https://www.islamic-belief.net/كتاب-التوحيد-و-ألأسماء-الحسني/ اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے
خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ
کتاب الصفات از الدارقطني (المتوفى: 385هـ) کے مطابق اس کی اسناد ابو ہریرہ اور ابن عمر سے ہیں اب ہم ان اسناد پر بحث کرتے ہیں
ابو ہریرہ کی مرویات
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ الْفَضْلِ الْكَاتِبُ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ
دوسری سند ہے
حَدَّثَنَا عَلَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَطَّانُ، وَثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ نَهْشَلُ بْنُ دَارِمٍ التَّمِيمِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ، قَالَا: ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ “
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
جب تم میں سے کوئی کسی کو مارے تو چہرہ پر مارنے سے بچے اور یہ نہ کہے کہ الله تیرا چہرہ بگاڑ دے کیونکہ اس کا چہرہ اسی کے جیسا ہے کیونکہ الله نے آدم کو تخلیق کیا اپنی صورت پر
محمد بن عجلان نے اس کو سعید بن ابی سعید سے انہوں نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے
کتاب الضعفاء الكبير از امام العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق
حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں
فقہ مالکیہ کی معتمد کتاب المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق
وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ
اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو
دارقطنی کے مطابق محمد بن عجلان کے علاوہ المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ نے بھی اس کو ابی الزناد سے روایت کیا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو شَيْبَةَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ بَكْرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى أَبُو مُوسَى، ثنا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، ثنا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا»
سیر الآعلام البنلاء از الذھبی کے مطابق المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ کے لئے امام یحیی بن معین کہتے : لَيْسَ حَدِيْثُهُ بِشَيْءٍ اس کی حدیث کوئی چیز نہیں ہے- ابن حبان کتاب مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں کہتے ہیں وكان يهم في الشئ بعد الشئ اس کو چیز چیز پر وہم ہوتا ہے
امام مالک کی بات کا رد کرتے ہوئے کتاب سير أعلام النبلاء میں الذهبي (المتوفى : 748هـ) کہتے ہیں
قُلْتُ: الخَبَرُ لَمْ يَنْفَرِدْ بِهِ ابْنُ عَجْلاَنَ، بَلْ وَلاَ أَبُو الزِّنَادِ، فَقَدْ رَوَاهُ:
شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ.
وَرَوَاهُ: قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
وَرَوَاهُ: ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
وَرَوَاهُ: مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
وَصحَّ أَيْضاً مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عُمَرَ.
میں (الذھبی) کہتا ہوں : اس خبر میں ابن عجلان منفرد نہیں ہے اور نہ ابو الزناد منفرد ہے اس کو روایت کیا ہے
شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ. نے
اور روایت کیا ہے قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ سے .
اور روایت کیا ہے ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
اور روایت کیا ہے مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. سے
راقم کہتا ہے قتادہ مدلس نے یہ روایت عن سے روایت کی ہے امام مسلم نے قتادہ کے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے – الذھبی کی پیش کردہ دوسری سند میں ابْنُ لَهِيْعَةَ سخت ضعیف ہے – شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ کی روایت مسند الشامیین از طبرانی کی ہے لیکن یہ بھی ضعیف ہے
حَدَّثَنَا أَبُو مَيْمُونٍ أَيُّوبُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ الصُّورِيُّ، ثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَذَّاءُ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سَبْعُونَ ذِرَاعًا
اس کی سند میں محمد بن حمير الحمصي ہے جو محدثین مثلا ابن ابی حاتم کے مطابق نا قابل احتجاج ہے اور الفسوی اس کو قوی نہیں کہتے ہیں اس راوی کو الذہبی نے خود ديوان الضعفاء میں ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے
کتاب السنہ از ابن ابی عاصم کی روایت ہے
ثنا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثنا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ثنا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي يُونُسَ سُلَيْمُ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ قَاتَلَ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ فَإِنَّ صُورَةَ وَجْهِ الإِنْسَانِ عَلَى صُورَةِ وَجْهِ الرَّحْمَنِ”.
ابو یونس ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو لڑے وہ چہرہ سے بچے کیونکہ انسان کے چہرے کی صورت الرحمن کے چہرے کی صورت ہے
یہ ہے وہ روایت جو الذہبی نے دلیل میں پیش کی ہے جس کے متن میں نکارت ہے اور سند میں ابن لَهِيعَةَ ہے جس پر خراب حافظہ آختلاط اور ضعف کا حکم ہے
اب صرف مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. کی سند ہے جو قابل بحث ہے – امام بخاری نے اس کو اسی سند سے روایت کیا ہے إس میں معمر بن راشد ہیں جو مدلس ہیں لیکن محدثین کی ایک جماعت ان کی ہمام بن منبہ والی روایات قبول کرتی ہے – ہمام بن منبہ یمن سے مدینہ پہنچے اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ١٤٠ روایات لیں ان میں اپنی باتیں بھی شامل کر دیں اور ان کا نسخہ بقول امام احمد اسی وجہ سے معدوم ہوا کہ لوگ یہ تمیز ہی نہیں کر پائے کیا قول نبی اور کیا ان کا اپنا قول ہے – ہمام سوڈان گئے وہاں معمر بن راشد ملے اور ان کو روایت سنائیں اس کے بعد حجاز میں ابن زبیر رضی الله عنہ کی فوج نے ہمام کو پکڑا اور یہ عباسیوں کے خروج تک زندہ تھے سن ١٣٢ هجري میں فوت ہوئے – الذھبی کے مطابق ممکن ہے سو سال انکی زندگی ہو لیکن اس دوران انہوں نے بہت کم لوگوں کو روایات سنائی ہیں ان سے صرف ان کے بھائی وھب بن منبہ صَاحِبُ القَصَصِ ، ان کے بھتیجے عَقِيْلُ بنُ مَعْقِلٍ اور معمر بن راشد اور ایک یمنی عَلِيُّ بنُ الحَسَنِ بنِ أَنَسٍ الصَّنْعَانِيُّ روایت کرتے ہیں – الذھبی سیر الآعلام النبلاء میں کہتے ہیں وَمَا رَأَينَا مَنْ رَوَى الصَّحِيْفَةَ عَنْ هَمَّامٍ إِلاَّ مَعْمَرٌ اور ہم نہیں دیکھتے کہ اس الصَّحِيْفَةَ کو ہمام سے کوئی روایت کرتا ہو سوائے معمر کے- امام احمد کے مطابق معمر نے یہ صحیفہ سوڈان میں سنا- معمر خود کوفی ہیں وہاں سے یمن گئے اور پھر سوڈان – سوڈان علم حدیث کے لئے کوئی مشھور مقام نہ تھا – خود معمر روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہ سختی سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی کوئی ایک روایت کو رد کرتے
كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق
ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.
البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں
ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی شخص ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے
البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں کہتے ہیں
يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.
یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی حدیث مراد تھی جس کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ ٨٦٠ میں کی ہے
ہمام ایک سابقہ یہودی تھے – یہود میں الله کے لئے تجسیم کا عقیدہ ہے کیونکہ موجودہ توریت میں الله کو ایک مرد کی صورت بیان کیا گیا ہے جس کے آعضآ بھی ہیں – یہودی تصوف کی ایک قدیم کتاب جو بعثت نبوی سے قبل کی ہے اس کا نام کتاب شر قومہ ہے جس میں الله تعالی کے آعضآ کی پمائش بھی بیان کی گئی ہے – موجود توریت میں ہے
Then God said, “Let us make man in our image, after our likeness.
پھر الله نے کہا ہم انسان کو اپنے عکس צֶ֫לֶם پر بنائیں گے –اپنی דְּמוּת مشابہت کے مطابق
Genesis 1:26
لفظ דְּמוּת کا ترجمہ مشابہت کے علاوہ یہود کے مطابق شکل اور تناسب بھی ہو سکتا ہے
لفظ צֶלֶם کا ترجمہ عکس کے علاوہ غیر مرئی چیز بھی کیا جاتا ہے
اس کے برعکس قرآن میں ہے
(فِیْ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَ (الانفطار:8/82
جس صورت میں چاہا اس نے تجھے بنایا۔
اسی متن کی ایک روایت ابن عمر سے بھی مروی ہے جس کے مطابق چہرے کو برا نہ کرو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا
ابن عمر کی مرویات
العلل دارقطنی کی سند ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ الزَّيَّاتُ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ [ص:36]: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ»
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الطُّوسِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ إِشْكَابَ، ثنا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ [ص:37]، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ»
ابن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرہ کو مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو الرحمن کی شکل پر پیدا کیا ہے
اس کی سند میں مدلس حبيب بن أبي ثابت ہیں جو عن سے اس کو عطاء بْن أَبي رباح سے روایت کر رہے ہیں – کتاب المدلسين از ابن العراقی کے مطابق
ابن حبان کہتے ہیں
: كان مدلساً وروى أبو بكر بن عياش عن الأعمش قال لي حبيب بن أبي ثابت: لو أن رجلاً حدثني عنك ما باليت أن أرويه عنك.
یہ مدلس تھے – الأعمش کہتے ہیں حبيب بن أبي ثابت نے مجھ سے کہا اگر کوئی آدمی تم سے میری روایت بیان کرے تو میں اس سے بے پرواہ ہوں جو وہ روایت کرے
عطاء بْن أَبي رباح کی سند سے اس روایت کو بیان کرنے میں حبيب بن أبي ثابت منفرد ہیں چونکہ یہ مدلس ہیں اور عن سے روایت ہے لہذا یہ مظبوط نہیں
ابن خزیمہ کتاب التوحید میں اس روایت پر تبصرہ کرتے ہیں اور ابن عمر کی روایت کو رد کرتے ہیں
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: تَوَهَّمَ بَعْضُ مَنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ أَنَّ قَوْلَهُ: «عَلَى صُورَتِهِ» يُرِيدُ صُورَةَ الرَّحْمَنِ عَزَّ رَبُّنَا وَجَلَّ عَنْ أَنْ يَكُونَ هَذَا مَعْنَى الْخَبَرِ، بَلْ مَعْنَى قَوْلِهِ: «خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، الْهَاءُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ كِنَايَةٌ عَنِ اسْمِ الْمَضْرُوبِ، وَالْمَشْتُومِ، أَرَادَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ هَذَا الْمَضْرُوبِ، الَّذِي أَمَرَ الضَّارِبَ بِاجْتِنَابِ وَجْهِهِ بِالضَّرْبِ، وَالَّذِي قَبَّحَ وَجْهَهَ، فَزَجَرَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ: «وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ» ، لِأَنَّ وَجْهَ آدَمَ شَبِيهُ وُجُوهِ بَنِيهِ، فَإِذَا قَالَ الشَّاتِمُ لِبَعْضِ بَنِي آدَمَ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ، كَانَ مُقَبِّحًا وَجْهَ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ [ص:85] عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ، الَّذِي وُجُوهُ بَنِيهِ شَبِيهَةٌ بِوَجْهِ أَبِيهِمْ، فَتَفَهَّمُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ مَعْنَى الْخَبَرِ، لَا تَغْلَطُوا وَلَا تَغَالَطُوا فَتَضِلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَتَحْمِلُوا عَلَى الْقَوْلِ بِالتَّشْبِيهِ الَّذِي هُوَ ضَلَالٌ
بعض لوگ جن کو علم نہیں پہنچا ان کو اس میں وہم ہوا کہ قول اسکی صورت پر سے انہوں نے صورت رحمان مراد لی گویا کہ یہ کوئی خبر ہو بلکہ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ اس کا معنی ہے کہ اس میں ھآ یہاں کنایہ کے طور پر ہے جس کو مارا جا رہا ہے اس کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم کا مقصد ہے کہ الله نے آدم کو خلق کیا اسی مارنے والے کی صورت پہ جس نے مارنے کا حکم دیا چہرہ پر اور چہرہ کو برآ کیا پس اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ڈانٹا کہ کہہ کر اس کا چہرہ بھی تمہارے چہرہ جیسا ہے ….. پس ان لوگوں کو وہم ہوا کہ الله نے خبر دی پس دین میں غلو نہ کرو نہ کراو ورنہ گمراہ ہو گے سیدھی راہ سے اور اس پر التَّشْبِيهِ کاقول مت لو یہ گمراہی ہے
ابن خزیمہ سفیان ثوری کے طرق عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، پر کہتے ہیں
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَقَدِ افْتُتِنَ بِهَذِهِ اللَّفْظَةِ الَّتِي فِي خَبَرِ عَطَاءٍ عَالِمٌ مِمَّنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ، وَتَوَهَّمُوا أَنَّ إِضَافَةَ الصُّورَةِ إِلَى الرَّحْمَنِ فِي هَذَا الْخَبَرِ مِنْ إِضَافَةِ صِفَاتِ الذَّاتِ، فَغَلَطُوا فِي هَذَا غَلَطًا بَيِّنًا، وَقَالُوا مَقَالَةً شَنِيعَةً مُضَاهِيَةً لِقَوْلِ الْمُشَبِّهَةِ، أَعَاذَنَا اللَّهُ وَكُلُّ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَوْلِهِمْ وَالَّذِي عِنْدِي فِي تَأْوِيلِ هَذَا الْخَبَرِ إِنْ صَحَّ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ مَوْصُولًا: فَإِنَّ فِي الْخَبَرِ عِلَلًا ثَلَاثًا , إِحْدَاهُنَّ: أَنَّ الثَّوْرِيَّ قَدْ خَالَفَ الْأَعْمَشَ فِي إِسْنَادِهِ، فَأَرْسَلَ الثَّوْرِيُّ وَلَمْ يَقُلْ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَالثَّانِيَةُ: أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، لَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ وَالثَّالِثَةُ: أَنَّ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ: أَيْضًا مُدَلِّسٌ، لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ عَطَاءٍ
اور اس لفظ صورت الرحمن سے فتنہ ہوا وہ خبر جو عطا بن ابی رباح سے ملی ایک عالم تھے جنہوں نے علم میں جانچ پڑتال نہیں کی اور اس اضافت صورت الرحمن سے وہم ہوا یہ اضافہ ذات باری کی صفات پر ہے پس انہوں نے غلطی کھائی جس کو ہم نے واضح کیا اور قول برا قول ہے الْمُشَبِّهَةِ کی گمراہی جیسا الله اس سے بچائے تمام مسلمانوں کو اس قول سے اور ہمارے نزدیک اس کی تاویل ہے کہ یہ خبر اگر نقلی لحاظ سے درست ہو تو یہ موصول ہے کیونکہ اس خبر میں تین علتیں ہیں ایک ثوری نے کی مخالفت کی ثوری نے ارسال کیا اور یہ نہیں کہا عن ابن عمر اور دوسری الْأَعْمَشَ مدلس ہے اور اس نے ذکر نہیں کیا کہ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ سے اس کا سماع ہے اور تیسری حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ بھی مدلس ہے اس کا سماع عطا بن ابی رباح سے ہے بھی پتا نہیں
صورت رحمان پر تخلیق کہنا توریت کی اس آیت کی تائید ہے – ابن عباس رضی الله عنہ اور امام مالک نے اس کا متن سنتے ہی اس کو رد کر دیا – اس کے بعد سن ٢٠٠ ہجری میں اس روایت کا پھر سے دور دورہ ہوا اور جھمیہ کی مخالفت میں اس کو محدثین صحیح کہنے لگے کیونکہ اس میں الله کے چہرے کا ذکر تھا اور جھمیہ اللہ کو انرجی نما کوئی چیز سمجھتے تھے جو تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے – چونکہ قرآن میں بھی وجھہ الله کے الفاظ ہے محدثین اس روایت کو جھمیہ کی مخالفت میں پیش کرنے لگے
کتاب الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کے مطابق ابن خزیمہ کی بات کا امام احمد رد کرتے تھے
وَحَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيُّ , حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ حَنْبَلٍ: يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ , حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَخِيرِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا , أَلَيْسَ تَقُولُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ؟ وَيَرَاهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَعْنِي رَبَّهُمْ عَزَّ وَجَلَّ؟ وَلَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى وَضَعَ فِيهَا قَدَمَهُ , وَإِنَّ مُوسَى لَطَمَ مَلَكَ الْمَوْتِ قَالَ [ص:1128] أَحْمَدُ: «كُلُّ هَذَا صَحِيحٌ» , قَالَ إِسْحَاقُ: «هَذَا صَحِيحٌ , وَلَا يَدْفَعُهُ إِلَّا مُبْتَدِعٌ أَوْ ضَعِيفُ الرَّأْيِ»
إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ کہتے ہیں میں نے امام احمد سے کہا کیا الله تعالی ہر رات آسمان دنیا پر نزول کرتے ہیں جب رات کا آخری تین تہائی رہ جائے کیا بولتے ہیں آپ ان احادیث پر ؟ اور اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ اور چہرہ مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور جہنم کی اگ نے اپنے رب سے شکایت کی یہاں تک کہ الله نے اس پر قدم رکھا – اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی؟ احمد نے کہا : یہ سب صحیح ہیں اور اسحاق نے کہا یہ سب صحیح ہیں اور ان کو رد نہیں کرتا لیکن بدعتی اور کمزور رائے والا
وہابی محقق محمد حسن عبد الغفار کتاب شرح كتاب التوحيد لابن خزيمة میں ابن خزیمہ کے قول کو ضعیف کہتے ہیں اور تبصرہ کرتے ہیں
وهل ابن خزيمة في مسألة الصورة يثبت لله صفة الصورة أم لا؟! نقول: هناك تأويلان: أولاً: الهاء في الحديث عائدة على المضروب، وليست عائدة على الله، فأخبره أن هذا المضروب خلق على صورة أبيه آدم عليه السلام، وهذا التأويل فيه ضعف؛ والحديث في الرواية الأخرى جاء بنص: (خلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعاً)، إذاً: الهاء عائدة على آدم عليه السلام، فطوله ستون ذراعاً وسبعة أذرع عرضاً، وجاء بإسناد صحيح عند الطبراني وغيره: (أن الله خلق آدم على صورة الرحمن) فإذا قلنا: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن فكيف نفهم هذا المعنى؟ نقول: أولاً: لله صورة، وهي صفة من صفات الله، وهل الصورة تشبه صورة الإنسان؟ حاشا لله! فمعنى: (خلق آدم على صورة الرحمن) أن آدم متكلم كما أن الله متكلم، وأن آدم سميع كما أن الله سميع، وإن آدم بصير كما أن الله بصير….وابن خزيمة يقول: الصورة إضافتها إضافة مخلوق إلى خالقه.
ونحن نخالفه في هذا
اور کیا ابن خزیمہ نے مسئلہ صورت میں الله کی طرف صفت صورت کا اثبات کیا یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں اس میں دو تاویلات ہیں ایک یہ کہ یہ مارنے والے کی طرف ھآ کی ضمیر ہے … اور یہ تاویل ضعیف ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ الله نے آدم کو ٦٠ ہاتھ لمبا اور ٧ ہاتھ چوڑا خلق کیا … تو اس کا کیا مطلب ہے ؟ ہم کہتے ہیں اول الله کی صورت ہے اور یہ اس کی صفت ہے اور کیا یہ صورت انسان سے ملتی ہے ؟ حاشا للہ ! پس اس کا معنی ہے خلق آدم علی صورت الرحمن کا کہ آدم اسی طرح بولتا ہے جس طرح الله بولتا ہے اور سنتا ہے جس طرح الله سنتا ہے اور دیکھتا ہے جس طرح الله دیکھتا ہے .. … اور ابن خزیمہ نے کہا کہ صورة کی اضافت مخلوق کی خالق کی طرف ہے اور ہم اس قول کے انکاری ہیں
روایت سندا صحیح نہیں ہے یہ کہنے کی بجائے اس کو صحیح بھی کہہ رہے ہیں اور خالق کو مخلوق سے بھی ملا رہے ہیں
چوتھی صدی ہجری میں ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا جو ابن خزیمہ کے ہم عصر تھے لیکن صحیح ابن حبان میں اس پر تبصرہ میں کہا
، وَالْهَاءُ رَاجِعَةٌ إِلَى آدَمَ، وَالْفَائِدَةُ مِنْ رُجُوعِ الْهَاءِ إِلَى آدَمَ دُونَ إِضَافَتِهَا إِلَى الْبَارِئِ جَلَّ وَعَلَا – جَلَّ رَبُّنَا وَتَعَالَى عَنْ أَنْ يُشَبَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ – أَنَّهُ جَلَّ وَعَلَا جَعَلَ سَبَبَ الْخَلْقِ الَّذِي هُوَ الْمُتَحَرِّكُ النَّامِي بِذَاتِهِ اجْتِمَاعَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، ثُمَّ زَوَالَ الْمَاءِ عَنْ قَرَارِ الذَّكَرِ إِلَى رَحِمِ الْأُنْثَى، ثُمَّ تَغَيُّرَ ذَلِكَ إِلَى
اور اس میں الْهَاءُ راجع ہے آدم کی طرف اور اس میں فائدہ ہے کہ یہ وَالْهَاءُ آدم کی طرف ہو نہ کہ الله کی طرف جو بلند و بالا ہے کہ اس سے کسی چیز کو تشہیہ دی جائے اس کی مخلوق میں سے وہ بلند ہے اس نے خلق کیا ہے وہ سونے والے کو متحرک کرتا مرد و عورت کو ملاتا پھر اس کا پانی ٹہراتا ہے پھر اس کو بدلتا ہے
یعنی ابن خزیمہ نے ابن عمر کی روایت کو ضعیف کہا لیکن ابن حبان نے صحیح کر دیا لیکن دونوں الھا کی ضمیر کو مارنے والے کی طرف لے جاتے ہیں اس کے برعکس حنبلی علماء اس کو الله کی طرف لے جاتے ہیں
کتاب تأويل مختلف الحديث میں أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) نے اس روایت پر لکھا
قَدِ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِي تَأْوِيلِ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّهُ خَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى صُورَتِهِ “.
فَقَالَ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ الْكَلَامِ: أَرَادَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، لَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، وَلَوْ كَانَ الْمُرَادُ هَذَا، مَا كَانَ فِي الْكَلَامِ فَائِدَةٌ.
وَمَنْ يَشُكُّ فِي أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَى صُورَتِهِ، وَالسِّبَاعَ عَلَى صُوَرِهَا، وَالْأَنْعَامَ عَلَى صُوَرِهَا
وَقَالَ قَوْمٌ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةٍ عِنْدَهُ.
وَهَذَا لَا يَجُوزُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَخْلُقُ شَيْئًا مِنْ خَلْقِهِ عَلَى مِثَالٍ.
وَقَالَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: “لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صورته
يُرِيد أَنَّ اللَّهَ -جَلَّ وَعَزَّ- خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الْوَجْهِ.
وَهَذَا أَيْضًا بِمَنْزِلَةِ التَّأْوِيلِ الْأَوَّلِ، لَا فَائِدَةَ فِيهِ.
وَالنَّاسُ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقَ آدَمَ، عَلَى خَلْقِ وَلَدِهِ، وَوَجْهَهُ عَلَى وُجُوهِهِمْ.
وَزَادَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: إِنَّهُ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- مَرَّ بِرَجُلٍ يَضْرِبُ وَجْهَ رَجُلٍ آخَرَ، فَقَالَ: “لَا تَضْرِبْهُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، خَلَقَ آدَمَ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- عَلَى صُورَتِهِ”، أَيْ صُورَةِ الْمَضْرُوبِ.
وَفِي هَذَا الْقَوْلِ مِنَ الْخَلَلِ، مَا فِي الْأَوَّلِ.
وَلَمَّا وَقَعَتْ هَذِهِ التَّأْوِيلَاتُ الْمُسْتَكْرَهَةُ، وَكَثُرَ التَّنَازُعُ فِيهَا، حَمَلَ قَوْمًا اللَّجَاجُ عَلَى أَنْ زَادُوا فِي الْحَدِيثِ، فَقَالُوا: رَوَى بن عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا1: “إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.
يُرِيدُونَ أَنْ تَكُونَ الْهَاءُ2 فِي “صُورَتِهِ” لِلَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، وَإِنَّ ذَلِكَ يَتَبَيَّنُ بِأَنْ يَجْعَلُوا الرَّحْمَنَ مَكَانَ الْهَاءِ كَمَا تَقُولُ: “إِنَّ الرَّحْمَنَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”، فَرَكِبُوا قَبِيحًا مِنَ الْخَطَأِ.
وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ نَقُولَ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ السَّمَاءَ بِمَشِيئَةِ الرَّحْمَنِ” وَلَا على إِرَادَة الرَّحْمَن
بلا شنہ لوگوں کا اس روایت کی تاویل میں اضطراب ہوا جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس ایک اصحاب الکلام کی قوم نے کہا اس میں مقصد ہے کہ آدم کو آدم کی صورت ہی پیدا کیا گیا اس سے زیادہ نہیں اور اگر اس سے یہ مراد ہے تو ایسے کلام کا فائدہ کیا ہے ؟ اور جس کو شک ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر کیا تو پھر گدھ کی اور چوپایوں کی صورتیں کس پر ہیں ؟ ایک دوسری قوم نے کہا الله نے آدم کو اس صورت پر پیدا کیا جو اس کے پاس ہے تو یہ ایسا کلام جائز نہیں ہے کیونکہ الله عزوجل نے کسی کو بھی خلق میں سے اپنے مثل نہیں بنایا – اور ایک قوم نے حدیث پر کہا چہرہ مت بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا مراد ہے الله نے اپنی ہی چہرہ پر بنایا – تو یہ بھی ویسی ہی تاویل ہے جیسی پہلی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے – اور لوگ جانتے ہیں کہ الله تبارک و تعالی نے آدم کو خلق کیا ان کی اولاد کے مطابق اور انکا چہرہ انکی اولاد کا ہے اور ایک قوم نے حدیث میں اضافہ کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ایک شخص پر سے گزر ہوا جو دوسرے کے چہرہ پر مار رہا تھا آپ نے فرمایا اس کے چہرہ پر مت مارو کیونکہ الله نے آدم کو اس کی صورت پیدا کیا یعنی مارنے والے کی ہی صورت پر اور اس قول میں خلل ہے جو پہلے میں نہیں ہے – تو جب اس قسم کی تاویلات منکرات واقع ہوئیں اور جھگڑا بڑھا تو ایک قوم نے بےہودگی اٹھائی اور اس حدیث میں الفاظ کا اضافہ کر دیا اور کہا کہ ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے الله تعالی نے آدم کو صورت رحمان پر خلق کیا – ان کا مقصد تھا کہ الھا کی ضمیر کو صورتہ کی طرف لے جائیں یعنی الله تعالی کے لئے اور اس میں واضح ہے کہ انہوں الرحمن کا لفظ کر دیا جہاں الھا تھا جیسا کہ کہا بے شک الرحمن نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا پس وہ ایک قبیح غلطی پر چلے اور ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ میں کہیں بے شک الله نے آسمان کو مشیت الرحمن کے مطابق خلق کیا نہ ہی رحمان کا ارادہ کہیں –
ابن قتیبہ نے جو تیسری صدی کے محدث ہیں اور امام احمد کے ہم عصر ہیں ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں ہے اس کا متن منکر ہے
ان کے مقابلے پر امام احمد اور اسحاق بن راہویہ تھے جو اس کو صحیح کہتے
کتاب : مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه از إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) کے مطابق امام احمد اس میں الھا کی ضمیر کو الله کی طرف لے جانا قبول کیا
أليس تقول بهذه الأحاديث. و “يرى أهل الجنة ربهم عز وجل” “ولا تقبحوا الوجه فإن الله عز وجل خلق آدم على صورته” يعني صورة رب العالمين، و “اشتكت النار إلى ربها عز وجل حتى يضع الله فيها قدمه” و “إن موسى عليه السلام لطم ملك الموت عليه السلام”؟
قال الإمام أحمد: كل هذا صحيح.
قال إسحاق: كل هذا صحيح، ولا يدعه1 إلا مبتدع أو ضعيف الرأي
کیا کہتے ہیں اس حدیث پر کہ اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے اور حدیث چہرہ مت بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یعنی رب العالمین کی صورت پر اور اگ نے اپنے رب سے شکایت کی حتی کہ اس نے اس پر قدم رکھا اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی ؟ امام احمد نے کہا یہ تمام صحیح ہیں اور امام اسحاق نے کہا یہ تمام صحیح ہیں اور ان کا انکار کوئی نہیں کرتا سوائے بدعتی اور کمزور رائے والا
البيان والتحصيل والشرح والتوجيه والتعليل لمسائل المستخرجة از أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ)
والحديث في قوله: «إن الله خلق آدم على صورته» يروى على وجهين؛ أحدهما: «إن الله خلق آدم على صورته» . والثاني: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن، فأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورته» فلا خلاف بين أهل النقل في صحتها؛ لاشتهار نقلها، وانتشاره من غير منكر لها، ولا طاعن فيها، وأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورة الرحمن» فمن مصحح لها، ومن طاعن عليها، وأكثر أهل النقل على إنكار ذلك، وعلى أنه غلط وقع من طريق التأويل لبعض النقلة توهم أن الهاء ترجع إلى الله عز وجل، فنقل الحديث على ما توهم من معناه، فيحتمل أن يكون مالك أشار في هذه الرواية بقوله وضعفه إلى هذه الرواية، ويحتمل أن يكون إنما ضعف بعض ما تؤول عليه الحديث من التأويلات، وهي كثيرة.
اور حدیث جس میں قول ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یہ دو طرح سے روایت ہوئی ہے ایک میں ہے الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دوسری میں آدم کو الرحمن کی صورت خلق کیا – جہاں تک تعلق ہے کہ اپنی صورت پر خلق کیا تو اس کی صحت پر اہل نقل کا اختلاف نہیں ہے لیکن جو دوسری ہے کہ آدم کو رحمن کی صورت خلق کیا تو اس کو صحیح کہنے والے ہیں اور اس پر طعن کرنے والے ہیں اور اکثر اہل نقل اس کا انکار کرتے ہیں اور بعض اہل تاویل کہتے ہیں کہ اس میں ھ کی ضمیر غلطی سے الله کی طرف ہے تو حدیث نقل کرنے والوں کو وہم ہوا اس کے معنی پر اور احتمال ہے کہ امام مالک نے اسی کی طرف اشارہ کیا اس کو ضعیف کہہ کر اور احتمال ہے کہ انہوں نے اس کی تاویلات کی وجہ سے ضعیف کہا اور یہ بہت ہیں
کتاب المنتخب من علل الخلال میں ابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) کہتے ہیں
أخبرني حرب، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ يَقُولُ: قَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) أَنَّهُ قَالَ: “إِنَّ آدَمَ خُلِقَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ: ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عن عطاء، عن ابن أبي عُمَرَ، عَنْ رَسُولَ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) قَالَ: “لا تُقبِحوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.قَالَ إِسْحَاقُ: وَإِنَّمَا عَلَيْهِ أَنْ يَنْطِقَ بِمَا صحَّ عَنْ رسول الله أَنَّهُ نَطَقَ بِهِ.وَأَخْبَرَنَا الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: كَيْفَ تَقُولُ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ): “خُلِقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”؟
قَالَ: الأَعْمَشُ يَقُولُ: عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: “أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرحمن”. فأما الثوري فأوفقه -يَعْنِي: حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ.وَأَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى الله عليه وسلم) “على صورته فنقول كَمَا فِي الْحَدِيثِ.
حرب نے خبر دی انہوں نے إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ سے سنا کہ بلاشبہ صحیح ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور ہم سے اسحاق نے روایت کیا ان سے جریر نے بیان کیا ان سے حبیب بن ابی ثابت نے ان سے عطا نے ان سے ابن عمر نے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرے کو مٹ بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو صورت رحمان پر خلق کیا – اسحاق نے کہا ہم پر ہے کہ ہم وہی بولیں جو رسول الله نے بولا ہو – اور المروزی نے خبر دی کہ انہوں امام احمد سے پوچھا کیا کہتے ہیں آپ اس حدیث پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ انہوں نے کہا : الأَعْمَشُ کہتے ہے حبیب بن ابی ثابت نے روایت کیا اس نے عطا سے اس نے ابن عمر سے … پس ہم وہی کہتے ہیں جو حدیث میں ہے
أبي بطين فتوی میں کہتے ہیں
رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين (مطبوع ضمن مجموعة الرسائل والمسائل النجدية، الجزء الثاني
وقال في رواية أبي طالب: من قال: إن الله خلق آدم على صورة آدم، فهو جهمي، وأي صورة كانت لآدم قبل أن يخلقه؟ وعن عبد الله بن الإمام أحمد قال: قال رجل لأبي: إن فلانا يقول في حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إن الله خلق آدم على صورته” 1 فقال: على صورة الرجل، فقال أبي: كذب، هذا قول الجهمية، وأي فائدة في هذا؟ وقال أحمد في رواية أخرى: فأين الذي يروي: “إن الله خلق آدم على صورة الرحمن”؟ وقيل لأحمد عن رجل: إنه يقول: على صورة الطين، فقال: هذا جهمي، وهذا كلام الجهمية، واللفظ الذي فيه على صورة الرحمن رواه الدارقطني، والطبراني، وغيرهما بإسناد رجاله ثقات.
اور ابی طالب کی روایت میں ہے کہ امام احمد نے کہا کہ جو یہ کہے کہ الله نے آدم کو آدم کی صورت پر پیدا کیا تو وہ جھمی ہے اور آدم تخلیق سے پہلے کس صورت پر تھے؟ اور عبد الله کی روایت میں ہے کہ امام احمد سے ایک آدمی نے کہا کہ فلاں کہتا ہے حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا تو کہا آدمی کی صورت اس پر امام احمد نے کہا جھوٹ یہ جھمیہ کا قول ہے اور اس کا فائدہ ؟ اور ایک دوسری روایت کے مطابق تو وہ کہاں ہے جس میں ہے کہ بے شک الله نے آدم کو الرحمن کی صورت پیدا کیا؟ اور امام احمد سے کہا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے ان کو مٹی کی صورت پیدا کیا احمد نے کہا یہ جھمی ہے اور یہ باتیں جہمیہ کی ہیں اور الفاظ ہیں رحمان کی صورت پیدا کیا اس کو دارقطنی طبرانی اور دوسروں نے ان اسناد سے روایت کیا ہے جن میں ثقہ ہیں
امام احمد صریحا اس کے انکاری تھے کہ الھا کی ضمیر کو انسانوں یا مٹی کی طرف لے جایا جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کو جھمی کہتے – امام احمد کا فتوی امام ابن خزیمہ اور ابن حبان پر لگا کہ یہ دونوں جھمی ہوئے ان کے نزدیک جو الھا کی ضمیر کو انسان کی طرف لے جاتے – واضح رہے کہ جھمیہ کا موقف غلط تھا وہ الله کے سماع و کلام کے انکاری تھے لیکن بعض علماء نے جھمیہ کی مخالفت میں روایات کی بنیاد صورت کو بھی الله کی صفت مناتے ہوئے ایک طرح یہ بھی مان لیا کہ آدم اور اس کے رب کی صورت ایک جیسی ہے
امام احمد کو اس مسئلہ سے بچانے کے لئے الذھبی نے میزان الآعتدال میں حمدان بن الهيثم کے ترجمہ میں لکھا
حمدان بن الهيثم. عن أبي مسعود أحمد بن الفرات. وعنه أبو الشيخ ووثقه. لكنه أتى بشيء منكر عن أحمد عن أحمد بن حنبل في معنى قوله عليه السلام إن الله خلق آدم على صورته. زعم أنه قال صور الله صورة آدم قبل خلقه ثم خلقه على تلك الصورة فأما أن يكون خلق الله آدم على صورته فلا فقد قال تعالى {ليس كمثله شيء
حمدان بن الهيثم ، ابی مسعود احمد بن الفرات سے اور ان سے ابو شیخ اور یہ ثقہ ہیں لیکن ایک منکر چیز امام احمد بن حنبل کے لئے لائے اس قول النبی پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دعوی کیا کہ وہ کہتے تھے کہ تخلیق سے پہلے الله نے آدم کی صورت گری کی تو وہ الله کی صورت تھی جس پر وہ بنے – (الذہبی تبصرہ کرتے ہیں) تو اگر یہی صورت تھی تو یہ نہیں تھی کیونکہ الله نے کہا اس کے مثل کوئی نہیں
لیکن المروزی نے جن مسائل میں امام احمد سے اس روایت کے متعلق پوچھا تھا اس میں صریح الفاظ میں صورة رب العالمين لکھا ہے دوم ابابطین کے مطابق یہ قول امام احمد کے بیٹے سے بھی منسوب ہے لہذا اس میں حمدان بن الهيثم کا تفرد نہیں ہے
حنبلی علماء میں حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: 1413هـ) نے اپنی کتاب عقیدہ أهل الإيمان في خلق آدم على صورة الرحمن میں لکھا کہ امام احمد سے یہ قول ثابت ہے کہ الھا کی ضمیر الله کی طرف ہے اور جو اس کے خلاف کہے وہ جھمی ہے
والقول بأن الضمير يعود على آدم وأن الله تعالى خلق آدم على صورته، أي على صورة آدم مروي عن أبي ثور إبراهيم بن خالد الكلبي. وبه يقول بعض أكابر العلماء بعد القرون الثلاثة المفضلة، وهو معدود من زلاتهم،
اور یہ قول کہ ضمیر جاتی ہے آدم کی طرف اور بے شک الله تعالی نے ان کو انکی صورت پر بنایا یعنی آدم کی صورت پر جو مروی ہے ابو ثور ابراہیم بن خالد اور الکلبی سے اور اسی طرح بعض اکابر علماء نے کہا ہے قرن تین کے بعد اور وہ چند ہیں اپنی غلطیوں کے ساتھ
اس کتاب میں تعلیق میں حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري دعوی کرتے ہیں
وأنه لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله.
اور بے شک سلف کے درمیان تین قرون میں اس پر کوئی نزاع نہ تھا کہ (صورته ميں الهاء) ضمیر الله کی طرف جاتی ہے
حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري نے ابن حبان، ابن خزیمہ، امام مالک، امام ابن قتیبہ ، سب کو ایک غلط قرار دے کر خود جمہور میں امام احمد کو قرار دیا یہاں تک کہ ابن حجر اور الذھبی کی رائے کو بھی غلط قرار دے دیا
ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں لکھتے ہیں
لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله فإنه مستفيض من طرق متعددة عن عدد من الصحابة وسياق الأحاديث كلها يدل على ذلك وهو أيضاً مذكور فيما عند أهل الكتابين من الكتب كالتوراة وغيرها
قرون ثلاثہ میں سلف میں کوئی نزاع نہ تھا کہ یہ ضمیر الله کی طرف جاتی ہے کیونکہ اس پر بہت سے طرق سے اصحاب رسول سے روایات ہیں اور ان سب احادیث کا سیاق دلالت کرتا ہے اسی پر اور یہ اہل کتاب کی کتب میں بھی مذکور ہے جیسے توریت اور دیگر
وہابی عالم محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421 هـ) کتاب شرح العقيدة الواسطية میں لکھتے ہیں
أن الإضافة هنا من باب إضافة المخلوق إلى خالقه، فقوله: “على صورته”، مثل قوله عزوجل في آدم: {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72]، ولا يمكن أن الله عز وجل أعطى آدم جزءاً من روحه، بل المراد الروح التي خلقها الله عز وجل، لكن إضافتها إلى الله بخصوصها من باب التشريف، كما نقول: عباد الله، يشمل الكافر والمسلم والمؤمن والشهيد والصديق والنبي لكننا لو قلنا: محمد عبد الله، هذه إضافة خاصة ليست كالعبودية السابقة
یہاں پر (الھا) کی اضافت، مخلوق کی خالق کی طرف اضافت ہے قول ہے علی صورته الله تعالی کے قول {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72] کی مثل ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ الله تعالی نے آدم کو اپنی روح کا جز دیا ہو بلکہ مراد ہے وہ روح جو اللہ نے تخلیق کی لیکن اس کی اضافت الله کی طرف کی ہے اس کی خصوصیت کی بنا پر شرف کی وجہ سے جیسے ہم کہیں الله کے بندے جن میں کافر اور مسلم اور مومن اور شہید اور صدیق اور نبی سب ہیں لیکن اگر ہم کہیں محمد الله کے بندے تو یہ اضافت خاص ہے ویسی نہیں جیسے دوسرے بندوں کے لئے تھی
یعنی وہابیوں میں اس اضافت پر اختلاف ہوا جس میں متاخرین نے امام احمد کے قول کی اتباع کی اور اضافت کو بقول ابن العثيمين ، المماثلة کی طرح الله کی طرف کر دیا
محدثین کے اس اختلاف میں الجهمية ، المعتزلة ، الأشاعرة اور الماتريدية نے صورت کی بطور صفت الہی نفی کی اور
دوسرے گروہ نے اس کا اثبات کیا (جن میں امام احمد، ابن تیمیہ وغیرہ ہیں) لیکن بعد میں ان میں بھی اختلاف ہوا جیسے حنابلہ میں
کتاب أبكار الأفكار في أصول الدين از سيف الدين الآمدي (المتوفى: 631هـ) کے مطابق
وقد روى عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال: إنّ اللّه خلق آدم على صورته
فذهبت المشبهة: إلى أن هاء الضمير في الصورة عائدة إلى الله- تعالى-، وأن الله تعالى- مصور بصورة مثل صورة آدم؛ وهو محال
اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا بے شک الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس المشبهة اس طرف گئے ہیں کہ صورته میں هاء کی ضمیر الله کی طرف جاتی ہے اور الله تعالی ، آدم کی شکل والا کوئی صورت گر ہے اور يه محال ہے
الآمدي کے مطابق وہ تمام لوگ ( بشمول محدثین) جو الھا کی ضمیر الله کی طرف لے کر گئے ہیں المشبهة ہیں
اہل تشیع میں بھی یہ روایت مقبول رہی جہاں ابا جعفر اس کو بیان کرتے ہیں
الكافي – الشيخ الكليني – ج 1 – ص 134کی روایت ہے
عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد بن خالد ، عن أبيه ، عن عبد الله بن بحر ، عن أبي أيوب الخزاز ، عن محمد بن مسلم قال : سألت أبا جعفر عليه السلام عما يروون أن الله خلق آدم على صورته ، فقال هي : صورة ، محدثة ، مخلوقة واصطفاها الله واختارها على سائر الصور المختلفة ، فأضافها إلى نفسه ، كما أضاف الكعبة إلى نفسه ، والروح إلى نفسه ، فقال : ” بيتي ” ، ” ونفخت فيه من روحي
محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ابا جعفر علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا وہ یہ دیکھتے ہیں کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پیدا کیا تو انہوں نے کہآ یہ صورت ایک نئی تھی مخلوق تھی اور الله نے اس کو دیگر تمام مختلف صورتوں میں سے چنا اور لیا پھر اس کی اضافت اپنی طرف کی جیسے کعبه الله کی اضافت اپنی طرف کی اور روح اضافت اپنی طرف کی جیسے کہا بیتی میرا گھر یا ونفخت فيه من روحي میں اس میں اپنی روح پھونک دوں گا
یہ تشریح مناسب ہے اور اس حدیث سے تجسیم کا عقیدہ نہ نکلے اس کی یہ تاویل ہی صحیح ہے
لیکن اہل سنت میں بعض لوگوں نے الله کو ایک مرد کی صورت دے دی اور الله تعالی کا چہرہ ، مرد کا چہرہ بنا دیا گیا کتاب اسماء و الصفات از البیہقی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي سُوَيْدٍ الذِّرَاعُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح. وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظَ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ثنا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي جَعْدًا أَمْرَدَ [ص:364] عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . قَالَ: وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، ثنا ابْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَوْصِلِيُّ وَابْنُ شَهْرَيَارَ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى، ثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ. فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ جَعْدٍ» . قَالَ: وَزَادَ عَلِيُّ بْنُ شَهْرَيَارَ: «عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . وَرَوَاهُ النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ.
حماد بن سلمہ، قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا – ….ایک مرد کی صورت دیکھا اس پر سبز لباس تھا
البیہقی، صحیح مسلم کے راوی حماد بن سلمہ پر برستے ہیں اور لکھتے ہیں
أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ، نا ابْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، قَالَ: «كَانَ حَمَّادُ بْنُ [ص:366] سَلَمَةَ لَا يُعْرَفُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ حَتَّى خَرَجَ خَرْجَةً إِلَى عَبَادَانَ، فَجَاءَ وَهُوَ يَرْوِيهَا، فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا شَيْطَانًا خَرَجَ إِلَيْهِ فِي الْبَحْرِ فَأَلْقَاهَا إِلَيْهِ» . قَالَ أَبُو عَبْدِالله الثَّلْجِيُّ: فَسَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ صُهَيْبٍ يَقُولُ: إِنَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ كَانَ لَا يَحْفَظُ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّهَا دُسَّتْ فِي كُتُبِهِ،
عبد الرحمان بن مہدی کہتے ہیں کہ ان قسم کی احادیث سے حماد بن سلمہ نہیں پہچانا جاتا تھا حتی کہ عَبَادَانَ پہنچا پس وہ وہاں آیا اور ان کو روایت کیا پس میں (عبد الرحمان بن مہدی) سمجھتا ہوں اس پر شیطان آیا جو سمندر میں سے نکلا اور اس نے حماد پر یہ القاء کیا. ابو بکر الثلجی کہتے ہیں میں نے عباد بن صہیب کو سنا کہا بے شک حماد بن سلمہ حافظ نہیں ہے اور محدثین کہتے ہیں اس نے اپنی کتابیں دفن کیں
حماد بن سلمہ کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ اس اوپر والے قول کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ ہے جس پر جھوٹ کا الزام ہے میزان الاعتدل میں الذہبی ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
قال ابن عدي: كان يضع الحديث في التشبيه ينسبها إلى أصحاب الحديث يسابهم ذلك.
قلت: جاء من غير وجه أنه كان ينال من أحمد وأصحابه، ويقول: إيش قام به أحمد! قال المروزي: أتيته ولمته
ابن عدي کہتے ہیں تشبیہ کے لئے حدیث گھڑتا تھا جن کو اصحاب حدیث کی طرف نسبت دیتا ان کو بے عزت کرنے کے لئے
الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں ایک سے زائد رخ سے پتا ہے کہ یہ امام احمد اور ان کے اصحاب کی طرف مائل تھے اور کہتے کہ احمد کہاں رکے ہیں المروزی نے کہا یہ اتے اور ملتے
یہاں تو مسئلہ ہی الٹا ہے حماد بن سلمہ، نعوذ باللہ ، الله کو مرد کی شکل کا کہہ رہے ہیں جو تشبیہ و تجسیم کا عقیدہ ہے اس روایت کو البانی صحیح کہہ رہے ہیں
مالکیہ کے بر خلاف حنابلہ نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ الله تعالی کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا – اس میں ان کے نزدیک ایک مضبوط روایت یہ ہی تھی جس کی سند کو انہوں نے صحیح کہنا شروع کیا
کتاب طبقات الحنابلة ج ١ ص ٢٤٢ از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک یہ اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں اور یہ عقیدہ ایمان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا
والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما روى عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الأحاديث الصحاح وأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قد رأى ربه فإنه مأثور عَنْ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صحيح قد رواه قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ والحديث عندنا عَلَى ظاهره كما جاء عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – والكلام فيه بدعة ولكن نؤمن به كما جاء عَلَى ظاهره ولا نناظر فيه أحدًا
اور ایمان لاؤ روز قیامت الله کو دیکھنے پر جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم کی روایت میں آیا ہے .. اور صحیح احادیث میں کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے صحیح ہے جیسا روایت کیا ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے
البانی کے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت صحیح ہے اور إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) میں بہت سی روایات ہیں جن میں الله تعالی کو ایک مرد نوجوان گھنگھریالے بالوں والا کہا گیا ہے وہاں ان تمام روایات کو پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہےکہ الله تعالی کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا اس کو متقدمین حنابلہ نے قبول کیا
کتاب غاية المرام في علم الكلام از الآمدي (المتوفى: 631هـ) کے مطابق کرامیہ نے بھی یہ عقیدہ اختیار کیاکہ الله ایک گھنگھریالے بال والا نوجوان کی صورت ہے – السفاريني کے مطابق بعض غالی شیعوں نے بھی اس عقیدہ کو اختیار کیا –
اہل تشیع کے تمام فرقے اس کے قائل نہیں تھے بعض میں میں الله کی تجسیم کا انکار تھا کتاب التوحيد – از الصدوق – ص 103 – 104 کی روایت ہے
حدثني محمد بن موسى بن المتوكل رحمه الله ، قال : حدثنا عبد الله بن جعفر الحميري ، عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسن بن محبوب ، عن يعقوب السراج ، قال : قلت لأبي عبد الله عليه السلام : إن بعض أصحابنا يزعم أن لله صورة مثل صورة الإنسان ، وقال آخر : إنه في صورة أمرد جعد قطط ، فخر أبو عبد الله ساجدا ، ثم رفع رأسه ، فقال : سبحان الله الذي ليس كمثله شئ ، ولا تدركه ‹ صفحة 104 › الأبصار ، ولا يحيط به علم ، لم يلد لأن الولد يشبه أباه ، ولم يولد فيشبه من كان قبله ، ولم يكن له من خلقه كفوا أحد ، تعالى عن صفة من سواه علوا كبيرا .
یعقوب سراج نے کہا کہ میں ابی عبد الله علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے بعض اصحاب (شیعہ) دعوی کرتے ہیں کہ الله کی صورت ایک انسان کی صورت جیسی ہے اور دوسرا کہتا ہے وہ ایک گھنگھریالے بالوں والا مرد ہے – پس امام ابو عبد الله سجدے میں گر گئے پھر سر اٹھایا اور کہا الله پاک ہے اس کے مثل کوئی شی نہیں ہے نگاہیں اس کا ادرک نہیں کر سکتیں اور اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا اور وہ نہ پیدا ہوا کیونکہ لڑکا اپنے باپ کی شکل ہوتا ہے اور نہ اس نے کسی کو جنا اس سے پہلے اور نہ مخلوق میں کوئی اس کا کفو ہے وہ بلند ہے
ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس میں حنابلہ کا رد کیا جو تجسیم کی طرف چلے گئے
اور بے شک قاضی ابویعلی نے صفت الله کا اثبات کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ (الله) ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد تھا جس نے لباس اور جوتیاں پہن رکھیں تھیں اور تاج تھا اس نے اس کا اثبات کیا لیکن اس کے معنوں پر عقل نہیں دوڑائی .. اور ہم جانتے ہیں جوان اور امرد کا کیا مطلب ہے … ابن عقیل کہتے ہیں یہ حدیث ہم جزم سے کہتے ہیں جھوٹ ہے پھر راوی کی ثقاہت کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر متن میں ممکنات نہ ہوں
افسوس ابن جوزی حنبلی کے ڈیڑھ سو سال بعد انے والے ایک امام ، امام ابن تیمیہ نے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں الله تعالی کو جوان اور گھنگھریالے بالوں والا جوان والی روایت پر لکھا کہ امام احمد کے نزدیک یہ صحیح ہیں
حدثني عبد الصمد بن يحيى الدهقان سمعت شاذان يقول أرسلت إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل أستأذنه في أن أحدث بحديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال رأيت ربي قال حدث به فقد حدث به العلماء قال الخلال أبنا الحسن بن ناصح قال حدثنا الأسود بن عامر شاذان ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه جعدًا قططا أمرد في حلة حمراء والصواب حلة خضراء
شاذان کہتے ہیں میں نے بھیجا امام احمد کی طرف اور پوچھا کہ وہ اس حدیث پر کیا حکم کرتے ہیں جو قتادہ عن عکرمہ عن ابن عباس کی سند سے روایت کرتا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا – امام احمد نے کھا اس کی روایت کرو کیونکہ اس کو علما نے روایت کیا ہے …. ابن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا گھونگھر والے بالوں والا, بغیر داڑھی مونچھ والا جوان جس پر سرخ یا سبز لباس تھا
اسی کتاب میں رویہ الباری تعالی پر ابن تیمیہ کہتے ہیں
وأخبر أنه رآه في صورة شاب دونه ستر وقدميه في خضرة وأن هذه الرؤية هي المعارضة بالآية والمجاب عنها بما تقدم فيقتضي أنها رؤية عين كما في الحديث الصحيح المرفوع عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء
اور رسول الله نے خبر دی کہ انہوں نے الله کو ایک مرد کی صورت دیکھا درمیان پردہ تھا اور اس کے قدموں پر سبزہ تھا اور اس خواب کی مخالفت آیات سے ہوتی ہے اور اس کا جواب دیا گیا ہے جو گزرا کہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے آنکھ سے دیکھا جیسا کہ صحیح مرفوع حدیث میں ہے عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس کی سند سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد کی صورت ، بہت گھونگھر والے بالوں والا سبز باغ میں دیکھا
دوسری طرف ابن تیمیہ کے ہم عصر الذھبی دمشق ہی میں اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں شَاذَانُ أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ الشَّامِيُّ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ (2) .
وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَالسَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:
قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.حماد بن سلمہ روایت کرتا ہے قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا یعنی نیند میں اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے جو خبر منکر ہے ہم الله سے اس پر سلامتی کا سوال کرتے ہیں دین میں نہ یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر اور اگر اس کے راوی غیر متہم ہوں تو بھی وہ نسیان خطا سے پاک نہیں اور پہلی خبر میں نے رب کو دیکھا جس میں نیند کی قید ہے اور بعض روایات میں ہے نبی نے کہا میں نے معراج پر رب کو دیکھا اس میں ظاہر حدیث سے اجتجاج کیا گیا ہے
الذھبی اسی کتاب میں امام لیث بن سعد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: مَا أَدْركنَا أَحَداً يُفَسِّرُ هَذِهِ الأَحَادِيْثَ، وَنَحْنُ لاَ نُفَسِّرُهَا.
قُلْتُ: قَدْ صَنَّفَ أَبُو عُبَيْدٍ (1) كِتَابَ (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ) ، وَمَا تَعرَّضَ لأَخْبَارِ الصِّفَاتِ الإِلَهِيَّةِ بِتَأْوِيلٍ أَبَداً، وَلاَ فَسَّرَ مِنْهَا شَيْئاً.
اور ابو عبید نے کہا ہمیں کوئی نہیں ملا جو ان (صفات والی) احادیث کی تفسیر کرے اور ہم بھی نہیں کریں گے
میں الذھبی کہتا ہوں اس پر ابو عبید نے کتاب (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ) تصنیف کی ہے انہوں نے اس میں صفات الہیہ کی کبھی بھی تاویل نہیں کی نہ ان میں کسی چیز کی تفسیر کی
اسی کتاب میں الذھبی محدث ابن خزیمہ کے لئے لکھتے ہیں
وَكِتَابُه فِي (التَّوحيدِ) مُجَلَّدٌ كَبِيْرٌ، وَقَدْ تَأَوَّلَ فِي ذَلِكَ حَدِيْثَ الصُّورَةِ
فَلْيَعْذُر مَنْ تَأَوَّلَ بَعْضَ الصِّفَاتِ، وَأَمَّا السَّلَفُ، فَمَا خَاضُوا فِي التَّأْوِيْلِ، بَلْ آمَنُوا وَكَفُّوا، وَفَوَّضُوا عِلمَ ذَلِكَ إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِه
اور ان کی کتاب توحید ہے مجلد کبیر اور اس میں حدیث صورت کی تاویل ہے پس ان کو معاف کریں صفات کی تاویل کرنے پر اور جہاں تک سلف ہیں تو وہ تاویل میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ ان پر ایمان لائے اور رکے اور علم کو الله اور اس کے رسول سے منسوب کیا
الذھبی نے اس قسم کے اقوال کو بالکل قبول کرنے سے انکار کیا کہ سلف صفات الہیہ پر ایسا نہیں کہہ سکتے لیکن ابن تیمیہ نے بھر پور انداز میں جھمیہ پر کتاب میں ان تمام اقوال کو قبول کیا
کتاب سیر الاعلام النبلا میں ابن عقیل کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں
قُلْتُ: قَدْ صَارَ الظَّاهِرُ اليَوْم ظَاهِرَيْنِ: أَحَدُهُمَا حقّ، وَالثَّانِي بَاطِل، فَالحَقّ أَنْ يَقُوْلَ: إِنَّهُ سمِيْع بَصِيْر، مُرِيْدٌ متكلّم، حَيٌّ عَلِيْم، كُلّ شَيْء هَالك إِلاَّ وَجهَهُ، خلق آدَمَ بِيَدِهِ، وَكلَّم مُوْسَى تَكليماً، وَاتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلاً، وَأَمثَال ذَلِكَ، فَنُمِرُّه عَلَى مَا جَاءَ، وَنَفهَمُ مِنْهُ دلاَلَةَ الخِطَابِ كَمَا يَليق بِهِ تَعَالَى، وَلاَ نَقُوْلُ: لَهُ تَأْويلٌ يُخَالِفُ ذَلِكَ. وَالظَّاهِرُ الآخر وَهُوَ البَاطِل، وَالضَّلاَل: أَنْ تَعتَقِدَ قيَاس الغَائِب عَلَى الشَّاهد، وَتُمَثِّلَ البَارِئ بِخلقه، تَعَالَى الله عَنْ ذَلِكَ، بَلْ صفَاتُهُ كَذَاته، فَلاَ عِدْلَ لَهُ، وَلاَ ضِدَّ لَهُ، وَلاَ نَظيرَ لَهُ، وَلاَ مِثْل لَهُ، وَلاَ شبيهَ لَهُ، وَلَيْسَ كَمثله شَيْء، لاَ فِي ذَاته، وَلاَ فِي صفَاته، وَهَذَا أَمرٌ يَسْتَوِي فِيْهِ الفَقِيْهُ وَالعَامِيُّ – وَاللهُ أَعْلَمُ -.
میں کہتا ہوں: آج ہمارے ہاں ظاہر ہوئے ہیں ایک وہ ہیں جو حق ہیں اور دوسرے وہ جو باطل ہیں پس جو حق پر ہیں وہ کہتے ہیں کہ الله سننے والا دیکھنے والا ہے اور کلام کرنے والا ہے زندہ جاننے والا ہے ہر چیز ہلاک ہو گی سوائے اس کے وجھہ کے اس نے آدم کو ہاتھ سے خلق کیا اور موسی سے کلام کیا اور ابراہیم کو دوست کیا اور اس طرح کی مثالیں پس ہم ان پر چلتے ہیں جو آئیں ہیں اور ان کا وہی مفھوم لیتے ہیں جو اللہ سے متعلق خطاب میں دلالت کرتا ہے
اور ظاہر ہوئے ہیں دوسرے جو باطل ہیں اور گمراہ ہیں جو اعتقاد رکھتے ہیں غائب کو شاہد پر قیاس کرتے ہیں اور الباری تعالی کو مخلوق سے تمثیل دیتے ہیں بلکہ اس کی صفات اسکی ذات ہیں پس اس کی ضد نہیں اس کی نظیر نہیں اس کے مثل نہیں اس کی شبیہ نہیں اس کے جیسی کوئی چیز نہیں نہ اس کی ذات جیسی نہ صفات جیسی اور یہ وہ امر ہے جو برابر ہے فقیہ اور عامی کے لئے والله اعلم
یہودیوں کی کتاب سلیمان کا گیت میں الفاظ ہیں
His head is purest gold; his locks are wavy and black as a raven.
اس کا سر خالص سونا ھے اور بالوں کا گھونگھر لہر دار ہے اور کالے ہیں کوے کی طرح
Song of Solomon
اس کتاب کو علماء یہود کتب مقدس کی سب سے اہم کتاب کہتے ہیں جو تصوف و سریت پر مبنی ہے اور عشق مجازی کے طرز پر لکھی گئی ہے
یاد رہے اس امت میں دجال ایک گھنگھریالے بالوں والا جوان ہو گا جو رب ہونے اور مومن ہونے کا دعوی کرے گا
اور کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ دجال کے نکلنے پر اس کی اتباع صرف یہودی ہی کریں گے بلکہ امام ابن عقیل حنبلی کتاب الفنون میں اپنے دور کے دجالوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے متبع مسلمانوں کا
لوگ چل دیے انہی المشبه کی طرح جنھیں وہم ہوا اور جنہوں نے اپنے دلوں میں یہ بات بٹھائی کہ ان کا رب ایک آدمی کی صورت ہے پس انہوں نے ( صفت) صورہ کا انکار نہ کیا اور ان (دجالوں) کے ہاتھوں ظاہر ہوئے وہ افعال الہی جن میں مردوں کا زندہ کرنا ہے اور بادل کو اٹھانا ہے اور اسی طرح کے فتنے پس یہاں تک کہ کوئی نہ تھا جو ان کا انکار کرتا
ان میں سے ایک (ان دجالوں کی اتباع کرنے والے) نے کہا اور وہ جو اسکے دل میں تھا اس کو چھپایا اور پٹنے سے گھبرا کر بولا کہ وہ (اصل الدجال اکبر تو) کانا ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تمہارا رب کانا نہیں ہے
اس سے حنبلی (ابن عقیل) نے کہا: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شیخ (اس دجال کا ساتھی) اگر دجال (اکبر) کو صحیح آنکھوں سے پائے تو اس کے پاس جائے گا اور اسکی عبادت کرے گا کہ اس کی صورت کامل ہے – پس تیرے دل میں جو تھا وہ نکل آیا ہے تو عبادت سے نہیں رکے گا الا یہ کہ وہ کانا ہو-اور الله سبحانہ و تعالی نے مسیح اور انکی ماں کی الوہیت کا انکار کیا یہ کہہ کر کہ وہ کھانا کھاتے تھے- اور اگر یہی تیری معذرت ہے تو تیرے لئے واجب ہے کہ عیسیٰ کی عبادت کر کیونکہ وہ مردے کو زندہ کرتا تھا اور کانآ نہیں تھا
ابن عقیل کے شاگرد ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس کے مقدمہ میں اعتراف کیا کہ حنابلہ نے گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے کف افسوس ملتے ہوئے مقدمہ میں لکھتے ہیں
میں نے اپنے اصحاب (حنابلہ) کو دیکھا جو اصول میں ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو صحیح نہیں ہیں
أور إس میں تین تصانیف ہیں ابو عبد الله بن حامد کی اور ان کے صاحب قاضی ابو یعلی کی اور ابن الزغوانی کی پس انہوں نے ان کو اپنے مذھب کے مطابق تصنیف کیا اور میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مرتبے سے گر کر عوام کی سطح پر آ گئے اور انہوں نے صفات باری تعالی کو اس محسوسات تک کا متقاضی کر دیا پس انہوں نے الله تعالی کو نام دیا کہ اس نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر خلق کیا پس الله کے لئے صورت کا اثبات کیا
اور (ہمارے مخالفین نے کہا کہ الله) كا چہره ذات بر اضافہ ہے اور دو انکھیں ہیں اور منہ … اور اس کے چہرہ کا نور کرنیں ہیں اور اس کے دو ہاتھ ہیں اور انگلیاں اور ہتھیلی اور چھنگلیا اور انگوٹھے اور سینہ اور ران اور پنڈلی اور دو پیر ہیں اور کہا انہوں نے کہ ہم نے اس کے سر کا نہیں سنا اور کہا یہ جائز ہے کہ اس کو چھوا جائے أور وه بذات اپنے بندے کے پاس آئے اور ان میں سے بعض نے کہا وہ سانس لے پھر عوام ان کے اس اس قول سے راضی ہوئی نہ کہ عقل سے
اور انہوں نے اسماء و الصفات کو اس کے ظاہر پر لیا پس ان کو صفات کا نام دیا بدعتوں کی طرح ان کے پاس کوئی عقلی و نقل سے پہنچی دلیل نہیں تھی نہ انہوں نے نصوص کی طرف التفات کیا جن کا معانی الله کے لئے واجب ہے
.
.
.
.
أور يه كلام صريح ألتشبيه كا ہے جس میں خلق نے انکی اتباع کی … جبکہ تہمارے سب سے بڑے امام احمد بن حنبل الله رحم کرے کہا کرتے تم کیسے کہہ دیتے ہو جو میں نے نہیں کہا پس خبردار ایسا کوئی مذھب نہ ایجاد کرو جو ان سے نہ ہو
اب اگلی صدیوں میں ابن تیمیہ ، امام ابن الجوزی کے کہے کو میٹ دیں گے اور الله کی صفات میں اس قدر الحاد کریں کریں گے کہ اس کو رجل امرد تک کہہ دیں گے
کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة از ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق
وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا.
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے
الغرض امام مالک مطلقا اس خلق آدم علی صورتہ کو قبول نہیں کرتے تھے اور وہ اس کو سنتے ہی رد کرتے تھے – امام احمد، امام اسحٰق ، امام بخاری امام مسلم اس کو صحیح سمجھتے تھے- بعض گمراہ لوگ اس سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا استخراج کرتے اور شوافع اس کو کذب کہتے اور حنابلہ اس سے ساتھ ایک دوسری روایت سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا عقیدہ رکھتے – آٹھویں صدی تک جا کراہل سنت میں (مثلا الذھبی) خلق آدم علی صورتہ والی روایت کی تاویل سے منع کر دیا گیا اور الله کے لئے کسی بھی تجسیم کا عقیدہ غلط قرار دیا جانے لگا
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے
السلام و علیکم و رحمت الله
جیسا کہ آپ کی مذکورہ بالا پوسٹ سے ظاہر ہے کہ حنابلہ کے علماء کی اکثریت الله کی تجسیم کی طرف مائل تھی – سوال ہے کہ دیگر محدثین یعنی امام بخاری و مسلم و ابو داؤد وغیرہ بھی الله رب العزت کی تجسیم کے قائل تھے ؟؟
دجال سے متعلق صحیحین اور صحاح ستہ میں دسیوں روایات ایسی ہیں جو الله رب العزت کی ذات کی تجسیم و تمثیل کو ظاہر کرتی ہیں -جو دجال کی صفات سے موازنہ کے طور پر ان روایات میں پائی جاتی ہیں- مثال کے طور پر یہ روایات
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:میں نے تمہیں دجال کے بارے میں خبر دی ہے۔اور مجھے ڈر ہے کہ تم اس کو پہچان نہ سکو گے۔مسیح الدجال چھوٹے قد کا گھنگریالے بالوں والا اور آنکھ کا کانا نہ مٹی ہوئی نہ بہت اونچی ابھری ہوئی اور نہ بہت دھنسی ہوئی ہو گی اگر پھر بھی تمہیں اسکے بارے میں شک پڑجائے تو خوب جان رکھو تمہارا رب کانا نہیں ہے۔
حوالہ:سنن ابوداؤد،کتاب الملاحم،باب خروج الدجال432
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دجال کی صفات کے بارے میں فرمایا
دجال نوجوان گھنگریالے بالوں والااس کی ایک آنکھ پھولی ہوئی گویا کہ میں اسکو عبد العزیٰ بن قطن کے ساتھ مشابہت دیتا ہوں۔
حوالہ:صحیح مسلم کتاب الفتن ،و اشراط الساعۃ باب ذکر الدجال :7373
’’انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کوجھوٹے کانے دجال سے نہ ڈرایا ہو۔سن لو وہ مردود کانا ہے اور تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے اور اسکی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا
حوالہ:صحیح بخاری:کتاب الفتن باب الذکر ال دجال :7131،صحیح مسلم 7363
کیا اس وقت کے انسانوں یا مسلمانوں کو مغالطہ ہوگا کہ ان کا رب بھی ان کی طرح ایک انسان ہے جو دجال کی صورت میں نمودار ہوا – فرق صرف اتنا ہے کہ الله کی دو آنکھیں ہیں اور دجال کانا ہے- لیکن دونوں کے گھنگھریالے بال ہیں ؟؟ (نعوز باللہ
و علیکم السلام
امام بخاری نے دیگر بغدادی محدثین کی طرح تجسیم کی طرف مائل روایت کو بیان کیا ہے اور یقینا ان کو اس کی خبر ہو گی کہ امام مالک نے اس قسم کی روایات کا ذکر کرنے سے منع کیا ہے لیکن پھر بھی بخاری نے لکھا ہے- اس پر ان کی کیا تاویل تھی اس کا علم نہیں ہے
حنابلہ نے صحیح البخاری کو اصح الکتاب بعد کتاب اللہ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے ان کے اسما و صفات کے مذھب کی تائید ہوتی ہے
ورنہ نیشا پور میں تو ماحول ان کتابوں کے حوالے سے “خراب” تھا – امام ابو حاتم اور امام ابو زرعہ ان دونوں یعنی بخاری و مسلم کو خواب آڑے ہاتھوں لیتے تھے
دوسری طرف امام احمد اور ان کے ہم نوا محدثین ہیں جو اللہ تعالی کو عرش پر گھنگھریالے بالوں والا جوان کہتے ہیں
حنبلی اور وہابی اور اہل حدیث کے نزدیک اللہ ایک جسم ہے۔
کتاب طبقات الحنابلة ج ١ ص ٢٤٢ از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک عقیدہ ایمان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا۔
والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما روى عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الأحاديث الصحاح وأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قد رأى ربه فإنه مأثور عَنْ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صحيح قد رواه قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ والحديث عندنا عَلَى ظاهره كما جاء عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – والكلام فيه بدعة ولكن نؤمن به كما جاء عَلَى ظاهره ولا نناظر فيه أحدًا
اور ایمان لاؤ روز قیامت الله کو دیکھنے پر جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم کی روایت میں آیا ہے .. اور صحیح احادیث میں کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے صحیح ہے جیسا روایت کیا ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے۔
إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) میں بہت سی روایات ہیں جن میں الله تعالی کو ایک مرد نوجوان گھنگھریالے بالوں والا کہا گیا ہے وہاں ان تمام روایات کو پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہےکہ الله تعالی کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا اس کو متقدمین حنابلہ نے قبول کیا۔
امام ابن تیمیہ نے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں الله تعالی کو جوان اور گھنگھریالے بالوں والا جوان والی روایت پر لکھا کہ امام احمد کے نزدیک یہ صحیح ہیں۔
حدثني عبد الصمد بن يحيى الدهقان سمعت شاذان يقول أرسلت إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل أستأذنه في أن أحدث بحديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال رأيت ربي قال حدث به فقد حدث به العلماء قال الخلال أبنا الحسن بن ناصح قال حدثنا الأسود بن عامر شاذان ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه جعدًا قططا أمرد في حلة حمراء والصواب حلة خضراء
شاذان کہتے ہیں میں نے بھیجا امام احمد کی طرف اور پوچھا کہ وہ اس حدیث پر کیا حکم کرتے ہیں جو قتادہ عن عکرمہ عن ابن عباس کی سند سے روایت کرتا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا – امام احمد نے کھا اس کی روایت کرو کیونکہ اس کو علما نے روایت کیا ہے …. ابن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا گھونگھر والے بالوں والا, بغیر داڑھی مونچھ والا جوان جس پر سرخ یا سبز لباس تھا۔
—————————
بہر حال دجال کا دعوی الوہیت کا ہے وہ پھولی آنکھ والا گھنگھریالے بالوں والا عرب شکل کا ہو گا
روایت وہ کانا ہے تمہارا رب کانا نہیں
اس روایت کو ہم اس طرح سمجھیں گے کہ نبی علیہ السلام کا مقصد اللہ تعالی کو انسانی شکل کا قرار دینا نہیں بلکہ دجال کے دعوی الوہیت کی تردید ہے
دجال کعبہ کا طواف بھی کرے گا ظاہر ہے مومن ہی بن رہا ہو گا اور بعض اس کو اوتار سمجھیں گے
یقینا مدت دجال میں بعض مسلمانوں کو انہی روایات سے مغالطہ ہو گا کہ ان کا رب زمین پر آ گیا ہے
اور وہ دجال کو رب کہیں گے
اسی وجہ سے میں نے اس بلاگ کا ٹائٹل یہ دیا ہے تاکہ غور کرنے والے غور کریں
جزاک الله
معلومات کا شکریہ
ایک جگہ پڑھا تھا – اگرچہ یہ روایت مجھے کہیں نہیں ملی کہ
بعض کا کہنا ہے کہ دجال والی روایات کا مطلب ہے کہ وہ جب لوگوں کے سامنے ظاہر ہو گا تو اپنے رب ہونے کا دعوی کرے گا -جس پر لوگ اس کا انکار کریں گے کہ ہمارا رب تو آسمانوں میں ہے- تو کیسا رب ہے جو ہمارے سامنے موجود ہے؟؟- اس پر دجال ان سے کہے گا کہ کیا تمہیں یقین نہیں کہ تمہارا رب ہر چیز پر قادر ہیں – لوگ کہیں گے “ہاں ہمارا ایمان ہے کہ ہمارا رب ہر چیز پر قادر ہے” – جس پر دجال لوگوں سے کہے گا کہ اگر تمہارا رب ہر چیز پر قادر ہے تو وہ اس چیز پر بھی قادر ہے کہ انسانی شکل میں تمہارے سامنے آ جائے – اور میں ہی تمہارا رب ہوں -؟؟ – اس بنا پر ہی روایات میں یہ کہا گیا دجال کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں
کیا کہیں گے آپ اس بارے میں ؟؟
الوہیت کا دعوی اس زمین پر لوگ کرتے رہے ہیں نمرود کا تھا فرعون کا تھا اور دجال کا بھی ہو گا – فرق یہ ہے کہ نمرود اور فرعون کافر تھے جبکہ دجال مومن بن رہا ہو گا
اس اقتباس میں ایک تاویل پیش کی گئی ہے کہ دجال اپنی الوہیت کا دعوی کس طرح کس بنیاد پر کرے گا جو سمجھ میں اتی ہے کہ بہت ممکن ہے ایسا ہو
البتہ اس کا جواب قرآن میں پہلے سے موجود ہے کہ زمین کی ساخت اللہ نے خود ایسی رکھی ہے کہ وہ اپنے رب کو برداشت نہیں کر سکتی اور فنا ہو جائے گی جس کا ذکر موسی والے قصے میں ہے کہ پہاڑ پر تجلی کی تو اس سے پہاڑ فنا ہو گیا
اگر اللہ تعالی واقعی اس زمین پر آ جائے تو زمین بھی ذرات میں بدل جائے گی
اس بنا پر ہمارے پاس نص ہے کہ اللہ تعالی اس زمین پر اوتار بن کر نہیں اتا اور جو (دجال ) دعوی کر رہا ہے وہ خود عیب سے خالی نہیں کہ اپنی شکل تک تو درست نہیں کر سکا کہ اس میں آنکھ ابلی پڑ رہی ہے
جزاک الله
اصل میں ہمیں یہ معلوم نہیں کہ جس دور میں دجال کا خروج ہوگا اس دور میں لوگوں یا مسلمانوں کی ایمانی کیفیت کیا ہوگی ؟؟ یعنی آج اگر ایک انسان ظاہری طور پر عیب دار ہے اور لوگوں کے سامنے الوہیت کا دعوی کرتا ہے اور لوگ اس کے دھوکے میں آ جاتے ہیں- ایسا بظاھر ممکن نظر نہیں آتا- آجکل کے دور میں تو چاہے کوئی بھی بڑے سے بڑا مشرک, کافر، یہودی عیسآی, ہندو یا مسلمان بدعتی ہو – اگر اس کے سامنے کوئی انسان اپنے رب ، گوڈ یا بھگوان ہونے کا دعوی کرتا ہے تو شاید ہی اس پر کوئی ایمان لاے- زیادہ سے زیادہ وہ اس انسان کو بڑا پیر ، ولی الله یا رب کا چہیتا سمجھیں گا لیکن اس کو رب نہیں کہیں گا- نمرود اور فرعون کے الوہیت کے دعوے کو ان کی قوم کے لوگوں نے مجبوراً قبول کیا تھا- لیکن دجال کے بارے میں تو یہی کہا گیا ہے کہ لوگ اس کی الوہیت کے دعوے کے دھوکے میں آجائیں گے – اس لئے روایات میں اس کو پیدائش آدم سے قیامت تک ایک بڑا اور شدید فتنہ قرار دیا گیا ہے – اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو کوئی اس (کانے دجال) کے بارے میں سنے تو اس کے قریب نہ جائے – ایک شخص اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہو گا لیکن دجال کے پاس جائے گا تو فتنے میں پڑ جائے گا- (واللہ اعلم
دجال یا علامات قیامت کے بارے میں تمام معلومات نہیں دی گئیں کیونکہ اگر سب معلوم ہو تو فتنہ ہی نہیں رہتا