مشرک کی شفاعت

نبوت سے قبل نبی صلی الله علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اسی مشرکین کے مذھب پر تھے جو چلا آ رہا تھا – اس کی دلیل البیہقی شعب الایمان کی روایت ہے کہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم پیدا ہوئے تو دادا عبد المطلب نے ان کو ھبل بت پر کعبہ میں پیش کیا

فَأَخَذَهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ فَأَدْخَلَهُ على هُبَلَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، وَذَكَرَ ابْنُ إِسْحَاقَ دُعَاءَهُ وَأَبْيَاتَهُ الَّتِي قَالَهَا فِي شُكْرِ اللهِ تَعَالَى عَلَى مَا وَهَبَهُ

پس عبد المطلب  نے  رسول اللہ کو گود میں لیا اور کعبہ کے بیچ  میں  ھبل  بت پر لے گئے

اس روایت کی سند سیرت کی احادیث کے معیار کے مطابق صحیح ہے-مشرکین اللہ کی عبادت کرتے تھے اور ساتھ ہی اپنے قبائلی اله کی بھی

 نبی صلی الله علیہ وسلم کے سگے چچا  ابو لھب کا ذکر قرآن میں ہے   ابو لھب  کے انجام  کی خبر  قرآن  میں دے دی گئی – شیعہ  مفسر  قمی   تفسیر    سورہ  لھب میں لکھتے  ہیں

وكان اسم ابي لهب عبد مناف فكناه الله لان منافا صنم يعبدونه

اور  ابو لھب   کا نام  تھا  عبد مناف   لیکن  اللہ  تعالی  نے نام پر کنایہ کیا ہے (یا کنیت بیان کی ہے )  کیونکہ   مناف  بت  تھا  جس کو پوجا  جاتا تھا

صحیح  بخاری کی   روایت  ٣٨٨٤  ہے

حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: «أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ» فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ: عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ» فَنَزَلَتْ: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ} [التوبة: 113]. وَنَزَلَتْ: {إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} [القصص: 56]

ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب بن حزن صحابی رضی اللہ عنہ نے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں ابوجہل بھی بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا! کلمہ لا الہٰ الا اللہ ایک مرتبہ کہہ دو، اللہ کی بارگاہ میں (آپ کی بخشش کے لیے) ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آ جائے گی۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: اے ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے! یہ دونوں ان ہی پر زور دیتے رہے اور آخری کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا، وہ یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کے لیے اس وقت تک مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ (سورۃ براۃ میں) یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم‏» نبی کے لیے اور مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے دعا مغفرت کریں خواہ وہ ان کے ناطے والے ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ دوزخی ہیں۔ اور سورۃ قصص میں یہ آیت نازل ہوئی «إنك لا تهدي من أحببت‏» بیشک جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے۔

اس کے برعکس سیرت  ابن اسحاق  میں ہے

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: فَحَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدِ (بْنِ عَبَّاسٍ)  عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ….. قَالَ: فَلَمَّا تَقَارَبَ مِنْ أَبِي طَالِبٍ الْمَوْتُ قَالَ: نَظَرَ الْعَبَّاسُ إلَيْهِ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، قَالَ: فَأَصْغَى إلَيْهِ بِأُذُنِهِ، قَالَ: فَقَالَ يَا بن أَخِي، وَاَللَّهِ لَقَدْ قَالَ أَخِي الْكَلِمَةَ الَّتِي أَمَرْتَهُ أَنْ يَقُولَهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمْ أَسْمَعْ

ابن اسحاق  نے کہا  مجھ سے عباس بن عبد اللہ بن معبد  بن عباس نے اپنے   بعض   اہل   کی سند سے روایت کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے کہا    جب ابو  طالب موت کے قریب پہنچے    تو   عباس     نے   ابو  طالب  کے ہونٹوں    کو     ہلتے   دیکھا    ،  پس  انہوں  نے  اپنے کان ابو طالب  کے ہونٹوں  پر لگا دیے  اور کہا    اے  بھتیجے  (محمد )   اللہ کی قسم   میرے  بھائی  نے کوئی کلمہ   بولا ہے   جو  انہوں نے    حکم دیا ہے کہ تم کو   بتا  دوں –  اس   پر رسول  اللہ صلی   اللہ علیہ وسلم نے فرمایا    میں نے تو کچھ  نہیں سنا

اس  روایت  کا مدعا   یہ ہے کہ یہ ثابت  کیا جائے کہ  نبی صلی  اللہ علیہ  وسلم   اگرچہ  وفات  ابو طالب   کے وقت وہاں تھے   لیکن   سن نہ سکے  فاصلہ پر تھے –  روایت گھڑنے والے  نے یہ نہیں سوچا کہ   نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کو تو  اللہ تعالی  غیب کی   خبر دیتا ہے –    سند  میں    بعض   مجہول  الحال   ہیں   جن کی  خبر نہیں دی گئی کہ کون تھے

شیعہ   مفسر  ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ  (انك لا تهدي من أحببت)   آپ  جس کو  محبوب کریں اس کو ہدایت پر  نہیں کر سکتے  یہ آیت ابو طالب کے لئے ہے
واما قوله: (انك لا تهدي من أحببت) قال نزلت في ابي طالب عليه السلام فان رسول الله صلى الله عليه وآله كان يقول يا عم قل لا إله إلا الله بالجهر نفعك بها يوم القيامة فيقول: يا بن اخي أنا أعلم بنفسى، (وأقول بنفسى ط) فلما مات شهد العباس بن عبدالمطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله انه تكلم بها عند الموت بأعلى صوته، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: اما انا فلم اسمعها منه وأرجو ان تنفعه يوم القيامة، وقال صلى الله عليه وآله: لو قمت المقام المحمود لشفعت في ابي وامي وعمي وأخ كان لي مواخيا في الجاهلية

الله  تعالی کے قول آپ جس کو محبوب کریں اس کو ہدایت نہیں دے سکتے- کہا یہ ابو طالب کے لئے نازل ہو ہے کیونکہ رسول الله صلى الله عليه وآله  کہتے اے چچا  کہہ دیں با آواز بلند لا إله إلا الله  میں روز محشر آپ کو فائدہ دوں گا … ابو طالب کہتے مجھے اپنا پتا ہے – پس جب ان کی وفات ہوئی تو  عباس  نے دیکھا   ابو طالب   بات کر رہے تھے  اونچی آواز سے  لیکن  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا انہوں نے کیا کہا اور امید ہے کہ میں  ان کو  روز محشر فائدہ دوں

معلوم  ہوا  کہ   سن  ٣٠٠  ہجری  تک   اہل  سنت  کہہ رہے تھے کہ   ابو طالب    کفر  پر مرے ،   بعض   شیعہ  و  رافضی  کہہ رہے تھے کہ  نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم  سن ہی نہ سکے  جو  ابو طالب  سکرات الموت   میں     کہہ    رہے تھے –    اور  بعض  رافضی   قبول  کر رہے تھے کہ  ابو طالب  ایمان نہیں لائے

صحیح سند  سے آ  گیا ہے کہ  ابو  طالب  وفات کے وقت اسی مذھب  پر رہے ہو  مشرکین مکہ  کا  تھا  اب ان  کے    انجام  کے حوالے سے روایات  کو دیکھتے ہیں

صحیحین   کی  روایات

انجام  ابو طالب  کے حوالے سے  تین قسم کی روایات   صحیحین  میں ہیں

اول   ابو  طالب   کے عذاب  میں  نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم  کی  وجہ سے   تخفیف ہوئی   ورنہ   اسفل النار میں ہوتے – ابھی     ابو طالب     جہنم  کے مقام ضحضاح پر ہیں

دوم     ابو   طالب      کو     سخت   عذاب  میں دیکھ  کر نبی   صلی اللہ  علیہ  وسلم نے ان کو   وہاں سے نکالا   اور   اب    وہ آگ کے مقام ضحضاح پر ہیں

سوم      ابو  طالب   کے لئے   نبی صلی اللہ علیہ  وسلم       ممکن     ہے  روز  محشر  شفاعت  کریں

الضَّحْضَاح کا  لفظ  اس زمین پر عربی میں بولا جاتا ہے اس  پر پانی  بہے   تو وہ ایڑھی تک  پہنچے-  النہایہ  میں ہے

 ما رَقَّ من الماء على وجه الأرض ما يبلغُ الكَعْبَين ، فاستَعارَه للنار(النهاية)

وہ  پانی  جو زمین پر بہے   اور ایڑھی  سے اوپر نہ جائے  اس کو  الضَّحْضَاح     کہتے ہیں  پس یہ اگ  پر استعارہ ہے

راقم   کہتا ہے  عرب   میں سخت گرمی کی وجہ سے زمین پر بہنے والا پانی جو مقدار میں کم ہو  گرم  ہو جاتا ہے اور پیر جلتا ہے لہذا  اس کو اگ پر استعارہ  کے طور  پر بولا جاتا ہے

شیعہ  تفسیر قمی  میں ہے

ان اهون الناس عذابا يوم القيامة لرجل في ضحضاح من نار عليه نعلان من نار وشرا كان من نار يغلي منها دماغه

سب  سے کم عذاب  یوم قیامت  اس مرد کو ہو گا  جو آگ  میں ضحضاح   میں  ہو گا    اس  کے پیر   میں   آگ   کی چپل  ہو  گی  جس سے اس کا دماغ  کھول  رہا ہو گا

اب   ان    روایات  پر   غور  کرتے ہیں

صحیح مسلم کی  ایک   روایت  میں ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ، وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ

عبید اللہ بن عمر قواریری   اور محمدبن ابی بکر مقدمی   اور  محمد بن عبد المک اموی     کہتے   ہیں کہ   ابوعوانہ   نے بیان کیا  عبدالملک ابن عمیر کی سند  سے  اس نے  عبداللہ بن حارث بن نوفل  سے روایت    کیا   کہ     عباس بن عبد المطلب  سے روایت  کیا  کہ عباس  نے رسول اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ   ابوطالب  کو کسی چیز نے نفع دیا  ہے جو وہ آپ کا اِحاطہ کیے رکھتے تھے اور آپ کے لیے غضبناک ہو جاتے تھے رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ آگ کے مقام ضحضاح پر ہیں اور اگر  میں نہ ہوتا   تو   وہ    آگ کے نچلے طبقہ میں ہوتے

مسلم شریف جلد اول ص ۱۱۵، طبقات ج اول ص ۱۲۴

یعنی  ابو  طالب  کے عذاب  میں کمی   بیشی   کرنا  اللہ تعالی  کا حکم  تھا -یہ   روایت   بتاتی  ہے  کہ   ابھی بھی ابو طالب عذاب میں   ہیں

صحیح بخاری حدیث ٣٨٨٣  میں ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ،‏‏‏‏ وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ”

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں  نہ  ہوتا     تو وہ دوزخ کی تہہ  میں بالکل نیچے ہوتے

اس   حدیث  میں شفاعت  کا ذکر نہیں ہے   بلکہ  صرف  قول ہے اگر میں نہ ہوتا ،یعنی   اللہ  تعالی   نے اپنی جانب سے اس کے عذاب  میں  کمی کی   میرے    دل کی تسکین  کے لئے

ان   روایات  پر بعض  کی جانب سے  اعتراض  میں کہا  جاتا ہے کہ  سندا   ان  میں  عبد الملک  بن عمیر    ہے جو  مختلط  تھا      –  راقم  کہتا ہے     اس روایت    میں اس کا تفرد  نہیں ہے ،  صحیحین   کے علاوہ  دیگر  کتب  مثلا   فوائد  تمام،    المقصد العلي، المعجم الأوسط      میں  یہ  روایت اس سند سے بھی ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَلِيُّ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاكِرٍ، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ   حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُجَالِدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ هَلْ نَفَعَتْهُ نُبُوَّتُكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، أَخْرَجَتْهُ مِنْ غَمْرَةِ جَهَنَّمَ إِلَى ضَحْضَاحٍ مِنْهَا

اس میں   سند  میں  راوی  شیعہ  بھی   ہیں –   طبرانی  کبیر میں ہے    جہاں  سند  میں   عبد الملک  بن عمیر   نہیں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ سَلْمَانَ الْقلوسيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، ثنا عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي كُنْتُ عَلَى صِلَةِ الرَّحِمِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْجَارِ وإِيواءِ الْيَتِيمِ وَإِطْعَامِ الضَّيْفِ وَإِطْعَامِ الْمَسَاكِينِ وَكُلُّ هَذَا قَدْ كَانَ يَفْعَلُهُ هِشَامُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، فَمَا ظَنُّكَ بِهِ أَيْ رَسُولُ اللهِ؟، فَقَالَ: «كُلُّ قَبْرٍ لَا يَشْهَدُ صَاحِبُهُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَهُوَ جَذْوَةٌ مِنَ النَّارِ، وَقَدْ وَجَدْتُ عَمِّي أَبَا طَالِبٍ فِي طَمْطَامٍ مِنَ النَّارِ فَأَخْرَجَهُ اللهُ بِمَكَانِهِ مِنِّي وَإِحْسَانِهِ إِلَيَّ فَجَعَلَهُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ

أُمِّ سَلَمَةَ  رضی  اللہ عنہا      فرماتی   ہیں کہ    حَارِثَ بْنَ هِشَامٍ   حجه  الوداع  کے سال   نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کی    خدمت  میں حاضر  ہوئے   اور   عرض    کیا    یا  رسول  اللہ   میں  صلہ  رحمی کرتا ہوں ،  پڑوسی  پر  احسان   کرتا ہوں ،   یتیم    کی  دیکھ بھال   کرتا ہوں ،   مہمان  و مسکین  کو کھانا  کھلاتا ہوں   اور   اس طرح  سب  جو  میں   کرتا ہوں  ایسا ہی   ہشام   بن مغیرہ   (مشرک )کرتا تھا     تو آپ  صلی  اللہ علیہ  وسلم  کا    اس پر کیا  گمان ہے ؟  رسول  اللہ نے جوابا    فرمایا :   ہر  قبر       جس  میں اس کا صاحب  بغیر     لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ  کی گواہی  پر ہو  اس پر آگ   کا انگارہ  ہے   اور بے شک  میں نے  ابو طالب کو  اگ کی  لپیٹ  میں پایا ،   پھر   اللہ  نے اس  کے  میرے ساتھ   مکان  و  احسان   کی  بنا  پر    ان کو آگ   میں سے نکال   کر    ضَحْضَاحٍ  النار میں کر دیا

اسی  قسم  کا متن   عائشہ  رضی  اللہ عنہا سے مروی ہے

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ ابْنَ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ فَهَلْ ذَالِكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ: ” لَا يَنْفَعُهُ لِأَنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ

عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے پوچھا   یا  رسول  اللہ   صلی  اللہ  علیہ  وسلم      :  ایام   جاہلیت  میں  (مشرک )ابن جدعان     رشتہ  داروں  پر رحم  کرتا  تھا  مسکینوں کو  کھانا  کھلاتا  تھا   کیا  اس کو  اس چیز  نے نفع  دیا ؟  فرمایا   نہیں    کیونکہ  اس  نے ایک دن بھی نہیں کہا   اے رب   روز  محشر   میرے گناہ معاف  کر  دے

بیہقی  نے  کتاب   بعث  و نشور    میں  لکھا ہے

إلا أن اللهَ يَضَعُ عَنه أَلْوانًا مِن العَذَاب عَلى جِنَايَاتٍ جَنَاها سِوى الكُفْر؛ تَطْيِيبًا لِقَلب النَّبي – صلى الله عليه وسلم -، وثَوابًا له في نَفسه، لا لِأَبي طَالِب؛ لأن حَسَناتِ أَبي طَالِب صَارَت بِمَوتِه عَلى كُفره هَباءً مَنثُورًا، وقد وَرَد الخَبر بِأن ثَوابَ الكَافِر عَلَى إِحسَانِه يَكُونُ في الدُّنيا

لب لباب ہے کہ  ابو طالب    کی نیکییاں    اس کی  کفر پر موت   کی وجہ سے  فنا  ہو  گئیں  اور اس کے عذاب  میں تخفیف     اس کے عمل کی وجہ سے نہیں کی گئی  بلکہ  محض  نبی صلی اللہ علیہ  وسلم کو قلبی  اطمینان    دینے کے  لئے  من جانب  اللہ     کی گئی ہے

اب  کچھ   شاذ  روایات   کا  ذکر کرتے  ہیں –  صحیح  مسلم  کی دوسری روایت  میں ہے

 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ، يَقُولُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَبَا طَالِبٍ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَنْصُرُكَ فَهَلْ نَفَعَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَجَدْتُهُ فِي غَمَرَاتٍ مِنَ النَّارِ، فَأَخْرَجْتُهُ إِلَى ضَحْضَاحٍ

ابن عمر سفیان عبدالمک بن عمیر عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے   عباس رضی اللہ عنہ سے سنا رسول اللہ سی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ علیہ وسلم ابوطالب آپ کا احاطہ کیے رہتے تھے اور آپ کی امداد کرتے تھے کیا انہیں کوئی اس کا نفع پہنچا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں   ،  میں   نے   اس کو   آگ   کی  غمراتِ نار میں پایا پس    اس  کو   نکال   کر  ( جہنم  میں)    مقام ضحضاح پر    کر دیا 

صحیح  مسلم ،    جلد اوّل ص۱۱۵

یہ  روایت    شاذ  ہے کیونکہ  اس میں   عذاب   میں  کمی  کو    غیر واضح انداز  میں  رسول  اللہ  صلی  اللہ علیہ وسلم   کی شفاعت  یا  دعا   سے جوڑا  گیا ہے

صحیح  بخاری  کی  حدیث     ٣٨٨٥  میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ الْهَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ”.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ “تَغْلِي مِنْهُ أُمُّ دِمَاغِهِ”.

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن عبداللہ ابن الہاد نے، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا کا ذکر ہو رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کام آ جائے اور انہیں صرف ٹخنوں تک جہنم میں رکھا جائے جس سے ان کا دماغ کھولے گا۔ ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابوحازم اور درا وردی نے بیان کیا یزید سے اسی مذکورہ حدیث کی طرح، البتہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ابوطالب کے دماغ کا بھیجہ اس سے کھولے گا۔

اس   کا متن   بھی  شاذ   ہے  کیونکہ  اس میں    ذکر  ہے  کہ   نبی  صلی  اللہ علیہ  وسلم  نے فرمایا    ” شاید     قیامت  میں “-     گویا کہ یہ تمام  قول   کوئی گمان  ہے  حقیقت  حال  نہیں ہے     جبکہ دیگر    روایات   میں ہے  کہ    ابو طالب ابھی  بھی حالت  عذاب  میں ہیں    مقام      ضَحْضَاحٍ  پہنچ  چکے  ہیں

صحیح      مسلم کی  ایک شاذ  روایت  میں  اس کو  روز محشر    شفاعت سے جوڑا  گیا ہے

 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ: «لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ، يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ

قتیبہ بن سعید ،  لیث ،      يزيد بن عبد الله بن أسامة بن الهاد الليثى ،عبداللہ بن خباب ،  ابوسعید خذری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں   کہ  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ابوطالب   کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہماری شفاعت سے اسے نفع پہنچے گا تو مقام ضحضاح پر ہوں گے آگ میں ان کے پاوں ہوں گے جس سے ان کا دماغ کھولے گا

  ان   روایات   پر    اعتراض    وارد  ہوتا    کہ  مشرک کی  شفاعت    کرنا  انبیاء  پر  ممنوع   ہے جیسا  قصہ نوح سے معلوم ہے   اور   کافر کے عذاب  میں کوئی  کمی  نہ   ہو  گی  –    لہذا   یہ  خلاف  قرآن  ہیں –  راقم   کہتا ہے   یہ   اعتراض ان  شاذ  روایات   پر   درست  ہے –  لیکن     ایمان  ابو طالب  کے حوالے سے یہ  اعتراض  صحیحین  ہی  کی  تمام  روایات  پر لاگو  نہیں ہوتا –   روایت  اس متن  کے ساتھ شاذ  ہے جس میں خبر دی گئی ہے کہ  روز محشر   ابو طالب کی  شفاعت   نبی  صلی  اللہ علیہ  وسلم کریں  گے   یا  زندگی  میں   کسی دعا کی وجہ  سے ابو طالب  کا عذاب  کم ہوا –

   راقم  کہتا ہے ٣٠٠  ہجری تک اہل تشیع بھی یہی کہتے تھے کہ ابو طالب کافر تھے –   ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ  (انك لا تهدي من أحببت)   آپ  جس کو  محبوب کریں اس کو ہدایت پر  نہیں کر سکتے  یہ آیت ابو طالب کے لئے ہے
واما قوله: (انك لا تهدي من أحببت) قال نزلت في ابي طالب عليه السلام فان رسول الله صلى الله عليه وآله كان يقول يا عم قل لا إله إلا الله بالجهر نفعك بها يوم القيامة فيقول: يا بن اخي أنا أعلم بنفسى، (وأقول بنفسى ط) فلما مات شهد العباس بن عبدالمطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله انه تكلم بها عند الموت بأعلى صوته، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: اما انا فلم اسمعها منه وأرجو ان تنفعه يوم القيامة، وقال صلى الله عليه وآله: لو قمت المقام المحمود لشفعت في ابي وامي وعمي وأخ كان لي مواخيا في الجاهلية

الله  تعالی کے قول آپ جس کو محبوب کریں اس کو ہدایت نہیں دے سکتے- کہا یہ ابو طالب کے لئے نازل ہو ہے کیونکہ رسول الله صلى الله عليه وآله  کہتے اے چچا  کہہ دیں با آواز بلند لا إله إلا الله  میں روز محشر آپ کو فائدہ دوں گا … ابو طالب کہتے مجھے اپنا پتا ہے – پس جب ان کی وفات ہوئی تو  عباس  نے دیکھا   ابو طالب   بات کر رہے تھے  اونچی آواز سے  لیکن  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا انہوں نے کیا کہا اور امید ہے کہ میں  ان کو  روز محشر فائدہ دوں

یعنی    نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کو  اس    میں ابہام رہ گیا    تھا  کہ ابو طالب کافر تھے یا مسلم –  یہاں بھی  جاہلوں   نے روایت  گھڑتے  وقت نہ سوچا کہ  غیب کی خبر  اللہ اپنے نبی کو دیتا ہے –   قمی   کے  چند  سالوں بعد  مجمع البیان میں طبرسی المتوفی ٤٦٨ ھ کہتے ہیں

أن أهل البيت (عليهم السلام) قد أجمعوا على أن أبا طالب مات مسلما
اہل بیت کا اجماع ہے کہ ابو طالب مسلمان مرے

اور متاخرین   نے   بھی ائمہ سے    اقوال  منسوب کیے   ہیں  مثلا     اہل   تشیع   کی   روایت     امام باقر  سے منسوب  ہے –  بحار  انوار  از  ملا  مجلسی  کی  روایت ہے

وأخبرني الشيخ محمد بن إدريس، عن أبي الحسن العريضي، عن الحسين بن  طحان، عن أبي علي، عن محمد بن الحسن بن علي الطوسي، عن رجاله، عن ليث المرادي قال  قلت لابي عبد الله عليه السلام: سيدي إن الناس يقولون: إن أبا طالب في ضحضاح من نار  يغلي منه دماغه، قال عليه السلام: كذبوا والله إن إيمان أبي طالب لو وضع في كفة

ميزان وإيمان هذا الخلق في كفة ميزان لرجح إيمان أبي طالب على إيمانهم. ثم قال عليه السلام: كان والله أمير المؤمنين يأمر أن يحج عن أب النبي وأمة وعن أبي طالب في حياته، ولقد أوصى في وصيته بالحج عنهم بعد مماته

 ابو  بصیر لیث  مرادی  کہتے ہیں  میں نے امام  ابو جعفر سے پوچھا  سیدی لوگ کہتے ہیں کہ  ابو طالب  ضحضاح میں ہیں   جس  سے  ان کا دماغ  کھول رہا ہے  –  فرمایا   جھوٹے ہیں  اللہ کی قسم – اگر  ترازو  میں  ابو طالب  کا ایمان ایک پلڑے میں ہو اور ان لوگوں  (یعنی   اہل سنت کے محدثین ) کا ایمان  دوسرے پلڑے میں ہو  تو  ایمان ابو طالب  بڑھ کر ہے     پھر فرمایا  اللہ کی قسم  امیر المومنین  علی  نے  اپنی زندگی  میں حکم دیا تھا   زیارت  (قبر ) والدہ و والد النبی کی  اور زیارت  قبر ابو طالب کی ،  اور موت  کے بعد بھی اس زیارت  کی مجھے وصیت کی

 سند  میں  راوی   الحسين بن طحان     ہے   جس   پر شیعہ کتب  رجال  میں کوئی معلومات  نہیں ہیں   ساتھ ہی عن رجاله،      مجہول  لوگ  ہیں-  یہ  روایت  ثابت   ہی نہیں ہوتی   لیکن  حیرت  ہے کہ     ایمان ابو طالب  پر بحث و جدل  میں  اہل  تشیع  نے    ہر مقام  پر اس کو لکھا ہے

نوٹ

ایک بریلوی عالم نے ذکر کیا کہ روایت میں اتا ہے کہ
لِلَّهِ دَرُّ أَبِي طَالِبٍ لَوْ كَانَ حَيًّا قَرَّتَا عَيْنَاهُ
اللہ ابو طالب کا بھلا کرے اگر زندہ ہوتے تو ان سے آنکھیں ٹھنڈی کرتا

راقم کہتا ہے السيرة الحلبية نام کی ایک کتاب ہے جو ضعیف و موضوع روایات پر مشتمل سیرت ہے – گیارہویں صدی کے شخص علي بن إبراهيم بن أحمد الحلبي، أبو الفرج، نور الدين ابن برهان الدين (المتوفى: 1044هـ) کی تصنیف ہے
قال صلى الله عليه وسلم: لله در أبي طالب لو كان حيا قرت عيناه، من الذي ينشدنا قوله؟ فقام علي كرم الله وجهه فقال: يا رسول الله كأنك أردت قوله فقال الأبيات

اصلا یہ دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے – اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ دُحَيْمٍ الشَّيْبَانِيُّ بِالْكُوفَةِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَنْبَسَةَ، حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ زِيَادٍ الْأَزْدِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيِّ، ح [ص:141] وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ الْأَصْبَهَانِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ أَبُو الشَّيْخِ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ رَشِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ عَمِّي، عَنْ مُسْلِمٍ الْمُلَائِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ

سند میں مسلم بن كيسان الضبى الملائى ہے جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے
قال أبو زرعة: كوفي ضعيف الحديث
وقال أبو حاتم: يتكلمون فيه وهو ضعيف الحديث
وقال ابن معين قال جرير: اختلط
وقال ابن حبان: اختلط في آخر عمره حتى كان لا يدري ما يحدث به فجعل يأتي بما لا أصل له عن الثقات فاختلط
قال الفلاس: متروك الحديث.
وقال أحمد: لا يكتب حديثه.
وقال يحيى: ليس بثقة.

سند میں سعيد بن خثيم بن رشد الهلالى ، أبو معمر الكوفى بھی ہے
قَالَ الأَزْدِيُّ: مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: مِقْدَارُ مَا يَرْوِيهِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.

یہ منکر الحدیث ہے

سند میں أَحْمَدُ بْنُ رَشِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيُّ بھی ہے اس کو دارقطنی نے ضعیف قرار دیا ہے

6 thoughts on “مشرک کی شفاعت

  1. معاذ

    وہابی عالم کا قول ہے کہ کافر کی موت پر انا للہ وانا الیہ رجعون کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ آیت مبارکہ دعا نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے؟

    اس روایت سے مسلمان کا مشرک رشتہ دار کو دفناثابت کیا جاتا ہے روایت یہ ہے:
    ناجيۃ بن كعب عن على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كے طريق سے مروى ہے، على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
    آپ كا بوڑھا اور گمراہ چچا ( ان كا مقصد اپنا والد ابو طالب تھا ) فوت ہو چكا ہے تو اسے كون دفنائےگا؟
    تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
    ” جاؤ جا كر اپنے باپ كو زمين ميں چھپا دو”
    ( يہ على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كو خطاب تھا )
    على رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: ميں اسے نہيں چھپاؤں گا، كيونكہ وہ مشرك فوت ہوا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
    ” جاؤ جا كر اسے چھپاؤ اور پھر ميرے پاس آنے تك بات چيت نہ كرنا، تو ميں گيا اور جا كر اسے چھپايا، اور مٹى اور گرد و غبار ميں اٹا ہوا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو انہوں نے مجھے غسل كرنے كا حكم ديا اور ميں نےغسل كيا، اور ميرے ليے ايسى دعائيں كيں جو مجھے روئے زمين پر پائى جانے والى اشياء سے بھى زيادہ قيمتى تھيں”
    السلسلۃ الصحيحۃ للالبانى حديث نمبر ( 161 ).

    اس روایت کی تحقیق درکار ہے۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مسند احمد میں ہے

      حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ: ” انْطَلِقْ فَوَارِهِ، وَلا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ” قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَوَارَيْتُهُ. فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ دَعَا لِي بِدَعَوَاتٍ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهِنَّ مَا عَرُضَ مِنْ شَيْءٍ

      ——-

      اس کا متن شاذ ہے – صحیح بخاری کے مطابق وفات ابو طالب کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود تھے جبکہ اس روایت میں ہے کہ ان کو معلوم نہیں تھا حتی کہ علی نے جا کر بتایا

      راوی ناجیہ ضعیف ہے اور صرف ابی اسحاق نے اس سے روایت کیا ہے ہو خود مدلس ہے

      ناجیہ پر اقوال ہیں
      قال الجوزجاني في الضعفاء: مذموم.
      بیہقی نے کہا اسکی عدالت امام بخاری و مسلم کے نزدیک ثابت نہیں
      لم تثبت عدالته عند صاحبي الصّحيح

      —————–

      سنن و آثار میں نہیں ملا کہ کافر کی موت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اصحاب رسول یا تابعین یا تبع تابعین میں سے کسی نے آنا للہ پڑھا ہو

      Reply
  2. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    آپ نے ابو طالب کے جہنم میں عذاب کی کمی سے متعلق جو ذیل کی کچھ روایات پیش کیں ہیں

    هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ،‏‏‏‏ وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ- (صحیح بخاری
    هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ، وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (صحیح مسلم
    أَخْرَجَتْهُ مِنْ غَمْرَةِ جَهَنَّمَ إِلَى ضَحْضَاحٍ مِنْهَا -(المقصد العلي، المعجم الأوسط
    فَأَخْرَجَهُ اللهُ بِمَكَانِهِ مِنِّي وَإِحْسَانِهِ إِلَيَّ فَجَعَلَهُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ -(طبرانی کبیر
    وَجَدْتُهُ فِي غَمَرَاتٍ مِنَ النَّارِ، فَأَخْرَجْتُهُ إِلَى ضَحْضَاحٍ- (صحیح مسلم

    وہ قرآن کی اس مندرجہ ذیل آیت سے متصادم نظر آتی ہیں

    وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ-(فاطر : 36

    اور کافروں کیلئے جہنم کی آگ ہے ان کیلئے موت کا فیصلہ نہ کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں- اور نہ ہی ان کے عذاب میں کمی واقع کی جائے گی، ہر ناشکرے کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں

    قرآن کی ان آیات سے تو واضح ہے کہ (مشرک) یعنی کافر کے عزاب میں کمی نہیں ہو گی – پھر ابو طالب اس سے مستثنیٰ کیسے ہے ؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      میری جو سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ مشرک مشرک کے درجات میں فرق ہے
      ابوطالب اور ابو لھب کا مقام ایک نہیں ہے
      تمام مشرک عذاب میں ہیں لیکن نبی کی مدد کرنے کی وجہ سے بعض مشرکین کا درجہ ابو جھل یا ابو لھب یا فرعون کے برابر نہیں ہے ، الگ ہے
      ان مشرکوں کو عذاب باقی سے کم دیا جا سکتا ہے

      نصوص میں عموم و خصوص ہوتا ہے انبیاء کی دلی تسکین کے لئے اللہ اپنا حکم بعض پر الگ کر سکتا ہے

      اسی طرح کی ایک روایت اور ہے کہ ابراھیم علیہ السلام کی وجہ سے ان کے باپ کو ایک جانور کی شکل میں جہنم میں ڈالا جائے گا

      عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : يلقى إبراهيم أباه آزر يوم القيامة وعلى وجه آزر قترة وغبرة و فيقول له إبراهيم : ألم أقل لك لا تعصني ؟ فيقول أبوه : فاليوم لا أعصيك ، فيقول إبراهيم : يا رب إنك وعدتني أن لا تخزني يوم يبعثون ، فأي خزي أخزى من أبي الأبعد ؟ فيقول الله تعالى : إني حرمت الجنة على الكافرين ، ثم يقال : يا إبراهيم ما تحت رجليك ، فينظر فإذا هو بذيخ ملتطخ فيؤخذ بقوائم فيلقى في النار .

      ( صحيح البخاري :3350 ، الأنبياء – شرح السنة :15/119 – النسائي الكبرى :11375 ، التفسير )

      ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملاقات قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ہوگی ، آزر کا چہرہ پراگندہ اور سیاہ ہوگا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سے مخاطب ہوکر فرمائیں گے ، کیا ہم نے آپ سے یہ [بار بار]نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کریں ؟ ان کا باپ بولے گا آج میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا ، لہذا ابراہیم علیہ السلام بارگاہ الہی میں دعا گو ہوں گے ، اے میرے رب آپ نے مجھے وعدہ دیا تھا کہ قیامت کے دن مجھے رسوا نہ کریں گے ، مگر اس سے زیادہ رسوائی اور کیا ہوگی کہ میرا بدنصیب باپ [تیری رحمت سے دور ہے ] جواب میں اللہ تعالی فرمائے گا کہ میں نے کافروں پر جنت کو حرام کردیا ہے ، پھر کہا جائے گا : اے ابراہیم اپنے قدموں کے نیچے دیکھو کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام دیکھیں گے کہ ایک بجو گندگی میں لتھڑا ہوا پڑا ہے ، تب فرشتے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں اس کو پھینک دیں گے

      یہاں ابراھیم کی دلی تشفی کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے

      و اللہ اعلم

      Reply
  3. aysha butt

    kis sorah ki ayat hai jis ki tafseer abu talib k lie hai

    Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *