مورخین کہتے ہیں یزید بن معاویہ نے مکہ پر حملہ کیا تھا- راقم کہتا ہے بلکہ یہ مورخین کی بکواس ہے ادھر ادھر کے واقعات ملا کر سب یزید کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں- یزید بن معاویہ چار سال خلیفہ رہے اور ٦٤ ہجری میں وفات ہوئی ان کے بعد ان کے بیٹے خلیفہ ہوئے لیکن خلافت سے دست بر دار ہو گئے اور مروان بن عبد الملک خلیفہ ہوئے شام میں اس دوران ابن زبیر خلیفہ ہوئے حجاز میں- لیکن مورخ یزید کے بارے میں بات کرتے کرتے کعبہ پر حملہ کی بات کرتے ہیں جبکہ حملہ مکہ پر ابن زبیر کے دور میں ہوا
کہا جاتا ہے مسلم بن عقبہ کا مکہ پہنچنے سے پہلے انتقال ہوا اور الحصين بن نمير بن نائل، أبو عبد الرحمن الكندي السكونيّ المتوفی ٦٧ ھ کو امیر کر کے بھیجا گیا جبکہ یزید تو ٦٤ میں مر چکا تھا اور یہ دور عبد الملک کی خلافت کا ہے اس نے ابن زبیر سے نپٹنے کے لئے لشکر بھیجا تھا نہ کہ یزید نے
یہ سب تاریخی خلط ملط شروع سے چلا آ رہا ہے مثلا کتاب المعارف از ابن قتیبہ میں ہے
ثم سار «مسلم بن عقبة» إلى «مكة» ، وتوفى بالطريق، ولم يصل، فدفن ب «قديد» وولى الجيش «الحصين بن نمير السّكونى» ، فمضى بالجيش، وحاصروا «عبد الله بن الزبير» ، وأحرقت «الكعبة» حتى انهدم جدارها، وسقط سقفها، وأتاهم الخبر بموت «يزيد» ، فانكفئوا راجعين إلى «الشام» . … فكانت ولاية «يزيد» ثلاث سنين وشهورا. وهلك ب «حوّارين» – من عمل «دمشق» – سنة أربع وستين،
پھر یزید نے مسلم بن عقبہ کو مکہ بھیجا لیکن یہ راستہ میں مر گیا اور قدید میں دفن ہوا اور لشکر کی ولایت الحصين بن نمير السّكونى» کو ملی اس نے ابن زبیر کا محاصرہ کر لیا اور کعبہ کو جلا دیا یہاں تک کہ اسکی دیوارین منہدم ہو گئیں اور چھت گر گئی پس وہاں یزید کی موت کی خبر پہنچی …
افسوس یہ تاریخی گاربیج یا کوڑا ہے اس قول میں تاریخ کی کوئی تہذیب نہیں ہے نہ ابن قتیبہ کو سمجھ ہے کہ کیا بکواس لکھ رہے ہیں – ابن قتیبہ کی جہالت دیکھیں ابن زبیر سن ٧٣ میں مرے اور یزید سن ٦٤ میں لیکن یہ دس سالوں کو اس طرح ایک سطر میں ملا دیا ہے کہ پڑھنے والے کو لگے کہ یہ سب کام یزید نے کیا ہے
یہ تاریخی خلط ملط تاریخ طبری میں بھی ہے جس کی سند میں الکلبی اور ابو مخنف ہیں – دونوں نے یہ دس سالوں کو ملا کر اس طرح بیان کیا ہے کہ گویا ابن زبیر کا قتل یزید کے دور میں ہوا ہو
تاریخ طبری میں ہے
مسلم بن عُقْبَةَ ورمي الكعبة وإحراقها رجع الحديث إِلَى أبي مخنف قَالَ: حَتَّى إذا انتهى إِلَى المشلل- ويقال إِلَى قفا المشلل- نزل بِهِ الموت، وَذَلِكَ فِي آخر المحرم من سنة أربع وستين، فدعا حصين بن نمير السكوني فَقَالَ له: يا بن برذعة الحمار، أما وَاللَّهِ لو كَانَ هَذَا الأمر إلي مَا وليتك هَذَا الجند، ولكن أَمِير الْمُؤْمِنِينَ ولاك بعدي، وليس لأمر أَمِير الْمُؤْمِنِينَ مرد، خذ عني أربعا: أسرع السير، وعجل الوقاع، وعم الأخبار، وَلا تمكن قرشيا من أذنك ثُمَّ إنه مات، فدفن بقفا المشلل.قَالَ هِشَام بن مُحَمَّد الكلبي: وذكر عوانة أن مسلم بن عُقْبَةَ شخص يريد ابن الزُّبَيْر، حَتَّى إذا بلغ ثنية هرشا نزل بِهِ الموت، فبعث إِلَى رءوس الأجناد، فَقَالَ: إن أَمِير الْمُؤْمِنِينَ عهد إلي إن حدث بي حدث الموت أن أستخلف عَلَيْكُمْ حصين بن نمير السكوني، وَاللَّهِ لو كَانَ الأمر إلي مَا فعلت، ولكن أكره معصية أمر أَمِير الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَ الموت، ثُمَّ دعا بِهِ فَقَالَ: انظر يَا برذعة الحمار فاحفظ مَا أوصيك بِهِ، عم الأخبار، وَلا ترع سمعك قريشا أبدا، وَلا تردن أهل الشام، عن عدوهم، وَلا تقيمن إلا ثلاثا حَتَّى تناجز ابن الزُّبَيْر الفاسق، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إني لم أعمل عملا قط بعد شِهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عبده ورسوله أحب إلي من قتلي أهل الْمَدِينَة، وَلا أرجي عندي فِي الآخرة ثُمَّ قَالَ لبني مرة: زراعتي الَّتِي بحوران صدقة عَلَى مرة، وما أغلقت عَلَيْهِ فلانة بابها فهو لها- يعني أم ولده- ثُمَّ مات.ولما مات خرج حصين بن نمير بِالنَّاسِ، فقدم عَلَى ابن الزُّبَيْر مكة وَقَدْ بايعه أهلها وأهل الحجاز.
اس تاریخی گاربج کو المنتظم في تاريخ الأمم والملوك از جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597 هـ) میں بھی دہرایا گیا ہے
ابن جوزی کہتے ہیں تاریخ کے علماء کہتے ہیں
قال علماء السير [2] : لما فرغ مسلم بن عقبة من قتال أهل المدينة وإنهاب جنده أموالهم ثلاثا، شخص بمن معه من الجند متوجها نحو مكة، وخلف على المدينة روح بن زنباع الجذامي.
وقيل: خلف عمرو بن محرز الأشجعي.
فسار ابن عقبة حتى إذا انتهى إلى فقا/ المشلل [3] نزل به الموت، وذلك في آخر المحرم سنة أربع وستين، فدعا حصين بن نمير السكوني، فقال له: يا برذعة الحمار [4] ، أما لو كان هذا الأمر إلي ما وليتك هذا الجند، ولكن أمير المؤمنين ولاك بعدي، وليس لأمره مترك [5] ، أسرع المسير، ولا تؤخر ابن الزبير ثلاثا حتى تناجزه، ثم قال: اللَّهمّ إني لم أعمل عملا قط بعد شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله
علماء تاریخ کہتے ہیں کہ جب مسلم بن عقبہ اہل مدینہ کے قتال سے فارغ ہوا اور اس کی فوج نے تین دن لوٹ مار کی تو اس نے روح بن زنباع الجذامي یا خلف عمرو بن محرز الأشجعي کو مدینہ میں چھوڑا اور مسلم بن عقبہ نکلا یہاں تک کہ المشلل تک پہنچا کہ موت نازل ہوئی اور یہ محرم سن ٦٤ کا آخری دور تھا پس اس نے حصين بن نمير کو پکارا اور کو کہا اے گدھے کو چرانے والے میں نے اس لشکر کی ولایت تم کو نہیں دی بلکہ میرے بعد یہ امیر المومنین نے تم کو دی ہے اور یہ کام نہیں چھوڑنا ہے جلدی جاؤ اور ابن زبیر کو تین دن کی تاخیر دینا حتی کہ وہ قبول کرے پھر کہا اے اللہ میں نے کوئی عمل نہ کیا لیکن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله کی شہادت کے بعد
حاشیہ میں محقق محمد عبد القادر عطا، مصطفى عبد القادر عطا لکھتے ہیں یہ سب ابو مخنف کی سند سے آیا ہے
ورد في تاريخ الطبري 5/ 496 عن أبي مخنف
حسین رضی الله عنہ کی شہادت ٦١ ھ میں ہوئی
سن ٦٠ سے ٦٤ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کی خلافت ہے – یزید کی سن ٦٤ میں وفات ہوئی
سن ٦٤ ھ معاویہ بن یزید خلافت سے دستبردار ہوئے
سن ٦٤ سے ٧٣ تک عبد الله بن زبیر کی خلافت حجاز میں ہے
سن ٦٤ سے ٦٥ تک مروان بن حکم کی خلافت شام میں ہے
سن ٦٥ سے ٨٦ عبد الملک بن مروان کی خلافت ہے
طبری نے ابو مخنف کی سند سے لکھا ہے کہ مسلم بن عقبہ نے مرتے وقت دعا کی
اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ أَعْمَلْ عَمَلًا قَطُّ بَعْدَ الشَّهَادَتَيْنِ
اے الله میں نے کاش یہ عمل نہیں کیا ہوتا
ابو مخنف نے اس کی سند نہیں دی نہ اس دور یعنی ٦١ ہجری میں اس نے سانس لیا
افسوس اسی سب کو ملا جلا کر ابن کثیر نے بھی البدایہ میں لکھا ہے- راقم کہتا ہے یزید ٦٤ میں مرا اور ابن زبیر سن ٧٣ میں قتل ہوئے- دس سال کو ایک ہی سانس میں بیان کرنا اور دیگر خلفاء کا نام تک نہ لینا نہایت مغالطہ آمیز ہے – راقم کو یقین ہے کہ کسی بھی مولوی نے جو یزید پر کلام کرے اس نے ان واقعات کا تاریخی تضاد نہیں دیکھا ہے- صحیح یہ ہے کہ سن ٧٣ میں حجاج بن یوسف نے ابن زبیر پر حملہ کیا جس میں کعبہ جلا تھا نہ کہ یزید نے یہ حکم کیا
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا) صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ (کی عمارت )کو گرا کر (نئی )تعمیر کرنا)
3245 .
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: لَمَّا احْتَرَقَ الْبَيْتُ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، حِينَ غَزَاهَا أَهْلُ الشَّامِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ، تَرَكَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَتَّى قَدِمَ النَّاسُ الْمَوْسِمَ يُرِيدُ أَنْ يُجَرِّئَهُمْ – أَوْ يُحَرِّبَهُمْ – عَلَى أَهْلِ الشَّامِ، فَلَمَّا صَدَرَ النَّاسُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي الْكَعْبَةِ، أَنْقُضُهَا ثُمَّ أَبْنِي بِنَاءَهَا؟ أَوْ أُصْلِحُ مَا وَهَى مِنْهَا؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنِّي قَدْ فُرِقَ لِي رَأْيٌ فِيهَا، أَرَى أَنْ تُصْلِحَ مَا وَهَى مِنْهَا، وَتَدَعَ بَيْتًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهِ، وَأَحْجَارًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهَا، وَبُعِثَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: ” لَوْ كَانَ أَحَدُكُمُ احْتَرَقَ بَيْتُهُ، مَا رَضِيَ حَتَّى يُجِدَّهُ، فَكَيْفَ بَيْتُ رَبِّكُمْ؟ إِنِّي مُسْتَخِيرٌ رَبِّي ثَلَاثًا، ثُمَّ عَازِمٌ عَلَى أَمْرِي، فَلَمَّا مَضَى الثَّلَاثُ أَجْمَعَ رَأْيَهُ عَلَى أَنْ يَنْقُضَهَا، فَتَحَامَاهُ النَّاسُ أَنْ يَنْزِلَ بِأَوَّلِ النَّاسِ يَصْعَدُ فِيهِ أَمْرٌ مِنَ السَّمَاءِ، حَتَّى صَعِدَهُ رَجُلٌ، فَأَلْقَى مِنْهُ حِجَارَةً، فَلَمَّا لَمْ يَرَهُ النَّاسُ أَصَابَهُ شَيْءٌ تَتَابَعُوا فَنَقَضُوهُ حَتَّى بَلَغُوا بِهِ الْأَرْضَ، فَجَعَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَعْمِدَةً، فَسَتَّرَ عَلَيْهَا السُّتُورَ حَتَّى ارْتَفَعَ بِنَاؤُهُ، وَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: إِنِّي سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْلَا أَنَّ النَّاسَ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ، وَلَيْسَ عِنْدِي مِنَ النَّفَقَةِ مَا يُقَوِّي عَلَى بِنَائِهِ، لَكُنْتُ أَدْخَلْتُ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ خَمْسَ أَذْرُعٍ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ، وَبَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ»، قَالَ: «فَأَنَا الْيَوْمَ أَجِدُ مَا أُنْفِقُ، وَلَسْتُ أَخَافُ النَّاسَ»، قَالَ: ” فَزَادَ فِيهِ خَمْسَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ حَتَّى أَبْدَى أُسًّا نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَبَنَى عَلَيْهِ الْبِنَاءَ وَكَانَ طُولُ الْكَعْبَةِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا زَادَ فِيهِ اسْتَقْصَرَهُ، فَزَادَ فِي طُولِهِ عَشْرَ أَذْرُعٍ، وَجَعَلَ لَهُ بَابَيْنِ: أَحَدُهُمَا يُدْخَلُ مِنْهُ، وَالْآخَرُ يُخْرَجُ مِنْهُ “. فَلَمَّا قُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ كَتَبَ الْحَجَّاجُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُخْبِرُهُ بِذَلِكَ وَيُخْبِرُهُ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ قَدْ وَضَعَ الْبِنَاءَ عَلَى أُسٍّ نَظَرَ إِلَيْهِ الْعُدُولُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِكِ: إِنَّا لَسْنَا مِنْ تَلْطِيخِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي شَيْءٍ، أَمَّا مَا زَادَ فِي طُولِهِ فَأَقِرَّهُ، وَأَمَّا مَا زَادَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ فَرُدَّهُ إِلَى بِنَائِهِ، وَسُدَّ الْبَابَ الَّذِي فَتَحَهُ، فَنَقَضَهُ وَأَعَادَهُ إِلَى بِنَائِهِ
عطا ء سے روایت ہے انھوں نے کہا یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر ) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا تو اس کی جو حالت تھی سو تھی ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے (اسی حالت پر) رہنے دیا حتیٰ کہ حج کے مو سم میں لو گ (مکہ) آنے لگے وہ چا ہتے تھے کہ انھیں ہمت دلا ئیں یا اہل شام کے خلاف جنگ پر ابھا ریں ۔۔۔جب لو گ آئے تو انھوں نے کہا اے لوگو! مجھے کعبہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے گرا کر (از سر نو ) اس کی عمارت بنا دوں یا اس کا جو حصہ بو سیدہ ہو چکا ہے صرف اس کی مرمت کرا دوں ؟ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میرے سامنے ایک رائے واضح ہو ئی ہے میری را ئے یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ کمزور ہو گیا ہے آپ اس می مرمت کرا دیں اور بیت اللہ کو (اسی طرح باقی ) رہنے دیں جس پر لو گ اسلا م لا ئے اور ان پتھروں کو (باقی چھوڑ دیں) جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو ئی ،اس پر ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر تم میں سے کسی کا اپنا گھر جل جا ئے تو وہ اس وقت تک راضی نہیں ہو تا جب تک کہ اسے نیا (نہ ) بنا لے تو تمھا رے رب کے گھر کا کیا ہو؟ میں تین دن اپنے رب سے استخارہ کروں گا پھر اپنے کام کا پختہ عزم کروں گا ۔ جب تین دن گزر گئے تو انھوں نے اپنی را ئے پختہ کر لی کہ اسے گرا دیں تو لو گ (اس ڈرسے) اس سے بچنے لگے کہ جو شخص اس (عمارت ) پر سب سے پہلے چڑھے گا اس پر آسمان سے کو ئی آفت نازل ہو جا ئے گی یہاں تک کہ ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس سے ایک پتھر گرادیا جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ نہیں ہوا تو لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (گرا نے لگے )حتیٰ کہ اسے زمین تک پہنچا دیا ۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند (عارضی) ستون بنا ئے اور پردے ان پر لٹکا دیے یہاں تک کہ اس کی عمارت بلند ہو گئی ۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے سنا بلا شبہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :” اگر لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہ ہوتا اور میرے پاس اتنا مال بھی نہیں جو اس کی تعمیر (مکمل کرنے ) میں میرا معاون ہو تو میں حطیم سے پانچ ہاتھ (زمین ) اس میں ضرور شامل کرتا اور اس کا ایک (ایسا ) دروازہ بنا تا جس سے لوگ اندر داخل ہو تے اور ایک دروازہ (ایسا بنا تا ) جس سے باہر نکلتے ۔ (ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا آج میرے پاس اتنا مال ہے جو خرچ کرسکتا ہوں اور مجھے لوگوں کا خوف بھی نہیں (عطاء نے) کہا تو انھوں نے حطیم سے پانچ ہاتھ اس میں شامل کیے (کھدا ئی کی) حتیٰ کہ انھوں نے ابرا ہیمی) بنیا د کو ظاہر کر دیا لوگوں نے بھی اسے دیکھا اس کے بعد انھوں نے اس پر عمارت بنا ئی کعبہ کا طول (اونچا ئی ) اٹھا رہ ہاتھ تھی (یہ اس طرح ہو ئی کہ ) جب انھوں نے (حطیم کی طرف سے) اس میں اضافہ کر دیا تو (پھر )انھیں (پہلی اونچا ئی ) کم محسوس ہو ئی چنانچہ انھوں نے اس کی اونچا ئی میں دس ہاتھ کا اضافہ کر دیا اور اس کے دروازے بنائے ایک میں سے اندر دا خلہ ہو تا تھا اور دوسرے سے باہر نکلا جا تا تھا جب ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل کر دیے گئے تو حجاج نے عبد الملک بن مروان کو اطلا ع دیتے ہو ئے خط لکھا اور اسے خبر دی کہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تعمیر اس (ابرا ہیمی) بنیا دوں پر استورکی جسے اہل مکہ کے معتبر (عدول) لوگوں نے (خود) دیکھا عبد الملک نے اسے لکھا ۔ہمارا ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ردو بدل سے کو ئی تعلق نہیں البتہ انھوں نے اس کی اونچائی میں جو اضافہ کیا ہے اسے بر قرار رہنے دو اور جو انھوں نے حطیم کی طرف سے اس میں اضافہ کیا ہے اسے (ختم کر کے ) اس کی سابقہ بنیا د پر لوٹا دو اور اس دروازے کو بند کر دو جو انھوں نے کھو لا ہے چنانچہ اس نے اسے گرادیا اس کی (پچھلی ) بنیاد پر لو ٹا دیا ۔
سند ہے
حَدَّثَنا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ
اس کو صرف اس سند سے امام مسلم نے بیان کیا ہے کوئی اور نقل نہیں کرتا
یہ روایت تاریخا کچھ صحیح کچھ غلط ہے
غلط اس روایت کا شروع کا حصہ ہے “ یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر ) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا ” -صحیح یہ ہے کہ کعبه ابن زبیر کی موت پر جلا جب اس میں ابن زبیر کے ساتھ چالیس پچاس لوگ داخل ہوئے اور کعبہ کو اندر سے بند کر لیا – شامی لشکر نے اس پر جوابا حملہ کیا اور کعبہ پر پتھر برسائے جس سے اس کی چھت منہدم ہو گئی اور اگ بھڑک گئی- اس میں کعبہ کا کسوہ جل گیا- حیرت ہے کہ شارحین میں کسی نے اس جملہ ” یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر ) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا ” کی شرح نہیں کی
باقی حصہ صحیح ہے کہ ابن زبیر نے اس کو تعمیر کیا لیکن اس مخصوص روایت میں تقدیم و تاخیر ہے جس سے تاریخ سے تضاد جنم لیتا ہے- یہ روایت ان وجوہات کی بنا پر قابل رد و معلول ہے
تاریخ ابو زرعہ دمشقی میں ہے
وَكَانَتِ الْحَرَّةُ يَوْمَ الْأَرْبَعَاءِ لِلَيْلَتَيْنِ بَقِيَتَا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ.
حرہ کا واقعہ بدھ ، سن ٦٣ ہجری میں ذو الحجہ کی آخری چند راتوں میں ہوا
تعجيل المنفعة میں ہے
کعبہ کو ابن زبیر کے دور میں جمادى الآخرة ٦٤ ھ میں گرایا گیا اور دوبارہ بنایا گیا جس میں حطیم کو اس میں شامل کر دیا گیا اس کے بعد مخالفین نے ابن زبیر کو قتل کرنے کے لئے کعبہ پر پتھر برسائے کیونکہ ابن زبیر نے اپنے اپ کو اس میں بند کر لیا تھا کعبہ ٹوٹا اور دوبارہ تعمیر ہوا (تعجيل المنفعة صـ453) جس میں حطیم کو واپس نکال دیا گیا
اس سے معلوم ہوا کہ واقعہ حرہ (سن ٦٣ ہجری) کے بعد سن ٦٤ ھ کے حج سے پہلے پہلے کعبه کی مستطیل نما تعمیر کی گئی
ap ne likha harra 63 hijri mn zil haj k akhri dino mn hoa yazeed b 63 mn marra yani us ki moat harra k foran bd hogae ??? or us k bete ne inkar b kr dia 2sra shkhs hukomt mn aa gya…. itni jaldi jaldi sab hogya
Yazid bin Moavia ki wafat 64 ki ha. Waqiah Hira 63 ka ha. Kitab khroj Hussain dekhain