مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں
فہرست
عقیدہ عرض اعمال قرآن میں
عقیدہ عرض اعمال اہل تشیع کے مطابق
عقیدہ عرض اعمال اہل سنت کے مطابق
حرف آخر
سلام اسلامی معاشرت کا شعار ہے. مسلم کی حدیث ہے کہ
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرةَ رَضِی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حتّٰی تُوٴْمِنُوْا وَلَا تُوٴْمِنُوْا حتّٰی تَحَابُّوا، اَولَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شيءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ․ (روا ہ مسلم
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ جب تک تم ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو‘کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ
معلوم ہوا کہ سلام کا تعلق ادب سے ہے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیہ کلمات ہیں. ہم براہ راست الله سے دوسرے شخص کے لئے دعا کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں دوسرے شخص کو ہمارے خلوص کا پتا نہیں چلے گا لہذا معاشرت میں خلوص کی وجہ سے اس کی تلقین کی گئی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں . ہم خط لکھ کر دوسرے شخص کو بھیجتے ہیں اس میں بھی یہی خلوص مقصد ہوتا ہے . لیکن جب کوئی شخص انتقال کر جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور دعائیہ کلمات میت کو سنانا مقصد نہیں ہوتا، نہ ہی اس میت سے واپس جواب کی امید کی جاتی ہے. میت کو تو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کس نے اس کی تعریف کی اور کس نے برائی ، کس نے نماز جنازہ پڑھی اور کس نے نہیں، کس نے غسل دیا اور کس نے کفن دیا- اسلامی معاشرت کے تحت نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو سلام کیا اور صحابہ نے آپ کو. پھر نبی کے لئے درود یعنی رحمت کی دعا کرنے کا الله نے حکم دیا
اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (56)
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اس پر رحمت اور سلام بھیجو۔
جب ہم الله کے نبی پر درود پڑھتے ہیں تو ہمارا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں ہوتا بلکہ الله کی بارگاہ میں نبی کے لئے دعائے رحمت مقصود ہوتی ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں درود جھر (بلند آواز) سے پڑھنے کا حکم نہیں دیا ورنہ کسی کا خیال ہو سکتا تھا کہ صحابہ ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو درود سناتے تھے- اگر درود پیش ہونا ہی حقیقت ہوتا تو نماز کا درود جھر سے پڑھا جاتا تاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم سن سکیں کہ کون امتی درود پڑھ رہا ہے اور کون منافق ہے- صحیح مسلم کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے کہ اس دن اعمال الله کے پاس پیش ہوتے ہیں
عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ
ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال میرے سامنے لائے گئے تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا میں نے اچھے اعمال میں پایا اور برے اعمال میں میں نے وہ تھوک اور بلغم دیکھا جو مسجد سے صاف نہ کیا گیا ہو
نبی صلی الله علیہ وسلم کو امت کے ان اعمال کی خبر زندگی میں ہی دی گئی تاکہ نیک اور برے اعمال سے امت کو باخبر کر سکیں لیکن وفات کے بعد اعمال پیش ہونے کا فائدہ کیا ہے کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوا- بئر معونہ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کفّار نے اصحاب رسول کو گھیر لیا اور قتل کرنا شروع کیا صحابہ نے اللہ سے دعا کی کہ ہمارے قتل کی خبر نبی کو دے دے اگر درود پیش ہونے کا عقیدہ ہوتا تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی. ایک ہی روز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو پتا چل جاتا کہ درود پیش نہیں ہو رہا. اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی -اب تو امت میں درود تاج، درود تنجینا جسے درود بھی ہیں یہ بھی نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوتے ہونگے تو پھرقیامت کے دن الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم سے ان کی امت کے گمراہ لوگوں کے لئے کیسے کہا جائے گا
مَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَتْ بَعْدَكَ
آپ کونہیں پتا کہ انہوں نے آپ کےبعد کیا باتیں نکالیں
درود سلام الله تک جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم تک اس کو پہنچانا اصل میں علم غیب کا دعوی کرنا ہے اپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کی زندگی ہی میں معلوم تھا کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے جبکہ قرآن میں ہے تم ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں-
ایک اہل حدیث عالم اسی تفریق کو نہ سمجھتے ہوئے نبی صلی الله علیہ وسلم پر امت کے درود و سلام کا عقیدہ اختیار کئی ہوئے ہیں اور اس کا دفاع اس انداز میں کرتے ہیں
میت کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں نمازِ جنازہ میں بھی اور نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی وقتا فوقتا فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ دعائیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کو پہنچتی ہیں۔ پھر ہم بذریعہ خط و کتابت یا بذریعہ دوست و احباب دوسروں کو سلام دعاء پہنچاتے رہتے ہیں تو یہ سلام دعاء بھی ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھئے آپ اپنا یہ مکتوب جس میں آپ کا میری طرف سلام بھی درج ہے، مجھ پر پیش کیا تو وہ مجھ پر پیش ہوگیا ہے تو آپ غور فرمائیں اگر کوئی فرمائے: ’’ بقول آپ کے کسی بھائی یا دوست کو بھیجے ہوئے سلام دعاء اس پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کو پہنچ جاتے ہیں۔ دعاء و سلام ایک عبادت ، دعائیہ عمل ہے سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ دعاو سلام کسی کو بھیجتے وقت بھی ہم دعاء اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے فلاں بھائی یا دوست پر سلامتی نازل فرما تو سننے والے اس دعاء کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے ہمارے فلاں دوست یا بھائی کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے دعائیہ کلمات سلام ودعاء سننے والے ہمارے بھائی دعاء سلام دوسروں تک پہنچانے والے عربی، اُردو، انگریزی وغیرہ سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال ہمارے دوستوں اور بھائیوں کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
ان عالم کا قول سراسر غلط ہے – میت کے لئے ہم دعا کرتے ہیں تو اگر دعا قبول ہوئی تو ان کے نتیجے میں الله تعالی میت پر رحمت کرتے ہیں – یہ عقیدہ کہ میت کو خبر دی جاتی ہے کہ کس رشتہ دار نے اس کے لئے دعا کی گمراہی ہے- سلام کا مقصد سنانا نہیں ایک دوسرے کے حق میں الله سے رحمت طلب کرنا ہے اب چاہے یہ خط میں لکھا جائے یا نہ لکھا جائے – دنیا میں ایک دوسرے کو خط و کتابت سے یا پھر ای میل سے جو دعا بھیجی جائے ان سب کا مقصد الله سے دعا کرنا ہے
ہمارے تمام اعمال کی تفصیل فرشتے لکھتے ہیں اور الله تک پہنچاتے ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن دنیا میں جو بھی کام ہوتے ہیں کیا وہ الله تک نہیں جاتے اس میں تعمق فرماتے ہوئے عالم لکھتے ہیں
پھر سورۂ الشوریٰ کی محولہ بالا آیت کریمہ کے الفاظ: ﴿أَلَا إِلَى اللَّـهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ (٥٣)﴾اس کا ترجمہ و مطلب آپ نے لکھا ہے: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ جبکہ قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ کی ہم معنی و مطلب دیگر آیات کے الفاظ ہیں: ﴿وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (١٠٩)﴾’’ اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ ﴿ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ﴾آپ ذرا مزید غور فرمالیں- پھر ان آیات کریمہ میں اعمال کی کوئی تخصیص نہیں۔ آخرت کی بھی کوئی تخصیص نہیں تو اگر کوئی صاحب ان آیات کریمہ کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے فرمادیں کہ جج صاحبان کے ہاں جو کاغذات پیش کیے جاتے ہیں یا دوسرے محکموں میں کاغذات وغیرہ کی جو پیشیاں ہوتی ہیں یہ سب سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر ۵۳ کہ: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ کے منافی و مخالف ہیں تو کیا خیال ہے آپ کی تحقیق کی رو سے ان کی یہ بات درست ہوگی؟
آیت اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے. دینا کیا چیز ہے، اس کے جج، حاکم، شہنشاہ سب کے اعمال الله کے حضور پیش ہو رہے ہیں- موصوف کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح جج و احکام کے سامنے کاغذات پیش ہو سکتے ہیں اسی طرح الله تعالی کے حضور بھی پیش ہوتے ہیں – دنیا میں جب دستاویزات پیش کی جاتی ہیں تو ان کا مقصد عرض اعمال نہیں بلکہ متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں- دستاویزات جعلی بھی ہوتے ہیں انسان ان کو بھی قبول کر لیتے ہیں لیکن مالک الملک کے سامنے جب عمل اتا ہے تو وہ اس کو جانتا ہے کہ کون خلوص سے کر رہا ہے اس بظاہر انسان کے عمل کے پیچھے کیا کارفرما ہے اس کو سب خبر ہے
اس کتاب میں اسی عرض اعمال کے گمراہ کن عقیدہ یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات اور رشتہ داروں پر عمل پیش ہونے والی روایات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے تاکہ اپ اس عقیدہ سے متعلق روایات میں ضعیف راویوں کی حثیت کو جان سکیں – یاد رہے کہ جو الله کا حق ہے وہ اسی کا ہے جو اس کو چھیننے کی کوشش کرے گا وہ جواب دہ ہو گا
ابو شہر یار
٢٠١٧
بہت اچھی کاوش ہے – الله آپ کو جزایۓ خیر دے – آمین.
ایک گزارش ہے کہ پی ڈی ایف تو آپ بنا رہے ہیں ساتھ ساتھ اس کو میکرو سوفٹ ورڈ کی فائل بھی بنا دیں تا کہ ٹیکسٹ کو ضرورت کے وقت دوسرے جگہ حوالے کے طور پر کت پیسٹ کیا جا سکے
میرا مطلب ہے کہ ایک ٹیکسٹ فائل میں بھی تا کہ کت پیسٹ کیا جا سکے – ساتھ ساتھ یہ کام آسان ہے بعد میں تھریڈ کی کثرت کی وجہ سے مشکل ہو گا
جزاکم الله خیرا
السلام علیکم ! کتاب ڈونلوڈ نہیں ہورہی ، آپ سے اس روایت کی صحت کے بارے میں جاننا تھا
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:
“ لاَ تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا وَلاَ تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا وَصَلُّوا عَلَىَّ فَإِنَّ صَلاَتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ ” .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ۱؎ اور میری قبر کو میلا نہ بناؤ ( کہ سب لوگ وہاں اکٹھا ہوں ) ، اور میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا ۔
Abu Dawood Sahih Hadith 2042
کیا یہ صحیح ہے ؟
و علیکم السلام
اس کا لنک اپ ڈیٹ نہیں ہوا تھا – اب صحیح کر دیا ہے
ڈونلوڈ کی کوشش کریں
———–
یہ حدیث بہت سے اصحاب رسول سے منسوب کی گئی ہے تمام طرق ضعیف ہیں
جو طرق آپ نے بھیجا ہے اس میں عبد اللہ بن نافع پر جرح ہے
لیکن اس پر جو جرح ہے ،مثلاً” ان الفاظ کے ساتھ ابوہریرہ سے روایت کرنے میں” ابن ابی ذئب” کا تفرد ہے (نیچے تخریج میں اس کی وضاحت ہو گی)۔ ان سے یہ روایت “عبد اللہ بن نافع” روایت کر رہا ہے اگرچہ اسے ثقہ بھی کہا گیا ہے لیکن حفظ کی خرابی ہے جس کے باعث معروف ومنکر روایات بیان کرتا ہے۔ اگر یہ حفظ سے روایت بیان کرے تو وہ منکر ہے اور کتاب کے معاملہ میں صحیح الحدیث ہے۔
عَبْدُ اللهِ بنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ :
وَقَالَ البُخَارِيُّ: تَعْرِفُ وَتُنْكِرُ. (سیر اعلام النبلاء 10/373)
يُعرَفُ حِفظُه ويُنكَرُ، وكتابه أصح. ( التاريخ الكبير ” 5 / 213 )
وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: هُوَ لَيِّنٌ فِي حِفْظِهِ، وَكِتَابُهُ أَصَحُّ (الجرح والتعديل ” 5 / 184)
اس کی سند میں الفاظ ” قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ ” نقل ہوئے ہیں جو اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ روایت اس نے لکھی ہوئی بیان کی ہے ۔ اس بارے میں کیا کہتے ہیں آپ ؟ مکمل سند یہ ہے ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،
بعض محدثین کا گمان ہے کہ یہ کتاب سے روایت کرے تو ٹھیک ہے لیکن اس کے باوجود ابن حجر کا قول ہے کہ فيه ضعف ، اس میں کمزوری ہے (التلخيص ) – امام احمد کے نزدیک اس کو محدث کہنا ہی غلط ہے لم يكن صاحب حديث ؛ كان ضيقا فيه. – یہ صاحب حدیث ہی نہیں ہے بلکہ حدیث سے اس کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے عبد اللہ بن نافع کا تفرد ہے
ہیثمی نے کہا ہے
رواه أبو يعلى وفيه عبد الله بن نافع وهو ضعيف
اس کو أبو يعلى نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں عبد الله بن نافع ہے جو ضعیف ہے
بعض راویوں پر اختلاف اتا ہے کہ ان کا حافظہ صحیح نہیں کتاب سے روایت درست ہے لیکن یہاں صرف یہی معاملہ نہیں ہے راوی کے سرے سے محدث ہونے کا ہی انکار بھی کیا گیا ہے
كتاب أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية کے مطابق جب ذکر ہوا کہ فلاں حدیث
عبد اللہ نے روایت کی ہے تو أبو زرعة الرازي کا چہرہ بگڑ گیا
فذكرت عبد الله بن نافع الصائغ فكلح وجهه.