کیا حسن رضی الله عنہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے ؟
جواب
طبقات از ابن سعد کی روایت ہے
: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالا: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ….. وَلَقَدْ قُبِضَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُرِجَ فِيهَا بِرُوحِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ لَيْلَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ.
أَبِي إِسْحَاقَ مدلس عن سے روایت کرتے ہوئے هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ کا قول نقل کر رہا ہے کہ اس نے حسن رضی الله عنہ کا علی رضی الله عنہ کی شہادت پر خطبہ سنا اس میں انہوں نے کہا
بے شک علی کی جان قبض ہوئی اسی رات جس رات اپنی روح کے ساتھ عیسیٰ بلند ہوئے یعنی ٢٧ رمضان کو
اس کی سند میں هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ہے جس پر محدثین کی جرح ہے
النسائي: ليس بالقوي. قوی نہیں ہے ابن خراش: ضعيف، أبو حاتم: شبيه بالمجهول. مجھول جیسا ہے
سوال معتزلہ کا نظریہ رفع عیسیٰ پر کیا تھا؟
جواب
قرآن کی سوره ال عمران کی آیت إِذْ قالَ اللَّهُ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَّ کی تفسیر ، الزمخشري جار الله (المتوفى: 538هـ) الكشاف میں کرتے ہیں
إنى عاصمك من أن يقتلك الكفار ومؤخرك إلى أجل كتبته لك. ومميتك حتف أنفك لا قتيلا بأيديهم وَرافِعُكَ إِلَيَّ إلى سمائي ومقرّ ملائكتي
میں تجھے بچاؤں گا کہ کفار تجھ کو قتل کریں اور اسکو تمہارے لئے موخر کردوں گا جو لکھ دیا ہے اور موت دوں گا تیری موت کے وقت نہ کہ ان کے ہاتھ سے قتل کرواؤں گا اور تم کو اٹھاؤں گا اپنے آسمان کی طرف اور فرشتوں کے ساتھ مقام کروں گا
الزمخشري کا قول مبہم ہے کہ الله نے اگر عیسیٰ کو بچا لیا تو کب کہاں کیسے موت دی اور ان کو آسمان کی طرف کب اٹھایا گیا لہذا وہ مزید غیر مبہم باتیں کرتے ہیں
وقيل: مميتك في وقتك بعد النزول من السماء ورافعك الآن: وقيل: متوفى نفسك بالنوم
اور کہا جاتا ہے موت دوں گا تمہارے (مقدر شدہ) وقت پر آسمان میں انے کے بعد، اور تم کو رفع کروں گا – اور کہا جاتا ہے تم کو نیند میں موت دوں گا
یعنی معتزلہ کی کوئی ایک رائے نہیں تھی کیونکہ وہ نزول عیسیٰ کی روایات قبول نہیں کرتے تھے ان کے پاس میدان صاف تھا جتنی چاہتے قیاس ارائیاں کر سکتے تھے
عصر حاضر کے مصری معتزلہ جدید مثلا محمد متولي الشعراوي (المتوفى: 1418هـ) نے عقیدہ اختیار کیا کہ عیسیٰ کی وفات ہو چکی ہے- محمد رشيد بن علي رضا (المتوفى: 1354هـ) نے تفسیر المنار میں لکھا
إِنِّي مُمِيتُكَ وَجَاعِلُكَ بَعْدَ الْمَوْتِ فِي مَكَانٍ رَفِيعٍ عِنْدِي
میں تجھے موت دوں گا اور موت کے بعد ایک مکان رفیع میں کروں گا
محمد بن أحمد بن مصطفى بن أحمد المعروف بأبي زهرة (المتوفى: 1394هـ) اپنی تفسیر زهرة التفاسير میں کہتے ہیں
ففريق من العلماء وهم الأقل عددا، أجروا قوله تعالى في الآية الكريمة التي نتكلم في معناها على ظاهرها وأولوا ما عداها، ففسروا قوله تعالى: (إِنِّي مُتَوَفِيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ) بمعنى مميتك ورافع منزلتك وروحك إليّ، فالله سبحانه وتعالى توفاه كما يتوفى الأنفس كلها، ورفع روحه كما يرفع أرواح النبيين إليه.
علماء کا ایک فریق جو تعداد میں بہت کم ہیں انہوں نے الله تعالی کے قول کہا کہ ہم ظاہری معنوں پر بات کریں گے پس انہوں نے تفسیر کی کہ قول (إِنِّي مُتَوَفِيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ) سے مراد موت دوں گا ہے اور رفع منزلت آ روح کا الله کی طرف پس الله نے انکو وفات دی جیسی ہر نفس کو دیتا ہے اور ان کی روح کا رفع ہوا جیسے باقی نبیوں کی روحوں کا ہوا
اسی تفسیر میں (بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ) پر لکھا فيه إشارة إلى معنى الكرامة والإعزاز والحماية اس میں اشارہ ہے کہ انکی تکریم ہو گی اور اعزاز و حمایت ہو گی
اسی طرح سر سید، ابو الکلام آزاد، عبید اللہ سندھی نے بھی نزول مسیح کا انکار کیا
ان سب نزول عیسیٰ کے انکاریوں میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ یہ ان علاقوں کے محققین ہیں جو غلام بنائے گئے اور ایک ہی دور کے ہیں یا قریب کے ہیں
سوال کیا حسن بصری بھی عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں؟
جواب
یہ قول تفسیر از أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) میں ہے سند ہے
حَدَّثَنَا النجار، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْد الرزاق، عَنْ معمر، عَنْ الحسن، فِي قوله: {إِنِّي مُتَوَفِّيكَ} قَالَ متوفيك فِي الأرض
معمر ، حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ الله تعالی کا قول کہا میں تجھ کو زمین میں موت دوں گا
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
وقال أحمد بن حنبل لم يسمع من الحسن ولم يره بينهما رجل ويقال إنه عمرو بن عبيد
اور امام احمد کہتے ہیں معمر نے حسن سے نہیں سنا نہ دیکھا اور کہا جاتا ہے کہ انکے اور حسن کے بیچ کوئی آدمی ہے کہا جاتا ہے عمرو بن عبید ہے
افسوس عمرو بن عبید رئیس معتزلہ سے مدلس معمربن راشد روایت لیتے تھے
اسی کتاب میں ایک دوسرا قول بھی ہے
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنَا محمد بْن يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا محمد بْن يوسف، قَالَ: حَدَّثَنَا محرز، قَالَ: سألت الحسن عَنْ قول الله عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا} قَالَ ” عِيسَى مرفوع عِنْد الرب تبارك وتعالى، ثُمَّ ينزل قبل يَوْم الْقِيَامَةِ
محرز ، أَبو إِسرائِيل کہتے ہیں میں نے حسن بصری سے آیت إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا پر پوچھا کہا عیسیٰ کو رب تعالی کی طرف اٹھا لیا گیا پھر وہ اتریں گے قیامت کے دن سے پہلے
محرز پر جرح و تعدیل کی کتب خاموش ہیں
سوال کیا امام مالک عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے؟
جواب کتاب المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز از ابن عطية الأندلسي المحاربي (المتوفى: 542هـ) میں ایک قول ہے
قال مالك في جامع العتبية: مات عيسى وهو ابن ثلاث وثلاثين سنة
أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ) نے کہا
قوله ومات ابن ثلاث وثلاثين سنة، معناه خرج من الدنيا ورفع إلى الله عز وجل وهو في هذا السن، …. وسينزل في آخر الزمان على ما تواترت به الآثار
اور مالک کا قول کہ وہ مرے تو سن ٣٣ کے تھے اسکا معنی ہے دنیا سے نکلے اور ان کا رفع ہوا الله کی طرف تو اس عمر کے تھے … اور وہ واپس نازل ہوں گے آخری زمانے میں جس پر تواتر سے آثار ہیں
ابْنُ رُشْدٍ نے یہ بھی کہا
ويحتمل أن يكون معنى قوله: {بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ} [النساء: 158] أي رفع روحه إليه بعد أن مات ويحييه في آخر الزمان فينزله إلى الأرض على ما جاءت به الآثار، فيكون قول مالك على هذا ومات وهو ابن ثلاث وثلاثين سنة على الحقيقة لا على المجاز، وبالله التوفيق.
اور ایک احتمال یہ ہے کہ قول {بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ} [النساء: 158] کا مطلب ہے کہ انکی روح کے درجات بلند ہوئے انکی موت کے بعد اور وہ زندہ ہیں آخری زمانے تک پس پھر نازل ہوں گے زمین پر جس پر آثار آ چکے ہیں یعنی احادیث تو ہو سکتا ہے امام مالک کا یہ قول کہ وہ ٣٣ سال کے ہو کر مر گئے سے مراد حقیقت ہو نہ کہ مجاز
یعنی چونکہ نزول عیسیٰ قیامت کی نشانی ہے معجزہ ہے تو ممکن ہے عیسیٰ کی وفات کے باوجود انکو واپس بھیجا جائے جیسا کہ احادیث میں ہے
منکرین نزول مسیح صرف ادھی پونی بات پیش کر کے اپنا مدعآ ثابت کرتے ہیں
دوم یہ کتاب جامع العتبية مفقود ہے اور اغلبا اس میں امام مالک کے اس قول کی سند بھی نہیں ہو گی کیونکہ کسی نے بھی اسکو سند سے پیش نہیں کیا ہے لہذا امام مالک سے قول ثابت نہیں ہے
سوال ان اقوال کی اسناد کیسی ہیں
حضرت عیسیٰ بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے ۔ (کنزالعمال جلد ۶ صفحہ ۱۲۰ از علاؤالدین علی المتقی ۔ دائرہ المعارف النظامیہ ۔ حیدرآباد ۱۳۱۲ھ)
اگر حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیرچارہ نہ ہوتا ۔ (الیواقیت والجواہر صفحہ ۲۲ از علامہ عبدالوہاب شعرانی مطبع ازہریہ مصر ، مطبع سوم ، ۱۳۲۱ھ)
ایک اور روایت میں ہے ۔ اگرحضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔(شرح فقہ اکبر مصری صفحہ ۱۱۲ از حضرت امام علی القاری مطبوعہ ۱۳۷۵ھ)
آنحضرت ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرے گامگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔ (اسباب النزول صفحہ ۵۳ از حضرت ابوالحسن الواحدی طبع اولیٰ ۱۹۵۹ء مطبع مصطفی البابی مصر)
جواب
کتاب الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية از السخاوي (المتوفى: 902 هـ) میں روایت
وإن عيسى عاش عشرين ومائة سنة اور بے شک عیسیٰ ١٢٠ سال زندہ رہے پر لکھتے ہیں
وهو غريب جدًا، ولذا قال ابن عساكر: الصحيح أن عيسى لم يبلغ هذا العمر، وإنما أراد مدة مقامه في أمته،
اور یہ بہت غریب ہے اور اس لئے ابن عساکر نے کہا صحیح ہے کہ عیسیٰ اس عمر تک نہیں پہنچے اور ان کا ارادہ انکی امت کے ساتھ مدت اقامت کا ہے
کتاب المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ از ابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کے مطابق
أخرجه يعقوب بن سفيان كما في البداية والنهاية 2/ 95، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني 5/ (2970) عن عمر بن الخطاب السجستاني، والطحاوي في شرح المشكل 1/ (146)، 5/ (1937) عن يوسف بن يزيد، والطبرانى في الكبير 22/ 416 عن يحيى بن أيوب العلاف أربعتهم عن سعيد ابن أبي مريم، عن نافع بن يزيد، حدَّثني عمارة بن غزية عن محمد بن عبد الله بن عمرو بن عثمان، عن أمّه فاطمة بنت الحسن حدَّثته عن عائشة.
وهذا إسناد لين محمد بن عبد الله بن عمرو، وهو الديباج لين الحديث كما في ترجمته في تهذيب الكمال 25/ 516.
اور اس کی اسناد کمزور ہیں محمد بن عبد الله بن عمرو الديباج لين الحديث ہے
وأخرجه البزّار كما في الكشف 2/ 846 عن سعيد ابن أبي مريم، والدولابي في الذرية الظاهرة رقم 186 عن عثمان بن سعيد.
كلاهما عن ابن لهيعة عن جعفر بن ربيعة، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عنها.
وعبد الله هذا لم أعرفه وعند الدولابي عبد الملك وعبد الله بن لهيعة ضعيف
اور اس میں عبد الله کا مجھے پتا نہیں ہے اور عبد الله بن لهيعة ضعيف ہے.
ثانيًا عن يزيد بن زياد، ولفظه: لم يكن نبي إلَّا عاش نصف عمر أخيه الذي قبله، عاش عيسى ابن مريم مائة وخمسة وعشرين سنة، وهذه اثنتان وستون سنة.
أخرجه ابن سعد 2/ 194، أخبرنا هاشم بن القاسم، أخبرنا أبو معشر عن يزيد بن زياد به، وهذا على إرساله ضعيف الإِسناد. نجيح السعدي أبو معشر ضعيف واختلط.
دوسری یزید بن زیاد سے ہے اور اس میں لفظ …. عیسیٰ ١٢٥ سال زندہ رہے ہے اور یہ ہے ٦٢ سال
ابو معشر کا ارسال ہے جو ضعیف اور مختلط تھا
دوسری روایت
اگر حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیرچارہ نہ ہوتا ۔ (الیواقیت والجواہر صفحہ ۲۲ از علامہ عبدالوہاب شعرانی مطبع ازہریہ مصر ، مطبع سوم ، ۱۳۲۱ھ)
ایک اور روایت میں ہے ۔ اگرحضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔(شرح فقہ اکبر مصری صفحہ ۱۱۲ از حضرت امام علی القاری مطبوعہ ۱۳۷۵ھ)
لو كان موسى وعيسى حيَّينِ؛ لما وسعهما إلا اتباعي
جواب
تفسیر ابن کثیر میں ہے
وفي بعض الأحاديث: «لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِي» فَالرَّسُولُ مُحَمَّدٌ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ دَائِمًا إِلَى يَوْمِ الدِّينِ
اسی طرح تفسیر البحر المحيط في التفسير از أبو حيان الأندلسي (المتوفى: 745هـ) میں یہ لکھا ہے
روایت کسی بھی حدیث کی کتاب میں عیسیٰ و موسی کے الفاظ سے نہیں ہے ابن کثیر نے اغلبا ابو حیان کی تفسیر سے ان الفاظ کو سرقه کیا لیکن کہتے ہیں نقل کے لئے بھی عقل درکار ہے یہ مثال آپ کے لئے ہے
تیسری روایت
نبی صلی الله علیہ وسلم نے نے نجران کے عیسائیوں کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرے گامگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔ (اسباب النزول صفحہ ۵۳ از حضرت ابوالحسن الواحدی طبع اولیٰ ۱۹۵۹ء مطبع مصطفی البابی مصر)
جواب کتاب أسباب نزول القرآن از الواحدي، النيسابوري، الشافعي (المتوفى: 468هـ) میں الفاظ ہیں کہ مفسرین کہتے ہیں اور پھر الواحدی بلا سند ایک اقتباس لکھتے ہیں جس میں ہے رسول الله نے نصاری سے کہا
قَالَ: “أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَبَّنَا حَيٌّ لَا يَمُوتُ، وأن عيسى أتى عَلَيْهِ الْفَنَاءُ؟ ” قَالُوا: بَلَى
کیا تم کو پتا نہیں کہ ہمارا رب زندہ ہے اسکو موت نہیں ہے اور عیسیٰ (جن کو تم رب سمجھ رہے ہو) پر فنا آئی ؟ انہوں نے کہا ایسا ہے
ان الفاظ کی سند نہیں ہے لیکن واضح ہے کہ نصاری کے بقول عیسیٰ نے صلیب پر جان دی اور ان پر موت طاری ہوئی اس کو دلیل بناتے ہوئے ان کے غلط عقائد پر جرح ہو رہی ہے
السلام علیکم۔
میرے پاس قرآن مجید سے تحقیق ہے جس میں واضح سوالات کا جواب دیا گیا اور یہ دلائل دی گئی کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں انہوں نے نہیں آنا ایک آیت کی دوسری آیت سے تفسیر لی گئی ہے کیا یہ عقیدہ درست ہے ۔؟
اپ نے تحقیق کیا ہے یہ بیان نہیں کیا
عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ایک معجزہ ہے ان کا پیدا ہونا ان کا رفع ہونا اور ان کا آنا
بعض لوگوں نے سوره المائدہ سے یہ دلیل لی ہے کہ عیسیٰ روز محشر کہیں گے کہ مجھ کو علم نہیں انہوں نے جو عقیدہ اختیار کیا
جب اپ نے مجھے توفی کیا تو اپ ہی ان پر رقیب تھے
جو نزول کو نہیں مانتے ان کے نزدیک توفی یہاں موت ہے اور جو نزول کو مانتے ہیں ان کے نزدیک یہ نیند ہے یا قبضہ میں لینا ہے
مندرجہ ذیل میں تحقیق ہے۔ سب سے پہلے قیامت کی نشانی کے بارے میں۔
عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں۔وہ نشانی نہیں جو لوگوں نے بنا لی ہے یعنی قیامت کے قریب عیسیٰ علیہ السلام کا نزول نہیں۔
بلکہ یہ ہے نشانی اللہ نے آلِ عمران آیت 49 میں واضح بیان کیا اور بتایا کہ نشانی کیا ہے۔
سورة آلِ عمران3آیت نمبر 49۔
”اور وہ بنی اسرائیل کی طرف سے رسول ہوگا، کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں، میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں۔پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر لیتا اور مردے کو جگا دیتا ہوں۔اور جو کچھ تم کھاﺅ اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں،اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایمان لانے والے ہو۔
سورة بنی اسرائیل17آیت نمبر 49۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیاہم از سر نو پیدا کرکے پھر دوبارہ اٹھا کر کھڑے کر دئیے جائیں گے۔
٭نوٹ۔جب کبھی کسی پیغمبر نے قیامت کے دن کا ذکر کیا تقریبا تمام پیغمبروں کو جھٹلا دیا گیا ایسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اور کہا کہ یہ شخص کہتا ہے کہ ہم قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جائیں گے جب ہم اس مٹی میں ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔تم قیامت میں شک نہ کرو عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہے دیکھو عیسیٰ ؑ کو وہ ایسی مٹی کے زروں کو اکٹھا کرتا ہے اور میرے حکم سے سچ مچ کا پرندہ بنا تا ہے۔اللہ کا فرمان ہے تم لوگوں نے قیامت کے دن ایسی طرح میرے پاس اسی مٹی سے دوبارہ زندہ ہو کر واپس آنا ہےاور تم لوگ سمجھتے ہو میں قیامت کے تمہاری ہڈیوں کے زروں کو اکھٹا کر کے تمہیں پیدا نہیں کر سکتا۔بلکہ یہ کام مجھے بہت آسان ہے۔دیکھو عیسیٰ ؑ کو نشانے قدرت بنا دیا ہے قیامت کا۔
سورة القیامہ75آیت نمبر 3۔
کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں۔
سورة النازعات 79آیت نمبر 11تا10
کہتے ہیں کہ کیا پہلی کی سی حالت کی طرف لوٹائے جائیں گے۔کیا اس وقت جب کہ ہم بوسیدہ ہڈیاں ہو جائیں گے۔
سورة الانبیاء21آیت نمبر 91۔
اور وہ پاک دامن بی بی جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور خود انہیں اور ان کے لڑکے کو تمام جہان کے لئے نشانی بنا دیا۔
سورة بنی اسرائیل 17آیت نمبر 98۔
یہ سب ہماری آیتوں سے کفر کرنے اور اس کے کہنے کا بدلہ ہے کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہو جائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں اٹھ کھڑے کئے جائیں گے؟۔
سورۃ مریم 19۔
قَالَ كَذٰلِكِ ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۚ وَلِنَجْعَلَهٗٓ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا 2١
فرشتے نے کہا ’’ ایسا ہی ہوگا ، تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اُس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت۔ اور یہ کام ہو کر رہنا ہے۔‘‘ (21)
110۔
”جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم ! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی۔تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرندے کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ پرندہ بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر ددیتے تھے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے، پھران میں جو کافر تھے انہوں نے کہا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔
سورة آلِ عمران 3آیت نمبر 50۔
اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے اور میں اس لئے آیا ہوں کہ تم پر بعض وہ چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئیں ،اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں اس لئے تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری کرو۔
سورة المومنون 23آیت نمبر50۔
ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا، اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں پناہ دی۔
———
اب اس تحقیق میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ ہے اصل نشانی کا مفہوم کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی لائے ہیں دیکھو یہ کیا کرتے ہیں تم قیامت کے بارے میں شک مت کرو ۔جو تم کہتے ہو کہ قیامت کے دن دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا عیسیٰ علیہ السلام کی طرف دیکھووہ اسی مٹی کو اکٹھا کر کے واقع زندہ جانور اللہ کے حکم سے بناتے ہیں تم بھی قیامت کے دن اسی طرح زندہ کئے جائو گے !
الزخرف 43آیت نمبر61تا59
عیسیٰ ؑ بھی صرف بندہ ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لئے نشان قدرت بنایا،اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کر دیتے جو زمین میں جانشینی کرتے۔اور یقینا عیسیٰ ؑ قیامت کی نشانی ہے پس تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہ سیدھی راہ ہے۔
19۔
قَالَ كَذٰلِكِ ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۚ وَلِنَجْعَلَهٗٓ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا 2١
فرشتے نے کہا ’’ ایسا ہی ہوگا ، تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اُس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت۔ اور یہ کام ہو کر رہنا ہے۔‘‘ (21)
یعنی دیکھا جائے تو واقع ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید خود ہی نشانی کی تفسیر بیان فرما رہا ہے کہ قیامت کی نشانی سے کیا مراد ہے ۔
بائبل کے مطابق اور یہودی مورخین کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں یہود کے یہ بڑے فرقے تھے
ایک وہ تھے جو صحرا میں شہر سے باہر رہتے اور یحیی علیہ السلام کو مسیح قرار دیتے تھے
دوم صدوق فرقہ : مسجد الاقصی کا امام اسی فرقہ کا رکھا جاتا تھا جو یہود میں بادشاہ اور حاکم کا معاہدہ تھا- جیسا آج کل ال سعود کا ال عبد الوہاب سے معاہدہ ہے کہ امام الحرم ال النجدی کا ہو گا
Sadducee
سوم فاریسی فرقہ : یہ مسجد کے منتظم تھے لیکن ہیڈ امام نہیں بن سکتے تھے یہ حدیث موسی کو مانتے تھے کہ یہ توریت کے ساتھ ملی اور حیات بعد الموت کے اقراری تھے
Pharisee
چہارم : اسین فرقہ – ان کا قتل رومیوں نے کیا یہ جہادی سوچ رکھتا تھا اور بحر مرادر کے طومار اسی فرقہ کے ہیں اور حیات بعد الموت کے اقراری تھے
Essene
ان تمام فرقوں نے عیسیٰ کا انکار کیا سوائے اس فرقہ کے جو یحیی کو مسیح سمجھ رہا تھا وہ عیسیٰ پر ایمان لے آیا
——–
اس میں صرف صدوق فرقہ منکرین حدیث موسی تھا اور کہتا تھا کہ صرف توریت کو لیا جائے گا اس میں ان کو حیات بعد الموت کا ذکر نہیں ملتا تھا جبکہ فاریسی اور اسین فرقہ روایات کی وجہ سے حیات بعد الموت کا قائل تھا
صدوقی فرقہ آ کر عیسیٰ سے مرنے کے بعد زندہ ہونے پر سوال کرتا رہتا تھا لیکن باقی کو اس پر اشکال نہیں تھا
آج بھی یہود مرنے کے بعد زندہ ہونے کے قائل ہیں جو نہیں مانتے تھے وہ معدوم ہو چکے
اپ کو یاد ہونا چاہیے کہ قرآن میں یہود کا قول ہے کہ ہم جو عذاب جہنم چند دن ہو گا
تو یہود تمام حیات بعد الموت کے انکاری نہیں ہیں
مشرکین مکہ کہتے تھے کہ ایک نصرانی معبود (یعنی یسوع) کا ذکر محمد کیوں کرتا ہے کیا ہماری دیوی لات اور عزی اور منات کا ذکر کیوں نہیں ہے اس پر کہا گیا کہ عیسیٰ تو الله کا بندہ ہے انسان ہے
الزخرف 43آیت نمبر61تا59
عیسیٰ ؑ بھی صرف بندہ ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لئے نشان قدرت بنایا،اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کر دیتے جو زمین میں جانشینی کرتے۔اور یقینا عیسیٰ ؑ قیامت کی نشانی ہے پس تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہ سیدھی راہ ہے۔
عیسیٰ قیامت کی نشانی ہیں اور حیات بعد الموت دو الگ مباحث ہیں قرآن نے اس کو ملا کر بیان نہیں کیا لہذا خلط مبحث نہ کریں
——–
قرآن میں فرقہ کا نام نہیں لیا جاتا بلکہ سب پر اس بات کو لگایا جاتا ہے – قرآن میں ہے یہود نے کہ عزیر الله کا بیٹا ہے
یہ قول تمام یہود کا نہیں تھا عرب کے بعض یہود کا تھا – یہ عقیدہ تلمود میں بھی نہیں ہے جو دور نبوی میں لکھی گئی ہے – آج بھی یہود میں کوئی بھی عزیر کو بیٹا قرار نہیں دیتا
مثلا ہم کہیں مسلمانوں نے کہا کہ محمد الله کا نور ہے
تو اس پر اہل حدیث یا وہابی یا توحیدی کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو تمام مسلمانوں کا قول نہیں صرف کچھ فرقوں کا ہے
اب ہو سکتا ہے کہ بریلوی فرقہ اور شیعہ وقت کے ساتھ معدوم ہو جائیں تو کیا کوئی رہے گا جو محمد کو نور رب قرار دیتا ہو – نہیں
لہذا اسی طرح حیات بعد الموت کا جھگڑا تھا ایک فرقہ قائل نہیں تھا ان کے لئے عیسیٰ نے معجزہ دکھایا لیکن سب اس پر متفق نہیں تھے
=========
راقم کہتا ہے اور اس پر بہت تفصیل سے تحقیق تفسیر میں کی ہے
⇑ Two Illuminated Clouds of Quran
https://www.islamic-belief.net/literature/english-booklets/
راقم کا موقف ہے کہ زکریا علیہ السلام منصب میں مسجد الاقصی کے ایک منتظم تھے وہ کوہن تھے اور لاوی تھے یعنی ہارون علیہ السلام کی نسل سے تھے اسی طرح عمران والد مریم علیہ السلام بھی نبی ہارون میں سے تھے اور لاوی تھے لیکن اغلبا مریم کے والد انتقال کر گئے اور ان کے والدہ کی نذر کے تحت مریم علیہ السلام کو مسجد الاقصی میں رکھا گیا
یاد رہے کہ کوہن یا لاوی جو منتظم مسجد تھے ان کا بنی ہارون میں ہونا لازمی تھا
اب اس کی دوسری دلیل اقلام والا واقعہ ہے – یہود کے مطابق اقلام ہیکل یا مسجد میں ڈیوٹی دیتے وقت پھینکے جاتے تھے – تلمود میں ہے کہ تمام منصب دار یا منتظمین ایک دائرۂ کی صورت گھڑے ہوتے اور اقلام پھینکتے تھے جو قرعہ اندازی کی شکل تھا- قرآن میں اس کا اجمالا ذکر ہے
سوم نذر پوری کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا خاص کر لاوی کی بیوی یعنی زوجہ عمران کی منت پوری کرنے مریم کو مسجد الاقصی میں رکھا گیا اور وہاں ان کو محراب میں جگہ دی گئی جس میں ان کو باقی سے الگ کرنے ایک پردہ تھا
تیسری دلیل- یہود کے مطابق مسجد الاقصی کے صحن میں ایک الاو جلتا تھا جس کو ” ازراہ” کہا جاتا تھا جس میں ہر وقت اگ جلتی رہتی تھی اور سوختنی قربانی اس میں ڈالی جاتی تھی- اس کے مشرقی سمت میں ایک بہت بڑا کمرہ تھا جس میں لاوی مقیم رہتے تھے جس کی چھت آدھے گنبد یا محراب جیسی تھی
اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے کہ مریم محراب میں مقیم تھیں اور وہاں محراب میں ہی زکریا نماز بھی پڑھتے تھے
چوتھی دلیل: بائبل کے مطابق زکریا علیہ السلام پر الوحی اس وقت آئی جب وہ مسجد الاقصی میں دیا جلا رہے تھے
اور قرآن میں ہے محراب میں نماز پڑھ رہے تھے باہر ا کر مجمع کو کہا تین دن الله کا ذکر کرو
بحر حال ان معلومات کو یھاں بیان کیا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام الله کی نشانی ہیں یہ یہود خوب اچھی طرح جان چکے تھے کیونکہ یہ سب واقعات کسی گھر یا نا معلوم مقام پر نہیں ہوئے بلکہ عین مسجد الاقصی میں یہ سب ہوا
اسلام و علیکم بھائی ۔۔اک سوال کیا گیا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام پر تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے عیسیٰ علیہ السلام پر،
تو سوال یہ ہے کہ سورہ مائدہ آیت نمبر 64 میں اللہ فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں قیامت تک بغض رہے گا تو پھر اس آیت کی آپ کیا تعویل کرینگے
برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں جذاک اللہ خیرا
قرآن میں جب قیامت کا ذکر ہوتا ہے تو بعض اوقات اس سے عین محشر نہیں ہوتا ہے بلکہ قرب قیامت کو بھی وعدہ یا دن کہا گیا ہے
وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآَيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
پس جب ان پر ہمارا قول واقع ہو گا ہم ان کے لئے زمین سے جانور نکالیں گے جو کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پرایمان نہیں لاتے
الله کا قول واقع ہو گا یعنی قیامت ہونے والی ہو گی
——-
وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ
أور إس روز هم ان یاجوج ماجوج کو چھوڑ دیں گے کہ موجوں کی طرح ایک دوسرے پر ہوں
——–
اسی طرح نزول مسیح بھی قیامت کی نشانی ہے اور اسی مفہوم میں اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ بغض انسانوں کا رہے گا
يهود کو ایک دوسرے سے بغض رہے گا
وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ
اور ہم نے یہود کے درمیان دشمنی و بغض روز قیامت تک کے لئے ڈال دی
یعنی ان کے فرقے اپس میں لڑیں گے – یہاں تک کہ محشر میں بھی تکرار کریں گے
فرقہ بنتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں ان کو چلانے والے لوگ مر جاتے ہیں
اسلام و علیکم بھائی آپ کی کتاب روایات المسیح کا مطالعہ کیا اس میں صحیح مسلم کی حدیث الجساسہ کے بارے میں آپ نے آپ نے بتایا کہ وہ درست نہیں اور بخاری کی حدیث جس میں دجال کے بارے میں مار کر زندہ کرنے کے بارے میں لکھا ہے جس میں عبداللہ بن عبدللہ المدنی کا تفرد ہے ۔۔۔۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا صحیح بخاری نے میں بھی کچھ ضعیف روایات موجود ہیں یا پھر بعد میں اضافہ کیا گیا ۔۔۔
برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں
صحیح بخاری میں بھی ضعیف روایات ہیں جو معلول ہیں یا راوی ضعیف ہیں امام بخاری کے ہم عصر محدثین کے ہی نزدیک
اس کے لئے
QA
میں علم حدیث کے سیکشن میں کافی مثالیں لکھی ہیں
یہ روایات امام بخاری نے ہی لکھی ہیں
یاد رہے امام بخاری یا امام مسلم کا کسی روایت کو صحیح سمجھنا ان کا اجتہاد ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے
———-
حدیث جساسہ امام مسلم نے صحیح میں لکھی ہے – امام بخاری نے اس کو صحیح میں شامل نہیں کیا ہے
دجال مار ایک زندہ کرے گا روایت کے مطابق صرف ایک بار ہو گا
کہتے ہیں جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا
اگر ایک بار ہو گا تو فائدہ کس کو ہو گا
دجال کے نرغے میں اس کے اپنے لوگوں کے بیچ ایک مرد مسلمان کے زندہ ہونے سے تو اہل دجال اس پر بہت خوش ہوں گے
روایت مبہم ہے – لگتا ہے کسی اور کا قول ہے حدیث نبوی نہیں ہو سکتی
السلام علیکم!
سورة النساء4آیت نمبر159۔
(تفسیر ترجمان القرآن جلد اول صفہ نمبر 442 )(امام الہند مولانا ابوالکلام احمد آزاد صاحب)
“اہل کتاب میں سے(یعنی یہودیوں میں سے جنہوں نے مسیح سے انکار کیا)کوئی نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے (حقیقت حال پر مطلع نہ ہو جائے اور)اس پر (یعنی مسیح کی صداقت پر) یقین نہ لے آئے ۔ ایسا ہونا ضروری ہے(کیونکہ مرنے کے وقت غفلت و شرارت کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں، اور حقیقت نمودار ہوتی ہے) اور قیامت کے دن وہ (اللہ کے حضور یعنی عیسیٰ ؑ) ان پر شہادت دینے والا ہوگا۔”
کیا یہ درست ترجمہ ہے؟
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ﴿١٥٩﴾
أور أهل كتاب میں سے ہوں گے جو ضرور اپنی موت سے قبل ان پر ایمان لائیں گے اور روز محشر ان پر گواہ ہوں گے
ابو کلام کے ترجمہ میں سے بریکٹ ہٹا کر دیکھیں
اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے اس پر یقین نہ لے آئے ۔ ایسا ہونا ضروری ہے اور قیامت کے دن وہ ان پر شہادت دینے والا ہوگا۔
ترجمہ ایک حد تک صحیح ہے (سوائے ان الفاظ کے “ایسا ہونا ضروری ہے “) کیونکہ بریکٹ لگا کر انہوں نے ظاہر کر دیا ہے کہ یہ متن میں نہیں ان کے اپنے الفاظ ہیں
اصل میں موتہ میں الھا کی ضمیر کس کی طرف ہے؟ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف لی جائے تو ترجمہ بدل جائے گا
کہ
أور أهل كتاب میں سے ہوں گے جو ضرور ان کی موت سے قبل ان پر ایمان لائیں گے اور روز محشر ان پر گواہ ہوں گے
السلام علیکم!
یعنی ترجمہ سے واضح ہے کہ۔
اہل کتاب جو بھی ہوں گے سب کے سب اپنی موت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائئں گے کہ وہ واقع اللہ کا بیٹا نہیں بلکہ ایک پیغمبر تھا اور اور اللہ کے ہی حکم سے ہمیں تبلیغ کرنے آیا تھا ۔۔۔۔
کیا میں درست سمجھا ہوں؟
جی اس کا یہی مطلب ہے اور یہ بھی ہے
اہل کتاب جو بھی ہوں گے سب کے سب عیسیٰ کی موت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائئں گے
السلام علیکم۔
اہل کتاب جو بھی ہوں گے سب کے سب عیسیٰ کی موت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے۔۔
یہ ترجمہ غلط ہے۔
اصل میں فرمایا گیا ہے کہ اہل کتاب میں جو بھی مرے گا یعنی جو 1400ساک پہلے مرا اور جو آج مرے گا اور جو قیامت کے قریب مرے گا وہ اہل کتاب مرنے سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ضرور ایمان لائے گا کہ وہ اللہ کے نیک بندے اور رسول تھے اور اپنے کفر و شرک کا صاف قبول کریں گے کہ ہم کافر تھے۔
اپ کی تشریح بھی ایک تفسیری قول ہے
آیت میں ہے
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ﴿١٥٩﴾
أور أهل كتاب میں سے ہوں گے جو ضرور اپنی موت سے قبل ان پر ایمان لائیں گے اور روز محشر ان پر گواہ ہوں گے
اس میں ہے اہل کتاب میں سے ہوں گے جو سب کے سب عیسیٰ پر ایمان لائیں گے اس میں یہ نہیں کہ جو بھی اہل کتاب میں مر رہا ہے وہ عیسیٰ پر ایمان لا رہا ہے
تفسیر ابی حاتم کے مطابق یہ حسن بصری کا قول ہے کہ اس سے مراد نجاشی اور اس کے اصحاب ہیں
حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ فِي قَوْلِهِ: وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ قَالَ: النَّجَاشِيُّ وَأَصْحَابُهُ.
لیکن یہ اپ کے قول کے خلاف ہے کیونکہ اپ من کو عام کر رہے ہیں اور اس قول میں اس کو خاص کر دیا گیا ہے
تفسیر طبری میں حسن بصری سے اس کے مخالف قول ہے
حدثني المثنى قال، حدثنا الحجاج بن المنهال، قال، حدثنا حماد بن سلمة، عن حميد، عن الحسن قال:”قبل موته”، قال: قبل أن يموت عيسى ابن مريم.
حدثني يعقوب قال، حدثنا ابن علية، عن أبي رجاء، عن الحسن في قوله:”وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته”، قال: قبل موت عيسى. والله إنه الآن لحيٌّ عند الله، ولكن إذا نزل آمنوا به أجمعون.
حسن کہتے ہیں یہاں عیسیٰ کی موت مراد ہے
تفسیر ابی حاتم کے مطابق ابن عباس کے مطابق اس میں الھا عیسیٰ کی طرف ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ عَنِ ابْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ: وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا ليؤمنن به قبل موته قَالَ: قَبْلَ مَوْتِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ.
وَرُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَمُجَاهِدٍ، وَالْحَسَنِ، وَقَتَادَةَ نَحْوُ ذَلِكَ.
تفسیر طبری کے مطابق ابن عباس کہتے اس میں کتابی کی موت مراد ہے
حدثني المثنى قال، حدثنا عبد الله بن صالح قال، حدثني معاوية، عن علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس قوله:”وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته”، قال: لا يموت يهودي حتى يؤمن بعيسى.
یہ سند منقطع ہے کیونکہ علی بن ابی طلحہ کا سماع ابن عباس سے نہیں ہے
اس قول کو ابن سیرین سے بھی منسوب کیا گیا ہے
حدثنا ابن بشار قال، حدثنا عبد الرحمن قال، حدثنا الحكم بن عطية، عن محمد بن سيرين:”وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته”، قال: موتِ الرجل من أهل الكتاب
یہں سند میں الحکم بن عطیہ ضعیف ہے
——
جب قرآن کہتا ہے ایمان لائے گا تو یہ ایمان ہی ہوا اور اس کی بنا پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ہی اس آیت کے نزول کے بعد سے مرنے والے تمام اہل کتاب جہنمی نہیں رہتے
زمخشری جن کو معتزلی متاثر کہا جاتا ہے وہ تک نزول مسیح کو مانتے ہیں لہذا اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں
وَإِنَّهُ وإن عيسى عليه السلام لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ أى شرط من أشراطها تعلم به
عیسیٰ قیامت کا علم ہیں اس کی شرطوں میں سے ایک ہیں جس کا علم دیا گیا
مشہور متکلم قاضی الباقلانی المتوفی ٤٠٣ ھ کتاب الانتصار للقرآن میں کہتے ہیں
فليست الهاء راجعةَ
على المكلَّف من أهل الكتاب، وإنّما أراد أن أهلَ العصر الذي ينزل فيه
عيسى من السماء من أهل الكتاب، يؤمنون به عندَ نزوله ويعرفون صدقه.
یہاں الھا اہل کتاب کے مکلف کی طرف نہیں کہ بلکہ اس میں مراد وہ ہیں جو نزول عیسیٰ کے دور میں ان پر ایمان لائیں گے ان کو پہچانیں گے تصدیق کریں گے
غريب القرآن لابن قتيبة المتوفی ٢٤٧ کہتے ہیں
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ يريد: ليس
من أهل الكتاب في آخر الزمان عند نزوله- أحد إلا آمن به حتى تكون الملّة واحدة، ثم يموت عيسى بعد ذلك.
مراد ہے آخری زمانے میں اہل کتاب میں کوئی نہ ہو گا جو عیسیٰ کے نزول کے بعد ان پر ایمان نہ لائے اور ملت ایک ہو گی پھر عیسیٰ کی موت ہو گی
اپ کی تفسیر بھی مفسرین نے بیان کی ہے لیکن وہ باوجود اس تفسیر کے نزول مسیح کے قائل ہیں کیونکہ وہ انہ علم للساعہ میں مراد عیسیٰ لیتے ہیں
عرب نحوی الفراء (المتوفى: 207هـ) کہتے ہیں
ويُقال: يؤمن كل يهوديّ بعيسى عند موته «1» . وتَحقيق ذَلِكَ فِي قراءة أبي إِلا ليؤمنُنَّ بِهِ قبل موتهم
اور کہا جاتا ہے کہ اپنی موت پر تمام یہودی عیسیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تحقیق ہے کہ ابی بن کعب کی قرات میں تھا کہ اپنی موتوں سے پہلے یہ ایمان لائیں گے
زمخشری نے تفسیر میں لکھا
وتدل عليه قراءة أبىّ: إلا ليؤمننّ به قبل موتهم، بضم النون على معنى: وإن منهم أحد إلا سيؤمنون به قبل موتهم
اور اس پر دلالت کرتا ہے ابی بن کعب کی قرات کہ ان میں سے ہر ایک اپنی موت سے قبل ایمان لاتا ہے
لیکن اس قول کی سند تفسیر طبری میں ہے
حدثني إسحاق بن إبراهيم بن حبيب بن الشهيد قال، حدثنا عتاب بن بشير، عن خصيف، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس:”وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته”، قال: هي في قراءة أبيّ: (قبل موتهم)
سند میں عتاب بن بشير ہے جو ضعیف ہے
عتاب بن بشير الجزرى کے لئے احمد نے کہا
قال أحمد : أحاديثه عن خصيف منكرة
خصيف سے منکرات بیان کرتا ہے
وخصيف بن عبد الرحمن الجزري بھی ضعیف ہے
تفسیر الدر المنثور میں لکھا ہے
وَأخرج ابْن الْمُنْذر عَن أبي هَاشم وَعُرْوَة قَالَا: فِي مصحف أبي بن كَعْب: وَإِن من أهل الْكتاب إِلَّا ليُؤْمِنن بِهِ قبل مَوْتهمْ
ابن منذر نے ابی ہاشم اور عروه سے روایت کیا کہ ابی بن کعب کی قرات میں یہ تھا
یعنی آیت میں الھا کی ضمیر کو اہل کتاب کی موت کی طرف لے جانے کے لئے لوگوں کو یہ دلیل ملی ہے
اگر یہ بات ہے تو آج ہمارے پاس ابی بن کعب کی قرات ہی ہے جس کو عاصم بن ابی النجود کی سند سے ہم جانتے ہیں اس میں ایسا نہیں ہے
عمر رضی الله عنہ کے دور میں ابی بن کعب کی قرات پر تراویح ہوئی بہت سے اصحاب رسول نے اس قرات کے مطابق قرآن سنا لیکن آج جو دس قرات ہمارے پاس ہیں ان میں ایک میں بھی قبل موتھم نہیں ہے
خود یہ قول تفسیر ابن المنذر میں بھی موجود نہیں ہے
دوم ابی ہاشم اور عروہ تک سے لے کر ابی تک کوئی سند کا علم نہیں ہے
لہذا یہ قول پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتا اور اس بنیاد پر اپ کی تشریح قابل قبول نہیں ہے
اب اپ غور کریں قرآن میں ہے
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ
اور اہل کتاب میں سے ہیں جو الله پر ایمان لائے اور جو تم پر نازل ہوا اور جو ان پر نازل ہوا
جبکہ ہم کو معلوم ہے کہ دور نبوی میں تمام اہل کتاب ایمان نہیں لائے یہاں بھی ان من اھل الکتاب ہے
———
اس آیات کی تفسیر میں ایک اور قول بھی ہے جو اہل سنت کی تفسیر میں ہے جس کو بلا سند بیان کیا گیا ہے
وروى أن الحجاج بن يوسف قال : ما قرأت هذه الآية الا وفى نفسى منها شىء ، فانى أضرب عنق اليهودى والنصرانى ، ولا أسمع منه ذلك .
فقلت : ان اليهودى اذا حضره الموت ضربت الملائكة وجهه ودبره وقالوا : يا عدوا الله أتاك عيسى نبيا فكذبت به ، فيقول : آمنت أنه عبد الله ورسوله ، وتقول للنصرانى ، أتاك عيسى نبيا فزعمت أنه الله أو ابن الله ، فيقول آمنت أنه عبد الله ورسوله ، فأهل الكتاب يؤمنون به حين لا ينفعهم الايمان .
فاستوى الحجاج جالسا وقل : عمن نقلت هذا؟ فقلت : حدثنى به محمد بن الحنفية فأخذ ينكت فى الأرض بقضيب ثم قال : لقد أخذتها من عين صافية
– راقم کو اس قول کی سند شیعہ تفاسیر میں ملی ہے
وفي تفسير علي بن إبراهيم: حدثني أبي، عن القاسم بن محمد، عن سليمان بن داود المنقري، عن أبي حمزة، عن شهر بن حوشب قال: قال لي الحجاج: يا شهر، آية في كتاب الله قد أعيتني ؟ ! فقلت: أيها الامير أية آية هي ؟ فقال قوله: ” وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ” والله إني لآمر باليهودي والنصراني فيضرب عنقه، ثم أرمقه بعيني فما أراه يحرك شفتيه حتى يخمد، فقلت: أصلح الل الامير، ليس على ما تأولت، قال: كيف هو ؟ قلت: إن عيسى ينزل قبل يوم القيامة إلى الدنيا فلا يبقى أهل ملة يهودي ولا غيره إلا آمن به قبل موته، ويصلي خلف المهدي، قال: ويحك أنى لك هذا ومن أين جئت به ؟ ! فقلت: حدثني به محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب (عليهم السلام)، فقال: جئت بها من عين صافية
شہر بن حوشب نے کہا مجھ سے حجاج بن یوسف نے کہا اے شہر مجھ کو ایک آیت کتاب الله میں ملی ہے میں نے کہا اے امیر کون سی ؟ حجاج نے کہا وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته – الله کی قسم میں تو جس یہودی و نصرانی کی گردن قلم کرنے کا حکم کرتا ہوں تو میں اس کے ہونٹ دیکھتا رہتا ہوں یہاں تک کہ سد پڑ جائے – میں نے کہا الله اپ کی اصلاح کرے اے امیر ایسا نہیں ہے جیسا اپ تاویل کر رہے ہیں حجاج نے کہا تو پھر کیا ہے ؟ میں نے کہا عیسیٰ محشر سے قبل نازل ہوں گے یہاں تک کہ دنیا کا کوئی یہودی یا کوئی اور نہ ہو گا تو مرنے سے قبل ان پر ایمان نہ لائے اور المہدی کے پیچھے نماز پڑھے – حجاج نے کہا بربادی تجھ کو یہ تفسیر کہاں سے ملی ؟ میں نے کہا ایسا محمد بن حنفیہ نے بیان کیا ہے – حجاج بولا تو تجھ کو یہ ایک صاف چشمے سے ملا
اس کی سند میں مجہولین ہیں
البتہ شیعہ مفسرین نے اس آیت میں الھا کی ضمیر عیسیٰ کی طرف کی ہے
خوارج کے اباضی عالم هود بن محكم الهواري المتوفی ٢٨٠ ھ تفسير الهواري میں کہتے ہیں
قوله : { وَإِن مِّنْ أَهْلِ الكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ } يقول : قبل موت عيسى إذا نزل علهيم
الله کا قول سے مراد یعنی عیسیٰ کی موت سے قبل جب وہ نازل ہوں گے
اس طرح تمام فرقے اس آیت میں الھا کی ضمیر عیسیٰ کی طرف لے کر جا رہے ہیں اور جو قول اس سے الگ ہیں ان کی اسناد نہیں ہیں جب تک سند نہ ہوا یا نص واضح نہ ہو اپ کی تفسیر ایک قول سمجھی جائے گی قبول نہیں کی جائے گی – اس پر نص درکار ہے
صحیح بخاری میں ان سے متعلق کون سا قول ہے جس کو قادیانی لوگ ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل تھے۔
وضاحت مطلوب ہے
قرآن کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کا یہود قتل نہ کر سکے اور ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا
============
اس کو دلیل بناتے ہوئے بعض اہل سنت میں سے لوگوں نے دعوی کیا کہ الله تعالی نے عیسیٰ علیہ السلام کو موت دے دی اور ان کی لاش کو آسمان پر اٹھا لیا گیا
قادیانیوں کا ( مولوی نورالدین و مرزا غلام احمد الدجال کا) قول ہے کہ عیسیٰ صلیب پر نہیں مرے وہ مردہ لگے لوگوں نے اتار کر ان کو غار میں رکھا اور پھر عیسیٰ ہجرت کر کے کشمیر آ گئے جہاں محلہ خانیار سری نگر میں یزآسپ یا آصف جاہ کی قبر اصل میں عیسیٰ کی قبر ہے یعنی ان کے نزدیک عیسیٰ طبعی موت مرے
عیسیٰ علیہ السلام سری نگر ان کے بقول
Lost Tribes
کی تلاش میں آئے اور ١٢٠ سال زندہ رہے
https://ur.wikipedia.org/wiki/مسیح_ہندوستان_میں_(کتاب)
اصلا مرزا قادیانی کی تحقیق روسی مفکر اور چھوڑو نوٹووچ کی کتاب کا چربہ ہے
https://www.amazon.com/Life-Jesus-Christ-Nicolas-Notovitch/dp/1604593660
Nicolas Notovitch (1858-?) was a Russian aristocrat, adventurer, Cossack officer, spy and journalist.
نوٹووچ تھیوری کے مطابق عیسیٰ کشمیر اور تبت میں کسی خانقاہ میں رو پوش رہے اور اس طرح ابراہمی ادیان کا غیر ابراہیمی ادیان سے کنکشن ثابت کیا گیا
انجیل متی 15:24 میں ہے عیسیٰ نے یہود سے کہا مجھے صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس بھیجا گیا تھا
لہذا عیسیٰ کا اصل مشن یروشلم کا نہیں بلکہ کشمیر و تبت میں بنی اسرائیل کے کھوئے ہوئے قبیلوں کو ڈھونڈنا تھا
نوٹووچ ایک یہودی تھا اس کے بقول عیسیٰ نے ١٣ سال کی عمر میں یروشلم چھوڑا اور سندھ سے کشمیر اور لداخ آئے اور وہاں تبتی عقائد سیکھے پھر واپس یروشلم آئے لیکن مرزا نے اس میں
twist
ڈالا اور دعوی کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام انتقال کر گئے
اصل میں یہود کا یہ دعوی ہے کہ عیسیٰ کے عقیدہ صحیح نہیں تھا تلمود کے مطابق عیسیٰ مصر گئے وہاں انہوں نے سحر سیکھا نعوذ باللہ لیکن اس روسی یہودی محقق کا دعوی تھا کہ بدھمت کی تعلیمات حاصل کیں -اس کی ضرورت اس طرح پیش آئی کہ جس عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک مصر کا سحر کا مذھب معدوم ہو چلا تھا اور تلمود کا بیان قابل اعتماد نہیں رہا تھا- نوٹووچ نے عیسیٰ کو ہندوستان پہنچوایا جو سحر کے حوالے سے دوسری مشھور جگہ تھا اس کے مطابق اس کے بعد ہی عیسیٰ نے ابن الله کا دعوی کیا
نعوذ باللہ من تلک الخرافات
نوٹووچ ١٨٨٧ میں برصغیر میں تھا اور ممکن ہے مرزا غلام احمد کی امرتسر میں اس ملاقات ہو یا اس کی سن گن پڑی ہو سن ١٨٩١ میں غلام احمد نے مسیح الزمان کا دعوی کے
نوٹووچ کے خلاف جرمن محقق
https://en.wikipedia.org/wiki/Max_Müller
نے تحقیق کی اور لداخ کی اس خانقاہ کو خط بھی لکھا کہ نوٹووچ وہاں پہنچا بھی تھا یا نہیں- جواب ملا کہ پچھلے ١٥ سال سے کوئی مغربی شخص یھاں نہیں رکا
اس طرح نوٹووچ جھوٹا اپنی زندگی میں ہی ثابت ہوا
اصل میں قصہ طویل ہو جائے گا نوٹووچ ایک روسی جاسوس تھا جو رشین امپائر کی ایما پر برطانوی ایمپائر کی جاسوسی کر رہا تھا اور پنجاب میں ہی رکا ہوا تھا نہ کشمیر گیا نہ لداخ
لیکن نوٹووچ جھوٹے نے ایک جھوٹی تحقیق کی آڑ میں خود کو چھپا رکھا تھا
مرزا الدجال کو یہ سب بہت من بھایا اور آوٹ پٹانگ دعووں کا دور شروع ہوا
اس کے بعد ایک ہندو سوامی کو یہ تمام قصہ دلچسپ لگا اور اس نے دعوی کیا کہ وہ بھی لداخ گیا اور جو جو نوٹووچ نے کہا تھا وہی اس نے دہرایا اور اس طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ابراہمی ادیان میں غیر ابراہیمی ادیان کی آمیزش ہے
https://en.wikipedia.org/wiki/Swami_Abhedananda
یاد رہے کہ اسی دور میں میڈم بلاوتسکی (١) آنجہانی ١٨٩١ ع جو اپنے وقت کی ایک مشھور شخصیت رہیں – وہ قدیمی ادیان اور فلسفوں کی چیمپئن بنتی تھیں اور ساحرہ اور کاہنہ تھیں وہ بھی ہندوستان میں تھیں وہ بھی روسی تھیں اور اسی کی قائل تھیں جو نوٹووچ کہہ رہا تھا یہ بھی لداخ یا تبت میں دلچپسی رکھتی تھیں
اور شمبلہ نامی کسی کم گشتہ بستی کی تلاش میں تھیں جہاں تمام دنیا کی حقیقت ان کے بقول چھپی تھی
https://en.wikipedia.org/wiki/Shambhala
=========
راقم کہتا ہے یہ اقوال بے سروپا ہے – عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آیا ہے کہ الله نے ان کو کہا انی متوفیک و رفعک الی کہ میں تم کو قبضہ میں لوں گا اور اٹھا لوں گا
توفی کا مطلب موت نہیں ہے توفی کا مطلب ہے کسی چیز کو پورا پورا قبضہ میں لینا قرآن میں یہی لفظ زندہ انسانوں کی حالت نیند کے لئے بھی استعمال ہوا ہے یعنی زندہ انسان بھی ہر روز توفی کے عمل سےگزرتے ہیں جس میں ان پر حالت نیند طاری کی جاتی ہے لہذا توفی کا لفظ کا مطلب موت دینا مجازی ہے دیکھینے سوره الزمر اور سوره الانعام
تمام انسانوں کو قیامت کے دن زمین سے اٹھایا جائے گا اگر یہ مان لیا جائے کہ عیسیٰ کا مردہ جسم آسمان میں کہیں ہے تو ان کے جسد کو واپس کب دنیا میں منتقل کیا جائے گا ؟
تفسیر الطبری اور ابن ابی حاتم کے مطابق اس سلسلے میں اقوال ہیں
حسن البصری المتوفی ١١٠ ھ ، ابن جریج المتوفی ١٥٠ ھ ، ابن اسحاق المتوفی ١٥٩ ھ کی رائے ہے کہ عیسیٰ کو(زندہ) قبضہ میں لیا اور اٹھا لیا
ربیع بن انس البصری المتوفی ١٤٠ ھ کی رائے میں عیسیٰ پر نیند طاری کی گئی اور اٹھایا گیا
ان آراء کے مطابق عیسیٰ زندہ ہی تھے کہ رفع ہوا
اس کے بر عکس علی بن ابی طلحہ المتوفی ١٤٣ ھ نے بیان کیا ہے کہ ابن عباس نے کہا متوفیک کا مطلب ممیتک یعنی موت دی
تفسیر ابن المنذر اور ابن ابی حاتم کے مطابق
حَدَّثَنَا عَلانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قوله: ” {إِنِّي مُتَوَفِّيكَ} يَقُولُ: مُمِيتُكَ
علی بن ابی طلحہ ابن عبّاس سے روایت کرتا ہے کہ قول {إِنِّي مُتَوَفِّيكَ} کے لئے انہوں نے کہا موت دی
جبکہ علی بن ابی طلحہ کا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں دیکھئے جامع التحصیل اور میزان الاعتدال
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
علي بن أبي طلحة قال دحيم لم يسمع التفسير من بن عباس وقال أبو حاتم علي بن أبي طلحة عن بن عباس مرسل
علی بن ابی طلحہ – دحیم کہتے ہیں اس نے ابن عباس سے تفسیر نہیں سنی اور ابو حاتم کہتے ہیں علی بن ابی طلحہ ابن عبّاس سے مرسل ہے
وھب بن منبہ المتوفی ١١٤ ھ کے مطابق ان پر تین ساعات کے لئے موت طاری کی گئی ایک قول ابن اسحاق سے بھی منسوب کیا جاتا ہے جس میں ہے کہ سات ساعتو ں کے لئے ان پر موت طاری کی گئی
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مَنَ، لَا يُتَّهَمُ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ قَالَ: تَوَفَّى اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ثَلَاثَ سَاعَاتٍ مِنَ النَّهَارِ حِينَ رَفَعَهُ إِلَيْهِ
محمد بن اسحاق کہتا ہے اس نے کسی سے سنا جس نے وھب بن منبہ سے سنا
وھب بن منبہ کے قول کی سند بھی ثابت نہیں ہے دوم ابن اسحاق اور وھب کی رائے میں موت صرف چند گھنٹوں کی تھی لہذا اب عیسیٰ زندہ ہی ہوئے – صرف ابن عباس سے منسوب قول ہے جس کا ذکر بخاری نے ابواب کی تعلیق میں کیا ہے لیکن جیسا واضح کیا اس کا کہنے والا علی بن ابی طلحہ ہے جس کا سماع ابن عبّاس سے ثابت نہیں ہے
========
راقم نے تفسیر میں ص ٢١١ – ٢١٦ پر تفصیل سے اس کے متعلق لکھا ہے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2015/09/Tafseer-book.pdf
اَللَّـهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِـهَا وَالَّتِىْ لَمْ تَمُتْ فِىْ مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِىْ قَضٰى عَلَيْـهَا الْمَوْتَ وَيُـرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ (42)
اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی، پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔۔۔۔بھائی اس کی تفسیر کیا چاہئے کہ سوتے وقت روح کا قبض ہونا اور جن کی موت کا حکم ہو ان کو روک لینا ۔۔جبکہ قرآن پاک میں روح قبض برائے موت کے لئے فرشتوں کو بھیجے جانے کا حکم آیا ہے ۔۔۔اور عیسیٰ علیہ السلام کا رفع والا معاملہ بھی نیند والا معاملہ ہے بھائی اس کی وضاحت فرما دیں ۔۔جزاک اللہ
اپ کا سوال بہت اہم ہے اور اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھنا بھی بہت اہم ہے کیونکہ اکثر اس کا غلط ترجمہ کر دیا جاتا ہے اور معنی و مفہوم بدل جاتا ہے
قبض کرنا یعنی
seize
کرنا ہے جسد سے نکالنا اس کا ہمشہ مطلب نہیں ہوتا- سیاق و سباق سے متعین ہوتا ہے
مقابلے پر ارسال کا لفظ ہے جس کا مطلب بھیجنا یا چھوڑنا ہے
جب موت اتی ہے تو روح قبض ہوتی ہے لیکن جسد سے اخراج بھی ہوتا ہے جو قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوا ہے
جب نیند اتی ہے تو قبض ہوتا ہے لیکن روح کا جسد سے اخراج نہیں ہوتا روح کو جسد میں ہی
seize
کر دیا جاتا ہے پھر قرآن میں ہے جو نہیں مرا ان کی روحوں کا ارسال ہوتا ہے یعنی ان کو پچھلی حالت پر واپس چھوڑا جاتا ہے
سوره الزمر کی آیت ٤٢ ہے
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى
أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276ھ) اپنی کتاب غريب القرآن لابن قتيبة میں لکھتے ہیں کہ
وقوله: يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ [سورة الزمر آية: 42] ، هو من استيفاء العدد واستيفاء الشيء إذا استقصيته كله. يقال: توفيته واستوفيته. كما يقال: تيقنت الخبر واستيقنته، وتثبت في الأمر واستثبته. وهذا [هو] الأصل. ثم قيل للموت: وفاة وتوف.
اور الله کا قول يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ [سورة الزمر آية: 42] يَتَوَفَّى (مراد ہے کہ ) پورا گننا اور کسی چیز کی جب پوری جانچ پڑتال کی جائے تو کہا جائے گا توفيته واستوفيته جسے کہا جاتا ہے خبر پر (پورا ) یقین کیا اور انہوں نے اس پر يقين کیا اور امر پر (پورا ) اثبات کیا اور اس کو ثبت کیا اور یہی (اس لفظ کا) اصل ہے اور پھر کہا گیا موت کے لیے بھی وفاة وتوف
راغب الأصفهانى (المتوفى: 502ھ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں لکھتے ہیں کہ
وقوله: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] فعبارة عن زوال القوّة الحيوانيَّة وإبانة الرُّوح عن الجسد
اور (الله تعالیٰ کا ) قول : كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] پس یہ عبارت ہے قوت حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے
صلاح عبد الفتاح الخالدي اپنی کتاب القرآن ونقض مطاعن الرهبان میں لکھتے ہیں کہ
والتوفّي معناه القبضُ، أَيْ: اللهُ يَقبضُ أَرواحَ الأنفس كُلِّها حينَ نومِها، فإِن انتهى عُمْرُ بعضِ الأَنفسِ أَمسكَ أَرواحَها أَثناءَ نومِها، وإِنْ بقيتْ في عمرِ بعضِ الأَنفسِ بقيةٌ أَعادَ لها أَرواحَها.
اور التوفّي سے مرا د قبض کرنا ہے کہ الله سب کی روحیں قبضے میں لیتا ہے نیند کے وقت اگر بعض نفس کی عمر پوری ہو گئی ہے تو روحوں کو پکڑ کے رکھتا ہے نیند میں – اور اگر عمر کا کچھ حصہ باقی ہے تو روحوں کو واپس کرتا ہے
الله تعالیٰ نفس یا روح کو قبضے میں لیتا ہے چاہے بندہ نیند میں ہو یا مردہ – نیند کا تعلق موت سے اتنا ہے کہ قبض نفس کے نتیجے میں کچھ جسمانی کیفیت مشترک ہے جسے سونے والے کا شعور جاگنے والی کیفیت سے علیحدہ ہے – اس مماثلت کے باوجود الله تعالیٰ نے یہ بھی کہا کہ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ کہ زندہ اور مردہ برابر نہیں – یہی اصل مسلمہ بات ہے
واضح رہے کہ قبض اور اخراج میں فرق ہے – حالت نیند میں صرف توفی یا قبض نفس ہوتا ہے نہ کہ اخراج – اس کے بر عکس موت میں جسد سے اخراج نفس بھی ہوتا ہے
قبض یا توفی متبادل الفاظ ہیں لیکن ان کا مفہوم اخراج نہیں – اس کی مثال قرآن ہی میں ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کو الله نے خبر دی
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ
اور جب الله نے کہا اے عیسیٰ میں تم کو قبض کروں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا
أبو عبيدة معمر بن المثنى التيمى البصري (المتوفى: 209هـ) اپنی کتاب مجاز القرآن میں لکھتے ہیں کہ
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى» (42) فجعل النائم متوفى أيضا إلا أنه يرده إلى الدنيا..
الله پورا قبضے میں لیتا ہے نفس کو موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نفس نیند کے وقت پس پکڑ کے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کا حکم لگاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو اک وقت مقرر تک کے لئے ) پس سونے والے کو بھی متوفی بنایا کیونکہ اس کو واپس دنیا کی طرف لوٹایا گیا
اسی طرح رسل کا لفظ ہے جس کا مفہوم ہے بھیجنا یا چھوڑنا – بخاری کی آغاز وحی والی روایت کے الفاظ ہیں
فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ قلت ما أنا بقارىء
پس اس (فرشتے ) نے مجھے پکڑا اور بھینچا یہاں تک کہ میری بسا ط تک اور پھر چھوڑ دیا پھر کہا پڑھو میں نے کہا میں قاری نہیں
توفی کا مطلب کھینچنا نہیں – کھینچنے کے لئے عربی میں سحب کا لفظ ہے – بعض حضرا ت نے اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ کا ترجمہ کیا ہے کہ الله روحوں کو کھینچ لیتا ہے اور اس طرح حالت نیند کے لئے بھی یہی ترجمہ کیا ہے جو سیاق و سباق کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ اس سے قرآن کی دو موتوں والی آیت بھی متصادم ہے – اس واضح تضاد کے باوجود بعض کا اصرار ہے کہ نیند اور موت میں کوئی فرق نہیں ایک آدمی زندگی میں ہزاروں بار سوتا اور اٹھتا ہے لہذا وہ ہزاروں موتوں سے دوچار ہوتا ہے-
أبو محمد مكي بن أبي طالب القيرواني المالكي (المتوفى: 437ھ) کتاب الهداية إلى بلوغ النهاية في علم معاني القرآن وتفسيره، وأحكامه، وجمل من فنون علومه میں لکھتے ہیں
وإن الله هو الذي يتوفاكم، (أي): يقبض أرواحكم من أجسادكم بالليل
اور بے شک وہ الله ہی ہے جو قبض کرتا ہے یعنی روحوں کو جسموں میں رات میں
ابو جعفر طبری (المتوفى: 310هـ) تفسیر میں لکھتے ہیں
القول في تأويل قوله: {وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ}
قال أبو جعفر: يقول تعالى ذكره لنبيه صلى الله عليه وسلم: وقل لهم، يا محمد، والله أعلم بالظالمين، والله هو الذي يتوفى أرواحكم بالليل فيقبضها من أجسادكم “ويعلم ما جرحتم بالنهار”، يقول: ويعلم ما كسبتم من الأعمال بالنهار.
ابو جعفر کہتے ہیں کہ الله تعالی نے ذکر کیا اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ اور ان سے کہو، اے محمّد، بے شک الله ظالموں کو جانتا ہے ، اور الله کی قسم وہی ہے جو رات کو روحیں جسموں میں قبض کرتا ہے
یمسک کا مطلب یہاں پر پکڑنا ہے جیسے الله نے کہا فَمن يكفر بالطاغوت ويؤمن بِاللَّه فقد استمسك بالعروة الوثقى کہ جس نے طاغوت کا کفر کیا اور الله پر ایمان لایا اس نے ایک مضبوط حلقہ پکڑ لیا – عربی لغت المعجم الوسيط کے مطابق (أمسك) بالشَّيْء مسك وَعَن الطَّعَام وَنَحْوه كف عَنهُ وَامْتنع وَعَن الْإِنْفَاق اشْتَدَّ بخله وَالشَّيْء بِيَدِهِ قبض عَلَيْهِ بهَا وَالشَّيْء على نَفسه حَبسه أمسك کا لفظ کسی چیز کے ساتھ آئے تو مفہوم روکنا ہوتا ہے – اگر یہ لفظ کھانے کے ساتھ آئے تو مفہوم کھانا کھانے سے رکنا ہے اگر یہ لفظ انفاق کے ساتھ آئے تو مفہوم بخل ہوتا ہے اگر ہاتھ میں کسی چیز کے لئے آئے تو مفہوم قبض کرنا ہوتا ہے اور اس کو قید کرنا ہوتا ہے
یہاں یمسک کا لفظ قبض کرنے ، پکڑنے اور قید کرنے کے مفہوم میں ہی استعمال ہوا ہے -اگر الله مرنے والے کی روح پکڑ لیتا ہے تو پھر واپس عود روح کیسے ہو سکتا ہے ؟ کیا یہ آیت کے مفہوم سے انحراف نہیں ؟
اب اس آیت پر غور کرتے ہیں
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى
الله پورا قبضے میں لیتا ہے نفس کو موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نفس نیند کے وقت پس پکڑ کے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کا حکم لگاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو اک وقت مقرر تک کے لئے
آیت میں کوئی ابہام نہیں حالت نیند میں اور موت میں قبض نفس ہوتا ہے نیند میں قبض جسم میں ہی ہوتا ہے اور نفس کا اخراج نہیں ہوتا جبکہ موت میں امساک کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ روح کو جسم سے نکال لیا گیا ہے اور اس کی تفصیل قرآن کی دوسری آیات سے ہوتی ہے
اس کی تشریح قرآن نے اس طرح کی سوره الانعام
کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔
تفصیل یہاں اس کتاب میں بھی موجود موجود ہے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2015/10/عذاب-قبرکی-حقیقت-کتاب.pdf
بھائی ادھر یہ بات سمجھنی تھی کہ اللہ ڈائریکٹ بھی روح کو قبضے میں لیتا ہے؟ یا اللہ کا قانون ہے کہ موت کے وقت فرشتے روح قبض کر کے لے جاتے ہیں؟ جیسا کہ باقی آیات میں آیا ہے کہ فرشتے ان کی روحوں کو بدنوں سے نکالتے ہیں
جی نیند میں روح کا قبض کرنا الله تعالی کا کام ہے – اس روح کو جسد سے نہیں نکالا جاتا جبکہ موت میں چونکہ روح کو نکالا جاتا ہے اس لئے فرشتوں کا ذکر اتا ہے
قرآن میں صرف موت کے حوالے سے فرشتوں کا ذکر آیا ہے نیند کے حوالے سے نہیں آیا
و اللہ اعلم
——
أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير
المؤلف: جابر بن موسى بن عبد القادر بن جابر أبو بكر الجزائري
الناشر: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية
الطبعة: الخامسة، 1424هـ/2003م
وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} أي يقبضها بمعنى يحبسها عن التصرف، حال النوم
وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا یعنی الله قبضہ میں لیتا ہے بمعنی (حبس) قید کرتا ہے کہ (انسان) تصرف کرے جو(اسکی) حالت نیند ہے
یہ تفسیر ہماری رائے کے مطابق ہے
اب اس کے خلاف اقوال جن کے مطابق نیند ہو یا موت دونوں میں روح قبض ہوتی ہےجسد سے نکال لی جاتی ہے
اس سلسلے میں تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب، عن جعفر، عن سعيد بن جُبَير، في قوله: (اللَّهُ يَتَوَفَّى الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا) … الآية. قال: يجمع بين أرواح الأحياء، وأرواح الأموات، فيتعارف منها ما شاء الله أن يتعارف، فيمسك التي قضى عليها الموت، ويُرسل الأخرى إلى أجسادها.
اس قول کو سعید بن جبیر سے منسوب کیا گیا ہے کہ مردوں اور زندہ کی روحیں ملاقات کرتی ہیں
سند میں جَعفَر بْن أَبي المُغِيرة، الخُزاعِيّ (قال ابن مندة: ليس هو بالقوى في سعيد بن جبير) اور يعقوب بن عبد الله القمي ( قال الدارقطني ليس بالقوي) ہیں
———-
دوسرا قول ہے
حدثنا محمد بن الحسين، قال: ثنا أحمد بن المفضل، قال: ثنا أسباط، عن السديّ، في قوله: (اللَّهُ يَتَوَفَّى الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا) قال: تقبض الأرواح عند نيام النائم، فتقبض روحه في منامه، فتلقى الأرواح بعضها بعضا: أرواح الموتى وأرواح النيام، فتلتقي فتساءل، قال: فيخلي عن أرواح الأحياء، فترجع إلى أجسادها، وتريد الأخرى أن ترجع، فيحبس التي قضى عليها الموت، ويرسل الأخرى إلى أجل مسمى، قال: إلى بقية آجالها.
اس میں اسباط اور السدی دونوں ضعیف ہیں
————
بعض روایات جو ابن عباس سے مروی ہیں ان کے مطابق انسان میں روح اور نفس ہوتا ہے نیند میں نفس قبض ہوتا ہے اور موت پر روح لیکن یہ قول الکلبی نے روایت کیا ہے
کتاب البدء والتاريخ المؤلف : ابن المطهر کے مطابق
وروى الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس رضي الله عنه أن الرجل إذا مات قبض الله روحه وبقى نفسه لأن النفس موصولة بالروح فإذا أراد الله قبض روحه للموت قبض نفسه مع روحه فمات وإذا أراد الله بعثه رد إليه رو
یہ قول بھی صحیح سند سے نہیں ہے
———
ابن عباس سے ایک اور قول منسوب کیا گیا ہے کہ نفس اور روح کے درمیان سورج کی روشنی جیسا تعلق ہوتا ہے
تفسیر ابن ابی حاتم میں بلا سند لکھا ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ:” ” اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ ” الْآيَةَ، قَالَ: نَفْسٌ، وَرُوْحٌ بينهما شعاع الشمس، فيتوفى الله النفس في منامه، ويدع الروح في جسده وجوفه يتقلب ويعيش، فإن بدا لله أَنْ يَقْبِضَهُ قَبْضَ الرُّوحَ فَمَاتَ، أَوْ أَخَّرَ أَجَلَهُ رَدَّ النَّفْسَ إِلَى مَكَانِهَا مِنْ جَوْفِهِ”
———–
اس کے علاوہ بہت سی ضعیف روایات میں مردوں اور زندہ کی روحوں کے ملاقات کا ذکر اتا ہے
https://www.islamic-belief.net/کتاب-الرویا-کا-بھید/
لوگوں نے انہی ضعیف روایات سے آیات کی تفسیر کر دی ہے جس سے بہت تضاد جنم لیتا ہے اور یہاں تک کہ بعض علماء بد روحوں کے بھی قائل ہیں مثلا اہل حدیث عبد الرحمان کیلانی وغیرہ
تفسیرالتفسير الحديث [مرتب حسب ترتيب النزول] المؤلف: دروزة محمد عزت میں اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها پر کہتے ہیں
تعددت الأقوال والتأويلات التي أوردها المفسرون
مفسرین سے اس سلسلے میں بہت سے اقوال اور تاویلات آئی ہیں
پھر انہی اقوال کو جن کا ہم نے ذکر کیا وہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں
وليس شيء من هذه التعريفات معزوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم أو واردا في مساند الصحاح.
ان کی تعریفات میں سے کوئی بھی نبی صلی الله علیہ وسلم سے منسوب نہیں ہے اور نہ ہی صحیح مصدر میں موجود ہیں
بھائی جہاں تک میری سمجھ میں بات آئی ہے وہ یہ کہ یہود کا پروپکنڈہ یہ ہو سکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا لوگوں کو قائل کیا جا سکے تاکہ جھوٹے مسیحوں کا راستہ صاف ہو جائے لیکن جب اس پر انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نا ہو سکی انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کی اکثریت احادیث رسول کا انکار کسی صورت نہیں کر سکتی تو یہود نے دجال کی آمد کا انکار کا عقیدہ پھیلانا شروع کر دیا کیونکہ جب امت مسلمہ میں دجال کی آمد کا انکار ہو جائے گا تو نزول عیسیٰ علیہ السلام کا تصور بھی معدوم ہو جائے گا ۔۔۔۔۔کیا ایسا ہی ہے یا کچھ اور وجہ ہو سکتی ہے
اپ جو کہا وہ
Conspiracy Theory
ہے -ایسا کہنے کا مقصد ہے کہ یہود اور منکرین حدیث کے روابط ہیں جس کی دلیل نہیں ہے
البتہ اپ کو معلوم ہے سر سید نے دجال کا انکار کیا وہ معجزات کے منکر تھے اور ولادت مسیح بلا والد کے بھی قائل نہیں تھے
اسی طرح غامدی صاحب کے شیخ مسلک حمید الدین فراہی بر صغیر میں جوزف ہوروفٹس کے ساتھ رہتے تھے اور شاید اسی یہودی سے انہوں نے عبرانی سیکھی تھی
سترھویں اٹھارویں صدی میں مستشرقین میں اہم لوگ یہودی تھے اس کی وجہ عبرانی اور عربی کی مماثلت تھی مثلا
Ignác (Yitzhaq Yehuda) Goldziher
Theodor Nöldeke
مستشرقین اسلام کے علاوہ یہودیت اور نصرانیت میں بھی ریفومرس چاہتے تھے- ان کے نزدیک یہ مذاھب یورپی ذہن سے میل نہیں کھاتے تھے
ہم لوگ ہر وقت اسلام کی بات کرتے ہیں کہ مستشرقین نے اسلام پر یہ حملہ کیا وہ کیا -خود مغربی محققین کی جانب سے بھی اس کو چھپایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے توریت اور انجیل پر بھی اعتراضات کیے ہیں جس کو
Higher Criticism
کہا جاتا ہے
خیال رہے کہ
Orientalism
یا استشراق
سے مراد اسلام پر بحث نہیں ہے ان ادیان پر بحث ہے جو مشرق سے نکلے
مستشرقین بہت سرور میں رہے ان کے نزدیک یورپی لوگ تمام دنیا پر قابض تھے تو مسیح کی کیا ضرورت رہی – ظاہر ہے مسیح موعود کی کوئی سیاسی ضرورت نہیں رہی تھی اس کو ایک یہودی خواب پارینہ سمجھا گیا جو مسلمانوں نے ان سے لیا- یہود کی تعداد بہت کم تھی – مسلمانوں کی بہت تھی لہذا ان میں ریفارم کی زیادہ ضرورت تھی لہذا انکار حدیث کا آغاز ہوا جس میں بعض یورپین متاثرین ہندوستانییوں نے اس کا آغاز کیا جن میں سر سید اور غلام احمد سر فہرست تھے
یعنی اپ نے جو کہا اس کو اگر ١٠٠ یا ١٢٠ سال پہلے کے دور میں جا کر دیکھا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ انکار حدیث ایک ریفارم ہے جس کو شروع کیا گیا لیکن اس سے پہلے کہ اس پر کام مکمل ہوتا دنیا میں جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور کام ادھورا رہ گیا
تقسیم ہند کے بعد جو لوگ اس سوچ سے متاثر ہوئے تو عربی سے لا علم لوگ تھے لہذا وہ دین کے ماخذ تک نہیں جا سکتے تھے
اس بنا پر انہوں نے جو کہا وہ سطحی سوچ کا حامل رہا مثلا علامہ پرویز کی کتب آوٹ پٹانگ اور بے ربط خیالات پر مشتمل ہیں
اس کے علاوہ غلام جیلانی برق بھی اس قسم کے تھے
کچھ مدرسوں والے بھی متاثریں میں تھے مثلا منکرین حدیث میں (علماء کے گمراہ بچے تھے مثلا) چکڑالوی یا تمنا عمادی وغیرہ نے مستشرقین کے لٹریچر سے ہی سرقه کر کے اپنی کتب میں مواد جمع کیا
آج کل اسلام پر تحقیق کا انداز الگ ہے – جو اسکول اف تھاٹ اس وقت زوروں پر ہے اس کو
Revisionist Historians
کہا جاتا ہے
اس گروپ کی اہم کتب ہیں
Hagarism
https://en.wikipedia.org/wiki/Hagarism
اب اسی گروپ کے لوگ اسلام پر تحقیق میں چھائے ہوئے ہیں
مسلمانوں میں اس گروہ کے خلاف کوئی کاونٹر تحقیق نہیں ہے کیونکہ وہ کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر بیٹھے ہیں
بھائی اک اور سوال جیسا کہ روایات میں ملتا ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال سے کے فتنے سے خبر دار کیا جبکہ کہتے ہیں کہ یہودی دجال کا انتظار کر رہے ہیں وہ اسے اپنا مسیحا سمجھتے ہیں ۔۔سوال یہ ہے کہ یہودی کس بنا پر دجال کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں
مسیح کا تصور اہل کتاب کے انبیاء کی کتب میں موجود ہے مثلا یسعیاہ یرمیاہ حزقی ایل ، زکریا وغیرہ ان تمام میں اس کا ذکر ہے
یہ تصور ایک خواہش تھا جس کو الله نے پورا کیا ایک کنواری نے عیسیٰ کو جنا جیسا کہ کتاب یسعیاہ میں لکھا تھا
لیکن یہود نے عیسیٰ کا انکار کیا کیونکہ انہوں نے علماء پر اعتراضات کیے- منحوس لوگوں نے ان پر ابن الله کا دعوی کرنے کا اور جادو کرنے کا الزام لگا کر رجم کا حکم کیا
جس سے الله نے عیسیٰ علیہ السلام کو بچا لیا
لہذا یہود کے نزدیک اصل مسیح ابھی تک نہیں آیا ہے- وہ دجال کو اپنا مسیحا نہیں کہتے یہ مسلمانوں نے مشہور کر رکھا ہے
آپنے کہا کہ ایسا کہنے کا مقصد یہ ہوگا کہ یہود اور منکرین حدیث کے روابط ہو سکتے ہیں جبکہ اس کی دلیل نہیں ملتی ۔۔۔ لیکن ایسا ہونا بھی تو ممکن ہو سکتا ہے کہ یہود اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ان عقائد کا پرچار کر سکتے ہیں جیسا کہ اس کی مثال عثمان رضی کے دور میں عبداللہ ابن سبا کی صورت میں گزر چکی ہے جس کے لگائے گئے زخموں سے آج تک لہو رس رہا ہے اس امت کا
منکرین حدیث میں کوئی بھی شخص اتنی اہمیت نہیں لے سکا کہ وہ ان نظریات پھیلا سکے- یہ گروہوں میں بٹے ہوئے لوگ ہیں جن میں اتحاد نہیں ہے
مثلا مصری منکرین حدیث اور بر صغیر کے منکرین حدیث کی باتوں میں اختلافات ہیں اگر ان سب کا رفع و نزول مسیح پر تقابل کیا جائے تو یہ سب ہم خیال نہیں ہیں بھانت بھانت کے خیالات ہیں
میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے جیسا اپ سمجھ رہے ہیں
رفع کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو بلند کرنا یا کسی چیز میں اضافہ کرنا مثال کے طور پر کسی کے درجات میں اضافہ ہوجانا، کسی کا تنخواہ زیادہ ہوجانا یا کسی کا گریڈ زیادہ ہوجانا یہ رفع کا لغوی معنی ہے۔ اس ایت میں ابراھیم علیہ السلام بیت اللہ کی دیواریں بلند کررہا ہے لیکن دیواریں اپنے بنیاد پر ہی قائیم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رفع اس بلندی کو کہتے ہے جو اپنا موجودہ جگہ نہ چھوڑے لیکن اس میں اضافہ ہوجائے۔
عربی زبان میں کسی چیز کا زمین سے اوپر جانے اور اپنے موجودہ جگہ کو چھوڑنے کے لئے کبھی بھی رفع کا لفظ استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے صعود کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ صعود کا مطلب ہے کسی چیز کا اپنی موجودہ جگہ کو چھوڑ کر بلندی پر جانا مثال کے طور پر اگر ہم سیڑھیوں پر چڑھتے ہیں تو اس کو صعود کہتے ہے رفع نہیں کہتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رفع کا ضد نزول نہیں ہے بلکہ نزول صعود کا ضد یعنی متضاد لفظ ہے۔ یعنی صعودا و نزولا۔ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے متضاد ہے رفع نزول کا متضاد بلکل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔جواب درکار ہے
رفع ابويه على العرش
يوسف
إس نے والدين کو عرش پر بلند کیا
والدین نے اپنا مقام چھوڑا اور یوسف کے ساتھ تخت پر اوپر آ گئے
پلیز اس کو ایک نظر دیکھ لیں
http://qarihanifdar.com/articles/%D8%B1%D9%81%D8%B9-%D9%88-%D9%86%D8%B2%D9%88%D9%84-%D8%B9%DB%8C%D8%B3%DB%8C-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85/
پلیز جواب کیا دیا جایے ان کو
دجال پر کہا گیا
جو زندگی اور موت دے ،جو آسمان کو برسنے سے روک دے ،، زمین کو اگانے سےروک دے ،جس طرف اشارہ کرے زمین سرسبز کر دے ، اس کی انگلی کے اشارے سے زمین اپنےخزانے اگل دے
جواب
یہ بات صحیح ہے کہ امام مسلم و بخاری نے اس قسم کی دو روایات لکھی ہیں ایک نواس بن سمعان کی سند سے صحیح مسلم میں ہے اور دوسری ابو سعید الخدری کی سند سے صحیح بخاری میں ہے – دونوں کو میں نے منکر کہا ہے اور سیر حاصل بحث کی ہے
——
یہودکہتے ھیں کہ ھم نے عیسی علیہ السلام کو سولی چڑھا دیا یعنی صلیب پہ مار دیا ،، اوریہود کے نزدیک صلیب کی موت جنت کا رستہ بند کر دیتی ھے ،، ” من وضع علی الخشب فھو ملعون ” جو لکڑی پہ رکھ دیا گیا وہ ملعون ھو گا ” یہ یہود کا عقیدہ ھے ،
جواب یہ یہود کا عقیدہ نہیں – یہود کی تلمود کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کو سولی نہیں رجم کیا گیا ہے
کتاب نزول مسیح میں اس کا میں نے ذکر کیا ہے
——–
وَالسَّلامُ عَلَيَّ يَوْمَ “وُلِدْتُ ” وَيَوْمَ’ أَمُوتُ “وَيَوْمَ “أُبْعَثُ ” حَيّاً ) مريم/33
اس میں نصرانی عقیدے کا رد ہے کہ رب تعالی نہ تو پیدا ہوتا ہے نہ مرتا ہے نہ دوبارہ جی اٹھتا ہے تو یہ تو بشر کی نشانی ہے – تمام بشر پیدا ہوتے ہیں مرتے ہیں اور دوبارہ جی اٹھائیں گے – عالم انسانیت کے بے شمار انبیاء و رسل سلامتی میں ہوں گے اور اس طرح یہ عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت نہیں رہتی – کیونکہ تمام انبیاء کے ساتھ ایسا ہوا اور ہو گا لیکن مدعا یہ ہے کہ عیسیٰ رب نہیں اس بنا پر اس پیرائے میں بات بیان ہوئی
—–
کہا گیا
یہودنے عیسی علیہ السلام کے بچپن میں بولنے کو منسوب کر دیا تھا جنات کی طرف کہ بچے کےمنہ سے کوئی شیطان جن بول رھا ھے جو اس بچے پہ چڑھ گیا ھے اور یہود کو گمراہ کرنےکی کوشش کر رھا ھے
جواب اس کا حوالہ کیا ہے ؟
——
کہا گیا
وانہ لعلمۤ للساعۃ فلا تمترن بہ واتبعون ،ھذا صراطۤ مستقیم ( الزخرف 61 )
اوریہ قرآن قیامت کے علم یعنی خبروں سے بھرا پڑا ھے پس مت شک میں پڑو اور میری( محمدﷺکی ) پیروی کرو ، یہی سیدھا رستہ ھے ،، اور ( اے مکے والو ) شیطان تمہیں اس سے روک نہ دے بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ھے ،،
” انۜہ ” سے مراد عیسی علیہ السلام کو لینا تکلف کے سوا کچھ نہیں ،، کیونکہ ایک تو انہ خود قرآن کے بارے میں اتنا استعمال ھوا ھے کہ اس کےمقابلے میں کسی اور کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی ،،( و انہ فی ام الکتاب لدینا،وانہ لذکر لک ولقومک ، و انہ تنزیل رب العالمین ، انہ لتذکرۃ للمتقین ،، و انہ لحق الیقین وغیرہ ) دوسرا سورہ کے شروع میں موضوع ھی قرآن حکیم ھے اور قرآن میں ذکرِ عیسی پہ مکے والوں کا استھزاء اور انکار درمیان میں موضوع بنا ،، پھر کہا گیا کہ اب اس کتاب اور اس نبی ﷺ کے بعد قیامت ھی ھے کیونکہ نبوت کے اتمام اور وحی کے اختتام کامطلب ھی یہ ھے کہ اب اگلا سیگمنٹ صرف اور صرف قیامت کا ھے ،، درمیان میں اور کوئی قابلِ ذکر بات نہیں ھے ،، پھر آیت کے آخر میں یہ کون کہہ رھا ھے کہ ” واتبعون” سو میری پیروی کرو ؟ ظاھر ھے یہ نبئ کریم ﷺ ھی اپنے اوپر ایمان کی دعوت دےکر اپنے اتباع کا تقاضہ کر رھے ھیں ،، عیسی علیہ السلام کا اپنی قوم کی طرف آنااور قوم سے خطاب کرنا اور قوم کا جواب دینا تو شروع ھی اگلی آیت سے ھوتا ھے ، اس رکوع کی ابتدائی آیات میں نبی کریمﷺ اور مکے والے آمنے سامنے ھیں ،،
جواب
اپ سورہ الزخرف پڑھ لیں اور جب یہ آیت آئے گی تو سیاق و سباق سے معلوم ہو جائے گا کہ وانہ لعلمۤ للساعۃ اس کا تعلق مسیح علیہ السلام سے ہے
سورۃ غافر
هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُـمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُـمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُـمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُـمَّ لِتَبْلُغُوٓا اَشُدَّكُمْ ثُـمَّ لِتَكُـوْنُـوْا شُيُوْخًا ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّـتَوَفّــٰى مِنْ قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوٓا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
————-
سورۃ آل عمران
اِذْ قَالَ اللّـٰهُ يَا عِيسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّـذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُـمَّ اِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْـتُـمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
سورۃ الزمر
اَللَّـهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِـهَا وَالَّتِىْ لَمْ تَمُتْ فِىْ مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِىْ قَضٰى عَلَيْـهَا الْمَوْتَ وَيُـرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ
متوفی اور یتوفی کا ترجمہ ہمیشہ موت کیا گیا – لیکن حضرت عیسیٰ علیہ سلام کا ذکر سورۃ المائدۃ آیت ١١٧ میں ہے – وہاں ترجمہ یہ کیا گیا-
سورۃ المائدۃ
مَا قُلْتُ لَـهُـمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِىْ بِهٓ ٖ اَنِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ رَبِّىْ وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْـهِـمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْـهِـمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِىْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْـهِـمْ ۚ وَاَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ
(117)
میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے، اور میں اس وقت تک ان کا نگران تھا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا پھر تو ہی ان کا نگران تھا، اور تو ہر چیز سے خبردار ہے۔
======
یہی کہا جا سکتا ہے کہ
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
اے اہل کتاب تم کیوں حق و باطل کی تلبیس کرتے ہو اور حق چھپاتے ہو اور تم جانتے ہو
سورۃ غافر
هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُـمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُـمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُـمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُـمَّ لِتَبْلُغُوٓا اَشُدَّكُمْ ثُـمَّ لِتَكُـوْنُـوْا شُيُوْخًا ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّـتَوَفّــٰى مِنْ قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوٓا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
————-
سورۃ الزمر
اَللَّـهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِـهَا وَالَّتِىْ لَمْ تَمُتْ فِىْ مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِىْ قَضٰى عَلَيْـهَا الْمَوْتَ وَيُـرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ
ان آیات میں عام قاعدے اور قانون کا ذکر ہے یہ عموم ہے
———
لیکن عیسیٰ کے حوالے سے جو بیان ہوا وہ خاص ہے
سورۃ آل عمران
اِذْ قَالَ اللّـٰهُ يَا عِيسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّـذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُـمَّ اِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْـتُـمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اور جب الله نے کہا اے عیسیٰ میں تجھ کو پورا قبضہ میں لوں گا اور اپنی جانب بلند کروں گا اور تم کو کافروں سے پاک کروں گا اور تیرے اتباع کرنے والوں کو کافروں پر قیامت تک کہ اوپر کر دوں گا پھر میری طرف پلٹایا جائے گا اور میں اس میں حکم کروں گا جس میں اختلاف کرتے ہیں
اگر موت مان لیں تو الله کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ توفی ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے ظاہر ہے جب الله کچھ پلان کر رہا ہے تو وہ وہ کرے گا جو سب سے الگ ہو
——-
یہاں توفی کا لفظ اپنے اصطلاحی مطلب میں نہیں ہے لغوی مطلب میں ہے – یہودی عیسیٰ کو قتل کرنا چاہتے تھے الله نے ان کو قتل و صلیب و رجم سے بچایا کہ ان کو موت دے دی یا اٹھا لیا ؟ اگر موت دے دی تو وہی ہوا جو یہود چاہتے تھے یعنی الله نے کافروں کی مدد کی
اس بنا پر توفی کا مطلب وہ نہیں جو اصطلاحی ہے بلکہ لغوی مطلب ہے کہ پورا قبضہ میں لیا
/////
اپ نے کہا کہ توفی کا مطلب ہمیشہ موت کیا گیا ہے
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
ذائقہ موت ہر نفس کے لئے ہے اور تم کو قیامت والے دن اجر کا توفی ہو گا
کیا اجر کی موت واقع ہو جائے گی ؟
——-
میں نے کچھ حوالے پیش کیے تھے – اور کہا تھا کہ یہ لفظ جہاں بھی استعمال ہوا اس کا مطلب موت لیا گیا
سورۃ البقرۃ
وَالَّـذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَـرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا ۖ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَـهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِىٓ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۗ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ
(234)
اور جو تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو ان بیویوں کو چار مہینے دس دن تک اپنے نفس کو روکنا چاہیے، پھر جب وہ اپنی مدت پوری کر لیں تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو وہ دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں، اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے۔
2.
سورۃ البقرۃ
وَالَّـذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِيَّةً لِّاَزْوَاجِهِـمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْـرَ اِخْرَاجٍ ۚ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِىْ مَا فَعَلْنَ فِىٓ اَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ
(240)
اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو انہیں اپنی بیویوں کے لیے سال بھر کے لیے گزارہ کے واسطے وصیت کرنی چاہیے گھر سے باہر گئے بغیر، پھر اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو وہ عورتیں اپنے حق میں دستور کے موافق کریں، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
3.
سورۃ النساء
اِنَّ الَّـذِيْنَ تَوَفَّاهُـمُ الْمَلَآئِكَـةُ ظَالِمِىٓ اَنْفُسِهِـمْ قَالُوْا فِيْـمَ كُنْتُـمْ ۖ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِى الْاَرْضِ ۚ قَالُـوٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّـٰهِ وَاسِعَةً فَـتُـهَاجِرُوْا فِيْـهَا ۚ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوَاهُـمْ جَهَنَّـمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيْـرًا (97)
بے شک جو لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے، فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے، سو ایسوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
4.
سورۃ الاعراف
وَمَا تَنْقِمُ مِنَّـآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا ۚ رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْـرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ (126)
اور تمہیں ہم سے یہی دشمنی ہے کہ ہم نے اپنے رب کی نشانیوں کو مان لیا جب وہ ہمارے پاس آئیں، اے ہمارے رب! ہمارے اوپر صبر ڈال اور ہمیں مسلمان کر کے موت دے۔
5.
سورۃ یونس
وَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّـذِىْ نَعِدُهُـمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا مَرْجِعُهُـمْ ثُـمَّ اللّـٰهُ شَهِيْدٌ عَلٰى مَا يَفْعَلُوْنَ (46)
اور اگر ہم تمہیں ان وعدوں میں سے کوئی چیز دکھا دیں جو ہم نے ان سے کیے ہیں یا تمہیں وفات دیں پھر انہیں ہماری طرف لوٹنا ہے پھراللہ شاہد ہے ان کاموں پر جو کرتے ہیں۔
6.
سورۃ یونس
قُلْ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُـمْ فِىْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِىْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّـذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّـٰهَ الَّـذِىْ يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُـوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ
(104)
کہہ دو اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین میں شک ہے تو میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو بلکہ میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں وفات دیتا ہے، اور مجھے حکم ہوا ہے کہ ایمانداروں میں رہوں۔
7.
سورۃ یوسف
رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِىْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِىْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِۚ اَنْتَ وَلِـيِّىْ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِىْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِىْ بِالصَّالِحِيْنَ
(101)
اے میرے رب! تو نے مجھے کچھ حکومت دی ہے اور مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بھی سکھلایا ہے، اے آسمانو ں اور زمین کے بنانے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا کارساز ہے، تو مجھے اسلام پر موت دے اور مجھے نیک بختوں میں شامل کر دے۔
8.
سورۃ الرعد
وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّـذِىْ نَعِدُهُـمْ اَوْ نَـتَوَفَّيَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ
(40)
اور اگر ہم تجھے کوئی وعدہ دکھا دیں جو ہم نے ان سے کیا ہے یا تجھے اٹھا لیں، سو تیرے ذمہ تو پہنچا دینا ہے اور ہمارے ذمہ حساب لینا ہے۔
9.
سورۃ النحل
وَاللّـٰهُ خَلَقَكُمْ ثُـمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّـرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَىْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ قَدِيْرٌ
(70)
اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر وہی تمہیں مارتا ہے، اور کوئی تم میں سے نکمی عمر تک پہنچایا جاتا ہے جو سمجھ دار ہونے کے بعد نادان ہو جاتا ہے، بے شک اللہ جاننے والا قدرت والا ہے۔
10.
سورۃ النحل
يَوْمَ تَاْتِىْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَتُـوَفّـٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُـمْ لَا يُظْلَمُوْنَ
(111)
جس دن ہر شخص اپنے ہی لیے جھگڑتا ہوا آئے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا۔
11.
سورۃ الحج
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُـمْ فِىْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُـمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُـمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُـمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّّغَيْـرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُـبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِى الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُـمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُـمَّ لِتَبْلُغُوٓا اَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّـٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَـرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْـهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيْـجٍ
(5)
اے لوگو! اگر تمہیں دوبارہ زندہ ہونے میں شک ہے تو ہم نے تمہیں مٹی سے پھر قطرہ سے پھر جمے ہوئے خون سے پھر گوشت کی بوٹی نقشہ بنی ہوئی اور بغیر نقشہ بنی ہوئی سے بنایا تاکہ ہم تمہارے سامنے ظاہر کردیں، اور ہم رحم میں جس کو چاہتے ہیں ایک مدت معین تک ٹھہراتے ہیں پھر ہم تمہیں بچہ بنا کر باہر لاتے ہیں پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور کچھ تم میں سے مرجاتے ہیں اور کچھ تم میں سے نکمی عمر تک پہنچائے جاتے ہیں کہ سمجھ بوجھ کا درجہ پاکر ناسمجھی کی حالت میں جا پڑتا ہے، اور تم زمین کو سوکھی دیکھتے ہو پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو تروتازہ ہو جاتی ہے اور ہر قسم کے خوش نما نباتات اُگ آتے ہیں۔
12.
سورۃ السجدۃ
قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّـذِىْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُـمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ
(11)
کہہ دو تمہاری جان موت کا وہ فرشتہ قبض کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم اپنے رب کے پاس لوٹائے جاؤ گے
13.
سورۃ غافر
هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُـمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُـمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُـمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُـمَّ لِتَبْلُغُوٓا اَشُدَّكُمْ ثُـمَّ لِتَكُـوْنُـوْا شُيُوْخًا ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّـتَوَفّــٰى مِنْ قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوٓا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ (67)
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون بستہ سے پیدا کیا پھر وہ تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر باقی رکھتا ہے تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو پھر یہاں تک کہ تم بوڑھے ہو جاتے ہو، کچھ تم میں اس سے پہلے مر جاتے ہیں، بعض کو زندہ رکھتا ہے تاکہ تم وقت مقررہ تک پہنچو اور تاکہ تم سمجھو۔
14.
سورۃ آل عمران
اِذْ قَالَ اللّـٰهُ يَا عِيسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّـذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُـمَّ اِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْـتُـمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
(55)
جس وقت اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں وفات دینے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور جو لوگ تیرے تابعدار ہوں گے انہیں ان لوگوں پر قیامت کے دن تک غالب رکھنے والا ہوں، جو تیرے منکر ہیں پھر تم سب کو میری طرف لوٹ کر آنا ہوگا پھر میں تم میں فیصلہ کروں گا جس بات میں تم جھگڑتے تھے۔
15.
سورۃ الزمر
اَللَّـهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِـهَا وَالَّتِىْ لَمْ تَمُتْ فِىْ مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِىْ قَضٰى عَلَيْـهَا الْمَوْتَ وَيُـرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ
(42)
اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی، پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔
/////////////////
متوفی اور یتوفی کا ترجمہ ہمیشہ موت کیا گیا
اس لفظ کا معنی ہمیشہ موت نہیں ہے یہ قرآن ہی میں ہے
سورۃ الزمر
اَللَّـهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِـهَا وَالَّتِىْ لَمْ تَمُتْ فِىْ مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِىْ قَضٰى عَلَيْـهَا الْمَوْتَ وَيُـرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ
(42)
اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی قبض کرتا ہے جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی، پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔
آیت میں ہے
اور ان جانوں کو بھی قبض کرتا ہے جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی
یعنی توفی کا مطلب موت دینا نہیں ہے – اس کا اصل مطلب قبضہ میں لینا ہے جو نیند میں بھی ہو رہا ہے
اپ نے آیت پیش کی تھی
سورۃ النحل
يَوْمَ تَاْتِىْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَتُـوَفّـٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُـمْ لَا يُظْلَمُوْنَ
(111)
جس دن ہر شخص اپنے ہی لیے جھگڑتا ہوا آئے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا۔
کیا یہاں وَتُـوَفّـٰى كُلُّ نَفْسٍ کا ترجمہ موت کیا گیا ہے
اپ نے جلدی جلدی آیات لگا دیں جو خود اپ کے قول کے خلاف ہیں کہ
متوفی اور یتوفی کا ترجمہ ہمیشہ موت کیا گیا
توفی میں نیند کا مفہوم بھی ہے -اسی وجہ سے بعض مفسرین نے کہا کہ رفع عیسیٰ کے وقت عیسیٰ پر نیند طاری کی گئی یہ توفی کے قرانی مفہوم کے عین مطابق ہے
اصل میں ہمارے مفسرین اور محدثین ویسے ہی اسرائیلی روایات کو اپنی کتابوں کی زینت بناتے رہے – اور آج کئی عقائد ہم مسلمانوں میں بھی آ گیۓ ہیں
حیرت کی بات ہے کہ آج یہود اور نصاریٰ اور مسلمان تینوں
حضرت عیسیٰ علیہ سلام کے منتظر ہیں – قرآن نے کوئی ایسی بات نہیں کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام واپس آئیں گے اور نہ ہی قرآن نے کسی مہدی کی کا ذکر کیا
آج عیسائی یہ بھی کہتے ہیں میرے کچھ دوستوں نے جو دوسرے ممالک میں ہیں بتایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم فوت ہو گیۓ اور ہمارے پغمبر زندہ ہیں
کہیں ایسا تو نہیں کہ جن یہودی اور عیسائی لوگوں نے اسلام قبول کیا – ان کے ذھن میں اپنی کتابوں کے حوالے بھی تھے وہ یہ باتیں لوگوں سے بیان کرتے رہے – اور اس طرح ان باتوں کو محدثین نے اپنی کتب میں لکھ دیا- جیسا کہ میں نے بنی اسرائیل والے جواب میں آپ کو لکھا تھا جس کو آپ نے یہاں سے مٹا دیا اور جواب نہیں دیا
” عن أنس رضي الله عنه، قال: كان غلام يهودي يخدم النبي صلى الله عليه وسلم، فمرض، فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقعد عند رأسه، فقال له: «أسلم»، فنظر إلى أبيه وهو عنده فقال له: أطع أبا القاسم صلى الله عليه وسلم، فأسلم، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول: «الحمد لله الذي أنقذه من النار»
(صحیح البخاری کتاب الجنائز )
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا (عبدالقدوس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔
اورامام نسائی کی ” السنن الکبری ” میں یہ بات بھی ہے کہ :
“فَلَمَّا مَاتَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَّوْا عَلَى أَخِيكُمْ» أَوْ قَالَ: «صَلَّوْا عَلَيْهِ»
پھر جب وہ فوت ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اپنے اس (مومن ) بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔”
یہ واقعہ مسند أحمد بن حنبل ،السنن الكبرى للنسائي ،سنن أبي داود ، مستدرک حاکم وغیرہ کتب میں منقول ہے
—
تمیم داری نصرانی آدمی تھے – بعد میں اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے
کعب احبار کون تھے – کیا وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی نہ تھے
آپ نے تمیم داری رضی الله اور کعب احبار رضی الله کی کئی احادیث رد کیا ہے
کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ جو لوگ یہود یا نصاریٰ سے مسلمان ہو رہے تھے – وہ یہ عقائد بیان کرتے رہے ہوں اور آج تک ہم ان کا دفاع کرتے آیے ہوں
آپ نے خود لکھا ہوا ہے کہ
امام ابو حنیفہ کی آراء
قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ) میں
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب
اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال: أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة. واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ. واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم. اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد
ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے
======
یہ الفاظ قابل غور ہیں
اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے
==========
آخر میں آپ یہ بتا دیں کہ آج کل اگر کوئی حضرت عیسی علیہ سلام کی وفات کا قائل ہے تو کیا وہ کافر ہے یا مسلمان
اور آپ نے لکھا تھا کہ معتزلہ وفات کے قائل تھے لیکن ان کی تکفیر نہیں کی گئی
کیا آج کل جو حضرت عیسی علیہ سلام کی وفات کا قائل ہے اس کی تکفیر کی جا سکتی ہے
جواب ضرور دیں – کل ہم سب نے الله کو جواب دینا ہے
میں آپ سے آپ کی رائے پوچھ رہا ہوں – اس امید کے ساتھ کہ آپ جواب ضرور دیں گے
الله ہمیں حق سمجھنے – حق پر عمل کرنے اور حق کہنے کی توفیق عطا کرے
میرا خیال تھا اپ ایک سمجھ دار آدمی ہوں گے افسوس اپ پچھلے چند دنوں سے جن ویب سائٹ پر جا رہے ہیں وہان کا نقص بھرا کلام یہاں لے اتے ہیں ان پر سوال کرتے ہیں
اپ کے علم میں ہے کہ نزول مسیح کے حوالے سے میں نے کس قدر چھان بین کی ہوئی ہے – مسلمانوں کی ہی نہیں توریت ، یہود کے انبیاء کی کتب ، زبور ، اناجییل اربعہ میں نے صرف اس مسئلہ کی وجہ سے حرفا حرفا پڑھی ہیں پھر احادیث کو کھنگالا ہے اور ان میں جو بات مجھ کو اسرائیلات میں سے لگی اس کو بیان بھی کر دیا ہے
اس حوالے سے میں نے اس ویب سائٹ پر کافی لکھا ہے اور یہ مکمل علم نہیں جو میں نے طشت از بام کیا ہے
کسی کے علم میں نہ ہو تو اب پڑھ لے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2017/08/روایات-مسیح.pdf
ابھی میں اس میں مزید ایک کتاب لکھ سکتا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں اتنا کافی ہے
یہ سب کہنے کے بعد میں نزول مسیح کا انکاری نہیں اس پر عقیدہ رکھتا ہوں منتظر عیسیٰ علیہ السلام ہوں اور جیسا ابو ہریرہ کہتے اپ کو ملیں تو میرا سلام کہیے گا اگر میری وفات ہو جائے
————
دور نبوی میں بہت سے یہودی و نصرانی ایمان لائے لیکن کیا سب اسرائیلیات بیان کرتے تھے ؟ سب تو یہ نہیں کرتے تھے جو قرآن سے مطابقت رکھتا ہے اس کو لیا جاتا ہے – نزول مسیح کا ذکر قرآن میں ہے کہ ان کو علم ساعہ قرار دیا گیا ہے اور ان کی موت کا انکار کیا گیا ہے
اپ دو دن سے توفی کی آیات لا رہے ہیں اور وہ بھی اپنے ہی موقف کے خلاف جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت نیند کو بھی توفی سے بیان کیا گیا ہے – لیکن اپ کو پتا نہیں کیوں اصرار ہے کہ اس توفی کو موت پر مقید کیا جائے جبکہ قرآن میں اس کے خلاف آ رہا ہے
اس قدر اپنے گمان پر اصرار مناسب نہیں جبکہ اپ کو اپنے علم کی اپج کا پتا ہے
اپ نے لکھا
/////
حیرت کی بات ہے کہ آج یہود اور نصاریٰ اور مسلمان تینوں حضرت عیسیٰ علیہ سلام کے منتظر ہیں
/////
بھائی یہ یہودی کون ہیں جو منتظر عیسیٰ علیہ السلام ہیں؟ ان کا ایڈریس ہم کو دیں – یہ تو بریکنگ نیوز ہے کہ یہودی منتظر عیسیٰ ہیں- میرا خیال ٹھیک تھا اپ جو سنتے ہیں یا پڑھتے ہیں اس پر غور نہیں کرتے – یہودی تو عیسیٰ کو قتل کرنا چاہتے تھے وہ ان کے منتظر کیوں ہیں؟
اگر اپ کہتے یہودی اپنے مسیح کے منتظر ہیں تو بات صحیح ہوتی
———
اپ بے محل ابو حنیفہ کے اقوال پیش کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا نزول مسیح کی روایت صرف جابر بن سمرہ ، انس بن مالک یا ابو ہریرہ کی بیان کردہ ہیں ؟ ان روایات کو متعدد اصحاب رسول نے بیان کیا ہے جن میں ابن عباس بھی شامل ہیں ابن عمر بھی ہیں عبد الله بن عمرو بھی ہیں اور اصحاب رسول کا ایک جم غفیر ہے – ابن عباس تو اہل کتاب سے روایت کرنے کے بھی خلاف ہیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسرائیلیات بیان کر گئے
——-
اپ نے کہا
//////
آج عیسائی یہ بھی کہتے ہیں میرے کچھ دوستوں نے جو دوسرے ممالک میں ہیں بتایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم فوت ہو گیۓ اور ہمارے پغمبر زندہ ہیں
///////
کہاں کی کہاں ملا دی اپ نے – کیا نصرانی عیسیٰ کو پیغمبر کہتا ہے یا ابن الله کہتا ہے ؟ نصرانی مذھب میں رسول کا درجہ تو بہت بہت کم ہے – ان کے نزدیک تو عیسیٰ ان کا رب ہے جو مرا اور پھر زندہ ہوا
اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی
وفات ہو گئی تو اس میں ہم کو شرمندہ کیوں ہونا پڑ رہا ہے ؟ عیسیٰ علیہ السلام کی بھی وفات ہو جائے گی
اپ نے لکھا
////////
کہیں ایسا تو نہیں کہ جن یہودی اور عیسائی لوگوں نے اسلام قبول کیا – ان کے ذھن میں اپنی کتابوں کے حوالے بھی تھے وہ یہ باتیں لوگوں سے بیان کرتے رہے – اور اس طرح ان باتوں کو محدثین نے اپنی کتب میں لکھ دیا- جیسا کہ میں نے بنی اسرائیل والے جواب میں آپ کو لکھا تھا جس کو آپ نے یہاں سے مٹا دیا اور جواب نہیں دیا
” عن أنس رضي الله عنه، قال: كان غلام يهودي يخدم النبي صلى الله عليه وسلم، فمرض، فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقعد عند رأسه، فقال له: «أسلم»، فنظر إلى أبيه وهو عنده فقال له: أطع أبا القاسم صلى الله عليه وسلم، فأسلم، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول: «الحمد لله الذي أنقذه من النار»
(صحیح البخاری کتاب الجنائز )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا (عبد القدوس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔
///////
اپ کا جواب بے سروپا تھا – جو اپ انکار کر رہے تھے وہ تھا کہ بنی اسرائیل آجکل کے یہودی نہیں ہیں – اس پر اپ نے کوئی مضبوط دلیل بھی نہیں دی – پھر خود ہی کہنے لگے کہ مسلمانوں میں بھی بنی اسرائیلی تھے – پتا نہیں اپ ادھر ادھر قلا بازیاں کیوں لگاتے رہے
پہلے تو اپ طے کر لیں کہ اپ یہودی یا نصرانی کو بنی اسرائیل مانتے ہیں یا نہیں ؟ کل پرسوں اپ کہہ رہے تھے یہ یعقوب علیہ السلام کی نسل ہی نہیں – کیا اپ اپنے اپ کو بھی بنی اسرائیلی سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ ہاں یا نا میں جواب ضرور دیں تاکہ اپ کی سوچ کو سمجھا جا سکے
دور نبی میں یہودی بچہ ایمان لایا – الله اور اس کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کا ایمان قبول کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی – لیکن اپ کو اس کا ایمان ہضم نہیں ہو رہا کہ اپ لکھ رہے ہیں
///
کہیں ایسا تو نہیں کہ جن یہودی اور عیسائی لوگوں نے اسلام قبول کیا – ان کے ذھن میں اپنی کتابوں کے حوالے بھی تھے وہ یہ باتیں لوگوں سے بیان کرتے رہے
////
پھر اس بچے کی مثال دے دی – جس کی غلطی ہم کو معلوم ہے اس کا ذکر کریں – مثلا ابو ہریرہ کی یہ غلطی تھی کہ وہ کعب کے اقوال کو بیان کرتے لوگ حدیث نبوی سمجھ کر لکھ لیتے – لیکن جب ابو ہریرہ کا تفرد ہی نہیں تو مطلقا ان روایات کو رد کیوں کس بنا کر کر دیں
اپ نے لکھا
/////
کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ جو لوگ یہود یا نصاریٰ سے مسلمان ہو رہے تھے – وہ یہ عقائد بیان کرتے رہے ہوں اور آج تک ہم ان کا دفاع کرتے آیے ہوں
//////
اس حوالے سے اپ کی کیا تحقیق ہے ؟ اپ کے پاس گمان کے علاوہ کچھ ہو تو پیش کریں – غور سے دیکھتے ہیں – ایک ایک روایت کو الگ الگ دیکھا جائے گا – تمام مجموعہ کو اس طرح گمان کی بنیاد پر رد نہیں کیا جا سکتا
———
جو نزول مسیح کا انکاری ہو میں اس کو کافر نہیں کہتا اس معاملے میں توقف کا قائل ہوں اور بحث کا باب کھلا رکھنا چاہتا ہوں جس کو بحث کرنی ہے کرے ہم اپنے دلائل دیں گے وہ غور کرے عقیدہ صحیح کرے
=======
نوٹ میں نے جو لکھا ہے وہ مجھے معلوم ہے – اس کو واپس مجھ کو مت سنایا کریں – کوئی اپ کی تحقیق ہو یا خیال ہو تو اس کو پیش کریں
ابو شہر یار بھائی – میں جہاں سے مواد لاتا ہوں کئی دفعہ اس کا لنک بھی دیتا ہوں – آپ کو پتا ہی ہے – آپ مجھے بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں
کوئی بھی بندہ آج کل کی دنیا میں اسی معاشرہ میں رہتا ہے جہاں ہر قسم کے لوگ ہیں – جس طرح آپ نے ایک بلاگ بنایا ہوا ہے – اسی طرح دوسرے لوگوں نے بھی بنایا ہوا ہے – اب اگر میں وہاں سے کوئی مواد یہاں لکھ دوں یا یہاں کا مواد وہاں لکھ دوں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں
تحقیق اسی کا نام ہے – کوئی بھی تحقیق ہو اس کو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے
آپ کا شکریہ
اپ کے نزدیک یہ تحقیق ہو گی کہ ایک ویب سائٹ سے مواد لیا اور دوسرے پر ڈال دیا
اور اپ فٹ بال کی طرح ایک ویب سائٹ سے دوسری پر جمپ لگاتے رہیں
اس کو تحقیق نہیں کہتے
———–
اپ جب تک خود نہ پڑھیں یا سمجھیں تو اپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تحقیق صحیح ہے؟
اپ نے پھر لنک دینے شروع کر دیے ہیں اپ کو کہا تھا اپ نے خود کچھ تحقیق کی ہو تو اس کو پیش کریں اپنے گمان کے علاوہ
=======
اپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا –
کیا اپ اپنے اپ کو بنی اسرائیلی سمجھتے ہیں ہاں یا نا میں جواب دیں
دوم کیا موجود یہود بنی اسرائیلی ہیں یا نہیں اس کا جواب دیں
شکریہ
معذرت – کام بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے جواب لکھنا لیٹ ہو جاتا ہے
بھائی میں کوئی آپ سے مناظرہ نہیں کر رہا – مناظرہ کا آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا – آپ کو اور مجھے دونوں کو اچھی طرح اندازہ ہے
جہاں تک مجھے بات سمجھ آئ ہے شیخ محمد صاحب کا موقف یہ ہے کہ آج جو مسلمان ہیں وہ صرف بنی اسرائیل ہیں – اور جو بھی مسلمان ہو رہا ہے آجکل اس کو اپنے آپ کو بنی اسرائیل کہنا چاہیے
میں ان کے اس موقف کو غلط کہتا ہوں – مختلف قبائل ہیں دنیا اتنی وسیح ہے – نادرا کا نظام ابھی آیا ہے
آج کل بندہ اپنے دادا سے پیچھے اپنا شجرہ نہیں بتا سکتا کیوں کہ اس کی تصدیق کیسے ہو گی اگر کوئی بتایے گا
جیسا کہ قرآن میں پڑھا اور روایات میں ہے کہ بہت سارے قبائل جن میں یہود اور نصاریٰ اور دورے قبائل شامل ہیں – سب میں سے لوگوں نے اسلام قبول کیا – اور ظاہر ہے کہ ان کی نسل چلی ہو گی – اس وجہ سے کسی بھی قبیلے کو کچھ مخصوص کر دینا کہ صرف وہی ہیں مطلب کہ بنی اسرائیل کو صرف یہود نصاریٰ تک مخصوص کر دینا یا ان کو صرف مسلمانوں تک مخصوص کر دینا صحیح نہیں
جیسا کہ قرآن میں قبیلوں کا ذکرہے – لیکن وہاں ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا
سورۃ البقرۃ
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔
[2:140] Shakir
Nay! do you say that Ibrahim and Ismail and Yaqoub and the tribes were Jews or Christians? Say: Are you better knowing or Allah? And who is more unjust than he who conceals a testimony that he has from Allah? And Allah is not at all heedless of what you do.
اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اردو میں ترجمہ الْاَسْبَاطَ میں ڈنڈی ماری گئی – قبیلے کو اولاد سے بدل دیا گیا
یہی بات آیت نمبر ١٣٦ میں بھی کی گئی
سورۃ البقرۃ
قُوْلُوٓا اٰمَنَّا بِاللّـٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِـىَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِـىَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِـمْۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْۖ وَنَحْنُ لَـهٝ مُسْلِمُوْنَ
(136)
کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا اور جو ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد پر اتارا گیا اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا، ہم کسی ایک میں ان میں سے فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔
[2:136] Shakir
Say: We believe in Allah and (in) that which had been revealed to us, and (in) that which was revealed to Ibrahim and Ismail and Ishaq and Yaqoub and the tribes, and (in) that which was given to Musa and Isa, and (in) that which was given to the prophets from their Lord, we do not make any distinction between any of them, and to Him do we submit.
یہاں بھی اردو ترجمہ میں الْاَسْبَاطَ کو اولاد سے بدلا گیا
دوسری ایک بات اور آپ نے نوٹ کی ہو گی کہ سوره بقرہ کی آیت ١٤٠ میں ان الفاظ
هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى
کا ترجمہ یہود اور نصاریٰ کیا گیا
=========
حیرت کی بات ہے کہ یہ لفظ قرآن میں اور بھی کئی جگہ آیا ہے اور جہاں تک میں نے دیکھا ہے اس لفظ کا ترجمہ یہود ہی کیا گیا
لیکن جب یہی لفظ ان جگہوں پر آیا تو اس کا ترجمہ حضرت هود جو الله کے رسول ہیں کیا گیا
١.
سورۃ الاعراف
وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ۚ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
(65)
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، سو کیا تم ڈرتے نہیں۔
http://quranurdu.org/7/65
٢.
سورۃ ھود
وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ۖ اِنْ اَنْتُـمْ اِلَّا مُفْتَـرُوْنَ
(50)
اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، اے قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی حاکم نہیں، تم سب جھوٹ کہتے ہو۔
http://quranurdu.org/11/50
٣.
سورۃ ھود
وَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُوْدًا وَّالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَهٝ بِرَحْـمَةٍ مِّنَّاۚ وَنَجَّيْنَاهُـمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ
(58)
اور جب ہمارا حکم پہنچا تو ہم نے ہود کو اور انہیں جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچا لیا، اور ہم نے انہیں سخت عذاب سے نجات دی۔
http://quranurdu.org/11/58
٤.
سورۃ ھود
قَالُوْا يَا هُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِكِىٓ اٰلِـهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ
(53)
کہا اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی معجزہ بھی نہ لایا اور ہم تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھے ماننے والے ہیں۔
http://quranurdu.org/11/53
٥.
سورۃ ھود
وَاُتْبِعُوْا فِىْ هٰذِهِ الـدُّنْيَا لَعْنَةً وَّيَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ اَلَآ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّـهُـمْ ۗ اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ
(60)
اور اس دنیا میں بھی اپنے پیچھے لعنت چھوڑ گئے اور قیامت کے دن بھی، خبردار! بےشک عاد نے اپنے رب کا انکار کیا تھا، خبردار! عاد جو ہود کی قوم تھی اللہ کی رحمت سے دور کی گئی۔
http://quranurdu.org/11/60
٦.
سورۃ ھود
وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِىٓ اَنْ يُّصِيْبَكُمْ مِّثْلُ مَآ اَصَابَ قَوْمَ نُـوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صَالِــحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ
(89)
اور اے میری قوم! کہیں میری ضد سے ایسا جرم نہ کر بیٹھنا جس سے وہی مصیبت نہ آ پڑے جیسی کہ قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر پڑی تھی، اور لوط کی قوم بھی تم سے دور نہیں۔
http://quranurdu.org/11/89
٧.
سورۃ الشعراء
اِذْ قَالَ لَـهُـمْ اَخُوْهُـمْ هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ
(124)
جب ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے۔
http://quranurdu.org/26/124
—
اب یہاں هُوْدًا کا ترجمہ ہود کیا گیا – جو ایک امانت دار رسول تھے- سمجھ نہیں آتی کہ
اوپر
هود کا لفظ یہود کے لئے کیوں بولا گیا
========
ایک اور لفظ ہے هَادُوْ اس کا ترجمہ بھی یہود کیا گیا
صرف تین حوالے دیتا ہوں – حوالے اور بھی ہیں
1.
سورۃ البقرۃ
اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالنَّصَارٰى وَالصَّابِئِيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَـهُـمْ اَجْرُهُـمْ عِنْدَ رَبِّـهِـمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ
(62)
جو کوئی مسلمان اور یہودی اور نصرانی اورصابئی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور اچھے کام بھی کرے تو ان کا اجر ان کے رب کے ہاں موجود ہے اور ان پر نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
http://quranurdu.org/2/62
2.
سورۃ النساء
مِّنَ الَّـذِيْنَ هَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَـمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْـمَعْ غَيْـرَ مُسْـمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّا بِاَلْسِنَـتِـهِـمْ وَطَعْنًا فِى الـدِّيْنِ ۚ وَلَوْ اَنَّـهُـمْ قَالُوْا سَـمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْـمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْـرًا لَّـهُـمْ وَاَقْـوَمَ وَلٰكِنْ لَّـعَنَـهُـمُ اللّـٰهُ بِكُـفْرِهِـمْ فَلَا يُؤْمِنُـوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا
(46)
یہودیوں میں بعض ایسے ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر (بگاڑ) دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور نہیں مانا اور (کہتے ہیں) سنو! تمہیں نہ سنایا جائے اور (کہتے ہیں) راعِنا اپنی زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کرنے کے خیال سے، اور اگر وہ یوں کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے مانا اور تو سن اور ہم پر نظر کر تو ان کے حق میں بہتر اور درست ہوتا لیکن ان کے کفر کے سبب سے اللہ نے ان پر لعنت کی سو ان میں سے بہت کم لوگ ایمان لائیں گے۔
http://quranurdu.org/4/46
3.
سورۃ النساء
فَبِظُـلْمٍ مِّنَ الَّـذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْـهِـمْ طَيِّبَاتٍ اُحِلَّتْ لَـهُـمْ وَبِصَدِّهِـمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ كَثِيْـرًا
(160)
سو یہود کے گناہوں کے سبب سے ہم نے ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کر دیں جو ان پر حلال تھیں اور اس سبب سے بھی کہ (وہ لوگوں کو) اللہ کی راہ سے بہت روکتے تھے۔
http://quranurdu.org/4/160
==========
اب یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ آیت کا صحیح ترجمہ کیوں نہیں کیا گیا – اور زبردستی یہود اور نصاریٰ کو حضرت یعقوب علیہ سلام کی اولاد کیوں لکھا گیا
وہاں واضح قبیلے کا لفظ ہے – اور هود ھادو کا ترجمہ یہود کیوں کیا گیا
اس کا بتا دیں پلیز
الْاَسْبَاطَ یعنی بنی اسرائیل کے قبائل – یہ قبائل اصل میں اولاد یعقوب ہی ہیں اس لئے مترجمین نے ان کو مفہوم کے حساب سے اس طرح کیا ہے لیکن لفظی ترجمہ قبائل ہی ہے
بنی اسرائیل میں ظاہر ہے وہ انبیاء بھی شامل ہیں جو اولاد یعقوب میں سے ہیں اور ربانی اور صالحین بھی ان میں تھے جو مومن تھے لیکن دور نبوی کے بعد یہ مومن نہیں رہے کیونکہ انہوں نے رسالت نبوی کا انکار کر دیا اس لئے اس خصوصیت کا ذکر نہیں کیا جاتا ہے کہ یعقوب کی نسل میں مومن بھی تھے – اب جو یعقوب علیہ السلام کی نسل ہے اس میں مومن نہیں بلکہ یہودی ہی ہیں
دور نبی میں چند اکا دکا یہودی ایمان لائے تھے جو نبی اسرائیل کے تو تھے لیکن ان کی نسل کا ہم کو معلوم نہیں کہ اب کون ہیں
آجکل کے یہودی اولاد یعقوب میں سے ہی سمجھے جائیں گے جب تک وہ اس کا دعوی کریں
ہود علیہ السلام عرب عاربہ میں بھیجے گئے یعنی قدیم عربوں میں جو ابراہیم سے بھی قبل گزرے ہیں – لفظ ہود کا مصدر الگ زبان و علاقہ ہے
لیکن عربی میں منصوب حالت میں انے کی وجہ سے ہودا بولا گیا
اور اپ نے دو الگ الفاظ کو مکس کر دیا
===========
اپ نے سوال کیا کہ
هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى
کا ترجمہ یہود اور نصاریٰ کیا صحیح کیا گیا ہے ؟ اس کو ہود کیوں نہیں کیا گیا؟ جبکہ قرآن میں ہے
وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا
اور عاد کی طرف ہود (یا یہود) کو بھیجا
اب یہاں هُوْدًا کا ترجمہ ہود کیا گیا – جو ایک امانت دار رسول تھے
اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالنَّصَارٰى وَالصَّابِئِيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
سورۃ النساء
مِّنَ الَّـذِيْنَ هَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ
یہاں هَادُوْا کا ترجمہ ہود کیوں نہیں ہے
—————-
جواب
سادہ بات ہے کہ هُوْدًا اور ھادوا میں فرق ہے یہ دو الگ الفاظ ہیں
وَالَّذِينَ هادُوا
والواو فاعل (الواو) عاطفة (الذين) اسم موصول معطوف على الاسم الأول في محلّ نصب (هادوا
هادُوا نصب کی وجہ سے اس حال میں ہے
——
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ طَيِّباتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيراً
اس ظلم کی وجہ سے ہم نے هادُوا (یہود) پر طیبات کو حرام کر دیا جو حلال تھا
ظاہر ہے اگر هادُوا سے مراد ہود علیہ السلام نہیں ہیں اس کے علاوہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی بات کی جا رہی ہے
قرآن میں ہے
وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا
اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا
اگر ترجمہ کیا جائے یہ ترجمہ کہ عاد کی طرف ان کے بھائی یہود کو بھیجا ، تو نہ تو یہ سیاق و سباق پر پورا اترتا ہے نہ ہی صحیح کلام ہے نہ حقیقیت ہے
یہاں بھائی کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے قوم نہیں ایک شخص مراد ہے
سورہ بقرہ کی آیت کا ترجمہ صحیح ہے
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔
یہاں بھی اگر ہود علیہ السلام اور نصرانی ترجمہ کر دیا جائے تو یہ غلط سلط ترجمہ ہو جائے گا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا
اسی طرح قرآن میں ہے
إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا للَّذِينَ هَادُوا} [المائدة: 44]
ہم نے توریت کو نازل کیا جس میں ہدایت و نور ہے اس سے یہود کے لئے حکم کرتے وہ انبیاء جو مسلمان تھے
ظاہر ہے ہود اور ھادوا الگ الفاظ ہیں- ہود علیہ السلام تو ایک شخص ہیں جبکہ ھادوا سے مراد یہودی ہیں – لہذا جو ترجمہ متدوال ہے وہ ہی صحیح ہے
—-=============================
اپ کے نزدیک چونکہ قرآن میں ہے
وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا
اور عاد کی طرف ہود کو بھیجا
تو اسی طرح اس آیت میں هُودًا أَوْ نَصَارَى کا ترجمہ بھی ہود کیا جانا چاہیے
جواب
وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
اور یہ کہتے ہیں جنت میں داخل نہ ہو گا جو یہودی یا نصرانی ہو
ظاہر ہے یہ ترجمہ صحیح ہے
ہود تو ایک شخص تھے جبکہ یہود ایک قوم ہیں
اصل میں الله نے وہ لفظ بولا جو عبرانی میں یہود کا نام ہے
Yehudah
اس کو اصل عبرانی میں یہودا بولا جاتا تھا – فارس کی غلامی میں ارض مقدس کا نام یہودا فارسیوں نے رکھا- اس کے بعد اس صوبہ میں تمام قبائل اپنے اپ کو یہودا کہنے لگے اور تمام بنی اسرائیلی چاہے کسی بھی قبیلے کا ہو اس کو یہودی کہا جانے لگا
یہی لفظ عربی میں ہودا یا یہود ہو گیا
———–
=========
سورہ بقرہ کی آیت کا ترجمہ صحیح ہے
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔
===========
کیا
ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور قبیلے جو هود یا نصرانی کے تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔
—
آپ نے کہا کہ
———
اصل میں الله نے وہ لفظ بولا جو عبرانی میں یہود کا نام ہے
Yehudah
اس کو اصل عبرانی میں یہودا بولا جاتا تھا – فارس کی غلامی میں ارض مقدس کا نام یہودا فارسیوں نے رکھا- اس کے بعد اس صوبہ میں تمام قبائل اپنے اپ کو یہودا کہنے لگے اور تمام بنی اسرائیلی چاہے کسی بھی قبیلے کا ہو اس کو یہودی کہا جانے لگا
یہی لفظ عربی میں ہودا یا یہود ہو گیا
———
کیا ہم قرآن کی عربی کو عبرانی زبان پر پرکھیں گے – قرآن کی عربی ہی ایک ایسی عربی زبان ہے جو ٹھیک اسی حالت میں ہے جیسے نازل ہوئی – یہ آپ سے تکرار نہیں – ایک پائنٹ اف ویو ہے
باقی ہر زبان قرآن کی عربی کے علاوہ اپنی اصلی حالت میں نہیں رہی – اور یہ ایک معجزہ ہے الله کا
——-
(39) سورۃ الزمر
(مکی، آیات 75)
وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُـوْرِ رَبِّهَا وَوُضِـعَ الْكِتَابُ وَجِيٓءَ بِالنَّبِيِّيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَقُضِىَ بَيْنَـهُـمْ بِالْحَقِّ وَهُـمْ لَا يُظْلَمُوْنَ
(69)
اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جائے گی اور نبی اور گواہ لائے جائیں گے اور ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔
—
یہ بھی ممکن ہے کہ
موسی کی توریت یا انجیل یا قرآن یا زبور یہ تمام الکتاب کا جز ہیں جو لوح محفوظ میں عالم بالا میں ہے اس کو الکتاب بھی کہا جاتا ہے
یہی بہتر جواب ہے کہ قرآن انہی کتب کا تسسل ہے جو شروع سے انبیاء پر نازل ہوتی آ رہی ہیں
اور اسی مجموعہ کو کتاب کہا گیا ہے اور وہی رکھی جایے گی
—
ایک آیت یہ بھی ہے
سورۃ البقرۃ
(مدنی، آیات 286)
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّّاحِدَةًۚ فَبَعَثَ اللّـٰهُ النَّبِيِّيْنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَۖ وَاَنْزَلَ مَعَهُـمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّـذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُـمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَـهُـمْ ۖ فَهَدَى اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ ؕ وَاللّـٰهُ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ
(213)
سب لوگ ایک دین پر تھے، پھر اللہ نے انبیاء خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے، اور ان کے ساتھ سچی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں میں اس بات میں فیصلہ کرے جس میں اختلاف کرتے تھے، اور اس میں اختلاف نہیں کیا مگر انہیں لوگوں نے جنھیں وہ (کتاب) دی گئی تھی اس کے بعد کہ ا ن کے پاس روشن دلیلیں آ چکی تھیں آپس کی ضد کی وجہ سے، پھر اللہ نے اپنے حکم سے ہدایت کی ان کو جو ایمان والے ہیں اس حق بات کی جس میں وہ اختلاف کر رہے تھے، اور اللہ جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے۔
—–
یہاں بھی کہا گیا
النَّبِيِّيْنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَۖ یہ سارے جمع کے صیغہ میں ہیں لیکن آگے وَاَنْزَلَ مَعَهُـمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ واحد کے صیغہ میں ہے
تو یہ نامہ اعمال نہیں ہو سکتا – یہ کتاب ہی ہو گی جو لوح محفوظ میں ہے
——–
سورۃ الاعراف
وَكَتَبْنَا لَـهٝ فِى الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَىْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَىْءٍۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِـهَا ۚ سَاُرِيْكُمْ دَارَ الْفَاسِقِيْنَ
(145)
اور ہم نے اس کو تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی، سو انہیں مضبوطی سے پکڑ لے اور اپنی قوم کو حکم کر کہ اس کی بہتر باتوں پر عمل کریں، عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا ٹھکانہ دکھاؤں گا۔
اور دوسری طرف سورۃ البروج کی یہ دو آیات ہیں
سورۃ البروج
(مکی، آیات 22)
بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ
(21)
بلکہ وہ قرآن ہے بڑی شان والا۔
سورۃ البروج
(مکی، آیات 22)
فِىْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ
(22)
لوح محفوظ میں (لکھا ہوا ہے)۔
====
آپ نے یہ بھی لکھا تھا کہ
=====
تمام آسمانی کتب کا اصل ماخذ الکتاب ہے جو آسمان میں ہے اس کو لوح محفوظ میں کہا جاتا ہے
لیکن اب اس میں سے کتاب کو توریت کی صورت نازل کیا گیا تو زبان بدل گئی اس کو تختی پر لکھ کر ایک ہی وقت میں مکمل دیا گیا
جب اس میں سے قرآن کا نزول ہوا تو الگ الگ اوقات میں الوحی آئی اور زبان عربی ہو گئی
=======
اس کی دلیل قرآن میں کہاں ہے کہ کتاب کو توریت کی صورت نازل کیا گیا تو زبان بدل گئی
سورۃ الاحقاف
وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْـمَـةً ۚ وَهٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْاۖ وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَ
اس سے قبل موسی کی کتاب رہبر و رحمت تھی- اور یہ کتاب عربی زبان کی تصدیق کرتی ہے – تا کہ وہ خبر دار کرے ان لوگوں کو جو ظلم کرتے ہیں اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے
قرآن میں ہی ہے کہ الله کے کلمات کو کوئی نہیں بدل نہیں سکتا
سورۃ الانعام
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ
اللہ کے کلمات تبدیل نہیں ہوتے۔
اب آپ غور کریں کہ دنیا میں وہ کون سی کتاب ھے جس میں اللہ کا حکم موجود ھے؟
یہ آپ سے بحث یا مناظرہ نہیں – ایک گفتگو ہے – جو اچھے انداز میں چلے تو اچھا ہے
شکریہ
کیا سورہ بقرہ کی آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُـوْا هُوْدًا اَوْ نَصَارٰى ۗ قُلْ ءَاَنْتُـمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّـٰهُ ۗ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٝ مِنَ اللّـٰهِ ۗ وَمَا اللّـٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(140)
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور قبیلے جو هود یا نصرانی کے تھے، کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔
جواب
الفاظ جو هود یا نصرانی کے تھے، نہیں ہو سکتا کیونکہ ہود عرب عاربہ میں ایک نبی گزرے ہیں اور یہود و نصاری کے مطابق عرب میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا
لہذا یہ ترجمہ غلط ہے
—————-
اپ نے سوال در سوال کیا
آپ نے کہا کہ
———
اصل میں الله نے وہ لفظ بولا جو عبرانی میں یہود کا نام ہے
Yehudah
اس کو اصل عبرانی میں یہودا بولا جاتا تھا – فارس کی غلامی میں ارض مقدس کا نام یہودا فارسیوں نے رکھا- اس کے بعد اس صوبہ میں تمام قبائل اپنے اپ کو یہودا کہنے لگے اور تمام بنی اسرائیلی چاہے کسی بھی قبیلے کا ہو اس کو یہودی کہا جانے لگا
یہی لفظ عربی میں ہودا یا یہود ہو گیا
———
کیا ہم قرآن کی عربی کو عبرانی زبان پر پرکھیں گے – قرآن کی عربی ہی ایک ایسی عربی زبان ہے جو ٹھیک اسی حالت میں ہے جیسے نازل ہوئی – یہ آپ سے تکرار نہیں – ایک پائنٹ اف ویو ہے
جواب
الله کا کلام یہود سے چل رہا ہے ہم تو سن رہے ہیں کہ یہود یہ کہتے تھے اللہ تعالی تو ان کا جواب دے رہے ہیں- جو یہود نے کہا وہ ان کی تاریخ ہے جس میں کوئی قبیلہ اپنی شناخت باقی نہ رکھ سکا سوائے یہودا قبیلہ کے اور تمام بنی اسرائیل اپنے اپ کو یہودا کہنے لگے
اس پر الله تعالی نے کلام کیا ہے – اپ اپنے تئیں معنی متعین کریں گے تو اپ یہ سمجھ ہی نہ سکیں گے کہ یہود کے کس اشکال کا جواب دیا جا رہا ہے – اپ کو دیکھنا پڑے گا کہ یہود کا کیا موقف تھا اور ہے اور قرآن نے ان کی کس بات کا جواب دیا ہے اور الله کا حکم بھی ہے
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ
خود عربی کے متعدد الفاظ عبرانی کے ہی ہیں وہیں سے آئے ہیں – عربی لغت میں اور شروحات میں ان کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے
——–
اپ نے سوال در سوال کیا ہے
اس کی دلیل قرآن میں کہاں ہے کہ کتاب کو توریت کی صورت نازل کیا گیا تو زبان بدل گئی
جواب
یعنی اپ کے نزدیک توریت بھی عربی میں تھی– اپ کے قول کا مطلب ہوا کہ مصر میں اور اس سے قبل سب انبیاء اور ان کی نسلیں عربی بولتے تھے – یہ قول زبانوں کی تاریخ سے لا علمی کا ہے
بخاری کی حدیث میں ہے
وَشَبَّ الْغُلامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ
اور لڑکا (اسمعیل) جوان ہوا اور ان (قبیلہ جرھم) سے عربی (بھی ) سیکھ لی
یعنی عربی صرف اسمعیل نے سیکھی – اسحاق و ابراہیم و یعقوب و سارہ یا موسی یہ نہیں بولتے تھے
اپ کے اس قول سے احادیث کا بھی انکار ہوتا ہے تاریخ لغت و لسان کا بھی اور یہ قول محض خیالی و افسانوی ہے
اپ نے آیت کا غلط ترجمہ کیا ہے
سورۃ الاحقاف
وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْـمَـةً ۚ وَهٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْاۖ وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَ
اس سے قبل موسی کی کتاب رہبر و رحمت تھی- اور یہ کتاب عربی زبان کی تصدیق کرتی ہے – تا کہ وہ خبر دار کرے ان لوگوں کو جو ظلم کرتے ہیں اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے
عربی زبان کی کوئی تصدیق نہی کی جاتی- کسی عرب مفسر کو بھی یہ اچھوتے خیال نہیں آئے کہ عربی کی فضیلت اس طرح تمام زبانوں پر قائم کرے
قرآن میں ہے بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں داخلے کے وقت حکم دیا
وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُوا حِطَّةٌ
دروازے سے داخل ہو حِطَّةٌ (مالک گناہ ہوئے) کہتے ہوئے
حِطَّةٌ کا لفظ عربی میں مستعمل نہیں ہے – یہ عبرانی کا لفظ
hatta
ہے جس کا مطلب گناہ ہے
اس سے معلوم ہوا کہ دشت میں بنو اسرائیل عبرانی بولتے تھے –
اسی طرح ایل کا لفظ عبرانی ہے کو فرشتوں کے ناموں میں ہے
قَالَ فِي (إِيلٌ) مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ عِبْرَانِيٌّ أَوْ سُرْيَانِيٌّ
: تفسير القرآن الحكيم (تفسير المنار) المؤلف: محمد رشيد بن علي رضا
—
وَجِبْرِيلُ اسْمٌ عِبْرَانِيٌّ لِلْمَلَكِ الْمُرْسَلِ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى بِالْوَحْيِ لِرُسُلِهِ مُرَكَّبٌ مِنْ كَلِمَتَيْنِ
التحرير والتنوير از محمد الطاهر التونسي (المتوفى : 1393هـ)
—
مشرک عربوں نے انکار کیا کہ رحمان کوئی عربی کا لفظ ہے
مثلا
قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ} [الفرقان: 60]
انہوں نے کہا یہ رحمان کیا ہوتا ہے
مسلمان عربوں نے اقرار کیا کہ یہ عبرانی کا لفظ ہے
قال أبو بكر محمد بن القاسم بن (5) بشار: سألت أبا العباس (6) لم جمع بين الرحمن والرحيم؟ فقال: لأن الرحمن عبراني فأتى معه الرحيم العربي
التَّفْسِيرُ البَسِيْط المؤلف: أبو الحسن علي بن أحمد بن محمد بن علي الواحدي،
قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ الزَّجَّاجُ فِي مَعَانِي الْقُرْآنِ: وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى:” الرَّحِيمُ” عربي و” الرحمن” عِبْرَانِيٌّ، فَلِهَذَا جَمَعَ بَيْنَهُمَا.
—
تفسیر نفسی میں ہے
إذ قال {يُوسُفَ} اسم عبراني لا عربى
یوسف عربی نام ہی نہیں
تفسير النسفي (مدارك التنزيل وحقائق التأويل) المؤلف: أبو البركات عبد الله النسفي (المتوفى: 710هـ)
ويوسف اسم عبراني، وقيل عربى وليس بصحيح، لأنه لو كان عربياً لا نصرف لخلوّه عن سبب آخر سوى التعريف
عیسیٰ بھی غیر عربی نام ہے
وفي القاموس عيسى عليه الصلاة والسلام اسم عبرانيّ أو سريانيّ
حَاشِيةُ الشِّهَابِ عَلَى تفْسيرِ البَيضَاوِي
یہ چند امثال ہیں
یہ تمام عرب مفسر و نحوی و لغوی ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نام عربی کے نہیں ظاہر ہے جو زبان بولی جاتی ہے اسی میں نام رکھا جاتا ہے
————
اپ نے نکتہ سنجی کی ہے
//
قرآن میں ہی ہے کہ الله کے کلمات کو کوئی نہیں بدل نہیں سکتا
سورۃ الانعام
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ
اللہ کے کلمات تبدیل نہیں ہوتے۔
///
اس کا اس بحث سے تعلق اپ نے یہ بنایا ہے کہ اصل توریت و انجیل و زبور یہ سب عربی میں تھیں تمام لوگ عربی بولتے تھے اور سمجھتے لکھتے تھے پھر انہوں نے پہلے عربی کو بدلا اور اس کو عبرانی کر دیا
یہ خیال محض فسانہ ہے – اگر ایسا ہوتا تو حدیث میں اس کا ذکر ہوتا اور دنیا کہتی کہ آثار قدیمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرق وسطی میں ہر مقام پر عربی بولی لکھی سمجھی جاتی تھی جبکہ عربی کا کوئی وجود ان علاقوں میں نہیں ملا
اپ تکے بازی نہ کریں اور متن قرآن کو اپنے خیال کی بھینٹ مت چڑھائیں
اللہ کے کلمات لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ کا مطلب ہے الله کا وعدہ تبدیل نہیں ہو گا
ایک زبان میں ہی کلمات بدل سکتے ہیں مثلا عربی کا قرآن ہے لیکن قرات دس متواتر چلی آ رہی ہیں جن میں الفاظ بھی بدل رہے ہیں – میں نے تو صرف سورہ فاتحہ کا تقابل کیا ہے
https://www.islamic-belief.net/قرآن-اور-قرات-عشرہ/
سورہ فاتحہ میں ملک یوم الدین اگر اپ پڑھیں تو لوگ اپ کو سمجیں گے کہ غلط قرات کر دی کیونکہ دس متواتر قرات میں اختلاف کا اردو بولنے والوں کو علم نہیں ہے – بعض مسلمان ممالک ہیں جہاں صبح و شام نماز میں مالک یوم الدین کی بجائے ملک یوم الدین پڑھا جاتا ہے
اپ ان تمام قرات کو جمع کریں اور تقابل کر کے دیکھ لیں ان میں الفاظ بھی بدل جاتے ہیں
تمام مسلمان فرقے ان قراتوں کو متواتر مانتے ہیں اور سعودی عرب اور دیگر ممالک میں ریڈیو پر الگ الگ سند سے یہ قرات کی بھی جاتی ہے ان میں الفاظ الگ الگ بھی ہیں یعنی وہ قرات جو میں یہاں لکھتا ہوں وہ وہ ہے جو بر صغیر میں چلتی ہے جس کو حفص بن عاصم کی سند سے جانا جاتا ہے
اور بنی اسرائیل سارے کے سارے کافر نہیں تھے – ایک گروہ ایمان بھی لایا – اور غالب بھی رہا
سورۃ الصف
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوٓا اَنْصَارَ اللّـٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَـمَ لِلْحَوَارِيِّيْنَ مَنْ اَنْصَارِىٓ اِلَى اللّـٰهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ اَنصَارُ اللّـٰهِ ۖ فَـاٰمَنَتْ طَّـآئِفَةٌ مِّنْ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ وَكَفَرَتْ طَّـآئِفَـةٌ ۚ فَاَيَّدْنَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا عَلٰى عَدُوِّهِـمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاهِرِيْنَ
(14)
اے ایمان والو! اللہ کے مددگار ہو جاؤ جیسا کہ عیسٰی ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ اللہ کی راہ میں میرا مددگار کون ہے، حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں، پھر ایک گروہ بنی اسرائیل کا ایمان لایا اور ایک گروہ کافر ہو گیا، پھر ہم نے ایمان داروں کو ان کے دشمنوں پر غالب کر دیا پھر تو وہی غالب ہو کر رہے۔
http://quranurdu.org/61/14
———-
اور قرآن میں ہی ہے کہ
سورۃ البقرۃ
يَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِيْنَ
اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی
سورۃ الجاثیۃ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُـمْ مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُـمْ عَلَى الْعَالَمِيْنَ
(16)
اور بے شک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکومت اور نبوت دی تھی اور ہم نے پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور ہم نے انہیں جہان والوں پر فضیلت دی
====
اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بنی اسرائیل صرف یہود اور نصاریٰ ہی ہیں تو یہ گروہ جو بنی اسرائیل سے ہی ہے جو ایمان لایا اور غالب رہا وہ کہاں گیا – الله نے ان کو تم جہانوں پر فضیلت دی
سورہ بقرہ میں مخاطب بنی اسرائیلی یہود ہیں نہ کہ نصرانی کیونکہ دور نبوی میں نصرانی کسی نسل کے لوگ نہیں تھے ان میں رومی شامل تھے افریقی بھی تھے چینی میں بھی تھے اور عربوں میں بھی نصرانی تھے لہذا فضیلت بنی اسرائیل سے مراد نصرانی نہیں یہود ہیں
الله نے بنی اسرائیل کو فضیلت دی تو وہیں ذکر ہے کہ ان کو فرعون سے نجات دی- یہ ہے ان کی فضیلت -ان کو من و سلوی دیا جبکہ دیگر امتوں کو یہ نہیں ملا – اس وقت بنی اسرائیل میں کافر مشرک گوسالہ پرست مومن سبھی تھے – مصر سے یہ سب نکلے تھے موسی نے فرعون سے کہا
کہ بنی اسرائیل کو جانے دے جبکہ موسی پر مصر میں چند لوگ ایمان لائے تھے
سوره يونس مين ہے
فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ
پس موسیٰ ( علیہ السلام ) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے
سورہ طہ میں ہے الله نے موسی و ہارون کو حکم کیا
فَاْتِيَاهُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ وَلَا تُعَذِّبْـهُـمْ
اس کے پاس جاو اور کہو ہم دونوں تمہارے رب کے رسول ہیں ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دو ، اور انہیں عذاب و تکلیف سے دوچار نہ کرو
یہان بنی اسرائیل میں تمام قوم مراد ہے صرف ایمان والے چند لوگ مراد نہیں ہیں
تو ان لوگوں پر الله نے احسان کیا ان کو عذاب سے نجات دی من و سلوی دیا جبکہ یہ ملے جلے لوگ مومن و مشرک سب تھے
پھرباوجود ان میں تمام مسلم نہ تھے الله نے ارض مقدس ان کے لئے لکھ دی وہاں ان پر سرکشی کی وجہ سے عذاب بھی آیا ان کو غلام بنایا گیا اور ان سب کو یہود کا نام ملا کیونکہ جو قبیلہ باقی رہا اس کا نام ان کو ملا باقی گیارہ قبائل منتشر ہو گئے – اس وجہ سے آج یہود بھی اپنے اپ کو اسی قبیلہ سے روشناس کراتے ہیں
———
اسی حال میں ان میں عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور یہود دو گروہوں میں بٹ گئے ایک عیسیٰ کو حق پر ماننے والا دوسرا ان کو فراڈ قرار دینے والا – اس میں جو عیسیٰ کو حق مانتا تھا وہ باقی رہا ان کے مخالف ان کو قتل نہ کر سکے اور عیسیٰ بھی بچ گئے اس کا ذکر سورہ صف میں ہے کہ حواریوں کو ظالم یہودی قتل نہ کر سکے بلکہ یہود پر رومیوں کا عذاب آیا ان کا قتل ہوا اور رومیوں نے نصرانی مذھب قبول کر لیا
قرآن میں ہے کہ عیسیٰ کی وجہ سے بنی اسرائیل کا اک گروہ ایمان لایا اور ایک نے کفر کیا – یہ صرف بنی اسرائیل میں تفریق کا ذکر ہے پھر وہ جو مومن بنی اسرائیل کا گروہ تھا اس کو تمام عالم پر فضیلت نہیں دی اس کو اس کافر دشمن یہودی و بنی اسرائیلی گروہ پر مدد دی گئی
فَاَيَّدْنَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا عَلٰى عَدُوِّهِـمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاهِرِيْنَ
——
آج یہود سے مراد وہ لوگ ہیں جو عیسیٰ اور محمد علیہما السلام کی نبوت کے انکاری ہیں اور قرآن میں بھی ان کو یہود ہی کہا گیا ہے
وہ گروہ بنی اسرائیل جو عیسیٰ کا ماننے والا تھا وہ وقت کے ساتھ معدوم ہو گیا اور ان میں الوہیت عیسیٰ کا عقیدہ پیدا ہوا اس کا ذکر بھی قرآن سورہ مریم میں ہے
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
========
Siezeبھائی لفظ توفی کا اطلاق
پر کیسے ہوتا ہے؟ کچھ وضاحت فرما دیں ۔جزاک اللہ
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2015/10/عذاب-قبرکی-حقیقت-کتاب.pdf
اس کتاب کے شروع میں اس پر ہی بحث ہے
—————-
توفی کا اصل مطلب ہی یہی ہے
اور قرآن میں ہے
اے عیسیٰ میں توفی کروں گا تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا
توفی یعنی پکڑ لوں گا
پکڑنا – اس کا اصل مطلب ہے موت دینا اس کا لغوی مطلب نہیں ہے
————
پھر قرآن میں یہ لفظ قبض روح پر آیا ہے – قبض روح دو طرح سے ہے
توفی نیند میں ہو رہا ہے جو روح کا جسم میں ہی پکڑنا ہے اس کے بعد یرسل کا لفظ ہے یعنی اس کو چھوڑا جاتا ہے
توفی موت پر بھی ہو رہا ہے جو روح کا جسم میں پکڑنا ہے لیکن موت میں امساک بھی ہے اور اخرجوا بھی ہے لہذا معلوم ہوا کہ موت پر روح کو جسم سے نکال کر روک لیا گیا ہے