وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
قرآن سورہ فصلت میں ہے
قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْـفُرُوْنَ بِالَّـذِىْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِىْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَـهٝٓ اَنْدَادًا ۚ ذٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ (9)
کہہ دو کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھہراتے ہو، وہی سب جہانوں کا پروردگار ہے۔
وَجَعَلَ فِيْـهَا رَوَاسِىَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيْـهَا وَقَدَّرَ فِـيْـهَآ اَقْوَاتَـهَا فِىٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيْنَ (10)
اور اس نے (زمین میں) اوپر سے پہاڑ رکھے اور اس میں برکت ڈالی اور چار دن میں اس کی قوتوں کا تخمینہ کیا، (یہ جواب) پوچھنے والوں کے لیے پورا ہے۔
ثُـمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَـهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاۖ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَـآئِعِيْنَ (11)
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا پس اس کو اور زمین کو فرمایا کہ خوشی سے آؤ یا جبر سے، دونوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں۔
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَـمَاوَاتٍ فِىْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِىْ كُلِّ سَـمَآءٍ اَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الـدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ۚ ذٰلِكَ تَقْدِيْـرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِـيْـمِ (12)
پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا، اور ہم نے پہلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور اسے محفوظ بنایا، یہ زبردست جاننے والے کا کام ہے۔
ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ آسمان بنانے سے قبل اللہ تعالی نے زمین کو خلق کیا جس میں دو دن لگے
اس میں سطح پر پہاڑ بنائے گئے ، زمین کو برکت دی گئی اور اس کی قوتوں (اقوات) کا اندازہ لگایا گیا جس میں چار دن لگے
ابھی آسمان دھواں کی حالت میں تھا جب زمین پر اس کے پہاڑ بنا دیے گئے تھے اور کی قوت کا اندازہ لگایا گیا تھازمین پر ابھی نہریں نہیں ہیں
أقواتَها یہ قوت کی جمع ہے یعنی قوتیں اور اس سے مراد قوت ثقل و قوت مقناطیس وغیرھھم ہے ، غذا نہیں ہے
قرآن سورہ َالنَّازِعَاتِ میں ہے کہ آسمان کو جب بنا دیا گیا اور اس کو ایک چھت کی طرح بنا دیا گیا تو آسمان میں رات و صبح کو نکالا گیا
پھر زمین کا دح کیا
أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا (27) رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا (28) وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا (29) وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا (30) أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا (31) وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا (32) مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ
کیا تمہارا بنانا بڑی بات ہے یا آسمان کا جس کو ہم نے بنایا ہے۔
اس کی چھت بلند کی پھر اس کو سنوارا۔
اور اس کی رات اندھیری کی اور اس کے دن کو ظاہر کیا۔
اور اس کے بعد زمین کو دَحَ کیا ۔
اس سے اس کا پانی اور اس کا چارا نکالا۔
اور پہاڑوں کو خوب جما دیا۔
تمہارے لیے اور تمہارے چار پایوں کے لیے سامان حیات ہے۔
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ زمین بن چکی تھی، اس کے پہاڑ بن چکے تھے ، پھر دھواں جیسے آسمان کو سات آسمانوں میں بدلا گیا ، سورج و چاند بنا دیے گئے
پھر زمین کا دَحَ ہوا جس سے نہریں نکلیں
دَحَ کا لفظ عربی میں زمین پر کسی چیز کو رکھ کر دبانے کے لئے بولا جاتا ہے -كتاب العين از أبو عبد الرحمن الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) میں ہے
وهو أن تضع شيئاً على الأرض ثمَّ تَدُقُّه وتَدُسُّه حتّى يَلْزَقَ
کسی چیز کو زمین پر رکھ کر اس کو دبانا یہاں تک روندیں کہ وہ ٹوٹ کر بکھر جائے
معجم مقاييس اللغة از أحمد بن فارس بن زكرياء القزويني الرازي، أبو الحسين (المتوفى: 395هـ) المحقق: عبد السلام محمد هارون میں ہے
تَقُولُ الْعَرَبُ: دَحَحْتُ الْبَيْتَ وَغَيْرَهُ، إِذَا وَسَّعْتَهُ
عرب کہتے ہیں میں نے گھر کو دَحَحْتُ کیا یعنی اس کو وسعت دی
بعض مترجمین نے دَحَ سے مراد زمین کا پھیلانا لیا ہے البتہ راقم کے نزدیک ایک ترجمہ دبانا بھی ہے
سائنسدانوں نے سیٹالائٹ کی مدد سے زمین کی کشش ثقل کو جانا ہے جس سے زمین کی بلا پانی والی شکل نکل کر سامنے آئی ہے اس کو اب جرمنی کے شہر
Potsdam
کے نام پر
پوٹس-ڈام پوٹاتو
Potsdam gravity potato
یعنی
پوٹس-ڈام کا آلو کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہر اس تحقیق کا مذکر تھا
زمین سے اگر اس کا تمام پانی بھاپ بن کر اڑا دیا جائے تو جو شکل بنے گی وہ کچھ یوں ہو گی
راقم سمجھتا ہے یہ زمین دح کی حالت میں اب نظر آ رہی ہے – زمین گول تھی لیکن جب اس کو اللہ تعالی نے دبایا تو اس کا ایک حصہ نکل کر باہر آ گیا اور زمین مکمل گول نہ رہی نہ بیضوی رہی بلکہ پچکی ہوئی شکل میں بدل گئی – اس الوہی عمل سے زمین میں موجود پانی نہروں کی صورت باہر نکلا جو اس کے اندر تھا یہاں تک کہ سمندر وجود میں آ گئے
شمس العلوم ودواء كلام العرب من الكلوم از نشوان بن سعيد الحميرى اليمني (المتوفى: 573هـ) میں ابن عباس سے منسوب قول ہے
خلق اللہ الأرضَ قبل السماء فقدَّر فيها أقواتَها ولم يدحُها، ثم خلق السماء، ثم دحا الأرض بعدَها
اللہ نے زمین کو خلق کیا آسمان سے پہلے ، اس (سے منسلک ) قوتوں کا اندازہ کیا لیکن زمین کو دبایا نہیں ، پھر آسمان کو خلق کیا پھر زمین کو دبایا
و اللہ اعلم
فزکس کے مطابق اس طرح اگر کیا جائے کہ کرہ یا گول جسم کو دبایا جائے تو اس طرح اس کا مرکز کشش ثقل یا
center of gravity
اس کے مرکز سے ہٹ جاتا ہے
مذکورہ تحقیق کی وجہ یہی بات بنی تھی کہ سائنسدان جاننا چاہتے ہیں کہ آخر زمین پر کشش ثقل ہر مقام پر ایک کیوں نہیں اگر یہ گول
ہے- بہر حال یہ ابھی تک ایک معمہ ہے
====================================================================
“And the earth, after that, He spread it out.” This is in the Quran, Surah Fussilat.
“Say, ‘Do you indeed disbelieve in He who created the earth in two days and attribute to Him equals? That is the Lord of the worlds.’ (9)
He set on the (earth), mountains standing firm, high above it, and bestowed blessings on the earth, and measured therein all things to give them nourishment in due proportion, in four Days, in accordance with (the needs of) those who seek (Sustenance). (10)
Then He turned to the heaven when it was smoke and said to it and to the earth, ‘Come [into being], willingly or by compulsion.’ They said, ‘We have come willingly.’ (11)
And He completed them as seven heavens within two days and inspired in each heaven its command. And We adorned the nearest heaven with lamps and as protection. That is the determination of the Exalted in Might, the Knowing. (12)”
These verses tell us that before creating the heavens, Allah created the earth, which took two days. Mountains were formed on its surface, the earth was blessed, and its powers (forces) were estimated, which took four days. The heavens were still in a state of smoke when the mountains on the earth were formed and its powers were estimated. There are no rivers on the earth yet.
The term “أقواتَها” is the plural of power, meaning powers, and it refers to gravitational force, magnetic force, etc., not food.
In Surah An-Nazi’at of the Quran, it is mentioned that when the heavens were created and made like a roof, night and day were brought out in the heavens. Then the earth was spread out.
“Are you a more difficult creation or is the heaven? Allah constructed it. (27)
He raised its ceiling and proportioned it. (28)
And He darkened its night and extracted its brightness. (29)
And after that He spread the earth. (30)
He extracted from it its water and its pasture, (31)
And the mountains He set firmly (32)
As provision for you and your grazing livestock.”
From these verses, it is known that the earth was created, its mountains were formed, then the heavens were transformed into seven heavens, the sun and the moon were created. Then the earth was spread out from which rivers emerged.
The term “دَحَ” in Arabic is used to press something on the ground – “كتاب العين” by Abu Abd al-Rahman al-Khalil bin Ahmad bin Amr bin Tamim al-Farahidi al-Basri (died: 170 AH).
“And it is that you put something on the ground, then you press it and trample it until it sticks.”
Some translators have taken the meaning of “دَحَ” to spread, however, this author also translates it as pressing.
Scientists have known the gravitational pull of the earth with the help of satellites, from which the shape of the earth without water has emerged. It is called the “Potsdam gravity potato” named after the city of Potsdam, Germany, because this city was mentioned in this research.
If all the water from the earth is evaporated, the shape that will be formed will be something like this:
Author believes that the earth is now appearing in the state of “دَحَ”. The earth was spherical, but when Allah pressed it, a part of it came out and the earth was no longer completely spherical, it changed into a squeezed shape – from this divine process, the
water present in the earth came out in the form of rivers, which were inside it, to the extent that seas came into existence.
“دَحَ” in Arabic is used to press something on the ground – “كتاب العين” by Abu Abd al-Rahman al-Khalil bin Ahmad bin Amr bin Tamim al-Farahidi al-Basri (died: 170 AH).
“And it is that you put something on the ground, then you press it and trample it until it sticks.”
Some translators have taken the meaning of “دَحَ” to spread, however, Raqam also translates it as pressing.
Scientists have known the gravitational pull of the earth with the help of satellites, from which the shape of the earth without water has emerged. It is called the “Potsdam gravity potato” named after the city of Potsdam, Germany, because this city was mentioned in this research.
If all the water from the earth is evaporated, the shape that will be formed will be something like this:
Author believes that the earth is now appearing in the state of “دَحَ”. The earth was spherical, but when Allah pressed it, a part of it came out and the earth was no longer completely spherical, it changed into a squeezed shape – from this divine process, the water present in the earth came out in the form of rivers, which were inside it, to the extent that seas came into existence.
According to physics, if a sphere or spherical body is pressed in this way, its center of gravity or “center of gravity” moves away from its center.
The reason for the mentioned research was that scientists wanted to know why the gravitational pull on the earth is not the same everywhere if it is spherical – however, this is still a mystery.
And Allah knows best.
Asslamualikum Allah tala ap ko tamam kamyabiyan naseeb farmay.
وعلیکم السلام
امین