* صحیح مسلم:
* ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ قرآن کے بغیر میرا کوئی اور قول قلمبند نہ کرو۔ اور اگر کوئی شخص ایسا قول لکھ چکا ہو تو اسے مٹا دے۔۔۔۔۔۔ابو شہریار بھائی ۔۔منکرین حدیث کی جانب سے یہ روایت بطور دلیل پیش کی جاتی ہے ۔۔کیا یہ روایت صحیح ہے؟ ۔۔اس کا مفہوم کیا ہے
ایک قول ہے کہ یہ منسوخ حکم ہے
اس کی دلیل ہے کہ حجه الوداع پر اپ نے ابو شاہ کے لئے لکھنے کا حکم دیا
وعن أبو هريرة قال: “لما فتحت مكة قام النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- فذكر الخطبة خطبة النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- قال: فقام رجل من أهل اليمن يقال له: أبو شاه، فقال: يا رسول اللَّه! اكْتبوا لي، فقال: اكتبوا لأبي شاه”
ابو شاہ کے لئے یہ خطبہ لکھا گیا
وعن الوليد قال: “قلت لأبي عمرو -يعني الأوزاعي- يحيى -ما يكتبوه؟ قال: الخطبة التي سمعها -يعني أبا شاة- يومئذ منه”
الأوزاعي کا قول ہے
——–
دوسرا قول ہے
النهي محمول على أن يكتب الحديث مع القرآن في صحيفة واحدة، لئلا يختلّط به، فيشتبه على القارئ
یہ قرآن کے ساتھ ہی حدیث لکھنے سے منع کا قول ہے کہ قاری کو اشتباہ ہو گا قرآن کیا ہے حدیث کیا ہے
——-
علی رضی الله عنہ نے بھی احکام سے متلعق اقوال نبوی اپنی نیام میں رکھے ہوئے تھے
میرے خیال میں یہ شروع کا حکم تھا پھر منسوخ ہو گیا
و اللہ اعلم
——
اگر مطلق ممانعت ہوتی تو ایک بھی صحابی روایت نہ کرتا
———-
غور کریں الله کا حکم ہے اہل ذکر سے سوال کرو اگر نہ معلوم ہو
یعنی اہل کتاب سے پوچھو
اب کیا یہ ممکن ہے کہ اہل کتاب کی حدیث تو بیان کی جا سکتی ہو لیکن قول نبی نہیں کیا جا سکتا ہو
ایک بات فٹ نہیں بیٹھتی
* صحیح مسلم:
* ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ قرآن کے بغیر میرا کوئی اور قول قلمبند نہ کرو۔ اور اگر کوئی شخص ایسا قول لکھ چکا ہو تو اسے مٹا دے۔۔۔۔۔۔ابو شہریار بھائی ۔۔منکرین حدیث کی جانب سے یہ روایت بطور دلیل پیش کی جاتی ہے ۔۔کیا یہ روایت صحیح ہے؟ ۔۔اس کا مفہوم کیا ہے
ایک قول ہے کہ یہ منسوخ حکم ہے
اس کی دلیل ہے کہ حجه الوداع پر اپ نے ابو شاہ کے لئے لکھنے کا حکم دیا
وعن أبو هريرة قال: “لما فتحت مكة قام النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- فذكر الخطبة خطبة النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- قال: فقام رجل من أهل اليمن يقال له: أبو شاه، فقال: يا رسول اللَّه! اكْتبوا لي، فقال: اكتبوا لأبي شاه”
ابو شاہ کے لئے یہ خطبہ لکھا گیا
وعن الوليد قال: “قلت لأبي عمرو -يعني الأوزاعي- يحيى -ما يكتبوه؟ قال: الخطبة التي سمعها -يعني أبا شاة- يومئذ منه”
الأوزاعي کا قول ہے
——–
دوسرا قول ہے
النهي محمول على أن يكتب الحديث مع القرآن في صحيفة واحدة، لئلا يختلّط به، فيشتبه على القارئ
یہ قرآن کے ساتھ ہی حدیث لکھنے سے منع کا قول ہے کہ قاری کو اشتباہ ہو گا قرآن کیا ہے حدیث کیا ہے
——-
علی رضی الله عنہ نے بھی احکام سے متلعق اقوال نبوی اپنی نیام میں رکھے ہوئے تھے
میرے خیال میں یہ شروع کا حکم تھا پھر منسوخ ہو گیا
و اللہ اعلم
——
اگر مطلق ممانعت ہوتی تو ایک بھی صحابی روایت نہ کرتا
———-
غور کریں الله کا حکم ہے اہل ذکر سے سوال کرو اگر نہ معلوم ہو
یعنی اہل کتاب سے پوچھو
اب کیا یہ ممکن ہے کہ اہل کتاب کی حدیث تو بیان کی جا سکتی ہو لیکن قول نبی نہیں کیا جا سکتا ہو
ایک بات فٹ نہیں بیٹھتی
اس لئے یہ حدیث منسوخ لی جائے گی