سعید کے مطابق قرآن مخلوق کی مد میں ہے
اب یہ ایک عظیم مسئلہ ہے امام بخاری نے اس پر مکمل کتاب لکھی
خلق افعال العباد
کہ قرآن کلام الله ہے غیر مخلوق ہے
اس کی تلاوت جو انسان یا نبی یا فرشتہ کرتا ہے وہ مخلوق ہے
جو تمام زبانوں کو جانتا ہے یعنی اللہ ، اس کو
convert
کرنے کی خبر سعید کو کس نے دی
یعنی اللہ نے کسی ایسی زبان میں کلام کیا جو صرف اس کو معلوم تھی پھر اس نے اس کو عربی میں
convert
کیا
یہ سب علم غیب کی بات ہے یہ قرآن و حدیث میں نہیں
میری سمجھ سے باہر ہے کہ علم غیب پر نکتہ سنجی سے کیا فائدہ ہے
سعید نے کہا
40:٠٠
اللہ نے اپنا کلام لوح محفوظ میں اتارا ہے
ہم تک جو کلام اللہ پہنچا وہ مخلوق ہے
اللہ اعبرانی نہیں بولتا
ہر نبی اپنی زبان بولتا تھا لیکن اللہ کوئی اور زبان میں کلام کرتا ہے
پھر ان کو
convert
کر کے
بیان کرتا ہے
تبصرہ
یہ بات تو ظاہر ہے کہ زبانیں الگ الگ ہیں لیکن کیا اللہ عربی میں کلام نہیں کرتا ؟ اس کو خبر سعید کو کس نے دی
یہ ضرورت سے زائد کلام ہے
جس پر ہم بات نہیں کرتے کیونکہ یہ علم ہماری بساط سے باہر ہے
اللہ ہر زبان میں کلام کر سکتا ہے
اس جاہل کو کس نے خبر دی کہ لوح میں کسی ایسی زبان میں لکھا ہے جس کو کوئی نہیں جانتا ہے
لوح محفوظ میں جو کلام اللہ ہے وہ سعید کے نزدیک غیر مخلوق ہوا
اگر لوح محفوظ میں قرآن غیر مخلوق ہے تو جو زمین میں ہے کو مخلوق کیوں کہا جا رہا ہے
سعید کے فلسفے کا یہ جھول ہے کہ لوح جو مخلوق ہے اس میں درج قرآن اس کے نزدیک غیر مخلوق ہے اور جو زمینی کاغذ میں لکھا ہے وہ کلام اللہ نہیں بلکہ
کونورٹڈ
یا
ترجمہ شدہ
ہے
اس کا فائدہ کیا ہے ؟
اللہ تعالی نے موسی سے جس زبان میں بات کی وہ یا تو ال فرعوں کی زبان تھی یا بنی اسرائیل کی
لہذا یہ کہنا کہ اللہ عبرانی میں کلام نہیں کرتا خود ساختہ عقیدہ ہے
وكلم الله موسى تكليما
أور الله نے موسي سے كلام كيا
جناب محترم السلام عليكم :
آپ کے ارشاد کے مطابق قرآن غیر مخلوق ھے،
جبکہ الله تعالیٰ خود قرآن ہی میں فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کو عربی زبان میں بنایا ھے۔
آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیں :
Surat No 43 : سورة الزخرف – Ayat No 3
اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾
ہم نے اسکو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو ۔
و علیکم السلام
جعل عربي میں بنانا ، کرنا ، یا لانا وغیرہ کے مفہوم میں ہے
اس کا مطلب ہمیشہ خلق کرنا نہیں ہوتا
قرآن تو عربی میں ہے
عربی یقینا اللہ کی مخلوق ہے
لیکن جب اللہ نے اپنے کلام کو عربی میں کہا تو یہ قرآن ہے
یعنی ترجمہ ہو گا
ہم نے اسکو عربی زبان میں قرآن کر دیا ہے کہ تم سمجھ لو
السلام علیکم۔
محترم پوچھنا یہ ہے کہ مسٸلہِ خلق قرآن میں احمد بن حنبل اور امام بخاری کے موقف میں بنیادی فرق کیا ہے اور دونوں میں سےکس کا موقف شرکیہ ہے؟
و علیکم السلام
خلق قرآن کے حوالے سے امام بخاری و امام احمد دونوں کا موقف ہے کہ قرآن غیر مخلوق ہے اللہ کا کلام ہے
اس کو شرک نہیں کہا جاتا کیونکہ اللہ تعالی کلام کرتا ہے اور اس نے قرآن کو کلام اللہ کہا ہے
امام احمد کے نزدیک قرآن جو زمین میں پڑھا جا رہا ہے اس پر مزید کوئی رائے رکھنا بدعت ہے
امام بخاری کے نزدیک قرآن کے الفاظ جو ہم تلاوت کرتے ہیں وہ مخلوق ہیں
لیکن امام احمد کے نزدیک یہ رائے رکھنا بھی گمراہی ہے
اس طرح ان دونوں میں اس بات پر اتفاق بھی ہے اور اختلاف بھی ہے
قرآن کی تلاوت کو لفظی بالقرآن کا مسئلہ کہا جاتا ہے
کچھ تفصیل یہاں ہے
https://www.islamic-belief.net/%d8%a7%d9%85%d8%a7%d9%85-%d8%a8%d8%ae%d8%a7%d8%b1%db%8c-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%da%a9%d8%a7-%d9%85%d9%86%d8%a7%d9%82%d8%b4%db%81/
السّلام علیکم۔
محترم اس کا مطلب قرآن کو کَلامُ اللہ تو کہا جاۓ گا لیکن نشانی ھرگز نہیں کہا جاسکتا کیونکہ نشانی تو مخلوق ہوتی ہے؟
اللہ تعالی نے قرآن کو کلام اللہ بھی کہا ہے اور اپنے کلام کو آیات یعنی نشانی بھی کہا ہے
غیر ضروری بحث نہ کریں
السّلامُ عَلیکُم۔
محترم قرآن کی سورہ آل عمران اور سورہ مریم میں تو عیسی علیہ السّلام کو بھی ”کلِمَةُاللہ“ اور آیة(نشانی) کہا گیا ہے تو کیا عیسیٰ علیہ السّلام کو مخلوق کہنا غلط ہے؟
اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ (( بِكَلِمَةٍ )) مِّنْهُۙ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ …
(آل عمران آیت45)
وَلِنَجۡعَلَہٗۤ (( اٰیَۃً )) لِّلنَّاسِ وَرَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ
(مریم آیت21)
و علیکم السلام
کلمہ اللہ کا عربی میں مطلب کیا ہے ؟
اللہ کلام کرتا ہے اس نے موسی سے کلام کی خبر خود دی ہے – جب اللہ کلام کرتا ہے تو وہ حکم الہی کہا جاتا ہے
اس کو کتاب لکھ دیا جائے تو توریت زبور انجیل و قرآن بن جاتا ہے
ان سب کو کلام للہ کہا جاتا ہے
اگر اللہ کوئی خاص حکم کرے کسی مخلوق کو حکم دے کہ قانون قدرت بدل دے تو اس وقت وہ حکم کلمہ اللہ ہے جو اس مخلوق تک پہنچا اور اس نے اس پر عمل کیا
اللہ کا حکم مریم کے رحم کو ملا کہ ایک روح ان کے جسم میں آ جائے گی بلا شادی کے
اس حکم کو اللہ نے کلمہ اللہ کہا ہے یعنی مریم کو بشارت دی کہ ان کے رحم کو حکم الہی دیا جا رہا ہے
اس کی خبر قرآن میں ہے کہ مریم کو کلمہ الله کی خوش خبری دی گئی
اللہ تعالی نے عیسیٰ کو روح منہ (میری طرف سے روح) کہا ہے آدم کو روحی کہا ہے
وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [الحجر:29].
اور ادم میں اپنی روح پھونکی
تو کیا یہ اللہ کی روح ہے ؟
کیا وجود باری روح رکھتا ہے ؟
حديث ہے
من شهِدَ أَنْ لا إله إلا الله وحدَهُ لا شريكَ لهُ وأنّ محمدًا عبدُه ورسولُه وأنَّ عيسى عبدُ الله ورسولُه وكلمتُه ألقاها إلى مريمَ وروحٌ منه والجنةَ حقٌّ والنارَ حقٌّ أدخَلَهُ الله الجنةَ على ما كانَ منَ العملِ » ، رواه البخاري ومسلم.
جس نے شہادت دی کہ … عیسیٰ اللہ کے بندے اور کلمہ ہیں جو مریم کو القا کیا گیا
یعنی حکم الہی مریم کو القا ہوا
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کا کلمہ مریم کے بطن میں جا کر عیسیٰ بن گیا
ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں یہ کلمہ ان کو القا ہوا یعنی بطن مریم کو حکم ہوا تھا
کہ روح عیسیٰ کو لے لے اور اس سے لے لیا
بس اس وجہ سے عیسیٰ کو کلمہ کہا جا رکھا ہے کہ وہ اللہ کے خاص حکم سے بنے
اپ نے آیت پیش کی
اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ (( بِكَلِمَةٍ )) مِّنْهُۙ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ …
اللہ خوش خبر ی دیتا ہے تم کو اپنی طرح سے ایک کلمہ کی جس کا نام
عیسیٰ مسیح ابن مریم ہے
اللہ خبر دے رہا ہے کہ اس نے ایک روح پہلے سے خلق کی ہوئی ہے جس کا نام عیسیٰ ابن مریم ہے اور وہ حکم الہی کے تحت بطن مریم میں ڈالی جا رہی ہے
اس طرح اس منہ یعنی میری طرف کا واضح ہے
قرآن میں ہے کہ زمین و آسمان تمام من اللہ ہیں
یعنی اللہ کی طرف سے ہیں یعنی اس نے خلق کیے ہیں
{ وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوَتِ وَمَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ (13)} [سورة الجاثية]
اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے
زمین و آسمان سب اللہ کی طرف سے ہے
اسی طرح کلمہ اللہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے حکم ہے
اللہ اور اس کی صفات اس سے جدا نہیں ہیں کہ ہم کئی الہ تخلیق کر لیں
جو چیز بھی زمین میں ہے مخلوق ہے لیکن جو ذات عرش پر ہے وہ مخلوق نہیں
یہ کلیہ ہے
لیکن اس زمین و آسمان کو اللہ نے اپنی ملکیت کہا ہے اور اس میں اس کا حکم بھی سنا جاتا ہے
زمین تک یہ حکم اتا ہے
آسمان پر اتا ہے فرشتوں پر اتا ہے
مریم تک بھی آیا
اس مناسبت پر اللہ نے عیسیٰ کو خاص کیا کہ یہ اللہ کے کلمہ سے آئے اس کی خاص قدرت سے خلق ہوئے
اپ جواب دیں کہ بھڑکتے درخت کے پاس
اللہ کی آواز جو موسی تک پہنچی
کیا وہ آواز مخلوق تھی یا اللہ کی آواز تھی ؟
السلام علیکم ورحمةاللہ
آپ کے آخری سوال کا جواب عرض ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے درخت کے پاس جو آواز سنی وہ وحی ہے اور وحی مخلوق ہے۔
و علیکم السلام
اپ نے کہا کہ اللہ تعالی کی آواز جو موسی نے سنی وہ مخلوق تھی
جبکہ اللہ تعالی نے اس کو مخلوق نہیں کہا اور کہا
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا
سورہ طہ
بے شک میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی الہ نہیں
ایک ذات سے جو چیز منسلک ہو اس کو اس ذات کی صفت کہا جاتا ہے
اللہ کا کلام کرنا اس کی صفت ہے
اور اللہ اور اس کی صفات مخلوق نہیں
ورنہ اللہ کا دیکھنا ، اس کا سننا سب مخلوق ہو گا اور اللہ کا یہ نام نہ رہے بلکہ اللہ تعالی کے تمام نام مخلوق بن جائیں گے
یہ جھل ہے جس پر پر چار اپ کر رہے ہیں
کیونکہ اللہ کے نام اس کی صفات سے منسلک ہیں اور اللہ کی صفات مخلوق نہیں