Author Archives: Islamic-Belief

یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے

لا تنظر إلى من قال بل أنظر إلى ما قيل

یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہا جا رہا ہے

لا تنظروا الیٰ من قال، انظروا الیٰ ما قال

کہا جاتا ہے کہ امیر المومنین  علی رضی اللہ عنہ نے  کہا کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے – اس کی اسناد جمع کی جانی چاہیے تھیں   کہ دیکھا جائے اس قول کا علی پر بہتان کس نے باندھا  ہے،  کیونکہ یہ قول علی ممکن نہیں ہے – یہ قرآن کے حکم  خبر فاسق   کی تحقیق کرو (سورہ الحجرات) سے براہ راست متصادم  ہے

حیرت کی بات یہ ہے مصادر اہل تشیع میں یہ قول سندا کہیں بھی بیان نہیں ہوا – كتاب غُرر الحِكم ودُرر الكلم، للقاضي ناصح الدين أبي الفتح عبد الواحد بن محمَّد التميمي الآمدي (ت: 550 للهجرة)، میں اس کو بلا سند علی سے منسوب  کیا گیا ہے

اور اہل سنت کی کتب میں کہا جاتا ہے ابن السمعاني نے   اپنی کتاب الدلائل اور تاریخ  میں اس کا ذکر کیا ہے البتہ یہ کتاب مفقود ہیں

  کتاب  الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة المؤلف: مرعي بن يوسف بن أبى بكر بن أحمد الكرمى المقدسي الحنبلى (المتوفى: 1033هـ) کے مطابق  یہ قول علی ہے لیکن اس میں بھی کوئی  سند نہیں دی

سن چھ  ہجری تک اہل تشیع میں  مکمل  جرح و تعدیل شروع   نہیں ہو سکی تھی لہذا علم  اسماء الرجال سے جان چھڑانے  کے لئے یہ قول ایجاد  کیا گیا  کہ  اہل بیت سے منسوب کچھ بھی مل جائے اس کو مستند مان لو – یہ مت دیکھو  کون (کذاب  یا جاہل)   کہہ رہا ہے  بلکہ صرف متن پسند آ جائے تو اس کو قبول کر لو

کسی کے پاس علی سے منسوب  اس قول کی سند ہو تو برائے  مہربانی  یہاں پیش کرے

جھمی عقائد اور امام البخاری

104 Downloads

جدید جہمیوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا ہے کہ صفات اللہ کا پرتو اس کے انبیاء عیسیٰ و سلیمان عليهما السلام میں ظاہر ہوا – عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے أور سليمان ہواؤں کو چلاتے تھے لہذا اللہ نے ان صفات کو اپنی مخلوق عیسیٰ وسليمان کو دے دیا- جمهي لوگ اس قول کو إس طرح بيان کرتے ہیں : “ اللہ کی صفت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوئی “ –
جدید جہمیوں کے بقول یہ سب کرنا اللہ کے حکم سے ہوا یعنی مخلوق میں صفت باری کا ان کو عکس نظر آ رہا ہے اور اپنے اس باطل عقیدے کو الجھی ہوئی عبارات کے ذریعہ وہاٹس اپپ کے ذریعے سے گردش میں لاتے رہے –
اس سے قبل انہی لوگوں نے دجال کے حوالے سے یہ عقیدہ پھیلایا کہ دجال کو قوت من جانب اللہ ملے گی کہ مردوں کو زندہ کرے اور اس حوالے سے ان لوگوں نے راقم سے بہت بحثیں کی – راقم نے اس وقت بھی وضاحت کی تھی کہ انبیا کو معجزہ ملنے کا مطلب قوت النبی ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کا فعل ہے – نبی تو صرف خبر کرتا ہے کہ ایسا ایسا ہو گا اور پھر وہ من جانب اللہ ہو جاتا ہے – اسی طرح معجزہ صرف حق کے اثبات کے لئے ہوتا ہے – کفر کے اثبات پر نہیں ہوتا

جہمیوں کا قول سننے کو مل رہا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کی صفت صوفیا کے ہاتھ پر ظاہر نہیں ہوتیں لیکن نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو سکتیں ہیں اور اس کا ایک نیا نام ان لوگوں نے معجزاتی صفت رکھ دیا اور پھر کہا کہ قرآن بھی مخلوق ہے – ظلمات بعضها فوق بعض

اس گمراہی کے سد باب کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے ایک تحریر “نشانی “ پہلے سے اس ویب سائٹ پر موجود ہے

ابو شہریار
رمضان ١٤٤٥

سرخ گائے کا بھسم

یهود کے نزدیک وہ ملعون ہیں اور الوہی لعنت کا خاتمہ اس وقت ہو گا جب ان کے کوہن یا ائمہ ہیکل پاکیزہ نہ ہو جائیں – صرف غسل کرنے سے وہ پاک نہیں ہوں گے بلکہ ان کو باقاعدہ ایک رسم کرنی ہو گی جس میں گائے کی سوختنی قربانی دینی ہو گی – اس کا ذکر بائبل کی کتاب گنتی کے باب ١٩ میں ہے اور اس وجہ سے اس گئے کو
Number 19

گائے کہا جاتا ہے – مکمل رسم کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے

 

بائبل  کے  محققین  کہتے ہیں یہ اقتباسات  موسی علیہ السلام کو جو توریت ملی اس کے نہیں ہیں –  اور ایک مشہور محقق

Richard Elliot Friedman

کی کتاب

The Bible with Sources Revealed

میں انکشاف  کیا گیا ہے کہ یہ اقتباسات  بابل کی غلامی کے دوران  ہیکل کے بچے کچھے  پروہتوں  نے  توریت میں شامل کر  دیے تھے

اگر یہ  ابواب  بابل  کی غلامی  کے دوران میں شامل  کیے  گئے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ یہ سب سحر  کی وجہ سے کتاب اللہ میں داخل  کیے  گئے  ہوں کیونکہ وہاں بابل میں یہود  سحر میں مبتلا رہے ہیں  دیکھئے  سورہ البقرہ

بہر حال  اس سرخ  گائے کو  قتل کرنے کے بعد  اس  کی لاش کو گوبر سمیت  جلایا جائے  گا  اور پھر  اس کو  پانی میں شامل کر کے غسل طہارت  کوہن و  پروہت  لیں  گے – اس طرح  وہ اس قابل ہوں گے کہ  جدید  ہیکل سلیمانی میں داخل ہو سکیں

لہذا   الله کا شکر ادا کریں کہ اس   نے آخری رسول و نبی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا  اور ہم کو شرک سے بچایا اور قرآن کو نازل  کیا – یہ فرقان ہے اور ہر  باطل کا پردہ چاک کرنے والی  کتاب ہے

 

ذو القرنین   فرشتہ  ہے  یا انسان

ساحل عدیم  نے اپنی پورٹل   تھیوری  میں  ایک بار ذکر  کیا کہ ذو القرنین  انسان  تھا  پھر  ایک دوسری تقریر  میں ذکر  کیا کہ وہ  فرشتہ تھا- راقم نے دونوں  روایات  کا تعاقب  کیا  اور  جو اسناد ملی وہ  مخدوش ہیں

 

عمر  رضی  اللہ عنہ  کا قول ذو القرنین   فرشتہ ہے

العظمة از أبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ)

علی رضی   اللہ  عنہ  کا قول  ذو  القرنین   صالح  بندہ ہے

مشکل اثار  از طحاوی

 قَالَ سَلَمَةُ: عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ فَقَالَ: «مَلِكٌ مَسَحَ الْأَرْضَ مِنْ تَحْتِهَا بِالْأَسْبَابِ» قَالَ [ص:1480] خَالِدٌ: وَسَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَجُلًا يَقُولُ: يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «اللَّهُمَّ غَفْرًا، أَمَا رَضِيتُمْ أَنْ تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ حَتَّى تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْمَلَائِكَةِ؟»  

خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ نے ذکر  کیا  کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم سے ذو القرنین  پر   سوال ہوا    پس  فرمایا    بادشاہ  جس   نے زمین کو  نیچے  سے چھوا      اسباب  کے ساتھ  

اور  خالد  نے ذکر کیا کہ عمر   رضی  اللہ عنہ نے  ایک شخص کو کہتے  سنا   کہہ رہا   تھا   اے  ذو  القرنین –   پس  عمر  نے    کہا  اے اللہ  اس کو معاف  کر  ،  کیا  تم اس  پر  راضی  نہیں  ہو  کہ   انبیاء  کے ناموں  پر نام  رکھو     یہاں  تک کہ   اب  تم  لوگ  فرشتوں  کے ناموں   پر آ   گئے  ہو

 

 

راقم   کہتا  ہے سند  منقطع  ہے –  خالد بن معدان الحمصي  کا  سماع  عمر  سے ثابت  نہیں ہے

عن أبي الطفيل قال: قام عليّ على المنبر فقال: سلوني قبل أن تسألوني ولن تسألوا بعدي مثلي، فقام إليه ابن الكوا فقال: ما كان ذو القرنين أملكًا كان أم نبيًا؟ قال: لم يكن ملكًا ولا نبيًا ولكنه كان عبدًا صالحًا

 

علی رضی اللہ عنہ سے  سوال  ہوا کہ ذو القرنین  کون تھے، نبی  یا فرشتہ  ؟  علی  نے  کہا   نہ   نبی  نہ  فرشتہ    بلکہ    صالح  بندے   تھے  

 

سند ضعیف  ہے  – سند  میں  ابو  طفیل   پر  بعض  محدثین  کا  کہنا  ہےحل   کہ  یہ  صحابی  نہیں  کیسانیہ   فرقہ  کا  بدعتی  ہے

تفسیر ابی حاتم کی  روایت  ہے

 عَنْ الأحوص بن حكيم عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ ذي القرنين فقال: «هُوَ ملك مسح الأَرْض بالإحسان

الأحوص بن حكيم  نے اپنے باپ سے روایت  کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   جب  ذو القرنین   پر سوال  ہوا  :   وہ  ایک  بادشاہ  ہے  جس  نے  زمین  کو احسان  سے چھوا

امام احمد  کہتے ہیں کہ انوہں نے   سے روایت  لکھی پھر ان کو جلا  دیا

وقال ابن هانىء: سألت أبا عبد الله عن الأحوص بن حكيم؟ فقال: ضعيف لا يسوى حديثه شيئًا. قال أبو عبد الله: كان له عندي شيء فخرقته

 وقال النسائي: ضعيف. (الضعفاء والمتروكون) 62.

  وقال الدارقطني: منكر الحديث. (الضعفاء والمتروكون)

تفسیر  ابی حاتم  میں ہے

حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ ثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عِلْبَاءِ بْنِ أَحْمَرَ: أَنَّ ذَا الْقَرْنَيْنِ قَدِمَ مَكَّةَ، فَوَجَدَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ يَبْنِيَانِ قَوَاعِدَ الْبَيْتِ مِنْ خمسة أجبل. فقال لهما: ما لكما وَلأَرْضِي؟ فَقَالَ: نَحْنُ عَبْدَانِ مَأْمُورَانِ أُمِرْنَا بِبِنَاءِ هَذِهِ الْكَعْبَةِ. قَالَ: فَهَاتَا بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَا تَدَّعِيَانِ؟ فَقَامَتْ خَمْسَةُ أَكْبُشٍ، فَقُلْنَ: نَحْنُ نَشْهَدُ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ عَبْدَانَ مَأْمُورَانِ أُمِرَا بِبِنَاءِ الْكَعْبَةِ.  فَقَالَ: قَدْ رَضِيتُ وَسَلَّمْتُ ثُمَّ مَضَى.

عِلْبَاءِ بْنِ أَحْمَرَ نے  کہا  ذو القرنین    مکہ    پہنچے   وہاں  ابراہیم و  اسمعیل کو پایا   جو  بیت  اللہ کو  تعمیر   کر رہے  تھے

سند  میں  عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ  ہے  جس  پر  السليماني کا کہنا  ہے : فيه نظر  اس پر نظر  ہے

ذو القرنین ،شہر مرو اور دلیل رسالت نبوی

مرو  سینٹرل  ایشیا  کا ایک  شہر ہوا  کرتا   تھا

مسند احمد کی حدیث   ہے

 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، حَدَّثَنَا أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَخِي سَهْلُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ بُرَيْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” سَتَكُونُ بَعْدِي بُعُوثٌ كَثِيرَةٌ، فَكُونُوا فِي بَعْثِ خُرَاسَانَ، ثُمَّ انْزِلُوا مَدِينَةَ مَرْوَ؛ فَإِنَّهُ بَنَاهَا ذُو الْقَرْنَيْنِ، وَدَعَا لَهَا بِالْبَرَكَةِ، وَلَا يَضُرُّ أَهْلَهَا سُوءٌ

بریدہ رضی اللہ عنہ سے  مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا   میرے  بعد   بہت سے لشکر   ہوں  گے   تو تم  خراسان   کے لشکر میں  ہو جانا   پھر  شہر  مرو  میں  اترنا  کیونکہ  اس کو  ذوالقرنین  نے بسایا   تھا    اور اس کی  برکت کی دعا   کی   تھی ، اس  شہر   کے رہنے  والوں   کو  کوئی     برائی    نقصان  نہ دے     گی

   امام  الذھبی   میزان  الاعتدال  میں   سند   کے راوی    أوس بن عبد الله بن بريدة المروزي  پر  لکھتے  ہیں

قال البخاري: فيه نظر.

وقال الدارقطني: متروك.

پھر  اس کی اسی    مرو    کے حوالے سے   روایت  کا ذکر کر کے  کہا  یہ منکر  ہے

فمن حديثه، عن أخيه سهل، عن أبيه، عن جده: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ستبعث بعدى بعوث، فكونوا في بعث خراسان، ثم انزلوا كورة يقال لها مرو، ثم اسكنوا مدينتها، فإن ذا القرنين بناها ودعا لها بالبركة، لا يصيب أهلها سوء.

قلت: هذا منكر.

محدث   الساجی   کہتے   ہیں   قال الساجي  : منكر الحديث

وقال النسائي: ليس بثقة. (الضعفاء والمتروكون) 59.

امام احمد  نے بھی اس کو منکر  حدیث  قرار  دیا ہے – ابن  قدامہ   لکھتے ہیں

حديث بُرَيْدَةَ بن الحصيب -رضي اللَّه عنه-: “سَتَكُونُ بَعْدِي بُعُوثٌ كَثِيرَةٌ، فَكُونُوا فِي بَعْثِ خُرَاسَانَ، ثُمَّ انْزِلُوا مَدِينَةَ مَرْوَ، فَإِنَّهُ بَنَاهَا ذُو القَرْنَيْنِ وَدَعَا لَهَا بِالْبَرَكَةِ، وَلَا يَضُرُّ أَهْلَهَا سُوءٌ”

قال الإمام أحمد: هذا حديث منكر

اس   روایت کی ایک  اور سند  بھی ہے  –  ابن  جوزی   کتاب   العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں  دوسری  سند دیتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الْمُوَحِّدُ قَالَ نا هَنَّادُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ النَّسَفِيُّ قَالَ أنا الْقَاضِي أبو البكر أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ نا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ مَحْمُودِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَحْمُودِيُّ قَالَ نا مُحَمَّدُ بْنُ عُمْرَانَ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ نا هُدْبَةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ نا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ نا نوح ابْنَ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:”يَا بُرَيْدَةُ إِنَّهُ سَتُفْتَحُ بَعْدِي الْفُتُوحُ وَيُبْعَثُ بَعْدِي الْبُعُوثُ فَإِذَا بُعِثَ فَكُنْ فِي بَعْثِ أَهْلِ خُرَاسَانَ فَإِذَا بُعِثَ مِنْهَا فَكُنْ فِي بَعْثِ مَرْوَ فَإِذَا أَتَيْتَهَا فَاسْكُنْ مَدِينَتَهَا فَإِنَّهُمْ لا يُصِيبُهُمْ ضِيقٌ وَلا سُوءٌ مَا بَقَوْا.

ابن جوزی تبصرہ  کرتے ہیں

وَفِي الطَّرِيقِ الثَّانِي نُوحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ يَحْيَى لَيْسَ بِشَيْءٍ ولا يكتب حديثه وقال الدارقطني: مَتْرُوكٌ.

اس  دوسری سند میں  راوی نُوحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ   ہے    امام   یحیی    کہتے ہیں  یہ کوئی چیز   نہیں – اس کی حدیث  مت لکو  اور دارقطنی   کہتے ہیں   متروک  ہے

اس  روایت کی ایک تیسری سند بھی ہے –  مجمع الزوائد میں ہے

[بَابُ مَا جَاءَ فِي خُرَاسَانَ وَمَرْوَ]

16683 – عَنْ بِرَيْدَةَ قَالَ: «سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: ” سَيَكُونُ بَعْدِي بُعُوثٌ كَثِيرَةٌ، فَكُونُوا فِي بَعْثِ خُرَاسَانَ، ثُمَّ انْزِلُوا مَدِينَةَ مَرْوَ ; فَإِنَّهُ بَنَاهَا ذُو الْقَرْنَيْنِ، وَدَعَا لِأَهْلِهَا بِالْبَرَكَةِ، وَلَا يَضُرُّ أَهْلَهَا سُوءٌ» “.

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْأَوْسَطِ بِنَحْوِهِ، وَفِي إِسْنَادِ أَحْمَدَ وَالْأَوْسَطِ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَفِي إِسْنَادِ الْكَبِيرِ حُسَامُ بْنُ مِصَكٍّ، وَهُمَا مُجْمَعٌ عَلَى ضَعْفِهِمَا.

الهيثمي  کہتے ہیں کہ اس کی سند میں  حُسَامُ بْنُ مِصَكٍّ ہے اور اس کی تضعیف پر اجماع ہے

حیرت  کہ محض  اس  سند کو دیکھ  کر ابن حجر  نے اس  روایت کو حسن  کہہ دیا ہے – لیکن  ابن عراق  کتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة  میں لکھتے ہیں

وَقد حسن هَذَا الحَدِيث الْحَافِظ أَبُو الْفضل شَيخنَا لأجل الْمُتَابَعَة، وَفِيه نظر فَإِن حساما لَيْسَ من قبيل من يحسن الحَدِيث بمتابعته

اس روایت کو حسن قرار دینے پر نظر  ہے کیونکہ حسام  اس قبیل کے راویوں  میں سے نہیں کہ متابعت میں اس کی روایت کو حسن کہہ دیا  جائے

امام بیہقی   نے اپنی جلد بازی  میں    اس  روایت  کا شمار نبوت کے    دلائل   میں   کیا تھا

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَتُبْعَثُ بُعُوثٌ فَكُنْ فِي بَعْثٍ يَأْتِي خُرَاسَانَ، ثُمَّ اسْكُنْ مَدِينَةَ مَرْوَ. فَإِنَّهُ بَنَاهَا ذُو الْقَرْنَيْنِ وَدَعَا لَهَا بِالْبَرَكَةِ، وَقَالَ: لَا يُصِيبُ أَهْلَهَا سُوءٌ

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم   ہے کہ  مرو کے اہل کو کوئی  نقصان نہ دے پائے  گا

دوسری  طرف  تاریخ سے معلوم  ہے کہ  منگول  تاتار  کے حملوں میں  مرو شہر تباہ  ہو گیا اور آج تک غیر آباد ہے

گیارویں   سے بارہویں  عیسیوی  صدی کے آس پاس شہر  مرو اپنے عروج پر پہنچ گیا ، عظیم سلجوق سلطنت کا دارالحکومت بن گیا اور ممکنہ طور پر پانچ لاکھ تک کی آبادی کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک بن گیا۔ یہ اسلامی تعلیم اور ثقافت میں اپنی نمایاں خدمات کے لئے مشہور تھا۔ تاہم ، اس شہر کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا جب اسے 1221 میں منگولوں نے تباہ کردیا ، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا اور  یہ آباد نہ رہ سکا ۔

القرآن کلام اللہ غیر مخلوق

قران   اللہ کا کلام  ہے  اور  متعدد   بار  قرآن  میں   آیات کو کلام اللہ کہا گیا  ہے – کلام اللہ تعالی   کرتا ہے  تو کسی بھی زبان میں  کر سکتا ہے –  مثلا  موسی علیہ السلام سے  کلام  کیا  تو  یا تو وہ  ال فرعون کی زبان تھی یا بنی اسرائیل کی زبان تھی  کیونکہ دونوں سے ہی موسی علیہ السلام  واقف  تھے

معتزلہ  نے یہ  موقف  لیا کہ اللہ تعالی کلام نہیں  کرتا کیونکہ  کلام  کرنا  ان کے  نزدیک انسانوں  کا یا مخلوق کا کام ہے اور   اسی طرح  حواس خمسہ والی کوئی  صفت نہیں رکھتا  یعنی  نہ وہ سنتا ہے نہ وہ دیکھتا ہے بس وہ علم رکھتا ہے  اس بنا پر انہوں نے السمیع  و البصیر  والی  آیات  کو بھی بدلنا شروع کر دیا تھا

اسی سے ملتا جلتا  موقف   آجکل  بعض  لوگوں نے باطل موقف  اپنا لیا ہے کہ  قرآن   الوحی  ہے مخلوق  ہے

اس  پر ان لوگوں  کا رد کیا  گیا  تو انہوں نے یہ شوشہ  گھڑا  کہ امام  بخاری  کا عقیدہ  یہ تھا کہ قرآن  مخلوق ہے – یہ صریح  کذب ہے اور تاریخ کو  اپنے مقصد کے  لئے  مسخ کرنا ہے اور ساتھ ہی ظاہر  کرتا ہے کہ ان لوگوں  کو اس کا علم  نہیں کہ  یہ انکشاف کسی  شارح حدیث کو بھی نہیں ہوا کہ  امام  بخاری  کا عقیدہ   قرآن کو مخلوق  کہنے  کا ہے

 – –  صدیوں  سے یہ  معروف چلا آ رہا ہے کہ امام بخاری  قرآن کو غیر مخلوق کہتے  تھے

اس بات کو تنظیم  سے چھپنے والے لٹریچر میں بھی بیان کیا گیا ہے دیکھئے واتقوا اللہ

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/09/WattaqullahQist06-part2.pdf

 

صفحہ 24 دیکھیں

اس  بات سے  کہ امام الذھلی کے نام  پر تدلیس  کی گئی ہے تو یہ ظاہر  کرتا ہے کہ صحیح  بخاری امام بخاری کی آخری  تصنیف  ہے

اور وہ بات  جس پر نیشاپور  جھگڑا ہوا  وہ  یہی تھا کہ امام بخاری کے نزدیک  قرآن  اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور  اس کی تلاوت  مخلوق ہے

امام   بخاری  نے کہیں  نہیں لکھا کہ انہوں نے اپنی پچھلی  کتب سے رجوع کر لیا ہے-  ساتھ  ہی ڈاکٹر عثمانی  کی کوئی ایسی  تحریر  و تقریر نہیں جس میں  ہو  کہ ان کی تحقیق کے مطابق  امام  بخاری  نے  اپنی  تمام کتب سے رجوع  کر لیا تھا سوائے صحیح البخاری کے – اگر ایسا  ڈاکٹر  صاحب  کا موقف  ہوتا تو  ان کے جائز نہ تھا کہ اپنی کتاب ایمان خالص دوم  میں  تاریخ الکبیر از  امام  بخاری  کے حوالے دیتے جو صحیح   البخاری سے  پہلے کی کتاب ہے

فرق  صرف اتنا ہے کہ صحیح  میں وہ روایات جو  امام بخاری کے نزدیک صحیح السند ہیں  جبکہ دیگر  کتب میں ضعیف و صحیح دونوں طرح کی ہیں –  حبل اللہ شمارہ سات میں ڈاکٹر  شفیق  کو جواب دیتے  عثمانی نے لکھا

اس  کی وضاحت ڈاکٹر صاحب  نے اس طرح کی کہ اگر امام بخاری  نے  کوئی ضعیف روایت کسی کتاب میں لکھ دی ہے  البتہ  اس پر ان کا عقیدہ ثابت   نہیں ہے تو محض سندا  روایت  بیان کرنے کی وجہ سے ان کا رد و کفر  نہیں ہو گا فتوی نہیں لگے گا – البتہ  کتاب خلق الافعال  العباد  میں   امام بخاری نے  متعدد بار  کہا ہے قرآن غیر مخلوق ہے

امام  ابو عبداللہ  البخاری  نے کہا :  قرآن کی حرکات ، اس کی آواز قرات اور اس کو حاصل کرنا اور اس کو لکھنا یہ مخلوق ہے – پس جہاں تک قرآن  متلو مبین جو مصحف میں ہے  لکھا ہوا اور مکتوب ہے اور دلوں میں ہے وہ کلام اللہ ہے خلق شدہ نہیں ہے  – اللہ تعالی نے کہا : بلکہ یہ آیات واضح ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن کو علم دیا گیا ہے

اپنی کتاب  خلق افعال  میں امام بخاری نت باب قائم کیا اور لکھا

بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ يَسْتَعِيذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ لَا بِكَلَامِ غَيْرِهِ وَقَالَ نُعَيْمٌ: «لَا يُسْتعَاذُ بِالْمَخْلُوقِ، وَلَا بِكَلَامِ الْعِبَادِ وَالْجِنِّ وَالْإِنْسِ، وَالْمَلَائِكَةِ وَفِي هَذَا دَلِيلٌ أَنَّ كَلَامَ اللَّهِ غَيْرُ مَخْلُوقٍ، وَأَنَّ سِوَاهُ مَخْلُوقٌ»

باب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے کلمات سے  پناہ مانگی  ہے  نہ کہ کسی  اور کلام سے اور نعیم  نے  کہا  مخلوق  پر نہیں ہے کہ بندوں یا جنات یا انس یا فرشتوں کے  کلام سے  پناہ طلب کرے اور یہ دلیل  ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ہے  اور اس کے سوا مخلوق ہے

اسی طرح  امام بخاری نے مزید لکھا

اور بے شک اللہ تعالی  پکارتا ہے آواز سے جس  کو دور والا بھی سنتا ہے جیسا  قریب والا سنتا ہے  اور کسی غیر اللہ کے کلام میں ایسا نہیں ہے  – امام  ابو عبد اللہ بخاری نے کہا :  اور یہ دلیل  ہے کہ اللہ کی آواز مخلوق جیسی نہیں اور فرشتے اس کی اوز سے غش  کھا  کر گر جاتے ہیں مخلوق کی آواز  ایسی نہیں

 امام بخاری  نے  کہا: اگر تیرا دعوی ہے کہ تو اللہ کا کلام لوگوں کو اس طرح سناتا ہے جیسا اللہ نے اپنا کلام موسی کو سنایا (اللہ تعالیٰ نے موسی سے کہا کہ بے شک میں تیرا رب ہوں) تو یہ رب ہونے کا دعوی ہے جبکہ تو فرق نہ کرے اپنی قرأت اور اللہ کے کلام کے درمیان

امام   بخاری  تاریخ  الکبیر  میں  لکھتے  ہیں

سَمِعَ سُفْيَانَ بْن عُيَينة، قَالَ: أدركتُ مشيختنا، منذ سبعين سنة، منهم عَمرو بْن دينار، يَقُولُون: القرآن كلام اللَّه، وَلَيْسَ بمخلوقٍ.

سَمِعَ مُعاوية بْن عَمّار، عَنْ جَعفر بْن مُحَمد، قَالَ: القرآن كلام اللهِ، لَيْسَ بمخلوقٍ

اب کسی کے نزدیک امام  بخاری  کے تمام جملے  کفر ہیں تو اس کو امام بخاری  پر فتوی دینا  ہو  گا کیونکہ الفاظ  قرآن غیر مخلوق سے رجوع   کے الفاظ امام بخاری سے منقول نہیں ہیں

راقم  کہتا ہے کہ امام  بخاری کا عقیدہ خلق قرآن کے حوالے سے  درست  منہج پر ہے اور اسی کو اہل سنت نے قبول کیا ہے – باقی اس کے مخالف  اہل سنت میں نہ کوئی گروہ رہا ہے نہ عالم گزرا ہے لہذا یہ   کہنا کہ قرآن کے منزل میں اللہ الفاظ اور الوحی  جو جبریل لائے  وہ مخلوق کا کلام ہے  جھمیہ و معتزلہ   کا مذھب  ہے

جھمی  جاہل  سعید  اور اس کے چیلے اصف  خان کو کوئی روایت  ملی ہے تو یہ  ہے

صحیح بخاری میں حدیث ہے

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ  پیروی کرنے والے میرے ہوں گے

اس روایت میں کہاں ہے کہ  قرآن  مخلوق ہے؟؟؟؟؟؟؟

پھر دوبارہ نگاہ کر تیری طرف نگاہ ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔

اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ نہیں ہے کہ منزل  من اللہ  کتاب کو مخلوق کہا جائے – پھر مزید یہ کہ  ان لوگوں کے نزدیک   خبر واحد صحیح سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا

قَالَ حُذَيْفَةُ: مَنْ احْتَجَّ بِالقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ

حُذَيْفَةُ رضی اللہ عنہ  نے کہا جس نے قرآن سے دلیل لی وہ فلاح پا گیا

راقم کہتا ہے قرآن سے دلیل پیش کی جائے  کہ قرآن  مخلوق ہے  و أمر صعب

امام أبي موسى الأشعري (المتوفى: 324هـ) کتاب الإبانة عن أصول الديانة میں کہتے ہیں

ومن قال: إن القرآن غير مخلوق، وإن من قال بخلقه كافر من العلماء، وحملة الآثار، ونقلة الأخبار، وهم لا يحصون كثرة، ومنهم: حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد
بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون، وغيرهم

اور وہ جنہوں نےکہا قرآن غیر مخلوق ہے اور اس کومخلوق  کہنے والا کافر ہے ان میں علماء ہیں جو آثار بیان کرتے ہیں اور خبریں اور ان علماء کی تعداد بے شمار ہے اور ان میں ہیں حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون اور دیگر

نہ صرف یہ کہ  امام   بخاری   کا مذھب  قرآن کو غیر  مخلوق  کہنے  کا ہے  بلکہ یہی  مذھب امام ابو حنیفہ  اور امام مالک کا بھی ہے

حنفی فقہ کی کتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق جس کا حوالہ ڈاکٹر عثمانی نے بھی دیا ہے جس کے مؤلف: زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) وہ لکھتے ہیں

الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ تَعَالَى غَيْرُ مَخْلُوقٍ وَلَا مُحْدَثٍ     قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے نہ بنایا گیا ہے

جوابا  جھمی  نے کہا

جھمی جلد ( ننگے  جمہی )    نے   یہ  اگلا  کہ  امام   بخاری  کا عقیدہ غلط  بتایا  جا رہا ہے  انہوں  نے قرآن کو نشانی  کہا ہے

جبکہ اس  جھمی جاہل کو  یہ تک معلوم نہیں کہ قرآن  کا ایک ایک جملہ  اللہ تعالی نے خود  آیت  یعنی نشانی  کہا ہے اور اس کو کلام  اللہ بھی کہا ہے اور اس کو  عربی میں  اپنا کلام  بھی کہا ہے

یقینا قرآن  ایک   معجزہ  ہے اور  اللہ کی نشانی  ہے اس کا کلام ہے –  لیکن قرآن   مخلوق ہے؟   ایسا اللہ تعالی یا اس کے رسول نے   کہیں نہیں  کہا    یہی وجہ ہے  کہ جمہی اور  معتزلی  عقائد  دنیا سے معدوم  ہوئے  کیونکہ   ان کے پاس قرآن سے کوئی دلیل نہیں   تھی  جس سے ثابت  کر سکیں  کہ    آسمان سے نازل  ہونے  والا اللہ کا کلام  مخلوق ہے

قرآن کی تو یہ صفت  ہے کہ اگر  پہاڑ  پر نازل  ہو  جاتا تو  وہ اللہ کے خوف  سے  لرز جاتا – کیا  کسی  مخلوق کا ایسا اثر  ہے پہاڑ   پر ؟  ہرگز  نہیں  یہ اللہ  تعالی کے کلام کی ہی صفت  ہے    کسی  مخلوق کی یہ صفت  نہیں

جمہی نے  کہا

سورہ الاسراء میں ارشاد  باری ہے

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْـــَٔلْ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اِذْ جَاۤءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا

اس میں کہاں  لکھا  ہے کہ یہ نشانیاں موسی  کا کمال  تھا ؟  جو بات ہی اللہ کے حکم سے ہو رہی ہو  اس کو مخلوق  کا عمل  کیسے کہا جا سکتا ہے ؟ کیا موسی علیہ السلام کے علم میں تھا کہ وہ جب چاہے نشانی لا سکتے ہیں ؟ ایسا تو خود موسی کے علم میں نہیں   جو یہ جھمی کا دعوی ہے

معجزہ  وہ نشانی  ہے جو کافر کو دکھائی  جاتی ہے  جس طرح آفاق و انفس کو بھی نشانی کہا جاتا ہے  اسی طرح یہ بھی ایک اللہ کے وجود کی نشانی ہے – بعض  جاہل جہمیوں  نے  عطائی  عقیدہ اختیار  کر لیا ہے  کہ اللہ نے اپنی  معجزہ  کرنے کی صفت یعنی  القادر میں سے کچھ حصہ  انبیاء کو دے دیا ہے – لفظ   نشانی سے جھمی  نے  یہ اخذ  کر لیا ہے کہ  انبیاء کا عمل ہے ان کا ذاتی کرشمہ ہے جو صریح جھل و افتری ہے

جاہل  جھمی  نے  نہ صرف دیدہ  دلیری سے  امام  بخاری کو  ہم عقیدہ قرار دیا اورتو اور ڈاکٹر عثمانی  پر بھی  جھوٹا الزام  لگا دیا کہ ان کا عقیدہ صحیح احادیث پر منبی نہیں تھا  – جھمی  نے کہا

در حالنکہ   ڈاکٹر  عثمانی  نے  لکھا

ڈاکٹر صاحب  نے نہ صرف  اخبار  احاد  یعنی صحیح  روایات سے دلیل لی بلکہ اس سے  برزخی جسم  کے عقیدے  کا  پرچار  بھی کیا اور اس پر صحیح مسلم کی حدیث بھی پیش کی –  قابل غور ہے کہ  جھمی نے برزخی جسم کے عقیدے  پر کافی تکرار کی تھی اور اس کوعقیدہ  ماننے سے انکار  کر دیا تھا

عقیدہ وہی ہے جس کا انسان  پرچار کرتا ہے -افسوس اس شخص نے  گمراہی  پھیلائی اور  عثمانی صاحب کو حدیث رسول کا مخالف بنا پر پیش کیا – کتنی ہی صحیح احادیث ہیں جو  سنن سعید بن منصور میں ہیں ، مسند ابو یعلی  میں ہیں لیکن اس  جھمی کے بقول  عثمانی صاحب نے ان صحیح احادیث پر اپنا عقیدہ استوار نہ کیا تھا – یہ کذب صریح ہے اور آنکھوں میں دھول جھوکنے  کے مترادف  ہے

عثمانی صاحب اگر صحیح احادیث پر عقیدہ نہیں رکھتے تھے وہ یہ نہ کہتے

کیا  خبر واحد  کا انکار کرنے والا  کافر ہے  ؟   صحیح احادیث جو  ڈاکٹر عثمانی نے اپنی کتاب میں پیش کی ہیں وہ  اخبار  احاد ہیں   – اگر ان کا انکار جائز ہے تو ان کا انکار  کرنے والے   لوگ  کافر کیسے  ہوئے ؟

اس سے قبل جھمی  نے اپنے  متعدد عقائد  کا اظہار کیا  مزید  دیکھئے

قدمونی قدمونی پر ایک نظر

ایک معتزلی کی تقریر پر تبصرہ ‏

قرن دوم میں   انکار حدیث سے منسلک ایک فرقہ معتزلہ  تھا   اس کے بعض سرخیل کو عباسی خلافت  میں قرب خلیفہ ملا اور انہوں نے ایک کلامی  مسئلہ  گھڑا – اس مسئلہ   کے مطابق  قرآن  ، کلام اللہ نہیں بلکہ   اللہ تعالی کی  مخلوق کی مد میں سے ہے

اس فرقہ کے خلاف اہل سنت کے علماء کھڑے ہوئے اور انہوں نے اس عقیدے کا صریح رد کیا – ان کا رد کرنے والوں میں امام بخاری پیش پیش تھے اور امام بخاری نے ضروری سمجھا کہ اس پر باقاعدہ ایک کتاب تالیف کریں جس کا نام انہوں نے رکھا

خلق الافعال العباد

بندوں کے عمل کی تخلیق

امام بخاری کے نزدیک  قرآن   یہ الوحی ہے اور الوحی مخلوق نہیں  البتہ  قرآن کی قرات  مخلوق ہے

امام  بخاری  نے  اس کتاب میں  بار بار  اس قول کی  تکرار کی ہے کہ قرآن  مخلوق نہیں ہے – کتاب  کا آغاز ہی  اس جملے سے کیا

باب : اہل  علم  نے  معطلہ کے  حوالے سے  کیا ذکر کیا  جو  کلام  اللہ کو  بدلنا چاھتے ہیں

سفیان  نے  کہا  میں  اپنے شیوخ سے ملا جن میں  عمرو بن دینار بھی ہیں سب  کہتے  ہیں قرآن کلام اللہ ہے اور مخلوق نہیں ہے

امام بخاری  نے امام  ابن مبارک  کا قول  نقل کیا

ابن مبارک  نے  کہا  جو یہ کہے کہ   قرآن کی آیت  اننی  آنا اللہ لا الہ الا انا مخلوق ہے تو وہ کافر  ہے اور  مخلوق  کے لئے جائز نہیں کہ ایسا کہے

صحیح بخاری میں حدیث ہے

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ  پیروی کرنے والے میرے ہوں گے

بعض جاہلوں نے اس روایت سے اخذ کیا ہے کہ معجزہ مخلوق ہے جبکہ اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ بھی نہیں ہے – قرآن اپنی بلاغت کی بنا پر معجزہ ہے- اس کی سی سورت آج تک کوئی نہیں بنا سکا – اس کو حفظ کیا جا سکتا ہے – دنیا کی دوسری کتب کے لئے یہ ممکن نہیں ہے – یہ سب نشانیاں ہیں کہ قرآن من جانب اللہ ہے – اور اللہ اس الوحی کے ذریعہ  سے نازل کیے جانے والے قرآن  کی حفاظت کر رہا ہے

قابل غور ہے کہ الوحی تو تمام انبیاء و رسل  پر کی گئی ہے – بغیر الوحی کے کوئی بھی نبی و رسول کہلا ہی نہیں سکتا – یہاں بتایا گیا ہے  پچھلے  انبیاء کی نشانیاں ان کے دور تک ہی تھیں لیکن   ہمارے رسول پر  الوحی   کی جانے والی کتاب  قیامت تک رہے گی اور موجب ہدایت رہے گی – اس طرح یہ ایک عظیم نشانی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی تھے

اس حدیث سے کند ذہن  لوگوں نے اخذ  کیا ہے کہ  اس حدیث  میں قرآن کو مخلوق کہا گیا ہے – حاشا للہ – ایسا ہرگز نہیں ہے – قرآن  الوحی ہوا تمام امت کو ملا  اور ہم اس کی تلاوت کرتے ہیں تو اس طرح یہ کتاب یا روشن آیات ہمارے  گھروں میں بھی پڑھی جاتی ہیں یعنی اللہ کی یہ نشانی  گھر گھر آ گئی ہے کہ وہ حق و باطل کو جان سکتے ہیں

 

پس منظر

قصہ مختصر چند سال قبل محمد حنیف نے ایک تحریر شائع کی جس میں اس نے دعوی کیا کہ اللہ تعالی نے  اپنی صفت

عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کر دی ملاحظہ ہو اس پر حنیف کی اہل حق کی جانب سے پکڑ کی گئی کہ  یہ سب شرک کے دفاع کی باتیں ہیں  –  اللہ کی صفات میں کوئی شریک نہیں-اس پر محمد حنیف اور اس کے بعض  حواریوں نے اس صفت باری تعالی کی یہ تاویل کرنا شروع کر دی کہ صفات باری کو ہی مخلوق قرار دینا شروع کر دیا اور بعض نے صفت  کے لفظ  کو لغوی صفت کہنا شروع کر دیا کہ یہ محض عیسیٰ کی  صفت  ہے – جبکہ جس طرح اس قوت الاحیاء الموتی پر تبصرہ کیا گیا ہے اس کو اللہ کا خاص  فیصلہ بنا پر پیش کیا ہے کہ اللہ جو چاہے رہے اور یہاں تک کہ اپنی صفت کسی کو دے دے تو اس پر اللہ سے سوال نہیں کیا جا سکتا ، اس سے ظاہر ہے حنیف اینڈ کمپنی کا مدعا تھا کہ اللہ تعالی کی صفت الحی انہوں نے عیسیٰ کو دے دی تھی –  یاد رہے  کہ اسی قسم کا عقیدہ بریلویوں کا ہے کہ اللہ تعالی نے علم غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا ہے  اور اگر وہ بھی اس کو اللہ کی مرضی قرار دے کر بات ختم کرتے ہیں

اللہ تعالی بلا شبہ جو چاہے کرے لیکن اس نے سورہ کہف میں  کہا ہے

ولا يشرك في حكمه أحدا

وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا

اور یہ بھی بتایا کہ عیسیٰ کا مردوں کا زندہ کرنا اصل میں اللہ کا حکم ہے

وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ

اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

یعنی معجزہ اصل میں اللہ کے حکم سے ہے  اور یہ انبیاء کی قوت نہیں کہ کچھ بھی کر سکیں

اس پر محمد حنیف کے جدید  کٹر حواری سعید احمد نے یہ  عقیدہ لیا کہ کہ قرن دوم کے فرقے معتزلہ کا عقیدہ  صحیح تھا اور تمام معجزات انبیاء کو بھی انبیاء کا عمل کہنا شروع کر دیا گویا کہ اللہ تعالی نے ان کو یہ اخیتار تفویض کر دیا ہو-  اس طرح رافضی مفوضہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے اماموں کے پاس زمین کا کنٹرول ہے اسی طرح کا عقیدہ بنایا گیا  کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوت سے  مردوں کو زندگی بخشی

سعید معتزلی کے چیلے آصف خان الجہمی جدید  نے موقف اپنایا کہ کہ  حنیف  نے توبہ کی  ہے

جبکہ حنیف مردار ہو  چکا ہے اور اس کی کوئی توبہ معلوم نہیں ہے – جہمی اصف کے گھر کی گواہی اس میں شامل ہے کہ توبہ کا کوئی  لفظ معلوم نہیں ہے – حنیف نے اپنے الفاظ کی تاویل کر کے اپنے شرک کو چھپایا ہے اور اسی پر مومنوں  کو اعتراض ہے شرک کی تاویل نہیں کی جا سکتی –

جھمی  اصف  نے   اپنی دلیل میں امام بخاری  کا   ذکر کیا

اسی قسم کا سوال جب  ڈاکٹر عثمانی سے ہوا تھا کہ انہوں نے تمام ان محدثین پر فتوی کیوں نہیں لگایا جنہوں نے عود روح کی روایت لکھی  ہے تو ان  کا جوابا کہنا تھا

کیا امام بخاری نے کہیں  لکھا ہے  کہ ان کا عقیدہ  اس ادب مفرد  کی  روایت پر ہے ؟ ہرگز نہیں

اس حوالے سے ایک  معتزلی  جدید سعید احمد کی تقریر پر راقم کی رائے پوچھی گئی  جس میں اس شخص نے اہل سنت سے الگ  اپنے معتزلی  عقائد کا برملا اظہار کیا اور ان پر شدت اختیار کی

سعید   احمد     کی    معتزلی  تقریر پر تبصرہ

سعید نے کہا
2:40
الله اپنی صفت دیتا ہے تو اللہ صوفی میں حلول کرتا ہے

١٦:٢٨
اللہ اپنی صفت کسی کو نہیں دیتا – دینے کا طلب ہے کہ اس نے اپنا وجود دے دیا

تبصرہ
یہ کسی بھی تصوف کی کتاب میں نہیں ہے – صوفیا کے نزدیک تو اللہ مخلوق میں موجود ہے جس کو وحدت الوجود کہتے ہیں
اور اس میں تمام مخلوق شامل ہے – سعید لوگوں کی ذہن سازی کر رہا ہے کہ اگر ہم عقیدہ رکھیں کہ اللہ صفت مخلوق (عیسیٰ ) کو دیتا ہے تو اس قول کو قبول کرنے سے ہم مشرک نہ ہوں گے کیونکہ صوفیا کا مذھب ہمارے مذھب سے الگ ہے

سعید نے کہا

12:30
اللہ کی صفت کا مقابلہ مخلوق سے نہیں کیا جا سکتا
١٦:٠٠
اللہ کا سمیع و بصیر ہونا

تبصرہ

یہ ڈوج دے رہا ہے کیونکہ اللہ ایک انسان کی طرح سمیع و بصیر نہیں ہے
اللہ نے اپنے اپ کو
السمیع و البصیر
کہا ہے

اللہ نے اپنے اپ کو العلی بھی کہا ہے
اور علی ایک صحابی کا نام بھی ہے

لیکن ال عربی میں جب اتا ہے تو وہ اس کو باقی اسماء سے الگ کر دیتا ہے

اس  کا مقصد یہ  کہنے   کا یہ ہے کہ  اس موقف ہے کہ اللہ الحیی  نے اپنی  مردہ کرنے کی  ایک  صفت   کو مخلوق کی  شکل میں عیسیٰ کو دے دیا –  اس طرح اس کے نزدیک   سورہ المائدہ کی  آیت کی تاویل  ہو جاتی ہے کہ

وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِىْ

اور جب تم نے مردوں  کو  نکالا   میرے   اذن   سے

سعید نے کہا

١٧:٠٠
حنیف نے لکھا کہ اللہ تعالی نے عیسیٰ کو صفت دی تو حنیف کو اس میں مغالطہ ہوا وہ معجزے کو اللہ کی صفت سمجھا
معجزے اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ اللہ خلق کرتا ہے

تبصرہ

معجزہ غیر اللہ کی صفت ممکن نہیں ہے

وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ
اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

یعنی معجزہ صرف اللہ کے حکم سے ہی ممکن ہے
جو چیز صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں وہی اللہ کی صفت کہی جاتی ہے
اگر معجزہ اللہ کے حکم سے نہیں تو اس کا مطلب ہے معجزہ اللہ نے نہیں بلکہ انبیاء نے کیا اور انبیاء سے کہیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ سب کمالات ان کی کاوش سے ہوئے ہیں

سعید نے کہا

١٩:٠٠
معجزہ اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ کو اللہ کی صفت کہنا شرک ہے
معجزہ اللہ کی خلق ہیں

تبصرہ

معجزہ کا لفظ قرآن و حدیث میں نہیں ہے معجزہ کی تعریف ہے
اللہ کا ایسا فعل جو قانون قدرت سے الگ ہو اتنا بڑا ہو کہ انسانی عقل کو معلوم ہو کہ انسان کے بس میں نہیں ہے
اس کو معجزہ کہتے ہیں

سانپ کو لکڑی میں واپس بدلنا موسی کا عمل ہے یا یہ اللہ کا حکم ہے ؟ ظاہر ہے یہ اللہ کے حکم سے ہے
جب یہ عظیم بات حکم اللہ کی وجہ سے ہو تو اس کام کو مخلوق کا عمل نہ کہا جائے گا
اس کو اللہ تعالی کی نشانی کہا جائے گا

سعید نے کہا

١٩:٢٥
اللہ نے موسی کو نو نشانی عطا کیں

٢٩:٢٥
معجزہ اللہ کا فعل ہے اور فعل کیا ہے
اللہ کا امر

کن فیکون ہے

تبصرہ
سورہ الاسرا میں ہے

وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ ءَايَٰتٍ بَيِّنَٰتٍۢ
ہم نے موسی کو نو نشانیاں دیں

عطا کا لفظ عربی کا ہے لیکن قرآن میں آیت اللہ دینے پر یہ نہیں آیا – عطا کا ترجمہ کر سکتے ہیں
ایسا دینا کہ اس پر مکمل کنٹرول اس شخص کا ہو جائے جس کو عطا ہوا
لیکن یہاں لفظ ءَاتَيْنَا ہے جس کو مطلب دینا ہے  لیکن یہ عطا کے مفہوم پر نہیں ہے- یہ
dedicate
کے مفہوم پر ہے

یعنی یہ نو نشان ال فرعون کے لئے ہیں ان کو دیکھائی  جائیں گی –   موسی کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
اور یہ بات ال فرعون کو بھی معلوم تھی وہ کہتے موسی اپنے رب سے دعا کر
یعنی قرآن میں واضح کیا گیا کہ موسی کا ان آیت پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
جو بھی تھا وہ اللہ کے حکم سے ہو رہا تھا
لہذا ان نو نشان کی اابتداء اللہ کے امر یعنی حکم سے ہوتا ہے

اگر معجزہ اللہ کا امر ہے کن فیکون ہے تو یہ اللہ کا حکم ہے جو غیر مخلوق ہے

یہ تو بنیادی بحث ہے جو کام صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں کوئی حکم صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں  تو وہ غیر اللہ کی صفت نہیں ہے

بحث اس پر ہوئی چاہے کہ کس طرح ہوا ؟ تو ظاہر ہے معجزہ الله کے امر و حکم سے ہوا

اس کے نتیجے میں اگر کچھ نیا خلق ہوا تو وہ مخلوق ہے
مثلا موسی کا عصا سانپ بن گیا تو سانپ مخلوق ہے

لیکن سانپ معجزہ نہیں ہے – لاٹھی کا سانپ میں کے وجود میں بدلنا معجزہ ہے

یہی اللہ کی نشانی ہے کہ اس نے حکم دیا اور لکڑی ایک زندہ شی میں بدل گئی
اینڈ پروڈکٹ سانپ ہے لیکن ہم اینڈ پروڈکٹ کو نہیں دیکھ رہے ہم تو اس کمال کو معجزہ کہتے ہیں یا
process
کو معجزہ کہتے ہیں

اگر کوئی جاہل
process
کی بجائے
اینڈ پروڈکٹ
یعنی سانپ کو معجزہ کہے
تو اس سے سوال کیا جائے کہ سانپ تو انسان پالتے ہیں ہندو ان کو دودھ پلاتے ہیں
یہ ال فرعون کے پاس بھی ہوں گے
تو سانپ کو معجزہ کس نے کہا ہے
کوئی متکلم و محقق نہیں گزرا جس نے اینڈ میں ببنے والی مخلوق کو معجزہ کہا ہو

بعض اوقات معجزہ ہوا اور کوئی نئے چیز نہیں بنتی مثلا انسان مرا – عیسیٰ نے اللہ کے حکم سے زندہ کر دیا
اب اس کو عیسیٰ کا معجزہ اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ ان کی قوم کو اللہ کا یہ کمال و معجزہ و آیت دکھائی گئی
نہ کہ عیسیٰ کو قوت الاحیا الموتی مل گئی – اسی طرح اللہ نے چاند کو توڑا  اور پھر جوڑا   – اس میں کوئی  نیا نہیں بنا –  لیکن یہ جو سب ہوا یہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہیں ہوا  بلکہ انہوں نے  بس اس بات کی پیشگی خبر  قریش  کو کی –

جو بھی شخص معجزہ کو  محض   مخلوق  کے تحت لے گا وہ گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی کرے گا

قرآن میں لفظ آیت بولا گیا ہے – متکلمین نے انسانوں کو سمجھانے معجزہ کا لفظ استعمال کیا ہے
یعنی عقل کو عجز یا کمزور کرنے والا اللہ کا فعل و حکم
اس میں اللہ خلق و حکم دونوں کرتا ہے

اللہ کے رسول صرف اس کی خبر کرتے ہیں کہ فلاں پہاڑ سے اوٹنی نکلے گی
یعنی چٹان ، گوشت و خون میں بدلے گی
اس میں پہاڑ کو حکم کیا جا رہا ہے گوشت میں بدلے
نتیجتا اینڈ پروڈکٹ اوٹنی نکلتی ہے

تبدیلی کا عمل ہے جو پہاڑ نے کیا
انسانی عقل عاجز ہو گی
اس    کو ہم معجزہ کہہ رہے ہیں

قرآن اس کو آیت اللہ کہتا ہے
بس اتنا ہمارے لئے کافی ہے

سعید نے کہا
٢٩:٣٠
پورے قرآن میں معجزے کو کہیں نہیں لکھا کہ یہ اللہ کی صفت ہے

تبصرہ
صفت کا لفظ غیر قرانی غیر قریشی ہے
امام ابن حزم کے مطابق اس کا استعمال بھی حرام ہے

ہم کو اسماء اللہ کا بتایا گیا ہے اور جو کام صرف اللہ کرتا ہو وہی اس کا اسم ہے
قرآن میں ہے
قل إنما الآيات عند الله
سورہ الانعام
کہو آیات اللہ (معجزات)، اللہ کی طرف سے ہیں

جن باتوں کو نسبت صرف اللہ کی طرف ہو وہ اس کا اسم ہیں
اور یہ اللہ کے نام
القادر کے تحت ہے
کہ وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے

نبی یا مخلوق جو چاہتی نہیں کر سکتی ٠ ان کو حکم رب کا انتظار کرنا پڑتا ہے

لہذا یہ بے تکی تان کرنا کہ قرآن میں معجزہ کو صفت نہیں کھا گیا معنی چست؟ قرآن میں نہ تو صفت کا لفظ ہے
نہ معجزے کا لہذا ان دونوں کو ہٹا کر اگر سمجھیں تو یہ سب اسما الحسنی نے تحت سمجھنا ہو گا کہ اصل میں اللہ القادر ہے
وہ نبی کی قوم کو اپنی نشانی دکھاتا ہے
ایک چیز کو دوسری سے بدل کر
یا مردہ کو زندہ کر کے
وغیرہ

سعید نے کہا
٣٤:٠٠
پورے قرآن میں اللہ کے اذن کی definition
نہیں ہے
تو ہم کیسے اس پر بحث کریں گے ؟

تبصرہ
تو سعید کیوں معجزے پر بحث کر رہا ہے
جو ہے ہی اللہ کے اذن کے تحت ؟

سعید نے کہا
٣٩:٠٠

اللہ نے قرآن کو عربی زبان میں بنایا ہے
یعنی اللہ نے عربی میں قرآن تخلیق کیا ہے

اللہ نے اپنے کلام کو عربی میں کنورٹ کر کے نازل کیا

تبصرہ
بلا شبہ زبان مخلوق ہے
لیکن جب اللہ اس زبان میں کلام کرے تو وہ کلام، کلام اللہ ہے
اور مخلوق نہیں ہے

سعید کے مطابق قرآن مخلوق کی مد میں ہے
اب یہ ایک عظیم مسئلہ ہے امام بخاری نے اس پر مکمل کتاب لکھی
خلق افعال العباد
کہ قرآن کلام الله ہے غیر مخلوق ہے
اس کی تلاوت جو انسان یا نبی یا فرشتہ کرتا ہے وہ مخلوق ہے

جو تمام زبانوں کو جانتا ہے یعنی اللہ ، اس کو
convert
کرنے کی خبر سعید کو کس نے دی
یعنی اللہ نے کسی ایسی زبان میں کلام کیا جو صرف اس کو معلوم تھی پھر اس نے اس کو عربی میں
convert
کیا
یہ سب علم غیب کی بات ہے یہ قرآن و حدیث میں نہیں

میری سمجھ سے باہر ہے کہ علم غیب پر نکتہ سنجی سے کیا فائدہ ہے

سعید نے کہا

40:٠٠
اللہ نے اپنا کلام لوح محفوظ میں اتارا ہے
ہم تک جو کلام اللہ پہنچا وہ مخلوق ہے

اللہ اعبرانی نہیں بولتا

ہر نبی اپنی زبان بولتا تھا لیکن اللہ کوئی اور زبان میں کلام کرتا ہے
پھر ان کو
convert
کر کے
بیان کرتا ہے

تبصرہ

یہ بات تو ظاہر ہے کہ زبانیں الگ الگ ہیں لیکن کیا اللہ عربی میں کلام نہیں کرتا ؟ اس کی خبر سعید کو کس نے دی
یہ ضرورت سے زائد کلام ہے جس پر ہم بات نہیں کرتے کیونکہ یہ علم ہماری بساط سے باہر ہے

اللہ ہر زبان میں کلام کر سکتا ہے
اس جاہل کو کس نے خبر دی کہ لوح میں کسی ایسی زبان میں لکھا ہے جس کو کوئی نہیں جانتا ہے؟

لوح محفوظ میں جو کلام اللہ ہے وہ سعید کے نزدیک غیر مخلوق ہوا

سعید کے فلسفے کا یہ جھول ہے کہ لوح جو مخلوق ہے اس میں درج قرآن اس کے نزدیک غیر مخلوق ہے اور جو زمینی کاغذ میں لکھا ہے وہ کلام اللہ نہیں بلکہ کونورٹڈ  یا ترجمہ شدہ ہے

قرآن سورہ ال عمران آیت ٤٩  میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ مریم علیہ السلام  کو فرشتوں نے بتایا

وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا ، ( وہ لوگوں سے کہے گا ) میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لایا ہوں میں تمہارے سامنے مٹی سے ایک پر ندے کی شکل بناتا ہوں ، پھر اس میں پھونک مارتاہوں تووہ اللہ کے حکم سے واقعی پر ندہ بن جاتا ہے نیزمیں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور کو ڑھی کو ٹھیک کرتا ہوں اور مرُدوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو سب تمہیں بتلا دیتاہوں اگر تم ایمان لانے والے ہو تو تمہارے لئے ان باتوں میں نشانی ہے

اس آیت سے بعض لوگوں نو دلیل لی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قوت مل گئی تھی وہ یہ تمام کام خود ہی کر لیتے ہیں – ان لوگوں نے نزدیک نشانی لانے یا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی بعض صفات میں انبیاء کو اختیار دے دیا تھا کہ قوت الاحیاء الموتی کے حامل تھے – اس کو سن کر  خیال  اتا ہے کہ بر صغیر کے بریلوی فرقے کی کسی کتاب نے ان لوگوں نے یہ سب اخذ کیا ہے – راقم کو معلوم ہے کہ اپنی سابقہ زندگی میں یہ لوگ اسی فرقے سے تھے اور وہاں سے ہی اس قسم کے عقائد دین میں داخل کر رہے ہیں –  بریلوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو زندہ کر دیتے تھے  ان کو اس کا اختیار مل گیا تھا – یہ اختیار و عطائی  علم غیب کی سوچ البتہ   سعید   المعتزلی  سے منسلک  لوگوں میں در کر آئی ہے  کی یاد اتی ہے – بس فرق اتنا ہے کہ اپنی لفاظی سے یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ  یہ علم غیب کی عطا یر مردوں کو زندہ کرنے کی قوت اللہ تعالی نے عیسیٰ علیہ السلام کو دان کر دی تھی

اس طرح اپنے گھڑے باطل عقائد پر قرانی آیت پیش کرتے ہیں کہ عیسیٰ تو واقعی اس قدرت و اختیار کے مالک تھے جبکہ قرآن میں اس آیت کی تشریح سورہ المائدہ  ١١٠ کے مقام پر  اس طرح کی

اِذْ قَالَ اللّـٰهُ يَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَـمَ اذْكُرْ نِعْمَتِىْ عَلَيْكَ وَعَلٰى وَالِـدَتِكَۘ اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِۖ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِى الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْاِنْجِيْلَ ۖ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْـرِ بِاِذْنِىْ فَـتَنْفُخُ فِيْـهَا فَتَكُـوْنُ طَيْـرًا بِاِذْنِىْ ۖ وَتُبْـرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْـرَصَ بِاِذْنِىْ ۖ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِىْ ۖ وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَـهُـمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْـهُـمْ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ 

جب اللہ کہے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! میرا احسان یاد کر جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہوا ہے، جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی، تو لوگوں سے بات کرتا تھا گود میں اور ادھیڑ عمر میں، اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائی، اور جب تو مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے بناتا تھا پھر تو اس میں پھونک مارتا تھا تب وہ میرے حکم سے اڑنے والا ہو جاتا تھا، اور مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، اور جب مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا جب تو ان کے پاس نشانیاں لے کر آیا پھر جو ان میں کافر تھے وہ کہنے لگے کہ یہ تو بس صریح جادو ہے

آیت کے قرآن میں کئی مطلب ہیں

یہ علامت کے لئے بھی اتا ہے

قوله تعالى: {وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ} البقرة: 248.

ان کے نبی نے کہا کہ اس کی مملکت کی علامت یہ ہے کہ اس میں تابوت تم کو واپس ملے گا جس میں تمھارے رب کی طرف سے  سکون ہے

یہ عبرت کے لئے بھی استعمال ہوا ہے
والآية كذلك العبرة، كما قال تعالى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (7)} يوسف: 7، أي أمور وعبر مختلفة.

یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں سائل کے لئے نشان (عبرت) ہے

یہ معجزہ کے لئے بھی ہے
وتطلق الآية على المعجزة، قال تعالى: {وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (50)} المؤمنون: 50.

اور ہم نے ابن مریم اور اس کے بیٹے کو نشانی بنا دیا

یعنی مریم بن شوہر کے ماں بن گئیں اور عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہو گئے   – یہ اہل کتاب مومنوں کے لئے حیرت کی وجہ تھی کہ یہ نہ ممکن تھا لیکن ہوا

یہ زمینی عجائب کے لئے بھی ہے

وآيات الله أي: عجائبه: وهي الآيات الكونية والدلائل، المقصودة في قوله تعالى: {وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (4)} الجاثية: 4، وقوله سبحانه: {سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ} فصلت: 53.

اور عربی میں یہ  جماعت کے لئے بھی استعمال ہوتا  ہے  ويراد بها الجماعة: يقال: خرج القوم بآيتهم أي: بجماعاتهم

آیت مطلب نشان ، علامات ، عجائب  ہیں – متاخرین نے اس کا ایک نام معجزہ بھی کر دیا ہے اور اردو میں یہ اکثر استعمال ہوتا ہے

اب سوال یہ ہے کہ نشانی قوت النبی ہے یا اللہ کے حکم سے ہے ؟ تو قرآن میں اس کا واضح جواب ہے کہ انبیاء میں کسی کو یہ اختیار نہ تھا کہ نشانی لا سکتا اور عیسیٰ سے بھی یہ کہا گیا کہ یہ باذن اللہ یعنی اللہ کے حکم ہو رہا ہے – سورہ المائدہ کی آیت  سے یہ بالکل واضح ہے کہ مردے کو زندہ کرنا  عیسیٰ کا خود کا  ذاتی عمل نہ تھا کہ اس کو قوت عیسیٰ کہا جا سکے

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کفار پر مٹی پھینکی اور وہ بھکر گیا بھاگ گیا – اللہ تعالی نے تبصرہ میں فرمایا

وما رميت اذ رميت ولكن الله رمى

وہ مٹی تم نے نہیں پھینکی ، جب پھینکی تھی بلکہ وہ اللہ نے پھینکی تھی

رسول اللہ صلی اللہ کا یہ معجزہ تھا کہ مسلمانوں نے دیکھا کہ انہوں نے مٹی پھینکی  اور کافر بھاگ گئے لیکن اللہ نے اس عمل کو اپنی طرف منسوب کیا – اس طرح ہم کو تعلیم دی گئی کہ معجزات انبیاء اصل میں سب اللہ کے حکم سے ہو رہے ہیں بظاہر تو لگ رہا ہے موسی نے عصا مارا  لیکن اصل میں موسی کا اس میں کوئی کمال نہیں  اللہ کی جانب سے سمندر کو حکم ملا اور وہ پھٹ گیا

اس طرح ہم انبیاء کو ملنے والی آیات کی شرح کرتے ہیں

ولقد آتینا موسی تسع آیات بینات۔ سورۃ بنی اسرائیل ایۃ 101.  ۔ اور یقینا ہم نے موسیٰ کو نو واضح نشانیاں دیں

اس آیت سے بعض فاتر العقل لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ موسی علیہ السلام کو ان نو نشانوں کو کرنے کی قوت مل گئی تھی – وہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکتے تھے ، طوفان لا سکتے تھے – ہاتھ چمکا سکتے تھے – سمندر پھاڑ سکتے تھے

جبکہ اللہ تعالی نے ان نو نشانیوں کو قرآن میں قوت موسی کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کو  کرشمہ الہی کے طور کر پیان کیا ہے

اس فاتر العقل شخص نے کہا

موسیٰ علیہ السلام کا عصا معجزاتی تھا اور یہ مخلوق ہے اسکا سانپ بن جانا اژدھا بن جانا معجزہ ہے اور مخلوق ہے۔

راقم کہتا ہے موسی کا عصا ، سانپ یقینا مخلوق ہیں لیکن یہ قوت نہ تو عصا میں ہے نہ موسی میں کہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکیں

اس فاتر العقل شخص نے مزید کہا

معجزہ مخلوق پر ظاھرو رونما ہوتا ہے۔ یاد رکھیں اللہ کی الوہی صفات مخلوقات پر ظاھر و رونما نہیں ہوتیں

راقم اس پر کہتا ہے کہ معجزہ  یقینا اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور مخلوق پر ظاہر بھی ہوتا ہے – اللہ الخالق ہے جو چاہے خلق کرے اور یہ صفت تمام مخلوق دیکھ سکتی ہے  – ہر وقت اس زمین میں کچھ  خلق ہو رہا ہے – اللہ کی صفت الخالق ہونا ہے اور یہ صفت خلاقیت مخلوق  پر عیاں ہے

پھر فرشتے اللہ تعالی سے کلام کرتے ہیں ، اس کا حکم سنتے ہیں –   اللہ تو السمیع و البصیر ہے اور فرشتے باوجود مخلوق ہونے کے اس صفت کو جانتے ہیں –  لہذا یہ جملہ کہ اللہ تعالی کی صفات مخلوق نہیں ظاہر ہوتیں سمجھ سے باہر ہے – یاد رہے کہ عیسیٰ بھی اللہ کا معجزہ ہیں مخلوق نے ان کو دیکھا سنا اور ان سے تعلیم حاصل کی

معجزہ  قوت انبیاء نہیں اور نہ اس کو اس پر قدرت و اختیار حاصل تھا – اصل قدرت و اختیار اللہ تعالی کے پاس ہے

مزید  وضاحت  اس  مضمون میں ہے

نشانی کی حقیقت

Life, Sleep, Unconsciousness, Death

Before the creation of Adam, Allah Almighty created the souls of all humans – and at that time these souls had all life – on the other hand, the clay which had no life was being made into the body of Adam – Adam was being created in a lifeless form – now there was neither life in them nor any movement, neither the heart was beating nor there was breath – then (according to Surah Al-Hijr) Allah Almighty commanded the angels

‘When I have proportioned him and breathed into him of My [created] soul, then fall down to him in prostration.’

The body of Adam was in a lifeless state and the angels were waiting for the moment when the soul would enter Adam – as soon as the soul entered Adam, the body of Adam began to breathe, it became a breather

As soon as he had to breathe, all the angels of the sky fell in prostration for Adam

Thus began the creation of man, now the soul entering Adam could also be called Nafs because it started the act of breathing from it

In this way, the soul has three names in Abrahamic religions

Soul
Nasmah, i.e., like air
Nafs, i.e., from which the act of breathing continues

Human souls are still together in the upper world, it is in the Hadith

Sahih Bukhari Chapter: The Souls are like conscripted soldiers
The souls are like conscripted soldiers, those who recognize each other (in the spiritual world) will have affinity in the world and those who do not recognize each other will be at variance

So this souls are interactive beings who when pass by each other, and there is consciousness in these souls – on the contrary, the bodies in which they go are unconscious and in the event of the soul leaving, they return to the same state

The souls born from this army of souls are taken and they are completely separated from this army and brought down to the womb of the mother on earth below the seven heavens.

 

The concept of Ensoulment or The Arrival of the Soul in the Offspring of Adam

Human life began, and now it was the turn of the offspring of Adam – a sperm came out of the body of Adam and went into the womb of Eve – there this sperm was soulless – it had life like a germ but no soul. The Hadith details that the heart starts beating in the womb after 6 weeks (42 days after the arrival of semen) – it can be heard from the eighth week.

Narrated by Huzayfa bin Asid Ghafari, I heard from the Prophet (peace be upon him), he was the truthful and the trusted, he said: ‘When 42 nights pass over the sperm, Allah sends an angel to it, who shapes its form, ears, eyes, skin, flesh, and bones. Then he says, O Lord, is it male or female? Then whatever Allah wills, it happens – the angel writes it down, then he says, O Lord, what is its age? So Allah commands whatever He wills and the angel writes it down, then he says, O Lord, what is its sustenance? The Lord commands whatever He wills and the angel writes it down – then the angel takes that book in his hand and comes out, in which there is neither any shortage nor any excess.” (Sahih Muslim, Chapter of Destiny)

Anas bin Malik (may Allah be pleased with him) says that the Prophet (peace be upon him) said: Allah has appointed an angel over the womb of the mother. He keeps saying, O my (Lord, so far) this is a sperm. O my Lord, (now) this is a clot (i.e., a lump of coagulated blood). O my Lord, (now) this is a lump of flesh. Then when Allah intends to complete its creation, the angel asks, O my Lord (what is the command about it) will it be a man or a woman, unfortunate or fortunate, what will be its sustenance and what will be its age. So in the mother’s womb, the angel writes all these things as he is commanded. That is why it is said that every child is born with its sustenance and age.

After the state of the lump (linguistic meaning chewed matter), the heart beats in the womb – as if it has now become a statue in which the soul comes – forty-two days later the angel comes and it can be heard on it. The heartbeat is one thing, so the Hadith and science say the same thing.

Note: A strange narration in Sahih Bukhari mentions that the soul comes in the womb after 4 months, which contradicts the correct narration of Sahih Muslim – this narration is attributed to Ibn Masood, according to which the soul comes after 120 days i.e., 4 months.

Narrated Hasan bin Rabi, narrated Abu Ahwas, from Al-A’mash, from Zaid bin Wahb, Abdullah said: The Messenger of Allah (peace be upon him) told us, and he is the truthful, the trusted, he said: “Indeed, one of you is created in his mother’s womb for forty days, then he becomes a clot like that, then he becomes a lump of flesh like that, then Allah sends an angel and he is commanded with four words, and he is told: write his deeds, his sustenance, his age, and whether he is unfortunate or fortunate, then the soul is breathed into him, for indeed a man among you does work until there is only an arm’s length between him and Paradise, then his book precedes him, and he does the work of the people of Hellfire, and he

does work until there is only an arm’s length between him and Hellfire, then his book precedes him, and he does the work of the people of Paradise.”

Each of you, your creation is gathered in your mother’s womb for forty days, then you remain a clot for the same period, then a lump of flesh for the same period, then Allah sends an angel to write four words, he is commanded to write his deeds, his sustenance, his age, and whether he is unfortunate or fortunate, then the soul is breathed into him…. (Sahih Bukhari Chapter Beginning of Creation. Sahih Muslim Chapter of Destiny)

Although this narration has been declared authentic by Imam Bukhari and Muslim, there is a solitary narration from Zaid bin Wahb in its chain, and according to Imam Al-Faswi, there is a defect in his narrations.

Tahawi has discussed this narration in Mushkil Al-Athar and then said
And we have found this hadith from the narration of Jarir bin Hazim, from Al-A’mash, which indicates that this speech is from the speech of Ibn Masood, not from the speech of the Messenger of Allah, peace be upon him.

But Tahawi said this must have been told to Ibn Masood by the Prophet, peace be upon him.

The narrator says that the chain which has been declared authentic has a solitary narration from Zaid, which is not strong.

Thus, it has been coming in the offspring of Adam that after 42 days the soul comes, science says that then the human heart beats.

The soul in the human body now stays until death, it cannot come out – it is also the work of angels to take it out, just as it was the work of angels to put it in the body.

 

The Departure of the Soul from the Body at Death

It is in the Quran:

“Until, when death comes to one of you, Our messengers take him, and they do not fail in their duties.”

The meaning of Tawaffa is to take possession, to grip tightly – this word is metaphorically spoken on death that so-and-so has died i.e., death has come.

Surah Al-Anam:
“If only you could see when the wrongdoers are in the agonies of death, while the angels are stretching forth their hands (saying): “Deliver your souls! This day you shall be recompensed with the torment of degradation because of what you used to utter against Allah other than the truth. And you used to reject His Ayat with disrespect!”

“Allah takes the souls at the time of their death, and those that do not die during their sleep. He retains those souls for which He has ordained death, whereas He releases the rest for an appointed term.”

Allah holds or retains the soul on which He commands death, i.e., it is not left back in the body now.

For the same reason, the body decays – the Quran says:
“We already know what the earth diminishes of them, and with Us is a retaining record.”

It is in Sunan Ibn Majah:

Narrated by Abu Bakr bin Abi Shaiba, narrated by Abu Muawiya, from Al-A’mash, from Abu Salih, from Abu Hurairah, he said: The Messenger of Allah (peace be upon him) said: “Nothing of the human being will decay except one bone, and it is the tailbone, and from it will the creation be composed on the Day of Resurrection.”

Abu Hurairah (may Allah be pleased with him) said that the Messenger of Allah (peace be upon him) said: “Every part of a man’s body decays, except for one bone, and that is the tailbone (the last bone of the spine), and from it, the human will be created on the Day of Resurrection.

The Journey of the Soul’s Return to the Higher Realm

After death, the soul is returned to heaven.

There is a narration in Sahih Muslim, narrated by Abu Hurairah (may Allah be pleased with him):
Narrated by Ubaidullah bin Umar Al-Qawariri, narrated by Hammad bin Zaid, narrated by Budail, from Abdullah bin Shaqiq, from Abu Hurairah, he said: “When the soul of the believer departs, two angels receive it and ascend with it.” Hammad said: He mentioned its pleasant smell and mentioned musk. He said: “And the inhabitants of the sky say: ‘A pure soul has come from the earth, may Allah bless you and the body you used to inhabit.’ Then it is taken to its Lord, the Almighty, and then He says: ‘Take it to the end of the term.’ He said: “And indeed, when the soul of the disbeliever departs – Hammad said and mentioned its stench, and mentioned a curse – and the inhabitants of the sky say: ‘A wicked soul has come from the earth.’ Then it is said: ‘Take it to the end of the term.’ Abu Hurairah said: The Messenger of Allah (peace be upon him) returned a cloth that was on him, on his nose, like this.”

In this way, whether the soul is of a disbeliever or a believer, it goes to the sky or the higher realm – in this state, the soul of a believer stays on a great tree in heaven until the Day of Judgment.

It is in Al-Muntakhab from Musnad Abd bin Humaid that Ka’b bin Malik, when he was on his deathbed, and in Musnad Ahmad, it is narrated:
Narrated by Abdur Razzaq, he said: Narrated by Ma’mar, from Az-Zuhri, from Abdur Rahman bin Ka’b bin Malik, he said: Umm Mubashir said to Ka’b bin Malik, while he was in doubt: “Read the Salam on my son,” meaning Mubashir, so he said: “May Allah forgive you, O Umm Mubashir, have you not heard what the Messenger of Allah (peace be upon him) said: ‘Indeed, the soul of a Muslim is a bird hanging in the trees of Paradise until Allah, the Almighty, returns it to its body on the Day of Resurrection.’ She said: ‘You have spoken the truth, so I seek forgiveness from Allah.’

The State of Sleep

In the Quran, the word Tawaffi is also spoken for sleep, in which the soul is seized – along with this, we know that in sleep, a person breathes, mutters, he also sweats – he is alive i.e., this is not the act of seizing that happens at the time of death.

In sleep, the soul is seized within the body and the soul is not separated from the body – whereas in the act of death, the soul is separated from the body so that it can be returned to the same thin state that was of Adam – for the same reason, after death, the body becomes dust and after sleep, this does not happen – in sleep, there is consciousness but subconsciousness is limited – because of this consciousness, the sleeping person wakes up on noise.

The State of Unconsciousness

Unconsciousness is also sleep but deep sleep – in this state, even if a doctor cuts the body of a person, he does not get the news – the body cannot feel the pain of this torment – during this time, the soul is in the body but cannot feel the torment of the doctor and the surgeon.

What

is the difference between sleep and unconsciousness? It is only a difference in consciousness – in sleep, there is memory, a person sees dreams in which he sees his relatives and loved ones or those people whom he has met i.e., the consciousness in the brain has not completely ended yet – in sleep, one part of the brain fully works and creates dreams.

In contrast, in unconsciousness, memory is completely eliminated – along with this, the sensation of pain is also eliminated.

Unconsciousness is such a deep sleep in which both subconsciousness and consciousness are limited.

Whether it is sleep or unconsciousness, in both of these, the soul is confined within the body, which is said in the Quran to be seized.

The meaning of Qabz in Arabic is neither to remove nor to pull, but the alternative word for this Qabz in English is to ‘seize’, and in Urdu, it is to ‘grip’.

The Earth is in constant torment from Allah?

A critic commented on this writing, saying that the Earth obeys Allah’s command – its stones fall out of divine fear, meaning there is consciousness in the soil, and it was found that the soil feels torment – his claim was that the human body, even after becoming dust, suffers torment.

In response, I said, yes, Allah has informed that the soil has consciousness and the entire universe prostrates to it, even to the extent that the shadow of the body of a disbeliever is also prostrating to Allah, but the disbeliever is not doing so – in this way, the entire universe has become obedient to Allah, but it is not in the Quran and Hadith that this Earth feels Allah’s torment. When Allah inflicts torment on a disbeliever or fills the womb of this Earth with lava, He is not tormenting the Earth, but He has placed a property in the Earth that it tolerates this degree of intensity, it does not call it torment. It was found that the Earth and its soil, its stones, are conscious of the existence of Allah, but do not feel torment.

Similarly, there are trees, it is in the Hadith that it can cry when the Prophet (peace be upon him) did not deliver a sermon near it, meaning trees also have consciousness – but we know that the Prophet (peace be upon him) ordered to cut the tree.

‘Whether you cut down (O Muslims) the tender palm-trees, or you left them standing on their stems, it was by leave of Allah, and in order that He might disgrace the rebellious.’ (5)

The date-palm trees you cut down or left standing on their roots, it was by Allah’s leave, and so that He might disgrace the transgressors.

If trees felt torment, the Prophet, the mercy to all worlds, would not have ordered them to be cut down.

On the same basis, Nawawi’s saying is that torment is not possible without a soul, and Anwar Shah Kashmiri’s saying is that inanimate objects do not suffer torment.

See more.”

 

 

ساحل عدیم کی پورٹل تھیوری

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس کتاب میں آیات ہیں جو متشابھات ہیں اور اہل علم ان پر ایمان رکھتے ہیں ان کی صحیح تاویل کا علم صرف اللہ کو ہے

سورہ الطلاق کی آخری آیات

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} قَالَ: لَوْ حَدَّثْتُكُمْ بِتَفْسِيرِهَا لَكَفَرْتُمْ وَكُفْرُكُمْ تَكْذِيبُكُمْ بِهَا
ابن عباس رضی الله عنہ نے اللہ تعالی کے قول پر کہا سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ سات آسمان اور سات زمین ان کی جیسی پر کہا اگر اس کی تفسیر کروں تو تم کفر کرو گے

اس کی سند میں إبراهيم بن مهاجر البجلي الكوفي ہے جس پر امام القطان و امام نسائی کا کہنا ہے
عن طارق بن شهاب ونحوه قال القطان لم يكن بالقوي وكذا قال النسائي
یہ قوی نہیں

حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: ثنا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ الْقُمِّيُّ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ [ص:79] {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} الْآيَةُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا يُؤَمِّنُكَ أَنْ أُخْبِرَكَ بِهَا فَتَكْفُرَ

سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ابن عباس سے ایک شخص نے کہا کہ اللہ کے قول
سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ سات آسمان اور سات زمین ان کی جیسی
کا کیا مطلب ہے

پس ابن عباس نے فرمایا تم اس پر ایمان نہ لاؤ گے اگر اس کی خبر کروں

وفي «كتاب الصريفيني»: قال ابن منده: ليس بقوي في سعيد بن جبير

ابن مندہ کا قول ہے کہ راوی جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ ، سعید بن جبیر سے روایت میں قوی نہیں ہے

نوٹ سات زمین موجود ہیں ان پر ایمان ہے لیکن یہ  قرآن میںموجود نہیں کہ ان تک انسان جا کر واپس زمین پر بھی آ جاتے ہیں

سورہ کہف میں سببا کا مطلب ؟

ساحل عدیم صاحب کی  پورٹل تھیوری کی دوسری بڑی دلیل  سورہ کہف کی آیات ہیں جن میں سببا کا لفظ ہے

سبب کا لفظ ہم اردو میں بھی بولتے ہیں اور اس کا مطلب ہے وجہ یا رخ یا جانب یا سرا

اس کا کیا سبب ہے  یعنی اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا سرا دیں ؟ اس کا رخ بتائیں ؟ ان تمام جملوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس مسئلہ کو اس جانب ، رخ سے سمجھا جائے اس حوالے سے کوئی سرا ملے – عربی  میں بھی اس لفظ کے یہی مطلب ہیں

إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا (84) فَأَتْبَعَ سَبَبًا (85)

ہم نے اس کو زمین میں بادشاہت دی اور اس کو ہر چیز کا سرا دیا

پھر اس نے اس سرے  کو فالو کرنا شروع کیا

یہاں کہا جا رہا ہے کہ ذو القرنین کو کوئی نشان یا سرا ملا اور انہوں نے اس پر کھوج کی کہ سفر کیا

تفسیر طبری میں ہے

حدثني عليّ، قال ثنا عبد الله، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) يقول: علما

ابن عباس نے فرمایا  ہم نے اس کو ہر چیز پر سبب دیا ، فرمایا یعنی علم دیا

اس پر متعدد تفسیری اقول ہیں
– حدثنا القاسم، قال ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جريج، قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) قال: علم كلّ شيء.
حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) علما.
حُدثت عن الحسين، قال: سمعت أبا معاذ يقول: ثنا عبيد، قال: سمعت الضحاك يقول في قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) يقول: علما.

ان سب کا کہنا ہے کہ یہ سبب یہاں علم  دیا جانا ہے

اس حوالے سے ساحل عدیم صاحب کو جو روایت سب سے پسند آئی ہے وہ تفسیر طبری میں ہے

حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد، في قوله (فاتَّبَعَ سَبَبا) قال: هذه الآن سبب الطرق (1) كما قال فرعون (يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الأسْبَابَ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ) قال: طرق السماوات

 عبد الرحمان بن زید بن اسلم نے  قول (فاتَّبَعَ سَبَبا) پر کہا   کہ یہ وہی سبب ہے جیسا فرعون نے کہا تھا اے ہامان میرے لئے ایک صرح بنالو  جس سے میں آسمانوں نے اسباب کو دیکھوں – کہا یہ آسمان کے رستے ہیں

امام بخاری اپنی کتاب تاریخ الکبیر میں  عَبد الرَّحمَن بْن زَيد بْن أَسلَم پر  کہتے ہیں

ضَعَّفَهُ عليٌّ جِدًّا.

امام علی المدینی اس کی شدید تضعیف کرتے تھے

امام الذھبی اپنی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين
میں ذکر کرتے ہیں

عبد الرحمن بن زيد بن أسلم: ضعفه أحمد بن حنبل، والدارقطني

امام احمد و دارقطنی فی اس کی ضعیف کہتے ہیں

المعلمی  کتاب التغليق میں کہتے ہیں أولاد زيد بن أسلم ضعفاء  زید بن اسلم کی تمام اولاد ضعیف ہے

قال النسائي: ضعيف مدني. “الضعفاء والمتروكون

لب لباب ہوا کہ یہ تفسیری قول  کہ ذو القرنین کا سبب وہی ہے جس کا فرعون نے ذکر کیا وہ قول ہی ضعیف ہے

سورہ النمل میں ہے کہ سلیمان نے ملکہ سبا سے کہا ادْخُلِي الصَّرْحَ  عمارت میں داخل ہو

فرعون نے عمارت بنانے کا حکم دیا  نہ کہ ہامان کو پورٹل کھولنے کا حکم دیا

فرعون نے کہا کہ وہ آسمان میں  کوئی نشان دیکھے کہ اللہ بھی وہاں سے زمین کو کنٹرول کر رہا ہے

ال فرعون اللہ کے وجود کے انکاری نہیں تھے – سورہ المومن میں ہے ال فر عون سمجھتے تھے کہ یوسف کے بعد مصر میں اللہ کا کوئی اور نبی نہ آئے گا – یعنی وہ اللہ کو جانتے تھے لیکن بحث اس میں تھی کہ کیا اللہ تعالی  زمین کے قریب ہے یا دیگر اجرام فلکی  – ان کے نزدیک زمین کے قریب اجرام فلکی زمین پر اثر رکھتے تھے نہ کہ دور آسمانوں سے باہر کا کوئی رب  – لہذا فرعون نے ہامان سے کہا کہ کوئی مینار  بنا دو دیکھوں کہ ستاروں کے سوا بھی  کوئی اور مصر پر اثر کر سکتا ہو

دیکھا جا سکتا ہے کہ عبد الرحمان بن اسلم کی تفسیری رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے  جس سے ثابت کیا جا رہا ہے کہ تابعین کے نزدیک زمین پر پورٹل کھلتے تھے اور اصحاب کہف ، یاجوج و ماجوج ، ذوالقرنین و دجال تمام پورٹل سے اتے جاتے رہے ہیں

عَيْنٍ حَمِئَةٍ پر ساحل عدیم کا تصور

سورہ کہف کی آیت ہے ذو القرنین ایسی جگہ پہنچا جہاں

حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ

یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب کی جگہ پہنچا تو پایا اس کو کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہوتے ہوئے

طبری نے ذکر کیا کہ اس آیت میں اختلاف قرات موجود ہے

فقرأه بعض قراء المدينة والبصرة (فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ) بمعنى: أنها تغرب في عين ماء ذات حمأة، وقرأته جماعة من قراء المدينة، وعامَّة قرّاء   الكوفة (فِي عَيْنٍ حامِيَةٍ (يعني أنها تغرب في عين ماء حارّة.

مدینہ و بصرہ کے قاری قرات کرتے ہیں  فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ یعنی کیچڑ کا چشمہ  اور  کوفہ میں  جماعت  نے قرات کی  عَيْنٍ حامِيَةٍ  یعنی سورج کھولتے پانی میں غروب ہو رہا تھا

ساحل عدیم کا خیال ہے کہ عَيْنٍ کا مطلب عربی میں آنکھ ہے اور  حَمِئَةٍ  گرم ہے لہذا یہ  آتشی آنکھ بن گئی  گویا کہ ایک گول پورٹل بنا گیا

عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ (المطفّفين – 28)

مقربین عین سے پئیں ہے

یعنی چشموں سے

اللہ تعالی نے موسی سے کہا

فإنك باعيننا

تم ہماری آنکھوں میں تھے

یعنی موسی تم پر ہماری نظر ہے

عین کا لفظ  چشمہ کے لئے  ہے – آنکھ پر اس کا اطلاق مجازی ہے کیونکہ آنکھ سے انسؤ یا پانی اتا ہے

دابه ألأرض  بر تصور

دابه ألأرض پر ساحل عدیم کا قول ہے کہ یہ زمین کا جانور بھی اسی زمین سے نہیں بلکہ کسی اور سیارہ سے آئے گا

ساحل عدیم کے نزدیک دجال کا گدھا ہے جو ٹائم ٹریول کرتا ہے  جبکہ اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں

ان تمام تصورات کو بنانے کا مقصد ساحل عدیم کے نزدیک یہ ہے کہ روایتوں میں ہے کہ سورہ کہف فتنہ دجال سے بچائے گی –  راقم کہتا ہے  تحقیق سے ثابت کہ سورہ کہف مانع دجال  والی روایات  میں ہابمی اضطراب موجود ہے – اور مضطرب روایات پر عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا

مزید تفصیل کے لئے دیکھینے کتاب

ساحل صاحب  کی تھیوری میں مسائل یہ ہیں کہ وہ معجزہ کو   انبیا  کے  ساتھ ساتھ   دجال سے منسوب کر رہے ہیں کہ دجال کسی اور

سیارہ سے آئے گا – اس تصور سے گمراہی پھیلنے کا  خطرہ ہے

==========================================================================

 

In the Quran, Allah Almighty has said that there are verses in this book that are ambiguous, and those who are well-versed in knowledge have faith in them. Only Allah has the knowledge of their true interpretation.

The last verses of Surah At-Talaq:

Narrated by ‘Amr ibn ‘Ali: Wakī’ narrated from Al-A’mash, who narrated from Ibrahim ibn Muhajir, who narrated from Mujahid, who narrated from Ibn ‘Abbas regarding the statement of Allah: “Seven heavens and of the earth the like thereof.” Ibn ‘Abbas said: “If I were to explain it to you, you would disbelieve, and your disbelief would be similar to the denial of it.”

Ibrahim ibn Muhajir, the narrator in the chain, is mentioned by Imam Al-Qutayni and Imam An-Nasa’i. They said he was not reliable.

Narrated by Ibn Humaid: Yahya ibn Ya’qub narrated from Ja’far ibn Abi Al-Mughira that Sa’id ibn Jubayr said: A man asked Ibn ‘Abbas about the verse: “It is Allah who created seven heavens and of the earth, the like of them.” The man asked, “What does it mean?” So Ibn ‘Abbas said, “What makes you think that I would tell you its meaning, and then you would disbelieve?”

In the book “Kitab As-Sarifini,” Ibn Mandah said: Sa’id ibn Jubayr is not reliable.

Note: The existence of seven heavens is confirmed, and people have faith in them. However, it is not mentioned in the Quran that humans can travel to these heavens and return to Earth.

Meaning of word Sabab

The word “sabab” in Surah Al-Kahf has different interpretations. Saahil Adim Sahib’s second major evidence for his portal theory is based on the verses of Surah Al-Kahf that contain the word “sabab.”

In Urdu, we also use the word “sabab,” which means cause, direction, side, or path. All these phrases convey the same meaning that the issue should be understood from a certain direction or perspective without deviating. In Arabic, the same meanings are associated with this word.

The verses in Surah Al-Kahf (18:84-85) state: “Indeed, We established him upon the earth, and We gave him [the means of] everything as a sabab. Then he followed a sabab.”

Here it is mentioned that Zul-Qarnain was given dominion over the earth and he was provided with the means for everything. Then he followed a path or direction.

According to the Tafsir of Tabari, Ibn Abbas said that it means they were given knowledge of everything.

There are various interpretations regarding this:

– Qasim narrated from Al-Husayn, who narrated from Hujaj, who narrated from Ibn Jurayj, regarding the statement of Allah: “And We gave him [the means of] everything as a sabab.” He said: “Knowledge of everything.”
– Muhammad bin Sa’d narrated from his father, who narrated from his uncle, who narrated from his father, who narrated from Ibn Abbas: “And We gave him [the means of] everything as a sabab” means knowledge.
– It is mentioned that Abu Mu’adh said: “Ubayd narrated to me, he said: ‘I heard Dahhak saying about the statement of Allah: “And We gave him [the means of] everything as a sabab” – he said: “Knowledge of the paths of the heavens.”‘

These narrations suggest that the meaning here is knowledge.

Saahil Adim Sahib prefers the interpretation mentioned in Tabari’s Tafsir.

According to Imam Bukhari in his book “Tarikh al-Kabir,” Ali said that Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam is extremely weak.

Imam Ali Al-Madini also considered him very weak.

Imam Ath-Tha’labi mentioned in his book “Diyar Al-Ifta’ Wal-Matrookin” that the children of Zaid bin Aslam are weak.

Al-Nasai said: “Weak in Madinan narrations” (Al-Du’afa’ Wal-Matrookin).

It can be concluded that the interpretation by Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam holds no authority, and it is a weak opinion to link the portals mentioned in Surah Al-Kahf with the idea of people traveling through them.

In Surah An-Naml, it is mentioned that Solomon addressed the Queen of Sheba and said, “Enter the palace.” It was a command to enter a building, not to open a portal. Pharaoh commanded the construction of a building, not the opening of a portal through Haman.

Pharaoh asked for a tower to be built so that he could see signs beyond the stars and observe their influence on Egypt. Pharaoh and his people did not deny the existence of Allah; rather, their debate was whether Allah was near the Earth or if celestial bodies close to the Earth had an influence. They believed that the celestial bodies had an impact on the Earth, not that there was a god beyond the distant heavens. Therefore, Pharaoh instructed Haman to build a tower to observe the stars and their effects on Egypt.

It can be observed that the interpretation provided by Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam does not hold any significant authority. It cannot be considered as conclusive evidence to support the notion that portals were opened on Earth during the time of the Companions, allowing the people of the Cave, Ya’juj and Ma’juj, Dhul-Qarnayn, or the Dajjal to pass through them.

The idea of portals enabling such travel is not supported by strong and reliable evidence from the Qur’an or authentic Hadith sources. It is important to rely on sound scholarly interpretations and established sources of Islamic knowledge when considering these matters.

Meaning of Aynin hami’ah:

The concept of “عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (aynin hami’ah) according to Sahil Adim is found in the verse of Surah Al-Kahf where it is mentioned that Dhu al-Qarnayn reached a place where “حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (until he reached the setting of the sun, he found it [as if] setting in a muddy spring). It is stated that when he reached the place of the sunset, he found it setting in a spring of murky water.

Tabari mentioned that there is a difference in the recitation of this verse. Some readers in Medina and Basra recite “فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (in a muddy spring) in the sense that the sun appeared to set in a spring of hot water. And a group of readers in Medina and the majority of readers in Kufa recite it as “فِي عَيْنٍ حَامِيَةٍ” (in a hot spring), meaning that the sun appeared to set in hot water.

According to the recitation of Medina and Basra, it means a muddy spring, and according to the recitation of Kufa, it means the setting of the sun in water that is being heated. Sahil Adim suggests that the meaning of “عَيْنٍ” (ayn) in Arabic is an eye, and “حَمِئَةٍ” (hami’ah) means hot. So it is as if an fiery eye was formed, like a round portal.

In Surah Al-Mutaffifin (83:28), it is mentioned “عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ” (A spring from which those near [to Allah] drink). Here, the term “مُقَرَّبُونَ” (those near [to Allah]) is drinking from the spring.

It means through their eyes.

Allah has said to Musa (Moses) “فإنك باعيننا” (For you are in our sight). Meaning, “you were in our eyes.”

The term “عَيْنٌ” (ayn) refers to a spring, but it is metaphorically used for an eye because the eye is a means of perceiving water or moisture.

Regarding the creature “دابة ألأرض” (Dabbah al-Ardh), Sahil Adim suggests that it is mentioned that this creature will not come from the same earth but from another planet.

According to Sahil Adim, near the coast, there is a misconception that the creature of Dajjal is a donkey-like animal that engages in time travel. However, there is no authentic hadith to support this.

The purpose of creating all these concepts by Sahil Adim is to convey the narrations that Surah Al-Kahf will protect from the trials of the Dajjal (the Antichrist). This Site Author states that there is significant uncertainty regarding the authenticity of the narrations that consider Surah Al-Kahf as a safeguard against the Dajjal. Through research, it has been established that there is ambiguity present in these narrations, and a belief cannot be formed based on uncertain narrations.

 

امام الباقر اور امام ابو حنیفہ کا فرضی مناظرہ ‏

بعض  لوگوں نے امام باقر اور امام ابو حنیفہ کا فرضی مناظرہ بیان کیا ہے اس کو شیعہ و اہل سنت کی  کتب میں ایک جیسی  سند سے بیان کیا جاتا ہے مثلا

  شیعہ کتاب   الكافي میں ہے

عن عيسى بن عبد الله القرشيّ قال: (دخل أبو حنيفة على أبي عبد الله، فقال له: يا أبا حنيفة بلغني أنَّك تقيس؟ قال: نعم. قال: لا تَقِسْ، فإنَّ أوَّلَ منْ قاس إبليس حين قال خلقتني مِنْ نار وخلقتَه مِنْ طين، فقاس ما بين النَّار والطِّين، ولو قاس نوريَّة آدم بنوريَّة النَّار لعرف فضل ما بين النُّورَيْن وصفاء أحدهما).

وجاء في الكافي أيضا عن أبي حنيفة:

(استأذنت عليه (أي الصَّادق) فحجبني، وجاءه قوم مِنْ أهل الكوفة واستأذنوا فأذن لهم، فدخلت معهم، فلمَّا صِرتُ عندَه قُلْتُ يابن رسول الله لو أرسلْتَ إلى أهل الكوفة فنهيتهم أن يشتموا أصحاب محمَّد صلَّى الله عليه وسلَّم، فإنِّي تركتُ فيها أكثر مِنْ عشرة آلاف يشتمونهم فقال: لا يقبلون منِّي.
فقُلْتُ: ومَنْ لا يقبل منك، وأنت ابن رسول الله؟!
فقال الصَّادق: أنت أوَّل مَنْ لا يقبل منِّي. دَخَلْتَ داري بغير إذني، وجلست بغير أمري، وتكلَّمْتَ بغير رأيي، وقد بلغني أنَّك تقول بالقياس.
فقلت: نعم أقول.
فقال: ويحك يا نعمان، أوَّل من قاس إبليس حين أُمِرَ بالسُّجود لآدم فأبى، وقال خلقتني مِنْ نار وخلقته من طين، أيُّهما أكبر يا نعمان القتل أم الزِّنى قلت القتل.
قال: فلِمَ جعل الله في القتل شاهدين وفي الزِّنى أربعة، أيقاس لك هذا؟
قلت: لا.
قال فأيُّهما أكبر البول أو المنيّ؟ قلت البول. قال فلِمَ أَمَرَ الله في البول بالوضوء وفي المنيِّ بالغسل، أيقاس لك هذا؟ قلت: لا.
قال: فأيُّما أكبر الصَّلاة أم الصَّوم؟. قلت الصَّلاة، قال: فَلِمَ وجَبَ على الحائض أنْ تقضي الصَّوم ولا تقضي الصَّلاة، أيقاس لك هذا.
قُلْتُ: لا.
قال: فأيُّهما أضعف المرأة أم الرَّجُل؟ قلت: المرأة. قال فَلِمَ جَعَلَ الله تعالى في الميراث سهمين، وللمرأة سهما أيقاس ذلك؟ قلت: لا.
قال: وقد بلغني أنَّك تقرأ آية من كتاب الله تعالى، وهي: لَتُسْألُنَّ يومئذٍ عن النَّعيم، إنَّه الطَّعام الطَّيِّب والماء البارد في اليوم الصَّائف.
قلْتُ نعم. قال: لو دعاك رجل وأطعمك طعاما طَيِّبا وسقاك ماءً بارِدًا، ثمَّ امتنَّ به عليك، ما كُنْتَ تنسِبُه، قُلْتُ: البخل، قال: أفتبَخِّلُ الله علينا قُلْتُ فما هو. قال حبّنا أهل).
هذه الرِّواية لم يُسنِدها الكليني إلاَّ إلى أبي حنيفة، ومِنْ حقِّنا أن نوازن بينها وبين المرويّ عن أبي حنيفة رضي الله عنه في مناقبه، إنَّ المرويَّ عن أبي حنيفة في كتب مناقبه أنَّ المناقشة كانت بينه وبين الباقر، وأنَّ أبا حنيفة هو الَّذي أورد مسألة المقايسة بين البول والمنيّ، ومسألة الصَّلاة والصَّوم والحيض، ومسألة ميراث الأنثى وميراث الذَّكَر، وأوردها على أنَّه في قياسه لا يكذب على رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم، وأنَّه إنَّما يقيس إذا لم يكن نصّ، فحيث كان النَّصّ فإنَّه يحترمه.
وما دامت الرِّواية مسندة إلى أبي حنيفة، فإنَّا نقبل كلام الرّواة عنه، لأنَّهم أعلم به، ولأنّ الكليني ليس في درجة أبي حنيفة في الفقه، إذ قد أسند إلى الصَّادق رضي الله عنه ما أجمع الإماميَّة في الماضي والحاضر على أنَّه مكذوب على الصَّادق وهو الخاصّ بالقرءان.
ومهما يكن مقدار النِّسبة فإنَّ المشهور عن الباقر والصَّادق رضي الله عنهما أنَّهما استنكرا الاجتهاد بالقياس الَّذي اشتهر به أبو حنيفة.”
سند میں عيسى بن عبد الله القرشيّ  ہے اہل تشیع میں مجہول ہے

اس پر نہ جرح ہے نہ  تعدیل ہے

ابن عدی الکامل میں کہتے ہیں

عِيسَى بْنُ عَبد اللَّهِ بْنِ سليمان القرشي العسقلاني.

ضعيف يسرق الحديث.

یہ حدیث چور ہے

اہل سنت کی کتاب الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي میں ہے

أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ زِرْقَوَيْهِ , أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍ الْخُتَّلِيُّ , نا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ , نا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيِّ , عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ , قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ؛ وَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاعِظُ , – وَاللَّفْظُ لَهُ – أنا أَبُو حَفْصٍ , عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ بِمَكَّةَ , نا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , نا أَبُو الْوَلِيدِ الْقُرَشِيُّ , نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ , حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرٍ , نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرِّبْعِيُّ , قَالَ: قَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو , حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ , وَكُنْتُ لَهُ صَدِيقًا , ثُمَّ أَقْبَلْتُ عَلَى جَعْفَرٍ , وَقُلْتُ: أُمْتَعَ اللَّهُ بِكَ , هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ لَهُ فِقْهٌ وَعَقْلٌ , فَقَالَ لِي جَعْفَرٌ: لَعَلَّهُ الَّذِي يَقِيسُ الدِّينَ بِرَأْيِهِ , ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: «أَهُوَ النُّعْمَانُ؟» قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرِّبْعِيُّ , وَلَمْ أَعْرِفِ اسْمَهُ إِلَّا ذَلِكَ الْيَوْمَ – فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِيفَةَ: نَعَمْ أَصْلَحَكَ اللَّهُ , فَقَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: ” اتَّقِ اللَّهَ , وَلَا تَقِسِ الدِّينَ بِرَأْيِكَ , فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ , إِذْ أَمَرَهُ اللَّهُ بِالسُّجُودِ لِآدَمَ , فَقَالَ: أَنَا خَيْرُ مِنْهُ , خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: هَلْ تُحْسِنُ أَنَّ تقيسَ رَأْسَكَ مِنْ جَسَدِكَ؟ ” فَقَالَ لَهُ: لَا – وَفِي حَدِيثِ ابْنِ رِزْقَوَيْهِ: نَعَمْ – , فَقَالَ لَهُ: «أَخْبِرْنِي عَنِ الْمُلُوحَةِ فِي الْعَيْنَيْنِ , وَعَنِ الْمَرَارَةِ فِي الْأُذُنَيْنِ , وَعَنِ [ص:465] الْمَاءِ فِي الْمِنْخَرَيْنِ , وَعَنِ الْعُذُوبَةِ فِي الشَّفَتَيْنِ , لِأَيِّ شَيْءٍ جُعِلَ ذَلِكَ؟» قَالَ: لَا أَدْرِي قَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ الْعَيْنَيْنِ فَجَعَلَهُمَا شَحْمَتَيْنِ , وَجَعَلَ الْمُلُوحَةَ فِيهِمَا مَنًّا مِنْهُ عَلَى ابْنِ آدَمُ , وَلَوْلَا ذَلِكَ لَذَابَتَا فَذَهَبَتَا , وَجَعَلَ الْمَرَارَةَ فِي الْأُذُنَيْنِ مَنًّا مِنْهُ عَلَيْهِ , وَلَوْلَا ذَلِكَ لَهَجَمَتِ الدَّوَابُّ فَأَكَلَتْ دِمَاغَهُ , وَجَعَلَ الْمَاءَ فِي الْمِنْخَرَيْنِ لِيَصْعَدَ مِنْهُ النَّفَسُ وَيَنْزِلَ , وَتَجِدُ مِنَ الرِّيحِ الطَّيِّبَةِ وَمِنَ الرِّيحِ الرَّدِيئَةِ , وَجَعَلَ الْعُذُوبَةَ فِي الشَّفَتَيْنِ لِيَعْلَمَ ابْنُ آدَمَ مَطْعَمَهُ وَمَشْرَبَهُ» , ثُمَّ قَالَ لِأَبِي حَنِيفَةَ: «أَخْبِرْنِي عَنْ كَلِمَةٍ أَوَّلُهَا شِرْكٌ وَآخِرُهَا إِيمَانٌ؟» قَالَ: لَا أَدْرِي , فَقَالَ جَعْفَرٌ: ” لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَلَوْ قَالَ: لَا إِلَهَ ثُمَّ أَمْسَكَ كَانَ مُشْرِكًا , فَهَذِهِ كَلِمَةٌ أَوَّلُهَا شِرْكٌ وَآخِرُهَا إِيمَانٌ ” , ثُمَّ قَالَ لَهُ: ” وَيْحَكَ أَيُّهَا أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ: قَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ أَوِ الزِّنَا؟ ” قَالَ: لَا , بَلْ قَتْلُ النَّفْسِ قَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ رَضِيَ فِي قَتْلِ النَّفْسِ بِشَاهِدَيْنِ , وَلَمْ يَقْبَلْ فِي الزِّنَا إِلَّا أَرْبَعَةً , فَكَيْفَ يَقُومُ لَكَ قِيَاسٌ؟» ثُمَّ قَالَ: «أَيُّهُمَا أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ الصَّوْمُ أَمِ الصَّلَاةُ؟» قَالَ: لَا , بَلِ الصَّلَاةُ قَالَ: ” فَمَا بَالُ الْمَرْأَةِ إِذَا حَاضَتْ تَقْضِي الصَّوْمَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ؟ اتَّقِ اللَّهَ يَا عَبْدَ اللَّهِ وَلَا تَقِسْ , فَإِنَّا نَقِفُ غَدًا نَحْنُ وَأَنْتَ وَمَنْ خَالَفَنَا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى , فَنَقُولُ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَتَقُولُ أَنْتَ وَأَصْحَابُكَ سَمِعْنَا وَرَأَيْنَا , [ص:466] فَيَفْعَلُ اللَّهُ تَعَالَى بِنَا وَبِكُمْ مَا يَشَاءُ “

یہاں سند میں مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرِّبْعِيُّ  مجہول ہے

    أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصفهاني المتوفَّى سنة 430هـ –  کی كتاب حِليَة الأولياء وطبقات الأصفياء” ج3، ص196-   میں ہے

حدّثنا عبد الله بن محمّد ثنا الحسن بن محمّد ثنا سعيد بن عنبسة ثنا عمرو بن جميع. قال: دخلت على جعفر بن محمّد أنا وابن أبي ليلى وأبو حنيفة. وحدّثنا محمّد بن عليّ بن حبيش حدّثنا أحمد بن زنجويه حدّثنا هشام بن عمّار حدّثنا محمّد بن عبد الله القرشيّ بمصر ثنا عبد الله بن شبرمة. قال: دخلت أنا وأبو حنيفة على جعفر بن محمّد. فقال لابن أبي ليلى: من هذا معك؟ قال: هذا رجل له بصر ونفاذ في أمر الدّين. قال: لعلَّه يقيس أمر الدِّين برأيه. قال: نعم! قال فقال جعفر لأبي حنيفة: ما اسمك؟ قال: نعمان. قال: يا نعمان هل قِسْت رأسك بعد؟ قال: كيف أقيس رأسي؟! قال: ما أراك تحسن شيئا، هل علمت ما الملوحة في العينين، والمرارة في الأذنين، والحرارة في المنخرين والعذوبة في الشّفتين. قال: لا! قال: ما أراك تحسن شيئا، قال: فهل علمت كلمة أوّلها كفر وآخرها إيمان. فقال ابن أبي ليلى: يا ابن رسول الله أَخْبِرْنا بهذه الأشياء الّتي سألته عنها. فقال: أخبرني أبي عن جدّي أنّ رسول الله صلّى الله عليه وسلّم قال ((إنّ الله تعالى بمنّه وفضله ورحمته جعل لابن آدم الملوحة في العينين لأنّهما شحمتان ولولا ذلك لذابتا، وإنّ الله تعالى بمنّه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل المرارة في الأذنين حجابا من الدّوابّ فإن دخلت الرّأس دابّة والتمست إلى الدّماغ فإذا ذاقت المرارة التمست الخروج، وإنّ الله تعالى بمنِّه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل الحرارة في المنخرين يستنشق بهما الرِّيح ولولا ذلك لأنتن الدِّماغ، وإنَّ الله تعالى بمنِّه وكرمه ورحمته لابن آدم جعل العذوبة في الشّفتين يجد بهما استطعام كلّ شيء ويسمع النّاس بها حلاوة منطقه)). قال: فأَخْبِرْني عن الكلمة الّتي أوّلها كفر وآخرها إيمان. فقال: إذا قال العبد لا إله فقد كفر فإذا قال إلاّ الله فهو إيمان. ثمّ أقبل على أبي حنيفة فقال: يا نعمان حدّثني أبي عن جدّي أنّ رسول الله صلّى الله عليه وسلّم قال: ((أوّل مَنْ قاس أمر الدّين برأيه إبليس. قال الله تعالى له اسجد لآدم فقال: (أنا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين) فمن قاس الدّين برأيه قرنه الله تعالى يوم القيامة بإبليس لأنَّه اتّبعه بالقياس)). زاد ابن شبرمة في حديثه. ثمّ قال جعفر: أيّهما أعظم الصّلاة أم الصّوم؟ قال: الصّلاة. قال: فما بال الحائض تقضي الصّوم ولا تقضي الصّلاة. فكيف ويحك يقوم لك قياسك! اتّق الله ولا تقس الدّين برأيك.

سند میں  عمرو بن جميع الكوفي ہے جس پر کذب و حدیث گھڑنے کا الزام ہے

المعلمی کہتے ہیں

“الفوائد” (ص 343): “أحد الهلكى، أحاديثه موضوعة كان يتهم بوضعها”.

 قال ابن عدي: متهم بالوضع.

دوسری سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَنْبَسَةَ، ثَنَا عَمْرُو بْنُ جُمَيْعٍ قَالَ: ” دَخَلْتُ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَا وَابْنُ أَبِي لَيْلَى، وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُبَيْشٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زَنْجُوَيْهِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْقُرَشِيُّ بِمِصْرَ , ثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ شُبْرُمَةَ قَالَ:

مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ مجہول ہے

خطیب بغدادی کی الفقيه والمتفقه میں  سند ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُمَحِيُّ، بِمَكَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرَّبَعِيُّ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ فَقَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: ” اتَّقِ اللَّهَ، وَلَا تَقِسِ الدِّينَ بِرَأْيِكَ، فَإِنَّا نَقِفُ غَدًا، نَحْنُ وَأَنْتَ وَمَنْ خَلْفَنَا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ تَعَالَى، فَنَقُولُ: قَالَ اللَّهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ أَنْتَ وَأَصْحَابُكَ: سَمِعْنَا وَرَأَيْنَا. فَيَفْعَلُ اللَّهُ بِنَا وَبِكُمْ مَا يَشَاءُ “

مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ مجہول ہے

أخبار القضاة از وَكِيع میں ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْن سعيد الزهري، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الوليد الدمشقي، قال: حَدَّثَنِي عمي مُحَمَّد بْن عَبْد اللهِ بْن بكار، قال: حَدَّثَنِي سليمان بْن جعفر ابن إبراهيم بْن علي بْن عَبْد اللهِ بْن جعفر بْن أبي طالب، وأمر علي بْن عَبْد اللهِ بْن جعفر، زينب بنت علي بْن أبي طالب، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن عَبْد اللهِ الزهري فقال: حَدَّثَنَا ابن شُبْرُمَةَ، قال: دخلت أنا وأَبُوْحَنِيْفَةَ على جعفر بْن مُحَمَّد فسلمت عليه، وكنت له صديقاً ثم أقبلت على جعفر

فقلت: أمتع الله بك هَذَا رجل من أهل العراق له فقه، وعقل؛ فَقَالَ: جعفر: لعله الذي يقيس الدين برأيه، ثم أقبل علَيَّ فَقَالَ: النعمان بْن ثابت؟ فَقَالَ: أَبُوْحَنِيْفَةَ: نعم، أصلحك الله! فقال: اتق الله ولا تقس الدين برأيك، فإن أول من قاس إبليس إِذ أمره الله بالسجود لآدم؛ فقال: {أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ [الأعراف: 12} ثم قَالَ: له جعفر: هَلْ تحسن أن تقيس رأسك من جسدك ? فقال: لا؛ قال: فأَخْبَرَنِي عَن الملوحة في العينين، وعن المرارة في الأذنين، وعن الماء في المنخرين، وعن العذوبة في الشفتين، لأي شيء جعل ذلك ?
قال: لا أدري.
قَالَ: جعفر: الله عز وجل خلق العينين فجعلهما شحمتين، وجعل الملوحة فيها ضناً منه على ابن آدم ولولا ذلك لذابتا، فذهبتا، وجعل المرارة في الأذنين ضناً منه عليه، ولولا ذلك لهجمت الدواب، فأكلت دماغه، وجعل الماء في المنخرين ليصمد التنفس، وينزل ويجد منه الريح الطيبة من الريح الرديئة، وجعل العذوبة في الشفتين ليجد ابن آدم طعم لذة مطعمه ومشربه.
ثم قَالَ: له جعفر: أَخْبَرَنِي عَن كلمة أولها شرك، وآخرها إيمان.
قَالَ: لا أدري ?
قَالَ: لا إله إِلَّا الله،
ثم قَالَ لَهُ: أيما أعظم عند الله قتل النفس أو الزنا ?
قال: لا، قتل النفس
قَالَ: له جعفر: إن الله عز وجل قد رضى في قتل النفس بشاهدين ولم يقبل في الزنا إِلَّا بأربعة.
ثم قال: أيما أعظم عند الله الصوم أم الصلاة؟
قال: لا بل الصلاة؛ قال: فما بال
المرأة إِذَا حاضت تقضي الصيام، ولا تقضي الصلاة، اتق الله يا عَبْد اللهِ إنا نقف نحن وأنت غداً ومن خالفنا بين يدي الله جل وعز، فنقول: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ عليه السلام: ويقول أنت وأصحابك: قَالَ: سمعنا ورأينا، ففعل بنا وبكم ما يشاء.

سند میں سليمان بْن جعفر ابن إبراهيم   اور محمد بن  عبد اللہ بن بکار  دو مجہول ہیں

الأخبار الموفقيات للزبير بن بكار از  الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي الأسدي المكي (المتوفى: 256هـ)  میں ہے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأُمُّ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرِ أُمُّ جَعْفَرٍ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأُمُّهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنِ يَحْيَى الرَّبَعِيُّ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شُبْرَمَةَ ” دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، فَسَلَّمْتُ، وَكُنْتُ لَهُ صَدِيقًا، ثُمَّ أَقْبَلْتُ عَلَى جَعْفَرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَمْتَعَ اللَّهُ بِكَ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، لَهُ فِقْهٌ وَعِلْمٌ.

فَقَالَ لِي جَعْفَرٌ: لَعَلَّهُ الَّذِي يَقِيسُ الدِّينَ بِرَأْيِهِ.

ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: هُوَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ؟ قَالَ: وَلَمْ أَعْرِفِ اسْمَهُ إِلا ذَلِكَ الْيَوْمَ.

قَالَ: فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: نَعَمْ، أَصْلَحَكَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: اتَّقِ اللَّهَ وَلا تَقِسِ الدِّينَ بِرَأْيِكَ، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ، إِذْ أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِالسِّجُودِ لآدَمَ، فَقَالَ: {أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ} [الأعراف: 12 ٍ] ثُمَّ قَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: هَلْ تُحْسِنُ أَنْ تَقِيسَ رَأْسَكَ مِنْ جَسَدِكَ؟ فَقَالَ: لا، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ الْمُلُوحَةِ فِي الْعَيْنَيْنِ، وَعَنِ الْمَرَارَةِ فِي الأُذُنَيْنِ، وَعَنِ الْمَاءِ فِي الْمِنْخَرَيْنِ، وَعَنِ الْعُذُوبَةِ فِي الشَّفَتَيْنِ لأَيِّ شَيْءٍ جُعِلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: لا أَدْرِي.

سند میں سليمان بْن جعفر ابن إبراهيم   اور محمد بن  عبد اللہ بن بکار  دو مجہول ہیں

اس طرح یہ قصہ مجہول مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ   اور سليمان بْن جعفر ابن إبراهيم  اور  عيسى بن عبد الله القرشيّ   کی سندوں سے ہے

امام جعفر یا باقر سے منسوب قول ہے

وَلَا تَقِسِ الدِّينَ بِرَأْيِكَ , فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ , إِذْ أَمَرَهُ اللَّهُ بِالسُّجُودِ لِآدَمَ
اپنی رائے سے قیاس مت کرو کیونکہ سب سے اول ابلیس نے قیاس کیا تھا جب اس کو آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا

راقم کہتا ہے کہ قول امام جعفر و باقر پر جھوٹ ہے کیونکہ سب سے اول فرشتوں نے قیاس کیا جب انہوں نے خلیفہ فی الارض پر کہا کہ یہ تو خون بہائے گا
انسان پر انہوں نے قیاس کیا اور یہ قیاس غلط نہ تھا ایسا ہی ہو رہا

اللہ تعالی نے فرشتوں کو رد نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ میرا علم تم سے زیادہ ہے

اس طرح قیاس کو رد کیا گیا بلکہ اس کو الوحی کے تابع کیا گیا

امام جعفر و باقر نے پوچھا روزہ افضل ہے یا نماز ؟

راقم کہتا ہے کہ یہ قول بھی غیر ضروری منسوب ہے کیونکہ عبادات کی افضلیت ان کی قبولیت سے منسلک ہے جس کا کسی کو علم نہیں
اس طرح نہ روزہ افضل ہے نہ نماز دونوں عبادت ہیں

امام جعفر و باقر نے پوچھا قتل نفس بڑا گناہ ہے یا زنا ؟

راقم کہتا ہے یہ قول بھی غیر ضروری ہے کیونکہ دونوں گناہ کبیرہ ہیں اور اللہ جس گناہ کو نہ بخشے وہی اہم بن جائے گا

اس قسم کے فرضی قصوں کو بیان کر کے امام ابو حنیفہ کو جاہل یا کم علم بتایا جاتا تھا جبکہ فقه فی دین بحث میں جیت جانا اہم نہیں ہیے – فقه تو یہ ہے کہ عمل اللہ کے ہاں درجہ قبولیت پا لے

امام ابو حنیفہ کی فقہ میں قیاس کی اہمیت ہے کیونکہ جدید مسائل میں قیاس ہی کیا جاتا ہے
اور قدیم میں حدیث مشہور کو لیا جانا چاہیے نہ کہ کسی بھی قول کو قول نبوی سمجھ کر اس پر چلنا شروع کر دیا جائے

یہی وجہ ہے کہ عقائد میں اختلاف پیدا ہوئے جب ہر قسم کی روایات کو حدیث رسول سمجھا جانے لگا

 

==============================================================================

 

Some people have attributed a fabricated sermon to Imam Baqir and Imam Abu Hanifa. It is mentioned in both Shia and Sunni books with a similar chain of narration. For example, it is found in the Shia book Al-Kafi:

“Isa ibn Abdullah al-Qurashi narrated: Abu Hanifa entered upon Abu Abdullah (Imam Baqir), and he said to him, ‘O Abu Hanifa, I have heard that you engage in qiyas (analogical reasoning).’ Abu Hanifa replied, ‘Yes.’ Abu Abdullah said, ‘Do not engage in qiyas. Verily, the first one to engage in qiyas was Iblis (Satan) when he said, ‘You created me from fire and created him from clay,’ and he compared between fire and clay. If he had compared my light (Adam) with the light of fire, he would have recognized the superiority between the two lights and the clarity of one over the other.'”

It is also mentioned in Al-Kafi about Abu Hanifa:

“I sought permission from (Imam) Sadiq, but he prevented me. Then a group of people from Kufa sought permission, and he granted them permission. I entered with them. When I was near him (Imam Sadiq), I said, ‘O son of the Messenger of Allah, if you were to send to the people of Kufa and forbid them from insulting the companions of Muhammad (peace be upon him), as I have left more than ten thousand people there insulting them.’ He (Imam Sadiq) said, ‘They do not accept from me.’ I said, ‘Who does not accept from you, while you are the son of the Messenger of Allah?’ He (Imam Sadiq) said, ‘You are the first one who does not accept from me. You entered my house without my permission, sat without my command, and spoke without my consent. And it has reached me that you engage in qiyas (analogical reasoning).’ I said, ‘Yes, I engage in it.’ He said, ‘Woe to you, O Nu’man (Abu Hanifa). The first one to engage in qiyas was Iblis when he refused to prostrate to Adam and said, ‘You created me from fire and created him from clay.’ Which one is greater, O Nu’man, murder or adultery?’ I said, ‘Murder.’ He said, ‘Then why did Allah appoint two witnesses for murder and four witnesses for adultery? Does this qiyas apply to you?’ I said, ‘No.’ He said, ‘Which one is greater, prayer or fasting?’ I said, ‘Prayer.’ He said, ‘Then why is it obligatory for a menstruating woman to make up the missed fasting days but not the missed prayers? Does this qiyas apply to you?’ I said, ‘No.’ He said, ‘Which one is weaker, a woman or a man?’ I said, ‘A woman.’ He said, ‘Then why did Allah divide the inheritance into two shares for a woman and two shares for a man? Does this qiyas apply to you?’ I said, ‘No.’ He said, ‘I have also heard that you recite a verse from the Book of Allah, which is, ‘Verily, on that Day they will be asked about the delights. Indeed, it is the food of the righteous and the cold water on a scorching day.’ I said, ‘Yes.’ He said, ‘If a man invited you and served you good food and gave you cold water, and then he granted you a favor, would you attribute it to stinginess?’ I said, ‘

The chain of narration includes Isa ibn Abdullah al-Qurashi, who is unknown among the Shia. There is neither criticism nor praise for him.

Ibn Adi al-Kamil mentioned:
“Isa ibn Abdullah ibn Sulayman al-Qurashi al-Asqalani.
Weak, steals hadith.”

This narration is considered fabricated.


The book “Al-Faqih wa al-Mutafaqqih” by Al-Khatib al-Baghdadi is mentioned in the Ahl Sunnah literature.

In the chain of narration, Muhammad ibn Yahya al-Rib’i is unknown.

Abu Nu’aim Ahmad ibn Abdullah al-Isfahani, who passed away in 430 AH, mentioned this incident in his book “Hilyat al-Awliya’ wa Tabaqat al-Asfiya,” Volume 3, page 196.

Abdullah ibn Muhammad informed us, narrating from Al-Hasan ibn Muhammad, who narrated from Saeed ibn Anbasa, who narrated from Amr ibn Jumi’ah, who said: “I entered upon Ja’far ibn Muhammad along with Ibn Abi Layla and Abu Hanifa. Muhammad ibn Ali ibn Hubaysh narrated to us, narrating from Ahmad ibn Zanjawayh, narrating from Hisham ibn Ammar, narrating from Muhammad ibn Abdullah al-Qurashi in Egypt, narrating from Abdullah ibn Shabruma. He said: ‘I entered upon Ja’far ibn Muhammad along with Abu Hanifa. Ibn Abi Layla asked him, ‘Who is this man with you?’ He replied, ‘This is a man who possesses knowledge and understanding in matters of religion.’ Ibn Abi Layla said, ‘Perhaps he makes his own opinion a criterion in religious matters.’ Ja’far replied, ‘Yes!’ Then Ja’far said to Abu Hanifa, ‘What is your name?’ He replied, ‘Nu’man.’ Ja’far said, ‘O Nu’man, have you measured your head?’ Abu Hanifa asked, ‘How can I measure my head?’ Ja’far said, ‘I don’t see that you possess any knowledge. Do you know about the saltiness in the eyes, the bitterness in the ears, the fluid in the nostrils, and the sweetness in the lips? What purpose were these created for?’ Abu Hanifa replied, ‘No.’ Ja’far said, ‘I don’t see that you possess any knowledge. Do you know a word whose beginning is disbelief and its end is faith?’ Abu Hanifa said, ‘I don’t know.’ Ja’far said, ‘It is “La ilaha illallah” (There is no god but Allah). If one says “La ilaha” and stops there, he is a disbeliever. This word has disbelief as its beginning and faith as its end.’ Then Ja’far said, ‘Woe to you! What do you consider greater in the sight of Allah, the killing of a soul that Allah has forbidden or adultery?’ Abu Hanifa replied, ‘No, rather the killing of a soul.’ Ja’far said, ‘Allah has made killing a soul permissible with two witnesses, but He accepts only four witnesses in cases of adultery. How can you make an analogy then?’ Then Ja’far asked, ‘Which is greater in the sight of Allah, fasting or prayer?’ Abu Hanifa replied, ‘No, rather prayer.’ Ja’far said, ‘Then what about a menstruating woman who makes up for the missed fasts but does not make up for missed prayers? Fear Allah, O Abdullah, and do not make analogies. For tomorrow, we, you, and those who oppose us will stand before Allah, blessed and exalted. We will say, “Allah said” and “The Messenger of Allah, peace be upon him, said,” and you and your companions will say, “We heard and we saw.” Allah will do with us and you as

He wills.'”

In this narration, Amr ibn Jumi’ah al-Kufi is mentioned, who is accused of fabricating and narrating false hadiths.

Al-Mu’allimi said in his book “Al-Fawaid” (p. 343): “One of the ruined ones, his hadiths are fabricated, and he was accused of fabricating them.”

Ibn Adi mentioned: “Accused of fabrication.”


This is another chain of narrators. It says:

“Narrated to us Abdullah ibn Muhammad, from Al-Hasan ibn Muhammad, from Sa’id ibn Anbasah, from Amr ibn Jumay’ from Abdullah ibn Shubrumah who said: ‘I entered upon Ja’far ibn Muhammad along with me were Ibn Abi Layla, Abu Hanifa, and Muhammad ibn Ali ibn Hubaysh. Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar al-Qurashi is unknown (majhool).

It is mentioned in Al-Faqih wal-Mutafaqqih by Khateeb Baghdadi and also in Akhbar al-Qudat by Al-Waqidi.

In this chain of narrators, the narrator Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar al-Qurashi is mentioned as unknown (majhool).

The second narration states:

“Narrated to us Abdul Malik ibn Muhammad ibn Abdullah ibn Bishran, he said: Narrated to us Umar ibn Muhammad al-Jumahi from Mecca, he said: Narrated to us Ali ibn Abdul Aziz, he said: Narrated to us Abu al-Walid al-Qurashi, he said: Narrated to us Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar al-Qurashi, he said: Narrated to me Suleiman ibn Ja’far ibn Ibrahim ibn Ali ibn Abdullah ibn Ja’far ibn Abu Talib, and Ali ibn Abdullah ibn Ja’far ordered Zaynab bint Ali ibn Abu Talib, she said: Narrated to us Muhammad ibn Abdullah al-Zuhri, he said: Narrated to us Ibn Shubrumah, he said: ‘I and Abu Hanifa entered upon Ja’far ibn Muhammad ibn Ali, and Ja’far said to him: ‘Fear Allah and do not measure the religion based on your opinion. Tomorrow we will stand, you, us, and those who came before us, in the presence of Allah the Almighty, and we will say: Allah said, the Messenger of Allah (peace be upon him) said, and you and your companions will say: We heard and we obeyed. Allah will then do with us and with you as He wills.”

In this chain of narrators, Suleiman ibn Ja’far ibn Ibrahim ibn Ali ibn Abdullah ibn Ja’far ibn Abu Talib and Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar al-Qurashi are mentioned as unknown (majhool).

It’s important to note that the presence of unknown narrators (majhool) in the chain means that their identities and reliability have not been established. This may affect the strength and credibility of the chain of narration.


The book “Al-Akhbar al-Mufawwadat” by Az-Zubair ibn Bakkar is attributed to Az-Zubair ibn Bakkar ibn Abdullah al-Qurashi al-Asadi al-Makki (d. 256 AH).

The narration begins with Muhammad ibn Abdullah al-Qurashi, who said: Suleiman ibn Ja’far ibn Ibrahim ibn Muhammad ibn Abdullah ibn Ja’far ibn Abu Talib, and the mother of Ali ibn Abdullah ibn Ja’far, Zaynab bint Ali ibn Abu Talib, and her mother Fatimah bint Rasulullah (peace be upon them) narrated to me. Muhammad ibn Yahya ar-Rabai said: Ibn Shubrumah told me that “I and Abu Hanifa entered upon Ja’far ibn Muhammad ibn Ali, and I greeted him. I was a friend to him. Then I approached Ja’far and said to him, ‘May Allah bless you. This is a man from the people of Iraq who has knowledge and understanding.’

Ja’far replied to me, ‘Perhaps he is the one who measures the religion based on his opinion.

Then he approached me and asked, ‘Is he Nu’man ibn Thabit?’ I replied, ‘Yes, may Allah guide you.’ Ja’far said to him, ‘Fear Allah and do not measure the religion based on your opinion. Indeed, the first one who measured was Iblis when Allah commanded him to prostrate to Adam, and he said, “I am better than him. You created me from fire and created him from clay” [Al-A’raf: 12].’ Then Ja’far said to him, ‘Do you think it is right to measure your head based on your body?’ He replied, ‘No.’ Ja’far then asked him about the saltiness in the eyes, bitterness in the ears, water in the nostrils, and sweetness in the lips, and for what purpose were they made?’ He replied, ‘I don’t know.’

In this narration, Suleiman ibn Ja’far ibn Ibrahim and Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar are mentioned as unknown (majhool).

It is mentioned that this story is attributed to Imam Ja’far or Baqir.

Regarding the statement, “Do not measure the religion based on your opinion, for indeed the first one who measured was Iblis when Allah commanded him to prostrate to Adam,” this site author (the narrator) says that this statement falsely attributes the saying to Imam Ja’far or Baqir. The first one who measured was the angels when they said about the successor on earth, “Will you place therein one who will cause corruption and shed blood?” Humans are also engaged in reasoning, and this reasoning is not incorrect; it is happening as it should.

Allah did not reject the angels’ statement; instead, He said, “Indeed, I know that which you do not know” [Al-Baqarah: 30].

In this way, reasoning was not rejected; rather, it was made subject to divine revelation.

Imam Ja’far or Baqir asked, “Is fasting superior or prayer?” this site author says that this statement is also unnecessary because the superiority of acts of worship is based on their acceptance, and no one knows which act is more acceptable. Therefore, neither fasting nor prayer is superior; both are acts of worship.

Imam Ja’far or Baqir asked, “Is killing a soul a major sin or adultery?” this site author says that this statement is also unnecessary because both are major sins, and which sin becomes more important is determined by whether Allah forgives it. Thus, it is not appropriate to give importance to such fictional stories; rather, the importance should be given to the acceptance of actions in the presence of Allah.

Imam Abu Hanifa’s understanding of jurisprudence includes the importance of reasoning because in contemporary issues, reasoning is applied. And in the past, famous hadiths should be taken into account, not any statement should be considered a saying of the Prophet and followed blindly.

This is the reason why there were differences in beliefs when all kinds of traditions were considered the saying of the Prophet.

 

محمد بن قاسم اور مرزا جہلمی کا دعوی جھل

ایک نیم سنی مرزا جہلمی  نے دعوی کیا کہ محمد بن قاسم سندھ اس لئے آیا تھا کہ اہل بیت کا  پیچھا کر کے ان کو قتل کرے – نیم سنی علی مرزا نے دعوی کیا کہ عمر بن عبد العزیز کے دور میں محمد بن قاسم کو قید کیا گیا اور اسی دوران   محمد بن قاسم  کا انتقال ہو گیا

7:28

پر مرزا نے دعوی کیا کہ

حجاج بن یووصف کے ظلموں کی ایک داستان تھی ، لوگ تنگ تھے -… (الولید بن عبد الملک بن مروان) نے وصیت کی تھی کہ ولید کے بعد خلیفہ بنے گا اس کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبد الملک ، لیکن ولید کو بھی لالچ آ گئی کیونکہ یہ تو ہے ہی لالچی دور جب یزید کے ابا جی (یعنی معاویہ) کو لالچ آ گئی کہ میرا بیٹا خلیفہ بنے تو ولید بن عبد الملک تو صحابی بھی نہیں اس کو لالچ نہ آئے کہ میرا بچہ (خلیفہ ) بنے حالنکہ وہ خود بھی اس وصیت پر خلیفہ بنا تھا جو اس کے ابے نے کی ہوئی تھی – تو سارے گورنروں سے اس نے بیعت لے لی کہ میرے مرنے کے بعد میرا بیٹا خلیفہ بنے گا – ایک گورنر تھا جس نے نے انکار کر دیا اور وہ تھے  عمر بن عبد العزیز  ، وہ اس وقت حجاز کے گورنر تھے اور  حجاج بن یوسف کوفے کا گورنر تھا – عمر بن عبد العزیز کو جیل میں ڈلوا دیا ولید بن عبد الملک نے لیکن وہ عمر ہر دل عزیز شخصیت تھے اس لئے اس وقت پروٹسٹ ہوئے  تھوڑے بہت اور معاملہ انہوں نے ڈیلے کیا – اسی ڈیلے کرنے کے دوران اچانک الولید کی ڈیتھ ہو گئی ، وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا – اور الٹیمٹلی اس کا کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبد الملک خلیفہ بن گیا – سلیمان بن عبد الملک جیسے ہی خلیفہ بنا اس کو یہ احسان  یاد تھا کہ عمر بن عبد العزیز کی وجہ سے میں خلیفہ بنا ہوں … عمر بن عبد العزیز ان کا بہنوئی بھی لگتا تھا …. تو جب وہ خلیفہ بن گئے سلیمان بن عبد الملک ، تو سب سے پہلے عمر بن عبد العزیز کو آزاد کروایا گیا – عمر بن عبد العزیز نے کہا جی سب سے بڑا کلپرٹ ہے  حجاج بن یوسف – اس نے ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے – صحابہ کو قتل کروایا ہے – … سلیمان نے پہلا ایگزیکٹو آڈر کیا کہ حجاج نام کے جتنے  بندے ہیں … کسی بھی حکومتی عہدے پر ہیں ساورں کو جیل میں ڈالو – … اور ان حجاج نامی لوگوں کے تمام رشتہ داروں کو جیل میں ڈالو – جو محمد بن قاسم جو بھتیجا تھا اس کو بھی پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا – یہ تھی ریزن –

راقم کہتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ ان کو تاریخ کا علم نہیں –  علم حدیث میں موجود ہے کہ جب جھوٹے راویوں نے روایات بیان کیں تو انہوں نے تاریخ وفات سے مدد لی –

 حجاج بن یوسف کی وفات کسی مرض کی وجہ سے گھر میں ہوئی أنساب الشرف، ج 12، ص 353 میں وفات کا تذکرہ موجود ہے کہ حجاج بن یوسف کی وفات ہوئی تو لونڈی بھی روئی –

حجاج بن یوسف کی وفات رمضان أو شوال سنة ٩٥ ہجری میں ہوئی اور یہ ولید  بن  عبد الملک   کی خلا فت ختم ہونے سے ایک سال پہلے کا واقعہ ہے – اسی سال محمد بن قاسم کی بھی وفات تاریخ میں موجود ہے

حجاج بن یوسف کے حوالے سے علی مرزا نے دعوی کیا کہ وہ اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کو قتل کرواتا تھا جبکہ اس کی بھی کوئی دلیل نہیں –

محمد بن قاسم الثقفي رحمة الله عليه كي وفاة سن ٩٥ ہجری میں ہوئی  اور یہ عمر بن عبد العزیز کی خلافت سے پہلے ہوئی – سلیمان بن عبد المک کی خلافت تو خود محمد بن قاسم کی وفات کے  ایک  سال بعد شروع ہوتی ہے – اس طرح یہ تمام قصہ جو علی مرزا نے بیان کسی بے بنیاد دعوی سے کم نہیں –

عرصۂ خلافت خلیفہ
٦٥  سے  ٨٦ عبد الملک بن  مروان
٨٦  سے  ٩٦ ولید  بن  عبد الملک
٩٦  سے   ٩٩ سلیمان  بن  عبد  الملک
 ٩٩  سے  ١٠١ عمر  بن  عبد العزیز
١٠١  سے  ١٠٥ یزید  بن  عبد الملک بن  مروان

اسی طرح یہ  دعوی کہ سن ٩٠ ہجری میں ہی اہل بیت کو راجہ دہر نے پناہ دی – اس پر بھی کوئی دلیل تاریخ میں موجود نہیں ہے – ال علی کے خروج کرنے والوں نے اہل بیت بنو عباس  سے بچنے کے لئے سندھ کا رخ ضرور کیا تھا اور یہ بنو امیہ کے بعد ہوا ہے

بنو عباس کے دور میں ال علی میں سے  حسن رضی اللہ عنہ کے پڑ پڑ پوتے نے خروج کیا  جس کا نام محمد بن عبد اللہ المہدی تھا اس کا اہل بیت یعنی بنو عباس نے قتل کیا کیونکہ یہ ان کی خلافت کا انکاری تھا – امام محمد بن عبد المہدی المتوفی ١٤٥ ھ کے قتل  کے بعد ان کے  بیٹے الاشتر  عبد اللہ بن محمد  مدینہ سے نکل کر  کوفہ پہنچے اور وہاں سے بصرہ اور پھر سندھ  کا راستہ  لیا  –  مقاتل  الطالبین از  ابو فرج اصفہانی میں ہے

وعبد الله الأشتر بن محمد «3» بن عبد الله ابن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب وأمه أم سلمة بنت محمد بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب.

كان عبد الله بن محمد بن مسعدة المعلم أخرجه بعد قتل أبيه إلى بلد

الهند «1» فقتل بها، ووجه برأسه إلى أبي جعفر المنصور

عبد اللہ الاشتر اپنے باپ کے قتل کے بعد ھند بھاگ گیا وہاں قتل ہوا اور اس کا سر ابو جعفر منصور کو بھیجا گیا

اس میں اختلاف  ہے کہ  عبد اللہ الاشتر  کا قتل کس مقام پر ہوا بعض نے سندھ کہا ہے بعض نے کابل کہا ہے

کراچی میں عبد اللہ شاہ  غازی  کا مزار بعض  کے بقول عبد اللہ الاشتر  کا ہے – مقاتل طالبین میں ہے کہ عبد اللہ کا سر  خلیفہ ابو  جعفر  کے پاس بھیجا گیا تھا  یعنی اس کا جسم کابل  یا سندھ میں ہی چھوڑ دیا گیا تھا – تاریخ معصومی کی تعلیقات میں عمر بن محمد داؤد پوتہ صاحب کا خیال ہے کہ یہ قبر عبیداللہ بن نبہان کی ہے جو لشکر ابن قاسم  میں تھے

اہل بیت کو راجہ داہر نے پناہ دی ہوئی تھی اس قسم کی کوئی راویات تاریخ اسلام میں موجود نہیں ہے

طاہر القادری نے دعوی کیا کہ سندھ سے  لوگ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچے  اور پھر پانچ صحابی سندھ گئے – اسی قسم کا دعوی مرزا نے بھی دہرایا

 https://www.youtube.com/watch?v=3ir-esZijIU

الإصابة في تمييز الصحابة میں ابن حجر نے ذکر کیا

روى أبو موسى في «الذيل» من طريق بشر «2» بن أحمد الأسفرايني صاحب يحيى بن يحيى النيسابورىّ، حدثنا مكي بن أحمد البردعيّ، سمعت إسحاق بن إبراهيم الطّوسيّ يقول: هو ابن سبع وتسعين سنة، قال: رأيت سرباتك ملك الهند في بلدة تسمى قنّوج «3» – بقاف ونون ثقيلة وواو ساكنة وبعدها جيم، وقيل ميم بدل النّون، فقلت له: كم أتى عليك من السنين؟ قال: سبعمائة «4» وخمس وعشرون سنة.

وزعم أنّ النّبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم أنفذ إليه حذيفة وأسامة وصهيبا يدعونه إلى الإسلام فأجاب وأسلم، وقبل كتاب النّبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم.

قال الذّهبيّ في التّجريد «5» : هذا كذب واضح

ابو موسی نے الذیل میں  ذکر کیا کہ  مكي بن أحمد البردعيّ نے اسحاق بن ابراہیم سے سنا  ہے کہ میں نے   کے راجہ  سرباتک   سے ملاقات کی اس کا کہنا تھا کہ آپ علیہ السلام نے اس کی طرف   صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے   حذیفہ،  اسامہ اور   صہیب رضی اللہ عنہم کو دعوتِ اسلام کا خط دے کر بھیجا تھا تو میں نے اسلام قبول کیا اور نامہ مبارک کو بوسہ دیا۔

ابن حجر عسقلانی ٰ نے الاصابۃ میں اس  روایت  کو نقل کرنے کے بعد  الذہبی   کا اس روایت کے بارے میں یہ قول نقل کیا۔  ھذا کذب واضح  یہ صریح جھوٹ ہے

اسی طرح بعض نے ایک آدمی رتن الہندی کا ذکر کیا –

امام الذھبی نے میزان میں  لکھا ہے

رتن الهندي . وما أدراك ما رتن! شيخ دجال بلا ريب. ظهر بعد الستمائة فادعى الصحبة، والصحابة لا يكذبون. وهذا جريء على الله ورسوله ، وقد الفت في أمره جزءا. وقد قيل: أنه مات سنة اثنتين وثلاثين وستمائة. ومع كونه كذابا فقد كذبوا عليه جملة كبيرة من أسمج الكذب والمحال

رتن الہندی  اور معلوم نہیں کہ یہ رتن کیا ہے – بلا شبہ یہ بڈھا ایک دجال تھا – یہ سن ٦٠٠ ہجری کے بعد ظاہر ہوا اور اس نے کہا یہ صحابی ہے

اس طرح مستند قول یہی ہے کہ اسلام بر صغیر میں محمد بن قاسم رحمہ اللہ علیہ کی وجہ سے آیا

مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِىَ لَهُۥ

مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِىَ لَهُۥ ۚ وَيَذَرُهُمْ فِى طُغْيَٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ

جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں، اور انہیں اللہ چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں حیران پھیریں

اہل ایمان کی آزمائش ہوتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی عالم گمراہ ہوتا ہے –  گزرے صوفیاء کو گمراہ کہنا آسان ہے کیونکہ ان سے ہماری ملاقات نہیں ہے لیکن جب ہم کسی عالم کو دیکھیں کہ وہ خود گمراہ ہو گیا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کہہ رہا ہے تو یہ یقینا ایک آزمائش ہے

یاد رہے کہ طاغوت کا دفاع نہیں کیا جا سکتا – نہ اس حوالے سے کوئی جھول یا گول مول بات کی جا سکتی ہے – محسن ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کو اللہ تعالی جنت میں اعلی مقام دے جنہوں نے صوفیاء ہوں یا محدثین دونوں کے گمراہ عقائد کی تبین کی  اور آج مزید تحقیق سے یہ واضح سے واضح تر ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی تحقیق درست ہے

گزشتہ امتوں میں گمراہی اغلبا اسی طرح آئی کہ ان کے علماء نے ہی حق و سچ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا – اپنے سابقہ موقف کو بہکنا کہ کر ایمان کو مشکوک بنانے کی کوشش کی – خود بھی گمراہ ہوئے اور اورروں  کو بھی گمراہ کیا

اللہ ہر طرح کی گمراہی سے بچائے

اللھم اھدنا فیمن ھدیت

یا اللہ ہم کو  ان ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل فرما جن کو تو نے ہدایت بخشی ہے

ذو القرنین کا سفر

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں روایت نقل کی

وَفِي الْمُخْتَارَةِ لِلْحَافِظِ الضِّيَاءِ الْمُقَدِّسِيِّ مِنْ طَرِيقِ قُتَيْبَةَ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ ذي القرنين كيف بلغ المشرق والمغرب؟ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ سَخَّرَ لَهُ السَّحَابَ وَقَدَّرَ له الأسباب وبسط له اليد.

حَبِيبِ بْنِ حِمَاز نے کہا میں علی رضی اللہ عنہ  کے پاس تھا جب ایک شخص نے سوال کیا کہ ذو القرنین مشرق و مغرب تک کیسے پہنچے ؟ علی نے کہا سبحان اللہ ، اللہ تعالی نے ان کے لیے بادل کو مسخر کیا اور اسباب پر قدرت دی اور ان کے ہاتھ کو پھیلایا

الْمُخْتَارَةِ  میں المقدسی کی مکمل سند ہے

 أَخْبَرَنَا عبد الْمعز بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَرَوِيُّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ بِهَا قُلْتُ لَهُ أَخْبَرَكُمْ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ الْفُضَيْلِ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنْتَ تَسْمَعُ أَنَا مُحَلِّمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الضَّبِّيُّ أَنَا الْخَلِيلُ بْنُ أَحْمَدَ السِّجْزِيُّ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ السَّرَّاجُ ثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ كَيْفَ بَلَغَ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ وَمُدَّتْ لَهُ الأَسْبَابُ وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ فَقَالَ أَزِيدُكَ قَالَ فَسَكَتَ الرَّجُلُ وَسَكَتَ عَلِيٌّ

 راقم کو اس کی مزید اسناد ملیں

تفسیر عبد الرزاق ح 1706  میں ہے

قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ – أَخْبَرَنِي إِسْرَائِيلُ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ الْأَسَدِيِّ , قَالَ: أَتَى رَجُلٌ فَسَأَلَ عَلِيًّا وَأَنَا عِنْدَهُ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ , فَقَالَ: «هُوَ عَبْدٌ صَالِحٌ نَاصِحٌ لِلَّهِ , فَأَطَاعَ اللَّهَ فَسَخَّرَ لَهُ السَّحَابَ فَحَمَلَهُ عَلَيْهِ , وَمَدَّ لَهُ فِي الْأَسْبَابِ وَبَسَطَ لَهُ فِي النُّورِ» , ثُمَّ قَالَ: «أَيَسُرُّكَ يَا رَجُلُ أَنْ أَزِيدَكَ , فَسَكَتَ الرَّجُلُ وَجَلَسَ»

حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ نے کہا ایک آدمی آیا اور اس نے علی سے ذو القرنین پر  سوال کیا اور میں ان کے پاس تھا ، پس علی نے اس  شخص سے  کہا وہ نیک آدمی تھے نصحت کرتے تھے اللہ کی اطاعت کرتے پس اللہ نے بادل کو ان کے لئے مسخر کیا جو ان کو اٹھاتا تھا اور اسباب کو ان کے لئے پھیلایا اور روشی و نور کو پھیلایا  پھر کہا کیا تم خوش ہو کہ میں نے اس کو زیادہ کر کے بتایا پس وہ آدمی چپ رہا اور بیٹھ گیا

جزء من حديث أبي حفص عمر بن أحمد ابن شاهين عن شيوخه از  ابن شاهين (المتوفى: 385هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْبَاغَنْدِيُّ، نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، نا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَائِدَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ: كَيْفَ بَلَغَ ذُو الْقَرْنَيْنِ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ؟ فَقَالَ عَلِيُّ: «سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ، وَمُدَّتْ لَهُ الْأَسْبَابُ، وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ»

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ، قَالَ: قِيلَ لِعَلِيٍّ: كَيْفَ بَلَغَ ذُو الْقَرْنَيْنِ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ، قَالَ: «سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ، وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ، وَمُدَّ لَهُ الْأَسْبَابُ»، ثُمَّ قَالَ: «أَزِيدُكَ؟» قَالَ: حَسْبِي

حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ نے کہا میں نے علی سے پوچھا کہ ذو القرنین کیسے مشرق ق مغرب تک پہنچے ؟ علی نے کہا  ان کے لئے بادل کو مسخر کیا گیا اور نور کو پھیلایا گیا اور سبب تک ان کو لے جایا گیا – علی کہا اور زیادہ بتاؤں؟ کہا : اتنا  کافی ہے

ابن اسحٰق نے   سیرت میں ذکر کیا

نا يونس عن عمرو بن ثابت عن سماك بن حرب عن رجل من بني أسد قال:

سأل رجل علياً: أرأيت ذا القرنين كيف استطاع أن يبلغ المشرق والمغرب؟

فقال: سخر له السحاب ومد له في الأسباب وبسط له النور فكان الليل والنهار عليه سواء.

سماک نے بنی اسد کے ایک آدمی کی سند سے روایت کیا کہا ایک آدمی نے علی سے سوال کیا  کیا تم نے ذو القرنین کو دیکھا کیسے وہ مشرق و مسغرب تک پہنچ گیا ؟ علی نے کہا اس کے لئے  بادل کو مسخر کیا اور اسباب تک پہنچے اور نور ان کے لئے پھیلایا  پس ان کے لئے دن و رات برابر تھے

ان تمام میں سماک بن حرب کا تفرد ہے

 ابن المبارك: سماك ضعيف في الحديث

 وقال صالح بن محمَّد البغداديُّ: يُضَعَّف

من رواية زكريا بن عدي عن ابن المبارك عن الثوري أنه قال: سماك بن حرب ضعيف

 وقال أبو طالب عن أحمد: مضطرب الحديث

وقال أحمد بن سعد بن أبي مريم عن يحيى بن معين: ثقة، وكان شعبة يضعِّفه

امام احمد ، امام ابن مبارک ، امام صالح اور امام ثوری کے نزدیک سماک ضعیف ہے

ابن اسحٰق نے   سیرت میں  ایک دوسری روایت دی

نا يونس عن بسام مولى علي بن أبي الطفيل قال: قام علي بن أبي طالب على المنبر فقال: سلوني قبل ألا تسألوني ولن تسألوا بعدي مثلي؛ فقام ابن الكواء   فقال: يا أمير المؤمنين ما ذو القرنين، أنبي أو ملك؟ فقال: ليس بملك ولا نبي ولكن كان عبداً صالحاً أحب الله فأحبه وناصح الله بنصحه فضرب على قرنه الأيمن فمات ثم بعثه، ثم ضرب على قرنه الأيسر فمات وفيكم مثله.

بسام مولى علي بن أبي الطفيل نے کہا علی منبر پر کھڑے تھے پس کہا مجھ سے سوال کرو قبل اس کے سوال نہ کر پاؤ اور نہ مجھ سا کو ملے گا جس سے سوال کرو – پس ابن الكواء کھڑا ہوا اور کہا اے امیر المومنین یہ ذو القرنین کون ہے نبی ہے یا بادشاہ ہے ؟ پس علی نے کہا نہ بادشاہ ہے نہ نبی لیکن نیک بندے تھے اللہ   سے محبت کرتے تھے پس اللہ ان سے محبت کرتا تھا  اور وہ اللہ کے لئے نصیحت کرتے تھے – پس انہوں نے سیدھے سینگ پر ضرب  لگائی پس موت ہوئی پھر زندہ ہوئے ، پھر الٹے سینگ پر ضرب کی پس موت ہوئی اور تم لوگوں کے پاس ذو القرنین کے جیسا ایک ہے

سند میں بسام مولى علي بن أبي الطفيل  مجہول الحال ہے  کسی محدث نے اس کیا ذکر نہیں کیا

شرح مشکل الاثار از طحاوی میں ہے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ دَاوُدَ الْخُرَيْبِيُّ , عَنْ بِسَامٍّ الصَّيْرَفِيِّ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: ” سَلُونِي قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلُونِي , وَلَنْ تَسْأَلُوا بَعْدِي مِثْلِي ” فَقَامَ إِلَيْهِ ابْنُ الْكَوَّاءِ فَقَالَ: مَا كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ , أَمَلَكٌ كَانَ أَوْ نَبِيٌّ؟ قَالَ: ” لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا وَلَا مَلَكًا , وَلَكِنَّهُ كَانَ عَبْدًا صَالِحًا , أَحَبَّ اللهَ فَأَحَبَّهُ , وَنَاصَحَ اللهَ فَنَصَحَهُ , ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْمَنِ فَمَاتَ , ثُمَّ بَعَثَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ , ثُمَّ ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْسَرِ فَمَاتَ , وَفِيكُمْ مِثْلُهُ

بِسَامٍّ الصَّيْرَفِيِّ  نے  أَبِي الطُّفَيْلِ سے روایت کیا کہ علی کھڑے ہوئے منبر پر اور کہا سوال کرو قبل کہ سوال نہ کر پاؤ نہ سوال کر پاؤ میرے جیسے کسی اور سے – پس ابْنُ الْكَوَّاءِ  کھڑا ہوا اور کہا یہ ذو القرنین بادشاہ تھے یا نبی ؟ علی نے کہا نہ نبی نہ بادشاہ  لیکن عبد صالح ، اللہ سے محبت کی پس اللہ نے ان سے محبت کی  ، اور اللہ کے لئے نصیحت کی  پس سیدھے سینگ پر ضرب لگائی تو ان کی موت ہوئی پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا پھر انہوں نے الٹے ہاتھ پر سینگ کو مارا تو ان کی موت ہوئی ، اور تمھارے پاس ان کے جیسا ہے

سند میں بسام بن عبد الله، أبو الحسن الصيرفي الأسدي الكوفي یا بسَّام بن عبد الرحمن الصيرفي الكوفي  ہے – امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کے پاس مرسل روایات ہیں

قال البخاري: عنده مراسيل

امام طحاوی نے ذکر کیا کہ

 وَمِمَّنْ كَانَ يَذْهَبُ إِلَى هَذَا الْقَوْلِ أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَامٍ حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَنْهُ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَحَدَّثَنِي عَلِيٌّ

أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَامٍ  نے اسی طرح روایت کیا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ سے جس نے علی سے روایت کیا

ان روایات کی اسناد میں ابو طفیل ہے جو آخری عمر میں دجال مختار ثقفی کے لشکر میں تہے اس کا جھنڈا اٹھاتے تھے

تاریخ دمشق کی روایت ہے کہ

قال سيف بن وهب: دخلت شعب ابن عامر على أبي الطفيل عامر بن واثلة، قال: فإذا شيخ كبير قد وقع حاجبه على عينيه، قال: فقلت له: أحب أن تحدثني بحديث سمعته من علي ليس بينك وبينه أحد؛ قال: أحدثك به إن شاء الله، وتجدني له حافظاً: أقبل علي يتخطى رقاب الناس بالكوفة، حتى صعد المنبر، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: يا أيها الناس، سلوني قبل أن تفقدوني، فوالله ما بين لوحي المصحف آية تخفى علي، فيم أنزلت ولا أين نزلت، ولا ما عنى بها؛ والله لا تلقون أحداً يحدثكم ذلك بعدي حتى تلقوا نبيكم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قال: فقام رجل يتخطى رقاب الناس، فنادى: يا أمير المؤمنين، قال: فقال علي: ما أراك بمسترشد، أو ما أنت مسترشد، قال: يا أمير المؤمنين؛ حدثني عن قول الله عز وجل: ” والذاريات ذرواً “؟ قال: الرياح، ويلك، قال: ” فالحاملات وقراً “؟ قال: السحاب ويلك، قال: ” فالجاريات يسراً “؟ قال: السفن ويلك، قال: ” فالمدبرات أمراً “؟ قال: الملائكة ويلك، قال: يا أمير المؤمنين، أخبرني عن قول الله عز وجل: ” والبيت المعمور، والسقف المرفوع “؟ قال: ويلك بيت في ست سماوات، يدخله كل يوم سبعون ألف ملك لا يعودون إليه إلى يوم القيامة، وهو الضراح، وهو حذاء الكعبة من السماء؛ قال: يا أمير المؤمنين؛ حدثني عن قول الله عز وجل: ” ألم تر إلى الذين بدلوا نعمة الله كفراً وأحلوا قومهم دار البوار، جهنم “؟ قال: ويلك ظلمة قريش، قال: يا أمير المؤمنين! حدثني عن قول الله عز وجل: ” قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالاً الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا “؟ قال: ويلك منهم أهل حروراء، قال: يا أمير المؤمنين، حدثني عن ذي القرنين، أنبياً كان أو رسولاً؟ قال: لم يكن نبياً ولا رسولاً ولكنه عبد ناصح الله عز وجل، فناصحه الله عز وجل وأحب الله فأحبه الله، وإنه دعا قومه إلى الله فضربوه على قرنه فهلك، فغبر زماناً، ثم بعثه الله عز وجل فدعاهم إلى الله عز وجل، فضربوه على قرنه الآخر، فهلك فذلك قرناه.

 شعب ابن عامر آیا اور على أبي الطفيل عامر بن واثلة کے گھر داخل ہوا اور اس وقت ان کی نظر پر پردہ آ گیا تھا پس میں نے ان سے کہا علی کی کوئی بات بیان کریں جس میں نہ اپ اور ان کے درمیان کوئی نہ ہو پس على أبي الطفيل عامر بن واثلة نے کہا ہاں میں بیان کروں گا إن شاء الله اور تم مجھ کو یاد رکھنے والا پاؤ گے : علی لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے اور منبر پر چڑھ گئے پس اللہ کی تعریف کی اور کہا  … پھر ایک شخص اٹھا سوال کیا کہ ذو القرنین کون تھا ؟ نبی یا بادشاہ ؟ علی نے کہا نہ نبی نہ بادشاہ لیکن عبد صالح  اور یہ اللہ سے محبت کرتے اور الله ان سے اور انہوں نے اپنی قوم کو پکارا جس نے ان کے قرن پر ضرب لگائی اور یہ ہلاک ہوئے پھر ایک زمانہ گذر گیا پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا انہوں نے اللہ کی طرف پکارا اور ان کے دوسرے سینگ پر ضرب لگی اور یہ ہلاک ہو گئے پس یہ ان کے سینگ تھے

سند میں سيف بن وهب ہے  جو ضعیف ہے

 قال أحمد: ضعيف الحديث، وقال يحيى: هالك، وقال النسائي: ليس بثقة.

ابن السكن اور امام احمد کے نزدیک ابو طفیل صحابی نہیں ہے

 سَمعت أبا عَبْد الله محمد بن يَعْقُوبَ الأخرم وسُئل: لم ترك البخاري حديث عامر بن وائلة؟ فقال: لأنه كان يُفرط في التشيع.

امام بخاری نے اس کی احادیث نہیں لیں کیونکہ یہ شیعت میں بڑھا ہوا تھا

 وقال ابن المديني: قلت لجَرير بن عَبْد الحميد: أكان مغيرة يكره الروايةَ عن أبي الطُفيل؟ قال: نعَم.

جریر بن عبد الحمید  نے کہا مغیرہ ان روایات کا انکار کرتے جو ابو طفیل بیان کرتا – امام علی بن المديني  نے کہا ہاں

الأعلام از الزركلي  میں ہے

خرج على بني أمية مع المختار الثقفي، مطالبا بدم الحسين.

ابو طفیل نے بنو امیہ کے خلاف  خروج کیا

راقم کہتا ہے یعنی  اس نے خلیفہ عبد الملک یا مروان کے دور میں خروج کیا

ابو سعید الخدری رض کا دور یزید میں قتل ہوا ؟

کہا  جاتا ہے کہ  ابو سعید  الخدری    کا قتل واقعہ حرہ  میں ہوا – یہ ایک  جھوٹی   کہانی ہے – صحیح مسلم میں ہے

ترجمہ :  قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابی سعید، حضرت ابوسعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ وہ حرہ کی رات میں  ابوسعید خدری (رض) کے پاس آئے اور ان سے مدینہ سے واپس چلے جانے کے بارے میں مشورہ طلب کیا اور شکایت کی کہ مدینہ میں مہنگائی بہت ہے اور ان کی عیال داری بال بچے زیادہ ہیں اور میں مدینہ کی مشقت اور اس کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرسکتا تو  ابوسعید (رض) نے اس سے کہا کہ تجھ پر افسوس ہے میں تجھے اس کا حکم (مشورہ) نہیں دوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ جو آدمی مدینہ کی تکلیفوں پر صبر کرے اور اسی حال میں اس کی موت آجائے تو میں اس کی سفارش کروں گا یا فرمایا کہ میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا جبکہ وہ مسلمان ہو

ابو سعید    الخدری  رضی اللہ عنہ نے ایک شخص  کو   حکم  دیا کہ   فتنہ  حرہ  کے وقت    مدینہ سے مت  جاؤ –   ایک روایت میں  اس کے برعکس بیان ہوا ہے کہ  ابو سعید   خود شامی   فوج کو  دیکھ ،    مدینہ  چھوڑ   کر  ایک غار  میں چلے  گئے  ،جہاں ایک شامی  ان کو قتل کرنے آیا اور پھر  ڈانٹ   پڑنے  پر چلا گیا –  ایسا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟   مدینہ میں کوئی غار بھی نہیں ہے –

 بہت سے اصحاب رسول کے نزدیک  واقعہ حرہ  ایک فساد تھا جس میں شرکت جائز نہیں تھی –    ابن عمر  رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں کو خاص تنبیہ  کی  کہ اس میں شرکت مت کرنا   ، عبد اللہ بن مطیع کی بیعت  مت  کرنا –  صحیح مسلم 296 میں ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ نَافِعٍ قَالَ جَائَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ کَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا کَانَ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً فَقَالَ إِنِّي لَمْ آتِکَ لِأَجْلِسَ أَتَيْتُکَ لِأُحَدِّثَکَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً

عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابن محمد بن زید، زید بن محمد، نافع، عبداللہ بن عمر،  نافع (رض) سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) واقعہ حرہ کے وقت جو یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں ہوا عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے تو ابن مطیع نے کہا ابوعبدالرحمن کے لئے غالیچہ بچھاؤ تو ابن عمر (رض) نے کہا میں  تمھارے  پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تو تم  کو  حدیث بیان کر نے آیا ہوں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔

معلوم  ہوا کہ   ابن عمر   رضی اللہ عنہ   کے نزدیک عبد اللہ بن مطیع   جاہلیت کی موت مرا

صحیح بخاری ح ٤١٦٧ میں ہے

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا   ان سے ان کے بھائی عبدالحمید نے   ان سے سلیمان بن بلال نے   ان سے عمرو بن یحییٰ نے اور ان سے عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ حرہ کی لڑائی میں لوگ عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔ عبداللہ بن زید نے پوچھا کہ ابن حنظلہ سے کس بات پر بیعت کی جا رہی ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ موت پر۔ ابن زید نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میں کسی سے بھی موت پر بیعت نہیں کروں گا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں شریک تھے۔

  البتہ  یقینا   جو ہوا وہ  افسوسناک   تھا –   صحیح  بخاری ح ٤٩٠٦ میں ہے

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کا بیان نقل کیا کہ مقام حرہ میں جو لوگ شہید کر دیئے گئے تھے ان پر مجھے بڑا رنج ہوا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کو میرے غم کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے مجھے لکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اے اللہ! انصار کی مغفرت فرما اور ان کے بیٹوں کی بھی مغفرت فرما۔ عبداللہ بن فضل کو اس میں شک تھا کہ آپ نے انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کا بھی ذکر کیا تھا یا نہیں۔ انس رضی اللہ عنہ سے ان کی مجلس کے حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما ہی وہ ہیں جن کے سننے کی اللہ تعالیٰ نے تصدیق کی تھی

طبرانی  نے متعدد طرق سے نقل کرتے ہوئے کہا

حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي ثنا علي بن حكيم الأودي . وحدثنا الحسين بن جعفر القتات الكوفي ثنا منجاب بن الحارث .وحدثنا أحمد بن عمرو القطراني ثنا محمد بن الطفيل ثنا شريك عن فطر بن خليفة عن حبيب بن أبي ثابت عن ابن عمر قال ما أجدني آسى على شيء إلا أني لم أقاتل الفئة الباغية مع علي

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا مجھے اس سے زیادہ کسی پر افسوس نہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ باغی گروہ سے قتال نہیں کرسکا [المعجم الكبير للطبراني 13/ 145]

الذھبی کا قول ہے فهذا منقطع [سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 231]

 أبو زيد عمر بن شبة (المتوفى 262) نے کہا

حدثنا أبو أحمد، حدثنا عبد الجبار بن العباس، عن أبي العنبس، عن أبي بكر بن أبي الجهم، قال: سمعت ابن عمر يقول: ما آسى على شيء إلا تركي قتال الفئة  الباغية مع على

  ابوبکر بن ابی الجھم نے کہا کہ میں نے ابن عمررضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ : مجھے اس سے زیادہ کسی پرافسوس نہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ باغی گروہ سے قتال کرنے سےاجتناب کیا

 [الإستيعاب لابن عبد البر: 3/ 953]

عبد الجبار بن العباس اس کی سند میں سخت مجروح ہے

صحیح   قول یہ ہے کہ ابن عمر  نے حرہ  کے باغیوں  سے قتال نہ کرنے پر افسوس کیا –  سنن الکبری بیہقی میں ہے

حدثنا أبو عبد الله الحافظ إملاء حدثنا أبو عبد الله : محمد بن عبد الله الزاهد حدثنا أحمد بن مهدى بن رستم حدثنا بشر بن شعيب بن أبى حمزة القرشى حدثنى أبى ح وأخبرنا أبو الحسين بن الفضل القطان ببغداد أخبرنا عبد الله بن جعفر بن درستويه حدثنا يعقوب بن سفيان حدثنا الحجاج بن أبى منيع حدثنا جدى وحدثنا يعقوب حدثنى محمد بن يحيى بن إسماعيل عن ابن وهب عن يونس جميعا عن الزهرى وهذا لفظ حديث شعيب بن أبى حمزة عن الزهرى أخبرنى حمزة بن عبد الله بن عمر : أنه بينما هو جالس مع عبد الله بن عمر إذ جاءه رجل من أهل العراق فقال : يا أبا عبد الرحمن ….. فقال : ما وجدت فى نفسى من شىء من أمر هذه الأمة ما وجدت فى نفسى أنى لم أقاتل هذه الفئة الباغية كما أمرنى الله عز وجل  زاد القطان فى روايته قال حمزة فقلنا له : ومن ترى الفئة الباغية؟ قال ابن عمر : ابن الزبير بغى على هؤلاء القوم فأخرجهم من ديارهم ونكث عهدهم

ابن عمر  نے کہا  اس امت کے معاملات میں سے کسی معاملہ پرمجھے اتنا افسوس نہیں ہواجنتا اس بات پرافسوس ہوا کہ میں نے اس   ( حرہ  کی ) باغی جماعت سے قتال کیوں نہیں کیا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے-  حسین بن القطان نے مزید بیان کیا کہ :حمزہ نے کہا: ہم نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کس کو باغی جماعت سمجھتے ہیں؟ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:ابن زبیر نے  قوم  سے  بغاوت کی ہے -ان ( مدینہ  والوں) کو  ان کے گھروں سے نکال دیا ،کیا گیا  عہد توڑ دیا (یعنی بیعت توڑ دی)

الذھبی  کے بقول    ابن عمر  کے نزدیک   ابن زبیر   باغی  تھے   نہ کہ حجاج و یزید   جیسا  بعض   راویوں  کا  گمان   تھا

صفات یزیدی پر روایات ‏

مجاہدوں کی لونڈیاں غصب کرنے والا


مستدرک حاکم کی روایت ہے‎ ‎
أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِيُّ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَ ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ‏عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْآيَاتُ خَرَزَاتٌ مَنْظُومَاتٌ فِي سِلْكٍ، يُقْطَعُ السِّلْكُ فَيَتْبَعُ بَعْضُهَا بَعْضًا» قَالَ ‏خَالِدُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ: كُنَّا نَادِينَ بِالصَّبَاحِ، وَهُنَاكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَكَانَ هُنَاكَ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي الْمُغِيرَةِ يُقَالُ لَهَا: فَاطِمَةُ، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ‏عَمْرٍو يَقُولُ: «ذَاكَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ» ، فَقَالَتْ: أَكَذَاكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو تَجِدُهُ مَكْتُوبًا فِي الْكِتَابِ؟ قَالَ: «لَا أَجِدُهُ بِاسْمِهِ وَلَكِنْ أَجِدُ رَجُلًا ‏مِنْ شَجَرَةِ مُعَاوِيَةَ يَسْفِكُ الدِّمَاءَ، وَيُسْتَحَلُّ الْأَمْوَالَ، وَيَنْقُضُ هَذَا الْبَيْتَ حَجَرًا حَجَرًا، فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ وَأَنَا حَيٌّ وَإِلَّا فَاذْكُرِينِي» ، قَالَ: ” وَكَانَ ‏مَنْزِلُهَا عَلَى أَبِي قُبَيْسٍ، فَلَمَّا كَانَ زَمَنُ الْحَجَّاجِ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَرَأَتِ الْبَيْتَ يُنْقَضُ، قَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو قَدْ كَانَ حَدَّثَنَا بِهَذَا‎ ‎
عبد اللہ بن عمرو نے کہا میں نے (اہل کتاب کی ) کتاب میں پڑھا ہے کہ معاویہ کی نسل سے کوئی شخص خون بہائے گا ، ‏مال حلال کرے گا اور بیت اللہ کو کم کر دے گا‎ ‎
اس کی سند ضعیف ہے – خالد بن الحويرث پر امام ابن معين کا قول ہے : لا أعرفه اس کو نہیں جانتا‎ ‎
ابن عدی نے بھی اس کو مجہول گردانا ہے
تاریخ دمشق کی روایت ہے‎ ‎
أخبرنا أبو سهل محمد بن إبراهيم أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبدالله نا محمد بن هارون نا محمد بن ‏بشار نا عبدالوهاب نا عوف ثنا مهاجر أبو مخلد حدثني أبو العالية حدثني أبو مسلم قال غزا يزيد بن أبي ‏سفيان بالناس فغنموا فوقعت جارية نفيسة في سهم رجل فاغتصبها يزيد فأتى الرجل أبا ذر فاستعان به عليه ‏فقال له رد على الرجل جاريته فتلكأ عليه ثلاثا فقال إني فعلت ذاك لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه ‏وسلم يقول أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية يقال له يزيد فقال له يزيد بن أبي سفيان نشدتك بالله أنا ‏منهم قال لا قال فرد على الرجل جاريته
‎ ‎أبو العالية نے روایت کیا کہ أبو مسلم نے کہا یزید بن ابو سفیان نے لوگوں کے ساتھ غزوہ کیا تو غنیمت میں ایک مجاہد ‏کو تیر چلانے پر نفیس لونڈی ملی ، یزید نے اس لونڈی کو غصب کر لیا پھر وہ شخص ابو ذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ‏مدد مانگی تو انہوں نے کہا آدمی کو اس کی لونڈی لوٹا دو … میں نے رسول اللہ سے سنا تھا کہ سب سے پہلے میری سنت کو ‏بنو امیہ میں سے ایک شخص یزید بدلے گا اس پر یزید بن ابو سفیان نے کہا اللہ کو گواہ کریں کیا میں ان میں سے ہوں ؟ ‏ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں – پس اس شخص کی لونڈی اس کو لوٹا دی گئی‎ ‎
اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ یزید بن سفیان نے دوسروں کی لونڈی اٹھا لی – سند میں أَبُو مسلم الجذمي کہا جاتا ہے کوئی ‏بصری ہے لیکن یہ مجہول الحال ہے – متساہل عجلی نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے اور ابن حجر نے بھی مقبول بولا ہے اور ابن حجر ‏یہ ان راویوں پر بولتے ہیں جو مجہول ہوں لیکن کوئی ثقہ ان سے روایت کرے
امام بیہقی نے اس کو دلائل نبوت میں سے سمجھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو امیہ میں سے کسی یزید کی حرکتوں ‏کا معلوم تھا ‏
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار، حدثنا محمد بن العباس المؤدب، ‏حدثنا هوذة بن خليفة حدثنا عوف عن أبي خلدة عن أبي العالية قال لما كان يزيد بن أبي سفيان أميرا بالشام ‏غزا الناس فغنموا وسلموا فكان في غنيمتهم جارية نفيسة فصارت لرجل من المسلمين في سهمه فأرسل إليه ‏يزيد فانتزعها منه وأبو ذر يومئذ بالشام قال:فاستغاث الرجل بأبي ذر على يزيد فانطلق معه فقال ليزيد: رد ‏على الرجل جاريته- ثلاث مرات- قال أبو ذر: أما والله لئن فعلت، لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه ‏وسلم يقول: إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى عنه فلحقه يزيد فقال أذكرك بالله: أنا هو قال: ‏اللهم لا ورد على الرجل جاريته
اس کی سند منقطع ہے کیونکہ أبي العالية سے آگے سند نہیں ہے -بیہقی نے لکھا ہے ‏
وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر – اس کی اسناد میں ابو عالیہ اور ابو ذر کے درمیان ارسال ہے ‏
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ‏
حَدَّثَنَا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ‏صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَوَّلُ مَنْ يُبَدِّلُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ
یہاں بھی سند منقطع ہے کیونکہ أبي العالية سے آگے سند نہیں ہے
‎ ‎أخبار أصبهان میں ہے‎ ‎
أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ فِي كِتَابِهِ إِلَيَّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سَلْمٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ أَبَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ‏ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خَالِدٍ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: كُنَّا بِالشَّامِ مَعَ أَبِي ‏ذَرٍّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ رَجُلٍ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلَانٍ» فَقَالَ ‏يَزِيدُ: أَنَا هُوَ؟ قَالَ:لا
یہاں بھی سند منقطع ہے – پہلی روایت کے مطابق أبي العالية کو یہ واقعہ ابو مسلم سے معلوم ہوا تھا لیکن یہاں ان ‏روایات میں ہے کہ أبي العالية نے کہنا شروع کر دیا تھا وہ خود اس جنگ میں موجود تھا – أبي العالية ایک نمبر کے ‏چھوڑو انسان تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر واقعہ غرانیق کی تہمت لگاتے تھے – امام شافعی صحیح کہتے تھے اس کی روایت ‏ریح (گیس)ہے – امام بخاری نے تاریخ اوسط میں اس روایت کا ذکر کر کے اس پر تبصرہ کر کے واضح کیا ہے کہ یہ روایت ‏صحیح نہیں – امام بخاری لکھتے ہیں ‏
حدثني محمد ، قال : حَدَّثَنَا عَبد الوهاب قال : حدثنا عوف عن المهاجر بن مخلد : ، قال : حَدَّثَنَا أبو ‏العالية , قال : وحدثني أبو مسلم قال : كان أبو ذر بالشام وعليها يزيد بن أبي سفيان فغزا الناس ‏فغنموا.والمعروف أن أبا ذر كان بالشام زمن عثمان وعليها معاوية ومات يزيد في زمن عُمَر ولا يعرف لأبي ذر ‏قدوم الشام زمن عُمَر رضي الله عنه
أبو العالية نے کہا ابو مسلم نے روایت کیا کہا ابو ذر تھے شام میں اور وہاں یزید بن ابو سفیان نے غزوہ کیا اور غنیمت دی – ‏معروف میں سے ہے کہ ابو ذر شام میں دور عثمان میں تھے اور وہاں گورنر معاویہ تھے اور یزید بن ابو سفیان کی وفات دور ‏عمر میں ہوئی اور یہ نہیں جانا جاتا کہ ابو ذر دور عمر میں شام گئے ہوں
‏ اس روایت میں بنو امیہ میں کسی یزید پر تنقید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے وہ یزید بن ابو سفیان نہیں تھے کوئی اور تھا – ظاہر ‏ہے اشارہ یزید بن معاویہ کی طرف ہے- افسوس البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح:۱۷۴۹ ان روایات کو حسن قرار دیا ‏ہے اور زبیر علی زئی دشمن یزید بن معاویہ نے روایت کو کتاب مقالات حدیث میں ثابت قرار دیا ہے

حافظ ابن کثیر ، ابن عساکر ، زبیر علی زئی نے یزید پر اس حدیث کو ثبت کیا ہے اور جہنمی قرار دیا ‏

زانی و سدومی ‏

‎ ‎یزید کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ان لونڈیوں کو نکاح میں لے لیتا تھا جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی لونڈیاں تھیں – ‏باپ کی لونڈی اولاد پر حرام ہو جاتی ہے لیکن یزید ان کو حلال کر رہا تھا – ‏
تاریخ دمشق از ابن عساکر میں ہے‎ ‎
‎ ‎أنبأنا أبو الفرج غيث بن علي نا أبو بكر الخطيب أنا أبو نعيم الحافظ نا سليمان بن أحمد نا محمد بن زكريا ‏الغلابي نا ابن عائشة عن أبيه قال كان يزيد بن معاوية في حداثته صاحب شراب يأخذ مآخذ الأحداث ‏فأحس معاوية بذلك فأحب أن يعظه في رفق فقال يا بني ما أقدرك على أن تصير إلى حاجتك من غير ‏تهتك يذهب بمروءك وقدرك ثم قال يا بني إني منشدك أبياتا فتأدب بها واحفظها فأنشده
‎ ‎انصب نهارا في طلاب العلا‎ ‎
‎ ‎واصبر على هجر الحبيب القريب
‎ ‎حتى إذا الليل أتى بالدجى
‎ ‎واكتحلت بالغمض عين الرقيب‎ ‎
فباشر الليل بما تشتهي‎ ‎
‎ ‎فإنما الليل نهار الأريب كم فاسق تحسبه ناسكا‎ ‎
‎ ‎قد باشر الليل بأمر عجيب غطى عليه الليل أستاره‎ ‎
‎ ‎فبات في أمن وعيش خصيب ولذة الأحمق مكشوفة‎ ‎
‎ ‎يشفي بها كل عدو غريب

سند میں محمد بن زكريا الغلابى البصري الاخباري، أبو جعفر ہے‎ ‎
‎ ‎الذھبی کہتے ہیں ضعیف ہے، ابن مندہ کا قول ہے کہ اس پر کلا م ہے، وقال الدارقطني: يضع الحديث. حدیث گھڑتا ہے- ‏ابن کثیر نے اس قول کو قبول کر کے تاویل کی ہے ‏

راقم کہتا ہے کہ حیرت ہے کہ اس روایت کو قبول کر کے ایک وضاع کو سپورٹ کیا گیا ہے ‏
یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یزید لونڈے باز یا سدومیت پسند واقع ہوا تھا ‏
اب ان روایات کا جائزہ لیا جاتا ہے – تاریخ الطبری دار التراث – بيروت ج ٥ ص ٤٨٠ کے مطابق
قَالَ لوط: وَحَدَّثَنِي أَيْضًا مُحَمَّد بن عَبْدِ الْعَزِيزِ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عوف ورجع المنذر من عِنْدَ يَزِيد بن مُعَاوِيَة، ‏فقدم عَلَى عُبَيْد اللَّهِ بن زياد الْبَصْرَة… فأتى أهل الْمَدِينَة، فكان فيمن يحرض الناس عَلَى يَزِيد، وَكَانَ من قوله ‏يَوْمَئِذٍ: إن يَزِيد وَاللَّهِ لقد أجازني بمائة ألف درهم، وإنه لا يمنعني مَا صنع إلي أن أخبركم خبره، وأصدقكم عنه، ‏وَاللَّهِ إنه ليشرب الخمر، وإنه ليسكر حَتَّى يدع الصَّلاة
منذربن الزبیر اہل مدینہ کے پاس آئے تو یہ ان لوگوں میں سے تھے جو لوگوں کو یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے ‏تھے۔ اور یہ اس دن کہتے تھے : اللہ کی قسم ! یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم دئے، لیکن اس نے مجھ پر جو نوازش کی ہے وہ مجھے ‏اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ میں تمہیں اس کی خبر بتلاؤں اور اس کے متعلق سچ بیان کردوں ۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ ‏کی قسم ! یزید شرابی ہے اور شراب کے نشے میں نماز بھی چھوڑ دیتا ہے
أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے
وقال الدارقطني: ضعيف
وقال يحيى بن معين: ((ليس بثقة)). وقال مرةً أخرى: ((ليس بشيء)). ثقه نہیں ، کوئی چیز نہیں
وقال ابن عدي: ((شيعي محترق، صاحب أخبارهم)) آ گ لگانے والا شیعہ ہے
الطبقات الكبرى ، دار الكتب العلمية – بيروت، ج ٥ ص ٤٩ میں ہے
خْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ ‏أَبِيهِ قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ ‏عَبَّادِ بْنِ تَمِيم عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَعَنْ غَيْرِهِمْ أَيْضًا. كُلٌّ قَدْ حَدَّثَنِي. قَالُوا: لَمَّا وَثَبَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيَالِيَ ‏الحرة فأخرجوا بَنِي أُمَيَّةَ عَنِ الْمَدِينَةِ وَأَظْهَرُوا عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَخِلافَهُ أَجْمَعُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ ‏فَأَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَيْهِ فَبَايَعَهُمْ عَلَى الْمَوْتِ وَقَالَ: يَا قَوْمُ اتَّقُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لا شريك له. فو الله مَا خَرَجْنَا عَلَى ‏يَزِيدَ حَتَّى خِفْنَا أَنْ نُرْمَى بِالْحِجَارَةِ مِنَ السَّمَاءِ. إِنَّ رَجُلا يَنْكِحُ الأُمَّهَاتِ وَالْبَنَاتَ وَالأَخَوَاتِ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ ‏وَيَدَعُ الصَّلاةَ
جب اہل مدینہ نے حرہ کے موقع پر فساد کیا، بنوامیہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ، یزید کے عیوب کا پرچار اس کی مخالفت کی تو ‏لوگوں نے عبداللہ بن حنظلہ کے پاس آکر اپنے معاملات انہیں سونپ دئے ۔ عبداللہ بن حنظلہ نے ان سے موت پر ‏بیعت کی اور کہا: اے لوگو ! اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو ! اللہ کی قسم ہم نے یزید کے خلاف تبھی خروج کیا ہے جب ہمیں ‏یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پر کہیں آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے کہ ایک آدمی ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح ‏کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور نماز چھوڑتا ہے
اس کی سند میں إسماعيل بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عبد الله بن أبى ربيعة القرشى المخزومى المدنى ہے جو مجہول ‏ہے معلوم نہیں کس دور کا ہے -واقدی کا اس سے سماع ہے بھی یا نہیں
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَادٍ الأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ مَعْقِلُ بْنُ ‏سِنَانٍ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … أَنْ ذَكَرَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. ‏فَقَالَ: إِنِّي خَرَجْتُ كَرْهًا بِبَيْعَةِ هَذَا الرَّجُلِ. وَقَدْ كَانَ مِنَ الْقَضَاءِ وَالْقَدَرِ خُرُوجِي إِلَيْهِ. رَجُلٌ يَشْرَبُ الْخَمْرَ ‏وَيَنْكِحُ الْحُرُمَ
معقل بن سنان نے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کا ذکر کیا اور کہا: میں اس شخص کی بیعت سے کراہت کی وجہ سے نکلا ‏ہوں ، اور اس کی طرف جانا ،قضاو قدر میں تھا ۔یہ ایسا آدمی ہے جو شراب پیتا ہے ، محرمات سے نکاح کرتا ہے
اسکی سند میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَاد ہے جو مجھول ہے
تیسری صدی میں تاريخ خليفة بن خياط از أبو عمرو خليفة بن خياط بن خليفة الشيباني العصفري البصري (المتوفى: 240هـ) میں ‏ہے عبد الملک نے مکہ میں حج کے موقع پر سن ٧٥ ھ میں لوگوں کے لیے خطبہ پڑھا اور اس میں اس طرح کہا
قَالَ أَبُو عَاصِم عَن بْن جريج عَن أَبِيه قَالَ حج علينا عَبْد الْملك بْن مَرْوَان سنة خمس وَسبعين بعد مقتل ابْن ‏الزبير عَاميْنِ فَخَطَبنَا فَقَالَ أما بعد فَإِنَّهُ كَانَ من قبلي من الْخُلَفَاء يَأْكُلُون من هَذَا المَال ويؤكلون وَإِنِّي وَالله لَا ‏أداوي أدواء هَذِهِ الْأمة إِلَّا بِالسَّيْفِ وَلست بالخليفة المستضعف يعَني عُثْمَان وَلَا الْخَلِيفَة المداهن يعَني مُعَاوِيَة ‏أَيهَا النَّاس إِنَّا نَحْتَمِلُ لكم كل اللُّغَوِيَّة مَا لم يَك عقد راية أَو وثوب عَلَى مِنْبَر هَذَا عَمْرو بْن سعيد وحقة حَقه ‏وقرابته قرَابَته قَالَ بِرَأْسِهِ هَكَذَا فَقُلْنَا بسيفنا هَكَذَا
امّا بعد، اے لوگو ! مجھ سے پہلے جو خلیفہ اور حاکم گزرے ہیں انھوں نے مال کو خود کھایا اور دوسروں کو بھی دیا کہ وہ بھی ‏کھائیں۔ اللہ کی قسم میں شمشیر کے ذریعے سے اس امت کی مشکلات کو حل کروں گا۔ میں عثمان کی طرح کمزور خلیفہ ‏نہیں ہوں، میں معاویہ کی طرح نرمی و سستی کرنے والا بھی نہیں ہوں‎ ‎
چھٹی سے ساتویں صدی میں بعض مورخین مثلا ابن اثیر ، سبط ابن الجوزي المتوفی ٦٥٤ ھ نے کہا کہ عبد الملک نے یہ ‏کہا‎ ‎
فَإِنِّي لَسْتُ بِالْخَلِيفَةِ الْمُسْتَضْعَفِ، يَعْنِي عُثْمَانَ، وَلَا بِالْخَلِيفَةِ الْمُدَاهِنِ، يَعْنِي مُعَاوِيَةَ، وَلَا بِالْخَلِيفَةِ الْمَأْفُونِ، يَعْنِي ‏يَزِيدَ
میں ذہنی کم عقل خلیفہ یزید کی طرح بھی نہیں ہوں
‏ یہاں عربی لفظ الْمَأْفُونِ ہے جس کا مطلب لغات عربی کے مطابق کم عقل ہونا ہے – ارو میں اسی لفظ پر ماؤف ‏العقل بولا جاتا ہے – سیوطی نے بعد میں اسی لفظ کو تاریخ خلفاء میں لکھا ہے- ‏
آٹھویں صدی تک جا کر یہ لفظ کچھ سے کچھ بن چکا تھا – امام الذھبی نے تاریخ اسلام میں اور ابن کثیر نے البدایہ میں ‏لکھا‎ ‎
و لست بالخليفة المستضعف يعني عثمان و لا الخليفة المداهن يعني معاوية و لا الخليفة المأبون يعني يزيد‎ ‎
اور میں لواط کروانے خلیفہ یزید کی طرح بھی نہیں ہوں
یزید بن معاویہ پر الزامات کے حوالے سے ارتقاء دیکھا جا سکتا ہے
اب الفاظ کچھ بھی ہوں یہ تقریر سندا ثابت بھی نہیں ہے کیونکہ اس کی اسناد میں ابن جریج مدلس کا عنعنہ ہے – بنو ‏امیہ میں یزید بن معاویہ کی شخصیت اور فیصلوں پر کوئی اختلاف نہیں تھا – ان کو مثبت لیا جاتا تھا ‏
طبری کی تاریخ میں ابو مخنف متروک کی سند سے ہے عَبدُ الله بن حنظلة نے حرہ کے فتنہ کو پھیلاتے ہوئے کہا‎ ‎
وقالوا: إنا قدمْنا من عندِ رجل ليس له دين، يشرب الخمر، ويَعزِف بالطنابير، ويَضرِب عنده القيان، ويَلعَب ‏بالكلاب، ويسامر الخُرَّاب والفتيان،
ہم ایک آدمی کی طرف سے آ رہے ہیں جو شراب پیتا ہے اور ڈرم بجاتا ہے اور کتوں سے کھیلتا ہے اور لونڈے خراب کرتا ‏ہے‎ ‎
اس کی سند میں متروک ہے – عَبدُ الله بن حنظلة صحابی نہیں ہے اس نے صرف نبی کو دیکھا ہے جب یہ کم عمر تھا اور کوئی ‏حدیث یا علم حاصل کرنے کی اس کو توفیق نہیں ہوئی – إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي میں ہے‎ ‎
‎ ‎أبو عمر بن عبد البر: خيرا فاضلا مقدما في الأنصار وأحاديثه عندي مرسلة‎.‎
ابن عبد البر نے کہا اس کی حدیث نبی سے مرسل (سنی ہوئی نہیں ) ہے‎ ‎
وقال إبراهيم الحربي: ليست له صحبة
ابراہیم حربی نے کہا یہ صحابی نہیں ہے‎ ‎
عبد الرحمن بن يحي المعلمي اليماني کا قول ہے کہ عَبدُ الله بن حنظلة، في صحبته نظر اس کا صحابی ہونا محل نظر ہے

شرابی ‏

صحیح سند سے یہ خبر نہیں ملی کہ یزید شرابی تھا – حیرت ہے کہ سند ،سند کرنے والے لوگ بھی ‏یزید پر شراب پینے کی تہمت لگاتے رہے ہیں – تاریخ طبری ج ١٠ ص ٦٠ پر ہے معاویہ نے اپنے بیٹے ‏کی خلافت پر بلایا ‏
ودعاؤه عباد الله الى ابنه يزيد المتكبر الخمير، صاحب الديوك والفهود والقرود
جو متکبر شرابی تھا مرغوں، چیتوں اور بندروں والا
طبری نے اس قول کی کوئی سند نہیں دی – ‏
تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 220 و تاريخ طبرى، ج 6، ص 170. ابن اثير در كامل (ج 3، ص 503-505) کے مطابق ‏یزید بندروں سے کھیلتا تھا- تاریخ یعقوبی میں بلا سند لکھا ہے‎ ‎
‎ ‎فما يقول الناس إذا دعوناهم إلى بيعة يزيد، وهو يلعب بالكلاب والقرود، ويلبس المصبغ، ويدمن الشراب
لوگ کیا بولیں گے جب معاویہ یزید کی بیعت کی دعوت دیں گے جو کتوں اور بندروں سے کھیلتا ہے اور ریشم پہنتا اور شراب ‏میں مست ہے
ابن اثیراور طبری نے لکھا کہ ابو مخنف نے روایت کیا حسن بصری نے کہا
قَالَ أَبُو مخنف: عن الصقعب بن زهير، عن الْحَسَن، قَالَ: أربع خصال كن فِي مُعَاوِيَة، لو لَمْ يَكُنْ فِيهِ منهن إلا ‏واحدة لكانت موبقة: انتزاؤه عَلَى هَذِهِ الأمة بالسفهاء حَتَّى ابتزها أمرها بغير مشورة مِنْهُمْ وفيهم بقايا ‏الصحابة وذو الفضيلة، واستخلافه ابنه بعده سكيرا خميرا، يلبس الحرير ويضرب بالطنابير،
حسن بصری نے کہا معاویہ کے چار عمل ایسے ہیں کہ اگر کوئی بھی ان کو کرے تو وہ اس کے لئے بربادی ہے اول امت پر ‏تلوار دراز کرنا اور مشورہ کے بغیر قبضے کرنا جبکہ اصحاب رسول موجود تھے – دوم اپنے شرابی بیٹے کو خلیفہ کرنا جو ریشم پہنتا ‏اور طنبورہ بجاتا تھا – سوم زیاد کو اپنے خاندان سے ملانا جبکہ حدیث ہے کہ اولاد اس کی ہے جس کا بستر ہے اور زانی کے لئے ‏پتھر ہے – چہارم حجر اور اس کے اصحاب کا قتل کرنا
‏ سند میں أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے اس نے اپنے خالو الصقعب بن زهير ‏المتوفی ١٤٠ ہجری سے روایت کیا ہے‎ ‎‏ ‏‎ ‎
امام الذھبی نے زیاد حارثی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ
سقانى يزيد شراباً ما ذقت مثله، فقلت: يا أمير المؤمنين لم أُسلسل مثل هذا، قال: هذا رمّان حُلوان، بعسل ‏اصبهان، بسكّر الأهواز، بزبيب الطائف، بماء بَرَدى
‎ ‎زیاد نے کہا یزید نے مجھے (شربت) پلایا – اس کا سا ذائقہ میں نے پہلے نہ پیا تھا – پوچھا امیر المومنین میں نے ایسی ‏لذت اس سے قبل نہیں پائی- یزید نے کہا ٹھنڈے پانی کے ساتھ ، حُلْوَانَ کا انار ہے، أَصْبَهَانَ کا اس میں شہد ہے، ‏الأَهْوَازِ کی چینی ہے، الطَّائِفِ کا انگور ہے‎ ‎
اس کی سند کا علم نہیں ہے – اس قول کو خمر یعنی شراب قرار نہیں دیا جائے گا – شراب کا مطلب عربی میں پینا ہے چاہے ‏پانی ہو یا دودھ ہو یا شراب نشہ والی ہو- اس قسم کا قول روح افزا اور تھادل کے لئے بھی کہا جا سکتا ہے‎ ‎
تاریخ الاسلام میں الذھبی نے روایت دی ہے
وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ عَوَانَةَ، وَأَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى ‏الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ …. الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ
سند میں عوانة بن الحكم بن عوانة بن عياض الأخباري المتوفی ١٤٧ ھ ہے – اس نے كِتَابُ التَّارِيْخِ اور کِتَابُ سِيَرُ ‏مُعَاوِيَةَ، وَبَنِي أُمَيَّةَ لکھی تھیں – اس کا درجہ الذھبی کے نزدیک صدوق کا ہے اور ابن حجر نے اس کو وضاع یعنی روایت ‏گھڑنے والا لسان المیزان میں قرار دیا ہے يضع الأخبار لبني أمية بنو امیہ پر روایت گھڑتا تھا- سند میں أَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ ‏بھی مجہول ہے – المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري کے مولف كرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري نے أبو زكريا العَجلانِي ‏پر ترجمہ قائم کیا اور لکھا ہے
أبو زكريا العَجلانِي، من السادسة فما دونها، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
أبو زكريا العَجلانِي….. اس کو نہیں جانتا نہ اس کا ترجمہ ملا ہے‎ ‎
فتنة مقتل عثمان بن عفان رضي الله عنه کے مولف محمد بن عبد الله بن عبد القادر غبان الصبحي نے پر کہا ہے لم أجد له ‏‏ ترجمة اس کا احوال مجھ کو نہیں ملا پھر رائے ظاہر کی کہ ممکن ہے کہ یہ يحيى بن اليمان العجليّ الكوفي، أبو زكريا المتوفی ‏‏١٨٩ ھ ہو –راقم کہتا ہے يحيى بن اليمان اصل میں ابن الیمان کے نام سے مشہور ہے اور اس کو نسائی نے ليس بالقويّ ‏قرار دیا ہے- ابن معین نے ضَعِيفُ الْحَدِيثِ قرار دیا ہے – اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیں تو بھی اس کی سند میں ایک ‏مجہول ہے اور ایک ضعیف ہے لہذا یہ قول نہایت نا قابل اعتبار ہے

کتوں کا شوقین ‏

واقعہ حرہ میں تقریر میں کہا گیا کہ یزید کتوں سے کھیلتا ہے – المنتظم في تاريخ الأمم والملوك میں ابن جوزی نے لکھا ہے ‏عبد الله بن حنظلة ، والمنذر بن الزبير نے کہا ويلعب بالكلاب یہ کتوں سے کھیلتا ہے – راقم کہتا ہے اس قول کی سند میں ‏واقدی ہے- قابل غور ہے کہ کیا اصحاب کہف کا کتا نہیں تھا؟ شکار کے لئے کتوں کو پالنا جائز ہے اس کا ذکر احادیث میں ‏ہے- حسن و حسین رضی الله عنہما بھی کتوں سے کھیلتے تھے سنن ابو داود کی حسن حدیث ہے ‏
حدَّثنا أبو صالحٍ محبوبُ بنُ موسى، حدَّثنا أبو إسحاق الفزَاريُّ، عن يونَس بن أبي إسحاق، عن مجاهدٍ ‏حَدّثنا أبو هُريرة، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: أتاني جبريلُ عليه السلام، فقال لي: أتيتُكَ ‏البارحَةَ فلم يمنعْني أن أكونَ دخلتُ إلا أنَّه كانَ على الباب تماثيلُ، وكان في البيت قِرَامُ سِتْرٍ فيه تماثيلُ، وكان ‏في البيت كلْبٌ، فَمُرْ برأسِ التِّمثَالِ الذي على بابِ البيت يقْطَعُ فيصيرُ كهيئةِ الشجرة، ومُرْ بالسِّترِ، فليُقْطَع، ‏فيُجعَلُ منه وسادَتَان مَنبوذتانِ تُوطآن، ومُرْ بالكلب فليُخرَج” ففعل رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -، ‏وإذا الكلبُ لحَسَنٍ أو حُسين كان تحتَ نَضَدٍ لهم، فأمر به فأخْرِجَ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میرے پاس جبرائیل علیہ السلام نے آ کر کہا: ‏میں کل رات آپ کے پاس آیا تھا لیکن اندر نہ آنے کی وجہ صرف وہ تصویریں رہیں جو آپ کے دروازے پر تھیں اور آپ ‏کے گھر میں (دروازے پر)ایک منقش پردہ تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں، اور گھر میں کتا بھی تھا تو آپ کہہ دیں کہ ‏گھر میں جو تصویریں ہوں ان کا سر کاٹ دیں تاکہ وہ درخت کی شکل کی ہو جائیں، اور پردے کو پھاڑ کر اس کے دو غالیچے بنا ‏لیں تاکہ وہ بچھا کر پیروں سے روندے جائیں اور حکم دیں کہ کتے کو باہر نکال دیا جائے”، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‏نے ایسا ہی کیا، اسی دوران حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کا کتا ان کے تخت کے نیچے بیٹھا نظر آیا، آپ نے حکم دیا تو وہ بھی ‏باہر نکال دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نضد» چارپائی کی شکل کی ایک چیز ہے جس پر کپڑے رکھے جاتے ہیں۔ تخریج ‏دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب ۴۴ (۲۸۰۶)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۶۰‏‎ (‎‏۵۳۶۷‏‎)‎
البانی کہتے ہیں سند صحیح ہے
جدید معترضین نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے کہ یزید آوارہ کتوں سے کھیلتا ہے جبکہ کسی روایت میں موجود نہیں ‏کہ یہ کتے آوارہ تھے – یہ اضافہ بالکل لغو ہے – ‏
بندر پسند ‏
البدایہ و النہایہ از ابن کثیر میں صغیہ تمریض سے ہے کہ یزید کی موت بندر کی وجہ سے ہوئی ‏
‏ وقيل: إن سبب موته أنه حمل قردة وجعل ينقزها فعضته وذكروا عنه غير ذلك والله أعلم بصحة ذلك ‏
کہا جاتا ہے یزید کی موت بندر سے ہوئی … اور دوسروں نے اس الگ ذکر کیا ہے الله کو اس کی صحت کا علم ہے
‎ ‎الکامل از ابن اثیر میں ہے : ‏
وَقِيلَ: إِنَّهُ مَاتَ مَسْمُومًا، وَصَلَّى عَلَيْهِ الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ
کہا جاتا ہے یزید کی موت زہر سے ہوئی ان کی نماز جنازہ الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ نے پڑھی
یہ اقوال گھڑے ہوئے ہیں – جب یزید بن معاویہ سے مخالف ناخوش ہوئے تو ان کی وفات سے متعلق افواہ سازی کی
‏ ‏

مدینہ میں لوٹ مار زنا بالجبر


شہادت حسین سن ٦١ ہجری محرم میں ہوئی اور اس کے بعد تقریبا تین سال تک مملکت اسلامیہ ‏میں سکون رہا اور کوئی اور شورش یا فتنہ رونما نہ ہوا – پھر سن ٦٣ ھ کے آخر میں واقعہ الحره ہوا ‏جس میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے حمایتیوں نے مدینہ میں فساد برپا کیا – تاریخ ابو زرعہ دمشقی ‏میں ہے
وَكَانَتِ الْحَرَّةُ يَوْمَ الْأَرْبَعَاءِ لِلَيْلَتَيْنِ بَقِيَتَا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ ‏
حرہ کا واقعہ بدھ ، سن ٦٣ ہجری میں ذو الحجہ کی آخری چند راتوں میں ہوا
شہادت حسین پر بات کرتے کرتے لوگ واقعہ حرہ کے حوالے سے بھی جھوٹے قصے سنانے لگ ‏جاتے ہیں مثلا البدایہ و النہایہ از ابن کثیر میں ہے‎ ‎
قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَقَدْ رُوِيَتْ قِصَّةُ الْحَرَّةِ عَلَى غَيْرِ مَا رَوَاهُ أَبُو مِخْنَفٍ، فَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ ‏ثَنَا أَبِي سَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ جَرِيرٍ ثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ قَالَ: سَمِعْتُ أَشْيَاخَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ يُحَدِّثُونَ ‏أَنَّ مُعَاوِيَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ دَعَا ابْنَهُ يَزِيدَ فَقَالَ لَهُ: إِنْ لَكَ مِنْ أَهْلِ المدينة يوما، فان ‏فعلوا فارمهم بمسلم ابن عقبة فإنه رجل قد عرفت نصيحته لنا،
طبری نے ابو مخنف کی سند سے حرہ کا قصہ نقل کیا کہ … جویرہ نے مدینہ کے بوڑھوں سے سنا کہ وہ ‏کہا کرتے کہ معاویہ نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے یزید کو کہا کہ مدینہ کا صرف ایک دن ہے تم ‏کو ضرورت پڑے تو مسلم بن عقبہ کو ان پر بھیجنا
افسوس ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں ابو مخنف متروک کی روایات لکھ کر اس کی صحت کو ختم کر ‏دیا – صحیح بات یہ ہے کہ معاویہ نے اس قسم کی کوئی وصیت نہیں کی تھی اور تین سال تک یزید ‏کے دور میں سب سکون سے تھے لیکن ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ وہ خروج کریں گے ‏اور حجاز میں اپنی خلافت قائم کریں گے ‏ ‏- لہذا ابن زبیر نے سیاسی چال چلی کہ بنو امیہ سے ‏منسلک خاندانوں کو مدینہ سے نکال دیا – مدینہ سے یہ بوڑھے ، بچے ، عورتیں کسمہ پرسی کے عالم ‏میں شام کی طرف انصاف کی دہائی مانگتے ہوئے جا رہے تھے – الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں ‏ابن الزبیر نے حکم دیا کہ مدینہ و حجاز سے بنو امیہ کو نکال دیا جائے
‎ ‎وكان ابن الزبير أمر بإخراج بني أمية ومواليهم من مكة والمدينة إلى الشام،‏
اس پر چار ہزار مسلمانوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا جب یہ لوگ وادی القری پر پہنچے تو مسلم بن عقبہ ‏سے ملے جس نے حکم دیا کہ نہیں واپس جاؤ
فخرج منهم أربعة آلاف فيما يزعمون، فلما صاروا بوادي القرى أمرهم مسلم بالرجوع معه‎ ‎
ابن زبیر اس سے پہلے مروان بن حکم کو بھی مدنیہ سے بیماری کی حالت میں نکلوا چکے تھے اور انہوں ‏نے یہ وطیرہ بنا لیا تھا کہ خاندان کی بنیاد پر مسلمانوں کو الگ کیا جائے
ابن حجر نے مروان بن الحكم کے ترجمہ میں لکھا ہے
ولم يزل بالمدينة حتى أخرجهم ابن الزبير منها، وكان ذلك من أسباب وقعة الحرة
مروان مدینہ سے نہ نکلے حتی کہ ابن زبیر نے ان کو نکالا اور یہ واقعہ حرہ کا سبب بنا
امام بیہقی نے دلائل نبوت میں ذکر کیا‎ ‎
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا ‏يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، قَالَ: «أَنْهَبَ مُسْرِفُ بْنُ عُقْبَةَ الْمَدِينَةَ ثَلَاثَةَ ‏أَيَّامٍ , فَزَعَمَ الْمُغِيرَةُ أَنَّهُ افْتُضَّ فِيهَا أَلْفُ عَذْرَاءَ» . مُسْرِفُ بْنُ عُقْبَةَ هُوَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ: ‏مُسْلِمُ بْنُ عُقْبَةَ الَّذِي جَاءَ فِي قِتَالِ أَهْلِ الْحَرَّةِ , وَإِنَّمَا سَمَّاهُ مُسْرِفًا لِإِسْرَافِهِ فِي الْقَتْلِ وَالظُّلْمِ
مغیرہ نے کہا مسرف بن عقبہ نے تین دن مدینہ میں لوٹ مار کی اور مغیرہ کا دعوی ہے کہ ایک ہزار ‏کنواریاں اس میں کنواری نہ رہیں( یعنی ان کے ساتھ زنا با لجبر کیا گیا)‏‎ ‎
سند منقطع ہے – سند میں المغيرة بن مقسم الضبى مولاهم ، أبو هشام الكوفى ، الفقيه ‏الأعمى المتوفی 133 ھ ہیں جو مدلس ہیں اور انہوں نے خبر نہیں دی کہ سن ٦٢ ھ کی خبر کس ‏سے ان کو ملی
المنتظم از ابن جوزی میں ہے‎ ‎
وعن المدائني، عن أبي قرة، قال: قال هشام بن حسان : ولدت ألف امرأة بعد الحرة من ‏غير زوج، ثم دعى مسلم بالناس إلى البيعة ليزيد، وقال: بايعوا على أنكم خول له، ‏وأموالكم له، فقال يزيد بن عبد الله بن ربيعة: نبايع على كتاب الله، فأمر به فضربت عنقه، ‏وبدأ بعمرو بن عثمان، فقال: هذا الخبيث ابن الطيب، فأمر به فنتفت لحيته‎.‎
ہشام بن حسان ( المتوفی ١٤٨ ھ نے سن ٦١ ھ کا بلا سند ذکر کیا )نے کہا حرہ کے بعد ایک ہزار عورتوں نے بچے جنے جن ‏کے باپ نہیں تھے ، پھر مسلم بن عقبہ نے لوگوں کو بیعت کے لئے طلب کیا ‏‎ ‎
لوگوں نے اس قول سے سمجھا ہے کہ ہشام کا مقصد کہنا ہے کہ زنا بالجبر ہوا – راقم کہتا ہے کہ ہشام بن حسان کا مقصد یہ ‏کہنا ہے کہ ہزار لوگ قتل ہو گئے جن کے گھر ولادت ہونے والی تھی یا جنگ کی وجہ سے عورتوں کا حمل نکلنا ہو گیا – بہر ‏حال یہ مبالغہ ہے اور سند منقطع ہے

ابن عمر نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ بیعت یزید سے نہ نکلنا- صحیح بخاری کی حدیث ہے
باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ ‏أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله ‏عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ ‏اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ‏
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے ‏خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک ‏جھنڈا گاڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید بن معاویہ) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع ‏پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے

دجال اور یاجوج ماجوج ایلین ہیں ؟؟

السلام علیکم

اس ویڈیو پر رائے درکار  ہے

و علیکم السلام

قرآن قریش کی عربی میں نازل ہوا ہے اور دور نبوی میں ایلین مخلوق کا کوئی تصور نہیں تھا لہذا قرانی الفاظ کا وہی مطلب لیا جائے گا جو دور نبوی میں رائج تھا

ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا

سورہ کہف ٩٢

عربی میں سبب کے بہت سے مفہوم ہیں – سبب کہتے ہیں رسی کو جو چھت سے لٹک رہی ہو
في حديث عوف بن مالك: “أَنَّه رأَى في المنامِ كأنّ سَبَباً دُلِّىَ من السَّماء
صحابی نے خواب میں (سبب ) دیکھا کہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف آ رہی ہے اس کو رسول اللہ نے جب چھوڑا تو ابو بکر نے پکڑا
وأرى “سببا” وأصلا إلى السماء
دیکھا سببا رسی کو جس کی جڑ آسمان میں تھی
یہاں رسی کو سبب کہا ہے

سورہ حج میں ہے
مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ
جو کوئی (منافق) یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ دینا و آخرت میں اس (رسول) کی مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر رسی ڈال کر (اپنے گلے کو) کاٹ دے

یہاں سبب کا مطلب رسی ہے

سوره غافر المومن میں ہے
أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ
فرعون نے کہا ہامان سے کہ کوئی بلند عمارت بناو کہ میں آسمانوں میں کوئی اشارہ پاؤں اور موسی کے رب کو جانوں

یہاں اسباب یا اشارہ پانے کے لئے اس نے ٹاور بنانے کا حکم کیا

سورت قصص ٣٨ میں ہے
فَاجْعَلْ لِي صَرْحاً
میرے لئے ٹاور بناو

آیات کو ملا کر سمجھا جا سکتا ہے کہ فرعون کوئی مینار یا ٹاور بنوانے کا حکم کر رہا تھا جس پر چڑھ کر موسی کے رب کا سبب پاوں
اس اشارہ لینے کو کو قرآن میں اسباب کہا گیا ہے

ذو القرنین کے قصے میں سورہ کہف میں ہے

إِنَّا مَكَّنَّا لَهُۥ فِى ٱلْأَرْضِ وَءَاتَيْنَـٰهُ مِن كُلِّ شَىْءٍۢ سَبَبًۭا
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
تم نے اس کو زمین پر تمکنت دی تھی اور اس کو ہر چیز پر سبب (اشارہ ) دیا تھا
پھر اس نے ایک سبب (اشارہ) کو فالو کیا

میں سمجھتا ہوں کہ شاہ ذو القرنین کو اللہ نے قوت و علم دیا کہ چیز دیکھ کر وہ اس کی حکمت جان جاتے تھے
اب چونکہ ان کا پلان تھا کہ تمام زمین پر جہاں تک ہو سکے وہ توحید کو قائم کریں وہ اس مقام سے آئی چیز دیکھ کر اشارہ پاتے اور پھر سفر کرتے وہاں تک جاتے
اور سبب یا اشارہ کو فالو کرتے اگرچہ ان علاقوں میں پہلے کبھی نہ گئے تھے

شاہ ذو القرنین کو تین اشارات ملے ایک کی وجہ سے مشرق تک کا سفر کیا
ایک سے مغرب تک کا سفر کیا
اور ایک کی وجہ سے یاجوج ماجوج کے علاقے تک کا سفر کیا

و اللہ اعلم

سبب کو انگلش میں
lead
ملنا کہہ سکتے ہیں
مثلا ہم کہتے ہیں
He got the lead and solved the problem

یا اردو میں کہتے ہیں کو سرا مل گیا اور مسئلہ حل ہو گیا
رسی کا سرا ہوتا ہے

اس طرح عربی کا سبب یا اردو کا سرا ایک ہے


یاجوج ماجوج کے حوالے سے میرا علم کہتا ہے کہ وہ انسان نہیں ہیں ایلین بھی نہیں ہیںزمیں کے اندر ہی کوئی الگ مخلوق ہے جو سو رہی ہے ، نکلنے پر انسانوں کو قتل کرے گی اور حشر برپا ہو جائے گا

راقم کی  کتاب  یاجوج ماجوج پر دیکھیں

عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صحیحین میں روایات موجود ہیں جن کے مطابق عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا – بعض محققین نے اس روایت سے یہ نکالا کہ عمار کا قتل لشکر معاویہ نے کیا اور اس طرح وہ ایک باغی تھے – اس بات کا آعادہ کئی لوگوں نے کیا جن میں  البانی بھی ہیں

راقم نے ان تمام روایات کو اپنی کتاب قرن اول کی جنگوں میں رد کیا اور محدث فورم کے اہل حدیث مولویوں نے راقم کی تحقیق پر جدل کیا   – حال ہی میں اہل حدیث مولوی حافظ زبیر احمد نے   اپنی تحقیق پیش کی جس سے راقم کے موقف کو تقویت ملی ہے – زبیر نے ان  روایات کو متن کے تحت مضطرب قرار دیا

اہل حدیث کو درکار ہے کہ وہ تاریخ کے ساتھ ساتھ عقائد میں بھی تحقیقی انداز اختیار کریں

 

مکمل کتاب اس لنک سے داؤن لوڈ کریں

اہل حدیث کی دوغلی پالیسی

فرقہ اہل حدیث کے نزدیک اولیاء اللہ قبروں میں زندہ رہتے ہیں بس اس سے باہر نہیں نکل سکتے – صحیح بات یہ ہے کہ اس کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں اور  اہل ایمان کے نزدیک یہ عقیدہ باطل ہے –  لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی  اگر کوئی بریلوی یہ   دعوی کرے کہ ولی اللہ  کی قبر شق ہوئی تو اس کا رد اہل حدیث پر  ضروری ہو جاتا ہے – ویڈیو دیکھیں

دوسری طرف قبروں سے  مردوں کا نکلنا، ان  کا سڑکوں پر بھاگنا  یہ اہل حدیث خود خطبات میں   بیان کرتے ہیں اور کتابوں میں لکھتے  ہیں

زبیر علی زئی  کے مطابق مردہ  قبر سے باہر بھی اتا ہے

قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “

زبیر علی زئی  ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں

قبر میں حیات النبی پر سوال ہو گا ؟

معلوم ہے کہ حدیث بخاری جس میں قبر میں سوال کا ذکر ہے اس میں مندرجہ ذیل سوال ہیں

 من نبیک ہے کہ تمہار ا نبی کون ہے

کون رب ہے ؟ اس میں کونی وضاحت نہیں کہ اللہ کو عالم الغیب مانا تھا یا نہیں

تیرا دین کیا ہے ؟

غور طلب ہے اسی  روایت میں  فتنہ قبر کا ذکر ہے یعنی یہ سوال محض تین نہیں ہیں یہ سوال فتنہ یا آزمائش میں بدل جائیں گے اور اس فتنہ قبر کا مقابلہ فتنہ دجال سے کیا گیا ہے

احادیث  میں ذکر موجود ہے کہ نماز کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا میں فتنہ قبر اور فتنہ دجال دونوں سے پناہ مانگنے کا ذکر کیا ہے

 

سائل نے  دیو بند کے علماء سے سوال کیا کہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر  کے حوالے سے مرنے کے بعد مسلمان سے  سوال ہو گا ؟

مفتی تقی عثمانی کے بقول قبر میں حیات النبی پر سوال نہیں ہو گا

مفتی تقی عثمانی کے التباس ذہنی کا جواب ایک دوسرے دیوبندی عالم  الیاس گھمن صاحب دیتے ہیں

ابن تیمیہ کے کشف کا ذکر

ساتویں  صدی ہجری  کے آخری  سالوں  کا ذکر ہے  جب   السلطان الملك  الناصر ناصر الدين محمد بن قلاوون  کا   دور   تھا   خبر  پھیلی  کہ     أهل السويداء میں سے ایک نصرانی  جس کو أَمِير آل مرا   عساف بن أحمد بن حجى   نے   ملازم   و   کاتب   رکھا ہوا تھا   وہ  شتم رسول کا   مرتکب ہوا    ہے ( البداية ج13 ص335    ذکر   سنة أربع وتسعين وستمائة -)-  ابن کثیر  لکھتے ہیں

عساف بن أحمد بن حجي  الذي كان قد أجار ذلك النصراني الذي سب الرسول عليه السلام قتل ، ففرح الناس بذلك

عساف بن أحمد بن حجي   ،جس نے اجرت پر  اس نصرانی کو  رکھا تھا  جس  نے      سب  النبی     کیا تھا ، اس کا  قتل   ہو گیا تو   لوگ بہت  خوش ہوئے

یعنی  ایک  مسلمان  امیر    عساف بن أحمد بن حجي    کے قتل  پر   اہل مصر  خوش  ہوئے  اور ساتھ ہی   مسلمان    امیر     عساف   کے  کسی نصرانی ملازم   پر الزام  لگایا گیا کہ اس نے    رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی ہے –   یہ نصرانی  کتابت کرتا تھا –

تاریخ اسلام  میں الذھبی  لکھتے ہیں

وفيها كانت فتنة عسّاف بدمشق ورجْم العوامّ له، لكونه حمى نصرانيًا سبَّ النَّبيّ – صَلَّى الله عليه وسلم

ان دنوں  دمشق   میں  فتنہ   عساف  ہوا    اور    لوگوں نے  پتھر  مارے  کہ یہ   نصرانییوں  کا ہمدرد  تھا  جو  سب النبی  کا مرتکب  تھا

الذھبی   عساف ابن الأمير أَحْمَد بْن حجيّ، زعيم آل مرّي کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

أعرابيّ شريف، مُطاع. وهو الَّذِي حمى النّصرانيّ الَّذِي سبّ، فدافع عَنْهُ بكلّ ممكن

یہ شریف  عربی  تھے  ،  تابعدار   تھے  اور  اس نصرانی  کے دوست تھے   جس نے  نبی کو گالی دی تھی ، پس انہوں نے اس کی ہر ممکن مدافعت کی

 الذھبی مزید لکھتے ہیں

فطلع الشيخان زين الدِّين الفارقيّ، وتقيّ الدِّين ابن تيميّة فِي جمْع كبير من الصُلَحاء والعامّة إلى النّائب عزَّ الدِّين أيْبَك الحَمَويّ، وكلّماه فِي أمر الملعون، فأجاب إلى إحضاره وخرجوا، فرأى الناس عسافا، فكلّموه فِي أمره، وكان معه بدويّ، فقال: إنّه خيرٌ منكم. فرَجَمَتْه الخلق بالحجارة. وهرب عساف، فبلغ ذلك نائب السلطنة، فغضب لافتئات العوامّ. وإلا فهو مُسْلِم يحبّ اللَّه ورسوله، ولكن ثارت نفسه السّبعيّة التُّركيّة

اس شتم  کی خبر زين الدِّين الفارقيّ   اور تقيّ الدِّين ابن تيميّة  اور صلحا  و  عوام نے نائب عزَّ الدِّين أيْبَك الحَمَويّ کو دی  اور اس ملعون نصرانی کی حرکت پر کلام کیا  تو  نائب  نے اس کو  حاضر کرنے کا حکم کیا پس لوگ نکلے  اس کو دیکھنے  تو  انہوں نے عساف  کو  پایا ، اس سے اس پر بات کی عساف  کے ساتھ  بدوی تھے ، پس عساف نے جوابا  کہا  کہ وہ نصرانی  تم لوگوں سے بہتر  ہے – یہ سن کر  لوگوں نے پتھر  مارے  اور امیر عساف  بھاگ کھڑے ہوئے ، اس کی خبر نائب سلطان کو دی گئی وہ غصے میں آیا کہ اگر عساف  مسلمان ہے تو اس کو تو اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہونی چاہیے نہ کہ یہ کہ اس نے اپنے دل کو ترکوں  سے ملا دیا ہے   

  الوافي بالوفيات  از   صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ)  میں ہے

وَأما عساف هَذَا فَقتله جماز بن سُلَيْمَان وَهُوَ ابْن أخي عساف بِالْقربِ من الْمَدِينَة النَّبَوِيَّة

عساف کو اس کے بھتیجے جماز بن سُلَيْمَان نے مدینہ المنورہ کے قرب میں قتل کیا

 ابن تغري بردي ،    النجوم الزاهره الجزء السابع ص 363 ص 89 الجزء الثامن  میں سن   ٦٩٣   پر   لکھتے ہیں في هذه السنة قتل الأمير عساف ابن الأمير أحمد بن حجي آل مرا أمير العرب – اس سال  امیر عساف ابن الأمير أحمد بن حجي  کا قتل ہوا –

یہ   پورا واقعہ کوئی سیاسی  قتل معلوم ہوتا ہے  کیونکہ  اگر واقعی    امیر  عساف   واقعی   عابد و نیک تھے تو وہ نصرانی کی   اس طرح   مدد بالکل نہ کرتے اور نہ یہ ممکن تھا کہ        امیر  عساف    دمشق سے نکل کر مدینہ منورہ تک   بغیر مسلمانوں کی  مدد کے پہنچ جاتے –  صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ)  کے مطابق   امیر  عساف    کا قتل سن ٦٩٤  ھ   بمطابق   ١٢٩٥   ع   میں ہوا –   ترک  یا منگول مسلمان  دمشق  پر حملہ کی   تیاری کر رہے تھے  – ممکن ہے    کہ  الأمير عساف    کی ہمدردیاں  ان کے ساتھ ہوں –     آل مرا       عربوں  میں بدوی تھے  اور  ان کا کنٹرول  تجارت  پر تھا  اپنے اونٹوں  پر سامان  لادھ کر   لے جاتے تھے

 نائب  دمشق  نے  امیر   عساف  کے       نصرانی    کاتب کو گرفتار   کیا  اور    جان بخشی کی شرط رکھی کہ یہ مسلمان ہو جائے تو جان بچ جائے گی –   الذھبی      (بحوالہ  تاریخ اسلام )  جو  اس دور میں دمشق  میں ہی تھے فرماتے ہیں  

 وبلغ النّصرانيَّ الواقعةُ فأسلم

 نصرانی  نے واقعہ جان کر اسلام قبول کیا  

لیکن متشدد علماء  نے اس اسلام کو قبول کرنے  سے انکار کر دیا –  ان   سب     کے لیڈر امام ابن تیمیہ  بن گئے     انہوں نے   قبول اسلام   کو رد  کر دیا –    یہ معلوم ہے کہ  دین   میں    کوئی   کافر   یا  اہل  کتاب کا   فرد      اسلام  قبول  کر لے تو     پرانے   گناہ  معاف  ہو جاتے ہیں     لیکن  ابن تیمیہ نے لوگوں کا ایک ہجوم لیا اور     نائب  حاکم  کے سامنے بلوہ کیا   کہ اس نصرانی  کا ایمان معتبر نہیں ہے – نائب حاکم دمشق    نے ابن تیمیہ کو قید کرنے کا حکم دیا اور قید خانہ میں ابن تیمیہ نے کتاب    الصارم المسلول علی شاتم الرسول       لکھی  جس   میں   ابن تیمیہ   نے  موقف پیش  کیا ہے کہ    اگر کوئی   ذمی شخص رسول اللہ    صلی اللہ علیہ  وسلم کی    شان   اقدس    میں     گستاخی کرے   گا تو اس کا قتل واجب  ہے   اس کی   توبہ  قبول نہیں کی جائے گی   اور    نہ اس کا اسلام قبول  ہو گا   –  یہ   فتوی   اسلام    کے    بنیادی   اعتقادات  سے متصادم  ہے   جس   کے مطابق  سب سے بڑے  گناہ  شرک  تک کی معافی   ہے –  ذمی   اگر  شرک  سے  توبہ  کر لے  تو اس کو  قتل  کرنا  حرام  ہے –   واضح   رہے کہ  اگر کوئی مسلم  شتم   کا مرتکب  ہو تو   اس کو   مرتد  سمجھا   جاتا ہے   اور تین دن قید    کر کے  توبہ  کا آپشن  دیا جائے  گا –    بصورت  دیگر  اس کا قتل  کر دیا جاتا ہے –

ابن تیمیہ  کا   ذمی   شاتم   پر یہ فتوی مشہور  ہو گیا  اور    مملکوک حکمران کو فتوی کی قوت پتا چلی اور ابن تیمیہ کو مستقبل کے فتووں کے لئے   چن لیا گیا ،    ان کو قید خانہ سے نکال کر  ، ان کی رائے پر عمل کیا گیا یعنی   نصرانی کا سر قلم کر دیا گیا-

المقفى الكبير از  تقي الدين المقريزي (المتوفى: 845 هـ = 1440 م)  میں ہے

فخاف النصرانيّ عاقبة هذه الفتنة وأسلم. فعقد النائب عنده مجلسا حضره قاضي القضاة وجماعة من الشافعيّة، وأفتوا بحقن دم النصرانيّ، بعد الإسلام

یہ نصرانی  ڈر گیا  اس فتنہ  کے بعد   ،    اسلام لے  آیا ، پس    نائب  کی   ایک مجلس   جس میں  قاضي القضاة       اور شوافع کے علماء   شریک  تھے  کے بعد   فتوی   دیا    گیا   کہ اب  اسلام    قبول  کرنے کے  بعد    بھی اس نصرانی  کا   قتل  ہے  

 مملوک حکمرانوں نے اب ابن تیمیہ سے سیاسی فتوے طلب کرنے شروع کیے تاکہ ادر گرد کے مسلمان و غیر مسلم علاقوں پر حملے کیے جا سکیں – ابن تیمیہ نے بھی شاہ کا مصاحب بننے میں کوئی دیر نہیں کی مثلا ابن تیمیہ نے آرمینی عیسائیوں کے خلاف مملوک حکمرانوں کے حق میں فتوی دیا -دوسری طرف مشرق سے منگول مسلمان جو  مصرو شام کی طرف بڑھ رہے تھے    ان کے خلاف  فتوے   کے   لئے   مملوک حکمرنوں کو یہاں ابن تیمیہ کی ضرورت پڑی- ابن تیمیہ نے فتوی دیا کہ یہ منگول مسلمان التتار   صرف نام کے مسلمان ہیں اور   باطن  میں  یہ چنگیز خان کے حکم پر چلتے ہیں نہ کہ الله کے قانون پر لہذا چاہے یہ کلمہ گوہوں  یا نماز پڑھتے ہوں     ان کو بے دریغ قتل کیا جائے  –   اس  طرح  اسلام   میں  مسلمانوں کو ہی قتل  کرنے والی تنظیموں کی بنیاد  ڈالی  گئی اور  اس پر مواد  و فتاوی  پیش کیے گئے  جو آج تک   بدنام  زمانہ  تنظیموں  کے لئے مشعل  راہ ہیں –

بہر  حال   اہل دمشق صف آراء ہوئے اور منگول  مسلمانوں  سے لڑے      اور   ان کو بتایا گیا کہ امام ابن تیمیہ نے لوح  محفوظ  تک کو دیکھ لیا ہے –  نعوذ  با للہ من تلک الخرفات

ابن قیم اپنی کتاب مدارج السالکین میں لکھتے ہیں کہ امام  ابن تیمیہ کی نظر  لوح  محفوظ  پر پڑی  ان پر مستقبل اشکار ہوا – لکھتے ہیں

أخبر أصحابه بدخول التتار الشام سنة تسع وتسعين وستمائة وأن جيوش المسلمين تكسر وأن دمشق لا يكون بها قتل عام ولا سبي عام وأن كلب الجيش وحدته في الأموال: وهذا قبل أن يهم التتار بالحركة ثم أخبر الناس والأمراء سنة اثنتين وسبعمائة لما تحرك التتار وقصدوا الشام: أن الدائرة والهزيمة عليهم وأن الظفر والنصر للمسلمين وأقسم على ذلك أكثر من سبعين يمينا فيقال له: قل إن شاء الله فيقول: إن شاء الله تحقيقا لا تعليقا وسمعته يقول ذلك قال: فلما أكثروا علي قلت: لا تكثروا كتب الله تعالى في اللوح المحفوظ: أنهم مهزومون في هذه الكرة وأن النصر لجيوش الإسلام

ترجمہ : ابن تیمیہ نے ٦٩٩ ھجری میں اپنے اصحاب کو شام میں تاتاریوں کے داخل ہونے اور مسلمانوں کے لشکر کے شکست کھانے کی خبر دے دی تھی اور یہ بھی بتلا دیا تھا کہ دمشق قتل اور اندھا دھند گرفتاریوں سے محفوظ رہے گا     البتہ لشکر اور مال کا نقصان ہو گا ، یہ پیشن گوئی  تاتاریوں کی یورش سے پہلے ہی کی تھی – اس کے بعد پھر ٧٠٢ ھجری میں جبکہ تاتاری شام کی طرف بڑھ رہے تھے ، اس وقت عام لوگوں اور امراء و حکام کو خبر دی کہ تاتاری شکست کھائیں گے اور مسلمان فوج کامیاب و فتح مند ہو گی اور اس پر آپ نے ستر سے زیادہ بار قسم کھائی ، کسی نے عرض کیا : ان شاء الله کہیے ، آپ نے فرمایا : ان شاء الله تحقیقاً نہ کہ تعلیقاً (یعنی اگر الله چاہے تو ایسا ہو گا نہیں بلکہ الله ایسا ہی چاہے گا) (ابن قیم) کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ بھی کہتے ہوۓ سنا کہ جب لوگوں نے اس پیشن گوئی  پر بہت کثرت سے کلام  کیا ، تو میں (ابن تیمیہ ) نے کہا :  بہت بولنے کی ضرورت نہیں ،  الله تعالیٰ نے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ وہ اس مرتبہ ضرور شکست کھائیں گے اور مدد و نصرت مسلمان فوجوں کے قدم چومے گی – (مدارج السالکین ، جلد ٢ ، صفحہ ٤٥٨ 

ابن تیمیہ نے اپنے خواب یا کشف کی بنیاد پر   لوح   محفوظ    پر  تحریر  کا   اس قسم کا دعوی کیا –بہر   حال  دمشق  بچ   گیا

شاتم رسول کی سزا کا اختلاف

During the last years of the seventh century Hijri when al-Sultan al-Ma’alih al-Nasir Nasir al-Din Muhammad ibn Qalaawon’s was ruling on Egypt, a case was filed against a Christian from Ahl al-Suida, whom Amer al-Mara Asaf Ibn Ahmad ibn Hajji, a Muslim had employed as a scribe.

Ibn Katheer mentioned in his History the Beginning and the End:

“People were happy as the (Muslim) Asaf ibn Ahmad ibn Hajji was killed, who had hired the Christian that uttered blasphemous things.”

This statement shows that the people of Egypt were happy with the killing of a Muslim Amir, Asaf ibn Ahmad ibn Hajji. Also, a Christian scribe was accused of uttering blasphemous things against the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him).

Al-Dhahabi writes in The History of Islam:

“In those days, there were riots in Damascus, and people pelted stones that a Muslim employer had sympathies towards his Christian scribe who was guilty of blasphemy against the prophet.”

Al-Dhahabi mentioned that Asaf ibn Ameer Ahmad ibn Hajji   was:

“An Arab, a gentleman, a supporter of Government, and he had a Christian friend who was blasphemous, but Asaf supported and helped his Christian friend. ”

All these statements show that Asaf was an Arab, subservient, and had a Christian friend accused of uttering abusive things against the Prophet.

Al-Dhahabi informed more:

“The news of this accusation was given to Zain al-Din al-Farqi and Taqi al-Din Ibn Taymiyah. The people spoke to Deputy Az al-Din Aybak al-Hamvi and spoke on the deeds of this cursed Christian. The deputy ordered that the  Christian  be presented before him. ( Later when police went to capture Christian scribe , his employer Asaf said to the police:) “This Christian scribe is better than you people” – on hearing this, people pelted stones, and Amir Asaf (the employer) ran away (and went into hidding). The whole account was narrated to the Deputy of Sultan that if Asaf is a true Muslim, then he  should have shown love towards Allah and His Messenger and should not have mingled his heart with the Turks (Mongols).”

Readers might be surprised to read that the Christian scribe issue was somehow connected to the Mongols but no historian mentioned it except  Al-Dhahabi.

Al-Wafi Al-Wafayat  by Salah al-Din Khaleel ibn Aybak ibn ‘Abd-Allaah al-Safadi (al-Mutafi: 764AH) narrated:

“Later Asaf (The employer) was killed by his nephew Jamaz bin Sulaiman in the vicinity of Madina (Arabia).”

I say: The whole incident seems to be a political assassination because if Amir Asaf was indeed a nobleman, and Christian had really uttered anything blasphemous, he would not have helped the accused Christian in this way. Also, it is impossible that Amir Asaf would have left the Egypt/Syria and reached Madina (City of Prophet) without the help of Muslims.

Salah al-Din Khaleel ibn Aybak ibn ‘Abd-Allaah al-Safadi (died. 764AH): “Amir Asaf was killed in 694 AD (1295 AD).”

This shows that this event occurred when Turkish or Mongol Muslims were preparing to attack Damascus. It is possible that Asaf’s sympathies were with Mongol muslims. His Tribe of  Mar’ahs were nomads among Arabs, and they controlled trade and carried goods on their camels. Asaf belonged to the same tribe.

Later,  the Deputy of  Damascus arrested the Christian scribe  Amir Asaf and stipulated that he would be saved if he became a Muslim. Al-Dhahabi (mentioned in History of Islam) who was in Damascus at that time:

” On this verdict, the accused Christian converted to Islam after learning about it.”

However, the extremist scholars in Egypt and Syria refused to accept his acceptance of Islam. Imam ibn Taymiyyah became their leader, and these scholars rejected the Christian’s acceptance of Islam. It is known that if a disbeliever or a person of the People of the Book converts to Islam, the old sins are forgiven. Still, Ibn Taymiyah took a crowd of people and pleaded to the deputy governor that this christain must be executed.

Ibn Taymiyah wrote the book called Al-Saram al-Maslol Ali Shatam al-Rasool; In the book,  Ibn Taymiyah argued that if a person commits blasphemy in the glory of the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him), his repentance cannot be accepted, nor the accuser can convert to become a Muslim.

Suppose this opinion of Ibn Taymiyah is accepted. In that case, this fatwa conflicts with the fundamental beliefs of Islam, according to which the greatest sin is the sin of association (Shirk), which is also forgivable if a person accepts Islam. It is haraam to kill a Muslim if he repents of shirk – it should be noted that if a Muslim is guilty of blasphemy, he is considered an apostate, and he will be given the option of repentance by imprisoning him for three days – otherwise, he would have been killed as an apostate.

Ibn Taymiyah’s fatwa became famous on The Dhimmi Christian, and the Mamaluk rulers realized fatwa’s power and they appointed Ibn Taymiyah as Judge to get  fatwas in their favor. Eventually, the Christian was beheaded.

Al-Muqafi al-Kabeer by Taqi al-Din al-Muqarizi (died 845 A.H. )

“This Christian got afraid, after this temptation, he accepted Islam, so after a meeting of the deputy in which the scholars of Qazi al-Qadaat and Shuafa were participating, the fatwa was given that the Christian should be killed even after converting to Islam.”

The Mamlok rulers now started seeking political fatwas from Ibn Taymiyah to attack Egypt’s Muslim and non-Muslim areas. Ibn Taymiyah also did not delay becoming the king’s master; for example, Ibn Taymiyah gave a fatwa against Armenian Christians in favor of the Mamlok rulers. Mamloks were afraid of the Mongol Muslims, who were advancing towards Egypt and Syria.  Mamlok rulers needed another fatwa, and here again, Ibn Taymiyah gave fatwa that these Mongol Muslims are Muslims only for name-sake and they in actuality follow the command of Genghis Khan, not the law of Allah. So whether they pray to Allah or not, they should be killed indiscriminately. In this way, the framework was laid for the future organizations that kill  Muslims in Islam.

Nevertheless, the People of Damascus  fought the Mongol Muslims and were told that Imam Ibn Taymiyah had seen the iron safe – Nauz Balla min Tilak al-Kharfat

Ibn Qayyim mentioned in his book Madaraj al-Salqin that Imam Ibn Taymiyah saw the Loh Mahfuz (The Protected Tablet in Heaven), and the future was revealed to him. Ibn Qayyim wrote

Translation: Ibn Taymiyah had informed his companions, in 699 Hijri, about the entry of Mongols into Syria and the defeat and also foretold them that Damascus would be protected from murder and indiscriminate arrests. However, the army and wealth would be lost; this was predicted before the Mogol’s had already been destroyed – then in 702 Hijri, while Mongols were moving towards Syria, they informed the general public and the nobles and authorities that the Mongols would be defeated. The Muslim army would be victorious, and he swore at it more than seventy times. Ibn Al-Qayyim (Ibn Al-Qayyim) said I asked Ibn Taymiyah: “I heard you people are discussing too much on this prophecy, I (Ibn Taymiyah) say: There is no need to speak a lot. Page 458)

This is plain evidence that Ibn Taymiyah claimed that he could see  Loh Mahfuz (The Protected Tablet in Heaven) based on his dream or kashaf (vision of The Hidden).

الصابئين اور حنیف مذھب

صابئی   / الصابئين/ الصابئون

Sabians

کے نزدیک ان  کا مذھب  شیث بن آدم  و نوح  علیھما السلام  سے آتا ہے- آجکل یہ عراق میں آباد ہیں  – صابئیوں کے ہاں بہتا   پانی (الماء  الجاری ) زندگی ہے لہذا یہ مقدس نہروں دجلہ و فرات کے پاس رہتے ہیں –   صابئی کہتے ہیں کہ ان کے مذھب   کا نام صبغ    سے تھا یعنی پانی میں پبتسمہ دینا  لیکن  غلط العام میں  یہ بدل کر  صابئی  ہو گیا – بعض مفسرین نے کہا کہ لفظ   صابئ  کا تعلق اولاد ادریس سے ہے

  متوشلخ بن إدريس عليه الصلاة والسلام، وكان علي الحنيفية الأولى

 یہ ادریس علیہ السلام  کی نبوت کے بھی قائل ہیں –  کہا جاتا  ہی کہ ان کے نزدیک  آخری پیغمبر یحیی علیہ السلام   تھے اور آخری منزل من اللہ کتاب زبور ہے – یہ  لوگ عراق  میں آج بھی  آباد ہیں – صابئی  مذھب کی اصل تحاریر  نبطی زبان  میں ہیں البتہ ان کے تراجم عربی میں موجود ہیں  –   صابئی اپنے عقائد کو سر   عام  بیان  نہیں کرتے یعنی  ان کے   مذھب قبول کروانے والی مشنریاں/ تبلیغی گروہ   نہیں ہیں  جیسی اسلام و نصرانیت  میں ہیں

آجکل  صابئیوں   کو

Mandaeism

المندائية بھی کہا جاتا ہے – ان کی مقدس کتاب کا نام کنز اربا

Ginza Rba

   ہے جو  آرامی میں ہے

  https://www.youtube.com/watch?v=IC06iY2KHJE

صابئیوں  یا المندائية ‏ کے نزدیک صوم صغیر ہے کہ  تیس دن تک کسی بھی  ذی روح  پر مبنی کھانا  نہیں کھاتے-  تین وقت کی  نماز   (اشراق  ، ظہر اور مغرب)   پڑھتے ہیں  جو وضو کے بعد پڑھی جاتی ہے جس میں صرف قیام و سجود ہوتا ہے – ان کا قبلہ قطب شمالی ہے  – یہ    اپنے اپ کو نصرانیوں سے الگ کرتے ہیں  اور ہر ہفتہ کے دن بپتمسہ   لیتے ہیں –  اللہ کو واحد کہتے ہیں  – آجکل  یہ عراق میں ہی آباد ہیں-

ابتداء  کے حساب سے الصابئين کا آغاز مصر سے ہوتا ہے – وہاں ادریس علیہ السلام کی  نبوت پر ایمان لانے والے موحد اصل میں الصابئين تھے – یہ بت پرستی کے خلاف تھے – اس طرح  صابئی   اور  حنیف  لوگوں  میں مماثلت تھی – دونوں موحد تھے اور بت پرستی کے خلاف تھے  – السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير از شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) میں ہے

 وما سموا صابئين إلا لأنهم صبأوا عن الأديان كلها أي  خرجوا

صابئين  کو نام دیا گیا کیونکہ انہوں نے ادیان سے  صبأوا  کیا یعنی ان سب ادیان  سے نکل گئے

حنیف مذھب والے کسی بھی دین پر نہیں تھے – یہ موحد تھے  – اس وجہ سے ان میں اور صابئين   میں مماثلت تھی

مصر میں  الصابئين  کا ایک فرقہ گمراہ ہوا اور اس نے  اللہ تعالی  کے ساتھ نجوم کی پرستش شروع کر دی -غرائب التفسير وعجائب التأويل از  محمود بن حمزة بن نصر، أبو القاسم برهان الدين الكرماني، ويعرف بتاج القراء (المتوفى: نحو 505هـ) میں  ہے

كان فرعون يتعاطى مذهب الصابئين، وإنهم يعبدون النجوم

فرعون ،الصابئين کے مذھب  پر چلتا تھا اور یہ ستاروں کی پوجا کرتے تھے

یہاں تک کہ انہوں نے سمجھا کہ کائنات کو کئی الہ  کنٹرول کر رہے ہیں – ال فرعون  نے اللہ کو الہ موسی  کہا   اور کہتے کہ دعا کرو کہ یہ وبا ہٹا دے-  اس طرح  ال فرعون   اللہ  تعالی کے وجود و قدرت کے قائل تھے البتہ یہ باقی الصابئين   و حنیف گروہوں   سے الگ ہو چکے تھے- اس طرح دربار فرعون  مصر میں  حنیف عقیدہ والے تھے جن میں سورہ مومن کا رجل مومن بھی  تھا جو مصلحتا  تقیہ کر رہا تھا –   ال فرعون   کو خوب  معلوم تھا کہ موسی (علیہ السلام )  سے پہلے  مصر میں  یوسف (علیہ السلام ) بھی اللہ کا نبی تھا-

صابئیوں کو روحانیون  بھی کہا  جاتا تھا – راقم سمجھتا ہے  کہ ال فرعون اسی عقیدہ پر تھے   – یہ عقیدہ  رکھتے ہیں کہ جو  چیز بھی  آسمان  میں ہے اور زمین پر آتی ہے اس کی روح ہے مثلا  شہاب  یا قوس قزح یا ستاروں و سیاروں میں روح ہے اور  اہرام مصر  انبیاء کی قبروں کے اوپر  تعمیر کیے  گئے  ہیں- حنیف مذھب والے اس قسم کا تصور نہیں رکھتے تھے کہ ستاروں سے روح زمین پر آتی ہے  – آجکل کے صابئی اپنے عقیدہ کو مشرکوں سے الگ کرتے خود کو موحد  کہتے ہیں –

 صابئیوں  کی ایک بستی تستر  یا شوشتر فارس  میں بھی آباد تھی –   البیرونی  کی الاثار  الباقیہ   کے مطابق یہ  یہودی قبائل تھے جو غلام بنا کر  بابل  لائے  گئے تھے  ،  وہاں یہ جادو و کہانت سے متاثر  ہوئے ،  اصل توریت کو کھو بیٹھے – البیرونی   نے اس طرح تمام صابئیوں   کو مشرک کہہ دیا ہے ،  راقم  اس رائے سے متفق نہیں ہے  –

صابئیوں  پر  اہل سنت کے پاس  تحریری  معلومات  کا مصدر  صرف  ایک کتاب  ہے   جس کا نام ہے

الفلاحة النبطية   یا   الزراعة النبطية

 The Nabataean Agriculture

ہے – جو  أبو بكر أحمد بن علي بن قيس  المعروف  ابن وحشية النبطي کی تالیف ہے- کہا  جاتا  ہے کہ یہ سن ٢٩١ ھ  میں لکھی گئی تھی –  یہ کتاب   صلاح الدین  ایوبی  کے   طبیب   یہودی  حبر    میمونید

Maimonides

کے پاس بھی تھی اور اس نے بھی اس کے حوالے  اپنی کتب میں دیے ہیں – ابن وحشیہ  کے دور  میں یہ  الحران  میں آباد  تھے اور ان کو نبطی  مذھب  کہا  جاتا تھا – تب سے لے کر آج تک  صرف ان پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی – صرف شهرستاتی و ابن حزم نے سرسری تبصرے کیے ہیں- ابن وحشیہ کے مطابق صابئی  کہتے ہیں کہ ہیکل سلیمانی کے مقام    پر ایک مندر  تعمیر  انبیاء سے  پہلے سے موجود  تھا  جو  مریخ  کا مندر  تھا  اور طاموز

Tammùz /  Dumuzid

 کا بت اس میں نصب  تھا  جو  انات ( عربي  دیوی المناة)  کا عاشق  تھا [1]

موسوعة الملل والأديان میں  عَلوي بن عبد القادر السقاف نے ذکر کیا کہ

وقد أفتى أبو سعيد الاصطخري بأن لا تقبل الجزية منهم  ونازعه في ذلك جماعة من الفقهاء.

 أبو سعيد الاصطخري نے فتوی دیا کہ صابئیوں کا جزیہ قبول نہیں جس پر  فقہاء کی ایک جماعت نے اس پر اس سے جھگڑا گیا

دَرْجُ الدُّرر في تَفِسيِر الآيِ والسُّوَر از  أبو بكر عبد القاهر بن عبد الرحمن بن محمد الفارسي الأصل، الجرجاني الدار (المتوفى: 471هـ) میں ہے

والصّابئون: أهل كتاب عند أبي حنيفة تحلّ مناكحتهم وذبائحهم

صابئی   ‏، امام ابو حنیفہ کے نزدیک اہل کتاب ہیں ان سے نکاح اور ان کا ذبیحہ  حلال ہے

امام شافعی کا موقف عجیب و غریب ہے – ان کے نزدیک یہ اہل کتاب ہیں لیکن ذبیحہ  حلال نہیں ہے

مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه از  إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) میں ہے

قال إسحاق: لا بأس بذبائح الصابئين لأنهم طائفة من أهل الكتاب

 إسحاق بن راهويه نے کہا الصابئين  کے ذبیحہ میں کوئی برائی نہیں یہ اہل کتاب کا ایک طائفہ ہیں

کتاب غرائب التفسير وعجائب التأويل از  محمود بن حمزة بن نصر، أبو القاسم برهان الدين الكرماني، ويعرف بتاج القراء (المتوفى: نحو 505هـ) میں ہے

والصابئون مقدمون على النصارى في الزمان، لأنهم كانوا قبلهم

صابئی   ، نصرانیوں سے بھی پہلے کے ہیں

أخرج ابْن أبي حَاتِم عَن أبي الزِّنَاد قَالَ: الصابئون قَالَ: الصابئون مِمَّا يَلِي الْعرَاق وهم بكوثى يُؤمنُونَ بالنبيين كلهم

 أبي الزِّنَاد نے کہا صابئی    عراق میں كوثى میں ہیں اور یہ تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں

كوثى  اصل میں ابراھیم علیہ السلام  کا شہر ہے

قرآن سورہ الحج میں ہے

الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ

اس میں صلوات  بعض  مفسرین  کے   مطابق مَسَاجِد الصابئين ہیں

[1]

The Last Pagans of Iraq: Ibn Wahshiyya And His Nabatean Agriculture (Islamic History and Civilization) (Islamic History & Civilization)  –  Jaakko Hameen-Anttila ، Brill Academic Publishers  June 1, 2006

 

==========================================================================

Sabi’een / Sabians

The religion of the Sabians is derived from the teachings of Seth, son of Adam, and Noah (peace be upon them). Nowadays, they are mainly found in Iraq. Sabians consider water to be a source of life, so they reside near the sacred rivers Tigris and Euphrates. They claim that the name of their religion was originally ‘Sabgha,’ which means ‘to immerse in water,’ but over time it changed to ‘Sabian.’ Some scholars suggest that the term ‘Sabian’ is derived from the descendants of Idris (Enoch).

They also believe in the prophet-hood of Idris (peace be upon him) and claim that the last prophet among them was Yahya (John the Baptist, peace be upon him), and the final divine scripture they recognize is the Psalms (Zabur). Sabians still exist in Iraq today. The original texts of Sabian religion are in their native language, but translations are available in Arabic.

Sabians do not openly propagate their beliefs or engage in missionary activities like Islam and Christianity.

Currently, Sabians are also known as Mandaeans. Their sacred scripture is called the Ginza Rba, written in Mandaic, an Aramaic dialect.

Sabians or Mandaeans observe a minor fast, abstaining from food associated with living beings for thirty days. They perform three daily prayers (Ishraq, Zuhr, and Maghrib) that are recited after ablution, consisting only of standing and prostration. Their qibla is the northern pole. They differentiate themselves from Christians and commemorate Baptism every Sunday. They believe in the oneness of Allah and are primarily concentrated in Iraq.

According to historical accounts, the Sabians originated from Egypt, where they were originally monotheists who believed in the prophet-hood of Idris. They opposed idolatry, similar to the Hanif religion. Both groups were monotheistic and opposed idol worship. Al-Siraj al-Muneer fi al-I’anah ‘ala Ma’rifat Ba’di Ma’ani Kalami Rabbina al-Hakeem al-Khabeer by Shams al-Din Muhammad ibn Ahmad al-Khatib al-Sharbini (d. 977 AH) contains information on this matter.

Pharaoh followed the religion of the Sabians, and they worshiped the stars. Pharaoh called Allah the God of Moses and asked him to pray for the removal of the plague. Although Pharaoh acknowledged the existence and power of Allah, he had separated himself from the other Sabian and Hanif groups. Thus, in the court of Pharaoh, there were Hanif believers, including a man who disguised his faith (mentioned in Surah al-Mumineen). Pharaoh was well aware that Musa (Moses, peace be upon him) was not the first prophet in Egypt, as Yusuf (Joseph, peace be upon him) had also been a prophet of Allah.

Sabians were also known as spiritualists, and this author hold opinion  that Pharaohs of Egypt  had similar beliefs. They believe that anything in the sky or on the earth possesses a soul. For example, celestial bodies like meteors, rainbows, stars, and planets have souls, and the pyramids of Egypt were constructed over the graves of the prophets. Hanif believers did not hold such beliefs that the soul descends from the stars to the earth. Nowadays, Sabians dissociate themselves from polytheists and identify as monotheists.

There was also a Sabian community settled in Tuster or Shushtar, Persia. Al-Biruni’s Al-Athar al-Baqiyah confirms that they were Jewish.

ڈاکٹر عثمانی اور ایک خبر منکر

ڈاکٹر عثمانی سے قبل پتا نہیں کتنی صدیوں تک عوام میں یہ خبر پھیلائی جاتی رہی کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ، قرآن کا ترجمہ نہ کیا گیا ، اس کو چھت کے قریب  طاق پر رکھ دیا گیا ، لوگ قبروں پر معتکف رہے لیکن جان نہ پائے  کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں محدثین کے نزدیک ایک خبر منکر ہے
اس منکر روایت کے دفاع میں فرقوں کی جانب سے ہر سال نیا مواد شائع ہوتا رہتا ہے – مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار از أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق بن خلاد بن عبيد الله العتكي المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) میں ہے
حَدَّثنا رزق الله بن موسى، حَدَّثنا الحسن بن قتيبة، حَدَّثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَن الحَجَّاج، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس؛ أَن رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ.
أَنَس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں ، نماز پڑھتے ہیں

– اس روایت کو امام الذھبی نے منکر قرار دیا ہے جنہوں نے جرح و تعدیل پر کتب لکھی ہیں – البتہ فرقوں میں اس بات کو چھپایا جاتا ہے – ميزان الاعتدال في نقد الرجال
شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) لکھتے ہیں
حجاج بن الأسود.
عن ثابت البناني.
نكرة.
ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد، فأتى بخبر منكر، عنه، عن أنس في أن الانبياء أحياء في قبورهم يصلون.
حجاج بن الأسود یہ ثابت سے روایت کرتا ہے ، منکر روایتیں اور جو روایت کیا  اس سے صرف مستلم بن سعيد  نے کہ  پس ایک منکر خبر لایا ہے جو انس سے مروی ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں ، نماز پڑھتے ہیں

خالد الملیزی نام کے ایک صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے لکھا
اپ نے ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب کی کتاب یہ مزار یہ میلے ص 24 سے 25 کی جو عبارت پیش کی ہے جس میں انہوں نے مستلم بن سعید کو ضعیف کہا ہے اس بارے میں عرض ہے
الجواب: مستلم بن سعید صدوق و حسن الحدیث تھے اور ان کو ضعیف الحدیث گرداننا جھوٹ یا جھل ہے
جہاں تک مستلم سے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی بات ہے تو ان کی آدھی گواہی پیش کرنا اور آدھی چھپالینا یقینا خیانت اور کتمان ہے
ابن حجر عسقلانی نے مستلم بن سعید کے بارے میں فرمایا ہے
صدوق عابد ربما وھم (تقریب التھذیب ص 934،تھذیب التھذیب 56/4)
صدوق،عابد تھے اور کھبی کھبی وھم کرتے تھے
یہاں پر حافظ ابن حجر عسقلانی نے توثیق کی ہے جبکہ ربما وھم کوئی جرح نہیں ہے
لیکن ابن حجر کے الفاظ ربما وھم کا اظہار کرنا اور صدوق عابد چھپالینا فریب ہے
المزید: مستلم بن سعید کے بارے میں
امام الجرح والتعدیل یحی ابن معین نے فرمایا ہے صویلح (تاریخ ابن معین بروایة الدوری 161/4)
یاد رہے صویلح دراصل تعدیل برائے احساس جرح ہے عند بعض الناس اسلئے اس کو صرف جرح پر محمول کرنا درست نہیں ہے
احمد ابن حنبل نے فرمایا شیخ ثقة من اھل واسط قلیل الحدیث (سوالات ابی داود ص 321)
امام ابوداود نے خود ثقہ کہا ہے(سوالات ابی داود ص 321)
امام نسائی نے فرمایا لیس به بأس (الجرح والتعدیل 438/8)
امام حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے(الثقات لابن حبان 520/7) جبکہ ربما خالف کوئی چیز نہیں ہے
امام ذھبی نے صدوق کہا ہے(الکاشف 255/2)
معلوم ہوا کہ مستلم بن سعید صدوق و حسن الحدیث تھے اور ان کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی رائے میں صدوق عابد کے مقابلے میں ربما وھم کا ہونا اور نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا جبکہ صدوق عابد کو چھپا کر ربما وھم کے تحت فتوی دینا کتمان مبین ہے

راقم اس سب پر کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ مستلم بن سعید کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن ثقہ کہہ کر محدث یہ نہیں کہتا کہ جو بھی  اس کی سند سے آئے اس کو قبول کر لیا جائے بلکہ متعدد ثقات کی منکر روایات کا علل کی کتب میں ذکر ہے

تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں ہے
قال عبّاس: وسمعت يزيد بن هارون يقول: كان مستلم عندنا ها هنا بواسط، وكان لا يشرب إلا في كلّ جمعة
يزيد بن هارون کہتے تھے یہ مستلم واسط میں ہمارے ساتھ تھا اور صرف جمعہ کے دن پانی پیتا تھا

وقال الحسن بن عليّ، عن يزيد بن هارون: مكث المستلم أربعين سنة لا يضع جنبه على الأرض
يزيد بن هارون نے کہا : چالیس سال تک اس نے پہلو زمین سے نہ لگایا
تالي تلخيص المتشابه از أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
الْحسن بن الْخلال حَدثنَا يزِيد بن هَارُون قَالَ مكث المستلم بن سعيد أَرْبَعِينَ سنة لَا يضع جنبه إِلَى الأَرْض قَالَ وسمعته يَقُول لم أشْرب المَاء مُنْذُ خَمْسَة وَأَرْبَعين يَوْمًا
يزِيد بن هَارُون کہتے ہیں میں نے المستلم بن سعيد کو کہتے سنا کہ میں نے ٤٥دن سے پانی نہیں پیا

اب جب یہ حال ہو تو اس کی روایت جائز نہیں ہے کیونکہ یہ سنت النبی پر عمل نہ کرتا تھا – انبیاء نے زمین پر آرام کیا ہے اور پانی پیا ہے
ایسا نہیں کہ صرف جمعہ کے دن پانی پیتے ہوں یا چالیس سال تک لیٹے نہ ہوں
اس قسم کے بدعتی اور حواس باختہ راویوں کا دفاع فرقوں کی جانب سے کیا جانا آنکھوں دیکھی مکھی کھانے کے ساتھ ساتھ اس مکھی کو لذیذ قرار دینے کے بھی مترادف ہے

مستلم کی اس حالت کو دیکھ کر سلیم الفطرت مسلمانوں کے ذہن میں جو مستلم کی شکل بنتی ہے وہ ایک ہندو سادھو والی ہے نہ کہ متقن راوی کی

امام شعبہ ، المستلم کے بارے میں کہتے تھے
ما كنت أظن ذاك يحفظ حديثين
یہ اس قابل بھی نہیں کہ دو حدیثین یاد رکھ سکے

امام ابن معین نے مستلم کوصویلح  قرار دیا ہے

تاريخ ابن معين (رواية عثمان الدارمي) ، المحقق: د. أحمد محمد نور سيف ، الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق میں ہے
امام ابن معین کے شاگرد عثمان الدارمي راوی محمد بن أبي حَفْصَة پر سوال کرتے ہیں تو امام ابن معین کہتے ہیں
قَالَ صُوَيْلِح لَيْسَ بِالْقَوِيّ
صُوَيْلِح ہے قوی نہیں ہے
اس سے معلوم ہوا کہ ابن معین کے نزدیک صُوَيْلِح وہ راوی ہے جو قوی نہیں ہے – اور ظاہر ہے غیر قوی راوی سے دلیل نہیں لی جا سکتی

سير أعلام النبلاء میں المُسْتَلِم بن سَعِيْدٍ کی ایک اور روایت کو بھی الذھبی نے منکر کہا ہے
قَرَأْنَا عَلَى عِيْسَى بنِ يَحْيَى، أَخبركُم مَنْصُوْرُ بنُ سَنَد، أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ السِّلَفِيُّ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ الحَافِظ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بنُ عَبْدِ اللهِ بن عُمَرَ الوَاعِظ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ العَسَّال، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ رُسْتَه، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ المُسْتَلِم بن سَعِيْدٍ، عَنِ الحَكَمِ بنِ أَبَانٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:
أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: (مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ يَنْظُرُ إِلَى وَالِدِهِ نَظْرَةَ رَحْمَةٍ إِلاَّ كَانَتْ لَهُ بِكُلِّ رَحْمَةٍ حَجَّةٌ مَبْرُوْرَةٌ) ، قِيْلَ: وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ مائَةُ رَحمَةٍ (1) ؟ قَالَ: (نَعَمْ، إِنَّ اللهَ أَطْيَبُ وَأَكْثَرُ (2)) .
هَذَا مُنْكَرٌ.

امام الذھبی اس کی منکر روایات کا مسلسل ذکر رہے ہیں – ان کا مدعا یہ رہا ہے کہ محض راوی کو ثقہ کہہ دینے سے اس کی تمام روایات قابل قبول نہیں ہیں اور جیسا ہم نے دیکھا کہ اس نے پانی تک نہیں پیا – اب جو پانی نہ پئے اس کی دماغی حالت کیا ہو گی – اس قسم کے جوگی کی روایت سن کر وجد میں آ جانے والے ملا قبروں پر دھمال ڈال رہے ہیں ، ہو ھا کی ضربیں لگا رہے ہیں لیکن ہم ان کے اس رقص قبور میں شامل نہ ہوں گے

کیا انسانی عدالتوں میں اس شخص کی گواہی معتبر ہے جس نے چالیس دن پانی نہ پیا ہو ، ہوش و حواس میں نہ ہو ؟ ظاہر ہے نہیں – جب ہم انسانی جھگڑوں کا فیصلہ اس قسم کے گواہ سے نہیں لیں گے تو پھر ایک مجذوب کے قول کو کیوں حدیث نبوی سمجھیں جس نے پانی کو چھ دن حرام کر لیا ہو اور ٤٠ سال لیٹ کر سویا   نہ ہو ؟

پھر اس نے زمین کو دبایا

وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا

قرآن سورہ فصلت میں ہے
قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْـفُرُوْنَ بِالَّـذِىْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِىْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَـهٝٓ اَنْدَادًا ۚ ذٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ (9)
کہہ دو کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھہراتے ہو، وہی سب جہانوں کا پروردگار ہے۔
وَجَعَلَ فِيْـهَا رَوَاسِىَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيْـهَا وَقَدَّرَ فِـيْـهَآ اَقْوَاتَـهَا فِىٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيْنَ (10)
اور اس نے (زمین میں) اوپر سے پہاڑ رکھے اور اس میں برکت ڈالی اور چار دن میں اس کی قوتوں کا تخمینہ کیا، (یہ جواب) پوچھنے والوں کے لیے پورا ہے۔
ثُـمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَـهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاۖ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَـآئِعِيْنَ (11)
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا پس اس کو اور زمین کو فرمایا کہ خوشی سے آؤ یا جبر سے، دونوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں۔
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَـمَاوَاتٍ فِىْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِىْ كُلِّ سَـمَآءٍ اَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الـدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ۚ ذٰلِكَ تَقْدِيْـرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِـيْـمِ (12)
پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا، اور ہم نے پہلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور اسے محفوظ بنایا، یہ زبردست جاننے والے کا کام ہے۔

ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ آسمان بنانے سے قبل اللہ تعالی نے زمین کو خلق کیا جس میں دو دن لگے
اس میں سطح پر پہاڑ بنائے گئے ، زمین کو برکت دی گئی اور اس کی قوتوں (اقوات) کا اندازہ لگایا گیا جس میں چار دن لگے

ابھی آسمان دھواں کی حالت میں تھا جب زمین پر اس کے پہاڑ بنا دیے گئے تھے اور کی قوت کا اندازہ لگایا گیا تھازمین پر ابھی نہریں نہیں ہیں

أقواتَها یہ قوت کی جمع ہے یعنی قوتیں اور اس سے مراد قوت ثقل و قوت مقناطیس وغیرھھم ہے ، غذا نہیں ہے

قرآن سورہ َالنَّازِعَاتِ میں ہے کہ آسمان کو جب بنا دیا گیا اور اس کو ایک چھت کی طرح بنا دیا گیا تو آسمان میں رات و صبح کو نکالا گیا
پھر زمین کا دح کیا

أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا (27) رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا (28) وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا (29) وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا (30) أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا (31) وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا (32) مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ
کیا تمہارا بنانا بڑی بات ہے یا آسمان کا جس کو ہم نے بنایا ہے۔
اس کی چھت بلند کی پھر اس کو سنوارا۔
اور اس کی رات اندھیری کی اور اس کے دن کو ظاہر کیا۔
اور اس کے بعد زمین کو دَحَ کیا ۔
اس سے اس کا پانی اور اس کا چارا نکالا۔
اور پہاڑوں کو خوب جما دیا۔
تمہارے لیے اور تمہارے چار پایوں کے لیے سامان حیات ہے۔

ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ زمین بن چکی تھی، اس کے پہاڑ بن چکے تھے ، پھر دھواں جیسے  آسمان کو سات آسمانوں  میں بدلا گیا ، سورج و چاند بنا دیے گئے
پھر زمین کا دَحَ ہوا جس سے نہریں نکلیں

دَحَ کا لفظ عربی میں زمین پر کسی چیز کو رکھ کر دبانے  کے لئے بولا جاتا ہے -كتاب العين از أبو عبد الرحمن الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) میں ہے
وهو أن تضع شيئاً على الأرض ثمَّ تَدُقُّه وتَدُسُّه حتّى يَلْزَقَ
کسی چیز کو زمین پر رکھ کر اس کو دبانا یہاں تک روندیں کہ وہ ٹوٹ کر بکھر جائے

معجم مقاييس اللغة از أحمد بن فارس بن زكرياء القزويني الرازي، أبو الحسين (المتوفى: 395هـ) المحقق: عبد السلام محمد هارون میں ہے
تَقُولُ الْعَرَبُ: دَحَحْتُ الْبَيْتَ وَغَيْرَهُ، إِذَا وَسَّعْتَهُ
عرب کہتے ہیں میں نے گھر کو دَحَحْتُ کیا یعنی اس کو وسعت دی

بعض مترجمین نے دَحَ سے مراد زمین کا پھیلانا لیا ہے البتہ راقم کے نزدیک  ایک ترجمہ دبانا بھی ہے

سائنسدانوں نے سیٹالائٹ کی مدد سے زمین کی کشش ثقل کو جانا ہے جس سے زمین کی بلا پانی والی شکل نکل کر سامنے آئی ہے اس کو اب جرمنی کے شہر

Potsdam

کے نام پر

پوٹس-ڈام  پوٹاتو
Potsdam gravity potato
یعنی
پوٹس-ڈام  کا آلو کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہر اس تحقیق کا مذکر تھا

زمین سے اگر اس کا تمام پانی بھاپ بن کر اڑا دیا جائے تو جو شکل بنے گی وہ کچھ یوں ہو گی

 

راقم سمجھتا ہے یہ زمین دح کی حالت میں اب نظر آ رہی ہے – زمین گول تھی لیکن جب اس کو اللہ تعالی نے دبایا تو اس کا ایک حصہ نکل کر باہر آ گیا اور زمین مکمل گول نہ رہی نہ بیضوی رہی بلکہ پچکی ہوئی شکل میں بدل گئی – اس  الوہی  عمل سے زمین میں موجود پانی نہروں کی صورت باہر  نکلا جو اس کے اندر تھا یہاں تک کہ سمندر وجود میں آ گئے

شمس العلوم ودواء كلام العرب من الكلوم از نشوان بن سعيد الحميرى اليمني (المتوفى: 573هـ) میں ابن عباس سے منسوب قول ہے

خلق اللہ الأرضَ قبل السماء فقدَّر فيها أقواتَها ولم يدحُها، ثم خلق السماء، ثم دحا الأرض بعدَها
اللہ نے زمین کو خلق کیا آسمان سے پہلے ،  اس (سے منسلک ) قوتوں کا اندازہ کیا لیکن زمین  کو دبایا نہیں ، پھر آسمان کو خلق کیا پھر زمین کو دبایا

و اللہ اعلم

فزکس کے مطابق اس طرح اگر کیا جائے کہ کرہ یا گول جسم کو دبایا جائے تو اس طرح اس کا مرکز کشش ثقل یا
center of gravity
اس کے مرکز سے ہٹ جاتا ہے

مذکورہ تحقیق کی وجہ یہی بات بنی تھی کہ سائنسدان جاننا چاہتے ہیں کہ آخر زمین پر کشش ثقل ہر مقام پر ایک کیوں نہیں اگر یہ گول

ہے- بہر حال یہ  ابھی تک ایک معمہ ہے

====================================================================

“And the earth, after that, He spread it out.” This is in the Quran, Surah Fussilat.

“Say, ‘Do you indeed disbelieve in He who created the earth in two days and attribute to Him equals? That is the Lord of the worlds.’ (9)
He set on the (earth), mountains standing firm, high above it, and bestowed blessings on the earth, and measured therein all things to give them nourishment in due proportion, in four Days, in accordance with (the needs of) those who seek (Sustenance). (10)
Then He turned to the heaven when it was smoke and said to it and to the earth, ‘Come [into being], willingly or by compulsion.’ They said, ‘We have come willingly.’ (11)
And He completed them as seven heavens within two days and inspired in each heaven its command. And We adorned the nearest heaven with lamps and as protection. That is the determination of the Exalted in Might, the Knowing. (12)”

These verses tell us that before creating the heavens, Allah created the earth, which took two days. Mountains were formed on its surface, the earth was blessed, and its powers (forces) were estimated, which took four days. The heavens were still in a state of smoke when the mountains on the earth were formed and its powers were estimated. There are no rivers on the earth yet.

The term “أقواتَها” is the plural of power, meaning powers, and it refers to gravitational force, magnetic force, etc., not food.

In Surah An-Nazi’at of the Quran, it is mentioned that when the heavens were created and made like a roof, night and day were brought out in the heavens. Then the earth was spread out.

“Are you a more difficult creation or is the heaven? Allah constructed it. (27)
He raised its ceiling and proportioned it. (28)
And He darkened its night and extracted its brightness. (29)
And after that He spread the earth. (30)
He extracted from it its water and its pasture, (31)
And the mountains He set firmly (32)
As provision for you and your grazing livestock.”

From these verses, it is known that the earth was created, its mountains were formed, then the heavens were transformed into seven heavens, the sun and the moon were created. Then the earth was spread out from which rivers emerged.

The term “دَحَ” in Arabic is used to press something on the ground – “كتاب العين” by Abu Abd al-Rahman al-Khalil bin Ahmad bin Amr bin Tamim al-Farahidi al-Basri (died: 170 AH).

“And it is that you put something on the ground, then you press it and trample it until it sticks.”

Some translators have taken the meaning of “دَحَ” to spread, however, this author also translates it as pressing.

Scientists have known the gravitational pull of the earth with the help of satellites, from which the shape of the earth without water has emerged. It is called the “Potsdam gravity potato” named after the city of Potsdam, Germany, because this city was mentioned in this research.

If all the water from the earth is evaporated, the shape that will be formed will be something like this:

Author believes that the earth is now appearing in the state of “دَحَ”. The earth was spherical, but when Allah pressed it, a part of it came out and the earth was no longer completely spherical, it changed into a squeezed shape – from this divine process, the

water present in the earth came out in the form of rivers, which were inside it, to the extent that seas came into existence.

“دَحَ” in Arabic is used to press something on the ground – “كتاب العين” by Abu Abd al-Rahman al-Khalil bin Ahmad bin Amr bin Tamim al-Farahidi al-Basri (died: 170 AH).

“And it is that you put something on the ground, then you press it and trample it until it sticks.”

Some translators have taken the meaning of “دَحَ” to spread, however, Raqam also translates it as pressing.

Scientists have known the gravitational pull of the earth with the help of satellites, from which the shape of the earth without water has emerged. It is called the “Potsdam gravity potato” named after the city of Potsdam, Germany, because this city was mentioned in this research.

If all the water from the earth is evaporated, the shape that will be formed will be something like this:

Author believes that the earth is now appearing in the state of “دَحَ”. The earth was spherical, but when Allah pressed it, a part of it came out and the earth was no longer completely spherical, it changed into a squeezed shape – from this divine process, the water present in the earth came out in the form of rivers, which were inside it, to the extent that seas came into existence.

According to physics, if a sphere or spherical body is pressed in this way, its center of gravity or “center of gravity” moves away from its center.

The reason for the mentioned research was that scientists wanted to know why the gravitational pull on the earth is not the same everywhere if it is spherical – however, this is still a mystery.

And Allah knows best.

بیت المقدس کی ایک حدیث

قصہ مختصر
حدیث رسول ہے کہ میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا اس کو زوال نہ ہو گا حتی کہ اللہ کا امر آئے
اس حدیث میں لاحقے لگائے گئے – بعض راویوں نے اضافہ کیا کہ اہل شام و اہل بیت المقدس غالب رہیں گے – آج کل کے فلسطین کے  سیاسی حالات میں اس موضوع اضافہ کا ذکر پھر شروع ہو چلا ہے – قابل غور ہے کہ شام و ارض مقدس  پر صلیبی نصرانی، یہودی ، نصیری ادیان  کو اللہ نے غالب کیا اور مسلمانوں کو آزمائش میں ڈالا ان کو ملغوب کیا – اس طرح ہم کو بتایا گیا کہ یہ حدیث صحیح تھی لیکن اس حدیث کا تعلق شروع کے صرف بارہ خلفاء سے تھا اور امر اللہ یعنی اللہ  کے حکم سے مراد  مسلمانوں کے زوال کا حکم تھا

مسند احمد  میں عبد اللہ بن احمد  کا اضافہ ہے ح ٢٢٣٢٠  میں ہے

 قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ: حَدَّثَنِي مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ السَّيْبَانِيِّ (4) وَاسْمُهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:    لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الدِّينِ ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأْوَاءَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ   . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَأَيْنَ هُمْ؟ قَالَ:    بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ

أَبِي أُمَامَةَ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے فرمایا  میری امت میں ایک گروہ رہے گا جو اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا ، ان پر غالب رہے گا ، اس کو مخالف  نقصان نہ دے سکیں گے سوائے اس کے کہ جو ان کو غم ملے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے اور وہ اسی صورت حال میں رہیں گے  – ہم نے کہا   یا رسول  اللہ یہ کہاں

ہیں ؟  فرمایا بیت المقدس میں اور اس کے مضافات میںسند میں   عمرو بن عبد الله السَّيْباني الحضرمي  مجہول ہے

مجمع الزوائد  میں ہیثمی  نے کہا

وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ

اس کے رجال  ثقات ہیں

اس کی وجہ یہ ہے کہ عجلی اور ابن حبان نے مجہول کو بھی ثقہ قرار دیا ہے  – اس طرح اس روایت کو قبول کرنے والے  کی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے  جبکہ یہ متن صحیح نہیں

 قال الذهبي في   الميزان  : ما علمت روى عنه سوى يحيى بن أبي عمرو.

وقال في   الديوان  : مجهول.

وقال في   المغني  : لا يعرف.

قال الذهبي في   ديوان الضعفاء   (رقم: 3188)   تابعيٌّ مجهولٌ

بعض کتاب میں اس قسم کا متن  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ہے –  أبو يعلى والطبراني في الأوسط  میں  أبي هريرة رضي الله عنه سے منسوب ہے

حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ دِمَشْقَ، وَمَا حَوْلَهُ وَعَلَى أَبْوَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ، لَا يَضُرُّهُمْ خُذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ»

طبرانی نے لکھا ہے

 لم يروه عن عامر الأحول إلا الوليد بن عباد، تفرد به إسماعيل بن عياش. وقال ابن عدي: وهذا الحديث بهذا اللفظ ليس يرويه غير ابن عياش عن الوليد بن عباد

سند میں الوليد بن عباد  مجہول ہے –  الهيثمي نے اس کو  رجاله ثقات   المجمع 10/ 60 – 61 بول دیا ہے جبکہ اسی کتاب میں دوسرے مقام پر  ایک دوسری حدیث پر کہا  وفيه الوليد بن عباد وهو مجهول   المجمع 7/ 288 یہ مجہول ہے  -اسی طرح يعقوب بن سفيان کی کتاب   المعرفة   (2/ 298) میں طرق  ہے

عن محمد بن عبد العزيز الرَّمْلي ثنا عباد بن عباد أبو عتبة عن أبي زرعة عن أبي وعلة -شيخ من عك– قال: قدم علينا كريب من مصر يريد معاوية، فزرناه، فقال: ما أدري عدد ما حدثني مُرّة البهزي في خلاء وفي جماعة أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول:   لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من ناوأهم، وهم كالإناء بين الأكلة حتى يأتي أمر الله عز وجل وهم كذلك

فقلنا: يا رسول الله، من هم؟ وأين هم؟ قال:   بأكناف بيت المقدس

طبرانی اور تاریخ دمشق از ابن عساکر میں ہے

أنا أبو بكر محمد بن عبد الله بن ريذة (4) أنا أبو القاسم سليمان بن أحمد الطبراني نا حصين بن وهب الأرسوفي نا زكريا بن نافع الأرسوفي نا عباد بن عباد الرملي عن أبي زرعة السيباني عن أبي زرعة الوعلاني عن كريب السحولي حدثني مرة البهزي أنه سمع رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من ناوأهم وهم كالأناس (5) الآكلة حتى يأتي أمر الله وهم كذلك قلنا يا رسول الله وأين هم قال بأكناف بيت المقدس

اس طرق میں  یہ متن  أبو وعلة یا  أبي زرعة الوعلاني کی سند سے ہے – یہ بھی مجہول ہے

اس طرح یہ تمام طرق  ضعیف ہیں  البتہ فلسطین کے   عرب ان کو پیش کر کے دعوی کرتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی علمی گروہ نہیں بلکہ محض  بیت المقدس میں رہنے والے  عرب ہیں جو کسی بھی فرقے کے ہو سکتے ہیں

یہ روایت ضعیف  و شامی  مجہولین کی روایت کردہ ہیں

===================
مزید تفصیل کے لئے کتاب بلا عنوان دیکھیں

194 Downloads

‎‏ خواب میں دیدار مصطفی

قصہ مختصر
خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے تمام فرقے قائل ہیں – ہر فرقے کے علماء کے خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں کہ وہی حق پر ہیں – اس طرح گمراہ فرقوں میں ہر ایک کو داد و تحسین مل جاتی ہے یہاں تک کہ دجال و مدعی نبوت بھی خواب میں رسول اللہ کو دیکھ کر دعوی کرتا ہے کہ اس کو بشارت ملی ہے – خواب میں بعض علماء نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درس صحیح البخاری بھی لیتے ہیں اور محدثین بتاتے ہیں جن احادیث کی صحت پر شک ہو ان کی تصحیح کے حوالے سے بات چیت بھی ہوتی ہے – بعض علماء مثلا علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ خواب کے بعد اب وہ بیداری میں بھی رسول اللہ سے ملاقات کرتے ہیں – اس طرح رسول اللہ نہ صرف خواب بلکہ اس کے علاوہ بھی ظاہر ہو جاتے ہیں
راقم کہتا ہے یہ سب فراڈ ہے اور ابلیس کا دھوکہ ہے جس میں یہ مبتلا ہوئے – آپ مت ہوں –

237 Downloads

اس کتاب میں دیدار  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات  جمع کی گئی ہیں  جن کو دلیل مان  کر دعوی کیا جاتا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ  وسلم کو   خواب  میں  دیکھا جا سکتا ہے – تحقیق  سے اس کا عکس ثابت  ہوتا ہے اور کوئی بھی صحیح السند روایت نہیں ملتی جن میں   خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے   کا ذکر ہو –  اس کتاب میں  اس  موضوع   پر بہت سی  ضعیف روایات  جمع کی گئی  ہیں  – بعض  فرقوں  کا دعوی  ہے کہ   روایت میں  رانی    (مجھے دیکھا )   کے الفاظ ہیں   اور بیداری میں بھی  رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کو دیکھا جا سکتا  ہے  اور آپ   صلی  اللہ علیہ  وسلم  زمین میں کہیں  بھی   آ سکتے ہیں  یہاں تک کہ مسلمانوں  کی جنگوں میں   بھی  بعد  وفات  شرکت فرماتے ہیں –   یہ تمام  باطل  اقوال  و موقف ہیں

سامری کا مذھب ٣

قصہ مختصر
سامری نے نبی اسرائیلیوں سے دھات کے زیور لے کر ایک بچھڑے کی مورت بنائی جس میں سے آواز نکلتی تھی – قرن اول میں اس پر ابن عباس کے بعض شاگردوں نے سامری کے حوالے سے ایک عجیب قصہ بیان کیا کہ سامری کو اللہ تعالی نے بچایا جب ال فرعون بنی اسرائیل کو قتل کر رہے تھے اور جبریل نے سامری کی مدد کی – سامری بچین سے جبریل کو پہچانتا تھا لہذا جب اس نے جبریل کو سمندر پھٹنے پر دیکھا تو ان کے قدم کی مٹی لی اور اس کو بت گری میں شامل کیا – معجزھ ہوا اور بچھڑا بولنے لگا
راقم کہتا ہے یہ اسرائیلیات کی خبر ہے جو ابن جریج اور الكلبي نے ابن عباس سے منسوب کر دی ہے

قرآن سورہ طہ میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي

اس آیت کی قرات میں اختلاف بھی ہے – برواية خلف عن حَمْزَةُ و برواية َالْكِسَائِيُّ و برواية َالْأَعْمَشُ وَ برواية خَلَفٌ نے اس آیت کی قرات اس طرح کی
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ تَبْصُرُوا بہ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو تم نے نہیں دیکھا

اور رواية قالون، رواية ورش اور عاصم کی قرات میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو انہوں نے نہیں دیکھا

قرطبی نے سورہ طہ کی اس آیت کی شرح میں لکھا
وَيُقَالُ: إِنَّ أُمَّ السَّامِرِيِّ جَعَلَتْهُ حِينَ وَضَعَتْهُ فِي غَارٍ خوفا
مِنْ أَنْ يَقْتُلَهُ فِرْعَوْنُ، فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَجَعَلَ كَفَّ السَّامِرِيِّ فِي فَمِ السَّامِرِيِّ، فَرَضَعَ الْعَسَلَ وَاللَّبَنَ فَاخْتَلَفَ إِلَيْهِ فَعَرَفَهُ مِنْ حِينِئِذٍ

کہا جاتا ہے کہ سامری کی ماں نے اس کو ایک غار میں چھوڑ دیا جب اس کو جنا کہ کہیں فرعون اس کو قتل نہ کر دے پس جبریل علیہ السلام آئے اور اس کو دودھ اور شہد سے پالا – پس سامری خروج مصر کے وقت جبریل کو پہچان گیا

اسی طرح ایک اور قصہ ذکر کیا
وَيُقَالُ: إِنَّ السَّامِرِيَّ سَمِعَ كَلَامَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، حَيْثُ عَمِلَ تِمْثَالَيْنِ مِنْ شَمْعٍ أَحَدُهُمَا ثَوْرٌ وَالْآخَرُ فَرَسٌ فَأَلْقَاهُمَا فِي النِّيلِ طَلَبَ قَبْرَ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَكَانَ فِي تَابُوتٍ مِنْ حَجَرٍ فِي النِّيلِ فَأَتَى بِهِ الثَّوْرُ عَلَى قَرْنِهِ
سامری نے موسی کا کلام سنا جب وہ ایک بیل اور گھوڑے کا بت بنا رہا تھا
اس نے ان بتوں کو نیل میں ڈالا اور بیل کا بت یوسف کے پتھر کے تابوت کو سر پر اٹھائے نیل میں سے نکل آیا

السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير از شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) میں ہے
فقال ابن عباس في رواية الكلبي: إنما عرفه لأنه رباه في صغره، وحفظه من القتل حين أمر فرعون بذبح أولاد بني إسرائيل، فكانت المرأة إذا ولدت طرحت ولدها حيث لا يشعر به آل فرعون، فتأخذ الملائكة الولدان ويربونهم حتى يترعرعوا ويختلطوا بالناس، فكان السامري ممن أخذه جبريل عليه السلام، وجعل كف نفسه في فيه، وارتضع منه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فلما رآه عرفه؛ قال ابن جريح: فعلى هذا قوله: بصرت بما لم يبصروا به يعني: رأيت ما لم يروه.
کلبی کی ابن عباس سے روایت ہے کہ سامری ، جبریل کو بچپن سے جانتا تھا کیونکہ جبریل نے اس کو پالا تھا اور اس کو فرعون کے قتل سے بچایا تھا جب اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر دیا جائے – عورتیں اپنے بچوں کو پھینک دیتی تھیں کہ کہیں ال فرعون دیکھ کر قتل نہ کر دیں ، ان بچوں کو فرشتے لے جاتے اور ان کو پالتے حتی کہ یہ بڑے ہوتے اور اور لوگوں میں مل جاتے – سامری ان بچوں میں سے تھا جن کو جبریل نے پالا اور اس کو دودھ و شہد پلایا پس سامری نے ان کو پہچاننا نہ چھوڑا اور جب (خروج مصر پر ) دیکھا تب پہچان گیا
ابن جریج نے کہا پس اس کا ذکر اس قول تعالی میں ہے کہ سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو دوسروں نے نہ دیکھا

تفسیر طبری میں ہے
حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جُرَيج، قال: لما قتل فرعون الولدان قالت أمّ السامريّ: لو نحيته عني حتى لا أراه، ولا أدري قتله، فجعلته في غار، فأتى جبرائيل، فجعل كفّ نفسه في فيه، فجعل يُرضعه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فمن ثم معرفته إياه حين قال: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ)

الْحُسَيْنُ بْنَ داود (لقب سنيد ) نے حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ سے روایت کیا ہے اور انہوں نے ابن جریج سے روایت کیا –

الحسين بن داود کو سُنَيد بن داود بھی سندوں میں کہا جاتا ہے – ان پر نسائي کا قول ہے : ليس بثقة یہ ثقہ نہیں ہے
خطیب بغدادی کا قول ہے
قُلْتُ لا أعلم أي شيء غمصوا عَلَى سنيد، وقد رأيت الأكابر من أهل العلم رووا عنه، واحتجوا به، ولم أسمع عنهم فيه إِلا الخير، وقد كَانَ سنيد لَهُ معرفة بالحديث، وضبط لَهُ، فالله أعلم.
وذكره أَبُو حاتم الرَّازِيّ فِي جملة شيوخه الذين روى عنهم، وَقَالَ: بغدادي صدوق
ان کی حدیث قابل دلیل ہے اور ابو حاتم رازی کے شیوخ میں سے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ صدوق ہیں

ابن سعد نے طبقات میں حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ پر ذکر کیا
وكان ثقة كثير الحديث عن ابن جريج
یہ ثقہ ہیں اور ابن جریج سے اکثر احادیث روایت کرتے ہیں

حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ مختلط بھی ہوئے لیکن معلوم نہیں کہ سنید نے کس دور میں ان سے سنا

ابن جریج کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے لہذا اس روایت کی سند معضل یعنی ٹوٹی ہوئی ہے – البتہ جو معلوم ہوا وہ یہ کہ ابن جریج اس قصے کو لوگوں کو سناتے تھے اور کسی مقام پر ان سے اس قصے کا رد منقول نہیں ہے

دوسرا قصہ جو سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے اس کے مطابق سامری بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ
سامری گائے کی عبادت کرتا تھا اور بنی اسرائیل کی طرف سے مجاورت کرتا تھا اور یہ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
سند میں أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة- دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ مختلف فیہ راوی ہے

ان قصوں کو اس طرح ابن عباس سے منسوب کیا گیا ہے

آغاز الوحی کی ایک روایت

قصہ مختصر
غامدی صاحب نے ذکر کیا کہ ان کے نزدیک سورہ علق و سورہ مدثر پہلی سورتیں نہیں – پھر آغاز الوحی والی صحیح بخاری کی امام الزہری والی روایت پر جرح کی اور بتایا کہ وہ ان کو پسند نہیں- پھر اپنی پسندیدہ روایت سیرت ابن اسحاق (جو امام مالک فرماتے ہیں دجال ہے ) سے پیش کی جس میں ذکر کیا کہ آغاز الوحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے کٹم و خاندان کو لے کر غار حرا میں جاتے ، نیچے مسکین ہوتے ان کو انفاق کرتے وغیرہ – راقم کہتا ہے اس سے ظاہر ہوا کہ نہ تو ابن اسحاق نے غاز حرا دیکھا نہ غامدی صاحب نے کہ اس میں چار جوان سال لڑکیوں اور بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نہیں رہا جا سکتا کیونکہ وہ نہایت مختصر غار ہے بمشکل صرف ایک مرد وہاں بیٹھ سکتا ہے – ابھی غور ہی کر رہے تھے کہ غامدی صاحب نے انکشاف کیا کہ یہ روایت بھی صحیح نہیں کیونکہ اس میں سورہ علق کو پہلی الوحی کہہ دیا گیا ہے – پھر بتایا کہ سورہ مدثر کے مضامین تند و تیز ہیں وہ بھی پہلی الوحی نہیں
راقم نے بھی کچھ  تھوڑا بہت غور کیا جو پیش خدمت ہے

قرآن میں ہے
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (52)
أور إس طرح روح (امر الوحی ) ہم نے تمہاری طرف الوحی کی ، تم نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے ایمان کیا ہے

اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول بننے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلق کتاب اللہ کا کوئی علم نہ تھا

اس کے بر خلاف سیرت ابن اسحاق میں ہے
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ [1] ، مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ. قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَهُوَ يَقُولُ لِعُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ: حَدِّثْنَا يَا عُبَيْدُ، كَيْفَ كَانَ بَدْءُ مَا اُبْتُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ النُّبُوَّةِ، حِينَ جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ؟ قَالَ: فَقَالَ: عُبَيْدٌ- وَأَنَا حَاضِرٌ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ ابْن الزُّبَيْرِ وَمَنْ عِنْدَهُ مِنْ النَّاسِ-: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ [2] فِي حِرَاءٍ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ شَهْرًا، وَكَانَ ذَلِكَ مِمَّا تَحَنَّثَ بِهِ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّة. والتحنث التبرّر.
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَقَالَ أَبُو طَالِبٍ:
وَثَوْرٍ وَمَنْ أَرْسَى ثَبِيرًا مَكَانَهُ … وَرَاقٍ لِيَرْقَى فِي حِرَاءٍ وَنَازِلِ

ابن اسحاق نے کہا مجھ سے وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْر نے بیان کیا کہ انہوں نے عبد اللہ بن زبیر سے سنا جو کہتے تھے کہ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ سے پوچھا
اے عبید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الوحی کا آغاز کس طرح ہوا جب ان پر جبریل آئے ؟
عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ نے کہا میں حاضر تھا اور عبد اللہ بن زبیر نے بیان کیا جب لوگ بھی تھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال میں ایک ماہ کے لئے حرا میں رہتے تھے اور وہاں جیسا قریش جاہلیت میں کرتے وہی تَحَنَّثَ کرتے

نوٹ : اس روایت میں اعتکاف کا کوئی ذکر نہیں ہے – یجآور کا مطلب کسی جگہ رکنا ہے اسی سے مجاورت کا لفظ نکلا ہے

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ قَالَ: قَالَ عُبَيْدٌ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ ذَلِكَ الشَّهْرَ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ، يُطْعِمُ مَنْ جَاءَهُ مِنْ الْمَسَاكِينِ، فَإِذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِوَارَهُ مِنْ شَهْرِهِ ذَلِكَ، كَانَ أَوَّلُ مَا يَبْدَأُ بِهِ، إذَا انْصَرَفَ مِنْ جِوَارِهِ، الْكَعْبَةَ، قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ، فَيَطُوفُ بِهَا سَبْعًا أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إلَى بَيْتِهِ، حَتَّى إذَا كَانَ الشَّهْرُ الَّذِي أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ فِيهِ مَا أَرَادَ مِنْ كَرَامَتِهِ، مِنْ السّنة الَّتِي بَعثه اللَّهُ تَعَالَى فِيهَا، وَذَلِكَ الشَّهْرُ (شَهْرُ) [2] رَمَضَانَ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى حِرَاءٍ، كَمَا كَانَ يَخْرُجُ لِجِوَارِهِ وَمَعَهُ أَهْلُهُ، حَتَّى إذَا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَكْرَمَهُ اللَّهُ فِيهَا بِرِسَالَتِهِ، وَرَحِمَ الْعِبَادَ بِهَا، جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِأَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ، وَأَنَا نَائِمٌ، بِنَمَطٍ [3] مِنْ دِيبَاجٍ فِيهِ كِتَابٌ [4] ، فَقَالَ اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَقْرَأُ [5] ؟ قَالَ: فَغَتَّنِي [6] بِهِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ الْمَوْتُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَقْرَأُ؟ قَالَ: فَغَتَّنِي بِهِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ الْمَوْتُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَاذَا أَقْرَأُ؟ قَالَ: فَغَتَّنِي بِهِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ الْمَوْتُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي [1] ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَاذَا أَقْرَأُ؟ مَا أَقُولُ ذَلِكَ إلَّا افْتِدَاءً مِنْهُ أَنْ يَعُودَ لِي بِمِثْلِ مَا صَنَعَ بِي، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنْسانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ 96: 1- 5. قَالَ: فَقَرَأْتهَا ثُمَّ انْتَهَى فَانْصَرَفَ عَنِّي وَهَبَبْتُ مِنْ [2] نَوْمِي، فَكَأَنَّمَا كَتَبْتُ فِي قَلْبِي كِتَابًا. قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتَّى إذَا كُنْتُ فِي وَسَطٍ مِنْ الْجَبَلِ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَاءِ يَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا جِبْرِيلُ، قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي إلَى السَّمَاءِ أَنْظُرُ، فَإِذَا جِبْرِيلُ فِي صُورَةِ رَجُلٍ صَافٍّ قَدَمَيْهِ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ يَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا جِبْرِيلُ. قَالَ: فَوَقَفْتُ أَنْظُرُ إلَيْهِ فَمَا أَتَقَدَّمُ وَمَا أَتَأَخَّرُ، وَجَعَلْتُ أَصْرِفُ وَجْهِي عَنْهُ فِي آفَاقِ السَّمَاءِ، قَالَ: فَلَا أَنْظُرُ فِي نَاحِيَةٍ مِنْهَا إلَّا رَأَيْتُهُ كَذَلِكَ، فَمَا زِلْتُ وَاقِفًا مَا أَتَقَدَّمُ أَمَامِي وَمَا أَرْجِعُ وَرَائِي حَتَّى بَعَثَتْ خَدِيجَةُ رُسُلَهَا فِي طَلَبِي، فَبَلَغُوا أَعْلَى مَكَّةَ وَرَجَعُوا إلَيْهَا وَأَنَا وَاقِفٌ فِي مَكَانِي ذَلِكَ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنِّي

ابن اسحاق نے کہا کہ وھب بن کیسان نے بیان کیا کہ عبید نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ رکتے ایک ماہ تک ہر سال اور جو مسکین اتا اس کو کھانا دیتے جب یہ مکمل ہو جاتا تو سب سے پہلے واپس کعبہ جاتے ، گھر میں جانے سے پہلے طواف کرتے سات بار یا جو اللہ چاہتا پھر گھر جاتے حتی کہ جب وہ ماہ آیا جس میں اللہ نے چاہا کہ آپ کی کرامت ہو اس سال اور ماہ میں جو رمضان کا تھا تو رسول اللہ غار حرا کے لئے گئے اور آپ کے گھر والے آپ کے ساتھ تھے … پس جبریل آئے اللہ کا حکم لے کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سو رہا تھا تو جبریل دیباج میں ایک جز دان تھا جس میں کتاب تھی اور کہا پڑھو – میں نے کہا : میں نہیں پڑھ سکتا ؟ پس مجھے بھینچا حتی کہ مجھے گمان ہوا کہ یہ موت ہے پھر چھوڑ دیا
کہا پڑھو – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پڑھوں ؟ …. جبریل چلے گئے اور میری آنکھ کھل گئی اور  تحریر دل پر نقش ہو گئیں

اس کی سند منقطع ہے
عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ سے لے کر آگے تک سند نہیں ہے

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے
عبيد بن عمير ذكر البخاري أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم وذكره مسلم فيمن ولد على عهده يعني ولا رؤية له وهو معدود من التابعين فحديثه مرسل
عبيد بن عمير کے لئے امام بخاری نے کہا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور امام مسلم نے ذکر کیا کہ یہ دور نبوی میں پیدا ہوا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا

واضح رہے کہ عبید بن عمیر نے رسول اللہ سے نہیں سنا

یہ روایت حقائق پر نہیں اترتی کیونکہ اس میں ہے کہ غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کو لے کر جاتے تھے
جبکہ غار حرا نہایت مختصر سی جگہ ہے جس میں بمشکل ایک وقت میں ایک ہی شخص آ سکتا ہے
دوم غار مکہ سے باہر بیابان میں ہے اور یہ ممکن نہیں کہ گھر والوں کو وہاں لے کر ایک ماہ تک رکا جائے

غامدی صاحب کے بقول غار حرا میں عبد المطلب بھی تحنث کرتے تھے جبکہ یہ سیرت ابن اسحاق میں نہیں اور اس روایت سے غامدی صاحب نے طے کیا کہ قرآن کی آیات ، پیغمبری کا منصب ملنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھوائی گئیں – یہ سب تمثیلی واقعہ تھا

ابن اسحق کی روایت میں ہے کہ خواب سے آنکھ کھل گئی اور رسول اللہ غار حرا سے اتر کر نیچے جا رہے تھے یہاں تک کہ پہاڑ کے بیچ میں تھے
تو جبریل نے کہا تم رسول اللہ ہو

صحیح بخاری کے مطابق غار حرا کے واقعہ کے بعد ایک عرصہ تک الوحی نہ آئی اور دور فترت رہا

ابن اسحق کی روایت کے تحت قرانی الوحی ، ایک غیر نبی پر خواب میں پہلے آ رہی ہے
یہ اس روایت کی منکرات میں سے ہے
قرآن یا کتاب اللہ کی بھی کوئی آیت خواب میں نہیں آ سکتی کیونکہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی نہیں تھے

علم حدیث میں  ابن اسحاق دجال کے  طور پر بھی یاد کیے جاتے ہیں اور  یہ لقب امام مالک نے ان کو  دیا ہے

صحیح ابن حبان اور صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ: أَيُّ القُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ؟ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ} [المدثر: 1]، فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1]، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ القُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ؟ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ} [المدثر: 1] فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1]، فَقَالَ: لاَ أُخْبِرُكَ إِلَّا بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” جَاوَرْتُ فِي حِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَاسْتَبْطَنْتُ الوَادِيَ فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي، وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، وَأُنْزِلَ عَلَيَّ: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ} [المدثر: 2] يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ نے ابو سلمہ سے سوال کیا کہ قرآن میں سب سے پہلے کیا نازل ہو ؟ ابو سلمہ نے کہا {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ} [المدثر: 1]، یحیی نے کہا مجھ کو خبر ملی کہ {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1] نازل ہوئی پس ابو سلمہ نے کہا جابر بن عبد اللہ سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا میں وہ کہتا جو میں نے رسول اللہ سے سنا کہ میں حرا میں رکا ہوا تھا جب یہ ختم ہوا تو وہاں سے اترا یہاں تک کہ وادی میں آ گیا کہ آواز سنی ، دائیں بائیں دیکھا کہ فرشتہ ایک کرسی پر ہے زمین و آسمان کے درمیان
پس میں خدیجہ کے پاس پہنچا اور کہا مجھ کو اڑا دو اور ٹھنڈا پانی ڈالو پس نازل ہوا
{يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: فِي خَبَرِ جَابِرٍ هَذَا: إِنَّ أَوَّلَ مَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ: {يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ} [المدثر: 1]، وَفِي خَبَرِ عَائِشَةَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} [العلق: 1]، وَلَيْسَ بَيْنَ هَذَيْنِ الْخَبَرَيْنِ تَضَادٌّ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْزَلَ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} [العلق: 1] وَهُوَ فِي الْغَارِ بِحِرَاءَ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ دَثَّرَتْهُ خَدِيجَةُ وَصَبَّتْ عَلَيْهِ الْمَاءَ الْبَارِدَ، وَأُنْزِلَ عَلَيْهِ فِي بَيْتِ خَدِيجَةَ: {يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ} [المدثر: 1] مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْخَبَرَيْنِ تَهَاتُرٌ أَوْ تَضَادٌّ
ابن حبان نے کہا جابر کی حدیث میں ہے سورہ مدثر نازل ہوئی اور عائشہ نے کہا {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} [العلق: 1] اور دونوں میں تضاد نہیں ہے
پہلے غار میں اقرا نازل ہوئی اور بعد میں سورہ مدثر

مسند احمد میں ہے
جَاوَرْتُ بِحِرَاءَ شَهْرًا، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي، نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي
میں ایک ماہ حرا میں رکا وہاں جب رکنا ختم کیا میں اترا اور بطن وادی میں آ گیا

صحیح مسلم میں ہے
وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيَّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ
امام زہری نے خبر دی کہ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کیا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا اور وہ فترت الوحی کی بات کر رہے تھے

غور طلب ہے کہ یہاں سند میں امام زہری ہیں اور امام زہری کے نزدیک سورہ مدثر پہلی سورت نہیں ہے

غامدی صاحب کے نزدیک  اغازالوحی کی صحیح بخاری والی  روایت ، سیرت ابن اسحاق کی روایت  دونوں صحیح نہیں کیونکہ ان میں سورہ علق یا سورہ مدثر کو پہلی الوحی کہا گیا ہے اور ان کا ذہن کہتا  ہے یہ دونوں سورتیں پہلی الوحی نہیں کیونکہ ان سورتوں کے مضامین تند و تیز ہیں

راقم کہتا ہے کہ جس نے بھی آغاز الوحی کی روایات کا ذکر کیا محض ان دو سورتوں کا ہی کیا ہے

ابن اسحاق کو عادت ہے کہ وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے رشتہ داروں کے نام سے جھوٹ بولتا ہے
ابن اسحاق کو دجال اغلبا ان وجوہات کی بنا پر کہا گیا ہے کیونکہ اس نے روایت کیا
اول وفات النبی پر عائشہ رضی الله عنہا نے ماتم کیا
دوم قرآن کی آیات بکری کھا گئی
سوم نبی  علیہ السلام کی تدفین بدھ کی رات میں ہوئی
چہارم وفات النبی  کے وقت ام المومنین عائشہ نہیں ، ام المومنین صفیہ رضی الله عنہا پاس تھیں ‏
پنجم ام المومنین عائشہ ، معراج کو خواب کہتی تھیں

معلوم ہے کہ یہ تمام جھوٹ ہیں جو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بولے گئے ہیں  کیونکہ صحیح اسناد سے اس کے خلاف معلوم ہے

 

===========================================================================

 

“In the Quran, it is said:
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (52)
And thus We have inspired unto you (Muhammad) a Spirit of Our command. You knew not what the Scripture was, nor faith, but We have made it a light whereby We guide whom We will of Our servants. And indeed, you guide to a straight path.”

This verse reveals that before becoming a prophet, the Messenger of Allah, peace be upon him, had absolutely no knowledge of the book of Allah.

Contrary to this, in the biography by Ibn Ishaq, it is stated:
Ibn Ishaq said: Wahb ibn Kaysan, the freed slave of the family of Zubayr, told me that he heard Abdullah ibn Zubayr saying to Ubayd ibn Umayr ibn Qatadah al-Laythi: “Tell us, O Ubayd, how did the prophecy begin with the Messenger of Allah, peace be upon him, when Gabriel, peace be upon him, came to him?” Ubayd said: “I was present and Abdullah ibn Zubayr narrated in the presence of people that the Messenger of Allah, peace be upon him, would spend a month every year in seclusion in Hira, following the pre-Islamic practice of Tahannuth, as practiced by Quraysh.”

Note: This narration does not mention I’tikaf. The word يُجَاوِرُ means to stay at a place, from which the term ‘Mujawir’ is derived.

Ibn Ishaq said that Ubayd mentioned: “The Messenger of Allah, peace be upon him, would seclude himself for that month every year, feeding any needy who came to him. When he completed his seclusion, the first thing he would do, before entering his house, was to visit the Kaaba and perform Tawaf around it seven times or as Allah willed, and then return to his home. Until the month came in which Allah intended to bestow His grace upon him, in the year he was chosen by Allah, which was the month of Ramadan, the Messenger of Allah went to Hira as he used to do for his seclusion along with his family, until the night Allah honored him with His message and showed mercy to His servants, Gabriel came with Allah’s command…”

This narration’s chain of transmission is disconnected, as there is no link from Ubayd ibn Umayr onwards.

In “Jami’ al-Tahsil fi Ahkam al-Marasil” by Salah al-Din Abu Sa’id Khalil ibn Kaykaldi ibn Abdullah al-Dimashqi al-Alai (died 761H), it is mentioned that Ubayd ibn Umayr is considered by Bukhari to have seen the Prophet, and by Muslim as being born during his time, meaning he did not see him, and is counted among the Tabi’un, thus his hadiths are Mursal (disconnected).

It should be clear that Ubayd ibn Umayr did not hear from the Messenger of Allah.

This narration does not conform to reality because it mentions the Messenger of Allah, peace be upon him, taking his family to Hira Cave. However, Hira is a very small place, barely big enough for one person at a time, located outside Mecca in the wilderness. It is not feasible that he stayed there with his family for a month.

According to Ghamidi, Abd al-Muttalib also practiced Tahannuth in Hira, which is not mentioned in Ibn Ishaq’s biography. From this narration, Ghamidi concluded that the verses of the Quran, before the prophetic mission, were recited to the Prophet Muhammad, peace be upon him, as a symbolic event.

Ibn Ishaq’s narration includes the Prophet, peace be upon him, waking from a dream and descending from Hira until he was midway down the mountain when Gabriel addressed him as the Messenger of Allah.

According to Sahih Bukhari, after the Hira incident, there was a period without revelation, known as the period of Fatrah.

Under Ibn Ishaq’s account, the Quranic revelation began with a non-prophet through a dream, which is among the questionable aspects of the narration. No verse of the Quran or the Book of Allah could come in a dream because, at that time, the Prophet Muhammad, peace be upon him, was not yet a prophet.

Ibn Ishaq is also remembered in the study of Hadith as a “Dajjal” (deceiver), a title given to him by Imam Malik.

Both Sahih Ibn Hibban and Sahih Bukhari mention:
Ishaq ibn Mansur narrated from Abd al-Samad, from Harb, from Yahya, who said: “I asked Abu Salama: ‘Which part of the Quran was revealed first?’ He said: ‘O you wrapped up (in the mantle)!’ I said: ‘I was informed that it was: ‘Read in the name of your Lord Who creates.” Abu Salama said he asked Jabir ibn Abdullah which part of the Quran was revealed first, and he replied the same. I said: ‘I was informed that it was: ‘Read in the name of your Lord Who creates.’ He said: ‘I only tell you what the Messenger of Allah, peace be upon him, said.'”

This discrepancy in reports, whether Surah Al-Alaq or Surah Al-Muddathir was the first revelation, does not indicate a contradiction, as both events happened at different times and contexts.

In Musnad Ahmad, it is mentioned:
“I sequestered myself in Hira for a month, and when I concluded my seclusion, I descended and reached the valley’s bottom.”
This signifies the Prophet Muhammad’s practice of secluding himself in the cave of Hira, highlighting a period of contemplation and spiritual quest before receiving revelation.

In Sahih Muslim, it is narrated:
“Abu al-Tahir told me, Ibn Wahb said, Yunus reported, Ibn Shihab informed me from Abu Salama bin Abd al-Rahman, who narrated from Jabir bin Abdullah al-Ansari, a companion of the Messenger of Allah, peace be upon him, that he narrated, saying the Messenger of Allah, peace be upon him, spoke about the period of cessation of revelation.”
This narration points to a phase where the Prophet Muhammad experienced a pause in the revelation process, indicating the profound impact of initial revelations and the anticipation of further guidance.

It’s noteworthy that Imam Zuhri, mentioned in the chain of transmission, does not consider Surah Al-Muddathir as the first chapter revealed, suggesting a nuanced understanding of the Quran’s revelation order among early Islamic scholars.

Ghamidi holds the view that the narrations in Sahih Bukhari and the biography by Ibn Ishaq, which mention Surah Al-Alaq or Surah Al-Muddathir as the first revelations, are not accurate because the themes of these Surahs are intense and assertive. He questions the traditional sequence of revelation based on the content and tone of these chapters.

The writer states that only these two Surahs have been mentioned in the context of the beginning of revelation.

Ibn Ishaq has been criticized for falsely attributing various incidents to Umm al-Mu’minin Aisha and her relatives, leading some to label him as a “Dajjal” (deceiver) for such fabrications. These include:
1. Aisha mourning the Prophet’s death,
2. Verses of the Quran being eaten by a goat,
3. The Prophet being buried on a Wednesday night,
4. Safiyya, not Aisha, being present at the Prophet’s death, and
5. Aisha supposedly considering the Isra and Mi’raj as a dream.

These allegations are contradicted by authentic traditions, highlighting the importance of rigorous scrutiny and authentication in the transmission of historical and religious narratives.

مادہ کی حالتیں ، انسانی جسم ،مسلمان متکلمین

قصہ مختصر
غیر مقلدوں کے ایک نئے شیخ ڈاکٹر محمد زبیر نے ڈاکٹر عثمانی کی کتب کو پڑھے بغیر تبصرہ کیا – جس میں انہوں نے ایک بیان یو ٹیوب پر جاری کیا اور کمینٹ میں بار بار ذکر کیا کہ مادہ کی حالت ٹھوس ہے ٹھوس ہے اور عذاب قبر مٹی کو ہوتا ہے – اس تکرار سے ظاہر ہوا کہ بعض علماء یہ بھول گئے کہ مادہ یعنی میٹر کی تین حالتیں ہیں
ٹھوس ، مائع ، گیس
انسانی جسم جب جلے گا تو سائنس کہتی ہے کہ ان تین میں بدلے گا مٹی نہیں بنے گا بلکہ پانی اور کاربن ڈائی اکسائیڈ میں بھی بدلے گا

انسانی جسم جب جل جاتا ہے تو ہندو یا بدھمت والے اس کی راکھ کو اٹھا لیتے ہیں جس میں لکٹری بھی ہوتی ہے – اس طرح ہاتھ میں تو راکھ آتی ہے لیکن سائنس سے معلوم ہے کہ یہ مکمل انسان کی باقیات نہیں ہیں – اس کے جسم کا ایک بھت بڑا حصہ اس وقت آسمان و زمیں میں گیس کی صورت معلق ہو چکا ہوتا ہے

سائنس میں کیمسٹری کے مطابق انسانی جسم ایلیمنٹس پر مشتمل ہے – ان میں ہڈیو ں میں کیلشیم ہوتا ہے اور بالوں اور ناخن میں کیوراطن ہوتا ہے جو نائٹروجن، آکسیجن ، سلفور ہائیڈروجن پر مشتمل ہے – کھال میں نائٹروجن، آکسیجن ، کاربن ، سلفور ، ہائیڈروجن وغیرہ ہوتا ہے   – انسانی پٹھوں میں نائٹروجن، آکسیجن ، کاربن ، ہائیڈروجن، پروٹیین ہوتا ہے

اب جب انسانی جسم کو جلایا جاتا ہے تو صرف راکھ یا بھسم ہی نہیں ملتا بلکہ انسانی جسم گیس کی صورت میں بھی بدل کر آسمان و زمین کے درمیان چلا جاتا ہے
سائنس کا علم اللہ نے ہی انسان کو دیا ہے  افسوس روایت پسند علماء نےسائنس  ایک مغربی علم سمجھ لیا ہے –  گمراہ فرقے جو جسم پر عذاب کے قائل ہے ان کی عقل کی محدودیت واضح ہو جاتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مادہ صرف ٹھوس یا   سولڈ ہے جبکہ سائنس میں مادہ کی تین حالتوں کی بات کی جاتی ہے جن میں گیس بھی ہے

انسان  میں موجود ایلیمنٹس یا گیس کے اجزاء

Oxygen 65%
Carbon 18%
Hydrogen 9.5%
Nitrogen 3.2%
Calcium 1.5%
Phosphorus 1.2%
Potassium 0.4%
Sulphur 0.2%
Chlorine 0.2%
Magnesium 0.1%
Other >1%

آٹھویں صدی کے مسلمان متکلمین مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم اس سب سے نابلد تھے اور انہوں نے سمجھا ہے جسم جلنے کے بعد محض راکھ بن جاتا ہے اور چونکہ راکھ اسی زمین پر رہتی ہے یا ہوا میں اڑتی بھی ہے تو واپس زمین پر آتی ہے لہذا انہوں نے عقیدہ دیا کہ اللہ تعالی اس راکھ پر عذاب کرتا ہے اور یہ عذاب قبر کی صورت ہے

ہندؤں میں ایک فرقہ  اگوری سادھوں کا  ہے جو شمشان گھاٹ میں جاتا ہے اور جلتی چتا میں سے راکھ  نکال کر اس  کو لیتا ہے جب وہ ٹھنڈی ہو جاتی ہے تو گنگا میں نہانے کے بعد اسی راکھ کو جسم پر ملتا ہے

اگر اس طرح عذاب قبر راکھ کو ہوتا تو سادھو اس چتا کے  بھسم کو جسم پر کبھی بھی نہ ملتے

آج ہم کو معلوم ہے کہ آٹھویں صدی کے متکلمین علماء کی معلومات ناقص تھیں،  انہوں نے اپنے زمانے کی سائنس سے سمجھا کہ جسم جلنے پر راکھ بن جاتا ہے جبکہ اس کا کثیر حصہ پانی پر مشتمل ہے اور ان اجزاء پر مشتمل ہے جن کو گیس کہا جاتا ہے لہذا یہ پھر عذاب زمینی قبر   نہیں ہے کہ زمین سے اس کا تعلق رہے بلکہ یہ اصل میں عذاب برزخ ہے – اس کو عذاب قبر صرف اس وجہ سے کہا گیا کہ اکثر مردوں کو دفن کیا جاتا ہے یا آسمان  میں روح کا مقام قبر کہا گیا ہے

برزخی جسم کی خبر

قصہ مختصر
برزخی جسم کا ذکر سن ٨٠ کی دہائی میں ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب عذاب البرزخ میں کیا – اس سے قبل بر صغیر میں تقسیم ہند سے قبل برزخی جسم کا ذکر سلفی عالم ثناء اللہ امرتسری نے بھی کیا تھا – تقسیم ہند کے بعد سلفی عالم اسمعیل سلفی نے کتاب حیات النبی میں باقاعدہ برزخی جسم کا ذکر کیا کہ متقدمین میں علامہ الوسی نے اس کا ذکر کیا
سن ٩٠ کی دہائی میں غیر مقلدوں کے وہ علماء جن کو صرف اپنے ہاتھ کی کتب پڑھنے کا شوق تھا  اور کمزور مطالعہ تھا انہوں نے دعوی داغ دیا کہ برزخی جسم کا ذکر دجال غلام احمد قادیانی نے کیا – اس طرح اپنے معتقدؤن کو احمق بنا کر داد و تحسین لی – افسوس حق کو چھپانے والے ان کے علماء میں سے بعض یقینا جانتے ہوں گے کہ اسمعیل سلفی نے ایک نہیں کئی بار بررخی جسم کا ذکر اپنی کتاب میں ڈاکٹر عثمانی سے قبل کیا ہے اور اس کا رد نہیں کیا – راقم نے حق کو چھپانے والے ان علماء کا تعقب کیا اور ان کے منہ پر متقدمین  علماء کے حوالہ جات مارے ہیں جن کو اب اس کتاب میں یکجا   کیا گیا ہے   

الله تعالی نے قرآن میں بتایا ہے وہ انسانی جسم کو واپس روزمحشر تخلیق کرے گا اس میں انسان کا جسم واپس بنا دیا جائے گا – احادیث کے مطابق اس تخلیق نو میں انسانی جسم میں تبدیلی بھی ہو گی اس کی جسامت دنیا سے الگ ہو گی –   جہنمیوں کے جسم اس قدر بڑے ہوں گے کہ ان کے شانوں کے درمیان کی مسافت تین دن کی ہو گی اور کھال احد پہاڑ جتنی موٹی ہو گی (صحیح مسلم)

کافر کا جہنمی جسم دیکھئے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی ( یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے)۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔

ان احادیث سے پتا چلا کہ  جہنمیوں کے اجسام اس دنیا جیسے نہیں بلکہ بہت بڑے ہونگے

دوسری طرف یہ جہنمی اجسام مسلسل تبدیل ہونگے اور ان پر نئی کھال آئے گی ینی عذاب ان جسموں کو ہوگا جنہوں نے گناہ نہ کیا ہو گا – گناہ تو ٥ سے ٧ فٹ کے جسم  نی کیے لیکن عذاب اس جسم کو ہے جو عظیم حجم کا ہے

یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ  روح اس جسد عنصری کو چھوڑ کر روز محشر ایک نئے جسم میں جائے گی جو اس جسد عنصری سے الگ  ہے ،  بڑا ہے – روح اس بڑے جسم میں بھی سما جائے گی اور اس جسم کو اپنا لے گی

اسی طرح احادیث  میں آیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے عذاب قبر حق ہے اور  اس کی مثال میں آپ  صلی الله علیہ  وسلم نے   نماز کسوف گرہن  کے بعد جو خطبہ دیا اس میں ذکر کیا

ایک عورت  کا جس کو بلی ابھی بھی  نوچ رہی ہے   (صحیح ابن حبان)

ایک مشرک  شخص    (عمرو  بن لحیی)   کا جو اپنی آنتوں کو گھسیٹ  رہا ہے     (صحیح بخاری )

ایک  شخص کا جو  لاٹھی  پر ٹیک  لگائے  عذاب  جھیل رہا ہے   (صحیح ابن    خزیمہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ  تمام عذابات  براہ  راست  دیکھے  جب پر   نماز کسوف  پڑھا رہے تھے  اور  اس نماز کے بعد خطبہ میں مومن پر عذاب قبر کی خبر پہلی بار سن ١٠ ہجری میں  دی گئی

اتفاق سے اسی دن پسر نبی  ابراہیم  کی بھی وفات ہوئی  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ   اس کے لئے جنت میں اس وقت ایک دائی  ہے جو دودھ پلا رہی ہے

اس طرح ایک ہی دن میں مشرک  اور  مومن   پر عذاب قبر اور مومن پر راحت کا ذکر فرمایا  –  ان سب عذابات  کا مقام اس بنا پر زمین پر  نہیں رہتا کیونکہ  مثالیں دے دے کر سمجھایا  گیا کہ کس طرح روح ایک نئے  جسم میں  عالم بالا  میں جاتی ہے ، عذاب و راحت پاتی ہے

یہ چیز  فقہاء و شارحین  حدیث و متکلمین بیان  کرتے رہے تھے  لیکن افسوس جب آٹھویں صدی  اور اس کے بعد  جمہور  نے روح پر عذاب کا انکار کرنا شروع کیا تو ان احادیث کو چھپایا  جانے لگا کیونکہ ایک بار روح کے لئے نیا عالم بالا میں جسم کا عقیدہ  لوگوں پر واضح  ہو جاتا تو روح پھر اس طرح سات آسمانوں  میں بھٹکتی نہ  پھرتیں جس کے قائل   بہت سے علماء ہو چلے تھے – عقائد میں برزخی  جسم کی خبر کو چھپایا  جانا آٹھویں صدی سے چلا آ رہا ہے

البتہ کتب شرح میں  وہی گروہ جو روح کے سات آسمان میں بھٹکنے کا قائل ہے انہوں نے ہی  شروحات حدیث میں ذکر کیا ہے کہ متقدمین  روح کے جسم کا ذکر ان احادیث  کی وجہ سے کرتے تھے – عثمانی صاحب نے اس حقیقت کو واپس واضح کیا اور مسلک پرستوں نے اس  پر دعوی کیا کہ  ١٤٠٠ سو سال میں  ایسا کسی نے نہیں کہا – راقم کہتا ہے فرقے  جھوٹ بول رہے ہیں – قارئین اس کتاب میں درج حوالہ جات کو دیکھ سکتے ہیں – افادہ عامہ کے تحت ان حوالوں کو جمع کیا گیا ہے –

صحیح  بخاری  میں حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ  میں تفصیل سے مومن پر عذابات کا ذکر وارد ہوا ہے البتہ اس کا ذکر اس کتاب میں نہیں ہے ، راقم کی دوسری کتاب بنام اثبات عذاب قبر میں اس حدیث کی شرح  پر کلام ہے

ابو شہر یار

٢٠٢١

207 Downloads

زبیر صاحب کی تلبیسات

حافظ زبیر صاحب نے یو ٹیوب پر یہ بیان دیا ہے

 زبیر صاحب نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر عثمانی متشدد تھے اور اہل حدیث غیر متشدد تھے  اور دو مسائل  پر توجہ دی  اول  برزخی زندگی پر کتاب اور دوم قرآن پر اجرت لینا   کو گمراہ کہنا – ساتھ ہی انہوں نے  واضح نہیں کیا کہ  امام احمد ، امام بخاری متشدد تھے یا غیر متشدد جو مسئلہ خلق قرآن میں اہل بیت میں سے  بنو عباس کی  تکفیر کرتے رہے

زبیر صاحب کے نزدیک عذاب قبر کا مسئلہ،   توحید کی وجہ سے الجھ  گیا تھا  اور پنج پیر والوں نے شرک کی تعریف کی کہ قبر میں مردہ زندہ ہے  لہذا اگر مردہ کو مردہ مان لیا جائے تو قبر پرستی کا انکار کرنا ہو گا

زبیر صاحب نے کہا کہ حدیث میں ہے کہ  شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں – یہ جملہ نوٹ کریں کیونکہ بعد میں جن علماء کی کتب کا ذکر کیا گیا وہ اس کے انکاری ہیں

زبیر صاحب نے ذکر کیا کہ سلف میں صرف ابن حزم رہے ہیں جو صرف روح پر عذاب کے قائل ہیں – راقم کہتا ہے یہ غلط ہے امام اشعری نے   صرف روح پر عذاب کا ذکر کیا ہے پھر اسی بیان  میں آگے زبیر نے ذکر کیا روح پر عذاب کے قائل علماء آج بھی ہیں

زبیر صاحب نے لوجک یا تعقل کی بنیاد پر ذکر کیا کہ جسم کو عذاب ضروری ہے – زبیر صاحب نے یو ٹیوب میں جواب میں ذکر کیا
مادہ یعنی میٹر اپنی صورت یعنی فارم تبدیل کر لیتا ہے، ختم نہیں ہوتا ہے۔ یہ سائنس کا بنیادی ترین اصول ہے

مادہ کی بقا ہے یہ فزکس کا اصول ہے لیکن جب ہم دین کی بات کرتے ہیں تو اس مٹی سے کرتے ہیں جس سے آدم علیہ السلام کو خلق کیا گیا اور اسی طرح نسل آدم بھی مٹی بن رہی ہے
اسی طرح اس زمین میں شجر و بناتات بھی مٹی بن جاتے ہیں
گویا زمین کی اصل مٹی ہی ہے اسی کی طرف جانا ہے –
عذاب قبر میں اگر مٹی کو عذاب ہو رہا ہے تو یا عالم ارضی کو عذاب ہوا اور یہ فہم سراسر غلط ہے ورنہ زمین سب سے پہلے اس پر اللہ سے فریاد کرتی کہ گناہ انسان نے کیا میری مٹی نے تو نہیں کیا اس کو عذاب کیوں ہے -راقم کہتا ہے جسم مٹی ہو جانا قرآن میں موجود ہے اور   مٹی کو عذاب نہیں ہوتا  ورنہ یہ زمین کومسلسل  عذاب الہی  دینے کے مترادف ہے

عرب  میں  سلفی وہابی تنظیموں میں تکفیر کرنا  معروف ہے – زبیر صاحب نے مسئلہ اتباع  طاغوت کی  کھلی اڑاتے  ہوئے  سماع الموتی کے قائل   علماء کو حق پر قرار دے دیا ہے

امام  احمد جو فرشتوں کو پکارنے کے قائل تھے ان کو زبیر صاحب  نے توحید پر قائم  بتایا ہے  جبکہ  انڈیا  میں اسی بنا پر اہل حدیث ٹولوں میں  پھوٹ پڑی ہوئی ہے

ایک اہل حدیث عالم مقبول احمد  سلفی ، اہل حدیث  انڈیا  میں پھوٹ پڑنے پر لکھتے ہیں لنک 

آخر میں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیرالہ اور کرناٹک وغیرہ میں مذکورہ بالا حدیث کو لیکر سلفیوں کے درمیان بھی یہ مسئلہ نزاع کا باعث بناہواہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ جب حدیث ہی سرے سے قابل استناد نہیں تو بات ہی ختم اور اگر اسلاف میں سے کسی نے اس حدیث پر عمل بھی کیا ہوتو انہوں نے نہ تو جن سے مدد طلب کی اور نہ ہی ولیوں اور قبر والوں کو پکارا بلکہ انہوں نے ویسے ہی پکارا جیسے پکارنے کا حدیث میں حکم ملا ہے اور وہ ہے فرشتوں کو پکارنا جیساکہ میں نے وہ حدیث بھی پیش کردی جس میں فرشتوں کی جماعت کا ذکر ہے

زبیر صاحب   کے بیان سے معلوم ہوا کہ  اہل حدیث فرقوں  میں اب فرشتوں کو پکارنا عین توحید سمجھا جانے لگا  ہے

راقم کہتا ہے یہ زوال امام احمد کو عقائد میں  لاحق  ہوا تھا  کہ تعویذ  کرنے لگے اور فرشتوں کو پکارنے لگے تھے اس کو توحید پر مبنی نہیں کہا جا سکتا

امام ابن تیمیہ جو سماع الموتی کے قائل تھے ان کا ذکر زبیر صاحب نے کیا کہ امام ابن تیمیہ کہتے تھے کہ  بعض  لوگ ایک نقطہ نظر بنا  لیتے ہیں پھر تاویل کرتے ہیں  دوسری طرف اہل حدیث کہتے ہیں سماع الموتی  گمراہی ہے گویا اہل حدیث کے نزدیک خود ابن تیمیہ کا عقیدہ صحیح  نہیں  ہے

قلیب بدر  کے خاص واقعہ کو زبیر نے   فروعی کہہ دیا جبکہ  معجزہ  پر ایمان لانا ضروری ہے یہ فروعی مسئلہ نہیں ہے عقیدہ کا ہے- اصحاب رسول کا اس کے خاص ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا- نہ کہیں لکھا ہے کہ ابن عمر سماع الموتی کے قائل تھے – صحیح بخاری میں ذکر ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک حدیث غلط سمجھے تھے جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس حدیث پر کلام ہوا تو انہوں نے  وضاحت کی کہ مردہ نہیں سنتا اور قلیب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مردہ مشرکوں سے کلام  محض جذبات تھا  کیونکہ بدر میں   مشرکوں کو قتل کے بعد  علم ہو چکا تھا کہ حق کیا ہے  – راقم کہتا ہے ابراہیم علیہ السلام کا بتوں سے کلام قرآن میں موجود ہے کہ کھاتے کیوں   نہیں ؟ اس سے یہ نہیں سمجھا جائے کہ ابراہیم علیہ السلام  سماع الاصنام   یا   بتوں کے سننے کے قائل تھے

زبیر کے بقول جو قبرستان میں دعا کی جاتی ہے وہ مردے سنتے ہیں – راقم کہتا ہے یہ غلط موقف ہے – ہر مومن نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی کی دعا کرتا ہے اوراس کا مقصد سنانا نہیں تھا

 زبیر صاحب اس طرح سماع الموتی کا عقیدہ بھی رکھ رہے ہیں – دوسری طرف اس وجہ سے وہ  اہل حدیث فرقہ  سے الگ عقیدے پر آ گئے ہیں جو سماع الموتی کے رد میں کتب لکھ رہے ہیں، قلیب بدر کو خاص ما نتے ہیں ، اس کو عام  کہہ کر اصحاب رسول کی صحیح و غلط عقائد میں تقسیم نہیں کرتے  ہیں

زبیر صاحب  کے بقول روح کا جسم سے نکلنا موت ہے -دوسری طرف اہل حدیث فرقوں میں اس  کا انکار ہے مثلا اہل حدیث  علماء میں ابو جابر دامانوی اور رفیق طاہر اس کے انکاری ہیں

 زبیر صاحب کا یہ جملہ قابل غور ہے کیونکہ چند منٹ بعد وہ خود اس کا رد کرتے ہیں  – راقم کہتا ہے  نیند میں روح، جسم سے نہیں نکلتی اور مردے میں روح واپس نہیں آتی  -قرآن میں موت کے حوالے سے  امسک روح کا لفظ ہے یعنی روح کو روک لیا جاتا ہے ظاہر  ہے جو چیز الگ ہے گئی ہو اسی کو روکا جاتا  ہے لہذا موت پر جسم میں روح پھر قیامت تک  نہیں آ سکتی – یہ قرآن سے واضح ہے

اہل سنت میں قبر کے لفظ پر موقف یہ بھی ہے کہ قبر وہ ہے جہاں روح  ہے جس پر تفصیلی بحث اس ویب سائٹ پر  موجود ہے

 زبیر صاحب کے بقول نیند  بھی موت ہے ، جبکہ نیند ، موت ، بے ہوشی سب الگ ہیں – اس پر راقم کی مکمل کتاب  ہے

برے خواب کو زبیر صاحب نے جسم  پر  عذاب قرار دے دیا – راقم کہتا ہے خواب تو مومن بھی دیکھتا ہے اور یہ عذاب جسم  قرار نہیں دیا گیا –  زبیر صاحب نے موت کے بعد عذاب کو بھی ڈروانے خواب پر قیاس کر لیا گیا  جو سراسر غلط سلط ہے

زبیر صاحب کے بقول انبیاء  کا  قبر  میں نماز پڑھنا  بھی ثابت ہے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ  انبیاء کو زندہ بھی نہ کہا جائے- راقم کہتا ہے یہ  ریکوسٹ  قابل رد ہے – موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا  سلف میں قابل بحث رہا ہے اور ابن حبان نے اس کو خاص صرف اس معراج کی  رات کا واقعہ کہا ہے – ابن حزم نے اس کو جنت میں ہی نماز  کہا ہے

سجین و علیین  ،زبیر صاحب کے بقول یہ مقام ہیں  جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں – راقم کہتا ہے سننے والے سن سکتے ہیں کہ زبیر صاحب نے  یہ واضح نہیں کیا کہ روح  کو سجین و علیین میں موجود ماننا کس قرآن کی آیت سے معلوم  ہے  – بقول زبیر صاحب ارواح اوپر جاتی ہیں  اور نیند میں بھی روح جسم سے نکل جاتی ہے -راقم کہتا ہے    زبیر صاحب  خود کنفیوز ہیں کیونکہ بقول زبیر  صاحب  روح کا جسم سے نکلنا ہی   موت ہے تو نیند بھی موت بن گئی  جبکہ قرآن میں نیند کو موت سے الگ کیا گیا ہے

زبیر صاحب نے سلف کے ان تمام علماء کو گمراہ قرار دے دیا جو برزخی جسم کا ذکر کرتے ہیں مثلا  ابن عقیل، ابن جوزی  وغیرہم

زبیر صاحب کے نزدیک انبیاء   درہم ،دینار نہیں  لیتے لیکن علماء جو اپنے آپ کو انبیاء کا وارث کہتے ہیں ان کا درہم لینا جائز ہے پھر زبیر صاحب نے چند مخصوص واقعات سے اجرت کے دلائل لئے ہیں جن کی وضاحت اس ویب سائٹ پر موجود ہے – قرآن میں ہے کہ ظالم کو قرآن سے شفاء نہیں ملے گی لیکن حدیث میں جب مشرک و کافر سردار کو سورہ فاتحہ سے دم کیا گیا تو شفاء ہوئی – ظاہر ہے یہ مخصوص ہے

  زبیر صاحب  نے عذاب قبر کی بحث میں  چند کتب کا ذکر کیا – راقم  کہتا ہے یہاں بھی   لوگوں کو مغالطہ دے  دیا گیا ہے – کیا اہل حدیث  کے نزدیک یہ  نیچے دیے گئے تمام متضاد عقائد صحیح ہیں

١- عود روح  بالکل نہیں ہو گا    (قاری خلیل رحمان     ، کتاب پہلا زینہ)

٢- روح جسم سے جڑے گی   اور تعلق ہو گا جس میں روح جسم سے نکلے گی اور جب چاہے  واپس بھی آئے گی  ( فتاوی ابن تیمیہ،  کتاب الروح از  ابن قیم، عبد الرحمان کیلانی  ، فتح الباری از  ابن حجر،  وہابی  علماء، زبیر علی زئی   بعض مواقع  پر )  یعنی بار بار عود روح ممکن ہے  

٣- روح   ، جنت  یا جہنم میں ہی  رہے گی  لیکن  قبر میں جسد سے تعلق ہو گا     (  نورپوری    کا  مضمون ،   مقالات از زبیر علی زئی    )

٤-  کچھ کہتے ہیں  مردہ جسد کو عذاب ہو گا بلا روح اور عود روح صرف ایک دفعہ ہو گا   (مثلا   کتاب الدین الخالص از    ابو جابر  دامانوی اور  کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال

راقم کہتا ہے زبیر صاحب کی بات درست  ہے ان اہل حدیث علماء کی یہ تمام کتب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو صحیح عقیدہ کا متلاشی ہو اور جاننا چاہتا ہو کہ فرقہ اہل حدیث کے اپنے تضادات کتنے ہیں

چھ ماہ قبل زبیر صاحب نے اپنے فیس بک پیج پر بھی تبصرہ جاری کیا تھا –  قارئین اس کو بھی دیکھ سکتے  ہیں   

کتب عثمانی پر ایک تبصرہ / Islamic-Belief.net (islamic-belief.net)    

تحقیق روایت الدبيلة

قصہ مختصر
ایک رافضی صفت شخص نے ذکر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث بیان کی جس میں منافقوں پر دبیلہ پھوڑا نکلنے کا ذکر کیا – اسنادی حیثیت میں یہ حدیث سند میں اضطراب رکھتی ہے اور بعض محدثین کے اقوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں راوی کا ادراج ہے  حسب عادت رافضی نے دعوی جڑ دیا کہ وہ اصحاب رسول جن کی وفات دبیلہ سے ہوئی وہ سب منافق تھے – راقم نے غور کیا کہ دبیلہ سے مراد وہ دانہ ہے جو طاعون میں نکلتا ہے اور طاعون سے معاذ بن جبل ، ابو درداء اور بلال رضی اللہ عنہما کی وفات ہو اور اس میں بغل میں دانہ دبیلہ نکلتا ہے – صحابی رسول معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات دبیلہ سے ہوئی
اس سے ظاہر ہوا کہ کسی بیماری میں وفات ہو جانا عذاب الہی نہیں الا یہ کہ اس کو خاص اس شخص کے لئے بیان کیا جائے مثلا سامری کو موسی نے بددعا دی کہ تو کہتا پھرے گا مجھے مت چھونا – یہ دعا راقم سمجھتا ہے یقینا سامری کو لگ گئی ہو گی

صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ» لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ
أَبِي نَضْرَةَ نے قيس بن عباد أبو عبد الله الضبعي القيسي البصري سے روایت کیا کہ میں نے عمار سے کہا تم نے اپنا کیا کرایا دیکھا جو تم نے علی کے معاملے میں کیا , تمہاری کیا رائے ہے یا کوئی عہد دیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ؟ عمار نے کہا رسول اللہ نے ہم سے کوئی عہد ایسا نہ لیا جو دوسروں سے نہ لیا ہو لیکن حذیفہ نے حدیث بیان کی : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ، آٹھ ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہ ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے ان میں سے آٹھ کے لئے دبیلہ کافی ہوگا
اور باقی چار ، (أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ نے کہا ) یاد نہیں امام شعبہ نے کیا روایت کیا تھا

مسند احمد میں اسی سند سے ہے
ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ، سِرَاجٌ مِنْ نَارٍ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ حَتَّى يَنْجُمَ فِي صُدُورِهِمْ
ان منافقوں کے کندھوں سے اگ کا شعلہ ظاہر ہوگا یہاں تک کہ ان کی چھاتیاں توڑ کر نکل جائے گا۔

مسند البزار میں ہے
قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، قَالَ: قُلْنَا لِعَمَّارٍ، أَرَأَيْتَ قِتَالَكُمْ؟ أَرَأْيٌ رَأَيْتُمُوهُ فَإِنَّ الرَّأْيَ يُخْطِيءُ
قیس نے عمار سے پوچھا کہ کیا تم اپنے اپنا قتال ان سے دیکھا کیا ، تم غلط رائے پر تھے

الجمع بين الصحيحين میں أبو محمد عبد الحق بن عبد الرحمن الإشبيلي (المتوفى: 582 هـ) کہتے ہیں
قَال الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ: لَمْ أَحْفَظْ مَا قَال شُعْبَةُ فِيهِمْ
اسود بن عامر کو یاد نہیں رہا کہ باقی چار کے بارے میں شعبہ نے کیا کہا

بحث

اس روایت کے متن میں کافی الفاظ میں شک موجود ہے کہ آخر میں میں گمان کرتا ہوں کس کا قول ہے – اس روایت میں محدثین کا اختلاف اس پر ہے کہ آگے کا کلام کس کا ہے ؟ مسند احمد اور مسند ابو یعلی میں حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَجَّاجٌ کی سند سے ہے
قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ: «إِنَّ فِي أُمَّتِي اثْنَيْ عَشَرَ مُنَافِقًا
مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَر نے کہا امام شعبہ نے گمان کیا کہ حُذَيْفَةُ نے روایت کیا کہ اصحاب رسول میں ١٢ منافق ہیں

مسند ابو یعلی میں حَدَّثَنَا الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ کی سند سے ہے
غندر نے کہا قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ
امام شعبہ نے گمان کیا کہ حُذَيْفَةُ نے روایت کیا کہ اصحاب رسول میں ١٢ منافق ہیں

صحیح مسلم میں مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، کی سند سے ہے
قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ، وَقَالَ غُنْدَرٌ أُرَاهُ
محمد بن جعفر نے کہا : شعبہ نے کہا : میں گمان کرتا ہوں کہ حُذَيْفَةُ نے روایت کیا ، اور غندر نے کہا میں دیکھتا ہوں

الجمع بين الصحيحين میں أبو محمد عبد الحق بن عبد الرحمن الإشبيلي (المتوفى: 582 هـ) کہتے ہیں
شك شعبة في هذا الحديث هل هو عَنْ عمَّارٍ عَنِ النَّبِي – صلى الله عليه وسلم -، أَوْ عَنْ عمَّارٍ عَنْ حُذَيفَة عَنِ النَّبِي – صلى الله عليه وسلم -. ولم يخرج البخاري هذا الحديث.
اس حدیث میں شعبہ کو شک ہے کہ کیا یہ حدیث عمار نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے روایت کی یا عمار نے حُذَيفَة نے انہوں نے نبی صلى الله عليه وسلم سے روایت کی

امام شعبہ جب یہ حدیث سناتے تو خود شک میں آ جاتے کہ کس نے کس کی بات بیان کی ، پھر اپنے گمان کو پیش کرتے کہ اغلبا یہ حُذَيْفَةُ نے کہا ہو گا کہ اصحاب رسول میں ١٢ منافق ہیں – امام ابو حاتم کا موقف ہے کہ گمان ہے کے الفاظ قیس کے ہی ہیں جن کو لوگ امام شعبہ کا کلام سمجھ رہے ہیں – علل ابن ابی حاتم میں ہے
وسمعتُ أَبِي وسُئِلَ (1) عَنْ حديثِ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَة (2) ، عَنْ قَيْس بْنِ عُبَادٍ؛ قَالَ: قُلْتُ لعمَّار بْنِ يَاسِرٍ: أرأيتُم قِتَالَكُمْ، أَرَأْيٌ رَأَيْتُمُوهُ؛ فإنَّ الرأيَ يُخطِئ ويُصيب، أو عَهْدٌ عَهِدَهُ إليكم النبيُّ (ص) ؟ … ، وَفِي آخِرِ الْحَدِيثِ قَالَ – وأحسَبُه -: حدَّثني حُذَيفة: أنَّ النبيَّ (ص) قَالَ: فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا؟
فَقَالَ: هَذَا يقولُهُ قَيْس بن عُبَادٍ، عن حُذَيفة، وليس كلُّ إنسانٍ يَقُولُهُ
ابن ابی حاتم نے کہا میں نے اپنے باپ سے سوال کیا حدیث قَتَادَةَ کی أَبِي نَضْرَةَ سے ان کی قَيْسٍ بن عباد سے کہ میں نے عمار سے کہا تم اپنے قتال کو کیسا دیکھتے ہو تمہاری رائے غلطی کی تھی یا کوئی رسول اللہ سے عہد کر رکھا تھا ؟ اور دوسری حدیث میں ہے کہ کہا : انہوں نے گمان کیا کہ حُذَيفة نے روایت کیا کہ نبی نے فرمایا کہ میری امت میں ١٢ منافق ہیں ؟
امام ابو حاتم نے فرمایا یہ قَيْسٍ بن عباد نے بیان کیا ہے حُذَيفة سے روایت میں اور ایسا سب انسان نہیں کہتے

اس کا مطلب ہے کہ امام ابو حاتم نے نزدیک اس حدیث کے متن میں کلام قیس بن عباد مل گیا ہے – اس کو ادراج کہتے ہیں – دیگر راوی خود شک کے ساتھ بیان کرتے تھے کہ یہ شاید حذیفہ نے کہا ہو – متن میں اشکال موجود ہے کہ راوی کا ادراج ہے اور وأحسَبُه (گمان ہے ) کہنے والا قیس ہے نہ کہ صحابی حُذَيفة کا ادراج ہے

قیس بن عباد کو امام الذھبی نے تاریخ اسلام میں شِيعِيٌّ قرار دیا ہے – قیس نے خلیفہ عبد الملک کے خلاف خروج بھی کیا اور حجاج نے گردن اڑا دی – بقول ابو مخنف یہ عثمان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دے رہا تھا

ابن حزم نے المحلى میں اس سلسلے میں ایک روایت کو کذب قرار دیا
أما حديث حذيفة فساقط: لأنه من طريق الوليد بن جميع – وهو هالك – ولا نراه يعلم من وضع الحديث فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر، وعمر وعثمان، وطلحة، وسعد بن أبي وقاص – رضي الله عنهم – أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله وسلم وإلقاءه من العقبة في تبوك – وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالى واضعه – فسقط التعلق به – والحمد لله رب العالمين
اور جہاں تک حذيفة کی حدیث کا تعلق ہے پس ساقط ہے – وہ الوليد بن جميع (الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ) کے طرق سے روایت ہے جو ہلاک کرنے والا راوی ہے اور ہم نہیں دیکھتے کہ جان سکیں کہ اس کو کس نے گھڑا ہے (سوائے اسی کے ) کیونکہ اس نے روایت کی ہیں خبریں جن میں ہے کہ ابو بکر اور عمر اور عثمان اور طلحہ اور سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور ان سے عقبہ تبوک میں ملے اور یہ بات کذب ہے گھڑی ہوئی ہے

اب ہم دیکھتے ہیں کہ الوليد بن جميع کے طرق سے روایت امام مسلم نے بیان کی ہے
أَبُو أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ؟ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللهِ كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ قَالَ فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: أَخْبِرْهُ إِذْ سَأَلَكَ، قَالَ: كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَإِنْ كُنْتَ مِنْهُمْ فَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ، وَأَشْهَدُ بِاللهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، وَعَذَرَ ثَلَاثَةً، قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ، وَقَدْ كَانَ فِي حَرَّةٍ فَمَشَى فَقَالَ: «إِنَّ الْمَاءَ قَلِيلٌ، فَلَا يَسْبِقْنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ» فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوهُ، فَلَعَنَهُمْ يَوْمَئِذٍ
: زہیر بن حرب، ابواحمد کوفی ولید بن جمیع ،ابوطفیل سے روایت ہے کہ اہل عقبہ (گھاٹی والوں ) میں سے ایک آدمی اور حذیفہ (رض) کے درمیان عام لوگوں کی طرح جھگڑا ہوا تو انہوں نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ بتاؤ اصحاب عقبہ کتنے تھے (حذیفہ (رض) سے) لوگوں نے کہا آپ ان کے سوال کا جواب دیں جو انہوں نے آپ سے کیا ہے حذیفہ (رض) نے کہا ہم کو خبر دی جاتی تھی کہ وہ چودہ تھے اور اگر تم بھی انہیں میں سے ہو تو وہ پندرہ ہوجائیں گے میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ ایسے تھے جنہوں نے دنیا کی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے رضامندی کے لئے جہاد کیا۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں الولید بن جمیع کہتا ہے کہ عقبہ والے (گھاٹی والوں ) شخص أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ تھے جن سے حُذَيْفَةَ کا جھگڑا ہوا تھا گویا اس نے ان کو منافق قرار دیا نعوذ باللہ
الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ حُذَيْفَةَ وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ , فَقَالَ: أُنْشِدُكَ بِاللَّهِ , كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: فَأَخْبِرْهُ فَقَدْ سَأَلَكَ , فَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ: قَدْ كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ , فَقَالَ حُذَيْفَةُ: ” وَإِنْ كُنْتُ فِيهِمْ فَقَدْ كَانُوا خَمْسَةَ عَشَرَ , أَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حِزْبُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ , وَعُذِرَ ثَلَاثَةٌ , قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا عَلِمْنَا مَا يُرِيدُ الْقَوْمُ “

یہ واقعہ معجم طبرانی میں اور مسند البزار میں ولید بن جمیع کی سند سے آیا ہے
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْعَقَبَةَ فَلَا تَأْخُذُوهَا فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ، وَعَمَّارٌ يَسُوقُ، وَحُذَيْفَةُ يَقُودُ بِهِ فَإِذَا هُمْ بِرَوَاحِلَ عَلَيْهَا قَوْمٌ مُتَلَثِّمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُدْ قُدْ، وَيَا عَمَّارُ سُقْ سُقْ» ، فَأَقْبَلَ عَمَّارٌ عَلَى الْقَوْمِ فَضَرَبَ وُجُوهَ رَوَاحِلِهِمْ فَلَمَّا هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَقَبَةِ قَالَ: ” يَا عَمَّارُ، قَدْ عَرَفْتُ الْقَوْمَ، أَوْ قَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّةَ الْقَوْمِ أَوِ الرَّوَاحِلِ أَتَدْرِي مَا أَرَادَ الْقَوْمُ؟ “، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَرَادُوا أَنْ يَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے کہا جب جنگ تبوک ہوئی اپ صلی الله علیہ وسلم نے منادی کا حکم دیا کہ وہ گھاٹی میں سے جائیں گے کوئی اور اس میں سے نہ گزرے پس اپ گھاٹی میں سے گزرے اور عمار اونٹنی ہانک رہے تھے اور اس کی نکیل پکڑے تھے کہ ایک قوم ڈھاٹے باندھے آئی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمار کو حکم کیا پس عمار آگے بڑھے اور ان کے چہروں پر ضربیں لگائیں نکیل سے پس جب اس گھاٹی سے اترے اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اے عمار کیا تم ان کو جانتے ہو؟ یہ کیا چاہتے تھے ؟ میں نے کہا الله اور اس کا رسول جانتے ہیں فرمایا:یہ ہمیں (گھاٹی میں ) دھکیلنا چاہتے تھے

صفی الرحمٰن مبارکپوری نے اپنی کتاب ” الرحیق المختوم ” میں اس واقعہ کو صحیح سمجھتے ہوئے بیان کیا ہے
ورجع الجيش الإسلامي من تبوك مظفرين منصورين، لم ينالوا كيدا، وكفى الله المؤمنين القتال، وفي الطريق عند عقبة حاول اثنا عشر رجلا من المنافقين الفتك بالنبي صلى الله عليه وسلم، وذلك أنه حينما كان يمر بتلك العقبة كان معه عمار يقود بزمام ناقته، وحذيفة بن اليمان يسوقها، وأخذ الناس ببطن الوادي، فانتهز أولئك المنافقون هذه الفرصة، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحباه يسيران إذ سمعوا وكزة القوم من ورائهم، قد غشوه وهم ملتثمون، فبعث حذيفة فضرب وجوه رواحلهم بمحجن كان معه، فأرعبهم الله، فأسرعوا في الفرار حتى لحقوا بالقوم، وأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بأسمائهم، وبما هموا به، فلذلك كان حذيفة يسمى بصاحب سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفي ذلك يقول الله تعالى: وَهَمُّوا بِما لَمْ يَنالُوا.
اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے

الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ نے بعض روایات میں ان اصحاب رسول کے نام لئے ہیں جو جلیل القدر ہیں اس کی یہ روایت ابن حزم تک پہنچیں اور انہوں نے اس کو کذب قرار دیا

قال العقيلي: فِي حديثه اضطراب.
وقال ابْن حبّان: فحش تفرُّده.

امام مسلم نے حُذَيْفَةَ اور ایک شخص کے جھگڑے کی جو روایت نقل کی ہے اسمیں الولید کا تفرد ہے
کتاب التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل از ابن کثیر کےمطابق
قال الحاكم : لو لم يذكره مسلم في صحيحه كان أولى
امام حاکم نے کہا اگر مسلم نے اس کا صحیح میں ذکر نہ کیا ہوتا تو وہ اولی تھا

گھاٹی والا واقعہ ساقط الاعتبار ہے

دلائل النبوه میں بیہقی نے روایت کیا
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَصْبَعِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: ” كُنْتُ آخِذًا بِخِطَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقُودُ بِهِ وَعَمَّارٌ يَسُوقُهُ أَوْ أَنَا أَسُوقُهُ وَعَمَّارٌ يَقُودُهُ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَقَبَةِ فَإِذَا أَنَا بِاثْنَىْ عَشَرَ رَاكِبًا قَدِ [ص:261] اعْتَرَضُوهُ فِيهَا قَالَ: فَأَنْبَهْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِمْ فَصَرَخَ بِهِمْ فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ عَرَفْتُمُ الْقَوْمَ؟» قُلْنَا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ كَانُوا مُتَلَثِّمِينَ وَلَكِنَّا قَدْ عَرَفْنَا الرِّكَابَ قَالَ: «هَؤُلَاءِ الْمُنَافِقُونَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهَلْ تَدْرُونَ مَا أَرَادُوا؟» قُلْنَا: لَا قَالَ: «أَرَادُوا أَنْ يَزْحَمُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ فَيُلْقُوهُ مِنْهَا» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ أَوَلَا تَبْعَثُ إِلَى عَشَائِرِهِمْ حَتَّى يَبْعَثَ إِلَيْكَ كُلُّ قَوْمٍ بِرَأْسِ صَاحِبِهِمْ قَالَ: «لَا أَكْرَهُ أَنْ تَحَدَّثَ الْعَرَبُ بَيْنَهَا أَنَّ مُحَمَّدًا قَاتَلَ بِقَوْمٍ حَتَّى إِذَا أَظْهَرَهُ اللهُ بِهِمْ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ يَقْتُلُهُمْ» ثُمَّ قَالَ: «اللهُمَّ ارْمِهِمْ بِالدُّبَيْلَةِ» . قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الدُّبَيْلَةُ قَالَ: «شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يَقَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَهْلِكُ»
سند منقطع ہے
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے
سعيد بن فيروز أبو البختري الطائي كثير الإرسال عن عمر وعلي وابن مسعود وحذيفة وغيرهم رضي الله عنهم
أبو البختري الطائي یہ حذيفة سے ارسال کرتا ہے
اس کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے بھی نہیں ہے امام احمد کا قول ہے کہ اس نے علی سے نہیں سنا – حذيفة رضی اللہ عنہ المتوفی ٣٦ ھ کی وفات تو عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی پہلے کی ہے
المعجم الأوسط از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ، نا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: إِنِّي لَآخِذٌ بِزِمَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقُودُهُ، وَعَمَّارٌ يَسُوقُ بِهِ، أَوْ عَمَّارٌ يَقُودَهُ، وَأَنَا أَسُوقُ بِهِ، إِذِ اسْتَقْبَلَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مُتَلَثِّمِينَ قَالَ: «هَؤُلَاءِ الْمُنَافِقُونَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ» . قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَبْعَثُ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَتَقْتُلَهُ، فَقَالَ: «أَكْرَهُ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَكْفِيَنهُمْ بِالدُّبَيْلَةِ» ، قُلْنَا: وَمَا الدُّبَيْلَةُ؟ قَالَ: «شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يُوضَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَقْتُلُهُ»
راوی عبد الله بن سَلِمة پر خود عمرو بن مرة کا قول ہے : كان يحدثنا فنعرف وننكر كان قد كبر. ہم ان سے روایت کرتے تو انکار کرتے یا روایت لے لیتے
عبد اللہ آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: كان عبد اللَّه بن سلمة قد كبر، فكان يحدثنا فتعرف وتنكر.
شعبہ نے ذکر کیا کہ عمرو نے جب سنا اس وقت تک عبد اللہ بوڑھے ہو چکے تھے پس حدیث سن کر انکار کرتے یا لیتے
یہ سند اس طرح مضبوط نہیں رہتی

بارہ منافق کون تھے ؟

طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: ” تَسْمِيَةُ أَصْحَابِ الْعَقَبَةِ:
الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ نے گھاٹی والے لوگوں پر ذکر کے کہ ان میں تھے

مُعْتِبُ بْنُ قُشَيْرِ بْنِ مُلَيْلٍ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ شَهِدَ بَدْرًا، وَهُوَ الَّذِي قَالَ: يَعِدُنَا مُحَمَّدٌ كُنُوزَ كِسْرَى وَقَيْصَرَ، وَأَحَدُنَا لَا يَأْمَنُ عَلَى خَلَائِهِ. وَهُوَ الَّذِي قَالَ: لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا ” قَالَ الزُّبَيْرُ: ” وَهُوَ الَّذِي شَهِدَ عَلَيْهِ الزُّبَيْرُ بِهَذَا الْكَلَامِ.

وَدِيعَةُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَهُوَ الَّذِي قَالَ: إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ ونَلْعَبُ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ: مَالِي أَرَى قُرَّاءَنَا هَؤُلَاءِ أَرْغَبَنَا بُطُونًا وأَجْبَنَنَا عِنْدَ اللِّقَاءِ.

وَجِدُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نَبِيلِ بْنِ الْحَارِثِ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا مُحَمَّدُ، مَنْ هَذَا الْأَسْوَدُ كَثِيرٌ شَعْرُهُ، عَيْنَاهُ كَأَنَّهُمَا قِدْرَانِ مِنْ صُفْرٍ، يَنْظُرُ بِعَيْنَيْ شَيْطَانٍ، وَكَبِدُهُ كَبِدُ حِمَارٍ، يُخْبِرُ الْمُنَافِقِينَ بِخَبَرِكَ، وَهُوَ الْمُجْتَرُّ بِخُرْئِهِ؟

وَالْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ الطَّائِيُّ، حَلِيفٌ لِبَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَهُوَ الَّذِي سَبَقَ إِلَى الْوَشَلِ الَّذِي نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَمَسَّهُ أَحَدٌ، فَاسْتَقَى مِنْهُ.

وَأَوْسُ بْنُ قَيْظِيٍّ، وَهُوَ مِنْ بَنِي حَارِثَةَ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ: إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ، وَهُوَ جَدُّ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ،

وَالْجَلَّاسُ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ الصَّامِتِ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَبَلَغَنَا أَنَّهُ تَابَ بَعْدَ ذَلِكَ.

وَسَعْدُ بْنُ زُرَارَةَ مِنْ بَنِي مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ، وَهُوَ الْمُدَخِّنُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَصْغَرَهُمْ سِنًّا وَأَخْبَثَهُمْ.

وَقَيْسُ بْنُ قَهْدٍ مِنْ بَنِي مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ.

وَسُوَيْدٌ

وَدَاعِسٌ، وَهُمَا مِنْ بَنِي بَلْحُبْلى وَهُمَا مِمَّنَ جَهَّزَ ابْنُ أُبَيٍّ فِي تَبُوكَ يُخَذِّلَانِ النَّاسَ.

وَقَيْسُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ،

وَزَيْدُ بْنُ اللَّصِيتِ، وَكَانَ مِنْ يَهُودِ قَيْنُقَاعَ، فَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ، وَفِيهِ غِشُّ الْيَهُودِ، وَنِفَاقُ مَنْ نَافَقَ.

وَسَلَامَةُ بْنُ الْحُمَامِ، مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ، فَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ “

زبیر بن بکار کے مطابق یہ منافق تھے

ابن هشام نے السيرة (4: 143) میں ان بارہ منافقوں کے نام لئے ہیں جنہوں نے جنگ تبوک سے واپس آنے پر اپ کو مسجد ضرار انے کی دعوت دی
فقال: وكان الذين بنوه اثنا عشر رجلا:
خذام بن خالد من بني عبيد بن زيد أَحَدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ ومن داره أخرج مسجد الشقاق
وثعلبة بن حاطب من بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ
ومعتب بن قشير من بني ضبيعة بن زيد
وأبو حبيبة بن الأعزر من بني ضبيعة ابن زيد
وعباد بن حنيف أخو سهل بن حنيف مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عوف
وجارية بن عامر وابناه
مجمع بن جارية
وزيد بن جارية
ونبتل بن الحرث من بني ضبيعة
وبحزج من بني ضبيعة و
بجاد بن عثمان من بني ضبيعة
ووديعة بن ثابت وهو من بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ رهط أبي لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ.

یہ وہ بارہ منافق ہیں جن کے اغلبا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی حذيفة رضی اللہ عنہ سے ذکر کیے

الدبيلة کا ذکر

شیعہ کتاب الکافی کی روایت ہے
علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن النوفلي، عن السكوني، عن جعفر، عن آبائه عليهم السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله لاإله إلا هو ليدفع بالصدقة الداء و الدبيلة
امام جعفر نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ بلا شبہ خدا جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں وہ ہر بیماری و الدبيلة کو صدقه سے ہٹا دیتا ہے

قال الفيروز آبادي: الدبل: الطاعون
الفيروز آبادي نے کہا الدبل سے طاعون مراد ہے
الدبيله : الطاعون ، ودمل يظهر في الجوف ويقتل صاحبه غالبا . ( مجمع البحرين ـ دبل ـ 5 : 369 ) ہ
قال ابن الاثير: ذات الجنب: هي الدبيلة
ابن اثیر کا کہنا ہے ذات الجنب ہی الدبيلة ہے

طاعون سے معاذ بن جبل ، ابو درداء وغیرہ کی وفات ہوئی ہے اور اہل سنت میں طاعون میں مرنے والے کو حدیث نبوی کی وجہ سے شہید کا درجہ دیا جاتا ہے

کتاب معارف از ابن قتیبہ میں ہے
وولى «معاوية» الخلافة عشرين سنة إلا شهرا. وتوفى ب «دمشق» سنة ستين. وهو ابن اثنتين وثمانين سنة.
وقال ابن إسحاق: مات وله ثمان وسبعون سنة. وكانت علّته الناقبات «2» [1]- يعنى: الدّبيلة [2] .
ابن اسحاق نے ذکر کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات الدّبيلة سے ہوئی

نبی (ص ) کا ہاتھ سے نام مٹانا

مندرجہ ذیل تحریر راقم کی کتاب وفات النبی کا فٹ نوٹ   ہے 

صحیح بخاری کی ایک روایت ہے جس میں صلح حدیبیہ کا ذکر ہے الفاظ کا ترجمہ ہے
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ
اپ صلی الله علیہ وسلم لکھنے میں اچھے نہیں تھے پس (متن صلح میں  رسول الله نے ) رَسُولُ اللهِ کے مقام پر لکھا

کتاب شرح الطيبي على مشكاة المصابيح از الطيبي (743هـ) میں ہے
قال القاضي عياض: احتج بهذا أناس علي أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب ذلك بيده, وقالوا: إن الله تعالي أجرى ذلك علي يده, إما بأن كتب القلم بيده وهو غير عالم بما كتب, أو بأن الله تعالي علمه ذلك حينئذ, زيادة في معجزته كما علمه ما لم يعلم, وجعله تاليا بعدما لم يكن يتلو بعد النبوة, وهو لا يقدح في وصفه بالأمي.
قاضی عیاض نے کہا لوگوں نے دلیل لی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا اور کہا الله تعالی نے ان کے ہاتھ پر اس تحریر کو جاری کر دیا – جہاں تک قلم سے لکھنے کا تعلق ہے اور وہ اس سے لا علم تھے کیا لکھ رہے ہیں یا الله نے اس وقت ان کو علم دے دیا اس وقت اور یہ رسول الله کے معجزات میں ہے جو الله نے علم دیا

فتح الباری میں ہے اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا لکھنا معجزہ تھا
. وقول الباجي أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كتب بعد أن لم يكتب وأن ذلك معجزة أخرى

عمدة القاري شرح صحيح البخاري از عینی میں ہے
وَقَالَ السُّهيْلي: وَالْحق أَن قَوْله: فَكتب، أَي: أَمر عليا أَن يكْتب. قلت: هُوَ بِعَيْنِه الْجَواب الثَّانِي. (الثَّالِث) : أَنه كتب بِنَفسِهِ خرقاً للْعَادَة على سَبِيل المعجزة،
السُّهيْلي نے کہا حق یہ ہے کہ قول انہوں نے لکھا تو یہ انہوں نے علی کو حکم کیا کہ لکھیں اور میں عینی کہتا ہوں … ان کا لکھنا خرق عادت میں سے معجزہ تھا

یعنی اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خود لکھا تو وہ اس وقت کا معجزہ تھا

صحیح مسلم میں ہے
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَرِنِي مَكَانَهَا فَأَرَاهُ مَكَانَهَا فَمَحَاهَا وَكَتَبَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا مجھے دکھاو وہ جگہ – پس اپ کو دکھایا گیا تو اپ نے اس کو مٹا دیا اور لکھا ابن عبد الله
یعنی رسول الله نے محمد رسول الله کے الفاظ مٹا کر کر دیا محمد بن عبد الله لکھا

امام مسلم کے نزدیک یہ کوئی معجزہ نہیں تھا صرف اتنا ہی اپ صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ رسول الله ہٹا کر ابن عبد الله کر دیا

امام مسلم الفاظ لائے ہیں کہ رسول اللہ کو پوچھنا پڑا کہ کہاں رسول اللہ لکھا ہے یعنی اگر یہ تمام معجزہ ہو رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر کسی صحابی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ کہاں کیا لکھا ہے
اس طرح امام مسلم کے نزدیک یہ معجزہ نہیں ہے اور امام بخاری کے نزدیک یہ معجزہ ہوا

راقم کہتا ہے رسول الله کے ہاتھ میں انگوٹھی ہوتی تھی جس پر آپ نے محمد رسول الله کندہ کروا رکھا تھا ممکن ہے اس مہر والی انگوٹھی کو دیکھ کر اس وقت لکھا ہو

مجموعہ احادیث میں روایت میں یہ الفاظ
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ اور رسول الله لکھنے میں اچھے نہیں تھے پس اپ نے اس جگہ رسول الله لکھا

صرف ابی اسحاق الکوفی نے روایت کیے ہیں جو کوفہ کے شیعہ ہیں اور شیعہ کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے – اہل سنت اس کے انکاری ہیں جو قرآن کے مطابق ہے

سنن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول الله نے معراج پر جنت کے دروازے پر پڑھا کہ نیکی کا ثواب دس گنا  ہے
حدثنا عبيد الله بن عبد الكريم حدثنا هشام بن خالد حدثنا خالد بن يزيد وحدثنا أبو حاتم حدثنا هشام بن خالد حدثنا خالد بن يزيد بن أبي مالك عن أبيه عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ليلة أسري بي على باب الجنة مكتوبا الصدقة بعشر أمثالها والقرض بثمانية عشر فقلت يا جبريل ما بال القرض أفضل من الصدقة قال لأن السائل يسأل وعنده والمستقرض لا يستقرض إلا من حاجة
اس کی سند میں خالد بن يزيد بن أبي مالك هانئ، أبو هاشم الهمداني الشامي، أخو عبد الرحمن. متروک الحدیث ہے

راقم نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ یہ واقعہ معجزہ تھا سب نے دیکھا کہ رسول اللہ جو لکھنا نہیں جانتے تھے، انہوں نے اس وقت اپنے نام مبارک کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ کو خود مٹا دیا

اہل تشیع کے اقوال 

كتاب تفسير القمي ج2 ص309_313 میں ہے
حدثني أبي عن ابن ابي عمير عن ابن سنان عن ابي عبد الله (ع) قال: كان سبب نزول هذه السورة وهذا الفتح العظيم ان الله عزوجل أمر رسول ….. فقال رسول الله أنا رسول الله وان لم تقروا، ثم قال امح يا علي ! واكتب محمد بن عبد الله، فقال أمير المؤمنين عليه السلام، ما أمحو اسمك من النبوة ابدا، فمحاه رسول الله صلى الله عليه وآله بيده.

رسول الله نے ہاتھ سے الفظ مٹا دیے

الفصول المهمة في أصول الأئمة – الحر العاملي میں روایات ہیں
محمد بن الحسن الصفار في بصائر الدرجات، عن أحمد بن محمد عن ابي عبد الله البرقي، عن جعفر بن محمد الصوفي، قال: سمعت ابا جعفر محمد بن علي الرضا ع، وقلت له: يابن رسول الله لم سمى النبي، الامي ؟ قال ما يقول الناس (1) ؟ قلت: يقولون: انما سمى الامي لانه لم يكتب فقال: كذبوا، عليهم لعنة الله، انى يكون ذلك والله تعالى يقول في محكم كتابه: (هو الذي بعث في الاميين رسولا منهم يتلوا عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب (2) والحكمة فكيف يعلمهم ما لم يحسن ؟ والله لقد كان رسول الله (ص) يقرأ ويكتب باثنين وسبعين لسانا وانما سمى الامي لانه كان من مكة ومكة من امهات القرى وذلك قول الله في كتابه: (لتنذر أم القرى ومن حولها).

امام محمد بن علي الرضا کو جعفر بن محمد الصوفي نے کہتے سنا جب اس نے سوال کیا کہ اے رسول الله کے بیٹے نبی کو امی کیوں نام دیتے ہیں ؟ امام نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا کہتے ہیں یہ امی تھے کہ یہ لکھ نہیں سکتے تھے – امام نے کہا یہ جھوٹ بولتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہو یہ کہاں تھے جب اللہ نے کتاب محکم میں کہا

هو الذي بعث في الاميين رسولا منهم يتلوا عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب
اور حکمت کیسے وہ جان گئے اگر وہ لکھنے پڑھنے میں اچھے نہ ہوتے ؟

اللہ تعالی کی قسم بے شک رسول الله سات یا آٹھ زبانوں میں پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور ان کو امی تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ مکی ہیں اور مکہ کو ام القری کہا جاتا ہے

راقم کہتا ہے اس کی سند میں محمد بن خالد البرقي ہے جس کو من أصحاب امام أبي الحسن موسى میں شمار کیا گیا ہے
اس نے اس روایت کو جعفر بن محمد الصوفي سے لیا ہے جو مجہول ہے

مستدركات علم رجال الحديث – الشيخ علي النمازي الشاهرودي – ج ٢ – الصفحة ٢٠٢
2785 – جعفر بن محمد الصوفي (يعني بايع الصوف):
لم يذكروه. وهو من أصحاب مولانا الجواد عليه السلام.

الفصول المهمة في أصول الأئمة – الحر العاملي میں روایت ہے
وعن عبد الله بن عامر، عن ابن ابى نجران، عن يحيى بن عمرو، عن أبيه، عن ابي عبد الله ع وسئل عن قول الله تبارك وتعالى: وأوحى الي هذا القرآن لانذركم به ومن بلغ ؟ قال: بكل لسان.
يحيى بن عمرو نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ انہوں نے امام جعفر سے پوچھا الله تعالی کے قول پر وأوحى الي هذا القرآن لانذركم به ومن بلغ تو فرمایا ہر زبان میں

راقم کہتا ہے ابن ابی نجران مجہول ہے – الخوئی اس کی کوئی بھی تعدیل پیش نہیں کر سکے صرف کہا اس سے بہت سی روایات ہیں

الفصول المهمة في أصول الأئمة – الحر العاملي میں روایت ہے
– وعن الحسن بن علي، عن أحمد بن هلال، عن خلف بن حماد، عن عبد الرحمن بن الحجاج، قال: قال أبو عبد الله ع: ان النبي (ص) كان يقرأ ما يكتب ويقرأ ما لم يكتب
عبد الرحمن بن الحجاج نے روایت کیا کہ امام جعفر نے کہا رسول الله ہر لکھی تحریر پڑھ سکتے تھے ہے وہ بھی جو نہیں لکھا ہوا

راقم کہتا ہے نجاشی نے لکھا ہے : قال النجاشي: عبد الرحمان بن الحجاج البجلي: مولاهم، كوفي، بياع السابري، سكن بغداد، ورمي بالكيسانية، روى عن أبي عبد الله وأبي الحسن (عليه السلام)
عبد الرحمان بن الحجاج کیسانیہ فرقے کا تھا یعنی یہ محمد حنفیہ کو امام کہتا تھا غالی تھا

سند میں خلف بن حماد بن ناشر بھی ہے – ابن الغضائري : خلف بن حماد بن ناشر بن الليث الاسدي كوفي – أمره مختلط
اس کا امر مختلط ہے

اہل تشیع کے ہاں متضاد اقوال بھی ہیں – بحار الانوار ج16 ص132 میں ہے
أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن البزنطي، عن أبان، عن الحسن الصيقل قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: كان مما من الله عزوجل به على نبيه صلى الله عليه واله أنه كان اميا لا يكتب ويقرؤ الكتاب.
امام جعفر نے کہا رسول الله نہ لکھ سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے

أخرج الصدوق في علل الشرائع عن ابن الوليد عن سعد عن ابن عيسى عن الحسين بن سعيد ومحمد البرقي عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم عن أبي عبد الله عليه ‌السلام قال : كان النبي يقرأ الكتاب ولا يكتب.
امام جعفر نے کہا نبی پڑھ سکتے تھے لکھ نہیں پاتے تھے

ڈاکٹر عثمانی کی پریشانی اور امام النسفی کا جواب

قصہ مختصر
محدثین متاخرین جو تصوف کو پسند کرتے تھے ان کی ایک جماعت نے بلخی صوفی ابراھیم بن ادھم کا ذکر اپنی کتب میں کیا ہے – اس کے لئے رطب اللسان رہے – راقم سمجھتا ہے یہ کوئی فرضی کردار تھا جو اویس قرنی کی طرح متصوفین نے گھڑا – اس کردار یعنی ابراھیم بن ادھم کے حوالے سے لوگوں نے ذکر کیا کہ یہ کعبہ حج کرنے پہنچا تو کعبہ غائب تھا یہ کعبہ ڈھونڈتا ہوا عراق آیا تو وہاں کعبہ رابعہ بصری کا طواف کر رہا تھا – قصہ مشہور ہوا اور بعض علماء نے اس کو سنانے پر کفر کا فتوی دیا – یہ متکلم امام النسفی پر بھی پیش ہوا – امام النسفی نے اس کو کرامت بتایا – قصہ واپس مشہور ہوا متصوفین اس کو درج کرتے رہے کوئی نکیر نہ ہوئی یہاں تک کہ ڈاکٹر عثمانی نے صوفیوں پر کتاب ایمان خالص میں تنقید کی
اہل حدیث اور غیر مقلدوں میں سے بعض نے عثمانی کی تحسین کی اور بعض نے صوفیوں کی مدد کی مثلا خواجہ قاسم وغیرہ نے اور دعوی کیا کہ اس قسم کے قصوں کو اہل بدعت ( یعنی بریلویوں) نے گھڑا
راقم کو ملا کہ امام النسفی کا حوالہ لوگ بھلا بیٹھے ہیں – جس سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ بریلویوں نے نہیں گھڑا بلکہ یہ ایک قدیم قصہ ہے

مشہور قصہ ہے کہ  ابراہیم بن ادھم ١٤ سال میں بلخ سے  مکہ پہنچے –   انیس الارواح  از عثمان ہارونی مرتبہ  معین الدین چشتی، ص ١٧، ١٨ پر حکایت لکھی ہے کہ عثمان ہارونی نے

ibraheemBinAdham

اس حکایت میں ضعیفہ ، رابعة العدوية (المتوفی ١٣٥ ھ یا ١٨٥ ھ) جن کا مکمل نام   رابعة بنت اسماعيل أم عمرو العدوية ہے. ان کو أم الخير بھی کہا جاتا ہے کا ذکر ہے جو  یہ دعوی کرتی تھیں کہ یہ الله کی عبادت جنّت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ الله کی خوشنودی کے لئے کرتی ہیں (یعنی باقی صوفی ایسا کرتے تھے مثلا ابراہیم بن ادھم بلخی)

عثمانی صاحب نے اس قصہ پر جرح کی کہ اس میں صوفیوں کو علم غیب کی خبر دی  گئی ہے البتہ راقم کو ملا کہ امام نسفی نے اس قصہ کو قبول کیا

إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بلخ سے مکہ پہنچے تو کعبہ وہاں نہ تھا رابعہ بصری کی زیارت کو گیا ہوا تھا – یہ قصہ عربوں میں مشہور ہوا اور بعض فقہاء نے ان پر کفر کا فتوی دیا جنہوں نے اس قصہ کو بیان کیا

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار از الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ) میں ہے
قُلْت: لَكِنْ فِي عَقَائِدِ التَّفْتَازَانِيُّ جَزَمَ بِالْأَوَّلِ تَبَعًا لِمُفْتِي الثَّقَلَيْنِ النَّسَفِيِّ، بَلْ سُئِلَ عَمَّا يُحْكَى أَنَّ الْكَعْبَةَ كَانَتْ تَزُورُ وَاحِدًا مِنْ الْأَوْلِيَاءِ هَلْ يَجُوزُ الْقَوْلُ بِهِ؟ فَقَالَ: خَرْقُ الْعَادَةِ عَلَى سَبِيلِ الْكَرَامَةِ لِأَهْلِ الْوِلَايَةِ جَائِزٌ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ،
میں کہتا ہوں لیکن عقائد التَّفْتَازَانِيُّ ( شَرْحِهِ عَلَى الْعَقَائِدِ النَّسَفِيَّةِ) میں جزم سے ہے کہ مفتی ثقلین امام النَّسَفِيِّ سے سوال ہوا اس حکایت پر کہ کعبہ نے اولیاء الله میں سے ایک کی زیارت کی ، کہ کیا یہ کہنا جائز ہے ؟ پس امام نسفی نے جواب دیا اہل سنت میں اہل ولایت کی کرامت کے لئے خرق عادت جائز ہے

رد المحتار على الدر المختار از ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) میں ہے کہ ابن عابدین نے کہا
قَالَ إنَّمَا الْعَجَبُ مِنْ بَعْضِ فُقَهَاءِ أَهْلِ السُّنَّةِ حَيْثُ حَكَمَ بِالْكُفْرِ عَلَى مُعْتَقِدِ مَا رُوِيَ عَنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ إلَخْ ثُمَّ قَالَ: وَالْإِنْصَافُ مَا ذَكَرَهُ الْإِمَامُ النَّسَفِيُّ حِينَ سُئِلَ عَنْ مَا يُحْكَى أَنَّ الْكَعْبَةَ كَانَتْ تَزُورُ وَاحِدًا مِنْ الْأَوْلِيَاءِ هَلْ يَجُوزُ الْقَوْلُ بِهِ؟ فَقَالَ: نَقْضُ الْعَادَةِ عَلَى سَبِيلِ الْكَرَامَةِ لِأَهْلِ الْوِلَايَةِ جَائِزٌ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ. اه
اہل سنت کے بعض فقہاء پر حیرت ہوئی جنہوں نے ان لوگوں پر کفر کا فتوی دیا جو اعتقاد رکھ رہے تھے اس پر جو إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ سے روایت کیا گیا ہے اور انصاف وہ ہے جو امام نسفی المتوفی ٥٣٧ ھ نے ذکر کیا

اس طرح اس قصہ کو کرامت ولی کے زمرے میں قبول کر لیا گیا

افسوس علم غیب کی نقاب کشائی  کا کسی متکلم  امام کو خیال تک نہ آیا

ابراھیم کی مقبولیت اہل حدیث میں بھی ہو چلی تھی اور امام الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں ذکر کیا
عِصَامُ بنُ رَوَّادٍ: سَمِعْتُ عِيْسَى بنَ حَازِمٍ النَّيْسَابُوْرِيَّ يَقُوْلُ:
كُنَّا بِمَكَّةَ مَعَ إِبْرَاهِيْمَ بنِ أَدْهَمَ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِي قُبَيْسٍ (2) ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ مُؤْمِناً، مُسْتكمِلَ الإِيْمَانِ، يَهزُّ الجَبَلَ لَتَحَرَكَ.
فَتَحَرَّكَ أَبُو قُبَيْسٍ، فَقَالَ: اسْكُنْ، لَيْسَ إِيَّاكَ أَرَدْتُ
عيْسَى بنَ حَازِمٍ نے ذکر کیا کہ ہم مکہ میں تھے إِبْرَاهِيْمَ بنِ أَدْهَمَ نے جبل ابو قُبَيْسٍ پر نظر ڈالی اور کہا اگر تو مومن ہے ایمان کامل ہے تو یہ پہاڑ سرک جائے – پس جبل ابو قُبَيْسٍ ہلنے لگا – ابراھیم نے کہا رک جا یہ ارادہ نہیں تھا

پھر اس حکایت کا دوسری سند سے ذکر کیا
عَنْ مَكِّيِّ بنِ إِبْرَاهِيْمَ، قَالَ: قِيْلَ لابْنِ أَدْهَم: مَا تَبلُغُ مِنْ كَرَامَةِ المُؤْمِنِ؟
قَالَ: أَنْ يَقُوْلَ لِلْجَبَلِ: تَحرَّكْ، فَيَتحَرَّكُ.
قَالَ: فَتَحَرَّكَ الجَبَلُ، فَقَالَ: مَا إِيَّاكَ عَنَيْتُ

اس طرح محدثین بھی مان رہے تھے کہ ابراھیم نام کا بلخی و سنٹرل ایشیا کا صوفی مکہ کے پہاڑوں کو ہلا  رہا تھا

 

https://www.islamic-belief.net/%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C%D9%85-%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D8%AF%DA%BE%D9%85/

 

حیات النبي في القبر جو مسئلو

175 Downloads

اُمت جا ولي ابوبڪر رضي الله عنه چون ٿا ته

 ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا  قد مات…     صحیح بخاری

ٻُڌي وٺو! جيڪو شخص محمد صلي الله عليه وسلم جي عبادت ڪندؤ ھو ته(ھو ڄاڻي وٺي ته )  بيشڪ محمد فوت ٿي وياـ

عائيشہ رضي الله عنها جو فرمان آھي ته

 لقد مات رسول الله…    صحیح مسلم

يقيناً رسول الله فوت ٿي وياـ

اہل بیت کا قبر پر خیمہ لگانا

قصہ مختصر
امام بخاری نے تعلیق صحیح بخاری میں چلتے چلتے بلا سند لکھا کہ فاطمہ بنت حسین نے اپنے شوہر حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کی موت کے بعد ان کی قبر پر خیمہ لگایا پھر وہ قبرستان میں رکی رہیں پھر جب کوئی فائدہ نہ ہوا تو قبر پر معتکف نہ رہیں اور آواز کسنے والے نے آواز لگائی مل گیا تجھ کو جس کے لئے بیٹھی تھی ؟
راقم نے مراجع اہل سنت میں اس کی سندین تلاش کی – ابھی تک تو نہیں ملی – پھر کتب شیعہ کو دیکھا – اس میں بھی نہیں ملی لیکن بعض شیعہ علماء نے اسی طرح اس واقعہ کو تعلیقا درج کیا ہے – راقم کہتا ہے جب تک سند نہ ہو یہ اہل بیت پر ایک اتہام ہے اس کو بیان نہیں کیا جانا چاہیے نہ لکھنا چاہیے

امام بخاری نے ذکر کیا ہے
فاطمة بنت الحسين بن علي زوجہ حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد ان کی قبر پر قبہ تعمیر کیا اور ایک سال تک وہ ان کی قبر پر رہا

امام بخاری نے صحیح باب مَا يُكْرَهُ مِنِ اتِّخَاذِ المَسَاجِدِ عَلَى القُبُورِ میں بلا سند  لکھا ہے
وَلَمَّا مَاتَ الحَسَنُ بْنُ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ضَرَبَتِ امْرَأَتُهُ القُبَّةَ عَلَى قَبْرِهِ سَنَةً، ثُمَّ رُفِعَتْ
جب حسن بن حسن بن علی کی وفات ہوئی تو ان کی بیوی نے قبہ (گنبد ) ان کی قبر پر بنایا جو ایک سال رہا پھر اس کو ہٹایا
راقم کہتا ہے یہ اثر عجیب و غریب ہے اس کا ذکر شیعہ کتب میں بھی ہے
تهذيب المقال – از السيد محمد على الأبطحى میں ہے
ولما مات الحسن بن الحسن (ع) ضربت زوجته فاطمة بنت الحسين بن علي عليهما السلام على قبره فسطاطا، وكانت تقوم الليل وتصوم النهار، وكانت تشبه بالحور العين لجمالها، فلما كان رأس السنة قالت لمواليها: إذا اظلم الليل فقوضوا هذا الفسطاط، فلما أظلم الليل سمعت قائلا يقول: ” هل وجدوا ما فقدوا ” فأجابه آخر: ” بل يئسوا فانقلبوا ” ذكره المفيد في إرشاده وابن زهرة في غاية الاختصار ص 42 و 59 وغيرهما.
جب حسن بن حسن کی وفات ہوئی تو ان کی بیوی فاطمہ بنت حسین نے قبر پر خیمہ لگایا اور وہ وہاں رات کو رکتیں اور دن میں روزہ رکھتیں اور ان کی خوبصورتی کی وجہ سے ان کو حور العين سے تشبیہ دی جاتی تھی پس جب ایک سال مکمل ہوا انہوں نے غلاموں سے کہا جب رات تاریک ہو جائے اس خیمہ کو ختم کرو اور رات کے اندھیرے میں سنا گیا کہ کسی نے کہا کیا تجھ کو ملا جو کھو گیا تھا ؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں یہ مایوس ہو گئی اور چلی گئی اس کا ذکر مفید نے ارشاد میں کیا ہے اور ابن زهرة نے غاية الاختصار ص 42 و 59 میں ذکر کیا ہے

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی میں یہی ہے
ولما مات الحسن ابن الحسن ضربت زوجته فاطمة بنت الحسين بن علي عليهما السلام على قبره فسطاطا وكانت تقوم الليل وتصوم النهار، وكانت تشبه بالحور العين لجمالها، فلما كان رأس السنة قالت لمواليها: إذا أظلم الليل فقوضوا هذا الفسطاط، فلما أظلم الليل سمعت صوتا يقول: ” هل وجدوا ما فقدوا ” فأجابه آخر يقول: ” بل يئسوا فانقلبوا

التوضيح لشرح الجامع الصحيح از ابن ملقن میں ہے
هذِه الزوجة هي فاطمة بنت الحسين بن علي، وهي التي حلفت له بجميع ما تملكه أنها لا تزوج عبد الله بن عمرو بن عثمان بن عفان ثم تزوجته، فأولدها محمد الديباج (1). وهذا المتكلم يجوز أن يكون من مؤمني الجن أو من الملائكة، قالاه موعظة، قاله ابن التين
یہ بیوی فاطمة بنت الحسين بن علي تھیں … ان کی شادی پھر عبد الله بن عمرو بن عثمان بن عفان سے ہوئی جن سے
محمد الديباج پیدا ہوئے –

راقم کہتا ہے کہ فاطمہ واقعہ کربلا کی عینی شاہد ہیں ان کو دمشق بھیجا گیا پھر مدینہ اور فاطمة بنت الحسين بن علي اہل سنت کی حدیث کی کتب سنن أبو داود ، الترمذي ، مسند علي از النسائي ، ابن ماجه وغیرہ کی راویہ بھی ہیں

امام بخاری نے ذکر کیا
فَسَمِعُوا صَائِحًا يَقُولُ: أَلاَ هَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا، فَأَجَابَهُ الآخَرُ: بَلْ يَئِسُوا فَانْقَلَبُوا
ایک کہنے والے نے کہا خبردار کیا تو نے پا لیا جو کھو گیا تھا ؟ دوسرے نے جواب دیا یہ مایوس ہوے اور پلٹ گئے

یہ کس نے کہا ؟ ابن التین نے کہا یہ وہ ہیں جو مومن جنات و فرشتے ہیں

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں العينى نے لکھا
قَالَ ابْن بطال: ضربت الْقبَّة على الْحسن وسكنت فِيهَا وَصليت فِيهَا فَصَارَت كالمسجد
ابْن بطال نے کہا حسن کی قبر پر قبہ بنانا گیا اور اس میں رکا گیا اور نماز پڑھی گئی اور اس کو مسجد کر دیا گیا

كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) میں ہے
قال ابن المنير: إنما ضربت الخيمة هناك للاستماع بالميت بالقرب منه تعليلًا للنفس
زین ابن المنیر نے کہا انہوں نے قبر پر خیمہ لگایا کہ میت کو سن سکیں، اس کا قرب لینے

راقم کہتا ہے یہ خام خیالی ہے

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ملا علی القاری میں ہے
الظَّاهِرُ أَنَّهُ لِاجْتِمَاعِ الْأَحْبَابِ لِلذِّكْرِ، وَالْقِرَاءَةِ، وَحُضُورِ الْأَصْحَابِ لِلدُّعَاءِ وَالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ
ظاہر ہے کہ یہ قبہ بنایا گیا کہ احباب یہاں ذکر و اذکار کریں اور حاضر ہوں قرات کرنے اور دعا و مغفرت

راقم کہتا ہے کہ اس واقعہ کی سند نہ کتب اہل سنت میں ملی ہے نہ اہل تشیع میں لہذا ایسا ہوا مشکوک ہے

حدیث الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ

214 Downloads
اس  کتابچہ  میں  غزوہ   الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ  کا  ذکر  ہے – غزوہ  عربی  میں  تلوار  سے  جہاد  کرنے کو کہتے ہیں –  روم  کے  بہت سے  بلاد و شہر  تھے  جن  پر حملے  دور  عثمان  سے  شروع  ہوئے  اور  یہ زمینی  حملے  تھے –  ایک  حملہ بحری  تھا  جس  میں ام حرام  رضی  اللہ عنہا  کی شہادت  ہوئی –
غزوہ   الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ  اہل سنت  و  اہل تشیع  میں  موضوع  بحث  بنی  رہتی  ہے کیونکہ  اس میں  یزید  بن  معاویہ کی  شرکت  کا ذکر  ہے –  چونکہ  یزید  کے دور  میں  قتل  حسین  ہوا   ، یزید  کے  حوالے  سے  لوگوں  نے  کہنا  شروع  کیا  کہ  یزید  حدیث  الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ   کا مصداق   نہیں  ہو  سکتا  ورنہ وہ  مغفور  بن  جائے  گا اور   لوگوں  نے  چاھا  کہ  یزید کو  قاتل  حسین  ثابت  کر  کے  جہنمی قرار دیں – اس  مشق  میں  حدیث رسول  ان کے رستہ  میں  آ کھڑی ہوئی –   اس  کتابچہ  کا  مقصد  حدیث  الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ    سے  متعلق  اہل سنت  و  اہل  تشیع  کے اشکالات  پر  غور  کرنا  ہے اور صحیح سمت میں جانا ہے –
الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ  پر حملہ اہل شام نے کیا  تھا اور اللہ نے اہل شام کو باقی بلاد مسلمین پر  فضیلت دی اور اس طرح  اللہ تعالی نے  اہل شام ،  شیعان معاویہ کو  جنتی  کر دیا –
تاریخ کو  مسخ   کرنے والے  بہت ہیں  لہذا  غلو  پروروں کا رد  قیامت تک ہوتا رہے گا – اسی سلسلے یہ ایک ادنی  کاوش ہے –
ابو شہر یار
٢٠٢٠

عید میلاد النبی

181 Downloads

فاطمی شیعوں نے امت میں پہلی بار عید میلاد النبی کا اجراء کیا – ساتھ ہی اہل سنت میں شاہ اربل نے بھی اس کو کرنا شروع کیا – مظفر الدين أبو سعيد كوكبري رشتے میں سلطان صلاح الدين ايوبي کے بہنوئي تھے عید میلاد النبی پر مسلمانوں میں ساتویں صدی ہجری سے اختلاف چلا آ رہا ہے کہ یہ مستحسن ہے یا بدعت ہے –

فہرست

پیش لفظ 3
خلفائے اربعہ سے منسوب اقوال 9
قرآن میں عید میلاد النبی کا ذکر ہے ؟ 14
ثُوَيْبَةُ کا قصہ 16
سلف کا غلو 18
عید میلاد النبی پر سوالات 20
علم ہیت اور پیر کا دن 27
پیدائش النبی پر نور نکلا 28

اعمال پيش ٿيڻ جي عقيدي جو رد

302 Downloads

اس ويب سائٹ کي کتب کا سندھي ميں ترجمہ کا آغاز کيا گيا ہے – اس سلسلے کي پہلي کتاب عقيدہ عرض عمل کے بارے میں ہے – قارئين اس کو يہاں سے ڈونلوڈ کر سکتے ہيں
اللہ سے دعا ہے کہ مترجمين کي اس کاوش کو قبول کرے اور ان کو اجر عظيم دے
امين

 

خروج حسین سنجیدہ تحقیق

212 Downloads

کتاب  ڈونلوڈ  کرنے کے  لئے پہلے   کنڈیشن والے باکس پر کلک کریں پھر  ڈونلوڈ بٹن کو کلک کریں 

قصہ مختصر

حسن رضی اللہ عنہ نے سن ٤١ ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس شرط پر خلافت سونپ دی کہ خلافت معاویہ کی وفات پر حسن پر واپس لوٹ آئے گی – اللہ کو منظور ہوا کہ حسن کی وفات ، معاویہ سے پہلے ہو گئی اور یہ معائدہ ختم ہو گیا – معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزدہ کر دیا – اس پر بعض اصاغر صحابہ مثلا حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو اعتراض ہوا کیونکہ یہ خلیفہ بننے کے متمنی تھے- اکابر اصحاب رسول نے بیعت یزید کر لی لیکن حسین اور ابن زبیر نے توقف کی راہ لی – اس دوران پانچ ماہ گذر گئے اور یزید کی جانب سے کوئی سرزنش نہ کی گئی – لیکن اس کے بعد حسین اپنے عزیز و اقارب اور رفقاء کو لے کر ببانگ دھل مدینہ سے عراق گئے کہ وہ وہاں اپنی خلافت قائم کریں گے – بنو امیہ کی حکومت نے ان کو نہیں روکا یہاں تک کہ حسین کے کزن مسلم بن عقیل کوفہ میں بلوا میں گرفتار ہوئے اور حسین کے ہمدرد روپوش ہو گئے – حسین نے کوفہ کا ارادہ ترک کیا اور شمال کا رخ کیا یہاں تک کہ ٤٠ میل دور کربلا پہنچے – حسین شہید ہوئے اور ان کے ساتھی بھی ، صرف امام زین العابدین بچ گئے جن کو کسی شیعہ نے بے ہوش کیا اور جب ان کو ہوش آیا تو وہ دمشق میں تھے – اسی دوران کربلا میں حسین کا سر گورنر ابن زیاد پر پیش ہوا اور ابن زیاد نے حسین کی تعریف کی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی – دمشق سے زین العابدین کو مدینہ واپس بھیج دیا گیا – اس واقعہ کے ایک سال بعد ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں خروج کیا اور مکہ کی طرف فرار ہوئے جب حکومت نے مدینہ کا کنٹرول واپس حاصل کیا – سو سال بعد ابو مخنف نام کے ایک قصہ گو نے مقتل حسین کی داستان رقم کی اور اس میں وہ لوگوں کو قتل حسین اور ابن زبیر کی واردات سناتا تھا – اسی طرح اور قصہ گو بھی کر رہے تھے – حسین اور ابن زبیر کے قصوں کو سن ٢٠٠ ہجری کے بعد امام طبری نے اپنی تاریخ میں جمع کیا

 

سن ٦٠ ہجری میں نواسہ رسول ، حسین رضی اللہ عنہ اپنے شیعوں (یعنی حمایتیوں ) کے ایک امیر و امام تھے جو کوفہ و عراق میں موجود تھے – وہ عراق میں اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن اس کوشش میں شہید ہو گئے – حسین بن ابی طالب (پیدائش سن ٤ ھ ) کی شہادت محرم کی دس راتیں گرزنے کے بعد سن ٦١ ہجری بمطابق دس اکتوبر سن ٦٨٠ ع اتوار کے دن ہوئی –

مقتل حسین پر سب سے اول کتاب متروک محدث و اخباری ابو مخنف لوط بن یحیی الأزدي المتوفی ١٥٧ ھ کی کتاب ہے – ابو مخنف کی کتاب مقتل حسین کا اصل نسخہ دنیا میں موجود نہیں ہے لیکن اسی کی رویات بعد میں تاریخ طبری میں جا بجا نقل ہوئی ہیں – اہل سنت میں تاریخ ابن کثیر ، تاریخ اسلام از امام الذھبی ، ابن اثیر کی الکامل بہت پیش کی جاتی ہیں – انہی کتب میں بیان کردہ روایات کو ملا جلا کر آجکل مکمل قصے بنا دیے جاتے ہیں – امام طبری نے اپنی تاریخ میں اسناد دیں ہیں اور اس میں یزید و معاویہ پر قابل اعتراض مواد ابو مخنف متروک کی سند سے ہے – البتہ الکامل از اثیر اور ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ میں سندیں نہیں دی گئیں اور روایات کو ضعیف و موضوع کی تہذیب کے بغیر ملا کر لکھ دیا گیا ہے – افسوس اس بد احتیاطی کی وجہ سے یہ کتب لائق اعتبار نہیں ہیں – ابن خلدون نے ان لوگوں کا شمار لکیر کے فقیروں میں کیا ہے – علامہ لکھتے ہیں

ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے قلم بند کردئے لیکن بعد میں آنے والے بن بلائے نالائقوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملا دیے ، اوہام و ذاتی خیالات بھر دئے – اسی طرح کمزور منقولہ اور خود تراشیدہ روایات تاریخ میں بھر دیں – بعد میں آنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے، جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم و کاست ہم تک پہنچا دئے – انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ … بے پر کی اڑائی ہوئی باتوں کا رد کیا اور نہ معقول جواب دیا

چونکہ لوگ مجبور ہیں کہ جرح و تعدیل نہیں کر سکتے لہذا انہی تواریخ کو پڑھ کر پریشان ہو جاتے ہیں – ان کو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ابن کثیر ایک محدث تھے لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنی تاریخ پر کتاب البدایہ میں انہوں نے روایات پر جرح و تعدیل نہیں کی ہے جس طرح وہ درکار تھی – عام لوگ ان کتب کو پڑھ کر اس طرح منکر و معلول و منقطع روایات کو بھی سر آنکھوں پر بیٹھا دیتے ہیں – رہی سہی کسر البانی نے پوری کر دی ہے جس نے بغض معاویہ کی کوئی روایت نہیں جس کی تصحیح یا تحسین نہ کی ہو – پھر اہل حدیث مقلدوں کا ایک لشکر ہے جو یو ٹیوب پر رافضیوں کی ڈفلی بجا رہا ہے – فرقوں کے ان اعمال سیاہ کو دیکھ کر راقم نے محسوس کیا کہ صحیح تاریخ مرتب کی جائے – الحمد للہ اس حوالے سے کتاب المشاجرت و المشاحنات کافی پسند کی گئی

قتل حسین پر کتب جذباتیت سے بھر پور ہیں – اکثر بحث اس پر ہی مذکور ہوتی ہے کہ یزید بن معاویہ (پیدائش٢٣ یا ٢٥ ھ – وفات صفر سن ٦٤ ہجری )نے قتل کا حکم دیا تھا یا نہیں دیا تھا – اس پر بحث کم ہوتی ہے کہ حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما میں جو معائدہ ہوا وہ کیا تھا – اس کی شقوں پر کیا اختلاف ہوا ؟ علی رضی اللہ عنہ کا خروج کرنے والے پر کیا حکم ہے ؟ ان سوالات سے بچ کر خروج حسین پر کلام کرنا عبث مشقت ہے

بعض افسانہ سازوں نے تحقیق کے نام پر گمان کیا ہے کہ حسین کوفہ اپنے شیعوں کو سمجھانے گئے تھے یا کوفہ کا دورہ کر رہے تھے – راقم کہتا ہے یہ خیال آرائی بالکل لغو ہے – حسین کوفہ میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور سن ٦١ میں بلا شبہ اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن افسوس وہ عصبیت جمع نہ کر پائے جو ان ساتھ لڑتی اور مدد کرتی – حسین کا قتل حکومت بنو امیہ کی ایماء پر کیا گیا تھا یا نہیں یہ صحیح سند سے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی صحیح طور پر معلوم ہے کہ قاتلین حسین کون لوگ تھے – البتہ یہ معروف ہے کہ حسین شہید ہوئے ، ان کے قافلہ کے بچنے والے افراد دمشق شام لے جائے گئے اور پھر مدینہ منتقل کیے گئے –

خروج حسین کے حوالے سے امت میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے – اہل تشیع میں سے بعض کے نزدیک قتل حسین اصل میں طلقاء (مکہ کے نو مسلموں ) کا بدلہ عداوت تھا جو وہ بنو ہاشم سے لے رہے تھے – یہ بات احمقانہ ہے کیونکہ بدر کے مشرک مقتولین کے ساتھ ہر قریشی و انصاری نے قتال کیا تھا یہ کوئی بنو ہاشم یا بنو امیہ کی جنگ نہیں تھی مومنوں اور کفار کی جنگ تھی – اہل تشیع کے نزدیک خلیفہ کا تقرر کرنا اللہ کا کام ہے اور اہل تشیع کے نزدیک حسین کا بطور خلیفہ تقرر اللہ تعالی نے کیا تھا – اس عقیدے کو عقیدہ امامت کہا جاتا ہے البتہ اس کی منصوص دلیل قرآن میں نہیں ہے – اہل سنت اس میں ان سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جمہور جس کو خلیفہ مقرر کر دیں وہی خلیفہ ہے ، منصف خلافت وھبی یا من جانب اللہ نہیں ہے – اہل سنت میں سے بعض کے نزدیک قتل حسین کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی – تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ محض غالیوں کی روایات و تصورات ہیں –

اہل تشیع میں تمام کا اور اہل سنت میں سے بعض کا موقف ہے کہ معاویہ (رضی اللہ عنہ ) ایک ظالم حاکم تھے ، ان کی حکومت بادشاہت تھی ، حق پر نہیں تھی – ان کے مطابق معاویہ کی بھنبھوڑ کھا نے والی سلطنت کی خبر حدیث میں دی گئی تھی اور معاویہ کے گورنر حرام خور تھے – ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اہل بیت کو خمس (مال غنیمت میں پانچواں حصہ ) وقت پر نہیں دیا جاتا تھا – راقم کہتا ہے ان اقوال پر غور کرنے سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ خمس کا مال اسی صورت مال حلال بنتا ہے جب دین حق کی خاطر جنگ کی گئی ہو – اب جب معاویہ اور ان کے اہلکار ظالم تھے اور ان کی جنگیں حق کے لئے نہیں تھی تو ان کی پروسٹی ممالک سے جنگیں ظلم و جبر ہی ہوئیں لہذا ان جنگوں سے حاصل شدہ مال غنیمت اور پھر اس کا خمس بھی مال حرام ہوا – لیکن ہم جانتے ہیں کہ حسن و حسين نے معاویہ سے مال خمس لیا جس سے ظاہر ہے کہ معاویہ حق پر تھے اور ان کی جانب سے کی جانے والی جنگیں بھی حق پر تھیں –

زیر نظر کتاب اصلا راقم کی کتاب المشاجرات و المشاحنات (قرن اول کی جنگیں ) کے چند چنیدہ مباحث ہیں جن کو ضروری اضافہ جات کے بعد افادہ عامہ کی غرض سے یہاں جمع کیا گیا ہے – کتاب میں مصادر اہل سنت کے علاوہ مصادر اہل تشیع کو بھی ملا کر جذباتیت سے الگ ہو کر ایک سنجیدہ بحث کی گئی ہے – کتاب میں قتل حسین اور منکرات یزید سے متعلق روایات پر جرح و تعدیل پیش کی گئی ہے تاکہ تحقیق کرنے والے اس مقام سے آگے جا سکیں-
ابو شہر یار
٢٠٢٠

بدعات کا ذکر

 

اس  کتاب  میں  بدعت سے متعلق  بحث کی گئی ہے  –  اس ویب سائٹ  پر  پہلے سے موجود ہے  جوابات میں اضافہ کے ساتھ اس کو شائع  کیا گیا ہے 

 

فہرست

پیش لفظ 6
نصرانی بدعت کا حق 11
ہر بدعت گمراہی ہے ؟ 13
قرآن سے الگ نیا حکم کرنا 19
بدعتی پر لعنت ہے 23
مسجد الحرام کے اندر کی جانے والی بدعات 24
دوران طواف کعبہ کو پکڑنا 24
نماز کے بعد حجر اسود کو چھونا 25
غلاف کعبہ پر آیات و حکمرانوں کے نام درج کرنا 26
حرم مدینہ کے اندر کی جانے والی بدعات 29
قبر النبی پر گنبد کی تعمیر 30
یروشلم سے متعلق بدعات 40
یروشلم سے احرام باندھنا 40
قبہ الصخرہ کا طواف کرنا 41
اذان سے متعلق بدعات 44
جمعہ کی نماز کی اذانیں 44
الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کہنے کی بدعت 48
اذان سننے میں انگوٹھے چومنا 50
نو مولود کے کان میں اذان دینا 52
اذان کے بعد السلام عليك يا رسول الله کہنا 55
عید سے متعلق بدعات 56
عیدین میں اذان دینا 56
عید کی دو نمازیں پڑھانا 57
جمعہ سے متعلق بدعات 58
رمضان سے متعلق بدعات 59
مسجد الحرام میں رمضان کے وتر میں قبوت نازلہ پڑھنا 59
دعا ختم القرآن کرنا 62
مقابر کے حوالے سے بدعات 65
نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا 65
قبر پر مٹی ڈالتے وقت کی دعا 66
تدفین کے بعد دعا کرنا 67
قبروں پر جا کر نمازیں پڑھنا 70
قبر کے پاس قرات کرنا 72
قبروں پر پھول ڈالنا 75
اذکار سے متعلق بدعات 78
نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنا 78
شب جمعہ درود پڑھنا 82
بسم اللہ کی بجائے ٧٨٦ لکھنا 84
قرآن سے متعلق بدعات 87
قرآن کو زعفران سے لکھنا اور پینا 87
آیات کو جسم پر لکھنا 94
مساجد سے متعلق بدعات 96
چٹائی پر نماز پڑھنا 96
مینار بنانا بدعت ہے 98
محراب بنانا بدعت ہے 102
مساجد پر چاند کے طغرے لگانا 109
اسلامی ربع الحزب کا نشان 115
ہڑپہ کی تہذیب مسجد الحرام کی زیبائش 119
معاشرت میں بدعات کا ذکر 125
سالگرہ ماننا 125
جمعہ مبارک یا شادی مبارک کہنا 127
شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا 127
سبز عمامہ مسلسل باندھنا 129
فوٹو کیا تصویر سازی ہے ؟ 133
کھڑے ہو کر پانی پینا بدعت ہے ؟ 138
کالا خضاب لگانے کو حرام قرار دینا 139

کیا میت کو عذاب ہوتا ہے ، کوئی حدیث ہے ؟

قصہ مختصر
عذاب قبر کی بحث میں لوگ جنہوں نے صحیح طرح صحیح بخاری و مسلم نہیں پڑھی وہ بار بار ایک قول کو حدیث کی طرح پیش کرتے ہیں کہ میت کو رونے پر عذاب ہوتا ہے – راقم نے غور کیا تو پایا کہ یہ قول نبوی ہرگز نہیں بلکہ قول ابن عمر تھا جو ان کو مغالطہ سے ایجاد ہوا – اس قول کو علم حدیث کی متعدد کتب میں سامع کی غلطی کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے بسا اوقات ایک شخص کسی اور سے کچھ سنتا ہے لیکن اصل مدعا نہیں جان پاتا تو متن حدیث نبوی میں علت قادحہ آ جاتی ہے جس کی تحقیق ضروری ہوتی ہے

روایات میں آیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث غلط بیان کی کہ کہا میرے والد ابو عبد الرحمان عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے میں نے سنا  تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ
میت کو عذاب ہوتا ہے جب اس کے گھر والے اس پر روتے ہیں

یہ قول عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا

إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِّي عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ، وَلاَ مُكَذَّبَيْنِ، وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ صحیح مسلم
یہ حدیث ان سے روایت کی گئی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے تھے لیکن سننے میں غلطی ہو جاتی ہے

صحیح بخاری میں ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا
قَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، لاَ وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بِهَذَا
اللہ عمر پر رحم کرے ، اللہ کی قسم ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل نہیں فرمایا

علم حدیث میں یہ مثال بن گئی کہ یہ متن درست نہیں کہ میت کو عذاب ہوتا ہے اور کو متعدد کتب میں بیان کیا گیا مثلا

اليواقيت والدرر في شرح نخبة ابن حجر از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ) میں ہے
وَقع هَذَا عَن الثِّقَات لَا عَن تعمد بل لنسيان كَمَا رُوِيَ أَن ابْن عمر روى أَن الْمَيِّت يعذب ببكاء أَهله فَبلغ ابْن عَبَّاس فَقَالَ: ذهل أَبُو عبد الرَّحْمَن
ثقات سے غلطی ہوتی ہے جان بوجھ کر نہیں بلکہ بھول جانے کی وجہ سے جیسا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ میت کو عذاب ہوتا ہے پس یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو فرمایا ابو عبد الرحمان (صحیح متن ) بھول گئے

علوم الحديث ومصطلحه – عرضٌ ودراسة از د. صبحي إبراهيم الصالح (المتوفى: 1407هـ) کے مطابق

ويروي عبد الله بن عمر عن النبي – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ
فتقضي عليه عاثشة أم المؤمنين بأنه لم يأخذ الحديث على وجهه، ولم يضبط لفظه،

اور عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا میت کو اس کے اہل کے رونے سے عذاب ہوتا ہے پس ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فیصلہ دیا کہ ابن عمر نے یہ حدیث اس کے اصل پر نہیں لی اور (اصلی) الفاظ کو یاد نہ رکھا

قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث از محمد جمال الدين الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ) میں ہے

ومنها: اختلاف الضبط مثاله ما روى ابن عمر1 أو عمر عنه -صلى الله عليه وسلم- من أن الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقضت عائشة عليه بأنه لم يأخذ الحديث على وجهه

اور حدیث کے الفاظ کو یاد رکھنے میں اختلاف کی مثالوں میں سے ہے وہ جو عمر یا ابن عمر نے رسول اللہ سے روایت کیا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے پس عائشہ رضی اللہ عنہا نے فیصلہ دیا کہ انہوں نے حدیث کو صحیح رخ سے نہیں لیا

تحرير علوم الحديث از عبد الله بن يوسف الجدیع میں ہے
وعن عروة بن الزبير، قال: ذكر عند عائشة أن ابن عمر يرفع إلى النبي صلى الله عليه وسلم: ” إن الميت يعذب في قبره ببكاء أهله عليه “، فقالت: وَهل
ابن زبیر سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے ابن عمر کی ایک حدیث بیان کی گئی جس کو رفع کر کے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر رہے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے پس عائشہ نے فرمایا  بھول گئے

ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے ساتھ کوئی قول نہیں فرمایا کہ میت کو عذاب ہوتا ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا  جب آپ  ایک جنازہ  پر سے گزرے  کہ  مرنے والے یہودی کو عذاب ہوتا ہے – اور ہم کو معلوم ہے کہ عذاب کفار  کو وہیں ہے جہاں ال فرعون کو عذاب ہوتا ہے  جہنم کی اگ کے پاس جیسا کہ قرآن میں وارد ہے

اسرار احمد کی نئے مجدد کی پیشنگوئی

اسرار احمد کے مطابق چار صدیوں تک تصوف کی تبلیغی مساعی کے نیتجے میں بر صغیر، صنم خانہ ہند،  میں مجدد آ رہے ہیں

گیارہویں صدی (الف ثانی ) کا مجدد اعظم   شیخ احمد سرہندی
بارہویں صدی کا مجدد اعظم امام الہند شاہ ولی اللہ دھلوی
تیرھویں صدی کا مجدد اعظم،  ہزارہ کے سید احمد بریلوی
چودھویں صدی کا مجدد اعظم امام اسیر مالٹا شیخ الہند جیسا مجاہد

اسرار احمد کی پیشینگوئی کے مطابق اگلا مجدد پاکستان  سے ہو گا

دوسری طرف سعودی عرب کہ شیخ امام کعبہ عبد الرحمان السدیس کا فرمانا ہے کہ آج کے مجدد دین و ملہم امام محمد بن سلمان ہیں جو موجودہ ولی العھد ہیں

سن ٢٠١٨  میں إمام وخطيب الحرم المكي عبد الرحمن السديس نے موجود سعودی ولي العهد الأمير محمد بن سلمان کو مُحدَّث اور   ملهم (جس کو الہام   ہو ) قرار دیا ہے  اور اپنی اس رائے کا ذکر خطبہ میں کیا

اس  کا ذکر مشھور  عرب اخبارات میں ہوا لنک 

 کوئی بر صغیری  صوفي مجدد کا منتظر ہے تو کوئی واپس عربی و تمیمی سلفي  مجدد کو کہہ رہا ہے کہ آ چکا ہے

  عثمانی صاحب کو چھوڑ  کر  اسرار  احمد  الگ  ہو  گئے تھے کہ  عثمانی صاحب  سرے سے تصوف   کے قائل ہی  نہیں  تھے

راقم بھی پیشنگوئی اپنے اندازہ  پر کرتا ہے کہ عنقریب  صوفی حلقوں  میں بھی  پھوٹ  پڑنے  والی ہے – سنٹرل  ایشیا  کے صوفے  فرقے اپس میں مل جائیں  گے  اور برصغیر و انڈیا و ترکی  کے صوفے  حلقے شکل دیکھتے رہ جائیں  گے – ان صوفیوں  کے  امام المہدی  الدیلم  سے  نکلیں  گے یعنی ازربائیجان سے   جیسا کہ خود  صوفی  بیان  کرتے چلے آ رہے ہیں

جو ان صوفیاء  نے بویا  ہے  وہ  کاٹنا بھی انہی صوفیاء کو ہو  گا

 

ہر صدی میں مجدد آئے گا ؟

کتب عثمانی پر ایک تبصرہ

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر اہل حدیث   ڈاکٹر  رانا محمد اسحاق  کی تعریفی آراء 

غیر مقلد ڈاکٹر رانا محمد اسحاق کتاب قبر اور عذاب قبر میں اقرار کرتے ہیں

فرقہ اہل حدیث کے ایک سرخیل صلاح الدین یوسف نے ہفت روزہ الاعتصام جلد ۲۸ ، ۲۲ اکتوبر ۱٩٨٤ میں ڈاکٹر عثمانی ؒکو مبارکباد پیش کی – یہ چیز حبل اللہ نمبر ٣ میں عبد القادر سومرو کے مضمون میں پیش کی جا چکی ہے کہ اہل حدیث ڈاکٹر صاحب کے لئے رطب اللسان تھے حتی کہ قبر کے حوالے سے خود فرقہ اہل حدیث کے فضل الرحمان کلیم  کاشمیری کہتے بنانگ دھل مضامین میں لکھتے تھے کہ قبر زمین کا کھڈا نہیں ہے

 

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر  مخالفین کی عنادی آراء
بہت سے لوگ جو ڈاکٹر عثمانی کی توحید پسندی سے حقیقی طور پر لا علم تھے ان میں بد نام زمانہ کتاب کراچی کا عثمانی مذھب کے مصنف خواجہ  محمد قاسم  تھے – خواجہ قاسم کھلے بندوں جھوٹ گھڑتے اور تحاریر پڑھ کے سمجھنے کی بجائے سنی سنائی پر زیادہ یقین رکھتے تھے

خواجہ قاسم جھوٹ گھڑتے ہیں

امام اہل سنت احمد بن حنبل ، امام ابو داود ، امام نسائی .. ان سب پر فتوی لگایا ہے اس لئے کہ ان کی کتابوں میں حدیث بیان ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے دنوں میں افضل دن جمعہ کا دن ہےکیونکہ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے۔ ۔۔۔۔ ۔پس اس دن کثرت سے درود پڑھو حقیقی بات یہ ہے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔صحابہ رضی اللہ عنھم نے کہا کہ ہمارا درود اس وقت کیسے پیش  کیا جائے گا جب آپ کا جسم ریزہ ریزہ ہو گیا ہو گا یعنی وفات کے بعد بوسیدہ ہو چکا ہو گا۔فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔

خواجہ قاسم کے افکار  پر مختصر  تبصرہ یہاں  ہے

سنجیدہ نظر انے والے   قلم کار عصر حاضر کے ڈاکٹر حافظ محمد زبیر بھی ہیں جنہوں خواجہ قاسم صاحب کا بیان کردہ چربہ ,   چربہ نقل کیا  ہے – موصوف لکھتے ہیں

عثمانی صاحب تابعین اور تبع تابعین کے بعد امت میں بس دو چار لوگوں کو ہی مسلمان سمجھتے ہیں جن میں ایک امام ابو حنیفہ ہیں اور دوسرے امام بخاری ہیں،  رحمہما اللہ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو فتنے کی جڑ قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول یہ امام احمد ہی ہے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اپنی حدیث کی   کتاب “مسند احمد” میں یہ روایت نقل کی کہ قبر میں مردے کے جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے۔ اسی طرح امام ابو داود، امام نسائی، امام ابن تیمیہ، امام ابن
قیم اور دیگر سلفی اور حنبلی علماء کو بھی اس حدیث کے صحیح ماننے کی وجہ سے گمراہ قرار دیتے ہیں۔

ایسا عثمانی صاحب نے کہیں نہیں لکھا کہ ان کے نزدیک امام ابو داود ، امام نسائی بھی اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ انہوں نے حدیث عود روح کو نقل کیا  ہے – اسی قسم کا مغالطہ غیر مقلد شفیق الرحمان نے گھڑا تھا – اس پر عثمانی فرماتے ہیں

حوالہ دیکھیے حبل اللہ شمارہ 7 صفحہ 9 پر اسکرین شوٹ پوسٹ میں موجود ہے ملاحظہ فرمائیے۔

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ عثمانی صاحب نے مسند احمد کو کیوں کوٹ کیا اگر امام احمد کا عقیدہ درست نہیں تھا لہذا وہ لکھتے ہیں

۔ عجیب طرفہ تماشا یہ ہے کہ “عذاب قبر” کے مسئلے میں جن امام احمد کو ضال اور مضل قرار دیا، قرآن مجید پر اجرت نہ لینے کے مسئلے میں انہی کی مسند احمد کی روایتوں کو اپنا کل استدلال بنا لیا۔ کوئی اصول ضابطہ تو ہے نہیں، جہاں چاہتے ہیں کسی راوی کی بنیاد پر ایک روایت کو ضعیف قرار دیے دیتے ہیں اور دوسری جگہ اسی راوی کی روایت قبول کر لیتے ہیں۔

راقم کہتا ہے کیونکہ فرقوں میں یہ  عمل جاری و ساری ہے،  باوجود امام احمد کو مشرک بتانے کے  وہ ان کی باتوں کو قبول کرتے ہیں

اہل حدیث میں البانی اور متعدد اہل حدیث نے اقرار کیا ہے کہ امام احمد بیابان میں اللہ کو نہیں فرشتوں کو پکارتے تھے اس پر گواہ خود احمد کے بیٹے ہیں
یہ عمل خود ان فرقوں کے نزدیک شرک ہے

لنک 

عبد الوہاب النجدی نے بیان کیا کہ امام احمد وسیلہ کے قائل تھے – آج اہل حدیث کہتے ہیں یہ شرک ہے

امام احمد کے بیٹے گواہ ہیں کہ ان کے باپ تعویذ لکھتے تھے – یہ فرقوں کو معلوم ہے کہ شرک ہے

اب جب امام احمد شرک کرتے ہیں تو یہ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟

علم حدیث اصولوں پر منبی ہے یا شخصیات پر ؟ خود فرقے کہیں گے اصولوں پر – تو پھر حدیث کسی کی کتاب سےنقل کرنا قابل جرم کب ہوا ؟ کیا  محدثین خود رافضیوں کی روایت نہیں لیتے تھے جن کے عقائد میں یہ خود کلام کرتے تھے ؟

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں

ان کے افکار ونظریات پر بہت اچھا محاکمہ ڈاکٹر عبد اللہ دامانوی صاحب نے اپنی کتاب “عذاب قبر کی حقیقت” میں کیا ہے۔ اسی طرح مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب “عذاب قبر کا بیان” میں ان کا عمدہ تعاقب کیا ہے۔ مزید مولانا ارشد کمال صاحب کی “المسند فی عذاب القبر” بھی ان کے رد میں اچھی کتاب ہے۔ اچھا یہ فرقہ عذاب قبر کو مانتا ہے لیکن اس دنیاوی قبر میں عذاب کو نہیں مانتا بلکہ برزخی قبر میں عذاب کو مانتا ہے۔ ایک عامی جب ان کا لٹریچر پڑھتا ہے تو متاثر ہو جاتا ہے لیکن جب پڑھنے کے بعد دوسری طرف کے لٹریچر کا بھی مطالعہ کرے گا تو تحقیق کی سطحیت واضح ہو جائے گی۔

حقیقت میں ڈاکٹر عثمانی کے ناقدین میں جو اہل حدیث علماء ہیں وہ وہ ہیں جو بھانت بھانت کے عقیدے عذاب قبر کے باب میں رکھتے ہیں مثلا

١- عود روح بالکل نہیں ہو گا (قاری خلیل رحمان ، کتاب پہلا زینہ)
٢- روح جسم سے جڑے گی اور تعلق ہو گا جس میں روح جسم سے نکلے گی اور جب چاہے واپس بھی آئے گی ( فتاوی ابن تیمیہ، کتاب الروح از ابن قیم ، فتح الباری از ابن حجر، وہابی علماء، زبیر علی زئی بعض مواقع پر ) یعنی بار بار عود روح ممکن ہے
٣- روح ، جنت یا جہنم میں ہی رہے گی لیکن قبر میں جسد سے تعلق ہو گا ( نورپوری کا  مضمون ، مقالات از زبیر علی زئی )
٤- کچھ کہتے ہیں مردہ جسد کو عذاب ہو گا بلا روح اور عود روح صرف ایک دفعہ ہو گا (مثلا کتاب الدین الخالص از ابو جابر دامانوی اور کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال )

جب ایک عامی ان تمام کی کتب پڑھتا ہے تو مزید کنفیوز ہو جاتا ہے – ان کی حقیقت کے لئے راقم کی کتاب اثبات عذاب قبر و رد عقیدہ عود روح بہت ہے  اس میں ان تمام مخالف  علماء کے عقائد حوالوں کے ساتھ درج ہیں اور قاری سمجھ سکتا ہے کون کیا فرما رہا ہے

لنک

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں
عذاب قبر کے مسئلے کو اتنا بڑا اصولی اور عقیدے کا مسئلہ سمجھتے ہیں کہ صرف اس کی وجہ سے بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث تینوں کی تکفیر کرتے ہیں

راقم کہتا ہے اس جملے سے ظاہر ہے زبیر صاحب نے تفصیلی مطالعہ نہیں کیا ہے- عذاب قبر نہیں مسائل توحید  کی وجہ سے  اختلاف ہوا ہے  – تصوف کی بنیادوں میں اتحاد ثلاثہ موجود ہے یعنی حلول ، وحدت الوجود ، وحدت الشہود – مختصرا یہ جھمی عقائد ہیں جو محدثین میں امام احمد کے نزدیک بھی کفر ہے – یہ عقائد بریلوی، دیوبندی فرقوں میں تصوف کی وجہ سے موجود ہیں – اشعار میں منصور حلاج جو حلول کا قائل تھا  اس کی تعریف کرنا  اردو شاعری میں معروف ہے – جو چیز عراق میں کفر تھی وہ پاکستان میں آ کر خالص توحید کس طرح بن جاتی ہے یہ زبیر صاحب ہی بتا سکتے ہیں

اہل حدیث فرقے پر عثمانی صاحب کا رد بنیادی طور پر توحید کی وجہ سے ہے – توحید قرانی کے مطابق تمام معاملات و عمل مخلوق اللہ تعالی پر پیش ہوتا ہے – کسی اور پر عمل پیش ہونا غیر قرانی و توحید باری کے مخالف ہے اس وجہ سے عرض عمل کی روایات کو عثمانی صاحب نے رد کیا – لا محالہ ابن تیمیہ و اہل حدیث فرقے پر زد پڑی کیونکہ انہوں نے درود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرا کر علم غیب کا میں نقب لگا دی

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ

عثمانی صاحب کے نزدیک قبر سے مراد دنیاوی قبر نہیں بلکہ برزخی قبر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ مردہ قدموں کی چاپ سنتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس درود شریف پڑھا جائے تو آپ سنتے ہیں، یا مردے کے جسم میں سوال وجواب کے وقت روح اس میں لوٹائی جاتی ہے اور منکر نکیر اس دنیاوی قبر میں اس سے سوال پوچھتے ہیں تو اس سے قبر کی زندگی ثابت ہو جاتی ہے۔ اور قبر میں مردے کو زندہ مان لیا گیا تو کفر اور شرک ہو جائے گا۔

اس جملہ پر زبیر صاحب نے خود غور نہیں کیا – جب آپ نے مان لیا کہ دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام مسلسل پڑھا جا رہا ہے اور وہ ان پر مسلسل پپیش ہو رہا ہے تو اسی کی بنیاد پر علماء قبر میں رسول اللہ کی حیات دائمی کے قائل ہیں – لنک
عثمانی کہتے ہیں الحی تو صرف اللہ تعالی ہے – کوئی حیات دائمی کیسے حاصل کر سکتا ہے ؟ فرقوں میں دیگر نصوص سے یہ بھی کشید کیا جاتا ہے کہ تمام اولیاء قبروں میں زندہ ہیں – سنتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، یہاں تک کہ بریلوی کہتے

ہیں امہات المومنین قبر نبوی میں رسول اللہ تک جاتی ہیں -اس سب کو حیرت ہے کہ زبیر صاحب کیسے بھول گئے ؟

ڈاکٹر  زبیر  صاحب  لکھتے ہیں  کہ

ان کا نام “برزخی فرقہ” اس لیے پڑا کہ ان کے افکار ونظریات میں سے بنیادی ترین نظریہ یہی ہے 

زبیر صاحب نے علماء کی کتب کا مطالعہ نہیں  کیا  محض سنی سنائی  بیان کی ہے

تقسیم ہند سے قبل کے اہل حدیث مولانا ثناء الله امرتسری  فتاوی ثنائیہ صفحہ 292  میں جواب دیتے ہیں

 

فرقہ اہل حدیث کے عالم اسمعیل سلفی نے کتاب حیات النبی میں پاکستان میں  سب سے پہلے برزخی جسم کا ذکر کیا  ملاحضہ کریں

دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی

 

الوسی باقاعدہ برزخی جسم کا لفظ استمعال کرتے ہیں مولانا سلفی ترجمہ کرتے ہیں

 

اس وقت تک عثمانی صاحب  نے کوئی کتاب نہیں  لکھی تھی

سوال یہ ہے کہ  عثمانی صاحب جو  توحید پیش  کرتے ہیں اس   میں خامی  کیا  ہے ؟   اہل حدیث  اس کا جواب اس  طرح دیتے ہیں کہ  بلا شبہ یہ توحید قرآن سے اخذ  کردہ ہے کہ مزارت پر شرک ہو رہا ہے  لیکن اس کی جڑ نظریہ  حیات فی القبر صحیح نہیں  بلکہ مسئلہ  مردے کے سننے کا ہے – دوسری طرف  امام ابن تیمیہ کا   کہنا  ہے کہ مردہ  سنتا ہے اور امام عبد الوہاب النجدی  کا  فرمانا  ہے کہ مردہ  نہ صرف سنتا بلکہ  دیکھتا   بھی ہے

بعض اہل حدیث کہتے ہیں شرک،  مردہ کا سننا ہے- راقم کہتا ہے تو یہ فتوی تو امام ابن تیمیہ و ابن قیم و ابن کثیر و تمام وہابی علماء پر جاتا ہے عبد الرحمن کیلانی صاحب نے صاف لفظوں میں کتاب روح، عذاب قبر اور سماع موتیٰ صفحہ ۱۰۹ پر اقرار کیا کہ

اب دیکھئے جہاں تک شرک کی اصل بنیاد کے استیصال کا تعلق ہے ، ہم بدل و جان عثمانی صاحب کے ساتھ ہیں۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ شرک کی اصل بنیاد اس دنیاوی قبر میں عذاب ِقبر کا اثبات اور حیات فی القبر کو قرار دیتے ہیں جبکہ ہم شرک کی اصل بنیاد سماع موتیٰ کا علی الاطلاق وقوع کو قرار دیتے ہیں۔۔۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ آپ حضرات اپنی جملہ مساعی سماع موتیٰ کی تردید میں صرف کیجئے۔ 

قارئین  سمجھ سکتے ہیں کہ عقائد  پسند  نا  پسند  پر نہیں بلکہ نصوص قرانی  پر منبی ہوتے ہیں لہذا  قرآن سے تقابل کریں

اور سمجھیں کہ کون جق پر ہے  عثمانی   صاحب کی حق کی پکار  یا  فرقوں کی خاندانی نوعیت کی  پشت پناہیاں

 

عورتوں کے قبرستان جانے پر فقہاء کا اختلاف

کيا اسلام ميں عورتوں کے قبرستان جانے پر پابندي ہے ؟

جواب 

قرن دوم میں اغلبا اس حوالہ سے اختلاف موجود تھا کہ مرد بھی قبرستان جا سکتے ہیں یا نہیں – کوفہ کے شروع فقہاء کے نزدیک قبرستان نہیں جا سکتے تھے مثلا امام الشعبی سرے سے قبرستان ہی نہیں جاتے تھے

مصنف ابن ابي شيبہ ميں الشَّعْبِيِّ سے منسوب قول ہے
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ لَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ لَزُرْتُ قَبْرَ ابْنَتِي

الشَّعْبِيِّ نے کہا اگر رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے زيارت قبور سے منع نہ کيا ہوتا تو ميں اپني بيٹي کي قبر کي زيارت کرتا

اس کي سند ميں مجالد بن سعيد ضعيف ہے – قبروں کي زيارت ممنوع عمل نہيں ہے الشَّعْبِيِّ تک وہ حديث نہيں پہنچي ہو گي جس میں ممانعت زیارت
کو منسوخ کیا گیا ہے

الذھبي نے سير الاعلام النبلاء ميں لکھا ہے
أَمَّا مَنْ سَارَ إِلَى زِيَارَةِ قَبْرِ فَاضِلٍ مِنْ غَيْرِ شَدِّ رَحْلٍ، فَقُربَةٌ بِالإِجْمَاعِ بِلاَ تَرَدُّدٍ، سِوَى مَا شَذَّ بِهِ الشَّعْبِيُّ، وَنَحْوُهُ، فَكَانَ بَلَغَهُمُ النَّهْيُ عَنْ زِيَارَةِ القُبُوْرِ، وَمَا عَلِمُوا بِأَنَّهُ نُسِخَ
ذَلِكَ – وَاللهُ أَعْلَمُ
جو کسي فاضل (عالم ) کي قبر تک پہنچ گيا بغير سواري کسے تو وہ قبر کے پاس جائے گا بلا تردد، اس پر اجماع ہے سوائے وہ جو امام الشَّعْبِيُّ
نے جو الگ کہا اور ان جيسوں نے کيونکہ ان تک زيارت قبور کي ممانعت پہنچي اس کے منسوخ ہونے کا ان کو علم نہ ہوا

کوفہ کے ابراہیم النخعی قبرستان جانے سے کراہت کرتے تھے – لیکن امام ابو حنیفہ کے دور تک محدثین تک منسوخ و ناسخ حدیث کا مزید علم ہو ا
اور معلوم ہوا کہ قبرستان جانے سے مما نعت والی احادیث منسوخ ہیں

اس طرح واپس موقف ہوا کہ قبرستان جا سکتے ہیں لیکن اس میں بعض اس کے قائل ہوئے کہ صرف مرد جا سکتے ہیں – بعض علماء کا موقف ہوا کہ
اسلام ميں صرف مرد قبرستان جا سکتے ہيں اور عورتيں کسي صورت قبرستان نہ جائيں – بعض نے کہا جا سکتی ہیں اگر رونا دھونا نہ کریں اس کی
دلیل مصنف ابن ابي شيبہ ميں عمر رضي اللہ عنہ سے منسوب قول ہے کہ يہ پابندي صرف جذباتي ہو جانے کي وجہ سے ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ سِنَانٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ قَالَ عُمَرُ «نَهَيْنَا النِّسَاءَ لِأَنَّا لَا نَجِدُ أَضَلَّ مِنْ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ»
عمر نے کہا ہم عورتوں کو روکتے ہيں کيونکہ ہم نے قبروں کي زيارت کرنے والوں ميں ان سے زيادہ گمراہ نہيں ديکھي ہيں

سند ميں ابن سنان مجہول ہے – اگر يہ سعيد بن سنان أبو سنان ہے تو اس کي تضعيف احمد نے کي ہے

پھر کچھ احادیث بھی تھیں – عورتيں قبر پر نہ جائيں اس پر مزيد احاديث ہيں

مصنف ابن ابي شيبہ ميں ہے کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے قبروں کي زيارت کرنے واليوں پر لعنت کي ہے
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ
حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ سے مروي ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے قبروں کي زيارت کرنے واليوں پر لعنت کي ہے

عبد الرحمن بن بهمان پر امام علي المديني کا قول ہے کہ اس کو نہيں جانتا کون ہے
شعيب الأرنؤوط نے کہا
إسناد ضعيف لجهالة حال عبد الرحمن بن بهمان
سند ضعيف ہے مجہول راوي کي وجہ سے

سنن ابن ماجہ ميں اسي سند سے ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو بِشْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ،
وَقَبِيصَةُ كُلُّهُمْ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زُوَّارَاتِ الْقُبُورِ»

مجہول راوي کي وجہ سے يہ روايت حسن درجہ پر ہے – امام حاکم کا قول ہے کہ يہ حکم منسوخ ہے
وَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ الْمَرْوِيَّةُ فِي النَّهْيِ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ مَنْسُوخَةٌ “

طبراني ميں ابن عباس رضي اللہ عنہ سے منسوب قول ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ الْكَشِّيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أنا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «إِنَّهُ لَعَنَ زَائِرَاتِ
الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ، وَالسُّرُجَ»
نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے قبروں کي زيارت کرنے واليوں پر لعنت کي ہے اور ان مسجديں بنانے واليوں پر اور ان پر ديے جلانے واليوں پر

يہ اغلبا يہودي عورتيں ہوں گي جو ايسا کرتي ہوں گي – مومن عورتيں دور نبوي ميں ايسا نہيں کر سکتيں – يہ صرف زيارت قبر نہيں ہے بلکہ قبر سے متعلق
مراسم ہيں جو ادا کيے جاتے تھے – اہل کتاب پر نبي کي زبان سے لعنت اسي وجہ سے تھي

سند ميں صالح بن نبهان پر بھي کلام ہے – يہ مختلط ہو گئے تھے اور معلوم نہيں کہ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ نے کس دور ميں سنا ہے
سنن الکبري بيہقي ميں مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ کہتے ہيں کہ جب يہ حديث سني اس وقت صالح بن نبهان بوڑھے ہو چکے تھے لہذا اختلاط کا دور ہي لگتا ہے
مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، وَقَدْ كَانَ كَبِرَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ” لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذَاتِ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ

مصنف عبد الرزاق 6704 ميں ہے

مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «لُعِنَ زَوَّارَاتُ الْقُبُورِ

عکرمہ نے کہا کہ رسول اللہ نے قبروں کي زيارت کرنے واليوں پر لعنت کي ہے

سند منقطع ہے عکرمہ صحابي نہيں ہے

مسند ابو داود طيالسي ميں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَعَنَ اللَّهُ [ص 114] زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ»
مسند ابو يعلي ميں ہے
حَدَّثنا أَبُو كامل، قَال حَدَّثنا أَبُو عَوَانة، عَن عُمَر بن أبي سَلَمَة، عَن أَبِيه، عَن أبي هُرَيرة، قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم زوارات القبور
سنن ترمذي ميں ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ زَوَّارَاتِ القُبُورِ
عمر بن أبي سلمة بن عبد الرحمن کو نسائي اور ابن معين نے ضعيف قرار ديا ہے
فقہ ميں جب صحيح سند نہ ہو تو ضعيف سے دليل لي جاتي ہے – يہاں ايسا ہي ہے اس کو اس وجہ سے حسن کہہ کر دليل لي گئي ہے

ان روايات ميں بلا استثنا قبر کي زيارت کرنے پر لعنت ہے – اس بنا پر راقم کے نزديک ان روايات کا متن صحيح نہيں ہے – ام المومنين عائشہ اپنے حجرہ
ميں تين قبروں کو ديکھتي ہوں گي اگر قبر کي زيارت ممنوع ہوتا تو وہ کبھي بھي اپنے حجرہ ميں کسي کي بھي تدفين کي اجازت نہ ديتيں

امام ترمذي کي رائے ہے
فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ هَذَا كَانَ قَبْلَ أَنْ يُرَخِّصَ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَلَمَّا رَخَّصَ عَمَّتِ الرُّخْصَةُ الرِّجَالَ وَالنِّسَاءَ، وَمِنْهُمْ مَنْ كَرِهَهَا لِلنِّسَاءِ، لِقِلَّةِ صَبْرِهِنَّ، وَكَثْرَةِ جَزَعِهِنَّ.
بعض اہل علم کي رائے ہے کہ يہ اقوال اس دور کے ہيں جب قبروں کي زيارت کي رخصت نہيں تھي پس بعض نے رخصت کو تمام مرد و عورت پر ليا ہے اور
بعض نے عورتوں کے قبرستان جانے پر کراہت کي ہے کيونکہ ان ميں صبر کم ہے

امام بخاری کا موقف فقہائے کوفہ سے الگ تھا – ان کے نزدیک عورتین جنازہ بھی پڑھ سکتی ہیں – اور قبر پر بھی جا سکتی ہیں

—————

عائشہ رضي اللہ عنہا کا اپنے بھائي کي قبر پر جانا

تاریخ و حدیث کی ایک سے زائد کتب میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے بھائی عبد الرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر جانا آیا ہے – اس خبر میں
کسی ایک راوی کا تفرد نہیں ہے جیسا بعض کو وہم ہے – اس خبر کو قبول کیا گیا ہے تفصیل یہ ہے

تاريخ اوسط از امام بخاري ميں ہے

حَدَّثَنِي أُمَيَّةُ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَن بسطَام هُوَ الْبَصْرِيّ بن مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ يَزِيدُ بْنُ حميد عَن بن أَبِي مُلَيْكَةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ انْطَلَقَ يَزُورُ عَائِشَةَ فَقَالَتْ زُرْتُ
قَبْرَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قُلْتُ وَتُزَارُ الْقُبُورُ قَالَتْ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لِي فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ وَأَكْلِ الأضاحى وَالْجَرَاد حَدِيثُ أُمَيَّةَ هَذَا لَا يَصِحُّ
وروى حَمَّاد بن زيد عَن أَبى التياح عَن بن أبي مليكَة قَالَ رَأَيْت عَائِشَة فَقلت أَيْن تذْهب أَو أَيْن تَجِيء قَالُوا زارت قبر أَخِيهَا

اميہ نے حديث ذکر کي …. ابن ابي مليکہ نے کہا کہ عائشہ رضي اللہ عنہا کے پاس گيا تو انہوں نے کہا ميں عبد الرحمان کي قبر کي گئي تھي ميں نے
پوچھا آپ قبروں پر گئيں ؟ عائشہ رضي اللہ عنہا نے فرمايا کہہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے مجھ کو رخصت دي تھي کہ ميں قبروں کي زيارت کروں ، قرباني
سے کھا لوں اور ٹڈياں کھا لوں – امام بخاري نے کہا اميہ کي حديث صحيح نہيں اور حماد بن زيد نے روايت کيا کہ ابن أبي مليكَة نے کہا ميں نے عائشہ
کو ديکھا پوچھا آپ کہاں سے آ رہي ہيں يا جا رہي ہيں ؟ فرمايا اپنے بھائي کي قبر کي زيارت کو

امام بخاري نے دوسري سند پر کوئي جرح نہيں کي اور اس طرح اس بات کو صحيح قرار ديا ہے کہ يہ واقعہ ہوا ابن ابي مليکہ بعد ميں نہيں ملا تھا بلکہ
ان سے راستہ ميں ملا تھا

تاريخ الکبير ميں امام بخاري نے مزيد وضاحت کي

قَالَ لِي ابْنُ أَبي الأَسود حدَّثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيوب، ذَكَرَ ابْنُ أَبي مُلَيكةَ زيارة القبور، والأوعية، فقلتُ يا أبا بكر، مَن حَدَّثَكَ؟ قَالَ حَدَّثني أَبو الزِّنَادِ، عَنْ بعض
الكوفيين.
وحدثني أُمَيَّة، قال حدَّثنا يَزِيدُ بْنُ زُرَيع، عَنْ بِسطام، حَدَّثَنَا أَبو التَّيّاح، حدَّثنا ابْنُ أَبي مُلَيكةَ، سَأَلْتُ عَائِشَةَ، عَن النبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم … ، نحوه.
قَالَ أَبو عَبد اللهِ والأول، بإرسالَهُ، أصح.

امام بخاري نے کہا مجھ سے ابْنُ أَبي الأَسود نے حديث بيان کي حدَّثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيوب کہ ابْنُ أَبي مُلَيكةَ نے حديث ذکر کي زيارت قبور پر ميں
إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ (ابن عُلَيَّةَ) نے ايوب سے کہا اے ابو بکر يہ کس نے بيان کي ؟ کہا اس کو أَبو الزِّنَادِ نے بعض کوفيوں سے روايت کيا تھا – (امام بخاري
نے کہا مجھ کو ) اميہ نے حديث بيان کي کہ حدَّثنا يَزِيدُ بْنُ زُرَيع، عَنْ بِسطام، حَدَّثَنَا أَبو التَّيّاح، حدَّثنا ابْنُ أَبي مُلَيكةَ، سَأَلْتُ عَائِشَةَ، عَن النبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه
وسَلم … اور اسي طرح کي حديث تھي – امام بخاري نے کہا پہلي سند ارسال کے ساتھ زيادہ أصح ہے

الكنى والأسماء از الدولابي (المتوفى 310هـ) ميں امام احمد کا قول ہے

، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ ذَكَرَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ زِيَارَةَ الْقُبُورِ وَالْأَدْعِيَةِ، فَقُلْتُ يَا أَبَا بَكْرٍ مَنْ
حَدَّثَكَ؟ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ بَعْضِ الْكُوفِيِّينَ، قَالَ أَبِي وَهَذَا الْحَدِيثُ يَرْوِيهِ رَوْحٌ، عَنْ بِسْطَامِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ وَالْأَدْعِيَةِ، وَهُوَ خَطَأٌ، إِنَّمَا الْحَدِيثُ حَدِيثُ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ بَعْضِ الْكُوفِيِّينَ

عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے کہا ميرے باپ نے حديث بيان کي ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ (ابن عُلَيَّةَ)، عَنْ (أَبَو بَكْرٍ ) أَيُّوبَ (بنَ أَبِي تَمِيْمَةَ) کہ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ نے
ذکر کيا زيارت قبور پر – ميں (ابن عُلَيَّةَ) نے کہا اے ابو بکر (يعني ايوب ) کس نے اس کو روايت کيا ؟ کہا اس کو أَبو الزِّنَادِ نے بعض کوفيوں سے روايت کيا تھا
ميرے باپ نے کہا اسي حديث کو روح نے بِسْطَامِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کي سند سے زيارت قبور کے حوالے
سے روايت کيا ہے اور يہ غلطي ہے کيونکہ يہ حديث َايُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ کي بعض کوفيوں سے آتي ہے

امام بخاري اور امام احمد کا مقصد اس روايت (عائشہ رضي اللہ عنہا کا بھائي کي قبر پر جانا ) کو مطلقا رد کرنا نہيں ہے بلکہ دونوں کے نزديک اس کي ايک
دوسري سند صحيح ہے

المعارف از ابن قتيبہ ميں ہے
ومات فجأة سنة ثلاث وخمسين بجبل بقرب مكة. فأدخلته «عائشة بنت أبى بكر» الحرم ودفنته
عبد الرحمان سن 35 ھ ميں مکہ کے پاس پہاڑ کے قريب فوت ہوئے ان کو عائشہ نے حرم ميں داخل کيا اور دفن کرايا

يہ قول بلا سند لکھا گيا ہے اور مکمل درست نہيں ہے

المعرفة والتاريخ از الفسوي ميں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا سَيْفُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يَقُولُ تُوُفِّيَ عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق، فاصعد مَعَهُ ابْنُ عُمَرَ
حَتَّى إِذَا جَاءَ الرَّدْمَ أَعْلَى مَكَّةَ قَالَ رُدُّوا النِّسَاءَ.
مجاہد نے کہا عبد الرحمان کي وفات (دوران سفر ) ہوئي تو ابن عمر ساتھ آئے حتي کہ الردم مکہ سے اوپر پہنچے تو کہا ان کي عورتوں کو بلا لو

تاريخ أبي زرعة الدمشقي ميں ہے
حدثنا أبو زرعة قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ قَالَ تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بكر في نومة نامها
عبد الرحمان کي وفات سوتے ميں ہوئي

المنتظم ابن جوزي ميں ہے
قَالَ ابْنُ سَعْدٍ وَأَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ] بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ تُوُفِّيَ فِي مَنْزِلٍ لَهُ فَحَمَلْنَاهُ عَلَى رِقَابِنَا سِتَّةَ أَمْيَالٍ إِلَى
مَكَّةَ، وَعَائِشَةُ غَائِبَةٌ، فَقَدِمَتْ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَتْ أروني قبر أخي، فصلت عَلَيْهِ.
اْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے ذکر کيا کہ عبد الرحمان کي وفات ہوئي ايک منزل پر ، ہم نے ان کو اٹھايا اپني گردنوں پر چھ ميل تک حتي کہ مکہ پہنچے اور عائشہ وہاں
نہيں تھيں وہ اس کے بعد آئيں اور فرمايا مجھے ميرے بھائي کي قبر دکھاو پس وہاں دعا کي

المنتظم ابن جوزي ميں ہے
قَالَ مُحَمَّد بْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ لاحِقٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ
مَاتَ عبد الرحمن بالحبشي فَحُمِلَ حَتَّى دُفِنَ بِمَكَّةَ، فَقَدِمَتْ عَائِشَةُ مِنَ الْمَدِينَةِ فَأَتَتْ قَبْرَهُ فَوَقَفَتْ عَلَيْهِ فَتَمَثَّلَتْ بِهَذَيْنِ الْبَيْتَيْنِ
وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَة [3] … مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا … لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعًا
ثُمَّ قَالَتْ أَمَا وَاللَّهِ لَوْ شَهِدْتُكَ مَا زُرْتُ قَبْرَكَ، وَلَوْ شَهِدْتُكَ مَا حَمَلْتُ مِنْ حَبَشِي مَيِّتًا وَلَدُفِنْتُ مَكَانَكَ

عبد الرحمن کي موت الحبشي ميں ہوئي پھر مکہ ميں دفن ہوئے ، عائشہ وہاں مدينہ سے گئيں قبر پر پہنچيں ، رکيں اور اشعار کہے
وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَة … مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا … لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعًا
پھر فرمايا و اللہ اگر موت پر ديکھ ليا ہوتا تو قبر کي زيارت نہ کرتي اور اگر الحبشي ميں ديکھا ہوتا تو وہيں دفن کراتي

عائشہ رضي اللہ عنہا کے رشتہ داروں کي نسل ميں آنے والے مورخ الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي الأسدي المكي (المتوفى 256هـ) کتاب الأخبار
الموفقيات للزبير بن بكار لکھتے ہيں
وَقَفَتْ عَائِشَةُ عَلَى قَبْرِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ فَتَمَثَّلَتْ
«وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً … مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا … لِطُولِ اجْتَمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعًا»

عائشہ اپنے بھائي کي قبر پر گئيں اور اشعار کہے

جن فقہاء نے عورتوں پر قبرستان جانے پر پابندي لگائي ہے ان ميں بعض نے قياس کيا ہے کہ عورتيں روئيں گي کيونکہ وہ جذباتي ہيں اس لئے وہ نہيں
جائيں البتہ ان کو روکنے کي کوئي صحيح سند دليل نہيں ہے – صحيح بخاري ميں موجود ہے کہ عورت نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے قبر پر ديکھي اور اس
پر آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے لعنت نہيں کي

حديث أنس قال مَر النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بامرأة عند قبر تبكي على صبي لها، فقال لها “اتقي الله واصْبِري” فقالت وما تُبالي بمصيبتي، فلما ذهب قيلَ لها
إنَهُ رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فأخذها مثلُ الموت، فأتت بابَه، فلم تجد على بابه بوابين، فقالت يا رسولَ الله، لم أعرفك، فقال “إنما الصبرُ عند الصدمةِ الأولى

انس رضي اللہ عنہ سے مروي ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم ايک عورت پر گزرے جو قبر کے پاس تھي قبر پر اپنے بيٹے کے لئے رو رہي تھي – آپ نے
فرمايا اللہ سے ڈرو اور صبر کرو – عورت بولي تم کو ميري مصيبت کا کيا معلوم – جب آپ صلي اللہ عليہ وسلم تشريف لے گئے تو اس سے کہا گيا کہ يہ رسول
اللہ صلي اللہ عليہ وسلم تھے اس عورت نے اس (لا علمي ) کو موت کي طرح ليا اور نبي کے پاس گئي … بولي ميں آپ کو پہچاني نہيں – نبي نے فرمايا
صبر صدمہ کے شروع ميں ہے

وہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو پہچان نہ سکي اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس کو قبر پر ديکھ کر اس پر لعنت نہ کي بلکہ صرف رونے سے منع کيا
– قبر کے پاس جانے ميں کوئي مضائقہ نہيں اگر مقصد آخرت کو ياد کرنا ہو

امام بخاري نے صحيح ميں روايت دي
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ الحَذَّاءِ، عَنْ أُمِّ الهُذَيْلِ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ «نُهِينَا عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا
أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے کہا ہم کو جنارہ کے پيچھے جانے سے منع تو کيا جاتا تھا ليکن مگر تاکيد سے منع نہيں ہوا تھا

امام مسلم نے بھي اس کو روايت کيا ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ «كُنَّا» نُنْهَى عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا

يعني اگر کوئي عورت جنازہ کے ساتھ جاتي تو اس کو زبردستي روکا نہيں جاتا تھا کيونکہ اس ميں صريح ممانعت ختم ہو چکي تھي

ابن حجر نے فتح الباري ميں الفاظ کي وضاحت ميں لکھا
ولم يؤكد علينا في المنع كما أُكدَ علينا في المنهيات
ہم کو منع کي تاکيد نہيں کي جاتي تھي جس طرح ديگر ممنوعات ميں کيا جاتا تھا

صحيح مسلم ميں ہے کہ قبروں پر جانے سے منع کرنے کا پچھلا حکم منسوخ ہوا اب اجازت ہے – اس حديث ميں کوئي استثنا نہيں ہے کہ عورتيں اب
بھي نہيں جا سکتيں يہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے – مزيد کہ جو علماء عورتوں کو قبرستان جانے سے منع کرتے ہيں وہي صحيح مسلم کي اس
روايت کو بھي بيان کرتے ہيں جس ميں ہے کہ ايک رات نبي البقيع قبرستان گئے تو عائشہ رضي اللہ عنہا نے اندھيرے ميں ان کا پيچھا کيا – راقم کے
نزديک صحيح مسلم کي يہ روايت منکر ہے

امام بخاری کے مطابق امہات المومنین نے سعد بن ابی وقاص کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی( اس کا مطلب ہے کہ جنازہ میں عورتوں کا شامل ہونا
معیوب نہیں تھا ) حدیث ابو ہریرہ کے مطابق جنازہ مرد اٹھاتے تھے عورتیں نہیں اور مرد جنازہ لے کر قبرستان جاتے تھے – حدیث ام عطیہ کے مطابق
بعض خواتین بھی شامل ہو جاتی تھیں جن کو روکا نہیں جاتا تھا – خواتین کو قبر کے پاس دیکھ کر ان کو ڈانٹنے کا کوئی ذکر نہیں ملا – اس سے یہ
نکلا کہ فقہائے بغداد کے نزدیک قبر پر جانا عورت و مرد کے لئے جائز ہے ليکن جو چيز منع ہے وہ شور و غل وغيرہ کرنا

فقہائے کوفہ یعنی احناف کے نزدیک عورت نہ جنازہ پڑھے گی نہ قبرستان جائے گی  

مالکي فقہاء کے اقوال ہيں کہ امام مالک کے نزديک عورتيں قبرستان جا سکتي ہيں قرطبي نے ذکر کيا
ومال مالك إلى الجواز، وهو قول أهل المدينة
امام مالک کا ميلان (عورتوں کے قبرستان جانے کے ) جواز پر ہے اور اہل مدينہ کا بھي يہي قول ہے

حنابلہ کے نزدیک عورت جا سکتی ہے اگر رونا دھونا نہ کرے

کسی خاص قبر پر جانا

عثماني صاحب نے کتاب مزار يہ ميلے ميں لکھا

کچھ دوسرے لوگ کہتے ہيں کہ ہم فلاں بزرگ کے مزار پر جاتے ہيں تو اس لئے جاتے ہيں کہ آپ کے مزار کي زيارت کي بڑي فضليت ہے – يہ بات بھي صحيح نہيں ہے کيونکہ عام قبروں کي زيارت مستحب ہے مگر کسي خاص قبر کي زيارت حتي کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي قبر کي زيارت کے سلسلے کي جتني روايات ہيں وہ ضعيف ہيں – ان کے متعلق ائمہ حديث کا فيصلہ ہے کہ وہ موضوع يعني گھڑي ہوئي ہيں ايک حديث بھي صحيح نہيں … رہا قبر نبوي تک جانا تو يہ کام نہ صحابہ نے کيا ہے نہ تابعين نے

راقم کہتا ہے حج کے بعد زيارت قبر النبي سے متعلق تمام روايات پر ائمہ حديث کا جرح کا کلام ہے – ان روايات کو رد کيا گيا ہے ليکن جہاں تک عثماني صاحب کا يہ قول ہے کہ قبر نبي تک کوئي صحابي يا تابعي نہيں گيا تو يہ صحيح نہيں ہے کيونکہ متعدد تابعين نے حجرہ عائشہ تک کا قصد کيا ہے اور ام المومنين سے احاديث کو سنا ہے – قبر النبي حجرہ عائشہ رضي اللہ عنہا ميں ہي ہے – لہذا درست قول يوں ہوتا کہ صرف زيارت قبر النبي کے مقصد سے قبر نبوي تک جانا تو يہ کام نہ صحابہ نے کيا ہے نہ تابعين نے

بعض لوگوں نے موقف اختیار کیا کہ زیارت القبور فی المقابر جائز ہے یعنی اگر قبرین ، قبرستان میں ہوں تو صرف اس صورت میں ان کی زیارت کی جا  سکتی ہے – یہ محض گمان ہے

احناف میں الآثار لمحمد بن الحسن میں ہے
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَبْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مُسَنَّمَةً نَاشِزَةً مِنَ الْأَرْضِ عَلَيْهَا فَلَقٌ مِنْ مَدَرٍ أَبْيَضَ [ص:185]، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ يُسَنَّمُ الْقَبْرُ تَسْنِيمًا، وَلَا يُرَبَّعُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
امام محمد نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا انہوں نے حماد سے انہوں نے ابراہیم نخعی سے کہ ان کو اس نے خبر دی جس نے قبر النبی کو دیکھا اور ابو بکر و عمر کی قبر کو دیکھا

اس روایت کو امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد نے بیان کیا ہے یعنی کوئی گیا اور اس نے جا کر قبر النبی کو دیکھا کہ کس طرح کی تھی – ظاہر ہے جب تک ان خاص قبروں کی زیارت نہ ہو تو معلوم ہی نہ ہو پائے گا کہ قبروں کی شکل کس نوعیت کی تھی

اسی کتاب میں امام محمد نے روایت کیا
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «نَهَيْنَاكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا؛ فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، وَعَنْ لَحْمِ الْأَضَاحِيِّ أَنْ تُمْسِكُوهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَأَمْسِكُوهُ مَا بَدَا لَكُمْ، وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّا إِنَّمَا نَهَيْنَاكُمْ لِيَتَّسِعَ  مُوسِعُكُمْ عَلَى فَقِيرِكُمْ، وَعَنِ النَّبِيذِ فِي الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ، فَانْتَبِذُوا فِي كُلِّ ظَرْفٍ فَإِنَّ ظَرْفًا لَا يُحِلُّ شَيْئًا وَلَا يُحَرِّمُهُ [ص:314]، وَلَا تَشْرَبُوا الْمُسْكِرَ» قَالَ مُحَمَّدٌ:  وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، لَا بَأْسَ بِزِيَارَةِ الْقُبُورِ لِلدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ وَلِذِكْرِ الْآخِرَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ، اب قبروں کی زیارت کرو اور هُجْر نہ بولو – کیونکہ محمد کو قبر ماں (آمنہ ) کی زیارت کی اجازت ملی – اور میں نے قربانی کے گوشت سے منع کیا تھا کہ اس کو رکھو، تو اب اس کو رکھو … امام محمد نے کہا ہم یہ سب کہتے ہیں کہ زیارت قبور میں کوئی برائی نہیں ہے میت پر دعا کے لئے اور آخرت کے ذکر کے لئے اور یہی امام ابو حنیفہ کا  قول ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ماں کی قبر پر جانا سلف امت امام محمد ، امام ابو حنیفہ ، کے لئے دلیل بنا کہ قبروں کی زیارت پر جا سکتے ہیں

اصحاب رسول رضي الله عنہم ميں کوئي بھي سماع النبي عند القبر کا قائل نہيں تھا – سب جانتے تھے کہ وفات النبي ہو چکي ہے – ابن عمر رضي اللہ  عنہ واقعہ حرہ کے وقت مدينہ ميں تھے ليکن مدينہ ميں حالات کي خرابي کي وجہ سے مکہ منتقل ہو گئے – وہاں ابن زبير خليفہ ہوئے اور ايک دور ميں ابن زبير کي حکومت حجاز ميں مکمل تھي – اس کے بعد ابن عمر رضي اللہ عنہ مدينہ بھي ذاتي کاموں کے مقصد سے جاتے تھے اور جب سفر کر کے وہاں پہنچتے تو قبر النبي صلي اللہ عليہ وسلم پر جا کر درود کہتے تھے

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني ميں ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد الله بن دينار المتوفي 127 ھ نے کہا کہ ابن عمر جب سفر کا ارادہ کرتے اور سفر سے اتے تو قبر نبي صلي الله عليہ وسلم تک جاتے اور وہاں درود پڑھتے اور  دعا کرتے پھر جاتے
امام محمد نے کہا : يہ اس طرح ہونا چاہيے کہ جب وہ مدينہ (سفر کر کے ) جاتے ہوں تب قبر نبي صلي الله عليہ وسلم پر آتے ہوں

امام محمد نے ايسا کہا کيونکہ ابن عمر رضي الله عنہ مدينہ سے مکہ منتقل ہو گئے تھے – موطا کي اور اسناد عن: معن والقعنبي، وابن بكير، وأبي مصعب. وقال
ابن وهب ميں ہے ثم يدعو لأبي بكر وعمر
پھر ابن عمر رضي الله عنہ ، ابو بکر اور عمر کے لئے دعا کرتے

امام مالک اور ان کے شاگرد امام محمد جو امام ابو حنيفہ کے شاگرد بھي تھے – قبر النبي ، مسجد النبي کا حصہ نہيں بلکہ حجرہ عائشہ کا حصہ ہے  متعدد تابعين نے اس حجرہ کا قصد کيا اور ام المومنين عائشہ رضي اللہ عنہا سے اکتساب علم کيا ہے لہذا حجرہ عائشہ تک جانا بدعت و کفر قرار نہيں  ديا جا سکتا – اگر کوئي قبر النبي تک بلا کسي نيکي کے تصور سے جائے تو اس ميں کوئي قباحت نہيں ہے – جس طرح انسان کسي بھي قبر پر جا کر دعا  سلامتي کرتا ہے اسي طرح قبر النبي پر جا کر درود پڑھے گا کيونکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے امت کو دعا اسي انداز ميں سکھائي گئي ہے – واضح رہے کہ اس دعائے درود کو پڑھنا ، يہ ثابت نہيں کرتا کہ اس کو کہنے والا سماع کا عقيدہ رکھتا ہے – يہ ثابت ہے کہ ابن عمر رضي اللہ عنہ نے  اس درود کو پڑھا ہے اور وہ يقينا سماع الموتي کا عقيدہ نہيں رکھتے تھے

موطا کے بعض نسخوں ميں ہے
وحدثني عن مالك، عن عبد الله بن دينار، قال: رأيت عبد الله بن عمر «يقف على قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فيصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، وعلى  أبي بكر وعمر
عبد اللہ بن دينار نے کہا ميں نے ابن عمر کو ديکھا وہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي قبر پر رکتے پھر نبي صلي اللہ عليہ وسلم پر درود کہتے اور ابو بکر اور عمر پر بھي درود کہتے

اس روايت پر اختلاف الفاظ ہے کہ کيا عمر و ابو بکر رضي اللہ عنہما پر بھي درود کہتے تھے يا دعا کرتے تھے

عن: معن والقعنبي، وابن بكير، وأبي مصعب. وقال ابن وهب: ثم يدعو لأبي بكر وعمر.
موطا کے راوي معن اور القعنبي اور ابن بكير اور أبي مصعب. کہتے ہيں پھر ابو بکر و عمر کے لئے دعا کرتے

وقال روح بن عبادة: ثم يسلم على أبي بكر وعمر.
اور روح بن عبادة کي سند سے ہے کہ ابو بکر و عمر پر سلام کہتے

وقال أيوب بن صالح: يقف على قبر النبي ويدعو لأبي بكر وعمر.
اور أيوب بن صالح کي سند سے ہے کہ قبر نبوي پر رکتے اور ابو بکر و عمر کے لئے دعا کرتے

ابن عمر ارادہ سفر پر ايسا کرتے تھے اور سندوں سے بھي معلوم ہے مثلا موطا سے باہر کتب ميں بھي اس کو روايت کيا گيا ہے

حماد بن زيد، عن أيوب، عن نافع “أن ابن عمر كان إذا قدم من سفر دخل المسجد ثم أتى القبر فقال: السلام عليك يا رسول الله، السلام عليك يا أبا بكر، السلام عليك  يا أبتاه”.

ان الفاظ ميں اختلاف اس پر ہے کہ ابو بکر و عمر پر درود کہا جا سکتا ہے يا نہيں ؟

غير نبي کے لئے صلي اللہ کے الفاظ کہنا سنت النبي سے ثابت ہيں – حديث ابن ابي اوفي ميں ہے
اللهم صل على آل أبي أوفى
اے اللہ ال ابي اوفي پر درود بھيج

لہذا اگر وہ صلي علي ابو بکر و عمر کہتے تھے تو يہ سنت سے معلوم ہے – دوسرا مسئلہ جو امام مالک کے سامنے پيش ہوا وہ يہ تھا کہ کيا اہل مدينہ کا  آجکل کا عمل درست ہے جو سفر سے انے يا سفر پر جاتے وقت تو قبر النبي پر درود نہيں کہتے بلکہ جمعہ کے دن ميں وہاں جمع ہو جاتے ہيں

الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي از شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ) ميں ہے

وقال مالك في المبسوط أيضاً، ولا بأس لمن قدم من سفر أو خرج إلى سفر أن يقف على قبر النبي صلى الله عليه وسلم فيصلي عليه ويدعو له ولأبي بكر وعمر قيل  له: فإن ناساً من أهل المدينة يقدمون من سفر ولا يريدون يفعلون ذلك في اليوم مرة أو أكثر، وربما وقفوا في الجمعة أو الأيام المرة والمرتين أو أكثر عند القبر فيسلمون ويدعون ساعة، فقال: لم يبلغني هذا عن أهل الفقه ببلدنا وتركه واسع، ولن يصلح آخر هذه الأمة إلا ما أصلح أولها، ولم يبلغني عن أول هذه الأمة وصدرها أنهم كانوا  يفعلون ذلك، ويكره إلا لمن جاء من سفر أو أراده

امام مالک نے المبسوط ميں فرمايا کوئي برائي نہيں کہ کوئي جو سفر سے آيا ہو يا سفر پر نکل رہا ہو ہو قبر النبي صلي اللہ عليہ وسلم پر رکے اور درود کہے اور ابو بکر و عمر پر دعا کرے – ان سے کہا گيا اہل مدينہ ميں لوگ ہيں جو سفر سے اتے ہيں اور وہ يہ کام نہيں کرنا چاہتے اور کبھي کبھار وہ جمعہ ميں قبر پر رکتے ہيں اور بعض دنوں ميں ايک يا دو بار اور ايک ساعت تک قبر پر درود کہتے ہيں – امام مالک نے کہا اس امت کي اصلاح نہ ہو گي مگر جيسي پہلوں کي ہوئي اور اس امت کے پہلے والے اس کام (قبر النبي پر رکنا اور درود کہنا ) کو صرف سفر سے انے پر يا ارادہ سفر پر کرتے تھے

يعني جو (مدينہ کا باسي) مدينہ سے سفر کي غرض سے باہر نکل رہا ہو يا اس ميں سفر کر کے داخل ہوا ہو اس کے لئے يہ گناہ کي بات نہيں کہ قبر النبي تک جائے اور درود پڑھے ليکن خاص اسي مقصد کے لئے دور دراز سے مدينہ تک کا سفر کرنا سنت اصحاب رسول نہيں تھا

اسی طرح کسی خاص قبر کی زیارت کی دلیل میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے کہ انہوں نے عبد اللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ کو ان کی  قبر سے نکالا اور دوسرے مقام پر قبر دی – ظاہر ہے یہ سب کرنا ممکن نہیں جب تک اس قبر تک نہ جایا جائے

آٹھويں صدي ہجري ميں امام ابن تيميہ نے اس پر فتوي ديا تھا کہ اہل شام کا سفر کر کے خاص مدينہ قبر النبي کو ديکھنے کي غرض سے جانا بدعت ہے   ليکن اس ميں دليل ابن تيميہ نے اس روايت کو بنايا کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے جبکہ يہ روايت ثابت نہيں تھي – اسي طرح ابن تيميہ نے اس روايت کو دليل بنايا کہ

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى
سواري نہ کسي جائے مگر تين مسجدوں کے لئے ايک مسجد الحرام دوسري مسجد النبي اور تيسري مسجد الاقصي

اس حديث کا متن بھي شاذ ہے کيونکہ مسجد الاقصي اصحاب رسول کو معلوم نہيں تھي کہ کہاں ہے ، کس مقام پر ہے؟ تو ظاہر ہے کوئي مسجد اقصي  کے سفر کا قصد کر ہي نہيں سکتا تھا – خود نبي صلي اللہ عليہ وسلم سواري پر مسجد قبا تک جاتے تھے جو اس دور ميں مدينہ کے مضافات ميں مدينہ  سے باہر کي مسجد سمجھي جاتي تھي اور وہاں امام بھي سالم رضي اللہ عنہ کو مقرر کيا گيا تھا

صحيح بخاري ميں ہے
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّ نَافِعًا، أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ قَالَ: «كَانَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَؤُمُّ المُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ، وَأَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَأَبُو سَلَمَةَ، وَزَيْدٌ، وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ

موطا ميں ہے کہ دور نبوي ميں
كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ
ايک انصاري مسجد قباء ميں امامت کرتے تھے

صحيح بخاري ميں ہے
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ كُلَّ سَبْتٍ، مَاشِيًا وَرَاكِبًا
نبي صلي اللہ عليہ وسلم ہر ہفتہ کو سواري پر يا پيدل مسجد قبا جاتے تھے

اصحاب رسول بھي ايسا کرتے مثلا صحيح بخاري ميں ہے کہ ابن عمر رضي اللہ عنہ پر ہفتے مسجد قباء جاتے تھے
فَإِنَّهُ كَانَ يَأْتِيهِ كُلَّ سَبْتٍ

اس طرح معلوم ہوا کہ سواري کسي بھي مسجد کے لئے کسي جا سکتي ہے اور لا تشد الرحال والي روايت شاذہ پر خود نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا اور  ان کے اصحاب کا عمل نہيں ہے

رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اپني ماں کي قبر تک گئے اور امام نسائي اس پر زيارت قبر مشرک کا باب قائم کيا ہے -کسي بھي قبرستان ميں مسلمان موت کو ياد کرنے داخل ہو سکتے ہيں – اب بحث اس ميں ہے کہ کيا کوئي مومن اپنے ماں باپ کي قبر پر جا سکتا ہے تو شرع ميں اس پر کوئي قباحت نہيں ہے کہ اس کو کفر و شرک قرار ديا جائے

مزارات وہ عمارتین ہیں جو صوفیاء کے اولیاء سے منسوب ہیں – وہاں ان اولیاء کے حوالے سے غلو پر مبنی کلام ہوتا ہے جس کو قوالی کہتے ہیں – پرستش کے مماثل کلمات ادا کیے جاتے ہیں – شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں – شرع میں قبر دیکھنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن مزارات کا ماحول ایمان کشا ہے – شرع میں خود اپنے آپ کو فتنہ میں ڈالنا منع ہے

مباہلہ کرنے کي بدعت

اہل سنت ميں المقريزي (المتوفى: 845هـ) کي کتاب إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع کے مطابق رمضان سن 9 ہجري سے پہلے
اہل نجران کا نصراني وفد مدينہ آيا – السيرة النبوية لابن هشام يا سيرت ابن اسحق کے مطابق يہ وفد سن 9 ہجري ميں آيا – وفد نجران نصراني علماء پرمشتمل تھا جو رسول عربي محمد صلي اللہ عليہ وسلم سے ملنے آيا تھا اور الوہيت باري تعالي پر کلام کرنا چاہتا تھا اور جزيہ نہيں دينا چاہتا تھا جس کا حکم سورہ المائدہ ميں درج ہے

اس وقت تک سورہ ال عمران کي جنگ احد سے متعلق آيات نازل ہو چکي تھيں ليکن آيات مباہلہ ابھي تک اس ميں درج نہيں کي گئي تھي – نصراني وفد رسول اللہ پر جب ايمان نہ لايا تو ان کو آخري حد دي گئي کہ اگر وہ سمجھتے ہيں کہ وہ حق پر ہيں تو پھر بد دعا کريں اہل ايمان و رسول اللہ کے لئے اور رسول اللہ اور اہل ايمان بد دعا کريں گے نصرانيوں کے لئے – اس ميں دونوں جانب سے لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ آئيں گے ، ميدان ميں جمع ہوں گے اوربد دعا کي جائے گي

سورہ ال عمران کي آيات 59 تا 61 ہيں

اِنَّ مَثَلَ عِيسى عِنْدَ اللّـهِ كَمَثَلِ ادَمَ خَلَقَه مِنْ تُرَابٍ ثُـمَّ قَالَ لَـه كُنْ فَيَكُـوْنُ (59)
بے شک عيسي کي مثال اللہ کے نزديک آدم کي سي ہے، اسے مٹي سے بنايا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گيا

اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَـرِيْنَ (60)
حق وہي ہے جو تيرا رب کہے پھر تو شک کرنے والوں ميں سے نہ ہو

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
اپنے بيٹوں کو لاو اور اپني عورتوں کو لاو

پھر جو کوئي تجھ سے اس واقعہ ميں جھگڑے بعد اس کے کہ تيرے پاس صحيح علم آچکا ہے تو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بيٹے اور تمہارے بيٹے اور اپني عورتيں اورتمہاري عورتيں اور اپني جانيں اور تمہاري جانيں بلائيں، پھر سب التجا کريں اور اللہ کي لعنت ڈاليں ان پر جو جھوٹے ہوں

روايات ميں ہے کہ 60 مرد نجران سے آئے تھے ان ميں عورتيں نہ تھيں لہذا مباہلہ اسي صورت ہوتا کہ يہ واپس جا کر اپنے اہل و عيال کو لاتے لہذا جب يہ بات يہاں تک پہنچي تو نصراني ڈر گئے اور انہوں نے جزيہ دينا قبول کيا – صحيح بخاري 4380 ميں ہے

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ الْعَاقِبُ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّيِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ أَنْ يُلَاعِنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ:‏‏‏‏ لَا تَفْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ لَئِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَاعَنَّا لَا نُفْلِحُ نَحْنُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ إِنَّا نُعْطِيكَ مَا سَأَلْتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا وَلَا تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “لَأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ”، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ”، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَامَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ”.

مجھ سے عباس بن حسين نے بيان کيا، کہا ہم سے يحيي بن آدم نے بيان کيا، ان سے اسرائيل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے صلہ بن زفر نے اور ان سےحذيفہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نجران کے دو سردار عاقب اور سيد، رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے مباہلہ کرنے کے ليے آئے تھے ليکن ايک نے اپنے دوسرے ساتھي سے کہا کہ ايسا نہ کرو کيونکہ اللہ کي قسم! اگر يہ نبي ہوئے اور پھر بھي ہم نے ان سے مباہلہ کيا تو ہم پنپ نہيں سکتے اور نہ ہمارے بعد ہماري نسليں رہ سکيں گي- پھر ان دونوں نے نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم سے کہا کہ جو کچھ آپ مانگيں ہم جزيہ دينے کے ليے تيار ہيں- آپ ہمارے ساتھ کوئي
امين بھيج ديجئيے، جو بھي آدمي ہمارے ساتھ بھيجيں وہ امين ہونا ضروري ہے- نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ ميں تمہارے ساتھ ايک ايسا آدمي بھيجوں گا جو امانت دار ہو گا بلکہ پورا پورا امانت دار ہو گا- صحابہ رضي اللہ عنہم نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے منتظر تھے، آپ نے فرمايا کہ ابوعبيدہ بن الجراح! اٹھو جب وہ کھڑے ہوئے تو نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ يہ اس امت کے امين ہيں

دور نبوي کے بعد قرون ثلاثہ تک کسي موقعہ پر بھي اس کے بعد اہل کتاب يا مشرکوں سے مباہلہ نہ کيا گيا – اس طرح اس پر اجماع امت ہو گيا کہ يہ مباہلہ کرنا صرف نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے لئے خاص تھا

ابن حجر کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَفِيهَا مَشْرُوعِيَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة وَقد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ ثُمَّ الْأَوْزَاعِيُّ وَوَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ
اس میں مباھلہ کی مشروعیت ہے کہ جب مخالف حجت کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی اصرار کرے اور ابن عباس نے اس کو طرف بلایا ہے پھر الْأَوْزَاعِيُّ نے اورعلماء کی ایک جماعت نے

سنن الکبری از بیہقی، سنن دارقطنی میں ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، وَأَبُو بَكْرٍ قَالَا: أنا عَلِيٌّ، نا يُوسُفُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ بُهْلُولٍ، نا جَدِّي، نا أَبِي، نا أَبُو جُزَيٍّ نَصْرُ بْنُ طَرِيفٍ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: ” مَنْ شَاءَ بَاهَلْتُهُ أَنَّهُ لَيْسَ لِلْأَمَةِ ظِهَارٌ وَاللهُ أَعْلَمُ
ابن عباس نے کہا جو چاہے اس پر مباہلہ کرے کہ لونڈی کے حوالے سے ظِهَار نہیں ہے

اس کی سند میں أَبُو جُزَيٍّ نَصْرُ بْنُ طَرِيف متروک ہے

تفاسیر میں عکرمہ کا قول ہے کہ آیت
وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا
پر جو چاہے مباہلہ کرے کہ یہ ازواج النبی کے بارے میں ہے

راقم کہتا ہے کہ اس قول کی سند نہیں ہے خود عکرمہ مجروح ہے

الْأَوْزَاعِيُّ سے منسوب قول معلوم نہیں کہ کون سا ہے

دیو بندی انور کاشمیری فیض الباری میں کہتے ہیں
واعلم أن المُبَاهَلَةَ تَجُوزُ في المضايق الآن أيضًا
جان لو کہ مباہلہ اب بھی دل تنگ کرنے والی باتوں میں جائز ہے

راقم کہتا ہے مباہلہ کرنا صرف رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے لئے خاص تھا اور انہوں نے بھي مباہلہ نہيں کيا کيونکہ نصراني ڈر کر بھاگ گئے تھے – يہ شان صرف رسول اللہ کي ہے کہ ان کا مخالف تباہ و برباد کر ديا جائے گا – امت محمد کے فرقوں کا اپس ميں ايک دوسرے سے مباہلہ کرنا احقانہ عمل ہے کيونکہ 73 فرقوں والي حديث ميں موجود ہے کہ امت کے کے گمراہ فرقے اور فرقہ الناجيہ ايک ساتھ رہيں گے نہ کہ گمراہ فرقے مباہلہ پر معدوم ہو جائيں گے

آٹھویں صدی سے قبل کوئی حوالہ نہیں ملا جس میں ہو کہ فرقے ایک دوسرے کو مباہلہ کے چیلنج دے رہے ہوں

============================================================================

The innovation of Mubahilah

The provided link is an article in Urdu. Here’s the translated content:

According to the book “Imta’ al-Asma’ bima li al-Nabi min al-Ahwal wa al-Amwal wa al-Hafada wa al-Mata'” by Al-Maqrizi (died 845 AH), a Christian delegation from Najran arrived in Medina before Ramadan in 9 AH. According to the biography of the Prophet by Ibn Hisham or Ibn Ishaq, this delegation arrived in 9 AH. The delegation consisted of Christian scholars who wanted to meet the Arab Prophet Muhammad (peace be upon him), discuss the divinity of God, and did not want to pay Jizya, which is mentioned in Surah Al-Ma’idah.

By this time, the verses related to the Battle of Uhud in Surah Al-Imran had been revealed, but the verses of Mubahila had not yet been included. When the Christian delegation did not believe in the Prophet, they were given a final chance: if they believed they were right, they should curse the believers and the Prophet, and the Prophet and the believers would curse the Christians. Both parties would come with their families, gather in the field, and curse each other.

Verses 59 to 61 of Surah Al-Imran are:

“Indeed, the example of Jesus to Allah is like that of Adam. He created Him from dust; then He said to him, “Be,” and he was. (59)
The truth is from your Lord, so do not be among the doubters. (60)
Then whoever argues with you about it after [this] knowledge has come to you – say, “Come, let us call our sons and your sons, our women and your women, ourselves and yourselves, then supplicate earnestly [together] and invoke the curse of Allah upon the liars [among us].” (61)

It is narrated that 60 men came from Najran, but there were no women among them, so Mubahila would have happened if they had gone back and brought their families. Therefore, when the matter reached this point, the Christians were scared and agreed to pay Jizya – it is in Sahih Bukhari 4380.

After the time of the Prophet, Mubahila was not performed with the People of the Book or the polytheists on any occasion until the first three centuries, so there was a consensus of the Ummah that this Mubahila was specific to the Prophet.

Ibn Hajar writes in the book Fath al-Bari:

“And in it is the legality of Mubahila with the opponent if he persists after the evidence has appeared, and Ibn Abbas has called for this, then Al-Awza’i, and this has happened for a group of scholars.”

It is in Sunan al-Kubra by Bayhaqi and Sunan Darqutni:

Ibn Abbas said: “Whoever wishes, I will Mubahila him that there is no Zihar for the Ummah, and Allah knows best.”

The chain of this narration has Nasr bin Tarif Abu Juzay, who is Matruk (rejected).

It is attributed to Al-Awza’i in the Tafsirs, but it is not known which one it is.

Deobandi Anwar Kashmiri says in Faid al-Bari:

“Know that Mubahila is permissible in distressing matters now as well.”

Author says that Mubahila was specific to the Prophet (peace be upon him), and he did not even perform Mubahila because the Christians were scared and ran away. This honor is only for the Prophet that his opponent will be destroyed. The sect

The provided link is an article in Urdu. Here’s the translated content:

According to the book “Imta’ al-Asma’ bima li al-Nabi min al-Ahwal wa al-Amwal wa al-Hafada wa al-Mata'” by Al-Maqrizi (died 845 AH), a Christian delegation from Najran arrived in Medina before Ramadan in 9 AH. According to the biography of the Prophet by Ibn Hisham or Ibn Ishaq, this delegation arrived in 9 AH. The delegation consisted of Christian scholars who wanted to meet the Arab Prophet Muhammad (peace be upon him), discuss the divinity of God, and did not want to pay Jizya, which is mentioned in Surah Al-Ma’idah.

By this time, the verses related to the Battle of Uhud in Surah Al-Imran had been revealed, but the verses of Mubahila had not yet been included. When the Christian delegation did not believe in the Prophet, they were given a final chance: if they believed they were right, they should curse the believers and the Prophet, and the Prophet and the believers would curse the Christians. Both parties would come with their families, gather in the field, and curse each other.

Verses 59 to 61 of Surah Al-Imran are:

“Indeed, the example of Jesus to Allah is like that of Adam. He created Him from dust; then He said to him, “Be,” and he was. (59)
The truth is from your Lord, so do not be among the doubters. (60)
Then whoever argues with you about it after [this] knowledge has come to you – say, “Come, let us call our sons and your sons, our women and your women, ourselves and yourselves, then supplicate earnestly [together] and invoke the curse of Allah upon the liars [among us].” (61)

It is narrated that 60 men came from Najran, but there were no women among them, so Mubahila would have happened if they had gone back and brought their families. Therefore, when the matter reached this point, the Christians were scared and agreed to pay Jizya – it is in Sahih Bukhari 4380.

After the time of the Prophet, Mubahila was not performed with the People of the Book or the polytheists on any occasion until the first three centuries, so there was a consensus of the Ummah that this Mubahila was specific to the Prophet.

Ibn Hajar writes in the book Fath al-Bari:

“And in it is the legality of Mubahila with the opponent if he persists after the evidence has appeared, and Ibn Abbas has called for this, then Al-Awza’i, and this has happened for a group of scholars.”

It is in Sunan al-Kubra by Bayhaqi and Sunan Darqutni:

Ibn Abbas said: “Whoever wishes, I will Mubahila him that there is no Zihar for the Ummah, and Allah knows best.”

The chain of this narration has Nasr bin Tarif Abu Juzay, who is Matruk (rejected).

It is attributed to Al-Awza’i in the Tafsirs, but it is not known which one it is.

Deobandi Anwar Kashmiri says in Faid al-Bari:

“Know that Mubahila is permissible in distressing matters now as well.”

Author says that Mubahila was specific to the Prophet (peace be upon him), and he did not even perform Mubahila because the Christians were scared and ran away. This honor is only for the Prophet that his opponent will be destroyed.  The sects of the Ummah of Muhammad have been challenging each other to Mubahila, which is   not a legitimate act because it is mentioned in the Hadith about 73 sects that the misguided sects and the saved sect will live together, not that the misguided sects will be annihilated by Mubahila.

There is no reference found before the 8th century where sects are challenging each other to Mubahila.

 

یہودی تصوف کا اسلامی تصوف پر اثر

اسلامی  تصوف   اور  متاثرہ  فرقوں  میں یہ عقیدہ پایا  جاتا ہے کہ   اولیاء  اللہ کی ارواح  موت کے بعد  فرشتوں  جیسے  کام  کرنے  لگ  جاتی ہیں یا ان کی جماعت  میں ضم  ہو جاتی ہیں – اس عقیدے کو  المناوی   اور شاہ ولی اللہ  بیان  کرتے تھے

  شاہ ولی اللہ کتاب  حجت اللہ البالغہ میں تو کہتے ہیں کہ  ارواح  فرشتوں  کے ساتھ  شامل  ہو جاتی ہیں  اور ان  پر بھی اللہ کا حکم نازل  ہونے لگتا ہے جس کو ارواح  سر  انجام دیتی ہیں

کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير  از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ)  کے مطابق

قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.

اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر ،  تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور  عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود  دیکھتی ہیں یا بادشاہت الہی  کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں

اس طرح  کے اقوال سے  روح  کا  کہیں بھی  آنا  ثابت  کیا  جاتا ہے    جبکہ یہ اقوال بھی  یہود  کی کتب تصوف   کا چربہ  ہیں

Elaborating on cryptic passages found in the Bible (Gen. 5:24; 2 Kings 2:11), it is taught that exceptional mortals, such as Enoch, Elijah, and Serach bat Asher may be elevated to angelic status (I Enoch; Zohar I:100a, 129b; T.Z. Hakdamah 16b).

بائبل  کے بعض   اقتباسات سے یہ تعلیمات  اخذ کی گئی ہیں کہ  انسانوں  میں انوخ ، الیاس  اور سراخ بن عشر   کو فرشتوں  کا درجہ  دیا جا چکا ہے

According to a medieval Midrash, nine people entered Paradise alive (and, by implication,
underwent transformation into Angels): Enoch, Elijah, the Messiah, Eliezer (the
servant of Abraham), Ebed Melech, Batya (the daughter of Pharaoh), Hiram
(who built Solomon’s Temple), Jaabez (son of R. Judah the Prince), and Serach
bat Asher (Derekh Eretz Zut 1)

یہودی کتاب مدرش کے مطابق  نو افراد زندہ  جنت  میں گئے اور فرشتوں میں بدل گئے

روزانہ  جسم  سے روح  نکلنا اور نیند  میں اس کا آسمان میں جانا بھی یہودی تصوف  کا  کلام  ہے

خبردار  نفس  انسانی  اس سے  (نیند میں ) نکلتا ہے اور  بلند ہوتا  ہے جب وہ اپنے بستر  میں جاتا ہے –  اور اگر تم سوال کرو کہ کیا سب آسمان کی طرف بلند  ہوتے ہیں  ؟  تو ایسا نہیں ہے کہ تمام   الملک  کا وجھہ (اللہ تعالی ) کو دیکھ سکیں  (یعنی  سارے  نفس  جسم چھوڑ کر  عرش  تک نہیں جا  پاتے ) – نفس  بلند ہوتا ہے اور اپنے  پیچھے جسم  انسانی  (غف)  میں ایک ذرہ سا چھوڑ جاتا  ہے   ، یہ کم از کم زندگی دل میں ہوتی ہے اور نفس  جسم کو چھوڑتا  ہے اور  سرگرداں   پھرتا  ہے  اور  بلند ہونا چاہتا ہے  اور بلندی تک کئی  مدارج ہیں  – نفس   اگر  دن  میں  نجاست سے (یعنی گناہ سے ) کثیف  نہیں ہوا تو ہی بلند  ہو  پاتا ہے   لیکن اگر نفس  پاک ہے   اگر  دن میں کثیف نہ ہوا تھا تو یہ بلند ہو جاتا ہے  – اگر نفس  کثیف  ہو  چکا  ہے  تو وہ جسم سے ہی جڑا رہتا ہے اور  پھر  بلند  نہیں ہوتا

Book of Zohar   

یہود  کو یہ تصور  مصریوں  سے ملا  تھا  کہ انسانی  روح و  نفس  دو  الگ  چیزیں ہیں – اور ایک نفس  جسم سے نکلتا  ہے تو  اس کا ایک حصہ  جسم میں رہتا   ہے – جو نفس  نکلتا  ہے وہ  جو جو دیکھتا  ہے وہ خواب ہوتا  ہے –  یہودی   تصوف  قبالہ  میں  اسی فلسفہ کی  بنیاد  پر    شجر  حیات

Tree  of Life

کا زائچہ  بنایا  جاتا ہے  جس کا ذکر  جادو  پر  یہودی  کتب  میں  موجود ہے

عراق  کے   مسلمان راویوں  نے بھی یہ فلسفہ بیان  کیا  ہے جو  بابل  کے یہود  کا اثر معلوم ہوتا  ہے  اور ان روایات  پر تفصیلی کلام  راقم کی  کتاب ،  کتاب  الرویا  میں ہے

 

ہند کی بربادی چین سے ہو گی؟

روزانہ جنگ کی پیشن گوئییاں کرنے والوں کی زبان سے دو، تین سال سے مسلسل ایک مکذوبہ روایت سننے میں آ رہی
ہے – اخباری کالم نگار ، دانشور ، ٹی وی اینکر وغیرہ سب بلا تحقیق سند و متن اس کو سنا رہے ہیں – اس روایت کو
مکمل سنانے کی توفیق کسی کو نہیں ہے بلکہ صرف بیان کر دیا جاتا ہے کہ حدیث نبوی ہے کہ ہند کی خرابی چین سے
ہے – راقم کہتا ہے دنیا میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کو قول نبوی بنا کر آخری جنگ کی طرح پیش کرنا دینی نقطہ
نظر سے دھوکہ دہی کے مترادف عمل ہے

اخبار پڑھ کر ان کو احادیث سے ملانے کے ماہروں میں سے ایک، ڈاکٹر اسرار احمد کے نزدیک سن ٨٠ و ٩٠ کی
دھائی میں چین والے یاجوج ماجوج تھے -اس قول کو بلا تحقیق اس دور میں سب نے بیان کرنا شروع کر دیا تھا –
راقم کہتا ہے یہ قول ان علماء کا ہے جن کا شمار راقم کے نزدیک جہلاء میں ہے

عقائد میں اٹکل پچو کرنے میں متقدمین میں امام قرطبی بھی گزرے ہیں جو ضعیف و مکذوبہ روایات کے مجموعے
تیار کرنے کے ماہر تھے – قرطبي اپنی غیر محتاط انداز میں مرتب شدہ کتاب التذکرہ میں ایک روایت کا ذکر
کرتے ہیں

ذكره أبو الفرج ابن الجوزي -رحمه اللّه- في كتاب: روضة المشتاق والطريق إلى الملك الخلاق …. حديث حذيفة بن اليمان –
رضي الله عنه- عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ويبدأ الخراب في أطراف الأرض حتى تخرب مصر. ومصر آمنة من
الخراب حتى تخرب البصرة. وخراب البصرة من العراق، وخراب مصر من جفاف النيل، وخراب مكة من الحبشة، وخراب
المدينة من الجوع، وخراب اليمن من الجراد، وخراب الأيلة من الحصار، وخراب فارس من الصعاليك، وخراب الترك من الديلم،
وخراب الديلم من الأرمن، وخراب الأرمن من الخزر، وخراب الخزر من الترك، وخراب الترك من الصواعق، وخراب السند من
الهند، وخراب الهند من الصين، وخراب الصين من الرمل، وخراب الحبشة من الرجفة، وخراب الزوراء من السفياني، وخراب
الروحاء من الخسف، وخراب العراق من القحط

ابن جوزی نے اپنی کتاب روضة المشتاق والطريق إلى الملك الخلاق میں روایت ذکر کی کہ
حذيفة بن اليمان رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین کے کناروں سے
بربادی کی ابتداء ہو گی یہاں تک کہ مصر میں بھی بربادی ہو گی -مصر میں امن آئے گا جب بصرہ عراق میں بربادی
ہو گی اور بصرہ کی بربادی عراق سے ہو گی اور مصر کی بربادی نیل کے قحط سے ہو گی اور مکہ کی حبشہ سے ہو
گی اور مدینہ کی بھوک سے ہو گی اور یمن کی ٹڈی دل سے ہو گی اور الأيلة کی بربادی محاصرے سے ہو گی اور
فارس کی الصعاليك (لٹیروں) سے ہو گی اور ترک کی بربادی الدیلم (آذربیجان ) سے ہو گی اور الدیلم (آذربیجان ) کی
بربادی آرمینیا سے ہو گی اور آرمینیا کی بربادی الخزر سے ہو گی اور الخزر کی بربادی ترکوں سے ہو گی اور
ترکوں کی بربادی بجلی گرنے سے ہو گی اور سندھ کی بربادی ہند سے ہو گی اور ہند کی بربادی چین سے ہو گی اور
چین کی بربادی الرمل (ریت ) سے ہو گی اور حبشہ کی بربادی زلزلہ سے ہو گی اور الزوراء (عراق کا قدیم شہر ) کی
سفیانی سے ہو گی اور الروحاء کی بربادی دھنسنے سے ہو گی اور عراق کی بربادی قحط سے ہو گی

اس روایت کی مکمل سند نہ تو ابن جوزی نے پیش کی ہے نہ قرطبی نے پیش کی ہے

أبو عمرو الداني نے اپنی کتاب السنن الواردة في الفتن میں اس کی سند دی ہے

عبد المنعم بن إدريس، حدثنا أبي، عن وهب بن منبه

یہ سند مقطوع ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں جاتی اور سند سخت مجروح ہے
سند میں إدريس بن سنان اليماني ہے جو سخت ضعيف ہے جیسا ابن حجر کی التقريب. میں بیان ہوا ہے
اور اس کا بیٹا عبد المنعم بھی سخت مجروح ہے امام الذهبي کا الميزان میں کہنا ہے

مشهور قصاص، ليس يعتمد عليه. تركه غير واحد، وأفصح أحمد بن حنبل فقال: كان يكذب على وهب بن منبه. وقال البخاري:
ذاهب الحديث … قال ابن حبان: يضع الحديث على أبيه وعلى غيره
مشہور قصہ گو ہے ناقابل اعتماد ہے اس کو بہت سے محدثین نے ترک کیا ہے اور احمدبن حنبل نے وضاحت کی کہ
کہا کہ یہ وھب بن منبہ پر جھوٹ بولتا ہے اور امام بخاری نے کہا حدیث سے نکلا ہوا ہے اور ابن حبان نے کہا
حدیث گھڑتا ہے

اس روایت میں مہمل کلمات ہے جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ قول نبوی نہیں ہے- روایت گھڑنے والا علم جغرافیہ سے
ناواقف تھا مثلا روایت میں ہے کہ ترک کی بربادی الدیلم (آذربیجان ) سے ہو گی- مسلمانوں کی علم خغرافیہ سے متعلق
کتب میں موجود ہے کہ الدیلم (ازربیجان ) کے علاقے میں ترک آباد تھے اور یہ انہی کا علاقہ سمجھا جاتا تھا – آج
ترکمانستان ، ازربیجان وغیرہ تک اپنے آپ کو ترک نسل کا ہی بتاتے ہیں – اگے روایت میں ہے کہ ترکوں پر
الصواعق یعنی بجلی گرے گی وہ اس میں برباد ہوں گے ، جو کیوں ہے ؟ کوئی واضح قول نہیں ہے

الخزر ایک معدوم یہودی ریاست تھی جو
Caspian Sea
کے ساتھ آباد تھی – یہ ریاست معدوم ہوئی اور اس کے بسنے والے یورپ کی طرف کوچ کر گئے تھے

روایت میں ہے بصرہ کی بربادی عراق سے ہو گی جبکہ بصرہ دور نبوی میں سے آج تک عراق کا ہی علاقہ ہے

الزوراء (عراق کا قدیم شہر ) کو بھی عراق سے الگ کر کے بتایا گیا ہے جس طرح بصرہ کو بتایا گیا تھا

عرب خغرافیہ دان  السند  میں  کابل (موجودہ افغانستان ) تک کو شمار  کرتے تھے  – اس حوالہ پر راقم کی امام  مہدی سے متعلق  کتاب  کا ضمیمہ ملاحظہ کریں

یہ سب مہمل کلام ہے اس کو کسی صورت حدیث نبوی نہیں سمجھا جا سکتا – محدثین نے اس کی سند کو مجروح قرار
دیا ہے اور متن تاریخ و جغرافیہ سے ناواقفیت کا کھلا ثبوت ہے

لیکن موجودہ دور کے تنازعات میں بعض لوگ اس مکذوبہ روایت کو بار بار قول نبوی کہہ کر پیش کر رہے ہیں ان
بھائیوں سے درخواست ہے کم از کم سند اور متن کو مکمل سمجھ تو لیں کیا کہا جا رہا ہے
نہ کہ ہمارے رسول صادق و امین سے جھوٹ منسوب کرنے لگ جائیں

عرب علماء اس روایت کو رد کر رہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ان کے خوچہ چیں اہل حدیث چپ سادھے بیٹھے ہیں

لنک

لنک

لنک

شیعہ کتاب بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٤١ – الصفحة ٣٢٥ میں ہے

مناقب ابن شهرآشوب: وأخبر عليه السلام عن خراب البلدان، روى قتادة عن سعيد بن المسيب أنه سئل أمير المؤمنين عليه
السلام عن قوله تعالى: ” وإن من قرية إلا نحن مهلكوها قبل يوم القيامة أو معذبوها ” فقال عليه السلام في خبر طويل انتخبنا
منه: تخرب سمرقند وخاخ وخوارزم وإصفهان والكوفة من الترك، وهمدان والري والديلم والطبرية والمدينة وفارس بالقحط
والجوع، ومكة من الحبشة، والبصرة والبلخ بالغرق ، والسند من الهند والهند من تبت، وتبت من الصين، ويذشجان وصاغاني
وكرمان وبعض الشام بسنابك الخيل والقتل، واليمن من الجراد، و السلطان وسجستان وبعض الشام بالريح وشامان بالطاعون،
ومرو بالرمل وهرات بالحيات، ونيسابور من قبل انقطاع النيل، وآذربيجان بسنابك الخيل والصواعق، وبخارا بالغرق والجوع،
وحلم وبغداد يصير عاليها سافلها

سعيد بن المسيب نے علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کا قول ہے
وإن من قرية إلا نحن مهلكوها قبل يوم القيامة أو معذبوها
بستیوں میں ہیں جن کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک کریں گے اور عذاب دیں گے
پس علی نے جواب دیا ایک طویل خبر میں جس کے آخر میں فرمایا
ترک برباد کریں گے سمرقند اور خاخ اور خوارزم اور إصفهان اور الكوفة کو
اور بھوک و قحط ہلاک کرے گا همدان اور الري اور الديلم اور الطبرية اور المدينة اور فارس کو
اور مکہ کو حبشہ برباد کرے گا
اور بصرہ و بلخ غرق آب ہوں گے
اور سندھ کو ہند برباد کرے گا
اور ہند کو تبت برباد کرے گا
اور تبت کو چین برباد کرے گا
اور بذشجان وصاغاني وكرمان وبعض الشام کو قتل و غارت برباد کرے گی
اور یمن کو ٹڈی دل برباد کرے گا
اور السلطان وسجستان وبعض الشام کو ہوا برباد کرے گی
اور شامان الطاعون سے ہلاک ہو گا
اور مرو ریت میں دب جائے گا
اور هرات بچھووں سے برباد ہو گا
اور نيسابور برباد گا انقطاع نيل سے پہلے اور
آذربيجان خچروں اور بجلی گرنے سے اور بخارا بھوک سے اور غرق اب ہونے سے اور حلم وبغداد کا اوپر والا نیچے
کر دیا جائے گا

یہ بھی اسی قبیل کی چربہ روایت ہے اور قتادہ مدلس کا عنعنہ موجود ہے – باوجود تلاش کے شیعہ کتب میں اس کی
مکمل سند نہیں ملی تاکہ اصل شیعہ رواة کا علم ہو سکے

الدين النصيحة قسط اول

161 Downloads

رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

   بلاشبہ دین نصیحت ہے ، ہم نے عرض کیا: کس کے لیے،  اللہ کے رسول؟  آپ نے فرمایا:  اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے امیروں   اور عام مسلمانوں  کے لیے

یعنی   نصیحت   کی  جائے  گی    اللہ   تعالی    کا  خوف   پیدا  کرنے  کے  لئے –   اس  کے رسول   کی اتباع   کا   حکم  کیا  جائے  گا –   اللہ   تعالی  کی کتاب   کی طرف  بلایا  جائے گا  –    یہ    نصیحت       مسلمانوں   کے   امیروں    کو  کی   جائے  گی  اور  عام  مسلمان  کو  سمجھایا  جائے  گا –   یہ  دین   کا  مقصد  ہے –

دین     اسلام    دنیا  کے باقی  ادیان  سے الگ  ہے –  یہ نصرانیت  نہیں ہے    جس کو  اللہ  تعالی    نے  باوجود  ابراہیم    سے تعلق  کے   کفر  قرار  دیا  ہے –  اسلام  ،  یہودیت   بھی  نہیں ہے    جس  میں   توریت    پر   عمل  پیرا  یہود  کو   کہا   جاتا ہے کہ     انہوں  نے  کتاب  اللہ کو  پیٹھ  پیچھے  پھینک  دیا ہے-    اس  طرح    ابراہیم  علیہ  السلام  سے تعلق   کے باوجود  یہ  مذاھب   صحیح    راستے پر نہیں تھے –   متبعین       احبار  و  رہبان     جہنم  کی نذر   ہو رہے تھے  باوجود یہ کہ  سخت  ریاضت  کرنے  والے  اور     درس  کتاب  و سنت  موسی  و عیسیٰ  بیان  کرنے والے تھے

اس  کتاب  میں ان تلبسات  کا ذکر ہے جو   دعوت  الی اللہ  کے حوالے سے    اسلامی فرقوں  نے ایجاد کی ہیں –    فرقوں   کے نزدیک   مشرک     کی شفاعت  ممکن ہے  ،  لا علمی  میں   کفر  کرنے والا   کافر  نہیں ،    انسانیت  کے وہ لوگ   جو  عجمی  ہیں   ان  پر اتمام  حجت   نہیں ہوا  کیونکہ ان کو عربی  نہیں آتی  وغیرہ

ان تلبیسات    پر   بحث    اس کتاب    میں    کی  گئی ہے –

سومنات کا عربی دیوی مناة سے تعلق تھا ؟

 مسلمان گجرات و کیرالہ میں محمود غزنوی کی امد سے  پہلے سے موجود تھے – بنو امیہ اور بنو عباس کے دور سے مسلمان انڈیا میں آباد ہو رہے تھے اور وہاں مسجدیں بھی قائم کر رہے تھے – سلطان غزنوی ، افغانستان غزنی سے نکلا تھا اور وہاں سے گجرات تک لا تعداد مندر آتے ہیں – اس نے ان میں کسی بھی مندر کو یا بت کو مسمار نہ کیا اور انڈیا کے اور بھی مشہور مندروں کو چھوڑ کر وہ سومناتھ پہنچا
انڈيا کي تاریخ کی پروفيسر روميلا تھاپر
Prof Romila Thapar
کے مطابق سلطان غزنوی گجرات مندر لوٹنے یا بت توڑنے کے مقصد سے نہیں آیا تھا وہ مسجد کی تعمیر پر پابندی کا قضیہ مٹانے آیا تھا – پروفيسر روميلا تھاپر کے بقول سومنات کا مندر اصل ميں مسجد کا جھگڑا تھا کيونکہ سومنات کي حکومت نے ایک افغانی /ایرانی  کو مسجد کي جگہ بيچي ليکن بعد ميں زمين دينے سے انکار کر ديا – دوم مندر وقت کے ساتھ خستہ حال ہوا نہ کہ کسي کے تباہ کرنے کي وجہ سے –  گجرات کے علاقے کے جين مذھب کي کتب ميں کہيں نہيں لکھا کہ سومنات کا مندر توڑا گيا تھا بلکہ ان کے مطابق مندر وقت کے ساتھ  خستہ حال ہوا تھا
https://www.youtube.com/watch?v=HdX0Xe6fC14

اسلامي مصادر ميں اس حوالے سے تضاد ہے کہ مندر میں بت کس حال میں تھا کہ  بت مندر کے فرش پر نصب تھا یا معلق تھا وغیرہ – راقم کہتا ہے اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ یہ بت مرد کا تھا اور عورت کا نہیں تھا – بعض لوگوں نے سوم ناتھ کو یعنی

Lord Som
چاند دیو

کو معرب کر کے سمجھا کہ سوم ناتھ کا نام سو مناة تھا – یہ نام سننے میں جاہلی دور کی دیوی مناة جیسا ہے لہذا یہ مندر کسی دیوی کا ہو گا – یہ شوشہ اغلبا کسی مستشرق نے چھوڑا – اس پر تصور پر کوئی دلیل نہیں ہے – مناة کی پوجا مکہ میں نہیں بلکہ جدہ میں کی جاتی تھی – مکہ میں عزی پوجا جاتی تھی-منات و لات و عزی انسانی شکل کی دیویان  نہیں تھیں نہ کعبه میں موجود تھیں  بلکہ یہ محض کعبہ کی شکل کی  چکور  چٹانیں تھیں جن میں ایام جاہلیت میں سمجھا جاتا تھا کہ فرشتوں کا آنا جانا ہے   – محمود غزنوی المتوفی ١٠٣٠ ع کے دور کے ایک فارسی شاعر فرخی سیستانی المتوفی ١٠٣٧ ع بمطابق 428 ہجری نے اپنے اشعار میں کہا

کسی که بتکده‌ی سومنات خواهد کند
به جستگان نکند روزگار خویش هدر

ملک همی به تبه کردن منات شتافت
شتاب او هم ازین روی بوده بود مگر

منات و لات و عزی در مکه سه بت بودند
ز دستبرد بت آرای آن زمان آزر

همه جهان همی آن هر سه بت پرستیدند
جز آن کسی که بدو بود از خدای نظر

ان اشعار میں شاعرانہ انداز میں کہا گیا ہے کہ بت پرستی آزر (والد ابراہیم ) کے دور سے ہو رہی ہے اور مکہ میں منات ، عزی اور لات تک کی پوجا ہوتی تھی – اس اشعار میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ منات کا بت عرب سے اسمگل کر کے انڈیا میں گجرات کے ساحل پر لایا گیا اور وہاں پوجا ہونے لگی – اسلامی تاریخ کے مطابق سومنات پر کسی دیوی کی نہیں بلکہ سوم ناتھ کی پوجا کی جاتی تھی جو ایک مرد کی شکل کا دیو تا تھا  یعنی اس مندر میں چندر دیو کی پوجا ہوتی تھی

تقسیم بند کے بعد انڈیا کی حکومت نے تاریخ کو مسخ کر کے سومناتھ کو ایک دیوی یعنی عورت کا مندر بنا دیا جبکہ یہ مندر عورت سے  منسوب نہیں تھا  

جزیہ کا حکم

قرآن میں سورہ المائدہ میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہے- یہ ایک مذہبی ٹیکس ہے جو اس مد میں لیا جاتا ہے کہ اسلام میں ان کو اپنے مذھب پر عمل کی آزادی ملے گی اور مسلمان اہل کتاب یہود کے سناگاگ اور نصرانیوں کے چرچ کی حفاظت کریں گے – ان کو مسمار نہ کریں گے – عبادت گاہ میں جانے کا رستہ نہیں روکیں گے اور اہل کتاب اندر عبادت گاہ میں اپنا کفر و شرک جاری رکھ سکتے ہیں ، وہ اپنے دین کو حق پر بتا سکتے ہیں – اس پر کوئی پابندی نہیں ہو گی – مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہوں میں داخلے کی اجازت نہیں ہوتی تھی الا یہ کہ ان کو مدعو کیا جائے – اس کی مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی مدینہ کے  کسی یہودی سناگاگ  میں داخل نہ ہوئے بلکہ سڑک پر جا کر تبلیغ کی – اسی طرح فتح یروشلم پر عمر رضی اللہ عنہ کسی نصرانی  کلیسا میں داخل نہ ہوئے حتی کہ وہاں کے نصرانی علماء نے ہی ان کو مدعو کیا – مسلمان اس طرح ان عبادت گاہوں کے محافظ تھے

جزیہ کا حکم اس طرح اہل کتاب کو اپنے دین پر عمل کی اجازت دیتا تھا اور مسلمان دندناتے ہوئے ان کی عبادت گاہوں میں داخل نہیں ہوتے تھے

افسوس کہ یہ سمجھ بوجھ وقت کے ساتھ جا چکی ہے – آجکل مسلمان فرقے قبر پرستی کی اسی لعنت میں پڑے ہوئے ہیں جس میں اہل کتاب مبتلا تھے اور مرض وفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم تھا کہ نصرانی و یھودی کی طرح انبیاء سے منسوب مقابر سے دور رہنا ان کو مسجد نہ بنانا
دور نبوی اور اس کے بعد ایک طویل عرصے تک نصرانی چرچ ہمیشہ کسی قبر یا مدفون باقیات
Relics
پر بنایا جاتا تھا – اس طرح مشرق وسطی کے تمام چرچوں میں کیا جاتا تھا  اور یہی حال روم میں تھا

یہ سمجھنا کہ آیا صوفیہ کے نیچے کوئی قبر نہیں  احمقانہ بات ہو گی  کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ نصرانی کسی مقام کو چرچ بولیں ہے وہاں کچھ زمین میں دفن نہ ہو – مزید تفصیل راقم کی کتاب مجمع البحرین میں ہے

بنو امیہ کے دور میں الولید بن عبد الملک پہلا خلیفہ ہے جس نے ان مقابر یا چرچوں کو مسجدوں میں تبدیل کیا اور نصرانی راہبوں کو ان کے معبدوں سے بے دخل کیا گیا (مثلا مسجد دمشق جس میں یحیی علیہ السلام کا سر دفن تھا) – اس وقت اصحاب رسول میں سے کوئی حیات نہ تھا جو اس عمل شنیع سے منع کرتا

وقت کے ساتھ شام میں موجود انبیاء کی تمام معلوم قبروں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا اور ارض مقدس آنے والے یورپی نصرانیوں کو مار بھگایا – اسی وجہ سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا اور نقطۂ عروج یہاں تک پہنچا کہ نصرانیوں کا مسجد القبلی (جس کو آجکل مسجد الاقصی کہا جاتا ہے ) پر قبضہ ہو گیا

یورپ کے نصرانی اب  اس قدر مذہبی نہیں کہ وہ مسلمانوں سے مذہبی مقامات کی وجہ سے جنگ کریں لیکن اپنے مذہبی مقامات یا چرچوں کو حاصل کرنا ان کے بعض مذہبی حلقوں میں ابھی بھی ایک مقبول خواہش ہے

آجکل نصرانی کلیسا آیا صوفیہ کا ذکر چل پڑا ہے جس کو قبل بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تعمیر کیا گیا اور  عثمانی خلفاء نے نصرانیت کو ملغوبیت کا نشان بنانے کے لئے مسجد میں بدلا اور کئی سو سال تک یہ مقام مسجد رہا – وہاں کی نصرانی عوام حکومتی دعوی کو رد کر رہی ہے کہ خلیفہ نے اس چرچ کو خرید لیا تھا یہاں تک کہ ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ نے بھی اس عمل  پر تنقید کی ہے – ترکی میں ہی مسلمانوں کا اس پر اختلاف ہو رہا ہے کہ کیا یہ عمل درست ہے یا نہیں ؟ اگر  کسی کام میں اختلاف ہو جاۓ تو اللہ کا حکم ہے کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو یعنی دیکھو کہ قرآن میں اور سنت نبوی میں کیا حکم دیا گیا ہے

عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہمارے سامنے ہے – آپ رضی اللہ عنہ نے یروشلم میں موجود کلیساوں میں نماز پڑھنے سے انکار کر دیا – جزیہ لینے کے بعد کلیسا کو مسجد بنا دینا تعلیمات نبوی و سنت صحابہ میں معلوم نہیں ہے – اس مسجد آیا صوفیہ میں کی گئی عبادت قبول نہ ہوئی ہو گی کیونکہ کلیسا پر  قبضہ کرنا سنت نبوی نہیں لیکن آج اس عمل کو نیکی کی

طرح پیش کیا جا رہا ہے جبکہ یہ بدعت ہے اور بدعت دین میں گمراہی ہے قابل رد ہے

انبیاء نے عصا پکڑ کر خطبہ دیا ہے – موسی علیہ السلام کا عصا بکریاں چرانے کے دور سے اس کے ہاتھ میں تھا – بائبل میں موجود ہے کہ داود علیہ السلام کے والد یسی نے سموئیل نبی کو بتایا کہ داود بکریاں چرا رہا ہے – صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ میں بکریاں چراتے تھے – ریوڑ کو جمع کر کے رکھنا آسان کام نہیں ہے – ریوڑ آگے جاتا ہے چرواہا پیچھے سے ان کو ہانکتا ہے
اسی طرح ایک لیڈر کرتا ہے وہ لوگوں کو صحیح راستہ پر اپنے عصا سے لاتا ہے – عصا مار کر وہ دہشت قائم نہیں کرتا نہ خطبہ میں سنت میں مقرر کردہ عصا کو چھوڑ کر تلوار پکڑ کر قوم کو دھمکاتا ہے

ترکی نے اعلان کیا ہے کہ مسجد آیا صوفیہ   میں عیسیٰ اور فرشتوں کی تصویریں برقرار رکھی جائیں گی (ریسٹوریشن پر اقوام متحدہ   کی کثیر  رقوم لگ چکی ہے  ) لہذا عیسیٰ کی تصویر کے نیچے نماز جاری رکھی جائے گی اس طرح سے امدنی حاصل ہوتی رہے گی – اللہ بھی خوش دنیا والے بھی خوش

ذمی کی دیت

سورہ المائدہ  میں ہے  کہ یہود  دنیا میں فساد مچاتے تھے  اس وجہ سے اللہ نے ان پر حکم نازل کیا کہ

مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ

اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں کہ اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔

 [سورہ المائدہ، آیت:۳۲]

اس آیت کے ذریعہ  یہود  کو  تنبیہہ کی گئی کہ وہ کسی معصوم  غیر  یہودی   کا قتل اس وجہ سے نہیں  کر سکتے کہ وہ   توریت  کو ماننے والا نہیں ہے  بلکہ ایک انسان  کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے

افسوس  جاہلوں  نے اس آیت  کو بدلا  اور نتیجہ اخذ  کیا کہ ایک  غیر  حربی یہودی  کا قتل  مسلمان  کے  لئے  جائز ہے اور مسلمان  کفار و مشرک کو جہاں دیکھیں قتل کر سکتے ہیں، ان   کا  کوئی پرسان  حال نہیں ہے – دوسری طرف شریعت  میں ذمی اہل کتاب کی دیت بھی   مقرر کی گئی ہے

داعش  کا لیڈر    أبو محمد العدناني (طه صبحي فلاحة)  کتاب “إن ربك لبالمرصاد” صفہ: ۱۵-۱٦  کہتا ہے

 ومَنْ سُمي كافراً فماله حلال على المسلم، ودمه مهدور مستباح، دمه دم كلب لا إثم فيه ولا دية عليه

 جس کو کافر کہا جائے تو اس کا مال مسلمان کے لیے حلال ہے اور اس کا خون ایسا جائز ہے کہ اس پر کوئی قصاص نہیں ہے کیوں کہ اس کا خون ایک کتے کا خون ہے، جس میں کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی دیت ہے

  ذمی کی دیت کے متعلق احناف کا موقف ہے کہ   چونکہ النفس بالنفس کے تحت مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل کیا جانا ہے تو ضروری ہے کہ وہ دیت میں بھی مساوی ہوں –   مسلمان کی دیت اور ذمی کی دیت اس طرح  برابر ہوگی۔ جب کہ حنابلہ کے دو موقف ہیں –  حنابلہ میں  قتل بصورت خطا  کے میں نصف دیت  ہو گی  اور بصورت عمد دیت  برابر ہو گی –  اس طرح حنابلہ اور احناف کے موقف میں بہت فرق نہیں ہے –  شوافع کے نزدیک ثلث دیت ہوگی یعنی  مسلم کی دیت کی تہائی ہو گی

مصنف عبد الرزاق  ح 18475  میں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ,: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ عَقْلَ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنَ الْيَهُودِ , وَالنَّصَارَى نِصْفَ عَقْلِ الْمُسْلِمِ

یعنی اہل کتاب کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے

اس کی سند  منقطع ہے – عمرو  صحابی نہیں اور اس سے لے  کر  رسول اللہ تک راوی غائب ہیں

سنن ابو داود  میں ہے

 حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «دِيَةُ الْمُعَاهِدِ نِصْفُ دِيَةِ الْحُرِّ» قَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَوَاهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، مِثْلَهُ

یہاں سند میں ابن اسحاق  ہے جو  دجال ہے امام مالک کے نزدیک  اور اس کے مطابق    ذمی کی دیت  آزاد مسلمان کی دیت کی ادھی ہے

لیکن یہ سند مرجوح  ہے

خطابی نے اس قول کو لے کر کہا

 قَالَ الْخَطَّابِيُّ لَيْسَ فِي دِيَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ شَيْءٌ أَبْيَنَ مِنْ هَذَا وَإِلَيْهِ ذَهَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أنس وبن شُبْرُمَةَ وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ

(عون المعبود ج4 ص320)

ذمی کی دیت میں اس حدیث (مذکور) سے زیادہ واضح اور کوئی دلیل نہیں اور یہی  عمر بن عبدالعزیز، عروہ بن زبیر، مالک بن انس، ابن شبرمہ اورامام احمد کا   مذہب ہے

عمرو بن شعیب کی سند  بہت سے محدثین کے نزدیک قابل بحث  ہے . اس کو حسن کے درجہ میں لیا جاتا ہے نہ کہ احکام  کے فیصلے اس پر ہوں لہذا صحیح موقف یہی  ہے جو احناف  و حنابلہ  کا ہے کہ  قتل  عمد  میں  دیت   برابر ہے

مباحث متعلقه خروج امام مہدی

نام کی تصحیح
کتاب میں نام غلطی سے محمد یوسف لکھا گیا تھا جس کی تصحیح کر دی گئی ہے – مولف کا نام حافظ محمد ظفر اقبال ہے

راقم نظریہ مہدی کو بنو حسن و بنو عباس کی ایجاد کہتا ہے اور اس پر سیر حاصل بحث اپنی سابقہ کتاب “روایات ظہور مہدی جرح و تعدیل کے میزان میں “میں کر چکا ہے –امام مہدی سے متعلق کافی مواد کتب اہل سنت میں موجود ہے اور چند سالوں بعد کوئی اور کتاب چھپ جاتی ہے جس میں سنی امام مہدی کا تذکرہ نئی شان سے بیان ہوا ہوتا ہے – حال میں ایک کتاب عقیدہ امام مہدی کے حوالے سے شائع ہوئی ہے، جس کا عنوان ہے اسلام میں امام مہدی کا تصور – یہ جناب
حافظ محمد ظفر اقبال صاحب کی تالیف ہے اور اس کتاب میں بہت سے حوالہ جات علماء کی آراء کے ساتھ بیان ہوئے ہیں –
حافظ محمد ظفر اقبال صاحب کی کتاب میں پیش کردہ چند روایات پر راقم کا تحقیقی موقف پیش خدمت ہے

عثمانی صاحب کی کتب کے تراجم

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ بہت سے نیک اور پر خلوص  مومن تھے  – سب اردو بولنے والے نہیں تھے  بعض گجراتی ، عربی، سندھی ، پشتو   و فارسی سے واقف تھے – ان  لوگوں نے ان کی کتب  کا ترجمہ  کیا اور وہ مسجد  میں اگرچہ رکھا ہوا تھا لیکن  گرد آلود ہو رہا تھا – راقم کے دوست غلام اللہ صاحب نے  یہ کتب راقم کو سن ٢٠١٣  میں مہیا کیں اور  راقم نے ان کو  سکین  کرا   کر محفوظ   کر لیا تھا  – سن ٢٠١٣  میں جب اس ویب سائٹ  کا اجراء ہوا تو مواد کم تھا – اردو  میں صرف عثمانی صاحب کی کتب تھیں – راقم  کا مقصد  دعوت کو  انگریزی  میں  بیان کرنا تھا   لہذا  پہلے ا  انگریزی  میں  کتب لکھیں –  پھر  سوالات ہوئے تو اردو میں مواد جمع ہوتا رہا جس کو  پھر کتابی شکلوں میں لایا گیا –  بہر حال    آج کمپیوٹر میں  خرقه کو دیکھا تو  عثمانی صاحب  کی  ان کتب تراجم   کو موجود پایا اور اب ان کو عثمانی صاحب کی کتب کے سیکشن میں شامل کر دیا ہے 

ان کتب کو یہ سوچ  کر نہیں رکھا تھا کہ ممکن ہے ترجمہ میں غلطی ہو تو پہلے تصحیح ہو گی پھر رکھا جائے گا لیکن یہ نوبت نہ آئی-  اب چونکہ موت  کا دور دورہ ہے علم ضائع ہونے کا  خطرہ ہے-  قارئین جو اہل زبان ہوں وہ غلطیوں سے اگاہ کریں اور اگر ترجمہ کی صلاحیت رکھتے  ہوں تو ترجمہ کریں 

اللہ تعالی   ترجمہ کرنے والوں کی محنت کو قبول فرمائے  اور حقیقی  توحید کی طرف ہم کو رستہ دکھائے  

آمین 

قرون ثلاثہ کے مشہور ظاہری فرقے

اس کتاب میں قرون ثلاثہ (سن ٣٥ ھ – ٣٠٠ ھ ) کے ظاہری فرقوں (غیر باطنی فرقوں ) میں سے فرقہ خوارج اول ، روافض ، زیدی فرقہ ، فرقہ معتزلہ کے پیش کردہ مسئلہ خلق القرآن وغیرہ کا متاخرین کی آراء کے ساتھ ذکر ہے – ساتھ ہی منہج المرجئہ کے موقف بھی ذکر ہے جو اہل سنت میں فرقہ نہیں ایک رجحان و منہج تھا

دور نبوی کے ادیان باطلہ

  تمام  انبیاء و رسل ، اولیاء اللہ  ، ربانی  اہل  کتاب  کا دین اسلام تھا – اب چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کی بعثت سے صدیوں  پہلے کے ہوں – یعنی  وہ دین  جو  آدم  علیہ السلام سے چلا  آ رہا ہے وہ دین، وہی ہے جس  کا  حکم  تمام بعد کے انبیاء  نے کیا ہے –  اس کو اسلام  کہا  جاتا ہے  –  اسلام  کا مطلب  شریعت  محمد ہی نہیں ہے بلکہ  شریعت  موسوی بھی اسلام ہی  ہے ، یہودیت نہیں ہے – قوم موسی کے مومن  مسلم  تھے – بنی اسرائیل  میں سے   عیسیٰ  کے  حواری بھی  مسلم تھے –  یعنی یہ سب دین اسلام پر عمل پیرا  تھے  –  اگرچہ عیسیٰ  علیہ السلام کے حواری ،  ہیکل سلیمانی میں جا کر سوختی  قربانی دیتے یا  مناسک ہیکل بجا  لاتے تھے  اور کعبہ کی  طرف نہیں بلکہ ہیکل سلیمانی کی طرف منہ  کر کے نماز پڑھتے تھے ، قرآن  میں ان سب کو مسلم  کہا  گیا ہے – معلوم ہوا   شریعت  کا ظاہر  الگ  تھا  لیکن باطن ایک تھا –

  اس دین  سے جو روز الست سے   چلا آ رہا  ہے ،  الگ  ہو  جانے والے  فرقہ ہیں – سورہ ال عمران ١٩ میں ہے

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّـٰهِ الْاِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَابَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَهُـمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَـهُـمْ ۗ وَمَنْ يَّكْـفُرْ بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ فَاِنَّ اللّـٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ  

بےشک دین اللہ کے ہاں اسلام  ہی ہے، اور جنہیں کتاب دی گئی تھی انہوں نے صحیح علم ہونے کے بعد آپس کی ضد کے باعث اختلاف کیا، اور جو شخص اللہ کی آیات  کا انکار کرے تو اللہ جلد ہی حساب لینے والا ہے۔

اب جب دین   ایک ہی قابل قبول ہے تو وہ اسلام ہے –  قرآن سورہ الانعام  میں ہے

 إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

وہ جنہوں نے  اپنے دین میں فرقے  کیے   اور گروہوں  میں  بٹ گئے   ان سے  آپ کا کوئی سروکار  نہیں ہے – ان  کا فیصلہ  اللہ پر ہے ، پھر  وہ ان کو بتائے  گا کہ انہوں نے کیا  کارگزاری کی 

عرف  عام  میں ہم  یہودیت، نصرانیت  وغیرہ  کو ہم  الگ  دین کہتے ہیں  لیکن قرآن کی ڈکشنری  میں یہ  فرقے ہیں  جو اصل  صراط سے ہٹ   گئے ہیں

یہود کے نزدیک  توریت  آخری  منزل من اللہ کتاب ہے اور  آخری  نبی ملاکی

Malachi

ہے   جس  کا دور سن ٤٢٠ ق م کا کہا  جاتا ہے –  راقم   کے نزدیک  بائبل کی کتاب جو اس نبی سے منسوب  ہے گھڑی ہوئی ہے –   قتل  انبیاء  و رسل  کو  یہودی حلقوں میں  فخر  و افسوس دونوں طرح بیان کیا جاتا ہے – یہود کے نزدیک  اصل اہمیت  اس بات کی  ہے کہ یہود  تمام قوموں  میں اللہ  تعالی کے پسندیدہ ہیں  اور  اللہ نے ارض  مقدس ان کے نام  لکھ دی ہے – یہود کے مطابق  ان کے بعض  سفھاء  و جہلاء  نے انبیاء  و رسل کا قتل کیا جس کی بنا پر ان پر عذاب آیا  جو بابل و اشوری قوم کی طرف سے ان کا   حشر  اول   تھا  یعنی  یہود کو جمع کیا گیا ان کی زمین سے نکالا گیا  –   یہود کے نزدیک حشر  دوم   عذاب نہیں آزمائش  تھا کیونکہ  اس  دور میں  انہوں نے کسی اللہ کے  رسول  کا قتل نہ کیا ( یاد رہے کہ عیسیٰ   ان کے نزدیک رسول و پیغبر نہیں ہیں ) بلکہ بعض لوگوں  نے مسیح کے ظاہر  ہونے  کا جلد گمان  کیا  اور وقت سے  پہلے ان کے  مجاہدوں   نے رومی فوج  کے خلاف  خروج کر دیا  یہ سوچ کر کہ دور خروج   مسیح  آ گیا ہے –  وقت  خروج  کے تعین  میں  اس صریح   غلطی کی وجہ سے  رومی ، یہود  پر  غالب آئے – ہیکل سلمانی فنا  ہو گیا ، یہود  کا حشر  دوم ہوا –  یہود کے مطابق   وہ ابھی بھی اللہ کے محبوب  ہیں اور جہنم میں نہیں  جائیں گے  اگر گئے بھی تو سات دن سے زیادہ نہیں جلیں گے –

عیسیٰ  و  محمد  صلی اللہ علیھما   یہود  کے نزدیک  جھوٹے  انبیاء  تھے  اسی لئے تلمود کے مطابق   عیسیٰ کو رجم کر دیا گیا اور   خیبر  میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا گیا  – احمق  راویوں  نے بیان کیا کہ اسی  زہر کے زیر اثر  وفات النبی  ہوئی  جبکہ یہ جھوٹ ہے

قرآن  میں اس کا صریح  رد ہے کہ عیسیٰ  کا قتل ہوا – قرآن میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام  کا رفع  ہوا ان کو زندہ حالت نیند  میں آسمان پر  اٹھا لیا گیا

صابئی

Sabians

کے نزدیک ان  کا مذھب  شیث بن آدم  و نوح  علیھما السلام  سے اتا ہے –  یہ انوخ کی نبوت کے بھی قائل ہیں –  کہا جاتا  ہی کہ ان کے نزدیک  آخری پیغمبر یحیی علیہ السلام   تھے اور آخری منزل من اللہ کتاب زبور ہے – یہ  لوگ عراق  میں آج بھی  آباد ہیں- البیرونی کے مطابق یہ  یہودی قبائل تھے جو غلام بنا کر  بابل  لائے  گئے تھے – وہاں یہ جادو و کہانت سے متاثر  ہوئے – اصل توریت کو کھو بیٹھے –  صابئیوں  پر معلومات  کا مصدر  صرف  ایک کتاب  ہے   جس کا نام ہے

الفلاحة النبطية   یا   الزراعة النبطية

 The Nabataean Agriculture

ہے – جو  أبو بكر أحمد بن علي بن قيس  المعروف  ابن وحشية النبطي کی تالیف ہے- کہا  جاتا  ہے کہ یہ سن ٢٩١ ھ  میں لکھی گئی تھی –  یہ کتاب   صلاح الدین  ایوبی  کے   طبیب   یہودی  حبر    میمونید

Maimonides

کے پاس بھی تھی اور اس نے بھی اس کے حوالے  اپنی کتب میں دیے ہیں

راقم البیرونی کی رائے سے متفق نہیں ہے – صابئی  کو روحانیون بھی کہا  جاتا ہے  – یہ عقیدے رکھتے ہیں کہ جو چیز آسمان میں ہے اور زمین پر اتی ہے اس کی روح ہے مثلا شہاب یا قوس قزح یا ستاروں و سیاروں میں روح ہے اور اہرام مصر انبیاء کی قبروں پر ہیں

مجوس  کے نزدیک  آخری  نبی فارس  میں زرتشت  تھے – ان کے اقوال کا مجموعہ   اوستا ہے –  مقدس آگ  رب نہیں ہے مظہر  الہی ہے ، قبلہ نما ہے  جس کو مخصوص طریقہ سے جلایا جاتا ہے –  –  مجوس  کا لفظ اصل میں فارسی میں   مگوس  ہے  ( جو معرب  ہوا تو مجوس ہوا )  – مگؤس سے ہی  میگی

Magi

کا لفظ نکلا ہے  یعنی آتش   پرست – نصرانیوں  کے نزدیک یہ علم ہیت سے واقف تھے اور   انجیل میں ذکر ہے کہ پیدائش عیسیٰ پر   ستارہ بیت لحم  پر  ظاہر ہوا اور تین مگؤس   وہاں اس ستارہ کو دیکھتے دیکھتے پہنچے  (گویا مجوس بھی منتظر  مسیح  تھے) پھر انہوں نے تحائف  عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کیے جس طرح ایک  بادشاہ کو دیے جاتے ہیں –

انگریزی میں  میگی  کا لفظ   میجی بھی ہوا اور اسی سے میجک یعنی جادو  کا لفظ نکلا ہے

 دور  عمر  میں فتح فارس  ایک روایت کے مطابق   مجوس  کے علماء کو جادو  گر قرار دے کر قتل کر دیا گیا تھا

امام شافعی اور دیگر فقہاء   نے  مجوس و صابئیوں  کا شمار اہل کتاب میں کیا ہے  ان کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا ہے

نصرانی   (الله کی پناہ) کہتے ہیں کہ عیسیٰ رب ہے – الله  کا ایک جز  (الروح آیلوھم / نور   ) عرش سے زمین تک  آیا –  ایک عورت کو حمل رکھوا دیا اور پھر اس کا وجود کا حصہ عالم بشری میں پیدا ہوا-  اس طرح عیسیٰ کو رب کہتے ہیں آج کل یہی نصرانی مذھب ہے

دور نبوی میں یا اس سے پہلے ایک فرقہ تھا جو کہتا تھا کہ عیسیٰ الله کا منہ بولا بیٹا تھا،  انسان ہی تھا  لیکن یہ فرقہ عام  نصاری کے نزدیک بدعتی تھا اور اب معدوم ہے- قرآن  میں اس کا بھی رد ہے

نصرانیوں کے نزدیک الله  تعالی  خود کو تین اقانیم   ثلاثہ   میں منقسم کرتا ہے  – اس کو لاھوت  کا  ناسوت  میں جانا کہتے ہیں – قرآن  کے مطابق  اللہ  تعالی  کے تین ٹکڑے کرنا کہ کہنا کہ   رب تعالی :   روح القدس اور عیسیٰ اور الله  ہے – یہ کفر ہے   اور اس میں شرک بھی ہے-  اس عقیدے  کو سورہ  المائدہ  میں کفر   کہا گیا  ہے کہ  نصرانیوں  نے کہا الله تو اب تین میں سے ایک  ہے- یہ عقیدہ  آجکل تمام نصرانیوں  کا ہے

سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہی عقیدہ صحیح تھا تو اللہ  تعالی  نے توریت  میں اس کا ذکر  کیوں نہ کیا ؟ اس اشکال  کا جواب نصرانی علماء  اس طرح دیتے ہیں کہ   یہود کی کم  عقلی کی وجہ سے اصل مذھب موسی نے توریت میں نہیں بتایا تھا کہ الله تین کا ایک ہے بلکہ اس میں ایک ہی  رب کا ذکر کیا گیا  لیکن اشارات  چھوڑے  گئے کہ  رب منقسم ہوتا ہے – نصرانیوں نے  اپنے فلسفہ سے  الله  تعالی کی ذات کے تین حصے کیے اور کہا کہ یہ تین رب نہیں،  ایک ہی ہیں،  صرف متشکل تین طرح ہوتے ہیں-  یعنی الله تو ایک ہی ہے لیکن ظہور الگ الگ ہے-  آج کل  نصرانی عامیوں  کی جانب سے اس کی مثال پانی سے دی جاتی ہے کہ پانی  زندگی ہے  جو  بھاپ ہے ، مائع ہے اور برف بھی ہے-   الله نے اس  عقیدے کو کفر کہا

 نصرانی اپنے مذھب کا شمار

Monotheism

یا توحیدی مذھب میں کرتے ہیں – جو ان کی خود فریبی ہے-  یعنی یہ بھی مانتے ہیں کہ الله کی تین شکیں یا ظہور یا تجلیات ہیں لیکن اس کو ایک ہی رب بھی کہتے ہیں –  نصرانی  عبادت  میں  پطرس کا اور اپنے اولیاء  کا وسیلہ بھی لیتے ہیں- پوپ

ویٹی کن میں موجود  قبر پطرس کو سجدہ  کرتا ہے

پوپ قبر پطرس کو سجدہ کرتے ہوئے

اللہ  تعالی   قرآن سورہ  المائدہ ٦٩ میں کہتا  ہے کہ وہ   یہودی ، نصرانی ، صائبی  میں سے ان کو معاف  کرے  گا  جو  اللہ  تعالی  اور روز جزا پر ایمان  لائیں  گے

اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالصَّابِئُـوْنَ وَالنَّصَارٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ  

بے شک مسلمان اور یہودی اور صابئی اور عیسائی جو کوئی بھی   اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور نیک کام کیے تو ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

سورہ  حج ١٧  میں ہے کہ   یہودی، نصرانی ، صائبی، مجوسی ، مشرکین  سب کا فیصلہ  اللہ کرے گا

اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالصَّابِئِيْنَ وَالنَّصَارٰى وَالْمَجُوْسَ وَالَّـذِيْنَ اَشْرَكُوْاۖ اِنَّ اللّـٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَـهُـمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ (17)

بے شک اللہ مسلمانوں اور یہودیوں اور صابیوں اور عیسائیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، بے شک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے۔

یہ وہ   لوگ  ہیں  جو رسول  اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم سے قبل گزرے  ہوں گے – بعثت  محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اقرار   قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہے کہ  اخروی  کامیابی  کے لئے  ضروری امر ہے –  اللہ نے  خبر دے دی ہے کہ وہ شرک کو معاف   نہیں کرے  گا

فقہی مسالک  ممنوع  ہیں ؟

عام  بول چال   میں مذھب  کا  مطلب دین  لیا  جاتا ہے  لیکن   فقہ کی کتب  میں مذھب  کا  مطلب  فقہ  کے چار اماموں  میں سے کسی  ایک امام کی اتباع  کرنا  ہے – یعنی اس امام سے منسوب  فقہ پر منبی طریقے  سے  نماز  پڑھنا ، طلاق  و  وراثت وغیرہ  کا فیصلہ  کرنا –  اس طرح  الگ  الگ  منہج  پر  لوگ ایک ہی امام کے متبع  یا ایک ہی  مذھب  پر ہو سکتے ہیں

عملی مسائل  میں اختلاف  رائے  کی دین  میں اجازت ہے – فقہی مسائل  میں اصحاب  رسول تک  میں اختلاف  موجود تھا – اس کو غیر شرعی  کہنے والا  جاہل  ہے – یہ معلوم تھا کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا  ہے  اور یہ بھی معلوم  تھا کہ  مسلسل نہیں کیا ہے –    لہذا بعض  شہروں  میں فقہ صحابہ کی وجہ سے سجدوں  تک میں رفع الیدین  کیا جاتا تھا  اور بعض شہروں  میں سرے سے ہی نہیں  کیا جاتا تھا – اصحاب رسول  میں کوئی کسی کو اس پر  نہیں روکتا ٹوکتا  تھا

قرن  دوم  میں  البتہ  اس پر محدثین  کا  اختلاف  واقع  ہو چکا  تھا – امام ترمذی  کے نزدیک  کوفہ   میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے   طریقہ  کے تحت نماز  پڑھنا    “بھی ” درست  تھا کہ رفع الیدین نہیں کیا  جاتا تھا  –  امام  بخاری  سختی سے رفع الیدین  کے قائل تھے  اور  اس کا پر چار کرتے تھے –  راقم  نے جب  بھی ڈاکٹر عثمانی کے پیچھے نماز پڑھی  انہوں نے وہ    امام بخاری  کی طرح  نہیں بلکہ  کوفہ کے مذھب کے تحت پڑھی جبکہ وہ صحیح بخاری  کا درس دینے والے تھے –  کہنے کا مقصد ہے کہ فقہ  میں اختلاف  موجب عذاب نہیں ہے ، یہ مسلمانوں  پر سہولت  ہے  جو عمل پسند ہو کر سکتے ہیں

فقہی مذہب یا عملی مسائل   میں  حنبلی ، شافعی ، مالکی ،  حنفی   ان  میں کسی ایک کو اختیار کرنا  شرعا  ممنوع  نہیں ہے –  جو امر  ضروری ہے   وہ یہ کہ اس کو دیکھا جائے کہ کہیں  ایسا  نہ ہو  کہ ایک آدمی دین  میں سہولت  کے نام پر  جب چاہے  آسانی والا راستہ لے – مثلا کوئی اپنی بیوی کی تین طلاق ایک ہی وقت میں دے اور پھر غیر مقلدوں کی طرح کہے کہ وہ صحیح مسلم کی  (منکر ) روایت پر عمل  پیرا  ہے، تین طلاق  نہیں ہوئیں اور  بعد  میں یہی شخص  حنفی طریقہ  پر  کوئی عمل کرے تو  تو ایسا شخص  مضل ہے،  یہ شریعت سے  کھلواڑ کر رہا   ہے – اس  کا دعوی  غیر  تقلیدی  محض  ایک دھوکہ ہے

معلوم  ہوا کہ نہ تو منہج  بری  چیز  ہے نہ  فقہی مذھب  بری  چیز  ہے –  جو  بات  نا پسندیدہ  ہے وہ اعتقادی  اختلاف  ہے – اسی سے فرقہ  بنتا ہے –  اعتقاد  میں اختلاف  کرنے کی صورت  میں فرقہ  آٹومیٹک  بن جاتا ہے – ظاہر  ہے  الگ الگ عقیدہ پر قائم  لوگوں کو  ایک گروہ  نہیں قرار دیا جا سکتا – البتہ ان  گروہوں کے  مجموعہ کو  اسلامی  کتب  میں اکثر اوقات  ایک لیا جاتا ہے – مثلا  اہل سنت  کے متعدد فرقے ہیں – متکلمین  ان کو ایک ہی چھت  کے تحت ذکر  کرتے ہیں – امام  ابو حسن اشعری کی مقالات الاسلامیین  دیکھی  جا سکتی ہے ، جس  میں وہ  اہل سنت ، روافض  اور خوارج   کا عقائد میں تقابل کرتے ہیں  – رافضیوں  کے آپس  میں بہت سے اعتقادی  اختلاف ہیں لیکن  ان سب کو  کتب  اہل سنت  میں  محض شیعہ کہہ دیا   جاتا ہے – یہی انداز  کتب اہل سنت  میں خوارج کے فرقوں  کے حوالے سے ہے – ان فرقوں  کی تحلیل نفسی  بر  جگہ نہیں کی جاتی کہ  لوگوں کو الگ الگ کر کے سمجھایا جائے کہ یہ راوی یا شخص  شیعہ  ہے تو کون سا شیعہ ہے –

اہل سنت سے  مراد  وہ  فرقے ہیں جو دینی مسائل میں   ابو  بکر  و عمر و عثمان  رضی اللہ عنہم  کی سنت کو درست سمجھتے ہیں   یعنی   ابو  بکر  ، عمر  ،  عثمان کے کیے گئے  فیصلے ان کی نگاہ میں درست ہیں – خوارج و شیعہ  ان کو قابل قبول نہیں جانتے

اس طرح  کسی فرقہ کو محض  اہل سنت  میں سے قرار دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ صحیح عقیدے پر بھی ہے – آج صوفی فرقے ہوں یا  غیر  صوفی فرقے ہوں  دونوں اپنے آپ کو اہل سنت  میں سے قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ  نہ شیعہ ہیں نہ خارجی ہیں  – اس  حد  تو ان کی بات قابل قبول  ہے  –  لیکن  تفصیل  میں جانے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اہل سنت  میں اعتقادی  اختلافات بہت  شدید نوعیت  کے ہیں – اسی وجہ سے آج ان کی درسگاہیں ، مساجد  الگ کی گئی ہیں

ڈاکٹر  عثمانی  رحمہ اللہ علیہ   آخری  عمر  تک   فقہ  حنفی  کے طریقہ  پر  نمازیں پڑھاتے  تھے  اور اسی فقہ کے تحت  فروع میں  حکم کرتے تھے  مثلا یہ فاتحہ  خلف الامام  کے  خلاف فتوی دیتے   تھے   جبکہ امام  بخاری  کا مذھب امام  کے پیچھے  مقتدی کا   فاتحہ پڑھنے  پر ہے –  ڈاکٹر  عثمانی  رحمہ اللہ علیہ  علمی  حلقوں  میں  حنفی  مذھب  پر  جانے جاتے  تھے  – امام ابو  حنیفہ کی اتباع   مذھب و عقیدے  دونوں  میں  کرتے  تھے – کتاب  ایمان  خالص قسط دوم  میں  انہوں نے کئی  مرتبہ اپنے آپ کو فخر  سے امام  ابو حنیفہ  کے عقیدے  پر بتایا ہے –   راقم ان کی نماز  و فتووں سے واقف  ہے کہ وہ بھی  فقہ  حنفی  کے تحت  دیے گئے ہیں – فروعی مسائل  میں عثمانی صاحب  نہ تو  امام شافعی کی پیروی  کرتے تھے نہ امام مالک کی نہ امام  بخاری کی  – اس کی وجہ یہ تھی  کہ وہ خود ملتان  کے   حنفی  مدرسہ سے فارغ التحصیل  تھے  اور  فروع  میں ان کا  حنفی فرقوں  سے کوئی اختلاف نہ تھا

ان کی وفات کے بعد  بعض  غیر سنجیدہ مقرروں  نے جو غیر مقلدین کی  سوچ سے متاثر  ہوئے انہوں  بیان کرنا شروع کیا کہ  اسلام میں نہ کوئی حنفی ہوتا ہے،  نہ مالکی ہوتا ہے، نہ شافعی  ہوتا ہے ، نہ جنبلی ہوتا ہے   بلکہ صرف مسلم  ہوتا ہے – یہ قول  سطحیت پر ،   نا  سمجھی پر  منبی  تھا –  مذھب اربعہ  کو  خلاف اسلام کسی نے قرار نہیں دیا  – نہ ڈاکٹر عثمانی نے کہیں  لکھا  ہے کہ  وہ ان  فقہی  آراء یا  تقلید امام ابو حنیفہ   کے خلاف ہیں

 

مضامین برائے اسلامی نظام حکومت

سیاسی میدان میں اہل سنت میں عباسی خلافت کے بعد ، ترک سلجوقیوں کی خلافت قائم ہوئی پھر ایوبی سلطنت ، پھر عثمانی خلافت قائم ہوئی – انگریز نے عثمانی ترکوں کے خلاف عربوں کو کھڑا کیا – عربوں کو اس کا قلق تھا کہ خلافت ان کے ہاتھ سے کیوں نکل گئی – اس دبی خواہش کو برقی عروج دور فرنگ کے اختتام سے پہلے ملا ، جب عربوں نے نوٹ کیا کہ وہ ترک و منگول نسل سے جان چھڑا سکتے ہیں – اس کے نتیجے میں عالم عرب میں بغاوت ہوئی – ترکوں کا قتل عام کیا گیا، وہ عرب سے فرار پر مجبور ہوئے – عرب میں نجد سے وہابی فرقہ منصہ شہود پر آیا اور اس نے اپنی حکومت قائم کر لی – دوسری طرف عرب میں عمان میں خارجیوں کی حکومت قائم کی گئی- متحدہ امارات و بحرین و قطر میں بادشاہتیں قائم ہوئیں جو وہابی فرقے سے متاثر تھیں لیکن مکمل وہابی بھی نہیں تھیں – یمن میں جمہوری عرب حکومت قائم ہوئی – مشرق وسطی کو کئی عرب ممالک و بادشاہتوں میں تقسیم کیا گیا – عربوں کے لئے یہ سرور کا موقع تھا کہ کئی سو سال بعد انگریز ان کے نجات دھندہ بن کر نازل ہوئے البتہ بر صغیر کے مسلمان اپنے صوفی بھائیوں یعنی عثمانی ترکوں کے غم میں شریک رہے –
اس کتاب میں اسلامی نظام حکومت پر چند نگارشات مختصرا پیش کی گئی ہیں – ان مضامین کی تحریر کے وقت کئی کتب موجود تھیں مثلا اسلام کا شورائی نظام از جلال الدین انصر جس کا مقدمہ مودودی صاحب نے لکھا تھا – المادوری کی احکام السلطانیہ کو بھی دیکھا گیا ہے – البتہ راقم ان کے مندرجات و نتائج سے ہر مقام پر اتفاق نہیں کرتا لہذا ضرورت محسوس کی کہ اس اہم چیز پر اپنے خیالات و فہم کو یکجا کرے

اتمام حجت کون کرے گا ؟

اتمام حجت کون کرے گا ؟

بعض لوگوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ حق واضح کر کے اتمام حجت کر رہے ہیں – راقم کہتا ہے اتمام حجت قرآن سے ہو چکا ہے، قرآن کی دنیا میں موجودگی کی وجہ سے اتمام حجت مسلسل ہو رہا ہے – جس نے قرآن سے دلیل لی تو قرآن حجت ہے لیکن کسی فرد کا یہ دعوی کہ وہ اتمام حجت کر رہا ہے درست موقف نہیں ہے

اتمام حجت لغوی طور پر ہے دلیل مکمل ہونا ہے – اصطلاحا اس کا ذکر انبیاء و رسل کے حوالے سے ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوموں پر اتمام حجت کر دیا اور اس کے بعد ان کی قوم یا تو ایمان لائی یا فنا ہو گئی – یہ الله کی سنت ہے جس میں تبدیلی نہیں ہے اس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے کہ عذاب کا عمل اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک انبیاء اپنی قوموں کے بیچ ہوتے ہیں اور اس میں آسمانی عذاب یا زمینی جنگ سب ہو سکتا ہے-
سوره فاطر میں ہے
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا (42) اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا (43) أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا
اب اس سے منسلک بعض اور مباحث بھی ہیں- ورہ الاسراء میں ہے
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
أور هم عذاب نہیں کرتے یہاں تک نہ رسول نہ بھیج دیں
اول: بعض انبیاء کی قوموں کو معدوم کر دیا گیا کہ ان کی خبر تک نہیں کیونکہ وہ بیشتر کافر تھیں – وہ قومیں جو مکمل معدوم هو گئیں وہ وہ تھیں جن میں ایمان والے صرف چند لوگ تھے مثلا قوم نوح یا قوم ثمود یا عاد مکمل تباہ ہو گئیں- ان پر عذاب شدید آیا جس نے ان کی نسل کاٹ دی – قرآن میں اس کو جڑ کاٹنا کہا گیا ہے – سوره الانعام میں ہے
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
پس ہم نے اس ظالموں کی قوم کی جڑ کاٹ دی اور تمام تعریف عالموں کے رب کی ہے
دوم : بعض انبیاء کی قوموں کو باقی بھی رکھا گیا مثلا بنی اسرائیل انبیاء کا قتل کرتے رہے لیکن باقی رہے کیونکہ ان میں ربانیین موجود تھے جو اللہ کی مغفرت طلب کرتے رہے – بنی اسرائیل کو باقی رکھا گیا کیونکہ یہ حامل کتاب الله قومیں تھیں ان میں تمام کافر نہ تھے مومن بھی تھے- بنی اسرائیل معدوم نہ ہوئے لیکن اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکے – ان پر عذاب ان پر آیا جس میں ان کو غلام بنا لیا گیا

بعض لوگوں نے تطبیق کے لئے یہ رائے اختیار کی کہ نبی اور رسول میں فرق ہے – لیکن راقم اس رائے سے متفق نہیں ہے

حجت کیا ہے؟

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (82) وَتِلْكَ حُجَّتُنا آتَيْناها إِبْراهِيمَ عَلى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجاتٍ مَنْ نَشاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔
[سورة الأنعام (6) : آية ٨٢]
دعوت اس طرح دی جائے کہ صحیح و غلط عقائد کا فرق واضح ہو جائے اور مخالف کا عقیدہ مشرکانہ ثابت ہو جائے تو یہ حجت ہے – مثلا ظلم یا شرک ، مشرک قوموں نے کیا لیکن اس کو گناہ سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ نیکی سمجھتے ہوئے – اس میں انبیاء و رسل اور فرشتوں کا وسیلہ لینے والے مشرکین مکہ ہوں یا کواکب پرست ابراہیم علیہ السلام کی قوم ہو- ان سب پر اتمام حجت ہوا اور دلیل سے ثابت کیا گیا کہ یہ شرک کر رہے ہیں جو قوم مان بھی گئی اس کے بعد انہوں نے اس کو چھوڑا نہیں بلکہ توجیہ کی – آپ نے پڑھا ہو گا جب ابراہیم عليه ألسلام نے تمام اصنام کو توڑ کر ایک صنم چھوڑ دیا اور قوم سے کہا اس سے کلام کرو تو اس وقت کا سورہ انبیاء میں اس طرح ذکر ہے
قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ (63) فَرَجَعُوا إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُونَ
کہا یہ ان بتوں کے سب سے بڑے بت کا کام ہے ، اس سے پوچھو اگر یہ جواب دے ، پس وہ اپنے نفس کی طرف پلٹے اور (ایک دوسرے کو ) کہنے لگے تم لوگ ظالم ہو
قوم مان گئی کہ وہ مشرک ہے- یہ اتمام حجت ہوا – یہ ابراھیم علیہ السلام نے کیا
یہی اتمام حجت نبی صلی الله علیہ وسلم نے مکہ والوں پر کیا – مشرکین نے اقرار کیا (سورہ الزمر)
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
ہم ان کی عبادت اس لئے کر رہے ہیں کہ قرب الہی حاصل ہو- یہ اتمام حجت ہوا- انبیاء نے مخالف کو مشرک ثابت کر دیا جس کا اقرار قوم نہیں کر رہی تھی
یہاں اصطلاحات کو سمجھنا ضروری ہے – انبیاء کو ان کو قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے – قوم میں سب کافر ہوتے ہیں پھر کچھ ایمان لاتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں وہ قوم نہیں امت کہلاتے ہیں-اتمام حجت قوم پر ہوتا ہے امت پر نہیں-
امت سے مراد اہل قبلہ ہیں جن میں مسلمانوں کے تمام فرقے آتے ہیں لیکن ان میں بھی وقت کے ساتھ شرک کی تحلیل ہو جاتی ہے لہذا امت موسی میں آج یہودی ہیں اور امت عیسیٰ میں آج نصرانی ہیں اور امت محمد میں اس کے تمام فرقے ہیں – اتمام حجت انبیاء کر چکے اپنی اپنی قوموں پر اور قرآن کتاب الله سے انسانیت پر اب قیامت تک کے لئے اتمام حجت ہو چکا- حق ہم تک آ گیا ہے لہذا اب ہم قرآن پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ صحیح عقیدہ کیا ہے -کیا کوئی غلط عقیدہ تو اختیار نہیں کر رکھا – یہ اتمام حجت نہیں اصلاح عقائد ہے
سورہ انبیاء میں ہے
قُلْ فَلِلّـٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَآءَ لَـهَدَاكُمْ اَجْـمَعِيْنَ (149)
کہہ دو پس اللہ کی حجت پوری ہو چکی، سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کر دیتا۔

قرآن میں ربانی اہل کتاب کا ذکر ہے یہ انبیاء نہیں تھے – دور فترت میں جب کوئی نبی نہیں تھا یعنی عیسیٰ اور محمد صلی الله علیھما کے درمیان کا دور تھا – اس وقت لوگ توریت و انجیل اگرچہ تبدیل شدہ تھی لیکن غور سے پڑھنے کی وجہ سے وہ صحیح عقیدہ رکھتے تھے جان چکے تھے کہ دین حق کو کہاں تبدیل کر دیا گیا ہے
ایک روایت میں ہے کہ قرآن تیرے لئے حجت ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَنَّ زَيْدًا، حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا سَلَّامٍ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ – أَوْ تَمْلَأُ – مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا»
ابو مالک اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ الحمد لله ترازو کو بھر دیتا ہے ۔ سبحان الله اور الحمد لله آسمانوں سے زمین تک کی وسعت کو بھر دیتے ہیں ۔ نماز نور ہے ۔ صدقہ دلیل ہے ۔ صبر روشنی ہے ۔ قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے تو ( کچھ اعمال کے عوض ) اپنا سودا کرتا ہے ، پھر یا تو خود آزاد کرنےوالا ہوتا ہے خود کو تباہ کرنے والا ۔
یہ روایت ضعیف ہے سند میں سلام بن أبى سلام : ممطور ، الحبشى الشامى ہے جس کو مجھول کہا جاتا ہے اور اسکا سماع ابی مالک رضی الله عنہ سے نہیں ہے – ممطور أبو سلام الحبشي روى عن حذيفة وأبي مالك الأشعري وذلك في صحيح مسلم وقال الدارقطني لم يسمع منهما
دارقطنی کہتے ہیں اس کا سماع نہیں ہے
البتہ یہ متنا صحیح ہے انسانیت پر کتاب الله کی بنا پر حجت تمام ہو چکی جو آخری نبی صلی الله علیہ وسلم نے کی ہے
افسوس مسلک پرستوں نے قرآن کے خلاف موقف گھڑ لیا ہے کہ اتمام حجت افراد کا کام ہے – صرف آسمان سے کتاب اللہ نازل ہونے پر اتمام حجت نہیں ہوا ہے

منہج اصحاب رسول کا زوال

  بنو عباس کے بعد عالم اسلام کے  علاقوں پر چوتھی صدی ہجری میں رافضی اور باطنی ظلمت چھا چکی تھی – مراکش سے لے کر مصر تک  باطنی شیعہ  فاطمی ( عبیدی) خلافت (٢٦٩  ۔ ٥٦٦  ھ   = ٩٠٩  سے ١١٧١ ع ) قائم  ہو گئی تھی  جو ٢٦٢  سال رہی  ، یہاں تک کہ ملتان و سندھ  میں فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ معد بن اسماعیل (٣٤١  ۔ ٣٦٥ ھ) کا باقاعدہ خطبہ  پڑھا  جاتا تھا یعنی یہ علاقہ باطنی شیعوں کے کنٹرول  میں آ گیا تھا –  ملتان کے بہت سے مزار  اسی دور کے تعمیر کردہ  ہیں-  جزیرہ العرب کے مشرق  میں قرامطہ باطنی شیعوں  کا دوسرا گروہ پیدا ہوا  جن کا دور اقتدار  (۲۸۳ ۔ ۳۷۸ ھ) تک رہا  – عراق سے لے کر فارس، اصفہان، طبرستان اور جرجان تک رافضی ال بویہ  کی  امارت ٣٢٢ ھ  سے  ٤٥٤  ھ تک  قائم رہی-

یہاں تک کہ ملتان و سندھ میں فاطمی خلیفہ المعزلدین اللہ معد بن اسماعیل (٣٤١ ۔ ٣٦٥ ھ) کا باقاعدہ خطبہ پڑھا جاتا تھا یعنی یہ علاقہ باطنی شیعوں کے کنٹرول میں آ گیا تھا – ملتان کے بہت سے مزار اسی دور کے تعمیر کردہ ہیں
اس دوران اہل سنت جو عراق میں تھے ان میں حنابلہ میں پھوٹ پڑی رہتی تھی اور مسئلہ ایقاد النبی علی عرش پر قتل و غارت ہوتی – اس سے مراد ہے کہ روز محشر نبی کو عرش پر بٹھایا جائے گا یا نہیں اس میں حنابلہ  میں بحث چل رہی تھی
شمالی عراق اور جنوبِ شام پر بنو حمدان ٣٣٠ سے٤٠٤  ھ تک قابض رہے جو شیعی رجحان رکھتے تھے – اب چونکہ شیعہ یا رافضی ہونا فیشن کا حصہ بن چکا تھا ، امام حاکم نے محسوس کیا کہ صحیح بخاری و مسلم میں شیعی روایات درج نہیں کی گئیں – انہوں نے اپنے استدراک
Retractation

  A formal statement of disavowal: abjuration, palinode, recantation, retraction, withdrawal.

کو امت پر مستدرک الحاکم کے نام سے پیش کیا یعنی اپنا اجتجاج ریکارڈ کرایا کہ صحیح بخاری و مسلم میں جان بوجھ پر شیعہ منہج کی صحیح روایات درج نہیں کی گئیں
اس دوران اندلس میں حق کی آواز بلند ہوئی – امام ابن حزم نے ان عقائد پر سخت نکیر کی جو حنابلہ بغداد اور نیشاپوری امام حاکم پھیلا رہے تھے – ابن حزم نے حدیث عود روح کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا اور صحیح ڈالا

چوتھی صدی کے اواخر میں سلطان محمود غزنوی کو جہانگیریت کا شوق ہوا اور تاریخ فرشتہ میں ذکر ہے ان کو بہت سی فتوحات ملیں لیکن ان کا لشکر بھی مشرف تصوف کے سحر سے آلودہ تھا
راہ میں انے والے مزارت و صوفیاء کی تعظیم کرتے کرتے چلا اب چاہے وہ باطنی شیعہ ہوں جو صوفی بن گئے ہوں یا خاص سنی ہوں

پانچویں صدی میں سلجوقیوں نے خلافت قائم کی جو ٤٢٩ سے ٧٠٠ ھ تک رہی – اس میں شیعہ و باطنی حکومتوں کو ختم کیا گیا – ساتھ ہی مشرق وسطی میں داخل ہونے والے صلیبی نائٹ ٹیمپلر لشکر سے بھی سلجوقی لشکر نبرد آزما رہا – اس دوران سلطان نور الدین زنگی (٥٢١ – ٥٧٤ ھ ) نے قبر نبوی کے حوالے سے خواب دیکھا ، قبر کے گرد سیسہ پلائی دیوار تعمیر کی – اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی  نے  مالکی فقہ کو مملکت میں رائج کر دیا – ان کے رشتہ دار گورنر اربل نے عراق میں عید میلاد النبی کا غاز کیا – صلاح الدین کے حکم پر اذان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاة و سلام کا آغاز کیا گیا – يه بدعات نصرانیوں کے اثر کے خلاف جاری کی گئیں تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کیا جا سکے
ابن جوزی نے اس دور میں حنابلہ بغداد کے اس گروہ کا سختی سے رد کیا جو تجسیم کی طرف مائل ہو چکا تھا یعنی قاضی ابو یعلی مصنف طبقات حنابلہ اور ابو بکر الخلال- ابن جوزی کا مخالف گروہ جو مجسمیہ ہو گیا تھا وہ متشابھات پر بحث کو عام کر رہا تھا

اس دور کے بعد  حاکموں کو قبر نبی پر گنبد بنانے کا خیال آیا – فصول من تاريخ المدينة المنورة جو علي حافظ کی کتاب ہے اور شركة المدينة للطباعة والنشر نے اس کو سن ١٤١٧ ھ میں چھاپا ہے اسکے مطابق

لم تكن على الحجرة المطهرة قبة، وكان في سطح المسجد على ما يوازي الحجرة حظير من الآجر بمقدار نصف قامة تمييزاً للحجرة عن بقية سطح المسجد. والسلطان قلاوون الصالحي هو أول من أحدث على الحجرة الشريفة قبة، فقد عملها سنَة 678 هـ، مربَّعة من أسفلها، مثمنة من أعلاها بأخشاب، أقيمت على رؤوس السواري المحيطة بالحجرة، وسمَّر عليها ألواحاً من الخشب، وصفَّحها بألواح الرصاص، وجعل محل حظير الآجر حظيراً من خشب. وجددت القبة زمن الناصر حسن بن محمد قلاوون، ثم اختلت ألواح الرصاص عن موضعها، وجددت، وأحكمت أيام الأشرف شعبان بن حسين بن محمد سنة 765 هـ، وحصل بها خلل، وأصلحت زمن السلطان قايتباي سنة 881هـ. وقد احترقت المقصورة والقبة في حريق المسجد النبوي الثاني سنة 886 هـ، وفي عهد السلطان قايتباي سنة 887هـ جددت القبة، وأسست لها دعائم عظيمة في أرض المسجد النبوي، وبنيت بالآجر بارتفاع متناه،….بعد ما تم بناء القبة بالصورة الموضحة: تشققت من أعاليها، ولما لم يُجدِ الترميم فيها: أمر السلطان قايتباي بهدم أعاليها، وأعيدت محكمة البناء بالجبس الأبيض، فتمت محكمةً، متقنةً سنة 892 هـ. وفي سنة 1253هـ صدر أمر السلطان عبد الحميد العثماني بصبغ القبة المذكورة باللون الأخضر، وهو أول من صبغ القبة بالأخضر، ثم لم يزل يجدد صبغها بالأخضر كلما احتاجت لذلك إلى يومنا هذا. وسميت بالقبة الخضراء بعد صبغها بالأخضر، وكانت تعرف بالبيضاء، والفيحاء، والزرقاء” انتهى.

حجرہ مطهرہ پر کوئی گنبد نہ تھا، اور حجرہ مطهرہ کو باقی مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے سطح مسجد سے آدھے قد کی مقدار تک ایک منڈھیر بنی ہوئی تھی. اور سلطان قلاوون الصالحي وہ پہلا شخص ہے جس نے حجرہ مطهرہ پر سن 678 هـ (بمطابق 1279ء )، میں گنبد بنایا، جو نیچے سے چکور تھا ، اوپر سے آٹھ حصوں میں تھا جو لکڑی کےتھے. … پھر اس کی الناصر حسن بن محمد قلاوون کے زمانے میں تجدید ہوئی. .. پھر سن 765 هـ، میں الأشرف شعبان بن حسين بن محمد کے زمانے میں پھر اس میں خرابی ہوئی اور السلطان قايتباي کے دور میں سن 881هـ میں اس کی اصلاح ہوئی. پھر سن 886 هـ میں اور السلطان قايتباي کے دور میں مسجد النبی میں آگ میں گنبد جل گیا. اور سن 887هـ میں اور السلطان قايتباي ہی کے دور میں اس کو دوبارہ بنایا گیا…. سن 892 ھ میں اس کو سفید رنگ کیا گیا … سن 1253هـ میں السلطان عبد الحميد العثماني نے حکم دیا اور اس کو موجودہ شکل میں سبز رنگ دیا گیا. … اور یہ گنبد البيضاء (سفید)، الفيحاء ، والزرقاء (نیلا) کے ناموں سے بھی مشھور رہا

سعودی عرب کے مفتی عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) اپنے فتویٰ میں کہتے ہیں جو کتاب فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى میں چھپاہے اور اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء نے چھاپا ہے

لأن بناء أولئك الناس القبة على قبره صلى الله عليه وسلم حرام يأثم فاعله

ان لوگوں کا قبر نبی صلى الله عليه وسلم پر گنبد بنانا حرام کام تھا اس کا گناہ اس کے بنانے والوں کے سرہے

تعمیر گنبد کے اس زمانے میں امام ابن تیمیہ حیات تھے لیکن انہوں نے اس پر توقف کی راہ لی

اس طرح یہ تمام ادوار خیر القرون سے دور تھے – افسوس ابن تیمیہ وغیرہ نے بہت سی دمشقی عقائد اختیار کر لئے تھے مثلا شیطان و انسان کی اپس میں شادی ان کے نزدیک ممکن تھی – وہ سماع الموتی کا عقیدہ رکھتے اور فتووں میں وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو ضروری علم سے لا علم بتاتے تھے – وہ قبر پر قرآن پڑھنے کے قائل تھے اور ساتھ ہی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ نبی قبر میں اذان دیتے ہیں اور قبر پر کہا جانے والا درود سنتے ہیں – یہ اس دور کا فیشن تھا جس کو سلف کا مذھب کہہ کر اہل سنت میں پھیلایا جا رہا تھا

قبور سے مسلمانوں کا شغف بڑھ رہا تھا – قبوری کلچر کی جڑوں کی آبیاری وہ کر رہے تھے جو سلف کے متبع بنتے تھے –
امام نووی نے ساتویں صدی میں اور ابن حجر نے دسویں ہجری میں  اشاعرہ کے مھنج پر مسئلہ صفات کو بیان کیا

منہج اہل سنت میں بدعتی افکار داخل ہو چکے تھے – صوفی یا اپنے رب کو ہر مقام پر ماننے والے بھی سنی تھے – تجسیم الہی کے قائل بھی سنی تھے – حنبلیوں میں منہجِ اصحاب رسول کی بجائے منہج سلف مشہور ہو چلا تھا جس سے مراد ابن تیمیہ کا لٹریچر تھا –
اس طرح دو گروہ ہو چکے تھے ایک کشف و عرفان والے ہوئے اور ایک روایت پسند ہوئے – اگر کسی مسئلہ میں صحیح سند روایت نہ ہو تو پھر روایت پسندوں کے ہاں اکتساب علم و عقیدہ میں ضعیف حدیث کا بھی وہی درجہ تھا جو صحیح کا تھا – اس سے صحیح عقیدہ دھندلا گیا تھا اور باقی انسانوں کو شور ڈالنے کی عادت تو شروع سے ہے لہذا انہوں نے اپنے عقیدہ کو خوب منبروں سے پھیلایا

زندگی، نیند ، بے ہوشی،موت

دکتور فاضل صالح السامرائي  جو قرآنی عربی  اور عربی زبان کے ماہر ہیں ، عراقی اسکالر ہیں، لغوی  ہیں ان کا کہنا ہے کہ  لغت کے  تحت توفی  کا مطلب موت نہیں ہے  اصلا  معنی  اخیتار و   شعور کو واپس لینا ہے – اس ویڈیو میں ان کو سن سکتے ہیں – لفظ توفی پر  یہ موقف راقم بھی رکھتا ہے

اس کتاب میں مختصرا زندگی کی ابتداء ، نیند ، بے ہوشی و موت پر آیات قرانی کی روشنی میں بات کی گئی ہے- کتاب کا مقصد قرانی آیا کو یکجا کرنا ہے – ہر انسان کو معلوم ہے زندگی کیا ہے ، نیند کیا ہے – ہم سے بعض کبھی بے ہوش بھی ہوئے ہوں گے لیکن قرآن میں ان سب پر توفی کا لفظ وارد ہوا ہے جس کا مطلب جکڑ لینا ، بھینچ لینا یا مٹھی میں لینا ہے عرف عام میں اس کو قبض کرنا کہا جاتا ہے –

اس  کتاب  میں  روح  اور الروح  کے فرق  کو واضح  کیا گیا  ہے

روح القدس   یعنی  جبریل  کا  ذکر  ہے

توفی  کے  مختلف    مدارج  پر بات کی گئی  ہے

فہم سلف دین میں حجت نہیں

فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ اٹھویں صدی کے ائمہ مثلا ابن تیمیہ و ابن کثیر و ابن قیم سلف ہیں اور وہ سلف کے مذھب پر ہیں – راقم کہتا ہے سلف سے دین لینے کا کوئی حکم قرآن و حدیث میں نہیں ہے – دین میں کتاب اللہ و حدیث کے بعد صرف اصحاب رسول و تابعین کے اقوال کی اہمیت ہے

   بد ترین مثالوں میں سے ایک  مثال یہ ہے کہ ان علماء کے نزدیک معاویہ رضی الله عنہ خلفاء راشدین کی صف سے خارج ہیں – ان کو یہ فرقے بادشاہ قرار دیتے ہیں گویا کہ دین میں بادشاہ کا منصب کوئی معیوب بات ہو- قرآن میں سلیمان و داود و طالوت کو ملک یعنی بادشاہ ہی قرار دیا گیا ہے- رسول   صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ایک اور چیز کو بھی لازم پکڑنے کا حکم فرما رہے ہیں اور وہ دوسری چیز جماعت، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے – یہ ناممکن ہے کہ کاتب الوحی کو یا سفیر اسلام معاویہ جن کی تربیت رسول صلی الله علیہ وسلم نے کی ہو وہ راشد یا ہدایت یافتہ نہ ہوں بلکہ ان فرقوں کے تیسری اور آٹھویں صدی کے مولوی ہوں – حدیث معلوم ہے کہ دین کا کوئی کام جو غیرصحابی کرے اس کا محشر میں وہ وزن نہ اٹھے گا جو ایک صحابی کے عمل سے اٹھے گا- تو پھر کس طرح نام نہاد سلف کا فہم اصحاب رسول کے فہم سے بڑھ کر ہے ؟

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح طور پر فرماتے ہیں :

 وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء : ١١٥)

اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ بری جگہ ہے۔

بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے (جہنم میں جانے کا سبب) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ مؤمنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی بیان کیا ہے۔ یہ بات (مؤمنوں کی راہ) یعنی جمہور اصحاب رسول کا ذکر  یہاں کیوں لایا گیا ؟  صرف یہ گوش گزار کرانے کے لئے اجماع صحابہ ہی اصل حجت ہے ، بعد کے مولویوں کے فتوے  ہرگز اس زمرے میں نہیں آتے –  معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کے سال کو عام الجماعہ کہا جاتا ہے یعنی وہ سال جس میں تمام امت پھر جمع ہوئی- 

پھران سلفی بدعتی فرقوں کی جرات و غرور  کا یہ عالم ہے کہ  یہ اصحاب  رسول اللہ  تک کو غلط عقیدہ پر  قرار دے دیتے ہیں  یا کہتے ہیں وہ صحیح عقائد  بھول  جاتے تھے 

مومن حاکم کے خلاف خروج کا حکم نبوی

گناہ کے مرتکب ، مومن حاکم کے خلاف خروج پر روایات موجود ہیں جن کی علماء نے تصحیح کی ہے – راقم کے نزدیک یہ صحیح السند روایات نہیں ہیں التبہ انہی روایات کی بنیاد پر خوارج کہتے ہیں کہ عثمان کے خلاف خروج جائز تھا – اہل سنت کہتے ہیں بنو امیہ کے خلاف خروج جائز تھا اور آج حربی تنظیمین کہتیں ہیں حاکم کے خلاف خروج جائز ہے – روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ حاکم کے ساتھ نماز پڑھو یعنی اطاعت کرو – ان تمام متضاد روایات کو یہاں جمع کیا گیا ہے

لوگوں   نے  بیان  کیا کہ  امام ابو  حنیفہ  رحمہ اللہ علیہ  نے خروج کے حق  میں فتوی دیا تھا – راقم  نے ان خبروں  کا تعاقب  کیا ہے اور ظاہر  کیا ہے کہ تمام  بد گوئی  مخالفین  ابو  حنیفہ کی گھڑی ہوئی ہے 

کفر دون کفر – طاووس کا قول

اللہ تعالی کہتا ہے کہ وہ شخص کافر ، ظالم ، فاسق ہے جس نے وہ فیصلہ کیا جو اس نے نازل نہیں کیا (سورہ المائدہ )- ان آیات کا ظاہر بہت سخت ہے لہذا اقوال الرجال کی مدد سے ان کے مفہوم میں الٹ پھیر کی جاتی ہے

سوره المائدہ آیت ٥٠ میں ہے
آپ ان کے درمیان اس (فرمان) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور آپ ان سے بچتے رہیں کہیں وہ آپ کو ان بعض (احکام) سے جو اللہ نے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں پھیر (نہ) دیں، پھر اگر وہ (آپ کے فیصلہ سے) روگردانی کریں تو آپ جان لیں کہ بس اﷲ ان کے بعض گناہوں کے باعث انہیں سزا دینا چاہتا ہے، اور لوگوں میں سے اکثر نافرمان (ہوتے) ہیں

یعنی اہل کتاب کی خواہش پر فیصلہ نہ کرو
اگر اپ ان آیات کا سیاق و سباق دیکھیں تو اس میں احکام توریت کا ذکر ہے کہ ان کو یہود و نصرانی نافذ نہیں کر رہے لہذا جو الله نے نازل کیا اس کے خلاف کرے تو کافر ہے فاسق ہے ظلم ہے- اس میں احکام بھی ہیں اور عقائد بھی ہیں

ان آیات کا سیاق و سباق اہل کتاب کے حوالے سے ہے کہ وہ عقیدہ وہ نہیں رکھتے جو توریت و انجیل کا ہے اس کا حکم بیان نہیں کرتے یعنی توحید کے معاملے میں
اور جو کتاب الله کے مطابق حکم نہ کرے یعنی عقیدہ نہ دے وہ کافر ہے
اسی طرح وہ حکم نہیں کرتے جو ان کی کتاب میں ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ وغیرہ

یہ حکم عام ہے – مسلمانوں پر بھی ہے

ابن عباس سے  منسوب  قول    کفر دون  کفر     ثابت  نہیں ہے   

مستدرک الحاکم کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَوْصِلِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّهُ ” لَيْسَ بِالْكُفْرِ الَّذِي يَذْهَبُونَ إِلَيْهِ إِنَّهُ لَيْسَ كُفْرًا يَنْقِلُ عَنِ الْمِلَّةِ {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} [المائدة: 44] كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ
ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا : جو اس طرف گئے (اغلبا خوارج مراد ہیں) یہ کفر نہیں- یہ کفر نہیں جس پر ان کو ملت سے نکالا جائے
اور وہ جو الله کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کریں وہ کافر ہیں
کفر (امیر)، کفر(باللہ) سے الگ ہے

سفیان ثوری کی تفسیر کے مطابق ابن عباس اس آیت پر کہتے
قال: هي كفره، وليس كمن كفر بالله واليوم الآخر
یہ انکار تو ہے لیکن الله اور یوم آخرت کے انکار جیسا نہیں ہے

مستدرک کی روایت میں هشام بن حجير المكي ہے جو ابن جریج کے شیوخ میں سے ہے اس کو ابن معین اور احمد نے  ضعیف کہا  ہے  – اس قول  کی اور سندیں بھی ہیں جو صحیح ہیں مثلا  تفسیر عبد الرزاق والی  روایت ہے جس میں الفاظ ” لیکن الله اور اس کی کتابوں اور فرشتوں کا کفر کرنے جیسا نہیں ہے ” کو ابن طاوو س کا قول کہا گیا ہے نہ کہ ابن عباس رضی الله عنہ کا

تفسیر عبد الرزاق میں ہے
عبد الرزاق في “تفسيره” (1 / 191) عن معمر، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: سئل ابن عباس عن قوله: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ الله فأولئك هم الكافرون} ، قال: هي كفر، قال ابن طاوس: وليس كمن كفر بالله وملائكته وكتبه ورسله.
ابن عباس سے اس آیت پر سوال ہوا – ابن عباس نے کہا یہ کفر  ہی ہے- ابن طاووس نے کہا لیکن الله اور اس کی کتابوں اور فرشتوں کا کفر کرنے جیسا نہیں ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک کوئی قاضی  احکام میں  ایسا حکم کرے جو اللہ نے نہ دیا ہو تو وہ کفر کا مرتکب ہے اور ان کے شاگرد   طاؤس نے اضافہ کیا کہ یہ کفر ، کفر اکبر نہیں ہے

ابن  عباس  سے جو  قول  ثابت  ہو رہا ہے وہ یہ ہے 

سنن  نسائی    بَابُ: تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ}   کی حدیث   ہے  جس کو  ألباني،  صحيح الإسناد موقوف قرار دیتے ہیں

حدیث نمبر: 5402

أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  كَانَتْ مُلُوكٌ بَعْدَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ بَدَّلُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ، ‏‏‏‏‏‏، وَكَانَ فِيهِمْ مُؤْمِنُونَ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ لِمُلُوكِهِمْ:‏‏‏‏ مَا نَجِدُ شَتْمًا أَشَدَّ مِنْ شَتْمٍ يَشْتِمُونَّا هَؤُلَاءِ،‏‏‏‏ إِنَّهُمْ يَقْرَءُونَ:‏‏‏‏ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سورة المائدة آية 44،‏‏‏‏ وَهَؤُلَاءِ الْآيَاتِ مَعَ مَا يَعِيبُونَّا بِهِ فِي أَعْمَالِنَا فِي قِرَاءَتِهِمْ،‏‏‏‏ فَادْعُهُمْ فَلْيَقْرَءُوا كَمَا نَقْرَأُ، ‏‏‏‏‏‏وَلْيُؤْمِنُوا كَمَا آمَنَّا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُمْ فَجَمَعَهُمْ وَعَرَضَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلَ،‏‏‏‏ أَوْ يَتْرُكُوا قِرَاءَةَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ إِلَّا مَا بَدَّلُوا مِنْهَا،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا تُرِيدُونَ إِلَى ذَلِكَ دَعُونَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ ابْنُوا لَنَا أُسْطُوَانَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْفَعُونَا إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اعْطُونَا شَيْئًا نَرْفَعُ بِهِ طَعَامَنَا وَشَرَابَنَا فَلَا نَرِدُ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ دَعُونَا نَسِيحُ فِي الْأَرْضِ وَنَهِيمُ وَنَشْرَبُ كَمَا يَشْرَبُ الْوَحْشُ فَإِنْ قَدَرْتُمْ عَلَيْنَا فِي أَرْضِكُمْ فَاقْتُلُونَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ ابْنُوا لَنَا دُورًا فِي الْفَيَافِي وَنَحْتَفِرُ الْآبَارَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَحْتَرِثُ الْبُقُولَ فَلَا نَرِدُ عَلَيْكُمْ وَلَا نَمُرُّ بِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْقَبَائِلِ إِلَّا وَلَهُ حَمِيمٌ فِيهِمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَفَعَلُوا ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا سورة الحديد آية 27، ‏‏‏‏‏‏وَالْآخَرُونَ قَالُوا:‏‏‏‏ نَتَعَبَّدُ كَمَا تَعَبَّدَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَنَسِيحُ كَمَا سَاحَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَنَتَّخِذُ دُورًا كَمَا اتَّخَذَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُمْ عَلَى شِرْكِهِمْ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِإِيمَانِ الَّذِينَ اقْتَدَوْا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ، ‏‏‏‏‏‏انْحَطَّ رَجُلٌ مِنْ صَوْمَعَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَاءَ سَائِحٌ مِنْ سِيَاحَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَاحِبُ الدَّيْرِ مِنْ دَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَآمَنُوا بِهِ،‏‏‏‏ وَصَدَّقُوهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ سورة الحديد آية 28،‏‏‏‏ أَجْرَيْنِ بِإِيمَانِهِمْ بِعِيسَى،‏‏‏‏ وَبِالتَّوْرَاةِ،‏‏‏‏ وَالْإِنْجِيلِ،‏‏‏‏ وَبِإِيمَانِهِمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَتَصْدِيقِهِمْ قَالَ:‏‏‏‏ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ سورة الحديد آية 28 الْقُرْآنَ،‏‏‏‏ وَاتِّبَاعَهُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ سورة الحديد آية 29 يَتَشَبَّهُونَ بِكُمْ أَلا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ سورة الحديد آية 29 الْآيَةَ .

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بعد بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل کو بدل ڈالا، ان میں کچھ مومن تھے جو توراۃ پڑھتے تھے-  ان کے بادشاہوں سے (مصاحبین دربار کی جانب سے ) عرض کیا گیا: ہمیں اس سے زیادہ سخت گالی نہیں ملتی جو یہ (مومن ) ہمیں دیتے ہیں، یہ (مومن ) لوگ پڑھتے ہیں  جس نے اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کیا وہ کافر ہیں  یہ لوگ اس قسم کی آیات پڑھتے ہیں ور ساتھ ہی وہ چیزیں پڑھتے ہیں جس میں ہمارا عیب نکلتا ہے تو انہیں بلا کر کہو کہ وہ بھی ویسے ہی پڑھیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور اسی طرح کا ایمان لائیں جیسا ہم لائے ہیں، چنانچہ اس (بادشاہ) نے انہیں بلایا اور اکٹھا کیا اور کہا: قتل منظور کرو یا پھر توراۃ اور انجیل کو پڑھنا چھوڑ دو، البتہ وہ پڑھو جو بدل دیا گیا ہے۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہمیں چھوڑ دو: ہمارے لیے ایک مینار بنا دو اور ہمیں اس پر چڑھا دو پھر ہمیں کھانے پینے کی کچھ چیزیں دے دو، تو ہم تمہارے پاس کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہمیں چھوڑ دو، ہم زمین میں گھومیں اور بھٹکتے پھریں اور جنگلی جانوروں کی طرح پئیں، پھر اگر تم ہمیں اپنی زمین میں دیکھ لو تو مار ڈالنا

 ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: ہمارے لیے صحراء و بیابان میں گھر بنا دو، ہم خود کنویں کھود لیں گے اور سبزیاں بو  لیں گے، پھر پلٹ کر تمہارے پاس نہ آئیں گے اور نہ تمہارے پاس سے گزریں گے، اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا دوست یا رشتہ دار اس میں نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالیٰ نے آیت

 «ورهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم إلا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوها حق رعايتها (الحدید: ۲۷)

  اور جو درویشی انہوں نے خود نکالی تھی ہم نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے، پھر انہوں نے اس کی بھی پوری رعایت نہیں کی

 نازل فرمائی

کچھ دوسرے لوگوں نے کہا: ہم بھی فلاں کی طرح عبادت کریں گے اور فلاں کی طرح گھومیں گے اور فلاں کی طرح گھر بنائیں گے حالانکہ وہ شرک میں مبتلا تھے، یہ ان لوگوں کے ایمان سے باخبر نہ تھے جن کی پیروی کا یہ دم بھر رہے تھے

 جب اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ان میں سے بہت تھوڑے سے لوگ بچے تھے- کوئی  شخص اپنے عبادت خانے سے اترا تو کوئی   اور جنگل میں گھومنے والا گھوم کر لوٹا اور کوئی   گرجا گھر میں رہنے والا گرجا گھر سے لوٹا اور یہ سب کے سب آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا

 «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وآمنوا برسوله يؤتكم كفلين من رحمته»

اے لوگو! جو ایمان رکھتے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کا دوگنا حصہ دے گا  (الحدید: ۲۹)

دوہرا اجر ان کے عیسیٰ، تورات اور انجیل پر ایمان کے بدلے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور تصدیق کے بدلے – پھر فرمایا:  وہ تمہارے چلنے کے لیے ایک روشنی دے گا  یعنی قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی  تاکہ اہل کتاب  یعنی وہ اہل کتاب جو تمہاری مشابہت کرتے ہیں  جان لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے

َاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ

َاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ سے مراد
قرآن  میں  َاُولِى الْاَمْرِ  سے  مراد  عمال  (حکام و گورنر) ہیں 

قرآن  میں  َاُولِى الْاَمْرِ  سے  مراد  عمال  (حکام و گورنر) ہیں لیکن  علماء   نے  عوام  کو یہ باور  کرایا ہے کہ  َاُولِى الْاَمْرِ  سے مراد  علماء ہیں- راقم  کہتا ہے یہ اقوال درست سمت میں   نہیں  ہیں

مدینہ پہنچنے کے بعد نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے آپ کو حاکم یا منتظم اعلی قرار نہیں دیا بلکہ رسول الله کا درجہ کسی بھی دنیا کے درجہ سے بلند تھا – اسلام یمن تک پہنچنا پھر خیبر پھر  نجد پھر بحرین پھر عمان تک  آ گیا – اس طرح مسلمانوں کی ایک حکومت قائم ہوئی اور اس کے استحکام کے لئے سمع و اطاعت ضروری تھی – سورہ نساء میں حکم دیا گیا

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَاِنْ تَنَازَعْتُـمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّـٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا

اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو، اُس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اپنوں میں سے اپنے صاحب حکم  کی اطاعت کرو۔ پھر اگر کسی معاملے میں تمہارے درمیان اختلافِ رائے ہو، تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اچھا طریقہ ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے

آیت میں  اُولِى الْاَمْرِ کے الفاظ ہیں یعنی وہ جس کے پاس حکم کرنے کا اختیار ہو یعنی لشکر کے امیر یا امیر  عسکر یا امیر سریہ یا کسی مقام پر گورنر-اس آیت کا تعلق اس تربیت سے تھا جس سے مستقبل میں   عظیم اسلامی خلافت قائم ہونے جا رہی تھی –  حکم نبوی تھا

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنِ الجَعْدِ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً

جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، اُس شخص کو صبر کرنا چاہیے، کیونکہ جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی حکومت کی اطاعت سے نکلا، اور اسی حالت میں مر گیا، اُس کی موت جاہلیت پر ہوئی‘‘۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر7053)

اس حدیث کا تعلق اصحاب رسول کی جماعت سے ہے – مسلمانوں کی جماعت اس دور میں چند نفوس پر مشتمل نہیں تھی بلکہ اسلام مسلسل پھیل رہا تھا اور وفات النبی تک تمام عرب میں اسلام غالب آ چکا تھا- اس حدیث کا تعلق مستقبل کی کسی تنظیم  کے امیر یا پیر سے نہیں ہے

اسلام میں رابطہ و مدد کرنے کا حکم قیامت تک کے لئے ہے لیکن اپنے فرقے کو الناجیہ قرار دینے کے بعد اس کے امیر کی اطاعت کو فرض قرار دینا جہالت ہے – کیونکہ ان احکام کا تعلق حکومت سے ہے    دعوتی  و  تبلیغی   گروہوں سے نہیں ہے

  سور النساء ميں ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ

إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (59)

اور آيت 83 ميں ہے

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ  لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا

تفسير طبري اور تفسير ابن ابي حاتم   ميں اُولِي الاَمرِ  پر اقوال ہيں-  مجاہد اور  ابن ابي نُجَيح سے منسوب شرح ہے

 قال، وأخبرنا عبد الرزاق، عن الثوري، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد قوله “وأولي الأمر  منكم”، قال  هم أهل الفقه والعلم.

سند ميں عبد الله بن أبي نجيح يسار المكي  ہے جس کا سماع مجاہد سے ثابت نہيں ہے

وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد

امام يحيي القطان نے دعوي کيا کہ ابن ابي نجيح نے مجاہد سے تفسير نہيں سني

يہ مدلس بھي ہے سند ميں عنعنہ بھي ہے

ابن عباس  سے منسوب ہے اُولِي الاَمرِ يعني  اھل الفقہ و الدين مراد ہے – سند ہے

حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

قَوْلَهُ: وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ يَعْنِي: أَهْلَ الْفِقْهِ وَالدِّينِ،

عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ کا سماع  ابن عباس سے نہيں ہے

أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کتاب  المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري      ميں کہتے ہيں

أرسل عن ابن عباس ولم يره

يہ ابن عبّاس سے ارسال کرتا ہے ان کو ديکھا بھي نہيں ہے

عطاء بن ابي رباح سے منسوب قول ہے  اُولِي الاَمرِ يعني  فقہاء و علماء – سند ہے

حدثني المثنى قال، حدثنا عمرو بن عون قال، حدثنا هشيم، عن عبد الملك، عن عطاء “وأولي الأمر منكم”، قال  الفقهاء والعلماء.

يہاں  هشيم بن بشير بن القاسم مدلس کا عنعنہ ہے

حسن بصري سے منسوب قول ہے اُولِي الاَمرِ يعني  علماء – سند ہے

حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبد الرزاق قال، أخبرنا معمر، عن الحسن في قوله “

وأولي الأمر منكم”، قال  هم العلماء.

اس ميں معمر مدلس کا عنعنہ ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْحَضْرَمِيُّ بِحَضْرَمَوْتَ، ثنا الْخَصِيبُ بْنُ نَاصِحٍ، ثنا الْمُبَارَكُ بْنُ

فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أُولِي الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ وَالْعَقْلِ

وَالرَّأْيِ.

مبارک  مختلف فيہ ہے – جرح بھي ہے

ابو العالي سے منسوب قول ہے اُولِي الاَمرِ يعني  اھل العلم

حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع، عن أبي العالية في قوله “وأولي الأمر منكم”، قال  هم أهل العلم

ابو العاليہ  پر امام شافعي کي جرح ہے کہ  اس روایت مثل ریح (کا اخراج )  ہے

قتادہ سے منسوب ہے

 حدثنا بشر بن معاذ قال، حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد، عن قتادة:”ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم”، يقول: إلى علمائهم

ابن جريج سے منسوب ہے

حدثنا القاسم قال، حدثنا الحسين قال، حدثني حجاج، عن ابن جريج:”ولو ردوه إلى الرسول  حتى يكون هو الذي يخبرهم =”وإلى أولي الأمر منهم”، الفقه في الدين والعقل.

قابل غور ہے کہ اصحاب رسول کي تعداد بہت  ہے ليکن ان ميں چند ہي رسول اللہ صلي  اللہ عليہ وسلم  اور خلفاء راشدين کے نزديک اس قابل تھے کہ ان کو امور   سلطانی      و  حکام         پر نافذ کيا جائے – اس طرح  فقيہ اصحاب رسول  چند   ہيں جن ميں ابن مسعود ، علي ،  اور ابن عباس   رضی اللہ عنہم   ہيں  -ان   میں    ابن مسعود  رضی اللہ عنہ    کو کسي بھي جگہ  اولي الامر  مقرر نہيں کيا گيا

فرقہ خوارج پر اہل سنت کا اضطراب

اہل سنت  میں خوارج  کے حوالے سے سخت  خلجان  پایا جاتا ہے – ہر صدی میں ان کے حوالے سے نت نئے خیالات کا اظہار  کتب اہل سنت  میں  ملتا ہے – عصر  حاضر  کے دہشت گردوں کو  بھی  خوارج کہا  جانے لگا ہے –  اصل  خوارج کا اصحاب رسول سے عقائد  میں کوئی اختلاف  نہیں تھا  محض  معاملات  پر تھا  لیکن یہ اختلاف  بڑھ  کر قتال  تک چلا گیا تھا –  – اس وجہ سے اصحاب رسول  نے کبھی بھی خوارج کی تکفیر  نہیں کی

متاخرین خوارج نے اہل سنت سے عقیدہ  و منہج میں اختلاف  کیا ہے – یہ فرقہ معدوم  نہیں ہے جیسا  کہ مغالطہ  اہل سنت دیتے ہیں –  آجکل  خوارج کی اکثریت  تیونس  لیبیا اور عمان میں  ہے جہاں ان کی حکومتیں رہی ہیں   یا  ہیں

ملت کا فرق اور قول معروف

128 Downloads

شعائر اسلام کی دین میں اہمیت ہے یعنی وہ چیزیں یا باتیں جس سے غیر مسلموں کو معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ مسلم ہیں
ایک ملت اسلامیہ ہے ایک ملت یہود ہے ایک ملت نصاری ہے ایک ملت کفر ہے – قرآن میں ہے کہ یہودی و نصرانی راضی نہ ہوں گے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ملت پر نہیں چلتے

ایک مسلمان دوسرے مذہب سے اس طرح الگ ہو جاتا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ان سب کا معاشرتی لباس و انداز رہن سہن ایک ہو – مثلا ایک عرب یہودی کی بھی داڑھی ہے اور ایک مسلمان کی بھی ہے – ان دونوں کا لباس ایک جیسا ہے – یعنی کلچر ایک ہے اگرچہ ملت الگ ہے – اس سادہ بات کو لوگوں نے گنجلک بنا کر کچھ سے کچھ بنا دیا ہے – پھر اس طرح یہ غیر عرب _ مغربی و چینی کلچر کی ہر چیز کو حرام قرار دے دیتے ہیں – کوٹ ، پتلون شرٹ غیر اسلامی قرار دے دیے جاتے ہیں اور جبہ اور واسکٹ اسلامی سمجھے جانے لگ جاتے ہیں – داڑھی کو بھی ان لوگوں نے اسی طرح ملت و سنت سمجھا ہے جبکہ اس کا تعلق اس سے نہیں تھا

کیا ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے؟

137 Downloads

ایمان میں کمی و زیادتی کا قول

گناہ کبیرہ کرنے والا فاسق ہے یا کافر ہے ؟ اس سوال پر محدثین و فقہاء کا اختلاف چلا آ رہا ہے – راقم کے نزدیک گناہ کا تعلق ایمان سے نہیں ہے – یہ بحث بہت اہم ہے کیونکہ القاعدہ و داعش لٹریچر میں بعض محدثین کے اقوال سے دلیل لی جاتی ہے

اس  کتاب میں مزید مباحث  ہیں مثلا  تارک نماز کی تکفیر اور  منگول مسلمانوں  کی تکفیر   غلط کی گئی   تھی

 

یہ سوال اس امت میں سن ١٥٠ ہجری کے  بعد پیدا ہوا –  يه بحث اس طرح شروع ہوتی ہے کہ خوارج کے نزدیک بعض صحابہ گناہ کبیرہ کے مرتکب تھے لہذا ان میں ایمان ختم تھا  – اس پر امام ابو حنیفہ کی رائے لوگوں سے منقول ہے کہ ایمان زبان سے اقرار کا نام ہے  گناہ سے ایمان کم نہیں ہوتا – الإرجاء کا مذھب اسی سے نکلتا ہے کہ صحابہ میں ایمان کم نہیں ہوا وہ جہنمی نہیں ہیں بلکہ گناہ کبیرہ والے بھی ایمان والے ہی ہیں ایمان زیادہ تو ہو سکتا ہے کم نہیں ہوتا – اس پر بھی بہت سی احادیث ہیں مثلا ایک فاحشہ جو مومن تھی کتے کو پانی پلاتی ہے جنت میں جاتی ہے – ایک سو لوگوں کا قاتل جنت میں جاتا ہے وغیرہ وغیرہ

سوره توبه میں ہے
{فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا} [التوبة: 124]  پس ان کے ایمان میں اضافہ ہوا
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا – پس جو ایمان لائے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا
وزدناهم هدى  [١٨:١٣]  اور انکی ہدایت میں اضافہ ہوا
بعض فرقوں نے ایمان میں کمی و زیادتی کا نظریہ ان ہی آیات سے استنباط کر کے نکالا اور بعض احادیث سے اس پر دلیل لی
راقم کے نزدیک ایمان پڑھنے سے مراد قلبی اطمننان ہے یا ہدایت ہے جیسے لوگ ایمان لے اتے ہیں لیکن ہدایت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اسی طرح قرآن میں ہدایت بڑھنے اور ایمان و اطمننان بڑھنے کو ساتھ بیان کیا گیا ہے –  ابراہیم علیہ السلام الله پر ایمان لائے لیکن قلبی اطمننان میں اضافہ کے لئے الله سے سوال کیا کہ میت کو زندہ کیسے کرے گا

قرآن میں ہے  وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [محمد: 17] انکی  ہدایت  میں اضافہ ہوا

اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کے دور میں اس بحث کا ذکر نہیں ملتا نہ ہی ایمان میں کمی پر کوئی صریح حدیث ہے – خوارج کی رائے تھی کہ  ایمان میں عمل داخل ہے لہذا جو گناہ کبیرہ کرتے ہیں وہ جہنمی ہیں – خوارج کا فرقہ الأزارقة  تكفير أصحاب الذنوب تمام گناہ والوں کی تکفیر کا قائل تھا   –  الصفرية  فرقہ کفریہ اعمال والوں کے قتل کا قائل تھا –   خوارج  کے فرقے اباضیہ میں بعض کی رائے میں ایمان کم اور زیادہ ہو جاتا ہے  اور بعض اباضیہ  کے نزدیک گناہ کبیرہ والے فاسق ہیں جو کافر ہیں – خوارج کے نزدیک علی اور عثمان رضی الله عنہ گناہ کبیرہ کی وجہ سے ہی واجب القتل بنتے ہیں –

سن ١٥٠ ہجری کے بعد معتزلہ نے منزل بین المنزلتیں کی بحث چھیڑی کہ گناہ کبیرہ والے نہ ایمان والے ہیں نہ کفر والے  وہ بیچ میں ہیں– اس سے اس پر بحث کا باب کھل گیا

مُعَاذٌ بن جبل رضی الله عنہ  کی وفات عثمان رضی الله عنہ سے بھی پہلے ہوئی لیکن ان سے بھی اس مسئلہ پر بحث منسوب کر دی گئی ہے  کتاب السنة از أبو بكر  الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ) کی روایت ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: ثنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَمِسْعَرٍ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاذٌ:  اجْلِسُوا بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً

مُعَاذٌ بن جبل رضی الله عنہ نے الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ سے کہا ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ہم کچھ ساعت ایمان لے آئیں

بیہقی کی شعب ایمان میں اس روایت میں اضافہ ہے کہ  قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ لِأَصْحَابِهِ – مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ نے اپنے اصحاب سے کہا – اس   میں صحابی ایک تابعی سے کہہ رہے ہیں گویا تابعی ، صحابی سے بڑھ کر ہے – سندا اس میں مِسْعَر بن کدام ہیں جو خود مرجیہ ہیں

 شعب ایمان البیہقی میں اس طرح کا قول عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، حدثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ شِبَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ أَنَّهُ قَالَ: ” اجْلِسُوا بِنَا نَزْدَدْ إِيمَانًا

ابن مسعود رضی الله عنہ نے علقمہ سے کہا ہمارے ساتھ بیٹھو تاکہ ایمان میں اضافہ ہو

اس کی سند مظبوط نہیں سند میں  شباك الضبي ہے  جو مدلس ہے عن سے روایت کرتا ہے

 مصنف ابن ابی شیبہ میں عمر رضی الله عنہ کا قول ہے

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ مِمَّا يَأْخُذُ بِيَدِ الرَّجُلِ وَالرَّجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَيَقُولُ: «قُمْ بِنَا نَزْدَدْ إِيمَانًا»

 عمر بن الخطاب رضی الله عنہ  نے اپنے اصحاب سے کہا آ جاؤ ہم ایمان بڑھائیں پس الله عز و جل کا ذکر کریں

سند میں زُبَيْدُ بنُ الحَارِثِ اليَامِيُّ الكُوْفِيُّ ہیں جو زر بن حبیش سے روایت کر رہے ہیں  اس کی سند حسن ہے

بعض محدثین ایمان میں کمی ہے قائل نہیں ہیں اور بعض ہیں جو ایمان میں کمی و زیادتی کے قائل ہیں – ان گروہوں میں اس پر مختلف ارا ہیں جن میں بعض متشدد ہیں

پہلا گروہ کہتا ہے  : ایمان  نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا  ہے

اول ایمان بنیادی ایمانیات کے قبول کا نام ہے جیسے
الله واحد احد ہے
محمد بن عبد الله رسول الله – صلی الله علیہ وسلم –  ہیں
فرشتے، جنات، جنت، جہنم موجود ہیں
قرآن، توریت، زبو،ر انجیل کتب سماوی ہیں

اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں اتی جب تک آدمی ان کا انکار نہ کرے لہذا ایمان تصديق ہے
اگر وہ انکار کرے تو مسلمان ہی نہیں رہے گا لہذا ایمان نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے کیونکہ یہ قلبی کیفیت ہے

امام ابو حنیفہ کے لئے  اس  رائے کو بیان کیا جاتا ہے (العقيدة الطحاوية) – امت میں امام ابو حنیفہ نے فقہ پر بہت محنت کی ہے لہذا اس رائے کو جہمیہ سے منسوب کرنا اور کہنا کہ امام ابو حنیفہ عمل کے خلاف تھے ، مسلکی تعصب ہے – تفسیر فتح الرحمن في تفسير القرآن از  مجير الدين بن محمد العليمي المقدسي الحنبلي (المتوفى: 927 هـ) کے مطابق

فقال أبو حنيفة: لا يزيد ولا ينقص، ولا استثناء فيه

ابو حنیفہ کہتے ہیں ایمان نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے اور اس میں کوئی نہیں الاستثناء ہے

كتاب أصول الدين از  جمال الدين أحمد بن محمد بن سعيد الغزنوي الحنفي (المتوفى: 593هـ) کے مطابق

الْإِيمَان لَا يزِيد وَلَا ينقص بانضمام الطَّاعَات إِلَيْهِ وَلَا ينتقص بارتكاب الْمعاصِي لِأَن الْإِيمَان عبارَة عَن التَّصْدِيق وَالْإِقْرَار

 ایمان نہ بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے طَّاعَات کو اس سے ملانے سے نہ کم ہوتا ہے گناہ کا ارتکاب کرنے سے کیونکہ ایمان عبارت ہے تصدیق و اقرار سے

اس رائے کہ تحت ایمان میں کوئی استثنا نہیں ہے یا تو شخص کافر ہے یا مومن – یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک یا تو شخص مومن ہے یا کافر ہے بیچ میں کوئی چیز نہیں جیسا کہ المعتزلہ کا دعوی تھا  – الْأَشَاعِرَةِ کے علماء مثلا أبو المعالي الجويني  المتوفی ٤٧٨ ھ  جن کو امام الحرمین  کہا جاتا ہے ان کی رائے میں بھی ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ بڑھتا ہے  یہی علامة الآلوسي کہتے ہیں – بعض متعصب اہل سنت نے  ان علماء کے موقف کو  خوارج کا موقف قرار دے دیا ہے مثلا السفاريني   الحنبلي نے العقيدة میں یہ دعوی کیا ہے  جو کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے بلکہ خوارج تو  گناہ کبیرہ والے کو کافر کہتے ہیں

دوسرا گروہ کہتا ہے  : ایمان میں اضافہ اور کمی ہوتی ہے   

محدثین کا ایک دوسرا  گروہ کہتا ہے  ایمان میں اضافہ ہوتا ہے گناہ کرتے وقت ایمان کم ہوتا ہے مثلا امام احمد،   ابن حبان وغیرہ-  محدثین کا یہ گروہ کہتا  ہے الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، يَزِيدُ وَيَنْقُصُ –  ایمان میں  قول اور عمل بھی شامل ہے  جو زیادہ وکم ہوتا ہے – ان محدثین کے بقول اگر کوئی عمل نہ کرے تو اس میں ایمان کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ معدوم ہو جاتا ہے –    امام احمد اور ان کے ہمنوا ایمان میں گھٹنے کے قائل تھے جو قرآن سے ثابت نہیں ہے  بلکہ صرف بعض روایات سے ان کو استنباط کیا گیا ہے –

اس موقف پر صحیح مسلم سے روایت پیش کی جاتی ہے

 مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ
اگر کوئی برائی دیکھے تو اس کو ہاتھ سے روکے نہیں تو زبان سے نہیں تو دل میں برآ ہی سمجھے اور یہ ایمان میں سب سے کمزور ہے

یہ روایت امر و بالمعروف کے لئے مشھور ہے لیکن اس میں واضح نہیں ہے اگر کوئی برائی کو دیکھے اور خلیفہ اس کو نہ سنے تو وہ کیا کرے ؟ صبر کرے یا پھر خلیفہ کا ہی قتل کرے   جیسا خوارج نے کیا-  راقم کے نزدیک یہ روایت حاکم سے متعلق ہے عام افراد کے لئے نہیں ہے- بطور عام آدمی ہم تعاون فی البر کریں گے،  نیکی کا حکم کریں گے،  برائی سے منع کریں گے لیکن اس کو بطور فرد روک نہیں سکتےمثلا آج ہر گلی نکڑ پر شرک ہورہا ہے جو سب سے بری چیز ہے لیکن اس کو بزور بازو حاکم ہی روک سکتا ہے عام آدمی نہیں

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے کہ خیبر والے دن ایک شخص جان باری سے لڑ رہا تھا لوگوں نے اس کے مرنے پر کہا یہ جنتی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس پر غنیمت میں چادر چوری کرنے کی وجہ سے اگ چھائی ہوئی ہے
ابن حبان اس پر کہتے ہیں
فِي هَذَا الْخَبَرِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْإِيمَانَ يَزِيدُ بِالطَّاعَةَ وَيَنْقُصُ بِالْمَعْصِيَةِ
اس خبر میں دلیل ہے کہ ایمان اطاعت سے بڑھتا اور گناہ سے کم ہوتا جاتا ہے

لیکن اس پر بھی بحث ہے کہ کیا یہ شخص واقعی ایمان والا تھا یا یہ غنیمت کے لالچ میں دکھاوے کے لئے لڑ رہا تھا کیونکہ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منادی کرائی  کہ جنت میں صرف مومن جائے گآ

لیکن اسی گروہ میں ایک متشدد رائے بھی ہے – ان میں سے بعض محدثین کہتے تھے کہ گناہ کرتے کرتے ایمان نام کی چیز ہی نہیں رہتی – اس بحث کا آغاز ایک روایت سے ہوتا ہے

 ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہمآ کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
لاَ يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَشْرَبُ الخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ
زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں نہ شرابی شراب پیتے وقت اور نہ چور چوری کرتے وقت
اس روایت میں اضافہ ہے وَالتَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ اس کے توبہ ظاہر کرنی ہو گی
سنن نسائی میں اس میں اضافہ ہے فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ کہ ایسا شخص کے گلے سے اسلام کا حلقہ نکل جاتا ہے البتہ البانی نے اس کو منکر کہا ہے
مصنف عبد الرزاق میں ہے قَالَ مَعْمَرٌ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ إِذَا فَعَلَ ذَلِكَ زَالَ مِنْهُ الْإِيمَانُ قَالَ: يَقُولُ: الْإِيمَانُ كَالظِّلِّ
معمر نے کہا کہ ابن طاوس نے کہا ان کے باپ نے کہا کہ اگر وہ یہ افعال کرے تو ایمان زائل ہو جاتا ہے اور کہا وہ کہتے ایمان سائے کی طرح ہے

الشریعہ لاآجری کے مطابق  امام سفیان ابن عیینہ سے پوچھا گیا  الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ؟ قَالَ ” أَلَيْسَ تَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ ؟ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ ، قِيلَ : يَنْقُصُ ؟ قَالَ : لَيْسَ شَيْءٌ يَزِيدُ إِلا وَهُوَ يَنْقُصُ
کیا ایمان میں کمی اور بیشی ہوتی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟   فَزادَهُم إيمـنًا  اس نے ان کے ایمان میں اِضافہ کردیا  پھر ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایمان کم بھی ہوتا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جس چیز میں زیادتی واقع ہوتی ہے، اس میں کمی بھی واقع ہوتی ہے

لیکن یہ آخری قول  جس چیز میں زیادتی واقع ہوتی ہے، اس میں کمی بھی واقع ہوتی ہے  خالصتا قیاس ہے جس کے خلاف خود قرآن ہے کہ اس میں کمی کا ذکر ہی نہیں ہے

غیر مقلد محب الله شاہ راشدی فتوی میں یہی بات کہتے ہیں ملاحظه ہو

Rasidia-234

یعنی  خالص قیاس کیا گیا  جبکہ نص صرف بڑھنے پر ہے – قرآن میں ایمان کو قول طیب کہا گیا ہے اس کو ایک درخت کہا گیا اور حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم میں اس کی مثال کھجور کے درخت سے دی گئی جس میں یہ خوبی ہے کہ صرف بڑھتا ہی ہے اس کا سائز چھوٹا نہیں ہوتا تو پھر ایمان کم کیسے ہو سکتا ہے قرآن کی مثال بھی سچی   ہوتی ہے – لہذا یہ قیاس باطل ہے

البیہقی شعب الایمان میں اس روایت پر  لکھتے ہیں
وَإِنَّمَا أَرَادَ – وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ – وَهُوَ مُؤْمِنٌ مُطْلَقُ الْإِيمَانِ لَكِنَّهُ نَاقِصُ الْإِيمَانِ بِمَا ارْتَكَبَ مِنَ الْكَبِيرَةِ وَتَرَكَ الِانْزِجَارَ عَنْهَا، وَلَا يُوجِبُ ذَلِكَ تَكْفِيرًا بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ
اور والله أَعْلَمُ ان کا ارادہ ہے کہ اس مومن میں مطلق ایمان تو ہے لیکن ایمان میں نقص ہے اس گنآہ کے ارتکاب سے اور اس پر جو ڈراوا ہے اس کو ترک کرنے سے اور اس پر الله عزوجل کی تکفیر واجب نہیں ہوتی

یہ محدثین ہی کے اسی گروہ کا اپس میں اختلاف ہے-

بعض محدثین مثلا إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ نے اس میں متشدد رویہ اختیار کیا اور کہنا شروع کیا يَنْقُصُ حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ کہ ایمان گھٹتا جاتا ہے حتی کہ اس میں کوئی چیز نہیں رہتی- کتاب السنة از ابو بکر الخلال کے مطابق امام ابن مبارک اور إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ  کا قول تھا ایمان معدوم  ہو جاتا ہے – معجم ابن الأعرابي  اور الإبانة الكبرى لابن بطة  اور شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از ابو قاسم اللالكائي     کے مطابق   یہی موقف سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ کا تھا – یہ موقف نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے-

راقم اس کے خلاف ہے اگر ایسا ہو  تو گناہ کبیرہ والوں پر صرف ارتاد کی حد لگے گی  اور اس سے  خوارج کا موقف صحیح ثابت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض سلفی جہادی تنظیموں نے زمانہ حال میں اس موقف کو پسند کیا ہے اور ان میں اور خوارج میں کوئی تفریق ممکن نہیں رہی ہے

 أبو الحسن علي بن محمد بن علي بن محمد بن الحسن البسيوي الأزدي ایک خارجی عالم  تھے کتاب جامع أبي الحسن البسيوي ، وزارة التراث القومي والثقافة، تحقيق سليمان بابزيز میں  کہتے ہیں

فقد بيَّنا ما قلنا من آيات القرآن ما يَدُلّ عَلَى ما روينا أنَّ الفاسق كافر، وأن ما قالت المعتزلة: “إن الفاسق لا مؤمن ولا كافر”، وما قالت الحشوية والمرجئة هو من الخطإ، والحقُّ ما أيَّده القرآن، وهو الدليل والبرهان.

پس  ہم نے واضح  کیا  جو ہم نے  قرانی آیات کہا کہ یہ  دلالت کرتی ہیں   اس پر جو ہم نے روایت کیا کہ فاسق کافر ہے اور وہ نہیں جو المعتزلة نے کہا کہ فاسق نہ مومن ہے نہ کافر اور نہ وہ جو الحشوية اور المرجئة نے کہا کہ وہ خطا کار ہے اور حق کی تائید قرآن سے ہے جو دلیل و برہان ہے

الخلال کے مطابق   امام إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ کہتے گناہ کبیرہ والے میں ایمان نام کی چیز ہی نہیں رہتی  اور البیہقی کے بقول اس کے ایمان میں نقص ہے یا کمی ہے  – خوارج کی رائے میں بھی گناہ کبیرہ والوں میں ایمان معدوم ہو جاتا ہے

بلکہ مسند اسحاق بن راھویہ میں اس کا الٹا قول ہے

 وَقَالَ شَيْبَانُ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا تَقُولُ فِيمَنْ يَزْنِي وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ وَنَحْوَ هَذَا، أَمُؤْمِنٌ هُوَ؟ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: لَا أُخْرِجُهُ مِنَ الْإِيمَانِ

شیبان نے ابن مبارک سے کہا اے ابو عبد الرحمان اپ کیا کہتے ہیں جو شراب  پیے اور زنا کرے اور اسی طرح کے کام کیا وہ مومن ہے ؟ ابن مبارک نے کہا یہ اس کو ایمان سے خارج نہیں کرتے

 

تیسرا گروہ کہتا ہے :  ایمان کم نہیں ہوتا صرف بڑھتا ہے

اس میں محدثین ہیں جن کو الْإِرْجَاءِ کی رائے والے یا  الْمُرْجِئَةِ کہا جاتا ہے

 إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنْ مَنْ قَالَ: الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ؟ قَالَ:  هَذَا بَرِيءٌ مِنَ الْإِرْجَاءِ
امام احمد سے سوال ہوا اس کے بارے میں جو کہے کہ ایمان بڑھتا ہے، کم ہوتا ہے  – انہوں نے کہا یہ الْإِرْجَاءِ سے بَرِيءٌ (پاک) ہیں

یعنی مرجىء  اس قول کے مخالف تھے ان سے منسوب مشھور قول ہے يزِيد وَلَا ينقص ایمان بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا

بہت سے مشھور محدثین مرجىء   تھے یعنی ان کے نزدیک ایمان کم نہیں ہوتا صرف بڑھتا ہے مثلا امام احمد نے الْمُرْجِئَةِ میں قيس بن مُسلم المتوفی ١٢٠ ھ ،علقمة بن مرْثَد الکوفی المتوفی ١٢٠ ھ ،عَمْرو بن مرّة المتوفی 116 ھ اور مسعربن کدام الکوفی ١٥٥ ھ کو شمار کیا – عراق میں اہل حران میں سے عبد الكريم الجزري، خصيف بن عبد الرحمن الجزري المتوفی ١٤٠ ھ ، سالم بن عجلان الأفطس المتوفی 132 ھ ، علي بن بذيمة المتوفی ١٣٦ ھ (ان میں شیعیت تھی) کو امام احمد نے الْمُرْجِئَةِ میں شمار کیا – اس کے علاوہ کوفہ کے محمد بن أبان الجعفي المتوفی ١٧٠ ھ کو ان میں شمار کیا – المَدَائِنِ کے  محدث  شَبَابَةُ بنُ سَوَّارٍ کو الْمُرْجِئَةُ میں شمار کیا  – امام ابو حنیفہ کے لئے بھی کی رائے کو بیان کیا جاتا ہے –  ابو بکر الخلال کے مطابق امام احمد  الْمُرْجِئَةُ  کی رائے کو قَوْلٌ خَبِيثٌ کہتے تھے-

چوتھا گروہ ایمان بڑھتا ہے اور کم پر توقف ہے یعنی کوئی رائے نہیں  ہے

عمدہ القاری ج ١ ص ١٠٧ میں عینی نے قول پیش کیا ہے

قَالَ الدَّاودِيّ سُئِلَ مَالك عَن نقص الْإِيمَان وَقَالَ قد ذكر الله تَعَالَى زِيَادَته فِي الْقُرْآن وَتوقف عَن نَقصه وَقَالَ لَو نقص لذهب كُله

الدَّاودِيّ نے  کہا :  امام مالک سے سوال ہوا کہ ایمان کم ہوتا ہے ؟ فرمایا الله تعالی نے اضافہ کا ذکر کیا ہے قرآن میں اور کمی پر توقف کیا ہے اور کہا اگر یہ جائے تو سب جائے گا

ترتیب المدارک کے مطابق

وقال القاضي عياض:  قال ابن القاسم: كان مالك يقول: الإيمان يزيد، وتوقف عن النقصان

القاضي عياض کہتے ہیں ابن قاسم نے کہا امام مالک کہا کرتے کہ ایمان بڑھ جاتا ہے اور کم ہونے پر توقف ہے

کتاب حاشية العدوي على شرح كفاية الطالب الرباني از : أبو الحسن الصعيدي العدوي   (المتوفى: 1189هـ) کے مطابق قسطلانی کہتے ہیں

وَأَمَّا تَوَقُّفُ مَالِكٍ عَنْ الْقَوْلِ بِنُقْصَانِهِ فَخَشْيَةَ أَنْ يُتَأَوَّلَ عَلَيْهِ مُوَافَقَةُ الْخَوَارِجِ

اور امام مالک نے جو ایمان کم ہونے پر توقف کا قول کہا ہے تو ان کو ڈر تھا کہ کہیں ان کی بات خوارج سے موافقت اختیار نہ کر جائے

ابن تیمیہ  الفتاوی ج ٧ ص ٥٠٦ کہتے ہیں

وكان بعض الفقهاء من أتابع التابعين لم يوافقوا في إطلاق النقصان عليه. لأنهم وجدوا ذكر الزيادة في القرآن، ولم يجدوا ذكر النقص، وهذا إحدى الروايتين عن مالك

اور تبع التابعين میں سے بعض فقہا ایمان پر کمی کا اطلاق نہیں کرتے کیونکہ وہ قرآن میں بڑھنے کا ذکر پاتے ہیں اور اس میں کمی کا ذکر نہیں ہے اور اسی طرح کی ایک روایت امام مالک سے بھی ہے

یعنی کم ہونے کا قرآن میں ذکر ہی نہیں ہے –

کتاب المقدمات الممهدات از  أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ) کے مطابق مرنے سے قبل امام مالک نے اس رائے سے رجوع کر لیا تھا  جس کو  عبد الله بن نافع الصائغ سے منسوب کیا جاتا ہے کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از    الذهبي (المتوفى: 748هـ) کے مطابق     صاحب مالك قال أحمد لم يكن في الحديث بذاك امام احمد کہتے ہیں اس کی حدیث ایسی مناسب نہیں – الاجری کہتے ہیں ابو داود نے کہا  احمد نے کہا : ثم دخله بأخره شك ابن نافع آخری عمر میں امام مالک کے اقوال کے حوالے سے شک کا شکار تھے

    عبد الرزاق سے منسوب ایک قول  ہے

قال عبدالرزاق:  سمعت معمراً وسفيان الثوري ومالك بن أنس، وابن جريج وسفيان بن عيينة يقولون: الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص

عبدالرزاق آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے – أبو حاتم الرازي کہتے ہیں انکی حدیث يكتب حديثه ولا يحتج به لکھ لو دلیل نہ لو –  کتاب المختلطين از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق سن ٢٠٠ کے بعد عبدالرزاق   کی روایت صحیح نہیں ہے

البیہقی سنن میں روایت  لکھتے ہیں

سمعت مالك بن أنس وحماد بن زيد.. وجميع من حملت عنهم العلم يقولون: الإيمان قول وعمل ويزيد وينقص

اسکی سند میں  سويد بن سعيد الحدثاني ہیں جو اختلاط کا شکار تھے اور مدلس بھی ہیں

الخلال السنہ میں أبي عثمان سعيد بن داود بن أبي زنبر الزنبري کی سند سے امام مالک کا قول پیش کرتے ہیں
قال كان مالك يقول: “الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص

امام مالک کہا کرتے کہ ایمان قول و عمل ہے بڑھتا کم ہوتا ہے

دارقطنی  کہتے ہیں سعيد بن داود الزنبري ضعيف ہے اور امام مالک کے حوالے سے منفرد اقوال کہتا ہے

الخلال کتاب السنہ میں ابن نافع کے حوالے سے امام مالک کا قول پیش کرتے ہیں کہ وہ کہتے ایمان کم ہوتا ہے اس کی سند میں  زَكَرِيَّا بْنُ الْفَرَجِ ہے جو مجھول ہے

کتاب  شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از أبو القاسم هبة الله اللالكائي (المتوفى: 418هـ)  میں امام مالک سے إسحاق بن محمد الفروي کی  سند سے قول منسوب کیا گیا  ہے –  إسحاق بن محمد الفروي   کو امام نسائی ضعیف کہتے ہیں اور الدارقطني متروک کہتے ہیں

الغرض امام مالک سے منسوب دو آراء ہیں جن میں مالکی فقہا نے اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ وہ ایمان میں کمی کے قائل نہیں تھے اور حنابلہ نے ان سے کمی والی روایات منسوب کی ہیں جن کی اسناد میں ضعف ہے

امام بخاری  بھی ایمان میں کمی کے قائل نہیں لگتے –  انہوں نے صحیح میں روایت پیش کی
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ شَرِبَ الخَمْرَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا، حُرِمَهَا فِي الآخِرَةِ
ابن عمر رضی الله عنہ کی روایت جو کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو شراب پینے دنیا میں اور توبہ نہ کرے اس پر یہ آخرت میں حرام ہو گی

اس روایت میں اضافہ بھی ہے

مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا وَلَمْ يَتُبْ، لَمْ يَشْرَبْهَا فِي الْآخِرَةِ , وَإِنْ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ

وہ جنت میں بھی داخل ہو جائے تو شراب اس پر حرام ہو گی

البانی الصَّحِيحَة: 2634  میں اس کو صحیح کہتے ہیں اور ذیادت کو زيادة جيدة کہتے ہیں

یعنی ابو ہریرہ اور ابن عباس کی روایت میں تھا شرابی مومن نہیں اس سے توبہ کرائی جائے اور اس ابن عمر کی روایت سے ثابت ہوا وہ مومن ہی تھا  اس پر آخرت میں شراب حرام ہو گی
اِبْن الْعَرَبِيّ کہتے ہیں  کہ شراب اور ریشم حرام والی حدیثوں سے ظاہر ہے کہ وہ اس کو جنت میں نہیں ملیں گی

ظَاهِرُ الْحَدِيثَيْنِ أَنَّهُ لَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ فِي الْجَنَّة

  مسند الموطأ للجوهري از  أَبُو القَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ مُحَمَّدٍ الغَافِقِيُّ، الجَوْهَرِيُّ المالكي (المتوفى: 381هـ) کہتے ہیں

قِيلِ: وَإِنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَنْسَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا حَتَّى لا يَشْتَهِيهَا

اور کہا جاتا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو گا لیکن اس کو بھلا دیا جائے گا اور اس کو خواہش نہ ہو گی

لیکن جو لوگ گناہ کبیرہ  کرنے والے میں ایمان کی کمی کے قائل ہیں انہوں نے اس سے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے مثلا البغوي (المتوفى: 516هـ)  کتاب شرح السنة میں کہتے ہیں وعيدٌ بِأَنَّهُ لَا يدْخل الْجنّة  یہ شخص جنت میں نہیں جائے گا

ابو قاسم اللالكائي المتوفی ٤١٨ ھ  کی کتاب السنه میں امام بخاری سے ایک قول منسوب کیا ہے جس کو ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کر کے دعوی کیا ہے کہ اس کی سند ان کے مطابق صحیح ہے کہ امام بخاری نے کہا

لَقِيتُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفِ رَجُلٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ بِالْأَمْصَارِ , فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ يَخْتَلِفُ فِي أَنَّ الْإِيمَانَ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، وَيَزِيدُ وَيَنْقُص

میں نے (مختلف) شہروں میں ایک ہزار سے زائد علماے زمانہ سے ملاقات کی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایمان کے قول و عمل ہونے اور اس کے کم و زیادہ ہونے میں اختلاف نہیں کرتا تھا

کتاب  شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از أبو القاسم هبة الله اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی سند ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ الْهَرَوِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا  مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ مُوسَى الْجُرْجَانِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبُخَارِيَّ بِالشَّاشِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ: ” لَقِيتُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ

اسکی سند میں أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ مُوسَى الْجُرْجَانِيُّ مجھول الحال ہے –  سند میں أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبُخَارِيَّ  بھی ہیں جو کتاب محاسن الإسلام وشرائع الإسلام   کے مصنف ہیں  لیکن وہ اپنی کتاب میں ایمان کی کمی زیادتی پر ایک لفظ نہیں کہتے – اس کے علاوہ  جو بات  امام بخاری نے اپنی سب سے اہم کتاب جامع الصحیح میں نہیں لکھی وہ ان کے کان میں پھونک دی ہوئی عجیب بات ہے – لہذا یہ قول جو امام بخاری سے منسوب ہے ثابت نہیں ہے

امام بخاری نے صحیح كتاب الحيض، باب 6: ترك الحائض الصوم میں روایت پیش کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں کے لئے فرمایا

مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ

باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا

بعض علماء مثلا ابن العثيمين  (کتاب تفسير الفاتحة والبقرة) نے اس سے ایمان میں کمی ہونے کا قول لیا ہے جبکہ یہ بات عورتوں کے لئے عام ہے کہ ان کو  حيض اتا ہے جو ایمان میں کمی نہیں ہے بلکہ دین میں ان پر کمی ہے کہ وہ روزہ اور نماز اس حالت میں  پڑھیں

روایت زانی، زنا کرتے وقت مومن نہیں وغیرہ کے حوالے سے یہ بات موجود ہے کہ خود محدثین کو اس روایت کی تفسیر نہیں پہنچی  – العلل دارقطنی میں ہے کہ زانی والی روایت پر
قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ عَنْ تَفْسِيرِ هَذَا الْحَدِيثِ فَنَفَرَ.

امام الْأَوْزَاعِيُّ نے کہا : میں نے امام الزہری سے اس کی تفسیر پوچھ تو وہ بھاگ لئے
اسی میں ہے کہ الْأَوْزَاعِيُّ نے پوچھا
فَقُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ مُؤْمِنًا فَمَهْ؟ قَالَ: فَنَفَرَ عَنْ ذَلِكَ
میں نے الزہری سے پوچھا اگر مومن نہیں رہا تو پھر کیا تھا ؟ پس الزہری چلے گئے

یعنی امام الزہری نے امام مالک کی طرح توقف کا موقف اختیار کیا  اور گمان غالب ہے یہی امام الْأَوْزَاعِيُّ  کا بھی موقف ہو گا

الغرض یہ محدثین کا اختلاف ہے

بعض کہتے ہیں (مثلا البیہقی، ابن حبان ) کم ہو جاتا ہے ختم نہیں ہوتا
بعض کہتے ہیں (مثلا سفیان ابن عیینہ ) ایمان کم ہوتے ہوتے معدوم ہو جاتا ہے
بعض کہتے ہیں (مثلا امام الزہری) گناہ کے وقت پتا نہیں مومن تھا یا نہیں اس سوال سے فرار کرتے ہیں

بعض کے نزدیک (مثلا امام مالک)  قرآن میں اس پر صریحا کمی کا ذکر نہیں ہے -امام بخاری روایات لاتے ہیں جن میں گناہ کبیرہ والے بغیر توبہ کیے جنت میں جاتے ہیں

بعض روایات کی تفہیم

103 Downloads

بعض روایات میں معاشرتی اختلاف مثلا گالم گلوچ، لڑنا جھگڑنا پر کفر کا لفظ وارد ہوا ہے ان کی صحیح تفہیم پر شارحین نے بحث کی
ہے – چونکہ متن میں کفر کا لفظ آیا ہے ان پر بحث ضروری ہے

مسلمان سے لڑنا کفر ہے ؟
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے ؟
کسی او ر کو باپ بنانے والا کافر ہے
یہ کہنے کی حرمت کہ الله تعالی فلاں کو معاف نہ کرے گا
ایک جاہل کی وصیت
ذات انواط
اگلے پچھلوں پر لعنت کریں گے؟
آنے والے غلط تکفیر کریں گے؟

بعض تلبیسات باطلہ کا رد

123 Downloads
بعض علماء کے نزدیک ام المومینن عائشہ رضی اللہ عنہا کو اللہ کے علم کے حوالے سے صحیح عقیدے کا معلوم نہیں تھا – معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ غیر اللہ کو سجدہ کرتے تھے اور بدری صحابی شراب پیتے  ہوئے بعد وفات النبی پکڑے گئے – ان کی تلبیسات باطلہ کا رد اس مضمون میں کیا گیا ہے

ان کا مدعا یہ ہے کہ  عقائد و فہم کی غلطی پر  فتوی  نہیں  لگتا  جبکہ  یہ قول  قرآن سے  مطابقت  نہیں  رکھتا 

فہم الحجہ کی شرط

111 Downloads

بعض  علماء  کا موقف ہے  کہ جس شخص کو مکمل  فہم نہیں مثلا عربی نہیں آتی اس پر  اتمام  حجت نہیں ہو سکتا   اور  وہ مومن ہے – راقم  اس موقف کو رد کرتا ہے –  یہاں ان کی پیش  کردہ تلبیسات کا جائزہ  لیا جائے گا

حكم أهل الفترة

123 Downloads

  أهل الفترة (وقفہ) سے  وہ  لوگ  مراد  ہیں  جن کی طرف  نہ کوئی نبی آیا  نہ رسول آیا  مثلا   عیسیٰ  علیہ  السلام   اور  رسول  اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم  کے درمیان  والے  لوگ – آج   لوگوں  نے  ان کو بھی اہل فتره  کہنا شروع کر دیا ہے  جو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور  سے  لے کر  آج  تک پیدا ہو رہے ہیں  مثلا  افریقہ  یا  ایمیزون  کے  جنگلوں ، ہمالیہ  کے پہاڑوں اور اسی طرح کے دور دراز  مقامات  پر  بسنے  والے – راقم  کہتا  ہے یہ  لوگ  اہل فتره  میں سے نہیں ہیں

کیا امت محمد شرک سے پاک ہے ؟

135 Downloads

 کیا    امت  محمد  شرک سے پاک ہے ؟

 بریلوی کہتے ہیں کہ امت محمد شرک کر ہی نہیں سکتی – لہذا امت اب جو بھی کرے وہ شرک نہیں –  بعض دوسرے  لوگ یہ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے فرقے شرک کرنے سے امت مسلمہ  سے خارج ہیں-  ان کا یہ قول بریلویوں جیسا ہی  ہے کہ   امت محمد  شرک  نہیں  کر سکتی – دونوں  گروہوں  کا مقصد  یہی ہے کہ امت محمد شرک نہیں کر سکتی-  راقم  اس کو رد کرتا ہے

عرف عام میں امت محمد کو مسلمان کہا جاتا ہے ان میں شرک بھی ہو رہا ہے مثلا الله نے کہا قوم موسی نے بچھڑے کی پوجا کی – اب ہم بحث  کریں  کہ اس کو قوم موسی نہ کہا جائے یہودی کہا جائے تو یہ صرف لفظی نزاع ہے-حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے  فرمایا     قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے    اور    اسی طرح حدیث    یہ بھی ہے کہ میری امت  فرقوں میں بٹ جائے گی یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم نے کافر و گمراہ فرقوں کو امت میں شمار    کیا ہے    لہذا   وہ بنیادی چیزیں جن کا انکار کیا جائے تو اسلام سے خارج ہو جانا ہے ان میں ہے

توحید کا اقرار   کہ الله ایک ہے اس کی بیوی بیٹی اور بیٹا نہیں ہے – کوئی ہمسر نہیں ، کفو نہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں
قرآن جو ہاتھوں میں ہے آخری الہامی کتاب ہے

اسلام کے ارکان دین کا ظاہر ہیں ان کا مطلق  انکار بھی کفر  ہے –

اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ  فرقے امت محمد کا ہی حصہ ہیں-  اسلام سے خارج نہیں،    ایمان سے خارج     ہوئے  ہیں

ایک حدیث پیش کی جاتی ہے  جو سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ جَارِيَةَ اللَّخْمِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ،

ابو امیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کے پاس آ کر پوچھا: اس آیت کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: آیت یہ ہے: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» انہوں نے کہا: آگاہ رہو! قسم اللہ کی تم نے اس کے متعلق ایک واقف کار سے پوچھا ہے، میں نے خود اس آیت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، آپ نے فرمایا: “بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو، یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ لوگ بخالت کے راستے پر چل پڑے ہیں، خواہشات نفس کے پیرو ہو گئے ہیں، دنیا کو آخرت پر حاصل دی جا رہی ہے اور ہر عقل و رائے والا بس اپنی ہی عقل و رائے پر مست اور مگن ہے تو تم خود اپنی فکر میں لگ جاؤ، اپنے آپ کو سنبھالو، بچاؤ اور عوام کو چھوڑ دو، کیونکہ تمہارے پیچھے ایسے دن آنے والے ہیں کہ اس وقت صبر کرنا (کسی بات پر جمے رہنا) ایسا مشکل کام ہو گا جتنا کہ انگارے کو مٹھی میں پکڑے رہنا، اس زمانہ میں کتاب و سنت پر عمل کرنے والے کو تم جیسے پچاس کام کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا۔ (اس حدیث کے راوی) عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: عتبہ کے سوا اور کئی راویوں نے مجھ سے اور زیادہ بیان کیا ہے۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! (ابھی آپ نے جو بتایا ہے کہ پچاس عمل صالح کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا تو) یہ پچاس عمل صالح کرنے والے ہم میں سے مراد ہیں یا اس زمانہ کے لوگوں میں سے مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: “نہیں، بلکہ اس زمانہ کے، تم میں سے”۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 اس کی سند ضعیف ہے – سند میں  أبو أمية  الشَّعْبانيُّ الدِّمَشْقيُّ. ہے

 قال أبو حاتم: شاميٌّ جاهليّ ابو حاتم کہتے ہیں شامی  ہے پہلے ایام جاہلیت کو دیکھا   ہے

حدیث  حوض      

صحیح بخاری حدیث نمبر: 7048
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَتْ أَسْمَاءُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا عَلَى حَوْضِي أَنْتَظِرُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ، فَيُؤْخَذُ بِنَاسٍ مِنْ دُونِي فَأَقُولُ أُمَّتِي. فَيَقُولُ لاَ تَدْرِي، مَشَوْا عَلَى الْقَهْقَرَى». قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن سری نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر (حوض کوثر) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑ جائیں۔

رسول اللہ کہیں گے یہ میری امت کے لوگ ہیں لیکن یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ امتی نہیں ہیں بلکہ ان کی بد عملی کا ذکر کیا جائے گا

Sahih Bukhari Hadees # 6576

وحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “”أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ وَلَيُرْفَعَنَّ مَعِي رِجَالٌ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَيُخْتَلَجُنَّ دُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ يَا رَبِّ:‏‏‏‏ أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ””، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ عَاصِمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ حُصَيْنٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

نبی   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔ اس روایت کی متابعت عاصم نے ابووائل سے کی، ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔

اصحابی سے مراد منافق ہو سکتے ہیں کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو مدینہ کے تمام منافقین کا علم نہیں تھا  سوره توبہ میں اس کا ذکر آیا  ہے

امتی جنہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات نہیں کی وہ اصحاب رسول نہیں لہذا پہلا قول بھی ممکن ہے کہ حدیث میں اصحابی سے مراد غیر معروف اصحاب رسول ہیں

صحیح بخاری میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کہیں گے

سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِي

دور دور ہو جس نے میرے بعد بدلا

صحیح بخاری میں ہے

إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ

یہ اس سے نہیں ہٹے کہ مرتد ہوئے جب اپ نے ان کو چھوڑا

بغوی نے شرح السنہ میں کہا

وَلَمْ يرْتَد أحد بِحَمْد اللَّه من أَصْحَاب النَّبِيّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا ارْتَدَّ قوم من جُفَاة الْعَرَب.

اور الحمد للہ اصحاب میں سے کوئی مرتد نہ ہوا سوائے عربوں کی ایک قوم کے

بخاری کے شاگرد فربری کا کہنا ہے

قال محمدُ بنُ يوسفَ الفِرَبرِيُّ: ذُكِرَ عن أبي عبدِ اللهِ عن قَبيصة قالَ: هُمُ المُرْتَدُّونَ الذين ارتدُّوا على عَهْدِ أبي بكرٍ، فقاتَلهُم أبو بكرٍ رضي الله عنه

میں نے عبد الله سے اس روایت کا ذکر کیا کہا یہ وہ مرتد ہیں جنہوں نے ابو بکر کے دور میں ارتاد کیا تو ابو بکر نے ان سے قتال کیا

مسند البزار میں ہے کہ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنہ نے اس کو روایت کیا پھر کہا

قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: ادْعُ اللَّهِ أَلا يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ  الله سے دعا کرو کہ مجھے ان میں سے نہ کرے

مسند الشامییں از طبرانی میں ہے

فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ لَا يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ , قَالَ: «لَسْتَ مِنْهُمْ» , فَمَاتَ قَبْلَ عُثْمَانَ بِسَنَتَيْنِ

ابو درداء نے کہا دعا کرو الله ان میں سے نہ کرے – لوگوں نے کہا اپ ان میں سے نہیں پس ان کی وفات قتل عثمان سے دو سال پہلے ہوئی

اس روایت پر ایک تابعی نے کہا

قَالَ: فَكَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَتَنَ عَنْ دِينِنَا

اے الله ہم پناہ مانگتے ہیں کہ اپنی گردنوں پر پلٹ جائیں اور دین میں فتنہ کا شکار ہوں

کتاب الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے

قَالَ أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ: ذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِإِبْرَاهِيمَ الْأَصْبَهَانِيِّ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , كَتَبَ بِهِ إِلَيْنَا يُونُسُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ: وَسَمِعْتُ أَبَا إِبْرَاهِيمَ الزُّهْرِيَّ وَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ: هَذَا فِي أَهْلِ الرِّدَّةِ

ابو بکر نیشاپوری نے کہا ہم نے اس حدیث کا ابراہیم سے ذکر کیا تو کہا عجیب روایت ہے اور انہوں نے یہ یونس کو لکھ بھیجی اور ابو ابراہیم الزہری نے کہا یہ اہل الردہ یعنی مرتدوں کے حوالے سے ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيَرِدَنَّ عَلَى الْحَوْضِ رِجَالٌ مِمَّنْ صَحِبَنِي وَرَآنِي حَتَّى إِذَا رُفِعُوا إِلَيَّ اخْتُلِجُوا دُونِي فَلَأَقُولَنَّ: رَبِّ , أَصْحَابِي , فَلَيُقَالَنَّ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ ”

میرے اصحاب میں سے مرد جنہوں نے مجھے دیکھا اور صحبت اختیار کی ہو گی میرے حوض پر لائے جائیں گے

راقم کے نزدیک سند منقطع ہے حسن نے ابی بکرہ سے سماع نہیں کیا  البتہ امام بخاری کے مطابق حسن بصری کا ابی بکرہ سے سماع ہے

بخاری و مسلم میں اسی حدیث میں الفاظ یہ بھی ہیں       إِنَّهُمْ مِنِّي یہ مجھ سے ہیں      یعنی میرے رشتہ دار ہیں

جن احادیث میں مجھ میں سے ہیں اتا ہے اس میں مراد خاندان نبوی کے افراد لئے جاتے ہیں-

روایت میں الفاظ امتی بھی ہیں یعنی تمام امت میں کوئی بھی ہو سکتا ہے- یعنی

اصحاب رسول اس روایت سے خوف کھاتے

محدثین کہتے یہ مرتدوں کے لئے ہے

مراد منافقین بھی ہو سکتے ہوں

خاندان نبوی کے افراد بھی لئے جا سکتے ہیں

یہ تمام احتمالات ممکن ہیں-  الله سے دعا کریں ہم ان میں سے نہ ہوں

قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ

قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ١

265 Downloads

قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ٢

178 Downloads

قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ٣

166 Downloads

قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ٤

159 Downloads

قرن اول میں اسرائیلیات کا فروغ جلد ٥

219 Downloads
جزیرہ العرب میں  موجود بہت سے نصرانی اور یہودی مسلمان  ہوئے  أور إن  لوگوں  نے احادیث  پر   صحائف لکھے-  ان میں مشہور  کعب احبار ہیں  جن کے پاس کوئی کتاب دانیال  تھی – ان کی بیشتر روایات فتن کے باب میں ہیں – ان کے علاوہ  ایک  نو  مسلم هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهِ بْنِ كَامِلِ بْنِ سَيْجٍ الصَّنْعَانِيِّ    تھے   جو یمن سے   مدینہ پہنچے   اور ان کی نظر  انتخاب  صرف  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  پر پڑی  جبکہ اصحاب رسول  کی کثیر   تعداد وہاں  موجود تھی –  ہمام بن منبہ  نے صرف ابو ہریرہ کو استاد  و شیخ  سمجھا باقی کسی کی روایت تک نہیں لکھی جتنا راقم کو علم  ہوا ہے
اہل تشیع  نے ایک  نو مسلم  یمنی یہود ی  ابن سبا سے اپنے عقائد اخذ  کیے  جو صوفیانہ قسم کے ہیں 
اس کے علاوہ بعض دیگر روایات ہیں  جن کا متن پکار کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلیات ہیں  لیکن ان کو صحیح سمجھا جاتا ہے  – اس وجہ سے ان  پر تنقید مناسب نہیں ہوتی – البتہ  جو ان روایات کو صحیح سمجھتا ہو اس کو  یہ معلومات معلوم ہونی چاہیے ہیں جو راقم نے ان اجزاء میں اب جمع کر دی  ہیں
اس  کاوش کو صحیحین  پر  تنقید نہ سمجھا جائے  – امام بخاری و مسلم کا جو درجہ ہے وہ مسلمہ ہے – راقم کا مقصد اپنے علم کو ضائع ہونے سے بچانا ہے کیونکہ  جب اتنا جان لیا تو اس سب  کو بتانا ضروری ہے  – موت کا دور دورہ ہے

 

طاغوت سے کیا مراد ہے

162 Downloads

اس  کتابچہ  میں  طاغوت   کے  کفر  پر  بات کی گئی  ہے  جو تمام  انبیاء کی دعوت کا  محور  ہے

طاغوت سے مراد
طاغوت سے مراد ہر وہ فرد بھی ہے جو اللہ تعالی کے کلام کے خلاف فتوی دے رہا ہو، چاہے وہ خود اس بات سے لا علم ہو کہ وہ اللہ کا دشمن بن چکا ہے –

ہر صدی میں مجدد آئے گا ؟

سنن  ابو داود میں ہے

 حدَّثنا سليمانُ بنُ داودَ المَهْريُّ، حدَّثنا ابنُ وهْبٍ، أخبرني سعيدُ ابنُ أبي أيوبَ، عن شَرَاحِيلَ بنِ يزيدَ المَعافِريِّ، عن أبي علقمةَ عن أبي هريرةَ -فيما أعلمُ- عن رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- قال: “إن الله عز وجل يبعث لهذه الأمة على رأس كلِّ مِئة سنةٍ من يُجَدِّدُ لها دينَها

  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  بے شک  ہر  سو سال کے پورے ہونے پر،  اللہ  تعالی  اس امت پر  بھیجے  گا  اس کو جو اس کے دین کی تجدید کرے گا

 قال العراقي: سنده صحيح  الفيض 2/ 282 عراقی  کا قول  ہے کہ اس کی سند صحیح ہے

 قال الحافظ: سنده قوي لثقة رجاله  توالي التأسيس ص 49    ابن حجر  کا قول ہے کہ سند قوی ہے، راوی  ثقہ ہیں

 قال السخاوي: سنده صحيح رجاله كلهم ثقات  سخاوی  نے کہا  اس کی سند  صحیح ہے رجال سب ثقہ ہیں[1]

ابن عدی  کے بقول  أبو علقمة کا  نام  مسلم بن يسار  ہے-

قَالَ الشَّيْخُ: وَهَذَا الْحَدِيثُ لا أَعْلَمُ يَرْوِيهِ غَيْرَ ابْنُ وَهب، عَنْ سَعِيد بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، ولاَ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ غَيْرَ هَؤُلاءِ الثَّلاثَةِ، لأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ الرِّجَالِ لابْنِ وَهْبٍ، ولاَ يَرْوِيهِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ إلاَّ هَؤُلاءِ، وأَبُو عَلْقَمَةَ اسْمُهُ مسلم بن يسار

 امام  بخاری کی رائے  الگ ہے – تاریخ الکبیر میں امام بخاری کا کہنا ہے کہ  شَراحِيل بْن يزيد، المَعافريّ. نے  مُسلم بْن يَسارسے سنا تھا  – یہ أَبِي عَلقَمة. سے روایت کرتا ہے

شَراحِيل بْن يزيد، المَعافريّ سَمِعَ مُسلم بْن يَسار، عَنْ أَبِي عَلقَمة

امام بخاری کا انداز  تحریر  بتا رہا ہے کہ ان کے نزدیک مسلم بن یسار  اور ابو علقمہ ایک  راوی  نہیں ہیں  –   البتہ  محدثین  متاخرین  نے   ان دونوں کو ملا  کر   ایک راوی  کر دیا ہے

راقم  کہتا ہے  امام  بخاری  نے جس طرف اشارہ  کیا ہے وہ صحیح ہے –  مسلم بن یسار  مصری و افریقی  ہے  اور   اس کی کنیت  ابو عثمان  ہے نہ کہ ابو  علقمہ   – اکمال  از  مغلطاي میں  اس کا مکمل  نام ہے

 مسلم بن يسار المصري، أبو عثمان الطنبذي، ويقال: الإفريقي، مولى الأنصار

جامع بیان العلم  میں ابن عبد البر  کا قول ہے

قَالَ أَبُو عُمَرَ: «اسْمُ أَبِي عُثْمَانَ الطُّنْبُذِيِّ مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ»

    مسلم بن یسار   جس  سے  عبدالرحمان بن زیاد بن انعم  مصری  افریقی  روایت کرتے ہیں  اس      پر   امام احمد  کا قول ہے   یہ  مجہول ہے

وقال أبو طالب: قال أحمد بن حنبل: مسلم بن يسار الذي يروي عنه الإفريقي لا أعرفه. «الجرح والتعديل» 8/ (870) .

ابو  طالب  نے کہا : احمد نے کہا  مسلم بن یسار جس سے (عبدالرحمان بن زیاد بن انعم) افریقی  روایت کرتا ہے  اس کو میں نہیں جانتا [2]

الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى «وهو مشتمل على ثلاثة كتب في الكنى از ابن عبد البر النمري القرطبي (368 – 463 هـ) میں ہے

 أبو علقمة. روى عنه عبد الرحمن بن زياد المعافرى ضعفه يحيى ابن معين وقال: ليس بشئ

ابو  علقمہ   جس  سے عبد الرحمان بن زیاد  روایت  کرتا ہے   بقول امام ابن معین  کوئی چیز  نہیں ہے[3]

ميزان الاعتدال في نقد الرجال از  الذھبی  میں  راوی   مسلم بن يسار [د، ت، ق] المصري، أبو عثمان کے ترجمہ میں ہے

ولا يبلغ حديثه درجة الصحة     اس کی حدیث صحت کے درجہ پر نہیں پہنچتی

عجیب بات ہے   کہ  امام الذھبی   کی کتاب    تاریخ الاسلام  میں    اسی راوی  کے دو  ترجمے   رقم ٢٠٦  اور رقم ٢٣٩  پر قائم کیے  گئے ہیں  ان میں سے ایک میں  اس  راوی کو   صدوق قرار دے دیا   گیا ہے     جبکہ  دوسرے مقام  پر نہ کلمہ جرح ہے نہ تعدیل  ہے –

کتاب أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از  أبو حذيفة، نبيل بن منصور بن يعقوب بن سلطان البصارة الكويتي ، محقق: نبيل بن مَنصور بن يَعقوب البصارة کی تحقیق ہے کہ

 قلت: مسلم بن يسار الذي يروي عن أبي هريرة وعنه شراحيل بن يزيد هو المصري أبو عثمان الطنبذي ويقال الأفريقي مولى الأنصار، وأما أبو علقمة المذكور هنا في إسناد هذا الحديث فهو غيره وهو مصري مولى بني هاشم ويقال حليفهم ويقال حليف الأنصار، وقد اتفقا في الرواية عن أبي هريرة ويروي عنهما شراحيل بن يزيد، واختلفا في الكنية.

میں کہتا ہوں : مسلم بن یسار جو  ابو  ہریرہ سے روایت کرتا ہے اور اس سے أبو عثمان شراحيل بن يزيد  المصري روایت کرتا ہے  اور اس کو لأفريقي مولى الأنصار کہا  جاتا ہے اور جہاں تک ابو علقمہ ہے جو اس سند میں مذکور  ہے  وہ  میرے نزدیک کوئی اور ہے  یہ شخص  ہے  جو  مصری ہے اور یہ بنو ہاشم کا آزاد کردہ ہے  یا    بنو ہاشم  کا حلیف و مددگار ہے   اس کو انصار  کا حلیف بھی کہا  جاتا ہے[4]

راقم    کہتا ہے  کہ  راوی مسلم بن یسار   پر بہت سے مسائل  ہیں  –

اول   :     مسلم بن یسار  کا سماع   ابو  ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے

 الزهد والرقائق لابن المبارك میں ہے

أنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ عُثْمَانَ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: «إِنَّ فِي الْجَنَّةِ سُفُنًا مَقَاذِفُهَا مِنْ ذَهَبٍ

یہاں  مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ  کا سماع ابو ہریرہ سے نہیں ہے  اگر  سند  میں تحریف  نہیں ہے

دوم :  محققین     کا  اس میں بھی اختلاف  ہے کہ  روایت ہر صدی کے آخر  میں مجدد   یہ ایک راوی ہے  یا    اس   الگ  ہیں

مسلم بن يسار المصري، أبو عثمان الطنبذي (بقول البانی ، ابن حجر یہ راوی ہے )

أبي علقمة، مسلم بن يسار الهاشمي   مولی بنو  ہاشم  (بقول  سخاوی یہ راوی ہے )

أبي علقمة، مولی بنو  ہاشم یا مولی انصار  (بقول نبیل بن منصور  یہ راوی ہے )

سوم  محدثین   میں امام  احمد  کے نزدیک   مسلم بن یسار  جس سے  عبد الرحمان  بن زیاد  افریقی   روایت  کرتا ہے وہ  مجہول ہے اور ابن معین  کا  کہنا ہے وہ  کوئی چیز  نہیں ہے

   مصریوں  نے  جس  مسلم بن یسار سے روایت کیا  اس کی کنیت  انہوں نے ابو  عثمان  ذکر کی ہے حُمَيْدُ بْنُ هَانِئ، أَبُو هَانِئ الْخَوْلانِيُّ المتوفی ١٤٢ ھ نے ابی عثمان مسلم بن یسار سے روایت  کیا ہے  – ابن ماجہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا غَيْرَ ثَبَتٍ، فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ

مسند  احمد  میں    مصری  عَمْرِو بْنِ أَبِي نَعِيمَةَ  نے  ابو عثمان مسلم بن یسار  سے روایت کیا ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرِو الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي نُعَيْمَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَقَوَّلَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

اور  عبد الرحمان بن زیاد  افریقی  مصری  نے بھی مسلم بن یسار  سے روایت  کیا ہے

عبد الرحمان بن زیاد  افریقی  مصری   ،   عَمْرِو بْنِ أَبِي نَعِيمَةَ  ، حُمَيْدُ بْنُ هَانِئ، أَبُو هَانِئ الْخَوْلانِيُّ، شَراحِيل بْن يزيد  المَعافريّ  سب  راوی ایک طبقہ کے ہیں اور مصری ہیں لہذا  اس میں کوئی شک نہیں کہ  مسلم بن یسار     کی  کنیت  ابو علقمہ  نہیں ہے  بلکہ    ابو عثمان ہے  اور امام احمد کے نزدیک  یہ   مجہول ہے -ابن معین کے نزدیک  ابو علقمہ کوئی چیز نہیں ہے

حاصل کلام  ہوا  کہ  ابو عثمان مسلم بن یسار   اور ابو علقمہ  ایک راوی نہیں ہے  جیسا   بعض  نے دعوی کیا ہے   نتیجہ  یہ نکلا کہ    سنن  ابو داود کی روایت     راوی    أبي علقمةَ کی   مجہولیت کی وجہ سے ضعیف  ہے

 حدَّثنا سليمانُ بنُ داودَ المَهْريُّ، حدَّثنا ابنُ وهْبٍ، أخبرني سعيدُ ابنُ أبي أيوبَ، عن شَرَاحِيلَ بنِ يزيدَ المَعافِريِّ، عن أبي علقمةَ عن أبي هريرةَ -فيما أعلمُ- عن رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- قال: “إن الله عز وجل يبعث لهذه الأمة على رأس كلِّ مِئة سنةٍ من يُجَدِّدُ لها دينَها

  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  بے شک  ہر  سو سال کے پورے ہونے پر،  اللہ  تعالی  اس امت پر  بھیجے  گا  اس کو جو اس کے دین کی تجدید کرے گا

آراء

 طبقات الفقهاء الشافعية از ابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) میں ہے   کہ  پہلے  مجدد  عمر بن عبد العزیز  ، پھر  امام  شافعی ،  پھر  ابو العباس بن سریج ،  پھر   الإِسْفِرَايِينِيّ

قَالَ الشَّيْخ تَقِيّ الدّين: وعَلى الشَّيْخ أبي حَامِد تَأَول بعض الْعلمَاء حَدِيث أبي هُرَيْرَة، عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: ” إِن الله عز وَجل يبْعَث لهَذِهِ الْأمة على رَأس كل مئة سنة من يجدد لَهَا دينهَا “.

وَكَانَ على رَأس المئة الأولى عمر بن عبد الْعَزِيز، وَفِي الثَّانِيَة الشَّافِعِي، قَالَ هَذَا الْقَائِل: وَفِي رَأس الثَّالِثَة أَبُو الْعَبَّاس ابْن سُرَيج، وَفِي رَأس الرَّابِعَة أَبُو حَامِد الإِسْفِرَايِينِيّ

وروى الشَّيْخ بِإِسْنَادِهِ أَن ابْن الْمحَامِلِي لما عمل ” الْمقنع ” أنكرهُ عَلَيْهِ شَيْخه الشَّيْخ أَبُو حَامِد من جِهَة أَنه جرد فِيهِ الْمَذْهَب، وأفرده عَن الْخلاف، وَذهب إِلَى أَن ذَلِك مِمَّا يقصر الهمم عَن تَحْصِيل الفنين، وَيَدْعُو إِلَى الِاكْتِفَاء بِأَحَدِهِمَا، وَمنعه من حُضُور مَجْلِسه، فاحتال لسَمَاع درسه من حَيْثُ لَا يحضر الْمجْلس.

طبقات علماء الحديث از ابن عبد الهادي الدمشقي الصالحي (المتوفى: 744 هـ) میں ہے   کہ پہلے  مجدد  عمر  بن عبد العزیز ہیں  پھر  شافعی پھر  ابن خزیمہ

 وقال: سمعتُ المشايخ في القديم يقولون: إنَّ رأسَ المئة السَّنة في التاريخ من الهجرة قام عمرُ بنُ عبد العزيز، ورأس المئتين محمدُ بنُ إدريسَ الشَّافعي، ورأس الثَّلاثِ مئة محمدُ بنُ إسحاقَ بن خُزيمة.

سير أعلام النبلاء از الذھبی  میں ہے   کہ ابن صلاح  کا قول  ہے کہ  مجددین  میں ہیں شافعی ، ابن سریج ، ابو حامد

قَالَ ابْنُ الصَّلاَح: وَعَلَى الشَّيْخ أَبِي حَامِدٍ تَأَوَّلَ بَعْضُ العُلَمَاء حَدِيْثَ: (إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مائَة سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا) فَكَانَ الشَّافِعِيُّ عَلَى رَأْس المائَتَيْنِ، وَابْنُ سُرَيْجٍ عَلَى رَأْس الثَّلاَث مائَة، وَأَبُو حَامِدٍ عَلَى رَأْس الأَرْبَع مائَة

ابن کثیر  کا  کتاب  النهاية  في الفتن والملاحم میں قول ہے

 أن هذا الحديث يعُمُّ جملة أهل العلم من كل طائفة، وكل صنف من. أصناف العلماء من مفسرين ومحدثين وفقهاء ونحاة ولغويين إلى غير ذلك من الأصناف، والله أعلم.

 اس حدیث  میں  ہر طائفہ میں ہر صنف  کے اہل علم شامل ہیں جن  اصناف میں مفسرین ہیں ، محدثین ہیں ، فقہاء ہیں ،  لغوی و نحوی ہیں اور اسی طرح کی اور  صنفوں کے علماء  و اللہ ا علم

البانی  نے کتاب  (الصَّحِيحَة: 599) میں امام احمد  کا قول نقل کیا

 قال الإمام أحمد بن حنبل: إن الله يُقَيِّضُ للناس في رأس كل مائة من يعلِّمُهم السُّنن , ويَنفي عن رسولِ الله – صلى الله عليه وسلم – الكذب , قال: فنظرنا , فإذا في رأس المائة: عمر بن عبد العزيز , وفي رأس المائتين: الشافعي.

احمد  بن حنبل نے کہا  بے شک اللہ تعالی لوگوں کے لئے  کسی کو لائے  گا  جو  ہر سو سال پر  سنت کی تعلیم دیں گے اور رسول   اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے نام  سے  بولے گئے )  جھوٹ   کی نکیر کریں گے – احمد نے کہا ہم دیکھتے تھے کہ یہ عمر بن عبد العزیز ہیں  اور  دو سو سال پر  (سن ٢٠٠ ہجری میں ) امام شافعی ہیں

معرفة السنن والآثار از بیہقی  میں ہے  کہ یہ قول امام احمد سے روایت کیا گیا ہے

قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ: وَرُوِّينَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ أَنَّهُ قَالَ: فَكَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَلَى رَأْسِ الْمِائَةِ. وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ الشَّافِعِيُّ عَلَى رَأْسِ الْمِائَةِ الْأُخْرَى

راقم  کہتا ہے امام احمد سے یہ  منسوب  قول صحیح   سند سے معلوم نہیں ہے اور احمد  کے نزدیک    مصری  راوی  مسلم  بن یسار   مجہول ہے –  اگر  ابو علقمہ     کوئی اور ہے  اور مسلم  بن یسار  نہیں ہے  تو    پھر  یہ بھی   معلوم  نہیں  ابو  علقمہ کون ہے  – لہذا یہاں  امام بخاری کی رائے  درست  معلوم  ہوتی ہے کہ   مسلم بن یسار   کی کنیت  ابو علقمہ نہیں ہے   بلکہ دو الگ الگ راوی ہیں

 طبقات الشافعيين از ابن کثیر  میں    امام  احمد سے منسوب  قول کی سند  ہے

قال البيهقي: أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، حدثني أبو الفضل بن أبي نصر العدل، أخبرنا أبو الحسن، محمد بن أيوب بن يحيى بن حبيب، بمصر: سمعت أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البزاز، يقول: سمعت عبد الملك الميموني، يقول: كنت عند أحمد بن حنبل، وجرى ذكر الشافعي، فرأيت أحمد يرفعه، وقال: يروى عن النبي، صلى الله عليه وسلم: «إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يقرر لها دينها» ، فكان عمر بن عبد العزيز، رضي الله عنه: على رأس المائة، وأرجو أن يكون الشافعي عل رأس المائة الأخرى.

سند  میں  أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البزاز  مجہول ہے

 تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال از الذھبی   اور  تاریخ  دمشق از ابن عساکر    میں ہے

قال أبو محمد بن الورد: ثنا أبو سعيد الفريابي قال: قال أحمد بن حنبل

: إن الله يقيض للناس في رأس كل مائة من يعلمهم السنن، وينفي عن رسول الله

-صلى الله عليه وسلم- الكذب. فنظرنا فإذا في رأس المائة عمر بن عبد العزيز وفي  رأس المائتين الشافعي

سند میں محمد بن عقيل الفريابي أبو سعيد المتوفی ٢٨٥ ھ  ہے اور یہ شوافع  میں سے ہے – حنابلہ کی کتب میں  اس کا ذکر نہیں  ملا    ان   کا سماع  امام احمد سے مشکوک ہے –  امام شافعی سے متعلق  بہت  سے  مبالغہ امیز اقوال میں سے ایک یہ بھی ہے

 

امام  شافعی  یا  عمر بن عبد العزیز   کا کوئی علمی کام  معلوم نہیں جس کو تجدید دین  قرار دیا جا سکے

 

============================================

 

[1]

  المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة میں سخاوی  کا کہنا ہے کہ سند  میں أبي علقمة، مسلم بن يسار الهاشمي ہے

 حَدِيث: إِنَّ اللَّه يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا، أبو داود في الملاحم من سننه من حديث ابن وهب، أخبرني سعيد بن أبي أيوب عن شراحيل بن يزيد المعافري عن أبي علقمة، واسمه مسلم بن يسار الهاشمي عن أبي هريرة

[2]

 تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از  عُبَيْد الله بن علي بن محمد بن محمد بن الحسين ابن الفرّاء الحنبلي (  المتوفى: 580هـ) میں ہے

روى عنه: أبو هانئ حميد بن هاني، وبكر بن عمرو، وشراحيل بن يزيد، وعبد الرحمن بن زياد بن أنعم وغيرهم

مسلم بن یسار  سے  أبو هانئ حميد بن هاني، وبكر بن عمرو، وشراحيل بن يزيد، وعبد الرحمن بن زياد بن أنعم  اور دیگر روایت کرتے ہیں

راقم  کہتا ہے مسند احمد  میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرِو الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي نُعَيْمَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَقَوَّلَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنِ اسْتَشَارَهُ أَخُوهُ الْمُسْلِمُ، فَأَشَارَ عَلَيْهِ بِغَيْرِ رُشْدٍ، فَقَدْ خَانَهُ، وَمَنْ أَفْتَى بِفُتْيَا غَيْرِ ثَبْتٍ، فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ

اس سند سے ظاہر ہے کہ بَكْرُ بْنُ عَمْرِو الْمَعَافِرِيُّ   اور  أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَار کا سماع   نہیں ہے  بلکہ بیچ  میں ایک راوی  عمرو بن أبي نَعيمة  مصري مجهول ہے ہے –

سنن ابو داود  ح ٣٦٥٧ میں ابو داود  نے سند ذکر کی کہ  بكرِ بن عَمرو اور أبي عثمانَ الطُّنْبُذِيّ  کے درمیان  عَمرو بن أبي نُعيمة ہے

حدَّثنا الحسنُ بنُ علي، حدَّثنا أبو عبد الرحمن المُقرئ، حدَّثنا سعيد -يعني ابن أبي أيوبَ- عن بكر بن عمرٍو، عن مسلمِ بن يسارٍ أبي عثمان، عن أبي هريرة، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: “من أُفتِيَ”.

وحدَّثنا سليمانُ بنُ داود، أخبرنا ابنُ وهب، حدَّثني يحيى بن أيوبَ، عن بكرِ بن عَمرو، عن عَمرو بن أبي نُعيمةَ، عن أبي عثمانَ الطُّنْبُذِيّ رضيعِ عبدِ الملك بن مروان قال:

سمعت أبا هريرة يقولُ: قالَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: “مَن أُفتيَ بغيرِ عِلمٍ كان إثمُهُ على مَن أفتاهُ -زاد سليمانُ المَهريُّ في حديثه:- ومَن أشارَ على أخيه بأمرٍ يَعلمُ أنَّ الرُشْدَ في غَيرِهِ فَقَد خَانَه” وهذا لفظ سليمان

مسلم بن یسار کی  کنیت  ابو عثمان ہے  – امام  بخاری  نے تاریخ الکبیر  میں مُسلم بْن يَسار، مَولَى الأَنصار  سَمِعَ سَعِيد بْن المُسَيَّب اور  مُسلم بْن يَسار، أَبو عُثمان الطُّنبُذِيُّ  رَضِيعُ عَبد الْمَلِكِ بْنِ مَروان  کے دو  الگ ترجمے قائم  کیے ہیں  – امام ابی حاتم  نے امام  بخاری کی تائید کی ہے

یعنی  امام   بخاری  کے نزدیک  یہ دو الگ راوی  ہیں  البتہ  خطیب  بغدادی و  دیگر  کے نزدیک  ایک ہی ہیں

اس راوی مسلم بن یسار  کو  أبي علقمة الهاشمي بھی لکھا گیا ہے-   المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة میں سخاوی  کا کہنا ہے کہ سند  میں أبي علقمة، مسلم بن يسار الهاشمي ہے

 حَدِيث: إِنَّ اللَّه يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا، أبو داود في الملاحم من سننه من حديث ابن وهب، أخبرني سعيد بن أبي أيوب عن شراحيل بن يزيد المعافري عن أبي علقمة، واسمه مسلم بن يسار الهاشمي عن أبي هريرة

[3]

: الشريعة از  الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ أَبُو عِمْرَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ [ص:2139] عَبْدِ الْحَمِيدِ الْحِمَّانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنِ الْإِفْرِيقِيِّ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ , عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ»

[4]

مسلم بن یسار یہ بنو  عباس  کا حلیف  ہے اس کی منکرات  میں سے ہیں

کتاب الفتن  از نعیم بن حماد  میں ہے

حَدَّثَنَا محمد بن عبدالله أبو عبدالله التيهِرْتي، عَن عبدالرحمن بن زياد بن أَنعم، عن مُسلم بن يَسار، عن سعيد بن المسيّب، قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: (يخْرُجُ مِنَ الْمَشْرِقِ رَايَاتٌ سُودٌ لِبَنِي الْعَبَّاسِ، ثُمَّ يَمْكُثُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ تَخْرُجُ رَايَاتٌ سُودٌ صِغَارٌ تُقَاتِلُ رَجُلا مِنْ وَلَدِ أَبِي سُفْيَانَ وَأَصْحَابِهِ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، يُؤَدُّونَ الطَّاعَةَ لِلْمَهْدِيِّ

مسلم بن یسار  نے سعید بن المسیب سے روایت کے  کہا  رسول  اللہ نے فرمایا  بنو عباس کے کالے جھنڈے   مشرق سے نکلیں گے

یہ سند منقطع ہے لیکن یہ دلیل ہے کہ مسلم بن یسار  بنو عباس  کا حمایتی ہے ان کے لئے حدیث گھڑنے والا ہے- یہ مسلم بن یسار  ہاشمی ہے

سنن الکبری  بیہقی میں ہے

وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ فِي الْجَامِعِ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ , عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنْ عِتْقِ أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ , فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ: إِنَّ أَوَّلَ مَنْ أَمَرَ بِعِتْقِ أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , وَلَيْسَ كَذَلِكَ , وَلَكِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَّلُ مَنْ أَعْتَقَهُنَّ , وَلَا يُجْعَلْنَ فِي ثُلُثٍ , وَلَا يُبَعْنَ فِي دَيْنٍ. .

اس  سند سے معلوم ہوا کہ مسلم بن یسار  خود  سعید بن المسیب سے بھی روایت کرتا ہے

دوسری طرف یہی  راوی مسلم بن یسار  ہاشمی  کہا  گیا ہے  جو منکرات بیان کرتا ہے

امیر المومنین ابو بکر رضی اللہ عنہ

[wpdm_package id=’9932′]

فہرست

پیش لفظ 4
بیعت ابو بکر کا واقعہ 6
علی کا گھر جلایا گیا؟ 12
علی سے زبر دستی بیعت لی گئی ؟ 20
وراثت النبی کا جھگڑا 31
لشکر اسامہ کی روانگی 65
ابو بکر کا مال عطا کرنا 73
الردہ 77
مانعین زكواة پر فیصلہ 87
علی رضی اللہ عنہ سے منسوب متضاد اقوال 92
عمر رضی اللہ عنہ کا اشکال 93
جمع القرآن 96
وفات ابی بکر 110

=================================

ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اصحاب رسول میں افضلیت پر اہل سنت و خوارج کا اجماع ہے – اہل سنت کے نزدیک تقفقه فی الدین میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا علم عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بڑھ کر تھا – ابو بکر رضی اللہ عنہ کے فضائل اور اسلام کے حوالے سے کثیر روایات ہیں – ان روایات پر بحث اس کتاب کا مدعا نہیں ہے بلکہ اس کتاب کا مقصد خلافت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں لئے گئے فیصلوں کی تفصیل میں جانا ہے –
ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کیوں سب سے بڑھ کر ہے ؟ راقم کہتا ہے اس کی لا تعداد وجوہات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں
اول : اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو رجعت النبی بعد وفات النبی کا گمراہ عقیدہ پھیل سکتا تھا جو عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیان کیا اور پھر اس کا منبر رسول پر سے ابو بکر نے اس کا رد کیا
دوم : اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو فاطمہ بنت النبی (رض)کے مطالبہ پر وراثت النبی کو بانٹ دیا جاتا اور یہ عظیم غلطی ہوتی کیونکہ حدیث نبوی ہے کہ انبیاء کے گھر کا مال وارثت میں نہیں بٹتا بلکہ ان کی امتوں میں غریبوں میں صدقه کر دیا جاتا ہے
سوم : اگر ابو بکر نہ ہوتے تو مانعین زکواة کو بھی کلمہ گو کہہ کر مسلمان سمجھ لیا جاتا اور مسئلہ تکفیر الجھا دیا جاتا
یہ وہ دلائل ہیں جو یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فہم و تفقہ سب اصحاب رسول میں بڑھ کر تھا –
یہ کتاب ، کتاب المشاجرات و المشاحنات کے ایک باب خلافت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شرح کی طرح ہے
ابو شہر یار
٢٠٢٠

جب یاجوج ماجوج کو کھولا جائے گا

[wpdm_package id=’8887′]

غامدی صاحب  نے تھیوری پیش کی ہے کہ  یافث بن نوح  کی نسل کے تمام  لوگ یاجوج ماجوج ہیں  جن میں انہوں نے

  جاپان و مغربی ممالک  کا ذکر کیا – اس سے قبل وہ رسالہ اشراق میں  کہہ چکے ہیں کہ دجال اور یاجوج ماجوج میں کوئی فرق نہیں ہے – یہاں تک کہ وہ مکذوبہ کتاب

Book of Revelations

پر بھی ایمان لے آئے اور اس سے دلیل لینے لگے

  راقم  کہتا ہے  غامدی صاحب  بھول گئے کہ وسطی ایشیا   کی قوموں میں  ہندوستان وترک  و جرمن و ایران  بھی ہیں جو یافث ہی کی نسل سے ہیں ، اسی وجہ سے   ابو الکلام آزاد نے اپنی کتب میں یافث / یاجوج ماجوج کی نسل  میں پنجابی  قوم کا بھی ذکر کیا ہے-

  علامہ اقبال  کہہ گئے ہیں

کھُل گئے، یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیرِ حرفِ ’یَنْسِلُوْنْ‘

یعنی اقبال بھی اسی کے قائل  تھے کہ  یاجوج ماجوج نکل چکے ہیں  اگرچہ   انہوں نے غور نہیں کیا جیسا ابو الکلام آزاد  نے کیا کہ بر صغیر کے مسلمان  بھی ترک و ایرانی نسل سے ہیں  یافث بن نوح  کی ہی اولاد  ہیں  – اصل  میں یہ سب مغالطہ در مغالطہ اس لئے پیدا ہوا کہ مسلمانوں نے اسرائیلیات کو سر چڑھایا اور یہ مان  لیا کہ یاجوج ماجوج  یافث کی نسل سے ہیں  –

 جب یہود نے یہ جھوٹ گھڑا تھا کہ وہ  سام کی نسل ہیں تو اس  کے پیچھے ان کی اپنی سیاست کارفرما  تھی – وہ اپنے آپ کو ہام  اور یافث کی نسلوں سے الگ کر رہے تھے  اور اسی مشق میں انہوں نے نوح علیہ السلام  پر زنا کی تہمت لگائی تھی جس کے بعد نوح کی بددعا کی صورت میں سام کو باقی بھائیوں پر فوقیت ملی تھی   – یہود  اپنے آپ کو سام بن نوح کی نسل سے بتاتے  تھے  لیکن  جب مشرقی یورپ کی  خزار ریاست  نے یہودیت قبول کی تو تب سے ان میں یافث کی نسل در کر آئی  اور آجکل کے مغربی یہودی اصلی سامی نہیں رہے

 پھر راقم کو ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس  میں  مولوی نے  سی پیک کو یاجوج ماجوج کی سرنگ قرار دیا – اب یہ ویڈیو یو ٹیوب سے ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں   – راقم کہتا ہے یہ جاہل علماء ہیں  کیونکہ یہ شمالی اقلیم کے لوگوں کو یاجوج ماجوج کہہ رہے – جبکہ  اسلام  پھیلا ہے اور چینیوں نے بھی دور تابعین میں اسلام قبول کیا ہے – یاجوج ماجوج پر راقم کی تحقیق میں ان   حماقتوں کا رد ہے

====================================================

روایات

خروج یاجوج و ماجوج

تاریخ اور جرح و تعدیل کے میزان پر

اس    مختصر کتاب کا موضوع    یاجوج و ماجوج  ہیں –  الله تعالی نے خبر دی کہ جب  خروج یاجوج و ماجوج ہو گا تو وہ ہر بلندی سے نکل رہے ہوں گے اور منظر ایسا ہو گا جیسے سمندر کی  موجیں گتھم گتھا ہو رہی ہوں یعنی یاجوج ماجوج تعداد میں  بہت ہوں گے –    یاجوج ماجوج کے حوالے سے   علماء  کے مضطرب اقوال ہیں  بعض    سلفی   علماء کے نزدیک   منگول   یا ترک    یاجوج و ماجوج  ہیں –  بعض  اہل  چین کو یاجوج ماجوج قرار دیتے ہیں –  ابو کلام آزاد  اور غامدی   کے نزدیک  یافث بن نوح   کی  نسل  کے لوگ  یاجوج ماجوج  ہیں   جن میں   پاکستان  انڈیا  چین  مغربی ممالک  آسٹریلیا   سب  شامل  ہیں –     غامدی    صاحب کے نزدیک دجال اور یاجوج ماجوج ایک ہیں!

اہل کتاب کے مطابق    جوج نام کا ایک لیڈر ہے اور اس کی قوم ماجوج ہے – ان کے پاس یاجوج کا کوئی تصور نہیں ہے – لیکن مسلمان علماء  اس پر غور کیے بغیر  اہل کتاب سے دلائل دینے لگ جاتے ہیں –      یاجوج و ماجوج اہل کتاب کے نزدیک ایک غلط  نام ہے-      لہذا  اہل کتاب  کی کتابوں سے دلائل دینا بے کار ہے –  اہل کتاب میں     ماجوج پر اختلافات ہیں مثلا     موجودہ پروٹسٹنٹ  نصرانی  آج کل    ایسٹرن آرتھوڈوکس  نصرانییوں  میں  روسیوں کو ماجوج  قرار دیتے ہیں-    یہود میں  مورخ   جوسیفس  کے مطابق   سکوتی   یا    السكوثيون یا  الإصقوث  یا     اسکیتھیا   (من اليونانيةSkythia)

کو قرار دیا ہے جن کا علاقہ   آزربائیجان  و  ارمیننا   کا   تھا  –   اسی کی بنیاد  پر نصرانی  سینٹ    جیروم  نے ان کا علاقہ   بحر  کیسپین   کے  قریب بتایا ہے – آجکل یہ علاقہ   روس میں ہے لہذا  کہا جا رہا ہے کہ روسی     ماجوج ہیں – یہ قول  مبنی بر  جھل ہے –

مسلمانوں کا اس پر بھی اختلاف رہتا ہے کہ   کیا دیوار چین     اور   سد سکندری،  وہی دیوار   ہے  جو ذو القرنین نے بنائی  یا نہیں ؟  ذوالقرنین   کون تھے ؟ سکندر یا کورش یا سائرس ؟

راقم  کے نزدیک  اس وقت معلوم  دنیا   سے یاجوج ماجوج پوشیدہ  ہیں – راقم کے نزدیک یاجوج ماجوج انسان نہیں ہیں  انسان نما ہوں گے –  اس کتاب میں   یاجوج ماجوج  سے متعلق   روایات کا جائزہ   لیا گیا ہے – کتاب میں  اس پر بھی غور کیا گیا  ہے کہ  قیامت کی نشانیاں کس ترتیب میں ہو سکتی ہیں جن کا علم صرف اور صرف الله تعالی کو ہے

کتاب پڑھنے سے پہلے سوره کہف ضرور پڑھ لیں اس کو کتاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے – مباحث کو سمجھنے کے لئے قرانی حقائق  و آیات کو جاننا ضروری امر ہے 

حواب کے کتے اور آج کی تاریخ

شکر ہے کہ  اہل حدیث حضرات کو اپنی  فاش غلطی  کا احساس ہو رہا ہے  اور چند سال پہلے ہی  اہل حدیث  اس روایت باطلہ پر جان قربان کر رہے تھے  جب راقم  نے اس کا رد اپنی  کتاب  اکابر پرستی   میں پیش کیا تھا   – راقم کے مضمون کو  ایک قاری نے   غیر مقلدوں کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا تھا  اور پھر اس روایت کو غیر مقلدوں کے مولویوں کی ٹیم نے بیس توپوں کی سلامی پیش کی تھی

لنک 

لنک 

لنک 

راقم نے اس وقت اہ  بھر لی تھی اور سوچا تھا کہ ستبدي لك الأيام ماكنت جاهلا  – الحمد  اللہ،    اللہ نے سن لی اس کی جس نے اس کی حمد کی

اب اہل حدیث حضرات درخت کا پھل کھا رہے ہیں- حواب کے کتے پلٹ کر غیر مقلدوں  کو ہی  بھبھوڑ رہے ہیں –   ان کے ہونہار  رافضی بن رہے ہیں- جس سے ان میں اضطراب پایا جاتا ہے لہذا اس  منحوس روایت  کو رد کرنا آج  ضروری ہوا

نور پوری نے صرف ایک روایت پر کلام کیا ہے اس کی اور سندیں بھی ہیں

حواب کے کتوں  والی روایت پر تفصیلی  کلام   ام المومنین عائشہ  رضی اللہ عنہا  پر راقم کی  کتاب  میں موجود  ہے

 

عذاب قبر اب غیب نہیں ہے

یہ اصول و کلیہ ہے کہ غیبی معاملات تک کسی صحابی یا امتی کی رسائی نہیں ہے – حیات النبی میں اس کی کوئی دلیل نہیں کہ صحابی رسول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح غیب کی کسی بات کو دیکھا ہو بلکہ تمام صحیح احادیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غیبی باتوں کا مشاہدہ کیا اور اصحاب رسول نے صرف سنا اور ایمان  لائے

عذاب قبر کے حوالے سے قرآن سے معلوم ہے کہ یہ عذاب جہنم النار کی شکل ہے – ال فرعون وہاں برزخ میں جہنم کی آگ پر پیش ہوتے ہیں – یہ اس دنیا کا معاملہ نہیں ہے کہ زمین کے سانپ بچھو اس عذاب قبر کو بر سر انجام دیں جیسا کہ بعض روایات منکرہ میں بیان ہوا ہے

اس حوالے سے اہل حدیث صحیح کے علاوہ حسن یعنی ضعیف روایات پر بھی عقیدہ استوار کیے ہوئے ہیں – البانی کہتے کہ کہ حسن سے عقائد لئے جا سکتے ہیں

عذاب قبر کے حوالے سے بیہقی کی پیش کردہ ایک روایت کا ترجمہ اہل حدیث عالم زبیر علی کرتے ہیں

قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “

زبیر کی موت اس عقیدے پر   نہ ہوئی  جو  آجکل  جمہور  اہل حدیث کا ہے کہ عود روح استثنائی ہے  بلکہ ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں – اس روایت کی بنیاد پر زبیر علی  منکر عقیدے کا پرچار کرتا رہا کہ قبر میں روح انے کے بعد نکلتی یا نہیں نکلتی معلوم ہی نہیں

حال  میں  ان کے ایک  شاگرد نے اس واقعہ کی تحسین کی اور اس کو خاص واقعہ قرار دیا کہ صحابی ابن عمر پر پردہ غیب چاک ہو گیا اور عذاب قبر کو دیکھا

بقول نورپوری یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی – اس کو ولی اللہ کی کرامت کا درجہ دے دیا ہے

راقم کہتا ہے اس کي سند ميں جويرية بن أسماء ہيں جن کا ذکر تدليس کي ايک کتاب ميں ہے
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
جويرية بن أسماء مكثر عن نافع وقد تقدم قول بن عمار الحافظ في حديثه عنه وافقت ربي في ثلاث وإن بينهما فيه رجلا غير مسمى
جويرية بن أسماء يہ نافع سے بہت روايت کرتے ہيں اور ابن عمار کا قول ان کي حديث کہ ميرے رب نے تين ميں … کہ جويرية بن أسماء اور نافع کے درميان کوئي اور شخص ہے جس کا نام نہيں ليا گيا
يعني جويرية بن أسماء نے نافع سے روايات ميں تدليس بھي کي ہے
اور يہاں سند ميں عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ أَسْمَاءٍ، عَنْ نَافِعٍ، ہي ہے
عباءة بن كليب الليثى کو کمزور قرار ديا ہے
يہ اصل ميں جويرية کا پوتا ہے اس کا نام ہے عباءة بن كليب بن جويرية بن أسماء – ميزان ميں الذھبي نے ذکر کيا ہے
عن جويرية بن أسماء، صدوق، له ما ينكر، وغيره أوثق منه.
حدث عنه أبو كريب، وأخرجه البخاري في كتاب الضعفاء.
فقال أبو حاتم: يحول
يہ صدوق ہے اور اس کي روايت منکر بھي ہے اور ديگر اس سے زيادہ ثقہ ہيں … امام بخاري نے اس کو كتاب الضعفاء ميں شامل کيا ہے
الغرض يہ سند ضعيف ہے اس ميں تدليس کا امکان ہے اور عباءة بن كليب اتنا مضبوط نہيں کہ عقيدہ ليا جا سکے

ھبل کا بت

شیعہ علامہ ضمیر اختر  نقوی  نے دعوی کیا کہ کعبه میں بت نہیں تھے اس کے گرد تھے

یہ ناقص تحقیق ہے اور اہل سنت کی کتب میں اس پر حوالے موجود ہیں کہ بت کعبہ میں رکھے ہوئے تھے – یہاں راقم شیعہ کتب کے کچھ حوالے درج کرتا ہے

شیعہ کتاب حلية الأبرار از السيد هاشم البحراني میں ہے
هبل ( بضم الهاء وفتح الباء ) صنم للجاهلية قدم بها مكة عمرو بن بن لحى من الشام وكان حجرا أحمر أو ورديا على صورة إنسان يده اليمنى مكسورة نصب في جوف الكعبة وقد جعلت له قريش يدا من ذهب
ھبل یہ انسان کی شکل کا تھا اس کو کعبہ کے وسط میں نصب کیا گیا تھا

بحار الأنوار از المجلسي میں ہے
وهبل صنم في الكعبة،

بحار الأنوار از المجلسي میں ہے
حليمة بنت أبي ذؤيب …. ودخل البيت وطاف بهبل وقبل رأسه

حليمة بنت أبي ذؤيب بیت اللہ میں داخل ہوئی اور ھبل کا طواف کیا اور اس بت کے سر کو چوما

اس  کے بر خلاف دو روایتوں میں ہے کہ  ھبل  کعبہ  کے اوپر رکھا ہوا  تھا

بحار الأنوار از المجلسي میں ہے
أبوبكر الشيرازي في نزول القرآن في شأن أميرالمؤمنين عليه السلام عن قتادة عن ابن
المسيب عن أبي هريرة قال : قال لي جابر بن عبدالله دخلنا مع النبي مكة وفي البيت
وحوله ثلاثمائة وستون صنما ، فأمر بها رسول الله صلى الله عليه واله فالقيت كلها لوجوهها ، وكان على البيت صنم طويل يقال له ( هبل

اس روایت کی مکمل سند موجود نہیں ہے – سند میں قتادہ  بصری  کا  عنعنہ  ہے جو مدلس ہے

جابر بن عبد اللہ نے ذکر کیا ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ میں ٣٦٠ بت تھے پس رسول اللہ نے حکم کیا تو سب منہ کے بل گرا دیے گئے اور بیت اللہ پر  ایک طویل بت تھا جس کو ھبل کہا جاتا تھا

علل الشرايع للشيخ الصدوق کی ایک روایت میں ہے کہ حاجی باب بني شيبة سے مسجد الحرام میں داخل ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٢٠ حج کیے اور ہر بار اس مقام پر پیشاب کیا کیونکہ علی نے کعبہ کی چھت پر سے ھبل کو گرا کر یہاں دفن کیا تھا

حدثنا محمد بن أحمد السناني وعلي بن أحمد بن محمد الدقاق والحسين بن ابراهيم بن أحمد بن هشام المكتب وعلي بن عبدالله الوراق وأحمد بن الحسن القطان رضي الله عنهم قالوا: حدثنا أبوالعباس أحمد بن يحيى زكريا القطان قال: حدثنا بكر بن عبدالله بن حبيب قال: حدثنا تميم بن بهلول عن أبيه عن أبي الحسن العبدي عن سليمان بن مهران قال: قلت لجعفر بن محمد (ع): كم حج رسول الله صلى الله عليه وآله؟ فقال: عشرين مستترا في حجة يمر بالمازمين فينزل فيبول فقلت: يابن رسول الله ولم كان ينزل هناك فيبول؟ قال: لانه أول موضع عبد فيه الاصنام، ومنه أخذ الحجر الذي نحت منه هبل الذي رمى به علي من ظهر الكعبة، لما علا ظهر رسول الله فامر بدفنه عند باب بني شيبة فصار الدخول إلى المسجد من باب بني شيبة سنة لاجل ذلك،

    سند میں تميم بن بهلول خود اہل تشیع کے ہاں  مجہول ہے – اس روایت سے معلوم ہوا کہ شیعہ زائر  بیت اللہ کے دروازے پر آ کر پیشاب کرتے تھے  اسی وجہ سے اب یہ دروازہ ختم کر دیا گیا ہے

لنک

http://qadatona.org/%D8%B9%D8%B1%D8%A8%D9%8A/%D8%A7%D9%84%D8%B1%D8%AC%D8%A7%D9%84/1925

 

مزید بتوں پر کتاب الصنام میں بات کی گئی ہے

[wpdm_package id=’8867′]

علم باطن کی شرعی دلیلیں

[wpdm_package id=’9879′]

فہرست

پیش لفظ 5
ابو المنذر علم مبارک ہو 8
علم انبیاء و فرشتے آ کر دیتے ہیں 10
ہر آیت کا ظاہر و باطن ہے ؟ 14
دربار سلیمان کی خبر 16
خضر کون ہیں 21
خواب میں غیب کی خبر 35
حارث کا قول ہے 38
خالد کا زہر پینا 44
نزول ملائکہ ہر وقت ؟ 52
ابو مسلم خولانی کا قصہ 55
ساریہ پہاڑ پہاڑ کی طرف 60
ابو بکر رضی اللہ عنہ کا خواب یا کشف 71
زبیر رضی اللہ عنہ کا قول 75
صحو و سکر کا تماشہ 77
ابن تیمیہ کے کشف کا ذکر 87
آدم ، اللہ تعالی کی صورت پر ؟ 89
اسرار حروف اور انسان کامل 92
محدثین کا کشفی خواب بیان کرنا 96
کتم علم کے دلائل 99
علم چھپانے کا حکم نبوی ؟ 102
علم باطن ایک راز ہے 117
کعبہ کا اصل ڈیزائن چھپایا جائے ؟ 119

پیش لفظ

علم لدنی کا حوالہ سورہ کہف سے آتا ہے کہ خضر نے موسی علیہ السلام کی بتایا کہ ان کو جو علم حاصل ہے وہ من جانب اللہ ملا ہے – ارشاد باری تعالیٰ ہے – وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْماً اور ہم نے اسے اپنی جانب سے علم دیا – قرآن میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آیات بھی من جانب اللہ ہیں – سورہ طہ میں ہے وَقَد ءاتَينـٰكَ مِن لَدُنّا ذِكرً‌ا ہم نے تم کو اپنی طرف سے ذکر و نصیحت دی –
اہل تشیع کے مطابق ائمہ کو علم لدنی حاصل ہے اور صوفیاء کے مطابق ان کے اعلام کو یہ علم حاصل ہے – علم لدنی کے اور ناموں میں علم طریقت یا علم عرفان یا علم مکاشفہ یا علم باطن وغیرہ بھی ہیں- امام غزالی کتاب احیاء العلوم الدین میں علم مکاشفہ کی تعریف بیان کرتے ہیں
علم المكاشفة وهو علم الباطن وذلك غاية العلوم فقد قال بعض العارفين من لم يكن له نصيب من هذا العلم أخاف عليه سوء الخاتمة
علم مکاشفہ ہی علم باطن ہے اور علوم کا مقصد اسی کو حاصل کرنا ہے بعض عارفین کہتے ہیں جس کو اس کا حصہ نہ مل پائے اس کا خوف ہے کہ اس کا خاتمہ برائی پر ہو گا
طاہر القادری کتاب علم و مصادر علم میں کشف و علم لدنی پر لکھتے ہیں
https://www.minhajbooks.com/english/book/Ilm-awr-Masadir-e-Ilm/read/img/btid/4306/

اس کتاب میں کتاب و سنت کے حوالے سے علم لدنی کے دلائل پر بات کی گئی ہے جو علم لدنی یا علم خواص پر پیش کی جاتی ہیں – تصوف نا پسند حلقوں میں انہی دلائل کو علم احسان و تذکیہ کا نام دیا جاتا ہے –
قابل غور ہے کہ انبیاء و رسل پر الوحی آتی ہے – ان کا خواب بھی الوحی کی قسم ہے – قرآن سے یہ سب ثابت ہے البتہ بحث اس میں ہے کہ کیا بعد وفات النبی کیا کسی امتی پر بھی غیب کو کشف کیا جا سکتا ہے ؟ اس کے کیا دلائل ہیں جو صوفیاء نے اپنے خواص کے حوالے سے بیان کیے ہیں جن کو متصوفانہ تحاریر میں اولیاء اللہ کہا جاتا ہے – یعنی اس کتاب کا مدعا غیر نبی پر کشف غیب کے دلائل کا جائزہ لینا ہے –
گزشتہ امتوں کے لئے معلوم ہے کہ ان میں کرامات ہو جاتی تھی مثلا اصحاب کہف کا برسوں سوتے رہنا ، مریم علیہ السلام تک رزق پہنچنا ، کھجوروں کا ان پر گرنا ، حدیث غار وغیرہ – لیکن امت محمد کے حوالے سے ہے یہ الہام اب بند ہے کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ غیبی خبر میں سے اب صرف سچا خواب ہے ، وہ بھی قرب قیامت میں مومنوں کو آئے گا – محدثوں (الہام والوں ) کے وجود کے قائل اہل سنت کے مطابق اولیاء اللہ کو نیند ، خواب ، بیداری سب میں کشف ہوتا ہے ، الہام ہوتا ہے – بعض سلفی و اہل حدیث فرقے بھی اس کے قائل ہیں – ان کی دلیلوں میں وہ واقعہ ہے جس میں عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر سے جنگ کا منظر نظر آتا ہے یا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو حاملہ بیوی ے پیٹ کے اندر اولاد مادہ پر ہے گویا ابو بکر یہ تک جان گئے کہ ہونے والا بچہ ہے یا بچی ہے – راقم نے ان روایات پر اس کتاب میں بحث کی ہے –
علم کشف کو چھپایا بھی جاتا ہے ، ہر ایک پر پیش نہیں کیا جاتا – اس کو اس کتاب میں کتم علم کہا گیا ہے
ابو شہر یار
٢١ رمضان ١٤٤١ ھ

اپنے دین میں غلو مت کرو

[wpdm_package id=’8843′]

فہرست
ايقاظ 5
نور محمدی کا ذکر 27
حدیث نور کا متن 54
نور محمدی کا عالم ارضی میں ظہور ہونا 62
اَللّهُ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ 89
رسول الله کی تخلیق ہزار سال پہلے ہوئی 118
رسول الله کے والدین 121
رسول الله کے چچا 127
صحیحین کی روایات 131
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا زندہ کرنا 149
آپ ﷺ تمام عالمین میں حاضر ہیں 155
الم تری– کیا تم نے دیکھا؟ 162
سرور کائنات کون ؟ 170
رسول اللہ ، کلمہ اللہ ہیں ؟ 172
رسول الله ﷺ کو سید المرسلین کہنا 174
کہو جو الله تعالی چاہے پھر اس کا رسول چاہے 178
وہی ہو گا جو رسول الله ﷺچاہیں ؟ 181
رسول الله ﷺ شارع مجاز تھے ؟ 185
رسول الله مختون پیدا ہوئے 193
جب قبر النبوی ﷺ شق ہو گی تب 197
خزانوں کی کنجیاں دیا جانا 214
تمہارا ذکر بلند کیا 237
مصطفی کا پیچھے دیکھنا 239
سات آسمان والوں سے افضل 244
قبر نبی ﷺ پر جا کر طلب کرنا 248
اولیاء کی قبریں مرکز تجلیات ؟ 254
أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ 257
ابدال 263
مخلوق الله کا کنبہ ہے ؟ 275
میں ایک خزانہ تھا 282
ابو بکر رضی الله عنہ کے حوالے سے غلو 289
عمر رضی الله عنہ کے حوالے سے غلو 294
علی رضی الله عنہ کے حوالے سے غلو 309
خضر ہر دور میں ہیں ؟ 324
کیا علم من الکتاب والا مومن صوفی تھا؟ 335
اویس قرنی سب کے پیارے 339
آصف بن برخیاہ کے راز 360
منصور حلاج کے حوالے سے غلو 372
ضمیمہ جات ١ 378
سب سے پہلے قلم خلق ہوا 378

ابو حنیفه کا امام المھدی کی مدد کرنا

امام مہدی کا مکمل نام محمد بن عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب ہے – آپ نے بنو عباس کے دور میں خروج کیا اور قتل ہوئے انہی سے متعلق روایات کتب صحاح ستہ میں موجود ہیں کہ یہ امام مہدی ہیں وغیرہ اس پر تفصیلی کتاب کتب کے سیکشن میں موجود ہے -محمد المہدی کے بھائی ابراہیم  تھے – محمد نے مدنیہ میں خروج کیا اور قتل ہوئے اور ان کے چند ایام بعد بصرہ میں ابراہیم بن عبد اللہ نے خروج کیا –

بعض لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ فتنہ خروج امام المھدی میں مبتلا ہوئے – ابراہیم و محمد بن عبد اللہ المہدی کے حق میں شور و جدل کرتے تھے – اس کا ذکر ضعیف اسناد سے ہم تک پہنچا ہے -راقم کی تحقیق میں یہ قصے مخالفین کی گھرنٹ ہیں اس پروپیگنڈا سے بعض احناف بھی متاثر ہوئے ہیں

مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه از الذهبي (المتوفى: 748هـ) میں ہے
قالَ عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ: حَدَّثَنِي أَبُو نُعَيْمٍ، سَمِعْتُ زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَجْهَرُ فِي أَمْرِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جَهْرًا شَدِيدًا، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ حَتَّى نُؤْتَى فَتُوضَعَ فِي أَعْنَاقِنَا الْحِبَالُ، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: فَغَدَوْتُ أُرِيدُ أَبَا حَنِيفَةَ، فَلَقِيتُهُ رَاكِبًا يُرِيدُ وَدَاعَ عِيسَى بْنِ مُوسَى قَدْ كَادَ وَجْهُهُ يَسْوَدُّ، فَقَدِمَ بَغْدَادَ فَأُدْخِلَ
عَلَى الْمَنْصُورِ

ابو نعیم نے کہا میں نے سنا زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ کہہ رہے تھے ابو حنیفہ ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے امر پر شدید بلند آواز میں بات کر رہے تھے پس میں (زفر ) نے کہا و اللہ آپ جو بھی خواہش کر لیں لیکن جب رسیاں گردنوں میں ڈالی جائیں گی تو ہماری گردنوں میں بھی ہوں گی- ابو نعیم نے کہا پس چند دن ہوئے میں ابو حنیفہ نے ملنا چاہا تو ان سے چلتے چلتے ملاقات ہو گی وہ عِيسَى بْنِ مُوسَى کو وداع کرنا چاہتے تھے ان کا چہرہ سیاہ ہو رہا تھا بغداد پہنچے اور منصور کے پاس گئے

راقم کہتا ہے یہ ابو نعیم کا کذب ہے جس کا ذکر محدثین نے کیا ہے کہ ابو نعیم احناف کی مخالفت میں قصے گھڑتا تھا – تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
وقال العباس بن مصعب: نعيم بن حماد الفارض وضع كُتُبًا في الرّدّ على أبي حنيفة،
العباس بن مصعب نے کہا نعیم بن حماد نے ابو حنیفہ کے رد میں کتاب بنائی
جزء فيه مسائل أبي جعفر محمد بن عثمان بن أبي شيبة عن شيوخه في مسائل في الجرح والتعديل از أبو جعفر محمد بن عثمان بن أبي شيبة العبسي مولاهم الكوفي (المتوفى: 297هـ) میں ہے کہ
وسمعت ابي يقول سالت ابا نعيم يا ابا نعيم من هؤلاء الذين تركتهم من اهل الكوفة كانو يرون السيف والخروج على السلطان فقال على رأسهم ابو حنيفة وكان مرجئا يرى السيف ثم قال ابو نعيم حدثني عمار بن رزيق قال كان ابو حنيفة يكتب الى ابراهيم بن عبد الله بالبصرة يساله القدوم الى الكوفة ويوعده نصره
محمد بن عثمان بن أبي شيبة نے کہا میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے ابو نعیم سے سوال کیا کہ اے ابو نعیم وہ کون ہیں جن کو اہل کوفہ نے اس پر ترک کر دیا کہ وہ لوگ تلوار نکالنے اور حاکم کے خروج کے قائل تھے ؟ پس ابو نعیم نے کہا ان کا سردار ابو حنیفہ تھا

اور یہ مرجئ تھا تلوار نکالنے والا پھر ابو نعیم نے کہا مجھ کو عمار بن رزيق نے روایت کیا کہ ابو حنیفہ نے ابراھیم بن عبد اللہ کو بصرہ کی طرف خط لکھ کر کوفہ انے کی دعوت دی اور اس کی مدد کا وعدہ کیا
محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر عبد اللہ بن احمد بن حنبل کا قول ہے کہ یہ کذاب ہے – ابن خراش کا کہنا ہے کہ یہ كان يضع الحديث حدیث گھڑتا ہے- عمار بن رزيق پر أبو الفضل أحمد بن علي بن عمرو البيكندي البخاري کا کہنا ہے کہ یہ رافضی تھا اس کا ذکر الذھبی نے میزان میں کیا ہے- عمار کا قول بھی عجیب و غریب ہے -مرجئہ کے نزدیک ایمان ختم نہیں ہوتا اور یہ خوارج سے الگ تھے جن کے نزدیک ایمان ختم ہو جاتا ہے اسی وجہ سے خوارج اور بعض محدثین کے نزدیک  گناہ کبیرہ والا حاکم قتل کیا جا سکتا ہے – عمار بن زریق کو بینادی معلومات نہیں ہیں کہ مرجئہ کا خروج پر موقف نہیں تھا

المعرفة والتاريخ 2/ 277. میں ہے
قال يعقوب بن سُفيان: سمعت محمد بن عبد الله بن نمير يذكر عن عمار بن رزيق، وكان من علماء أهل الكوفة. قال: إذا سئلت عن شيء فلم يبن عندك فانظر ما قال أبو حنيفة فخالفه فإنك تصيب
ابن نمیر نے عمار بن رزيق کا یعقوب بن سفیان سے ذکر کیا کہ اگر یہ تم سے کوئی سوال کرے جو سمجھ میں نہ آئے تو دیکھو ابو حنیفہ (اس مسئلہ میں ) کیا کہتے ہیں، پس اس (عمار) کی مخالفت کرو ، تم (مسئلہ کی) سمجھ پا لو گے

معلوم ہوا کہ اگر محمد بن ابی شیبہ اور ابو نعیم نے جھوٹ نہیں بولا تو عمار بن زریق تعصب عصری میں اول فول بولتے رہتے تھے- تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے

قَالَ خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ: صَلَّى إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعِيدَ بِالنَّاسِ أَرْبَعًا، وَخَرَجَ مَعَهُ أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَعَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، وَهُشَيْمٌ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي طَائِفَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَلَمْ يَخْرُجْ مَعَهُ شُعْبَةُ، وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يُجَاهِرُ فِي أَمْرِهِ وَيَأْمُرُ بِالْخُرُوجِ.
خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ نے کہا ابراھیم بن عبد اللہ نے عید کی بدھ کے دن لوگوں کے ساتھ عید کی اور اس کے ساتھ (محدثین میں سے ) اَبُو خَالِدٍ الأَحْمَر ، عِيسَى بْنُ يُونس عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، هُشَيْمٌ اور يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ تھے اور امام شُعْبَةُ نہ نکلے اور ابو حنیفہ کھلم کھلا اس کے امر میں بولتے اور اس کےساتھ خروج کا حکم کرتے تھے

اسی کتاب میں ہے
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ: خَرَجَ مَعَ إِبْرَاهِيمَ خَلْقٌ، وَجَمِيعُ أَهْلِ وَاسِطٍ، وَابْنَا هُشَيْمٍ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطَّحَّانُ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَغَيْرُهُمْ.
واسط کے محدثین نے بھی ابراہیم کے ساتھ خروج کیا اور اس فتنہ میں مبتلا ہوئے

الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم از أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
قَالَ أَبُو يَعْقُوبَ وَنا الْعَبَّاسُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَزَّازُ قَالَ نَا مُحَمَّد بن عُثْمَان بن أَبُو شيبَة قَالَ نَا بشر بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا نُعَيْمٍ يَقُولُ سَمِعْتُ زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَجْهَرُ بِالْكَلامِ أَيَّامَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جِهَارًا شَدِيدًا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ أَوْ تُوضَعُ الْحِبَالُ فِي أَعْنَاقِنَا فَلَمْ نَلْبَثْ أَنْ جَاءَ كِتَابُ ابى حَفْص إِلَى عِيسَى بْنِ مُوسَى أَنِ احْمِلْ أَبَا حَنِيفَةَ إِلَى بَغْدَادَ قَالَ فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ فَرَأَيْتُهُ رَاكِبًا عَلَى بَغْلَةٍ وَقَدْ صَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّهُ مسيح قَالَ فَحمل إِلَى بِبَغْدَاد فَعَاشَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا قَالَ فَيَقُولُونَ إِنَّهُ سَقَاهُ وَذَلِكَ فِي سَنَةِ خَمْسِينَ وَمِائَةٍ وَمَاتَ أَبُو حنيفَة وَهُوَ ابْن سبعين سنة

محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کذاب نے روایت کیا کہ زفر کہتے کہ ابو حنیفہ نے ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے دور میں شور کیا پس میں نے کہا جو خواہش کر لیں اللہ کی قسم رسی ہماری گردن میں ہو گی پس زیادہ نہ گذرا کہ ابو حفص کا خط گورنر عیسیٰ کے پاس آیا کہ ابو حنیفہ کو بغداد لاو پس ان کو تلاش کیا تو وہ اپنے خچر پر سوار چل رہے تھے اور ان کا چہرہ مسیح جیسا تھا پس ان کو بغداد لے جایا گیا وہاں پندرہ دن زندہ رہے- کہا کہتے ہیں ان کو (زہر) پلایا گیا اور یہ سن ١٥٠ ہجری تھا اور ابو حنیفہ کی وفات ہوئی وہ ستر سال کے تھے
راقم کہتا ہے سند میں بشر بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ مجہول ہے اور یہاں ابو حنیفہ کا چہرہ سیاہ سے مسیح جیسا کر دیا گیا ہے

الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم از أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
قَالَ ونا أَبُو الْقَاسِم عبيد الله بْنُ أَحْمَدَ الْبَزَّازُ قَالَ نَا أَبِي قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي عِمْرَانَ يَقُولُ سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْوَلِيدِ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا يُوسُفَ يَقُولُ إِنَّمَا كَانَ غَيْظُ الْمَنْصُورِ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ مَعَ مَعْرِفَتِهِ بِفَضْلِهِ أَنَّهُ لَمَّا خَرَجَ إِبْرَاهِيمُ بن عبد الله بْنِ حَسَنٍ بِالْبَصْرَةِ ذُكِرَ لَهُ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ وَالأَعْمَشَ يُخَاطِبَانِهِ مِنَ الْكُوفَةِ فَكَتَبَ الْمَنْصُورُ كِتَابَيْنِ عَلَى لِسَانِهِ أَحَدُهُمَا إِلَى الأَعْمَشِ وَالآخَرُ إِلَى أَبى حنيفَة من ابراهيم بن عبد الله بن حَسَنٍ وَبَعَثَ بِهِمَا مَعَ مَنْ يَثِقُ بِهِ فَلَمَّا قَرَأَ الاعمش الْكتاب أَخَذَهُ مِنَ الرَّجُلِ وَقَرَأَهُ ثُمَّ قَامَ فَأَطْعَمَهُ الشَّاةَ وَالرَّجُلُ يَنْظُرُ فَقَالَ لَهُ مَا أَرَدْتَ بِهَذَا قَالَ قُلْ لَهُ أَنْتَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَأَنْتُمْ كُلُّكُمْ لَهُ أَحْبَابٌ وَالسَّلامُ وَأما أَبُو حنيفَة فَقبل الْكتاب وَأجَاب عَنهُ فَلم يزل فِي نَفْسِ أَبِي جَعْفَرٍ حَتَّى فَعَلَ بِهِ مَا فعل

بشر بن ولید نے کہا اس نے امام ابو یوسف کو کہتے سنا کہ خلیفہ منصور کو ابو حنیفہ پر غصہ آیا کہ وہ ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے ساتھ خروج میں کیوں نکلے اور ذکر کیا کہ ابو حنیفہ اور اعمش یہ کوفہ میں تقریر کرتے پس خلیفہ منصور نے ان کی زبان میں ان دونوں ابو حنیفہ اور اعمش کو لکھا
اس قول کی سند میں بشر بن الوليد بن خالد بن الوليد الكندى الفقيه المتوفی ٢٣٨ ھ پر کافی جرح بھی کتب میں موجود ہے
وكان شيخًا منحرفًا عن محمد بن الحسن
یہ امام محمد سے منحرف ہو گئے تھے
اور یہ مختلط بھی ہو گئے تھے
قال السليمانى: منكر الحديث. وقال الآجرى: سألت أبا داود: بشر بن الوليد ثقة؟ قال: لا

موسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة «من القرن الأول إلى المعاصرين مع دراسة لعقائدهم وشيء  من طرائفهم» جمع وإعداد: وليد بن أحمد الحسين الزبيري، إياد بن عبد اللطيف القيسي، مصطفى بن قحطان الحبيب، بشير بن جواد القيسي، عماد بن محمد البغدادي میں محقق لکھتے ہیں
وإن العنوان الذي عنون به الخطيب لهذه الأخبار وهو: “ذكر ما حكي عن أبي حنيفة من رأيه في الخروج على السلطان”، فيه تهويل ومبالغة، وتعميم وإبهام فليس في الأخبار التي ساقها تحت هذا العنوان، ما يفيد أن أبا حنيفة كان يدعو للثورة على الخلفاء، أو أنه أعلن هذا، وجُلُّ ما في هذه الأخبار، أن أبا إسحاق الفزاري، ادعى أن أبا حنيفة أفتى أخاه في الخروج لمؤازرة إبراهيم بن عبد الله الطالبي عندما استفتاه في ذلك
خطیب بغدادی نے جو عنوان قائم کیا ہے کہ ذکر اس حکایت کا کہ ابو حنیفہ کی سلطان کے خلاف خروج کی رائے تھی تو اس میں مبالغہ آمیزی اور عامیانہ پن اور ابہام ہے اور اس عنوان کے تحت جو ذکر کیا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس میں ہو کہ ابو حنیفہ نے خلفاء پر بدلہ لینے کی پکار کی ہو یا اس کا اعلان کیا ہو اور فی جملہ ان خبروں میں ہے کہ ابو اسحاق نے دعوی کیا ہے کہ ابو حنیفہ نے اس کے بھائی کو ابراہیم بن عبد اللہ کی مدد کے لئے خروج کا فتوی دیا جب ان سے اس پر فتوی طلب کیا گیا
خطیب بغدادی کا حوالہ ہے
أخبرني علي بن أحمد الرزاز، أخبرنا علي بن محمد بن سعيد الموصلي، قال: حدثنا الحسن بن الوضاح المؤدب، حدثنا مسلم بن أبي مسلم الحرقي، حدثنا أبو إسحاق الفزاري قال: سمعت سفيان الثوري والأوزاعي يقولان: ما وُلدَ في الإِسلام مولود أشأم على هذه الأمة من أبي حنيفة، وكان أبو حنيفة مرجئًا يرى السيف. قال لي يومًا: يا أبا إسحاق أين تسكن؟ قلت: المصيصة، قال: لو ذهبت حيث ذهب أخوك كان خيرًا. قال: وكان أخو أبي إسحاق خرج مع المبيضة على المسودة، فقتل
سند میں مسلم بن ابی مسلم الحرقي مجہول ہے

انبیاء سے میثاق کیوں لیا گیا ؟

مرزا جہلمی صاحب  نے اپنی ایک ویڈیو میں دعوی کیا کہ قرآن میں معراج پر امامت انبیاء کا ایک آیت سے تعلق ہے

سات منٹ پر مرزا صاحب نے اپنے فلسفے کا ذکر کیا

=============

اب ہم اس آیت پر غور کرتے ہیں – قرآن سورہ ال عمران کی آیت ہے

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب اور علم سے دوں پھر تمہارے پاس پیغمبر آئے جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا، فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا، انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا، اللہ نے فرمایا تو اب تم گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔
فَمَنْ تَوَلّـٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ (82)
پھر جو کوئی اس کے بعد پھر جائے تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔

اس آیت سے استخراج کیا گیا کہ تمام انبیاء کو زمین منتقل کیا گیا تاکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول تسلیم کریں-جبکہ اس آیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص کسی نے نہیں کیا – یہ تو تمام انبیاء پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی فرض تھا کہ وہ موسی کو عیسیٰ کو رسول اللہ تسلیم کریں
اس آیت کا خاص تعلق ان انبیاء سے ہے جن کی زندگی میں ملاقات ہوئی اور پھر انہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی مثلا موسی علیہ السلام کو ہارون علیہ السلام کو مدد ملی – عیسیٰ علیہ السلام کو یحیی علیہ السلام کی مدد ملی – اسمعیل و اسحاق علیہما السلام نے ایک ہی دور دیکھا اور مدد کی – یعقوب و یوسف علیہما السلام نے ایک دوسرے کی مدد کی

اس آیت کا شان نزول بتا رہا ہے کہ یہ اہل کتاب کا رد ہے- اہل کتاب میں یہود کے نزدیک ابراہیم علیہ السلام کے بعد انبیاء تو نسل ابراہیم میں آئے دیگر اقوام میں مبعوث نہیں ہوئے لہذا یہود کا رد کیا گیا
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ قَالَ: أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ أَنْ يُصَدِّقَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا.
طاؤس نے کہا اللہ نے میثاق لیا نبیوں سے کہ ایک دوسرے کی تصدیق کریں گے
یہ قول کہ معراج پر انبیاء کی امامت اس وجہ سے کروائی گئی کہ انبیاء کو میثاق یاد دلایا گیا کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں گے قرآن کے متن میں تحریف کے مترادف ہے – اصلا یہ قول شیعوں کا ہے – شیعہ تفسیر التبيان في تفسير القرآن از أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي میں ہے
إنما أخذ الله ميثاق النبيين الماضين بتصديق محمد صلى الله عليه وآله، هذا قول علي
بے شک اللہ تعالی نے ماضی کے انبیاء سے میثاق لیا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کریں گے یہ علی کا قول ہے
شیعہ تفسیر قمی میں یہ بھی ہے علی کی مدد کا میثاق لیا گیا ہے
حدثني ابي عن ابن ابي عمير عن ابن مسكان عن ابي عبدالله عليه السلام قال ما بعث الله نبيا من لدن آدم فهلم جرا إلا ويرجع إلى الدنيا وينصر امير المؤمنين عليه السلام وهو قوله ” لتؤمنن به ” يعني رسول الله صلى الله عليه وآله ” ولتنصرنه ” يعني امير المؤمنين عليه السلام ثم قال لهم في الذر (ء اقررتم وأخذتم على ذلكم
ابو عبد اللہ سے روایت ہے کہ فرمایا اللہ تعالی نے کوئی نبی مبعوث نہیں کیا جو بنی آدم میں ہے نہ ہو اور اس کو پھر دنیا میں نہ بھیجا جائے اور وہ امیر المومنین علی کی مدد کرے اور یہ اللہ تعالی کے قول لتؤمنن به میں ہے کہ تم کو ایمان لانا ہو گا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اله پر اورولتنصرنه میں ہے کہ مدد کرنی ہو گی یعنی امیر المومنین علی کی

الکافی از کلینی میں ہے
محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن الحسن بن محبوب، عن صالح بن سهل عن أبي عبدالله عليه السلام أن بعض قريش قال لرسول الله صلى الله عليه وآله: بأي شئ سبقت الانبياء(5) وأنت بعثت آخرهم وخاتمهم؟ فقال: إني كنت أول من آمن بربي وأول من أجاب حيث أخذ الله ميثاق النبيين وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم فكنت أنا أول نبي قال: بلى، فسبقتهم بالاقرار بالله عزوجل.
ابو عبد اللہ نے روایت کیا کہ بعض قریش نے رسول اللہ سے پوچھا کیا ایسی بات ہے کہ تم سے پہلے انبیاء آئے اور تم ان سب میں آخر میں آئے اور ان کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہو ؟ رسول اللہ نے فرمایا میں ان سب میں اول ہوں جو رب پر ایمان لایا اور جس نے جواب دیا جب اللہ نے میثاق انبیاء سے لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ؟ پس میں اول نبی ہوں

اہل تشیع نے اس آیت کا مدعا یہ بیان کیا کہ اس آیت میں رسول سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہی مرزا نے کہا جبکہ قرآن میں اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص نہیں کیا گیا

[wpdm_package id=’8854′]

امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے ؟ 5
عمر محدث ہیں یا نہیں ہیں ؟ 8
اہل سنت کا قول : عمر محدث ہیں 11
عمر محدث تھے کی مثالیں 17
ازواج النبی کو حجاب کا حکم 22
مقام ابراہیم کو مصلی کرو 24
فتبارک اللہ احسن الخالقین 28
جنگ بدر کے قیدی 29
شراب کی حرمت 33
عمر رضی الله عنہ کی شہادت کی پیشگی خبر 35
اہل تشیع کا قول : ائمہ محدث ہیں 37
اے ساریہ پہاڑ کی طرف جا 43
محدثین متاخرین کی رائے 44
صوفیاء کی رائے 45
ابن تیمیہ کی رائے 45
ابن قیم کی رائے 46
البانی کی رائے 47
ڈاکٹر عثمانی کی رائے 48
زبیر علی زئی کی رائے 50
وہابیوں کی رائے 51
دائمی کمیٹی کا فتوی 52
وہابی عالم صالح المنجد 54
اہل حدیث کی جدید رائے 54
اذان کی شروعات کا قصہ 57
عمر کی دہشت 65
عمر نے علی کا گھر جلا ڈالا ؟ 68
ابو بکر کے فیصلوں پر عمر کا اشکال 76
باغ فدک کے حق تولیت کا جھگڑا 81
عمر کا بطور خلیفہ تقرر 90
روایات میں احتیاط 92
عمرسے منسوب غیر ضروری کلام 95
عمر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے تھے 97
عمر نے اپنے بیٹے پر حد جاری کی ؟ 103
ایسا حکم کرنا جو اللہ کا نازل کردہ نہ ہو ؟ 113
تین طلاق کو ایک کر دینا 113
اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی ممانعت 121
قرآن میں شبھات ہیں ؟ 126
اجتہاد سے فیصلہ کرنا 128
خلفاء کے تقرر پر پالیسی 129
شہادت عمر 134
عمر نے کہا ابن عمر کو خلیفہ مت کرنا ؟ 138

——-

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابی و دوست ہیں – ان کی شان اسلام میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے بڑھ کر ہے – قرن اول کے اختتام اور قرن دوم کے آغاز میں بعض راوی ایسے تھے جو عمر کے حوالے سے غلو پر مبنی روایات بیان کر رہے تھے یعنی یہ روایات بیان کرنے والے امام مالک و امام ابو حنیفہ کے ہم عصر راوی تھے – – محدثین ان کو فضائل کے تحت لکھ رہے تھے اور قرن سوم تک جا کر ان میں سے چند روایات کو صحیح کا درجہ دیا جا چکا تھا – بعض روایات کا مقصد عمر رضی اللہ عنہ کو بہت بہادر ثابت کرنا تھا مثلا عمر نے علی رضی اللہ عنہ کا گھر جلا دیا تھا – بعض بیان کر رہے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی مرضی کے مطابق الوحی آتی تھی جن کو موافقات عمر کا نام دیا گیا ہے البتہ تاریخ نزول قرآن اور متن قرآن سے تقابل کرنے پر ان روایات کی نکارت واضح ہو جاتی ہے – بعض بیان کر رہے تھے عمر کو کشف بھی ہوتا تھا – بعض بیان کر رہے تھے کہ عمر حدود اللہ قائم کرنے میں اتنے اچھے تھے کہ بیٹوں پر بھی حد جاری کی – یہ تمام روایات بحث سے خالی نہیں ہیں – ہوش مندوں کے لئے یہ روایات قابل غور ہیں کہ سمجھیں کہ عمر کے حوالے سے کیا کہا جا رہا ہے نہ کہ خطیبوں کی سنی سنائی آگے کرنے لگ جائیں – یہ سب اس ویب سائٹ پر پہلے سے موجود ہے جس کو تھوڑے اضافہ کے بعد جمع کیا گیا ہے –
ابو شہر یار
٢٠٢٠

سیرت رسول کے ترجمہ میں تحریف

[wpdm_package id=’9792′]

مختصر سیرت رسول کے نام سے محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) کی مشہور کتاب ہے – اس کا ایک ترجمہ اہل حدیث کی جانب سے پیش کیا گیا – ایک مترجم جہلم کے غیر مقلد حافظ محمد اسحاق ہیں جنہوں نے ١٩٩٠ میں ترجمہ کیا اور جامعه علوم اثریہ نے اس کو چھپوایا ، اس کی تسوید وتصحیح کا فریضہ مولانا اکرام اللہ ساجد کیلانی  (سابق مدیر معاون ماہنامہ محدث،لاہور ) نےانجام دیا ہے – دوسرا ترجمہ محمد خالد سیف کا ہے جو پہلی بار ١٣٩٩ ھ یعنی ١٩٧٩ ع میں چھپا لیکن اب اس کو جدید ترجمہ کہہ کر اہل حدیث ویب سائٹ پر پیش کر رہے ہیں

 https://kitabosunnat.com/kutub-library/mukhtasir-seerat-ul-rasool-jadeed-audition

https://ia800400.us.archive.org/24/items/FP158199/158199.pdf

https://kitabosunnat.com/kutub-library/mukhtasar-seerat-ul-rasool

 

اب ہم اصل کتاب کا متن دیکھیں گے اور اس کا تقابل ترجموں سے کرتے ہیں- جنگ جمل کے حوالے سے النجدی لکھتے ہیں

ثم التقى علي وعائشة. فاعتذر كل منهما للآخر. ثم جهزها إلى المدينة. وأمر لها بكل شيء ينبغي لها. وأرسل معها أربعين امرأة من نساء أهل البصرة المعروفات.
اور علی اور عائشہ کی ملاقات ہوئی دونوں نے ایک دوسرے سے معذرت کی پھر علی نے عائشہ کو مدینہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ ان کو وہ سب دیا جائے جو درکار ہو اور ان کے ساتھ بصرہ کی چالیس معروف عورتوں کو کیا
اب اس متن کے اردو ترجمے دیکھتے ہیں

 

حافظ محمد اسحاق کا ترجمہ

محمد خالد سیف کا ترجمہ

جو النجدی نے عربی میں لکھا اس کا صحیح ترجمہ محمد خالد سیف نے کیا لیکن حافظ محمد اسحاق نے متن بالکل ہی بدل دیا اور اس کو النجدی سے منسوب کیا – حافظ محمد اسحاق نے یہ کذب کا راستہ صرف بغض ام المومنین میں اختیار کیا –

النجدی نے کتاب میں محمد بن ابی بکر پر تنقید کی

خالد  سیف  نے اس کا صحیح ترجمہ  کیا ہے

 

چونکہ  اس میں محمد بن ابی بکر  پر تنقید تھی جو علی  کا سوتیلا بیٹا ہے  اور اس کا دفاع  غیر مقلد حافظ اسحاق  جہلمی کیا کرتا تھا  اس نے متن میں تحریف کی

اس کے علاوہ  حافظ  اسحاق  نے معاویہ رضی اللہ عنہ  پر بھی ہاتھ صاف  کیا لکھا جبکہ عربی متن میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں

اسی طرح النجدی  نے لکھا

وفيها: قتل علي رضي الله عنه. قتله ابن ملجم – رجل من الخوارج – لما خرج لصلاة الصبح لثلاث عشرة ليلة بقيت من رمضان.
فبايع الناس ابنه الحسن.

 اس سال علی  کا قتل ہوا ابن ملجم کے ہاتھوں  جو ایک خارجی مرد تھا جب علی نماز کے لئے  رمضان میں تیرہ رات کم  نکلے  اور حسن کی بیعت ہوئی 

النجدی نے کتاب میں کوئی قصہ ذکر نہیں کیا کہ  حسن کی بیعت کس طرح ہوئی  لیکن  مولوی اسحاق جھملی  نے  قصہ نقل کیا کہ علی  نے کوئی نامزد نہ کیا

مولوی اسحاق نے اضافہ کیا

يه عربی متن میں نہیں ملا  یعنی  اس کو زبردستی  اردو  ترجمہ  میں  ڈالا گیا

مولوی اسحاق نے ترجمہ میں ڈالا کہ حسن نے معاویہ کو کہا

یہ بھی عربی متن میں نہیں ہے

 

یہ جھوٹ کئی  دہائییوں  تک   چھپتا  رہا اور کسی نے نکیر  نہیں  کی  اور آج نوبت یہاں آن  پہنچی  ہے کہ  اہل حدیث رافضی بن رہے ہیں –  قابل غور ہے کہ  حافظ اسحاق کے  ساتھ    اکرام اللہ ساجد کیلانی  (سابق مدیر معاون ماہنامہ محدث،لاہور )  بھی ملا ہوا تھا  جس نے اس متن پر  اس کی تسوید وتصحیح کا فریضہ انجام دیا ہے

ان تحریفات  کا  تذکرہ اب  راقم  نے ام المومینن  عائشہ رضی اللہ عنہا  پر کتاب  میں درج کیا ہے

اہل حدیث  فرقہ  میں  دیکھیں  بر سر منبر  کیا ہو رہا ہے – افسوس  اگر ١٩٩٠  میں ہی  جھوٹ کو جھوٹ کہا ہوتا تو یہ نوبت نہ اتی

امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ

[wpdm_package id=’9813′]

فہرست

پیش لفظ 6
علی کی خواہش 8
حدیث منزلتین 9
حدیث غدیر خم 14
حدیث الْمَارِقِينَ 21
حدیث طیر 27
حدیث ثقلین 31
حدیث حواب 49
حدیث خوارج 50
حدیث کساء 51
حدیث مباھلہ 56
بیعت خلافت کے قصے 62
سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ کی روایت 62
واقدی کی روایت 67
حسن بصری کی روایت 69
اشتر کی روایت 69
طارق بن شہاب کی روایت 73
عمرو یا عمر بن جاوان کی روایت 74
وَضَّاحُ بْنُ يَحْيَى النَّهْشَلِيُّ کی روایت 80
سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف کی روایت 81
الْحَارِث بن كعب الوالبي کی روایت 82
أبو المتوكل الناجي البصري کی روایت 83
علی کا لشکر اور قبائلی عصبیت 85
خلافت علی پرتوقف کرنے والے 98
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کا توقف 98
ابن عمر رضی اللہ عنہ کا توقف 99
اسامہ بن زید کا توقف 100
عقیل بن ابی طالب کی بیزاری 102
بصرہ کا قصد 103
تذکرہ جنگ جمل 106
شہادت طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ 106
شہادت زبیر بن العوام 109
مصنف ابن ابی شیبہ کی ضعیف روایات 112
مصنف ابن ابی شیبہ کی صحیح السند روایات 137
رافضی روایت 141
جنگ کے بعد اصلی نماز 143
جنگ کے نتائج 147
تذکرہ جنگ صفین 151
مصنف ابن ابی شیبہ میں جنگ صفین کا احوال 151
صلح اور خروج خوارج 161
تذکرہ جنگ نہروان 167
زید بن وھب الجھنی کی روایت 167
عبيدة السلماني المرادي الهمداني کی روایت 177
عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی روایت 178
أَبُو الْوَضِيئِ کی روایت 180
أَبِي مَرْيَمَ کی روایت 181
أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ کی روایت 183
الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة کی روایت 183
بکر بن قرواش کی روایت 184
الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کی روایت 185
رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ کی روایت 187
عبد الله بن شداد کی روایت 188
قول نبوی کے مطابق یہ آخری دور میں ہو گا 199
قول نبوی : ان کو پاتا تو قتل کرتا 203
سمت و جہت کی اہمیت 204
یہ عربی النسل ہوں گے 207
نتائج 219
روایات ابو سعید الخدری رضی الله عنہ 221
خوارج جہنم کے کتے ہیں؟ 224
علی رضی الله عنہ کی عراق میں تقریریں 235
شام اور قصاص عثمان 254
محمد بن ابی بکر کا انجام 254
عبد الرحمن بن عُدَيْسٍ کا انجام 260
حسن کی شادیاں 263
مصادر اہل تشیع میں حسن کی شادیوں کا ذکر 265
فتنہ ابن سبا 270
علی الیاس ہیں اورآنے والا دابة الارض ہیں 278
علی ہارون ہیں 282
حسن و حسین کو بنی ہارون کے نام دینا 284
شبر و شبیر کا بھیانک انجام 291
عقیدہ رجعت کی تبلیغ 294
علي ذوالقرنین ہیں؟ 304
علی دربار سلیمان میں بھی موجود تھے ؟ 311
شہادت علی 321
علی کا معاویہ کے لئے حکم 335
حسن کی خلافت پر تعیناتی 336

================

بسم اللہ الرحمان الرحیم

پیش لفظ

امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ قریش میں بنو ہاشم میں سے تھے اور خلافت کی تمنا دل میں رکھتے تھے – ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا – علی رضی اللہ خلیفہ نہ ہو پائے – دور نبوی سے لے کر خلافت عثمانی تک علی کو کسی بھی مقام پر گورنر مقرر نہیں کیا گیا –
غیر قریشی اصحاب رسول جو عثمان کو ناپسند کرتے تھے ، علی کے گرد جمع ہوئے اور ان لوگوں نے علی کے لئے ان کی خلافت کو ہموار کیا – علی خلیفہ ہوئے اور مدینہ پر کسی بھی شمالی جانب سے حاجیوں کے بھیس میں حملہ کے خطرہ کی وجہ سے انہوں نے دار الخلافہ مدینہ سے عراق منتقل کر دیا – وہاں وہ مصریوں ، کوفیوں ، یمنیوں میں گھر گئے – چند اہل بیت مثلا ابن عباس ، قثم بن عباس وغیرہ ان کے ساتھ ہوئے – چند دن بعد کوفہ میں ان کے خالص ہمدردوں کا ایک گروہ اس بات پر ان کی خلافت سے خروج کرگیا کہ انہوں نے معاویہ سے صلح کیوں کر لی ؟

خوارج نے کوفہ کے مضافات میں لوٹ مار شروع کر دی اور اپنا ایک لیڈر نامزد کر دیا – علی نے ان سے قتال کیا اور یہ بھاگ کھڑے ہوئے، معدوم نہ ہوئے – اسی دوران لشکر معاویہ نے مصر پر حملہ کیا اور قاتلین عثمان میں سے محمد بن ابی بکر، عبد الرحمان وغیرہ کا قتل کر دیا اور مصر پر قبضہ کر لیا – خوارج نے گوریلا وار شروع کی اور ایک حملہ میں علی پر وار کیا جو ان کی شہادت کی وجہ بنا –
علی کی شخصیت پر لوگ بٹ گئے – ایک فرقہ اہل سنت کا بنا ، ایک شیعہ کہلایا ، ایک خارجی کہلایا ، ایک باطنی کہلایا ، ایک سبائی کہلایا ، اس طرح بہت سے غالی فرقے نکلے یہاں تک کہ علی ، بشر سے رب بن بنا دیے گئے – اس کتاب میں علی کی سیاسی زندگی پر بحث کی گئی ہے – ان سے متعلق غالی روایات پر بحث راقم کی کتاب الغلو فی علی میں ہے

ابو شہر یار
٢٠٢٠

امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

خلافت عثمانی کا آغاز 6
ابو لؤلؤة کی بیٹی کا قصاص 9
جمع القران پر بحث 12
دور نبوی میں جمع القرآن 16
صحابہ کی متن قرآن میں درج کردہ تشریحات 19
عبد الله ابن مسعود کا اختلاف 22
جمع القران میں عربی کی غلطیاں ہوئیں ؟ 27
بعض آیات غائب ہو گئیں ؟ 29
مصری ابْنِ لَهِيعَةَ قرآن پر روایات 31
اہل تشیع کی آراء 36
عثمان نے دو سورتوں کو نکال دیا 36
عثمان نے دو دعا وں کو سورتیں بنا دیا 41
منسوخ آیات بھی لکھ دیں کیا ؟ 44
غیر محتاط محدثین کی وجہ سے پیدا ہونے والے مغالطے 45
البراء بن عازب رضی الله عنہ کی قرات کا اختلاف 45
ابو سعید الخدری، ابو ہریرہ کی قرات میں الله الواحد الصمد؟ 47
ابو ہریرہ کی قرات 49
سوره اللیل کی قرات 50
اہل تشیع کی رائے 52
بدلتی قبائلی عصبیت 54
گورنر کا شراب پینا 62
فقہی اختلافات 71
حج میں اختلاف 71
عثمان بدعتی ہے 75
بدعات عثمانی ؟ 78
عید کا خطبہ نماز سے پہلے کرنا 78
جمعہ کی دو اذان کرنا 86
انتظامی معاملات میں عثمان پر تنقید 89
زکواه کی تقسیم 89
گوورنروں کا نماز میں تاخیر کرنا 91
زہد ابو ذر الغفاری کا سونا رکھنے پر اعتراض 94
اسامہ بن زید رضی الله عنہ نے عثمان کو ان کی پالیسییوں پر سمجھایا 103
حذیفہ بن یمان کی عثمان نے خبر لی 108
⇑ حذیفہ نے عثمان کی اینٹیلجنس کو چغل خور قرار دیا ؟ 109
جمع القرآن میں تصرف کا شوشہ 110
قریشی لے پالکوں کا فتنہ 114
کھلی بغاوت 117
مصری پروپیگنڈا : عثمان حدیث چھپاتا ہے 117
زید بن خارجہ نے مرنے کے بعد مستقبل کی خبر دی ؟ 122
مسجد النبی میں فساد 134
الدار پر ہونے والے واقعات 137
مسجد النبی پر باغیوں کا کنٹرول 147
سانحہ مدینہ 150
شہادت کے بعد 154
تدفین پر روایات 157
شیعہ محدثین کا عثمان پر الزام 163

————-

ثریا کا طلوع ہونا

صحیح بخاری ٢١٩٣ میں ہے

باب: پھلوں کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے ان کو بیچنا منع ہے حدیث نمبر: 2193
قَالَ اللَّيْثُ:‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ
أَبِي حَثْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ مِنْ بَنِي حَارِثَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْمُبْتَاعُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ، ‏‏‏‏‏‏أَصَابَهُ مُرَاضٌ، ‏‏‏‏‏‏أَصَابَهُ قُشَامٌ عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِمَّا لَا فَلَا تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرِ كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ”، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ:‏‏‏‏ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا فَيَتَبَيَّنَ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَكَّامٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَنْ زَكَرِيَّاءَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدٍ.

لیث بن سعد نے ابوزناد عبداللہ بن ذکوان سے نقل کیا کہ عروہ بن زبیر، بنوحارثہ کے سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے اور وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ پھلوں کی خرید و فروخت (درختوں پر پکنے سے پہلے) کرتے تھے۔ پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا، اور مالک (قیمت کا) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی اس کا گابھا خراب اور کالا ہو گیا، اس کو بیماری ہو گئی، یہ تو ٹھٹھر گیا پھل بہت ہی کم آئے۔ اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کر کے مالکوں سے جھگڑتے (تاکہ قیمت میں کمی کرا لیں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے مقدمات بکثرت آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہو سکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچا کرو۔ گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور مشورہ فرمایا تھا۔ خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے باغ کے پھل اس وقت تک نہیں بیچتے جب تک ثریا نہ طلوع ہو جاتا اور زردی اور سرخی ظاہر نہ ہو جاتی۔

ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ اس کی روایت علی بن بحر نے بھی کی ہے کہ ہم سے حکام بن سلم نے بیان کیا، ان سے عنبسہ نے بیان کیا، ان سے زکریا نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے سہل بن سعد نے اور ان سے زید بن ثابت نے۔
——

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سُرَاقَةَ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ، فَقَالَ: ” نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَذْهَبَ الْعَاهَةُ ” قُلْتُ: وَمَتَى ذَاكَ؟ قَالَ: حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا

عثمان بن عبداللہ بن سراقہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پھلوں کی خرید و فروخت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھلوں کی خرید و فروخت سے منع فرمایا جب تک کہ الْعَاهَةُ ختم نہ ہو جائے، میں نے کہا : یہ کب ممکن ہے؟ فرمایا : یہاں تک کے “ثریا” ستارہ طلوع ہو جائے –

الْعَاهَةُ کا مطلب ہے کہ جب تک نورمل صورت حال نہ ہو جائے یعنی موسم میں سخت تبدیلی یا قدرتی بیماری جو پھلوں کو – وختم نہ ہو  جائے
الْعَاهَةُ سے مراد انسانی وبائی امراض نہیں ہیں
بلکہ دور نبوی میں عرب میں کوئی وبا نہیں پھیلی لہذا حدیث کا ترجمہ میں الْعَاهَةُ کو انسانی وبائی مرض قرار دینا غلط سلط ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: «إِنَّ الْعَاهَةَ تَكُونُ بَعْدَ طُلُوعِ الثُّرَيَّا»
زہری نے کہا ہم نے سالم بن عبد اللہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ثریا نکلنے کے بعد (بھی) الْعَاهَةُ ہو سکتا ہے

ثریا سے مراد
Pleiades
کا آسمان میں ظاہر ہونا ہے جو ہر سال ہوتا ہے اور عرب کسانوں میں یہ محض علامت تھی کہ اس کے بعد درجہ حرارت بدلتا ہے اور پھل پک جاتا ہے

اثار ابو یوسف میں ہے

قال: حدثنا يوسف عن أبيه عن أبي حنيفة، عن عطاء بن أبي رباح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: «إذا طلع النجم رفعت العاهة عن أهل كل بلد
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب تارہ طلوع ہو گا العاهة ہر شہر سے نکل جائے گا

یہ ہر سال ہوتا ہے اس کا کرونا وائرس سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن کیا انسانی وبائیں نزلہ کھانسی زکام ڈینگی وغیرہ ثریا نکلنے سے  ختم ہو جاتا ہے ؟ جواب نفی میں ہے کیونکہ العاهة کا تعلق پھولوں سبزیوں سے ہے انسانوں سے نہیں

اس ویڈیو میں اچھا سمجھایا ہے کہ طلوع ثریا مشرق میں اذان فجر کے بعد ہوتا ہے ہر سال میں

ثریا

constellation Taurus
میں ہے اور مجھے بھی یہی ملا ہے کہ دسمبر ٢٠١٩ میں ثریا کا طلوع ہو چکا ہے

عرب  میں سردیوں  میں بارش ہوتی ہے اور ثریا سے انداز لگایا جاتا تھا کہ اب بارش ہو گی اس لئے اس کا ذکر شاعر کرتے تھے

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

ام المومنین کا نکاح 7
اسماء بنت ابی بکر کی عمر کا ذکر 10
ابن الدغنہ کے واقعہ کی چشم دید گواہ 11
طلحہ رضی اللہ عنہ شادی کے متمنی ؟ 13
ام المومنین کا نکاح پہلے ہوا تھا ؟ 15
ام المومنین کا بلوغت پر قول 16
جنگ بدر کے واقعہ سے دلیل 19
حدیث اسامہ سے دلیل 20
احادیث میں ہشام بن عروہ کا تفرد ہے ؟ 21
غیر موجودگی والی روایات 24
واقعہ افک 26
تمنا عمادی کے اعتراضات 31
اہل تشیع کا موقف 36
واقعہ افک پر خوارج کی آراء 38
حمنہ بنت جحش کا کردار 39
ام المومنین کی عظمت و برکت 44
ازواج النبی سے سے تعلقات 49
نبی کا شہد حرام کرنا 51
وفات النبی اور عائشہ رضی اللہ عنہا 65
قرآن کے ساتھ حادثہ 68
حجرہ میں تین چاند گرنے والا خواب 78
وفات النبی کی وجہ زہر ؟ 83
وفات ابو بکر رضی اللہ عنہ 85
مقتل عثمان اور جنگ جمل 87
لن يفلح قوم ولواأمرهم إمرأة 103
حواب کے کتے بھونکیں گے 107
پہلی روایت 108
دوسری روایت 114
تیسری روایت 116
چوتھی روایت 119
پانچویں روایت 120
پانچویں صدی سے قبل اس روایت کی کوئی حیثیت نہیں تھی 123
حواب بنی عامر کا تالاب نہیں تھا 125
لشکر عائشہ بصرہ پہنچنے پر 128
لشکر علی کی ساخت 129
قصاص کا مطالبہ 143
المصنف ابن ابی شیبه کی روایات 145
عائشہ (رض) کی سواری کو قتل کر دیا گیا 169
حالت افسوس کے فرضی قصے 174
امیر المومنین کو قتل کی دھمکی 177
وفات ام المومنین 179
اہل شام کا ام المومنین پر تنقید کرنا ؟ 181
اعتقادی مباحث 183
لا النبی بعدی کا مطلب 183
معراج ایک خواب تھا ؟ 186
میت پر اس کے اہل کا رونا 188
قلیب بدر پر موقف 199
کیا اللہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ؟ 201
سماع الموتی پر موقف 215
عذاب قبر کی روایات 221
وفات شدہ لوگوں سے پردہ کرنا 230
معراج پر دیدار الہی کے حوالے سے موقف 245
فقہی مباحث 248
نامحرم کو دودھ پلانا 248
غلام سے پردہ نہ کرنا 257
غسل کے حوالے سے روایت 259
قول نبوی پر تبصرہ کیا ؟ 261
حالت حیض کے حوالے سے 262

امہات المومنین کی حیات مسلمان عورتوں کے لئے مشعل راہ ہے – عائشہ رضی اللہ عنہا کی سیرت اور ان کے اعتقاد و فقہ سے متعلق مباحث کو جمع کیا گیا ہے – امہات المومنین کا درجہ تمام مومنوں کے لئے ماں والا ہے بلکہ حقیقت میں ایک ماں سے بڑھ کر ہے کیونکہ ایک ماں کا شوہر باپ ہوتا ہے لیکن ام المومنین کے شوہر اس امت کے نبی ہیں –
راقم نے اس کتاب کی ضرورت محسوس کی جب دیکھا کہ اہل سنت میں سے بعض رافضی پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے ہیں اور کھل کر ام المومنین پر تنقید کر رہے ہیں –ان کو لگتا ہے کہ جنگ جمل و صفین ابھی بھی جاری ہے جبکہ ڈیڑھ ہزار سال قبل صرف دو دن میں یہ جنگیں ختم ہو گئیں تھیں – منحوس لوگوں نے ان جنگوں سے متعلق جھوٹ گھڑا ، محدثین نے جمع کیا ، متاخرین نے سر کا تاج بنا دیا – افسوس جہلاء خود اب حواب کے کتوں کی طرح بھونک رہے ہیں –
عائشہ رضی اللہ عنہا فقہائے مدینہ کی استاد ہیں اور اعتقادی مسائل میں ان کی حکمت مومنوں کے لئے مشعل راہ ہے – آپ کی ہی عظمت ہے کہ سماع الموتی کا رد کرنے والوں کو ہمت ملی ہے – قبر پرستی کے خلاف آواز بلند ہوئی ہے
یہ ام المومنین کا ہی فیض ہے کہ مومن عورتوں کو معلوم ہوا کہ وہ جنگ میں شرکت بھی کر سکتی ہیں ورنہ اس سے قبل اسلام میں اس کی مثال نہیں تھی – یہ ان کی برکت ہے کہ پانی نہ ملے تو تیمم کیا جا سکتا ہے – یہ ان کی شان ہے کہ قرآن میں ان کو معصوم ، رجس سے پاک قرار دیا گیا ہے
ابو شہر یار
٢٠٢٠

 

معاویہ رضی اللہ عنہ پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

پیش لفظ 5
ابو سفیان سے رشتہ داری 7
اللہ معاویہ کا پیٹ نہ بھرے 9
اللہ معاویہ کو علم دے 13
جنگ صفین کا حادثہ 15
شام اور قصاص عثمان 40
عائشہ رضی اللہ عنہا کی معاویہ پر رائے 47
معاویہ نے خلیفہ بن کر قصاص کیوں نہ لیا ؟ 49
کعب احبار کو خبر کہ معاویہ خلیفہ ہوں گے 50
معاویہ پہلا بادشاہ ہے 52
معاویہ ١٢ خلفاء میں سے ہیں 68
معاویہ ملک عضوض کے حاکم تھے 69
معاویہ متعہ کے فاعل تھے ؟ 75
نماز وتر کا ایک قصہ 79
معاویہ اور منبر النبی کی منتقلی کا قصہ 83
معاویہ کو منبر پر ہی قتل کر دو 86
معاویہ نے حسن کو زہر دلوایا؟ 87
معاویہ کا جشن منانا 94
معاویہ اور حجر کا قتل 102
معاویہ کی مشہور بدعات 107
عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے ؟ 107
نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں ؟ 118
حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا ؟ 121
علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا ؟ 123
زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا ؟ 148
ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا ؟ 154
معاویہ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے ؟ 157
مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا ؟ 158
معاویہ کے خلاف خفیہ پروپیگنڈا 167
معاویہ رضی الله عنہ کی وفات 174
محدثین کا معاویہ پر تنقید کرنا 175
شارحین حدیث کا معاویہ پر تنقید کرنا 180
مورخین کا معاویہ پر لعنت کرنا 184
مودودی کا نظریہ ملوکیت معاویہ 187
مودودی کا اظہار رائے پر تصور 188
مودودی کا دولت ثروت پر پابندی کا غیر اسلامی تصور 189
مودودی کا تقرر امراء کا فرضی تصور 190
خلافت کا حصول وہبی ہے یا عصبیت سے ممکن ہے ؟ 192
خلیفہ پر اولاد کی تقرری کی پابندی 196
مودودی اور معاویہ کی سیاست 196
دور معاویہ اور قانون کی بالا دستی پر شک 199
معاویہ اور بیت المال میں تصرف 201
زیاد ابن سمیہ کا ذکر 204

============

پیش لفظ

امیر المومنین معاویہ    رضی اللہ عنہ   ،  صحابی  رسول   مسلمانوں  کے چھٹے    خلیفہ ہیں –   رشتہ  میں   معاویہ   ،   رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی  ہیں  کیونکہ یہ   ام  المومنین  ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں – معاویہ   کو   کاتب النبی  ہونے کا شرف ملا[1]    اور    قریش  کی  ایک نمایاں  شخصیت  تھے   –      معاویہ   اہل سنت کے امام ہیں   اور بقول ابن عباس  رضی اللہ عنہ   معاویہ  فقیہ  ہیں –

اس  امت  میں  اگر کسی پر تنقید ہوئی ہے  تو ان میں سب سے  بڑھ  کر  معاویہ رضی اللہ عنہ  پر ہوئی ہے  لیکن  افسوس ناقدین  ان  کے قدم کی خاک  تک نہیں –     معاویہ  بہت مدبر  و زیرک  انسان تھے   اور   اتنے ہی بردبار بھی –    شیعی  و رافضی  منہج  والے راوة   نے   معاویہ کو  ساری زندگی تختہ مشق بنائے رکھا – طرح طرح کی  روایات    معاویہ   رضی اللہ عنہ    کے حوالے سے گھڑی  گئیں – افسوس  محدثین میں سے   بعض  نے ان   روایات کو  صحیح بھی مان  لیا  –   رہی سہی   کسر  شارحین   نے  پوری کی جن   میں سے کچھ  نے     خوف  اللہ سے عاری ہو کر   منہ کھولا  اور جہنمی سمیٹ لی –

 راقم کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ  روایت  و راوی   پر  جرح   کو ظاہر    کیا جائے کہ  متقدمین محدثین نے کیا کہا تھا    جس کو چھپا کر       لوگوں نے   بغض  معاویہ سے متعلق روایات کو صحیح قرار دیا ہے –  کتاب  میں صرف  اہل سنت کے مصادر کو  دیکھا گیا ہے   –

و  ما علینا  الا  لبلاغ

ابو شہر یار

٢٠٢٠

[1]

الذھبی سیر میں لکھتے ہیں

ونقل المفضل الغلابي عن أبي الحسن الکوفي قال کان زيد بن ثابت کاتب الوحي وکان معاوية کاتبا فيما بين النبي وبين العرب ۔عمرو بن مرة عن عبد الله بن الحارث عن زهير بن الأقمر عن عبد الله بن عمرو قال کان معاوية يکتب لرسول الله۔

ابن عبد البر نے الاستیعاب میں،ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، ابن قیم نے زاد المعاد میں،ابن الاثیر نے اسد الغابہ میں،سيوطی نے تاریخ الخلفاء میں،ابن کثیر نے الفصول اور البدایہ والنھایہ میں یہ بات بيان کی ہے کہ  امیر معاویہ کاتبين وحی میں سے تھے۔

علی پر غلو

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

پیش لفظ 4
علی کعبه اور زحل 6
روح علی کی کعبہ میں آمد 13
علی غیب جانتے ہیں 27
علی ، شہر علم کا دروازہ ہیں 40
علی سب سے پہلے ایمان لائے 43
علی نے سب سے پہلے نماز پڑھی 44
علی ،ذو القرنین ہیں 51
تو ، تو ہی ہے 53
علی اب بادلوں میں ہیں 62
جنگ خیبر کے حوالے سے 77
علی، عیسیٰ کی مانند ہیں 81
علی سے اختلاف کرنا علامت نفاق ہے؟ 87
علی، الیاس کی مانند ہیں 92
علی، ہارون کی مانند ہیں 96
علی ، آصف کی مانند ہیں 98
حدیث منزلتین 108
علی پر دوسرے نکاح کی پابندی 114
من كنت مولاه فعلي مولاه 122
علی قتال کریں گے کی خبر دی گئی تھی 128
علی سید العرب تھے 132
أشهد أن عليا ولي الله 134
علی معراج کا راز تھے 144
علی تمام صحابہ سے افضل ہیں 151
علی بطور قاضی 162
علی کا خفیہ علم 165
علی تاویل قرآن پر جنگ کریں گے ؟ 177
علی ، وصی ہیں 183
علی خوارج کو بد دعائیں دیتے تھے ؟ 184
علی کو اپنی شہادت کی خبر تھی 190
کتاب نہج البلا غہ اہل سنت کی نظر میں 196
فَلْيَشْهَدِ الثقلانِ أني رافضي 200
نسائی اور خصائص علی 207

————————————————————-
بسم اللہ الرحمان الرحیم

علی  رضی اللہ عنہ   ،  صحابی  رسول   ہیں –   رشتہ  میں   علی  ،   رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم کے   چچا زاد  بھائی   تھے  اور   ان کے  داماد بھی   تھے –   علی   اس طرح اہل بیت النبی کی ایک نمایاں  شخصیت  تھے  اور   مسلمانوں  کے چوتھے  خلیفہ ہیں –      علی   کے دور   میں البتہ  ان کے   گرد  بہت سے لوگ جمع ہوئے     ان میں سے بعض   ان کو الوہی  صفات  سے متصف  سمجھنے  لگے تھے – بعض   ان کی شہادت  کے انکاری تھے  کہ علی   وفات ہی نہیں پا سکتے بلکہ بادلوں میں بسیرا   کرتے ہیں –  بعض   اس کے قائل    تھے  کہ  علی  کا مرتبہ    انبیاء   جیسا    بلند ہے –  ان میں سے بعض  نظریات ابھی تک    شیعہ و روافض   میں موجود  ہیں –

دور  صحابہ    میں    علی    کے لشکریوں  کو شیعان   علی  کہا  جاتا تھا    جو مختلف الخیال   لوگوں  کا ایک  مجموعہ  تھا –   وقت کے ساتھ لفظ شیعہ   صرف   اہل بیت  کے سیاسی ہمدردوں   کے لئے خاص ہو گیا   – باقی   مسلمانوں نے   اہل سنت   کا لقب پسند کیا –    تاریخ ابن خلدون  کے مطابق    سن  ١٢٨ ھ   سے پہلے  کسی موقعہ  پر   علی  کے  پڑ  پوتے  امام    زید بن علی  بن  حسین بن علی    کا    بعض    شیعوں  (جو امام جعفر کے ساتھ تھے )  سے جھگڑا ہوا  اور انہوں نے پہلی بار ان لوگوں کو   رفضونی   کہہ کر پکارا   یعنی مجھ کو چھوڑنے  والے –   اس طرح شیعوں    کے   لیے  ایک نئی اصطلاح     رافضی  بھی اہل سنت  میں مشہور ہو   گئی  – سن ١٠٠ ہجری  کے آس پاس  محدثین نے  یغلو  فی التشیع    کے الفاظ   جرح  میں استعمال   کرنا شروع کیے   کہ یہ  شخص    تشیع     میں غلو  کرتا ہے – عربی  میں غالی  کا مطلب  شدید عشق ہونا  بھی ہے  اور یہ لفظ   آج بھی  عربی  گانوں میں استعمال ہوتا ہے –   محدثین نے   ان شیعوں  پر    غالی    کا اطلا ق  کیا     جو  علی    کو شیخین   ابو بکر و عمر  سے افضل بنا رہے ہوں –         محدثین  میں  بعض   شیعہ  غالی  بھی   موجود تھے  مثلا      علی  بن جعد ،  عدی بن ثابت  وغیرہ   -یہ   شیعہ    محدثین     اہل سنت  میں بھی مقبول  تھے  یہاں تک کہ  بعض شیعہ مساجد کے ذاکر  تھے  –  اسی طرح بعض  غالی نہیں تھے  لیکن   شیعہ   تھے – ان کی  شیعی  روایات  محدثین  چھان   پھٹک   کر  لیتے تھے مثلا اعمش  وغیرہ – بعض   اختلاط   کا شکار  ہو کر شیعی   روایات بیان کر رہے تھے مثلا امام   عبد الرزاق –      امام   بخاری   و مسلم  نے بھی   ان  لوگوں سے  حدیث روایت کی ہے – روافض  راوی     بہت تھے  اور ان میں وضاع  (حدیث گھڑنے  والے )  بھی  تھے-  اس طرح   علی  کے حوالے سے   شام  و عراق   میں غلو  بہت   بڑھا  ہوا  تھا  –

علی   کو  برا کہنے والے   اہل سنت  کو سن ٢٠٠  ھ   کے آس پاس  ناصبی  کہا  جاتا تھا  –     کچھ  محدثین نصب  کا شکار  تھے  لیکن ان کی خوبی یہ تھی کہ روایات نہیں گھڑتے  تھے –  نصب   ان  راویوں  میں   در  کر آیا   تھا  جن  کے رشتہ دار    جنگ جمل  و صفین   میں قتل ہوئے تھے  لیکن ان   راویوں   کی تعداد    البتہ  آٹے  میں نمک برابر  ہے –     کتب اہل سنت   میں  ایسی کوئی  روایت نہیں  جس    کو نصب  یا تنقیص  علی   پر محمول  کیا جا سکے  البتہ   بعض ایسی ضرور ہیں  جو  علی کے حوالے سے غلو پر منبی ہیں –  اس  سے اندازہ ہوتا ہے  کہ   کس قسم کے راویوں کی تعداد زیادہ تھی –

اس کتاب میں  علی  رضی اللہ عنہ سے متعلق  ان روایات  کا ذکر ہے جو    آجکل      یو ٹیوب پر   اکثر  سننے کو مل رہی ہیں    اور ان  پر   تحقیق  پیش کی گئی ہے-    کتاب پڑھ  کر آپ کو  اندازہ ہو جائے گا کہ   علی   کی شخصیت  پر   اس قدر جھوٹ بولا گیا ہے-

ابو شہریار

٢٠٢٠

حوران بہشت کی غیب دانی

صحيح ابن ماجہ 2014 اور ترمذي 1174 میں ہے

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الحَضْرَمِيِّ، عَنْ [ص:469] مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا فِي الدُّنْيَا، إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُهُ مِنَ الحُورِ العِينِ: لَا تُؤْذِيهِ، قَاتَلَكِ اللَّهُ، فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكَ دَخِيلٌ يُوشِكُ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا “: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ»، «وَرِوَايَةُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنِ الشَّامِيِّينَ أَصْلَحُ، وَلَهُ عَنْ أَهْلِ الحِجَازِ وَأَهْلِ العِرَاقِ مَنَاكِيرُ

مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئي عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ايذا پہنچاتي ہے تو بڑی آنکھوں والی حوروں ميں سے اس کی بیوی اس پر کہتی ہے کہ اللہ کی مار تجھ پر (یعنی دنیاوی بیوی پر )، اس کو تنگ مت کر یہ تو ویسے بھی تیرے پاس بس مسافر ہے، قریب ہے کہ یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آ جائے

امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے اس کو إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ نے روایت کیا جس کی شامیوں سے روایت اصلح ہے اور اہل حجاز اور اہل عراق سے اس کی منکر روایات ہیں

امام بخاری کا قول ہے
قال البخاري إذا حدث عن الشاميين فصحيح
جب یہ شامیوں سے روایت کرے تو حدیث صحیح ہے

راقم کہتا ہے کہ ترمذی و بخاری کے قول کے تحت یہاں سند میں إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ نے اس کو حمص شام کے بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ سے روایت کیا ہے لہذا اس روایت کا درجہ اصلح یا صحیح کا ہوا – اس روایت کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے -شعيب الأرنؤوط نے حسن قرار دیا ہے اور امام الذھبی نے صحیح قرار دیا ہے

راقم کہتا ہے متن منکر ہے – حور کو کیا علم الغیب ہے ؟ کیا وہ جنت سے اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھ رہی ہے یا اس پر عرض عمل ہو رہا ہے ؟ اس روایت کی نکارت پر حیرت ہے کہ کسی شارح یا محدث نے کلام نہیں کیا

إسماعيل بن عياش حمص کا رہنے والا ہے اور یہ مختلط بھی ہوا تھا لہذا یہاں اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ اس راوی کی وہ روایات جو اہل شام سے ہیں ان میں بھی مسائل ہیں اس کا دور اختلاط شروع ہو چکا تھا

شب برات پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

 

امام مہدی غائب ، امام ترمذی ، امام ابن ماجہ ، امام احمد  وغیرہ کی پیدائش سے سو سال پہلے سے  شب برات کی اہمیت کی روایات  اس امت میں موجود تھیں  جو ظاہر  کرتا ہے کہ اس رات کا امام مہدی سے کوئی تعلق نہیں ہے – تفصیل اس کتاب میں ہے

قاب قوسین

سورہ النجم میں ہے

غالی بریلوی  ترجمہ

https://www.minhajsisters.com/urdu/tid/37060/واقعہ-معراج-النبی-صلیٰ-اللہ-علیہ-وآلہ-وسلم-قرآن-و-حدیث-اور-سیرت-کی-روشنی-میں/

 

ترجمہ صحیح آیت آیت نمبر
یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى ٤
بڑے طاقتور   نے اسے سکھایا ہے عَلَّمَهٝ شَدِيْدُ الْقُوٰى ٥
پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔ جو بڑا زور آور ہے پس وہ قائم ہوا ذُوْ مِرَّةٍ فَاسْتَوٰى ٦
اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے) اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھا وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى ٧
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر نزدیک ہوا پھر معلق ہوا۔ ثُـمَّ دَنَا فَتَدَلّـٰى ٨
پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا) پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ٩
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی پھر اس نے اللہ کے بندے کے دل میں القا کیا جو کچھ القا کیا دل نے۔ فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى ١٠
 جو دیکھا تھا اس کو  جھوٹ دل نے نہ کیا ۔ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى ١١
پھر جو کچھ اس نے دیکھا تم اس میں جھگڑتے ہو۔ اَفَتُمَارُوْنَهٝ عَلٰى مَا يَرٰى ١٢
اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔ وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَـةً اُخْرٰى ١٣
سدرۃ المنتہٰی کے پاس۔ عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى ١٤
جس کے پاس جنت الماوٰی ہے۔ عِنْدَهَا جَنَّـةُ الْمَاْوٰى ١٥

سورہ تکویر میں ہے

اِنَّهٝ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ (19)
بے شک یہ قرآن ایک معزز رسول کا لایا ہوا ہے۔
ذِىْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِى الْعَرْشِ مَكِيْنٍ (20)
جو بڑا طاقتور ہے عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے۔
مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ (21)
وہاں کا سردار امانت دار ہے۔
وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُـوْنٍ (22)
اور تمہارا رفیق (رسول) کوئی دیوانہ نہیں ہے۔
وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ (23)
اور اس نے اس (فرشتہ) کو (آسمان کے) کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔

معلوم ہوا کہ جبریل کو دو بار دیکھا ایک افق مبین پر پھر دوسری بار سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى پر جس کا ذکر سورہ نجم میں کیا گیا کہ اس نے اسی ذات کو دو بار دیکھا ہے

امام بخاری کا موقف

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ ابْنِ الأَشْوَعِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَأَيْنَ قَوْلُهُ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} [النجم: 9] قَالَتْ: «ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ [ص:116] الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ المَرَّةَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الأُفُقَ

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، {لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الكُبْرَى} [النجم: 18] قَالَ: «رَأَى رَفْرَفًا أَخْضَرَ قَدْ سَدَّ الأُفُقَ»

امام بخاری نے ابن مسعود اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا قول بیان کیا کہ  قاب قوسین میں ذکر جبریل علیہ السلام  کا ہے  لیکن صحیح بخاری  کے آخر میں کتاب التوحید میں امام بخاری نے شریک بن عبد الله کی سند سے روایت لا کر اپنا ایک اور  موقف بتایا ہے کہ  سورہ نجم کی آیات میں قاب قوسین  میں  قریب آنے سے مراد الله تعالی کا ذکر ہے

، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، ‏‏‏‏‏‏وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَدَلَّى، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ

۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی

البانی کا قول  ہے

لكن هذه الجملة من جملة ما أُنكر على شريك هذا مما تفرد به عن جماهير الثقات الذين رووا حديث المعراج، ولم ينسبوا الدنو والتدلي لله تبارك وتعالى

لیکن یہ وہ جملہ ہے جس کی وجہ سے شریک کی حدیث کا انکار کیا جاتا ہے کہ جمہور ثقات کے مقابلے میں شریک کا اس حدیث معراج میں  تفرد ہے اور دنو (نیچے انے )  اور تدلی (معلق ہونے ) کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جاتی

اغلبا امام  بخاری کا مقصد ہے کہ اللہ تعالی خواب میں  قریب آئے اور جبریل حقیقت میں  قریب آئے پھر  الوحی کی اگرچہ اللہ کو دیکھا نہیں  کیونکہ الصحیح  میں دوسرے مقام پر عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی حدیث نقل کی ہے کہ  اللہ تعالی کو نہیں دیکھا بلکہ جبریل کو دیکھا – و اللہ اعلم

راقم کے نزدیک یہ امام بخاری کی غلطی ہے شریک کی روایت صحیح نہیں منکر و منفرد  ہے

امام مسلم کا موقف

امام مسلم کا موقف  ہے کہ قاب قوسین سے مراد  جبریل کا اصلی شکل میں  قریب آنا ہے زمین میں افق پر اور پھر سدرہ المنتہی کے پاس

وَحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنِ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: فَأَيْنَ قَوْلُهُ؟ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى} [النجم: 9] قَالَتْ: ” إِنَّمَا ذَاكَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ الرِّجَالِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ فِي هَذِهِ الْمَرَّةِ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ أُفُقَ السَّمَاءِ

اہل تشیع کی شروحات

اہل تشیع کے قدماء کے  مطابق قاب قوسین سے مراد حجاب عظمت کے نور کا قریب آنا ہے – الکافی از کلینی میں ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن القاسم بن محمد الجوهري، عن علي بن أبي حمزة قال: سأل أبوبصير أبا عبدالله عليه السلام وأنا حاضر فقال: جعلت فداك كم عرج برسول الله صلى الله عليه وآله؟ فقال: مرتين فأوقفه جبرئيل موقفا فقال له: مكانك يا محمد فلقد وقفت موقفا ما وقفه ملك قط ولا نبي، إن ربك يصلي فقال: يا جبرئيل وكيف يصلي؟ قال: يقول: سبوح قدوس أنا رب الملائكة و الروح، سبقت رحمتي غضبي، فقال: اللهم عفوك عفوك، قال: وكان كما قال الله ” قاب قوسين أو أدنى “، فقال له أبوبصير: جعلت فداك ما قاب قوسين أو أدنى؟ قال: ما بين سيتها(1) إلى رأسها فقال: كان بينهما حجاب يتلالا يخفق(2) ولا أعلمه إلا وقد قال: زبرجد، فنظر في مثل سم الابرة(3) إلى ما شاء الله من نور العظمة، فقال الله تبارك وتعالى: يا محمد، قال: لبيك ربي قال: من لامتك من بعدك؟ قال: الله أعلم قال: علي بن أبي طالب أمير المؤمنين وسيد المسلمين وقائد الغر المحجلين(4) قال ثم قال أبوعبدالله لابي بصير: يا أبا محمد والله ما جاء ت ولاية علي عليه السلام من الارض ولكن جاء ت من السماء مشافهة.

أبوبصير نے امام جعفر سے سوال کیا اور میں علی بن ابی حمزہ سن رہا تھا کہ رسول الله  صلى الله عليه وآله کو کتنی بار معراج ہوئی؟ فرمایا دو بار[1] جن میں جبریل نے ان کو روکا اور کہا یہ مکان ہے اے محمد اس مقام پر رکیں یہاں اس سے قبل کوئی نبی اور فرشتہ نہیں رکا ہے اپ کا رب نماز پڑھ رہا ہے تو  رسول الله  صلى الله عليه وآله نے جبریل سے پوچھا کیسے نماز پڑھ رہا ہے ؟ جبریل نے کہا وہ کہتا ہے میں پاک ہوں قدوس ہوں میں فرشتوں اور الروح کا رب ہوں میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی – پس رسول الله  صلى الله عليه وآله نے کہا اے الله  میں اپ کی مغفرت چاہتا ہوں – (امام جعفر  نے) کہا : پھر جیسا الله نے ذکر کیا ہے دو کمانوں جتنا یا اس سے بھی کم- ابو بصیر نے کہا : میں اپنے اپ کو اپ پر قربان کروں! یہ دو کمانوں جتنا یا اس سے بھی کم کیا ہے ؟ فرمایا یہ ان کے “سيت” اور سر کے درمیان تھا اور کہا ایک حجاب تھا جو ہل رہا تھا اور میں اس سے زیادہ نہیں جانتا یہ  زبرجد کا تھا پس انہوں (رسول الله  صلى الله عليه وآله) نے سوئی کی نوک جتنا سے لے کر جو الله نے چاہا اتنا نور عظمت دیکھا  – پس الله تبارک و تعالی نے فرمایا : اے محمد – رسول الله  صلى الله عليه وآله نے کہا لبیک میرے رب – اللہ تعالی نے کہا تیرے بعد تیری  امت میں کون ہے ؟ رسول الله  صلى الله عليه وآله نے کہا علي بن أبي طالب أمير المؤمنين وسيد المسلمين وقائد الغر المحجلين – پھر امام جعفر نے کہا علی کی ولایت زمین میں نہیں بلکہ آسمان میں صاف الفاظ میں آئی 

لسان العرب از ابن منظور میں ہے  وطاقُ الْقَوْسِ: سِيَتُها    کمان کی محراب کو سیت کہتے ہیں  –

كتاب العين از أبو عبد الرحمن الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) میں ہے

 ويَدُ القَوْسِ: سِيَتُها کمان پکڑنے کا دستہ

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کمان اس کی “سیت”   پکڑے ہوتے اور اس کو آسمان یا عالم بالا کی طرف کیا ہوتا تو حجاب  “سیت” سے بھی نیچے آ گیا تھا اور اس میں سے نور عظمت دیکھا

بحار الأنوار از  ملا باقر مجلسی میں ہے

محمد بن العباس، عن أحمد بن محمد النوفلي، عن أحمد بن هلال، عن ابن محبوب، عن ابن بكير، عن حمران قال: سألت أبا جعفر (عليه السلام) عن قول الله عزوجل في كتابه: ” ثم دنافتدلى * فكان قاب قوسين أو أدنى ” فقال: أدنى الله محمدا منه، فلم يكن بينه وبينه إلا قنص لؤلؤ فيه فراش (3)، يتلالا فاري صورة، فقيل له: يا محمد أتعرف هذه  الصورة ؟ فقال: نعم هذه صورة علي بن أبي طالب، فأوحى الله إليه أن زوجة فاطمة واتخذه وصيا

امام جعفر نے کہا جب الله تعالی اور رسول الله کے درمیان دو کمان سے بھی کم رہ گیا تو ان کو صورتیں دکھائی گئیں  اور پوچھا کیا ان کو پہچانتے ہو ؟ فرمایا ہاں یہ علی کی صورت ہے  پھر الوحی کی کہ ان کی بیوی فاطمہ ہوں گی اور علی کی وصیت کرنا

تفسیر فرات میں ہے

فرات قال: حدثنا جعفر بن أحمد معنعنا [ عن عباد بن صهيب عن جعفر بن محمد عن أبيه ] عن علي بن الحسين: عن فاطمة [ بنت محمد.أ، ب.عليهم السلام.ر ] قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: لما عرج بي إلى السماء فصرت إلى سدرة المنتهى (فكان قاب قوسين أو أدنى) فرأيته بقلبي ولم أره بعيني، سمعت الاذان قالوا: شهدنا وأقررنا، قال: واشهدوا يا ملائكتي وسكان سماواتي وأرضي وحملة عرشي بأن عليا وليي وولي رسولي وولي المؤمنين.قالوا: شهدنا وأقررنا

عباد بن صهيب نے روایت کیا …. فاطمہ سے انھوں نے اپنے باپ نبی صلی الله علیہ و الہ سے کہ جب میں آسمان پر بلند ہوا تو سدرہ المنتہی تک گیا پس وہ دو کمانوں سے بھی کم پر قریب آیا میں نے اس کو قلب سے دیکھا آنکھ سے نہ دیکھا اور  کانوں نے سنا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے اور  الله نے کہا اے فرشتوں گواہ ہو جاؤ اور اے آسمان کے باسیوں اور زمین کے اور عرش کو اٹھانے والے کہ علی میرے ولی ہیں اور رسول اور مومنوں کے – ان سب نے کہا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے

راقم کہتا ہے سند میں عباد بن صهيب ہے جو اہل سنت میں متروک ہے اور شیعوں میں ثقہ ہے

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی (بحار الأنوار / جزء 3 / صفحة ٣١٥ )  میں روایت ہے

ع: أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن ابن محبوب، عن مالك بن عيينة (2) عن حبيب السجستاني قال: سألت أبا جعفرعليه السلام عن قوله عزوجل: ” ثم دنى فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى فأوحى إلى عبدهاقرأ: ثم دنى فتدانا فكان قاب قوسين أو أدنى، فأوحى الله إلى عبده يعني رسول الله صلى الله عليه وآله ما أوحى، يا حبيب إن رسول الله صلى الله عليه وآله لما فتح مكة أتعب نفسه في عبادة الله عزوجل والشكر لنعمه في الطواف بالبيت وكان علي عليه السلام معه فلما غشيهم الليل انطلقا إلى الصفا والمروة يريدان السعي، قال: فلما هبطا من الصفا إلى المروة وصارا في الوادي دون العلم الذي رأيت غشيهما من السماء نور فأضاءت هما جبال مكة، وخسأت أبصارهما، (1) قال: ففزعا لذلك فزعا شديدا، قال: فمضى رسول الله صلى الله عليه وآله حتى ارتفع من الوادي، وتبعه علي عليه السلام فرفع رسول الله صلى الله عليه وآله رأسه إلى السماء فإذا هو برمانتين على رأسه، قال: فتناولهما رسول الله صلى الله عليه وآله فأوحى الله عزوجل إلى محمد: يا محمد إنها من قطف الجنة فلا يأكل منها إلا أنت ووصيك علي بن أبي طالب عليه السلام، قال: فأكل رسول الله صلى الله عليه وآله إحديهما، وأكل علي عليه السلام الاخرى ثم أوحى الله عزوجل إلى محمد صلى الله عليه وآله ما أوحى. قال أبو جعفر عليه السلام: يا حبيب ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” يعني عندها وافا به جبرئيل حين صعد إلى السماء، قال: فلما انتهى إلى محل السدرة وقف جبرئيل دونها وقال: يا محمد إن هذا موقفي الذي وضعني الله عزوجل فيه، ولن أقدر على أن أتقدمه، ولكن امض أنت أمامك إلى السدرة، فوقف عندها، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله إلى السدرة وتخلف جبرئيل عليه السلام، قال أبو جعفر عليه السلام: إنما سميت سدرة  المنتهى لان أعمال أهل الارض تصعد بها الملائكة الحفظة إلى محل السدرة، و الحفظة الكرام البررة دون السدرة يكتبون ما ترفع إليهم الملائكة من أعمال العباد في الارض، قال: فينتهون بها إلى محل السدرة، قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وآله فرأى أغصانها تحت العرش وحوله، قال: فتجلى لمحمد صلى الله عليه وآله نور الجبار عزوجل، فلما غشي محمدا صلى الله عليه وآله النور شخص ببصره، وارتعدت فرائصه، قال: فشد الله عزوجل لمحمد قلبه و قوى له بصره حتى رأى من آيات ربه ما رأى، وذلك قول الله عزوجل: ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” قال يعني الموافاة، قال: فرأي محمد صلى الله عليه وآله ما رأى ببصره من آيات ربه الكبرى، يعني أكبر الآيات

حبيب السجستاني کہتے ہیں میں نے امام جعفر سے (سورہ النجم)  پر سوال کیا اپ نے فرمایا الله تعالی نے نبی صلی الله علیہ وسلم پر الوحی کی … یعنی سدرہ المنتہی کے پاس جبریل وہاں آسمان پر چڑھے سدرہ کے پاس اور کہا جب سدرہ کے مقام پر پہنچے تو رک گئے اور کہا اے محمد یہ میرے رکنے کا مقام ہے جو الله تعالی نے میرے لئے بنایا ہے اور میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ آگے جا سکوں لیکن اپ سدرہ سے آگے جائیے اور وہاں رک جائیں- امام جعفر نے کہا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے سدرہ سے اور جبریل کو پیچھے چھوڑ دیا … پس وہاں عرش کے نیچے دیکھا اور اس کے گرد پس وہاں محمد صلی الله علیہ و الہ پر نور جبار تجلی ہوا جس سے اپ پر نیند طاری ہوئی  … پس الله تعالی نے اپ کا دل مضبوط کیا اور بصارت قوی کی یہاں تک کہ اپ نے آیات الله دیکھیں جو دیکھیں

یعنی اہل تشیع کے ہاں یہ بات قبول کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے اور وہاں خاص الوحی ہوئی جس میں علی  کا ذکر تھا – خیال رہے کہ سند میں مالك بن عيينة  ایک مجھول ہے جس کا ذکر کتب رجال شیعہ میں نہیں ملا

شیعہ  علامہ  جوادی کا  ترجمہ و جدید  شرح

جدید شروحات میں ان اقوال کو رد کیا گیا ہے مثلا علامہ جوادی کا ترجمہ و شرح ہے

نبی کا پیٹھ پیچھے دیکھنا

مستخرج ابو عوانہ میں ہے

فوالله إنّي أراكم من خلفي” أو قال: “من خلف ظهري إذا ركعتم  وسجدتم

اللہ کی قسم میں   اپنی پیٹھ پیچھے سے تم کو دیکھ لیتا ہوں  جب تم رکوع یا سجدے  کرتے ہو

اس    روایت   میں   ہے کہ   نبی صلی اللہ علیہ  وسلم   نے فرمایا     نماز  میں جب  میں امام   ہوتا ہوں تو  میں تم کو     اپنے پیچھے سے بھی دیکھ لیتا ہوں –   بعض    فقہاء کا قول  تھا کہ یہ ایک  اسی طرح ہے کہ امام  جب   رکوع  میں جاتا ہے   تو اس کی نظر   پیچھے صف پر بھی جاتی ہے  اور اس کو معلوم ہو جاتا ہے کون  صف میں صحیح طرح کھڑا ہے اور کون نہیں کھڑا    البتہ ان فقہاء  کا نام   بعد والوں نے  چھپا دیا ہے –   قرن ثالث  تک    بعض   فقہاء     مثلا  امام احمد  نے استنباط   کیا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے بھی دیکھ سکتے تھے  –    شرح  ابن بطال   میں ہے

وقال أحمد بن حنبل فى هذا الحديث: إنه كان يرى من وراءه كما يرى بعينه

احمد نے کہا  حدیث میں ہے وہ  اسی طرح پیچھے بھی دیکھتے تھے جس طرح آگے  آنکھ  سے

فتح الباری  از ابن رجب  میں ہے

وأما قَوْلِ النَّبِيّ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ((إني أراكم من وراء ظهري)) ، فليس المراد مِنْهُ: أَنَّهُ كَانَ يلتفت ببصره فِي صلاته إلى من خلفه حَتَّى يرى صلاتهم، كما ظنه بعضهم، وقد رد الإمام أحمد عَلَى من زعم ذَلِكَ، وأثبت ذَلِكَ من خصائص النَّبِيّ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

جہاں تک نبی کا قول ہے کہ میں پیٹھ   پیچھے بھی دیکھ لیتا ہوں تو اس سے مراد یہ نہیں کہ ان کی نظر   نماز میں پیچھے  جاتی تھی یہاں تک کہ وہ  مقتدی کی نماز دیکھ لیتے تھے جیسا بعض  کا گمان ہے بلکہ بے شک امام احمد  کا دعوی ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے

التمہید از ابن عبد البر میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عِيسَى الْوَرَّاقُ أَخْبَرَنَا الْخَضِرُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَثْرَمُ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي فَقَالَ كَانَ يَرَى مِنْ خَلْفِهِ كَمَا يَرَى مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ قُلْتُ لَهُ إِنَّ إِنْسَانًا قَالَ لِي هُوَ فِي ذَلِكَ مِثْلُ غَيْرِهِ وَإِنَّمَا كَانَ يَرَاهُمْ كَمَا يَنْظُرُ الْإِمَامُ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ فَأَنْكَرَ ذَلِكَ إِنْكَارًا شَدِيدًا

امام احمد کے شاگرد  اثرم   نے اسی مسئلہ  پر سوال کیا   کہ ایک انسان   کا قول ہے   کہ یہ محض   دیکھنا ہے تو احمد نے شدت سے انکار کیا

یعنی امام احمد کے نزدیک یہ معجزہ النبی ہے کہ وہ پیٹھ پیچھے بھی دیکھ لیتے تھے

 تفسير الموطأ از عبد الرحمن بن مروان بن عبد الرحمن الأنصاري، أبو المطرف القَنَازِعي (المتوفى: 413 هـ) میں ہے

 أبومُحَمدٍ: كَانَ بالمَدِينَةِ مُنَافِقُونَ يَسْتَخْفُونَ بالصَّلاَةِ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – فَوَبَّخَهُم بِفِعلهِم، وقالَ: “إني أَرَاكمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْري” ، وهذا مِنْ عَلاَمَة نُبُوَّتِه.

ابو محمد نے کہا  مدینہ میں نماز میں پیچھے منافق ہوتے تھے  تو ان منافقوں کو ان کے افعال پر توبیخ کی گئی کہ فرمایا میں پیٹھ پیچھے دیکھ لیتا ہوں یہ رسول اللہ  کی نبوت کی علامات میں سے ہے

راقم  کے نزدیک یہ معجزہ   نہیں تھا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے منصب میں امت کی تربیت   کرنا شامل تھا  اور وہ ایک استاد کی طرح امت کی نماز کی تصحیح  کرتے تھے   لہذا وہ نماز میں دیکھ سکتے تھے اگرچہ   یہ امتی  کو  نماز   میں     دیکھنا  منع  ہے  –   احادیث میں واقعات موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف میں زائد عمل  کیا گیا اور آپ کو معلوم نہیں ہوا کس نے کیا مثلا       ابو بکرہ   رضی  اللہ عنہ   آئے  اور نبی   صلی   اللہ علیہ   وسلم نماز پڑھا رہے تھے  – ابو بکرہ نے الگ رکوع کیا اور نماز میں شامل ہوئے – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا

   أيكم الذي ركع دون الصف

تم  میں سے کس نے  صف  سے  الگ   ہو کر  رکوع کیا؟

اگر  پیچھے دیکھ سکنا  معجزہ تھا تو یہ ممکن نہیں کہ نبی نہ دیکھ پاتے کیونکہ معجزہ بے عیب ہوتا ہے

اسی طرح نبی نماز پڑھا رہے تھے پیچھے صف میں ایک صحابی نے پڑھا

 رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ

نماز ختم ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کس نے ان الفاظ کو ادا کیا ؟    میں نے تیس فرشتوں کو دیکھا وہ ان کو لکھنے کی جلدی کر رہے تھے

صحیح بخاری ح ٧٩٩ میں یہ واقعہ مذکور ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ المُجْمِرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، قَالَ: ” كُنَّا يَوْمًا نُصَلِّي وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ “، قَالَ رَجُلٌ وَرَاءَهُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: «مَنِ المُتَكَلِّمُ» قَالَ: أَنَا، قَالَ: «رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلاَثِينَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلُ

لہذا    حدیث کے الفاظ   میں پیٹھ   پیچھے  دیکھ لیتا ہوں  سادہ الفاظ  ہیں  معجزہ  کی خبر نہیں ہیں  –    صحیح ابن حبان میں ہے

أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَةَ بْنَ أَوْفَى يُحَدِّثُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى الظُّهْرَ، فَجَعَلَ رَجُلٌ يَقْرَأُ خَلْفَهُ بِـ: {سَبِّحِ اسْمَرَبِّكَ الْأَعْلَى} ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: “أَيُّكُمُ الَّذِي قرأ، أو أيكم القارىء”؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: “قد عرفت أن بعضكم خالجنيها

 عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے  تو ایک آدمی نے  سورہ اعلی پڑھی  پس جب نماز ختم ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کون قرات کر رہا تھا ؟ وہ شخص بولا  میں اے  رسول اللہ –

ان روایات  سے واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں پیٹھ پیچھے اس طرح    نہیں   دیکھتے تھے کہ تمام مقتدی نظر آ جائیں – اگر یہ معجزہ  ہوتا تو وہ شخص نگاہ رسول سے بچ نہ سکتا تھا- معلوم ہوا کہ نبی کے قول کا مطلب ہے کہ وہ ان مقتدیوں کو دیکھ لیتے ہیں جو   ان کے قریب آگے والی صف میں  ہوتے ہیں – اس سے مراد معجزہ  کی خبر دینا   نہیں ہے

و اللہ اعلم

واقعہ معراج سے متعلق

اس کتاب میں اضافہ کیا گیا ہے

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

قتل زکریا کی خبر معراج میں

حدیث ام ہانی

معراج صخرہ سے ہوئی ؟

=========================

اس ویب سائٹ پر موجود معراج سے متعلق مباحث کو کتابی شکل دی گئی ہے – معراج کے حوالے سے غلو پرستوں نے کافی کچھ مشہور کر رکھا ہے دوسری طرف صحیح احادیث کی کتب میں بھی کچھ روایات اس سے متعلق صحیح نہیں ہیں – اس کتاب میں اس قسم کی بعض روایات کی چھان بین کی گئی ہے

اسلامی اعتقادات کا ایک  اہم  عقیدہ ہے  کہ مکی دور نبوی میں رسول صلی الله علیہ وسلم کو بحکم الہی آسمان پر جسمانی  طور پر بلند کیا گیا – اس میں  آپ صلی الله علیہ وسلم کو مکہ سے مسجد الاقصی لے  جایا گیا – اس واقعہ کو الاسراء یا  المعراج کہا جاتا ہے – الاسراء کا لفظ  اَسْرٰى سے ہے جو  قرآن میں موجود ہے اور المعراج کا لفظ طبقات ابن سعد میں ابن اسحاق کی سند سے ایک روایت میں اتا ہے –  قرآن سوره الاسراء کی آیات ہیں کہ

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

یہ معراج کا واقعہ تھا جس میں جسمانی طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر   ایک گھوڑے اور خچر نما مخلوق پر کیا جس کو البراق کہا جاتا ہے- اس میں ایک آن  میں آپ مسجد الحرام سے اصلی مسجد الاقصی پہنچ  گئے اور آپ کے ہمراہ جبریل علیہ السلام بھی تھے[1]

مسجد الاقصی سے  آسمان  دنیا اور اور پھر ایک آسمان سے دوسرے آسمان،  یہاں  تک کہ  سات آسمان   پر موجود   سدرہ المنتہی  تک   کا سفر ہوا – جنت  کا دورہ ہوا اور اس کی نعمت کو دیکھا –  انبیاء سے وہاں ملاقات ہوئی جن میں فوت شدہ اور زندہ عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے  – پھر  وہاں سے واپس  مکہ   لوٹا دیا گیا – اس عالم میں رب تعالی کی عظیم   قدرت و  جبروت کا     منظر دیکھا-

صحیح بخاری: کتاب: انصار کے مناقب (باب: معراج کابیان)

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

3887

 حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِي مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ فَقَالَ لَهُ الْجَارُودُ هُوَ الْبُرَاقُ يَا أَبَا حَمْزَةَ قَالَ أَنَسٌ نَعَمْ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا الْخَالَةِ قَالَ هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ أَوَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِلَى إِدْرِيسَ قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَكَى قِيلَ لَهُ مَا يُبْكِيكَ قَالَ أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ هَذَا أَبُوكَ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ قَالَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ هَذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى وَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ فَقُلْتُ مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ هِيَ الْفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَا أُمِرْتَ قَالَ أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَ أُمِرْتَ قُلْتُ أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ قَالَ فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي

  مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اس شب کا حال بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: “ایسا ہوا کہ میں حطیم یا حجر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے یہاں سے یہاں تک چاک کر دیا ۔۔ راوی کہتا ہے: میں نے جارود  سے پوچھا: جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے: اس سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے کہا: حلقوم سے ناف تک۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ سینے سے ناف تک ۔۔” پھر اس نے میرا دل نکالا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان سے لبریز تھا۔ میرا دل دھویا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا ۔۔ جارود نے کہا: ابوحمزہ! وہ براق تھا؟ ابوحمزہ انس ؓ نے فرمایا: ہاں (وہ براق تھا) ۔۔ وہ اپنا قدم منتہائے نظر پر رکھتا تھا۔ تو میں اس پر سوار ہوا۔ میرے ہمراہ   جبریل علیہ السلام روانہ ہوئے۔ انہوں نے آسمان اول پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: آپ کو یہاں تشریف لانے کا پیغام بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر جواب ملا: مرحبا! آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا بہت اچھا ہے۔ پھر اس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں گیا تو   آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ تمہارے باپ   آدم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اچھے بیٹے اور بزرگ نبی! خوش آمدید۔ اس کے بعد   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے حتی کہ دوسرے آسمان پر پہنچے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ بتایا کہ محمد ﷺ ہیں۔ دریافت کیا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ آنے والا مہمان بہت اچھا ہے اوراس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو   یحییٰ اور   عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد ہیں۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ یحییٰ اور   عیسیٰ علیہما السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا اور ان دونوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: برادر عزیز اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا:   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا مہمان بہت اچھا ہے۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو   یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ یوسف علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کہا: انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: نیک طنیت بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے چوتھے آسمان پر لے کر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! جس سفر پر آئے وہ مبارک اور خوشگوار ہو۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو   ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل نے کہا: یہ   ادریس علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے برادر گرامی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر پانچویں آسمان پر چڑھے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! اور جس سفر پر آئے ہیں وہ خوش گوار اور مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو   ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نےکہا: یہ   ہارون علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے معزز بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چھٹے آسمان پر چڑھے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹایا تو پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! سفر مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو   موسٰی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ   موسٰی علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اخی المکرم اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے۔ پوچھا گیا: آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوعمر جوان جسے میرے بعد رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اس کی امت جنت میں میری امت سے زیادہ تعدادمیں داخل ہو گی۔   جبریل علیہ السلام مجھے ساتویں آسمان پر لے کر چڑھے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! اور جس سفر پر تشریف لائے ہیں وہ خوشگوار اور مبارک ہو۔ پھر میں وہاں پہنچا تو   ابراہیم علیہ السلام ملے۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ آپ کے جد امجد   ابراہیم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اے پسر عزیز اور نبی محترم خوش آمدید۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک بلند کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کی طرح بڑے بڑے ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح چوڑے چوڑے ہیں۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں: (ان میں) دو نہریں بند اور دو نہریں کھلی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ بند نہریں تو جنت کی ہیں اور جو کھلی ہیں وہ نیل اور فرات کا سرچشمہ ہیں۔ پھر بیت المعمور کو میرے سامنے لایا گیا۔ پھر میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا لایا گیا تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ فطرت اسلام ہے جس پر آپ اور آپ کی امت قائم ہے۔ پھر مجھ پر شب و روز میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ جب میں واپس لوٹا تو   موسٰی علیہ السلام کے پاس سے میرا گزر ہوا۔ انہوں نے پوچھا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے دن رات میں پچاس نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔   موسٰی علیہ السلام نے فرمایا: آپ کی امت ہر دن پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ اللہ کی قسم! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور اس معاملے میں بنی اسرائیل کے ساتھ سرتوڑ کوشش کر چکا ہوں، لہذا آپ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں، چنانچہ میں لوٹ کر گیا اور اللہ تعالٰی نے مجھے دس نمازیں معاف کر دیں۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر اللہ کے پاس گیا تو اللہ نے مزید دس نمازیں معاف کر دیں۔ میں پھر موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر میں لوٹ کر گیا تو مجھے دس نمازیں اور معاف کر دی گئیں۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا، چنانچہ میں لوٹ کر گیا تو مجھے ہر دن میں دس نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر لوٹا تو موسٰی علیہ السلام نے پھر ویسا ہی کہا۔ میں پھر لوٹا تو مجھے ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت دن میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکے گی۔ میں تم سے پہلے لوگوں کا خوب تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل پر خوب زور ڈال چکا ہوں، لہذ تم ایسا کرو پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کرو۔ میں نے جواب دیا میں اپنے رب سے کئی دفعہ درخواست کر چکا ہوں، اب مجھے حیا آتی ہے، لہذا میں راضی ہوں اور اس کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں آگے بڑھا تو ایک منادی (خود اللہ تعالٰی) نے آواز دی کہ میں نے حکم جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی۔”

صحیح مسلم ٢٥٩ پر     بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ  بعض نسخوں میں یہ ٤١١ پر ہے

http://mohaddis.com/View/Muslim/411

صحیح مسلم
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان
حديث:411
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَی طَرْفِهِ قَالَ فَرَکِبْتُهُ حَتَّی أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قَالَ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَائُ قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِإِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيلُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ فَرَحَّبَ بِي وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الثَّانِيَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِابْنَيْ الْخَالَةِ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ وَيَحْيَی بْنِ زَکَرِيَّائَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِي إِلَی السَّمَائِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الرَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ
إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الْخَامِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ السَّادِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِمُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَی الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ کُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَی السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَی وَإِذَا وَرَقُهَا کَآذَانِ الْفِيَلَةِ وَإِذَا ثَمَرُهَا کَالْقِلَالِ قَالَ فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَی فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَنَزَلْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا فَرَضَ رَبُّکَ عَلَی أُمَّتِکَ قُلْتُ خَمْسِينَ صَلَاةً قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَبِّي فَقُلْتُ يَا رَبِّ خَفِّفْ عَلَی أُمَّتِي فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا فَرَجَعْتُ إِلَی مُوسَی فَقُلْتُ حَطَّ عَنِّي خَمْسًا قَالَ إِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ قَالَ فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَبَيْنَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام حَتَّی قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لِکُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ فَذَلِکَ خَمْسُونَ صَلَاةً وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا کُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُکْتَبْ شَيْئًا فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً قَالَ فَنَزَلْتُ حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ قَدْ رَجَعْتُ إِلَی رَبِّي حَتَّی اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ
ترجمہ : شیبان بن فروخ، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے لئے براق لایا گیا، براق ایک سفید لمبا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا جانور ہے منتہائے نگاہ تک اپنے پاؤں رکھتا ہے میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس آیا اور اسے اس حلقہ سے باندھا جس سے دوسرے انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے جانور باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہو اور میں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر میں نکلا تو   جبرائیل (علیہ السلام) دو برتن لائے ایک برتن میں شراب اور دوسرے برتن میں دودھ تھا میں نے دودھ کو پسند کیا، جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فطرت کو پسند کیا، پھر   جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ آسمان کی طرف چڑھے، فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو فرشتوں نے پوچھا آپ کون؟ کہا جبرائیل کہا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو ہم نے   آدم (علیہ السلام) سے ملاقات کی آدم (علیہ السلام) نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پھر پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں انہوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں   عیسیٰ بن مریم اور   یحیی بن زکریا (علیہ السلام) کو دیکھا دونوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر   جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر گئے تو دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے   یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا اور اللہ نے انہیں حسن کا نصف حصہ عطا فرمایا تھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھلا تو میں نے   ادریس (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی،   ادریس کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا ( وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا) ہم نے ان کو بلند مقام عطا فرمایا ہے، پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا   جبرائیل نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا تو میں نے   ہارون (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا کہ جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر پوچھا کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہاں کہ ہاں یہ بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے   موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں ساتویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا   جبرائیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو فرشتوں نے پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں ان کو بلانے کا حکم ہوا ہے پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے   ابراہیم (علیہ السلام) کو بیت المعمور کی طرف پشت کئے اور ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا اور بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور انہیں دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملتا ( فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے) پھر   جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہی کی طرف لے گئے اس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح بڑے بڑے تھے اور اس کے پھل بیر جیسے اور بڑے گھڑے کے برابر تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اس درخت کو اللہ کے حکم سے ڈھانکا گیا تو اس کا حال ایسا پوشیدہ ہوگیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض  فرمائیں پھر میں وہاں سے واپس   موسیٰ تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا پچاس نمازیں دن رات میں، موسیٰ نے فرمایا کہ اپنے رب کے پاس واپس جا کر ان سے کم کا سوال کریں اس لئے کہ آپ کی امت میں اتنی طاقت نہ ہوگی کیونکہ میں بنی اسرائیل پر اس کا تجربہ کرچکا اور آزماچکا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے پھر واپس جا کر اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میری امت پر تخفیف فرما دیں تو اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں میں پھر واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں اپنے رب کے پاس جا کر ان میں تخفیف کا سوال کریں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس طرح اپنے اللہ کے پاس سے موسیٰ کے پاس اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے اللہ کے بارگاہ میں آتا جاتا رہا اور پانچ پانچ نمازیں کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا کہ اے محمد ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور ہر نماز کا ثواب اب دس نمازوں کے برابر ہے پس اس طرح ثواب کے اعتبار سے پچاس نمازیں ہوگئیں اور جو آدمی کسی نیک کام کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرسکے تو میں اسے ایک نیکی کا ثواب عطا کروں گا اور اگر وہ اس پر عمل کرلے تو میں اسے دس نیکیوں کا ثواب عطا کروں گا اور جو آدمی کسی برائی کا ارادہ کرے لیکن اس کا ارتکاب نہ کرے تو اس کے نامہ اعمال میں یہ برائی نہیں لکھی جاتی اور اگر برائی اس سے سرزد ہوجائے تو میں اس کے نامہ اعمال میں ایک ہی برائی لکھوں گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں پھر واپس   موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس جا کر تخفیف کا سوال کریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس اس سلسلہ میں بار بار آ جا چکا ہوں یہاں تک کہ اب مجھے اس کے متعلق اپنے اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔

 دوسرے دن آپ نے جب قریش کو اس کی خبر دی تو انہوں نے آزمائشی سوالات کیے اور حجر یا حطیم میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیت المقدس شہر کو آپ کے سامنے کر دیا گیا

  سوره النجم میں ہے[2]

اسے پوری طاقت والے  نے سکھایا ہے (5) جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا (6

اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا (7

پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا (8

پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (9

پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (10

دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا (11

کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں (12) اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (13) سدرةالمنتہیٰ کے پاس (14)

اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے (15

جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی (16

نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی (17

یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں (18

معراج  کے حوالے سے بہت سی ضعیف روایات عوام میں مشہور ہیں جن کو علماء بھی بلا سند بیان کرتے رہے ہیں مثلا    جبریل علیہ السلام کے پروں کا جلنا یا معراج  میں الله تعالی کا دیدار کرنا یا واقعہ معراج پر  اصحاب رسول کا مرتد ہونا  یا   عائشہ رضی الله عنہا سے  یہ قول منسوب کرنا کہ وہ جسمانی معراج کی انکاری تھیں  وغیرہ – اس کتاب میں  اس قسم کی روایات پر  بحث کی گئی ہے

نعلین کے حوالے سے غلو کی ایک وجہ بریلوی فرقہ اور صوفیاء کی جانب سے  بیان کی جاتی ہے کہ موسی علیہ السلام جب طوی کی مقدس وادی میں تشریف لے گئے تو سورۃ طہ کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیا طه،٢٠ : ١١۔

إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى

اے موسٰی بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو

اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم جب معراج پر عرش تک گئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں ملتا کہ کسی مقام پر ان کے نعلین مبارک اتروائے گئے ہوں اس کو دلیل بناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یقینا یہ نعلین بہت مبارک ہیں اور ان کی شبیہ بنانا جائز ہے حالانکہ صحیحین کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی تک ہی گئے اس سے آگے  نہیں اور یہ تو کسی حدیث میں نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم عرش تک  گئے

اہل تشیع کے ہاں معراج کا مقصد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو علی کی امامت کا حکم تھا جو خاص سدرہ المنتہی کے بعد ملا یہاں تک کہ جبریل کو اس کی خبر نہ ہوئی – یہ خبر خاص علم باطن کی طرح تھی جو  الله اور اس کے رسول کے مابین رہی- مزید یہ کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کھل کر اس کو تمام  امت  پر بر سر منبر ظاہر نہیں کیا – مکی دور میں جب سابقوں اولوں  میں سے بعض کو اس   خبر کی بھنک پڑی  تو ان میں سے بعض مرتد تک ہو گئے – افسوس اس قسم کی مبہم روایات  اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں جن سے عوام دھوکہ کھا گئے اور یہ ماننے لگ گئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المتنھی سے گے گئے اور سابقوں اولوں مرتد ہوئے – اہل تشیع کے بقول اس سب کی وجہ علی رضی الله عنہ سے متعلق احکام تھے

بعض  دیوبندی  علماء  نے غلو میں یہ تک کہا کہ عرش پر رسول الله کے پیر پڑے[3]–  دوسری طرف یہی دیوبندی اور بریلوی ، جمہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله اپنے عرش پر نہیں ہے-

 معراج  کب ہوئی اس کے حوالے سے مورخین کے متعدد اقوال ہیں – عصر حاضر میں  اس کو کہا جاتا ہے ماہ رجب میں ہوئی- رجب میں روزہ رکھنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے[4]

ابو شہر یار

٢٠١٨

حديث ثقلين کا ايک ثقل

سنتی  يا عترتي

نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے رشتہ داروں کي امت ميں بہت اہميت ہے – خاص کر امہات المومنين کا درجہ ان ميں سب سے بلند ہے جو تمام مومنوں  کي مائيں ہيں – رشتہ داروں میں  نبي کے مسلمان ہونے والے چچا و کزن وغيرہ ہيں – ان سب کو اہل بيت النبي يا گھر والے کہا جاتا ہے اور ان سب يعني امہات  المومنين ، نبي کے چچا و چچا زاد کزن وغيرہ پر صدقه حرام ہے – يہ اللہ کا مقرر کردہ نظم تھا تاکہ اقرباء پروري کي تہمت سے دين کو بچايا جا سکے اور اب کوئي مشرک يا ملحد يہ نہيں کہہ سکتا کہ نبي نے اپنے رشتہ داروں کو نوازا

مسند احمد کي روايت ہے
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْرَائِيلَ يَعْنِي إِسْمَاعِيلَ بْنَ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُلَائِيَّ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ كِتَابُ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمايا ميں دو بوجھ تم پر چھوڑ کر جا رہا ہوں ايک ان ميں دوسرے سے بھاري ہے کتاب اللہ ہے جو رسي ہے آسمان سے زمين تک اور ميرے گھر والوں ميں قريبي رشتہ دار اور يہ دونوں الگ الگ نہيں ہوں گے حتي کہ تم حوض پر مجھ سے ملو گے

اہل سنت کہتے ہيں سند ميں عطية بن سعد العوفي ضعيف ہے کٹر غالي ہے

ابن معين کہتے ہيں أصحابُ الحديث لا يكتبون حديثه محدثين اس کي حديث نہيں لکھتے

امام احمد اس روايت کو مسند ميں لکھا ہے کيونکہ مسند ميں ہر قسم کي موضوع ، منقطع اور ضعيف روايات کو جمع کيا گيا ہے

موضوعات از ابن جوزی میں اس روایت کی ایک سند پر ہے
هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ أَمَّا عَطِيَّةُ فَقَدْ ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ وَيَحْيَى وَغَيْرُهُمَا
اس میں عطیہ ہے جس کی امام احمد اور امام یحیی نے تضعیف کی ہے

دوسرا طرق ہے رواه الطبراني في الكبير (2681) و (4971) -من طريق عبد الله بن بكير الغنوي، عن حكيم بن جبير، عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم مطولاً، وفيه فانظروا كيف تخلفوني في الثقلين فقال رجل وما الثقلان؟ قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كتاب الله طرفٌ بيد الله، وطرفٌ بأيديكم، فاستمسكوا به لا تضلوا، والآخر عترتي، وإنهما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض

طبراني ميں بھي ہے يہاں حکيم بن جبير متروک ہے ، عبد الله بن بكير الغنوي سخت مجروح ہے

مستدرک حاکم ميں ہے

ورواه الحاكم 3/109 من طريق حسان بن إبراهيم الكرماني، عن محمد بن سلمة بن كهيل، عن أبيه، عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم، بلفظ إني تارك فيكم أمرين لن تضلوا إن اتبعتموهما، وهما كتاب الله، وأهل بيتي عترتي

اس سند ميں محمد بن سلمة بن كهيل ضعيف ہے

النسائي (8148) و (8464) ،الطحاوي في شرح مشكل الآثار (1765) ، ابن أبي عاصم في السنة (1555) ، الطبراني الكبير (4969) ، مستدرک الحاكم 3/109 من اس طرق سے ہے

أبي عوانة، عن الأعمش، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم، بلفظ حديث أبي سعيد
يہ سند منقطع ہے کيونکہ حبيب بن أبي ثابت کا سماع کسي صحابي سے نہيں
قال ابن المديني لقي ابن عباس وسمع من عائشة، ولم يسمع من غيرهما من الصحابة
اعمش مدلس کا عنعنہ بھي ہے اور ابو طفيل کي ملاقات زيد بن ارقم سے ثابت نہيں
دوم ابو طفيل آخري عمر ميں مختار ثقفي کے ساتھ تھے اور بعض محدثين نے اس کي صحابيت کو رد کيا ہے
راقم ابو طفيل کو صحابي نہيں سمجھتا
ابو طفيل عامر بن واثلة کے نزديک عترت رسول سے مراد امام باقر يا زين العابدين نہيں بلکہ امام محمد بن حنفيہ تھے اور يہ خود کيسانيہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے جن کے نزديک اصل امام ابن حنفيہ تھے – ابن حنفيہ خود ان سب شيعوں سے بيزار تھے اور ابن زبير کے قتل کے بعد فورا عبد الملک بن مروان کو خليفہ تسليم کيا

شيعہ عالم السيد علي البروجردي طرائف المقال ميں کہتے ہيں

عامر بن واثلة بالثاء المنقطة فوقها ثلاث نقطة كيساني صه وفي ق معدود من خواصه، وفي كش كان ممن يقول بحياة محمد وله في ذلك شعر، وخرج تحت راية المختار
عامر بن واثلة يہ کيساني تھا يہ ان ميں تھا جو محمد بن حنفيہ کے زندہ رہنے کے قائل ہيں اور اس نے اس پر شعر کہے اور يہ مختار ثقفي کے جھنڈے تلے نکلا

شيعہ کتاب اختيار معرفة الرجال از ابي جعفر الطوسي ميں ہے
وأما عامر بن واثلة فكانت له يد عند عبدالملك بن مروان فلهى عنه
عامر نے عبد الملک کو اپنا ہاتھ ديا اور پھر بيعت سے نکل گيا

يعني شيعہ علماء کے مطابق يہ بيعت توڑ کر کيساني بن گيا تھا

راقم کہتا ہے امام بخاري نے غلطي کي ہے اور اس کو صحابي سمجھا ہے

امام بخاری کے استاد امام علی المدینی کا قول تھا کہ محدثین نے کہا تھا اس کی روایت مت لو

الکامل از ابن عدی میں ہےحَدَّثَنَا ابْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثني صَالِحُ بْنُ أَحْمَد بْن حنبل، قَال: حَدَّثَنا علي، قَالَ: سَمِعْتُ جرير بْن عَبد الحميد، وقِيلَ لَهُ: كَانَ مغيرة ينكر الرواية، عَن أبي الطفيل؟ قَال: نَعم.

امام علی نے کہا میں نے جریر کو کہتے سنا کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا مغیرہ ابو طفیل کی روایت کا انکار کرتے تھے ؟ جریر نے کہا ہاں
ابو طفیل آخری عمر میں المختار الثقفي کذاب کے ساتھ تھے جس کا قتل ابن زبیر رضی الله عنہ نے کرایا

الترمذي (3788) من اسي طريق يعني حبيب بن أبي ثابت، عن زيد بن أرقم سے يہ روايت ہے لہذا يہ بھي منقطع ہے کيونکہ اصل ميں روايت کے بيچ ميں ابو طفيل غائب ہے

اس کا ايک دوسرا طرق الترمذي (3786) ، الطبراني في الكبير (2680) ميں ہے

نصر بن عبد الرحمن الكوفي، عن زيد بن الحسن الأنماطي، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عنه، مرفوعاً في خطبته صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في حجة الوداع بلفظ يا أيها الناس إني قد تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا كتاب الله، وعترتي أهل بيتي

اس کي سند بھي ضعيف ہے – سند ميں زيد بن الحسن الأنماطي مجروح ہے – شيعہ کہتے ہيں يہ أصحاب الصادق عليه السلام ميں سے تھے

صحيح مسلم ميں دوسري طرف جابر کي سند سے حديث ہے جس کے الفاظ ہيں
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، جَمِيعًا عَنْ حَاتِمٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ …. وقد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن اعتصمتم به، كتاب الله
اس ميں رشتہ داروں کا ذکر نہيں ہے

زيد بن الحسن الأنماطي نے يہ روايت ابو طفيل کيساني سے بھي منسوب کي ہے

الطبراني الكبير (2683) اور (3052) من اس کا ايک طرق ہے

زيد بن الحسن الأنماطي، عن معروف بن خربوذ، عن أبي الطفيل، عنه، مرفوعاً، وفيه وإني سائلكم حين تردون علي عن الثقلين، فانظروا كيف تخلفوني فيهما، الثقل الأكبر، كتاب الله عز وجل، سببٌ طرفهُ بيد الله، وطرفُه بأيديكم، فاستمسكوا به لا تضلوا ولا تبدلوا، وعترتيأهل بيتي، فانه قد نبأني اللطيف الخبير، أنهما لن ينقضيا حتى يردا علي الحوض،

يہ سند ضعيف ہے – سند ميں وہی زيد بن الحسن الأنماطي ضعیف ہے – امام أبو حاتم اس کو منكر الحديث قرار ديتے ہيں
اس کے علاوہ معروف بن خربوذ بھي سخت مجروح ہے

ابن أبي عاصم في السنة (1558) ، والطحاوي في شرح مشكل الآثار (1760) من دو طرق ہيں
عن أبي عامر العقدي، عن كثير بن زيد، عن محمد بن عمر بن علي، عن أبيه، عنه الفاظ ہيں

إني قد تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا كتاب الله، سببه بيد الله، وسببه بأيديكم، وأهل بيتي

طحاوي کا قول ہے
وَكَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ مَدِينِيٌّ مَوْلًى لِأَسْلَمَ , قَدْ حَدَّثَ عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , وَوَكِيعٌ , وَأَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ
کثير بن زيد مديني ہے – لہذا يہ سند بھي ضعيف ہے کيونکہ كثير بن زيد الأسلمي المدني ضعيف ہے
قال النسائي (الضعفاء والمتروكون) ضعيف
قال ابن المديني صالح، وليس بقوي
معلمي کہتے ہيں ضعيف ہے
الأنوار الكاشفة (ص 41) غير قوي، وص (145) ضعيف

مسند البزار ميں ہے
عن الحسين بن علي بن جعفر، عن علي بن ثابت (وهو الدهان العطار الكوفي) ، عن سعاد بن سليمان، عن أبي إسحاق (وهو السبيعي) ، عن الحارث، عنعلي، مرفوعاً، بلفظ إني مقبوض، وإني قد تركت فيكم الثقلين -يعني كتاب الله، وأهل بيتي
اس سند ميں الحسين بن علي بن جعفر مجہول ہے قال أبو حاتم لا أعرفه ميں اس کو نہيں جانتا
سعاد بن سليمان کو بھي أبو حاتم نے ضعيف قرار ديا ہے
لَيْسَ بِقَوِيٍّ فِي الْحَدِيثِ

شيعہ کتاب أصحاب الامام الصادق (ع) – عبد الحسين الشبستري ميں ہے کہ سعاد ان ميں ہے جو صدوقا يخطئ صدوق ہو کر غلطياں کرتے ہيں

مسند عبد بن حميد (240) ، وابن أبي عاصم (754) ، والطبراني في الكبير (4921) و (4922) و (4923) ان سب ميں اس کا ايک اور طرق ہے – سند ہے
شريك، عن الركين بن الربيع، عن القاسم بن حسان، عنه، مرفوعاً، بلفظ إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضل كتاب الله، وعترتي أهل بيتي، فإنهما لن يفترقا حتى يردا عليَّ الحوض،

راقم کہتا ہے سند میں شَريك بن عبد الله النخعي ہے جس کو سيئ الحفظ خراب حافظہ والا بتایا گیا ہے اور امام مسلم نے اس کی حدیث نہیں لی الذهبي الميزان ميں کہتے ہيں اس کي حديث منکر ہے
الکامل از ابن عدی میں ہے

أخبرنا الساجي، حَدَّثَنا الحسن بن أحمد، حَدَّثَنا مُحَمد بن أبي عُمَر الضرير، عن أبيه، قالَ: سَألتُ ابن المُبَارك عن شَرِيك قال ليس حديثه بشَيْءٍ.
سمعتُ ابن حماد يقول: قال السعدي شَرِيك بن عَبد الله سيء الحفظ مضطرب الحديث مائل.
ابن مبارک کہتے ہیں اس کی حدیث کوئی چیز نہیں
جوزجانی کہتےہیں مضطرب الحدیث ہے

مشکل الاثار از امام طحاوی میں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ , عَنْ سُلَيْمَانَ يَعَنْي الْأَعْمَشَ قَالَ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , عَنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَنَزَلَ بِغَدِيرِ خُمٍّ أَمَرَ بِدَوْحَاتٍ فَقُمِّمْنَ , ثُمَّ قَالَ: ” كَأَنِّي دُعِيتُ فَأَجَبْتُ , إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ , أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ: كِتَابَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي , فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا , فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ” ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ مَوْلَايَ , وَأَنَا وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ ” ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَالَ: ” مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَهَذَا وَلِيُّهُ , اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ ,
وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ” فَقُلْتُ لِزَيْدٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا كَانَ فِي الدَّوْحَاتِ أَحَدٌ إِلَّا رَآهُ بِعَيْنَيْهِ , وَسَمِعَهُ بِأُذُنَيْهِ , [ص:19] قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَهَذَا الْحَدِيثُ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ , لَا طَعْنَ لِأَحَدٍ فِي أَحَدٍ مِنْ رُوَاتِهِ

الطحاوي: هذا الحديث صحيح الإسناد، لا طعن لأحد في أحد من رواته
طحاوی کہتے ہیں اس کی سند صحیح ہے راوی پر کوئی طعن نہیں ہے

راقم کہتا ہے اس کی سند میں حبیب مدلس کا عنعنہ ہے اور ابو طفیل پر کثیر کلام اوپر گذر چکا ہے کہ یہ اہل تشیع و اہل سنت میں بھی بعض کے نزدیک مشکوک شخص ہے جو صحیح عقیدے پر نہیں تھا

البدایہ و النہایہ از ابن کثیر میں ہے
وَقَدْ رَوَى النَّسَائِيُّ فِي سُنَنِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمَّادٍ عَنْ أَبِي معاوية عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. قال: لما رجع رسول الله مِنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَنَزَلَ غَدِيرَ خُمٍّ أَمَرَ بِدَوْحَاتٍ فَقُمِمْنَ [2] ثُمَّ قَالَ: «كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فأجبت، انى قد تركت فيكم الثقلين كِتَابُ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، ثُمَّ قَالَ اللَّهُ مَوْلَايَ وَأَنَا وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ
فَهَذَا وَلِيُّهُ، اللَّهمّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» فَقُلْتُ لِزَيْدٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا كَانَ فِي الدَّوْحَاتِ أَحَدٌ إِلَّا رَآهُ بِعَيْنَيْهِ وَسَمِعَهُ بِأُذُنَيْهِ تَفَرَّدَ بِهِ النَّسَائِيُّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ شَيْخُنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الذَّهَبِيُّ وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

اس سند پر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ امام الذھبی کہتے تھے کہ اس کی سند صحیح ہے

راقم کہتا ہے امام علی المدینی کا قول ہے کہ حبیب کا سماع کسی صحابی سے نہیں
وقال سفيان الثوري وأحمد بن حنبل ويحيى بن معين والبخاري وغيرهم لم يسمع حبيب بن أبي ثابت من عروة بن الزبير شيئا
اور احمد ، سفیان ثوری ، ابن معین ، بخاری کے نزدیک اس کا سماع عروہ بن زبیر المتوفی ٩٣ ھ سے بھی نہیں

دوسری طرف اہل تشیع نے حبیب بن ابی ثابت سے کوئی روایت نہ تفسیروں میں لکھی ہے نہ اپنی حدیث کی کتب میں
نہ ان کے ہزار سال میں علماء رجال میں سے کسی نے اس کا ترجمہ قائم کیا ہے یہاں تک کہ امام الخوئی کا جنم ہوا

مسند یعقوب بن سفیان میں ہے
جرير بن عبد الحميد الرازي عن الحسن بن عبيد الله النخعي عن أبي الضحى مسلم بن صُبيح عن زيد بن أرقم مرفوعاً: “إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا: كتاب الله عز وجل وعترتي أهل بيتي، وإنهما لن يتفرقا حتى يردا عليَّ الحوض
اس سند میں الحسن بن عبيد الله النخعي ضعیف ہے

قال الدَّارَقُطْنِيّ: ليس بالقوي
النکت میں معلمی کا قول ہے
عامّة حديثه مضطرب
اس کی بیشتر احادیث میں اضطراب ہے

ايک روايت ميں ميرا نسب بھي بيان ہوا ہے مسند البزار (2617) زوائد، والحاكم 1/93 ميں ہے
عن داود بن عمرو الضبي، عن صالح بن موسى الطلحي، عن عبد العزيز بن رفيع، عن أبي صالحٍ، عن أبي هريرة، مرفوعاً، بلفظ إني خلفت فيكم اثنين لن تضلوا بعدهما أبدا، كتاب الله، ونسبي لفظ البزار

اس کي سند صالح بن موسى الطلحي کي وجہ سے ضعيف ہے
اہل تشيع کہتے ہيں صالح بن موسى الطلحي الكوفي ، أصحاب الصادق عليه السلام ميں سے ہے ليکن اس کي توثيق پر کوئي کلمہ ان کی کتب میں نہيں ملا

مسند یعقوب بن سفیان میں ہے
حدثنا عبيد الله بن موسى، قال: أخبرنا إسرائيل، عن عثمان بن المغيرة، عن علي بن ربيعة، قال: لقيت زيد بن أرقم وهو يريد الدخول على المختار، فقلت له بلغني عنك حديث. قال: ما هو؟ قلت: أسمعت النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم يقول: «إني تارك فيكم الثقلين: كتاب الله عز وجل، وعترتي»؟ قال: نعم.
علی بن ربيعة نے کہا میں زید سے ملا وہ مختار کے پاس جا رہے تھے میں نے ان سے کہا مجھ کو آپ کی ایک حدیث پہنچی ہے – زید بولے کون سی ؟ میں نے کہا کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں ؟ زید نے کہا ہاں

سند میں عثمان بن المغيرة أبو المغيرة الثقفي مولاهم الكوفي پر دارقطني کہتے ہیں : ليس بالقوي قوی نہیں ہے

مصادر اہل تشیع

نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي وفات کے بعد ان کے رشتہ داروں نے بھي دين ميں اسي چيز پر عمل کيا ہے جو سنت سے معلوم ہے يا دين کا فہم ہے لہذا روايات ميں عترتي کے الفاظ کس مقصد کے لئے تھے ؟ اہل تشيع کہتے ہيں عترت يعني اخص اقربائي ہے يعني خاص رشتہ دار يا قريبي رشتہ دار يا خون کے رشتہ سے رشتہ دار مراد ہيں – سسرالي رشتہ دار يا بيوياں مراد نہيں ہيں – اس طرح وہ اہل بيت ، عترت سے الگ ہو جاتے ہيں – اور نيچے روايات آ رہي ہيں جن ميں راويوں کا مدعا ہے کہ ابو بکر اور عمر اور ان کي بيٹيياں رضي اللہ عنہما تمام عترت سے خارج ہيں

اب مصادر اہل تشيع کي طرف توجہ کريں جس ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے تمام خون کے رشتہ داروں کو عترت سے نکال ديا گيا ہے سوائے علي رضي اللہ عنہ کے – کليني روايت لائے ہيں کہ عترت ميں نہ عباس ہيں نہ ان کي اولاد ، نہ عقيل ہيں نہ ان کي اولاد بلکہ عترت ميں مراد صرف علي ہيں

الکافي از کليني کي روايت ہے
أحمد بن محمد ومحمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، عن محمد بن عبدالحميد عن منصور بن يونس، عن سعد بن طريف، عن أبي جعفر عليه السلام قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله من أحب أن يحيى حياة تشبه حياة الانبياء، ويموت ميتة تشبه ميتة الشهداء ويسكن الجنان التي غرسها الرحمن(2) فليتول عليا وليوال وليه وليقتد بالائمة من بعده، فإنهم عترتي خلقوا من طينتى، اللهم ارزقهم فهمي وعلمي، وويل للمخالفين لهم من امتي، اللهم لا تنلهم شفاعتي

رسول اللہ نے فرمايا علي سے دوستي کرو يہ ميري عترت ميں سے ہے ميري مٹي سے ہي اس کي تخليق ہوئي ہے

سند سعد بن طريف کي وجہ سے ضعيف ہے – شيعہ عالم ابن داوود الحلي کتاب رجال ابن داود ميں کہتے ہيں
سعد بن طريف، بالطاء المهملة، الحنظلي وقيل الدئلي وهو الاسكاف، ويقال الخفاف ين، قر، ق (كش) قال حمدويه كان ناووسيا وقف على أبي عبدالله عليه
السلام حديثه يعرف وينكر (غض) في حديثه نظر وهو يروي عن الاصبغ بن نباتة
سعد بن طريف ناوسي تھا يعني امامت امام جعفر پر توقف کيا ہوا تھا اس کي حديث پر نظر ہے

نجاشي کہتے ہيں يہ بنو اميہ کا قاضي تھا
سعد بن طريف الحنظلي مولاهم، الإسكاف، كوفي، يعرف وينكر روى عن الأصبغ بن نباتة، وروى عن أبي جعفر وأبي عبد الله عليهما السلام ، وكان قاضيا

الکافي از کليني ميں ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن الحسين بن سعيد، عن فضالة بن أيوب عن أبي المغرا، عن محمد بن سالم، عن أبان بن تغلب قال سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول قال رسول الله صلى الله عليه وآله من أراد أن يحيى حياتي، ويموت ميتتي ويدخل جنة عدن التي غرسها الله ربي بيده، فليتول علي بن أبي طالب وليتول وليه، وليعاد عدوه، وليسلم للاوصياء من بعده، فإنهم عترتي من لحمي ودمي، أعطاهم الله فهمي وعلمي، إلى الله أشكو [أمر] امتي، المنكرين لفضلهم، القاطعين فيهم صلتي، وأيم الله ليقتلن ابني(1) لا أنالهم الله شفاعتي

رسول اللہ نے فرمايا علي سے دوستي کرو وہ ميري عترت و خون و گوشت ہے
سند ميں ابان بن تغلب سخت مجروح ہے
سمعتُ ابن حماد يقول قَالَ السعدي أَبَان بْن تغلب زائغ مذموم المذهب مجاهر
حد سے بڑھا ہوا مذھب ميں مذموم ہے

اس سے روايت کرنے والا محمد بن سالم مجہول الحال ہے

أبي المغرا کا ذکر شيعہ کتب رجال ميں مفقود ہے

قال ابن الأثير : وعترته -صلى الله عليه وسلم- بنو عبد المطلب
ابن اثیر کہتے ہیں عترت یہ بنو عبد المطلب ہیں
یعنی علی اور ان کی اولاد ہی نہیں بہت سے ہیں

اب تک معلوم ہوا کہ عترت ميں سے نبي صلي اللہ عليہ السلام کے خون کے رشتہ داروں ميں سے بنو عباس و بنو عقيل کو اہل تشيع نے نکال ديا اور اس طرح اس قول نبوي سے پہلے سنت کو خارج کيا گيا پھر اہل بيت النبي کو محدود کيا پھر بنو عباس و بنو عقيل کو بھي نکال ديا اہل سنت اس چھانٹي کو راويوں کي سياست قرار ديتے ہيں اور اہل سنت ميں مقبول فرقوں پر کتب (الملل و النحل ، الفرق بين الفرق وغيرہم ) ميں اسي وجہ سے شيعہ کو ايک سياسي فرقہ قرار ديا گيا ہے

کیا ازواج النبی اہل بیت بھی نہیں ؟

بعض غالي راوي يہ بھي بيان کر رہے تھے کہ ازواج النبي بھي اہل بيت ميں سے نہيں ہيں

سنن الدارمي ميں ہے

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطِيبًا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَهُ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، [ص2091] فَتَمَسَّكُوا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَخُذُوا بِهِ ، فَحَثَّ عَلَيْهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ «وَأَهْلَ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ايک دن خطبہ ميں پہلے اللہ تعالي کي تعريف کي حمد کي پھر فرمايا اے لوگوں ميں ايک بشر ہوں ہو سکتا ہے اللہ کا فرشتہ آئے اور ميں اپنے رب کو جواب دوں ميں تم ميں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں پہلا بوجھ اللہ کي کتاب ہے جس ميں ہدايت ہے نور ہے اس کو کتاب سے پکڑو اور تھام لو اس کي طرف رغبت کرو پھر فرمايا دوسرا بوجھ ميرے اہل بيت ہيں تين بار فرمايا

اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے اور اہل بیت کو خمس دینے کا حکم قرآن میں ہے اور قرابت داری کو قائم رکھنا بھی دین کا حکم ہے

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ، إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لَقَدْ لَقِيتَ، يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَا ابْنَ أَخِي وَاللهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا، وَمَا لَا، فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ
أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ قَالَ كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ نَعَمْ

يزيد بن حيان التيمي کہتے ہیں میں اور حصين بن سبرة اور عمر بن مسلم ، زيد بن أرقم رضی الله عنہ کے پاس گئے

فقال له حصين ( بن سبرة) ومن أهل بيته يا زيد (بن أرقم) أليس نساؤه من أهل بيته قال ان نساءه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده قال ومن هم قال هم آل على وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال أكل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم

حصين ( بن سبرة) نے زيد (بن أرقم) سے پوچھا کہ اے زید کیا نبی کی ازواج ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا بے شک وہ اہل بیت میں سے ہیں لیکن اہل بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقه حرام ہے ان کے بعد پوچھا وہ کون ؟ کہا وہ ال علی ال عقیل ال جعفر ال عباس ہیں کہا ان سب پر صدقه حرام ہے ؟ کہا ہاں

اس ميں امہات المومنين کو اہل بيت ہي کہا گيا ہے

ليکن پھر صحيح مسلم ميں روايت 4314 ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدٍ وَهُوَ ابْنُ مَسْرُوقٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ دَخَلْنَا عَلَيْهِ فَقُلْنَا لَهُ لَقَدْ رَأَيْتَ خَيْرًا، لَقَدْ صَاحَبْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي حَيَّانَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَلَا وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، هُوَ حَبْلُ اللهِ، مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى ضَلَالَةٍ وَفِيهِ فَقُلْنَا مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ لَا، وَايْمُ اللهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ
ہم نے زید سے پوچھا کيا نبي کي عورتيں ان کي اہل بيت نہيں ؟ زيد نے کہا نہيں اللہ کي قسم کيوں ہوں گي ؟ عورت تو مرد کے ساتھ ايک زمانے رہتي ہے پھر وہ طلاق دے کر دوسري شادي کر ليتا ہے اور عورت اپنے باپ کے گھر لوٹ آتي ہے

راقم کہتا ہے کہ يہ روايت موضوع ہے – گھڑنے والے جاہل حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى قاضى كرمان کو يہ معلوم نہيں ہے کہ امہات المومنين کو طلاق دينا نبي پر ممنو ع قرار دے ديا گيا تھا اور صدقات امھات المومنين پر بھي حرام تھا
حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى ، اہل تشيع مجہول ہے

آوزاج نبي کي تعداد محدود کرنے والي آيات ميں اے نبي سے خطاب کيا جا رہا ہے
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِـى اتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَـآءَ اللّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِىْ هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْـهِـمْ فِـى اَزْوَاجِهِـمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ لِكَيْلَا يَكُـوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللّـهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (50)
اے نبي ہم نے آپ کے ليے آپ کي بيوياں حلال کر ديں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہيں اور وہ عورتيں جو آپ کي مملوکہ ہيں جو اللہ نے آپ کو غنيمت ميں دلوا دي ہيں اور آپ کے چچا کي بيٹياں اور آپ کي پھوپھيوں کي بيٹياں اور آپ کے ماموں کي بيٹياں اور آپ کے خالاؤں کي بيٹياں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کي، اور اس مسلمان عورت کو بھي جو بلا عوض اپنے کو پيغمبر کو دے دے بشرطيکہ پيغمبر اس کو نکاح ميں لانا چاہے، يہ خالص آپ کے ليے ہے نہ کہ اور مسلمانوں کے ليے، ہميں معلوم ہے جو کچھ ہم نے مسلمانوں پر ان کي بيويوں اور لونڈيوں کے بارے ميں مقرر کيا ہے تاکہ آپ پر کوئي دقت نہ رہے، اور اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے

تُرْجِىْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِى اِلَيْكَ مَنْ تَشَآءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ذلِكَ اَدْنى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ وَاللّـهُ يَعْلَمُ مَا فِىْ قُلُوْبِكُمْ وَكَانَ اللّـهُ عَلِيْمًا حَلِيْمًا (51)
آپ ان ميں سے جسے چاہيں چھوڑ ديں اور جسے چاہيں اپنے پاس جگہ ديں، اور ان ميں سے جسے آپ (پھر بلانا) چاہيں جنہيں آپ نے عليحدہ کر ديا تھا تو آپ پر کوئي گناہ نہيں، يہ اس سے زيادہ قريب ہے کہ ان کي آنکھيں ٹھنڈي ہوں اور غمزدہ نہ ہوں اور ان سب کو جو آپ ديں اس پر راضي ہوں، اور جو کچھ تمہارے دلوں ميں ہے اللہ جانتا ہے، اور اللہ جاننے والا بردبار ہے
لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ وَكَانَ اللّـهُ عَلى كُلِّ شَىْءٍ رَّقِيْبًا (52)
اس کے بعد آپ کے ليے عورتيں حلال نہيں اور نہ يہ کہ آپ ان سے اور عورتيں تبديل کريں اگرچہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر جو آپ کي مملوکہ ہوں، اور اللہ ہر ايک چيز پر نگران ہے

يه سورہ احزاب ميں ہے
سورہ احزاب کي قيد وفات النبي صلي اللہ عليہ وسلم تک رہي کہ وہ مزيد ازواج نہيں لے سکتے

سورہ تحريم ميں تنبيہ کے لئے اللہ تعالي نے امہات المومنين کو خبردار کيا کہ يہ قيد اٹھائي جا سکتي ہے
اس ميں ہے کہ تعداد ازواج والي قيد ختم کي جا سکتي ہے يہ نہيں ہے کہ کر دي گئي ہے

تمام کلام عسي يعني اگر ہے سے تبنيہ کے انداز ميں شروع ہو رہا ہے

عَسى رَبُّه اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَـه اَزْوَاجًا خَيْـرًا مِّنْكُنَّ
اگر نبي تميں طلاق دے دے تو بہت جلد اس کا رب اس کے بدلے ميں تم سے اچھي بيوياں دے دے گا

يعني تعداد ازواج والا حکم اللہ ختم کر سکتا ہےليکن ہم کو معلوم ہے ايسا نہيں کيا گيا

جنگ جمل سے پہلے حسن رضي اللہ عنہ نے بصرہ ميں خطبہ ديا اور اس ميں اسي وجہ سے فرمايا کہ
إِنَّهَا زَوْجَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ
اے لوگوں عائشہ بصرہ کي طرف آ رہي ہيں جان لو وہ دنيا و آخرت ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي بيوي ہيں ليکن اللہ نے تم کو آزمائش ميں ڈال ديا ہے

بات صرف یہ ہے کہ اہل بیت النبی میں بنو عبد المطلب یہ چاہتے تھے کہ ان کو خمس میں سے مال وقت پر ملتا رہے اور ان کے بارے میں احکام کو بیان کیا جائے مثلا ذوی القربی کی آیت قرآن سورہ الشوری میں ہے

قُلْ لَّآ اَسْاَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبٰى ۗ وَمَنْ يَّقْتَـرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَـهٝ فِيْـهَا حُسْنًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ شَكُـوْرٌ
کہہ دو میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا بجز رشتہ داری کی محبت کے، اور جو نیکی کمائے گا تو ہم اس میں اس کے لیے بھلائی زیادہ کر دیں گے، بے شک اللہ بخشنے والا قدر دان ہے۔

صحیح مسلم میں ہے خوارج کے سردار نَجْدَةُ بن عامر نے ابن عباس سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا

إِنَّكَ سَأَلْتَ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى الَّذِي ذَكَرَ اللهُ مَنْ هُمْ؟ وَإِنَّا كُنَّا نَرَى أَنَّ قَرَابَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ نَحْنُ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا

تم نے سوال کیا ہے کہ ذی القربی پر کہ اللہ نے اس میں جن کا ذکر کیا وہ کون ہیں ؟ ہم (بنو عبد المطلب ) دیکھتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں یعنی یہ ہم ہیں ، لیکن ہماری قوم نے اس پر ہمارا انکار کیا

بنو عبد المطلب نے صبر سے کام لیا اور اس تفسیری اختلاف پر باقی اصحاب رسول سے الگ فرقہ قائم نہیں کیا، لیکن ان کے شیعہ و آزاد کردہ غلام اس چیز پر رائی کا پربت بنا کر فرقہ در فرقہ ہوتے گئے

یہودن کے زہر سے وفات النبی ہوئی ؟

جنگ خیبر    ( سن  سات ہجری )کے بعد  نبی صلی اللہ علیہ  وسلم نے   اس علاقے میں چند ایام   قیام کیا –    روایات   میں ہے کہ  ان دنوں   یہودن    زينب بنت الحارث،  جو   مِرْحب      کی بہن  تھی  اس نے    زہر میں بجھی ، بھنی  ہوئی  بکری   آپ  صلی اللہ علیہ  وسلم کو   تحفہ میں بھیجی    –  بمطابق   بعض روایات   آپ   صلی   اللہ علیہ وسلم    نے  لقمہ  منہ میں  رکھا  ہی   تھا کہ خبر  دی گئی کہ اس میں زہر ہے   اور بعد میں  اس زہر کے زیر اثر   تین ، چار سال بعد آپ  صلی اللہ علیہ  وسلم کی وفات ہوئی –  بعض   روایات  میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زہر تناول  کر لیا تھا   جبکہ    سیرت النبویہ از  ابن  حبان کے مطابق  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زہر نہیں کھایا  تھا بلکہ جب زہر کے مقام پر پہنچے تو ہڈی نے کہا مجھ پر زہر لگا ہے  فرمایا     إن هذا العظم يخبرني  أنه مسموم       اس ہڈی نے خبر دی ہے کہ یہ زہر آلودہ ہے-  بعض  میں ہے کہ  ساتھ ایک صحابی   بشر  رضی اللہ عنہ بھی کھا رہے تھے   جن کی  وفات ہوئی –  دوسری طرف      الإشارة إلى سيرة المصطفى وتاريخ من بعده من الخلفا از  مغلطاي  کے مطابق صحابی  بشر بن البراء بن معروررضی اللہ عنہ کی   اس کی وجہ سے  وفات نہیں ہوئی تھی  –   سنن  ابو داود میں ہے کہ  وأكل رهط من أصحابه  معه. اصحاب رسول کے ایک  گروہ نے  بھی  اس میں سے کھایا –   یہودن کا کیا ہوا  اس میں بھی  شدید اختلاف ہے –  جامع معمر میں ہے امام زہری کہتے ہیں   قال الزهري: فأسلمت، فتركها النبي    اس کو چھوڑ دیا گیا  اور وہ ایمان  لائی  – ابو سلمہ کی  روایت میں ہے اس کو قتل کیاگیا  اور بعض میں ہے صلیب دی گئی–    صحیح   بخاری  میں یہ قصہ   انس  بن مالک کی  سندسے ہے اس  میں ہے کہ   یہودن کو  چھوڑ  دیا گیا     –   قاضی عیاض نے اس طرح تطبیق دی کہ یہ ایمان لائی  لیکن بعد میں قصاص میں قتل ہوئی-  الغرض    اس واقعہ کے حوالے سے قصوں  میں   بہت اضطراب  پایا جاتا ہے

 صحیح  بخاری  کے بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ  میں  ایک   معلق    قول   لکھا ہے

وَقَالَ يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: «يَا عَائِشَةُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ»

امام  بخاری  نے سند کے بغیر   یونس  سے روایت کیا کہ زہری سے  روایت کیا   انہوں نے عروہ سے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا  سے کہ  وہ مرض   جس میں نبی صلی اللہ علیہ  وسلم کی وفات ہوئی  اس میں وہ   فرمایا   کرتے تھے کہ اے عائشہ       وہ  کھانا جو خیبر   میں کھایا  تھا  اس   کی تکلیف   ختم  نہیں ہوئی  ،    اس وقت لگ  رہا ہے کہ میری   شہ رگ  کٹ   جائے گی

راقم   کہتا ہے  یہ سند   منقطع ہے  اور یونس   الأَيلي سے امام بخاری تک سند نہیں ہے –      البانی  نے بھی اقرار   کیا ہے کہ سند   معلق   ہے    کہا    هذا معلق عند المصنف  مصنف  یعنی امام بخاری کے نزدیک یہ معلق ہے

اصل  سند مستدرک  حاکم کی ہے

أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْأَشْقَرُ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْمَرْوَزِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ثنا عَنْبَسَةُ، ثنا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَ عُرْوَةُ: كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ: «يَا عَائِشَةُ، إِنِّي أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُهُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَدْ أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ فَقَالَ: وَقَالَ يُونُسُ

اس  روایت کا مدار   عنبسة بن خالد   پر  ہے – التنکیل  میں معلمی کہتے ہیں کہ

التنكيل” رقم (176): قال ابن أبي حاتم: “سألت أبي عن عنبسة بن خالد فقال: كان علي خراج مصر وكان يعلق النساء بثديهن  وقال ابن القطان: كفى بهذا في تجريحه. وكان أحمد يقول: ما لنا ولعنبسة .. هل روى عنه غير أحمد بن صالح؟. وقال يحيى بن بكير: إنما يحدث عن عنبسة مجنون أحمق، لم يكن بموضع للكتابة عنه”.

ابن ابی حاتم نے کہا میں نے باپ سے عنسبہ  کا پوچھا  کہا یہ مصر  کے خراج پر تھا اور عورتوں کے پستان پر لٹکا  رہتا تھا – ابن قطان نے کہا  یہ جرح کے لئے کافی ہے اور احمد کہتے نہ عنبسة  ہمارے لئے ہے نہ تمہارے لئے .. پوچھا کہ کیا  احمد بن صالح اس سے روایت کرتے ہیں ؟ کہا ابن بکیر کہتے ہیں  احمد بن صالح نے عنبسة  احمق سے روایت  کیا ہے

راقم  کہتا ہے کہ مستدرک   حاکم میں ایسا ہی ہے   احمد بن صالح  نے عنسبہ   احمق سے روایت کیا ہوا ہے –

مسند احمد میں یہ قول  امام زہری  نے   ام مبشر  رضی اللہ عنہا کا بھی کہا ہے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ  ، عَنْ  مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُمِّهِ، أَنَّ أُمَّ مُبَشِّرٍ دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، فَقَالَتْ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ، مَا تَتَّهِمُ بِنَفْسِكَ؟ فَإِنِّي لَا أَتَّهِمُ إِلَّا الطَّعَامَ الَّذِي أَكَلَ مَعَكَ بِخَيْبَرَ، وَكَانَ ابْنُهَا مَاتَ قَبْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” وَأَنَا لَا أَتَّهِمُ غَيْرَهُ، هَذَا أَوَانُ قَطْعِ أَبْهَرِي

اس کی سند میں علت ہے کہ   عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُمِّهِ،  سند میں ہے اور  ان کی والدہ   مجہول ہیں

سنن ابو داود ٤٥١٣ میں ہے

حدَّثنا مخلدُ بنُ خالدٍ، حدَّثنا عبدُ الرزاق، حدَّثنا معمر، عن الزهريِّ، عن ابنِ كعبِ بنِ مالكٍ عن أبيهِ: أن أم مُبشِّر قالت للنبى -صلَّى الله عليه وسلم- في مرضه الذي ماتَ فيه: ما تتَّهم بكَ يا رسولَ الله؟ فإني لا أتَّهِمُ بابني شيئاً إلا الشاة المسمومةَ التي أكلَ معكَ بخيبَر، فقال النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلم-: “وأنا لا أتَّهِمُ بنفسي إلا ذلك، فهذا أوانُ قطعِ أبهرِي

یہاں سند میں عبد الرحمان بن  کعب نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ  ام مبشر نے کہا

ابو داود نے اس پر لکھا ہے

قال أبو داود: ورُبَّما، حدَّث عبدُ الرزاق بهذا الحديثِ مُرسلاً، عن معمرٍ، عن الزُّهريِّ، عن النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلم-. وربما حدَّثَ به عن الزهريِّ، عن عبدِ الرحمن بنِ كعب بنِ مالكٍ. وذكر عبدُ الرزاق: أن معمراً كانَ يُحدِّثهم بالحديثِ مرةً مرسلاً، فيكتبونه، ويحدَّثهم مرةً به فَيُسنِدُه، فيكتبونه، وكل صحيح عندنا. قال عبد الرزاق: فلما قَدِمَ ابنُ المبارك على معمرٍ أسندَ له معمرٌ أحاديثَ كان يوقفها.

عبد الرزاق نے اس حدیث کو مرسل بھی بیان کیا ہے امام زہری نے براہ راست نبی سے روایت کیا ہے اور بعض اوقات زہری نے اس کو عبد الرحمان بن کعب سے روایت کیا ہے اور عبد الرزاق نے ذکر کیا کہ معمر نے اس کو ایک بار مرسل روایت کیا جو لکھا اور ایک بار اس کو مسند روایت کیا اس کو بھی لکھا اور یہ دونوں صحیح ہیں ہمارے نزدیک – عبد الرزاق نے کہا  جب ابن مبارک  ، معمر کے پاس پہنچے تو اس کو معمر کی سند سے روایت کرتے

پھر   سنن ابو داود   میں  سند ٤٥١٤ میں ہے

حدَّثنا أحمدُ بن حنبل، حدَّثنا إبراهيمُ بنُ خالدٍ، حدَّثنا رَباحٌ، عن معمرٍ، عن الزهري، عن عبدِ الرحمن بنِ عبدِ اللهِ بنِ كعبِ بنِ مالكٍ   عن أُمِّه أمِّ مُبشِّر: دخلتُ على النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلم-، فذكَرَ معنى حَدِيثِ مخلد بنِ خالدٍ. قال أبو سعيد ابن الأعرابي: كذا قال: عن أمه، والصواب: عن أبيه، عن أم مُبشر

زہری  نے عبد الرحمان بن عبد اللہ بن کعب سے انہوں نے والدہ سے روایت کیا  -یعنی زہری نے اس کو دو الگ الگ لوگوں سے روایت کیا ہے ایک عبد الرحمن بن كعب سے اور دوسرے انہی کے بھتیجے  عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب سے

 راقم  کہتا ہے کہ اصلا  یہ سب اضطراب ہے  جو  امام زہری  کی وجہ سے بعض اوقات وہ اس کو ام مبشر   کا کلام کہتے ہیں  بعض اوقات ام المومنین  عائشہ    کا  اور  پھر     سند کو بھی  بار بار بدلتے ہیں   کبھی   اس کو   کعب  بن مالک   کی سند  سے لاتے ہیں تو کبھی  عروہ کی سند سے –     اسناد  میں یہ اضطراب   اس متن کو مشکوک کرتا ہے     یہی  وجہ ہے کہ  صحیحین   میں یہ  مسند  روایت نہیں ہوا ہے  –  قابل غور ہے کہ     امہات المومنین  ام سلمہ ،  ام المومنین  صفیہ ،   ام المومنین سودہ ، ام المومنین   زینب  ،  ام المومنین  حفصہ  رضی اللہ عنہما   سے یہ متن  نہیں آیا

مسند الدارمی   اور  سنن ابو داود  ٤٥١٢  میں ہے

أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَنبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو اللَّيْثِيُّ، [ص:208] عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ الْهَدِيَّةَ، وَلَا يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ، فَأَهْدَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مِنْ يَهُودِ خَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً فَتَنَاوَلَ مِنْهَا، وَتَنَاوَلَ مِنْهَا بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ، ثُمَّ رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ هَذِهِ تُخْبِرُنِي أَنَّهَا مَسْمُومَةٌ»، فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا حَمَلَكِ عَلَى مَا صَنَعْتِ؟» فَقَالَتْ: إِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ شَيْءٌ، وَإِنْ كُنْتَ مَلِكًا، أَرَحْتُ النَّاسَ مِنْكَ، فَقَالَ فِي مَرَضِهِ: «مَا زِلْتُ مِنَ الْأُكْلَةِ الَّتِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي»

ابو سلمہ     کہتے ہیں کہ   رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم   ہدیہ میں سے کھاتے   تھے  لیکن  صدقه میں سے نہیں کھاتے تھے – پس ان کو خیبر کی ایک یہودن نے   تحفہ  بھیجا   ایک   بھنی  ہوئی   بکری   کا  جس میں سے آپ  علیہ السلام نے کھایا  اور   اس  میں سے  بشر   بن البراء   نے بھی تناول   کیا –  پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم     نے ہاتھ اٹھا لیا   اور فرمایا مجھ کو   خبر  دی گئی ہے کہ یہ  زہر میں بجھا    ہوا ہے   پس  بشر   کی  موت  واقع   ہوئی  ،  نبی   صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس یہودن   کو    پکڑنے  لوگ بھیجے  اور پوچھا  ایسا کیوں کیا ؟  بولی    اگر تم   نبی  ہو تو   تم کو کوئی نقصان نہ ہو گا   اور اگر   بادشاہ ہو  تو لوگ   آسانی  پائیں گے  – پس  آپ   مرض  وفات میں فرمایا کرتے کہ    خیبر  میں جو کھایا  تھا   اس کا اثر باقی ہے  کہ میری  شہ رگ کٹی  جا رہی ہے

 راقم  کہتا ہے   محمد بن عمرو بن علقمة بن وقاص الليثي نے  اس کو تابعی  أبي سلمة بن عبد الرحمن  سے روایت کیا ہے   اور  اس قصہ کا مصدر  معلوم نہیں ہے –  قابل غور ہے کہ یہودن  کا قول تھا کہ زہر سے غیر نبی  کی وفات ہو جائے گی   اور   مسلمانوں  نے غیر  ارادی طور   پر ایک   ضعیف و منکر  قول قبول  کر لیا کہ   زہر   کی وجہ سے وفات النبی  ہوئی

طبقات ابن سعد میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ الضَّرِيرُ. أَخْبَرَنَا الأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لأَنْ أَحْلِفَ تِسْعًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قُتِلَ قَتْلا أحب إلي أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً وَذَلِكَ بِأَنَ اللَّهَ اتَّخَذَهُ نَبِيًّا وَجَعَلَهُ شَهِيدًا.

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا اگر نو گواہی دیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہوئے تو مجھ کو یہ پسند ہے کہ ایک حلف لے کہ  اللہ نے ان کو نبی بنایا اور شہید بنایا

یہاں شہید  کا مطلب ہے گواہ بنایا  جس طرح قرآن سورہ النساء  میں ہے

فَكَـيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰٓؤُلَآءِ شَهِيْدًا (41)

پھر کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے گواہ بلائیں گے اور تمہیں ان پر گواہ کر کے لائیں گے۔

یہاں شَهِيْدًا کا لفظ ہے یعنی گواہ بنا کر  لائیں گے

سورہ حاقه میں ہے

اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی بات جھوٹ بنا لاتے

 تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے

پھر ان کی رگ گردن کاٹ ڈالتے

زہر کا اثر یہی بتایا جا رہا ہے کہ اس سے رگ گردن  کٹی  جا رہی تھی  لہذا اس قسم کی روایات کس طرح صحیح سمجھی جائیں

صحيح الجامع میں البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے

ما زالت أَكْلَةُ خَيْبَرِ تعاودني في كل عام، حتى كان هذا أوان قطع أَبْهُرِي

 جو خیبر میں کھایا تھا اس کا اثر ختم نہیں ہوا ، ہر سال اس کا اثر آتا ہے یہاں تک کہ لگتا ہے کہ شہ رگ کٹی جا رہی ہے

راقم کہتا ہے طب النبوی از ابو نعیم میں اسکی سند ہے

 أخبرنا أبو بكر فيما كتب إلي، حَدَّثَنا أحمد بن عمير بن يوسف، حَدَّثَنا إبراهيم بن سعيد، حَدَّثَنا سعيد بن محمد الوراق، حَدَّثَنا محمد بن عَمْرو، [ص:218] عَن أَبِي سلمة، عَن أَبِي هُرَيرة، قال: قال رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم: ما زالت أكلة خيبر تعاودني في كل عام حتى كان هذا أوان قطع أبهري.

 اس کی سند ضعیف ہے  سند میں سعيد بن محمد الوراق ہے  جس پر محدثین کی جرح ہے

حَدَّثَنا الجنيدي، حَدَّثَنا البُخارِيّ قال ابْن مَعِين سَعِيد بْن مُحَمد الوراق ليس بشَيْءٍ هو الثقفي الكوفي

مسند البزار میں بھی یہی سند ہے

حَدَّثنا إبراهيم بن سَعِيد الجوهري، قَال: حَدَّثنا سَعِيد بن مُحَمد الوراق، قَال: حَدَّثنا مُحَمد بن عَمْرو، عَن أبي سَلَمَة، عَن أبي هُرَيرة، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم: ما زالت أكلة خيبر تعادني حتى هذا أوان قطعت أبهري.

وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ مُحَمد، عَن أبي سَلَمَة، عَن أبي هُرَيرة إلاَّ سَعِيد بن مُحَمد ولم يسمعه إلاَّ من إبراهيم بن سَعِيد وسعيد بن مُحَمد ليس بالقوي وحدث عَنْهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَاحْتَمَلُوا حَدِيثَهُ، وَكان من أهل الكوفة.

اور امام البزار نے ذکر بھی کیا ہے کہ راوی سعيد بن محمد الوراق قوی نہیں ہے

یہود انبیاء کو قتل کرتے رہے ہیں اور  لوگوں  نے اسی خبر  سے یہ استخراج کیا کہ یہود  کے دیے گئے زہر کے زیر اثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ہوئی – اس سے دو مقصد حاصل ہوئے ایک یہ کہ یہود پر قتل نبی کا الزام لگ سکے دوم نبی کو شہید  قرار دیا جا سکے  – حالانکہ دونوں غیر حقیقی ہیں – نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ شہید سے بہت بہت بلند ہے اور کسی قدرتی مرض میں وفات سے  ان کی شان اقدس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی -دوم نبی پر کسی بھی زہر کا اثر نا ممکن ہے کیونکہ ان کے منہ میں لعاب دھن خود شفاء پیدا کرتا تھا

صحیح بخاری کی ایک حدیث میں خاص واقعہ نقل ہوا    ہے کہ ایک سفر میں   اصحاب رسول  کا ایک مشرک بستی   پر سے گذر ہوا – انہوں نے وہاں پڑاو  کیا  اور مشرکوں سے حق ضیافت طلب  کیا   – مشرکوں نے    یہ دینے سے انکار کیا حتی کہ ان کے سردار کو بچھو  نے ڈس  لیا –  مشرک     دم    کرنے والے کی تلاش میں مسلمانوں  کے پاس پہنچے  اور ایک صحابی نے      حکمت کے تحت   اس  سردار کو   اپنے تھوک  اور سورہ  فاتحہ سے دم کیا اور زہر کا اثر ختم ہو گیا –    یعنی یہ  ایک      مخصوص  واقعہ   تھا   –  اس  واقعہ کی بنیاد  پر سورہ  فاتحہ کو   زہر   کا دم سمجھا جاتا ہے –  قابل غور ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جن پر مسلسل  قرآن نازل ہوتا رہا اور وہ صبح و  شام و رات  سورہ  فاتحہ کی تلاوت  کرتے رہے تو یہ   یہودن   کے زہر  کا اثر   کیسے   باقی رہا گیا ؟

راقم  سمجھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  زہر آلودہ  مقام  سے کچھ  بھی نہیں کھایا تھا  اور وہ مسلسل     اللہ کی پناہ میں تھے   خود   قرآن میں ہے   و  اللہ  یعصمک   من  الناس   (سورہ المائدہ )   اللہ تم کو   لوگوں سے بچائے  گا –   جوابا   بعض     کہتے ہیں کہ سورہ مائدہ تو    جنگ خیبر   کے بعد   نازل ہوئی ہے   ، لیکن  وہ غور نہیں  کرتے کہ  اگر کوئی  زہر رہ  گیا تھا تو وہ  اس آیت کے نزول کے بعد بھی    جسم اطہر  میں رہ گیا ؟           تبلیغ  میں انبیاء   مشقت   برداشت  کرتے رہے ہیں ،   نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کو  بھی    تکلیف  دی گئی  ،    جنگ  احد    میں   چہرہ مبارک    پر چند    زخم   آئے  تھے   جو خراش   نما   تھے –   لیکن ایسا نہیں ہوا کہ  جسم اطہر    کو نقصان پہنچا   ہو   یہاں تک کہ   زہر       آپ  صلی اللہ علیہ  وسلم کو    محسوس  ہوتا رہا ہو –  لہذا    راقم  سمجھتا ہے کہ ایام    خیبر  میں     زہر  تناول   کرنے والی   روایات    صحیح متن سے نہیں ہیں  اور  زہر  کا اثر   بیان کرنے والی روایات  شاذ  و   منکر ہیں

نور محمدی کا ذکر ٣

متروک و منکر روایات  کو  محراب و  منبر پر بیان کرنے والے  طارق  جمیل  صاحب کی جانب سے ایک روایت پیش کی جا رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ، تخلیق مخلوق سے ہزار سال پہلے ہوئی اور ان کا ایک نام یاسین ہے

٩ منٹ پر

اس قول  کا تعاقب کیا گیا اور یہ معلوم ہوا ہے

کتاب الروض الباسم  از ابو سلیمان جاسم  کے مطابق

– أخبرنا خيثمة بن سليمان: نا جعفر بن محمد بن زياد الزّعفراني الرازي ببغداد: نا إبراهيم بن المنذر الحِزامي (ح). وأخبرنا أبو عبد الله محمد بن إبراهيم بن عبد الرحمن (1) القرشي قراءةً عليه: أنا أبو عبد الملك أحمد بن إبراهيم القرشي قراءةً عليه، قالا (2): نا إبراهيم بن المنذر، -وهو الحِزامي-: نا إبراهيم بن مهاجر بن مِسمار عن عمر بن حفص بن ذكوان عن مولى الحُرَقَة.عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: “إنّ اللهَ -عَزَّ وجَلَّ- قرأ (طه) و (ياسين) قبلَ أن يخلقَ آدمَ بألف عامٍ، فلمّا سَمِعَ الملائكةُ القرآنَ قالوا: طُوبى لأمّةٍ يُنزَّل هذا عليها، وطوبى لأجوافٍ تحمل هذا، وطوبى لألسنٍ تكلَّمُ بهذا”.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی نے  تخلیق آدم سے ہزار سال قبل  (طه) و (ياسين) کی قرات کی جب فرشتوں نے قرآن سنا تو کہا خوشخبری ہو اس امت پر جس پر یہ نازل ہو اور خوشخبری ہو ان جسموں پر جو اس کو اٹھائیں (یعنی حفظ کریں ) اور ان زبانوں پر جو اس کے الفاظ  کو ادا کریں

سند میں ابراہیم بن مہاجر بن مسمار ضعیف ہے

کتاب  الإيماء إلى زوائد الأمالي والأجزاء – زوائد الأمالي والفوائد والمعاجم والمشيخات على الكتب الستة والموطأ ومسند الإمام أحمد

المؤلف: نبيل سعد الدين سَليم جَرَّار کے مطابق

قال الشيخ الإمام أبوبكر الخطيب هذا حديث غريب من حديث عبدالرحمن بن يعقوب مولى الحرقة عن أبي هريرة، تفرد بروايته إبراهيم بن مهاجر بن مسمار المديني، عن حفص بن عمر بن ذكوان.

وقال المنذري: إبراهيم بن مهاجر ضعيف

خطیب بغداد ی نے کہا یہ حدیث غریب ہے  …  منذری نے کہا اس میں ابراہیم بن مھاجر ضعیف ہے

سنن الدارمی میں ہے

– حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَاجِرِ بْنِ [ص:2148] الْمِسْمَارِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه وْ يس قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ، قَالَتْ: طُوبَى لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا، وَطُوبَى لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا، وَطُوبَى لِأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا “

[تعليق المحقق  حسين سليم أسد الداراني ] إسناده ضعيف جدا عمر بن حفص بن ذكوان قال أحمد: تركنا حديثه وحرقناه

سند میں عمر بن حفض  متروک ہے

طارق جمیل نے ذکر کیا کہ نبی مختون پیدا ہوئے اس قول پر امام الذھبی کا کہنا ہے

علّق عليه الحافظ الذهبي في “تلخيص المستدرك” بقوله: ما أعلم صحة ذلك فكيف يكون متواترا؟

اس روایت کی صحت ہی معلوم ہی نہیں ہے ، متواتر کیسے ہے ؟

بیعت ابو بکر پر علی کا توقف

علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی – صحيح بخاري 4240 میں ہے

، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا، وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ، فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُر

فاطمہ وفات النبی کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں پھر جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی نے رات میں ان کو دفن کیا اور اس تدفین کی اجازت ابو بکر سے نہیں لی اور فاطمہ پر خود نماز پڑھ لی اور … پھر فاطمہ کی وفات کے بعد ابو بکر کی بیعت کی

فتح الباري ميں ابن حجر نے اس پر کہا

وَأَشَارَ الْبَيْهَقِيُّ إِلَى أَنَّ فِي قَوْلِهِ وَعَاشَتْ إِلَخْ إِدْرَاجًا وَذَلِكَ أَنَّهُ وَقَعَ عِنْدَ مُسْلِمٍ مِنْ طَرِيقٍ أُخْرَى عَنْ الزُّهْرِيِّ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَقَالَ فِي آخِرِهِ قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ كَمْ عَاشَتْ فَاطِمَةُ بَعْدَهُ قَالَ سِتَّةُ أَشْهُرٍ وَعَزَا هَذِهِ الرِّوَايَةَ لِمُسْلِمٍ وَلَمْ يَقَعْ عِنْدَ مُسْلِمٍ هَكَذَا بَلْ فِيهِ كَمَا عِنْدَ الْبُخَارِيِّ مَوْصُولًا
بیہقی نے اشارہ کیا ہے کہ یہ قول امام الزہری کا ادراج ہے اور صحیح مسلم میں روایت ہے امام الزہری سے مروی ہے جس کے آخر میں ہے راوی نے کہا میں نے زہری سے پوچھا کہ فاطمہ کتنے روز حیات رہیں وفات النبی کے بعد ؟ زہری نے کہا چھ ماہ

وَقد صحّح بن حِبَّانَ وَغَيْرُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَغَيْرِهِ أَنَّ عَلِيًّا بَايَعَ أَبَا بَكْرٍ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ وَأَمَّا مَا وَقَعَ فِي مُسْلِمٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لَهُ لَمْ يُبَايِعْ عَلِيٌّ أَبَا بَكْرٍ حَتَّى مَاتَتْ فَاطِمَةُ قَالَ لَا وَلَا أَحَدٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ فَقَدْ ضَعَّفَهُ الْبَيْهَقِيُّ بِأَنَّ الزُّهْرِيَّ لَمْ يُسْنِدْهُ وَأَنَّ الرِّوَايَةَ الْمَوْصُولَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَصَحُّ
اور ابن حبان نے ایک روایت کی تصحیح کی ہے جو ابو سعید سے مروی ہے اور دوسروں سے کہ علی نے ابو بکر کی بیعت بالکل شروع میں ہی کر لی تھی اور وہ روایت جو صحیح مسلم میں زہری سے آئی ہے اس میں ہے کہ ایک شخص نے زہری سے ذکر کیا کہ علی نے ابو بکر کی بیعت نہیں کی یہاں تک کہ فاطمہ کی وفات ہوئی اور کہا اور بنو ہاشم میں بھی کسی نے بیعت نہیں کی اس کی تضعیف کی ہے بیہقی نے کہ زہری نے اس کی سند نہیں دی اور وہ روایت جو موصول ہے ابو سعید سے وہ اصح ہے

راقم نے ابن حجر کے اس کلام کا تعقب کیا اور صحیح ابن حبان میں دیکھا کہ کون سی روایت کو صحیح کہا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ ابن حبان نے امام زہری والی روایت کو ہی صحیح میں درج کیا ہے – صحيح ابن حبان 4823 ميں ابن حجر کي تحقيق کے برعکس صحيح بخاري جيسي روايت ہے جس ميں ہے

وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ، فَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِيٌّ، وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ فَاطِمَةُ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهَا، انْصَرَفَتْ وجُوهُ النَّاسِ عَنْ عَلِيٍّ، حَتَّى أَنْكَرَهُمْ، فَضَرَعَ عَلِيٌّ عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى مُصَالَحَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَمُبَايَعَتِهِ وَلَمْ يَكُنْ بَايَعَ تِلْكَ الْأَشْهُرَ،

یعنی ابن حبان نے اس امام زہری والی روایت کو ہی صحیح قرار دیا ہے

اب دیکھتے ہیں کہ ابو سعید سے مروی حدیث کون سی ہے جس کا امام بیہقی نے ذکر کیا ہے – یہ روایت ابو داود طيالسي ميں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خُطَبَاءُ الْأَنْصَارِ فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَقُولُ: يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا بَعَثَ رَجُلًا مِنْكُمْ قَرْنَهُ بِرَجُلٍ مِنَّا» ، فَنَحْنُ نَرَى أَنْ يَلِيَ هَذَا الْأَمْرَ رَجُلَانِ، رَجُلٌ مِنْكُمْ وَرَجُلٌ مِنَّا، فَقَامَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَقَالَ: «إِنَّ رَسُولَ [ص:496] اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَكُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّمَا يَكُونُ الْإِمَامُ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، نَحْنُ أَنْصَارُهُ كَمَا كُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: جَزَاكُمُ اللَّهُ مِنْ حَيٍّ خَيْرًا يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، وَثَبَّتَ قَائِلَكُمْ، وَاللَّهِ لَوْ قُلْتُمْ غَيْرَ هَذَا مَا صَالَحْنَاكُمْ

ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کے خطیب کھڑے ہوئے اور ان میں سے بعض کہہ رہے تھے اے گروہ مہاجرین جب رسول اللہ تم میں سے کسی کو (امیر بنا کر ) بھیجتے تو ایک ہم (انصار میں ) سے ساتھ کرتے تھے پس ہم انصار دیکھتے ہیں کہ یہ امر خلافت دو کو ملے ایک ہم میں سے ایک تم میں سے پس زید بن ثابت کھڑے ہوئے اور کہا بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو خود مہاجرین میں سے تھے اور ہم رسول اللہ کے انصاری تھے ، پس امام تو مہاجرین میں سے ہی ہونا چاہیے اور ہم مدد گار رہیں گے جس طرح ہم رسول اللہ کے مدد گار تھے پس ابو بکر رحمہ اللہ نے فرمایا اللہ تم کو جزا دے اے گروہ انصار اور تم کو بات پر قائم رکھے اللہ کو قسم اگر تم اس کے علاوہ کچھ کہتے تو اگریمنٹ نہ ہوتا

اسی متن پر تاريخ دمشق ميں اضافہ بھی ملتا ہے

وأخبرنا أبو القاسم الشحامي أنا أبو بكر البيهقي أنا أبو الحسن علي بن محمد بن علي الحافظ الإسفراييني قال (1) نا أبو علي الحسين بن علي الحافظ نا أبو بكر بن إسحاق بن خزيمة وإبراهيم بن أبي طالب قالا نا بندار بن بشار نا أبو هشام المخزومي نا وهيب نا داود بن أبي هند نا أبو نضرة عن أبي سعيد الخدري قال قبض النبي (صلى الله عليه وسلم) واجتمع الناس في دار سعد بن عبادة وفيهم أبو بكر وعمر قال فقام خطيب الأنصار فقال أتعلمون أن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) كان من المهاجرين وخليفته من المهاجرين ونحن كنا أنصار رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنحن أنصار خليفته كما كنا أنصاره قال فقام عمر بن الخطاب فقال صدق قائلكم أما لو قلتم غير هذا لم نتابعكم (2) وأخذ بيد أبي بكر وقال هذا صاحبكم فبايعوه وبايعه عمر وبايعه المهاجرون والأنصار قال فصعد أبو بكر المنبر فنظر في وجوه القوم فلم ير الزبير قال فدعا بالزبير فجاء فقال (3) قلت أين ابن عمة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وحواريه أردت أن تشق عصا المسلمين قال لا تثريب يا خليفة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فقام فبايعه ثم نظر في وجوه القوم فلم ير عليا فدعا بعلي بن أبي طالب فجاء فقال قلت ابن عم رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وختنه على ابنته أردت أن تشق عصا المسلمين قال لا تثريب يا خليفة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فبايعه

أبي سعيد الخدري نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور لوگ سعد بن عبادہ کے گھر میں جمع ہوئے جن میں ابو بکر اور عمر بھی تھے پس انصار کے خطیب کھڑے ہوئے اور کہا تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین میں سے تھے اور خلیفہ بھی مہاجرین میں سے ہونا چاہیے اور ہم مددگار ہیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے اسی طرح ہونے والے خلیفہ کے ہوں گے پس عمر بن خطاب کھڑے ہوئے اور کہا تم نے سچ کہا اگر کچھ اور کہتے تو ہم تمہاری بیعت نہیں کرتے اور ابو بکر کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا یہ تمہارے صاحب ہیں ان کی بیعت کرو اور عمر نے بیعت کی اور مہاجرین و انصار نے بھی بیعت کی پس ابو بکر لوگوں سے اوپر منبر پر کھڑے ہوئے اور
قوم کی شکلوں کو دیکھا تو ان میں زبیر کو نہیں پایا – کہا پس زبیر کو پکارا گیا اور وہ آئے – ابو سعید نے کہا میں نے زبیر سے پوچھا رسول اللہ کی چچی کا لڑکا (علی ) اور اس کے حواری کدھر ہیں یہ مسلمانوں کی لاٹھی کو توڑنا چاہتے ہیں ؟ زبیر ( فورا ابو بکر کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں ) نے کہا آپ پر کوئی الزام نہیں اے خلیفہ رسول ، اور انہوں نے ابو بکر کی بیعت کر لی پھر ابو بکر نے نظر دوڑائی تو علی کو نہیں پایا پس علی کو پکارا گیا اور وہ آئے -ابو سعید نے کہا میں نے علی سے پوچھا اے رسول اللہ کے کزن اور ( بیہودہ الفاظ بولے ) ….. تم مسلمانوں کی لاٹھی توڑنا چاہتے ہو ؟ علی نے کہا اے خلیفہ رسول ہمارا آپ پر کوئی الزام نہیں اور بیعت کر لی

راقم کہتا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے اور متن منکر ہے اول تو ابو بکر کی بیعت سعد بن عبادہ کے گھر میں نہیں باغ سقیفہ بنی ساعدہ میں ہوئی تھی دوم اس میں اہل بیت النبی کو زبردستی بلوا بلوا کر بیعت لینے کا ذکر ہے جبکہ وہ سب ابھی تدفین النبی کی تیّاریوں میں مصروف ہوں گے

سند میں وھیب بن خالد ثقہ ہے لیکن اس کو وہم بھی ہوتا ہے – اس کی سند میں أبُو نَضْرَةَ العَبْدِيُّ المُنْذِرُ بنُ مَالِكِ بنِ قُطَعَةَ بھی ہے الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِي (الثِّقَاتِ) : كَانَ مِمَّنْ يُخْطِئُ
ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں یہ وہ ہیں جو غلطی کرتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ سَعْدٍ : ثِقَةٌ، كَثِيْرُ الحَدِيْثِ، وَلَيْسَ كُلُّ أَحَدٍ يُحْتَجُّ بِهِ.
ابن سعد کہتے ہیں ثقہ ہیں کثیر الحدیث ہیں اور ہر ایک سے دلیل نہیں لی جا سکتی

اسی طرح کا متن ایک دوسرے طرق سے ہے

أخبرنا أبو القاسم إسماعيل بن أحمد أنا أحمد بن علي بن الحسن (2) بن أبي عثمان وأحمد بن محمد بن إبراهيم القصاري ح وأخبرنا أبو عبد الله بن القصاري أنا أبي أبو طاهر قالا أنا أبو القاسم إسماعيل بن الحسن (3) بن عبد الله الصرصري نا أبو عبد الله المحاملي نا القاسم بن سعيد بن المسيب نا علي بن عاصم نا الجريري عن أبي نضرة (4) عن أبي سعيد قال لما بويع أبو بكر قال أين علي لا أراه قالوا لم يحضر قال فأين الزبير قالوا لم يحضر قال ما كنت أحسب أن هذه البيعة إلا عن رضا جميع المسلمين إن هذه البيعة ليس كبيع الثوب ذي الخلق إن هذه البيعة لا مردود لها قال فلما جاء علي قال يا علي ما بطأ بك عن هذه البيعة قلت إني ابن عم رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وختنه على ابنته لقد علمت أني كنت في هذا الأمر قبلك قال لا تزري بي يا خليفة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فمد يده فبايعه فلما جاء الزبير قال ما بطأ بك عن هذه البيعة قلت (1) إني ابن عمة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وحواري رسول الله ( صلى الله عليه وسلم) أما علمت أني كنت في هذا الأمر قبلك قال لا تزري بي يا خليفة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ومد يده فبايعه

یہاں علي بن عاصم بن صهيب الواسطي ہے جو کثرت سے غلطی کرنے پر مشہور ہے امام علي بن المديني کا قول ہے
كان على بن عاصم كثير الغلط

اس طرح اس روایت کی سند و متن منکر ہے – بیعت ابو بکر کے حوالے سے ایک روایت تاريخ طبري ميں ملی ہے

حدثنا عبيد الله بن سعيد الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمِّي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَيْفُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ظَبْيَةَ الْبَجَلِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: قال عمرو بن حريث لسعيد ابن زيد: اشهدت وفاه رسول الله ص؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:فَمَتَى بُويِعَ أَبُو بَكْرٍ؟ قال: يوم مات رسول الله ص كَرِهُوا أَنْ يَبْقَوْا بَعْضَ يَوْمٍ وَلَيْسُوا فِي جَمَاعَةٍ قَالَ: فَخَالَفَ عَلَيْهِ أَحَدٌ؟ قَالَ:
لا إِلا مُرْتَدٌّ أَوْ مَنْ قَدْ كَادَ أَنْ يَرْتَدَّ، لَوْلا أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنْقِذُهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ: فَهَلْ قَعَدَ أَحَدٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ؟ قَالَ: لا، تَتَابَعَ الْمُهَاجِرُونَ عَلَى بَيْعَتِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَدْعُوَهُمْ.

عمرو بن حريث کہتے ہيں کہ ميں نے سعيد بن زيد سے دريافت کيا کہ کيا اپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کي وفات کے وقت موجود تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں پھر انہوں نے سوال کيا کہ ابو بکر سے بيعت کب کي گئي ، اس کے جواب ميں فرمايا کہ جس دن نبي صلی اللہ علیہ وسلم کي وفات ہوئي اسي دن، صحابہ اس کو اچھا نہيں جانتے تھے کہ ايک دن بھي اس طرح سے گزاريں کہ جماعت سے منسلک نہ ہوں اس پر عمرو بن حريث نے پھر پوچھا کہ کيا ابو بکر کي کسي نے مخالفت کي تھي؟ سعيد بن زيد نے جواب ديا کہ نہيں البتہ ایک مرتد نے يا انصار ميں سے اس شخص نے مخالفت کي تھي جو قريب تھا کہ مرتد ہوجاتا اگر اللہ اسکو اس سے نہ بچا ليتا عمرو بن حريث نے پھر پوچھا کہ مہاجرين ميں سے کسي
نے پہلو تہي کي تھي سعيد بن زيد نے فرمايا، نہيں بلکہ مہاجرين تو بغير بلائے ہي بيعت کرنے ٹوٹ پڑے تھے )

اس حدیث پر تاریخ طبری کے محققین کتاب صحيح وضعيف تاريخ الطبري از محمد بن طاهر البرزنجي ، إشراف ومراجعة: محمد صبحي حسن حلاق الناشر: دار ابن كثير، دمشق – بيروت میں کہتے ہیں کہ حديث ضعيف وفي متنه نكارة یہ ضعیف ہے اور متن میں نکارت ہے

کتاب المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري ، الناشر: الدار الأثرية، الأردن – دار ابن عفان، القاهرة کے مطابق اس کی سند ميں راوی الوليد بن عبد الله بن أبي ظبية مجہول ہے
لم أعرفه، ولم أعرف أباه، ولم أجد لهما تراجم
محقق کہتے ہیں اس کو نہیں جان سکا نہ اس راوی کا ترجمہ ملا

اس تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ ابن حبان نے امام زہری کے قول والی حدیث کو ہی صحیح کہا ہے اور ابن حجر کو تسامح ہوا کہ ابن حبان نے کسی اور روایت کو صحیح قرار دیا ہے – دوم تاریخ طبری کی روایت مجھول راوی کی وجہ سے ضعیف ہے اور تاریخ دمشق والی روایت کا متن منکر ہے اور سند بھی ایسی مضبوط نہیں ہے

وہابی عالم صالح المنجد نے بھی اپنی ویب سائٹ پر ان روایات کو ضعیف گردانا ہے

غور طلب ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی
اس طرح کے اختلافات موجود تھے لیکن اس میں زبردستی نہیں کی جاتی تھی کہ جبرا بیعت لی جاتی ہو

راقم سمجھتا ہے کہ امام زہری کا جملہ وضاحتی مدرج ہے لیکن حقیقت حال کے خلاف نہیں ہے

لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ

سورہ الحجرات کي آيات ہيں

بِسْمِ اللّـهِ الرَّحْـمنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـهِ وَرَسُوْلِـه وَاتَّقُوا اللّـهَ اِنَّ اللّـهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ (1)
اے ايمان والو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـه بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (2)
اے ايمان والو اپني آوازيں نبي کي آواز سے بلند نہ کيا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کيا کرو جيسا کہ تم ايک دوسرے سے کيا کرتے ہو
کہيں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائيں اور تمہيں خبر بھي نہ ہو
اِنَّ الَّـذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَـهُـمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّـهِ اُولئِكَ الَّـذِيْنَ امْتَحَنَ اللّـهُ قُلُوْبَـهُـمْ لِلتَّقْوى لَـهُـمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِـيْمٌ (3)
بے شک جو لوگ اپني آوازيں رسول اللہ کے حضور دھيمي کر ليتے ہيں يہي لوگ ہيں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پرہيزگاري کے ليے جانچ ليا ہے ان
کے ليے بخشش اور بڑا اجر ہے
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَكْثَرُهُـمْ لَا يَعْقِلُوْنَ (4)
بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہيں اکثر ان ميں سے عقل نہيں رکھتے
وَلَوْ اَنَّـهُـمْ صَبَـرُوْا حَتّـى تَخْرُجَ اِلَيْـهِـمْ لَكَانَ خَيْـرًا لَّـهُـمْ وَاللّـهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ (5)
اور اگر وہ صبر کرتے يہاں تک کہ آپ ان کے پاس سے نکل کر آتے تو ان کے ليے بہتر ہوتا اور اللہ بخشنے والا نہايت رحم والا ہے

ان آيات ميں بتايا جا رہا ہے کہ لوگ حجرات النبي کے باہر جمع ہو جاتے اور شور کرتے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم باہر تشريف لائيں-اس عمل پر تنبيہ کي گئي کہ اگر آئندہ ايسا کيا تو عمل فنا ہو جائيں گے اور معلوم تک نہ ہو گا – صحيح بخاري ميں اس کے برعکس بيان کيا گيا ہے
کہ حجرات النبي کے باہر نہيں بلکہ عين نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے شيخين کا جھگڑا ہوا اور اور وہ اپني اپني چلانے کي کوشش کر رہے تھے – حديث بيان کي جاتي ہے

حَدَّثَني إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُمْ: «أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرِ القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ عُمَرُ: بَلْ أَمِّرِ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلاَفِي قَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُقَدِّمُوا} [الحجرات: 1] حَتَّى انْقَضَتْ , (خ) 4367
ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے بيان کيا کہ ابن زبير رضي اللہ عنہ نے ان کو خبر دي کہ نبو تميم کا وفد نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں پہنچا – ابو بکر رضي اللہ عنہ نے کہا القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ کو ان کا امير کريں ، عمر رضي اللہ عنہ نے کہا بلکہ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ کو ان کا امير کريں ،- ابو بکر نے کہا عمر تم تو ميرے خلاف ہي بات کرنا ، عمر نے کہا ميں نے تمہاري مخالفت کا ارادہ نہيں کيا پس اس ميں کلام ہوا اور آواز بلند ہو گئي پس يہ آيت نازل ہوئي
اے مومنوں رسول اللہ کے سامنے پيش قدمي مت کرو

واقعہ بيان کيا جاتا ہے کہ وفد ميں ميں دو صحابي الأقرع بْن حابس التميمي المُجاشِعِي اور القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ تھے
ابن ابي مليکہ نے کہا کہ اس وفد کي آمد کے موقعہ پر امير کے انتخاب پر ابو بکر اور عمر کي بحث ہوئي اور بات شور تک پہنچي تو حکم نازل ہوا کہ رسول کي موجودگي ميں پيش قدمي مت کرو – راوي ابن ابي مليکہ سے يہ قصہ نافع بن عمر الجمحي اور ابن جريج نے نقل کيا ہے نافع بن عمر پر ابن سعد کا قول ہے کہ ثقہ ہے مگر اس ميں کوئي چيز ہے قال ابن سعد ثقة فيه شيء – دوسرا راوي ابن جريج مدلس ہے اور اس قصہ کي تمام اسناد ميں اس کا عنعنہ ہے – يعني يہ روايت صحيح کے درجہ کي نہيں سمجھي جا سکتي

ترمذي نے اس کے تحت لکھا ہے کہ
قَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ مُرْسَلاً وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
بعض نے اس قصہ کو بيان کيا ہے کہ ابن ابي مليکہ اس قصہ کو مرسل بيان کرتا تھا اور اس روايت کي سند کو ابن زبير تک نہيں لاتا تھا

راقم کہتا ہے بہت ممکن ہے ابن ابي مليکہ کو ابن زبير سے يہ قصہ نہيں ملا بلکہ کسي اور سے ملا اور بعد ميں راويوں نے اس کي سند کو بلند کيا اور اس کو ابن زبير کا بيان کردہ قصہ بنا ديا

دوسري طرف صحيح مسلم کي حديث ہے کہ جب يہ آيت نازل ہوئي (رسول اللہ کي موجودگي ميں آواز بلند مت کرو ) تو انصاري موذن ثابت بن قيس
کا ذکر ہوا کہ ان کو لگا ہے کہ آيت ان کے بارے ميں ہے – اس حديث ميں سعد بن معاذ رضي اللہ عنہ کا بھي ذکر ہے جن کي وفات جنگ خندق پر ہوئي جو سن 3 يا 4 ہجري کا واقعہ ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ} [الحجرات: 2] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ جَلَسَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ فِي بَيْتِهِ وَقَالَ: أَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ: «يَا أَبَا عَمْرٍو مَا شَأْنُ ثَابِتٍ؟ اشْتَكَى؟» قَالَ سَعْدٌ: إِنَّهُ لَجَارِي وَمَا عَلِمْتُ لَهُ بِشَكْوَى قَالَ: فَأَتَاهُ سَعْدٌ فَذَكَرَ لَهُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ثَابِتٌ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي مِنْ أَرْفَعِكُمْ صَوْتًا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ»
انس بن مالک نے کہا جب آيت نازل ہوئي اے ايمان والوں اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو آخر تک تو ثابت بن قيس رضي اللہ عنہ (جو موذن تھے ) گھر جا کر بيٹھ گئے اور کہنے لگے ميں جہنمي ہوں … رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے يہ نوٹ کيا کہ قيس موجود نہيں سعد سے پوچھا کہ ابو عمرو ثابت کا کيا حال ہے ؟ سعد بن معاذ نے کہا وہ ميرے پڑوسي ہيں اور مجھ کو کسي شکوہ کا علم نہيں پس سعد قيس کے ہاں پہنچے اور قول رسول کا ذکر کيا – ثابت نے کہا آيت نازل ہوئي ہے کہ اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو ميں تو جہنمي ہو گيا پس اس کا ذکر نبي سے کيا گيا آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا وہ جنتي ہے

اس روايت کي بنا پر صحيح بخاري کي روايت کو صحيح نہيں سمجھا جا سکتا کيونکہ اس کے تحت آيات کا نزول غزوہ خندق سے بھي پہلے ہوا اور تاريخا وفد بنو تميم کي آمد اس غزوہ کے بعد ہي ممکن ہے کيونکہ بنو تميم عرب ميں مدينہ کے مشرق ميں تھے جہاں آجکل رياض ہے اور وہاں سے مدينہ تک رستے ميں مشرکين کے قبائل تھے لہذا وہاں سے کثیر تعداد میں لوگوں کا مسجد النبی تک آنا ممکن نہیں تھا  – متن قرآن ميں موجود ہے کہ لوگ جن کو تنبيہ کي گئي وہ حجرات النبي کے باہر سے پکارا کرتے تھے وہ نبي کے سامنے شور و غل نہيں کر رہے تھے

مشکل الاثار از طحاوي کي روايت ہے جس کے مطابق سورہ حجرات کي پہلي آيت کا تعلق عبادات سے ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ شُعَيْبٍ الْكَيْسَانِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي فِي إمْلَاءِ أَبِي يُوسُفَ عَلَيْهِمْ , عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ عَنْ حِبَالِ بْنِ رُفَيْدَةَ عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ عَرَفَةَ وَالنَّاسُ يَسْأَلُونَ يَرَوْنَ أَنَّهُ يَوْمُ النَّحْرِ فَقَالَتْ لِجَارِيَةٍ لَهَا: ” أَخْرِجِي لِمَسْرُوقٍ سَوِيقًا وَحَلِّيهِ فَلَوْلَا أَنِّي صَائِمَةٌ لَذُقْتُهُ ” فَقَالَ لَهَا: أَصُمْتِ هَذَا الْيَوْمَ وَهُوَ يُشَكُّ فِيهِ؟ فَقَالَتْ: ” نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] كَانَ قَوْمٌ يَتَقَدَّمُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّوْمِ وَفِيمَا أَشَبَهَهُ , فَنُهُوا عَنْ ذَلِكَ

عائشہ رضي اللہ عنہا کے شاگرد مسروق نے روايت کيا کہ ام المومنين نے بيان کيا کہ ايک قوم تھي جو روزے اور اسي قسم کي عبادات ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم پر پيش قدمي کرتي اس آيت {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] کے ذريعہ سے ان کو اس (بدعتي ) عمل سے منع کيا گيا

طبراني ميں ہے
فَقَالَتْ: إِنَّ نَاسًا كَانُوا يَتَقَدَّمُونَ الشَّهْرَ، فَيَصُومُونَ قَبْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
عائشہ رضي اللہ عنہا نے فرمايا لوگ (رمضان کا ) مہينہ انے سے پہلے روزے رکھتے کہ رسول اللہ سے بھي پہلے روزے رکھ ليتے

شيعہ تفسير طوسي ميں ہے
وقال الحسن: ذبح قوم قبل صلاة العيد يوم النحر، فأمروا باعادة ذبيحة اخرى
حسن بصري نے کہا لوگ رسول اللہ سے پہلے عيد ميں ذبح کرتے پس ان کو حکم ديا گيا کہ دوبارہ ذبح کرو ، نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد

شيعہ تفسير طبرسي ميں ہے
نزل قوله « يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم » إلى قوله « غفور رحيم » في وفد تميم و هم عطارد بن حاجب بن زرارة في أشراف من بني تميم منهم الأقرع بن حابس و الزبرقان بن بدر و عمرو بن الأهتم و قيس بن عاصم في وفد عظيم فلما دخلوا المسجد نادوا رسول الله (صلى الله عليهوآلهوسلّم) من وراء الحجرات أن اخرج إلينا يا محمد

آيت آواز بلند مت کرو ، يہ نازل ہوئي وفد بنو تميم کي آمد پر اور اس ميں عطارد بن حاجب بن زرارة تھا جو بنو تميم کے معزز لوگ تھے جن ميں الأقرع بن حابس اور الزبرقان بن بدر اور عمرو بن الأهتم اور قيس بن عاصم بھي تھے – يہ ايک عظيم وفد تھا پس جب يہ مسجد النبي ميں داخل ہوئے انہوں نے پکارنا شروع کر ديا حجرات النبي کے پيچھے سے اے محمد باہر نکلو

راقم کہتا ہے يہ تفسير اس حد تک  متن قرآن سے مطابقت رکھتي ہے کہ حجرات سے باہر لوگ پکار رہے تھے اور آيت کے شان نزول کا ابو بکر يا عمر سے کوئي تعلق نہيں ہے

الکافي از کليني ميں تدفين حسن رضي اللہ عنہ کا ذکر ہے حسين رضي اللہ عنہا نے ام المومنين رضي اللہ عنہا کي شان اقدس ميں طنزيہ جملے بولے اور اس آيت کا ذکر کيا ليکن يہ نہيں کہا کہ يہ آيات ابو بکر کے لئے نازل ہوئي

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن بكر بن صالح [قال الكليني] وعدة من أصحابنا، عن ابن زياد، عن محمد بن سليمان الديلمي، عن هارون بن الجهم، عن محمد ابن مسلم قال سمعت ابا جفعر عليه السلام يقول …. وبهذا الاسناد، عن سهل، عن محمد بن سليمان، عن هارون بن الجهم، عن محمد بن مسلم قال: سمعت أبا جعفر عليه السلام يقول …. فقال لها الحسين بن علي صلوات الله عليهما … قال الله عزوجل ” يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ” ولعمري لقد ضربت أنت لابيك وفاروقه عند اذن رسول الله صلى الله عليه وآله المعاول، وقال الله عزوجل ” إن الذين يغضون أصواتهم عند رسول الله اولئك الذين امتحن الله قلوبهم للتقوى(1) ” ولعمري لقد أدخل أبوك وفاروقه على رسول الله صلى الله عليه وآله بقربهما منه الاذى،

راقم کہتا ہے کہ اسکي سند ضعيف بھي ہے – شيعہ علماء رجال کے مطابق اس کي سند ضعيف ہے -شيعہ کتاب رجال طوسي کے مطابق اس سند ميں محمد بن سليمان الديلمي بصري ضعيف ہے مشايخ الثقات- غلام رضا عرفانيان ميں بھي اس راوي کو ضعيف قرار ديا گيا ہے

غور طلب ہے کہ شيعوں نے جو سن 300 ہجري تک کے ہيں ان ميں کسي نے سورہ حجرات کي ابتدائي آيات کے شان نزول ميں يہ ذکر نہيں کيا جو صحيح بخاري کي روايت ميں بيان ہوا کہ شيخين رضي اللہ عنہما کا جھگڑا نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے ہوااور آيات نازل ہوئيں

راقم اس تحقيق کے تحت صحيح بخاري کي اس منکر روايت کو رد کرتا ہے

امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی ؟

مسلکی مفتیوں کی جانب سے یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی کے الفاظ سے ایک حدیث ہے – اس کو محراب و منبر پر پیش کیا جاتا ہے -ساتھ ہی فرقے کہتے ہیں کہ اس امت کے بہتر سے اوپر فرقے جہنمی ہیں – اس تضاد کے ساتھ زندہ علماء  کی جب سے پکڑ کی گئی ہے تو ان کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ امام حاکم نے اس روایت کی تصحیح بھی کی ہے

راقم نے اس حوالے سے  کافی کچھ لکھا ہے  – اب اس حوالے سے ابن عباس سے منسوب ایک روایت ر پر بحث پیش کی جا رہی ہے

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

کسوف کی خبر

امریکی خلائی ادارہ ناسا کی تحقیق  کے مطابق وہ گرہن جو دور نبوی میں ہوا  اور مدینہ میں دس ہجری میں دیکھا گیا وہ سن ٦٣٢ ع میں ٢٧ جنوری کو ہوا تھا

https://eclipse.gsfc.nasa.gov/SEcat5/SE0601-0700.html

اس گرہن کو 06270 کا نمبر دیا گیا ہے

یہ گرہن زمین سے عرب میں مکمل دیکھا گیا اور اسی روز روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی اور لوگوں نے کہا کہ ان کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے

 

٢٧ جنوری ٦٣٢ عیسوی کو جب ہجری کنلڈر میں تبدیل کریں تو تاریخ ٢٨ شوال سن ١٠ ہجری  بنتی ہے

https://www.islamicity.org/Hijri-Gregorian-Converter/?AspxAutoDetectCookieSupport=1#

امام ابن حزم  کا قول ہے کہ ابراہیم  پسر نبی کی وفات  ، وفات النبی (سن ١١ ہجری ربیع الاول ) سے چار ماہ قبل ہوئی – اس طرح ابن حزم کی تحقیق کے مطابق ابراہیم کی  وفات ذیقعدہ میں ہوئی  اور جدید  حساب فلکیات قمر کے مطابق یہ  ٢٨ شوال کو وفات  ہوئی  اور دونوں تواریخ  بہت قریب ہیں

اس سے معلوم ہوا کہ  کسوف میں جو مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی وہ صرف وفات النبی سے چار ماہ قبل کی تھی اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات  کا انبار ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ان روایات کو گھڑا گیا – مثلا  سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جن کی شہادت جنگ خندق کے فورا بعد ہوئی ان تک پر عذاب قبر کی خبر راویوں نے دے دی ہے

 

معراج صخرہ سے ہوئی ؟

راقم کو ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی

https://www.youtube.com/watch?v=tP2cCRUeGso

https://www.youtube.com/watch?v=E03Xq8gtSPY

اور متعدد تحاریر پڑھنے کو ملیں

https://www.masrawy.com/islameyat/sera-hayat_elrasoul/details/2018/4/13/1324188/صخرة-المعراج-حيث-صعد-النبي-إلى-السموات-السبع

 

اس میں بتایا جا رہا ہے کہ مسجد الصخرہ   کے نیچے موجود  روحوں کے غار مغارة الأرواح  سے معراج  کا آغاز  ہوا –   صخره  بيت المقدس   ابن عباس سے منسوب  روایت کے مطابق  جنت کی چٹان ہے  اور  یہاں سے ایک   پورٹل

Portal

کھل گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اس سے جنت میں داخل ہو گئے

ایک  جگہ تحریر دیکھی جس میں ام ہانی سے منسوب ایک روایت میں ہے

اس کے بعد خواجہ عالم  نے فرمايا نے جبرائيل عليہ السلام نے ميرا ہاتھ پکڑا اور  صخرة (پتھر) پر لے آئے، جب ميں صخرة  پر آيا، ميں نے صنحرہ سے آسمان تک ايسي خوبصورت سيڑھي ديکھي کہ اس سے پہلے ايسي حسين چيز نہيں ديکھي تھي، روايت ميں اس سيڑھي کي تعريف يوں بيان ہوئي ہے اس کے دونوں پہلو دو پنجروں کے مانند تھے ايک سرا زمين پر اور دوسرا آسمان پر تھا، ايک يا قوت سرخ کا بنا ہوا تھا اور دوسرا سبز زمرد ہے، اس کے پائيدان ايک سونے اور ايک چاندي کے جو موتيوں اور جواہرات سے آراستہ تھے بعض روايات ميں ہے کہ اس کرسي کے زمرد کے دو پر تھے اگر ايک پر کوان ميں سے کھولتا تمام دنيا کو گھير ليتا، اس سيڑھي پر پچاس منزليں تھيں، ايک منزل سے دوسري منزل تک ستر ہزار سال کا راستہ تھا، تمام نے ايک دوسرے کو خوشخبري دي، ميري طرف اشارہ کرتے تھے، يہ زينہ فرشتوں کي گزرگاہ بن گيا جو آسمان سے زمين پر اور زمين سے آسمان پر آتے جاتے تھے کہتے ہيں کہ ملک الموت قبض ارواح کے ليے اس سيڑھي سے نيچے اترتے ہيں اور کہتے ہيں کہ موت کے وقت جب آنکھيں خيرہ ہو جاتي ہيں تو وہ سيڑھي دکھائي ديتي ہے القصہ آنحضرت  صحيح ترين روايات کے مطابق براق پر سوار ہوئے اور اس سيڑھي کے ذريعہ آسمان پر پہنچے، ايک روايت يہ ہے کہ جبرائيل عليہ السلام نے مجھے فرمايا: آنکھيں بند کيجئے، جب کھوليں تو ميں آسمان پر تھا

اس  إقتباس میں دعوی  کیا گیا ہے صخرہ  سے ایک رستہ بنا جو جنت پر لے جا رہا تھا یا اس میں ایک سیڑھی نمودار ہوئی اور اس پر قدم  رکھتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں پہنچ گئے

توریت کتاب پیدائش باب ٢٨ میں ہے

یعقوب علیہ السلام نے  خواب میں بیت ایل  میں ایک سیڑھی دیکھی  جس سے فرشتے آسمان سے اترتے چڑھتے ہیں – اسلامی روایات میں اس سیڑھی  کو معراج کی رات صخرہ  میں دکھایا گیا ہے

راقم کہتا ہے یہ خبر اسرائیلاتات  میں سے ہے اور قابل غور ہے کہ آج تک اس کا  روایت کا اثر مسلمانوں پر باقی ہے

میت پر اس کے اہل کا رونا

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1287-1288 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 929 ). میں حدیث ہے کہ

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ تُوُفِّيَتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمَكَّةَ، وَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا – أَوْ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا، ثُمَّ جَاءَ الآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي – فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ أَلاَ تَنْهَى عَنِ البُكَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «إِنَّ المَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»،فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَدْ كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ، ثُمَّ حَدَّثَ، قَالَ صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ سَمُرَةٍ، فَقَالَ اذْهَبْ، فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلاَءِ الرَّكْبُ، قَالَ فَنَظَرْتُ فَإِذَا صُهَيْبٌ، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ادْعُهُ لِي، فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ فَقُلْتُ ارْتَحِلْ فَالحَقْ أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ دَخَلَ صُهَيْبٌ يَبْكِي يَقُولُ وَا أَخَاهُ وَا صَاحِبَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا صُهَيْبُ، أَتَبْكِي عَلَيَّ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»،

ابن مليكہ بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى مكہ ميں فوت ہو گئى اور ہم اس كى نماز جنازہ ميں شركت كے ليے گئے، اور وہاں ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ عنہم بھى موجود تھے اور ميں ان دونوں كے درميان بيٹھا ہوا تھا كہ گھر سے آواز آنے لگى تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے عمرو بن عثمان كو كہا كيا تم رونے سے منع نہيں كرتے ؟ كيونكہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے   ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر عذاب ديا جاتا ہے تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا عمر رضى اللہ تعالى عنہ بھى بعض ایسا  کہا  كرتے تھے، پھر انہوں نے بيان كيا كہ ….. جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو خنجر سے زخمى كيا گيا تو صہيب روتے ہوئے ان كے پاس آئے اور وہ يہ كلمات كہہ رہے تھے ہائے ميرے بھائى، ہائے ميرے دوست تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ اسے كہنے لگے اے صہيب كيا تم مجھ پر روہ رہے اور حالانكہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ديا جاتا ہے

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ اللَّهَ لَيُعَذِّبُ المُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَقَالَتْ حَسْبُكُمُ القُرْآنُ {وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام 164] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا «عِنْدَ ذَلِكَ وَاللَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى» قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ «وَاللَّهِ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا»

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ وفات پا گئے تو ميں نے اس كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ذكر كيا تو وہ فرمانے لگيں اللہ تعالى عمر رضى اللہ عنہ پر رحم فرمائے، اللہ كى قسم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بيان نہيں فرمايا كہ تھا کہ  مومن كو اس كے گھر والوں كے رونے كى وجہ سے عذاب ديا جاتا ہے بلکہ  رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يقينا اللہ تعالى كافر كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر زيادہ عذاب ديتا ہے اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا تمہارے  ليے قرآن كافى ہےاور كوئى بھى كسى دوسرے شخص كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگا . ابن ابى مليكہ كہتے ہيں اللہ كى قسم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے  بھی كچھ  (اعتراض میں ) نہ كہا

التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد میں أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى 463هـ) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول پر لکھا ہے

فَأَمَّا إِنْكَارُ عَائِشَةَ عَلَى ابْنِ عُمَرَ فَقَدْ رُوِيَ مِنْ وُجُوهٍ مِنْهَا مَا رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ وَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ وَهَلَ ابْنُ عُمَرَ إنما مَرَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيٍّ فَقَالَ إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ يُعَذَّبُ وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ وَرَوَى أَيُّوبُ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنِ الْقَاسِمِ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِ عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ عُمَرَ وَابْنِهِ وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ قَالَ أَبُو عُمَرَ لَيْسَ إِنْكَارُ عَائِشَةَ بِشَيْءٍ وَقَدْ وَقَفَ ابْنُ عُمَرَ عَلَى مِثْلِ مَا نَزَعَتْ بِهِ عَائِشَةُ فَلَمْ يَرْجِعْ وَثَبَتَ عَلَى مَا سَمِعَ وَهُوَ الْوَاجِبُ كَانَ عليه

جہاں تک انکار عائشہ کا تعلق ہے جو انہوں نے ابن عمر کے قول کا کیا ہے تو اس کی وجوہات کو ان سے روایت کیا گیا ہے جس میں ہے وہ جو ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے انہوں نے ابن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کو اس کے گھر والوں کے رونے پر عذاب دیا جاتا ہے اور اس قول کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا پس عائشہ نے کہا ابن عمر کو وہم ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک یہودی پر ہوا پس آپ نے فرمایا اس قبر کے صاحب کو عذاب دیا جا رہا ہے اس کے اہل رو رہے تھے اور ایوب نے ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنِ الْقَاسِمِ کی سند سے روایت کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ان سے روایت کیا ہے جو جھوٹے نہیں ہیں یعنی عمر اور ان کے بیٹے
لیکن سننے میں غلطی ہو جاتی ہے – ابن عبد البر نے کہا انکار عائشہ میں کوئی چیز نہیں ہے (یعنی کوئی دلیل نہیں ) اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے توقف کیا ان مسائل میں جن میں عائشہ ان سے نزاع کرتی ہیں اور انہوں نے کوئی رجوع نہ کیا اور یہ ثابت ہے جو ابن عمر نے سنا اور یہ واجب ہے جس پر وہ پہلے تھے

ابن حجر فتح الباری ج 3 ص ١٥٤ پر قرطبی کے قول کا ذکر کرتے ہیں جس کو پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کس قدر بے باک تھے یہ نام نہاد علماء جن کے نزدیک فہم ام المومنین رضی اللہ عنہا کا کوئی درجہ نہ تھا

وَقَالَ الْقُرْطُبِيُّ إِنْكَارُ عَائِشَةَ ذَلِكَ وَحُكْمُهَا عَلَى الرَّاوِي بِالتَّخْطِئَةِ أَوِ النِّسْيَانِ أَوْ عَلَى أَنَّهُ سَمِعَ بَعْضًا وَلَمْ يَسْمَعْ بَعْضًا بَعِيدٌ لِأَنَّ الرُّوَاةَ لِهَذَا الْمَعْنَى مِنَ الصَّحَابَةِ كَثِيرُونَ وَهُمْ جَازِمُونَ فَلَا وَجْهَ لِلنَّفْيِ مَعَ إِمْكَانِ حَمْلِهِ عَلَى مَحْمَلٍ صَحِيحٍ

القرطبى كہتے ہيں : عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا انكار كرنا اور راوى پر غلطى اور بھولنے كا حكم لگانا، يا يہ كہ اس نے كلام كا بعض حصہ سنا ہے اور باقى حصہ نہيں سنا، يہ بعيد ہے، كيونكہ صحابہ كرام ميں سے اس معنى كو روايت كرنے والے بہت ہيں، اور وہ بالجزم روايت كرتے ہيں، تو اس كى نفى كوئى وجہ اور گنجائش نہيں، اور پھر اس كو صحيح چيز پر محمول كرنا بھى ممكن ہے انتہى

المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود از محمود محمد خطاب السبكي میں ہے میت کو رونے پر عذاب ہوتا ہے پر ابن قیم کا کہنا ہے

قال ابن القيم إنكار عائشة رضي الله تعالى عنها لذلك بعد رواية الثقات لا يعوّل عليه, فإنهم قد يحضرون ما لا تحضره ويشهدون ما تغيب عنه واحتمال السهو والغلط بعيد جدًا اهـ
ابن قیم نے کہا ثقات کی روایات کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس پر انکار معتبر نہیں ہے کیونکہ ثقات وہاں موجود تھے جہاں عائشہ موجود نہیں تھیں اور انہوں نے دیکھا جو عائشہ رضی اللہ عنہا پر چھپا رہا اور غلطی اور سہو کا احتمال بہت بعید ہے

راقم کہتا ہے اصحاب رسول میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہی نہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو جاننے کے بعد بھی اپنی رائے رکھی ہو لہذا قرطبی ،ابن عبد البر اور ابن قیم کا قول باطل ہے اور بلا دلیل ہے

قرآن میں موجود ہے کہ محشر میں کوئی بھی کسی اور کا بو جھ اٹھانے پر تیار نہ ہو گا لیکن قرآن میں یہ بھی موجود ہے کہ کفار پر ان کے متتبعین کے گناہوں کا بوجھ ڈال دیا جائے گا – سوره عنكبوت میں ہے

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ( 12 ) عنكبوت –
اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہ اُٹھالیں گے۔ حالانکہ وہ اُن کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اُٹھانے والے نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ( 13 ) عنكبوت
اور یہ اپنے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور (لوگوں کے) بوجھ بھی۔ اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن اُن کی اُن سے ضرور پرسش ہوگی

عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول اس آیت کے تحت بھی صحیح ہے کیونکہ انہوں نے اصحاب رسول کے لئے اصلا بولا ہے کہ اصحاب رسول کو ان کے اہل کے عمل کا عذاب نہیں جائے گا اور ساتھ ہی یہودی پر اہل کے عمل کا بوجھ کا اثبات کیا ہے – یعنی یہ میت کی تربیت کا معاملہ ہے کہ اس نے اپنے اہل کو کیا حکم دیا تھا اگر یہ حکم دیا کہ اس پر رویا جائے تو اس میت کو عذاب ہو گا اور اگر یہ حکم دیا کہ مجھ پر مت رونا تو عذاب نہ ہو گا

شارحین نے اس حوالے سے بعض ضعیف اثار بھی پیش کیے ہیں مثلا ابن ماجہ کی حدیث ١٥٩٤ ہے
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِي، حَدّثَنَا أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، عَنْ مُوسَى الْأَشْعَرِي
عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ، إِذَا قَالُوا وَاعَضُدَاهُ، وَاكَاسِيَاهُ، وانَاصِرَاهُ، واجَبَلَاهُ، وَنَحْوَ هَذَا، يُتَعْتَعُ وَيُقَالُ أَنْتَ كَذَلِكَ؟ أَنْتَ كَذَلِكَ؟ .قَالَ أَسِيدٌ فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ {وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الإسراء 15] قَالَ وَيْحَكَ، أُحَدِّثُكَ أَنَّ أَبَا مُوسَى حَدَّثَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فترَى أَنَّ أَبَا مُوسَى كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؟ أَوْ تَرَى أَنِّي كَذَبْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى؟

اسيد بن ابو اسيد،   موسى بن ابو موسى اشعرى سے بيان كرتے ہيں اور موسى اپنے باپ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا زندہ كے رونے سے ميت كو عذاب ديا جاتا ہے، جب زندہ كہتے ہيں ہائے ميرے بازو، ہائے ميرے پہنانے والے، ہائے ميرى مدد كرنے والے، ہائے ميرے پہاڑ، اور اس طرح كے جملے تو اسے شدت سے كھينچ كر كہا جاتا ہے تو اس طرح تھا ؟ تو ايسا تھا ؟ اسيد كہتے ہيں ميں نے كہا سبحان اللہ اللہ تعالى تو يہ فرماتا ہے اور كوئى بھى كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائےگا .تو وہ كہنے لگے تيرے ليے افسوس ميں تجھے بتا رہا ہوں كہ مجھے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث بيان كى ہے،
تو كيا تيرے خيال ميں ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ باندھا ہے يا تو يہ سمجھتا ہے كہ ميں نے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ پر جھوٹ بولا ہے ؟

سند میں موسى بن أبى موسى الأشعرى ، الكوفى مجہول الحال ہے جس کو صرف ابن حبان نے حسب روایت ثقات میں شمار کیا ہے سند لائق اعتبار نہیں ہے

اسی سند سے سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، أَنَّ مُوسَى بْنَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيَّ، أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ بَاكِيهِ، فَيَقُولُ وَاجَبَلَاهْ وَاسَيِّدَاهْ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، إِلَّا وُكِّلَ بِهِ مَلَكَانِ يَلْهَزَانِهِ أَهَكَذَا كُنْتَ؟ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، فَجَعَلَتْ أُخْتُهُ عَمْرَةُ تَبْكِي وَاجَبَلاَهْ، وَاكَذَا وَاكَذَا، تُعَدِّدُ عَلَيْهِ، فَقَالَ حِينَ أَفَاقَ مَا قُلْتِ شَيْئًا إِلَّا قِيلَ لِي آنْتَ كَذَلِكَ
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ،» قَالَ أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ بِهَذَا فَلَمَّا مَاتَ لَمْ تَبْكِ عَلَيْهِ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا عبد اللہ بن رواحہ رضى اللہ تعالى عنہ پر بے ہوشى طارى ہوئى تو ان كى بہن نے رونا شروع كر ديا اور كہنے لگى ہائے ميرے پہاڑ اور اسى طرح اس نے كئى اور بھى صفات شمار كي اور جب انہيں ہوش آيا تو وہ كہنے لگے تو نے جو كچھ بھى كہا تو مجھے يہ كہا گيا كيا تو اس طرح كا تھا – اور جب وہ فوت ہوئے تو پھر ان كى بہن ان پر نہيں روئى

اس روایت کے متن میں ابہام ہے کہ ان الفاظ پر طنز کیا گیا یا اثبات میں کہا گیا کہ ہاں عبد اللہ بن رواحہ ایک اعلام (پہاڑ) کی طرح تھے -سندا اس میں محمد بن فضيل بن غزوان ہے جس پر ابن سعد کا کہنا ہے کہ بعضهم لا يحتج به بعض محدثین اس سے دلیل نہیں لیتے

قيلة بنت مخرمة کی سند سے ایک روایت المعجم الكبير از طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ الْكَشِّيُّ، ثنا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ الْحَوْضِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَالْفَضْلُ بْنُ الْحُبَابِ أَبُو خَلِيفَةَ، قَالَا ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَوَّارِ بْنِ قُدَامَةَ بْنِ عَنَزَةَ الْعَنْبَرِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمُخَرِّمِيُّ، ثنا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْغَلَابِيُّ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ رَجَاءٍ الْغُدَّانِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ أَبِي الدُّمَيْكِ الْمُسْتَمْلِي، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ التَّيْمِيُّ، قَالُوا ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ حَسَّانٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو الْجُنَيْدِ، أَخُو بَنِي كَعْبٍ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَتْنِي جَدَّتَايْ صَفِيَّةُ وَدُحَيْبَةُ ابْنَتَا عُلَيْبَةَ وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْ قَيْلَةَ، أَنَّ قَيْلَةَ بِنْتَ مَخْرَمَةَ، حَدَّثَتْهُمَا …. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ…. أَتُغْلَبُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ
تُصَاحَبَ فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا، فَإِذَا حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَنْ هُوَ أَوْلَى بِهِ اسْتَرْجَعَ، ثُمَّ قَالَ «رَبِّ آسِنِي مَا أَمْضَيْتُ، فَأَعِنِّي عَلَى مَا أَبْقَيْتُ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِحْدَاكُنَّ لَتَبْكِي، فَتَسْتَعِينُ لَهَا صُوَيْحِبَةً، فَيَا عِبَادَ اللهِ لَا تُعَذِّبُوا مَوْتَاكُمْ، ثُمَّ كَتَبَ لَهَا فِي قَطِيعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ لِقَيْلَةَ وَالنِّسْوَةِ مِنْ بَنَاتِ قَيْلَةَ

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا كيا تم پر غلبہ پا ليا جاتا ہے كہ تم ميں كوئى ايك اپنے ساتھى كے ساتھ دنيا ميں اچھا اور بہتر سلوك كرے، اور جب وہ مر جائے تو انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى جان ہے تم ميں سے كوئى ايك روتا ہے تو اپنے ساتھى پر آنسو بہاتا ہے، تو اے اللہ كے بندو اپنے فوت شدگان كو عذاب سے دوچار مت كرو

اس سند میں عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَّانٍ، أَبُو الْجُنَيْدِ الْعَنْبَرِيُّ البصري کا تفرد ہے جو مجہول الحال ہے اس کی دادی دحيبة بنت عليبة العنبرية یا صفية بنت عليبة بھی مجہول الحال ہیں

بعض سلفی علماء نے ان احادیث کی وجہ سے عرض عمل کا  عقیدہ اختیار کیا ہے کہ میت کو اپنے ورثاء کی حرکتوں کا علم ہوتا ہے – میت کو علم ہوتا ہے کون اس پر رو رہا ہے جس سے میت کو دکھ ہوتا ہے

مجموع فتاوى ابن عثيمين (17/408) کے مطابق وہابی عالم ابن عثيمين سے درج ذيل سوال كيا گيا
ما معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه ) ؟
فأجاب :” معناه أن الميت إذا بكى أهله عليه فإنه يعلم بذلك ويتألم ، وليس المعنى أن الله يعاقبه بذلك لأن الله تعالى يقول : ( وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ) والعذاب لا يلزم أن يكون عقوبة ألم تر إلى قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن السفر قطعة من العذاب ) والسفر ليس بعقوبة ، لكن يتأذى به الإنسان ويتعب ، وهكذا الميت إذا بكى أهله عليه فإنه يتألم ويتعب من ذلك ، وإن كان هذا ليس بعقوبة من الله عز وجل له ، وهذا التفسير للحديث تفسير واضح صريح ، ولا يرد عليه إشكال ، ولا يحتاج أن يقال : هذا فيمن أوصى بالنياحة ، أو فيمن كان عادة أهله النياحة ولم ينههم عند موته ، بل نقول : إن الإنسان يعذب بالشيء ولا
يتضرر به ” انتهى

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى كيا ہے ؟

يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ہوتا ہے

ابن عثيمين کا جواب تھا کہ اس کا مطلب ہے

جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں تو اسے اس كا علم ہوتا اور اس سے اسے تكليف ہوتى ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى ميت كو اس كى سزا ديتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے: كوئى بھى جان كسى دوسرى جان كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .عذاب سے يہ لازم نہيں آتا كہ اسے سزا ہوتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے “حالانكہ سفر كوئى سزا نہيں، ليكن اس سے انسان كو تكليف ہوتى ہے اور تھك جاتا ہے، تو اسى طرح جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں اسے اس سے تكليف ہوتى ہے اور وہ تھک جاتا ہے، اگرچہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے اسے سزا نہيں ہے.حديث كى يہ شرح واضح اور صريح ہے، اور اس پر كوئى اشكال وارد نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس شرح ميں يہ ضرورت ہے كہ كہا جائے كہ يہ اس شخص كے متعلق ہے جو نوحہ كرنے كى وصيت كرے، يا پھر اس شخص كے متعلق ہے جن كى عادت نوحہ كرنا ہو، اور وہ مرتے وقت انہيں نوحہ كرنے سے منع نہ كرے، بلكہ ہم تو يہ كہتے ہيں: انسان كو كسى چيز كے ساتھ عذاب ہوتا ہے ليكن اسے اس سے كوئى ضرر بھى نہيں پہنچتا ” انتہى.
——–

راقم کہتا ہے کہ میت تو لاشعور ہوتی ہے جس کو اپنے ارد گرد ہونے والے عمل کا پتا تک نہیں ہوتا

راقم کہتا ہے  کہ ایک یہودی جو زندگی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا تھا وہ مر گیا لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف تھا اس پر جہنم ثبت ہو گئی  – اب گھر والے اس پر  رو رہے تھے اور نبی علیہ السلام  کا اس کے گھر کے پاس سے گذر ہوا تو فرمایا یہ اس کی موت پر رو رہے ہیں اور اس کو عذاب ہو رہا ہے – اس میں مقصد یہ بتایا نہیں ہے کہ رونے پر میت کو عذاب ہوتا ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اہل کتاب  کا  مرنے والا جہنمی ہے چاہے گھر والوں کے ساتھ حسن عمل رکھتا ہو

مشرک کی شفاعت

نبوت سے قبل نبی صلی الله علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اسی مشرکین کے مذھب پر تھے جو چلا آ رہا تھا – اس کی دلیل البیہقی شعب الایمان کی روایت ہے کہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم پیدا ہوئے تو دادا عبد المطلب نے ان کو ھبل بت پر کعبہ میں پیش کیا

فَأَخَذَهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ فَأَدْخَلَهُ على هُبَلَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، وَذَكَرَ ابْنُ إِسْحَاقَ دُعَاءَهُ وَأَبْيَاتَهُ الَّتِي قَالَهَا فِي شُكْرِ اللهِ تَعَالَى عَلَى مَا وَهَبَهُ

پس عبد المطلب  نے  رسول اللہ کو گود میں لیا اور کعبہ کے بیچ  میں  ھبل  بت پر لے گئے

اس روایت کی سند سیرت کی احادیث کے معیار کے مطابق صحیح ہے-مشرکین اللہ کی عبادت کرتے تھے اور ساتھ ہی اپنے قبائلی اله کی بھی

 نبی صلی الله علیہ وسلم کے سگے چچا  ابو لھب کا ذکر قرآن میں ہے   ابو لھب  کے انجام  کی خبر  قرآن  میں دے دی گئی – شیعہ  مفسر  قمی   تفسیر    سورہ  لھب میں لکھتے  ہیں

وكان اسم ابي لهب عبد مناف فكناه الله لان منافا صنم يعبدونه

اور  ابو لھب   کا نام  تھا  عبد مناف   لیکن  اللہ  تعالی  نے نام پر کنایہ کیا ہے (یا کنیت بیان کی ہے )  کیونکہ   مناف  بت  تھا  جس کو پوجا  جاتا تھا

صحیح  بخاری کی   روایت  ٣٨٨٤  ہے

حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: «أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ» فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ: عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ» فَنَزَلَتْ: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ} [التوبة: 113]. وَنَزَلَتْ: {إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} [القصص: 56]

ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب بن حزن صحابی رضی اللہ عنہ نے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں ابوجہل بھی بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا! کلمہ لا الہٰ الا اللہ ایک مرتبہ کہہ دو، اللہ کی بارگاہ میں (آپ کی بخشش کے لیے) ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آ جائے گی۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: اے ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے! یہ دونوں ان ہی پر زور دیتے رہے اور آخری کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا، وہ یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کے لیے اس وقت تک مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ (سورۃ براۃ میں) یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم‏» نبی کے لیے اور مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے دعا مغفرت کریں خواہ وہ ان کے ناطے والے ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ دوزخی ہیں۔ اور سورۃ قصص میں یہ آیت نازل ہوئی «إنك لا تهدي من أحببت‏» بیشک جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے۔

اس کے برعکس سیرت  ابن اسحاق  میں ہے

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: فَحَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدِ (بْنِ عَبَّاسٍ)  عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ….. قَالَ: فَلَمَّا تَقَارَبَ مِنْ أَبِي طَالِبٍ الْمَوْتُ قَالَ: نَظَرَ الْعَبَّاسُ إلَيْهِ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، قَالَ: فَأَصْغَى إلَيْهِ بِأُذُنِهِ، قَالَ: فَقَالَ يَا بن أَخِي، وَاَللَّهِ لَقَدْ قَالَ أَخِي الْكَلِمَةَ الَّتِي أَمَرْتَهُ أَنْ يَقُولَهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمْ أَسْمَعْ

ابن اسحاق  نے کہا  مجھ سے عباس بن عبد اللہ بن معبد  بن عباس نے اپنے   بعض   اہل   کی سند سے روایت کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے کہا    جب ابو  طالب موت کے قریب پہنچے    تو   عباس     نے   ابو  طالب  کے ہونٹوں    کو     ہلتے   دیکھا    ،  پس  انہوں  نے  اپنے کان ابو طالب  کے ہونٹوں  پر لگا دیے  اور کہا    اے  بھتیجے  (محمد )   اللہ کی قسم   میرے  بھائی  نے کوئی کلمہ   بولا ہے   جو  انہوں نے    حکم دیا ہے کہ تم کو   بتا  دوں –  اس   پر رسول  اللہ صلی   اللہ علیہ وسلم نے فرمایا    میں نے تو کچھ  نہیں سنا

اس  روایت  کا مدعا   یہ ہے کہ یہ ثابت  کیا جائے کہ  نبی صلی  اللہ علیہ  وسلم   اگرچہ  وفات  ابو طالب   کے وقت وہاں تھے   لیکن   سن نہ سکے  فاصلہ پر تھے –  روایت گھڑنے والے  نے یہ نہیں سوچا کہ   نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کو تو  اللہ تعالی  غیب کی   خبر دیتا ہے –    سند  میں    بعض   مجہول  الحال   ہیں   جن کی  خبر نہیں دی گئی کہ کون تھے

شیعہ   مفسر  ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ  (انك لا تهدي من أحببت)   آپ  جس کو  محبوب کریں اس کو ہدایت پر  نہیں کر سکتے  یہ آیت ابو طالب کے لئے ہے
واما قوله: (انك لا تهدي من أحببت) قال نزلت في ابي طالب عليه السلام فان رسول الله صلى الله عليه وآله كان يقول يا عم قل لا إله إلا الله بالجهر نفعك بها يوم القيامة فيقول: يا بن اخي أنا أعلم بنفسى، (وأقول بنفسى ط) فلما مات شهد العباس بن عبدالمطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله انه تكلم بها عند الموت بأعلى صوته، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: اما انا فلم اسمعها منه وأرجو ان تنفعه يوم القيامة، وقال صلى الله عليه وآله: لو قمت المقام المحمود لشفعت في ابي وامي وعمي وأخ كان لي مواخيا في الجاهلية

الله  تعالی کے قول آپ جس کو محبوب کریں اس کو ہدایت نہیں دے سکتے- کہا یہ ابو طالب کے لئے نازل ہو ہے کیونکہ رسول الله صلى الله عليه وآله  کہتے اے چچا  کہہ دیں با آواز بلند لا إله إلا الله  میں روز محشر آپ کو فائدہ دوں گا … ابو طالب کہتے مجھے اپنا پتا ہے – پس جب ان کی وفات ہوئی تو  عباس  نے دیکھا   ابو طالب   بات کر رہے تھے  اونچی آواز سے  لیکن  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا انہوں نے کیا کہا اور امید ہے کہ میں  ان کو  روز محشر فائدہ دوں

معلوم  ہوا  کہ   سن  ٣٠٠  ہجری  تک   اہل  سنت  کہہ رہے تھے کہ   ابو طالب    کفر  پر مرے ،   بعض   شیعہ  و  رافضی  کہہ رہے تھے کہ  نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم  سن ہی نہ سکے  جو  ابو طالب  سکرات الموت   میں     کہہ    رہے تھے –    اور  بعض  رافضی   قبول  کر رہے تھے کہ  ابو طالب  ایمان نہیں لائے

صحیح سند  سے آ  گیا ہے کہ  ابو  طالب  وفات کے وقت اسی مذھب  پر رہے ہو  مشرکین مکہ  کا  تھا  اب ان  کے    انجام  کے حوالے سے روایات  کو دیکھتے ہیں

صحیحین   کی  روایات

انجام  ابو طالب  کے حوالے سے  تین قسم کی روایات   صحیحین  میں ہیں

اول   ابو  طالب   کے عذاب  میں  نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم  کی  وجہ سے   تخفیف ہوئی   ورنہ   اسفل النار میں ہوتے – ابھی     ابو طالب     جہنم  کے مقام ضحضاح پر ہیں

دوم     ابو   طالب      کو     سخت   عذاب  میں دیکھ  کر نبی   صلی اللہ  علیہ  وسلم نے ان کو   وہاں سے نکالا   اور   اب    وہ آگ کے مقام ضحضاح پر ہیں

سوم      ابو  طالب   کے لئے   نبی صلی اللہ علیہ  وسلم       ممکن     ہے  روز  محشر  شفاعت  کریں

الضَّحْضَاح کا  لفظ  اس زمین پر عربی میں بولا جاتا ہے اس  پر پانی  بہے   تو وہ ایڑھی تک  پہنچے-  النہایہ  میں ہے

 ما رَقَّ من الماء على وجه الأرض ما يبلغُ الكَعْبَين ، فاستَعارَه للنار(النهاية)

وہ  پانی  جو زمین پر بہے   اور ایڑھی  سے اوپر نہ جائے  اس کو  الضَّحْضَاح     کہتے ہیں  پس یہ اگ  پر استعارہ ہے

راقم   کہتا ہے  عرب   میں سخت گرمی کی وجہ سے زمین پر بہنے والا پانی جو مقدار میں کم ہو  گرم  ہو جاتا ہے اور پیر جلتا ہے لہذا  اس کو اگ پر استعارہ  کے طور  پر بولا جاتا ہے

شیعہ  تفسیر قمی  میں ہے

ان اهون الناس عذابا يوم القيامة لرجل في ضحضاح من نار عليه نعلان من نار وشرا كان من نار يغلي منها دماغه

سب  سے کم عذاب  یوم قیامت  اس مرد کو ہو گا  جو آگ  میں ضحضاح   میں  ہو گا    اس  کے پیر   میں   آگ   کی چپل  ہو  گی  جس سے اس کا دماغ  کھول  رہا ہو گا

اب   ان    روایات  پر   غور  کرتے ہیں

صحیح مسلم کی  ایک   روایت  میں ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ، وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ

عبید اللہ بن عمر قواریری   اور محمدبن ابی بکر مقدمی   اور  محمد بن عبد المک اموی     کہتے   ہیں کہ   ابوعوانہ   نے بیان کیا  عبدالملک ابن عمیر کی سند  سے  اس نے  عبداللہ بن حارث بن نوفل  سے روایت    کیا   کہ     عباس بن عبد المطلب  سے روایت  کیا  کہ عباس  نے رسول اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ   ابوطالب  کو کسی چیز نے نفع دیا  ہے جو وہ آپ کا اِحاطہ کیے رکھتے تھے اور آپ کے لیے غضبناک ہو جاتے تھے رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ آگ کے مقام ضحضاح پر ہیں اور اگر  میں نہ ہوتا   تو   وہ    آگ کے نچلے طبقہ میں ہوتے

مسلم شریف جلد اول ص ۱۱۵، طبقات ج اول ص ۱۲۴

یعنی  ابو  طالب  کے عذاب  میں کمی   بیشی   کرنا  اللہ تعالی  کا حکم  تھا -یہ   روایت   بتاتی  ہے  کہ   ابھی بھی ابو طالب عذاب میں   ہیں

صحیح بخاری حدیث ٣٨٨٣  میں ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ،‏‏‏‏ وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ”

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں  نہ  ہوتا     تو وہ دوزخ کی تہہ  میں بالکل نیچے ہوتے

اس   حدیث  میں شفاعت  کا ذکر نہیں ہے   بلکہ  صرف  قول ہے اگر میں نہ ہوتا ،یعنی   اللہ  تعالی   نے اپنی جانب سے اس کے عذاب  میں  کمی کی   میرے    دل کی تسکین  کے لئے

ان   روایات  پر بعض  کی جانب سے  اعتراض  میں کہا  جاتا ہے کہ  سندا   ان  میں  عبد الملک  بن عمیر    ہے جو  مختلط  تھا      –  راقم  کہتا ہے     اس روایت    میں اس کا تفرد  نہیں ہے ،  صحیحین   کے علاوہ  دیگر  کتب  مثلا   فوائد  تمام،    المقصد العلي، المعجم الأوسط      میں  یہ  روایت اس سند سے بھی ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَلِيُّ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاكِرٍ، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ   حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُجَالِدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ هَلْ نَفَعَتْهُ نُبُوَّتُكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، أَخْرَجَتْهُ مِنْ غَمْرَةِ جَهَنَّمَ إِلَى ضَحْضَاحٍ مِنْهَا

اس میں   سند  میں  راوی  شیعہ  بھی   ہیں –   طبرانی  کبیر میں ہے    جہاں  سند  میں   عبد الملک  بن عمیر   نہیں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ سَلْمَانَ الْقلوسيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، ثنا عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي كُنْتُ عَلَى صِلَةِ الرَّحِمِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْجَارِ وإِيواءِ الْيَتِيمِ وَإِطْعَامِ الضَّيْفِ وَإِطْعَامِ الْمَسَاكِينِ وَكُلُّ هَذَا قَدْ كَانَ يَفْعَلُهُ هِشَامُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، فَمَا ظَنُّكَ بِهِ أَيْ رَسُولُ اللهِ؟، فَقَالَ: «كُلُّ قَبْرٍ لَا يَشْهَدُ صَاحِبُهُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَهُوَ جَذْوَةٌ مِنَ النَّارِ، وَقَدْ وَجَدْتُ عَمِّي أَبَا طَالِبٍ فِي طَمْطَامٍ مِنَ النَّارِ فَأَخْرَجَهُ اللهُ بِمَكَانِهِ مِنِّي وَإِحْسَانِهِ إِلَيَّ فَجَعَلَهُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ

أُمِّ سَلَمَةَ  رضی  اللہ عنہا      فرماتی   ہیں کہ    حَارِثَ بْنَ هِشَامٍ   حجه  الوداع  کے سال   نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کی    خدمت  میں حاضر  ہوئے   اور   عرض    کیا    یا  رسول  اللہ   میں  صلہ  رحمی کرتا ہوں ،  پڑوسی  پر  احسان   کرتا ہوں ،   یتیم    کی  دیکھ بھال   کرتا ہوں ،   مہمان  و مسکین  کو کھانا  کھلاتا ہوں   اور   اس طرح  سب  جو  میں   کرتا ہوں  ایسا ہی   ہشام   بن مغیرہ   (مشرک )کرتا تھا     تو آپ  صلی  اللہ علیہ  وسلم  کا    اس پر کیا  گمان ہے ؟  رسول  اللہ نے جوابا    فرمایا :   ہر  قبر       جس  میں اس کا صاحب  بغیر     لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ  کی گواہی  پر ہو  اس پر آگ   کا انگارہ  ہے   اور بے شک  میں نے  ابو طالب کو  اگ کی  لپیٹ  میں پایا ،   پھر   اللہ  نے اس  کے  میرے ساتھ   مکان  و  احسان   کی  بنا  پر    ان کو آگ   میں سے نکال   کر    ضَحْضَاحٍ  النار میں کر دیا

اسی  قسم  کا متن   عائشہ  رضی  اللہ عنہا سے مروی ہے

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ ابْنَ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ فَهَلْ ذَالِكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ: ” لَا يَنْفَعُهُ لِأَنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ

عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے پوچھا   یا  رسول  اللہ   صلی  اللہ  علیہ  وسلم      :  ایام   جاہلیت  میں  (مشرک )ابن جدعان     رشتہ  داروں  پر رحم  کرتا  تھا  مسکینوں کو  کھانا  کھلاتا  تھا   کیا  اس کو  اس چیز  نے نفع  دیا ؟  فرمایا   نہیں    کیونکہ  اس  نے ایک دن بھی نہیں کہا   اے رب   روز  محشر   میرے گناہ معاف  کر  دے

بیہقی  نے  کتاب   بعث  و نشور    میں  لکھا ہے

إلا أن اللهَ يَضَعُ عَنه أَلْوانًا مِن العَذَاب عَلى جِنَايَاتٍ جَنَاها سِوى الكُفْر؛ تَطْيِيبًا لِقَلب النَّبي – صلى الله عليه وسلم -، وثَوابًا له في نَفسه، لا لِأَبي طَالِب؛ لأن حَسَناتِ أَبي طَالِب صَارَت بِمَوتِه عَلى كُفره هَباءً مَنثُورًا، وقد وَرَد الخَبر بِأن ثَوابَ الكَافِر عَلَى إِحسَانِه يَكُونُ في الدُّنيا

لب لباب ہے کہ  ابو طالب    کی نیکییاں    اس کی  کفر پر موت   کی وجہ سے  فنا  ہو  گئیں  اور اس کے عذاب  میں تخفیف     اس کے عمل کی وجہ سے نہیں کی گئی  بلکہ  محض  نبی صلی اللہ علیہ  وسلم کو قلبی  اطمینان    دینے کے  لئے  من جانب  اللہ     کی گئی ہے

اب  کچھ   شاذ  روایات   کا  ذکر کرتے  ہیں –  صحیح  مسلم  کی دوسری روایت  میں ہے

 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ، يَقُولُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَبَا طَالِبٍ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَنْصُرُكَ فَهَلْ نَفَعَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَجَدْتُهُ فِي غَمَرَاتٍ مِنَ النَّارِ، فَأَخْرَجْتُهُ إِلَى ضَحْضَاحٍ

ابن عمر سفیان عبدالمک بن عمیر عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے   عباس رضی اللہ عنہ سے سنا رسول اللہ سی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ علیہ وسلم ابوطالب آپ کا احاطہ کیے رہتے تھے اور آپ کی امداد کرتے تھے کیا انہیں کوئی اس کا نفع پہنچا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں   ،  میں   نے   اس کو   آگ   کی  غمراتِ نار میں پایا پس    اس  کو   نکال   کر  ( جہنم  میں)    مقام ضحضاح پر    کر دیا 

صحیح  مسلم ،    جلد اوّل ص۱۱۵

یہ  روایت    شاذ  ہے کیونکہ  اس میں   عذاب   میں  کمی  کو    غیر واضح انداز  میں  رسول  اللہ  صلی  اللہ علیہ وسلم   کی شفاعت  یا  دعا   سے جوڑا  گیا ہے

صحیح  بخاری  کی  حدیث     ٣٨٨٥  میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ الْهَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ”.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ “تَغْلِي مِنْهُ أُمُّ دِمَاغِهِ”.

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن عبداللہ ابن الہاد نے، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا کا ذکر ہو رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کام آ جائے اور انہیں صرف ٹخنوں تک جہنم میں رکھا جائے جس سے ان کا دماغ کھولے گا۔ ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابوحازم اور درا وردی نے بیان کیا یزید سے اسی مذکورہ حدیث کی طرح، البتہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ابوطالب کے دماغ کا بھیجہ اس سے کھولے گا۔

اس   کا متن   بھی  شاذ   ہے  کیونکہ  اس میں    ذکر  ہے  کہ   نبی  صلی  اللہ علیہ  وسلم  نے فرمایا    ” شاید     قیامت  میں “-     گویا کہ یہ تمام  قول   کوئی گمان  ہے  حقیقت  حال  نہیں ہے     جبکہ دیگر    روایات   میں ہے  کہ    ابو طالب ابھی  بھی حالت  عذاب  میں ہیں    مقام      ضَحْضَاحٍ  پہنچ  چکے  ہیں

صحیح      مسلم کی  ایک شاذ  روایت  میں  اس کو  روز محشر    شفاعت سے جوڑا  گیا ہے

 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ: «لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ، يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ

قتیبہ بن سعید ،  لیث ،      يزيد بن عبد الله بن أسامة بن الهاد الليثى ،عبداللہ بن خباب ،  ابوسعید خذری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں   کہ  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ابوطالب   کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہماری شفاعت سے اسے نفع پہنچے گا تو مقام ضحضاح پر ہوں گے آگ میں ان کے پاوں ہوں گے جس سے ان کا دماغ کھولے گا

  ان   روایات   پر    اعتراض    وارد  ہوتا    کہ  مشرک کی  شفاعت    کرنا  انبیاء  پر  ممنوع   ہے جیسا  قصہ نوح سے معلوم ہے   اور   کافر کے عذاب  میں کوئی  کمی  نہ   ہو  گی  –    لہذا   یہ  خلاف  قرآن  ہیں –  راقم   کہتا ہے   یہ   اعتراض ان  شاذ  روایات   پر   درست  ہے –  لیکن     ایمان  ابو طالب  کے حوالے سے یہ  اعتراض  صحیحین  ہی  کی  تمام  روایات  پر لاگو  نہیں ہوتا –   روایت  اس متن  کے ساتھ شاذ  ہے جس میں خبر دی گئی ہے کہ  روز محشر   ابو طالب کی  شفاعت   نبی  صلی  اللہ علیہ  وسلم کریں  گے   یا  زندگی  میں   کسی دعا کی وجہ  سے ابو طالب  کا عذاب  کم ہوا –

   راقم  کہتا ہے ٣٠٠  ہجری تک اہل تشیع بھی یہی کہتے تھے کہ ابو طالب کافر تھے –   ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ  (انك لا تهدي من أحببت)   آپ  جس کو  محبوب کریں اس کو ہدایت پر  نہیں کر سکتے  یہ آیت ابو طالب کے لئے ہے
واما قوله: (انك لا تهدي من أحببت) قال نزلت في ابي طالب عليه السلام فان رسول الله صلى الله عليه وآله كان يقول يا عم قل لا إله إلا الله بالجهر نفعك بها يوم القيامة فيقول: يا بن اخي أنا أعلم بنفسى، (وأقول بنفسى ط) فلما مات شهد العباس بن عبدالمطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله انه تكلم بها عند الموت بأعلى صوته، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: اما انا فلم اسمعها منه وأرجو ان تنفعه يوم القيامة، وقال صلى الله عليه وآله: لو قمت المقام المحمود لشفعت في ابي وامي وعمي وأخ كان لي مواخيا في الجاهلية

الله  تعالی کے قول آپ جس کو محبوب کریں اس کو ہدایت نہیں دے سکتے- کہا یہ ابو طالب کے لئے نازل ہو ہے کیونکہ رسول الله صلى الله عليه وآله  کہتے اے چچا  کہہ دیں با آواز بلند لا إله إلا الله  میں روز محشر آپ کو فائدہ دوں گا … ابو طالب کہتے مجھے اپنا پتا ہے – پس جب ان کی وفات ہوئی تو  عباس  نے دیکھا   ابو طالب   بات کر رہے تھے  اونچی آواز سے  لیکن  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا انہوں نے کیا کہا اور امید ہے کہ میں  ان کو  روز محشر فائدہ دوں

یعنی    نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کو  اس    میں ابہام رہ گیا    تھا  کہ ابو طالب کافر تھے یا مسلم –  یہاں بھی  جاہلوں   نے روایت  گھڑتے  وقت نہ سوچا کہ  غیب کی خبر  اللہ اپنے نبی کو دیتا ہے –   قمی   کے  چند  سالوں بعد  مجمع البیان میں طبرسی المتوفی ٤٦٨ ھ کہتے ہیں

أن أهل البيت (عليهم السلام) قد أجمعوا على أن أبا طالب مات مسلما
اہل بیت کا اجماع ہے کہ ابو طالب مسلمان مرے

اور متاخرین   نے   بھی ائمہ سے    اقوال  منسوب کیے   ہیں  مثلا     اہل   تشیع   کی   روایت     امام باقر  سے منسوب  ہے –  بحار  انوار  از  ملا  مجلسی  کی  روایت ہے

وأخبرني الشيخ محمد بن إدريس، عن أبي الحسن العريضي، عن الحسين بن  طحان، عن أبي علي، عن محمد بن الحسن بن علي الطوسي، عن رجاله، عن ليث المرادي قال  قلت لابي عبد الله عليه السلام: سيدي إن الناس يقولون: إن أبا طالب في ضحضاح من نار  يغلي منه دماغه، قال عليه السلام: كذبوا والله إن إيمان أبي طالب لو وضع في كفة

ميزان وإيمان هذا الخلق في كفة ميزان لرجح إيمان أبي طالب على إيمانهم. ثم قال عليه السلام: كان والله أمير المؤمنين يأمر أن يحج عن أب النبي وأمة وعن أبي طالب في حياته، ولقد أوصى في وصيته بالحج عنهم بعد مماته

 ابو  بصیر لیث  مرادی  کہتے ہیں  میں نے امام  ابو جعفر سے پوچھا  سیدی لوگ کہتے ہیں کہ  ابو طالب  ضحضاح میں ہیں   جس  سے  ان کا دماغ  کھول رہا ہے  –  فرمایا   جھوٹے ہیں  اللہ کی قسم – اگر  ترازو  میں  ابو طالب  کا ایمان ایک پلڑے میں ہو اور ان لوگوں  (یعنی   اہل سنت کے محدثین ) کا ایمان  دوسرے پلڑے میں ہو  تو  ایمان ابو طالب  بڑھ کر ہے     پھر فرمایا  اللہ کی قسم  امیر المومنین  علی  نے  اپنی زندگی  میں حکم دیا تھا   زیارت  (قبر ) والدہ و والد النبی کی  اور زیارت  قبر ابو طالب کی ،  اور موت  کے بعد بھی اس زیارت  کی مجھے وصیت کی

 سند  میں  راوی   الحسين بن طحان     ہے   جس   پر شیعہ کتب  رجال  میں کوئی معلومات  نہیں ہیں   ساتھ ہی عن رجاله،      مجہول  لوگ  ہیں-  یہ  روایت  ثابت   ہی نہیں ہوتی   لیکن  حیرت  ہے کہ     ایمان ابو طالب  پر بحث و جدل  میں  اہل  تشیع  نے    ہر مقام  پر اس کو لکھا ہے

نوٹ

ایک بریلوی عالم نے ذکر کیا کہ روایت میں اتا ہے کہ
لِلَّهِ دَرُّ أَبِي طَالِبٍ لَوْ كَانَ حَيًّا قَرَّتَا عَيْنَاهُ
اللہ ابو طالب کا بھلا کرے اگر زندہ ہوتے تو ان سے آنکھیں ٹھنڈی کرتا

راقم کہتا ہے السيرة الحلبية نام کی ایک کتاب ہے جو ضعیف و موضوع روایات پر مشتمل سیرت ہے – گیارہویں صدی کے شخص علي بن إبراهيم بن أحمد الحلبي، أبو الفرج، نور الدين ابن برهان الدين (المتوفى: 1044هـ) کی تصنیف ہے
قال صلى الله عليه وسلم: لله در أبي طالب لو كان حيا قرت عيناه، من الذي ينشدنا قوله؟ فقام علي كرم الله وجهه فقال: يا رسول الله كأنك أردت قوله فقال الأبيات

اصلا یہ دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے – اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ دُحَيْمٍ الشَّيْبَانِيُّ بِالْكُوفَةِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَنْبَسَةَ، حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ زِيَادٍ الْأَزْدِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيِّ، ح [ص:141] وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ الْأَصْبَهَانِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ أَبُو الشَّيْخِ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ رَشِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ عَمِّي، عَنْ مُسْلِمٍ الْمُلَائِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ

سند میں مسلم بن كيسان الضبى الملائى ہے جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے
قال أبو زرعة: كوفي ضعيف الحديث
وقال أبو حاتم: يتكلمون فيه وهو ضعيف الحديث
وقال ابن معين قال جرير: اختلط
وقال ابن حبان: اختلط في آخر عمره حتى كان لا يدري ما يحدث به فجعل يأتي بما لا أصل له عن الثقات فاختلط
قال الفلاس: متروك الحديث.
وقال أحمد: لا يكتب حديثه.
وقال يحيى: ليس بثقة.

سند میں سعيد بن خثيم بن رشد الهلالى ، أبو معمر الكوفى بھی ہے
قَالَ الأَزْدِيُّ: مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: مِقْدَارُ مَا يَرْوِيهِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.

یہ منکر الحدیث ہے

سند میں أَحْمَدُ بْنُ رَشِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيُّ بھی ہے اس کو دارقطنی نے ضعیف قرار دیا ہے

موت و نیند پر التباس

قرآن سورة الزمر آیت 42 میں ارشاد ہے

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ قبضے میں لے لیتا ہے نفس کو موت پر اور جو نہیں مرا اس کا نیند میں
پس پکڑ کر رکھتا ہے نفس کو جس پر موت کا حکم کرتا ہے اور دوسرے نفس کو چھوڑ دیتا ہے
اس میں نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں

سورہ الانعام آیت ٦٠ تا ٦١ میں ہے

وَهُوَ الَّـذِىْ يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُـمْ بِالنَّـهَارِ ثُـمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُـقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُـمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُـمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ
اور وہ وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کر چکے ہو وہ جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ وہ وعدہ پورا ہو جو مقرر ہو چکا ہے، پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے پھر تمہیں خبر دے گا اس کی جو کچھ تم کرتے تھے۔
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ ۖ وَيُـرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ؕ حَتّــٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّـتْهُ رُسُلُـنَا وَهُـمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے، اور تم پر نگہبان (فرشتے ) بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے قبضہ میں لے لیتے اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے۔

اس میں نفس یا روح کا ذکر ہے کہ نیند میں بھی قبض ہو رہا ہے اور موت پر بھی قبض ہو رہا ہے – ایک ہی نفس ہے جس کو موت اور نیند پر قبض کیا جا رہا ہے – زمخشری تفسیر کشاف میں اس کا ذکر کرتے ہیں

والصحيح ما ذكرت أوّلا، لأنّ الله عز وعلا علق التوفي والموت والمنام جميعا بالأنفس
أور صحیح وہ ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا کہ اللہ تعالی نے قبض ، موت، نیند سب کا اطلاق ایک ہی نفس پر کیا ہے

لیکن اشکال یہ ہے کہ قبض نفس نیند میں ہو جانے پر آدمی مردہ نہیں کہا جاتا اس کو زندہ ہی سمجھا جاتا ہے – سورہ الزمر میں ایک نفس کا ذکر ہے دو کا نہیں ہے – البتہ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے دو نفس بیان کیے ہیں – ایک کو نفس زیریں کہا ہے اور ایک کو نفس بالا کہا ہے

مفسر أبو إسحاق أحمد بن إبراهيم الثعلبي (المتوفى: 427 هـ) لکھتے ہیں
قال مفسرون: إن أرواح الأحياء والأموات تلتقي في المنام فيتعارف ما شاء الله منها فإذا أراد جميعها الرجوع إلى أجسادها أمسك الله أرواح الأموات عنده وحبسها، وأرسل أرواح الأحياء حتى ترجع إلى أجسادها
مفسرین کہتے ہیں زندوں اور مردوں کی روحیں نیند میں آپس میں ملاقات کرتی ہیں پس اس میں پہچان جاتی ہیں جو اللہ چاہے پس جب ان کو لوٹا نے ان کے جسموں میں اللہ ارادہ کرتا ہے تو مردوں کی روحوں کو روک لیتا ہے اور قید کر دیتا ہے اور زندہ کی ارواح کو ان کے اجساد میں لوٹا دیتا ہے

راقم کہتا ہے اس تفسیر کی وجوہات وہ روایات ہیں جن میں مردوں اور زندہ کی روحوں کے ملاقات کے قصے ہیں جو تمام ضعیف اسناد سے ہیں -تفصیل راقم کی کتاب الرویا میں ہے جو اس ویب سائٹ پر موجود ہے – ڈاکٹر عثمانی کے مخالف غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی نے کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں انہی روایت منکرہ و ضعیفہ کے تحت بیان کیا ہے کہ انسانی جسم میں دو روحیں یا نفس ہیں – ایک موت پر نکلتا ہے اور ایک نیند میں نکلتا ہے – یعنی ان علماء کے نزدیک قبض کا مطلب اخراج روح ہے جبکہ عربی میں قبض کا مطلب اخراج نہیں ہے اور نہ ہی آیات قرانی میں نیند میں اخراج روح کا ذکر ہے – قرآن میں قبض روح کا ذکر ہے کہ روح کو پکڑ لیا جاتا ہے – یہاں ہم کو معلوم ہے کہ روح کو نیند میں پکڑنے کے بعد بھی انسان خواب دیکھتا ہے – انسان کی بے ہوشی بھی گہری نیند ہے جس میں ڈاکٹر اس کا جسم کاٹ بھی دیتا ہے تو انسان کو احساس نہیں ہوتا – بسا اوقات انسان نیند میں ہوتا ہے لیکن اس کی نیند کچی ہوتی ہے اس کو اس پاس جو ایا یا بات ہو اس کی آواز بھی آ جاتی ہے – یہ سب ہمارے مشاہدہ میں ہے جس کا انکار کوئی نہیں کر سکتا
ان آیات میں انسان کے فہم، شعور، ادراک اور اختیار کا کوئی ذکر نہیں ہے – بلکہ یہ سب مشاہدات سے علم میں آتا  ہے – جو کفار روح کے وجود کے قائل نہیں ان تک کو معلوم ہے کہ نیند اور بے ہوشی انسان کا شعور کس طرح محدود کرتے ہیں – قرآن میں نیند کے عمل کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ قبض روح یا
seize
ہو جانے کی وجہ سے نیند میں تعقل کم ہو جاتا ہے اور موت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ نہ صرف قبض ہوتا ہے بلکہ فرشتے بھی استعمال ہوتے ہیں جو روح کو مکمل جسم سے الگ کر دیتے ہیں
وہ علماء جو عود روح کے قائل ہیں انہوں نے سورہ الزمر کی آیت میں تفسیر میں التباس پیدا کر دیا اور نیند میں قبض کو اخراج روح بنا دیا اور پھر کہا کہ موت کے بعد اگر روح واپس جسم میں آ بھی جائے تو یہ   میت  ہی  ہے – ابن رجب تفسیر میں کہتے ہیں
فلا ينافي ذلكَ أن يكونَ النائمُ حيًّا، وكذلك اتصالُ روح الميتِ ببدنه وانفصالها عنه لا يوجبُ أن يصيرَ للميتِ حياةً مطلقةً.
اس آیت سورہ الزمر سے نفی نہیں ہوتی کہ سونے والا زندہ ہے ، اسی طرح روح میت کے بدن سے جڑ جائے الگ ہو جائے تو یہ واجب نہیں ہو گا کہ مطلق زندگی ، میت کی ہو گئی

یعنی جس طرح نیند میں قبض نفس ہونے پر مردہ نہیں کہا جاتا اسی طرح قبر میں عود روح ہو جانے کے بعد زندہ نہیں کہا جا سکتا – گویا کہ نہ زندگی واضح ہے نہ موت واضح ہے – جو ان لوگوں کے نزدیک واضح ہے وہ صرف یہ کہ قبض نفس ہو رہا ہے

راقم کہتا ہے ان لوگوں نے آیات پر غور نہیں کیا ہے – قبض کا مطلب اخراج نہیں ہے اور سورہ الزمر میں صرف قبض کرنا بیان ہوا ہے اخراج کا ذکر نہیں ہے اور سورہ انعام میں موت پر اضافی اخراج کا ذکر بھی ہے جو فرشتوں سے کر وایا جا رہا ہے

قرآن میں موت کا لفظ اس دور پر بھی بولا گیا ہے جب جسم و روح اپس میں ملے بھی نہیں تھے
سورہ البقرہ آیت ٢٨ میں ہے

كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّـٰهِ وَكُنْتُـمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۖ ثُـمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُـمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُـمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ
تم اللہ کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم (اموات) بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔

یہ تخلیق آدم کے اس دور کا ذکر ہے جب آدم علیہ السلام مٹی میں خمیر میں خلق ہو رہے تھے- ان کی روح بن چکی تھی لیکن ان کے جسم میں نہیں تھی – جسم اور روح جب الگ ہوں تو ان پر موت کا اطلاق کیا گیا ہے

اشاعرہ علماء ایک دور میں موت کی تعریف یوں ہی  کرتے تھے – راغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں لکھتے ہیں کہ
وقوله: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] فعبارة عن زوال القوّة الحيوانيَّة وإبانة الرُّوح عن الجسد
اور (الله تعالیٰ کا ) قول : : كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] پس یہ عبارت ہے قوت حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے

روح کا جسم سے الگ ہونا ایک دور تھا جب موت سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں لوگوں نے اس تعریف کو بدلا اور آیات کو ایسے پیش کیا کہ گویا ان آیات میں ابہام ہے جسم میں روح انے جانے کا نام موت نہیں ہے – ان لوگوں کو یہ اشکال بعض روایات سے پیدا ہوا ہے مثلا صحیح بخاری کتاب الدعوات حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
الحمد للّٰہ الذی احیانا بعد ما اماتنا و الیہ النشور
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

یہاں نیند کو مجازا موت کہا گیا ہے – البتہ فرقوں نے اس کو حقیقت سمجھ لیا کیونکہ وہ عود روح کی روایت قبول کر چکے تھے – نیند میں بھی ان کے نزدیک روح جسم سے نکل جاتی ہے اور اگر مرنے کے بعد واپس آ بھی جائے تو اس کو زندگی نہیں کہا جائے گا- راقم کہتا ہے یہاں حدیث میں مجازا نیند کو موت بولا گیا ہے اور اس طرح بولنا زبان و ادب میں عام ہے لیکن اس کو حقیقت نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ قرآن میں نیند کو موت نہیں کہا گیا

صحیح البخاری بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ ذَهَابِ الوَقْتِ میں أَبِي قَتَادَةَ رضی الله عنہ سے مروی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نیند کے حوالے سے فرمایا
إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ، وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ
بے شک الله تعالی تمہاری روحوں کو قبض کرتا ہے جب چاہتا ہے اور لوٹاتا ہے جب چاہتا ہے

اس حدیث میں قبض روح سے مراد روح کا جسم سے نکلنا نہیں ہے بلکہ روح کا جسم میں ہی قبض مراد ہے – لیکن فرقوں نے اس قبض کو جسم سے اخراج نفس سمجھا اور اس سے یہ مطلب کشید کیا کہ سونے والے کو بھی مردہ کہا جاتا ہے

سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ عَنْ فِرَاشِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَلْيَنْفُضْهُ بِصَنِفَةِ [ص:473] إِزَارِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي مَا خَلَفَهُ عَلَيْهِ بَعْدُ، فَإِذَا اضْطَجَعَ فَلْيَقُلْ: بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِكَ أَرْفَعُهُ، فَإِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ، فَإِذَا اسْتَيْقَظَ فَلْيَقُلْ: الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي فِي جَسَدِي، وَرَدَّ عَلَيَّ رُوحِي وَأَذِنَ لِي بِذِكْرِهِ ” وَفِي البَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَعَائِشَةَ،: ” وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ وَقَالَ: فَلْيَنْفُضْهُ بِدَاخِلَةِ إِزَارِهِ

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی تم میں سے اپنے بستر پر سے اٹھ جائے پھر لوٹ کر اس پر (لیٹنے، بیٹھنے) آئے تو اسے چاہیئے کہ اپنے ازار (تہبند، لنگی) کے (پلو) کونے اور کنارے سے تین بار بستر کو جھاڑ دے، اس لیے کہ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کے اٹھ کر جانے کے بعد وہاں کون سی چیز آ کر بیٹھی یا چھپی ہے، پھر جب لیٹے تو کہے باسمك ربي وضعت جنبي وبك أرفعه فإن أمسكت نفسي فارحمها وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين اے میرے رب میں تیرا نام لے کر (اپنے بستر پر) اپنے پہلو کو ڈال رہا ہوں
یعنی سونے جا رہا ہوں، اور تیرا ہی نام لے کر میں اسے اٹھاؤں گا بھی، پھر اگر تو میری جان کو (سونے ہی کی حالت میں) روک لیتا ہے (یعنی مجھے موت دے دیتا ہے) تو میری جان پر رحم فرما، اور اگر تو سونے دیتا ہے تو اس کی ویسی ہی حفاظت فرما جیسی کہ تو اپنے نیک و صالح بندوں کی حفاظت کرتا ہے پھر نیند سے بیدار ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ کہے الحمد لله الذي عافاني في جسدي ورد علي روحي وأذن لي بذكره تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے بدن کو صحت مند رکھا، اور میری روح مجھ پر لوٹا دی اور مجھے اپنی یاد کی اجازت (اور توفیق) دی

اس کی سند میں ضعف ہے – سند میں محمد بن عجلان ہے جو مدلس ہے اور اس روایات کی تمام اسناد میں اس کا عنعنہ ہے

صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے لیکن الفاظ رد روحی اس میں نہیں ہیں

حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ فِرَاشَهُ فَلْيَنْفُضْهُ بِصَنِفَةِ ثَوْبِهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، وَلْيَقُلْ: «بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَاغْفِرْ لَهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ»

وہ علماء جو موت اور نیند کو ملاتے ہیں وہ صعق یا بے ہوشی کو بھول جاتے ہیں کہ بے ہوش شخص مردہ نہیں ہوتا اور نہ نیند میں ہوتا ہے  بلکہ  بے ہوشی میں فہم احساس شعور و ادراک  معطل ہونا ہے جبکہ کچی نیند میں انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اس پاس کیا ہو رہا ہے یعنی شعور موجود ہوتا ہے

 

کیا وفات النبی پر اجماع امت ہے ؟

دین میں اصحاب رسول کے متفقہ موقف کی اہمیت ہے – سورہ النساء کی آیت ہے

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے،  بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

یقینا مسلمانوں کی راہ چھوڑنا گمراہی ہے لیکن یہ آیت  اصل صحیح العقیدہ مسلمان یعنی  اصحاب رسول  کی بات ہے-  آج جس قسم کے قبر پرست، پیر پرست مسلمان ہیں کیا ان کا اجماع حجت ہے؟ یقینا یہ بات غلط ہے-  اس لئے اگر کوئی اجماع ، امت میں حجت ہے ، تو وہ صرف اجماع صحابہ ہے

اس امت کا سب سے اہم اجماع تھا جب وفات النبی پر اختلاف ہوا اور عمر رضی الله عنہ نے اس کا انکار کیا پھر ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے اس پر خطبہ دیا اور تمام صحابہ نے وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کا عقیدہ قبول کیا

اسی اجماع صحابہ کا ذکر عثمانی صاحب نے اس طرح کیا

افسوس امت میں اس کا بھی صریح انکار کر کے رسول الله کو قبر النبی میں زندہ کی صفت دی گئی ہے لہذا ایک اہل حدیث عالم کہتے ہیں[1]

[1] http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع والی بات تو …..اس وقت ابھی رسول اللہ ﷺ قبر میں داخل ہی نہیں کیے گئے تھے، پھر وہ اجماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی موت اور دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر تھا

یعنی ان عالم کے مطابق اجماع تو تدفین سے پہلے ہوا اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہو گئے

دیوبندی کہتے ہیں کہ روح نبوی جسد مبارک سے نکلی ہی نہیں بلکہ قلب میں سمٹ گئی

گویا فرشتے خالی لوٹ گئے

امام بیہقی کتاب الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث  میں لکھتے ہیں

 وَالْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ بَعْدَمَا قُبِضُوا رُدَّتْ إِلَيْهِمْ أَرْوَاحُهُمْ فَهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ

اور انبیاء علیھم السلام کی روحیں قبض ہونے کے بعد واپس لوٹا دی گئیں اور اب وہ شہید کی طرح اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں

بیہقی کیا  کہہ رہے ہیں؟ اس کی کوئی دلیل نہیں شاید ان کے نزدیک روحیں قبض ہونے کے بعد فرشتے زمیں و آسمان میں بھٹکتے رہے پتا نہ کر پائے کہ ان کو کہاں رکھیں لہذا واپس قبروں میں انبیاء کے جسد میں ہی روحیں   لوٹا    دی گئیں-

ایک مومن کے نزدیک صرف اصحاب رسول کی اہمیت ہے – متاخرین کے متجدد عقائد اور صوفی صفت محدثین کے عقائد کی کوئی اہمیت نہیں ہے

البانی کے مطابق  انبیاء قبروں میں نماز پڑھ رہے ہیں-  الصحیحہ (2/ 190،178) میں اس پر کہتے ہیں
اعلم أن الحياة التي أثبتها هذا الحديث للأنبياء عليهم الصلاة والسلام، إنما هي حياة برزخية، ليست من حياة الدنيا في شيء،
جان لو اس روایت میں انبیاء کی جس زندگی کا اثبات کیا گیا ہے یہ برزخی زندگی ہے جس میں دنیا کی زندگی کی کوئی چیز نہیں

قاعدہ جلیلہ فی التوسل و الوسیلہ میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

وكذلك الأنبياء والصالحون ، وإن كانوا أحياء في قبورهم ، وإن قدر أنهم يدعون للأحياء وإن وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك ، ولم يفعل ذلك أحد من السلف
اور اسی طرح (فرشتوں کی طرح) انبیاء اور صالحین کا معاملہ ہے ہر چند کہ وہ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور یہ بھی مقدر کر دیا گیا ہے کہ وہ زندوں کے لئے دعائیں کریں اور اس بات کی تصدیق میں روایتیں بھی آئی ہیں مگر کسی کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ان سے کچھ طلب کرے اور سلف میں سے کسی ایک نے بھی ان سے کچھ طلب نہیں کیا

دیو بندیوں کے ایک  محقق نے تقریر میں کہا

مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں امتی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے نکال لیا گیا ہے۔ نبی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے دل میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ارے اگرچہ موت آگئی ہے لیکن دل پہ وفات نہیں آئی اگر نبی ہے تو روح کو سمیٹ کے دل میں رکھ دیا گیا اور اگر امتی ہے تو بدن سے روح کو نکال لیا گیا لیکن نبی کو جو حیات ملتی ہے اسی روح کو پھیلا دیا جاتا ہے اور جب امتی کو حیات ملتی ہے۔امتی کی روح کو لوٹا دیا جاتا ہے “

راقم  کہتا ہے
یہ تو انبیاء کی نشانی ہے کہ زندگی میں ان کا دل سونے کی حالت میں بھی الله کے کنٹرول میں ہوتا ہے    اس میں ان پر شیطان کا القا نہیں ہو سکتا  – اس لئے ا  ن   کے دل کی  بھی حفاظت کی گئی   کیونکہ قرآن کا   یا الوحی نزول دل پر ہوتا ہے-

سورہ بقرہ  :

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ

کہو (اس سے ) جو جبریل کا دشمن  ہو کہ اسی  (جبریل) نے اس قرآن کو میرے دل پر اتارا ہے

 اللہ تعالی نے  قرآن  میں   انبیاء پر لفظ موت کا اطلاق کیا ہے –  آنکھ کا سونا یعنی دماغ پر سونے کی کیفیت کا ظہور ہونا ہے   اور قلب کا جاگنا اس کا کسی بھی شیطانی القا سے دور رہنا ہے –  یہی وجہ ہے کہ مومن کو برا خواب  آتا ہے انبیاء کو نہیں آتا-     عمر رضی الله عنہ اگر   نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے حوالے سے صحیح تھے ان کی بات کے پیچھے یہ فلسفہ تھا  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر موت واقع نہیں ہوئی  تو ابو بکر  رضی الله عنہ  کی تقریر پر وہ  چپ نہ رہتے اور تمام اصحاب رسول کا وفات النبی پر اجماع بھی نہ ہونے پاتا-   ابو بکر رضی الله عنہ نے صحیح کہا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور عمر رضی اللہ عنہ کا رد کیا کہ اب رسول پر دو موتیں جمع نہ ہوں گی جیسا تم کہہ رہے ہو کہ وہ زندہ ہو جائیں گے –

معلوم ہوا کہ ان فرقوں کا اجماع ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ان کے جسد سے الگ نہیں ہے وہ قبر میں زندہ ہیں جبکہ اصحاب رسول کا اجماع وفات النبی پر ہے روح النبی کے جسم اطہر سے الگ ہونے پر اجماع ہے

حدیث میں ہے

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ [ص:139] مِنْ ثَلَاثٍ: الكَنْزِ، وَالغُلُولِ، وَالدَّيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ ” هَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ: الكَنْزُ، وَقَالَ أَبُو 
عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ: الكِبْرُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَعْدَانَ وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی اور وہ تین چیزوں سے  بَرِيءٌ تھا خزانہ ، غنیمت میں خیانت، اور قرض سے تو وہ جنت میں داخل ہوا – ترمذی نے کہا سعید نے روایت میں خزانہ بولا ہے اور … سعید  کی سند سے روایت اصح ہے

کیا یہ انصاف  ہے امتی تو جنتوں کے مزے لیں اور انبیاء کو اس فانی زمین میں رکھا جائے ؟

ایک طرف تو ہمارے ساتھ رہنے والے یہ فرقے ہیں اور دوسری طرف اصحاب رسول ہیں

فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ ہے کہ نبی جنت الفردوس میں ہیں

عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ ہے کہ نبی نے آخرت کی زندگی کو پسند کیا نہ کہ دنیا کی

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے نکل گئے

یہ عقائد صحیح بخاری میں درج ہیں اور فرقوں کو معلوم ہیں لیکن ان فرقوں نے قبوری زندگی کا عقیدہ عوام میں پھیلا دیا  ہے اور معاشرہ میں قبوری کلچر انہی مولویوں کی وجہ سے پنپ رہا ہے

تعویذ کا ناجائز دفاع

فرقہ اہل حدیث و سلفی وہابی فرقوں  میں تعویذ کے جواز پر شدید اختلاف موجود ہے  -پاکستانی اہل حدیث میں سے ایک کثیر تعداد تعویذ کو لٹکاتی ہے اس کو  عین توحید سمجھتی ہے اور دوسری طرف سمندر پار جزیرہ عرب میں عبد الوہاب النجدی نے کتاب التوحید میں اس کو شرک قرار دیا تھا   – اس اختلاف کو چھپا کر رکھا جاتا تھا یہاں تک کہ عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے کتاب تعویذات کا شرک مرتب کی اور عوام میں بانٹی –

عثمانی صاحب نے روایت پیش کی

اس کے بعد سے آج تک اہل حدیث کی جانب سے ہر سال تعویذ پر تحقیق ہو رہی ہے اور نت نئے  انکشافات سامنے اتے رہتے ہیں – مثلا  بعض اھل حدیث محققین کی جانب سے تعویذ کے جواز پر  جوابا کہا جا رہا ہے  کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تعویذ کے خلاف احادیث تمام  کی تمام ضعیف ہیں

عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت

سنن ابو داود ح  3883 میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ» [ص:10] قَالَتْ: قُلْتُ: لِمَ تَقُولُ هَذَا؟ وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: “جھاڑ پھونک (منتر)  گنڈا(تعویذ) اور تولہ  شرک ہیں” عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی میری آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے آتی تھی تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو میرا درد بند ہو جاتا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: یہ کام تو شیطان ہی کا تھا وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ چھوتا تھا تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو وہ اس سے رک جاتا تھا، تیرے لیے تو بس ویسا ہی کہنا کافی تھا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «ذهب الباس رب الناس اشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» “لوگوں کے رب! بیماری کو دور فرما، شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہ رہنے دے”۔

نوٹ : اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے اور حاکم نے بھی صحیح قرار دیا ہے – امام الذھبی نے موافقت کی ہے

اعتراض اہل حدیث جدید کا کہنا ہے کہ یہ متن منکر ہے -یہودی سے اصحاب رسول کا دم کرانا منکر روایت ہے

جواب

قال الربيع بن سليمان ، تلميذ الشافعي :
” سَأَلْت الشَّافِعِيَّ عن الرُّقْيَةِ ؟ فقال : لاَ بَأْسَ أَنْ يرقى الرَّجُلُ بِكِتَابِ اللَّهِ ، وما يَعْرِفُ من ذِكْرِ اللَّهِ .
قُلْت : أيرقى أَهْلُ الْكِتَابِ الْمُسْلِمِينَ ؟
فقال : نعم ؛ إذَا رَقُوا بِمَا يُعْرَفُ من كِتَابِ اللَّهِ ، أو ذِكْرِ اللَّهِ .
فَقُلْت : وما الْحُجَّةُ في ذلك ؟
قال : غَيْرُ حُجَّةٍ ؛ فَأَمَّا رِوَايَةُ صَاحِبِنَا وَصَاحِبِك ـ يعني : الإمام مالكا رحمه الله ـ ؛ فإن مَالِكًا أخبرنا عن يحيى بن سَعِيدٍ عن عَمْرَةَ بِنْتِ عبد الرحمن أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دخل على عَائِشَةَ وَهِيَ تَشْتَكِي وَيَهُودِيَّةٌ تَرْقِيهَا فقال أبو بَكْرٍ أرقيها بِكِتَابِ اللَّهِ ” انتهى .
“الأم” للشافعي (7/228) 

الربيع بن سليمان نے امام شافعی سے پوچھا  دم کرنےپر امام شافعی نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں کہ کتاب اللہ سے دم کیا جائے اور جو اللہ کا ذکر معلوم ہو اس سے 

میں الربيع بن سليمان نے کہا کیا اہل کتاب مسلمانوں کو دم کر سکتے ہیں ؟

امام شافعی نے فرمایا ہاں – جب وہ کتاب اللہ  میں جو جانتے ہوں اس سے دم کریں یا اللہ کے ذکر سے 

میں نے کہا اس کی دلیل کیا ہے  ؟

امام شافعی نے فرمایا  ہمارے اور تمھارے امام مالک صاحب رحمہ اللہ  کی روایت ہے – امام مالک نے خبر دی یحییٰ بن سعید سے انہوں نے عمرہ سے روایت کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر داخل ہوئے تو یہودیہ ان کو دم کر رہی تھی  پس ابو بکر نے کہا کتاب اللہ سے دم کرو

امام محمد نے بھی اسی روایت سے دلیل لی ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهِيَ تَشْتَكِي، وَيَهُودِيَّةٌ تَرْقِيهَا، فَقَالَ: «ارْقِيهَا بِكِتَابِ اللَّهِ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالرُّقَى بِمَا كَانَ فِي الْقُرْآنِ، وَمَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ، فَأَمَّا مَا كَانَ لا يُعْرَفُ مِنْ كَلامٍ، فَلا يَنْبَغِي أَنْ يُرْقَى بِهِ
ہم اسی روایت کو لیتے ہیں کہ قرآن سے دم کرنے میں برائی نہیں ہے جس میں الله کا ذکر ہو جہاں تک وہ کلام ہے جو جانا نہیں جاتا اس سے دم نہیں کرنا چاہیے

معلوم ہوا کہ امام مالک، امام شافعی  اور احناف میں اہل کتاب سے دم کرا سکتے ہیں

وہابی مفتی ابن باز سے سوال ہوا : هل تجوز رقية النصراني واليهودي للمسلم؟
کیا نصرانی و یہودی کا رقیہ مسلم کے لئے ہے ؟

فأجاب: إذا لم يكن من أهل الحرابة، وكانت من الرقية الشرعية، فلا بأس بذلك
پس جواب دیا اگر حربی نہیں ہے اور رقیہ شرعی ہے تو برائی نہیں ہے

 راقم کہتا ہے کہ صحیح بات ہے کہ شرک پر اگر دل مطمئن ہو جائے  تو کفر کا فتوی لگتا ہے – یہاں  ابن مسعود رضی الله عنہ کی  بیوی نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو شرک ہو صرف دم کرایا تھا

   اہل حدیث  مبشر ربانی دور کی کوڑی لاتے ہیں  مبشر ربانی  کتاب مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط ص   ٢٩٥  میں لکھتے ہیں

راقم کہتا ہے اس حدیث میں کہیں نہیں ہے کہ زینب  زوجہ ابن مسعود شرک کی مرتکب تھیں تو اس پر حاشیہ آرائی غیر مناسب ہے – دین میں اہل کتاب سے دم کرا سکتے ہیں – ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اصل میں شرکیہ دم سے منع کیا ہے جو ان کی بیوی نے سمجھا کہ ابن مسعود اس وقت دم کو  مطلق حرام  کہہ رہے ہیں (جبکہ ابن مسعود کا مدعا الگ ہے )   – زوجہ ابن مسعود کا سوال  یہ صرف وضاحت و اشکال والا معاملہ ہے

اس کا ایک ترجمہ مبشر ربانی نے اسی کتاب میں پیش کیا ہے

اس روایت کے متن میں ہے کہ یہودیہ دم کرنے میں مشغول تھی کہ ابن مسعود پہنچ گئے اور اس تانت کو توڑ دیا

اس میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ زوجہ ابن مسعود مشرکہ تھیں

اعتراض : اعمش اس میں مدلس ہے اور سند عن سے ہے

جواب
صحیح بخاری میں اعمش نے حدثنی کے ساتھ روایت کیا ہوا ہے سماع ثابت ہے
اور اہل حدیث کا اصول ہے کہ اگر ایک ہی سند میں سماع کی تصریح مل جائے تو سماع ہوتا ہے
تدلیس کا خطرہ ختم ہو جاتا ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ” قَالَ أَبُو لَهَبٍ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ اليَوْمِ فَنَزَلَتْ: {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ} [المسد: 1] “

وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا [ص:35] الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَزَلَ رَمَضَانُ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَكَانَ مَنْ أَطْعَمَ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا تَرَكَ الصَّوْمَ مِمَّنْ يُطِيقُهُ، وَرُخِّصَ لَهُمْ فِي ذَلِكَ، فَنَسَخَتْهَا: {وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} [البقرة: 184] فَأُمِرُوا بِالصَّوْمِ

یہاں اعمش نے عمرو بن مرہ سے  تحدیث کے ساتھ روایت کیا ہے

مستدرک حاکم 7505  میں یہی روایت اس سند سے بھی   ہے

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزَّاهِدُ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ، ثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ قَيْسِ بْنِ السَّكَنِ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى امْرَأَةٍ فَرَأَى عَلَيْهَا حِرْزًا مِنَ الْحُمْرَةِ فَقَطَعَهُ قَطْعًا عَنِيفًا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الشِّرْكِ أَغْنِيَاءُ وَقَالَ: كَانَ مِمَّا حَفِظْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتَّوْلِيَةَ مِنَ الشِّرْكِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 7505 – صحيح

یہاں الذھبی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے

اعتراض کیا جاتا ہے

مستدرک حاکم 7505 کی سند میں أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ مجہول ہے

جواب
مجہول نہیں ہے
تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
أحمد بن مهران بن المنذر، أبو جعفر الهمذاني القطان. [الوفاة: 261 – 270 ه] سَمِعَ: محمد بن عبد الله الأنصاري، وعثمان بن الهيثم المؤذن، والقعنبي.
وَعَنْهُ: علي بن مهروية القزويني.
قال أبو حاتم: صدوق.

الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة از ابن قُطْلُوْبَغَا میں ہے

أحمد بن مهران بن المنذر القَطَّان الهَمَذَاني، أبو جعفر.
قال ابن أبي حاتم (1): سمع أبي في كتابه كتاب «الموطأ» عن القعنبي، روى عن عثمان بن الهيثم، وعبد الله بن رجاء، وحسن بن موسى الأشيب، والأنصاري، وهو صدوق.

اعتراض

مستدرک حاکم کی سند میں اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق ضعیف ہے

جواب
إِسْرَائِيل بن يُونُس بن أبي إِسْحَاق صحیح بخاری کا راوی ہے اور اس کی ہر روایت اہل حدیث کے اصول پر صحیح متصور ہو گی
ہمارے نزدیک اس متن میں اس کا تفرد نہیں ہے لہذا حدیث اپنی جگہ قائم ہے اس کی اصل ہے

اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں کہ مسند احمد  میں اس روایت کی سند ضعیف ہے

مسند احمد
٣٦٠٥
حَدَّثَنَا (1) جَرِيرٌ، عَنْ الرُّكَيْنِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: ” كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ عَشْرَ خِلَالٍ: تَخَتُّمَ الذَّهَبِ، وَجَرَّ الْإِزَارِ، وَالصُّفْرَةَ – يَعْنِي الْخَلُوقَ -، وَتَغْيِيرَ الشَّيْبِ – قَالَ جَرِيرٌ: إِنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ (2) نَتْفَهُ – وَعَزْلَ الْمَاءِ عَنْ مَحِلِّهِ، وَالرُّقَى إِلَّا بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَفَسَادَ الصَّبِيِّ غَيْرَ (3) مُحَرِّمِهِ، وَعَقْدَ التَّمَائِمِ، وَالتَّبَرُّجَ بِالزِّينَةِ لِغَيْرِ مَحِلِّهَا، وَالضَّرْبَ بِالْكِعَابِ

جواب اگرچہ  مسند کے محقق شعیب نے اس کو منکر ہے لیکن احمد شاکر کا کہنا ہے روایت صحیح ہے

إسناده صحيح، الركين: هو ابن الربيع، سبق توثيقه 868. القاسم بن حسان العامري:
ثقة: وثقه أحمد بن صالح، وذكره ابن حبان في ثقات التابعين، وذكر البخاري في الكبير 4/ 1/ 161 اسمه فقط، ولم يذكر عنه شيئَاً. وترجمه ابن أبي حاتم في الجرح والتعديل 3/ 2/ 108 فلم يذكر عنه جرحاً. عبد الرحمن بن حرملة الكوفي: ذكره ابن حبان في الثفات، وذكره البخاري في الضعفاء21 قال: “عبد الرحمن بن حرملة عن ابن مسعود، روى عنه القاسم بن حسان، لا يصح حديثه”. والحديث رواه أبو داود 4: 143 – 144 من طريق المعتمر عن الركين. قال المنذري: “وأخرجه النسائي، وفي إسناده قاسم بن حسان الكوفي عن عبد الرحمن بن حرملة، قال البخاري: القاسم بن
حسان: سمع من زيد بن ثابت وعن عمه عبد الرحمن بن حرملة، وروى عنه الركين ابن الربيع، لم يصح حديثه في الكوفيين. قال علي بن المديني حديث ابن مسعود أن النبي – صلى الله عليه وسلم – كان يكره عشر خلال: هذا حديث كوفي، وفى إسناده من لا يعرف. وقال =
ابن المديني أيضاً: عبد الرحمن بن حرملة: روى عنه قاسم بن حسان، لا أعلم رُوي عن عبد الرحمن هذا شيء من هذا الطريق، ولا نعرفه من أصحاب عبد الله. وقال عبد الرحمن بن أبي حاتم. سألت أبي عنه؟، فقال: ليس بحديثه بأس، وإنما روى حديثاً واحداً، ما يمكن أن يعتبر به، ولم أسمع أحداً ينكره أو يطعن عليه، وأدخله البخاري في كتاب الضعفاء، وقال أبي: يحوَّل منه”. والذي نقله المنذري عن البخاري في شأن القاسم بن حسان لا أدري من أين جاء به، فإنه لم يذكر في التاريخ الكبير إلا اسمه فقط. كما قلنا، ثم لم يترجمه في الصغير، ولم يذكره في الضعفاء. وأخشى أن يكون المنذري وهم فأخطأ، فنقل كلام ابن أبي حاتم بمعناه منسوباً للبخاري. وأنا أظن أن قول البخاري في عبد الرحمن بن حرملة “لا يصح حديثه” إنما مرده إلى أنه لم يعرف شيئَاً عن القاسم بن حسان، فلم يصح عنده لذلك حديث عمه عبد الرحمن. (فائدة): قال أبو داود، بعد أن روى هذا الحديث: “انفرد بإسناد هذا الحديث أهل البصرة”!، وهو خطأ عجيب، فإن رواته كلهم كوفيون. ليس فيهم بصري!. تفسير جرير “تغير الشيب” بأنه نتفه، هو الصحيح، وبذلك في شه ابن الأثير، وقال “فإن تغيير لونه قد أمر به في غير حديث”. “وفساد الصبي” إلخ: قال ابن الأثير: “هو أن يطأ المرأة المرضع، فإذا حملت فسد لبنها، وكان من ذلك فساد الصبي، ويسمى الغيلة. أقوله غير محرمه: أي أنه كرهه ولم يبلغ حد التحريم”. وانظر معالم السنن 4: 213.

اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں کہ طبرانی کی سند ضعیف ہے

طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ الضَّبِّيُّ، ثنا أَبُو إِسْرَائِيلَ الْمُلَائِيُّ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرِو، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ، دَخَلَ عَلَى بَعْضِ أُمَّهَاتِ أَوْلَادِهِ فَرَأَى فِي عُنُقِهَا تَمِيمَةً، فَلَوى السَّيْرَ حَتَّى قَطَعَهُ، وَقَالَ: «أَفِي بُيُوتِي الشِّرْكُ؟» ثُمَّ قَالَ: «التَّمَائِمُ، وَالرُّقَى، وَالتُّوَلَةُ شِرْكٌ، أَوْ طَرَفٌ مِنَ الشِّرْكِ»

ان کا اعتراض ہے کہ اس سند میں أَبُو إِسْرَائِيلَ الْمُلَائِيُّ منکر الحدیث ہے

جواب ابو اسرئیل إسماعيل بن خليفة العبسي أبو إسرائيل الملائي، الكوفي ایک غالی شیعہ ہے اور بعض محدثین نے اس کو غلو کی بنا پر ترک کیا ہے
بدعتی کی روایت غیر غلو کی صورت قبول کی جاتی تھی

عبد اللہ نے باپ امام احمد سے اس پر سوال کیا تو کہا
قلت: إن بعض من قال: هو ضعيف. قال: لا، خالف في أحاديث
میں نے کہا بعض کہتے ہیں یہ ضعیف ہے ؟ احمد نے کہا نہیں
– یہ بعض احادیث میں اختلاف کرتا ہے

اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں طبرانی کی یہ سند بھی ضعیف ہے

طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، أَوْ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، – شَكَّ مَعْمَرٌ – قَالَ: رَأَى ابْنُ مَسْعُودٍ، فِي عُنُقِ امْرَأَتِهِ خَرَزًا قَدْ تَعَلَّقَتْهُ مِنَ الْحُمْرَةِ فَقَطَعَهُ، وَقَالَ: «إِنَّ آلَ عَبْدِ اللهِ لَأَغْنِيَاءُ عَنِ الشِّرْكِ»

ان کا کہنا ہے کہ اس سند  میں زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ مجہول ہے

جواب
قال البرقاني: سمعت أبا الحسن الدَّارَقُطْنِيّ يقول زياد بن أبي مريم، روى عنه عبد الكريم الجزري، حراني، ثقة.

دارقطنی کے نزدیک یہ ثقہ ہے
قال العجلي: جزري تابعي ثقةٌ
ابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور اس قول میں منفرد نہیں ہے

 معلوم ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح ہے – اس کی اسناد میں سے بعض صحیح ہیں بعض حسن ہیں اور روایت کا اصل ہے

 

عقبہ بن عامر کی روایات

مسند احمد
١٧٤٢٢
17422
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ، عَنْ دُخَيْنٍ الْحَجْرِيِّ،
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَيْهِ رَهْطٌ، فَبَايَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، بَايَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا؟ قَالَ: ” إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً ” فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَطَعَهَا، فَبَايَعَهُ، وَقَالَ: ” مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ

اس پر اہل حدیث کا اعتراض ہے کہ اس میں راوی دخين بن عامر الحجرى ، أبو ليلى المصرى مجہول ہے

جواب

يعقوب بن سفيان ،ابن حبان، ابن حجر ، الذھبی  نے دخين بن عامر الحجري کو ثقہ قرار دیا ہے

البانی نے سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها ح 492   اس حدیث  کو صحیح قرار دیا ہے

احمد شاکر نے بھی صحیح کہا ہے

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد کا حکم ہے کہ اس روایت کی اسناد قوی ہیں
إسناده قوي

تعویذ کی محبت میں گرفتار اہل حدیث کہتے ہیں يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ کی منفرد روایت ضعیف ہے
جواب
یزید بن ابی منصور پر کوئی کلمہ جرح معلوم نہیں ہے اور اس کی تعدیل کا ذکر محدثین نے کیا ہے

لہذا یہ دعوی کہ اس کی منفرد روایت ضعیف ہے قابل رد ہے

معلوم ہوا کہ روایات صحیح ہیں – ان احادیث کو خود اہل حدیث اور سلفی فرقہ کا ایک کثیر گروہ  صحیح کہتا ہے

 

عرض عمل کے دلائل کا جائزہ

مشہور مدرسہ دیوبند والوں کے فتوی ( جو یہاں پر موجود ہے) پر تبصرہ طلب کیا گیا ہے

اس بلاگ میں  ان لوگوں   نے جو دلائل  جمع کیے ہیں اور ان کو صحیح قرار دینے کا جو پروپیگنڈا   کیا ہے اس کو دیکھا جائے گا – راقم  کا تبصرہ جوابات کی صورت نیچے  متن میں دیکھا جا سکتا

فتوی نویس علمائے دیو بند  عقیدہ عرض عمل کے دلائل جمع کرتے ہوئے  فرماتے ہیں

پہلی دلیل

    حا فظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی   المتوفی ۸۰۷ھ نے مجمع الزوائد ومنبع الفوائد میں عرضِ اعمال علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات میں مسند بزارکے حوالہ سے ایک صحیح حدیث نقل فرمائی ہے

باب مایحصل لأمّته صلی اللہ علیہ وسلم من استغفاره بعدوفاته صلی اللہ علیہ وسلم

عن عبداﷲ بن مسعود… قال وقال رسول اﷲ حیاتي خیرلکم تحدثون وتحدث لکم، ووفاتي خیرلکم، تعرض عليّ أعمالکم، فمارأیت من خیرحمدت اﷲعلیه، ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ لکم  رواه البزّار، ورجاله رجال الصحیح  ( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب علامات النبوّة، مایحصل لأمّتها من استغفاره بعد وفاته، (۹/۲۴) ط دار الکتاب بیروت، ۱۹۷۸م)

مذکورہ حدیث کی سندکے رجال صحیحین کے رجال ہیں اورحدیث بالکل صحیح ہے۔

جواب

مسند البزار کی سند ہے

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ

اس کی سند میں زاذان ہے جس پر محدثین کا کلام ہے کہ اس کو وہم ہوتا ہے غلطییاں کرتا ہے – اس کے علاوہ عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ ہے جس کو أبو حاتم کہتے ہیں : ليس بالقوي يكتب حديث. قوی نہیں حدیث لکھ لو.  الدارقطنيُّ کہتے ہیں لا يحتج به، نا قابل احتجاج ہے . أبو زرعة ،ابن سعد ان کو ضعیف گردانتے ہیں-  اس کو ضعیف کہنے کی ایک وجہ  مرجیہ ہونا تھا

راقم کہتا ہے یہ لوگ اس سند کو صحیح  کہہ رہے ہیں جبکہ اس کی سند میں    عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ     پر سخت جرح ہے – عجيب بات ہے کہ تخريج أحاديث إحياء علوم الدين میں  العِراقي (806 هـ)  اس روایت پر یہ تبصرہ کرتے ہیں

قال العراقي: رواه البزار من حديث ابن مسعود ورجاله رجال الصحيح إلا أن عبد المجيد بن عبد العزيز بن رواد وان أخرج له مسلم ووثقه ابن معين والنسائي فقد ضعفه كثيرون

عراقی نے کہا اس حدیث کو البزار نے ابن مسعود سے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں  – بے شک عبد المجید بن عبد العزیز  اگرچہ اس سے امام مسلم نے روایت لی ہے اس کی توثیق ابن معین   اور نسائی نے کی ہے  اس کی  کثیر نے تضعیف بھی کی ہے

دوسری دلیل

                  علامہ سیوطی نے الجامع الصغیرفي أحادیث البشیروالنذیر میں ایک صحیح روایت نقل کی ہے

تُعْرَضُ الأَعْمالُ يَوْمَ الاثْنَيْنِ والخَمِيسِ على الله تَعَالَى وتُعْرَضُ على الأنْبِياءِ وعَلى الآباءِ والأُمَّهاتِ يَوْمَ الجُمُعَةِ فَيَفْرَحُونَ بِحَسَناتِهِمْ وَتَزْدادُ وُجُوهُهُمْ بَياضاً وإِشْراقاً فاتَّقُوا الله وَلَا تؤذُوا مَوْتاكُمْ (الْحَكِيم) عن والد عبد العزيز.

جواب

اس کا ترجمہ ہے

اللہ تعالی پر اعمال پیر و جمعرات کو پیش ہوتے ہیں اور انبیاء پر اور ماں باپ پر جمعہ کے روز – پس یہ نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں … پس اللہ سے ڈرو اور اپنے مردوں کو تکلیف مت دو

البانی نے اس حدیث پر موضوع  کا حکم لگایا ہے حديث رقم: 2446 في ضعيف الجامع

تیسری دلیل

                      علامہ مناوی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طرازہیں

وفائدة العرض علیهم إظهار اﷲ للأموات عذره في مایعامل به أحیاء هم من عاجل العقوبات وأنواع البلیّات في الدنیا، فلوبلغهم ذٰلك من غیرعرض أعمالهم علیهم لکان وجدهم أشدّ  قال القرطبي یجوز أن یکون المیّت یبلغ من أفعال الأحیاء وأقوالهم بمایؤذیه أویسرّه بلطیفة یحدثها اﷲ لهم من ملك یبلغ أوعلامة أودلیل أوماشاء اﷲ وهو القاهر فوق عباده وعلی من یشاء  وفیه زجرعن سوء القول في الأموات، وفعل ماکان یسرّهم في حیاتهم وزجر عن عقوق الأصول والفروع بعد موتهم بمایسوء هم من قول أوفعل، قال وإذاکان الفعل صلة وبرًّا کان ضدّه قطیعة وعقوقًا  (فیض القدیر، شرح الجامع الصغیر للعلامة المناوي، حرف التاء،   رقم الحدیث۳۳۱۶  تعرض الأعمال یوم الإثنین،(۳/۲۵۱) طمطبعۃ مصطفٰی محمّد مصر،۱۳۵۶ھ/ ۱۹۳۸م)

جواب

المناوی   نے اس موضوع  یا گھڑی  ہوئی  روایت پر لکھا ہے

اور عرض عمل کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ مردوں پر ظاہر کرتا ہے کہ جو دنیا میں ہیں ابھی زندہ ہیں وہ کیوں عقوبت و آزمائش میں جاتے ہیں پس ان تک پہنچایا جاتا ہے … قرطبی نے کہا یہ جائز ہے کہ میت پر زندہ کے اعمال پیش ہوں  اور ان کے اقوال بھی یہ اس سے ان کو تکلیف و خوشی ہو  پس اللہ تعالی کے لطف سے یہ فرشتہ پہنچاتا ہے یا علامت یا دلیل یا جو اللہ چاہے اور وہ اپنے بندوں پر قاہر ہے

راقم  کہتا ہے یہ تبصرہ بے کار ہے کیونکہ جب تک دلیل ثابت نہ ہو گھڑی ہوئی روایت پر تبصرہ کوئی درجہ نہیں رکھتا

راقم کہتا ہے یہ روایت حدیث حوض سے متعارض ہے

صحیح بخاری حدیث نمبر: 7048
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَتْ أَسْمَاءُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا عَلَى حَوْضِي أَنْتَظِرُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ، فَيُؤْخَذُ بِنَاسٍ مِنْ دُونِي فَأَقُولُ أُمَّتِي. فَيَقُولُ لاَ تَدْرِي، مَشَوْا عَلَى الْقَهْقَرَى». قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن سری نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر (حوض کوثر) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑ جائیں۔

چوتھی دلیل

   زرقانی  میں ہے

(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله صلی اللہ علیہ وسلم تعرض الأعمال کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة … رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم کلّ یوم علی وجه التفصیل وعلی الأنبیاء  ومنهم نبیّنا  علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز صلی اللہ علیہ وسلم بعرض أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً  (شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع مااختصّ به صلی اللہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، (۷/۳۷۳  ۳۷۴)طدارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔

            مذکورہ حدیث مرسل ہے،امام شافعی  کے سوا باقی ائمہ اورمحدثین رحمہم ﷲکے ہاں مرسل حجت ہے۔

ولذا قال جمهورالعلماء إنّ المرسل حجّة مطلقًا بناءً علی الظاهرمن حاله … وقال الشافعي یقبل أي لامطلقاً، بل فیه تفصیل  (شرح شرح نخبة الفکر لعلي القاري الحنفي المرسل، (ص۴۰۳  ۴۰۷) طقدیمی کتب خانہ کراچی)

بالخصوص سعیدبن المسیب کی مرسل کوبعض ایسے حضرات بھی قبول کرتے ہیں جو حجیۃ المرسل کے قائل نہیں۔

والثاني قوله (وقال الشافعي یقبل المرسل ممّن عرف أنّه لایرسل إلّا عن ثقة، کابن المسیّب  (توضیح الأفکارلمعاني تنقیح الأنظار، للعلامة الصنعاني، مسألة في اختلاف العلماء في قبول المرسل، (۱/۲۸۷  ۲۸۸)طدارإحیاء التراث العربي،بیروت،۱۴۱۸ھ   ۱۹۹۸م

اشتهرعن الشافعي أنّه لایحتجّ بالمرسل، إلّا مراسیل سعید بن المسیب  (تدریب الراوي في شرح تقریب النواوي للسیوطي، المرسل، (ص۱۷۱) طقدیمی کتب خانہ کراچی)

جواب

زرقانی کے لکھے  شرح کے متن میں ہے

(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله صلی اللہ علیہ وسلم تعرض الأعمال کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة … رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم کلّ یوم علی وجه التفصیل وعلی الأنبیاء  ومنهم نبیّنا  علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز صلی اللہ علیہ وسلم بعرض أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً  (شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع مااختصّ به صلی اللہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، (۷/۳۷۳  ۳۷۴)طدارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔

 اور ابن مبارک نے روایت کیا عبد اللہ سے …. تابعی جلیل ابن المسیب سے روایت ہے سے فرمایا کوئی ایسا روز نہیں ہے جب صبح و شام  امت کا عمل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش  نہ ہوتا ہو پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پیشانیوں  و عمل  سے پہچان نہ جائیں  پس آپ اللہ تعالی کی حمد کرتے ہیں  اور ان کے لئے استغفار کرتے ہیں … اور یہ نبی کے قول سے متعارض نہیں ہے کہ ہر پیر و جمعرات کو اللہ تعالی پر  عمل پیش ہوتا ہے اور انبیاء و ماں باپ پر جمعہ کے دن اس کو حکیم الترمذی نے روایت کیا ہے

راقم کہتا  ہے  الزهد والرقائق لابن المبارك (يليه «مَا رَوَاهُ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ فِي نُسْخَتِهِ زَائِدًا عَلَى مَا رَوَاهُ الْمَرْوَزِيُّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي كِتَابِ الزُّهْدِ» ) میں اس روایت کی سند ہے ابن مبارک نے کہا

أَنَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يَقُولُ: ” لَيْسَ مِنْ يَوْمٍ إِلَّا يُعْرَضُ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتُهُ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً، فَيَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ، لِيَشْهَدَ عَلَيْهِمْ، يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا} [النساء: 41] “

انصار میں سے ایک شخص نے خبر دی اس نے المنھال بن عمرو سے روایت کیا کہ اس نے سعید بن المسیب سے سنا فرمایا کوئی ایسا روز نہیں ہے جب صبح و شام  امت کا عمل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش  نہ ہوتا ہو پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو  پیشانیوں  سے پہچان نہ جائیں تاکہ ان پر گواہ ہوں اللہ تبارک و تعالی کا قول ہے پس کیا (عالم ) ہو گا جب ہم ہر امت میں ایک گواہ لائیں گے اور ان سب پر آپ کو گواہ کریں گے

راقم کہتا ہے اس کی سند رجل میں انصار مجہول الحال ہے اور المنھال بن عمرو ہے جس پر بد مذھب کا جوزجانی کا فتوی ہے اور سعید بن المسیب سے اس کا سماع منقطع ہے – سرمایہ حدیث میں یہ واحد روایت ہے جس میں المنھال نے براہراست سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے

پانچویں دلیل

                 علامہ آلوسی  علیہ سورۃ النحل کی  آیت ۸۹  {وَجِئْنَابِكَ شَھِیْداً عَلٰی هٰؤُلآءِ } کے تحت رقم طراز ہیں

المراد به ولآء أمّتها عند أکثرالمفسرین، فإنّ أعمال أمّته علیه الصلاة والسلام تعرض علیه بعدموته  فقد روي عنها أنّه قال حیاتي خیرلکم، تحدثون ویحدث لکم، ومماتي خیرلکم، تعرض عليّ أعمالکم، فمارأیت من خیر حمدت اﷲ تعالیٰ علیه ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ تعالیٰ لکم، بل جاء إنّ أعمال العبد تعرض علی أقاربه من الموتٰی

جواب

اس شرح کا دارومدار  بھی اوپر والی منکر و ضعیف روایت پر ہے

چھٹی دلیل

دیو بندی علماء نے دلیل دی

  فقدأ خرج ابن أبي ا لدنیا عن أبي هریرة أنّ النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم قال لاتفضحوا أمواتکم بسیئات أعمالکم؛ فإنها تعرض علی أولیائکم من أهل القبور

جواب راقم کہتا ہے اس کا ترجمہ ہے

پس ابن ابی الدنیا نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا اپنے مردوں کو ان کے گناہوں پر  برا مت کہو کہ (جو برا بھلا کہا ) وہ تمہارے (مردہ ) دوستوں پر قبروں میں پیش ہوتا  ہے

اور سند کتاب المنامات از ابن ابی الدنیا میں  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثنا أَبُو سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبٍ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ شَيْبَةَ الْحِزَامِيُّ، ثَنَا فُلَيْحُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَالْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَفْضَحُوا مَوْتَاكُمْ بِسَيِّئَاتِ أَعْمَالِكُمْ فَإِنَّهَا تُعْرَضُ عَلَى أَوْلِيَائِكُمْ  مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ»

سند میں أَبُو سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبٍ مجہول ہے – اور الحِزَامِيُّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَبْدِ المَلِكِ بنِ شَيْبَةَ ہے جو ابْنُ أَبِي دَاوُدَ کے مطابق ضَعِيْفٌ ہے

ساتویں دلیل

وأخرج أحمد عن أنس مرفوعاً إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیرذٰلك قالوا اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم  کما هدیتنا

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں

راقم کہتا ہے مسند احمد میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَمَّنْ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ مِنَ الْأَمْوَاتِ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ، قَالُوا: اللهُمَّ لَا تُمِتْهُمْ، حَتَّى تَهْدِيَهُمْ كَمَا هَدَيْتَنَا

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون کہتے ہیں

إسناده ضعيف لإبهام الواسطة بين سفيان وأنس. وهذا الحديث تفرد به الإمام أحمد.

وفي الباب عن أبي أيوب الأنصاري عند الطبراني في “الأوسط” (148) ، لكن إسناده ضعيف جداً، فيه مسلمة بن عُلَيّ الخشني، وهو متروك الحديث، فلا يفرح به.

آٹھویں دلیل

  وأخرجه أ بوداود من حدیث جابر بزیادة وأ لهمهم أن یعملوا بطاعتك

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں

وأخرجه أبو داود من حديث جابر بزيادة «وألهمهم أن يعملوا بطاعتك» .

 ابو داود میں ہے حدیث جابر ہے جس میں اضافہ ہے کہ ان پر الہام ہو کہ اللہ کی اطاعت پر عمل کریں

راقم کہتا ہے یہ حدیث   ابو داود الطيالسي کی   مسند  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى عَشَائِرِكُمْ وَأَقْرِبَائِكُمْ فِي قُبُورِهِمْ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالُوا: اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُمْ أَنْ يَعْمَلُوا بِطَاعَتِكَ “

جابر نے روایت کیا رسول اللہ نے فرمایا تمھارے اعمال رشتہ داروں و آقارب پر قبروں میں پیش ہوتے ہیں اگر وہ اچھے ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر ایسے نہ ہوں تو وہ کہتے ہیں اے آل پر الہام کر کہ تیری اطاعت کریں

سند میں الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ  پر ابن سعد کا کہنا ہے  ضعيف ليس بشيء- احمد کا کہنا ہے ليس بثقة ثقہ نہیں ہے اور ابن حجر نے متروک قرار دیا ہے

نویں دلیل

   وأخرج ابن أبي الدنیاعن أبي الدرداء أنّه قال إنّ أعمالکم تعرض علی موتاکم، فیسرّون ویساؤون، فکان أبوالدرداء یقول عندذلك “اللّٰهم إنّي أعوذبك أن یمقتني خالي عبداﷲ بن رواحة إذا لقیته، یقول ذلك في سجوده، والنبيّ صلی اللہ علیہ وسلم لأمّته بمنزلة الوالد بل أولٰی  (روح المعاني، النحل۸۹ (۱۴/۲۱۳)طإدارۃ الطباعۃ المنیریۃ مصر۔)

            علامہ آلوسی  نے اس سلسلہ میں جن احادیث کونقل فرمایا ان پرکوئی اعتراض نہیں کیا، جب کہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ احادیثِ ضعیفہ یاموضوعہ کی نشان دہی کرتے ہیں اوران پرردفرماتے ہیں، جس سے معلوم ہواکہ یہ مذکورہ احادیث صحیح ہیں، ورنہ کم سے کم درجہ حسن کی ہیں۔

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں – متن کا ترجمہ ہے

اور ابن ابی الدنیا نے ابو الدرداء سے تخریج کی ہے کہ انہوں نے فرمایا بلا شبہ اعمال مردوں پر پیش ہوتے ہیں ..

المنامات از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ، كَانَ يَقُولُ: «إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى مَوْتَاكُمْ فَيُسَرُّونَ وَيُسَاءُونَ»

الذهبی کتاب العبر في خبر من غبر میں لکھتے ہیں

 عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة

عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي ہیں اپنے باپ سے بہت سی روایات کی ہیں اور میں نہیں جانتا ان کی صحابہ سے کوئی روایت اور انہوں نے صحابہ کو دیکھا ہے

ابن ماكولا کتاب الإكمال میں لکھتے ہیں

جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير.

جبير بن نفير قدیم تابعين میں سے ہیں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن جبير بن نفير ہیں

معلوم ہوا کہ یہ روایت متصل نہیں- عبد الرحمن بن جبير بن نفير کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کے باپ خود تابعی ہیں

دسویں دلیل

     تفسیرمظہری میں ہے

{وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْدًا} یشهد النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم علی جمیع الأمّة من رآه ومن لم یره  أخرج ابن المبارك عن سعیدبن المسیّب قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أمّته غدوةً وعشیّةً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم فلذلك یشهد علیهم   (التفسیرالمظهري،   النساء۴۱ (۲/۱۱۰)ط بلوچستان بک ڈپو، کوئٹہ)

جواب

اس تفسیر میں بھی ابن المسیب سے منسوب قول سے دلیل لی گئی ہے جس پر تبصرہ اوپر گزر چکا ہے

گیارہویں دلیل

               صاحب تفسیر ابن کثیر نے آیت کریمہ { وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْداً }کی تفسیرمیں التذکرة للقرطبي کے حوالہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ

وأمّا ما ذکره أبو عبد اﷲ القرطبي فيالتذکرةحیث قال باب ماجاء في شهادة النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی أمّته، قالأنا ابن المبارك، قال أنارجل من الأنصارعن المنهال بن عمرو أنّه سمع سعید بن المسیّب یقول لیس من یوم إلّایعرض فیه علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أمّته غدوةً وعشیًّا، فیعرفهم بأسمائهم وأعمالهم، فلذلك یشهد علیهم، یقول اﷲتعالیٰ{فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهیْدًا}؛ فإنّه أثر، وفیه انقطاع، فإنّ فیه رجلاً مبهمًا لم یسمّ، وهومن کلام سعید بن المسیّب،لم یرفعه، وقدقبله القرطبي، فقال بعد إیراده فقد تقدّم أنّ الأعمال تعرض علی اﷲ کلّ یوم اثنین وخمیس، وعلی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة، قال ولاتعارض، فإنّه یحتمل أن یخصّ نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم بمایعرض علیه کلّ یوم، ویوم الجمعة مع الأنبیاء علیه وعلیهم أفضل الصلاة والسلام  ( تفسیرالقراٰن العظیم للحافظ ابن کثیر،  النساء۴۱ (۱/۴۹۸ ۴۹۹) طقدیمی کراچی)

            حافظ عمادالدین ابن کثیر نے بھی احادیثِ مذکورہ کے بارے میں کچھ نکیر نہیں کی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرضِ اعمال کی احادیث مجموعی اعتبار سے ان کے نزدیک صحیح ہیں۔

جواب

یہاں تفسیر ابن کثیر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ابن کثیر کی بھی غلطی ہے کہ سعید بن المسیب سے منسوب قول کو دلیل بنایا ہے جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے

بارہویں دلیل

                  تفسیرمنار میں ہے

{ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ م بِشَهِیْدٍ…الآیة }، تعرض أعمال کلّ أمّة علی نبیّها   ( تفسیرالقراٰن الحکیم الشهیر بـ “تفسیرالمنار”، للسیّد محمدرشیدرضا، [ النساء ۴۱](۵/۱۰۹)ط مطبعۃ المنارمصر،۱۳۲۸ھ)

جواب

اس آیت کی یہ تفسیر کہ امت کا عمل نبی پر پیش ہو رہا ہے ورنہ گواہ نہ ہوں  گے نبی کو عالم الغیب قرار دینے کے مترادف ہے

تیرہویں دلیل

                      مسنداحمد میں ہے 

 عمّن سمع أنس بن مالك یقول  قال النبيّ   إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیرًا استبشروا، وإن کان غیرذٰلك، قالوا  اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم کماهد یتنا   ( المسند للإمام أحمدبن حنبل، مسندأنس بن مالك رضي اﷲ عنه، [ رقم الحدیث  ۱۲۶۱۹]  (۱۰/۵۳۲-۵۳۳) ط  دارالحدیث  القاهرة)

            واضح رہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ حدیث وفقہ کے امام ہیں، اور ناقد بھی، اور احادیث پر جرح بھی کرتے ہیں، جب کہ آپ نے اس حدیث پر کوئی جرح نہیں فرمائی، گویا آپ نے اس حدیث کی توثیق کی ہے۔

جواب

مسند احمد میں امام احمد نے سوائے ایک دو روایات کے کسی پر جرح نہیں کی  لیکن العلل میں انہی روایات پر جرح کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام روایات امام احمد کے نزدیک صحیح نہیں تھیں یہ صرف احادیث کا مجموعہ تھا – یہاں عمّن سمع جس نے سنا کون ہے ؟ کوئی نہیں جانتا اس کی سند کو سند کو درست کہنا آنکھوں میں دھول جھوکنا ہے

چودہویں دلیل

  شرح الصدور   میں ہے

          وأخرج الطیالسي في  مسنده عن جابر بن عبداﷲ قال  قال رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم   إنّ أعمالکم تعرض علی عشائرکم وأقربائکم في قبورهم، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیر ذلك، قالوا  اللّٰهمّ ألهمهم أن یعملوا بطاعتك 

جواب

یہاں مسند ابو داود الطیالسي سے روایت لی گئی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى عَشَائِرِكُمْ وَأَقْرِبَائِكُمْ فِي قُبُورِهِمْ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالُوا: اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُمْ أَنْ يَعْمَلُوا بِطَاعَتِكَ

اس روایت پر تبصرہ اوپر کیا جا چکا ہے سند میں متروک راوی ہے

پندرہوین دلیل

         وأخرج ابن المبارك وابن أبي الدنیا عن أبي أیّوب، قال  تعرض أعمالکم علی الموتٰی، فإن رأواحسنًا فرحوا واستبشروا، وإن رأوا سوءً، قالوا  اللّٰهمّ راجع به 

جواب

المنامات از ابن ابی الدنیا میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثني يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، ثني عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: ” تُعْرَضُ أَعْمَالُكُمْ عَلَى الْمَوْتَى , فَإِنْ رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا وَقَالُوا: اللَّهُمَّ هَذِهِ نِعْمَتُكَ عَلَى عَبْدِكَ فَأَتِمَّهَا عَلَيْهِ , وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا: اللَّهُمَّ رَاجِعْ بِهِ “

الزهد والرقائق لابن المبارك (يليه «مَا رَوَاهُ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ فِي نُسْخَتِهِ زَائِدًا عَلَى مَا رَوَاهُ الْمَرْوَزِيُّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي كِتَابِ الزُّهْدِ» ) میں ہے

أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ، وَأَبُو بَكْرٍ الْوَرَّاقُ قَالَا: أَخْبَرَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: ” إِذَا قُبِضَتْ نَفْسُ الْعَبْدِ تَلَقَّاهُ أَهْلُ الرَّحْمَةِ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ كَمَا يَلْقَوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ لِيَسْأَلُوهُ، فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَنْظِرُوا أَخَاكُمْ حَتَّى يَسْتَرِيحَ، فَإِنَّهُ كَانَ فِي كَرْبٍ، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ فَيَسْأَلُونَهُ مَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ مَا فَعَلَتْ فُلَانَةٌ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ؟ فَإِذَا سَأَلُوا عَنِ الرَّجُلِ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ، قَالَ لَهُمْ: إِنَّهُ قَدْ هَلَكَ، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ، فَبِئْسَتِ الْأُمُّ، وَبِئْسَتِ الْمُرَبِيَّةُ، قَالَ: فَيُعْرَضُ عَلَيْهِمْ [ص:150] أَعْمَالُهُمْ، فَإِذَا رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا، وَقَالُوا: هَذِهِ نِعْمَتُكَ عَلَى عَبْدِكَ فَأَتِمَّهَا، وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا: اللَّهُمَّ رَاجِعْ بِعَبْدِكِ

اس کے متن میں ہے کہ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ نے کہا  جب کسی کی جان قبض ہوتی ہے اور وہ اہل رحمت سے جب ( عالم البرزخ ) میں ملتا ہے تو  یہ ارواح اپس  میں کلام کرتی ہیں  جاننا چاہتی ہیں کہ کون کس حال میں ہے  پھر دعا کرتی ہیں … ان کو ان کا عمل دکھایا جاتا ہے

اس سند میں أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيِّ کا سماع  أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ سے معلوم نہیں ہو سکا کہ تھا بھی یا نہیں

سولویں دلیل

          وأخرج ابن أبي شیبة في  المصنف والحکیم الترمذي وابن أبي الدنیاعن إبراهیم بن میسرة، قال غزٰی أبو أیّوب القسطنطینة فمرّ بقاصّ وهو یقول  إذاعمل العبد العمل في صدرالنهار عرض علی معارفه إذا أمسی من أهل الآخرة، وإذا عمل العمل في آخرالنهار عرض علی معارفه إذا أصبح من أهل الآخرة، فقال أبوأیّوب  انظر ما تقول! قال  واﷲ إنّه لکما أقول، فقال أبو أیوب  اللّٰهم إنّي أعوذبك أن تفضخي عند عبادة بن الصامت وسعد بن عبادة بما عملت بعدهم، فقال القاصّ  واﷲ لایکتب اﷲ ولایته لعبد إلّاسترعوراته وأثنی علیه بأحسن عمله 

 جواب

إبراهیم بن میسرة نے کہا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  نے القسطنطینة   کا جہاد کیا کا گذر ایک قصہ گو پر ہوا جو کہہ رہا تھا …. ابو ایوب نے کہا دیکھو کیا بول رہے ہو ! پھر فرمایا  اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ عبادة بن الصامت وسعد بن عبادة کے بعد جو عمل میں نے کیا اس پر میری فضاحت ہو

راقم کہتا ہے یہ قول کسی  عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ کا ہے جو ابراہیم کو ملا – کتاب الأولياء از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، نا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو الضَّبِّيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: ” غَزَوْنَا حَتَّى إِذَا انْتَهَيْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ مَدِينَةِ قُسْطَنْطِينِيَّةَ إِذَا قَاصٌّ يَقُولُ: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ عُرِضَ عَلَى مَعَارِفِهِ إِذَا أَمْسَى مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، وَمَنْ عَمِلَ عَمَلًا مِنْ آخِرِ النَّهَارِ عُرِضَ عَلَى مَعَارِفِهِ إِذَا أَصْبَحَ مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو أَيُّوبَ: أَيُّهَا الْقَاصُّ، انْظُرْ مَا تَقُولُ، قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَكَذَلِكَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَفْضَحْنِي عِنْدَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَلَا عِنْدَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِيمَا عَمِلْتُ بَعْدَهُمَا، فَقَالَ الْقَاصُّ: وَإِنَّهُ وَاللَّهُ مَا كَتَبَ اللَّهَ مَا كَتَبَ وِلَايَتَهُ لِعَبْدٍ إِلَّا سَتَرَ عَلَيْهِ عَوْرَتَهُ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِأَحْسَنِ عَمَلِهِ “

عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ کی ثقاہت  کا حال معلوم  نہیں ہے

سترہویں  دلیل

       وأخرج الحکیم الترمذي وابن أبي الدنیا في کتاب المنامات والبیهقي في شعب الإیمان عن النعمان بن بشیر سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اﷲ اﷲ في إخوانکم من أهل القبور، وأنّ أعمالکم تعرض علیهم

جواب

المنامات از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ الْكَلْوَذَانِيُّ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ   قَالَا: نا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، قَالَ: نا أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ، سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أُدَيٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا , فَاللَّهَ اللَّهَ فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ , فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ»

میزان از الذھبی میں ہے  کہ یہ مجہول ہے اور قال الأزدي: لا يصح إسناده  اس کی اسناد صحیح نہیں ہیں

اس کی سند مستدرک حاکم میں بھی ہے

نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا …. لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں

الذهبی کہتے ہیں       فيه مجهولان  اس میں مجھول راوی ہیں

اٹھارویں دلیل

        وأخرج ابن أبي الد نیا وابن منده وابن عساکر عن أحمد بن عبداﷲ بن أبي الحواری، قالحدّثني أخي محمّد بن عبداﷲ، قالدخل عبّاد الخواص علی إبراهیم بن صالح الهاشمي  وهو أمیر فلسطین  فقال له إبراهیم عظني! فقال قد بلغني إنّ أعمال الأحیاء تعرض علی أقاربهم من الموتٰی، فانظر ماتعرض علی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم من عملك  (  روایت نمبر۱۴  سے  روایت نمبر۱۸  تک دیکھیے شرح الصدوربشرح حال الموتیٰ والقبور، باب عرض أعمال الأحیاء علی الأموات،(ص۱۱۴ ۱۱۵) طمطابع الرشید بالمدینۃ المنورۃ۔)

جواب

اس میں حدیث سرے سے ہی نہیں ہے

کسی امیر فلسطین کے قول کا ذکر ہے

انیسویں دلیل

        أکثر وا من الصلاة عليّ في کلّ یوم جمعة؛ فإنّ صلاة أمّتي تعرض عليّ في کلّ یوم جمعة … (هب) عن أبي أمامة  (کنزالعمّال في سنن الأقوال والأفعال، الکتاب الثاني، الباب السادس في الصلاة علیه وآله علیه الصلاة والسلام، (۱/۴۸۸) ط مؤسّسة الرسالة، بیروت،۱۴۰۱ھ ۱۹۸۱م۔)

جواب

حياة الأنبياء میں بیہقی نے اس کو اس طرق سے روایت کیا ہے

   إبراهيم بن الحجاج السامي البصري ثنا حماد بن سلمة عن بُرد بن سنان عن مكحول الشامي عن أبي أمامة رفعه “أكثروا عليّ من الصلاة في كل يوم جمعة، فإنّ صلاة أمتي تعرض عليّ في كل يوم جمعة، فمن كان أكثرهم عليّ صلاة، كان أقربهم مني منزلة”.

سند میں انقطاع ہے

 المنذري اور الذهبي کا کہنا ہے کہ مكحول کا سماع أبي أمامة سے نہیں ہے

  المنذري نے الترغيب میں  کہا :  لم يسمع من أبي أمامة”

وقال الذهبي: قلت: مكحول قيل: لم يلق أبا أمامة” المهذب

بیسویں دلیل

                 بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني میں ہے

عن أبي الدرداء رضي اﷲ عنه قالقال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم أکثروا من الصلاة عليّ یوم الجمعة، فإنّه مشهود تشهده الملائکة، وإنّ أحداً لن یصلي عليّ إلّا عرضت عليّ صلاته حتّٰی یفرغ منها، قال قلت وبعد الموت؟ قالإنّ اﷲ حرّم علی الأرض أن تاکل أجساد الأنبیاء علیهم الصلاة والسلام  رواه ابن ماجه بسند جیّد   (بلوغ الأماني من أسرارالفتح الرباني للإمام أحمدعبدالرحمٰن، أبواب صلاة الجمعة، فصل منه في الحثّ علی الإکثارمن الصلاة علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعة، (۶/۱۱) ط دارالشهاب، القاهرة)

جواب

روایت ہے

عن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أكثروا الصلاة عليّ يوم الجمعة؛ فإنه مشهود تشهده الملائكة. وإن أحدا لا يصلي علي إلا عُرضت عَلَيّ صلاته حتى يفرغ منها”. قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: ” [وبعد الموت]، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء” [فنبي الله حي يرزق].

هذا حديث غريب من هذا الوجه، وفيه انقطاع بين عُبادة بن نَسي وأبي الدرداء، فإنه لم يدركه

اس کی سند میں بھی انقطاع ہے عُبادة بن نَسي  کی أبي الدرداء سے نہ ملاقات ہے نہ سماع ہے


دیوبندیوں کی طرح  سلفی علماء بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ میت کو اپنے ورثاء کی  حرکتوں کا علم ہوتا ہے – میت  کو علم ہوتا ہے کون اس پر رو رہا ہے جس سے میت کو دکھ ہوتا ہے

 ابن عثيمين  سے درج ذيل سوال كيا گيا

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى كيا ہے ؟

” يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ہوتا ہے ”

ابن عثيمين   کا جواب تھا کہ اس کا مطلب ہے

جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں تو اسے اس كا علم ہوتا اور اس سے اسے تكليف ہوتى ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى ميت كو اس كى سزا ديتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے: كوئى بھى جان كسى دوسرى جان كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .عذاب سے يہ لازم نہيں آتا كہ اسے سزا ہوتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے “حالانكہ سفر كوئى سزا نہيں، ليكن اس سے انسان كو تكليف ہوتى ہے اور تھك جاتا ہے، تو اسى طرح جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں اسے اس سے تكليف ہوتى ہے اور وہ تھك جاتا ہے، اگرچہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے اسے سزا نہيں ہے.حديث كى يہ شرح واضح اور صريح ہے، اور اس پر كوئى اشكال وارد نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس شرح ميں يہ ضرورت ہے كہ كہا جائے كہ يہ اس شخص كے متعلق ہے جو نوحہ كرنے كى وصيت كرے، يا پھر اس شخص كے متعلق ہے جن كى عادت نوحہ كرنا ہو، اور وہ مرتے وقت انہيں نوحہ كرنے سے منع نہ كرے، بلكہ ہم تو يہ كہتے ہيں: انسان كو كسى چيز كے ساتھ عذاب ہوتا ہے ليكن اسے اس سے كوئى ضرر بھى نہيں پہنچتا ” انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 17 / 408 ).

راقم کہتا ہے یہ عقیدہ باطل ہے کہ میت کو ورثاء کے رونے کا  علم ہوتا ہے

پیدائش النبی کی عید

نبی صلی الله علیہ وسلم کی اس دنیا میں  پیدائش سے قبل عالم ارضی میں اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن بہت خوشی سے مناتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ نصرانیوں کے بقول عیسیٰ نے موت کے چکر کو ختم کر دیا اب جو بھی ان کو الله کی پناہ رب کا بیٹا مان لے گا وہ ابدی زندگی سے ہمکنار ہو گا اور جو نہیں مانے گا وہ حیات اخروی نہ پائے گا بلکہ اس کی روح معدوم ہو جائے گی

اس کو نئی زندگی کی نوید کہا جاتا ہے لہٰذا عیسیٰ کی آمد کے سلسلے میں جشن منایا جاتا تھا اور ہے – نصرانیوں کی انجیل یوحنا کی آیات ہیں

یعنی عیسیٰ نور تھا جو الله سے جدا ہوا اور کلمہ الله بن کر انسانی صورت مجسم ہوا – یہ شرح یوحنا نے کی جو ایک یونانی ذہن کا شخص تھا اور انجیل کی ابتداء میں اپنی شرح بیان کی

 الله تعالی نے اس کا رد کیا اور خبر دی کہ عیسیٰ ابن مریم نور نہیں بلکہ کتاب الله یعنی انجیل نور تھی اور کلمہ الله مجسم نہیں ہوا بلکہ مریم کو القا ہوا اور ان میں عیسیٰ کی روح پھونکی گئی

لیکن ١٠٠ ہجری کے اندر ہی اس فرق کو میٹ دیا گیا اور راویوں نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر بھی نور نکلا

حدثنا أحمد قال: نا يونس بن بكير عن ابن إسحق قال: حدثني ثور بن يزيد عن خالد بن معدان، عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أنهم قالوا: يا رسول الله، أخبرنا عن نفسك، فقال: دعوة أبي إبراهيم، وبشرى عيسى، ورأت أمي حين حملت بي أنه خرج منها نور أضاءت له قصور بصرى من أرض الشام، واسترضعت في بني سعد بن بكر، فبينا أنا مع أخ لي في بهم لنا، أتاني رجلان عليهما ثياب بياض، معهما طست من ذهب مملوءة ثلجاً، فأضجعاني، فشقا بطني، ثم استخرجا قلبي فشقاه، فأخرجا منه علقة سوداء، فألقياها، ثم غسلا قلبي وبطني بذاك الثلج، حتى إذا أنقياه، رداه كما كان، ثم قال أحدهما لصاحبه: زنه بعشرة من أمته، فوزنني بعشرة، فوزنتهم، ثم قال: زنه بألف من أمته، فوزنني بألف، فوزنتهم، فقال: دعه عنك، فلو وزنته بأمته لوزنهم.

 خالد بن معدان بن أبى كرب الكلاعى ، أبو عبد الله الشامى الحمصى نے اصحاب رسول سے روایت کیا   کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو انہوں نے دیکھا  ان کے جسم سے نور نکلا  جس  سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے

اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

کتاب جامع التحصیل کے مطابق اس راوی کا سماع شام منتقل ہونے والے اصحاب سے ہے ہی نہیں

خالد بن معدان الحمصي يروي عن أبي عبيدة بن الجراح ولم يدركه قال أحمد بن حنبل لم يسمع من أبي الدرداء وقال أبو حاتم لم يصح سماعه من عبادة بن الصامت ولا من معاذ بن جبل بل هو مرسل وربما كان بينهما اثنان وقال أبو زرعة لم يلق عائشة وقال بن أبي حاتم سألته يعني أباه خالد بن معدان عن أبي هريرة متصل فقال قد أدرك أبا هريرة ولا يذكر له سماع

اور خود   الذهبي کا کہنا ہے  كان يرسل ويدلس یہ ارسال و تدلیس بھی کرتا ہے

میرے نزدیک جب تک صحابی کا نام نہ لے اس روایت کو متصل نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ یہ مدلس ہے واضح رہے اصحاب رسول عدول ہیں لیکن ان سے راوی  کا سماع نہیں ہے

امام بخاری نے صحیح میں خالد کی  أَبَا أُمَامَة والمقدام بن معد يكرب وَعُمَيْر بن الْأسود الْعَنسِي سے روایت لی ہے یعنی بخاری کے نزدیک ان اصحاب رسول سے سماع ہے لیکن نور نکلنے والی روایت میں اصحاب رسول کا نام نہیں لیا گیا لہذا یہ بات مشکوک ہے

انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا

اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں

شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن  کو  بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ  بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ

سند میں  سعيد بن سويد شام حمص کا ہے  میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

امام  البخاري: لا يتابع في حديثه.

امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی

البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

یہ حدیث ہم نہیں جانتے  کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے

یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا

صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے  اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے

راقم کہتا ہے روایت  چاہے  سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے

خصائص الکبری میں پیدائش کی روایت تفصیل سے ہے نعوذباللہ جس کے مطابق اپ صلی الله علیہ وسلم کس طرح اپنی ماں سے باہر نکلے بیان کیا گیا ہے
اسی میں ہے کہ
وأبصرت تِلْكَ السَّاعَة مَشَارِق الأَرْض وَمَغَارِبهَا وَرَأَيْت ثَلَاثَة أَعْلَام مضروبات علما فِي الْمشرق وعلما فِي الْمغرب وعلما على ظهر الْكَعْبَة فأخذني الْمَخَاض فَولدت مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَلَمَّا خرج من بَطْني نظرت إِلَيْهِ فَإِذا أَنا بِهِ سَاجِدا
آمنہ نے کہا من نے مشرق و مغرب میں دیکھا اور تین جھنڈے دیکھے ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک کعبہ پر اور محمد باہر آیا تو سجدے میں تھا

یہ طویل روایت ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوہ میں دی ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ

اس کی سند میں أبو بكر بن عبد الله بن أبي مريم الغساني الشامي ہے جو سخت ضعیف ہے
قال ابن حبان: هو رديء الحفظ، وهو عندي ساقط الاحتجاج به إذا انفرد.
ابن حبان نے کہا ردی حافظہ کا مالک تھا اور میرے نزدیک اس کی منفرد روایت ساقط دلیل ہے

اس طرح   شامیوں کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بطن آمنہ میں سے نور نکلنے والے روایت – محراب و منبر پر بیان کی جاتیں ہیں

اس نور کی منظر کشی عصر حاضر میں ایرانی فلم میں کی گئی

  شامی راویوں  کی اس روایت کو اہل تشیع نے قبول کر لیا

شیعوں کی کتاب الخصال از  أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى المتوفى 381 ہجری کے مطابق

حدثنا أبوأحمد محمد بن جعفر البندار الفقيه بأخسيكث ( 2 ) قال : حدثنا
أبوالعباس محمد بن جمهور ( 3 ) الحمادي قال : حدثني أبوعلي صالح بن محمد البغدادي ببخارا
قال : حدثنا سعيد بن سليمان ، ومحمد بن بكار ، وإسماعيل بن إبراهيم قال ( 4 ) : حدثنا
الفرج بن فضالة ، عن لقمان بن عامر ، عن أبي امامة قال : قلت : يا رسول الله ما كان
بدء أمرك ، قال : دعوة أبي إبراهيم ، وبشرى عيسى بن مريم ، ورأت أمي أنه خرج منها شئ أضاءت منه قصور الشام (

الفرج بن فضالة الحمصي الشامی نے روایت کیا لقمان بن عامر سے اس نے ابی امامہ سے کہ میں نے رسول الله سے پوچھا اپ کا امر نبی کیسے شروع ہوا؟ فرمایا میں اپنے باپ ابراھیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ ابن مریم کی بشارت ہوں اور میری امی نے دیکھا کہ ان میں سے نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے

اس کی سند میں الفرج بن فضالة الحمصي الشامی اہل سنت میں سخت ضعیف ہے اور اہل تشیع کی کتب رجال میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملا

رسول الله کی پیدائش پر ان کے ساتھ ان کی ماں کے بطن سے ایک عظیم نور نکلا اس روایت کے مختلف طرق ہیں سب میں شامیوں کا تفرد ہے

مزید دیکھیں

عید میلاد النبی

 

مقتل حسین کی خبریں

شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو

جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو

مرزا سلامت علی دبیر

 آہ  وہی ہوا جس کا ڈر تھا

حسین اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے  لیکن اب عراق میں وہ اکیلے تھے – ان کے ہمدرد دغا دے کر بھاگ چکے تھے – مسلم بن عقیل قتل ہو چکے تھے – حسین اس وقت  کس طرح  اب واپس مدینہ جاتے وہ سخت  مشکل میں تھے اور اہل بیت حسین ان کی طرف دیکھ رہے تھے – وہ غلام بننے کے لئے تیار نہ تھے اور ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت کرنا ان کے نزدیک غلامی کے مترادف تھا – وہ صرف یزید سے جا کر بات کرنا چاہتے تھے اور اغلبا  دمشق کی طرف جا رہے تھے

تاریخ طبری ج ٥ ص ٣٩٢ میں ہے

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ على ع كَتَبَ إِلَيْهِ أَهْلُ الْكُوفَةِ…. قَالَ حصين: فَحَدَّثَنِي هلال بن يساف أن ابن زياد أمر بأخذ مَا بين واقصة إِلَى طريق الشام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يدعون أحدا يلج وَلا أحدا يخرج، فأقبل الْحُسَيْن وَلا يشعر بشيء حَتَّى لقي الأعراب، فسألهم، فَقَالُوا:  لا وَاللَّهِ مَا ندري، غير أنا لا نستطيع أن نلج وَلا نخرج، قَالَ: فانطلق يسير نحو طريق الشام نحو يَزِيد، فلقيته الخيول بكربلاء، فنزل يناشدهم اللَّه والإسلام، قَالَ: وَكَانَ بعث إِلَيْهِ عُمَر بن سَعْدٍ وشمر بن ذي الجوشن وحصين ابن نميم، فناشدهم الْحُسَيْن اللَّه والإسلام أن يسيروه إِلَى أَمِير الْمُؤْمِنِينَ، فيضع يده فِي يده، فَقَالُوا: لا إلا عَلَى حكم ابن زياد

حصين بن عبد الرحمن السلمى ، أبو الهذيل الكوفى المتوفی ١٣٦ ھ نے أَبَو الْحَسَنِ هلال بن يساف  الأشجعي  سے روایت کیا کہا ابن زیاد نے حکم کیا کہ واقصة جو شام کے راستہ پر ہے اور پھر بصرہ کا رستہ ہے اس پر پہرہ رکھا جائے نہ کسی کو گزرنے دیا جائے نہ نکلنے – حسین آگے بڑھے ان کو اس چیز کا پتا نہیں تھا یہاں کہ بدوؤں سے ملے- ان سے پوچھا- بدوؤں نے کہا ہم کو پتا نہیں الله کی قسم  آگے نہیں جا سکتے نہ نکل سکتے ہیں – پس حسین نے شام کا راستہ لیا یزید کی طرف – ان کی كربلاء پر گھڑ سواروں سے ملاقات ہوئی پس حسین ان  گھڑ سواروں  کو اسلام اور اللہ کی نصیحت کرنے لگے- حسین کے پاس عُمَر بن سَعْدٍ اور شمر بن ذيالجوشن  اور حصين ابن نميم کو بھیجا گیا   حسین ان کو اسلام اور اللہ کی نصیحت کرنے لگے کہ اگر وہ امیر المومنین تک لے  حسین کو لے جائیں  تو اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیں گے- عُمَر بن سَعْدٍ اور شمر بن ذي الجوشن  اور حصين ابن نميم نے کہا نہیں الا یہ کہ  عبید اللہ  بن زیاد ایسا حکم کرے

اس کی سند  میں ثقات ہیں  البتہ أَبَو الْحَسَنِ هلال بن يساف  الأشجعي مدلس ہے اور اس  روایت میں واضح نہیں کہ یہ تمام خبر اس کو کس نے دی – أَبَو الْحَسَنِ هلال بن يساف  الأشجعي   کا لشکر حسین میں شامل ہونا معلوم نہیں ہے نہ حسین سے اس کے سماع کا معلوم   ہے البتہ محدثین کے مطابق اس نے علی کو دیکھا ہے سنا نہیں ہے

حسین  کے قاتل صحیح سند سے معلوم نہیں ہیں اگر ہم وقتی تسلیم کریں کہ حکومت نے قتل کیا تو اس پر  ایک اور روایت ہے جو تاریخ طبری کی ہے حسین کو کہا جاتا ہے کہ آپشن دیا گیا کہ وہ عبید الله بن زیاد کے ہاتھ پر آ کر بیعت کریں انہوں نے انکار کیا اس میں بلوا ہوا اور وہ قتل ہوئے

سند ہے

 حديث عمار الدهني عن أبي جَعْفَر فَحَدَّثَنِي زكرياء بن يَحْيَى الضرير، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن جناب المصيصي قَالَ:

حَدَّثَنَا خَالِد بن يَزِيدَ بن عَبْدِ اللَّهِ الْقَسْرِيّ قَالَ:  حَدَّثَنَا عمار الدهني قَالَ قلت لأبي جَعْفَر: حَدَّثَنِي عن مقتل الْحُسَيْن حَتَّى كأني حضرته،

راقم کہتا ہے اس سند میں  زكريا بن يحيى بن أيوب الضرير ہے جس کو ہیثمی نے کہا ہے  لم أعرفه نہیں جانتا اور خطیب بغدادی نے اس کا ذکر کیا ہے جرح تعدیل نہیں کی ہے لہذا یہ مجہول الحال ہے – یہ روایت ضعیف ہے لیکن اہل سنت کے مورخین کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے آٹھویں صدی کے الذھبی نے اس کو محلہ صدق کہہ دیا ہے جبکہ متقدمین محدثین کے نزدیک یہ مجہول  ہے – بہر حال اس کا متن ہے

  قَالَ لَهُ الْحُسَيْن: اختر واحدة من ثلاث: إما أن تدعوني فأنصرف من حَيْثُ جئت، وإما أن تدعوني فأذهب إِلَى يَزِيد، وإما أن تدعوني فألحق بالثغور، فقبل ذَلِكَ عمر، فكتب إِلَيْهِ عُبَيْد اللَّهِ: لا وَلا كرامة حَتَّى يضع يده فِي يدي!] [فَقَالَ لَهُ الْحُسَيْن: لا وَاللَّهِ لا يكون ذَلِكَ أبدا] [، فقاتله فقتل أَصْحَاب الْحُسَيْن كلهم، وفيهم بضعة عشر شابا من أهل بيته

حسین نے کہا ان تین میں سے کوئی ایک چیز لو یا تو مجھے چھوڑو میں جہاں جا رہا ہوں جانے دو

یا مجھے یزید کے پاس جانے دو ، یا سرحد پر  جانے دو-  اس کو عمر بن سعد نے تسلیم کر لیا اور ابن زیاد کو خط لکھا- اس نے جواب دیا ہرگز نہیں اس کی کوئی عزت نہیں اس کو میرے ہاتھ پر بیعت کرنی ہو گی- حسین نے جواب دیا الله کی قسم کبھی بھی نہیں

یعنی حسین رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور    بیعت کو مسترد کر دیا جس پر لڑائی چھڑ گئی

حسین یزید تک کیوں جانا چاہتے تھے یہ بھی واضح نہیں  جب وہ بیعت کے لئے تیار ہی نہیں – حسین سرحد پر اس لئے جانا چاھتے تھے کہ وہ ملک بدری اختیار کریں – بیعت  ہمیشہ گورنر کے ہاتھ پر ہوتی ہے الا یہ کہ   خلیفہ سامنے ہو لہذا حسین کا ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت سے انکار اصل میں بیعت یزید سے مسلسل انکار ہے

تاریخ طبری میں تضاد بہت ہے مثلا ایک اور روایت ہے

حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَبِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: بَلَغَنَا

ع

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ

ان دو سندوں سے طبری نے قتل حسین پر کلام شروع کیا ہے پھر ایک مقام پر تاریخ میں لکھا

قَالَ الحصين – قَالَ: وَحَدَّثَنِي سعد بن عبيدة، قَالَ: إنا لمستنقعون فِي الماء مع عُمَر بن سَعْد، إذ أتاه رجل فساره وَقَالَ لَهُ: قَدْ بعث إليك ابن زياد جويرية بن بدر التميمي، وأمره إن لم تقاتل القوم أن يضرب عنقك، قَالَ: فوثب إِلَى فرسه فركبه، ثُمَّ دعا سلاحه فلبسه، وإنه عَلَى فرسه، فنهض بِالنَّاسِ إِلَيْهِم فقاتلوهم، فجيء برأس الْحُسَيْن إِلَى ابن زياد، فوضع بين يديه، فجعل ينكت بقضيبه، ويقول: إن أبا عَبْد اللَّهِ قَدْ كَانَ شمط، قَالَ: وجيء بنسائه وبناته وأهله، وَكَانَ أحسن شَيْء صنعه أن أمر لهن بمنزل فِي مكان معتزل، وأجرى عليهن رزقا، وأمر لهن بنفقة وكسوة قَالَ: فانطلق غلامان مِنْهُمْ لعبد اللَّه بن جَعْفَر- أو ابن ابن جَعْفَر- فأتيا رجلا من طيئ فلجأ إِلَيْهِ، فضرب أعناقهما، وجاء برءوسهما حَتَّى وضعهما بين يدي ابن زياد، قَالَ: فهم بضرب عنقه، وأمر بداره فهدمت.

حصین نے بیان کیا کہ  أبو حمزة، سعد بن عبيدة، السلمي، الكوفي نے بیان کیا

ہم عمر بن سعد کے ساتھ پانی میں نہا رہے تھے کہ اچانک اس کے پاس ایک شخص آیا اور اس سے سرگوشی کی اور اس نے اسے کہا ابن زیاد نے تمہاری طرف جويرية بن بدر التميمي کو بھیجا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ اگر تو نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ نہ کی تو وہ تجھے قتل کر دے راوی بیان کرتا ہے کہ وہ اٹھا اور اپنے گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر سوار ہو گیا پھر اس نے اپنے ہتھیار منگوا کر پہنے اور اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور وہ لوگوں کے ساتھ ان کی طرف گیا اور انہوں نے ان کے ساتھ جنگ کی اور حسین رضی اللہ عنہ کا سر ابن زیاد کے پاس لاکر اس کے سامنے رکھا گیا اور وہ اپنی چھڑی کو اپ کی ناک پر رکھ کر کہنے لگا بلاشبہ ابو عبداللہ سیا و سفید بالوں والے ہیں، راوی بیان کرتا ہے اور اپ کی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل کو بھی لایا گیا راوی بیان کرتا ہے اس نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ ان کے لیے ایک فرد گاہ کا حکم دیا جوا ایک الگ تھلگ جگہ پر تھی اور ان کی رسد جاری کر دی اور ان کے لئے لباس اور اخراجات کا حکم دیا ان میں سے دو لڑکوں نے جو عبداللہ بن جعفر یا ابن ابی جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے آکر طی قبیلہ کے ایک شخص کی پناہ لی تو اس نے ان دونوں کو قتل کر دیا اور ان دونوں کے سر لا کر ابن زیاد کے سامنے رکھ دیئے ابن زیاد نے بھی اسے قتل کرنے کا اردہ کر لیا اور اس کے حکم سے اس کے گھر کو منہدم کردیا گیا۔

حصين بن عبد الرحمن السلمى ، أبو الهذيل الكوفى ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں مختلط تھے

یہاں قتل کا قصہ الگ ہے اور سارا ملبہ عمر بن سعد پر ڈالا گیا ہے

اس سے پہلے جو روایت تھی اس میں تھا کہ  مذاکرات ہو رہے تھے وہ ناکام ہوئے پھر حسین  نے ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت سے انکار کیا اس پر بلوہ ہوا قتل ہوئے لیکن اب دوسری روایت میں یہاں متن الگ ہے اب سب تالاب میں نہا رہے ہیں ان کو خروج حسین سے کوئی مسئلہ نہیں کہ ابن زیاد قتل کی دھمکی  دیتا ہے اور حسین کو قتل کیا جاتا ہے کوئی مذاکرات نہیں ہوتے نہ حسین کوئی شرائط رکھتے ہیں

سعد بن عبيدة أبو حمزة السلمي ثقہ ہیں لیکن یہ خود خوارج کی رائے رکھتے تھے

کتاب  إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از  مغلطاي میں ہے

وقد تكلم في مذهبه ونسب إلى رأي الخوارج، وبسبب ذلك تكلم في نقله وروايته، وقد قيل إنه رجع عن ذلك.

أبو حمزة، سعد بن عبيدة، السلمي، الكوفي جو خارجی تھے وہ لشکر شام میں شامل تھے قاتلین حسین کے ساتھ؟ ایسا ممکن نہیں کیونکہ بنو امیہ اور خوارج کی کبھی نہیں بنی اور أبو حمزة، سعد بن عبيدة، السلمي، الكوفي کی روایت سیاسی عصبیت کی مثال لگتی ہے

کربلاء   العطش پیاس

معجم البلدان أز  شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومي الحموي (المتوفى: 626هـ) میں ہے

 الطف: طف الفرات أي الشاطئ، والطف: أرض من ضاحية الكوفة في طريق البرية فيها كان مقتل الحسين ابن علي، رضي الله عنه، وهي أرض بادية قريبة من الريف فيها عدة عيون ماء جارية،

الطف فرات کا ساحل ہے – یہ کوفہ کی جانب کا بری علاقہ ہے جو مقتل حسین ہے اور یہ آبادی کا مقام ہے جہاں بہت سے

چشمے ہیں

حسین کا قتل الطف  کربلاء میں ہوا اور یہاں سے قریبی مغربی  جھیل ملح تک کافی فاصلہ ہے – شہر کربلاء میں بھی چشموں کی اتنی کثرت نہیں ہے کہ حسین پانی حاصل کر پاتے

فرات کا ساحل الطف کے مشرق میں ہے جو کربلاء  سے ١٩ کلو میٹر دور ہے – جو ظاہر ہے بہت دور ہے – الطف کربلاء میں ہے

جغرافیہ بتا رہا ہے کہ حسین کے پاس پانی تک رسائی نہیں تھی

یزید کی فتح کی خبر  

تاریخ الطبري میں ہے

قَالَ أَبُو مخنف: حَدَّثَنِي سُلَيْمَان بن أبي راشد، عن حميد بن مسلم، قَالَ: دعاني عُمَر بن سَعْد فسرحني إِلَى أهله لأبشرهم بفتح اللَّه عَلَيْهِ وبعافيته، فأقبلت حَتَّى أتيت أهله، فأعلمتهم ذَلِكَ، ثُمَّ أقبلت حَتَّى أدخل فأجد ابن زياد قَدْ جلس لِلنَّاسِ، وأجد الوفد قَدْ قدموا عَلَيْهِ، فأدخلهم، وأذن لِلنَّاسِ، فدخلت فيمن دخل، فإذا رأس الْحُسَيْن موضوع بين يديه، وإذا هُوَ ينكت بقضيب بين ثنيتيه ساعة، فلما رآه زَيْد بن أَرْقَمَ: لا ينجم عن نكته بالقضيب، قَالَ لَهُ: اعل بهذا القضيب عن هاتين الثنيتين، فو الذى لا إله غيره لقد رأيت شفتي رَسُول الله ص عَلَى هاتين الشفتين يقبلهما، ثُمَّ انفضخ الشيخ يبكي، فَقَالَ لَهُ ابن زياد: أبكى اللَّه عينيك! فو الله لولا أنك شيخ قَدْ خرفت وذهب عقلك لضربت عنقك

حمید بن مسلم کہتا ہے ابن سعد نے مجھے بلا کر اپنے اہل و عیال کے پاس بھیجا کہ کو خوش خبری سناؤں کہ اللہ نے فتح دی …. واپس آیا تو دیکھا ابن زیاد لوگوں سے ملنے دربار میں بیٹھا ہے اور تہنیت دینے لوگ ا رہے ہیں … میں بھی اندر گیا گیا دیکھتا ہوں کہ حسین کا سر سامنے ہے اور ابن زیاد اپنی چھڑی سے حسین  کے دانتوں کو کھٹکھٹاتا رہا-  زید بن ارقم نے کہا اس کو دانتوں سے ہٹا وحدہ لا شریک کی قسم رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو میں نے دیکھا اپنے ہونٹ ان دانتوں پر رکھ کر پیار کرتے تھے اور یہ کہنا تھا کہ سب بوڑھے لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے – ابن زیاد نے کہا الله تجھ کو رولائے تو بڈھا ہوا اور تیری عقل جاتی رہی واللہ میں تیری گردن ہی مار دیتا

اول اس کا راوی ابو مخنف سخت جھوٹا اگ لگانے والا شیعہ مشھور ہے

المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري میں تاریخ طبری کے محقق أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کہتے ہیں   اس کی سند میں دو مجھول ہیں

سليمان بن أبي راشد، الأزدي، من السادسة، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
سلیمان بن ابی راشد میں اس کو نہیں جانتا نہ اس کا ترجمہ ملا

دوسرے راوی پر کہتے ہیں
حميد بن مسلم، الأزدي – وقيل: الأسدي -، من الرابعة، من أصحاب المختار بن أبي عبيد، الثقفي، الكذاب، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
حمید بن مسلم کہا جاتا ہے اسدی ہے یہ مختار ثقفی کے اصحاب میں سے ہے اس کا ترجمہ نہیں ملا نہ اس کو جان سکا

علی بن حسین کا اغوا کیا جانا

الذھبی نے الْمَدَائِنِيُّ  کے حوالے سے کتاب تاریخ الاسلام میں  لکھا ہے

وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ دَخَلْنَا الْكُوفَةَ، فَلَقِيَنَا رَجُلٌ، فَدَخَلْنَا مَنْزِلَهُ، فَأَلْحَفْنَا، فَنِمْتُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِحِسِّ الْخَيْلِ فِي الْأَزِقَّةِ، فَحَمَلْنَا إِلَى يَزِيدَ، فَدَمَعَتْ عَيْنُهُ حِينَ رَآنَا، وَأَعْطَانَا مَا شِئْنَا وَقَالَ: إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي قَوْمِكَ أُمُورٌ، فَلَا تَدْخُلَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَا كَانَ، كَتَبَ مَعَ مُسْلِمِ بْنِ عُقْبَةَ كِتَابًا فِيهِ أَمَانِي، فَلَمَّا فَرَغَ مُسْلِمٌ مِنَ الْحَرَّةِ بَعَثَ إِلَيَّ، فَجِئْتُهُ وَقَدْ كَتَبْتُ وَصِيَّتِي، فَرَمَى إِلَيَّ بِالْكِتَابِ، فَإِذَا فِيهِ: اسْتَوْصِ بِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ خَيْرًا، وَإِنْ دَخَلَ مَعَهُمْ، فِي أَمْرِهِمْ فَأَمِّنْهُ وَاعْفُ عَنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ فَقَدْ أَصَابَ وَأَحْسَنَ

عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ نے کہا جب حسین قتل کر دیے گئے تب ہم کوفہ میں داخل ہوئے تو ایک شخص سے ملے جس نے ہم کو اپنے مکان میں داخل کیا اس نے سونے کا انتظام کیا ، میں سو گیا پھر آنکھ کھلی تو گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سے پس ہم کو لاد کر یزید کے پاس پہنچا دیا گیا- جب یزید نے ہم کو دیکھا وہ رو دیے اور جو ہم نے مانگا ہم کو دیا اور پھر کہا کہ اب کچھ اور کام آپ کی  قوم سے   ہوں گے اپ اس میں مشغول مت ہونا – پس جب اہل مدینہ کے ساتھ ہوا جو ہوا – یزید نے مسلم بن عقبہ کو امان نامہ لکھ کر دیا مسلم جب حرہ سے فارغ ہوا وہ میرے پاس پہنچا اس نے وہ تحریر میری جانب پھینکی اس میں تھا عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ کے ساتھ خیر سے پیش آنا اور اگر کے پاس جاؤ اس  امر (بغاوت) کے حوالے سے تو ان کو امن دینا اور معاف کرنا اور اگر یہ ان  (باغیوں) کے ساتھ نہیں تو یہ ٹھیک ہے اچھا ہے

اس کی سند صحیح ہے – یہ واقعی درست ہے کہ تو اس کا مطلب ہے کہ علی بن حسین کو اغوا کیا گیا اور دمشق لے جایا گیا  جہاں مذاکرات کے بعد ان کو رہا کیا گیا

دربار یزید میں راس حسین کی آمد 

المعجم الكبير از طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنْبَاعِ رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ الْمِصْرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: أَبَى الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنْ يُسْتَأْسَرَ، فَقاتَلُوهُ فَقَتَلُوهُ، وَقَتَلُوا ابْنَيْهِ وَأَصْحَابَهُ الَّذِينَ قَاتَلُوا مِنْهُ بِمَكَانٍ يُقَالُ لَهُ الطَّفُّ، وَانْطُلِقَ بِعَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، وَفَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ، وَسُكَيْنَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ إِلَى عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زِيَادٍ، وَعَلِيٌّ يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ قَدْ بَلَغَ، فَبَعَثَ بِهِمْ إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَأَمَرَ بِسُكَيْنَةَ فَجَعَلَهَا خَلْفَ سَرِيرِهِ لِئَلَّا تَرَى رَأْسَ أَبِيهَا وَذَوِي قَرابَتِهَا، وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي غُلٍّ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، فَضَرَبَ عَلَى ثَنِيَّتَيِ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ:

[البحر الطويل] نُفَلِّقُ هَامًا مِنْ رِجَالٍ أَحِبَّةٍ … إِلَيْنَا وَهُمْ كَانُوا أَعَقَّ وَأَظْلَمَا

فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ} [الحديد: 22] . فَثَقُلَ عَلَى يَزِيدَ أَنْ يَتَمَثَّلَ بِبَيْتِ شِعْرٍ، وَتَلَا عَلِيٌّ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ يَزِيدُ: بَلْ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ويَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ. فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: «أَمَا وَاللهِ لَوْ رَآنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَغْلُولِينَ لَأَحَبَّ أَنْ يُخَلِّيَنَا مِنَ الْغُلِّ» . قَالَ: صَدَقْتَ، فَخَلُّوهُمْ مِنَ الْغُلِّ. قَالَ: «وَلَوْ وَقَفْنَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بُعْدٍ لَأَحَبَّ أَنْ يُقَرِّبَنَا» . قَالَ: صَدَقْتَ، فَقَرِّبُوهُمْ. فَجَعَلَتْ فَاطِمَةُ وَسُكَيْنَةُ يَتَطَاوَلَانِ لِتَرَيَا رَأْسَ أَبِيهِمَا، وَجَعَلَ يَزِيدُ يَتَطَاوَلُ فِي مَجْلِسِهِ لِيَسْتُرَ عَنْهُمَا رَأْسَ

لیث بن سعد نے کہا حسین نے غلام بننے سے انکار کیا پس  قتال کیا اور  وہ قتل ہوئے  اور ان کے ساتھ ان کے بیٹے اور اصحاب قتل ہوئے جنہوں نے ان کے ساتھ قتال کیا اس مقام پر جس کو الطف کہا جاتا ہے   اور علی بن حسین ، فاطمہ بنت حسین ، سکینہ بیت حسین کو عبید الله بن زیاد کے پاس لے جایا گیا اور علی ان دنوں لڑکے تھے جیسا پہنچا ہے پس ان کو یزید بن معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا اور یزید نے حکم کیا سکینہ کو یہ ان کے تخت کے پیچھے کھڑی ہوں تاکہ اپنے باپ اور اقارب کے سر نیزوں پر دیکھ سکیں اور علی بن حسین بیڑی میں جکڑے تھے …. انہوں نے آیت پڑھی

 مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ} [الحديد: 22] .

اور جو مصیبت بھی زمین میں اور تمھارے اوپر آتی ہے وہ کتاب میں لکھی ہوئی ہے قبل اس کے کہ وہ پہنچے یہ اللہ پر آسان ہے – … یزید نے آیت پڑھی

بَلْ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ويَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ.

یہ تمھارے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے اور اکثر کو وہ معاف کرتا ہے

علی بن حسین نے کہا سچ کہا الله کی قسم اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہم کو اس طرح بیڑیوں میں دیکھتے تو پسند کرتے کہ ان کو ہم سے ہٹا دیں – یزید نے کہا سچ کہا پس اس نے حکم کیا ان کو ہٹاؤ

علی نے کہا و الله اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہمارے پاس اتے تو وہ ہم کو اپنے سے قریب کرتے

یزید نے کہا سچ کہا – پس ان کو قریب کیا اور فاطمہ اور سکینہ کے لئے جو رکھا تھا کہ وہ اپنے باپ کو سر دیکھ لیں ان کو چھپا دینے کا حکم کیا

لیث بن سعد امام مالک کے ہم عصر ہیں مصری ہیں اور انہوں نے یزید کا دور نہیں پایا

ابن جوزی نے اپنی کتاب الرد على المتعصب العنيد المانع من ذمّ يزيد صفحہ 57 پر ایک روایت درج کی ہے جو اس طرح ہے

قال ابن الجوزي : أنبأ عبد الوهاب بن المبارك ، قال : أنبأ أبو الحسين بن عبد الجبار ، قال : أنبأ الحسين بن علي الطناجيري ، ثنا خالد بن خداش ، قال : ثنا حماد بن زيد ، عن جميل بن مرة ، عن أبي الوَضِي ، قال : نُحرتْ الإبل التي حُمل عليها رأس الحسين وأصحابه فلم يستطيعوا أكلها ، كانت لحومها أمرّ من الصبر.

فلما وصلت الرؤوس إلى يزيد جلس ودعا بأشراف أهل الشام فأجلسهم حوله ، ثم وضع الرأس بين يديه ، وجعل ينكت بالقضيب على فيه ، ويقول :

نفلق هاماً ، من رجال أعزَّةٍ … علينا ، وهم كانوا أعقّ وأظلما

ابن جوزی نے ابو وضی سے روایت کی کہ جن اونٹوں پر امام حسین کے مبارک سر، اور ان کے اصحاب کو لے جایا گیا، جب انہیں ذبح کیا گیا، تو کوئی نہ کھا سکا۔ اور جب وہ مبارک سر یزید  کو ملا، تو اس نے اہل شام کے بڑے لوگوں کو بلایا، اور مبارک سر کو ہاتھوں میں رکھ کر چھڑی سے مارنے لگا

اس کی سند میں  أبو الوضيئ  عباد بن نسيب  ہے جو اصل میں مجہول الحال ہے – اس کو متاخرین میں ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے لیکن اس پر جرح و تعدیل کے الفاظ نہیں ملے

اس واقعہ کی سند بھی منقطع ہے کیونکہ أبو الوضيئ  عباد بن نسيب  نے خبر نہیں دی کہ اس کو یہ سب کس نے بتایا –  أبو الوضيئ  عباد بن نسيب ، علی کی پولیس میں کام کرتا تھا- دربار یزید میں اس کو فورا دھر لیا جاتا کہ یہ یہاں کیا کر رہا ہے

واقعہ حرہ کا فساد

تاریخ ابو زرعہ دمشقی میں ہے

وَكَانَتِ الْحَرَّةُ يَوْمَ الْأَرْبَعَاءِ لِلَيْلَتَيْنِ بَقِيَتَا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ.

حرہ کا واقعہ بدھ ،  سن ٦٣ ہجری میں  ذو الحجہ کی آخری چند راتوں میں  ہوا

الحره  نام کا مدینہ کا ایک محلہ تھا جہاں یزید بن معاویہ کے دور میں بلووں کا آغاز ہوا – بلوائی مدینہ  کا امن خراب کر رہے تھے اور لوگوں کو منفی تقاریر سے تشدد و خروج پر اکسا رہے تھے – اس میں امیر المومنین یزید کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ وہ ان لونڈیوں کو نکاح میں لے رہے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی لونڈیاں تھیں – باپ کی لونڈی اولاد پر حرام ہو جاتی ہے لیکن یزید ان کو حلال کر رہا ہے – دوسرے الزامات میں کہا جا رہا تھا کہ یزید شراب بھی پیتا ہے اور بندروں سے کھیلتا ہے –  اس طرح ایک لسٹ تھی جو شام سے دور مدینہ کے  عوام میں پھیلائی جا رہی تھی –

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں ابن الزبیر نے حکم دیا کہ مدینہ و حجاز سے بنو امیہ کو نکال دیا جائے

 وكان ابن الزبير أمر بإخراج بني أمية ومواليهم من مكة والمدينة إلى الشام،

اس پر  چار ہزار مسلمانوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا جب یہ لوگ وادی القری پر پہنچے تو مسلم بن عقبہ سے ملے جس نے حکم دیا کہ نہیں واپس جاؤ

فخرج منهم أربعة آلاف فيما يزعمون، فلما صاروا بوادي القرى أمرهم مسلم بالرجوع معه 

ابن زبیر  اس سے پہلے مروان بن حکم کو بھی مدنیہ سے بیماری کی حالت میں نکلوا چکے تھے اور انہوں نے یہ وطیرہ بنا لیا تھا کہ خاندان کی بنیاد پر مسلمانوں کو الگ کیا  جائے

ابن حجر نے مروان بن الحكم کے ترجمہ میں لکھا ہے

ولم يزل بالمدينة حتى أخرجهم ابن الزبير منها، وكان ذلك من أسباب وقعة الحرة
یہ مدینہ سے نہ نکلے حتی کہ ابن زبیر نے ان کو نکالا اور یہ واقعہ حرہ کا سبب بنا

 

حرہ کے مقتولین

المعارف از ابن قتیبہ میں ذکر ہے کہ  عثمان بن محمد بن أبى سفيان مدینہ پر یزید کی جانب سے  گورنر تھے اور مقتولین و مفروروں میں تھے

المسور بن عبد الرحمن – یہ عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں

 محمد بن عبد الله بن سعيد  یہ سعيد بن زيد رضی اللہ عنہ کے پڑ پوتے ہیں

معقل بن سنان رضى الله عنه کا کہا جاتا ہے اسی واقعہ میں قتل ہوا

عبد الله بن مطيع بن الأسود یہ مقرر تھے یزید کے خلاف تقریر کرتے تھے پھر ابن زبیر سے مکہ میں ملے

فخریہ شعر سناتے تھے

أنا الّذي فررت يوم الحرّة … فاليوم أجزى كرة بفرّه

میں وہ ہوں جو حرہ میں فرارہوا

عبد الله بن مطيع بن الأسود کو بعد میں  ابن زبیر نے کوفہ پر گورنر مقرر کیا

 يعقوب بن طلحة – یہ طلحہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں

تاریخ ابو زرعہ دمشقی میں ہے

معاذ القارىء کا قتل حرہ میں ہوا

عبد الله بْنَ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ رضی اللہ عنہ  کا قتل حرہ میں ہوا – یہ مُسَيْلِمَةَ کذاب کو جہنم واصل کرنے والے تھے

تاريخ خليفة بن خياط از  أبو عمرو خليفة بن خياط بن خليفة الشيباني العصفري البصري (المتوفى: 240هـ) میں ہے

مقتولین قبیلہ
أَبُو بَكْر عَبْد اللَّهِ بْن جَعْفَر بْن أَبِي طَالب وَالْفضل ابْن الْعَبَّاس بْن ربيعَة بْن الْحَارِث بْن عَبْد الْمطلب وَعبد اللَّه بْن نَوْفَل بْن الْحَارِث بْن عَبْد الْمطلب وعباس بْن عتبَة بْن أَبِي لَهب

 

بني هَاشم مِنْ قُرَيْشٍ
يحيى بْن نَافِع بْن عجير بْن عَبْد يَزِيد بْن هَاشم من بَنِي الْمطلب وَعبد اللَّه بْن نَافِع بْن عجير بني الْمطلب وَمن بَنِي الْمطلب بْن عَبْد منَاف
دَاوُد بْن الْوَلِيد بْن قرظة بْن عَبْد عَمْرو بْن نَوْفَل وَابْنه الْوَلِيد بْن دَاوُد وَعبيد اللَّه بْن عتبَة بْن غَزوَان حَلِيف لَهُم من بَنِي مَازِن بن مَنْصُور

 

بني نَوْفَل
إِسْمَاعِيل بْن خَالِد بْن عقبَة بْن أَبِي معيط وَأَبُو علْبَاء مولى مَرْوَان بْن الحكم وَسليمَان وَعَمْرو والوليد بَنو يَزِيد ابْن أُخْت النمر

 

بني أُميَّة
وهب بْن عَبْد اللَّهِ بْن زَمعَة بْن الْأسود بْن الْمطلب بْن أَسد بْن عَبْد الْعُزَّى وَيزِيد بْن عَبْد اللَّهِ بْن زَمعَة قتل صبرا وَأَبُو سَلمَة بْن عَبْد اللَّهِ بْن زَمعَة والمقداد بْن وهب بْن زَمعَة وَيزِيد بْن عَبْد اللَّهِ بْن وهب بْن زَمعَة وخَالِد بْن عَبْد اللَّهِ بْن زَمعَة وَابْن لعبد اللَّه بْن زَمعَة لَا يعرف اسْمه والمغيرة بْن عَبْد اللَّهِ بْن السَّائِب بْن أَبِي حُبَيْش بْن الْمطلب بْن أَسد وَعبد اللَّه وَعَمْرو ابْنا نَوْفَل بْن عدي ابْن نَوْفَل بْن أَسد وَابْن لعبد الرَّحْمَن بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ذُؤَيْب بْن عدي بْن نَوْفَل بْن أَسد وعدي بْن تويت بن حبيب بن أَسد

 

بَنِي أَسد
عَبْد اللَّهِ بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن مسافع بْن طَلْحَة بْن أَبِي طَلْحَة اسْم أَبِي طَلْحَة عَبْد اللَّهِ بْن عَبْد الْعُزَّى بْن عُثْمَان بْن عَبْد الدَّار وَمُحَمّد بْن أَيُّوب بْن ثَابت بْن عَبْد الْمُنْذر بْن عَلْقَمَة بْن كلدة وَمصْعَب بْن أَبِي عُمَيْر بْن أَبِي عَزِيز وَيزِيد وَزيد ابْنا مسافع وَعبد الرَّحْمَن بْن عَمْرو بْن الْأسود

 

بني عبد الدَّار
ة زيد بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن عَوْف وَأَبَان بْن عَبْد اللَّهِ بْن عَوْف وعياض بْن حسن بْن عَوْف مَاتَ حسن فِي فتْنَة ابْن الزبير وَمُحَمّد بْن الْأسود بْن عَوْف والصلت بْن مخرمَة بْن نَوْفَل بْن وهيب بْن عَبْد منَاف بْن زهرَة وَمُحَمّد بْن المصور بْن الْمسور بْن مخرمَة وَعبد الله بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن الْأسود بْن عَبْد يَغُوث وَإِسْمَاعِيل بْن وهيب ابْن الْأسود بْن عَبْد يَغُوث وَعُمَيْر وَعَمْرو ابْنا سعد بْن أَبِي وَقاص وَإِسْحَاق ابْن هَاشم بْن عتبَة بْن أَبِي وَقاص وَعمْرَان بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن نَافِع بْن عتبَة بْن أَبِي وَقاص وَمُحَمّد بْن نَافِع بْن عتبَة بْن أَبِي وَقاص

 

من بني زهرَة
يَعْقُوب بْن طَلْحَة بْن عبيد اللَّه وَعبيد اللَّه بْن عُثْمَان بن لاعبيد اللَّه بْن عُثْمَان بْن عَمْرو بن كَعْب وَعبد الله ب بْن مُحَمَّد بْن أَبِي بَكْر الصّديق ومعبد بْن الْحَارِث بْن خَالِد بْن صَخْر بْن عَامر بن عَمْرو بن كَعْب

 

بني تيم بن مرّة
عَبْد اللَّهِ بْن أَبِي عَمْرو بْن حَفْص بْن الْمُغيرَة وَأَبُو سعد بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن الْحَارِث بْن هِشَام أمه من بَنِي الْحَارِث بْن كَعْب وَعبد اللَّه بْن الْحَارِث بْن عَبْد اللَّهِ بْن أَبِي ربيعَة وَمُسلم وَيُقَال مسلمة بْن أَبِي برد بْن معبد ابْن وهب بن عَائِذ بني مَخْزُوم
أَبُو بَكْر بْن عبيد اللَّه بْن عُمَر بْن الْخطاب وَعبد اللَّه وَسليمَان ابْنا عَاصِم بْن عُمَر بْن الْخطاب وَعمر أَو عَمْرو بْن سعيد بْن زيد بْن عَمْرو ابْن نفَيْل وَأَبُو بَكْر بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن سعيد بْن زيد بْن عَمْرو بْن نفَيْل وَمُحَمّد بْن سُلَيْمَان بْن مُطِيع بْن الْأسود بْن حَارِثَة بْن نَضْلَة بْن عَوْف بْن عبيد بْن عويج وَعبد الْملك بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن مُطِيع وَعبد اللَّه بْن نَافِع بْن عَبْد عَمْرو بْن عَبْد اللَّهِ بْن نَضْلَة وَإِبْرَاهِيم بْن نعيم بْن عَبْد اللَّهِ بْن النحام وَيُقَال إِبْرَاهِيم بْن نعيم بْن عَبْد اللَّهِ وَمُحَمّد بْن أَبِي الجهم بْن حُذَيْفَة بْن غَانِم قتلا صبرا وخديج أَو حديج بْن أَبِي حثْمَة بْن حذافة ابْن غَانِم

 

بني عدي
عَبْد الرَّحْمَن بْن حويطب بْن عَبْد الْعُزَّى وَعبد الْملك بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن حويطب وَرَبِيعَة بْن سهم أَو سهل بْن عَبْد اللَّهِ بْن زَمعَة وَعبد الرَّحْمَن ابْن زَمعَة بْن قيس وَعَمْرو بْن عَبْد اللَّهِ بْن زَمعَة وَعبد اللَّه بْن عَبْد اللَّهِ بْن زَمعَة وَعبد اللَّه بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن عَمْرو بْن حَاطِب وسليط بْن عَبْد اللَّهِ بْن عَمْرو بْن هَاشم بَنِي عَامر بْن لؤَي

 

فضَالة بْن خَالِد بْن نائلة بْن رَوَاحَة وعياض بْن خَالِد بْن نائلة بْن هُرْمُز أَو هرم بْن رَوَاحَة والْحَارث وَمُسلم ابْنا خَالِد وَمُحَمّد بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن الطُّفَيْل وعياض بْن أَبِي سَلام بْن يَزِيد بْن عَبْد اللَّهِ بْن مَالك ابْن ربيعَة بْن وهب وَزيد أَو يَزِيد بْن عَبْد اللَّهِ بْن مسافع بْن أنس بْن عَبْد بْن وهيب ابْن ضباب بني حُجَيْر

یہ لسٹ مکمل نقل نہیں کی گئی کیونکہ یہ طویل تھی لیکن مقتولین میں بنو امیہ کے افراد بھی ہیں – تاریخ خليفة بن خياط کے مطابق کل ملا کر قریش اور ان کے حلیفوں میں  ٩٧ افراد قتل ہوئے

فَجَمِيع من أُصِيب من قُرَيْش من أنفسهم سَبْعَة وَتسْعُونَ رجلا

اور

فَجَمِيع من أُصِيب من الْأَنْصَار مائَة رجل وَثَلَاثَة وَسَبْعُونَ رجلا وَجَمِيع من أُصِيب من قُرَيْش وَالْأَنْصَار ثَلَاث مائَة رجل وَسِتَّة رجال

انصار کے ١٧٣ مرد قتل ہوئے اور دونوں کو ملا کر قریب ٣٠٠ مرد قتل ہوئے اور (غیر مہاجرین و انصار ) ٦ مرد قتل ہوئے

قتل ہونے والے تمام بلوائی نہیں تھے بعض معصوم بھی تھے جو  بلا  تمیز  شہید  ہو گئے – باغی کون تھے ؟  یہ باغی وہ لوگ تھے جو وفات شدہ اصحاب رسول کی اولاد میں سے تھے اور ان کا درجہ تابعین کا تھا لیکن افسوس ایک دوسرے تابعی یزید بن معاویہ کو غاصب قرار دے رہے تھے –

اصحاب رسول بغاوت کے خلاف تھے –   بخاری  روایت  کرتے ہیں کہ   باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ

 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ

نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان  والوں کو جمع کیا اور  کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ  ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس  آدمی کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع  پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے

یزید نے اہل مدینہ کو بیعت پر مجبور کرنے کے لیے مسلم بن عقبہ کو دس ہزار فوجیوں کے ساتھ حجاز روانہ کیا۔ اہل مدینہ نے شامی افواج کا  مقابلہ کیا مگر تین دن کی جنگ کے بعد شکست کھائی۔   اس بغاوت کو  سختی سے کچل دیا گیا –   سن ٦٤  ھ میں  یزید بن معاویہ کی وفات ہوئی ان کے بیٹے خلیفہ ہوئے لیکن انہوں نے اس کار کی عظیم   ذمہ داری کو اٹھانے  سے معذرت کی اور    مروان بن الحکم کے حق میں خلافت دستبردار ہو گئے-     اس  کے خلاف ابن زبیر رضی الله عنہ نے خروج کیا

    عمرو بن العاص المتوفی ٦٣ ھ   کی یزید بن معاویہ کے دور میں وفات ہوئی

باغی تقاریر کا متن

أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي  جو  متروک راوی ہے اس نے خبر دی – تاریخ الطبری دار التراث – بيروت ج ٥ ص ٤٨٠  کے مطابق

 قَالَ لوط: وَحَدَّثَنِي أَيْضًا مُحَمَّد بن عَبْدِ الْعَزِيزِ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عوف ورجع المنذر من عِنْدَ يَزِيد بن مُعَاوِيَة، فقدم عَلَى عُبَيْد اللَّهِ بن زياد الْبَصْرَة… فأتى أهل الْمَدِينَة، فكان فيمن يحرض الناس عَلَى يَزِيد، وَكَانَ من قوله يَوْمَئِذٍ: إن يَزِيد وَاللَّهِ لقد أجازني بمائة ألف درهم، وإنه لا يمنعني مَا صنع إلي أن أخبركم خبره، وأصدقكم عنه، وَاللَّهِ إنه ليشرب الخمر، وإنه ليسكر حَتَّى يدع الصَّلاة

منذربن الزبیر اہل مدینہ کے پاس آئے تو یہ ان لوگوں میں سے تھے جو لوگوں کو یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔ اور یہ اس دن کہتے تھے : اللہ کی قسم ! یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم دئے، لیکن اس نے مجھ پر جو نوازش کی ہے وہ مجھے اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ میں تمہیں اس کی خبر بتلاؤں اور اس کے متعلق سچ بیان کردوں ۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یزید شرابی ہے اور شراب کے نشے میں نماز بھی چھوڑ دیتا ہے

 مورخ واقدی نے خبر دی – الطبقات الكبرى ، دار الكتب العلمية – بيروت، ج ٥ ص ٤٩ میں ہے

اخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيم عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَعَنْ غَيْرِهِمْ أَيْضًا. كُلٌّ قَدْ حَدَّثَنِي. قَالُوا: لَمَّا وَثَبَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيَالِيَ الحرة فأخرجوا بَنِي أُمَيَّةَ عَنِ الْمَدِينَةِ وَأَظْهَرُوا عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَخِلافَهُ أَجْمَعُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ فَأَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَيْهِ فَبَايَعَهُمْ عَلَى الْمَوْتِ وَقَالَ: يَا قَوْمُ اتَّقُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لا شريك له. فو الله مَا خَرَجْنَا عَلَى يَزِيدَ حَتَّى خِفْنَا أَنْ نُرْمَى بِالْحِجَارَةِ مِنَ السَّمَاءِ. إِنَّ رَجُلا يَنْكِحُ الأُمَّهَاتِ وَالْبَنَاتَ وَالأَخَوَاتِ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَدَعُ الصَّلاةَ

جب اہل مدینہ نے حرہ کے موقع پر فساد کیا، بنوامیہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ، یزید کے عیوب کا پرچار  اس کی مخالفت کی تو لوگوں نے عبداللہ بن حنظلہ کے پاس آکر اپنے معاملات انہیں سونپ دئے ۔ عبداللہ بن حنظلہ نے ان سے موت پر بیعت کی اور کہا: اے لوگو ! اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو ! اللہ کی قسم ہم نے یزید کے خلاف تبھی خروج کیا ہے جب ہمیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پر کہیں آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے کہ ایک آدمی ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور نماز چھوڑتا ہے

  شام و مدینہ  اور بلاد امصار میں  یزید  رحمہ اللہ علیہ کی بیعت لی جا  چکی تھی اور  اب اس بغاوت کی سرکوبی کا وقت تھا کیونکہ بلوائی شر و فساد پر اتر آئے تھے  –  باغی  یہاں حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں تھے بلکہ ان کا میلان و رجحان  ابن زبیر کی طرف زیادہ تھا اور جب حرہ میں حکومت نے کاروائی کی تو باغی بھاگ  گئے  اور مکہ میں روپوش ہوئے- بعد میں خلافت ابن زبیر میں یہ باغی پیش پیش رہے-

ابن زبیر کی عصبیت  کے حق میں روایت سازی

ابو داود کی روایت ہے جو اس دور سے مطابقت رکھتی ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِى أَبِى عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِى الْخَلِيلِ عَنْ صَاحِبٍ لَهُ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « يَكُونُ اخْتِلاَفٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ وَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ مِنَ الشَّامِ فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ ثُمَّ يَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ فَيَبْعَثُ إِلَيْهِمْ بَعْثًا فَيَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ وَذَلِكَ بَعْثُ كَلْبٍ وَالْخَيْبَةُ لِمَنْ لَمْ يَشْهَدْ غَنِيمَةَ كَلْبٍ فَيَقْسِمُ الْمَالَ وَيَعْمَلُ فِى النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ -صلى الله عليه وسلم- وَيُلْقِى الإِسْلاَمُ بِجِرَانِهِ إِلَى الأَرْضِ فَيَلْبَثُ سَبْعَ سِنِينَ ثُمَّ يُتَوَفَّى وَيُصَلِّى عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ ». قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامٍ « تِسْعَ سِنِينَ ». وَقَالَ بَعْضُهُمْ « سَبْعَ سِنِينَ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ ایک خلیفہ کی موت پر  اختلاف ہوگا، تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص بھاگ کر مکہ مکرمہ آجائے گا  مگر لوگ ان کے انکار کے باوجود ان کو خلافت کے لئے منتخب کریں گے، چنانچہ حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان  ان کے ہاتھ پر لوگ بیعت کریں گے۔ پھر ملک شام سے ایک لشکر ان کے مقابلے میں بھیجا جائے گا، لیکن یہ لشکر  بیداء  نامی جگہ میں جو کہ مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پس جب لوگ یہ دیکھیں گے تو  ملک شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے بیعت کریں گی۔  پھرقریش کا ایک آدمی جس کی ننھیال قبیلہ بنوکلب میں ہوگی آپ کے مقابلہ میں کھڑا ہوگا۔ آپ بنوکلب کے مقابلے میں ایک لشکر بھیجیں گے وہ ان پر غالب آئے گا اور بڑی محرومی ہے اس شخص کے لئے جو بنوکلب کے مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حاضر نہ ہو-  

یہ روایت امام مہدی کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے  -اس کی سند میں اضطراب کی وجہ سے متعدد  محققین  نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے – راقم کی رائے میں یہ روایت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں گھڑی  گئی ہے – کیونکہ وہ مدینہ کے تھے پھر وہاں سے مکہ گئے اور ان کو لوگوں نے خلیفہ بنا دیا –  ان  کی سر کوبی کے لئے لشکر بھیجا گیا – بنو كلب  أصل یزید بن معاویہ کی والدہ کا حوالہ ہے جو بنو کلب کی تھیں – اگرچہ ایسا نہیں ہوا کہ

یزید کا لشکر مکہ پہنچا ہو لیکن یہ روایت گھڑی گئی اور پیش بندی کے لئے بلوائیوں کے  تھیلے میں موجود تھی

ابن زبیر  کا توسیع  کعبہ کا منصوبہ بھی ان لوگوں کا روایت کردہ ہے جو واقعہ حرہ میں قتل ہوئے ہیں مثلا عبداللہ بن محمد بن ابی بکر –   ابن زبیر  نے توسیع شدہ کعبہ میں پناہ لی اور عوام کو باہر  شامی لشکر کے رحم و کرم چھوڑ دیا جو منجنق سے پتھر پھینک رہا تھا –  لیکن کوئی زمین کا دھنسنا نہ ہوا

یزید کا مکہ پر حملہ

 مورخین کہتے ہیں یزید بن معاویہ نے مکہ پر حملہ   کیا تھا- راقم کہتا ہے  بلکہ یہ مورخین کی بکواس ہے ادھر ادھر کے واقعات ملا کر سب یزید کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں-  یزید بن معاویہ چار سال خلیفہ رہے اور ٦٤ ہجری میں وفات ہوئی ان کے بعد ان کے بیٹے خلیفہ ہوئے لیکن خلافت سے دست بر دار ہو گئے اور مروان بن عبد الملک خلیفہ ہوئے شام میں اس دوران ابن زبیر خلیفہ ہوئے حجاز میں- لیکن مورخ یزید کے بارے میں بات کرتے کرتے کعبہ پر حملہ کی بات کرتے ہیں جبکہ حملہ مکہ پر ابن زبیر کے دور میں ہوا

کہا جاتا ہے مسلم بن عقبہ کا مکہ پہنچنے سے پہلے انتقال ہوا اور الحصين بن نمير بن نائل، أبو عبد الرحمن الكندي السكونيّ المتوفی ٦٧ ھ کو امیر کر کے بھیجا گیا جبکہ یزید تو ٦٤ میں مر چکا تھا اور یہ دور عبد الملک کی خلافت کا ہے اس نے ابن زبیر سے نپٹنے کے لئے لشکر بھیجا تھا نہ کہ یزید نے

یہ سب تاریخی خلط ملط شروع سے چلا آ رہا ہے مثلا کتاب المعارف از ابن قتیبہ میں ہے

ثم سار «مسلم بن عقبة» إلى «مكة» ، وتوفى بالطريق، ولم يصل، فدفن ب «قديد» وولى الجيش «الحصين بن نمير السّكونى» ، فمضى بالجيش، وحاصروا «عبد الله بن الزبير» ، وأحرقت «الكعبة» حتى انهدم جدارها، وسقط سقفها، وأتاهم الخبر بموت «يزيد» ، فانكفئوا راجعين إلى «الشام» . … فكانت ولاية «يزيد» ثلاث سنين وشهورا. وهلك ب «حوّارين» – من عمل «دمشق» – سنة أربع وستين،
پھر یزید نے مسلم بن عقبہ کو مکہ بھیجا لیکن یہ راستہ میں مر گیا اور قدید میں دفن ہوا اور لشکر کی ولایت الحصين بن نمير السّكونى» کو ملی اس نے ابن زبیر کا محاصرہ کر لیا اور کعبہ کو جلا دیا یہاں تک کہ اسکی دیوارین منہدم ہو گئیں اور چھت گر گئی پس وہاں یزید کی موت کی خبر پہنچی …

افسوس یہ تاریخی گاربیج یا کوڑا ہے اس قول میں تاریخ کی کوئی تہذیب نہیں ہے نہ ابن قتیبہ کو سمجھ ہے کہ کیا بکواس لکھ رہے ہیں – ابن قتیبہ کی جہالت دیکھیں ابن زبیر سن ٧٣ میں مرے اور یزید سن ٦٤ میں لیکن یہ دس سالوں کو اس طرح ایک سطر میں ملا دیا ہے کہ پڑھنے والے کو لگے کہ یہ سب کام یزید نے کیا ہے

یہ تاریخی خلط ملط تاریخ طبری میں بھی ہے جس کی سند میں الکلبی اور ابو مخنف ہیں – دونوں نے یہ دس سالوں کو ملا کر اس طرح بیان کیا ہے کہ گویا ابن زبیر کا قتل یزید کے دور میں ہوا ہو
تاریخ طبری میں ہے
مسلم بن عُقْبَةَ ورمي الكعبة وإحراقها رجع الحديث إِلَى أبي مخنف قَالَ: حَتَّى إذا انتهى إِلَى المشلل- ويقال إِلَى قفا المشلل- نزل بِهِ الموت، وَذَلِكَ فِي آخر المحرم من سنة أربع وستين، فدعا حصين بن نمير السكوني فَقَالَ له: يا بن برذعة الحمار، أما وَاللَّهِ لو كَانَ هَذَا الأمر إلي مَا وليتك هَذَا الجند، ولكن أَمِير الْمُؤْمِنِينَ ولاك بعدي، وليس لأمر أَمِير الْمُؤْمِنِينَ مرد، خذ عني أربعا: أسرع السير، وعجل الوقاع، وعم الأخبار، وَلا تمكن قرشيا من أذنك ثُمَّ إنه مات، فدفن بقفا المشلل.قَالَ هِشَام بن مُحَمَّد الكلبي: وذكر عوانة أن مسلم بن عُقْبَةَ شخص يريد ابن الزُّبَيْر، حَتَّى إذا بلغ ثنية هرشا نزل بِهِ الموت، فبعث إِلَى رءوس الأجناد، فَقَالَ: إن أَمِير الْمُؤْمِنِينَ عهد إلي إن حدث بي حدث الموت أن أستخلف عَلَيْكُمْ حصين بن نمير السكوني، وَاللَّهِ لو كَانَ الأمر إلي مَا فعلت، ولكن أكره معصية أمر أَمِير الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَ الموت، ثُمَّ دعا بِهِ فَقَالَ: انظر يَا برذعة الحمار فاحفظ مَا أوصيك بِهِ، عم الأخبار، وَلا ترع سمعك قريشا أبدا، وَلا تردن أهل الشام، عن عدوهم، وَلا تقيمن إلا ثلاثا حَتَّى تناجز ابن الزُّبَيْر الفاسق، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إني لم أعمل عملا قط بعد شِهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عبده ورسوله أحب إلي من قتلي أهل الْمَدِينَة، وَلا أرجي عندي فِي الآخرة ثُمَّ قَالَ لبني مرة: زراعتي الَّتِي بحوران صدقة عَلَى مرة، وما أغلقت عَلَيْهِ فلانة بابها فهو لها- يعني أم ولده- ثُمَّ مات.ولما مات خرج حصين بن نمير بِالنَّاسِ، فقدم عَلَى ابن الزُّبَيْر مكة وَقَدْ بايعه أهلها وأهل الحجاز.

اس تاریخی گاربج کو المنتظم في تاريخ الأمم والملوك از جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597 هـ) میں بھی دہرایا گیا ہے

ابن جوزی کہتے ہیں تاریخ کے علماء کہتے ہیں
قال علماء السير [2] : لما فرغ مسلم بن عقبة من قتال أهل المدينة وإنهاب جنده أموالهم ثلاثا، شخص بمن معه من الجند متوجها نحو مكة، وخلف على المدينة روح بن زنباع الجذامي.
وقيل: خلف عمرو بن محرز الأشجعي.
فسار ابن عقبة حتى إذا انتهى إلى فقا/ المشلل [3] نزل به الموت، وذلك في آخر المحرم سنة أربع وستين، فدعا حصين بن نمير السكوني، فقال له: يا برذعة الحمار [4] ، أما لو كان هذا الأمر إلي ما وليتك هذا الجند، ولكن أمير المؤمنين ولاك بعدي، وليس لأمره مترك [5] ، أسرع المسير، ولا تؤخر ابن الزبير ثلاثا حتى تناجزه، ثم قال: اللَّهمّ إني لم أعمل عملا قط بعد شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله

علماء تاریخ کہتے ہیں کہ جب مسلم بن عقبہ اہل مدینہ کے قتال سے فارغ ہوا اور اس کی فوج نے تین دن لوٹ مار کی تو اس نے روح بن زنباع الجذامي یا خلف عمرو بن محرز الأشجعي کو مدینہ میں چھوڑا اور مسلم بن عقبہ نکلا یہاں تک کہ المشلل تک پہنچا کہ موت نازل ہوئی اور یہ محرم سن ٦٤ کا آخری دور تھا پس اس نے حصين بن نمير کو پکارا اور  کو کہا اے گدھے کو چرانے والے میں نے  اس لشکر کی ولایت تم کو نہیں  دی  بلکہ  میرے بعد یہ امیر المومنین نے تم کو دی ہے اور یہ کام نہیں چھوڑنا ہے جلدی جاؤ اور ابن زبیر  کو تین دن کی  تاخیر دینا حتی کہ وہ قبول کرے  پھر کہا اے اللہ میں نے کوئی عمل نہ کیا لیکن  لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله کی شہادت کے بعد

حاشیہ میں محقق محمد عبد القادر عطا، مصطفى عبد القادر عطا لکھتے ہیں یہ سب ابو مخنف کی سند سے آیا ہے
ورد في تاريخ الطبري 5/ 496 عن أبي مخنف

حسین رضی الله عنہ کی شہادت ٦١ ھ میں ہوئی
سن ٦٠ سے ٦٤ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کی خلافت ہے – یزید  کی سن  ٦٤ میں وفات ہوئی 
سن ٦٤ ھ معاویہ بن یزید خلافت سے دستبردار ہوئے
سن ٦٤ سے ٧٣ تک  عبد الله بن زبیر کی خلافت  حجاز میں ہے

سن ٦٤ سے ٦٥ تک مروان بن حکم کی خلافت شام میں ہے
سن ٦٥ سے ٨٦ عبد الملک بن مروان کی خلافت ہے

طبری نے ابو مخنف کی سند سے لکھا ہے کہ مسلم بن عقبہ نے مرتے وقت دعا کی
اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ أَعْمَلْ عَمَلًا قَطُّ بَعْدَ الشَّهَادَتَيْنِ
اے الله میں نے کاش یہ عمل نہیں کیا ہوتا

ابو مخنف نے اس کی سند نہیں دی نہ اس دور یعنی ٦١ ہجری میں اس نے سانس لیا

افسوس اسی سب کو ملا جلا کر ابن کثیر نے بھی البدایہ میں لکھا ہے- راقم کہتا ہے  یزید ٦٤ میں مرا اور ابن زبیر سن ٧٣ میں قتل ہوئے- دس سال کو ایک ہی سانس میں بیان کرنا اور دیگر خلفاء کا نام تک نہ لینا نہایت مغالطہ آمیز ہے – راقم کو یقین ہے کہ کسی بھی مولوی نے  جو یزید پر کلام کرے اس نے ان واقعات کا تاریخی تضاد نہیں دیکھا ہے-  صحیح یہ ہے کہ سن ٧٣ میں حجاج بن یوسف نے ابن زبیر پر حملہ کیا جس میں کعبہ جلا تھا نہ کہ یزید نے یہ حکم کیا

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا) صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ (کی عمارت )کو گرا کر (نئی )تعمیر کرنا)

3245 .

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: لَمَّا احْتَرَقَ الْبَيْتُ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، حِينَ غَزَاهَا أَهْلُ الشَّامِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ، تَرَكَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَتَّى قَدِمَ النَّاسُ الْمَوْسِمَ يُرِيدُ أَنْ يُجَرِّئَهُمْ – أَوْ يُحَرِّبَهُمْ – عَلَى أَهْلِ الشَّامِ، فَلَمَّا صَدَرَ النَّاسُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي الْكَعْبَةِ، أَنْقُضُهَا ثُمَّ أَبْنِي بِنَاءَهَا؟ أَوْ أُصْلِحُ مَا وَهَى مِنْهَا؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنِّي قَدْ فُرِقَ لِي رَأْيٌ فِيهَا، أَرَى أَنْ تُصْلِحَ مَا وَهَى مِنْهَا، وَتَدَعَ بَيْتًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهِ، وَأَحْجَارًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهَا، وَبُعِثَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: ” لَوْ كَانَ أَحَدُكُمُ احْتَرَقَ بَيْتُهُ، مَا رَضِيَ حَتَّى يُجِدَّهُ، فَكَيْفَ بَيْتُ رَبِّكُمْ؟ إِنِّي مُسْتَخِيرٌ رَبِّي ثَلَاثًا، ثُمَّ عَازِمٌ عَلَى أَمْرِي، فَلَمَّا مَضَى الثَّلَاثُ أَجْمَعَ رَأْيَهُ عَلَى أَنْ يَنْقُضَهَا، فَتَحَامَاهُ النَّاسُ أَنْ يَنْزِلَ بِأَوَّلِ النَّاسِ يَصْعَدُ فِيهِ أَمْرٌ مِنَ السَّمَاءِ، حَتَّى صَعِدَهُ رَجُلٌ، فَأَلْقَى مِنْهُ حِجَارَةً، فَلَمَّا لَمْ يَرَهُ النَّاسُ أَصَابَهُ شَيْءٌ تَتَابَعُوا فَنَقَضُوهُ حَتَّى بَلَغُوا بِهِ الْأَرْضَ، فَجَعَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَعْمِدَةً، فَسَتَّرَ عَلَيْهَا السُّتُورَ حَتَّى ارْتَفَعَ بِنَاؤُهُ، وَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: إِنِّي سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْلَا أَنَّ النَّاسَ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ، وَلَيْسَ عِنْدِي مِنَ النَّفَقَةِ مَا يُقَوِّي عَلَى بِنَائِهِ، لَكُنْتُ أَدْخَلْتُ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ خَمْسَ أَذْرُعٍ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ، وَبَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ»، قَالَ: «فَأَنَا الْيَوْمَ أَجِدُ مَا أُنْفِقُ، وَلَسْتُ أَخَافُ النَّاسَ»، قَالَ: ” فَزَادَ فِيهِ خَمْسَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ حَتَّى أَبْدَى أُسًّا نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَبَنَى عَلَيْهِ الْبِنَاءَ وَكَانَ طُولُ الْكَعْبَةِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا زَادَ فِيهِ اسْتَقْصَرَهُ، فَزَادَ فِي طُولِهِ عَشْرَ أَذْرُعٍ، وَجَعَلَ لَهُ بَابَيْنِ: أَحَدُهُمَا يُدْخَلُ مِنْهُ، وَالْآخَرُ يُخْرَجُ مِنْهُ “. فَلَمَّا قُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ كَتَبَ الْحَجَّاجُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُخْبِرُهُ بِذَلِكَ وَيُخْبِرُهُ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ قَدْ وَضَعَ الْبِنَاءَ عَلَى أُسٍّ نَظَرَ إِلَيْهِ الْعُدُولُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِكِ: إِنَّا لَسْنَا مِنْ تَلْطِيخِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي شَيْءٍ، أَمَّا مَا زَادَ فِي طُولِهِ فَأَقِرَّهُ، وَأَمَّا مَا زَادَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ فَرُدَّهُ إِلَى بِنَائِهِ، وَسُدَّ الْبَابَ الَّذِي فَتَحَهُ، فَنَقَضَهُ وَأَعَادَهُ إِلَى بِنَائِهِ

عطا ء سے روایت ہے انھوں نے کہا یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر ) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا تو اس کی جو حالت تھی سو تھی ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے (اسی حالت پر) رہنے دیا حتیٰ کہ حج کے مو سم میں لو گ (مکہ) آنے لگے وہ چا ہتے تھے کہ انھیں ہمت دلا ئیں  یا اہل شام کے خلاف جنگ پر ابھا ریں ۔۔۔جب لو گ آئے تو انھوں نے کہا اے لوگو! مجھے کعبہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے گرا کر (از سر نو ) اس کی عمارت بنا دوں یا اس کا جو حصہ بو سیدہ ہو چکا ہے صرف اس کی مرمت کرا دوں ؟ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میرے سامنے ایک رائے واضح ہو ئی ہے میری را ئے یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ کمزور ہو گیا ہے آپ اس می مرمت کرا دیں اور بیت اللہ کو (اسی طرح باقی ) رہنے دیں جس پر لو گ اسلا م لا ئے اور ان پتھروں کو (باقی چھوڑ دیں) جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو ئی ،اس پر ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر تم میں سے کسی کا اپنا گھر جل جا ئے تو وہ اس وقت تک راضی نہیں ہو تا جب تک کہ اسے نیا (نہ ) بنا لے تو تمھا رے رب کے گھر کا کیا ہو؟ میں تین دن اپنے رب سے استخارہ کروں گا پھر اپنے کام کا پختہ عزم کروں گا ۔ جب تین دن گزر گئے تو انھوں نے اپنی را ئے پختہ کر لی کہ اسے گرا دیں تو لو گ (اس ڈرسے) اس سے بچنے لگے کہ جو شخص اس (عمارت ) پر سب سے پہلے چڑھے گا اس پر آسمان سے کو ئی آفت نازل ہو جا ئے گی یہاں تک کہ ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس سے ایک پتھر گرادیا جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ نہیں ہوا تو لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (گرا نے لگے )حتیٰ کہ اسے زمین تک پہنچا دیا ۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند (عارضی) ستون بنا ئے اور پردے ان پر لٹکا دیے یہاں تک کہ اس کی عمارت بلند ہو گئی ۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے سنا بلا شبہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :” اگر لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہ ہوتا اور میرے پاس اتنا مال بھی نہیں جو اس کی تعمیر (مکمل کرنے ) میں میرا معاون ہو تو میں حطیم سے پانچ ہاتھ (زمین ) اس میں ضرور شامل کرتا اور اس کا ایک (ایسا ) دروازہ بنا تا جس سے لوگ اندر داخل ہو تے اور ایک دروازہ (ایسا بنا تا ) جس سے باہر نکلتے ۔ (ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا آج میرے پاس اتنا مال ہے جو خرچ کرسکتا ہوں اور مجھے لوگوں کا خوف بھی نہیں (عطاء نے) کہا تو انھوں نے حطیم سے پانچ ہاتھ اس میں شامل کیے (کھدا ئی کی) حتیٰ کہ انھوں نے ابرا ہیمی) بنیا د کو ظاہر کر دیا لوگوں نے بھی اسے دیکھا اس کے بعد انھوں نے اس پر عمارت بنا ئی کعبہ کا طول (اونچا ئی ) اٹھا رہ ہاتھ تھی (یہ اس طرح ہو ئی کہ ) جب انھوں نے (حطیم کی طرف سے) اس میں اضافہ کر دیا تو (پھر )انھیں (پہلی اونچا ئی ) کم محسوس ہو ئی چنانچہ انھوں نے اس کی اونچا ئی میں دس ہاتھ کا اضافہ کر دیا اور اس کے دروازے بنائے ایک میں سے اندر دا خلہ ہو تا تھا اور دوسرے سے باہر نکلا جا تا تھا جب ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل کر دیے گئے تو حجاج نے عبد الملک بن مروان کو اطلا ع دیتے ہو ئے خط لکھا اور اسے خبر دی کہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تعمیر اس (ابرا ہیمی) بنیا دوں پر استورکی جسے اہل مکہ کے معتبر (عدول) لوگوں نے (خود) دیکھا عبد الملک نے اسے لکھا ۔ہمارا ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ردو بدل سے کو ئی تعلق نہیں البتہ انھوں نے اس کی اونچائی میں جو اضافہ کیا ہے اسے بر قرار رہنے دو اور جو انھوں نے حطیم کی طرف سے اس میں اضافہ کیا ہے اسے (ختم کر کے ) اس کی سابقہ بنیا د پر لوٹا دو اور اس دروازے کو بند کر دو جو انھوں نے کھو لا ہے چنانچہ اس نے اسے گرادیا اس کی (پچھلی ) بنیاد پر لو ٹا دیا ۔

 سند ہے
حَدَّثَنا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ 
اس کو صرف اس سند سے امام مسلم نے بیان کیا ہے کوئی اور نقل نہیں کرتا

 یہ روایت تاریخا کچھ صحیح کچھ غلط ہے

غلط اس روایت کا شروع کا حصہ ہے “ یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر ) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا ” -صحیح  یہ ہے کہ کعبه ابن زبیر کی موت پر جلا جب اس میں   ابن زبیر  کے ساتھ چالیس پچاس  لوگ   داخل ہوئے اور کعبہ کو اندر سے بند کر لیا – شامی لشکر نے اس پر  جوابا حملہ کیا اور کعبہ پر پتھر برسائے جس سے اس کی چھت منہدم ہو گئی اور اگ بھڑک گئی- اس میں کعبہ کا کسوہ جل گیا- حیرت ہے کہ شارحین میں کسی نے اس جملہ ” یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر ) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا ” کی شرح نہیں کی
باقی حصہ صحیح ہے کہ ابن زبیر نے اس کو تعمیر کیا لیکن اس مخصوص روایت میں تقدیم و تاخیر ہے جس سے تاریخ سے  تضاد جنم لیتا ہے- یہ روایت ان وجوہات کی بنا پر قابل رد و معلول ہے

تاریخ ابو زرعہ دمشقی میں ہے

وَكَانَتِ الْحَرَّةُ يَوْمَ الْأَرْبَعَاءِ لِلَيْلَتَيْنِ بَقِيَتَا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ.

حرہ کا واقعہ بدھ ، سن ٦٣ ہجری میں ذو الحجہ کی آخری چند راتوں میں ہوا

تعجيل المنفعة میں ہے
کعبہ کو ابن زبیر کے دور میں جمادى الآخرة ٦٤ ھ میں گرایا گیا اور دوبارہ بنایا گیا جس میں حطیم کو اس میں شامل کر دیا گیا اس کے بعد مخالفین نے ابن زبیر کو قتل کرنے کے لئے کعبہ پر پتھر برسائے کیونکہ ابن زبیر نے اپنے اپ کو اس میں بند کر لیا تھا کعبہ ٹوٹا اور دوبارہ تعمیر ہوا (تعجيل المنفعة صـ453) جس میں حطیم کو واپس نکال دیا گیا

اس سے معلوم ہوا کہ واقعہ حرہ (سن ٦٣ ہجری) کے بعد سن ٦٤ ھ کے حج سے پہلے پہلے کعبه کی مستطیل نما تعمیر کی گئی

شہادت حسین کی خبریں

 شہادت حسین کی خبریں جرح و تعدیل کے میزان میں

حسین رضی الله عنہ کی شہادت یزید بن معاویہ کے دور میں ہوئی جو خلافت کا قضیہ تھا – حسین اپنی خلافت کوفہ میں قائم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ سپورٹ حاصل نہ کر پائے جو ان کی خلافت کو برقرار بھی رکھ سکے – لہذا انہوں نے اغلبا آخری لمحات میں خلافت کے ارادے کو ترک کیا اور اپنے قافلے کا رخ کوفہ کی بجائے شمال کی طرف موڑ دیا – یہاں تک کہ کوفہ سے ٤٠ میل دور کربلا پہنچ گئے اور یہیں شہید ہوئے جس پر امت ابھی تک غمگین ہے

قاتلین حسین پر الله کی مار ہو

أهل سنت کہتے ہیں خلیفہ کے خلاف خروج کرنا حرام ہے- ہر خروج کا مطلب قتال بالسیف ہے

خروج و فساد کی حد قرآن میں موجود ہے

اِنَّمَا جَزَآءُ الَّـذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَيَسْعَوْنَ فِى الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوٓا اَوْ يُصَلَّبُـوٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْـهِـمْ وَاَرْجُلُـهُـمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۚ ذٰلِكَ لَـهُـمْ خِزْىٌ فِى الـدُّنْيَا ۖ وَلَـهُـمْ فِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْـمٌ (33)
ان کی یہی سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے ہیں یہ کہ انہیں قتل کیا جائے یا وہ سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت ان کے لیے دنیا میں ہے، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

یہ فساد برپا کرنے کی سزا ہے وہ جو خروج کرے اس کے ساتھ یہی کیا گیا اب چاہے کوئی بھی ہو

بنو امیہ اور بنو عباس نے اسی حد کو جاری کیا ہے ہر خروج کرنے والے کا قتل ہوا ہے ان کو قتل یا سولی دی گئی ہے
معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجر بن عدی پر خارجی کی حد جاری کی ہے اس کو قتل کیا ہے

اسی آیت کے تحت علی نے بھی اپنی خلافت میں ایک شخص کو سولی دی اور ائمہ اہل تشیع کے مطابق حاکم  اس کے تحت  الگ الگ حکم کر سکتا ہے

قال: ذلك إلى الامام إن شاء قطع وإن شاء صلب وإن شاء نفى وإن شاء قتل، قلت: النفي إلى أين؟ قال: ينفى من مصر إلى مصر آخر، وقال: إن عليا عليه السلام نفى رجلين من الكوفة إلى البصرة.

الکافی از کلینی باب حد المحارب

جب خلیفہ کی بیعت لی جا چکی ہو اور اس پر ٦ ماہ بھی گزر چکے ہوں تو خروج پھر وہ خروج ہے جس میں حد لگ جائے گی
حسین نے ٦ ماہ کے بعد خروج کیا ہے

افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سب حسین کے ساتھ ہوا انہوں نے اپنی طاقت و عصبیت کے غلط اندازے لگائے اور پھنس گئے

ابن عباس حبر امت کو اس کا اندازا تھا کہ حسین کا اقدام کس قدر غیر سنجیدہ ہے

– المعجم الكبير از طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اسْتَأْذَنَنِي حُسَيْنٌ فِي الْخُرُوجِ، فَقُلْتُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي أَوْ بِكَ لَشَبَكْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ. قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ أَنْ قَالَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي حَرَمُ اللهِ وَرَسُولِهِ» . قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ
(الطبرانی کبیر رقم2859 )
طَاوُسٍ، ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسین نے مجھ سے خروج پر اجازت مانگی میں نے کہا اگر یہ نہ ہوتا کہ میں تمہارا استهزأ کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سر (کے بالوں) کو پکڑتا (یعنی زبردستی روکتا ) – حسین نے کہا تو (گویا) اپ نے اس (امر خلافت) سے مجھ کو دور کیا – اگر میں اس اور اس جگہ قتل ہو جاؤں تو یہ مجھے محبوب ہے کہ میں اس کو حلال کروں جس کو اللہ اور رسول نے حرام کیا ہے – ابن عباس نے کہا تو یہ تو پھر تم نے خود ہی ان کو پیچھے لگوایا
تاریخ الاسلام از الذھبی کے محقق عمر عبد السلام التدمري کہتے ہیں أخرجه الطبراني (2782) رقم (2859) ورجاله ثقات، وهم رجال الصحيح.

اسی جیسی روایت اخبار مکہ الفاکھی کی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: اسْتَشَارَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقُلْتُ لَهُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي وَبِكَ لَنَشَبْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ، قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ بِأَنْ قَالَ: ” لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي مَكَّةُ “، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: فَذَاكَ الَّذِي سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ ثُمَّ حَلَفَ طَاوُسٌ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ تَعْظِيمًا لِلْمَحَارِمِ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ لَبَكَيْتُ
ابن عبّاس رضی الله عنہ نے کہا حسین نے مجھے عراق کی طرف اپنے خروج پر اشارہ دیا – میں نے کہا اگر ایسا نہ ہو کہ میں کم تر کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارا سر پکڑتا – حسین نے جواب میں کہا: اگر میں وہاں یا وہاں قتل ہو جاؤں تو یہ مجھ کو اس سے محبوب ہے کہ میں مکہ کو حلال کر دوں- ابن عباس نے کہا تم نے پھر تم نے خود ہی ان کو پیچھے لگوایا – طاوس نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ ابن عباس سے بڑھ کر رشتہ داروں کی تعظیم کوئی کرتا ہو اور اگر میں چاہوں تو اس پر ہی روؤں

ان روایات میں سلی ہے جو عربی میں کھال اتارنے یا غلاف اتارنے پر بولا جاتا ہے – لسان عرب ج ١٤ ص ٣٦٩ میں ہے السَّلَى سَلى الشاةِ – بکری کی کھال اتاری جائے – سلّى نفسه کا مطلب اپنے اپ کو مشغول کرنا بھی ہو سکتا ہے- اس طرح سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ کا مطلب ہو گا ان کو اپنے آپ میں مشغول کروایا یہ اردو میں کہہ لیں ان کو اپنے پیچھے لگوایا – یعنی اہل بیت کے بڑوں نے بھی حسین رضی الله عنہ کو سمجھایا

البدایہ و النہایہ از ابن کثیر اور تاريخ دمشق از ابن عساکر میں ایک روایت ہے جس میں ہے حسین نے ابن عباس سے اس کلام کے بعد کہا
إنّك شيخ قد كبُرتَ (مختصر تاريخ دمشق ، لابن منظور . (7 /142
بے شک ابن عباس تم اب بوڑھے ہو چکے ہو

یعنی حسین سوچ سمجھ کر نکلے اور واپس انے کا کوئی پلان نہ تھا اس لئے سب گھر والوں کو لے کر چلے گئے

 حسین اقتدار چاہتے تھے اسلام میں یہ کوئی برائی نہیں ہے – لیکن ٹیکنیکل غلطی ہے جب  موقعہ گزر جائے تو خلافت کا دعوی نہیں کیا جاتا

حسین اقتدار حاصل نہ کر سکے اسی لئے  ابن سبا  کے پیرو کاروں نے رجعت کا عقیدہ دیا کہ جو ابھی  مر گئے وہ  مستقبل زندہ ہوں گے واپس آئیں  گے بقول شاعر

حسین کو زندہ تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

ہم تک جو خبریں آئیں ہیں ان کو جرح و تعدیل کے میزان میں پرکھنا ضروری ہے

امت نواسوں کو قتل کرے گی

مسند احمد ج ١ ص ٨٥ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَارَ مَعَ عَلِيٍّ، وَكَانَ صَاحِبَ مِطْهَرَتِهِ، فَلَمَّا حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ، فَنَادَى عَلِيٌّ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، بِشَطِّ الْفُرَاتِ قُلْتُ: وَمَاذَا قَالَ؟، دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَغْضَبَكَ أَحَدٌ، مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ؟ قَالَ: «بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ» قَالَ: فَقَالَ: «هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ أُشِمَّكَ مِنْ تُرْبَتِهِ؟» قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. فَمَدَّ يَدَهُ، فَقَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ فَأَعْطَانِيهَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا

علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے آپ کو ناراض کردیا ہے ؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بلکہ میرے پاس ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا۔

سند میں عَبْدِ الله بْنِ نُجَيٍّ ہے جس کے امام بخاری فیہ نظر کہتے ہیں

اسی الفاظ سے ابن عدی کہتے ہیں من الحديث وأخباره فيها نظر اپنی حدیث اور خبر میں

فیہ نظر ہے

فیہ نظر محدثین جرح کے لئے بولتے ہیں

ایک رافضی لکھتے ہیں

جہاں تک یہ کہنا کہ فیہ نظر جرح کے لیے استعمال ہوتی ہے یہ بھی یاد رکھیں کہ جرح اگر مفسر نہ ہو، تو تعدیل کو اہمیت دی جاتی ہے یعنی آپ صرف کسی کو ضعیف بھی کہہ دیں،تو فائدہ تب ہی دے گا جب آپ وجہ بھی بیان کریں کہ کیوں ضعیف ہے۔ آیا حافظہ ٹھیک نہیں، جھوٹ بولتا ہےآخر وجہ کیا ہے اسے جرح مفسر کہتے ہیں

دیکھتے ہیں کہ کیا فیہ نظر کو جرح غیر مفسر کہا جاتا ہے

السیوطی کتاب تدريب الراوي میں وضاحت کرتے ہیں

تنبيهات الأول البخاري يطلق فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه

پہلی تنبیہ بخاری اگرکسی راوی پر فیه نظر کا اطلاق کریں اور سكتوا عنه کہیں تو مراد حدیث ترک کرنا ہے

کتاب التنكيل از الشيخ المعلمي کے مطابق

وكلمة فيه نظر معدودة من أشد الجرح في اصطلاح البخاري

اور کلمہ فیہ نظر بخاری کی شدید جرح کی چند اصطلاح میں سے ہے

اللكنوي کتاب الرفع والتكميل في الجرح والتعديل میں اس پر کہتے ہیں

فيه نظر: يدل على أنه متهم عنده ولا كذلك عند غيره

فیہ نظر دلالت کرتا ہے کہ راوی بخاری کے نزدیک متہم ہے اور دوسروں کے نزدیک ایسا نہیں

رافضی کہتے ہیں إس کو فلاں اہل سنت کے امام نے ثقہ کہا ہے! سوال ہے کیا اہل تشیع علماء میں راویوں پر اختلاف نہیں ہے اگر کوئی مجروح ہے تو کیا سب کے نزدیک مجروح ہے؟ یا ثقہ ہے تو کیا سب کے نزدیک ثقہ ہے؟

رافضی لکھتے ہیں

علامہ شوکانی نے اپنی کتاب در السحابہ، ص 297 پر لکھا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں

شوکانی ایک وقت تھا جب زیدیہ سے تعلق رکھتے تھے اسی دور میں انہوں نے در السحابہ لکھی تھی

البانی الصحیحہ میں لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد ضعيف، نجي والد عبد الله لا يدرى من هو كما قال الذهبي ولم
يوثقه غير ابن حبان وابنه أشهر منه، فمن صحح هذا الإسناد فقد وهم.

میں کہتا ہوں اس کی اسناد ضعیف ہیں نجی والد عبد الله کا پتا نہیں کون ہے جیسا کہ الذھبی نے کہا ہے اور اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے اور اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشھور ہے اور جس کسی نے بھی اس کی تصحیح کی اس کو اس پر وہم ہے

البانی اس کے بعد اس کی چھ اسناد دیتے ہیں اور ان پر جرح کرتے ہیں اور آخر میں اس روایت کوصحیح (لغیرہ) بھی کہہ دیتے ہیں

کتاب أعيان الشيعة – السيد محسن الأمين – ج 4 – ص ٥٣ پر ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے شیعہ عالم محسن آمین لکھتے ہیں

قلت إنما رواه عن علي رجل مجهول يقال له عبد الله بن نجي

،میں کہتا ہوں اس کو علی سے ایک مجھول شخص نے روایت کیا ہے جس کو عبد الله بن نجی کہا جاتا ہے

محسن امین کی بات صحیح ہے کہ اہل تشیع کے ہاں یہ مجھول ہے اس کا ترجمہ تک معجم رجال الحديث از الخوئی میں نہیں

تاریخ دمشق ابن عساکر کی ایک اور روایت ہے

أخبرنا أبو بكر محمد بن الحسين نا أبو الحسين بن المهتدي أنا أبو الحسن علي بن عمر الحربي نا أحمد بن الحسن بن عبد الجبار نا عبد الرحمن يعني ابن صالح الأزدي نا أبو بكر بن عياش عن موسى بن عقبة عن داود قال قالت أم سلمة دخل الحسين على رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ففزع فقالت أم سلمة ما لك يا رسول الله قال إن جبريل أخبرني أن ابني هذا يقتل وأنه اشتد غضب الله على من يقتله

ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی

اس کی سند میں موسى بن عقبة ہے جو ثقہ ہیں لیکن مدلس. داود مجھول ہے جس سے یہ روایت نقل کر رہے ہیں

معجم الکبیر طبرانی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْحِمَّانِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا ذَاتَ يَوْمٍ فِي بَيْتِي، فَقَالَ: «لَا يَدْخُلْ عَلَيَّ أَحَدٌ» . فَانْتَظَرْتُ فَدَخَلَ الْحُسَيْنُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَسَمِعْتُ نَشِيجَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي، فَاطَّلَعْتُ فَإِذَا حُسَيْنٌ فِي حِجْرِهِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَهُوَ يَبْكِي، فَقُلْتُ: وَاللهِ مَا عَلِمْتُ حِينَ دَخَلَ، فَقَالَ: ” إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ مَعَنَا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: تُحِبُّهُ؟ قُلْتُ: أَمَّا مِنَ الدُّنْيَا فَنَعَمْ. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُ هَذَا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا كَرْبَلَاءُ “. فَتَنَاوَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ تُرْبَتِهَا، فَأَرَاهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُحِيطَ بِحُسَينٍ حِينَ قُتِلَ، قَالَ: مَا اسْمُ هَذِهِ الْأَرْضِ؟ قَالُوا: كَرْبَلَاءُ. قَالَ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، أَرْضُ كَرْبٍ وَبَلَاءٍ

جبریل نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کربلا کی مٹی دکھائی اور اس کو کرب و بلا کی زمیں کہا

اس کی سند میں عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَب ہے جو مجھول ہے

خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پریشانی میں دیکھنا 

مسند احمد کی روایت ہے

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں

اسکی سند کا راوی عمار بن أبي عمار مولى بني هاشم مختلف فیہ ہے کتاب اکمال مغلطائی میں ہے

وقال البخاري: أكثر من روى عنه أهل البصرة…و لا یتابع علیہ

ابن حبان مشاہیر میں کہتے ہیں

وكان يهم في الشئ بعد الشئ

اسکو بات بے بات وہم ہوتا ہے

ابو داود کہتے ہیں شعبہ نے اس سے روایت لی لیکن کہا

وكان لا يصحح لي

میرے نزدیک صحیح نہیں

یحیی بن سعید کہتے ہیں شعبہ نے صرف ایک روایت اس سے لی

امام مسلم نےاس سےصرف ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم مکہ میں کتنے عرصے رہے

ام المومنین نے جنوں کا نوحہ سنا

طبرانی روایت کرتے ہیں کہ عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ کہتا ہے کہ

حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ: عَنْ عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ؛ سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ سَمِعْتُ الجِنَّ يَبكِيْنَ عَلَى حُسَيْنٍ، وَتَنُوحُ عَلَيْهِ

عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ نے کہا: میں نے ام سلمہ کو کہتے  سنا انہوں نے کہا  میں نے ایک جن کو سنا جو حسین پر رو رہے تھا اور  نوحہ کر رہا تھا

جبکہ ام سلمہ تو حسین کی شہادت سے پہلے وفات پا چکی ہیں

خود عمار کی ایک روایت جو صحیح مسلم میں ہے اس پر روافض جرح کرتے ہیں کہ اس میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم مکہ میں ١٥ سال رہے اور ان میں آٹھ سال تک کسی کو نہ دیکھا صرف روشنی دیکھتے رہے

جب صحیحین پر جرح کرنی ہوتی ہے تو روافض خود عمار بن ابی عمار کی روایت پیش کر دیتے ہیں اور جب وہ جنات کی خبریں دیتا ہے تو قبول کرتے ہیں

آسمان سے خون کی بارش ہونا

الأمالي – الشيخ الطوسي – ص 330
أخبرنا ابن خشيش ، قال : أخبرنا الحسين بن الحسن ، قال : حدثنا محمد بن دليل ، قال : حدثنا علي بن سهل ، قال : حدثنا مؤمل ، عن حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار ، قال : أمطرت السماء يوم قتل الحسين ( عليه السلام ) دما عبيط

شیخ الطوسی روایت کرتے ہیں کہ عمار بن ابی عمار کہتا ہے کہ قتل حسین کے دن آسمان سے تازہ خون کی بارش ہوئی

خون کی بارش کا ذکر اہل سنت کی صحاح ستہ کی کسی کتاب میں نہیں ہے عمار بن ابی عمار کی یہ قصہ گوئی ہے

عمار بن ابی عمار تو مدینہ میں تھا خون کی بارش ساری دنیا میں ہوئی؟ کہاں کہاں ہوئی؟ کس کس نے بیان کیا

مدینہ کا کوئی اور شخص اس کو نقل نہیں کرتا اگر کوفہ میں ہوئی تو اس کا فائدہ اس سے تو تمام شواہد مٹ گئے کس نے قتل کیا خون جب ہر طرف ہو گا تو مقتل کا نشان باقی نہ رہا

اتنا اہم ماحولیاتی تغیر اور اس خون سے جو فقہی مسائل پیدا ہوئے اور پینے کا پانی قابل استمعال نہ رہا اس پر کتب خاموش ہیں

لیکن لوگوں کو قصے پسند ہیں سن رہے ہیں اور قبول کر رہے ہیں

امت نے  کر بلا پر قتل کیا جیسا خبر تھی 

تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے

أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو عمر محمد بن العباس أنا أبو الحسن أحمد بن معروف أنا الحسين بن الفهم أنا محمد بن سعد أنا محمد بن عبد الله الأنصاري نا قرة بن خالد أخبرني عامر بن عبد الواحد عن شهر بن حوشب قال أنا لعند أم سلمة زوج النبي (صلى الله عليه وسلم) قال فسمعنا صارخة فأقبلت حتى انتهيت إلى أم سلمة فقالت قتل الحسين قالت قد فعلوها ملأ الله بيوتهم أو قبورهم عليهم نارا ووقعت مغشيا عليها وقمنا

شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے پاس موجود تھا۔ میں نے حسین کی شہادت کی خبر سنی تو ام سلمہ کو بتایا ۔(کہ سیدنا حسینؓ شہید ہوگئے ہیں) انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے یہ کام کردیاہے، اللہ ان کے گھروں یا قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ اور وہ (غم کی شدت سے ) بیہوش ہوگئی

سند میں شہر بن حوشب ہے اس پر بحث آ رہی ہے

تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے

أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي إملاء ح

وأخبرنا أبو نصر بن رضوان وأبو غالب أحمد بن الحسن وأبو محمد عبد الله بن محمد قالوا أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو بكر بن مالك أنا إبراهيم بن عبد الله نا حجاج نا حماد عن أبان عن شهر بن حوشب عن أم سلمة قالت كان جبريل عند النبي (صلى الله عليه وسلم) والحسين معي فبكى فتركته فدنا من النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال جبريل أتحبه يا محمد فقال نعم قال جبرائيل إن أمتك ستقتله وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها فأراه إياه فإذا الأرض يقال لها كربلا

شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا

ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے

النَّسَائِيُّ اپنی کتاب الضعفاء والمتروكون میں کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں .

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.

أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے .

يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ کہتے ہیں.

عَبْدِ اللهِ بنِ عَوْنٍ، قَالَ: إِنَّ شَهْراً تَرَكُوْهُ اس کو متروک کہتے ہیں

الذھبی کہتے ہیں اس کی حدیث حسن ہے اگر متن صحیح ہو اور اگر متن صحیح نہ ہو تو اس سے دور رہا جائے کیونکہ یہ ایک احمق مغرور تھا

الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں اس پر لکھتے ہیں

قُلْتُ: مَنْ فَعَلَهُ لِيُعِزَّ الدِّيْنَ، وَيُرْغِمَ المُنَافِقِيْنَ، وَيَتَوَاضَعَ مَعَ ذَلِكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ، وَيَحْمَدَ رَبَّ العَالِمِيْنَ، فَحَسَنٌ، وَمَنْ فَعَلَهُ بَذْخاً وَتِيْهاً وَفَخْراً، أَذَلَّهُ اللهُ وَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَإِنْ عُوْتِبَ وَوُعِظِ، فَكَابَرَ، وَادَّعَى أَنَّهُ لَيْسَ بِمُخْتَالٍ وَلاَ تَيَّاهٍ، فَأَعْرِضْ عَنْهُ، فَإِنَّهُ أَحْمَقٌ مَغْرُوْرٌ بِنَفْسِهِ.

اس سے سنن اربعا اور مسلم نے مقرونا روایت لی ہے

کتاب رجال صحیح مسلم از ابن مَنْجُويَه (المتوفى: 428هـ) کے مطابق

مسلم نے صرف ایک روایت کہ کھمبی ، من میں سے ہے لی ہے

طبرانی الکبیر میں قول ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ فِيمَنْ قَتَلَ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ، ثُمَّ غُفِرَ لِي، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَمُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْظُرَ فِي وَجْهِي

ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا:اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنہوں نے حسین بن علی کو قتل (شہید) کیا، پھر میری مغفرت کردی جاتی ، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گزرنے سے شرم کرتا کہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں۔

اس کی سند میں مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ ہے – الأزدي اس کو منكر الحديث کہتے ہیں ابن حجر صدوق کہتے ہیں

اسکی سند میں سعيد بن خثيم بن رشد الهلالى ہے جس ابن حجر ، صدوق رمى بالتشيع له أغاليط شیعیت میں مبتلا اور غلطیوں سے پر ہے ، کہتے ہیں

سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ، أَبُو مَعْمَرٍ الْهِلالِيُّ الْكُوفِيّ اور اس کے استاد خالد دونوں کوالازدی نے منکر الحدیث کہا ہے
دیکھئے ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين از الذھبی

راویوں کا ہر قول نہیں لیا جاتا یہی وجہ ہے ابن عدی کہتے ہیں
سعيد بن خثيم الهلالي: قال الأزدي: منكر الحديث، وقال ابن عدي: مقدار ما يرويه غير محفوظ.
بہت کچھ جو سعید روایت کرتا ہے غیر محفوظ ہے

سند میں محمد بن عثمان بن أبي شيبة بھی ہے جس کو کذاب تک کہا گیا ہے دیکھئے میزان الاعتدال
از الذھبی
عبد الله بن أحمد بن حنبل فقال: كذاب.
وقال ابن خراش: كان يضع الحديث.
وقال مطين: هو عصا موسى تلقف ما يأفكون.
وقال الدارقطني: يقال إنه أخذ كتاب غير محدث

بحر الحال اس روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ ابراہیم کا قول ہے کوئی حدیث رسول نہیں ہے، ان کا قتل حسین سے کوئی تعلق نہ تھا

مشخیۃ ابراہیم بن طہمان کی روایت ہے

عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِيَ فَقَالَ: «لَا يَدْخُلُ عَلَيَّ أَحَدٌ فَسَمِعْتُ صَوْتًا، فَدَخَلْتُ، فَإِذَا عِنْدَهُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ وَإِذَا هُوَ حَزِينٌ، أَوْ قَالَتْ: يَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا لَكَ تَبْكِي يَا رَسُولَ ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي جِبْرِيلُ أَنَّ أُمَّتِي تَقْتُلُ هَذَا بَعْدِي فَقُلْتُ وَمَنْ يَقْتُلُهُ؟ فَتَنَاوَلَ مَدَرَةً، فَقَالَ:» أَهْلُ هَذِهِ الْمَدَرَةِ تَقْتُلُهُ “

ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس حسین بن علی موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی

سند میں عَبد الرحمن بن إسحاق (عَبد الرحمن بن إسحاق، وَهو عباد بن إسحاق وعباد لقب مديني) ہے جس کے لئے کتاب الكامل في ضعفاء الرجال کے ابن عدی مطابق

يَحْيى بن سَعِيد، قالَ: سَألتُ عن عَبد الرحمن بن إسحاق بالمدينة فلم أرهم يحمدونه.

یحیی بن سعید کہتے ہیں عبد الرحمان بن اسحاق کے بارے میں اہل مدینہ سے سوال کیا لیکن ایسا کوئی نہ تھا جو اس کی تعریف کرے

طبقات ابن سعد کے محقق محمد بن صامل السلمي جو مكتبة الصديق – الطائف اس روایت کے لئے کہتے ہیں

إسناده ضعيف.

معرفة الصحابة از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ حَسَّانَ، ثنا عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «اسْتَأْذَنَ مَلَكُ الْقَطْرِ أَنْ يَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُذِنَ لَهُ فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَةَ» احْفَظِي عَلَيْنَا الْبَابَ، لَا يَدْخُلَنَّ أَحَدٌ ” قَالَ: فَجَاءَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، فَوَثَبَ حَتَّى دَخَلَ، فَجَعَلَ يَقْعُدُ عَلَى مَنْكِبَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ الْمَلَكُ: أَتُحِبُّهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ» قَالَ: فَإِنَّ فِي أُمَّتِكَ مَنْ يَقْتُلُهُ، وَإِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ الْمَكَانَ الَّذِي يُقْتَلُ فِيهِ، قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ، فَأَرَاهُ تُرَابًا أَحْمَرَ، فَأَخَذَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ، فَصَرَّتْهُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهَا، قَالَ: كُنَّا نَسْمَعُ أَنَّهُ يُقْتَلُ بِكَرْبَلَاءَ

عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ کہتا ہے ہم سے ثابت نے بیان کیا وہ کہتے ہیں ان سے انس بن مالک رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ بارش کے فرشتے نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس انے کی اجازت مانگی پس اس کو اجازت دی اس نے ام سلمہ سے کہا کہ دروازہ کی حفاظت کریں کہ کوئی داخل نہ ہو پس حسین آ گئے اور اندر داخل ہوئے اور رسول الله کے شانے پر بیٹھ بھی گئے تو فرشتہ بولا کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں رسول الله نے کہا ہاں فرشتہ بولا اپ کی امت میں سے کچھ اس کا قتل کر دیں گے اور اگر آپ چاہیں تو اس مکان کو دکھا دوں جہاں یہ قتل ہونگے اس نے ہاتھ پر ضرب لگائی اور سرخ مٹی آپ نے دیکھی جس کو ام سلمہ نے سمیٹ کر اپنے کپڑے میں رکھا کہا ہم سنتے تھے کہ یہ کربلا میں قتل ہونگے

سند میں عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ ہے جس کو محدثین ضعیف کہتے ہیں الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

قال البخاري: ربما يضطرب في حديثه.
وقال أحمد: له مناكير.
وقال أبو حاتم: يكتب حديثه ولا يحتج به.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال أبو داود: ليس بذاك.
وقال أبو زرعة: لا بأس به.

البانی نے بھی اس کی روایت کو ضعیف کہا ہے مثلا ایک دوسری روایت پر الصحیحہ ج 5 ص ١٦٦ میں لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد ضعيف
، عمارة بن زاذان صدوق سيء الحفظ

میں کہتا ہوں اس کی اسناد ضعیف ہیں اس میں عمارة بن زاذان ہے جو صدوق برے حافظہ والا ہے

اس مخصوص کربلا والی روایت کو البانی الصحیحہ میں ذکر کرتے ہیں

قلت: ورجاله ثقات غير عمارة هذا قال الحافظ: ” صدوق كثير الخطأ “. وقال
الهيثمي: ” رواه أحمد وأبو يعلى والبزار والطبراني بأسانيد وفيها عمارة بن
زاذان وثقه جماعة وفيه ضعف وبقية رجال أبي يعلى رجال الصحيح “.

میں کہتا ہوں اس کے رجال ثقہ ہیں سوائے عمارہ کے ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہے غلطیاں کرتاہے اور ہیثمی کہتے ہیں اس کو امام احمد ابو یعلی البزار اور الطبرانی نے جن اسانید سے روایت کیا ہے ان میں عمارہ ہے جن کو ایک جماعت نے ثقہ کہا ہے اور اس میں کمزوری ہے اور باقی رجال ابی یعلی کے رجال ہیں

البانی مبہم انداز میں اس کو رد کر رہے ہیں لیکن التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں کھل کراس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیں

صحيح لغيره

جبکہ دوسری تمام روایات کا ضعیف ہونا اوپر واضح کیا گیا ہے لہذا یہ صحیح الغیرہ نہیں ضعیف ہے

ام سلمہ رضي الله عنہا کي اوپر دي تمام احاديث ضعيف ہيں کيونکہ ان کي وفات حسين کي شہادت سے پہلے ہو گئي تھي
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَزِينٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعْنِي فِي المَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ ، قَالَ: “شَهِدْتُ قَتْلَ الحُسَيْنِ آنِفًا” هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

سلمی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے . کا سر اور ریش مبارک گرد آلود تھی.میں نے عرض کی ، یارسول ،آپ کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ رسول الله نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسین کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

ترمذی اور مستدرک الحاکم میں یہ روایت نقل ہوئی ہے

اس کی سند میں سَلْمَى الْبَكْرِيَّةِ ہیں

تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں مبارکپوری لکھتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ لِجَهَالَةِ سَلْمَى

سَلْمَى کے مجھول ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے

کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق

وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ

اور ام سلمہ کی وفات ٥٩ ھ میں ہوئی

تاریخ کے مطابق حسین کی شہادت سن ٦١ ہجری میں ہوئی

ام سلمہ رضی الله عنہا کی وفات

ایک رافضی لکھتے ہیں

اب مستند روایات تو یہ کہہ رہی ہے کہ بی بی ام سلمہ اس وقت موجود تھیں، اور یہ ناصبی یہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ جناب وہ تو پہلے انتقال کر چکی تھیں

ڈھول ہم ہی نہیں شیعان بھی پیٹ رہے ہیں دیکھیں اور وجد میں آئیں

المعارف از ابن قتیبہ کے مطابق

وتوفيت «أم سلمة» سنة تسع وخمسين، بعد «عائشة» بسنة وأيام.

ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں عائشہ کے ایک سال بعد یا کچھ دن بعد وفات ہوئی

کتاب جمل من أنساب الأشراف از أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ) کے مطابق
وتوفيت أم سلمة فِي شوال سنة تسع وخمسين، ودفنت بالبقيع
ام سلمہ کی وفات شوال ٥٩ ھ میں ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئیں

طبقات ابن سعد کے مطابق واقدی کہتا ہے ام سلمہ رضی الله عنہا کی وفات ٥٩ ھ ہے
طبقات ابن سعد ” 4 / 340، 341

ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی جو خود حسین سے پہلے انتقال کر گئے

ابن قتیبہ واقدی اور البَلَاذُري کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کا میلان شیعیت کی طرف تھا حسن اتفاق ہے ان سب کا ام سلمہ کی وفات پر اجماع ہے کہ وہ ٥٩ ھ میں حسین سے پہلے وفات پا چکی ہیں

کتاب تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير از ابن جوزی کے مطابق
فَتزَوج رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أم سَلمَة فِي لَيَال بَقينَ من شَوَّال سنة أَربع وَتوفيت سنة تسع وَخمسين وَقيل سنة ثِنْتَيْنِ وَسِتِّينَ وَالْأول أصح

پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا سن 4 ھ میں شوال میں کچھ راتیں کم اور ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی اور کہا جاتا ہے سن ٦٢ ھ میں اور پہلا قول صحیح ہے

ابن حبان ثقات میں کہتے ہیں
وَمَاتَتْ أم سَلمَة سنة تسع وَخمسين
ام سلمہ ٥٩ ھ میں وفات ہوئی

الباجی کہتے ہیں کتاب التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح
توفيت فِي شَوَّال سنة تسع وَخمسين فصلى عَلَيْهَا أَبُو هُرَيْرَ

ان کی وفات شوال سن ٥٩ ھ میں ہوئی ابو ہریرہ نے نماز پڑھائی

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

وَقَالَ بَعْضُهُمْ: تُوُفِّيَتْ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ، وَهُوَ غَلَطٌ، لِأَنَّ فِي «صَحِيحِ مُسْلِمٍ» أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ صَفْوَانَ دَخَلَ عَلَيْهَا فِي خِلافَةِ يَزِيدَ
اور بعض نے کہا ان کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی اور یہ غلط ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ عبد الله بن صفوان ان کے پاس داخل ہوا یزید کی خلافت کے دور میں

اسی کتاب میں [حَوَادِثُ] سَنَة تسع وخمسين میں الذھبی لکھتے ہیں
وَيُقَالُ: توفيت فِيهَا أم سلمة، وتأتي سَنَة إحدى وستين
اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ام سلمہ کی وفات ہوئی اور آگے آئے گا کہ سن ٦١ ھ میں ہوئی

یہ الذھبی کی غلطی ہے صحیح مسلم کی معلول روایت میں ہے کہ راویوں نے ان سے ابن زبیر کے دور میں پوچھا جو ٦٤ ھ سے شروع ہوتا ہے

ابن اثیر الکامل میں لکھتے ہیں
وَمَاتَتْ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ، وَقِيلَ: بَعْدَ قَتْلِ الْحُسَيْنِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
اور ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی اور کہا جاتا ہے حسین کے قتل کے بعد ہوئی

ابن کثیر البداية والنهاية میں لکھتے ہیں
وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فِي ذِي الْقِعْدَةِ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ
البیہقی نے روایت کیا ہے کہ ام سلمہ کی وفات ذیقعدہ سن ٥٩ ھ میں ہوئی
اسی کتاب میں ابن کثیر لکھتے ہیں
قَالَ الْوَاقِدِيُّ: تُوُفِّيَتْ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ وَصَلَّى عَلَيْهَا أَبُو هُرَيْرَةَ.
وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ: تُوُفِّيَتْ فِي أيَّام يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ.
قُلْتُ: وَالْأَحَادِيثُ الْمُتَقَدِّمَةُ فِي مَقْتَلِ الْحُسَيْنِ تَدُلُّ عَلَى أَنَّهَا عَاشَتْ إِلَى مَا بَعْدَ مَقْتَلِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

واقدی کہتا ہے ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی ابو ہریرہ نے نماز پڑھائی
ابن ابی خیثمہ کہتا ہے ان کی وفات یزید کے دور میں ہوئی
میں کہتا ہوں اور شروع کی احادیث جو مقتل حسین کے بارے میں ہیں ان سے دلالت ہوتی ہے کہ یہ ان کے قتل کے بعد بھی زندہ رہیں

قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ام سلمہ کی وفات کے حوالے سے موقف ان روایات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بدلا گیا جبکہ یہ خود تاریخ کے مطابق غلط ہیں

ایک رافضی جھوٹ کھلتا دیکھ کر اس قدر گھبرا کر لکھتے ہیں

اب یہ مستند روایت بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ بی بی ام سلمہ امام حسین کی شہادت کے وقت موجود تھیں۔ کسی کو اگر اس پر اعتراض ہے، تو اسے کوئی مستند روایت پیش کرنی ہو گی جو یہ ثابت کر سکے کہ ان کا اس وقت انتقال ہو چکا تھا۔ صرف مولویوں کی رائے پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں

لیکن خود اوپر دی گئی احادیث کی تصحیح کے لئے خود مولویوں شیخ شعیب الارناؤط ، احمد شاکر ، البانی کے اقوال پیش کرتے ہیں

ابن قتیبہ واقدی اور البَلَاذُري کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کا میلان شیعیت کی طرف تھا حسن اتفاق ہے ان سب کا ام سلمہ کی وفات پر اجماع ہے کہ وہ ٥٩ ھ میں حسین سے پہلے وفات پا چکی ہیں

ام۔ سلمہ کی وفات کی خبر سند سے ھی ان مورخین نے بیان کی ھ

ہماری نہیں تو اپنے شیعوں کی ہی مان لیں

خیران کےلینے اور دینے کے باٹ الگ الگ ہیں

خود ہی غور کریں اور عقل سلیم استعمال کریں

ام سلمہ خواب میں دیکھتی ہیں یا جن بتاتا ہے- کتنے راوی ان کی حالت نیند میں ان کے پاس ہی بیٹھے ہیں! ام المومنین پر جھوٹ بولنے والوں پر الله کی مار

ام المومنین کی خواب گاہ میں یہ منحوس داخل کیسے ہوئے؟

قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں – اسناد دین ہیں لہذا محدثین کی جرح کو قبول کرنا چاہیے -نہ کہ محبوب راویوں کو بچانے کے چکر میں تاریخ کو ہی مسخ کر دیا جائے

بہت سے محققین نے ان روایات کو صحیح کہا ہے مثلا البانی صاحب اور صرف ثقاہت کے الفاظ نقل کیے ہیں اس صورت میں یہ روایات صحیح سمجھی جاتی ہیں لیکن اس قدر جھوٹ آپ دیکھ سکتے ہیں ام سملہ سو رہی ہیں راوی ان کے پاس بیٹھے ہیں ان کو جن بتاتے ہیں وہ خواب میں دیکھتی ہیں وغیرہ وغیرہ

یہ راوی حسین کے ساتھ کوفہ کیوں نہ گئے کیا امام وقت کی مدد ان پر فرض نہ تھی؟

عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسیٰ انسانیت کے گناہوں کی وجہ سے جان بوجھ کر سولی چڑھا کچھ اسی نوعیت کا عقیدہ ان راویوں نے بھی پیش کیا ہے کہ حسین کو خبر تھی وہ کوفہ میں قتل ہونگے اور وہ خود وہاں چل کر گئے- ظاہر ہے اسلام میں خودکشی حرام ہے اور اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کی کربلا میں شہادت کی خبر دے دی تھی اور وہ اس کو جانتے ہوئے بھی وہاں گئے

بلکہ ان سب خبروں کے باوجود علی نے مدینہ چھوڑ کر کربلا کے پاس جا کر اپنا دار الخلافہ بنایا

الکافی کی روایت ہے

[5115] 7 – الكليني، عن علي، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن عبد الله بن سنان قال سمعت أبا عبد الله (عليه السلام) يقول: ثلاث هن فخر المؤمن وزينة في الدنيا والآخرة: الصلاة في الليل ويأسه مما في أيدي الناس وولايته الامام من آل محمد (صلى الله عليه وآله وسلم). قال: وثلاثة هم شرار الخلق ابتلى بهم خيار الخلق: أبو سفيان أحدهم قاتل رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) وعاداه ومعاوية قاتل عليا (عليه السلام) وعاداه ويزيد بن معاوية لعنه الله قاتل الحسين بن علي (عليهما السلام) وعاداه حتى قتله (1).

امام جعفر الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تین چیزیں مومن کے لیے دنیا و آخرت میں زینت ہیں: رات کو نماز پڑھنا، جو لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اس سے دوری رکھنا، اور اہل بیت کے امام کی ولایت۔ اور تین ایسے شریر ترین لوگ ہیں کہ جن سے سب سے بہترین لوگوں کا ابتلا/آزمائش میں ڈالا گیا: ابو سفیان کے جس نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے جنگ کی اور دشمنی رکھی، معاویہ کہ جس نے علی سے جنگ کی، اور دشمنی رکھی، اور یزید جس پر اللہ کی لعنت ہو، حسین سے لڑا، ان سے دشمنی رکھی حتی کہ قتل کر دیا

اس روایت کے راوی عبد الله بن سنان بن طریف کے لئے النجاشی لکھتے ہیں

9 – عبد الله بن سنان بن طريف :
قال النجاشي : ” عبد الله بن سنان بن طريف مولى بني هاشم ، يقال مولى
بني أبي طالب ، ويقال مولى بني العباس . كان خازنا للمنصور والمهدي والهادي
والرشيد ، كوفي ، ثقة ، من أصحابنا ، جليل لا يطعن عليه في شئ ، روى عن أبي
عبد الله ( عليه السلام ) ، وقيل روى عن أبي الحسن موسى ، وليس بثبت . له كتاب
الصلاة الذي يعرف بعمل يوم وليلة ، وكتاب الصلاة الكبير ، وكتاب في سائر
الأبواب من الحلال والحرام ، روى هذه الكتب عنه جماعات من أصحابنا لعظمه
في الطائفة ، وثقته وجلالته .

عبد الله بن سنان بن طريف مولى بني هاشم بنی ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں اور کہا جاتا ہے بنو عباس کے آزاد کردہ غلام تھے اور یہ عباسی خلیفہ المنصور کے المہدی کے الہادی کے اور الرشید کے خزانچی تھے کوفی اور ثقہ تھے قابل قدر ہمارے اصحاب میں سے کسی نے ان کو برا نہ کہا عبد الله علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ابی حسن موسی سے اور یہ ثابت نہیں ہے ان کی ایک کتاب الصلاه ہے جو دن و رات کے عمل کے لئے جانی جاتی ہے اور کتاب الصلاه کبیر ہے

عبد الله بن سنان نے چار خلفاء کے لئے کام کیا لیکن اس نام کے شخص کا تاریخ میں ذکر نہیں ملتا لیکن شیعہ روایات ایسی ہی ہیں

المنصور کا دور ١٣٦ ہجری سے شروع ہوتا ہے اور ہارون الرشید کا دور ١٩٢ ہجری پر ختم ہوتا ہے

جو شخص چار خلفاء کے لئے ایک اہم عہدے پر ہو اور اس کا ذکر تاریخ میں نہ ہو تو اس کو کیا کہا جائے

اثنا العشری شیعوں کا کہنا ہے کہ بنو عبّاس ان پر ظلم کرتے تھے لیکن یہاں تو خود ان کے مطابق عبد الله بن سنان ان کے خزانچی تھے جو الکافی کے راوی ہیں؟

سوچیں اور سبائی سوچ سےنکلیں

الله حسین پر اور ان کی ال پر رحم کرے

معاویہ و یزید کے خلاف چارج شیٹ

محرم کی آمد ہے اور امت پر اس ماہ میں اصحاب رسول و صالحین پر شب و شتم جائز ہو جاتا ہے- علماء و ذاکرین دل کھول کر بھڑاس نکالتے ہیں – ان پیشہ وروں کی اصلاح تو نا ممکن ہے لیکن ہم نے حسب موقعہ محرم کی مناسبت سے اصحاب رسول اور ان کی اولاد کے لئے ایک چارج شیٹ تیار کی ہے تاکہ ہمارے قارئین ان مقدمات کو سمجھ سکیں

یہ لسٹ ہماری نہیں ہے غیر مقلدین کی  ایک  ویب سائٹ سے لی ہے – افسوس رافضیوں کو کیا کوسین – اہل سنن اور  سلف کے متبع ہی اس میں اس قدر مشغول ہیں کہ کسی اور کا کیا شکوہ کریں

غیر مقلدین کی  سرخ لسٹ دیکھتے ہیں اور اس پر ہم تبصرہ کریں گے

لسٹ ہے

اول : عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے۔ صحیح بخاری کتاب العیدین
دوم: نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں صحیح بخاری و صحیح مسلم
سوم: حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا سنن نسائی
چہارم : علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا سنن ابو داود ،مسند احمد
پنجم: سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین پر عمل ختم ہوتا جا رہا تھا۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ
ششم : زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا مصنف ابن ابی شیبہ ، اروء الغلیل للالبانی
ہفتم : ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا بخاری ، مسلم ،ابوداود
ہشتم: محرمات سے نکاح ہوا
نہم: یزید شرابی تھا
دھم: یزید کتوں اور بندروں سے کھیلتا تھا

اول  : عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے۔ صحیح بخاری کتاب العیدین

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدٌ بن أسلم عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى، فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلاَةُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ، وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ، فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ، فَإِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ، أَوْ يَأْمُرَ بِشَيْءٍ أَمَرَ بِهِ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ وَهْوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُرِيدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ فَجَبَذَنِي فَارْتَفَعَ، فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلاَةِ، فَقُلْتُ لَهُ: غَيَّرْتُمْ وَاللَّهِ. فَقَالَ: يا أَبَا سَعِيدٍ، قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ. فَقُلْتُ مَا أَعْلَمُ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا لاَ أَعْلَمُ. فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ”.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عید  الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ جاتے اور سب سے پہلے عید نماز پڑھاتے  اور سلام پھیرنے کے بعد  لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں  وعظ و نصیحت فرماتے اور نیکی کا حکم دیتے، پھر اس کے بعد اگر کسی مہم پر صحابہ کرام کو روانہ کرنا ہوتا تو افراد چن کر روانہ کر دیتے، یا کسی کام کا حکم دینا ہوتا تو حکم دے کر گھروں کی جانب واپس روانہ ہوتے  ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : لوگوں کا اسی پر عمل جاری و ساری رہا ، یہاں تک کہ میں مدینہ کے گورنر مروان کے ساتھ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر عید گاہ گیا  ، جب ہم عید گاہ پہنچے تو وہاں کثیر بن صلت نے منبر بنایا ہوا تھا، تو مروان نے نماز سے قبل منبر پر چڑھنا چاہا  تو میں نے اس کے کپڑے سے کھینچا، تو مروان اپنا کپڑا چھڑوا کر منبر پر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے لوگوں سے خطاب کیا، اس  پر میں [ابو سعید] نے کہا:  اللہ کی قسم ! تم نے دین بدل دیا ہے   تو مروان نے کہا:  ابو سعید  جو باتیں تم جانتے ہو [ان کا دور ]اب نہیں رہا
ابو سعید نے جواب دیا:  اللہ کی قسم  جو باتیں میرے علم میں ہیں وہ ان سے کہیں بہتر ہیں جو میرے علم میں نہیں ہیں
مروان نے کہا:  لوگ نماز کے بعد ہمارے خطاب کیلیے بیٹھتے  نہیں تھے، اس لیے میں نے اپنے خطاب کو ہی نماز سے پہلے کر دیا

اس میں معاویہ رضی الله عنہ کا قصور کیا ہے اس دور میں کوئی ان کو ایس ایم ایس میسج بھیج کر بتا دیتا کہ مدینہ میں مروان نے ایسا کیا تو وہ اس کو روک دیتے اور کیا یہ خطبہ سننے سے بچنے کے لیے لوگ چلے گئے یہ کیا صحیح تھا ؟ اگر یہ لوگ عید کا خطبہ نہیں سننا چاہتے تھے تو یہ تو واجب نماز تھی – فرض جمعہ میں کیا ہوتا تھا اس پر کتب خاموش ہیں کون کون اس خطبہ  جمعہ کو چھوڑتا تھا ؟

اسنادی نکات : روایت عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ  المتوفی ٧٤ ھ کی سند سے ہے

محدثین کے مطابق یہ سماع صحیح ہے البتہ ثقات ابن حبان میں ہے

عِيَاض بْن عَبْد الله يروي عَن أَبِيه عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ روى عَنهُ سَلمَة بْن كهيل وَلَيْسَ هَذَا بِابْن أبي سرح

عِيَاض بْن عَبْد الله جو اپنے باپ سے وہ ابو سعید سے روایت کرنا ہے وہ ابن ابی سرح نہیں ہے

مسئلہ یہ ہے کہ عِيَاض بْن عَبْد الله کا سماع ابو سعید سے اگر ہے تو مدینہ میں ہی دیگر اصحاب نبی مثلا جابر بن عبد الله سے کیوں نہیں ہے جبکہ یہ بھی ایک ہی دور کے مدنی اصحاب رسول ہیں دوسری طرف محدثین میں سے بعض  نے کہا ہے یہ مکہ کے ہیں

وقال ابن يونس:عياض بن عبد الله بن سعد بن أبى سرح   ولد بمكة، ثم قدم مصر، فكان مع أبيه، ثم خرج إلى مكة، فلم يزل بها حتى مات

ابن یونس  نے کہا عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح مکہ میں پیدا ہوا پھر باپ کے ساتھ مصر گیا پھر مکہ لوٹا اور وہیں  رکے یہاں تک کہ وفات ہوئی

جبکہ تاریخ الکبیر امام بخاری میں  ہے يُعَدُّ فِي أهل المَدِينة ان کاشمار اہل مدینہ میں ہے – ثقات ابن حبان میں ہے  عِدَادُهُ فِي أهل الْمَدِينَة ان کا شماراہل مدینہ میں ہے

راقم کو عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح کی جابر رضی الله عنہ سے کوئی مسند روایت نہیں ملی

عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح کا ابو سعید رضی الله عنہ سے روایت کرنا اور جابر رضی الله عنہ  سے روایت  نہ کرنا عجیب بات ہے جبکہ جابر رضی الله عنہ کی وفات کہا جاتا ہے ٧٨  میں ہوئی ہے

—————

مصنف عبد الرزاق کی روایت  5644  ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا رَأَى النَّاسَ يَنْقُصُونَ فَلَمَّا صَلَّى حَبَسَهُمْ فِي الْخُطْبَةِ».

يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ کہتے ہیں کہ عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ دینا عمر رضی الله عنہ نے شروع کیا  جب دیکھا کہ لوگ کم ہونے لگے ہیں

یہی بات یوسف نے عثمان رضی الله عنہ کے لئے بھی بولی

اور امام الزہری کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ  نے اس کو شروع کیا

معمر کہتے ہیں ان کو پہنچا کہ عثمان اپنی خلافت کے آخری دور میں ایسا کرتے تھے

ابن حجر فتح الباری ج ٢ ص ٤٥٠ میں لکھتے ہیں کہ نماز عید سے پہلے خطبہ عثمان بھی دیتے تھے

وَسَيَأْتِي فِي الْبَابِ الَّذِي بَعْدَهُ أَنَّ عُثْمَانَ فَعَلَ ذَلِكَ أَيْضًا لَكِنْ لِعِلَّةٍ أُخْرَى

اور آگے باب میں ہے کہ عثمان بھی ایسا کرتے تھے لیکن اس کی وجہ اور ہے

کتاب : كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از محمَّد الخَضِر بن سيد عبد الله بن أحمد الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق عید کی نماز سے پہلے خطبہ دینا

وقيل بل سبقه إليه عثمان؛ لأنه رأى ناسًا لم يدركوا الصلاة فصار يقدم الخطبة رواه ابن المنذر بإسناد صحيح إلى الحسن البصري

عثمان نے کیا کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ لوگ نماز میں نہیں آ رہے پس خطبہ کو پہلے کیا اس کو ابن المنذر نے صحیح اسناد سے حسن بصری سے روایت کیا ہے

ابو مسعود عقبة بن عمرو بن ثعلبة  رضی الله عنہ کی وفات ٣٩ یا ٤٠ ہجری میں ہوئی اور مصنف عبد الرزاق کی روایت 5648  ہے

 عَبْدُ الرَّزَّاقِ،   عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ يَقُولُ: «خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ – أَوْ أَضْحَى – هُوَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي مَسْعُودٍ حَتَّى أَفْضَيْنَا إِلَى الْمُصَلَّى، فَإِذَا كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ الْكِنْدِيُّ قَدْ بَنَى لِمَرْوَانَ مِنْبَرًا مِنْ لَبِنٍ وَطِينٍ، فَعَدَلَ مَرْوَانُ إِلَى الْمِنْبَرِ حَتَّى حَاذَى بِهِ فَجَاذَبْتُهُ لِيَبْدَأَ بِالصَّلَاةِ»، فَقَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، تُرِكَ مَا تَعْلَمُ، فَقَالَ: كَلَّا وَرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَا تَأْتُونَ بِخَيْرٍ مِمَّا نَعْلَمُ ثُمَّ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ

عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْح کہتے ہیں کہ ابو سعید سے سنا کہ میں مروان کے ساتھ یوم فطر یا عید الاضحی پر نکلا اور میرے اور مروان کے درمیان ابی مسعود تھے یہاں تک کہ نماز کی جگہ پہنچے پس کثیر بن الصلت نے مروان کے لئے ایک منبر بنوایا ہوا تھا جس پر مروان چڑھا پھر اس پر سے نماز کے لئے اٹھا  پس کہا اے ابو سعید چھوڑ دیا جس کو تم جانتے تھے اس پر ابو سعید نے کہا ہرگز نہیں مشارق و مغارب کے رب کی قسم تم اس خیر تک نہیں پہنچو گے جس کو ہم جانتے ہیں – پھر خطبہ شروع کیا

عینی عمدہ القاری میں لکھتے ہیں

وَزَاد عبد الرَّزَّاق عَن دَاوُد ابْن قيس وَهُوَ بيني وَبَين أبي مَسْعُود، يَعْنِي: عقبَة بن عَمْرو الْأنْصَارِيّ

ابی مسعود سے مراد عقبَة بن عَمْرو الْأنْصَارِيّ  ہیں

کثیر بن صلت کے لئے ابن سعد طبقات میں واقدی کے حوالے سے لکھتے ہیں

وَلَهُ دَارٌ بِالْمَدِينَةِ كَبِيرَةٌ فِي الْمُصَلَّى وَقِبْلَةُ الْمُصَلَّى فِي الْعِيدَيْنِ إِلَيْهَا.

ان کا ایک بڑا گھر مدینہ میں تھا مصلی کے ساتھ اور اس میں عیدیں کے لئے مصلی کا قبلہ تھا

یہ روایت المسنَد الصَّحيح المُخَرّج عَلى صَحِيح مُسلم از  أبو عَوانة يَعقُوب بن إسحَاق الإسفرَايينيّ (المتوفى 316 هـ) میں بھی ہے جہاں اس میں ابی مسعود صحابی کا ذکر ہے

سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی کہتے ہیں

قال المدائني وغيره: تُوُفيّ سنة أربعين. وقال خليفة تُوُفيّ قبل الأربعين وقال الواقدي: مات في آخر خلافة معاوية بالمدينة.

المدائني اور دیگر نے کہا کہ ان کی وفات ٤٠ ھ میں ہوئی اور خلیفہ نے کہا ٤٠ سے بھی پہلے  اور واقدی نے کہا کہ معاویہ کی خلافت میں مدینہ میں

ابن حبان ، مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار   میں کہتے ہیں

مات بالكوفة في خلافة على بن أبى طالب وكان عليها واليا له

ان کی وفات کوفہ میں علی رضی الله عنہ کی خلافت میں ہوئی ان کی طرف سے وہاں کے والی تھے

الأعلام میں  الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) کہتے  ہیں ابی مسعود : ونزل الكوفة. وكان من أصحاب علي،  فاستخلفه عليها لما سار إلى صفين (انظر عوف بن الحارث) وتوفي فيها  کی وفات کوفہ میں ہوئی

جمہور محدثین و مورخین کے مطابق ابی مسعود رضی الله عنہ کی وفات دور علی میں کوفہ میں ہوئی

یعنی ابی مسعود تو کوفہ میں دور علی میں وفات پا گئے تو اب وہ مروان کا دور کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ دور معاویہ کا ہے ہی نہیں – یہ دور عثمان کا ہو گا جب مروان کو کسی بنا پر امیر مقرر کیا گیا ہو گا   اور مروان اور ابی مسعود اور ابو سعید الخدری نے ساتھ نماز پڑھی

 اگرچہ متاخرین  شارحیین نے جمہور کا قول چھوڑ کر  واقدی کے قول پر اعتماد کیا ہے  اور دعوی کیا ہے  ابی مسعود نے  معاویہ کے دور میں وفات پائی

راقم کہتا ہے واقدی کا  منفرد قول  جمہور کے مقابلے پر شاذ ہے ابی مسعود کا انتقال دور علی میں ہوا

عثمان رضی الله عنہ کے دور میں جمعہ کی نماز بازار میں ہوتی تھی کیونکہ لوگ زیادہ تھے – اسی طرح عید کی واجب نماز میں ابن منذر کے بقول انہوں نے خطبہ پہلے دیا کہ لوگ جمع ہو لیں

راقم کی رائے میں روایت میں ابی مسعود کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ یہ دور معاویہ کا واقعہ ہے ہی نہیں

شیعہ عالم کتاب الدرجات الرفيعة- السيد علي ابن معصوم ، عقبة بن عمرو رضی الله عنہ پر کہتے ہیں
وقال أبو عمرو كان قد نزل الكوفة وسكنها واستخلفه على في خروجه إلى صفين. ومات سنة احدى أو اثنتين أو أربعين والله أعلم
ابو عمر نے کہا کہ یہ کوفہ آئے اور اس میں رکے اور علی نے ان کو صفین جاتے وقت امیر کوفہ کیا اور یہ سن ٤٢ یا ٤١ میں مرے

یعنی شیعوں اور سنیوں کے بقول عقبة بن عمرو رضی الله عنہ دور معاویہ سے پہلے دور حسن میں انتقال کر گئے تھے
تو پھر راقم کہتا ہے کھینچ تان کر کے اس روایت کو دور معاویہ تک کیسے لایا جا سکتا ہے؟

سن ٣١ ہجری کا واقعہ ہے جو صحیح البخاری میں ہی ہے

حدیث نمبر: 3717حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَصَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رُعَافٌ شَدِيدٌ سَنَةَ الرُّعَافِ حَتَّى حَبَسَهُ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصَى فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “اسْتَخْلِفْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالُوهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَنْ فَسَكَتَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ أَحْسِبُهُ الْحَارِثَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اسْتَخْلِفْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عُثْمَانُ وَقَالُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَنْ هُوَ فَسَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَعَلَّهُمْ قَالُوا الزُّبَيْرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُ لَخَيْرُهُمْ مَا عَلِمْتُ وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”.ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ مجھے مروان بن حکم نے خبر دی کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اس سال عثمان رضی اللہ عنہ کو اتنی سخت نکسیر پھوٹی کہ آپ حج کے لیے بھی نہ جا سکے، اور (زندگی سے مایوس ہو کر) وصیت بھی کر دی، پھر ان کی خدمت میں قریش کے ایک صاحب گئے اور کہا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنا دیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: کیا یہ سب کی خواہش ہے، انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کسے بناؤں؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے،۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ بنا دیں، آپ نے ان سے بھی پوچھا کیا یہ سب کی خواہش ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: لوگوں کی رائے کس کے لیے ہے؟ اس پر وہ بھی خاموش ہو گئے، تو آپ نے خود فرمایا: غالباً زبیر کی طرف لوگوں کا رجحان ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے علم کے مطابق بھی وہی ان میں سب سے بہتر ہیں اور بلاشبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں بھی ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔

یعنی یہ خطبہ کو پہلے کرنے  کا واقعہ عثمان رضی الله عنہ کی بیماری کی وجہ سے پیش آیا جس میں اپ حج پر نہ جا سکے اور اتنے بیمار ہوئے کہ وصیت تک کر دی-  عقبة بن عمرو بن ثعلبة الخزرجي، أبو مسعود البدري کی وجہ سے یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ دور عثمان کا ہے اور مدینہ کا ہے تو خطبہ عید دینا عثمان رضی الله عنہ کا کام ہے مروان کا نہیں ہے – مروان کا یہ کام کرنا بطور علت ہے جس کی وجہ نکسیر پھوٹنے کی بیماری ہے اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہو سکتی

مصنف عبد الرزاق میں ہے
ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا رَأَى النَّاسَ يَنْقُصُونَ فَلَمَّا صَلَّى حَبَسَهُمْ فِي الْخُطْبَةِ».
یوسف نے کہا جس نے عید کی نماز میں خطبہ پہلے کیا وہ عمر ہیں جب دیکھا کہ لوگ کم ہو گئے ہیں

تاریخ أبي زرعة الدمشقي میں ہے
حدثنا خلف بن هشام المقرئ قال: حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال: غدوت مع يوسف بن عبد الله بن سلام في يوم عيد، فقلت له: كيف كانت الصلاة على عهد عمر ؟ قال: كان يبدأ بالخطبة، قبل الصلاة ـ

يحيى بن سعيد  نے کہا میں نے يوسف بن عبد الله بن سلام کے ساتھ عید کے دن پوچھا کہ عہد عمر میں عید کی نماز کیسی تھی ؟ کہا عمر بن خطاب خطبہ دیتے  نماز عید سے پہلے

ان آثار کو محدثین نے غریب یعنی منفرد کہا ہے لیکن اس کو رد نہیں کیا کیونکہ سند میں کوئی ایسی علت نہیں کہ ان کو غیر صحیح قرار دیا جائے –  معلوم ہوا کہ عموم یہ ہے کہ نماز پہلے پھر  خطبہ دیا جاتا تھا لیکن کسی وجہ سے اس کو آگے پیچھے عمر رضی الله عنہ نے کیا ہے عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی کیا ہے

الأوسط از ابن المنذر میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ، قَالَ: ثنا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يُصَلُّونَ ثُمَّ يَخْطُبُونَ، فَلَمَّا كَثُرَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ عُثْمَانَ رَأَى أَنَّهُمْ لَا يُدْرِكُونَ الصَّلَاةَ خَطَبَ ثُمَّ صَلَّى
حسن بصری نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں ابی بکر کے دور میں عمر کے دور میں عثمان کے دور میں نماز ہوتی پھر خطبہ لیکن جب لوگ زیادہ ہوئے دور عثمان میں تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ نماز کو نہیں پاتے تو انہوں نے خطبہ کیا پھر نماز

یعنی لوگوں کو اتے اتے وقت لگتا اور نماز چھوٹ جاتی لہذا آسانی کی وجہ سے ہوا – بہر حال حسن بصری نے ان تمام ادوار کو نہیں دیکھا لہذا کسی نے ان کو خبر دی ہو گی اس کے برعکس یوسف نے ان ادوار کو دیکھا ہے

کتاب الام میں شافعی نے جو روایت دی وہ ہے
أخبرنا الرَّبِيعُ قال أخبرنا الشَّافِعِيُّ قال أخبرنا إبْرَاهِيمُ قال حدثني دَاوُد بن الْحُصَيْنِ عن عبد اللَّهِ بن يَزِيدَ الْخِطْمِيِّ أَنَّ النبي صلى اللَّهُ عليه وسلم وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَانُوا يَبْتَدِئُونَ بِالصَّلَاةِ قبل الْخُطْبَةِ حتى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فَقَدَّمَ الْخُطْبَةَ.
رسول الله، ابو بکر عمر اور عثمان سب نماز کے بعد خطبہ عید دیتے لیکن جب معاویہ آئے تو انہوں نے خطبہ پہلے کر دیا

راقم کہتا ہے اس کی سند میں إبراهيم بن أبي يحيى الأسلمي ہے جو متروك الحديث ہے

فتح الباری میں ابن حجر نے لکھا ہے
وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ عُثْمَانُ فَعَلَ ذَلِكَ أَحْيَانًا بِخِلَافِ مَرْوَانَ فَوَاظَبَ عَلَيْهِ فَلِذَلِكَ نُسِبَ إِلَيْهِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ مِثْلُ فِعْلِ عُثْمَانَ قَالَ عِيَاضٌ وَمَنْ تَبِعَهُ لَا يَصِحُّ عَنْهُ وَفِيمَا قَالُوهُ نَظَرٌ لِأَنَّ عَبْدَ الرَّزَّاقِ وبن أبي شيبَة روياه جَمِيعًا عَن بن عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ وَهَذَا إِسْنَاد صَحِيح
اور احتمال ہے اس طرح خطبہ پہلے کرنا عثمان رضی الله عنہ نے کبھی کبھی کیا ہے … اور روایت کیا گیا ہے کہ ایسا عمر نے بھی کیا ہے اور قاضی عِيَاضٌ اور ان کی اتباع کرنے والوں نے کہا ہے یہ صحیح نہیں اس پر نظر ہے اور مصنف عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ میں دونوں نے اس کو .. یوسف بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ  کی سند سے روایت کیا ہے اور یہ سند صحیح ہے

أبو العبَّاس أحمَدُ بنُ الشيخِ کتاب المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم میں کہتے ہیں
وقد رُوِيَ أنَّ أوَّلَ مَنْ فعل ذلك عمر بن الخَطَّاب ، وقيل : عثمان ، وقيل : عَمَّار ، وقيل : ابن الزبير ، وقيل : معاوية ـ رضى الله عنهم ـ … فإنْ صحَّ عن واحدٍ مِنْ هؤلاء أنَّه قدَّم ذلك ، فلعلَّه إنما فعل ؛ لمَا رأى من انصرافِ الناسِ عن الخُطْبة ، تاركين لسماعها مستعجلين ، ، أو ليدرك الصلاَة مَنْ تأخَّر وبَعُدَ منزلُهُ.
اور روایت کیا گیا ہے سب سے عید کی نماز کرنا بھر خطبہ دینا عمر نے کیا اور کہا جاتا ہے عثمان نے کیا اور کہا جاتا ہے عمار نے کیا اور کہا جاتا ہے ابن زبیر نے کیا اور کہا جاتا ہے معاویہ نے کیا پس اگر یہ ان سب سے صحیح ہیں جن کا ذکر کیا تو ہو سکتا ہے انہوں نے ایسا کیا ہو جب دیکھا کہ لوگ خطبہ پر جا رہے ہیں اور جلدی میں خطبہ نہیں سن رہے اور نماز میں دیر کر رہے ہیں

راقم کہتا ہے اگر کوئی بیماری عام ہو یا کوئی اور وجہ ہو مثلا قحط وغیرہ تو ایسا کیا جا سکتا ہے

دوم:  نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں  صحیح بخاری و صحیح مسلم

معاویہ و یزید پر یہ الزام ثابت نہیں ہے یہ عبد الملک بن مروان کے دور کا ذکر ہے کہ اس میں کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف نماز وقت پر نہیں پڑھاتا تھا

صحیح میں ہے

وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ الحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ، عَامَ نَزَلَ بِابْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَيْفَ تَصْنَعُ فِي المَوْقِفِ يَوْمَ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ: «إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَهَجِّرْ بِالصَّلاَةِ يَوْمَ عَرَفَةَ»، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: «صَدَقَ، إِنَّهُمْ كَانُوا يَجْمَعُونَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالعَصْرِ فِي السُّنَّةِ»، فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: أَفَعَلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ: «وَهَلْ تَتَّبِعُونَ فِي ذَلِكَ إِلَّا سُنَّتَهُ»

حجاج بن یوسف کو یوم عرفہ میں نماز میں جمع کرنا بتایا گیا

بعض روایات میں ہے کہ وہ نماز لیٹ کرتا تھا لیکن ان میں ایک راوی کا تفرد ہے

مسند ابو داود الطیالسی کی روایت ہے کہ حجاج نماز میں تاخیر کرتا جس پر محمد بن عمرو بن الحسن نے جابر بن عبد الله سے سوال کیا

ثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، قال: سمعت محمد بن عمرو بن الحسن يقول:  لما قدم الحجاج بن يوسف كان يؤخر الصلاة، فسألنا جابر بن عبد الله عن وقت الصلاة، فقال: كان رسول الله – عليه السلام – يصلي الظهر بالهجير أو حين تزول، ويصلي العصر والشمس مرتفعة، ويصلي المغرب حين تغرب الشمس، ويصلي العشاء يؤخر أحيانًا ويعجل أحيانًا، إذا اجتمع الناس عَجَّل، وإذا تأخروا أَخَّر، وكان يصلي الصبح بغلس أو قال: كانوا يصلونها بغلس  قال أبو داود: هكذا قال شعبة.

مسند دارمی میں ہے

أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ فِي زَمَنِ الْحَجَّاجِ – وَكَانَ يُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ – فَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِيُّ صَلى الله عَليهِ وسَلم يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ, وَالْعَصْرَ,

صحیح مسلم میں ہے

وَحَدَّثَنَاهُ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ الْحَجَّاجُ يُؤَخِّرُ الصَّلَوَاتِ، فَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بِمِثْلِ حَدِيثِ غُنْدَرٍ

ان تمام میں سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف کا تفرد ہے جو امام مالک کے نزدیک متروک ہے

امام بخاری نے اسی کی سند سے باب وقتِ المغرب میں اس کو روایت کیا ہے لیکن اس میں یہ الفاظ کہ حجاج نماز لیٹ کرتا تھا بیان نہیں کیے جس کا مطلب ہے یہ الفاظ ان کے نزدیک غیر محفوظ تھے

عن محمد بن عمْرو بن الحسن بن علي قال: قدِم الحَجَّاج فسألْنا جابرَ بن عبدِ اللهِ [عن صلاة النبي – صلى الله عليه وسلم] فقالَ:  كان النبيُّ – صلى الله عليه وسلم – يصَلي الظهرَ بالهاجرةِ، والعصرَ والشمسُ نقيَّةٌ، والمغربَ إذا وَجبتْ، والعشاءَ أحياناً وأحياناً؛ إذا رآهم اجتمَعوا عجَّل، وإذا رآهُمْ أبطَؤا أخَّر، والصبحَ كانوا أو كانَ النبيُّ – صلى الله عليه وسلم – يصَليها بغلَسٍ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کی وفات معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں ٥٩ ہجری میں ہوئی سنن نسائی میں ایک حدیث ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ما صلَّيتُ وراءَ أحدٍ أشبَهَ صلاةً برسولِ اللَّهِ من فلانٍ ، فصلَّينا وراءَ ذلِكَ الإنسانِ وَكانَ يطيلُ الأوليينِ منَ الظُّهرِ ، ويخفِّفُ في الأخريينِ ، ويخفِّفُ في العصرِ ، ويقرأُ في المغربِ بقصارِ المفصَّلِ ، ويقرأُ في العشاءِ ب الشَّمسِ وضحاها وأشباهِها . ويقرأُ في الصُّبحِ ، بسورتينِ طويلتين(صحيح النسائي:982)
میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو فلاں شخص سے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاتا ہو۔ ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا تھا اور آخری وہ ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ عصر کی نماز بھی ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ مغرب کی نماز میں چھوٹی مفصل سورتیں پڑھتا تھا اورعشاء کی نماز میں (والشمس وضحھا) اور اس جیسی سورتیں پڑھتا تھا۔ اور صبح کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھتا تھا۔

بنو امیہ کے گورنروں کے پیچھے نماز پڑھنے والے ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی یہ شہادت کافی ہے

معاویہ رضی الله عنہ نے مدینہ پر عتبہ کو پھر سعید بن ابی العاص کو پھر مروان بن الحکم کو گورنر مقرر کیا یہ تمام اموی ہیں اور اغلبا ان تین میں سے کسی ایک کی نماز پر ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی رائے ہے کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جیسی تھی

بعض  اہل سنت نے اس میں شخص سے مراد عمر بن عبد العزیز کو لیا ہے جبکہ ان کی پیدائش سن ٦١ ہجری کی ہے یعنی ابوہریرہ رضی الله عنہ کی وفات کے بعد پیدائش ہوئی ہے

سوم: حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا سنن نسائی

 کیا معاویہ رضی الله تعالی عنہ نے سنت رسول کو بدلا

امام نسائی نے سنن میں، ابن خزیمہ نے صحیح میں ،امام حاکم مستدرک میں  یہ روایت  بیان کی اور کہا هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ  کہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی روایت ہے کہ

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عرفات میں ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ تھا انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا وجہ کے کہ لوگ لبیک نہیں کہہ رہے؟ میں نے کہا کہ لوگ معاویہ سے خوف زدہ ہیں. پھر ابن عبّاس باہر آئے لبیک کہا اور کہا کہ علی سے بغض کی وجہ سے انہوں  نے سنت رسول ترک کر دی

سند ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ:  مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟   قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ:  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ

اس کی سند میں منہال بن عمرو ہے جس کو امام جوزجانی سی المذہب یعنی بد عقیدہ کہتے ہیں اور یہ الفاظ جوزجانی شیعہ راویوں کے لئے کہتے ہیں

اس روایت کو البانی  صحيح الإسناد کہتے ہیں بعض لوگوں کے بقول یہ روایت  خالد بن مخلد القطواني المتوفی ٢١٣ ھ  شیعہ کی وجہ سے صحیح نہیں جس کی وفات خلیفہ مامون کے دور میں ہوئی ہے حالانکہ اس کی سند میں قرن اول کے راوی المنھال کا تفرد اہم ہے ظاہر قرن سوم کے شخص کا تفرد  تو بعد میں آئے  گا

یہی راوی منہال بن عمرو روایت کرتا تھا کہ

علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا

أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ

میں عبد الله ہوں اور رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور میں سب سے بڑا صدیق ہوں، اس کا دعوی میرے بعد کوئی نہیں کرے گا سوائے كَذَّابٌ کے

امت آج تک صرف ابو بکر صدیق کو ہی صدیق کہتی آئی ہے جب کہ یہ راوی کہتا ہے کہ علی سب سے بڑے صدیق ہیں

چہارم : علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا سنن ابو داود ،مسند احمد

جس وقت معاویہ و حسن رضی الله عنہما میں معاہدہ ہوا تو اس کی شق تھی کہ خلافت قبول کرنے کے بعد علی رضی الله عنہ پر کوئی تنقید ہماری یعنی اہل بیت کے سامنے نہیں ہو گی – چونکہ حسن رضی الله عنہ بہت سمجھ دار تھے اور جانتے تھے کہ اقتدار جب منتقل کر دیں گے تو فتنہ پرداز لوگ اس قسم کی  باتیں کر سکتے ہیں لہذا انہوں نے اس کو ایک شق بنا دیا اور اس پر عمل ہوا کہ علی رضی الله عنہ کی تنقیص نہیں کی جاتی تھی

معاویہ رضی الله عنہ کے گورنر صحابی رسول الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کے لئے ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں لکھا ہے

وَكَانَ إِذْ كَانَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ عَلَى الْكُوفَةِ إِذَا ذَكَرَ عَلِيًّا فِي خُطْبَتِهِ يَتَنَقَّصُهُ بَعْدَ مَدْحِ عُثْمَانَ

اور الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کوفہ میں خطبہ میں عثمان رضی الله عنہ کی تعریف کے بعد علی رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے تھے

اس روایت میں گالیاں دینے کا ذکر نہیں دوم اس کی سند ابن کثیر دیتے ہیں

وَقَدْ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنِي الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ. قَالَ قَالَ سَلْمَانُ لِحُجْرٍ

اس کی سند کمزور ہے أَبِي إِسْحَاقَ السبيعي ایک کوفی شیعہ مدلس راوی ہے جس  نے اس کو پھیلایا ہے

اسی کی ایک دوسری روایت ہے جو ابو عبداللہ الْجَدَلِيّ سے سنی ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي  إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الله الْجَدَلِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ الله، أَوْ سُبْحَانَ الله، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ عَلِيًّا، فَقَدْ سَبَّنِي

ابو عبداللہ الْجَدَلِيِّ نے ہم سے بیان کیا کہ میں ام سلمہ کے پاس گیا تو آپ نے مجھے فرمایا، کیا تم میں رسول اللہ  کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ میں نے کہا معاذاللہ یا سبحان اللہ یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا  آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ  کو فرماتے سنا ہے جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔

ابن حجر کہتے ہیں ابو عبداللہ الْجَدَلِيّ  ثقة رمى بالتشيع ثقہ ہیں لیکن شیعیت سے متصف ہیں

طبقات ابن سعد کے مطابق

كان شديد التشيع. ويزعمون أنه كان على شرطة المختار

یہ شدید شیعہ تھے اور دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ مختار ثقفی کے پہرے دار تھے

قال الجوزجاني: كان صاحب راية المختار

الجوزجاني کہتے ہیں یہ  المختار کا جھنڈا اٹھانے والوں میں سے ہیں

کذاب مختار کے ان صاحب کی بات اصحاب رسول کے لئے کس طرح قبول کی جا سکتی ہے

مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنِ الْحَجَّاجِ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ، عَمِّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ: نَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مِنْ عَلِيٍّ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: قَدْ عَلِمْتَ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى» ، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ؟

زید بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں: مغیرہ بن شُعْبَةَ نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دی، تو اس پر زید بن ارقم کھڑے ہو گئے اور کہا:  تمہیں علم ہے کہ رسول ص نے مردہ لوگوں کو گالیاں دینے سے منع کیا ہے، تو پھر تم علی ابن ابی طالب پر کیوں سب کر رہے ہو جب کہ وہ وفات پا چکے ہیں؟

اس کی سند میں حجاج ابن أيوب مولى بني ثعلبة ہے جس کا حال مجھول ہے

مستدرک الحاکم میں اس کی دوسری سند ہے جس کو حاکم صحیح کہتے ہیں

عمرو بن محمد بن أبي رزين الخزاعي، عن شعبة، عن مسعر، عن زياد بن علاقة، عن عمه قطبة بن مالك

لیکن اس کی مخالف حدیث مسند احمد میں موجود ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:   نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ سَبِّ الْأَمْوَاتِ

الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مردوں کو برا کہنے سے منع کیا ہے

ایک طرف تو وہ خود یہ حدیث بیان کریں اور پھر اس پر عمل نہ کریں ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے

سنن ابو داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ حُصَيْنٌ: أَخْبَرَنَا عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ مُعَاوِيَةُ مِنَ الْكُوفَةِ، اسْتَعْمَلَ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، قَالَ: فَأَقَامَ خُطَبَاءَ يَقَعُونَ فِي عَلِيٍّ، قَالَ: وَأَنَا إِلَى جَنْبِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: فَغَضِبَ فَقَامَ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَتَبِعْتُهُ فَقَالَ: أَلا تَرَى إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة (مسند احمد رقم 1644 سنن ابوداؤد رقم 4650)
جب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو مغیرہ بن شعبۃ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کیا اس پر سعید بن زید رضی اللہ عنہ غصہ میں اپنا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا اور کہا کیا اس ظالم شخص کو نہیں دیکھا جو کسی کے لیے ایک جنتی شخص کو لعنت دے رہا ہے۔

اس کی سند منقطع ہے النسائي  فضائل الصحابہ میں اس روایت کو پیش کرتے اور کہتے ہیں

هِلَال بن يسَاف لم يسمعهُ من عبد الله بن ظَالِم

هِلَال بن يسَاف نے عبد الله بن ظَالِم سے نہیں سنا

محدثین کے مطابق ان دونوں کے درمیان ابن حيان ہے جس کو میزان الاعتدال میں الذھبی نے مجھول قرار دیا ہے

ابن حيان [س] .عن عبد الله بن ظالم – لا يعرف.

مسلم کی بھی ایک روایت ہے

عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔

سعد بن ابی وقاص کے بیٹے عامر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ نے سعد کو (ایک ) حکم دیا پس معاویہ نے  کہا کہ آپ کو کس چیز نے روکا ہے کہ آپ ابو تراب [علی] پر سب و شتم نہ کریں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب میں اُن تین ارشادات نبوی کو یاد کرتا ہوں جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے علی کے متعلق فرمائے تھے تو میں ہرگز ان پر سب و شتم نہیں کر سکتا۔ ان تین مناقب میں سے اگر ایک منقبت بھی میرے حق میں ہوتی تو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی

اس کی سند میں بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ہے  جن کے لئے امام بخاری کہتے ہیں

في حديثه بعض النظر

اس کی بعض حدیثیں نظر میں ہیں

بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ہی وہ راوی ہے جو روایت کرتا ہے کہ

وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي»

جب آیت نازل ہوئی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی فاطمہ حسن حسین کو بلایا اور کہا اے الله یہ میرے اہل بیت ہیں

امام بخاری اس روایت کے راوی پر جرح کرتے ہیں لیکن امام مسلم اس کو صحیح میں لکھتے ہیں

فيہ نظر بخاری کی جرح کا انداز ہے-  ابن حجر کی رائے میں اس نام کے دو لوگ ہیں ایک ثقہ اور ایک ضعیف لیکن بخاری کے نزدیک دونوں ایک ہی ہیں اور انہوں نے اس سے صحیح میں کچھ نہیں لکھا-  مسلم نے بھی تین روایات لکھی ہیں جن میں سے دو میں علی پر سب و شتم کا ذکر ہے اور یہی سند دی ہے

ابن کثیر لکھتے ہیں

وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ‏(‏‏(‏إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ‏؟‏‏)‏‏)‏أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر‏:‏ ‏(‏‏(‏لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار‏)‏‏)‏ ‏(‏ج/ص‏:‏ 7/377‏)‏أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.‏

ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا:  آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ رسول الله نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب آپ  غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو اپ نے  خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ  میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں  یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول الله  کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور اپ کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔

یہ روایت تاریخ کے مطابق غلط ہے اول تاریخ ابو زرعہ الدمشقی میں یہ موجود نہیں دوم سعد آخری وقت تک معاویہ کے ساتھ رہے سوم اس کی سند میں مدلس محمد بن اسحاق ہے جو عن سے روایت کرتا ہے چہارم معاویہ نے حج کے خطبہ میں علی پر سب و شتم کیوں نہیں کیا یہ موقعہ ہاتھ سے کیوں جانے دیا؟

 ابن ماجہ کی بھی ایک روایت ہے

حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعدوقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله

حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔

اس کی سند میں عبد الرحمن بن سابط و قيل ابن عبد الله بن سابط  المتوفی ١١٨ ھ ہیں جن کو ا بن حجر کہتے ہیں  ثقة كثير الإرسال –  کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل کے مطابق

  وقال يحيى بن معين لم يسمع من سعد بن أبي وقاص

یحیی بن معین کہتے ہیں انہوں نے  سعد بن أبي وقاص  سے نہیں سنا

ابن ماجہ کی اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں جبکہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے

الغرض معاویہ یا مغیرہ رضی الله عنہ کا علی رضی الله عنہ پر سب و شتم ثابت نہیں ہے البتہ مروان کے دور میں بعض شر پسند یہ کرتے تھے مسلم کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا

ال مروان میں سے ایک شخص نے سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنہ المتوفی ٨٨ ھ  کے سامنے علی رضی الله عنہ پر لعنت کی جس پر انہوں نے اس کو نا پسند کیا

مورخین ابن اثیر ابن کثیر نے انہی روایات کو اپس میں ملا کر جرح و تعدیل پر غور کیے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ باقاعدہ معاویہ رضی الله عنہ اس کو کرواتے تھے جو صحیح نہیں ہے

پنجم:  سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین پر عمل ختم ہوتا جا رہا تھا۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ

البانی کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها جلد اول ص  ٨٢٣ پر معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں

ووفاة النبي صلى الله عليه وسلم كانت في شهر ربيع الأول سنة إحدى عشرة هجرية، وإلى عام ثلاثين سنة كان إصلاح ابن رسول الله صلى الله عليه  وسلم  الحسن بن على السيد بين فئتين من المؤمنين بنزوله عن الأمر عام واحد وأربعين في شهر جمادى الآخرة، وسمي عام الجماعة لاجتماع الناس على معاوية، وهو أول الملوك، وفي الحديث الذي رواه مسلم:   سيكون خلافة نبوة ورحمة، ثم يكون ملك ورحمة، ثم يكون ملك وجبرية، ثم يكون ملك عضوض

نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ربيع الأول میں ١١ ہجری میں ہوئی اور تیسوں سال میں اصلاح  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے حسن بن علی سردار سے ہوئی کہ مومنوں کے گروہوں میں ایک امر پر اتفاق ہوا ٤١ ہجری جمادى الآخرة کے مہینہ میں اور اس کو عام الجماعة کا نام ملا کیونکہ لوگوں کا اجماع معاویہ پر ہوا اور وہ پہلا بادشاہ تھا اور مسلم کی حدیث جو انہوں نے روایت کی اس میں ہے پس خلافت نبوت و رحمت ہو گی پھر بادشاہت و رحمت ہو گی پھر بادشاہت و جبر ہو گا پھر ریاست بھنبھوڑنے والی ہو گی

البانی نے غلط کہا ایسی کوئی حدیث صحیح مسلم میں نہیں ہے

بھنبھوڑنے والی ریاست والی حدیث ہے

معجم ابن الأعرابي از أبو سعيد بن الأعرابي البصري الصوفي (المتوفى: 340هـ) اور طبرانی الکبیر  کی روایت ہے

نا زَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الصَّايِغُ، نا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُكْلِيُّ،  نا الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ الْغَنَوِيُّ، نا مُهَنَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْعَبْسِيُّ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتُمُ الْيَوْمَ فِي نُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا مُلُوكًا عَضُوضًا، يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَيَلْبَسُونَ الْحَرِيرَ، وَفِي ذَلِكَ يُنْصَرُونَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ

حُذَيْفَةَ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آج تم پر نبوت و رحمت ہے پھر خلافت و رحمت ہو گی پھر ایسا ویسا ہو گا پھر ایسا ایسا ہو گا  بادشاہت بھنبھوڑنے والی ہو گی جو شراب پئیں گے اور ریشم پہنیں گے

اس کی سند میں مهند بن هشام القيسي الكوفي ہے جو مجھول ہے اس کو طبرانی کی سند میں العلاء بن المنهال نے ثقہ کہا ہے جبکہ اس کا حال نا معلوم ہے

خود العلاء بن المنهال کے لئے امام العقيلي کہتے ہیں : لا يتابع عليه اس کی روایات کی متابعت نہیں ہے

امام الذہبی نے ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں العلاء بن المنهال کے لئے کہا ہے فيه جهالة اس میں جہالت ہے یعنی یہ مجھول ہے

جبکہ أبو زرعة الرازي اور عجلی نے اس کو ثقہ کہا ہے

اسطرح العلاء بن المنهال تو مختلف فیہ ہو گیا اور یہ جس مُهَنَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْعَبْسِيُّ کو ثقہ کہتا ہے وہ مجھول ہے

ششم : زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا مصنف ابن ابی شیبہ ، اروء الغلیل از البانی 

إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل میں البانی نے صدقه فطر کی ایک روایت پر ح ٨٤٧ کے تحت بحث کی ہے

كنا نخرج زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعا من طعام , أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر , أو صاعا من زبيب , أو صاعا من أقط

پھر اس پر کہا  کہ ترمذی میں اضافہ کے کہ ابو سعید نے وہ نہ کیا جو معاویہ نے کہا

فلما جاء معاوية , وجاءت السمراء قال:   أرى مدا من هذا يعدل مدين   – زاد الترمذى: من تمر. – قال: فأخذ الناس بذلك , قال أبو سعيد: فلا أزال

75- بَابُ صَاعٍ مِنْ زَبِيبٍ:باب: صدقہ فطر میں منقیٰ بھی ایک صاع دینا چاہیےحدیث نمبر:

  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَكِيمٍ الْعَدَنِيَّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِيعِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَاءَ مُعَاوِيَةُ وَجَاءَتْ السَّمْرَاءُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُرَى مُدًّا مِنْ هَذَا يَعْدِلُ مُدَّيْنِ

.ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے یزید بن ابی حکیم عدنی سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے

یعنی معاویہ نے دوسرے اناج میں ایک کی بجائے دو صاع نکالنے کا حکم دیا جو ایک سے زیادہ ہے ظاہر ہے یہ صدقه میں اضافہ ہے نہ کہ کمی

صحیح مسلم اور دیگر کتب میں ہے معاویہ نے کہا

إنى أرى أن مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر. فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «فَأَمَّا أَنَا فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ، أَبَدًا مَا عِشْتُ

میں دیکھتا ہوں کہ  گیہوں کے شام کے دو مد،  کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں – پس لوگوں نے ایسا کیا لیکن میں نے اس چیز کو نہیں چوڑا جو میں نکالتا تھا جب تک میں زندہ ہوں

اس کا مطلب ہے کہ شام میں مد کا جو پیمانہ چل رہا تھا وہ حجاز کے مد کے  پیمانے سے بڑا  تھا وہ مدینہ کے صاع کے برابر نہ تھا  اس لئے معاویہ جو شام سے آئے تھے ان کے قافلہ کے پاس شامی صاع ہونگے اور انہوں نے اس کو ناپتے ہوئے یہ حکم کیا کہ نیا صاع خریدنے کی بجائے اگر ہم پیمانہ کے تناسب کو لیں تو دو شامی مد، حجاز کے ایک صاع کے برابر ہے

مبارک پوری تحفہ الاحوذی میں لکھتے ہیں

تَنْبِيهٌ اعْلَمْ أَنَّ الصَّاعَ صَاعَانِ حِجَازِيٌّ وَعِرَاقِيٌّ فَالصَّاعُ الْحِجَازِيُّ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثُ رِطْلٍ وَالْعِرَاقِيُّ ثَمَانِيَةُ أَرْطَالٍ وَإِنَّمَا يُقَالُ لَهُ الْعِرَاقِيُّ لِأَنَّهُ كَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي بِلَادِ الْعِرَاقِ مِثْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهَا وَهُوَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّاعُ الْحَجَّاجِيُّ لِأَنَّهُ أَبْرَزَهُ الْحَجَّاجُ الْوَالِي وَأَمَّا الصَّاعُ الْحِجَازِيُّ فَكَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي بِلَادِ الْحِجَازِ وَهُوَ الصَّاعُ الَّذِي كَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ كَانُوا يُخْرِجُونَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ فِي عَهْدِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُو يُوسُفَ وَالْجُمْهُورُ وَهُوَ الْحَقُّ

تَنْبِيهٌ جان لو لہ صاع دو ہیں ایک حجازی ہے اور عراقی ہے – پس حجازی صاع پانچ أَرْطَالٍ یا تین أَرْطَالٍ کا ہے – اور عراقی صاع آٹھ أَرْطَالٍ کا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عراق کے شہروں میں مثلا کوفہ اور دیگر میں جو صاع چلتا ہے اس کو حجاجی کہا جاتا ہے اور جہاں تک حجازی صاع کا تعلق ہے جو حجاز کے شہروں میں استمعال ہوتا ہے تو وہ وہ صاع ہے کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں چلتا تھا جس سے صدقه فطر نکالا جاتا تھا دور نبوی میں اور ایسا امام مالک ، الشافعی اور احمد اور یوسف اور جمہور کا کہنا ہے جو حق ہے

عراق كا صأع حجأز سے بڑا ہے – اور اسی طرح شام کا صاع کا پیمانہ الگ تھا

اگر یہ بات تھی تو پھر ابو سعید نے کیوں نہیں کیا ؟ ابو سعید نے اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کو محبوب رکھتے تھے کہ وہی کریں جو انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اور تناسب والی بات کو باقی اصحاب نے سمجھ پر قبول کر لیا

عمدہ القاری میں علامہ عینی لکھتے ہیں

وَقَالَ النَّوَوِيّ: هَذَا الحَدِيث مُعْتَمد أبي حنيفَة، قَالَ بِأَنَّهُ فعل صَحَابِيّ، وَقد خَالفه أَبُو سعيد وَغَيره من الصَّحَابَة مِمَّن هُوَ أطول صُحْبَة مِنْهُ وَأعلم بِحَال النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَقد أخبر مُعَاوِيَة بِأَنَّهُ رَأْي رَآهُ، لَا قَول سَمعه من النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، قُلْنَا: إِن قَوْله: فعل صَحَابِيّ، لَا يمْنَع لِأَنَّهُ قد وَافقه غَيره من الصَّحَابَة الجم الْغَفِير بِدَلِيل قَوْله فِي الحَدِيث: فَأخذ النَّاس بذلك، وَلَفظ النَّاس للْعُمُوم، فَكَانَ إِجْمَاعًا. وَلَا تضر مُخَالفَة أبي سعيد لذَلِك بقوله: أما أَنا فَلَا أَزَال أخرجه، لِأَنَّهُ لَا يقْدَح فِي الْإِجْمَاع، سِيمَا إِذا كَانَ فِيهِ الْخُلَفَاء الْأَرْبَعَة، أَو نقُول: أَرَادَ الزِّيَادَة على قدر الْوَاجِب تَطَوّعا.

امام نووی  نے کہا : اس حدیث پر امام ابو حنیفہ  نے اعتماد کیا ہے اور کہا یہ صحابی (معاویہ) کا فعل ہے اور ان کی مخالفت کی ہے ابو سعید نے اور دوسرے اصحاب نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے اور بے شک معاویہ نے خبر دی کہ وہ دیکھتے ہیں نہ کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اس پر سنا- (عینی نے کہا) ہم (جوابا) کہتے ہیں  کہ ان (امام ابو حنیفہ) کا کہنا کہ صحابی کا فعل ہے اس سے منع نہیں کرتا کیونکہ اس میں معاویہ کی موافقت اصحاب رسول کے جم غفیر نے کی ہے اس میں دلیل حدیث ہے کہ اس کو لوگوں نے لیا اور لفظ الناس عموم ہے کہ اس پر اجماع ہوا اور ابو سعید کی مخالفت سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اس قول پر کہ   جہاں تک میں ہوں تو میں اس (صدقه فطر) کو نکالوں گا جیسا نکالتا تھا   کیونکہ انہوں نے اس اجماع پر قدح نہیں کیا خاص طور…. اس میں ارادہ ہے کہ جو مقدار واجب نفلی تھی اس سے زائد دیا گیا

ہفتم : ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا  بخاری ، مسلم ،ابوداود

البانی صاحب کتاب سلسلہ احادیث الصحیحہ میں ایک روایت کے شاہد پر دلیل دیتے ہیں

كما في  تفسير ابن كثير  (4/159) – عن عبد الله البهي قال:
إني لفي المسجد حين خطب مروان فقال: إن الله تعالى قد أرى أمير المؤمنين
في (يزيد) رأياً حسناً وأن يستخلفه، فقد استخلف أبو بكر عمر- رضي الله عنهما-. فقال عبد الرحمن بن أبي بكر- رضي الله  عنهما-: أهرقلية؟! إن أبا بكر- رضي الله عنه- ما جعلها في أحد من ولده، وأحد من أهل بيته، ولا جعلها معاوية  إلا رحمة وكرامة لولده! فقال مروان: ألست الذي قال لوالديه: (أفٍّ لكما) ؟ فقال

عبد الرحمن: ألست يا مروان! ابن اللعين الذي لعن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أباك؟! قال: وسمعتهما عائشة- رضي الله عنها-، فقالت: يا مروان! أنت القائل لعبد الرحمنكذا وكذا؟! كذبت! ما فيه نزلت، ولكن نزلت في فلان بن فلان. ثم انتحب
مروان (!) ثم نزل عن المنبر حتى أتى باب حجرتها، فجعل يكلمها حتى انصرف. قلت: سكت عنه ابن كثير، وهو إسناد صحيح.

 جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ

عبداللہ بہی نے کہا کہ ہم مسجد میں تھے جب مروان نے خطبہ دیا کہ اللہ نے معاویہ کو یزید کے بارے میں اچھی رائے دی ہے، کہ وہ انہیں اپنا خلیفہ بنائے جیسے ابو بکر نے عمر کو خلیفہ بنایا۔ عبدالرحمن بن ابو بکر نے کہا کہ کیا ہرقل  کے مطابق؟ ابوبکر نے اپنی اولاد میں کسی کو نہیں بنایا نہ اپنے گھر والوں میں، معاویہ اپنی اولاد پر رحمت و کرامت کر رہا ہے۔ مروان نے کہا کہ تہمارے لیے یہ آیت آئی ہے۔ اس پر عبدالرحمن نے کہا یہ اے مروان! کیا تم لعنتی کے بیٹے نہیں جس کے باپ پر اللہ کے رسول نے لعنت کی؟ یہ عائشہ رضی الله عنہا نے سنا تو انہوں نے کہا کہ اے مروان! تم عبدالرحمن کے لیے فلان فلان چیز کے قائل ہو؟ تم نے جھوٹ بولا، یہ فلان فلان کے لیے نازل ہوئی۔ مروان نیچے اترا جلدی سے، اور آپ کے حجرے پر آیا، کچھ بولا اور پھر چلا گیا۔ 

میں البانی یہ کہتا ہوں کہ ابن کثیر اس پر چپ رہے ہیں، مگر یہ سند صحیح ہے

عبد الله البھی کا عائشہ رضی الله عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے کتاب جامع التحصیل کے مطابق امام احمد کے نزدیک ان کا سماع نہیں ہے

عبد الله البهي سئل أحمد بن حنبل هل سمع من عائشة رضي الله عنها قال ما أرى في هذا شيئا إنما يروي عن عروة

اہم سوال ہے کہ کیا علی رضی الله عنہ نے ہرقل کی سنت پر عمل نہ کیا؟

معاویہ پر اصحاب رسول کو رشوت دینے کا بھی الزام ہے- طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے

أَخْبَرَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَعَثَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ بِمِائَةِ أَلْفٍ. فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُبَايِعَ لِيَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: أَرَى ذَاكَ أَرَادَ. إِنَّ دِينِي عِنْدِي إِذًا لَرَخِيصٌ

نافع نے کہا معاویہ نے ابن عمر کی طرف ایک لاکھ بھیجے پس جب یزید کی بیعت کا ارادہ کیا ابن عمر نے کہا میں دیکھتا ہوں معاویہ کا یہ مقصد تھا – میرادین تو سستا ہو گیا

راقم کہتا ہے اس کی سند میں بصری مدلس ایوب سختیانی ہے اور سند کمزور ہے

ہشتم : محرمات سے نکاح ہوا

تاریخ الطبری دار التراث – بيروت ج ٥ ص ٤٨٠  کے مطابق

 قَالَ لوط: وَحَدَّثَنِي أَيْضًا مُحَمَّد بن عَبْدِ الْعَزِيزِ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عوف ورجع المنذر من عِنْدَ يَزِيد بن مُعَاوِيَة، فقدم عَلَى عُبَيْد اللَّهِ بن زياد الْبَصْرَة… فأتى أهل الْمَدِينَة، فكان فيمن يحرض الناس عَلَى يَزِيد، وَكَانَ من قوله يَوْمَئِذٍ: إن يَزِيد وَاللَّهِ لقد أجازني بمائة ألف درهم، وإنه لا يمنعني مَا صنع إلي أن أخبركم خبره، وأصدقكم عنه، وَاللَّهِ إنه ليشرب الخمر، وإنه ليسكر حَتَّى يدع الصَّلاة

منذربن الزبیر اہل مدینہ کے پاس آئے تو یہ ان لوگوں میں سے تھے جو لوگوں کو یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔ اور یہ اس دن کہتے تھے : اللہ کی قسم ! یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم دئے، لیکن اس نے مجھ پر جو نوازش کی ہے وہ مجھے اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ میں تمہیں اس کی خبر بتلاؤں اور اس کے متعلق سچ بیان کردوں ۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یزید شرابی ہے اور شراب کے نشے میں نماز بھی چھوڑ دیتا ہے

أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے

وقال الدارقطني: ضعيف

 وقال يحيى بن معين: ((ليس بثقة)). وقال مرةً أخرى: ((ليس بشيء)). ثقه نہیں ، کوئی چیز نہیں

وقال ابن عدي: ((شيعي محترق، صاحب أخبارهم)) اگ لگانے والا شیعہ ہے

 الطبقات الكبرى ، دار الكتب العلمية – بيروت، ج ٥ ص ٤٩ میں ہے

اخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيم عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَعَنْ غَيْرِهِمْ أَيْضًا. كُلٌّ قَدْ حَدَّثَنِي. قَالُوا: لَمَّا وَثَبَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيَالِيَ الحرة فأخرجوا بَنِي أُمَيَّةَ عَنِ الْمَدِينَةِ وَأَظْهَرُوا عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَخِلافَهُ أَجْمَعُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ فَأَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَيْهِ فَبَايَعَهُمْ عَلَى الْمَوْتِ وَقَالَ: يَا قَوْمُ اتَّقُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لا شريك له. فو الله مَا خَرَجْنَا عَلَى يَزِيدَ حَتَّى خِفْنَا أَنْ نُرْمَى بِالْحِجَارَةِ مِنَ السَّمَاءِ. إِنَّ رَجُلا يَنْكِحُ الأُمَّهَاتِ وَالْبَنَاتَ وَالأَخَوَاتِ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَدَعُ الصَّلاةَ

جب اہل مدینہ نے حرہ کے موقع پر فساد کیا، بنوامیہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ، یزید کے عیوب کا پرچار  اس کی مخالفت کی تو لوگوں نے عبداللہ بن حنظلہ کے پاس آکر اپنے معاملات انہیں سونپ دئے ۔ عبداللہ بن حنظلہ نے ان سے موت پر بیعت کی اور کہا: اے لوگو ! اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو ! اللہ کی قسم ہم نے یزید کے خلاف تبھی خروج کیا ہے جب ہمیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پر کہیں آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے کہ ایک آدمی ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور نماز چھوڑتا ہے

اس کی سند میں  أبو عبد الله، محمد بن عمر بن واقد، الواقدي ، الأسلمي مولاهم، المدني ہیں. الواقدی  قاضي بغداد تھے عبد الله بن بريدة، الأسلمي کے آزاد کردہ غلام تھے سن ٢٠٧ ھ میں وفات ہوئی  انکو محدثین متروك مع سعة علمه یعنی اپنی علمی وسعت کے باوجود متروک ہیں کہتے ہیں

الواقدي کٹر شیعہ ہیں اس وجہ سے انکی روایت  نہیں لی جا سکتی ورنہ تاریخ اور جرح و تعدیل کی کتابوں میں انکے اقوال راویوں کی وفات کے حوالے سے قابل قبول ہیں اگر یہ کسی کو شیعہ کہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ بھی کٹر شیعہ ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَادٍ الأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … أَنْ ذَكَرَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. فَقَالَ: إِنِّي خَرَجْتُ كَرْهًا بِبَيْعَةِ هَذَا الرَّجُلِ. وَقَدْ كَانَ مِنَ الْقَضَاءِ وَالْقَدَرِ خُرُوجِي إِلَيْهِ. رَجُلٌ يَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَنْكِحُ الْحُرُمَ

معقل بن سنان نے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کا ذکر کیا اور کہا: میں اس شخص کی بیعت سے کراہت کی وجہ سے نکلا ہوں ، اور اس کی طرف جانا ،قضاو قدر میں تھا ۔یہ ایسا آدمی ہے جو شراب پیتا ہے ، محرمات سے نکاح کرتا ہے

اسکی سند میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَاد ہے جو مجھول ہے دوسرے الواقدی شیعہ بھی ہے

 وہ کون کون سی محرم عورتیں تھیں جن کا اس سے نکاح تھا ان کی لسٹ ہے کسی کے پاس ہے تو پیش کرے
انہوں نے جو بچے جنے ان کے کیا نام تھے کسی نسب کی کتاب میں ہیں؟

نہم:  یزید شرابی تھا 

تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 220 و تاريخ طبرى، ج 6، ص 170. ابن اثير در كامل (ج 3، ص 503-505) کے مطابق یزید بندروں سے کھیلتا تھا

ابن اثیراور طبری  نے لکھا  کہ ابو مخنف نے روایت کیا حسن نے کہا

قَالَ أَبُو مخنف: عن الصقعب بن زهير، عن الْحَسَن، قَالَ: أربع خصال كن فِي مُعَاوِيَة، لو لَمْ يَكُنْ فِيهِ منهن إلا واحدة لكانت موبقة: انتزاؤه عَلَى هَذِهِ الأمة بالسفهاء حَتَّى ابتزها أمرها بغير مشورة مِنْهُمْ وفيهم بقايا الصحابة وذو الفضيلة، واستخلافه ابنه بعده سكيرا خميرا، يلبس الحرير ويضرب بالطنابير،

یزید ریشم پہنتا ہے اور شرابی ہے

 أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے

دھم:  یزید کتوں اور بندروں سے کھیلتا تھا

المنتظم في تاريخ الأمم والملوك میں ابن جوزی نے لکھا

عبد الله بن حنظلة الغسيل، والمنذر بن الزبير نے کہا

ويلعب بالكلاب

یہ کتوں سے کھیلتا ہے

سند میں واقدی ہے

تاریخ طبری ج ١٠ ص ٦٠ پر ہے معاویہ نے اپنے بیٹے کی خلافت پر بلایا

ودعاؤه عباد الله الى ابنه يزيد المتكبر الخمير، صاحب الديوك والفهود والقرود

جو متکبر شرابی تھا  مرغوں، چیتوں اور بندروں والا

یہ تمام اقوال نہایت کمزور سندوں سے ہیں – لیکن اگر مان لیں صحیح ہیں تو اس میں کیا برائی ہے ؟  یزید کو چڑیا گھر کا شوق ہو گا- آج ساری دنیا چڑیا گھر جا جا کر دیکھ رہی ہے اگر نہ جائے تو مسلمانوں کا خلیفه نہ جائے

کیا اصحاب کہف کا کتا نہیں تھا؟

شکار کے لئے کتوں کو پالنا  جائز ہے اس کا ذکر احادیث میں ہے

حسن و حسین رضی الله عنہما بھی کتوں سے کھیلتے تھے سنن ابو داود کی حسن حدیث ہے

حدَّثنا أبو صالحٍ محبوبُ بنُ موسى، حدَّثنا أبو إسحاق الفزَاريُّ، عن يونَس بن أبي إسحاق، عن مجاهدٍ
حَدّثنا أبو هُريرة، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: أتاني جبريلُ عليه السلام، فقال لي: أتيتُكَ البارحَةَ فلم يمنعْني أن أكونَ دخلتُ إلا أنَّه كانَ على الباب تماثيلُ، وكان في البيت قِرَامُ سِتْرٍ فيه تماثيلُ، وكان في البيت كلْبٌ، فَمُرْ برأسِ التِّمثَالِ الذي على بابِ البيت يقْطَعُ فيصيرُ كهيئةِ الشجرة، ومُرْ بالسِّترِ، فليُقْطَع، فيُجعَلُ منه وسادَتَان مَنبوذتانِ تُوطآن، ومُرْ بالكلب فليُخرَج” ففعل رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -، وإذا الكلبُ لحَسَنٍ أو حُسين كان تحتَ نَضَدٍ لهم، فأمر به فأخْرِجَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میرے پاس جبرائیل علیہ السلام نے آ کر کہا: میں کل رات آپ کے پاس آیا تھا لیکن اندر نہ آنے کی وجہ صرف وہ تصویریں رہیں جو آپ کے دروازے پر تھیں اور آپ کے گھر میں (دروازے پر)ایک منقش پردہ تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں، اور گھر میں کتا بھی تھا تو آپ کہہ دیں کہ گھر میں جو تصویریں ہوں ان کا سر کاٹ دیں تاکہ وہ درخت کی شکل کی ہو جائیں، اور پردے کو پھاڑ کر اس کے دو غالیچے بنا لیں تاکہ وہ بچھا کر پیروں سے روندے جائیں اور حکم دیں کہ کتے کو باہر نکال دیا جائے”، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا، اسی دوران حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کا کتا ان کے تخت کے نیچے بیٹھا نظر آیا، آپ نے حکم دیا تو وہ بھی باہر نکال دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نضد» چارپائی کی شکل کی ایک چیز ہے جس پر کپڑے رکھے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب ۴۴ (۲۸۰۶)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۶۰ (۵۳۶۷)،

تلك عشرة كاملة

جھگڑا کیا ہوا ؟

معاویہ اور حسین رضی الله عنہما میں اختلافات حسن رضی الله عنہ کی وفات کے بعد ہوئے جس میں فریقین نے ایک دوسرے سے کلام نہیں کیا اور اختلاف اندر ہی اندر بڑھتا رہا

حسن و معاویہ رضی الله عنہما میں  جو معائدہ ہوا اس کی شقیں تھیں

بحوالہ  عمرو بن غرامة العمروي محقق تاریخ دمشق دار الفكر

 أن يعمل معاوية بالمؤمنين بكتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه وآله وسلم وسيرة الخلفاء الصالحين من بعده

معاویہ مومنوں کے ساتھ کتاب الله اور سنت النبی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق عمل کریں گے اور ان کے بعد انے والے صالح خلفاء کی سیرت کے مطابق

المدائني کی سند سے شیعہ مورخ ابن أبي الحديد کتاب شرح النهج 4 / 8 میں لکھا ہے کہ کتاب الله اور سنت نبی پر عمل کا عہد ہوا  فتح الباري کے مطابق سیرت خلفاء صالحین پر عمل کا عہد ہوا

ليس لمعاوية أن يعهد لاحد من بعده عهدابل يكون الامر من بعده شورى بين المسلمين

معاویہ کسی کو بھی جانشین مقرر نہیں کریں گے اور ان کے بعد معاملہ مسلمانوں کی شوری کے پاس ہو گا

المدائني کہتا ہے یہ عہد بھی ہوا کہ معاویہ کسی کو جانشیں نہ کریں گے

 أن يكون الامر للحسن من بعده

امر خلافت معاویہ کے بعد حسن کو ملے گا

تاريخ الخلفاء للسيوطي ص 194 والاصابة 2 / 12 – 13 کے مطابق یہ عہد ہوا کہ خلافت واپس حسن کو ملے گی معاویہ کی وفات کے بعد

 أن لا يشتم عليا وهو يسمع

ابن اثیر کے مطابق حسن کے سامنے علی پر شتم نہ ہو گا کہ وہ سن رہے ہوں

اور شیعہ کتاب  مقاتل الطالبيين کے مطابق

أن يترك سب أمير المؤمنين والقنوت عليه بالصلاة 

علی پر نماز میں قنوت پڑھنا بند ہو گا اور ان کو گالی دینا بند ہو گا

تاریخ طبری   6 / 92 کے مطابق حسن و حسین کو مال ملے گا

 يسلم ما في بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف للحسن وله خراج دارابجرد 

خمسة آلاف ألف کوفہ کے بیت المال سے حسن کو دیے جائیں گے اور دار ابجرد کا خراج بھی

اور الاخبار الطوال ص 218 أبو حنيفة الدينوري  کے مطابق ان کے بھائی حسین کو

أن يحمل لاخيه الحسين في كل عام ألفي الف

ہر سال  حسین کو ٢٠٠٠ ملیں گے

اپ دیکھ سکتے ہیں ان شقوں میں تضاد ہے امیر المومنین حسن رضی الله عنہ جب معاویہ سے معائدہ کر رہے تھے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ پہلے انتقال کر جائیں گے یا قتل یا شہید ہوں گے کیونکہ انہوں نے اس پر عھد کیا کہ امر خلافت واپس ان کو ملے گا- متاخرین شیعہ نے اس معائدہ میں اضافہ کیا کہ معاویہ کی موت پر یہ مسئلہ شوری طے کرے گی جبکہ شوری کا کوئی رول قابل قبول نہیں ہے کیونکہ خلافت واپس حسن پر لوٹ اتی جس سے ظاہر ہے کہ اصل عھد تھا کہ خلافت حسن کو واپس ملے گی-  أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني المتوفی ٢٢٤ ھ کا قول منفرد  ہے یہ بات ان کے حوالے سے شیعہ و سنی کتابوں میں ہے ان سے قبل کسی نے اس کو بیان نہیں کیا

حسن رضی الله عنہ کی سن ٥٠ ھجری میں وفات ہوئی – سن ٥١ ہجری میں یزید بن معاویہ نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کر کے امّت میں اپنی امیر کی صلاحیتوں کو منوا لیا – اس حملے میں جلیل القدر اصحاب رسول بھی ساتھ تھے – سن ٥١ ھجری میں معاویہ رضی الله عنہ نے یزید کی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور اس وقت عائشہ رضی الله عنہا حیات تھیں جن کی وفات معاویہ رضی الله عنہ کی وفات سات تین یا سات سال پہلے ہوئی ہے گویا کم از کم یزید کی بیعت کی دعوت تین سال تک دی جاتی رہی اور حسین رضی الله عنہ نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ وہ کسی معائدہ کی خلاف ورزی نہیں کر رہے تھے حسن کی وفات ہو چکی تھی لہذا امر خلافت ان کو نہیں لوٹ سکتا تھا  معاویہ فیصلہ کرنے میں آزاد تھے اور انہوں نے امت کو اس پر سوچنے کا پورا موقعہ دیا کہ کسی کو اختلاف ہو تو پیش کرے- حسین رضی الله عنہ کو یہ بات پسند نہ آئی لیکن انہوں نے اپنی مخالفت کا اظہار بھی نہیں کیا یہاں تک کہ کوفہ کے ان کے حامیوں نے ان کو خط لکھ کر کوفہ بلوایا اور جب بات ظاہر کی اس وقت تک دیر ہو چکی تھی یزید امیر تھے اور حسین  کے لئے وہ اقتدار نہیں چھوڑ سکتے تھے کیونکہ وہ اسی طرح خلیفہ ہوئے جس طرح علی نے حسن کو خلیفہ کیا تھا جو حسین کے باپ علی کی سنت تھی اور سنت علی پر  چلنا بھی عھد کی شق تھا جیسا  تاریخ میں ہے

اس لئے یہ جھگڑا بڑھا اور اگلے ١٥٠ سال تک بنو ہاشم خلفاء کے خلاف خروج کرتے رہے جن میں کچھ اولاد حسن میں سے ہیں کچھ اولاد حسین میں سے ہیں کچھ عباس رضی الله عنہ کی اولاد میں سے ہیں یعنی ہر ٢٠ سال بعد ایک خروج ہوا اور یہاں تک کہ عباسی خلافت تک میں خروج ہوتے رہے جبکہ دونوں بنو ہاشم ہی تھے- ان تمام  خروج میں کامیابی صرف بنو عباس کو ہوئی جو سنی عقیدہ رکھنے والے بنو ہاشم  تھے اور ان کی شادیان شیعہ عقیدہ کے حامل بنو ہاشم میں بھی ہوئیں- بہت سے راوی جو الکافی کے راوی ہیں وہ بنو عباس کے درباری تھے مثلا عبد الله بن سنان، ان کے کاتب یا خزانچی  تھے- اس طرح شیعہ و سنی دونوں اسلامی خلافت میں اپنے اپنے اختلاف کے ساتھ جیتے رہے اس دوران بعض سیاسی خروج سے خود اثنا عشری شیعہ بھی پریشان ہوئے اور ان کی حمایت نہیں کی مثلا قرامطہ اسماعیلی شیعہ تھے لیکن بہت متشدد اور گمراہ تھے جنہوں نے حجر اسود کو اکھاڑ کر کوفہ پہنچایا ،  ان سے اسماعیلی شیعہ جو مصر میں تھے وہ بھی نا خوش تھے

الغرض ایک واقعہ جو ٦١ ہجری میں ہوا اس  کو اس طرح بیان کرتے  رہنا کہ گویا اہل بیت اور غیر اہل بیت ہر وقت جھگرتے رہے تاریخ کو مسخ کرنا ہے

اب عرب میں ویدانت پھیلے گا

قبیلہ دوس کا ذکر

دوس کے خلاف دوس کے حق میں
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلَى ذِي الخَلَصَةِ

 

ابو ہریرہ الدوسی رضی الله عنہ نے خبر دی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی  یہاں تک کہ دوس کی عورتوں کے کولہے ذی الخلصہ کے آگے تھرکیں گے

 

صحیح ابن حبان میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے

قَالَ مَعْمَرٌ: إِنَّ عَلَيْهِ الْآنَ بَيْتًا مبنيا مغلقا

معمر نے کہا ان کا ایک گھر (مندر) ابھی تک بند پڑا ہے

جبکہ صحیح بخاری میں ہے کہ مندر ذوالخلصہ کی عمارت کو گرا کر اس میں اصحاب رسول نے  آگ لگا دی

 

ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنِ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو العَالِيَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِمَّنْ أَنْتَ»؟ قَالَ: قُلْتُ: مِنْ دَوْسٍ. قَالَ: «مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ فِي دَوْسٍ أَحَدًا فِيهِ خَيْرٌ قال الألباني : صحيح الإسناد

ابو ہریرہ نے کہا مجھ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تو کہاں سے ہے ؟ میں نے کہا دوس سے – فرمایا میں نہیں دیکھتا کہ دوس میں کسی میں کوئی بھلائی  ہو

 

 

 

صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَدِمَ طُفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ وَأَصْحَابُهُ، عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ دَوْسًا عَصَتْ [ص:45] وَأَبَتْ، فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهَا، فَقِيلَ: هَلَكَتْ دَوْسٌ، قَالَ: «اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ»

 

ابو ہریرہ نے کہا ابو طفیل دوسی اور اس کے اصحاب آئے نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس اور کہا اے رسول اللہ ، دوس والے نا فرمان ہیں  برباد ہوئے- ان کے لئے دعا کریں – پس ان سے کہا گیا دوس ہلاک ہوا .. رسول الله نے دعا کی اے الله دوس کو ہدایت دے

 

معجم طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قِيرَاطٍ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ثنا عُمَرُ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِيُّ، ثنا أَبُو جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْبَعُمِائَةٍ مِنْ دَوْسٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَرْحَبًا أَحْسَنَ النَّاسِ وُجُوهًا، وَأَطْيَبَهُمْ أَفْوَاهًا، وَأَعْظَمَهُمْ أَمَانَةً»

ابن عباس نے کہا رسول الله کے پاس دوس سے ٤٠٠ مرد آئے اپ نے فرمایا مرحبا لوگوں میں سب سے اچھی شکل کے اور خوشبو دار منہ والے اور امانت  کا خیال رکھنے والے

 

ازد اور دوس ایک ہی  تھے  راوی بھی  الْأَزْدِيُّ  ہیں

دوس کا علاقہ مدینہ کے  مشرق  میں  عمان میں تھا آجکل اس کو متحدہ امارت کہا جاتا ہے  روايت ہے

صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: قَالَ لِي جَرِيرٌ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الخَلَصَةِ» وَكَانَ بَيْتًا فِي خَثْعَمَ يُسَمَّى كَعْبَةَ اليَمَانِيَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ، وَكَانُوا أَصْحَابَ خَيْلٍ، قَالَ: وَكُنْتُ لاَ أَثْبُتُ عَلَى الخَيْلِ، فَضَرَبَ فِي صَدْرِي حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ أَصَابِعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: «اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ، وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا»، فَانْطَلَقَ إِلَيْهَا فَكَسَرَهَا وَحَرَّقَهَا، ثُمَّ بَعَثَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُهُ، فَقَالَ رَسُولُ جَرِيرٍ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، مَا جِئْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْوَفُ أَوْ أَجْرَبُ، قَالَ: فَبَارَكَ فِي خَيْلِ أَحْمَسَ، وَرِجَالِهَا خَمْسَ مَرَّاتٍ

 ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذوالخلصہ کو (برباد کر کے) مجھے راحت کیوں نہیں دے دیتے۔ یہ ذوالخلصہ قبیلہ خثعم کا ایک بت خانہ تھا اور اسے «كعبة اليمانية» کہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر چلا۔ یہ سب حضرات بڑے اچھے گھوڑ سوار تھے۔ لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر (اپنے ہاتھ سے) مارا ‘ میں نے انگشت ہائے مبارک کا نشان اپنے سینے پر دیکھا۔ فرمایا: اے اللہ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما ‘ اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت یافتہ بنا ‘ اس کے بعد جریر رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے ‘ اور ذوالخلصہ کی عمارت کو گرا کر اس میں آگ لگا دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر بھجوائی۔ جریر رضی اللہ عنہ کے قاصد (ابو ارطاۃ حصین بن ربیعہ) نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا ‘ جب تک ہم نے ذوالخلصہ کو ایک خالی پیٹ والے اونٹ کی طرح نہیں بنا دیا ‘ یا (انہوں نے کہا) خارش والے اونٹ کی طرح (مراد ویرانی سے ہے) جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ احمس کے سواروں اور قبیلوں کے تمام لوگوں کے لیے پانچ مرتبہ برکتوں کی دعا فرمائی۔

صحیح بخاری ٤٣٥٧ میں موجود ہے

قَالَ: وَكَانَ ذُو الخَلَصَةِ بَيْتًا بِاليَمَنِ لِخَثْعَمَ، وَبَجِيلَةَ، فِيهِ نُصُبٌ تُعْبَدُ، يُقَالُ لَهُ الكَعْبَةُ

اور ذُو الخَلَصَةِ کا مندر یمن میں ِخَثْعَمَ (قبیلہ) میں  تھا اس میں بت نصب تھا جس کو کعبہ کہا جاتا تھا

الکلبی کی کتاب الاصنام میں ہے

وَهَدَمَ بُنْيَانَ ذِي الْخَلَصَةِ وَأَضْرَمَ فِيهِ النَّارَ فَاحْتَرَقَ

اور ذِي الْخَلَصَةِ  کے مندر کو بنیاد سے منہدم کر دیا گیا اور اس پر اگ لگا دی گئی جس میں یہ بھڑک گیا

یہ قول صحیح بخاری کی روایت کا شاہد ہے – یعنی بت مکمل معدوم ہوا –

  معجم قبائل العرب القديمة والحديثة از  عمر بن رضا  الدمشق (المتوفى: 1408هـ) کے مطابق

 دَوْس بن عُدْثان: بطن من شنوءة، من الأزد، من القحطانية، وهم: بنو دوس بن عدثان بن عبد الله ابن زهران بن كعب بن الحارث بن كعب ابن عبد الله بن مالك بن نصر، وهو شنوءة بن الأزد

دَوْس بن عُدْثان یہ شنوءة کے بطن میں ہیں ازد میں سے

 الإنباه على قبائل الرواة  از  أبو عمر يوسف بن عبد الله   القرطبي (المتوفى: 463هـ) کے مطابق

قَالَ ابْن إِسْحَاق هُوَ دوس بن عبد الله بن زهران بن الأزد بن الْغَوْث مِنْهُم أَبُو هُرَيْرَة والطفيل بن عَمْرو

ابن اسحاق نے کہا … دوس بن عبد الله بن زهران بن الأزد بن الْغَوْث وہ ہیں جن سے أَبُو هُرَيْرَة  اور الطفيل بن عَمْرو ہیں

حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کے بارے میں خبر دی کہ ان کی شکل  شنوءة کے مردوں جیسی   تھی – یہ عرب قبیله ازد ہے جو آجکل عمان میں ہے
ياقوت کی معجم البلدان 3/368 میں ہے
«شنوءة مخلاف باليمن، بينها وبين صنعاء اثنان وأربعون فرسخًا، تنسب إليها قبائل من الأزد يقال لهم: أزد شنوءة»
شنوءة کا علاقہ یمن کے مخالف سمت پر ہے اور اس میں اور صنعاء میں ٤٢ فرسخ کا فاصلہ ہے اس کی نسبت قبیلہ ازد سے ہے جن کو أزد شنوءة کہا جاتا ہے

یعنی شنوءة یا ازد یا دوس تو یمن سے  بہت دور ہیں –  تو اب سوال یہ ہے کہ  ذوالخلصہ کا بت یمن سے عمان کیسے منتقل ہو گا  جو قبیلہ ماضی  میں بھی اس بت کو نہ پوجتا ہو وہ آخر   کس طرح ایک اجنبی  قبیلہ کے بت کو پوجے گا ؟

مسند احمد میں ہے جس کو شعيب الأرنؤوط نے صحیح کہا ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلْيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ حَوْلَ ذِي الْخَلَصَةِ ” وَكَانَتْ صَنَمًا يَعْبُدُهَا دَوْسٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِتَبَالَةَ

ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله نے فرمایا قیامت برپا نہ گی حتی کہ دوس کی عورتوں کے کولہے  ذِي الْخَلَصَةِ کے گرد تھرکیں گے اور یہ بت تھا جس کی دوس جاہلیت  میں تبالہ میں عبادت کرتے تھے

 کتاب قلائد الجمان في التعريف بقبائل عرب الزمان از  أبو العباس أحمد بن علي القلقشندي (المتوفى: 821هـ) میں ہے

قال في العبر: وبلاد خثعم مع إخوتهم بجيلة بسروات اليمن والحجاز إلى تبالة، وقد افترقوا أيضاً أيام الفتح الإسلامي فلم يبق منهم في مواطنهم إلا قليل.

العبر میں ہے کہ خثعم کے شہر ان کے بھائیوں کے ساتھ بجلیہ میں یمن  میں ہے اور  حجاز میں تبالہ تک ہے اور  اسلام کی فتح کی بدولت یہ بکھر گئے اور اب یہ اپنے علاقہ میں نہیں سوائے چند کے

مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے  متضاد بات لکھی  ہے

“تبالة”: موضع باليمن، قال القاضي إسماعيل الأكوع في “البلدان اليمانية” ص 56: تبالة بلدة عامرة، كانت مركز ناحية خَثْعَم من عَسِير، وتقع إلى الغرب من بيشة. وانظر “الأماكن” للحازمي 1/153 بتعليق الأستاذ حمد الجاسر.

“تبالة” یہ یمن میں جگہ ہے  – بقول القاضي إسماعيل الأكوع  کے …  تبالة ایک آباد شہر ہے جو خَثْعَم من عَسِير کے علاقہ کے قرب میں  ہے اور بيشة کے غرب میں ہے

 الجامع الصحيح للسنن والمسانيد کے مولف صهيب عبد الجبار نے لکھا ہے

تَبَالَةَ : قَرْيَة بَيْنَ الطَّائِف وَالْيَمَن

تَبَالَةَ  ایک قریہ ہے  الطَّائِف  اور َالْيَمَن کے درمیان

اشکال یہ ہے کہ  بعض محققین کے مطابق مقام   تبالہ حجاز  میں خود  قبیلہ  خثعم والے باقی نہیں دوم   ذِي الْخَلَصَةِ کے بت  کو  توڑ کر اصحاب رسول نے جلا دیا تو واپس اس کی پرستش کا اجراء اب  کیسے  ممکن ہے جبکہ یہ معدوم ہو چکا ہے

وہابیوں کی کتاب عنوان المجد في تاريخ نجد از عثمان بن عبد الله ابن بشر کے مطابق حوادث سنة 1230هـ ط 4 الجزء الأول صفحہ ٣٧٢ پر امیر عبد العزيز بن محمد بن سعود   کے لئے لکھا ہے

http://ia800205.us.archive.org/7/items/omftn/omftn1.pdf

http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=100576

(ثم إن محمد علي وعساكره رحلوا من تربة في الحال وساروا إلى بيشة ، ونازلوا أكلب وأطاعوا لهم ، ثم سار منها إلى تبالة ، وهي البلد التي هدم المسلمون فيها ذا الخلصة زمن عبدالعزيز بن محمد بن سعود ، وهو الصنم الذي بعث إليه النبي صلى الله عليه وسلم جرير بن عبدالله البجلي فهدمه ، فلما طال الزمان أعادوه وعبدوه ، فنازلوا شعلان أمير الفزع وشمران … الخ).

پھر یہ آگے بڑھے تبالة کی طرف یہ وہی شہر  ہے جس میں ذو الخلصة کو منہدم کرنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے جریر بن عبد الله البجلی رضی الله عنہ  کو بھیجا تھا  پھر اس پر ایک زمانہ گزرا اور انہوں نے اس ذو الخلصة  کی عبادت کا اعادہ کیا پس  ان پر امیر عبد العزيز بن محمد بن سعود کا نزول ہوا

يعني عبد العزيز بن محمد بن سعود کے دور ميں اس بت ذا الخلصة کو پاش کيا گيا اس طرح ان وہابيوں کے مطابق حديث رسول سچ ہوئي وہاں سياسي مخالفين کو قتل کر ديا گيا کہ يہ اس بت کي پوجا کر رہے تھے

اس واقعہ کا ذکر عصر حاضر ميں ايک کتاب ميں بھي کيا گيا ہے

Even after the idol was destroyed by Muhammad’s followers, the cult of Dhul Khalasa was resurrected and worshipped in the region until 1815, when members of the Sunni Wahhabi movement organised military campaigns to suppress remnants of pagan worship. The reconstructed idol was subsequently destroyed by gunfire. 

S. Salibi, Kamal (2007). Who Was Jesus?: Conspiracy in Jerusalem. Tauris Parke Paperbacks. p. 146. 

راقم کہتا ہے وہ مندر جس کو مسمار کیا گیا  وہ الكعبة اليمانية  کہلاتا تھا جو  یمن کی طرف تھا جہاں جریر بن عبد الله البجلی رضی الله عنہ  کو بھیجا گیا تھا –  اب سوال یہ ہے کہ جو بت یمن میں ہو اس کوتبالہ میں   سن ١٢٣٠ ھ میں کوئی کیوں پوج رہا تھا ؟    کیا صحابی نے اس بت  کو مکمل مسمار نہیں کر دیا جیسا کہ صحیح بخاری کی ہی حدیث میں ہے

کتاب الأصنام از کلبی  (المتوفى: 204هـ) کے مطابق

وَذُو الخلصة الْيَوْم عتبَة بَاب مَسْجِد تبَالَة

آج (مندر ذُو الخلصة ) مسجد تبالہ کے داخلہ پر ہے

یعنی یہ  مقام جہاں مندر تھا اب وہاں مسجد تبالہ ہے

وہابیوں کے بقول اس حدیث  کی پیشن گوئی پوری ہوئی ان عربوں کو قتل کیا جا چکا ہے اور اہل حدیث اس حدیث کو ابھی تک بیان کرتے ہیں  – اسی کی بنیاد پر عربوں کو دلیل ملی عرب پر مشرکوں کے مندر تعمیر کیے جائیں کیونکہ اس حدیث کی پیشنگوئی پوری ہو چکی ہے

وفات النبی کے بعد عرب میں بننے والا پہلا مشرکوں کا مندر 

 

سوال یہ ہے کہ ذو الخلصہ یا ذي الخلصة   لیکن کیا تھا ؟  ذو الخلصہ  پر کلبی نے لکھا ہے

كان مروة بيضاء منقوشة، عليها كهيئة التاج

یہ سفید سنگ مرمر تھا جس پر نقش تھے اور اس پر تاج  بنا تھا

الکامل از ابن اثیر کے مطابق

وَكَانَ مِنْ حَجَرٍ أَبْيَضَ بِتَبَالَةَ

ذي الخلصة ایک سفید پتھر تھا

ابن اسحاق کی روایت کے مطابق[1]

ويصبون عليه اللبن

اس پر دودھ کا چڑھاوا دیا جاتا تھا

تاريخ العرب القديم از  توفيق برو ، دار الفكر کے مطابق

أما عن حضارة دولة كندة فإنها لم تترك من الآثار الحضرية شيئًا سوى ذكرى شاعرها الكبير امرئ القيس وقصائده الشهيرة، إذ لم يكن لها مدن ولا حصون ولا قصور جديرة بالخلود، إنما الذين قاموا عليها كانوا بدوا حافظوا على نظم البداوة وتقاليدها، واستعملوا الخيام مساكن لهم، ولم يستقروا في حاضرة معينة، أما ديانتهم فكانت وثنية، من أصنامهم ذو الخلصة. على أن اليهودية قد تسربت إلى بعضهم

مملکت کندہ کے جو اثار ہیں ان کا ذکر صرف  امرئ القيس کے شعروں اور قصوں میں ہے  … ان کا دین بت پرستی تھا اور  بتوں میں ذو الخلصة تھا اور ان بتوں  بعض  بت   یہودوں میں بھی آ گئے  تھے (یعنی یہودی بھی ان کی پوجا کر رہے تھے )

ہندوستان میں  امر ناتھ  مندر  جو جموں میں غار میں  ہے  اس میں سفید شوا لنگم کی پوجا ہوتی ہے – راقم کا گمان ہے کہ ذو الخلصة بھی شوا لنگم کی کوئی قسم تھا – ممکن ہے کہ یہ حدیث خبر ہے عرب میں ویدانت پھیلے گا

سن ٢٠٢١  سے عربی اسکولوں میں مہا بھارت اور رامائن بھی پڑھائی جائے گی تاکہ مسلمان دھرم ویدانت سے واقف ہو  سکیں – اس کا ذکر اخبارات و سوشل میڈیا  میں حال ہی میں ہوا  ہے

[1]

بحوالہ الأزرقي، أخبار مكة “1/ 73” “باب ما جاء في الأصنام التي كانت على الصفا والمروة”، تاج العروس “4/ 389” “خلص” البلدان “8/ 434”.