محمد بن قاسم اور مرزا جہلمی کا دعوی جھل

ایک نیم سنی مرزا جہلمی  نے دعوی کیا کہ محمد بن قاسم سندھ اس لئے آیا تھا کہ اہل بیت کا  پیچھا کر کے ان کو قتل کرے – نیم سنی علی مرزا نے دعوی کیا کہ عمر بن عبد العزیز کے دور میں محمد بن قاسم کو قید کیا گیا اور اسی دوران   محمد بن قاسم  کا انتقال ہو گیا

7:28

پر مرزا نے دعوی کیا کہ

حجاج بن یووصف کے ظلموں کی ایک داستان تھی ، لوگ تنگ تھے -… (الولید بن عبد الملک بن مروان) نے وصیت کی تھی کہ ولید کے بعد خلیفہ بنے گا اس کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبد الملک ، لیکن ولید کو بھی لالچ آ گئی کیونکہ یہ تو ہے ہی لالچی دور جب یزید کے ابا جی (یعنی معاویہ) کو لالچ آ گئی کہ میرا بیٹا خلیفہ بنے تو ولید بن عبد الملک تو صحابی بھی نہیں اس کو لالچ نہ آئے کہ میرا بچہ (خلیفہ ) بنے حالنکہ وہ خود بھی اس وصیت پر خلیفہ بنا تھا جو اس کے ابے نے کی ہوئی تھی – تو سارے گورنروں سے اس نے بیعت لے لی کہ میرے مرنے کے بعد میرا بیٹا خلیفہ بنے گا – ایک گورنر تھا جس نے نے انکار کر دیا اور وہ تھے  عمر بن عبد العزیز  ، وہ اس وقت حجاز کے گورنر تھے اور  حجاج بن یوسف کوفے کا گورنر تھا – عمر بن عبد العزیز کو جیل میں ڈلوا دیا ولید بن عبد الملک نے لیکن وہ عمر ہر دل عزیز شخصیت تھے اس لئے اس وقت پروٹسٹ ہوئے  تھوڑے بہت اور معاملہ انہوں نے ڈیلے کیا – اسی ڈیلے کرنے کے دوران اچانک الولید کی ڈیتھ ہو گئی ، وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا – اور الٹیمٹلی اس کا کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبد الملک خلیفہ بن گیا – سلیمان بن عبد الملک جیسے ہی خلیفہ بنا اس کو یہ احسان  یاد تھا کہ عمر بن عبد العزیز کی وجہ سے میں خلیفہ بنا ہوں … عمر بن عبد العزیز ان کا بہنوئی بھی لگتا تھا …. تو جب وہ خلیفہ بن گئے سلیمان بن عبد الملک ، تو سب سے پہلے عمر بن عبد العزیز کو آزاد کروایا گیا – عمر بن عبد العزیز نے کہا جی سب سے بڑا کلپرٹ ہے  حجاج بن یوسف – اس نے ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے – صحابہ کو قتل کروایا ہے – … سلیمان نے پہلا ایگزیکٹو آڈر کیا کہ حجاج نام کے جتنے  بندے ہیں … کسی بھی حکومتی عہدے پر ہیں ساورں کو جیل میں ڈالو – … اور ان حجاج نامی لوگوں کے تمام رشتہ داروں کو جیل میں ڈالو – جو محمد بن قاسم جو بھتیجا تھا اس کو بھی پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا – یہ تھی ریزن –

راقم کہتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ ان کو تاریخ کا علم نہیں –  علم حدیث میں موجود ہے کہ جب جھوٹے راویوں نے روایات بیان کیں تو انہوں نے تاریخ وفات سے مدد لی –

 حجاج بن یوسف کی وفات کسی مرض کی وجہ سے گھر میں ہوئی أنساب الشرف، ج 12، ص 353 میں وفات کا تذکرہ موجود ہے کہ حجاج بن یوسف کی وفات ہوئی تو لونڈی بھی روئی –

حجاج بن یوسف کی وفات رمضان أو شوال سنة ٩٥ ہجری میں ہوئی اور یہ ولید  بن  عبد الملک   کی خلا فت ختم ہونے سے ایک سال پہلے کا واقعہ ہے – اسی سال محمد بن قاسم کی بھی وفات تاریخ میں موجود ہے

حجاج بن یوسف کے حوالے سے علی مرزا نے دعوی کیا کہ وہ اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کو قتل کرواتا تھا جبکہ اس کی بھی کوئی دلیل نہیں –

محمد بن قاسم الثقفي رحمة الله عليه كي وفاة سن ٩٥ ہجری میں ہوئی  اور یہ عمر بن عبد العزیز کی خلافت سے پہلے ہوئی – سلیمان بن عبد المک کی خلافت تو خود محمد بن قاسم کی وفات کے  ایک  سال بعد شروع ہوتی ہے – اس طرح یہ تمام قصہ جو علی مرزا نے بیان کسی بے بنیاد دعوی سے کم نہیں –

عرصۂ خلافت خلیفہ
٦٥  سے  ٨٦ عبد الملک بن  مروان
٨٦  سے  ٩٦ ولید  بن  عبد الملک
٩٦  سے   ٩٩ سلیمان  بن  عبد  الملک
 ٩٩  سے  ١٠١ عمر  بن  عبد العزیز
١٠١  سے  ١٠٥ یزید  بن  عبد الملک بن  مروان

اسی طرح یہ  دعوی کہ سن ٩٠ ہجری میں ہی اہل بیت کو راجہ دہر نے پناہ دی – اس پر بھی کوئی دلیل تاریخ میں موجود نہیں ہے – ال علی کے خروج کرنے والوں نے اہل بیت بنو عباس  سے بچنے کے لئے سندھ کا رخ ضرور کیا تھا اور یہ بنو امیہ کے بعد ہوا ہے

بنو عباس کے دور میں ال علی میں سے  حسن رضی اللہ عنہ کے پڑ پڑ پوتے نے خروج کیا  جس کا نام محمد بن عبد اللہ المہدی تھا اس کا اہل بیت یعنی بنو عباس نے قتل کیا کیونکہ یہ ان کی خلافت کا انکاری تھا – امام محمد بن عبد المہدی المتوفی ١٤٥ ھ کے قتل  کے بعد ان کے  بیٹے الاشتر  عبد اللہ بن محمد  مدینہ سے نکل کر  کوفہ پہنچے اور وہاں سے بصرہ اور پھر سندھ  کا راستہ  لیا  –  مقاتل  الطالبین از  ابو فرج اصفہانی میں ہے

وعبد الله الأشتر بن محمد «3» بن عبد الله ابن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب وأمه أم سلمة بنت محمد بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب.

كان عبد الله بن محمد بن مسعدة المعلم أخرجه بعد قتل أبيه إلى بلد

الهند «1» فقتل بها، ووجه برأسه إلى أبي جعفر المنصور

عبد اللہ الاشتر اپنے باپ کے قتل کے بعد ھند بھاگ گیا وہاں قتل ہوا اور اس کا سر ابو جعفر منصور کو بھیجا گیا

اس میں اختلاف  ہے کہ  عبد اللہ الاشتر  کا قتل کس مقام پر ہوا بعض نے سندھ کہا ہے بعض نے کابل کہا ہے

کراچی میں عبد اللہ شاہ  غازی  کا مزار بعض  کے بقول عبد اللہ الاشتر  کا ہے – مقاتل طالبین میں ہے کہ عبد اللہ کا سر  خلیفہ ابو  جعفر  کے پاس بھیجا گیا تھا  یعنی اس کا جسم کابل  یا سندھ میں ہی چھوڑ دیا گیا تھا – تاریخ معصومی کی تعلیقات میں عمر بن محمد داؤد پوتہ صاحب کا خیال ہے کہ یہ قبر عبیداللہ بن نبہان کی ہے جو لشکر ابن قاسم  میں تھے

اہل بیت کو راجہ داہر نے پناہ دی ہوئی تھی اس قسم کی کوئی راویات تاریخ اسلام میں موجود نہیں ہے

طاہر القادری نے دعوی کیا کہ سندھ سے  لوگ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچے  اور پھر پانچ صحابی سندھ گئے – اسی قسم کا دعوی مرزا نے بھی دہرایا

 https://www.youtube.com/watch?v=3ir-esZijIU

الإصابة في تمييز الصحابة میں ابن حجر نے ذکر کیا

روى أبو موسى في «الذيل» من طريق بشر «2» بن أحمد الأسفرايني صاحب يحيى بن يحيى النيسابورىّ، حدثنا مكي بن أحمد البردعيّ، سمعت إسحاق بن إبراهيم الطّوسيّ يقول: هو ابن سبع وتسعين سنة، قال: رأيت سرباتك ملك الهند في بلدة تسمى قنّوج «3» – بقاف ونون ثقيلة وواو ساكنة وبعدها جيم، وقيل ميم بدل النّون، فقلت له: كم أتى عليك من السنين؟ قال: سبعمائة «4» وخمس وعشرون سنة.

وزعم أنّ النّبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم أنفذ إليه حذيفة وأسامة وصهيبا يدعونه إلى الإسلام فأجاب وأسلم، وقبل كتاب النّبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم.

قال الذّهبيّ في التّجريد «5» : هذا كذب واضح

ابو موسی نے الذیل میں  ذکر کیا کہ  مكي بن أحمد البردعيّ نے اسحاق بن ابراہیم سے سنا  ہے کہ میں نے   کے راجہ  سرباتک   سے ملاقات کی اس کا کہنا تھا کہ آپ علیہ السلام نے اس کی طرف   صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے   حذیفہ،  اسامہ اور   صہیب رضی اللہ عنہم کو دعوتِ اسلام کا خط دے کر بھیجا تھا تو میں نے اسلام قبول کیا اور نامہ مبارک کو بوسہ دیا۔

ابن حجر عسقلانی ٰ نے الاصابۃ میں اس  روایت  کو نقل کرنے کے بعد  الذہبی   کا اس روایت کے بارے میں یہ قول نقل کیا۔  ھذا کذب واضح  یہ صریح جھوٹ ہے

اسی طرح بعض نے ایک آدمی رتن الہندی کا ذکر کیا –

امام الذھبی نے میزان میں  لکھا ہے

رتن الهندي . وما أدراك ما رتن! شيخ دجال بلا ريب. ظهر بعد الستمائة فادعى الصحبة، والصحابة لا يكذبون. وهذا جريء على الله ورسوله ، وقد الفت في أمره جزءا. وقد قيل: أنه مات سنة اثنتين وثلاثين وستمائة. ومع كونه كذابا فقد كذبوا عليه جملة كبيرة من أسمج الكذب والمحال

رتن الہندی  اور معلوم نہیں کہ یہ رتن کیا ہے – بلا شبہ یہ بڈھا ایک دجال تھا – یہ سن ٦٠٠ ہجری کے بعد ظاہر ہوا اور اس نے کہا یہ صحابی ہے

اس طرح مستند قول یہی ہے کہ اسلام بر صغیر میں محمد بن قاسم رحمہ اللہ علیہ کی وجہ سے آیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *