موت کے بعد جو بول اٹھا

کتب رجال و اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم میں ایک صحابی کے لئے اتا ہے

من تکلم بعد الموت

موت کے بعد جو بول اٹھا

یہ زید بن خارجہ رضی الله عنہ ہیں جو بدری صحابی ہیں اور عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی

تہذیب الکمال از المزی کے مطابق

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقُرَشِيُّ، قال: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ الْفَاخِر الْقُرَشِيّ فِي جماعة، قَالُوا: أَخْبَرَتْنا فَاطِمَةُ بِنْتُ عَبد اللَّهِ، قَالَتْ: أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبد اللَّهِ الضَّبِّيُّ، قال: أخبرنا سُلَيْمان بْن أَحْمَد (2) ، قال: حَدَّثَنَا عِيسَى بْن مُحَمَّد السمسار الواسطي، قال: حَدَّثَنَا عبد الحميد بْن بيان، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاق الأزرق، عَنْ شَرِيك، عَنْ إِبْرَاهِيم بْن مهاجر، عَنْ حَبِيب بْن سالم، عن النعمان بْن بشير، قال: لما توفي زَيْد بْن خَارِجَة انتظر بِهِ خروج عُثْمَان، فقلت (3) : أصلي ركعتين، فكشف الثوب عَنْ وجهه، فَقَالَ: السلام عليكم، السلام عليكم. قال: وأهل البيت يتكلمون، فقلت وأنا فِي الصلاة: سبحان الله، سبحان الله! فَقَالَ: انصتوا، انصتوا، مُحَمَّد رَسُول اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق أَبُو بَكْر الصديق، ضعيف فِي جسده قوي فِي أمر اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق عُمَر بْن الخطاب، قوي فِي جسده، قوي فِي أمر الله، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق عُثْمَان بْن عَفَّان، مضت اثنتان وبقي أربع، وأبيحت الأحماء بئر أريس وما بئر أريس، السلام عليك عَبد اللَّهِ بْن رواحة، هل أحسست لي (1) خَارِجَة وسعدا؟ قال شَرِيك: هما أبوه وأخوه. وقد رويت هذه القصة من وجوه كثيرة، عَنِ النعمان بْن بشير وغيره.

حبیب بن سالم روایت کرتا ہے النعمان بْن بشير رضی الله عنہ سے کہ جب زید بن خارجہ کی وفات ہوئی ہم عثمان کے نکلنے کا انتظار کر رہے  تھے- پس ان سے کہا : دو رکعت پڑھ لیں پس زید کے چہرے پر سے کپڑا ہٹایا کہا السلام علیکم السلام علیکم  کہا : اور گھر والے بات کرنے لگ گئے اور میں نماز میں تھامیں  نے کہا سبحان الله سبحان الله (یعنی گھر والوں کو روکنے کی کوشش کی اور نماز میں سبحان الله پکارآ ک وہ چپ رہیں اسی اثنا میں)  زید بن خارجہ   نے کہا (یعنی میت بولی)چپ رہو چپ رہو، محمد رسول الله ہیں ایسا کتاب اول میں تھا- سچ سچ سچا ہے ابو بکر الصدیق، جسم میں کمزور ہے قوی الله کے کام میں ایسا ہی کتاب اول میں تھا، سچا سچ سچا عمر بن الخطاب ہے جسم میں قوی ہے اور الله کے کام میں بھی ایسا ہی کتاب اول میں تھا – سچا سچا سچا عثمان ہے دو سال گزرے اور چار باقی ہیں – گرم ہوا بئر أريس (کا پانی) اور کیا ہے بئر أريس؟، السلام ہو آپ پر عبد الله بن رواحة، کیا  آپ نے میرے لئے محسوس کیا اور سعد کے لئے ؟ شریک نے کہا یہ دونوں باپ بیٹا تھے اور اس قصے کو روایت کیا ہے کئی طرح النعمان بْن بشير اور دیگر سے

اس واقعہ کو بیان کرنے والآ حبیب بن سالم ہے جو مختلف فیہ ہے- امام بخاری نے اس سے صحیح میں روایت نہیں لی ہے-

ابن مندہ نے کتاب میں روایت نقل کی ہے

أخبرنا خيثمة بن سليمان، ومحمد بن يعقوب بن يوسف، قالا: حدثنا العباس بن الوليد بن مزيد، قال: أخبرني أبي، قال: حدثني ابن جابر، ح: وحدثنا عبد الرحمن بن يحيى، قال: حدثنا أبو مسعود، قال: حدثنا هشام بن إسماعيل، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، عن ابن جابر، قال: سمعت عمير بن هاني، يحدث عن النعمان بن بشير، قال: توفي رجل منا يقال له خارجة بن زيد، فسجينا عليه ثوبًا وقمت أصلي، فسمعت ضوضأة، فانصرفت فإذا به يتحرك، وظننت أن حية دخلت بينه وبين الثياب، فلما وقفت عليه قال: أجلد القوم وأوسطهم عبد الله عمر أمير المؤمنين، الذي لا تأخذه في الله لومة لائم كان في الكتاب الأول صدق صدق عبد الله بن أبو بكر أمير المؤمنين، الضعيف في جسمه القوي في أمر الله، وفي الكتاب الأول صدق صدق عبد الله عثمان أمير المؤمنين الضعيف العفيف المتعفف، الذي يعفو عن ذنوب كثيرة، خلت ليلتان وبقيت أربع، اختلف الناس ولا نظام، وأييحت الأحماء، أيها الناس، اقبلوا على إمامكم واسمعوا له وأطيعوا، فمن تولى فلا يعهدن دمًا، كان أمر الله قدرًا مقدورًا ثلاثًا، هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، سلام عليك يا رسول الله، هذا عبد الله بن رواحة ما فعل خارجة بن زيد، ثم رفع صوته، فقال: يقول: {كَلَّا إِنَّهَا لَظَى} [المعارج: 15] أخذت بئر أريس ظلمًا، ثم خفت الصوت فرفعت الثوب، فإذا هو على حاله ميت.

عمير بن هاني کہتا ہے اس نے نعمان بن بشیر سے سنا: ہم میں سے ایک شخص جس کو خارجہ بن زید کہا جاتا تھا کی وفات ہوئی- پس اس پر کپڑا ڈالا اور نماز پڑھی پس خارجہ بن زید میں ایک گرگڑآہت سنی پس ہم اس میت  تک ایے کیونکہ وہ ہلی – اور گمان کیا کہ سانپ کپڑے اور خارجہ بن زید کے درمیان داخل ہو گیا ہے – پس جب ان پر رکے خارجہ نے کہا کوڑے مارنے والی قوم اور ان کا درمیان الله کا بندہ  عمر امیر المومنین جس نے الله کے لئے کوئی لومة لائم نہیں رکھا یہ کتاب اول میں ہے اور سچا سچا الله کا بندہ  ابو بکر امیر المومنین ہے جسم میں ضعیف ہے الله کے امر میں قوی ہے اور کتاب اول میں ہے سچا سچا الله کا بندہ عثمان امیر المومنین ہے کمزور و نا توا و نرم ہے جو اکثر گناہوں کو معاف کرتا ہے دو راتیں باقی ہیں چار گزری ہیں –  قبول کرو اپنے اماموں کو انکی سمع و اطاعت کرو پس جس نے منہ موڑا اس کے خون کا عہد نہیں ہے – لوگوں کا اختلاف ہوا کوئی نظام نا رہا اور الله اپنے کام کو کروانے والا ہے تین دفعہ، یہ رسول الله ہیں صلی الله علیہ وسلم ، سلام ہو آپ پر یا رسول الله یہ عبد الله بن رواحة ہیں ، خارجہ بن زید نے جو کیا پھر آواز اٹھ گئی پس کہا ہرگز نہیں یہ (اگ) تو چاٹ جائے گی – ظلم سے اریس کا کنواں لیا گیا پھر آواز مدھم ہوئی اور کپڑا اٹھا تو وہ تو حال میت تھے

اس روایت کے مطابق میت پر کپڑا ہی تھا کہ اندر سے یہ ہولناک آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور برزخ کی خبریں جاری تھیں – میت ابھی دفن بھی نہیں تھی

طبرانی الکبیر کی روایت کے مطابق ایسا واقعہ خارجہ بن زید کے ساتھ بھی ہوا جو زید کے بیٹے تھے یا روایت میں راویوں نے غلطی سے باپ بیٹا کا نام ڈال دیا

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُعَلَّى الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِي، أَنَّ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنَّا يُقَالُ لَهُ خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ فَسَجَّيْنَاهُ بِثَوْبٍ، وَقُمْتُ أُصَلِّي إِذْ سَمِعْتُ ضَوْضَاءَةً وَانْصَرَفْتُ، فَإِذَا أَنَا بِهِ يَتَحَرَّكُ، فَقَالَ: ” أَجَلْدُ الْقَوْمِ أَوْسَطُهُمْ عَبْدُ اللهِ، عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ الْقَوِيُّ فِي جِسْمِهِ الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ الْعَفِيفُ الْمُتَعَفِّفُ الَّذِي يَعْفُو عَنْ ذُنُوبِ كَثِيرَةٍ حَلَّتْ لَيْلَتَانِ، وَبَقِيَتْ أَرْبَعٌ، وَاخْتَلَفَ النَّاسُ وَلَا نِظَامَ لَهُمْ، يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَقْبِلُوا عَلَى إِمَامِكُمْ وَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنُ رَوَاحَةَ، ثُمَّ قَالَ: مَا فَعَلَ زَيْدُ بْنُ خَارِجَةَ – يَعْنِي أَبَاهُ -، ثُمَّ قَالَ: أَخَذْتُ سَرَارِيسَ ظُلْمًا ثُمَّ خَفُتَ الصَّوْتُ

ولید بن مسلم ، عبد الرحمن بن یزید بن جابر سے روایت کرتے ہیں وہ عُمَيْرِ بْنِ هَانِی سے وہ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ سے بولے: ہم میں سے ایک شخص مرا جس کو خارجہ بن زید کہا جاتا تھا اس کو ہم نے کپڑے سے ڈھانک دیا، اور نماز جنازہ پڑھی  پس میں نے شور سنا اور گیا پس جب ان پر آیا تو وہ ہلے اور بولے : کوڑا مارنے والی قوم کے درمیان الله کا بندہ  عمر امیر المومنین ہیں جسم میں قوی ہیں اور الله کے کام میں، عثمان امیر المومنین ہیں کمزور و نا توآ ہیں جو اکثر گناہوں کو معاف کرتے ہیں دو راتیں گزرین چار باقی ہیں اور لوگوں کا اختلاف ہوا اور کوئی نظام باقی نہ رہا اے لوگوں اپنے اماموں کو قبول کرو اور ان کی سمع و اطاعت کرو- یہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں اور ابن رَوَاحَةَ- پھر کہا زید بن خارجہ نے کیا کیا یعنی ان کے باپ نے پھر کہا ارِيسَ کا راز ظلم سے لیا گیا پھر آواز مدھم ہو گئی

اس کی سند میں ولید بن مسلم ہیں جو تدلیس التسویہ کرتے ہیں یعنی استاد کے استاد کو ہڑپ کرتے ہیں جب حدثنا بولیں تو بھی شک کیا جاتا ہے – سند میں جان بوجھ کر انہوں نے عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِر کہا ہے جبکہ امام بخاری اور ابن ابی حاتم کے مطابق یہاں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے

اس قسم کی مبہم روایات کو محدثین نے بلا تنقید نقل بھی کیا- قصہ گھڑنے والوں نے نام میں بھی مخلط ملط کر دیا ہے اس پر ابن حجر کو اسد الغابہ میں کہنا پڑا

قلت: قال أَبُو نعيم أول الترجمة: إنه الذي تكلم بعد الموت، وقال: أراه الأول، وهذا من غريب القول، بينا نجعل الأول قتل بأحد، ونجعل هذا توفي في خلافة عثمان رضي اللَّه عنه، وأنه الذي تكلم بعد الموت، ثم يقول: أراه الأول، فكيف يكون الأول وذلك قتل بأحد، وهذا توفي في خلافة عثمان، كذا قال أَبُو نعيم في هذه الترجمة.  وأما ابن منده فذكر الأول وأنه شهد بدرًا، وذكر فيه الاختلاف أَنَّهُ الذي تكلم بعد الموت، ولم يذكر أَنَّهُ قتل بأحد، فلم يتناقض قوله.  وأما أَبُو عمر فذكر الأول، وجعل ابنه زيدًا هو الذي تكلم بعد الموت، فلو صح أن المتكلم خارجة بْن زيد لكان غير الأول، لا شبهة فيه، لأن الأول قتل بأحد، والمتكلم توفي في خلافة عثمان فيكون غيره.  والصحيح أن المتكلم زيد بْن خارجة. والله أعلم

میں ابن حجر کہتا ہوں : ابو نعیم نے ترجمہ کے شروع میں کہا کہ بے شک یہ وہ ہیں جنہوں نے مرنے کے بعد کلام کیا – اور کہا میں دیکھتا ہوں شروع میں اور یہ قول عجیب ہے اول سے مراد ہے ان کا قتل احد میں ہوا اور پھر کر دیا ان کی وفات عثمان مئی دور میں ہوئی اور انہوں نے مرنے کے بعد کلام کیا – پھر کہا میں دیکھتا ہوں دور اول میں پس کیسے ممکن ہے کہ یہ دور اول میں ہوئی اور احد میں قتل ہوں اور یہاں ہے دور عثمان میں ایسا ابو نعیم نے اس ترجمہ میں کہا ہے اور جہاں تک ابن مندہ کا تعلق ہے تو انہوں نے ان کا ذکر اول دور میں کیا جنہوں نے جنگ بدر دیکھی اور اختلاف کا ذکر کیا کہ انہوں نے موت کے بعد کلام کیا اور یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کا قتل احد میں ہوا پس وہاں تناقص نہیں ہے اور جہاں تک ابو عمر  کا تعلق ہے تو اس نے ذکر کیا دور اول میں اور ان کے بیٹے زید کے لئے کہا کہ اس نے مرنے کے بعد کلام کیا ہے پس اگر یہ صحیح ہے کہ بولنے والا خارجہ بن زید تھا تو وہ شروع میں نہیں ہو سکتا اس میں شبہ نہیں ہے کہ وہ احد میں قتل ہوئے اور وہ جس نے کلام کیا وہ عثمان کے دور میں ہوا جو زید بن خارجہ تھے الله کو پتا ہے

کتاب  الاستيعاب في معرفة الأصحاب از ابن عبد البر کے مطابق

زيد بن خارجة بن زيد بن أبي زهير بن مالك، من بني الحارث بن الخزرج. روى عن النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة عليه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وهو الذي تكلم بعد الموت، لا يختلفون  في ذَلِكَ، وذلك أنه غشي عليه قبل موته، وأسري بروحه، فسجى عليه بثوبه، ثم راجعته نفسه، فتكلم بكلام حفظ عنه في أبي بكر، وعمر، وعثمان، ثم مات في حينه. روى حديثه هذا ثقات الشاميين عن النعمان بن بشير، ورواه ثقات الكوفيين، عن يزيد بن النعمان بن بشير، عَنْ أَبِيهِ. ورواه يَحْيَى بن سعيد الأنصاري، عن سعيد بن المسيب.

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بن محمد، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ابن مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بلال، عن يحيى، عن سعيد ابن الْمُسَيِّبِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَارِجَةَ الأَنْصَارِيَّ، ثُمَّ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ. تُوُفِّيَ زَمَنَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَسُجِّيَ بِثَوْبٍ، ثُمَّ إِنَّهُمْ سَمِعُوا جَلْجَلَةً فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ تَكَلَّمَ فَقَالَ: أحمد أحمد في الكتاب [الأول [1]] . صدق صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، الضَّعِيفُ فِي نَفْسِهِ، الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول. صدق صَدَقَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْقَوِيُّ الأَمِينُ فِي الكتاب الأول. صدق صَدَقَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَلَى مِنْهَاجِهِمْ، مَضَتْ أَرْبَعُ سِنِينَ وَبَقِيَتِ اثْنَتَانِ [2] ، أَتَتِ الْفِتَنُ، وَأَكَلَ الشديد الضعيف، وقامت الساعة، وسيأتيكم خبر بئر أريس وما بئر أَرِيسٍ [3] .  قَالَ يَحْيَى بن سعيد: قَالَ سعيد بن المسيب: ثم هلك رجل من بني خطمة فسجى بثوب فسمعوا جلجلة في صدره، ثم تكلم فَقَالَ: إن أخا بني الحارث بن الخزرج صدق صدق.

زيد بن خارجة بن زيد بن أبي زهير بن مالك، بنی حارث بن الخزرج میں سے تھے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا درود کے بارے میں اور یہ وہ ہیں جنہوں نے موت کے بعد کلام کیا اس میں اختلاف نہیں ہے اور یہ ہوا کہ ان کو غشی آئی موت سے قبل، ان کی روح اوپر گئی اور ان پر کپڑا ڈال دیا گیا  پھر ان کا نفس پلٹ آیا پس کلام کیا ابو بکر عمر اور عثمان کے بارے میں جو انھیں یاد رہا پھر اس وقت ان کی وفات ہوئی اس حدیث کو شام کے ثقات نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے اور کوفہ کے ثقات نے روایت کیا ہے يزيد بن النعمان بن بشير، عَنْ أَبِيهِ سے اور اسکو َحْيَى بن سعيد الأنصاري، عن سعيد بن المسيب سے روایت کیا ہے-  ہم کو خبر دی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ ان سے حدیث بیان کی إِسْمَاعِيلُ بن محمد نے ان سے إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ نے کہا ہم سے بیان کیا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ نے ہم سے بیان کیا عَبْدُ اللَّهِ ابن مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ نے ان سے سُلَيْمَانُ بْنُ بلال نے ان سے  يحيى نے ان سے سعيد ابن الْمُسَيِّبِ نے کہ زید بن خارجہ انصاری جو بنی حارث بن الخزرج میں سے تھے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی ان کو کپڑے سے ڈھک دیا گیا پھر ان کے سینے میں ایک کڑک ہوئی پھر یہ بولے احمد احمد جو پہلی کتاب میں ہے ، سچا سچا ابو بکر الصدیق ہے جسم میں کمزور ہے اور الله کے کام میں قوی ہے اور یہ پہلی کتاب میں ہے سچا سچا عمر ہے جو قوی ہے امین ہے پہلی کتاب میں اور سچا سچا عثمان ہے اپنے کاموں میں چار سال گزر گئے اور دو باقی ہیں فتنہ آیا اور شدت سے کھا گیا  اور قیامت قائم ہوئی ، اور تم کو بئر أريس (کا کنواں) کی خبر پہنچے گی اور بئر أريس کیا ہے ؟  – یحیی بن سعید نے کہا کہ سعید بن المسیب نے کا پھر بني خطمة میں سے ایک شخص ہلاک ہوا اس پر بھی کپڑا ڈالا گیا اس کے سینے میں کڑک ہوئی پھر بولا میرے بھائی جو بنی حارث بن ال خزرج میں سے تھا سچ کہا سچ کہا

سندا روایت مظبوط نہیں ہے کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيد بن المسيب ……ولد لسنتين مضتا من خلافة عمر رضي الله عنه

سعيد بن المسيب ،….خلافة عمر رضي الله عنه کے ختم ہونے کے دو سال پہلے پیدا ہوئے

یعنی  سعيد بن المسيب ٢١ ہجری میں پیدا ہوئے اور زید بن خارجہ المتوفی 30 ہجری کی وفات  کے وقت  سعيد بن المسيب نو سال کے تھے- روایت میں واضح نہیں کہ ان کا سماع زید بن خارجہ رضی الله عنہ سے ہوا یا نہیں

کتاب معرفة الصحابة از أبو نعيم الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) کے مطابق اس قصے کو

وَرَوَاهُ الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ وَلَمْ يُسَمِّهِ

الزُّبَيْدِيُّ نے اس کو روایت کیا ہے الزہری سے انھوں نے سعید بن المسیب سے انہوں نے انصار میں سے ایک شخص سے جس کا نام نہیں لیا

یعنی یہ منقطع روایت ہے یا مجھول شخص سے ہے

تاریخ مدینہ از ابن شبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَارِجَةَ الْأَنْصَارِيَّ، ثُمَّ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ تُوُفِّيَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَسُجِّيَ بِثَوْبِهِ، ثُمَّ إِنَّهُمْ سَمِعُوا [ص:1106] جَلْجَلَةً فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ تَكَلَّمَ فَقَالَ: «أَحْمَدُ أَحْمَدُ فِي الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، صَدَقَ صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ الضَّعِيفُ فِي نَفْسِهِ الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللَّهِ فِي الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، صَدَقَ صَدَقَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ فِي الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، صَدَقَ صَدَقَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَلَى مِنْهَاجِهِمْ، مَضَتْ أَرْبَعٌ وَبَقِيَتْ سَنَتَانِ، أَتَتِ الْفِتَنُ وَأَكَلَ الشَّدِيدُ الضَّعِيفَ، وَقَامَتِ السَّاعَةُ، وَسَيَأْتِيكُمْ عَنْ جَيْشِكُمْ خَبَرٌ بِبِئْرِ أَرِيسَ، وَمَا بِئْرُ أَرِيسَ»

سعید بن المسیب نے کہا کہ زید بن خارجہ کی عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی پس کپڑے سے ڈھانک دیا گیا پھر ان سے سینے میں کڑک ہوئی پھر بولے احمد احمد کتاب اول میں سچ سچ ابو بکر صدیق جسم میں کمزور الله کے امر میں قوی کتاب الله میں، سچ سچ عمر قوی امین کتاب اول میں سچ سچ عثمان اپنے کاموں میں چار گزرے دو سال باقی ہیں فتنہ آیا اور کمزور کو کھا گیا اور قیامت برپا ہوئی اور عنقریب تم تک پہنچے کی خبر  اپنے لشکر کی طرف سے اریس کے کنواں کی – اریس کا کنوآں کیا ہے

روایت  کے مطابق زید بن خارجہ کو عثمان رضی الله عنہ سے مطابق فتنہ کا علم  تھا – یہ تفصیل تو کوئی ایسا ہی شخص بیان کر سکتا ہے جس نے یہ سب دیکھا ہو – تمام کتب کے مطابق زید بن خارجہ کی وفات دور عثمانی میں ہوئی

کتاب الوافي بالوفيات از صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ) کے مطابق

وتوفّي فِي حُدُود الثَّلَاثِينَ لِلْهِجْرَةِ

زید بن خارجہ کی وفات سن 30 ہجری کی حدود میں ہوئی

عثمان رضی الله عنہ کی وفات ٣٥ ہجری میں ہوئی

کیا یہ ممکن ہے کہ سن 30 ہجری میں چند ساعتوں میں غشی کے دوران زید بن خارجہ کو مستقبل میں ہونے والے اہم  حادثات کی خبر ہو گئی؟ بلا شبہ یہ کوئی گھپلا ہے-

بئر أريس  کا کیا چکر ہے؟  کچھ مبہم بات راوی نے زید بن خارجہ سے منسوب کی ہے – اس کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے – جو لوگ اس قصے کو اصلی سمجھتے ہیں ان کو اس پر غور کرنا چاہے- بئر أريس مسجد قبا کے پاس باغ میں ایک کنواں تھا اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مہر عثمان رضی الله عنہ کے ہاتھ سے گر پڑی اس کنواں کا سارا پانی نکال دیا گیا لیکن انگوٹھی نہ نکلی اس پر محمد رسول الله لکھا ہوا تھا راوی کو شاید قلق ہے کہ اس کنواں کو کیوں خشک کیا گیا

کتاب  إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع از  المقريزي (المتوفى: 845هـ) کے محقق   محمد عبد الحميد النميسي کہتے ہیں

 قال أحمد بن يحى بن جابر: نسبت إلى أريس رجل من المدينة من اليهود، عليها مال لعثمان بن عفان رضى اللَّه عنه، وفيها سقط خاتم النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم من يد عثمان، في السنة السادسة من خلافته، واجتهد في استخراجه بكل ما وجد إليه سبيلا، فلم يوجد إلى هذه الغاية، فاستدلوا بعد به على حادث في الإسلام عظيم

احمد بن یحیی بن جابر نے کہا : اس کنواں کی نسبت اریس کی طرف ہے جو مدینہ کا ایک یہودی تھا اور اس پر عثمان کا مال لگا اور کنواں میں رسول الله کی مہر عثمان کے ہاتھ سے گری ان کی خلافت کے چھٹے سال اور انہوں نے اس کو نکلالنے کا اجتہاد کیا لیکن کوئی سبیل نہ پائی اس میں کامیاب نہ ہوئے اور اس پر استدلال کیا گیا کہ یہ  اسلام کا ایک عظیم حادثہ ہے

معلوم ہوا کہ انگوٹھی زید بن خارجہ یا خارجہ بن زید کی وفات سے قبل گر چکی تھی جس  کو راوی نے ظلم سے ہتھیایا گیا کنواں قرار دیا ہے

بیہقی دلائل  النبوہ میں اس روایت پر  کہتے ہیں

فعند ذلك تغيرت عماله، وظهرت الفتن كما قيل على لسان زيد بن خارجة

پس اس انگوٹھی گرنے کے بعد سے ان کے گورنر وں میں تغیر آیا اور فتنہ ظاہر ہوا جیسا کہ زید بن خارجہ کی زبان پر ظاہر ہوا

لیکن یہ درست نہیں فتنہ تو سن ٣٥  ہجری ذی الحجہ میں ہوا اس سے قبل اس کے آثار نہ تھے اور زید 30 ہجری میں مرے

بہت سے علماء ان روایات کو میت کے شعور کی دلیل پر پیش کرتے ہیں کہ میت ابھی دفن بھی نہیں ہوتی کہ زندوں سے کلام کرتی ہے اگر ایسا ہے تو ایسا روز کیوں نہیں ہوتا ؟

اسی طرح کا ایک اور واقعہ دلائل النبوة للبیهقی میں ہے

أخبرنا أبو الحسین بن الفضل القطان ببغداد أخبرنا إسماعیل بن محمد الصفار حدثنا محمد بن علی الوراق حدثنا عبد الله بن موسى حدثنا إسماعیل بن أبی خالد عن عبد الملک بن عمیر عن ربعی بن حراش قال أتیت فقیل لی إن إخاک قد مات فجئت فوجدت أخی مسجى علیه ثوب فأنا عند رأسه استغفر له وأترحم علیه إذ کشف الثوب عن وجهه فقال السلام علیک فقلت وعلیک فقلنا سبحان الله أبعد الموت قال بعد الموت إنی قدمت على الله عز عدکما فتلقیت بروح وریحان ورب غیر غضبان وکسانی ثیابا خضرا من سندس واستبرق ووجدت الأمر أیسر مما تظنون ولا تتکلوا إنی استأذنت ربی عز وجل أن أخبرکم وأبشرکم فاحملونی إلى رسول الله فقد عهد إلی أن لا أبرح حتى ألقاه ثم طفی کما هو.

 ربعی بن حراش نے کہا میں پہنچا تو کہا گیا اپ کا بھائی مر گیا پس میں بھائی کے پاس گیا اس پر کپڑا پڑا تھا اس کے سرھاننے میں نے استغفار و رحم کی دعا کی کپڑا چہرے پر سے ہٹایا تو بھائی بولا السلام علیک میں نے بھی کہا السلام علیک بلکہ سب نے کہا سبحان الله اپ سے موت دور ہوئی – میت نے کہا موت کے بعد مجھ کو الله تعالی کے پاس لے جایا گیا وہ رحمت سے ملا – غضب ناک نہ ہوا اور مجھ و ریشم و مخمل کا لباس دیا اور میں نے اس امر کو آسان پایا جیسا تم لوگ گمان کرتے ہو … میں نے اپنے رب سے اجازت لی ہے کہ تم کو جا کر اس کی خبر کروں اور بشارت دوں
(میت فرشتوں سے مخاطب ہوئی)
پس اب مجھ کو رسول اللہ کے پاس لے چلو میں نے ان کو عہد دیا ہے کہ میں عہد نہ ٹوروں گا یہاں تک کہ تم لوگوں سے ملوں گا پھر وہ بجھ گئے جیسے تھے

طبقات ابن سعد میں  ہے

ربعى بن حراش بن جحش بن عمرو المتوفی قریب ١٠٠ ہجری ہے
ایام جاہلیت میں تھے نہ صحابی ہیں نہ رسول الله کو دیکھا

مَسْعُودُ بْنُ حِرَاشٍ أَخُو رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے

ایک بھائی کا نام  ربیع بن حراش بھی لیا جاتا ہے جو  عجلی کے مطابق كوفي تابعي   ہے

مرنے کے بعد کلام کے بہت سے قصے آج بھی سننے کو ملتے ہیں – اہل مغرب میں یہ عام ہے مثلا کوئی ایلین مخلوق کو دیکھتا ہے کوئی عیسیٰ علیہ السلام سے مل کر واپس اتا ہے  کوئی بتاتا ہے کہ وہ ایک سرنگ میں سے جا رہا تھا کہ عود روح ہوا اس کو

Near death experience

کہا جاتا ہے

 اگر آپ زید بن خارجہ والے واقعہ کو بظاہر قبول کر لیں اور الفاظ پر پر غور کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی وفات نہیں ہوئی تھی نہ ہی روح جسد سے نکلی تھی بلکہ لوگوں کو اشتباہ ہوا کہ انکی وفات ہوئی ہے

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *