أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة میں روایت کیا گیا ہے کہ
أنا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: نا أَبُو عَمْرٍو الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: أنا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ “، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ جَيْشًا أَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ. قَالَ: فَبَيْنَا عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ: فَجَعَلَ يَصِيحُ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» . قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ” يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقِينَا عَدُوَّنَا فَهَزَمْنَاهُمْ، فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» ، فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا بِالْجَبَلِ، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ “. فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: «إِنَّكَ كُنْتَ تَصِيحُ بِذَلِكَ» قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ
يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ نے محمد بن عجلان سے روایت کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا سالار ایک مرد ساریہ کو بنایا۔ ایک دن خطبہ کے دوران عمر نے یکایک یہ پکارنا شروع کر دیا اے ساریہ پہاڑ- پہاڑ- اس طرح تین مرتبہ کہا۔ پھر اس لشکر کا خبری مدینہ آیا۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنیین ہم لوگ شکست کھا گئے اور اس شکست کی حالت میں تھے کہ ہم نے یکایک ایک آواز سنی جس نے تین بار کہا کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف رخ کرو۔ ہم نے پشت پہاڑ سے لگا دی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دشمن کو شکست دیدی۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ ہی تو تھے جو اس طرح چیخے تھے۔ ابن عجلان نے کہا ایسا ہی إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی بیان کیا
تخریج روایت : دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر 2655 میں ، جامع الأحاديث للسيوطي،حرف الياء فسم الافعال،مسند عمر بن الخطاب، حديث نمبر 28657 میں ، الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف ، ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم في الدلائل واللالكائي في السنة ، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن
محدثین متاخرین کی رائے
فتح الباری کے مولف ابن حجر نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے
زرکشی لکھتے ہیں
وَقد افرد الْحَافِظ قطب الدّين عبد الْكَرِيم الْحلَبِي لهَذَا الحَدِيث جُزْءا ووثق رجال هَذِه الطَّرِيق
حافظ قطب الدین حلبی نے اس اثر پر مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے ، جس میں اس واقعہ کے سارے طرق جمع کیے ہیں ، اور اس طریق کے تمام رجال کو ثقہ قرار دیا ہے ۔
التذكرة في الأحاديث المشتهرة = اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة میں سیوطی کہتے ہیں
وألف القطب الحلبي في صحته جزءاً.
قطب الحلبی نے مستقل رسالے میں اس کی صحت کو ثابت کیا ہے ۔
صوفیاء کی رائے
یہ روایت پھیلی اور محدثین نے اس کو قبول کیا اور سند کو حسن جید سب کہہ ڈالا – دوسری طرف اہل طریقت جن کو اہل معرفت بھی کہا جاتا ہے ان متصوفین کے نزدیک روحانی تصرف ہر کسی کے بس کی بات نہیں جب اللہ چاہتا تو اسباب پیدا فرماتا ہے – جیسا کہ اس اثر سے وضاحت ہوتی ہے – مزید براں اس اثر سے صوفیاء کے ہاں ثابت ہوتا ہے کہ بذریعہ کشف غائب سے رہنمائی مل سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب کشف اپنے کشف سے اجتماعی طور پر دوسروں کی رہبری کر سکتا ہے
ابن تیمیہ کی رائے
اولیاء الله کو کشف ممکن ہے – آٹھویں صدی کے نام نہاد سلفی محقق ابن تیمیہ کتاب مجموعة الرسائل والمسائل میں لکھتے ہیں
وأما المعجزات التي لغير الأنبياء من باب الكشف والعلم فمثل قول عمر في قصة سارية، وأخبار أبي بكر بأن ببطن زوجته أنثى، وأخبار عمر بمن يخرج من ولده فيكون عادلاً. وقصة صاحب موسى في علمه بحال الغلام، والقدرة مثل قصة الذي عنده علم من الكتاب. وقصة أهل الكهف، وقصة مريم، وقصة خالد بن الوليد وسفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي مسلم الخولاني، وأشياء يطول شرحها. فإن تعداد هذا مثل المطر. وإنما الغرض التمثيل بالشيء الذي سمعه أكثر الناس. وأما القدرة التي لم تتعلق بفعله فمثل نصر الله لمن ينصره وإهلاكه لمن يشتمه.
اور جہاں تک معجزات غیر انبیاء کے علم و کشف کے باب میں ہے تو اس کی مثال ساریہ کا عمر والا قصہ ہے — ان قصوں کی تعداد اس قدر ہے جیسے بارش
اپنی دوسری کتابوں النبوات، قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق، الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية میں ابن تیمیہ نے اس کا کئی بار اس قصہ کا ذکر کشف کی دلیل کے طور پر کیا
بلکہ دقائق التفسير الجامع لتفسير ابن تيمية میں وضاحت کرتے ہیں
وَعمر رَضِي لما نَادَى يَا سَارِيَة الْجَبَل قَالَ إِن لله جُنُودا يبلغون صوتي وجنود الله هم من الْمَلَائِكَة وَمن صالحي الْجِنّ فجنود الله بلغُوا صَوت عمر إِلَى سَارِيَة وَهُوَ أَنهم نادوه بِمثل صَوت عمر
اور عمر نے جب ساریہ کو پہاڑ کی ندا کی تو کہا الله کے لشکر ہیں جو میری آواز لے کر جاتے ہیں اور الله کے لشکر فرشتے ہیں اور نیک جنات پس الله کے لشکروں نے عمر کی آواز ساریہ تک پہنچائی اور وہ ان کو آواز دیتے تھے عمر کی آواز کی طرح
ابن قیم کی رائے
ابن قیم کتاب میں مدارج السالکین میں لکھتے ہیں
والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن
اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہیوں نے یا ساریـۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے۔
البانی کی رائے
محمد بن عجلان نے یہ روایت یاس بن معاویہ بن قرۃ سے بھی سماعت کی ہے ۔ لالکائی کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة میں ایک مقام پر ہے قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ – ابن عجلان نے کہا اس اثر کو إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی ایسا ہی روایت کیا – اس بنا پر اس کو ابن عجلان کے طرق سے البانی نے صحیح قرار دیا – البانی نے تحقيق الآيات البينات في عدم سماع الأموات (ص: 112) میں اس اثر کی سند کو جید حسن کہا اور سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3/ 101۔104) میں اس پر طویل گفتگو کی ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ واقعہ صرف ابن عجلان کی سند سے صحیح ہے
قلت: …. فتبين مما تقدم أنه لا يصح شيء من هذه الطرق إلا طريق ابن عجلان وليس فيه إلامناداة عمر ” يا سارية الجبل ” وسماع الجيش لندائه وانتصاره بسببه.ومما لا شك فيه أن النداء المذكور إنما كان إلهاما من الله تعالى لعمر وليس ذلك بغريب عنه، فأنه ” محدث ” كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ولكن ليس فيه أن عمر كشف له حال الجيش، وأنه رآهم رأي العين
میں البانی کہتا ہوں : پس کے واضح ہوا کہ اس سلسلے میں ایک ہی طرق صحیح ہے جو ابن عجلان کی سند سے ہے اور اس میں عمر کی پکار کا ذکر ہے کہ يا سارية الجبل اور لشکر کا اس آواز کو سننا اور اس کے سبب مدد پانا تو اس میں شک نہیں کہ یہ الہام میں سے ہے جو الله تعالی نے عمر کو کیا اور اس میں کوئی عجیب بات بھی نہیں کیونکہ وہ محدث ہیں جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس میں یہ نہیں ہے کہ عمر پر لشکر کا حال کشف ہوا اور انہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا
ڈاکٹر عثمانی کی رائے
سن ١٩٨٠کی دہائی میں رجل مومن ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے ایک ضعیف روایت یا ساریہ کا کتاب مزار یا میلے میں رد کیا-
زبیر علی زئی کی رائے
سن ١٩٩٠ کی دہائی میں اہل حدیث عالم زبیر علی زئی میں بھی ہمت پیدا ہوئی کہ اس اثر کا رد کر سکیں
وہابیوں کی رائے
تقریبا تمام معروف وہابی علماء اس اثر کو صحیح قرار دیتے ہیں
محمد بن صالح العثيمين اس اثر کو مشھور قرار ہے اور اولیاء الله کی کرامت قرار دیا
https://www.youtube.com/watch?v=N6k1EtknPE0
السؤال: ما حكم الشرع فيما يروى أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه رأى سارية , وهو يخطب على المنبر في المعركة في موقف حرج مع الأعداء, فقال له: يا سارية الجبل! هل هذه القصة حقيقة حدثت, أم من الخيال؟ الجواب: هذه القصة مشهورة عن أمير المؤمنين عمر رضي الله عنه أنه كان يخطب الناس يوم الجمعة على منبر النبي صلى الله عليه وسلم, وكان سارية بن زنيم رضي الله تعالى عنه قائداً لإحدى السرايا في العراق, فحصر الرجل, فأطلع الله تعالى أمير المؤمنين عمر على ما أصابه, فخاطبه عمر من المنبر, وقال له: يا سارية ! الجبل, يعني: اصعد الجبل أو لذ بالجبل أو ما أشبه ذلك من التقديرات, فسمعه سارية فاعتصم بالجبل فسلم, ومثل هذه الحادثة تعد من كرامات الأولياء, فإن للأولياء كرامات يجريها الله تعالى على أيديهم تثبيتاً لهم ونصرة للحق, وهي موجودة فيما سلف من الأمم وفي هذه الأمة, ولا تزال باقية إلى يوم القيامة, وهي أمر خارق للعادة يظهره الله تعالى على يد الولي تثبيتاً له وتأييداً للحق, ولكن يجب علينا الحذر من أن يلتبس علينا ذلك بالأحوال الشيطانية من السحر والشعوذة وما أشبهها؛ لأن هذه الكرامات لا تكون إلا على يد أولياء الله, وأولياء الله عز وجل هم المؤمنون المتقون؛ قال الله عز وجل: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [يونس:62] قال شيخ الإسلام رحمه الله أخذاً من هذه الآية: من كان مؤمناً تقياً كان لله ولياً, وليست الولاية بتطويل المسبحة, وتوسيع الكم, وتكبير العمامة, والنمنمة, والهمهمة, وإنما الولاية بالإيمان والتقوى, فيقاس المرء بإيمانه وتقواه لا بهمهمته ودعواه. بل إني أقول: إن من ادعى الولاية فقد خالف الولاية؛ لأن دعوى الولاية معناه تزكية النفس, وتزكية النفس معصية لله عز وجل, والمعصية تنافي التقوى؛ قال الله تعالى: هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى [النجم:32]، ولا نعلم أحداً من أولياء الله المؤمنين المتقين قال للناس: إني أنا ولي, فاجتمعوا إلي, وخذوا من بركاتي ودعواتي وما أشبه ذلك, لا نعلم هذا إلا عن الدجالين الكذابين الذين يموهون على عباد الله ويستخدمون شياطين الجن للوصول إلى مآربهم. وإن نصيحتي لأمثال هؤلاء أن يتقوا الله عز وجل في أنفسهم وفي عباد الله, ونصيحتي لعباد الله أن لا يغتروا بهؤلاء وأمثالهم.
دائمی کمیٹی کا فتوی
سعودی دائمی کیمٹی کے پانچ علماء کا متفقہ فتوی ہے
فتاوى اللجنة الدائمة الجزء رقم : 26، الصفحة رقم 41 پر
تصفح برقم المجلد > المجموعة الأولى > المجلد السادس والعشرون (كتاب الجامع 3) > السيرة > قول عمر رضي الله عنه يا سارية الجبل
الفتوى رقم ( 17021 )س: جاء محاضر إلى مدرستنا، وكانت المحاضرة عن كرامات الأولياء والصالحين ، وقال في محاضرته: كان عمر بن الخطاب يخطب على المنبر، فنادى السارية التي أرسلها للحرب، فقال: (يا سارية الجبل) فسمعت السارية كلامه فانزاحت إلى الجبل. علمًا بأن بينهما مسافة بعيدة، هل هذه الرواية صحيحة أم خطأ، وهل هي من الكرامات؟
ج : هذا الأثر صحيح عن عمر رضي الله عنه، ولفظه: أن عمر رضي الله عنه، بعث سرية فاستعمل عليهم رجلاً يدعى سارية ، قال: فبينا عمر يخطب الناس يومًا قال: فجعل يصيح وهو على المنبر: يا سارية الجبل، يا سارية الجبل، قال فقدم رسول الجيش، فسأله فقال: يا أمير المؤمنين لقينا عدونا فهزمنا، فإذا بصائح يصيح: يا سارية الجبل، فأسندنا ظهورنا بالجبل فهزمهم الله.
رواه أحمد في (فضائل الصحابة)، وأبو نعيم في (دلائل النبوة) والضياء في (المنتقى من مسموعاته) وابن عساكر في (تاريخه) والبيهقي في (دلائل النبوة) وابن حجر في (الإصابة) وحسن إسناده، ومن قبله ابن كـثير في (تاريخه) قال: إسناد جيد حسن، والهيثمي في (الصواعق المحرقـة) حسن إسناده أيضًا – وهذا إلهام من الله سبحانه، وكرامة لعمر رضي الله عنه، وهـو المحدث الملهم، كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في الأثر أنه رضي الله عنه كشف له عن الجيش وأنه رآه رأي العيـن إلى غير ذلك من الروايات الضعيفة التي يتعلق بها غلاة المتصوفة في الكشف، واطلاع المخلوقين على الغيب، وهذا باطل؛ لأن الاطلاع على الغيب من صفات الله سبحانه وتعالى، وما ذكر في السؤال أعلاه مـن أن عمر رضي الله عنه نادى السارية التي أرسلها للحرب فسمعت السـارية كلامه فانزاحت للجبل، فهذا جهل في معنى الحديث.وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضوالرئيس : بكر أبو زيد – عبد العزيز آل الشيخ – صالح الفوزان – عبد الله بن غديان – عبد العزيز بن عبد الله بن باز–
سوال: ہمارے مدرسے میں کرامت اولیاء پر تقریر ہوئی اس میں مقرر نے اثر بیان کیا کہ عمر رضی الله عنہ کا قول یا ساریہ پہاڑ جنگ کے دوران … اور عمر اور ساریہ میں مسافت بہت دور تھی تو کیا یہ روایت صحیح ہے یا غلطی ہوئی یا یہ کرامت ہے ؟
جواب : یہ اثر صحیح ہے عمر رضی الله عنہ کے حوالے سے اور اس کے الفاظ ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے ایک سریہ بھیجا اس پر سالار ایک مرد کو کیا جس کا نام ساریہ تھا- اور عمر اس دوران کہ وہ خطبہ دے رہے تھے ایک دن وہ چیخے اور وہ منبر پر تھے اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ – پس جب لشکر کا خبری آیا اس سے سوال ہوا – اس نے کہا امیر المومنین ہمارے دشمن نے ہم کو شکست دی یہاں تک کہ ہم نے ایک چیخ سنی کہ اے ساریہ پہاڑ پس ہم نے اپنی پیٹھ اس کے ساتھ کر دی اور الله نے دشمن کو شکست دی – اس کو احمد نے ، ابو نعیم نے الضیاء نے ابن عساکر نے بیہقی نے ابن حجر نے روایت کیا ہے –ابن حجر نے اس کو حسن قرار دیا ہے اور ان سے قبل ابن کثیر نے تاریخ میں اسکو اسناد جید حسن کہا ہے اور ہیثمی نے بھی اسناد حسن کہا ہے اور یہ الله تعالی کا الہام تھا اور عمر کی کرامت تھی اور وہ الہام پانے والوں میں تھے جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے – اور اس اثر میں یہ نہیں ہے کہ لشکر کا کشف ان پر اس طرح ہوا کہ وہ آنکھ سے دیکھ رہے تھے جو ضعیف روایات میں ہے جو کشف کے سلسلے میں غالی صوفیوں نے اس میں متعلق کر دی ہیں- اور مخلوق کی خبر غیب میں سے ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ غیب کی خبر پانا اللہ کی صفات میں سے ہے اور جو سوال میں ذکر ہوا کہ عمر نے ساریہ کو پکارا جس کو جنگ میں بھیجا تھا اور ساریہ نے اس کو سنا تو یہ حدیث کے معنوں میں جھل ہے .وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم
وہابی عالم صالح المنجد بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں
https://islamqa.info/ur/12778
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ ثابت اور صحیح ہے ، نافع بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لشکر پر ساریہ نامی شخص کو امیر بنایا ، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما خطبہ جعمہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک کہنے لگے ” اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ ” تو انہوں نے ایسا پایا کہ جمعہ کے دن اسی وقت ساریہ نے پہاڑ کی جانب حملہ کیا تھا حالانکہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما اور ساریہ کے درمیان ایک مہینہ کی مسافت تھی ۔مسند احمد فضائل صحابہ ( 1/ 269 ) اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے سلسلہ الصحیحہ میں صحیح کہا ہے ( 1110 )
تویہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما کی کرامت ہے یا تو الہام اور آواز کا پہنچنا – یہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی راۓ ہے – یا پھر کشف نفسانی اور آواز کا پہنچنا – اس پر شیخ البانی رحمہ اللہ کی کلام آگے آۓ گی – تو دونوں حالتوں میں بلا شک وشبہ یہ کرامت ہے ۔
اہل حدیث کی جدید رائے
عصر حاضر کے اہل حدیث عالم غلام مصطفی ظہیر اس روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں
https://www.facebook.com/muhammed.kashif.796/videos/794954507276957/
فتاویٰ الدین الخالص، امین پشاوری (ج1ص212) میں ہے
راقم کہتا ہے ابن عجلان جس کے طرق سے اس روایت کو پیش و قبول کیا گیا ہے اس کے بارے میں امام مالک نے کہا تھا کہ اس کو حدیث کا کوئی علم نہیں – کتاب الضعفاء الكبير از امام العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق
فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا،
امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے
راقم اس سلسلے میں امام مالک کی رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ یہ اثر قابل قبول نہیں ہے
یہ بھی معلوم ہوا کہ غالی شیعوں کی طرح غالی اہل سنت کا ایک طبقہ موجود تھا جس کا ذکر کھل کر نہیں کیا گیا
الله آپ کو جزایۓ خیر دے – آمین
میں البانی کہتا ہوں : پس کے واضح ہوا کہ اس سلسلے میں ایک ہی طرق صحیح ہے جو ابن عجلان کی سند سے ہے اور اس میں عمر کی پکار کا ذکر ہے کہ يا سارية الجبل اور لشکر کا اس آواز کو سننا اور اس کے سبب مدد پانا تو اس میں شک نہیں کہ یہ الہام میں سے ہے کو الله تعالی نے عمر کو کیا
حیرت ہے کہ البانی غلطیوں پر غلطیاں کرتے ہیں- لیکن اہل حدیث طبقہ ان کے علم و فضل کا چرچا کرتا رہتا ہے اور ان کو ایک بڑا “محدث” مانتا ہے- الله ہمارے حالوں پر رحم کرے
یہ روایت کئی طرق سے موجود ہے جس میں اکثر متروک اور مجہول راوی بھی موجود ہے مگر اس میں بھی کمی اس بات کی ہے کہ محمد بن عجلان نے نافع سے روایت تو بیان کر دی مگر سماع کی تصریح نہیں کی اور جب تک محمد بن عجلان سے سماع کی تصریح نہیں مل جاتی تو یہ روایت ضعیف ہی سمجھی جائے گی۔
یہاں پر محمد بن عجلان نے ایاس بن معاویہ بن قرۃ کا ذکر نہیں کیا اور نافع سے روایت بیان کر رہے ہیں اب ہمیں
تحقیق کر کے محمد بن عجلان کی ایاس بن معاویہ بن قرۃ سے سماع کی تصریح ثابت کرنی ہے،
تو ملاحظہ فرمائیں لالکائی کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة (7/ 1409) :
الرقم
2537:
أنا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: نا أَبُو عَمْرٍو الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: أنا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ” أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ جَيْشًا أَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ. قَالَ: فَبَيْنَا عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ: فَجَعَلَ يَصِيحُ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» . قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ” يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقِينَا عَدُوَّنَا فَهَزَمْنَاهُمْ، فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» ، فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا بِالْجَبَلِ، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ “. فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: «إِنَّكَ كُنْتَ تَصِيحُ بِذَلِكَ»
قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ
اب یہاں پر سماع کی تصریح ہوگی ہے۔ تو اب بھی یہ صحیح کیوں نہیں ہے؟
ھم جس روایت کی بات کر رھے ھین اس مین سماع کس سے ثابت کرنا ھے؟
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ سوال کیا ترمذی کی رد روح والی حدیث سے منسلک ہے جس پر کل سوال کیا تھا یا یہ کوئی نیا سوال روایت ساریہ پر ہے
Ye naye sawaal hen.
1- Per sirf aik sawal purana rooh k mutalik. Kya “Muhamaad bin ajlaan” aik hi rawi hay. Jo tirmizi ki rooh wali hadees mein bhi hay or is (sareya) wali hadees mein bhi hay?
2- Zubair ali zai ne jo jawab deya hay. us mein point number 2 mein unho ne Ayaas bin maaveya ki rawayt ko mursal kaha hay. Kya uski koi wazahat mil sakti hay?
3- Sareya wali rawayt imam Behqi dalayl nabuwa mein le ker aye hen. is k ander “Muhammad bun ajlaan” mudalis hen or an se rawayt ker rahay hen. or an wali rawayt zaeef hoti hay jab tak wo ye na bata de k us ne kahan se suni hay. Mene urdu mein jo phela msg bheja tha, us mein sama ki tasreeh ho jati hay.
تو ملاحظہ فرمائیں لالکائی کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة (7/ 1409) :
الرقم
2537:
أنا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: نا أَبُو عَمْرٍو الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: أنا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ” أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ جَيْشًا أَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ. قَالَ: فَبَيْنَا عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ: فَجَعَلَ يَصِيحُ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» . قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ” يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقِينَا عَدُوَّنَا فَهَزَمْنَاهُمْ، فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» ، فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا بِالْجَبَلِ، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ “. فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: «إِنَّكَ كُنْتَ تَصِيحُ بِذَلِكَ»
قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ
Ab yahan sama ki tasreeh ho gai hay. Kya ab bhi ye hadees zaeef khelayegi?
اول
ابن عجلان ساریہ والی روایت اور رد روح والی روایت میں ایک ہی شخص ہے
دوم
اپ نے ذکر کیا
2- Sheikh albani ne tu “Bin Ajlaan” ki ahadees/rawayt ko sahi mana hay. Mumkin hay k Ap k nazdeek Albani ki baat itni strong na ho lekin Sheikh Albani bhi ahl-e-ilm mein aik bara naam hay. unki baat ki bhi ahmeyat hay.
کیا زبیر علی یا البانی کی اہمیت اب امام بخاری اور امام مالک سے بڑھ گئی ہے
امام بخاری اور امام مالک نے ابن عجلان کی حدیث کو قبول نہیں کیا ہے
سوم
ابن عجلان نے سند میں ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ کہا ہے لہذا تدلیس کا مسئلہ اس سند و متن پر ختم ہوا لیکن چونکہ ابن عجلان ضعیف بھی ہے روایت ہم قبول نہیں کرتے