صحيح بخارى حديث نمبر ( 1287-1288 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 929 ). میں حدیث ہے کہ
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ تُوُفِّيَتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمَكَّةَ، وَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا – أَوْ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا، ثُمَّ جَاءَ الآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي – فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ أَلاَ تَنْهَى عَنِ البُكَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «إِنَّ المَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»،فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَدْ كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ، ثُمَّ حَدَّثَ، قَالَ صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ سَمُرَةٍ، فَقَالَ اذْهَبْ، فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلاَءِ الرَّكْبُ، قَالَ فَنَظَرْتُ فَإِذَا صُهَيْبٌ، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ادْعُهُ لِي، فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ فَقُلْتُ ارْتَحِلْ فَالحَقْ أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ دَخَلَ صُهَيْبٌ يَبْكِي يَقُولُ وَا أَخَاهُ وَا صَاحِبَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا صُهَيْبُ، أَتَبْكِي عَلَيَّ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»،
ابن مليكہ بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى مكہ ميں فوت ہو گئى اور ہم اس كى نماز جنازہ ميں شركت كے ليے گئے، اور وہاں ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ عنہم بھى موجود تھے اور ميں ان دونوں كے درميان بيٹھا ہوا تھا كہ گھر سے آواز آنے لگى تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے عمرو بن عثمان كو كہا كيا تم رونے سے منع نہيں كرتے ؟ كيونكہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر عذاب ديا جاتا ہے تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا عمر رضى اللہ تعالى عنہ بھى بعض ایسا کہا كرتے تھے، پھر انہوں نے بيان كيا كہ ….. جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو خنجر سے زخمى كيا گيا تو صہيب روتے ہوئے ان كے پاس آئے اور وہ يہ كلمات كہہ رہے تھے ہائے ميرے بھائى، ہائے ميرے دوست تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ اسے كہنے لگے اے صہيب كيا تم مجھ پر روہ رہے اور حالانكہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ديا جاتا ہے
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ اللَّهَ لَيُعَذِّبُ المُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَقَالَتْ حَسْبُكُمُ القُرْآنُ {وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام 164] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا «عِنْدَ ذَلِكَ وَاللَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى» قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ «وَاللَّهِ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا»
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ وفات پا گئے تو ميں نے اس كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ذكر كيا تو وہ فرمانے لگيں اللہ تعالى عمر رضى اللہ عنہ پر رحم فرمائے، اللہ كى قسم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بيان نہيں فرمايا كہ تھا کہ مومن كو اس كے گھر والوں كے رونے كى وجہ سے عذاب ديا جاتا ہے بلکہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يقينا اللہ تعالى كافر كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر زيادہ عذاب ديتا ہے اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا تمہارے ليے قرآن كافى ہےاور كوئى بھى كسى دوسرے شخص كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگا . ابن ابى مليكہ كہتے ہيں اللہ كى قسم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے بھی كچھ (اعتراض میں ) نہ كہا
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد میں أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى 463هـ) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول پر لکھا ہے
فَأَمَّا إِنْكَارُ عَائِشَةَ عَلَى ابْنِ عُمَرَ فَقَدْ رُوِيَ مِنْ وُجُوهٍ مِنْهَا مَا رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ وَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ وَهَلَ ابْنُ عُمَرَ إنما مَرَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيٍّ فَقَالَ إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ يُعَذَّبُ وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ وَرَوَى أَيُّوبُ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنِ الْقَاسِمِ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِ عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ عُمَرَ وَابْنِهِ وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ قَالَ أَبُو عُمَرَ لَيْسَ إِنْكَارُ عَائِشَةَ بِشَيْءٍ وَقَدْ وَقَفَ ابْنُ عُمَرَ عَلَى مِثْلِ مَا نَزَعَتْ بِهِ عَائِشَةُ فَلَمْ يَرْجِعْ وَثَبَتَ عَلَى مَا سَمِعَ وَهُوَ الْوَاجِبُ كَانَ عليه
جہاں تک انکار عائشہ کا تعلق ہے جو انہوں نے ابن عمر کے قول کا کیا ہے تو اس کی وجوہات کو ان سے روایت کیا گیا ہے جس میں ہے وہ جو ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے انہوں نے ابن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کو اس کے گھر والوں کے رونے پر عذاب دیا جاتا ہے اور اس قول کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا پس عائشہ نے کہا ابن عمر کو وہم ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک یہودی پر ہوا پس آپ نے فرمایا اس قبر کے صاحب کو عذاب دیا جا رہا ہے اس کے اہل رو رہے تھے اور ایوب نے ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنِ الْقَاسِمِ کی سند سے روایت کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ان سے روایت کیا ہے جو جھوٹے نہیں ہیں یعنی عمر اور ان کے بیٹے
لیکن سننے میں غلطی ہو جاتی ہے – ابن عبد البر نے کہا انکار عائشہ میں کوئی چیز نہیں ہے (یعنی کوئی دلیل نہیں ) اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے توقف کیا ان مسائل میں جن میں عائشہ ان سے نزاع کرتی ہیں اور انہوں نے کوئی رجوع نہ کیا اور یہ ثابت ہے جو ابن عمر نے سنا اور یہ واجب ہے جس پر وہ پہلے تھے
ابن حجر فتح الباری ج 3 ص ١٥٤ پر قرطبی کے قول کا ذکر کرتے ہیں جس کو پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کس قدر بے باک تھے یہ نام نہاد علماء جن کے نزدیک فہم ام المومنین رضی اللہ عنہا کا کوئی درجہ نہ تھا
وَقَالَ الْقُرْطُبِيُّ إِنْكَارُ عَائِشَةَ ذَلِكَ وَحُكْمُهَا عَلَى الرَّاوِي بِالتَّخْطِئَةِ أَوِ النِّسْيَانِ أَوْ عَلَى أَنَّهُ سَمِعَ بَعْضًا وَلَمْ يَسْمَعْ بَعْضًا بَعِيدٌ لِأَنَّ الرُّوَاةَ لِهَذَا الْمَعْنَى مِنَ الصَّحَابَةِ كَثِيرُونَ وَهُمْ جَازِمُونَ فَلَا وَجْهَ لِلنَّفْيِ مَعَ إِمْكَانِ حَمْلِهِ عَلَى مَحْمَلٍ صَحِيحٍ
القرطبى كہتے ہيں : عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا انكار كرنا اور راوى پر غلطى اور بھولنے كا حكم لگانا، يا يہ كہ اس نے كلام كا بعض حصہ سنا ہے اور باقى حصہ نہيں سنا، يہ بعيد ہے، كيونكہ صحابہ كرام ميں سے اس معنى كو روايت كرنے والے بہت ہيں، اور وہ بالجزم روايت كرتے ہيں، تو اس كى نفى كوئى وجہ اور گنجائش نہيں، اور پھر اس كو صحيح چيز پر محمول كرنا بھى ممكن ہے انتہى
المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود از محمود محمد خطاب السبكي میں ہے میت کو رونے پر عذاب ہوتا ہے پر ابن قیم کا کہنا ہے
قال ابن القيم إنكار عائشة رضي الله تعالى عنها لذلك بعد رواية الثقات لا يعوّل عليه, فإنهم قد يحضرون ما لا تحضره ويشهدون ما تغيب عنه واحتمال السهو والغلط بعيد جدًا اهـ
ابن قیم نے کہا ثقات کی روایات کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس پر انکار معتبر نہیں ہے کیونکہ ثقات وہاں موجود تھے جہاں عائشہ موجود نہیں تھیں اور انہوں نے دیکھا جو عائشہ رضی اللہ عنہا پر چھپا رہا اور غلطی اور سہو کا احتمال بہت بعید ہے
راقم کہتا ہے اصحاب رسول میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہی نہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو جاننے کے بعد بھی اپنی رائے رکھی ہو لہذا قرطبی ،ابن عبد البر اور ابن قیم کا قول باطل ہے اور بلا دلیل ہے
قرآن میں موجود ہے کہ محشر میں کوئی بھی کسی اور کا بو جھ اٹھانے پر تیار نہ ہو گا لیکن قرآن میں یہ بھی موجود ہے کہ کفار پر ان کے متتبعین کے گناہوں کا بوجھ ڈال دیا جائے گا – سوره عنكبوت میں ہے
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ( 12 ) عنكبوت –
اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہ اُٹھالیں گے۔ حالانکہ وہ اُن کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اُٹھانے والے نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں
وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ( 13 ) عنكبوت
اور یہ اپنے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور (لوگوں کے) بوجھ بھی۔ اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن اُن کی اُن سے ضرور پرسش ہوگی
عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول اس آیت کے تحت بھی صحیح ہے کیونکہ انہوں نے اصحاب رسول کے لئے اصلا بولا ہے کہ اصحاب رسول کو ان کے اہل کے عمل کا عذاب نہیں جائے گا اور ساتھ ہی یہودی پر اہل کے عمل کا بوجھ کا اثبات کیا ہے – یعنی یہ میت کی تربیت کا معاملہ ہے کہ اس نے اپنے اہل کو کیا حکم دیا تھا اگر یہ حکم دیا کہ اس پر رویا جائے تو اس میت کو عذاب ہو گا اور اگر یہ حکم دیا کہ مجھ پر مت رونا تو عذاب نہ ہو گا
شارحین نے اس حوالے سے بعض ضعیف اثار بھی پیش کیے ہیں مثلا ابن ماجہ کی حدیث ١٥٩٤ ہے
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِي، حَدّثَنَا أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، عَنْ مُوسَى الْأَشْعَرِي
عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ، إِذَا قَالُوا وَاعَضُدَاهُ، وَاكَاسِيَاهُ، وانَاصِرَاهُ، واجَبَلَاهُ، وَنَحْوَ هَذَا، يُتَعْتَعُ وَيُقَالُ أَنْتَ كَذَلِكَ؟ أَنْتَ كَذَلِكَ؟ .قَالَ أَسِيدٌ فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ {وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الإسراء 15] قَالَ وَيْحَكَ، أُحَدِّثُكَ أَنَّ أَبَا مُوسَى حَدَّثَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فترَى أَنَّ أَبَا مُوسَى كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؟ أَوْ تَرَى أَنِّي كَذَبْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى؟
اسيد بن ابو اسيد، موسى بن ابو موسى اشعرى سے بيان كرتے ہيں اور موسى اپنے باپ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا زندہ كے رونے سے ميت كو عذاب ديا جاتا ہے، جب زندہ كہتے ہيں ہائے ميرے بازو، ہائے ميرے پہنانے والے، ہائے ميرى مدد كرنے والے، ہائے ميرے پہاڑ، اور اس طرح كے جملے تو اسے شدت سے كھينچ كر كہا جاتا ہے تو اس طرح تھا ؟ تو ايسا تھا ؟ اسيد كہتے ہيں ميں نے كہا سبحان اللہ اللہ تعالى تو يہ فرماتا ہے اور كوئى بھى كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائےگا .تو وہ كہنے لگے تيرے ليے افسوس ميں تجھے بتا رہا ہوں كہ مجھے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث بيان كى ہے،
تو كيا تيرے خيال ميں ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ باندھا ہے يا تو يہ سمجھتا ہے كہ ميں نے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ پر جھوٹ بولا ہے ؟
سند میں موسى بن أبى موسى الأشعرى ، الكوفى مجہول الحال ہے جس کو صرف ابن حبان نے حسب روایت ثقات میں شمار کیا ہے سند لائق اعتبار نہیں ہے
اسی سند سے سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، أَنَّ مُوسَى بْنَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيَّ، أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ بَاكِيهِ، فَيَقُولُ وَاجَبَلَاهْ وَاسَيِّدَاهْ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، إِلَّا وُكِّلَ بِهِ مَلَكَانِ يَلْهَزَانِهِ أَهَكَذَا كُنْتَ؟ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، فَجَعَلَتْ أُخْتُهُ عَمْرَةُ تَبْكِي وَاجَبَلاَهْ، وَاكَذَا وَاكَذَا، تُعَدِّدُ عَلَيْهِ، فَقَالَ حِينَ أَفَاقَ مَا قُلْتِ شَيْئًا إِلَّا قِيلَ لِي آنْتَ كَذَلِكَ
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ،» قَالَ أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ بِهَذَا فَلَمَّا مَاتَ لَمْ تَبْكِ عَلَيْهِ
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا عبد اللہ بن رواحہ رضى اللہ تعالى عنہ پر بے ہوشى طارى ہوئى تو ان كى بہن نے رونا شروع كر ديا اور كہنے لگى ہائے ميرے پہاڑ اور اسى طرح اس نے كئى اور بھى صفات شمار كي اور جب انہيں ہوش آيا تو وہ كہنے لگے تو نے جو كچھ بھى كہا تو مجھے يہ كہا گيا كيا تو اس طرح كا تھا – اور جب وہ فوت ہوئے تو پھر ان كى بہن ان پر نہيں روئى
اس روایت کے متن میں ابہام ہے کہ ان الفاظ پر طنز کیا گیا یا اثبات میں کہا گیا کہ ہاں عبد اللہ بن رواحہ ایک اعلام (پہاڑ) کی طرح تھے -سندا اس میں محمد بن فضيل بن غزوان ہے جس پر ابن سعد کا کہنا ہے کہ بعضهم لا يحتج به بعض محدثین اس سے دلیل نہیں لیتے
قيلة بنت مخرمة کی سند سے ایک روایت المعجم الكبير از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ الْكَشِّيُّ، ثنا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ الْحَوْضِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَالْفَضْلُ بْنُ الْحُبَابِ أَبُو خَلِيفَةَ، قَالَا ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَوَّارِ بْنِ قُدَامَةَ بْنِ عَنَزَةَ الْعَنْبَرِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمُخَرِّمِيُّ، ثنا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْغَلَابِيُّ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ رَجَاءٍ الْغُدَّانِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ أَبِي الدُّمَيْكِ الْمُسْتَمْلِي، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ التَّيْمِيُّ، قَالُوا ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ حَسَّانٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو الْجُنَيْدِ، أَخُو بَنِي كَعْبٍ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَتْنِي جَدَّتَايْ صَفِيَّةُ وَدُحَيْبَةُ ابْنَتَا عُلَيْبَةَ وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْ قَيْلَةَ، أَنَّ قَيْلَةَ بِنْتَ مَخْرَمَةَ، حَدَّثَتْهُمَا …. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ…. أَتُغْلَبُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ
تُصَاحَبَ فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا، فَإِذَا حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَنْ هُوَ أَوْلَى بِهِ اسْتَرْجَعَ، ثُمَّ قَالَ «رَبِّ آسِنِي مَا أَمْضَيْتُ، فَأَعِنِّي عَلَى مَا أَبْقَيْتُ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِحْدَاكُنَّ لَتَبْكِي، فَتَسْتَعِينُ لَهَا صُوَيْحِبَةً، فَيَا عِبَادَ اللهِ لَا تُعَذِّبُوا مَوْتَاكُمْ، ثُمَّ كَتَبَ لَهَا فِي قَطِيعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ لِقَيْلَةَ وَالنِّسْوَةِ مِنْ بَنَاتِ قَيْلَةَ
رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا كيا تم پر غلبہ پا ليا جاتا ہے كہ تم ميں كوئى ايك اپنے ساتھى كے ساتھ دنيا ميں اچھا اور بہتر سلوك كرے، اور جب وہ مر جائے تو انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى جان ہے تم ميں سے كوئى ايك روتا ہے تو اپنے ساتھى پر آنسو بہاتا ہے، تو اے اللہ كے بندو اپنے فوت شدگان كو عذاب سے دوچار مت كرو
اس سند میں عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَّانٍ، أَبُو الْجُنَيْدِ الْعَنْبَرِيُّ البصري کا تفرد ہے جو مجہول الحال ہے اس کی دادی دحيبة بنت عليبة العنبرية یا صفية بنت عليبة بھی مجہول الحال ہیں
بعض سلفی علماء نے ان احادیث کی وجہ سے عرض عمل کا عقیدہ اختیار کیا ہے کہ میت کو اپنے ورثاء کی حرکتوں کا علم ہوتا ہے – میت کو علم ہوتا ہے کون اس پر رو رہا ہے جس سے میت کو دکھ ہوتا ہے
مجموع فتاوى ابن عثيمين (17/408) کے مطابق وہابی عالم ابن عثيمين سے درج ذيل سوال كيا گيا
ما معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه ) ؟
فأجاب :” معناه أن الميت إذا بكى أهله عليه فإنه يعلم بذلك ويتألم ، وليس المعنى أن الله يعاقبه بذلك لأن الله تعالى يقول : ( وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ) والعذاب لا يلزم أن يكون عقوبة ألم تر إلى قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن السفر قطعة من العذاب ) والسفر ليس بعقوبة ، لكن يتأذى به الإنسان ويتعب ، وهكذا الميت إذا بكى أهله عليه فإنه يتألم ويتعب من ذلك ، وإن كان هذا ليس بعقوبة من الله عز وجل له ، وهذا التفسير للحديث تفسير واضح صريح ، ولا يرد عليه إشكال ، ولا يحتاج أن يقال : هذا فيمن أوصى بالنياحة ، أو فيمن كان عادة أهله النياحة ولم ينههم عند موته ، بل نقول : إن الإنسان يعذب بالشيء ولا
يتضرر به ” انتهى
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى كيا ہے ؟
يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ہوتا ہے
ابن عثيمين کا جواب تھا کہ اس کا مطلب ہے
جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں تو اسے اس كا علم ہوتا اور اس سے اسے تكليف ہوتى ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى ميت كو اس كى سزا ديتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے: كوئى بھى جان كسى دوسرى جان كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .عذاب سے يہ لازم نہيں آتا كہ اسے سزا ہوتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے “حالانكہ سفر كوئى سزا نہيں، ليكن اس سے انسان كو تكليف ہوتى ہے اور تھك جاتا ہے، تو اسى طرح جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں اسے اس سے تكليف ہوتى ہے اور وہ تھک جاتا ہے، اگرچہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے اسے سزا نہيں ہے.حديث كى يہ شرح واضح اور صريح ہے، اور اس پر كوئى اشكال وارد نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس شرح ميں يہ ضرورت ہے كہ كہا جائے كہ يہ اس شخص كے متعلق ہے جو نوحہ كرنے كى وصيت كرے، يا پھر اس شخص كے متعلق ہے جن كى عادت نوحہ كرنا ہو، اور وہ مرتے وقت انہيں نوحہ كرنے سے منع نہ كرے، بلكہ ہم تو يہ كہتے ہيں: انسان كو كسى چيز كے ساتھ عذاب ہوتا ہے ليكن اسے اس سے كوئى ضرر بھى نہيں پہنچتا ” انتہى.
——–
راقم کہتا ہے کہ میت تو لاشعور ہوتی ہے جس کو اپنے ارد گرد ہونے والے عمل کا پتا تک نہیں ہوتا
راقم کہتا ہے کہ ایک یہودی جو زندگی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا تھا وہ مر گیا لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف تھا اس پر جہنم ثبت ہو گئی – اب گھر والے اس پر رو رہے تھے اور نبی علیہ السلام کا اس کے گھر کے پاس سے گذر ہوا تو فرمایا یہ اس کی موت پر رو رہے ہیں اور اس کو عذاب ہو رہا ہے – اس میں مقصد یہ بتایا نہیں ہے کہ رونے پر میت کو عذاب ہوتا ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اہل کتاب کا مرنے والا جہنمی ہے چاہے گھر والوں کے ساتھ حسن عمل رکھتا ہو
السلام و علیکم و رحمت الله
مذکورہ روایات میں البُكَاءِ کا لفظ ہے جس کا مطلب رونا ہے – اور کہا گیا ہے کہ رونے کی بنا پر میت کو عذاب ہوتا ہے
نبی کریم صل اللہ علیہ و آ له وسلم اپنے صاحبزادے ابراھیم رضی الله عنہ کی موت پر روۓ – اپنی صاحبزادی زینب رضی الله عنہ جو ہبار بن اسود کا نیزہ لگنے سے شہید ہوگئیں – ان کو قبر میں اتارتے ہوے روۓ – کیا آپ صل اللہ علیہ و آ له وسلم کے رونے سے ان کو عذاب ہوا ؟؟
پھر کسی روایت میں اہل و عیال کا میت پر رونے پر عذاب کا ذکر ہے- تو کسی میں نوحہ کرنے پر عذاب کا ذکر ہے ؟؟
جب کہ رونے اور نوحہ کرنے میں کافی فرق ہے
کیا کہیں گے آپ ؟؟
البُكَاءِ رونا ہے اور یہ ممنوع عمل نہیں ہے قرآن میں ہے
اللہ نے ہی رولایا اور ہنسایا
سورہ نجم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شہادت اصحاب پر رونا احادیث سے معلوم ہے
————-
البُكَاءِ میں آواز بلند کرنا جس کو نوحہ کہتے ہیں وہ ممنوع ہے
بعض الفاظ کا مطلب زمانے کے ساتھ بدل بھی جاتا ہے
ممکن ہے دور نبوی کی عربی میں البُكَاءِ میں نوحہ شمار کیا جاتا ہو
اس طرح ان کی تطبیق ممکن ہے
و اللہ اعلم
—————
میرا ذہن اس طرف ہے کہ ایک یہودی جو زندگی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا تھا وہ مر گیا لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف تھا اس پر جہنم ثبت ہو گئی
اب گھر والے رو رہے تھے اور نبی کا اس کے گھر کے پاس سے گذر ہوا تو فرمایا یہ اس کی موت پر رو رہے ہیں اس کو عذاب ہو رہا ہے
اس میں مقصد یہ بتایا نہیں ہے کہ رونے پر میت کو عذاب ہوتا ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ مرنے والا جہنمی ہے