اس کتاب میں اضافہ کیا گیا ہے
مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
قتل زکریا کی خبر معراج میں
حدیث ام ہانی
معراج صخرہ سے ہوئی ؟
=========================
اس ویب سائٹ پر موجود معراج سے متعلق مباحث کو کتابی شکل دی گئی ہے – معراج کے حوالے سے غلو پرستوں نے کافی کچھ مشہور کر رکھا ہے دوسری طرف صحیح احادیث کی کتب میں بھی کچھ روایات اس سے متعلق صحیح نہیں ہیں – اس کتاب میں اس قسم کی بعض روایات کی چھان بین کی گئی ہے
اسلامی اعتقادات کا ایک اہم عقیدہ ہے کہ مکی دور نبوی میں رسول صلی الله علیہ وسلم کو بحکم الہی آسمان پر جسمانی طور پر بلند کیا گیا – اس میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو مکہ سے مسجد الاقصی لے جایا گیا – اس واقعہ کو الاسراء یا المعراج کہا جاتا ہے – الاسراء کا لفظ اَسْرٰى سے ہے جو قرآن میں موجود ہے اور المعراج کا لفظ طبقات ابن سعد میں ابن اسحاق کی سند سے ایک روایت میں اتا ہے – قرآن سوره الاسراء کی آیات ہیں کہ
سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ
پاک ہے وہ (رب) جو لے گیا سفر میں اپنے بندے کو رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے با برکت کیا ہے کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ (الله) سننے دیکھنے والا ہے
یہ معراج کا واقعہ تھا جس میں جسمانی طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر ایک گھوڑے اور خچر نما مخلوق پر کیا جس کو البراق کہا جاتا ہے- اس میں ایک آن میں آپ مسجد الحرام سے اصلی مسجد الاقصی پہنچ گئے اور آپ کے ہمراہ جبریل علیہ السلام بھی تھے[1]–
مسجد الاقصی سے آسمان دنیا اور اور پھر ایک آسمان سے دوسرے آسمان، یہاں تک کہ سات آسمان پر موجود سدرہ المنتہی تک کا سفر ہوا – جنت کا دورہ ہوا اور اس کی نعمت کو دیکھا – انبیاء سے وہاں ملاقات ہوئی جن میں فوت شدہ اور زندہ عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے – پھر وہاں سے واپس مکہ لوٹا دیا گیا – اس عالم میں رب تعالی کی عظیم قدرت و جبروت کا منظر دیکھا-
صحیح بخاری: کتاب: انصار کے مناقب (باب: معراج کابیان)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
3887
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِي مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ فَقَالَ لَهُ الْجَارُودُ هُوَ الْبُرَاقُ يَا أَبَا حَمْزَةَ قَالَ أَنَسٌ نَعَمْ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا الْخَالَةِ قَالَ هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ أَوَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِلَى إِدْرِيسَ قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَكَى قِيلَ لَهُ مَا يُبْكِيكَ قَالَ أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ هَذَا أَبُوكَ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ قَالَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ هَذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى وَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ فَقُلْتُ مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ هِيَ الْفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَا أُمِرْتَ قَالَ أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَ أُمِرْتَ قُلْتُ أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ قَالَ فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي
مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اس شب کا حال بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: “ایسا ہوا کہ میں حطیم یا حجر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے یہاں سے یہاں تک چاک کر دیا ۔۔ راوی کہتا ہے: میں نے جارود سے پوچھا: جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے: اس سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے کہا: حلقوم سے ناف تک۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ سینے سے ناف تک ۔۔” پھر اس نے میرا دل نکالا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان سے لبریز تھا۔ میرا دل دھویا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا ۔۔ جارود نے کہا: ابوحمزہ! وہ براق تھا؟ ابوحمزہ انس ؓ نے فرمایا: ہاں (وہ براق تھا) ۔۔ وہ اپنا قدم منتہائے نظر پر رکھتا تھا۔ تو میں اس پر سوار ہوا۔ میرے ہمراہ جبریل علیہ السلام روانہ ہوئے۔ انہوں نے آسمان اول پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: آپ کو یہاں تشریف لانے کا پیغام بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر جواب ملا: مرحبا! آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا بہت اچھا ہے۔ پھر اس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں گیا تو آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اچھے بیٹے اور بزرگ نبی! خوش آمدید۔ اس کے بعد جبریل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے حتی کہ دوسرے آسمان پر پہنچے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ بتایا کہ محمد ﷺ ہیں۔ دریافت کیا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ آنے والا مہمان بہت اچھا ہے اوراس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو یحییٰ اور عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد ہیں۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا اور ان دونوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: برادر عزیز اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا مہمان بہت اچھا ہے۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ یوسف علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کہا: انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: نیک طنیت بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے چوتھے آسمان پر لے کر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! جس سفر پر آئے وہ مبارک اور خوشگوار ہو۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ جبریل نے کہا: یہ ادریس علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے برادر گرامی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر پانچویں آسمان پر چڑھے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! اور جس سفر پر آئے ہیں وہ خوش گوار اور مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ جبریل علیہ السلام نےکہا: یہ ہارون علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے معزز بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چھٹے آسمان پر چڑھے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹایا تو پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! سفر مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو موسٰی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ موسٰی علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اخی المکرم اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے۔ پوچھا گیا: آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوعمر جوان جسے میرے بعد رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اس کی امت جنت میں میری امت سے زیادہ تعدادمیں داخل ہو گی۔ جبریل علیہ السلام مجھے ساتویں آسمان پر لے کر چڑھے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! اور جس سفر پر تشریف لائے ہیں وہ خوشگوار اور مبارک ہو۔ پھر میں وہاں پہنچا تو ابراہیم علیہ السلام ملے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ آپ کے جد امجد ابراہیم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اے پسر عزیز اور نبی محترم خوش آمدید۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک بلند کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کی طرح بڑے بڑے ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح چوڑے چوڑے ہیں۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں: (ان میں) دو نہریں بند اور دو نہریں کھلی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ بند نہریں تو جنت کی ہیں اور جو کھلی ہیں وہ نیل اور فرات کا سرچشمہ ہیں۔ پھر بیت المعمور کو میرے سامنے لایا گیا۔ پھر میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا لایا گیا تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ فطرت اسلام ہے جس پر آپ اور آپ کی امت قائم ہے۔ پھر مجھ پر شب و روز میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ جب میں واپس لوٹا تو موسٰی علیہ السلام کے پاس سے میرا گزر ہوا۔ انہوں نے پوچھا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے دن رات میں پچاس نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ موسٰی علیہ السلام نے فرمایا: آپ کی امت ہر دن پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ اللہ کی قسم! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور اس معاملے میں بنی اسرائیل کے ساتھ سرتوڑ کوشش کر چکا ہوں، لہذا آپ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں، چنانچہ میں لوٹ کر گیا اور اللہ تعالٰی نے مجھے دس نمازیں معاف کر دیں۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر اللہ کے پاس گیا تو اللہ نے مزید دس نمازیں معاف کر دیں۔ میں پھر موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر میں لوٹ کر گیا تو مجھے دس نمازیں اور معاف کر دی گئیں۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا، چنانچہ میں لوٹ کر گیا تو مجھے ہر دن میں دس نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر لوٹا تو موسٰی علیہ السلام نے پھر ویسا ہی کہا۔ میں پھر لوٹا تو مجھے ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت دن میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکے گی۔ میں تم سے پہلے لوگوں کا خوب تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل پر خوب زور ڈال چکا ہوں، لہذ تم ایسا کرو پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کرو۔ میں نے جواب دیا میں اپنے رب سے کئی دفعہ درخواست کر چکا ہوں، اب مجھے حیا آتی ہے، لہذا میں راضی ہوں اور اس کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں آگے بڑھا تو ایک منادی (خود اللہ تعالٰی) نے آواز دی کہ میں نے حکم جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی۔”
صحیح مسلم ٢٥٩ پر بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ بعض نسخوں میں یہ ٤١١ پر ہے
http://mohaddis.com/View/Muslim/411
صحیح مسلم
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان
حديث:411
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَی طَرْفِهِ قَالَ فَرَکِبْتُهُ حَتَّی أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قَالَ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَائُ قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِإِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيلُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ فَرَحَّبَ بِي وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الثَّانِيَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِابْنَيْ الْخَالَةِ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ وَيَحْيَی بْنِ زَکَرِيَّائَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِي إِلَی السَّمَائِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الرَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ
إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الْخَامِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ السَّادِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِمُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَی الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ کُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَی السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَی وَإِذَا وَرَقُهَا کَآذَانِ الْفِيَلَةِ وَإِذَا ثَمَرُهَا کَالْقِلَالِ قَالَ فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَی فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَنَزَلْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا فَرَضَ رَبُّکَ عَلَی أُمَّتِکَ قُلْتُ خَمْسِينَ صَلَاةً قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَبِّي فَقُلْتُ يَا رَبِّ خَفِّفْ عَلَی أُمَّتِي فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا فَرَجَعْتُ إِلَی مُوسَی فَقُلْتُ حَطَّ عَنِّي خَمْسًا قَالَ إِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ قَالَ فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَبَيْنَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام حَتَّی قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لِکُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ فَذَلِکَ خَمْسُونَ صَلَاةً وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا کُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُکْتَبْ شَيْئًا فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً قَالَ فَنَزَلْتُ حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ قَدْ رَجَعْتُ إِلَی رَبِّي حَتَّی اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ
ترجمہ : شیبان بن فروخ، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے لئے براق لایا گیا، براق ایک سفید لمبا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا جانور ہے منتہائے نگاہ تک اپنے پاؤں رکھتا ہے میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس آیا اور اسے اس حلقہ سے باندھا جس سے دوسرے انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے جانور باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہو اور میں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر میں نکلا تو جبرائیل (علیہ السلام) دو برتن لائے ایک برتن میں شراب اور دوسرے برتن میں دودھ تھا میں نے دودھ کو پسند کیا، جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فطرت کو پسند کیا، پھر جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ آسمان کی طرف چڑھے، فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو فرشتوں نے پوچھا آپ کون؟ کہا جبرائیل کہا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو ہم نے آدم (علیہ السلام) سے ملاقات کی آدم (علیہ السلام) نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پھر پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں انہوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحیی بن زکریا (علیہ السلام) کو دیکھا دونوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر گئے تو دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا اور اللہ نے انہیں حسن کا نصف حصہ عطا فرمایا تھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھلا تو میں نے ادریس (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، ادریس کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا ( وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا) ہم نے ان کو بلند مقام عطا فرمایا ہے، پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا جبرائیل نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا تو میں نے ہارون (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا کہ جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر پوچھا کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہاں کہ ہاں یہ بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں ساتویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا جبرائیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو فرشتوں نے پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں ان کو بلانے کا حکم ہوا ہے پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بیت المعمور کی طرف پشت کئے اور ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا اور بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور انہیں دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملتا ( فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے) پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہی کی طرف لے گئے اس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح بڑے بڑے تھے اور اس کے پھل بیر جیسے اور بڑے گھڑے کے برابر تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اس درخت کو اللہ کے حکم سے ڈھانکا گیا تو اس کا حال ایسا پوشیدہ ہوگیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض فرمائیں پھر میں وہاں سے واپس موسیٰ تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا پچاس نمازیں دن رات میں، موسیٰ نے فرمایا کہ اپنے رب کے پاس واپس جا کر ان سے کم کا سوال کریں اس لئے کہ آپ کی امت میں اتنی طاقت نہ ہوگی کیونکہ میں بنی اسرائیل پر اس کا تجربہ کرچکا اور آزماچکا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے پھر واپس جا کر اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میری امت پر تخفیف فرما دیں تو اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں میں پھر واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں اپنے رب کے پاس جا کر ان میں تخفیف کا سوال کریں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس طرح اپنے اللہ کے پاس سے موسیٰ کے پاس اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے اللہ کے بارگاہ میں آتا جاتا رہا اور پانچ پانچ نمازیں کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا کہ اے محمد ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور ہر نماز کا ثواب اب دس نمازوں کے برابر ہے پس اس طرح ثواب کے اعتبار سے پچاس نمازیں ہوگئیں اور جو آدمی کسی نیک کام کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرسکے تو میں اسے ایک نیکی کا ثواب عطا کروں گا اور اگر وہ اس پر عمل کرلے تو میں اسے دس نیکیوں کا ثواب عطا کروں گا اور جو آدمی کسی برائی کا ارادہ کرے لیکن اس کا ارتکاب نہ کرے تو اس کے نامہ اعمال میں یہ برائی نہیں لکھی جاتی اور اگر برائی اس سے سرزد ہوجائے تو میں اس کے نامہ اعمال میں ایک ہی برائی لکھوں گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں پھر واپس موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس جا کر تخفیف کا سوال کریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس اس سلسلہ میں بار بار آ جا چکا ہوں یہاں تک کہ اب مجھے اس کے متعلق اپنے اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔
دوسرے دن آپ نے جب قریش کو اس کی خبر دی تو انہوں نے آزمائشی سوالات کیے اور حجر یا حطیم میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیت المقدس شہر کو آپ کے سامنے کر دیا گیا
سوره النجم میں ہے[2]
اسے پوری طاقت والے نے سکھایا ہے (5) جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا (6
اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا (7
پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا (8
پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (9
پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (10
دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا (11
کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں (12) اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (13) سدرةالمنتہیٰ کے پاس (14)
اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے (15
جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی (16
نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی (17
یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں (18
معراج کے حوالے سے بہت سی ضعیف روایات عوام میں مشہور ہیں جن کو علماء بھی بلا سند بیان کرتے رہے ہیں مثلا جبریل علیہ السلام کے پروں کا جلنا یا معراج میں الله تعالی کا دیدار کرنا یا واقعہ معراج پر اصحاب رسول کا مرتد ہونا یا عائشہ رضی الله عنہا سے یہ قول منسوب کرنا کہ وہ جسمانی معراج کی انکاری تھیں وغیرہ – اس کتاب میں اس قسم کی روایات پر بحث کی گئی ہے
نعلین کے حوالے سے غلو کی ایک وجہ بریلوی فرقہ اور صوفیاء کی جانب سے بیان کی جاتی ہے کہ موسی علیہ السلام جب طوی کی مقدس وادی میں تشریف لے گئے تو سورۃ طہ کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیا طه،٢٠ : ١١۔
إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
اے موسٰی بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو
اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم جب معراج پر عرش تک گئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں ملتا کہ کسی مقام پر ان کے نعلین مبارک اتروائے گئے ہوں اس کو دلیل بناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یقینا یہ نعلین بہت مبارک ہیں اور ان کی شبیہ بنانا جائز ہے حالانکہ صحیحین کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی تک ہی گئے اس سے آگے نہیں اور یہ تو کسی حدیث میں نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم عرش تک گئے
اہل تشیع کے ہاں معراج کا مقصد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو علی کی امامت کا حکم تھا جو خاص سدرہ المنتہی کے بعد ملا یہاں تک کہ جبریل کو اس کی خبر نہ ہوئی – یہ خبر خاص علم باطن کی طرح تھی جو الله اور اس کے رسول کے مابین رہی- مزید یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کھل کر اس کو تمام امت پر بر سر منبر ظاہر نہیں کیا – مکی دور میں جب سابقوں اولوں میں سے بعض کو اس خبر کی بھنک پڑی تو ان میں سے بعض مرتد تک ہو گئے – افسوس اس قسم کی مبہم روایات اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں جن سے عوام دھوکہ کھا گئے اور یہ ماننے لگ گئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المتنھی سے گے گئے اور سابقوں اولوں مرتد ہوئے – اہل تشیع کے بقول اس سب کی وجہ علی رضی الله عنہ سے متعلق احکام تھے
بعض دیوبندی علماء نے غلو میں یہ تک کہا کہ عرش پر رسول الله کے پیر پڑے[3]– دوسری طرف یہی دیوبندی اور بریلوی ، جمہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله اپنے عرش پر نہیں ہے-
معراج کب ہوئی اس کے حوالے سے مورخین کے متعدد اقوال ہیں – عصر حاضر میں اس کو کہا جاتا ہے ماہ رجب میں ہوئی- رجب میں روزہ رکھنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے[4]
ابو شہر یار
٢٠١٨
واقعہ معراج بزبانِ صاحب معراج ﷺ
پورا ضرور پڑھیں پڑهیں !
اللہ کریم کےمحبوب کریم حضرت مُحمّد مصطفٰی ﷺ نے اپنی زبان حق ترجمان سے اپنی معراج کریم کویوں بیان فرمایا: میں مسجد حرام میں عشاءکی نماز پڑھ کر حطیم میں سویا ہواتھاکہ تین فرشتے مجھے مسجد حرام سے اٹھا کر زمزم شریف کے کنویں پر لے آئے ۔
حضرت جبریل ان فرشتوں کے نگران تھے،پھر انہوں نے حلقوم اور ناف کے درمیان میراسینہ چاک کیا اورسونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان اور حکمت سے بھرا ہواتھا،پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے دل کو زمزم کے پانی کے ساتھ دھویااوراس میں ایمان اور حکمت کو بھر دیا حتی کہ تمام گوشت اور رگوں میں ایمان اور حکمت کو سمودیا گیاپھردل کو اس کی جگہ پر رکھ کر سینہ بند کردیاگیا.
اس کے بعد براق نامی سواری لائی گئی جو لگام اور زین سے آراستہ تھی….
براق نے شوخی سے اچھل کود کی توحضرت جبریل (علیہ السلام) نے کہا :”کیا تم سیدنا محمدمصطفی ﷺ کے ساتھ ایسا کررہے ہو۔ان سے بڑھ کرکوئی مکرم شخصیت آج تک تم پر سوار نہیں ہوئی ۔“تو براق ٹھنڈاپڑ گیا اور اس کا پسینہ بہنے لگا….
وہ براق متہائے نظر پر قدم رکھتا تھا ، میں اس پر سوار ہوکر روانہ ہوا،راستے میں کثیب احمر کے پاس میراگزرحضرت موسی علیہ السلام کی قبر پرہوا،وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے۔
پھرہم آگے بڑھے ، اثنائے سفر مجھے پہلے دائیں طرف سے اور پھر بائیں طرف سے دومختلف لوگوں نے آواز دی کہ”یامحمد (ﷺ ) ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں مجھے دیکھئے۔“مگر میں نے انہیں جواب دیا نہ ان کے پاس ٹھہرا۔
پھرکیا دیکھا کہ ایک عورت انتہائی زیب وزینت کے ساتھ کھڑی کہی رہی ہے :”یامحمد(ﷺ )!میں آپ سے سوال کرتی ہوں مجھے دیکھئے۔“میں نے اس کی طرف بھی توجہ کی نہ ہی اس کے پاس ٹھہرا ….جبریل نے بتایا : ”دائیں طرف سے آوازدینے والا یہودی تھا ،اگر آپ اسے جواب دیتے اور اس کے پاس ٹھہرتے تو آپ کی اُمت یہودی ہوجاتی اوربائیں طرف سے بلانے والا عیسائی تھا اگر آپ اس کی بات سنتے اور اس کے پاس ٹھہرتے تو آپ کی اُمت عیسائی ہوجاتی اورزیب وزینت والی جو عورت آپ نے دیکھی وہ ”دنیا“ تھی اگر آپ اسے جواب دیتے تو آپ کی اُمت دنیا کو آخرت پر اختیار کرلیتی ۔“
پھر ہم ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو ایک دن فصل کاشت کرتی اور دوسرے دن کاٹ لیتی تھی اور وہ جتنی فصل کاٹتے تھے اتنی ہی فصل بڑھ جاتی تھی ۔جبریل نے کہا:یہ راہِ خدا میں ہجرت کرنے والے ہیں۔ان کی نیکیاں 700 گناتک بڑھا دی گئی ہیں ….
پھرہم ایسے لوگوں کے پاس آئے جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے اور جب بھی سرکچلا جاتا وہ پھر درست ہوجاتاتھا اور انہیں مہلت نہ ملتی کہ سرپھر کچل دیا جاتا۔جبریل نے بتایا:یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر فرض نماز کے وقت بھاری ہوجاتے تھے ….
پھر ایسی قوم کے پاس گئے جن کے آگے پیچھے کپڑے کی دھجیاں تھیں اور وہ دوزخ کے کانٹے دار درخت ”زقوم“ کو جانوروں کی مانند چر رہے تھے اورآگ کے انگارے کھار ہے تھے۔میرے استفسارپر جبریل نے بتایا:یہ لوگ اپنے اموال کی زکوة ادا نہیں کرتے تھے
پھرایسے لوگوں کے پاس پہنچے جن کے سامنے ایک طرف پکاہواصاف ستھرااورپاکیزہ گوشت رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا،بدبوداراور خبیث گوشت تھا اوروہ پاکیزہ گوشت کو چھوڑ کرخبیث گوشت کھا رہے تھے۔جبریل نے کہا:یہ وہ بدبخت ہیں جن کے پاس حلال اور طیب بیویاں تھیں اوریہ انہیں چھوڑ کرحرام اور بدکارعورتوں کے پاس رات گزارتے تھے….
پھر ہم ایسی قوم کے پاس سے گزرے جن کی زبانیں اورہونٹ آگ سے کاٹے جارہے تھے اورکٹنے کے بعد ہر بارپہلے جیسے ہوجاتے تھے۔جبریل نے کہا:یہ آپ کی امت کے فتنہ پرور خطیب ہیں….
پھرایک چھوٹا پتھردیکھاجس کے سوراخ سے ایک بیل نکلااوردوبارہ اسی سوراخ میں داخل ہونا چاہتا ہے مگر داخل نہیں ہوپارہاتھا۔جبریل نے بتایا:یہ وہ شخص ہے جو کوئی بڑی بری بات کہتاہے اوربعدمیں اس پر نادم ہوکر اپنی بات واپس لینا چاہتا ہے مگر واپس نہیں لے سکتا ۔
چلتے چلتے ہم بیت المقدس(مسجد اقصیٰ) پہنچ گئے۔وہاں پہنچ کر جبریل میرے پاس دو برتن لائے ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ،میں نے دودھ پی لیا اور شراب نہ پی۔ جبریل نے کہا :آپ نے فطرت کو پالیا۔
بیت المقدس میں تمام انبیا کرام (علیہم السلام)کو میرے لئے جمع کردیا گیا تھاپھر جبریل نے مجھے پکڑ کر ان کے آگے کھڑا کردیا اور میں نے سب انبیا کرام علیہ السلام کو نماز پڑھائی….
یہ نماز دورکعات تھی،پہلی رکعت میں سورہ کافرون اور دوسری میں سورہ اخلاص پڑھی …. اس میں سات صفیں انبیاءکرام کی اور تین صفیں مرسلین علیہم السلام کی تھیں اور فرشتوں نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی….
پھرحضرات انبیا کرام علیہم السلام میں سے بعض جیسے حضرت ابراہیم ، حضرت داو د ،حضرت سلیمان ،حضرت عیسی(علیہم السلام )نے رب تعالی کی حمد وثنا کے بعد اپنی اپنی شان میں خطبے پڑھے۔
آخر میں، میں نے باری تعالی کی حمد وثنا کے بعد اپنی شان میں خطبہ پڑھا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انبیا کرام علیہم السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:”انہی فضائل وشانوں کی وجہ سے حضرت محمد مصطفی ﷺ کوتم سب پر فضیلت دی گئی ہے۔“
پھرمیں اور جبریل آسمان کی طرف بلند ہوئے اور ہماری ملاقات آسمانِ دنیا کے فرشتے سے ہوئی جس کا نام اسماعیل تھا۔اس کے ماتحت ہزار فرشتے تھے اور ان ہزارمیں سے ہرفرشتے کے ماتحت ایک لاکھ فرشتے تھے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے ترجمہ:اور تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔(کنزالایمان)
پھر جبریل نے آسمان کا دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا:’کون ہیں ؟“کہا :جبریل ۔پوچھا :”اورآپ کے ساتھ کون ہیں؟“ کہا:”حضرت محمدمصطفی ﷺ ۔“توآسمان کا دروازہ کھول دیاگیا۔
وہاں میری ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی، میں نے انہیں سلام کیا،انہوں نے جواب دیا اور کہا: ” صالح بیٹے اور صالح نبی کوخوش آمدید ہو۔
“ابھی میں کچھ ہی چلاتھاکہ میں نے دیکھا : ایک طرف دستر خوان پر نہایت نفیس بھنا ہوا گوشت رکھا ہے اور دوسری طرف دستر خوان پر نہایت بدبودار اور سٹرا ہوا گوشت رکھا ہے اور کچھ لوگ دیکھے جو عمدہ گوشت چھوڑکر سٹرا ہوا گوشت کھارہے تھے۔میرے استفسارپر جبریل نے خ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں جیسے تھے اوران کے منہ میں پتھرڈالے جارہے تھے جو ان کے نچلے دھڑ سے نکل جاتے تھے ۔جبریل نے بتایا:”یہ ناحق یتیموں کامال کھاتے تھے اورحقیقت میں اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے تھے ، عنقریب انہیں جہنم میں ڈالاجائے گا۔“….
پھر میں آگے بڑھا تو دیکھاکہ کچھ عورتیں سینوں کے بل لٹکی ہوئی ،باری تعالیٰ سے فریاد کررہی تھیں ۔جبریل نے کہا:یہ آپ کی اُمت میں سے زناکرنے والیاں ہیں۔….
مزید آگے بڑھاتووہاں کچھ لوگوں کے پہلوو ں سے گوشت کاٹ کاٹ کر ان کے منہ میں ڈالا جارہاتھا اور ان سے کہا جارہا تھا:”اسے کھاﺅجیساکہ تم دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھاتے تھے۔“جبریل نے بتایا:”یہ غیبت اور چغلی کرنے والے ہیں۔“….
یہ عذابات دیکھنے کے بعددوسرے آسمان پر پہنچاوہاں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہماالسلام سے ملاقات ہوئی ،میں نے انہیں سلام کیا ،انہوں نے جواب دیا اور کہا:” صالح بھائی اور صالح نبی کوخوش آمدید ہو۔“….
پھر تیسرے آسمان پر پہنچا وہاں حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی …. چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ،پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اورچھٹے پر حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ….پھرمیں ساتویں آسمان پرپہنچاجہاں فرشتوں کے قبلہ ”بیت المعمور“کے پاس ابولانبیاءحضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ،میں نے انہیں سلام کیا ،انہوں نے جواب دیا اور کہا:”صالح بیٹے اور صالح نبی کوخوش آمدید ہو ۔
بیت المعمور سے آگے بڑھے تو” سدرة المنتہی“کا مقام آگیا۔سدرہ ایک درخت ہے جس کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کی مانند بڑے بڑے تھے او ر اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی مثل تھے۔
فرشتوں اور انوارنے سدرة المنتہی کو ڈھانپ رکھا تھااوراس کی جڑ سے چار دریا نکل رہے تھے ،دودریا ظاہری تھے اور دوباطنی۔جبریل نے کہا:”ظاہری دریا نیل اور فرات ہیں جبکہ باطنی دریا جنت کے دریاہیں اورقیامت کے دن نیل وفرات بھی جنت میں چلے جائیں گے اوروہاں یہ شہد اور دودھ کے دریا ہوں گے۔“….
اس کے بعد میرے سامنے شراب ،دودھ اور شہد کے برتن لائے گئے تومیں نے دودھ لے لیا،جبریل نے کہا:”یہی فطرت یعنی دین اسلام ہے، آپ اورآپ کی امت اس پر قائم رہیں گے۔“….
وہاں میں براق سے اترگیااورآگے بڑھا تو حضرت جبریل علیہ السلام وہیں رک گئے اورکہنے لگے :”اگر میں انگلی کے پورے برابر بھی آگے بڑھا تو جل جاﺅں گا۔“….
اس سے آگے میری سواری کے لئے ”رفرف“نامی سبز رنگ کا تخت لایاگیا۔ رفرف مجھے لے کر مقامِ استواءپر پہنچ گیا۔جہاں میں نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں ،قلم اللہ تبارک وتعالیٰ کے مخلوق سے متعلق احکام کو تختیوں میں لکھ رہے تھے۔
پھر میں نے اپنے سامنے نور دیکھا تو تیزی کے ساتھ اس طرف دوڑا…. پس رفرف پیچھے رہ گیا اوراب ہرطرف نور ہی نور تھا ….
جب میں نے اپنے ساتھ کسی کو نہ دیکھا توکچھ گھبراہٹ ہوئی ۔تب حضرت ابوبکر صدیق کی آواز سے ملتی جلتی ایک آوازآئی: اے محبوب !ٹھہریئے آپ کا رب صلوة پڑھتاہے۔“….
میرے دل میں آیا کہ ”کیا میرا رب نماز پڑھ رہا ہے(حالانکہ وہ تو اس سے پاک ہے)؟“تو یہ آیت تلاوت کی گئی:ہُوَ الَّذِی± یُصَلِّی± عَلَی±کُم± وَ مَلٰٓئِکَتُہ¾ (پارہ۲۲،الاحزاب:۳۴)
اس وقت میرا ذہن اس طرف متوجہ ہوا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت (درودشریف)کا نزول ہے ….
پھراللہ رب العزت کی خاص بارگاہِ عالی میں داخل ہونے کی اجازت ملی ….
پس میں نے اپنے رب کوانتہائی حسین صورت میں دیکھا،اس نے اپنا دست ِقدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھاجس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی اور اس کی برکت سے میں نے وہ سب کچھ جان لیا جوزمین وآسمان میں ہے….
پس میری آنکھوں نے وہ جلوہ دیکھا جسے میرے سواکسی نے نہ دیکھا۔
پھر وہ جلوہ مجھے سے قریب ہوا،پھر اور قریب آیا حتی کہ وہ مجھ سے دوہاتھ کے فاصلے پر آگیا یا اس سے بھی کم اور جو وحی فرمانی تھی وہ وحی فرمائی ….اورمیرے رب تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا:”مانگئیے۔“میں نے مختلف انبیاءکرام یعنی حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ،حضرت داﺅد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو دئیے گئے کمالات ومراتب اور معجزات کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:”
میں نے آپ کو اپنا خلیل بنایا ….
تمام لوگوں کی طرف بشیر ونذیر بنا کرمبعوث فرمایا ….
آپ کا شرح صدر کرکے آپ سے بوجھ کو دور کردیا….
آپ کا ذکراس طرح بلند کیا کہ جب بھی میرا ذکر ہوگا اس کے ساتھ آپ کا بھی ذکرہوگا ….
آپ کی اُمت تمام امتوں سے بہتر بنائی ….
آپ کے بعض امتیوں یعنی حفاظ کے سینوں میں آپ کی کتاب”قرآن کریم“رکھی ….
ان کا کوئی خطبہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک وہ آپ کے بندہ اور رسول ہونے کی گواہی نہ دیں….
آپ کوتخلیق کے لحاظ سے تمام انبیاء میں اول اورمبعوث ہونے کے اعتبارسے تمام انبیاسے آخر میں بنایا …. اورآپ کو ”سورة فاتحہ“ اور عرش کے خزانے کے نیچے سے ”سورہ بقرہ“ کی آخری آیات دیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔
پھر مجھے پچاس نمازوں کا حکم ملا اور واپسی پرجب میں حضرت موسی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا:یارسول اللہ!آپ کے رب نے آپ کو کیا حکم دیا ؟ میں نے کہا:ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیاہے۔انہوں نے کہا:آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، واپس جائیے اور اپنے رب سے نمازیں کم کروائیے ….
میں نے بارگاہِ الہی میں حاضر ہوکرکمی کی درخواست کی ،اللہ تعالیٰ نے دس(یاایک روایت کے مطابق پانچ )نمازیں کم کردیں….
میں پھر حضرت موسی علیہ السلام کے پاس پہنچا انہوں نے مزیدکم کروانے کا کہا ،میں تخفیف کے لئے پھر بارگاہِ الہی میں حاضر ہواپھر کچھ کم ہوئیں ،اس طرح حضرت موسی علیہ السلام مجھے باربار لوٹاتے رہے حتی کہ پانچ نمازیں باقی بچیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”ہمارا قول بدلتا نہیں ،آپ کی اُمت نمازیں پانچ پڑھے گی اور میں انہیں ثواب پچاس کا دوں گا۔“ اللہ اکبر
پانچ ہوجانے کے باوجود حضرت موسی علیہ السلام نے ایک بار پھرکمی کے لئے بھیجناچاہاتو میں نے کہا:”اے موسی !اللہ کی قسم !مجھے اپنے رب سے حیاآتی ہے۔
“پھر اسی رات میں واپس آکر مسجد حرام میں سوگیااور صبح کو بیدار ہوا۔
سبحان اللہ
اچھی بات پھیلانا صدقہ جاریہ ہے دوستوں سے ضرور شیئر کریں
حوالہ جات :صحیح بخاری،الحدیث:۷۸۸۳۔۷۱۵۷۔
صحیح مسلم،الحدیث:۴۷۳۲۔
سنن نسائی،الحدیث:۱۳۶۱۔
سنن ترمذی،الحدیث:۱۳۱۳
۔دلائل النبوة، ج۲، ص۰۹۳تا ۳۹۳۔۱۰۴۔۲۰۴۔۴۰۴۔۵۹۳۔
خزائن العرفان ۔تفسیرابنb کثیر۳،ص۸۔روح المعانی،جز۵۱،ص۷۱۔
غرائب القرآن ،ج۲،ص۲۰۲۔روح البیان،ج۹،ص۴۲۲۔
الیواقیت والجواہر،ج۲،ص۶۶۳۔شرح المواہب اللدنیہ،ج۲،ص۶۲۱۔
#عظمت_صحابہ_کرام_رضوان_اللہ_اجمعین
Is tehreer mn kn kn c baat sahih nai hai
ایک صحیح حدیث ہے جو صحیح مسلم سے لی ہے
اس کے بعد اس میں پیوند کاری کی گئی ہے اور صوفیاء کے کشف تک سے دلیل لی گئی ہے مثلا الیواقیت والجواہر حدیث کی کتب نہیں ہیں
دلائل النبوه موضوع احادیث کا ذخیرہ ہے
روح البیان میں کوئی بات سند سے لکھی نہیں
شرح مواھب بھی بے کار کتاب ہے
===========
وہاں میں براق سے اترگیااورآگے بڑھا تو حضرت جبریل علیہ السلام وہیں رک گئے اورکہنے لگے :”اگر میں انگلی کے پورے برابر بھی آگے بڑھا تو جل جاﺅں گا۔“….
یہ اہل سنت کی کسی حدیث کی کتاب میں نہیں ملا – اہل تشیع کی حدیث میں ہے
—————-
اس سے آگے میری سواری کے لئے ”رفرف“نامی سبز رنگ کا تخت لایاگیا۔ رفرف مجھے لے کر مقامِ استواءپر پہنچ گیا۔جہاں میں نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں ،قلم اللہ تبارک وتعالیٰ کے مخلوق سے متعلق احکام کو تختیوں میں لکھ رہے تھے۔
پھر میں نے اپنے سامنے نور دیکھا تو تیزی کے ساتھ اس طرف دوڑا…. پس رفرف پیچھے رہ گیا اوراب ہرطرف نور ہی نور تھا ….
جب میں نے اپنے ساتھ کسی کو نہ دیکھا توکچھ گھبراہٹ ہوئی ۔تب حضرت ابوبکر صدیق کی آواز سے ملتی جلتی ایک آوازآئی: اے محبوب !ٹھہریئے آپ کا رب صلوة پڑھتاہے۔“….
میرے دل میں آیا کہ ”کیا میرا رب نماز پڑھ رہا ہے(حالانکہ وہ تو اس سے پاک ہے)؟“تو یہ آیت تلاوت کی گئی:ہُوَ الَّذِی± یُصَلِّی± عَلَی±کُم± وَ مَلٰٓئِکَتُہ¾ (پارہ۲۲،الاحزاب:۳۴)
یہ ایک مکسچر ہے
دلائل النبوه از بیہقی میں اس کا ذکر ہے
، فَعَرَفْتُ فَضْلَ عَلْمِهِ بِاللهِ عَلَيَّ، فَفُتِحَ لِي بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ السَّمَاءِ وَرَأَيْتُ النُّورَ الْأَعْظَمَ، وَإِذَا دُونِي حِجَابٌ رَفْرَفُ الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ، فَأَوْحَى إِلَيَّ مَا شَاءَ أَنْ يُوحِيَ ”
سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ دُحَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي الْحُسَيْنِ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ الْإِيَادِيُّ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ [ص:369] الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسٍ
سند میں الحارث بن عبيد الإيادي مجہول ہے منکر الحدیث بھی کہا گیا ہے
——–
.اورمیرے رب تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا:”مانگئیے۔“میں نے مختلف انبیاءکرام یعنی حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ،حضرت داﺅد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو دئیے گئے کمالات ومراتب اور معجزات کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:”
میں نے آپ کو اپنا خلیل بنایا ….
تمام لوگوں کی طرف بشیر ونذیر بنا کرمبعوث فرمایا ….
آپ کا شرح صدر کرکے آپ سے بوجھ کو دور کردیا….
آپ کا ذکراس طرح بلند کیا کہ جب بھی میرا ذکر ہوگا اس کے ساتھ آپ کا بھی ذکرہوگا ….
آپ کی اُمت تمام امتوں سے بہتر بنائی ….
آپ کے بعض امتیوں یعنی حفاظ کے سینوں میں آپ کی کتاب”قرآن کریم“رکھی ….
ان کا کوئی خطبہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک وہ آپ کے بندہ اور رسول ہونے کی گواہی نہ دیں….
آپ کوتخلیق کے لحاظ سے تمام انبیاء میں اول اورمبعوث ہونے کے اعتبارسے تمام انبیاسے آخر میں بنایا …. اورآپ کو ”سورة فاتحہ“ اور عرش کے خزانے کے نیچے سے ”سورہ بقرہ“ کی آخری آیات دیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔
پھر مجھے پچاس نمازوں کا حکم ملا اور واپسی پرجب میں حضرت موسی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا:یارسول اللہ!آپ کے رب نے آپ کو کیا حکم دیا ؟ میں نے کہا:ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیاہے۔انہوں نے کہا:آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، واپس جائیے اور اپنے رب سے نمازیں کم کروائیے
دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے
ثُمَّ انْتَهَى إِلَى السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى فَقِيلَ لِي: هَذِهِ السِّدْرَةُ إِلَيْهَا مُنْتَهَى كُلِّ أَحَدٍ مِنْ أُمَّتِكَ، وَيَخْرُجُ مِنْ أَصْلِهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ، وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ، وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ، وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى. قَالَ: وَهِيَ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي أَصْلِهَا عَامًا لَا يَقْطَعُهَا، وَإِنَّ الْوَرَقَةَ مِنْهَا مُغَطِّيَةُ الْخَلْقِ قَالَ: فَغَشِيَهَا نُورُ الْخَالِقِ، وَغَشِيَهَا الْمَلَائِكَةُ. فَكَلَّمَهُ رَبُّهُ عِنْدَ ذَلِكَ قَالَ لَهُ: سَلْ قَالَ: إِنَّكَ اتَّخَذْتَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَأَعْطَيْتَهُ مُلْكًا عَظِيمًا، وَكَلَّمْتَ مُوسَى تَكْلِيمًا، وَأَعْطَيْتَ دَاوُدَ مُلْكًا عَظِيمًا، وَأَلَنْتَ لَهُ الْحَدِيدَ وَسَخَّرْتَ لَهُ الْجِبَالَ، وَأَعْطَيْتَ سُلَيْمَانَ مُلْكًا عَظِيمًا وَسَخَّرْتَ لَهُ الْجِبَالَ وَالْجِنَّ وَالْإِنْسَ وَسَخَّرْتَ لَهُ الشَّيَاطِينَ وَالرِّيَاحَ وَأَعْطَيْتَهُ مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَعَلَّمْتَ عِيسَى التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ، وَجَعَلْتَهُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ، وَيُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِكَ وَأَعَذْتَهُ وَأُمَّهُ مِنَ الشَّيَاطِينِ، فَلَمْ يَكُنْ لَهُ عَلَيْهِمَا سَبِيلٌ، فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ: قَدِ اتَّخَذْتُكَ خَلِيلًا قَالَ: وَهُوَ مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ، وَأَرْسَلْتُكَ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً بَشِيرًا وَنَذِيرًا، وَشَرَحْتُ لَكَ صَدْرَكَ، وَوَضَعْتُ عَنْكَ وِزْرَكَ، وَرَفَعْتُ لَكَ ذِكْرَكَ، فَلَا أُذْكَرُ إِلَّا ذُكِرْتَ مَعِي، يَعْنِي بِذَلِكَ الْأَذَانَ، وَجَعَلْتُ أُمَّتَكَ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، وَجَعَلْتُ أُمَّتَكَ أُمَّةً وَسَطًا، وَجَعَلْتُ أُمَّتَكَ هُمُ الْأَوَّلُونَ وَهُمُ الْآخِرُونَ، وَجَعَلْتُ مِنْ أُمَّتِكَ أَقْوَامًا قُلُوبُهُمْ أَنَاجِيلُهُمْ، وَجَعَلْتُ أُمَّتَكَ لَا تَجُوزُ عَلَيْهِمْ خُطْبَةٌ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنَّكَ عَبْدِي وَرَسُولِي، وَجَعَلْتُكَ أَوَّلَ النَّبِيِّينَ خَلْقًا وَآخِرَهُمْ مَبْعَثًا، وَآتَيْتُكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي لَمْ أُعْطِهَا نَبِيًّا قَبْلَكَ، وَأَعْطَيْتُكَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ أُعْطِهَا نَبِيًّا قَبْلَكَ وَجَعَلْتُكَ فَاتِحًا وَخَاتَمًا. قَالَ: وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَضَّلَنِي رَبِّي، أَرْسَلَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ وَكَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا، وَأَلْقَى فِي قَلْبِ عَدُوِّي الرُّعْبَ مِنْ مَسِيرَةِ شَهْرٍ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَجُعِلَتِ الْأَرْضُ كُلُّهَا لِي مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأُعْطِيتُ فَوَاتِيحَ الْكَلَامِ وَخَوَاتِمَهُ وَجَوَامِعَهُ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ أُمَّتِي فَلَمْ يَخْفَ عَلَيَّ التَّابِعُ وَالْمَتْبُوعُ. وَرَأَيْتُهُمْ أَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَنْتَعِلُونَ الشَّعْرَ، وَرَأَيْتُهُمْ أَتَوْا عَلَى قَوْمٍ عِرَاضِ الْوجُوهِ صِغَارِ الْأَعْيُنِ كَأَنَّمَا خُرِمَتْ أَعْيُنُهُمْ بِالْمِخْيَطِ فَلَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَا هُمْ لَاقُونَ مِنْ بَعْدِي، وَأُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى مَا رُوِّينَا فِي الْأَسَانِيدِ الثَّابِتَةِ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ فِي آخِرِهِ: قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: اصْبِرْ عَلَى خَمْسٍ فَإِنَّهُنَّ يُجْزِينَ عَنْكَ بِخَمْسٍ، كُلُّ خَمْسٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا قَالَ: فَكَانَ مُوسَى أَشَدَّ عَلَيْهِمْ حِينَ مَرَّ بِهِ وَخَيْرَهُمْ حِينَ رَجَعَ إِلَيْهِ ”
سند ہے
ذَكَرَ شَيْخُنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ رَحِمَهُ اللهُ أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِيَّ أَخْبَرَهُمْ قَالَ: حَدَّثَنَا جَدِّي قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ الزُّبَيْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ مَاهَانَ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: ” {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى} [الإسراء: 1] ” قَالَ
سند میں عيسى بن عبد الله بن ماهان أبو جعفر الرازي مختلط اور مدلس ہے
احمد کہتے ہیں
ليس بقوي في الحديث. «العلل» (4578) .
حدیث میں قوی نہیں ہے
———-
پس میں نے اپنے رب کوانتہائی حسین صورت میں دیکھا،اس نے اپنا دست ِقدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھاجس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی اور اس کی برکت سے میں نے وہ سب کچھ جان لیا جوزمین وآسمان میں ہے….
یہ ترمذی میں ہے
https://www.islamic-belief.net/خواب-میں-رویت-باری-تعالی/
——-
Or burak k bidakne ka zikr or phr jab usko btaya gya k yeh aap s.a.w hain paisiny se shrabur hOa yeh termizi ki hadith mn hai … Hadith kesi hai
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شب معراج براق لایا گیا جس پر زین کسی ہوئی تھی اور لگام ڈالی ہوئی تھی۔ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری بننے کی خوشی میں) اس براق کے رقص کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس پر سوار ہونا مشکل ہو گیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسے کہا : کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس طرح کر رہا ہے؟ حالانکہ آج تک تجھ پر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا معزز و محترم ہو۔ یہ سُن کر وہ براق شرم سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔‘‘
اسے امام ترمذی، ابو یعلی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا، نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔🌷🌺🌷🌺🌷🌺
: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ومن سورة بنی إسرائيل، 5 / 301، الرقم : 3131، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 164، الرقم : 12694، وابن حبان فی الصحيح، 1 / 234، وأبو يعلی فی المسند، 5 / 459، الرقم : 3184، وعبد بن حميد فی المسند، 1 / 357، الرقم : 1185، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 7 / 23، الرقم : 2404، والخطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 3 / 435، الرقم : 1574، والعسقلانی فی فتح الباري، 7 / 206.
Yeh hadith kesi hai
صحيح ابن حبان میں ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَبَّاسِ السَّامِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بالبراق ليلةأسري بِهِ مُسْرَجًا مُلْجَمًا لِيَرْكَبَهُ فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ: “مَا يَحْمِلُكَ عَلَى هَذَا فَوَاللَّهِ مَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ مِنْهُ قال فارفض عرقا
“مصنف عبد الرزاق” ومن طريقه أخرجه أحمد 3/164، والترمذي “3131” في التفسير، والطبري 15/12 في تفسيره، والبيهقي في “دلائل النبوة” 2/362-363، والآجري في “الشريعة” ص488-489.
[تعليق الألباني] صحيح الإسناد. [تعليق شعيب الأرنؤوط] إسناده صحيح على شرط الشيخين.
انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شب معراج براق لایا گیا جس پر زین کسی ہوئی تھی اور لگام ڈالی ہوئی تھی۔ براق کے رقص کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس پر سوار ہونا مشکل ہو گیا تو جبرئیل علیہ السلام نے اسے کہا : کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس طرح کر رہا ہے؟ حالانکہ آج تک تجھ پر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا معزز و محترم ہو۔ یہ سُن کر وہ براق شرم سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔
یہ روایت صحیح نہیں ہے
قال المروذي: قلت (يعني لأحمد بن حنبل) : كيف معمر في الحديث؟ قال: ثبت إلا أن في بعض حديثه شيئًا. «سؤالاته» (25) .
مروزی نے کہا میں نے امام احمد سے پوچھا معمر حدیث میں کیسا تھا؟ کہا ثبت تھا لیکن اس کی بعض احادیث میں چیز ہے
قال أبو حاتم: صالح الحديث، وما حدث به بالبصرة ففيه أغاليط.
ابو حاتم نے کہا یہ صالح الحدیث ہے لیکن جو بصرہ میں روایت کیا ہے اس میں غلطیاں ہیں
معمر کے مطابق یہ قتادہ بصری کی روایت ہے – قتادہ کا اس روایت میں عنعنہ ہے اور وہ مدلس ہے لہذا یہ روایت صحیح نہیں اس کی تمام اسناد میں قتادہ نے عن سے روایت کیا ہے
kia shaq e sadr ka waqia 4 br hoa ik br bachpn. mn phir 10 saal ki umr mn phir miraj pe
es pr agr koi hadith hai toh un pr kia hukm hai
ik hadith hai k jab phli wahi ae or Asp s. a. w ne jibrail a. s ko dekha kapkapi tari hoi phir hszrat khadija r. a ki tassli or ik rahib ki tasdeeq k Nabi hai
phir hadith mn ata k Ap s. aw ne phari se kodne ki koshish ki ksi br. kha jata yeh hadith zaef hai… agr yeh zaef hai to phirin haalat ka kia maqsad tha
agr Aap s. aw phle b unko. unki asl shkl mn dekh chuky thy. to phir jab sidratulmuntaha pr dekha to haibat se behosh q ho gae q k wo phle to dekh chukay thy.
mn ne prhs tha shyd hadith hai k jibrail a. s ko b wahi ki jati hsi Allsh ki trf se. phir wo asman mn farishton mn elan krty hsi k yeh wahi hoi or wo likh lety hai
meraj pr jibrail o Aap s. aw sidratul muntaha tak hi gae yeh teh hai
kia yehi woh muqam hai jhn jibrail ko wahi hoti hai.
to surah najm. ki jo ayats hai jin mn jibrail k utrne or wahi krne ka zikr hai to kia yeh un k asman e dunys pr utrne ka toh zikr nae agr aisa hai to phir yeh qisse toh bebunyadf ho gya k ap s. aw ne pahari se girne ki koshish hai
بچپن میں شق صدر والا واقعہ ضعیف سند سے صحیح مسلم میں موجود ہے
میرے نزدیک سند میں علت ہے
—–
پہاڑ سے کود جانے کی کوشش نہیں کی، رسول اللہ نے سوچا کہ ایسا کروں یعنی خودکشی ، اس پر جبریل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں افق سے ظاہر ہوئے – نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ پر تھے اور جبریل کا وجود تمام آسمان کو بھر رہا تھا
یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے
یہ دو سال کے قریب کا دور ہے جب پہلی اور دوسری الوحی کے درمیان وقفہ دیا گیا اور رسول اللہ کا ذہن تیار کیا گیا کہ وہ کتاب اللہ ، فرشتوں کے وجود ، ایمان پر غور کر سکیں حتی کہ رسول اللہ نے ارادہ کیا کہ وہ جان ختم کر دیں لیکن پھر جبریل کو دکھا کر ان کو یقین دلایا گیا کہ انہوں نے جو دیکھا وہ اصلی تھا
پہلی بار اصلی صورت میں اسی وقت دیکھا – اس سے قبل غار حرا میں جبریل علیہ السلام انسانی صورت میں آئے تھے
صحیح بخاری کی آغاز الوحی والی روایت میں ایسا ہی ہے
——–
دوسری بار جبریل کو سدرہ المنتہی پر اصلی صورت ساتویں آسمان پر دیکھا- وہاں بے ہوش ہونے کی کوئی صحیح السند روایت نہیں ہے
——
جبریل علیہ السلام سدرہ المنتہی سے اوپر جا سکتے ہیں – کسی صحیح حدیث میں اس کا انکار نہیں ہے – عرش ، سدرہ المنتہی سے اوپر ہے اور وہاں اس کو فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے
اور جبریل الوحی پر مامور ہیں وہیں رب تعالی پر پیش ہوتے ہیں
جبریل کو حکم کیا جاتا ہے جو فرشتوں کو ایک آسمان سے دوسرے آسمان منتقل ہوتا ہے
———
سدرہ المنتہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا عمل کا ریکارڈ جا کر رک جاتا ہے
یہ حد انسان سے متعلق ہے
حدیث کے مطابق یہ جنت میں ساتویں آسمان پر عظیم الشان درخت ہے جس کے پتوں کے رنگ بدلتے رہتے ہیں
kkaha jata k atbiyt miraj wali guftagu hai jis ko bd mn disclose kia gya aisa kafi mufasreen ne likha
yeh b hai k yeh bht lambi guftagu thi.. . es ka source ap janty es hadith ka status kia hai.. khty k es mn first zameer use hoi so yeh guftagu meraj wali hai
apni book miraj wali ka link de dein
کتاب الاسراء – معراج سے متعلق روایات کا جائزہ
https://www.islamic-belief.net/literature/%da%a9%d8%aa%d8%a8-%d8%af%da%a9%d8%aa%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%a8%d9%88-%d8%b4%db%81%d8%b1%db%8c%d8%a7%d8%b1/
التحیات والا قصہ یہ کسی سند سے معلوم نہیں نہ صحیح نہ ضعیف
یہ قصہ گوؤں کی بڑھ ہے