کتاب جنات 

[wpdm_package id=’8964′]

[wpdm_package id=’8852′]

اس کتاب  میں جنات  و شیاطین  سے متعلق  روایات  کو یکجا  کیا گیا ہے – عوام  الناس    میں  جنات ، قرین ، ہمزاد    وغیرہ   کے نام سے ان کو    جانا جاتا ہے –   جنات کو قبضہ  میں کرنے  کا پیر   و فقیر    دعوی  بھی  کرتے ہیں –

جن    ایک  وقت   تھا   ،    جب  زمین سے جنت         تک  چلے جاتے تھے   جیسا  قرآن میں ہے   کہ سرکشی  پر ابلیس  کو  حکم  دیا گیا     اخرج  منها    یعنی   نکل   یہاں سے –   مہلت  ملنے   کے بعد   بھی     ابلیس   کو      واپس جنت  میں داخل   ہونے دیا گیا  تاکہ آدم و حوا علیھما السلام  کو بہکا سکے   کیونکہ یہ وعدہ الہی کی عملی شکل تھا –   اس کے بعد  جب آدم ، حوا  اور ابلیس   کو زمین پر بھیج دیا گیا   تو   اب  شیاطین   پر پابندی  ہے کہ وہ آسمان  اول  تک  بھی جا سکیں –  اب یہ  شیاطین  ،       کاہنوں کی مدد کرنے   آسمان پر جاتے   ضرور   ہیں  تاکہ  کچھ سن لیں   لیکن  یہ   رسائی    آسمان  اول  نہیں ہوتی     بلکہ اس سے بہت نیچے کا کوئی مقام ہوتا ہے   –  سورہ الرحمن  آیت  ٣٣ میں ذکر ہے کہ  زمین کے گرد  ا قطار  الارض  ہے  جس کو پار کرنا  جنات  کے بس و قوت میں نہیں     –    لہذا  جب  جنات   ان   ا قطار  الارض   کے پاس پھٹکتے   ہیں تو     فرشتے  ان کو     دیکھ  کر  ان  پر     شہاب  ثاقب       پھینکتے   ہیں –   دور نبوی  میں   اس  پہرہ  کو   شدید  سخت کر دیا گیا   تاکہ  جنات،   فرشتوں کی  کوئی سن گن نہ  لے سکیں – کاہنوں   کا دھندہ  ٹھپ  ہو گیا  اور   جنات  میں سراسیمگی  پھیل  گئی کہ زمین  پر  شاید   کوئی   بڑا عذاب  آنے  والا ہے   یہاں تک کہ سورہ الجن میں خبر ہے کہ جنوں نے قرآن سنا تو ان کو معاملہ سمجھ آیا –

اس کتاب  میں آپ کو   جنات  پر      بعض     عجیب و غریب روایات  پڑھنے کو ملیں گی  جن کو علماء  کتب میں لکھ  کر سند جواز  دے دیتے ہیں  یا تصحیح  کر بیٹھے  ہیں  –قرآن و  حدیث سے سحر  اور کہانت  کا وجود  ثابت  ہے   ، جس میں شیاطین  کے ذریعہ   اس  ممنوعہ  عمل کو کیا جاتا ہے –     لیکن  جہاں تک ان  باتوں   کا تعلق  ہے کہ جنات   انسان کو اغوا  کرتے ہیں ، قتل  کرتے ہیں ، شکل و ہیت بدلتے   ہیں    ،  انسان پر بیماری  نازل    کرتے ہیں، چوریاں  کرتے ہیں ، انسان سے زنا کرتے ہیں ،    تو    ان   کے دلائل   بہت بودے   ہیں-

   یہودی و نصرانی       ادیان  میں ابلیس کو سانپ     بھی  کہا   گیا ہے-  یہود   کا قول ہے کہ   شیطان   ایک فرشتہ  ہے –  نصرانییوں    کا قول  ہے کہ  شیطان  انسانی و حیوانی جسم میں چلا جاتا ہے   –  البتہ   اسلام   میں ان مفروضات کی کوئی گنجائش  نہیں ہے  –  راقم  کی ایک تصنیف     بعنوان   آسیب   چڑھنا    اس  ویب  پر موجود ہے – ڈریگن    (یعنی    اڑتے  سانپ )  کو دنیا  میں بہت سے مقام پر پوجا جاتا تھا   اور اس کو   مثبت    انداز  میں    فلموں میں  دکھایا   جاتا ہے – آج   بھی     مشرک  قوموں میں سانپوں  کی پوجا   ہوتی   ہے   – یہاں تک کہ ازمنہ  قدیم   میں      فراعنہ  مصر   کے سر   پر تاج  میں بھی سانپ   کی شکل موجود  تھی -قابل  غور ہے کہ موسی  علیہ  السلام   کا عصا    بھی  ایک سانپ   کی صورت لیتا تھا    اور   اللہ   کی نشانی  تھا   -یعنی   اللہ تعالی   نے ظاہر   کیا کہ  اس کی   مخلوقات    ،    اس کی ہی  مطیع   ہیں – تفسیری  کتب  میں اسرائیلات   کی وجہ سے  یہ بات مشہور ہو  گئی   ہے کہ   آدم علیہ  السلام کو  ایک سانپ  نے  بہکایا  اور ابلیس   ، سانپ کی شکل میں ان کے پاس  آیا – یہ  خبر  منکر ہے   –

بہت سے علماء  بد روحوں کے قائل  ہیں  مثلا سلفی  عالم   عبد الرحمان  کیلانی-  اسی طرح ایک کثیر   تعداد  آسیب چڑھنے اور جنات  سوار  ہو جانے کا عقیدہ رکھتی ہے – یہ سب  منکرات   عقائد  ہیں  – راقم کی ایک مکمل  تصنیف   اس عقیدہ کے رد  میں پہلے سے موجود ہے

اللہ  ہم سب کو ہدایت دے امین

ابو   شہر یار

٢٠١٩

4 thoughts on “کتاب جنات 

  1. Chaudhry Naiem

    السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    مجھے یہ کتاب چاہئے
    جزاک اللہ خیرا

    Reply
  2. چوہدری محمد نعیم ابو مسلم

    السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ شیخ صاحب یہ ایک قصہ ہے سکی سند کیسی ہے؟
    انصار میں سے ایک شخص اپنی قوم کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کے لیے نکلا تو جنات نے اس پر لعنت بھیجی تو وہ لاپتہ ہوگیا، اس کی بیوی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گئی اور اسے بتایا۔ ہاں، چنانچہ اس نے اسے نکاح کا حکم دیا، اور اس نے شادی کر لی، تو اس کا شوہر اس بات کو لے کر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، اللہ ان سے راضی ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے ایک طویل عرصے تک غائب رہے گا، اور اس کے گھر والوں کو اس کی زندگی کا علم نہیں ہے، وہ بہت دیر تک ان کے درمیان رہے، پھر کسی مومن جن نے ان پر حملہ کیا، یا مسلمانوں نے کہا، “مبارک شک”۔ چنانچہ وہ ان سے لڑے اور وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس سے اسیر ہو گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ان کے ساتھ تمہارا کھانا کیا تھا؟ اس پر خدا کا نام نہیں تھا، فرمایا تو کیا؟ آپ کا مشروب ان میں شامل تھا، الجدف نے کہا، قتادہ نے کہا، “جدف وہ ہے جسے مشروب سے خمیر نہیں کیا جاتا، انہوں نے کہا، عمر نے اسے مہر اور اس کی بیوی میں سے انتخاب کیا ہے۔”

    لنک
    https://dorar.net/hadith/sharh/150035

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      سنن الکبری البیہقی میں اس روایت کی سند ہے
      أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو مُحَمَّدٍ عُبَيْدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مَهْدِيٍّ لَفْظًا قَالَا: نا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، نا يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ، أنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، نا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى

      —-
      عبد الرحمن بن أبي ليلى أحد كبار التابعين قال بن المديني لم يثبت عندنا من جهة صحيحة أن بن أبي ليلى سمع من عمر وكان شعبة ينكر أنه سمع من عمر رضي الله عنه وقال بن معين لم ير عمر رضي الله عنه وروى شعبة عن الحكم عن أبي ليلى قال ولدت لست بقين من خلافة عمر
      عبد الرحمان بن ابی لیلی اس میں دور عمر کا ایک قصہ سنا رہا ہے کہ ایسا ایسا جنوں نے کیا
      یہ مدلس ہے اور یقینا اس نے دور عمر نہیں پایا
      محدثین کا کہنا ہے کہ دور عمر کے آخری ایام میں یہ پیدا ہوا ہے

      لہذا سند منقطع ہے
      قابل رد ہے

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *