ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے “اگر” کے انداز میں ایک ایسے عمل کا حکم کا ذکر کیا جو ممنوع رہا ہے
ابن ابی اوفی کی حدیث
سنن أبن ماجة ١٨٥٣ میں حدیث ہے
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِي
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنْ الشَّامِ سَجَدَ لِلنَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -. فقَالَ: “مَا هَذَا يَا مُعَاذُ؟ ” قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ وَبَطَارِقَتِهِمْ، فَوَدِدْتُ فِي نَفْسِي أَنْ نَفْعَلَ ذَلِكَ بِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا، وَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا، وَهِيَ عَلَى قَتَبٍ، لَمْ تَمْنَعْهُ
ابن ابی اوفی نے بیان کیا کہ معاذ شام سے آئے اور رسول اللہ کے پاس مسجد پہنچے ان کو سجدہ کیا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیا کیا معاذ ؟ معاذ بن جبل نے کہا میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو سجدہ کا حکم کرتا تو بیوی کو کہتا شوہر کو کرے-
یہ روایت مسند احمد 19403 میں بھی ہے
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنِ القَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَدِمَ مُعَاذٌ الْيَمَنَ، أَوْ قَالَ: الشَّامَ، فَرَأَى النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّى فِي نَفْسِهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ يُعَظَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، رَأَيْتُ النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّأْتُ فِي نَفْسِي أَنَّكَ أَحَقُّ أَنْ تُعَظَّمَ، فَقَالَ: ” لَوْ كُنْتُ آمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا،
ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب معاذ رضی اللہ عنہ یمن پہنچے تو وہاں کے عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کوسجدہ کرتے ہیں ان کے دل میں خیال آیا کہ نبی تو ان سے بھی زیادہ تعظیم کے مستحق ہیں لہٰذا یمن سے واپس آکر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے عیسائیوں کو اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے دیکھاہے میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ان سے زیادہ تعظیم کے مستحق تو آپ ہیں – نبی کریم نے فرمایا اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے-
محدث ابن ابی حاتم نے اس سند پر باپ سے کلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے اور راوی القاسم بن عوف الشيبانى البكرى الكوفى مضطربُ الْحَدِيثِ ہے-
کتاب العلل میں ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ أيُّوب ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْف، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفى: أنَّ مُعاذً قَدِمَ على النبيِّ (ص) ، فسَجد له، فنهاه النبيُّ (ص) وَقَالَ: لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا يَسْجُدُ لأِ حَدٍ؛ لأَمَرْتُ المَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا … ، الحديثَ؟
فقال أبي: يُخالَفُ أيُّوبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ؛ فَقَالَ هشامٌ
الدَّسْتوائِي إِسْنَادًا سِوَى [ذَا].
وَرَوَاهُ النَّهَّاسُ بنُ قَهْم ، عَنِ [الْقَاسِمِ] بإسنادٍ آخَرَ، والدَّسْتوائِي حافظٌ مُتْقِنٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَوْف مضطربُ الْحَدِيثِ، وأخافُ أَنْ يكونَ الاضطرابُ مِنَ الْقَاسِمِ.
اس روایت پر ابی حاتم نے کہا کہ قاسم بن عون کی سند میں اضطراب ہے
شام دور نبوی میں فتح نہ ہوا تھا اور معاذ رضی اللہ عنہ کو بھی یمن بھیجا گیا تھا – لہذا اس روایت کے متن میں اضطراب ہے کبھی راوی شام کہتا ہے کبھی یمن کہتا ہے۔
معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت
یہ روایت أبو ظَبيان کی سند سے بھی ہے لیکن ابو ظَبيان نے معاذ سے نہیں سنا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
الترمذي (1159) ، وابن حبان (4162) میں اس کی ایک اور سند بھی ہے
حدثنا محمود بن غيلان حدثنا النضر بن شميل أخبرنا محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها
اس سند کو البانی نے حسن قرار دیا ہے یعنی یہ ضعیف ہے صرف تعدد طرق کی بنا پر حسن ہوئی یہاں سند میں محمد بن عمرو بن علقمة بن وقاص الليثي ہے جس کو امام الجوزجاني نے ليس بقوي قرار دیا ہے- الخليلي کہتے ہیں يكتب حديثه ولا يحتج به اس کی حدیث لکھو لیکن دلیل مت لینا اور أبو أحمد الحاكم کہتے ہیں ليس بالحافظ عندهم محدثین کے نزدیک مضبوط نہیں-
کتاب ذخيرة الحفاظ میں ابن القيسراني کہتے ہیں اس کی ابوہریرہ والی سند بھی سُلَيْمَان بن دَاوُد اليمامي کی وجہ سے ضعیف ہے-
رَوَاهُ سُلَيْمَان بن دَاوُد اليمامي: عَن يحيى بن أبي كثير، عَن أبي سَلمَة، عَن أبي هُرَيْرَة. وَسليمَان هَذَا لَيْسَ بِشَيْء فِي الحَدِيث.
رَوَاهُ نعيم بن حَمَّاد: عَن رشدين بن سعد، عَن عقيل، عَن ابْن شهَاب، أَبِيه، عَن أبي هُرَيْرَة. وَهَذَا بِهَذَا الْإِسْنَاد عَن رشدين لم يروه عَنهُ غير نعيم. قَالَ الْمُؤلف: وَلَا نعلم لِابْنِ شهَاب عَن أَبِيه. رَوَاهُ عَنهُ أحد
اس کی دوسری سند میں مجھول ہے-
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت
اس کی ایک اور سند ہے لیکن اس میں بھی ضعیف راوی ہے-
رَوَاهُ صَدَقَة بن عبد الله السمين: عَن سعيد بن أبي عرُوبَة، عَن قَتَادَة، عَن الْقَاسِم الشَّيْبَانِيّ، عَن زيد بن أَرقم. وَصدقَة ضَعِيف.
قيسِ بنِ سعد کی حدیث
سنن ابو داود ٢١٤٠ میں ہے
حدَّثنا عمرو بنُ عون، أخبرنا اسحاق بنُ يوسفَ، عن شريكٍ، عن حُصينٍ، عن الشعبيِّ عن قيسِ بنِ سعد، قال: أتيتُ الحِيرةَ فرأيتُهم يسجدون لِمرْزُبانٍ لهم، فقلتُ: رسولُ الله أحقُّ أن يُسجدَ له، قال: فأتيتُ النبي – صلَّى الله عليه وسلم – فقلت: إني أتيتُ الحِيرَةَ فرأيتُهم يَسجُدُونَ لمرزبانٍ لَهُمْ، فأنت يا رسولَ الله أحقُّ أن نسجُدَ لك، قال: “أرأيتَ لو مررتَ بقبري أكنتَ تَسجُدُ له؟ ” قال: قلت: لا، قال: “فلا تَفْعَلُوا، لو كنتُ آمراً أحداً أن يَسجُدَ لأحدٍ لأمرتُ النِّساءَ أن يسجُدْنَ لأزواجِهِنَّ، لِمَا جَعَل الله لهم عليهنَّ من الحق
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟” وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے”۔
اس میں حصين بن عبد الرحمن السلمي ہے جو نسائی کے بقول تغیر کا شکار ہوئے اور شريك بن عبد الله النخعي ہے – شریک خود مختلط تھا
بہر حال یہ سند شکوک سے خالی نہیں-
انس بن مالک کی روایت
مسند احمد 12614 میں ہے:
حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَمِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ …. فَقَالَ: «لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ كَانَ مِنْ قَدَمِهِ إِلَى مَفْرِقِ رَأْسِهِ قُرْحَةٌ تَنْبَجِسُ بِالْقَيْحِ وَالصَّدِيدِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَتْهُ تَلْحَسُهُ مَا أَدَّتْ حَقَّهُ»
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لا يصلح لبشر أن يسجد لبشر، ولو صلح أن يسجد بشر لبشر لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها من عظم حقه عليها، والذي نفسي بيده لو أن من قدمه إلى مفرق رأسه قرحة تنبجس بالقيح والصديد ثم أقبلت تلحسه ما أدت حقه))
. یعنی کسی بشر کے لیے جائز نہیں کہ کسی دوسرے بشر کو سجدہ کرے، اگر ایسا کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آدمی کے قدم سے لے کر سر کی چوٹی تک سب پیپ سے بھرا ہوا اور عورت اس سب کو اپنے منہ سے چوس لے تب بھی مرد کا حق نہیں ادا کر سکتی
[مسند أحمد:12614 صحیح ابن حبان(4164) سنن دارقطنی(3571) وغیرھا من الکتب]
اس کی اسناد میں
خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ ہے اور خلف مظبوط راوی نہیں ہے-
امام احمد نے اس کو اختلاط کے عالم میں دیکھا – وہ کہتے ہیں:
فَسُئِلَ عَنْ حَدِيْثٍ، فَلَمْ أَفْهَمْ كَلاَمَهُ.
میں نے اس سے حدیث پوچھی لیکن اس کا کلام سمجھ نہ سکا
قال ابن عيينة: يكذب
ابن عيينة کہتے تھے جھوٹ بولتا ہے۔
سنن اربع والوں اور مسلم نے روایت لی ہے۔
امام مسلم نے تین روایت لکھی ہیں جن میں خلف نے حفص سے کچھ روایت نہیں کیا۔
بعض محدثین نے روایت میں حفص کو حفص بن عبيد الله ابْن أخي أنس بولا ہے لیکن امام احمد کے مطابق اس کی سند میں حفص سے سوائے خلف کے کوئی راویات نہیں لیتا-
کتاب سؤالات أبي داود للإمام أحمد بن حنبل في جرح الرواة وتعديلهم کے مطابق
سَمِعت أَحْمد يَقُول حَفْص بن عبيد الله الَّذِي روى عَنهُ ابْن إِسْحَاق وَيحيى بن أبي كثير لَيْسَ هُوَ الَّذِي يحدث عَنهُ خلف بن خَليفَة الَّذِي يحدث عَنهُ خلف مَا أعلم أحدا حدث عَنهُ غَيره
لہذا یہ خفص مجھول ہو گیا کیونکہ اس کا صرف خلف کو پتا ہے کسی اور کو نہیں-
دارقطنی کے بقول حفص بن عمر بن عبد الله بن أبي طلحة ہے لیکن اس روایت کو علل میں معاذ بن جبل کی سند سے رد کرتے ہیں-
أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ کی روایت
سنن دارقطنی سنن الکبری البیہقی سنن الکبری نسائی مصنف ابن أبي شيبة مسند البزار میں یہ ایک اور سند سے بھی ہے:
نا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْوَرَّاقُ , قَالَا: نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ زَنْجُوَيْهِ , نا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ , نا رَبِيعَةُ بْنُ عُثْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ , عَنْ نَهَارٍ الْعَبْدِيِّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , أَنَّ رَجُلًا جَاءَ بِابْنَتِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: هَذِهِ ابْنَتِي أَبَتْ أَنْ تَزَوَّجَ , فَقَالَ: «أَطِيعِي أَبَاكِ أَتَدْرِينَ مَا حَقَّ الزَّوْجُ عَلَى الزَّوْجَةِ؟ , لَوْ كَانَ بِأَنْفِهِ قُرْحَةٌ تَسِيلُ قَيْحًا وَصَدِيدًا لَحَسَتْهُ مَا أَدَّتْ حَقَّهُ» , فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ لَا نَكَحْتُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُنْكِحُوهُنَّ إِلَّا بِإِذْنِهِنَّ»۔
اس کی سند میں نَهار بْن عَبد اللهِ، العَبديُّ جن کو ابن خراش نے صدوق کہا ہے۔
اس کی سند میں ربيعة بن عثمان بھی ہے اور مستدرک حاکم میں اسی سند سے ہے جس پر الذھبی لکھتے ہیں:
بل منكر قال أبو حاتم ربيعة منكر الحديث
یہ منکر ہے ابو حاتم نے ربيعة بن عثمان کو منکر الحدیث کہا أبو زرعة: ليس بذاك القوى.
ابن معین نے کہا کوئی برائی نہیں
الغرض روایت ضعیف ہے اور اس کی ایک سند کا راوی مجھول ہے اور باقی سندوں میں مختلف فیہ راوی ہے
قارئین آپ نے دیکھا کوئی اس واقعہ کو حیرہ عراق کا قرار دیتا ہے کوئی شام کا کوئی یمن کا جبکہ دور نبوی میں نہ شام فتح ہوا نہ عراق – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قرآن معاذ بن جبل سے سیکھو۔
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن إبراهيم، عن مسروق، قال: ذكر عبد الله عند عبد الله بن عمرو، فقال: ذاك رجل لا ازال احبه بعد ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: “استقرئوا القرآن من اربعة من عبد الله بن مسعود فبدا به وسالم مولى ابي حذيفة، وابي بن كعب، ومعاذ بن جبل”، قال: لا ادري بدا بابي او بمعاذ بن جبل.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابراہیم نے اور ان سے مسروق نے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے یہاں عبداللہ بن مسعود کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا میں ان سے ہمیشہ محبت رکھوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ چار اشخاص سے قرآن سیکھو۔ عبداللہ بن مسعود، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی کی اور ابوحذیفہ کے مولیٰ سالم، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ابی بن کعب کا ذکر کیا یا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا۔
کیا معاذ بن جبل اہل کتاب کی دیکھا دیکھی ایسا کوئی کام کر سکتے ہیں یقینا یہ ان پر تہمت ہے۔۔