مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
نماز کے حوالے سے اس ویب سائٹ پر موجود اجزاء کو جمع کر کے اس کتاب کو مرتب کیا گیا ہے
مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
نماز کے حوالے سے اس ویب سائٹ پر موجود اجزاء کو جمع کر کے اس کتاب کو مرتب کیا گیا ہے
نماز میں تکبیر کے وقت رفع الیدین لازم ہے
ایسا کرنا سنت ہے
نہ کرنے پر بھی نماز ہو جائے گی
یہ فرض قرار نہیں دیا گیا
صلوٰۃ کی کیا معنی ھے ؟
مکمل وضاحت فرما کر ہماری پریشانی دور
کریں؟
جو آج ھم مسجد میں صلوٰٰۃ قائم کرتے
کیا یہ صلوٰۃ نبی صہ نے ادا نہیں کی یہ مولویوں نے ایجاد کی ھے؟
نوٹ جواب صرف قرآن سے دیں
صلوٰۃ کی یہ وضاحت کیا درست ھے؟
ملاحظہ فرمائے
اقیمو صلات کا مطلب ہے دین قائم کرنا . لفظ صل وتولا کی ضد ہے وتولی کے معنی ہوتے ہیں مونہ پھیرنا تو صل کے معبی ہوئی ساتھ چلنا. اب الصلواة معرفہ ہے یعنی وحی الہی کو فالو کرنا. . . قرآن میں حکم ہے اقیمو الدین کا اور دین کی بنیاد وحی الہی ہے
صلوٰۃ سے مراد دعا ہے
قریش عرب بھی اس کو اسی مطلب میں بولتے تھے
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ (35)
http://quran.ksu.edu.sa/tafseer/tabary/sura8-aya35.html
بيت الله کے پاس ان کی صلوٰۃ صرف سیٹی اور تالیاں ہیں
———
آج جو نماز پڑھی جاتی ہے یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی پڑھی ہے
اس کا ذکر قرآن میں احکام میں سب سے زیادہ ہے
اور متواتر احادیث سے معلوم ہے
اور یہ اہل کتاب یہود میں بھی مروج تھی
قرآن میں ہے مریم کو حکم دیا گیا
يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ (43)
اپنے رب کو سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو
اس ترکیب کو ہی نماز کہا جاتا ہے
———-
اقیمو صلات کا مطلب نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے
تولی کا مطلب منہ پلٹنا ہے لیکن یہ صل سے کس طرح منسلک ہے میں سمجھ نہیں سکا
معرفہ تو لا تعداد اشیاء ہیں صرف صلوٰۃ کو الوحی سے کس طرح ملا سکتے ہیں میری سمجھ نہیں آیا جو آپ نے کہا اب الصلواة معرفہ ہے یعنی وحی الہی کو فالو کرنا.
صلاۃ کی مکمل وضاحت پیش خدمت ھے
اقامواالصلوٰۃ واتوااکوۃ
کی معنی ہوں گی سنطلت کلیئے دیئے ہوئے قرآنی نظام کی ڈیوٹی اس طرح سے سرانجام دو اور اس نظام کے اتباع کو اس طرح قائم کرو (جن کا امتحان ھم) آپ کے سامان رزق کو حقداروں تک پہچانے اور دینے سے کریں گے_یعنی آپ کی “اقامواالصلوٰۃ کو اس وقت درست تسلیم کیا جائے گا جب ملک کے ہر شہری کو سامان رزق میسر و اصول ہوگا اور پہنچ پائے گا بھرحال زکوٰۃ کی معنیٰ بھتر سامان رزق ھوئے_صلوۃ اور زکوۃ کے ان قرآن کے بتائے ھوئے معنوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب سوره حج کی آیت نمبر:41کی طرف آئیں_جس میں فرمان ھے
ترجمہ:22.41 یعنی وہ لوگ جنہیں ھم اقدار دلائیں زمین پر وہ لوگ قائم کریں گے نظام صلوۃ کو اور دیں گے وہ (ملکی رمایا کو)سامان پرورش اور یہ صاحب اقتدار لوگ نیکیوں کو نافذ کریں گے اور برائیوں سے منع کریں گے جن کا علم قرآن حکیم نے دیا_پہر نتائج اور انجام کا اللہ کی مخلوق کیلئے ہوگے_یہ سب کچھ انہی کے اجتماعی اصلاح اور مفاد میں ھونگے_اس آیت نے نہایت واضح طور پر سمجھایا کہ صلوۃ اور زکوۃ یہ صاحب اقتدار لوگوں کے علیٰ عہد اداروں کا کام ھے یہ ان کی ذمہ داری ھے یہ ان کی ڈیوٹی ھے صلوۃ اور زکوۃ ھر ایرے گیرے غیرے نتھو خیرے کے بس کی بات نہیں ھے قرآن نے فرمایا ھے کہ
ترجمہ:9.18یعنی حقیقت یہ ہی ھے کہ مسجدوں کی تعمیر وہ لوگ کر سکتے ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور یوم آخرت پر اور قائم کریں صلوٰۃ کو اور زکوۃ (اس اقامہ صلوۃ اور زکوۃ دینے اور مساجد کی تعمیر میں) نہ ڈرے کسی سے سواء اللہ کہ (جب کوئی لوگ تینوں کام سر انجام دینے کا بیڑا سر اٹھائے گے تو)اس کے بعد قریب ھے کہ اس طرح کے نہ ڈرنے والے لوگ ھدایت پانے والے لوگوں میں سے ھوسکیں گے_
کیا آپ نے غور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تعمیر مساجد اقامہ صلوۃ اور ایتائے زکوۃ کیلئے شرط لگا رھا ھےکہ یہ کام کرنے والے بے خوف نڈر لوگ ھونے چاھیئے!!!لیکن آج پوری امت مسلمہ میں مسجد صلوۃ و زکوۃ کی ڈیوٹی دینے کیلئے ڈیوٹی دینے والے کو کوئی خوف و خطرہ نہیں ھوتا بلکہ یہ سر انجام دینے والے یہاں ڈرپوک لوگ بے سہارا پرائے گھروں سے بھیک مانگ کر مسجدوں میں نمازیں پڑھا کر (تنخواہ دار مولوی)اپنے زعم (خیالی) میں صلوۃ قائم کر رھے ہیں_
اب غور فرمائے کہ مسجد کے معنی کیا ھے صلوۃ اور زکوۃ کی معنی کیا ھے جس کے لیئے اللہ کو بے خوف اور نڈر لوگ مطلوب ہیں مسجد کی معنی اللہ کے قانون کے تحت فیصلے جاری کرنے والی عدالت اور کورٹ ہیں_صلوٰۃ کی معنی قرآن کے دیئے ہوئے نظام کو قائم اور اس کی تابعداری کرنے والی ڈیوٹی کا نام صلوۃ ھے_زکوۃ کے معنی پرورش کیلئے دیا جانے والا علیٰ کوالٹی کا سامان رزق ھے_یہ تینوں چیزیں اصل میں کسی بھی ریاست کے اتحکام کیلئے ریڑہ کی ھڈی مشیت رکھتی ہیں کوئی بھی دشمن قوم اور ملک نہیں پسند کرے گا کہ آپ کی ریاست کیلئے اپ کی رعایا کے لیئے نظام عدل اعلیٰ اور اتم درجہ کا ہو کو بھی دشمن ملک آپ کی ریاست کے لیئے پسند نہیں کرے گا کہ آپ کی ملکی بیورو کرسی اور انقلابی نظریاتی سیاسی اور کرانپی رعیت اور ملکی فلاح کیلئے فلاحی نظام کو مضبوط بنانے والی ڈیوٹی صلوۃ کو صحیح نمونہ سے سرانجام دیں لیکن دشمن ملک نماز کو ہاتھ ہی نہیں لگاتا بلکہ خوش ھوتا ھے کہ یہ لوگ پجاری بنے رہیں کیوکہ نماز وہ قرآنی صلاۃ نہیں جب کوئی دشمن ملک حملہ کرتا ھے تو مفتوح ریاست کے فکری مراکز اس کی عدالتوں اور اس کی صلوتوں کو تہس نہس کرنے کے لیئے ٹارگیٹ بناتا ھے.
جب کہ آذان اور نماز کی ابتدا بھی شرکیہ جملا “اللہ اکبر سے کی جاتی ھے.وہ اس طرح کہ اللہ کے ساتھ لفظ اکبر کی صفت علم الصرف کے لحاظ سے بروزن اسم تفضیل کے ھے اسم تفضیل ھم جنس چیزوں کے بیچ تقابلی موازنہ کے لیئے آتا ھے_اس کی معنیٰ ھوتی ھے زیادہ بڑا،یا سب سے بڑا اللہ،تو پہر لازمی طور پر کم سے کم ایک چہوٹا اللہ بھی ماننا پڑیگا.
اس اقتباس کی ایک بات صحیح ہے کہ اسلام کا ایک نظام ہے جس میں نماز بھی ہے اور نماز پڑھانا گورنر یا حاکم کا کام ہے کسی عام شخص کا کام نہیں ہے
البتہ اس اقتباس میں کہا گیا ہے
—
_صلوٰۃ کی معنی قرآن کے دیئے ہوئے نظام کو قائم اور اس کی تابعداری کرنے والی ڈیوٹی کا نام صلوۃ ھے
—–
یہ مفروضہ ہے
نماز اسلام کے پانچ ارکان میں سے ہے ان تمام کو قائم کرنا اسلام ہے صرف نماز کا ذکر نہیں ہے
بھائی آپ اگر مجھے منکرین حدیث سمجھ کر
جواب نہیں دے رھے تو آپ میرا پہلا کمنٹ
چیک کر سکتے ہیں ھم بھت پریشان ہیں
آپ اپنی تحقیق کے دلیل سے ہمیں آگاہ کریں
(مجھے ایک کتاب ملی ھے (عزیز اللہ بوھیوں
(کی جس کا نام ھے (صلوٰٰۃ اور نماز میں فرق
از قلم عزیزاللہ بوھیو
سندہ ساگر اکیڈمی
پوسٹ آفیس خیر محمد بوھیو،براستہ
نوشہرو فیروز سندہ
اس کتاب کے تحت نماز کا مکمل رد کردیا ھے
حجت صرف قرآن کو قرار دیا ھے صوم اور حج کا بھی رد کیا ھے
کعبۃ اللہ کے بارے لکھا کہ یہ سعودی والوں کا کوٹھا ھے
جب میں نے فیس بک پر عزیز اللہ بوھیو لکھ سرچ کیا تو مجھے ایک آئی ڈی ملی اس میں اور بھی بھت کتاب موجود ہیں جن کے لنک اگر آپ اعجازت دیں تو میں کمنٹ کردوں
قرآن حکیم کی خوب تحریف کر ڈالی ھے
بوھیو نے اور جو قرآن میں اللہ تعالی فرماتا کہ یہ ذکر ھم نے اتارا ھے اور ھم ہی اس ی
زمہ دار ہیں تو اس کیا معنیٰ ھے جب کہ بوھیو نے تو خوب تحریف ڈالی برائے مھربانی آپ اس بارے مکمل وضاحت پیش کر کے ہماری پریشانی دور فرمائے
اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین
سلام میں مصروف تھا اس لئے اپ کو جواب نہیں دے سکا
اس کتاب کا لنک بھیج دیں
الله آپ کو جزایۓ خیر دے – امین
Download this book hereby give google drive link
https://drive.google.com/open?id=0B51IKt5WY1BnVmFoazEtN0RXaUU
سلام
اس کتاب کو دیکھا اور افسوس ہوا
یہ پریشان خیالی سے کم معلوم نہیں ہوئی
نماز کا تعلق عبادت سے ہے اور مکی دور میں یہ چھپ کر کی گئی اور مدینہ میں علانیہ کی گئی
اقام نماز سے مراد نماز کا نظام ہے جس میں پانچ وقت حاکم یا گورنر کو نماز جماعت سے ادا کرنی ہو گی
اس کا ذکر قرآن میں ہے اور ظاہر ہے مسکین بھی مسجد میں آئیں گے لہذا اس کو مدد کرنا بھی حاکم کا کام ہے اس لئے نماز اور زکواه کا ذکر ساتھ ساتھ اتا ہے
——-
اس کتاب میں واضح نہیں کیا گیا کہ قرآن میں جب مسجد کا ذکر اتا ہے تو مسجد کا مقصد کیا ہے کیونکہ مصنف کے بقول نماز کا مسجد سے تعلق نہیں ہے
اگر مسجد سے تعلق نہیں ہے تو مسجد اقصی و حرام و النبوی کا کیا مقصد تھا؟ کیا صرف وہاں گورنمیٹ کی وجہ سے لوگ جمع ہوتے تھے ؟ عبادت کا کوئی اجتماع نہیں ہوتا تھا ؟
پھر متواتر روایات اور تعامل امت سے مساجد کا مقصد معلوم ہے
کس نے مسجد کو صرف نماز پڑھنے کی جگہ بنا دیا ؟ کس خلیفہ کا یہ کمال ہے ؟
ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا بلکہ مدعا ثابت کرنے ترجمہ بدلا گیا ہے مثلا
پہلے ہی صفحہ پر جو آیات ہیں ان میں پیوند لگا کر مفہوم بدلا گیا ہے
—-
قرآن میں نماز کی ترکیب نہیں – یہ سب کو معلوم ہے کیونکہ یہ سمجھانا رسول الله کا کام تھا کہ عبادت کس طرح ہو گی
اصول تو الله کے مقرر کردہ ہیں
عبادت صرف الله کی ہو گی
لیکن ان موصوف کا کہنا ہے کہ کیسے یہ معلوم ہی نہیں
اس قسم کی تحریر پر مزید وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا
بہتر ہو گا کہ آپ قرآن کو خود پڑھیں نہ کہ اس قسم کی کتب کو
———–
اس جاہل شخص کا کہنا ہے کہ حج کا مطلب جھگڑوں کو نپٹانا ہے تو پہلے بتایا جائے کہ ابراہیم و اسمعیل کے اپس کے کیا جھگڑے تھے
جنہوں نے حج کا علان کیا تھا ؟
اصحاب رسول کے حیات النبی میں کیا جھگڑے تھے ؟ رسول الله نے ایک حج کیا اس میں کون کون سا جھگڑا ختم کیا ؟
———
طواف کا مطلب کمشنر کا دورہ کرنا کہا ہے
اس شخص کو اگ کا عذاب ہو گا کیونکہ اس نے دین کو بدلا ہے
جزاک اللہ
شکریہ ــ آپ کی بات سے متفق ہوں آپ نے بھت ہی خوب وضاحت سے جواب دیا_آپ نے لکھا کہ(ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا بلکہ مدعا ثابت کرنے ترجمہ بدلا گیا ہے مثلا
پہلے ہی صفحہ پر جو آیات ہیں ان میں پیوند لگا کر مفہوم بدلا گیا ہے)
آپ کی بات بلکل درست ھے_(عزیز اللہ بوھیو)نے احادیثوں کا تو انکار کیا منکر بنے لیکن موصوف کو اللہ کی کتاب کا ترجمہ بدلنے کی مجبوری بھی پیش آئی، اور ترجمہ بدلا_
اللہ تعالیٰ اس ظالم شخص کے ظلم سے عوام الناس کو بچائے آمین.
اللہ تعالیٰ اس ملحد اور قرآن پاک کی معنوی تحریف کرنے والے کی شر سے حفاظت فرمائے آمین یہ تو اپنے امام غلام پرویز سے چار قدم آگے نککا
Asslamualikum
Aik tola gold pr kitni zakat ho gi?
one tolla = 11.664 gram
اس کی قیمت معلوم کر کے اس کے چالیسواں حصہ کو زکوات میں دیا جائے گا
و اللہ اعلم
——–
کسی عالم سے معلوم کریں
السلام عليكم
کیا شیطان حقیقت میں انسان کے کان میں پیشاب کرتا ہے فجر چھوڑنے پر؟
و علیکم السلام
روایت سند سے صحیح ہیں
حقیقت اللہ کو معلوم ہے
موطآ میں یہ بھی ہے
مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ؛ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فِي رَمَضَانَ، بِثَلاَثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً
امام مالک کہتے ہیں کہ یزید بن رومان نے کہا کہ لوگ عمر کے دور میں رمضان میں ٢٣ رکعت کا قیام کرتےکرتے۔
مندرجہ بالا موطا امام مالک کی روایت میں راوی یزید بن رومان منقطع راوی ہے عمر کا دور یزید بن رومان نے نہیں پایا؟؟
پھر بیس رکعت کیلئے دلیل نہ رہی؟
بعض کے نزدیک آٹھ رکعت تراویح بدعت ہے ۔
اس پر اہل مدینہ کا تعامل چلا آ رہا تھا – سنن ترمذی میں امام ترمذی کہتے ہیں
وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالمَدِينَةِ،
اکتالیس رکعت تراویح وتر کے ساتھ اہل مدینہ کا عمل ہے
یعنی ٢١ یا ٢٣ پر تواتر عملی ہے اور اہل مدینہ کا عمل ہے
دور عمر سے امام بخاری و ترمذی کے دور تک اسی طرح ہوتا تھا
تعامل امت امت کو دیکھ کر بھی کام لیا جاتا ہے مثلا نماز میں ہاتھ باندھنے پر کوئی صحیح السند روایت نہیں
محض تعامل امت کی بنا پر اس کو کیا جا رہا ہے
تراویح پر مزید بحث کتاب الصوم میں ہے
———
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تراویح پڑھائی تو وہ بہت طویل تھی یہاں تک کہ سحری کے قریب کا وقت ہوا
ان کا جیسا قیام اللیل کوئی اور نہیں کر سکتا
اصل مقصد تعداد رکعت نہیں ہے
سہولت مسلمین کو دیکھ کر اصحاب رسول نے ١١ کو ٢١ یا ٢٣ کیا
گیارہ رکعت جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے تو اس میں وتر تین اور پانچ رکعت کا بھی تھا
اس طرح مطلق نہیں کہا جاتا کہ آٹھ نفل اور تین رکعت
آٹھ جمع تین اس پر کوئی حدیث نہیں ہے
كَانَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ، أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً،
عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ جب کبھی غلبۂ نیند یا کسی تکلیف کی بنا پر قیام اللیل نہ کر پاتے تو دن میں 12 رکعتیں ادا فرماتے
رسول الله کا معمول ١١ رکعات تھا جس میں وتر طاق ہوتے یا تو ایک رکعت یا تین یا پانچ
لیکن وتر نوافل ملا کر ١١ رکعتین تھیں بھول جانے پر اپ صلی الله علیہ وسلم دوسرے دن ١٢ رکعتین پڑھتے
بھائ قضاء نماز کے بارے میں احادیث میں کیا احکامات ہیں؟ کیا زندگی میں رہ جانے والی نمازوں کو شمار کر کے پھر انہیں ادا کرنے کی کوئی صحیح حدیث ہے؟؟
نیز آج کی نماز قضا ہو جانے میں آج ہی کے دن کے اندر ادا کی جا سکتی ہے؟
قضا نماز ایک ہی دن میں ہو گی یعنی وہ نماز پہلے پڑھی جائے گی جو رہ گئی مثلا فجر کی نماز رہ گئی یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوا تو پہلے اقامت کہہ کر نماز فجر ہو گی پھر اقامت کہہ کر نماز ظہر ہو گی
اسی طرح اگر دو نمازیں فجر و ظہر رہ گئیں تو پہلے فجر پھر ظہر پر عصر ہو گی
دن بدلنے کی صورت میں یہ تمام نمازیں اب نہیں پڑھی جا سکتیں لہذا ان پر توبہ کرنی ہو گی
—
قضائے عمری کا کوئی تصور احادیث میں نہیں ہے