مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
فہرست
پیش لفظ
مبحث اول: کليات و اصول
علماء اور موت کی تعریف
العموم و الخصوص
ايک جاہل کي وصيت
مبحث دوم: ارواح کا مقام اور ان کے قالب
روح کا پرندہ بننا؟
روح کے بدلتے قالب
برزخي جسم کيا ہے
مبحث سوم: البرزخ
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی روایت
فرقہ پرستوں کی تاویلات باطلہ
سجین و برھوت یا جہنم
مبحث چہارم: عقیدہ رجعت روح یا عود روح
عقیدہ عود روح کی اساسی روایت
ابو ہريرہ سے منسوب روايات
مبحث پنجم: مردے کي قوت ادراک و سماع و حس پر بحث
کيا مردہ قبر سے باہر والے کو سنتا ہے ؟
كلام قليب البدر – معجزه يا آيت
عائشہ (رض) اور سماع الموتي پر موقف
حديث قرع النعال پر ايک نظر
حديث قرع النعال پر ايک اور نظر
کيا مردہ قبر سے باہر دفنانے والوں سے مانوس ہو سکتا ہے ؟
عمرو بن العاص کي وصيت
عمرو بن العاص کي وصيت 2
کيا مردہ قوت احساس رکھتا ہے ؟
بريدہ اسلمي کي وصيت
بغوي کي رائے
کیا میت دیکھتی، بولتی ہے ؟
صحیح مسلم کی روایت
حديث قدموني قدموني پر ايک نظر
موت کے بعد کوئي ہے جو بول اٹھا؟
کيا ميت زائر کو پہچانتي ہے؟
عائشہ رضی الله عنہ وفات شدہ لوگوں سے پردہ کرتی تھیں؟
مبحث ششم: قبر کا وسيع و تنگ ہونا
سعد بن معاذ رضي الله عنہ اور قبر کا ان کو دبوچنا
مبحث ہفتم: عالم غیب میں نقب
کیا عذاب قبر فرقہ پرستوں کے ہاں غیب کا معاملہ ہے ؟
کیا چوپائے عذاب قبر سنتے ہيں؟
تم دفنانا چھوڑ دو گے اگر عذاب سن لو؟
مبحث ہشتم: بقائے جسد کا نظریہ
کيا مردہ کفار کا گوشت سانپ کھا جاتا ہے
مبحث نہم: عذاب قبر کا انکار و اقرار
الْمُعْتَزلَة غير مقلدين اور عذاب قبر
خوارج کا عذاب قبر کا انکار
تصوف کی جڑ حیات فی القبر
مبحث دھم: روحوں سے متعلق مزید غلط عقائد
کتاب الرویا کا بھید
تلاقی الارواح کا عقیدہ
==========================================================
رزم حق و باطل چلا آ رہا ہے – افسوس حق میں باطل کی تلبس کرنا حامل کتاب الہی قوموں کا شغف بھی رہا ہے – اس کی خبر ہم کو کتاب الله سے مل چکی ہے کہ الفاظ کو اس کے مقام سے ہٹانا ، مدعا ثابت کرنے کے لئے اسباط (ثقات کی فہرست) کو پیش کرنا اور پھر قول موسی و احبار کی بنیاد پر کلام الہی کی الٹی تاویل کرنا یہود کا شیوہ تھا- اس میں شریعت کو بدلا گیا تھا کہ یعقوب علیہ السلام کی منت کا قول لے کر اونٹ کو مطلقا حرام قرار دیا گیا تھا – کیا اپ نے غور کیا یہ سب کرنا کیسے ممکن ہوا کہ حاملین توریت نے ایک حلال کو حرام کر دیا ؟ یہ اقوال رجال کی وجہ سے ہی ممکن ہوا –یہ اقوال رجال و اتباع سلف سے ممکن ہوا ورنہ توریت کی آیات کی یہ تاویل ممکن نہیں تھی- کسی حبر یا یہودی مولوی نے آیات کی غلط تاویل کی اور وہ ان میں رواج پا گئی – اس کے خلاف اگر کہا بھی گیا تو سنی ان سنی کر دی گئی-
کچھ اسی انداز میں اس امت میں بھی عقائد میں تبدیلی آتی گئی ہے – زہد کی وجہ سے لوگ قبروں پر گئے جن پر معتکف ہونے سے منع کیا گیا تھا – اہل کتاب کے علماء کی طرح ہمارے علماء نے بھی قبر سے فیض لینے کو سند جواز دیا اور اس کی وجہ یہ سمجھنا تھا کہ صاحب قبر اب مقرب بارگاہ الہی ہے اس کی روح قبر سے عرش تک آتی جاتی رہتی ہے اور یہ روشنی یا سورج کی شعاع جیسی کوئی چیز ہے – افسوس روح کو شعاع کی مانند متحرک کہنا ، اس کا عالم بالا کی سیر کرتے رہنا ، انہوں نے بھی بیان کیا ہے جو بظاہر قبر وں سے فیض لینے کے انکاری تھے یعنی یہ قول ابن تیمیہ اور ابن قیم کا بھی ہے- قبروں سے فیض کے منکروں کے لئے یہ بات اب ایک امر صعب بن کے رہ گئی ہے کہ ایک طرف تو اس فعل سے منع کرتے ہیں اور دوسری طرف ارواح کو غیر مقید ماننے، ان کے عالم بالا میں پھرتے رہنے کے قائل علماء کے لئے رطب اللسان رہتے ہیں – اس دو رخی کی وجہ سے توحید کی خالص دعوت ایک مذاق بن جاتی ہے کیونکہ تحقیق کرنے والا چند دنوں میں ہی جان جاتا ہے کہ یہ سب مایا جال ہے – ہیں کواکب کچھ نظر اتے ہیں کچھ
اس بات کو سمجھتے ہوئے ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے توحید کی دعوت دی اس کو فرقہ پرستی اور اکابر پرستی کی بیڑیوں سے آزاد کیا- ڈاکٹر صاحب نے ١٢ سے ١٥ صفحات پر مشتمل عوام کے لئے چند کتب لکھیں تاکہ وہ حق کو جان سکیں- لیکن عالم سفلی کے طواغییت جمع ہونے لگے اور ان چند اوراق کے جواب میں ٢٠٠ سے ٣٠٠ قرطاس میں رد لکھے جانے لگے- ان کے ذہنی خلفشار کو رد کرنے کے لئے ویب سائٹ کا اجراء ٢٠١٣میں ہوا- وقت کے ساتھ اس پر کافی مواد جمع ہوا جس کو آج کتاب کی صورت یہاں رکھا جا رہا ہے – کہتے ہیں شریف آدمیوں کے سینے رازوں کے دفینے ہوتے ہیں –راقم کو بھی ان رازوں کو طشت از بام کرنا پڑا ہے
محدثین نے عود روح کی روایت کو رد کیا تھا لیکن کچھ کے تساہل کی وجہ سے یہ روایت عقیدہ کی کلید بنی اور رد کتاب الله کا وجہ بن رہی ہے -کفار پر جہنم میں یا البرزخ میں عذاب کی خبر مکی زندگی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دی گئی جب ال فرعون اور قوم نوح پر عذابات سے مطلع کیا گیا – یہ دونوں غرق اب ہوئے اور ان کا معاملہ ایک عموم سمجھا گیا ہے کہ جہنم میں عذاب قبل محشر بھی ہو گا ال فرعون پر عذاب کے حوالے سے تفسيرابن كثيرسوره غافر میں ابن کثیر لکھتے ہیں
أنَّ الْآيَةَ دَلَّتْ عَلَى عَرْضِ الْأَرْوَاحِ إِلَى النَّارِ غُدُوًّا وَعَشِيًّا فِي الْبَرْزَخِ، وَلَيْسَ فِيهَا دَلَالَةٌ عَلَى اتِّصَالِ تَأَلُّمِهَا بِأَجْسَادِهَا فِي الْقُبُورِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ ذَلِكَ مُخْتَصًّا بِالرُّوحِ، فَأَمَّا حُصُولُ ذَلِكَ لِلْجَسَدِ وَتَأَلُّمُهُ بِسَبَبِهِ، فَلَمْ يَدُلَّ عَلَيْهِ إِلَّا السُّنَّةُ فِي الْأَحَادِيثِ
بے شک یہ آیت دلالت کرتی ہے ارواح کی آگ پر پیشی پر صبح و شام کو البرزخ میں، اور اس میں یہ دلیل نہیں کہ یہ عذاب ان کے اجساد سے جو قبروں میں ہیں متصل ھو جاتا ہے، پس اس (عذاب) کا جسد کو پہنچنا اور اس کے عذاب میں ہونے پر احادیث دلالت کرتی ہیں
ابن کثیر اسی آیت کی تفسیر میں یہ بھی لکھتے ہیں
وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور
اور یہ آیت قبروں میں عذاب البرزخ پر اہل سنت کے استدلال میں سب سے بڑی ہے
ابن کثیر نے صحیح کہا مومن پر عذاب کی خبر احادیث سے ملی ہے اور آیت میں یہ نہیں ہے کہ یہ عذاب جسد کو بھی ہوتا ہے – مکی زندگی میں مومنوں پر عذاب جہنم کی خبر نہیں تھی – مومنوں پر عذاب کا علم ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز سے منسلک خطبہ میں دیا گیا جس روز مارية القبطية رضی الله تعالی عنہ اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم انتقال کر گئے ( ذیقعدہ سن ١٠ ہجری از امام ابن حزم )- جب ہم کسوف کی روایات اور خطبہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں جو عذاب ہیں وہ جہنم کے مناظر ہیں جو مسجد النبی میں براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم کو دکھائے گئے یہاں تک کہ روایت کے مطابق جہنم کی تپش تک مسجد النبی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے محسوس کی اور نماز میں پیچھے ہٹے- اس کے بعد خطبہ میں اپ نے ایک عورت کا ذکر کیا جس نے بلی کو باندھے رکھا وہ مر گئی – حاجیوں کا سامان چوری کرنے والے کا ذکر کیا – بتوں کے نام پر جانور چھوڑنے والے کا ذکر کیا – ان سب پر جہنم میں عذاب کی خبر دی اور کہا تم کو بھی قبر میں آزمایا جائے گا –
یعنی مومنوں پر عذاب قبر کی تمام روایات اس سے بعد کی ہیں جو ایک نہایت مختصر مدت تقریبا ایک سال ہے یا اس سے بھی کم ہے (نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ١٢ ربیع الاول 11 ہجری کی ہے ) اس کے برعکس اگر اس مسئلہ پر تمام صحیح (و ضعیف) روایات اکٹھی کی جائیں تو اس سے گمان ہوتا ہے کہ ساری مدنی زندگی میں صرف اسی مسئلہ پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے گفتگو کی- یعنی چند ماہ میں ہر وقت عذاب قبر کا مسئلہ کی بیان ہوا کہ اس قدر روایات جمع ہوئیں یا یہ کسی اور وجہ سے اس قدر زیادہ ہیں ؟ یہاں تک کہ سعد بن معاذ رضی الله عنہ جنگ کی شہادت شروع میں ہوئی ان کے لئے بھی راویوں نے بیان کر دیا ہے کہ ان کی قبر نے ان کو دبوچہ! لہذا عذاب قبر کی روایات کی تحقیق ضروری ہے کہ اس کو جانا جائے کہ اس سلسلے میں کیا صحیح اور کیا غلط ہے- بخاری میں ایک دوسری روایت ہے کہ بنو نجارہی کے ایک مقام پر اپ نے مشرکین کی قبریں اکھڑ وا دیں اور وہاں اب مسجد النبی ہے اس تاریخی پس منظر میں یہ واضح ہے کہ عذاب اگر ارضی قبر میں ہوتا تو اس مقام پر نہ ہی مسجد النبی ہوتی نہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کو کھدواتے اور کسی اور مقام پر جا کر مسجد النبی کی تعمیر کرتے.خوب یاد رکھیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو مشرکین پر عذاب قبر کی خبر مکّہ میں ہو چکی ہے لیکن پھر بھی قبرین کھدواتے ہیں
ہمارے لئے حبل الله کتاب الله ہے اور صحیح سند سے قول نبوی ہے – کتاب الله کا حکم ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم مانو – یہ بات دور نبوی کے لئے ہے اور بعد والوں کے لئے بھی ہے – لیکن امداد زمنہ کی وجہ سے ہم تک قول نبوی لوگوں کی سند سے پہنچا ہے – لوگ ثقہ بھی ہوں تو بھول جاتے ہیں ، روایت کو معنوی انداز میں بیان کر دیتے ہیں جو الفاظ نبوی نہیں ہوتے – لوگ اختلاط کا شکار بھی ہوتے ہیں جو ایک بشری کمزوری ہے – یہاں تک کہ اگر روایت کو صحیح بھی سمجھا جائے تو لوگوں کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ صحیح قول نبوی کا کیا مفہوم ہے ؟ کیا اس کی تاویل ہے ؟ مثلا جن اقوال نبوی کی بنیاد پر لوگ صاحب قبر کو سننےوالا اور سمجھنے کہتے ہیں قرآن کی آیات کا ظاہر اسی مفہوم اس کا رد کرتا ہے – اس اختلاف کی بنا پر عقیدہ میں صحیح منہج کو بر قرار رکھنا ضروری ہے – جس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن سے پہلے صحیح عقیدہ سمجھا جائے اور پھر حدیث نبوی کو دیکھا جائے – ہم کو معلوم ہے کہ ثقہ بیمار بھی ہوتا ہے اس کو اختلاط بھی ہو سکتا ہے وہ بھول بھی سکتا ہے – ظاہر ہے جو کسی بیماری کی وجہ سے بھولا یا روایت سننے سمجھنے کی غلطی کر گیا اس کو شاید معافی مل جائے لیکن جو سب جان کر قرآن کا رد کرے اس کو کون بچائے گا ؟
الله تعالی نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ اس کی کتاب کی اتباع کی جائے اور اس کے رسول کا حکم چلے گا کسی اور کی اتباع کی قرآن میں کوئی سند نہیں ہے لہذا ہر مسلم پر فرض ہے کہ کتاب الله پر اپنا عقیدہ جانچ لے یہ قرآن کا حکم ہے
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى الله والرسول إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بالله واليوم الآخر ذلك خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً سورة النساء آية 59
پس کسی بات میں تمہارا تنازع ہو جائے تو اس کو الله اور اس کے رسول کی طرف پلٹ دو اگر تم الله روز آخرت پر ایمان والے ہو یہ خیر ہے اور اچھی تاویل ہے
اور کہا
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فحكمه إلى الله
اور جس چیز میں بھی اختلاف کرو تو حکم الله ہی کا ہے
اور کہا
بَلْ كَذَّبُواْ بِمَا لَمْ يُحِيطُواْ بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ
بلکہ انہوں نے انکار کیا اس کا احاطہ ان کا علم نہ کر سکا اور اس کی تاویل ان تک نہ پہنچی
اور کہا
مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ
ہم سے کتاب میں (وضاحت پر) کوئی چیز نہیں رہ گئی
اور کہا
تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ
ہر چیز کی اس میں وضاحت ہے
حیات فی قبر عقیدہ کا ایک اہم مسئلہ ہے لہذا اس کو کتاب الله پر پیش کریں کہیں بھی حیات فی القبر کی دلیل نہیں ملتی
لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں شہداء کی حیات کا ذکر ہے کہ ان کو مردہ مت کہو لیکن وہ ان آیات کا سیاق و سباق نہیں دیکھتے صرف ایک آیت لی اور اس کو اپنی مرضی کامعنی پہنا دیا – یہ آیت منافقین کے اس قول کے رد میں نازل ہوئی تھی کہ بے چارے مسلمان اپنے نبی کے چکر میں جنگوں میں ہلاک ہو گئے ہمارے ساتھ مدینہ میں ہی رهتے تو بچ گئے ہوتے- یہ بات قرآن کہتا ہے انہوں نے بولی اور الله نے کہا نہیں اگر ان کی موت کا وقت ہوتا تو کہیں بھی ہوتے ہلاک ہوتے اور جو میدان میں شہید ہوئے وہ معدوم نہیں ہوے وہ زندہ ہیں الله کے پاس رزق پا رہے ہیں- مسلمانوں کا تو پہلے سے یہ عقیدہ تھا کہ مریں گے تو جنت میں جائیں گے یہ منافقین کی حماقت تھی جو ایسا کہہ رہے تھے کیونکہ وہ الله کے رسول اور آخرت کے انکاری تھے- ان پر حجت تمام کی گئی کہ جو مرے ہیں وہ الله کے پاس رزق پا رہے ہیں- صحیح مسلم کی مسروق کی حدیث میں اسکی وضاحت ا گئی کہ یہ شہداء اپنی قبروں میں نہیں انکی ارواح الله کے عرش کے نیچے ہیں- اس کے علاوہ ایک عام مومن کے لئے بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر ہے کہ اس کی روح جنت کے درخت پر معلق ہے- لہذا قرآن میں مکمل وضاحت ہے کہ یہ ارواح جنت میں ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف جہنم میں ہیں
إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (13) وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ سورة الانفطار
بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہیں اور فاجر جہنم میں قیامت کے روز اس میں جلیں گے
اسی طرح موسی علیہ السلام کے مخالف جہنم میں ہیں پورا ال فرعون کا لشکر جہنم میں اگ پر پیش ہو رہا ہے جو ڈوب کر مرا
الله تعالی نے خبر دی کہ نوح علیہ السلام نے پوری دنیا کو بد دعا دے دی کہ ایک کافر بچ نہ پائے
الله کا غضب بھڑک گیا اس نے پوری زمین کو پھاڑ ڈالا اور آسمان سے پانی گرنا شروع ہوا
فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ
هم نے آسمان کے دروازے کھول دیے نہروں جیسے پانی کے ساتھ
آسمان کے دروازے کھلے ہیں کفار مر رہے ہیں اور روحیں جلدی جلدی جہنم میں ڈالی جا رہی ہیں
زمین پر اس وقت پانی ہی پانی ہے
وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا
اور ہم نے زمیں کو پھآڑ کر چشموں میں بدل دیا
یعنی قبریں ختم کسی کی بھی قبر نہ رہی نہ آدم علیہ السلام نہ ود کی نہ سواع کی نہ یغوث کی نہ نسر کی جو صالح تھے اور نہ کفار کی سب کی لاشیں پانی میں زندہ بھی مر رہے ہیں اور مردہ بھی تیر رہے ہیں- آدم کیا قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ؟ نہیں وہ تو جنت میں تھے ان کا جسم مٹی ہو چکا ہو گا یا اگر جسد تھا بھی تو وہ بھی اسی پانی میں تھا جس سے پوری زمین کو بھرا جا رہا تھا- ان صاف ظاہر بصیرت کے بعد مردے میں عود روح کا عقیدہ رکھنا ایک باطل عقیدہ ہے اس کی دلیل نہ قرآن میں ہے نہ صحیح احادیث میں –
لہذا الله کے بندوں کتاب الله پر عقیدہ بنا لو -راویوں کی غلطیاں ان کی غلطیاں ہیں ان کو اپنے سر مت لیں الله ان کو معاف کر دے گا کیونکہ جو بیماری میں بھول گیا اس کی خطا نہیں لیکن جو پورے ہوش میں جان کر کتاب الله کو چھوڑ گیا اس کے پاس کیا جواب ہو گا؟
واضح رہے کہ راقم یہ نہیں کہہ رہا کہ حدیث کو مطلقا رد کرو – راقم کہتا ہے یہ قول خوارج کا تھا کہ حدیث کو قرآن پر پیش کر دو تاکہ ناسخ و منسوخ کو رد کیا جائے [1]– بلکہ راقم کہتا ہے قرآن و حدیث کا جمع و تقابل عقائد میں کیا جاتا ہے- محدثین نے بہت سی خلاف عقل اور خلاف قرآن روایات کو رد کیا ہے
علوم الحديث ومصطلحه – عرضٌ ودراسة از مؤلفدکتور صبحي إبراهيم الصالح (المتوفى: 1407هـ) کے مطابق ایسی حدیث جو خلاف عقل ہوں رد کی گئی ہیں
أن يكون المروي مخالفًا للعقل أو الحس والمشاهدة، غير قابل للتأويل (2). قِيلَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ: حَدَّثَكَ أَبُوكَ عَنْ جَدِّكَ أَن رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ سَفِينَةَ نُوحٍ طَافَتْ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَصَلَّتْ خَلْفَ المَقَامِ رَكْعَتَيْنِ؟ قَالَ: نَعَمْ. (3). وواضع هذا الخبر، عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، مشهور بكذبه وافترائه، ففي ” التهذيب ” نقلاً عن
الإمام الشافعي: «ذَكَرَ رَجُلٌ لِمَالِكٍ حَدِيثًا، مُنْقَطِعًا، فَقَالَ: اذْهَبْ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ يُحَدِّثْكَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نُوحٍ!
اگر حدیث خلاف عقل ہو تو رد ہو گی اس کی مثال ہے کہ عبد الرحمان بن زید نے اپنے باپ سے پھر دادا سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ نوح کی کشتی نے کعبہ کا طواف کیا
کتاب الموضوعات کے مقدمہ میں ابن جوزی نے کہا
أَلا ترى أَنه لَو اجْتمع خلق من الثِّقَات فَأخْبرُوا أَن الْجمل قد دخل فِي سم الْخياط لما نفعننا ثقتهم وَلَا أثرت فِي خبرهم، لأَنهم أخبروا بمستحيل، فَكل حَدِيث رَأَيْته يُخَالف الْمَعْقُول، أَو يُنَاقض الْأُصُول، فَاعْلَم أَنه مَوْضُوع فَلَا تتكلف اعْتِبَاره.
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اگر مخلوق کے تمام ثقات جمع ہوں اور خبر دیں کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر گیا تو ان کی ثقاہت کا کوئی فائدہ ہم کو اس خبر سے نہیں کیونکہ انہوں نے وہ خبر دی جو ممکن نہیں – پس ہر وہ حدیث جو عقل والے کی مخالفت کرے اور اصول (عقائد) سے متصادم ہو تو جان لو وہ گھڑی ہوئی ہے پس اس کے اعتبار کی تکلیف نہ کرو
ابن جوزی نے مزید کہا
وَاعْلَم أَنه قد يجِئ فِي كتَابنَا هَذَا من الْأَحَادِيث مَا لَا يشك فِي وَضعه، غير أَنه لَا يتَعَيَّن لنا الْوَاضِع من الروَاة، وَقد يتَّفق رجال الحَدِيث كلهم ثقاة والْحَدِيث مَوْضُوع أَو مقلوب أَو مُدَلّس، وَهَذَا أشكل الْأُمُور، وَقد تكلمنا فِي هَذَا فِي الْبَاب الْمُتَقَدّم.
اور جان لو کہ اس کتاب میں آئیں گی روایات جن پر کوئی شک نہیں کہ وہ گھڑی ہوئی ہیں لیکن اس میں یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ کس راوی نے گھڑی ہے اور اس میں اتفاق بھی ہو گا کہ تمام رجال ثقہ ہیں جبکہ یہ حدیث یا تو گھڑی ہوئی ہے یا مقلوب ہے یا تدلیس ہے اور یہ مشکل کاموں میں ہے
اسی کتاب میں ابن جوزی نے کہا
وَاعْلَم أَن حَدِيث الْمُنكر يقشعر لَهُ جلد طَالب الْعلم مِنْهُ
اور جان لو کہ حدیث منکر سنتے ہی طالب علم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
گویا علم حدیث کا دارومدار صرف سند اور رجال ہی نہیں اس کا متن بھی ہے
گمراہ فرقوں کی جانب سے آج کہا جا رہا ہے کہ عقل معیار نہیں بن سکتی [2] – دوسری طرف ہم جس مذھب کو مانتے ہیں یعنی اسلام اس کو تو کو دین فطرت کہا جاتا ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
ما مِنْ موْلودٍ إلا يولَدُ على الفِطرةِ
ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے
فطرت انسان میں جبلی قوت دی گئی ہیں ان میں حواس خمسہ رکھے گئے ہیں – جس میں قرآن میں بار بار سمع و الابصار کا ذکر ہے کہ مشرک اس کو استعمال نہیں کرتے اور اس کی وجہ قرآن کہتا ہے کہ یہ اندھے نہیں ان کے دل اندھے ہیں- یعنی جو لوگ الله کی دی ہوئی نعمتوں کو حق کی تلاش کے لئے استعمال نہیں کرتے ان کے قلوب پر زنگ آ جاتا ہے وہ اگرچہ آنکھوں سے بینا ہیں لیکن ان میں عقل و سمجھ مفقود ہے لہذا قرآن میں الله تبارک و تعالی کہتے ہیں
فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ
یہ الله کی (دی ہوئی) فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو خلق کیا ہے ، الله کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں
یعنی ہر انسان اس فطرت پر پیدا ہو رہا ہے جس میں تعقل و فکر کر کے وہ الله کو پا سکتا ہے
هود عليه السلام نے اپنی قوم سے کہا جب انکی قوم نے گمراہی پر اصرار کیا
قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ
بلا شبہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے رجس و غضب واقع ہو چکا ہے
سوره الانعام میں کہا
فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ
پس الله جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اور جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو گھٹتا ہوا تنگ کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان کی طرف جا رہا ہو – اس طرح الله گندگی ڈالتا ہے ان پر جو ایمان نہیں لاتے
سوره یونس میں کہا
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (100)
اور نفس کے لئے نہیں ہے کہ ایمان لائے سوائے الله کے اذن سے اور وہ گندگی ڈالتا ہے ان پر جو عقل سے کام نہیں لیتے
یعنی عقل استعمال نہ کرنے کی وجہ سے جب و فطرت سے ہٹے تو الله نے ان پر رجس یا گندگی ڈال دی جس نے ان کو قبر پرستی اصنام پرستی، اکابر پرستی کی لعنت میں مبتلا کیا اور وہ اس کے جواز کے فتوے دینے لگے – اس میں کتاب الله اور حکمت اور حدیث موسی کا درس دینے والے بھی تھے لیکن الله نے اہل کتاب کے علماء کے لئے کہا کہ ان پر گدھوں کی طرح کتابیں لدھی ہیں ان کو پڑھتے ہیں لیکن رجس سے نہیں نکل پا رہے – عقل و فراست ہی تفقہ فی الدین ہے کہ روایت کو آگے کرنے حدثنا و اخبرنا کہنے والے تو بہت ہیں لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس میں تفقہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے
مسند احمد میں ایک روایت بیان ہوئی ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَرِيزٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ الْجُرَشِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ يَنْثَنِي شَبْعَانًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ، وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، أَلَا وَلَا لُقَطَةٌ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ، فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُمْ ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُمْ، فَلَهُمْ أَنْ يُعْقِبُوهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُمْ
الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے ممکن ہے کہ کوئی مال و دولت کے نشہ سے سرشار اپنے تخت پر بیٹھ کر یہ کہے کہ تمہارے پاس قرآن ہے اس میں تم جو چیز حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو حرام پاؤ اسے حرام قرار دو۔ سُن لو! پالتو گدھے تمہارے لئے حلال نہیں (اسی طرح) درندوں میں سے کچلی والے بھی (حلال نہیں) اور معاہد (ذمی) کی گری پڑی چیز بھی حلال نہیں الا یہ کہ اس کا یہ مالک اس سے بے نیاز ہوجائے اور جو شخص کسی قوم کے ہاں مہمان ٹھہرے تو اس کی ضیافت و اکرام ان پر فرض ہے اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو وہ اپنی مہمان نوازی کے بقدر ان سے لے سکتا ہے۔
اس پر دکتور شعيب الأرنؤوط اس روایت کے تحت کہتے ہیں
قلت: كأنه أراد به العرض لقصد رد الحديث بمجرد أنه ذُكر فيه ما ليس في الكتاب، وإلا فالعرض لقصد الفهم والجمع والتثبت لازم
میں کہتا ہوں کہ گویا اس ( حدیث) کو (قرآن پر) پیش کرنے کا مقصد مجرد حدیث کو رد کرنا ہے کہ اس میں اس چیز کا ذکر ہے جو کتاب الله میں نہیں (تو یہ صحیح نہیں) لیکن اگر پیش کرنا فہم اور جمع اور اثبات کے لئے ہو تو یہ لازم ہے
-حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول و فعل ہے- اس میں احکام نبوی، وحی کی نوع کے ہیں کیونکہ قرآن کی تعبیر و تشریح کرنا الله کا کام ہے- رسول شریعت نہیں بناتے وہ الله کی جانب سے انے والے احکام کی تشریح کرتے ہیں جو الله کی طرف سے رسول الله کو سمجھائی گئی- لہذا جب ایک بات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہو تو اس کا انکار بھی کفر ہے
ہم جب قرآن کو دیکھتے ہیں تو اس میں صرف دو زندگیاں اور دو موتوں کا اصول پاتے ہیں – قرآن میں جس پر موت طاری ہو رہی ہے اس کے لئے امساک روح کا ذکر ہے کہ اس کو روک لیا جاتا ہے- لہذا ہم عود روح کی روایت کو باطل و منکر قرار دیتے ہیں – ہم کہتے ہیں مردہ لا شعور ، بے جان اور بے حس ہے- جس کو عذاب قبر کہا جاتا ہے وہ عذاب جہنم کی شکل ہے جس کو کتاب الله میں النار کہا گیا ہے – یہ عقیدہ کہ عذاب و راحت اور سوال الملکین سب روح سے ہوتا ہے اہل سنت کا ہی عقیدہ ہے- امام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور
اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا
گمراہ فرقوں کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ عود روح حدیث میں آیا ہے لہذا اس کی روایت کو قرآن پر پیش نہیں کرنا چاہیئے اور قبول کرنا چاہیے لیکن یہ بات درست نہیں قرآن میں واضح طور پر امسک روح کا ذکر ہے کہ روح کو روک لیا جاتا ہے لہذا اس کو واپس جسد میں ڈالنے والی روایت صحیح نہیں – محدث ابن حبان کے مطابق عود روح والی روایت کی سند میں ہی گھپلا ہے ذھبی اس کو نکارت و غرابت سے بھر پور قرار دیتے ہیں- پھر محدثین میں أبو بسطام شعبة بن الحجاج بن الورد المتوفي ١٦٠ هجري کے نزدیک المنھال بن عمرو متروک تھا لہذا یہ عود روح کا عقیدہ اس دور میں محدثین رد کر چکے تھے – محدث خراسان محمد بن محمد بن أحمد بن إسحاق النيسابوري الكرابيسي ، الحاكم الكبير المتوفی ٣٧٨ھ ، مؤلف كتاب الكنى کہتے تھے کہ زاذان کی روایت اہل علم کے نزدیک مظبوط نہیں ہے – ظاہر یہ اہل علم ، حدیث رسول کے مخالف نہیں تھے جو انہوں نے عود روح کی روایت کے راویوں کو ہی رد کر دیا؟ راقم کہتا ہے یہ محدثین کا منہج ہے کہ وہ ان راویوں کی روایت کو عقائد میں قبول نہیں کرتے-
ایک طرف تو محدثین تھے جو عود روح کی روایت رد کر رہے تھے اور دوسری طرف ایک صوفی محمد بن كرام تھا جو سجستان میں پلا بڑھا اور بيت المقدس میں 256ھ میں وفات ہوئی یعنی یہ امام بخاری کا ہم عصر تھا – ابن حزم الملل و النحل میں لکھتے ہیں کرامیہ وہ ہیں جو
أصحاب أبي عبد الله محمد بن كرام ، وإنما عددناه من الصفاتية لأنه كان ممن يثبت الصفات إلا أنه ينتهي فيها إلى التجسيم والتشبيه
اصحاب ابی عبد الله محمد بن کرام ہیں اور ہم نے ان کو الصفاتیہ میں شمار کیا ہے کیونکہ یہ وہ ہیں جو صفات کا اثبات کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اس کو تجسیم و تشبیه پر ختم کرتے ہیں
ابن حزم مزید کہتے ہیں
نص أبو عبد الله على أن معبوده على العرش استقرارا، وعلى أنه بجهة فوق ذاتا، وأطلق عليه اسم الجوهر. فقال في كتابه المسمى “عذاب القبر” إنه أحدى الذات، أحدى الجوهر، وإنه مماس للعرش من الصفح العليا، وجوز الانتقال، والتحول، والنزول، ومنهم من قال إنه على بعض أجزاء العرش. وقال بعضهم: امتلأ العرش به، وصار المتأخرون منهم إلى أنه تعالى بجهة فوق، وأنه محاذ للعرش.
اور ابو عبدالله نے نص کیا کہ اس کا معبود عرش پر استقرار کیے ہوئے ہے اور نص کیا کہ وہ ذات عرش کے اوپر ہے اور اس ذات پر اسم الجوہر کا اطلاق کیا پس اپنی کتاب بنام عذاب القبر میں کہا وہ ایک ذات ہے ایک جوہر ہے اور وہ ذات عرش کو اوپر سے چھو رہی ہے اور اس کا منتقل ہونا جائز ہے اور بدل جانا اور نزول اور ان میں سے بعض نے کہا وہ عرش کے بعض اجزاء پر ہے اور بعض نے کہا عرش کو بھرا ہوا ہے اور ان کے متاخرین اس طرف گئے کہ وہ اوپر سے اس کو چھو رہا ہے اور وہ عرش کے پاس ہے
محمد بن کرام المشبہ کا عقیدہ الله تعالی کے حوالے سے تجسیم کا تھا اور اس عقیدہ کا ذکر اس نے اپنی کتاب عذاب قبر میں کیا اور کہا کہ مردہ پر عذاب ہوتا ہے بلا روح- ماضی میں مردہ جسد کو عذاب و راحت کا عقیدہ اہل سنت کا نہیں تھا یا تو صرف روح پر عذاب کے قائلین تھے یا پھر روح و جسم دونوں پر عود روح کے بعد عذاب کے قائلین تھے- الشوکانی کتاب الفتح الرباني من فتاوى الإمام الشوكاني، مكتبة الجيل الجديد، صنعاء – اليمن میں فتوی دیتے ہیں
أنه قد ثبت بالأحاديث المتواترة عذاب القبر لمن يستحقه، ومعلوم أنه لا يعذب إلا وروحه معه، وإدراكه، ولو لم يكن كذلك لكان العذاب الواقع على مجرد الجسم بلا روح ولا إحساس ليس بعذاب، لأن إدراك الألم واللذة مشروط بوجود ما به الإدراك- وإلا فلا إدراك لمن ليس له حياة ولا إحساس لمن لا روح له-
اور بے شک متواتر احادیث سے عذاب القبر ثابت ہے اس کے لئے جو اس کا مستحق ہو اور یہ معلوم ہے کہ عذاب نہیں ہوتا الا یہ کہ روح ساتھ ہو اور ادرک ہو اور اگر ایسا نہ ہو کہ روح نہ ہو تو یہ عذاب صرف جسم پر بلا روح اور بغیر احساس کے واقع ہوا، جو عذاب نہیں ، کیونکہ الم اور لذت کا ادرک مشروط ہے اس وجود سے جس کو ادرک بھی ہو – اور اگر ایسا نہ ہو (کہ روح نہ ہو تو) پس ادرک نہیں ہے مگر اس میں جس میں زندگی ہو، اور جس میں روح نہ ہو اس میں احساس نہیں ہے-
النووی ، شرح المسلم میں لکھتے ہیں
الْمُعَذَّبُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ الْجَسَدُ بِعَيْنِهِ أَوْ بَعْضُهُ بَعْدَ إِعَادَةِ الرُّوحِ إِلَيْهِ أَوْ إِلَى جُزْءٍ مِنْهُ وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إِعَادَةُ الرُّوحِ قَالَ أَصْحَابُنَا هَذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ الْأَلَمَ وَالْإِحْسَاسَ إِنَّمَا يَكُونُ فِي الْحَيِّ
معذب ، اہل السنت کے نزدیک جسد بعینہ ہے یا اس کے بعض حصے اس میں إِعَادَةِ الرُّوحِ ہونے کے بعد اور اس کی مخالفت کی ہے محمّد بن جریر اور عبدللہ بن کرام اور ایک گروہ نے اور کہا کہ إِعَادَةِ الرُّوحِ عذاب کی شرط نہیں- ہمارے اصحاب کہتے ہیں یہ فاسد قول ہے بے شک الم و احساس زندہ کے لئے ہے
معلوم ہوا صرف روح پر عذاب کے قائلین ابن حزم سے پہلے بھی تھے لہذا بعض کا یہ دعوی کہ عود روح کا انکار سب سے پہلے ابن حزم نے کیا باطل ہے-
ابن الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں کہ
فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار
پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ سے تعريفا (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف میں
محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ) کتاب العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں لکھتے ہیں
ثم لأهل السنة قولان؛ قيل: إن العذاب للروح فقط، وقيل: للروح والجسد والمشهور الثاني
پھر اہل السنہ ہے دو قول ہیں: کہتے ہیں کہ عذاب صرف روح کو ہے اور کہتے ہیں روح و جسد کو ہے اور دوسرا قول مشھور ہے
کسی قول کا مشہور ہونا اس کی دلیل نہیں کہ وہ صحیح عقیدہ ہے- چودہ سو سال کی شہادت آپ کے سامنے ہے ہر دور میں صرف روح پر عذاب کے قائل رہے ہیں
اس کتاب میں ان مباحث کو تفصیلا پیش کیا گیا ہے تاکہ دیکھا جائے کیا قول صواب ہے
ابو شہر یار
٢٠١٧
السلام علیکم،
اگر صرف اسی آیت مبارکہ پر ہی غور کرلیا جاتا، تو ان تمام مفروضات و امکانات سے نجات مل جاتی کہ مردہ، موت کے بعد بھی زندہ ہوتا ہے یا ہوجاتا ہے۔
فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ
یہ الله کی (دی ہوئی) فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو خلق کیا ہے ، الله کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں
اللہ کی دی ہوئی فطرت یہ بھی ہے کہ مردہ (کوئی سا بھی، چاہے وہ انسانی ہو یا حیوانی) ،سننے کے بعد بولنے سے محروم ہے، دیکھنے سے محروم ہے، سننے سے محروم ہے۔ چکھنے سے محروم ہے۔ کسی چیز کو چھونے سے محروم ہے۔ اگر مردہ کو چھویا جائے تو اسکے وہ رسپانس سے محروم ہے۔ مردے کے اگر اعضاء کو ایک چھری سے اگر کاٹا جائے تو وہ پہنچنے والی اذیت سے محروم ہے، جو کسی زندہ جسم کو ہوتی ہے، جب اسکے اعضاء کو کاٹا ہے۔ مختصرا یہ ہے اللہ کی سنت، جسکو وہ کبھی کسی حال میں تبدیل نہیں کرتا، سوائے اس جگہ جہاں وہ کسی سبب سے معجزہ وغیرہ اپنے حکم و اذن سے دکھاتا ہے۔ ایک مردہ چاہے وہ کسی انسان کا ہے یا حیوان کا، اسکی حیثیت ایک بے جان چیزکی ہی ہے، جیسی ایک پتھر کا ٹکڑا یا پانی کا گھونٹ۔
خلاف فطرت اگر ہم چلیں گے تو اسی طرح راہ حق سے بھٹکے گیں، جیسے آج امت مسلمہ کا حشر ہوا ہے، اور مفروضات میں پڑ کر پڑھے لکھے جاہل ہم لوگ بنے ہوئے ہیں۔ یہود، ہنود اور عیسایئوں نے ان مفروضات سے جان چھڑا کر، اللہ کے دئیے ہوئے عقل کے علم کی بنیاد پر آج انسانی ترقی کی عروج کو چھو رہے ہیں، اور ایک ہم مسلمان ہیں جو صدیوں سے چند ہمارے ایسیے علماء اور رھبان و حبار کے اقول کے گرد ، کولہو کے بیل کے طرح چکر پر چکر کاٹے جارہے ہیں، جنکی بات بالکل اسی طرح غلط ہے جیسے کوئی رات مین سورج اور دن میں چاند دیکھنے کا دعویٰ کرے۔
فااعتبرو یااولی الابصار
الله آپ کو جزایۓ خیر دیے – آمین
وجاہت صاحب! میں آپ سے عقائد کے معاملات پر بات چیت کرنا چاہتا ہوں مجھے آپ اپنی Facebook I’d یا page کا لنک دیں تاکہ آپ سے بات چیت کی جاسکے۔
بھائی آپ اپنا ای میل یہاں لکھ دیں – میں آپ کو میل پر جوائن کر لوں گا – آپ اس بلاگ پر بھی سوالات کر سکتے ہیں عقائد پر – بھائی میں کوئی عالم نہیں ہوں – ایک عام سا انسان ہو
جزاکم الله خیرا
اجکل ایک گروہ اور پیدا ہوا ہے جو کہتا ہے کہ حدیث کے الفاظ ہیں “المییت یعذب فی قبرھا”میت کو ایسے ہی عذاب دیا جاتا ہے جیسے نیند کے اندر خواب میں محسوس کرتے ہیں لحاظا وہ برزخی عذاب کی بھی قائل ہیں اور میت کے بھی وہ کہتے ہیں میت چاہے دفن نا ہو اسکے ذرے ذرے کو بھی عذاب محسوس ہوتا ہے اسکے لیے وہ اس شخص والی حدیث پیش کرتے ہیں جو بیٹوں کو وصیت کرتا ہے میری لاش کو جلا دینا تا کہ اللہ کے عذاب سے بچ جاؤں اسکی بھی وضاحت کر دیں
نیند میں جہنم دیکھنا عذاب نہیں ہے
ابن عمر نے خواب میں جہنم کو دیکھا کہ یہ کنواں نما ہے
ظاہر ہے ابن عمر کو عذاب جہنم نہیں ہوا
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: رات کی نماز کی فضیلت)
1121 . – حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، ح وَحَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا رَأَى رُؤْيَا قَصَّهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَمَنَّيْتُ أَنْ أَرَى رُؤْيَا، فَأَقُصَّهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْتُ غُلاَمًا شَابًّا، وَكُنْتُ أَنَامُ فِي المَسْجِدِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَيْتُ فِي النَّوْمِ كَأَنَّ مَلَكَيْنِ أَخَذَانِي، فَذَهَبَا بِي إِلَى النَّارِ، فَإِذَا هِيَ مَطْوِيَّةٌ كَطَيِّ البِئْرِ وَإِذَا لَهَا قَرْنَانِ وَإِذَا فِيهَا أُنَاسٌ قَدْ عَرَفْتُهُمْ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَلَقِيَنَا مَلَكٌ آخَرُ فَقَالَ لِي: لَمْ تُرَعْ
حکم : صحیح 1121 . ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن یوسف صنعانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر نے حدیث بیان کی ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے، انہیں ان کے باپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب کوئی خواب دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعبیر دیتے ) میرے بھی دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا، میں ابھی نوجوان تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں سوتا تھا۔ چنانچہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے مجھے پکڑ کر دوزخ کی طرف لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ دوزخ پر کنویں کی طرح بندش ہے ( یعنی اس پر کنویں کی سی منڈیر بن ی ہوئی ہے ) اس کے دو جانب تھے۔ دوزخ میں بہت سے ایسے لوگو ں کو دیکھا جنہیں میں پہچانتا تھا۔ میں کہنے لگا دوزخ سے خدا کی پناہ! انہوں نے بیان کیاکہ پھر ہم کو ایک فرشتہ ملا اور اس نے مجھ سے کہا ڈرو نہیں۔
عذاب عالم ارواح کا معاملہ ہے جہاں شعور ہے احساس ہے – جسم کا معامله نہیں جس میں شعور نہیں بلکہ وہ معدوم ہو جاتا ہے
——–
یہ سب سننے کے بعد یہ الله کی قدرت کا ذکر کرنے لگ جاتے ہیں لیکن یہ انداز صحیح نہیں کیونکہ الله قادر ہے لیکن اس کا نظام بھی ہے
اس میں تبدیلی معجزہ بنتی ہے
بھائی ۔۔۔۔عن البراء بن عازب رضی سے مروی روایات کی مکمل تحقیق درکار ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی ارواح کے متعلق فرمایا کہ ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے پھر انہیں زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اور رسولؐ نے قرآن کی آیت تلاوت کی کہ ان کے لیے نا آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے۔۔اس روایت کو زمینی قبر میں عذاب کے قائلین نے دانتوں سے پکڑ رکھا ہے ۔۔اس کے متعلق تحقیق بتا دیں ۔۔۔جزاک اللہ خیرا
کتاب اثبات عذاب قبر مین اس کی تفصیل ھے
بھائی کتاب دو مرتبہ ڈاؤنلوڈ کی لیکن اوپن نہیں ہو رہی can not display invalid format error آ رہا ہے
اس کو ایک اور سافٹ ویئر سے کنورٹ کیا ہے
https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2018/07/اثبات-عذاب-قبر-A5.pdf
زاذان والی روایت مبحث چہارم میں ہے
کیا مجھے یہ کتاب یونی کوڈز میں ملی سکتی ہے ؟
جی نہیں
علامہ البانی کا جو حوالہ دیا ھے یہ جھوٹ ھے علامہ البانی نے محمد بن فضیل کی لیث بن ابی سلیم کوفی سے روایت کو ضعیف کہا ھے یہ بہت ان پر
حدثنا واصل بن عبد الاعلى , حدثنا ابن فضيل , عن ليث , عن سعيد بن عامر , عن ابن عمر , قال: مررنا على بركة فجعلنا نكرع فيها , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” لا تكرعوا , ولكن اغسلوا ايديكم , ثم اشربوا فيها , فإنه ليس إناء اطيب من اليد”.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک حوض کے پاس سے ہمارا گزر ہوا تو ہم منہ لگا کے پانی پینے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منہ لگا کر پانی نہ پیو، بلکہ اپنے ہاتھوں کو دھو لو پھر ان سے پیو، اس لیے کہ ہاتھ سے زیادہ پاکیزہ کوئی برتن نہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7074، ومصباح الزجاجة: 1188) (ضعیف)» (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف اور سعید بن عامر مجہول راوی ہے)
وضاحت: ۱؎: «کرع»: منہ سے پینا، اس میں ایک عیب یہ بھی ہے کہ اکثر کوڑا کرکٹ یا کیڑا مکوڑا بھی پانی کے ساتھ منہ میں چلا جاتا ہے، اور ہاتھ سے پینے میں یہ بات نہیں ہوتی آدمی پانی کو ہاتھ میں لے کر دیکھ لیتا ہے، پھر اس کو پیتا ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ اگر یہ روایت محفوظ ہو تو نہی تنزیہی ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف ¤ ليث بن أبي سليم : ضعيف مدلس وعنعن (تقدم:208)
بھائی مسند ابی یعلی کی روایت پر معترضین کی جانب سے یہ تحقیق پیش کی جاتی ہے ۔
جس کے الفاظ ہیں کہ پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ تم دفن نہ کرو گے
عرض ہے لیث بن ابی سلیم پر جرح مختصر جرح پیش خدمت ہے
1)امام الجرح والتعدیل یحی ابن معین نے فرمایا ضعیف(تاریخ ابن معین 197/1)
2)امام بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے(الضعفاء الصغیر للبخاری 114/1)
3)ابو اسحاق الجوزانی نے ضعیف کہا ہے(احوال الرجال 3/1)
4)امام نسائی نے ضعفاء میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ کوفی تھے ضعیف تھے (الضعفاء والمتروکون 90/1)
5)ابو حاتم الرازی نے فرمایا میں اس کو نہیں جانتا(الجرح والتعدیل 351/3)
6)احمد ابن حنبل ،یحی القطان اور ابن مھدی نے لیث کو ترک کیا تھا (المجروحین لابن حبان 231/2)
7)ابن حبان خود فرماتے ہیں کہ آخری عمر میں اس قدر اختلاط ہوا تھا کہ اس کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ کیا بیان کر رہا ہے(المجروحین 231/2)
اور جمہور کے مقابلے میں چند ایک کی توثیق مردود ہی ہوتی ہے۔۔
امام ابو یعلی خود اس کو ضعیف کہتے ہیں تو باقی رہ ہی کیا جاتا ہے
مسند ابی یعلی کی روایت کے الفاظ ہیں
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَزَالُ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ آمِنَيْنِ حَتَّى تَرُدُّوهُمْ، عَنْ دِينِهِمْ كِفَاءَ رَحِمِنَا» قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي الْجَنَّةِ أَنَا أَمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «فِي الْجَنَّةِ» ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ آخَرُ فَقَالَ: أَفِي الْجَنَّةِ أَمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «فِي النَّارِ» ثُمَّ قَالَ: «اسْكُتُوا عَنِّي مَا سَكَتُّ عَنْكُمْ فلولا أن لا تدافنوا لأخبرتكم بملئكم من أهل النار حتى تفرقوهم عند الموت
ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا پس اگر ایسانہ ہوتا کہ تم دفن نہ کرو گے، تو میں تم کو خبر دیتا تم میں سے اہل النار کے بارے میں حتیٰ کہ تم ان سے موت پر علیحدہ ھو
===================================================
اشکال ہے کہ کیا لیث مطلق ضعیف ہے ؟
تو اس کا جواب ہے نہیں
سنن ابن ماجہ ح ٢٣٠ میں محمد بن فضیل کی لیث سے روایت کو البانی نے صحیح کہا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ أَبِي هُبَيْرَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرِ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ» ، زَادَ فِيهِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ” ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَالنُّصْحُ لِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ ”
اسی طرح ابن ماجہ ٢٧٨ ، ١٥٥٠ ، ٢١٨٩ ، کو بھی صحیح قرار دیا ہے ان سب میں ليث بن أبي سليم. ہے
اس کی روایت کو اختلاط کی وجہ سے رد کیا گیا ہے لیکن ایسا بہت ہوتا ہے کہ راوی کو اختلاط ہوتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کس نے کب سنا مثلا عبد الرزاق اور قیس بن ابی حازم وغیرہ
یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ابن فضیل نے اختلاط کے بعد سنا
البانی کے نزدیک ایسا کچھ نہیں ہے لہذا انہوں نے اس کی روایات کو صحیح قرار دیا ہے
الذھبی کا قول ہے
ليث بن أبي سليم الكوفي: حسن الحديث، ومن ضعفه فإنما ضعفه لاختلاطه بآخرة
یہ حسن الحدیث ہے اور جس نے اس کو ضعیف سمجھا ہے تو وہ اس کی عالم اختلاط کی آخر کی روایات کی وجہ سے ہے
بعض نے کہا ہے مجاہد اور عطا کی روایت میں مسائل ہیں باقی میں مسائل نہیں ہیں
قال البَرْقانِيّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن ليث بن أبي سليم، فقال: صاحب سنة، يخرج حديثه، ثم قال إنما أنكروا عليه الجمع بين عطاء وطاووس ومجاهد حسب
صاحب سنت ہے اس کی حدیث لکھی جاتی ہے
ليث بن أبي سليم کی سند سے صحیح مسلم میں بھی روایت لی گئی ہے
وقال ابن عدي: له أحاديث صالحة وقد روى عنه شعبة والثوري ومع الضعف الذي فيه يكتب حديثه
ابن عدی نے کہا امام شعبہ اس سے روایت کرتے تھے اور ان کا معلوم ہے کہ رجال کے معاملہ میں سخت تھے
اس بات کو خود اہل حدیث علماء نے راوی کو ثقہ ثابت کرنے کے لئے پیش کیا ہے کہ شعبہ اس سے روایت لیتے تھے
تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.
وَقَالَ عَبْدُ الْوَارِثِ: كَانَ لَيْثٌ مِنْ أوعية العلم.
———-
مزید ملا
قال العِجليُّ: جائزُ الحديثِ.
ابن شاھین نے ذکر کیا
قَالَ عُثْمَان لَيْث بن أبي سليم ثِقَة صَدُوق
لہذا یہ دعوی باطل ہوا کہ لیث کی تضعیف پر جمہور کا اجماع ہے
بھائی اہل حدیث حضرات کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا ہے
ہمارے نزدیک ذھبی کی یہ بے سند اور بے دلیل قول مردود ہے اور ذھبی اور لیث کے درمیان سینکڑوں سال کا انقطاع ہے اسلئے ذھبی خود سے موقف قائم نہیں کرسکتے بلکہ دوسروں کے حوالوں سے موقف قائم کرسکتے ہیں
نیز ہم نے ثابت کردیا ہے کہ لیث صرف مختلط نہیں تھا بلکہ وہ ضعیف الحدیث،لین الحدیث،منکر الحدیث تھا اور ارسال بھی کرتا تھا نیز وہ مدلس تھا اور آپ کی پیش کردہ روایت اس نے *عن* سے بیان کی ہے اسلئے اختلاط اسکے ضعف کا ایک سبب نہیں ہے جو ذھبی کی بے سند دعوے سے رفع ہوجائے گی
آپ لیث کی ابن فضیل سے کوئی ایک منفرد روایت ٹھیک دکھا دیں ذخیرہ احادیث میں
آپ لیث کی ابن فضیل سے کوئی ایک منفرد روایت ٹھیک دکھا دیں ذخیرہ احادیث میں
=============
جواب
لیث کی ابن فضیل سے نہیں بلکہ ابن فضیل کی لیث سے روایت ہے
سنن ابن ماجہ ح ٢٣٠ میں محمد بن فضیل کی لیث سے روایت کو البانی نے صحیح کہا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ أَبِي هُبَيْرَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرِ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ» ، زَادَ فِيهِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ” ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَالنُّصْحُ لِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ ”
اسی طرح ابن ماجہ ٢٧٨ ، ١٥٥٠ ، ٢١٨٩ ، کو بھی صحیح قرار دیا ہے ان سب میں ليث بن أبي سليم. ہے
——————-
اگر یہ تمام جرح ہے تو لیث کو ثقہ بھی کہا گیا ہے
اسی وجہ سے البانی نے روایت کو صحیح کہا ہے
=====================
///
ہمارے نزدیک ذھبی کی یہ بے سند اور بے دلیل قول مردود ہے اور ذھبی اور لیث کے درمیان سینکڑوں سال کا انقطاع ہے ا
///
جواب
یہ جاہلانہ بات ہے
محدث بہت سے لوگوں پر جرح کرتا ہے جس سے اس کی ملاقات نہی ہوتی
مثلا امام احمد یا امام بخاری کی جرح اپنے سے ١٠٠ – ١٥٠ سال پہلے والے راوی پر بھی ہے
کون سا ایسا محدث ہے جو صرف اور صرف ان پر جرح کرتا ہے جس سے اس کی ملاقات ہو
یہ لوگ جن سے آپ بحث کر رہے ہیں نرے کورے ہیں
بھائی اعتراض کیا جاتا ہے کہ لیث جب ثقہ تھا اس وقت کی روایت پیش کریں منفرد ھو جس میں لیث اور اس روایت کا ایک بھی شواہد نہ موجود ھو اور کسی محدث نے اسکی روایت کو صحیح کہا ھو۔ کیونکہ البانی نے بھی شواہد و متعابعت کی وجہ سے اس کی روایت کو صحیح کہا ہے ۔۔وگرنہ البانی کے نزدیک بھی یہ ضعیف ہی تھا
امام ذھبی نے خود لیث کا ضعف بیان کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی تھی کہ *وبعضھم احتج به* (الکاشف 151/2)
بعض نے لیث سے حجت لی ہے
یعنی محقیقین نے نہیں بلکہ عثمانی جیسے لوگوں نے حجت لی ہے جنہیں لیث کا ضعف معلوم نہیں تھا
ان سے سوال کریں کہ کیا یہ لوگ تنظیم عثمانی سے تعلق رکھتے ہیں
تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.
وَقَالَ عَبْدُ الْوَارِثِ: كَانَ لَيْثٌ مِنْ أوعية العلم.
———-
مزید ملا
قال العِجليُّ: جائزُ الحديثِ.
ابن شاھین نے ذکر کیا
قَالَ عُثْمَان لَيْث بن أبي سليم ثِقَة صَدُوق
===================================
دوم جو جرح پیش کی جا رہی ہے وہ علم میں ہے تو البانی نے اس کی روایت کو صحیح کیوں قرار دیا ہے
یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ البانی نے شواہد کی بنا پر ایسا کیا ہے
پہلے پہل تو ان کا دعوی تھا کہ ایک روایت ہی دکھا دو جو صحیح ہو
اب البانی کی ابن ماجہ سے ہی چار پانچ نکال کر دکھا دی ہیں تو کہہ رہے ہیں یہ متابعت ہے
ایسا البانی نے کہا لکھا ہے کہ یہ متابعت کی وجہ سے صحیح کہہ رہا ہوں
؟
===========
لیث بن ابی سلیم – یہ راوی احناف میں ثقہ ہے اس کی بنیاد پر وہ اپنی نماز کے بہت سے مسائل ثابت کرتے ہیں
اہل حدیث اس پر جرح کرتے ہیں
لہذا یہ خام مال جو اہل حدیثوں کی طرف پیش کیا جا رہا ہے یہ سب ان نماز کی روایات کے تحت ہے
بہر حال مزید سوال و جواب اس بحث میں بے کار ہے کیونکہ یہ الٹے لٹک جائیں گے ہماری بات نہیں مانیں گے
————-
ان لوگوں کی ذہنی حالت کس قدر پیچیدہ ہے کہ لکھ رہے ہیں
////
امام ذھبی نے خود لیث کا ضعف بیان کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی تھی کہ *وبعضھم احتج به* (الکاشف 151/2)
بعض نے لیث سے حجت لی ہے
یعنی محقیقین نے نہیں بلکہ عثمانی جیسے لوگوں نے حجت لی ہے جنہیں لیث کا ضعف معلوم نہیں تھا
///
گویا محدثین میں جس جس لیث کو ثقہ سمجھا ہے وہ ڈاکٹر عثمانی کی تنظیم کا ہے
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔۔۔بالکل آپ نے ٹھیک کہا جس روایت سے ان کے عقائد کی تائید ہوتی ہے تو ان روایات کے راویوں کو بچانے کی خاطر تمام جروح کو نظرانداز کر دیتے ہیں جس طرح زازان راوی کا دفاع ان کی مجبوری ہے ۔۔اللہ تعالیٰ ان کو حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
بھائی البانی کی جانب سے لیث کی روایات کو متابعات و شواہد کی بنا پر صحیح کہنے پر اہل حدیث حضرات کی جانب سے یہ حوالہ پیش کیا جاتا ہے
اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح بلکہ متواتر ہے،
ملاحظہ ہو
سلسلة الاحاديث الصحيحة للألباني 403دوراسته حديث
ًًًً،،،نضر. الله امرا،،،
روايته دورايته للشيخ عبدالمحسن العباد
میرا سوال یہ ہے کہ ابن ماجہ کی روایات میں
البانی نے کہاں لکھا ہے کہ ابن ماجہ کی روایات کو متابعت کی وجہ سے صحیح کہہ رہا ہوں
ابو شہریار بھائی اک صاحب کا دعویٰ ہے کہ میرے نزدیک کتاب الروح ایک منسوب کتاب ہے اور وہ باسند صحیح یا حسن کے ابن قیم سے ثابت نہیں ۔۔کیا یہ درست ہے؟؟
اس کا رد بھی انہی حلقوں کی جانب سے اتا ہے جہاں پر یہ منسوب ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=AIgwm3H6jUU