شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
مرزا سلامت علی دبیر
آہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا
حسین اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن اب عراق میں وہ اکیلے تھے – ان کے ہمدرد دغا دے کر بھاگ چکے تھے – مسلم بن عقیل قتل ہو چکے تھے – حسین اس وقت کس طرح اب واپس مدینہ جاتے وہ سخت مشکل میں تھے اور اہل بیت حسین ان کی طرف دیکھ رہے تھے – وہ غلام بننے کے لئے تیار نہ تھے اور ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت کرنا ان کے نزدیک غلامی کے مترادف تھا – وہ صرف یزید سے جا کر بات کرنا چاہتے تھے اور اغلبا دمشق کی طرف جا رہے تھے
تاریخ طبری ج ٥ ص ٣٩٢ میں ہے
وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ على ع كَتَبَ إِلَيْهِ أَهْلُ الْكُوفَةِ…. قَالَ حصين: فَحَدَّثَنِي هلال بن يساف أن ابن زياد أمر بأخذ مَا بين واقصة إِلَى طريق الشام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يدعون أحدا يلج وَلا أحدا يخرج، فأقبل الْحُسَيْن وَلا يشعر بشيء حَتَّى لقي الأعراب، فسألهم، فَقَالُوا: لا وَاللَّهِ مَا ندري، غير أنا لا نستطيع أن نلج وَلا نخرج، قَالَ: فانطلق يسير نحو طريق الشام نحو يَزِيد، فلقيته الخيول بكربلاء، فنزل يناشدهم اللَّه والإسلام، قَالَ: وَكَانَ بعث إِلَيْهِ عُمَر بن سَعْدٍ وشمر بن ذي الجوشن وحصين ابن نميم، فناشدهم الْحُسَيْن اللَّه والإسلام أن يسيروه إِلَى أَمِير الْمُؤْمِنِينَ، فيضع يده فِي يده، فَقَالُوا: لا إلا عَلَى حكم ابن زياد
حصين بن عبد الرحمن السلمى ، أبو الهذيل الكوفى المتوفی ١٣٦ ھ نے أَبَو الْحَسَنِ هلال بن يساف الأشجعي سے روایت کیا کہا ابن زیاد نے حکم کیا کہ واقصة جو شام کے راستہ پر ہے اور پھر بصرہ کا رستہ ہے اس پر پہرہ رکھا جائے نہ کسی کو گزرنے دیا جائے نہ نکلنے – حسین آگے بڑھے ان کو اس چیز کا پتا نہیں تھا یہاں کہ بدوؤں سے ملے- ان سے پوچھا- بدوؤں نے کہا ہم کو پتا نہیں الله کی قسم آگے نہیں جا سکتے نہ نکل سکتے ہیں – پس حسین نے شام کا راستہ لیا یزید کی طرف – ان کی كربلاء پر گھڑ سواروں سے ملاقات ہوئی پس حسین ان گھڑ سواروں کو اسلام اور اللہ کی نصیحت کرنے لگے- حسین کے پاس عُمَر بن سَعْدٍ اور شمر بن ذيالجوشن اور حصين ابن نميم کو بھیجا گیا حسین ان کو اسلام اور اللہ کی نصیحت کرنے لگے کہ اگر وہ امیر المومنین تک لے حسین کو لے جائیں تو اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیں گے- عُمَر بن سَعْدٍ اور شمر بن ذي الجوشن اور حصين ابن نميم نے کہا نہیں الا یہ کہ عبید اللہ بن زیاد ایسا حکم کرے
اس کی سند میں ثقات ہیں البتہ أَبَو الْحَسَنِ هلال بن يساف الأشجعي مدلس ہے اور اس روایت میں واضح نہیں کہ یہ تمام خبر اس کو کس نے دی – أَبَو الْحَسَنِ هلال بن يساف الأشجعي کا لشکر حسین میں شامل ہونا معلوم نہیں ہے نہ حسین سے اس کے سماع کا معلوم ہے البتہ محدثین کے مطابق اس نے علی کو دیکھا ہے سنا نہیں ہے
حسین کے قاتل صحیح سند سے معلوم نہیں ہیں اگر ہم وقتی تسلیم کریں کہ حکومت نے قتل کیا تو اس پر ایک اور روایت ہے جو تاریخ طبری کی ہے حسین کو کہا جاتا ہے کہ آپشن دیا گیا کہ وہ عبید الله بن زیاد کے ہاتھ پر آ کر بیعت کریں انہوں نے انکار کیا اس میں بلوا ہوا اور وہ قتل ہوئے
سند ہے
حديث عمار الدهني عن أبي جَعْفَر فَحَدَّثَنِي زكرياء بن يَحْيَى الضرير، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن جناب المصيصي قَالَ:
حَدَّثَنَا خَالِد بن يَزِيدَ بن عَبْدِ اللَّهِ الْقَسْرِيّ قَالَ: حَدَّثَنَا عمار الدهني قَالَ قلت لأبي جَعْفَر: حَدَّثَنِي عن مقتل الْحُسَيْن حَتَّى كأني حضرته،
راقم کہتا ہے اس سند میں زكريا بن يحيى بن أيوب الضرير ہے جس کو ہیثمی نے کہا ہے لم أعرفه نہیں جانتا اور خطیب بغدادی نے اس کا ذکر کیا ہے جرح تعدیل نہیں کی ہے لہذا یہ مجہول الحال ہے – یہ روایت ضعیف ہے لیکن اہل سنت کے مورخین کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے آٹھویں صدی کے الذھبی نے اس کو محلہ صدق کہہ دیا ہے جبکہ متقدمین محدثین کے نزدیک یہ مجہول ہے – بہر حال اس کا متن ہے
قَالَ لَهُ الْحُسَيْن: اختر واحدة من ثلاث: إما أن تدعوني فأنصرف من حَيْثُ جئت، وإما أن تدعوني فأذهب إِلَى يَزِيد، وإما أن تدعوني فألحق بالثغور، فقبل ذَلِكَ عمر، فكتب إِلَيْهِ عُبَيْد اللَّهِ: لا وَلا كرامة حَتَّى يضع يده فِي يدي!] [فَقَالَ لَهُ الْحُسَيْن: لا وَاللَّهِ لا يكون ذَلِكَ أبدا] [، فقاتله فقتل أَصْحَاب الْحُسَيْن كلهم، وفيهم بضعة عشر شابا من أهل بيته
حسین نے کہا ان تین میں سے کوئی ایک چیز لو یا تو مجھے چھوڑو میں جہاں جا رہا ہوں جانے دو
یا مجھے یزید کے پاس جانے دو ، یا سرحد پر جانے دو- اس کو عمر بن سعد نے تسلیم کر لیا اور ابن زیاد کو خط لکھا- اس نے جواب دیا ہرگز نہیں اس کی کوئی عزت نہیں اس کو میرے ہاتھ پر بیعت کرنی ہو گی- حسین نے جواب دیا الله کی قسم کبھی بھی نہیں
یعنی حسین رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور بیعت کو مسترد کر دیا جس پر لڑائی چھڑ گئی
حسین یزید تک کیوں جانا چاہتے تھے یہ بھی واضح نہیں جب وہ بیعت کے لئے تیار ہی نہیں – حسین سرحد پر اس لئے جانا چاھتے تھے کہ وہ ملک بدری اختیار کریں – بیعت ہمیشہ گورنر کے ہاتھ پر ہوتی ہے الا یہ کہ خلیفہ سامنے ہو لہذا حسین کا ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت سے انکار اصل میں بیعت یزید سے مسلسل انکار ہے
تاریخ طبری میں تضاد بہت ہے مثلا ایک اور روایت ہے
حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَبِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: بَلَغَنَا
ع
وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ
ان دو سندوں سے طبری نے قتل حسین پر کلام شروع کیا ہے پھر ایک مقام پر تاریخ میں لکھا
قَالَ الحصين – قَالَ: وَحَدَّثَنِي سعد بن عبيدة، قَالَ: إنا لمستنقعون فِي الماء مع عُمَر بن سَعْد، إذ أتاه رجل فساره وَقَالَ لَهُ: قَدْ بعث إليك ابن زياد جويرية بن بدر التميمي، وأمره إن لم تقاتل القوم أن يضرب عنقك، قَالَ: فوثب إِلَى فرسه فركبه، ثُمَّ دعا سلاحه فلبسه، وإنه عَلَى فرسه، فنهض بِالنَّاسِ إِلَيْهِم فقاتلوهم، فجيء برأس الْحُسَيْن إِلَى ابن زياد، فوضع بين يديه، فجعل ينكت بقضيبه، ويقول: إن أبا عَبْد اللَّهِ قَدْ كَانَ شمط، قَالَ: وجيء بنسائه وبناته وأهله، وَكَانَ أحسن شَيْء صنعه أن أمر لهن بمنزل فِي مكان معتزل، وأجرى عليهن رزقا، وأمر لهن بنفقة وكسوة قَالَ: فانطلق غلامان مِنْهُمْ لعبد اللَّه بن جَعْفَر- أو ابن ابن جَعْفَر- فأتيا رجلا من طيئ فلجأ إِلَيْهِ، فضرب أعناقهما، وجاء برءوسهما حَتَّى وضعهما بين يدي ابن زياد، قَالَ: فهم بضرب عنقه، وأمر بداره فهدمت.
حصین نے بیان کیا کہ أبو حمزة، سعد بن عبيدة، السلمي، الكوفي نے بیان کیا
ہم عمر بن سعد کے ساتھ پانی میں نہا رہے تھے کہ اچانک اس کے پاس ایک شخص آیا اور اس سے سرگوشی کی اور اس نے اسے کہا ابن زیاد نے تمہاری طرف جويرية بن بدر التميمي کو بھیجا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ اگر تو نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ نہ کی تو وہ تجھے قتل کر دے راوی بیان کرتا ہے کہ وہ اٹھا اور اپنے گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر سوار ہو گیا پھر اس نے اپنے ہتھیار منگوا کر پہنے اور اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور وہ لوگوں کے ساتھ ان کی طرف گیا اور انہوں نے ان کے ساتھ جنگ کی اور حسین رضی اللہ عنہ کا سر ابن زیاد کے پاس لاکر اس کے سامنے رکھا گیا اور وہ اپنی چھڑی کو اپ کی ناک پر رکھ کر کہنے لگا بلاشبہ ابو عبداللہ سیا و سفید بالوں والے ہیں، راوی بیان کرتا ہے اور اپ کی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل کو بھی لایا گیا راوی بیان کرتا ہے اس نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ ان کے لیے ایک فرد گاہ کا حکم دیا جوا ایک الگ تھلگ جگہ پر تھی اور ان کی رسد جاری کر دی اور ان کے لئے لباس اور اخراجات کا حکم دیا ان میں سے دو لڑکوں نے جو عبداللہ بن جعفر یا ابن ابی جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے آکر طی قبیلہ کے ایک شخص کی پناہ لی تو اس نے ان دونوں کو قتل کر دیا اور ان دونوں کے سر لا کر ابن زیاد کے سامنے رکھ دیئے ابن زیاد نے بھی اسے قتل کرنے کا اردہ کر لیا اور اس کے حکم سے اس کے گھر کو منہدم کردیا گیا۔
حصين بن عبد الرحمن السلمى ، أبو الهذيل الكوفى ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں مختلط تھے
یہاں قتل کا قصہ الگ ہے اور سارا ملبہ عمر بن سعد پر ڈالا گیا ہے
اس سے پہلے جو روایت تھی اس میں تھا کہ مذاکرات ہو رہے تھے وہ ناکام ہوئے پھر حسین نے ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت سے انکار کیا اس پر بلوہ ہوا قتل ہوئے لیکن اب دوسری روایت میں یہاں متن الگ ہے اب سب تالاب میں نہا رہے ہیں ان کو خروج حسین سے کوئی مسئلہ نہیں کہ ابن زیاد قتل کی دھمکی دیتا ہے اور حسین کو قتل کیا جاتا ہے کوئی مذاکرات نہیں ہوتے نہ حسین کوئی شرائط رکھتے ہیں
سعد بن عبيدة أبو حمزة السلمي ثقہ ہیں لیکن یہ خود خوارج کی رائے رکھتے تھے
کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي میں ہے
وقد تكلم في مذهبه ونسب إلى رأي الخوارج، وبسبب ذلك تكلم في نقله وروايته، وقد قيل إنه رجع عن ذلك.
أبو حمزة، سعد بن عبيدة، السلمي، الكوفي جو خارجی تھے وہ لشکر شام میں شامل تھے قاتلین حسین کے ساتھ؟ ایسا ممکن نہیں کیونکہ بنو امیہ اور خوارج کی کبھی نہیں بنی اور أبو حمزة، سعد بن عبيدة، السلمي، الكوفي کی روایت سیاسی عصبیت کی مثال لگتی ہے
کربلاء العطش پیاس
معجم البلدان أز شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومي الحموي (المتوفى: 626هـ) میں ہے
الطف: طف الفرات أي الشاطئ، والطف: أرض من ضاحية الكوفة في طريق البرية فيها كان مقتل الحسين ابن علي، رضي الله عنه، وهي أرض بادية قريبة من الريف فيها عدة عيون ماء جارية،
الطف فرات کا ساحل ہے – یہ کوفہ کی جانب کا بری علاقہ ہے جو مقتل حسین ہے اور یہ آبادی کا مقام ہے جہاں بہت سے
چشمے ہیں
حسین کا قتل الطف کربلاء میں ہوا اور یہاں سے قریبی مغربی جھیل ملح تک کافی فاصلہ ہے – شہر کربلاء میں بھی چشموں کی اتنی کثرت نہیں ہے کہ حسین پانی حاصل کر پاتے
فرات کا ساحل الطف کے مشرق میں ہے جو کربلاء سے ١٩ کلو میٹر دور ہے – جو ظاہر ہے بہت دور ہے – الطف کربلاء میں ہے
جغرافیہ بتا رہا ہے کہ حسین کے پاس پانی تک رسائی نہیں تھی
یزید کی فتح کی خبر
تاریخ الطبري میں ہے
قَالَ أَبُو مخنف: حَدَّثَنِي سُلَيْمَان بن أبي راشد، عن حميد بن مسلم، قَالَ: دعاني عُمَر بن سَعْد فسرحني إِلَى أهله لأبشرهم بفتح اللَّه عَلَيْهِ وبعافيته، فأقبلت حَتَّى أتيت أهله، فأعلمتهم ذَلِكَ، ثُمَّ أقبلت حَتَّى أدخل فأجد ابن زياد قَدْ جلس لِلنَّاسِ، وأجد الوفد قَدْ قدموا عَلَيْهِ، فأدخلهم، وأذن لِلنَّاسِ، فدخلت فيمن دخل، فإذا رأس الْحُسَيْن موضوع بين يديه، وإذا هُوَ ينكت بقضيب بين ثنيتيه ساعة، فلما رآه زَيْد بن أَرْقَمَ: لا ينجم عن نكته بالقضيب، قَالَ لَهُ: اعل بهذا القضيب عن هاتين الثنيتين، فو الذى لا إله غيره لقد رأيت شفتي رَسُول الله ص عَلَى هاتين الشفتين يقبلهما، ثُمَّ انفضخ الشيخ يبكي، فَقَالَ لَهُ ابن زياد: أبكى اللَّه عينيك! فو الله لولا أنك شيخ قَدْ خرفت وذهب عقلك لضربت عنقك
حمید بن مسلم کہتا ہے ابن سعد نے مجھے بلا کر اپنے اہل و عیال کے پاس بھیجا کہ کو خوش خبری سناؤں کہ اللہ نے فتح دی …. واپس آیا تو دیکھا ابن زیاد لوگوں سے ملنے دربار میں بیٹھا ہے اور تہنیت دینے لوگ ا رہے ہیں … میں بھی اندر گیا گیا دیکھتا ہوں کہ حسین کا سر سامنے ہے اور ابن زیاد اپنی چھڑی سے حسین کے دانتوں کو کھٹکھٹاتا رہا- زید بن ارقم نے کہا اس کو دانتوں سے ہٹا وحدہ لا شریک کی قسم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو میں نے دیکھا اپنے ہونٹ ان دانتوں پر رکھ کر پیار کرتے تھے اور یہ کہنا تھا کہ سب بوڑھے لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے – ابن زیاد نے کہا الله تجھ کو رولائے تو بڈھا ہوا اور تیری عقل جاتی رہی واللہ میں تیری گردن ہی مار دیتا
اول اس کا راوی ابو مخنف سخت جھوٹا اگ لگانے والا شیعہ مشھور ہے
المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري میں تاریخ طبری کے محقق أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کہتے ہیں اس کی سند میں دو مجھول ہیں
سليمان بن أبي راشد، الأزدي، من السادسة، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
سلیمان بن ابی راشد میں اس کو نہیں جانتا نہ اس کا ترجمہ ملا
دوسرے راوی پر کہتے ہیں
حميد بن مسلم، الأزدي – وقيل: الأسدي -، من الرابعة، من أصحاب المختار بن أبي عبيد، الثقفي، الكذاب، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
حمید بن مسلم کہا جاتا ہے اسدی ہے یہ مختار ثقفی کے اصحاب میں سے ہے اس کا ترجمہ نہیں ملا نہ اس کو جان سکا
علی بن حسین کا اغوا کیا جانا
الذھبی نے الْمَدَائِنِيُّ کے حوالے سے کتاب تاریخ الاسلام میں لکھا ہے
وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ دَخَلْنَا الْكُوفَةَ، فَلَقِيَنَا رَجُلٌ، فَدَخَلْنَا مَنْزِلَهُ، فَأَلْحَفْنَا، فَنِمْتُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِحِسِّ الْخَيْلِ فِي الْأَزِقَّةِ، فَحَمَلْنَا إِلَى يَزِيدَ، فَدَمَعَتْ عَيْنُهُ حِينَ رَآنَا، وَأَعْطَانَا مَا شِئْنَا وَقَالَ: إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي قَوْمِكَ أُمُورٌ، فَلَا تَدْخُلَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَا كَانَ، كَتَبَ مَعَ مُسْلِمِ بْنِ عُقْبَةَ كِتَابًا فِيهِ أَمَانِي، فَلَمَّا فَرَغَ مُسْلِمٌ مِنَ الْحَرَّةِ بَعَثَ إِلَيَّ، فَجِئْتُهُ وَقَدْ كَتَبْتُ وَصِيَّتِي، فَرَمَى إِلَيَّ بِالْكِتَابِ، فَإِذَا فِيهِ: اسْتَوْصِ بِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ خَيْرًا، وَإِنْ دَخَلَ مَعَهُمْ، فِي أَمْرِهِمْ فَأَمِّنْهُ وَاعْفُ عَنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ فَقَدْ أَصَابَ وَأَحْسَنَ
عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ نے کہا جب حسین قتل کر دیے گئے تب ہم کوفہ میں داخل ہوئے تو ایک شخص سے ملے جس نے ہم کو اپنے مکان میں داخل کیا اس نے سونے کا انتظام کیا ، میں سو گیا پھر آنکھ کھلی تو گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سے پس ہم کو لاد کر یزید کے پاس پہنچا دیا گیا- جب یزید نے ہم کو دیکھا وہ رو دیے اور جو ہم نے مانگا ہم کو دیا اور پھر کہا کہ اب کچھ اور کام آپ کی قوم سے ہوں گے اپ اس میں مشغول مت ہونا – پس جب اہل مدینہ کے ساتھ ہوا جو ہوا – یزید نے مسلم بن عقبہ کو امان نامہ لکھ کر دیا مسلم جب حرہ سے فارغ ہوا وہ میرے پاس پہنچا اس نے وہ تحریر میری جانب پھینکی اس میں تھا عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ کے ساتھ خیر سے پیش آنا اور اگر کے پاس جاؤ اس امر (بغاوت) کے حوالے سے تو ان کو امن دینا اور معاف کرنا اور اگر یہ ان (باغیوں) کے ساتھ نہیں تو یہ ٹھیک ہے اچھا ہے
اس کی سند صحیح ہے – یہ واقعی درست ہے کہ تو اس کا مطلب ہے کہ علی بن حسین کو اغوا کیا گیا اور دمشق لے جایا گیا جہاں مذاکرات کے بعد ان کو رہا کیا گیا
دربار یزید میں راس حسین کی آمد
المعجم الكبير از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنْبَاعِ رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ الْمِصْرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: أَبَى الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنْ يُسْتَأْسَرَ، فَقاتَلُوهُ فَقَتَلُوهُ، وَقَتَلُوا ابْنَيْهِ وَأَصْحَابَهُ الَّذِينَ قَاتَلُوا مِنْهُ بِمَكَانٍ يُقَالُ لَهُ الطَّفُّ، وَانْطُلِقَ بِعَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، وَفَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ، وَسُكَيْنَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ إِلَى عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زِيَادٍ، وَعَلِيٌّ يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ قَدْ بَلَغَ، فَبَعَثَ بِهِمْ إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَأَمَرَ بِسُكَيْنَةَ فَجَعَلَهَا خَلْفَ سَرِيرِهِ لِئَلَّا تَرَى رَأْسَ أَبِيهَا وَذَوِي قَرابَتِهَا، وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي غُلٍّ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، فَضَرَبَ عَلَى ثَنِيَّتَيِ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ:
[البحر الطويل] نُفَلِّقُ هَامًا مِنْ رِجَالٍ أَحِبَّةٍ … إِلَيْنَا وَهُمْ كَانُوا أَعَقَّ وَأَظْلَمَا
فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ} [الحديد: 22] . فَثَقُلَ عَلَى يَزِيدَ أَنْ يَتَمَثَّلَ بِبَيْتِ شِعْرٍ، وَتَلَا عَلِيٌّ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ يَزِيدُ: بَلْ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ويَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ. فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: «أَمَا وَاللهِ لَوْ رَآنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَغْلُولِينَ لَأَحَبَّ أَنْ يُخَلِّيَنَا مِنَ الْغُلِّ» . قَالَ: صَدَقْتَ، فَخَلُّوهُمْ مِنَ الْغُلِّ. قَالَ: «وَلَوْ وَقَفْنَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بُعْدٍ لَأَحَبَّ أَنْ يُقَرِّبَنَا» . قَالَ: صَدَقْتَ، فَقَرِّبُوهُمْ. فَجَعَلَتْ فَاطِمَةُ وَسُكَيْنَةُ يَتَطَاوَلَانِ لِتَرَيَا رَأْسَ أَبِيهِمَا، وَجَعَلَ يَزِيدُ يَتَطَاوَلُ فِي مَجْلِسِهِ لِيَسْتُرَ عَنْهُمَا رَأْسَ
لیث بن سعد نے کہا حسین نے غلام بننے سے انکار کیا پس قتال کیا اور وہ قتل ہوئے اور ان کے ساتھ ان کے بیٹے اور اصحاب قتل ہوئے جنہوں نے ان کے ساتھ قتال کیا اس مقام پر جس کو الطف کہا جاتا ہے اور علی بن حسین ، فاطمہ بنت حسین ، سکینہ بیت حسین کو عبید الله بن زیاد کے پاس لے جایا گیا اور علی ان دنوں لڑکے تھے جیسا پہنچا ہے پس ان کو یزید بن معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا اور یزید نے حکم کیا سکینہ کو یہ ان کے تخت کے پیچھے کھڑی ہوں تاکہ اپنے باپ اور اقارب کے سر نیزوں پر دیکھ سکیں اور علی بن حسین بیڑی میں جکڑے تھے …. انہوں نے آیت پڑھی
مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ} [الحديد: 22] .
اور جو مصیبت بھی زمین میں اور تمھارے اوپر آتی ہے وہ کتاب میں لکھی ہوئی ہے قبل اس کے کہ وہ پہنچے یہ اللہ پر آسان ہے – … یزید نے آیت پڑھی
بَلْ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ويَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ.
یہ تمھارے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے اور اکثر کو وہ معاف کرتا ہے
علی بن حسین نے کہا سچ کہا الله کی قسم اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہم کو اس طرح بیڑیوں میں دیکھتے تو پسند کرتے کہ ان کو ہم سے ہٹا دیں – یزید نے کہا سچ کہا پس اس نے حکم کیا ان کو ہٹاؤ
علی نے کہا و الله اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہمارے پاس اتے تو وہ ہم کو اپنے سے قریب کرتے
یزید نے کہا سچ کہا – پس ان کو قریب کیا اور فاطمہ اور سکینہ کے لئے جو رکھا تھا کہ وہ اپنے باپ کو سر دیکھ لیں ان کو چھپا دینے کا حکم کیا
لیث بن سعد امام مالک کے ہم عصر ہیں مصری ہیں اور انہوں نے یزید کا دور نہیں پایا
ابن جوزی نے اپنی کتاب الرد على المتعصب العنيد المانع من ذمّ يزيد صفحہ 57 پر ایک روایت درج کی ہے جو اس طرح ہے
قال ابن الجوزي : أنبأ عبد الوهاب بن المبارك ، قال : أنبأ أبو الحسين بن عبد الجبار ، قال : أنبأ الحسين بن علي الطناجيري ، ثنا خالد بن خداش ، قال : ثنا حماد بن زيد ، عن جميل بن مرة ، عن أبي الوَضِي ، قال : نُحرتْ الإبل التي حُمل عليها رأس الحسين وأصحابه فلم يستطيعوا أكلها ، كانت لحومها أمرّ من الصبر.
فلما وصلت الرؤوس إلى يزيد جلس ودعا بأشراف أهل الشام فأجلسهم حوله ، ثم وضع الرأس بين يديه ، وجعل ينكت بالقضيب على فيه ، ويقول :
نفلق هاماً ، من رجال أعزَّةٍ … علينا ، وهم كانوا أعقّ وأظلما
ابن جوزی نے ابو وضی سے روایت کی کہ جن اونٹوں پر امام حسین کے مبارک سر، اور ان کے اصحاب کو لے جایا گیا، جب انہیں ذبح کیا گیا، تو کوئی نہ کھا سکا۔ اور جب وہ مبارک سر یزید کو ملا، تو اس نے اہل شام کے بڑے لوگوں کو بلایا، اور مبارک سر کو ہاتھوں میں رکھ کر چھڑی سے مارنے لگا
اس کی سند میں أبو الوضيئ عباد بن نسيب ہے جو اصل میں مجہول الحال ہے – اس کو متاخرین میں ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے لیکن اس پر جرح و تعدیل کے الفاظ نہیں ملے
اس واقعہ کی سند بھی منقطع ہے کیونکہ أبو الوضيئ عباد بن نسيب نے خبر نہیں دی کہ اس کو یہ سب کس نے بتایا – أبو الوضيئ عباد بن نسيب ، علی کی پولیس میں کام کرتا تھا- دربار یزید میں اس کو فورا دھر لیا جاتا کہ یہ یہاں کیا کر رہا ہے
پیش کردہ مندرجہ ذیل روایت پر کسی رافضی یا نیم رافضی نے اعتراضات کیے ہیں – ان کا جواب درکار ہے
وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ دَخَلْنَا الْكُوفَةَ، فَلَقِيَنَا رَجُلٌ، فَدَخَلْنَا مَنْزِلَهُ فَأَلْحَفْنَا، فَنِمْتُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِحِسِّ الْخَيْلِ فِي الْأَزِقَّةِ، فَحَمَلْنَا إِلَى يَزِيدَ، فَدَمَعَتْ عَيْنُهُ حِينَ رآنا، وأعطانا ما شئنا، وقال لي: إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي قَوْمِكَ أُمُورٌ، فَلَا تَدْخُلَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَا كَانَ، كَتَبَ مَعَ مُسْلِمِ بْنِ عُقْبَةَ كِتَابًا فِيهِ أَمَانِي، فَلَمَّا فَرَغَ مُسْلِمٌ مِنَ الْحَرَّةِ بَعَثَ إِلَيَّ، فَجِئْتُهُ وَقَدْ كَتَبْتُ وَصِيَّتِي، فَرَمَى إِلَيَّ بِالْكِتَابِ، فَإِذَا فِيهِ: اسْتَوْصِ بِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ خَيْرًا، وَإِنْ دَخَلَ مَعَهُمْ فِي أَمْرِهِمْ فَأَمِّنْهُ وَاعْفُ عَنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ فَقَدْ أَصَابَ وَأَحْسَنَ.
ترجمہ : علی بن حسین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حسین رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے تو ہم کوفے میں پہنچے۔ ہم سے ایک آدمی نے ملاقات کی اور ہم اس کے گھر داخل ہوئے، اس نے ہمارے سونے کا بندوبست کیا اور میں سو گیا۔پھر گلیوں میں گھوڑوں کی آواز سے میری نیند کھلی، پھر ہم یزید بن معاویہ کے پاس پہنچائے گئے تو جب یزید نے ہمیں دیکھا تو ان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ،یعنی وہ رو پڑے، پھر انھوں نے ہمیں وہ سب کچھ دیا، جو ہم نے چاہا اور مجھ سے کہا: آپ کے یہاں کچھ معاملات پیش آئیں گے، آپ ان لوگوں کے کسی معاملے میں شرکت مت کیجئے گا ۔پھر جب اہل مدینہ کی طرف سے یزید کی مخالفت ہوئی تو مسلم بن عقبہ کو یزید بن معاویہ نے خط لکھا، جس میں انہوں نے مجھے امان دی اور جب مسلم حرہ کے واقعے سے فارغ ہوئے تو مجھے بلوایا تو میں ان پاس حاضر ہوا اور میں اپنی وصیت لکھ چکا تھا تو انھوں نے مجھے وہ خط دیا جس میں لکھا ہوا تھا: علی بن حسین کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنا۔ اگر وہ اہل مدینہ کے معاملے میں شریک ہوجائیں تو بھی انہیں امان دینا اور انھیں معاف کر دینا اور اگر وہ ان کے ساتھ شریک نہ ہوئے تو یہ انھوں نے بہت اچھا اور بہترکیا۔
ناصبی سنابلی غیرمقلد نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے
تاریخ الاسلام ط بشار(2/583) نقلا عن المدائنی ، و اسنادہ صحیح۔
یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر338-339
ناصبی سنابلی کا رد بلیغ
پہلے تو سنابلی کو شرم آنی چاہیے جو اس طرح کی سند کی تصحیح کر ڈالی وہ بھی بنا اصل کتاب کو دیکھے بنا۔
امام ذہبی کی پیدائش 673 ہجری کو ہوئی اور علامہ مدائنی کی وفات پر کئی قول موجود ہیں 215ھ، 224ھ، 225ھ 228
ھ ، 234ھ سن وفات ذکر کتب رجال میں موجود ہے۔
لیکن سنابلی نے بنا کوئی مضبوط دلیل کے 215 ھ کو امام مدائنی کی وفات والے قول کو راجح قرار دے دیا۔
یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر771
پھر بھی سند منقطع ہے کیونکہ امام ذہبی سے لے کر علامہ مدائنی تک سند کا کوئی اتا پتا نہیں۔
پھر سنابلی نے ایک نے نئی کہانی رچائی کہ امام ذہبی نے علامہ مدائنی کی کتاب سے نقل کرکے لکھا ہے لہذا امام ذہبی تک سند کا اعتراض ختم ہوا۔ اور علامہ مدائنی کی ایک کتاب الحرہ بھی ہے جس کا ذکر امام ابن جوزی نے کیا ہے یزید کی مذمت والی کتاب میں۔ اور امام بن عساکر نے بھی اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
ملاحظہ ہو یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، ص 711-712))
الجواب
سچ کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے امام ذہبی نے روایت کو لکھتے وقت علامہ مدائنی کی کوئی کتاب کو ذکر نہیں کیا صرف یہی لکھا
وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ:
تاریخ الاسلام ط بشار(2/583)
امام ابن جوزی نے منقطع سند کے ساتھ اس کتاب کا نام لیا
امام ابن الجوزی لکھتے ہیں:
ذکر المدائنی فی کتاب (الحرۃ) عن الزھری۔۔۔الخ (الرد علی المتعصب العنید، ص 67)
امام ابن جوزی نے بنا سند کے الحرہ کتاب کو علامہ مدائنی کی طرف منسوب کیا اور پتا نہیں یہ (بریکٹ) میں الحرۃ لفظ امام جوزی کا ہے یا اس کتاب کے محقق نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے؟؟؟
اور علامہ مدائنی کی اس کتاب کو روایت کرنے والا کون ہے ثقہ ہے غیر ثقہ ہے اس بات کا کچھ پتہ نہیں۔
امام ابن عساکر نے بغیر کوئی سند کے الحرۃ کتاب کو علامہ مدائنی کی طرف منسوب کیا ہے لہذا امام ابن عساکر تک بھی اس کتاب کی صحیح یا حسن سند ثابت نہیں۔
مخارق الكلبي له ذكر في كتاب الحرة كان في من وجهه يزيد إلى أهل المدينة مع مسرف بن عقبة المري واستعمله مشرف على ميسرة جيشه وقد تقدم ذكر ذلك في ترجمة طريف بن الخشخاش
(تاریخ دمشق لابن عساکر 57/132، رقم 7268)
لہذا سنابلی کا امام ذہبی امام جوزی اور ابن کثیر سے دلیل پکڑنا باطل ہے
کیا یہ تحقیق صحیح ہے ؟؟
یہ طرز تحقیق سراسر طفلانہ ہے – مدائنی کی ایک کتاب سے روایت لے کر الذھبی نے نقل کی ہے
اس پر یہ مطالبہ کرنا کہ مدائنی سے لے کر الذھبی تک سند پیش کی جائے جھل ہے
مشھور لوگوں کی کتاب سے جب روایات نقل کی جاتی ہیں تو وہاں ناقل کتاب کی سند کوئی نہیں دیتا
خود شیعہ محقق بھی جب روایت نقل کرتے ہیں تو ناقل کتاب کی سند کہاں دیتے ہیں
السلام و علیکم و رحمت الله
کیا سلیمان بن صرد (صحابی رسول ) نے حسین کو خطوط لکھ کر کوفہ بلایا تھا ؟؟ تاکہ خلیفہ وقت یزید بن معاویہ کے خلاف حسین کے ساتھ مل کر بغاوت سکیں ؟؟
ابن الجوزی حنبلی (المتوفى597)نے کہا
أخبرنا ابن ناصر، قال: أنبأ أبو محمد بن السراج، قال: أنبأ أبو طاهر محمد بن علي العلاف، قال: أنبأ أبو الحسين ابن أخي ميمي، قال: ثنا أبو علي بن صفوان، قال: ثنا أبو بكر بن أبي الدنيا، قال: ثنا محمد بن صالح القرشي، قال: ثنا علي بن محمد القرشي، عن يونس بن أبي إسحاق، قال: لما بلغ أهل الكوفة نزول الحسين بمكة وأنه لم يبايع ليزيد بن معاوية خرج منهم وفد إليه، وكتب إليه سليمان بن صرد ، والمسيب بن نجبة ، ووجوه أهل المدينة يدعونه إلى بيعته وخلع يزيد، وقالوا: إنا تركنا الناس متطلعة أنفسهم إليك وقد رجونا أن يجمعنا الله بك على الحق، وأن ينفي عنهم (بك) ما هم فيه (من الجور) ، فأنتم (أولى بالأمر من) يزيد الذي غصب الأمة فيها وقتل خيارها) فدعا مسلم بن عقيل، وقال: (اشخص إلى الكوفة، قال: (فإن) رأيتَ منهم اجتماعاً فاكتب إليَّ) [الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 49]
کفایت الله سنابلی اس روایت کو مردود کہتے ہیں – وجہ انہوں نے یہ لکھی کہ روایت کے مرکزی راوی یونس بن ابی اسحاق نے شہادت حسین کا زمانہ نہیں پایا – لہذا سند منقطع ہے – (یزید بن معاویہ رحم الله پر الزامات کا تحقیقی جائزہ صفحہ ٤١١)
اس کے جواب میں پر ایک اور صاحب کی مندرجہ ذیل تحقیق بھی موجود ہے
——————————————————————————————————
بعض شہادتوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ غالباََ انہوں نے زمانہ پایا ہے۔ جس کے دلائل و قرائن پیش ہیں
یونس بن ابی اسحاق رحمہ اللہ کی ایک روایت حضرتِ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اور موجود ہے۔
چنانچہ، امام ابو بکر الخطیبؒ (المتوفیٰ: ۴۶۳ھ) روایت کرتے ہیں
أخبرني أبو عبد الله محمدبن عبد الواحد، قال: أخبرنا محمد بنإسماعيل الوراق، قال: حدثنا يحيى بن محمدبن صاعد، قال: حدثنا خلاد بن أسلم ورجاءبن المرجى السمرقندي، قالا: أخبرنا النضر بن شميل، قال: حدثنا یونس بن أبي إسحاق، عن زيد بن أرقم ۔۔۔۔۔۔۔
[تاریخ بغداد ط بشار، جلد ۹، صفحہ نمبر ۳۹۹]
اس روایت کو امام الذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں روایت کیا، وہ فرماتے ہیں
هذا حديث حسن ، أخرجه أبو داود من حديث يونس بن أبي إسحاق
ترجمہ: یہ حدیث حسن ہے، اسے ابو داؤد نے یونس بن ابی اسحاق کی حدیث میں بیان کیا ہے۔
[سیر اعلام النبلاء ط الرسالہ، جلد ۸، صفحہ نمبر ۸۲]
اس روایت کو الدکتور بشاد عواد المعروف نے ‘حسن’ قرار دیا ہے۔ [تاریخ بغداد ط بشار، جلد ۹، صفحہ نمبر ۳۹۹]
حضرتِ زید بن الارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات سن ۶۲ھ یا سن ۶۳ھ وغیرہ میں ہوئی جبکہ شہادتِ حسینؓ کا واقعہ ۶۱ھ کا ہے۔ ادراک نہ صرف ممکن بلکہ غالب ہے۔
——————————————————————————————————
آپ کی رہنمائی چاہیے ؟؟
شکریہ
و علیکم السلام
يونس بن أبى إسحاق : عمرو بن عبد الله الهمدانى السبيعى ، أبو إسرائيل الكوفى المتوفی ١٥٢ ہجری کہا جاتا ہے یعنی اس نے سن ٦١ کا دور شعور میں نہیں دیکھا ہے
اس کا سماع صرف انس بن مالک سے کہا گیا ہے وہ بھی تحقیق طلب ہے بہر حال اس بنا پر اس کو تابعی کہا گیا ہے
باقی دیگر اصحاب سے اس کا سماع ممکن نہیں ہے
——-
یونس بن أبي إسحاق کا زيد بن أرقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا منقطع ہے
مسند احمد میں یونس اور زید بن ارقم کے درمیان ان کا باپ أَبِي إِسْحَاقَ موجود ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، وَأَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ: كَمْ غَزَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: ” تِسْعَ عَشْرَةَ، وَغَزَوْتُ مَعَهُ سَبْعَ عَشْرَةَ، وَسَبَقَنِي بِغَزَاتَيْنِ
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: أَصَابَنِي رَمَدٌ فَعَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا بَرَأْتُ خَرَجْتُ، قَالَ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَتْ عَيْنَاكَ لِمَا بِهِمَا مَا كُنْتَ صَانِعًا؟
سنن ابو داود میں بھی باپ کا واسطہ ہے
حدَّثنا عبدُ الله بن محمد النُّفَيليُّ، حدَّثنا حجّاجُ بن محمدٍ، عن يونسَ بن أبي إسحاقَ، عن أبيه
عن زيد بن أرقمَ، قال: عادَني رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلم- من وَجَعٍ كان بعيني
یونس کا سماع براہراست زید بن ارقم سے نہیں ہے
===========
سُلَيْمَانُ بنُ صُرَدٍ أَبُو مُطَرِّفٍ الخُزَاعِيُّ الكُوْفِيُّ المتوفی ٦٥ ہجری صحابی ہیں
طبقات الکبری از ابن سعد میں ان کا ذکر ہے
وكان فيمن كتب إِلَى الْحُسَيْن بْن عليّ أن يقدم الكوفة فَلَمَّا قدمها أمسك عَنْهُ ولم يقاتل معه.
یہ وہ ہیں جنہوں نے حسین کو خط لکھ کر کوفہ بلوایا اور جب وہ آئے تو سلیمان نے ان کے ساتھ قتال نہ کیا
ابن حبان نے مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں لکھا ہے
سليمان بن صرد الخزاعي أبو مطرف له صحبة وكان مع الحسين بن على فلما
قتل الحسين انفرد من عسكره تسعة آلاف نفس فيهم سليمان بن صرد فلما خرج المختار لحق سليمان به فقتل مع المختار بن أبى عبيد بعين الوردة في رمضان سنة سبع وستين
یہ حسین بن علی کے ساتھ تھے جب حسین کا قتل ہوا نادم ہوئے … پھر یہ مختار سے مل گئے اور اس کے ساتھ مل کر قتال کیا
ابن حبان اور ابن سعد کی کتب سے جرح و تعدیل و تاریخ سب لی جاتی ہے اور یہی معلوم ہوا کہ ان صاحب نے حسین کو خروج پر اکسایا تھا
امام احمد کے بیٹے علل میں کہتے ہیں
قال عبد الله بن أحمد: كتب إلي ابن خلاد. قال: سمعت يحيى يقول: خرج سليمان بن صرد في جيش التوابين، قبل أن يظهر المختار، حين قتل حسين عليه السلام، يريد الشام. «العلل» (5010) .
میری طرف ابن خلاد نے خط لکھا کہ میں نے یحیی کو سنا فرمایا سلیمان بن صرد یہ توابین کے لشکر کا ہے جو مختار سے قبل ظاہر ہوا تھا جب حسین کا قتل ہوا
محدثین میں سلیمان بن صرد توابین کے لشکر کے ایک مشھور و معروف فرد ہیں
سنابلی صاحب کی تحقیق ان کے بعض خود ساختہ فرضی تصورات پر قائم ہے – صرف روایت ہی ہر چیز نہیں ہے حکایت بھی کوئی چیز ہے
تاریخ کو دینی لٹریچر سمجھ پر پڑھا جائے تو ایسا ہی ہو گا کہ ہر شخص اس کو اپنے فرقے پر ڈھال دے گا
صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلک و فرقہ سے بالا ہو کر تاریخ کو بیان کیا جائے اس کو مذھب نہ بنا دیا جائے
حکایت سے بھی علم اتا ہے جس طرح عربوں کو نزول قرآن سے قبل بہت سے گزرے لوگوں کا علم تھا جو حکایات کی صورت مشرکوں کو معلوم تھا مثلا فرعون و قوم نوح و قوم عاد وغیرہ
جملہ محدثین جن کا ذکر اوپر کیا وہ ١١٠٠ سو سال پہلے کے ہیں ان کا دور سلیمان بن صرد کے دور کے قریب ہے اور ان کی آراء کو لیا جائے گا
جزاک الله
معلومات کا شکریہ – لیکن کہا جاتا ہے کہ ہماری اسلامی تاریخ میں تعصب کا عنصر بہت نمایاں ہے – خاص کر علی رضی الله عنہ کے خلافت کے دور سے لیکر بنو امیہ کے زوال تک اور اس دوران خصوصاً واقعہ کربلا کا حوالے سے بعض رافضی و نیم رافضی راوی، اصحاب کرام و صحابیات کرام رضوان الله اجمعین پر کیچڑ اچھالنے سے بھی باز نہ آے- جیسے حواب کے کتوں والی روایت وغیرہ – جو ام المومنین پر تبرّا ہے
سلیمان بن صرد سے متعلق طبری میں موجود روایت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ سب ابو مخنف لوط بن یحییٰ کی مرویات کا منبہ ہیں- جو سبائی و کذاب راوی مشھور ہے- لہذا تاریخی حوالے سے سلیمان بن صرد پر یہ ایک جھوٹا الزام ہے کہ یہ حسین بن علی کے ساتھ تھے جب حسین کا قتل ہوا اور پھر نادم ہوئے اور اس پہلے انھوں نے کوفہ سے حسین کو خط لکھ کر امیر یزید کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنے کی ناکام کوشش کی وغیرہ ؟؟
سلام
آپ کی بات درست ہے کہ سبائی ایجنڈا روایات میں موجود ہے اور بنو امیہ کی تنقیص کی گئی ہے – اصلا لا اینڈ آرڈر کو خراب کرنا ہماری تاریخ میں ایک خوبی کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور یہی چیز مسلم معاشروں میں آج تک موجود ہے – لوگ سڑکوں پر آ کر اپنی ہی مسلمان ملکیت کو برباد کرنے کو فخر سے بیان کرتے ہیں
ابو مخنف لوط بن یحییٰ کو کذاب میں نے یا آپ نے قرار دیا ہے بعد میں – محدثین نے اس کو سب سے پہلے کذاب کہا ہے اور وہی محدثین یہ بھی مان رہے ہیں کہ سلیمان بن صرد ان خطوط میں مبتلا تھے – محدثین نے اس خبر کو لیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس یہ بات ابو مخنف کی سند سے علاوہ بھی ہو گی ہر چند کے وہ اسناد ہم تک نہیں پہنچیں
سلیمان بن صرد کا دفاع کیوں کیا جا رہا ہے ؟ کیا صرف یہ ثابت کرنے کہ یہ صحابی نہیں کر سکتا ؟ اگر ایسا ہے تو یہ تاریخ سے لا علمی ہے – فتنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سرخیلوں میں اصحاب رسول بھی موجود تھے -رافضییوں کی فرضی داستانوں کے مقابلے پر اہل سنت اپنی فرضی داستانوں کو سناتے ہیں –
میں کہتا ہوں جو سچ ہے وہ بیان کیا جائے
سچ یہ ہے کہ فتنہ قتل عثمان میں اصحاب رسول اور تابعین گروہوں میں بٹ گئے اور ان میں قتال ہوا پھر صلح ہوئی تو اس شرط پر ہوئی کہ معاویہ کی وفات کے بعد خلافت واپس حسن کو ملے گی – حسن کا انتقال معاویہ سے پہلے ہو گیا معاویہ کے نزدیک عھد ختم ہوا لیکن حسین کے نزدیک نہیں- اگر حسن نہیں تو خلافت واپس خاندان علی کو ملے گی – حسین کے ساتھ بھی بعض اصحاب رسول ہیں اگرچہ جو حسین کی طرف ہیں وہ تعداد میں بہت کم اور غیر معروف ہیں – حسین کربلا گئے تو انہی لوگوں کی وجہ سے گئے جن کو وہ پہلے سے جانتے تھے
———
جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ حسین نے اپنی عصبیت کا اندازہ غلط لگایا اور اس آیت پر بھروسہ کیا جس میں ہے کہ ایک قلیل گروہ بعض اوقات اللہ کے اذن سے کثیر گروہ پر غالب اتا ہے – لیکن اللہ کا اذن اس وقت یہ نہ تھا اور حسین کی عصبیت بھاگ کھڑی ہوئی
یا چھپ گئی – حسین نہ چھپے بلکہ خروج کے بعد مذاکرات کرنے لگے
وہ سمجھے کہ ان کی بات سنی جائے گی اس کے بعد معاملہ حل ہو جائے گا
ایسا مخالف نہیں دیکھتا – وہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص خروج کرتا ہے – اسلحہ لے کر نکلتا ہے – بیت المال لوٹتا ہے
تو پھر اب یہ فساد فی الارض جس کی سزا قتل ہے
——-
حسین کا قتل کیسے ہوا یہ سوال معمہ ہے کیونکہ اس پر کوئی واضح بیان اہل بیت رسول کی طرف سے نہیں آیا ہے
انہوں نے بھی اس پر خاموشی رکھی ہے
امام کے ساتھ خروج کرنے والا بھی خارجی ہے -شرع میں اس کا حکم قتل کا ہے
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امیر المومنین یزید نے حسین بن علی امام زین العابدین کو سولی کا حکم نہیں دیا
یعنی حسین یا اہل بیت کو خارجی نہیں سمجھا تھا ، خواتین کی عزت کی اور مدینہ واپس فوج کی حفاظت میں بھیجا
اور ان کو واپس اہل مدینہ میں ملا دیا
اس کے بعد اہل بیت النبی نے کوئی خروج نہیں کیا – نہ یزید کے دور میں نہ مروان کے دور میں نہ عبد الملک کے دور میں
نہ یزید بن عبد الملک کے دور میں نہ عمر بن عبد العزیز کے دور میں
اس میں اہل بیت کو جو درکار تھا وہ عملا مراعات کی صورت دیا گیا
یعنی جو اگرریمنٹ معاویہ و حسن میں ہوا تھا اس کی شقوں کو اہل بیت نے اب مان لیا کہ ہاں اس کو سمجھنے میں غلطی ہوئی
خروج کی ضرورت ختم ہوئی
——
اہل بیت النبی تو واپس بنو امیہ کے مل جل کر رہنے لگے لیکن وہاں عراق میں چھپے شیعان حسین کے نزدیک جنگ جاری رہی
البتہ اب انہوں نے اس کو پروپیگنڈا وار میں بدل دیا – روایات میں سبائی باتیں ملا دیں
علی کو بادلوں پر بیٹھا دیا – آسمان سے خون کی بارش ہونے لگی
کاٹے گئے سر نیزوں پر بولنے لگے
اس دور میں بھی عراق کے سلیم العقل لوگوں کے نزدیک ان قصوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی
لیکن ایک گروہ ان قصوں کو ایمان کا درجہ دینے لگا اور پھر علی کو زحل بنا دیا فاطمہ کو الزہرہ بنا دیا
ائمہ کو نور بنا دیا
جنگ ختم نہ ہوئی جاری ہوئی
———
روافض کو محدثین نے امت مسلمہ میں شمار کیا ہے ان کی روایت لکھی ہے اور ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے
ہمارا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ ہم ان کو سمجھائیں کہ اپنی رافضی روایات کو اپنی ہی رافضی کتب جرح و تعدیل سے تحقیق کر کر کے دیکھ لیں- دین فروش ذاکرین کو چھوڑ دیں
جزاک الله
آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں – لیکن اسلامی تاریخ کا غیر جاندار ہوکر تجزیہ کرنا اتنا آسان نہیں – روایتوں کو بیان کرتے ہوے تو محدثین خود تعصب کا شکار نظر آے -تاریخ دان تو فضیلت میں محدثین کے بعد آتے ہیں- اب یہی دیکھ لیں کہ امام احمد بن حنبل. علی رضی الله عنہ کی خلافت بلفصل کے قائل تھے- بخاری اس کے برعکس شیخین (ابو بکر و عمر ) کو علی سے افضل سمجھتے تھے -امام احمد نے امیر معاویہ کی تنقیص میں روایتیں اپنی مسند میں بیان کیں- تو دوسری طرف بخاری نے یزید کے مغفور و جنّتی ہونے کی روایتیں اپنی صحیح میں درج کیں اور اہل عراق کو حسین کا قاتل بتایا – محدث نسائی کی موت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص بیان کرتے ہوے ہوئی جب سننے والوں نے ان کو زخمی کردیا
غرض یہ کہ ہماری اسلامی تاریخ کا کوئی ایک پہلو نہیں ہے -کربلا تو بہت بعد میں ہوا – ابو مخنف کی بھی ہر بات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ان محدثین سے بہت پہلے کا ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ وہ دور بنو امیہ کے آخری سالوں میں پیدا ہوا- اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان محدثین نے ہی ان واقعیات کو ایسا مذہبی رنگ دیا کہ جس کی بنا پر مختلف فرقے وجود میں آے- صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے غلطیاں ضرور ہوئیں- یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے غلط وقت اور غلط طریقے سے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا- لیکن بعض واقعات کو اتنا بڑھا چڑھا کر اسطرح بیان کیا گیا کہ جیسے اصحاب کرام کی اکثریت دین اسلام کی تعلیمات سے بلکل انجان تھی اور قرآن اور نبی کریم کی صحبت کا ان پر کوئی اثر نہ تھا