Author Archives: Islamic-Belief

ملحمہ الکبری کی بڑھ

الملحمة الكبرى کی روایات

203 Downloads

یہودیوں  نے خبر دی ہے کہ یروشلم میں لومڑیاں نظر آ  رہی ہیں –  اس قسم کی خبر کہا جاتا ہے کہ کتاب گریہ بائبل میں موجود ہے جس میں گیڈروں کے گزرنے  کا ذکر ہے

https://biblehub.com/lamentations/5-18.htm

for Mount Zion, which lies desolate, with jackals prowling over it.

صیھون کے پہاڑ  پر بربادی ہو گی اور اس پر گیڈر چلیں گے 

اول تو کوہ  صیھون کہاں ہے اس پر یہود میں خود اختلاف ہے – خاص وہ مقام جہاں مسجد بیت المقدس ہے وہ کوہ صیھون نہیں ہے

بہرحال  میڈیا میں مسلسل یہودی اپنی جنگ کا ذکر کرتے رهتے ہیں

ملحمہ سے مراد
Armageddon
ہے – جس کی اسلام میں کوئی دلیل نہیں ہے- یہ یہود و نصاری کی بڑھ ہے جس میں ان کے مطابق اہل کتاب تمام دنیا پر غالب ہوں گے

اللہ تعالی نے قرآن سوره أل عمران میں بتایا ہے کہ یہود کی سرکشی کی وجہ سے اس نے یہود پر ذلت و مسکنت قیامت تک لکھ دی ہے

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ
ان پر ذلت کی مار ہے جہاں بھی جائیں مگر ساتھ اللہ کی (وقتی ) پناہ سے یا لوگوں کی (وقتی ) پناہ سے اور وہ اللہ کے غضب میں گھرے ہوۓ ہیں اور ان پر پستی لازم کی گئی، یہ اس لیے ہے کہ اللہ کی آیات کا کفر کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ لیے کہ انہوں نے سرکشی کی اور حد کو پار کیا

اس آیت سے بتایا گیا کہ مدینہ کے یہودی ہوں یا کہیں اور کے ہوں – یہودی ، اللہ کے نزدیک معذب ہیں – ان کی کامیابی یا دولت زیادہ عرصے نہ رہے گی – دوسری طرف یہود نے اپنے انبیاء کے نام پر یہ آیات گھڑیں کہ عنقریب ان کا باقی دنیا سے معرکہ ہو گا اور وہ تمام عالم پر غالب ہو جائیں گے – اس بات کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے بھی مان لیا اور نصرانییوں نے اس کو اپنے لئے بیان کیا ہے –

نام

Armageddon

پر اہل کتاب کے علماء کا کہنا ہے کہ یہ اصل مقام
Megiddo
ہے   جو اب اسرائیل میں ہے – اس کا ذکر صرف عہد نامہ جدید میں ہے – کتاب الرویا از مجہول الحال یحیی میں ہے

Revelation 16:16
And they assembled them at the place that in Hebrew is called Harmagedon.
اور وہ اس جگہ جمع ہوں گے جس کو عبرانی میں ہر مجدون کہتے ہیں

فَجَمَعَهُمْ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي يُدْعَى بِالْعِبْرَانِيَّةِ «هَرْمَجَدُّونَ كتاب الرويا

ھر کا مطلب عبرانی میں پہاڑ یا جبل ہے اور مجدون جگہ کا مقام ہے جو آجکل
bikat megiddon
کہلاتا ہے -اس  کا ذکر بائبل کتاب زکریا میں ہے اور اس کو یروشلم میں ایک مقام بتایا گیا ہے
Zechariah (12:11)
In that day there shall be a great mourning in Jerusalem, like the mourning at Hadad Rimmon in the plain of Megiddo.
اس روز یروشلم میں خوب رونا پیٹنا ہو گا جیسے حداد رمؤن میں مجدوں میں ہوا تھا

فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ يَعْظُمُ النَّوْحُ فِي أُورُشَلِيمَ كَنَوْحِ هَدَدْرِمُّونَ فِي بُقْعَةِ مَجِدُّونَ.
زكريا 12 : 11
اصل لفظ مَجِدُّونَ کا پہاڑ ہے جو اصل میں بیت المقدس ہی مراد ہے –

یعنی
Armageddon
سے مراد جنگ کے بعد یروشلم میں اس مقام پر نوحہ و گریہ زاری ہے

اب سوال یہ ہے کہ بائبل کے انبیاء کی کتب میں اس مقام کا ذکر کیوں ہے ؟ وہاں کون گریہ کرے گا ؟ راقم نے اس سوال پر دو سال تحقیق کی ہے اور جو معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ یہ آیات یہود نے گھڑی ہیں – ان آیات کو گھڑنے کا اصل مدعا یہ تھا حشر دوم کے بعد یہود جب واپس اسرائیل پہنچے تو دیکھا کہ وہاں غیر یہودی آباد ہیں – شروع میں انے والے گروہوں نے مقامی آبادی میں شادیان کر لیں اور مسجد اقصی کو تعمیر بھی کیا – وہاں اس وقت  متعین ایک افسر عزیر
Ezra

بھی تھا  جو فارسیوں کا ملازم تھا –  نوٹ کیا گیا  کہ بنی اسرائیل میں بغاوت کے جذبات آ رہے ہیں وہ نسل داود سے واپس کسی کو بادشاہ مقرر کرنا چاہتے ہیں – اس دوران دو فارس مخالف انبیاء ظاہر ہوۓ ایک نام زکریا تھا اور دوسرے کا نام حججی تھا – اسی طرح چند اور لوگوں نے دعوی کیا کہ ان کو بنی اسرائیل کے سابقہ انبیاء کے نام سے کتب ملی ہیں جن میں کتاب یسعیاہ، یرمییاہ ، حزقی ایل ، عموس وغیرہ ہیں – یعنی  یہودی اپس میں لڑنے لگے اور انبیاء کے نام پر کتب ایجاد کیں – یہ بات  یہود کی  ان کتب انبیاء  کو پڑھنے اور تقابل کرنے پر ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ اگر ان کتب کا اپس میں تقابل کیا جائے تو باہم متضاد اور مخالف بیانات ملتے ہیں – انبیاء جھوٹ نہیں بولتے  یہ یہودی جھوٹے ہیں جنہوں نے ان کے نام سے کتب کو جاری کیا – یہود   میں فارس کے خلاف  بغاوت کے جذبات پیدا ہو چلے تھے – فارس کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے لگے- اس بغاوت کو کچلنے کے لئے فارسیوں نے ایک افسر نحمیاہ کو بھیجا   اور اس نے سختی سے اس بغاوت کو کچل دیا اورمیں  نبوت  کے دعویداروں کا قتل بھی ہوا اور ہیکل کے پروہتوں  کا بھی

فرضی نبی زکریا نے  ہر مجدون میں جس رونے پیٹنے کا ذکر کیا ہے وہ اصل میں انہی اپس کے اختلاف پر یہود کا ایک دوسرے کو قتل کرنا ہے – واضح رہے یہ زکریا وہ نبی نہیں جن کا ذکر قرآن میں  ہے بلکہ ان کا دور اس فرضی نبی سے کئی سو سال بعد کا ہے

  اب عزیر ایک بیوروکریٹ تھا اور نحمیاہ ان کا نیا گورنر تھا – عزیر نے ایک نئی توریت یہود کو دی اور الہامی متن کو تبدیل کیا – توریت اصلا عبرانی میں تھی عزیر نے اس کو بدل کر آشوری میں کر دیا – یہود کے اپس کے اس جھگڑے میں لیکن ایک مسیح کا تصور باقی رہ گیا کہ کوئی نسل داود سے آئے گا جو بنی  اسرائیل کو غیر قوموں کے چنگل سے نکالے گا – اس بغاوت کے قریب ٥٠٠ سال بعد اللہ تعالی نے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کو بھیجا- اس وقت تک بنی اسرائیل پر رومیوں کا قبضہ ہو چکا تھا لیکن یہود کے معاملات  پر وہ حاکم  تھے جو عزیر کی دی گئی توریت کو پڑھتے تھے – عزیر خود یہود کے مطابق اللہ کا نبی نہیں تھا وہ محض ایک سرکاری افسر تھا جو فارس کا مقرر کردہ تھا البتہ بعض یہودی فرقوں نے اس سوال کا جواب کہ اس نے توریت کو اشوری میں کیسے کر دیا اس طرح دیا کہ اس کو اللہ کا بیٹا کہنا شروع کر دیا – جس کو وہ بنو الوھم کہتے تھے یعنی اللہ کے بیٹے جن پر روح القدس کا نزول ہوا اور توریت موسی ، اصلی  عبرانی سے فارس میں بولی جانے والی اشوری میں بدل گئی

افسوس مسلمانوں نے عزیر کو نبی کہنا دینا شروع کر دیا ہے اور اس کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ بھی لگایا جاتا ہے جبکہ ابی داود کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

مَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لَا
مجھے نہیں پتا کہ عزیر نبی ہے یا نہیں

جیسا عرض کیا کہ یہود نے انبیاء کے نام پر کتب گھڑیں تو وہ ان میں باقی رہ گئیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انہی کتب کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے لیا اور انہوں نے ذکر کردہ بغاوت اور نتیجے میں ہونے والی جنگ پر استخراج کیا کہ سابقہ انبیاء سے منسوب  کتب میں جس  جنگ کا ذکر ہے وہ نصرانییوں کی جھوٹے مسیح  سے جنگ کے بارے میں ہے –

دو مسیح کا تصور انہی انبیاء سے منسوب   کتب میں اختلاف  سے نکلا ہے

ایک داود کی نسل کا اور ایک یوسف کی نسل کا

یا 

ایک حاکم مسیح اور ایک منتظم مسجد  و روحانی مسیح

یا

ایک اصلی مسیح اور ایک دجال

یہ تصورات یہود میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے سے آ گئے تھے – ان کی بازگشت بحر مردار کے طومار

Dead Sea Scrolls

میں سنی جا سکتی ہے

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسیح ابن مریم رسول اللہ کو بھیجا ہے یعنی وہ مسیح جو کسی نسب کا نہیں ہے نہ داود کی نسل سے ہے نہ یوسف کی نسل سے وہ نبی   ہے شاہ نہیں  اور مسیح عیسیٰ علیہ السلام  کا مشن  کسی عالمی  جنگ کی سربراہی کرنا نہیں ہے بلکہ توحید کا سبق دینا ہے اصل کامیانی آخرت کی ہے دنیا کی جنگوں  نہیں – نزول ثانی پر عیسیٰ علیہ السلام کا مشن جنگیں کرنا نہیں  بلکہ گمراہ مسلمان فرقوں کو توحید کی تبلیغ کرنا ہو گا – اسی لئے حدیث نبوی  میں دجال اور عیسیٰ دونوں کا کعبہ کا طواف کرنے کا ذکر ہے

عرب نصرانی اسی جنگ کو ملحمہ الکبری کہتے ہیں – اور یہود میں سے مسلمان ہونے والا کعب الاحبار اسی کو الْمَلْحَمَةَ الْعُظْمَى یا الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى کہتا تھا (کتاب الفتن از نعیم بن حماد )- شامی مسلمانوں نے الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى سے متعلق اقوال کو حدیث نبوی بنا کر پیش کر دیا ہے

عصر حاضر میں اس جنگ کا ذکر پھر سننے میں آ رہا ہے جبکہ یہ محض یہود کا پروپیگنڈا تھا اور اب اسی کو بعض لا علم لوگ حدیث رسول بنا کر پیش کر رہے ہیں-احادیث رسول سے معلوم ہے کہ دجال سے جنگ مسلمان نہیں کریں گے وہ پہاڑوں میں روپوش رہیں گے اور نزول عیسیٰ پر دجال فورا ہی عیسیٰ ابن مریم کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا

مسند احمد اور سنن ترمذی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ، وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ، وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ، وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ “. ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الَّذِي حَدَّثَهُ أَوْ مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّ هَذَا لَحَقٌّ (1) كَمَا أَنَّكَ هَاهُنَا “. أَوْ كَمَا ” أَنَّكَ قَاعِدٌ ” يَعْنِي: مُعَاذًا
مُعَاذٍ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس کی آبادی، مدینہ کی بربادی ہے اور مدینہ کی بربادی ملحمہ (خون ریز جنگیں) کا نکلنا ہے اور ملحمہ کا نکلنا الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح ہے اور الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح دجال کا خروج ہے
اس کی سند ضعیف ہے سند میں عبد الرحمن بن ثوبان ہے جس کی وجہ سے مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے اس روایت کو رد کیا ہے- نسائی نے اس راوی کو ليس بالقوي قرار دیا ہے
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق لابن أبي حاتم کہتے ہیں
سمعت أبي يقول عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان قد أدرك مكحولا ولم يسمع منه شيئا
میں نے اپنے باپ سے سنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان نے مکحول شامی کو پایا لیکن ان سے سنا نہیں
زیر بحث روایت بھی مکحول سے اس نے روایت کی ہے
ابو حاتم کہتے ہیں وتغير عقله في آخر یہ آخری عمر میں تغیر کا شکار تھے
ضعفاء العقيلي کے مطابق امام احمد نے کہا لم يكن بالقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے
الكامل في ضعفاء الرجال کے مطابق يَحْيى نے کہا یہ ضعیف ہے
ابو داود میں روایت کی سند میں ہے جو شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کے مطابق ضعیف ہے اور البانی نے صحيح الجامع: 4096 , المشكاة: 5424 میں اس کو صحیح کہا ہے – راقم کے نزدیک شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کی تحقیق صحیح ہے

اس متن کا ایک دوسرا طرق ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ح 37209 ہے
حَدَّثَنَا – أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: ” عِمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ , وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ , وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ , ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِ رَجُلِ وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ
اس روایت کی علت کا امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب تاریخ اور علل میں ذکر کی ہے کہ ابو اسامہ نے عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کا نام غلط لیا ہے اور دادا کا نام ابن جابر کہا ہے
جبکہ یہ نام غلط ہے اصلا یہ عبد الرحمان بن یزید بن تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ ابْنِ أَبِي بِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” بَيْنَ الْمَلْحَمَةِ وَفَتْحِ الْمَدِينَةِ سِتُّ سِنِينَ، وَيَخْرُجُ مَسِيحٌ الدَّجَّالُ فِي السَّابِعَةِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْر نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خون زیر جنگوں اور مدینہ کی فتح میں چھ سال ہیں اور ساتویں سال دجال نکلے گا

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد کہتے ہیں
إسناده ضعيف لضعف بقية- وهو ابن الوليد- ولجهالة ابن أبي بلال – واسمه عبد الله

مسند احمد کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْطَاةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُبَيْرَ بْنَ نُفَيْرٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ الْغُوطَةُ، إِلَى جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ
أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کا کیمپ ملحمہ کے دن غوطہ میں ہو گا اس شہر کی جانب جس کو دمشق کہا جاتا ہے

مسند احمد میں اس کو بعض اصحاب رسول سے مرفوع نقل کیا گیا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الشَّامُ وَإِنَّ بِهَا مَكَانًا يُقَالُ لَهُ الْغُوطَةُ، يَعْنِي دِمَشْقَ، مِنْ خَيْرِ مَنَازِلِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ
اس میں رجل من اصحاب النبی کہا ہے نام نہیں لیا – بہت سے محدثین کے نزدیک یہ سند قابل قبول نہیں ہے

ان اسناد میں روایت کو مرفوع روایت کیا گیا ہے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ محدثین کے نزدیک یہ حدیث مرفوع نہیں قول تبع التابعی ہے

مختصر سنن أبي داود از المؤلف: الحافظ عبد العظيم بن عبد القوي المنذري (المتوفى: 656 هـ) میں ہے
وقال يحيى بن معين -وقد ذكروا عنده أحاديث من ملاحم الروم- فقال يحيى: ليس من حديث الشاميين شيء أصح من حديث صدقةَ بن خالد عن النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-: “معقل المسلمين أيام الملاحم: دمشق”.
ابن معین نے کہا اور ملاحم روم کے بارے میں حدیث ذکر کیں پھر ابن معین نے کہا شامییوں کی احادیث میں اس سے زیادہ کوئی اصح حدیث نہیں جو صدقةَ بن خالد (تبع تابعی) نے نبی صلى اللَّه عليه وسلم سے روایت کی ہے کہ ملاحم کے دنوں میں مسلمانوں کا قلعہ دمشق ہو گا

یعنی ابن معین کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ انہوں نے ابو درداء کی روایت کا ذکر نہیں کیا

تاريخ ابن معين (رواية الدوري) میں ہے

قَالَ يحيى وَكَانَ صَدَقَة بن خَالِد يكْتب عِنْد الْمُحدثين فِي أَلْوَاح وَأهل الشَّام لَا يَكْتُبُونَ عِنْد الْمُحدثين يسمعُونَ ثمَّ يجيئون إِلَى الْمُحدث فَيَأْخُذُونَ سماعهم مِنْهُ
ابن معین نے کہا کہ صدقه بن خالد محدثین سے لکھتے تھے الواح پر اور اہل شام محدثین سے نہیں لکھتے تھے وہ بس سنتے تھے پھر محدث کے پاس جاتے اور ان سے سماع کرتے

معلوم ہوا کہ صدقه بن خالد کے لکھنے کی وجہ سے ابن معین کے نزدیک ان کی سند صحیح تھی جبکہ باقی اہل شام کی روایات پر ان کو شک تھا

ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “مَوْضِعُ فُسْطَاطِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ

اس میں مکحول کوئی صحابی نہیں لیکن لوگوں نے اس سند کو بھی صحیح کہہ دیا ہے

فضائل صحابہ از احمد کے مطابق یہ قول تابعی مکحول کا تھا
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا أَبُو سَعِيدٍ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ: نا مَكْحُولٌ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فُسْطَاطُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْمَلْحَمَةِ، الْغُوطَةُ مَدِينَةٌ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ هِيَ خَيْرُ مَدَائِنِ الشَّامِ» .

الولید بن مسلم المتوفی ١٥٩ ھ نے ان اس روایت میں اضافہ کیا – کتاب الفتن از نعیم بن حماد میں ہے
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ ….وَيَظْهَرُ أَمْرُهُ وَهُوَ السُّفْيَانِيُّ، ثُمَّ تَجْتَمِعُ الْعَرَبُ عَلَيْهِ بِأَرْضِ الشَّامِ، فَيَكُونُ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ حَتَّى يَتَحَوَّلَ الْقِتَالُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَتَكُونُ الْمَلْحَمَةُ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ»
ولید بن مسلم نے کہا سفیانی کے خروج کے بعد عرب شام میں جمع ہوں گے پھر یہ جدل و قتال مدینہ منتقل ہو گا بقیع الغرقد پر

ولید اپنے دور کی ہی بات کر رہا ہے جب بنو امیہ میں سے سفیانی کا خروج ہوا اور امام المہدی محمد بن عبد اللہ نے مدینہ میں اپنی خلافت کا اعلان سن ١٢٥ ھ میں مدینہ میں کر چکا تھا
سفیانی سے مراد يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہیں اور یہ خروج سفیانی سن ١٣٣ ھ میں ہوا-

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عبد الله بن محمَّد النُّفيليُّ، حدَّثنا عيسى بن يونس، عن أبي بكر بن أبي مريم، عن الوليد بن سُفيان الغسانيِّ، عن يزيد بن قُطَيب السَّكونىِّ، عن أبي بحرية
عن معاذ بنِ جبلِ، قال: قالَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: الملحمَةُ الكبرى وفتحُ القُسطنطينية وخروجُ الدجال في سَبعَة أشهر

معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑی خونریز جنگوں اور فتح القُسطنطينية اور خروج دجال میں سات ماہ ہیں

شعیب کہتے ہیں سند ضعیف ہے
إسناده ضعيف لضعف أبي بكر بن أبي مريم والوليد بن سفيان، ولجهالة يزيد بن قُطيب. أبو بحرية: هو عبد الله بن قيس

ابو داود نے دوسرا طرق دیا ہے اور کہا
حد ثنا حيوة بن شُرَيح الحمصيُّ، حدَّثنا بقيَّة، عن بَحِيْرٍ، عن خالدٍ، عن ابن أبي بلالٍ
عن عبدِ الله بن بُسرٍ، أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “بين الملحمةِ وفتح المدينة ستُّ سنينَ، ويخرج المسيحُ الدَّجالُ في السابعة”
قال أبو داود: هذا أصحُّ من حديثِ عيسى
یہ طرق عيسى بن يونس سے اصح ہے

لیکن اس طرق کو بھی شعیب نے رد کیا ہے
إسناده ضعيف لضعف بقية -وهو ابن الوليد الحمصي- وجهالة ابن أبي بلال -واسمه عبد الله- خالد: هو ابن معدان الكلاعي، وبَحِير: هو ابن سعد السَّحُولي
اور ابن ماجہ کی تعلیق میں البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے

الغرض ملحمہ ایک فرضی جنگ کا قصہ ہے اور یہود کا پروپیگنڈا تھا جو ان سے نصرانییوں کو ملا اور پھر اسرائیلیات پسند کرنے والے راویوں کی وجہ سے اس کا ذکر احادیث میں شامل ہو گیا

واضح رہے کہ دنیا میں جنگیں  ہوتی رہتی ہیں – جنگ عظیم اول و دوم کا ہم کو علم ہے لیکن ان جنگوں کو مذھب کے تحت کوئی اخروی معرکہ نہیں سمجھتا – اسی طرح مستقبل کی بھی کسی بھی جنگ کو آخری معرکہ قرار دینا غیر دانشمندی ہے
مسلمانوں کے دانشمند اسی قسم کے مغالطے دیتے رہے ہیں مثلا عباسی خلیفہ واثق پر یاجوج ماجوج کا اتنا اثر ہوا کہ خواب میں دیکھا کہ ان کا خروج ہو گیا ہے فورا ایک شخص کو بھیجا کہ جا کر خبر لائے اور اس شخص نے جا کر یاجوج ماجوج کو بھی دیکھ لیا -یا للعجب –  اسی طرح تاتاریوں کے حملے کو بھی خروج یاجوج موجوج سمجھ کر ان سے جنگ نہ کی گئی – ان کا اتنا رعب بیٹھا کہ تلوار تک نہ اٹھا سکے

عصر حاضر میں اصل میں یہود یہ چاہتے ہیں کہ ملحمہ ہو جس کا ذکر اصل میں ان کی کتب میں موجود ہے – یہ کوئی نئی بات نہیں ایسا یہودی کرتے آئے ہیں قرآن میں ہے
كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ المائدة:64
جب بھی یہ جنگ کی اگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے

سوال ہے کہ یہود ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب راقم نے یہود کی کتب میں پڑھا ہے کہ اس کا مقصد ہے کہ اللہ کو نعوذ باللہ مجبور کیا جائے کہ وہ اصلی مسیح کو ظاہر کرے

اللہ سب مسلمانوں کو کفار کے شر سے اور فتنوں سے محفوظ رکھے

زمین یقینا الٹی گھومنے والی ہے

سائنس دانوں نے نوٹ کیا ہے کہ زمین کا شمالی قطب حرکت میں آ گیا ہے اور اس کی رفتار بڑھ رہی ہے اور قطب شمالی پر مقناطیسی کشش کم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے – اگر ایسا ہوا تو یک دم قطب شمالی ، قطب جنوبی میں بدل جائے گا – راقم کہتا ہے اگر قبطین پلٹ جائیں تو مقناطیسی کشش میں تبدیلی سے زمین الٹی گھومے گی

اس وقت تمام عالم میں تمام مقناطیس بدل جائیں گے اور بجلی بنانے کے پلانٹ کام کرنا چھوڑ دیں گے اور آپ کے فون ، کمپیوٹر ، سیٹلائٹ بھی بند ہو جائیں گے – تمام مواصلاتی نظام ٹھپ ہو جائے گا

انسانوں میں کینسر بڑھ جائے گا کیونکہ مقناطیسی قوت کچھ عرصہ کے لئے کم ہو گی اور اس دوران سورج کی ریڈیشن یا تپش جلد کو متاثر کرے گی ، زمین پر بعض فصلیں سورج کی تپش سے بھسم ہو جائیں گی اور جھیلیں سوکھنے لگیں گی

سب سے زیادہ پریشان پرندے ہوں گے جو زمین کی مقناطیسی قوت سے رستوں کا تعیین کرتے ہیں

سن ٢٠٢١ میں اس مضمون میں بھی خبردار کیا گیا ہے

لنک

اس کا مطلب ہے کہ زمین اپنی مدت پوری کر رہی ہے اور اس خبر کا وقوع قریب ہے  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا رَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا، فَذَاكَ حِينَ: {لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ} [الأنعام: 158] ” , (خ) 4635
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا
قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہو گا جب لوگ اس کو دیکھیں گے ایمان لائیں گے (سورہ الانعام کی آیت پڑھی) لیکن ان کو ایمان نفع نہ دے گا اگر اس سے قبل ایمان نہ لائے

مقناطیسی کشش میں تبدیلی سے زمین میں اندر موجود دابه الارض جاگ اٹھے گا اور زمین کو چیرتا ہوا باہر کوہ صفا پر نکلے گا

قرآن سوره نمل میں ہے

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآَيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
جب ہمارا قول ان پر واقع ہو گا ہم زمین سے جانور کو نکالیں گے جو لوگوں سے کلام کرے گا کہ وہ ہماری آیات پر یقین و ایمان  نہ لائے

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا، طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى، وَأَيُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا، فَالْأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِيبًا»،
عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی جس کو بھلا نہ سکا میں نے سنا فرمایا
سب سے پہلی نشانی ہے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور دابه الارض کا چاشت کے وقت پر نکلنا جن میں ایک پہلے ہوئی تو دوسری فورا ظاہر ہو گی

المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي از الهيثمي (المتوفى: 807هـ) کی رویات ہے
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فَذَكَرَ بِهَذِهِ التَّرْجَمَةِ أَحَادِيثَ يَقُولُ فِيهَا: وَبِهِفَمِنْهَا: عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: أَلا أُرِيكُمُ الْمَكَانَ الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ دَابَةَ الأَرْضِ تَخْرُجُ مِنْهُفَضَرَبَ بِعَصَاهُ الشِّقَّ الَّذِي فِي الصَّفَا
ابْنِ عُمَرَ نے کہا میں تم کو مکان دکھا دوں جس کے لئے رسول الله نے فرمایا یہاں سے دابه الارض نکلے گا پس انہوں نے کوہ صفا پر اپنے عصا سے ضرب لگائی

انسان کے مسلسل پٹرول و معدنیات زمین سے نکالنے کی بنا پر زمین اندر سے کھوکلی ہو رہی ہے اور سطح پر بھاری ہو رہی ہے لہذا اب یہ دھنسے گی  اور تین مقام پر عظیم خسف کی خبر حدیث سے  مل چکی ہے – ممکن ہے قطب شمالی کا حرکت میں آ جانا  بھی اسی بنا پر ہو رہا ہو کہ زمین کی اندرونی ساخت بدل رہی ہے
و اللہ اعلم

اللہ ایمان پر موت دے امین

========

https://www.nature.com/articles/d41586-019-00007-1

 

==============================================================================

Earth will spin clockwise

Scientists have noted that the Earth’s North Pole is moving and its movement is increasing, and the risk of magnetic attraction at the North Pole is increasing – if this happens, the North Pole will suddenly change to the South Pole – Author says if the poles flip, the Earth will rotate in the opposite direction due to changes in magnetic attraction.

At this time, all magnets in the world will change and power plants will stop working, and your phones, computers, satellites will also shut down – all communication systems will stop.

Cancer in humans will increase because the magnetic force will decrease for some time and during this time the sun’s radiation or heat will affect the skin, some crops on Earth will be burnt by the sun’s heat and lakes will start to dry up.

The most troubled will be birds that determine routes from the Earth’s magnetic force.

In 2021, this topic was also warned about in this article. [Link]

This means that the Earth is completing its term and the occurrence of this news is near, which the Messenger of Allah, peace be upon him, gave.

It is in Sahih Bukhari:

Narrated Abdullah bin Amr: I memorized a Hadith of the Prophet which I have never forgotten. I heard the Prophet saying, “The first sign (of the Hour) will be the appearance of the sun from the West, and the emergence of the Beast on the people in the forenoon. Whichever of them appears first will soon be followed by the other.”

The Messenger of Allah, peace be upon him, said: “The Hour will not be established until the sun rises from the West, and when people see it, they will all believe. But that will be the time when: ‘No good will it do to a soul to believe then, if it believed not before.’ (6:158)”

Due to changes in magnetic attraction, the Dabbat al-Ardh present inside the Earth will wake up and will come out tearing the Earth at Mount Safa.

It is in the Quran, Surah An-Naml:

“And when the Word is fulfilled against them (the unjust), we shall produce from the earth a beast to (face) them: He will speak to them, for that mankind did not believe with assurance in Our Signs.”

It is in Sahih Muslim:

Narrated Abdullah bin Amr: I memorized a Hadith of the Prophet which I have never forgotten. I heard the Prophet saying, “The first sign (of the Hour) will be the appearance of the sun from the West, and the emergence of the Beast on the people in the forenoon. Whichever of them appears first will soon be followed by the other.”

Ibn Umar said: “Shall I show you the place from which the Beast of the Earth will emerge?” Then he struck with his staff the crack which is in Safa.

Due to the continuous extraction of petroleum and minerals from the Earth by humans, the Earth is becoming hollow from the inside and heavy on the surface, so now it will sink, and the news of a great sinkhole in three places has already been received from Hadith – it is possible that the movement of the North Pole is also happening because the internal structure of the Earth is changing.

And Allah knows best.

May Allah grant death on faith. Amen.

 

غزوہ ہند والی روایات

اہل کتاب ميں يہود کے علماء کا موقف ہے کہ دانيال ايک صوفي تھا نبي و رسول نہيں تھا جبکہ نصراني اس کو رسول کا درجہ ديتے ہيں – نصرانييوں کي يہ روايت مسلمانوں نے قبول کر لي کہ دانيال کوئي نبي تھا – البتہ بائبل میں موجود کتاب دانيال ميں تاريخ کي غلطياں ہيں – جس شخص نے اس کتاب کو گھڑا اس نے بادشاہوں کے نام تک غلط لکھے ہيں ان کے ادوار بھي غلط بيان کيے ہيں لہذا اب اہل کتاب بھي يہ کہہ رہے ہيں کہ کتاب دانيال ايک گھڑي ہوئي کتاب ہے

دانیال کے نام سے بہت سی اور کتب بھی ہیں جن کو گھڑی ہوئی قرار دیا گیا ہے – ان میں سے ایک کتاب سے مسلمانوں کا سابقہ دور عمر رضی اللہ عنہ ميں ہوا جب فارس سے جنگ کے دوران ايک لاش ملي جس پر ايک کتاب رکھي ہوئي تھي – جنگ ميں  شامل بصري ابو العاليہ نے بتايا کہ اس کو لگا يہ کوئي نبي دانيال ہے – راقم کہتا ہے يہ مغالطہ بصريوں کو اپني لا علمي سے ہوا کيونکہ جب فارسيوں سے پوچھا گيا کہ يہ شخص کب مرا تو انہوں نے تين سو سال بتايا اور يہ معلوم ہے کہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم اور عيسي عليہ السلام کے بيچ يہود پر کوئي نبي مبعوث نہيں ہوا – ليکن تاريخ سے لا علم لوگوں نے اس لاش کو نبي کي ميت قرار ديا اور ملنے والي کتاب کو دانيال کی کتاب قرار ديا – راقم کہتا ہے نہ تو يہ لاش کسي نبي کي تھي نہ يہ  کتاب کوئي منزل من اللہ تھي – ابو عاليہ نے ليکن خبر دي

فأخذنا المصحف فحملنا إلى عمر بن الخطاب فدعا له كعباً فنسخه بالعربية فأنا أول رل من العرب قرأته مثلما أقرأ القرآن هذا فقلت لأبي العالية: ما كان فيه ؟ فقال سيرتكم وأموركن ولحون كلامكم وما هو كائن بعد
ہم نے وہ مصحف اٹھا کر اميرالمومنين عمر کے پاس پہنچا ديا عمر نے کعب الاحبار کو طلب کيا اور کعب نے اس کو عربي ميں لکھ ديا ابوالعاليہ نے کہا ميں پہلا شخص تھا جس نے وہ صحيفہ پڑھا- أبي خلدة بن دينار نے ابوالعاليہ سے پوچھا کہ اس  صحيفے ميں کيا لکھا تھا؟ کہا: تمہاري سب سيرت تمہارے تمام امور اور تمہارے کلام کے لہجے تک اور جو کچھ آئندہ پيش آنے والا ہے
دلائل النبوه از بيہقي

ابوالعاليہ اور اس کے قبيل کے غير محتاط لوگوں نے اس کتاب کے مندرجات کو پھيلانا شروع کر ديا

اب اپ تصوير کا دوسرا رخ ديکھيں- مصنف عبد الرزاق ميں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ قَالَ: كَانَ يَقُولُ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ يَطْلُبُ كُتُبَ دَانْيَالَ، وَذَاكَ الضِّرْبَ، فَجَاءَ فِيهِ كِتَابٌ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنْ يُرْفَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا أَدْرِي فِيمَا رُفِعْتُ؟ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى عُمَرَ عَلَاهُ بِالدِّرَّةِ، ثُمَّ جَعَلَ يَقْرَأُ عَلَيْهِ {الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ} [يوسف: 1]، حَتَّى بَلَغَ {الْغَافِلِينَ} [يوسف: 3] قَالَ: «فَعَرَفْتُ مَا يُرِيدُ»، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي، فَوَاللَّهِ مَا أَدَعُ عِنْدِي شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْكُتُبِ إِلَّا حَرَقْتُهُ قَالَ: ثُمَّ تَرَكَهُ
إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ نے کہا کوفہ ميں ايک رجل ہوتا تھا جو دانيال کي کتابيں مانگتا تھا … پس عمر رضي الله عنہ کا خط آيا کہ اس( کے پاس) سے اٹھ جاؤ – پس اس شخص نے کہا کيا معلوم کيا اٹھا؟ پس جب عمر کے پاس گيا اس کو عمر نے درے لگائے پھر { الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ} [يوسف: 1]، حَتَّى بَلَغَ {الْغَافِلِينَ} [يوسف: 3] قرات کي اور کہا پس تو جان گيا ميں کيا چاہ رہا تھا- اس نے کہا امير المومنين مجھے جانے ديں الله کو قسم ميں اس کتاب کو جلا دوں گا کہا پس انہوں نے اس کو چھوڑ ا

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الرَّبَابِ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ: ” كُنْتُ فِي الْخَيْلِ الَّذِينَ افْتَتَحُوا تُسْتَرَ، وَكُنْتُ عَلَى الْقَبْضِ فِي نَفَرٍ مَعَيْ، فَجَاءَنَا رَجُلٌ بِجَوْنَةٍ، فَقَالَ: تَبِيعُونِي مَا فِي هَذِهِ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ ذَهَبًا، أَوْ فِضَّةَ، أَوْ كِتَابَ اللَّهِ قَالَ: فَإِنَّهُ بَعْضُ مَا تَقُولُونَ، فِيهَا كِتَابٌ مِنْ كُتُبِ اللَّهِ قَالَ: فَفَتَحُوا الْجَوْنَةَ فَإِذَا فِيهَا كِتَابُ دَانِيَالَ فَوَهَبُوهُ لِلرَّجُلِ، وَبَاعُوا الْجَوْنَةَ بِدِرْهَمَيْنِ قَالَ: فَذَكَرُوا أَنَّ ذَلِكَ الرَّجُلَ أَسْلَمَ حِينَ قَرَأَ الْكِتَابَ ”

أَبِي الرَّبَابِ الْقُشَيْرِيِّ نے کہا ميں گھوڑے پر تھا جب تستر فتح ہوا اور ميں ايک نفر پر قابض تھا پس ايک آدمي آيا اور کہا ميرے ساتھ آؤ يہ تحرير کيا ہے ہم نے کہا ہاں خبر دار يہ تو سونا (کتاب پر لگا) ہے يا چاندي ہے يا کوئي کتاب الله ہے کہا پس انہوں نے کہا يہ کتاب الله ميں سے کوئي ايک ہے پس تحرير کو کھولا تو ديکھا دانيال کي کتاب ہے پس وہ شخص ڈر گيا اور اس تحرير کو دو درہم ميں فروخت کر ديا اور کہا وہ شخص مسلمان ہو گيا

دانيال سے منسوب وہ کتاب بازار ميں کوڑي کے دام بيچ دي گئي اور بعد ميں جو بھي اس قسم کا کوئي مصحف پڑھتا اس کو درے لگتے اور ان کو جلا دينے کا حکم تھا- دوسري طرف لوگ بيان کرتے رہے کہ عمر رضي الله عنہ نے اس کے ترجمہ کا کعب کو کہا اور ابو عاليہ نے اس کو پڑھا – ابو عاليہ کے نزديک اس ميں مسلمانوں کے اختلاف کا ذکر تھا ؟ يا للعجب – ابو عاليہ ايک نمبر کے چھوڑو انسان تھے – انہوں نے دعوي کيا کہ يہ اس کتاب دانيال کا ترجمہ عمر رضي الله عنہ کے حکم پر کعب الاحبار نے کيا جو انہوں نے سب سے پہلے پڑھا اور جانا کہ اس امت محمد ميں کيا کيا فتنے ہوں گے – راقم کہتا ہے يہ سازش ہے کہ اھل کتاب کے قرب قيامت کو اسلام کے قرب قيامت سے ملا ديا جائے – ابو عاليہ ياد رہے يہ واقعہ غرانيق کے بھي راوي ہيں يعني رسول الله صلي اللہ عليہ وسلم الصادق و الامين پر قراني آيات ميں شيطاني القا کي روايت بھي کرتے تھے- يہ ان کے علم کے مصادر ہيں

بہر حال عمر رضي اللہ عنہ کے سخت آڈر کي بنا پر کعب الاحبار اس کتاب کو لے کر شام بھاگ گئے اور وہاں انہوں نے اس کتاب کي روايات کو پھيلانا شروع کر ديا جن ميں سے بہت سي اب کتاب الفتن نعيم بن حماد ميں ہيں اور اس کا عنقريب ترجمہ اردو ميں انے والا ہے جو مزيد گمراہي کا سبب بنے گا

کعب احبار اور ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ چونکہ سابقہ اہل کتاب ميں سے تھے ان کے اپس ميں اچھے مراسم تھے اور تبادلہ خيالات ہوتا رہتا تھا – بہت سي باتيں جو کعب سے ابو ہريرہ کو مليں ان کو جب لوگوں کو انہوں نے بتايا تو لوگ ان کو حديث رسول سمجھ بٹھے – اس کا ذکر امام مسلم نے اپني کتاب التميز ميں کيا ہے

حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حديث ميں حفاظت کرو – الله کي قسم ! ہم ديکھتے ابو ہريرہ کي مجالس ميں کہ وہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم سے روايت کرتے اور وہ (باتيں) کعب ( کي ہوتيں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روايت کرتے جو حديثيں رسول الله سے ہوتيں

اس بنا پر اکابر تابعين صحابي ابو ہريرہ کي تمام روايات نہيں ليتے تھے – احمد العلل ميں کہتے ہيں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .
احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھيم النخعي حديث کے بدلے حديث ليتے – وہ حديث لاتے – اعمش نے کہا پس انہوں نے لکھا جو ميں نے ابو صالح عن ابو ہريرہ سے روايت کيا – اعمش نے کہا : ابراھيم النخعي، ابوہريرہ کي
احاديث ميں چيزوں کو ترک کر ديتے

بہر حال کعب احبار اور پھر ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ نے اسلام ميں اسرائيليات کو متعارف کرايا اور يہ خاص کر فتن کے باب ميں ہوا – اس حوالے سے ايک غزوہ ہند کا ذکر آجکل بہت زور و شور سے سننے ميں آ رہا ہے – ہند کا ذکر بائبل ميں صرف دو مقام پر ہے اور صرف کتاب استار ميں ہے کہ فارس کي مملکيت ہند ميں بھي تھي – ليکن کعب احبار تک نے ہند سے جنگ کا ذکر کيا ہے جو اسي کتاب کا اثر لگتا ہے جو فتح فارس ميں ملي تھي

کتاب الفتن از نعيم ميں ہے
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: «يَبْعَثُ مَلِكٌ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ جَيْشًا إِلَى الْهِنْدِ فَيَفْتَحُهَا، فَيَطَئُوا أَرْضَ الْهِنْدِ، وَيَأْخُذُوا كُنُوزَهَا، فَيُصَيِّرُهُ ذَلِكَ الْمَلِكُ حِلْيَةً لَبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَيُقْدِمُ عَلَيْهِ ذَلِكَ الْجَيْشُ بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مُغَلَّلِينَ، وَيُفْتَحُ لَهُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَيَكُونُ مَقَامُهُمْ فِي الْهِنْدِ إِلَى خُرُوجِ الدَّجَّالِ» کعب نے کہا کہ بيت المقدس کے بادشاہ کي جانب سے ہندوستان کي جانب لشکر روانہ کيا جائے گا پس ہند کو پامال کيا جائے گا اور اس کے خزانوں پر قبضہ کريں گے اور اس سے بيت المقدس کو سجائيں گے وہ لشکر ہند کے بادشاہوں کو بيڑيوں ميں جکڑ
کر لائے گا اور مشرق و مغرب فتح کرے گا اور دجال کا خروج ہو گا

اس کي سند ميں الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ اور کعب کے درميان مجھول راوي ہے جس کا نام تک نہيں ليا گيا-

يہي بات ابو ہريرہ سے بھي مروي ہے

کتاب الفتن از نعيم بن حماد کي روايت ہے

حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ بَعْضِ الْمَشْيَخَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ الْهِنْدَ، فَقَالَ: «لَيَغْزُوَنَّ الْهِنْدَ لَكُمْ جَيْشٌ، يَفْتَحُ الله عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِهِمْ مُغَلَّلِينَ بِالسَّلَاسِلِ، يَغْفِرُ الله ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ حِينَ
يَنْصَرِفُونَ فَيَجِدُونَ ابْنَ مَرْيَمَ بِالشَّامِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلْكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِفٍ لِي وَتَالِدٍ وَغَزَوْتُهَا، فَإِذَا فَتْحَ الله عَلَيْنَا وَانْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ، يَقْدَمُ الشَّامَ فَيَجِدُ فِيهَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرُهُ أَنِّي قَدْ صَحِبْتُكَ يَا رَسُولَ الله، قَالَ:  فَتَبَسَّمَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ»

بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيد ، صَفْوَانَ سے وہ اپنے بعض مشائخ سے وہ ابو ہريرہ رضي الله عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ
ضرور تمہارا ايک لشکر الھند سے جنگ کرے گا الله ان مجاہدين کو فتح عطا کرے گا حتي کہ وہ ان ہندووں کے بادشاہوں کو بيڑيوں ميں جکڑ کر لائيں گے اور الله ان کي مغفرت کرے گا پھر جب مسلمان واپس جائيں گے تو عيسي ابن مريم کو شام ميں پائيں گے- ابو بريرہ نے کہا اگر ميں نے اس جنگ کو پايا تو نيا، پرانا مال سب بيچ کر اس ميں شامل ہوں گا پس جب الله فتح دے گا اور ہم واپس ہوں گے تو ميں عيسي کو شام ميں پاؤں گا اس پر ميں با شوق ان کو بتاؤں گا کہ ميں اے رسول الله آپ کے ساتھ تھا- اس پر رسول الله صلي الله عليہ وسلم مسکرائے اور ہنسے اور کہا بہت مشکل مشکل

بقية بن الوليد بن صائد مدلس ہيں جو ضعيف اور مجھول راويوں سے روايت کرنے پر بدنام ہيں اس ميں بھي عن سے روايت کرتے ہيں اور کتاب المدلسن کے مطابق تدليس التسوية تک کرتے ہيں يعني استاد کے استاد تک کو ہڑپ کر جاتے ہيں صَفْوَانَ کا اتا پتا نہيں جس سے يہ سن کر بتا رہے ہيں اور وہ اپنے مشائخ کا نام تک نہيں ليتے

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث   ہے

أخبرنا يحيى بن يحيى أنا إسماعيل بن عياش عن صفوان بن عمرو السكسكي عن شيخ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما الهند فقال ليغزون جيش لكم الهند فيفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوك السند مغلغلين في السلاسل فيغفر الله لهم ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون المسيح بن مريم بالشام قال أبو هريرة رضي الله عنه فإن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارد وتالد لي وغزوتها فإذا فتح الله علينا انصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيلقى المسيح بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه ( نمبر 462)

صفوان بن عمرو السكسكي نے ایک شیخ (مجہول) سے وہ  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہندوستان کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ ایک لشکر ہندوستان میں جہاد کرے گا اور اللہ انہیں فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ ، سندھ کے بادشاہوں کو وہ زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہ معاف فرما دے گا، پھر وہ پلٹیں گے تو شام میں حضرت عیسی علیہ السلام کو پائیں گے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر میں اس وقت ہوا تو اپنا سب کچھ بیچ کر اس میں شریک ہوں گا۔ اگر اللہ نے ہمیں فتح دی اور ہم واپس آئے تو میں آزاد ابوہریرہ ہو کر شام آؤں گا۔ میں سب سے زیادہ لالچی ہوں کہ وہاں حضرت عیسی بن مریم علیہ الصلوۃ والسلام سے ملوں۔

اس کی سند میں مجہول شیخ ہے

کتاب الفتن از نعيم ميں اس کو مجہول الحال لوگوں کي سند سے بھي اس کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے منسوب کيا گيا ہے
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَغْزُو قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي الْهِنْدَ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مَغْلُولِينَ فِي السَّلَاسِلِ، فَيَغْفِرُ اللَّهُ لَهُمْ ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ إِلَى الشَّامِ، فَيَجِدُونَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِالشَّامِ»

صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو نے کسي سے روايت کيا اس نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے روايت کيا ميري امت کي ايک قوم ہند سے جنگ کرے گي اللہ ان کو فتح ديا گا يہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو بيڑيوں ميں لائيں گے اللہ ان کے گناہ معاف کر دے گا پھر يہ شام کي طرف پلٹيں گے تو وہاں عيسي ابن مريم کو پائيں گے

مسند احمد کي روايت ہے
حدثنا هُشيم عن سَيَّار عن جَبْر بن عَبِيدَة عن أبي هريرة، قال: وعدَناِ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في غزوة الهند، فإن اسْتُشْهِدْتُ كنتُ من خير الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المُحَرَّرَةُ.
جَبْر بن عَبِيدَة ، أبي هريرة سے روايت کرتے ہيں رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے غزوہ ہند کا وعدہ کيا پس اگر اس کو پاؤ تو ميں سب سے بہتر شہداء ميں سے ہوں گا

الذھبي کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين ميں کہتے ہيں جبر بن عبيدة، أو جبير: عن أبي هريرة، مجهول

ابن حجر کا قول ہے

“لا يعرف”. “اللسان” (8/ 246). نہیں جان سکا  

احمد شاکر نے اس روايت کو صحيح کہا ہے ليکن انہوں نے اس کي کوئي بھي مظبوط دليل نہيں دي بلکہ يہ راوي مجھول ہے اس کي نہ توثيق ہے نہ جرح اور ايسے راويوں کو مجھول ہي کہا جاتا ہے اس کي مثاليں اتني زيادہ ہيں کہ بے حساب – لہذا يہ روايت صحيح نہيں – الباني اور شعيب الأرناؤوط بھي اس کو ضعيف الإسناد کہتے ہيں اسي راوي کي سند سے سنن الکبري نسائي ، مستدرک حاکم، سنن الکبري البيہقي بَابُ مَا جَاءَ فِي قِتَالِ الْهِنْدِ ميں روايت ہوئي ہے

تہذیب التہذیب از ابن حجر میں ہے

جبر بن عبيدة  الشاعر روى عن أبي هريرة وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند الحديث روى عنه سيار أبو الحكم وقال بعضهم جبير بن عبيدة قلت هذا وقع في بعض النسخ من كتاب الجهاد من النسائي حكاه بن عساكر وذكره الجمهور بإسكان الباء قرأت بخط الذهبي لا يعرف من ذا والخبر منكر انتهى وذكره بن حبان في الثقات

ابن حجر نے کہا  میں نے الذھبی کی تحریر دیکھی کہ  میں اس کو نہیں جانتا اور یہ خبر (کتاب الجہاد والی ) منکر ہے 

مسند احمد کي روايت ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا الْبَرَاءُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى السِّنْدِ وَالْهِنْدِ، فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَاكَ، وَإِنْ أَنَا فَذَكَرَ كَلِمَةً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِي مِنَ النَّارِ

ابو ھريرہ کہتے ہيں ميرے دوست رسول الله نے مجھے بتايا کہ اس امت ميں سند اور ہند کي طرف روانگي ہو گي اگر کوئي اس کو پائے تو ٹھيک اور اگر واپس پلٹ آئے تو ميں ابو بريرہ ايک محرر ہوں گا جس کو الله جہنم سے آزاد کر دے گا

شعيب الأرناؤوط اس کو إسناده ضعيف کہتے ہيں

کتاب الجہاد از ابن ابي عاصم ميں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ – وَكَانَ مِنْ نُسَّاكِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ – قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُبَيْهٍ مَوْلَى صَفِيَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَإِنْ أُدْرِكْهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي، فَإِنْ قُتِلْتُ كُنْتُ كَأَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ»
كِنَانَةَ بْنِ نُبَيْهٍ مَوْلَى صَفِيَّةَ پر ابن حجر نے لکھا ہے “التهذيب “: ذكره الأزدي في “الضعفاء ” اور کہا : لا يقوم إسناده حديثه.

سنن نسائي ميں انہي سندوں کو الباني نے ضعيف الإسناد قرار ديا ہے

یہ تو تھیں غزوہ ہند سے متعلق کعب احبار اور ابو ہریرہ کی روایات – اب ہم چند سندوں کا ذکر کریں گے جو شامی راویوں الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي، من أهل حمص المتوفی ١٩٣ ھ اور بقية بن الوليد بن صائد الحمصى المتوفی ١٩٧ هـ نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب کی ہیں -یعنی اس سند میں اہل حمص شام کا تفرد ہے

طبراني کتاب الکبير ميں حديث نقل کرتے ہيں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ
ح
وَحَدَّثَنَا خَيْرُ بْنُ عَرَفَةَ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، ثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيُّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا الله مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ،
وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ثوبان رضي الله عنہ روايت کرتے ہيں کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ميري امت کے دو گروہ ہيں جن کو الله اگ سے بچائے گا ايک وہ جو ہند سے لڑے گا اور دوسرا وہ جو عيسي ابن مريم کے ساتھ ہو گا

ثوبان المتوفي 54 ھ نبي صلي الله عليہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ، ان کو ثوبان النَّبَوِيُّ رضي الله عنہ کہا جاتا ہے- يہ شام ميں رملہ ميں مقيم رہے کتاب سير الاعلام النبلاء کے مطابق

وَقَالَ مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ: سَكَنَ الرَّمْلَةَ، وَلَهُ بِهَا دَارٌ، وَلَمْ يُعْقِبْ، وَكَانَ مِنْ نَاحِيَةِ اليَمَنِ.

اور مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ کہتے ہيں يہ الرَّمْلَةَ ميں رہے جہاں ان کا گھر تھا اور واپس نہيں گئے اور يہ يمني تھے – تاريخ الکبير از امام بخاري کے مطابق ثوبان رضي الله عنہ سے سننے کا دعوي کرنے والے عَبد الأَعلى بْنُ عَدِي، البَهرانِيّ، قَاضِي حِمص ہيں جو١٠٤ ھ ميں فوت ہوئے ہيں – ان کي توثيق متقدمين ميں سے صرف ابن حبان نے کي ہے ان سے سننے والے لقمان بن عامر الوصابى يا الأوصابى المتوفي 120 ھ ہيں ان کا درجہ صدوق کا جو ثقاہت کا ادني درجہ ہے- ہے اور أبو حاتم کہتے ہيں يكتب حديثه ان کي حديث لکھ لي جائے – عموما يہ الفاظ اس وقت بولے جاتے ہيں جب راوي کي توثيق اور ضيف ہونے پر کوئي رائے نہ ہو اور ان کے ساتھ ايسا ہي معاملہ ہے – ان سے سنے والے مُحَمَّد بْن الوليد الزُّبَيْدِيُّ المتوفي 149 ھ ہيں جو ثقہ ہيں- اور الجراح بن مليح  حمصی ہے جو ضعیف ہے 

الباني نے الصحيحہ ميں سنن نسائي کي سند کا ذکر کر کے اس سند کو صحيح قرار ديا ہے

عن بقية بن الوليد حدثنا عبد الله بن سالم وأبو بكر بن الوليد الزبيدي عن محمد بن الوليد الزبيدي عن لقمان بن عامر الوصابي عن عبد الأعلى بن عدي البهراني عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم.

الباني کا کہنا ہے کہ يہاں دو راوي ہيں جو مقرونا روايت کر رہے ہيں ايک ثقہ ہے اور ايک مجہول ہے
وهذا إسناد جيد رجاله ثقات غير أبي بكر الزبيدي فهو مجهول الحال لكنهمقرون هنا مع عبد الله بن سالم وهو الأشعري الحمصي، ثقة من رجال البخاري.

اس کے بعد الباني نے اس طرق کو صحيحہ 1934 ميں درج کر کے اس کو صحيح قرار ديا ہے – اسي طرح اس کو صحيح الجامع ح (4012) ميں صحيح قرار ديا ہے – الباني نے سنن نسائي ح 3175 کے تحت اس کو صحيح قرار ديا ہے – شعيب
الأرنؤوط نے مسند احمد کي تعليق ميں اس سند کو حسن قرار ديا ہے

راقم کہتا ہے يہ طرق اشکال سے خالي نہيں ہے
مسند الشاميين کي سند ہے
ثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ
اور سنن نسائي کي سند ہے
بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ أَخِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ،

سب سے پہلے تو بقية بن الوليد بن صائد الحمصى المتوفی ١٩٧ هـ کا حدثني يا حدثنا کہنا بھي شک سے خالي نہيں ہے

کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدي کے مطابق
أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ يقُول: مَن، قَال: إِنَّ بَقِيَّةَ، قَال: حَدَّثَنا فَقَدْ كَذَبَ مَا قَالَ بَقِيَّةُ قَطُّ إِلا، حَدَّثني فلان
أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ کہتے جو يہ کہے کہ بقيہ نے کہا حدثنا وہ جھوٹ ہے بقيہ نے کبھي بھي يہ نہيں بولا بلکہ کہتا حدثني فلاں

يعني بقيہ اپنے اپ کو محدث کا خاص شاگرد باور کراتا کہ اس نے مجمع ميں نہيں بلکہ خاص شيخ نے اس کو سنائي
بقيہ کو ثقہ بھي کہا گيا اور بے کار شخص بھي کہا گيا ہے

عقيلي کہتے ہيں يہ کوئي چيز نہيں
بيہقي کہتے ہيں وقد أجمعوا على أن بقية ليس بحجة وفيه نظر اس پر اجماع ہے کہ اس کي روايت حجت نہيں اور اس پر نظر ہے
ابن حزم نے بھی اس کو ضعيف کہا ہے

أبو بكر بن الوليد بن عامر الزبيدى الشامى، ابن حجر کے مطابق  مجہول الحال ہے – اصل ميں يہ روايت بقيہ نے اسي مجہول سے لي ہے اورابو بکر نے اس کو اپنے بھائي محمد بن الوليد الزبيدى سے روايت کيا ہے – الباني کا کہنا ہے کہ بقيہ کو يہ عبد اللہ بن سالم سے بھي ملي ہے – امام احمد کا قول ہے

وقال أحمد بن الحسن الترمذي: سمعت أحمد بن حنبل، رحمه الله، يقول: توهمت أن بقية لا يحدث المناكر إلا عن المجاهيل فإذا هو يحدث المناكير عن المشاهير، فعلمت من أين أتي. «المجروحون لابن حبان» 1/191.
احمد بن حسن نے کہا ميں نے احمد کو کہتے سنا مجھ کو وہم ہوا کہ بقيہ صرف مجھول راويوں سے مناکير روايت کرتا ہے پس جب يہ ثقات سے بھي منکر روايت کرے تو جان لو کہ کہاں سے يہ آئي ہے

يعني بقيہ نے ثقات سے بھي منکر روايت بيان کي ہيں اور اصلا یہ مجہول راوی سے لی گئی روایات ہیں

يہ روايت امام ابن ابي حاتم کے نزديک بھي قابل قبول نہيں ہو سکتي – کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدي کے مطابق
حَدَّثني عَبد المؤمن بن أحمد بن حوثرة، حَدَّثَنا أَبُو حاتم الرازي، قالَ: سَألتُ أبا مسهر عَن حديث لبقية فَقَالَ احذر أحاديث بَقِيَّة وكن منها عَلَى تقية فإنها غير نقية.
أَبُو حاتم الرازي نے کہا ميں نے أبا مسهر سے بقيہ کي روايات کے بارے ميں پوچھا کہا ان سے دور رہو ہو سکتا ہے اس ميں تقيہ ہو کيونکہ يہ صاف (دل) نہ تھا

کتاب الجہاد از ابن ابي عاصم ميں ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ الْبَهْرَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الْبَهْرَانِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ، عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى عِيسَى»

اس سند ميں بقيہ نہيں ہے اور اسي طرح مسند الشاميين ميں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيُّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ان دو سندوں میں الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي، من أهل حمص المتوفی ١٩٣ ھ ہے – اسی نام کا ایک راوی الجراح بن مليح بن عدى بن فرس المتوفی ١٩٦ ھ اور بھی ہے جو سخت ضعیف ہے

المتفق والمفترق للخطيب البغدادي میں ہے کہ اس نام کے دو لوگ ہیں
الجراح بن مليح بن عَدي بن فارس، أبو وكيع الرُّؤاسي. من أهل الكوفة
الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي، من أهل حمص

یہاں شامی حمص والا راوی ہے – جس کا ذکر بقول مغلطاي ، أبو العرب القيراني نے الضعفاء میں کیا ہے

بعض کے بقول أبو حاتم اس کو صالح الحديث کہتے ہیں جبکہ راقم کو یہ تعدیل نہیں ملی بلکہ کتاب جرح و تعدیل میں اس پر ابی حاتم کی تعدیل نہیں ہے – ابن ابی حاتم نے کہا امام ابن مَعِين نے کہا : لا أَعْرِفُهُ میں اس کو نہیں جانتا

ابو حاتم جب صالح الحدیث کہیں تو اس کا مطلب ثقہ کہنا نہیں ہوتا کیونکہ بعض اوقات وہ اس کو صدوق کہہ کر يكتب حديثه ولا يحتج به بھی کہہ دیتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھ لو دلیل مت لینا

راقم کہتا ہے یہ کوئی مجہول راوی ہے

ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت میں ہے کہ وہ لشکر جو ہند میں لڑے گا جب وہ فتح کے بعد واپس شام آئے گا تو وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول ہو چکا ہو گا – اس روایت میں دجال کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے – جبکہ دجال کے حوالے سے احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ عرب کے مشرق سے نکلے گا اور ہر شہر کو پامال کرے گا سوائے مدینہ کے – ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت میں جو لشکر ہند میں ہے اس کو دجال کی کوئی خبر نہیں ہے  – اس طرح ابہام موجود ہے کہ دجال اس  ہند پر لشکر کشی کے وقت کہاں ہے ؟ نہ شامی لشکر کو خبر ہے جو شام سے ہند جہاد کے لئے  پہنچا ہوا ہے  ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت اس طرح غیر واضح ہے اور شاذ بھی ہے

لب لباب ہے کہ غزوہ ہند والی روایات کعب احبار کے اقوال ہیں جو اس کو اغلبا گھڑی ہوئی کتاب دانیال سے ملے – اس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے شامی راویوں نے منسوب کیا ہے اور بعض نے اس کو ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا

سوال یہ ہے کہ یہود ہندوستان پر حملہ کا کیوں سوچ رہے  تھے اگر یہ سب دانیاال سے منسوب کتاب میں لکھا گیا ؟ راقم سمجھتا ہے کہ یہودی جو فارس میں آباد تھے وہ اپنے عقائد کو فارسی سوچ  پر ڈھال رہے تھے جس طرح انہوں نے توریت میں سے ابلیس کا تذکرہ ختم کر دیا تھا – فارس میں یہود کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی –  فارسیوں اور ہنود میں بنتی نہیں تھی اور ان کے اپس میں جھگڑے ہوتے رہتے تھے لہذا ممکن ہے کہ کسی  جنگ کا پلان  بنایا  گیا اور دانیال سے منسوب کیا گیا لیکن اسی دوران  مسلمانوں نے فارس فتح کر لیا

قابل غور ہے کہ مجہول راویوں کو چھوڑ کر  روایات میں  اہل شام حمص کا تفرد ہے

الحكم بن نافع البهرانى ، أبو اليمان الحمصى المتوفی ٢٢٢ ھ ، صفوان بن عمرو السكسكي الحِمْصِيُّ المتوفی ١٥٥ ھ ، الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي المتوفی ١٩٣ ھ، بقية بن الوليد بن صائد الحمصى المتوفی ١٩٧ ھ ہجری، عبد الله بن سالم الحمصي،  عَبد الأَعلى بْنُ عَدِي، البَهرانِيّ، قَاضِي حِمص المتوفی ١٠٤ ھ  یہ سب شامی ہیں – اس جنگ کی  خبر صرف اہل حمص  کو معلوم ہے لیکن کسی اور  مقام پر ان روایتوں  کو روایت نہیں کیا گیا

امام بخاری و مسلم و ابن خزیمہ و ابن حبان کے نزدیک   غزوہ ہند کی خبروں میں سے کوئی بھی سند اس قدر مضبوط نہیں تھی کہ صحیح کے درجہ تک جاتیں لہذا ان میں سے کسی نے بھی اس کو اپنی صحیح میں درج نہیں کیا

دور نبوی میں ہند سے مراد وہ علاقہ تھا جو فارس اور خراسان کے بعد مشرق میں اتا ہے اصلا ہندو تہذیب کا علاقہ سندھ کا ہے جہاں سے ہندو مت کا آغاز ہوا اور سب سے قدیم تہذیبوں میں یہیں موئین جو ڈرو لاڑکانہ میں اس کے اثار موجود ہیں – اس وقت ہندو سرسوتی اور اندر کی پوجا کرتے تھے لیکن بعد میں انے والے آرین لوگوں نے ان دیوتاوں کی اہمیت کو کم کر دیا – سرسوتی دریا سوکھ گیا اور اندر کا دریا سکندر کے لشکر نے انڈس بنا دیا-اس سے معرب ہو کر عربی میں یہ الہند بن گیا-علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان گئے لیکن کسی جھڑپ میں قیقان نام کے مقام پر جو دعوی کیا گیا ہے کہ آج سندھ میں ہے اس میں شہید ہو گئے۔ (فتوح البلدان ،ج:3/ص:531) – باقاعدہ ہند پر لشکر کشی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں ہوئی جب سپہ سالار محمد بن قاسم رحمہ اللہ علیہ نے پہلا حملہ ہند پر کیا ان کے راجہ کو قتل کیا- اگر ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح سمجھا جائے تو اس خبر کی ایک بات کی عملی شکل پوری ہوئی کہ محمد بن قاسم کا لشکر جنتی بن گیا دوسرا جنتی لشکر اب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہو گا
و اللہ اعلم

بعض لا علم لوگوں نے دعوی کیا کہ محمد بن قاسم نے تو سندھ پر حملہ کیا تھا نہ کہ ہند پر – اس حماقت کا رد ٨٠٠ سال پہلے ہی ہو چکا ہے – الكامل في التاريخ از ابن الأثير (المتوفى: 630هـ) میں ہے کہ محمد بن قاسم کو الہند پر لشکر کے ساتھ بھیجا گیا اور اہل ہند کافر تھے
وَفِي أَيَّامِهِ خَرَجَ الْمُسْلِمُونَ عَنْ بِلَادِ الْهِنْدِ وَرَفَضُوا مَرَاكِزَهُمْ، ثُمَّ وُلِّيَ الْحَكَمُ بْنُ عَوَّامٍ الْكَلْبِيُّ، وَقَدْ كَفَرَ أَهْلُ الْهِنْدِ إِلَّا أَهْلَ قَصَّةَ، فَبَنَى مَدِينَةً سَمَّاهَا الْمَحْفُوظَةَ، وَجَعَلَهَا مَأْوَى الْمُسْلِمِينَ، وَكَانَ مَعَهُ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ، وَكَانَ يُفَوِّضُ إِلَيْهِ عَظِيمَ الْأُمُورِ، فَأَغْزَاهُ مِنَ
الْمَحْفُوظَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ وَقَدْ ظَفِرَ أَمَرَهُ فَبَنَى مَدِينَةً وَسَمَّاهَا الْمَنْصُورَةَ

محمد بن قاسم نے ہند پر حملہ کیا تھا اور سندھ اس کا علاقہ  تھا

امام الذھبی نے آٹھویں صدی ہجری میں محمود غزنوی (357ھ – ۔421ھ) کا ذکر کرتے ہوئے لکھا
وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات
اس نے اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا اور ان کے بہت سے شہر فتح کیے اور ایک مشہور بت سوم ناتھ کو توڑا

ابن کثیر نے البداية والنهاية میں لکھا ہے

وَقَدْ غَزَا الْمُسْلِمُونَ الْهِنْدَ فِي أَيَّامِ مُعَاوِيَةَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ … وَقَدْ غَزَا الْمَلِكُ الْكَبِيرُ الْجَلِيلُ مَحْمُودُ بْنُ سُبُكْتِكِينَ، صَاحِبُ غَزْنَةَ، فِي حدود أربعمائة، بلاد الهند فدخل فِيهَا وَقَتَلَ وَأَسَرَ وَسَبَى وَغَنِمَ وَدَخَلَ السُّومَنَاتَ وكسر الند الأعظم الّذي يعبدونه

مسلمانوں نے ہند پر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں سن ٤٤ ھ میں غزوہ کیا … اور سلطان محمود نے سن ٤٠٠ ہجری میں ہند کے شہروں میں سومنات پر حملہ کیا 

شذرات الذهب في أخبار من ذهب از  عبد الحي بن أحمد بن محمد ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ میں ہے

وتوفي في غزوة الهند- في الرّجعة بالبحر- الرّبيع بن صبيح البصري صاحب الحسن

اور غزوہ ہند میں سمندر میں الرّبيع بن صبيح البصري صاحب الحسن کی وفات ہوئی 

اس کا ذکر الذہبی نے العبر في خبر من غبر میں بھی کیا ہے  یعنی الذھبی کے نزدیک یہ غزوہ ہند ہو چکا ہے

سوم ناتھ پر شوا لنگم تھا اور یہ ان بارہ مندوں میں ایک خاص تھا جہاں ہندؤں کے بقول کائنات کی ابتداء کے وقت اگ کا ستون بنا تھا – اس کے علاوہ بلوچستان بھی ہندو مندروں سے بھرا پڑا تھا – بلوچستان میں ہنگلاج ماتا کا مندر جس کو نانی مندر بھی کہا جاتا ہے یہ ایک قدیم مندر ہے اور یہ بقول ہندؤں کے ان کی دیوی کی آسمان سے گرنے والی لاش کا ٹکڑا ہے جب ستی نے خود کو بھسم کیا تھا – یعنی سندھ ہو یا بلوچستان اس کو تاریخی طور پر ہند سے الگ علاقہ قرار نہیں دیا جا سکتا جس کا ذکر احادیث میں ہے- -ہندو مت  کو بطور مذھب ہندو خود  عربوں کی آمد سے قبل نہیں کہتے تھے  وہ اپنے مذھب کو ویدانت کہتے تھے – عربوں نے ان کو ہندی کہا جس کی بنا پر یہ  نام برصغیر کی عوام میں مقبول ہو گیا یہاں تک کہ  محدثین جو بر صغیر میں گزرے ہیں وہ تک  اپنے آپ کو ہندی لکھتے  تھے-  یعنی ہندی ایک خغرافیائی نام تھا،  مذھب کا نام نہیں تھا -وقت کے ساتھ ویدانت یا سناتن دھرم (قدیم مذھب ) کے قائل ہندی لوگوں نے اس لفظ  کو مذہبی ٹائٹل کے  طور پر قبول کر لیا اور اب یہ اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں- لفظ ہندو  خود ہندوؤں کی کسی قدیم مذہبی کتاب میں موجود نہیں ہے – یہ محص علاقائی لفظ ہے اور سندھ و پنجاب  اس کا   علاقہ تھا

مسئلہ یہاں یہ ہے کہ قدیم  ہند کی حدود ہندو   احادیث و مسلمانوں کی تاریخ سے نہیں لین گے  – وہ اس کو اپنی کتب سے سمجھ رہے ہیں – ہم افغانستان کو  ہند نہیں   کہتے ہیں جبکہ ہندوؤں کے مطابق افغانستان تک  ہندو تہذیب کا علاقہ تھا اور قندھار اصل میں گندھار ہے  جس کا ذکر مہا بھارت میں بھی ہے – وقت کے ساتھ  وہاں کے لوگ بدھ مت میں بدلے – بدھ خود ہندوؤں کے نزدیک ہندو ہی ہے کوئی الگ مذھب نہیں ہے – یہاں تک کہ وہ اس کو وشنو کا اوتار کہتے ہیں

راقم کو سننے کو ملا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ کو غزوہ اس لئے کہتے ہیں کہ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں شریک ہوں گے جبکہ یہ عربی سے لا علم ہیں -عربی میں غزوہ اس کو کہا جاتا ہے جس میں تلوار سے قتال کیا جائے – مسلمان مورخین نے فارس کی جنگ جو دور عمر میں ہوئی اس کو بھی غزوہ لکھا ہے – لیکن یہ لوگ دعوی کر  رہے ہیں نبی علیہ السلام اپنے مثالی جسم کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہوں گے- حدیث محشر میں ذکر ہے کہ بعض   امتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ہٹا لئے جائیں گے اس کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا  – آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے اے رب یہ امتی ہیں  یا اصحابی ہیں  لیکن کہا جائے گا آپ کو معلوم نہیں انہوں  نے کیا گل کھلائے ہیں – اگر رسول اللہ خود امت کی جنگوں میں  پہنچ جاتے ہیں تو  پھر ان کا علم الغیب سے واقف ہونا ثابت ہوتا ہے – جو جھل کا قول ہے

تصوف کے دلدادہ  لوگوں نے  ایک اسلامی ناسٹرا ڈیمس کی شکل  صوفی نعمت اللہ شاہ ولی   سے منسوب  شاعرانہ کشف کو حقیقت سمجھنا شروع کر دیا  ہے – دیو بندی و تبلیغی  صوفی حلقوں  میں اس دیوان  کو بڑی داد و تحسین مل رہی ہے جبکہ یہ   دیوان ایران میں پہلی بار چھپا جس کی جدید طباعت کی گئی ہے  لنک  – سن ١٩٧٢  میں حافظ محمد سرور نظامی نے اس کی طرف مزید  اشعار منسوب کیے   دیکھئے لنک–  اہل حدیث نے  شمارہ محدث لاہور میں بھی ان  پر تحقیق پیش کی اور جو نتیجہ تھا وہ پیش کیا کہ یہ تمام اشعار جو بر صغیر سے متعلق ہیں  جعلی ہیں

لنک

افسوس ان وضعی اشعار کو جدید دانشور،  ٹی وی اور اخبار کے مراسلوں میں  بھی  پیش کر رہے ہیں اور ہر مشہور ٹی وی چینل کے  اینکروں  کے مینول کا حصہ بنے ہوئے ہیں

خبردار مستقبل کا لائحہ عمل ایک کمزور خبر کی بنیاد پر بنانا یا کسی صوفی کے کشف کی بنیاد  پر رکھنا  یا  اسٹریٹجی میں معجزات کا انتظار کرنا غیر دانشمندی ہے

=================================================

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا الحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ»

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ دو گروہ لڑیں گے جن کا ایک ہی دعوی ہو گا

دوسری صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے
فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ
ان میں عظیم قتال ہو گا

وَتَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ
ان میں عظیم قتال ہو گا

بعض شارحین نے اس جنگ کو علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مشاجرات سے ملایا ہے جبکہ وہ کوئی عظیم قتال نہیں تھے کچھ مسلمان شہید ہوئے تھے ایسا نہیں کہ عظیم قتال ہوا ہو- راقم اس رائے  سے موافقت نہیں رکھتا –  علی و معاویہ کا دعوی ایک نہیں تھا – معاویہ  کا مطالبہ قصاص عثمان کا تھا اور علی کی جانب سے اس کا مسلسل انکار تھا – ان دونوں کا دعوی ایک نہیں تھا

صحیح مسلم میں اس پر باب ہے باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض امت میں بعض کی بعض کے سبب ہلاکت

دوسری صحیح بخاری کی حدیث میں اس روایت میں ہے کہ اس کے بعد تیس دجال نکلیں گے جو نبوت کا دعوی کریں گے
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ، دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبًا مِنْ ثَلاَثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ

قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ دو گروہوں میں عظیم قتال ہو گا ان کا دعوی ایک ہو گا اور قیامت قائم نہ ہو گی کہ دجال کذابوں کو تیس کے قریب نکالا جائے گا جن میں ہر ایک رسول اللہ ہونے کا دعوی کرے گا

اس جنگ میں دنیا دو گروہوں میں بٹ جائے گی اور گھمسان کی جنگ ہو گی اور دونوں طرف مسلمان بھی ہوں گے یعنی دنیا کے  دو گروہ ہیں محض مسلمانوں کے دو گروہ  نہیں ہیں – اس حدیث کو محض مسلمانوں کی آپس میں جنگ پر محدود کرنا حدیث کے متن  میں  اضافہ ہے

اس جنگ کے بعد دجالوں  کے خروج کی خبر ہے – ان میں سب سے بڑا دجال ، دجال اکبر  ایک ساتھ دو دعوی کرے گا کہ وہ مومن ہے ، وہ  نعوذ باللہ اوتار ہے  – راقم سمجھتا ہے دجال کوئی ہندومت متاثر لیکن مسلمان نام کا شخص ہو گا جس کی مدد یہود و ہنود کر رہے ہوں گے اس طرح ان تمام روایات میں تطبیق ہو جاتی ہے جو خروج دجال سے متعلق ہیں ، مشرق سے فتنہ کے نکلنے سے متعلق ہیں

و اللہ اعلم

==============

لبیک غزواتل الھند 

راقم  کی نظر  سے یہ اشتہار  گزرا – خیال آیا کہ کوئی نیا  فرشتہ غزواتل مسلمانوں  نے دریافت  کیا ہے – غور  کرنے  پر معلوم  ہوا کہ یہ  غزوہ الھند  لکھا گیا   ہے

اب جس قدر یہ اردو و  عربی  کے لحاظ سے غلط  ہے  اسی قدر  آپ ان روایات کو بھی  لے لیں نہ راوی مشہور  نہ کلام  معروف

کتم علم کی اہل سنت کی دلیل

قرآن میں کتم علم الوحی  پر سخت وعید ہے

اِنَّ الَّـذِيْنَ يَكْـتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْـهُـدٰى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِى الْكِتَابِ ۙ اُولٰٓئِكَ يَلْعَنُهُـمُ اللّـٰهُ وَيَلْعَنُهُـمُ اللَّاعِنُـوْنَ (159 

بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں کہ ہم نے ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کر دیا، یہی لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

اِلَّا الَّـذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُـوْا فَـاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَيْـهِـمْ ۚ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْـمُ (160 

مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی اور ظاہر کر دیا پس یہی لوگ ہیں کہ میں ان کی توبہ قبول کرتا ہوں، اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہوں

مسند احمد کی ایک سند سے معلوم ہوا ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے معاذ سے الوحی غیر متلو میں  ایک حدیث کو سنا تھا

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَيْنَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مِنْ غَرَائِبِ حَدِيثِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: نَعَمْ، كُنْتُ رِدْفَهُ عَلَى حِمَارٍ قَالَ: فَقَالَ: ” يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ ” قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: ” هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ ” قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: ” إِنَّ حَقَّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ” قَالَ: ثُمَّ قَالَ: ” يَا مُعَاذُ ” قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: ” هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟ ” قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: ” أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا معاذ ہمارے پاس پہنچے تو ہم نے کہا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب و غریب حدیث بیان کیجیے – معاذ نے کہا اچھا میں رسول اللہ کے گدھے کا ردیف تھا  یعنی ساتھ چل رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کیا تم کو معلوم ہے اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟  میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے   کہ بندے صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ شریک نہ کریں – پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں کا حق اللہ تعالی پر کیا ہے  اگر وہ یہ کریں ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتا ہے – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حق یہ ہے کہ وہ ان کو عذاب نہ دے 

یہ متن وہ ہے جس انس رضی اللہ عنہ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا   لیکن اس حدیث کو چھپایا جائے گا اس  کا اضافہ کسی نے انس سے  بیان  کیا  تھا -تقیہ سے منع کرنے والے اہل سنت کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ دین میں کتم علم یا  علم کی باتیں چھپائی جا سکتی ہیں اس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: «مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ»، قَالَ: أَلاَ أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: «لاَ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا»
انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا مجھ سے ذکر کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ ( یقیناً ) جنت میں داخل ہو گا، معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔

راقم کہتا ہے اس حدیث کا آخری حصہ منکر المتن  ہے- ایسی بات چھپانا جس کا تعلق اخروی فلاح سے ہو انبیاء کی سنت نہیں  

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ؟» قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا» قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ أَنْ يَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا يُعَذِّبَهُمْ» ، قَالَ مَعْمَرٌ، فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: «دَعْهُمْ يَعْمَلُوا»

معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا پس آپ نے فرمایا کہ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو – پھر آپ نے فرمایا کیا تو جانتا ہے بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے اگر وہ ایسا کریں ؟ آپ نے خود ہی جواب دیا کہ وہ ان کی مغفرت کرے ان کو عذاب نہ دے – معمر نے کہا اس حدیث میں کہ معاذ نے کہا میں نے کہا یا رسول اللہ میں لوگوں کو بشارت نہ دے دوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو عمل کرنے دو

اسی طرح مصنف عبد الرزاق میں ہے جو امام بخاری کے مشائخ کے استاد ہیں یعنی یہ روایت بخاری کو ملنے سے پہلے امام عبد الرزاق کو ملی تھی اور ان کی کتاب المصنف میں اس کا متن بھی الگ ہے – معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی روایت میں مسدد نے سمجھنے میں غلطی کی ہے – لوگوں کو عمل کرنے دو کا مطلب یہ تھا کہ بعد میں بتا دینا فوری ضرورت نہیں ہے – اس کو چھپا دینا مراد نہیں تھا

صحیح بخاری میں یہ واقعہ ایک دوسری سند سے ہے کہ معاذ اس علم کی بات کو چھپاتے رہے اور  وفات سے قبل بتایا کہ علم ختم نہ ہو جائے وأخبر بها معاذ عند موته تَأَثُّمًا

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «يَا مُعَاذُ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلاَثًا، قَالَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ [ص:38] مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ»، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَلاَ أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا؟ قَالَ: «إِذًا يَتَّكِلُوا» وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا
معاذ نے کہا میں نے کہا یا رسول اللہ میں لوگوں کو خبر نہ دے دوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اسی پر تکیہ کر لیں گے ! اور معاذ نے موت کے وقت کتمان حق کے ڈر سے اس حدیث کا بتایا

سند میں مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، ہے جس کو ابن حجر کہتے ہیں وہم ہوتا ہے – ابن معین کہتے ہیں اس کی حدیث دلیل نہیں ہے
قال الآجُريُّ: قلتُ لأبي داود: معاذ بن هشام عندك حجة؟ قال: أكره أن أقول شيئًا، كان يحيى لا يرضاه.
قال أبو عبيد (الآجُريُّ): لا أدري مَنْ يحيى، يحيى بن معين، أو يحيى القَطَّان. وأظنه يحيى القَطَّان. “سؤالاته” 3/ 263 و 264.
الاجری نے کہا میں نے ابو داود سے معاذ بن ہشام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس پر کچھ کہنے سے کراہت کی اور کہا یحیی اس کو پسند نہیں کرتے تھے … میرا خیال ہے امام یحیی بن سعید القطان مراد تھے
قال ابن أبي خيثمة: سئل يحيى بن معين عن معاذ بن هشام فقال: ليس بذاك القوي
ابن معین نے کہا ایسا کوئی قوی راوی نہیں ہے

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وفات طاعون عمواس میں اردن کے مضافات میں سن 18 ہجری میں ہوئی – انس رضی اللہ عنہ وہاں اس وقت موجود نہیں تھے- جہاں طاعون پھیلا ہو وہاں جانا منع ہے –انس رضی اللہ عنہ نے اس روایت کو خود معاذ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا بلکہ کہا مجھ سے ذکر کیا کسی نے خبر دی

مختصر صحیح بخاری میں البانی نے تعلیق میں لکھا ہے

لأن أنساً كان بالمدينة حين مات معاذ بالشام

انس مدینہ میں تھے جب معاذ کی شام میں وفات  ہوئی

اور صحیح بخاری کی حدیث جو راقم نے سب سے اوپر لکھی ہے اس میں ہے کہ انس نے کہا

قَالَ: ذُكِرَ لِي  مجھ سے ذکر کیا گیا 

معلوم ہوا کہ انس رضی اللہ عنہ نے روایت  کا آخری حصہ خود معاذ سے  نہیں سنا تھا بلکہ کسی نے ان سے ذکر کیا جس کا نام انہوں نے نہیں لیا کہ کون تھا  جس نے اضافہ کیا کہ نبی کا حکم تھا  لوگوں سے ذکر مت کرو وہ اس پر بھروسہ کریں گے

مسند احمد میں یہ قتادہ کی سند ہے کہ لوگ اس بات پر بھروسہ کر لیں گے
حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، حَدَّثَهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «لَا يَشْهَدُ عَبْدٌ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ يَمُوتُ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ» قَالَ: قُلْتُ [ص:336]: أَفَلَا أُحَدِّثُ النَّاسَ؟ قَالَ: «لَا، إِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلُوا عَلَيْهِ»
قتادہ مدلس نے عنعنہ سے روایت کیا ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: أَخْبَرَنَا مَنْ شَهِدَ مُعَاذًا حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ. يَقُولُ: اكْشِفُوا عَنِّي سَجْفَ الْقُبَّةِ أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مَرَّةً: أُخْبِرُكُمْ بِشَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ إِلَّا أَنْ تَتَّكِلُوا سَمِعْتُهُ يَقُولُ: ” مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ يَقِينًا مِنْ قَلْبِهِ، لَمْ يَدْخُلِ النَّارَ،

عمرو بن دینار نے کہا میں نے جابر بن عبد اللہ سے سنا کہا ہم کو اس نے خبر دی جس نے مُعَاذً کو ان کی وفات پر پایا کہ وہ کہہ رہے تھے میں تم کو ایک چیز کی خبر کرتا ہوں جس کو میں نے رسول اللہ سے سنا تھا مجھے کسی بات نے منع نہ کیا کہ اس کو تم سے بیان کروں سوائے اس کے کہ تم اس پر حدیث پر تکیہ کر لیتے- مُعَاذً نے پھر حدیث بیان کی

اس روایت کو شعیب نے صحیح کہا ہے – اس روایت میں تاثر دیا گیا  ہے کہ معاذ نے اس کو صرف اپنے بعض شامی شاگردوں کو نہیں سنایا تھا اور مدعا کہ تم اس متن پر تکیہ کر لیتے حدیث رسول نہیں تھے صرف مُعَاذً کا گمان تھا

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّهُ إِذْ حُضِرَ قَالَ: أَدْخِلُوا عَلَيَّ النَّاسَ فَأُدْخِلُوا عَلَيْهِ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا جَعَلَهُ اللهُ فِي الْجَنَّةِ ” وَمَا كُنْتُ أُحَدِّثُكُمُوهُ، إِلَّا عِنْدَ الْمَوْتِ وَالشَّهِيدُ عَلَى ذَلِكَ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَأَتَوْا أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي وَمَا كَانَ يُحَدِّثُكُمْ بِهِ إِلَّا عِنْدَ مَوْتِهِ
أَبِي صَالِحٍ نے مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ سے روایت کیا جب وہ حضوری پر تھے کہا لوگوں کو یہاں داخل کرو پس لوگ جمع ہوئے مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ نے کہا میں نے رسول اللہ سے سنا تھا جس کو موت آئی کہ شرک نہ کرتا ہو اللہ اس کو جنت میں کرے گا اور یہ حدیث میں نے نہیں سنائی سوائے موت پر اور اس کے گواہ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ ہیں پس عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ آئے اور فرمایا سچ کہا بھائی آپ نے میں (بھی) اس کو روایت نہیں کرتا سوائے موت پر

راقم کہتا ہے سند منقطع ہے – أبو صالح ذكوان السمان کا سماع نہ معاذ المتوفی ١٨ ھ  سے ہے نہ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ المتوفی ٣٢  سے ہے

البتہ غالبا یہ قول کہ اس حدیث کو چھپایا جائے انس رضی اللہ عنہ  کو أبو صالح ذكوان السمان سے ملا ہو گا کیونکہ انس مدینہ میں تھے اور معاذ شام میں

بعض راوی نے یہ بھی بیان کر دیا کہ اس حدیث کو انس نے بھی نبی سے سنا تھا جس پر محدث ابن خزیمہ نے جرح کی

ایمان ابن مندہ میں ہے
وَأَنْبَأَ أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، وَعَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، قَالَا: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ثَنَا التَّيْمِيُّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاذٍ: وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ
ابن مندہ کا قول ہے کہ انس نے یہ حدیث معاذ سے نہیں سنی

ایسا ہی قول ابن حجر کا فتح الباری میں ہے – راقم کہتا ہے حدیث سنی لیکن اس کا آخر إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا کہ لوگ اس پر تکیہ کر لیں گے (اس کو چھپایا جائے) انس نے نہیں سنا ان سے کسی نے بیان کیا

توحید ابن خزیمہ میں مختلف مقام پر ابن خزیمہ  اس روایت کا ذکر ہے

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: أَخْبَرَنا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيِّ فَقَالَ أَنَسٌ: فَجَاءَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الْأَنْصَارِيُّ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: مَاذَا قَالَ لَكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ» فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَنَسٌ: فَقُلْتُ أَذْهَبُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلُهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَتَاهُ، فَسَأَلَهُ فَقَالَ: «صَدَقَ مُعَاذٌ، صَدَقَ مُعَاذٌ، صَدَقَ مُعَاذٌ، ثَلَاثًا»
سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ نے بیان کیا کہ میں انس بن مالک کے ساتھ تھا – انس نے کہا کہ معاذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آئے میں نے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو ؟ معاذ نے کہا میں رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے پاس سے آ رہا ہوں – میں نے پوچھا کیا فرمایا رسول اللہ نے ؟ معاذ نے کہا کہ رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس نے شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی اله نہیں مخلص ہو کر وہ جنت میں داخل ہوا – میں نے کہا کیا تم نے سنا تھا ؟ معاذ نے کہا ہاں – انس نے کہا چلو رسول اللہ کے پاس ان سے سوال کرتے ہیں – معاذ نے کہا ہاں چلو ، پس ہم رسول اللہ کے پاس پہنچے اور اس حدیث پر سوال کیا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاذ نے سچ کہا تین بار

قَالَ أَبُو بَكْرٍ قَرَأْتُ عَلَى بُنْدَارٍ أَنَّ ابْنَ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَهُمْ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ صَدَقَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقَةُ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ آلِ أَبِي الْأَحْوَصِ كَذَا كَانَ فِي الْكِتَابِ عِلْمِي وَرَوَى سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ، وَأَنَا أَبْرَأُ مِنْ عُهْدَةِ هَذَا الْخَبَرِ، عَنْ أَنَسٍ فَأَخْطَأَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، فَزَعَمَ أَنَّ أَنَسًا سَمِعَ هَذَا الْخَبَرَ مِنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، ثُمَّ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن خزیمہ نے کہا میں نے امام بندار پر پڑھا کہ روایت کیا
ابْنَ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَهُمْ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ صَدَقَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ
ابن خزیمہ نے کہا … سلمہ بن وردان میں اس کی خبر کے عہد سے بریء ہوں کیونکہ اس نے انس سے روایت میں غلطی کی ہے – پس دعوی کیا ہے کہ انس نے اس حدیث کومُعَاذِ سے سنا پھر نبی صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے

اسی طرح اہل سنت کے بعض لوگوں نے تقیہ کی دلیل صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی لی ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ: فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا البُلْعُومُ
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی عبدالحمید ) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے

یہ روایت ایک ہی سند سے اتی ہے
عَنْ ابْنِ أبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ, فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ.
اول اس میں ابْنِ أبِي ذِئْبٍ، ہے جو مدلس ہے  اس روایت کی تمام اسناد میںاس کا عنعنہ ہے
دوم سعید المقبری ہے جو آخری عمر میں مختلط تھا اور اس دور میں اس کی محدثین کہتے ہیں وہی روایت صحیح ہے جو لیث کے طرق سے ہوں

سوم یہ متن مشکوک ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا ہو- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو تو روایات سنانے کا اتنا شوق تھا کہ ایک حدیث میں ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا کہ گویا لسٹ بنا دی روایات کی- اور پھر امام مسلم کہتے ہیں کعب الاحبار کے اقوال ملا دیے
حدیث رسول میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کا دوسروں کا (مثلا کعب احبار ) یا اپنا قول ملا دینے کا ذکر خود محدثین و محققین نے کیا ہے

عرش عظیم اور بعض محدثین کا غلو

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا

ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب  آپ کو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم  الله  سے دعا کریں  گے جو ان کی نبی کی حیثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا

ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه

محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم

اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے

معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا !   افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں-

ابن أبي يعلى کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل  وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء

ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں

القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں

ونظر أَبُو عبد اللَّه فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها

اور  ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا  اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا

کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں

وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث“.

ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ

قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ

ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو  در کر آیا ہے

سعودی مفتی  ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم بھی  کہتے ہیں کہ  مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد  نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں

قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة

فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ

جلد2 ، ص136

دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں   کہ  امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا یہ قول فضائل کی وجہ سے ہے[1]

لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول  رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے

الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے

العلو 2/1081، رقم/422

میزان الاعتدال میں الذھبی،  مجاهد بن جبر  المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات  کے ترجمے میں  کہتے ہیں

ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله  : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش

تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا

الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں  مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں

فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اللَّهَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ

پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے

مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے-

ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول  کو پسند کرتے تھے اور لوگ  ترمذی پر جرح کرتے تھے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ

هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے  انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے  انہوں نے  لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ   التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور  (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے  دور رہو اور بچو حتی کہ حق پرآجائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے

ابو بکر  الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ

اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ  کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ  ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے وہ آپ سے استدلال کرتا ہے (یعنی دلیل لیتا ہے) پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں  پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ  اپنے باتھ سے لکھیں   حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» اس سے متعلق مجاہد کہتے ہیں کہ انھیں  (نبی کو)عرش پر بٹھایا جائیگا . اس کو میں نے اپنے باپ  احمد  سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ محمّد بن فضیل ایسا ہی بیان کرتے ہیں لیکن میں یہ ان سے براہ راست نہیں سن سکا . ہارون نے کہا کہ میں نے ان یعنی عبدالله سے کہا کہ مجھے تمہارے باپ احمد سے متعلق خبر دی گئی ہے کہ انھوں نے عن رجل کے واسطے سے ابن فضیل سے لکھا ہے. عبدالله نے جواب دیا ہاں اس معامله کو لوگ ان سے ایسا  ہی بیان کرتے ہیں   

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، ثَنَا أَبُو الْهُذَيْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ يُنْكِرُهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا فِي وَقْتٍ مَا سَمِعْنَاهُ مِنَ الْمَشَايِخِ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا تُنْكِرُهُ الْجَهْمِيَّةُ، وَأَنَا مُنْكَرٌ عَلَى كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابو مَعْمَرٍ نے  أَبُو الْهُذَيْلِ سے انہوں نے محمّد بن فُضَيْلٍ سے انہوں نے لیث سے انہوں نے مجاہد سے کہا  عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا [الإسراء: 79] کہا ان کو عرش پر بٹھائے گا. عبد اللہ  (بن احمد) نے کہا میں نے اس حدیث کو ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے محدثین میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو اس کو رد کرتا ہو اور ہم اپنے الْمَشَايِخِ  سے سنتے رہے ہیں کہ اس کو سوائے الْجَهْمِيَّةُ کے کوئی رد نہیں کرتا اور میں ہر اس شخص کا منکر ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

 وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي تَرُدُّهَا الْجَهْمِيَّةُ فِي الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ، فَصَحَّحَهَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ: ” قَدْ تَلَقَّتْهَا الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُولِ، نُسَلِّمُ الْأَخْبَارَ كَمَا جَاءَتْ

اور بے شک أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ نے روایت کیا انہوں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ ان احادیث پر جن  کو الْجَهْمِيَّةُ  رد کرتے ہیں یعنی الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ  الْعَرْشِ،  وغیرہ کی پس ابو عبد اللہ نے کہا  ہم ان کو صحیح قرار دیا اور کہا علماء نے ان کو قبول کیا ہے کو تسلیم کرتے ہیں جیسی آئی ہیں

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتو فى:458ھ) کے مطابق

الْمَرُّوذِيُّ  نے اس پر باقاعدہ ایک کتاب بنام كتاب الرد عَلَى من رد حديث مجاهد  مرتب کی تھی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ مُجَاهِدٌ: «عَرَضْتُ الْقُرْآنَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَلَّالُ: قَرَأْتُ كِتَابَ السُّنَّةِ بِطَرَسُوسَ مَرَّاتٍ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ وَغَيْرِهِ سِنِينَ، فَلَمَّا كَانَ فِي سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَتِسْعِينَ قَرَأْتُهُ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، وَقَرَأْتُ فِيهِ ذِكْرَ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، فَبَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا مِمَّنْ طُرِدَ إِلَى طَرَسُوسَ مِنْ أَصْحَابِ التِّرْمِذِيِّ الْمُبْتَدِعِ أَنْكَرُوهُ، وَرَدُّوا فَضِيلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرُوا رَدَّهُ فَشَهِدَ عَلَيْهِمُ الثِّقَاتُ بِذَلِكَ فَهَجَرْنَاهُمْ، وَبَيَّنَا أَمْرَهُمْ، وَكَتَبْتُ إِلَى شُيُوخِنَا بِبَغْدَادَ، فَكَتَبُوا إِلَيْنَا هَذَا الْكِتَابَ، فَقَرَأْتُهُ بِطَرَسُوسَ عَلَى أَصْحَابِنَا مَرَّاتٍ، وَنَسَخَهُ النَّاسُ، وَسَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَهْلَ السُّنَّةِ، وَزَادَهُمْ سُرُورًا عَلَى مَا عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّتِهِ وَقَبُولِهِمْ

اور ابو بکر المروزی نے خبر دی انہوں نے امام احمد سے سنا کہ مجاہد نے کہا میں نے قرآن کو ابن عباس پر تین دفعہ پیش کیا ابن بکر الخلال کہتے ہیں میں نے کتاب السنہ کو مسجد الجامع میں طَرَسُوسَ میں پڑھا پس جب سن ٢٩٢ ھ آیا اور مقام محمود کے بارے میں پڑھا پتا چلا کہ طَرَسُوسَ میں ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں  اور رسول الله کی فضیلت کے انکاری ہیں  اور وہاں ان کا رد کرنا  ظاہر ہوا .  اس پر ثقات نے شہادت دی لہذا ان کو برا  کہا اور ان کا معاملہ (عوام پر)  واضح کیا گیا اور اپنے شیوخ کو(بھی) بغداد (خط) لکھ بھیجا پس انہوں نے جواب بھیجا جس کو طَرَسُوسَ میں اپنے اصحاب پر کئی دفعہ پڑھا  اور لوگوں نے اس کو نقل (لکھا) کیا اور الله تعالی نے اہل السنت کو بلند کیا اور ان کا سرور بڑھایا اس سے جو ان کے پاس ہے اس کی صحت و قبولیت(عامہ) پر

معلوم ہوا کہ ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس عقیدے کے انکاری تھے اور علماء بغداد اس کے اقراری

ابو بکر الخلال نے کتاب السنہ میں ترمذی کو کبھی  الْعَجَمِيُّ التِّرْمِذِيُّ     کہا   اور کبھی  الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ کہا

ترمذی کون ہے؟

ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں  اس سے مراد الجھم بن صفوان المتوفی ١٢٨ ھ ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں کیونکہ  کتاب السنہ از ابو بکر الخلال کے مطابق یہ امام احمد اور ان کے بیٹے کا ہم عصر ہے

کتاب  السنة از ابو بکر الخلال جو  دکتور عطية الزهراني  کی تحقیق کے ساتھ  دار الراية – الرياض  سے سن ١٩٨٩ میں شائع ہوئی ہے اس کے محقق کے مطابق یہ جھم نہیں

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب الزاهد أبو عبدالله محمد بن علي ابن الحسن بن بشر الحكيم الترمذي المتوفی ٣٢٠ ھ  ہیں  لیکن یہ صوفی تھے اور اس عقیدے پر تو یہ ضررور خوش ہوتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا

حکیم الترمذی کتاب نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم میں لکھتے ہیں

حَتَّى بشر بالْمقَام الْمَحْمُود قَالَ مُجَاهِد {عَسى أَن يَبْعَثك رَبك مقَاما مَحْمُودًا} قَالَ يجلسه على عَرْشه

یہاں تک کہ مقام محمود کی بشارت دی جائے گی مجاہد کہتے ہیں ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا

لہذا یہ حکیم ترمذی بھی نہیں

کتاب  السنہ از الخلال میں ہے

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو  کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا

معلوم ہوا کہ  الترمذی،  الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ )  کا ہم عصر ہے

  االْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کا   یہ    قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا؟ اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو  عجیب بات ہے کہ  اس عقیدے کے رد میں   اس زمانے  کا  کوئی محدث  بھی نہیں ملتا-

الذہبی کتاب العرش میں بلا دلیل  اپنا خیال پیش کرتے  ہیں

الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه

یہ الترمذي ،  أبو عيسى  نہیں جو  صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے  ہے  لیکن مشہور  نہیں

ہماری رائے میں یہ  اغلبا امام ترمذی محدث   ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے

 امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79]  پر  فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے

امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

اس کے آخر میں ہے

وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے  …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے

امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا  کہ ابی نضرہ  سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے

لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے  لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ: وَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْجُهَّالِ دَفْعُ الْحَدِيثِ بَقِلَّةِ مَعْرِفَتِهِ فِي رَدِّهِ مِمَّا أَجَازَهُ الْعُلَمَاءُ مِمَّنْ قَبْلَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِمَّنْ ذَكَرْتُ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، إِلَّا وَقَدْ سَلَّمَ الْحَدِيثَ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ الْخَبَرُ، وَكَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ وَسُنَّةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ الْجُهَّالِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ هُوَ الشَّفَاعَةُ لَا مَقَامَ غَيْرُهُ.

محمد بن عثمان نے کہا اور مجھ تک پہنچا کہ بعض جھلا اس (مجاہد والی) حدیث کو قلت معرفت کی بنا پر رد کرتے ہیں … اور دعوی کرتے ہیں کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام ترمذی نے كتاب التفسير اور كتاب التاريخ بھی لکھی تھیں جو اب مفقود ہیں اور ممکن ہے مجاہد کے قول پر تفسیر کی کتاب میں  جرح  بھی کی ہو

مخالفین کو اعتراض ہے کہ اس آیت کی شرح میں یہ کیوں کہا جا  رہا ہے کہ اس سے مراد صرف شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام احمد کی اقتدہ  

علی بن داود کہتے ہیں

أَمَّا بَعْدُ: فَعَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِهَدْيِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَطَعْنٌ لِمَنْ خَالَفَهُ، وَأَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي طَعَنَ عَلَى مُجَاهِدٍ بِرَدِّهِ فَضِيلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْتَدَعٌ، وَلَا يَرُدُّ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ «إِلَّا جَهْمِيُّ يُهْجَرُ، وَلَا يُكَلَّمُ وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، وَعَنْ كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذِهِ الْفَضِيلَةَ وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى هَذَا التِّرْمِذِيِّ أَنَّهُ جَهْمِيُّ خَبِيثٌ

اما بعد تمھارے لئے امام احمد بن حنبل  کی ہدایت ہے جو امام المتقین ہیں بعد والوں کے لئے اور اس پر  طعن کرو  جو ان کی مخالفت کرے اور بے شک یہ ترمذی جو مجاہد پر طعن کرتا ہے اس فضیلت والی حدیث پر….. وہ مبتد عی ہے  اور اس روایت  کو سوائے الجہمی کے کوئی رد نہیں کرتا اس کو برا کہو اس سے کلام نہ کرو اس  سے دور رہو اور میں گواہی دیتا ہوں یہ ترمذی جھمی خبیث ہے

امام احمد اس عرش پر بٹھائے جانےکے  بدعتی عقیدے  والوں کے امام تھے ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ میں ہے کہ محمد بن یونس البصری کہتے ہیں

فَمَنْ رَدَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا فَلَا يُكَلَّمُ، وَإِنْ مَاتَ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، وَقَدْ صَحَّ عِنْدَنَا أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا أَهْلُ السُّنَّةِ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَيَّنَ أَمْرُهُ، فَعَلَيْكُمْ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ، وَمَذْهَبِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ الْإِمَامُ يُقْتَدَى بِهِ

پس جو اس حدیث کو رد کرے اور اس طعن کرے اس سے کلام نہ کرو اور اگر مر جائے تو جنازہ نہ پڑھو اور یہ ہمارے نزدیک صحیح ہے کہ یہ ترمذی اس پر کلام کرتا ہے جس سے اہل سنت احتجاج کرتے ہیں اور اس شخص  کا معاملہ  واضح ہے . پس تمھارے لئے سنت اور اسکا اتباع ہے اور ابو عبدللہ امام احمد بن حنبل کا مذبب ہے جو امام ہیں جن کا اقتدہ کیا جاتا ہے 

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) کے مطابق

وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش …….ہ 

اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ  أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد  نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ  بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا 

یہ قسم اٹھانے کا اس وقت کا انداز تھا کہ اس عقیدے پر اتنا ایمان تھا کہ تین طلاق تک کی قسم کھائی جا رہی ہے

 مشہور  امام أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَأَمَّا حَدِيثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَفْسِيرُهُ لِهَذِهِ الْآيَةِ: أَنَّهُ يُقْعِدُهُ [ص:1613] عَلَى الْعَرْشِ , فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ , وَقَبِلُوهَا بِأَحْسَنِ قَبُولٍ , وَلَمْ يُنْكِرُوهَا , وَأَنْكَرُوا عَلَى مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ إِنْكَارًا شَدِيدًا وَقَالُوا: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوءٍ قُلْتُ: فَمَذْهَبُنَا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ قَبُولُ مَا رَسَمْنَاهُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ , وَقَبُولُ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ , وَتَرْكُ الْمُعَارَضَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ فِي رَدِّهِ , وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ لِكُلِّ رَشَادٍ وَالْمُعِينُ عَلَيْهِ , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ جَمَاعَةٌ

الآجُرِّيُّ کہتے ہیں جہاں تک مجاہد کی نبی صلی الله علیہ وسلم کی تفضیل سے متعلق روایت ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ بے شک ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس کو اہل علم اور حدیث کو نقل کرنے والے لوگوں (یعنی محدثین) کے شیوخ نے قبول کیا ہے بہت بہترین انداز سے اور حسن قبولیت دیا ہے اور انکار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا انکار کیا ہے جو مجاہد کی حدیث کو رد کریں شدت کے ساتھ اور کہا ہے کہ جو مجاہد کی حدیث قبول نہ کرے وہ برا آدمی ہے میں کہتا ہوں پس ہمارا مذھب یہی ہے الحمدللہ …..جو ایک جماعت نے روایت کیا ہے 

الآجُرِّيُّ  کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب ابن تیمیہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے انکے من پسند اہل علم مجاہد کے اس قول کو قبولیت کا درجہ دے چکے تھے

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي، سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود کے بیٹے أبوبكر بن أبي داود عبدالله بن سليمان بن الأشعث السجستاني (ت316هـ)  کے شاگرد ہیں

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا  لیکن الذھبی نے یہ مانا کہ امام ابو داود اس کو تسلیم کرتے تھے دوسری طرف ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ سے واضخ ہے امام ابوداود اور ان کے  استاد امام احمد دونوں اس  قول کو مانتے تھے

الذہبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں لکھتے ہیں

فَمِمَّنْ قَالَ أَن خبر مُجَاهِد يسلم لَهُ وَلَا يُعَارض عَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري الْحَافِظ وَيحيى بن أبي طَالب الْمُحدث وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل السّلمِيّ التِّرْمِذِيّ الْحَافِظ وَأَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عبد الْملك الدقيقي وَأَبُو دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث السجسْتانِي صَاحب السّنَن وَإِمَام وقته إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق الْحَرْبِيّ والحافظ أَبُو قلَابَة عبد الْملك بن مُحَمَّد الرقاشِي وحمدان بن عَليّ الْوراق الْحَافِظ وَخلق سواهُم من عُلَمَاء السّنة مِمَّن أعرفهم وَمِمَّنْ لَا أعرفهم وَلَكِن ثَبت فِي الصِّحَاح أَن الْمقَام الْمَحْمُود هُوَ الشَّفَاعَة الْعَامَّة الْخَاصَّة بنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

 الكتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از المؤلف: عبد العزيز بن فيصل الراجحي
الناشر: مطابع الحميضي – الرياض الطبعة: الأولى، 1424 هـ

میں مولف ، الذہبی کی یہی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں

وأثبتها أيضا أئمة كثير، غير من سمى الذهبي هنا، منهم:. محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد.
. والإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) ، إمام أهل السنة قاطبة.
. وعبد الله بن أحمد بن حنبل الحافظ (ت 290 هـ) .
اور اس کو مانا ہے ائمہ کثیر نے جن کا نام الذہبی نے نہیں لیا ان میں ہیں محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد  اور  لإمام  الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ)  اور عبدللہ بن احمد بن حنبل

 صالح بن فوزان  ، عبد العزیز بن فیصل  کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک  عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا  بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے  

ابن قیم کتاب  بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور کے اشعار  لکھتے ہیں

قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.

ابن قیم  امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں  اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں

وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه

حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده

معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کو الْجَهْمِيَّةُ  کہتے تھے

ہمارے نزدیک یہ عقیدہ  کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے-

افسوس الذھبی کے بعد بھی اس عقیدے کو محدثین نے قبول کیا مثلا

شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ  کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں

 وعن رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من قال اللهم صل على محمد وأنزله المقعد المقرب عندك يوم القيامه وجبت له شفاعتي

رواه البزار وابن أبي عاصم وأحمد بن حنبل وإسماعيل القاضي والطبراني في معجميه الكبير والأوسط وابن بشكوال في القربة وابن أبي الدنيا وبعض أسانيدهم حسن قاله المنذري

 اور رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو کہے اے الله محمّد پر رحمت نازل کر اور روز محشر ان کو پاس بیٹھنے والا مقرب بنا، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی

اس کو   البزار اورابن أبي عاصم اورأحمد بن حنبل اورإسماعيل القاضي اورالطبراني نے معجم الكبير اورالأوسط میں اور ابن بشكوال نے القربة میں اور ابن أبي الدنيا نے روایت کیا ہے اور المنذري کہتے ہیں  اس کی بعض اسناد حسن ہیں

 اس کے بعد السخاوي تشریح کرتے ہیں

والمقعد المقرب يحتمل أن يراد به الوسيلة أو المقام المحمود وجلوسه على العرش أو المنزل العالي والقدر الرفيع والله أعلم

اور قریب بیٹھنے والا ہو سکتا ہے اس سے مراد الوسيلة ہو یا المقام المحمود یا عرش پر بٹھایا جانا ….

السخاوي اگر ان الفاظ کی تشریح نہیں کرتے تو ہم سمجھتے کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہ ہو -لیکن جس طرح انہوں نے اس کی تشریح کی ہے اس سے ظاہر ہے ان کا عقیدہ بھی اس پر تھا

ابن کثیر کتاب النهاية في الفتن والملاحم  میں لکھتے ہیں

وَقَدْ رَوَى لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، وَأَبُو يَحْيَى الْقَتَّاتُ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَ فِي تَفْسِيرِ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ: إِنَّهُ يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَرُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن سلام، وجمع فيه أبو بكر المروزي جزءاً كبيراً، وحكاه هو وغيره وغير وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ كَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ وَخَلْقٍ وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَهَذَا شَيْءٌ لَا يُنْكِرُهُ مُثْبِتٌ وَلَا نَافٍ، وَقَدْ نظمه الحافظ أبو الحسن الدارقطني في صيدة لَهُ.
قُلْتُ: وَمِثْلُ هَذَا لَا يَنْبَغِي قَبُولُهُ إلا عن معصوم، ولم يثبت فيه حَدِيثٌ يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وَلَا يُصَارُ بِسَبَبِهِ إِلَيْهِ، وقول مجاهد في هذا المقام ليس بحجة بمفرده، وَلَكِنْ قَدْ تَلَقَّاهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ بالقبول

ابن کثیر کہتے ہیں میں کہتا ہوں مجاہد کا منفرد قول حجت نہیں لیکن اس کو اہل حدیث نے قبول کیا ہے

عصر حاضر میں  مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں

وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته  وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه

اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی  صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

 الله ہم سب کو غلو  سے بچائے

مخالفین کا جواب 

راقم کی اس تحریر کا جواب لوگوں نے دینے کی کوشش کی ہے جس میں اس فرقے کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کہ عرش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کو بٹھایا جائے گا لیکن یہ بات حق ہے کہ اس غلط عقیدے کو  محدثین نے  قرن دوم و سوم میں  قبول کر لیا تھا – قرن دوم میں اس عقیدے کو رد کرنے والے صرف  جھمی  تھے  – قرن دوم میں کوئی محدث نہیں تھا جو  اس عقیدے کو رد   کرتا ہو

راقم کا جوابا کہنا ہے کہ اگر کوئی محدث اس عقیدے کو رد نہیں کرتا تھا تو اس کو  آٹھویں صدی میں جا کر ابن تیمیہ  کی جانب سے  رد کیوں  کیا گیا ؟ الذھبی  نے بھی رد کیا –  البانی نے بھی رد کیا – لیکن سعودی عرب کے بعض چوٹی کے مفتیان کا عقیدہ ابھی تک اسی عقیدے پر ہے –  مزید یہ کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ   ترمذی جو اس عقیدے کو رد کر رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں محدث امام ترمذی ہی   تھے جن کوقرن دوم میں  جھمی کہا جا رہا تھا – اغلبا یہی وجہ رہی کہ امام ابن حزم کے نزدیک امام ترمذی ایک مجہول تھے

—————————————

[1] http://islamqa.info/ur/154636

نوٹ

ابن تیمیہ کے نزدیک امام ترمذی کے اقوال جھمیوں جیسے ہیں

امام ترمذی سنن میں ایک حدیث بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الحَدِيدِ میں لکھتے ہیں

وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ. عِلْمُ اللهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى العَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.

بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کی ہے کہ وہ کہتے ہیں اللہ کا علم نیچے اتا ہے اور اس کی قدرت و سلطان اس کا علم قدرت و حکومت ہر مقام پر ہے اور وہ عرش پر ہے جیسا اس کی صفت کتاب میں ہے

ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں کہ ترمذی نے کہا

فَحَكَى التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَعْنَى يَهْبِطُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ، وَمُرَادُهُ عَلَى مَعْلُومِ اللَّهِ وَمَقْدُورِهِ وَمُلْكِهِ، أَيِ انْتَهَى عِلْمُهُ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ إِلَى مَا تَحْتَ التَّحْتِ، فَلَا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ.

 ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا تَأْوِيلُ التِّرْمِذِيِّ وَغَيْرِهِ بِالْعِلْمِ فَقَالَ شَيْخُنَا: هُوَ ظَاهِرُ الْفَسَادِ مِنْ جِنْسِ تَأْوِيلَاتِ الْجَهْمِيَّةِ

اور جہاں تک ترمذی اور دوسروں کی تاویل کا تعلق ہے تو شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں وہ ظاہر فساد ہےاور جھمیہ کی
تاویلات کی جنس میں سے ہے

لکیریں ، علم رمل اور محدثین

صحیح مسلم میں ہے

ابوجعفر، محمد بن صباح، ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن ابراہیم، حجاج صواف، یحیی بن ابی کثیر، ہلال بن ابی میمونہ، عطاء بن یسار، معاویہ ابن حکم سلمی (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران جماعت میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے (یَرحَمُکَ اللہ) کہہ دیا تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کردیا میں نے کہا کاش کہ میری ماں مجھ پر رو چکی ہوتی تم مجھے کیوں گھور رہے ہو یہ سن کر وہ لوگ اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے لگے پھر جب میں نے دیکھا کہ وہ لوگ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہوگیا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوگئے میرا باپ اور میری ماں آپ (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) پر قربان میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے نہ ہی آپ کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر کوئی سکھانے والا دیکھا اللہ کی قسم نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے جھڑکا اور نہ ہی مجھے مارا اور نہ ہی مجھے گالی دی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نماز میں لوگوں سے باتیں کرنی درست نہیں بلکہ نماز میں تو تسبیح اور تکبیر اور قرآن کی تلاوت کرنی چاہئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے زمانہ جاہلیت پایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا ہے ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ان کے پاس نہ جاؤ میں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ لوگ برا شگون لیتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو وہ لوگ اپنیدل میں پاتے ہیں تم اسطرح نہ کرو پھر میں نے عرض کیا ہم میں سے
کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انبیا کرام میں سے ایک نبی بھی لکیریں کھیچتے تھے تو جس آدمی کا لکیر کھینچھنا اس کے مطابق ہو وہ صحیح ہے۔

متن میں ہے
كان نبيٌّ من الأنبياء يَخُطُّ، فمَن وافَقَ خطَّه فذاك
نبیوں میں ایک نبی لکیریں کھینچتے تھے پس جس کی لکیر ان کی جیسی ہوئیں تو وہ وہی ہے

یہ روایت صحیح مسلم میں ہے اور اس علم کو علم رمل (ریت  کا علم ) کہا جاتا ہے یعنی علم رمل انبیاء کے علوم میں سے ہے

انگریزی میں اس کو

Geomancy

کہا جاتا ہے

یہاں نبی کو ایک علم دیا گیا ہے جو وہ لکیریں بنا کر حاصل کرتا ہے  اور روایت میں نبی کا تقابل عمل کہانت سے کرایا گیا ہے کہ گزشتہ  انبیاء میں سے کسی کو ایسا علم دیا گیا تھا

لکیروں کا مقصد

لکیر کھینچنے کا مقصد کیا ہے ؟ ظاہر ہے یہ غیب کو جاننا تھا

سنن ابو داود ٣٩٠٧ میں ہے
باب فِي الْخَطِّ وَزَجْرِ الطَّيْرِ باب: رمل اور پرندہ اڑا نے کا بیان ۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَوُفٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَيَّانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ غَيْر مُسَدَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَيَانُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ قَبِيصَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ “الْعِيَافَةُ وَالطِّيَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ”، ‏‏‏‏‏‏الطَّرْقُ:‏‏‏‏ الزَّجْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعِيَافَةُ:‏‏‏‏ الْخَطُّ.

قبیصہ بن وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: “رمل، بدشگونی اور پرند اڑانا کفر کی رسموں میں سے ہے” پرندوں کو ڈانٹ کر اڑانا طرق ہے، اور «عيافة»  وہ لکیریں ہیں جو زمین پر کھینچی جاتی ہیں جسے رمل کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَوْفٌ:‏‏‏‏ “الْعِيَافَةُ زَجْرُ الطَّيْرِ وَالطَّرْقُ الْخَطُّ يُخَطُّ فِي الْأَرْضِ”. عوف کہتے ہیں «عيافة» سے مراد پرندہ اڑانا ہے اور «طرق» سے مراد وہ لکیریں ہیں جو زمین پر کھینچی جاتی ہیں (اور جسے رمل کہتے ہیں)

نبی کون تھے ؟

محمد بن إسماعيل بن صلاح كأسلافه بالأمير (المتوفى: 1182هـ) نے میں رائے دی ہے

كان نبي من الأنبياء إدريس أو دانيال أو خالد بن سنان.
یہ نبی یا تو ادریس تھے یا دانیال یا خالد بن سنان

شروحات

قال القاضي: أي يضرب خطوطاً كخطوط الرمل فيعرف الأحوال
قاضی عیاض نے کہا وہ لکیر کھینچتے رمل کے جیسے تاکہ احوال جان سکیں

قال الزمخشري (2): كانت العرب تأخذ خشبة وتخط خطوطاً كثيرة على عجل كي يلحقها العدد وتمحوا خطين فإن بقى زوج فهو علامة النجاح أو فرد فعلامة الخيبة
زمخشری کا قول ہے کہ عرب لکڑی لیتے اور ان سے گائے پر لکیر لگاتے بہت سی لکیریں لگاتے جن میں عدد ہوتے اگر وہ بچ جاتی تی یہ نجات کی علامت ہوتی اور نہیں بچتی تو یہ مصیبت کی

مطالع الأنوار على صحاح الآثار از ابن قرقول (المتوفى: 569هـ) میں ہے
وقوله: “كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الأنْبِيَاءِ يَخُطُّ” (6) فسروه بخط الرمل للحساب ومعرفة ما يدل عليه.
رسول کا قول کہ نبیوں میں ایک نبی کی لکیر پس تفسیر کی کہ خط رمل کی حساب اور اس علم کی دلیل کی و معرفت کے طور پر

شَرْحُ صَحِيح مُسْلِمِ میں قاضی عياض نے لکھا ہے
وقال ابن عباس فى تفسير هذا الحديث : هو الخط الذى يخطه الحازى وهو علم قد تركه الناس
ابن عباس نے اس حدیث کی تفسیر کی ہے کہ یہ خط وہ ہے جو الحازى لگاتا ہے اور یہ علم لوگوں نے ترک کر دیا ہے

لسان العرب میں الحازى پر ہے
هو الذى ينظر فى الأعضاء وفى خيلان الوجه يتكهَّن ويقدر الأشياء بظنه
الحازى وہ ہے جو الأعضاء کو دیکھے … اور اس پر کہانت کرے

سیوطی کا قول ہے
وَمنا رجال يخطون كَانَ نَبِي من الْأَنْبِيَاء يخط فَمن وَافق فَذَاك قَالَ النَّوَوِيّ الصَّحِيح أَن مَعْنَاهُ من وَافق خطه فَهُوَ مُبَاح لَهُ وَلَكِن لَا طَرِيق لنا إِلَى الْعلم اليقيني بالموافقة فَلَا يُبَاح
نووی نے کہا کہ اس حدیث کا صحیح مطلب ہے کہ جس کی لکیر ان نبی جیسی ہوئی تو وہ مباح عمل ہے لیکن ہمارے پاس علم یقینی نہیں ہے کہ کہہ سکیں کہ لکیر مواقفت کر گئی ہے

ابن قیم یا العظيم آبادي کا عون المعبود شرح سنن أبي داود میں قول ہے
وَإِنَّمَا قَالَ النبي فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ وَلَمْ يَقُلْ هُوَ حَرَامٌ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس کی لکیر ان نبی سے موافقت کر گئی پس آپ نے اس کو حرام قرار نہیں دیا

  راقم  کے سوالات ہیں

کیا علم غیب اکتسابی علم ہے ؟ کوئی نبی سکھا سکتا ہے ؟ لکیروں سے حاصل ہو سکتا ہے ؟

اس روایت میں اشارتا بیان کیا گیا  ہے کہ علم غیب کوئی اکتسابی علم ہے جو لکیروں کو بنانے سے حاصل ہو سکتا ہے اس بنا پر روایت اور اس کی یہ تشریحات قابل قبول نہیں ہیں

اسناد دین ہیں

اس روایت کی دو سندیں ہیں – ایک سند میں مدلس يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ کا عنعنہ ہے

يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السَّلَمِيِّ،

دوسری سند امام مسلم نے دی
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ عِلْمَهُ، فَهُوَ عِلْمُهُ “

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نے فرمایا نبیوں میں ایک نبی تھے جس کی لکیر ان کی جیسی ہوئی پس اس نے ان کے علم کی موافقت کی اور وہ جان لے گے
اس سند میں عبد الله بن أبي لبید ہے – اس کا ذکر امام بخاری نے اپنی کتاب ، الضعفاء الصغير میں کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کا جنازہ تک صَفْوَان بن سليم المتوفی 132ھ نے نہیں پڑھا
وَقَالَ الدَّرَاورْدِي لم يشْهد صَفْوَان بن سليم جنَازَته وَهُوَ مُحْتَمل

راقم کہتا ہے ایک سند میں مدلس کا عنعنہ ہے اور دوسری سند میں مختلف فیہ راوی ہے لہذا اس کو رد کرنا مناسب ہے

اللہ آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا

صحيح بخاري ميں ہے وفات النبي پر عمر رضي اللہ عنہ جذباتي ہو گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے نبي زندہ ہيں صريح الفاظ ميں انہوں
نے کہا

وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اللہ کي قسم رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم مرے نہيں ہيں

يہ قول حياتي ديوبنديوں جيسا تھا جن کا قول ہے کہ وفات النبي ميں روح جسم سے نہيں نکالي گئي بلکہ روح النبي قلب اطہر ميں سمٹ گئي
– اس عقيدے کا ذکر قاسم نانوتوي صاحب نے کتاب آب حيات ميں کيا ہے

اس کے بعد ابو بکر رضي اللہ عنہ تشريف لائے اور فرمايا

لا يُذِيقُكَ اللهُ المَوْتَتَيْنِ أبداً، أما المَوتَةُ التي كُتِبَتْ عليك؛ فقد مُتَّها
اللہ کبھي بھي آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا – جہاں تک وہ موت ہے جو لکھي تھي بلاشبہ وہ ہو گئي

صحيح ابن حبان اور مسند احمد ميں ہے

لَقَدْ مُتَّ الْمَوْتَةَ الَّتِي لا تَمُوتُ بَعْدَهَا
بے شک ان کي موت نے ان کو مار ديا اب اس کے بعد موت نہيں

اللہ کا شکر ہے کہ ہم تک ابو بکر رضي اللہ عنہ کا قول پہنچ گيا  – ابو بکر رضي اللہ کے الفاظ ضرب کاري تھے ان تمام آنے والے فرقوں کے لئے جو آخري نبي و رسول کو قبر ميں زندہ کہتے ہيں – ابو بکر کا قول ان فرقوں کے گلے ميں زقوم کي طرح اٹک گيا
ابن حجر فتح الباري ميں ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول پر تبصرہ کرتے ہيں

وَأَشَدُّ مَا فِيهِ إِشْكَالًا قَوْلُ أَبِي بَكْرٍ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ وَعَنْهُ أَجْوِبَةٌ فَقِيلَ هُوَ عَلَى حَقِيقَتِهِ وَأَشَارَ بِذَلِكَ إِلَى الرَّدِّ عَلَى مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ سَيَحْيَا فَيَقْطَعُ أَيْدِي رِجَالٍ لِأَنَّهُ لَوْ صَحَّ ذَلِكَ لَلَزِمَ أَنْ يَمُوتَ مَوْتَةً أُخْرَى فَأَخْبَرَ أَنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يَجْمَعَ عَلَيْهِ مَوْتَتَيْنِ كَمَا جَمَعَهُمَا عَلَى غَيْرِهِ كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ وَكَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهَذَا أَوْضَحُ الْأَجْوِبَةِ وَأَسْلَمُهَا وَقِيلَ أَرَادَ لَا يَمُوتُ مَوْتَةً أُخْرَى فِي الْقَبْرِ كَغَيْرِهِ إِذْ يحيا ليسئل ثُمَّ يَمُوتُ وَهَذَا جَوَابُ الدَّاوُدِيِّوَقِيلَ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ مَوْتَ نَفْسِكَ وَمَوْتَ شَرِيعَتِكَ وَقِيلَ كَنَّى بِالْمَوْتِ الثَّانِي عَنِ الْكَرْبِ أَيْ لَا تَلْقَى بَعْدَ كَرْبِ هَذَا الْمَوْتِ كَرْبًا آخَرَ ثَانِيهَا

اور سب سے شديد اشکال ابو بکر کے قول ميں ہے کہ اللہ آپ پر دو موتوں کو جمع نہ کرے گا اور اس اشکال کا جواب ہے کہ کہا گيا ہے يہ جمع موت نہ ہونا حقيقت کے بارے ميں ہے اور اس کي طرف اشارہ ہے کہ اس ميں رد ہے اس کا جو يہ دعوي کرے کہ نبي زندہ ہو کر ہاتھ کاٹيں گے کيونکہ اگر يہ صحيح ہو تو لازم ہو گا کہ ان کو پھر ايک موت اور آئے گي پس خبر دي کہ اللہ نے ان کي تکريم کي کہ ان پر دو موتوں کو جمع نہ کرے گا جيسا اوروں پر کيا (قرآن ميں ہے ) وہ جو گھروں سے نکلے اور وہ ڈر ميں تھے .. اور وہ جو ايک قريہ پر سے گزرا اور يہ سب سے واضح جواب ہے

اور کہا گيا ہے ابو بکر کا اردہ و مقصد تھا کہ ان کو اور موت نہ ہو گي قبر ميں اوروں کي طرح کہ جب ان کو سوال کے لئے زندہ کيا جاتا ہے اور پھر موت دي جاتي ہے اور يہ جواب أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ الدَّاوُدِيُّ المالكي (المتوفي 402 ھ ) نے ديا ہے

اور کہا جاتا ہے اللہ تعالي آپ کے نفس کي موت کو اور آپ کي شَرِيعَتِ کي موت کو جمع نہ کرے گا

اور کہا جاتا ہے يہ موت کنايہ ہے دوسري موت سے کرب پر يعني اب اس کرب کے بعد کوئي اور کرب نہ ہو گا

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) نے شرح کی

قَوْله: (لَا يذيقك الله الموتتين) ، بِضَم الْيَاء من الإذاقة، وَأَرَادَ بالموتتين: الْمَوْت فِي الدُّنْيَا وَالْمَوْت فِي الْقَبْر وهما الموتتان المعروفتان المشهورتان، فَلذَلِك ذكرهمَا بالتعريف، وهما الموتتان الواقعتان لكل أحد غير الْأَنْبِيَاء، عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام، فَإِنَّهُم لَا يموتون فِي قُبُورهم، بل هم أَحيَاء
ابو بکر کا قول اللہ آپ پی دو موتوں کو جمع نہ کرے گا … یہ موت دنیا کی ہے اور قبر میں ہے یہ دو معروف موتیں ہیں جو سوائے انبیاء سب کو اتی ہیں – انبیاء اپنی قبروں میں نہیں مرتے بلکہ زندہ ہیں

حياتي ديوبندي متکلم الياس گھمن کہتے ہيں کہ (منٹ 4 ) ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول کا مقصد ہے کہ ايک موت جو اني تھي وہ آ گئي اور اب قبر ميں دوسري موت نہيں آئے گي جو نيند ہے – ايک عام امتي سے قبر ميں کہا جاتا ہے
نم صالحا
اچھي نيند سو جا
ليکن نبي کو قبر ميں جو حيات ملتي ہے وہ مسلسل ہے (منٹ 4: 55) اس ميں نيند بھي نہيں ہے

الشريعہ از الاجري ميں ہے کہ ابو بکر رضي اللہ عنہ نے حکم ديا کہ قبر النبي سے اجازت طلب کرو کہ پہلو النبي ميں دفن کيا جا سکتا ہے يا نہيں ؟

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ , قَالَ لَهُمْ: إِذَا مِتُّ وَفَرَغْتُمْ مِنْ جَهَازِي فَاحْمِلُونِي حَتَّى تَقِفُوا بِبَابِ الْبَيْتِ الَّذِي فِيهِ قَبْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقِفُوا بِالْبَابِ وَقُولُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَإِنْ أُذِنَ لَكُمْ وَفُتِحَ  الْبَابُ , وَكَانَ الْبَابُ مُغْلَقًا , فَأَدْخِلُونِي فَادْفِنُونِي , وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَكُمْ فَأَخْرِجُونِي إِلَى الْبَقِيعِ وَادْفِنُونِي. فَفَعَلُوا فَلَمَّا وَقَفُوا بِالْبَابِ وَقَالُوا هَذَا: سَقَطَ الْقُفْلُ وَانْفَتَحَ  الْبَابُ , وَسُمِعَ هَاتِفٌ مِنْ دَاخِلِ الْبَيْتِ: أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ فَإِنَّ الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ مُشْتَاقٌ

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) نے کہا روايت کيا جاتا ہے کہ ابو بکر رضي اللہ عنہ کي وفات کا وقت   جب آيا انہوں نے کہا جب ميں مر جاؤں اور تم ميري تجہيز سے فارغ ہو تو مجھے اٹھا کر اس گھر کے باب تک لانا جس ميں قبر النبي صلي اللہ  عليہ وسلم ہے اور وہاں رکنا اور کہنا
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
يہ ابو بکر آيا ہے اجازت ليتا ہے کہ آپ اذن کريں اور اگر مقفل دروازہ کھل جائے تو مجھ کو اس ميں داخل کر کے دفن کرنا
اور اگر اجازت نہ ملے تو الْبَقِيعِ لانا وہاں دفن کرنا
پس ايسا کيا گيا … دروازہ کھل گيا اور ھاتف نے آواز دي ان کو گھر ميں داخل کرو
داخل ہوں اے حبيب، حبيب کي طرف کہ حبيب (رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ) آپ سے ملنے کو مشتاق ہے

راقم کہتا ہے کہ يہ روايت گھڑي گئي جو ابن عساکر (المتوفى571) نے سندا تاريخ دمشق ميں لکھي ہے
اس روايت کو نقل کرنے کے بعد خود ابن عساکر نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس [تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 437]
يہ منکر ہے اس ميں أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي [الوفاة: 221 – 230 ه] اور عبد الجليل مجہول ہيں اور محفوظ ہے کہ ابو بکر کو ان کي بيوي اسماء بنت عميس نے غسل ديا
بعض محدثين نے موسى بن محمد بن عطاء بن طاهر البَلْقاويّ المقدسيّ کو کذاب بھي کہا ہے
ورماه بالكذب أبو زرعة وأبو حاتم .
وقال الدَّارَقُطْنيّ: متروك.
قال العُقَيْلي: يُحَدِّث عن الثقات بالبواطيل والموضوعات.
وقال ابن حبان: كان يضع الحديث على الثقات، لا تحل الرواية عنه – يہ حديث گھڑتا تھا اس سے روايت کرنا حلال نہيں .
وقال ابن عدي: منكر الحديث، يسرق الحديث منکر حديث ہے – حديث چور ہے .

افسوس ابو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) نے ايک کذاب کے قول پر عقيدہ لے ليا

تفسير مفاتيح الغيب المعروف تفسير کبير ج21 ص433 ميں سوره کہف کي آيت فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ميں فخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ) نے کرامت اولياء کي مثال کے طور پر اس کا ذکر کيا
أَمَّا الْآثَارُ» فَلْنَبْدَأْ بِمَا نُقِلَ أَنَّهُ ظَهَرَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنَ الْكَرَامَاتِ ثُمَّ بِمَا ظَهَرَ عَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمِنْ كَرَامَاتِهِ أَنَّهُ لَمَّا حُمِلَتْ جِنَازَتُهُ إِلَى بَابِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُودِيَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ بِالْبَابِ فَإِذَا الْبَابُ قَدِ انْفَتَحَ وَإِذَا بِهَاتِفٍ يَهْتِفُ مِنَ الْقَبْرِ أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ

اس قول سے الياس گھمن صاحب نے بھي دليل لے لي کہ صديق اکبر قبر ميں حيات النبي کا عقيدہ رکھتے تھے نعوذ باللہ
جبکہ يہ روايت بقول ابن عساکر منکر ہے ليکن الياس گھمن صاحب نے دليل لي کہ خليفہ راشد نے فيصلہ کر ديا کہ نبي قبر ميں زندہ ہيں

غور کريں روايت منکر ، راوي حديث چور مشہور اس کي بات سے فيصلہ ہوا کہ ابو بکر قبر ميں زندگي مانتے تھے

اب واپس ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول پر غور کريں

لا يُذِيقُكَ اللهُ المَوْتَتَيْنِ أبداً، أما المَوتَةُ التي كُتِبَتْ عليك؛ فقد مُتَّها
اللہ کبھي بھي آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا – جہاں تک وہ موت ہے جو لکھي تھي بلاشبہ وہ ہو گئي

ابو بکر نے اس موت کی تصدیق کی اور فرمایا کہ یہ اب دوسری بار ممکن نہیں ہے کہ نبی زندہ ہوں پھر وفات ہو

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی

جسم سے روح کا الگ ہونا  موت ہے – ظاہر ہے اس روح کو جنت من لے جایا گیا جہاں معراج کے موقعہ پر دیگر انبیاء کو دیکھا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اے اللہ تو سب سے بڑھ کر رفیق ہے

وفات کے وقت انبیاء کو آپشن  دیا جاتا ہے کہ وہ دنیاوی زندگی واپس  چاہتے ہیں یا اللہ سے ملاقات کو پسند فرماتے ہیں –  عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جب   نبی نے یہ الفاظ  اے اللہ تو سب سے بڑھ کر رفیق ہے  ادا کیے میں سمجھ گئی کہ آپشن دے دیا گیا ہے اور آپ کی  اب (واپس دنیا  میں زندہ ہو کر )  دنیا کے رفقاء سے ملنے کی تمنا نہیں ہے صرف اللہ تعالی سے ملاقات  و لقاء  کی تمنا ہے

قاسم نانوتوی کا فلسفہ

اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے یعنی ان کو قبضہ میں لیتا ہے اور قبض روح انبیاء کا ہو یا عام آدمی کا ایک ہی ہے لیکن الیاس گھمن اس میں التباس پیدا کرتے ہیں

کہتے ہیں (منٹ ٧ پر ) ہم قبض روح کے دو معنی کریں گے – خروج روح اور حبس (قید ) روح – حبس روح کا معنی روح کا جسم میں سمٹ جانا- الیاس گھمن نے کہا قبضت یدی (میں نے مٹھی بنا لی ) کا معنی بسط یدی (میں نے ہاتھ پھیلا دیا ) کی مخالفت میں لیا جائے گا کہ قبض کا مطلب سمیٹنا – اس کے بعد کہا یہ خروج بھی ہے – قبض کے اس طرح دو معنی کیے کہ روح قید کی گئی یا نکل گئی – قاسم نانوتوی قبض کا معنی کبھی خروج کرتے ہیں اور کبھی حبس کرتے ہیں کیونکہ ہم کو اس کا معنی پورا آتا ہے – قاسم نانوتوی کہتے ہیں کہ موت امتی پر آئے تو معنی ہوا قبض روح اور موت نبی پر آئے تو معنی ہوا حبس (قید ) روح – امتی پر موت آئے تو مطلب ہو گا کہ روح جسم سے نکل گئی ہے پیغمبر کو موت آئے تو معنی ہو گا روح قلب اطہر میں سمٹ گئی ہے

راقم کہتا ہے یہ قول بلا دلیل و منکر ہے موت کا مطلب تمام بشر پر ایک ہی ہےکہ روح کا جسم سے مکمل خارج ہو جانا – اگر پیغمبروں کی روحیں ان کے قلوب میں ہیں تو یہ روحین ان کے اعضا میں نہ ہوئیں – پھر تو وہ نہ سن سکتے ہیں نہ جواب دے سکتے ہیں جبکہ یہ فرقے انبیاء کے جواب و کلام و سماع فی القبر کے قائل ہیں- راقم کہتا ہے کہ نیند میں روح کو جسم میں قید کیا جاتا ہے اور موت پر نکال لیا جاتا ہے – یہ عمل ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے چاہے نبی ہو یا ولی

لہذا راقم کے نزدیک  موت پر ہر انسان کا  خروج روح ہو رہا ہے اور نیند میں حبس روح (جسم میں روح  کا قید ہونا ) ہو رہا ہے  اس میں انبیاء و عام بشر میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ انسان کا  شعور  نیند میں ختم ہو جاتا ہے جبکہ انبیاء کا قلب  جاگتا رہتا ہے کیونکہ ان کو نیند میں الوحی آ تی ہے

علی ، کعبہ اور زحل

ایک فلم نبأ السماء یعنی آسمانی خبر کے عنوان سے بن رہی ہے جس کو ایک کویتی رافضی فلم ڈائریکٹر عباس الیوسفی بنا رہے ہیں
فلم کا ایک ٹریلیر راقم نے دیکھا اور اچھا لگا البتہ اس میں ضعیف روایات پر منظر کشی کی گئی ہے
مثلا ایک مجہول الحال راوی یزید بن قعنب کے قول پر فاطمہ بنت اسد کا قصہ دکھایا گیا ہے کہ وہ کعبہ میں چلی گئیں اور علی رضی اللہ عنہ  کی وہاں پیدائش ہوئی
قابل غور کہ شیعہ مورخین کے پاس اس واقعہ کی کوئی سند نہیں سوائے اس ایک  یزیدی خبر کے
یزید بن قعنب کا احوال راقم کافی دن سے مصادر اہل تشیع و اہل سنت میں ڈھونڈھ رہا ہے لیکن ابھی تک نہ متقدمین میں نہ متاخرین میں اس شخص  پر کوئی قول ملا ہے

فلم میں علی اور سیارہ زحل کو بھی دکھایا گیا ہے جو آج اس بلاگ کا موضوع ہے


اس منظر کی وجہ راقم نے ڈھونڈی تو  مندرجہ ذیل روایت ملی – مستدرك سفينة البحار از علي النمازي اور بحار الأنوار / جزء 26 / صفحة[112] از ملا باقر مجسلی، الخصال از الصدوق
أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى المتوفى 381 ہجری میں ہے

حدثنا محمد بن موسى بن المتوكل رضي الله عنه قال : حدثنا علي بن الحسين
السعد آبادي ، عن أحمد بن أبي عبد الله البرقي ، عن أبيه ، وغيره ، عن محمد بن سليمان
الصنعاني ( 1 ) ، عن إبراهيم بن الفضل ، عن أبان بن تغلب

قال: كنت عند أبي عبد الله (عليه السلام) إذ دخل عليه رجل من أهل اليمن فسلم عليه فرد أبو عبد الله (عليه السلام) فقال له: مرحبا يا سعد، فقال له الرجل: بهذا الاسم سمتني امي، وما أقل من يعرفني به، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت يا سعد المولى. فقال الرجل: جعلت فداك، بهذا كنت القب، فقال أبو عبد  الله (عليه السلام): لا خير في اللقب إن الله تبارك وتعالى يقول في كتابه: ” ولا تنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الايمان ” (1) ما صناعتك يا سعد ؟ فقال: جعلت فداك إنا أهل بيت ننظر في النجوم لا يقال: إن باليمن أحدا أعلم بالنجوم منا. فقال أبو عبد الله (عليه  السلام): كم ضوء المشترى على ضوء القمر درجة ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، كم ضوء المشتري على ضوء عطارد درجة ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت الابل ؟
فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت البقر ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام) صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت الكلاب ؟ فقال اليماني: لا أدري. فقال له أبو عبد الله (عليه السلام). صدقت في قولك: لاأدري، فما زحل عندكم في النجم ؟ فقال اليماني: نجم نحس، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): لا تقل هذا فانه نجم أمير المؤمنين صلوات الله عليه فهو نجم الاوصياء عليهم السلام وهو النجم الثاقب
الذي قال الله في كتابه (2). فقال اليماني: فما معنى الثاقب ؟ فقال: إن مطلعه في السماء السابعة فإنه ثقب بضوئه حتى أضاء في السماء الدنيا فمن ثم سماه الله النجم الثاقب، ثم قال: يا أخا العرب عندكم عالم ؟ قال اليماني: نعم جعلت فداك إن باليمن قوما ليسوا كأحد من الناس في علمهم. فقال أبو عبد الله (عليه السلام): وما يبلغ من علم عالمهم ؟ قال اليماني إن عالمهم ليزجر الطير ويقفو الاثر في ساعة واحدة مسيرة شهر للراكب المحث (3)، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): فان عالم المدينة أعلم من
عالم اليمن، قال اليماني: وما يبلغ من علم عالم المدينة ؟ قال: إن علم عالم المدينة ينتهي إلى أن يقفوا الاثر ولا يزجر الطير ويعلم ما في اللحظة الواحدة مسيرة الشمس تقطع اثنى عشر برجا واثنى عشر برا واثنى عشر بحرا واثنى عشر عالما، فقال له اليماني: ما ظننت أن أحدا يعلم هذا وما يدرى ما كنهه  قال: ثم قام اليماني ،

أبان بن تغلب نے کہا میں امام ابو عبد اللہ جعفر کے ساتھ تھا جب یمن کے کچھ لوگ آئے وہ ان کے پاس گئے سلام کیا اور امام نے جواب دیا مرحبا اے سعد- اس یمنی شخص نے کہا یہ نام مجھ کو میری ماں نے دیا ہے لیکن کچھ ہی لوگ اس بات سے واقف ہیں – امام نے فرمایا اے سعد المولی سچ کہا – وہ شخص بولا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ نے مجھے لقب دے دیا – امام نے فرمایا القاب میں خیر نہیں ہے اللہ تعالی نے کتاب اللہ میں کہا ہے کہ برے القاب دینے سے پرہیز کرو فسق میں نام کرنا سب سے برا کام ہے – تیرا کیا کام ہے اے سعد ؟ وہ بولا ہم فدا ہوں: ہم اہل بیت ستاروں کو دیکھتے ہیں یا نہیں ؟ اس نے کہا ہم یمنییوں میں نجوم کو سب سے زیادہ دیکھتے ہیں – امام بولے یہ مشتری کی روشنی کا درجہ چاند کی روشنی پر کتنا ہے ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو سچ بولا، یہ مشتری کی روشنی و چمک عطارد کے مقابلے میں کس درجہ پر ہے ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا –  پھر امام نے پوچھا وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو اونٹ و اونٹنی جماع کرتے ہیں ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا – امام نے پوچھا وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو گائے و بیل جماع کرتے ہیں ؟
یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا
وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو کتے جماع کرتے ہیں ؟
یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا
امام نے پوچھا : یہ زحل تیرے نزدیک کیا ہے ؟
یمنی بولا ایک بد بختی لانے والا ستارہ ہے
امام نے فرمایا ایسا مت بولو یہ تو امیر المومنین صلوات الله عليه کا ستارہ ہے یہ الاوصياء کا ستارہ ہے اور یہی نجم ثاقب ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے کتاب اللہ (سورہ الطارق ) میں کیا ہے
یمنی بولا : الثاقب سے کیا مراد ہے ؟ امام نے فرمایا یہ ساتویں آسمان میں طلوع ہوتا ہے اور اس سے آسمان دنیا روشن ہو جاتا ہے
اسی بنا پر اللہ نے اس کا نام نجم الثاقب رکھا ہے
امام نے پوچھا کہ اے عرب بھائیوں کیاتم میں کوئی عالم بھی ہے ؟
یمنی بولا جی ہاں، ہم فدا ہوں ، یمن میں ایک قوم ہے جن سے بڑھ کر کسی قوم کا علم نہیں ہے
امام نے فرمایا مدینہ کا عالم تو یمن کے عالم سے بڑھ کر ہے
یمنی بولا یمنییوں کے عالم تو پرندہ کی اڑان سے، اور اثر کے نشان سے گزرے ہونے مسافر تک کی خبر کر دیتے ہیں جس کو ایک ماہ ہوا ہو اور اس مقام سے گزرا ہو
امام نے فرمایا مدینہ کے عالم کا علم تو یہاں تک جاتا ہے کہ پرندہ کی اڑان دیکھنے والا یمنی عالم تک اس کی حد تک نہیں جا سکتا – مدینہ کا عالم تو ایک لمحہ میں جان لیتا ہے کہ  سورج نے کن بارہ ستاروں کو پار کیا، کن بارہ صحراؤں کو پار کیا ، کن بارہ سمندروں کو پار کیا ، کن بارہ عالموں کو پار کیا
یمنی بولا میں فدا ہوں میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اس قدر جان سکا ہے اور مجھے نہیں معلوم یہ سب کیا ہے
پھر وہ یمنی اٹھا اور چلا گیا

نوٹ راوی محمد بن سليمان الصنعاني پر کوئی تعدیل و جرح شیعہ کتب میں نہیں ملیں لہذا یہ مجہول ہوا
اسی طرح راوی إبراهيم بن الفضل پر کتاب أصحاب الامام الصادق (ع) – عبد الحسين الشبستري میں لکھا ہے
أبو اسحاق ابراهيم بن الفضل الهاشمي، المدني. محدث مجهول الحال،

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی میں ہے

الكافي: عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن مالك بن عطية، عن سليمان بن خالد، قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن الحر والبرد ممن (2) يكونان ؟ فقال لي: يا أبا أيوب، إن المريخ كوكب حار وزحل كوكب بارد فإذا بدأ المريخ في الارتفاع انحط
زحل، وذلك في الربيع، فلا يزالان كذلك كلما ارتفع المريخ درجة انحط زحل درجة ثلاثة أشهر حتى ينتهي المريخ في الارتفاع وينتهي زحل في الهبوط، فيجلوا المريخ فلذلك يشتد الحر، فإذا كان في آخر الصيف وأوان (3) الخريف بدأ زحل في الارتفاع وبدأ المريخ في
الهبوط، فلا يزالان كذلك كلما ارتفع زحل درجة انحط المريخ درجة حتى ينتهي المريخ في الهبوط وينتهي زحل في الارتفاع، فيجلو زحل وذلك في أول (4) الشتاء وآخر الصيف (5) فلذلك يشتد البرد، وكلما ارتفع هذا هبط هذا وكلما هبط هذا ارتفع هذا، فإذا كان في
الصيف يوم بارد فالفعل في ذلك للقمر، وإذا كان في الشتاء يوم حار فالفعل في ذلك للشمس، هذا تقدير العزيز العليم، وأنا عبد رب العالمين (

الکافی میں ہے عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن مالك بن عطية کی سند سے ہے کہ سليمان بن خالد نے امام جعفر سے سوال کیا کہ سردی و گرمی کیوں ہوتی ہے ؟ امام نے فرمایا اے ابو ایوب مریخ یہ گرمی کا ستارہ ہے اور زحل یہ
سردی کا ستارہ ہے – پس جب مریخ زحل کے انحطط پر طلوع ہونا شروع ہوتا ہے تو موسم بہار اتا ہے یہ کیفیت ختم نہیں ہوتی یہاں تک کہ تین ماہ رہتی ہے حتی کہ مریخ الارتفاع و بلند ہوتا ہے اور زحل کا ہبوط و نیچے جانا ختم ہو جاتا ہے
پس مریخ سرخ ہوتا ہے پس یہ گرمی کی شدت ہوتی ہے پھر جب گرمیاں ختم ہوتی ہیں اور موسم سرما شروع ہوتی ہے تو سردی کی شدت ہوتی ہے پس ایک کا ارتفاع ہوتا ہے تو دوسرے کا ہبوط ہوتا ہے اور جب ایک کا ہبوط ہوتا ہے تو دوسرے کا ارتفاع ہوتا ہے – پس جب گرمی میں اگر سردی ہو جائے تو یہ چاند کی بنا پر ہوتی ہے اور سردیوں میں اگر گرم دن آ جائے تو یہ سورج کی وجہ سے ہوتا ہے  اور یہ سب اللہ تعالی کی تدبیر ہے جو عزیز و علیم ہے اور میں عبد رب العالمین ہوں

شیعہ کتاب وسائل الشيعة از محمد بن الحسن الحر العاملي (1033 – 1104 هـ). میں ہے

وعن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن جميل بن صالح ، عمن أخبره ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : سئل عن النجوم ؟ قال : ما يعلمها إلا أهل بيت من العرب وأهل بيت من الهند
امام جعفر نے فرمایا جب کسی نے علم نجوم پر سوال کیا کہ عرب میں اہل بیت سب سے بڑھ کر علم نجوم کو جانتے ہیں اور ہندوستان میں اہل بیت اس کو جانتے ہیں

معلوم نہیں کہ راوی کا ہندوستان کے اہل بیت سے کیا مراد تھی

بہر حال ان روایات کو یہاں پیش کیا گیا ہے کہ قرن دوم میں علی اور سیارہ زحل کو اپس میں ملایا گیا ہے – ہندوؤں میں زحل کو شنی دیو کہا جاتا ہے جو نحوست کا دیوتا ہے -اسلامی شیعی لٹریچر میں علی کو زحل سے ملایا گیا ہے اور زحل کو خوش بختی کہا گیا ہے
راقم سمجھتا ہے کہ راوی یزید بن قعنب اورابراهيم بن الفضل دونوں کسی شیعی فرقے کے تھے جو غالی تھے – یہ علم نجوم کے دلدادہ اور سیارہ زحل کے اثر کو ماننے والے تھے جن کے مطابق روح زحل کعبہ میں داخل ہو کر علی کی شکل میں
مجسم ہو گئی

شیعہ تفسیر تفسير علي بن إبراهيم میں ہے
والطارق الذي يطرق الأئمة من عند الله مما يحدث بالليل والنهار، وهو الروح الذي مع الأئمة يسددهم
الطارق وہ ہے جو ائمہ کے ساتھ چلتا ہے اللہ کی طرف سے جو دن و رات میں ہوتا ہے اور یہ ایک روح ہے جو ائمہ کے ساتھ ہے ان کی مدد گار

کعبہ کے گرد طواف کو زحل کے گرد دائروں سے علم نجوم والے آج بھی ملاتے ہیں

شیعہ کتاب رسائل المرتضى جلد ٣ ص ١٤٥ از الشريف المرتضى میں ہے

وزعم بعض الناس أن بيت الله الحرام كان بيت زحل
بعض لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ بیت اللہ یہ بیت زحل ہے

زحل سے شیعہ راوی متاثر تھے کہ ایک بصری عمر بن عبدالعزيز البصري أبو حفص بن ابي بشار، المعروف بزحل نے اپنا لقب ہی زحل رکھا ہوا تھا

اختيار معرفة الرجال میں ہے کہ یہ لقب سیارہ زحل پر لیا گیا تھا

زحل عمر بن عبدالعزيز عمربن عبدالعزيز بن أبي بشار بفتح الموحدة وتشديد المعجمة، لقبه زحل بضم الزاي وفتح المهملة واللام، على اسم سابع السيارات، وكنيته أبوحفص

زحل کا تذکرہ بعد میں شیعی مسلم فلکیات دانوں بو علی سینا اور الفارابی کی کتب میں بھی ملتا ہے جس میں افلاک کو علی و فاطمہ سے ملایا گیا ہے

شیعہ عالم رضي الدين أبي القاسم علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن طاووس الحسيني المتوفی ٦٦٤ نے باقاعدہ علم نجوم پر کتاب فرج المهموم في تاريخ علماء النجوم لکھی ہے جس میں ائمہ اہل بیت کو علم نجوم کا شوقین ثابت کیا گیا ہے
اور ان شیعہ علماء کا رد کیا گیا ہے وہ علم نجوم کے استعمال سے روک رہے تھے

مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ [ص:139] مِنْ ثَلَاثٍ: الكَنْزِ، وَالغُلُولِ، وَالدَّيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ ” هَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ: الكَنْزُ، وَقَالَ أَبُو
عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ: الكِبْرُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَعْدَانَ وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی اور وہ تین چیزوں سے  بَرِيءٌ تھا خزانہ ، غنیمت میں خیانت، اور قرض سے تو وہ جنت میں داخل ہوا – ترمذی نے کہا سعید نے روایت میں خزانہ بولا ہے اور … سعید  کی سند سے روایت اصح ہے

الدر المنثور از السیوطی میں ہے

وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ إِنَّمَا هُوَ الْكَنْز بالنُّون وَالزَّاي

دارقطنی کہتے ہیں یہ حدیث کنز (خزانہ ) کے لفظ سے ہے

فارق سے ہی اردو میں فراق کا لفظ نکلا ہے یعنی جدائی ہونا- اس کو اردو شاعری میں بہت استعمال کیا جاتا ہے

یہ روایت محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک صحیح ہے البتہ فرقوں کی جانب سے موت کے مفہوم پر اشکالات آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ روح کی جسم سے مکمل فراق کے قائل نہیں ہیں – بعض کے نزدکک روح کا جسم سے تعلق باقی رہتا ہے جس کی تشریح ان کے نزدیک یہ ہے کہ روح جسم میں آتی جاتی رہتی ہے – بعض کہتے ہیں روح دفنانے کے بعد آ جاتی ہے – بعض اس کے قائل ہیں کہ روح چالیس دن میت کے پاس آتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے غسل و تکفین تک کا مشاہدہ کرتی ہے – بعض اس کے قائل ہیں کہ روح جنازہ قبرستان لے جائے جانے کے وقت جسم میں آ جاتی ہے – یہاں تک کہ امام ابن عبد البر کا قول ہے کہ ارواح قبرستان میں ہی رہتی ہیں

قرآن اس کے خلاف ہے جس میں صریحا امساک روح کا ذکر ہے یعنی روح کو روک لیا جاتا ہے – قرآن میں موجود ہے کہ جس پر موت کا حکم لگتا ہے اس کا امساک کیا جاتا ہے

الوسيط في تفسير القرآن المجيد از الواحدی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْفَضْلِ، أنا عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ خَلَفٍ، أنا أُبَيُّ بْنُ خَلَفِ بْنِ طُفَيْلٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي طُفَيْلُ بْنُ زَيْدٍ، نا أَبُو عُمَيْرٍ، نا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَعَّابُ، نا نُعَيْمُ بْنُ عَمْرٍو، نا سُلَيْمَانُ بْنُ رَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّ الرُّوحَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الإِنْسَانِ؛ مَاتَ الْجَسَدُ، وَصَارَ الرُّوحُ صُورَةً أُخْرَى، فَلا يُطِيقُ الْكَلامَ؛ لأَنَّ الْجَسَدَ جِرْمٌ، وَالرُّوحُ يُصَوِّتُ مِنْ جَوْفِهِ وَيَتَكَلَّمُ، فَإِذَا فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ؛ صَارَ الْجَسَدُ صُفْرًا، وَصَارَ الرُّوحُ صُورَةً أُخْرَى، يَنْظُرُ إِلَى النَّاسِ، يَبْكُونَهُ، وَيُغَسِّلُونَهُ وَيَدْفِنُونَهُ، وَلا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَكَلَّمَ، كَمَا أَنَّ الرِّيحَ إِذَا دَخَلَ فِي مَكَانٍ ضَيِّقٍ سَمِعْتَ لَهُ دَوِيًّا، فَإِذَا خَرَجَ مِنْهُ لَمْ تَسْمَعْ لَهُ صَوْتًا، وَكَذَلِكَ الْمَزَامِيرُ، فَأَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ يَنْظُرُونَ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَجِدُونَ

ابن عباس نے کہا جب روح جسم سے نکلتی ہے تو جسد مر جاتا ہے اور روح ایک دوسری صورت لے لیتی ہے پس یہ کلام نہیں کرتی کیونکہ جسم تو ایک مرکب سفینہ ہے اور روح اس کے پیٹ میں آواز پیدا کرتی ہے اور کلام کرتی ہے – پس جب یہ جسم سے الگ ہوتی ہے تو جسد پیلا پڑ جاتا ہے اور روح ایک دوسری صورت لے لیتی ہے ، لوگوں کو دیکھتی ہے کہ اس پر رو رہے ہیں ، اس کو غسل دے رہے ہیں ، اس کو دفن کر رہے ہیں ، روح سب دیکھ کر بول نہیں پاتی جیسے ہوا ہو کہ جب تنگ مکان میں جاتی ہے تو اس کی آواز آتی ہے لیکن جب نکل جاتی ہے تو آواز بھی ختم ہو جاتی ہے – اسی طرح بانسری ہے – پس ارواح مومنین جنت کو دیکھتی ہیں

اس کی سند میں مجھول راوی ہیں

مشرب تصوف والے قصے بیان کرتے ہیں کہ ان کے ہاں مردہ غسل دینے والے کی انگلی پکڑ لیتا ہے

آج بھی تصوف کے مخالفین اس قسم کے قصوں کو مقلدوں کی گھڑنت کہتے ہیں اور ان قصوں کو مریدان کا اضافہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے

چند سال پہلے قندوز میں ایک بمباری میں مسلمان بچے شہید ہوئے – دوران تدفین ایک مقتول نے اپنے باپ کی انکلی پکڑ لی – یہ ویڈیو یو ٹیوب پر وائرل ہو گئی

ملاحظہ کریں

https://www.youtube.com/watch?v=QIK9SAwAcH0

راقم کہتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن بھی ہے – اس کو مغرب والے بھی جانتے ہیں اور انہوں نے اس کو لذارس ایفیکٹ
Lazarus effect
کا نام دیا ہے – انجیل کے مطابق لذارس ایک بنی اسرائیلی تھا جس کو قم باذللہ کہہ کر عیسیٰ علیہ السلام نے معجزہ دکھانے میں زندہ کیا تھا بعد میں جب مردوں میں حرکت کو سائنسدانوں نے نوٹ کیا تو اس کو لذارس ایفیکٹ کا نام دیا اور اس کی وجہ سے  پٹھوں میں حرکت ہے جو انسانی  جسم میں عناصر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے – مثلا ذبح کردہ جانور کا جسم آدھے گھنٹے تک گرم ہوتا ہے اور بعض اوقات جسم میں معمولی جنبش  بھی پیدا ہو جاتی ہے – اسی نوع کی یہ چیز ہے

وہ مسلمان علماء جو سائنس سے نابلد ہیں ، وہ جب لذارس ایفیکٹ کو مردوں میں دیکھتے ہیں تو اس کی کوئی علمی توجیہ ان کے پاس نہیں ہوتی  سوائے اس کے کہ اس کو من جانب اللہ آیا کوئی معجزہ قراردیں – دوسری طرف  انکار کرنے والے اس کو سفید جھوٹ کہتے آئے ہیں

غیر نبی کے جسد کی خبریں

  ہم تک خبریں پہنچی ہیں کہ اللہ تعالی نے بعض اصحاب رسول کے اجسام کو باقی رکھا- ولید بن عبد الملک نے حجرہ عائشہ پر قابض خبیب بن عبد اللہ   بن زبیر کو بے دخل کیا اور اپنے گورنر  عمر بن عبد العزیز کو حکم دیا کہ  خبیب کو بے دخل کرو  – اس کے بعد تعمیراتی  پروجیکٹ کا آغاز کیا کہ حجرہ کی چار دیواروں کو گرا کر پانچ کیا جائے – اس تعمیر  میں ایک    دیوار گر گئی جس کا ذکر صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ التَّمَّارِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  مُسَنَّمًا”. حَدَّثَنَا فَرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ “لَمَّا سَقَطَ عَلَيْهِمُ الْحَائِطُ فِي زَمَانِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَخَذُوا فِي بِنَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ  فَفَزِعُوا،‏‏‏‏ وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ”

ہم سے محمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی) دیوار گری اور لوگ اسے (زیادہ اونچی) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں اللہ گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے

 شیعہ روایات میں ہے کہ ایک مزدور نے امام  جعفر سے اس کام پر اجازت طلب کی – عثمانی صاحب نے ایمان خالص قسط دوم  میں الکافی کی  روایت ذکر کی

راقم  کہتا ہے ایسا  کبھی نہیں ہوا کہ  حجرہ عائشہ کی چھت گر گئی ہو

الکافی کے شیعہ  محقق نے خود  تعلیق میں اس روایت پر اقرار کیا ہے

هذا الحديث مجهول وكأن في السند سقطا او ارسالا فان جعفر بن المثنى من اصحاب الرضا عليه السلام ولم يدرك زمان الصادق عليه السلام

یہ حدیث مجہول کی سند سے ہے اور سند گری ہوئی ہے اور اس میں ارسال ہے کیونکہ جعفر بن المثنی یہ اصحاب امام رضا میں سے ہے اس نے امام جعفر کا دور نہیں پایا ہے 

معلوم ہوا کہ یہ روایت متاخرین کی ایجاد ہے

ایک روایت میں بیان ہوا ہے وہاں قبر النبی پر بھی سجدے بھی  ہو رہے تھے

الشريعة از أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے
وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ بْنِ زَكَرِيَّا أَبُو حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ إِلَى الْقَبْرِ , فَأَمَرَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ اللَّهُ فَرُفِعَ حَتَّى لَا يُصَلِّيَ فِيهِ النَّاسُ , فَلَمَّا هُدِمَ بَدَتْ قَدَمٌ بِسَاقٍ وَرَقَبَةٍ؛ قَالَ: فَفَزِعَ مِنْ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَأَتَاهُ عُرْوَةُ فَقَالَ: هَذَا سَاقُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَرُكْبَتُهُ , فَسُرِّيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ
شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ نے هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ سے روایت کیا کہ میرے باپ عُرْوَةَ المتوفی ٩٤ ھ  نے بیان کیا کہ لوگ قبر کی طرف نماز پڑھتے تھے – پس عمر بن عبد العزیز  المتوفی ١٠١ ھ  نے اس کو بلند کیا کہ لوگ اس میں نماز نہ پڑھیں پس جب اس کو منہدم کیا تو ایک قدم پنڈلی … کے ساتھ دیکھا- کہا پس عمر بن عبد العزیز اس پر گھبرا گئے اور عروه آئے اور کہا یہ عمر کی پنڈلی ہے اور گھٹنا ہے -پس اس سے عمر بن عبد العزیز خوش ہوئے

نوٹ : عُروة بن الزُبير  کی وفات عمر بن عبد العزيز بن مروان بن الحكم الأموي  کی وفات  سے سات سال پہلے ہوئی ہے

الولید بن عبد الملک کے حکم پر گورنر  عمر بن عبد العزیز المتوفی ١٠١ ھ  نے حجرہ عائشہ کی چار دیواروں کو پانچ کیوں کیا ؟ اس کی  تاویلات لوگوں نے کی ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے ایسا اس وجہ سے کیا کہ کعبہ سے مطابقت نہ رہے – جبکہ یہ نہایت عجیب قول ہے کیونکہ دیگر انبیاء سے منسوب قبروں کو بھی اسی طرح ٹیڑھی دیواروں کا بنا دیا جانا چاہیے تھا – تاریخ سے معلوم ہے کہ ایسا صرف اس لئے کیا گیا کہ حجرہ میں خبیب بن عبد اللہ بن زبیر نے قیام اختیار کیا ہوا تھا اور الولید کا مقصد حجرات کو مسمار کرنا تھا تاکہ ان میں کوئی رہائش نہ کرے- حجرہ عائشہ کو مسمار نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا اس میں دیوار کواس انداز پر بنایا گیا کوئی پیر پھیلا کر لیٹ نہ سکے کہ وہاں سو سکے یا رہائش کرے

البداية والنهاية از ابن کثیر (المتوفى: 774هـ) میں ہے

قُلْتُ: كَانَ الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ حِينَ وَلِيَ الْإِمَارَةَ فِي سَنَةِ سِتٍّ وَثَمَانِينَ قَدْ شَرَعَ فِي بِنَاءِ جَامِعِ دِمَشْقَ وَكَتَبَ إِلَى نَائِبِهِ بِالْمَدِينَةِ ابْنِ عَمِّهِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَنْ يُوَسِّعَ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ فَوَسَّعَهُ حَتَّى مِنْ نَاحِيَةِ الشَّرْقِ [1] فَدَخَلَتِ الْحُجْرَةُ النَّبَوِيَّةُ فِيهِ. وَقَدْ رَوَى الْحَافِظُ ابْنُ عَسَاكِرَ بِسَنَدِهِ عَنْ زَاذَانَ مَوْلَى الْفُرَافِصَةِ، وَهُوَ الَّذِي بَنَى الْمَسْجِدَ النَّبَوِيَّ أَيَّامَ [وِلَايَةِ] عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَذَكَرَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَ مَا ذَكَرَهُ الْبُخَارِيُّ، وَحَكَى صِفَةَ الْقُبُورِ كَمَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ.

میں ابن کثیر کہتا ہوں : جب سن ٨٦ ہجری میں الولید کو امارت ملی اس نے جامع دمشق بنانے کا آغاز کیا اور اپنے نائب مدینہ اپنے چچا زاد عمر بن عبد العزیز کو حکم لکھ بھیجا کہ مسجد المدینہ کی توسیع کرے پس حجرہ شریفہ کو اس میں داخل کیا گیا اور حافظ ابن عَسَاكِرَ نے اپنی سند سے زَاذَانَ مَوْلَى الْفُرَافِصَةِ سے روایات کیا ہے جنہوں نے مسجد النبی کی عمر بن عبد العزیز کے دور گورنری میں تعمیر کی – پس سالم سے روایت کیا جیسا امام بخاری نے روایت کیا ہے اور جیسا ابو داود میں ایسا صفت قبور پر بیان کیا

تاریخ مكة المشرفة والمسجد الحرام والمدينة الشريفة والقبر الشريف از محمد بن أحمد بن الضياء محمد القرشي العمري المكي الحنفي، بهاء الدين أبو البقاء، المعروف بابن الضياء (المتوفى: 854هـ) میں ہے

وَأدْخل عمر بن عبد الْعَزِيز …. فَصَارَ لَهَا ركن خَامِس، لِئَلَّا تكون الْحُجْرَة الشَّرِيفَة مربعة كالكعبة، فتتصور جهال الْعَامَّة أَن الصَّلَاة إِلَيْهَا كَالصَّلَاةِ إِلَى الْكَعْبَة

عمر بن عبد العزیز نے اس میں پانچویں دیوار بنا دی کہ حجرہ شریفہ کعبه کی طرف مربع نہ ہو پس بعض عام جاہلوں کا تصور ہے کہ اس کی طرف نماز ایسی ہی ہے جیسی کعبہ کی طرف ہے

 

شہدائے احد کے اجسام کی خبر 

بعض چیزیں من جانب اللہ نشانی تھیں ان سے عموم نہیں لیا جا سکتا مثلا شہدائے بدر احد کا رتبہ سب سے بلند ہے اب کوئی شہید بھی ہو تو بھی ان کے رتبے تک نہیں جا سکتا  اس کو بطور نشانی الله تعالی نے باقی رکھا کہ ان شہداء کے جسم لوگون نے دیکھے کوئی تغیر نہیں آیا تھا

المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخلص از المؤلف: محمد بن عبد الرحمن بن العباس بن عبد الرحمن بن زكريا البغدادي المخَلِّص (المتوفى 393هـ) میں ہے

حدثنا عبدُاللهِ قالَ: حدثنا أبويحيى / عبدُالأعلى بنُ حمادٍ قالَ: حدثنا عبدُالجبارِ بنُ الوردِ قالَ: سمعتُ أبا الزبيرِ محمدَ بنَ مسلمٍ يقولُ: سمعتُ جابرَ بنَ عبدِاللهِ يقولُ: كتبَ معاويةُ إلى عامِلِه بالمدينةِ أَن يُجريَ عَيناً إلى أُحُدٍ، فكتبَ إليه عامِلُه أنَّها لا تَجري إلا عَلى قبورِ الشهداءِ، قالَ: فكتبَإِليه أَن أَنفِذْها، قالَ: فسمعتُ جابراً يقولُ: فرأيتُهم يُخْرَجُون على رقابِ الرجالِ كأنَّهم رجالٌ نُوَّمٌ، حتى أَصابتْ المِسْحاةُ قدمَ حمزةَ عليه السلامُ فانبعثَتْ دماً

أبا الزبيرِ محمدَ بنَ مسلمٍ نے کہا میں نے جابر بن عبد الله سے سنا بولے معاویہ نے اپنے گورنر مدینہ کو لکھا کہ احد میں سے (سیلاب کی) نہر گذارو تو اس نے جواب دیا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ احد میں شہداء کی قبور ہیں – معاویہ نے کہا ان کو نکال لو پس میں نے جابر سے سنا کہ میں نے دیکھا وہ (کھودتے ہوئے ) شہداء کی گردنوں تک آ گئے اور ایسا تھا کہ گویا سو رہے ہوں یہاں تک کہ کھدال حمزہ علیہ السلام کے قدم کو لگی تو اس میں سے خون جاری ہو گیا

تاریخ مدینہ ابن شبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، وَقَالَ: لَيْسَ هَذَا مِمَّا فِي الْكِتَابِ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ” صُرِخَ بِنَا إِلَى قَتْلَانَا يَوْمَ أُحُدٍ حِينَ أَجْرَى مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَيْنَ، فَأَتَيْنَاهُمْ فَأَخْرَجْنَاهُمْ رِطَابًا تَتَثَنَّى أَجْسَادُهُمْ. قَالَ سَعِيدٌ: وَبَيْنَ الْوَقْتَيْنِ أَرْبَعُونَ سَنَةً

ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ اہل احد کے مقتولین کو نکالا جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے چشمہ جاری کرنا چاہا ہم احد میں گئے ان کے جسموں کو تازہ نکالا گیا – سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ نے کہا اس وقت تک ٤٠ سال گزر چکے تھے

اسی کتاب میں ہے

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، وَأَبُو غَسَّانَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ [ص:128] عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْجَمُوحِ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ الْأَنْصَارِيَّيْنِ، ثُمَّ السُّلَمِيَّيْنِ، كَانَا فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، وَكَانَا مِمَّنِ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَكَانَ قَبْرُهُمَا مِمَّا يَلِي السَّيْلَ، فَحُفِرَ عَنْهُمَا لِيُغَيَّرَا مِنْ مَكَانِهِمَا، فَوُجِدَا لَمْ يَتَغَيَّرَا كَأَنَّمَا مَاتَا بِالْأَمْسِ، وَكَانَ أَحَدُهُمَا قَدْ جُرِحَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جُرْحِهِ، فَدُفِنَ وَهُوَ كَذَلِكَ، فَأُمِيطَتْ يَدُهُ عَنْ جُرْحِهِ ثُمَّ أُرْسِلَتْ، فَرَجَعَتْ كَمَا كَانَتْ. وَكَانَ بَيْنَ يَوْمِ أُحُدٍ وَيَوْمَ حُفِرَ عَنْهُمَا سِتٌّ وَأَرْبَعُونَ سَنَةً ”

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ نے کہا کہ ان تک پہنچا کہ عَمْرَو بْنَ الْجَمُوحِ اور عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ انصاریوں میں سے تھے پھر ساتھ مسلمان ہوئے اور ان کی قبر ایک ہے اور ان دونوں نے احد کا دن دیکھا اور ان کی قبروں میں سیلاب کا پانی آیا تو ان کو الگ مقام پر دفنانے کے لئے نکالا گیا تو ان کے جسموں میں کوئی تغیر نہیں آیا تھا جیسے کہ کل مرے ہوں اور ایک کے ہاتھ پر رخم ہوا پس اسی حال میں دفن کیا گیا اور وہ اسی طرح رہے کہ رخم سے خون رستا رہا پھر (اس نئے مقام سے ) نکال کر واپس وہیں دفن کیا جہاں تھے تو خون پھر جاری ہو گیا جیسا پہلے بہہ رہا تھا اور یوں احد سے اس دن تک جب نکالا ٤٦ برس بیت چکے تھے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا 36758 – عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ رِجَالٍ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ قَالُوا: «لَمَّا صَرَفَ مُعَاوِيَةُ عَيْنَهُ الَّتِي تَمُرُّ عَلَى قُبُورِ الشُّهَدَاءِ جَرَتْ عَلَيْهِمَا فَبَرَزَ قَبْرُهُمَا , فَاسْتُصْرِخَ عَلَيْهِمَا فَأَخْرَجْنَاهُمَا يَتَثَنَّيَانِ تَثَنِّيًا كَأَنَّمَا مَاتَا بِالْأَمْسِ , عَلَيْهِمَا بُرْدَتَانِ قَدْ غُطُّوا بِهِمَا عَلَى وُجُوهِهِمَا وَعَلَى أَرْجُلِهِمَا مِنْ نَبَاتِ الْإِذْخِرِ»

بنی سلمہ کے مردوں نے خبر دی کہ جب معاویہ نے وہ نہر جاری کی جو شہدائے احد کی قبروں پر سے گزری تو ان کی قبریں کھودی گئیں پس کھودا تو .. ایسے تھے کہ کل شہید ہوئے ہوں ان پر برد (ایک قسم کی ) چادریں تھیں جس سے ان کے چہروں کو ڈھانپا ہوا تھا اور قدموں پر الْإِذْخِرِ کھانس تھی

 یہ الله کی آیت و نشانی تھی  کہ تابعین اور اصحاب رسول میں سے چند نے ٤٦ سال بعد بھی ان جسموں کو اصلی صورت میں دیکھا -کلی اصول ہے کہ ہر چیز کو فنا ہے لہذا یہ اصول سب پر لگے گا کیونکہ حشر میں پہاڑ چلیں گے کیا انبیاء کے جسم اس وقت ختم ہوں گے ؟ بعض اجسام اللہ تعالی نے ایک مدت باقی رکھے ان کو ظاہر کیا تاکہ لوگوں کا ایمان تازہ ہو – شہداء بدر و احد زندہ نہیں مردہ تھے ان کے جسموں سے ان کی روحوں کا کوئی تعلق نہیں تھا صرف ان کے جسد سالم نکلے ان میں خون  جما  ہوا نہیں تھا -اس کوان شہداء کا  خصوص کہا جائے گا – یہ شہداء احد کی خصوصیت تھی جو ممکن ہے کچھ عرصہ رہی ہو

واضح رہے ہر مقتول و شہید  کا جسم باقی نہیں رہتا-  یہ صرف ان شہدائے اصحاب رسول کی خبر ہے جو سچ کے گواہ بن  کر  شہید ہوئے

و الله اعلم

حجرات النبی جنت کا حصہ ہیں ؟

ایک وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نو ازواج تھیں  اور ان کے گھر مسجد النبی کے پاس تھے – انہی  کو حجرات  قرآن میں کہا گیا ہے اور ایک سورہ  کا نام بھی اسی پر ہے – ان تمام حجرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  جنت قرار نہیں دیا – البتہ ایک حدیث ہے

صحیح بخاری کی حدیث   ١١٩٥    بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ   میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ المَازِنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ»

میرے گھر اور منبر کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے

گھر سے مراد حجرہ عائشہ رضی الله عنہا ہے لہذا اگر آپ دیکھیں تو گھر اور منبر کے درمیان جنت اصل میں مسجد النبی ہے اور مسجد کو جنت کے باغوں میں سے ایک کہا جا رہا ہے –  جب بھی دو چیزوں کے درمیان کی بات ہوتی ہے تو اس میں وہ دو چیزیں شامل نہیں ہوتیں ورنہ یہ کہنا آسان ہے کہ میری قبر جنت کا حصہ ہے نہ کہ یہ کہ میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کا باغ ہے-

قبر و منبر کے درمیان – معلول اسناد 

ایک روایت  میں قبر اور منبر کے درمیان کا لفظ ہے  – طبرانی اوسط کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نا أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ إِلَّا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: أَبُو حَصِينٍ

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے
اس روایت کو عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ سے سوائے يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ کے کوئی روایت نہیں کرتا اور اس میں أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ کا تفرد ہے- عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ کو دارقطنی ضعیف کہتے ہیں ابن معین کہتے ہیں اس کی احادیث قوی نہیں

رسول الله کی روح جنت میں ہے اور وہ مقام الوسیلہ ہے –    وفات کے وقت عائشہ رضی الله عنہا کا قول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله سب سے اعلیٰ دوست ہے،    اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے دنیا کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا

ایک روایت مسند احمد   ١١٦١٠  میں ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ، مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ   عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ أَبِي: إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ حَدَّثَنَا عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ: إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ

شعیب کہتے ہیں یہ منقطع ہے

أبو بكر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر، هو أبو بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر، روايته عن جد أبيه منقطعة

حلية الأولياء وطبقات الأصفياء از  أبو نعيم  الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) اور صحیح ابن حبان میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ، ثنا أَبُو بِشْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُصْعَبٍ , ثنا مَحْمُودُ بْنُ آدَمَ، ثنا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: ” قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَوَائِمُ مِنْبَرِي رَوَاتِبٌ فِي الْجَنَّةِ , وَمَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» تَفَرَّدَ بِهِ الْفَضْلُ عَنْ سُفْيَانَ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میرے منبر کے پائے  جنت کے رَوَاتِبُ ہیں اور میری قبر اور منبر کے درمیان جنت ہے

اس کی سند میں  عمار بن معاوية الدهني    جس نے أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ سے روایت کیا    ہے – عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ کے لئے ابو حاتم کہتے ہیں اس سے دلیل مت لو-

شعب الإيمان از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، أَخْبَرَنَا حَامِدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرًا، وَهُوَ يَبْكِي عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: هَهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ “

سند میں   عَبْدُ اللهِ بْنُ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ   ہے جو مجہول ہے

السنة از  أبو بكر بن أبي عاصم  (المتوفى: 287هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی     ہے  میری قبر اور منبر کے  درمیان جنت ہے

اس کی سند  بظاہر صحیح ہے    لیکن یہ متن معلول   ہے –  دوم   اس میں قبر کو جنت کا باغ قرار نہیں دیا گیا ہے  جیسا لوگوں کا دعوی ہے

صحیح بخاری  میں اسی سند سے ہے

ح  ١٨٨٨  اور ١١٩٦ : حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

یعنی راوی نے خود کبھی    بَيْتِي میرا گھر بولا اور کبھی  قَبْرِي میری قبر بول دیا ہے –

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَا بَيْنَ هَذِهِ الْبُيُوتِ ـ يَعْنِي: بُيُوتَهُ ـ إِلَى مِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَالْمِنْبَرُ عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان گھروں اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے باغ ہے اور منبر جنت کے ٹیلے پر ہے

شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے کہ
حديث صحيح دون قوله: “ما بين هذه البيوت ” بصيغة الجمع، فقد خالف فيها فليحٌ – وهو ابن سليمان
حدیث ان گھروں کے درمیان کے الفاظ یعنی جمع کے ساتھ ضعیف ہے اس متن پر فلیح بن سلیمان نے مخالفت کی ہے

بعض کا قول ہے کہ یہ قبری کا لفظ صحیح سند سے بھی ہے

قبری کے لفظ پر متضاد آراء 

بدر الدين العيني عمدة القاري 10 /248 میں لکھتے ہیں
وكذا وقع في حديث سعد بن أبي وقاص أخرجه البزار بسند صحيح،
قبری کے الفاظ صحیح سند سے مسند البزار میں سعد بن أبي وقاص کی سند سے آئے ہیں

راقم کو مسند البزار میں یہ سند ملی

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: نَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عُبَيْدَةُ بِنْتُ نَابِلٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي، أَوْ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» وَهَذَا الْحَدِيثُ قَدْ رَوَتْهُ عُبَيْدَةُ، وَرَوَاهُ جُنَاحٌ مَوْلَى لَيْلَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهَا

اس سند میں عُبَيدة بنت نابل، حجازية. مجہول ہے

شعيب الأرنؤوط نے مسند احمد کی تعلیق میں اس سند کا ذکر کر کے کہا
قال الهيثمي في “المجمع” 4/9: ورجاله ثقات، فتعقبه الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي بقوله: قلت: كلا، بل فيه إسحاق بن محمد الفروي، وليس بثقة،

حبيب الرحمن الأعظمي کا کہنا ہے اس سند میں بل فيه إسحاق بن محمد الفروي، وليس بثقة، ہے

بعض کا قول ہے کہ قبری کہنا اصل میں روایت بالمعنی ہے مثلا ابن تیمیہ کا القاعدة الجليلة میں قول ہے

ولكن بعضهم رواه بالمعنى، فقال: قبري
لیکن بعض نے کو قبری کے لفظ کے ساتھ روایت بالمعنی کیا ہے

بعض کا قول ہے قبری کا لفظ بے اصل ہے – التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد میں قرطبی کا کہنا ہے

وَقَدْ رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْكُوفِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكِ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَهَذَا أَيْضًا إِسْنَادٌ خَطَأٌ لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ وَلَا أَصْلَ لَهُ

ابن عمر نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر اور منبر کے درمیان جو ہے وہ جنت کا ٹکڑا ہے – ان اسناد میں غلطی ہے – اس کی متابعت نہیں ہے نہ اصل ہے

الرَّوضُ البَّسَام بتَرتيْبِ وَتخْريج فَوَائِدِ تَمَّام کے مؤلف أبو سليمان جاسم بن سليمان حمد الفهيد الدوسري کا کہنا ہے

تنبيه: الحديث بلفظ: “ما بين قبري ومنبري … ” عزاه النووي في “المجموع” (8/ 272) والعراقي في “تخريج الإِحياء” (1/ 260) إلى الصحيحين، وهو وهم، وقد علمت أن روايتهما بلفظ:”بيتي”.

تنبیہ حدیث الفاظ ما بين قبري ومنبري . کو نووی نے لیا ہے … اور یہ وہم ہے اور جان لو کہ روایت ہے بیتی کے الفاظ سے

أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب از محمد بن محمد درويش، أبو عبد الرحمن الحوت الشافعي (المتوفى: 1277هـ) میں ہے

حَدِيث: ” مَا بَين بَيْتِي ومنبري رَوْضَة من رياض الْجنَّة “. مُتَّفق عَلَيْهِ، وَمن يذكرهُ بِلَفْظ قَبْرِي فَهُوَ غلط.
حدیث ہے مَا بَين بَيْتِي ومنبري رَوْضَة من رياض الْجنَّة یہ متفق علیہ ہے اور جس نے اس کو قبری کے لفظ سے ذکر کر دیا ہے اس نے غلطی کی ہے

امام بخاری کا اہتمام : صرف بیت و منبر  والی روایات کی تصحیح کی 

امام بخاری نے  خاص وہ اسناد لی ہیں جن میں بیتی  کے الفاظ ہیں

ح  ٦٥٨٨  :  حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

ح ٧٣٣٥  : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

امام بخاری نے اس طرح خاص اہتمام کیا  ہے کہ صرف وہ متن لکھیں جس میں بیتی  گھر کے الفاظ ہوں نہ کہ قبر کے-

باب پر اشکال 

اب بحث اس میں ہے کہ اگر یہ ہی متن امام صاحب کے نزدیک صحیح تھا تو اس پر باب       بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ   قائم کیوں کیا؟

ابواب بخاری کے حوالے سے راقم کی رائے ہے کہ یہ تمام کے تمام امام بخاری کے قائم کردہ نہیں ہیں – کتاب    التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح  از  أبو الوليد سليمان بن خلف بن سعد بن أيوب بن وارث التجيبي القرطبي الباجي الأندلسي (المتوفى: 474هـ) کے مطابق

وَقد أخبرنَا أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ الْحَافِظ رَحمَه الله ثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي إِبْرَاهِيم بن أَحْمد قَالَ انتسخت كتاب البُخَارِيّ من أَصله كَانَ عِنْد مُحَمَّد بن يُوسُف الْفربرِي فرأيته لم يتم بعد وَقد بقيت عَلَيْهِ مَوَاضِع مبيضة كَثِيرَة مِنْهَا تراجم لم يثبت بعْدهَا شَيْئا وَمِنْهَا أَحَادِيث لم يترجم عَلَيْهَا فأضفنا بعض ذَلِك إِلَى بعض وَمِمَّا يدل على صِحَة هَذَا القَوْل أَن رِوَايَة أبي إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي وَرِوَايَة أبي مُحَمَّد السَّرخسِيّ وَرِوَايَة أبي الْهَيْثَم الْكشميهني وَرِوَايَة أبي زيد الْمروزِي وَقد نسخوا من أصل وَاحِد فِيهَا التَّقْدِيم وَالتَّأْخِير وَإِنَّمَا ذَلِك بِحَسب مَا قدر كل وَاحِد مِنْهُم فِي مَا كَانَ فِي طرة أَو رقْعَة مُضَافَة أَنه من مَوضِع مَا فأضافه إِلَيْهِ وَيبين ذَلِك أَنَّك تَجِد ترجمتين وَأكْثر من ذَلِك مُتَّصِلَة لَيْسَ بَينهمَا أَحَادِيث وَإِنَّمَا أوردت هَذَا لما عني بِهِ أهل بلدنا من طلب معنى يجمع بَين التَّرْجَمَة والْحَدِيث الَّذِي يَليهَا وتكلفهم فِي تعسف التَّأْوِيل مَا لَا يسوغ وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ رَحمَه الله وَإِن كَانَ من أعلم النَّاس بِصَحِيح الحَدِيث وسقيمه فَلَيْسَ ذَلِك من علم الْمعَانِي وَتَحْقِيق الْأَلْفَاظ وتمييزها بسبيل فَكيف وَقد روى أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي الْعلَّة فِي ذَلِك وَبَينهَا إِن الحَدِيث الَّذِي يَلِي التَّرْجَمَة لَيْسَ بموضوع لَهَا ليَأْتِي قبل ذَلِك بترجمته وَيَأْتِي بالترجمة الَّتِي قبله من الحَدِيث بِمَا يَلِيق بهَا

أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ نے خبر دی الْمُسْتَمْلِي نے کہا میں نے  وہ نسخہ نقل کیا جو الْفربرِي کے پاس تھا پس میں نے دیکھا یہ ختم نہیں ہوا تھا اور اس میں بہت سے مقامات پر ترجمہ یا باب قائم کیے ہوئے تھے جس میں وہ چیزیں تھیں جو اس باب کے تحت ثابت نہیں تھیں اور احادیث تھیں جن کے تراجم (یا ابواب) نہ تھے پس ہم نے ان میں اضافہ کیا بعض کا بعض میں اور اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کہ الْمُسْتَمْلِي اور السَّرخسِيّ اور  الْكشميهني اور أبي زيد الْمروزِي نے سب  نے ایک ہی نسخہ سے نقل کیا ہے جس میں تقدیم و تاخیر تھی اور یہ اس وجہ سے تھا کہ ان سب کی حسب مقدار جو طرة میں تھا یہ  اضافی رقْعَة پر موجود تھا جو اس مقام پر لگا تھا اس کا اضافہ کیا گیا اور اس کی تبین ہوتی ہے کہ دو ابواب ایک سے زیادہ  مقام پر ہیں اور ابواب ملے ہیں حدیث نہیں ہے اور ایسا ہی مجھ کو ملا جب اہل شہر نے مدد کی کہ ابواب کو حدیث سے ملا دیں اور تاویل کی مشکل جھیلی جو امام بخاری کے نزدیک تھی اور اگرچہ وہ لوگوں میں حدیث کے صحیح و سقم کو سب سے زیادہ جانتے تھے لیکن علم معنی اور تحقیق الفاظ اور تمیز میں ایسے عالم نہیں تھے تو کیسے (ابواب کی تطبیق حدیث سے ) کرتے – اور الْمُسْتَمْلِي نے اس کی علت بیان کی کہ ایک حدیث اور اس سے ملحق باب میں حدیث ہوتی ہے جو موضوع سے مناسبت نہیں رکھتی

 الباجی    نے جو معلومات دی ہیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ باب کہا جا سکتا ہے کہ امام بخاری کا قائم کردہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اس روایت کے متن میں خاص احتیاط برتی ہے کہ صرف وہ لیں جس میں بیتی  کے الفاظ ہوں نہ کہ قبری  کے

امام بخاری کا عقیدہ 

امام بخاری نے اپنا عقیدہ   ان احادیث پر اس طرح بیان کیا ہے

انس ؓ سے روایت کہ حارثہ بن سراقہ انصاری ؓ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس ؓ کی پھو پھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا ، اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں ۔ نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تم پر رحم کرے ، کیا دیوانی ہو رہی ہو ، کیا وہاں   ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے ۔   صحیح بخاری ، کتاب المغازی​

صحیح بخاری میں ہے

براء بن عازب ؓ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔

امام مسلم کا اہتمام : صرف بیتی والی روایت کی تصحیح

امام مسلم نے بھی امام بخاری کی طرح صرف ان روایات کی تصحیح کی ہے جن میں بیتی کے الفاظ ہوں- امام صاحب دو اسناد دیتے ہیں

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

اب اشکال یہ ہے کہ اگر امام مسلم سے نزدیک یہ متن صحیح تھا تو اس پر باب بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ کیوں قائم کیا ہے

صيانة صحيح مسلم من الإخلال والغلط وحمايته من الإسقاط والسقط میں محدث ابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) کہتے ہیں

أَن مُسلما رَحمَه الله وإيانا رتب كِتَابه على الْأَبْوَاب فَهُوَ مبوب فِي الْحَقِيقَة وَلكنه لم يذكر فِيهِ تراجم الْأَبْوَاب لِئَلَّا يزْدَاد بهَا حجم الْكتاب أَو لغير ذَلِك
اللہ رحم کرے امام مسلم پر انہوں نے کتاب مرتب کی ابواب کے مطابق لیکن اس پر ابواب قائم نہ کیے کیونکہ اس سے کتاب کا حجم بڑھ جاتا یا کوئی اور وجہ تھی

لب لباب 

صحیح اسناد سے وہ حدیث ہے جس میں گھر اور منبر کے درمیان کو جنت کہا گیا ہے

ضعیف و معلول اسناد سے وہ روایات ہیں جن میں قبر اور منبر کو جنت کہا گیا ہے

اگر یہ تسلیم کریں کہ متن میری قبر اور منبر کے درمیان کے الفاظ کے ساتھ صحیح تھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک حصہ یا تمام جنت میں سے تھا اور جو لوگ اس میں زندگی میں داخل ہوئے وہ جنت میں چلے گئے – ایسا دعوی ہم دیکھتے ہیں کسی نے نہیں کیا

انبیاء کی جنت آسمانوں میں ہے – زمین جیسی فانی چیزوں میں نہیں جس پر عظیم پہاڑوں کو چلایا جائے گا حتی کہ زمین چپٹی کر دی جائے گی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھر اور منبر کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے

یعنی بعد حشر اس مسجد النبی کو جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا – جنت مشرک پر حرام ہے اور مسجد النبی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصرانیوں سے کلام کیا ہے – یہود بھی اپنے مقدمات کو لے کر اسی مسجد میں آتے تھے – ظاہر ہے یہود و نصرانی جنت میں نہیں جا سکتے – اس حدیث کا ظاہر پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات حشر کے بعد واقع ہو گی نہ کہ دنیا میں جب اس زمین کے مسجد النبی کے مقام کو باقی زمین سے الگ کر کے جنت کا حصہ بنایا جائے گا اور منبر پر حوض  کوثر ہو گا

واللہ اعلم

روایات عرض عمل اور دیوبندی علماء

عرض عمل کی روایات اس امت میں شیعہ راویوں یا اہل بیت کے غلاموں کی پھیلائی ہوئی ہیں – ان کا اجراء خروج ائمہ کو جواز دینے کے لئے کیا گیا کہ مخالفین اہل بیت، بنو امیہ مسلمان ہی نہیں – ان کا درود نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش نہیں ہوتا

راقم عرض عمل کی روایات کو رد کرتا ہے – عرض عمل کی روایات پر منطقی اعتراض کا ذکر جناب  الیاس گھمن متکلم دیو بند ایک تقریر میں فرماتے ہیں

دیوبندیوں کے متکلم الیاس گھمن ١:٠٠ منٹ پر کہتے ہیں کہ

ایک سآئل نے سوال کیا کہ حدیبیہ میں عثمان مشرکین مکہ کی قید میں تھے
اور نبی پاک نے عثمان کے قتل کا بدلہ لینے پر بیعت لے لی تو کیا عثمان کا درود نبی پر پیش نہ ہوتا تھا ؟
الیاس گھمن جواب دیتے ہیں میں نے اس سائل سے کہا

آج تک کبھی آپ نے ہمارے اکابر کی کتاب میں یہ عقیدہ پڑھا ہو یا ہمارے اکابر سے سنا ہو کہ ہم نے یہ کہا ہو کہ
حضور پاک جب اس دنیا میں زندہ تھے تو حضور پر جو درود دور سے پڑھتا جاتا تھا وہ پیش ہوتا تھا ؟
کہا جی نہیں – میں نے کہا جب یہ ہمارا عقیدہ ہی نہیں ہے تو تم نے اعتراض کیسے کیا

الیاس ٢:٠٠ منٹ پر کہتے ہیں
ہمارا عقیدہ ہے
من صلی علی عند قبری
جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا تو میری قبر کے پاس درود پڑھو گے تو میں سن لوں گا

و من صلی علی نائيا بلغته
جو دور سے پڑھا جائے گا پہنچایا جائے گا

یہ اس اس زندگی میں ہے یا بعد کی بات ہے

اعتراض تب تھا جب ہم یہ کہتے کہ اس دنیا میں جو مدینہ سے باہر رہ کر دورد پڑھتا وہ پیش ہوتا تھا – جب یہ ہمارا عقیدہ ہی نہیں تو اعتراض کی حیثیت کیا ہے ؟

اس دنیا میں مدینہ سے باہر رہ کر درود پڑھتا تھا وہ پیش ہوتا تھا اب اس پر دلیل پیش کرتے ہیں کہ عثمان کا پیش کیوں نہیں ہوا ؟
یہ ہمارا عقیدہ ہی نہیں

الیاس 3:16 منٹ پر کہتے ہیں
سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تھے تو یہ مسئلہ نہیں تھا اور جب دنیا سے چلے گئے تو پھر یہ مسئلہ ہے
ایسا کیوں ہے ؟
جب اس دنیا میں تھے تو ہمارا عقیدہ نہیں ہے کہ دور سے پڑھیں تو فرشتے پہنچاتے ہیں
جب دنیا چھوڑ کر قبر میں تشریف لے گئے اب ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر دور سے درود پڑھیں تو فرشتے پہنچاتے ہیں
یہ فرق کیوں ہے ؟
یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اللہ رب العزت کے دین کو
دنیا والوں تک پہنچانے کے لئے … جب ایک مقصد کو لے کر چلنے والا اس کو لے کر چلتا ہے تو لوگ قبول کریں تو اس کو خوشی ہوتی ہے
جب اللہ کے نبی اس دنیا میں ہیں ، صحابہ اکرام مدینہ آ رہے ہیں مدینہ سے جا رہے ہیں
حضور پاک اپنے کام کی کار گزاری دیکھ رہے ہیں – اب دور سے بذریعہ ملائکہ زندگی میں درود پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے
جب اللہ کے نبی قبر میں تشریف لے گئے …. اب ضرورت ہے کہ پغمبر پر کار گزاری پہنچے
جب قبر پر جائیں اور درود پڑھیں تو حضور سن لیتے ہیں اور دور سے پڑھیں تو ملائکہ پہنچا دیتے ہیں

ساتھ دوسری حدیث بھی ذہن میں رکھ لیں عرض اعمال کی اللہ کے نبی نے فرمایا

تمہارے اعمال مجھ پر پیش ہوتے ہیں

جب اس دنیا میں تھے تو دور سے اعمال پیش ہونے کی حاجت نہیں تھی آنکھوں سے آپ کار گزاری دیکھ رہے تھے
لوگ آ بھی رہے تھے اور جا بھی رہے تھے – جب نبی دنیا سے چلے گئے تو امت کی کار گزاری
حضور قبر میں رہ کر ساری دنیا کو دیکھیں یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے لہذا
اللہ ملائکہ کے ذریعہ امت کے اعمال پیش کر کے نبی کو ان کی کار گزاری سناتے رہتے ہیں

انتھی کلامہ

========================

لب لباب ہوا کہ دیو بندیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ زندگی میں درود تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہی نہیں ہوتا تھا

اس طرح الیاس گھمن صاحب نے ان احادیث کو رد کر دیا

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِي، حَدّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَي عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ،
وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا” قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: “وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ”، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ
امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ ابوالدراد
رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ نے ارشاد فر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس
کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ آپ کی موت کے بعد ؟ آپ نے فرمایا الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے جسموں کو کھائے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے

نوٹ : روایت ضعیف منقطع ہے

سنن ابو داود میں ہے
حدثنا هارون بن عبد الله، ‏‏‏‏‏‏حدثنا حسين بن علي، ‏‏‏‏‏‏عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، ‏‏‏‏‏‏عن ابي الاشعث الصنعاني، ‏‏‏‏‏‏عن اوس بن اوس، ‏‏‏‏‏‏قال ‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال
فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
اوس بن اوس رضی الله عنہ نے کہا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے
جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے

اس روایت میں صریحا زندگی میں دورد پیش ہونے کا ذکر ہے – صحابہ کو اشکال ہوا کہ موت کے بعد بھی ہو گا کہ نہیں تو اس کا جواب بھی اثبات میں دیا گیا ہے

نوٹ :  روایت امام ابن ابی حاتم کے نزدیک معلول ہے 

مسند البزار کی روایت ہے
حَدَّثَنَاهُ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا جَرِيرٌ، عَنْ حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، قَالَ حُسَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ
يُبَلِّغُونَ، عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ
حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيّ نے روایت کیا کہ عبد الله بن السَّائِبِ نے زاذان سے روایت کیا اس نے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ .. اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک لاتے ہیں

اس روایت کو بھی وفات کے بعد کے دور سے مقید نہیں کیا جا سکتا

نوٹ راقم کے نزدیک سند منقطع ہے – زاذان کا ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے سماع نہیں ہے

ان روایات پر مزید تفصیل راقم کی کتاب میں ملاحظہ کریں

[wpdm_package id=’8847′]

ام المومنین اور لا النبی بعدی پر قول

ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه کے ساتھ رہا۔ میں نے خود سنا کہ وہ یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا

عن أَبي هريرةَ قَالَ: قالَ رَسُول اللَّه : كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبيٌّ، وَإنَّهُ لا نَبِيَّ بَعدي، وسَيَكُونُ بَعدي خُلَفَاءُ فَيَكثُرُونَ، قالوا: يَا رسول اللَّه، فَما تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: أَوفُوا بِبَيعَةِ الأَوَّلِ فالأَوَّلِ، ثُمَّ أَعطُوهُم حَقَّهُم، وَاسأَلُوا اللَّه الَّذِي لَكُم، فَإنَّ اللَّه سائِلُهم عمَّا استَرعاهُم

بنی اسرائیل کی قیادت ان کے انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنا دیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، اُن کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو اور ان کے حق اطاعت کو پورا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی رعیت کے متعلق اُن سے سوال کرے گا

دوسری طرف بعض نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے قول منسوب کیا کہ وہ اپنے شاگردوں کو کہتیں
لا تقولوا لا النبی بعدی
یہ نہ کہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا

راقم کو ام المو منین سے منسوب اس قول کی دو سندیں ملی ہیں – مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ قُولُوا ” خَاتَمُ النَّبِيِّينَ , وَلا تَقُولُوا لا نَبِيَّ بَعْدَهُ

راقم کہتا ہے اس کی سند میں انقطاع ہے جرير بن حازم کا عائشة رضي الله عنها سے سماع نہیں ہے۔ کتب حدیث میں جریر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بعض اوقات دو دو راوی ہیں مثلا  جرير بن حَازِم عَن يحيى بن سعيد عَن عُرْوَة عَن عَائِشَة

اس قول کی ایک اور سند ہے

الرَّبِيعُ بْنُ صُبَيْحٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لا تَقُولُوا لا نَبِيَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ، وَقُولُوا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ ، فَإِنَّهُ يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلا وَإِمَامًا مُقْسِطًا ، فَيَقْتُلُ الدَّجَّالَ ، وَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ ، وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا

راقم کہتا ہے اس سند میں الربيع بن صبيح ضعیف ہے اور محمد بن سيرين کا سماع عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں ہے

أنيس الساري میں ابن حجر نے ایک روایت پر لکھا ہے

إسناده منقطع لأنّ ابن سيرين لم يسمع من عائشة، قاله ابن معين وأبو حاتم

إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة میں ابن حجر نے ایک روایت پر حکم لگایا لکھا
منقطع، يعني أن ابن سيرين لم يسمع من عائشة

المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ از ابن حجر میں ہے
أن محمَّد بن سيرين لم يسمع من عائشة كما في جامع التحصيل

ابن قتيبة نے تأويل مختلف الحديث میں (ص 272) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے منسوب اس قول کی تاویل کی ہے

وَأَمَّا قَوْلُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا “قُولُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ”؛ فَإِنَّهَا تَذْهَبُ إِلَى نُزُولِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلَيْسَ هَذَا مِنْ قَوْلِهَا، نَاقِضًا لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “لَا نَبِيَّ بَعْدِي” لِأَنَّهُ أَرَادَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، يَنْسَخُ مَا جِئْتُ بِهِ، كَمَا كَانَتِ الْأَنْبِيَاءُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ تَبْعَثُ بِالنُّسَخِ، وَأَرَادَتْ هِيَ “لَا تَقُولُوا إِنَّ الْمَسِيح لَا ينزل بعده

اور جہاں تک عائشہ کے قول کا تعلق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء کہو یہ مت کہو ان کے بعد نبی نہیں تو ان کا مذھب ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام پر اور یہ اس قول سے متناقص نہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد نبی نہیں

ہم کہتے ہیں یہ قول عائشہ رضی اللہ عنہا  ثابت ہی نہیں لہذا اس کو دلیل میں پیش نہیں کیا جا سکتا

فقہ میں امام مالک کے اقوال

173 Downloads

أبو عبد الله مالك بن أنس بن مالك بن أبي عامر الأصبحي الحميري المدني (93ھ – 179ھ) أمت کے جلیل القدر فقیہ و محدث ہیں – آپ اہل رائے و اہل حدیث دونوں حلقوں میں محترم ہیں- امام مالک کے دادا صحابی جلیل القدر تھے جو سوائے جنگ بدر کے باقی تمام غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھے۔
امام مالک اہل رائے میں سے بھی ہیں – امام محمد ، امام مالک کے شاگردوں میں سے ہیں اور ان کی موطا کے راوی بھی ہیں – امام مالک کے اساتذہ میں إمام ربيعة بن أبي عبد الرحمن فرّوخ التيمى المدني، المعروف بـ ربيعة الرأي (المتوفي 136 هـ ) مشہور ہیں جو أهل رائے میں سے تھے –
امام شافعی کو بعض لوگوں نے امام مالک کے شاگردوں میں شمار کیا ہے دوسری طرف بعض أهل التراجم والسير کا قول ہے کہ امام شافعی فقط تیرہ سال کے تھے جب امام مالک سے ملے اور اسی دور میں مالک کی وفات ہوئی یعنی شافعی کا امام مالک سے اکتساب علم اتنا نہیں ہوا – کتاب الام میں شافعی نے بہت سے مسائل میں امام مالک سے اختلاف کیا ہے بس نام نہیں لیا وہ کہتا ہے کہہ کر مخاطب کیا ہے- مالکیہ کا خیال ہے کہ یہ شافعی نے مالک کا ذکر کیا ہے-
امام مالک کے خلاف بھی لوگ رہے ہیں مثلا سیر الاعلام النبلاء میں امام الشافعی کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں
زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ يَقُوْلُ: رَأَيْتُ فِي المَنَامِ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي مَسْجِدِه بِالمَدِيْنَةِ، فَكَأَنِّيْ جِئْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَكْتُبُ رَأْيَ مَالِكٍ؟ قَالَ: (لاَ) . قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ أَبِي حَنِيْفَةَ؟ قَالَ: (لاَ) . قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ؟ فَقَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا، كَأَنَّهُ انْتَهَرَنِي، وَقَالَ: (تَقُوْلُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ! إِنَّهُ لَيْسَ بِرَأْيٍ، وَلَكِنَّهُ رَدٌّ عَلَى مَنْ خَالَفَ سُنَّتِي) .
زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي کہتے ہیں میں نے أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ کو سنا کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا آپ مسجد النبی میں تھے پس میں ان تک پہنچا اور سلام کیا اور کہا اے رسول الله کیا مالک کی رائے لکھوں؟ فرمایا نہیں – میں نے پوچھا کیا ابو حنیفہ کی رائے لکھوں ؟ فرمایا نہیں – پوچھا کیا شافعی کی رائے لکھوں ؟ باتھ کو اس طرح کیا کہ گویا منع کر رہے ہوں اور کہا تو شافعی کی رائے کا کہتا ہے وہ میری رائے نہیں ہے بلکہ میری سنت کی مخالف ہے
اسی طرح ایک خواب کا ذکر امام الذھبی نے کیا ہے جس میں امام مالک کی رائے کو رد کرنے کا حکم دیا گیا
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نَزِيْلُ مَكَّةَ – فِيْمَا كَتَبَ إِلَيَّ – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيُّ، قَالَ: قُلْتُ فِي المَنَامِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا تَقُوْلُ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَالشَّافِعِيَّ، وَمَالِكٍ؟ فَقَالَ: (لاَ قَوْلَ إِلاَّ قَوْلِي، لَكِنَّ قَوْلَ الشَّافِعِيِّ ضِدُّ قَوْلِ أَهْلِ البِدَعِ
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ کہتے ہیں مکہ والے أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نے روایت کیا اس خط میں جو لکھا کہ مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، نے کہ مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيّ نے روایت کیا کہا میں نے خواب میں رسول الله سے پوچھا : اے رسول الله آپ مالک شافعی اور ابو حنیفہ کی رائے پر کیا کہتے ہیں ؟ فرمایا ان کا قول وہ نہیں جو میرا ہے اور شافعی کا قول اہل بدعت کی ضد ہے

امام مالک محدث بھی ہیں – امام مالک کی موطا حدیث کی صنف میں سب سے پہلی کتاب ہے جو باقی رہی ہے – اس سے قبل کی کتب معدوم ہو گئیں – امام مالک نے امام زہری سے بہت سی روایات لی ہیں –
ایک دور تک صحاح ستہ یا الكتب الستة میں موطا امام مالک کو لیا جاتا تھا – زرین بن معاویہ المتوفی ٥٣٥ ھ کے مطابق اس میں ابن ماجہ کی بجائے موطا ہے- ابن اثیر کے مطابق چھٹی کتاب موطا ہے- ابن صلاح النكت مين لکھتے ہیں کہ کافی عرصہ مغرب میں یعنی اندلس اور شمالی افریقہ میں موطا چھٹی کتاب رہی حتی کہ وہ ابن ماجہ پر متفق ہوئے
وعند المغاربة موطأ مالك عوضا عن سنن ابن ماجه قبل أن يقفوا عليه
چار فقہاء یعنی امام مالک، امام الشافعی ، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل میں سے امام بخاری نے سب سے زیادہ امام مالک کی سند سے روایت نقل کی ہیں –
اس کتاب میں امام مالک اور ان کے فقہی منہج پر مختصرا ً بات کی گئی ہے
ابو شہریار
٢٠١٩

أشهد أن عليا ولي الله

اپنی خلافت کے دوران نہ علی نے نہ حسن نے اس اذان میں اضافہ کیا جو اہل سنت دیتے ہیں  – اب ہم صرف شیعہ کتب کے حوالہ سے بات کریں گے

شیعہ فقہ کی کتاب من لا يحضره الفقيه از  الصدوق المتوفى سنة 381 میں اذان  ہے أنه ” حكى لهما الاذان فقال 

الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر الله أكبر

أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله

أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله

حي على الصلاة، حي على الصلاة

حي على الفلاح، حي على الفلاح

حي على خير العمل، حي على خير العمل

الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، لا إله إلا الله، والاقامة كذلك

شیعہ کہتے ہیں کہ نماز کی طرح اذان بھی شب معراج میں ملی -مستدرك الوسائل ميرزا حسين النوري الطبرسي المتوفى 231 میں ہے کہ تفسیر علي بن إبراهيم میں ہے

علي بن إبراهيم فى تفسيره :عن
أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن هشام بن سالم ، عن الصادق (عليه السلام)، قال :((قال
النبي (صلى الله عليه و آله ): لما اسري بي و انتهيت إلى سدرة المنتهى -إلى أن
قال-: فإذا ملك يؤذن ، لم ير فى السماء قبل تلك الليلة :فقال :الله أكبر الله
أكبر ، فقال الله :صدق عبدي أنا أكبر فقال :أشهد أن لاإله إلاالله أشهد أن لاإله
إلاالله ، فقال الله تعالى :صدق عبدي انا الله لاإله غيري ، فقال :أشهد أن محمدا
رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله فقال الله :صدق عبدي إن محمدا عبدي ، و رسولي
أنا بعثته و انتجبته ، فقال :حى على الصلاة حى على الصلاة ، فقال :صدق عبدي دعا
إلى فريضتي فمن مشى إليها راغبا فيها محتسبا كانت (1) كفارة لما مضى من ذنوبه ،
فقال :حي على الفلاح [حي على الفلاح ](2) ، فقال الله :هى الصلاح ، و النجاح ، و
الفلاح ، ثم اممت الملائكة في السماء ، كما اممت الأنبياء فى بيت المقدس ))

امام جعفر نے ذکر کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی اور سدرہ المنتہی پر   پہنچے تو ایک فرشتے نے  اذان دی اس کو آسمان پر اس سے قبل نہ دیکھا گیا تھا پس

فرشتے نے کہا الله أكبر الله أكبر
اللہ تعالی نے فرمایا سچ کہا میرے بندے نے میں اکبر ہوں

فرشتے نے کہا :أشهد أن لاإله إلاالله أشهد أن لاإله إلاالله
اللہ تعالی نے فرمایا سچ کہا بندے نے میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی اله نہیں

فرشتے نے کہا :أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله
اللہ تعالی نے فرمایا سچ کہا میرے بندے نے کہ محمد میرا بندہ و رسول ہے اس کو میں نے بھیجا ہے

فرشتے نے کہا حى على الصلاة حى على الصلاة
اللہ تعالی نے فرمایا سچ کہا بندے نے یہ میرے فریضہ کی پکار ہے جو اس کی طرف چلا رغبت سے تو اس نے احتساب کیا پس یہ کفارہ ہوا جو اس نے پچھلے گناہ کیے

فرشتے نے کہا حي على الفلاح حي على الفلاح
اللہ تعالی نے فرمایا یہ اصلاح و نجات و فلاح ہے

اس اذان میں سرے سے شہادت امیر المومنین کا ذکر نہیں ہے  نہ حی علی خیر العمل کا ذکر ہے

لیکن بہت صدیوں بعد  شیعوں  نے  اذان میں أشهد أن عليا ولي الله  کا اضافہ کر دیا –  کہا جاتا تھا کہ یہ اضافہ ایک غالی  بدعت ہے لیکن متاخرین نے اس قول کو چھپا کر اس اذان  کی توجیہات کی ہیں

 أشهد أن عليا ولي الله اذان میں نہیں ہے

   صراط النجاة   از استفتاءات الخوئي  – تعليقة وملحق لاية الله العظمى التبريزي ناشر :دفتر نشر برگزيده میں ہے

س 994: متى أدخلت ((أشهد أن عليا ولي الله)) الى الاذان والاقامة، وهل وردت رواية من المعصوم باستحبابها؟ الخوئي: الرواية واردة باستحباب الشهادة بالولاية له (ع) متى شهد بالنبوة، لا في خصوص الاذان والاقامة، ولذا لا نعدها جزءا منهما،

الخوئي سے سوال ہوا : اذان میں کب سے  ((أشهد أن عليا ولي الله)) کو داخل کیا گیا اور کیا یہ امام معصوم سے روایت ہوا ؟   الخوئي نے کہا  ((أشهد أن عليا ولي الله)) یہ اذان و اقامت  میں خاص نہیں ہے اور اسی بنا پر ہم ان کو اذان میں شمار نہیں کرتے

شیعہ علماء قدماء کا قول : یہ اضافہ غالیوں نے کیا ہے

شیعہ اذان میں اضافہ مفوضہ فرقے نے کیا جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ  تعالی نے نظم کائنات  علی کو تفویض کر دیا ہے

بحار الانوار  از باقر مجلسی میں ہے

والمفوضة لعنهم الله قد وضعوا أخبارا وزادوا في

الاذان محمد وآل محمد خير البرية مرتين، وفي بعض رواياتهم بعد أشهد أن محمدا رسول

الله، أشهد أن عليا ولي الله مرتين، ومنهم من روى بدل ذلك أشهد أن عليا أمير

المؤمنين حقا مرتين، ولا شك في أن عليا ولي الله، وأنه أمير المؤمنين حقا، وأن

محمدا وآله صلوات الله عليهم خير البرية، ولكن ذلك ليس في أصل الاذان، وإنما ذكرت

ذلك ليعرف بهذه الزيادة المتهمون بالتفويض، المدلسون أنفسهم في جملتنا انتهى،

المفوضة پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے روایات گھڑیں اور اذان میں أشهد أن عليا ولي الله  کا دوبار اضافہ کیا اور ان میں سے بعض نے أشهد أن عليا أمير المؤمنين حقا  کا دوبار اضافہ کیا – اس میں کوئی شک نہیں کہ علی ولی اللہ ہیں اور امیر المومنین حق پر تھے …. لیکن یہ کلمات اصلا اذان میں نہ تھے  اور اس اضافہ کا ہم نے ذکر کیا کہ جان لو کہ یہ ان کا ہے جن پر تفویض کا الزام ہے

 وسائل الشيعة میں ہے

وقال الصدوق بعدما ذكر حديث أبي بكر الحضرمي وكليب الأسدي : هذا هو الأذان الصحيح لا يزاد فيه ولا ينقص منه ، والمفوضة لعنهم الله قد وضعوا أخباراً وزادوا بها في الأذان محمد وآل محمد خير البرية مرتين ، وفي بعض رواياتهم بعد أشهد أن محمداً رسول الله : أشهد أن علياً ولي الله مرتين ، ومنهم من روى بدل ذلك : أشهد أن علياً أميرالمؤمنين حقاً مرتين ، ولا شك أن علياً ولي الله وأنه أميرالمؤمنين حقاً وأن محمداً وآله خير البرية ، ولكن ذلك ليس في أصل الأذان ، وانما ذكرت ذلك ليعرف بهذه الزيادة

صدوق نے حديث أبي بكر الحضرمي وكليب الأسدي کا ذکر کرنے کے بعد کہا یہ اذان صحیح ہے … پھر  کہا المفوضة پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے روایات گھڑیں اور اذان میں أشهد أن عليا ولي الله  کا دوبار اضافہ کیا اور ان میں سے بعض نے أشهد أن عليا أمير المؤمنين حقا  کا دوبار اضافہ کیا – اس میں کوئی شک نہیں کہ علی ولی اللہ ہیں اور امیر المومنین حق پر تھے …. لیکن یہ کلمات اصلا اذان میں نہ تھے  اور اس اضافہ کا ہم نے ذکر کیا کہ جان لو کہ یہ ان کا ہے جن پر تفویض کا الزام ہے

من لا يحضره الفقيه میں ہے

أنه ” حكى لهما الاذان فقال: الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، حي على خير العمل، حي على خير العمل، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، لا إله إلا الله، والاقامة كذلك”(1).
ولا بأس أن يقال في صلاة الغداة على أثر حي على خير العمل ” الصلاة خير من النوم ” مرتين للتقية.
وقال مصنف هذا الكتاب رحمه الله: هذا هو الاذان الصحيح لا يزاد فيه ولا ينقص منه، والمفوضة لعنهم الله قد وضعوا أخبارا وزادوا في الاذان ” محمد وآل محمد خير البرية ” مرتين، وفي بعض رواياتهم بعد أشهد أن محمدا رسول الله ” أشهد أن عليا ولي الله ” مرتين، ومنهم من روى بدل ذلك ” أشهد أن عليا أمير المؤمنين حقا ” مرتين ولا شك في أن عليا ولي الله وأنه أمير المؤمنين حقا وأن محمدا وآله صلوات الله عليهم خير البرية، ولكن ليس ذلك في أصل الاذان، وإنما ذكرت ذلك ليعرف بهذه

شیعہ کتب میں المفوضة کا مطلب  اس  طرح بیان کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک  اللہ نے کائنات کا نظم  پہلے نبی علیہ السلام کو دیا پھر علی کو دے دیا

كليات في علم الرجال میں ہے

التفويض ومعانيه إن الفرقة المعروفة بالغلو هي فرقة المفوضة، غير أنه يجب تحقيق معناها حتى يتبين الصحيح عن الزائف فنقول: إن التفويض يفسر بوجوه: الاول: تفويض خلقة العالم إلى النبي والائمة عليهم السلام وأنهم هم الخالقون والرازقون والمدبرون للعالم.

التفويض سے مراد معروف فرقہ ہے جو غالی ہے … ان کی تفسیر ہے کہ خلقت کو نبی و ائمہ کو سونپ دیا گیا ہے اور وہ ہی خلق کرتے ہیں رزق دیتے ہیں عالم کی تبدیر کرتے ہیں 

   معجم مصطلحات الرجال والدراية تصحيح الاعتقاد (مصنفات الشيخ المفيد، ج 5) ص ١٣٣ -١٣٤  میں ہے

-: قوم زعموا أنّ اللّه تعالى خلق محمّدا، ثمّ فوّض إليه خلق العالم و تدبيره، فهو الذي خلق العالم دون اللّه تعالى، ثمّ فوّض محمد تدبير العالم إلى علي بن أبي طالب، فهو المدبّر الثاني.

ایک قوم نے دعوی کیا کہ اللہ تعالی نے محمد کو خلق کیا پھر ان کو عالم کی تخلیق و تدبیر سونپ دی 

تلامذة العلامة المجلسي والمجازون منه میں ہے

في التعليقة: «هُم القائلون بأنّ اللَّه تعالى خلق محمّداً(ص) وفوّض إليه أمر العالم، فهو الخلّاق للدنيا وما فيها.

وقيل: فوّض ذلك إلى عليّ(ع). وربّما يقولون بالتفويض إلى سائر الأئمّة(ع) كما يظهر من بعض التراجم»(124).

  نقد الرجال – التفرشي میں ہے

 المفوضة قالوا: إن الله خلق محمدا صلى الله عليه وآله وفوض إليه خلق الدنيا، فهو الخلاق لما فيها، وقيل: فوض ذلك إلى علي عليه السلام، من شرح المواقف [ 8 / 388 ] (منه قده)

جب شیعوں میں یہ اذان پھیل گئی تو ان کے علماء نے اس کے وجوب پر توجیہات گھڑ لیں

جدید آراء : یہ اضافہ تبرکا  کیا گیا ہے

  رسالة توضيح المسائل (مكارم الشيرازي)  میں ہے

جملة «أشهد أنّ عليّاً ولي الله» ليست من أجزاء الأذان والإقامة ولكن يستحسن الإتيان بها بعد جملة «أشهد أنّ محمّداً رسول الله» بقصد التبرّك،

جدید آراء : یہ اضافہ وسیلہ لینے کے لئے کیا گیا ہے

الأحكام الشرعية –   حسين علي المنتظري

مسألة 934: أشهد ان عليا ولي الله، ليست جزء من الأذان والإقامة، ولكن يحسن الإتيان بها بعد أشهد أن محمدا رسول الله، بقصد القربة المطلق

أشهد ان عليا ولي الله، یہ اذان  کا جز نہیں ہے نہ اقامت کا جز ہے لیکن اس کا ذکر أشهد أن محمدا رسول الله کے بعد انا تو محض قرب  کے قصد کے لئے ہے

 توضيح المسائل (فارسي) – السيد الخميني

 اشهد ان عليا ولى الله جزء اذان و اقامه نيست ولى خوبست بعد از اشهد ان محمدا رسول الله، به قصد قربت گفته شود

 توضيح المسائل (فارسي) – السيد الخوئي

 (مسأله 928) اشهد ان عليا ولي الله جزء اذان و اقامه نيست، ولى خوبست بعد از أشهد ان محمدا رسول الله بقصد قربت گفته شود

 توضيح المسائل (فارسي) –   لطف الله الصافي

 مسأله 928 – أشهد أن عليا ولي الله جزو اذان واقامه نيست، ولى خوبست بعد از أشهد أن محمدا رسول الله بقصد قربت گفته شود

 توضيح المسائل (فارسي) –   محمد علي الأراكي

 اشهد ان عليا ولى الله جزء اذان و اقامه نيست ولى خوبست بعد از اشهد ان محمدا رسول الله، به قصد قربت گفته شود

ضيح المسائل (فارسي) –   فاضل اللنكراني

 اشهد ان عليا ولى الله جزو اذان واقامه نيست ولى خوب است بعد از اشهدان محمدا رسول الله بقصد قربت گفته شود.

: رساله توضيح المسائل (فارسي) – الميرزا جواد التبريزي

(مسأله 928) أشهد ان عليا ولي الله جزو اذان و اقامه نيست، ولى خوبست بعد از اشهد أن محمدا رسول الله بقصد قربت گفته شود.

یہ ایک ہی جملہ  تمام کتب میں بار بار لکھا جا رہا ہے یعنی جواز پر اس سے بہتر کوئی اور رائے ان کے پاس نہ رہی کہ وسیلہ ہے جبکہ شخصی وسیلہ لینے سے علی رضی اللہ عنہ نے خود منع کیا تھا

 علی رضی الله عنہ سے منسوب الکافی کی روایت ہے جس کو خطبہ الوسیلہ کہا جاتا ہے اس میں صریحا لکھا ہے کہ علی نے کہا

أيها الناس إن الله تعالى وعد نبيه محمدا صلى الله عليه وآله الوسيلة ووعده الحق ولن يخلف الله وعده، ألا وإن الوسيلة على درج الجنة

اے لوگوں الله  تعالی نے اپنے نبی محمد صلی الله علیہ و الہ سے الوسیلہ کا وعدہ کیا ہے اس کا وعدہ سچا ہے خبردار وسیلہ جنت کا درجہ ہے

کتاب نہج البلاغہ میں علی سے منسوب خطبہ ہے

إِنَّ أفضلَ ما توسلَ بِهِ المتوسلون إِلى الله سبحانه وتعالى، الإِيمان بِهِ وَبِرَسُولِهِ، والجهادُ في سبيله، وأقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وَصومُ شهرِ رمضان، وَحج البيت واعتمارُه، وَصلة الرحم، وصدقة السّر، وصدقة العلانية

سب سے افصل توسل الی الله  یہ ہے اس کے رسول پر ایمان لایا جائے اور اس کی راہ میں جہاد کیا جائے اور نماز قائم کی جائے اور زكاة   دی جائے اور رمضان کے روزے رکھے جائیں اور حج بیت الله کیا جائے  اور اس کا  اعتمارُ کیا جائے (یعنی نظم و نسق) اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی جائے اور چھپ کر صدقه کیا جائے اور اعلانیہ بھی

اس میں وہ تمام نیکیاں آ گئیں جو معروف ہیں – علی نے اپنی ذات کے وسیلہ کا حکم نہیں کیا-

لیکن  بعض  شیعہ اور اہل سنت  نے وسیلہ کو جائز قرار دے دیا ہے کہ  الإِمام یا نبی کی ذات کا وسیلہ لیا جا سکتا ہے

راقم کی کتاب وسیلہ پر موجود ہے

[wpdm_package id=’8853′]

وہ الشعری کا رب ہے

احادیث صحیحیہ کے مطابق مشرکین مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طنزیہ نام   ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ  رکھا ہوا تھا – یہ نام  أَبِي كَبْشَةَ پر اس لئے لیا گیا تھا کیونکہ  أَبِي كَبْشَةَ  الشعری کا پجاری تھا اوربت پرستی کے خلاف تھا –  مشرکین مکہ دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بت پرست  کے مخالف کے طور پر جانتے تھے لہذا ان کو لگا کہ یہ دونوں اپس میں ملے ہوئے ہیں یا کم از کم متاثر ضرور ہیں

قال الفرزدق:

وأوقدت الشعرى مع الليل نارَها     وأضحت محولاً جلدها يتوسّف

الفرزدق  شاعر  نے کہا  

اور الشعرى  کی اگ سے   شب روشن ہوئی

العبور بھی الشعرى   کا ہی نام ہے جس کا انگریزی میں نام

Sirius

ہے – عرب  مشرکوں   میں  الشعرى العَبُور کوپوجا جاتا تھا جس کو بعض اوقات الشعرى  الیمانیہ بھی کہا جاتا تھا اور علم فلکیات  جو عربوں میں ہے اس کے مطابق   الشعرى کو اورائیان

Orion

سے ملا کر  ایک کتے کی شکل دی گئی تھی

 غریب الحدیث  از إبراهيم بن إسحاق الحربي أبو إسحاق  میں ہے

وَالشِّعْرَى: كَوْكَبٌ يَتْلُو الْجَوْزَاءَ , وَهِيَ الشِّعْرَى الْعَبُورُ

اور الشعرى   یہ الْجَوْزَاءَ کا تارا ہے اور یہی  الشِّعْرَى الْعَبُورُ ہے

لسان العرب از ابن منظور میں ہے

وأَما العَبور فَهِيَ مَعَ الجوْزاء تكونُ نيِّرةً، سُمّيت عَبوراً لأَنها عَبَرت المَجَرَّةَ

اور العبور یہ الجوْزاء کے ساتھ ایک کوکب ہے اس کو عبور کرنے والی کہتے ہوں کیونکہ یہ ملکی وے کو عبور کرتی  ہے

دیکھنے والی آنکھ کو لگتا ہے کہ الشعری  آسمان میں ملکی وے میں سے گزر رہا ہے

الشعریOrion

 

ابن الأئير في “النهاية” 4/144: كان المشركون ينسُبون النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلى أبي كبشة، وهو رجل من خُزاعة خالف قريشاً في عبادة الأوثان، وعَبَد الشعرى والعَبُور، فلما خالفَهم النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في عبادة الأوثان شبهوه به.

النہایہ میں ابن اثیر  نے لکھا ہے  مشرکین  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابی کبشہ سے نسبت دیتے جو بنو خُزاعة  کا ایک شخص تھا اور بتوں کی عبادت پر قریش کا مخالف تھا اور یہ الشعرى اور العَبُور  کا پجاری تھا- پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتوں کی مخالفت کی تو قریش  کو اس پر شبہ ہوا

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986 ) میں ہے

وقيل: إنه كان جد النبي صلى الله عليه وسلم من قبل أمه فأرادوا أنه نزع في الشبه إليه.

کہا جاتا ہے کہ یہ ابی کبشہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی والدہ  کے خاندان سے نانا تھا پس قریش نے ارادہ کیا کہ اس مشابہت پر نبی سے جھگڑا کریں

المجموع المغيث في غريبي القرآن والحديث از  محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبهاني المديني، أبو موسى (المتوفى: 581هـ) میں ہے

 وقيل: بل أَبُو كَبْشَة كُنيةُ زوجِ حَلِيمةَ حاضِنَةِ النّبىّ – صلى الله عليه وسلم

أَبُو كَبْشَة کہا جاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائی حلیمہ  کے شوہر کی کنیت تھی

صحیح بخاری میں ہے

ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی۔ انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ انہیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم)نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء وزراء امراء) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو (ابوسفیان کو)میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) حالات پوچھتا ہوں۔  …….. ۔ اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت سے) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغہ ہوا، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا (دیکھو تو)اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا

مکہ میں سورہ نجم سن کر سب مشرک سجدے میں چلے گئے کیونکہ اس میں یہ آیت تھی

وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى

اور  اللہ تعالی ہی الشِّعْرَى  کا رب ہے

اس وقت مشرک سورہ نجم کے  مضامین  سے اتفاق کررہے تھے کہ  اللہ تعالی ہی آسمان و زمین کو کنٹرول کر رہا ہے اور وہ واقعی فرشتوں کو  اللہ کی شفاعت کی بنا پر پکار رہے ہیں اور یہ التباس بھی دور ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ طور پر ابی کبشہ سے ملے ہوئے ہیں بلکہ ان کے نزدیک الشعری تو مخلوق ہے    – لیکن بعد میں مشرکوں کو احساس ہوا کہ ان کی مکہ پر اجارہ داری کا کوئی جواز ہی نہیں رہے گا اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مان لیں

راقم سمجھتا ہے کہ ابی کبشہ   الروحانیت یا الصابئة میں سے کسی مذھب پر تھا اور یہی قدیم مصریوں کا مذھب تھا

 الشهرستاني (المتوفى: 548هـ) نے کتاب الملل و النحل میں الروحانيات کے نام سے  ایک دین کا ذکر کیا ہے جو یونانی و عرب مشرکوں میں مروج تھا – یہ عناصر کی اور اجرام فلکی میں سات کی پوجا کرتے اور ان کے ہیکل تعمیر کرتے تھے – ان میں اور حنفاء عرب میں اختلاف تھا – دونوں اگرچہ  بت پرستی کے خلاف تھے لیکن حنفاء کے نزدیک روحانیت والے بھی گمراہ تھے اور مشرکین عرب بھی
الروحانيات والوں کے نزدیک تمام اجرام فلکی کے اندر روح ہے اور ہر وہ چیز جو آسمان سے زمین پر آئے اس میں بھی روح ہے یہاں تک کہ بارش ، قوس قزح، بجلی کی کڑک ، برق ، ملکی وے وغیرہ تک کے لئے یہ ہیکل بناتے تھے – یہ هرمس: شيث، وإدريس عليهما السلام کے وجود کے قائل تھے – روحانیت والے اگرچہ بت نہیں تراشتے تھے لیکن اجرام و عناصر کے لیے ہیکل بناتے تھے
الشهرستاني نے ان کا شمار عبدة الكواكب ستارہ پرستوں میں کیا ہے – ان کے نزدیک جسم انسانی بھی ہیکل کی مانند  ہے کہ وكأن أعضاءنا السبعة هياكله ہمارے أعضاء سات ہیکل  ہیں یا جسم انسانی ایک ٹیمپل ہے جس میں آسمانی ستارہ کی روح اتی ہے
الصابئة بھی اسی قسم کے کسی عقیدے پر تھے الشهرستاني نے ذکر کیا کہ ان کے نزدیک
وهيكل زحل مسدس، وهيكل المشتري مثلث، وهيكل المريخ مربع مستطيل، وهيكل الشمس مربع، وهيكل الزهرة مثلث في جوف مربع، وهيكل عطارد مثلث في جوفه مربع مستطيل، وهيكل القمر مثمن.

زحل کا ہیکل مسدس ہو گا یعنی چھ دیوار والا
مشتری کا تین دیوار والا مثلث
مریخ کا مستطیل
سورج کا چوکور
زہرہ کا بیچ میں مثلث لیکن نیچے سے مربع
عطارد کا بیچ میں مثلث اور مربع و مستطیل ہو گا
چاند کا ہیکل آٹھ دیوار والا ہو گا

حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى : 911هـ) میں مصر کے اہرام کی خبر ہے کہ

والقبط تزعم أنهما والهرم الصغير الملون قبور، فالهرم الشرقي فيه سوريد الملك، وفي الهرم الغربي أخوه هرجيب، والهرم الملون فيه أفريبون (1) ابن هرجيب.
والصائبة تزعم أن أحدهما قبر شيث، والآخر قبر هرمس، والملون قبر صاب بن هرمس؛ وإليه تنسب الصابئة، وهم يحجون إليها، ويذبحون عندها الديكة والعجول السود، ويبخرون بدخن. ولما فتحه المأمون، فتح إلى زلاقة ضيقة من الحجر الصوان الأسود الذي لا يعمل فيه الحديد، بين حاجزين ملتصقين بالحائط، قد نقر في الزلاقة حفر يتمسك الصاعد بتلك الحفر، ويستعين بها على المشي في الزلاقة لئلا يزاق، وأسفل الزلاقة بئر عظيمة بعيدة القعر. ويقال: إن أسفل البئر أبواب يدخل منها إلى مواضع كثيرة، وبيوت ومخادع وعجائب، وانتهت بهم الزلاقة إلى موضع مربع في وسطه حوض من حجر جلد مغطى، فلما كشف عنه غطاؤه لم يوجد فيه إلا رمة بالية.

قبطییوں کا دعوی ہے کہ اہرام مصر قبریں ہیں پس جو مشرقی طرف ہے یہ شاہ سورید کی ہے اور غربی اس کے بھائی هرجيب کی قبر ہے اور رنگ ولا ہرم فريبون ابن هرجيب کی قبر ہے اور الصائبة کا دعوی ہے کہ ایک ان میں سے شیث کی قبر ہے اور دوسری ہرمس کی اور رنگ والے میں صاب بن ہرمس کی قبر ہے – اور اس سے ہی الصائبة منسوب ہیں یہ وہاں حاجت مانگتے ہیں وہاں کالے بچھڑے اور مرغیاں ذبح کرتے ہیں اور دھونی دیتے ہیں پس جب مامون نے اس کو کھولا تو اس میں پھسلاو تک چلا گیا وہاں کالے پتھر تھے جن پر لوہا کا عمل نہ ہوتا تھا .. اور جب وہاں اس کے وسط میں آئے تو ایک حوض ملا جو ڈھکا ہوا تھا اس کو کھولا تو اس میں سوائے گلی سڑی رسی کچھ نہ تھا

اہرام مصر کا تعلق شیث سے تھا اور الصائبة وہاں پوجا کرتے تھے

بعد حج زیارت قبر النبی علیہ السلام

حج کے بعد  قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر زیارت کے لئے  جانا امت میں ایک اختلافی مسئلہ رہا ہے –  اس میں صواب رائے یہ ہے کہ اس کا ارکان حج سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی حکم نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے بلکہ اس کی بیشتر روایات عباسی دور خلافت کی ایجاد و گھرنٹ ہیں

کتاب الموضوعات (گھڑی ہوئی احادیث ) از ابن الجوزي (المتوفى: 597هـ)، بَاب ذمّ من حج وَلم يزر رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب کہ اس کی  قَدْح  کا ذکر جس نے حج کیا اور زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ کی میں ہے

أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الْبَزَّارُ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ على عَن الدَّارقطني عَن أبي حَاتِم بن حبَان حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ شِبْلٍ حَدَّثَنِي جَدِّي عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: ” من حَجَّ الْبَيْتَ وَلَمْ يَزُرْنِي فَقَدْ جَفَانِي “.

مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ شِبْلٍ نے اپنے دادا سے انہوں نے امام مالک سے انہوں بے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے روایت کیا کہ قال رسول اللہ : جس نے حج بیت اللہ کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ سے روگردانی و جفا کی

قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: ” النُّعْمَان يَأْتِي عَن الثقاة بالطامات.
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ: الطعْن فِي هَذَا الحَدِيث من مُحَمَّد بْن مُحَمَّد لَا من النُّعْمَان.

الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي از شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ) میں ہے
فالذي حكيناه من كلام الدارقطني هو الإنكار لا التضعيف، فيحصل من هذا إبطال الحكم عليه بالوضع،
جو کلام دارقطنی کا اس راوی پر نقل کیا گیا ہے وہ انکار اس کو ضعیف کہنے پر نہیں بلکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ گھڑتا ہے

ابن حجر نے لسان المیزان میں ذکر کیا کہ دارقطنی نے اس کا ذکر حدیث منکر کے طور پر کیا ہے

وقال ابن حجر: وقد أخرج الدَّارَقُطْنِيّ في «غرائب مالك» أحاديث من طريق ابن شبل محمد بن محمد بن النعمان بن شبل البصرى حدثنا جدي، حدثنا مالك، واستنكرها.
اس کی حدیث کا انکار کیا جاتا ہے

راقم کہتا ہے ایسا راوی جو مسلسل منکرات بیان کرتا ہو اس کا درجہ منکر الحدیث کا ہو جاتا ہے اور یہاں محمد بن محمد بن نعمان کا یہی حال ہے

عثمانی صاحب نے یہ  مزار  یہ میلے  میں ذکر کیا
امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں عثمانی صاحب کے تسامحات کو کذب کی صورت بیان کیا گیا ہے
امین صاحب اپنی تحقیق میں  ذکر کرتے ہیں

راقم  کہتا ہے یہاں حوالہ غلط ہے جو عثمانی صاحب نے دیا البتہ جو جرح نقل کی وہ جھوٹ ہرگز نہیں لہذا اس تسامح  کو  جھوٹ نہیں کہا جا سکتا

کتاب الموضوعات از ابن الجوزي (المتوفى: 597هـ)، میں ہے

أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الرَّزَّازُ قَالَ أَنبأَنَا مُحَمَّد بن عبد الله الشَّافِعِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا عبد الملك بْنُ قُرَيْبٍ الأَصْمَعِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” من صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا وَكَّلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَّل مَلَكًا يُبْلِغُنِي وَكُفِيَ أَمْرَ دُنْيَاهُ وَآخِرَتِهِ وَكُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا “.
هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَان هُوَ السدى.
قَالَ يَحْيَى: لَيْسَ بِثِقَةٍ.
وَقَالَ ابْن نمير: كَذَّاب.
وَقَالَ السَّعْدِيّ: ذَاهِب.
وَقَالَ النَّسَائِيُّ: مَتْرُوكٌ.
وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: لَا يَحِلُّ كَتْبُ حَدِيثِهِ إِلا اعْتِبَارا.
قَالَ الْعقيلِيّ: لَا أصل لهَذَا الحَدِيث من حَدِيث الْأَعْمَش وَلَيْسَ بِمَحْفُوظ.

محمد بن یونس بن موسی نے عبد الملک بن قریب سے روایت کیا اس نے مروان سے اس نے اعمش سے اس نے ابو صالح سے اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے میری قبر کے پاس درود پڑھا وہ میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا تو اللہ اس پر ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے جو اس کو مجھ تک لاتا ہے اور اس کے لئے دنیا و آخرت کا کام کافی ہو جاتا ہے اور میں اس پر گواہ ہو جاتا ہوں اور شفاعت کرنے والا
ابن جوزی نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں اور محمد بن مروان السدی ہے – یحیی نے کہا ثقہ نہیں ہے ابن نمیر نے کذاب کہا ہے اور جوزجانی نے ذاھب اور نسانی نے متروک قرار دیا ہے اور ابن حبان نے کہا اس کی حدیث حلال نہیں سوائے یہ کہ اعتبار کے لئے لکھی جائے
عقیلی نے کہا اس کی حدیث کی اصل نہیں ہے اور اس کی حدیث اعمش سے غیر محفوظ ہے

عثمانی صاحب  نے روایت پیش کی اور تبصرہ کیا

 

امین اکاڑوی کہتے ہیں

 

یہاں محمد بن یونس بن موسی اپنے دادا سے منسوب ہے لہذا نام محمد بن موسی لیا جاتا ہے – جیسے امام احمد بن حنبل میں حنبل دادا کا نام ہے باپ  کا نام نہیں ہے  – میزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی  میں موجود ہے

قال ابن عدي: قد اتهم الكديمى بالوضع.
وقال ابن حبان: لعله قد وضع أكثر من ألف حديث.
وقال ابن عدي: ادعى الرواية عمن لم يرهم، ترك عامة مشايخنا الرواية عنه.
وقال أبو عبيد الآجرى: رأيت أبا داود يطلق في الكديمى الكذب، وكذا كذبه موسى بن هارون، والقاسم (1) المطرز.

ابن عدی نے کہا اس پر کذب کا الزام ہے

ابن حبان نے کہا اس نے ہزار احادیث گھڑی ہیں

یہ سب میزان از الذھبی میں موجود ہے – امین صاحب کو خود یہاں تسامح ہوا ہے

 

عثمانی صاحب نے یہ مزاریہ میلے میں  ذکر کیا

عثمانی صاحب نے الموضوعات ابن جوزی کے اقتباس کو میزان الاعتدال از الذھبی بنا دیا ہے جو ممکن ہے کتابت کی

غلطی ہو – بہر حال یہ سب جروح ثابت ہیں

میزان از الذھبی میں ہے

محمد بن مروان السدى الكوفي، وهو السدى الصغير.
يروي عن هشام بن عروة والأعمش.
تركوه واتهمه بعضهم بالكذب.

اس کو ترک کر دیا گیا ہے اور بعض نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے

تہذیب الکمال میں ہے وَقَال النَّسَائي : متروك الحديث.
قال عبد السلام (1) بن عاصم عن جرير بن عبد الحميد: كذاب.

امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں عثمانی صاحب کے تسامحات کو کذب کی صورت بیان کیا گیا ہے
امین صاحب اپنی تحقیق عمیق کا ذکر کرتے ہیں

راقم  کہتا ہے عدل و انصاف یہ ہے عثمانی صاحب سے ایک ادھ حوالہ میں غلطی ہوئی ان کا حوالہ درست نہیں تھا  لیکن امین صاحب کی غلطی اس سے بڑھ کر ہے کہ انہوں نے سرے سے ہی ان حوالوں کو کذب کہہ دیا جبکہ یہ حوالے مختلف کتب سے معلوم ہیں اور خود میزان از الذھبی میں بعض  موجود ہیں

عثمانی صاحب نے روایت پیش کی اور تبصرہ کیا

 

امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں اس پر تنقید کی کہ

راقم کہتا ہے حفص بن سليمان الأسدي کا حدیث میں متروک ہونا مشہور و معروف ہے  اور اس کی بنا پر کوئی اس کی حدیث نہیں لیتا اور نہ محدث پر تنقید کرتا ہے کہ وہ قاری قرآن پر جرح کیوں کر رہا ہے مثلا امام احمد کا قول ہے کہ حفص بن سليمان الأسدي متروک ہے

قرآن کی قرات کئی سندوں سے معلوم ہے حفص بن سليمان الأسدي کے متروک ہونے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا

ابن عدی  الکامل میں کہتے ہیں امام بخاری کاقول ہے

سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ حفص بن سليمان تركوه.

حفص متروک ہے

وقال بن خراش كذاب متروك يضع الحديث

شیعوں میں بھی یہ متروک ہے کتاب أصحاب الامام الصادق  از  عبد الحسين الشبستري  میں ہے

حفص ابن أبي داود سليمان بن المغيرة الأسدي بالولاء، الغاضري، وقيل الفاخري، البزاز، الكوفي، المعروف بحفيص. محدث إمامي مجهول الحال، وقيل من الحسان، وبعض العامة ضعفوا حديثه وتركوه. كان كوفيا نزل بغداد، وجاور مكة المكرمة. كان مقرئا مشهورا، قاضيا، وكان قارئ الكوفة وقاضيها، وأعلم أصحاب عاصم بن بهدلة القارئ بقراءته.

اب اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ہوں دونوں اس کو قرآن کا قاری کہتے ہیں اور متروک بھی قرار دیتے ہیں  تو یہ ترک حدیث میں ہے قرآن میں نہیں ہے کیونکہ قرآن  کی آیات تواتر سے معلوم ہیں – اختلاف  قرات  میں اکثر  اختلاف اشکال و اعراب پر ہوتا ہے یا لحن پر جو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے – مسئلہ اس وقت آتا جب حفص  قرآن میں آیات کا اضافہ کرتا

زیارت قبر نبوی پر امت کا اجماع کہا جاتا ہے کہ امت کا ساتویں صدی تک اس پر اجماع تھا کہ قبر النبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی جائے گی – قاضی عیاض اس کا دعوی کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى میں کرتے ہیں

وَزِيَارَةُ قَبْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ الْمُسْلِمِينَ مُجْمَعٌ عَلَيْهَا، وَفَضِيلَةٌ مُرَغَّبٌ فيها.

اور قبر صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی زیارت کرنا مسلمانوں میں سنت میں سے ایک سنت ہے اس پریہ جمع ہیں اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں

ملا علی القاری شرح الشفا میں کہتے ہیں

زيارة قبره عليه ألسلام سنة من سنن المسلمين مجمع عليها أي مجتمع علي كونها سنة و فضيلة مرغب فيها

قبر نبوی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت مسلمانوں کی سنت میں سے ایک ہے اس پر جمع ہیں یعنی اس پر اجتماع ہے کہ یہ سنت ہے اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں

لیکن آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ اس اجماع کے انکاری تھے اور انہوں نے اس پر کتاب تصنیف کی کہ زیارت قبر نبوی  کی غرض سے کیا جانے والا سفر بدعت ہے

ابن تیمیہ کو اس بنا پر بدعتی قرار دیا جاتا ہے

سوال ہے کہ  قبر النبی کے پاس پہنچنے پر مومن کیا کرے گا ؟  اس کا جواب اثر میں موجود ہے کہ وہ  ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کر سکتا ہے

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني میں ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عبد الله بن دینار المتوفی ١٢٧ ھ نے کہا کہ ابن عمر جب سفر کا ارادہ کرتے اور سفر سے اتے تو قبر نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتے اور وہاں درود پڑھتے اور دعا کرتے پھر جاتے

امام محمد نے کہا : اس طرح  یہ ہونا چاہیے کہ  جب وہ مدینہ جاتے ہوں کہ قبر نبی صلی الله علیہ وسلم پر آتے ہوں 

یعنی مومن  درود ابراہیمی  پڑھ سکتا ہے  اور اس کا مقصد اللہ سے دعا کرنا ہو گا نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنانا کیونکہ انبیاء   اب جنت میں ہیں قبروں میں نہیں  ہیں

کیا انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ؟ امین اکاڑوی  لکھتے ہیں

راقم کہتا ہے اس حدیث کو  متواتر کہنا  انصاف کا قتل ہے اس کی سند میں کیا تیس تیس اصحاب کا ایک ہی دور میں اتفاق رہا ہے جوایک شہر کے نہ ہوں اور یہ  معلوم تواتر کی تعریف ہے – لیکن اس میں اہل عراق کا تفرد ہے – اس کا راوی حجاج مجہول الحال ہے اور پھر راوی  مستلم ہے جو شہر  واسط  کا جوگی ہے جو پانی کو اپنے اوپر حرام کر لیتا تھا

اس حالت میں اس کے ذہن میں جو امنڈتا ہو گا اسی کو حدیث بنا دیتا ہو گا – پانی سے چالیس دن دور رہنا ہندوؤں جوگیوں میں معروف عمل ہے لیکن اطبا اسلام نے اس کو جسم پر ظلم کہا ہے اور جسم پر ظلم کرنا  حرام ہے – اس قسم کے بدعتییوں کی روایت قابل قبول نہیں ہے – پھر کیا شہداء کے لئے کوئی نص ہے کہ وہ دنیا میں ہی زندہ ہیں ؟ زندگی تو جنت سے شروع  ہوئی زمین سے نہیں اور اسی میں لوٹنا اصل  نعمت ہے

 

کراچی کا عثمانی مذھب

تبصرہ    کتاب

نام :     کراچی  کا  عثمانی  مذھب   اور  اس کی حقیقت      از     خواجہ  قاسم

تبصرہ  نگار     :  ابو  شہر یار

تبصرہ در کتاب  کراچی کا عثمانی مذھب 

ایک متعصب  تحریر  پڑھنے  کو ملی جو  ایک  آنجہانی  اہل حدیث عالم کی تھی –  کتاب کا ٹائٹل ہی عصبیت    پر منبی تھا  اور    عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی دعوت توحید کو کراچی  کا مذھب   کہہ کر بھپتی کسی  گئی  تھی – بہر حال   یہ    کتاب     خواجہ محمد قاسم  غیر مقلد کی    تحریر کردہ  تھی   جس کا     عنوان  تھا  کراچی کا عثمانی مذھب –افسوس تحریرغیر سنجیدہ اور عامیانہ تھی – حیرت ہے کہ علمی تحقیق سے عاری اس کتاب کو پبلشر نے چھاپ بھی دیا چونکہ  یہ  مولویانہ  دھندا کا حصہ ہے کہ دین کو کوڑی  کے مول بیچا  جائے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کے مخالفین میں متصادم عقائد رکھنے والے علماء تھے جو سب اپنے آپ کو اہل حدیث تو کہتے تھے لیکن ایک دوسرے کا ہی رد اپنی کتابوں میں لکھ کر آنجہانی ہوئے۔اس کلب میں خواجہ قاسم کے ساتھ ساتھ عبد الرحمان کیلانی   ، اٹک کے    زبیر علی زئی   اور کیماڑی  کے   ابو جابر دامانوی بھی شامل تھے ۔

عبد الرحمان کیلانی کہتے تھے  کہ عود روح بار بار ہوتا ہے- ابو جابر دامانوی ہر دو گھنٹے بعد عود روح پر نیا عقیدہ پیش کرتے  تھے  – خواجہ قاسم کہتے تھے     ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ امتی کے سلام پر روح النبی واپس جسم میں آتی ہے ضعیف ہے-    زبیر علی زئی، عثمانی صاحب کے دور میں ان روایات کو صحیح کہتے   تھے    لیکن مرنے سے پہلے انہوں   نے  انٹرویو میں حیات النبی سے متعلق روایات کو ضعیف قرار دیا-  بہر حال ان تضادات کے ساتھ جو لوگ اس کلب میں جاتے اور حظ منکر یعنی دلچسپی لیتے وہ، وہ تھے جو فتنہ اتباع الطاغوت کا شکار تھے

 ایک مختصر تبصرہ خواجہ قاسم کے افکار پر پیش خدمت ہے

کتاب جنات 

[wpdm_package id=’8964′]

[wpdm_package id=’8852′]

اس کتاب  میں جنات  و شیاطین  سے متعلق  روایات  کو یکجا  کیا گیا ہے – عوام  الناس    میں  جنات ، قرین ، ہمزاد    وغیرہ   کے نام سے ان کو    جانا جاتا ہے –   جنات کو قبضہ  میں کرنے  کا پیر   و فقیر    دعوی  بھی  کرتے ہیں –

جن    ایک  وقت   تھا   ،    جب  زمین سے جنت         تک  چلے جاتے تھے   جیسا  قرآن میں ہے   کہ سرکشی  پر ابلیس  کو  حکم  دیا گیا     اخرج  منها    یعنی   نکل   یہاں سے –   مہلت  ملنے   کے بعد   بھی     ابلیس   کو      واپس جنت  میں داخل   ہونے دیا گیا  تاکہ آدم و حوا علیھما السلام  کو بہکا سکے   کیونکہ یہ وعدہ الہی کی عملی شکل تھا –   اس کے بعد  جب آدم ، حوا  اور ابلیس   کو زمین پر بھیج دیا گیا   تو   اب  شیاطین   پر پابندی  ہے کہ وہ آسمان  اول  تک  بھی جا سکیں –  اب یہ  شیاطین  ،       کاہنوں کی مدد کرنے   آسمان پر جاتے   ضرور   ہیں  تاکہ  کچھ سن لیں   لیکن  یہ   رسائی    آسمان  اول  نہیں ہوتی     بلکہ اس سے بہت نیچے کا کوئی مقام ہوتا ہے   –  سورہ الرحمن  آیت  ٣٣ میں ذکر ہے کہ  زمین کے گرد  ا قطار  الارض  ہے  جس کو پار کرنا  جنات  کے بس و قوت میں نہیں     –    لہذا  جب  جنات   ان   ا قطار  الارض   کے پاس پھٹکتے   ہیں تو     فرشتے  ان کو     دیکھ  کر  ان  پر     شہاب  ثاقب       پھینکتے   ہیں –   دور نبوی  میں   اس  پہرہ  کو   شدید  سخت کر دیا گیا   تاکہ  جنات،   فرشتوں کی  کوئی سن گن نہ  لے سکیں – کاہنوں   کا دھندہ  ٹھپ  ہو گیا  اور   جنات  میں سراسیمگی  پھیل  گئی کہ زمین  پر  شاید   کوئی   بڑا عذاب  آنے  والا ہے   یہاں تک کہ سورہ الجن میں خبر ہے کہ جنوں نے قرآن سنا تو ان کو معاملہ سمجھ آیا –

اس کتاب  میں آپ کو   جنات  پر      بعض     عجیب و غریب روایات  پڑھنے کو ملیں گی  جن کو علماء  کتب میں لکھ  کر سند جواز  دے دیتے ہیں  یا تصحیح  کر بیٹھے  ہیں  –قرآن و  حدیث سے سحر  اور کہانت  کا وجود  ثابت  ہے   ، جس میں شیاطین  کے ذریعہ   اس  ممنوعہ  عمل کو کیا جاتا ہے –     لیکن  جہاں تک ان  باتوں   کا تعلق  ہے کہ جنات   انسان کو اغوا  کرتے ہیں ، قتل  کرتے ہیں ، شکل و ہیت بدلتے   ہیں    ،  انسان پر بیماری  نازل    کرتے ہیں، چوریاں  کرتے ہیں ، انسان سے زنا کرتے ہیں ،    تو    ان   کے دلائل   بہت بودے   ہیں-

   یہودی و نصرانی       ادیان  میں ابلیس کو سانپ     بھی  کہا   گیا ہے-  یہود   کا قول ہے کہ   شیطان   ایک فرشتہ  ہے –  نصرانییوں    کا قول  ہے کہ  شیطان  انسانی و حیوانی جسم میں چلا جاتا ہے   –  البتہ   اسلام   میں ان مفروضات کی کوئی گنجائش  نہیں ہے  –  راقم  کی ایک تصنیف     بعنوان   آسیب   چڑھنا    اس  ویب  پر موجود ہے – ڈریگن    (یعنی    اڑتے  سانپ )  کو دنیا  میں بہت سے مقام پر پوجا جاتا تھا   اور اس کو   مثبت    انداز  میں    فلموں میں  دکھایا   جاتا ہے – آج   بھی     مشرک  قوموں میں سانپوں  کی پوجا   ہوتی   ہے   – یہاں تک کہ ازمنہ  قدیم   میں      فراعنہ  مصر   کے سر   پر تاج  میں بھی سانپ   کی شکل موجود  تھی -قابل  غور ہے کہ موسی  علیہ  السلام   کا عصا    بھی  ایک سانپ   کی صورت لیتا تھا    اور   اللہ   کی نشانی  تھا   -یعنی   اللہ تعالی   نے ظاہر   کیا کہ  اس کی   مخلوقات    ،    اس کی ہی  مطیع   ہیں – تفسیری  کتب  میں اسرائیلات   کی وجہ سے  یہ بات مشہور ہو  گئی   ہے کہ   آدم علیہ  السلام کو  ایک سانپ  نے  بہکایا  اور ابلیس   ، سانپ کی شکل میں ان کے پاس  آیا – یہ  خبر  منکر ہے   –

بہت سے علماء  بد روحوں کے قائل  ہیں  مثلا سلفی  عالم   عبد الرحمان  کیلانی-  اسی طرح ایک کثیر   تعداد  آسیب چڑھنے اور جنات  سوار  ہو جانے کا عقیدہ رکھتی ہے – یہ سب  منکرات   عقائد  ہیں  – راقم کی ایک مکمل  تصنیف   اس عقیدہ کے رد  میں پہلے سے موجود ہے

اللہ  ہم سب کو ہدایت دے امین

ابو   شہر یار

٢٠١٩

روح، زندگی، نیند، بے ہوشی

اللہ تعالی نے تخلیق آدم علیہ السلام سے قبل تمام انسانوں کی ارواح کو تخلیق کیا – اور اس وقت یہ ارواح تمام زندگی رکھتی تھیں – دوسری طرف مٹی جس میں کوئی جان نہیں تھی اس سے آدم کا پتلا بنایا جا رہا تھا – آدم ایک بے جان صورت خلق ہو رہے تھے – ابھی ان میں نہ تو زندگی تھی نہ کوئی حرکت تھی نہ دل دھڑکتا تھا نہ سانس تھی – پھر ( بمطابق سوره الحجر ) اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ
جب میں اس (پتلے) کو متناسب کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونکوں تم سجدے میں گر جانا

پتلا یا جسد آدم بے جان حالت میں تھا اور ملائکہ اس لمحہ کا انتظار کر رہے تھے جب نمسہ یا روح آدم میں داخل ہو – جیسے ہی روح آدم میں داخل ہوئی آدم کا پتلا سانس لینے لگا وہ پتلا ایک متنفس بن گیا

اس سانس کو لینا تھا کہ تمام آسمان کے فرشتے آدم کے لئے سجدہ میں گر گئے

اس طرح تخلیق انسانی کا آغاز ہوا اب آدم میں جانے والی روح کو نفس بھی کہا جا سکتا تھا کیونکہ اس سے عمل تنفس جاری ہوا

روح کے اس طرح تین نام ابراہیمی ادیان میں ہیں

روح
نسمہ یعنی  جو ہوا کی مانند ہو
نفس یعنی جس سے سانس کا عمل جاری ہو

انسان کی ارواح عالم بالا میں ابھی بھی  ایک ساتھ ہیں حدیث میں ہے

صحيح البخاري بَابٌ: الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ
الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ
روحیں لشکروں کی طرح ہیں جہاں ایک دوسری کو پہچانتی ہیں جس سے التفات کریں اس سے ان کا (زمین پر) تعارف باقی رہتا ہے اور جس سے التفات نہ کریں ان سے (زمین پر ) دور ہو جاتی ہیں

اس طرح یہ اروح کا لشکر کوئی جامد لشکر نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے پر سے گزرتی ہیں اور  معلوم ہوا کہ ان ارواح میں شعور ہے – اس کے برعکس جن  جسموں میں یہ جاتی ہیں وہ  بے شعور ہوتے ہیں  اور روح نکلنے کی صورت اسی حالت پر لوٹ جاتے ہیں

اس لشکرارواح  میں سے پیدا ہونے والی روحوں  کو لیا جاتا ہے اور یہ اس لشکر سے مکمل جدا ہو کر سات آسمان نیچے زمین پر رحم مادر میں لے آئی جاتی ہیں

روح کا اولاد آدم میں آنا

انسانی زندگی شروع ہوئی اور اب اولاد آدم کی باری تھی – آدم علیہ السلام کے جسم سے نطفہ نکلا اور حوا علیہ السلام کے رحم میں گیا – وہاں یہ نطفہ بلا روح تھا – اس میں زندگی ایک جرثومہ والی تھی لیکن روح نہیں تھی
حدیث میں اس کی تفصیل ہے کہ رحم مادر میں ٦ ہفتوں میں (٤٢ دن بعد) منی کی آمد کے بعد دل دھڑکنا شروع ہوتا ہے – اس کو آٹھویں ہفتے سے سنا جا سکتا ہے

حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جب نطفے پر ٤٢ راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتاہے جو اس کی صورت،کان ،آنکھ کھال
گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے پھر عرض کر تاہے اے رب یہ مرد ہے یا عورت ؟ پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ حکم ہوتا ہے – فرشتہ لکھ دیتاہے ،پھر عرض کرتاہے ، اے رب اس کی عمر کیاہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتاہے حکم فرماتا ہے اورفرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتاہے کہ اے رب اس کی روزی کیا ہے ؟ پروردگار جو چاہتاہے وہ حکم فرما دیتا ہے اورفرشتہ لکھ دیتاہے – پھر فرشتہ وہ کتاب اپنے ہا تھ میں لے کر باہر نکلتاہے جس میں کسی بات کی نہ کمی ہوتی ہے اورنہ زیادتی ” ( صحیح مسلم باب القدر)

انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ یہ عرض کرتا رہتا ہے اے میرے (رب ابھی تک) یہ نطفہ (کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب
(اب)یہ علقہ (یعنی جمے ہوئے خون کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب) یہ مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کے مرحلے میں) ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ اس کی خلقت کو پورا کرنے کا ارادہ (ظاہر) کرتے ہیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب ( اس کے متعلق کیا حکم ہے) یہ مردہو گا یا عورت، بدبخت ہوگا یا نیک بخت، اس کا رزق کتنا ہوگا اور اس کی عمر کتنی ہوگی۔ تو ماں کے پیٹ میں ہی وہ فرشتہ یہ سب باتیں ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ جیسا اسے حکم دیا جاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق اور عمر لے کر پیدا ہو تا ہے ۔

مضغہ کی حالت (لغوی مفہوم چبایا ہوا مادہ) کے بعد ہی رحم مادر میں دل دھڑکتا ہے – گویا یہ اب ایک بت بن چکا ہوتا ہے جس میں روح اتی ہے – بیالیس دن بعد فرشتہ کا آنا اور اسی پر دل کی دھڑکن کا سنا جانا ایک بات ہے اس طرح حدیث اور سائنس ایک ہی بات کہتے ہیں

نوٹ صحیح بخاری کی ایک شاذ روایت میں ذکر ہے کہ رحم مادر میں ٤ ماہ بعد روح اتی ہے جو صحیح مسلم کی صحیح روایت سے متصادم ہے – یہ روایت ابن مسعود سے منسوب ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ  اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ  الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں  کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے …. (صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

لیکن طحاوی نے کہا یہ بات ابن مسعود کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتائی ہو گی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس طرح اولاد آدم میں چلا آ رہا ہے کہ ٤٢ دن بعد روح اتی ہے سائنس کہتی ہے کہ انسانی دل پھر دھڑکتا ہے

روح انسانی جسم میں اب موت تک رہتی ہے اس سے نکل نہیں سکتی – اس کو نکالنا بھی فرشتوں کا عمل ہے جس طرح اس کو جسم میں ڈالنا فرشتوں کا عمل تھا

موت پر روح کا جسم سے اخراج  

قرآن میں ہے

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ
حتی کہ ان جب موت ان کو اتی ہے تو ان کو ہمارے فرشتے جکرٹتے ہیں اور وہ چوکتے نہیں ہیں

توفی کا مطلب قبضہ میں لینا جکڑنا، مضبوطی سے پکڑنا ہے – یہ لفظ مجازا موت پر بولا جاتا ہے کہ فلاں کی وفات ہو گئی یعنی موت آ گئی

سوره الانعام
کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنا نفس  آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى
الله پورا قبضے میں لیتا ہے نفس کو موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نفس نیند کے وقت پس پکڑ کے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کا حکم لگاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو اک وقت مقرر تک کے لئے

اللہ اس روح کو پکڑے یا روکے رکھتا ہے جس پر موت کا حکم کرتا ہے یعنی اس کو اب جسم میں واپس نہیں چھوڑا جاتا

اسی بنا پر جسم گل سڑ جاتا ہے – قرآن کہتا ہے
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ
بلا شبہ ہم جانتے ہیں جو زمین ان کے جسموں میں سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس محفوظ کتاب ہے

سنن ابن ماجہ میں ہے

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ،‏‏‏‏ حدثنا ابو معاوية ،‏‏‏‏ عن الاعمش ،‏‏‏‏ عن ابي صالح ،‏‏‏‏ عن ابي هريرة ،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ليس شيء من الإنسان إلا يبلى،‏‏‏‏ إلا عظما واحدا،‏‏‏‏ وهو عجب الذنب،‏‏‏‏ ومنه يركب الخلق يوم القيامة
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ عجب الذنب (ریڑھ کی آخری ہڈی) ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہو گی

روح کی عالم بالا میں واپسی کا سفر

موت کے بعد روح کو واپس جنت میں پہنچا دیا جاتا ہے

صحیح مسلم کی روایت ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
: عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو – ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

اس طرح روح کافر کی ہو یا مومن  کی  آسمان یا عالم بالا میں چلی جاتی ہے – اس حالت میں مومن کی روح جنت میں ایک عظیم درخت پر قیامت تک رہتی ہے

المنتخب من مسند عبد بن حميد میں ہے کہ کعب بن مالک أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، کہ جب ان کی وفات کا وقت تھا اور مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ مُبَشِّرٍ لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَهُوَ شَاكٍ: اقْرَأْ عَلَى ابْنِي السَّلَامَ، تَعْنِي مُبَشِّرًا، فَقَالَ: يَغْفِرُ اللهُ لَكِ يَا أُمَّ مُبَشِّرٍ، أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُسْلِمِ طَيْرٌ تَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ” قَالَتْ: صَدَقْتَ، فَأَسْتَغْفِرُ اللهَ
أم بشر بنت البراء بن معرور آئیں اور کعب سے کہا میرے (فوت شدہ) بیٹے کو سلام کہیے گا (یعنی جنت جب ملاقات ہو) اس پر کعب نے کہا الله تمہاری مغفرت کرے کیا تم نے سنا نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلم کی روح پرندہ ہے جنت کے درخت پر لٹکتی ہے یہاں تک کہ روز محشر الله اسکو اس کے جسد میں لوٹا دے ام مبشر نے کہا سچ کہا میں الله سے مغفرت طلب کرتی ہوں

نیند کی حالت

قرآن میں توفی کا لفظ نیند پر بھی بولا گیا ہے کہ اس میں قبض نفس ہوتا ہے – ساتھ ہی ہم کو معلوم ہے کہ نیند میں انسان سانس لیتا ہے ، بڑبڑاتا ہے ، اس کو پسینہ بھی اتا ہے – زندہ ہوتا ہے یعنی یہ عمل قبض وہ نہیں ہے جو عمل قبض موت پر ہوتا ہے

نیند میں قبض نفس جسم میں ہی ہوتا ہے اور روح کو جسم سے الگ نہیں کیا جاتا – جبکہ موت کے عمل میں روح کو جسم سے الگ کیا جاتا ہے تاکہ اسی پتلے والی حالت پر لوٹایا جاۓ جو آدم کی تھی – اسی بنا پر موت کے بعد جسم مٹی ہو جاتا ہے اور نیند
کے بعد ایسا نہیں ہوتا – نیند میں شعور رہتا ہے لیکن تحت شعور محدود ہو جاتا ہے – اسی شعور کی وجہ سے شور پر نیند والا بیدار ہو جاتا ہے

بے ہوشی کی حالت

بے ہوشی بھی نیند ہے لیکن گہری نیند ہے – انسان کا جسم ڈاکٹر اس حالت میں کاٹ بھی دے تو انسان کو خبر نہیں ہوتی – جسم اس عذاب کی کیفیت کو محسوس نہیں کر پاتا – اس دوران روح جسم میں ہی ہوتی ہے لیکن طبیب و ڈاکٹر کے عذاب کو
محسوس نہیں کر پاتی
نیند اور بے ہوشی میں کیا فرق ہے ؟ اس میں صرف شعور کا فرق ہے – نیند میں یادداشت رہتی ہے انسان خواب دیکھتا ہے جس میں اس کو اپنے رشتہ دار و احباب یا وہ لوگ نظر اتے ہیں جن سے اس کو ملاقات ہو یعنی دماغ میں شعور ابھی مکمل ختم نہیں ہوا ہوتا – نیند میں دماغ کا ایک حصہ مکمل کام کرتا ہے اور خواب بنتا ہے

بے ہوشی میں اس کے برعکس  یادداشت کو ختم کر دیا جاتا ہے  – ساتھ ہی  درد کا احساس بھی ختم کر دیا جاتا ہے

بے ہوشی اس طرح گہری نیند ہے جس میں تحت شعور بھی محدود ہو اور شعور بھی

نیند ہو یا بے ہوشی ہو ان دونوں میں روح جسم میں ہی محدود کی جاتی ہے جس کو جکڑنا یا قبض کرنا قرآن میں کہا گیا ہے

قبض کا عربی میں مطلب نہ نکالنا ہے نہ کھیچنا ہے بلکہ اس قبض کا متبادل لفظ انگریری میں
Sieze
کرنا ہے اور اردو میں جکڑنا ہے

زمین مسلسل اللہ کے عذاب میں ہے ؟ 

راقم کی اس تحریر پر ایک معترض نے کہا کہ زمین اللہ تعالی کا حکم مانتی ہے – اس کے پتھر خوف الہی سے گر جاتے ہیں یعنی مٹی میں شعور ہے اور معلوم ہوا کہ مٹی کو عذاب محسوس  ہوتا ہے – اس کا مدعا تھا کہ جسد انسانی خاک ہو  کر بھی عذاب پاتا ہے

راقم نے جوابا کہا کہ ہاں یہ اللہ نے خبر دی ہے کہ مٹی کو شعور ہے اور تمام عالم اس کو سجدہ کرتا ہے یہاں تک کہ کافر کے جسم کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کر رہا ہے لیکن کافر یہ نہیں کر رہا – اس طرح تمام عالم اللہ کا مطیع ہوا لیکن یہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے کہ اس زمین کو اللہ کا عذاب محسوس ہوتا ہے جب اللہ کافر پر عذاب نازل کرے یا اس زمین کی کوکھ کو لاوا سے بھر کر وہ زمین کو عذاب نہیں دے رہا بلکہ زمین میں اس نے خاصیت رکھی ہے کہ وہ اس درجہ حدت کو برداشت کرتی ہے اس کو عذاب نہیں کہتی
معلوم ہوا کہ زمین اور اس کی مٹی، اس کے پتھر اللہ کے وجود کا  شعور رکھتے ہیں  لیکن عذاب محسوس نہیں کرتے

اسی طرح درخت ہیں یہ حدیث میں ہے کہ رو سکتا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس خطبہ نہ دیا  یعنی درخت بھی شعور رکھتے ہیں – لیکن ہم کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کاٹنے کا حکم دیا

مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ ( 5 ) 

(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے

اگر درخت عذاب کو محسوس کرتے تو رسول رحمہ للعالمین ان کو کاٹنے کا حکم نہ کرتے

اسی بنا پر نووی کا قول ہے کہ بلا روح عذاب ممکن نہیں  اور انور شاہ کاشمیری کا قول ہے کہ عذاب جمادات کو نہیں ہوتا

مزید دیکھیں

موت و نیند پر اضطراب

حدیث الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ اور یزید

 

صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ الدُّعَاءِ بِالْجِهَادِ وَالشَّهَادَةِ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ) صحیح بخاری: کتاب: جہاد کا بیان

(باب : جہاد اور شہادت کے لئے مرد اور عورت دونوں کا دعاکرنا)

2788

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ  وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ – فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطْعَمَتْهُ وَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَمَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا البَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الأَسِرَّةِ، أَوْ: مِثْلَ المُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ ، شَكَّ إِسْحَاقُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهمْ، فَدَعَا  لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: وَمَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ» – كَمَا قَالَ فِي الأَوَّلِ – قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: «أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ»، فَرَكِبَتِ البَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ البَحْرِ، فَهَلَكَتْ

حکم : صحیح 2788

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا امام مالک سے‘ انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ( یہ انس کی خالہ تھیں جو عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں ) ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو انہوں نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں‘ اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے‘ جب بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے ۔ ام حرام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے  کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لئے سمندر کے بیچ میں سوار اس طرح جارہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پرہوتے ہیں یا جیسے بادشاہ تخت  رواں پر سوار ہوتے ہیں یہ شک اسحاق راوی کو تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کردے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےلئے دعا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سوگئے‘ اس مرتبہ بھی آپ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں غزوہ کے لئے جا رہے ہیں پہلے کی طرح‘ اس مرتبہ بھی فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے میرے لئے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہیں میں سے کردے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تو سب سے پہلی فوج میں شامل ہوگی ( جو بحری راستے سے جہاد کرے گی ) چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ام حرام رضی اللہ عنہ نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرادیا اوراسی حادثہ میں ان کی وفات ہوگئی

امام بخاری صحیح میں باب ما قيل في قتال الروم  میں روایت بیان کرتے ہیں کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ

 میری امّت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ) پر حملہ کرے گا وہ مغفور ہے

بخاری کے شا رح  الْمُهَلَّبُ  کہتے ہیں کہ

قَالَ الْمُهَلَّبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَنْقَبَةٌ لِمُعَاوِيَةَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا الْبَحْرَ وَمَنْقَبَةٌ لِوَلَدِهِ يَزِيدَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا مَدِينَةَ قَيْصَرَ – بحوا لہ فتح الباری از ابن الحجر

 الْمُهَلَّبُ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں منقبت ہے معاویہ کی کیونکہ ان کے دور میں بحری حملہ ہوا اور منقبت ہے ان کے بیٹے کی کہ انہوں نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا

اس کے برعکس ماہ نامہ الحدیث حضرو نمبر ٦ سن ٢٠٠٤ کے شمارے میں اہل حدیث عالم  حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ
سنن ابی داود کی ایک حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یزید والے حملے سے پہلے بھی قسطنطينية پر حملہ ہوا ہے جس میں جماعت (پورے لشکر ) کے امیر عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ تھے – چونکہ یہ حدیث ان لوگوں کے لئے زبردست رکاوٹ ہے جو ضرور بالضرور یزید کا بخشا بخشا یا ہونا ثابت کرنا چاہتے ہیں

مزید لکھتے ہیں کہ
خلاصہ تحقیق : یزید بن معاویہ کے بارے میں دو باتیں انتہائی اہم ہیں

١. قسطنطينية پر پہلے حملہ آور لشکر میں اسکا موجود ہونا ثابت نہیں

٢. یزید کے بارے میں سکوت کرنا چاہیے حدیث کی روایت میں وہ مجروح راوی ہے

ضروری ہے کہ تاریخی حقائق کو تسلیم کیا جائے اور کسی کو بھی اپنے بغض و عناد کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے لہذا اس بلاگ میں اس تاریخی مسئلہ پر بحث کی گئی ہے

أبو عمرو خليفة بن خياط  (المتوفى: 240هـ) اپنی کتاب تاريخ خليفة بن خياط میں لکھتے  ہیں کہ

كتب عُثْمَان إِلَى مُعَاوِيَة أَن يغزي بِلَاد الرّوم فَوجه يَزِيد بْن الْحر الْعَبْسِي ثمَّ عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد عَلَى الصائفتين جَمِيعًا ثمَّ عَزله وَولى سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي فَكَانَ سُفْيَان يخرج فِي الْبر ويستخلف عَلَى الْبَحْر جُنَادَة بْن أَبِي أُميَّة فَلم يزل كَذَلِكَ حَتَّى مَاتَ سُفْيَان فولى مُعَاوِيَة عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد ثمَّ ولى عبيد اللَّه بْن رَبَاح وشتى فِي أَرض الرّوم سنة سِتّ وَثَلَاثِينَ

عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں معاویہ رضی الله تعالیٰ عنہ  کو حکم لکھا کہ روم کے شہروں پر حملے کئے جائیں پس معاویہ نے توجہ کی يَزِيد بْن الْحر الْعَبْسِي  کی طرف  عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد  کی طرف  اور دونوں کو گرمیوں کے  موسم میں امیر مقرر کیا پھر ہٹا دیا اور سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي کو مقرر کیا – سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي کو بری جنگ پر اور بحری معرکے پر جُنَادَة بْن أَبِي أُميَّة  کو مقرر کیا اور ان کو معذول نہیں کیا حتیٰ کہ سفیان کی وفات ہوئی – اس کے بعد مُعَاوِيَة عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد کو مقرر کیا اور ان کے بعد عبيد اللَّه بْن رَبَاح  کو روم کے شہروں کے لئے مقرر کیا سن ٣٦  ھجری تک

الذهبي (المتوفى: 748هـ) اپنی کتاب  تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام  میں سن ٣٢  ھجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

سنة اثنتين وثلاثين:  فيها كانت وقعة المضيق بالقرب من قسطنطينية، وأميرها معاوية

سن ٣٢ ھجری : اور اس میں  المضيق  کا واقعہ ہوا جو قسطنطينية کے قریب  ہے ، اور اس کے امیر  معاوية تھے

المضيق اک استریت ہے اور اس سے مراد دردانیلیس ہے جو ایجین سمندر کو مرمرا سمندر سے ملاتا ہے اور اک تنگ سمندری گزر گاہ ہے

strait= استریت

Dardanelles= دردانیلیس

Aegean Sea=ایجین

Marmara= مرمرا

لیکن ان تمام معرکوں کے باوجود اسلامی لشکر الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ  نہیں پہنچ سکا

الذهبي (المتوفى: 748هـ) اپنی کتاب  تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام  میں سن ٥٠ ھجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

وَفِيهَا غَزْوَةُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ، كَانَ أَمِيرُ الْجَيْشِ إِلَيْهَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَكَانَ مَعَهُ وُجُوهُ النَّاسِ، وَمِمَّنْ كَانَ مَعَهُ أَبُو أيوب الأنصاري -رضي الله عنه

اور اس میں غَزْوَةُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ ہوا اور امیر لشکر عساکر یزید بن معاویہ تھے اور ان کے ساتھ لوگ تھے اور أَبُو أيوب الأنصاري -رضي الله عنه. بھی ساتھ تھے

  مزید تفصیل أبي زرعة الدمشقي (المتوفى: 281هـ) بتاتے ہیں کہ

أبي زرعة الدمشقي (المتوفى: 281هـ) اپنی کتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي میں لکھتے ہیں کہ

قَالَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: فَأَغْزَا مُعَاوِيةُ الصَّوَائِفَ، وَشَتَّاهُمْ بِأَرْضِ الرُّومِ سِتَّ عَشْرَةَ صَائِفَةً، تَصِيفُ بِهَا وَتَشْتُو، ثُمَّ تُقْفِلُ وَتَدْخُلُ مُعَقِّبَتُهَا، ثُمَّ أَغْزَاهُمْ مُعَاوِيَةُ ابْنُهُ يَزِيدَ فِي سَنَةِ خَمْسٍ وَخَمْسِينَ فِي جَمَاعَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسَلَّمَ فِي الْبَرِّ وَالبْحَرِ حَتَّى جَازَ بِهِمِ الْخَلِيجَ، وَقَاتَلُوا أَهْلَ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ عَلَى بَابِهَا، ثُمَّ قَفَلَ

سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِکہتے ہیں کہ مُعَاوِيةُ نے الصَّوَائِفَ (گرمیوں کے موسم میں حملے ) کیے اور سولہ حملے ارض روم پر کیے … پھر یزید بن معاویہ نے ٥٥ ھجری میں اصحاب رسول کی جماعت کے ساتھ سمندر اور خشکی کے ذریعہ حملہ کر کے خلیج کو پار کیا اور اہل الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ سے ان کے دروازے پر جنگ کی …

(عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ (المتوفى: ٤٦ هـ

 عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے حوالے سے روایات میں بیان ہوا ہے کہ وہ اس لشکر کے اوپر امیر تھے جس نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ  پر حملہ کیا – یہ روایت سنن ابی داوود ، جا مع ترمذی ، تفسیر ابن ابی حاتم ، مستدرک حاکم وغیرہ میں بیان ہوئی ہیں – تفسیر کی کتابوں میں یہ روایت اس لئے موجود ہے کہ اس میں سوره البقرہ کی اک آیت   {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ}  کا ذکر بھی آتا ہے –  عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے حوالے سے تاریخ خلیفہ بن خیاط  میں بیان ہوا ہے کہ  ارض روم پر کسی حملے میں معاویہ رضی الله عنہ نے ان کو استعمال کیا تھا لیکن ان کے بعد اور لوگوں کو مقرر کیا جس  سے ظاہر ہے کہ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کو ابتدائی دور میں امیر لشکر بنایا گیا تھا – سب سے  اہم بات یہ ہے کہ ٣٢ ھجری میں  خود معاویہ رضی الله عنہ بھی الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ  کے پاس المضيق  تک پہنچ پائے – اس سے صاف ظاہر ہے کہ  عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ بھی الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ   نہیں پہنچ سکے تھے

الذهبي (المتوفى: 748هـ) اپنی کتاب  تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام  میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے لئے لکھتے ہیں کہ

وَكَانَ يَسْتَعْمِلُهُ مُعَاوِيَةُ عَلَى غَزْوِ الرُّومِ. وَكَانَ شَرِيفًا شُجَاعًا مُمَدَّحًا

ان کو معاویہ رضی الله تعالیٰ عنہ  نے روم کے معرکے  میں مقرر کیا اور یہ شریف – بہادر  اور ممدوح تھے

الذهبي جو اک معتدل مورخ ہیں انہوں نے کہیں بھی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے لئے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ کے معرکوں کا ذکر نہیں کیا- ا وہ ان معرکوں میں شامل ہوۓ جو ارض روم کے مختلف شہروں میں ہوۓ – روم وسیع علاقہ تھا جس میں موجودہ ترکی اور قبرص و یونان کے جزائر بھی شامل تھے

اب ان روایات کی اسناد دیکھتے ہیں جن میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ  کا  الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر  حملے کا تذکرہ آ رہا ہے – الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ کے حوالے سے یہ تمام روایات تقریبا اک سند  (حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، وَابْنِ لَهِيعَةَ  عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ)  سے آ رہی ہیں لیکن اضطراب کا شکار ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل شجرہ کو دیکھنے  سے ہوتا ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، وَابْنِ لَهِيعَةَ

عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ

غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ

سنن أبي داود

مَا قُرِئَ عَلَى يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، وَابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ

غَزَوْنَا الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ

تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الضَّحَّاكِ بْنِ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَسْلَمُ أَبُو عِمْرَانَ، مَوْلًى لِكِنْدَةَ

كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ

صحيح ابن حبان

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ

غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ

المستدرك على الصحيحين

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَنَسٍ الْقُرَشِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، أَنْبَأَ حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَنْبَأَ يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، أَخْبَرَنِي أَسْلَمُ أَبُو عِمْرَانَ، مَوْلَى بَنِي تُجِيبَ

: كُنَّا بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ

المستدرك على الصحيحين

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ

كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ

الجامع الكبير – سنن الترمذي

 

 کبھی راوی کہتے ہیں

غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ – ہم نے جنگ کی اک شہر میں ہم الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ  چاہتے تھے

غَزَوْنَا الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ  ہم نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ  میں جنگ کی

كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ  ہم روم کے اک شہر  میں تھے

كُنَّا بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ  ہم الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ  میں تھے

اسی اضطراب کی وجہ سے شاید  یہ روایت صحیحین میں نہیں اور امام ترمذی بھی اس کو  حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ کا درجہ دیتے ہیں

دراصل عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے امیر لشکر ہونے کے حوالے سے صحیح بات یہی ہے کہ وہ كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ ہم روم کے اک شہر میں تھے اور غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ اور انہوں نے جنگ کی اک شہر میں اور وہ ا لْقُسْطَنْطِينِيَّةَ تک رسائی چاہتے تھے

منطقی نقطۂ نگاہ سے بھی یہ بات درست نہیں کہ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيد کی قیادت میں ہونے والا یہ حملہ پہلا تھا کیونکہ اگر یہ پہلا حملہ تھا اور ا لْقُسْطَنْطِينِيَّةَ تک رسائی ہو گئی تھی تو پھر ا لْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر سولہ حملوں کی کیا ضرورت تھی – اصل بات یہی ہے کہ یہ سارے حملے قُسْطَنْطِينِيَّةَ تک بری راستہ بنانے کے لئے تھے کیونکہ ا لْقُسْطَنْطِينِيَّةَ (موجودہ استنبول )ایک بندر گاہ تھی اور اس کا دفاع بہت اچھا تھا

اس روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ایک مسلمان کفّار کی صفوں میں کود پڑا جس پر لوگوں نے کہا کہ اس نے اپنے آپ کو ہلاک کیا اور آیت {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ الله وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} پڑھی اس پر أَبُو أيوب الأنصاري رضي الله عنه.نے فرمایا کہ یہ آیت جہاد سے کنارہ کشی کرنے کی ہماری خواھش کی بنا پر نازل ہوئی تھی- اس کے برعکس امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ آیت {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ الله وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195] کی تفسیر حذیفہ رضی الله تعالیٰ عنہنے بیان کی ہے کہ

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ الله وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195] قَالَ: «نَزَلَتْ فِي النَّفَقَةِ»

یہ آیت انفاق کے بارے میں نازل ہوئی ہے

اس  بحث کا خلاصہ ہے کہ تاریخ کی مستند کتابوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یزید بن معاویہ   الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کرنے والے لشکروں میں شامل تھے –  الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر دو دفعہ حملہ ہوا – ایک  سن ٥٠  یا ٥١  ھجری  میں  ہوا اور اس میں  أَبُو أيوب الأنصاري رضي الله عنه. بھی ساتھ تھے- دوسرا  حملہ  سن ٥٥ ھجری میں ہوا اور اصحاب رسول کی جماعت کے ساتھ سمندر اور خشکی کے ذریعہ حملہ کر کے خلیج کو پار کیا اور اہل الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ  سے ان کے دروازے پر جنگ کی – ان دونوں حملوں میں سپہ سالار لشکر یزید بن معاویہ  تھے

حدیث الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ   پر شیعہ اعتراضات

تمام راویوں کا شامی ہونا. وہی شام جو معاویہ ابن ابی سفیان اور اسکے بیٹے یزید کا دارلحکومت تھا اور یہاں کے لوگ سخت مخالفین اہلبیت تھے اور بنی امیہ کی شان میں احادیث گھڑنے میں مشہور تھے

جواب: اس روایت میں شامیوں کا تفرد نہیں. اس کے ایک راوی خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي بھی ہیں

الأعلام الزركلي کے مطابق : خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي، أبو عبد الله: تابعيّ، ثقة، ممن اشتهروا بالعبادة. أصله من اليمن، وإقامته في حمص (بالشام)

خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي، أبو عبد الله یمنی تھے لیکن حمص شام میں رہتے تھے

 یہ روایت ام حرام بنت ملحان رضی الله تعالی عنہا  کی ہے اور ام حرام ، انس بن مالک رضی الله تعالی عنہ کی خالہ اور عُبَادَةَ بنِ الصَّامِتِ  رضی الله تعالی عنہ کی بیوی ہیں. مدینہ کی رہنے والی تھیں.  یہ بھی شامی نہیں. مسلمان فتوحات کی وجہ سے بہت علاقوں میں پھیل گئے تھے. اگر اس اعتراض کو صحیح مانا جاے تو اس بنیاد پر تو علی رضی الله تعالی عنہ بھی کوفی کہلائیں گے.

روایت کے دوسرے راوی ثور بن يزيد کے لئے لکھتے ہیں کہ

یحیی ابن معین (جن کے فن رجال کو تمام علماء مانتے ہیں) اس ثور کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ثور اس جماعت میں شامل تھا جو علی ابن ابی طالب پر سب کرتے تھے (سب کا مطلب ہے برا کہنا اور گالیاں وغیرہ دینا)۔ یحیی ابن معین کے الفاظ یہ ہیں : و قال فى موضع آخر : أزهر الحرازى ، و أسد بن وداعة و جماعة كانوا يجلسون  و يسبون على بن أبى طالب ، و كان ثور بن يزيد لا يسب عليا ، فإذا لم يسب جروا برجلہ.

جواب: احمد کہتے ہیں کہ : وكان من أهل حمص  اور یہ اہل حمص میں سے تہے.  ابن معین کے الفاظ کا مطلب ہے:   أزهر الحرازي اورأسد بْن وداعة  علی کو  گالیاں دتیے تھے و كان ثور بن يزيد لا يسب عليا  اور ثور بن يزيد  علی کو گالیاں نہیں دیتے تھے بحوالہ الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدی

اس بات کا تو مطلب ہی الٹا ہے ثور بن يزيد ، علی کو گالیاں نہیں دیتے تھے. ہاں یہ ضرور ہے کہ ابن سعد کے مطابق  وہ لا أحب رجلا قتل جدى : علی کو اپنے دادا  کے صفیں میں قتل کی وجہ سے نا پسند کرتے تھے

یزید بن معاویہ  کی بیعت

اب ہم اک دوسرے مسئلے کی طرف آتے ہیں جو کافی بحث طلب ہے اور اس مختصر بلاگ میں اس کو مکمّل احاطہ ممکن بھی نہیں لیکن چند معروضات پیش خدمت ہیں

١ سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ یزید بن معاویہ کی بیعت سے لے کر متمکن خلافت ہونے تک کل دس سال ہیں یعنی سن ٥١ ھجری سے لے کر سن ٦٠ ھجری تک – اس دوران تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ کسی نے مخالفت نہ کی لیکن معاویہ رضی الله عنہ کی وفات کے اک سال بعد یعنی ٦١ ھجری میں حسین رضی الله عنہ نے اور عبدللہ بن زبیر رضی الله عنہ نے خروج کیا – دونوں کو وہ عصبیت یا سپورٹ نہ مل سکی جو یزید بن معاویہ کو حاصل تھی – ان دونوں نے راست قدم اٹھایا یا نہیں – اس پر رائے زنی کرنے کا ہمارا مقام نہیں کیونکہ حسین رضی الله عنہ اور عبدللہ بن زبیر رضی الله عنہ دونوں جلیل القدر ہیں

٢ معاویہ رضی الله عنہ کا اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کرنے کا عمل بھی قابل جرح نہیں کیونکہ اسلام میں خلیفہ مقرر کرنے کا حق خلیفہ کا ہی ہے جیسے ابوبکر رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ کو خلیفہ مقرر کیا – عمر رضی الله عنہ نے شہادت سے پہلے اک کمیٹی مقرر کی – علی رضی الله عنہ نے شہادت سے پہلے اپنے بیٹے حسن رضی الله عنہ کو مقرر کیا – اسی طرح معاویہ رضی الله عنہ نے بھی علی رضی الله عنہ کی طرح اپنے بیٹے یزید کو مقرر کیا- اسلام میں موروثی خلافت کا نظریہ علی رضی الله عنہ نے ہی پیش کیا

٣ حسن رضی الله عنہ نے علی رضی الله عنہ کی وفات کے اگلے سال ٤١ ھجری میں  سات ماہ کے بعد خلافت سے دست برداری کا ١علان کر دیا – چونکہ وہ حسین رضی الله عنہ کے بڑے بھائی تھے اس لئے خاندان علی کے اک نمائندہ تھے – معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں دونوں بھائیوں کو وظیفہ بھی ملتا رہا – حسن رضی الله عنہ کی سن ٥٠ ھجری میں وفات ہوئی – سن ٥١ ہجری میں یزید بن معاویہ نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کر کے امّت میں اپنی امیر کی صلاحیتوں کو منوا لیا – اس حملے میں جلیل القدر اصحاب رسول بھی ساتھ تھے – سن ٥١ ھجری میں معاویہ رضی الله عنہ نے یزید کی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت دی

بخاری نے سوره الاحقاف کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ

باب {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ الله وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ الله حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (17)} [الأحقاف: 17]

 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِى بِشْرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ قَالَ كَانَ مَرْوَانُ عَلَى الْحِجَازِ اسْتَعْمَلَهُ مُعَاوِيَةُ، فَخَطَبَ فَجَعَلَ يَذْكُرُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، لِكَىْ يُبَايِعَ لَهُ بَعْدَ أَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِى بَكْرٍ شَيْئًا، فَقَالَ خُذُوهُ. فَدَخَلَ بَيْتَ عَائِشَةَ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَيْهِ فَقَالَ مَرْوَانُ إِنَّ هَذَا الَّذِى أَنْزَلَ الله فِيهِ {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي}. فَقَالَتْ عَائِشَةُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ مَا أَنْزَلَ الله فِينَا شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ إِلاَّ أَنَّ الله أَنْزَلَ عُذْرِى.

مروان جو معاویہ رضی الله تعالیٰ کی جانب سے حجاز پر (گورنر ) مقرر تھے انہوں نے  معاویہ  کے بعد يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت  کے لئے خطبہ دیا – پس عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِى بَكْرٍ  نے کچھ  بولا – جس پر مروان بولے اس کو پکڑو  اور عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِى بَكْرٍ  عائشہ رضی الله تعالیٰ کے گھر میں داخل ہو گئے – اس پر مروان بولے کہ یہی وہ شخص ہے جس کے لئے نازل ہوا ہے {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي} – اس پر عائشہ رضی الله تعالیٰ  نے  پردے کے پیچھے سے فرمایا کہ ھمارے لئے قرآن میں سواے برات کی آیات کے کچھ نازل نہ ہوا

عائشہ رضی الله تعالی عنہا ٰ کی وفات ٥٧ ھجری کی ہے لہذا یہ واقعہ معاویہ ر ضی الله تعالیٰ عنہ سے کم از کم تین سال پہلے کا ہے

أبو عمرو خليفة بن خياط  (المتوفى: 240هـ) اپنی کتاب تاريخ خليفة بن خياط میں لکتھے ہیں کہ

فِي سنة إِحْدَى وَخمسين وفيهَا غزا يَزِيد بْن مُعَاوِيَة أَرض الرّوم وَمَعَهُ أَبُو أَيُّوب الْأنْصَارِيّ وفيهَا دَعَا مُعَاوِيَة بْن أَبِي سُفْيَان أهل الشَّام إِلَى بيعَة ابْنه يَزِيد بْن مُعَاوِيَة فأجأبوه وَبَايَعُوا

اور سن ٥١ ھجری  میں یزید بن معاویہ نے رومی سر زمین پر جہاد کیا اور ان کے ساتھ تھے أَبُو أَيُّوب الْأنْصَارِيّ اور اسی سال مُعَاوِيَة بْن أَبِي سُفْيَان نے اہل شام کو یزید بن معاویہ کی بیعت کی دعوت دی  جس کو انہوں نے قبول کیا اور بیعت کی

  مدینہ قیصر تک بری رستہ یا خشکی کے رستہ سے نہیں جایا جا سکا تھا نہ وہ دور صحابہ میں فتح ہو سکا بلکہ ترکوں نے  اس کو  فتح کیا – راقم کہتا ہے روم کی کچھ زمین جو ارض شام تھی وہ عمر کے دور میں فتح ہوئی وہ بھی  مدینہ قیصر نہیں ہے – مدینہ قیصر یعنی روم کا کیپٹل یا دار الحکومت جب تک دار الحکومت فتح نہ ہو ملک مفتوح متصور نہیں ہوتا – یزید جس لشکر میں تھے اس نے اسٹریٹجی سے کام لیا اور سمندری بیڑے سے حملہ کیا تھا اسی لئے مدینہ قیصر پہنچ سکا اس سے قبل بھی حملے ہوئے

مسند احمد مصنف عبد الرزاق میں ہے

   عَبْدُ الرَّزَّاقِ – عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ امْرَأَةَ حُذَيْفَةَ قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقُلْتُ: تَضْحَكُ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لَا وَلَكِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِي يَخْرُجُونَ غُزَاةً فِي الْبَحْرِ، مَثَلَهُمْ كَمَثَلِ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَةِ» ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ اسْتُيْقِظَ أَيْضًا فَضَحِكَ. فَقُلْتُ: تَضْحَكُ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «لَا وَلَكِنْ مِنْ قَوْمٍ يَخْرُجُونَ مِنْ أُمَّتِي غُزَاةً فِي الْبَحْرِ فَيَرْجِعُونَ قَلِيلَةً غَنَائِمُهُمْ مَغْفُورًا لَهُمْ» قَالَتْ: ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يَجَعَلَنِي مِنْهُمْ. قَالَ: فَدَعَا لَهَا، قَالَ فَأَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ قَالَ: «فَرَأَيْتُهَا فِي غَزَاةٍ غَزَاهَا الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ إِلَى أَرْضِ الرُّومِ وَهِيَ مَعَنَا فَمَاتَتْ بِأَرْضِ الرُّومِ

عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ نے کہا پھر میں نے دیکھا حُذَيْفَةَ کی بیوی نے الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ کے ساتھ جہاد کیا أَرْضِ الرُّومِ پس وہیں أَرْضِ الرُّومِ  میں فوت ہوئیں
عطاء بن يسار نے ایک مجہول امْرَأَةَ حُذَيْفَةَ  سے روایت کیا ہے اور یہ ارسال کرتا ہے یعنی جس سے سنا نہ ہو اس کے حوالے سے روایت کر دیتا ہے

مسند احمد میں سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ امْرَأَةً، حَدَّثَتْهُ
عَطَاءِ بْنِ يَسَار نے ایک عورت سے روایت کیا

عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ کے بقول یہ  کسی   حُذَيْفَةَ کی بیوی تھی جبکہ ابن حجر کا کہنا ہے یہ أم حرام بنت ملحان تھیں جو عبادة بن الصامت کی بیوی تھیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے – راقم کہتا ہے اس سے ظاہر ہے یہ سند صحیح نہیں ہے عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ نے روایت جس عورت تک پہنچائی اس عورت کا علم نہیں کون ہے

بعض لوگوں کا کہنا ہے  قیصر روم کا شہر حمص تھا جس کو ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ  کے دور میں اس پر حملہ کیا تھا – یہ یزید کی پیدائش سے ١٥ – ٢٠ سال پہلے ہوا  – راقم کہتا ہے حمص قیصر کا دار الحکومت نہیں تھا

یہ
Byzantine Empire
کی تاریخ میں بھی موجود ہے

Constantine
مشرک رومی تھا جو نصرانی ہوا اس کے دور سے دور نبوی اور بعد تک قسطنطنیہ ہی دار الحکومت رہا ہے
اس کا دفاع بہت مضبوط ہے جغرافیہ کی وجہ سے تین طرف سمندر ہے ایک ہی طرف خشک رستہ ہے اور سمندر بھی تیز چلتا ہے – قیصر جنگ میں مصروف تھا جس کا ذکر سورہ روم میں ہے کہ وہ شام میں ملغوب ہو گیا ہے لیکن پھر غالب آئے گا اور جنگی حکمت عملی کے طور پر قیصر بیت المقدس بھی گیا جہاں ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے سوالات کیے تھے

===================

دیکھیں

https://www.islamic-belief.net/podcasts/

وہ رجعت پر ایمان رکھتے تھے

مفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام از دکتور جواد علی  میں ہے
الرجعة: واعتقد قوم من العرب في الجاهلية بالرجعة: أي الرجوع إلى الدنيا بعد الموت فيقولون أن الميت يرجع إلى الدنيا كرة أخرى ويكون فيها حيًّا كما كان
جاہلی عربوں کی ایک قوم رجعت کا عقیدہ رکھتی تھی کہ مرنے والا واپس دنیا میں موت کے بعد آ جاتا ہے اور اسی طرح زندہ ہو جاتا ہے جیسے پہلے تھا

وفات النبی کے وقت اس قسم کا قول عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بولا
طبری میں ہے
فَحَدَّثَنَا ابْنُ حميد، قال: حدثنا سلمة، عن ابن إسحاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، …. لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قام عمر بن الخطاب، فقال: إن رجالًا من المنافقين يزعمون أن رسول الله توفي، وأن رسول الله والله ما مات،
ولكنه ذهب إلى ربه كما ذهب موسى بن عمران، فغاب عن قومه أربعين ليلة، ثم رجع بعد أن قيل قد مات، والله ليرجعن رسول الله فليقطعن أيدي رجال وأرجلهم يزعمون أن رسول الله مات
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عمر بن الخطاب نے کہا منافقوں میں بعض مرد کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ کی وفات ہو گئی ہے اور بے شک آپ کی وفات نہیں ہوئی لیکن آپ اپنے رب کے پاس گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام
اپنے رب کے پاس گئے اور چالیس رات اپنی قوم پر غائب رہے پھر رجع کیا بعد اس کے کہا گیا کہ وہ مر گئے ہیں – اللہ کی قسم رسول اللہ واپس آئیں گے وہ ان منافقوں کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالیں گے کہ ان کا دعوی ہے کہ رسول اللہ وفات پا گئے ہیں

عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سختی سے رد کیا – بلا شبہ اس وقت جو غم کی کیفیت تھی اس کی وجہ سے عمر ایسا کہہ گئے

عقیدہ رجعت لیکن ایک عقیدے کے طور پر یہود میں موجود ہے اور آج بھی یہود اس کے قائل ہیں کہ اصلی مسیح کے ظہور پر بنی اسرائیلی زندہ ہوں گے – اس عقیدے کا پرچار ابن سبا نے سب سے پہلے کیا

ابن سبأ أول من قال بالرجعة

ابن سبا نے سب سے پہلے رجعت کا قول کہا

اس کے بعد رجعت کا قول شیعہ رویوں میں قرن اول سے ہی چل رہا ہے جن میں بعض بہت مشہور ہیں مثلا

أبو الطفيل عامر بن واثلة المتوفی 110 ہجری پر ابن قتیبہ کا المعارف میں قول ہے
وكان مع «المختار» صاحب رايته، وكان يؤمن بالرّجعة
یہ مختار ثقفی کے جھنڈے تلے تھے اور رجعت پر ایمان رکھتے تھے

جابر الجعفي المتوفی ١٣٠ ھ کے لئے ابن قتیبہ المعارف میں لکھتے ہیں
جابر بن يزيد. وكان ضعيفا في حديثه. وهو من الرّافضة الغالية، الذين يؤمنون بالرّجعة
یہ حدیث میں ضعیف ہے رافضی غالی ہے رجعت پر ایمان رکھتا تھا

کتاب از الفسوی میں ہے
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَحْمِلُونَ عَلَى جَابِرٍ قَبْلَ أَنْ يُظْهِرَ مَا أَظْهَرَ، فَلَمَّا أَظْهَرَ مَا أَظْهَرَ اتَّهَمَهُ النَّاسُ فِي حَدِيثِهِ، وَتَرَكَهُ بَعْضُ النَّاسِ، فَقِيلَ لَهُ: وما أظهر؟ قال: الايمان بالرجعة.

جب جابر کا عقیدہ ظاہر نہیں تھا لوگ اس کی روایت لیتے تھے

تاریخ طبری جلد ١١ میں لکھا ہے
قال العباس: وحدثنا يحيى بن يعلى المحاربى عن زائده قال: كان جابر الجعفى كذابا يؤمن بالرجعة

تاریخ المنتظم في تاريخ الأمم والملوك از ابن جوزی میں إسماعيل بن محمد بن يزيد بن ربيعة، أبو هاشم الحمْيَرِي
پر لکھا ہے
وكان الحميري يشرب الخمر، ويقول بالرجعة

عبداللہ بن محمد بن حنفیہ ( علی رضی اللہ عنہ کا پوتا ) امام زہری کے مطابق یہ السبییہ میں سے تھا

اصبغ بن نباتہ المتوفی ١١٠ ہجری – یہ علی کی پولیس میں تھا اور یہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
قَالَ الْعُقَيْلِيُّ : كَانَ يَقُولُ بِالرَّجْعَةِ.
امام عقیلی کہتے ہیں یہ رجعت کا کہتا تھا

تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
عُثْمَانُ بْنُ عمير أبو اليقظان البجلي الكوفي الأعمى١٥٠ ھ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
قَالَ أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ: كَانَ يُؤْمِنُ بِالرَّجْعَةِ.

قرن اول کا مشہور شاعر کثیر بھی اسی عقیدے پر تھا – تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
كثيّر عزّة الشاعرة المشهور هو كثير بن عبد الرحمن بن الأسود الخزاعي
تاریخ طبری میں سن ١٥٠ ہجری میں مرنے والوں پر لکھا ہے
وكثير شيعى يؤمن بالرجعة.
كثير عزه الشاعر رجعت پر ایمان رکھتا تھا
قَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ: قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: إِنِّي لأَعْرِفُ صَلاحَ بَنِي هَاشِمٍ وَفَسَادَهُمْ بِحُبِّ كُثَيِّرٍ، فَمَنْ أَحَبَّهُ مِنْهُمْ فَهُوَ فَاسِدٌ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ فَهُوَ صَالِحٌ، لِأَنَّهُ كَانَ خَشَبِيًّا يُؤْمِنُ بِالرَّجْعَةِ

مزید لوگ یہ ہیں جو رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ لسٹ تو صرف اہل سنت کے مصادر کو دیکھ کر مرتب کی گئی ہے
راشد الہجری یہ علی کے ساتھ تھا رجعت پر ایمان رکھتا تھا
یونس بن خبیب رجعت پر ایمان رکھتا تھا
داود بن یزید رجعت پر ایمان رکھتا تھا
المغیرہ بن سعید رجعت پر ایمان رکھتا تھا
بیان بن سمعان رجعت پر ایمان رکھتا تھا
حارث بن حصیرہ المتوفی ١٥٠ ھ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
محمد بن سائب الکلبی رجعت پر ایمان رکھتا تھا
اسمعیل بن خلیفہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
عمرو بن جابر الحضرمی رجعت پر ایمان رکھتا تھا
ثابت بن ابی صفیہ المتوفی ١٥٠ ھ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
فرات بن الاحنف رجعت پر ایمان رکھتا تھا
تلید بن سلیمان رجعت پر ایمان رکھتا تھا
نصر بن الصباح رجعت پر ایمان رکھتا تھا
محمد بن القاسم بن زكريا أبو عبد الله المحاربي الكوفي السوداني رجعت پر ایمان رکھتا تھا
مسلم بن نضیر یا یزید رجعت پر ایمان رکھتا تھا
عبد اللہ بن الحسین المتوفی ١٤٠ ہجری رجعت پر ایمان رکھتا تھا
داود بن یزید رجعت پر ایمان رکھتا تھا

شیعہ امامیہ کا رفض کا عقیدہ قرن چہارم یا پنجم کا نہیں ہے بلکہ یہ تو قرن اول بلکہ قبل اسلام سے معروف ہے

بعض افسانہ نگاروں کا یہ دعوی کہ تشیع کا لفظ سیاسی معاملات میں علی رضی اللہ عنہ کا طرفدار ہونے سے متعلق کہا جاتا تھا  نہ  کہ ان عقائد کی بابت جو کہ چوتھی صدی ہجری میں جاکر رافضیت و امامیت کے نام پر مروّج ہوئے۔
راقم کہتا ہے رفض کا لفظ امام زید بن علی نے امام جعفر کے اصحاب  کو بولا تھا جب انہوں  نے سیاسی خروج میں امام زید بن علی کا ساتھ نہ دیا تو انہوں نے کہا
رفضونی
تم نے مجھے چھوڑ دیا

اس سے رفض کا لفظ نکلا اور یہی بات تاریخ  میں بیان کی گئی ہے

اس سے قبل راوی اگر رجعت کا عقیدہ بھی رکھتا ہو تو اس کو شیعہ ہی کہا جاتا تھا – لہذا یہ دعوی کہ قرن اول میں صرف شیعہ تھے رافضی و سبائی نہ تھے جاہلانا بات ہے

سبائی رویوں کو شیعہ کہہ کر ان کو بچانے والے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ

اول زاذان پر شیعہ ہونے کی جرح تھی رافضی کی نہیں -شیعہ تو سیاسی معاملات میں علی کا طرف دار ہونا تھا
دوم الکافی تو زاذان کے کئی سال بعد مرتب ہوئی تو اس کا عقیدہ زاذان کیسے لے سکتا ہے
سوم رافضیت چوتھی صدی میں جا کر مروج ہوئی

ان دعوی جات کے خلاف اہل سنت پہلے سے ہی جواب دے چکے ہیں – اول اہل سنت کہتے ہیں کہ لشکر علی میں ابن سبا موجود تھا اور اپنے شیعی نظریات و افکار پھیلا رہا تھا اور اس دور میں شیعیت علی کا ساتھ دینا ضرور تھی لیکن متاخرین مثلا ابن حجر کے دور تک شیعہ کا لفظ رافضی کے متبادل کے طور پر بھی استعمال ہو رہا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے
زاذان کو شیعہ متاخرین میں ابن حجر نے کہا ہے
خود امام بخاری کے دور تک میں شیعہ = رافضی خبیث ایک ہی معنوں میں استعمال ہوتے تھے

سبائی اس کے قائل تھے کہ علی کی شہادت نہ ہوئی بلکہ آسمان میں بادل پر زمین میں ہی موجود ہیں – دلیل یہ ہے کہ اس دور میں علی کی قبر تک نہیں تھی – اہل سنت کے بقول علی کی قبر چھپا دی گئی تھی لیکن سبائی کہتے یہی دلیل ہے کہ ان کی موت نہیں ہو بادل میں ہیں

ابن عباس زندہ تھے کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے
وحدثني أبو أيوب سليمان بن عبيد الله الغيلاني، حدثنا أبو عامر يعني العقدي، حدثنا رباح، عن قيس بن سعد، عن مجاهد، قال: جاء بشير العدوي إلى ابن عباس، فجعل يحدث، ويقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل ابن عباس لا يأذن لحديثه، ولا ينظر إليه، فقال: يا ابن عباس، مالي لا أراك تسمع لحديثي، أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تسمع، فقال ابن عباس: ” إنا كنا مرة إذا سمعنا رجلا يقول: قال
رسول الله صلى الله عليه وسلم، ابتدرته أبصارنا، وأصغينا إليه بآذاننا، فلما ركب الناس الصعب، والذلول، لم نأخذ من الناس إلا ما نعرف

بشیر العدوی، ابن عباس کے پاس آیا اور روایت کرنے لگا اور بولا رسول الله نے کہا ،رسول الله نے کہا ،پس ابن عباس نے اس کی حدیث کی اجازت نہیں دی اور نہ اس کی طرف دیکھا. اس پر وہ ابن عبّاس سے مخاطب ہوا کیا وجہ ہے کہ اپ میری حدیث نہیں سنتے جبکہ میں رسول الله کی حدیث سنا رہاہوں؟ پس ابن عباس نے کہا ایک وقت تھا جب ہم سنتے کسی نے کہا قال رسول الله ہم نگاہ رکھتے اور اپنے کان اس (حدیث) پر لگاتے . لیکن جب سے لوگوں نے الصعب اور الذلول کی سواری کی تو ہم روایات نہیں لیتے مگر صرف اس سے جس کو جانتے ہوں

الصعب اور الذلول اہل تشیع بتاتے ہیں کہ بادل ہیں جن پر علی سواری کرتے اور زمین کے معاملات کا جائزہ لیتے تھے

یہ دعوی کہ رافضیت دور اصحاب رسول میں نہیں تھی چوتھی صدی میں جا کر مروج ہوئی صحیح مسلم کی اس روایت سے رد ہوتی ہے – اس میں خالصتا سبائی ایجنڈا پیش کیا گیا ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا

الکافی میں عود روح کا عقیدہ امام جعفر کی زبانی درج ہے اور امام جعفر شیعہ امام ہیں لہذا شیعوں میں امام جعفر سند سے نہیں بولتے ان کی تو نظر لوح محفوظ پر بیان کی جاتی ہے – – عود روح کا عقیدہ – عقیدہ رجعت کا ہی پرتو ہے
قبر میں روح واپس لائی جاتی ہے اس سے نکالی نہیں جاتی صرف اب انتظار ہے علی کی آواز بادل میں سے کب آئے جس کو سن کر خروج کیا جائے
لہذا قرآن کی آیت کہ اے رب تو نے دو زندگیاں دی اور دو موتیں دیں اس کا مطلب اہل تشیع کے ہاں رجعت کا اثبات ہے
عقیدہ رجعت کا ذکر متعدد قرن اول و دوم کے راویوں کے لئے محدثین نے کیا ہے مثلا جابر الجعفی وغیرہ

لہذا یہ اشکال بھی دور ہوا کہ رافضی عقائد قرن اول میں موجود نہیں تھے اور اب زاذان کی بات کرتے ہیں
زاذان اہل تشیع کے مصادر میں علی کے ان خاص لوگوں میں تھے جن پر اسم اعظم پڑھا گیا ہے اور یہ فارسی النسل تھا – زاذان کی موت کے بعد اس کینسل سے جو قبیلہ بنا اس سے بہت سے شیوخ قم نکلے – یعنی شیعوں میں زاذان اور ان کی نسل خاص کٹر شیعہ ہی رہے

محدثین ، قرن اول و دوم کے  بہت سے راویوں کو شیعہ کہتے ہیں لیکن مراد کٹر رافضی ہونا ہوتا ہے  اس پر لا تعداد امثال جرح و تعدیل لٹریچر میں موجود ہیں

احمد اور جوتوں کی چاپ

فرقے یہ ثابت کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں کہ مردہ قبر میں سنتا ہے  اس کے لئے صحیح البخاری کی حدیث قرع النعال پیش کی جاتی ہے یعنی چاپ کی گونج – قرع کا مطلب عربی میں وہ آواز ہے جو ہتھوڑے  کی ضرب سے پیدا ہو – ظاہر ہے یہ اس عالم کا معاملہ نہیں تھا لیکن ان لوگوں نے اس کو زمین پر انسانی قدموں کی چاپ بنا دیا –

   بہر حال ہونا تو یہ چاہیے تھا اس حدیث کی بنیاد پر قبرستان میں جوتے  پہن کر چلا جاتا  لیکن امام  احمد باوجود  یہ کہ قرع  النعال والی روایت کو مسند میں روایت کرتے ہیں لیکن جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت پر  عمل نہیں کرتے اور قبرستان میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتارنے کا حکم کرتے تھے ظاہر ہے نہ جوتیاں ہوں گی نہ ان کی چاپ کا سوال اٹھے گا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله  کے مطابق

وَقَالَ أبي يخلع نَعْلَيْه فِي الْمَقَابِر

میرے باپ (احمد ) کہتے ہیں قبرستان میں نعل اتار دو

 وَكَانَ يَأْمر بخلع النِّعَال فِي الْمَقَابِر

امام احمد حکم دیتےتھے کہ قبرستان میں  نعل اتار دو

رَأَيْت ابي اذا اراد ان يدْخل الْمَقَابِر خلع نَعْلَيْه وَرُبمَا رَأَيْته يُرِيد ان يذهب الى الْجِنَازَة وَرُبمَا لبس خفيه اكثر ذَلِك وَينْزع نَعْلَيْه

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ جب قبرستان میں داخل ہوتے تو جوتے اتار دیتے

امام احمد کے بیٹے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں لکھتے ہیں

رَأَيْت أبي إِذا دخل الْمَقَابِر يخلع نَعْلَيْه فَقلت لَهُ إِلَى أَي شَيْء تذْهب فَقَالَ إِلَى حَدِيث بشير بن الخصاصية

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ قبرستان میں اتے تو جوتے اتارتے پس میں نے کہا کس بنا پر اس کو کیا؟ انہوں نے کہا حدیث بشیر بن الخصاصية  سے لیا

 ابی داود کتاب میں لکھتے ہیں

رَأَيْتُ أَحْمَدَ إِذَا تَبِعَ جِنَازَةً فَقَرِبَ مِنَ الْمَقَابِرِ خَلَعَ نَعْلَيْهِ

میں نے احمد کو دیکھا جب وہ جنازہ کے پیچھے قبرستان کے پاس پہنچتے تو جوتے اتار دیتے

کتاب  مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق امام احمد

فلما سلم خلع نعليه ودخل المقابر في طريق [عامية] 2 مشياً على القبور حتى بلغ القبر

پس جب (نماز جنازہ سے)  سلام پھرنے کے بعد جوتے اتارتے اور قبرستان میں داخل ہوتے  حتی کہ قبر تک پہنچتے

امام احمد کا عمل قرع النعال والی روایت پر نہیں بلکہ  بشیر بن الخصاصية   کی روایت پر تھا جو ابو داود نے بَابُ الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ میں  روایت کی ہے جس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ قرع النعال سے زیادہ صحیح روایت تھی ورنہ اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر عمل کیوں تھا

  ابن قدامة  المغني  ج 2 ص ٤٢١ میں کہتے ہیں
قال الإمام أحمد رحمه الله  إسناد حديث بشير بن الخصاصية جيد أَذْهَبُ إلَيْهِ، إلَّا مِنْ عِلَّةٍ

امام احمد کہتے ہیں بشير بن الخصاصية والی حدیث کی اسناد جید ہیں اسی پر مذھب ہے سوائے اس کے کہ کوئی علت ہو

اتنے سارے حوالے واضح کرتے ہیں کہ امام احمد نے سرے سے اس روایت پر عمل ہی نہیں کیا کہ جوتیاں پہن کر مردے  کو دفناتے وقت چلے ہوں- احمد تو اس قدر روایت پسند تھے کہ صحیح حدیث اگر نہ ہو تو ضعیف پر ہی عمل کے قائل تھے – امام احمد جس قسم کے روایت پسند شخص تھے  ان سے اس  قرع النعال روایت پر عمل کرنا سرے سے بیان ہی نہیں ہوا کیوں ؟ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بشير بن الخصاصية رضی الله عنہ کی روایت پر مذھب ہے

ہم ال داود کے حکم پر حکم کرتے ہیں

ابن سبا نے اس امت میں عقیدہ رجعت کو پھیلایا (جس کو فرقوں نے عود روح کے نام پر قبول کیا ہوا ہے ) ساتھ ہی ابن سبا نے اس عقیدہ کا بھی پرچار کیا کہ قرآن  کہتا ہے تمام انبیاء پر ایمان لانا ہے تو پھر ہم کیوں بنی اسرائیلی انبیاء کو نہ مانیں اور ان کی کتب کو قرآن پر ترجیج دیں  مثلا داود علیہ السلام کی نسل میں جو  انبیاء آئے

سورہ الحدید میں ہے

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ 

اور وہ جو الله پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر وہ سچے ہیں 

ابن سبا کے نزدیک صرف زبان کا اقرار نہیں بلکہ  ایمان کامل نہ ہو گا جب تک ان  سابقہ انبیاء کے حکم پر عمل نہ کیا جائے – ابن سبا کے نزدیک قرآن کی بہت سی آیات دو مخالف الوحی کی موجودگی میں نہیں چلے گی مثلا قرآن میں ہے کہ حدود میں گواہ لاو – لیکن ابن سبا کے نزدیک یہ حکم داود علیہ السلام نے نہیں کیا ہے لہذا یہ گواہ طلب کرنا غیر ضروری ہوا – افسوس اس قسم کی سوچ کے چند اقوال اہل تشیع کی کتب میں در کر آئے ہیں

اہل تشیع کی کتاب كلمات الإمام الحسين (ع) الشيخ الشريفي ، مختصر بصائر الدرجات- الحسن بن سليمان الحليي میں ہے
حدثنا إبراهيم بن هاشم، عن محمد بن خالد البرقي، عن ابن سنان أو غيره، عن بشير، عن حمران، عن جعيد الهمداني ممن خرج مع الحسين عليه السلام بكربلا، قال: فقلت للحسين عليه السلام جعلت فداك بأي شئ تحكمون. قال [عليه السلام]: يا جعيد نحكم بحكم آل داود، فإذا عيينا عن شئ تلقانا به روح القدس

جعيد الهمداني جو امام حسین علیہ السلام کے خروج کربلا میں  ساتھ نکلے تھے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام حسین سے پوچھا کہ آپ کس بات کا حکم کرتے ہیں ؟ حسین نے فرمایا ہم ائمہ ال داود کے حکم پر حکم کرتے ہیں- جب ہم کسی چیز کو تلاش کرتے ہیں تو ہم پر روح القدس سے القا کیا جاتا ہے

معلوم ہوا کہ سبائیوں کے  نزدیک حسین رضی اللہ عنہ  قرآن کی سر بلندی کے لئے نہیں بلکہ شریعت داودی کی سر بلندی کے لئے خروج کر رہے تھے – جعيد الهمداني کا تذکرہ  اہل سنت کی کتب میں موجود نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے یہ کوئی مجہول تھا

اہل تشیع کی کتاب الخرائج والجرائح از قطب الدين الراوندي میں امام ابو عبد اللہ کے کشف یا خواب کا ذکر ہے

وعن محمد بن عيسى بن عبيد ، عن صفوان
بن يحيى ، عن أبي علي الخراساني ، عن أبان بن تغلب ، عن أبي عبدالله عليه السلام
قال : كأني بطائر أبيض فوق الحجر ، فيخرج من تحته رجل يحكم بين الناس بحكم آل
داود وسليمان ، ولايبتغي بينة
أبان بن تغلب نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں میں ایک سفید پرندہ پر ہوں چٹان پر اور میرے قدم سے نکلا جو لوگوں پر حکم کرے گا ال داود و سلیمان کی طرح اور شہادت طلب نہیں کرے گا

شیعوں کی معجم أحاديث المهدي میں ہے

سيأتي من مسجدكم هذا يعني مكة ثلثمائة وثلث ( ثلاثة ) عشر رجلا ،
يعلم أهل مكة أنه لم يلدهم آبائهم ولا أجدادهم ، عليهم السيوف مكتوب
على كل سيف كلمة تفتح ألف كلمة ، تبعث الريح فتنادي بكل واد : هذا
المهدي هذا المهدي ، يقضي بقضاء آل داود ولا يسأل عليه بينة

مسجد الحرام پر ٣٣٠ مرد آئیں گے جن کو اہل مکہ جانتے ہوں گے کہ یہ ان کے باپوں و دادا کی اولاد نہیں ان پر تلواریں ہوں گی جن پر ایک کلمہ لکھا ہو گا – اس کلمہ سے ہزار کلمے اور کھلیں گے ایک ہوا آئی گی جس سے وادی گونجے گی کہ یہ المہدی ہے یہ المہدی ہے یہ ال داود کے مطابق فیصلہ کرے گا اور گواہی طلب نہیں کرے گا

محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، عن محمد بن سنان ،
عن أبان قال : سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول : – كما في رواية بصائر الدرجات الاولى .
الارشاد : ص 365 – 366 – مرسلا ، عن عبدالله بن عجلان ، عنه عليه السلام ، إذا قام قائم
آل محمد صلي الله عليه وآله حكم بين الناس بحكم داود عليه السلام لا يحتاج إلى بينة ،
يلهمه الله تعالى فيحكم بعلمه ، ويخبر كل قوم بما استبطنوه ، ويعرف وليه من عدوه
بالتوسم ، قال الله سبحانه : إن في ذلك لآيات للمتوسمين وإنها لبسبيل مقيم ” .

جب ال محمد قائم ہوں گے وہ لوگوں کے درمیان داود کے حکم پر حکم کریں گے ان کو شہادت کی ضرورت نہ ہو گی

مدعا یہ ہے کہ امام المہدی شریعت محمدی کے تحت فیصلہ کرنے کے پابند نہ ہوں گے بلکہ چونکہ قرآن میں تمام انبیاء کو ماننے کا ذکر ہے تو وہ اس میں شریعت داود پر عمل کریں گے

ابن سبا کا یہ تصور اصل میں داودی نسل سے مسیح کا تصور ہے جس کے یہودی منتظر تھے اور ان کے نزدیک اصلی مسیح کا ظہور نہیں ہوا ہے –

صحیح عقیدہ یہ ہے کہ ہم صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و شریعت کی اتباع کریں گے -سابقہ انبیاء کی شریعتون کو ہم مانتے ہیں کہ من جانب الله تھیں لیکن وقتی و محدود علاقوں کے لئے تھیں – شریعت محمدی تمام عالم کے لئے ہے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے شریعت محمدی تمام عالم کے لئے ہے کے موضوع پر  لکھا ہے سابقہ  انبیاء پر ایمان کا مطلب ان کی شریعتوں پر بلا دلیل سنت محمد (ص) عمل نہیں ہے

راقم  کہتا ہے عثمانی صاحب نے اس کا انکار نہیں کیا ہے کہ تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے بلکہ مراد انکار اس  سنت انبیاء  کا ہے جس کی تائید سنت محمد میں نہ ہو – جہاں تک انبیاء سابقہ کی کتب کا تعلق ہے تو ان میں تین میں تحریف ہوئی یعنی  توریت زبور اور انجیل  میں ان  کتب میں زبور داود علیہ السلام کی کتاب ہے اور اس کو اہل کتاب نے اشعار کی کتاب بنا دیا ہے  جس میں جا بجا اصف بن برخیاہ نامی شخص کے اضافہ بھی ہیں – اصف ایک   شخص تھا جس کوحشر اول سے قبل  اشوریوں نے غلام بنایا  لیکن شیعہ کہتے ہیں وہ علی رضی اللہ عنہ تھے اس دور میں اصف کے جسم سے جانے  جاتے تھے

 

اصف بن بر خیا کا راز

 

 

کتاب الاصنام

 

کتاب الاصنام

قریب ڈیڑھ ہزار سال ہوئے  کہ  مشرکین مکہ کا مذھب عرب میں معدوم ہوا  اور اسلام غالب آیا – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لا إله إلا الله وحده ، صدق وعده ، ونصر عبده ، وهزم الأحزاب وحده

کوئی اله نہیں سوائے اللہ کے – اس نے وعدہ سچا کیا – اپنے بندے کی مدد کی – اور اکیلے تمام لشکروں کو  شکست دی

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام مندروں کو ڈھا دیا جہاں اصنام  تھے اور پجاریوں کو قتل کر دیا گیا –

اس حوالے سے ان بتوں کی جو معلومات ہم تک پہنچی ہیں وہ محدود ہیں اور ان کو قرن دوم  میں الکلبی نے پہلی بار جمع کیا تھا –  شروع کے ادوار میں ظاہر ہے یہ کوئی اہم کام  یا دینی فریضہ نہ تھا کہ ان بتوںکی  معلومات جمع کی جاتیں لہذا  الکلبی کی  اس کاوش کا کوئی خاص تذکرہ نہ ہوا  یہاں تک کہ مستشرقین نے اسلام پر رکیک حملے کیے اور اس کتاب کا تذکرہ کرنا شروع کیا –

مستشرقین  کا بنیادی مقصد  یہ تھا کہ کسی طرح یہ ثابت کر دیا جائے کہ اللہ اصل میں کوئی ابراہیمی مذھب کا اله واحد نہیں ہے بلکہ اسلام نے آلات نامی ایک دیوی کی ثنویت کو ختم کر کے اس سے ایک مزکر اله بنا دیا ہے – بعض نے دعوی کیا کہ اللہ اصل میں کوئی نبطی دیوتا ہے – دوسری طرف  مستشرقین میں سے بعض   کا مقصد تھا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام  نے  جس مشرکانہ عرب کلچر کو یا مذھب کو معدوم کیا ہے وہ اصل میں  قدیم حکمت کا منبع تھا –

کتاب الاصنام  یا بتوں پر کتاب کی  اہمیت کا احساس راقم کو مستشرقین کے یہ سب فلسفہ پڑھ کر ہوا  اور یہ جاننا ضروری ہوا کہ قرآن و حدیث اور جاہلی  عرب لٹریچر میں ان بتوں پر کیا معلومات ہیں – اس حوالے سے ہمارے پاس جو  معلومات  ہیں وہ’ بہت محدود  ہیں اور بنیادی طور پر الکلبی کی کتاب ہی سب کی تحقیق کا مصدر رہی ہے – البتہ خود اہل کتاب جو تحقیق اپنے یہودی اور نصرانی فرقوں  پر کی  ہے ان سے مدد لیتے ہوئے راقم نے   ان  عرب بتوں پر معلومات جمع کی ہیں اور  معلوم ہوا ہے کہ مشرکین مکہ  یہ بت اصل میں ابراہیمی ادیان کے اعلام تھے جن کو وسیلہ لینے کے لئے کعبہ میں جمع کیا گیا تھا

اہل بیت کے حقوق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر ایک ذمہ داری ڈالی تھی  کہ ان کے اہل بیت کا خیال رکھا  جائے

اہل بیت سے مراد  گھر و خاندان  والے و ازواج رسول ہیں- ان  سب پر صدقه کھانا حرام ہے  – ظاہر ہے صدقه حرام ہے کہ تو ان کی معاش کا ذریعہ بعد رسول کیا ہو گا ایک اہم سوال ہے –  

جنگ بدر میں مسلمانوں کو کفار پر فتح نصیب ہوئی اس کے نتیجے میں جو مال غنیمت ملا اس کی تقسیم پر الله نے حکم دیا سوره انفال

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

[41]

 اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ اپنے بندے (محمد ) پر نازل فرمائی۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے

سارا مال پانچ برابر حصوں میں تقسیم ہو گا اور اس کے پانچوں حصوں کی  تقسیم اس طرح ہو گی

پہلا حصہ  الله اور اس کے رسول کا

دوسرا حصہ  الله کے رسول کے رشتہ دار

تیسرا حصہ  یتیم کا

چوتھا حصہ مسکین کا

پانچواں حصہ  مسافر

بنو نضیر ایک  یہودی آبادی تھی جو مدینہ میں تھی یہ لوگ کھیتی باڑی، تجارت اور لیں دیں کا کاروبار کرتے تھے اور ان کے مشرکین مکہ سے بھی اچھے تعلقات تھے لیکن بد قسمتی سے ان کا میلان نبی صلی الله علیہ وسلم کی مسلسل مخالفت اور سازش کرنا تھا یہاں تک کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کی بھی کوشش کی جس کی خبر الله نے اپنے نبی کو دی اور  ان کو مدینہ سے نکال دیا گیا  اور مال و متاع لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی بس جان بخشی ہوئی – یہی یہودی  مدینہ کے  مغرب میں جا کر ایک دوسری یہودی بستی میں بس گئے  وہاں بھی سازشی ماحول کی وجہ سے سن ٧ ہجری میں ان پر حملہ (خیبر) کیا گیا اور سوره الحشر میں اس پر تبصرہ کیا گیا اس میں بہت سے باغات ملے جن کو مال فیے کہا جاتا ہے  یہ الله کی طرف سے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص تحفہ تھے

سوره الحشر میں ہے

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

[6]

 اور جو (مال) الله نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن الله اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور الله ہر چیز پر قادر ہے

 مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

[7]

 جو مال الله نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ الله کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔ سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور الله سے ڈرتے رہو۔ بےشک الله سخت عذاب دینے والا ہے

انہی باغوں میں فدک کے باغ تھے جو الله نے نبی صلی الله علیہ وسلم قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کو دیے

بخاری کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ  حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

لاَ يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي، فَهُوَ صَدَقَةٌ

میری وراثت کا دینار تقسیم نہیں ہو گا میں جو چھوڑوں اس میں ازواج کے نفقہ اور عامل کی تنخواہ کے علاوہ سب صدقه ہے

اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ فاطمہ اور عبّاس  دونوں  ابوبکر صدیق  کے پاس آئے آپ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ  سے سنا ہے آپ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکر نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ  کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہی

عائشہ رضی الله عنہا  فرماتی ہیں کہ

فقال لها أبو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا نورث، ما تركنا صدقة»، فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهجرت أبا بكر، فلم تزل مهاجرته حتى توفيت، وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر

رسول اللہ کی بیٹی  فاطمہ رضی الله عنہا  نے ابوبکر رضی الله عنہ سے رسول کی وفات کے بعد میراث طلب کی  جس پر ابو بکر رضی الله عنہ نے کہا وہ صدقه ہے اس پر فاطمۂ ناراض ہوئیں اور انہوں نے اپنی وفات تک خلیفئہ اول  کو چھوڑا ( ترک کلام رکھا)  یہ رسول الله  کی وفات کے بعد چھہ ماہ تک زندہ رہی

یہی مطالبہ امہات المومنین نے بھی ابو بکر سے  کرنا چاہا

عن عائشه أن أزواج النبی صلی اللہ علیه وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنه مبراثھن فقالت عائشة ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا نورث ماترکنا صدقة»( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقة)

عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی وفات ہوگئی تو آپ  کی بیویوں نے یہ ارادہ کیاکہ عثمان کو ابوبکر  کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس پر میں ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول الله  نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘

در حقیقیت نبی صلی الله علیہ وسلم نے کچھ دینار و درہم  چھوڑا بھی نہیں تھا بخاری کی حدیث ہے

عمرو بن الحارث کہتے ہیں کہ

ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم عند موته درهما ولا دينارا

رسول الله نے اپنی موت پر نہ کوئی دینار چھوڑا نہ درہم

فدک و خیبر کے  باغات صرف اہل بیت کے لئے نہیں تھے ان میں غیر اہل بیت یتیم ، حاجت مند اور مسافروں کا بھی حق تھا لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کو اہل بیت کو نہیں دیا گیا اور ابو بکر رضی الله عنہ نے ان کا انتظام  اپنے ہاتھ میں رکھا عمر رضی الله عنہ نے باغ فدک  کا انتظام علی اور عباس رضی الله عنہ کے باتھ میں اس شرط پر دیا کہ یہ اس کو انہی مدوں میں خرچ کریں گے جن میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے کیا

کتاب فتوح البلدان از البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ) کے مطابق

حدثنا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثُ صَفَايَا، مَالُ بَنِي النَّضِيرِ وَخَيْبَرَ، وَفَدَكَ، فَأَمَّا أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ فَكَانَتَ حَبْسًا لِنَوَائِبِهِ، وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ لأَبْنَاءِ السَّبِيلِ، وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا ثَلاثَةَ أَجْزَاءٍ، فَقَسَّمَ جُزْأَيْنِ منها بين المسلمين وحبسر جُزْءًا لِنَفْسِهِ وَنَفَقَةِ أَهْلِهِ، فَمَا فَضَلَ مِنْ نَفَقَتِهِمْ رَدَّهُ إِلَى فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ

عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے مال غنیمت سے آمدنی کے تین ذرائع تھے   مال بنو النَّضِيرِ  اور مال خیبر اور مال فدک -پس مال بنو النَّضِيرِ  کو کیا  نوائب کے لئے اور فدک کو مسافر کے لئے اور خیبر  کو تین حصوں میں تقسیم کیا جن میں سے دو حصے (غریب) مسلمانوں کے لئے کیے اور ایک حصہ اپنے اور اہل کے نفقے کے لئے کیا اور جو زیادہ ہوتا تو اس کو (بھی) فقراء مہاجرین کو دیتے

اسی کتاب کی دوسری روایت ہے

حَدَّثَنَا الْحُسَيْن بن الأسود، قال حدثنا يحيى بن آدم، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَان عَنِ الزهري قَالَ. كانت أموال بني النضير مما أفاء اللَّه عَلَى رسوله ولم يوجف المسلمون عَلَيْهِ بخيل ولا ركاب فكانت لرسول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خالصة فقسمها بَيْنَ المهاجرين ولم يعط أحدا منَ الأنصار منها شيئا إلا رجلين كانا فقيرين، سماك بْن خرشة أَبَا دجانة، وسهل بْن حنيف

الزہری کہتے ہیں کہ بنو النضير  کے اموال رسول الله کے لئے خاص تھے …..پس اپ نے (اپنی خوشی سے) ان

 کو مہاجرین میں تقسیم کیا اور انصار میں سے کسی کو کچھ نہ دیا سوائے دو افراد کے جو

فقیر تھے ایک  سماك بْن خرشة أَبَا دجانة   اوردوسرے  سهل بْن حنيف   تھے

درحقیقت عباس اور علی رضی الله عنہما نے ایک زبردست ذمہ داری کو  اٹھا لیا کہ وہ مال فدک میں نہ صرف اہل بیت حصہ نکالیں گے بلکہ الله اور اس کے رسول کا ، مسافروں، یتیموں ،مسکینوں کا بھی حصہ نکالیں گے اگر یہ کام خلیفہ کو دیا جاتا تو اس میں انتظام کا مسئلہ نہیں ہوتا

اہل بیت پر صدقه کی حرمت

اہل بیت پر ان خصوصی انعام و اکرام کے ساتھ یہ پابندی بھی لگائی جا چکی تھی  کہ ان پر صدقه حرام کر دیا گیا تھا جس پر شیعہ و سنی دونوں متفق ہیں-

مسند احمد کی  بريدة  رضی الله عنہ کی حدیث ہے

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا زيد بن الحباب حدثني حسين حدثني عبد الله بن بريدة قال سمعت بريدة يقول : جاء سلمان إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم حين قدم المدينة بمائدة عليها رطب فوضعها بين يدي رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم ما هذا يا سلمان قال صدقة عليك وعلى أصحابك قال أرفعها فانا لا نأكل الصدقة

سلمان رضی الله عنہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کو تازہ کھجور پیش کی پس رسول الله نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ سلمان رضی الله عنہ نے کہا یہ صدقه ہے آپ اور آپ کے لوگوں کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کو اٹھا لو ہم صدقه نہیں کھاتے

ایک دفعہ حسن رضی الله عنہ نے بچپن میں صدقه کی کھجور اپنے منہ میں ڈالی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ان کے منہ سے نکالا

صدقه کی یہ پابندی اس قدر تھی کہ گھر والیوں اور غلاموں اور عام رشتہ داروں سب پر لاگو ہوتی تھی

مسند احمد کی روآیت ہے

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا وكيع ثنا سفيان عن عطاء بن السائب قال أتيت أم كلثوم ابنة علي بشيء من الصدقة فردتها وقالت حدثني مولى للنبي صلى الله عليه و سلم يقال له مهران أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إن آل محمد لا تحل لنا الصدقة ومولى القوم منهم

عطاء بن السائب کہتے ہیں میں أم كلثوم بن علی کے پاس گیا صدقه لے کر انہوں نے اس کو لوٹا دیا اور کہا مجھ کو رسول الله کے آزاد کردہ غلام مهران نے کہا کہ ال محمّد صدقه نہیں کھاتے اور ان کے غلام بھی

مسلم کی حدیث ہے

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا يحيى بن آدم ثنا بن المبارك عن يونس عن الزهري عن عبد الله بن الحرث بن نوفل عن عبد المطلب بن ربيعة بن الحرث انه هو والفضل أتيا رسول الله صلى الله عليه و سلم ليزوجهما ويستعملهما على الصدقة فيصيبان من ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن هذه الصدقة إنما هي أوساخ الناس وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد

نبی صلی الله علیہ وسلم نے عبد المطلب بن ربيعة بن الحرث اور الفضل بن عباس کو صدقه کے معاملات دینے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ لوگوں کا میل ہے اور محمّد اور ال محمد پر حرام ہے

ال محمد سے مراد  نبی صلی الله  علیہ وسلم کی ازواج ،  چار بیٹیاں یعنی زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ  رضی اللہ عنہما  ہیں اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کے خاندان والے

 مسلم میں ہے

يزيد بن حيان التيمي کہتے ہیں میں اور حصين بن سبرة اور عمر بن مسلم ،  زيد بن أرقم رضی الله عنہ کے پاس گئے

 فقال له حصين ( بن سبرة)  ومن أهل بيته يا زيد (بن أرقم) أليس نساؤه من أهل بيته قال ان نساءه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده قال ومن هم قال هم آل على وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال أكل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم

حصين ( بن سبرة)  نے  زيد (بن أرقم) سے پوچھا کہ اے زید  کیا نبی کی ازواج ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا بے شک وہ اہل بیت میں سے ہیں لیکن اہل بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقه حرام ہے ان کے بعد پوچھا وہ کون ؟ کہا وہ ال علی ال عقیل ال جعفر ال عباس ہیں کہا ان سب پر صدقه حرام ہے ؟ کہا ہاں

اس میں امہات المومنین کو بھی اہل بیت کہا گیا ہے

مسلم میں اسی روایت کی  دوسری سند میں الفاظ ہیں جن میں امہات المومنین کو خارج کیا گیا ہے جو زید بن ارقم کی روایت میں الفاظ کا اضطراب ہے  کیونکہ مسلم کی دوسری روایت میں یہ الفاظ  نہیں ہیں  اس مخصوص روایت کے الفاظ ہیں

مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا، وَايْمُ اللهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَه

اہل بیت کون ہیں ؟ ازواج؟ زید نے کہا الله کی قسم ایک عورت آدمی کے ساتھ ہوتی ہے ایک عرصۂ تک پھر وہ اس کو طلاق دیتا ہے اور وہ اپنے باپ اور قوم میں لوٹ جاتی ہے اور اہل بیت تو اصل والے اور جڑ والے ہیں جن پر صدقه حرام ہے

 اس کی سند میں حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى المتوفی ١٨٩ یا ١٨٦ ھ ہیں جن کو  النسائى : ليس بالقوى کہتے ہیں ، ابن حجر ،  صدوق يخطىء  صدوق غلطیاں کرتے تھے کہتے ہیں  ابن عدی کہتے ہیں  من أهل الصدق إلا أنه يغلط في الشئ ولا يتعمد یہ اہل صدق میں سے ہیں لیکن غلطیاں کرتے ہیں اور قابل اعتماد نہیں ہیں

اس کی واضح مخالف حدیث بخاری میں موجود ہے

عائشہ رضی اللہ عنہا  کو ایک   لونڈی بریرہ   نے گوشت دیا (یہ اس وقت  ام المومنین کی لونڈی نہ تھیں ) – جو  ان کے پاس کہیں سے صدقہ کا گوشت آیا جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بھیج دیا تو اس گوشت کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اچھا یہ وہی ہے جو بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے۔ یہ ان کے لیے تو صدقہ ہے لیکن ہمارے لئے ہدیہ ہے ۔

ابن عبّاس رضی الله عنہ کی بخاری کی روایت ہے

وجد النبي صلى الله عليه وسلم شاة ميتة، أعطيتها مولاة لميمونة من الصدقة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «هلا انتفعتم بجلدها؟» قالوا: إنها ميتة: قال: «إنما حرم أكلها

نبی صلی الله علیہ وسلم کو ایک بکری ملی نظر آئی جو مری پڑی تھی اور میمونہ رضی الله عنہا کی لونڈی کو کسی نے صدقه میں دی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کا گزر اس بکری کے پاس ہواتو آپ نے فرمایا: ” ان لوگوں نے اس کی کھال کیوں نہیں اتار لی کہ اسے دباغت دے کر کام میں لے آتے ” ؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو مردار ہے، آپ نے فرمایا: ” صرف اس کا کھانا حرام ہے

الغرض صدقه کی پابندی میں امہات المومنین، نبی صلی الله علیہ وسلم  کی بیٹیاں ، نبی صلی الله علیہ وسلم  کے خاندان بنو عبد المطلب  کے مسلم افراد  اور ان کے لونڈی غلام (الا یہ کہ ان کو آزاد کر دیا جائے) سب شامل تھے

حدیث کساء کی حیثیت

صحیح مسلم میں عائشہ رضی الله عنہا سے مروی حدیث ہے

خرج النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ غداةً وعليه مِرْطٌ مُرحَّلٌ ، من شعرٍ أسودٍ . فجاء الحسنُ بنُ عليٍّ فأدخلَه . ثم جاء الحسينُ فدخل معه . ثم جاءت فاطمةُ فأدخلها . ثم جاء عليٌّ فأدخلَه . ثم قال ” إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ” [ 33 / الأحزاب / 33 ] .

عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر علی رضی الله عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : بے شک اللہ چاہتا ھے کہ  وہ تم اہل بیت سے رجس کو دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

امام مسلم اس کی سند دیتے ہیں

وحَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، ح وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ،

اس کی سند میں مصعب بن شيبة بن جبير بن شيبة کا تفرد ہے – امام احمد اس روایت کو پسند نہیں کرتے

قال أحمد بن محمد بن هانىء: ذكرت لأبي عبد الله الوضوء من الحجامة، فقال: ذاك حديث منكر، رواه مصعب بن شيبة، أحاديثه مناكير، منها هذا الحديث، وعشيرة من الفطرة، وخرج رسول الله – صلى الله عليه وسلم – وعليه مرط مرجل. «ضعفاء العقيلي» (1775)

احمد بن محمد بن ہانی کہتے ہیں میں نے ابی عبد الله سے حدیث ذکر کی کہ حجامہ میں وضو پس کہا یہ حدیث منکر ہے اس کو  مُصْعَبِ بْنِ شيبة  روایت کرتا ہے اس کی حدیثیں منکر ہیں جن میں یہ حدیث ہے اور … اور نبی صلی الله علیہ وسلم   ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے والی

  • وقال أبو بكر الأثرم: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل يقول: مصعب بن شيبة روى أحاديث مناكير. «الجرح والتعديل» 8/ (1409) .

کتاب ضعفاء العقيلي میں امام احمد اس کی خاص اس ایک اونی منقش چادر والی روایت کو رد کرتے ہیں

ترمذی میں بھی یہ موجود ہے جہاں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا» قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ

نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ”اہلِ بیت! اللہ چاہتا ھے کہ وہ تم سے  رجس دُور کر دے اور تمہیں  طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔” نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ اور حسنین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔”

امام ترمذی اس کو حسن بھی نہیں کہتے بلکہ لکھتے ہیں وهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ یہ حدیث انوکھی ہے اس طرق سے

دونوں احادیث میں ایک ہی واقعہ ہے- ایک دفعہ اس میں عائشہ رضی الله عنہا کو دکھایا گیا اور دوسری دفعہ ام سلمہ رضی الله عنہا کو – ظاہر ہے یہ ایک دفعہ ہی ہوا ہو گیا اگر ہوا بھی – مسلم کی حدیث امام احمد کے نزدیک  ضعیف ہے

اہل سنت کے جن علماء نے اس کو لکھا ہے ان کے نزدیک یہ حدیث امہات المومنین کو اہل بیت میں سے خارج نہیں کرتی لہذا یہ متنا صحیح ہے کیونکہ اس میں ہے کہ تم خیر میں ہو

امہات المومنین

وفات نکاح امہات المومنین رضی الله عنہما
١٠بعد بعثت ١٥ قبل نبوت خدیجہ بنت خویلد
٢٢ ھ ١٠ بعد بعثت  شوال سودہ بنت زمعہ
٥٣ یا ٥٧ ھ ٢ ھ شوال عائشہ بنت ابی بکر
٤٥ھ ٣ھ شعبان حفصہ بنت عمر
٤ھ ٤ ھ زینب بنت خزیمہ
٥٩ھ ٤ھ شوال ام سلمہ  ہند بنت ابی امیہ
٢٠ھ ٥ ھ  ذیقعدہ زینب بنت جحش
٥٠ھ ٦ ھ شعبان جویریہ بنت حارث
٤٤ھ ٦ھ ام حبیبہ رملہ بنت ابو سفیان
٥٠ھ ٧ھ محرم صفیہ بنت حی بن اخطب
٥١ھ ٧ھ  ذیقعدہ میمونہ بنت حارث

یہ سب امت کی مائیں ہیں اور اہل بیت میں سے ہیں سوره الاحزاب کی آیات تطہیر  بھی انہی سے متعلق  ہیں انہی کو ہدایات دی جا رہی ہیں کہ آگے مستقبل  میں کیا کیا کرنا ہے جس کے بعد وہ منافقین کے کسی بھی رجس سے پاک رہیں گی یا با الفاظ دیگر منافقین ان کے حوالے سے کچھ بھی پروپیگنڈا کرنے میں ناکام رہیں گے

اس آیت کے نزول کے وقت   میمونہ بنت حارث ، زینب بنت جحش ، جویریہ بنت حارث،صفیہ بنت حی بن اخطب، ام حبیبہ رملہ بنت ابو سفیان رضی الله عنہما آپ صلی الله علیہ وسلم کے نکاح میں نہیں تھیں لیکن اس میں الله کا ارادہ کا ذکر ہے جو ظاہر ہے سب بعد میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے نکاح میں انے والیوں کے لئے  ہے

 اہل بیت کے الفاظ  نبی صلی الله علیہ وسلم کے خاندان کے لئے اس لئے بعض حلقوں میں  مخصوص ہوئے کیونکہ

امہات المومنین کے انتقال کے بعد وہی اہل بیت میں سے باقی رہ گئے تھے اور انہوں نے اپنی تقریروں میں بنو امیہ سے بلند دکھانے کے لئے ان الفاظ کو استمعال کیا لیکن انہوں نے کہیں بھی دعوی نہیں کیا کہ امہات المومنین اہل بیت نہیں تھیں

شیعہ نقطۂ نظر

شیعہ پہلے آیات کو ان کے محل سے ہٹا کر ان کے مفہوم سے امہات المومنین کو نکالتے ہیں پھر آیت تطہیر کو  پانچ لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں اس کے بعد اہل بیت میں معصوم لوگوں کا عقیدہ نکالتے ہیں اور اس کے بعد امامت کا عقیدہ

 شیعہ مذھب میں حدیث کساء نہایت مقبول ہے  لیکن انہوں نے بھی اس کے نقص پر غور نہیں کیا -شیعہ مذھب کے مطابق اہل بیت معصومین تو پیدا ہی الگ طرح ہوتے ہیں ان کی تخلیق ہی کائنات کے رازوں میں سے ہے لہذا ان سب افراد کی پیدائش کے اتنے عرصہ بعد ان کو رجس سے پاک کرنا کیا مطلب ہوا؟  اگر یہ صرف دکھانے کے لئے تھا تو بھی تک نہیں بنتی اس کا مطلب ہے مخصوص اہل بیت کے معصوم  ہونے کا عقیدہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے امت پر  پیش تک نہیں کیا تھا – شیعوں نے افراط میں  امہات المومنین کو  اہل بیت سے نکال دیا لیکن  اس کاوش میں  خدیجہ رضی الله عنہا کو بھی اہل بیت سے نکال دیا گیا

آیات کو ان کے محل سے ہٹا کر دیکھنا ، کیا صحیح طرز عمل ہے؟ – آیت تطہیر پر عمل

حسین کی ولادت کے بعد ہوا ، کیا اس سے پہلے یہ پانچ  معصومین تھے یا نہیں ؟

انبیاء کی وراثت پر ان کے دلائل  درج ذیل ہیں

شیعہ کتب کے مطابق داود علیہ السلام نے سلیمان علیہ السلام کو اپنا وارث بنایا اگر داود نے کوئی میراث نہیں چھوری تھی تو سلیمان کو وارث بنانے کا مقصد کیا تھا -حالانکہ قرآن میں یہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ انبیاء کسی کو وارث بولتے ہوں قرآن میں ہے

وورث سليمان داود

اور سلیمان، داود کا وارث ہوا

قرآن نے صرف ایک وقوعہ بتایا ہے-  کیا نبوت اور  جائداد میں کوئی فرق نہیں ؟کیا موسی علیہ السلام کسی جائداد کے مالک تھے جب بنی اسرائیل صحرا میں تھے؟ ان کے بیٹے تو ان کے وارث نہیں تھے بلکہ یوشع بن نوں خلیفہ ہوئے؟

قرآن میں زکریا علیہ السلام کی دعا ہے کہ ایک بیٹا دے جو

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيّا

میرا اور ال یعقوب کا وارث ہو

زکریا علیہ السلام اس وقت کس سلطنت کے حاکم تھے؟  اس میں ان کے پاس کیا جائداد تھی جس کے ضائع ہونے کا ان کو خطرہ تھا کچھ بیان نہیں ہوا بلکہ رومیوں کے دور میں تو ان پر ایک ظالم بادشاہ حاکم تھا-  ال یعقوب کہہ کر زکریا علیہ السلام نے اس وراثت  کو بنوت و رسالت کی طرف موڑ دیا

الکافی    کی روایت ہے  الكافي – از الكليني – ج 1 – ص ٣٤  باب ثواب العالم والمتعلم

محمد بن الحسن وعلي بن محمد ، عن سهل بن زياد ، ومحمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد جميعا ، عن جعفر بن محمد الأشعري ، عن عبد الله بن ميمون القداح ، وعلي بن  إبراهيم ، عن أبيه ، عن حماد بن عيسى ، عن القداح ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : قال  رسول الله صلى الله عليه وآله : من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة

وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به وإنه يستغفر لطالب العلم من  في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر ، وفضل العالم على العابد كفضل  القمر على سائر النجوم ليلة البدر ، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا

دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر

 جعفر صادق نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا …. بے شک علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی باتیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا

الكافي از  الكليني – ج 5 – ص ١٣ / ١٥ کی   روایت ہے کہ

علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن بكر بن صالح ، عن القاسم بن بريد ، عن أبي عمرو الزبيري ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال

ثم أخبر عن هذه الأمة وممن  هي وأنها من ذرية إبراهيم ومن ذرية إسماعيل من سكان الحرم ممن لم يعبدوا غير الله
قط الذين وجبت لهم الدعوة ، دعوة إبراهيم وإسماعيل من أهل المسجد الذين أخبر عنهم  في كتابه أنه أذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا الذين وصفناهم قبل هذا في صفة أمة إبراهيم

امام جعفر کہتے ہیں پھر الله نے خبر دی اس امت کے بارے میں اور یہ ابراہیم کی نسل میں سے ہے اور اسمٰعیل کی نسل میں سے جو حرم میں اقامت پذیر ہوئے ان میں سے جو غیر الله کی عبادت نہیں کرتے ہوں ان پر دعوت واجب ہوئی ابراہیم اور اسمعیل کی دعوت مسجد والوں کے لئے جن کے لئے کتاب میں خبر دی گئی کہ ان سے رجس (شرک) کو دور کیا گیا اور ان کو پاک کیا گیا اور اس صفت سے ان سے پہلے امت ابراہیم کو بھی متصف کیا گیا

فقہ میں امام ابو حنیفہ کا مقام

[wpdm_package id=’8866′]

امام ابو حنیفہ    رحمہ اللہ   تعالی    کا اسلامی  فقہ میں ایک عظیم نام ہے- آنجناب  کی اس حوالے سے کاوش و فہم کا ایک عالم معترف ہے – یہ انسانی  کمزوریوں میں سے ہے کہ جب اللہ  تعالی کسی کو عزت دیتا  ہے تو   آزمائش کے لئے   بعض   انسانوں   کے  دلوں میں حسد  پیدا کرتا ہے – اس حسد کی  آگ میں  حاسد  جھوٹ بولتا ہے ، فریب گھڑتا ہے یہاں تک کہ جادو   بھی کرنے پر  آمادہ   ہو  جاتا ہے-  اسی لئے     حاسد  کے شر سے پناہ مانگی جاتی ہے  –  افسوس       حاسدوں  کا     وقت     پھر کسی تعمیری و تحقیقی سرگرمی میں کم اور جدل کی نذر ہو جاتا ہے-

  ابو حنیفہ سے  بعض     اہل روایت    کا بہت خنس تھی کیونکہ وہ اہل رائے و اجتہاد تھے اور اس امت میں ان کے مقام کے لوگ پیدا نہیں ہوئے –  روایت پسندوں نے ان کے خلاف محاذ بنائے رکھا اور ان کو حدیث کا مخالف بنا پر پیش کیا جبکہ   امام صاحب مشکل حدیث کی صنف میں اور ناسخ و منسوخ فی الحدیث کا   بہت  علم رکھتے تھے-  ابو حنیفہ   کہتے تھے کہ   ایک عمل  دور نبوی میں اگر    مجمع میں  کیا گیا ہو تو وہ حدیث مشہور ہونی چاہیے   کہ ایک گروہ اس کو بیان کرے – اس کے برعکس  محدثین  کا ایک گروہ  ایسا پیدا ہو گیا تھا  جس کو اگر      ایک ہی روایت مل جاتی     جو   خود ان کے اصولوں پر ضعیف ہی کیوں نہ ہوتی   تو    وہ اس پر عمل کرنے لگ جاتے تھے –   اس طرح ایک طرف ضعیف  روایات پر عمل پیرا   محدثین تھے  اور دوسری طرف  اہل ورع  و احتیاط والے  اہل رائے تھے –   یہاں تک کہ  امام  بخاری و مسلم  آئے  اور انہوں نے  صحیحین کو  مرتب کر کے  اس  رجحان کو ختم کرنے کی کوشش کی کہ ضعیف یا حسن کو  عمل میں بھی نہ  لیا جائے ،  اگرچہ یہ  کاوش  کامیاب نہ ہو سکی اور  امت میں صحاح الستہ   کی غلط  اصطلاح  کو جاری  کر دیا گیا –  واضح رہے کہ مولفین  سنن  اربع   امام نسائی  ، ابو داود ، ترمذی ، ابن ماجہ نے یہ دعوی کہیں نہیں کیا کہ ہماری کتب صحیح  روایات  کا مجموعہ ہیں –  یہ رجحان  بھی  کافی صدیوں  تک چلتا رہا  یہاں تک کہ عصر  قریب میں  البانی نے    چار کو  اٹھ  کتب میں بدل دیا یعنی  ضعیف و صحیح   ابو داود  وغیرہ

امام ابن ابی شیبہ نے امام ابو حنیفہ کے رد میں ایک رسالہ تصنیف کیا جس میں بلا سند اقوال کو جمع کر کے خود ابن ابی شیبہ نے  اپنے اوپر تنقید کی راہ پیدا کی –    دوسری طرف    امام ابو حنیفہ پر بہت سے جھوٹ بولے گئے ہیں اور اس قدر بولے گئے ہیں کہ ان میں آپس میں تضادات   ہر   صاحب عقل پر آشکار ہو جاتے ہیں –  راقم  کا      مقصد   انہی ظلمات  کے پردوں  کو چاک   کر کے    حقیقت تک جانا ہے-

 یہ کتاب   ویب سائٹ   پر موجود  سوالات  و تحقیق   کو یکجا   کر کے مرتب کی  گئی  ہے  جس کے لئے    احباب  کا مشکور ہے –  اللہ تعالی ہم سب کو   مسلک پرستی  اور تقلید  شخصی  سے آزاد  کرے  اور     جو سچ ہے اس کو بیان کرنے کی توفیق دے

ابو شہر یار

٢٠١٩

امام بخاری و امام احمد کے اختلافات

 

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے تحقیق سے ثابت کیا تھا  کہ امام بخاری و احمد میں آخری دور میں یعنی ٢٢٠ ہجری تک اختلافات پیدا ہو چکے تھے – بخاری نے جامع  الصحیح میں احمد کوشیخ ماننے سے انکار کر دیا اور  صرف چار بار احمد بن حنبل کا نام لیا

مزید براں  تاریخ میں موجود ہے کہ امام احمد نے لفظی بالقران کے قائلین کو بدعتی قرار دیا اور یہ بات معلوم ہے  کہ یہ امام بخاری کا عقیدہ ہے جس کا ذکر خلق الافعال العباد میں ہے

 ابن خلفون کتا ب شیوخ البخاری و المسلم میں لکھتے ہیں

و روی البخاری فی الجامع الصحیح عن احمد بن الحسن الترمذی عنہ عن معتمر بن سلیمان التیمی فی آخر المغازی بعد ذکر وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم

 قال ابو نصر الکلاباذی و لم یحدث عنہ البخاری نفسہ فی الجامع بشیء و لا اورد من حدیث فیہ شیئا غیر ھذا الواحد الا ما لعلہ استشھد بہ فی بعض المواضع

 قال محمد قال البخاری فی کتاب النکاح و قال لنا احمد بن حنبل ثنا 

اور بخاری نے الجامع الصحیح میں ان  (امام احمد) سے روایت نقل کی ہے  احمد بن الحسن الترمذی سے معتمر بن سلیمان التیمی کے واسطے سے کتاب المغازی کے آخر میں

ابو نصر الکلاباذی کہتے ہیں ان سے بخاری نے فی نفسہ کچھ بھی الجامع صحیح میں روایت نہیں کیا سوائے اسکے اور بعض جگہ استشہاد کیا ہے، ابن خلفون کہتے ہیں  بخاری کتاب النکاح میں کہتے ہیں قال لنا احمد بن حنبل

ابن خلفون یہ بھی کہتے ہیں

و قد روی عنہ فی غیر الجامع غیر شیء

اور امام احمد سے صحیح بخاری کے علاوہ دوسری  کتابوں میں بھی کوئی روایت نہیں لی

معلوم ہوا کہ بخاری نے امام احمد سے براہ راست روایت نقل نہیں کی اور بخاری نے کہیں بھی حدثنی یا حدثنا کہہ کر روایت نہیں لی جو تحدیث کے خاص لفظ ہیں

پہلا حوالہ

بخاری باب كم غزا النبي صلى الله عليه و سلم میں روایت لکھتے ہیں

حدثني أحمد بن الحسن حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال حدثنا معتمر بن سليمان عن كهمس عن ابن بريدة عن أبيه قال  : غزا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ست عشرة غزوة

یہاں امام احمداور امام بخاری کے درمیان احمد بن حسن ہیں جو ایک عجیب بات ہے اتنے مشھور امام سے صحیح میں صرف یہ ایک  روایت سندا نقل کی اور اس میں بھی واسطہ رکھا

دوسرا حوالہ

باب مَا يَحِلُّ مِنَ النِّسَاءِ وَمَا يَحْرُمُ

وَقَالَ لَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِى حَبِيبٌ عَنْ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ حَرُمَ مِنَ النَّسَبِ سَبْعٌ ، وَمِنَ الصِّهْرِ سَبْعٌ . ثُمَّ قَرَأَ ( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ ) الآيَةَ .

 ہم سے احمد بن حنبل نے بیان کیا .. امام بخاری نے یہاں بھی قال لنا کے الفاظ سے ظاہر کیا ہے امام احمد نے یہ ایک مجمع میں سنائی نہ کہ خاص ان کو لہذا امام بخاری نے اپنے اپ کو امام احمد کے خاص شاگرد کی خصوصیت سے پاک رکھا

 تیسرا حوالہ

حدثني محمد بن عبد الله الأنصاري قال حدثني أبي عن ثمامة عن أنس  : أن أبا بكر رضي الله عنه لما استخلف كتب له وكان نقش الخاتم ثلاثة أسطر محمد سطر ورسول سطر والله سطر

 قال أبو عبد الله وزادني أحمد حدثنا الأنصاري قال حدثني أبي عن ثمامة عن أنس قال كان خاتم النبي صلى الله عليه و سلم في يده وفي يد أبي بكر بعده وفي يد عمر بعد أبي بكر فلما كان عثمان جلس على

بئر أريس قال فأخرج الخاتم فجعل يعبث به فسقط قال فاختلفنا ثلاثة أيام مع عثمان فننزح البئر فلم نجده

اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی انگوٹھی کا  ذکر ہے کہ امام بخاری کہتے ہیں  روایت پر وزادني أحمد کہ  احمد نے اضافہ کیا

لیکن یہ امام احمد بن حنبل ہی ہیں واضح نہیں کیا

چوتھا حوالہ

قال أبو عبد الله قال علي بن عبد الله سألني أحمد بن حنبل عن هذا الحديث قال فإنما أردت أن النبي صلى الله عليه و سلم كان أعلى من الناس فلا بأس أن يكون الإمام أعلى من الناس بهذا الحديث . قال فقلت إن سفيان بن عيينة كان يسأل عن هذا كثيرا فلم تسمعه منه ؟ قال لا

صحیح میں  امام بخاری نے روایت بیان کی کہ امام نماز میں کہاں کھڑا ہو گا

اس کے بعد امام علی المدینی اور امام احمد کی گفتگو نقل کی اور امام علی نے امام احمد سے کہا کہ اس روایت کو سفیان نے کئی دفعہ بیان کیا تم نے سنا نہیں امام احمد نے کہا نہیں

  ان چار مقامات  پر امام بخاری نے امام احمد بن حنبل کا ذکر کیا ہے تو ظاہر ہے امام بخاری ان کو اپنا استاد ماننے کے لئے تیار نہیں

امام احمد کی مدح سرائی میں زبیر علی زئی کتاب  تحقیق اصلاحی میں مضمون  امام احمد کا مقام محدثین کی نگاہ میں ، میں لکھتے ہیں

tahqeeqislahi-337

امام احمد صدوق تھے؟ شاید موصوف کو پتا نہیں صدوق تو ثقاہت کا ادنی درجہ ہے. نہیں! موصوف کو پتا ہے کہ امامبخاری نے صحیح میں صرف ایک جگہ سندا روایت لکھی ہے وہ بھی ایک راوی کو بیچ میں ڈالنے کے بعد

احمد-٢ احمد-١

مکتبہ الکوثر سے مندرجہ بالا کتاب شائع ہوئی اس میں مولف ابن مندہ  المتوفی ٣٩٥ ھ کہتے ہیں کہ احمد سے صرف ایک جگہ ہی روایت لی ہے اس پر تعلق میں محقق  ابن حجر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بخاری احمد کو چھوڑ کر امام علی  المدینی سے روایت لیتے اور انہوں نے احمد سے تحدیث کرنا منقطع کر دیا تھا

دامانوی صاحب نے دین الخالص قسط دوم میں لکھا تھا کہ امام بخاری ، امام احمد کو رحمہ الله علیہ لکھتے تھے اور پھر كتاب تاریخ الصغیر  کا ایک نسخہ بھی دکھایا

damnvi-imamahmed-rehma

دامانوی صاحب نے جو حوالہ دیا ہے وہ تاریخ الصغیر کا ہے جبکہ یہ الفاظ  بخاری کی کتاب الضعفاء  میں ہیں نہ کہ تاریخ الصغیر ہیں

 افسوس كتاب الضعفاء   جو  حال ہی میں ٢٠٠٥ میں أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن أبي العينين کی تحقیق کے ساتھ  مكتبة ابن عباس  سے چھپی ہے اس میں سے یہ الفاظ حذف کر دے گئے

 حفص بن سليمان الأسدي: أبو عمر، عن علقمة بن مرثد، تركوه، قال أحمد بن حنبل وعلي: قال يحيى: أخبرني شعبة، قال: أخذ مني حفص بن سليمان كتابا، فلم يرده، قال: وكان يأخذ كتب الناس، فينسخها.

امام بخاری نے امام احمد کے ساتھ یہ رویہ کیوں اختیار کیا واضح  نہیں لیکن شاید یہ امام احمد کا امام بخاری کے خلاف فتوی ہو

 فائدہ : ہم ہی نہیں ہمارے سلف بھی فتوی بازی کرتے تھے ملاحظہ ہو

امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة  میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق

میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور ہمارے الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں

یہاں شخص سے مراد امام بخاری میں کیونکہ یہ ان ہی کا موقف تھا کا الفاظ قرآن مخلوق ہیں تلاوت مخلوق ہے  لیکن قرآن الله کا کلام غیر مخلوق ہے

ساکن بغداد ہونے کی وجہ سے مسئلہ خلق قرآن پر عباسی خلفاء کی خاص توجہ امام احمد پر مذکور رہی – امام احمد اپنے موقف پر ڈٹے رہے – اس بنا پر اپنے زمانے میں بہت  مشہور ہوۓ اور  پھر  اسی شہرت کے  سحر کے زیر اثر امام بخاری کو بد عقیده تک قرار دیا

امّت کو امام احمد کی شحصیت پرستی سے نکلنے  کے لئے امام بخاری نے کتاب  خلق أفعال العباد لکھی جس میں  نہ  صرف  معتزلہ  بلکہ  امام  احمد  کے  موقف  سے  ہٹ  کر  وضاحت  کی گئی

بندوں کی تلاوت مخلوق ہے

امام بخاری ، تلاوت جو ہم کرتے ہیں اس کو مخلوق کا فعل کہتے تھے. کتاب کا نام ہی خلق افعال العبآد یعنی بندوں کے افعال کی تخلیق رکھا امام بخاری کتاب میں کہتے ہیں

خلق١

اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایک قوم نکلے گی جو تمہارے عمل کو اپنے اعمال سے حقیر جانیں گے پس اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ قرآن کی قرات ایک عمل ہے

امام بخاری اور امام احمد دونوں قرآن کو کلام الله غیر مخلوق کہتے تھے لیکن بخاری کہتے  ہیں قرآن اللہ کا کلام ہے اور قرات بندے کا فعل  ہے

عربی زبان مخلوق ہے

بخاری باب باندھتے ہیں

باب قول االله تعالى { فأتوا بالتوراة فاتلوها إن كنتم صادقين } قال ومـن آياتـه خلـق السماوات و الأرض واختلاف ألسنتكم و ألوانكم فمنها العربي ومنها العجمي فـذكراختلاف الألسنة والألوان وهو كلام العباد

باب الله تعالی کا قول  پس جاؤ تورات لے آو اس کی قرات کرو اگر سچے ہو. الله نے کہا اور اس کی نشانیوں میں سے ہے زبانوں کا اختلاف اور رنگوں کا پس کوئی عربی ہے کوئی عجمی ہے پس الله نے زبان اور رنگوں کے اختلاف کا ذکر کیا اور وہ بندوں کا کلام ہے

بخاری کہنا چاہ رہے ہیں کہ قرآن کے علاوہ تورات بھی الله کا کلام ہے جو عربی میں نہیں اور یہ زبانوں کا اختلاف الله نے پیدا یا خلق کیا ہے .عربی زبان  مخلوق ہے

قرآن الله کا علم ہے وہ غیر مخلوق ہے لیکن  عربی زبان مخلوق ہے

یاد رہے کہ حدیث کے مطابق قرآن قریش (مکہ) کی زبان میں نازل ہوا  ہے اور اختلاف قرات کے مسئلہ پر،  جمع قرآن  کے وقت قریش کی زبان کو ترجیح دی گئی تھی

کتاب کے آخر میں بخاری نے نہ صرف قرآن بلکہ تورات اور انجیل کا بھی ذکر کیا جو عربی میں نازل نہیں ہوئیں لیکن  تورات و انجیل بھی الله کا کلام ہیں غیر مخلوق ہیں

اب دوبارہ امام احمد کا نقطہ نظر دیکھئے

امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة  میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق

میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور ہمارے الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے؟ – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں

ابن تیمیہ فتوی ج ٧ ص ٦٦٠ مجموع الفتاوى مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية  میں دعوی کرتے  ہیں سلف میں کس نے نہیں کہا کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں

وَلَا قَالَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ وَلَا أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَنَّ شَيْئًا مِنْ صِفَاتِ الْعَبْدِ وَأَفْعَالِهِ غَيْرُ مَخْلُوقَةٍ وَلَا صَوْتِهِ بِالْقُرْآنِ وَلَا لَفْظِهِ بِالْقُرْآنِ

اور امام احمد اور سلف میں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ بندے کی صفات اور افعال غیر مخلوق ہیں اور نہ قرآن کی آواز(قرات) اور اس کے لفظ

امام الْأَشْعَرِيِّ کہتے تھے کہ امام احمد قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہنےسے کراہت کرتے تھے. ابن تیمیہ فتوی  ج ٧ ص ٦٥٩ میں لکھتے ہیں

وَصَارَ بَعْضُ النَّاسِ يَظُنُّ أَنَّ الْبُخَارِيَّ وَهَؤُلَاءِ خَالَفُوا أَحْمَد بْنَ حَنْبَلٍ وَغَيْرَهُ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ وَجَرَتْ لِلْبُخَارِيِّ مِحْنَةٌ بِسَبَبِ ذَلِكَ حَتَّى زَعَمَ بَعْضُ الْكَذَّابِينَ أَنَّ الْبُخَارِيَّ لَمَّا مَاتَ أَمَرَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ أَلَّا يُصَلَّى عَلَيْهِ وَهَذَا كَذِبٌ ظَاهِرٌ فَإِنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْبُخَارِيَّ – رَحِمَهُ اللَّهُ – مَاتَ بَعْدَ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ بِنَحْوِ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَإِنَّ أَحْمَد بْنَ حَنْبَلٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – تُوُفِّيَ سَنَةَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ وَمِائَتَيْنِ وَتُوُفِّيَ الْبُخَارِيُّ سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِينَ وَمِائَتَيْنِ وَكَانَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ يُحِبُّ الْبُخَارِيَّ وَيُجِلُّهُ وَيُعَظِّمُهُ وَأَمَّا تَعْظِيمُ الْبُخَارِيِّ وَأَمْثَالِهِ لِلْإِمَامِ أَحْمَد فَهُوَ أَمْرٌ مَشْهُورٌ وَلَمَّا صَنَّفَ الْبُخَارِيُّ كِتَابَهُ فِي خَلْقِ أَفْعَالِ الْعِبَادِ وَذَكَرَ فِي آخِرِ الْكِتَابِ أَبْوَابًا فِي هَذَا الْمَعْنَى؛ ذَكَرَ أَنَّ كُلًّا مِنْ الطَّائِفَتَيْنِ الْقَائِلِينَ: بِأَنَّ لَفْظَنَا بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ وَالْقَائِلِينَ بِأَنَّهُ غَيْرُ مَخْلُوقٍ يُنْسَبُونَ إلَى الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ

وَيَدَّعُونَ أَنَّهُمْ عَلَى قَوْلِهِ وَكِلَا الطَّائِفَتَيْنِ لَمْ تَفْهَمْ دِقَّةَ كَلَامِ أَحْمَد – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -. وَطَائِفَةٌ أُخْرَى: كَأَبِي الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيِّ وَالْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ وَالْقَاضِي أَبِي يَعْلَى وَغَيْرِهِمْ مِمَّنْ يَقُولُونَ إنَّهُمْ عَلَى اعْتِقَادِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْحَدِيثِ قَالُوا: أَحْمَد وَغَيْرُهُ كَرِهُوا أَنْ يُقَالَ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ؛ فَإِنَّ اللَّفْظَ هُوَ الطَّرْحُ وَالنَّبْذُ وَطَائِفَةٌ أُخْرَى كَأَبِي مُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ وَغَيْرِهِ مِمَّنْ يَقُولُ أَيْضًا: إنَّهُ مُتَّبِعٌ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ إلَى غَيْرِ هَؤُلَاءِ مِمَّنْ يَنْتَسِبُ إلَى السُّنَّةِ وَمَذْهَبُ الْحَدِيثِ يَقُولُونَ إنَّهُمْ عَلَى اعْتِقَادِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَنَحْوِهِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَهُمْ لَمْ يَعْرِفُوا حَقِيقَةَ مَا كَانَ يَقُولُهُ أَئِمَّةُ السُّنَّةِ؛ كَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَأَمْثَالِهِ وَقَدْ بَسَطْنَا أَقْوَالَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ: أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ. وَأَمَّا الْبُخَارِيُّ وَأَمْثَالُهُ فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ أَعْرَفِ النَّاسِ بِقَوْلِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ السُّنَّةِ

بعض لوگوں نے گمان کیا کہ امام بخاری اور انھوں نے آئمہ السنہ احمد بن حنبل وغیرہ کی مخالفت کی – اسکی وجہ سے امام بخاری آزمائش میں مبتلا ہوۓ – یہاں تک کہ بعض جھوٹے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ امام بخاری کی جب وفات ہوئی تو احمد بن حنبل نے انکی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا حکم دیا – ظاہر ہے کہ یہ جھوٹ ہے کیوں کہ ابو عبدالله بخاری رحم الله نے احمد بن حنبل کے ١٥ سال بعد وفات پائی – احمد بن حنبل رضی الله عنہ کی ٢٤١ ھ میں اور امام بخاری کی ٢٥٧ میں وفات ہوئی ہے – احمد بن حنبل امام بخاری سے محبت کرتے اور انکی تعظیم اور تکریم کرتے تھے جبکہ امام بخاری اور انکی طرح دوسرے لوگوں کی امام احمد کی تعظیم کرنا مشہور معاملہ ہے – جب امام بخاری نے اپنی کتاب خلق افعال العباد تصنیف کی تو کتاب کے آخری ابواب میں اس معاملہ کا ذکر کیا – اس میں انھوں نے دونوں گروہوں کا موقف پیش کیا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ ہمارے وہ الفاظ جو ہم قرآن کی قرات کرتے ہیں وہ مخلوق ہیں اور انکا بھی جو ان کے غیر مخلوق ہونے کے قائل ہیں – اسکی نسبت امام احمد بن حنبل کی طرف کیا کرتے ہیں – اور اس گروہ کا دعویٰ ہے کہ وہ احمد بن حنبل کے قول پر ہیں – دونوں گروہ احمد رضی الله عنہ کی بات کی گہرائی کو نہ سمجھ سکے – ایک اور دوسرا گروہ ہے جس میں ابو الحسن اشعری ، قاضی ابو بکر الطیب اور قاضی ابو یعلی وغیرہ شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ احمد بن حنبل اور آئمہ السنہ و الحدیث کے عقیدے پر ہیں انکا کہنا ہے کہ احمد وغیرہ لفظی بالقران کہے جانے سے کراہت کرتے تھے کیونکہ لفظ تو منہ سے نکال پھینکنے والی چیز ہے – ایک اور دوسرا گروہ جیسا کہ ابو محمد بن حزم وغیرہ ہیں جن کا کہنا بھی یہ ہے کہ وہ آئمہ السنہ احمد بن حنبل وغیرہ کے پیروکار ہیں اور وہ بھی جو اہل سنت اور مذھب اہل حدیث کی طرف نسبت نہیں کرتے – اس گروہ کا کہنا ہے وہ احمد بن حنبل اور اسی طرح دوسرے اہل سنت کے اعتقاد پر ہیں وہ لوگ آئمہ السنہ جیسے احمد بن حنبل اور ان کی طرح دوسرے اہل سنت کی بات کی حقیقت نہ جان سکے –
اور ہم نے تفصیل سے سلف اور آئمہ ، احمد بن حنبل وغیرہ کے اقوال دوسری جگہ پیش کیے ہیں اور رہے امام بخاری اور انکی طرح دوسرے لوگ تو بےشک وہ اہل سنت میں سے احمد بن حنبل وغیرہ کے قول کو لوگوں میں سے زیادہ جاننے والے تھے

ابن تیمیہ کی نقص بھری تحقیق دیکھئے ایک طرف تو اتنے سارے لوگ  کہہ رہے ہیں کہ امام احمد قرآن کے الفاظ کو بھی غیر مخلوق کہتے تھے اور پھر بخاری کی کتاب خلق افعال سب شاہد ہیں ان کے عقائد پر لیکن

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

بخاری تو واضح طور پر قرآن کی تلاوت کو مخلوق کہتے ہیں  لیکن احمد تلاوت کو مخلوق کہنے والے کو جہمیہ کے مذھب پر بتاتے ہیں

امام بخاری اور امام احمد کے اس مناقشہ کو چھپانا علماء کا طریقہ نہیں . لیکن بعض کے نزدیک یہی خطا ڈاکٹر عثمانی سے ہوئی اور پھر فتوی کی توپیں داغی گئیں

مسئلہ لفظ میں امام احمد کوئی رائے نہیں رکھتے تھے بلکہ اس مسئلہ میں رائے کے سخت خلاف تھے – امام بخاری اس کے برعکس رائے رکھتے تھے اور اس کی تبلیغ کرتے تھے  ان کے نزدیک منہ سے تلاوت کے دوران ادا ہونے والے قرآن کے الفاظ اور اس کی آواز مخلوق تھے – امام احمد اس پر کوئی بھی رائے رکھنے والے کو جہمی کہتے تھے

یہ مسئلہ بعد  والوں نے چھپانے کی کوشش کی مثلا کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ: ثنا أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو أَحْمَدَ بْنِ نَصْرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ النَّيْسَابُورِيَّ الْمَعْرُوفَ بِالْخَفَّافِ بِبُخَارَى يَقُولُ: كُنَّا يَوْمًا عِنْدَ أَبِي إِسْحَاقَ الْقُرَشِيِّ وَمَعَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ , فَجَرَى ذِكْرُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ , فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: مَنْ زَعَمَ أَنِّي قُلْتُ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ , فَهُوَ كَذَّابٌ , فَإِنَّى لَمْ أَقُلْهُ. فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ فَقَدْ خَاضَ النَّاسُ فِي هَذَا وَأَكْثَرُوا فِيهِ. فَقَالَ: لَيْسَ إِلَّا مَا أَقُولُ وَأَحْكِي لَكَ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عَمْرٍو الْخَفَّافُ: فَأَتَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَنَاظَرْتُهُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْحَدِيثِ حَتَّى طَابَتْ نَفْسُهُ فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ هَاهُنَا رَجُلٌ يَحْكِي عَنْكَ أَنَّكَ قُلْتَ هَذِهِ الْمَقَالَةِ. فَقَالَ لِي: يَا أَبَا عَمْرٍو احْفَظْ مَا أَقُولُ: مَنْ زَعَمَ مِنْ أَهْلِ نَيْسَابُورَ وَقُومَسَ وَالرَّيِّ وَهَمَذَانَ وَحُلْوَانَ وَبَغْدَادَ وَالْكُوفَةِ وَالْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ وَالْبَصْرَةِ أَنِّي قُلْتُ: لَفْظِي بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ , فَهُوَ كَذَّابٌ , فَإِنَّى لَمْ أَقُلْ هَذِهِ   الْمَقَالَةَ , إِلَّا أَنِّي قُلْتُ: أَفْعَالُ الْعِبَادِ مَخْلُوقَةٌ

ہم کو أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ  نے خبر دی کہا ہم سے بیان کیا  مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ نے کہا ہم سے بیان کیا  أَبُو صَالِحٍ  خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ انہوں نے أحمد بن نصر بن إبراهيم، أبو عمرو النَّيْسَابوريُّ الخفّاف المتوفی ٣٠٠ ھ  سے سنا کہتے ہیں ایک دن ہم  أَبِي إِسْحَاقَ الْقُرَشِيِّ کے پاس تھے اور ہمارے ساتھ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ  بھی تھے کہ امام بخاری کا ذکر ہوا پس مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ نے کہا میں نے سنا یہ کہتے تھے کہ جو یہ دعوی کرے کہ میں کہتا ہوں کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں وہ جھوٹا ہے کیونکہ میں ایسا نہیں کہتا . پس میں نے ان سے کہا اے ابو عبد الله امام بخاری اس پر تو لوگ بہت لڑتے ہیں پس کہا جو میں نے کہا اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے- أَبُو عَمْرٍو الْخَفَّافُ کہتے ہیں پس میں امام بخاری سے ملا اور ان سے ایک حدیث پر کلام کیا یہاں تک کہ دل بھر گیا میں نے ان سے کہا اے ابو عبد الله وہاں ایک شخص ہے جو حکایت کرتا ہے آپ کے لئے کہ آپ اس میں یہ اور  یہ کہتے ہیں – امام بخاری نے مجھ سے کہا اے ابو عمرو یاد رکھو جو میں کہوں جو یہ دعوی کرے نیشاپور یا قومس یا رے یا ہمدان یا حلوان یا بغداد یا کوفہ یا مدینہ یا مکہ یا بصرہ میں سے کہ میں کہتا ہوں قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں وہ کذاب ہے پس میں ایسا نہیں کہتا ہوں  بلاشبہ میں کہتا ہوں کہ بندوں کے افعال مخلوق ہیں

اس کی سند میں أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ ہیں جن کے لئے الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں لکھتے ہیں

قَالَ الخَلِيلِيُّ: كَانَ لَهُ حفظٌ وَمَعْرِفَةٌ، وَهُوَ ضَعِيْفٌ جِدّاً، رَوَى مُتوناً لاَ تُعرفُ

خلیلی کہتے ہیں ان کے لئے حافظہ و معرفت ہے اور یہ بہت ضعیف ہیں اور وہ متن روایت کرتے ہیں جو کوئی نہیں جنتا

کتاب الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم میں  أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري  راوی   أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ کے لئے کہتے ہیں

ضعيف جدًا مع كثرة حديثه

بہت ضعیف ہیں کثرت حدیث کے ساتھ

ایک طرف تو سندا کمزور دوسری طرف اس کے راوی

أَبُو عَمْرٍو الْخَفَّافُ  کے امام الذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

سَمِعَ بنَيْسابور: إسحاق بن راهَوَيْه، وعَمْرو بن زُرَارة، والحسين بن حُرَيْث، ومحمد بن عبد العزيز بن أبي رزمة، وأقرانهم.

وببغداد: إبراهيم بن المستمرّ، وأحمد بن منيع، وأبا همّام السكوني، وأقرانهم. وبالكوفة: أبا كُرَيْب، وعَبّاد بن يعقوب، وجماعة.

 وبالحجاز: أبا مُصْعَب، ويعقوب بن حُمَيْد بن كاسب، وعبد الله بن عمران العابديّ، وغيرهم.

 سوال کے  ان کا سماع بخاری سے کب ہوا؟

ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

أَخْرَجَ ذَلِكَ غُنْجَارٌ فِي تَرْجَمَةِ الْبُخَارِيِّ من تَارِيخ بخارا بِسَنَدٍ صَحِيحٍ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيِّ الْإِمَامِ الْمَشْهُورِ أَنَّهُ سَمِعَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ ذَلِكَ وَمِنْ طَرِيقِ أَبِي عُمَرَ وَأَحْمَدَ بْنِ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيِّ الْخَفَّافِ أَنَّهُ سَمِعَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ ذَلِكَ

اس (اوپر والی روایت) کو غنجار نے بخاری کے ترجمہ میں تاریخ بخاری میں صحیح سند کے ساتھ محمّد بن نثر المروزی امام مشھور سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے امام بخاری سے سنا کہ انہوں نے ایسا کہا جو ابی عمر اور احمدبن نصر کے طرق سے ہے کہ انہوں نے بخاری سے سنا

اسی قول کو ابن حجر نے تهذيب التهذيب میں بھی نقل کیا ہے

عجیب بات ہے انہی   خَلَفُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ کی لسان المیزان میں ابن حجر عزت افزائی کرتے ہیں

وسمعت الحاكم، وَابن أبي زرعة   وإنما كتبنا عنه للاعتبار وقد ضعفه أبو سعيد الإدريسي

حاکم اور  ابن أبي زرعة کہتے ہیں ان کا قول اعتبار کے لئے لکھا جاتا ہے اور  ابو سعید نے ان کو ضعیف کہا ہے

اس روایت کا سارا دار و مدار جس شخص پر ہے وہ توضعیف نکلا لہذا دلیل کیسے ہیں

اس راوی کی روایت اہل حدیث اور وہابی بھی رد کرتے ہیں کیونکہ یہ روایت کرتا ہے کہ امام بخاری اندھے تھے

ابو بكر الخطيب البغدادي (المتوفى: 463 ھ) تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں :
حَدَّثَنِي أبو القاسم عبد الله بن أحمد بن علي السوذرجاني بأصبهان من لفظه، قَالَ: حدثنا علي بن محمد بن الحسين الفقيه، قَالَ: حدثنا خلف بن محمد الخيام، قَالَ: سمعت أبا محمد المؤذن عبد الله بن محمد بن إسحاق السمسار، يقول: سمعت شيخي يقول: ذهبت عينا محمد بن إسماعيل في صغره فرأت والدته في المنام إبراهيم الخليل عليه السلام، فقال لها: يا هذه قد رد الله على ابنك بصره لكثرة بكائك، أو لكثرة دعائك. قَالَ: فأصبح وقد رد الله عليه بصره ‘‘ (تاریخ بغداد 2- 322 )
:
محمد بن اسحاق نے کہا  : میں نے اپنے شیخ سے سنا کہ : امام بخاریؒ کی بچپن میں نظر چلی گئی تھی ، (اور ان کی والدہ اس پر اکثر دعاء کرتیں ، اور روتی رہتی تھیں ) تو ایک روز انہیں خواب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نظر آئے ، وہ فرمارہے تھے تیری گریہ و زاری اور دعاء کے سبب اللہ تعالی نے تیرے بیٹے کی نظر لوٹا دی ہے ‘‘

ا بويعلى الخليلي، (المتوفى: 446 ھ)۔۔ الإرشاد في معرفة علماء الحديث ۔۔(جلد 3 صفحه 972 ) میں لکھتے ہیں :
” أبو صالح خلف بن محمد بن إسماعيل البخاري كان له حفظ ومعرفة وهو ضعيف جدا روى في الأبواب تراجم لا يتابع عليها وكذلك متونا لا تعرف سمعت ابن ابي زرعة والحاكم ابا عبد الله الحافظين يقولان كتبنا عنه الكثير ونبرأ من عهدته وإنما كتبنا عنه للاعتبار ‘‘
اور یہی بات امام ذہبی نے میزان الااعتدال میں لکھی ہے

معلوم ہوا کہ یہ راوی امام بخاری کے حوالے سے فرضی قصے پھیلاتا رہا ہے

امام بخاری کی کتاب خلق افعال العباد  کے آخری ابواب کو دیکھا جائے تو یہ مسئلہ واضح ہو جاتا ہے

اہل دانش دیکھ سکتے ہیں کہ اہل علم کیا گل کھلا رہے ہیں

کتاب سیر الاعلام النبلاء میں هِشَامَ بنَ عَمَّارٍ کے ترجمہ میں الذھبی وہی بات کہتے ہیں جو امام بخاری کہتے
وَلاَ رَيْبَ أَنَّ تَلَفُّظَنَا بِالقُرْآنِ مِنْ كَسْبِنَا، وَالقُرْآنُ المَلْفُوْظُ المَتْلُوُّ كَلاَمُ اللهِ -تَعَالَى- غَيْرُ مَخْلُوْقٍ، وَالتِّلاَوَةُ وَالتَّلَفُّظُ وَالكِتَابَةُ وَالصَّوتُ بِهِ مِنْ أَفْعَالِنَا، وَهِيَ مَخْلُوْقَةٌ – وَاللهُ أَعْلَمُ
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ہمارا تلفظ ہمارا کسب (کام) ہے اور قرآن الفاظ والا پڑھا جانے والا کلام الله ہے غیر مخلوق ہے اوراس کی تلاوت اور تلفظ اور کتابت اور آواز ہمارے افعال ہیں اور یہ مخلوق ہیں واللہ اعلم

الذھبی کے مطابق لفظی بالقرآن کا مسئلہ الکرابیسی نے پیش کیا الذھبی ، الكَرَابِيْسِيُّ أَبُو عَلِيٍّ الحُسَيْنُ بنُ عَلِيِّ بنِ يَزِيْدَ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
وَلاَ رَيْبَ أَنَّ مَا ابْتَدَعَهُ الكَرَابِيْسِيُّ، وَحَرَّرَهُ فِي مَسْأَلَةِ التَّلَفُّظِ، وَأَنَّهُ مَخْلُوْقٌ هُوَ حَقٌّ
اور اس میں شک نہیں کہ الکرابیسی نے جو بات شروع کی اور مسئلہ تلفظ کی تدوین کی کہ یہ مخلوق ہے یہ حق تھا
الذھبی سیر الاعلام النبلا میں احمد بن صالح کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
وَإِنْ قَالَ: لَفْظِي، وَقَصَدَ بِهِ تَلَفُّظِي وَصَوتِي وَفِعْلِي أَنَّهُ مَخْلُوْقٌ، فَهَذَا مُصِيبٌ، فَاللهُ -تَعَالَى- خَالِقُنَا وَخَالِقُ أَفْعَالِنَا وَأَدَوَاتِنَا، وَلَكِنَّ الكَفَّ عَنْ هَذَا هُوَ السُّنَّةُ، وَيَكفِي المَرْءَ أَنْ يُؤمِنَ بِأَنَّ القُرْآنَ العَظِيْمَ كَلاَمُ اللهِ وَوَحْيُهُ وَتَنْزِيْلُهُ عَلَى قَلْبِ نَبِيِّهِ، وَأَنَّهُ غَيْرُ مَخْلُوْقٍ
اور اگر یہ کہے کہ لفظی ہے اور مقصد قرآن کا تلفظ اسکی آواز اور اس پر فعل ہو کہ یہ مخلوق ہے – تو یہ بات ٹھیک ہے – پس کیونکہ الله تعالی ہمارا خالق ہے اور ہمارے افعال کا بھی اور لکھنے کے ادوات کا بھی لیکن اس سے روکنا سنت ہے اور آدمی کے لئے کافی ہے قرآن عظیم پر ایمان لائے کلام اللہ کے طور پر اس کی الوحی پر اور قلب نبی پر نازل ہونے پر اور یہ بے شک غیر مخلوق ہے
کتاب تذکرہ الحفاظ میں ابن الأخرم الحافظ الإمام أبو جعفر محمد بن العباس بن أيوب الأصبهاني کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں ابن آخرم کہا کرتے
من زعم أن لفظه بالقرآن مخلوق فهو كافر فالظاهر أنه أراد بلفظ الملفوظ وهو القرآن المجيد المتلو المقروء المكتوب المسموع المحفوظ في الصدور ولم يرد اللفظ الذي هو تلفظ القارئ؛ فإن التلفظ بالقرآن من كسب التالي والتلفظ والتلاوة والكتابة والحفظ أمور من صفات العبد وفعله وأفعال العباد مخلوقة
جس نے یہ دعوی کیا کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں وہ کافر ہے پس ظاہر ہے ان کا مقصد ہے کہ جو ملفوظ الفاظ قرآن کے ہیں جس کو پڑھا جاتا ہے جو کتاب سنی جاتی ہے اور محفوظ ہے سینوں میں — اور ان کا مقصد تلفظ نہیں ہے جو قاری کرتا ہے کیونکہ قرآن کا تلفظ کرنا کام ہے اور اس کا تلفظ اور کتابت اور حفظ اور امور یہ بندے کی صفات ہیں اس کے افعال ہیں اور بندوں کے افعال مخلوق ہیں
امام احمد لفظی بالقرآن کا مسئلہ سنتے ہی جھمی جھمی کہنا شروع کر دیتے
الكَرَابِيْسِيُّ أَبُو عَلِيٍّ الحُسَيْنُ بنُ عَلِيِّ بنِ يَزِيْدَ کے ترجمہ میں کتاب سیر الاعلام البنلا از الذھبی کے مطابق امام یحیی بن معین کو امام احمد کی الکرابیسی کے بارے میں رائے پہنچی
وَلَمَّا بَلَغَ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ أَنَّهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَحْمَدَ، قَالَ: مَا أَحْوَجَهُ إِلَى أَنْ يُضْرَبَ، وَشَتَمَهُ
اور جب امام ابن معین تک پہنچا کہ امام احمد الکرابیسی کے بارے میں کلام کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں کہ میں اس کو ماروں یا گالی دوں
امام الذھبی بھی کہہ رہے ہیں امام الکرابیسی صحیح کہتے تھے –
امام بخاری کے لئے الذھبی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں علی بن حجر بن آیاس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
وَأَمَّا البُخَارِيُّ، فَكَانَ مِنْ كِبَارِ الأَئِمَّةِ الأَذْكِيَاءِ، فَقَالَ: مَا قُلْتُ: أَلفَاظُنَا بِالقُرْآنِ مَخْلُوْقَةٌ، وَإِنَّمَا حَرَكَاتُهُم، وَأَصْوَاتُهُم وَأَفْعَالُهُم مَخْلُوْقَةٌ، وَالقُرْآنُ المَسْمُوْعُ المَتْلُوُّ المَلْفُوْظُ المَكْتُوْبُ فِي المَصَاحِفِ كَلاَمُ اللهِ، غَيْرُ مَخْلُوْقٍ
اور جہاں تک امام بخاری کا تعلق ہے تو وہ تو کبار ائمہ میں دانشمند تھے پس انہوں نے کہا میں نہیں کہتا ہے قرآن میں ہمارے الفاظ مخلوق ہیں بلکہ ان الفاظ کی حرکات اور آواز اور افعال مخلوق ہیں اور قرآن جو سنا جاتا پڑھا جاتا الفاظ والا لکھا ہوا ہے مصاحف میں وہ کلام الله ہے غیر مخلوق ہے
ایک متعصب غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا

جبکہ محدثین میں ایسا الذھبی نے واضح کیا امام بخاری کے نزدیک جو قرآن کے الفاظ ہم ادا کرتے ہیں وہ مخلوق کا عمل ہے

یہ سب جھوٹی  کہانیاں ہیں جو لوگوں نے اپنے اماموں  کے غلو میں گھڑی ہیں

اس کی مثال ہے  صحيح بخاري کی روایت ہے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُهْلِكُ النَّاسَ هَذَا الحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ» قَالَ: مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ

مجھ سے محمد بن عبدالرحيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابومعمر اسماعيل بن ابراہيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابواسامہ نے بيان کيا ، کہا ہم سے شعبہ نے بيان کيا ، ان سے ابوالتياح نے ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہريرہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : اس قريش کا یہ محلہ لوگوں کو ہلاک وبرباد کردے گا ? صحابہ نے عرض کيا : اس وقت کے ليے آپ ہميں کيا حکم کرتے ہيں ؟ نبی صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : کاش لوگ ان سے الگ رہتے ? محمود بن غيلان نے بيان کيا کہ ہم سے ابوداود طيالسي نے بيان کيا ، کہا ہم کو شعبہ نے خبردي ، انہيں ابوالتياح نے ، انہوں نے ابوزرعہ سے سنا

مسند احمد میں امام احمد اس کو منکر کہتے ہیں

حدثنا محمَّد بن جعفر، حدثنا شُعبة، عن أبي التَّيَّاح، قال: سمعت أبا زُرعة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، قال: “يُهلكُ أمتي هذا الحيُّ من قريبٌ”، قالوا: في تأمُرُنا يا رسول الله؟، قال: “لو أن الناس اعتزلوهم”. [قال عبد الله بن أحمد]: وقال  أبي- في مرضه الذي  مات فيه: اضرب على هذا الحديث، فإنه خلافُ الأحاديث عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، يعني قوله: “اسمعوا وأطيعوا واصبروا”.

ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کو یہ محلہ جلد ہی ہلاک کرے گا ہم نے پوچھا آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں اے رسول الله ! فرمایا کاش کہ لوگ ان سے الگ رہتے عبد الله بن احمد کہتے ہیں  میں نے اپنے باپ سے اس حالت مرض میں (اس روایت کے بارے میں) پوچھا جس میں ان کی وفات ہوئی احمد نے کہا اس حدیث کو مارو کیونکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف ہے یعنی سمع و اطاعت کرو اور صبر کرو

امام احمد کا  اضرب على هذا الحديث کہنا روایت کی شدید تضعیف ہے اور یہ الفاظ جرح کے لئے امام احمد اور امام أبو زرعة  نے کئی راویوں کے لئے بھی استمعال کیے ہیں دیکھینے کتاب الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم

حدثنا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن الحسين بن عبد الله بن ضميرة فقال: ليس بشئ ضعيف الحديث، اضرب على حديثه
ابو زرعة نے ایک ضعیف راوی پر کہا اضرب على حديثه

امام احمد نے کہا أني أضرب على حديث سعيد بن سلام
أبو جعفر المدائني کی احادیث پر امام احمد نے کہا اضرب على حديثه، أحاديثه موضوعة
اس کی حدیث موضوعات ہے

عبد العزيز بن عبد الرحمن المدينى پر امام احمد نے کہا اضرب على احاديثه هي كذب أو قال موضوعة
اس کی حدیث کو مارو یہ کذب ہے

يوسف بن خالد پر امام ابو زرعہ نے کہا
ذاهب الحديث، ضعيف الحديث، اضرب على حديثه

الغرض اضرب على هذا الحديث کہنا روایت کی شدید تضعیف ہے

ظاہر ہے ایک صحیح حدیث کو پھینکنے کا حکم امام احمد کیوں کریں گے

دوسری دلیل ہے کہ امام بخاری نے ایک روایت صحیح میں نقل کی ہے کہ عمار کو باغی قتل کریں گے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ لَهُ وَلِعَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ائْتِيَا أَبَا سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَأَتَيْنَاهُ وَهُوَ وَأَخُوهُ فِي حَائِطٍ لَهُمَا يَسْقِيَانِهِ، فَلَمَّا رَآنَا جَاءَ، فَاحْتَبَى وَجَلَسَ، فَقَالَ: كُنَّا نَنْقُلُ لَبِنَ المَسْجِدِ لَبِنَةً لَبِنَةً، وَكَانَ عَمَّارٌ يَنْقُلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَمَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسَحَ عَنْ رَأْسِهِ الغُبَارَ، وَقَالَ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، عَمَّارٌ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ»

امام احمد بھی اسی طرق کو مسند میں نقل کرتے ہیں

حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لَهُ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ [ص:368] لَهُ، فَلَمَّا رَآنَا أَخَذَ رِدَاءَهُ فَجَاءَنَا فَقَعَدَ، فَأَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا، حَتَّى أَتَى عَلَى ذِكْرِ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارُ بْنُ يَاسرٍ يَحْمِلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، قَالَ: فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «يَا عَمَّارُ أَلَا تَحْمِلُ لَبِنَةً كَمَا يَحْمِلُ أَصْحَابُكَ؟» ، قَالَ: إِنِّي أُرِيدُ الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَ يَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: فَجَعَلَ عَمَّارٌ يَقُولُ أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنَ الْفِتَنِ

لیکن ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام احمد اس روایت پر کہتے تھے

سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: رُوِيَ فِي: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ثَمَانِيَةٌ وَعِشْرُونَ حَدِيثًا، لَيْسَ فِيهَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

میں نے محمّد بن عبد الله بن ابراہیم سے سنا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہتے تھے میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا

عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا کو ٢٨ طرقوں سے روایت کیا ایک بھی صحیح نہیں

الخلال کہتے ہیں امام احمد کہتے اس پر بات تک نہ کرو

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَازِمٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيُّ، أَنَّ إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ حَدَّثَهُمْ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» . قَالَ: «لَا أَتَكَلَّمُ فِيهِ»

الخلال کے مطابق بغداد کے دیگر محدثین کہتے

أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَيَّةَ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ: سَمِعْتُ فِي حَلْقَةٍ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ وَيَحْيَى بْنَ مَعِينٍ وَأَبَا خَيْثَمَةَ وَالْمُعَيْطِيَّ ذَكَرُوا: «يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» فَقَالُوا: مَا فِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ

اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے

امام احمد یہ بھی کہتے

قَالَ ابْنُ الْفَرَّاءِ: وَذَكَرَ يَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ فِي الْجُزْءِ الْأَوَّلِ مِنْ مُسْنَدِ عَمَّارٍ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ سُئِلَ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» . فَقَالَ أَحْمَدُ: كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَتَلَتْهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. وَقَالَ: فِي هَذَا غَيْرُ حَدِيثٍ [ص:464] صَحِيحٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَرِهَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا “، فَهَذَا الْكِتَابُ يَرْوِيهِ أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الْعَزِيزِ الْأَزَجِيُّ عَنِ ابْنِ حَمَّةَ الْخَلَّالِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ جَدِّهِ يَعْقُوبَ

اس سلسلے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے اور احمد اس پر کلام کرنے پر کراہت کرتے

کہا جاتا ہے کہ امام احمد اس روایت کو صحیح سمجھتے تھے اس لئے مسند میں نقل کیا جبکہ مسند میں یہی روایت لکھ کر  امام احمد اس کو منقطع قرار دیتے ہیںاور کہتے ہیں اس میں گڑبڑ جسن کی والدہ نے کی ہے

علم رجال کے ماہر ابن الجوزی کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں لکھتے ہیں

وأما قوله عليه السلام لعمار تقتلك الفيئة الباغية وقد أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيّ من حديث أَبِي قَتَادَة وأم سلمة إلا أن أَبَا بَكْر الخلال ذكر أن أَحْمَد بْن حنبل ويحيى بْن معين وأبا خيثمة والمعيطي ذكروا هَذَا الحديث تقتل عمارًا الفيئة الباغية فقال فِيهِ ما فِيهِ حديث صحيح وأن أَحْمَد قال قد روى فِي عمار تقتله الفيئة الباغية ثمانية وعشرون حديثًا ليس فيها حديث صحيح”.

اور جہاں تک اس قول کا تعلق ہے کہ عمار کو با غی گروہ قتل کرے گا اس کی تخریج بخاری نے ابی قتادہ اور ام سلمہ  کی حدیث سے کی ہے. بے شک ابو بکر الخلال نے ذکر کیا ہے کہ  أَحْمَد بْن حنبل ويحيى بْن معين وأبا خيثمة والمعيطي نے اس باغی گروہ والی روایت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے ایک بھی روایت صحیح نہیں. اور احمد نے ٢٨ روایات سے عمار تقتله الفيئة الباغية  کو روایت کیا جن میں ایک بھی صحیح نہیں ہے

بالفرض مان لیتے ہیں کہ امام احمد کے  سامنے صحیح بخاری رکھی گئی تو  ظاہر ہے انہوں نے اس میں سے قابل اعتراض مواد نکلالنے کا کہا ہو گا امام  بخاری نے انکار کیا ہو گا اس پر اختلاف رائے ہوا اور سند تائید نہ مل سکی

راقم کے نزدیک اس قسم کے  تمام اقوال فرضی ہیں سب سے بڑھ کر بات یہ ہے خود امام احمد سے کوئی روایت براہ راست نہیں لی گئی بلکہ  علی المدینی اور امام احمد کا مکالمہ وغیرہ دکھا کر  انکی تنقیص کی گئی ہے

باب الصلوٰۃ فی السطوح والمنبرا (صحیح بخاری جلد او صفحہ۔ ۵۵۔۵۴
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ المِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الغَابَةِ عَمِلَهُ فُلاَنٌ مَوْلَى فُلاَنَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ، خَلْفَهُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى، فَسَجَدَ عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى المِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالأَرْضِ»، فَهَذَا شَأْنُهُ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ المَدِينِيِّ: ” سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ قَالَ: لاَ “

 علی بن عبداللہ (المدینی) سفیان سے  اور وہ ابو حازم سے روایت کرتے ہیں کہ سہیل بن سعد سے پوچھا گیا کہ منبر (نبوی) کس چیز کا تھا انہوں نے فرمایا اس بات کا جاننے والا لوگوں میں مجھ سے زیادہ (اب) کوئی باقی نہیں۔ وہ مقام (غابہ) کے جھاؤ کا تھا۔ فلاں عورت کے فلاں غلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ بنا کر رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور لوگ آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے پھر آپﷺ نے قرأت کی اوررکوع فرمایا اور لوگوں نے آپﷺ کے پیچھے رکوع کیا پھر آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اس کے بعد پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا۔ امام بخاری کہتے ہیں (حالانکہ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی) علی بن عبداللہ (المدینی) نے کہا کہ احمد بن حنبل نے مجھ سے یہ حدیث پوچھی تو میں نے کہا کہ میرا مقصود یہ ہے کہ نبی ﷺ لوگوں سے اوپر تھے تو یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر امام لوگوں سے اوپر ہو۔ علی بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ (میرے اور تمہارے استاد) سفیان بن عیبنہ سے تو اکثریہ حدیث پوچھی جاتی تھی کہ کیا تم نے ان سے اس حدیث کو نہیں سنا احمد بن حنبل نے کہا نہیں۔

امام بخاری نے یہ بات لاکر ثابت کیا ہے کہ احمد بن حنبل ایسے شاگرد تھے کہ ان کے استادایک حدیث بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن پھر بھی اسے نہ سُن پاتے تھے۔ امام احمد نے جب یہ متن اپنے حوالے سے پڑھا ہو گآ تو کیا انہوں نے اس کو پسند کیا ہو گا ؟ ظاہر ہے  امام احمد پر صحیح بخاری پیش کیا جانا محض افسانہ ہے

بعض غالیوں نے الفاظ پیش کیے ہیں کہ امام علی المدینی نے امام احمد کو رحمہ الله کہا

جبکہ غور طلب ہے کہ علی المدینی کی وفات امام احمد سے بھی عرصے  پہلے ہوئی اور ایک زندہ شخص پر رحمہ الله کا لاحقہ کوئی نہیں لگاتا

دوسری جگہ امام بخاری باب شھرا عید لاینقصان میں  امام احمد بن حنبل  کا خاص ذکر کیا  حالانکہ یہاں بھی ان کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی مگر محض انکی  کی  علمیت  کو دکھایا گیا

29-ramzan-india

طبع نول کشور لکهنو

ترجمہ:   عید کے دونوں مہینے ناقص نہیں ہوتے۔

عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ اپنے والد ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو مہینے ایسے ہیں کہ کم نہیں ہوتے یعنی عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ۔

امام بخاری فرماتے ہیں کہ احمد بن حنبل نے کہا کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں یعنی اگر رمضان کم دنوں کا (یعنی ۲۹ کا ہو تو ذی الحجہ پورا (تیس دنوں کا) ہوگا اور اگر ذی الحجہ کم دنوں کا (یعنی ۲۹ دنوں کا) تو رمضان پورا (یعنی ۳۰ دنوں کا) ہوگا۔

یہاں امام بخاری نے یہ ثابت کیا ہے کہ دیکھو امام احمد بن حنبل اس حدیث کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ رمضان اگر ۲۹ کا ہوگا تو ذی الحجہ ضرور تیس ہوگا۔ دونوں مہینے ۲۹ کے نہیں ہوتے حالانکہ بے حساب سال ایسے گزرے ہیں کہ جن میں دونوں مہینے ۲۹ کے ہوئے ہیں اسی لیے امام بخاری آگے (اپنے استاد) اسحاق بن راہویہ کی بات لے آئے کہ ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ اسحاق بن راہویہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہینے چاہے ۲۹ کے ہوں یا تیس کے ان کی فضلیت میں کمی نہیں آتی۔

یہ متن اب جو  صحیح بخاری چھپ رہی ہے اس  سے نکال دیا گیا لیکن یہ انڈیا طبع نور کشور لکهنو سے چھپنے والی صحیح  بخاری میں ہے اور  جامع ترمذی میں ابھی تک ہے

قَالَ أَحْمَدُ: ” مَعْنَى هَذَا الحَدِيثِ: شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ، يَقُولُ: لَا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَهْرُ رَمَضَانَ، وَذُو الحِجَّةِ، إِنْ نَقَصَ أَحَدُهُمَا تَمَّ الآخَرُ “، وقَالَ إِسْحَاقُ: ” مَعْنَاهُ لَا يَنْقُصَانِ يَقُولُ: وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ “،” وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاقَ يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّهْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ

اسی طرح فتح الباری میں ابن حجر نے لکھا ہے

29-ramzan-ahmed

ثُمَّ وَجَدْتُ فِي نُسْخَةِ الصَّغَانِيِّ مَا نَصُّهُ عَقِبَ الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ إِسْحَاقُ تِسْعَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا تَامٌّ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ إِنْ نَقَصَ رَمَضَانُ تَمَّ ذُو الْحِجَّةِ وَإِنَّ نَقَصَ ذُو الْحِجَّةِ تَمَّ رَمَضَانُ وَقَالَ إِسْحَاقُ مَعْنَاهُ وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرَ نُقْصَانٍ قَالَ وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاقَ يَجُوزُ أَنْ يَنْقُصَا مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ

پھر میں نے الصَّغَانِيِّ کے نسخے میں اس حدیث کے بعد یہ پایا کہ امام بخاری نے کہا کہ اسحاق نے کہا ٢٩ ہوں تو(بھی) پورا  (ماہ) ہے اور احمد بن حنبل نے کہا اگر رمضان کم ہو تو ذو الحجہ مکمل ہو گا اور اگر ذو الحجہ کم ہو تو رمضان مکمل ہوگا

یعنی الصَّغَانِيِّ  کے مطابق امام بخاری نے یہ بھی صحیح میں لکھا تھا لیکن جب لوگوں نے اس کو پڑھا تو اس کو امام احمد کی وجہ سے حذف کر دیا

ابن حجر سے بھی پہلے کتاب الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري  میں أحمد بن إسماعيل بن عثمان بن محمد الكوراني الشافعي ثم الحنفي المتوفى 893 هـ اسی متن کا صحیح بخاری کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں

 وقال أحمد: إن نقص رمضان تم ذو الحجة، وإن نقص ذو الحجة تم رمضان (وقال أبو الحسن: الظاهر أنه محمد بن مقاتل شيخ البخاري) (كان إسحاق بن راهويه يقول: لا ينقصان في الفضيلة).

القسطلانی ٩٢٣ ھ کتاب  إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں اس کا ذکر کرتے ہیں کہ امام بخاری نے امام احمد کا ے قول نقل کیا

(قال أبو عبد الله) البخاري (إسحاق): هو ابن راهويه أو ابن سويد بن هبيرة العدوي (وإن كان) كل واحد من شهري العيد (ناقصًا) في العدد والحساب (فهو تام). في الأجر والثواب. (وقال محمد) هو ابن سيرين أو المؤلّف نفسه (لا يجتمعان كلاهما ناقص) كلاهما مبتدأ وناقص خبره والجملة حال من ضمير الاثنين. قال أحمد بن حنبل: إن نقص رمضان تم ذو الحجة وإن نقص ذو الحجة تم رمضان

اس بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صحیح بخاری امام احمد پر پیش کی گئی محض افسانہ ہے

ابن کثیر کتاب البداية والنهاية میں ایک بے سند قول پیش کرتے ہیں

وَقَدْ أَثْنَى عَلَيْهِ عُلَمَاءُ زَمَانِهِ مِنْ شُيُوخِهِ وَأَقْرَانِهِ. فَقَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: مَا أَخْرَجَتْ خُرَاسَانُ مِثْلَهُ.

امام احمد نے امام بخاری کے لئے کہا خراسان سے ان کی مثل کوئی نہیں نکلا

یہ ابن کثیر کی غلطی ہے الذھبی تذکرہ الحفاظ میں اس قول کو  يحيى بن يحيى الإمام الحافظ شيخ خراسان کے لئے بتاتے ہیں

 وقال عبد الله بن أحمد: سمعت أبي يثني على يحيى بن يحيى ويقول: ما أخرجت خراسان مثله

عبد الله بن احمد نے کہا میں نے اپنے باپ کو سنا وہ یحیی بن یحیی کی تعریف کرتے تھے اور کہتے کہ خراسان سے ان کی مثل کوئی نہ نکلا

یعنی خراسان سے  يحيى بن يحيى الإمام الحافظ شيخ خراسان کی مثل کوئی نہیں نکلا تو پھر یہ امام بخاری کے لئے کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ یہ خوبی ایک ہی شخص میں ممکن ہے

امام احمد کے اقوال اور جرح و تعدیل میں ان کی رائے  کا اپنا مقام ہے لیکن یہ کہنا کہ امام بخاری یا امام احمد میں اختلاف رائے نہ تھا تاریخ کو مسخ کرنا ہے

کہا جاتا ہے امام بخاری نے احمد کو رحمہ اللہ لکھا

Sahih Bukhari Hadees # 377

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ : سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ ؟ فَقَالَ : مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي ، هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، ثُمَّ رَكَعَ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ ، فَهَذَا شَأْنُهُ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ : سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عْلَى مِنَ النَّمسِ ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ ، قَالَ : لَا .

راقم کہتا ہے اس مقام پر رحمہ اللہ کے الفاظ متن میں تحریف ہیں کیونکہ زندہ کو کوئی مرحوم نہیں کہتا

امام بخاری نے علی المدینی کا قول نقل کیا اور علی المدینی نے زندہ احمد کو رحمہ اللہ کہا

اب سوال ہے
اول امام احمد کا اس وقت انتقال ہو چکا تھا یا حیات تھے ؟ زندہ پر کوئی اس طرح رحمت کی دعا نہیں کرتا اکثر مردوں پر کی جاتی ہے
علی المدینی کا تو احمد سے بھی پہلے انتقال ہو گیا تھا

دوسرا سوال ہے کہ بعض الناس کے بقول امام بخاری نے صحیح مرتب کرنے کے بعد اس کو امام احمد پر پیش کیا
کیا اس میں یہ الفاظ اس وقت لکھے ہوئے تھے؟
زندہ شخص کو اگر آج بھی کوئی مرحوم کہہ دے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے جبکہ مرحوم کا مطلب ہے اس پر رحم ہو، جو دعا ہے

یہ الفاظ ہر متن میں نہیں بلکہ اس اقتباس کا حوالہ ابن اثیر المتوفي ٦٠٦ نے جامع الأصول في أحاديث الرسول مين بھی دیا ہے اور رحمہ اللہ علیہ نہیں لکھا
قال البخاري: قال علي بن عبد الله (2) : سألني أحمد بن حنبل عن هذا الحديث؟ وقال: إنما أردتُ أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم- كان أعلى من الناس، فلا بأس أن يكون الإمام أعلى من الناس بهذا الحديث، قال: فقلت له: إن سفيانَ بن عيينة كان يُسألُ عن هذا كثيراً فلم تسمعه منه؟ قال: لا

حمیدی ٤٨٨ ھ نے الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم میں اس اقتباس کا ذکر کیا ہے
قَالَ أَبُو عبد الله البُخَارِيّ: قَالَ عَليّ بن عبد الله: سَأَلَني أَحْمد بن حَنْبَل عَن هَذَا الحَدِيث، وَقَالَ: إِنَّمَا أردْت أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ أَعلَى من النَّاس، فَلَا بَأْس أَن يكون الإِمَام أَعلَى من النَّاس بِهَذَا الحَدِيث. قَالَ: فَقلت لَهُ: إِن سُفْيَان بن عُيَيْنَة كَانَ يسْأَل عَن هَذَا كثيرا، فَلم تسمعه مِنْهُ؟ قَالَ: لَا

یعنی حمیدی اور ابن اثیر کے دور تک یعنی ٦٠٦ ہجری تک صحیح بخاری کے متن میں یہاں احمد کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ نہیں لکھا تھا اس کو بعد میں ڈالا گیا ہے

میں نے نور دیکھا یا وہ نور ہے کیسے دیکھتا

یہ مضمون کتاب لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ سے لیا گیا ہے

[wpdm_package id=’8843′]

==========================================================

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا

اَللّهُ نُـوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ مَثَلُ نُـوْرِهٖ كَمِشْكَاةٍ فِيْـهَا مِصْبَاحٌ ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِىْ زُجَاجَةٍ ۖ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّـهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُـوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَكَادُ زَيْتُـهَا يُضِيٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّوْرٌ عَلٰى نُـوْرٍ ۗ يَـهْدِى اللّـٰهُ لِنُـوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللّـٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ (35)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے، قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو، روشنی پر روشنی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

اس آیت   کے  ابتدائی حصے کو لے کر اور اس  کے آگے کے متن کو صرف نظر کر کے دعوی کیا جاتا ہے کہ الله تعالی  نور ہے  – نور اس کی صفت ہے –

آیت میں الله تعالی کو نور  ، نور ہدایت کے معنوں میں کہا گیا ہے نہ کہ ان معنوں میں کہ وہ نور ہے –   اگر الله نور ہے تو النور  الله کا نام بن جائے گا  یہ بات مسئلہ الصفات میں بالکل  واضح قبول کی جاتی ہے – الله تعالی  کے  نام  ننانوے  ہیں  جس کی خبر حدیث میں ہے اور یہ قرآن و حدیث سے لئے جاتے ہیں – ان میں النور کو الله کا نام  نہیں کہا  جا سکتا  کیونکہ  الله تعالی نے خبر دی کہ نور اس کی مخلوق ہے-   سورہ الانعام میں ہے

اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُـمَاتِ وَالنُّوْرَ ۖ ثُـمَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّـهِـمْ يَعْدِلُوْنَ (1)

سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اور اجالا بنایا، پھر بھی یہ کافر اوروں کو اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ نور  تو اللہ  تعالی کی مخلوق ہے اسی کو ہم  دیکھ رہے ہیں –  اگ جلتی ہے تو نور نکلتا ہے – نور سورج سے چاند سے نکلتا ہے  لہذا اس کی کیفیت معلوم ہے مجہول نہیں ہے – سورہ نور کی آیت میں سمجھا کر بتایا گیا ہے کہ الله کا نور      ایسا ہے جیسا زیتون کا خالص  تیل  ہو جو     جب   بطور ایندھن        جلتا  ہے تو اس میں سے (رات)  میں کرنیں  پھوٹتی ہیں تو ماجول   منور ہو جاتا ہے، اسی طرح کفر کے ظلمات  میں ایمان کا نور  جگمگاتا ہے  اور اس کا رسول  سراجا منیرا ہے   یعنی ایک  چمکتا چراغ-

آیت میں الله نے اپنے نور کی مثال زیتون کے جلتے تیل سے دی ہے-  یہ مثال الله کی ذات کے لئے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود فرما دیا

لیس کمثلہ شی
اس کی مثال کوئی چیز نہیں

لہذا زیتون  کا  جلتا تیل الله   تعالی کے  نور ذات کو بیان نہیں کر رہا     اس کے نور ہدایت کو بیان کر رہا ہے-  اس کو   اردو اور عربی میں تشبیہ دینا کہا جاتا ہے-

الله مسلسل ہدایت دے رہا ہے اور اسی کو نور کہا گیا ہے کہ مومن کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے آتا ہے- الله تعالی کے  ننانوے  نام ہیں ان کو اسماء الحسنی کہا جاتا ہے اور یہی حدیث میں ہے –  اور قرآن میں بھی اسماء الحسنی سے مانگنے کا ذکر ہے-  لہذا اسماء الحسنی   ننانوے  سے اوپر نہیں ہیں-   جو بھی الله کا نام ہے وہ الله کے لئے خاص ہے اور کسی اور کا نہیں ہو سکتا-    البانی کا   کہنا ہے کہ اس   پر کوئی صحیح حدیث نہیں کہ النور الله کا اسم ہو [1]

لا أعلم أن (النور) من أسماء الله عز وجل في حديث صحيح[2]

میں نہیں جانتا کہ کسی صحیح حدیث میں النور کو الله   تعالی  کا   اسماء  الحسنی  میں  ذکر کیا گیا ہو

صحیح مسلم ،  ابن ماجہ، مسند احمد  میں ہے

حِجَابُهُ النُّورُ، لَوْ كَشَفَهَا لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ كُلَّ شَيْءٍ أَدْرَكَهُ بَصَرُهُ

النور اس کا حجاب ہے اگر وہ اس  النور کو اٹھادے تو اس کے    وَجْهِهِ   کا        (جمال   یا )  جلال و عظمت[3]  اس سب کو جلا دیں گی جہاں تک الله تعالی کی نگاہ جائے

 یعنی تمام مخلوق بھسم ہو جائے گی-معلوم ہوا کہ النور نام نہیں کیونکہ یہ حجاب عظمت کا نام ہے-

صحیح مسلم میں ہے کہ نور اللہ کا حجاب ہے تو ظاہر ہے الله کا نور اور اس کا حجاب ایک نہیں ہیں-

صحیح مسلم کی ایک مضطرب المتن روایت کا ذکر 

صحیح مسلم کی ایک اور حدیث ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»

ابو ذر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ رسول الله نے فرمایا میں نے ایک نور دیکھا

سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف حجاب کو دیکھا البتہ    اس روایت کی دو سندیں ہیں ایک میں عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِيُّ ضعیف الحَدِيث ہے –   ابن عدی الکامل میں روایت پیش کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا مُحَمد بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنا عُمَر بن حبيب، حَدَّثَنا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَن أَبِي ذَرٍّ، قالَ: قُلتُ يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ قَالَ كَيْفَ أَرَاهُ، وَهو نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ.

وَهَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ خَالِدٍ الحذاء غير محفوظ.

کہتے ہیں یہ روایت خَالِدٍ الحذاء کی سند سے غیر محفوظ ہے-  اس روایت کے دوسرے طرق میں يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي ہے اور اس طرق سے امام مسلم نے صحیح میں اس کو نقل کیا ہے-  کتاب ذخيرة الحفاظ از ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کے مطابق

حَدِيث: نور أَنى أرَاهُ. رَوَاهُ يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي: عَن قَتَادَة، عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: قلت لأبي ذَر: لَو رَأَيْت رَسُول الله لسألته، قَالَ لي: عَمَّا كنت تسأله؟ قَالَ: كنت أسأله: هَل رأى ربه عز وَجل؟ فَقَالَ: قد سَأَلته، فَقَالَ: نور أريه مرَّتَيْنِ أَو ثَلَاثًا. وَهَذَا لم بروه عَن قَتَادَة غير يزِيد هَذَا، وَلَا عَن يزِيد غير مُعْتَمر بن سُلَيْمَان، وَكِلَاهُمَا ثقتان، وَحكي عَن يحيى بن معِين أَنه قَالَ: يزِيد فِي قَتَادَة لَيْسَ بذلك وَأنكر عَلَيْهِ رِوَايَته: عَن قَتَادَة عَن أنس.

حدیث میں نے نور دیکھا اس کو يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي نے قتادہ سے انہوں نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا ہے کہا ہے میں نے ابو ذر سے پوچھا کہ اگر رسول الله کو دیکھتا تو پوچھتا ؟ انہوں نے کہا کیا پوچھتے ؟ میں نے کہا پوچھتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ؟ ابو ذر نے کہا میں نے پوچھا تھا پس کہا میں نے دو یا تین بار نور دیکھا اور اس کو روایت نہیں کیا قتادہ سے مگر یزید نے اور یزید سے کسی نے روایت نہیں کیا سوائے معتمر بن سلیمان کے اور یہ دونوں ثقہ ہیں اور یحیی بن معین سے حکایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا یزید قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا اچھا نہیں ہے اور اس کی روایات کا انکار کیا جو قتادہ عن انس سے ہوں

ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں الذھبی کہتے ہیں     قال القطان ليس بذاك

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں  وَقَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: هُوَ فِي قَتَادَةَ لَيْسَ بِذَاكَ   ابن معین کہتے ہیں قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا (اچھا) نہیں ہے

ميزان الاعتدال في نقد الرجال میں الذھبی اس نور والی روایت کا يزيد بن إبراهيم کے ترجمہ میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں اس کا اور معتمر کا تفرد ہے

محمد بن وزير الواسطي، حدثنا معتمر بن سليمان، عن يزيد بن إبراهيم، عن قتادة، عن عبد الله بن شقيق، قال: قلت لأبي ذر: لو رأيت النبي صلى الله عليه  وسلم لسألته: هل رأى ربه؟ فقال: قد سألته فقال لي: نور إني أراه مرتين أو ثلاثا تفرد به عن قتادة وما رواه عنه سوى معتمر

صحیح مسلم کی جیسی سند سے اس روایت کی تخریج  ابن خزیمہ نے اپنی کتاب التوحید میں بھی کی ہے وہاں اس کو ذکر کیا

حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: ثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، قَالَ: عَمَّا كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُهُ، قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»  قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي الْقَلْبِ مِنْ صِحَّةِ سَنَدِ هَذَا الْخَبَرِ شَيْءٌ، لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِنَا مِنْ عُلَمَاءِ أَهْلِ الْآثَارِ فَطِنَ لِعِلَّةٍ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْخَبَرِ، فَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَقِيقٍ، كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُثْبِتُ أَبَا ذَرٍّ، وَلَا يَعْرِفُهُ بِعَيْنِهِ وَاسْمِهِ وَنَسَبِهِ  لِأَنَّ أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى ثَنَا قَالَ: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى غَرَائِرَ سُودٍ، يَقُولُ: «لِيَبْشِرْ أَصْحَابُ الْكُنُوزِ بُكْرَةً فِي الْحَيَاةِ وَالْمَوْتِ» فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، صَاحِبُ رَسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ يَذْكُرُ بَعْدَ مَوْتِ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَقُولُ هَذِهِ الْمَقَالَةَ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى غَرَائِرَ سُودٍ، خُبِّرَ أَنَّهُ أَبُو ذَرٍّ، كَأَنَّهُ لَا يُثْبِتُهُ وَلَا يَعْلَمُ أَنَّهُ أَبُو ذَرٍّ –  وَقَوْلُهُ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» ، يَحْتَمِلُ مَعْنَيَيْنِ: أَحَدُهُمَا نَفْيٌ، أَيْ: كَيْفَ أَرَاهُ، وَهُوَ نُورٌ، وَالْمَعْنَى الثَّانِي أَيْ: كَيْفَ رَأَيْتَهُ، وَأَيْنَ رَأَيْتَهُ، وَهُوَ نُورٌ، لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ إِدْرَاكَ مَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ، كَمَا قَالَ عِكْرِمَةُ: «إِنَّ اللَّهَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ لَا يُدْرِكُهُ شَيْءٌ» وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ الثَّانِي: أَنَّ إِمَامَ أَهْلِ زَمَانِهِ فِي الْعِلْمِ وَالْأَخْبَارِ: مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ ثَنَا بِهَذَا الْخَبَرِ قَالَ

حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ،: قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ،….  فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ نُورًا»

 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى، وَقَالَ: «نُورًا أَنَّى أَرَاهُ»

 حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، أَيْضًا، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: ثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ….: «نُورًا أَنَّى أَرَاهُ

كَذَا قَالَ لَنَا بُنْدَارٌ» أَنَّى أَرَاهُ “، لَا كَمَا قَالَ أَبُو مُوسَى، فَإِنَّ أَبَا مُوسَى قَالَ: «أَنَّى أَرَاهُ

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ نے کہا ایک شخص نے ابو ذر رضی الله عنہ سے    کہا   کہ  اگر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کو دیکھتا تو ان سے سوال کرتا- ابو ذر نے پوچھا کیا سوال کرتے ؟  کہا  میں سوال کرتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟  ابو ذر نے کہا میں نے یہ سوال کیا تھا  تو انہوں نے کہا    نور میں نے دیکھا  (نور ،  میں کیسے دیکھتا )-    أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة   (المتوفى: 311هـ) نے کہا  دل میں اس سند کی صحت  پر کوئی چیز  (کھٹکتی ) ہے-     اہل اثار    یا محدثین  علماء  میں سے   جو ہمارے اصحاب میں سے ہیں کسی کو نہ دیکھا    جو  اس   خبر کی سند کی علت  پر  جانتے ہوں   کیونکہ    عبد الله بن شقیق   کی روایت ابو ذر  سے مضبوط نہیں ہے   اور نہ یہ     آنکھ سے دیکھا گیا ہے   نہ نام و نسب سے جانا جاتا ہے  – کیونکہ أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى ثَنَا قَالَ: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ  نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا کہ   میں مدینہ پہنچا تو  ایک شخص   کالے خیمہ میں  کھڑا    کہہ رہا تھا     خزانوں   کے اصحاب کو بشارت دو   کہ   زندگی کی صبح   ہے اور موت ہے – پس  (لوگوں  نے ) کہا یہ ابو ذر  ہیں  صاحب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  –   ابن خزیمہ نے کہا پس عبد الله بن شقیق نے   ابو ذر کی موت   کے بعد    کا ذکر کیا   کہ اس نے ایک شخص  کو     کالے خیمہ   میں   کچھ کہتے سنا     ،  خبر دی یہ ابو ذر  تھے   ،  گویا یہ اس کو    بات   ثابت نہیں کہتے  اور   نہ   یہ  جانتے تھے کہ ابو ذر کون ہیں-   پھر اس کا یہ قول   بھی ذو معنی  ہے  ایک   میں نفی ہے   یعنی  اس کو کیسے دیکھتا   وہ نور ہے  اور دوسرا معنی  ہے   اس کو   کیسے کہاں دیکھ پاتا   وہ نور ہے  – …. دوم :   امام اہل زمانہ   علم و اخبار امام بندار نے     اس حدیث پر کہا

    مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ   نے روایت کیا ہے   ….     میں نے   نور دیکھا

اور يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ   نے  أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى     کی طرح روایت کیا ہے ….. میں نے نور دیکھا

اور عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ  نے روایت کیا ہے  …..   نور ہے میں کیسے دیکھتا

اسی طرح بندار نے کہا  اور وہ نہیں کہا جو  أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى       نے روایت کیا ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَبَهْزٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ بَهْزٌ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: لَوْ أَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهُ. قَالَ: عَنْ أَيِّ شَيْءٍ؟ قُلْتُ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» يَعْنِي عَلَى طَرِيقِ الْإِيجَاب. (حم)

21392

فرمایا   نور ہے، کیسے دیکھتا !  یعنی  قبول و ایجاب کے انداز میں کہا

 اس  روایت کا متن مضطرب تو ہے ہی  عبد الله بن شقیق کا ابوذر  رضی الله عنہ سے ملنا بھی مشکوک ہے  کیونکہ یہ دور عمر  رضی الله عنہ کا وقوعہ  بیان کیا گیا ہے

مسند البزار میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: نَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى غَرَايِرَ سُودٍ يَقُولُ: ” أَلَا أُبَشِّرُ أَصْحَابَ الْكُنُوزِ بِكَيٍّ فِي الْجِبَاهِ وَالْجُنُوبِ، فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيق   نے کہا  میں مدینہ  پہنچا   تو  ایک شخص   کالے خیمہ میں  کھڑا    کہہ رہا تھا   خبر دار   میں    خزانوں   کے اصحاب کو بشارت   نہ دوں     وہ   اپنے آگے   اور پہلو پر روئیں  گے  – پس  (لوگوں  نے ) کہا یہ ابو ذر  ہیں  صاحب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  –

سنن الکبری البیہقی میں ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُؤَمَّلِ، ثنا أَبُو عُثْمَانَ عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَصْرِيُّ , ثنا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ أنبأ يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَجُلٌ طَوِيلٌ أَسْوَدُ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ عَلَى أِيِّ حَالٍ هُوَ الْيَوْمَ , قَالَ: قُلْتُ: أَصَائِمٌ أَنْتَ؟ قَالَ: ” نَعَمْ ” وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ الْإِذْنَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَدَخَلُوا فَأُتِينَا بِقِصَاعٍ فَأَكَلَ فَحَرَّكْتُهُ أُذَكِّرُهُ بِيَدِي فَقَالَ: ” إِنِّي لَمْ أَنْسَ مَا قُلْتُ لَكَ أَخْبَرْتُكَ أَنِّي صَائِمٌ إِنِّي أَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَأَنَا أَبَدًا صَائِمٌ “

عبد الله بن شقیق نے کہا  میں مدینہ پہنچا وہاں ایک بہت لمبا آدمی دیکھا جو کالا  تھا  میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟  کہا  گیا ابو ذر  میں نے اس سے کہا  میں دیکھ رہا ہوں کہ آج تم  (ابو ذر ) کس حال میں ہو –  کہا  میں نے کہا  : کیا روزے سے ہو ؟   ابو ذر  نے کہا  ہاں   اور وہ عمر  رضی الله عنہ کی آواز    کا انتظار کر رہے تھے پس ایک  کھانا آیا  اس کو کھایا … پھر کہا   میں تم کو نہیں جانتا  میں نے تم کو جو کہا اس کی خبر دیتا ہوں میں روزے سے تھا میں ہر مہینہ کے   تین دن روزہ رکھتا ہوں پس میں ہمیشہ روزے سے ہوں

طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے

كُنَّا جُلُوسًا بِبَابِ عُمَرَ وَمَعَنَا أَبُو ذَرٍّ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ أَذِنَ عُمَرُ، فَأُتِيَ بِالْعَشَاءِ، فَأَكَلَ

ہم سب مل کر عمر  کے گھر کے باب پر پہنچے اور ابو ذ ر ساتھ تھے – انہوں نے کہا میں روزے سے ہوں  پھر عمر  نے ان کو اجازت دی    تو رات کا کھانا  کھایا –

اس کلام میں کس قدر اضطراب ہے کہ عمر  رضی الله عنہ جن کے دور میں اصحاب رسول فارغ البال  تھے مدینہ میں غلاموں کی کثرت تھی اس دور میں ابو ذر  کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا ؟  یا للعجب

پھر  جندب بن جنادة    ابو ذر غفاری  رضی الله عنہ  سے عبد الله بن شقیق  دور عمر میں مدینہ میں ملے تو ان کا سماع کثیر اصحاب رسول سے کیوں نہیں ہے ؟   تاریخ الکبیر از امام بخاری میں ہے

قال عَبّاس بن الوَلِيد: حدَّثنا عَبد الأَعلى  ، حدَّثنا الجُرَيرِيّ، عَنْ عَبد اللهِ بْنِ شَقِيق، قَالَ: جاورتُ أبا هُرَيرةَ سَنَةً.

عبد الله بن شقیق نے کہا میں نے ابو ہریرہ کے ساتھ ایک سال گزارا

جب  عبد الله بن شقیق نے دور   عمر  پا لیا تو   خود عمر  رضی الله عنہ سے ان کی روایت کی تعداد اتنی کم کیوں ہے جبکہ انہوں نے مدینہ میں ایک سال  گزارا ہے  جو کوئی کم مدت نہیں ہے –  عبد الله  بن  شقیق  نے نہ تو عثمان      رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے نہ علی       رضی الله عنہ   سے نہ ابو سعید الخدری       رضی الله عنہ  سے نہ جابر بن  عبد الله     رضی الله عنہ سے

 محدثین میں   بعض کی رائے عبد الله بن شقیق پر منفی ہے –

العقيلي نے  عبد الله بن شقیق کا شمار  الضعفاء  میں کیا ہے   اور  خبر دی کہ

  كَانَ التَّيْمِيُّ سَيِّءَ الرَّأْيِ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ

 سُلَيْمَانُ   بن طرخان    التّيميّ   کی    عبد الله بن شقیق پر    بری  رائے تھی

اس بحث سے معلوم ہوا کہ صحیح مسلم کی اس حدیث میں محدثین نے کلام کیا تھا    اور اس روایت کے متن میں اضطراب ہے یہاں تک کہ عبد اللہ بن شقیق کی ابو ذر سے ملاقات ہوئی بھی یا نہیں اس پر بھی  شک  ہے

لہذا    اول تو یہ روایت صحیح   نہیں ہے پھر دوسری    حدیث   جو  صحیح ہے اس میں حجاب کو نور کہا گیا ہے

النور اسماء الحسنی میں  مانا جائے ورنہ  اللہ تعالی کی صفات محدود ہو جائیں گی ؟ 

کہا  جاتا ہے کہ اگر ہم کہیں کہ نام صرف ننانوے ہیں  یا  اسماء الحسنی محدود ہیں جو ہمارے علم میں ہیں یا آپ کے علم میں ہیں تو اس سے صفات بھی محدود ہو  جائیں گی  اور ایسا ہونے سے خدا ، خدا کیسے رہے   گا ؟ اس  پر    راقم  کہتا ہے وہ تمام صفات جو کسی ذات کو معبود و اله و رب قرار دیتی ہوں وہ   ان ننانوے ناموں میں سمٹ  کر بیان ہو چکی ہیں – اس سے  الله کی    تعریف  محدود   نہیں  ہوئی بلکہ  ان ناموں کی شرح  مزید کی جا سکتی ہے      – صفت سے مراد لغوی طور پر تعریف ہے لیکن یہ اصلا  فلسفہ کی اصطلاح ہے  جس کی مراد ہے کہ   وہ چزیں جو   کسی  ذات یا جسم کو  دیگر سے ممتاز کر دیں-    جب ہم کسی چیز کو الله کی صفت کہیں گے اور وہ کسی اور میں بھی ہو تو پھر وہ صفت الله کا نام نہیں ہے-

کہا  جاتا ہے کہ  اگر نور  الله  تعالی  کا نام نہیں  تو   بھی یہ صفت تو ممکن ہے –  راقم کہتا ہے  یہ ممکن  نہیں کیونکہ مسلئہ  صفات  میں یہ  بات معروف ہے کہ جو بھی چیز الله کی صفت ہے وہ اس کا نام بن   جاتی ہے    –  لہذا   الله نور سماوات میں نور ہدایت ہی ہے یہ صفت نہیں ہے کیونکہ نور مخلوق ہے

سوال ہو سکتا ہے کہ یہ خوبی  مخلوق میں بھی تو ہو سکتی ہے ؟  تو اس کا جواب ہے کہ   اللہ  کی صفت  اللہ کے لئے خاص ہے کیونکہ یہ اس   نوعیت کی صفت  ہے کہ   اس کے سوا  کسی اور میں ممکن نہیں ہے-  مثلا  بندے کو صرف رحیم کہا جاتا ہے    الرحیم  نہیں کہا  جا سکتا  کیونکہ الرحیم  صرف   الله کا نام ہے- مخلوق اس درجہ  کو نہیں پہنچ سکتی-  الله تعالی رحم کرتا ہے اس کے جیسا کوئی رحم  نہیں کر سکتا اس لئے الرحیم ہے-

انسان کو الله نے حواس خمسہ دیے ہیں اور اس کے لئے کہا

فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً
ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنا دیا

لیکن البصیر نہیں کہا بصیر کہا لہذا البصیر الله ہے

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں
قَالَ الله تبَارك وَتَعَالَى {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم إِنَّه سميع بَصِير لَا كشيء من البصراء وَلَا السامعين مِمَّا فِي الْعَالم وكل سميع وبصير فِي الْعَالم فَهُوَ ذُو سمع وبصر فَالله تَعَالَى بِخِلَاف ذَلِك بِنَصّ الْقُرْآن فَهُوَ سميع كَمَا قَالَ لَا يسمع كالسامعين وبصير كَمَا قَالَ لَا يبصر كالمبصرين لَا يُسَمِّي رَبنَا تَعَالَى إِلَّا بِمَا سمى بِهِ نَفسه وَلَا يخبر عَنهُ إِلَّا بِمَا أخبر بِهِ عَن نَفسه فَقَط كَمَا قَالَ الله تَعَالَى {هُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم هُوَ السَّمِيع الْبَصِير وَلم يقل تَعَالَى إِن لَهُ سمعا وبصرا فَلَا يحل لأحد أَن يَقُول إِن لَهُ سمعا وبصراً فَيكون قَائِلا على الله تَعَالَى بِلَا علم وَهَذَا لَا يحل وَبِاللَّهِ تَعَالَى

الله تعالی کہتا ہے لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے لیکن کسی بینا کی طرح نہیں اور کسی سننے والے کی طرح نہیں جو اس عالم میں ہیں ، اور ہر سننے والا اور دیکھنے والا جو اس عالم میں ہے تو وہ سمع و بصر والا ہے- لیکن الله تعالی کے لئے اس کے خلاف قرآن میں نص ہے پس وہ سننے والا ہے جیسا اس نے کہا ، نہ کہ وہ سنتا ہے ایسے جسے کوئی (انسان یا جانور) سنّتا ہے، اور دیکھتا ہے جیسا اس نے کہا، مگر ایسے نہیں جسے کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے – ہمارے رب تعالی نے کوئی نام نہ رکھا سوائے وہ جو اس نے خود رکھا اور کسی دوسرے نام کی خبر نہیں دی سوائے ان کے جن کی اس نے خبر دی- الله نے کہا کہ هُوَ السَّمِيع الْبَصِير پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے اور الله نے اپنے لئے (قوت) سمع اور بصر نہیں کہا سو یہ حلال نہیں کسی کے لئے بھی کہ وہ الله کے لئے سمع و بصر کہے کیونکہ وہ الله پر وہ بات بولے گا جس کا علم نہیں اور یہ حلال نہیں ہے

  الله تعالی نے رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کو     رحيم  قرار ديا

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

بے شک تمہارے پاس   تم میں سے رسول آ گیا ہے اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے تمہاری بھلائی پر، وہ حریص (فکرمند) ہے مومنوں پر، نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔

أور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو    رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ       قرار دیا

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

اور ہم نے اپ کو  تمام جہانوں کے  لئے  رحمت بنا کر بھیجا ہے

   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعریف کی گئی کہ وہ رحم کرتے ہیں یہ الله کا حکم ہے جس پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے عمل کیا لہذا مالک نے خوش ہو کر اس کا ذکر کیا – لیکن رحم رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ   اور   لوگ  بھی  کر سکتے ہیں- وہ لوگ بھی رحیم ہو سکتے ہیں  قرآن میں ہے

إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ

بیشک ابراہیم  بردبار، نرم دل والا والا بہت رجوع  کرنے والا ہے۔

یہ تمام خوبیاں ابراہیم  علیہ السلام کو بھی رحیم بنا دیتی ہیں

 الله کا نام الرحیم ہے اس کے جیسا کوئی نہیں- العلی الله کا نام ہے اس کے سوا کوئی نہیں-  ایک انسان دوسرے انسان پر رحم کرتا ہے تو رحیم ہوا     –   انسان  کی عزت کی جاتی ہے اس لئے علی ہوا-  یہ  اللہ تعالی   کا  پرتو یا عکس  یا تجلی   نہیں بلکہ الله کے امر   و حکم پر  مخلوق کا عمل  ہے – رسول الله لوگوں پر رحیم تھے کیونکہ یہ الله کا حکم ہے چونکہ وہ  شفقت سے پیش آتے مالک   نے اس  کا خاص ذکر   نبی علیہ السلام کے لئے   کیا ہے- آ پ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو بد دعا بھی نہیں دی اس کے برعکس بعض  انبیاء   نے اپنی   قوموں کو   بد دعا دی  جس کے نتیجے میں وہ عذاب عام سے ہلاک ہوئیں-  اس وجہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں یعنی  اب آنے والے دور کے لئے ایک نمونہ  –

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ  کائنات کی سب چیزیں حق تعالی کے اسماء وصفات کا مظہر ہیں اور تمام مخلوقات میں سے انسان  مظہرِ کامل ہے اور انسانوں میں کے مظہرِ کامل و مکمل و اتّم حضور    (ص)ہیں۔    راقم   کہتا ہے  ہمارا رحم کرنا یقینا الله کی طرف سے عطا کردہ ہے  لیکن اگر کوئی قہر کرے اور کہے کہ یہ میرے رب کی طرف سے ہے وہ القہار ہے مجھ میں اس کی صفت منعکس ہو رہی ہے تو        ہم      کیا اس کو اسماء و صفات  کا مظہر قرار دیں  گے  ؟    لہذا ہم اس کو مظہر نہیں کہتے ہم اس کو حکم الله پر عمل کہتے ہیں- رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی الله کے حکم پر عمل کیا   اور  اپنی قوم پر رحم کیا ان کو فتح مکہ کے دن معاف کر دیا –

غور طلب ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم   رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ  کب سے ہیں ؟  کیا  بطن آمنہ سے پیدا ہونے سے قبل سے تمام زمین پر رحمت فرما رہے تھے ؟  ظاہر ہے ایسا نہیں ہے – اللہ تعالی نے  رحمت للعالمین قرار دیا تو اس کا مطلب  بعثت  کے  بعد کا  دور ہے قبل ولادت کا دور   ممکن نہیں ہے- اسی طرح  خاتم النبیین اور رحمت للعالمین کا اصل مدعا ہدایت کا پہنچانا ہے-  یعنی آخری نبی   کے آنے کے بعد سے قیامت تک کا دور مراد ہے-    اللہ تعالی کہتا ہے

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ
کہو میں رسولوں میں کوئی نیا  (یا انوکھا) نہیں ہوں

خود رسول الله   صلی الله علیہ وسلم   کا فرمان ہے     جس نے کہا میں یونس بن متی   (علیہ السلام)سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے

 الله تعالی نے رسول الله   صلی الله علیہ وسلم  کو رحمت للعالمین کہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم زمین پر آدم علیہ السلام کے ساتھ تھے- رحمت کا مطلب  بعثت  کے بعد آنے  والا  دور کے بارے میں ہے نہ کہ ماضی کے بارے میں-   مثلا   قرآن میں ہے ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو نشاني بنایا   وَجَعَلْنَا ٱبْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُۥٓ ءَايَةً    یعنی بعد والوں کے لئے-   بني اسرائیل کو تمام جہانوں میں فضیلت دی   وأني فضلتكم على العالمين یعنی ماضی میں-

   سورہ مائدہ   میں ہے

اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور آ گیا ہے اور ایک روشن کتاب

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نور کہا ہے ان میں امام طبری بھی ہیں –اور طبری وضاحت کرتے ہیں کہ  ان کی مراد رسول الله کو الله کی طرف سے ہدایت کا نور کہنا ہے طبری نے   تفسیر میں لکھا ہے

يعني بالنور، محمدًا صلى الله عليه وسلم الذي أنار الله به الحقَّ، وأظهر به الإسلام
نور یعنی محمد جن سے الله نے حق کو روشن کیا اور اسلام کو غالب

ان مفسرین نے حدیث جابر کی بنیاد پر ایسا نہیں کہا نہ اس کا ذکر کیا ہے

اس حوالے سے کہ  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نوری ہیں  ایک دعا کا حوالہ  بھی  دیا جاتا ہے  جو صحیح مسلم میں ہے اور اس کو تہجد کی نماز میں پڑھا جاتا ہے – الفاظ ہیں

وَکَانَ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي بَصَرِي نُورًا وَفِي سَمْعِي نُورًا وَعَنْ يَمِينِي نُورًا وَعَنْ يَسَارِي نُورًا وَفَوْقِي نُورًا وَتَحْتِي نُورًا وَأَمَامِي نُورًا وَخَلْفِي نُورًا وَعَظِّمْ لِي نُورًا

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی اے اللہ میرا دل روشن فرما اور میری آنکھیں روشن فرما اور میرے کانوں میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے   نور   کر  اور میرے لئے نور کو   بڑھا دے

 رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے  لئے  اس دعا میں نور طلب کیا  تو اس حوالے سے  درست  بات یہ ہے  ہے کہ یہ بطور اضافہ ہے – ساتھ ہی آپ نے یہ دعا مومنوں کو بھی سکھا دی –  اب  نور مومن بھی مانگ رہا ہے –  سوال یہ ہے کہ   ١٤ صدیوں  سے  کیا کوئی مومن مستجاب الدعوات اس امت میں نہیں گذرا جس کی نور والی دعا پوری ہوئی  ہو  اور وہ سراپا نور بن گیا ہو؟ اگر    اس نور سے مراد  نوری ہو جانا ہے  اور    اگر  کسی کی دعا   پوری ہوئی  ہے تو پھر  نوری ہونا  رسول الله   صلی الله علیہ وسلم   کی خصوصیت نہیں رہتی-  امت کے بہت سے لوگوں کا نوری ہونا قبول کرنا ہو گا- ظاہر ہے یہ نور بطور عنصر تخلیق   مراد و منشا  نہیں ہو سکتا کیونکہ انسان بشر ہے نوری نہیں-

اگر منشا یہ تھی کہ انسانی جسم نوری بن جائے لگے تو بشری لیکن اندر نوری ہو تو  اصحاب رسول اور انبیاء  اور اولیاء  تمام پر نور کا اثبات کرنا ہو گا –   یہ عجیب و غریب   بات ہے  اور   باقی مخلوق  سے عظیم تبدیلی ہے،  جس سے باقی انبیاء بے خبر رہے ہیں اور کسی صحیح مستند روایت میں بھی   اس کا ذکر نہیں  ہے  – اس عظیم الشان تغیر کا ذکر اصحاب کبار – مہاجرین و انصار میں سے کسی نے نہیں کیا یہ کیسے ممکن ہے؟

صحیح مسلم کی ایک  حدیث   جس    میں ہے کہ میرے جسم میں نور کر دے اس کی مثال ہے کہ دن کی  نماز کی دعائے استفتاح  میں ہے

اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج و البرد
میرے گناہ پانی سے، برف سے، سردی سے دھو دے

جبکہ گناہ معاف کرنا اللہ کا فعل ہے موسموں  اور بارش  سے گناہ معاف نہیں ہوتے – اب اس  قول  کی تاویل ہی کی جائے گی-

ضمنی بحث 

آدم  جب کیچڑ کو مٹی کے درمیان تھے اس وقت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  موجود تھے  ؟ 

کہا  جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا تھا  کہ

میں     اپنے پروردگار کے ہاں خاتم النبیین ہو چکا تھا اور آدم ابھی پانی اور کیچڑ کے درمیان تھے

اگر اس  حدیث کو     تقدیری امر     پر ملحوظ   کیا   جائے   یا     حق تعالی کے علم کے لحاظ سے  قرار دیا  جائے    تو پھر یہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم       کی کوئی خصوصیت قرار نہیں پاتی کیونکہ تقدیر میں تو ہر چیز   موجود ہے اور حق تعالی کے علم میں بھی ہر چیز ہے پھر اس کو بیان کرنے کا مقصد و منشا کیا ہے؟

راقم  کہتا ہےاول   سندا  یہ مضبوط  روایت  نہیں ہے –  اس  روایت کو عبد الله بن شقیق  نے روایت کیا ہے  جس کا ذکر اسی مضمون میں پیچھے  گذر چکا ہے –     راقم کو     اس روایت  کے کسی متن میں  خاتم  النبیین  کے الفاظ نہیں ملے

عبد الباقي بن قانع   نے  کتاب جملة الصحابة میں ذکر کیا

 ثنا موسى بن زكريا التستري ثنا طرخان بن العلاء ثنا يزيد بن زريع، ثنا خالد بن الحذاء عن عبد الله بن شقيق العقيلي عن أبيه قال: قام أبي فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم متى كنت نبيا؟ فقال الناس: مه. فقال: «دعوه كنت نبيا وآدم بين الروح والجسد

عبد الله بن شقيق العقيلي نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ  میرے باپ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا  یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آپ کب سے نبی تھے ؟ پس لوگوں نے کہا  مہ (یعنی اس سوال کو برا جانا )  پس نبی نے فرمایا میں  نبی تھا اور آدم جسد و روح کے بیچ تھے

یہاں بھی  روایت کے الفاظ میں اضطراب  مل رہا ہے  بعض اوقات  عبد اللہ  بن شقیق نے کہا ہے میرے باپ نے کھڑے ہو کر سوال کیا گویا کہ دیکھ رہا ہو   پھر بعض اوقات اس کو مَيْسَرَةَ الْفَجْر رضی الله عنہ کی حدیث کہا ہے-  مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

بعض اوقات اس کو  کسی بدو کا سوال کہا ہے  –   کتاب القدر از فریابی  اور الإبانة الكبرى لابن بطة   میں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  : مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ لَهُ النَّاسُ: مَهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعُوهُ، كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

بعض  اوقات اس کو    غیر معروف صحابی    ابْنِ الْجَدْعَاءِ  کی حدیث قرار دیا ہے – کتاب  الأحاديث المختارة  از ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ نَصْرٍ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَتْهُمْ أبنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أبنا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الطَّبَرَانِيُّ ثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِيُّ ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ ثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنِ ابْنِ الْجَدْعَاءِ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

بعض اوقات اس   نے   نام     ابْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ     لیا ہے –  کتاب   الرد على الجهمية از  أبو سعيد عثمان بن سعيد    الدارمي السجستاني (المتوفى: 280هـ) میں ہے

 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَ هُشَيْمُ، عَنْ خَالِدٍ وَهُوَ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

 امام مسلم نے    کتاب  المنفردات و  الواحدان  میں   عبد الله بن أبي الجدعاء   اور عبد الله بن  ابن أبي الحمساء کو الگ الگ افراد قرار دیا ہے –   عبد الله بن أبي الجدعاء   اور عبد الله بن  ابن أبي الحمساء   دو اصحاب رسول بقول  عبد الله بن شقیق ہیں اور ان سے روایت کرنے میں عبد الله بن شقیق کا تفرد ہے

 یہ    روایت معجم طبرانی میں  ابن عباس رضی الله عنہ  سے بھی منسوب ہے

 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْعَبَّاسِ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ صُبَيْحٍ، ثنا نَصْرُ بْنُ مُزَاحِمٍ، ثنا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهُ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

یہاں سند میں   قيس بن الربيع الأسدي أبو محمد الكوفي   ضعیف ہے

ایک دوسرے طرق سے بھی یہ قول  معجم طبرانی میں آ تا ہے

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا زَيْدُ بْنُ الْحَرِيشِ، ثنا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ جُوَيْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ , مَتَى أُخِذَ مِيثَاقُكَ؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

اس طرق  میں جویبر ضعیف ہے

اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے بھی منسوب کیا گیا ہے

مستدرک الحاکم   اور سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ الْبَعْلَبَكِّيُّ، ثنا   الْوَلِيدِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: «بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ وَنَفْخِ الرُّوحِ فِيهِ

سند میں  يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ  مدلس   کا عنعنہ  ہے   اور الولید بن مسلم بھی مدلس ہے  اس کا سماع  الاوزاعی  سے نہیں ہے

اگر ان روایات   کو قبول بھی کر لیں  تو   راقم  کہتا ہے  یہ تقدیر سے ہی متعلق قول ہے اور اس میں سب ایک ہیں- اس کی وجہ ہے کہ بعض اوقات تکرار کے لئے بھی چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے – سب کو معلوم ہے الله نے تقدیر لکھی ہے اور اس میں انبیاء کا کوئی استثنی نہیں ان کی تقدیر بھی لکھی گئی-  جہاں تک رہی تقدیر    اور علم   کی بات تو اس کی مثال اس طرح ہے کہ   الله تعالی نے ہی سب انسانوں کو خلیفہ مقرر کیا ہے لیکن فرشتوں کے سوال پر پیش صرف آدم علیہ السلام کو کیا تھا تمام انسانوں کو نہیں-

قرآن میں   سوره الأعراف    میں ہے

 وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ

اور بے شک ہم نے تم سب کو خلق کیا پھر تم سب کی  صورت بنائی پھر فرشتوں کو ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (پس کیا سب نے ) سوائے ابلیس کے – جو سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا

اس آیت  میں ہے کہ تمام انسان خلق ہوئے ان کی شکل و صورت بھی  آدم کو سجدے کرنے سے پہلے  بن چکی تھی –  اس سے ظاہر ہے کہ تمام مخلوق کی ارواح کو خلق کیا گیا – ان کی شکل و صورت کو لوح میں    جمع کر دیا گیا اور اس میں انبیاء و رسل بلکہ تمام مخلوق شامل ہے-  لہذا جب آدم   علیہ السلام  کا جسم وجود لے رہا تھا   تو ارواح  بن چکی تھیں   اور یہی مفہوم اس حدیث میں بیان ہوا کہ میں خاتم النبین  ہو چکا تھا جب آدم مٹی میں بن رہے تھے

==================================================

حواشی

[1]

ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں لکھا اور اس کو بلا جزم کہا

فالنور وإن كان اسمًا لله، فقد يقع اسم النور على بعض المخلوقين، فليس معنى النور الذي هو اسم لله في المعنى مثل النور الذي هو خلق الله

اور النور اگر الله کا نام  ہو تو پھر اس اسم نور کا اطلاق مخلوق پر بھی کیا گیا  ہے لہذا نور کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ الله  کا وہ  اسم ہے جو ان معنوں میں  ہے کہ وہ مخلوق جیسا ہو گا

[2] https://www.youtube.com/watch?v=IPlrzAU1_90&feature=youtu.be

[3]

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار  از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ)  کے مطابق  سبحات” وجهه، هي جلاله وعظمته، وأصلها جمع سبحة

: كتاب العين از  الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) نے اس کی شرح  ہے کہ

وقال سعد بن مسمع:  ذا سُبْحَةٍ لو كان حلو المعجم  أي: ذا جمال. وهذا من سُبُحات الوجه، وهو محاسنه

سعد بن مسمع نے کہا … یعنی جمال  اور یہ سُبُحات الوجه ہے یعنی محاسن

الأسماء والصفات للبيهقي از  البيهقي (المتوفى: 458هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ , أنا أَبُو الْحَسَنِ الْكَارِزِيُّ , أنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ: يُقَالُ فِي السُّبْحَةِ: إِنَّهَا جَلَالُ وَجْهِ اللَّهِ , وَمِنْهَا قِيلَ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّمَا هُوَ تَعْظِيمٌ لَهُ وَتَنْزِيهٌ

الأسماء والصفات للبيهقي میں ہے

 إِنَّ سُبُحَاتٍ مِنَ التَّسْبِيحِ الَّذِي هُوَ التَّعْظِيمُ

بے شک یہ سُبُحَاتٍ  اس تسبیح میں سے  ہے جو اس  کی تعظیم ہے

===============

قال العثمانی رحمہ اللہ تعالی

part 1

part 2

اللہ کے نبی صلی الله علیہ و سلم نور یا بشر

 تحریر : ابو عفان

قرآن و حدیث اور بریلوی مذهب کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ھوگا یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بلکل اجنبی ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں قرآن و حدیث کے اسلام کی بنیاد توحید ہے دین اسلام میں صرف اور صرف ایک الہ کا تصور اور تیقن ہے الله اکیلا الہ ہے اسکا کوئی ساجھی کوئی شریک نہیں،نہ اسکی ذات میں نہ اسکی صفات میں نہ اسکی مثل کوئی ہے نہ اسکی مانند ہر لحاظ سے یکتا و یگانہ ہے تمام تر عبادات اور مراسم عبودیت اس ہی کے لئے ہیں نماز،روزہ،زکواة،حج جس طرح اس کے لیے ہیں دعا،پکار اسی سے اور نذر و نیاز اسی کے لئے ہیں وہی دینے والا ہے اسی سے مانگنا چاہیے قرآن و حدیث کے دین اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ مصیبت،پریشانی،تکلیف اور ہر قسم کی حاجت میں مدد صرف الله سے مانگنی چاہیے جبکہ بریلویت میں اس کے برعکس غیرالله سے مدد مانگنا غیراللہ سے استمداد چاہنا ہی اصل دین ہے انبیا،اولیا،صلحا،شہدا ہر ایک سے استمداد اور استعانت اس مذہب بریلویت کا خاصہ اور لازمہ ہے ہر وقت غیرالله کی پکاریں لگانا ہر دم ان کی دہائیاں دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے ان کے ہاں ان کا ہر پیشوا مرنے کے بعد پنہچا ہوا بزرگ سمجھا جاتا ہے اس کا مزار اور مقبرہ بنا کر اس کے ساتھ وہ معاملات شروع کردیے جاتے ہیں جو صرف الله کے گھر خانہ کعبہ کے ساتھ ہی جائز ہیں اس طرح ان کے معبودوں کا سلسلہ روز بہ روز بڑھتا جاتا ہے یہ اور بات ہے تمام تر مراسم عبودیت بجا لانے کے باوجود انہیں وہ معبود نہیں کہتے پہنچے ہوے بزرگ اور مقربان بارگاہ الہی قرار دیتے ہیں اپنے جیسے انسانوں کو جب اس درجہ پر مامور کرا جاتا ہے تو لا محالہ ان میں بے شمار انہونی صفات تصور کی جاتی اور انہیں قدرت و اختیار کا حامل گردانا جاتا ہے ان کے متعلق بے سروپا افسانے تراشے جاتے ہیں اور من گھڑت قصّوں سے ان کی شان و توقیر بڑھائی جاتی ہے عوام – عوام کلانعام کے مصداق ان من گھڑت قصّوں کہانیوں کی بدولت ان سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں اس طرح یہ دین مسلسل پھلتا پھولتا نظر آتا ہے انسانوں میں یہ انہونی صفات، ما فوق الفطری قوت و اختیار ماننے کا رجحان اتنا زود ہضم،اتنا پاپولر کیسے ہو گیا ہے جبکہ قرآن و حدیث کا دین اسلام اس کے بلکل برعکس ہونے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی تمام تر ہفوات کو بڑی شدّت سے رد کرتا ہے ان کو کفر و شرک قرار دیتا ہے اسلام کا اقرار قرآن و سنّت کو ماننے کے دعوے کے باوجود کفر و شرک سے والہانہ وابستگی غیر جانبدار مطالعہ کرنے والے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے مگر مسلک اور تعصب کی عینک لگے عقل و خرد سے بے نیاز لوگوں کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں ایک وجہ یہ بھی ہے، بے شمار الہ تراش لینے میں سب سے زیادہ آسانی انہیں اس وجہ سے ہوئی ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے الله کے رسول اسکے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق بہت سے عجیب و غریب گمراہ کن عقائد گھڑ کر عام کر دیے ہیں الله کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کے نام سے ان کو عوام میں خوب پزیرائی ملی ساتھ ساتھ اس میں صحابہ کرام رضی الله عنھم کو بھی اس سلسلے میں شامل کیا گیا اس طرح اولیا ، صلحا ،شہدا سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ ایسا چلا کہ اب ان کا ہر بزرگ کسی نہ کسی درجہ کا معبود بن جاتا ہے

الله کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق اس گروہ کثیر نے جو من گھڑت گمراہ کن عقائد عام کیے ہیں ان تمام کا احاطہ کرنا ممکن نہیں مگر ان میں چند نمایاں یہ ہیں

١) الله کے نبی بشر نہیں بلکہ مجسّمہ نور تھے ایسا نور جو الله کے نور سے جدا ہوا

٢) الله کے نبی عالم الغیب تھے

٣ ) الله کے نبی حاضر و ناظر ہیں

٤) الله کے نبی ہر پکارنے والے کی پکار سنتے ہیں اور اجابت فرماتے ہیں

یہ سلسلہ دراز ہے ، مختصراً یہ کہ الله کی صفات میں شاید ہی کوئی صفت ہو جس میں انھوں نے الله کے نبی کو اس کا شریک نہ ٹھرایا ہو

اللہ کے نبی صلی الله علیہ و سلم نور یا بشر

الله کے نبی صلی الله علیہ و سلم کو نور قرار دینا تو ظلم ہے ہی اس سے بڑھ کر ظلم بلکہ ظلم عظیم یہ ہے کہ آپ کو اللہ کے نور سے جدا ہونے والا نور قرار دیا جاتا ہے یہود و نصاریٰ نے علی الترتیب عزیر اور عیسی علیہ السلام کو الله کا بیٹا قرار دیا (العیاذ باللہ ) یہ ایسا ظلم ہے آسمان پھٹ پڑے ، زمین شق ہو جائے ، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں کم ہے اس ظلم عظیم کیلئے وہ نطفے کا واسطہ لائے مگر انھوں نے الله کے نبی کو براہ راست الله کا شریک ٹھہرایا ہے الله کے نبی کو الله کی ذات کا حصہ قرار دے دیا ہے

                     قُلۡ ہُوَ  اللّٰہُ  اَحَدٌ  ۚ﴿۱﴾اَللّٰہُ  الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾ لَمۡ  یَلِدۡ   وَ  لَمۡ  یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾ وَ  لَمۡ  یَکُنۡ  لَّہٗ   کُفُوًا  اَحَدٌ﴿۴

آپ کہہ دو کہ وہ الله اکیلا ہے ، اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہمسر و ہم ذات ہے

مگر ذات کا شرک اس میں سب سے زیادہ ھولناک اور بھیانک ہے الله کے نبی کو الله کے نور سے ٹھرانا یہی ذات کا شرک ہے الله تو وہ ہے جس کی کوئی مثل نہیں لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ( شوریٰ ١١ ) الله کے نبی کو الله کے نور سے جدا ہونے والا نور ماننے والے محض ذات کا شرک ہی نہیں کرتے بلکہ الله کو بھی نور سمجھتے ہیں حالانکہ الله تو نور کا خالق ہے یعنی نور اس کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے

سوره الانعام کی پہلی آیت ہے

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ

تمام تر تعریف الله کیلئے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے ، نور اور تاریکیاں پیدا کیں

  کیسی ستم ظریفی ہے جس نے نور کو پیدا فرمایا اس خالق کو ہی نور کا قرار دے دیا جائے نور اور تاریکی اس کی ادنی مخلوق ہے یہ بڑی جسارت ہے کہ خالق کائنات کو کسی ادنی مخلوق سے ملایا جائے یا تشبیہ دی جائے ایک طرف اسلام کا دم بھرنا قرآن و سنّت کو ماننے کا دعویٰ کرنا اور دوسری طرف اسلام کی بنیاد ہی کو بیخ و بن سے اکھاڑ ڈالنا یہ بریلویت کا خاصہ ہے الله کو نور کا بتانا نبی کو اس نور کا حصہ یا ٹکڑا کہنا محض بریلویت کا شاخسانہ نہیں دیوبند مکتب فکر نے بھی اس میں اپنا پورا حصہ ڈالا ہے ایسا کیوں نہ ہو ان دونوں کے مشترکہ پیشوا امام ربانی مجدد الف ثانی کہہ گئے ہیں

زمین و آسمان کو انہی ( نبی آخرالزمان صلی الله علیہ وسلم ) کی طفیل پیدا فرمایا ہے کما وردہ ،جاننا چاہیے کہ پیدائش محمدی تمام افراد و انسان کی پیدائش کی طرح نہیں  بلکہ افراد عالم میں سے کسی فرد کی پیدائش کے ساتھ نسبت نہیں رکھتی کیوں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ  وسلم باوجود عنصری پیدائش کے حق تعالی کے نور سے پیدا ہوے ہیں جیسے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے خلقت من نور الله ( میں الله تعالی کے نور سے پیدا ہوا ہوں ) اور دوسروں کو یہ دولت میسر نہیں ہوئی      ترجمہ مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی صفحہ ٢٦٦

بڑے جب فرما دیں ان کے معتقدین کی کیا مجال ہے اس سے انحراف کریں مگر بریلویوں کی طرف سے اس کا بہت پرچار کیا جاتا ہے

الله کی بے شمار مخلوقات ہیں موضوع کے اعتبار سے فرشتے ، اور جن و انس ہی وہ عاقل مخلوق ہیں جن کی اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کر دی جائے تو نور و بشر کے خود ساختہ موضوع کی قلعی کھل جاتی ہے

الله تعالی خالق ہے باقی سب مخلوق ہیں

قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ   الرعد ١٦  کہہ دو الله ہر چیز کا خالق ہے

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ    الزمر ٦٢    اللہ ہر چیز کا خالق ہے

وہ اکیلا خالق ہے باقی سب مخلوق ہیں انبیا ، اولیا ، صلحا ، شہدا ،صددقین ، فرشتے اور جن و انس   غرض برگزیدہ شخصیات ہوں یا عام انسان سب اس کی مخلوق ہیں اس کی مخلوق میں جن و انس مکلف ہیں ان کی تخلیق کا ذکر قرآن میں خصوصیت سے کیا گیا ہے اور انسان کی تخلیق کو تو بڑی ہی شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے فرشتے بھی عباد الرحمن ہیں مگر وہ مکلف نہیں وہ تو جو حکم ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے

فرشتے

 قرآن سے معلوم ہوتا ہے فرشتوں کو الله تعالی نے انسان سے پہلے پیدا فرمایا

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً   البقرہ ٣٠

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں

اور حدیث میں ہے

عن عائشة قالت   قال رسول الله صلى الله عليه و سلم خلقت الملائكة من نور وخلق الجان من مارج من نار وخلق آدم مما وصف لكم      مسلم    كتاب الزهد والرقائق      یعنی رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمایا   فرشتے نور سے پیدا کے گئے ، اور جنات آگ کی لپٹ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جس کا قرآن میں بیان کردیا گیا ہے

جنات

 جنات کو اللہ تعالی انسان سے قبل آگ سے پیدا فرمایا

وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ           الحجر ٢٧  اور اس (انسان ) سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا

وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ          الرحمن ١٥  اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا

انسان

قرآن کریم میں انسان کی نہ صرف اولین تخلیق اور پیدائش کو تفصیل سے بیان کیا گیا بلکہ اس کی بھی تفصیل کی ہے کہ اولین تخلیق کے بعد کس طرح نسل انسانی آگے بڑھی کن کن مراحل سے گزر کر جیتا جاگتا انسان وجود میں آتا ہے

الله تعالی نے انسان کی اولین تخلیق مٹی سے کی

وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ              سجدہ ٧

اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا مٹی سے کی

وَمِنْ آَيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ         الروم ٢٠

الله کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے ) پھیل رہے ہو

سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا مٹی سے انکا پتلا بنا کر اس میں روح پھونکی گئی  حجر ٢٦ تا ٣٣ اور البقرہ ٣٠ تا ٣٤

انسان کے جد امجد آدم علیہ السلام سے ہی ان کی زوجہ، اماں حوا کو پیدا کیا گیا آدم و حوا کی اس جوڑی سے نسل انسانی آگے بڑھی

 يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا         نسا ١

اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا       الحجرات ١٣

لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو

نسل انسانی کے اس پھیلاؤ کی عادت جاریہ کے تحت ہی جزیرہ نما عرب میں قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو ہاشم میں منصوبہ الہی کی تکمیل میں عبدالله کے گھر آمنہ کے بطن سے الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی دوسرے انسانوں کی طرح آپ کے ماں باپ کے علاوہ رشتے ناطے تھے عزیز و اقارب تھے آپ نے نکاح بھی کیے اور آپ کے ہاں اولادیں بھی ہویں آپ کھاتے پیتے بھی تھے سوتے بھی تھے کبھی بیمار بھی ہوتے  غرض جتنے انسانی معاملات ہوتے ہیں سب آپ میں موجود تھے اعلان نبوت سے قبل آپ وہاں کی ایک پروقار اور با وصف شخصیت تھے امین و صادق کے لقب سے معروف تھے  اعلان نبوت کے سلسلہ میں فرمایا گیا

جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ       التوبہ ١٢٨

دیکھو! تو لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ        الجمعه ٢

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا

اور ایسا اس دفعہ ہی نہیں ہوا کہ انسانوں میں سے ہی ایک انسان کو نبی بنایا گیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی جتنے انبیا و رسل انسانوں میں مبعوث ہوے وہ سب کے سب انسان اور مرد ہی تھے نوح علیہ السلام وہ پہلے نبی ہیں جو کسی قوم کی طرف بھیجے گئے

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ        المومنون ٢٣ اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا

معلوم ہوا نوح علیہ السلام اپنی قوم کی طرف بھیجے گۓ یعنی وہ اس قوم کے ہی ایک فرد تھے اور جب الله کا عذاب اس قوم کے اوپر آیا تو الله تعالی نے دوسری قوم کو اٹھایا اور اس میں سے بھی ان ہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا

ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آَخَرِينَ (31) فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ      المومنون ٣١،٣٢

ان کے بعد ہم نے ایک دوسرے دور کی قوم اٹھائی   پھر ان میں خود انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا

           وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ       الانبیا ٧

اور (اے نبی)تم سے پہلے بھی ہم نے مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے

گزشتہ اقوام میں سے انبیا و رسل کے انکاری اپنے انکار اور ہٹ دھرمی کا جواز ہی یہ پیش کرتے تھے یہ کیسا نبی ہے جو ہماری طرح کا انسان ، ہماری طرح کا بشر ہے بازاروں میں چلتا ہے ، کھاتا پیتا ہے،ہمارے اوپر کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا وغیرہ

گزشتہ قوموں نے نبی کو نبی نہ ماننے کے لئے بشریت کو جواز بنایا اور آج اس امّت میں نبی کو نبی ماننے کے لئے اس کی بشریت کا انکار کردیا اور انہیں نور یا مجسّمہ نور قرار دے ڈالا   دونوں میں کس قدر مماثلت ہے  اور حیرت انگیز ہے دونوں ہی بشریت کو نبوت میں مانع قرار دیتے ہیں

الله کی کتاب قرآن مجید نے اس باطل عقیدہ اور خود ساختہ نظریے کی پوری طرح تردید کرکے تشکیک کے تمام دروازے بند کردیے ہیں اور زبان نبوت  سے بڑے واشگاف الفاظ میں اعلان کروا دیا گیا

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ         کہف ١١٠

اے نبی کہہ دو کہ میں تو تمہی جیسا ایک انسان ہوں(ہاں )  میری طرف وحی کی جاتی ہے

                                           قرآن کے بعد احادیث پر بھی نظر ڈال لی جاۓ

 قال   النبي صلى الله عليه و سلم   لا أدري   زاد أو نقص فلما سلم قيل له يا رسول الله أحدث في الصلاة شيء ؟ قال ( وما ذاك )   قالوا صليت كذا وكذا فثنى رجليه واستقبل القبلة وسجد سجدتين ثم سلم   فلما أقبل علينا بوجهه قال ( إنه لو حدث في الصلاة شيء لنبأتكم به ولكن إنما أنا بشر مثلكم أنسى كما تنسون فإذا نسيت فذكروني وإذا شك أحدكم في صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم يسجد سجدتين )     بخاری کتاب الصلاة

عبدالله نے فرمایا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھی ابراہیم نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیاتی ہوئی یا کمی پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ کیا نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے آپ نے فرمایا آخر بات کیا ہے لوگو نے کہا آپ نے اس طرح نماز پڑھی ہے پس آپ نے اپنے دونو پاؤں سمیٹ لئے اور قبلہ کی طرف رخ کر لیا اس کے بعد دو سجدے کئے اور سلام پھیرا ، جب (نماز سے فارغ ہوکر)ہماری طرف متوجہ ہوے تو آپ نے فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوتا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا انسان ہوں جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھولتا ہوں اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلا دیا کرو

أم سلمة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه و سلم أخبرتها: عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه سمع خصومة بباب حجرته فخرج إليهم فقال ( إنما أنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صدق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو فليتركها ) – بخاری کتاب المظالم

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ رضی الله عنہا نے خبر دی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے. آپ نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں اس لیے جب میرے یہاں کوئی جگھڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ (فریقین میں سے) ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ ہو اور میں (اس کی زور تقریر اور مقدمہ کو پیش کرنے کے سلسلے میں موزوں ترتیب کی وجہ سے )یہ سمجھ لوں کہ سچ وہی کہہ رہا ہے اور اس طرح اس کے حق میں فیصلہ کردوں.اس لیے میں جس شخص کے لئے بھی کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں(غلطی سے)تو دوزخ کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے ،چاہے تو وہ اسے لے لے ورنہ چھوڑ دے

اس کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بشر ہونے کا ذکر فرمایا جیسے رافع بن خديج فرماتے ہیں کہ

قال قدم نبي الله صلى الله عليه و سلم المدينة وهم يأبرون النخل يقولون يلقحون النخل فقال ما تصنعون ؟ قالوا كنا نصنعه قال لعلكم لو لم تفعلوا كان خيرا فتركوه فنفضت أو فنقصت قال فذكروا ذلك له فقال إنما أنا بشر إذا أمرتكم بشيء من دينكم فخذوا به وإذا أمرتكم بشيء من رأي فإنما أن بشر قال عكرمة أو نحو هذا قال المعقري فنفضت ولم يشك — مسلم

رافع بن خدیج رضی الله تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے .اور لوگ کھجوروں کا قلم لگارہے تھے یعنی گابہ کررہے تھے آپ نے فرمایا تم کیا کرتے ہو. انھوں نے کہا ہم ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں، آپ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید اچھا ہو گا. لوگو نے پیوند کاری کرنا ترک کردیا.تو کھجوریں گھٹ گئیں.تو صحابہ کرم نے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا.آپ نے فرمایا میں تو بشر ہوں جب میں تمہیں دین کی بات بتاؤں تو اس پر کاربند ہو جاؤ.اور جب کوئی بات میں اپنی رائے سے بتاؤں تو میں بھی تو انسان ہوں.عکرمہ بیان کرتے ہیں، یا اس کے مثل اور کچھ فرمایا اور معقری نے فنفضت بغیر شک کے کہا ہے

عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم اللهم إنما أنا بشر فأيما رجل من المسلمين سببته أو لعنته أو جلدته فاجعلها له زكاة ورحمة . -مسلم کتاب البر والصلة

ابوھریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمایا اے الله میں انسان ہوں تو جس مسلمان کو میں برا کہوں یا لعنت کروں یا اسے سزا دوں تو یہ اس کے لیے باعث پاکی اور رحمت بنا دے

یہ زبان نبوت سے نکلے ہوے الفاظ ہیں جس میں آپ نے اپنی بشریت کو لوگوں کے سامنے بیان کر دیا ہے اس سلسلہ میں احادیث اور بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر ماننے والے کے لیے تو قرآن کی ایک آیت بھی کافی ہے اور نہ ماننے والے کیلئے پورا قرآن پورا سرمایہ حدیث بھی نہ کافی ہے الله تعالی  فرماتا ہے    اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ   الحج ٧٥ الله تعالی فرشتوں میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی وہ سمیع و بصیر ہے

الله تعالی فرشتوں کو ان کے کام کے لحاظ سے منتخب فرماتا ہے جیسے جبرائیل علیہ السلام کو وحی یعنی پیغام رسانی کیلئے منتخب کیا گیا اسی طرح دیگر فرشتوں کو اور انسانوں میں سے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے چونکہ زمین پر انسان بستہ ہے اسکی ہدایت و رہنمائی کے انسان ہی نبی و رسول ہوسکتا ہے

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا     قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا   بنی اسرئیل ٩٤،٩٥

اور لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو  کسی چیز نے نہیں روکا مگر ان کے اسی قول نے کہ ” کیا الله نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ؟ ان سے اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لئے پیغمبر بناکر بھیجتے

فرشتے نوری مخلوق ہیں الله نے انہیں نور سے تخلیق فرمایا ہے انسان خاکی مخلوق ہے الله نے اسکو مٹی سے پیدا کیا ہے انسان افضل المخلوقات ہے

    وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آَدَمَ    بنی اسرئیل ٧٠  یعنی  یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی

  انسان کے جد امجد آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد انسان کے شرف اور فضیلت کیلئے نوری مخلوق فرشتوں کو آدم کے آگے سجدے کا حکم دیا گیا نوری مخلوق کا خاکی مخلوق کے آگے جھکنا خاکی مخلوق کی فضیلت اور برتری ہی تو ہے چناچہ یہ لوگ نبی علیہ السلام کو نوری قرار دے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی کوئی قدر و منزلت نہیں بڑھارہے بلکہ الٹا تنقیص کا سبب بن رہے ہیں العیاذ باللہ

نبی صلی الله علیہ وسلم کو نوری قرار دینے والوں کے پاس اپنے اس خود ساختہ نظریے کے حق میں قرآن و حدیث سے کوئی ایک بھی دلیل موجود نہیں ہے دلیل آئے بھی تو کہاں سے آئے قرآن و حدیث نے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کو نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ اس کو ہر ہر پہلو سے واضع کردیا ہے شاید ہی کوئی گوشہ ہو جو روشن نہ کردیا گیا ہو اس صورت حال میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو نور یا مجسم نور قرار دینا ، بشر تسلیم نہ کرنا قرآن و حدیث کا کھلا انکار ہے اس انکار کو چھپانے کیلئے قرآن کے مقابلہ میں سمجھ میں نہ آنے والا فلسفہ پیش کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں انبیا کی ارواح و بواطن بشریت سے بالا اور ملاء اعلی سے متعلق ہیں کبھی کہتے ہیں آپ کی بشریت کا وجود اصلا نہ رہے اور غلبہ انوار حق آپ پرعلی الدوام حاصل ہو وغیرہ بھلا قرآن کی محکم اور صریح آیات کے سامنے اس بے تکے فلسفے کی کیا حثیت ہے اس کے قائلین کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ قرآن کی آیات پر ایمان لانا بہتر ہے یا اس فلسفے پر ؟

ان کی طرف سے اپنے نوری نظریے کے حق میں مسلہ زیر بحث سے غیر متعلق  قرآن کی بعض آیات بھی پیش کی جاتی ہیں مثلا

 قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ     المائدہ ١٥ تمہارے پاس الله کی طرف سے نور اور واضع کتاب آچکی ہے

ان کا اس آیت سے استدلال یہ ہے کہ اس آیت  میں نور سے اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم مراد ہیں

اس آیت کا مطالعہ کرنے والا دیکھ سکتا ہے کہ اس میں اللہ کے نبی کے نور ہونے کی کوئی صراحت نہیں ہے جس طرح آیت قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ میں الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق صاف و صریح بیان ہوا ہے اس آیت کے مقابلہ میں اپنے خیالی استدلال کو لانا حد درجہ کی جہالت یا ہٹ دھرمی ہے قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس سے جب کوئی غلط یا باطل استدلال کرتا ہے تو قرآن کی دیگر آیات اس کا راستہ مسدود کردیتی ہیں بریلویت کے اس استدلال کا دیگر آیات سے محاسبہ سے قبل اس آیت کو سیاق و سباق کے ساتھ زیر مطالعہ لائیں تو بھی اس کا غلط ہونا ظاہر ہوجاتا ہے

  يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ     المائدہ ١٥ ، ١٦

اے اہل کتاب یقینا تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا جو تمہارے سامنے کتاب الله کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کررہا ہے جنھیں تم چھپارہے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے،تمہارے پاس الله تعالی کی طرف سے نور واضح کتاب آچکی ہے جس کے ذریعه سے الله تعالی ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے حکم سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور سیدھی راہ کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے

ذرا غور سے پڑھیے نور یعنی روشنی آجانے کے ذکر سے پہلے رسول کے آجانے کا باقاعد ذکر کردیا گیا ہے  رسول جو کچھ لاتا ہے اسے روشنی سے تعبیر کیا گیا ہے روشنی اور واضح کتاب کے آجانے کے بعد کہا گیا ہے  يَهْدِي بِهِ اللَّهُ اس کے ذریعہ سے الله تمہیں ھدایت کی راہ دکھاتا ہے اسکے    ذریعہ میں ضمیر واحد آئی ہے جس سے از خود واضح ہوتا ہے کہ نور و کتاب دونوں ایک ہیں اگر یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہوتیں تو ضمیر تثنیہ کی آتی جبکہ ایسا نہیں یعنی نور و کتاب کے درمیان آنے والا واو تفسیری ہے

اب ذرا قرآن کی دیگر آیات کو سامنے رکھیے معلوم ہوگا نور سے مراد وہ ہدایت وہ روشنی ہے جو لوگوں کیلئے الله کی طرف سے نازل کی جاتی رہی ہے سورہ نسا میں آتا ہے    يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا       نسا ١٧٤    اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتارا دیا ہے

یہاں پر بھی واضح نور نازل کرنے کی بات کی گئی ہے نازل کرنے کے الفاظ بتارہے ہیں کہ الله کا دین اسکی ہدایت ہے جوالله نے وحی کے ذریعہ لوگوں کی رہنمائی کیلئے کمال شفقت سے نازل فرمائی ہے اور سورہ تغابن میں ارشاد ہوتا ہے

 فَآَمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ      تغابن ٨    سو تم الله پر اور اسکے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ اور الله تعالی تمہارے ہر عمل پر باخبر ہے

اس آیت میں بھی الله اور اسکے رسول کے علاوہ اس نور پر بھی ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جو الله نے نازل فرمایا ہے معلوم ہوا کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کا انکار کرنے والوں کا

استدلال قرآن کی دیگر آیات سے مطابقت رکھنا تو درکنار الٹا ان سے براہ راست متصادم ہے

انکی دوسری دلیل یہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو قرآن میں  سِرَاجًا مُنِيرًا  کہا گیا ہے  سِرَاجًا مُنِيرًا کے معنی ہیں روشن چراغ یا چمکتا آفتاب  الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کو روشن چراغ کہا گیا اس میں کوئی شک نہیں مگر اس سے آپ کی بشریت کا انکار کیونکر ممکن ہے؟ اور اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم وجودی اعتبار سے نور کس طرح ثابت ہوتے ہیں ؟ یہ سمجھ سے بالا تر ہے کفر و شرک ، گمراہی و ضلالت کے اندھیروں میں آپ کی بعثت یقینا روشن چراغ ،چمکتا آفتاب ہے جس سے کفر و شرک کا گھٹاٹوپ اندھیرا چھٹا ، گمراہی و ضلالت کی تاریکی دور ہوئی رشد و ہدایت کی راہیں روشن ہوئیں ،حق واضح ہوا،آپ کا روشن چراغ ہونا ان معنوں میں ہے اور بریلویت کے ترجمان کنزالایمان میں بھی یہی معنی و مفہوم لئے گئے ہیں مگر اپنی روایتی لفاظی کے ساتھ جو چاہے رجوع کرکے دیکھ سکتا ہے

قرآن کی آیات کے علاوہ بعض روایات بھی انکی طرف سے پیش کی جاتی ہیں مگر انکی اکثریت کی حثیت محض قصّوں کہانیوں کی ہے قرآن و حدیث کے مقابلے میں ان کی کیا حثیت ہوسکتی ہے ظاہر ہے البتہ ایک دو روایات ایسی بھی ہیں جو صحیح تو ہیں مگر ان سے غلط مفہوم کشید کیا کرتے ہیں

یہ حدیث مثلا

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال   نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن الوصال قالوا إنك تواصل قال ( إني لست مثلكم إني أطعم وأسقى    بخاری کتاب الصوم

عبدالله ابن عمر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صوم وصال سے منع فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ آپ تو وصال کرتے ہیں ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں ، مجھے تو کھلایا اور پلایا جاتا ہے

اس حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں اس سے آپ کے بشر نہ ہونے اور نور ہونے کا استدلال کرتے ہیں اس حدیث کو ایک دفعہ  بغور پڑھیے آپ نے صوم وصال سے لوگوں کو منع فرمایا تو لوگوں کو حیرانی ہوئی کہ آپ تو ایسا کرتے ہیں اور ہمیں اس سے منع فرما رہے ہیں اس کا جواب آپ نے دیا کہ مجھے تو میرا رب کہلاتا اور پلاتا ہے اس وجہ سے میرا معاملہ تمہاری طرح کا نہیں ہے  اس سے اگلی روایت اور بھی واضح ہے  إني لست كهيئتكم إني أبيت لي مطعم يطعمني وساق يسقين   یعنی میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں تو رات اس طرح گزارتا ہوں کہ ایک کھلانے والا کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا سیراب کرتا ہے

معلوم ہوا یہ نبی کی خصوصیت تھی اور آپ کی یہی ایک خصوصیت نہ تھی اور بہت سی خصوصیات آپ کو حاصل تھیں، آپ الله کے نبی اور اسکے رسول تھے لوگوں کو چار سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں مگر آپ کیلئے ایسا نہیں تھا آپ کو جب بخار ہوتا تو اس کی شدت دو انسانوں کو ہونے والے بخار کی طرح ہوتی یعنی عام انسانوں کے مقابلے میں دوگنی تکلیف ہوتی اور اس تکلیف اٹھانے کا اجر بھی دوگنا تھا


حدیث نور پر تفصیلی بحث یہاں ہے

https://www.islamic-belief.net/storage/2018/06/لَا-تَغْلُوا-فِي-دِينِكُمْ.pdf

 

یوسف کو سجدہ کیا یا اللہ کو ؟

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

قرآن کی آیات کی غلط تشریحات کی بنا پر امت   میں  صوفیوں کی  جانب  سے  انسانوں   اور قبروں کو سجدہ  کرنا  قبول کر لیا گیا ہے – اس کو  سجدہ تعظیمی کا نام دیا گیا  ہے اور  جوابا  کہا  جاتا ہے کہ چونکہ  ہم  سجدہ عبادت نہیں  کر رہے،  اس لئے یہ  جائز ہے  –  ایک  بریلوی  عالم   شعر  میں   کہتے ہیں

سنگ در جاناں پہ کرتا ہوں جبیں سائی سجدہ
نہ سمجھ نجدی سر دیتا ہوں نذرانہ

یعنی   ظاہر  میں یہ  سجدہ    ہے مگر  مقصد  و مدعا      اپنا     سر  محبوب (ولی اللہ یا نبی )  کی خدمت  میں   پیش کرنا ہے – راقم  کہتا ہے  کسی سے اتنی محبت کرنا کہ اللہ  کی عبادت اور  مخلوق سے محبت کی سرحد مل جائے تو ایسا عمل  قابل رد ہے  – ایک بت پرست   بھی  پتھر کے صنم سے محبت کرنے لگتا ہے  اور اسی الفت میں شکار ہو کر سجدے کرنے لگ جاتا ہے  –

انبیاء  کو سجدہ کیا جا سکتا ہے  یا نہیں یہ بحث    آجکل کی نہیں ہے بلکہ   اس   حوالے سے  قرن دوم  سے ہی روایات   بیان کی جا رہی ہیں   کہ    اللہ   تعالی کی   غیر مکلف مخلوقات  تک    نبی علیہ السلام کو سجدہ کرتی تھیں- بعض  راویوں  نے بیان کیا  کہ معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ  (جن سے قرآن سیکھنے  کا حکم نبوی   تھا     )  انہوں    نے  بھی   نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کو  سجدہ کر دیا   ،کیونکہ  وہ اہل کتاب   میں مروج    اس عمل سے  متاثر ہوئے – حاشا للہ – یہ سخت مصیبت  کا قول ہے ، روایت کے پردے میں صحابی پر تہمت ہے  اور راقم  نے اس روایت  کا تقاقب  کیا ہے، ثابت کیا ہے کہ یہ   روایات مضطرب السند،  منکر المتن ہیں – کتاب   هذا  میں  سجدہ تعظیمی  کی روایات   پر اسنادی  تحقیق پیش کی گئی ہے –

اس  حوالے سے     يه  اشکال   پیش  نظر ہیں

اول :  کیا  فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو  سجدہ  کیا تھا یا    ان کو  قبلہ   سمجھتے ہوئے   یہ سجدہ    اللہ تعالی کو کیا  گیا تھا ؟

دوم  :  کیا ابناء  یعقوب   علیہ السلام  اور   والدین یوسف  نے   اپنے ہی بھائی  یا بیٹے کو دربار مصر  میں سجدہ    تعظیمی کیا تھا ؟

سوم :  کیا شریعت  میں  (فرض نماز   کے علاوہ    )سجدہ  کو      سات   اعضا    پر کرنا  فرض    کیا گیا ہے ؟

چہارم : شریعت  میں   اور عربی میں  سجدہ  کا لفظ      کن کن  معنوں    پر بولا گیا ہے ؟

ابو شہر یار

٢٠١٩

تاریخ قبلتین

اس کتاب میں دونوں قبلوں کی تاریخ ، ان مساجد کے تعلق سے آسمانی شریعتوں میں الگ الگ مناسک اور انبیاء کے ان مساجد سے تعلق پر بحث کی گئی ہے

   کتاب کا ایک موضوع  یہ   سوال بھی ہے کہ کیا  مسجد الاقصی کو قبلہ مقرر کرنا اللہ  کا حکم تھا یا یہودی اختراع تھی    بعض مفسرین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بیت المقدس  سرے ہی قبلہ نہیں تھا نہ اللہ تعالی کا مقرر کردہ تھا بلکہ یہ یہودی سازش تھی  جس   پر آزمائش  کے لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ بھی اس کو قبلہ بنا لیں  لیکن بعد میں واپس کعبہ کو ہی قبلہ کر دیا گیا  جو   تمام انبیاء کا قبلہ رہا ہے – راقم نے اس مفروضے کا تعقب  کیا ہے اور اس  مفروضے کی بے بضاعتی  کو واضح  کیا ہے – کتاب میں مشرک  اقوام  اور اہل کتاب کی آراء و دعووں  کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے

کتاب کے آخر میں حج  کی اقسام  اور طریقے  پر تفصیل دی گئی ہے

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

معاذ (رض) کا سجدہ

 

ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے “اگر” کے انداز میں ایک ایسے عمل کا حکم کا ذکر کیا جو ممنوع رہا ہے

ابن ابی اوفی کی حدیث
سنن أبن ماجة ١٨٥٣ میں حدیث ہے
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِي
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنْ الشَّامِ سَجَدَ لِلنَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -. فقَالَ: “مَا هَذَا يَا مُعَاذُ؟ ” قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ وَبَطَارِقَتِهِمْ، فَوَدِدْتُ فِي نَفْسِي أَنْ نَفْعَلَ ذَلِكَ بِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا، وَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا، وَهِيَ عَلَى قَتَبٍ، لَمْ تَمْنَعْهُ

ابن ابی اوفی نے بیان کیا کہ معاذ شام سے آئے اور رسول اللہ کے پاس مسجد پہنچے ان کو سجدہ کیا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیا کیا معاذ ؟ معاذ بن جبل نے کہا میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو سجدہ کا حکم کرتا تو بیوی کو کہتا شوہر کو کرے-

یہ روایت مسند احمد 19403 میں بھی ہے
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنِ القَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَدِمَ مُعَاذٌ الْيَمَنَ، أَوْ قَالَ: الشَّامَ، فَرَأَى النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّى فِي نَفْسِهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ يُعَظَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، رَأَيْتُ النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّأْتُ فِي نَفْسِي أَنَّكَ أَحَقُّ أَنْ تُعَظَّمَ، فَقَالَ: ” لَوْ كُنْتُ آمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا،

ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب معاذ رضی اللہ عنہ یمن پہنچے تو وہاں کے عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کوسجدہ کرتے ہیں ان کے دل میں خیال آیا کہ نبی تو ان سے بھی زیادہ تعظیم کے مستحق ہیں لہٰذا یمن سے واپس آکر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے عیسائیوں کو اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے دیکھاہے میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ان سے زیادہ تعظیم کے مستحق تو آپ ہیں – نبی کریم نے فرمایا اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے-

محدث ابن ابی حاتم نے اس سند پر باپ سے کلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے اور راوی القاسم بن عوف الشيبانى البكرى الكوفى مضطربُ الْحَدِيثِ ہے-

کتاب العلل میں ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ أيُّوب ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْف، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفى: أنَّ مُعاذً قَدِمَ على النبيِّ (ص) ، فسَجد له، فنهاه النبيُّ (ص) وَقَالَ: لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا يَسْجُدُ لأِ حَدٍ؛ لأَمَرْتُ المَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا … ، الحديثَ؟
فقال أبي: يُخالَفُ أيُّوبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ؛ فَقَالَ هشامٌ
الدَّسْتوائِي إِسْنَادًا سِوَى [ذَا].
وَرَوَاهُ النَّهَّاسُ بنُ قَهْم ، عَنِ [الْقَاسِمِ] بإسنادٍ آخَرَ، والدَّسْتوائِي حافظٌ مُتْقِنٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَوْف مضطربُ الْحَدِيثِ، وأخافُ أَنْ يكونَ الاضطرابُ مِنَ الْقَاسِمِ.
اس روایت پر ابی حاتم نے کہا کہ قاسم بن عون کی سند میں اضطراب ہے
شام دور نبوی میں فتح نہ ہوا تھا اور معاذ رضی اللہ عنہ کو بھی یمن بھیجا گیا تھا – لہذا اس روایت کے متن میں اضطراب ہے کبھی راوی شام کہتا ہے کبھی یمن کہتا ہے۔


معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت
یہ روایت أبو ظَبيان کی سند سے بھی ہے لیکن ابو ظَبيان نے معاذ سے نہیں سنا۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
الترمذي (1159) ، وابن حبان (4162) میں اس کی ایک اور سند بھی ہے
حدثنا محمود بن غيلان حدثنا النضر بن شميل أخبرنا محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها
اس سند کو البانی نے حسن قرار دیا ہے یعنی یہ ضعیف ہے صرف تعدد طرق کی بنا پر حسن ہوئی یہاں سند میں محمد بن عمرو بن علقمة بن وقاص الليثي ہے جس کو امام الجوزجاني نے ليس بقوي قرار دیا ہے- الخليلي کہتے ہیں يكتب حديثه ولا يحتج به اس کی حدیث لکھو لیکن دلیل مت لینا اور أبو أحمد الحاكم کہتے ہیں ليس بالحافظ عندهم محدثین کے نزدیک مضبوط نہیں-

کتاب ذخيرة الحفاظ میں ابن القيسراني کہتے ہیں اس کی ابوہریرہ والی سند بھی سُلَيْمَان بن دَاوُد اليمامي کی وجہ سے ضعیف ہے-
رَوَاهُ سُلَيْمَان بن دَاوُد اليمامي: عَن يحيى بن أبي كثير، عَن أبي سَلمَة، عَن أبي هُرَيْرَة. وَسليمَان هَذَا لَيْسَ بِشَيْء فِي الحَدِيث.
رَوَاهُ نعيم بن حَمَّاد: عَن رشدين بن سعد، عَن عقيل، عَن ابْن شهَاب، أَبِيه، عَن أبي هُرَيْرَة. وَهَذَا بِهَذَا الْإِسْنَاد عَن رشدين لم يروه عَنهُ غير نعيم. قَالَ الْمُؤلف: وَلَا نعلم لِابْنِ شهَاب عَن أَبِيه. رَوَاهُ عَنهُ أحد
اس کی دوسری سند میں مجھول ہے-

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت
اس کی ایک اور سند ہے لیکن اس میں بھی ضعیف راوی ہے-
رَوَاهُ صَدَقَة بن عبد الله السمين: عَن سعيد بن أبي عرُوبَة، عَن قَتَادَة، عَن الْقَاسِم الشَّيْبَانِيّ، عَن زيد بن أَرقم. وَصدقَة ضَعِيف.

قيسِ بنِ سعد کی حدیث
سنن ابو داود ٢١٤٠ میں ہے
حدَّثنا عمرو بنُ عون، أخبرنا اسحاق بنُ يوسفَ، عن شريكٍ، عن حُصينٍ، عن الشعبيِّ عن قيسِ بنِ سعد، قال: أتيتُ الحِيرةَ فرأيتُهم يسجدون لِمرْزُبانٍ لهم، فقلتُ: رسولُ الله أحقُّ أن يُسجدَ له، قال: فأتيتُ النبي – صلَّى الله عليه وسلم – فقلت: إني أتيتُ الحِيرَةَ فرأيتُهم يَسجُدُونَ لمرزبانٍ لَهُمْ، فأنت يا رسولَ الله أحقُّ أن نسجُدَ لك، قال: “أرأيتَ لو مررتَ بقبري أكنتَ تَسجُدُ له؟ ” قال: قلت: لا، قال: “فلا تَفْعَلُوا، لو كنتُ آمراً أحداً أن يَسجُدَ لأحدٍ لأمرتُ النِّساءَ أن يسجُدْنَ لأزواجِهِنَّ، لِمَا جَعَل الله لهم عليهنَّ من الحق
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟” وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے”۔

اس میں حصين بن عبد الرحمن السلمي ہے جو نسائی کے بقول تغیر کا شکار ہوئے اور شريك بن عبد الله النخعي ہے – شریک خود مختلط تھا
بہر حال یہ سند شکوک سے خالی نہیں-

انس بن مالک کی روایت
مسند احمد 12614 میں ہے:

حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَمِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ …. فَقَالَ: «لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ كَانَ مِنْ قَدَمِهِ إِلَى مَفْرِقِ رَأْسِهِ قُرْحَةٌ تَنْبَجِسُ بِالْقَيْحِ وَالصَّدِيدِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَتْهُ تَلْحَسُهُ مَا أَدَّتْ حَقَّهُ»

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لا يصلح لبشر أن يسجد لبشر، ولو صلح أن يسجد بشر لبشر لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها من عظم حقه عليها، والذي نفسي بيده لو أن من قدمه إلى مفرق رأسه قرحة تنبجس بالقيح والصديد ثم أقبلت تلحسه ما أدت حقه))
. یعنی کسی بشر کے لیے جائز نہیں کہ کسی دوسرے بشر کو سجدہ کرے، اگر ایسا کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آدمی کے قدم سے لے کر سر کی چوٹی تک سب پیپ سے بھرا ہوا اور عورت اس سب کو اپنے منہ سے چوس لے تب بھی مرد کا حق نہیں ادا کر سکتی

[مسند أحمد:12614 صحیح ابن حبان(4164) سنن دارقطنی(3571) وغیرھا من الکتب]


اس کی اسناد میں
خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ ہے اور خلف مظبوط راوی نہیں ہے-
امام احمد نے اس کو اختلاط کے عالم میں دیکھا – وہ کہتے ہیں:
فَسُئِلَ عَنْ حَدِيْثٍ، فَلَمْ أَفْهَمْ كَلاَمَهُ.
میں نے اس سے حدیث پوچھی لیکن اس کا کلام سمجھ نہ سکا
قال ابن عيينة: يكذب
ابن عيينة کہتے تھے جھوٹ بولتا ہے۔
سنن اربع والوں اور مسلم نے روایت لی ہے۔
امام مسلم نے تین روایت لکھی ہیں جن میں خلف نے حفص سے کچھ روایت نہیں کیا۔
بعض محدثین نے روایت میں حفص کو حفص بن عبيد الله ابْن أخي أنس بولا ہے لیکن امام احمد کے مطابق اس کی سند میں حفص سے سوائے خلف کے کوئی راویات نہیں لیتا-
کتاب سؤالات أبي داود للإمام أحمد بن حنبل في جرح الرواة وتعديلهم کے مطابق
سَمِعت أَحْمد يَقُول حَفْص بن عبيد الله الَّذِي روى عَنهُ ابْن إِسْحَاق وَيحيى بن أبي كثير لَيْسَ هُوَ الَّذِي يحدث عَنهُ خلف بن خَليفَة الَّذِي يحدث عَنهُ خلف مَا أعلم أحدا حدث عَنهُ غَيره
لہذا یہ خفص مجھول ہو گیا کیونکہ اس کا صرف خلف کو پتا ہے کسی اور کو نہیں-
دارقطنی کے بقول حفص بن عمر بن عبد الله بن أبي طلحة ہے لیکن اس روایت کو علل میں معاذ بن جبل کی سند سے رد کرتے ہیں-

أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ کی روایت 
سنن دارقطنی سنن الکبری البیہقی سنن الکبری نسائی مصنف ابن أبي شيبة مسند البزار میں یہ ایک اور سند سے بھی ہے:
نا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْوَرَّاقُ , قَالَا: نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ زَنْجُوَيْهِ , نا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ , نا رَبِيعَةُ بْنُ عُثْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ , عَنْ نَهَارٍ الْعَبْدِيِّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , أَنَّ رَجُلًا جَاءَ بِابْنَتِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: هَذِهِ ابْنَتِي أَبَتْ أَنْ تَزَوَّجَ , فَقَالَ: «أَطِيعِي أَبَاكِ أَتَدْرِينَ مَا حَقَّ الزَّوْجُ عَلَى الزَّوْجَةِ؟ , لَوْ كَانَ بِأَنْفِهِ قُرْحَةٌ تَسِيلُ قَيْحًا وَصَدِيدًا لَحَسَتْهُ مَا أَدَّتْ حَقَّهُ» , فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ لَا نَكَحْتُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُنْكِحُوهُنَّ إِلَّا بِإِذْنِهِنَّ»۔

اس کی سند میں نَهار بْن عَبد اللهِ، العَبديُّ جن کو ابن خراش نے صدوق کہا ہے۔
اس کی سند میں ربيعة بن عثمان بھی ہے اور مستدرک حاکم میں اسی سند سے ہے جس پر الذھبی لکھتے ہیں:
بل منكر قال أبو حاتم ربيعة منكر الحديث
یہ منکر ہے ابو حاتم نے ربيعة بن عثمان کو منکر الحدیث کہا أبو زرعة: ليس بذاك القوى.
ابن معین نے کہا کوئی برائی نہیں
الغرض روایت ضعیف ہے اور اس کی ایک سند کا راوی مجھول ہے اور باقی سندوں میں مختلف فیہ راوی ہے

قارئین آپ نے دیکھا کوئی اس واقعہ کو حیرہ عراق کا قرار دیتا ہے کوئی شام کا کوئی یمن کا جبکہ دور نبوی میں نہ شام فتح ہوا نہ عراق – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قرآن معاذ بن جبل سے سیکھو۔

حدثنا سليمان بن حرب، ‏‏‏‏‏‏حدثنا شعبة، ‏‏‏‏‏‏عن عمرو بن مرة، ‏‏‏‏‏‏عن إبراهيم، ‏‏‏‏‏‏عن مسروق، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ ذكر عبد الله عند عبد الله بن عمرو، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ ذاك رجل لا ازال احبه بعد ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ “استقرئوا القرآن من اربعة من عبد الله بن مسعود فبدا به وسالم مولى ابي حذيفة،‏‏‏‏ وابي بن كعب،‏‏‏‏ ومعاذ بن جبل”، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ لا ادري بدا بابي او بمعاذ بن جبل.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابراہیم نے اور ان سے مسروق نے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے یہاں عبداللہ بن مسعود کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا میں ان سے ہمیشہ محبت رکھوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ چار اشخاص سے قرآن سیکھو۔ عبداللہ بن مسعود، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی کی اور ابوحذیفہ کے مولیٰ سالم، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ابی بن کعب کا ذکر کیا یا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا۔

کیا معاذ بن جبل اہل کتاب کی دیکھا دیکھی ایسا کوئی کام کر سکتے ہیں یقینا یہ ان پر تہمت ہے۔۔

کتاب الصوم

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

رمضان کے حوالے سے اس ویب سائٹ پر موجود اجزاء کو جمع کر کے اس کتاب کو مرتب کیا گیا ہے

چونکہ یہ ماہ رمضان ہے لہذا اس حوالے سے اگر کوئی اہم سوال ہو تو پیش کریں اس کتاب میں شامل کر دیا  جائے گا

 

العموم و الخصوص ٢

یوسف کو سجدہ کیا یا اللہ کو ؟

قرآن  میں آئی آیات بعض صرف اور صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں- ان کو عام کر نے کے نتیجے میں جو موقف اتا ہے وہ خالصتا گمراہی کی طرف لے جاتا ہے

سورہ الحجرات میں ہے

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ (1)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـهٝ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (2)
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

اللہ اللہ – وہ منحوس گھڑی بھی آئی جب جاہلوں نے ان آیات کو امیر تنظیم پر لگایا اور ناصحین کو چپ کرنے کی کوشش کی
اللہ کا شکر ہے جس نے مجھ کو اس ظلم سے بچا لیا اور مصیبت کو جان کر راقم نے گوشہ نشینی کو پسند کیا

اس کی پاداش میں اس روز کتنے ہی جہنمی ہو گئے ا ن کا عمل حبط ہو گیا

آیات جو خاص تھیں ان کو عام کرنے کا مرض تنظیم کی جڑوں میں اتر چکا ہے – سوره النساء کی آیت ١١٥ پیش کی جاتی ہے

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

یہ آیت اپنے سیاق و سباق میں صرف اور صرف اصحاب رسول کے لئے ہے – لیکن اس کو اپنی تنظیموں پر لگا کر اس کو بلا سند ان آیات کا مصداق قرار دینے سے وہی رعونت جنم لیتی ہے جو یہودیوں میں موجود تھی کہ صرف ہم جنتی ہیں، باقی سب جہنمی ہیں – یہ کام جہلاء کی جہالت کو بڑھا رہا ہے کہ وہ اصحاب رسول سے متعلق آیات کو اس تنظیم پر لگا دیتے ہیں

اللہ کے بندو – اپ پر گر اللہ کا احسان ہوا کہ اپ کو اللہ نے ایمان تک پہنچایا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ایمان کسی اور تک اللہ نہیں پہنچا سکتا
اللہ آپ کو گمراہ بھی کر سکتا ہے کیونکہ وہ انسان کو آزماتا ہے

بہت سے عقائد پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے لیکن  تحقیق میں وہ ثابت نہیں ہیں – ایک عرصۂ سے مولوی اس آیت کو اپنے عقائد پر لگا رہے ہیں کہ عرض عمل ، عود روح ، حیات النبی کا عقیدہ امت میں چلا آ رہا ہے اس پر سبیل المومنین ہے لہذا یہ عقائد اللہ کے منظور کردہ ہیں- عثمانی صاحب نے اسی سوچ کا رد کیا کہ امت اگر گمراہی پر جمع ہو جائے تو اس کی گمراہی حق نہیں بن جاتی – افسوس عثمانی صاحب کی وفات کے چند سالوں میں ہی یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سبیل المومنین کے نام پر ایک تفسیری رائے کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ گویا وہ من جانب الله ملی ہے اور اگر عثمانی کے نام پر چلتے فرقے سب مل کر ایک غلط موقف اختیار کر لیں تو وہ ہی سبیل المومنین ہے

سورہ یوسف میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کا خواب پورا ہوا

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّـٰهُ اٰمِنِيْنَ (99)
پھر جب یوسف کے پاس آئے تو اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو جاؤ اگر اللہ نے چاہا تو امن سے رہو گے۔
وَرَفَـعَ اَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَـآ اَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُؤْيَاىَ مِنْ قَبْلُ ؕ قَدْ جَعَلَـهَا رَبِّىْ حَقًّا ؕ وَقَدْ اَحْسَنَ بِىٓ اِذْ اَخْرَجَنِىْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِىْ وَبَيْنَ اِخْوَتِىْ ۚ اِنَّ رَبِّىْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَآءُ ۚ اِنَّهٝ هُوَ الْعَلِيْـمُ الْحَكِـيْـمُ (100)
اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور اس کے آگے سب سجدہ میں جھک گئے ، اور کہا اے باپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تعبیر ہے، اسے میرے رب نے سچ کر دکھایا، اور اس نے مجھ پر احسان کیا جب مجھے قید خانے سے نکالا اور تمہیں گاؤں سے لے آیا اس کے بعد کہ شیطان مجھ میں اور میرے بھائیوں میں جھگڑا ڈال چکا، بے شک میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے مہربانی فرماتا ہے، بے شک وہی جاننے والا حکمت والا ہے۔

الفاظ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا پر عثمانی صاحب کی تفسیری رائے یہ آتی ہے کہ یہاں سجدہ اللہ تعالی کو کیا گیا – یہ تفسیری رائے چلی آ رہی ہے – البتہ اس کو حتمی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ متن قرآن سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ محض ایک قول کی حیثیت رکھتی ہے – متن قرآن میں له کی ضمیر یوسف علیہ السلام کی طرف جا رہی ہے – اور راقم کہتا ہے ایسا مطلب جو  اہل زبان کو یعنی ایک عام بکری چرانے والے  عرب    کو قرآن سے ملے وہی اصل ہے کیونکہ قرآن قریش کی عربی میں ہے – آسان عربی میں ہے- واضح عربی میں ہے –  اس کے مطلب کو تفسیر و تاویل کر کے صرف آیات متشابھات جو ذات باری تعالی پر ہیں ان  میں سمجھا  جاتا ہے – اس کے سوا یہ کرنا صحیح نہیں ہے – مثلا
اللہ نے کہا
و ھو معکم این ما کنتم
وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو

یہاں مطلب اللہ تعالی کا بذات انسانوں کے ساتھ موجود ہونا اگر لیں تو ہم سب ذات الہی میں حلول کر جائیں گے اور لا فانی ہو جائیں گے – اس بنا پر ان آیات کی تاویل کی جاتی ہے اور ان پر ایمان لایا جاتا ہے کیفیت کی کھوج نہیں کی جاتی

سجدہ کا مطلب عربی میں صرف جھکنا ہے – اس کو نماز کا اصطلاحی سجدہ نہیں سمجھا جاتا – مثلا الصلوہ کا مطلب قرآن میں اکثر اوقات نماز ہے لیکن صلی کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب درود بھی ہے –   یہاں یوسف علیہ السلام والے واقعہ میں بھائیوں نے نماز جیسا اصطلاحی سجدہ نہیں کیا بلکہ انحنا کیا یعنی تھوڑا سے جھک کر ان کو مصر کا وزیر تسلیم کیا

حاکم سے ملاقات پر آپ اس کے سامنے تھوڑا جھکیں یہ طریقه کار معروف تھا کہ آپ اگر اسی ملک کے باسی ہوں – اگر اگر آپ کسی دوسرے علاقے کے ہوں اور آپ دوسرے ملک کا سفر کریں تو طریقہ کار یہ تھا کہ اجنبی ملک کے  حاکم سے ملاقات پر آپ کچھ نہیں کریں گے، وہ جان لے گا کہ آپ اس ملک کے نہیں ہیں ، سفیر ہیں یا مسافر ہیں

اس حوالے سے معلوم ہے کہ بعض بادشاہ جو ظالم تھے وہ نماز جیسے سجدہ کا مسافر  کو حکم کرتے  لیکن یہ   منفرد تھے اور اس کو پسند نہیں کیا جاتا تھا

اس میں جب یعقوب علیہ السلام اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کر کے مصر میں داخل ہوئے تو انہوں نے وہاں کے مصری  حاکم کی عمل داری کو قبول کیا  اور رسم کے طور پر مصری حاکم کے وزیر یوسف کے سامنے تھوڑا جھکے
قرآن میں اس عمل کو سجدہ کہا گیا ہے لیکن یہاں  سجدہ کا مطلب زمین پر پیشانی لگانا   نہیں ہے – زمین کی جانب تھوڑا سر جھکانے کو بھی سجدہ عربی میں کہا جاتا ہے- نماز نے رکوع، سجدہ وغیرہ کو ایک اصطلاح ضرور بنا دیا ہے لیکن اس سے ان الفاظ کا اصل  لغوی مطلب تبدیل نہیں ہوتا جو مشرکین مکہ کی زبان میں تھا

عربی لغت تاج العروس من جواهر القاموس از الزَّبيدي کے مطابق سجد کا ایک مطلب إِذا انْحَنى وتَطَامَنَ إِلى الأَرضِ زمیں کی طرف جھکنا بھی ہے – لغت مجمل اللغة لابن فارس کے مطابق وكل ما ذل فقد سجد ہر کوئی جو نیچے آئےاس نے سجد کیا
یہ اس کا لغوی مطلب ہے

یوسف کے خواب اور عملی شکل میں آیات میں سجدہ سے مراد لغوی مطلب ہے جو قریش بولتے تھے یہاں سجدہ کا اصطلاحی مطلب مراد نہیں ہے

یوسف کو سجدہ تعظیمی نہیں کیا گیا – یوسف نے جو خواب دیکھا وہ اپنے ظاہر میں مشرکانہ غیر شرعی تھا – لیکن خواب وہ نہیں تھا جو حقیقیت میں ہونا تھا – سجدا کا مطلب سجدہ نماز نہیں ہے یہ عربی کا لفظ ہے قرآن کے نزول سے پہلے سے معلوم ہے اور اس کا مطلب زمین کی طرف لپکنا یا جھکنا ہے – ممکن ہے یہ کیفیت پیدا ہوئی جب بھائییوں نے یوسف کو تخت مصر پر والدین کے ساتھ دیکھا تو نفسیاتی کیفیت ایسی ہوئی کہ شرم سے زمین پر گر گئے یا جیسا کہ کہا ممکن ہے کہ یہ حاکم و وزیر کے سامنے پیش ہونے پر حکومت کی عمل داری تسلیم کرنے کا انداز ہے

سجدہ یوسف علیہ السلام کو کیا گیا یہ متن قرآن میں له کی ضمیر سے معلوم ہے
سجدہ اللہ تعالی کو کیا یہ تفسیر تاویل پر مبنی ہے کہ اصل مفہوم سے ہٹا کر آیت کو الگ طرح سمجھا جائے- ایسا صرف ان آیات پر کیا جاتا ہے جن میں اللہ کا ذکر ہو مثلا
وجاء ربك والملك صفا صفا
أور اللہ آئے گا اور اس کے فرشتے صف در صف

اللہ آئے گا یہ نزول کرے گا ہم تفسیر نہیں کرتے – ہم اس کو بدل کر کہتے ہیں کہ اللہ تجلی کرے گا – وہ نہ مخلوق کے ساتھ اترتا ہے، نہ چڑھتا ہے، نہ ان کے ساتھ چلتا ہے – وہ عرش پر مستوی ہے – اسی عرش کے ساتھ محشر میں ظاہر ہو گا
اللہ فرشتوں کے ساتھ چلتا ہوا نہیں آئے آئے گا-  یہاں اس کی شان کے مطابق ہم مفہوم لیتے ہیں کہ مقصد ظاہری الفاظ نہیں ہیں-  لیکن یہ تاویل کا عمل مخلوق کے ساتھ نہیں کیا جاتا کہ انبیاء کے عمل کو بھی تاویل کر کے تبدیل کیا جائے

عثمانی صاحب کی تفسیری رائے  : خواب والی شکل بنی، یوسف تخت پر تھے 

عثمانی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں اس سجدہ پر کہا

دوسری بار کہا

جناب یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں اور والدین نے سجدہ کیا ؟
جواب
نہیں حضرت

وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ

کہ اللہ نے یہ رحمت فرمائی- اس خاندان پر خَرُّوا لَهُ – له کی ضمیر اللہ کے لئے ہے کہ اللہ کے لئے سجدہ میں گر پڑے
اور جن کا ایمان صحیح نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی ہمارے یہ شاگرد سجدہ کریں
اس لئے یہ تفسیر نہ کر دیں کہ حضرت یوسف کو سجدہ ہے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ  نے  صوفیوں کے سجدہ تعظیمی کو رد کرنے کے لئے  اس تشریح کو پسند کیا کہ اس سجدہ کو اللہ  کی طرف قرار دیا جائے – اہل طریقت کی باطل تشریحات کا ہم رد کرتے ہیں – لیکن  یہاں عثمانی صاحب کی تفسیر کہ له کی ضمیر اللہ کی طرف ہے اس کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے  –  عثمانی صاحب نے اس کو نماز جیسا سجدہ سمجھا ہے کیونکہ ان کے ذھن میں صوفیوں  کا عمل ہے کہ کہیں اس آیت  کو سجدہ تعظیمی کی دلیل نہ سمجھ لیا جائے – ان کی فکر اپنی جگہ صحیح ہے کہ صوفیوں  کا سجدہ تعظیمی   نماز کی ہیت کا سجدہ  ہوتا ہے اور اس کو ہر مومن رد کرتا ہے – لیکن قرآن میں یہاں له کی ضمیر  یوسف علیہ السلام ہی کی طرف ہے اور یہ سب خواب کی منظر کشی ہو رہی ہے جو تمثیل کے جامے سے نکل کر حقیقت کا روپ لے رہی ہے – خواب میں دیکھا تھا کہ سورج، چاند، ستارے سب یوسف کو سجدہ کر رہے ہیں – اب یہ حقیقت بنا کہ  یعقوب  علیہ السلام  کے بیٹوں  نے بدوی زندگی کو خیر باد کہا  اور  مصری وزیر (یوسف) کے ساتھ  تحت رہنا قبول کیا  

عثمانی صاحب نے جو منظر کشی کی ہے اس کے تحت یوسف اور ان کے والدین تخت پر ہیں- سامنے ان کے بھائی ہیں – اب سوائے یوسف کے سب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ، جو جہاں ہے وہیں سجدے میں گر جاتا ہے – سجدہ اللہ کو ہو رہا ہوتا ہے لیکن دیکھنے والی آنکھ میں منظر یہ ہے کہ  یوسف  بیچ میں تخت پر ہیں – وہی خواب والی شکل بن جاتی ہے

عثمانی صاحب کا مدعا ہے کہ سجدہ کے وقت وہی خواب والی شکل بنی – جس طرح کعبہ ایک عمارت ہے الله نہیں ہے لیکن اللہ کا حکم ہے کہ اس کو اگر سجدہ کرنا ہے تو کعبه کی طرف رخ کیا جائے – اسی طرح معاملہ نیت کا ہے کہ سجدہ کرتے وقت نیت اللہ کو سجدہ کرنے کی تھی لیکن یوسف بیچ میں کرسی پر بیٹھے تھے وہی خواب والی شکل بن گئی

اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ سجدہ نماز جیسا تھا اور الگ سے صف بندی کر کے اللہ کو سجدہ کیا گیا تو خواب والی صورت کبھی بھی نہیں بنتی – راقم کہتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے دور میں قبلہ کا کوئی تصور نہیں تھا – نہ مصر میں موسی علیہ السلام کا کوئی ایک قبلہ تھا بلکہ ہر شہر میں الگ الگ قبلہ مقرر کیا گیا تھا –

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسی اور اس کے بھائی کو الوحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر کرو اور ان گھروں کو قبلہ بنا لو اور نماز قائم کرو اور مومنوں کو بشارت دو ( سورہ یونس)

یعقوب علیہ السلام یا ان کے بیٹے اللہ کو سجدہ کسی بھی رخ پر کر سکتے تھے – اس طرح عثمانی صاحب کی تشریح ایک اچھی تشریح ہے لیکن راقم کے نزدیک یہ سجدہ نماز جیسا سرے سے ہی نہیں ہے  اور نہ یہان له کی ضمیر اللہ تعالی کی طرف لینے کا کوئی قرینہ ہے

تفسیروں میں خر کے کلمہ پر لکھا گیا ہے

الخرّ: السقوط بلا نظام وبلا ترتيب

بغیر نظم و ترتیب کے نیچے آنا

 بعض لوگ جو اس آیت میں  سجدے کو اللہ کی طرف مانتے ہیں وہ اس کے قائل ہیں کہ سجدہ باقاعدہ صف بنا کر کیا گیا  یہ بات متن قرآن میں نہیں ہے

اسی طرح جو لوگ اس سجدے کو اللہ کی طرف مانتے ہیں وہ اس کے قائل ہیں کہ یوسف علیہ السلام نے بھی سجدہ کیا اور جب وہ سجدے سے اٹھے انہوں نے فرمایا یہ میرے خواب کی تاویل ہے – دوسری طرف عثمانی صاحب کہتے ہیں یوسف تخت پر تھے  اور خواب والی شکل بنی – خواب والی شکل اس صورت میں بالکل نہیں بنتی اگر یوسف علیہ السلام بھی سجدہ کرتے

سجدہ یوسف کو کیا گیا اللہ کے لئے 

یہ تشریح یہ بھی بیان کی جاتی ہے

الأخبار الموفقيات للزبير بن بكار میں ہے کہ ابو بکررضی اللہ عنہ  کی خلافت کا سن کر أَبِي لَهَبِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ کی اولاد میں سے کسی نے یہ شعر علی رضی اللہ عنہ کے لیے کہا

أَلَيْسَ أَوَّلَ مَنْ صَلَّى لِقِبْلَتِكُمْ … وَأَعْلَمَ النَّاسِ بِالْقُرْآنِ وَالسُّنَنِ
کیا وہ پہلے نہیں تھے جنہوں نے تمہارے قبلے کے لئے نماز پڑھی؟
اور انسانوں میں قرآن و سنت کے سب سے زیادہ خبر رکھنے والے ہیں

اس شعر میں ہے کہ قبلہ کے لئے نماز پڑھی جبکہ نماز اللہ کے لئے ہوتی ہے – اس سے بعض مفسرین نے دلیل لی ہے کہ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا میں له کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اللہ کے لئے یوسف کو سجدہ کیا گویا کہ یوسف کو قبلہ مانتے ہوئے ایسا کیا گیا – قرآن میں سورہ بنی اسرائیل میں ہے

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا
نماز قائم کرو سورج کے غروب کے لئے، سے لے کر رات کے چھا جانے تک اور فجر کا قرآن ! بے شک قرآن فجر کو دیکھا جاتا ہے

یہاں لِدُلُوكِ ہے یعنی ل + دلوک – دلوک کا مطلب غروب ہے اور ل اس میں اضافی ہے کہ سورج کے غروب کے لئے

یہ عربی کا محاوراتی انداز ہے اس کا اردو میں صاف ترجمہ ممکن نہیں ہے – مدعا یہ ہے کہ سورج کے  غروب ہونے کا ہماری نماز سے کوئی براہ راست تعلق نہیں – سورج تو ہر صورت غروب ہو گا لیکن یہاں ل لگنے سے اس وقت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے –  غور کریں کہ  نماز قائم تو اللہ کے لئے کی جاتی ہے نہ کہ سورج کے غروب کے لئے لیکن کوئی عرب اس کا یہ مطلب نہیں لیتا کہ نماز سورج کے غروب کے لئے پڑھو  – اسی طرح  بعض نے تشریح کی کہ سورہ یوسف میں خروا له سجدا میں ہے کہ یوسف کے لئے سجدہ میں گئے لیکن اللہ کو سجدہ کرنے کی غرض سے – قابل غور ہے کہ ان مفسرین کے نزدیک بھی ضمیر یوسف کی طرف ہے  بس سجدہ اللہ کو ہے کینکہ یہ نیت کا معاملہ ہے – – یوسف کو قبلہ سمجھا گیا

اسی سجدہ کی تعبیر یہ بھی کی جاتی ہے کہ یوسف کو قبلہ سمجھتے ہوئے سجدہ کیا گیا – جس طرح کعبہ مخلوق ہے اور یوسف کو قبلہ سمجھ کر سجدہ کیا گیا – اسی بنا پر اردو میں بر صغیر میں بزرگ کو قبلہ و کعبه کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا   مثلا کسی کو خط لکھا تو شروع میں لکھا :  حضرت قبلہ و کعبه جناب فلاں صاحب  ….. وغیرہ – البتہ یہ ذہن قبول نہیں کرتا کیونکہ انسان کو قبلہ کرنے کا تصور ہم کو مذھب میں معلوم نہیں ہے اور صرف اس آیت سے اس کا استخراج کیا گیا ہے –

متن قرآن کو اردو محاوراتی انداز میں سمجھنا 

سوره یوسف میں بیان ہوا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا

قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں

ایک بھائی کہتے ہیں اس کا ترجمہ یہ درست ہے

سورة يوسف 4

اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَعَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ﴿۴﴾

جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وہ سب میرے ہاں سجدہ کر رہے ہیں ۔

یعنی یوسف کے گھر میں سجدہ کر رہے ہیں
مثلا
سورة آل عمران 40

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ قَدۡ بَلَغَنِیَ الۡکِبَرُ وَ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ﴿۴۰﴾

کہنے لگے اے میرے رب! میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا؟ میں بالکل بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ، فرمایا اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے کرتا ہے ۔

راقم کہتا ہے یہ اردو بولنے والوں نے عربی قرآن کو اپنی زبان پر ڈھال کر اس کو بدلا ہے

ہر زبان میں بول چال کا الگ الگ طریقہ ہے – جو محاروے ہم بولتے ہیں وہ عربی میں نہیں ہیں اور جو عربی میں ادب و زبان ہے وہ اردو کا نہیں ہے –  یہاں ایسا ہی ہے – لی کا مطلب عربی میں مجھ کو یا مجھ سے ہے – میرے ہاں اس کا مطلب نہیں ہے – ہمارے ہاں بولنا یہ اردو ہے عربی نہیں ہے مثلا اردو میں ہم کہیں ہمارے ہاں آنا یعنی ہمارے گھر آنا – اس انداز میں عربی میں نہیں بولا جاتا

عربی میں ہے دخل علی
وہ ان پر داخل ہوا
یعنی ان کے حجرے میں یا گھر گیا

صحیح ترجمہ ہے

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ قَدۡ بَلَغَنِیَ الۡکِبَرُ وَ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ﴿۴۰﴾
کہنے لگے اے میرے رب! میرے لئے لڑکا کیسے ہوگا؟ میں بالکل بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ، فرمایا اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے کرتا ہے ۔

سورہ کہف میں ہے کہ اصحاب کہف نے کہا
وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا
اور ہمارے لئے نہیں ہے کہ ہم اب واپس جائیں

اگر لنا کا ترجمہ ہمارے ہاں کر دیں تو ہو گا
وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا
اور ہمارے ہاں نہیں ہے کہ ہم واپس جائیں

جبکہ اصحاب کہف کے گھر والے مشرک تھے

محشر میں عیسیٰ علیہ السلام رب العالمین سے دعا کریں گے
قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ
آپ پاک ہیں میرے لئے نہیں ہے کہ سوائے حق کے کچھ کہوں

اگر لی کا ترجمہ “میرے ہاں” کر دیں تو یہ گستاخی کا انداز بن جاتا ہے

لہذا صحیح ترجمہ یہی ہے

قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں

راقم کو حیرت ہوئی کہ ایک گروہ نے اس آیت کو اپنے جدل  کے لئے  تختہ مشق بنایا ہوا ہے لیکن اس پر  اپنے متعدد مضامین میں سے کسی  ایک میں  بھی انہوں نو اس آیت کا مکمل  ترجمہ کرنے کی جرات نہیں   بلکہ تقاریر میں پہلے اس  سجدے کو میرے ہاں   کیا (یعنی میرے گھر پر) پھر جب غلطی واضح کی گئی تو اب وہ اس کا زبانی ترجمہ کر رہے ہیں میرے لئے سجدہ کیا کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دیکھا وہ میرے لئے سجدہ کر رہے ہیں

یہ  ترجمہ بھی غلط سلط ہے کیونکہ خواب  میں سورج چاند اور گیارہ ستاروں کو دیکھا کہ وہ سجدہ  کر رہے ہیں یوسف نے سورج چاند اور گیارہ ستاروں کے نفس کا حال نہیں جانا تھا اور یہ ترجمہ کہ وہ میرے لئے سجدہ کر رہے ہیں اسی وقت ممکن ہے جب سورج چاند اور گیارہ ستارے یوسف سے کلام کرتے اپنے سجدہ کی نوعیت واضح کرتے – قرآن میں ان اجرام فلکی کے کلام کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف عمل دیکھنے کا ذکر ہے

چند سال قبل چھپنے والے مضمون میں اس آیت  کی تفہیم  درست تھی کہ   یوسف علیہ السلام نے  دیکھا سورج چاند اور ستارے ان کو سجدہ کر رہے ہیں  لیکن اب اسی گروہ  کی جانب سے نت نئے ترجمے آ رہے ہیں

یعقوب علیہ السلام نے تعبیر کی یا نہیں ؟

یعقوب علیہ السلام نے خواب کی کوئی تعبیر نہیں کی – صرف اس کو چھپانے کا ذکر کیا- یعقوب علیہ السلام نے خواب پر تبصرہ کیا کہ اللہ تم پر مستقبل میں اپنی نعمت تمام کرے گا

وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ وَيُتِـمُّ نِعْمَتَهٝ عَلَيْكَ وَعَلٰٓى اٰلِ يَعْقُوْبَ كَمَآ اَتَمَّهَا عَلٰٓى اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْـرَاهِيْـمَ وَاِسْحَاقَ ۚ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْـمٌ حَكِـيْـمٌ (6)

اور اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدہ کرے گا اور تجھے خواب کی تعبیر سکھائے گا اور اپنی نعمتیں تجھ پر اور یعقوب کے گھرانے پر پوری کرے گا جس طرح کہ اس سے پہلے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر پوری کر چکا ہے، بے شک تیرا رب جاننے والا حکمت والا ہے۔

یعقوب علیہ السلام اصل میں اس وعدہ الہی کی بنیاد پر تبصرہ کر رہے ہیں جو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
سورہ بقرہ ١٢٤
جب تمھارے رب نے ابراھیم کی آزمائش کلمات (احکام) سے کی، تو اس نے ان کو پورا کیا – کہا میں نے تجھ کو انسانوں پر امام کیا بولا اور میری اولاد ؟ کہا میرا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں

یعقوب علیہ السلام نے اس خواب کو چھپانے کا حکم کیا

قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ

کہا اے بیٹے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے خلاف سازش کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے

یوسف (علیہ السلام ) غیر نبی  کو یعقوب علیہ السلام نبوت کو بشارت  دے رہے ہیں کہ عنقریب  مستقبل میں ہو گا کہ تم کو نبی بنا دیا جائے گا   – معلوم ہوا کہ یوسف کا خواب الوحی نہیں تھا کیونکہ بشارت  خواب کے بعد دی کہ ایسا ہوا گا یہ نہیں فرمایا کہ تم نبی بن چکے ہو

یہ خواب الوحی نہیں  تھا  لیکن ایک سچی خبر ضرور تھا جس طرح ایک مومن بندہ خواب دیکھتا ہے جو سچا ہو جاتا ہے  – اس کے الوحی نہ ہونے کی متعدد وجوہات ہیں

اول : یہ ممکن نہیں کہ ایک نبی خواب دیکھے اور اس کی تعبیر خود نہ کر سکے

غور کریں کہ انبیاء کا  خواب اللہ کا  براہراست حکم ہوتا ہے  لیکن خواب دیکھنے والا اگر  نبی نے تو وہ   اس کو سمجھ ہی    نہ سکے کیسے ممکن ہے-    اس خواب کو سمجھنے کے لئے  اس کو کسی دوسرے نبی کو تلاش کرنا پڑے

دوم : الوحی  کو اخفاء رکھنا ظلم ہے 

 انبیاء پر تو لازم ہے کہ جو بھی  الوحی ہو اس کو ببانگ دھل بیان کریں

و اللہ یعصمک من الناس
اللہ ان کو لوگوں سے بچائے گا

سورہ المائدہ ٦٧ میں
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اے رسول پھیلا دو جو تمہارے رب نے تم پر نازل کیا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کو نہیں ادا کیا اور بے شک اللہ لوگوں سے بچائے گا

فرمان مصطفی ہے
جس کو علم کی بات معلوم ہو اوروہ  اس کو چھپا دے تو  اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا حدیث

ان فرمودات کی روشنی میں واضح ہے کہ یعقوب نے اس کو اپنے غیر نبی بیٹے یوسف کا سچا خواب سمجھا جس کو ابھی نبوت نہیں ملی لیکن عنقریب اس پر نعمت تمام ہو گی اور وہ نبی بن جائے گا- یوسف علیہ السلام کا یہ خواب اسی طرح سچی خبر تھا جس طرح ایک عام مومن بندے کو سچا خواب اتا ہے جو پورا ہوتا ہے- یعقوب اس وقت نبی تھے انہوں نے جو کہا اس میں اس کا کہیں اثبات نہیں ہے کہ تم اے یوسف،  نبی بن چکے ہو ،  بلکہ ان کے نزدیک ابھی یوسف پر اتمام نعمت نہیں ہوا تھا – نبی بننا ہی سب سے بڑی نعمت ہے جو یوسف کو اس وقت نہیں ملی تھی

سوم : یعقوب علیہ السلام نے خواب  سمجھایا کہ چونکہ اس میں تم نے اے یوسف  دیکھا کہ اجرام فلکی تم کو سجدہ کر رہے ہیں تو اس کا مطلب تم کو عزت  ملنا ہے اور اس کی اصل تاویل اللہ تم کو ضرور دے گا کہ تم کو تاویل کا علم دے گا – سوال ہے کہ کیا تمام انبیاء   کو خواب کی تعبیر کا علم دیا گیا تھا ؟ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے – اللہ نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی ہے – اس میں جو معجزات ایک نبی کو ملے وہ دوسرے کو نہیں – مثلا عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مردہ زندہ نہ کیا- یعقوب علیہ السلام نے کوئی تعبیر نہ کی بلکہ تبصرہ فرمایا

یعقوب علیہ السلام کا یہ کہنا کہ تم کو تاویل کا علم دیا جائے گا یہ اسی خواب کے تناظر میں نبی کی  پیشنگوئی ہے کہ اس خواب کی حقیقت اللہ تم پر واضح کرے گا

یہاں پر تاویل الاحادیث سے مراد خواب کی تعبیر کا علم ہے  انسانوں کی باتوں کی تشریح نہیں ہے – انبیا کو انسانی باتوں کا شارح نہیں بلکہ شریعت کا شارح مقرر کیا گیا ہے  لیکن ایک مقام پر اس آیت میں   خواب  کی تعبیر کا ذکر کرنے کی بجائے ترجمہ میں کیا گیا ہے

یہ ترجمہ نذر احمد سے مستعار لیا گیا ہے لیکن خواب کی تعبیر  کا مفہوم اس سے نکال دیا گیا ہے

http://lib.bazmeurdu.net/ترجمہ-و-تفسیر-قرآن،حصہ۶-یوسف-تا-اسراء۔/

تاریخ مطول از مسعود بی ایس سی جماعت المسلمین میں  ترجمہ کیا  ہے

غیر اللہ کو سجدہ نہ کرو

ایک سوال کیا جاتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کرو یہ قرآن میں کہاں لکھا ہے ؟

الله تعالی نے فرمایا

ومِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، نہ سورج کو سجدہ کیا کرو اور نہ ہی چاند کو، اور سجدہ صرف اﷲ کے لئے کیا کرو جس نے اِن (سب) کوخلق کیا ہے اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو

اور الله تعالی نے سوره الحج میں فرمایا

الَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ

کیا تم دیکھتے نہیں الله کو سجدہ کر رہے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے ایسے جن پر عذاب ثبت ہو چکا …

قرآن میں اصول بیان ہوا ہے کہ غیر الله کو سجدہ حرام ہے اور یہ اس وقت بھی حرام تھا جب انسان نہ تھا

ضمیر  کیسے پتا کیا جائے کس کی طرف ہے ؟

ایک مضمون میں  ایک صاحب نے لکھا

راقم کہتا ہے یہ قاعدہ کہتا ہے کہ اسم بعد میں آئے گا ضمیر پہلے-  اس  کو عود الضمير على متأخر کہا جاتا ہے –   سورہ یوسف میں سجدے والی بات کے بعد باپ   کا اسم آیا ہے نہ کہ  اللہ تعالی کا ذکر  ہے

وَرَفَـعَ اَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَـآ اَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُؤْيَاىَ مِنْ قَبْلُ ؕ قَدْ جَعَلَـهَا رَبِّىْ حَقًّا

اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور اس کے آگے سب سجدہ میں جھک گئے، اور کہا اے باپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تاویل ہے، میرے رب نے اس خواب کو سچ کر دکھایا،

یہاں رویا کا لفظ ہے جو عربی میں مونث ہے اور لفظ تاویل مذکر ہے – اردو میں الٹا ہے خواب مذکر ہوتا ہے اور اس کی تاویل کو مونث بولا جاتا ہے – عربی میں ایسا نہیں ہے – یوسف نے خواب سچا ہونے کی بات کی ہے اور خواب میں سجدہ یوسف کو کیا جا رہا تھا اللہ تعالی کو نہیں – وَخَرُّوْا لَـهٝ  کے بعد اسم  کہاں ہے جس کی طرح یہ ضمیر جا رہی ہے ؟ بلکہ ایک اورمونث  ضمیر آ جاتی ہے جو  جَعَلَـهَا میں ہے اور اس کی نسبت ربی سے ہے کہ اللہ نے اس  رویا ( مونث) خواب  کو سچا کیا

عربی میں اس کا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ جب عود الضمير على متأخر والا جملہ ہو تو   ضمیر اور اسم کے درمیان ایک  دوسرا مکمل  جملہ وارد ہو جائے – جیسا یہاں ہے اور کہا اے باپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تاویل ہے…. کیونکہ یہ ایک مسلسل جملہ نہیں رہتا اگر ضمیر اور اسم میں دوری ہو

حدیث قرع النعال میں ہے کہ مردہ سنتا ہے ان کے جوتوں کی چاپ کہ دو فرشتے آتے ہیں

اس میں ابہام نہیں ہے کیونکہ یہاں نعالھما اور فرشتوں الملکین میں کوئی دوری نہیں ہے
اوپر آیات میں بھی ایسا ہی ہے فورا فورا اسم اور ضمیر ساتھ ہیں
لہذا سورہ یوسف کی اس آیت کی مثال عود الضمير على متأخر نہیں بنتی

مثأل دی جاتی ہے کہ عربی میں بعض اوقات ضمیر اور اسم میں فاصلہ ہوتا ہے مثلا
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا
پھر ہم نے کہا اس مردہ پر اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو

یہاں بحث ضمیر کے بعد اسم آنے پر ہو رہی ہے نہ کہ اسم کے بعد ضمیر پر لہذا یہ سورہ بقرہ کی آیت کی مثال نہیں لی جا سکتی – جب اسم پہلے آ چکا ہو تو ضمیر کس کی طرف ہے اس میں اشکال بالکل نہیں ہوتا – اشکال اس وقت ہوتا ہے جب ضمیر پہلے ہو اور اسم بعد میں آئے- سورہ بقرہ کی اس آیت سے پہلے تفصیل سے گائے پر بات ہو چکی ہے

ضمیر کے حوالے سے کہا گیا کہ قرآن میں بعض ضمیروں کو ان کی اصل سے ہٹا کر لینا ہو گا مثلا

راقم کہتا ہے یہ فیصلہ قرات سے ہو جاتا ہے – اس آیت کی قرات دو  طرح منقول ہے- كُذِبُوا کے لفظ سے اور كُذِّبُوا کے لفظ سے

حَتّــٰٓى اِذَا اسْتَيْاَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّـوٓا اَنَّـهُـمْ قَدْ كُذِبُـوْا جَآءَهُـمْ نَصْرُنَاۙ فَنُجِّىَ مَنْ نَّشَآءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ (110)

اور کذبوا تشدید کے ساتھ بھی ہے یعنی


یہاں تک کہ جب رسول نا امید ہونے لگے اورگمان کیا کہ (ماننے والوں کی جانب سے بھی ) ان کا انکار کر دیا جائے گا  تب انہیں ہماری مدد پہنچی، پھر جنہیں ہم نے چاہا بچا لیا، اور ہمارے عذاب کو نافرمانوں سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔

https://www.nquran.com/ar/ayacompare?sora=12&aya=110

اس طرح اپنی  طرف سے ضمیریں فٹ نہیں کی جاتیں بلکہ ان کو اختلاف قرات سے  احادیث سے سمجھا جاتا ہے

صحیح بخاری میں اس پر وضاحت موجود  ہے

حدیث نمبر: 3389 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 أَوْ كُذِبُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَعَاذَ اللَّهِ لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا وَأَمَّا هَذِهِ الْآيَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ وَطَالَ عَلَيْهِمُ الْبَلَاءُ وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ اسْتَيْأَسُوا سورة يوسف آية 80 افْتَعَلُوا مِنْ يَئِسْتُ مِنْهُ سورة يوسف آية 80مِنْ يُوسُفَ وَلا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ سورة يوسف آية 87 مَعْنَاهُ الرَّجَاءُ.

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت کے متعلق پوچھا « (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟» (تشدید کے ساتھ) ہے یا «كذبوا‏» (بغیر تشدید کے) یعنی یہاں تک کہ جب انبیاء ناامید ہو گئے اور انہیں خیال گزرنے لگا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا تو اللہ کی مدد پہنچی تو انہوں نے کہا کہ (یہ تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ) ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر معنی کیسے بنیں گے ‘ پیغمبروں کو یقین تھا ہی کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر قرآن میں لفظ «ظن‏.‏» گمان اور خیال کے معنی میں استعمال کیوں کیا گیا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے چھوٹے سے عروہ! بیشک ان کو تو یقین تھا میں نے کہا تو شاید اس آیت میں بغیر تشدید کے «كذبوا‏» ہو گا یعنی پیغمبر یہ سمجھے کہ اللہ نے جو ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: معاذاللہ! انبیاء اپنے رب کے ساتھ بھلا ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار لوگ جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی ان پر جب مدت تک اللہ کی آزمائش رہی اور مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر لوگ اپنی قوم کے جھٹلانے والوں سے ناامید ہو گئے (سمجھے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیں گے) اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان کے تابعدار بنے ہیں وہ بھی ان کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے ‘ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی

اس سے واضح ہوا کہ مضمون نگار کو نہ اختلاف قرات کا علم تھا نہ  اس حدیث کا علم   تھا ورنہ اس قسم کی غلطی نہیں کرتا

سورہ مریم  میں آیت ١٩ میں ہے کہ جبریل علیہ السلام ، محترمہ مریم  علیہ السلام کے سامنے ظاہر ہوئے ان کو کہا

قرات ابی عاصم  میں ہے

 لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا

کہ میں تم کو ایک پاک لڑکا دوں

قرات أبو عمرو بن العلاء میں ہے

ليهب لك غلاما زكيا وہ (الرحمان ) تم کو ایک پاک لڑکا دے 

اس طرح  اختلاف قرات سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ لڑکا  فرشتہ نے اپنی قوت سے نہیں دیا بلکہ اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ہوا

قرأ قالون بخلف عنه، وورش، وأبو عمرو، ويعقوب: (ليهب لك غلاما زكيّا) بالياء، وقرأ الباقون: لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا بالهمزة (1).
وقد أخبر الآلوسي أن الزهري، وابن مناذر، واليزيدي، والحسن، وشيبة قرءوها بالياء أيضا 

قالون ، ورش ، ابو عمرو ، یعقوب نے قرات کی (ليهب لك غلاما زكيّا)  … اور الوسی نے خبر دی کہ الزهري، وابن مناذر، واليزيدي، والحسن، وشيبة  نے بھی ياء سے قرات کی 

http://shamela.ws/browse.php/book-38020/page-143

تفسیری اقوال کی بحث

ایک مضمون نگار لکھتے ہیں

تفسیر رازی میں فخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ) قول ہے
وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي رِوَايَةِ عَطَاءٍ أَنَّ الْمُرَادَ بِهَذِهِ الْآيَةِ أَنَّهُمْ خَرُّوا لَهُ أَيْ لِأَجْلِ وِجْدَانِهِ سَجَدَا للَّه تَعَالَى
عَطَاءٍ کی روایت ہے ابن عباس سے کہ مراد ہے سجدہ اللہ تعالی کو کیا گیا یوسف مل جانے کی وجہ سے 

راقم کہتا ہے  ابن عبّاس سے منسوب اس قول  کی سند نہیں ہے- نہ قدیم  تفسیروں میں اس  قول کی کوئی سند دی گئی ہے – یوسف علیہ السلام مل گئے یہ خبر کنعان میں ہی مل گئی تھی جب یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی اور انبیاء کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سجدہ شکر فورا ہی بجا لاتے ہیں ان کو مصر جا کر سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا مُحَمَّدٌ سَعِيدٌ الْعَطَّارُ، ثنا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرْفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا قَالَ: كَانَتْ تَحِيَّةُ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَأَعْطَاكُمُ اللَّهُ السَّلامَ مَكَانَهَا.
عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ نے وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا پر کہا یہ سلام تھا اس سے قبل پس اللہ نے سلام اس مکان پر عطا کیا

اس کی سند ضعیف ہے – سند میں عبيدة بن حميد الكوفي الحذاء النحوي ہے – کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال
از الذھبی کے مطابق

وقال زكريا الساجي: ليس بالقوى في الحديث
الساجی نے کہا یہ حدیث میں قوی نہیں ہے

قال ابن المديني: أحاديثه صحاح، وما رويت عنه شيئا، وضعفه
امام علی المدینی نے کہا اس کی احادیث صحاح ہیں – اس سے روایت نہیں لیتا اور انہوں نے اس کی تضعیف کی

قتادہ بصری جو قلیب بدر کو معجزہ کہتے تھے ان کا قول ہے کہ سجدہ یوسف کو ہوا اس دور کا سلام تھا
تفسیر طبری میں ہے

حدثنا بشر، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا سعيد، عن قتادة: (وخروا له سجّدًا) وكانت تحية من قبلكم، كان بها يحيِّي بعضهم بعضًا، فأعطى الله هذه الأمة السلام، تحية أهل الجنة، كرامةً من الله تبارك وتعالى عجّلها لهم، ونعمة منه.

حدثنا محمد بن عبد الأعلى، قال: حدثنا محمد بن ثور، عن معمر، عن قتادة: (وخروا له سجدًا) ، قال: وكانت تحية الناس يومئذ أن يسجد بعضهم لبعض.

الضحاك نے کہا یہ اس دور کا سلام تھا

حدثنا ابن وكيع، قال: حدثنا المحاربي، عن جويبر، عن الضحاك: (وخروا له سجدًا) قال: تحيةٌ بينهم.

اسی قول کو ابن کثیر نے قبول کیا ہے البتہ راقم ان اقوال کو رد کرتا ہے کیونکہ الضحاك حدیث میں ضعیف ہے اور قتادہ مدلس ہے معلوم نہیں کس سے یہ اقوال لیے

لہذا مضمون نگار کا سند کی غیر موجودگی میں ضحاك  اور عطا سے منسوب  اقوال پر اعتماد کرنا عجیب بات ہے

ایک صاحب نے تحقیق عمیق کر کے بندر کی بلا طویلے کے سر اس طرح باندھی کہ قتادہ  پر جرح کرنے کی بجائے ابن کثیر پر بھڑاس نکالی اور شروع میں ابن عباس کا قول بھی بلا معرفت سند لکھ ڈالا

بھائی بھول گئے کہ ابن کثیر سے صدیوں پہلے طبری یہ اقوال تفسیر میں قتادہ کی سند سے اور الضحاک کی سندوں سے لکھ چکے ہیں لہذا یہ بات جہاں سے شروع ہوئی وہاں جانا چاہیے

فرشتوں کا سجدہ انسان جیسا نہیں ہو سکتا ؟ 

مقابلے پر کہا جاتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کیا تو وہ کیا تھا – راقم کہتا ہے وہ سجدہ اللہ کا حکم تھا اور اللہ کے حکم پر عمل عبادت الہی ہے – آدم کو سجدہ فرشتوں نے کیا ہے –  بعض نواقض العقول لوگوں کا کہنا ہے کہ آدم علیہ السلام کو بھی سجدہ نہیں ہوا – عجیب بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا سار زور اس پر ہے کہ سورہ یوسف والی آیت میں سجدے کو نماز جیسا ثابت کریں لیکن جب آدم علیہ السلام کو سجدے والی آیت کا ذکر آئے تو اس کو نماز جیسا سجدہ قرار دینے سے احتراز کیا جائے – راقم کہتا ہے یہ کام الٹا ہے کیونکہ سجدہ آدم براہ راست اللہ کا حکم ہے – سورہ یوسف میں جس سجدے کا ذکر ہے ان لوگوں کو چاہیے کہ اس کو اصطلاحی سجدے سے الگ کر کے سمجھیں

جب لوگوں نے یہ مان لیا کہ یوسف علیہ السلام کو نماز جیسا سجدہ ہوا تو مزید اشکال پیدا ہوئے – ایک یہ کہ  قرآن میں آ گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں سے سجدہ کروایا گیا – اس سجدے کو بدلنا ضروری سمجھا گیا کیونکہ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ نے ہی مخلوق کو سجدہ کا حکم دیا – اس پر دو  تحریفات کی گئیں

اول اس وقت شریعت نہیں تھی

دوم فرشتوں کے سجدے کا ہم کو علم نہیں ہے 

اس کا جواب یہ دیا گیا کہ  توحید تو ہر وقت تھی کہ نہیں ؟ اللہ تعالی نے ہی مخلوق  آدم کو سجدہ کا حکم کیا تو اللہ کچھ بھی حکم کر سکتا ہے – شریعت تو منہج کا نام ہے جو کیا عالم بالا میں الگ ہے اور زمین پر الگ ؟

بعض لوگوں  کا کہنا ہے کہ فرشتوں کے سجدے کا ہم کو علم نہیں وہ انسان کی طرح نہیں ہیں- ان کی جانب سے ایک صاحب کا کہنا ہے

یہ لکھتے ہوئے مضمون نگار نے یہ نہیں سوچا کہ اس کی ضرب کہاں تک جائے گی

ڈاکٹر عثمانی اس کے قائل تھے کہ  فرشتے لباس پہنتے ہیں، جوتیاں پہنتے ہیں، برزخ میں چل کر اتے ہیں  – عثمانی صاحب نے فرشتوں کو ایک مرد کی صورت دی ہے – لیکن آج ان کی اس رائے کو بدلا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ فرشتوں کے سجدے کا ہم کو علم ہی نہیں ہے جبکہ اس پر احادیث موجود ہیں

یعنی فرشتوں کے رکوع و سجود کا انکار کر کے کہ وہ انسانوں سے الگ ہیں یہ جان چھڑانا ہے جبکہ خود  ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ وہ الگ شکل و نوعیت کے ہیں

برزخ میں سوال و جواب کے وقت فرشتے  انسان کی طرف چلنے لگیں لیکن سجدہ کے وقت انسان سے الگ کریں اس کی کیا دلیل ہے ؟

صحیح بخاری میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز جبریل نے سیکھائی

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی – باب : فرشتوں کا بیان۔

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے   عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن عصر کی نماز کچھ دیر کر کے پڑھائی ۔ اس پر عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کہا ۔ لیکن جبرئیل علیہ السلام ( نماز کا طریقہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کے لیے ) نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہو کر آپ کو نماز پڑھائی ۔ حضرت عمرو بن عبدالعزیز نے کہا ، عروہ ! آپ کو معلوم بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ عروہ نے کہا کہ ( اور سن لو ) میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا اور انہوں نے ابومسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے کہ   جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے مجھے نماز پڑھائی ۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر ( دوسرے وقت کی ) ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، اپنی انگلیوں پرآپ نے پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا ۔

صحیح مسلم  میں ہے

عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ امنی جبریل علیہ السلام عند البیت مرتین

ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بیت اللہ کے پاس جبریل نے میری دو دفعہ امامت کی

ظاہر  ہے جیسا سجدہ جبریل علیہ السلام نے کیا ویسا ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور امت کو  سکھایا

ان لوگوں نے اپنے موقف کو اب بدل دیا ہے اور کہنا شروع کر دیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی کو سجدہ کیا – قرآن میں باطل داخل نہیں ہو سکتا – قرآن میں سورہ ص میں موجود ہے کہ اللہ تعالی نے ابلیس سے پوچھا

قال يا إبليس ما منعك أن تسجد لما خلقت بيدي أستكبرت أم كنت من العالين قال أنا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين
کہا : اے ابلیس تجھ کو کس نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا- کیا تو متکبر ہے کوئی بلند بالا ہے ؟ ابلیس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں اگ سے بنایا گیا ہوں اور یہ تو مٹی سے بنا ہے

کیا عربی میں رکوع کو بھی سجدہ کہا جا سکتا ہے ؟

سورہ یوسف میں بیان ہوا کہ یوسف نے  دیکھا ان کو سجدہ ہو رہا ہے پھر آیت ١٠٠ میں بتایا گیا کہ گھر والوں نے  سجدہ کیا – راقم نے کہا یہ صرف انحناء تھا یعنی رکوع جیسی کوئی رسم تھی  -سوال اتا ہے کہ کیا عربی میں رکوع کو بھی سجدہ کہا جا سکتا ہے ؟

ایک مضمون نگار کا دعوی کہ حدیث میں جب بھی سجدہ کا لفظ آیا ہےوہ نماز والا ہی سجدہ ہے لکھتے ہیں

اس کا جواب حدیث سے مل جاتا ہے

عربی میں رکوع کی حالت کو بھی سجدہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمین کی طرف جھکنا  ہے اور پیشانی زمین پر لگانا اس کی انتہی ہے – سنن ابن ماجہ میں ہے
حدیث نمبر: 1258 ح
بَابُ: مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الْخَوْفِ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ يُصَلِّي بِطَائِفَةٍ مَعَهُ، فَيَسْجُدُونَ سَجْدَةً وَاحِدَةً، وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ الَّذِينَ سَجَدُوا السَّجْدَةَ مَعَ أَمِيرِهِمْ، ثُمَّ يَكُونُونَ مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا، وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّوا مَعَ أَمِيرِهِمْ سَجْدَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ يَنْصَرِفُ أَمِيرُهُمْ وَقَدْ صَلَّى صَلَاتَهُ، وَيُصَلِّي كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ بِصَلَاتِهِ سَجْدَةً لِنَفْسِهِ، فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ، فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا» قَالَ: يَعْنِي بِالسَّجْدَةِ الرَّكْعَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف کی (کیفیت) کے بارے میں فرمایا:  امام اپنے ساتھ مجاہدین کی ایک جماعت کو نماز پڑھائے، وہ ایک سجدہ کریں اور ایک گروہ ان کے اور دشمن کے درمیان حائل رہے- پھر یہ صف لوٹ جائے جس نے امیر کے ساتھ سجدہ کیا اور وہاں ان کے پاس (دشمن سے لڑنے ) جائیں جنہوں نے نماز ابھی نہیں  پڑھی – اب وہ لوگ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی وہ آگے آئیں وہ امیر کے ساتھ ایک  سجدہ کریں اور لوٹ جائیں –  اب امام تو اپنی نماز سے فارغ ہو جائے گا، اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک (اپنے مقام پر)  ایک سجدہ  اور  کر لیں –  اگر خوف و دہشت اس سے بھی زیادہ ہو، (صف بندی نہ کر سکتے ہوں) تو ہر شخص پیدل یا سواری پر نماز پڑھ لےابن عمر نے کہا سجدہ یہ رکوع ہے

یہ حالت جنگ میں نماز خوف کا ذکر ہے اور یہاں سجدے نہیں صرف رکوع کرنا ہے

کتاب الاقتضاب في شرح أدب از أبو محمد عبد الله بن محمد بن السِّيد البَطَلْيَوسي (المتوفى: 521 هـ) ، الناشر: مطبعة دار الكتب المصرية بالقاهرة میں ہے

(قال المفسر): قد قيل سجد بمعنى انحنى، ويدل على ذلك قوله تعالى (وادخلوا الباب سجداً). ولم يؤمروا بالدخول على جباههم، وإنما أمروا بالانحناء. وقد يمكن من قال القول الذي حكاه ابن قتيبة،
أن يجعل سجداً حالاً مقدرة، كما حكى سيبويه من قولهم: مررت برجل معه صقر صائداً به غداً، أي مقدراً للصيد عازماً عليه، ومثله قوله تعالى: (قل هي للذين آمنوا في الحياة الدنيا خالصة يوم القيامة)، ولكن قد جاء في غير القرآن مايدل على صحة ما ذكرناه. قال أبو عمرو الشيباني الساجد في لغة طيء: المنتصب، وفي لغة سائر العرب: المنحنى، وأنشد:
لولا الزمام اقتحم الأجاردا … بالغرب أو دق النعام الساجدا
ويدل على ذلك أيضاً قول ميد بن ثور الهلالي:
فلما لوين على معصم … وكف خضيب وأسوارها
فضول أزمتها أسجدت … سجود النصارى لأحبارها

مفسر نے کہا کہا جاتا ہے کہ سجدہ انحنا ہے اور اس پر دلیل اللہ کا قول ہے (وادخلوا الباب سجداً). دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو اور یہ حکم نہیں ہے کہ داخل ہوتے وقت اپنی پیشانی زمین پر رکھو بلکہ یہ انحناء کا حکم ہے

پھر اس بات کو عربی اشعار سے بھی ثابت کیا گیا

كنز الكتاب ومنتخب الآداب (السفر الأول من النسخة الكبرى) از مؤلف: أبو إسحاق إبراهيم بن أبي الحسن الفهري المعروف بالبونسي (651هـ) الناشر: المجمع الثقافي، أبو ظبي میں ہے

ومِمَّا جاء من السجود كناية عن الرُّكوع حديث عبد الله بن عمر فيما روى عن عبد الرحمان بن أبي
الزناد عن موسى بن عقبة عن نافع عن ابن عمر انه كان يقول في صلاةِ الخوفِ: “يَقُومُ الإمام وتقوم
معه طائفةٌ، وتكون طائفةٌ بينهم وبين العدو، فيسجد سجدةً واحدةً بمن معه، ثم ينصرف الذين سجدوا
سجدة، فيكونون مكان أصحابهم الذين كانوا بينهم وبين العدو، وتقوم الطائفة الأخرى الذين لم يصلوا،
فيصلون مع الإمام سجدة ثم ينصرف الإمام، وتُصلي كلُّ واحدة من الطائفتين لأنفسهم سجدة سجدة،
فإن كان الخوف أكثر من ذلك فليصلوا قياما على أقدامهم، أو ركباناً علي ظهور الدوائب”.
قال موسى بن هارون الطُّوسي: كُلُّ سَجْدَةِ في هذا الحديث فمعناها ركعة. سمعت أبا خيثمة يقول:أهلُ الحجاز يسمون الركعة سَجْدة.

اور سجدہ کو رکوع پر کنایہ کے طور پر لیا جائے یہ حدیث ابن عمر میں آیا ہے …. موسی بن ھارون طوسی نے کہا اس حدیث میں سارے سجدے اصل میں رکوع  کے معنی پر ہیں -أبا خيثمة کو کہتے سنا کہ اہل حجاز رکوع کو سجدہ بھی کہہ دیتے ہیں 

صحیح مسلم میں ہے

وَحَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح قَالَ: وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ، كِلَاهُمَا عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، وَالسِّيَاقُ لِحَرْمَلَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَهُ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ سَجْدَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، أَوْ مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ، فَقَدْ أَدْرَكَهَا»، وَالسَّجْدَةُ إِنَّمَا هِيَ الرَّكْعَةُ

عَائِشَةَ، رضی اللہ عنہا نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو عصر میں ایک سجدہ ملا قبل اس کے کہ سورج غروب ہو یا صبح کی نماز میں قبل اس کے کہ سورج طلوع ہو اس نے نماز پا لی  عائشہ رضی اللہ عنہا  نے کہا یہ سجدہ بے شک رکوع ہے 

معلوم ہوا کہ فقہ صحابہ کے تحت سجدہ کا لفظ حدیث میں بعض اوقات رکوع پر کنایہ کے طور بولا گیا  ہے اور محققین کہتے کہ یہ اہل حجاز کا طریقہ ہے جن کی زبان میں سورہ یوسف نازل ہوئی ہے – اس علم کے بعد اس پر  اصرار کرنا کہ سجدہ کا لفظ ہمیشہ پیشانی زمین پر لگانا ہے بے جا ہے

تفسیر ابن عطیہ از أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطية الأندلسي المحاربي (المتوفى: 542هـ) میں ہے

واختلف في هذا السجود، فقيل: كان كالمعهود عندنا من وضع الوجه بالأرض، وقيل: بل دون ذلك كالركوع البالغ ونحوه مما كان سيرة تحياتهم للملوك في ذلك الزمان

اس سجدے پر اختلاف ہے کہا جاتا ہے کہ یہ سجدہ زمین پر چہرہ رکھنے کا تھا اور کہا جاتا ہے بلکہ یہ رکوع یا اسی جیسا تھا 

ابن حجر نے فتح الباری ج ١٢ ص ٣٧٦ میں ایک قول لکھا ہے

وَلَمْ يَقَعْ مِنْهُمُ السُّجُودُ حَقِيقَةً وَإِنَّمَا هُوَ كِنَايَةٌ عَنِ الْخُضُوعِ
اور یہ سجدے میں حقیقی نہیں گئے اور بے شک یہ کنایہ ہے الْخُضُوعِ پر

کتاب  حاشيتا قليوبي وعميرة میں ج١ ص ١٨٠     از أحمد سلامة القليوبي وأحمد البرلسي عميرة ، دار الفكر – بيروت الطبعة: بدون طبعة، 1415هـ-1995م کے مطابق

قَوْلُهُ: (السُّجُودُ) وَهُوَ لُغَةً التَّطَامُنُ وَالذِّلَّةُ وَالْخُضُوعُ وَشَرْعًا مَا سَيَأْتِي، وَقَدْ يُطْلَقُ عَلَى الرُّكُوعِ، وَمِنْهُ {وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا} [يوسف: 100] كَمَا مَرَّ

اور الله کا قول السُّجُودُ تو یہ لغت میں کم ہونا یہ ذلت ہے اور ْخُضُوعُ ہے … اور اس کا اطلاق رکوع پر بھی ہے اور الله تعالی کا قول  {وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا} [يوسف: 100]  میں 

اب جب ہم اس کو تسلیم کریں کہ سجدہ کو رکوع یا انحنا لیا جا سکتا ہے تو پھر   سورہ یوسف میں ذکر کردہ  سجدے پر کوئی اشکال نہیں رہتا  کیونکہ  اس کا تعلق عبادت سے سرے سے ہی نہیں ہے

ایک مضمون نگار لکھتے ہیں کہ سورہ یوسف میں  خر کا لفظ ظاہر کرتا  ہے کہ سب سجدے میں گرے نہ کہ جھکے  لہذا انہوں نے  چند  حوالے دیے   یعنی تفسیر شیرازی ، تفسیر روح المعانی اور تفسیر ابی السعود وغیرہ

واضح رہے کہ خر کا مطلب مطلق گرنا نہیں ہے جیسا کہ ان مفسرین نے لکھا ہے بلکہ  نیچے جھکنا  یا  آنا  ہے  جیسا قرآن سورہ ص میں ہے

وخر راكعاً وأناب

داود رکوع میں جھکا اور توبہ کی 

رکوع میں کوئی زمین پر  گرتا نہیں ہے – سورہ یوسف میں ہے  کہ

وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ  اس کے لئے زمین کی طرف جھک گئے

یہاں سجدا کو اس کے اصل مطلب پر لیا گیا ہے جو زمین کی طرف جھکنا ہے نہ کہ نماز والا اصطلاحی سجدہ

سورہ حج میں ہے

وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْـرُ اَوْ تَهْوِىْ بِهِ الرِّيْحُ فِىْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ (31)
اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے نیچے آئے تو اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دیتی ہے۔

جو آسمان سے نیچے آیا ابھی زمیں تک بھی نہیں پہنچا کہ پرندے اس کو اچک لیتے ہیں

معصوم عن الخطا کا عقیدہ

کیا کوئی بشر معصوم عن الخطآ ہے ؟ اصلا یہ بحث ایک سیاسی جھگڑے میں شروع ہوئی اور وہ تھی عثمان رضی الله عنہ کا قتل – مخالفین عثمان  نے خلیفہ وقت کو خآطی کہا اور ان کے مقابلے پر علی رضی الله عنہ  کی فضیلت کی احادیث گھڑی گئیں – اس طرح علی رضی الله عنہ اور ائمہ  کے لئے معصوم ہونے کا  عقیدہ شیعان علی میں آیا- دوسرے طرف اہل سنت جو علی کی امامت کے انکاری تھے انہوں نے مقابلتا  انبیاء کی معصومیت کا عقیدہ اختیار کیا اور اس کے لئے دلائل ڈھونڈے

قرآن میں فرشتوں کی ایک صفت آئی ہے کہ

لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ

یہ انکار نہیں کرتے اس امر پر جو الله نے دیا ہو اور وہی کرتے ہیں جس کا امر ہوتا ہے

چونکہ فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا تو نا ممکن سمجھا جانے لگا کہ انبیاء سے کسی غلطی کا صدور ممکن ہے- اس عقیدے کا تقابل جب قرآن سے کیا جاتا ہے تو جواب نفی میں ملتا ہے- قرآن میں انبیاء کا غلطی سے معصوم ہونے کا رد کیا گیا ہے – سوره الانفعآل میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں غلطی کی نشان دہی کی گئی ہے- قرآن میں کئی مقام پر اگلے پچھلے گناہ معاف کرنے کا ذکر ہے (جس میں ذنب گناہ کا لفظ ہے) – آدم علیہ السلام کا شجر ممنوعہ سے کھانے کا ذکر ہے – نوح علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے لئے دعآ کا ذکر ہے اور اس پر الله تعالی کی ناراضگی کا بھی ذکر ہے – اس طرح  واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی غلطی سے پاک ذات ہے تو وہ صرف الله تعالی ہے- اسی لئے سبحان الله بولا جاتا ہے کہ الله (غلطی و عیب سے) پاک ہے

عصمت انبیاء کے عقیدے کو وحی  سے جوڑا جاتا ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ انبیاء سے غلطی ممکن ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ وحی الہی میں غلطی بھی ہو سکتی ہے – لیکن یہ اعتراض  سطحی ہے قرآن میں واضح ہے کہ وحی  کی حفاظت الله نے خود کی ہے اور اس میں کسی بھی قسم  کے کسی شیطانی القا  کا دخل نہیں ہوا  لہذا قرآن جو کلام الله ہے وہ پاک کلام ہے

عبيد الله  السجزيّ   أبو نصر (المتوفى: 444هـ) کتاب رسالة السجزي إلى أهل زبيد في الرد على من أنكر الحرف والصوت   میں الباقلاني المتوفی ٤٠٢ ھ  اور ان کی اتباع کرنے والے الأشعرية  کے لئے لکھتے ہیں وہ کہتے ہیں

أن وقوع الكبائر من الأنبياء عليهم السلام في حال النبوة جائز إلا فيما يختص بالرسالة  لا يجوز عليهم الكذب فيها ولا التغيير، ولا الكتمان

کہ انبیاء سے کبائر کا وقوع جائز ہے سوائے اس کے جو رسالت کے لئے خاص ہو کہ اس میں جھوٹ اور تغیر اور کتمان ان کے لئے جائز نہیں ہے

یعنی سن ٤٤٤ ہجری تک عصمت انبیاء کا عقیدہ وہ نہیں تھا جس  شکل میں آج یہ عقیدہ  ہے

اگلی چند صدیوں میں اس قول میں مزید تشریحات و آراء شامل ہوتی رہیں اور عصمت انبیاء کو عمومی  طور پر تسلیم کر لیا گیا- لیکن اب اس میں کبائر و صغائر کی تقسیم سرے سے ہی نکال دی گئی – ظاہر ہے انبیاء میں سے کوئی بھی نہیں جو گناہ کبیره کا مرتکب ہو اور جن کو ہم صغائر کہہ رہے ہیں کیا وہ انبیاء کے لئے واقعی صغائر تھے اس کی کیا دلیل  ہے ؟ کہنے کا مقصد ہے کہ گناہ کبیرہ انبیاء میں سے کسی نے نہیں کیے لیکن جن کو ہم صغائر کہہ رہے ہیں کیا وہ انبیاء کے مقام و مرتبہ کے مطابق صغائر میں اتے ہیں ؟  اس کو ایک مثال سے سمجھیں انبیاء میں یونس علیہ السلام ایک فیصلہ کرتے ہیں کہ عذاب الہی  کا سنتے ہی اپنا علاقہ چھوڑ دیتے ہیں دوسری طرف ان کی قوم توبہ میں مشغول ہوتی ہے اور الله ان کو ہدایت دے دیتا ہے لیکن الله تعالی کو یونس علیہ السلام کا عمل پسند نہیں اتا اور ان کو مچھلی میں قید کر دیتا ہے –  اسی طرح آدم علیہ السلام بھی ابدی زندگی کی خواہش میں ابلیس کی باتوں میں ا کر شجر ممنوعہ میں سے کھا لیتے ہیں اس کو قرآن میں  عھد بھولنا کہا گیا ہے – یعنی انبیاء کی معمولی غلطیاں بھی اتنی بڑی سمجھی جاتی ہیں ان کو اس کی سزا بھی دی جاتی ہے  لہذا عام لوگوں میں اور انبیاء میں فرق رکھا گیا ہے

عصمت انبیاء کا عقیدہ اماموں سے منسوب کرنے کے لئے ٢٥٠ سے ٣٥٠ ہجری کے درمیان اہل تشیع نے روایات بیان کین اس وقت تک ائمہ فوت ہو چکے تھے اور راویوں نے متضاد اقوال اماموں سے منسوب کر دیے- شیعوں کی دیکھا دیکھی اہل سنت کے متکلمین نے انبیاء کی معصومیت کا عقیدہ اختیار کر لیا

غلو کے اس سفر نے سن ٨٠ کی دہائی میں ایک نیا موڑ لیا جب نام نہاد امیر جماعت المسلمین مسعود احمد بی ایس سی نے یہ موقف  بنایا کہ قرآن کے تراجم میں غلطیاں ہیں اور اس کا پرچار شروع کیا – مسعود احمد نے اس پر عصمت رسول کے نام سے کتابچہ لکھا جس میں تقریری انداز میں معصوم عن الخطا کے عقیدے کے تحت قرآن میں تحریف کی لہذا اس سلسلے میں انہوں نے کچھ آیات پر بحث کی

اب ہم ان مخصوص آیات کو دیکھتے ہیں ان میں اہل تشیع اور اہل سنت کے تفسیری اقوال میں تضاد  پر غور کرتے ہیں اور پھر امیر المسلمین مسعود بی ایس سی کی آراء کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں

عبس و تولی کی شرح شیعوں میں

ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ یہ آیت عثكن  کے لئے ہے

سورة عبس مكية (بسم الله الرحمن الرحيم عبس وتولى أن جاء ه الاعمى) قال: نزلت في عثكن وابن أم مكتوم وكان ابن أم مكتوم مؤذنا لرسول الله صلى الله عليه وآله وكان اعمى، وجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وعنده اصحابه وعثكن عنده، فقدمه رسول الله صلى الله عليه وآله عليه فعبس وجهه وتولى عنه فانزل الله عبس وتولى يعني عثكن ان جاء ه الاعمى (وما يدريك لعله يزكى) أي يكون طاهرا ازكى (او يذكر) قال يذكره رسول الله صلى الله عليه وآله ثم خاطب عثكن فقال: (أما

سوره عبس مکی ہے … یہ عثكن اور ابن أم مكتوم کے لئے نازل ہوئی ہے – اور ابن ام مکتوم، رسول الله صلى الله عليه وآله کے ایک موذن تھے اور یہ نابینا تھے اور یہ رسول الله صلى الله عليه وآله کے پاس آئے اور ان کے اصحاب کے پاس اور عثكن وہاں تھا پس رسول الله صلى الله عليه وآله  نے اس کو آگے کیا تو اس نے منہ موڑا اور پلٹا پس الله تعالی نے آیات نازل کیں … یعنی عثكن نے کیا جب اس کے پاس نابینا آیا

کتاب مستدرك سفينة البحار از الشيخ علي   کے مطابق  عثكن: المراد بعثكن عثمان، كما قاله العلامة المجلسي – عثكن سے مراد عثمان ہے جیسا کہ علامہ مجلسی نے کہا ہے

عبس و تولی کی شرح اہل سنت میں

  فخر الدين الرازي اپنی تفسیر مفاتيح الغيب میں لکھتے ہیں

 اجمع المفسرون على ان الذي عبس وتولى هو الرسول صلى الله عليه وآله

فخر الدين الرازي نے کہا مفسرین کا اجماع ہے کہ عبس وتولى سے مراد رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں

یہی تفسیر الواحدي المتوفی ٤٦٨ ھ  نے تفسیر التَّفْسِيرُ البَسِيْط  میں کی ہے

عَبَسَ  يعني النبي -صلى الله عليه وسلم

صحیح ابن حبان میں ہے

 الْجُعْفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قالت أنزلت: {عَبَسَ وَتَوَلَّى} في بن أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى قَالَتْ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَقُولُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَرْشِدْنِي قَالَتْ وَعِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ عُظَمَاءِ الْمُشْرِكِينَ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرِضُ عَنْهُ وَيُقْبِلُ عَلَى الْآخَرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “يَا فُلَانُ أَتَرَى بِمَا أَقُولُ بأسا فيقول لا فنزلت: {عَبَسَ وَتَوَلَّى} أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ

 عَائِشَةَ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ عَبَسَ وَتَوَلَّى ، ابن ام مکتوم نابینا کے حوالے سے نازل ہوئی انہوں نے کہا کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا نبی الله مجھ کو ہدایت دیں اور رسول الله کے پاس اس وقت قریش کے سردار تھے پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے منہ موڑا اور دوسرے کو دیکھا اور کہا اے فلاں جو میں کہتا ہوں اس میں تم کوئی برائی پاتے ہو ؟ تو انہوں نے کہا نہیں – پس آیت نازل ہوئی

شعيب الأرنؤوط صحیح ابن حبان کی تعلیق میں کہتے ہیں

إسناده صحيح على شرط مسلم، رجاله ثقات رجال الشيخين غير عبد الله بن عمر الجعفي فهو من رجال مسلم.

اسکی اسناد صحیح ہیں امام مسلم کی شرط پر ہیں اور اس کے رجال ثقات ہیں بخاری و مسلم کے ہیں سوائے عبد الله بن عمر الجعفي  کے کہ وہ رجال صحیح مسلم میں سے ہیں

البانی نے بھی اس طرق کو صحیح قرار دیا ہے

البتہ امام حاکم نے مستدرک میں اس روایت کو کی سند سے بیان کر کے کہا ہے

فَقَدْ أَرْسَلَهُ جَمَاعَةٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ

اس کو ایک جماعت نے ہشام بن عروہ سے مرسل روایت کیا ہے

الذھبی نے اس پر کہا ہے على شرط البخاري ومسلم کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے

عبس و تولی کی شرح مسعود احمد کی نظر میں

لیکن مسعود احمد کہتے ہیں

اور  حدیث پر کہتے ہیں

 جبکہ یہ الفاظ ھو الصواب تلخیص مستدرک میں سرے سے اس روایت پر ہیں ہی نہیں

من ذنبك وما تأخر کی شرح شیعوں میں

سوره فتح کی آیت

إنا فتحنا لك فتحا مبينا ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر

هم نے تم کو واضح فتح دی تاکہ الله تمہارے اگلے و پچھلے گناہ معاف کرے

ابوجعفر محمّد بن یعقوب بن اسحاق رازی معروف به کُلِـینی (پیدائش ٢٤٩ ھ   – وفات ٣٢٩ ھ) کی کتاب الکافی کی روایات صریحا عصمت انبیاء کے عقیدے کا رد کرتی ہیں

الکافی باب الشکر ج ٢ ص ١٤٢ کی روایت ہے

حميد بن زياد، عن الحسن بن محمد بن سماعة، عن وهيب بن حفص، عن أبي بصير، عن أبي جعفر عليه السلام قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله عند عائشة ليلتها، فقالت: يا رسول الله لم تتعب نفسك وقد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وماتأخر؟ فقال: يا عائشة ألا أكون عبدا شكورا.

امام أبي جعفر عليه السلام کہتے ہیں کہ ایک رات رسول الله صلی الله علیہ و الہ عائشہ کے ساتھ تھے – انہوں نے کہا اے رسول الله اپ اتنی مشکل کیوں اٹھاتے ہیں اور الله نے اپ نے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں پس اپ صلی الله علیہ و الہ نے فرمآیا اے عائشہ کیا میں شکر گزار نہ بنوں

الکافی ج ٥ ص ٨٧ ح 8345 کی روایت ہے

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن علي بن أسباط، عن أبي إسحاق الخراساني، عن بعض رجاله قال: إن الله عزوجل أوحى إلى داود عليه السلام أني قد غفرت ذنبك وجعلت عار ذنبك على بنى أسرائيل فقال: كيف يا رب وأنت لا تظلم؟ قال: إنهم لم يعاجلوك بالنكرة

أبي إسحاق الخراساني نے بعض اصحاب سے روایت کیا کہ الله تعالی نے داود علیہ السلام پر الوحی کی کہ میں نے تمھارے گناہ بخش دیے

الکافی ج ٤ ص ٢٧٠  کی آدم علیہ السلام سے متعلق روایت میں  ہے

فقال له جبرئيل: إن الله عزوجل قد غفر ذنبك وقبل توبتك وأحل لك زوجتك

پس جبریل نے آدم علیہ السلام سے کہا الله نے اپ کے گناہ بخش دیے

معلوم ہوا کہ ٣٠٠ ہجری تک اہل تشیع میں  عصمت انبیاء کا عقیدہ متفقہ نہ تھا کلینی اور قمی کا اس پر اختلاف تھا –  تفسیر القمی المتوفی ٣٢٩ ھ میں  لکھا گیا

حدثنا محمد بن جعفر قال حدثنا محمد بن احمد عن محمد بن الحسين عن علي ابن النعمان عن علي بن أيوب عن عمر بن يزيد بياع السابري، قال: قلت لابي عبدالله عليه السلام قول الله في كتابه ” ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر ” قال: ما كان له من ذنب ولا هم بذنب ولكن الله حمله ذنوب شيعته ثم غفرها له

عمر بن يزيد بياع السابري نے امام ابو عبد الله سے کہا الله تعالی کا قول ہے  تو انہوں نے فرمایا ان سے  گناہ نہیں ہوتا نہ وہ گناہ گار ہوتے ہیں لیکن الله نے ان کے شیعوں کے گناہ لئے ہیں اور ان کو بخشا ہے

یہ قول امام جعفر سے منسوب ہے  جبکہ الکافی میں ان کے بیٹے  انبیاء کے گناہ کا ذکر کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے گناہ بخشے گئے

من ذنبك وما تأخر کی شرح اہل سنت  میں

اس آیت میں اہل لغت کا مفسرین کا کوئی اختلاف نہیں کہ یہاں ذنب کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے یعنی گناہ

صحیح ابن حبان کے مطابق

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي قَوْلِهِ: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ} [الفتح: 2]، قَالَ: [ص:93] نَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْجِعَهُ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَإِنَّ أَصْحَابَهُ قَدْ أَصَابَتْهُمُ الْكَآبَةُ وَالْحُزْنُ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  «أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آيَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» فَتَلَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَيَّنَ اللَّهُ لَكَ مَا يَفْعَلُ بِكَ فَمَاذَا يَفْعَلُ بِنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ بَعْدَهَا: {لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ} الآية [الفتح: 5].

انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر حدیبیہ سے واپس پر نازل ہوئی اور ان کے اصحاب حزن و تکلیف میں تھے پس رسول الله نے فرمایا کہ مجھ پر آیت نازل ہوئی جو دنیا اور اس میں جو کچھ سے اس سب سے بڑھ کر مجھ کو پسند ہے

کتاب کشف الباری اردو شرح صحیح البخاری ج ٢ از سلیم الله خان میں ہے

من ذنبك وما تأخر کی شرح احمد رضا خان بریلوی کی نظر میں

کنز الایمان از احمد رضا خان بریلوی میں سورہ فتح کی آیت کا ترجمہ تحریف ہے

http://lib.bazmeurdu.net/کنز-الایمان،-حصہ-دوم-۔۔۔-احمد-رضا-خان-بر/#48

عصمت انبیاء کے پردے میں  آیات میں تحریف کرنا بر صغیر میں  احمد رضا خان کے سر ہے

من ذنبك وما تأخر کی شرح مسعود احمد کی نظر میں

اپنی اس تحقیق میں مسعود احمد نے اہل تشیع کو خوب داد دی اور اہل سنت کے علماء کو دوسروں کہہ کر لتاڑا

مزید لکھا

چنانچہ مسعود بی ایس سی ترجمہ کرتے ہیں

یعنی اپنے مخصوص جامد سوچ کے ساتھ موصوف یہاں تک گئے کہ قرآن میں تحریف معنوی تک کر گئے اور اس کو اپنی تحقیق کی اپج قرار دیا موصوف نے ذنب کا ترجمہ الزامات کر دیا ہے جو ١٤٠٠ سو سال میں عربی لغت کا ایک شاندار اضافہ ہے اور اس مفھوم کو صرف انبیاء تک مخصوص کیوں کیا جہاں جہاں قرآن میں ذنب آئے اس کو الزام سے بدل دیا جائے تو کیا خوب رہے  صوفیوں کا ایک گروہ ایسا بھی گزرا ہے جو کہتا تھا کہ قرآن میں جہاں کافر ہو اس کو مومن پڑھو اور جہاں مومن ہو اس کو کافر پڑھو کو مطلب اور سمجھ میں آئے گا – موصوف بھی اسی ڈگر پر چلے اورعجیب و غریب ترجمہ  کر گئے

عصمت انبیاء کا عقیدہ  قرن اول میں نہ دوم میں نہ سوم میں کہیں نہیں ملتا اس کو ائمہ کی وفات کے بعد اہل تشیع کے غالی لوگوں نے گھڑا اور ان سے بحث میں بعض متکلمین نے اس کو محدود انداز میں  لیا اور یہاں تک کہ سن ٤٠٠ ہجری کے بعد اس کو قبولیت عامہ مل گئی

قرآن میں ہے
واذ قال ابراهيم لابيه آزر أتتخذ اصناما آلهة انى اريك وقومك في ضلال مبين

اس پر تفسیر قمی میں ہے
حدثني ابى عن صفوان عن ابن مسكان قال قال ابوعبدالله عليه السلام ان آزر ابا ابراهيم كان منجما لنمرود بن كنعان فقال له انى ارى في حساب النجوم ان هذا الزمان يحدث رجلا فينسخ هذا الدين ويدعو إلى دين آخر، فقال نمرود في أي بلاد يكون؟ قال في هذه البلاد، وكان منزل نمرود بكونى ربا (كوثي ريا خ ل)

ابن مسکان نے کہا امام ابو عبد الله علیہ السلام نے فرمایا ازر ابراہیم کے والد، نمرود کے ایک منجم تھے

یعنی ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي کے دور تک اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ازر باپ نہیں تھا
اس کی وجہ اہل تشیع کے عقیدہ میں ارتقاء ہے جو معصوم عن الخطا کے حوالے سے ہے کہ جو معصوم ہے اس کی نسل بھی معصوم ہوتی ہے اور یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ سن ٣٢٩  ہجری تک اہل تشیع اس عقیدہ میں ہم خیال نہیں تھے

کتاب حقائق الإيمان (أو حقيقة الإيمان والكفر). از زين الدين   العاملي الشهير بالشهيد الثاني  کے مطابق

فهل يعتبر في تحقق الإيمان أم يكفي اعتقاد إمامتهم ووجوب طاعتهم في الجملة؟ فيه الوجهان السابقان في النبوة. ويمكن ترجيح الاول، بأن الذي دل على ثبوت إمامتهم دل على جميع ما ذكرناه خصوصا العصمة، لثبوتها بالعقل والنقل.
و ليس بعيدا الاكتفاء بالاخير، على ما يظهر من حال (2) رواتهم ومعاصريهم من شيعتهم في أحاديثهم عليهم السّلام، فان كثيرا منهم ما كانوا يعتقدون عصمتهم لخفائها عليهم، بل كانوا يعتقدون أنهم علماء أبرار، يعرف ذلك من تتبع سيرهم وأحاديثهم وفي كتاب أبي عمرو الكشي (1) رحمه اللّه جملة مطلعة على ذلك، مع أن المعلوم من سيرتهم عليهم السّلام مع هؤلاء أنهم كانوا حاكمين بايمانهم بل عدالتهم.

کیا امامت پر اعتقاد اور ان کی فی جملہ اطاعت کرنا ایمان کے لئے کافی ہے یا تحقیق ایمان میں معتبر ہے ؟ تو اس میں دو رخ ہیں جو نبوت میں گزرے ہیں اور اس میں پہلے کی ترجیح کا امکان ہے کہ ان ائمہ کی امامت کا ثبوت ہی دلالت کرتا ہے کہ جو ہم نے ذکر کیا اس پر خصوصا عصمت پر اس پر عقلی و نقلی ثبوت ہیں اور اس میں دوسرے پر بھی بھروسہ کیا جا سکتا ہی جو حال احوال سے ہم پر ظاہر ہوا کہ ان ائمہ سے روایت کرنے والے اور ان کے ہم عصر لوگ جو ان کے شیعوں میں سے ہیں احادیث کی روایت کرنے میں تو ان میں اکثریت ان کی ہے جو ان کی عصمت کا عقیدہ نہیں رکھتے کہ ان پر یہ چھپا رہا  بلکہ یہ ان ائمہ کو نیک جاننے کا عقیدہ رکھتے  تھے – اس کو وہ جانتا ہے جو ان کی احادیث پر سے گزرتا ہے جو کتاب ابو عمرو الکشی میں ہے  کہ ائمہ علیہم السلام کی سیرتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی عدالت کا حکم کرتے ہیں ان کے ایمان کا حکم نہیں

یہ شیعہ عالم شهيد الثاني  کی گواہی ہے کہ ائمہ سے روایت کرنے والے  اکثر وہ ہیں جو عصمت انبیاء کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے

تفسیر قمی میں سوره  المومن کی تفسیر میں ہے

قال: حدثني أبي عن الحسن بن محبوب عن علي بن رياب عن ضريس الكناني عن أبي جعفر عليه السلام قال قلت له جعلت فداك ما حال الموحدين المقرين بنبوة محمد صلى الله عليه وآله من المسلمين المذنبين الذين يموتون وليس لهم إمام ولا يعرفون ولايتكم؟ فقال: اما هؤلاء فانهم في حفرهم لا يخرجون منها فمن كان له عمل صالح ولم يظهر منه عداوة فانه يخد له خدا إلى الجنة التي خلقها الله بالمغرب فيدخل عليه الروح في حفرته إلى يوم القيامة حتى يلقى الله فيحاسبه بحسناته وسيئاته فاما إلى الجنة واما إلى النار فهؤلاء الموقوفون لامر الله قال: وكذلك نفعل بالمستضعفين والبله والاطفال وأولاد المسلمين الذين لم يبلغوا الحلم، واما النصاب من أهل القبلة فانهم يخد لهم خدا إلى النار التي خلقها الله في المشرق فيدخل عليهم اللهب والشرر والدخان وفورة الحميم إلى يوم القيامة ثم بعد ذلك مصيرهم إلى الجحيم

ضريس الكناني نے امام ابی جعفر سے روایت کیا کہ میں نے پوچھا .. ان موحدوں کا کیا حال ہو گا جو نبوت محمدی کا اقرار کرتے ہوں مسلمانوں میں سے جو گناہ گار ہوں جو مر جائیں اور ان کا کوئی امام نہ ہو  اور نہ وہ اس کو پہچانتے ہوں کہ اس کی ولایت ہے ؟ پس ابو جعفر نے کہا  یہ سب (برزخ) گڑھے میں ہوں گے اس میں سے نکل نہ سکیں گے تو ان میں سے جس کا عمل اچھا ہو گا اور عدوات اہل بیت نہ ظاہر ہوئی ہو گی تو ان کو  جنت کی طرف لے جایا جائے گا جو الله نے مغرب کی طرف بنائی ہے  اس میں گڑھے میں ان کی روح قیامت تک رہے گی یہاں تک کہ الله سے ملاقات ہو تو ان کی نیکیوں کا اور گناھوں کا  حساب لے گا پھر یا تو جنت ہے یا جہنم ہے اور اگر جہنم ہوئی تو ان کا امر الله پر موقف ہے اور کہا اور ایسا ہی کمزوروں کے ساتھ ہو گا اور مصیبت زدہ اور بچے اور اولاد مسلمین کے ساتھ جو جوانی کو نہ  پہنچے ہوں اور جہاں تک ناصبی اہل قبلہ ہیں تو ان کو اگ میں ڈالا جائے گا جو الله نے مشرق میں خلق کی ہے جس میں اگ اور انگارے اور دھواں ہے اور گرم پانی کا چشمہ قیامت تک کے لئے پھر ان کو جحیم کی طرف لے جایا جائے گا

یعنی اہل سنت کے نیک لوگ جو ائمہ کو نہیں پہچانتے ہوں گے وہ بھی جنت میں جائیں گے معلوم ہوا کہ قمی کے دور تک ایمانیات میں عصمت انبیاء  و معصومین کے عقیدہ کا تو ذکر ہی نہیں تھا

قرآن میں جو عقیدہ پیش کیا گیا ہے اس کو قبول کرنا ہی صحیح ہے نہ کہ عقائد میں اضافہ کرنا اور وہ آراء لینا جن کی جڑیں قرآن میں نہ ہوں – انبیاء سے بشر ہونے کی بنا پر اجتہاد میں چند مقام پر خطا ہوئی ، ان کے مقام و مرتبہ کی بنا پر رب العزت نے اس کی فورا پکڑ کی اور بعد میں ان کو بخش بھی دیا یھاں تک کہ انبیاء علیھم السلام تمام گناہوں سے پاک اس دنیا سے رخصت ہوئے

ایک فلسفی کے مغالطے

ایک فلسفی کے سوالات

قرآن  و حدیث میں انسان کی موت، اس کی روح، جنت و جہنم یا برزخ میں روح  کا جانا سب بیان ہوا ہے اور اس پر دال قرآن کی آیت اور متعدد احادیث  ہیں –  اس حوالہ سے  مختلف فرقوں کی جانب سے  ہر روز نئی تشریحات سامنے اتی رہتی ہیں  – اس سلسلے میں ایک فلسفی  نے  ایک مومن  سے  کچھ  سوالات کیے  جن کے جواب راقم نے  بھیجے اور اب ان کو یہاں آپ سب  کی نظر کے لئے کتابی صورت لگایا گیا ہے

اللہ ہم سب کو  صحیح عقیدے پر قائم رکھے

امین

شب برات – جشن کی رات

سن ١٣٢ ہجری اسلامی تاریخ میں ایک اہمیت رکھتا ہے  یہ وہ سال ہے جب تمام بلاد اسلامیہ میں عوامی انداز میں بنو امیہ  کے خلاف خروج ہوتا ہے – مسلمان ہوں یا ان کے موالی و ابدال (آزاد کردہ غلام ہوں) ہوں یا مجوس ہوں یا شیعہ ہوں یا یہود ہوں سب مل کر بنو امیہ کا دھڑم تختہ کرتے ہیں

دمشق میں خوب قتل ہوتے ہیں یہاں تک کہ مسلمان  بنو ہاشم اور ان کا خراسانی لشکر مسجدوں میں بھی قتل کرتا ہے – بہت سے شام کی فضلیت کے قائل راوی جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اہل شام قیامت تک غالب رہیں گے یا شام میں مسلمانوں کا ایک گروہ ہمشیہ رہے گا جو حق پر ہو گا وغیرہ  وغیرہ، وائے سحر روایت ان کا بھی قتل ہوجاتا ہے

خوب قتل و غارت کے بعد بنو ہاشم  میں خانوادہ عباس بن عبد المطلب (رضی الله عنہ) کے حق میں عرش کا فیصلہ اتا ہے ان کو زمام خلافت مل جاتی ہے جس کے منتظر بنو ہاشم ، حسن رضی الله عنہ کی وفات سے تھے

  ابن الجوزی  کتاب  المنتظم  میں لکھتے ہیں  کہ  ابو العبّاس السفاح  نے   ١٣٢ ھ میں  منصب خلافت سنبھالا اور  خطبہ دیا

وكان موعوكاً فاشتد عليه الوعك، فجلس على المنبر وتكلم فقال: إنا والله ما خرجنا لنكثر لجيناً ولا عقياناً، ولا نحفر نهراً، وإنما أخرجتنا الأنفة من ابتزازهم لحقنا، ولقد كانت أموركم ترمضنا، لكم ذمة الله عز وجل، وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم وذمة العباس أن نحكم فيكم بما أنزل الله، ونعمل بكتاب الله، ونسير فيكم بسيرة رسول الله صلى الله عليه وسلم، واعلموا أن هذا الأمر فينا ليس بخارج منا حتى نسلمه إلى عيسى ابن مريم

اور وہ  بیمار تھے  پس  منبر پر بیٹھ گئے  اور کہا

بیشک اللہ نے…   العبّاس  کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ ہم پرالله نے جو نازل کیا ہے اس کے مطابق  حکم کریں اور  ہم الله کی کتاب پر عمل کریں اور ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی زندگی کے   مطابق چلیں   اور جان لو کہ خلافت ہمارے ساتھ رہے  گی    یہاں تک ہم یہ عیسیٰ ابن مریم  علیہ السلام   کو منتقل کریں-

اب ہاشمیہ شہر میں ( جو بغداد سے پہلے بنو ہاشم کا دار الخلافہ تھا ) اس میں جشن کا سماں ہوتا ہے – بنو عباس کا ہمدرد لشکر خراسان سے آیا جس نے خلیفہ  بنو ہاشم کی مدد کی تھی ( جیسا کہ روایات میں اتا ہے) لہذا اس کو خوش بھی رکھنا تھا – اس لشکر میں صرف مسلمان ہی نہیں مجوس بھی تھے جن کا مشہور خاندان برمکہ تھا جو عربی بولتے تھے اور آتشکدہ نوبہار کے متولی تھے  لہذا  نو زور  آ رہا تھا  اس کا جشن تو ماننا تھا – اوستا کلینڈر یا تقویم پارسیان  میں سال کا آغاز ورنل اقونوقص (الاعتدال الربيعي) سے شروع ہوتا ہے-  عباسی خلافت کا پہلا نو روز  سن ٧٥١ ع میں ١٧ مارچ میں آتا ہے

Vernal Equinox

http://www.timeanddate.com/calendar/seasons.html?year=750&n=751

Eqvinox

اسلامی کلینڈر میں یہ دن  شعبان ١٤ سن ١٣٣ ہجری   ہے لہذا  اسی روز  الاعتدال الربيعي ہوتا ہے

مملکت میں اس رات کی اہمیت کے پیش نظر   مسلمان رات میں عبادت کرتے ہیں اور اہل مجوس و یہود اس دن   کی وجہ سے چراغاں کرتے ہیں

یہ روایت ١٣ صدیوں سے آج تک چلی آئی ہے اور اس رات کو شب برات کہا جاتا ہے

اس رات کو مجوس نو روز کہتے ہیں کیوںکہ یہ نئے سال کا پہلا دن ہے  اور یہود پورم  کہتے  ہیں جس کا ذکر فارس کی غلامی میں لکھی جانے والی بائبل کی  کتاب استھار  میں ہے جس کے مطابق اس رات کو یہود کو ایک ظالم بادشاہ  ہامان سے نجات ملتی ہے

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے

شب برات

 

سرگزشت تصوف و سرية

سرگزشت تصوف و سرية

تصوف و سرية  داؤن لوڈ  کریں

تصوف ایک   وقت   تھا    جب اسکے    لٹریچر       میں   صرف زہد ہوتا   تھا – دنیا سے غیر ضروری بے زاری کا ذکر ہوتا     اور بس الله تک پہنچنے کا ذکر ہوتا –    پھر  اس میں  ارتقاء   ہوا    کہ  جو الله تک پہنچ گئے یعنی مدفون یا مقبور ان سے   لوگوں  کا  غیر معمولی لگاؤ ہوا – اس کے پیچھے بد نیتی نہیں تھی بس زہد تھا جس کی بنا پر ایسا کیا گیا –      قبروں پر جانا شریعت  میں ممنوع  عمل نہیں   بلکہ دنیا کی  بے ثباتی  یاد رکھنے کے لئے وہاں جانے کا حکم ہے-  زہاد نے     وقت     گزرنے   کے ساتھ ساتھ عباسی  دور خلافت   کے شروع میں     یہ تصور قائم کیا کہ مدفون  اولیاء   اللہ ان قبروں میں  ہی  زندہ ہیں ،  شہداء زندہ ہیں ، انبیاء زندہ ہیں  اور وہ  رزق  بھی  پا رہے ہیں-  اس کو ثابت  کرنے کے لئے قرانی آیات سے  استنباط کیا گیا    اور  احادیث  و روایتوں کو بھی بیان کیا گیا –   تصوف   اس صنف میں جو کتب    تالیف ہو رہی تھیں وہ نہایت غلط سلط روایات کا مجموعہ تھیں- لوگوں نے ان    روایات کو قبول کر لیا اور پھر صحیح    احادیث کے مفہوم  کو بھی اسی سانچے میں ڈھال   کر تشریح  کی گئی –   اس عمل میں زہد  تصوف میں بدل گیا –   متصوفین   چونکہ  علم  حدیث کے عالم نہیں تھے  افسوس وہ انہی ضعیف روایات کی عینک سے  قرآن و  صحیح   احادیث  کی تشریح کرنے لگے      جس سے وہ مفہوم نکلتا  جو قرانی عقائد کے خلاف ہوتا   –    لیکن چونکہ  سن   ٥٠٠ ہجری   تک   امت کی اکثریت  میں   پاپولر   مذھب   قبروں سے متصف ہونا ہی ہو گیا تھا تو اس کو جمہور کی سند پر  اللہ کی مرضی مان لیا گیا –

اعتقادی  مسائل   میں  متصوفین    نے  بہت سے مراحل    و  مدارج طے  کیے     ہیں –  ان میں انڈر  گراونڈ  تحریکوں  کی طرح    جہم بن  صفوان  کے  خیالات،  وحدت الوجود    کی شکل  میں ظاہر ہوئے –  ساتھ  ہی  فلسفہ   یونان بھی شامل  ہو ا –     نصرانی و یونانی    ہومواوسس   یا  ہمہ  اوست   بھی  آ یا  – مصری    غناسطیت   بھی اس میں نظر اتی ہے  –    ہمالیہ   یا سینٹرل  ایشیا   کے   راہب   بھی عرب   ، عراق و شام  پہنچ رہے تھے-  یمنی  ابن سبا   اور   شیعی       زہاد   بھی  اس مجمع    میں     حصہ  رسدی   کا کام کر رہے تھے –   دوسری طرف  روایت پسند محدثین   زہد پر کتب لکھ رہے تھے جس میں ہر قسم کا رطب و یابس  نقل ہو رہا تھا –    ان  تمام  افکار    کا تصوف پر اثر ہوا اور آج      تصوف میں بیک وقت  وحدت الوجود ، ہمہ  اوست ،   فنا و  بقا، حلول ،  چلہ کشی ،   سب موحود   ہے   اور   قبول کر لی  گئی ہے  –

اسلامی تصوف کی      تمام  شکلوں    و   جہتوں   پر بات  کرنا  ایک ہی نشست و کتاب   میں  ممکن نہیں  ہے   –     راقم   کی   کتاب مجمع  البحرین (مجمع البحرین)    ویب سائٹ   پر  پہلے سے  موجود ہے –     کتاب هذا   میں     ویب  سائٹ  اسلامک بلیف   پر      تصوف و سریت  سے متعلق  پیش کردہ   چند     مضامین کو   یکجا کیا گیا  ہے   اور      قارئین کی دلچسپی   کے لئے   کچھ چنیدہ  مباحث   کو  اکٹھا     کیا گیا ہے –

ابو شہر یار

 

ابن صیاد کا دل کا حال جاننا

اسلامی تاریخ میں اتا ہے کہ مدینہ میں دور نبوی میں ایک عورت نے بچے کو جنا جو پیدائشی کانا تھا (مسند احمد) – یہ بچہ مسلمانوں کے بچوں کے ساتھ کھیلتا تھا اور کسی حدیث میں نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو اس سے ملنے سے منع کر دیا ہو- ابن صیاد یا ابْنِ صَائِدٍ کے حوالے سے  مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب بچپن میں ہی اس کا امر مشتبہ ہوا اور اس نے اپنے اوپر القا ہونے کا دعوی بھی کر دیا – اس طرح دجال کی جو نشانیاں تھیں ان میں سے چند اس میں جمع ہونا شروع ہوئیں – اس کی والدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں اور عرض کی کہ آ کر اس کے بیٹے کا معائینہ کریں – اس لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابن صیاد کے گھر گئے اور اس سے سوال و جواب کیا – صحیح بخاری و مسلم  میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تو کیا دیکھتا ہے؟
ابن صیاد : میں سمندر پر عرش دیکھتا ہوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : وہ ابلیس کا عرش ہے
ابن صیاد : میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا اتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تیرا معامله مختلط (مشکوک ) ہو گیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : میں نے تیرے لئے کچھ چھپایا ہے
ابن صیاد : وہ الدخ، الدخ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ہٹ – تو اس پر قدرت نہیں رکھتا

نوٹ : صحیح بخاری کی کسی حدیث میں موجود نہیں کہ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان کا سوچا البتہ یہ بات بعض دیگر کتب حدیث میں ہے

شارحین کا اس الدخ (دھواں) پر جو کہنا ہے اس کی تلخیص صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے پیش کی ہے

قال النووي في شرح مسلم 18/49: الجمهور على أن المراد بالدخ هنا: الدخان، وأنها لغة فيه، وخالفهم الخطابي، فقال: لا معنى للدخان هنا، لأنه ليس مما يخبأ في كف أو كم كما قال، بل الدخ بيت موجود بين النخيل والبساتين، قال: إلا أن يكون معنى “خبأت”: أضمرت لك اسم الدخان وهي قوله تعالى: {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين} قال القاضي: قال الداودي: وقيا: كانت سورة الدخان مكتوبة في يده صلى الله عليه وسلم، وقيل: كتب الآية في يده.قال القاضي: وأصح الأقوال أنه لم يهتد من الآية التي أضمر النبي صلى الله عليه وسلم إلا لهذا اللفظ الناقص على عادة الكهان

نووی نے شرح مسلم میں کہا جمہور کہتے ہیں کہ ابن صیاد کی دخ سے مراد یہاں ہے الدخان ہے اور یہ لغت ہے لیکن خطابی نے مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ دخان یہاں مطلب نہیں ہے کیونکہ یہ وہ نہیں جس کو مٹھی میں چھپایا جا سکے بلکہ گھر میں دھواں موجود تھا جو کھجور وں اور باغ کے بیچ میں تھا (یعنی دھواں پھیلا ہوا تھا )– نووی نے کہا خبأت (چھپانے ) میں مضمر ہے کہ نام الدخان تھا اور یہ اللہ کا قول ہے {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين}- قاضی نے کہا الدوادی نے کہا سورہ الدخان اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر لکھی ہوئی تھی اور کہا گیا اپنے ہاتھ سے آیات لکھی تھیں – قاضی نے کہا ان اقوال میں صحیح یہ ہے کہ ابن صیاد کو ہدایت نہ ہوئی کہ اس آیت تک جاتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچی تھی سوائے کاہنوں کی طرح ایک لفظ ناقص کے

راقم کہتا ہے کہ یہ بات صحیح بخاری میں موجود نہیں کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان سوچی تھی – یہ راقم کے نزدیک امام معمر بن راشد کا ادراج ہے کیونکہ یہ روایت اعمش کی سند سے اور امام الزہری کے دیگر شاگردوں کی سند سے معلوم ہے – انہوں نے سورہ الدخان کا ذکر نہیں کیا ہے – اس لئے خطابی کا قول صحیح ہے ابن صیاد نے صرف اٹکل سے کام لیا دیکھا اس وقت دھواں پھیلا ہوا ہے تو فورا وہی بول دیا کہ شاید اسی چیز کا خیال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہوں – و اللہ اعلم

مسند البزار اور معجم کبیر از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَامِرٍ الْأَنْطَاكِيُّ، قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَابِقٍ، قَالَ: نا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ [ص:169] حَارِثَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ: «انْطَلِقْ» فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصْحَابُهُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلُوا بَيْنَ حَائِطَيْنِ فِي زُقَاقٍ طَوِيلٍ، فَلَمَّا انْتَهَوْا إِلَى الدَّارِ إِذَا امْرَأَةٌ قَاعِدَةٌ، وَإِذَا قِرْبَةٌ عَظِيمَةٌ مَلْأَى مَاءً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرَى قِرْبَةً وَلَا أَرَى حَامِلَهَا» فَأَشَارَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى قَطِيفَةٍ فِي ناحِيَةِ الدَّارِ، فَقَامُوا إِلَى الْقَطِيفَةِ، فَكَشَفُوهَا فَإِذَا تَحْتَهَا إِنْسَانٌ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَاهَ الْوَجْهُ» ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لِمَ تَفْحَشُ عَلَيَّ؟، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْئًا، فَأَخْبِرْنِي مَا هُوَ» ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَبَأَ لَهُ سُورَةَ الدُّخَانِ، فَقَالَ: «الدُّخُّ» ، فَقَالَ: اخْسَهْ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ “، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهَذَا الْحَدِيثُ قَدْ رَوَى بَعْضَهُ أَبُو الطُّفَيْلِ نَفْسُهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ
اس سند میں معمر نہیں ہے لیکن متن میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان سوچی
یہ سند ضعیف ہے – سند میں زياد بن الحسن بن فرات القزاز التميمى الكوفى منکر الحدیث ہے –

معجم الاوسط از طبرانی میں اسی سند سے ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عِيسَى التَّنُوخِيُّ قَالَ: نا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ الْفُرَاتِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: «انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى إِنْسَانٍ قَدْ رَأَيْنَا شَأْنَهُ» قَالَ: فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَمْشِي وَأَصْحَابُهُ مَعَهُ، حَتَّى دَخَلُوا حَائِطَيْنِ فِي زُقَاقٍ طَوِيلٍ، وَانْتَهَوْا إِلَى بَابٍ صَغِيرٍ، فِي أَقْصَى الزُّقَاقِ، فَدَخَلُوا إِلَى دَارٍ، فَلَمْ يَرَوْا فِي الدَّارِ أَحَدًا غَيْرَ امْرَأَةٍ قَاعِدَةٍ، وَإِذَا قِرْبَةٌ عَظِيمَةٌ مَلْأَى مَاءً، فَقَالُوا: نَرَى قِرْبَةً وَلَا نَرَى حَامِلَهَا، فَكَلَّمُوا الْمَرْأَةَ، فَأَشَارَتْ إِلَى قَطِيفَةٍ فِي نَاحِيَةِ الدَّارِ، فَقَالَتْ: انْظُرُوا مَا تَحْتَ الْقَطِيفَةِ فَكَشَفُوهَا، فَإِذَا تَحْتَهَا إِنْسَانٌ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَاهَ الْوَجْهُ» فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لِمَ تَفْحَشُ عَلَيَّ؟ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْأً، فَأَخْبِرْنِي مَا هُوَ» وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: «إِنِّي قَدْ خَبَّأْتُ لَهُ سُورَةَ الدُّخَانِ» فَقَالَ: سُورَةُ الدُّخَانِ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْسَأْ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ، ثُمَّ انْصَرَفَ»
اس متن میں ہے کہ ابن صیاد نے سورہ الدخان تک بولا – سند وہی مسند البزار والی ہے

معجم الاوسط میں ہے
حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: نا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الزِّمَّانِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ: نا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ قَالَ: ثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: لَأَنْ أَحْلِفُ عَشْرَةَ أَيْمَانٍ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ هُوَ الدَّجَّالُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ مَرَّةً أَنَّهُ لَيْسَ بِهِ، وَذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَنِي إِلَى أُمِّهِ، فَقَالَ: «سَلْهَا، كَمْ حَمَلَتْ؟» فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، فَقَالَ: «سَلْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَيْحَتُهُ حِينَ وَقَعَ؟» قَالَتْ: صَيْحَةَ الصَّبِيِّ ابْنِ شَهْرٍ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبَأً، فَمَا هُوَ؟» فَقَالَ: عَظْمُ شَاةٍ عَفْرَاءَ، فَجَعَلَ يُرِيدُ يَقُولُ: الدُّخَانُ فَجَعَلَ يَقُولُ: الدُّخَ الدُّخَ، فَقَالَ: «اخْسَأْ، فَإِنَّكَ لَنْ تَسْبِقَ الْقَدَرَ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْحَارِثِ إِلَّا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں نے ایک چیز چھپائی ہے – ابن صیاد بولا بھیڑ کی سب سے بڑی ہڈی
پس وہ کہنا چاہ رہا تھا الدخان لیکن منہ سے نکلا الدخ – پس نبی نے فرمایا ہٹ پرے تو اس پر قادر نہیں ہے –
سندا اس میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ اور الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ بہت مضبوط نہیں ہیں

لب لباب ہے کہ ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں موجود سورہ الدخان کے الفاظ میں سے الدخ تک پہنچ گیا منکر روایت ہے – یہ بات صرف معمر بن راشد  کے تفرد کے ساتھ معلوم ہے – دل کے حال کا علم صرف اللہ کو ہے

واللہ علیم بذات الصدور

ابن صیاد کی شادی بھی ہوئی اور اولاد بھی کسی روایت میں نہیں کہ اس کو دجال سمجھتے ہوئے مسلمانوں نے اس کو بیٹی دینے سے انکار کیا بلکہ اس کی اولاد موطا امام مالک میں راوی ہے – عمارة ابن عبد الله ابن صياد اس کے بیٹے ہیں اور مدینہ کے فقہا میں سے ہیں – الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر کے مطابق وكان من خيار المسلمين من أصحاب سعيد بن المسيّب
ابن صیاد کے بیٹے اچھے مسلمانوں میں سے تھے سعید بن المسیب کے ساتھیوں میں سے – تاریخ زبیر بن بکار کے مطابق عمارة ابن عبد الله ابن صياد خلیفہ الولید بن عبد الملک کے دور تک زندہ تھے یعنی ابن صیاد پر جو بھی شک ہو وہ صرف اس تک محدود تھا
طبقات ابن سعد کے مطابق وغزا مع المسلمين ابن صیاد نے مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں حصہ بھی لیا اگر تمام اصحاب رسول اس کو دجال ہی سمجھتے تو بنو امیہ اس کو جہاد میں شامل ہی نہ کرتے

سامری کا مذھب ٢

 قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ سامری دجال نے قوم موسی کو گمراہ کیا ایک بت ایجاد کیا جس میں آواز بھی  آتی تھی –  جب موسی علیہ  السلام نے اس پر سوال کیا تو سامری بولا   (سورہ طہ ٩٦) –

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي

میں نے وہ چیز دیکھی تھی جو دوسروں نے نہ دیکھی پھر میں نے رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی مٹی میں لے کر ڈال دی

وہ علماء جو استدراج کے قائل ہیں انہوں نے اس کو نقش قدم   جبریل/موسی    یا جبریل کے گھوڑے  کے   قدم    کی مٹی  کی برکت قرار دیا ہے  – دوسری طرف   وہ علماء  جو   سامری   کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے انہوں نے اس کو محض ایک جھانسہ  قرار دیا ہے اور سامری کی دھوکہ بازی   والی تقریر   اور آواز کا بچھڑے  میں پیدا ہونا  صرف    کوئی   شعبدہ بازی

سامری کا مدعا تھا کہ اس کے عمل  کو کوئی  معجزہ سمجھا جائے کہ اس نے نقش قدم کی مٹی سے  بولنے والا پتلا  خلق کر دیا –  یہاں رسول سے مراد بعض نے جبریل علیہ السلام کو لیا ہے کہ فرشتہ کی برکت سے ایسا ممکن ہوا کہ بچھڑہ بولنے لگا اور بعض نے اس کو موسی علیہ السلام کے قدم کی برکت قرار دیا ہے – اور بعض نے جبریل کے گھوڑے  کا ذکر کیا ہے –

قتادہ بصری کا قول ہے کہ جبریل کے گھوڑے کی برکت سے بچھڑہ بولنے لگا تفسیر طبری میں ہے

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة (فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ) قال: كان الله وقَّت لموسى ثلاثين ليلة ثم أتمها بعشر، فلما مضت الثلاثون قال عدوّ الله السامري: إنما أصابكم الذي أصابكم عقوبة بالحلي الذي كان معكم، فهلموا وكانت حليا تعيروها (1) من آل فرعون، فساروا وهي معهم، فقذفوها إليه، فصوّرها صورة بقرة، وكان قد صرّ في عمامته أو في ثوبه قبضة من أثر فرس جبرائيل، فقذفها مع الحليّ والصورة (فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ) فجعل يخور خوار البقر، فقال (هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى) .

حدثنا الحسن، قال: أخبرنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا معمر، عن قتادة، قال: لما استبطأ موسى قومه قال لهم السامريّ: إنما احتبس عليكم لأجل ما عندكم من الحليّ، وكانوا استعاروا حليا من آل فرعون فجمعوه فأعطوه السامريّ فصاغ منه عجلا ثم أخذ القبضة التي قبض من أثر الفرس، فرس الملك، فنبذها في جوفه، فإذا هو عجل جسد له خوار، قالوا: هذا إلهكم وإله موسى، ولكن موسى نسي ربه عندكم.

حدثني أحمد بن يوسف، قال: ثنا القاسم، قال: ثنا هشيم، عن عباد، عن قَتادة مثل ذلك بالصاد بمعنى: أخذت بأصابعي من تراب أثر فرس الرسول

یہ   قتادہ    مدلس کے اقوال  ہیں اور یہ    اس کو کس سے معلوم ہوا خبر نہیں ہے کہ جبریل   کے گھوڑے  کی برکت سے ایسا ہوا

ابن عباس   رضی اللہ عنہ  سے بھی منسوب ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال: ثني محمد بن إسحاق، عن حكيم بن جبير، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: لما قذفت بنو إسرائيل ما كان معهم من زينة آل فرعون في النار، وتكسرت، ورأى السامري أثر فرس جبرائيل عليه السلام، فأخذ ترابا من أثر حافره، ثم أقبل إلى النار فقذفه فيها، وقال: كن عجلا جسدا له خوار، فكان للبلاء والفتنة.

اس کی سند میں ابن اسحاق مدلس ہے

تفسیر طبری میں  یہ قول  مجاہد کا بھی ہے کہ جبریل کے گھوڑے  کے قدم سے ایسا ہوا

حدثني محمد بن عمرو، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا عيسى; وحدثني الحارث قال: ثنا الحسن، قال: ثنا ورقاء جميعا، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، في قول الله: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا) قال: من تحت حافر فرس جبرائيل، نبذه السامريّ على حلية بني إسرائيل، فانسبك عجلا جسدا له خوار، حفيف الريح فيه فهو خواره، والعجل: ولد البقرة

اس کی سند میں      انقطاع ہے –  جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے

وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم

 أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد وإنما أخذه من القاسم بن أبي برة

امام ابن معین نے کہا کہ یحیی القطان نے دعوی کیا کہ ابن أبي نجيح نے تفسیر مجاہد سے نہیں سنی

مستدرک حاکم میں ہے

حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْحَارِثِ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَ إِسْرَائِيلُ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو السَّلُولِيُّ، وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” لَمَّا تَعَجَّلَ مُوسَى إِلَى رَبِّهِ عَمَدَ السَّامِرِيُّ فَجَمَعَ مَا قَدَرَ عَلَيْهِ مِنَ الْحُلِيِّ، حُلِيِّ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَضَرَبَهُ عِجْلًا، ثُمَّ أَلْقَى الْقَبْضَةَ فِي جَوْفِهِ، فَإِذَا هُوَ عِجْلٌ لَهُ خُوَارٌ فَقَالَ لَهُمُ السَّامِرِيُّ: هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَقَالَ لَهُمْ هَارُونُ: يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدُكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا. فَلَمَّا أَنْ رَجَعَ مُوسَى إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَقَدْ أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ أَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ فَقَالَ لَهُ هَارُونُ مَا قَالَ فَقَالَ مُوسَى لِلسَّامِرِيِّ مَا خَطْبُكَ؟ قَالَ السَّامِرِيُّ: قَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي. قَالَ: فَعَمَدَ مُوسَى إِلَى الْعِجْلِ فَوَضَعَ عَلَيْهِ الْمَبَارِدَ فَبَرَدَهُ بِهَا وَهُوَ عَلَى شِفِّ نَهَرٍ، فَمَا شَرِبَ أَحَدٌ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ مِمَّنْ كَانَ يَعْبُدُ ذَلِكَ الْعِجْلَ إِلَّا اصْفَرَّ وَجْهُهُ مِثْلَ الذَّهَبِ، فَقَالُوا لِمُوسَى: مَا تَوْبَتُنَا؟ قَالَ يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا. فَأَخَذُوا السَّكَاكِينَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَقْتُلُ أَبَاهُ وَأَخَاهُ وَلَا يُبَالِي مَنْ قَتَلَ حَتَّى قُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى مُرْهُمْ فَلْيَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لِمَنْ قُتِلَ وَتُبْتُ عَلَى مَنْ بَقِيَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

3434 – على شرط البخاري ومسلم

علی  نے کہا  سامری نے مورت بناتے وقت اس کے پیٹ میں مٹھی بھر پھینکا تو بیل بولنے لگا

سند میں  أَبُو إِسْحَاقَ مدلس   نے   عَنْ سے روایت کیا ہے  یہ روایت تدلیس کے احتمال کی وجہ سے صحیح نہیں ہے

اس طرح یہ تمام اقوال لائق التفات نہیں  ہیں –

مستدرک حاکم میں ہے کہ بچھڑے میں آواز ہارون علیہ السلام کی دعا سے پیدا ہوئی

حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ الْجُمَحِيُّ، بِمَكَّةَ فِي دَارِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنْبَأَ سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَى هَارُونُ عَلَى السَّامِرِيِّ وَهُوَ يَصْنَعُ الْعِجْلَ، فَقَالَ لَهُ: مَا تَصْنَعُ؟ قَالَ: مَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَعْطِهِ مَا سَأَلَكَ فِي نَفْسِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ يَخُورَ فَخَارَ، وَكَانَ إِذَا سَجَدَ خَارَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ خَارَ، وَذَلِكَ بِدَعْوَةِ هَارُونَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

3251 – على شرط مسلم

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہارون  ، سامری کے پاس پہنچے تو وہ   بچھڑہ   بنا رہا تھا – پوچھا یہ کیا ہے ؟ سامری بولا  یہ وہ  ہے جو نہ نفع دے گا نہ نقصان – ہارون   علیہ السلام نے دعا کی : اے اللہ  اس کو وہ دے جو اس نے خود مانگا  ہے پس جب جا نے لگے تو کہا : اے  اللہ    میں  سوال کرتا ہوں کہ    یہ   بیل کی آواز   نکالے  جب سجدہ کرے  جب سر اٹھائے  –   اور یہ سب  ہارون کی دعا سے ہوا

راقم  کہتا ہے اس کی سند  میں       سماك بن حرب  ضعیف ہے –  احمد کے نزدیک  مضطرب الحدیث  ہے

سنن الکبری  نسائی،  مسند ابو یعلی ،   میں ایک طویل روایت میں ہے جو ابن عباس سے مروی ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَصْبَغُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أني سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ عَنْ قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: {وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا} [طه: 40]، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْفُتُونِ مَا هُوَ؟ قَالَ: اسْتَأْنِفِ النَّهَارَ يَا ابْنَ جُبَيْرٍ، فَإِنَّ لَهَا حَدِيثًا طَوِيلًا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ لِأَنْتَجِزَ مِنْهُ مَا وَعَدَنِي مِنْ حَدِيثِ الْفُتُونِ، ……….. وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَاحْتَمَلَ مَعَ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ حِينَ احْتَمَلُوا،فَقُضِيَ لَهُ أَنْ رَأَى أَثَرًا فَأَخَذَ مِنْهُ قَبْضَةً، فَمَرَّ بِهَارُونَ، فَقَالَ لَهُ هَارُونُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا سَامِرِيِّ، أَلَا تُلْقِي مَا فِي يَدِكَ؟ وَهُوَ قَابِضٌ عَلَيْهِ لَا يَرَاهُ أَحَدٌ طُوَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَذِهِ قَبْضَةٌ مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ الَّذِي جَاوَزَ بِكَمُ الْبَحْرَ، فَلَا أُلْقِيهَا بِشَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَدْعُوَ اللهَ إِذَا أَلْقِيْتُ أَنْ يَكُونَ مَا أُرِيدُ، فَأَلْقَاهَا وَدَعَا لَهُ هَارُونُ، فَقَالَ: أُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عِجْلًا، فَاجْتَمَعَ مَا كَانَ فِي الْحُفْرَةِ مِنْ مَتَاعٍ أَوْ حِلْيَةٍ أَوْ نُحَاسٍ أَوْ حَدِيدٍ، فَصَارَ عِجْلًا أَجْوَفَ لَيْسَ فِيهِ رَوْحٌ لَهُ خُوَارٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا وَاللهِ، مَا كَانَ لَهُ صَوْتٌ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَتِ الرِّيحُ تَدْخُلُ مِنْ دُبُرِهِ وَتَخْرُجُ مِنْ فِيهِ، فَكَانَ ذَلِكَ الصَّوْتُ مِنْ ذَلِكَ

ابن عباس  رضی اللہ عنہ نے کہا : سامری ان میں سے تھا جو بنی اسرائیل کے لئے  گائے کے پجاری تھے مجاور تھا اور یہ خود بنی اسرائیل  کا نہ تھا پس یہ موسی اور بنی اسرائیل کے ساتھ   (خروج مصر   کے وقت )  ہو لیا – پس یہ لکھا تھا کہ وہ نقش قدم کو دیکھے اور سامری نے اس میں سے مٹی لی اور ہارون کا اس کے پاس گذر ہوا تو انہوں نے کہا : اے سامری یہ ہاتھ میں کیا ہے پھینکو ؟ وہ اس کو مٹھی میں پکڑے تھا جس کو کوئی دیکھ نہ سکتا تھا – سامری نے کہا    اس  مٹھی میں نقش رسول ہے جب سمندر پار کیا   تھا  تب  سے میں نے  اس کو نہیں پھینکا ہے  – اس کو میں اللہ سے دعا کر کے پھینکوں گا کہ وہ ہو جائے جو میں چاہ رہا ہوں –  پس  سامری  نے پھینکا اور ہارون نے  اس   کو  دعا دی – (سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ نے پوچھا) سامری نے کہا میں چاہتا ہوں تو  بچھڑہ  کی شکل لے  پس اس  نے جمع کیا جو گڑھے میں (مٹی ) تھی   زیور، دھواں، لوہا  اور بنایا اس سے بچھڑہ جس کے اندر روح نہیں تھی لیکن آواز تھی ؟ ابن عبّاس نے کہا نہیں اللہ کی قسم اس میں آواز بھی نہیں تھی بلکہ ہوا اس کی دبر سے اندر جاتی اور نکلتی تو آواز یہ تھی

سند میں  أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة-  دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ  مختلف فیہ راوی ہے –    اس   روایت میں کئی اقوال کو ملا دیا گیا ہے مثلا   یہ مانا گیا ہے کہ سامری نے واقعی  موسی   علیہ السلام کے  قدم کی مٹی لی – یہ بھی مانا گیا ہے کہ ہارون     علیہ السلام نے دعا دی اور یہ بھی مانا گیا ہے کہ  پتلے میں  آواز کا پیدا ہونا  صرف شعبدہ تھا- اس طرح اس میں تمام اقوال کو جمع کر دیا گیا ہے – البتہ اس راوی  أصبغ بن زيد   کا معلوم ہے کہ یہ کاتب  تھا اور یہ متن   کسی اور سند سے معلوم نہیں ہے لہذا یہ روایت بھی لائق التفات نہیں ہے

قال ابن كثير: وهو موقوف من كلام ابن عباس وليس فيه مرفوع إلا قليل منه، وكأنه تلقاه ابن عباس مما أبيح نقله من الإسرائيليات عن كعب الأحبار أو غيره، وسمعت شيخنا الحافظ أبا الحجاج المزي يقول ذلك أيضاً” التفسير3/ 153

 ابن کثیر نے کہا  یہ کلام ابن عباس پر موقوف ہے اور  اس کا کچھ حصہ مرفوع بھی ہے  مگر بہت تھوڑا –  اور ابن عباس نے  گویا  کہ روایت میں  کعب   الاحبار کی  الإسرائيليات  کو نقل کر دیا ہے اور دوسروں کی  اور ہمارے شیخ  المزی      بھی ایسا ہی کہتے ہیں
بحوالہ أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري  از  نبيل بن منصور  البصارة الكويتي

روایات میں ہارون علیہ السلام کا ذکر اسرائیلیات کا اثر ہے کیونکہ یہ بنی اسرائیل کا دعوی ہے کہ بچھڑے یا عجل  کا بت ہارون نے تراشا  – توریت خروج باب ٣٢ میں اس کا   ذکر ہے

 شیعوں کی تفسیر قمی  ،  تفسیر  طبرسی  وغیرہ میں بھی  اس کو قدم    رمکہ   جبریل   یعنی جبریل کے   گھوڑے   کے پیر کی مٹی کی  برکت قرار دیا گیا ہے  جو سامری  نے سمندر پھٹنے   پر     جو   رستہ بنا اس میں سے لی تھی    (من تحت حافر رمكه جبرئيل في البحر فنبذتها يعني أمسكتها فنبذتها في جوف العجل) –  اس قول کی سند   شیعہ  تفسیروں میں موجود  نہیں ہے

راقم کہتا ہے سامری کا یہ قول محض جھانسا دینا ہے – وہ موسی علیہ السلام کو ذہنی رشوت دے رہا ہے کہ گویا ابھی قوم کے سامنے موسی تم میری بات کو اس طرح قبول کر لو     کہ تمہاری برکت سے ایسا ہوا     اور ہم دونوں آپس میں مل جاتے ہیں-موسی علیہ السلام نے اس کو فورا بد دعا دے دی-   حبل اللہ  شمارہ     ٢١        (مدیر  اعظم   خان  ، نائب مدیر  انیس الدین ) میں اسی     کو  سامری   کی نفسیاتی   چا ل    قرار دیا گیا ہے نہ کہ جبریل  علیہ السلام یا موسی یا ہارون علیہما  السلام کا کوئی معجزہ    –

راقم  کہتا ہے   ایک جم غفیر نے  سامری  کے عمل کو موسی  علیہ السلام  یا    جبریل علیہ السلام کے گھوڑے    کے سم کی برکت قرار دیا ہے اور اس کو تابعین و اصحاب رسول کا قول کہہ  کر قبول کیا ہے – اسی گروہ  کے علماء   کا کہنا ہے کہ  کفار کو معجزہ   یا استدراج  من جانب اللہ ملتا ہے –  لیکن جیسا ہم نے دیکھا  یہ نتیجہ جن  روایات کی بنیاد پر   اخذ کیا گیا ہے وہ سندا صحیح نہیں ہیں  اور متن قران میں   بھی  کسی    دھوکہ باز  کے جملے ذکر   ہونے کا  مطلب یہ نہیں ہے وہ حقیقت  حال  ہیں  کیونکہ    جو  دھوکہ باز ہو وہ   دھوکہ دھی  کے لئے کچھ بھی بول سکتا ہے

روح کے بدلتے پیکر

 الله تعالی نے قرآن میں بتایا ہے وہ انسانی جسم کو واپس روزمحشر تخلیق کرے گا اس میں انسان کا جسم واپس بنا دیا جائے گا – احادیث کے مطابق اس تخلیق نو میں انسانی جسم میں تبدیلی بھی ہو گی اس کی جسامت دنیا سے الگ ہو گی – جنتیوں کے قد ساٹھ ہاتھ تک ہوں گے (صحیح بخاری) – جبکہ جہنمیوں کے جسم اس قدر بڑے ہوں گے کہ ان کے شانوں کے درمیان کی مسافت تین دن کی ہو گی اور کھال احد پہاڑ جتنی موٹی ہو گی (صحیح مسلم) – یعنی جھنمی ، جنتیوں سے قد کاٹھ میں بڑے ہوں گے

یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ  روح اس جسد عنصری کو چھوڑ کر روز محشر ایک نئے جسم میں جائے گی جو اس جسد عنصری سے بڑا ہے – روح اس بڑے جسم میں بھی سما جائے گی اور اس جسم کو اپنا لے گی

اشاعرہ کے امام فخر الدین رازی کتاب نہایہ العقول میں لکھتے ہیں

نهايه العقول ١٤٤ ج٤

                                                                                                                                       اور جان لو کہ تمام مسلمان …. اثبات کرتے ہیں نفس ناطقہ (روح) کا اور دعوی کرتے ہیں کہ یہی حقیقی انسان ہے جو مکلف ہے اطاعت گزار ہے گناہ گار ہے اور رجوع کرنے والا اور انجام پر پہنچنے والا ہے اور بدن اس کے لئے ایک آلہ کے طور چلتا ہے اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ نفس ناطقہ باقی رہتا ہے بدن کے خراب ہو جائے پر بھی پس جب الله کا ارادہ مخلوق  کا حشر کرنے کا ہو گا وہ ان  سب  ارواح کے لئے ایک بدن بنائے گا اور ان میں ان کو لوٹائے گا

اور یہ مذھب ہے جمہور نصاری کا اور تناسخ والوں کا اور کثیر علمائے اسلام کا مثلا ابی حسین حلیمی اور امام غزالی اور ابی قاسم الراغب اور ابی زید الدبوسی اور قدماء متکلمین کا اور ابن الھیصم کا اور کرامیہ کا اور کثیر صوفیاء کا اور روافض کے جمہور کا

خبر دار اہل اسلام اور تناسخیہ کے قول میں فرق ہے دو طرح سے

اول  : بے شک مسلمان کہتے ہیں کہ الله تعالی  ارواح کو ابدان میں لوٹائے گا جو اس عالم (عنصری) کے نہیں بلکہ دار آخرت کے ہیں اور تناسخ والے کہتے ہیں کہ الله تعالی ان ارواح کو اسی عالم کے اجسام میں لوٹائے گا اور وہ دار آخرت کے منکر ہیں اور جنت اور جہنم  کا بھی انکار کرتے ہیں

دوم : بے شک مسلمان ان ارواح  کے لئے حدوث کا اثبات کرتے ہیں اور تناسخ والے ان کی قدامت کا اثبات کرتے ہیں

اور بے شک ہم نے اس فرق کو واضح کر دیا ہے

امام فخر الدین رازی واضح کہہ رہے ہیں کہ حشر پر جو اجسام ہوں گے وہ اس عالم عنصری سے الگ ہوں گے اور یہ بات احادیث کے مطابق ہے

اس سب میں الجھاؤ فرقہ غیر مقلدین کرتے ہیں ایک طرف تو احادیث کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں دوسری طرف ان کے انکار پر منبی فلسفے ایسے پیش کرتے ہیں کہ گویا اس میں کوئی اور رائے ہے ہی نہیں

  احادیث کے مطابق روح جسد عنصری کو چھوڑنے کے بعد بھی روز محشر تک ایک نئے جسم میں رہتی ہے جو عالم بالا یا برزخ ہے اس میں شہداء کو پرندوں جیسے اجسام ملتے ہیں جن کے پیٹوں میں ان کی روحیں رہتی ہیں – غیر مقلدین نے عقیدہ اختیار کیا ہے کہ شہداء کی روحیں ان  پرندوں کو بطور جہاز استمعال کرتی ہیں ان پیٹوں سے نکلتی ہیں اور جب بھی کہیں جانا ہو اس پرندوں کو بطور سواری استمعال کرتی ہیں – اس کے برعکس احادیث میں روحوں کا ان جسموں کو چھوڑنا بیان ہی نہیں ہوا بلکہ روحیں جنت کے پھلوں کی لذت اسی جسم سے حاصل کرتی ہیں

ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

arshad-14

مزید لکھتے ہیں

arshad-59

ارشد کمال نے ترجمہ میں ڈنڈی ماری ہے

ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَمَعْلُوم أَنَّهَا إِذا كَانَت فِي جَوف طير صدق عَلَيْهَا أَنَّهَا طير

اور معلوم ہے جب یہ (روح) پرندے کے پیٹ میں ہے تو اس پر سچ ہوا کہ یہ پرندہ ہی ہے

ابن قیم کتاب الروح میں کہتے ہیں سبز پرندے میں روح کا جانا تناسخ نہیں ہے

 أَن تَسْمِيَة مَا دلّت عَلَيْهِ الصَّرِيحَة من جعل أَرْوَاح الشُّهَدَاء فِي أَجْوَاف طير خضر تناسخا لَا يبطل هَذَا الْمَعْنى وَإِنَّمَا التناسخ الْبَاطِل مَا تَقوله أَعدَاء الرُّسُل من الْمَلَاحِدَة وَغَيرهم الَّذين يُنكرُونَ الْمعَاد أَن الْأَرْوَاح تصير بعد مُفَارقَة الْأَبدَان إِلَى أَجنَاس الْحَيَوَان والحشرات والطيور الَّتِي تناسبها وتشاكلها فَإِذا فَارَقت هَذِه الْأَبدَان انْتَقَلت إِلَى أبدان تِلْكَ الْحَيَوَانَات فتنعم فِيهَا أَو تعذب ثمَّ تفارقها وَتحل فِي أبدان أخر تناسب أَعمالهَا وأخلاقها وَهَكَذَا أبدا فَهَذَا معادها عِنْدهم وَنَعِيمهَا وعذابها لَا معاد لَهَا عِنْدهم غير ذَلِك فَهَذَا هُوَ التناسخ الْبَاطِل الْمُخَالف لما اتّفقت عَلَيْهِ الرُّسُل والأنبياء من أَوَّلهمْ إِلَى آخِرهم وَهُوَ كفر بِاللَّه وَالْيَوْم الآخر

اور یہ جو(طیر) نام دیا گیا ہے یہ صاف دلالت کرتا ہے کہ شہداء کی ارواح کا سبز پرندوں کے پیٹوں میں تناسخ ہوا اس سے مفھوم باطل نہیں ہوتا – اور باطل تناسخ تو وہ ہے جو رسولوں کے دشمنوں اور ملحدوں اور دوسرے معاد کے انکآریوں نے بولا ہے کہ روحیں چلی جاتی ہیں بدن سے الگ ہونے پر حیوانات میں حشرات میں پرندوں میں اپنے تناسب کے مطابق اور شکلوں کے موافق پس جب وہ بدن سے نکلتی ہیں تو ان جانوروں کے جسم میں نعمت پاتی ہیں اور  یہ باطل تناسخ ہے

ابن قیم نے اس کا اقرار کیا ہے کہ سبز پرندے میں شہید کی روح کا جانا تناسخ نہیں ہے

ابن القیم الجوزیہ کا یہ شعر بڑا برموقع ہے  
العلم قال الله، قال رسوله‘ قال الصحابة، ليس بالتمويه
علم وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور صحابہ کرام کا فرمان ہو، ملمہ سازی علم نہیں

ایک اہل حدیث عالم  حافظ محمد یونس اثری صاحب، ماہنامہ دعوت اہل حدیث حیدر آباد، مارچ ٢٠١٦ میں  لکھتے ہیں

sbz-parinday

حافظ صاحب کا ترجمہ بالکل صحیح ہے روحیں سنز پرندوں کے اندر ہیں نہ کہ ان پر سوار ہیں  –

عالم آخرت – ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العریفی – دارالسلام کی کتاب میں بھی ترجمہ دیکھتے ہیں

محب الله شاہ رشدی فتاویٰ راشدیہ میں جواب دیتے ہیں

شہیدوں کو سبز پرندوں کی صورت جنت میں رکھا گیا ہے

اقبال کیلانی کتاب قبر کا بیان میں اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہیں

ان کے برعکس

ارشد کمال یہ  لکھتے ہیں

arshad-96-a

عبد الرحمان  عاجز غیر مقلد الم   کتاب  عالم  البرزخ میں  لکھتے ہیں

صحیح عقیدہ یہی ہے کہ نہ صرف قبض موت کے بعد بلکہ محشر کے بعد بھی جنت و جہنم میں برزخ  میں انسانی جسم ان اجزاء پر مشتمل نہیں ہو گا جو صرف جسد عنصری ہے

یاد رہے کہ

کتاب  القائد إلى تصحيح العقائد میں عالم   عبد الرحمن بن يحيى بن علي بن محمد المعلمي العتمي اليماني (المتوفى: 1386هـ) لکھتے ہیں

alqaid-moalimi

بلاشبہ بہت سے نصوص ميں آيا ہے جو دلالت کرتا ہے کہ اہل جنت و جہنم کے جسم کے بعض حصے يا تمام   ان پر مشتمل نہيں ہوں گے جس پر وہ دنيا ميں تھے پس الصحيحين ميں قصہ ہے ان کا جن کو جہنم سے نکالا جائے گا پس وہ نکليں گے کہ  جل بھن گئے ہوں گے ان  کو نہر حيات ميں انڈيلا جائے گا پس يہ اگيں گے جيسے ايک بيج اگتا ہے  اور بہت سي احاديث ميں آيا ہے کہ اہل جنت کے قد 60 ہاتھ ہوں گے صورت آدم پر  … اور الله تبارک و تعالي کہتے ہيں اہل النار کے لئے جب بھي ان کي کھاليں جليں گي ہم ان کو دوسري سے بدلتے رہيں گے کہ عذاب کا مزہ ليں اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا کافر کے شانوں کے درميان تين دن کي مسافت ہو گي جہنم ميں – اور الله تعالي نے فرمايا جو الله کي راہ ميں قتل ہوئے ہيں ان کو مردہ گمان مت کرو بلکہ وہ زندہ ہيں اپنے رب کے پاس زرق پاتے ہيں ال عمران اور صحيح مسلم ميں ابن مسعود کي حديث ہے کہ ان سے اس آيت  پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا ہم نے بھي رسول الله صلي الله عليہ وسلم سے اس پر سوال کيا تھا پس اپ صلي الله عليہ نے فرمايا انکي روحيں سبز پرندوں کے پيٹ ميں ہيں ان کے لئے قنديليں ہيں جو عرش رحمان سے لٹک رہي ہيں جنت ميں جہاں کي سير چاھتے ہيں کرتے ہيں پھر واپس انہي قنديلوں ميں اتے ہيں پس ان کے رب نے ان سے پوچھا … اس کو ايک جماعت نے اعمش سے روايت کيا ہے انہوں نے عبد الله بن مرہ سے انہوں نے مسروق سے انہوں نے ابن مسعود سے اور اس کي تخريج کي ہے ابن جرير نے تفسير ميں ج 4 ص 106- 107 پر شعبہ کے طرق سے …. کہ انہوں نے ابن مسعود سے پوچھا تو انہوں نے کہا شہداء کي ارواح   پس اعمش کا سماع ثابت ہے اس حديث پر عبد الله بن مرہ سے کيونکہ شعبہ  نہيں روايت کرتے اعمش سے سوائے اسکے کہ سماع ہو  … اس پر اہل مصطلح کي نص ہے اور ديگر کي اور اسي طرح اس حديث کي دارمي نے تخريج کي ہے … اور مسند احمد ميں ج 1 ص 265 پر  … ابن عبّاس کي روايت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ جب تمہارے بھائیوں کو احد میں شہادت ملی تو الله نے انکی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں کر دیا جس سے وہ جنت کی نہروں تک جاتے اور پھلوں میں سے کھاتے ہیں  …. اور حاکم نے اس کي تخريج مستدرک ميں کي ہے … اور حاکم نے اس کو صحيح کہا ہے مسلم کي شرط پر اور الذھبي نے اقرار کيا ہے اور الله تعالي فرماتے ہيں اور  ال فرعون کو برے عذاب نے گھير ليا  اگ ہے جو ان پر صبح و شام پيش ہوتي ہے اور بروز قيامت – داخل کرو ال فرعون کو شديد عذاب ميں سوره المومن 

أور ابن جرير نے تفسير ميں تخريج کي ہے روايت ثقات سے صحيح سند کے ساتھ  ، عن هزيل بن شرحبيل  تابعين ميں سے ايک سے کہ ال فر عون کي ارواح کالے پرندوں ميں ہيں اگ پر سے  اڑتے ہيں اور يہ ان پر پيش ہونا ہے

البانی کہتے ہیں

البانی جسم

مولف نے یہاں اصرار کیا ہے قول پر کہ تمام اجزاء کا جمع ہونا  ایک بدن میں یا پھر بہت سے ابدان میں   اور اس پر جو گواہی ہے کہ ایک بدن ہے یا بہت سے بدن ہیں اس میں مولف کی عمیق نظری ہے جس کو مولف نے کثرت سے بیان کیا ہے اور ذکر کیا ہے ان مفاسد و شبھات کا جو متکلمین کو قرآن و سنت کی تصدیق سے دور لے گئے … اور سب سے اچھا  مولف کا قول ہے جو گزرا کہ بدن تو صرف ایک آلہ ہے روح کا جس سے یہ اشکال حل ہو جاتا ہے اور غور کی پھر حآجت نہیں رہتی اور میں البانی کہتا ہوں بدن انسانی شخصیت  کا مطیع ہوتا ہے اور اس کا لباس ہوتا ہے چاہے  انسان کوئی اور  لباس نیا یا پرانا پہنے  … و الله اعلم

اپ دیکھ سکتے ہیں المعلمی کے مطابق نہ صرف  محشر کے بعد بلکہ قیامت سے پہلے بھی روح کے جسم ہیں جن میں قالب بدل رہے ہیں ال فرعون اس دنیا میں جسد عنصری میں تھے البرزخ میں کالے پرندوں میں ہیں اور روز محشر بطور کافر ان کا جسم اتنا بڑا ہو گا کہ کھال ہی احد پہاڑ برابر حدیث میں بیان کی گئی ہے اور یہ تناسخ نہیں ہے

نعمان الوسی   (المتوفى: 1270هـ) تفسیر ج ١١ ص ٨٣ آیت وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ کی تفسیر میں لکھتے ہیں

وذكر الشيخ إبراهيم الكوراني في بعض رسائله أن الأرواح بعد مفارقتها أبدانها المخصوصة تتعلق بأبدان أخر مثالية حسبما يليق بها وإلى ذلك الإشارة بالطير الخضر في حديث الشهداء

اور شیخ ابراہیم الکورانی ( الملا برهان الدين إبراهيم بن حسن بن شهاب الدين الكردي الشهرزوري الشهراني الكوراني (ت1101هـ)) نے اپنے بعض رسائل میں ذکر کیا ہے کہ ارواح اپنے  مخصوص جسموں (جسد عنصری) کو چھوڑنے کے بعد ایک دوسرے اسی جیسے بدن سے تعلق اختیار کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ ہے پرندوں والی حدیث میں جو شہداء سے متعلق ہے

 کتاب  الأعلام از الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) میں الکورانی کا ترجمہ ہے

الكُوراني  (1025 – 1101 هـ = 1616 – 1690 م)  إبراهيم بن حسن بن شهاب الدين الشهراني الشهرزوريّ الكوراني، برهان الدين: مجتهد، من فقهاء الشافعية. عالم بالحديث. قيل إن كتبه تنيف عن ثمانين

 تفسير ابن أبي العز از  صدر الدين محمد بن علاء الدين عليّ بن محمد ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) میں آیت وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتاً   کی تفسیر میں ہے

 فإنهم لما بذلوا أبدانهم لله عز وجل حتى أتلفها أعداؤه فيه، أعاضهم منها في البرزخ أبداناً خيراً منها، تكون فيها إلى يوم القيامة، ويكون تنعمها بواسطة تلك الأبدان، أكمل من تنعم الأرواح المجردة عنها. 

کہ ان شہداء نے جب اپنے بدن الله کے لئے لگا دیا جس کو ان کے دشمنوں نے تباہ کیا تو ان شہداء کو دوسرے بدن دیے گئے جو اس بدن (عنصری) سے بہتر ہیں اور یہ نعمتیں ان بدنوں کے واسطے سے پاتے ہیں جو صرف روحوں کے نعمت پانے سے زیادہ اکمل ہے

یعنی صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ شہداء کی روحیں ان نئے بدنوں میں ہیں

المنهاج في شعب الإيمان از  الحسين بن الحسن بن محمد بن حليم البخاري الجرجاني، أبو عبد الله الحَلِيمي (المتوفى: 403 هـ) کے مطابق

 فأما الشهداء فإنه لا يفرق بين أرواحهم وأنفسهم، ولكنها تنقل إلى أجواف طير خضر، كما ورد به الحديث الذي هو أولى ما يقال به، ويستسلم له. وتعلق تلك الطير من ثمر الجنة، فتستمد روحه من غذاء بدن الطائر كما كان يستمد في بدن الشهيد من غذائه،

 پس جہاں تک شہداء کا تعلق ہے تو ان کے نفوس اور ارواح میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ان کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے جیسا حدیث میں آیا ہے جو اولی ہے کہ اس میں جو کہا گیا ہے اس کو تسلیم کریں اور ان پرندوں کو جنت کے پھلوں سے ملا دیا جاتا ہے  پس روح پاتی ہے غذا پرندے کے پیٹ سے جیسا شہید کا بدن غذا پاتا تھا  

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے

حیات بعد الموت

 

حدیث مغیرہ (رض) کا مطلب

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ :‏‏‏‏ “مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مَا سَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَالَ لِي:‏‏‏‏ مَا يَضُرُّكَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لِأَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ مَعَهُ جَبَلَ خُبْزٍ وَنَهَرَ مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ”.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے قیس نے بیان کیا، کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دجال کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا میں نے پوچھا اتنا کسی نے نہیں پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اس سے تمہیں کیا نقصان پہنچے گا۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹی کا پہاڑ اور پانی کی نہر ہو گی، فرمایا کہ وہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے۔

بعض  مترجمین    کی جانب سے    روایت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو پیش کر کے اس کا ترجمہ کیا  جاتا ہے

هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ

وہ الله پر اس سے بھی زیادہ آسان ہے

پھر ثابت کیا جاتا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ رضی اللہ عنہ  کو دجال سے مزید ڈرایا   کہ اللہ کے لئے آسان ہے کہ دجال کو    استدراج و آیت و معجزہ   دے – افسوس مطلب براری کے لئے  مترجمین  نے حدیث کا مفہوم ہی بدل دیا – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انکار کیا کہ دجال مومنوں کو کچھ نقصان دے گا ،  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دجال کو کم تر و حقیر قرار دیا نہ کہ اس کے استدراج کو من جانب اللہ قرار دیا

اس حدیث کے تراجم میں لوگ تبدیلی کرتے رہتے ہیں –  بعض مترجمین نے صحیح  ترجمہ  بھی  کیا ہے مثلا

http://www.hadithurdu.com/09/9-5-59/

جلد پنجم قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر مشکوۃ شریف

مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔

حدیث 59

اہل ایمان کو دجال سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں

عن المغيرة بن شعبة قال ما سأل أحد رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدجال أكثر مما

سألته وإنه قال لي ما يضرك ؟ قلت إنهم يقولون إن معه جبل خبز ونهر ماء . قال هو أهون

على الله من ذلك . متفق عليه .

  اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دجال کے بارے میں

جس قدر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہے اتنا کسی اور نے نہیں

پوچھا ! چنانچہ (ایک دن ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ” دجال تمہیں

کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا یعنی تمہارے اوپر چونکہ حق تعالیٰ کی عنایت وحمایت کا

سایہ ہوگا اس لئے دجال تمہیں گمراہ نہیں کر سکے گا ” میں نے عرض کیا کہ لوگ یہ

کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹیوں کا پہاڑ ( یعنی پہاڑ کے بقدر غذائی ضروریات کا

ذخیرہ ) ہوگا اور پانی کی نہر اس وقت جب کہ لوگ قحط سالی کا شکار ہوں گے اگر کوئی

شخص بھوک و پیاس سے اضطرار کی حالت کو پہنچ جائے تو وہ کیا کرے ؟ آنحضرت

صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال اللہ تعالیٰ کی نزدیک اس سے زیادہ ذلیل ہے ۔ بخاری ومسلم  

تشریح  : اس سے زیادہ ذلیل ہے ” کا مطلب یہ ہے کہ دجال اپنی طاقت وقوت کے جو مظاہر پیش کرے گا وہ سب بے حقیقت ہونگے کہ ان چیزوں کی حیثیت شعبدہ بازی ، فریب کاری اور نظر بندی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگی وہ اللہ کے نزدیک اس قدر ذلیل و بے حیثیت ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے اس کو اتنی زیادہ طاقت وقدرت عطانہیں ہو سکتی اور وہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہو سکتا کہ اپنے عقیدہ وعمل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اہل ایمان کو گمراہ کر سکے لہٰذا اہل ایمان دجال کی اس مافوق الفطرت طاقت کو دیکھ کر کہ جو صرف ظاہر میں طاقت نظر آئے گی اور حقیقت میں دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا ہرگز خوفزدہ نہیں ہوں گے بلکہ وہ تو اس کی شعبدہ بازیوں اور اس کے محیر العقول کارناموں کو دیکھ کر اس کے دجل وفریب اور جھوٹ پر اپنے یقین کو اور زیادہ پختہ  کریں گے ۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-8-60/?s=&st1=&st2=%20هو%20أهون%20على%20الله%20&st3=&st4=

مسند احمد ۔ جلد ہشتم ۔ حدیث 60

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ مَا سَأَلَ أَحَدٌ

النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُ أَنَا عَنْهُ فَقَالَ إِنَّهُ لَا يَضُرُّكَ قَالَ قُلْتُ إِنَّهُمْ يَقُولُونَ مَعَهُ

نَهَرٌ وَكَذَا وَكَذَا قَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَاكَ

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی

کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچاسکے گا

میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے ساتھ ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں چیز

بھی ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت حقیر

ہے۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-8-70/?s=&st1=&st2=%20هو%20أهون%20على%20الله%20&st3=&st4=

مسند احمد ۔ جلد ہشتم ۔ حدیث 70

حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ مَا

سَأَلَ أَحَدٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ فَقَالَ لِي أَيْ بُنَيَّ وَمَا

يُنْصِبُكَ مِنْهُ إِنَّهُ لَنْ يَضُرَّكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ مَعَهُ جِبَالَ الْخُبْزِ وَأَنْهَارَ الْمَاءِ

فَقَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ذَاكَ

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی

کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچاسکے گا

میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے سا تھا ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں

چیزبھی ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت

حقیر ہے۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-8-101/?s=&st1=&st2=%20هو%20أهون%20على%20الله%20&st3=&st4=

مسند احمد ۔ جلد ہشتم ۔ حدیث 101

حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنِي قَيْسٌ قَالَ قَالَ لِي الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مَا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ

عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدَّجَّالِ أَحَدٌ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ وَإِنَّهُ قَالَ لِي مَا يَضُرُّكَ مِنْهُ قَالَ قُلْتُ إِنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ

مَعَهُ جَبَلَ خُبْزٍ وَنَهْرَ مَاءٍ قَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَاكَ

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی

کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا

میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے سا تھا ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں

چیز بھی ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت

حقیر ہے۔

اب غلط ترجمہ دیکھتے ہیں

سنن ابن ماجہ

4073

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ  بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ ﷺ، عَنِ  الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ ( وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ أَشَدَّ سُؤَالا مِنِّي ) فَقَالَ: ” لِي مَا تَسْأَلُ عَنْهُ؟ ” قُلْتُ: إِنَّهُمْ  يَقُولُونَ: إِنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ،قَالَ: ” هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ “۔

تخريج: خ/الفتن ۲۷ (۷۱۲۲)، م/الفتن ۲۲ (۲۹۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۲۳)، وقد

أخرجہ: حم (۴/۲۴۶، ۲۴۸، ۲۵۲) (صحیح)

۴۰۷۳-

 مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے دجا ل کے بارے میں جتنے سوالا ت میں نے کئے ہیں، اتنے کسی اور نے نہیں کئے ،(ابن نمیر کی روا یت میں یہ الفا ظ ہیں ” أَشَدَّ سُؤَالا مِنِّي ” یعنی مجھ سے زیا دہ سوال اور کسی نے  نہیں کئے)، آخر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس کے با رے میں کیا پو چھتے ہو؟  میں نے عرض کیا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور پا نی ہو گا ،آپ ﷺ نے

فرمایا:” اللہ تعالیٰ پر وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے ۱ ؎ ۔

وضاحت ۱ ؎ : یا اللہ تعالی پر یہ با ت دجال سے زیادہ آسان ہے، یعنی جب اس نے دجال کو پیدا کر دیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے، صحیحین کی روایت میں ہے کہ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس روٹی کا پہاڑ ہوگا اور پانی کی نہریں  ہوں گی، تب آپ نے یہ فرمایا – اور ممکن ہے کہ حدیث کا ترجمہ یوں کیا جا ئے کہ اللہ تعالی پر یہ بات آسان ہے دجال سے زیادہ یعنی جب ا س نے دجال کو پیدا کردیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے ، اور بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ دجال ذلیل ہے ، اللہ تعالی کے نزدیک اس سے کہ ان چیزوں کے ذریعے سے اس کی تصدیق کی جائے کیونکہ

اس کی پیشانی اور آنکھ پر اس کے جھوٹے ہونے کی نشانی ظاہر ہوگی ، واللہ اعلم۔

یہاں  مترجم نے ترجمہ غلط کیا ہے-   اپنے  موقف کہ دجال کو اختیار من جانب اللہ ملے گا   ، اس  کو متن میں ملا دیا ہے لیکن  شرح میں جو صحیح ترجمہ تھا اس کا بھی ذکر کر دیا ہے  – اب   سوال ہے کہ  أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ   کا درست ترجمہ کیا   آسان کرنا ہے  یا کسی کو ذلیل و حقیر قرار دینا ہے ؟

اس کا جواب حدیث لٹریچر میں ہی مل جاتا ہے  – سنن دارمی کی حدیث ہے

http://www.hadithurdu.com/10/10-2-578/?s=أَهْوَنُ+عَلَى+اللَّهِ

سنن دارمی ۔ جلد دوم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 578

دنیا کا اللہ کے نزدیک بے حثییت ہونا۔

أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ  وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَخْلَةٍ جَرْبَاءَ قَدْ أَخْرَجَهَا أَهْلُهَا قَالَ تُرَوْنَ هَذِهِ هَيِّنَةً عَلَى أَهْلِهَا قَالُوا نَعَمْ قَالَ وَاللَّهِ لَلدُّنْيَا  أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک خارش زدہ بکری کے پاس سے  گزرے جس کو اس کے مالک نے باہر پھینک دیا تھا نے دریافت کیا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اس کے مالک کے نزدیک اس کی کوئی حثییت نہیں ہے لوگوں نے عرض کی جی ہاں – آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ اپنے مالک کے نزدیک جتنی بے حثییت ہے دنیا اللہ کی نزدیک اس سے زیادہ کہیں بے حثییت ہے۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-4-1560/?s=أَهْوَنُ+عَلَى+اللَّهِ

مسند احمد ۔ جلد چہارم ۔ حدیث 1560

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ  الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ  فَخْرَهُمْ بِرِجَالٍ أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنْ عِدَّتِهِمْ مِنْ الْجِعْلَانِ الَّتِي تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتَنَ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا تعصب اور اپنے آباواجداد پر فخر کرنا دور  کردیا ہے۔ اب یا تو کوئی شخص متقی مسلمان ہوگا یا بدبخت گناہ گار ہوگا سب لوگ آدم  علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی لوگ آپنے آباؤ  اجداد پر فخر کرنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ کی نگاہوں میں وہ اس بکری سے بھی زیادہ  حقیرہوں گے جس کے جسم سے بدبو آنا شروع ہوگئی ہو اور وہ اسے اٹھانے کے لئے پیسے دینے پر تیار ہوں۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-4-3542/?s=أَهْوَنُ+عَلَى+اللَّهِ

مسند احمد ۔ جلد چہارم ۔ حدیث 3542

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَدَعَنَّ رِجَالٌ فَخْرَهُمْ بِأَقْوَامٍ إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ فَحْمِ جَهَنَّمَ أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنْ الْجِعْلَانِ الَّتِي تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتِنَ وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا  بِالْآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ النَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ کی نگاہوں میں وہ اس  بکری سے بھی زیادہ حقیر ہوں گے جس کے جسم سے بدبو آنا شروع ہوگئی ہو اللہ تبارک  وتعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا تعصب اور اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا دور کردیا ہے اب یا  تو کوئی شخص متقی مسلمان ہوگا یا بدبخت گناہگار ہوگا سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد  ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی۔

روایت میں الفاظ   موجود ہیں   لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنْ الْجِعْلَانِ  کہ  وہ بکری سے بھی زیادہ حقیر ہوں گے

معلوم ہوا کہ  صحیح ترجمہ   حدیث مغیرہ  رضی اللہ عنہ  کا یہی ہے کہ دجال حقیر  و کم تر ہے کہ اللہ تعالی  اس کو آیات  و معجزات  و استدراج    عطا کرے

حدیث  سنن نسائی میں ہے

لزوال الدّنيا أهون على الله من قتل رجل مسلم

دنیا کو ختم کرنا اللہ کے نزدیک قتل مسلم سے بھی حقیر ہے

یعنی مومن کا قتل بہت بڑی چیز ہے

اس روایت میں جو بیان ہوا ہے اس کو ضروری نہیں خرق عادت قرار دیا جائے مثلا پہاڑ تو عرب صفا و مروہ کو بھی کہتے ہیں اور آپ نے اگر ان کو دیکھا ہو تو وہ کوئی بہت بڑے نہیں ہیں-  پانی کی نہر سے مراد پانی کی فراہمی ہے –  اسی طرح روایت میں دجال کی جنت جہنم کا ذکر ہے اس کی تاویل بھی ممکن ہے  مثلا  لیکویڈ نٹروجن   دیکھنے میں   پانی کی مانند ہے لیکن جسم کو اس قدر ٹھنڈا کر دیا گی کہ سیکنڈ وں میں برف بن جائے – اس دوران  شدید جلن کا احساس ہو گا جیسے  بدن آگ  میں  جل رہا ہو-  دجال کی  ان شعبدہ بازیوں کی تاویل ممکن ہے –

تقابل

عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ مروی عن حُذَيْفَةَ  اور   َأَبُو مَسْعُود  و   رجل میں اصحاب النبی

 

صحیح ابن حبان  ٦٨٠٠

مسند احمد

مستخرج أبو عَوانة  ٩٣٨٠

صحیح مسلم  ٢٩٢٩

مسند احمد

23090

23683

23684

23685

صحیح ابن حبان ٦٧٩٩

قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلَغَنِي أَنَّ مَعَ الدَّجَّالِ جِبَالُ الْخُبْزِ وَأَنْهَارُ الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ”. قَالَ الْمُغِيرَةُ: فَكُنْتُ مِنْ أَكْثَرِ النَّاسِ سُؤَالًا عَنْهُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَيْسَ بِالَّذِي يَضُرُّكَ

 

مغیرہ رضی الله عنہ نے کہا یا رسول الله مجھ تک پہنچا کہ دجال کے ساتھ روٹی کا پہاڑ اور پانی کی نہریں ہوں گی ؟ رسول الله نے فرمایا : الله کے نزدیک یہ اس سے زیادہ ذلیل ہے

 

يَسِيرُ مَعَهُ جِبَالُ الْخُبْزِ وَأَنْهَارُ الْمَاءِ

دجال اپنے ساتھ روٹی کے پہاڑ اور پانی کی نہریں لے کر چلے گا

 

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ حُذَيْفَةَ وَأَبُو مَسْعُودٍ، فَقَالَ حُذَيْفَةَ: أَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنْهُ، إِنَّ مَعَهُ نَهْرًا مِنْ نَارٍ، وَنَهْرًا مِنْ مَاءٍ، فَالَّذِي  يَرَوْنَ أَنَّهُ نَارٌ: مَاءٌ، وَالَّذِي يَرَوْنَ أَنَّهُ مَاءٌ: نَارٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ، فَأَرَادَ الْمَاءَ فَلْيَشْرَبْ مِنَ الَّذِي يَرَى أَنَّهُ نَارٌ، فَإِنَّهُ سَيَجِدُهُ مَاءً. قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول

رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ نے کہا ہم حُذَيْفَةَ وَأَبُو مَسْعُودٍ کے پاس جمع ہوئے – حُذَيْفَةَ بولے  مجھے معلوم ہے دجال کے پاس  کیا ہو گا – اس سے پاس اگ کی نہر ہو گی اور پانی کی – تو جو اگ نظر آئی گی وہ پانی ہو گا اور جو پانی نظر آئے گا وہ اگ ہو گی – پس تم میں کوئی اس کو پائے تو اس میں سے پی لے جو اگ لگے اس کو پانی ملے گا – ابو مسعود نے کہا ایسا ہی  میں نے رسول اللہ سے سنا

 

 مغیرہ  رضی اللہ عنہ  کا سوال  اس حدیث پر تھا جو حُذَيْفَةَ  اور   َأَبُو مَسْعُود   رضی اللہ  عنہما    نے بیان کی تھی- اور دونوں حُذَيْفَةَ   اور    َأَبُو مَسْعُود  رضی اللہ  عنہما   نے وضاحت کی کہ ان کے نزدیک بھی دجال کے پاس فراڈ ہو گا نہ کہ حقیقی آیات – مغیرہ نے اس پر سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبر دی کہ دجال کم تر و حقیر ہے

محدث ابن حبان کہتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ : إِنْكَارِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُغِيرَةِ بِأَنَّ مَعَ الدَّجَّالِ أَنْهَارُ الْمَاءِ لَيْسَ يُضَادُّ خَبَرَ أبي مسعود والذي ذَكَرْنَاهُ، لِأَنَّهُ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يَكُونَ مَعَهُ نَهْرُ الْمَاءِ يَجْرِي وَالَّذِي مَعَهُ يُرَى أَنَّهُ مَاءٌ وَلَا مَاءَ، مِنْ غَيْرِ أن يكون بينهما تضاد.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مغیرہ سے کہ دجال کے پاس پانی کی نہر ہو گی اس ابو مسعود کی خبر کا انکار نہیں ہے بلکہ دجال اللہ کے نزدیک ذلیل ہے کہ اس کے پاس پانی کی نہر ہو جو جاری ہو بلکہ اس پاس جو ہو گا وہ دیکھنے میں پانی لگے گا نہ کہ واقعی پانی  ہو گا

علي القاري  “شرح المشكاة”  کی تعلیق میں  حدیث کے الفاظ پر  کہتے ہیں: “هو أهون على الله من ذلك”: أي: هو أحقر من أن الله تعالى يحقق له ذلك، وإنما هو تخييل وتمويه للابتلاء

وہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی ذلیل ہے یعنی وہ ذلیل ہے کہ اللہ تعالی اس کو یہ حق دے بلکہ یہ سب تخیل و   جھوٹ    ابتلاء کے لئے ہو گا

أنور الكشميري   “فيض الباري” 4/  ١٩    میں کہتے ہیں : واعلم أنه لا يكون مع الدجال إلا تخيلات ليس لها حقائق فلا يكون لها ثبات، وإنما يراه الناس في أعينهم فقط.

اور جان لو کہ دجال کے پاس محض   تخیلات ہوں گے نہ کہ حقیقی چیزیں پس ان کو ثبات نہ ہو گا ، بس وہ لوگوں کو   فقط  آنکھوں سے نظر آئیں گی

طحاوی  مشکل الاثار میں   اسی روایت پر کہتے ہیں

يُوهِمُهُ الدَّجَّالُ النَّاسَ بِسِحْرِهِ أَنَّهُ مَاءٌ وَخُبْزٌ، فَيَرَوْنَهُ كَذَلِكَ بِسِحْرِهِ الَّذِي يَكُونُ مَعَهُ مِمَّا يَقْدِرُ بِهِ عَلَيْهِمْ، حَتَّى يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِكَ فِي  الْحَقِيقَةِ كَمَا يَرَوْنَهُ بِأَعْيُنِهِمْ فِي ظُنُوُنِهِمْ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ

دجال لوگوں کو اپنے  جادو سے وہم میں ڈالے گا کہ اس پر روٹی و پانی ہے پس وہ لوگوں کو نظر آئے  گا بسبب سحر کہ دجال کے پاس روٹی و پانی ہے   یہاں تک کہ وہ   اس کو حقیقت  جانیں گے  کہ گویا   اپنے گمان کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے اور ایسا حقیقت میں نہیں ہو گا

قاضی  ابن العربي کے نزدیک

  إنما هو تخييل وشبه على الأبصار، فيثبت المؤمن ويزل الكافر

یہ سب تخیل و شبہ ہو گا

كشف المشكل من حديث الصحيحين میں ابن جوزی کا کہنا ہے

 أَنه تخييل لَا حَقِيقَة  یہ تخیل ہو گا نہ کہ حقیقت

سیوطی  شرح ابن ماجہ میں کہتے ہیں

هُوَ اهون على الله من ذَلِك أَي من ان يُعْطِيهِ هَذَا الخارق الْعَظِيم لَكِن يموه ويشعبد مثل هَذَا الشعبدات وَلَيْسَ الا تخيل مَحْض لَيْسَ من نفس الْأَمر فِيهِ شَيْء كَمَا هُوَ مشَاهد من أهل النير بخات والطلسمات فِي زَمَاننَا

وہ دجال اللہ کے نزدیک اس سے بھی ذلیل ہے یعنی    کہ دجال ذلیل ہے کہ اللہ اس کو اس طرح کی خارق  عادت چیزیں دے لیکن یہ سب فراڈ  اور شعبدہ بازی ہو گی جیسا  شعبدہ باز  کرتے ہیں اور یہ نہیں ہے سوائے  تخیل  محض  کے نہ کہ نفس امر کوئی چیز بدلے گی   جیسا  آجکل ہم دیکھتے ہیں  اپنے دور کے اہل  النير بخات والطلسمات      (جادو گروں )  میں

لفظ الأية کا عموم و خصوص

قرآن اللہ تعالی نے قریش کی عربی میں نازل کیا ہے یعنی جو مشرکین عرب  کو بھی  سمجھ آئے – عربی کا ایک لفظ آیت ہے جس سے مراد لغوی طور پر علامت ہے  اور اسی مفہوم میں یہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے

اللہ تعالی نے فرمایا

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَاخْتِلاَفُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ   (الرّوم -22 

اور اس کی نشانیوں( آیات) میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور زبانوں اور رنگوں کا اختلاف

معلوم ہوا کہ ہر فرد ہر انسان اللہ کی آیت و نشانی ہے کہ وہ الگ الگ رنگ کے ہیں الگ الگ زبان بولتے ہیں – یہ زبان و رنگ  بدلنا صرف قدرت الہی کا کرشمہ ہے –   اس مقام پر لفظ     آيَاتِهِ   استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب یہاں معجزہ نہیں ہے  بلکہ علامت  توحید   مراد   ہے

وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ   (الرّوم – 23

اور  اس کی آیات میں   سے  تمہارا سونا  دن و رات میں

یہاں ہر روز انسان جو سوتا ہے اس کو نشانی یا آیت کہا گیا  ہے –      یہ  عموم ہے

وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ   (الشورى – 32

اور  اس کی نشانیوں میں سے ہے سمندر میں   کشتی    جیسے  ہو  عظیم پہاڑ

یہاں    انسان کی  خود ساختہ،   تخلیق کردہ کشتی   کو  آیت  کہا گیا  ہے   یعنی یہ علم من جانب اللہ آیا ہے

حدیث میں ہے

إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَةٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ

سورج اور چاند کا گرہن اللہ کی آیات میں سے ایک ہے  

زمین پر سورج و چاند گرہن ہوتا رہتا ہے – اس کا سب کو علم ہے

حدیث میں ہے

آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

منافق کی تین آیات (نشانیاں ) ہیں بات کرے تو جھوٹ بولے وعدہ کرے تو خلافی کرے اور امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے

حدیث میں ہے

آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ

ایمان کی آیت انصار سے محبت کرنا ہے اور منافق کی آیت انصار سے بغض کرنا ہے

ان تمام مقامات پر عموم  کو   آیات   کہا گیا ہے – دوسری طرف  بعض اوقات آیت یا  آیات  کا لفظ اپنے اصطلاحی معنوں میں بھی اتا ہے جس سے مراد وہ  نشانیاں ہیں  جو صرف انبیاء کو ملتی ہیں جن کو معجزات کہا   جاتا ہے اور    ان کا شمار خصوص  میں ہوتا ہے

علامات قیامت جن کو اردو میں قیامت کی نشانی کہا جاتا ہے وہ تمام علامتین ہیں – ان میں دو عظیم ہیں ایک سورج کا مغرب سے نکلنا اور دوسرا زمین سے جانور کا نکل کر کلام کرنا – باقی تمام انسان  کو معلوم ہیں مثلا زمین کا دھنسنا انسان دیکھتا ہے ، یاجوج ماجوج سے انسان مل چکے ہیں تبھی ان پر دیوار بنائی گئی اور دجالوں کا بھی علم ہے، دھواں بھی انسان دیکھتا ہے – فرق صرف امر کی وسعت کا ہے –  لہذا علامات قیامت میں تمام کی تمام خرق عادت نہیں ہیں اور ان کی شرح بھی معجزہ کے ذیل میں نہیں کی جانی چاہیے

نزول المسیح و خروج الدجال پر کتاب ٢

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

کتاب کا موضوع   روایات   نزول مسیح و خروج  دجال ہے  جو صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ان   روایات میں تمام صحیح نہیں – بعض اہل کتاب کے اقوال ، سیاسی بیانات اور   ذاتی آراء بھی ہیں جو حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم  سمجھی جانے لگی ہیں-   امت  میں نزول مسیح اور قتل دجال کے مقام کے حوالے سے اختلاف چلا آ رہا ہے اور یہ اختلاف مشہور محدثین میں بھی موجود ہے –  امام مسلم نے غلطی سے     اس  حدیث  کو صحیح سمجھا ہے جو نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی ،  جبکہ   راقم کے نزدیک  یہ کعب  الاحبار کے   خیالات  اور اسرائیلیات   کا مجموعہ   ہے –  نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی  اس حدیث کے مطابق  عیسیٰ علیہ السلام کا   نزول دمشق میں ہے  اور دجال کا قتل لد پر ہو گا – دوسری طرف   محدث ابن خزیمہ اس کے قائل تھے کہ دجال بیت المقدس میں  ایک زلزلہ میں ہلاک ہو گا- ابن خزیمہ نے ان احادیث کو  اپنی   صحیح میں نقل نہیں کیا جن میں   ہے کہ دجال لد پر قتل ہو  گا- سیوطی  اور ملا علی قاری بھی  اس کے قائل ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول   بیت المقدس میں ہو گا -بعض علماء کا قول یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق سے باہر مشرق کی سمت پر ہو گا مثلا  امام حاکم اس کے قائل ہیں کہ مسیح کا نزول   مشرقی دمشق   میں ہو گا ( نہ کہ وسط دمشق  میں الفاظ ہیں  فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ )- امام  ابن حبان اور امام بخاری  نے اپنی  اپنی صحیح  میں حدیث نواس رضی اللہ عنہ  کو درج نہیں کیا اور نزول مسیح کے مقام سے متعلق کوئی روایت نہیں دی،  نہ ان دونوں نے سفید  مینار کا  کوئی  ذکر کیا ہے – ابن حبان اگرچہ  ایک دوسری سند سے اس کے قائل ہیں کہ دجال کا قتل لد پر ہو گا – امام   ابی حاتم کے نزدیک اس حوالے سے بعض  روایات اصلا کعب الاحبار کے اقوال ہیں –    راقم کی تحقیق سے امام ابی حاتم کا قول ثابت ہوتا ہے-

بعض روایات صریحا خلاف قرآن ہیں لیکن افسوس ان بھی قبول کر لیا گیا ہے مثلا درخت  غرقد  کی خبر  کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں کا دشمن ہے   یا خبر  کہ  حربی  یہود  کے علاوہ    سب یہود  کو  بلا   امتیاز  قتل کیا جائے گا-  اسی طرح  بعض  خبریں  دجال کی  الوہی صفات   پر ہیں مثلا اس کا  مردے  کو زندہ کرنا، آسمان و زمین کا اس کی اطاعت کرنا- افسوس ان میں سے ایک آدھ خبر صحیح بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے  جن کا تعاقب  علماء  و محدثین  کے اقوال ، زمینی حقائق، قرائن، اسرائیلیات   کی روشنی   میں  کیا گیا ہے – استدراج  دجال کے حوالے سے   امت میں اختلاف موجود ہے –  بعض کے نزدیک یہ محض دھوکہ ہے ، بعض کے نزدیک جادو ، بعض  کے نزدیک فن سائنس میں  انسانی ترقی     وغیرہ –

 ابن حزم،  الفصل في الملل والأهواء والنحل    میں لکھتے ہیں

إِن الْمُسلمين فِيهِ على أَقسَام فَأَما ضرار ابْن عمر وَسَائِر الْخَوَارِج فَإِنَّهُم ينفون أَن يكون الدَّجَّال جملَة فَكيف أَن يكون لَهُ آيَة وَأما سَائِر فرق الْمُسلمين فَلَا ينفون ذَلِك والعجائب الْمَذْكُورَة عَنهُ إِنَّمَا جَاءَت بِنَقْل الْآحَاد وَقَالَ بعض أَصْحَاب الْكَلَام أَن الدَّجَّال إِنَّمَا يَدعِي الربوبية ومدعي الربوبية فِي نفس قَوْله بَيَان كذبه قَالُوا فظهور الْآيَة عَلَيْهِ لَيْسَ مُوجبا لضلال من لَهُ عقل وَأما مدعي النُّبُوَّة فَلَا سَبِيل إِلَى ظُهُور الْآيَات عَلَيْهِ لِأَنَّهُ كَانَ يكون ضلالا لكل ذِي عقل قَالَ أَبُو مُحَمَّد رَضِي الله عَنهُ وَأما قَوْلنَا فِي هَذَا فَهُوَ أَن الْعَجَائِب الظَّاهِرَة من الدَّجَّال إِنَّمَا هِيَ حيل…. وَمن بَاب أَعمال الحلاج وَأَصْحَاب الْعَجَائِب

مسلمان دجال کے حوالے سے  منقسم  ہیں پس ضرار ابْن عمر  اور تمام خوارج یہ اس کا ہی انکار کرتے ہیں کہ دجال ہے پس دجال کی  نشانیاں (ان کے نزدیک ) پھر کیوں ہوں گی – اور جہاں تک باقی مسلمان فرقے ہیں تو وہ دجال کی نفی نہیں کرتے  اور بعض اصحاب اہل کلام کہتے ہیں کہ  دجال یہ رب ہونے کا مدعی ہو گا اور اپنے لئے ایسا قول کہنا ہی اس کے کذاب ہونے کو ظاہر کرتا ہے – وہ کہتے ہیں کہ  جس کے پاس بھی عقل ہے وہ جانتا ہے کہ  دجال سے نشانیوں کا ظہور ہو بھی جائے تو یہ اس کے گمراہ ہونے کی دلیل نہیں ہے  …. امام ابن حزم  نے کہا : ہمارا قول ہے اس پر کہ دجال کے عجائب جو ظہور ہوں گے یہ حیل و فریب ہوں گے  جیسا  …. حلاج کے اصحاب نے یا عجائب کے اصحاب نے کیا

ابن کثیر نے لکھا  ہے

وَقَدْ تَمَسَّكَ بِهَذَا الْحَدِيثِ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ كَابْنِ حَزْمٍ وَالطَّحَاوِيِّ وَغَيْرِهِمَا فِي أَنَّ الدَّجَّالَ مُمَخْرِقٌ  مُمَوِّهٌ لَا حَقِيقَةَ لِمَا يُبْدِي لِلنَّاسِ مِنَ الْأُمُورِ الَّتِي تُشَاهَدُ فِي زَمَانِهِ

ان احادیث سے علماء کے ایک گروہ مثلا ابن حزم اور امام طحاوی نے تمسک کیا ہے کہ دجال ایک شعبدہ باز ہو گا  جو حقیقت پر منبی نہ گا جب وہ ان امور کو اپنے زمانے کے لوگوں کو دکھائے گا

– البيضاوي (ت 685هـ) کے مطابق دجال کا عمل شعبذة الدجال یعنی  شعبدہ بازی ہے

موجودہ دور میں    ایک بد ترین  گمراہی   یہ بھی پیدا ہو چکی ہے کہ استدراج دجال کو آیات انبیاء کا مماثل قرار دیا جا رہا ہے   اور ان کو بھی معجزات کی قبیل  میں سمجھا جانے لگا ہے – نعوذباللہ  من تلک الخرافات-

راقم  کہتا ہے کہ فرعون کے جادو گروں نے جادو کیا تھا  جس سے نظر و  تخیل   کو بدلا    گیا تھا اور یہ    عمل  سحر  تھا جو شیاطین کی مدد سے کیا گیا-     سحر کا اثر وقتی و    چند لمحوں  کا تھا    (سحر کے حوالے سے راقم کی کتاب ویب سائٹ پر موجود ہے ) البتہ    روایات  میں    دجال   کے عجائب  کل   وقتی  و ہنگامی نوعیت کے بیان  نہیں  ہوئے ہیں بلکہ اس میں  تخیل  و سحر سے بڑھ کر صفات الہیہ  کے ظہور    کا ذکر   آیا  ہے   مثلا دجال کے پاس قوت الاحیاء الموتی کا  ہونا ،   اس کا زمین کی گردش بدلنا   اور دنوں کو  طویل کرنا ، دجال  کا آسمان و زمین کو حکم کرنا   اور   زمین  و آسمان  کا    بلا چون و چرا  دجال   کی   اطاعت کرنا وغیرہ – لہذا  ان روایات کی مکمل چھان بین کرنا ضروری ہے  –

خروج دجال سے متعلق  روایات میں    اختلاف پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے دجال ایک مسلمان سے یہودی بن جاتا ہے – نزول مسیح     میں التباس پیدا ہوتا ہے اور   آخر میں  شریعت   کے حکم کہ غیر حربی کفار و اہل کتاب کا اور خاص کر عورتوں بچوں اور بوڑھوں کا قتل نہ ہو گا ، اس کا انکار ہوتا ہے –  صدیوں سے سنتے آئے قصوں کو    تاریخ کی کسوٹی پر   پرکھنا  مشکل کام ہے – اس تحقیق سے ہر ایک کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا  – لیکن   راقم   تک جو علم آیا ہے  اور جو شواہد مل گئے ہیں ان کی بنیاد پر  اب یہ  مشکل امر ہے کہ وہ  اس   سب   کو      چھپا   دے  جو معلوم ہوا – لہذا  جو معلوم ہوا    ان  میں سے  کچھ ضروری  باتیں   و اسرار    اس کتاب میں    آپ کے سامنے  لائے جائیں گے-  اس کتاب کو سن  ٢٠١٧ میں ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا  – اس پر قارئین  نے سوالات کیے  اور مزید مباحث  پیدا ہوئے   جن کی بنا پر اس کتاب کی نئی تہذیب کی گئی ہے اور اضافہ ہوا ہے

و ما علینا الا البلاغ المبین –  وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

ابو شہر یار

٢٠١٩

https://www.islamic-belief.net/حَتَّى-إِذَا-فُتِّحَتْ-يَاجُوجُ-وَمَ/
یاجوج ماجوج   کا خروج قتل دجال کے فورا بعد ہے یا قیامت کی آخری نشانی ہے ؟
اس سوال  پر اس کتاب میں بحث ہے

انبیاء  کے قبل نبوت خواب

قرآن و حدیث  میں انبیاء کے قبل نبوت سچے خوابوں  کا ذکر موجود ہے – ان خوابوں  کے بارے میں  جو رہمنائی ملتی ہے  وہ یہ ہے کہ  اگرچہ یہ خواب سچے تھے لیکن یہ الوحی کی مد میں سے نہیں تھے

قبل   نبوت –  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب

صحیح بخاری کی آغاز الوحی والی روایت میں ذکر ہے کہ نبی پر  اس امر نبوت کا آغاز سچے خوابوں سے ہوا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دیکھتے دوسرے دن پورا ہو جاتا – اس کیفیت نے آپ کو دنیا سے بے رغبت کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے التحنث   پہاڑ پر جا کر کرنا شروع کر دیا-

صحیح بخاری حدیث ٣ ہے اس میں  الوحی کا لفظ ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ

عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الوحی شروع ہوئی تو نیند میں سچے خواب دیکھے

صحیح بخاری ح ٦٩٨٢ میں   الوحی کا لفظ  ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ

 عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الوحی شروع ہوئی تو نیند میں سچے خواب دیکھے

صحیح بخاری ح ٤٩٥٥ میں اسی سند سے الوحی کا لفظ نہیں ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: ” أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ

 عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ سلسلہ  شروع ہوا تو نیند میں سچے خواب دیکھے

صحیح بخاری ٤٩٥٣ میں ہے اس میں الوحی کا لفظ نہیں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ح وَحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ سَلْمَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ،

 عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ سلسلہ  شروع ہوا تو نیند میں سچے خواب دیکھے

ان تمام سندوں  اور مختصر متن سے ظاہر ہے کہ کوئی  راوی الوحی کے لفظ کو خود کم کر دیتا ہے یا بڑھا دیتا ہے

یہ ایک ہی سند ہے اصلا تو امام زہری کی روایت ہے – صحیح میں پانچ مقام پر اسی سند سے ہے اور متن میں ایک لفظ بدل رہا ہے-   الفاظ میں الوحی کا اضافہ ہو جاتا ہے-

الوحی کا لفظ اس میں اضافہ ہے جو دیگر مقام پر انہی اسناد سے نہیں آ رہا –  لہذا جو بات صحیح ہے وہ یہ کہ ام المومنین نے کہا کہ شروع میں نبی نے صرف سچے خواب دیکھے –  انہوں نے الوحی کا ذکر کیا یہ راویوں کا اپنا اضافہ ہے

کتاب عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل والسير میں اس واقعہ کی دوسرے صحابی سے بھی تفصیل ہے وہ بھی اس کو الوحی کا آغاز نہیں کہتے

وَرُوِّينَا عَنْ أَبِي بِشْرٍ الدَّوْلابِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَبُو قُرَّةَ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ عِيسَى بْنِ تَلِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضْلَةَ عَنْ أَبِي الطَّاهِرِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم أَنَّهُ كَانَ مِنْ بَدْءِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَأَى فِي الْمَنَامِ رُؤْيَا،

جس وقت سچے خواب آ رہے تھے اس وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس سے لا علم تھے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے-

متن کی تاویل

ہم ان روایات کی تاویل کریں گے کہ راوی کا الوحی کا اضافہ کرنے سے مراد النُّبُوَّة یعنی خبر ملنا ہے-  ابھی اس النبوه کی کیفیت وہی ہے جو ایک عام مومن کی ہوتی ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے

حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري حدثني سعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لم يبق من النبوة إلا المبشرات قالوا وما المبشرات قال الرؤيا الصالحة

صحیح بخاری ٦٥٨٩

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا النبوه میں کچھ باقی نہیں سوائے مبشرات کے جو اچھے خواب ہیں

اس کی تائید سیرت ابن ہشام سے ہوتی ہے جس میں ہے

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: فَذَكَرَ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ: أَنَّ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ النُّبُوَّةِ، حِينَ أَرَادَ اللَّهُ كَرَامَتَهُ وَرَحْمَةَ الْعِبَادِ بِهِ، الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ،

امام زہری نے کہا عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا النبوہ  میں رسول اللہ پر سب سے پہلے جب اللہ تعالی نے ان پر رحم و کرامت کا ارادہ کیا تو سچے خوابوں سے کیا

یہ آغاز الوحی والی روایت ہی ہے فرق ہے تو الوحی کو النبوه سے بدلا گیا ہے اور النبوہ سے مراد صرف سچی خبر ہے

متن میں مدرج جملے

فتح الباری میں ابن حجر نے اس پر لکھا ہے کہ اس روایت شروع میں التحنث کا ذکر راوی کا ادراج ہے

قَالَ وَالتَّحَنُّثُ التَّعَبُّدُ هَذَا ظَاهِرٌ فِي الْإِدْرَاجِ إِذْ لَوْ كَانَ مِنْ بَقِيَّةِ كَلَامِ عَائِشَةَ لَجَاءَ فِيهِ قَالَتْ وَهُوَ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ مِنْ كَلَامِ عُرْوَةَ أَوْ مَنْ دُونَهُ

راقم کے نزدیک شروع کے جملوں میں الفاظ مدرج ہیں – زہری نے عروہ سے جو سنا اس میں اپنا فہم ملا دیا ہے

ایسا مرویات زہری میں مسئلہ رہا ہے کہ اصل متن کیا تھا معلوم نہیں ہو پاتا

الوحی کا آغاز

الوحی کا آغاز اقراء سے ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے رب کا حکم  آنے لگا-  اس کے بعد تمام خواب الوحی ہیں –  اس سے قبل جو خواب تھے وہ الوحی نہیں تھے کیونکہ اس میں صرف جو دیکھا وہ پورا ہو رہا تھا کسی تبلیغ کا حکم نہیں تھا نہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ وہ نبی بننے والے ہیں

قرآن میں  سورہ  شوری آیت ٥٣ میں ہے

وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب ولا الإيمان

اور اسی طرح ہم نے تم پر اپنے حکم سے الوحی کیا – تم نہیں جانتے تھے کتاب کیا ہے- ایمان کیا ہے

جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھ رہے تھے یہ ہی وہ وقت تھا جب آپ کو نہ کتاب کا معلوم تھا نہ ایمان کا معلوم تھا لہذا اس وقت آپ نبی نہیں تھے-  اگر جانتے ہوتے تو جبریل کی آمد کے منتظر ہوتے- ان کو دیکھ کر گھبراتے نہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کتاب اللہ کا علم تھا نہ ایمان کا ،  الوحی کے آنے سے پہلے اور یہ باتیں انبیاء کو فرشتے بناتے ہیں- کیا خواب میں ایمان کامل کا معلوم ہو سکتا ہے ؟ خواب اس وقت الوحی بنتا ہے جب انبیاء – انبیاء بن چکے ہوتے ہیں

  اگر   ہم   مان  لیں   کہ رسول اللہ پر خوابی الوحی سب سے پہلے آئی تو اس کا دور کب شروع ہوا ؟ اس کی کوئی حد نہیں ہے – بعض علماء نے اسی متن سے دلیل لی ہے کہ  رسول اللہ پیدائشی نبی تھے- ہم کو معلوم ہے کہ الوحی تین طرح اتی ہے

ترجمه: اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ اس سے بات کرے ۔ سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام لانے والا ( فرشتہ ) بھیج دے ، اور وہ اس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کا پیغام پہنچا دے ۔ یقینا وہ بہت اونچی شان والا بڑی حکمت کا مالک ہے ۔

اور سچا خواب مومن بھی دیکھتا ہے اور نبی بھی لیکن چونکہ نبی بننے کے بعد انبیاء کا دل نہیں سوتا ان کا خواب الوحی کی قسم میں سے ہے   جبکہ ایک عام شخص کا خواب سچا تو ہو سکتا ہے لیکن الوحی ہرگز نہیں –

کیا التحنث سنت ہے ؟

  اگر آمد جبریل سے قبل خواب میں رسول اللہ پر الوحی آ رہی تھی تو یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ ایمان کے مندرجات (مثلا فرشتوں پر غیب پر ایمان )کو جانتے تھے (لیکن اس کی تبلیغ نہیں کرتے تھے) تو پھر فرشتہ دیکھ کر گھبرائے کیوں ؟ – اگر آمد جبریل سے قبل کے خوابوں کو الوحی مان لیں تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ جبریل کی آمد سے قبل ہی رسول اللہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ ایمان کیا ہے اور کتاب کیا ہے- سوال ہے  تو پھر وہ التحنث کیوں کر رہے تھے ؟ کیا دین میں اس عبادت کی کوئی دلیل موجود ہے کہ رہبان کی طرح پہاڑ پر جا کر بیٹھ جاؤ ؟ اسلام میں تو گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانے کا حکم  نہیں ہے – اللہ نے رہبانیت کو نصرانی بدعت قرار دیا ہے –   عرب کے حنفاء کو یہ چیز انہی سے ملی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئی اور آپ نے بھی مراقبہ غار میں کیا- پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا وہاں مراقبہ یا التحنث کرنا، یہ عمل نبی بننے سے پہلے کا  تھا اسی لیے ہمارے لئے دلیل نہیں ہے –   اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آمد جبریل سے قبل سے نبی سمجھیں  گے تو التحنث  سنت  ہوا – گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا دلیل ہوا

یوسف علیہ السلام کا  خواب

سوره یوسف میں بیان ہوا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا

قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے  سجدہ کررہے ہیں

یعقوب علیہ السلام نے اس خواب کو سننے کے بعد یہ نہیں کہا کہ ہماری شریعت میں سجدہ جائز ہے یہ کوئی خاص چیز نہیں بلکہ آپ علیہ السلام نے اندازہ لگا لیا کہ الله کی طرف سے یوسف کی توقیر ہونے والی ہے. یعقوب علیہ السلام نے خواب چھپانے کا حکم دیا

قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ

کہا اے بیٹے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے خلاف سازش کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے

پھر یوسف کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں پھینکا وہاں سے الله نے مصر پہنچایا اور الله نے عزیز مصر کا وزیر بنوایا  پھر قحط پڑنے کی وجہ سے بھائیوں کو مصر آنا پڑا اور بلاخر ایک وقت آیا کہ خواب سچ ہوا

رَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ ھ۔ذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا

اور احترام سے بٹھایا اس نے اپنے والدین کو تخت پر اور جھک گئے سب اس کے لئے سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا: ابّا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچّا

اس خواب کی بابت بعض لوگوں نے  بلا دلیل موقف اختیار کر لیا ہے کہ یہ خواب دیکھنا ہی  یوسف کی نبوت کا آغاز تھا- یہ    موقف اس لئے اپنایا گیا کہ کسی  طرح   اس سجدہ  کو حکم الہی  قرار دیا جائے جو     سورت میں بیان ہوا کہ اولاد یعقوب  سے یوسف کے حوالے سے ہوا  –   بعض نے  اس سجدے کو اللہ  تعالی کو سجدہ  قرار دیا جبکہ  آیت میں ضمیر الہا     یوسف کی طرف ہے نہ کہ اللہ تعالی کی طرف –   راقم کا موقف ہے کہ یہ سجدہ  انحنا  تھا   یعنی صرف  شرمندہ ہو کر جھکنا   تھا   نہ کہ معروف نماز   کا اصطلاحی  سجدہ-   یاد رہے کہ سجد  کا لفظ    قریش کی عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب زمین کی طرف لپکنا ہے – جب ان کے بھائی مصر کے دربار میں پہنچے تو یوسف کے بھائی  شرم و ندامت سے  جھک  گئے اور اس طرح وہ خواب حق ہو گیا جو دیکھا تھا – یہ سجدہ تعظیمی نہ تھا یہ صرف زمین کی طرف  جھکنا تھا جس کو الانحناء بھی کہا جاتا ہے-  یوسف علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو فرمایا

وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ

اے باپ یہ میرے پچھلے خواب کی تاویل تھی (آج) میرے رب نے اس کو حق کر دیا

یوسف کا خواب الوحی نہیں تھا

اس پر دلیل یہ ہے کہ  انبیاء پر تو لازم ہے کہ جو الوحی ہو اس کو ببانگ دھل بیان کریں  و اللہ یعصمک من الناس

اللہ ان کو لوگوں سے بچائے گا

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ

اے رسول پھیلا دو جو تمہارے رب نے تم پر نازل کیا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کو نہیں ادا کیا اور بے شک اللہ لوگوں سے بچائے گا

سورہ المائدہ ٦٧ میں

جس کو علم کی بات معلوم ہو اور اس کو چھپا دے اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا حدیث

ان فرمودات کی روشنی میں واضح ہے کہ یعقوب نے اس کو اپنے غیر نبی بیٹے یوسف کا سچا خواب سمجھا جس کو ابھی نبوت نہیں ملی لیکن عنقریب اس پر نعمت تمام ہو گی اور وہ نبی بن جائے گا-  یوسف علیہ السلام کا یہ خواب اسی طرح سچی خبر تھا جس طرح ایک عام مومن بندے کو سچا خواب اتا ہے جو پورا ہوتا ہے- یعقوب اس وقت نبی تھے انہوں نے جو کہا اس میں اس کا کہیں اثبات نہیں ہے کہ تم اے یوسف نبی بن چکے ہو بلکہ ان کے نزدیک ابھی یوسف پر اتمام نعمت نہیں ہوا تھا –  نبی بننا ہی سب سے بڑی نعمت ہے جو یوسف کو اس وقت نہیں ملی تھی

کوئی بھی خواب دیکھ کر عام مومن نہیں کہہ سکتا ایسا ہو گا لیکن اگر وہ عام مومن اپنا خواب نبی پر پیش کرے تو وہ نبی اس کی تاویل کر سکتا ہے –  یوسف (علیہ السلام ) جب غیر نبی تھے تو انہوں نے اپنا خواب نبی یعقوب (علیہ السلام ) پر پیش کیا –  یعقوب علیہ السلام نے تاویل کی- یعقوب  کو بھی  اس خواب کی مکمل تفصیل الوحی سے نہیں پتا چلی تھی کہ یوسف بچھڑ جائیں گے اور یہ سب مصر میں ہو گا –  انبیاء جب تاویل کرتے ہیں تو وہ ان کو اشارات پر کرتے ہیں اس پر الوحی نہیں اتی  کیونکہ  تاویل ایک علم ہے جو سکھا دیا جاتا ہے اس کا استعمال کر کے انبیاء خواب کی تعبیر کرتے ہیں – دوسری طرف الوحی ہے جو کب آئے کی خود انبیاء کو بھی علم نہیں ہوتا-

  یوسف  علیہ السلام کے تمثیلی خواب کو اگر ہم وحی مان لیں تو ثابت ہو جائے گا کہ انبیاء نے جو تمثیلی خواب دیکھے ان کو اس کا مطلب  خود بھی نہیں پتا تھا  جو ممکن نہیں کہ ایک  نبی کو خواب دکھایا جائے لیکن وہ اس خواب کی تاویل کو سمجھ ہی نہ پائے –  لہذا ثابت یہی ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام  اس خواب کے  آنے کے وقت نبی نہیں عام بشر تھے – یوسف علیہ السلام کے خواب پر یعقوب علیہ السلام  نے  پیغمبرانہ تبصرہ  کیا  اور  تبصرہ بھی انبیاء کر سکتے ہیں اور دعا بھی دے سکتے ہیں-   یعقوب علیہ السلام  کے  تبصرے میں  الفاظ محض دعا جیسے کلمات ہیں –

یعقوب علیہ السلام اصل میں اس وعدہ الہی کی بنیاد پر تبصرہ کر رہے ہیں جو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا

وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ

سورہ بقرہ ١٢٤

جب تمھارے رب نے ابراھیم کی آزمائش کلمات (احکام) سے کی، تو اس نے ان کو پورا کیا – کہا میں نے تجھ کو انسانوں پر امام کیا بولا اور میری اولاد ؟ کہا میرا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں

یوسف علیہ السلام کا خواب سن کر یعقوب علیہ السلام کی بات اسی وعدہ کی عملی شکل کا ذکر ہے کہ  اب ابراہیم کے بعد اللہ تعالی یوسف کو امام بنا رہا ہے- فرمایا

 (سورہ یوسف، آیت6)

اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا، اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا اور تم پر اور یعقوب کی اولاد پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسے اس نے اس سے پہلے تمہارے ماں باپ پر اور ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی۔ یقینا تمہارا پروردگار علم والا اور حکمت والا ہے۔

کتاب الرویا

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

اس مختصر  کتاب میں  خواب   سے متعلقہ  مباحث    کا ذکر ہے-  جن     میں    ان  روایات  پر تحقیق کی گئی ہے  جو  تعبیر  خواب کے  نام   پر دھندہ  کرنے والے  پیش کر  کے عوام   کا  مال بتوڑتے  ہیں –  کتاب  میں  خواب میں الله تعالی  کو دیکھنے  اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کا دیدار  کرنے سے متعلق  بھی روایات  پیش کی گئی ہیں   اور  ان کی اسناد  پر تحقیق کی گئی ہے- آخری ابواب میں  فرقوں کے متضاد  خواب    جمع  کیے   گئے ہیں   اور  ان کی تلبسات  باطلہ کا  رد  کیا گیا ہے –   اس کتاب میں انبیاء کے وہ خواب جو انہوں نے نبی بننے سے قبل  دیکھے ان پر  نظر ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہ خواب محض سچے خواب تھے نہ کہ الوحی-

مسجد دمشق کی حقیقت

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ وَابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ “لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا”

.مجھ سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھ کو معمر اور یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر چہرہ     پر باربار ڈال لیتے پھر جب شدت بڑھتی تو اسے ہٹا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں فرمایا تھا، اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کو ان کے کئے سے ڈرانا چاہتے تھے۔

موطا    امام مالک   ميں ہے
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ. اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ

عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ نے کہا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے کہا اے الله ميري قبر کو بت مت بنا – الله کا غضب پڑھتا ہے اس قوم پر جو اپنے انبياء کي قبروں کو مسجد بنا دے

سن ٣٢٥ بعد مسیح  کی بات ہے،   قیصر روم کونستینٹین [1]کی والدہ فلاویہ اولیا  ہیلینا آگسٹا[2]  نے  عیسائی مبلغ  یسوبئوس [3]کو طلب کیا اور نصرانی دھرم کی حقانیت جاننے کے لئے شواہد طلب کیے- کونستینٹین نے اپنی والدہ کو نصرانی دھرم  سے متعلق آثار جمع کرنے پر مقرر کیا یا بالفاظ دیگر ان کو آرکیالوجی کی وزارت کا قلمدان دیا گیا اور اس سب کام میں اس قدر جلدی کی وجہ یہ تھی کہ مملکت کے حکمران طبقہ نے متھرا دھرم[4] چھوڑ کر نصرانی دھرم قبول کر لیا تھا اور اب اس کو عوام میں بھی استوار کرنا تھا لہذا راتوں رات روم میں بیچ شہر میں موجود جوپیٹر یا مشتری کے مندر کو ایک عیسائی عبادت گاہ میں تبدیل کیا گیا اس کے علاوہ یہی کام دیگر اہم شہروں یعنی دمشق اور یروشلم میں بھی کرنے تھے – لیکن ایک مشکل درپیش تھی کہ کن کن مندروں اور مقامات کو گرجا گھروں میں تبدیل کیا جائے؟   اسی کام کو کرنے کا کونستینٹین کی والدہ   ہیلینا نے بیڑا اٹھا لیا اور عیسائی مبلغ  یسوبئوس کو ایک مختصر مدت میں ساری مملکت میں اس قسم کے آثار جمع کرنے کا حکم دیا جن سے دین نصرانیت کی سچائی ظاہر ہو-

عیسائی مبلغ  یسوبئوس  نے نصرانیت کی تاریخ پر کتاب بھی  لکھی اور بتایا کہ ہیلینا کس قدر مذہبی تھیں[5] – یہ یسوبئوس   ہی تھے جنہوں نے کونستینٹین کے سامنے نصرانیوں کا عیسیٰ کی الوہیت پر اختلاف پیش کیا اور سن ٣٢٥ ب م   میں  بادشاہ نے فریقین کا مدعا سننے کے بعد تثلیث [6]کے عقیدے کو   پسند کیا اور اس کو نصرانی دھرم قرار دیا گیا-  واضح رہے کہ کونستینٹین ابھی ایک کافر بت پرست ہی تھا کہ اس کی سربراہی میں نصرانی دھرم کا یہ اہم فیصلہ کیا گیا  – کچھ عرصہ  بعد بادشاہ کونستینٹین  نے خود بھی اس مذھب کو قبول کر لیا-

 بحر الحال،  یسوبئوس  نے راتوں رات کافی کچھ برآمد کر ڈالا جن میں انبیاء کی قبریں، عیسیٰ کی پیدائش اور تدفین کا مقام ،اصلی صلیب، یحیی علیہ السلام کے سر کا مقام، وہ مقام جہاں ہابیل قتل ہوا، کوہ طور، بھڑکتا شجر جو موسی کا دکھایا گیا اور عیسیٰ کے ٹوکرے جن میں مچھلیوں والا معجزہ ہوا تھا  وغیرہ شامل تھے – یہودی جو فارس یا بابل میں تھے وہ بھی بعض انبیاء سے منسوب قبروں کو پوجتے تھے   مثلا دانیال کی قبر وغیرہ- ان مقامات کو فورا مقدس قرار دیا گیا اور یروشلم واپس دنیا کا ایک اہم  تفریحی اور مذہبی مقام بن گیا جہاں ایک میوزیم کی طرح تمام اہم چیزیں لوگوں کو دین مسیحیت کی حقانیت کی طرح بلاتی تھیں- یسوبئوس سے قبل ان مقامات کوکوئی  جانتا تک نہیں تھا اور نہ ہی کوئی تاریخی شواہد اس پر تھے اور نہ ہی یہودی اور عیسائیوں میں یہ مشہور  تھے- مسلمان آج اپنی تفسیروں ،میگزین  اور  فلموں میں انہی مقامات کو دکھاتے ہیں جو در حققت یسوبئوس  کی دریافت تھے- سن ١٧ ہجری میں مسلمان   عمر رضی الله عنہ کے دور میں  ان علاقوں میں داخل ہوئے اور ان عیسائی و یہودی  مذہبی مقامات کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا – یہاں تک کہ نبو امیہ کا دور آیا –  خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور میں ان میں سے بعض مقامات کو مسجد قرار دیا گیا مثلا جامع الاموی دمشق جس میں مشہور  تھا کہ اس میں یحیی علیہ السلام کا سر دفن ہے -اس سے قبل اس مقام پر الحداد کا مندر تھا پھر مشتری کا مندر بنا اور  جس کو یسوبئوس   کی دریافت پر یحیی علیہ السلام کے سر کا مدفن کہا گیا- اسی مقام پر نصرانیوں نے ایک گرجا بنا دیا اور اس میں ان کی عبادت ہونے لگی تھی  –  کہا جاتا ہے کہ جب مسلمان دمشق میں داخل ہوئے تو شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے اس کے ایک حصے میں مسلمان اپنی عبادت کرتے رہے جو جنوب  شرقی حصے میں ایک چھوٹا سا مصلی تھا –  لیکن مکمل گرجا پر عیسائیوں کا ہی کنٹرول تھا وقت کے ساتھ کافی لوگ مسلمان ہوئے اور ولید بن عبد الملک کے دور میں اس پر مسلمانوں نے مکمل قبضہ کیا-

مسجد دمشق    جامع  بنی امیہ  میں یحیی علیہ السلام سے منسوب مقام

https://www.youtube.com/watch?v=kf6B1cKJFKg

ولید بن عبد الملک بن مروان   کی  تعمیرات

ولید نے کافی تعمیراتی کام کروایے ،   لیکن ان سب کو اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا گیا – اگر ان کے سامنے یہ سب ہوتا تو وہ اس کو پسند نہ کرتے-وقت کے ساتھ مسلمانوں نے ان مقامات پر قبضہ کرنا شروع کیا جو بنیادی طور پر یسوبئوس  کی دریافت تھے اور وہی قبریں جن سے دور رہنے کا فرمان نبوی تھا ان کو اس  امت میں واپس آباد کیا گیا-

ابن بطوطہ المتوفی ٧٧٩ ھ کتاب تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار میں لکھتے ہیں

وفي وسط المسجد قبر زكرياء عليه السلام  ، وعليه تابوت معترض بين أسطوانتين مكسو بثوب حرير أسود معلّم فيه مكتوب بالأبيض:” يا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى

اور مسجد کے وسط میں زکریا علیہ السلام کی قبر ہے اور تابوت ہے دو ستونوں کے درمیان جس پر کالا ریشمی کپڑا ہے  اس پر لکھا ہے سفید رنگ میں  یا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى

کہیں اس کو یحیی علیہ السلام   کی قبر کہا جاتا ہے کہیں اس کو زکریا علیہ السلام   کی قبر کہا جاتا ہے بعض کتاب میں اس کو هود علیہ السلام کی قبر بھی کہا گیا ہے- کتاب  فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ)  کے مطابق

 أخبرنا عبد الرحمن بن عمر حدثنا الحسن بن حبيب حدثنا أحمد بن المعلى حدثنا أبو التقي الحمصي حدثنا الوليد بن مسلم قال لما أمر الوليد بن عبد الملك ببناء مسجد دمشق كان سليمان بن عبد الملك هو القيم عليه مع الصناع فوجدوا في حائط المسجد القبلي لوح من حجر فيه كتاب نقش فأتوا به الوليد بن عبد الملك فبعث به إلى الروم فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى العبرانيين فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى من كان بدمشق من بقية الأشبان فلم يقدر أحد على أن يستخرجه فدلوه على وهب بن منبه فبعث إليه فلما قدم عليه أخبروه بموضع ذلك الحجر الذي وجدوه في ذلك الحائط ويقال إن ذلك الحائط من بناء هود  النبي عليه السلام وفيه قبره

ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ جب ولید بن عبد الملک نے مسجد دمشق بنانے کا ارادہ کیا تو سلیمان بن عبد الملک اس پر مقرر کیا   جو کاریگروں کا کام دیکھتے تھے اور ان کو ایک  پتھر کی لوح ملی مسجد کے صحن سے جس پر نقش تھے اور اس کو ولید بن عبد الملک کو دکھایا گیا جس نے اس کو روم بھجوایا  ان سے بھی حل نہ ہوا پھر یہودیوں کو دکھایا ان سے بھی حل نہ ہوا  پھر دمشق کے بقیہ افراد کو دکھایا اور کوئی بھی اس کے حل پر قادر نہ ہوا پس اس کو وھب بن منبہ پر پیش کیا  انہوں نے کہا کہ یہ دیوار هود کے دور کی ہے اور یہاں صحن میں  ان کی قبر ہے

الغرض صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین اس مقام کو گرجا کے طور پر ہی جانتے تھے اور ایسی مسجد جس میں جمعہ ہو  کے لئے یہ جگہ معروف نہ تھی-

مینار بنانا ایک عیسائی روایت تھی،  جس میں راہب اس کے اوپر بیٹھتے اور عبادت کرتے اور باقی لوگوں کو اوپر انے کی اجازت نہیں ہوتی تھی-  کتاب  أخبار وحكايات لأبي الحسن الغساني   از  محمد بن الفيض بن محمد بن الفياض أبو الحسن ويقال أبو الفيض الغساني (المتوفى: 315هـ) کی ایک مقطوع روایت ہے

 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هِشَامِ بن يحيى الغساني قَالَ حدثن أَبِي عَنْ جَدِّي يَحْيَى بْنِ يحي قَالَ لَمَّا هَمَّ الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِكَنِيسَةِ مَرْيُحَنَّا لِيَهْدِمَهَا وَيَزِيدَهَا فِي الْمَسْجِدِ دَخَلَ الْكَنِيسَةَ ثُمَّ صَعَدَ مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ الْمَعْرُوفَةَ بِالسَّاعَاتِ وَفِيهَا رَاهِبٌ نُوبِيٌّ صومعة لَهُ فأحدره من الصوعمعة فَأَكْثَرَ الرَّاهِبُ كَلَامَهُ فَلَمْ تَزَلْ يَدُ الْوَلِيدِ فِي قَفَاهُ حَتَّى أَحْدَرَهُ مِنَ الْمَنَارَةِ ثُمَّ هَمَّ بِهَدْمِ الْكَنِيسَةِ فَقَالَ لَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ نَجَّارِي النَّصَارَى مَا نَجْسُرُ عَلَى أَنْ نَبْدَأَ فِي هَدْمِهَا يَا أَمِير الْمُؤمنِينَ نخشى أنَعْثُرَ أَوْ يُصِيبَنَا شَيْءٌ فَقَالَ الْوَلِيد تحذرون وتخافون يَا غلان هَاتِ الْمِعْوَلَ ثُمَّ أُتِيَ بِسُلَّمٍ فَنَصَبَهُ عَلَى مِحْرَابِ الْمَذْبَحِ وَصَعَدَ فَضَرَبَ بِيَدِهِ الْمَذْبَحَ حَتَّى أَثَّرَ فِي هـ أَثَرًا كَبِيرًا ثُمَّ صَعَدَ الْمُسْلِمُونَ فَهَدَمُوهُ وَأَعْطَاهُمُ الْوَلِيدُ مَكَانَ الْكَنِيسَةِ الَّتِي فِي الْمَسْجِدِ الْكَنِيسَةَ الَّتِي تُعْرَفُ بِحَمَّامِ الْقَاسِمِ بِحِذَاءِ دَارِ أَن الْبَنِينَ فِي الْفَرَادِيسِ فَهِيَ تُسَمَّى مَرْيُحَنَّا مَكْانَ هَذِهِ الَّتِي فِي الْمجد وَحَوَّلُوا شَاهِدَهَا فِيمَا يَقُولُونَ هُمْ إِلَيْهَا إِلَى تِلْكَ الْكَنِيسَةِ قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَنَا رَأَيْتُ الْوَلِيدَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ فَعَلَ ذَلِكَ بِكَنِيسَةِ

 يَحْيَى بْنِ يحي کہتے ہیں کہ جب الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ نے    کنِيسَةِ مَرْيُحَنَّا کو گرانے کا ارادہ کیا اور اس کی جگہ مسجد کو بنانے کا تو وہ کنِيسَةِ میں آئے اور مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ  پر چڑھے جو السَّاعَاتِ کے نام سے معروف ہے جن میں  راہب    نُوبِيٌّ   تھا … پس عیسائی بڑھییوں نے کہا اے امیر المومنین ہم خوف زدہ ہیں کہ ہم کو کوئی برائی نہ پہنچے پس ولید نے کہا تم سب ڈرتے ہو اوزار لاؤ پھر محراب الْمَذْبَحِ   پر گئے اور وہاں ضرب لگائی جس پر بہت اثر ہوا پھر مسلمان چڑھے اور انہوں نے ضرب لگائی اور اس کو گرایا اور ولید نے عیسائیوں کو کنِيسَةِ کی جگہ….. دوسرا مقام دیا

بنو امیہ کا مقصد قبر پرستی نہیں تھا – ان کا مقصد سیاسی تھا کہ عیسائیوں کو   ان کے معبد خانوں سے بے دخل کرنا تھا کیونکہ وہ شہروں کے بیچ میں تھے اور اہم مقامات پر تھے  – لیکن انہوں نے ان   عیسائیوں  کے اقوال پر ان کو انبیاء کی قبریں مان لیا اور ان کو    مسجد میں بدل دیا گیا – جو مقامات  یسوبئوس نے دریافت کیے تھے ان کو بغیر تحقیق کے قبول کر لیا گیا جبکہ نہ کوئی حدیث تھی نہ حکم رسول- اگلی صدیوں میں ان مقامات کو قبولیت عامہ مل گئی –    تاریخ بیت المقدس نامی کتاب میں جو ابن جوزی تصنیف ہے اس میں مصنف نے بتایا ہے  یہاں کس کس کی قبر ہے جو روایت  بلا سند کے مطابق جبریل علیہ السلام نے بتایا

هذا قبر أبراهيم، هذا قبر سارة، هذا قبر إسحاق، هذا قبر ربعة، هذا قبر يعقوب، هذا قبر زوجته

انہی قبروں کو یہود و نصاری نے آباد کر رکھا تھا جن پر کوئی دلیل نہیں تھی  -اب  انہی  قبروں کو  مسلمانوں    نے   آباد کر رکھا ہے  اور تصور قائم رکھا ہوا کہ یہاں عیسیٰ کا نزول ہو گا – ایسی جگہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول کیوں ہو گا جہاں  انبیاء کی قبریں   کو پوجا کی گئی ہو اور ابھی تک یہ مزارات وہاں موجود ہیں

جامع مسجد الاموی  کا مینار جو بقول ابن کثیر  سن ٧٤١ ھ میں   سفید  پتھر سے  بنا یا  گیا  

مسجد دمشق وہی مقام ہے   جو  انبیاء کی قبروں سے منسوب ہے  اور یہاں اصلا ایک چرچ تھا جس کو  بنو امیہ نے مسجد بنا دیا –    فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ)  میں ہے

وأخبرنا تمام قال: حدثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ المعلى حدثنا القاسم بن عثمان قال: سمعت الوليد بن مسلم وسأله رجل يا أبا العباس أين بلغك رأس يحيى بن زكريا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بلغني أنه ثم وأشار بيده إلى العمود المسفط الرابع من الركن الشرقي.

ولید بن مسلم  نے  ایک شخص کے سوال پر کہ یحیی کا سر     (مسجد دمشق میں ) کہاں ہے کہا کہ مجھ تک پہنچا پھر ہاتھ سے چوتھے ستون کی طرف رکن شرقی کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ہے

یکایک یہ  دریافتیں شاید دمشق کی اہمیت بڑھانے کے لئے تھیں  کہ امت دمشق کو بھی مقدس سمجھے اور وہاں جا کر ان  مقامات کو دیکھے[7]،   جبکہ موطا ور  بخاری و مسلم میں انبیاء کی ان  نام نہاد قبروں کا وجود و خبر   تک نہیں

عیسیٰ دمشق میں نازل ہوں گے  

عیسیٰ علیہ السلام اپنے نزول پر  کہاں ظاہر ہوں گے اس پر نصرانیوں کا اختلاف ہے – ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام دمشق میں ظاہر ہوں گے – پروٹسٹنٹ  فرقے کے بقول یروشلم میں اور کیتھولک  فرقے کے مطابق روم میں-

مسیح کی آمد ثانی کو نصرانی

Parousia, the Second Coming of Christ

کہتے ہیںشام، لبنان ، اردن فلسطین  میں   آج بھی ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ  کا زور ہے اور  وہاں کے تمام قدیم چرچ اسی فرقہ کے کنٹرول میں ہیں –

یسعیاہ   باب ١٧ میں ہے

An  oracle concerning  Damascus.

Behold, Damascus will cease to be a city

and will become a heap of ruins

اور دمشق پر پیشنگوئی ہے کہ خبردار دمشق شہر نہ رہے گا اور کھنڈر بن جائے گا

اس آیت کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ کی آمد سے پہلے دمشق جنگ  سے اجڑا ہو گا –

نصرانی کہتے ہیں کہ عیسیٰ   صلیب پر  فوت ہوئے   اور دوبارہ زندہ  ہوئے  اور  دمشق  کے رستے میں لوگوں پر ظاہر ہوئے –  ان کے جھوٹے رسول پاول نے خبر دی کہ دمشق  کے رستہ میں عیسیٰ نے حکم دیا کہ جاو تبلیغ کرو-  پاول کے بقول پہلی بار زندہ مسیح دمشق کے رستے میں ظاہر ہوا – عرب  نصرانیوں  جن کی اکثریت

Eastern Orthodox Church

کی ہے ان میں   یہ بات مشہور چلی آئی ہے  کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے  –  اس کی وجہ یہ ہے کہ صلیب کے بعد سینٹ پال کے بقول اس نے دمشق کے راستہ میں سب سے پہلے جی اٹھنے والے مسیح کو دیکھا تھا –  اس بنا پر  عرب نصرانی اس کے منتظر ہیں کہ آمد ثانی پر بھی  عیسیٰ   دمشق کے پاس ظاہر ہوں گے – ایسٹرن  آرتھوڈوکس نصرانی کہتے ہیں کہ دمشق  میں نزول ثانی  کے بعد عیسیٰ فاتحانہ انداز میں گھوڑے  کی سواری کر کے یروشلم میں داخل ہوں گے – مسجد الاقصی جائیں گے وہاں   یہود یا تو آپ کو مسیح تسلیم کر لیں گے یا قتل ہوں گے  – اس  کو بائبل کی کتب  یرمیاہ    و  زکریا    سے اخذ کیا گیا  ہے –  چند سال پہلے پوپ  بینی ڈکٹ

Pope  Benedict

نے جب دمشق کا دورہ کیا تو ویٹی کن کے ایک کارندے نے اخباری نمائندوں کو اس کی یہی وجہ بتائی کہ یہ نصرانی  روایات ہیں کہ عیسیٰ نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے جس کو راقم نے خود ایک ڈوکومینٹری میں سنا-

مسلمانوں میں مشہور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول  صدر   دمشق   میں  جامع  مسجد   الاموی پر ہو گا جس کا مینار سفید  ہے  – البتہ دور بنو امیہ کی مشہور جامع الاموی کا مینار  سفید نہیں تھا – کتاب  النهاية في الفتن والملاحم    میں ابن کثیر کا کہنا ہے

وقد جدد بناء المنارة في زماننا في سنة إحدى وأربعين وسبعمائة من حجارة بيض ، وكان بناؤها من أموال النصارى الذين حرقوا المنارة التي كانت مكانها ،
اس مینار کی تجدید کی گئی ہمارے دور میں سن ٧٤١ ھ میں کہ اس کو سفید   پتھر کا کیا گیا  اور اس کو   اس مال سے بنایا گیا جو نصرانییوں  کا تھا جنہوں نے اصل مینار  کو  جلا دیا  جو پہلے یہاں تھا

کتاب     البداية والنهاية ج ١٣ / ص ١٧٥ پر ابن کثیر نے لکھا

وفي ليلة الأحد الخامس والعشرين من رجب وقع حريق بالمنارة الشرقية فأحرق جميع حشوها وكانت سلالمها سقالات من خشب وهلك للناس ودائع كثيرة كانت فيها وسلم الله الجامع وله الحمد وقدم السلطان بعد أيام إلى دمشق فأمر بإعادتها كما كانت قلت ثم احترقت وسقطت بالكلية بعد سنة أربعين وسبعمائة وأعيدت عمارتها أحسن مما كانت ولله الحمد وبقيت حينئذ المنارة البيضاء الشرقية بدمشق كما نطق به الحديث في نزول عيسى عليه السلام عليها

اور اتوار  رجب کی ٢٥ تاریخ  کو شرقی مینار میں اگ لگی اور یہ سب جل گیا   بس اس کے کچھ لکڑی کے  ڈنڈے رہ گئے   …  اور اللہ نے مسجد کو بچا لیا  اس کا شکر ہے اور سلطان چند روز بعد دمشق  تشریف لائے اور انہوں نے اس کی تعمیر نو کا حکم کیا جیسا یہ پہلے تھا – میں کہتا ہوں  یہ   جلا   اور تمام گر گیا تھا پھر  سن  ٧٤١ ھ   کے بعد  اور اسکی تعمیر نو کی گئی اچھی طرح    و للہ لحمد اور اب یہ باقی ہے   سفید مینار کے طور پر جیسا حدیث نزول عیسیٰ میں بولا گیا ہے

تفسیر   ابن کثیر میں ابن کثیر کا قول ہے

وفيها دلالة على صفة نزوله ومكانه ، من أنه بالشام ، بل بدمشق ، عند المنارة الشرقية ، وأن ذلك يكون عند إقامة الصلاة للصبح وقد بنيت في هذه الأعصار ، في سنة إحدى وأربعين وسبعمائة منارة للجامع الأموي بيضاء ، من حجارة منحوتة ، عوضا عن المنارة التي هدمت بسبب الحريق المنسوب إلى صنيع النصارى – عليهم لعائن الله المتتابعة إلى يوم القيامة – وكان أكثر عمارتها من أموالهم ، وقويت الظنون أنها هي التي ينزل عليها [ المسيح ] عيسى ابن مريم ، عليه السلام

ان روایات سے عیسیٰ کے نزول  کی صفت اور مکان کا معلوم ہوا کہ وہ شام میں ہے  بلکہ دمشق میں ہے  سفید مینار کے پاس اور یہ ہو سکتا ہے نماز فجر کے وقت اور  عصر حاضر میں سن ٧٤١ ھ   میں جامع الاموی  کا مینار سفید کیا گیا     اس پتھر کو  لیا گیا جو فن صناعی میں استعمال ہوتا ہے    – اس سے مینار کو بنایا گیا جو  منسوب ہے کہ نصرانییوں کی  حرکت سے جلا ان پر اللہ کی متعدد لعنت ہو قیامت تک  اور اکثر تعمیر ان کے  ہی اموال  سے کی گئی  اور ان گمانوں کو تقویت ملی کہ عیسیٰ ابن مریم  علیہ السلام کا اس پر نزول ہو گا  

ابن کثیر کے اقوال سے معلوم ہوا کہ اصل مینار لکڑی کا تھا جو جل گیا لیکن بعد میں  یہ سمجھتے ہوئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اس مسجد پر ہو گا اس کو سفید پتھر کا کیا گیا

راقم کہتا ہے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اس مقام پر ممکن نہیں جہاں انبیاء کی قبروں پر مسجد ہو

——————————–

[1] Constantine I  full name   Flavius Valerius Aurelius  Constantius Herculius Augustus (272 – 337 AD) age 65

[2] Flavia Iulia Helena c. 250 – c. 330

[3] Eusebius of Caesarea ( Greek: Εὐσέβιος, Eusébios; ad 260/265 – 339/340)

[4] Mithra Religion

[5] History of Church by Eusebius

[6] Trinity

[7]

عبد الملک بن مروان اور ولید بن عبد الملک کی جانب سے یہ یہ سب  عبد اللہ ابن زبیر رضی الله عنہ کی مخالفت میں کیا گیا تاکہ لوگ مکہ و مدینہ  کے سفر کی بجائے  دمشق میں ہی رہیں  اور اس کو بھی ایک مقدس مقام سمجھیں –  اس پر بحث مولف کی کتاب روایات المہدی تاریخ اور جرح و تعدیل کے میزان میں کی گئی ہے

حدیث سورہ الملک میں تحریف

احادیث میں بعض سورتوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور ان میں سے ایک سورہ الملک بھی ہے  البتہ یہ تمام روایتین صحیح نہیں ہیں – محدثین نے فضائل پر روایات جمع کیں کیونکہ ان کا مقصد فضائل کو رد کرنا نہیں تھا لیکن ان روایات میں جو عقائد بیان ہوئے ہیں ان کی تائید کرنا بھی ان کا مدعا نہیں تھا

محدثین  کے اقوال موجود ہیں کہ جب زہد و فضائل پر روایت ہو تو وہ تساہل برتتے ہیں لیکن جب حلال و حرام کی بات ہو تو اس میں احتیاط کرتے ہیں

اس طرح کی ایک روایت سورہ الملک کے حوالے سے امام ترمذی نے سنن میں نقل کی ہے
باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ سُورَةِ الْمُلْكِ
باب : سورۃ الملک کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2890
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ ضَرَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِبَاءَهُ عَلَى قَبْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ لَا يَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فِيهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ حَتَّى خَتَمَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي ضَرَبْتُ خِبَائِي عَلَى قَبْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا لَا أَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ فَإِذَا فِيهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الْمُلْكُ حَتَّى خَتَمَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ” هِيَ الْمَانِعَةُ هِيَ الْمُنْجِيَةُ تُنْجِيهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ “، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا اور انہیں گمان نہیں تھا کہ وہاں قبر ہے، پس اس قبر میں انسان سورۃ «تبارك الذي بيده الملك» کی قرات کر رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ وہ صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے کہا: اللہ کے رسول میں نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا، مجھے گمان نہیں تھا کہ اس جگہ پر قبر ہے۔ مگر اچانک کیا سنتا ہوں کہ اس میں ایک انسان سورۃ «تبارك الملك» پڑھ رہا ہے اور پڑھتے ہوئے اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ آپ نے فرمایا: «هي المانعة» “یہ سورۃ مانعہ ہے، یہ نجات دینے والی ہے، اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہے”۔

اس روایت کا ترجمہ دار السلام والے کرتے ہیں اور مترجمین نے اردو میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا اور انہیں معلوم نہیں ہوا کہ وہاں قبر ہے، (انہوں نے آواز سنی) اس قبر میں کوئی انسان سورۃ «تبارك الذي بيده الملك» پڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ وہ صحابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے پھر آپ سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا، مجھے گمان نہیں تھا کہ اس جگہ پر قبر ہے۔ مگر اچانک کیا سنتا ہوں کہ اس جگہ ایک انسان سورۃ «تبارك الملك» پڑھ رہا ہے اور پڑھتے ہوئے اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ آپ نے فرمایا: «هي المانعة» “یہ سورۃ مانعہ ہے، یہ نجات دینے والی ہے، اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہے”۔

لیکن اس روایت کا ترجمہ دار السلام والے کرتے ہیں اور مترجمین نے انگلش میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا

اس چیز کو بریلوی عالم فضل اللہ چشتی نے نوٹ کیا اور کتاب تحریفات میں پیش کیا

راقم کہتا ہے فضل اللہ چشتی صاحب کی بات صحیح ہے کہ انگریزی ترجمہ سراسر غلط ہے اور تحریف ہے  کیونکہ اس میں کر دیا گیا ہے کہ خیمہ لگانے والے صحابی نے قرآن کی قرات کی

امام بخاری اور اہل بیت

شيعوں کي معتبر کتاب بصائر الدرجات از ابو جعفر محمدبن الحسن بن فروخ الصفار المعروف بالصفار القمي (المتوفي 290 ق) جو الإمام الحسن عسکري کے اصحاب ميں سے تھے اور امام بخاري و مسلم کے ہم عصر بھي ہيں  روايت پيش کرتے ہيں
حدثنا احمد بن محمد عن على بن الحكم عن سيف بن عميره عن ابى بكر الحضرمى عن حذيفة بن اسيد الغفار قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله ماتكاملت النبوة لنبى في الاظلة حتى عرضت عليه ولايتى وولاية اهل بيتى ومثلوا له فاقروا بطاعتهم وولايتهم.

حذيفة بن اسيد الغفار رضي اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلى الله عليه وآله نے فرمايا
کسي نبي کو اس وقت تک نبوت نہيں ملي جب تک اس کے سامنے ميري اور ميرے اہل بيت کي ولايت پيش نہيں کي گئي اور يہ ائمہ ان کے سامنے پيش نہيں کئے گئے پس انہوں نے ان کي ولايت و اطاعت کا اقرار کيا تب ان کو نبوت ملي

يعني شيعہ جب کسي غير نبي کو “عليہ السلام ” کہتے ہيں تو احتراما ايسا نہيں کہہ رہے ہوتے ، بلکہ وہ ان کو مامور من اللہ ، انبياء سے افضل يا کم از کم برابر جان کے ايسا کہتے ہيں اور ائمہ اہل بيت کے ساتھ  علیہ السلام کے  لاحقہ کو لگانا ضروري سمجھتے ہيں-  يہ بات اہل سنت کو معلوم ہے اس بنا پر وہ ائمہ شيعہ يا اہل بيت کے ساتھ عليہ السلام کا لاحقہ نہيں لگاتے

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں امام حسن عسکری کے ہم عصر امام بخاری کی جامع الصحیح تک میں اہل بیت کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ لگا ہوا ہے

صحيح بخاري 2089 ميں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلاَمُ، قَالَ: «كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ المَغْنَمِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الخُمُسِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي، فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ، وَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرُسِي

صحيح بخاري 4947 ميں
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الجَنَّةِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ» فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلاَ نَتَّكِلُ؟ قَالَ: «لاَ، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ» ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى} [الليل: 5] إِلَى قَوْلِهِ {فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى} [الليل: 10]

صحيح بخاري 3748 ميں
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أُتِيَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ بِرَأْسِ الحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ، فَجَعَلَ يَنْكُتُ، وَقَالَ فِي حُسْنِهِ شَيْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ: «كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَخْضُوبًا بِالوَسْمَةِ»

صحيح بخاري ميں 20 بار متن حديث ميں فاطمةَ عليها السلامُ لکھا ہوا ہے

520
2911
3092
3110
3113
3185
3705
3711
3854
4035
4240
4433
4462
5248
5362
5722
6280
6285

اور دو بار فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ تعلیق ابواب میں اتا ہے  – اس طرح کل ملا کر یہ ٢٠ حوالے بنتے ہیں

اس سب کو دکھانے کا مقصد ہے کہ اہل سنت کو معلوم ہونا  چاہیے کہ کتاب میں مذھبی الفاظ کا اضافہ کاتب کرتے رہے ہیں اور اس قسم کی پابندی کا کسی محدث نے ذکر نہیں کیا کہ کاتب ضروری ہے کہ   شیعہ یا خارجی یا رافضی نہ ہو کیونکہ کتابت ایک فن ہے اور فن کی قیمت ادا کی جاتی ہے اس میں دین و مذھب کو نہیں دیکھا جاتا  – اگرچہ یہ ضروری تھا کہ اضافہ شدہ  علیہ السلام کے الفاظ کو رضی اللہ عنہ سے بدلا جاتا  لیکن یہ نہیں کیا گیا اور اب صحیح البخاری میں الگ الگ مقامات پر ان اضافوں کو دیکھا جا سکتا ہے

عطاء اللہ حنیف بھوجیانی  اپنا فتویٰ نقل کرتے ہیں

“اہل سنت کے کسی حلقے کی طرف سے حضرت علیؓ، حسنؓ و حسینؓ کے لئے “علیہ السلام” کا استعمال شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی نقطہ نظر کے فروغ کا باعث ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔” (آثار حنیف بھوجیانی جلد اول صفحہ ۲۳۷)

بھوجیانی  کے بقول یہ اہل بیت کے ناموں کے ساتھ رحمہ اللہ وغیرہ کی اضافت محمد بن أبي حاتم الرازي الورّاق النحوي کا کمال ہے جو امام بخاری کا شاگرد ہے جبکہ اس کی دلیل نہیں ہے

مسلمانوں میں کتابت  میں یہ عالم تھا کہ امام  احمد کہتے ہیں کہ قرآن تک  نصرانی سے لکھوایا جاتا تھا کیونکہ کاتب کم تھے

جزء في مسائل عن أبي عبد الله أحمد بن حنبل المؤلف: أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز بن المَرْزُبان بن سابور بن شاهنشاه البغوي (المتوفى: 317هـ) تحقيق: أبي عبد الله محمود بن محمد الحداد
الناشر: دار العاصمة، الرياض
الطبعة: الأولى، 1407 هـ

وَقَالَ: وَسَأَلَ رَجُلٌ أَحْمَدَ وَأَنَا أَسْمَعُ: بَلَغَنِي أَنَّ نَصَارَى يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ فَهَلْ يَكُونُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ نَصَارَى الْحَيْرَةِ كَانُوا يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ، وَإِنَّمَا كَانُوا يَكْتُبُونَهَا لِقِلَّةِ مَنْ كَانَ يَكْتُبُهَا. فَقَالَ رَجُلٌ: يُعْجِبُكَ ذَلِكَ؟ ! قَالَ: لا مَا يُعْجِبُنِي.

ایک رجل  نے احمد سے پوچھا کہ: میں نے سنا ہے کہ نصاری بھی قرآن کو لکھا کرتے تھے، یہ بات صحیح ہے ؟احمد  نے جواب دیا کہ: ہاں، حیرہ کے رہنے والے نصاری قرآن کو لکھا کرتے تھے، اس لیے کہ کاتب  کم تھے۔
ایک دوسرے شخص نے پوچھا کہ: کیا تم کو اس جواب سے تعجب ہوا  ؟ اس نے کہا: نہیں

یہ حوالہ بہت سی کتب میں موجود ہے

قرآن تو تواتر سے ملا ہے اور ظاہر  ہے اس میں غلطی آج بھی فورا پکڑ لی جاتی ہے جو وعدہ الہی کی عملی شکل ہے

رہی سہی کسر  پبلشرز نے پوری کر دی کہ انہوں نے جامع الصحیح میں جہاں بھی صحابی کا نام آئے وہاں رضی اللہ عنہ وغیرہ کے الفاظ کا اضافہ خود کر دیا ہے  جبکہ محدثین میں اس قسم کا  رواج نہیں تھا نہ جرح و تعدیل کی کتب میں اصحاب رسول کے ناموں کے ساتھ رحمتوں کا لاحقہ لگایا جاتا تھا

راقم کا مدعا یہ کہنا نہیں کہ اصحاب رسول کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ نہ لکھا جائے بلکہ نسخوں کی اصل حالت اور ان کے مندرجات میں بعد والوں کی تحریفات و اضافوں کا رد کرنا ہے – مصنف ابن ابی شیبہ میں اور مصنف عبد الرزاق کے نسخوں میں اہل حدیث کے بقول احناف نے ناف سے نیچے ہاتھ باندھو اور حدیث نور کا اضافہ کر دیا ہے –  – یعنی اہل سنت کے فرقوں کے بقول احادیث تک کو نسخوں میں بدلا یا ڈالا گیا ہے

اہل حدیث علماء میں صلاح الدین یوسف اپنی کتاب “رسومات محرم الحرام اور واقعہ کربلا “صفحہ ۵۲ میں اہل سنت کے علماء کی جانب سے ائمہ اہل تشیع اور فاطمہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ لگا نے پر لکھتے ہیں:

محترم !اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ علماء و فقہاء کے لئے “امام” کے لفظ کا استعمال اس معنی میں ہوتا ہے کہ وہ حدیث و فقہ کے ماہر تھے، حضرت حسینؓ کے لئے بھی اسے اس معنیٰ میں استعمال کیا جائے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں بلکہ اس معنیٰ میں وہ بعد کے ائمہ سے زیادہ اس لفظ کے مستحق ہیں۔ لیکن بات تو یہ ہورہی ہے کہ حضرت حسینؓ کو اس معنی میں “امام” نہیں کہا جاتا، اگر ایسا ہوتا تو ابوبکر و عمر و دیگر صحابہ کرام کو بھی امام لکھا اور بولا جاتا کہ وہ علوم قرآن و حدیث کے حضرت حسینؓ سے زیادہ رمز شناس تھے۔ جب کسی بڑے سے بڑے صحابی کے لئے امام کا لفظ نہیں بولا جاتا تو اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ صرف حضرت حسینؓ کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ان معنوں میں قطعاً نہیں جن میں اس کا استعمال عام ہے۔ بلکہ یہ شیعیت کے مخصوص عقائد کا غماز ہے۔ اس لئے اہلسنت کو اس سے اجتناب کرنا چاہیئے

سوال یہ ہے کہ صحیح بخاری میں پھر علیہ السلام کیوں لکھا جا رہا ہے

==========================

نوٹ : صحیح میں اضافوں کی  مزید مثال

 کہا جاتا ہے امام بخاری نے احمد کو رحمہ اللہ لکھا

Sahih Bukhari Hadees # 377

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ : سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ ؟ فَقَالَ : مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي ، هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، ثُمَّ رَكَعَ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ ، فَهَذَا شَأْنُهُ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ : سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عْلَى مِنَ النَّمسِ ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ ، قَالَ : لَا .

راقم کہتا ہے اس مقام پر رحمہ اللہ کے الفاظ  متن میں تحریف  ہیں   کیونکہ زندہ  کو کوئی مرحوم نہیں کہتا

امام بخاری نے علی المدینی کا قول نقل کیا اور علی المدینی نے زندہ احمد کو  رحمہ اللہ کہا

اب سوال ہے
اول امام احمد کا اس وقت انتقال  ہو چکا تھا یا حیات تھے  ؟ زندہ پر کوئی اس طرح رحمت کی دعا نہیں کرتا اکثر مردوں پر کی جاتی ہے
علی المدینی کا تو احمد سے بھی پہلے انتقال ہو گیا تھا

دوسرا سوال ہے کہ بعض الناس  کے بقول امام بخاری نے صحیح مرتب کرنے کے بعد اس کو امام احمد پر پیش کیا
کیا اس میں یہ الفاظ اس وقت لکھے ہوئے تھے؟
زندہ شخص کو اگر آج بھی کوئی مرحوم کہہ دے تو وہ ناراض ہو  جاتا ہے جبکہ مرحوم کا مطلب ہے اس پر رحم ہو، جو دعا ہے

یہ الفاظ ہر متن میں نہیں بلکہ اس اقتباس کا حوالہ ابن اثیر المتوفي ٦٠٦ نے جامع الأصول في أحاديث الرسول مين بھی دیا ہے اور رحمہ اللہ علیہ نہیں لکھا
قال البخاري: قال علي بن عبد الله (2) : سألني أحمد بن حنبل عن هذا الحديث؟ وقال: إنما أردتُ أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم- كان أعلى من الناس، فلا بأس أن يكون الإمام أعلى من الناس بهذا الحديث، قال: فقلت له: إن سفيانَ بن عيينة كان يُسألُ عن هذا كثيراً فلم تسمعه منه؟ قال: لا

حمیدی ٤٨٨ ھ نے الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم میں اس اقتباس کا ذکر کیا ہے
قَالَ أَبُو عبد الله البُخَارِيّ: قَالَ عَليّ بن عبد الله: سَأَلَني أَحْمد بن حَنْبَل عَن هَذَا الحَدِيث، وَقَالَ: إِنَّمَا أردْت أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ أَعلَى من النَّاس، فَلَا بَأْس أَن يكون الإِمَام أَعلَى من النَّاس بِهَذَا الحَدِيث. قَالَ: فَقلت لَهُ: إِن سُفْيَان بن عُيَيْنَة كَانَ يسْأَل عَن هَذَا كثيرا، فَلم تسمعه مِنْهُ؟ قَالَ: لَا

یعنی حمیدی اور ابن اثیر کے دور تک یعنی ٦٠٦ ہجری تک صحیح بخاری کے متن میں یہاں احمد کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ نہیں لکھا تھا اس کو بعد میں ڈالا گیا ہے

حدیث سمرہ (رض) پر نگارشات

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کی حدیث سمرہ بن جندب کو الوحی تسلیم کیا ہے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب ہے اور انبیاء کا خواب الوحی کی قسم میں سے ہے – اس کے بر عکس  فرقوں  نے اس  خواب کو  الوحی ماننے سے انکار کیا اور اس حدیث کو عذاب قبر کی کتب میں نکال دیا ہے – اگرچہ سن ٨٠ کی دہائی سے قبل وہ بھی اس  حدیث کو عذاب جہنم  یا عذاب البرزخ کے طور پر اپنے فتووں میں لکھتے رہے ہیں

حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ    جو صحیح البخاری میں موجود ہے وہ یہ  ہے

اس  کے شروع میں برزخی اجسام پر عذاب کا ذکر ہے جو جہنم میں ہو رہا ہے اور اس کو ارض مقدس کہا گیا ہے پھر اسی ارض مقدس میں انبیاء و شہداء کا ذکر ہے ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے اور اسی ارض مقدس میں بادل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے  برزخی مقام کا ذکر ہے

لیکن اس حدیث  کے شروع کے حصے کا سب اہل حدیث انکار کرتے ہیں کہ

ارض مقدس ملک  شام ہے آسمان نہیں

ارض مقدس میں عذاب ممکن نہیں

ارض مقدس میں عذاب خواب میں دیکھا یہ خواب تمثیلی تھا وغیرہ وغیرہ

لیکن جب اس کے آخری حصے پر اتے ہیں تو بعض  اسی ارض مقدس کو آسمان میں نبی کا گھر قرار دیتے ہیں مثلا زبیر علی زئی نے توضح الاحکام میں لکھا ہے

یعنی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں  انبیاء و شہداء کے حوالے سے ارض مقدس سے مراد عالم برزخ و عالم الارواح ہے  یعنی جنت  کا دور

جنت فرقوں کے نزدیک بھی آسمان میں ہے  جس سے ثابت ہوا کہ ارض مقدس  سے مراد عالم بالا ہے لیکن اہل حدیث مولوی  دامانوی   کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

مگر اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ آپ کو الارض المقدس میں لے جایا گیا جہاں مختلف مناظر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا اور یہ تمام واقعات آپ نے زمین ہی ملاحظہ فرماتے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ قبر کا عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے

اہل حدیث مولوی    رفیق طاہر تقریر  اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں کہتے  ہیں

یہ واقعہ خواب کا ہے اور کیا ہے کہ دو بندے آپ کے پاس آئے۔ ”فاخرجاني الی الارض المقدسة“ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ اب کوئی پوچھے کہ ارض کا معنی آسمانوں والا گھر کرنا ، یہ دین کی خدمت ہے؟ یہ کون سی فقاہت ہے؟ نبی فرمارہے ہیں کہ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ واقعہ بھی خواب کا ہے ، اور لے کر کہاں جارہے ہیں؟ ”الى الارض المقدسة“ ارض مقدسہ کی طرف۔ اور وہاں پر نبی نے اوپر اپنا گھر دیکھا اور کہا گیا کہ یہ آپ کا گھر ہے۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ آسمانوں والے گھر میں ہیں۔ یا للعجب! بڑی عجیب اور حیرانی کی بات ہے۔یہ اعتراض بھی ان کا حدیث کے شروع والے الفاظ پڑھتے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اور ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔

راقم کہتا ہے کہ ایک اہل حدیث اسی حدیث کو عالم بالا پر  لگا رہا ہے تو دوسرا  اسی کا مذاق اڑا رہا ہے کہ یہ کون سی دینی خدمت ہے

 رفیق طاہر صاحب، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

اور پھر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے کہا “إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوْ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ” یقینا آپکی کچھ عمر باقی ہے اگرآپ وہ پوری کر لیں گے تو آپ اپنے گھر میں آ جائیں گے۔ مرنے کے بعد ہی اخروی گھر جنت یا جہنم میں انسان جاتا ہے ۔ لیکن فورا بعد یا کچھ دیر بعد ‘ اسکا کوئی تذکرہ اس حدیث میں موجود ہی نہیں ہے ۔

اس کے برعکس ابو جابر دامانوی کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

جناب سمرہ بن ـجذب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خواب بیان فرماتے ہیں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں اپنا گھر دکھایا جاتا ہے آگے کے الفاظ یہ ہیں (جناب جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ :۔

 ذرا اپنا سر اوپر اٹھائیے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنا سر اٹھایا تو میں نے اپنے سر کے اوپر ایک بادل سا دیکھا ۔ان دونوں نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے گھر میں داخل ہو جائوں ۔ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا نہیں کیا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پورا کر لین تو اپنے اس گھر میں آ جائیں گے ۔ (صحیح و بخاری ‘عذاب قبر ص

 ان احادیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں کا جنت میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔

معلوم ہوا کہ اہل حدیث میں سے بعض  اس حدیث کے شروع  کے  متن کا انکار کر کے اس کے آخری کلمات کو قبول کر رہے ہیں اور ان  میں سے بعض سرے سے ہی اس خواب کو الوحی ماننے کے لئے تیار ہی نہیں

نوٹ

اس حدیث سے متعلق آشکالات کا کافی و شافی جواب یہاں موجود ہے

⇑  سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی روایت کی فرقہ پرستوں کی طرف سے تاویلیں کی جاتی ہیں ان کا کیسے رد کیا جائے

حیات بعد الموت

تعویذ کے جواز کے دلائل کا جائزہ

فرقہ پرست تعویذ کے جواز پر جو دلائل دیتے ہیں ان پر تبصرہ یہاں ایک جگہ کیا گیا ہے

فرقوں کی دلیل
قرآن میں ہے
وننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃ للمومنین۔
سورۃ بنی اسرائیل
اور ہم نے قرآن نازل کیا جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔

تبصرہ
اس آیت کا تعلق قلبی بیماریوں سے ہے جن کو قرآن میں فی قلوبھم مرض کہا گیا ہے

غور طلب ہے قرآن فرقہ پرستوں کے مطابق شفاء ہے جس کی  دلیل ان کے نزدیک قرآن ہی کی یہ آیت سوره الاسراء ٨٢ میں ہے
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا
أور هم نے اس قرآن میں نازل کی ہے شفاء اور مومنوں کے لئے رحمت اور یہ ظالموں کے لئے کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتی سوائے خسارے کے

فرقہ پرست دم کرنے کے حوالے سے ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ایک سردار کو بچھو ڈستا ہے اور اس کافر کو قرآن سے شفاء ہو جاتی ہے
حالانکہ قرآن میں ہے کہ کفار کو قرآن سے شفاء ممکن نہیں ہے

روایت کے مطابق قبیلہ کا سردار کافر تھا یعنی شرک کا ظلم کرتا تھا تو آیت میں اگر شفاء سے مراد جسمانی شفاء ہے تو وہ روایت تو اس کے بر خلاف بیان کر رہی ہے جس میں سوره فاتحہ کے دم سے سردار کو شفاء ملتی ہے – اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت جسمانی بیماریوں کے متعلق نہیں بلکہ اعتقادی مرض سے متعلق ہے جس کو قرآن فی قلوبھم مرض کہتا ہے-

فرقوں کی دلیل

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔
سنن ابن ماجہ

تبصرہ
اس روایت کو فرقوں کے اماموں نے رد کیا ہے
حدثنا محمد بن عبيد بن عبد الرحمن الكندي قال: حدثنا علي بن ثابت قال: حدثنا سعاد بن سليمان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير الدواء القرآن»
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای بہترین دوا قرآن مجید ہے ۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۵۶) (ضعیف) (سند میں حارث الاعور ضعیف راوی ہے)

قال زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة
ضعيف / تقدم:3501

قال الألباني: ضعيف

فرقوں کی دلیل

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تعویذات لکھا کرتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 75 ابوداود ج 2 ص 543 پر

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبد اللهؓ بن عمرو(بن العاص) یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے

۔[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ ۔۔۔ رقم الحديث: 3475 (3528)

تبصرہ : عمرو بن شعيب بن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص ضعیف ہے – بعض محدثین کے نزدیک اسکی روایت حسن ہے- عمل میں اس کی روایت سے فقہاء نے دلیل لی ہے – سند میں محمد بن اسحاق بھی ہے جس کو ثقہ کے علاوہ دجال بھی کہا گیا ہے –بعض کے نزدیک حسن الحدیث ہے

یہ روایت انڈیا کے اہل حدیث  کفایت اللہ سنابلی و غیرھم  کے نزدیک بھی ضعیف  ہے – یہی بات جب سن ٨٠ میں ڈاکٹر عثمانی کرتے تھے تو اہل حدیث اس روایت کے دفاع میں تقریریں کرتے تھے  – اللہ کا شکر ہے جس نے  ہم کو سن ٨٠ میں ہی اس روایت سے بچا لیا  جبکہ  متعدد اہل حدیث تعویذ گلوں میں  لکٹائے  اپنے  مقام برزخ میں پہنچ  گئے –  و للہ الحمد

فرقوں کی دلیل عیسیٰ علیہ السلام کا تعویذ کا حکم

المجالسة وجواهر العلم از المؤلف : أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ قُتَيْبَةَ، نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ مِنْ وَلَدِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، عَنْ أَبِي بِشْرِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: [ص:170] مَرَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ [صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ] بِبَقَرَةٍ قَدِ اعْتَرَضَ وَلَدُهَا فِي بَطْنِهَا، فَقَالَ: يَا كَلِمَةَ اللهِ! ادْعُ اللهَ أَنْ يُخَلِّصَنِي. فقال [صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ] : ياخالق النَّفْسِ مِنَ النَّفْسِ! وَيَا مُخْرِجَ النَّفَسِ مِنَ النَّفْسِ! خَلِّصْهَا، فَأَلْقَتْ مَا فِي بَطْنِهَا. قَالَ: فَإِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلْدُهَا؛ فَلْيُكْتَبْ لَهَا هَذَا

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا ایک گائے پر گزر ہوا جس کے بطن میں اولاد نے مشکل کی تھی پس گائے نے کہا اے کلمہ اللہ اللہ سے دعا کریں کہ اس مشکل سے خلاصی ہو – پس عیسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے   کہا اے نفس سے نفس کو خلق کرنے والے اے نفس میں سے نفس کو نکالنے والے اس کو خلاصی دے پس جو اس گائے کے  بطن میں تھا نکل آیا – ابن عباس نے کہا جب عورت کو اس طرح جننا مشکل ہو تو یہ کلمات اس کے لئے لکھ دو

سند میں ابراہیم بن سلیمان مجہول ہے

لیکن تفسیر روح البيان میں اس قصہ کو درج کیا گیا ہے

سلف کی دلیل جلد ولادت کا مجرب نسخہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بچے کی پیدائش کے لیے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے کہ ان کو دھو کر مریضہ کو پلا دو
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60 پر
بلکہ طبرانی شریف میں اس حدیث کے بعض الفاظ یوں بھی ملتے ہیں کہ کچھ پانی اس کے پیٹ اور منہ پر چھڑک دو۔

تبصرہ

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا، فَيَكْتُبُ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَاتِ فِي صَحْفَةٍ ثُمَّ تُغْسَلُ فَتُسْقَى مِنْهَا «بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ» {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات: 46] {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} [الأحقاف: 35]

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ جب عورت کو بچہ جننے میں مشکل ہو تو اس کے لئے یہ دو آیات اور کلمات ایک صفحہ پر لکھو پھر ان کو دھو کر اس کا دھون عورت کو پلا دو
بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَـهَا لَمْ يَلْبَثُوٓا اِلَّا عَشِيَّةً اَوْ ضُحَاهَا
جس دن اسے دیکھ لیں گے (تو یہی سمجھیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھہرے تھے۔

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ لَمْ يَلْبَثُـوٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّـهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُوْنَ
ایک دن میں سے ایک گھڑی بھر رہے تھے، آپ کا کام پہنچا دینا تھا، سو کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا۔
اسکی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جو خراب حافظہ کا مالک تھا

تفسیر الدر المنثور از السیوطی میں ہے
أخرج ابْن السّني والديلمي عَن ابْن عَبَّاس – رَضِي الله عَنْهُمَا – قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: إِذا عسر على الْمَرْأَة وِلَادَتهَا أَخذ اناءٌ نظيفٌ وكُتِبَ عَلَيْهِ (كَأَنَّهُمْ يَوْم يرَوْنَ مَا يوعدون ) (الْأَحْقَاف الْآيَة 35) إِلَى آخر الْآيَة (وَكَأَنَّهُم يَوْم يرونها ) (النازعات الْآيَة 46) إِلَى آخر الْآيَة {لقد كَانَ فِي قصصهم عِبْرَة لأولي الْأَلْبَاب} إِلَى آخر الْآيَة ثمَّ تغسل وتسقى الْمَرْأَة مِنْهُ وينضح على بَطنهَا وفرجها

تفسیر قرطبی میں ہے
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا تَكْتُبُ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَتَيْنِ فِي صَحِيفَةٍ ثُمَّ تُغَسَّلُ وَتُسْقَى مِنْهَا، وَهِيَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ” كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَها لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً «4» أَوْ ضُحاها” [النازعات: 46].” كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ” صَدَقَ اللَّهُ الْعَظِيمُ. وَعَنْ قتادة: لا يهلك الله»

الدعوات الكبير از طبرانی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي الْمَرْأَةِ يَعْسُرُ عَلَيْهَا وَلَدُهَا قَالَ: يُكْتَبُ فِي قِرْطَاسٍ ثُمَّ تُسْقَى: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَكِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ تَعَالَى رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، بَلَاغٌ، فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} [الأحقاف: 35] ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات: 46] “. هَذَا مَوْقُوفٌ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ

المجالسة وجواهر العلم از أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) میں ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُسْلِمٍ؛ قَالَ: حَدَّثُونِي عَنْ يَعْلَى، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: [ص:171] إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وِلَادُهَا؛ فَلْيُكْتَبْ لَهَا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهَ الْحَلِيمَ الْكَرِيمَ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلا القوم الفاسقون} [الأحقاف: 35]

اہل حدیث کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے فتوی میں سندا اس روایت کو لکھا ہے اور محدث کا تجربہ بھی نقل کیا ہے
مجموع الفتاوى ج ١٩ ص ٦٥ پر

قال علي: يكتب في كاغدة فيعلق على عضد المرأة قال علي: وقد جربناه فلم نر شيئا أعجب منه فإذا وضعت تحله سريعا ثم تجعله في خرقة أو تحرقه.
علي بن الحسن بن شقيق المتوفی ٢١٥ ھ نے کہا اس کو کاغذ پر لکھے پھر اس کو عورت کی ران پر لٹکا دے اور ہم نے اس کا تجربہ کیا اور ہم نے اس سے زیادہ حیرانگی والی چیز نہ دیکھی جیسے ہی عورت جن دے  اس تعویذ کو خرقے میں جلدی  رکھو  یا  پھر اس کو  جلا دو

مکمل متن ہے
كَمَا نَصَّ عَلَى ذَلِكَ أَحْمَد وَغَيْرُهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَد: قَرَأْت عَلَى أَبِي ثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ؛ ثَنَا سُفْيَانُ؛ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْحَكَمِ؛ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وِلَادَتُهَا فَلْيَكْتُبْ: بِسْمِ اللَّهِ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} . قَالَ أَبِي: ثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ بِمَعْنَاهُ وَقَالَ: يُكْتَبُ فِي إنَاءٍ نَظِيفٍ فَيُسْقَى قَالَ أَبِي: وَزَادَ فِيهِ وَكِيعٌ فَتُسْقَى وَيُنْضَحُ مَا دُونَ سُرَّتِهَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: رَأَيْت أَبِي يَكْتُبُ لِلْمَرْأَةِ فِي جَامٍ أَوْ شَيْءٍ نَظِيفٍ. وَقَالَ أَبُو عَمْرٍو مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَد بْنِ حَمْدَانَ الحيري: أَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ النسوي؛ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَد بْنِ شبوية؛ ثنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ؛ ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ؛ عَنْ سُفْيَانَ؛ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى؛ عَنْ الْحَكَمِ؛ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وِلَادُهَا فَلْيَكْتُبْ: بِسْمِ اللَّهِ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ؛ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ؛ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} . قَالَ عَلِيٌّ: يُكْتَبُ فِي كاغدة فَيُعَلَّقُ عَلَى عَضُدِ الْمَرْأَةِ قَالَ عَلِيٌّ: وَقَدْ جَرَّبْنَاهُ فَلَمْ نَرَ شَيْئًا أَعْجَبَ مِنْهُ فَإِذَا وَضَعَتْ تُحِلُّهُ سَرِيعًا ثُمَّ تَجْعَلُهُ فِي خِرْقَةٍ أَوْ تُحْرِقُهُ.

الغرض ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ سلف میں اس عمل کو کیا گیا ہے اور یہ عمل ابن عباس سے منسوب کیا گیا ہے

لیکن یہ ابن عباس سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کی سندوں میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى کا تفرد ہے جو ضعیف ہے
محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى الفقيه: صدوق، سيء الحفظ، قال ابن معين: ضعيف، وقال مرة: ليس بذاك، وقال النسائي: ليس بالقوي

وہابی عالم أبو عبيدة مشهور بن حسن آل سلمان نے المجالسة وجواهر العلم از أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) میں اس سند کو کتاب میں ضعیف قرار دیا ہے-

سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ہے
محمد بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا بہت خراب حافظہ کے مالک تھے-
اور اس حالت میں اس نے اس روایت کو ابن عباس سے منسوب کر دیا ہے-

أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ نے کہا : لا يُحْتَجُّ بِهِ، سَيِّئُ الحفظ.دلیل مت لینا خراب حافظہ کا ہے
وَرَوَى مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ مَعِينٍ: ضَعِيفٌ. ابن معین نے کہا ضعیف ہے
وَقَالَ النَّسَائِيُّ، وَغَيْرُهُ: لَيْسَ بِالْقَوِيِّ.نسائی نے کہا قوی نہیں ہے
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: رديء الحفظ، كثير الوهم.دارقطنی نے کہا ردی حافظہ اور کثرت سے وہم کا شکار تھا-

امام احمد نے اس سند کو ناقابل دلیل قرار دیا ہے لیکن ان کے بیٹے نے خبر دی کہ اسی روایت کی بنیاد پر امام احمد تعویذ کرتے تھے کتاب المسائل امام احمد بن حنبل میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے- خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے-

محمد عمرو بن عبد اللطيف مصری عالم نے تكميل النفع بما لم يثبت به وقف ولا رفع میں لکھا ہے
مع ضعف هذا الأثر، فقد عمل به الإمام أحمد رحمه الله …. قال الخلال : أنبأنا أبو بكر المروذي (3) أن أبا عبد الله جاءه رجل فقال : يا أبا عبد الله تكتب لامرأة قد عسر عليها ولدها منذ يومين ، فقال : قل له يجئ بجام واسع وزعفران . ورأيته يكتب لغير واحد … )) . قلت : وفي هذا دليل على أن الإمام أحمد رحمه الله كان يأخذ بالأحاديث والآثار الضعيفة إذا لم يجد في الباب غيرها ، ولم يكن هناك ما يدفعها ، والله أعلم

اور اس اثر کے ضعیف ہونے کے باوجود امام احمد کا اس پر عمل ہے …. خلال نے ذکر کیا کہ ہمیں ابو بکر المروزی نے خبر دی کہ ایک شخص امام احمد کے پاس آیا اور کہا اے ابو عبد اللہ میرے بیوی کے لئے تعویذ لکھیں اس کو جننے میں مشکل ہے دو روز سے  پس امام احمد نے کہا ایک بڑا برتن لاو اور زعفران اور میں نے دیکھا کہ ایک سے زائد کے لئے یہ لکھتے تھے
میں (محمد عمرو بن عبد اللطيف) کہتا ہوں یہ دلیل ہے کہ احمد ان احادیث و اثار کو لیتے تھے جو ضعیف ہوتے تھے جب ان کو اس باب میں کوئی اور نہ ملتا و اللہ اعلم

ہمارا سوال ہے کہ باریک کپڑے پر لکھنے کا مقصد کیا ہے؟اصلا توہم پرست ان آیات لکھےکپڑوں کو کھاتے تھے یا زعفران سےآیات کٹورے کے کناروں پر لکھتے پھر اس میں پانی ڈال کر دھون پیتے-

امام ابن تیمیہ کتاب إيضاح الدلالة في عموم الرسالة میں لکھتے ہیں

قال عبد الله بن أحمد بن حنبل – قال أبي : حدثنا أسود بن عامر بإسناده بمعناه وقال يكتب في إناء نظيف

فيسقى … قال عبد الله رأيت أبي يكتب للمرأة في حام أو شئ نظيف

عبد الله بن احمد کہتے ہیں میرے باپ نے کہا ہم سے اسود نے روایت کیا….. اور کہا اور وہ صاف برتن پر لکھتے اور پھر پیتے عبد الله کہتے ہیں میرے باپ باریک چیز یا صاف چیز پر لکھتے۔

ابن تیمیہ اس کی تائید میں کہتے ہیں:

يجوز أن يكتب للمصاب وغيره شئ من كتاب الله وذكره بالمداد المباح – ويسقى

اور یہ جائز ہے کہ مصیبت زدہ کے لئے کتاب الله اور ذکر کو مباح روشنائی سے لکھے اور پی لے

اس کو ابن قیم نے بھی کتاب زاد المعاد میں جائز کہا ہے۔

فرقوں کی دلیل : فاطمہ پر دم

ابن السنی نے میں ایک اور روایت دی ہے
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَامِرٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَاءٍ، ثنا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَنَا وِلَادُهَا أَمَرَ أُمَّ سُلَيْمٍ، وَزَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ أَنْ تَأْتِيَا فَاطِمَةَ، فَتَقْرَآ عِنْدَهَا آيَةَ الْكُرْسِيِّ، وَ {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ} [الأعراف: 54] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَتُعَوِّذَاهَا بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ “

حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی ماں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ولادت کا وقت انے کا پتا چلا آپ نے ام سلیم اور زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ فاطمہ کے پاس جائیں اور ان پر آیت الکرسی پڑھیں اور سورہ الاعراف کی آیت ٥٤ سے آخر تک اور مُعَوِّذَتَيْنِ   پڑھیں

تبصرہ
سند میں بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ضعیف ہے
موسى بن أبي حبيب بھی ضعیف ہے – الذھبی نے دیوان میں اس کا ذکر کیا ہے عن زين العابدين علي، ضعفه أبو حاتم

فرقوں کی دلیل

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کی قائل تھیں کہ پانی میں تعویذ ڈال کر وہ پانی مریض پر چھڑکا جائے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص60
تبصرہ
عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:-

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّهَا كَانَتْ لَا تَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَوَّذَ فِي الْمَاءِ ثُمَّ يُصَبَّ عَلَى الْمَرِيضِ»

أَبِي مَعْشَرٍ سے مروی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس میں برائی نہیں دیکھتی تھیں کہ پانی پر تعوذ کیا جائے پھر مریض پر اس کو ڈالا جائے-

ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق

سَأَلت یحیی بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث
ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے-

ابی معشر زياد بن كليب کا سماع تابعین سے ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی روایت منقطع ہے اور ان دونوں کے درمیان إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ اور الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ کا واسطہ ہے اور بعض اوقات ان دونوں کے درمیان الشَّعْبيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ کا واسطہ اتا ہے-

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، أَنَّ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ سُئِلَتْ عَنِ النُّشَرِ، فَقَالَتْ: «مَا تَصْنَعُونَ بِهَذَا؟ هَذَا الْفُرَاتُ إِلَى جَانِبِكُمْ، يَسْتَنْقِعُ فِيهِ أَحَدُكُمْ يَسْتَقْبِلُ الْجِرْيَةَ»
الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ نے ام المومنین عائشہ سے نشر کا (عمل ) پوچھا – انہوں نے کہا کیسے کرتے ہیں ؟ یہ میٹھا پانی تمہارے پہلو میں ہے تم میں سے کوئی اس پانی کو لے اور گلے کے حلقوم کے سامنے لائے-

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَنْ أَصَابَهُ بُسْرَةٌ أَوْ سُمٌّ أَوْ سِحْرٌ فَلْيَأْتِ الْفُرَاتَ، فَلْيَسْتَقْبِلِ الْجِرْيَةَ، فَيَغْتَمِسْ فِيهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ»
الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ نے ام المومنین عائشہ سے روایت کیا انہوں نے فرمایا جس کو بسرہ کی بیماری ہو یا زہر یا جادو- وہ میٹھا پانی لے اس کو حلقوم کے سامنے کرے اور اس پانی میں سات بار اپنے آپ کو ڈبوئے-

عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس میں پانی پر دم کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ صرف سات بار پانی سے بخار ٹھنڈا کرنے کا ذکر کیا ہے

فرقوں کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کا تعویذ کرنا

اماں عائشہ رضی ش عنہانے فرمایا کہ: ”(تمیمہ) تعویذ اسے کہتے ہیں جسے کسی مصیبت کے لاحق ہونے سے پہلے لٹکایا جائے، نہ کہ اس کے بعد“ (البیہقی: 9/351)۔

تبصرہ

اس کے متن میں اضطراب ہے
بیہقی سنن الکبریٰ میں عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:

لَيْسَتْ التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ قَبْلَ الْبَلَاءِ إنَّمَا التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ بَعْدَ الْبَلَاءِ لِتَدْفَعَ بِهِ الْمَقَادِيرَ
تعویذ وہ نہیں جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت کے بعد دفع کے لئے لٹکایا جائے

اس کے برعکس حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں

وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «لَيْسَتِ التَّمِيمَةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ بَعْدَ الْبَلَاءِ، إِنَّمَا التَّمِيمةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ قَبْلَ الْبَلَاءِ
عائشہ رضی الله روایت کرتی ہیں کہ تعویذ نہیں جو آفت کے بعد لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے

مضطرب المتن روایت بھی قابل رد ہوتی ہے کیونکہ یہ واضح نہیں رہا کہ کیا کہا گیا تھا

فرقوں کی دلیل مجاہد کا تعویذ کرنا

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ قرآنی آیات کو لکھ کر ڈرنے والے مریض کو پلائی جائیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74 پر
تبصرہ

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ثُوَيْرٍ، قَالَ: «كَانَ مُجَاهِدٌ يَكْتُبُ لِلنَّاسِ التَّعْوِيذَ فَيُعَلِّقُهُ عَلَيْهِمْ»

ثوير بن أبى فاختة نے کہا مجاہد لوگوں کے لئے تعویذ لکھتے اور ان پر لٹکاتے

تبصرہ: سند میں ثوير بن أبى فاختة سخت ضعیف ہے

فرقوں کی دلیل سعید بن المسیب کا تعویذ کرنا
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ»
أَبِي عِصْمَةَ کہتے ہیں میں نے ابن المسیب سے سوال کیا تعویذ پر – کہا اگر چمڑے میں ہو تو کوئی برائی نہیں ہے

سنن الکبری البیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَأَلَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ عَنِ الرُّقَى وَتَعْلِيقِ الْكُتُبِ، فَقَالَ: كَانَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ يَأْمُرُ بِتَعْلِيقِ الْقُرْآنِ وَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ. قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: وَهَذَا كُلُّهُ يَرْجِعُ إِلَى مَا قُلْنَا مِنْ أَنَّهُ إِنْ رَقَى بِمَا لَا يُعْرَفُ أَوْ عَلَى مَا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ إِضَافَةِ الْعَافِيَةِ إِلَى الرُّقَى لَمْ يَجُزْ , وَإِنْ رَقَى بِكِتَابِ اللهِ أَوْ بِمَا يَعْرِفُ مِنْ ذِكْرِ اللهِ مُتَبَرِّكًا بِهِ وَهُوَ يَرَى نُزُولَ الشِّفَاءِ مِنَ اللهِ تَعَالَى فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ

نافع بن یزید ( الكلاعي أبو يزيد المصري المتوفی ١٦٨ ھ یا کوئی مجھول) نے یحیی بن سعید المتوفی ١٩٨ ھ سے دم اور تعویذ پر سوال کیا انہوں نے کہا کہ سعید بن المسیب قرآن لٹکانے کا حکم کرتے تھے –

یہ روایت ہی منقطع ہے کیونکہ یحیی بن سعید سے ابن مسیب تک کی سند نہیں ہے اس کے علاوہ نافع بن یزید خود یحیی سے کافی بڑے ہیں ان کا سوال کرنا بھی عجیب لگ رہا ہے

تبصرہ:
احمد العلل میں کہتے ہیں
أبو عصمة صاحب نعيم بن حماد، وقد روى شعبة، عن أبي عصمة، عن رجل، عن ابن المسيب، في التعويذ. «العلل» (1460)
معلوم ہوا کہ اس روایت میں مجھول راوی ہے

فرقوں کی دلیل امام ابو جعفر الباقر کا تعویذ کرنا
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَكْتُبَ الْقُرْآنَ فِي أَدِيمٍ ثُمَّ يُعَلِّقُهُ»
امام جعفر نے کہا میرے باپ نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں اگر قرآن کو چمڑے پر لکھا جائے پھر لٹکایا جائے

تبصرہ: اس روایت کے راوی کون سے حسن ہیں؟ کیونکہ حسن نام کے سات راوی ہیں جو جعفر الصادق سے روایات بیان کرتے ہیں اور یہ سب ثقہ نہیں بلکہ بعض مجھول بھی ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ ثَعْلَبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنِ التَّعْوِيذِ يُعَلَّقُ عَلَى الصِّبْيَانِ، «فَرَخَّصَ فِيهِ»

يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ نے کہا میں نے ابو جعفر سے بچوں پر تعویذ کا پوچھا تو انہوں نے اجازت دی

تبصرہ : سند میں يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ ضعیف ہے

فرقوں کی دلیل عطا کا تعویذ کرنا

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، فِي الْحَائِضِ يَكُونُ عَلَيْهَا التَّعْوِيذُ، قَالَ: «إِنْ كَانَ فِي أَدِيمٍ فَلْتَنْزِعْهُ، وَإِنْ كَانَ فِي قَصَبَةِ فِضَّةٍ فَإِنْ شَاءَتْ وَضَعَتْهُ وَإِنْ شَاءَتْ لَمْ تَضَعْهُ»

عطا سے پوچھا گیا کہ ایک حائضہ ہے جس پر تعویذ ہے – انہوں نے کہا اگر وہ چمڑے میں ہے تو اتار دے اگر چاندی میں ہے تو چاہے تو اتار رکھے اور چاہے تو نہ اتارے

تبصرہ : اگر اس سند میں عَبْدِ الْمَلِك سے مراد عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ہے تو اغلبا یہ عطاء بن السائب ہے نہ کہ عطا بن ابی رباح – و الله اعلم

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: ….. قَالَ حَجَّاجٌ: وَسَأَلْتُ عَطَاءً، فَقَالَ: «مَا سَمِعْنَا بِكَرَاهِيَةٍ إِلَّا مِنْ قِبَلِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ»

حجاج نے کہا میں نے عطا بن ابی رباح سے تعویذ کے بارے میں پوچھا کہا ہم نے اس کی کراہت کے بارے میں اہل عراق سے قبل کسی کو نہیں سنا
تبصرہ : هُشيم ابن بشير، السلمي الواسطي نے جس حجاج سے روایت کیا وہ اصل میں حجاج بن أرطأة ہے جو مختلف فیہ اور مدلس بھی ہے -امام ابن معین کہتے ہیں یہ ضعیف ہے اور نسائی کہتے ہیں قوی نہیں ہے- لہذا سند ضعیف ہے

فرقوں کی دلیل ابن سیرین کا تعویذ کرنا

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ: «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا بِالشَّيْءِ مِنَ الْقُرْآنِ»
ابن سیرین سے مروی ہے کہ وہ قرآن میں سے کسی چیز(کو بھی لٹکانے ) میں برائی نہیں دیکھتے تھے

تبصرہ : کتاب المتفق والمفترق کے مطابق
أخبرنا البرقاني قال قال لي أبو الحسن الدارقطني إسماعيل بن مسلم المكي وأصله بصري يروي عن الحسن وابن سيرين وقتادة متروك
امام دارقطنی کہتے ہیں إسماعيل بن مسلم المكي اور اصلا بصري ہیں الحسن سے ابن سيرين سے اور قتادہ سے روایت کرتے ہیں متروک ہیں

تعویذ پر تساہل علماء

تعویذ کو عبد الوہاب النجدی نے اپنی کتاب التوحید میں شرک قرار دیا لیکن اسی دور میں بر صغیر کے اہل حدیث علماء اس کے جواز کے فتوے دیتے تھے-خود غیر مقلد علماء میں سے داؤد غزنوی، سید ابو بکر غزنوی ، نواب صدیق حسن خان ، مفتی ابوالبرکات احمد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، عبدالرحمان مبارکپوری، حکیم صادق سیالکوٹی، ، میاں نذیر حسین دہلوی سمیت غزنوی ، لکھوی ، گیلانی ، قلعوی اور روپڑی خاندان کے نامی گرامی حضرات تعویزات و عملیات کے نہ صرف جواز کے قائل تھے بلکہ خود بھی بڑے عامل تھے۔ چنانچہ سید نذیر حسین دہلوی سے سوال ہوا کہ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب میں لکھا :تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد۔ مگر اشہر و اصح جواز است۔
فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 298 پر

لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے کوئی حرج کی بات نہیں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جائز ہے۔

اس فتویٰ کی تائید غیر مقلدین کے محدث عبدالرحمان مبارکپوی نے بھی کی اور لکھا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بالغ لڑکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے کلمات یاد کراتے تھے اور نابالغ لڑکوں کے لیے ان کلمات کو ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔ )ابوداود ترمذی(مزید لکھتے ہیں کہ شراح حدیث اس روایت کے تحت لکھتے ہیں کہ جس تعویذ میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو یا قرآن کی کوئی آیت یا کوئی دعا ماثورہ لکھی ہوئی ہو ایسے تعویذ کا کا بالغ لڑکوں کے گلے میں لٹکانا درست ہے۔
فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص 299 پر

زاد المعاد میں ابن قیم نے اپنے شیخ ابن تیمیہ کا ذکر کیا
كِتَابٌ للرّعاف: كَانَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ ابْنُ تَيْمِيَّةَ رَحِمَهُ اللَّهُ يكتب على جبهته:
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ «2» .
وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: كَتَبْتُهَا لِغَيْرِ وَاحِدٍ فَبَرَأَ،

نکسیر پھوٹنے پر لکھنا- شیخ اسلام ابن تیمیہ … پیشانی پر لکھا کرتے
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ
اور میں نے ان کو کہتے سنا کہ ایک سے زائد کے لئے لکھا وہ اس سے صحت یاب ہوئے۔

آیات کو جسم پر ٹیٹو کی طرح لکھنا، آیات کو زعفران سے لکھ کر دھون پینا، یا آیات کپڑے پر لکھ کر حاملہ پر لٹکانا یا اس کو کھلانا کس سنت سے معلوم ہے؟

ابن تیمیہ و ابن قیم سے سلفیوں کو دلیل ملی کہ جسم پر قرانی آیات کو ٹیٹو  بنا سکتے ہیں اور عرب نوجوان ایسا کر بھی رہے ہیں

روایت عود روح کی نکارت

قرآن کی آیت

 ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين

وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی

 پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام انسانوں  کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں – اہل تشیع کے مطابق یہ آیت خاص ہے  اس میں ان  دشمنان اہل بیت  کا ذکر ہے  جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ  کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا

تفسیر نور ثقلین  از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى  المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق

وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة

علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے

اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کے لشکر کے لشکر زندہ کرے گا-  قرن اول میں  کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں   شیعہ  زاذان  بھی تھا جو فارسی النسل تھا (اغلبا  فارس کا یہودی) اور اصحاب علی  میں سے تھا   وہ روایت کرتا ہے کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان  سے پہلے،  نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے

عقیدہ رجعت کا اصل مقصد اصل میں عدل کا قیام ہے کیونکہ دشمنان اہل بیت جو ظلم کرتے رہے وہ بغیر سزا پائے مر گئے ضروری ہے کہ وہ اس دنیا سے فرار نہ ہوں اور ان کی روحوں کو ان کے جسموں میں قیدکر دیا جائے لہذا زاذان نے روایت میں متن ڈالا کہ جب   خبیث روح آسمان کی طرف جاتی ہے اس کو زمین کی طرف پھنبک دیا جاتا ہے

مسند احمد کی روایت کے متن میں ہے

قَالَ: ” وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ، فَيَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللهِ وَغَضَبٍ “. قَالَ: ” فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ، فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هَذَا الرُّوحُ الْخَبِيثُ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانَ يُسَمَّى بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ “، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ” اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا “. ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] ” فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ،

 اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے ” اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال ” سجین ” میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔   پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے

یہ بات اس طرح بیان کی گئی ہے کہ گویا یہ غلطی بار بار ملک الموت  ہر خبیث روح کے ساتھ کرتے ہیں کہ  اس کو آسمان کی طرف لاتے ہیں تو پہلے آسمان کے فرشتے روح خبیثہ کو   زمین کی طرف پھینک دیتے ہیں- کیا  ملک الموت یہ غلطی روز کرتے ہیں؟  روایت میں ملک الموت کا اس غلطی سے رجوع درج نہیں ہے لہذا اگر زاذان کی روایت کا  متن   قبول کریں تو معلوم ہوا کہ ملک الموت غلطی بھی کرتا ہے-  غور کریں یہ روایت آخری نبی و رسول سے منسوب ہے جبکہ خبیث روحیں تو اولاد آدم میں سب سے پہلی قابیل کی ہوئی –تب سے لے کر آج تک ملک الموت یہ غلطی کرتا ہے کہ خبیث روح کو آسمان کی طرف لے کر جاتا ہے اور وہاں سے واپس اس کو زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے-

روایت کے مطابق اب خبیث روح جسد میں ہی رہے گی – لہذا فرقوں میں اس روح کے نکلنے یا نہ نکلنے پر اختلاف ہے

  ابن عبد البر کا قول ہے کہ روح  قبرستانوں میں رہتی ہے

اہل حدیث رفیق طاہر مدرس جامعہ دار الحدیث محمدیہ ملتان​  کا موقف ہے کہ  قیامت تک  روح قبر میں ہی رہتی ہے بحوالہ مناظرہ موضوع (اعادہ روح, عذاب قبر)  ملتان  کیونکہ زاذان کی روایت میں اس کو جسم سے نکالنے کا ذکر نہیں ہے

دوسری طرف اہل حدیث میں ابو جابر دامانوی اور ارشد کمال اس عقیدے کے پرچارک ہیں کہ روح کو جسم سے نکال لیا جاتا ہے جس کی دلیل دونوں نے کبھی بھی نہیں دی –   ان کے بقول یہ روح زاذان کی روایت کے بر خلاف جہنم میں پہنچا دی جاتی ہے- اس طرح یہ دونوں اس روایت کے مکمل متن کو بیان  نہیں کرتے نہ اس پر غور کرتے ہیں

زبیر علی زئی  اس سوال سے بھاگتا تھا اور اس کا جواب نہیں دیتا تھا

 

اب ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ خبیث  روح اگر جسم سے نکال لی گئی اور اس کو جہنم   میں   داخل کر دیا گیا تو کہاں یہ سب ہوا ؟ کیونکہ زاذان کی روایت  میں وہ کہتا ہے کہ روح کو پہلے آسمان سے اوپر ہی نہیں جانے دیا جائے گا – اب ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ زاذان کے نزدیک جہنم بھی زمین میں ہے – یہ بات یمنی یہود کے قول کے عین مطابق ہے کہ یمن میں موجود برہوت کا سوراخ اصل میں جہنم تک جانے کا رستہ ہے

اس طرح بعض  لوگوں نے بغیر غور کرے یہ عقیدہ اپنا لیا ہے کہ جہنم اسی زمین کے اندر ہے

سمندر ہی جہنم ہے؟

رفیق طاہر ایک سوال کے  جواب میں کہتے ہیں

عثمانیوں کے اس اعتراض کی بنیاد جہنم کا آسمان پر ہونا ہے۔ جبکہ یہ بنیاد ہی باطل ہے! انہیں کہیں کہ پہلے جہنم کا آسمان پر ہونا ثابت کریں, پھر آگے بات کریں! جنت آسمانوں میں ہے اس لیے جنت میں داخلہ کے لیے آسمانوں کے دروازوں کا کھلنا اور جنت کے دروازوں کا کھولنا ضروری ہے ۔ جبکہ جہنم زمین میں ہے۔

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ · دروازہ آسمان دنیا کا نہیں کھولا جاتا اور یہی آیت سے مراد ہے۔ · اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کافر کا اندراج سجین میں کیا جاتا ہے کہ اسے نچلی زمین میں رکھا جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم آسمانوں پر نہیں بلکہ نچلی زمین میں ہے۔ · اور اللہ تعالى کے فرمان “انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے” سے بھی جہنم کا آسمانوں پر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔

 مستدرک حاکم : 8698 اوریہ روایت حکما مرفوع ہے۔

مصدر

 http://www.rafiqtahir.com/ur/play-swal-731.html

راقم کہتا ہے یہ فتوی ان احادیث سے متصادم ہے جن میں جہنم کی وسعت کا ذکر ہے

صحیح مسلم  ٢٨٤٤ میں ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ اچانک دھماکے کی آواز آئ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہیں معلوم ہے یہ کیسی آواز ہے ؟
صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہے بہتر جانتے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
یہ ایک پتھر تھا جو آج سے ستر سال پہلے جہنم مین پھینکا گیا تھا اور آگ میں گرتا چلا جا رہا تھا اور اب وہ جہنم کی تہ تک پہنچا ہے –

زمین اتنی گہری نہیں کہ اس میں ستر سال تک  چیز گرتی رہے

– جہاں تک عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے قول کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی سند سے صحیح نہیں ملا – اس کی تفصیل راقم کی کتاب اثبات عذاب قبر میں دیکھی جا سکتی ہے اور بلاگ

https://www.islamic-belief.net/وَمَا-أَدْرَاكَ-مَا-عِلِّيُّونَ/

میں ان روایات  کا ذکر ہے

وہابی عالم ابن عثيمين سے سوال ہوا کہ : أين توجد الجنة والنار؟  جنت و جہنم  کہاں ہیں ؟

جواب دیا

مكان النار في الأرض ، ولكن قال بعضُ أهل العِلْم : إنَّها البحار ، وقال آخرون: بل هي في باطن الأرض ، والذي يظهر: أنَّها في الأرض ، ولكن لا ندري أين هي مِن الأرض على وَجْهِ التعيين.

جہنم کا مکان  زمین میں ہے  لیکن بعض علماء کہتے ہیں سمندروں میں کہیں ہے اور دوسرے کہتے ہیں یہ زمین میں چھپی ہے لیکن ہم تعيين  کے ساتھ نہیں جانتے کہ زمین میں کہاں

https://islamqa.info/ar/answers/215011/اين-توجد-الجنة-واين-توجد-النار

اس کا رد قرآن میں موجود ہے –  قرآن میں سوره الذاریات میں ہے

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا توعَدُونَ

اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے

الله تعالی نے انسانوں سے جنت و جہنم کا وعدہ کیا ہے کہ اہل ایمان کو جنت اور کفار کو جہنم میں ڈالے گا

 اس قول کو علی رضی اللہ عنہ سے   منسوب کیا گیا  ہے کہ جہنم زمین میں ہے  – تفسیر طبری میں ہے

حدثني يعقوب، قال: ثنا ابن علية، عن داود، عن سعيد بن المسيب، قال: قال عليّ رضي الله عنه لرجل من اليهود: أين جهنم؟ فقال: البحر، فقال: ما أراه إلا صادقا، (وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ) (وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ) مخففة.

سعید بن مسیب نے کہا علی نے ایک یہودی سے پوچھا جہنم کہاں ہے ؟ بولا سمندر میں – علی نے کہا میں اس کو سچا سمجھتا ہوں اور آیات پڑھیں   وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ   اور بھڑکتا سمندر اور (وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ) اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے

راقم کہتا ہے  علی سے منسوب یہ قول شاذ ہے کیونکہ خود علی رضی اللہ عنہ نے سمندری غذا کو کھایا ہے

تفسیروں میں ایک قول عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب کیا گیا ہے کہ

لا يتوضأ بماءِ البحر لأنه طبقُ جهنَّمَ

سمندر کے پانی سے وضو مت کرو کینوکہ یہ جہنم کا طبق ہے

سنن ترمذی میں حدیث کے تحت ترمذی نے لکھا ہے

وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوُضُوءَ بِمَاءِ البَحْرِ، مِنْهُمْ: ابْنُ عُمَرَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: هُوَ نَارٌ “

اور بعض اصحاب رسول نے سمندری پانی سے وضو پر کراہت کی ہے جن میں ابن عمر اور عبد اللہ بن عمرو ہیں اور ابن عمرو کا کہنا ہے وہ اگ ہے

سنن ابو داود میں ہے

حدَّثنا سعيدُ بن منصور، حدَّثنا إسماعيلُ بن زكريا، عن مُطرِّفٍ، عن بشرٍ أبي عبد الله، عن بَشيرِ بن مُسلم عن عبد الله بن عَمرو قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “لا يركبُ البحرَ إلا حاجٌّ أو معتمرٌ أو غازٍ في سبيل الله، فإن تحتَ البحرِ ناراً، وتحت النارِ بحراً

عبد الله بن عَمرو نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سمندر کا سفر نہ کرے سوائے اس کے جو حاجی ہو یا عمرہ کرنے والا یا جہاد کرنے والا کیونکہ  سمندر کے نیچے اگ ہے اور اگ کے نیچے سمندر

شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں اس میں سند میں مجہول راوی ہے اور متن شدید منکر ہے

دوسری طرف قرآن میں ہے کہ سمندر کی غذا حلال ہے اور حدیث میں سمندر کے پانی کو پاک قرار دیا گیا ہے اور حدیث ابو ہریرہ میں سمندر کے پانی کو پاک قرار دیا گیا ہے اور اس سے وضو کی اجازت دی گئی ہے

مستدرک حاکم میں ہے

أَخْبَرَنِي أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ تَمِيمٍ الْقَنْطَرِيُّ، ثَنَا أَبُو قِلَابَةَ، ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى، أَنَّ يَعْلَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْبَحْرَ هُوَ جَهَنَّمَ» فَقَالُوا لِيَعْلَى: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا} [الكهف: 29] فَقَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَدْخُلُهَا أَبَدًا حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ وَلَا تُصِيبُنِي مِنْهَا قَطْرَةٌ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ  

رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا سمندر  ہی جہنم   ہے

حاکم نے اس کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے  اور الذھبی بھی موافقت کر بیٹھے ہیں جبکہ سند  میں مجہول راوی ہے اور اس کا ذکر بیہقی نے کتاب  البعث والنشور للبيهقي میں کیا ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، أَنْبَأَ أَبُو عَمْرِو بْنُ نُجَيْدٍ، أَنْبَأَ أَبُو مُسْلِمٍ، ثنا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْبَحْرُ هُوَ جَهَنَّمُ»

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ نے کہا ایک شخص نے بیان کیا اس نے ْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى سے روایت کیا

معلوم ہوا کہ اس حدیث کی سند میں مجہول راوی ہے

الغرض سمندر ہی جہنم ہے یا جہنم سمندر میں ہے اقوال و احادیث ثابت نہیں ہیں

معلوم ہوا کہ فرقہ پرستوں کا کائنات کا  جغرافیہ ہی درست نہیں- ان کے نزدیک جہنم زمین کے اندر ہے

اللہ ان فرقوں کی  گمراہیوں سے بچائے جو سمندر  ہی کی طرح گہری ہیں

اَوْ كَظُلُمَاتٍ فِىْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشَاهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ۖ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَهٝ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّـٰهُ لَـهٝ نُـوْرًا فَمَا لَـهٝ مِنْ نُّوْرٍ (40)

یا جیسے گہرے سمندر  میں اندھیرے ہوں اس پر ایک لہر چڑھ آتی ہے اس پر ایک اور لہر ہے اس کے اوپر بادل ہے، اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہیں، جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے کچھ بھی دیکھ نہ سکے، اور جسے اللہ ہی نے نور نہ دیا ہو اس کے لیے کہیں نور نہیں ہے۔

ایک کوشش اور

[wpdm_package id=’8837′]

قرآن سے متصادم ایک منکر روایت جس میں مردے میں روح کے انے کا ذکر ہے اس کا دفاع فرقہ پرستوں کے پلیٹ فارم سے ہوتا رہتا ہے اگرچہ وہ اس روایت کو صحیح کہتے اس کے راویوں کا دفاع کرتے ہیں لیکن اس روایت کے متن کو پیش کر کے اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے کہ اس میں کیا کیا منکرات بیان ہوئی ہیں – اس روایت کا متن نکارت رکھتا ہے اس کا اقرار خود فرقوں کے امام امام الذھبی نے کیا ہے

پہلے ہم دفاع شیعہ راویان کی چند جدید کوششوں پر نظر ڈالتے ہیں

اہل حدیث عالم نورپوی مضمون حدیث عود روح، ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ میں لکھتے ہیں
لنک

مختلف ادوار کے ایک درجن سے زائد محدثین اور اہل علم کی طرف سے اس حدیث کی صحت کی توثیق ہو چکی ہے۔ کسی ایک بھی اہل فن محدث نے اسے ضعیف قرار نہیں دیا۔ اہل سنت و الجماعت کا ہر دور میں اتفاقی طور پر یہی عقیدہ رہا ہے، لیکن موجودہ دور میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے اس کے دو راویوں منہال بن عمرو اور زاذان ابوعمر کے بارے میں جرح ذکر کی ہے

راقم کہتا ہے دوسری طرف محدثین میں امام شعبہ نے المنھال کو متروک قرار دیا اس کی حدیث لینا چھوڑ دیا تھا

۔ امام الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں لکھا ہے
اس میں غرایب باتیں اور منکر باتیں ہیں
حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ

قبر کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے۔

ابن حبان کہتے ہیں عود روح والی روایت کی سند میں انقطاع ہے۔

خبر الأعمش عن المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سمعه الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو
الأعمش کی خبر ، المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سے اصل میں الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو سے ہے۔

ابن حبان کے نزدیک حدیث عود روح کی سند میں تدلیس کی گئی ہے۔

نور پوری صاحب نے المنھال بن عمرو کے دفاع کی بھی بھر پور کوشش کی ہے، چناچہ وہ عینی کی معاني الاخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جوزجانی نے اس کو سنی المذہب (سنی مذھب والا) قرار دیا ہے-

اس کو صریح تحریف کہتے ہیں- نورپوری نے کرم خوردہ ، ناقص نسخوں سے استفادہ کیا – سيء المذهب (بد مذھب) کے الفاظ ابن حجر نے فتح الباری اور تہذیب التہذیب وغیرہمیں نقل کیے ہیں جو عینی کے ہم عصر ہیں
جوزجانی نے المنھال کو سيء المذهب (بد مذھب) قرار ديا ہے- جوزجانی یہ الفاظ شیعہ راویوں کے لئے بولتے ہیں- جوزجاني كي كتاب أحوال الرجال حديث اكادمي – فيصل آباد سے چھپ چکی ہے اس میں کو سنی المذہب (سنی مذھب والا) کے الفاظ موجود نہیں- سيء المذهب (بد مذھب) جوزجاني کی جرح کے یہ مخصوص الفاظ ہیں جو انہوں نے اور راویوں کے لئے بھی استمعال کیے ہیں

اگرچہ متاخرین میں ابن حجر نے جوزجانی کی جرح کو بلا دلیل رد کیا ہے لیکن العلامة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني کتاب التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل میں لکھتے ہیں
وقد تتبعت كثيراً من كلام الجوزجاني في المتشيعين فلم أجده متجاوزاً الحد ، وإنما الرجل لما فيه من النصب يرى التشيع مذهباً سيئاً وبدعة ضلالة وزيغاً عن الحق وخذلانا ، فيطلق على المتشيعين ما يقضيه اعتقاده كقوله زائغ عن القصد – سيء المذهب ونحو ذلك
اور بہت سوں نے الجوزجاني کا شیعہ راویوں کے بارے میں کلام کو بغور دیکھا ہے لیکن ان کو حد سے متجاوز نہیں پایا- اور ان صاحب (الجوزجاني) میں اگرچہ نصب تھا اور شیعت کو ایک بد مذھب اور بدعت اور ضلالت اور حق سے ہٹی ہوئی بات سمجھتے تھے ، لیکن انہوں نے المتشيعين کے اعتقاد کے مطابق الفاظ کا اطلاق کیا ہے جیسے راہ سے ہٹا ہوا، سيء المذهب اور اس طرح کے اور الفاظ

علامہ الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني صاحب تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں

المنھال ایک متعصبی شیعہ ہے – ابن ماجہ کے مطابق المنھال بن عمرو نے روایت بیان کی کہ علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا
أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ
میں عبد الله ہوں اور رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور میں سب سے بڑا صدیق ہوں، اس کا دعوی میرے بعد کوئی نہیں کرے گا سوائے كَذَّابٌ کے

اس پر تعلیق لکھنے والے محمد فؤاد عبد الباقي، دار إحياء الكتب العربية لکھتے ہیں
في الزوائد هذا الإسناد صحيح- رجاله ثقات- رواه الحاكم في المستدرك عن المنهال
وقال صحيح على شرط الشيخين-
اس کے راوی ثقه ہیں، حاکم نے اسکو المستدرك میں المنهال بن عمرو سے روایت کیا ہے اور کہا ہے الشيخين کی شرط پر صحیح ہے

اس روایت سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مرتبہ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے

افسوس إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة میں ابن حجر نے اس کو صحیح کہا ہے

حَدِيثٌ (كم) : أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ … . الْحَدِيثَ.
كم فِي الْمَنَاقِبِ: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ. ح وَثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَارِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَبْسِيُّ، قَالا: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْهُ، بِهِ. وَقَالَ:
[ص:466] صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا.

الذھبی نے تلخیص میں حاکم  پر جرح کرتے ہوئے کہا

قلت: كذا قال! وما هو على شرط واحد منهما، بل ولا هو صحيح، بل هو حديث باطل، فَتَدَبَّرْه،

میں کہتا ہوں ایسا حاکم نے کہا ہے کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے بلکہ یہ تو صحیح تک نہیں بلکہ باطل ہے اس پر غور کرو

لوگوں نے اس روایت پر  عباد بن عبد الله الأسدي کو مہتمم کیا ہے جس کو ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے اور  العجلي کہتے ہیں  كوفيٌّ تابعيٌّ ثقةٌ   ہے – اس سے سنننے والا المنھال ہے

نورپوری کا جوابا کہنا ہے کہ ادب المفرد میں المنھال نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین کہا ہے اور رضی اللہ عنہا کی دعا بھی دی ہے

راقم کہتا ہے کہ حدیث لٹریچر میں غالی سے غالی راوی بھی یہ الفاظ نقل کرتا ہے آور شیعہ کتب میں بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین بھی لکھا جاتا ہے کیونکہ ازواج النبی کے لئے قرآن میں ہے کہ امت کی مائیں ہیں لہذا اس ٹائٹل کو وہ رد نہیں کرتے – اس کی مثال ہے اہل سنت  کی کتب میں وارد ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث پر شیعوں نے  تنقید کی ہے – کتاب کے  عنوان   میں ہی ام المومنین لکھا ہے

کتاب أحاديث أم المؤمنين عائشة   از السيد مرتضى العسكري

ملا باقر مجلسی نے بھی ام المومنین لکھا ہے ملاحظہ کریں

بحار الانوار /جزء 32 / صفحة [226]

بحار الانوار /جزء 33 / صفحة [245]

بحار الانوار /جزء 33 / صفحة [332]

بحار الانوار / جزء 42 / صفحة [141]
 

دوم دعا رضی اللہ عنہ وغیرہ کے کلمات پبلشر آجکل حدیث کا جو نسخہ چھپتا ہے اس میں خود ہی لگا دیتے ہیں – اس کی مثال ہے کہ جرح و تعدیل کی کتب میں رضی اللہ عنہ لکھا ہوا نہیں ملتا لیکن احادیث کی کتب چونکہ عام لوگوں کے لئے ہیں ان میں اس لاحقہ کا اضافہ کر دیا گیا ہے
سوم شیعہ کا تقیہ کرنا معلوم ہے تو اس سے مطلق ثابت نہیں ہوتا کہ المنھال ایک بدعتی نہیں تھا جبکہ اہل شہر کا اس پر قول ہے یہ بد مذھب تھا

اسی ادب المفرد کی روایت کی ایک سند ہے
عَنْ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ
یہاں زاذان نے ابن عمر کے ساتھ رضی اللہ عنہ کا لاحقہ کیوں نہیں لگایا ؟
اسی ادب المفرد میں ہے
عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ زَاذَانَ أَبِي عُمَرَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَدَعَا بِغُلَامٍ لَهُ كَانَ ضَرَبَهُ
زاذان نے کہا ہم ابن عمر کے ساتھ تھے انہوں نے لڑکے کو بلا کر اس کو مارا

اس قسم کے حوالہ جات سے کچھ ثابت نہیں ہوتا
نور پوری نے اقرار کیا کہ بعض سندوں میں
زاذان نے سیدنا علی کے بارے میں ”امیر المؤمنین“ یا ”رضی اللہ عنہ“ کا لفظ نہیں بولا

اس سے نور پوری نے سمجھا کہ زاذان علی کو دعا نہیں دیتا تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ کو دیتا تھا جس سے ثابت ہوا وہ شیعہ نہیں تھا

راقم کہتا ہے کہ شیعہ کے نزدیک علی تو امام زمانہ ہیں اور باقی کو دعا کی ضرورت ہے اس لئے تقیہ اختیار کیا
بہر حال یہ مثالیں جو نور پوری لے کر آئے ہیں ان کو اگر تمام غالی راویوں پر لگایا جائے تو کوئی بھی غالی نہ رہے گا سب علی کے خاص احباب بن جائیں گے کیونکہ آجکل پبلشر نے ہر روایت ، میں اپنی طرف سے رضی اللہ عنہ و رضی اللہ عنہما لکھ دیا ہے

نورپوری نے عثمانی صاحب پر جرح کی کہ انہوں نے تعویذ پر کتاب میں شیعہ یحییٰ بن جزار سے روایت کیوں لی جبکہ غالی قسم کا شیعہ تھا

راقم کہتا ہے ہم اگر نوری پوری تحقیق کا انداز یہاں اپپلائی کرتے ہیں – کتاب المعجم
أبو يعلى میں سند ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ النِّيلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا، وَأَدَّى فِيهِ الْأَمَانَةَ يَعْنِي: سَتَرَ مَا يَكُونُ عِنْدَ ذَلِكَ كَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ “. قَالَتْ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِيَلِهِ أَقْرَبُكُمْ مِنْهُ إِنْ كَانَ يَعْلَمُ، فَإِنْ كَانَ لَا يَعْلَمُ فَرَجُلٌ مِمَّنْ تَرَوْنَ أَنَّ عِنْدَهُ وَرَعًا وَأَمَانَةً»

سند میں يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ خود عَائِشَةَ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا کہہ رہے ہیں تو نور پوری کے اصول پر یہ غالی نہیں ہو سکتے

شرح معاني الآثار میں سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو أَيُّوبَ يَعْنِي ابْنَ خَلَفٍ الطَّبَرَانِيَّ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، قَالَ: ثنا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهَا عَنِ النَّبِيِّ

یہاں بھی دعا کی گئی ہے

معلوم ہوا کہ نور پوری اصولوں پر یحیی بن جزار غالی نہیں تھا
راقم کا مدعا نور پوری تحقیق کی بے بضاعتی کو ظاہر کرنا ہے کہ کھوکلے ستونوں پر کھڑی ہے

راقم کہتا ہے اہل حدیث مولوی جب جی  چاہتا ہے خود راوی کی شیعیت کو جرح بنا کر پیش کر دیتے ہیں مثلا امام  بخاری کے استاد محدث علی بن الجعد کا ذکر زبیر علی زئی نے تراویح  سے متعلق ایک روایت پر  قیام رمضان نامی مضمون میں  اس طرح کیا

نور پوری کا کہنا ہے کہ
جرح و تعدیل اور صحت و سقم حدیث کی معرفت ابن حزم رحمہ اللہ کا میدان نہیں تھا۔

راقم کہتا ہے ابن تیمیہ و ابن قیم بھی محض ناقل ہیں اور رہی بات امام حاکم کی تو ان کے محدثین نے سخت اعتراضات کیے ہیں مثلا وسیلہ کی شرکیہ روایات کو صحیح قرار دینے پر – خود ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا ہے کہ مستدرک لکھتے وقت ان کی دماغی حالت صحیح نہیں تھی

نورپوری صاحب نے المنھال کے دفاع کا حق ادا کر دیا ہے اور مضمون میں لکھتے ہیں کہ المنھال قرآن کی تلاوت کر رہے تھے جس کو سن کر شعبہ نے المنھال کو ترک کیا
دکتور بشار عواد معروف کتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں لکھتے ہیں وَقَال علي بْن المديني ، عَن يحيى بْن سَعِيد أتى شعبة المنهال بْن عَمْرو فسمع صوتا فتركه، يعني الغناء

اس کے بعد حاشیہ میں دکتور بشار عواد معروف اس پر لکھتے ہیں
هذا الخبر أصح، والله أعلم- من خبر تركه بسبب سماعه قراءة القرآن بالتطريب، فهذا غير ذاك-
یہ خبر زیادہ صحیح ہے، واللہ اعلم- اس (قول) سے جس میں خبر دی گئی تھی کہ ان کے ترک کرنے کی وجہ قرآن کی سر کے ساتھ قرات تھی – پس ایسا نہیں تھا

فرقہ پرست بار بار ذکر کرتے ہیں کہ ابن حزم کے نزدیک موسیقی حرام نہیں تو المنھال پر شعبہ کی جرح مردود ہے
جبکہ ان کو اتنا معلوم نہیں کہ گانا گانا اور صرف موسیقی سننا دو الگ چیزیں ہیں

نور پوری لکھتے ہیں
زاذان کی روایات کو چھوڑنے والے امام حکم بن عتیبہ شیعہ تھے۔ زاذان کا شیعہ ہونا تو ثابت نہیں ہوا، البتہ امام حکم کا شیعہ ہونا ثابت ہے، جیسا کہ
امام، ابوالحسن، احمد بن عبداللہ، عجلی رحمہ اللہ (م 261ھ) فرماتے ہیں
وكان فيه تشيع، إلا أنّ ذلك لم يظهر منه إلا بعد مؤته .
ان میں شیعیت تھی، البتہ اس کا علم ان کی وفات کے بعد ہی ہو سکا۔
[تاريخ الثقات، ص : 125، ت : 315، طبعة دار الباز]
ذرا سوچیں کہ بھلا کوئی شیعہ اپنے مذہب کا پرچار کرنے والے کسی شیعہ پر کیوں جرح کرے گا ؟ اور فیصلہ کریں کہ ڈاکٹر عثمانی نے کتنے فیصد انصاف سے کام لیا ہے

راقم کہتا ہے نور پوری کو علم نہیں کہ خود عجلی بھی شیعہ کہے گئے ہیں اور وہ اگر شیعہ تھے تو وہ الحکم پر جرح نہیں ان کی تعریف کر رہے ہیں
شیعہ تو عام لفظ ہے جو لشکر علی پر بولا جاتا تھا جس میں غالی ابن سبا بھی تھا اور زاذان بھی اور اصحاب رسول بھی – یہ سب شیعان علی تھے
ظاہر ہے جب محدث شیعہ کہتا ہے تو اس کے پیچھے شواہد ہوتے ہیں اور زاذان کو شیعہ خود ابن حجر نے قرار دیا ہے

البتہ نور پوری کا قول ہے
حقیقت وہی ہے جو ہم نے ابن حجر کے بقول بیان کر دی ہے کہ راوی اگر سچا ہو تو اس کا شیعہ ہونا اس کی روایت کو نقصان نہیں دیتا۔ لہٰذا زاذان کا شیعہ ہونا اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس سے اس کی حدیث میں کوئی خرابی نہیں آتی

راقم کہتا ہے خود متقدمین شیعہ کے لئے ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں غالی کا اطلاق کیا ہے
مثلا
عدي بن ثَابت الْأنْصَارِيّ الْكُوفِي التَّابِعِيّ الْمَشْهُور پر الدَّارَقُطْنِيّ نے کہا كَانَ يغلو فِي التَّشَيُّع
تشیع میں غلو کرتا تھا
اس حوالے کو ابن حجر نے بھی فتح الباری میں تہذیب التھذیب میں لکھا ہے
عَبْدِ الله بن الْكواء، جو علی کے اصحاب میں سے ہے اس پر ابن حجر نے فتح الباری ج ص ٨٧ پر لکھا ہے
وَإِنَّمَا كَانَ يَغْلُو فِي الرَّفْضِ
بے شک یہ رفض میں غلو کرتا

دوسری طرف ابن حجر نے تشیع کی تعریف اس طرح کی

تہذیب التہذیب از ابن حجر ترجمہ ابان بن تغلب

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليه آله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة

پس تشیع (شیعیت) کا مطلب متقدمین کے نزدیک علی کی عثمان پر فضیلت کا اعتقاد رکھنا ہے، اور یہ کہ بے شک علی اپنی جنگوں میں حق پر تھے اور انکے مخالف غلطی پر، ساتھ ہی شیخین (ابو بکر اور عمر) کی فضیلت کا اعتقاد رکھنا، اور ان میں سے بعض کا کبھی یہ اعتقاد رکھنا کہ علی، نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد افضل مخلوق ہیں اور اگر یہ عقیدہ ھو اور وہ شیعہ راوی مجتہد، دین میں صادق ھو تو اس وجہ سے اس کی روایت رد نہیں کی جائے گی، خاص طور سے اگر داعی نہ ھو، اور تشیع متاخرین کے نزدیک محض رفض ہے پس اس رافضی ، غالی کی نہ روایت لی جائے اور نہ کوئی عزت کی جائے

اس سے نتیجہ نکلا کہ جو علی سے محبت کرے وہ شیعہ ہے اورغالی شیعہ یا رافضی وہ ہے جو ابو بکر اور عمر پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے

اس پیراگراف پر فرقہ پرستوں کا فہم ہے کہ تابعین میں رافضی نہیں تھے جبکہ حوالہ جات دے دیے گئے ہیں خود ابن حجر نے اصحاب علی میں رافضی کے وجود کا اقرار کیا ہے

نورپوری ابن حبان کے خلاف ایک مصنوعی ماحول پیدا کر کے لکھتے ہیں
تیسری بات یہ کہ اگر امام ابن حبان رحمہ اللہ کبار ائمہ دین کی موافقت میں منہال بن عمرو کی حدیث کو صحیح قرار دیں تو ڈاکٹر عثمانی اس کا ذکر تک نہ کریں اور جب وہ ان سب کی مخالفت میں زاذان پر جرح کریں تو ڈاکٹر عثمانی جھٹ سے اسے قبول کر لیں، حالانکہ وہ خود اسے ثقہ بھی قرار دے چکے ہوں اور اس کی حدیث کو صحیح بھی کہہ چکے ہوں، کیا اسے انصاف کہتے ہیں ؟

راقم کہتا ہے ابن حبان نے تو عود روح کی روایت کو منقطع قرار دیا ہے
صحیح ابن حبان میں ابن حبان لکھتے ہیں

وزاذان لم يسمعه من البراء
اور زاذان نے البراء سے نہیں سنا

ڈاکٹر عثمانی نے ابو احمد الحاکم کے قول پر کہا ہے کہ محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں
مُحَمَّدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ بنِ إِسْحَاقَ النَّيْسَابُوْرِيُّ ، أبو أحمد الحاكم المتوفی ٣٧٨ ھ ہیں الذھبی کہتے ہیں وَكَانَ مِنْ بُحورِ العِلْمِ علم کا سمندر تھے (سیر الاعلام النبلاء ج ١٢ ص ٣٦٦ دار الحدیث)- لیکن جدید محدث نورپوری ان کی علمی حیثیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں

یہ بات ابو احمد الحاکم کی علمی لغزش ہے۔ وہ اہل علم کون ہیں جنہوں نے زاذان کو کمزور کہا ہو

ظاہر ہے سن ٣٧٨ ھ سے پہلے زاذان محدثین کے نزدیک مضبوط راوی نہیں تھا
خاص کر نیشا پور میں اس پر تنقید کی جاتی ہے یہ اور بات ہے بغداد کے ابن معین یا احمد نے اس کو ثقہ کہا
یہ اختلاف محدثین میں اس دور میں حدیث زاذان پر موجود تھا اور اس کو متاخرین کی ثقاہت سے رد نہیں کیا جا سکتا
ابو احمد الحاکم کے ہم عصر ابن حبان نے بھی زاذان کو وہمی اور بہت غلطیاں کرنے والا قرار دیا ہے

نور پوری کہتے ہیں
اگر زاذان شیعہ ہیں بھی تو اس سے مراد فقہ جعفریہ کے ماننے والے شیعہ نہیں۔

راقم کہتا ہے یہ قول محض گمان ہے کیونکہ روافض خود زاذان کو اپنے جیسوں میں شمار کرتے ہیں
کیا عقیدہ رجعت شیعوں کا عقیدہ نہیں ہے ؟ اور حدیث عود روح میں اسی روح کے واپس آنے کا قبر میں قیامت تک رہنے کا ذکر ہے

صحیحین کے راوی

نور پوری  نے ابن حجر کی بات کو صحیح طرح سمجھا بھی نہیں اور بیان کر دیا لکھتے ہیں

ابن حجر رحمہ اللہ (م :852 ھ) فرماتے ہیں :
ينبغي لكل منصف ان يعلم ان تخريج صاحب الصحيح لاي راو، كان مقتض لعدالته عنده، وصحة ضبطه، وعدم غفلته، ولا سيما ما انضاف إلى ذلك من إطباق جمهور الأئمة على تسمية الكتابين بالصحيحين، وهذا معنى لم يحصل لغير من خرج عنه فى الصحيح، فهو بمثابة اطباق الجمهور على تعديل من ذكر فيها 
’’ ہر منصف شخص کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امام بخاری و مسلم کے کسی راوی سے حدیث نقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی ان کے نزدیک کردار کا سچا اور حافظے کا پکا ہے، نیز وہ حدیث کے معاملے میں غفلت کا شکار بھی نہیں۔ خصوصاً جب کہ جمہور ائمہ کرام متفقہ طور پر بخاری و مسلم کی کتابوں کو ”صحیح“ کا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ مقام اس راوی کو حاصل نہیں ہو سکتا جس کی روایت صحیح (بخاری و مسلم ) میں موجود نہیں۔ گویا جس راوی کا صحیح بخاری و مسلم میں ذکر ہے، وہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتماد راوی ہے۔“ [فتح الباري شرح صحيح البخاري : 384/1، طبعة دار المعرفة، بيروت]

↰ معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک منصف شخص وہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم کے راویوں کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر جمہور ائمہ حدیث کی توثیق کی بنا پر ثقہ اور قابل اعتماد سمجھے۔ اب ڈاکٹر عثمانی کی طرح کا جو شخص صحیح بخاری کے راویوں کو ’’ ضعیف، مجروح اور متروک“ کہتا ہے، وہ بقول ابن حجر، منصف نہیں، بلکہ خائن ہے۔

نور پوری کے نزدیک جو بھی المنھال کو ضعیف کہے وہ خائن  ہے – دوسری طرف  ابن حجر النکت میں   اس  بات کی وضاحت کرتے   ہیں

قلت : ولا يلزم في كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحاً ، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة

میں کہتا ہوں اور کسی روایت کی اسناد میں اگر صحیح کا راوی ہو تو اس سے وہ حدیث صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ اس میں شذوذ یا علت ہو

مبارک پوری اہل حدیث ہیں ، ترمذی کی شرح تحفہ الاحوذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ  میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا قَوْلُ الْهَيْثَمِيِّ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ فَلَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّتِهِ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مُدَلِّسٌ وَرَوَاهُ بِالْعَنْعَنَةِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مُخْتَلِطٌ وَرَوَاهُ عَنْهُ صَاحِبُهُ بَعْدَ اِخْتِلَاطِهِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ لَمْ يُدْرِكْ مَنْ رَوَاهُ عَنْهُ أَوْ يَكُونَ فِيهِ عِلَّةٌ أَوْ شُذُوذٌ ، قَالَ الْحَافِظُ الزَّيْلَعِيُّ فِي نَصْبِ الرَّايَةِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ الْجَهْرِ بِالْبَسْمَلَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ ثِقَةِ الرِّجَالِ صِحَّةُ الْحَدِيثِ حَتَّى يَنْتَفِيَ مِنْهُ الشُّذُوذُ وَالْعِلَّةُ ، وَقَالَ الْحَافِظُ اِبْنُ حَجَرٍ فِي التَّلْخِيصِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ حَدِيثِ بَيْعِ الْعِينَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِ الْحَدِيثِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا اِنْتَهَى

اور   الْهَيْثَمِيِّ کا یہ کہنا کہ رجال ثقہ ہیں دلیل نہیں بنتا کہ یہ روایت صحیح ہے کیونکہ اسمیں شذوذ یا علّت ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے اس میں مدلس ہو جو عن سے روایت کرے – الزَّيْلَعِيُّ کہتے ہیں… کسی حدیث میں ثقہ راوی ہونے سے وہ صحیح نہیں ہو جاتی

معلوم ہوا کہ صحیحین کے راویوں کی وہ روایات جو صحیحین سے باہر ہیں ضعیف ہو سکتی ہیں اس کی مثال ہے کہ کفایت اللہ سنابلی جو اہل حدیث میں نور پوری کے استاد کی طرح ہیں ن کے نزدیک المنھال کی روایت صحیح نہیں ہے اس کا شمار ضعیف راویوں میں کیا گیا ہے

کتاب  التلخيص الحبير میں ابن حجر لکھتے ہیں

لا يلزم من كون رجاله ثقات أن يكون صحيحا؛ لأن الأعمش مدلِّس ولم يذكرسماعه من عطاء

ثقہ رجال ہونے سے روایت صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس میں اعمش ہے جس نے عطا سے سماع کا ذکر نہیں کیا

قارئین نوٹ کریں کہ اعمش صحیحین کے راوی ہیں لیکن ابن حجر روایت رد کر رہے ہیں

فتح الباری کے مقدمہ انیس الساری کا حاشیہ لکھنے والے  نبيل بن مَنصور بن يَعقوب البصارة
ابن حجر کا قول پیش کرتے ہیں

لا يلزم من كون الإسناد محتجا برواته في الصحيح أن يكون الحديث الذي يُروى به صحيحا لما يطرأ عليه من العلل

اگر سند میں صحیح کے راوی سے احتجاج کیا گیا ہو تو اس کی حدیث صحیح نہیں ہو جاتی اگر اس کو معلول گردانا گیا ہو

  أحمد بن محمد بن الصدِّيق بن أحمد کتاب  المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي میں کہتے ہیں

قلت: لا يلزم من كون السند رجاله رجال الصحيح أن يكون الحديث صحيحا بل قد يكون ضعيفا

ایک دوسری حدیث پر کہتے ہیں

قلت: لا يلزم من كون الرجال رجال الصحيح أن يكون الحديث صحيحًا، إذ قد يكون مع ذلك منقطعًا أو معلولًا بشذوذ واضطراب

کتاب المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ کے محقق سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري
لکھتے ہیں

لا يلزم من كون الرجل أخرج له أصحاب الصحيح، صحة الإسناد،

ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ یہ کوئی عثمانی فکر نہیں کہ صحیحین کے راوی کی روایت ضعیف ہو سکتی ہے بلکہ اس بات کو ابن حجر نے بھی اور دیگر محققین نے بھی بیان کیا ہے

حدیث عود روح کو رد کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا ذکر اگلے بلاگ میں ہو گا

 

 

زبیر علی زئی تحقیقات کی روشنی میں ٢

ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی عذاب قبر سے متعلق کچھ متضاد روایات پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ایک سنن ابن ماجہ، مسند احمد  میں بیان ہوئی ہے

زبیر علی زئی  توضح الاحکام میں اس کوعود روح کی دلیل پر پیش کرتے ہیں

tozeh-555

مسند احمد  کی روایت  ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ” إِنَّ الْمَيِّتَ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ  الطَّيِّبَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، اخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ “، قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيَقُولُونَ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، ادْخُلِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ ” قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، اخْرُجِي ذَمِيمَةً، وأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ، وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٍ، فَلَا تَزَالُ تَخْرُجُ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، ارْجِعِي ذَمِيمَةً، فَإِنَّهُ لَا يُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَاءِ، ثُمَّ تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَيُقَالُ لَهُ: مِثْلُ مَا قِيلَ لَهُ فِي الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السَّوْءُ

اس روایت کا بقیہ حصہ ابن مآجہ بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى  میں بیان ہوا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ

إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ، غَيْرَ فَزِعٍ، وَلَا مَشْعُوفٍ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ، فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ؟ فَيَقُولُ: مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ، فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا، وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، وَيُقَالُ لَهُ: عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ، فَزِعًا مَشْعُوفًا، فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا، فَقُلْتُهُ، فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا، يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى

اس کا ترجمہ ارشد کمال المسند فی عذاب القبر میں کرتے ہیں

arshad-taseer-ila-qbr

یہ  دو روایات ہیں اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، کی سند سے آ رہی ہے

 مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ الْقُرَشِيّ العامري اور ابن أبي ذئب ثقه  ہیں لیکن  ابن أبي ذئب یعنی محمَّد ابن عبد الرحمن بن المغيرة بن الحارث کے لئے احمد کہتے ہیں ( سوالات ابی داود، تہذیب الکمال ج ٢٥ ص ٦٣٠

 إلا أن مالكًا أشد تنقية للرجال منه، ابن أبي ذئب لا يبالي عمن يحدث

بے شک امام مالک ان سے زیادہ رجال کو پرکھتے تھے جبکہ  ابن أبي ذئب اس کا خیال نہیں رکھتے کہ کس سے روایت کر رہے ہیں

  اس ر وایت کا متن  مبہم اور منکر ہے

اس روایت میں ہے کہ مومن کی

حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.

روح اوپر لے جائی جاتی ہے حتی کہ اس آسمان پر جا پہنچتی ہے جس پر الله عَزَّ وَجَلَّ ہے

قرآن کہتا ہے کہ الله عرش پر ہے اور راوی کہہ رہے ہیں کہ اللّہ تعالی کسی آسمان پر ہے

 زبان و ادب میں  اللہ کو آسمان والا کہا جاتا ہے

  صحیح مسلم کی روایت ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈى سے پوچھا تھا كہ : اللہ کہاں ہے ؟ تو اس نے کہا : آسمان میں ، پھر آپ نے فرمایا : میں کون ہوں ؟ تو اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا : اسے آزاد کردو ، یہ ایمان والی ہے

قرآن کہتا ہے

الرحمن علی العرش الستوی   طٰہٰ :۵

رحمن عرش پر مستوی ہوا۔

سوره الحدید میں ہے
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‌پیدا کیا ، پھر عرش  پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں‌داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں‌ چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے سورہ الحدید

بخاری میں ہے کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(( اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا… فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ )) [بخاری،کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : { بل ھو قرآن مجید ¡ فی لوح محفوظ} (۷۵۵۴)]

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے … جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔

لیکن اس روایت  زیر بحث میں روح کو خاص اس آسمان پر لے جایا جا رہا ہے جس پر الله ہے  جو ایک غلط عقیدہ ہے

اہل حدیث زبیر علی زئی نے   اس روایت کو  اپنے مضمون عذاب قبر حق ہے شمارہ الحدیث میں پیش کیا اور جو نتائج اخذ کیے ان پر نظر ڈالتے ہیں

غور کریں کے نتائج میں نتیجہ نمبر ٦ میں   زبیر علی نے لکھا ہے

اللہ تعالی ساتویں آسمان سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے

جبکہ ابن ماجہ کی روایت میں یہ  سرے سے موجود ہے ہی نہیں  اور اسی سند سے مسند احمد  میں جو متن آیا ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالی کسی آسمان پر ہیں- راوی  نے واضح نہیں کیا کہ پہلا ، دوسرا ، تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ، چھٹا یا ساتواں

راقم کہتا ہے   آنکھوں میں دھول جھوکنے میں اہل حدیث کو ملکہ حاصل ہے

اللہ کا شکر جس نے اس جھمی   عقیدے کی  روایت سے   ہم  کو  نجات دی – و للہ الحمد

اشاعرہ میں ملا علی القاری نے ان الفاظ کی تاویل کی ہے

إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ) أَيْ: أَمْرُهُ وَحُكْمُهُ أَيْ: ظُهُورُ مُلْكِهِ وَهُوَ الْعَرْشُ، وَقَالَ الطِّيبِيُّ: أَيْ: رَحْمتُهُ بِمَعْنَى الْجَنَّةِ

اس آسمان پر لے جاتے ہیں جس میں اللہ تعالی ہیں یعنی اس کا حکم یعنی اس کی مملکت کا ظہور جو عرش ہے اور طیبی نے کہا یعنی رحمت جو جنت ہے

البتہ سلفی اصول کہتا ہے کہ قرآن و حدیث میں جب بھی اللہ تعالی کا ذکر ہو تو اس کی  تاویل نہیں کی جائے گی اور متن کو اس کے ظاہر پر لیا جائے گا

اس حساب سے یہ تاویل سلفی و وہابی فرقے کے موقف کے خلاف ہے

زاذان کی روایت میں ہے کہ روح کو سات آسمان پر لے جایا جاتا ہے

 حتى ينتهي بها إلى السماء السابعة

یہاں تک کہ وہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتی ہے

ان دونوں احادیث  سے ثابت ہوا کہ  اللہ تعالی عرش پر نہیں ساتویں آسمان پر ہے

چونکہ یہ بات قرآن کے خلاف ہے یہ روایات صحیح ممکن نہیں ہیں افسوس ان کو قبول کر کے ان پر عقیدہ رکھا گیا ہے

اضطراب سند 

کتاب اخبار الدجال از عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ)  سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی سند میں مجہول راوی ہے

قال محمد بن عمرو فحدثني سعيد بن معاذ عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل الصالح قالوا اخرجي أيتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب واخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ولا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح له فيقال من هذا فيقال فلان فيقال مرحبا بالنفس الطيبة كانت في الجسد الطيب ادخلي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السماء التي فيها الله عز وجل وتعالى فإذا كان الرجل السوء قالوا اخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث اخرجي منه ذميمة وأبشري بحميم وغساق وآخر من شكله أزواج فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح لها فيقال من هذا فيقال فلان فيقال لا [ص:84] مرحبا بالنفس الخبيثة التي كانت في الجسد الخبيث ارجعي ذميمة فإنه لا تفتح لك أبواب السماء فيرسل من السماء ثم يصير إلى القبر فيجلس الرجل الصالح

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس کو کسی سعید بن معاذ سے سنا تھا نہ کہ سعید بن یسار سے

سعید بن معاذ ایک مجہول راوی ہے

کتاب جمع الجوامع المعروف بـ «الجامع الكبير» از سیوطی کے مطابق یہ سعید بن مینا ہے نہ کہ سعید بن یسار

ابن ماجه في الزهد عن أَبى بكر بن أَبِى شيبة عن شبابة عن ابن أَبى ذئب عن محمد بن عمرو بن عطاء عن سعيد بن ميناءَ عن أَبى هريرة مرفوعًا) (1).

العلل دارقطنی میں ہے

فَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، فَقَالَ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَوَهِمَ فِي ذَلِكَ

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس متن کو سعید بن مسیب سے بھی  روایت  کیا ہے

دارقطنی کا خیال ہے کہ یہ غلطی ابراہیم بن عبد السلام نے کی ہے – جبکہ راقم کی تحقیق سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ نام بدلنا ایک سند میں نہیں   بہت سی سندوں میں ہے

اغلبا مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ کو یاد نہیں رہا کہ اس نے کس سعید سے سنااور اس نے چار  الگ الگ نام روایات میں بیان کر دیے

ان شبھات کی موجودگی  میں اس سند کو صحیح نہیں سمجھا جا سکتا

سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی منقبت

جنگ خندق کے بعد مدینہ کے باسی  یہود کے قبائل کی سازش کی بنا پر ان کا حصار کر لیا گیا اور فیصلہ  یہود  کی ڈیمانڈ پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ پر چھوڑ دیا گیا  کیونکہ وہ اسلام سے قبل ان قبائل سے اچھے تعلقات رکھتے تھے اور ان کے روساء کو جانتے تھے –  صحیح بخاری کی حدیث ہے  کہ

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ ان سے ابوامامہ نے ‘ جو سہل بن حنیف کے لڑکے تھے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جب بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال کر قلعہ سے اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (سعد رضی اللہ عنہ کو) بلایا۔ آپ وہیں قریب ہی ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے (کیونکہ زخمی تھے) سعد رضی اللہ عنہ گدھے پر سوار ہو کر آئے ‘ جب وہ آپ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ (اور ان کو سواری سے اتارو) آخر آپ اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں (بنو قریظہ کے یہودی) نے آپ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ (اس لیے آپ ان کا فیصلہ کر دیں) انہوں نے کہا کہ پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں جتنے آدمی لڑنے والے ہیں ‘ انہیں قتل کر دیا جائے ‘ اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

افسوس   بعض جہلاء   نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی کہ اس فتوی کو دینےوالے  سعد بن معاذ رضی  اللہ عنہ پر عذاب قبر ہو گا

دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

قبر کی وسعت اور تنگی کے متعلق بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں یہ اور بات ہے کہ موصوف ان سب کو نہ ماننے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔موصوف چاہتے ہیں کہ قبر میں راحت یا عذاب کے جو مناظر پیش آتے ہیں وہ سب ان کو نظر آنے چاہئیں ورنہ وہ ان پر ایمان لانے کے ئے تیار نہیں۔تو ہم ان کو ضمانت دیتے ہیں کہ جب وہ قبر میں اتارے جائیں گے تو ان شاء اللہ تمام مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور انہیں عین الیقین حاصل ہو جائے گا ۔البتہ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے وہ ہم ابھی عرض کرتے ہیں مگر پہلے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعے کے متعلق کچھ عرض کریں گے۔موصوف نے جو مسنداحمد کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ منکر ہے تو بلاشبہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی محمود بن محمد بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموع ضعیف ہیں۔(مرعاۃ جلد ۱ ص۲۳۱) مگر جناب اس سلسلہ میں صحیح احادیث بھی موجود ہیں اور مسند احمد پر نکارت کا الزام لگا کہ دوسری صحیح احادیث سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ہے چنانچہ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:۔

 ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ) وہ شخص ہے جس کے لئے عرض نے حرکت کی اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ستر ہزار فرشتے (ان کے جنازے میں) حاضر ہوئے ۔ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی اور پھر کشادہ ہو گئی‘‘۔

 یہ حدیث صحیح ہے اور قبر کی وسعت اور تنگی سے متعلق نص صریح ہے ۔

’یہ بھی لکھا

جناب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے دفن کے دن ان کی قبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اگر کوئی شخص فتنہ قبر یا قبر کے معاملے سے نجات پا سکتا تو البتہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ضرور نجات پاتے اور ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی پھر ان پر کشادہ کر دی گئی‘‘۔(طبرانی ۔اس حدیث کے تام راوی ثقہ ہیں)(مجمع الزوائد ص۴۷)۔

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

ان صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ (جو بہت ہی بلند پایہ صحابی ہیں)پر دفن کے وقت قبر تنگ ہو گئی تھی مگر پھر ہمیشہ کے لئے کشادہ کر دی گئی اور ان پر قبر کی تنگی کی وجہ یہ تھی کہ پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط کے سلسلہ میں ان سے کوتاہی سرزدہو جایا کرتی تھی۔امام البہیقی رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ امیہ بن عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے بعض افراد سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد موجود ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس سلسلہ میں دریافت کیا توا نہوں نے ارشاد فرمایا کہ وہ پیشاب سے پاکیزگی کے سلسلہ میں کچھ کمی کیا کرتے تھے ۔ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ طبقات الکبریٰ میں بسند (اخبر شبابۃ بن سواداخبرنی ابو معتر عن سعید المقبری) روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دفن کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی قبر کی تنگی اور دبانے سے بچتا تو سعد رضی اللہ عنہ ضرور بچ جاتے۔حالانکہ انہیں پیشاب کے اثر کی وجہ سے (یعنی جو بے احتیاطی سے پیشاب کرنے میں چھینٹیں پڑ جاتی ہیں ان کی وجہ سے) اس طرح دبایا کہ ان کی ادھر کی پسلیاں ادھر ہو گئیں۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج۱ص۲۳۲۔اس واقعہ کی پوری تفصیل طبقات ابن سعد‘ مرعاۃ المفاتیح ‘کتاب الروح اور سنن البہیقی وغیرہ میں موجود ہے۔

روایات کے مطابق سعد رضی الله عنہ کو قبر کے دبوچنے کا واقعہ عین تدفین کے قورا بعد پیش آیا

مسند احمد  میں  جابر بن عبد الله رضی الله عنہ  سے منسوب  روایت ہے

جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِينَ تُوُفِّيَ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ، سَبَّحَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَبَّحْنَا طَوِيلًا، ثُمَّ كَبَّرَ فَكَبَّرْنَا، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ الله، لِمَ سَبَّحْتَ؟ ثُمَّ كَبَّرْتَ؟ قَالَ: «لَقَدْ تَضَايَقَ عَلَى هَذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتَّى فَرَّجَهُ الله عَنْهُ

جابر کہتے ہیں ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جس دن سعد کی وفات ہوئی پس جب نبی نے ان کی نماز جنازہ پڑھ لی ان کو قبر میں رکھا اور اس کو ہموار کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله کی پاکی بیان کی بہت دیر تک پھر تکبیر کہی پس پوچھا گیا اے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپ نے تسبیح کیوں کی تھی کہا کہا بے شک تنگی ہوئی اس صالح بندے پر اس کی قبر میں پھر  الله نے اس کو فراخ کیا

معجم طبرانی کی ابن عباس رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ سعد رضی الله عنہ پر یہ عذاب تدفین پر ہوا

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مِقْلَاصٍ، ثنا أَبِي، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُما، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ دُفِنَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَى قَبْرِهِ قَالَ: «لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ لَنَجَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ رُخِّيَ عَنْهُ

ابن عباس نے کہا جس روز سعد کو دفن کیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر کے پاس بیٹھے تھے فرمایا اگر کوئی فتنہ قبر سے نجات پاتا تو سعد ہوتے لیکن بے شک قبر نے ان کو دبوچا  پھر چھوڑا

سعد رضی الله عنہ پر عذاب کی یہ خبر سنن النسائی ٢٠٥٥ میں بھی ہے جس کو البانی صحیح کہتے ہیں اور الصحیحہ میں اس کے طرق نقل کر کے اس عذاب کی خبر کو صحیح کہتے ہیں

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَذَا الَّذِي تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْشُ، وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ، لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً، ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ»

  لیکن ایک دن  البانی سے اس واقعہ پر  سوال ہوا تو  پینترا اس طرح بدلا

موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني «موسوعة تحتوي على أكثر من (50) عملاً ودراسة حول العلامة الألباني وتراثه الخالد»

المؤلف: أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين، بن الحاج نوح بن نجاتي بن آدم، الأشقودري الألباني (المتوفى: 1420هـ)

صَنَعَهُ: شادي بن محمد بن سالم آل نعمان

الناشر: مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية وتحقيق التراث والترجمة، صنعاء – اليمن

الطبعة: الأولى، 1431 هـ – 2010 م

  البانی   ج ٩ ص   ١٥٩   پر کہتے ہیں  قبر کا دبوچنا  عذاب قبر نہیں ہے

لأن ضمة القبر غير عذاب القبر، كما يدل عليه أحاديث ضم القبر لسعد بن معاذ، وللصبي، وانظر “الصحيحة” (1695و2164)

قبر کا دبانا   دبوچنا عذاب قبر نہیں ہے جیساکہ دلیل ہے کہ قبر نے سعد بن معاذ  اور بچے کو بھی دبایا  ہے

راقم کہتا ہے کہ مولویوں کا تضاد ہے ایک اس قبر کو دبوچنے کو کھلا عذاب کہہ رہا ہے تو دوسرا اس کا انکار کر رہا ہے

 سعد بن معاذ رضی الله عنہ کی شہادت غزوہ خندق ٥ ہجری میں ہوئی. اس وقت تک مومن پر  عذاب القبر کا بتایا نہیں گیا. مومن پر عذاب قبر کی خبر سن ١٠ ہجری میں دی گئی جیسا کہ بخاری کتاب الکسوف میں بیان ہوا ہے لہذا یہ روایت صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے-    سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ اہل جنت میں ہیں.  شہید تو الله کی بارگاہ میں سب سے مقرب ہوتے ہیں ان کے گناہ تو خوں کا پہلا قطرہ گرنے پر ہی معاف ہو جاتے ہیں-    نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ایک  رومال نبی صلی الله علیہ وسلم کو تحفتا پیش کیا گیا . صحابہ کو حیرانگی ہوئی کہ کتنا اچھا رومال ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

والذي نفسي بيده لمناديل سعد بن معاذ في الجنة خير منها

اور وہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے سعد بن معاذ کا رومال جنت میں اس سے بہتر ہے

معلوم ہوا سعد بن معاذ رضی الله عنہ تو جنت میں ہیں اور ان پر نعوذ باللہ عذاب قبر کیوں ہو گا

ابن حجر کتاب فتح الباری ج ١ ص ٣٢٠ میں لکھتے ہیں

وَمَا حَكَاهُ الْقُرْطُبِيُّ فِي التَّذْكِرَةِ وَضَعَّفَهُ عَنْ بَعْضِهِمْ أَنَّ أَحَدَهُمَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَهُوَ قَوْلٌ بَاطِلٌ لَا يَنْبَغِي ذِكْرُهُ إِلَّا مَقْرُونًا بِبَيَانِهِ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى بُطْلَانِ الْحِكَايَةِ الْمَذْكُورَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَضَرَ دَفْنَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ كَمَا ثَبَتَ فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ وَأَمَّا قِصَّةُ الْمَقْبُورَيْنِ فَفِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ عِنْدَ أَحْمَدَ أَنَّهُ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُمْ مَنْ دَفَنْتُمُ الْيَوْم هَا هُنَا فَدَلَّ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَحْضُرْهُمَا وَإِنَّمَا ذَكَرْتُ هَذَا ذَبًّا عَنْ هَذَا السَّيِّدِ الَّذِي سَمَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيِّدًا وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ وَقَالَ إِنَّ حُكْمَهُ قد وَافق حُكْمَ الله وَقَالَ إِنَّ عَرْشَ الرَّحْمَنِ اهْتَزَّ لِمَوْتِهِ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنْ مَنَاقِبِهِ الْجَلِيلَةِ خَشْيَةَ أَنْ يَغْتَرَّ نَاقِصُ الْعِلْمِ بِمَا ذَكَرَهُ الْقُرْطُبِيُّ فَيَعْتَقِدَ صِحَّةَ ذَلِكَ وَهُوَ بَاطِلٌ

اور القرطبی نے کتاب التذکرہ میں جو حکایت کیا ہے اور اس میں سے بعض کو ضعیف کہا ہے جن میں سے ایک  سعد بن معاذ رضی للہ عنہ (کے بارے میں ہے) پس وہ سب باطل ہے اس کا ذکر نہیں کیا جانا چاہئے سوائے مقرؤنا اور جو چیز اس حکایت مذکورہ کے بطلان  پر بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کو سعد بن معاد کے دفن پر کہا جبکہ الْمَقْبُورَيْنِ والا قصہ جو  حدیث  ابو امامہ جو (مسند) احمد میں اس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ  آج تم نے ادھر کس کو دفن کیا؟ پس یہ دلیل ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کے ساتھ (سعد کی) تدفین پر نہیں تھے اور بے شک ان لوگوں (قرطبی وغیرہ) نے اس کو اس سید (سعد رضی اللہ عنہ) کی تنقیص میں ذکر کیا ہے جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے  سردار کہا اور اپنے صحابہ کو کہا کہ سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ اورکہا کہ انکا حکم الله کےحکم کے مطابق ہے اور کہا کہ بےشک رحمان کا عرش ان کی موت پر ہلا اور اسی طرح کے دیگر مناقب جلیلہ  ذکر کے پس ڈر ہے کہ کوئی ناقص علم غلطی پر ا جائے اور ان کو صحیح کہے اور یہ (روایت) باطل ہے 

سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو قبر نے دبوچا دو وجہ سے صحیح نہیں

اول یہ واقعہ سن ٥ ہجری میں پیش آیا جبکہ مومن پر عذاب قبر کا سن ١٠ ہجری میں بتایا گیا

دوم ابن حجر کے مطابق اس تدفین کے موقعہ پر اپ صلی الله علیہ وسلم موجود نہیں تھے جبکہ سعد پر عذاب کی روایت کے مطابق اپ صلی الله عالیہ وسلم نے ہی نماز جنازہ پڑھائی اور اسی تدفین کے موقعہ پر عذاب ہوا –    الله کا شکر ہے کہ حال ہی میں ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں اس کو بالاخر رد کرتے ہیں-     ارشد کمال ، المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

دامانوی صاحب جس واقعہ کی تصحیح پر جان نثار کر رہے ہیں. ہونہار شاگرد اسی کو سراسر جھوٹی من گھڑت بات قرار دے رہا ہے.  ان قلابازیوں کے باوجود کوئی غیر مقلد پوچھنے والا نہیں کہ یہ سب کیا ہے؟      اللہ ہم سب کو ہدایت دے

زبیر علی زئی نے اپنے مضمون قبر میں عذاب حق ہے شمارہ الحدیث ٤٦  میں اس کو جھٹکا قرار دیا

زبیر نے ضم  کا ترجمہ جھٹکا کیا ہے جبکہ یہ ترجمہ راقم کو کسی لغت میں نہیں ملا

جس نے بھی اس حدیث کا ترجمہ کیا ہے اس نے اس کو دبوچنا یا دبانا یا  بھینچا کیا ہے

اس حوالے سے خود اہل حدیث کے ترجمے دیکھے جا سکتے ہیں

http://islamicurdubooks.com/Hadith/ad.php?bsc_id=1144&bookid=11

عائشہ (رض) اور بنیادی عقائد

فرقوں کا دعوی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں اس سلسلے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں قلیب بدر کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے لا علم تھیں کہ مردے سنتے ہیں

وہابی عالم الشِّنقيطي سوال (هَل يسمع الْمَوْتَى؟) کیا مردے سنتے ہیں کے جواب میں کہتے ہیں

وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.

أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی جنہوں نے ان کی اتبآع کی ہے

الشِّنقيطي سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں

إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة

عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ضرورت کے تحت دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے

وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ

دوسری طرف فرقے دعوی کرتے ہیں کہ قبرستان میں جو دعا کی جاتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور یہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں – افسوس اس سے یہ لوگ  ثابت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ اللہ کی قدرت پر بھی صحیح نہیں تھا ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالی وہ سب جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں – ان کی دلیل صحیح مسلم کی ایک منکر روایت ہے

حديث 2249
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَی ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَی قَالَ قَالَتْ لَمَّا کَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَائَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَی فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی جَائَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَکِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْئَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْکِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْکِ وَلَمْ يَکُنْ يَدْخُلُ عَلَيْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَکِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ کَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ
ترجمہ ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر بن مطلب، محمد بن قیس، حضرت محمد بن قیس (رض) بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں ہم نے گمان کیا کہ وہ ماں سے اپنی جننے والی ماں مراد لے رہے ہیں ہم نے کہا کیوں نہیں فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنی ہی دیر ٹھہرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو آہستہ سے بند کردیا میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوڑے تو میں بھی دوڑی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچے تو میں بھی پہنچی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے میں نے کہا کچھ نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بتا دو رونہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی فرمایا میں اپنے آگے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینے پر مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق داب لے گا فرماتی ہیں: (کیا ) جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں –فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی جبرائیل نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کیسے کہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ) کہو سلام ہے ایماندار گھر والوں پر اور مسلمانوں پر اللہ ہم سے آگے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔

تبصرہ
فرقه پرست یہ دعوی کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا

قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔

اس منکر روایت سے ان کے نزدیک ثابت ہوتا ہے کہ فقہائے مدینہ کی استاذ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا یہ بات تک نہیں جانتی تھیں کہ اللہ تعالی ہر اس چیز کو جانتا ھے جو لوگ چھپاتے ہیں ۔ قابل غور ہے یہ ایمان کی بنیادی بات ہے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تو خود قرآن کو شادی سے پہلے یاد کر رہی تھیں اور قرآن ان کے گھر سے متصل مسجد النبی میں دن و رات پڑھا جاتا تھا۔

یہ روایت آخری دور کی بتائی جاتی ہے جبکہ اس کا متن منکر ہے اس سے یہ تک نکلتا ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے نبی کی جاسوسی کی ان کا پیچھا رات کے اندھیرے میں کیا

سند میں عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة مجہول ہے اس کو امام مسلم نے قبول کیا ہے لہذا ابن حجر نے اس کومقبول کہا ہے۔

الذھبی نے میزان میں کہا
فعبد الله بن كثير السهمى لا يعرف إلا من رواية ابن جريج عنه، وما رأيت أحدا وثقه ففيه جهالة.
عبد الله نہیں جانا جاتا اس سے صرف ابن جریج نے روایت کیا ہے اور کسی اور ثقہ نے میرے خیال میں روایت نہیں کیا ہے اور اس میں جہالت ہے یعنی مجہول ہے۔

اور تاریخ اسلام میں کہا
، وهو فلا يكاد يُعْرَف إلا فِي حديثٍ واحد سَنَدُهُ مضطَّرب، وهو حديث عَائِشَةَ فِي استغفاره لأهل البَقيع
اس کی کوئی حدیث معلوم نہیں سوائے ایک مضطرب روایت کے جس میں عائشہ رضی الله عنہا سے اہل بقیع پر استغفار کا ذکر ہے۔

فرقے کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی شاہد حدیث سنن نسائی ٢٠٢٣٩ ہے

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ
پھر روایت دی جس کا ترجمہ ہے

محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ(عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی، اور گھر میں داخل ہو گئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہو گئے، آپ نے پوچھا “عائشہ! تجھے کیا ہو گیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں؟” میں نے کہا کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا “تو مجھے بتا دے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتا دے گی”، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتا دی تو آپ نے فرمایا “وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی”، میں نے عرض کیا جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا “کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ظلم کریں گے”، میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتا دے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں”، میں نے پوچھا اللہ کے رسول! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» “سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے(دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں”

تبصرہ

سندا یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سند کو شعیب نے ضعیف کہا ہے

سنن نسائی جیسی سند سے یہ روایت مسند احمد 25855 موجود ہے
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي، وَعَنْ أُمِّي؟ – فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ – قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ

شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے إسناد ضعيف- اس کی اسناد ضعیف ہیں۔

شعیب کی تحقیق کے مطابق سنن نسائی کی سند میں عبد الله بن أبي مليكة کا نام غلطی ہے – صحیح ابن حبان ٧١١٠ میں اسی سند سے ہے
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى بْنِ مُجَاشِعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَصَّارُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَثِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ

اور یہ اصلا عبد الله بن كثير ہی ہے جو ایک مجہول ہے۔

نسائی نے اس سند کو اس طرح بھی لکھا ہے
اخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ
اور اپنی دوسری کتاب سنن الکبری میں کہا
خَالَفَهُ حَجَّاجٌ فَقَالَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ

حجاج نے ان کی مخالفت کی اور کہا بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ

یعنی نسائی کے نزدیک یہ غلطی حَجَّاجَ کی وجہ سے آئی ہے۔ – حجاج ثقہ ہیں لیکن عبد اللہ سند میں دیکھ کر ان کو مغالطہ ہوا کہ یہ عبد اللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ہیں جبکہ وہ عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة تھا

سنن نسائی کی اس روایت میں الٹا لکھا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا
‏‏‏‏‏‏قُلْتُ ‏‏‏‏ مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ
میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام صحیح مسلم کی روایت کے تحت لگایا گیا ہے اس روایت میں اس کا رد ہے۔ یہاں عائشہ اپنے صحیح عقیدے کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ صحیح مسلم میں وہ صحیح عقیدے سے ناواقف ہیں اور سوال کر رہی ہیں۔

قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔

اس طرح یہ حدیث صحیح مسلم سے الگ ہے۔

سنن نسائی میں اس کے بعد کچھ اور روایات بھی ہیں مثلا

حدیث نمبر: 2040أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، ‏‏‏‏‏‏قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ:‏‏‏‏ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَلَبِسَ ثِيَابَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي بَرِيرَةَ تَتْبَعُهُ فَتَبِعَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَوَقَفَ فِي أَدْنَاهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقِفَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفَ فَسَبَقَتْهُ بَرِيرَةُ فَأَخْبَرَتْنِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَذْكُرْ لَهُ شَيْئًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أَهْلِ الْبَقِيعِ لِأُصَلِّيَ عَلَيْهِمْ”.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنا کپڑا پہنا پھر (باہر) نکل گئے، تو میں نے اپنی لونڈی بریرہ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے پیچھے جائے، چنانچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئی یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع پہنچے، تو اس کے قریب کھڑے رہے جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے کھڑا رکھنا چاہا، پھر آپ پلٹے تو بریرہ آپ سے پہلے پلٹ کر آ گئی، اور اس نے مجھے بتایا، لیکن میں نے آپ سے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ صبح کیا، تو میں نے آپ کو ساری باتیں بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے اہل بقیع کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ میں ان کے حق میں دعا کروں”۔

تبصرہ
یہ متنا شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رات کے وقت بھی لونڈی ام المومنین کے پاس تھی جبکہ یہ ممکن نہیں کہ آمد النبی کے بعد کوئی حجرہ عائشہ میں رہ جائے
یہ متن بھی صحیح مسلم کی حدیث کے خلاف ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاسوسی ایک لونڈی کر رہی ہے جس کو اپنی مالکہ کا خوف ہے لیکن اللہ کا خوف نہیں ہے

سنن نسائی کی ایک تیسری روایت میں ہے

حدیث نمبر: 2041أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَتْ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَخْرُجُ فِي آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا وَإِيَّاكُمْ مُتَوَاعِدُونَ غَدًا أَوْ مُوَاكِلُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ”
.ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد» “اے مومن گھر (قبرستان) والو! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے والے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما”۔

تبصرہ
یہ متن بھی غلط و شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ جب بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری اتی تو اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع جاتے
ہر رات قبرستان جانا دیگر روایات سے معلوم ہے کہ نہیں تھا

لب لباب یہ ہوا کہ صحیح مسلم کی روایت منکر ہے اور اسی روایت کو شب برات میں قبرستان جانے کی دلیل پر پیش کیا جاتا ہے

محشر میں بعض علماء کی سخت پکڑ ہو گی  – ام المومنین رضی اللہ عنہا   پر الزام مہنگا پڑے گا

اللہ کا حکم یاد رہے

اِذْ تَلَقَّوْنَهٝ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّّتَحْسَبُوْنَهٝ هَيِّنًاۖ وَهُوَ عِنْدَ اللّـٰهِ عَظِيْـمٌ (15 

جب تم اسے اپنی زبانوں سے نکالنے لگے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہنی شروع کردی جس کا تمہیں علم بھی نہ تھا اور تم نے اسے ہلکی بات سمجھ لیا تھا، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے۔

وہابی عالم لکھتے ہیں

یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور اس لا علمی پر یہ کافر نہیں ہوئیں شیخ اسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں اس حدیث پر یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ؟ پس اس کا سوال انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا ہاں اور یہ دلیل ہے ہے کہ وہ عائشہ اسکو نہیں جانتی تھیں اور ان کو معرفت نہیں تھی کہ اللہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اس لئے کافر نہیں تھیں

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٤١٢ پر بحث کی ہے اور سنن نسائی کی روایت کے الفاظ نقل کیے ہیں

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»

اور یہ سند وہی ہے جو صحیح مسلم میں ہے

البتہ صحیح مسلم میں متن میں نعم کے لفظ کو ام المومنین کے الفاظ کے ساتھ مربوط رکھا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نعم کا لفظ ام المومنین کے جملے کا حصہ ہے – لیکن راوی کا مدعا اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کہنا ہے جیسا کہ مختلف کتب احادیث میں متن میں دیکھ کر جانا جا سکتا ہے مثلا سنن نسائی ، سنن الکبری ، مسند احمد وغیرہ

کتاب تاریخ مدینہ از ابن شبہ میں ہے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ [ص:88] بْنَ قَيْسٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ قَالَ: «نَعَمْ

یعنی اس جملے کو سوالیہ انداز میں کئی راویوں نے بیان کیا ہے 

راوی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ کا سیاسی مدعا

راوی  کا مدعا یہ ہے کہ آخری دور نبوی تک ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو شک تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور رات کے اندھیرے میں  ماریہ قبطیہ سے ملنے گئے ہوں گے اور اس نے سورہ التحریم کی آیت کو ملا کر ایک قصہ گھڑا ہے

سورہ التحریم میں موجود ہے دو امہات المومنین (حدیث کے مطابق عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا) نے مل کر ایک  فیصلہ کیا ( حدیث کے مطابق ماریہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے جب بھی نبی آئین  آئیں تو بولیں گی کہ شہد کی بو  آ رہی ہے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جانا چھوڑ دیں گے) البتہ اس کی خبر نبی کو اللہ نے دے دی تو کوئی ایک ام المومنین بولیں کس نے خبر دی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِيْثًاۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَاَظْهَرَهُ اللّـٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٝ وَاَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَكَ هٰذَا ۖ قَالَ نَبَّاَنِىَ الْعَلِـيْمُ الْخَبِيْـرُ (3)

اور جب نبی نے چھپا کر اپنی کسی بیوی سے ایک بات کہہ دی، اور پھر جب اس بیوی نے وہ بات بتا دی اور اللہ نے اس کو نبی پر ظاہر کر دیا تو نبی نے اس میں سے کچھ بات جتلا دی اور کچھ ٹال دی، پس جب پیغمبر نے اس کو وہ بات جتلا دی تو بولی آپ کو کس نے یہ بات بتا دی، آپ نے فرمایا مجھے خدائے علیم و خبیر نے یہ بات بتلائی۔

راوی نے اس آیت کا استعمال کر کے قصہ گھڑا کہ باوجود اس کے کہ نبی کو الله خبر کر دیتا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا  پھر بھی   جاسوسی کرتی ہیں کہ ممکن ہے نبی ان کی باری کے دن ماریہ کے ہاں گئے ہوں اور پھر لا علمی کا اظہار کیا  کہ جو لوگ چھپاتے ہیں کیا اس کو اللہ جانتا ہے ؟ اس طرح یہ روایت  تنقیص عائشہ سے محمول ہے 

ماریہ والا واقعہ کب ہوا معلوم نہیں ہے جس میں شہد رسول اللہ نے اپنے اوپر حرام کیا  البتہ شہدائے احد کے لئے بقیع جانا بالکل آخری دور کی بات  ہے  – اس طرح راوی کا مقصد یہ ہے کہ بیان کیا جائے کہ آخری ایام تک ام المومنین عائشہ  اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے  شک و شبہ کا شکار رہیں

 

شاتم رسول کی سزا کا اختلاف

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

ایک مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر محبت نہ کرے –  رسول الله صلی الله علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق اور ظرف کا نمونہ تھے اور کسی کو بھی آپ نے اپنی زندگی میں آیذآ نہ دی-

سن ٢٠٠ ہجری کے آس پاس فقہاء میں ایک بحث نے جنم لیا کہ ذمی یا اہل کتاب جو اہل اسلام کے ساتھ ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریں ان کی کیا سزا ہے – اس پر فقہاء کا اختلاف ہوا

صحيح بخاري حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: مَرَّ يَهُودِيٌّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَعَلَيْكَ» فَقَالَ رَسُولُ   اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَتَدْرُونَ مَا يَقُولُ؟ قَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ نَقْتُلُهُ؟ قَالَ: ” لاَ، إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الكِتَابِ، فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ

انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس گزرا بولا تم پر موت ہو پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا تم پر بھی

لوگوں نے کہا یا رسول الله اس کو قتل کر دیں آپ نے کہا نہیں

اگر تم کو اہل کتاب سلام کہیں تو بولو تم پر بھی

امام  بخاری  نے اس روایت کو باب بَابُ قَتْلِ الخَوَارِجِ وَالمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَيْهِمْ میں بیان کیا ہے یعنی خوارج اور ملحدوں کا قتل اتمام حجت کے بعد

اسی طرح اس کا بَابُ إِذَا عَرَّضَ الذِّمِّيُّ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَرِّحْ میں ذکر کیا باب جب ذمی   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے

امام الشافعی کی رائے میں اگر کوئی اہل کتاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے تو وہ عہد توڑتا ہے اس کا خون مباح ہو جاتا ہے – امام  بخاری کی رائے اس کے خلاف ہے-

کتاب  رد المحتار على الدر المختار از ابن عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) کے مطابق قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لَا يُنْقَضُ

عَهْدُهُ ابو حنیفہ کہتے ہیں اس سے عہد نہیں ٹوٹتا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله کے مطابق

سَمِعت ابي يَقُول فِيمَن سبّ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ تضرب عُنُقه

میں نے اپنے باپ کو سنا کہ جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے اس کی گردن مار دو

کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق أبو يعقوب المروزي کہتے ہیں إسحاق بن راهويه کہتے ہیں شاتم رسول کو

 قال إسحاق: إذا عرض بعيب النبي صلى الله عليه وسلم قام مقام الشتم، يُقتل، إذا لم يكن ذاك منه سهواً

قتل کیا جائے گا – اگر غلطی سے نہیں ہوا

یعنی اسحاق بن رهویہ نے گنجائش رکھی ہے کہ شاتم رسول اگر غلطی سے کر بیٹھا ہے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا

غیر مقلدین اور وہابیوں  کے امام ابن تیمیہ نے کتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول ج ١ ص ٥٥٨  میں امام احمد کی رائے کو ترجیح دی  جو أحكام أهل الملل میں ابو بکر الخلال سے نقل کی گئی ہے کہ امام احمد نے کہا

كل من شتم النبي صلى الله عليه وسلم مسلما كان أو كافرا فعليه القتل

ہر کوئی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے چاہے مسلمان ہو یا کافر اس پر قتل ہے

احناف کی فقہ کی کتاب  البحر الرائق شرح كنز الدقائق از ابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) کے مطابق

وَمِمَّنْ صَرَّحَ بِقَبُولِ تَوْبَتِهِ عِنْدَنَا الْإِمَامُ السُّبْكِيُّ فِي السَّيْفِ الْمَسْلُولِ وَقَالَ إنَّهُ لَمْ يَجِدْ لِلْحَنَفِيَّةِ إلَّا قَبُولَ التَّوْبَةِ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ فِي إسْقَاطِهِ الْقَتْلَ قَالُوا هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَالِكٍ وَنُقِلَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

اور  ہم میں سے جنہوں نے اس کی صرآحت کی ہے کہ (شاتم رسول کی)  توبہ قبول ہوتی ہے ان میں امام سبکی ہیں کتاب السَّيْفِ الْمَسْلُولِ میں اور کہا ہے کہ ان کو احناف میں کوئی نہ ملا سوائے توبہ کی قبولیت کے کہ قبول توبہ  سے  شاتم النبی کے قتل کا حکم ختم ہو جاتا ہے جو اہل کوفہ اور امام مالک  کا مذھب ہے اور ابو بکر رضی الله عنہ سے نقل کیا گیا ہے

احناف کی فقہ کی کتاب مختصر القدوري في الفقه الحنفي   از أحمد بن محمد بن أحمد بن جعفر بن حمدان أبو الحسين القدوري (المتوفى: 428هـ) کے مطابق

ومن امتنع من أداء الجزية أو قتل مسلما أو سب النبي عليه الصلاة والسلام أو زنى بمسلمة لم ينقض عهده ولا ينتقض العهد إلا بأن يلحق بدار الحرب أو يغلبوا على موضع فيحاربونا

اور جو جزیہ نہ دے اور مسلمان کا قتل کرے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے یا مسلمان سے زنا کرے تو اس سے عہد ختم نہیں ہوتا اور یہ عہد نہیں ٹوٹتا سوائے اس کے کہ وہ دار الحرب سے مل جائے اور کسی مقام پر غلبہ پا کر مسلمانوں سے  جنگ کرے

 اسی طرح کا قول حنفی فقہ کی  کتاب العناية شرح الهداية میں ہے

 امت میں شتم رسول کی سزا کا اختلاف شروع سے چلا آ رہا ہے اس میں کسی ایک رائے کو ہی مرجوع قرار نہیں دیا جا سکتا اور عجیب بات ہے کہ آج لوگوں نے قرآن کی آیات تک اس کے حوالے سے بیان کرنا شروع کر دی ہیں

جن سے ظاہر ہے کہ سیاق و سباق سے نکال کر آیات کو اپنے مدعآ میں پیش کیا گیا ہے ورنہ فقہاء کا اختلاف کیوں ہے

شتم رسول یا سب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر قتل کرنے کے لئے جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں

کعب بن اشرف کا قتل

دلائل النبوه البیہقی، سنن ابی داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ، حَدَّثَهُمْ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَحَدَ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ يَهْجُو النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ، مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُشْرِكُونَ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ، وَالْيَهُودُ وَكَانُوا يُؤْذُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ، فَأَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ بِالصَّبْرِ وَالْعَفْوِ، فَفِيهِمْ أَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [آل عمران: 186] الْآيَةَ، فَلَمَّا أَبَى كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رَهْطًا يَقْتُلُونَهُ،

 کعب بن اشرف یہودی شاعر تھا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا۔ اور اپنے شعروں میں قریش کے کافروں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف بھڑکاتا تھا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ملے جلے لوگ تھے۔   ان میں مسلمان بھی تھے جنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت نے جمع کردیا تھا

اور مشرکین بھی تھے جو بت پرست  تھے  اور اُن میں یہودی بھی تھے جو ہتھیاروں او رقلعوں کے مالک تھے اور وہ اوس و خزرج قبائل کے حلیف تھے۔  رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی جب مدینہ تشریف آوری ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے سب لوگوں کی اصلاح کا ارادہ فرمایا۔ایک آدمی مسلمان ہوتا تو اس کا باپ مشرک ہوتا۔ کوئی دوسرا مسلمان ہوتا تو اس کابھائی مشرک ہوتا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی آمد مبارک پرمشرکین اور یہودانِ مدینہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کرام کو شدید قسم کی اذیت سے دوچار کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اس پر صبر و تحمل اور ان سے درگزر کرنے کا حکم دیا۔

ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی  وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [آل عمران: 186] الْآيَةَ

اور بلاشبہ آپ ضرور ان سے سنیں گے جن کو آپ سے پہلے کتاب دی گئی

پھر جب کعب بن اشرف نے بغاوت کی تو آپ نے سعد بن معاذ کو حکم دیا کہ کسی کو بھیجیں جو اسکو قتل کرے

اسکی سند میں أبو اليمان الحكم بن نافع البهرانى الحمصى   جو شُعَيْبِ بنِ أَبِي حَمْزَةَ  سے روایت کر رہے ہیں  جن کے لئے الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ: عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، قَالَ: لَمْ يَسْمَعْ أَبُو اليَمَانِ مِنْ شُعَيْبٍ إِلاَّ حَدِيْثاً وَاحِداً، وَالبَاقِي إِجَازَةً

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ نے أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ سے روایت کیا انہوں نے کہا ابو اليَمَانِ نے شُعَيْبٍ سے صرف ایک ہی حدیث روایت کی اور باقی اجازہ ہے

   تهذيب الكمال کے مطابق احمد کہتے ہیں

فَكَانَ وَلَدُ شُعَيْبٍ يَقُوْلُ: إِنَّ أَبَا اليَمَانِ جَاءنِي، فَأَخَذَ كُتُبَ شُعَيْبٍ مِنِّي بَعْدُ، وَهُوَ يَقُوْلُ: أَخْبَرَنَا.  فَكَأَنَّهُ اسْتَحَلَّ ذَلِكَ، بِأَنْ سَمِعَ شُعَيْباً يَقُوْلُ لِقَوْمٍ: ارْوُوْهُ عَنِّي.

قَالَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ: سَمِعْتُ أَبَا اليَمَانِ يَقُوْلُ: قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: كَيْفَ سَمِعْتَ الكُتُبَ مِنْ شُعَيْبٍ؟ قُلْتُ: قَرَأْتُ عَلَيْهِ بَعْضَهُ، وَبَعْضُهُ قَرَأَهُ عَلَيَّ، وَبَعْضُهُ أَجَازَ لِي، وَبَعْضُهُ مُنَاوَلَةً. قَالَ: فَقَالَ فِي كُلِّهِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ

شُعَيْبٍ کے بیٹے کہتے تھے کہ أَبَا اليَمَانِ میرے پاس آیا اور مجھ سے والد کی کتب لیں اور کہنے لگا اخبرنا!  پس اس نے اس کو جائز سمجھا اور میرے والد ایک قوم سے کہتے یہ مجھ سے روایت (کیسے)  کرتا ہے

إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ نے کہا میں نے أَبَا اليَمَانِ کو کہتے سنا وہ کہتے مجھ سے امام احمد نے کہا تم شُعَيْبٍ سے کتاب کیسے سنتے ہو ؟ میں نے کہا بعض میں اس پر پڑھتا ہوں اور بعض وہ مجھ کو سناتا ہے اور بعض کی اس نے اجازت دی اور بعض کا مناولہ کہا میں نے  اس سب پر کہا اخبرنا شُعَيْبٌ

یعنی أَبَا اليَمَانِ الحكم بن نافع اس کا کھلم کھلا اقرار کرتے تھے کہ ہر بات جس پر وہ اخبرنا شُعَيْبٌ کہتے ہیں اس میں سے ہر حدیث ان کی سنی ہوئی نہیں ہے

روایت تاریخ کے مطابق غلط ہے – صحیحین میں کعب کی قتل کی وجوہات نہیں بیان ہوئیں –  ابن اسحاق کی سیرت کے مطابق کعب مدینہ کا باسی نہ تھا اس کی ننھیال مدینہ میں تھی اور اس کے ہمدرد اس کے ساتھ تھے کعب کا باپ قبیلہ بنی طی کا تھا جو مدینہ کے شمال میں تھا  لیکن کعب ایک یہودی سیٹھ تھا اور عرب میں سفر کرتا اور قبائل کو مدینہ پر حملہ کے لئے اکساتا یہاں تک کہ اس نے عباس رضی الله عنہ کی بیوی نبی صلی الله علیہ وسلم کی مومنہ چچی لبابہ الکبری رضی الله عنہآ کے لئے بیہودہ شاعری کی

لہذا کعب کا قتل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہجو پر نہیں بلکہ فتنہ پردازی کرنے پر ہوا تھا

کعب کے واقعہ کا شتم رسول سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک خاص حکم تھا جو فتنہ اور مدینہ کی سلامتی کے لئے لیا گیا تھا

ابو رافع کا قتل

محمد بن اسحٰق  سیرت میں لکھتے ہیں

ولما انقضی شأن الخندق وأمر بنی قریظة وکان سلام بن أبي الحقیق وهو أبو رافع فیمن حزب الأحزاب علی رسول الله صلی الله علیہ وسلم وکانت الأوس قبل أحد قتلت کعب بن الأشرف في عداوته لرسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وتحریضه علیه استأذنت الخزرج رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم في قتل سلام بن أبي الحقیق وھو بخیبر فأذن لھم.

جب غزوۂ خندق اور بنو قریظہ کے یہود کامعاملہ پورا ہوگیا – ابو رافع  سلام بن ابی الحقیق یہودی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے  خلاف اتحادیوں کو جمع کیا تھا۔ اُحد سے پہلے اَوس قبیلے کےلوگوں نے کعب بن اشرف کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی عداوت اور لوگوں کی وجہ سےقتل کیا تھا توخزرج والوں نے ابورافع یہودی کے قتل کی اجازت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے طلب کی اور اس وقت ابو رافع خیبر میں تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت دی۔

اس واقعہ کا بھی سب و شتم کرنے سے تعلق نہیں ہے یہ بھی ایک خاص حکم ہے جو بطور حاکم نبی صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ کی سلامتی کے لئے دیا

ایک ام ولد کا قتل

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی اُمّ ولد تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی۔ وہ نابینا صحابی اسے منع کرتے لیکن وہ باز نہ آتی تھی۔…. ایک رات جب وہ نبی   صلی  الله علیہ وسلم کی بدگوئی کرنے لگی تو اُس نے برچھا پکڑا تو اسے اس کے پیٹ پر رکھ دیا اور اُس پر اپنا بوجھ ڈالا اور اسےقتل کردیا۔ جب یہ بات نبی کریم صلی  الله علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:

 ألا اشهدوا إن دمها هدر 

 خبردار، گواہ ہوجاؤ اس لونڈی کا خون ضائع و رائیگاں ہے

سنن أبي داود (4361)، سنن النسائي (4075)،سنن الدارقطني‎ المطالب العالیة (2046)، إتحاف الخيرة المھرة للبوصیری

البانی اس حدیث کے بارے  میں   إرواء الغلیل میں  کہتے  ہیں: إسنادہ صحیح علی شرط مسلم   اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔  امام حاکم کہتے ہیں هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مسلم کی شرط پر لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی –

امام حاکم تصحیح حدیث میں غلطیاں کرنے پر مشھور و معروف ہیں یہاں تک کہ انبیاء پر وسیلہ کی وسیلہ کی تہمت لگاتے اور رفض میں علی کو تمام صحابہ سے افضل قرار  دینے والی روایات  کو بھی صحیح کہتے  تھے

إس كي سند میں عثمان الشحام العدوى ہے –  جس کے لئے امام یحییٰ القطان  کہتے ہیں

يعرف وينكر ولم يكن عندي بذاك

اس کو پہچانا اور انکار کیا جاتا ہے اور میرے نزدیک ایسا (مظبوط) نہیں

میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے :  نسائی خود کہتے ہیں قال النسائي: ليس بالقوى. میرے نزدیک قوی نہیں

جس راوی کی روایت نسائی خود کہیں مظبوط نہیں اس کو علماء آج انکی ہی کتاب سے نقل کر کے کیسے  صحیح قرار دے  سکتے ہیں

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق

قال أبو أحمد الحاكم: عثمان بن مسلم أبو سلمة الشحام ليس بالمتين عندهم.

أبو أحمد الحاكم کہتے ہیں : عثمان محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں ہے

الغرض بعض محدثین اس کو ثقہ کہتے ہیں لیکن حلال و حرام  میں اس کی روایت مظبوط نہیں وہ بھی جب اس بنیاد پر قتل کا فتوی دیا جا رہا ہو- عصر حاضر کے علماء میں سے شعَيب الأرنؤوط ، سنن ابو داود پر اپنی تحقیق میں  کہتے ہیں

إسناده قوي من أجل عثمان الشحام، فهو صدوق لا بأس به وباقي رجاله ثقات.

عثمان الشحام کی وجہ سے اس روایت کی اسناد قوی ہیں کیونکہ وہ صدوق ہے اس میں کوئی برائی نہیں اور باقی رجال ثقہ ہیں

یعنی جو راوی متقدمین  محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں  تھا وہ آج معتبر ہو چلا ہے

ایک صحابی کا بہن کو قتل کرنا

معرفہ صحابہ از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْخَلَّالُ، ثنا ابْنُ كَاسِبٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ السَّلَمَ بْنَ يَزِيدَ، وَيَزِيدَ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَاهُ عَنْ عُمَيْرِ بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ أُخْتٌ، فَكَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آذَتْهُ فِيهِ وَشَتَمَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مُشْرِكَةً، فَاشْتَمَلَ لَهَا يَوْمًا عَلَى السَّيْفِ، ثُمَّ أَتَاهَا فَوَضَعَهُ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا، فَقَامَ بَنُوهَا وَصَاحُوا وَقَالُوا: قَدْ عَلِمْنَا مَنْ قَتَلَهَا، أَفَيَقْتُلُ أَمَّنَا وَهَؤُلَاءِ قَوْمٌ لَهُمْ آبَاءٌ، وَأُمَّهَاتٌ مُشْرِكُونَ؟ فَلَمَّا خَافَ عُمَيْرٌ أَنْ يَقْتُلُوا غَيْرَ قَاتِلِهَا ذَهَبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: «أَقَتَلْتَ أُخْتَكَ؟» ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «وَلِمَ؟» ، قَالَ: إِنَّهَا كَانَتْ تُؤْذِينِي فِيكَ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِيهَا فَسَأَلَهُمْ، فَسَمَّوْا غَيْرَ قَاتِلِهَا، فَأَخْبَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ، وَأَهْدَرَ دَمَهَا، قَالُوا: سَمْعًا وَطَاعَةً

 عمیر بن اُمیہ کی ایک بہن تھی اور عمیر جب نبی صلی الله علیہ وسلم  کی طرف جاتے تو وہ اُنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے تکلیف دیتی اور نبی   صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور وہ مشرکہ تھی۔ اُنہوں نے ایک دن تلوار اُٹھائی پھر اپنی  بہن کے پاس آئے، اسے تلوار کا وار کرکے قتل کردیا۔ اس کے بیٹے اُٹھے، اُنہوں نے چیخ و پکار کی اور کہنے لگے کہ ہمیں معلوم ہے، کس نے اسے قتل کیا ہے؟ کیا ہمیں امن و امان دے کرقتل کیا گیا ہے؟ اور اس قوم کے آباء و اجداد اور مائیں مشرک ہیں۔ جب عمیر کو یہ خوف لاحق ہوا کہ وہ اپنی ماں کے بدلے میں کسی کو ناجائز قتل کردیں گے تو وہ نبی کریم صلی  الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کوخبر دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

  أقتلت أختك

کیا تم نے اپنی بہن کوقتل کیا ہے۔

 انہوں نے کہا ہاں۔آپ صلی الله علیہ وسلمنے کہا:   ولم؟   تم نے اسے کیوں قتل کیا

 تو اُنہوں نے کہا:    إنها کانت تؤذینی فیك      یہ مجھے آپ کے بارے میں تکلیف دیتی تھی۔

 تو نبی صلی الله علیہ وسلمنےاس کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا تو اُنہوں نے کسی اور کو قاتل بنایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلمنے ان کو خبر دی اور اس کا خون رائیگاں قراردیا تو اُنہوں نے کہا: ہم نے سنا اور مان لیا

الإصابة  ، المعجم الکبیر از طبرانی،  مجمع الزوائد, أسد الغابة‎‎

اسکی سند میں يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب کا تفرد ہے  –  کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ا بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) کے مطابق

قال النسائي يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب ليس بشَيْءٍ

نسائی کہتے ہیں يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب کوئی چیز نہیں

کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی  کے مطابق

أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں ضَعِيْفُ الحَدِيْثِ

بخاری نے صحیح میں ایک یعقوب سے روایت لی اور لوگوں کا گمان ہے کہ یہ يَعْقُوب غير مَنْسُوب اصل میں ابْن حميد بن كاسب ہے دیکھئے الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از أحمد بن محمد بن الحسين بن الحسن، أبو نصر البخاري الكلاباذي – اس بنیاد پر یعقوب ابْن حميد بن كاسب کو صحیح بخاری کا راوی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ائمہ حدیث اس پر متفق نہیں ہیں

اس روایت میں عُمَيْرِ بْنِ أُمَيَّةَ نامی ایک صحابی کا ذکر ہے جو صرف اسی روایت سے جانے جاتے ہیں- یہ واقعی صحابی بھی تھے یا نہیں کسی اور دلیل سے ثابت نہیں-

ایک یہودیہ کا قتل

سنن ابو داود اور سنن الکبری البیہقی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، «أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ، فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ، فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا

ایک یہودیہ عورت نبی صلی الله علیہ وسلم  کو گالیاں دیا کرتی اور آپ کے بارے میں نازیبا کلمات کہا کرتی تھی۔ ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئی تو اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے اس کا خون باطل قرار دیا۔

اس روایت کے بارے میں  إرواء الغلیل میں   البانی  کہتے ہیں   إسناده صحیح علی شرط الشیخین  اس کی سند بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن بعد میں اس قول سے رجوع کرتے ہیں اور کتاب صحيح وضعيف سنن أبي داود

 میں کہتے ہیں ضعيف الإسناد

کتاب  الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما از ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) کے مطابق كَذَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُد  إِسْنَاده مُنْقَطع اسطرح ابو داود نے روایت کیا ہے اسناد منقطع ہیں

حد قتل صرف مرتکب ِتوہین رسالت کے لیے

سنن الکبری البیہقی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ، نا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، نا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، عَنْ أَبِي السَّوَّارِ، عَنْ  أَبِي بَرْزَةَ، أَنَّ رَجُلًا، سَبَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: ” أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 ابو برزہ کہتے ہیں ایک شخص نے ابو بکر رضی الله عنہ کو گالی دی -میں نے کہا یا خلیفہ رسول آپ کی اجازت ہو تو گردن مار دوں؟  ابو بکر رضی الله عنہ  نے کہا لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یہ حد رسول الله کے بعد کسی کے لئے نہیں

ایک اور روایت میں ہے   لا والله ما کانت لبشر بعد محمد صلی الله علیہ وسلم

الله کی قسم   رسول الله کے بعد یہ کسی  بشر کے لئے نہیں

سنن أبي داؤد    سنن النسائي   ‎‎ السنن الکبری للنسائي

میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق ابن معین اس کی سند میں توبہ العنبری کی تضعیف کرتے ہیں

یہ روایت مستدرک الحاکم میں بھی ہے لیکن الذھبی تلخيص میں اس پر سکوت کرتے ہیں جس سے ظاہر سے وہ اس کی صحت پر مطمئن نہ تھے

یہ روایت مبہم ہے- ابو بکر رضی الله عنہ کس بات پر ناراض تھے واضح نہیں- اور کسی کا اسطرح دخل در معقولات کرنا بے ادبی ہے –  الفاظ لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا مطلب ہے ایسا حکم دینا صرف رسول الله کا حق ہے –  صحیح  بخاری کی  حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہودی جو کہتا تھا تم پر موت ہو اس کو قتل کرنے سے منع کیا

 ایک  عیسائی کو سزا

سنن الکبری بیہقی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَارِسِيُّ , أنبأ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَصْفَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ فَارِسٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: قَالَ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ: ثنا الْمُبَارَكُ، أنبأ حَرْمَلَةُ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، أَنَّ عَرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ مَرَّ بِهِ نَصْرَانِيٌّ فَدَعَاهُ إِلَى الْإِسْلَامِ , فَتَنَاوَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَهُ , فَرَفَعَ عَرَفَةُ يَدَهُ فَدَقَّ أَنْفَهُ , فَرُفِعَ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ , فَقَالَ عَمْرٌو: أَعْطَيْنَاهُمُ الْعَهْدَ. فَقَالَ عَرَفَةُ: مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَكُونَ أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ يُظْهِرُوا شَتْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِنَّمَا أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ نُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ كَنَائِسِهِمْ , يَقُولُونَ فِيهَا مَا بَدَا لَهُمْ , وَأَنْ لَا نُحَمِّلَهُمْ مَا لَا يَطِيقُونَ , وَإِنْ أَرَادَهُمْ عَدُوٌّ قَاتَلْنَاهُمْ مِنْ وَرَائِهِمْ , وَنُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ أَحْكَامِهِمْ , إِلَّا أَنْ يَأْتُوا رَاضِينَ بِأَحْكَامِنَا , فَنَحْكُمَ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِ اللهِ وَحُكْمِ رَسُولِهِ , وَإِنْ غَيَّبُوا عَنَّا لَمْ نَعْرِضْ لَهُمْ فِيهَا. قَالَ عَمْرٌو: صَدَقْتَ وَكَانَ عَرَفَةُ لَهُ صُحْبَةٌ

كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ  کہتے ہیں کہ َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کے پاس سے ایک عیسائی گزرا تو اُنہوں نے اسے اسلام کی دعوت پیش کی تو اُس عیسائی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی اہانت کی۔ َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور اس کی ناک پھوڑ دی ۔ یہ مقدمه عمرو بن العاص کے پاس لایا گیا تو عمرو نے کہا  ہم نے ان کو عہد و پیمان دیا ہے (یعنی ان کی حفاظت ہم پر لازم ہے) َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ نے کہا اللہ کی پناہ! ہم ان کو اس بات پر عہد و پیمان دیں کہ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر سب و شتم کا اظہار کریں۔ ہم نے ان کو اس بات کا عہد دیا ہے کہ ہم اُنہیں ان کے گرجا گھروں میں چھوڑ دیں وہ اپنے گرجا گھروں میں جو کہنا ہے کہیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالیں اوراگر کوئی دشمن ان کا قصد کرے تو ہم ان کے پیچھے ان سے لڑائی لڑیں اور اُنہیں ان کے احکامات پر چھوڑ دیں، اِلا یہ کہ وہ ہمارے احکامات پر راضی ہوکر آئیں تو ہم ان کے درمیان اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں اوراگر وہ ہم سے غائب ہوں تو ہم ان کے پیچھے نہ پڑیں۔   عمرو بن العاص نے فرمایا: صدقتَ تم نے سچ کہا – (بیہقی نے کہا) اور عَرَفَةُ صحابی ہیں

سند میں كعب بن علقمة بن كعب التنوخى  المصری ہیں – بخاری نے تاریخ الکبیر میں نام لکھا ہے نہ جرح کی نہ تعدیل – صرف ابن حبان نے  ثقآت میں ذکر کیا ہے – بخاری نے الأدب المفرد  میں روایت لکھی ہے ایسے رویوں کا مجھول سمجھا جاتا ہے جن پر نہ جرح ہو نہ تعدیل ہو

عرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کا صحابی ہونا واضح نہیں – لہذا دونوں مجھول راوی ہیں –روایت کے آخر میں بیہقی نے کہا ہے عَرَفَةُ صحابی ہیں لیکن ابن حجر الإصابة في تمييز الصحابة میں کہتے ہیں   ذكره ابن قانع، وابن حبّان ان کا ابن قانع اور ابن حبان نے ذکر کیا ہے – آبن  قانِع  المتوفی ٣٥١ ھ کتاب معجم الصحابة میں ان کا ذکر کرتے ہیں –  اس سے قبل کسی نے ان کو صحابی قرار نہ دیا – بہت سے لوگوں کو اس بنیاد پر صحابی نہیں کہا گیا کہ انہوں نے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دور دیکھا ان سے کچھ سنا نہیں- عرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کے بارے میں تو یہ بھی نہیں پتا کہ واقعی دور نبوی بھی پایا تھا یا نہیں-  ایک روایت کے مطابق جو جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد

 میں ہے عرفہ نے حجہ الوداع کے وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا لیکن اس کو البانی ضعیف کہتے ہیں

علی رضی الله عنہ کی روایت

ایک اور روایت ہے جو مجمع الزوائد ،میں ہے

عَنْ عَلِيٍّ – يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ” «مَنْ سَبَّ الْأَنْبِيَاءَ قُتِلَ، وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي جُلِدَ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ وَالْأَوْسَطِ عَنْ شَيْخِهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيِّ رَمَاهُ النَّسَائِيُّ بِالْكَذِبِ.

علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو انبیاء کو گالی دے قتل کر دو اور جو میرے اصحاب کو گالی دے اسے کوڑے مارو

اس کو طبرانی نے الصغیر اور الاوسط میں اپنے شیخ عبید الله سے روایت کیا جن کو  نسائی نے جھوٹ بولنے پر پھینک دیا  ہے

عمیر بن عدی رضی الله عنہ کی روایت

مسند الشهاب از أبو عبد الله محمد بن سلامة بن جعفر بن علي بن حكمون القضاعي المصري (المتوفى: 454هـ) کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ أَبُو طَاهِرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدُونٍ الْمَوْصِلِيُّ، قَدِمَ عَلَيْنَا، أبنا أَبُو الْحَسَنِ، عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْحَرْبِيُّ الْحَنْبَلِيُّ السُّكَّرِيُّ، ثنا أَبُو الْفَضْلِ، جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الْجُرْجَرَائِيُّ بِهَا، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلَاءِ الشَّامِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ اللَّخْمِيُّ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي خَطْمَةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِجَاءٍ لَهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ ذَلِكَ، وَقَالَ: «مَنْ لِي بِهَا؟» فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهَا: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَتْ تَمَّارَةٌ تَبِيعُ التَّمْرَ، قَالَ: فَأَتَاهَا أَجْوَدَ مِنْ هَذَا قَالَ: فَدَخَلَتِ التُّرْبَةَ، قَالَ: وَدَخَلَ خَلْفَهَا، فَنَظَرَ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَلَمْ يَرَ إِلَّا خِوَانًا، قَالَ: فَعَلَا بِهِ رَأْسَهَا حَتَّى دَمَغَهَا بِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ كَفَيْتُكَهَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَأَرْسَلَهَا مَثَلًا

اس سند میں مجالد بن سعید ہے جو ضعیف ہے –  ابن عدی ، ابن جوزی اور البانی کے مطابق روایت موضوع ہے جس کو محمد بن الحجاج اللَّخمي نے گھڑا ہے

دوسری سند ہے

أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ التُّسْتَرِيُّ، وَذُو النُّونِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا نا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَسْكَرِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، نا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، أنا الْوَاقِدِيُّ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَتْ عَصْمَاءُ بِنْتُ مَرْوَانَ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَكَانَ زَوْجُهَا يَزِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ حِصْنٍ الْخَطْمِيُّ، وَكَانَتْ تُحَرِّضُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَتُؤْذِيهِمْ، وَتَقُولُ الشِّعْرَ، فَجَعَلَ عُمَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ نَذْرًا أَنَّهُ لَئِنْ رَدَّ اللَّهُ رَسُولَهُ سَالِمًا مِنْ بَدْرٍ لَيَقْتُلَنَّهَا، قَالَ: فَعَدَا عَلَيْهَا عُمَيْرٌ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَقَتَلَهَا، ثُمَّ لَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى مَعَهُ الصُّبْحَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَصَفَّحُهُمْ إِذَا قَامَ يَدْخُلُ مَنْزِلَهُ، فَقَالَ لِعُمَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ: «قَتَلْتَ عَصْمَاءَ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ فِي قَتْلِهَا شَيْءٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَهِيَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اس کی سند میں َعبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ اور ان کا باپ دونوں مجھول ہیں ،  لگتا ہے یہ غلطی ہے،  کیونکہ ایک راوی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ الْفُضَيْلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ عَدِيِّ کے نام کا ہے

سند میں واقدی ہے جو ضعیف ہے

تہذیب التہذیب از ابن حجر کے مطابق امام احمد کہتے ہیں الْحَارِثِ بْنِ الْفُضَيْلِ

ليس بمحفوظ الحديث  حدیث میں محفوظ نہیں

ليس بمحمود الحديث حدیث میں قابل تعریف نہیں

عمیر بن عدی نے ایک گستاخ عورت کو قتل کیا اسکی خبر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ہوئی

آپ نے فرمایا

لا ينتطح فيها عنزان

اس میں دو بکریوں کے سینگ بھی نہیں الجھیں گے

یعنی اس میں کسی کو اختلاف نہ ہو گا

لیکن جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں محدثین اس کو ایک موضوع روایت کہتے ہیں

بنی قریظہ کی عورت کا قتل

مسند احمد کی راویت ہے

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: لَمْ يَقْتُلْ مِنْ نِسَائِهِمْ إِلَّا امْرَأَةً وَاحِدَةً. قَالَتْ: وَاللَّهِ إِنَّهَا لَعِنْدِي تَحَدَّثُ مَعِي، تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا، «وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ رِجَالَهُمْ بِالسُّوقِ» ، إِذْ هَتَفَ هَاتِفٌ بِاسْمِهَا: أَيْنَ فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: أَنَا وَاللَّهِ، قَالَتْ: قُلْتُ: وَيْلَكِ، وَمَا لَكِ؟ قَالَتْ: أُقْتَلُ. قَالَتْ: قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَتْ: حَدَثٌ أَحْدَثْتُهُ. قَالَتْ: فَانْطُلِقَ بِهَا، فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَنْسَى عَجَبِي مِنْ طِيبِ نَفْسِهَا، وَكَثْرَةِ ضَحِكِهَا وَقَدْ عَرَفَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ

عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ عورتوں میں سے کسی کا قتل نہ ہوا سوائے ایک عورت کے جو گستاخ تھی

اسکی تمام اسناد میں محمّد بن اسحاق ہے جو ضعیف ہے اور احمد کہتے ہیں اس سے حلال و حرام کی روایت نہیں لینی چاہیے

مصنف عبد الرزاق کی روایت

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ. . . أَوْ قَالَ: أَلْفَيْنِ أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَسُبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَكْفِينِي عَدُوِّي؟» فَخَرَجَ إِلَيْهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَقَتَلَهَا

مصنف عبد الرزاق کے نسخہ میں الفاظ مکمل نقل نہیں ہوئے  أبو نعيم نے  معرفة الصحابة (6/ 3162) میں اس کا مکمل متن و سند نقل کیا ہے :
حدثنا أحمد بن محمد بن يوسف، ثنا عبد الله بن محمد البغوي، ثنا زهير بن محمد، ثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن سماك بن الفضل، عن عروة بن محمد، عن رجل  من بلقين، قال: كانت امرأة تسب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «من يكفيني عدوتي، فخرج خالد بن الوليد فقتلها

سماك بن الفضل روایت کرتے ہیں  عروة بن محمد سے وہ  بلقين میں سے ایک شخص سے کہ ایک عورت تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کون میری مدد کرتا ہے میری دشمن کے لئے پس خالد بن ولید نکلے اور اس کو قتل کر دیا

اسکی سند میں عروة بْن مُحَمَّد بْن عطية السعدي الجشمي ہیں جن کو  سُلَيْمان بن عبد الملك اور عُمَر بْن عبد العزيز اور يزيد بن عبد الملك نے يمن پر عامل مقرر کیا تھا – عروہ ایک مجھول سے روایت نقل کر رہے ہیں جس کا نام و نسب نہیں پتا

لیکن پانچویں صدی کی کتاب المحلی از ابن حزم کی روایت ہے

وَحَدَّثَنَا حُمَامٌ نا عَبَّاسُ بْنُ أَصْبَغَ نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَيْمَنَ نا أَبُو مُحَمَّدٍ حَبِيبٌ الْبُخَارِيُّ – هُوَ صَاحِبُ أَبِي ثَوْرٍ ثِقَةٌ مَشْهُورٌ – نا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ سَمِعْت عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ: ” دَخَلْت عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ لِي: أَتَعْرِفُ حَدِيثًا مُسْنَدًا فِيمَنْ سَبَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – فَيُقْتَلُ؟ قُلْت: نَعَمْ، فَذَكَرْت لَهُ حَدِيثَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ ” رَجُلٍ ” مِنْ بُلْقِينَ قَالَ «كَانَ رَجُلٌ يَشْتُمُ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ -: مَنْ يَكْفِينِي عَدُوًّا لِي؟ فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَنَا فَبَعَثَهُ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – إلَيْهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ: لَيْسَ هَذَا مُسْنَدًا، هُوَ عَنْ رَجُلٍ؟ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِهَذَا يُعْرَفُ هَذَا الرَّجُلُ وَهُوَ اسْمُهُ، قَدْ أَتَى النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَبَايَعَهُ، وَهُوَ مَشْهُورٌ مَعْرُوفٌ؟ قَالَ: فَأَمَرَ لِي بِأَلْفِ دِينَارٍ؟»

علی المدینی کو کہتے محمد بن سہل نے سنا کہ میں (علی المدینی) امیر المومنین (المامون) کے پاس داخل ہوا انہوں نے پوچھا :کیا آپ کو کوئی مسند روایت پتا ہے جس میں نبی کی گستاخی پر قتل کی سزا ہو؟ میں نے کہا جی ؛ پس ان سے حدیث ذکر کی کہ عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے سماک سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے بلقین کے رجل سے روایت کیا کہ … امیر المومنین نے کہا اس میں تو روایت عن رجل سے ہے مسند کیسے ہوئی؟ میں نے کہا اے امیر المومنین اس رجل کا نام ہی ایسے لیا جاتا تھا اور یہی اسکا نام ہے یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور انکی بیعت کی اور یہ مشھور و معروف ہیں پس امیر المومنین نے ہزار دینار عطا کیے

ابن حزم کہتے ہیں

 هَذَا حَدِيثٌ مُسْنَدٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ عَبْدُ الرَّزَّاقِ كَمَا ذَكَرَهُ، وَهَذَا رَجُلٌ مِنْ الصَّحَابَةِ مَعْرُوفٌ اسْمُهُ الَّذِي سَمَّاهُ بِهِ أَهْلُهُ ” رَجُلٌ ” مِنْ بُلْقِينَ.

یہ حدیث مسند ہے صحیح ہے اس کو علی بن المدینی نے روایت کیا ہے عبد الرزاق سے جیسا کہ ذکر کیا اور یہ  رجل صحابہ میں سے ہے جن کو انکے گھر والوں نے ایسا نام دیا کہ بلقین کا آدمی

یہ سب اگر آپ نے پڑھ لیا ہے تو سنئے یہ سب غلط ہے اور اس کی وجوہ یہ ہیں

اول محدثین اور عباسی خلفاء میں باپ مارے کا بیر تھا وہ ایک دوسرے کو پسند نہ کرتے تھے اور معتزلی عقائد رکھتے تھے

دوم محدثین کی خلق قرآن کے مسئلہ پر سخت جانچ پڑتال کی جاتی – امام احمد کو علی المدینی کے دور کے ہیں ان کو کوڑے بھی لگے

سوم عبّاسی خلفاء نے اہل رائے والے علماء کو قاضی کے منصب دیے  – محدثین کی عزت افزائی کا ان کو کوئی شوق نہ تھا یہی وجہ تھی کہ محدثین اور اہل رائے میں ایک مخاصمت جنم لے چکی تھی

لہذا عباسی خلفاء کے اہل رائے والے قاضی امام ابو حنیفہ ، امام یوسف اور امام محمد کا فتوی یہ تھا کہ ذمی شاتم کو قتل نہیں کیا جائے گا – امیر المومنین المأمون  نے انعام سے نوازا اور حدیث کو ایک طرح علی المدینی نے بیچ دیا – ایسا ممکن نہیں محدثین حدیث سنانے کے پیسے نہ لیتے تھے

اب رجل من بلقین کا قبول کرنا بھی ایک فرضی داستان ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ رجل من بلقین ایک صحابی ہے اور  صحابہ کلھم عدول ہیں لہذا روایت درست ہے لیکن اس بنیاد پر تو ہر وہ روایت درست مان لینی چاہیے جس میں دور نبوی کے لوگوں کا لقاء ثابت نہ ہو

اب غور سے پڑھیں اسی کتاب المحلی میں ابن حزم ایک دوسرے مسئلہ پر لکھتے ہیں

رُوِّينَاهُ مِنْ طَرِيقِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ «عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ أَحَدٌ أَحَقُّ بِشَيْءٍ مِنْ الْمَغْنَمِ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَ: لَا، حَتَّى السَّهْمُ يَأْخُذُهُ أَحَدُكُمْ مِنْ جَنْبِهِ فَلَيْسَ أَحَقَّ مِنْ أَخِيهِ بِهِ» . قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: هَذَا عَنْ رَجُلٍ مَجْهُولٍ لَا يُدْرَى أَصَدَقَ فِي ادِّعَائِهِ الصُّحْبَةَ أَمْ لَا؟

اور ہم سے روایت کیا گیا ہے حماد بن سلمہ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ «عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِينَ کے طرق سے …. ابن حزم کہتے ہیں یہ رجل مجھول ہے – نہیں پتا کہ اس کا دعوی صحابی ہونا سچا بھی ہے یا نہیں

یعنی ایک ہی کتاب میں رجل من بلقین کو مجھول کہہ کر رد کیا اور جب اس کی شاتم رسول کی روایت آئی تو سب بھول بھال گئے

یہ روایت ان علماء میں چلتی رہی جو قتل کا فتوی دیتے تھے یہاں تک کہ ابن حجر نے  الإصابة في تمييز الصحابة
میں لکھا کہ اوپر امیر المومنین المامون والآ قصہ جس کو ابن حزم صحیح کہہ گئے ہیں  کذب ہے کتاب میں ابن حجر نے لکھآ

قلت: محمد بن سهل ما عرفته، وفي طبقته محمد بن سهل العطار رماه الدارقطنيّ بالوضع وقال: ناقض ابن حزم

میں کہتا ہوں کہ محمد بن سہل نہیں جانا جاتا اور اس طبقہ میں محمد بن سهل العطار ہے جس کو دارقطنی نے حدیث وضع کرنے پر پھینک دیا ہے اور یہ ابن حزم کی غلطی ہے

الغرض روایات مظبوط نہیں اور فقہاء باوجود قرآن پڑھنے کے اس مسئلہ میں ایک رائے نہیں لہذا آج یہ کہنا کہ اس عمل کی سزا پر اجماع ہے  غلط قول ہے

عمر بغیر پوچھے قتل کرتے رهتے

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے

أخبرنا يونس بن عبد الأعلى قراءة، أنبأ ابن وهب، أخبرني عبد الله بن لهيعة عن أبي الأسود قال: اختصم رجلان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقضى بينهما، فقال الذي قضى عليه: ردنا إلى عمر بن الخطاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، انطلقا إلى عمر، فلما أتيا عمر قال الرجل: يا ابن الخطاب قضى لي رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا، فقال: ردنا إلى عمر حتى أخرج إليكما فأقضي بينكما، فخرج إليهما، مشتملا على سيفه فضرب الذي قال: ردنا إلى عمر فقتله، وأدبر الآخر فارا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، قتل عمر والله صاحبي ولو ما أني أعجزته لقتلني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما كنت أظن أن يجترئ عمر على قتل مؤمنين، فأنزل الله تعالى فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما فهدر دم ذلك الرجل وبرئ عمر من قتله، فكره الله أن يسن ذلك بعد، فقال: «ولو أنا كتبنا عليهم أن اقتلوا أنفسكم أو اخرجوا من دياركم ما فعلوه إلا قليل منهم» إلى قوله: وأشد تثبيتا

یونس بن عبد الاعلیٰ عبدللہ بن وھب سے روایت کرتے ہیں کہ ابن الہیعہ نے انہیں ابو الاسود سے نقل کرتے ہوئے خبر دی: دو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے آپ نے ان کے درمیان فیصلہ فرمایا جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا ہم کو حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے؟ دونوں عمر ؓکے پاس چلے جب عمر ؓ کے پاس آئے تو ایک آدمی نے کہا اے ابن خطاب میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرما دیا ہے اس معاملہ میں اس نے کہا ہم عمر ؓ کے پاس جائیں گے تو ہم آپ کے پاس آگئے عمر ؓ نے پوچھا (اس آدمی سے) کہا ایسے ہی ہے؟ اس نے کہا ہاں عمر ؓ نے فرمایا اپنی جگہ پر رہو یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آؤں تمہارے درمیان فیصلہ کروں حضرت عمر اپنی تلوار لے کر آئے اس پر تلوار سے وار کیا جس نے کہا تھا کہ ہم عمر کے پاس جائیں گے اور اس کو قتل کردیا اور دوسرا پیٹھ پھیر کر بھاگا اور رسول اللہ ﷺ سے آکر کہا یا رسول اللہ اللہ کی قسم عمر ؓ نے میرے ساتھی کو قتل کردیا اگر میں بھی وہاں رکا رہتا تو وہ مجھے بھی قتل کردیتے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرا گمان یہ نہیں تھا۔ کہ عمر ؓ ایمان والوں کو قتل کی جرات کریں گے تو اس پر یہ آیت اتری لفظ آیت ’’ فلا وربک لا یؤمنون‘‘ تو اس آدمی کا خون باطل ہوگیا اور عمر ؓ اس کے قتل سے بری ہوگئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں اس طریقہ کو ناپسند کیا تو بعد والی آیات نازل فرمائیں اور فرمایا لفظ آیت ’’ ولو انا کتبنا علیہم ان اقتلوا انفسکم‘‘ سے لے کر ’’واشد تثبیتا‘‘ تک

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا (66)
جواب

یہ روایت منکر ہے

تعزیری احکام صرف حاکم کا حق ہے اور دور نبوی میں قتل کا حکم صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کر سکتے ہیں – کوئی اور نہیں

محمد الأمين بن عبد الله الأرمي العلوي الهرري الشافعی کتاب تفسير حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن میں کہتے ہیں
وهذا مرسل غريب في إسناده ابن لهيعة.
یہ روایت مرسل ہے عجیب و منفرد ہے اس کی سند میں ابن لهيعة ہے

ابن کثیر تفسیر میں اس قصے کو نقل کر کے کہتے ہیں
وَهُوَ أثر غريب مُرْسَلٌ، وَابْنُ لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ
یہ اثر عجیب ہے مرسل ہے اور ابْنُ لَهِيعَةَ ضعیف ہے

محاسن التأويل میں المؤلف: محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ) کہتے ہیں
وهو أثر غريب مرسل. وابن لهيعة ضعيف

اس راوی پر محدثین کا اختلاف رہا ہے – بعض نے مطلقا ضعیف کہا ہے بعض نے کہا کہ اگر ابن المبارك وابن وهب والمقري اس سے روایت کریں تو لکھ لو
اس طرح اس قصے کو قبول کرنے والے کہتے ہیں ابن وھب نے روایت کیا ہے لہذا قبول کیا جائے گا
لیکن یہ قول اس وقت لیا جاتا ہے جب اختلاط کا خطرہ ہو کیونکہ عبد الله بن لهيعة آخری عمر میں مختلط تھا اور اس نے اپنی کتابیں بھی جلا دیں تھیں
——
موصوف مدلس بھی ہیں اور یہ جرح اس سند پر بھی ہے اس کو کوئی رد نہیں کر سکتا
ابن سعد نے طبقات میں بحث کو سمیٹا ہے کہ
إنه كان ضعيفاً
یہ ضعیف ہی ہے

ابن ابی حاتم جن کی تفسیر میں یہ قصہ ہے ان کے باپ کا کہنا تھا
وأبو حاتم: أمره مضطرب،
عبد الله بن لهيعة کا کام مضطرب ہے

روایت میں شیعیت ہے

اس کو رافضی الکلبی نے بھی روایت کیا ہے
قال الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس: نزلت في رجل من المنافقين يقال له بشر كان بينه وبين يهودي خصومة، فقال اليهودي: انطلق بنا إلى محمد، وقال المنافق: بل نأتي كعب بن الأشرف -وهو الذي سماه الله تعالى الطاغوت- فأبى اليهودي إلا أن يخاصمه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رأى المنافق ذلك “أتى معه” النبي صلى الله عليه وسلم واختصما إليه فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم لليهودي فلما خرجا من عنده لزمه المنافق وقال: ننطلق إلى عمر بن الخطاب فأقبلا إلى عمر، فقال اليهودي: اختصمت أنا وهذا إلى محمد فقضى لي عليه فلم يرض بقضائه وزعم أنه مخاصم إليك وتعلق بي فجئت معه، فقال عمر للمنافق: أكذلك؟ فقال: نعم فقال لهما: رويدكما حتى أخرج إليكما فدخل عمر البيت وأخذ السيف فاشتمل عليه ثم خرج إليهما فضرب به المنافق حتى برد وقال: هكذا أقضي بين من لم يرض بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهرب اليهودي، ونزلت هذه الآية وقال جبريل عليه السلام: إن عمر فرق بين الحق والباطل فسمي الفاروق.
الکلبی ابو صالح سے اور ابو صالح ابن عبّاسؓ سے روایت کرتے ہیں: یہ آیت بشر نامی ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئی۔ بشر اور ایک یہودی کے مابین جھگڑا ہوا۔ یہودی نے کہا چلو آؤ محمد کے پاس فیصلہ کے لئے چلیں۔ منافق نے کہا نہیں بلکہ ہم کعب بن اشرف یہودی – جسے اللہ تعالی نے طاغوت کا نام دیا – کے پاس چلیں۔ یہودی نے فیصلہ کروانے سے ہی انکار کیا مگر یہ کہ جھگڑے کا فیصلہ رسول اللہ سے کروایا جائے۔ جب منافق نے یہ دیکھا تو وہ اس کے ساتھ نبی ﷺ کے کی طرف چل دیا اور دونوں نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ وہ دونوں جب آپ کے پاس سے نکلے تو منافق نے عمر بن خطابؓ کے پاس چلنے پر اصرار کیا اور وہ دونوں عمر ؓکے پاس پہنچے۔ یہودی نے کہا، میں اور یہ شخص اپنا جھگڑا محمد کے پاس لے کر گئے اور محمد نے میرے حق میں اور اس کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ چنانچہ یہ ان کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور آپ کے پاس آنے کا کہا تو میں آپ اس کے ساتھ آپ کی طرف آیا۔ عمر ؓنے منافق سے پوچھا، ‘کیا یہی معاملہ ہے؟’ اس نے کہا، ‘جی ہاں۔’ عمرؓ نے ان دونوں سے کہا تم دونوں میری واپسی کا انتظار کرو۔ عمر ؓ اپنے گھر گئے، اپنی تلوار اٹھائی اور واپس ان دونوں کے پاس لوٹے اور منافق پر وار کیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: “جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کے لئے میرا یہی فیصلہ ہے۔” یہ دیکھ کر یہودی بھاگ گیا۔ اس پر یہ آیت (النساء ٦٥) نازل ہوئی اور جبریل علیہ السلام نے کہا: بے شک عمر ؓنے حق اور باطل کے درمیان فرق کر دیا اور انہوں نے آپ کا نام “الفاروق” رکھا

اور ابن الہیعہ نے اغلبا تدلیس کی ہے کیونکہ ابی الاسود سے لے کر عمر رضی الله عنہ یا کسی صحابی تک سند نہیں ہے

الكَلْبِيُّ مُحَمَّدُ بنُ السَّائِبِ بنِ بِشْرٍ المتوفي ١٤٦ اور ابن الہیعہ المتوفی ١٧٤ کے ہیں دونوں پر شیعت کا اثر تھا – روایت کو عمر رضی الله عنہ کی تنقیص میں بیان کیا گیا کہ وہ حکم نبوی انے سے قبل ہی اپنی چلاتے تھے

ابن خطل کا قتل

حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو ابن خطل کعبہ کے پردے میں چھپ گیا آپ نے حکم دیا اس کو وہیں قتل کر دیا جائے

ابو داود کہتے ہیں أَبُو بَرْزَةَ رضی الله عنہ  نے  اس کا قتل کیا اور امام مالک کا قول ہے کہ اس روز رسول الله احرام میں نہ تھے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے کالا عمامہ باندھا ہوا تھا یعنی سر بھی ڈھکا ہوا تھا

کیونکہ احرام کی حالت میں قتل حرام ہے اس لئے فقہاء میں اس پر بحث ہوتی ہے کہ کیا حرم میں بغیر احرام داخل ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟  یہ عمل الله کی خاص اجازت سے ہوا

اب بحث یہ ہے کہ ابن خطل کا قتل کیوں ہوا ؟  کتاب الشريعة از الآجُرِّيُّ کے مطابق علی رضی الله عنہ کا قول ہے

كَانَ ابْنُ خَطَلٍ يَكْتُبُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابن خطل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے لکھتا تھا

یعنی ابن خطل  ایک کاتب تھا جو مرتد ہو گیا تھا اور چونکہ مرتد کا قتل ہوتا ہے اس لئے اس کا قتل ہوا یہ گناہ تمام دیگر گناہوں پر سبقت لے گیا ورنہ مکہ میں تو سب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف تھے

کتاب  شرح السنة از البغوي  کے مطابق

أَنَّ ابْنَ خَطْلٍ كَانَ بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهٍ مَعَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَمَّرَ الْأَنْصَارِيَّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، وَثَبَ عَلَى الْأَنْصَارِيِّ، فَقَتَلَهُ، وَذَهَبَ بِمَالِهِ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِهِ لِخِيَانَتِهِ.

ابن خطل کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک کام سے ایک انصاری صحابی کے ساتھ  بھیجا اور انصاری کو امیر کیا پس جب وہ رستہ میں تھے ابن خطل نے انصاری پر قابو پایا اور ان کو قتل  کر کے مال لے بھاگا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا قتل خیانت کرنے پر کیا

اہل مکہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نام رکھے ہوئے تھے بعض ان کو

ابن ابی کبشہ کہتے (سیرت ابن اسحاق)  یعنی ابی کبشہ کا بیٹا جو ایک ستارہ پرست تھا اور الشعری کا پجاری تھا یعنی عربوں کے نزدیک لا دین تھا

بعض اہل مکہ ان کو مذمم کہتے (مسند احمد، صحیح بخاری) یعنی وہ جو قابل مذمت ہو

صحیح بخاری کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا

أَلاَ تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ، يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ

کیا تم کو حیرت نہیں ہوتی کہ کس طرح الله نے قریش کی گالیوں کو ہٹایا اور ان کی لعنت کو؟ کہ وہ ایک مذمم کو گالی دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں اور میں محمد ہوں

یعنی الله میری تعریف کر رہا ہے اور قریش الله سے دعائیں کر رہے ہیں کہ مجھ پر لعنت ہو

 آپ صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ان تمام گالی دینے والوں کو معاف کر دیا

—-

معالم السنن میں خطابی کہتے ہیں

وحكي، عَن أبي حنيفة أنه قاله لا يقتل الذمي بشتم النبي صلى الله عليه وسلم ما هم عليه من الشرك أعظم.

اور امام ابو حنیفہ سے حکایت کیا گیا ہے کہ ذمی کو گالی دینے پر قتل نہیں کیا جائے گا ان پر پہلے سے شرک  (کا گناہ) ہے جو بڑا ہے

یعنی جب شرک جسے گناہ پر ان کو قتل نہیں کیا جاتا تو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دینے  پر کیسے کیا جا سکتا ہے؟

امام ابو حنیفہ کی رائے کی تائید صحیح البخاری کی حدیث سے ہوتی ہے

ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ اللَّهُ: «كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِي، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ [ص:20] إِيَّايَ فَزَعَمَ أَنِّي لاَ أَقْدِرُ أَنْ أُعِيدَهُ كَمَا كَانَ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ، فَقَوْلُهُ لِي وَلَدٌ، فَسُبْحَانِي أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا»

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالی کہتا ہے

ابن آدم نے میری تکذیب کی اور اس کے لئے یہ مقام نہیں

اور مجھ کو گالی دی …. یہ کہہ کر کہ میرا بیٹا ہے جبکہ میں پاک ہوں کہ کسی کو بیٹے کے  طور پر لوں

آجکل بعض جھلا کہتے پھرتے ہیں کہ شاتم رسول ذمی کی سزا پر بحث نہ کی جائے کیونکہ یہ دین دار اور دنیا پرست لوگوں کا جھگڑا ہے لیکن ان جھلا نے امام ابو حنیفہ رحمہ الله علیہ تک کو دنیا دار طبقہ میں ملا دیا ہے

ناطقہ سربہ گریباں خامہ انگشت

گانے والیوں کو سزا

ابن تیمیہ نے اپنی کتاب  الصارم المسلول على شاتم الرسول میں ایک قصہ نقل کیا ہے

فمن ذلك ما ذكره سيف بن عمر التميمي في كتاب “الردة والفتوح” عن شيوخه قال: “ورفع إلى المهاجر يعني المهاجر بن أبي أمية وكان أميرا على اليمامة ونواحيها امرأتان مغنيتان غنت إحداهما بشتم النبي صلى الله عليه وسلم فقطع يدها ونزع ثنيتيها وغنت الأخرى بهجاء المسلمين فقطع يدها ونزع ثنيتيها فكتب إليه أبو بكر: بلغني الذي سرت به في المرأة التي تغنت وزمرت بشتم النبي صلى الله عليه وسلم فلولا ما قد سبقتني لأمرتك بقتلها لأن حد الأنبياء ليس يشبه الحدود فمن تعاطى ذلك من مسلم فهو مرتد أو معاهد فهو محارب غادر”.

  سيف بن عمر التميمی نے اپنی کتاب “الردة والفتوح” میں اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے کہ   المهاجر بن أبي أمية جو یمامہ پر امیر تھے وہاں دو عورتیں ان پر پیش مقدمے میں ہوئیں جو گاتی اور ہجو رسول کرتی تھیں –  المهاجر بن أبي أمية نے  اس کے ہاتھ کاٹ دیئے اور اس کے اگلے دانت نکال دیئے۔  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے اسے یہ سزانہ دی ہوتی تو تمہیں حکم دیتاکہ اس عورت کو قتل کردو۔کیونکہ انبیاء کرام کی گستاخی کی حددوسرے لوگوں کی(گستاخی کی) حدود کے مشابہ نہیں ہوتی ۔

سيف بن عمر التميمي  سے تعزیری احکام نہیں لئے جا سکتے یہ حدیث میں متروک ہے البتہ تاریخ میں قبول کیا جاتا ہے – دوم اس کی کتب معدوم ہیں اور سیف کے شیوخ بھی پارسا نہیں کہ اس قسم کی سخت سزا اس کی سند سے لی جائے

راہب کا قتل

ابن تیمیہ نے اپنی کتاب  الصارم المسلول على شاتم الرسول میں ایک قصہ نقل کیا ہے

ومن ذلك ما استدل به الإمام أحمد ورواه عنه هشيم: ثنا حصين عمن حدثه عن ابن عمر قال: مر به راهب فقيل له: هذا يسب النبي صلى الله عليه وسلم فقال ابن عمر: “لو سمعته لقتلته إنا لم نعطهم الذمة على أن يسبوا نبينا صلى الله عليه وسلم”.
ورواه أيضا من حديث الثوري عن حصين عن الشيخ أن ابن عمر أصلت على راهب سب النبي صلى الله عليه وسلم بالسيف وقال: “إنا لم نصالحهم على سب النبي صلى الله عليه وسلم”.

اور اسی سے استدلال  امام احمد نے  کیا ہے جو انہوں نے  هشيم: ثنا حصين عمن حدثه عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا کہ  عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک (عیسائی) راہب گزرا جس کے بارے میں لوگوں نے کہا کہ یہ حضوراکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتاہے – عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں اس سے گستاخانہ کلمات سن لیتاتو اس کی گردن اڑادیتا۔ ہم گستاخ رسول کی تعظیم نہیں کرتے – اور ایسا ہی روایت کیا گیا ہے  حديث الثوري عن حصين عن الشيخ أن ابن عمر

راقم کہتا ہے دونوں سندیں مخدوش ہیں مجہول لوگوں کی خبریں ہیں

علی کا حکم قتل کر دو

اہل سنت کہتے ہیں علی کا حکم تھا کہ شاتم رسول کو قتل کر دو – اس پر روایت پیش کرتے ہیں

مصنف عبد الرزاق میں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، 9708 – عَنِ ابْنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَلِيًّا قَالَ: فِيمَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُضْرَبُ عُنُقُهُ»
عبدالرزاق ، ابْنِ التَّيْمِيِّ سے روایت کرتے ہیں وہ باپ سے کہ علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جو شخص رسول الله کی طرف جھوٹ منسوب کرے اسے قتل کردیاجائے گا۔
(مصنف عبدالرزاق حدیث ٩٧٠٨ نمبر)

محدثین نے اس حکم پر عمل نہیں کیا اور متروک اور وضاع یعنی حدیث گھڑنے والوں کی روایات جمع کی ہیں ان میں کسی کو بھی قتل نہیں کیا گیا
سوال یہ ہے کہ جھوٹی احادیث بنانے والا تو معتوب ہے تو سنانے والا کیوں نہیں جیسا کہ آجکل عام ہو چکا ہے

نصرانی کا قتل

مصنف عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَخْبَرَنِي أَبِي: أَنَّ أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى خَرَجَ إِلَى عَدَنٍ فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ النَّصَارَى سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَشَارَ فِيهِ فَأَشَارَ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ الصَّنَعَانِيُّ أَنْ يَقْتُلَهُ “، فَقَتَلَهُ، وَرَوَى لَهُ فِي ذَلِكَ حَدِيثًا قَالَ: وَكَانَ قَدْ لَقِيَ عُمَرَ وَسَمِعَ مِنْهُ عِلْمًا كَثِيرًا قَالَ: فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَيُّوبُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ، أَوْ إِلَى الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، فَكَتَبَ يُحَسِّنُ ذَلِكَ

عبد الرزاق نے کہا ان کو ان کے باپ نے خبر دی کہ َيُّوبَ بْنَ يَحْيَى عدن کے لئے نکلے تو ان پر پیش ہوا کہ آدمی نصرانی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دیتا تھا پس انہوں نے اس پر اشارہ طلب کیا اور عبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ الصَّنَعَانِيُّ نے کہا اس کو قتل کر دو پس وہ قتل کیا گیا اور اس حدیث میں روایت کیا گیا ہے کہا ان کو عمر سے ملاقات ہے اور ان سے کثیر علم لیا کہا پس َ أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى نے عبد الملک بن مروان کو خط لکھا یا الولید کی طرف اور اس نے کہا اچھا کیا

راقم کہتا ہے أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى مجہول ہے

 علی نے گستاخِ رسولؐ کی زبان کاٹ دی

اہل تشیع کی کتب میں ایک دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے

رسول الله کے مدنی دور میں کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔ اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے رسول الله کے سامنے پھینک دیا- رسول اللہ نے حکم دیا: اس کی زبان کاٹ دو۔ بعض صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟  رسول الله نے فرمایا: نہیں، تم نہیں اور علی کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو – علی بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے اور قنبر کو حکم دیا: جا کر میرا اونٹ لے آئیں اونٹ آیا علی نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیے اور اس کو اونٹ پہ بیٹھایا، پھر فرمایا: تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لونگا- اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ، علی نے تو رسول اللہ کی نافرمانی کی – رسول الله کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: یا رسول اللہ آپ نے کہا تھا زبان کاٹ دو، اور علی نے اس گستاخ شاعر کو 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا رسول الله مسکرائے اور فرمایا علی میری بات سمجھ گئے – افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی – وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ: یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو ،علی نے تو کاٹی ہی نہیں – اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شاعر وضو کررہا ہے- پھر وہ مسجد میں جا کر جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے: یا رسول الله آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں اور یوں ہوا کہ علی نے گستاخ رسول کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔

مختصرا یہ واقعہ کتاب دعائم الإسلام – القاضي النعمان المغربي – ج 2 – ص 323 میں بیان ہوا ہے
وعنه ( ع ) أنه قال : جاء شاعر إلى النبي ( صلع ) فسأله
وأطرأه ( 1 ) ، فقال بعض أصحابه : قم معه فاقطع لسانه . فخرج ثم رجع
فقال : يا رسول الله ، أقطع لسانه ؟ قال : إنما أمرتك أن تقطع لسانه
بالعطاء .

کتاب  شرح أصول الكافي از  مولي محمد صالح المازندراني میں پر لکھا ہے

ويختلف الناس في فهم القرآن ومثاله ما روي أن شاعرا مدح النبي (صلى الله عليه وآله) فقال لبعض أصحابه: إقطع لسانه. والظاهر منه قطع اللسان بالسكين لكن القرينة العقلية تدل على عدم كونه مرادا ولم يفهمه الصحابي حتى دله غيره بأن المراد الإحسان إلى الشاعر فان الإحسان يقطع اللسان إذ لا يأمر النبي (صلى الله عليه وآله) بقطع اللسان 

اور لوگوں کا فہم قرآن پر اختلاف ہوا اور اس کی مثال ہے جو روایت کیا جاتا ہے کہ ایک شاعر نے (گستاخانہ) مدح النبی صلی الله علیہ و اله کی پس بعض اصحاب نے کہا اس کی زبان کاٹ دو اور ظاہر مفہوم ہے کہ چھری سے زبان کاٹ دو لیکن عقلی قرینہ دلالت کرتا ہے کہ یھاں اس سے یہ مراد نہیں ہے اور صحابی اس کو سمجھ نہ سکے یہاں تک کہ دوسروں نے دلیل دی کہ اس سے مراد شاعر پر احسان ہے کیونکہ احسان زبان کاٹ دیتا ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ و اله نے  قطع زبان کا حکم نہیں کیا تھا

الغرض شاتم رسول اگر غیر مسلم ہے تو اس  کے قتل پر کوئی صحیح حدیث نہیں اور جن لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے مثلا کعب بن اشرف وغیرہ ان کا قتل اس تناظر میں نہیں ہوا بلکہ مدینہ کی سلامتی لے لئے کیا گیا تھا

اللہ تعالی کی تجسیم

یہود میں الله کے لئے تجسیم کا عقیدہ ہے کیونکہ موجودہ توریت میں الله کو ایک مرد کی صورت بیان کیا گیا ہے جس کے آعضآ بھی ہیں – یہودی تصوف کی ایک قدیم کتاب جو بعثت نبوی سے قبل کی ہے اس کا نام کتاب شر قومہ ہے جس میں الله تعالی کے آعضآ کی پمائش بھی بیان کی گئی ہے – موجود توریت میں ہے

Then God said, “Let us make man in our image, after our likeness.

پھر الله نے کہا ہم انسان کو اپنے عکس צֶ֫לֶם پر بنائیں گے –اپنی דְּמוּת مشابہت کے مطابق

Genesis 1:26

لفظ דְּמוּת کا ترجمہ مشابہت کے علاوہ یہود کے مطابق شکل اور تناسب بھی ہو سکتا ہے

لفظ צֶלֶם کا ترجمہ عکس کے علاوہ غیر مرئی چیز بھی کیا جاتا ہے

اس کے برعکس قرآن میں ہے

(فِیْ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَ (الانفطار:8/82
جس صورت میں چاہا اس نے تجھے بنایا۔

صحیح بخاری کی حدیث منکر ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ، النَّفَرِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَزَادُوهُ: وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآنَ

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہاہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے ، ان سے ہمام نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی ۔

جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایاکہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں ، سلام کر واور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہار ااور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام نے کہا السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ ، انہوںنے آدم کے سلام پر ” ورحمۃ اللہ “ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا حضرت آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا ۔ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد وقامت کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔

http://maktaba.pk/hadith/bukhari/6227/

 

قرن دوم میں اللہ کی تجسیم سے متعلق ایک روایت چل رہی جو امام مالک کے کانوں تک بھی پہنچی – کتاب الضعفاء الكبير از امام العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں

فقہ مالکیہ کی معتمد کتاب المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة  از  ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق

وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا. 
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے

الغرض امام مالک   مطلقا اس خلق آدم علی صورتہ کو  قبول نہیں کرتے تھے اور وہ اس کو سنتے ہی رد کرتے تھے – امام احمد، امام اسحٰق ، امام بخاری امام مسلم  اس کو صحیح سمجھتے تھے

كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق  ایک  روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے بھی رد کی اور البانی سمجھتے ہیں  زیر بحث روایت ہو گی

ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.

البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں

ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون   جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی  شخص   ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ   محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے

البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں  کہتے ہیں

يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.

یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی  حدیث  مراد تھی جس  کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ  ٨٦٠ میں کی ہے

صحیح بخاری  حدیث نمبر:

6227

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، 

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ 

  امام بخاری نے عرش عظیم کے ڈگمگانے والی روایت نقل کی ، اور اللہ تعالی’ کا دیوتا کی صورت اختیار کرنے کو بھی نقل کیا- افسوس کہ معلوم نہ ہو سکا کہ  یہ تحقیق میں امام بخاری سے غلطی ہوئی یا ان کو ائمہ حدیث کو حکم نہیں پہنچا کہ  امام بخاری نے ان  مردود روایات کو نقل کیا اور جامع الصحیح کی زینت بنا دیا – اس سے اس قسم کی متروک روایات عوام میں پھیل گئیں

روز محشر الله تعالی محسم ہو کر کسی ایسی صورت میں بھی آئیں گے جس کو مومن پہچانتے ہوں؟
صحیح بخاری کی حدیث ہے
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا کیا جب بادل نہ ہوں تو تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور فرمائے گا کہ تم میں جو کوئی جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے لگ جائے۔ چنانچہ جو سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے ہو جائے گا، جو چاند کی پوجا کرتا تھا وہ چاند کے پیچھے ہو جائے گا اور جو بتوں کی پوجا کرتا تھا وہ بتوں کے پیچھے لگ جائے گا

 

پھر یہ امت باقی رہ جائے گی اس میں بڑے درجہ کے شفاعت کرنے والے بھی ہوں گے یا منافق بھی ہوں گے ابراہیم کو ان لفظوں میں شک تھا۔ پھر اللہ ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ جواب دیں گے کہ ہم یہیں رہیں گے۔ یہاں تک کہ ہمارا رب آ جائے، جب ہمارا رب آ جائے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ اقرار کریں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔

 

چنانچہ وہ اس کے پیچھے ہو جائیں گے اور دوزخ کی پیٹھ پر پل صراط نصب کر دیا جائے گا اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کرنے والے ہوں گے اور اس دن صرف انبیاء بات کر سکیں گے اور انبیاء کی زبان پر یہ ہو گا۔ اے اللہ! مجھ کو محفوظ رکھ، مجھ کو محفوظ رکھ۔ اور دوزخ میں درخت سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سعدان کے کانٹوں ہی کی طرح ہوں گے البتہ وہ اتنے بڑے ہوں گے کہ اس کا طول و عرض اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہ ہو گا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے بدلے میں اچک لیں گے تو ان میں سے کچھ وہ ہوں گے جو تباہ ہونے والے ہوں گے اور اپنے عمل بد کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر جائیں گے یا اپنے عمل کے ساتھ بندھے ہوں گے اور ان میں بعض ٹکڑے کر دئیے جائیں گے یا بدلہ دئیے جائیں گے یا اسی جیسے الفاظ بیان کئے۔ پھر اللہ تعالیٰ تجلی فرمائے گا اور جب بندوں کے درمیان فیصلہ کر کے فارغ ہو گا اور دوزخیوں میں سے جسے اپنی رحمت سے باہر نکالنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے انہیں دوزخ سے باہر نکالیں، یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرنا چاہے گا۔ ان میں سے جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کیا تھا۔ چنانچہ فرشتے انہیں سجدوں کے نشان سے دوزخ میں پہچانیں گے۔ دوزخ ابن آدم کا ہر عضو جلا کر بھسم کر دے گی سوا سجدہ کے نشان کے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو جلائے (یا اللہ! ہم گنہگاروں کو دوزخ سے محفوظ رکھیو ہم کو تیری رحمت سے یہی امید ہے) چنانچہ یہ لوگ دوزخ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ یہ جل بھن چکے ہوں گے۔ پھر ان پر آب حیات ڈالا جائے گا اور یہ اس کے نیچے سے اس طرح اگ کر نکلیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ اگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ سے فارغ ہو گا۔ ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ دوزخ کی طرف ہو گا، وہ ان دوزخیوں میں سب سے آخری انسان ہو گا جسے جنت میں داخل ہونا ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! میرا منہ دوزخ سے پھیر دے کیونکہ مجھے اس کی گرم ہوا نے پریشان کر رکھا ہے اور اس کی تیزی نے جھلسا ڈالا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے وہ اس وقت تک دعا کرتا رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں گا تو تو مجھ سے کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگوں گا اور وہ شخص اللہ رب العزت سے بڑے عہد و پیمان کرے گا۔ چنانچہ اللہ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھے گا تو اتنی دیر خاموش رہے گا جتنی دیر اللہ تعالیٰ اسے خاموش رہنے دینا چاہے گا۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! مجھے صرف جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے دیا ہے اس کے سوا اور کچھ کبھی تو نہیں مانگے گا؟ افسوس ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! اور اللہ سے دعا کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو اس کے سوا کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا اور جتنے اللہ چاہے گا وہ شخص وعدہ کرے گا۔ چنانچہ اسے جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ پھر جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا تو جنت اسے سامنے نظر آئے گی اور دیکھے گا کہ اس کے اندر کس قدر خیریت اور مسرت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جتنی دیر چاہے گا وہ شخص خاموش رہے گا۔ پھر کہے گا: اے رب! مجھے جنت میں پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے تجھے دے دیا ہے اس کے سوا تو اور کچھ نہیں مانگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا افسوس! ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے بڑھ کر بدبخت نہ بنا۔ چنانچہ وہ مسلسل دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں پر ہنس دے گا، جب ہنس دے گا تو اس کے متعلق کہے گا کہ اسے جنت میں داخل کر دو۔ جنت میں اسے داخل کر دے گا تو اس سے فرمائے گا کہ اپنی آرزوئیں بیان کر، وہ اپنی تمام آرزوئیں بیان کر دے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا۔ وہ کہے گا کہ فلاں چیز، فلاں چیز، یہاں تک کہ اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ آرزوئیں اور انہی جیسی تمہیں ملیں گی

اس روایت میں الفاظ ایسے ہیں جو رب العالمین کی تجسیم کی طرف مائل ہیں
الله تعالی روز محشر اپنے عرش پر ہوں گے جیسا قرآن میں ہے اور اس کا اس عرش کو چھوڑ کر مجسم ہو کر انسانوں کے پاس آنا کیسے ہو گا ؟ جبکہ تمام انسانیت اس وقت الله کے آگے سر جھکانے کھڑی ہو گی اور کوئی آواز نہ ہو گی سوائے رب العالمین کے کلام کے
یہ روایت صحیح بخاری  میں اسی  طرق سے اتی ہے جس میں غالی اہل سنت ہیں

إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ کی سند
إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف المتوفی ١٨٤ ھ یا ١٨٥ ھ
امام المحدثین يحيى بن سعيد القطان اس راوی کے سخت خلاف ہیں
امام احمد کے بیٹے العلل میں بتاتے ہیں کہ
قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: ذكرنا عند يحيى بن سعيد حديثا من حديث عقيل. فقال لي يحيى: يا أبا عبد الله، عقيل وإبراهيم بن سعد!! عقيل وإبراهيم بن سعد!! كأنه يضعفهما. قال أبي: وأي شيء ينفعه من ذا، هؤلاء ثقات، لم يخبرهما يحي. «العلل» (282 و2475 و3422) .
میرے باپ نے ذکر کیا کہ یحیی کے سامنے عقیل کی حدیث کا ہم نے ذکر کیا انہوں نے کہا اے ابو عبد الله عقیل اور ابراہیم بن سعد، عقیل اور ابراہیم بن سعد جیسا کہ وہ تضعیف کر رہے ہوں
کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مطابق
كَانَ وَكِيْعٌ كَفَّ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنْهُ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْهُ.
وَكِيْعٌ اس کی روایت سے رکے رہے پھر روایت کرنا شروع کر دیا
اس کے برعکس امام عقیلی کہتے ہیں بحوالہ إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي
ذكره العقيلي في كتاب ” الجرح والتعديل ” قال: قال عبد الله بن أحمد بن حنبل قال أبي: حدثنا وكيع مرة عن إبراهيم بن سعد، ثم قال: أجيزوا عليه وتركه بأخرة.
عقیلی نے اس کا ذکر کتاب الجرح والتعديل میں کیا اور کہا کہ عبد الله نے کہا کہ امام احمد نے کہا وكيع نے ایک بار ابراہیم سے روایت کیا پھر کہا اور … آخر میں بالکل ترک کر دیا
قَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ: سَمَاعُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ لَيْسَ بِذَاكَ، لأَنَّهُ كَانَ صَغِيْراً.
صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ نے کہا اس کا سماع امام الزہری ویسا (اچھا نہیں) ہے کیونکہ یہ چھوٹا تھا
تاریخ الاسلام میں الذھبی نے جزرہ کا قول پیش کیا کہ كَانَ صغيرا حين سمع من الزهري انہوں نے بچپنے میں الزہری سے سنا
کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق أبي عبد الرحمن السلمي نے کہا
قدم إبراهيم العراق سنة أربع وثمانين ومائة، فأكرمه الرشيد وأظهر بره، وتوفي في هذه السنة، وله خمس وسبعون سنة.
ابراہیم عراق سن ١٨٤ ھ میں پہنچے ان کی الرشید نے عزت افزائی کی اور اسی سال انتقال ہوا اور یہ ٧٥ سال کے تھے
اس دور میں عراقیوں نے ان سے روایات لیں جن پر امام یحیی بن سعید القطان اور امام وکیع کو اعتراض تھا اور انہوں نے ان کو ترک کیا لیکن امام احمد امام ابن معین نے ان کی روایات لے لیں اور اسی طرح امام بخاری و مسلم کے شیوخ نے بھی لے لیں

خبر واحد کی عقائد میں حجیت

وہ احادیث جو متواتر نہ ہوں ان کو اخبار احاد یا خبر واحد کہا جاتا ہے – اس طرح ٩٩% احادیث خبر واحد کے درجے میں ہیں – خبر واحد سے سنت النبی اور سنت اصحاب رسول کو جانا جاتا ہے اور اصلا یہی واحد مصدر ہے – البتہ اس پر  عقیدہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں اس میں  اختلاف چلا آ رہا ہے- بعض علمائے احناف کے نزدیک خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا البتہ حنابلہ اور مالکیہ میں ثابت ہوتا ہے –
اصول کی کتب میں دلالة قطعية یا قطعية الثبوت کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں جن سے مراد دین کی یقینی دلیلں ہیں اور ان میں ظاہر ہے قرآن سب سے اول ہے پھر حدیث متواتر پھربعض کے نزدیک  اخبار احاد– جہاں تک متواتر احادیث ہیں تو ذخیرہ احادیث میں ان کا شمار بہت کم ہے اندازا صرف ایک فی صد ہیں – باقی ٩٩ فی صد اخبار احاد ہیں
ایک فاتر العقل شخص نے جس کی ملاقات تک ڈاکٹر صاحب سے نہیں ہے اس نے راقم سے کچھ سوالات کے جوابات طلب کیے- جواب ملنے پر اس نے اپنے جھل مرکب کا اظہار شروع کیا جس کا اندازہ آپ کو پڑھتے ہوئے ہو جائے گا – ان سوال و جواب کو افادہ عامہ کی غرض سے یہاں لگایا جا رہا ہے

اس نام نہاد مقلد ڈاکٹر عثمانی معترض نے کہا کہ عثمانی نے ایمان خالص ص ٢٤ پر لکھا ہے
اصحاب حدیث کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں
لہذا میرے نزدیک برزخی جسم کی خبر خبر واحد ہونے کی بنا پر عقیدہ کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ نظریہ کا درجہ رکھتی ہے
اس پر راقم نے کہا : یہ قول لکھنا مسعود الدین عثمانی کی خطا ہے کیونکہ اصحاب حدیث کا اس پر اتفاق ثابت نہیں بلکہ یہ قول احناف متاخرین، بعض شوافع (ابن حجر و النووی وغیرہم ) اور متکلمین  کا ہے – امام ابو حنیفہ سے منسوب چند اقوال ہیں کہ چند اصحاب رسول غیر فقیہ ہیں ان کی روایات یا اخبار احاد کو نہیں لیا جائے گا – یہ قول تمام اصحاب رسول کے لئے نہ تھا – فقہ حنفی کی بنیاد فقہائے عراق کا مذھب ہے جو علقمہ سے ابراہیم النخعی سے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیا ہے- کیا فقہ میں احکام نہیں ہیں ؟ احکام تو کتاب اللہ سے خبر واحد سے لئے جاتے ہیں – چور کا ہاتھ کاٹ دو قرآن میں ہے لیکن کتنا یہ خبر واحد سے ہے – اللہ کے حکم پر عمل انسان کے عقیدے کا حصہ ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا جو میرا حکم نافذ نہ کرے کافر ہے- اگر ہم ہاتھ کاٹنے کی مقدار میں اضافہ کریں تو یہ ظلم ہوا اگر کم کریں تو حکم مکمل نافذ نہ ہوا –دونوں صورتوں ہم نے ظلم کیا-
اصحاب حدیث میں امام مالک کی موطا میں خبر واحد جمع کی گئی ہیں جو حدیث کی کتاب ہے اور ان احادیث میں عقائد بھی بیان ہوئے ہیں جن میں خروج دجال کی بھی خبر ہے – احناف میں امام طحاوی نے عقیدہ طحاویہ میں ان مسائل کا ذکر کیا ہے جن کی بنیاد ہی خبر واحد ہے – یعنی مطلقا خبر واحد کو عقیدہ میں نہ احناف نے رد کیا ہے نہ ڈاکٹر عثمانی نے-
یہ اصول کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا اصل میں مکمل بات نہیں ہے – فقہ حنفی میں جو بات کہی گئی تھی وہ یہ تھی کہ امام ابوحنیفہ کا کہنا تھا کہ غیر فقیہ اصحاب رسول کی حدیث سے دلیل نہ لی جائے – ایک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اور تیسری جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی – اس کی انہوں نے الگ الگ وجوہات گنوائیں

قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ)
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب
اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال:
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد
ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے

یہی انداز ابراھیم النخعي کا تھا احمد العلل میں کہتے ہیں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .
احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے روایت کیا – اعمش نے کہا : ابراھیم النخعي، ابوہریرہ کی احادیث میں چیزوں کو ترک کر دیتے
ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ
الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار
ابراھیم النخعي نے کہا ہم ابو ہریرہ کی احادیث کو نہیں لیتے سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو
بہر حال ان احتیاطوں کا مقصد مطلق خبر واحد کا انکار نہیں تھا بلکہ صرف چند اصحاب رسول تک اس کو محدود رکھا گیا تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ امام محمد اور امام ابو یوسف نے فقہ میں اخبار احاد کو لیا ہے اور بعض اوقات کہتے ہیں یہ ہمارا موقف ہے یا یہ امام ابو حنیفہ کا موقف ہے – جب وہ موقف کہتے ہیں اور حدیث میں عقیدہ کا بیان بھی ہو تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اس حدیث کو صحیح سمجھ کر اس میں بیان کردہ عقیدہ کو بھی قبول کر رہے ہیں
لیکن بعض متاخرین احناف نے بیان کیا کہ خبر واحد کو عقیدے میں نہ لیا جائے جو اصلا غلطی ہے کیونکہ یہ امام ابو حنیفہ کا مقصد نہیں تھا – بعد میں احناف نے اس کو خود محسوس کیا کیونکہ مسئلہ یہ آتا کہ متواتر احادیث کی تعداد تو اٹے میں نمک کے برابر ہے تو انہوں نے امداد زما نہ کے ساتھ اس اصول کو خود عملا خیر باد کہہ دیا – لہذا یہ اصول صرف اس وقت بیان ہوتا ہے جب کسی عقیدے کو رد کرنا ہو اور سرسری انداز میں لکھ دیا جاتا ہے – ڈاکٹر عثمانی کا لکھنا بھی ایسا ہی ہے
احناف میں بہت سے گروہ ہیں – کوئی ایک قسم کے احناف نہیں ہیں – تصوف کے دلداہ احناف بھی ہیں – اس کو ناپسند کرنے والے بھی ہیں – ان سب میں فقہ کے اصول بھی بدل رہے ہیں اور خبر احاد پر موقف بھی بدل جاتا ہے – ہند و پاک کے حنفی تو اصلا صوفی ہیںجو کشف تک سے خبریں ثابت کرتے ہیں
اپنی کتب میں جا بجا اخبار احاد کو ڈاکٹر عثمانی نے عقیدہ پر پیش کیا ہے مثلا تعویذ پر کتاب میں صرف حسن روایات سے تعویذ کو رد کیا ہے اور راقم کہتا ہے کہ ڈاکٹر عثمانی کی کتب میں جو احادیث متواتر بیان ہوئیں ہیں وہ جو چاہے جمع کر کے دیکھ لے بمشکل تمام پانچ چھ ہوں گی –
فرقہ اہل حدیث اور حنابلہ میں خبر واحد سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے نہ صرف صحیح سے بلکہ البانی کہتے ہیں حسن تک سے – البانی ڈاکٹر عثمانی کے ہم عصر تھے – یہ ڈاکٹر صاحب کی علم کی کمی ہوئی اگر انہوں نے یہ سب کے لئے لکھا – میں اس کا قائل نہیں کہ ان میں علم کی کمی تھی – میرے نزدیک عثمانی صاحب نے اس کو چلتے چلتے ہی فرقوں کے لئے لکھا ہے کہ دیکھو تمہارا اپنا اصول کہتا ہے کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا
میں اس میں آپ پر افسوس ہی کر سکتا ہوں کہ (عثمانی صاحب کے چند جملوں پر اپنی غلط سمجھ بوجھ کی وجہ سے ) آپ اپنی جان نا حق ان باتوں میں صرف کر رہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں

مقلد معترض نے کہا کہ خبر واحد سے عقائد نہیں صرف نظریات ثابت ہوتے ہیں
اس کی دلیل ہے کہ نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر میں أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) نے کہا
في أَخْبارِ الآحادِ المُنْقَسِمَة إِلى مَشْهورٍ وعَزيزٍ وغَريبٍ؛ مَا يُفيدُ العِلْمَ النَّظريَّ بالقَرائِنِ؛ عَلى المُختارِ؛ خِلافاً لِمَنْ أَبى ذلك.والخِلافُ في التَّحْقيقِ لَفْظيٌّ؛ لأنَّ مَنْ جَوَّزَ إِطلاقَ العِلْمِ قَيَّدَهُ بِكونِهِ نَظَريّاً، وهُو الحاصِلُ عن الاسْتِدلالِ، ومَنْ أَبى الإِطلاقَ؛ خَصَّ لَفْظ العِلْمِ بالمُتواتِرِ، وما عَداهُ عِنْدَهُ [كُلُّهُ] ظَنِّيٌّ، لكنَّهُ لا يَنْفِي أَنَّ ما احْتفَّ «منه» بالقرائِنِ أَرْجَحُ ممَّا خَلا عَنها.
یعنی خبر واحد محض ناظریات ہیں

راقم نے جوابا کہا
یہاں عربی لفظ نَظَريّاً کا مطلب اردو کا نظریہ نہیں ہے بلکہ علم نظری مراد ہے یعنی خبر واحد اعتبار کرنے کے لئے ظنية الثُّبُوت کے درجے پر ہیں یعنی پہلا قرآن پھر متواتر پھر اخبار احاد
ابن حجر نے اصل میں یہ کہا ہے
اخبار احاد کی تقسیم مشہور اور عزیز اور غریب میں کی گئی ہے جس سے (مذھب ) مختار (اختیار کردہ) کو علم نظری میں قرائن کے ساتھ فائدہ ہوتا ہے بر خلاف اس کے جو اس کا انکار کرے اور یہ اختلاف لفظی ہے کیونکہ جس نے خبر واحد پر علم کے جواز کا اطلاق کیا اس نے خبر واحد کو مقید کیا کہ یہ (علم ) نظری ہے اور یہ (ان کے ) استدلال کا حاصل ہے اور وہ جو خبر واحد (پر لفظ علم کے) اطلاق کا انکار کرے (یعنی خبر واحد کا علم میں مفید ہونے کا ) تو وہ علم کے لئے لفظ متواتر کو خاص کرتے ہیں اور اس کے سوا سب روایات کو ظنی کے طور پر شمار کرتے ہیں لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ جو خبر قرائن پر اتر رہی ہو وہ راجح ہے

راقم کے ترجمہ کی تائید اس ترجمہ سے ہوتی ہے

تأويل مختلف الحديث میں أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) لکھتے ہیں
وانقسمت الأحادیث بِاعْتِبَار رواتها إِلَى قَطْعِيَّة الثُّبُوت وظنية الثُّبُوت
اور اعتبار کرنے کے لئے احادیث کو قَطْعِيَّة الثُّبُوت اور ظنی ثبوت میں تقسیم کیا گیا ہے
عقائد میں اپنے اپنے نظریات یا تھیوری پیش نہیں کی جاتیں جو خبروں میں آیا ہے ان کو سامنے رکھ کر کچھ ثابت کیا جاتا ہے- اور ڈاکٹر عثمانی نے سبز پرندوں والی حدیث، ابراہیم کو دودھ پلانے والی حدیث سے جسم ثابت کیا ہے ان کے الفاظ ہیں

یعنی عثمانی صاحب نے خبر واحد سے ثابت کیا ہے اور ثابت شدہ نصوص ہوتے ہیں نظریات تو تھیوریز ہیں جن میں بات بدلتی رہتی ہے –

خبر واحد کے حوالے سے نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر (مطبوع ملحقا بكتاب سبل السلام) میں أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کی وضاحت موجود ہے

الخبر إما أن يكون له: * طرق بلا عدد معين. * أو مع حصر بما فوق الاثنتين. * أو بهما. * أو بواحد.
فالأول: المتواتر المفيد للعلم اليقيني بشروطه [وهي عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذاب رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء وكان مستند انتهائم الحسن وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه] .والثاني: المشهور وهو المستفيض على رأي. [ويطلق المشهور على ما اشتهر على الألسنة]
والثالث: العزيز، وليس شرطاً للصحيح خلافاً لمن زعمه.
والرابع: الغريب.
وكلها – سوى الأول – آحاد.
وفيها المقبول [وهو ما يجب العمل به عند الجمهور] والمردود لتوقف الاستدلال بها على البحث عن أحوال رواتها دون الأول، وقد يقع فيها ما يفيد العلم النظري بالقرائن على المختار [كأن يخرج الخبر الشيخان في صحيحهما أو يكون مشهورا وله طرق متباينة سالمة من ضعف الرواة والعلل أو يكون مسلسلا بالأئمة الحفاظ المتقنين حيث لا يكون غريبا] .

خبر ہو سکتی ہے ایک طرق سے جس میں عدد معین نہ ہو (یعنی راوی کثیر تعداد ہو) یا دو سے زائد راوی ہوں یا ایک ہو – پس پہلی ہے متواتر … دوسری المشہور … تیسری العزیز … چو تھی الغریب اور سوائے متواتر کے یہ سب خبر واحد ہیں- اور ان میں مقبول بھی ہے جس پر جمہور کے نزدیک عمل واجب ہے اور مردود وہ ہے جس پر راویوں کے احوال کی وجہ سے استدلال لینے میں توقف کیا جاتا ہے – اور خبر واحد میں واقع ہوئی ہیں وہ احادیث جو علم نظری میں مفید ہیں قرائن (مذھب ) مختار کو دیکھتے ہوئے (مثلا) وہ جن کی شیخین (بخاری و مسلم ) نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے یا وہ مشہور ہیں اور ان کے طرق ضعیف راویوں ، علل سے الگ ہیں اور یہ تسلسل کے ساتھ احتیاط کرنے والے حفاظ نے روایت کی ہیں اور غریب نہیں ہیں

مزید یہ کہ علم حدیث کی کتب کی شرح اور لوگوں نے بھی کی ہے – النكت على مقدمة ابن الصلاح میں الزركشي (المتوفى: 794هـ) کا کہنا ہے
وَذَلِكَ يُفِيد الْعلم النظري َهُوَ فِي إِفَادَة الْعلم كالمتواتر إِلَّا أَن الْمُتَوَاتر يُفِيد الْعلم الضَّرُورِيّ وتلقي الْأمة بِالْقبُولِ يُفِيد الْعلم النظري
اخبار احاد مفید علم نظری میں فائدہ کرتی ہے اور یہ افادہ علم میں متواتر ہی کی طرح ہے سوائے اس کے کہ متواتر سے مفید علم ضروری حاصل ہوتا ہے اور امت نے مفید علم نظری کو تلقیہا بالقبول کا درجہ دیا ہے
مزید لکھا ہے

وَنَقله بَعضهم عَن السَّرخسِيّ من الْحَنَفِيَّة وَجَمَاعَة من الْحَنَابِلَة كَأبي يعلى وَأبي الْخطاب وَابْن حَامِد وَابْن الزَّاغُونِيّ وَأكْثر أهل الْكَلَام من الأشعرية وَغَيرهم وَأهل الحَدِيث قاطبة وَمذهب السّلف عَامَّة وَقد تبين مُوَافقَة ابْن الصّلاح لِلْجُمْهُورِ وَهُوَ لَازم للمتأخرين فَإِنَّهُم صححوا أَن خبر الْوَاحِد إِذا احتفت بِهِ الْقَرَائِن أَفَادَ الْقطع
اور بعض احناف نے السَّرخسِيّ سے نقل کیا ہے اور حنابلہ کی ایک جماعت جسے ابو یعلی اور ابو الخطاب اور ابن حامد اور ابْن الزَّاغُونِيّ اور اہل کلام میں الأشعرية اور دوسروں نے اور اہل حدیث قاطبة نے اور مذھب سلف عام نے اور اس پر ابن صلاح نے جمہور کی موافقت واضح کی ہے اور یہ متاخرین کے لئے لازم کیا ہے کہ اگر خبر واحد پر قرائن ہوں تو یہ قطعی (علم ) میں فائدہ مند ہیں
البحر المحيط في أصول الفقه میں الزركشي (المتوفى: 794هـ) لکھتے ہیں
سَبَقَ مَنْعُ بَعْضِ الْمُتَكَلِّمِينَ مِنْ التَّمَسُّكِ بِأَخْبَارِ الْآحَادِ فِيمَا طَرِيقُهُ الْقَطْعُ مِنْ الْعَقَائِدِ؛ لِأَنَّهُ لَا يُفِيدُ إلَّا الظَّنَّ، وَالْعَقِيدَةُ قَطْعِيَّةٌ، وَالْحَقُّ الْجَوَازُ، وَالِاحْتِجَاجُ إنَّمَا هُوَ بِالْمَجْمُوعِ مِنْهَا وربما بلغ مبلغ القطع، ولهذا أثبتنا المعجزات المروية بالآحاد
یہ گزرا ہے کہ بعض متکلمین نے عقائد میں اخبار احاد سے قطعی (علم ) کے طور پر تمسک کرنے سے روکا ہے کہ ان سے ظن میں فائدہ ہوتا ہے اور عقیدہ قطعی ہوتا ہے اور حق ہے جواز پر اور ان دونوں کے مجموع سے دلیل لینے پر اور بعض اوقات (خبر) پہنچانے والا قطعی خبر لاتا ہے اور اس بنا پر ہم ان معجزات کا اثبات کرتے ہیں جو اخبار احاد میں آئے ہیں

ابن حزم کتاب الإحكام في أصول الأحكام میں کہتے ہیں
قال أبو سليمان والحسين عن أبي علي الكرابيسي والحارث بن أسد المحاسبي وغيرهم أن خبر الواحد العدل عن مثله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوجب العلم والعمل معا وبهذا نقول وقد ذكر هذا القول أحمد بن إسحاق المعروف بابن خويز منداد عن مالك بن أنس وقال الحنفيون والشافعيون وجمهور المالكيين وجميع المعتزلة والخوارج إن خبر الواحد لا يوجب العلم
ابن حزم نے کہا ابو سلیمان اور حسین نے امام کرابیسی سے روایت کیا اور حارث محاسبی اور دیگر سے کہ خبر واحد جو رسول اللہ سے ملے تو یہ علم اور عمل میں واجب ہے اور یہی ہمارا قول ہے اور اس قول کا ذکر أحمد بن إسحاق المعروف ابن خويز منداد نے امام مالک کے لئے کیا ہے – اور احناف اور شوافع اور جمہور مالکیہ اور تمام المعتزلة والخوارج کہتے ہیں کہ خبر واحد سے علم واجب نہیں ہے

فتح الباری میں ابن رجب نے کہا

أن خبر الواحد يفيد العلم إذا احتفت به القرائن

بے شک خبر واحد علم  میں فائدہ دیتی ہے جب قرائن سے مل جائے 

متکلمین میں اشاعرہ   اس کے قائل ہیں کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا- وہابی علماء کے مطابق نووی اور ابن حجر دونوں عقیدے میں اشعری ہیں

لہذا عثمانی صاحب کو لکھنا چاہیے تھا

اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں

اس طرح یہ جملہ صرف دیو بندی اور بریلوی فرقے سے کہا گیا ہے – اہل حدیث فرقہ اور حنبلی وہابی  خبر واحد پر عقیدہ لینے  کے قائل ہیں

راقم کہتا ہے کہ یہ جملہ بھی صرف ان مسائل میں چلتا ہے جن کا تعلق اسماء و صفات سے ہے

مقلد عثمانی معترض نے کہا کہ آپ کا کہنے کا مقصد ہوا کہ  ڈاکٹر عثمانی نے اصول سمجھا نہیں اور فرقوں پر لگا دیا

راقم نے جواب میں کہا

عثمانی بشر تھے اور غلطی بھی کرتے تھے اور اپنی کتب  میں تصحیح و تبدیلی  بھی کرتے رہے ہیں  اپنے موقف کی وضاحت میں انہوں نے خبر واحد کو دلیل بنایا ہے اور اگر وہ ان کو عقائد میں دلیل نہیں سمجھتے تو لکھتے نہیں

یہاں انہوں نے اصحاب حدیث کا جو اتفاق نقل کیا ہے یہ صرف ان محدثین کا اتفاق ہے جو مذھب میں اشاعرہ کے منہج پر ہیں یعنی ابن حجر یا النووی وغیرہ –  اغلبا ان کو یہ مغالطہ اسی بنا پر ہوا کہ انہوں نے ابن حجر کا حوالہ دیا ہے جو عقیدے میں اشاعرہ کے منہج پر ہیں لیکن محدث بھی مشہور ہیں  – اس کے بر خلاف   حنابلہ  محدثین  خبر واحد کو عقیدے میں لیتے  ہیں

وہابی مفتی  عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) فتوی میں کہتا ہے

وأن خبر الآحاد إذا استقام سنده حجة يجب العمل به عند جميع أهل العلم في العقائد وغيرها

اور خبر واحد اگر اس کی سند قائم ہو – حجت ہے – اس پر تمام اہل علم کے ہاں اس پر  عمل واجب ہے عقائد میں اور دوسرں میں 

وہابی دائمی کمیٹی کا فتوی ہے

والآحاد يحتج به في الفروع بإجماع، ويحتج به في العقائد على الصحيح من قولي العلماء الإمام ابن عبد البر والخطيب البغدادي إجماعا في العقيدة والفروع، ومن رأى أن لا يحتج به في العقائد قد خالف فعله رأيه فاحتج به في العقائد والأصول، بل احتج بالضعيف منه في ذلك.

فروع میں اخبار احاد سے  دلیل لینے پر  اجماع ہے اور ان میں جو صحیح ہوں ان سے عقائد میں  بقول علماء کےدلیل لی جائے جن میں ہیں امام ابن عبد البر اور خطیب بغدادی کہ اجماع ہے اخبار احاد سے عقائد اور فروع میں دلیل لینے پر اور جس نے یہ رائے رکھی کہ ان سے عقیدہ میں دلیل نہیں لی جائے گی اس نے مخالفت کی اپنی ہی رائے کی کہ اس نے  رائے سے عقائد میں اور اصول میں دلیل لی بلکہ اس سے جو اس سے بھی ضعیف ہے

ابن عبد البر نے کہا

كلهم يدين بخبر الواحد العدل في الاعتقادات، ويعادي ويوالي عليها، ويجعلها شرعاً وديناً في معتقده، على ذلك جميع أهل السنة). (التمهيد لابن عبد البر1/8). 

 

یہ فتوی سلفی عقائد رکھنے والے حنابلہ کے منہج کے عین مطابق ہے

مقلد عثمانی معترض نے کہا کہ اگر میں خروج دجال، شفاعت، محشر میں رویت باری تعالی ، حوض کوثر وغیرہ کی احادیث کا خبر واحد کا انکار کروں تو کیا میں کافر ہوں؟
راقم نے جوابا کہا تواتر کا شمار ادلہ قطعیہ میں کیا گیا ہے اس کا منکر کافر ہے جب ان اجزاء کو عقائد میں بیان کیا جاتا ہے تو اہلسنت کی جانب سے ان کو تواتر قرار دیا جاتا ہے اور اس بنا پر اہل سنت کا ان کا عقائد میں شامل ہونے پر اجماع ہے
مسئلہ عذاب قبر ، خروج دجال، شفاعت، محشر میں رویت باری تعالی ، حوض کوثر وغیرہ متواتر احادیث سے معلوم ہے

عثمانی مقلد معترض نے کہا ابن حزم برزخی جسم کے قائل نہیں کیا ڈاکٹرصاحب رح نے اس بات پر ابن حزم کی تکفیر کی
راقم کہتا ہے
قرآن و احادیث کے تفسیری اختلاف پر کفر کا فتوی نہیں دیا جاتا الا یہ کہ ادلہ قطعیہ کا رد ہو رہا ہو – مثلا بعض مسائل میں اصحاب رسول تک کی اختلافی و تفسیری آراء ملتی ہیں لیکن ان سے قرآن کا یا تواتر کا رد نہیں ہوتا – برزخی جسم کا منکر کافر نہیں لیکن اس شخص سے سوال کیا جائے گا کہ مجرد روح نعمت و راحت کیسے حاصل کرتی ہے ؟ جس کا یہ شخص جواب نہ دے سکے گا کیونکہ اس کو جو علم پہنچا اس نے اس کو جھٹلا دیا

عثمانی مقلد معترض نے کہا عقیدے میں ایک صحیح اور ایک کفر ہوتا ہے – بدعقیدہ شخص کو صرف گمراہ، بدعتی، فاسق و فاجر ہی نہیں کہا جاتا بلکہ اسکی واضح طور پر تکفیر کی جاتی ہے
راقم نے جوابا کہا
اگر ادلہ قطعیہ یعنی قرآن و متواتر حدیث کا انکار ہو تو بدعقیدہ شخص کی تکفیر کی جاتی ہے بصورت دیگر اس کو مضل یا گمراہ یا زایغ قرار دے کر اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے
مقلد عثمانی معترض نے کہا : امام بخاری رح نے روایت کیا ہے کہ عذاب قبر مویشی سنتے ہیں تو کیا وہ کافر ہیں؟ کیا خود بخاری کی اس حدیث سے ہی برزخ میں جانوروں کا ہونا ثابت نہیں ہوتا؟ کیونکہ جنت میں بیل ،بکری، اونٹنی کا ذکر توصحیح مسلم میں ہے
راقم نے جوابا کہا
صحیح بخاری کی یہ خبر واحد منکر ہے
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔
یہ روایت واقعہ کسوف کی باقی روایات سے متصادم ہے اس وجہ سے قابل رد ہے – قرائن اس کے خلاف ہیں اس بنا پر یہ متن منکر ہے – ہم اس کو اور باقی کسوف کی روایات کو ایک ساتھ صحیح نہیں کہہ سکتے – امام بخاری سے یہاں تصحیح میں غلطی ہوئی ہے – زیادہ توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ اگر صحیح حدیث میں علت موجود ہے تو اس کو رد کریں نہ کہ معلول حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے رہیں – اللہ تعالی نے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم کیا ہے کسی عثمانی یا بخاری کی اتباع کا حکم نہیں کیا –
اس حدیث کو اگر صحیح تصور کریں تو اس میں مویشی کہاں کے ہیں ؟ یہ ہم کو معلوم نہیں ہے
کیونکہ جہنم میں مویشی کی خبر نہیں ہے – جب جہنم میں مویشی ہیں ہی نہیں اور عذاب برزخ وہاں ہو رہا ہے تو میت کی یہ چیخ سات آسمانوں میں زمیں میں سب میں گونج نہیں سکتی ؟ ایسی بات حماقت سے کم نہیں ہے کیونکہ اس سے میت مزید پاور فل ہو گئی کہ اس کی آواز زمین و آسمانوں میں سب جگہ ہے
اب ایک امکان ہی رہ جاتا ہے کہ ممکن ہے امام بخاری نے اس کو جہنم میں مویشی سمجھا ہو اگر وہ ہمارا جیسا عقیدہ رکھتے تھے – اور ممکن ہے انہوں نے اس عذاب کو زمین پر ہی سمجھا ہو اگر وہ فرقوں جیسا عقیدہ رکھتے تھے – امام بخاری کا عقیدہ اس حوالے سے کیا ہے راقم کو علم نہیں ہے اور اس میں اشکال رہا ہے ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ امام بخاری نے واضح نہیں لکھا کہ عذاب روح کو ہے یا جسم کو ہے – یعنی فرقوں کو بھی اعتراف ہے کہ صرف الصحیح میں احادیث نقل کرنے سے عذاب قبر کے حوالے سے امام بخاری کا کیا عقیدہ تھا واضح نہیں ہوتا – اس بنا پر میں کہتا ہوں مجھ کو عذاب قبر کے باب میں بخاری کے عقیدہ کا صحیح علم نہیں ہےاور اس بنا پر ان پر فتوی نہیں لگا سکتا
یہ اصرار کیوں ہے کہ اس خبر واحد کو مان لیا جائے تاویل کی جائے جبکہ آپ کا قول ہے خبر واحد کو عقیدہ میں نہ لو – اب جب ہم کو علم آ گیا ہے کہ کسوف کی باقی روایات سے یہ متصادم ہے اور متن میں غلطی ہے پھر بھی اس حدیث کی تاویل کی بات کرنا مسلک پرستی کی نشانی ہے
امام بخاری نے کیا سمجھا یا ڈاکٹر عثمانی نے کیا کہا اس سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ دیکھا جائے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ایسا عقیدہ بیان کیا یا راوی بھول گیا یا غلطی کر گیا یا مختلط ہوا یا وہم کا شکار ہوا

عثمانی مقلد معترض نے کہا کیا ڈاکٹر عثمانی صاحب زمین پر چوپایوں کے سننے کے قائل تھے؟
راقم نے جوابا کہا
ڈاکٹر عثمانی صاحب چوپایوں کے سننے کے قائل نہیں کیونکہ انہوں نے مسلم کی ایک حدیث پر تبصرہ کر کے اپنا موقف وہاں واضح کر دیا ہے – ڈاکٹر عثمانی کا طریقہ متکلم اہل رائے جیسا یا اشاعرہ جیسا ہے وہ حدیث پر رائے زنی کرتے ہیں ، تاویل کرتے ہیں – لیکن تاویل میں کوئی اصول نہیں ہوتا کوئی کوئی بھی تاویل کر سکتا ہے جو روایت کی تطبیق قرآن سے کر دے – اچھی تاویل کر دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تاویل بالکل وہی ہے جو امام بخاری نے بھی کی ہو گی – امام بخاری نصوص کی تاویل کرتے تھے –
امام بخاری کے مقابلے پر وہ محدثین تھے جو قرن ثلاثہ میں عقائد میں خبر مرسل تک کو لیتے تھے مثلا امام احمد سے لے کر دارقطنی تک ، تابعی مجاہد کے مرسل قول پر اس عقیدہ کے حامل تھے کہ عرش پر روز محشر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھا دیا جائے گا- اس کی مخالفت کرنے والے کو وہ جھمی کہتے تھے اور آج تک یہ عقیدہ وہابیوں میں موجود ہے – لہذا بعض محدثین کے نزدیک خبر واحد مرسل بھی یقینی ہوتی تھی اور اس پر عقیدہ استوار بالکل کیا جا سکتا تھا – اس مثال سے واضح ہو جاتا ہے کہ عقائد میں ہمارا یا ڈاکٹر عثمانی کا منہج ان محدثین جیسا بالکل نہیں ہے- دوسری طرف امام بخاری اور امام ترمذی اور بہت سے اور محدثین تھے جو حدیث کی تاویل بھی کرتے تھے- اس کی دلیل ہے کہ مسئلہ اسماء و صفات میں امام بخاری اور امام ترمذی دونوں نے اپنی کتب میں احادیث یا آیات صفات کی بعض مقام پر تاویل کی ہے

عثمانی مقلد معترض نے کہا

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ المَدِينَةِ، فَقَالَتَا لِي: إِنَّ أَهْلَ القُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا، وَلَمْ أُنْعِمْ أَنْ [ص:79] أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ، وَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: «صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ البَهَائِمُ كُلُّهَا» فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ فِي صَلاَةٍ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

صحیح بخاری کی إس حدیث میں مویشی عذاب سن رہے ہیں جس طرح مرغ فرشتے کو دیکھ سکتا ہے
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام مویشی سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔

راقم نے کہا

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اس حدیث میں البَهَائِمُ کا لفظ ہے جس کا مطلب وہ چوپائے ہیں جو مویشی ہیں جن کو پالا جاتا ہے یہ خچر یا گھوڑا نہیں ہیں بلکہ یہاں روایت میں مویشی مراد ہیں
برزخ میرے نزدیک بھینسوں کا باڑا نہیں ہے مجھے نہیں معلوم امام بخاری کیا تاویل کرتے تھے

قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ مرغا فرشتے کو دیکھتا ہے یا مویشی عذاب قبر سنتا ہے

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَالحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا»
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نے فرمایا بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مرغ کو چختے یا بانگ دیتے سنو تو اللہ سے رزق طلب کرو کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ سے شیطان کی پناہ طلب کرو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے

راقم کہتا ہے یہ روایت تو امام بخاری سے بڑے محدث ابن معین نے ہی رد کی ہوئی ہے

وفي «كتاب» الساجي: قال يحيى بن معين: جعفر بن ربيعة ليس بشيء ضعيف.

دوسری سنن ابی داود میں ہے

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِذَا سَمِعْتُمْ نُبَاحَ الْكِلَابِ، وَنَهِيقَ الْحُمُرِ بِاللَّيْلِ، فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ فَإِنَّهُنَّ يَرَيْنَ مَا لَا تَرَوْنَ” ,
جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب کتے کا بھوکنا سنو اور گدھے کی آواز رات میں تو اللہ سے پناہ طلب کرو کیونکہ وہ وہ دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھتے

راقم کہتا ہے اس کی سند تو خود عثمانی صاحب کے اصول پر صحیح نہیں کیونکہ اس میں ابن اسحاق ہے جس کو انہوں نے دجال قرار دیا ہے مزید یہ کہ امام احمد نے اس کے راوی محمد بن إبراهيم التيمي کو رد کیا ہے

قال أحمد في حديثه شيء روى مناكير

لہذا یہ دونوں سندیں ضعیف ہیں

کتا بلی مرغا گدھا خچر فرشتوں کو جنات کو نہیں دیکھتے نہ سنتے ہیں ؟ سوال عثمانی صاحب کی تاویلات کا نہیں ہے – سوال حقائق کا ہے کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ جانور غیب میں دیکھتا ہے ؟ معلوم ہوا اس کی بودی دلیلیں ہیں اور بقول آپ کے خبر واحد پر عقیدہ بھی نہیں بنتا پھر اس دلیل کو آپ کیسے پیش کر رہے ہیں

عثمانی مقلد معترض نے کہا

مرغ والی حدیث بخاری میں دوسری سند سے بھی ہے جس سے امام بخاری رح نے احتجاج کیا ہے حدیث کی سند یہ ہے (حدثنا محمد بن سلام: اخبرنا مخلد بن یزید: اخبرنا ابن جریج: قال ابن شهاب: اخبرني يحي بن عروة: انه سمع عروة يقول: قالت عائشة:۔۔۔۔)۔
نبی علیہ السلام نے جنات کے فرشتوں سے لی گئی بات کو کاھن کے کان میں ڈالنے کو مرغ کے آواز کی طرح ڈالنے سے تشبیہ کیوں دی

راقم کہتا ہے

حدیث جس کا آپ نے ذکر کیا وہ یہ ہے
حدیث نمبر: 6213
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ شِهَابٍ :‏‏‏‏ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ :‏‏‏‏ سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكُهَّانِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “لَيْسُوا بِشَيْءٍ”، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا بِالشَّيْءِ يَكُونُ حَقًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ”.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ کو یحییٰ بن عروہ نے خبر دی، انہوں نے عروہ سے سنا، کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان کی (پیشین گوئیوں کی) کوئی حیثیت نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لیکن وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بات، سچی بات ہوتی ہے جسے جِن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے اور پھر اسے اپنے ولی (کاہن) کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے۔ اس کے بعد کاہن اس (ایک سچی بات میں) سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔

اس میں کہاں لکھا ہے کہ مرغ نے فرشتے کو یا جن کو دیکھا؟ جس طرح مرغ بانگ دیتا ہے جن اسی طرح کاہن کے دماغ میں اس کو ڈالتا ہے-  مرغ کی بانگ تو سب سنتے ہیں اس میں دیکھنا کہاں ثابت ہوا  کہ مرغے نے جن کو یا فرشتے کو دیکھا  – آپ جس حدیث کو لائے ہیں اس میں آپ کے مدعا کا ذکر نہیں ہے

اب جب یہ ثابت ہی نہیں ہوا کہ جانور غیب میں جھانک سکتے ہیں تو ان روایات سے ہم دلیل نہیں لیں گے

عثمانی مقلد معترض نے کہا : امام بخاری رحمهما الله کے متعلق یہ کہنا کہ یہ خبر واحد صحیح پر عقیدہ بنانے کے قائل تھے ان پر کھلا بہتان ہے
راقم نے جوابا کہا : اگر ہم صحیح بخاری کھول کر دیکھیں تو امام بخاری کا جامع الصحیح کا مقصد ظاہر ہو جاتا ہے – اس کا مقصد صحیح حدیث دینا ہے جس سے دین میں دلیل لی جا سکتی ہو –
لیکن آپ کے بقول وہ جن احادیث کو صحیح کہتے تھے ان پر خود ایمان نہیں رکھتے تھے جو ظاہر ہے کھلا جھوٹ ہے
راقم بعض روایات کی تصحیح پر امام بخاری سے اختلاف کرتا ہے کیونکہ روایت کو صحیح کہنا محدث کا اجتہاد ہے جو صحیح یا غلط ہو سکتا ہے – افسوس آپ کا مطمح نظر ہے کہ ہر وقت امام صاحب کا دفاع کیا جائے – لیکن امام بخاری کا دفاع کرنا میرا مذھب نہیں ہے – میرا مقصد صحیح حدیث کو جاننا ہے – امام بخاری نے ان روایات تک کو صحیح کہا ہے جن کو امام مالک نے رد کرنے کا حکم دیا- لیکن امام بخاری نے ان کو صحیح میں لکھا ہے لہذا ان پر اور انکی لائی گئی روایات پر محققین تنقید کرتے رہے ہیں – امام اابن بی حاتم نے باقاعدہ بيان خطأ البخاري کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں تاریخ الکبیر و تاریخ الاوسط میں امام بخاری کی راویوں پر غلطیاں جمع کی ہیں اور اس میں ٧٦٦ غلطیاں اندارج کی ہیں

عثمانی مقلد معترض نے کہا : آپ کا امام بخاری رح پر اعتراض ہے کہ وہ خبر واحد سے بھی عقیدہ لیتے ہیں یقینا یہ قول تنقیص پر محمول ہے

راقم نے جوابا کہا
امام بخاری اہل رائے میں سے نہیں ہیں -بلا شبہ امام بخاری نے خبر واحد کو عقیدہ میں لیا ہے اور اس پر دال ان کی مسئلہ خلق قرآن پر تالیف خلق افعال العباد ہے جس میں جا بجا خبر واحد سے عقیدہ کا اثبات کیا گیا ہے، پھر مزید یہ کہ جامع الصحیح کی ٣٠٠٠ ہزار سے اوپر روایات ہیں – کوئی یہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتا کہ امام بخاری نے خبر واحد پر عقیدہ نہیں لیا بلکہ اس کا الٹ ثابت ہوتا ہے
امام بخاری خبر واحد پر عقیدہ لیتے تھے ان کی کتابیں پکار رہی ہیں – امام بخاری محدث ہیں کوئی حنفی فقیہ نہیں جو خبر واحد سے عقیدہ نہ لو کی بات کرتے

خبر واحد پر وضاحت

راقم وضاحتا کہتا ہے کہ قرآن میں دلائل موجود ہیں کہ خبر واحد علم یقینی کا درجہ رکھتی ہے
نبا الیقین
خبر واحد کو قرآن میں نبا الیقین یعنی یقینی خبر کہا گیا ہے- مثلا ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کو آ کر مملکت سبا پر خبر واحد دی – سلیمان نے خط لکھ کر اس کی تصدیق کی یعنی قرائن دیکھ کر اس خبر کو قبول کیا- ہدہد نے خبر کو یقینی خبر کہا اور قرآن میں اس کا رد نہیں بلکہ اثبات ہے وہ خبر واحد سچی تھی اور تمام مومن بنی اسرائیل نے اس خبر واحد کو قبول کیا – اس وقت قرآن اور انجیل نازل نہیں ہوئے تھے اور توریت زبور نازل ہو چکی تھیں – قرآن میں ہے کہ ملکہ سبا کی خبر کی صداقت کو راوی یعنی ہدہد کی عدالت کے علاوہ زمینی قرائن سے جانچا گیا نہ کہ وحی الہی کا انتظار کیا گیا- اس طرح ہمیں علم دیا گیا کہ اگر قرائن و شواھد مل جائیں تو خبر واحد سے علم ظنی نہیں خبر یقین مل جاتی ہے اور ظاہر ہے خبر یقینی ، عقائد میں لی جائے گی-

اہل ذکر سے دلیل لینا

حنبلی عالم ابن عقیل خبر واحد پر کتاب الفنون ص ٦٦٣ اور ٦٣٨ میں کہتے ہیں

حنبلی (یعنی ابن عقیل) نے استدلال کیا کہ خبر واحد سے علم واجب ہے اور اعتقادات کا اثبات ہوتا ہے اس پر تین آیات ہیں
قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ سوره ألرعد
کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی شہادت کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے
اور اللہ کا قول ہے
سوره الشعراء أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ
کیا ان کے لئے نشانی نہیں ہے کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ سورہ یونس
تو اگر ان کو شک ہے جو نازل ہوا ہے تمہاری طرف تو ان سے سوال کرو جن پر تم سے پہلے کتاب نازل ہوئی
اور مراد ہے اور اشارہ ہے ان کی طرف جو اسلام لائے اور تصدیق کی اور ان میں ہیں کعب احبار اور وھب بن منبہ اور عبد اللہ بن سلام اور جو اسلام لائے اور یہ تمام احاد ہیں احاد سے اوپر نہیں جا سکتے

رجم کا حکم

قرآن میں ہے جو ایسا حکم کرے جو اللہ نے نہ دیا ہو تو کافر ہے ۔ رجم کرنا یا تو اللہ کا حکم ہے یا نہیں ہے – امت نے اس

کو خبر واحد کی بنیاد پر لیا ہے اور کسی سے منقول نہیں کہ امام ابو حنیفہ نے اس کا انکار کیا ہو-

ابن عقیل نے مزید وضاحت کی

ان دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ خبر واحد ( صحیح المتن و سند جو نکارت و شذوذ سے پاک ہو، چاہے بنی اسرائیل کی روایت ہو ) اس سے مفید علم یقینی حاصل ہو سکتا ہے

واضح رہے کہ جب قرائن ساتھ نہ دیں تو خبر واحد کو رد بھی کیا جاتا ہے جس کی تفصیل راقم کی علم حدیث کی کتاب میں ہے

دوم متواتر میں بھی سند میں ضعیف راوی ہوتے ہیں -مثلا کہنے والے کہہ تو دیتے ہیں قرآن تواتر سے ملا ہے لیکن ان کو یہ علم نہیں کہ اس کی سند ہوتی ہے جس عاصم بن ابی النجود سے آ رہی ہے اور عاصم ضعیف ہیں

اور قرآن کی قرات ہیں جو دس متواتر کہی جاتی ہیں لیکن ان میں قرات میں الفاظ بدل بھی جاتے ہیں اگرچہ مفہوم نہیں بدلتا

تفصیل اس بلاگ میں ہے

قرآن اور قرات عشرہ

غالی اہل سنت اور عمر رض

عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے راقم ذکر کر چکا ہے کہ امام مالک کے ہم عصر روایوں نے ان کے حوالے سے غلو کیا – عمر کو ایک کشفی کے طور پر پیش کیا کبھی دلیل کے طور پر کہا ان کے بارے میں محدث کا لفظ قرآن میں تھا جو سقط یا منسوخ ہو گیا

بعض نے ان کے حوالے سے بیان کیا کہ وہ الوحی کے انے سے پہلے ہی اللہ تعالی کے  احکام جان جاتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جان پاتے تھے مثلا ازواج کو پردہ کرانا یا مقام ابراہیم کو مصلی کرنا یا جنگ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ وغیرہ

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ الله بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: «يَا بِنْتَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالله مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ الله مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ الله لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ

زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کی بیعت ہوئی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو علی اور زبیر، فاطمہ کے پاس آئے اور ان سے مشورہ کرنے لگے اور … پس جب اس کی خبر عمر کو ہوئی تو وہ فاطمہ کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ کی بیٹی الله کی قسم ہم کو آپ کے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا اور ان کے بعد آپ سے زیادہ لیکن الله کے لئے یہ مجھے مانع نہ ہو گا کہ میں ایک جتھا اپ کے لئے لے آوں کہ وہ اس گھر کو جلا دے، پس جب عمر چلے گئے تو فاطمہ نے علی سے کہا کیا اپ کو پتا ہے عمر آئے تھے اور الله کی قسم لے کر گئے ہیں کہ اگر دیر کی تو وہ گھر جلا ڈالیں گے اور الله کی قسم وہ یہ کر دیں گے جس کی قسم لی ہے پس سید ھے سیدھے جاؤ …. اور واپس نہ آنا حتی کہ ابو بکر کی بیعت کر لو

یہ روایت متن میں غیر واضح اور تنقیص علی رضی الله عنہ پر مبنی ہے – علی رضی الله عنہ ناراض تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کو اس سے مطلع کیا جاتا اور روایات سے معلوم ہے کہ ابو بکر اور عمر رضی الله عنہما سعد بن عبادہ کو روکنے گئے تھے جو انصار میں سے خلیفہ کا ارادہ رکھتے تھے- عبادہ کو یہ حدیث نہیں پہنچی تھی کہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے اس کی وضاحت کے لئے ابو بکر و عمر نے عجلت کی اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہو جاتا تو مسلمان دو حصوں میں بٹ جاتے ایک طرف انصار ہوتے اور دوسری طرف مہاجرین

یہ روایت فضائل صحابہ از احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قثنا أَبُو مَسْعُودٍ قَالَ: نا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو قثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ فَيُشَاوِرَانِهَا، فَبَلَغَ عُمَرَ فَدَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ، مَا أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ، وَمَا أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ بَعْدَ أَبِيكِ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْكِ، وَكَلَّمَهَا، فَدَخَلَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَتِ: انْصَرِفَا رَاشِدَيْنِ، فَمَا رَجَعَا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعَا.
مستدرک الحاکم میں ہے
حَدَّثَنَا مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفُ الْهَمْدَانِيُّ، ثنا عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ عَلِيٍّ الزَّعْفَرَانِيُّ، ثنا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا فَاطِمَةُ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ أَبِيكِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْكِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4736 – غريب عجيب

اس کو عجیب و غریب الذھبی نے کہا ہے  لیکن رد نہیں کیا

سند میں زيد بن أسلم العَدَوِي العمري المدني المتوفی ١٣٦ ھ ہے جس کا ذکر ابن عدی نے الکامل میں کیا ہے لیکن ثقہ کہا ہے

دوسرے عبيد الله بن عمربن ميسرة القواريري المتوفی ٢٤٠ ھ ہیں جو حماد بن زید بصری کے ہم عصر ہیں یہ ثقہ ہیں

امکان ہے کہ یہ محمد بْن بِشْر بْن الفَرَافِصَة بْن المختار ، أبو عَبْد اللَّه الكُوفيُّ المتوفی ٢٣٠ ھ نے مرسل بیان کیا ہے کیونکہ دیگر اسناد میں واقعہ بیان نہیں ہوا جو محمد بن بشر العبدي نے بیان کیا ہے
محمد بن بشر العبدي ارسال بھی کرتا ہے – ممکن ہے یھاں ارسال ہو اور اصل نام نہیں لیا گیا جس نے اس واقعہ کو بیان کیا

لگتا ہے زيد بن أسلم اور عبيد الله بن عمربن ميسرة القواريري کے درمیان انقطاع ہے
البتہ الکامل از ابن عدی میں ہے
حماد بن زيد قال قدمت المدينة وأهل المدينة يتكلمون في زيد بْن أسلم فقلت لعبد اللَّه ما تقول في مولاكم هذا قَال: مَا نعلم به بأسا إلا أنه يفسر القرآن برأيه.
حماد بن زید نے کہا میں مدینہ پہنچا اور اہل مدینہ زید بن اسلم پر کلام کرتے پس میں نے عبد الله سے پوچھا کہ یہ اس پر کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا یہ قرآن کی تفسیر رائے سے کرتا ہے

بعض کتابوں میں ہے کہ حماد سے اس کو عبيد الله بن عمربن ميسرة نے بیان کیا گویا عبيد الله بن عمربن ميسرة اتنے بڑے تھے کہ وہ زید پر تبصرہ کر سکتے تھے جبکہ ان دونوں کی وفات میں سو سال سے اوپر کا فرق ہے – اس قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ زید اور عبید الله کا سماع بھی ہوا ہے – کتب حدیث میں یہ واحد روایت ہے جو عبید الله نے زید کی سند سے بیان کی ہے

راقم  کو  مسند احمد میں سند ملی

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَادَةَ الزُّرَقِيُّ الْأَنْصَارِيُّ، مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ

یھاں حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ اور زید کے درمیان دو راوی ہیں

مسند ابویعلی میں سند ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ»

یہاں عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ اور زید کے درمیان ایک راوی ہے

اسی کتاب میں بعض دفعہ ان کے درمیان دو راوی اتے ہیں
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ

لہذا صحیح بات ہے کہ ُعبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ کا سماع زید بن اسلم سے نہیں ہے

اگر ایسا ہے تو پھر سند میں حدثنا کیوں ہے ؟ یہ اغلبا محمد بن بشر کی غلطی ہے یا عبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ کا  جھوٹ ہے

یعنی قرن دوم میں اس روایت کو گھڑا گیا تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ عمر رضی الله عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو دھمکی دی تو انہوں نے بیعت کی – یہ روایات ثابت کرتی ہے کہ ثقات میں غالی اہل سنت موجود ہیں جو روافض کی طرح عمر کو چڑھا رہے تھے

سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے ابو بکر رضی الله عنہ کی بیعت نہیں کی کیونکہ ان کو لگا کہ اسلام میں اب انصار کا رول ختم ہو گیا ہے اب تو صرف قریشی خلفاء ہوں گے – علی رضی الله عنہ کسی سے ڈرنے والے نہ تھے ان کا اپنا مزاج تھا اور صحیح بخاری کے مطابق ٦ ماہ بعد انہوں نے ابو بکر کی بیعت کی – یہاں تک کہ ان راویوں نے یہ بھی  کہا ہے کہ عمر نے علی رضی اللہ عنہ کا گھر جلا دینے کی دھمکی دی – اہل بیت اور زبیر رضی اللہ عنہم  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لوگ تھے یہ تدفین اور رشتہ داروں کے ساتھ تھے ان سب کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب ہو گیا ہے – الفرض اگر جانے سے پہلے شیخین مسجد النبی میں اعلان کرا دیتے کہ اس باغ میں یہ ہو رہا ہے ہم وہاں جا رہے ہیں تو یہ اشتعال پر مبنی ہوتی کیونکہ قریش اور مہاجرین بدک جاتے اور ان کے انصار سے تعلقات کشیدہ ہو جاتے

بحث کے اصل مدعا پر اتے ہیں کہ یہ کہانی مشہور کی گئی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم کو دھمکی دی کہ وہ گھر جلا ڈالیں گے تب کہیں جا کر علی نے بیعت کی – اس کو گھڑنے والے  عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  ہوئے کیونکہ سند میں ان کا دور وہ دور ہے جس میں عمر کے حوالے سے غلو شروع  ہوچکا تھا – خود  عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  کا سماع بھی زید سے نہیں ہے – اور مصنف ابن ابی شیبہ میں  عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  جو حدثنا کہا ہے وہ بھی قابل رد ہے – محدثین کا کہنا ہے کہ راوی کا سماع نہ ہو حدثنا کہہ دے تو وہ کذب ہے

 عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  کو آج تک اہل سنت ثقہ کہتے  آئے ہیں اور ان روایات کو چھپاتے رہے ہیں  لیکن راقم کے نزدیک  عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  فیہ نظر کے درجے پر ہے اس کی اور روایات بھی ہیں جن میں متن عجیب و غریب ہے

 

عقيدة الرازيين

امام ابو زرعہ الرازی اور امام ابو حاتم الرازی  نیشاپور  فارس کے  دو ممتاز محدثین تھے جن کے نزدیک ان کے دور کے  دیگر محدثین نے بھی علم حدیث اور علم جرح و تعدیل میں غلطیاں کی تھیں –  ان ائمہ نے باقاعدہ امام بخاری کی علم جرح و تعدیل میں غلطیوں پر کتاب لکھی اور ان کے نزدیک کتاب صحیح مسلم نہیں لکھی جانی چاہیے تھی کیونکہ اس میں غیر صحیح روایات آ گئی ہیں

 حنبلییوں  یا سلفیوں  نے ان  ائمہ کو   اپنا ہم عقیدہ قرار دینے کے لئے ان کے حوالے سے ایک اقتباس گھڑا ہے جس کا ذکر پانچویں صدی ہجری سے ہونا شروع ہوا

اس اقتباس کی تین اسناد  ملی ہیں

پہلی سند

کتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از عبد العزيز بن فيصل الراجحي میں دعوی کیا گیا ہے کہ الحافظ أبو العلاء الهمذاني  نے اپنی کتاب اپنی کتاب میں امام ابی حاتم کا عقیدہ پیش کیا ہے

قال الحافظ أبو العلاء الهمذاني (ت 569 هـ) قي ” فتواه في ذكر الاعتقاد وذم الاختلاف ” (ص 90 – 91) : (فصل في ذكر الاعتقاد الذي أجمع عليه علماء البلاد) .ثم روى بسنده الصحيح إلى الإمام الحافظ أبي محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم (ت 327 هـ) قال: (سألت أبي وأبا زرعة – رضي الله عنهما -: عن مذاهب أهل السنة، وما أدركا عليه العلماء في جميع الأمصار: حجازا، وعراقا، ومصر، وشاما، ويمنا؟ فكان من مذهبهم:

* أن الإيمان قول، وعمل، يزيد، وينقص.

* والقرآن كلام الله غير مخلوق بجميع جهاته) .

ثم ذكر بقية معتقدهما، إلى أن قالا (ص 93) :

* (وأن الجهمية كفار.

* والرافضة رفضوا الإسلام.

* والخوارج مراق.

* ومن زعم أن القرآن مخلوق: فهو كافر كفرا ينقل عن الملة.

* ومن شك في كفره ممن يفهم: فهو كافر.

* ومن شك في كلام الله، فوقف فيه شاكا يقول: لا أدري مخلون أو غير مخلوق: فهو جهمي.

* ومن وقف في القرآن جاهلا: علم، وبدع، ولم يكفر

ومن قال: لفظي بالقرآن مخلوق، أو القرآن بلفظي مخلوق: فهو جهمي) اهـ.

وممن كفر القائلين بخلق القرآن، جماعات – ذكر كثيرا منهم:

عبد العزيز بن فيصل الراجحي نے دعوی کیا کہ اس کی سند صحیح ہے-

أخبرنا الشيخ الجليل الزاهد الثقة أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار بن أحمد بن القاسم قال: أخبرنا الشيخ أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي، وأبو بكر محمد بن عبد الملك بن بشران، قالا: حدثنا أبو الحسن علي بن عبد العزيز بن مردك بن أحمد البرذعي قال: أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم – أسعده الله ورضي عنه – قال:

یہ سند نامکمل ہے –

دوسری سند

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از  أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ الْمُقْرِئُ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ  مُحَمَّدِ بْنِ حَبَشٍ الْمُقْرِئُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ أَبِي وَأَبَا زُرْعَةَ عَنْ مَذَاهِبِ أَهْلِ السُّنَّةِ فِي أُصُولِ الدِّينِ , وَمَا أَدْرَكَا عَلَيْهِ الْعُلَمَاءَ فِي جَمِيعِ الْأَمْصَارِ , وَمَا يَعْتَقِدَانِ مِنْ ذَلِكَ , فَقَالَا

اس سند میں  الْحُسَيْنُ بْنُ  مُحَمَّدِ بْنِ حَبَشٍ الْمُقْرِئُ  مجہول الحال ہے

تیسری سند

كتاب أصل السنة واعتقاد الدين از أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي المتوفي: 445 هـ میں ہے

 سند ہے

قال أخبرنا أبو زيد … (1) قراءة عليه، قال: أخبرنا الشيخ أبو طالب عبد القادر بن محمد بن عبد القادر بن محمد بن يوسف، قراءة عليه وهو يسمع وأنا أسمع، فأقر به، قال: أخبرنا الشيخ أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي، رحمه الله، قال: حدثنا أبو الحسن علي بن عبد العزيز بن مردك بن أحمد البرذعي، قال: أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم، أسعده الله ورضي عنه، قال

 سألت أبی   و أبا زرعۃ   رضی اللّٰہ عنہما عن مذاھب أھل[السنۃ] فی أصول الدین ، وما أدر کا علیہ العلماء فی جمیع الأمصار ، وما یعتقدان من ذلک ، فقالا : أدرکنا العلماء فی جمیع الأ مصار حجازًا وعراقًا ومصرًا وشامًا ویمنًا ، فکان من مذھبھم :

  أبو زید   مجہول ہے جس    کا نام تک معلوم نہیں اور نہ حفظ کا پتا ہے نہ ضبط کا

متن

البتہ متن ہے

امام ابو محمد عبدالرحمٰن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا : میں نے اپنے والد(ابو حاتم الرازی) اور ابوزرعہ (الرازی) رحمہما اللہ سے اصول دین میں مذاہبِ اہل سنت کے بارے میں پوچھا اور (یہ کہ )انھوں نے تمام شہروں کے علماء کو کس(عقیدے) پر پایا ہے اور آپ دونوں کا کیا عقیدہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا : ہم نے حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن کے تمام شہروں میں علماء کو اس (درج ذیل) مذہب پر پایا:

(۱)۔ إن الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص۔

بے شک ایمان قول و عمل(کا نام) ہے (اور یہ) زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔

(۲)۔ والقرآن كلام الله غير مخلوق بجميع جهاته۔

قرآن الکریم ہر لحاظ سے اللہ سبحانہ وتعالٰی کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔

(۳)۔ والقدر خيره وشره من الله [عز وجل]۔

اچھی اور بری تقدیر، اللہ سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے ہے۔

(۴)۔ وخير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر الصديق، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان، ثم علي بن ابی طالب رضي الله عنهم

وهم الخلفاء الراشدون المهديون۔

نبی اکرم ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر صدیق ہیں پھر عمر بن الخطاب، پھر عثمان بن عفان، پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم اور یہی خلفاء راشدین مہدیین ہیں۔

(۵)۔ وأن العشرة الذين سماهم رسول الله ﷺ وشهد لهم بالجنة على ما شهد بہ، وقوله الحق۔

عشرہ (مبشرہ) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے (ہمارے نزدیک) وہ جنتی ہیں اور آپ ﷺ کی بات حق ہے۔

(۶)۔ والترحم على جميع أصحاب محمد ﷺ ، والكف عما شجر بينهم۔

محمد ﷺ کے تمام صحابہ کے بارے میں رحمت(اور رضی اللہ عنھم) کی دعا مانگنی چاہئے اور ان کے درمیان جو اختلافات تھے ان کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے۔

(۷)۔ وأن الله عزوجل علٰى عرشه بائن من خلقه، كما وصف نفسه في كتابه على لسان رسوله [ﷺ] ، بلا كيف ، أحاط بكل شيء علما.

ليس كمثله شيء وهو السميع البصير۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی اپنے عرش پر بغیر(سوال) کیفیت(مستوی) ہے، اپنی مخلوق سے(بلحاظِ ذات) جدا ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب(قرآن الکریم) میں اور رسول اللہ ﷺ کی زبان(مبارک پر) بیان فرمایا ہے۔ اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

(۸)۔ والله تبارك وتعالى يُرى في الآخرة، ويراه أهل الجنة بأبصارهم ويسمعون كلامه كيف شاء وكما شاء۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی آخرت میں نظر ائے گا، جنتی لوگ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے(اسی کا) کام ہے جیسے چاہے اور جب چاہے۔

(۹)۔ والجنة[ حق]، والنار حق، وهما مخلوقتان [لا يفنيان أبدًا] : فالجنة ثواب لأوليائه، والنار عقاب لأهل معصيته، إلا من رحم۔

جنت حق ہے، جہنم حق ہے، اور یہ دونوں مخلوق ہیں کبھی فنانہ ہوں گی، اللہ سبحانہ وتعالٰی کے دوستوں کے لئے جنت کا بدلہ ہے، اور ان کے نافرمانوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے سوائے ان کے جن پر وہ(اللہ سبحانہ وتعالٰی) رحم رفرمائے۔

(۱۰)۔ والصراط حق۔

(پل) صراط حق ہے۔

(۱۱)۔ والميزان [الذي] له كفتان يوزن فيه أعمال العباد حسنها وسيئها حق ۔

میزان(ترازو) کے دو پلڑے ہیں جن میں بندوں کے اچھے اور بُرے اعمال تولے چائیں گے۔

(۱۲)۔ والحوض المكرم به نبينا ﷺحق والشفاعة حق۔

نبی اکرمﷺ کا حوض کوثر حق ہے، اور شفاعت حق ہے۔

(۱۳)۔ وأن ناسًا من أهل التوحيد يخرجون من النار بالشفاعة حق۔

اہل توحید(مسلمانوں) میں سے (بعض) لوگوں کا (آپﷺ کی) شفاعت کے زریعے سے (جہنم کی) آگ سے نکلنا حق ہے۔

(۱۴)۔وعذاب القبر حق ۔

عذابِ قبر حق ہے۔

(۱۵)۔ ومنكر ونكير [حق]۔

منکر و نکیر (قبر میں سوال و جواب والے فرشتے) حق ہیں۔

(۱۶)۔ والكرام الكاتبون حق۔

کرامًا کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتے) حق ہے۔

(۱۷)۔ والبعث بعد الموت حق۔

موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔

(۱۸)۔ وأهل الكبائر في مشيئة الله عز وجل ، لا نكَّفر أهل القبلة بذنوبهم ، ونكل سرائرهم إلى الله عز وجل۔

کبیرہ گناہ کرنے والوں کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کی مشیت(اور ارادے) پر ہے (چاہے تو عذاب دے، چاہے تو بخش دے) ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے گناہوں کی وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کرتے، ہم ان کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے سپرد کرتے ہیں۔

(۱۹)۔ ونقيم فرض الجهاد والحج مع أئمة المسلمين في كل دهر وزمان۔

ہر زمانے(اور علاقے) میں ہم مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور حج کی فرضیت پر عمل پیرا ہیں۔

(۲۰)۔ ولا نرى الخروج على الأئمة ولا القتال في الفتنة۔

ہم  حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے قائل نہیں ہیں اور نہ فتنے(کے دور) میں (ایک دوسرے سے) قتال کے قائل ہیں۔

(۲۱)۔ ونسمع ونطيع لمن ولاه [الله أمرنا] ولا ننزع يدًا من طاعة۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی نے جسے ہمارا حاکم بنایا ہے، ہم اس کی سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں اور اطاعت سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے۔

(۲۲)۔ ونتبع السنة والجماعة ونتجنب الشذوذ والخلاف والفرقة۔

ہم (اہل) سنت والجماعت (کے اجماع) کی پیروی کرتے ہیں اور شزوذ، اختلاف اور فرقہ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔

(۲۳)۔ وأن الجهاد ماضٍ منذ بعث الله [عز وجل] نبيه ﷺ إلى قيام الساعة مع أولي الأمر من أئمة المسلمين، لايبطله شيء۔

جب سے اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنی نبی اکرمﷺ کو (نبی و رسول بناکر) مبعوث فرمایا ہے، مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر(کافروں کے خلاف) جہاد جاری رہے گا۔ اسے کوئی چیز باطل نہیں کرے گی(یعنی جہاد ہمیشہ جاری رہے گا)

(۲۴)۔ والحج كذلك۔

اور یہی معاملہ حج کا(بھی) ہے۔

(۲۵)۔ ودفع الصدقات من السوائم إلى أولي الأمر من [أئمة] المسلمين۔

مسلمان حکمرانوں کے پاس جانوروں(اور دیگر اموال) کے صدقات(زکوۃ، عشر) جمع کرائے جائیں گے۔

(۲۶)۔ والناس مؤمنون في أحكامهم ومواريثهم، ولا يُدرى ما هم عند الله [عز وجل] فمن قال : إنہ مؤمن حقًا فھو مبتدع ومن قال : ھو مؤمن عنداللّٰہ فھو من الکاذبین ومن قال : إنی مؤمن باللّٰہ فھو مصیب۔

لوگ اپنے احکام اور وراثت میں مومن ہیں، اور اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں ان کا کیا مقام ہے معلوم نہیں، جو شخص اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ یقیناً مومن ہے تو وہ شخص بدعتی ہے، اور جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں(بھی) مومن ہے تو ایسا شخص جھوٹوں میں سے ہے۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ میں اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ساتھ مومن (یعنی اللہ سبحانہ وتعالٰی پر ایمان رکھتا) ہوں تو یہ شخص (صحیح) مصیب ہے۔

(۲۷)۔ والمرجئة مبتدعة ۔

مرجئہ بدعتی گمراہ ہیں۔

(۲۸)۔ والقدرية مبتدعة ضلال، ومن أنكر منهم أن الله [عز وجل] يعلم ما يكون قبل أن يكون فهو كافر۔

قدریہ (تقدیر کا انکار کرنے والے) بدعتی گمراہ ہیں اور ان میں سے جو شخص یہ دعوی کرے کہ اللہ سبحانہ وتعالٰی، کسی کام کے ہونے سے پہلے اس کا علم نہیں رکھتا تو ایسا شخص کافر ہے۔

(۲۹)۔ وأن الجهمية كفار۔

جہمیہ کفار ہیں۔

(۳۰)۔ و[أن] الرافضة رفضوا الإسلام۔

رافضیوں نے اسلام چھوڑ دیا ہے۔

(۳۱)۔ والخوارج مُرّاق۔

خوارج (دین سے) نکلے ہوئے ہیں۔

(۳۲)۔ ومن زعم أن القرآن مخلوق فهو كافر [بالله العظيم] – كفرًا ينقل من الملة ومن شك في كفره ممن يفهم فهو كافر۔

جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن الکریم مخلوق ہے تو وہ کافر ہے، ملت (اسلامیہ) سے خارج ہے۔ اور جو شخص سوجھ بوجھ (اور اقامت حجت) کے باوجود اس شخص کے کفر میں شک کرے تو وہ(بھی) کافر ہے۔

(۳۳)۔ ومن شك في كلام الله [عز وجل-] فوقف شاكًا فيه يقول : لا أدري مخلوق أو غير مخلوق فهو جهمي۔

جو شخص اللہ سبحانہ وتعالٰی کے کلام کے بارے میں شک کرتے ہوئے توقف کرے اور کہے کہ مجھے پتا نہیں کہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق تو ایسا شخص جہمی ہے۔

(۳۴)۔ ومن وقف في القرآن جاهلا عُلِّمَ وبُدِّع ولم يُكفَّر۔

جو جاہل شخص قرآن الکریم کے بارے میں توقف کرے تو اسے سمجھایا جائے گا، اُسے بدعتی سمجھا جائے گا اور اُس کی تکفیر نہیں کی جائی گی۔

(۳۵)۔ ومن قال لفظي بالقرآن مخلوق ، أو القرآن بلفظي مخلوق فهو جهمي۔

جو شخص لفظی بالقرآن(میرے الفاظ جن سے میں قرآن مجید پڑھتا ہوں) یا القرآن بلفظی مخلوق(قرآن الکریم میرے الفاظ کے

ساتھ مخلوق) کہے تو وہ جہمی(گمراہ) ہے۔

تبصرہ

یقینا یہ تمام متن گھڑا ہوا ہے اس کی متعدد وجوہات  میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رافضی کا جنازہ امام ابو زرعہ پڑھتے تھے

كتاب الضعفاء: لأبي زرعة الرازي یا   أجوبة أبي زرعة على أسئلة البرذعي

وقال لي أبو زرعة: “لما مات عبد المؤمن بن علي حضرت جنازته وكنت أؤدب (8) لعلي ابنه، فكنت (9) لا ألتفت إلا وورائي إما رافضي، أو مبتدع، وإما بلية (10) فما زلت حتى صليت عليه وانصرفت”.

البرذعي کہتے ہیں  أبو زرعة  نے کہا  … میں التفات نہیں کرتا ہوں لیکن پیچھے ان کے (مرنے کے کہ ) اگر رافضی ہو بدعتی ہو یا فتنہ پرداز ہو پس ان پر جنازہ پڑھتا ہوں اور چلا اتا ہوں

یعنی البرذعي نے خود بیان کہ   أبو زرعة کے نزدیک رافضی مسلمان ہے وہ اس کا جنازہ پڑھتے تھے –

اس میں الخلفاء الراشدون المهديون میں صرف چار کو شمار کیا گیا ہے حسن اور معاویہ کو اس سے خارج کر دیا گیا ہے جو بہت بعد کا اہل سنت کا موقف بنا تھا

اس میں لفظي بالقرآن مخلوق ، أو القرآن بلفظي مخلوق کو صریح جہمی لکھا گیا ہے جبکہ یہ امام کرابیسی کا امام بخاری کا اور امام الذھبی کا مذھب ہے

اس کے علاوہ عشرہ مبشرہ کی منکر روایت کو بھی اس متن میں صحیح بنا کر پیش کیا گیا ہے جبکہ یہ روایت صحیح سند سے معلوم نہیں-عشرہ مبشرہ والی روایت کی سند  منقطع ہے – علل دارقطنی میں ہے

وَقَدْ بَيَّنَ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ هِلَالٍ أَنَّهُ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنَ ابْنِ ظَالِمٍ، وَأَنَّ بَيْنَهُمَا رَجُلًا

اس سے واضح ہے کہ ھلال بن نے اس کو ابن ظالم سے نہیں سنا ان کے درمیان کوئی شخص ہے

کتاب العلل لابن أبي حاتم میں ہے

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ عبد العزيز الدَّراوَرْدي   ، عن عبد الرحمن بن حُمَيد بن عبد الرحمن بْنِ عَوْف، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ جدِّه (2) عبد الرحمن بن عَوْف، عن النبيِّ (ص) قَالَ: عَشَرَةٌ فِي الجَنَّةِ.  وَرَوَاهُ مُوسَى بْن يعقوب الزَّمْعي   ، عَنِ عمر بن سعيد بن شُرَيح  ، عن عبد الرحمن ابن حُمَيد، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بن زيد، عن النبيِّ (ص) .

قلتُ لأَبِي: أيُّهما أشبهُ؟

قَالَ: حديثُ مُوسَى أشبهُ؛ لأنَّ الحديثَ يُروى عَنْ سَعِيدٍ (2) مِنْ طُرُقٍ شَتَّى، ولا يُعرَف عن عبد الرحمن بن عَوْف، عن النبيِّ (ص) ، في هذا – شيء

میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ حدیث جو عبد العزيز الدَّراوَرْدي نے عن عبد الرحمن بن حُمَيد بن عبد الرحمن بْنِ عَوْف، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ جدِّه  عبد الرحمن بن عَوْف، عن النبيِّ کی سند سے روایت کی ہے کہ فرمایا دس جنت میں ہیں-  اس کو مُوسَى بْن يعقوب الزَّمْعي  نے    عمر بن سعيد بن شُرَيح  ، عن عبد الرحمن ابن حُمَيد، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بن زيد، عن النبيِّ (ص)  کی سند سے بھی روایت  کیا ہے – میں نے پوچھا کون سی اچھی ہے ؟

میرے باپ نے کہا موسی کی حدیث اچھی ہے کیونکہ یہ حدیث سعید سے مختلف طرق سے آئی ہے اور عبد الرحمن بن عَوْف کا نبی سے کچھ روایت کرنا میں نہیں جانتا 

ابی حاتم کے نزدیک اس کی سند عبد الرحمن بن حُمَيد بن عبد الرحمن بْنِ عَوْف، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ سَعِيدِ بن زيد، عن النبيِّ والی اچھی ہے – راقم کہتا ہے اس کی سند  میں عمر بن سعيد بن شُرَيح ہے جس کو  خود ابی حاتم  نے ضعیف کہا  ہے

   مضطرب الحديث، ليس بقوي

یعنی سند کو اچھا کہنا اس بنا پر ہے کہ سعید نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں ضعیف راوی ہے اور یہ روایت صحیح سند سے ابی حاتم کے پاس نہیں ہے

لہذا راقم کو شک ہے کہ جو عقیدہ امام حاتم سے منسوب کیا گیا وہ گھڑا ہوا ہے کیونکہ اس  میں ہے

(۵)۔ وأن العشرة الذين سماهم رسول الله ﷺ وشهد لهم بالجنة على ما شهد بہ، وقوله الحق۔

عشرہ (مبشرہ) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے (ہمارے نزدیک) وہ جنتی ہیں اور آپ ﷺ کی بات حق ہے۔

جب کہ اس کی کوئی صحیح سند امام ابو حاتم کے پاس نہیں ہے

رَسُول وَلَا نَبِي وَلَا مُحدث؟

کہا  جاتا ہے کہ قرآن میں نبی اور رسول کے علاوہ   محدث کا بھی ذکر تھا

تفسیر  الدر المنثور از سیوطی میں ہے

أخرج عبد بن حميد وَابْن الْأَنْبَارِي فِي الْمَصَاحِف عَن عَمْرو بن دِينَار قَالَ: كَانَ ابْن عَبَّاس رَضِي الله عَنهُ يقْرَأ (وَمَا أرسلنَا من قبلك من رَسُول وَلَا نَبِي وَلَا مُحدث)

وَأخرج ابْن أبي حَاتِم عَن سعد بن إِبْرَاهِيم بن عبد الرَّحْمَن بن عَوْف قَالَ: إِن فِيمَا أنزل الله {وَمَا أرسلنَا من قبلك من رَسُول وَلَا نَبِي} وَلَا مُحدث فنسخت مُحدث والمحدثون: صَاحب يس ولقمان وَهُوَ من آل فِرْعَوْن وَصَاحب مُوسَى

عبد بن حميد اور َابْن الْأَنْبَارِي نے عمرو بن دینار سے روایت کیا کہ ابن عباس کی قرات کرتے تھے

وَمَا أرسلنَا من قبلك من رَسُول وَلَا نَبِي وَلَا مُحدث

اور ہم نے تم سے قبل کوئی رسول یا نبی یا محدث نہیں بھیجا

اور ابن ابی حاتم نے سعد بن إِبْرَاهِيم بن عبد الرَّحْمَن بن عَوْف سے روایت کیا کہا اس میں تھا  وَمَا أرسلنَا من قبلك من رَسُول وَلَا نَبِي وَلَا مُحدث ، پھر اس میں محدث منسوخ ہوا اور محدثوں سے مراد صاحب یاسین ہے اور لقمان جو ال فرعون  میں سے تھے اور موسی کے صاحب

راقم کہتا ہے یہ قول باطل ہے حقیقت میں ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا احکام میں ہوتا ہے – اگر یہ حقیقت تھی کہ پچھلی امتوں میں محدث تھے تو  بات منسوخ ممکن نہیں ہے

اسی تفسیر میں ہے

وَأخرج ابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم عَن مُجَاهِد رَضِي الله عَنهُ قَالَ: النَّبِي وَحده الَّذِي يكلم وَينزل عَلَيْهِ وَلَا يُرْسل

ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے تخریج کی ہے مجاہد نے کہا نبی وہ ہوتا ہے جس سے کلام کیا جاتا ہے اور اس پر نزول ہوتا ہے لیکن  (قوم کی طرف ) بھیجا نہیں جاتا

تفسیر قرطبی میں ہے

قَالَ ابْنُ عَطِيَّةَ: وَجَاءَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ:” وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ وَلَا مُحَدَّثٍ” ذَكَرَهُ مَسْلَمَةُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

ابن عطیہ نے کہا ابن عباس کے حوالے سے آیا ہے کہ وہ قرات کرتے تھے

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ وَلَا مُحَدَّثٍ

اس کا ذکر کیا ہے مَسْلَمَةُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نے

راقم کہتا ہے اگر قرات منسوخ تھی اور ایسی کوئی آیت تھی تو ابن عباس اس کی قرات کیسے کر سکتے ہیں

قرطبی نے تفسیر میں کہا

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا حَدِيثٌ لَا يُؤْخَذُ بِهِ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ قُرْآنٌ. وَالْمُحَدَّثُ هُوَ الَّذِي يُوحَى إِلَيْهِ فِي نَوْمِهِ

اس حدیث سے ہم یہ نہیں لیں گے کہ یہ قرآن میں ہے اور محدث وہ ہے جس پر نیند میں الوحی کی جائے

بہر حال بقول مفسرین  محدث کا لفظ قرات میں سے حذف کیا گیا اس کو منسوخ قرار دیا گیا اور مفسرین کے مطابق یہ آیت قرآن میں سورہ حج میں  اب اس طرح ہے

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

لیکن محدث کا وجود لوگوں میں باقی رہا

اہل سنت کا قول : عمر محدث ہیں

صحیح بخاری  کی حدیث میں ہے

 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ”. زَادَزَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ” قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «مِنْ نَبِيٍّ وَلاَ مُحَدَّثٍ»

.ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھا «من نبي ولا محدث» ۔

امام بخاری نے بھی روایت ٣٦٨٩  کے ساتھ جملہ ٹانک دیا کہ ابن عباس سے شاذ قرات کو منسوب کیا

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «مِنْ نَبِيٍّ وَلاَ مُحَدَّثٍ»

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھا «من نبي ولا محدث» ۔

سعد بن إِبْرَاهِيم بن عبد الرَّحْمَن بن عَوْف المتوفی ١٢٥ ھ ہے
امام مالک کے نزدیک متروک ہیں اگرچہ بغداد والے  ثقہ کہتے ہیں

الاصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے

قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين

امام حاکم نے کہا – امام مالک فیصلہ کرنے والے  ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر

مستدرک میں حاکم کہتے ہیں

مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ الْحَكَمُ فِي حَدِيثِ الْمَدَنِيِّينَ…..

اہل مدینہ کی احادیث پر امام مالک فیصلہ کرنے والے ہیں

إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ یہ سعد بن إِبْرَاهِيم بن عبد الرَّحْمَن بن عَوْف کا بیٹا ہے
ابراہیم ضعیف ہے
امام یحیی بن سعید القطان کے نزدیک
احمد نے کہا میں نے ابراہیم بن سعد سے روایت کیا تو امام القطان نے کہا
فقال لي يحيى: يا أبا عبد الله، عقيل وإبراهيم بن سعد!! عقيل وإبراهيم بن سعد!! كأنه يضعفهما
ابو عبد الله .. ابراہیم بن سعد … گویا کہ اس کی تضعیف کر رہے ہوں

امام وكيع نے اس کو ترک کر دیا تھا
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا وكيع مرة، عن إبراهيم بن سعد. ثم قال: أجيزوا عليه، تركه بأخرة. «العلل» (4709)

یعنی یہ باپ بیٹے بڑے ائمہ حدیث کے نزدیک متروک ہیں

فضائل الخلفاء الأربعة وغيرهم لأبي نعيم الأصبهاني از أبو نعيم  الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ كَانَ فِي الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُنْ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ فَهُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ» قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: الْمُحَدَّثُ الْمُلْهَمُ لِلصَّوَابِ

اس  کی سند  میں سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف أبو إسحاق  المتوفی ١٢٧ ھ قاضی مدینہ ہے جو ثقہ سمجھا گیا ہے لیکن امام مالک نے اس کو ترک کیا- مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ اور إبراهيم بن سعد بن إبراهيم  بن عبد الرحمن بن عوف نے اس کو روایت کیا ہے- ابن عَجْلَانَ کے بارے میں امام مالک کا قول ہے کہ اس کو حدیث کا اتا پتا نہیں ہوتا- یعنی مالک نے اس روایت کو اس سند سے  سرے سے قبول ہی نہیں کیا ہو گا 

ابن عجلان نے ہی ساریہ والی روایت بیان کی- البانی سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3/ 101۔104)     میں اس پر طویل گفتگو کی ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ واقعہ صرف ابن عجلان کی سند سے صحیح ہے
 قلت: …. فتبين مما تقدم أنه لا يصح شيء من هذه الطرق إلا طريق ابن عجلان وليس فيه إلامناداة عمر ” يا سارية الجبل ” وسماع الجيش لندائه وانتصاره بسببه.ومما لا شك فيه أن النداء المذكور إنما كان إلهاما من الله تعالى لعمر وليس ذلك بغريب عنه، فأنه ” محدث ” كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ولكن ليس فيه أن عمر كشف له حال الجيش، وأنه رآهم رأي العين

میں البانی کہتا ہوں : پس کے واضح ہوا کہ اس سلسلے میں ایک ہی طرق صحیح ہے جو ابن عجلان کی سند سے ہے اور اس میں عمر کی پکار کا ذکر ہے کہ يا سارية الجبل اور لشکر کا اس آواز کو سننا اور اس کے سبب مدد پانا تو اس میں شک نہیں کہ یہ الہام میں سے ہے جو الله تعالی نے عمر کو کیا اور اس میں کوئی عجیب بات بھی نہیں کیونکہ وہ محدث ہیں جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس میں یہ نہیں ہے کہ  عمر پر لشکر کا حال کشف ہوا اور انہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا

یعنی عمر کو محدث قرار دینا  ، ان پر ساریہ والا واقعہ گھڑنا یہ سب ابن عجلان اور ان کے شیخ  کا کمال ہے – لہذا صوفی نا پسند حلقوں میں اس کی ساریہ والی روایت کو رد کیا جاتا ہے اور پھر عمر کو غیر محدث  قرار دیا جاتا  ہے – لہذا صحیح بخاری کی روایت  کا ترجمہ کیا جاتا ہے

راقم کہتا ہے اس کا ترجمہ یہ درست نہیں ہے اس میں کہا گیا ہے

پچھلی امتوں میں تم سے پہلے محدث تھے اور اگر  میری امت میں کوئی  ہے تو  عمر ہیں

اس روایت میں عمر کو محدث قرار دیا گیا ہے اور راقم اس کو رد کرتا ہے

راوی کا مدعا عمر کو محدث قرار دینا ہی ہے اسی لئے وہ ساریہ والا روایت بھی نقل کرتا ہے

عمر محدث تھے کی مثالیں

صحیح مسلم  میں ہے

حَدَّثَنا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، أَخْبَرَنَا عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: “وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ، وَفِي الْحِجَابِ، وَفِي أُسَارَى بَدْرٍ” ,

عمر نے کہا تین میں میرے رب نے میری موافقت کی –  مقام ابراہیم کو قبلہ کریں،  عورتوں کو پردے کا حکم، غزوہ بدر کے قیدی

محدثین کا اس روایت پر بھی اعتراض ہے – جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے

جويرية بن أسماء مكثر عن نافع وقد تقدم قول بن عمار الحافظ في حديثه عنه وافقت ربي في ثلاث وإن بينهما فيه رجلا غير مسمى

جويرية بن أسماء یہ نافع سے بہت روایت کرتا ہے اور ابن عمار کا قول اس کی حدیث میری رب نے تین باتوں میں میری موافقت پر گزرا ہے کہ جويرية بن أسماء اور  نافع  کے درمیان ایک شخص ہے جس کا نام نہیں لیا گیا

پھر  العلائي  لکھتے ہیں

فلو أن هذا الحديث عنده عنه لكان يساير ما روى عنه فلما رواه بواسطة بيه وبين شيخه المكثر عنه علم أن هذا الحديث لم يسمعه منه ولا سيما إذا كان ذلك الواسطة رجلا مبهما أو متكلما فيه مثاله حديث اخرجه مسلم من طريق سعيد بن عامر عن جويرية بنت أسماء عن نافع عن ابن عمر عن عمر رضي الله عنه حديث وافقت ربي في ثلاث وقد رواه محمد بن عمر المقدمي عن سعيد بن عامر عن جويرية عن رجل عن نافع وجويرية مكثر عن نافع جدا فلو كان هذا الحديث عنده لما رواه عن رجل مبهم عنه

جويرية بن أسماء جانتا تھا کہ اس کے شیخ نافع اور اس کے درمیان ایک شخص ہے اس نے نافع سے نہیں سنا تھا

علل الأحاديث في كتاب الصحيح المسلم بن الحجاج از  أَبُو الفَضْلِ ى بنِ الجَارُوْدِ الجَارُوْدِيُّ، الهَرَوِيُّ، الشَّهِيْدُ (المتوفى: 317هـ) میں ہے

وَوجدت فِيهِ حَدِيث سعيد بن عَامر عَن جوَيْرِية بن أَسمَاء عَن نَافِع عَن ابْن عمر عَن عمر قَالَ

وَافَقت رَبِّي فِي ثَلَاث

قَالَ أَبُو الْفضل فَوجدت لَهُ عِلّة

حَدثنِي مُحَمَّد بن إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم السراج حَدثنَا مُحَمَّد بن إِدْرِيس حَدثنَا مُحَمَّد بن عمر بن عَليّ حَدثنَا سعيد بن عَامر عَن جوَيْرِية عَن رجل عَن نَافِع أَن عمر قَالَ

وَافقنِي رَبِّي فِي ثَلَاث فَذكر الحَدِيث وَلم يذكر ابْن عمر فِي إِسْنَاده وَأدْخل بَين جوَيْرِية وَنَافِع رجلا غير مُسَمّى

میں نے حدیث سعيد بن عَامر عَن جوَيْرِية بن أَسمَاء عَن نَافِع عَن ابْن عمر عَن عمر کہ میرے رب نے تین میں میری موافق کی میں علت پائی – ابو الفضل نے کہا اس کو روایت کیا  مُحَمَّد بن إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم السراج حَدثنَا مُحَمَّد بن إِدْرِيس حَدثنَا مُحَمَّد بن عمر بن عَليّ حَدثنَا سعيد بن عَامر عَن جوَيْرِية عَن رجل عَن نَافِع أَن عمر کی سند سے …. پس سند میں جوَيْرِية  اور َنَافِع کے درمیان شخص ہے جس کا نام نہیں لیا گیا

الغرض صحیح مسلم کی سند میں مجہول ہے جو اس روایت کو ضعیف بنا دیتی ہے

صحیح بخاری  کی حدیث ہے کہ عمر نے مشورہ دیا کہ امہات المومنین کو پردہ کرایا جائے

حدیث نمبر: 4483حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ،‏‏‏‏ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ وَافَقْتُ اللَّهَ فِي ثَلَاثٍ أَوْ وَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَوِ اتَّخَذْتَ مَقَامَ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَبَلَغَنِي مُعَاتَبَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلْتُ عَلَيْهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِ انْتَهَيْتُنَّ أَوْ لَيُبَدِّلَنَّ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا مِنْكُنَّ حَتَّى أَتَيْتُ إِحْدَى نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏أَمَا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَعِظَهُنَّ أَنْتَ ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ:‏‏‏‏ عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ سورة التحريم آية 5 الْآيَةَ،‏‏‏‏ وَقَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسًا،‏‏‏‏ عَنْ عُمَرَ.ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ فرمایا، تین مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے حکم سے میری رائے نے پہلے ہی موافقت کی یا میرے رب نے تین مواقع پر میری رائے کے موافق حکم نازل فرمایا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! کیا اچھا ہوتا کہ آپ مقام ابراہیم کو طواف کے بعد نماز پڑھنے کی جگہ بناتے تو بعد میں یہی آیت نازل ہوئی۔ اور میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! آپ کے گھر میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ آپ امہات المؤمنین کو پردہ کا حکم دے دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب (پردہ کی آیت) نازل فرمائی اور انہوں نے بیان کیا اور مجھے بعض ازواج مطہرات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی خبر ملی۔ میں نے ان کے یہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم باز آ جاؤ، ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بدل دے گا۔ بعد میں ازواج مطہرات میں سے ایک کے ہاں گیا تو وہ مجھ سے کہنے لگیں کہ عمر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی ازواج کو اتنی نصیحتیں نہیں کرتے جتنی تم انہیں کرتے رہتے ہو۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «عسى ربه إن طلقكن أن يبدله أزواجا خيرا منكن مسلمات» کوئی تعجب نہ ہونا چاہئیے اگر اس نبی کا رب تمہیں طلاق دلا دے اور دوسری مسلمان بیویاں تم سے بہتر بدل دے۔ آخر آیت تک۔ اور ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، ان سے حمید نے بیان کیا اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا۔

یہ روایت صحیح بخاری کی ہی دوسری روایت سے متصادم ہے جس کے مطابق پردے کا حکم زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے ولیمہ کے بعد آیا کیونکہ بعض لوگ دیر تک بیٹھے رہے- سندا اس میں حمید الطویل مدلس کا عنعنہ ہے

زينب بنت جحش رضی الله عنہا سے شادی کے حوالے سے کتاب جمل من أنساب الأشراف میں بلاذری نے لکھا ہے
ويقال إنه تزوجها رجوعه من غزاة المريسيع، وكانت المريسيع فِي شعبان سنة خمس. ويقال إنه تزوجها في سنة ثلاث
اور کہا جاتا ہے ان سے نکاح کیا غزوۂ مُرَیسیع سے واپس پر اور غزوۂ مُرَیسیع شعبان سن ٥ ہجری میں ہوا اور کہا جاتا ہے سن 3 ہجری میں کیا

سوره الاحزاب کی ابتدائی آیات میں ہی پہلے زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کا حکم ہے –
زینب بنت جحش سے نکاح کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعوت دی جس میں بعض حضرات زیادہ دیر رہے اور رسول الله نے ان کو جانے کا بھی نہیں کہا – صحیح بخاری کی روایت کے مطابق
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذِهِ الآيَةِ: آيَةِ الحِجَابِ ” لَمَّا أُهْدِيَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ مَعَهُ فِي البَيْتِ صَنَعَ طَعَامًا وَدَعَا القَوْمَ، فَقَعَدُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ ثُمَّ يَرْجِعُ، وَهُمْ قُعُودٌ يَتَحَدَّثُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ} [الأحزاب: 53] إِلَى قَوْلِهِ {مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [الأحزاب: 53] فَضُرِبَ الحِجَابُ وَقَامَ القَوْمُ ”
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب گئے تو دیکھا گھر میں لوگ ہیں پس آپ کو حیا آئی اور آپ چلے گئے اور الله نے حجاب کی آیت نازل کی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ

السندی کہتے ہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن 3 ہجری میں نکاح کیا
زينب بنت جحش، أمُّ المؤمنين رضي الله عنها، هي أَسَدِيَّةٌ، تزوَّجها النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سنة ثلاث
غزوة الأحزاب ، غزوة بني المصطلق سے پہلے ہوا کیونکہ سن ٥ میں غزوة بني المصطلق ہوا تھا
لہذا امہات المومنین کو پردے کے جو احکام سوره الاحزاب میں دیے گئے وہ سن 3 میں دیے گئے ہیں

یہ روایت قرآن سے بھی موافقت نہیں رکھتی جس میں سورہ بقرہ میں مدینہ میں بتایا گیا کہ ابراہیم کو حکم دیا گیا تھا

وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى

مدینہ سے  مکہ جا کر  طواف  کی ضرورت صلح حدیبیہ تک نہیں ہوئی تھی لہذا یہ ممکن ہی نہیں  ہے کہ عمر نے اس حوالے سے کوئی مشورہ دیا ہو – مقام ابراہیم کو مصلی کرنے کا حکم تو ابراہیم سے چلا آ رہا تھا

المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخلص از  محمد بن عبد الرحمن بن العباس بن عبد الرحمن بن زكريا البغدادي المخَلِّص (المتوفى: 393هـ) میں ہے

حدثنا يحيى بنُ محمدٍ: حدثنا العلاءُ بنُ سالمٍ أبوالحسنِ: حدثنا حفصُ بنُ عمرَ الرازيُّ، عن قرةَ بنِ خالدٍ، عن حميدٍ الطويلِ، عن أنسٍ قالَ: قالَ عمرُ بنُ الخطابِ:وافقتُ ربِّي عزَّ وجلَّ في ثلاثٍ أو وافَقَني في ثلاثٍ، قلتُ: يا رسولَ اللهِ، هذا مقامُ أَبينا إبراهيمَ لو اتخَذْناه مُصلَّى، فنزلتْ: {وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125] وقلتُ: يا رسولَ اللهِ، لو اتخَذتَ حجاباً، فأَنزلَ اللهُ عزَّ وجلَّ آيةَ الحجابِ، وقلتُ لنسائِهِ: لتُطعْنَ رسولَ اللهِ أو ليُبدلنَّه اللهُ عزَّ وجلَّ أزواجاً خيراً مِنكن، فأَنزلَ اللهُ عزَّ وجلَّ: {عَسَى رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ} الآية [التحريم: 5] (1) .

قالَ ابنُ صاعدٍ: وهذا (2) حديثٌ غريبٌ عن قرةَ، ما سمعْناهُ إلا مِنه.

ابنُ صاعد نے کہا اس حدیث میں غرابت ہے قرہ سے – یہ ہم نے نہیں سنی سوائے اس سے

اس کی سند میں بھی حمید الطویل مدلس ہیں

مسند ابو داود طیالسی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” وَافَقْتُ رَبِّي [ص:47] عَزَّ وَجَلَّ فِي أَرْبَعٍ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ صَلَّيْتَ خَلْفَ الْمَقَامِ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125] وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ ضَرَبْتَ عَلَى نِسَائِكَ الْحِجَابَ فَإِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [الأحزاب: 53] ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ} [المؤمنون: 12] الْآيَةَ، فَلَمَّا نَزَلَتْ قُلْتُ أَنَا: تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ فَنَزَلَتْ {فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ} [المؤمنون: 14] وَدَخَلْتُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُنَّ: لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيُبْدِلَنَّهُ اللَّهُ بِأَزْوَاجٍ خَيْرٍ مِنْكُنَّ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ {عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ} [التحريم: 5] الْآيَةَ “

سن میں  عَلِيُّ بنُ زَيْدِ بنِ جُدْعَانَ التَّيْمِيُّ ضعیف ہے

الغرض یہ روایات صحیح اسناد سے نہیں – متن قرآن و تاریخ سے متصادم ہے – اور یہ روایت حدیث ساریہ کی طرح غالی اہل سنت کی روایات ہیں

اہل تشیع کا قول : ائمہ محدث ہیں

الکافی از کلینی میں ہے

https://app.box.com/s/9wh9cnvak35vuirl7rsumv7b92km6ha3

اس   تفصیل سے یہ جدول بنا

اس کی دلیل صحیح مسلم میں ہے

حديث:1603و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَکَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَی الضَّوْئَ سَبْعَ سِنِينَ وَلَا يَرَی شَيْئًا وَثَمَانَ سِنِينَ يُوحَی إِلَيْهِ وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًاترجمہ :  اسحاق بن ابراہیم، حنظلی روح حماد بن سلمہ عمار بن ابی عمار حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ   میں پندرہ سال قیام پذیر رہے –  سات سالوں تک  آپ صرف  آواز سنتے   اور روشنی دیکھتے رہے اور  آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی چیز  (یعنی فرشتہ یا معجزہ)نہ دیکھا  –   اس  کے بعد   مکہ میں  صرف  آٹھ سال ان پر   وحی آئی –  آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا۔

البانی نے مختصر صحیح مسلم میں درست  کہا   هذه رواية شاذة

اس روایت میں عمار بن ابی عمار نے اپنا   رافضی عقیدہ پیش کیا ہے کہ   سات سال تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم صرف   نچلے درجہ کے ایک نبی تھے  جس کا درجہ  امام جتنا ہے – اس میں    نفس پر الوحی اتی ہے  لیکن   فرشتہ بیداری میں نہیں   دیکھا  جا سکتا

سنن الصغیر بیہقی میں ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ، فِي جَامِعِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، أَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ، قَالَ:  «أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ بَعْدَ خَدِيجَةَ وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ أَوْ سِتَّ عَشْرَةَ سَنَةً» قُلْتُ: وَهَذَا صَحِيحٌ عَلَى مَا رَوَى عَمَّارُ بْنُ أَبِي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:  «أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، عَشْرَةَ سَنَةً يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَى الضَّوْءَ سَبْعَ سِنِينَ وَلَا يَرَى شَيْئًا، وَثَمَانِ سِنِينَ يُوحَى إِلَيْهِ، وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًا» وَعَلَى مَا رُوِيَ فِي أَشْهَرِ الرِّوَايَاتِ أَنَّ عَلِيًّا قُتِلَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً، فَيَكُونُ إِسْلَامُهُ بَعْدَ سَبْعِ سِنِينَ وَهُوَ بَعْدَ نُزُولُ الْوَحْي فَمَكَثَ بَعْدَ الْإِسْلَامِ ثَمَانِيًا وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَعَاشَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ سَنَةً، فَيَكُونُ يَوْمَ أَسْلَمَ ابْنَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً كَمَا قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَإِلَى مِثْلِ رِوَايَةِ عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ذَهَبَ الْحَسَنُ وَذَلِكَ فِيمَا

بیہقی نے کہا مشہور ہے کہ علی کا قتل ہوا تو وہ ٦٣ سال کے تھے پس ان کا اسلام لانا سات سال بعد بعثت النبوی ہوا پھر وہ اسلام میں رہے ٨ سال مکہ میں اور ١٠ سال مدینہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ٣٠ سال زندہ رہے پس وہ اسلام لانے کے وقت ١٥ سال کے تھے جیسا حسن بصری کا قول ہےاور عمار کا قول ہے

بیہقی  کے حساب کتاب کے مطابق علی  بعثت نبوی کے سات سال بعد  ایمان لائے –  اس دوران رسول الله فرشتوں کو نہیں بلکہ روشنی دیکھ رہے تھے آوازیں سن رہے تھے – اس طرح عمار کے مطابق جب علی  بھی میدان میں آ گئے تو نبی محمد سے رسول الله بن گئے

شرح أصول الكافي – مولي محمد صالح المازندراني – ج ٦ – الصفحة ٦٦

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/1179_شرح-أصول-الكافي-مولي-محمد-صالح-المازندراني-ج-٦/الصفحة_66

باب أن الأئمة (عليهم السلام) محدثون مفهمون * الأصل:
1 – محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن الحجال، عن القاسم بن محمد، عن عبيد بن زرارة قال: أرسل أبو جعفر (عليه السلام) إلى زرارة أن يعلم الحكم بن عتيبة أن أوصياء محمد عليه وعليهم السلام محدثون.

 امام ابو جعفر نے  زرارة  کے پاس بھیجا کہ حکم بن عتيبة جان لے کہ محمد علیہ السلام کے وصی محدث ہیں

محمد، عن أحمد بن محمد، عن ابن محبوب، عن جميل بن صالح، عن زياد بن سوقة، عن الحكم بن عتيبة قال: دخلت على علي بن الحسين (عليهما السلام) يوما فقال: يا حكم هل تدري الآية التي كان علي بن أبي طالب (عليه السلام) يعرف قاتله بها ويعرف بها الأمور العظام التي كان يحدث بها الناس؟ قال الحكم: فقلت في نفسي: قد وقعت على علم من علم علي بن الحسين، أعلم بذلك تلك الأمور العظام، قال: فقلت: لا والله لا أعلم، قال: ثم قلت: الآية تخبرني بها يا ابن رسول الله؟
قال: هو والله قول الله عز ذكره: (وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي (ولا محدث)) وكان علي بن أبي طالب (عليه السلام) محدثا

الحكم بن عتيبة نے کہا علي بن الحسين (عليهما السلام) ) کے پاس داخل ہوا پوچھا کیا علی اپنے قاتل کو جانتے تھے ؟ … علي بن الحسين (عليهما السلام) نے کہا ان کا ذکر قرآن میں ہے 

(وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي (ولا محدث)

اور یہ علی بن ابی طالب ہیں

اسی شرح میں لکھا ہے

 الشرح:
قوله (وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي – ولا محدث -) دل على أن قوله ولا محدث كان من تتمة الآية وهم أسقطوها،

قول وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي – ولا محدث دلالت کرتا ہے کہ محدث کا لفظ آیت میں تھا لیکن وہ سقط ہوا

الغرض اہل سنت کے پوشیدہ رافضی عمار بن ابی عمار نے نبی کو پہلے محدث پھر رسول قرار دیا اور پھر انہوں  نے  عمر رضی اللہ عنہ  کو محدث قرار دیا -دوسری طرف اہل تشیع نے علی اور تمام اوصیا یعنی ائمہ کو محدث قرار دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ   دونوں فرقوں میں غلو  شروع سے تھا

مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی

امام مسلم صحيح المسلم بَابُ الْأَمْرِ بِتَسْوِيَةِ الْقَبْرِ  میں روایت بیان کرتے ہیں کہ

عن أبي الهياج الأسدي قال

قَالَ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ»

أبي الهياج الأسدي کہتے ہیں کہ مجھ سے عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ  نے کہا: کیا میں تم کو اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کے لئے    رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے مجھے  بھیجا؟ کوئی تصویر نہ چھوڑوں جس کو مٹا دوں اور کوئی قبر جس کو برابر نہ کر دوں

امت میں اسی شرک کے خوف کی وجہ سے عائشہ رضی  الله تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی تدفین حجرہ میں کی گئی (صحیح البخاری

شیعوں کی کتاب   کی روایت ہے کہ صفحہ 528 الكافي از الكليني – ج 6

عدة من أصحابنا ، عن سهل بن زياد ، عن جعفر بن محمد الأشعري ، عن ابن القداح

عن أبي عبد الله عليه السلام قال : قال أمير المؤمنين عليه السلام بعثني رسول الله صلى الله عليه وآله في هدم القبور وكسر الصور

أبي عبد الله عليه السلام بیان کرتے ہیں کہ  أمير المؤمنين (علی) عليه السلام  کہتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وآله نے مجھے بھیجا کہ قبروں کو منہدم کر دوں اور تصویریں توڑ دوں

یہی بات وسائل الشيعة (الإسلامية) از الحر العاملي ج ٢ میں اور جامع أحاديث الشيعة لسيد البروجردي ج ٣  بیان ہوئی ہے

گنبد الخضراء کو ایک اسلامی سمبل سمجھا جانے لگا ہے حالانکہ اس کا دین میں کوئی مقام نہیں

ڈاکٹر عثمانی نے مزار یا میلے میں لکھا تھا

مکمل اقتباس وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى از علي بن عبد الله بن أحمد الحسني الشافعي، نور الدين أبو الحسن السمهودي (المتوفى: 911هـ) میں ہے
القبة الزرقاء
أما القبة المذكورة فاعلم أنه لم يكن قبل حريق المسجد الشريف الأول وما بعده على الحجرة الشريفة قبة، بل كان حول ما يوازي حجرة النبي صلّى الله عليه وسلّم في سطح المسجد حظير مقدار نصف قامة مبنيا بالآجر تمييزا للحجرة الشريفة عن بقية سطح المسجد، كما ذكره ابن النجار وغيره، واتمر ذلك إلى سنة ثمان وسبعين وستمائة في أيام الملك المنصور قلاوون الصالحى، فعملت تلك القبة، وهي مربعة من أسفلها مثمنة من أعلاها بأخشاب أقيمت على رؤوس
السواري، وسمر عليها ألواح من خشب، ومن فوقها ألواح الرصاص، وفيها طاقة إذا أبصر الشخص منها رأى سقف المسجد الأسفل الذي فيه الطابق، وعليه المشمع المتقدم ذكره، وحول هذه القبة على سقف المسجد ألواح رصاص مفروشة فيما قرب منها، ويحيط به وبالقبة درابزين من الخشب جعل مكان الحظير الآجر، وتحته أيضا بين السقفين شباك خشب يحكيه محيط بالسقف الذي فيه الطابق، وعليه المشمع المتقدم ذكره، ولم أر في كلام مؤرخي المدينة تعرض لمن تولى عمل هذه القبة.
ورأيت في «الطالع السعيد الجامع أسماء الفضلاء والرواة بأعلى الصعيد» في ترجمة الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي الربعي ناظر قوص أنه بنى على الضريح النبوي هذه القبة المذكورة، قال: وقصد خيرا وتحصيل ثواب، وقال بعضهم: أساء الأدب بعلو النجارين ودق الحطب، قال: وفي تلك السنة وقع بينه وبين بعض الولاة كلام، فوصل مرسوم بضرب الكمال، فضرب، فكان من يقول إنه أساء الأدب [يقول:] إن هذا مجازاة له، وصادره الأمير علم الدين الشجاعي، وخرب داره، وأخذ رخامها وخزائنها، ويقال: إنهم بالمدرسة المنصورية اه.
قبه الزرقاء نیلا گنبد – جہاں تک اس گنبد کا تعلق ہے تو جان لو کہ مسجد شریف میں آگ لگنے سے پہلے یہ نہ تھا اور اس کے بعد بھی حجرہ شریفہ پر کوئی گنبد نہ تھا ، بلکہ حجرہ النبی کو باقی مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے ادھے قد کی مقدار ایک منڈھیر بنی ہوئی تھی سطح مسجد پر جیسا ابن النجار اور دیگر نے ذکر کیا ہے اور یہ منڈھیر الملك المنصور قلاوون الصالحى کے ایام سن ٦٧٨ ھ تک باقی رہی -پس الملك المنصور قلاوون الصالحى نے اس گنبد کو بنایا اور یہ نیچے سے چوکور تھا اوپر سے آٹھ پرتوں میں تھا، اصلا لکڑی کا تھا اور اس پر لیڈ کی دھات کی پرتین لگی ہوئی تھیں اور اس میں (کھڑکی یا ) طاق تھا اس میں سے کوئی جھانکتا تو نیچے مسجد کی چھت پر نظر پڑتی اور اس گنبد کے گرد مسجد کی چھت پر بھی لیڈ کی پرت تھی اور یہ پرتین اس پر پھیلی ہوئی تھی
اور گنبد کے گرد اس مقام پر جہاں مٹی کی انٹین تھیں، لکڑی کا ہتھا (ہنڈریل) بھی تھا اور ان سب کے نیچے دو چھتوں کے درمیان (یعنی مسجد النبی کی چھت اور حجرہ مطہرہ کی چھت) ایک کھڑکی ہے لکڑی کی … اور مجھ کو مدینہ کے کسی مورخ کے کلام میں نہیں ملا کہ اس نے متولییوں کے تعمیر کردہ اس گنبد پر کسی اور کے تعرض کا ذکر کیا ہو – میں نے الطالع السعيد الجامع أسماء الفضلاء والرواة بأعلى الصعيد میں الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي الربعي ناظر قوص کے ترجمہ میں دیکھا کہ اس نے الضريح (یعنی حجرہ کے گرد جالی ) پر اس قبہ کو بنایا اور کہا کہ یہ بھلائی کا قصد و ارادہ ہے اور ثواب حاصل کرنا ہے – اس پر بعض نے کہا اس تعمیر میں بے ادبی ہے کہ بڑھئی کا کام کرنے والوں کو حجرہ سے اوپر کیا جائے اور ان کے ہتھوڑے کی آواز بے ادبی ہے -کہا اسی سال الكمال أحمد بن البرهان اور لوگوں کا اس پر کلام (بحث و مباحثہ) ہوا اور پھر (مملوک امراء کی طرف سے ) حکم ملا کہ الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي کو کوڑے لگائے جائیں – الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي کو کوڑے لگے- پس اس پر بعض کہتے یہ اس بے ادبی کی وجہ سے سب ہوا یا کہتے یہ اس کے عمل کی جزا ہے اور یہ حکم الأمير علم الدين الشجاعي نے صادر کیا اور انہوں نے الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي کا گھر برباد کیا اورگھر پر لگے سنگ مرمر کو اکھاڑ دیا اور اس کے خزانے کو لیا اور کہتے ہیں اب یہ سب مدرسہ المنصوریہ میں ہے

لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس قبہ کی تعمیر سے مسجد النبی میں شور ہو گا اور بڑھئی حجرہ کے اوپر چلے جائیں گے  یہ بے ادبی ہے ، لیکن الکمال احمد نے نہیں سنا اور پھر بھی تعمیر کی- بعد میں عوامی بحث کو ختم کرنے مملوک حاکم نے اس امیر کو معزول کر دیا اور سزا الگ دی جبکہ یہ سارا عمل ان کے علم  میں تھا اور انہوں نے ہونے دیا –  افسوس  آج  لوگ اس گنبد کو سبز رنگ  کرنے اس پر چڑھتے  ہیں پھر کئی سال تک  سال سعودی توسیعی پلان و  تعمیرات کی وجہ سے مسجد النبی کی زمین   لرزتی رہی ہے

فصول من تاريخ المدينة المنورة  جو علي حافظ کی کتاب ہے

اور  شركة المدينة للطباعة والنشر نے اس کو سن  ١٤١٧ ھ  میں چھاپا ہے اسکے مطابق

لم تكن على الحجرة المطهرة قبة، وكان في سطح المسجد على ما يوازي الحجرة حظير من الآجر بمقدار نصف قامة تمييزاً للحجرة عن بقية سطح المسجد.  والسلطان قلاوون الصالحي هو أول من أحدث على الحجرة الشريفة قبة، فقد عملها سنَة 678 هـ، مربَّعة من أسفلها، مثمنة من أعلاها بأخشاب، أقيمت على رؤوس السواري المحيطة بالحجرة، وسمَّر عليها ألواحاً من الخشب، وصفَّحها بألواح الرصاص، وجعل محل حظير الآجر حظيراً من خشب.  وجددت القبة زمن الناصر حسن بن محمد قلاوون، ثم اختلت ألواح الرصاص عن موضعها، وجددت، وأحكمت أيام الأشرف شعبان بن حسين بن محمد سنة 765 هـ، وحصل بها خلل، وأصلحت زمن السلطان قايتباي سنة 881هـ.  وقد احترقت المقصورة والقبة في حريق المسجد النبوي الثاني سنة 886 هـ، وفي عهد السلطان قايتباي سنة 887هـ جددت القبة، وأسست لها دعائم عظيمة في أرض المسجد النبوي، وبنيت بالآجر بارتفاع متناه،….بعد ما تم بناء القبة بالصورة الموضحة: تشققت من أعاليها، ولما لم يُجدِ الترميم فيها: أمر السلطان قايتباي بهدم أعاليها، وأعيدت محكمة البناء بالجبس الأبيض، فتمت محكمةً، متقنةً سنة 892 هـ.  وفي سنة 1253هـ صدر أمر السلطان عبد الحميد العثماني بصبغ القبة المذكورة باللون الأخضر، وهو أول من صبغ القبة بالأخضر، ثم لم يزل يجدد صبغها بالأخضر كلما احتاجت لذلك إلى يومنا هذا.  وسميت بالقبة الخضراء بعد صبغها بالأخضر، وكانت تعرف بالبيضاء، والفيحاء، والزرقاء” انتهى.

حجرہ مطهرہ پر کوئی گنبد نہ تھا، اور حجرہ مطهرہ  کو باقی مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے سطح مسجد سے آدھے قد کی مقدار تک ایک منڈھیر بنی ہوئی تھی. اور سلطان قلاوون الصالحي وہ پہلا شخص ہے جس نے حجرہ مطهرہ پر  سن 678 هـ (بمطابق 1279ء میں آج سے ٧٣٤ سال پہلے)،  میں گنبد بنایا، جو نیچے سے چکور تھا ، اوپر سے آٹھ حصوں میں تھا جو لکڑی کےتھے. … پھر اس کی الناصر حسن بن محمد قلاوون کے زمانے میں تجدید ہوئی. .. پھر سن 765 هـ،  میں الأشرف شعبان بن حسين بن محمد کے زمانے میں  پھر اس میں خرابی ہوئی اور السلطان قايتباي  کے دور میں سن  881هـ میں اس کی اصلاح ہوئی.   پھر سن 886 هـ میں اور السلطان قايتباي  کے دور میں مسجد النبی میں آگ میں گنبد جل گیا. اور سن 887هـ  میں اور السلطان قايتباي ہی  کے دور میں اس کو دوبارہ بنایا گیا…. سن 892 ھ میں اس کو سفید رنگ کیا گیا …  سن 1253هـ  میں  السلطان عبد الحميد العثماني نے حکم دیا اور اس کو موجودہ شکل میں  سبز رنگ دیا گیا. … اور یہ گنبد البيضاء (سفید)، الفيحاء ، والزرقاء (نیلا) کے ناموں سے بھی مشھور رہا

سعودی عرب کے مفتی عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) اپنے  فتویٰ میں  کہتے ہیں جو کتاب فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى میں چھپاہے  اور اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء نے چھاپا ہے

لأن بناء أولئك الناس القبة على قبره صلى الله عليه وسلم حرام يأثم فاعله

ان لوگوں کا قبر نبی صلى الله عليه وسلم پر گنبد بنانا حرام کام تھا اس کا گناہ اس کے بنانے والوں کے سرہے

محمد صالح المنجد  کتاب   القسم العربي من موقع (الإسلام، سؤال وجواب) میں کہتے ہیں کہ

وقد أنكر أهل العلم المحققين – قديماً وحديثاً – بناء تلك القبة، وتلوينها، وكل ذلك لما يعلمونه من سد الشريعة لأبواب كثيرة خشية الوقوع في الشرك.

قدیم محققین اہل علم نے شرک کے دروازون کو روکنے کے لیے اس گنبد  کے بنانے کا رد کیا ہے

بيان الحكم في القبة الخضراء على قبره عليه الصلاة والسلام : نبی صلی الله علیہ وسلم  کی قبر پر گنبد الخضراء کا حکم میں  سعودی عرب کے مفتی  عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ)   اپنے فتویٰ جو کتاب فتاوى نور على الدرب ج ٢ ص ٣٣٢  میں چھپا ہے  میں کہتے ہیں کہ

لا شك أنه غلط منه، وجهل منه، ولم يكن هذا في عهد النبي – صلى الله عليه وسلم – ولا في عهد أصحابه ولا في عهد القرون المفضلة، وإنما حدث في القرون المتأخرة التي كثر فيها الجهل، وقل فيها العلم وكثرت فيها البدع، فلا ينبغي أن يغتر بذلك

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غلطی ہے اور جھل ہے، اور یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں نہ تھا، نہ ہی صحابہ کے دور میں تھا ، نہ ہی قرون اولی میں تھا، اور بے شک اس کو بعد میں آنے والے زمانے میں بنایا گیا جس میں جھل کی کثرت تھی اور علم کی کمی تھی اور بدعت کی کثرت تھی پس یہ جائز نہیں کہ اس سے دھوکہ کھایا جائے

ج٢ ص ٣٣٩ مزید کہتے ہیں

وأما هذه القبة فهي موضوعة متأخرة من جهل بعض الأمراء، فإذا أزيلت فلا بأس بذلك، بل هذا حق لكن قد لا يتحمل هذا بعض الجهلة، وقد يظنون بمن أزالها بأنه يس على حق، وأنه مبغض للنبي عليه الصلاة والسلام،

اور یہ جو گنبد ہے تو یہ بعد میں انے والوں بعض امراء کے جھل کی وجہ سے بنا، اگر اس کو گرایا جائے تو کوئی برائی نہیں، بلکہ یہی حق ہے لیکن  کچھ جاہل لوگ ایسا نہیں لیتے، اور گمان کرتے ہیں کہ اس کے ہٹانے کو حق نہیں سمجھتے  اور اس کو النبي عليه الصلاة والسلام سے نفرت کا اظھار سمجھتے ہیں

مزید کہتے ہیں

وإنما تركت من أجل خوف القالة والفتنة

اور بےشک اس کو (جھلاء کی) بکواس اور فتنہ کے خوف سے چھوڑ دیا گیاہے

سوال یہ ہے کہ  اس گنبد کو رنگ کیوں کیا جاتا ہے

FullSizeRender

ان پر تو یہ صادق آتا ہے

لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (63

آخر ان کے احبار اور ربی کیوں ان کو گناہ کی بات سے نہیں روکتے اور حرام کھاتے ہیں بہت برا ہے جو یہ کرتے ہیں

غیر مقلدین کی محبوب شخصیت ابن تیمیہ (المتوفى: 728هـ)  کی ، سلطان قلاوون الصالحي کے دور کے بعد وفات ہوئی لیکن جہاں موصوف نے اور قبوں (گںبدوں) کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور قبر رسول کی زیارت کے غرض سے کیے جانے والے سفر کو بدعت کہا وہاں اس گنبد پر ایک لفظ نہ کہا

ان کے ہونہار شاگرد  ابن قیّم  (المتوفى: 751هـ ) نے بھی کچھ نہ کہا اور یہی پالیسی اب تک چلی آ رہی ہے

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

کہا جاتا ہے شروع میں وہابی علماء  اس گنبد کو گرانا چاہیتے تھے کہ برصغیر کے علماء کا ایک وفد عرب گیا وہاں بحث میں اس حدیث کو دلیل بنایا گیا

صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحيح بخاري: کتاب: حج کے مسائل کا بيان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کي بناءکا بيان)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبي نے بيان کيا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے بيان کيا، ان سے ابن شہاب نے بيان کيا، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن محمد بن ابي بکر نے انہيں خبردي، انہيں عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے خبردي اور انہيں نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي پاک بيوي حضرت عائشہ صديقہ رضي اللہ عنہا نے کہ آنحضور صلي اللہ نے ان سے فرمايا کہ تجھے معلوم ہے جب تيري قوم نے کعبہ کي تعمير کي تو بنياد ابراہيم کو چھوڑ ديا تھا ميں نے عرض کيا يارسول اللہ ! پھر آپ بنياد ابراہيم پر اس کو کيوں نہيں بنا ديتے؟ آپ نے فرمايا کہ اگر تمہاري قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزديک نہ ہوتا تو ميں بے شک ايسا کرديتا عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے کہا کہ اگر عائشہ صديقہ رضي اللہ عنہا نے يہ بات رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے سني ہے ( اور يقينا حضرت عائشہ رضي اللہ عنہ سچي ہيں ) تو ميں سمجھتا ہو ں يہي وجہ تھي جو نبي صلي اللہ عليہ وسلم حطيم سے متصل جو ديواروں کے کونے ہيں ان کو نہيں چومتے تھے کيونکہ خانہ کعبہ ابراہيمي بنيادوں پر پورا نہ ہواتھا

صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مَخْرَمَةَ ح وَحَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِى بَكْرِ بْنِ أَبِى قُحَافَةَ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ – أَوْ قَالَ بِكُفْرٍ – لأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالأَرْضِ وَلأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ
عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ اگر تمہاری قوم عہد جاہلیت کے قریب نہ ہوتی یا کہا کفر کے تو میں کعبہ کا خزانہ الله کی راہ میں صدقه کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین کے پاس کرتا کہ اس میں جانے کے لئے کوئی پتھر (بطور سیڑھی کے) استعمال نہیں کرتا

سند ميں عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ( المتوفی ٦٣ ھ واقعہ حرہ) مجہول ہے- صحيح بخاري کي ايک روايت ميں سند ميں عبد الله بن محمد بن أبي بكر الصديق ہے جن کي متقدمين ميں کوئي توثيق نہيں کرتا صرف ابن حبان نے ثقہ قرار ديا ہے – راقم کے علم ميں ان کي صرف تعمير کعبہ پر ايک روايت ذخيرہ کتب ميں ہے- اس راوي کو مجہول الحال کے درجہ پر رکھنا چاہيے

يہ کيسے ممکن ہے کہ رسول الله نے دين ميں کچھ عام اصحاب مہاجرین و انصار سے چھپا ديا ہو – پھر خود عائشہ رضي الله عنہا کا قول ہے کہ جس نے يہ کہا کہ اپ صلي الله عليہ وسلم نے دين کي کوئي بات چھپا دي اس نے جھوٹ باندھا

وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ شَيئاً مِمَا أنْزِلَ إِليهِ مِنَ الوَحْي فَقَدْ كَذَبَ
اور جس نے يہ کہا کہ جو اپ صلي الله عليہ وسلم پر نازل ہوا الوحي ميں سے اس کو چھپا ديا اس نے کذب کہا 

راقم تعمیر کعبہ والی  روايت کومبہم قرار دیتا ہے کہ يہ روايت سننے سمجھنے ميں راويوں کو کوئي غلطي ہوئي ہے خود عائشہ رضي الله عنہا کا قول اس کے خلاف کہ نبي صلي الله عليہ وسلم نے کچھ نہيں چھپايا جبکہ روايت کہہ رہي ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس تعمیر کی بات امت پر چھپا دی

وہابی علماء کا موقف گنبد پربدلتا رہتا ہے اب وہ اس گنبد کو بچانا چاہتے ہیں

فرحت ہاشمی وہابی عالمہ کا کہنا ہے کہ گنبد خضراء  مسجد النبی کا حصہ ہے جبکہ یہ دعوی غلط  ہے  – گنبد خضراء قبر النبی کا گنبد ہے نہ کہ مسجد النبی کا اور قبر النبی حجرہ عائشہ میں ہے جو کبھی بھی مسجد النبی کا حصہ نہیں رہی

تاریخ سے معلوم ہے کہ مسجد النبی میں اگ لگی اور اس کی چھت جل گئی یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم جن کے جسد اطہر میں فرقوں کے مطابق ہر وقت روح مطہر موجود ہوتی ہے ان کے اوپر موجود چھت جل رہی تھی  لیکن انہوں نے روکا نہیں- کیا یہ ان فرقوں کے عقائد کا تضاد نہیں  !راقم کہتا ہے  اس  اگ کو الله کی جانب سے بھیجا گیا لیکن امت اس اشارہ غیبی کو نہ سمجھ سکی

وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى از السمهودي (المتوفى: 911هـ) میں ہے

قال المؤرخون: احترق المسجد النبوي ليلة الجمعة أول شهر رمضان من سنة أربع وخمسين وستمائة في أول الليل،

مورخ کہتے ہیں کہ مسجد النبی میں جمعہ کی رات رمضان کی پہلی رات اگ لگی سن ٦٥٤ ھ میں

قال المؤرخون: ثم دبت النار في السقف بسرعة آخذة قبله، وأعجلت الناس عن إطفائها بعد أن نزل أمير المدينة فاجتمع معه غالب أهل المدينة فلم يقدروا على قطعها، وما كان إلا أقل من القليل حتى استولى الحريق على جميع سقف المسجد الشريف واحترق جميعه حتى لم تبق خشبة واحدة.

،مورخین کہتے ہیں اگ مسجد کی چھت پر پھیل گئی اور اس نے قبلہ کو بھی پکڑ لیا اور لوگوں نے اس کو بجھانے کی جلدی کی …. لیکن اس پر قادر نہ  ہوئے سوائے تھوڑے کے اور تمام مسجد کی چھت اس اگ کی لپیٹ میں آ گئی – سب جل گیا حتی کہ ایک لکڑی بھی نہ بچی

غور کریں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے جھوٹوں نے خبر دی کہ وہ اپنے  جسد کو بچانے کے لئے – بادشاہ کے خواب میں آئے لیکن اس لگنے والی اگ کی خبر اب انہوں نے کسی کو پیشگی نہ دی-  یہ واقعہ سن ٥٥٧ ھ کا ہے یہ اصلا نور الدین زنگی المتوفي ٥٦٩ ھ کا خود ساختہ خوف تھا کہ عیسائی جسد اطہر کو چرا لیں گے جبکہ جب وہ سرنگ سے وہاں پہنچتے تو تین اجسام پاتے اس میں سے کون سا نبی کا ہے اور کون سا عمر و ابو بکر کا ہے وہ معلوم نہیں کر سکتے تھے- نور الدین کو سیاسی محاذ پر سلطان ایوبی سے خطرہ تھا – نور الدین اور صلاح الدین میں اختلافات ہو گئے تھے اور ایوبی نے صلیبی جنگوں میں شرکت بھی چھوڑ دی تھی یہاں تک کہ نور الدین کی وفات کے بعد صلاح الدین نے اس کی بیوہ سے شادی کر لی اور نورالدین کے بیٹے کا صلاح الدین نے تختہ الٹ دیا

علی حافظ نے ذکر کیا کہ مسجد میں دوسری بار بھی اگ لگی

 وقد احترقت المقصورة والقبة في حريق المسجد النبوي الثاني سنة 886 هـ،

جس میں مقصورہ اور گنبد بھی جل گیا

مسجد النبی میں اگ ٦٥٤  اور ھ٨٨٦  میں لگی یعنی نور الدین والے واقعہ کے سالوں بعد

 پہلی اگ میں صرف چھت جلی لیکن دوسری میں گنبد تک جل گیا افسوس اس کو پھر بھی نہ سمجھا گیا اور اس پر ایک نیا گنبد بنا دیا گیا

فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى؟

قرآن کہتا ہے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بهَا من سُلْطَان

کیا تم نے اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ کو دیکھا؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو صرف چند نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں، الله کی طرف سے ان پر کوئی سند نہیں اتری

اللات طائف میں، العُزَّى مکہ میں اور مَنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں

الكلبي (المتوفى: 204هـ) کی کتاب الاصنام میں ہے

عرب طواف میں پکارتے

وَاللاتِ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الأُخْرَى … فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شفاعتهن لَتُرْتَجَى

اور اللاتِ اور الْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ

یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے

کتاب غریب الحدیث از ابن الجوزی کے مطابق

تِلْكَ الغرانيق الْعلَا قَالَ ابْن الْأَعرَابِي الغرانيق الذُّكُور من الطير
وَاحِدهَا غرنوق وغرنيق وَكَانُوا يدعونَ أَن الْأَصْنَام تشفع لَهُم فشبهت بالطيور الَّتِي ترْتَفع إِلَى السَّمَاء وَيجوز أَن تكون الغرانيق جمع الغرانق وَهُوَ الْحسن

یہ تو بلند غرانیق ہیں – ابن الاعرابی کہتے ہیں غرانیق سے مراد نر پرندے ہیں جن کا واحد غرنوق ہے اور غرنيق ہے یہ مشرکین ان ( دیویوں) کو اس نام سے اس لئے پکارتے تھے کیونکہ یہ بت ان کے لئے شفاعت کرتے اور(نر) پرندے بن کر جاتے جو آسمان میں بلند ہوتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حسن ہو

تاج العروس اور غریب الحدیث از ابن قتیبہ میں کہا گیا ہے کہ غرانیق سے مراد

طيور الماء طويلة العنق

پانی کے پرندے ہیں جن کی طویل گردن ہوتی ہے

اردو میں ان کو بگلا کہتے ہیں مشرکین نے فرشتوں کو بگلے بنا دیا اور پھر ان کو دیوی کہا

تفسیر بغوی میں سوره الحج کی تفسیر میں لکھا ہے
[سورة الحج (22) : الآيات 52 الى 53] وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آياتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ (53)
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ، الْآيَةَ.
«1467» قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْمُفَسِّرِينَ: لَمَّا رَأَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَلِّي قَوْمِهِ عَنْهُ وَشَقَّ عَلَيْهِ مَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ عَمَّا جَاءَهُمْ بِهِ مِنَ اللَّهِ تَمَنَّى فِي نَفْسِهِ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنَ اللَّهِ مَا يُقَارِبُ بَيْنَهُ
وَبَيْنَ قَوْمِهِ لِحِرْصِهِ عَلَى إِيمَانِهِمْ، فكان يوما في مجلس لقريش فأنزل الله تعالى سورة والنجم فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ: أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَناةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى (20) [النجم: 19- 20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ بِمَا كَانَ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ وَيَتَمَنَّاهُ: تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى، فَلَمَّا سَمِعَتْ قُرَيْشٌ ذَلِكَ فَرِحُوا بِهِ وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِرَاءَتِهِ، فَقَرَأَ السُّورَةَ كُلَّهَا وَسَجَدَ فِي آخِرِ السُّورَةِ فَسَجَدَ الْمُسْلِمُونَ بِسُجُودِهِ وَسَجَدَ جَمِيعُ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَلَمْ يَبْقَ فِي الْمَسْجِدِ مُؤْمِنٌ وَلَا كَافِرٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَأَبُو أُحَيْحَةَ سَعِيدُ بْنُ العاصِ فَإِنَّهُمَا أَخَذَا حَفْنَةً مِنَ الْبَطْحَاءِ وَرَفَعَاهَا إِلَى جَبْهَتَيْهِمَا وَسَجَدَا عَلَيْهَا لِأَنَّهُمَا كَانَا شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَلَمْ يَسْتَطِيعَا السُّجُودَ، وَتَفَرَّقَتْ قُرَيْشٌ وَقَدْ سَرَّهُمْ مَا سَمِعُوا مِنْ ذِكْرِ آلِهَتِهِمْ وَيَقُولُونَ قَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدٌ آلِهَتَنَا بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ، وَقَالُوا قَدْ عَرَفْنَا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَيَخْلُقُ وَيَرْزُقُ وَلَكِنَّ آلِهَتَنَا هذه تشفع لنا عنده، فإن جعل لها محمد نَصِيبًا فَنَحْنُ مَعَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَاذَا صَنَعْتَ لَقَدْ تَلَوْتَ عَلَى النَّاسِ مَا لَمْ آتِكَ بِهِ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَحَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزْنًا شَدِيدًا وَخَافَ من الله خوفا كبيرا [1] فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ يُعَزِّيهِ وَكَانَ بِهِ رَحِيمًا، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَنْ كَانَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَلَغَهُمْ سُجُودُ قُرَيْشٍ. وَقِيلَ: [قد] [2] أَسْلَمَتْ قُرَيْشٌ وَأَهْلُ مَكَّةَ فَرَجَعَ أَكْثَرُهُمْ إِلَى عَشَائِرِهِمْ، وَقَالُوا: هُمْ أَحَبُّ إِلَيْنَا حَتَّى إِذَا دَنَوْا مِنْ مَكَّةَ بَلَغَهُمْ أَنَّ الَّذِي كَانُوا تُحَدَّثُوا بِهِ [3] مِنْ إِسْلَامِ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ بَاطِلًا فَلَمْ يَدْخُلْ أَحَدٌ إِلَّا بِجِوَارٍ أَوْ مُسْتَخْفِيًا فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَالَتْ قُرَيْشٌ: نَدِمَ مُحَمَّدٌ عَلَى مَا ذَكَرَ مِنْ مَنْزِلَةِ آلِهَتِنَا عِنْدَ اللَّهِ فَغَيَّرَ ذَلِكَ وَكَانَ الْحَرْفَانِ اللَّذَانِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَا فِي فَمِ كُلِّ مُشْرِكٍ فَازْدَادُوا شَرًّا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ، وَشِدَّةً عَلَى مَنْ أَسْلَمَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَهُوَ الَّذِي يَأْتِيهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ عَيَانًا، وَلَا نَبِيٍّ، وَهُوَ الَّذِي تَكُونُ نُبُوَّتُهُ إِلْهَامًا أو مناما، فكل رَسُولٍ نَبِيٌّ، وَلَيْسَ كُلُّ نَبِيٍّ رَسُولًا. إِلَّا إِذَا تَمَنَّى، قَالَ بَعْضُهُمْ: أَيْ: أَحَبَّ شَيْئًا وَاشْتَهَاهُ وحدّث به نفسه مما لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ في أمنيته يعني مُرَادِهِ. وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِذَا حَدَّثَ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي حديثه ما وجد إِلَيْهِ سَبِيلًا، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا تَمَنَّى أَنْ يُؤْمِنَ بِهِ قومه ولم يتمنى ذَلِكَ نَبِيٌّ إِلَّا أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ مَا يَرْضَى بِهِ قَوْمُهُ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ.
عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ چاہت تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے افراٴیتم اللات و العزیٰ و مناة الثالثة الاخریٰ تو شیطان نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی ﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو آپ صلی الله علیہ وسلم بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو رحم آیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾
لنک
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=51&surano=22&ayano=52

یہ واقعہ اپنے اضطراب کے ساتھ کئی اور تفاسیر میں بھی بیان ہوا ہے مثلا
تفسير مقاتل بن سليمان المتوفی ١٥٠ ھ
تفسير يحيى بن سلام المتوفی ٢٠٠ ھ
تفسیر الطبری ٣١٠ ھ
تفسیر ابن أبي زَمَنِين المتوفی ٣٩٩ ھ
تفسیر الثعلبي، أبو إسحاق المتوفى ٤٢٧ھ
تفسیر بغوی المتوفی ٥١٦ ھ

ان آیات کے الفاظ عربوں میں مشهور تھے اور یہ دیویوں کا بھجن تھے
فَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى وَإِنَّهَا لِمَنَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى
یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے
لہذا یہ کوئی ایسی آیات نہ تھی جو مشرکین نہ سنتے ہوں

کیا واقعہ غرانیق ہوا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے غلط الفاظ ادا ہوئے

ابن كثير الدمشقي نے اور الألوسي اس واقعہ کا انکار کیا اور ابن حجر المصري نے اس کا استقرار کیا ہے کہ یہ ہوا ہے اور

ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی اصل تھا جس پر البانی نے ابن حجر عسقلانی پر جرح کی ہے

ابن تیمیہ نے اس کی تاویل کی ہے اپنے فتاوی ج ١٠ ص ٢٩١ میں کہتے ہیں
قَالَ هَذَا أَلْقَاهُ الشَّيْطَانُ فِي مَسَامِعِهِمْ وَلَمْ يَلْفِظْ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ شیطان کا القا تھا مشرکین کے کانوں پر اور یہ رسول الله کے الفاظ نہ تھے

الذھبی نے سير أعلام النبلاء ج 1 ص 149 پر اس کا ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی ہے

الزمخشري معتزلی نے الکشاف میں اس کو بیان کیا ہے کوئی جرح نہیں کی

دكتور عمر عبد السلام التدمري تاريخ ألإسلام از الذھبی پر اپنی تعلیق میں لکھتے ہیں
وقال الحافظ البيهقي في دلائل النبوّة 2/ 62: هذه القصة غير ثابتة من جهة النقل. وبيّن جرح رواتها وطعن حملة العلم فيهم. وفي «البحر» أنّ هذه القصة سئل عنها محمد بن إسحاق صاحب «السيرة» فقال: هذا من وضع الزنادقة. وقال أبو منصور الماتريديّ: الصّواب أنّ قوله «تلك الغرانيق إلخ» من جملة إيحاء الشيطان إلى أوليائه من الزّنادقة، والرسالة بريئة من هذه الرواية.
وقال القاضي عياض في الشفاء 2/ 28: يكفيك أنّ هذا الحديث لم يخرجه أحد من أهل الصّحة، ولا رواه ثقة بسند سليم متصل، مع ضعف نقلته، واضطراب رواياته، وانقطاع إسناده، واختلاف كلماته.
وقد فصّل القاضي عياض عدم صحّة هذه الرواية من عدّة وجوه يحسن مراجعتها. في كتابه الشفاء 2/ 116- 123، وانظر تفسير القرطبي 12/ 82، والنويري في نهاية الأرب 16/ 235- 241.
بیہقی نے دلائل النبوه میں کہا ہے یہ قصہ غیر ثابت ہے نقلی لحاظ سے اور البحر از أبو حيان میں ہے کہ ابن اسحاق سے اس قصہ پر سوال ہوا تو کہا یہ زنادقه کا گھڑا ہوا ہے اور ابو منصور ماتریدی کہتے ہیں ٹھیک یہ قول ہے کہ تلک الغرانیق کا قول شیطان کی اپنے اولیاء پر وحی ہے اور قاضی عیاض کہتے ہیں یہی کافی ہے کہ اہل صحت میں سے کسی نے اس کی تخریج نہیں کی نہ اس کے راوی متصل سند ہیں ثقاہت کے ساتھ پھر انکا نقل میں کمزور ہونا ہے اور روایات کا اضطراب ہے اور اسناد میں انقطاع ہے اور کلمات کا اختلاف ہے انتھی

اس پورے قصے کو محمد بن قيس بن مخرمة اور محمد بن کعب سے محمد بن السائب بن بشر الکلبی المتوفی ١٤٦ ھ منسوب کرتا ہے اسی طرح أبي العالية البصرى المتوفی ٩٣ ھ، السدی کوفی مَولَى قَيس بْن مَخرَمَة المتوفی ١٢٧ ھ ، قتادہ بصری المتوفی ١١٨ ھ نے بھی اس پر تبصرے کیے ہیں اس کے علاوہ اس کو عثمان بن الأسود مکی المتوفی ١٥٠ھ ، عن سعيد بن جبير المتوفی ٩٥ ھ ، عن ابن عباس کی سند سے بھی بیان کیا گیا ہے مثلا اسباب النزول الواحدی میں اور ابن مردويه میں
اسی طرح أبي بشر جعفر بن إياس بصری المتوفی ١٢٦ ھ کی سند سے یہ سعید بن جبیر کا مرسل قول ہے
لہذا سب سے پہلے اس واقعہ کا ذکر بصریوں مثلا رفيع بْن مهران بصري المعروف بأبي العالية الرياحي المتوفی ٩٠ یا ٩٣ ھ نے مرسل روایت کیا ہے اور قتادہ البصری المتوفی ١١٨ھ نے روایت کیا ہے – قتادہ خود بھی أَبُو الْعَالِيَةِ البصری کے شاگرد ہیں دونوں مدلس ہیں -ایک طرف تو بصرہ میں اس کو قتادہ بیان کرتے ہیں دوسری طرف مکہ میں سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ بھی ابن عباس سے اس کو روایت کرتے ہیں- یعنی لگ بھگ سن ٨٠ ھ کے بعد اس قصہ کا دور شروع ہوا اور اس کا گڑھ بصرہ تھا وہاں سے یہ مکہ پہنچا اور اس کو ابن عباس رضی الله سے منسوب کیا گیا ہے

کتاب المعرفۃ والتاریخ: 2/148 از الفسوی کے مطابق شعبہ نے کہا
لم يسمع قتادة من أبي العالية إلا ثلاثة أشياء. قلت ليحيى عدها، قال قول على رضي الله عنه القضاه ثلاثة، وحديث: لا صلاه بعد العصر، وحديث يونس بن متى.
قتادہ نے ابی العالیہ سے صرف تین چیزیں سنیں میں نے یحیی سے کہا ان کو گن دیجیے کہا علی رضی الله عنہ کا قول فیصلوں کے بارے میں اور حدیث کہ عصر کے بعد نماز نہیں اور حدیث یونس بن متی
یعنی بصرہ میں اس روایت کا منبع قتادہ ہوئے جو اس کا ذکر کرتے ہیں یہ سخت مدلس تھے اور روایت جس سے سن لیں اس کا نام بعض اوقات نہیں لیتے
امام یحیی بن معین نے فرمایا: “لم يلق سَعِيد بن جبير، ولا مجاهدا ولا سُلَيْمان بن يسار” قتادہ نے سعید بن جبیر، مجاہد، اور سلیمان بن یسار میں سے کسی کو نہیں پایا۔ سوالات ابن الجنید: ص

یعنی سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ کو یہ روایت قتادہ سے نہیں ملی

اس کی دو سندیں ہیں
أَبِي بِشْرٍ بصری ( جعفر بن إياس، وهو ابن أبي وَحْشِيَّة المتوفی ١٢٤ ھ )، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
المعجم الكبير از طبرانی اور مسند البزار
اور
عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ المکی المتوفی ١٤٧ ھ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
یعنی ایک بصری اور ایک مکی نے اس روایت کو سعید بن جبیر سے منسوب کیا ہے اس میں جعفر بن ایاس کو محدثین ثقہ کہتے ہیں اور عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ کو بھی ثقہ کہتے ہیں
یعنی محدثین کے مطابق اس روایت کا بار سعید بن جبیر نے اٹھا لیا کیونکہ اس کی سند میں ثقات ہیں ابن عباس رضی الله عنہ کے شاگردوں میں اس کو صرف سعید بن جبیر ہی روایت کرتے ہیں
حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو قتل کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید یہ روایت ہے

روایت پسندی صحیح نہیں ہے سنن دارمی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا يُخَالِفُ هَذَا، قَالَ: «لَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَرِّضُ فِيهِ بِكِتَابِ اللَّهِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مِنْكَ»
سعید بن جبیر نے ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہہ دیا : قرآن میں اس کےخلاف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا : میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو اس کے خلاف اللہ کی کتاب پیش کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر جانتے تھے۔

آج علماء یہی کہہ رہے ہیں کہ غرانیق والی روایت باوجود یہ کہ سعید بن جبیر سے ثقات نے روایت کی ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس کے خلاف موجود ہے کہ رسول الله سے غلطی نہیں ہو سکتی لہٰذا راقم کہتا ہے اس قسم کی روایات کا بار راویوں پر ہے
– علماء جو اس روایت کے خلاف ہیں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قتادہ یا سعید بن جبیر نے اس قسم کی فضول روایت کیوں بیان کیں- سوره حج کی آیات مدنی ہیں اور سوره النجم مکی سوره ہے ظاہر ہے اتنے طویل عرصے کے بعد اس پر تبصرہ کوئی معنی نہیں رکھتا

وہابی اور غیر مقلد  علماء کی بدلتی آراء

البانی کی رائے

البانی نے نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق میں اس کی اسناد کو جمع کیا اور کہا ہے کہ تمام ضعیف ہیں بلکہ موضوع ہیں

محمد بن عبد الوہاب النجدی کی رائے
مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم میں مؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) لکھتے ہیں
قصته صلى الله عليه وسلم معهم – لما قرأ سورة النجم بحضرتهم – فلما وصل إلى قوله: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم: 19 – 20] (1) ألقى الشيطان في تلاوته: تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى.
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے سورہ النجم کی قرات قریش کی موجودگی میں کی جب اس آیت پر آئے
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے تلاوت میں القا کیا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى

محمد بن عبد الوھاب النجدی نے اس واقعہ کو درجہ قبولیت دیا

زهير الشاويش کی رائے

تيسير العزيز الحميد في شرح كتاب التوحيد الذى هو حق الله على العبيد از سليمان بن عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب (المتوفى: 1233هـ) مع تحقیق زهير الشاويش میں بھی اس کا ذکر کیا
فلما أنزل الله سورة النجم قال: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم] ألقى الشيطان عندها كلمات حين ذكر الطواغيت فقال: تلك الغرانيق العلا، وإن
شفاعتهن لترتجى ….. وهي قصة مشهورة صحيحة رويت عن ابن عباس من طرق بعضها صحيح. ورويت عن جماعة من التابعين بأسانيد صحيحة منهم عروة وسعيد بن جبير وأبو العالية وأبو بكر بن عبد الرحمن وعكرمة، والضحاك وقتادة، ومحمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي وغيرهم. وذكرها أيضًا أهل السير وغيرها وأصلها في “الصحيحين”.

پس جب اللہ تعالی نے سورہ نجم نازل کی فرمایا

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے کلمات تلاوت میں القا کیے جن میں طاغوتوں کا ذکر تھا کہا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى
اور یہ قصہ صحیح و مشہور ہے ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے جن میں سے بعض صحیح ہیں اور تابعین کی ایک جماعت نے صحیح اسناد کے ساتھ اس کو عروہ بن زبیر اور سعید بن جبیر اور ابو العالیہ اور ابو بکر بن عبد الرحمان اور عکرمہ اور ضحاک اور قتادہ سے محمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي سے روایت کیا ہے اور دیگر اہل سیرت نے بھی روایت کا ہے اس کی اصل صحیحین میں موجود ہے

أسامة بن عطايا العتيبي کی رائے

عصر حاضر کے ایک وہابی عالم أسامة بن عطايا العتيبي نے عبد الوہاب نجدی کا دفاع کیا اور کتاب تيسير العزيز الحميد میں مقدمة التحقيق میں الحاشية ص 30 پر لکھا

انْتَقَدَ بَعْضُ العُلَمَاءِ إِيْرَادَ شَيْخِ الإسْلامِ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِالوَهَّابِ لِقِصَّةِ الغَرَانِيقِ فِي مُخْتَصَرِهِ لِلسِّيْرَةِ، وَهَذَا فِي حَقِيْقَتِهِ انْتِقَادٌ غَيْرُ صَحِيْحٍ، فَقِصَّةُ الغَرَانِيقِ ثَابِتَةٌ، تَلَقَّتْهَا الأُمَّةُ بِالقَبُولِ، وَقَدْ صَحَّحَهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ مِنْهُمُ: الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) وَغَيْرُهُمْ كَثِيْرٌ جِدًّا

بعض علماء نے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب پر مختصر سیرہ میں قصہ غرانیق کا ذکر کرنے پر تنقید کی ہے اور حقیقت میں یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ قصہ غرانیق ثابت ہے اس کو امت نے تلقیہا بالقبول کا درجہ دیا ہے اور ایک جماعت نے اس کو صحیح کہا ہے جن میں ہیں
الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) اور دیگر بہت سے

مفتی بن باز کی رائے

مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز ج 8 ص 301  پر ایک سوال کے جواب میں فتوی میں عبد العزيز بن باز کہتے ہیں کہ قصہ غرانیق پر مرسل احادیث ہیں لیکن

إلقاء الشيطان في قراءته صلى الله عليه وسلم في آيات النجم وهي قوله: {أفرأيتم اللات والعزى} الآيات، شيء ثابت بنص الآية في سورة الحج

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سورہ نجم کی  قرات  میں  شیطان کا القا ہونا یہ سورہ حج کی آیت سے ثابت ہے

معلوم ہوا کہ  روایت پسند واپس اس قصہ کو صحیح کہہ رہے ہیں

شیعہ علماء کی آراء

تفسير مجمع البيان میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

روي عن ابن عباس و غيره أن النبي (صلى الله عليهوآلهوسلّم) لما تلا سورة و النجم و بلغ إلى قوله أ فرأيتم اللات و العزى و منات الثالثة الأخرى ألقى الشيطان في تلاوته تلك الغرانيق العلى و إن شفاعتهن لترجى فسر بذلك المشركون فلما انتهى إلى السجدة سجد المسلمون و سجد أيضا المشركون لما سمعوا من ذكر آلهتهم بما أعجبهم فهذا الخبر أن صح محمول على أنه كان يتلو القرآن فلما بلغ إلى هذا الموضع و ذكر أسماء آلهتهم و قد علموا من عادته (صلى الله عليه وآله وسلّم) أنه كان يعيبها قال بعض الحاضرين من الكافرين تلك الغرانيق العلى و ألقى ذلك في تلاوته توهم أن ذلك من القرآن فأضافه الله سبحانه إلى الشيطان لأنه إنما حصل بإغوائه و وسوسته و هذا أورده المرتضى قدس الله روحه في كتاب التنزيه و هو قول الناصر للحق من أئمة الزيدية و هو وجه حسن في تأويله

اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ محمول ہے کہ اس مقام پر آ کر رسول اللہ  صلى الله عليه وآله وسلّم  حاضرین کفار میں سے بعض کو عیب دیا اور اس کو تلاوت میں بولا تو (لوگوں کو ) وہم ہو گیا کہ یہ قرآن میں اضافہ ہے

اسی بات کو تفسير نور الثقلين میں بیان کیا گیا ہے

مجلسی کی رائے

مجلسی نے بحار الأنوار میں  لکھا

كذب الله تعالى في الحال، و ذلك لا يقول به مسلم

یہ روایت  اس حال میں اللہ پر جھوٹ ہے اور ایسا مسلم نہیں کہہ سکتا

=====================================================

راقم کہتا ہے اس روایت کو شیعہ راوی الکلبی نے بھی روایت کیا ہے

تفسیر یحیی بن سلام میں ہے

وَفِي تَفْسِيرِ الْكَلْبِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلامُ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَالْمُشْرِكُونَ جُلُوسٌ فَقَرَأَ: {وَالنَّجْمِ} [النجم: 1] ، فَحَدَّثَ نَفْسَهُ حَتَّى إِذَا بَلَغَ: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى {20} } [النجم: 19-20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ: فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

تفسیر کلبی میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں نماز پڑھتے تھے اور مشرک پیٹھے ہوئے تھے پس قرات کی و النجم انہوں نے اپنے آپ سے کہا جب یہاں پر پہنچے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى

شیطان نے القا کر دیا ان کی زبان پر

فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

معلوم ہوا کہ روافض شروع سے اس قصہ کو قبول کر رہے تھے  طبرسی کے دور یعنی چھٹی صدی  تک اس کی تاویل کرتے چلے آ رہے تھے

کائنات کا منظر

عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ایک شخص بنام عبدللہ بن سبا اسلام میں ظاہر ہوا اس نے دین میں شیعہ عقیدے کی بنیاد ڈالی اور نئی تشریحات کو فروغ دیا

الشھرستانی  اپنی کتاب الملل و النحل ص ٥٠ پر لکھتے ہیں

 السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.

السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ:  تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو  مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا ۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی ( اللہ ان سے راضی ہو) ۔ اور وہ (ابن سبا)  ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی  کی امامت کے لئے بات پھیلآئی ۔ اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے اور انتقال نہیں کر گئے ۔ اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی ۔ اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ  زمین ظلم سے بھری ہے۔ اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا۔ اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے ۔ اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں

ابن اثیر الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٨ پر لکھتے ہیں

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم

 عبداللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا  پھربصرة پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ھو سکا.  اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس ائے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے. اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا. پھر اس نے کہا : ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمّد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا. اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے  لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو

 ابن سبا کو اسلام میں موت و حیات کے عقیدے کا پتا تھا  جس کے مطابق زندگی دو دفعہ ہے اور موت بھی دو دفعہ. اس کی بنیاد  قرآن کی آیات ہیں

سورہ غافر میں ہے

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ

وہ (کافر) کہیں  گےاے رب تو نے دو زندگیاں دیں اور دو موتیں دیں ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پس یہاں (جہنم ) سے نکلنے کا کوئی رستہ ہے

ابن سبا نے اس عقیدے پر حملہ کیا اور ان آیات کو رجعت کی طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں جب خلفاء کے خلاف خروج ہو گا تو ہم مر بھی گئے تو دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمارے دشمن دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونگے. اس آیت کا شیعہ تفاسیر میں یہی مفھوم لکھا ہے اور اہل سنت جو مفھوم بیان کرتے ہیں وہ شیعہ کے نزدیک اہل سنت کی  عربی کی   غلط سمجھ بوجھ ہے

رجعت کے عقیدہ کو اہل سنت میں استوار کرنے کے لئے دو زندگیوں اور دو موتوں والی آیات کو ذھن سے نکالنا ضروری تھا. اس کے لئے عود روح کی روایت بنائی گئیں کہ ایک دفعہ مردے میں موت کا مفھوم ختم ہو جائے تو پھر میدان صاف ہے. آہستہ آہستہ اہل سنت مردے کے سننے اور مستقبل میں کسی مبارزت طلبی پر قبر سے باہر نکلنے کا عقیدہ اختیار کر ہی لیں گے

 لہذا عود روح  کی روایات شیعہ راویوں  زاذان، المنھال بن عمرو، عدی بن ثابت، عمرو بن ثابت نے اصحاب رسول کی طرف منسوب کیں اور بالاخر یہ راوی کم از کم اس بات میں کامیاب ہوئے کہ دو موتوں اور دو  زندگیوں کا اصول ذہن سے محو ہو گیا

ابن سبا کے فلسفے کی بنیاد اس کے اپنے ذاتی خیالات نہیں تھے بلکہ یہ تمام انبیاء سابقہ سے منسوب اہل کتاب کی کتب میں موجود ہیں- البتہ اہل سنت کے شیعیی راویوں نے اس فلسفے کو روایات میں پررو کر ہم تک مکمل صحت کے ساتھ پہنچا دیا ہے – دوسری طرف الله تعالی کا فیصلہ ہے کہ

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

الله مومنو کو قول ثابت پر دنیا میں اور آخرت میں مضبوط کرے گا اور ظالموں کو گمراہ کرے گا – وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

لہذا الله کا حکم ہوا کہ لوگ گمراہ ہوں اور ابن سبا کے عقیدے کے  پر چارک بن جائیں – زاذان اور المنھال بن عمرو اسی طبقے کے دو راوی ہیں جنہوں نے رجعت کے عقیدے کو استوار کرنے کے لئے مردے میں عذاب قبر کے بہانے سے روح کے پلٹ انے کا ذکر کیا ہے – یعنی ان کے مطابق مومن کی روح اور کافر کی روح دونوں قبر میں آ جاتی ہیں

ابن سبا یمن کا ایک صوفی یہودی تھا وہاں اس کو برھوت کی خبر تھی جو  یہود کے نزدیک جہنم تک جانے کا رستہ ہے اور اس کی تہہ میں سمندر میں ابلیس بیٹھا ہے – برھوت کی خبر سنی سمجھے جانے والے  راویوں نے بھی دی جو لا علم علماء نے قبول کی- اس قسم کے اقوال کعب احبار بھی پھیلا رہا تھا – تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص بن حميد، عن شمر، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار، فقال له ابن عباس: حدِّثني عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ … ) الآية، قال كعب: إن روح الفاجر يصعد بها إلى السماء، فتأبى السماء أن تقبلها، ويُهبط بها إلى الأرض فتأبى الأرض أن تقبلها، فتهبط فتدخل تحت 
سبع أرضين، حتى ينتهي بها إلى سجين، وهو حدّ إبليس، فيخرج لها من سجين من تحت حدّ إبليس، رَقّ فيرقم ويختم ويوضع تحت حدّ إبليس بمعرفتها
شمر نے کہا ابن عباس کعب الاحبار کے پاس پہنچے اس سے کہا الله کے قول پر بیان کرو- کعب نے کہا فاجر کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان اس کو قبول کرنے میں کراہت کرتا ہے اس کو زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے تو زمین کراہت کرتی ہے تو اس کو ساتویں زمین میں داخل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سجین میں جا پہنچتی ہے جو ابلیس کی حد ہے .. وہاں ایک ورقه نکلتا ہے جس میں رقم کیا جاتا ہے اور مہر لگائی جاتی ہے اور رکھا جاتا ہے ابلیس کے قید کے نیچے جاننے کے لئے

اسی سند سے تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص، عن شمر بن عطية، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فسأله، فقال: حدثْنِي عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الأبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ … ) الآية، فقال كعب: إن الروح المؤمنة إذا قُبِضت، صُعد بها، فَفُتحت لها أبواب السماء، وتلقَّتها الملائكة بالبُشرَى، ثم عَرَجُوا معها حتى ينتهوا إلى العرش، 
فيخرج لها من عند العرش فيُرقَم رَقّ، ثم يختم بمعرفتها النجاة بحساب يوم القيامة، وتشهد الملائكة المقرّبون.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے عِلِّيِّينَ سے متعلق پوچھا تو کعب نے کہا مومنوں کی روحیں جب قبض ہوتی ہیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے بشارت دیتے ہیں پھر بلند ہوتی ہیں یھاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں پس عرش کے پاس ایک ورقه ہے جس میں رقم کرتے ہیں پھر مہر لگتی ہے معرفت کے لئے کہ قیامت میں حساب سے نجات ہو گی اور مقرب فرشتے گواہ بنتے ہیں

دونوں کی سند ایک ہے ضعیف ہے
میزان کے مطابق حفص بن حميد، أبو عبيد القمى کو ابن المديني: مجهول کہتے ہیں
دوسرے راوی يعقوب بن عبد الله القمي کو الدارقطني ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا ابن نمير، قال: ثنا الأعمش، قال: ثنا المنهال بن عمرو، عن زاذان أبي عمرو، عن البراء، قال: (سِجِّينٍ) الأرض السفلى.
منہال بن عمرو نے زاذان سے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا سجین نچلی زمین ہے

 ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں

 والصحيح أن سجِّيناً مأخوذ من السجن، وهو الضيق ….. والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة

اور صحیح بات ہے کہ سجین ماخوذ ہے سجن قید خانہ سے اور یہ تنگ ہے … اور اس کا مقام ساتویں زمین کا وسط کا مرکز ہے

یعنی سجین ارض کا پیندا ہے

معلوم ہوا کہ سجین تک جانے کا راستہ برھوت سے ہے

چلیں آج برھوت کی سیر کریں

ہوائی جہاز سے برھوت کی تصویر

 برھوت کی خبر یمنی  لوگوں نے دی اور   یہ سجین کا رستہ ہے-

برھوت (سرخ نشان) اور  جابیہ (سبز نشان) میں فاصلہ

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

أنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: أنا مُحَمَّدُ بْنُ   هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، قَالَ: نا الرَّبِيعُ، قَالَ: نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: ” تَخْرُجُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، فَتَعْرُجُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهُ فَتَلْقَاهُ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا هَذَا الَّذِي جِئْتُمْ بِهِ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: تَوِّجُوهُ، هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ كَانَ يَعْمَلُ كَيْتَ وَكَيْتَ لِأَحْسَنِ عَمَلٍ لَهُ , قَالَ: فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ، وَحَيَّا مَا جِئْتُمْ بِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ الَّذِي يَصْعَدُ فِيهِ قَوْلُهُ وَعَمَلُهُ، فَيُصْعَدُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ حَتَّى يَأْتِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَهُ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، وَرُوحُ الْكَافِرِ أَنْتَنُ يَعْنِي: مِنَ الْجِيفَةِ وَهُوَ بِوَادِي حَضْرَ مَوْتَ، ثُمَّ أَسْفَلَ الثَّرَى مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ “

ابو موسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو اس میں سےمشک کی سی خوشبو اتی ہے پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تم کیا لے کر آئے ہو ؟ پس فرشتے کہتے ہیں ادھر دیکھو یہ فلاں بن فلاں ہے اس نے ایسا ایسا عمل کیا ہے اچھا – پس فرشتے کہتے ہیں الله تم پر سلامتی کرے اور جو تم لائے ہو اس پر پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں یہاں تک کہ رب تعالی کے پاس جاتے ہیں اور ان کے لئے سورج کی طرح یہ ثبوت ہوتا  ہے   اور کافر کی روح سڑتی ہے یعنی سڑی ہوئی جو حضر الموت کی وادی میں ہے الثری کی تہہ ہیں سات زمین نیچے

اس میں حضر الموت میں وادی کا ذکر ہے جس میں برھوت کا کنواں  ہے لیکن یھاں روایت برھوت کا لفظ نہیں ہے

قارئیں یہ سب پڑھ کر اپ کو اب تک سمجھ آ چکا ہو گا کہ برھوت کو سجین قرار دیا گیا جو یمن میں ایک کنواں ہے جو زمین کی تہہ تک جانے کا رستہ ہے – اب سنن نسائی کی ایک روایت دیکھتے ہیں جس کا ذکر ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے اور اسی روایت کو ابن حبان کہتے کہ برھوت کی خبر ہے

 أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ

صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

یہاں روایت میں خاص باب الارض کا ذکر ہے کہ کفار کی روحیں زمین کے دروازے پر لائی جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو  کفار کی روحوں تک لے جایا جاتا ہے

یہ روایت محدث ابن حبان کے مطابق  برھوت کی ہی خبر ہے

اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور تبصرہ میں وضاحت کی کہ یہ روایت اصل میں برھوت کی خبر ہے  اس کے علاوہ اسی  راوی نے زمین کے دروازے کو بعض اوقات سجین بھی بولا ہے

تہذیب الکمال از المزی میں قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ کے ترجمہ میں اس روایت کے متن میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبُخَارِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الصَّيْدَلانِيُّ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحداد، قال: أَخْبَرَنَا أبو نعيم الْحَافِظُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ أَحْمَدَ: قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ النُّعْمَانِ الشَّيْبَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْقَاسِم بْن الفضل الحداني، عن قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَن أَبِي هُرَيْرة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِحَرِيرَةٍ فِيهَا مَسْكٌ ومِنْ صَنَابِرَ الرَّيْحَانِ وتَسَلُّ رُوحَهُ كما تَسَلُّ الشَّعْرَةَ مِنَ الْعَجِينِ، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً مَرْضِيًّا عَنْكِ، وطُوِيَتْ عَلَيْهِ الْحَرِيرَةُ، ثُمَّ يُبْعَثُ بِهَا إِلَى عِلِّيِّينَ، وإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِمِسْبَحٍ فِيهِ جَمْرٌ فَتَنْزِعُ رُوحَهُ انْتِزَاعًا شَدِيدًا، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى هَوَانٍ وعَذَابٍ، فَإِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وضِعَت عَلَى تِلْكَ الْجَمْرةِ، فَإِنَّ لَهَا نَشِيشًا فَيُطْوَى عَلَيْهَا الْمِسْبَحُ ويُذْهَبُ بِهَا إِلَى سِجِّينَ

فرشتے روح کو لے کر سجین جاتے ہیں

سلفی علماء میں ابن رجب اپنی کتاب  أهوال القبور  میں حنابلہ کے لئے لکھتے ہیں

ورجحت طائفة من العلماء أن أرواح الكفار في بئر برهوت منهم القاضي أبو يعلى من أصحابنا في كتابه المعتمد وهو مخالف لنص أحمد: أن أرواح الكفار في النار.
ولعل لبئر برهوت اتصالا في جهنم في قعرها كما روي في البحر أن تحته جهنم والله أعلم ويشهد لذلك ما سبق من قول أبي موسى الأشعري: روح الكافر بوادي حضرموت في أسفل الثرى من سبع أرضين.

اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کفار کی روحیں برھوت میں کنواں میں ہیں جن میں قاضی ابو یعلی ہیں ہمارے اصحاب میں سے اپنی کتاب المعتمد  میں اور یہ مخالف ہے نص احمد پر کہ کفار کی روحیں اگ میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ برھوت جہنم سے تہہ میں ملا ہو جیسا کہ روایت ہے کہ سمندر کے لئے کہ اس کے نیچے جہنم ہے و الله اعلم اور اس پر گواہی ہے ابو موسی رضی الله عنہ کے قول کی کہ کافر کی روح حضر الموت کی ایک وادی میں ہے تحت الثری کے پیندے میں ساتویں زمین میں

دامانوی صاحب دین الخالص قسط اول میں لکھتے ہیں

سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں

شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ) کتاب المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري میں لکھتے ہیں کہ

قال شيخ الإسلام ابن حجر وغيره: إن أرواح المؤمنين في عليين، وهو مكان في السماء السابعة تحت العرش وأرواح الكفار في سجين وهو مكان تحت الأرض السابعة، وهو محل إبليس وجنوده.

شیخ الاسلام ابن حجر اور دیگر کہتے ہیں: بے شک مومنین کی ارواح عليين میں ہیں، اور وہ ساتوے آسمان پر عرش کے نیچے ہے اور کفار کی ارواح سجين میں ہیں اور وہ جگہ ساتویں زمین کے نیچے ہے جو ابلیس اور اسکے لشکروں کا مقام ہے

فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں  ہے کہ سجین جہنم کا پتھر ہے

سجیں

ابن تیمیہ : مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢١ میں لکھتے ہیں

 وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرْتَعُ فِي الْجَنَّةِ وَتَأْوِي فِي فِنَاءِ الْعَرْشِ. وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ فِي برهوت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں جنت میں بلند ہوتی ہیں اور عرش تک جاتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

فتوی میں کہتے ہیں

وَإِنَّمَا فِي أَسْفَلِ سَافِلِينَ مَنْ يَكُونُ فِي سِجِّينٍ لَا فِي عِلِّيِّينَ كَمَا قَالَ تَعَالَى {إنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ}

اور اسفل سافلین میں وہ ہے جو سجین میں ہے نہ کہ علیین میں جیسا الله کا قول ہے کہ منافقین اگ کے اسفل میں ہیں

یعنی ابن تیمیہ نے سجین کو مقام قرار دیا

کبری و صغری ملا لیں سجین ابن تیمیہ کے نزدیک برھوت ہوا

عبد الوہاب النجدی اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا

اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

برھوت یمن میں ہے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

یعنی عبد الوھاب النجدی کے مطابق روحیں دنیا میں اتی ہیں کفار کی یمن میں برھوت میں اور مومنوں کی جابیہ شام میں

ان معلومات سے پتا چلا کہ   برھوت ایک  سرنگ ہے جو زمین کی تہہ میں جا رہی ہے بعض  علماء کہتے ہیں وہاں شیطان بیٹھا ہے اور اسی کو سجین کہتے ہیں – علییین ان کے نزدیک آسمان پر ہے ساتوین آسمان پر جہاں اس سے اوپر الله تعالی ہیں- کائنات کا یہ منظر کچھ اس طرح ہے

یہ پہلے آسمان سے سات آسمان تک کا منظر ہے اور نیچے

 

یہ زمین سے اس کی تہہ تک کا منظر ہے

ان کو ایک دوسرے پر رکھیں تو ملتا ہے

 

یہ کائنات کا مکمل منظر ہوا جو علمائے سلف  کی تفاسیر روایات اور فتاوی سے اخذ کیا گیا ہے

راقم کہتا ہے چیزیں اپنی اصل کی طرف پلٹ اتی ہیں

آخر گِل اپني، صرفِ درِ ميکدہ ہوئي
پہنچی وہیں پہ  خاک، جہاں کا خميرتھا ‘

ابن سبا   کوئی  ایک شخصیت نہیں، ایک فکر ہے، ایک فلسفہ ہے، ایک سوچ ہے جو راویوں کے  اذہان میں  سرایت کیے ہوئے ہے – روایات پڑھتے ہوئے  اس کو جاننا ضروری ہے تاکہ اسی قول پر رہ سکیں جو قول ثابت ہے یعنی کلمہ حق یعنی قرآن عظیم

طائفہ منصورہ کیا ہے ؟

 ایک مغالطہ ہے جو  مشہور ہے – لوگ اپنے آپ کو طائفہ منصورہ بھی قرار دیتے ہیں جبکہ اس کی احادیث کے متن میں سخت اضطراب ہے – اس کے فہم پر اصحاب رسول اور محدثین کی آراء بھی متصادم ہیں – راقم اس حوالے سے صرف اصحاب رسول  کے فہم کو درجہ قبولیت دیتا ہے

صحیح مسلم

صحیح بخاری

صحیح مسلم کی ایک  اور  حدیث دیکھئے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزَالُ أَهْلُ الْغَرْبِ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»

سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اہل مغرب حق پر غالب رہیں گے انکو زوال نہ ہو گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو

 ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻭﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ اﻟﺸﺎﻋﺮ، ﻗﺎﻻ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺃﺑﻮ اﻟﺰﺑﻴﺮ، ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ: «ﻻ ﺗﺰاﻝ ﻃﺎﺋﻔﺔ ﻣﻦ ﺃﻣﺘﻲ ﻳﻘﺎﺗﻠﻮﻥ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﻖ ﻇﺎﻫﺮﻳﻦ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ»

ابو زبیر نے کہا کہ جابر رضی الله عنہ سے سنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا ایک گروہ میری امت کا حق پر لڑے گا غالب رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے

بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کو سنا انہوں نے ہم کو خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا الله جس کو خیر دینا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ کا علم دیتا ہے  اور بے شک میں (علم) باٹنے والا ہوں اور الله (علم) عطا کرنے والا ہے اور یہ امت الله کے کام سے نہیں ہٹے گی  الله کے امر پر قائم رہے گی اس کو اس کی مخالفت کرنے والے نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے

روایت کی تاویلات

اسسے مراد محدثین ہیں

اس سے مراد مغرب والے ہیں

یعنی افریقہ والے

اس سے مراد شام والے ہیں

مدینہ و عرب کا شمال

احمد بن حنبل  (241-164ھ)   سے منسوب قول   معرفۃ علوم الحدیث     از   حاکم    ابن البيع (المتوفى: 405هـ) میں  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ بِمِصْرَ، ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، ثنا شُعْبَةُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمُ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ» سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْآدَمِيَّ بِمَكَّةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ هَارُونَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: وَسُئِلَ عَنْ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: «إِنْ لَمْ تَكُنْ هَذِهِ الطَّائِفَةُ الْمَنْصُورَةُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ فَلَا أَدْرِي مَنْ هُمْ

اگر یہ طائفہ منصورہ اہل حدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔

 

امام بخاری خود صحیح میں باب میں لکھتے ہیں

باب قَوْلِ النبيِّ – صلى الله عليه وسلم -: “لاَ تَزَالُ طَائفَةٌ مِنْ أُمَّتي ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”، وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ ایک میری امت میں گروہ زوال کا شکار نہ ہو گا غالب رہیں گے حق پر اور قتال کریں گے اور اس سے مراد اہل علم ہیں

 

کتاب تهذيب الأسماء واللغات از امام النووی میں ہے النووی کہتے ہیں

ففى الصحيحين أن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: “لا تزال طائفة من أمتى ظاهرين على الحق لا يضرهم خذلان من خذلهم” (2) . وجملة العلماء أو جمهورهم على أنهم حملة العلم

اس حدیث سے مراد اہل علم ہیں

 

محقق محمد فؤاد عبد الباقي کتاب المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم میں صحیح مسلم کی تعلیق میں  لکھتے ہیں

قال علي بن المديني المراد بأهل الغرب العرب

امام علی المدینی نے کہ اہل مغرب سے مراد عرب کے مغرب والے ہیں

 

کتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله  کے مطابق امام احمد سے سوال ہوا

وسئل عن: حديث النبي – صلى الله عليه وسلم -: «لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله. وهم على ذلك» .

قال: هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم. كل من قاتل المشركين، فهو على الحق. «سؤالاته» (2041)

حدیث رسول کہ میری امت کا گروہ حق پر غالب رہے گا انکو مخالفین نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا حکم آ جائے تو یہ کون ہیں ؟ امام احمد نے کہا یہ اہل مغرب ہیں جو روم سے قتال کر رہے ہیں جو بھی مشرکین سے قتال کرے وہ حق پر ہے

 

 

کتاب  مناقب الشام وأهله (ص 79) میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

لغة أهل مدينته في “أهل الغرب” أنهم أهل الشام

لغت اہل مدینہ میں اہل غرب سے مراد اہل شام ہیں

 

محدثین تو عرب میں یمن میں ایران میں عراق میں شام میں سب مقامات پر تھے

گویا ان محدثین کے نزدیک اس روایت کا تعلق کسی خاص ملک سے نہیں تھا

احمد اور علی المدینی کا قول ہے کہ یہ عرب کے مغرب میں روم سے قتال کرنے والے مسلمان ہیں یعنی مصر و لیبیا والے

معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ ان کے دور  کے اہل شام ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے قریش کی عربی میں گفتگو کی ہے جس میں مغرب سے مراد شمال نہیں ہے – ابن تیمیہ کی بے سروپا نکتہ سنجی کی کوئی حیثیت  نہیں

شام  جزیرہ العرب کے شمال میں ہے – عرب کے مغرب میں افریقہ ہے یعنی مصر سوڈان حبشہ نوبیا وغیرہ- اس  خغرافیائی حقیقت کو صرف نظر کر کے بعض لا علم علماء نے مغرب والی حدیث کو شام سے ملا دیا ہے – اس سے یہ معاملہ اور  الجھ جاتا ہے – الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية  میں سخاوی  لکھتے ہیں

أخرجه أبو يعلى والطبراني في الأوسط من حديث أبي صالح الخولاني عن أبي هريرة رضي الله عنه بلفظ: “لا تزال عصابة من أمتي يقاتلون على أبواب دمشق وعلى أبواب بيت المقدس وما حوله لا يضرهم خذلان من خذلهم”. الحديث – وعند مسلم من حديث أبي عثمان عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه بلفظ: “لا يزال أهل الغرب ظاهرين على الحق حتى تقوم الساعة” وذكر يعقوب بن شيبة عن علي بن المديني: إن المراد بالغرب الدلو، أي العرب بفتحتين، لأنهم أصحابها، لا يستقي بها أحد غيرهم، وقال غيره: المراد بالغرب أهل القوة والاجتهاد في الاجتهاد، يقال: في لسان غَرْب بفتح ثم سكون، أي حدة. قال شيخنا رحمه الله: ويمكن الجمع بين الأخبار، بأن المراد قوم يكونون ببيت المقدس وهي شامية ويستقون بالدلو، ويكون لهم قوة في جهاد العدو، وحدة وجد. انتهى.

اور ابو یعلی  اور طبرانی نے اوسط میں حدیث ابو صالح خولانی کی  ان کی ابو ہریرہ  کی سند سے تخریج کی ہے  جس میں الفاظ ہیں   امت میں ایک گروہ    دمشق کے دروازوں  پر قتال کرتا رہے گا  اور بیت المقدس کے درازوں  پر  اور اس کے گرد  – ان کو  گرانے والے نقصان  نہ دے  پائیں گے –  اور   صحیح مسلم میں    حدیث ہے سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ  عنہ کی  اہل  غرب کو  زوال نہ ہو گا حق پر غالب  رہیں گے یہاں تک کہ قیامت برپا ہو- اور یعقوب بن شیبہ نے امام المدینی    کے حوالے سے ذکر کیا کہ غرب سے مراد   الدلو   (پانی کی ترسیل کرنے والے) ہیں یعنی عرب … کہ وہ  اس کے اصحاب ہیں  ان   سے پانی لیا جاتا ہے   اور دوسروں نے کہا  غرب سے مراد قوت والے ہیں اجتہاد والے – … ہمارے  شیخ   (ابن حجر )  کہتے ہیں    اور ان دونوں روایات  کو اس طرح ملایا جا سکتا ہے کہ اس سے مرد قوم ہے  جو بیت المقدس کی ہے اور یہ شامی ہیں اور دلو سے پانی پلاتے ہیں  اور یہ قوت والے ہیں جہاد میں  اپنے دشمن پر

البانی   الصحيحة (2/ 690) میں لکھتے ہیں

 وأعلم أن المراد بأهل الغرب في هذا الحديث أهل الشام

اور جان لو کہ  اہل غرب سے مراد  اس حدیث میں اہل شام ہیں

راقم کہتا ہے کیسے جان لیں کہ شمال اور مغرب کیا ایک ہیں ؟  سلفی علماء مدینہ کے مشرق میں نجد کو شمال میں عراق سے ملا دیتے ہیں یعنی ان کے نزدیک حدیث نجد میں  مشرق اور شمال ایک ہیں اور یہاں طائفہ منصورہ میں مغرب اور شمال ایک کر رہے ہیں – ان کو علم خغرافیہ پڑھنے کی اشد ضرورت ہے – جس شخص نے سفر کیے ہیں کعبه کی سمت میں نماز پڑھی ہو وہ کیا اس طرح سمتوں میں غلطی کرے گا ؟  یقینا یہ اپنے اپنے مولویوں کی آراء کو بچانا ہے

متضاد آراء

ائمہ
شام میں ایک گروہ

وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ

معاویہ رضی الله عنہ

صحیح مسلم صحیح بخاری

  اہل علم

 

ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”،

وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ

امام بخاری
روم سے قتال کرنے والے –

هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم.

امام احمد
اہل مغرب / اہل حدیث / أهل الغرب العرب

امام علی المدینی

دوسری طرف نیشاپور میں   امام  أَبُو زُرْعَةَ   اور  امام ابو حاتم   دونوں اس روایت کو منکر کہتے تھے- علل  ابن ابی حاتم میں ہے

عَنْ معاوية، عن النبيِّ (ص) قَالَ: لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي … . قَالَ أَبِي: فأنكرتُ ذَلِكَ، وأنكَرَه أَبُو زُرْعَةَ

وأعلمُ أَنَّ الحديثَ مُنكَرٌ  – جان لو یہ حدیث منکر ہے

سوال ہے اہل علم یا محدثین غلبہ میں کب رہے؟    اہل حدیث  یعنی     محدثین بھی اس حدیث کا مصداق نہیں ہیں  –   محدثین  کی تو خوب تذلیل ہوئی – امام احمد کو کوڑے لگے-  امام بخاری کو شہر نکالا ملا کسمہ پرسی میں شہر سے باہر ہلاک ہوئے-  محدثین کی عوام میں کوئی قدر و منزلت نہیں    عوام  نے کبھی   بھی حکومت  کے خلاف  لب کشانی نہیں کی   اور  بنو عباس کی   معتزلی حکومت   محدثین  کی مخالف رہی- محدثین  نے الٹا   عباسی خلفاء  کو  امیر المومنین  کہہ کر ہی مخاطب کیا ہے[1]

اس روایت کے بعض متن میں ہے کہ وہ شام والے ہیں یا کہا قیامت تک ہوں گے-  معلوم  ہے کہ صلیبی نصرانییوں   نے دو سو سال قبضہ شام پر کیا-  انگریر نے قبضہ کیا اور اب اس کے ایک جز پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور باقی پر نصیری فرقے کا قبضہ ہے لہذا یہ روایت قیامت تک کے حوالے سے ہے ہی نہیں-  راقم  کہتا  ہے ا س روایت  کے جس متن میں بھی قیامت کا ذکر ہو اس کی سند میں علت  ملی  ہے-

حقائق کو مد نظر رکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس طائفہ منصورہ کا تعلق بارہ خلفاء سے تھا جو الله کا حکم تھا  کہ  ایمان پھیلے گا اس کے مخالف مشرک و اہل کتاب اس کو پھیلنے سے نہیں روک سکیں گے – اور ان بارہ خلفاء کے ساتھ لڑنے والے طائفہ منصورہ تھے-

شام پر   سن ١٣١  ھ  میں  بنو عباس نے حملہ کیا اس وقت بارہ خلفاء گزر چکے تھے اور   طائفہ منصورہ معدوم ہو چکا تھا-   اس روایت کی شرح  میں    اس کا مصداق  اہل علم یا محدثین کہنا نہایت سطحی بات ہے – ایک گروہ کا ذکر ہے جو حق پر رہے گا اس کے مخالف اس کو نہیں گرا سکیں گے اور ساتھ ہی   دوسری احادیث  میں ہے   بارہ  خلفاء گزریں گے جن کو کوئی نقصان نہ دے سکے گا-  طائفہ منصورہ  اصل میں ان خلفاء کا مددگار گروہ تھا –

یہ خلفاء بیشتر بنو امیہ کے ہوئے جن کے ہمدرد اہل شام تھے اسی بنا پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے بنی کہ یہ اہل شام ہیں جن کو مخالف (اہل کتاب و مشرک ) گرا نہ سکیں گے- صحیح سند سے بخاری کی روایت ہے

طائفہ منصورہ والی روایت کو آجکل   جیسا منہ ویسی بات کی طرح ہر کوئی اس کو اپنے اوپر فٹ کر دیتا ہے

جہادی کہتے ہیں یہ ہمارے لئے ہے

شامی کہتے ہیں ہمارے لئے ہے

فرقہ اہل حدیث کہتے ہیں ہمارے لئے ہے

صوفی کہتے ہیں ہمارے لئے ہے- یاد رہے کہ شام و یروشلم میں انبیاء کی قبروں پر امت معتکف ہے

اگر ہم فی الوقت ابو حاتم اور ابو زرعہ کی رائے اس حدیث پر چھوڑ کر امام بخاری کی صحیح کی حدیث کو لیں تو اس کی ایک تاویل ممکن ہے جس پر متن کو  صحیح سمجھا جا سکتا ہے – صحیح بخاری کی روایت ہے

 حَدَّثَنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کو سنا انہوں نے ہم کو خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا الله جس کو خیر دینا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ کا علم دیتا ہے  اور بے شک میں (علم) باٹنے والا ہوں اور الله (علم) عطا کرنے والا ہے اور یہ امت الله کے کام سے نہیں ہٹے گی  الله کے امر پر قائم رہے گی اس کو اس کی مخالفت کرنے والے نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے

راقم سمجھتا ہے کہ یہ روایت کنڈیشن ہے نہ کہ خبر – یعنی یہ امت غالب رہے گی اس کے مخالف اس کو نقصان نہ دے سکیں گے جب تک یہ امر الله پر قائم رہیں گے-  ایسا ١٢ خلفاء کا دور تھا شام میں – اس کے بعد مسلمانوں کی خلافت کی اینٹ بنو عباس نے بجا دی- اس کے بعد منگولوں نے اس کے بعد انگریزوں نے-   یاد رہے کہ محدثین کے نزدیک عباسی خلفاء صحیح عقیدہ پر نہ تھے-

روایت میں ہے اس امت اپنے مقام سے نہ ہٹے گی یہاں تک کہ الله کا امر آئے  اس میں امر کو قیامت لینے سے مفہوم بدل جاتا ہے-  لیکن اگر امر کو الله کا عذاب کا حکم لیا جائے تو کوئی اشکال نہیں رہتا   یعنی ترجمہ ہو گا

وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

یہ امت اپنے مقام سے نہ ہٹے گی الله کے حکم پر قائم (خلافت کھڑی) رہے گی – اس کے مخالف اس کو نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله (کے عذاب) کا حکم آئے

عذاب  یعنی اغیار  کا امت کے وسائل پر کنٹرول  اور  ان پر جنگوں کا مسلط کرنا  –

 

الغرض معلوم ہو گیا کہ معاویہ رضی الله عنہ نے اس حدیث سے مراد اگر اہل شام لئے ہیں تو وہ وقتی بات تھی قیامت تک اس سے مراد نہیں تھی اور آج حقیقت حال بھی یہی ہے – البتہ فرقوں نے اپنے استحکام کے لئے معاویہ رضی الله عنہ کی بات کو رد کیا مثلا فرقہ اہل حدیث نے  ابن عبدالھادی المقدسی کی کتاب فضائل شام کا ترجمہ کیا تو اس میں اس حدیث کی تعلیق پر ص  ٥١ سے ٥٣  پر لکھا

اس طرح نہایت بے باکی سے معاویہ رضی الله عنہ کے قول  کو رد کیا کہ اس حدیث کا مفہوم عام ہے خاص نہیں ہے

راقم کہتا ہے بقول اھل حدیث  دین میں فہم صحابہ اگر فہم سلف سے ٹکرا جائے تو اصول یہ  ہے کہ فہم صحابہ کو حجت حاصل ہو گی لیکن یہاں وہ خود اس اصول کو توڑ رہے ہیں –  دور معاویہ میں حدیث بیان کرنے والے اس کو سمجھنے والے اصحاب تمام بلاد میں موجود تھے گویا اہل علم ہر مقام پر تھے لیکن پھر بھی معاویہ رضی الله عنہ نے اس حدیث کے مفہوم کو صرف شام پر خاص کیا ہے – لہذا اس کی صرف ایک ہی صحیح تاویل ہے کہ روایت  اصل میں ان بارہ خلفاء سے متعلق ہے جو  پے در پے قریش میں سے بنے اور ان کو ان کے مخالفین زد نہ  پہنچا سکے

صحیح مسلم

 بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ»

وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ وَهُوَ ابْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، ذَكَرَ حَدِيثًا رَوَاهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ أَسْمَعْهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِنْبَرِهِ حَدِيثًا غَيْرَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَلَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ، إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جس کو چاہتا ہے دین کی سمجھ دیتا ہے مسلمانوں میں سے ایک گروہ حق پر قتال کرتا رہے گا اپنے دشمن پر غلبہ رکھے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے

تبصرہ

سند میں جعفر بن برقان  ضعیف ہے

قال ابن خزيمة لا يحتج به اس سے دلیل مت لینا

ذكره العقيلي وأبو القاسم البلخي في جملة «الضعفاء». اس کا ذکر ضعیف راویوں میں کیا گیا ہے

قال الساجي: عنده مناكير اس کے پاس منکر روایات ہیں

 أبو داود: وكان يخطئ على الزهري، وكان أميا

ابو داود نے کہا یہ امی تھا یعنی ان پڑھ تھا

محدثین نے کہا ہے کہ اس کی احادیث جو زہری سے ہوں ان میں غلطی ہوتی ہے

راقم کہتا ہے جو روایت زہری سے نہ ہو اس میں بھی غلطی کرے گا کیونکہ غلطی کرنا کوئی سوئچ نہیں  کہ غیر زہری سے روایت کے وقت بند تھا اور زہری سے روایت کے وقت اون تھا

=============================================================

[1]

صحيح بخاري کی روایت ہے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُهْلِكُ النَّاسَ هَذَا الحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ» قَالَ: مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ

مجھ سے محمد بن عبدالرحيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابومعمر اسماعيل بن ابراہيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابواسامہ نے بيان کيا ، کہا ہم سے شعبہ نے بيان کيا ، ان سے ابوالتياح نے ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہريرہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : اس قريش کا یہ محلہ لوگوں کو ہلاک وبرباد کردے گا ? صحابہ نے عرض کيا : اس وقت کے ليے آپ ہميں کيا حکم کرتے ہيں ؟ نبی صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : کاش لوگ ان سے الگ رہتے ? محمود بن غيلان نے بيان کيا کہ ہم سے ابوداود طيالسي نے بيان کيا ، کہا ہم کو شعبہ نے خبردي ، انہيں ابوالتياح نے ، انہوں نے ابوزرعہ سے سنا

مسند احمد میں امام احمد اس کو منکر کہتے ہیں

حدثنا محمَّد بن جعفر، حدثنا شُعبة، عن أبي التَّيَّاح، قال: سمعت أبا زُرعة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، قال: “يُهلكُ أمتي هذا الحيُّ من قريبٌ”، قالوا: في تأمُرُنا يا رسول الله؟، قال: “لو أن الناس اعتزلوهم”. [قال عبد الله بن أحمد]: وقال  أبي- في مرضه الذي  مات فيه: اضرب على هذا الحديث، فإنه خلافُ الأحاديث عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، يعني قوله: “اسمعوا وأطيعوا واصبروا”.

ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کو یہ محلہ جلد ہی ہلاک کرے گا ہم نے پوچھا آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں اے رسول الله ! فرمایا کاش کہ لوگ ان سے الگ رہتے عبد الله بن احمد کہتے ہیں  میں نے اپنے باپ سے اس حالت مرض میں (اس روایت کے بارے میں) پوچھا جس میں ان کی وفات ہوئی احمد نے کہا اس حدیث کو مارو کیونکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف ہے یعنی سمع و اطاعت کرو اور صبر کرو

 

غدیر خم کا ذکر

علی میں یہ خواہش موجود تھی کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوں جو قدرتی امر ہے اور اس میں وہ منفرد نہیں یہ خواہش سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کو بھی تھی جو خرزج کے سردار تھے
صحیح بخاری ح ٦٢٦٦ میں ہے
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الأَنْصَارِيُّ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ أَحَدَ الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَقَالَ النَّاسُ: يَا أَبَا حَسَنٍ، ” كَيْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللَّهِ بَارِئًا “، فَأَخَذَ بِيَدِهِ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ: أَنْتَ وَاللَّهِ بَعْدَ ثَلاَثٍ عَبْدُ العَصَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْفَ يُتَوَفَّى مِنْ وَجَعِهِ هَذَا، إِنِّي لَأَعْرِفُ وُجُوهَ بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ عِنْدَ المَوْتِ، اذْهَبْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْنَسْأَلْهُ فِيمَنْ هَذَا الأَمْرُ، إِنْ كَانَ فِينَا عَلِمْنَا ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ فِي غَيْرِنَا عَلِمْنَاهُ، فَأَوْصَى بِنَا، فَقَالَ عَلِيٌّ: إِنَّا وَاللَّهِ لَئِنْ سَأَلْنَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَنَاهَا لاَ يُعْطِينَاهَا النَّاسُ بَعْدَهُ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لاَ أَسْأَلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
علی رضی الله عنہ کا ہاتھ پکڑ کر عباس رضی الله عنہ نے فرمایا کہ الله کی قسم، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس بیماری میں وفات پا جائیں گے کیونکہ میں بنو عبدالمطلب کے مرنے والوں کے چہرے پہچانتا ہوں اے علی آؤ چلیں اور رسول اللّہ صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کرلیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد خلیفہ کون ہوگا اگر خلافت ہمارے خاندان میں رہنے والی ہے تو ہمیں علم ہو جائے گا اور اگر کسی دوسرے کے لیے ہوگی تو ہم آپ صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کر لیں گے اور آپ صلی الله علیہ وسلم وصیت کر جائیں گے- علی رضی الله عنہ نے کہا الله کی قسم!اگر ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے خلافت کے بارے میں سوال کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے منع کردیا تو لوگ ہمیں کبھی بھی خلیفہ نہ بنائیں گے میں تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کبھی بھی خلافت کے بارے میں سوال نہ کروں گا

شیعان علی البتہ اس کو ایک نص سمجھتے تھے کہ علی کی خلافت پر نص ہے اور عثمان نے اقتدار غصب کیا ہوا ہے – صحیح بخاری میں ہے کہ یہ خبر ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کو دی گئی کہ رسول الله نے علی کو کیا کچھ خاص وصیت کی تھی- صحیح بخاری میں ہے
الاسود کہتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہا کے پاس لوگوں نے ذکر کیا کہ کیا علی رضی الله عنه کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا کہ آخر کس وقت ان کو یہ وصیت کی؟ میں تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اپنے سینے سے یا گودسے تکیہ لگاۓ ہوے تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پانی مانگا اور میری گود میں جھک پڑے مجھے تو معلوم بھی نہ ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوگی ہے تو بتاؤ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کب وصیت کی؟”

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہیں کی اور وفات النبی کے وقت صرف عائشہ رضی الله عنہا ساتھ تھیں- عائشہ رضی الله عنہا اس انکار وصیت میں منفرد نہیں کسی بھی وصیت کا انکار ابن ابی اوفی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے

ممکن ہے بعض شیعوں  نے  ہارون والی حدیث کو ایک وصیت سمجھا ہو جیسا اہل تشیع کا قول ہے اور اس کو خلافت علی  پر نص سمجھ لیا ہو-

غَزْوَةُ تَبُوكَ سن ٩ ہجری  کے لئے ابن اسحاق سیرت میں لکھتے ہیں

 وَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ، عَلَى أَهْلِهِ، وَأَمَرَهُ بِالْإِقَامَةِ فِيهِمْ، فَأَرْجَفَ بِهِ الْمُنَافِقُونَ، وَقَالُوا: مَا خَلَّفَهُ إلَّا اسْتِثْقَالًا لَهُ، وَتَخَفُّفًا مِنْهُ. فَلَمَّا قَالَ ذَلِكَ الْمُنَافِقُونَ، أَخَذَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ سِلَاحَهُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجُرْفِ  ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، زَعَمَ الْمُنَافِقُونَ أَنَّكَ إنَّمَا خَلَّفَتْنِي أَنَّكَ اسْتَثْقَلْتنِي وَتَخَفَّفَتْ مِنِّي، فَقَالَ: كَذَبُوا، وَلَكِنَّنِي خَلَّفْتُكَ لِمَا تَرَكْتُ وَرَائِي، فَارْجِعْ فَاخْلُفْنِي فِي أَهْلِي وَأَهْلِكَ، أَفَلَا تَرْضَى يَا عَلِيُّ أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، فَرَجَعَ عَلَيَّ إلَى الْمَدِينَةِ، وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَفَرِهِ.قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيٍّ هَذِهِ الْمَقَالَةَ.

 اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو اپنے گھر والوں کے لئے پیچھے چھوڑا تو مناقفوں نے اس پر افواہ پھیلائی اور کہا کہ اس کو اس لئے رکھا ہے کیونکہ اس کے لئے یہ کام بھاری ہے اور یہ کمزور ہے ، پس جب مناقفوں نے یہ بات کی تو علی بن ابی طالب نے اپنا اسلحہ لیا اور رسول الله کے پاس پہنچے اور نبی چٹانوں تک (مدینہ سے باہر) جا چکے تھے علی نے کہا اے نبی الله ! منافق کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے چھوڑا ہے کیونکہ مجھ پر یہ بھاری ہے اور میں اس قابل نہیں ؟ رسول الله نے کہا جھوٹ بولتے ہیں لیکنتم کو بنایا گیا ہے کہ تم میرے پیچھے رہو اور واپس میرے اور اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ، کیا تم راضی نہیں اے علی کہ تمہارا درجہ میرے لئے ایسا ہو جیسا ہارون کا موسی کے لئے تھا؟  خبر دار میرے بعد کوئی نبی نہیں ! پس علی (یہ سن کر) واپس لوٹ گئے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنا سفر جاری رکھا – ابن اسحاق نے کہا مجھ سے مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ نے روایت کیا اس نے إبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ سے اس نے   سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ سے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ سب علی کو کہتے سنا

ابن اسحاق اس کو إبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ سے وہ   سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ سے روایت کرتے ہیں – صحیح بخاری اور صحیح مسلم ، سنن ترمدی، ابن ماجہ ، مسند احمد،  میں مصعب بن سعد بن أبى وقاص اس کو سعد بن أبى وقاص سے روایت کرتے ہیں

پھر صحیح سند سے آیا ہے کہ غدیر خم پر رسول الله نے علی کا خاص ذکر کیا تھا
سن ١٠ ہجری میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کو یمن بھیجا کہ وہاں جائیں اور خمس وصول کریں – علی رضی الله عنہ نے وہاں ایک لونڈی حاصل کی اس سے فائدہ اٹھایا أور لوگوں نے علی کو غسل کرتے دیکھا یعنی علی نے خمس میں سے مال خود لے لیا اور دیگر اصحاب رسول کے نزدیک اس کی تقسیم نبی صلی الله علیہ وسلم کرتے اور علی کو صبر کرنا چاہیے تھا – علی اس وفد کے امیر تھے باقی اصحاب نے اس پر علی سے اختلاف کیا یہاں تک کہ واپسی پر ایک صحابی نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو تمام صورت حال بتا دی جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم نے تبين كي- یہ واقعہ غدیر خم پر ہوا جب نبی صلی الله علیہ وسلم حج سے واپسی پر مدینہ جا رہے تھے اور علی اپنے وفد کے ساتھ اسی مقام پر نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملے
اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ
میں جس کا دوست اس کا علی دوست
یعنی ایک طرح علی رضی الله عنہ کی تعریف کی تاکہ جن اصحاب کو شکایات ہیں وہ جان لیں کہ یمن پر امیر وفد کی حثیت سے اور اہل بیت میں ہونے کی وجہ سے لونڈی لینا علی کے لئے جائز تھا- بریدہ رضی الله عنہ سے رسول الله نے فرمایا کہ تو علی سے بغض نہ رکھ کیونکہ خمس میں اس کا اس سے زیادہ بھی حصہ ہے ! (بخاری)
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ مَنْجُوفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا إِلَى خَالِدٍ لِيَقْبِضَ الخُمُسَ، وَكُنْتُ أُبْغِضُ عَلِيًّا وَقَدِ اغْتَسَلَ، فَقُلْتُ لِخَالِدٍ: أَلاَ تَرَى إِلَى هَذَا، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «يَا بُرَيْدَةُ أَتُبْغِضُ عَلِيًّا؟» فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «لاَ تُبْغِضْهُ فَإِنَّ لَهُ فِي الخُمُسِ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ»
مجھ سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن اسحاق بن ابی اسحاق نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن بھیجا، بیان کیا کہ پھر اس کے بعد ان کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور آپ نے انہیں ہدایت کی کہ خالد کے ساتھیوں سے کہو کہ جو ان میں سے تمہارے ساتھ یمن میں رہنا چاہے وہ تمہارے ساتھ پھر یمن کو لوٹ جائے اور جو وہاں سے واپس آنا چاہے وہ چلا آئے۔ براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جو یمن کو لوٹ گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے غنیمت میں کئی اوقیہ چاندی کے ملے تھے۔
حدیث نمبر: 4350
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ مَنْجُوفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا إِلَى خَالِدٍ لِيَقْبِضَ الْخُمُسَ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ أُبْغِضُ عَلِيًّا وَقَدِ اغْتَسَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لِخَالِدٍ:‏‏‏‏ أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا ؟ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “يَا بُرَيْدَةُ، ‏‏‏‏‏‏أَتُبْغِضُ عَلِيًّا ؟”فَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “لَا تُبْغِضْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ لَهُ فِي الْخُمُسِ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ”.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن سوید بن منجوف نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے اور ان سے ان کے والد (بریدہ بن حصیب) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو (یمن) بھیجا تاکہ غنیمت کے خمس (پانچواں حصہ) کو ان سے لے آئیں۔ مجھے علی رضی اللہ عنہ سے بہت بغض تھا اور میں نے انہیں غسل کرتے دیکھا تھا۔ میں نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا تم دیکھتے ہو علی رضی اللہ عنہ نے کیا کیا (اور ایک لونڈی سے صحبت کی) پھر جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے آپ سے بھی اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا (بریدہ) کیا تمہیں علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بغض ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں، فرمایا علی سے دشمنی نہ رکھنا کیونکہ خمس (غنیمت کے پانچویں حصے) میں اس سے بھی زیادہ حق ہے۔ 

مولا علی سے مراد ہے 

مناقب امام الشافعی میں اس کی تاویل ہے

أخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي، قال: أخبرنا محمد بن محمد بن يعقوب؛ قال: حدثنا العباس بن يوسف الشِّكْلِي (2)، قال: سمعت الربيع بن سليمان، يقول سمعت الشافعي، يقول في معنى قول النبي، صلى الله عليه وسلم، لعلي بن أبي طالب، رضي الله عنه: «من كنت مولاه فعلى مولاه (3)» يعني بذلك وَلاَءَ الإِسلام  وذلك قول الله تعالى: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ

امام شافعی نے کہا مولا سے مراد ہے کہ   ایسا اسلام میں لگاؤ (اطاعت) ہے اور الله کا قول ہے

سوره محمد

یہ اس لئے کہ الله مولی ہے ایمان والوں کا اور کافروں کا کوئی مولی نہیں ہے

قاسم بن سلام غريب الحديث میں کہتے ہیں مولی کا مطلب الْعصبَة (خون کے تعلق سے رشتہ دار) ہے

فَكل وليّ للْإنْسَان هُوَ مَوْلَاهُ مثل الْأَب وَالْأَخ وَابْن الْأَخ والعَم وَابْن الْعم وَمَا وَرَاء ذَلِك من الْعصبَة كلّهم وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَإنِّي خِفْتُ الموَالِي من ورائي}

ہر انسان کا جو وليّ ہے وہ مولاہ ہے جیسے اس کا باپ یا بھائی یا بھتیجا یا چچا یا کزن اور اسی طرح خونی رشتہ والے جیسے الله کا قول ہے کہ زکریا نے کہا  اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں

یعنی مولاہ مطلب بھائی بند

یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا علی میرا کزن میرا بھائی بند ہے اور جس طرح یہ میرا جگری خاندان کا ہے

سادہ الفاظ میں  میں جن رشتہ میں جڑا ہوں اس میں علی بھی جڑا ہے

کتاب المجموع المغيث في غريبي القرآن والحديث از محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبهاني المديني، أبو موسى (المتوفى: 581هـ) کے مطابق

قوله عليه الصلاة والسلام: “مَن كنتُ مَولَاه فَعَلِىٌّ مَوْلاهُ”. (3)

(2 قيل: أي مَن كنتُ أتولّاه فعَلِىٌّ يتولّاه.

والمَولَى على وُجُوهٍ: منها ابنُ العَمّ، قال الله تعالى في قصّةِ زكَرِيّاء عليه الصّلاة والسّلام: {وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي} (1)،

وأنشَدَ: مَوَالِينا إذا افتَقَرُوا إلينا

فإن أثْرَوْا فَليسَ لنا مَوالِ (2)

الثانى: المعتِق؛ ومَصْدَرُه الوَلَايَةُ (3).

والثالث: المُعتَقُ؛ ومَصْدَرُه الوَلَاءُ.

والرابع: المُحِبُ.

كقوله عليه الصّلاة والسَّلام (4): “مُزينَةُ وأسْلَمُ وَجُهَيْنَةُ وغِفَار مَوَالى الله تعالَى ورَسُولِه”

والخَامسُ: الجَارُ، كَما أنشدَ:

هُمُ خلطُونا بالنفوس وأَلْجَئُوا

إلى نَصْرِ مولاهُم مُسَوَّمَةً جُرْدَا

السّادِسُ: الناصِرُ، قال الله تعالى: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا …} (5) الآية.

السَّابع: المأوى، قال الله تعالى: {مَأْوَاكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلَاكُمْ}

وقيل: أي مَن كان يتولاَّنى تولَّاه

کہا جاتا ہے کہ میں نے جس سے دوستی کی اس سے علی نے کی

اور جس نے مجھ سے دوستی کی اس سے علی کی ہوئی

اور مولی کے کئی رخ ہیں یعنی چچا زاد قرآن میں زکریا کے قصہ میں ہے

اس سے مراد آقا ہے جو آزاد کرے

اس سے مراد محبت کرنے والا ہے

اس سے مراد پڑوسی ہے

اس سے مراد مددگار ہے

اس کے مراد ماوی و ملجا ہے

اس کے اور بھی مفہوم ہیں یہ آقا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں سوره النحل ٧٦ میں ہے

ابو ہریرہ رض کی چند احادیث

قرآن کہتا ہے
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ
بلا شبہ ہم جانتے ہیں جو زمین ان کے جسموں میں سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس محفوظ کتاب ہے

سنن ابن ماجہ میں ہے

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ،‏‏‏‏ حدثنا ابو معاوية ،‏‏‏‏ عن الاعمش ،‏‏‏‏ عن ابي صالح ،‏‏‏‏ عن ابي هريرة ،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ “ليس شيء من الإنسان إلا يبلى،‏‏‏‏ إلا عظما واحدا،‏‏‏‏ وهو عجب الذنب،‏‏‏‏ ومنه يركب الخلق يوم القيامة”.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ عجب الذنب (ریڑھ کی آخری  ہڈی) ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہو گی“۔

 

حدیث میں ہے کہ انسان کا جسم زمین کھا جاتی ہے سوائے عجب الذنب کے-
اس میں کوئی دلیل نہیں کہ یہ عجب الذنب زندہ ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالی قرآن میں خاص طور پر ذکر کرتے ہیں کہ وہ ہڈی کو زندہ کریں گے

رسول الله صلي الله عليہ وسلم کے قول کہ جو مرا فقد قَامَت قِيَامَته اس پر اسکي قيامت قائم ہوئي پر بحث کرتے ہوئے ابن حزم (المتوفى: 456هـ) کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل ميں لکھتے ہيں

قَالَ أَبُو مُحَمَّد وَإِنَّمَا عَنى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِهَذَا الْقيام الْمَوْت فَقَط بعد ذَلِك إِلَى يَوْم الْبَعْث كَمَا قَالَ عز وَجل {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} فنص تَعَالَى على أَن الْبَعْث يَوْم الْقِيَامَة بعد الْمَوْت بِلَفْظَة ثمَّ الَّتِي هِيَ للمهلة وَهَكَذَا أخبر عز وَجل عَن قَوْلهم يَوْم الْقِيَامَة {يا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} وَأَنه يَوْم مِقْدَاره خَمْسُونَ ألف سنة وَأَنه يحيي الْعِظَام وَيبْعَث من فِي الْقُبُور فِي مَوَاضِع كَثِيرَة من الْقُرْآن وبرهان ضَرُورِيّ وَهُوَ أَن الْجنَّة وَالنَّار موضعان ومكانان وكل مَوضِع وَمَكَان ومساحة متناهية بِحُدُودِهِ وبالبرهان الَّذِي قدمْنَاهُ على وجوب تناهي الإجسام وتناهى كل مَا لَهُ عدد وَيَقُول الله تَعَالَى {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} فَلَو لم يكن لتولد الْخلق نِهَايَة لكانوا أبدا يحدثُونَ بِلَا آخر وَقد علمنَا أَن مصيرهم الْجنَّة أَو النَّار ومحال مُمْتَنع غير مُمكن أَن يسع مَا لَا نِهَايَة لَهُ فيماله نِهَايَة من الماكن فَوَجَبَ ضَرُورَة أَن لِلْخلقِ نِهَايَة فَإِذا ذَلِك وَاجِب فقد وَجب تناهى عَالم الذَّر والتناسل ضَرُورَة وَإِنَّمَا كلامنا هَذَا مَعَ من يُؤمن بِالْقُرْآنِ وبنبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَادّعى الْإِسْلَام وَأما من أنكر الْإِسْلَام فكلامنا مَعَه على مَا رتبناه فِي ديواننا هَذَا من النَّقْض على أهل الْإِلْحَاد حَتَّى تثبت نبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَصِحَّة مَا جَاءَ بِهِ فنرجع إِلَيْهِ بعد التَّنَازُع وَبِاللَّهِ تَعَالَى التَّوْفِيق وَقد نَص الله تَعَالَى على أَن الْعِظَام يُعِيدهَا ويحيها كَمَا كَانَت أول مرّة وَأما اللَّحْم فَإِنَّمَا هُوَ كسْوَة كَمَا قَالَ {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين}

امام ابن حزم نے کہا کہ بے شک رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے خبر دي قيام سے مراد فقط موت ہے کيونکہ اب اس کو يوم بعث پر اٹھايا جائے گا جيسا الله تعالي نے کہا {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} پھر تم کو قيامت کے دن اٹھايا جائے گا پس نص کي الله تعالي نے ان الفاظ سے کہ زندہ ہونا ہو گا قيامت کے دن موت کے بعد يعني يہ ايک ڈيڈ لائن ہے اور اسي طرح الله نے خبر دي قيامت پر اپنے قول سے {يَا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} ہائے بربادي کس نے ہميں اس نيند کي جگہ سے اٹھايا اور اس دن کي مقدار پچاس ہزار سال کي ہے اور بے شک اس نے خبر دي قرآن ميں اور برہان ضروري سے کثير مقامات پر کہ وہ ہڈيوں کو زندہ کرے گا اور جو قبروں ميں ہيں انکو جي بخشے گا – جنت و جہنم دو جگہيں ہيں اور مکان ہيں اور ہر مکان کي ايک حدود اور انتھي ہوتي ہے اور وہ برہان جس کا ہم نے ذکر کيا واجب کرتا ہے کہ اس ميں اجسام لا متناہي نہ ہوں اور گنے جا سکتے ہوں اور الله کا قول ہے {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} وہ جنت جس کي چوڑائي آسمانوں اور زمين کے برابر ہے اور …. پس ضروري ہے کہ مخلوق کي انتھي ہو … اور بے شک اللہ تعالي نے نص دي کہ ہڈيوں کو واپس شروع کيا جائے گا اور انکو زندہ کيا جائے گا جيسا پہلي دفعہ تھا اور جو گوشت ہے تو وہ تو اس ہڈي پر غلاف ہے جيسا الله نے کہا {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين} اور بے شک ہم نے انسان کو خلق کيا مٹي سے پھر اس کا نطفہ ايک ٹہرنے والي جگہ کيا

ابن حزم بار بار الله تعالي کے قول کي ياد دہاني کرا رہے ہيں کہ موت کے بعد اجسام ہڈيوں ميں بدل جائيں گے اور زندہ بھي ہڈي کو کيا جائے گا پھر اس پر گوشت کا غلاف آئے گا لہذا يہ ظاہر ہے کان يا آلات سماعت تو گوشت کے ھوتے ہيں جب وہ ہي معدوم ہو جائيں تو انسان کيسے سنے گا-    عجب الذنب ایک ہڈی ہے جو باقی رہے گی لیکن بے جان و بے روح رہے گی جس طرح ایک بیج بے جان ہوتا ہے-    یہ الله کا فعل ہے جو بے جان میں سے زندہ کو نکآلتا ہے-

دوسری حدیث

 صحیح مسلم کی روایت ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
: عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو – ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

اس روایت کے مطابق کافر کی روح بھی آسمان میں جاتی ہے اور اس کو واپس جسد میں لوٹانے کا ذکر نہیں اس کی سند بھی صحیح ہے –

تیسری حدیث

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِي بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَهُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي؟ “

المقبری نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً [ص:466] قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصُعِقَ ” قَالَ حَجَّاجٌ: لَصُعِقَ

سعید المقبری نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو سعید الخدری سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ کورکھتے  ہیں اور مرد  اس کو گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر یہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو اس آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

المزی تہذیب الکمال میں  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة  کے ترجمہ میں یہ روایت لکھ کر کہتے ہیں

هكذا رواه ابن أَبي ذئب، وخالفه الليث بْن سعد (س)  فرواه عَنْ سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ

ایسا ابن أَبي ذئب نے روایت کیا ہے (یعنی  ابن أَبي ذئب عَن سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة ) اور ان کی مخالفت کی ہے الليث بْن سعد نے انہوں نے اس کو  سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ کی سند سے روایت کیا ہے

راقم کے خیال میں یہ روایت دور اختلاط کی ہے جس کی بنا پر اسناد میں یہ گھپلا پیدا ہو رہا ہے اور چونکہ لیث کا حجاز پہنچنا بھی اسی دور کے پاس کا ہے جس میں المقبری کو مختلط کہا گیا ہے گمان غالب ہے کہ اسناد میں  یہ تضاد اس کیفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے

عض لوگوں کا عقیدہ بن رہا ہے کہ  مرنے پر انسانی روح کو جسم میں عجب الذنب میں قید کر دیا جاتا ہے جبکہ یہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا عقیدہ نہیں وہ تو حدیث بیان کر رہے ہیں کہ روح نکال کر فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب تیسری روایت جس میں میت کے کھاٹ پر بولنے کا ذکر ہے اس کی  تاویل ہر وقت الگ کی جاتی رہی ہے اور معمہ رہی ہے

اس روایت پر ایک دور تک کہا   جاتا تھا کہ یہ زبان مقال ہے

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق یہ بِلِسَانِ الْحَالِ أَوْ بِلِسَانِ الْمَقَالِ زبان حال یا مقال ہے

اگرچہ امام بخاری نے   بَابُ كَلاَمِ المَيِّتِ عَلَى الجَنَازَةِ یعنی میت کا جنازہ پر کلام میں اس کو بیان کیا ہے لیکن محدثین کے مطابق اس دور کی المقبری کی روایات صحیح نہیں ہیں

قال الْبُخَارِيّ : مات بعد نَافِع.
نافع کی موت ١١٩ یا ١٢٠ میں ہوئی ہے بحوالہ سیر الاعلام النبلاء
امام بخاری نے تاريخ الصغير یا التاريخ الأوسط میں صرف یہ لکھا ہے کہ سعید المقبری کی وفات نافع کے بعد ہوئی کوئی سال بیان نہیں کیا جبکہ اختلاط کا علم ہونا ضروری ہے- امام بخاری نے یھاں سعید المقبری کے حوالے سے اللیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ سفیان بن عُيَيْنَة، سعید المقبری کے پاس پہنچے لیکن

فإن ابن عُيَيْنَة أتاه فرأى لعابه يسيل فلم يحمل عنه، وحدث عنه مالك والليث
اس کا لعاب اس کے منہ سے بہہ رہا تھا لہذا نہیں لکھا
کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق
سمع في سنة تسع عشرة ومائة ، وسنة عشرين ، وبعد ذلك
سفيان بن عيينة نے سن ١١٩ اور ١٢٠ اور اس کے بعد سنا ہے
سفيان بن عيينة کوفہ میں پیدا ہوئے اس کے بعد حجاز کا سفر کیا جہاں ١١٩ کے بعد لوگوں سے سنا اس دور میں انہوں نے سعید المقبری کو دیکھا جن کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا

ان قرائن کی  روشنی میں واضح ہے کہ یہ آخری روایت جس سے کلام المیت ثابت کیا جاتا ہے عالم الاختلاط کی ہے المقبری

نے بعض اوقات اس کو ابو ہریرہ  رضی الله عنہ کی حدیث کہا ہے اور بعض اوقات سعید الخدری رضی الله عنہ کی

شعبہ نے بھی احتیاط کی ہے اور کہا ہے کہ سعید  بوڑھے ہو چکے تھے

وَقَال يَعْقُوب بْن شَيْبَة: قد كَانَ تغير وكبر واختلط قبل موته، يقال: بأربع سنين، حَتَّى استثنى بعض المحدثين عنه ما كتب عنه فِي كبره مما كتب قبله، فَكَانَ شعبة يَقُول: حَدَّثَنَا سَعِيد الْمَقْبُرِيّ بعدما كبر.

يَعْقُوب بْن شَيْبَة نے کہا کہ یہ بدل گئے اور بوڑھے ہوئے اور مرنے سے پہلے مختلط ہو چکے تھے کہا جاتا ہے ٤ سال یہاں تک کہ بعض محدثین نے اس کو الگ کیا ہے جو ان کے بڑھاپے سے پہلے لکھا یہاں تک کہ شعبہ کہتے کہ سعید المقبری نے روایت کیا بوڑھا ہونے کے بعد

البتہ  بعض محدثین نے ان روایات کو لیا بعض نے رد کیا ہے مثلا امام ابن معین کا کہنا ہے

تاریخ الدوری میں ہے

سمعت عليا يقول ابن ابى ذئب اثبت فى سعيد من ابن عجلان

ابن معین نے کہا میں  نے  على بن المدينى کو کہتے سنا کہ سعید المقبری کے حوالے سے  ابن ابى ذئب ،  ابن عجلان کے مقابلے میں بہتر ہے

 العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)  کے مطابق ایک روایت  کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  روایت کرتے ہیں

عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ  ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص)   : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.

قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ

ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے

ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے

جبکہ  یہ  ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت ہے –  ابن معین نے کہا تھا کہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت سب سے مناسب ہے

یعنی محدثین میں سعید المقبری کی روایات پر اپس میں اختلاف ہے بعض قبول کر رہے تھے بعض رد کر رہے تھے

 

پھر قبر ميں دفن کرايا

سورہ عبس
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ( 17 ) عبس – الآية 17
انسان ہلاک ہو جائے کيسا ناشکرا ہے
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ( 18 ) عبس – الآية 18
اُسے (اللہ نے) کس چيز سے بنايا؟
مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ( 19 ) عبس – الآية 19
نطفے سے بنايا پھر اس کا اندازہ مقرر کيا
ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ( 20 ) عبس – الآية 20
پھر اس کے ليے رستہ آسان کر ديا
ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ( 21 ) عبس – الآية 21
پھر اس کو موت دي پھر قبر ميں دفن کرايا
ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ ( 22 ) عبس – الآية 22
پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا

 

ان آيات کا مطلب ہے کہ انسان کو ہدايت الله نے دي اور موت دي، قبر دي، پھر زندہ کرے گا

قبر دينا الله کا عمل کہا گيا ہے- اس آیت کي عربي کا يہي مطلب ہے – لہذا عربي لغات و قواعد کي کتب ميں اس آیت  کا ذکر ہے کہ الله نے  قبر دي

إصلاح المنطق المؤلف: ابن السكيت، أبو يوسف يعقوب بن إسحاق (المتوفى: 244هـ) ميں ہے

قال الله جل ثناؤه: {ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُِ} [عبس: الآية:21] , قال أبو عبيدة:.. وقد أَقْبَرْتُهُ، إذا دفنته
أبو عبيدة: نے کہا اس کو قبر دي جب اس کو دفن کيا

كتاب العين المؤلف: أبو عبد الرحمن الخليل الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ)ميں ہے
قال الله تعالى: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ أي جعله بحال يقبر
يعني اس کو اس حال ميں کيا کہ قبر ميں ہے

لسان العرب المؤلف: ابن منظور الأنصاري الرويفعى الإفريقى (المتوفى: 711هـ) ميں ہے

الْفَرَّاءُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ
، أَي جَعَلَهُ مَقْبُورًا مِمَّنْ يُقْبَرُ وَلَمْ يَجْعَلْهُ مِمَّنْ يُلْقَى لِلطَّيْرِ وَالسِّبَاعِ وَلَا مِمَّنْ يُلْقَى فِي النَّوَاوِيسِ
الْفَرَّاءُ نے کہا الله نے اس کو قبر ميں کيا اور اس کو ايسا نہيں کيا کہ پرندوں يا درندوں کے آگے پھينکا گيا ہو

ليکن ہم کو معلوم ہے کہ الله نے سب  انسانوں کو قبر نہيں دي – دنيا ميں مسلمان آج کل مشرکوں سے کم ہيں اور مشرک اپنے مردوں کو تمام دفناتے بھي نہيں يہاں تک کہ بعض نصراني اہل کتاب کے فرقے بھي اپنے مردے جلا ديتے ہيں تو الله نے تو سب کو قبر نہيں دي

ڈاکٹر عثماني کا موقف ہے کہ فرشتوں کے ذريعہ قبر عالم البرزخ ميں دي جو روح کا مقام ہے اور يہ قول ابن حزم کا بھي ہے کہ عالم البزرخ ميں روح کا مقام قبر ہے – ياد رہے کہ ابن حزم ايک عرب تھے اندلس ميں عالم تھے

الفواتح الإلهية والمفاتح الغيبية الموضحة للكلم القرآنية والحكم الفرقانية از نعمة الله بن محمود النخجواني، ويعرف بالشيخ علوان (المتوفى: 920هـ) کي تفسير ميں ہے

ثُمَّ أَماتَهُ عن نشأة الابتلاء والاختبار تخليصا وتقريبا الى ربه فَأَقْبَرَهُ في البرزخ
الله نے اس کو البرزخ ميں قبر دي

سورہ قمر کي تفسير ميں انہوں نے لکھا
يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ اى قبورهم التي هم مدفونون فيها في عالم البرزخ ويتحركون على الأرض كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ
يہ اپني الْأَجْداثِ سے نکليں گے يعني وہ قبور جن ميں يہ عالم برزخ ميں دفن ہيں اور پھر يہ ٹدديوں کي طرح زمين پر منتشر ہوں گے

قرآن کي آيت النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا کي شرح ميں شيخ علوان (المتوفى: 920هـ) نے اسي تفسير ميں لکھا
النَّارُ المعدة لتعذيب اصحاب الشقاوة الازلية الابدية ولهذا يُعْرَضُونَ عَلَيْها يعنى فرعون وآله على النار حال كونهم في برزخ القبر ايضا
النار مدت عذاب ہے اصحاب شقي کے لئے ازلي و ابدي ہے اور اس لئے ان کو اس پر پيش کيا جاتا ہے يعني فرعون اور اس کي آل کو اس حال ميں کہ ان کے لئے برزخ ميں بھي قبر ہے

ڈاکٹر عثماني سے قريب 500 سال پہلے لکھي جانے والي تفسير ميں يہ سب موجود ہے کہ برزخ ميں قبر ہے جو الله نے دي اسي ميں ال فرعون کو عذاب ہو رہا ہے

آج لوگ کہتے ہیں کہ  برزخ تو کیفیت ہے نہ کہ مقام جبکہ بعض مفسرین کا ٥٠٠ سال پہلے سے یہ کہنا تھا کہ قبر عالم برزخ میں بھی ہے  اور اسی کی مناسبت سے حدیث میں عذاب قبر کا لفظ ہے

بعض کا کہنا تھا کہ قبر تو صرف نسبت ہے کہ وہ عذاب جو مرنے کے بعد دیا  جائے چاہے دفن ہو یا نہ ہو

عذاب قبرکی حقیقت کتاب

 اثبات عذاب قبر A5

تذکرہ نافعہ در عقائد احمد

[wpdm_package id=’9133′]

امام احمد کے مشہور و معروف عقائد جو حنابلہ میں  مقبول  ہیں  ان میں سے ہیں

اول : مردے ميں روح کا آنا
دوم : روز محشر عرش عظيم پر رسول اللہ کو بٹھايا جانا
سوم بيابان ميں فرشتوں کو غيبي مدد کے لئے پکارنا
چہارم : تعويذ لکھا اور حاملہ عورتوں پر بندھوانا

کتاب صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للالبانی ص 26 حاشیہ 3 ط المکتب الاسلامی 1403ھ، اور  العجلونی کی  کشف الخفاء 1961 میں امام مالک رحمہ اللہ  کا قول ہے کہ  امام مالک کا ہم عصر علماء کی غلطیوں پر  حکم تھا کہ

ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے

اب ہم  التحذير من زلة العالم  (عالم کی غلطی پر عوام کو متنبہ کرنا ) کے تحت  ان عقائد  پر نگاہ ڈالتے ہیں

مردے میں قبر میں روح کا  واپس آنا

قرآن سورة الزمر 42 آیت ٣٩ میں موحود ہے کہ مرنے والے کی روح کو روک لیا جاتا ہے اس کو جسم میں نہیں ڈالا جاتا

اللہ جانوں کو پکڑتا  ہے ان کي موت کے وقت اور جو نہ مريں انہيں ان کے سوتے ميں پھر جس پر موت کا حکم فرماديا اسے روک رکھتا ہے اور دوسري ايک ميعاد مقرر تک چھوڑ ديتا ہے بيشک اس ميں ضرور نشانياں ہيں سوچنے والوں کے ليے

اس کے برخلاف امام احمد نے مسدد ابن المسرھد کو خط لکھ کر صحیح عقیدہ بتایا کہ ارواح کو جسموں میں سوال و جواب کے لئے لوٹایا جاتا ہے -یہ عقیدہ امام احمد کا  مشہور ہے اور امام ابن تیمیہ اس کے ناقل ہیں   – امام احمد کی طرف اس عقیدے کی نسبت کو جب عثمانی صاحب نے پیش کیا تو وہ لوگ جو خود اس کے قائل کہ یہ عقیدہ صحیح ہے انہوں نے دعوی کیا کہ امام احمد سے یہ عقیدہ ثابت نہیں ہے کہ یہ خط ثابت نہیں ہے  -گویا یہ صحیح عقیدہ ہے لیکن  امام احمد  سے ثابت نہیں ہے –  اس عجیب و غریب موقف کو اس لئے گھڑا کیا کہ بے جا حق کی مخالفت کی جائے

ابو جابر دامانوی نے دین الخالص میں لکھا

ابن تیمیہ نے  ابن مندہ کا قول نقل کیا تھا کہ اس کی سند میں مجہول ہے لیکن ابن تیمیہ نے لکھا کہ ابن مندہ نے یہ شوشہ اس لئے چھوڑا ہے کیونکہ وہ اس کا قائل ہے کہ اللہ کا عرش خالی ہو جاتا ہے جب اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے – ابن تیمیہ نے ابن مندہ کا رد کیا اور اس خط کو قبول کیا لہذا دامانوی نے ابن  تیمیہ کو سمجھننے میں غلطی کی کیونکہ دامانوی عربی نہیں جانتے تھے

خط ایک خبر کی طرح ہے اور اس حوالے سے خود ان کے اصول کے مطابق یہ علم کی ایک قسم ہے – علم کی قسموں پر بات کرتے ہوئے ابن تيميه فتوی میں کہتے ہیں اول علم وہ ہے

والاستدلال يوجب العلم من أربعة أوجه: أحدها: أن تتلقاه الأمة بالقبول، فيدل ذلك على أنه حق، لأن الأمة لا تجتمع على الخطأ ولأن قبول الأمة له يدل على أن الحجة قد قامت عندهم بصحته، لأن العادة أن خبر الواحد الذي لم تقم الحجة به لا تجتمع الأمة على قبوله، وإنما يقبله قوم ويرده قوم.

جس کو امت نے درجہ قبولیت دیا ہو تو یہ دلیل ہے کہ پس یہ حق ہے کہ امت غلطی پر مجتمع نہیں ہوئی اور امت کا اس کو قبول کرنا دلالت کرتا ہے کہ اس کی صحت قائم ہے کیونکہ یہ عادت میں ہے کہ خبر واحد اگر قابل حجت نہ ہو تو اس پر امت جمع نہ ہو گی

ابن تیمیہ مزید کہتے ہیں
مذهب أصحابنا أن أخبار الآحاد المتلقاة بالقبول تصلح لإثبات أصول الديانات.
ہمارے اصحاب کا مذھب ہے کہ خبر واحد جو درجہ قبولیت پر ہو تو اس سے دین کے اصول لینا صحیح ہے

خط کے تناظر میں ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا رسالہ جو مسدد کو لکھا گیا تھا اس کو امت نے تلقھا بالقبول کا درجہ دیا ہے اور ابن مندہ کا عقیدہ باطل ہے جس نے شوشہ چھوڑا کہ اس رسالہ کی سند میں مجہول ہے
کتاب حدیث شرح النزول میں لکھتے ہیں
وأما رسالة أحمد بن حنبل إلى مُسَدَّد بن مسرهد، فهي مشهورة عند أهل الحديث والسنة من أصحاب أحمد وغيرهم، تلقوها بالقبول، وقد ذكرها أبو عبد الله بن بطة في كتاب [الإبانة] ، واعتمد عليها غير واحد كالقاضي أبي يعلى وكتبها بخطه.

اور جہاں تک امام احمد کا خط ہے مسدد کی طرف تو یہ اہل سنت و حدیث میں مشہور ہے ، امام احمد کے اصحاب میں اس کو درجہ قبولیت حاصل ہے اور اس کا ذکر ابن بطہ نے کتاب ابانه میں کیا ہے اور اس پر قاضی ابو یعلی اور ایک سے زائد کا اعتماد ہے

ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے بھی اس خط کا ذکر اپنی کتاب کیا ہے یعنی ان دونوں نے اس خط کے مندرجات کو رد نہیں کیا
ابن مفلح نے بھی اس خط کا ذکر کیا ہے جو ابن تیمیہ کے بعد آئے

فرشتوں کو بیابان میں پکارنا

کتاب مسائل الإمام أحمد لابنه عبدالله میں ہے امام احمد کے بیٹے عبد الله نے بیان کیا کہ ان کے باپ احمد بن حنبل نے کہا

حَدثنَا قَالَ سَمِعت ابي يَقُول حججْت خمس حجج مِنْهَا ثِنْتَيْنِ رَاكِبًا وَثَلَاثَة مَاشِيا اَوْ ثِنْتَيْنِ مَاشِيا وَثَلَاثَة رَاكِبًا فضللت الطَّرِيق فِي حجَّة وَكنت مَاشِيا فَجعلت اقول يَا عباد الله دلونا على الطَّرِيق فَلم ازل اقول ذَلِك حَتَّى وَقعت الطَّرِيق اَوْ كَمَا قَالَ ابي

میرے باپ نے کہا میں نے پانچ حج کیے جن میں دو سواری پر اور تین چل کر کیے یا کہا تین سواری پر اور دو پیدل – تو مجھ پر حج کا راستہ کھو گیا اور میں پیدل چل رہا تھا تو میں نے کہنا شروع کر دیا

اللہ کے بندو ! مجھے راستہ بتاؤ۔ میں مسلسل کہتا رہا حتی کہ صحیح راستے پر آ گیا – ایسا میرے باپ نے کہا

امام احمد کے پیش نظر مسند البزار کی ایک منکر روایت تھی جس پر وہ عمل کر رہے تھے

إن لله ملائكة في الأرض سوی الحفظة، يكتبون ا سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة، فليناد : أعينوا عبادالله.
زمین میں حفاظت والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہوتے ہیں جو درختوں کے گرنے والے پتوں کو لکھتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویرانے میں چلتے ہوئے پاؤں میں موچ آ جائے تو وہ کہے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو

اس کو البانی نے بھی بیان کیا

أن حديث ابن عباس الذي حسنه الحافظ كان الإمام أحمد يقويه، لأنه قد عمل به

حدیث ابن عباس جس کو حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے اس کو امام احمد نے قوی کیا ہے کیونکہ وہ اس پر عمل کرتے تھے

فرشتوں کو غیبی مدد کے لئے  پکارنا  مشرکانہ عمل  ہے

تعویذ و تمیمہ کرنا

ابی داوود مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني میں کہتے ہیں کہ میں نے
رَأَيْتُ عَلَى ابْنٍ لِأَحْمَدَ، وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أَدِيم
میں نے احمد کے بیٹے جبکہ وہ چھوٹے تھے ایک چمڑے کا تَمِيمَةً (تعویذ ) گلے میں دیکھا

امام احمد کو ایک منکر اثر ملا جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا، فَيَكْتُبُ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَاتِ فِي صَحْفَةٍ ثُمَّ تُغْسَلُ فَتُسْقَى مِنْهَا «بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ» {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات: 46] {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} [الأحقاف: 35]

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ جب عورت کو بچہ جننے میں مشکل ہو تو اس کے لئے یہ دو آیات اور کلمات ایک صفحہ پر لکھو پھر ان کو دھو کر اس کا دھون عورت کو پلا دو
بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَـهَا لَمْ يَلْبَثُوٓا اِلَّا عَشِيَّةً اَوْ ضُحَاهَا
جس دن اسے دیکھ لیں گے (تو یہی سمجھیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھہرے تھے۔

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ لَمْ يَلْبَثُـوٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّـهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُوْنَ
ایک دن میں سے ایک گھڑی بھر رہے تھے، آپ کا کام پہنچا دینا تھا، سو کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا۔
اسکی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جو خراب حافظہ کا مالک تھا

امام احمد کے بیٹے نے خبر دی کہ اسی روایت کی بنیاد پر امام احمد تعویذ کرتے تھے کتاب المسائل امام احمد بن حنبل میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے- خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے-

محمد عمرو بن عبد اللطيف مصری عالم نے تكميل النفع بما لم يثبت به وقف ولا رفع میں لکھا ہے
مع ضعف هذا الأثر، فقد عمل به الإمام أحمد رحمه الله …. قال الخلال : أنبأنا أبو بكر المروذي (3) أن أبا عبد الله جاءه رجل فقال : يا أبا عبد الله تكتب لامرأة قد عسر عليها ولدها منذ يومين ، فقال : قل له يجئ بجام واسع وزعفران . ورأيته يكتب لغير واحد … )) . قلت : وفي هذا دليل على أن الإمام أحمد رحمه الله كان يأخذ بالأحاديث والآثار الضعيفة إذا لم يجد في الباب غيرها ، ولم يكن هناك ما يدفعها ، والله أعلم

اور اس اثر کے ضعیف ہونے کے باوجود امام احمد کا اس پر عمل ہے …. خلال نے ذکر کیا کہ ہمیں ابو بکر المروزی نے خبر دی کہ ایک شخص امام احمد کے پاس آیا اور کہا اے ابو عبد اللہ میرے بیوی کے لئے تعویذ لکھیں اس کو جننے میں مشکل ہے دو روز سے پس امام احمد نے کہا ایک بڑا برتن لاو اور زعفران اور میں نے دیکھا کہ ایک سے زائد کے لئے یہ لکھتے تھے
میں (محمد عمرو بن عبد اللطيف) کہتا ہوں یہ دلیل ہے کہ احمد ان احادیث و اثار کو لیتے تھے جو ضعیف ہوتے تھے جب ان کو اس باب میں کوئی اور نہ ملتا و اللہ اعلم

كتاب الفروع از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا الخلال کہتے ہیں اور امام احمد تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

إسحاق بن منصور بن بهرام أبو يعقوب الكوسج المروزی کی وفات ٢٥١ ھ میں امام ابو داود  سے پہلے    ہوئی اورأبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق المتوفی ٢٧٥ ھ کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا – پھر گھر والوں کی گواہی  سب سے اہم ہے کیونکہ  احمد کے  بیٹوں نے  اپنی  کتب باپ  احمد کی وفات کے بعد مرتب کی ہیں

عرش عظیم پر رسول اللہ (ص) کا بٹھایا جانا

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم الله سے دعا کریں گے جو ان کی نبی کی حیثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا
ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه
محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم
اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے
معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

امام احمد نے امت پر ظلم کیا کہ یہ عقیدہ دیا کہ ہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا

ابن أبي يعلى کتاب الاعتقاد میں لکھتے ہیں
وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء
ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں
القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں
ونظر أَبُو عبد اللَّه فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها
اور ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا
کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں
وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث”.
ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے
کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ
قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ
ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا
یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو در کر آیا ہے
سعودی مفتی ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم بھی کہتے ہیں کہ مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں
قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة
فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ
جلد2 ، ص136
دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا یہ قول فضائل کی وجہ سے ہے

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا

عصر حاضر میں مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں
وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته … وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه
اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

================================================

مخالفین کا کہنا ہے کہ ہم امام احمد کے اقوال کیوں نقل کرتے ہیں جبکہ وہ صحیح عقیدہ نہیں تھے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اصول حدیث امام احمد کے مرتب کردہ نہیں ہیں اس میں حدیث عود روح کو رد کرنے والے امام شعبہ ہیں- اس میں اماموں کے امام یحیی بن سعید القطان تھے جو کہتے تھے کہ راوی پر جرح کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے جھگڑا کریں – ان میں امام مالک بھی ہیں
علم حدیث کسی ایک شخص کا مرتب کردہ نہیں ہے نہ ہی کسی مدرسہ کی پروڈکٹ ہے
ان ائمہ کو اہل فن و صنعت کہا جاتا ہے لہذا انہی اصولوں کو ہم بھی قبول کرتے ہیں

=======================================

نتائج

فرقوں  کے محققین  مثلا ابن تیمیہ اور ایک جم کثیر   اس کے قائل ہیں کہ احمد کا یہ عقیدہ کہ نبی کو عرش پر بٹھایا جائے گا صحیح نہیں ہے

فرقوں کے  محققین  اور خود برصغیری اہل حدیث  کہتے ہیں کہ فرشتوں کو پکارنا بھی باطل عقیدہ  ہے

فرقوں کے  محققین میں وہابی  اور خود بعض  برصغیری اہل حدیث  کہتے ہیں کہ تعویذ و تمیمہ شرک ہے

ہمارے نزدیک عقیدہ عود روح بھی باطل  ہے 

اس طرح ہم سب اس پر جمع ہیں کہ امام احمد صحیح عقیدہ پر نہیں تھے

 قُلْ يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّـٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (64)

کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے اللہ کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور سوائے اللہ کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے، پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں۔

سماع الموتی کے دلائل

[wpdm_package id=’8839′]

شرح  صحیح   البخاري     میں  ابو الحسن   علی بن محمد بن المنصور  بن ابی قاسم  زين الدّين على بن الْمُنِير أَخُو الْعَلامَة نَاصِر الدّين  المعروف  زین بن المنیر  المتوفی ٦٩٥ ھ  نے  لکھا  کہ         اس حدیث میں  میت  انسانوں کے جوتوں کی چاپ نہیں  فرشتوں  کے جوتوں کی چاپ سنتی ہے-  ابن حجر  نے اس  کا ذکر    فتح الباری میں کیا ہے

قَالَ الزَّيْنُ بْنُ الْمُنِيرِ جَرَّدَ الْمُصَنِّفُ مَا ضَمَّنَهُ هَذِهِ التَّرْجَمَةَ لِيَجْعَلَهُ أَوَّلَ آدَابِ الدَّفْنِ مِنَ إِلْزَامِ الْوَقَارِ وَاجْتِنَابِ اللَّغَطِ وَقَرْعِ الْأَرْضِ بِشِدَّةِ الْوَطْءِ عَلَيْهَا كَمَا يَلْزَمُ ذَلِكَ مَعَ الْحَيِّ النَّائِمِ وَكَأَنَّهُ اقْتَطَعَ مَا هُوَ مِنْ سَمَاعِ الْآدَمِيِّينَ مِنْ سَمَاعِ مَا هُوَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ

مصنف نے یہاں وقار کا ادب میں ذکر کیا ہے اور … چاپ کا کہ شدت سے زمین پر (قدم ) نہ مارا جائے  جیسا لازم آتا ہے زندہ سونے والے کے ساتھ  جیسا کہ (مصنف بخاری  یہاں )  قطع (الگ)  کر رہے ہوں  آدمیوں (کی چاپ ) کا سننا اس سننے سے جو فرشتوں کی وجہ سے ہو

امام بخاری نے باب باندھا ہے بَابُ الْمَيِّتُ يَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ  باب میت خفق نعال کو سنتی ہے جبکہ یہ الفاظ متن حدیث میں نہیں ہیں – اس پر زين الدّين على بن الْمُنِير  کا خیال ہے کہ    باب باندھنے  والے نے خفق نعال  سے  خفق کو انسانوں کے قدموں کی چاپ لیا ہے اور قرع کو فرشتوں کی چاپ  لیا ہے-   یعنی    آدمی کے قدم سے خفق  نکلتا ہے اور فرشتے کے قدم سے قرع

خفق  سے مرد  دھڑک یا دھمک  ہے-  قرع  کا مطلب   گونج  کے ساتھ   مارنا  ہے – یعنی انسانوں کے قدموں سے صرف دھمک  (خفق  )  ہو گی   لیکن  فرشتوں کے قدم  سے   زمین  پر زور  دار  گونج پیدا ہو گی  اس کو عربی میں دق  بھی  کہتے ہیں- عربی میں  قرع  کا لفظ  ہتھوڑی  سے ضرب لگانے پر بھی آتا  ہے

https://www.almaany.com/en/dict/ar-en/قَرْعَ/

اب ظاہر ہے یہ     الفاظ   کے  مفہوم  کی  تبدیلی ظاہر  کرتی ہے کہ یہ قدموں کی گونج  پیدا ہوتی ہے جو میت سنتی ہے    چونکہ  یہ اس دینا کا معاملہ نہیں ہو سکتا اس کی ایک ہی تاویل ممکن ہے کہ  دق و  ضرب     یا   زور کی آواز      عالم البرزخ میں   فرشتوں  کے اقدام  سے   بلند ہوتی ہو – میت کے دل  میں خوف پیدا ہو اور ہونے والے سوالات کے حوالے سے دہشت  طاری ہو

یہ اس عالم کا معاملہ پھر نہیں رہتا  اس کو عالم بالا  یہ عالم برزخ کی طرف  موڑا جائے گا-

       زين الدّين على بن الْمُنِير     اس طرح  صحیح بخاری و مسلم میں تطبیق  کرتے ہیں

  صحیح مسلم میں ہے

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا»،

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   میت کو جب  قبر میں رکھا جاتا ہے  وہ سنتی ہے  ان کے  خفق کو  جب  وہ  اس  سے دور ہوتے ہیں

اس میں اگرچہ  فرشتوں کا ذکر نہیں ہے  اس میں خفق  کا ذکر  ہے  یعنی  اب قرع    (زور کی آواز )نہیں بلکہ  دھمک پیدا ہوتی ہے –  اس کا مفہوم ہے کہ  اب سوال جواب کے بعد  جب فرشتے واپس جاتے ہیں تو اب  خفق  پیدا  ہوتی ہے

صحیح مسلم کی روایت کے  متن میں دفن کرنے والوں کا ذکر نہیں ہے   صرف  جانے  والوں  کے   قدموں کی دھمک کا ذکر ہے  -اس طرح ان روایات میں تطبیق  ہو جاتی ہے

=========
فهرست

محکم  آیات   قرآنی. 15

فہم  سلف  یا  بطل  پرستی.. 21

فہم سلف   کی مثال. 31

احساس  میت  کے دلائل.. 35

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ   کی وصیت.. 35

عمرو   رضی اللہ عنہ  کی وصیت  پر ایک اور نظر. 46

دیوبندی غلام رسول سعیدی کا ترجمہ اور شرح.. 51

اہل حدیث وحید الزمان کا ترجمہ… 52

اہل حدیث خواجہ محمد قاسم کا ترجمہ… 53

اہل حدیث صادق سیالکوٹی کا ترجمہ… 53

اہل حدیث ابو سعید سلفی کا ترجمہ… 54

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وصیت پر تیسری نظر. 58

سیاقتہ الموت یا  سیاق الموت.. 58

تنحر یا ینحر. 59

سماع     کے دلائل.. 62

عیسیٰ علیہ السلام کی قبر پر پکار. 62

قبر پر ایک بدو کی آمد 67

میت  کا چاپ  سننا-  حدیث قرع النعال پر ایک نظر. 71

روایت  میں عربی کی غلطی پر محققین کی آراء. 77

رواة پر محدثین کی آراء. 82

روایت پر علماء کا عمل… 85

الکلام المیت   کے دلائل.. 95

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے… 98

اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟. 101

روایت کی شرح میں اختلاف.. 106

ابو  ہریرہ  رضی عنہ  کا عقیدہ 111

زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ کا قصہ. 113

دور عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ. 120

كلام قليب البدر – معجزه يا آیت.. 126

عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف… 136

السلام علیک یا اہل القبور 143

جب کوئی  اپنے جاننے والے کی قبر پر گزرتا ہے تو. 144

نور محمدی کا ذکر ٢

نو دریافت مصنف عبد الرزاق کے جز مفقود کی حدیث جابر ہے

یہ مکمل روایت نہیں ہے البتہ اس کا ترجمہ ہے

عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے ابن منکدر سے انہوں نے جابر سے روایت کیا کہ جابر نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا
چیز سب سے اول خلق ہوئی؟ رسول الله نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا
اور اس کے بعد ہر چیز کو خلق کیا اور جب اس کو خلق کر رہا تھا تو یہ نور مقام قرب میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا
پھر اس نور کی چار قسمیں کیں- پس عرش خلق ہوا اور کرسی اس کی ایک تقسیم سے
اور عرش کو اٹھانے والے اور کرسی کے رکھوالے اس کی ایک قسم سے

اور چوتھا جز مقام محبت میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا- پھر چار جز اور کیے اس میں ایک سے قلم دوسرے سے لوح تسرے سے جنت اور چوتھا جز
مقام خوف میں ١٢ ہزار سال رہا – اس سے فرشتے اور دوسرے جز سے سورج اور تسرے سے چاند اور چوتھے سے تارے بنے
اور چوتھا جز مقام امید میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا

پھر چار جز اور کیے اس میں ایک سے عقل دوسرے سے علم و حکمت تسرے سے عصمت اور توفیق بنے
اور چوتھا جز مقام شرم میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا
پھر الله نے اس کو دیکھا تو اس نور میں سے پسینہ نکلا جو ایک لاکھ اور چار (اور ٢٠ لاکھ اور ٤ ہزار) قطرے نور کے تھے – ہر قطرہ سے ایک نبی بنا یا رسول کی روح پھر اس روح نے سانس لیا
اور اس سانس سے اولیاء کے نفوس بنے اور شہداء کے اور سعادت مندوں کے اور اطاعت کرنے والوں کے جوقیامت تک ہوں گے-
پس عرش و کرسی میرے نور سے ہیں
اور کروبیوں میرے نور سے ہیں
اور روحانییوں اور فرشتے میرے نور سے ہیں
اور سات آسمانوں کے فرشتے میرے نور سے ہیں
اورسورج چاند تارے میرے نور سے ہیں
اور عقل اور توفیق میرے نور سے ہیں
اور انبیاء و رسل کی ارواح میرے نور سے ہیں
اور سعادت مندوں کے اور اطاعت کرنے والوں اور صالحین کی ارواح میرے نور سے ہیں

پھر الله نے ١٢ ہزار پردے خلق کیے پس میرے نور کو اللہ نے کھڑا کیا اور وہ چوتھا جز تھا
ہر حجاب کے درمیان ایک ہزار سال فاصلہ ہے اور یہ مقام عبدیت ہے اور سکینہ ہے اور صبر ہے اور صدق ہے اور یقین ہے

===============================================

قارئین کی آسانی کے لئے اس کو درخت کی صورت بنایا گیا ہے

متن پر تبصرہ

یہ روایت منکر ہے

اس میں فرشتوں  کی تخلیق کا کئی بار ذکر ہے اور عرش کے فرشتوں کو حملة العرش کہا گیا ہے اور بعد میں کروبین کہا گیا ہے

کروبین یا کروبیون کا لفظ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نہیں بولتے تھے

کروبیں کا لفظ اصل میں توریت کی کتاب الخروج کے باب ٢٥   کی آیت ١٨ میں موجود  ہے اس کو عبرانی میں  כְּ֝רוּבִ֗ים  لکھا جاتا ہے اور انگریزی میں   شروبیم (٢) کہا جاتا ہے

(٢) cherubim

جدید لغت تكملة المعاجم العربية  از رينهارت بيتر آن دُوزِي (المتوفى: 1300هـ)   جو ایک مستشرق کی مرتب کی ہوئی ہے اس کے مطابق

كروب وكروبيّ والجمع كروبيون: ملاك مقرَّب

 كروب وكروبيّ  اس کا  جمع كروبيون  ہے :   مقرَّب فرشتے

کسی  صحیح حدیث میں اس  لفظ سے فرشتوں کا تدکرہ  نہیں ملا  البتہ یہ لفظ اہل کتاب میں مستعمل ہے

بلکہ عربی میں کرب کا لفظ غم و حزن کے مفہوم میں مستعمل ہے یہی مسلمانوں کی  لغات میں لکھا ہے


روایت میں بار بار ١٢٠٠٠ سال کا ذکر ہے جو مختلف مقام قرار دیے گئے ہیں

مقام قرب

مقام خوف

مقام رجا یا امید

مقام حیا

یعنی ٤٨٠٠٠ سال کے وقفوں کے بعد تخلیق ہوئی

جہنم اس میں خلق نہیں کی گئی

روایت میں دکھایا گیا ہے کہ ہر چیز اس نور سے خلق ہوئی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تھا

یہی سب انجیل یوحنا میں عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بیان ہوا ہے

آیت ٢ میں کہا گیا کہ مخلوقات کی کوئی بھی چیز اس نور کے بغیر پیدا نہیں ہوئی

روایت میں اگرچہ الله تعالی ہی خلق کر رہا ہے لیکن نور کو پسینہ بہت بعد میں جا کر آیا اس سے روح بنی اور روحوں نے سانس لیا یا للعجب

اس روایت کا متن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کسی حدیث جیسا نہیں

کتب الله سے متعلق مباحث

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

مقدمہ

اس  کتاب میں  کتب  الله  یعنی   قرآن، توریت، زبور  سے متعلق مباحث  کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہے – یہ اصلا سوالات کے جوابات ہیں جو ویب سائٹ  اسلامک  بلیف  پر قارئین نے کیے  اور  راقم نے اپنے محدود علم کے ساتھ ان کا جواب دینے کی کوشش کی ہے –   اس کتاب میں  کچھ مضامین  ہیں جو قرآن کی ترتیب و جمع ، اختلاف قرات  اور تفسیر  سے متعلق ہیں –

راقم الله تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہے اگر اس  میں  غلطی کی گئی ہو-

کتاب میں حسب ضرورت مصادر  اہل تشیع کو بھی دیکھا گیا ہے- اور اس تحقیق میں حتی الامکان  غیر جانب داری بر قرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے –  اب یہ فیصلہ قارئین کا ہے کہ وہ اس تحقیق پر کیا رائے رکھتے ہیں

ابو شہر یار

٢٠١٨

کتاب بلا عنوان

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

مقدمہ

فرقہ پرست   مولویوں  نے   اپنے فرقوں کے استحکام  و وجود  کے   لئے بہت سے مغالطے  لوگوں کے اذہان میں ڈالے ہوئے ہیں- ان میں سے   چند  کا   اس کتاب میں ذکر ہے  مثلا

ایک طرف تو یہ  کہتے ہیں کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی –  یعنی اس کی اکثریت  صحیح عقیدہ ہو گی- اسی بنا پر یہ جب عقیدہ  لیتے ہیں تو جمہور کی سند  کہتے ہیں-

دوسری طرف  یہی مولوی   کہتے ہیں امت  گمراہ ہوئی اس کا ایک فرقہ  ناجیہ ہے پھر ہر فرقہ   دعوی کرتا ہے کہ   اس سے مراد وہ خود  ہیں

پھر  کہتے ہیں یہ گروہ    طائفہ منصورہ  بھی ہے –   یعنی  اس  گروہ  کو زوال نہ ہو گا   بلکہ ہمیشہ  غالب رہے گا

ان میں سے عرب  مولوی  کہتے ہیں یہ اہل شام و بیت المقدس  ہیں-

جہادی  کہتے  ہیں ہم ہیں –

برصغیر  کے مولوی کہتے ہیں  ہم  ہیں – یا للعجب

جن احادیث  سے  ان   عقائد کا  اثبات کیا گیا ہے  ان میں  کا  مدعا    کچھ  اور تھا  لیکن  لوگوں نے ان روایات   کو اپنے اپنے فرقوں  پر لگا دیا ہے –

اس کتاب میں ان کی تلبسات  کے پردوں  کو چاک  کیا گیا ہے

ابو شہر یار

٢٠١٨

دم و تعویذ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

اس کتاب کا اجراء سن  ٢٠١٧ میں ہوا تھا – اس کے بعد سے اب تک اس میں اضافہ ہوا ہے

تعویذ کی ممانعت سے متعلق  احادیث  حسن   اور صحیح لغیرہ درجہ کی ہیں-  یہ ممانعت قولی احادیث میں ہے یعنی بزبان نبوی اس سے منع کیا گیا ہے – تعویذ  کے جواز سے متعلق بیشتر روایات میں اہل مکہ کا تفرد ہے اور ممانعت کی روایت فقہائے عراق سے نقل لی گئی ہے – اس بنا پر تعویذ  چاہے قرانی ہو یا غیر قرانی اس کو استعمال نہ کیا جائے   کیونکہ قولی حدیث میں اس کی ممانعت مل گئی ہے-

دم کی اسلام میں اجازت ہے لیکن یہ دم اگر شرکیہ ہوں تو مطلقا حرام ہیں – اس کتاب میں   دم اور تعویذ سے متعلق مباحث ہیں

وفات النبی پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

مبحث الاول :  واقعات و کلام

مرض وفات  النبی

واقعہ قرطاس

دوا  پلانے والا واقعہ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب وصیتیں

وفات اور آخری کلام

مبحث الثانی:  وفات   النبی پر  اجماع ، جنازہ ، تدفین

ابوبکر رضی الله عنہ کی تقریر اور اجماع صحابہ

نماز جنازہ؟

تدفین اور چادر کا ڈالا جانا

کیا  انبیاء وہاں دفن ہوتے ہیں جہاں وفات ہوتی ہے ؟

اہل تشیع  کی متفرق آراء

چادر کا ڈالا جانا

حجرہ عائشہ رضی الله عنہا میں تین چاند والی ضعیف روایت

عائشہ رضی الله عنہا کا ماتم کرنا اور قرآن کی آیات کا بکری کا کھا جانا

تبرکات سے نفع لینا

مبحث الثالث: حیات الانبیاء  فی القبر کا مسئلہ

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم   کی قبر  مطہر  جنت کا باغ ہے؟

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم    کی روح کا قبر میں واپس آنا یا   حیات النبی فی القبر کا  عقیدہ

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم      پر امت کا عمل پیش ہونے کا عقیدہ

انبیاء کے اجسام کا باقی رہنے کا عقیدہ

تمام  انبیاء علیھم  السلام  کا اپنی  قبروں  میں نماز پڑھنا

الله کا نبی زندہ ہے اس کو رزق دیا جاتا ہے

موسی علیہ السلام  کے لئے قبر میں نماز پڑھتے رہنے کا عقیدہ

بعد وفات انبیاء کا    حج کرنا   اور بیداری میں امتیوں سے ملاقات کرنا

عیسیٰ علیہ السلام کی قبر النبی پر آمد اور شریعت کی تعلیم حاصل کرنا

رسول الله صلی الله علیہ وسلم  پر ازواج مطہرات پیش ہونے کا عقیدہ

عائشہ رضی الله عنہا کا عقیدہ

واقعہ حرہ میں قبر النبی سے اذان کی آواز آنا

علماء کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم   کے جسد مطہر کا عرش عظیم سے   تقابل کرنا

حیات برزخی کی ایجاد

مبحث الرابع: قبر نبوی پر تعمیرات کا شرعی پہلو

اے الله میری قبر کو بت نہ   بننے  دیجئے گا

 گنبد کی تعمیر اور اس کا مقصد اور اس پر اختلاف امت

حجرہ عائشہ( رضی الله عنہا ) کو مزار کہنے کا رواج

قبور انبیاء پر مسجدوں کی تعمیر

زیارت قبور پر روایات

قبر نبوی کے حوالے سے غلط عقائد و اعمال

خاتمہ

پیش لفظ

قرآن ایک مسلمان کے لئے عقائد کی اساس ہے – کتاب الله  میں وہ تمام عقائد موجود ہیں جو اخروی فلاح کے لئے ضروری ہیں-  الله تعالی نے خبر دی ہے کہ صرف اس   كي  ذات ابدی ہے ،   جو الاول ہے اور الحیی القیوم   ہے –  انبیاء  علیہم السلام اس دنیا میں پیدا ہوئے ان کو الله نے اپنی دعوت کے لئے منتخب کیا    اور جب وہ اس    كام کو پورا کر گئے تو وہ بھی  موت سے ہمکنار ہوئے –

یہ کتاب مختلف  مباحث  پر مشتمل ہے چونکہ تمام کا تعلق حیات الانبیاء فی القبر سے ہے اس لئے اس کتاب کا نام وفات النبی رکھا گیا ہے جس میں مرض وفات کے  واقعات کا بھی    تذکرہ ہے اور تدفین نبوی صلی الله علیہ وسلم کا بھی-

فرقے سمجھتے ہیں  کہ  الله تعالی  نے جب فرمایا کہ شہید زندہ ہیں ان کو مردہ مت کہو تو اس سے مراد ان کی قبر میں زندگی ہے جبکہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس  نہیں – ایسا ممکن نہیں کیونکہ     حدیث  نبوی  میں ہے کہ  شہید  چاہتا ہے کہ اس کو واپس   دنیا میں  بھیجا  جائے تاکہ وہ پھر جہاد کرے   لیکن  الله اپنی سنت کو نہیں بدلتا ،ان کو اس دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا –  فرقے پہلے شہید کو زندہ کرتے ہیں پھر   کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا درجہ  شہید سے بلند ہے لہذا وہ  بھی زندہ   ہیں – یہ ان کی قیاسی  دلیل ہے جس کا رد ابو بکر رضی الله عنہ نے اپنی تقریر میں یہ کہہ کر کر دیا کہ محمد کو موت آ چکی-   فرقوں کے نزدیک انبیاء کے لئے موت کا لفظ ادا کرنا ان کی توہین ہے –  ان کا یہ فتوی سب سے پہلے   ابو بکر رضی الله عنہ پر  لگتا ہے-

   اسلامی فرقوں کا  عقیدہ ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی آپ کو دفن کیا گیا اور آپ کی قبر مدینہ منورہ میں ہے ۔ لیکن  ان کا آپس کا جزوی اختلاف اس پر ہے کہ  بعد از وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا جسم قبر میں  میت یا مردہ نہیں ہے  بلکہ اللہ نے آپ کو حیات عطا فرما دی ہے ۔    اس کی صریح دلیل ان کے نزدیک    اعادہ روح  النبی والی روایت    ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب کوئی سلام کہتا ہے تو روح النبی   جسم میں لوٹ آتی ہے یہاں تک کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں  – یہ   روایت  دور عباسی میں مشہور ہوئی ہے   اور  یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا روح واپس آنے کا ذکر ہے

 دیو بندی کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی روح  جسم میں سے نہیں نکلی بلکہ قلب  میں سمٹ گئی –   رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں   اور نماز پڑھتے ہیں – نماز وہی قبول ہوتی ہے جس میں اذان ہو لہذا یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  قبر میں ہی اذان دیتے ہیں پھر نماز پڑھتے ہیں –   خیال رہے کہ ان کے نزدیک  نماز پڑھنے کا مطلب ہے کہ قیام  و رکوع  و سجدہ و قعدہ    یعنی مکمل نماز جو  ایک صحت یاب مسلم پڑھتا ہے

بریلوی  کہتے ہیں   کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں  ان کی ازواج   بھی زندہ ہیں اور ان سب کی قبر میں ملاقات ہوتی ہے –   اور قبر میں    آپ   صلی الله علیہ وسلم  کو رزق دیا جاتا ہے- آپ   صلی الله علیہ وسلم قبر میں نماز بھی پڑھتے ہیں

اہل حدیث کہتے ہیں   رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں   – اپ سلام کا جواب دیتے ہیں – ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آپ سنتے ہیں  مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم – بعض کہتے ہیں کہ  سنتے نہیں صرف جواب دیتے ہیں مثلا البانی –  بعض  اس حوالے سے مجہول الکیفیت کا قول کہتے ہیں کہ الله کو پتا ہے  لیکن نبی قبر میں ہی زندہ ہیں  اس کیفیت کا نام انہوں نے حیات برزخی رکھا ہوا ہے –

وہابی کہتے ہیں روح جنت میں ہے لیکن  قبر میں اس کا تعلق ہوتا ہے  مثلا   بن باز  وغیرہ-  اور  بعض کہتے ہیں   روح جسم میں آتی ہے جیسے صالح المنجد  اور بعض  کہتے ہیں انبیاء آج تک حج کر رہے ہیں جیسے    المشھور حسن سلمان-

اس طرح بریلوی اور دیو بندی کہتے ہیں  کہ قبر میں  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی دنیا جیسی زندگی ہے اور اہل حدیث اور سلفی فرقے کہتے ہیں یہ زندگی معلوم نہیں کیسی ہے  لیکن  ان کو اس میں شک نہیں کہ روح النبی قبر میں جب چاہے  آ سکتی ہے –  اہل سنت کے ان فرقوں کے نزدیک حیات النبی فی القبر ایک اتفاقی و  اجماعی  عقیدہ  ہے    ان میں   اختلاف اعادہ روح  النبی کا ہے –

راقم کہتا ہے یہ عقیدہ ابو بکر رضی الله عنہ کا نہیں  تھا  جو آج ان فرقوں کا ہے  اور اصحاب رسول کا اجماع  وفات اور موت النبی پر ہے-

  اس کتاب میں ان فرقوں کے  علماء  اقوال جمع کیے گئے ہیں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کس کا موقف قرآن کے قریب ہے- اللہ ہم کو حق کی طرف ہدایت دے بے شک انسان کو اندھیرے سے اجالنے میں لانا صرف اسی کے بس میں ہے

ابو شہریار

٢٠١٨

زبیر علی زئی اپنی تحقیقات کی روشنی میں

اہل حدیث فرقہ کے ایک سر خیل ضلع اٹک کے غیر مقلد عالم ( جو ابن تیمیہ کے مقلد تھے ) اور نام حافظ زبیر علی زئی رکھتے تھے گزرے ہیں – یہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ  کے کٹر دشمن تھے  اور   خط و کتابت سے دشمن حق ابو جابر دامانوی کو خام مال مہیا کرتے کہ لوگ ڈاکٹر عثمانی کا رد لکھ سکیں

افسوس حافظ زبیر علی زئی اب  ہمارے درمیان نہیں ان کی ایک زندگی اور دو موتیں ہو چکی ہیں  اور بلا توبہ کے  ان جہانی ہو چکے ہیں -البتہ ہم احقاق حق کے لئے اور  تبین کے لئے حیات فی القبر کی دو مشہور روایات پر ان کی بدلتی آراء کا ذکر کرنا چاہیں گے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم  میں روح کا آنا

سنن ابو داود کی حدیث ٢٠٤١ ہے کہ

باب في الصلاة على النبي – صلَّى الله عليه وسلم – وزيارة قبره (1)
 – حدَّثنا محمدُ بنُ عوفٍ، حدَّثنا المقرئ، حدَّثنا حيوةُ، عن أبي صَخْرٍ حميدِ بنِ زياد، عن يزيدَ بنِ عبد الله بن قُسيطٍ عن أبي هريرة أن رسولَ اللهِ – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “ما مِنْ أحَدٍ يُسلِّمُ علي إلا ردَّ اللهُ عليَّ رُوحي حتى أردَّ عليه السَّلامَ 

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ پرسلام کہے تو اللہ میری روح نہ لوٹا دے

سن ٨٠ کی دہانی میں رجل مومن ڈاکٹر عثمانی نے سب سے پہلے اس روایت کو ضعیف کہا – ان سے قبل علماء کا جمہور اس روایت کو صحیح کہتا آیا تھا لیکن حق کو حق کہنا جوان مردوں کا کام ہے جس کی ہمت ڈاکٹر صاحب میں پیدا ہوئی اور اس کا بطلان انہوں نے واضح کیا – پھر خواجہ محمد قاسم اہل حدیث نے بھی اس کو ضعیف کہا – لیکن زبیر علی اور ان کے شاگرد رشید ابو جابر اس پر قائم رہے کہ یہ روایت صحیح ہے

زبیر علی کے ذہن میں یقینا یہ روایت ایک الجھن بن گئی اور وہ اس پر تحقیق کرتے رہے اور بالاخر  مرنے سے قبل  انہوں نے اس روایت پر جو کلام کیا وہ حاضر خدمت ہے

 زبیر علی زئی   کا  موقف :  زبیر علی   کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں

یو ٹیوب پر موجود   ١٧ جون  ٢٠٠٩  کی ایک ویڈیو  ہے

اس ویڈیو میں ١٠:٣٠    منٹ پر جناب زبیر زئی بیان کرتے ہیں کہ  یہ فتوی مقالات   جلد اول  میں صفحہ  ١٩  پر چھپا ہے   کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی برزخی ہے –

یو ٹیوب پر موجود   اسی سلسلے کی ایک دوسری ویڈیو      (٥٣:٣٠    منٹ)میں سوال ہواکہ کیا  قبروں    میں انبیاء نماز پڑھتے ہیں- ؟

زبیر علی زئی کے مطابق   یہ روایت ضعیف ہے

اسی ویڈیو میں     ٥٤:٣٤ منٹ پر قبر میں روح  لوٹائے جانے والی روایت پر سوال   ہوا

ما من یسلم کی وضاحت فرمائیں کہ صحیح ہے یا نہیں ؟

اس پر  زبیر علی  تفصیلی جواب میں  کہتے ہیں

اس میں آتا ہے کہ  کوئی مجھ پر سلام پڑھتا  ہے    تو الله تعالی میری روح کو لوٹا دیتا ہے –   یہ بھی بڑی مشکل روایتوں میں سے ہے –   اس کو بھی کچھ لوگ ، البانی وغیرہ صحیح کہتے ہیں –   تو ہم یہ کہتے ہیں کہ بھئی    روح کو لوٹانے سے مراد کیا  ہے ؟  پہلی تو یہ بات ہے روح تو نکلی پھر آئی – نکلی پھر آئی –  نکلی آئی – نکلی آئی –  (ہاتھ سے اشارات کیے) –  یہ کیا ہوا ؟  یہ تو مسئلہ عجیب ہوا !   پھر یہ بھی اس وقت لوٹانی جائے گی جب قبر پر کوئی    درود  پڑھے گا  نا  – علماء تو اس کو قبر کے باب میں لے کر آئیں ہیں – تو قبر پر تو درود پڑھتا ہی کوئی نہیں سارے  حجرہ کے باہر پڑھتے ہیں –   قبر پر تو پرویز (مشرف ) نے پڑھا ہو گا ، جو بادشاہ بیٹھا ہوا تھا ڈکٹیٹر –  اس   (پرویز مشرف) کے لئے جب جاتے ہیں تو    (وہابی)کھولتے ہیں نا  حجرہ  –     اندر چلا جاتا ہے یا کوئی اور – زرداری جا کر پڑھتا ہو گا –  ہمارے لئے تو قبر،  کدھر دروازہ کھلتا ہے جی –   (سائل نے دخل در مقولات کی، مرزا :  لیکن علمائے عرب  تو قائل ہیں؟ ) – زبیر: مجھے بات کرنے دیں –   ہم قبر پر نہیں جا سکتے  ہم باہر   کھڑے  ہوتے  ہیں ، باہر سے تو کوئی ثبوت نہیں ہے –  یہ لوگ دروازہ کھولیں  ، قبر پر کوئی جائے گا تو پھر روح لوٹائی جائے گی –  اچھا !  تو قبر پر بادشاہوں کے لئے سعودی عرب والے دروازہ کھولتے ہیں، عام لوگوں کے لئے نہیں کھولتے  – .. ابن عبد الہادی اور دوسرے علماء نے اس سے یہی مراد لیا ہے کہ  یہ قبر پر مراد ہے – یہ حدیث میری تحقیق میں ضعیف ہے – صحیح نہیں-  عالم  اس کو صحیح کہتے ہیں نا ، وہ تو بعد میں بات کریں گے –  جلال الدین سیوطی نام کے ایک مولوی صاحب گزرے تھے   وہ حیات النبی کے قائل تھے  ان کے لئے یہ حدیث بڑی پکی تھی   انہوں نے اٹھارہ جواب دیے کبھی یہ کبھی وہ – لیکن ہے تو بڑی عجیب بات – اگر باہر سے بھی روح لوٹائی جاتی ہے تو   لاکھوں آدمی باہر سے سلام دے رہے ہیں تو لاکھوں بار لوٹائی جائے گی – ایک دفعہ نہیں ہے کہ روح لوٹائی گئی اور قیامت تک کے لئے لوٹائی گئی – … تو یہ تو بڑی عجیب بات ہے ، امت میں اس کا کوئی قائل نہیں –  (سائل نے دخل در مقولات کی  )   زبیر : برزخی معاملہ ہے   ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے –   اس میں یزید بن عبد الله   بن قسیط جو  ہے جو    یہ روایت کرتا ہے تابعین سے ،   اسکی تو عام روایتیں تابعین سے ہیں تو اس نے نہیں بتایا   کہ یہ حدیث ابو  ہریرہ سے سنی ہے –  جس روایت میں آتا ہے کہ اس نے ابو صالح سے سنی ہے، ان کے شاگروں سے اس کی سند ضعیف ہے  

یعنی   زبیر علی زئی  زبانی جوابات اور تحریری مقالات میں  روح لوٹائے جانے والی  روایت کو ضعیف کہتے رہے لیکن ٢٠٠٤  میں جب عربوں کے لئے انوار  الصحیفہ فی الاحادیث  الضعیفہ مرتب کی  تو  ارض و سماء  حیران  تھے  اس میں سے روح لوٹائے جانے والی روایت  موجود نہیں تھی [1]– اور اس کتاب میں   مقدمہ میں یہ لکھا

تنبیہ: سنن  الاربعہ کی   ہر وہ حدیث جس کا ذکر یہاں نہ ہو وہ ہمارے نزدیک صحیح یا حسن ہے   قابل  احتجاج  ہے و الله اعلم

اس  کتاب میں زبیر علی نے روح لوٹانے والی روایت شامل نہیں کی یعنی    چار  ماہ کے اندر   (توضیح الاحکام میں شعبان ھ١٤٢٤ سے   انوار الصحیفہ محرم ١٤٢٥ ھ )    انہوں نے اس روایت کی تضعیف سے رجوع کیا  ؟    زبیر علی زئی پر اکتوبر ٢٠٠٣     (شعبان ١٤٢٤ ھ ) میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت صحیح نہیں ہے    لیکن محرم    ٥  سن    ١٤٢٥  ھ   بمطابق     ٢٥ فروری  ٢٠٠٤   عیسوی   میں انوار الصحیفہ    میں اس ضعیف روایت کو شامل نہیں کیا – پھر ٢٠٠٩ میں ویڈیو میں اس کو   پھر ضعیف کہا[2]

پھر  اگلے سال زبیر علی زئی  نے سنن ابوداود  دارالسلام   (جس پر زبیر علی زئی   نے مقدمہ   تحقیق  میں   مارچ   ٢٠٠٥ کی تاریخ ڈالی ہے ) میں   حدیث(   ٢٠٤١   )   اس کی تحقیق میں   اپنے منفرد گول مول انداز میں  لکھا ہے   

  اسنادہ ضعیف ، اخرجہ احمد عن المقریء وصححہ ابن الملقن فی تحفۃ المحتاج ، یزید بن عبد بن قسیط ثبت سماعہ من ابی ھریرۃ عند البیہقی ، ولکنہ یروی عن التابعین عن الصحابۃ ، ولم یصرح ھاھنا بالسماع ،فالسند شبہ الانقطاع  ​

  اسکی سند ضعیف ہے ،    اس کی تخریج احمد نے المقریء   سے کی ہے  اور  ابن ملقن نے  اگرچ    اسے تحفۃ المحتاج میں صحیح کہا ہے ،      یزید بن عبداللہ کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیہقی کی ایک روایت میں ثابت ہوتا ہے ،   لیکن وہ تابعین   کی سند  سے صحابہ  کی  روایات بیان کرتا ہے ،اور یہاں اس سند میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی جس سے سند میں انقطاع کا شبہ ہے  

یعنی    عربی تحقیق میں   اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا لیکن جو   اردو میں تحقیق لکھی اس میں اس کو ضعیف کہا – اس قدر تضاد بیانی اس لئے کی گئی کیونکہ انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ عربی میں تھی – عرب علماء دیکھتے کہ زبیر علی نے روح لوٹائی جانے والی روایت ضعیف قرار دے دی ہے تو اس کتاب کو پذیرائی نہیں مل پاتی لہذا سنن اربعہ کی  ضعیف روایات کے مجموعہ میں  اس روایت کو شامل نہیں کیا  گیا-

زبیر علی کے حوالے سے اس روایت کی تصحیح آج تک فورمز پر پیش کی جا رہی ہے- مثلا  کہا  جاتا ہے کہ زبیر علی زئی نے،ریاض الصالحین کی تخریج میں اس حدیث کو ’’ حسن ‘‘ کہا ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اسے عراقی  نے ’’ جید ‘‘ کہا ہے

معلوم ہوا کہ زبیر علی زئی  اس روایت کی تصحیح پر پینترے بدلتے رہے اور اپنی ناقص تحقیق  کی بنیاد پر ڈاکٹر عثمانی کی بے جا مخالفت پر جمے رہے کبھی  رد  روح النبی والی روایت کو صحیح کہا تو کبھی حسن اور یہاں تک کہ  آخر میں ضعیف  لکھا  تو اردو میں  لکھا لیکن  عربی میں  یہ  لکھنے کی ہمت نہ ہوئی

[1]

http://www.urdumajlis.net/threads/انوار-الصحيفة-في-الاحاديث-الضعيفة-من-السنن-الاربعة-مع-ادلة-طبعة-ثالثة.31/

[2]

حالیہ اڈیشن چونکہ کتاب کا تیسرا اڈیشن ہے جس کوزبیر علی زئی اپنی زندگی میں مکمل کر چکے تھے مگر یہ اڈیشن طبع نہ ہوسکا۔اس اڈیشن کے صفحہ اول پر ایسی احادیث کی فہرست مرتب کر دی گئی ہے جن کے بارے میں ان کی تحقیق تبدیل ہو گئی تھی اور انہوں نے اس کتاب کے سابقہ اڈیشنوں میں درج شدہ احکامات سے رجوع کر لیا تھا۔لہذا کتاب سے استفادہ کرتے وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھنا جائے۔   یہاں آسانی کے لئے یہ لسٹ پیش خذمت ہے جس میں سنن ابو داود کی روایات لی لسٹ ہے

روح لوٹائے جانے والی روایت رقم ٢٠٤١   سے ہے دیکھا جا سکتا ہے کہ جن  روایات سے زبیر علی  نے حکم پر رجوع کیا ان میں رقم  ٢٠٤١ موجود نہیں-

انبیاء کے اجسام باقی رہتے ہیں ؟

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت پیش کی جاتی ہے
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے

 زبیر علی زئی کتاب فضائل درود و سلام  (جس کی اشاعت فروری ٢٠١٠ کی ہے) میں تعلیق میں ص ٦٥ اور ٦٦ پر لکھتے ہیں

ابن کثیر کتاب  البداية والنهاية   میں لکھتے ہیں

وَقَالَ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عن أبى خلد بْنِ دِينَارٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ قَالَ لَمَّا افْتَتَحْنَا تُسْتَرَ وَجَدْنَا فِي مَالِ بَيْتِ الْهُرْمُزَانِ سَرِيرًا عَلَيْهِ رَجُلٌ مَيِّتٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مُصْحَفٌ .. قُلْتُ مَنْ كُنْتُمْ تَظُنُّونَ الرَّجُلَ قَالَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ دَانْيَالُ قُلْتُ مُنْذُ كَمْ وَجَدْتُمُوهُ قَدْ مَاتَ قَالَ مُنْذُ ثَلَاثِمِائَةِ سَنَةٍ قُلْتُ مَا تَغَيَّرَ مِنْهُ شَيْءٌ قَالَ لَا إِلَّا شَعَرَاتٌ مِنْ قَفَاهُ إِنَّ لُحُومَ الْأَنْبِيَاءِ لَا تُبْلِيهَا الْأَرْضُ وَلَا تَأْكُلُهَا السِّبَاعُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ إِلَى أَبِي الْعَالِيَةِ وَلَكِنْ إِنْ كَانَ تَارِيخُ وَفَاتِهِ مَحْفُوظًا مِنْ ثَلَاثِمِائَةِ سَنَةٍ فَلَيْسَ بِنَبِيٍّ بَلْ هو رجل صالح لأن عيسى بن مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ بِنَصِّ الْحَدِيثِ الَّذِي فِي الْبُخَارِيِّ

جب تستر فتح ہوا تو ایک لاش ملی جس کے اوپر مصحف رکھا تھا  …  ظن و گمان ہوا کہ یہ لاش دانیال کی ہے لوگوں سے پتہ کیا کہ یہ کب مرا کہا تین سو سال پہلے .. ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں اسکی سند أَبِي الْعَالِيَةِ  تک صحیح ہے لیکن اگر یہ تاریخ  ٣٠٠ سال صحیح ہے تو یہ نبی نہیں ہو سکتا…  ہمارے نبی اور عیسیٰ کے ردمیان ٦٠٠ سال کا  فاصلہ ہے جیسا بخاری نے روایت کیاہے

معلوم ہوا کہ شخص نبی نہیں تھا   کیونکہ اس کی موت میں اور نبی صلی الله علیہ وسلم میں صرف ٣٠٠ سال کا فرق تھا

عود روح کی روایت

زاذان کی مشہور عود روح والی روایت کو زبیر علی ساری زندگی صحیح کہتے رہے اس کے شیعہ راویوں کا دفاع کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی-لیکن یہ روایت بھی ان کی ذہنی الجھن میں اضافہ کرتی رہی-

سن ٢٠٠٢ میں زبیر علی نے اثبات عذاب قبر از بیہقی کا اردو میں ترجمہ کیا

اس میں زاذان والی روایت کو حسن قرار دیا اور اس کے آخر میں ایک اضافہ کو بھی حسن کہا

یہان تک کہ سن ٢٠٠٩ میں شائع کردہ کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال  سے معلوم ہوا کہ زبیر اس  میں بھی اب شک  کرنے لگے ہیں لہذا ارشد کمال نے لکھا

زاذان کی روایت جس کے کسی بھی حصے کو جمہور علماء نے مشکوک نہیں کہا تھا تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس کا بعض حصہ مشکوک ہے-

و  للہ الحمد

اس اضافہ کو ان علماء نے صحیح قرار دیا ہے

بیہقی اثبات عذاب القبر ص ٣٩ پر

ابن تیمیہ مجموع الفتاوی ج ١ ص ٣٤٩ اور  ج ٤ ص ٢٨٩ پر

ابن قیم کتاب الروح ص ٤٨ پر

ناصر الدین البانی صحیح ترغیب و ترھیب ص ٢١٩ ج ٣ پر اور احکام الجنائز ص ١٥٩ پر اور مشکاة المصابيح ص ٢٨

راقم کہتا ہے زبیر علی کا قول صحیح نہیں کہ اس میں اعمش کی تدلیس ہے کیونکہ اعمش نے سماع کی تصریح کر دی ہے – سنن ابو داود ٤٧٥٤ میں ہے

حدثنا هناد بن السري حدثنا عبد الله بن نمير حدثنا الأعمش حدثنا المنهال عن أبي عمر زاذان قال سمعت البراء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال فذكر نحوه.

یعنی اس متن پر اعمش کی تدلیس کہنا سرے سے ہی غلط ہے

بہر کیف زبیر میں کچھ صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ اس روایت کی تحقیق کر سکیں اور اس کو صحیح کہنے کی بجائے اب وہ نیچے  حسن کے درجہ پر لے آئے – یہ ارتقاء کی منزلیں چل رہی تھیں اور وہ حق کی طرف جا رہے تھے  افسوس وہ مکمل تحقیق نہ کر پائے لیکن حیات فی القبر کی دو  اہم روایات کو رد کر گئے اور ایک میں شک پیدا کر گئے

زبیر علی زئی  کا عقیدہ تھا کہ مردہ میں روح رہتی ہے یہں تک کہ قبر سے باہر بھی اتا ہے لہذا کتاب میں اس روایت کو حسن کا درجہ دیا

قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “

زبیر کی موت اس عقیدے پر   نہ ہوئی  جو  آجکل  جمہور  اہل حدیث کا ہے کہ عود روح استثنائی ہے  بلکہ ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں

اس روایت کی بنیاد پر زبیر علی  منکر عقیدے کا پرچار کرتا رہا کہ قبر میں روح انے کے بعد نکلتی یا نہیں نکلتی معلوم ہی نہیں

گویا اس کے نزدیک روح کا واپس نکلنا معلوم ہی نہیں دوسری طرف  ابو جابر دامانوی یہ عقیدہ  ہے کہ روح نکل کر جنت یا جہنم میں چلی جاتی ہے

ہمارے نزدیک تو یہ شروع سے ہی منکر روایات ہیں

الغرض ڈاکٹر صاحب کی رد  کردہ   احادیث کو غیر مقلد عالم ان کی وفات کے کئی سال بعد ضعیف کہنے پر مجبور ہوئے

السلام علينا و على عباد الله الصالحين

فرشتہ   کا خواب میں آنا

مناقب   امام احمد میں ابن جوزی نے امام ابو داود کے خواب کا ذکر کیا

أخبرنا محمد بن أبي منصور، قال: اخبرنا عبد القادر بن محمد؛ قال: أنبأنا إبراهيم بن عمر، قال: أنبأنا عبد العزيز بن جعفر، قال: أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد الخلال، قال: حدثنا أبو داود السجستاني، قال: رأيت في المنام سنة ثمان وعشرين ومئتين كأني في المسجد الجامع، فأقبل رجل شبه الخصي من ناحية المقصورة وهو يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتدوا باللذين من بعدي أحمد بن حنبل وفلان- قال أبو داود: لا أحفظ اسمه- فجعلت أقول في نفسي، هذا حديث غريب، ففسرته على رجل، فقال: الخصي ملك.

ابو داود نے کہا  میں نے خواب میں دیکھا سن   ٢٢٨   ھ  میں  کہ  میں  مسجد   الجامع  میں ہوں   تو ایک شخص   ہیجڑے  جیسا  آیا  مقصورہ کی طرف سے   اور وہ کہہ رہا تھا   رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے   ان کی  اقتداء  کرنا  میرے بعد –  احمد بن حنبل کی اور فلاں کی –  ابو داود نے کہا  اس کا نام یاد نہیں رہا  تو  میں نے اپنے دل  میں کہا  یہ حدیث غریب ہے   پس ایک  شخص نے اس کی تفسیر کی کہ  یہ فرشتہ  ہیجڑا  تھا

زبیر   علی  زئی    شمارہ   الحدیث   نمبر ٢٦  میں  اس کی سند کو صحیح کہتے ہیں  اور ایک انوکھا تبصرہ کرتے ہیں

کیسا دجل  ہے  ایک ثقہ محدث   کو  خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم   کی تلقین پیش کی گئی    لیکن اس بار  اس     تلقین   رسول    کا دین کو کوئی فائدہ نہیں ہے-

رد عقیدہ عرض درود

سن ٢٠١٧ میں اس کتاب عقیدہ عرض اعمال  کو ویب سائٹ پر ڈالا گیا تھا

اس حوالے سے قارئین نے سوالات کیے تھے اور چند مزید روایات پر  بحث کی گئی ہے

لہذا ضرورت محسوس کی  گئی کہ اس کتاب  میں اضافہ کیا جائے

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

حدیث قرع النعال پر ایک اور نظر

حدیث قرع النعال جو راقم کے نزدیک صحیح سند سے نہیں ہے اور اپنے متن میں عربی کی غلطی کی وجہ سے معلول ہے اس کے شواہد کے طور پر کچھ روایات پیش کی جاتی ہیں

موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان  کی روایت

أخبرنا أحمد بن يحيى بن زهير بتستر، حدثنا محمد بن عبد الله المُخرَّمِيّ، حدثنا وكيع، عن سفيان الثوري، عن السدي، عن أبيه عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: “إِنَّ الْمَيِّتَ لَيَسْمَعُ خفق نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ

عبد الرحمن بن أبي كريمة نے ابو ہریرہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک میت ان کے جوتوں کی چاپ سنتی ہے جب یہ پلٹتے ہیں

میزان الاعتدال میں الذھبی عبد الرحمن بن أبي كريمة کے لئے  کہتے ہیں

ذكره  العقيلي في كتابه متعلقا بقول إبراهيم النخعي فيه: كان صاحب أمراء.وبمثل هذا لا يلين الثقة.

اس کا ذکر عقیلی نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور اس کے متعلق إبراهيم النخعي کا قول بیان کیا کہ یہ امراء کا مصاحب تھا اور اس طرح سے ثقہ سے نہیں ملایا

موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان کے محققین  حسين سليم أسد الدّاراني – عبده علي الكوشك  نے  اس کو إسناده جيد قرار دیا ہے  جبکہ سند میں إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى مختلف فیہ ہے اس کو  ضعیف اور ثقہ دونوں کہا گیا  ہے- اکمال از مغلطاي  کے مطابق المعتمر بن سليمان نے اس کو کذاب قرار دیا ہے

مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط  نے اس کو اگرچہ صحیح لغیرہ قرار دیا ہے لیکن لکھا ہے

وهذا إسناد ضعيف، والد السدي -وهو عبد الرحمن بن أبي كريمة- لم يرو عنه غير ابنه إسماعيل، ولم يوثقه سوى ابن حبان، فهو مجهول الحال كما قال الحافظ في “التقريب

یہ سند ضعیف ہے – والد السدي عبد الرحمن بن أبي كريمة ہے جس سے کوئی روایت نہیں کرتا سوائے عبد الرحمن بن أبي كريمة کا بیٹا اسمعیل – اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے یہ مجہول الحال ہے جیسا ابن حجر نے تقریب میں کہا ہے

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے اسی سند کو ضعیف کہا ہے

إسناده ضعيف. والد إسماعيل السدي- وهو عبد الرحمن بن أبي كريمة- لم يرو عنه غير ابنه، ولم يوثقه غير المؤلف، فهو مجهول الحال كما قال الحافظ في “التقريب”، وباقي رجال ثقات، وله طرق يتقوى بها الحديث.

مسند البزار میں ہے

حَدَّثَنا مُحَمَّد بن عبد الله المخرمي حَدَّثَنا وكيع بن الجراح , حَدَّثَنا سفيان الثوري , عن السدي , عن أبيه , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إن الميت ليسمع خفق نعالهم إذا ولوا عنه يعني مدبر

اس کی سند وہی صحیح  ابن حبان جیسی ہے اور اس کو شعیب نے ضعیف قرار دیا ہے

شرح السنہ از بغوی کی روایت

امام البغوی  الشافعي (المتوفى: 516هـ) کتاب شرح السنہ میں حدیث پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَرَجِ الْمُظَفَّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ حَمْزَةُ بْنُ يُوسُفَ السَّهْمِيُّ، أَنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، نَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، نَا عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ حِسَّ النِّعَالِ إِذَا وَلَّوْا عَنْهُ النَّاسُ مُدْبِرِينَ، ثُمَّ يُجْلَسُ وَيُوضَعُ كَفَنُهُ فِي عُنُقِهِ، ثُمَّ يُسْأَلُ»

كَثِيرٌ جَدُّ عَنْبَسَةَ: هُوَ كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ رَضِيعُ عَائِشَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ.

قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ: قَوْلُهُ «إِنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ حِسَّ النِّعَالِ» فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْمَشْيِ فِي النِّعَالِ بِحَضْرَةِ الْقُبُورِ، وَبَيْنَ ظَهْرَانَيْهَا.

عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک میت چاپ محسوس کرتی ہے جب لوگ پلٹتے ہیں پھر وہ بیٹھتی ہے اور کفن اس کی گردن تک رکھا جاتا ہے پھر سوال ہوتا ہے

کثیر یہ عنسبہ کے دادا ہیں اور یہ کثیر بن عبید ہیں

بغوی کہتے ہیں کہ قول بے شک میت چاپ محسوس کرتی ہے اس میں دلیل ہے چپل پہن کر قبروں کے پاس چلنے کے جواز کی اور ان کے درمیان

بغوی نے چاپ محسوس کرنے کی روایت کو استثنا نہیں کہا بلکہ قبرستان میں کبھی بھی قبروں پر چلنے کی اس سے دلیل لی – یاد رہے کہ صحیح عقیدہ ہے کہ المیت  لا یحس و لا یسمع میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے

راقم کہتا ہے کثیر بن عبید  مجہول الحال ہے اس پر نہ جرح ہے نہ تعدیل ہے – اس کا ترجمہ  كثير ابن عبيد رضيع عائشة کے نام سے امام  البخاري نے تاریخ الكبير    میں قائم کیا ہے   ابن أبي حاتم  نے الجرح والتعديل” 7/ 155  میں اس کا ذکر کیا ہے لیکن کوئی تعدیل نہیں کی ہے – ابن حبان نے حسب روایت اس مجہول کو ثقہ قرار دے دیا ہے

قرن اول کی جنگیں و اختلافات

قرن اول کی جنگیں و اختلافات 

اسلامی تاریخ کو قلم بند کرنے کا سلسلہ محمد بن اسحاق اور ان کے معاصرین نے بنو عباس کے دور میں کیا – اس سے قبل تاریخ کو قلم بند کرنے کا کام اس قدر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا – ابن اسحاق کے شاگرد ابن ھشام نے سیرت نبوی پر پہلی تالیف ابن اسحاق کی روایات پر ہی مرتب کی – ابن اسحاق یہود و نصرانییوں کے لئے اپنی کتاب کو دلچسپ بنانا چاہتے تھے لہذا بہت سی نصرانی روایات کو اپنی کتاب میں شامل کر دیا مثلا نسطوری راہب سے منسوب بحيرا کے قصوں کو اپنی کتاب میں شامل کر دیا
دوسری طرف بنو عباس کے دور میں شیعہ ، روافض، خوارج سب اپنے اپنے حساب سے سیاسی روایات بھی بیان کر رہے تھے اور محدثین بلا تہذیب ان کو مسانید میں جمع کر رہے تھے – بعض کتب تاریخ کو محدثین نے جلا بھی دیا یا وہ معدوم ہو گئیں – تاریخ کی کتب کو جلا کر یا چھپا کر تاریخ کو نہیں بدلا جا سکتا
واقدی نے امام احمد کے دور میں اپنی کتب مرتب کیں اور واقدی کے شاگرد ابن سعد نے طبقات کو مرتب کیا – اسی دور میں محدث ابن ابی شیبہ نے کتاب المصنف ابن ابی شیبہ میں جنگ جمل و جنگ صفین کے حوالے سے ضعیف روایات کو جمع کیا (ان روایات پر اس کتاب میں تحقیق کی گئی ہے) – ابن ابی شیبہ کے بعد امام احمد نے اپنی مسند میں ضعیف روایات کی بھر مار جمع کی ہے – یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ امام احمد نے واقدی سے مسند میں روایت نہیں کیا ہے لیکن مسند احمد اور واقدی کی کتب میں روایات کا متن ایک ہے – امام احمد نے اور طرقوں سے وہی متن بہم پہنچایا ہے جو واقدی کی کتابوں میں تھا – محدثین کا طریقہ کار تھا کہ ضعیف یا کذاب راوی کی روایت بھی لکھی جاتیں تھیں جس کو اعتبار کہا جاتا تھا – اعتبار محدثین کی اصطلاح ہے کہ ضعیف و کذاب راوی یا غیر معتبر راوی کی روایات کو لکھا جائے تا وقتہ کہ ان کا شاہد بہتر سند سے مل جائے – مسند احمد میں اسی منہج پر کام چل رہا تھا یہاں تک امام احمد کے بعد ان کے بیٹے عبد الله نے یہ کام جاری رکھا اور ان کے بعد أبو بكرٍ القَطِيعيُّ نے یہ کام کیا

تیسری صدی کے بیچ میں امام بخاری و مسلم نے اپنی اپنی کتب صحیح پیش کیں – بہت سی احادیث جو متقدمین محدثین کے نزدیک ضعیف یا کم درجے کے راویوں سے تھیں وہ اس طرح صحیح کے درجے پر پہنچا دی گئیں جن سے اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان روایات کا ایک دلدل سا بنا گیا اس میں حدیث کساء، حدیث مباہلہ، حدیث عمار کا قتل شامل ہیں جن کو محدثین رد کر چکے تھے یا کر رہے تھے
چوتھی صدی میں ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ نے اپنی کتب کی تالیف کی – ابن حبان نے لا تعداد مجہول راویوں کو کتاب الثقات میں شامل کر دیا- اس طرح روایت ک کی تصحیح کے حوالے سے اہل سنت کے موقف میں تبدیلی آ گئی اور جو روایات پہلے ردی کی ٹوکری میں تھی اب وہ نکال نکال کر مسجدوں کے منبروں پر خطبوں میں بیان ہونے لگیں- اس طرح لا تعداد مجہولین ایک آن میں درجہ ثقاہت پر پہنچ گئے- کتاب الثقات میں مجہولین کے حوالے سے ابن حبان کا نقطۂ نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی ثقہ کسی مجہول سے روایت کر دے تو وہ اس مہجول الحال و مجہول العین کو ثقہ کے درجہ پر لے جاتے تھے اور سر کا تاج بناتے تھے
اسی دوران ابن جریر طبری المتوفی ٣١٠ ہجری نے اپنی کتاب التاریخ مرتب کی- طبری نے اس میں ہر قسم کا مواد جمع کر دیا گیا – اس طرح یہ کتاب تاریخ کے حوالے سے تمام فرقوں کے لئے مصدر کی حیثیت اختیار کر گئی-

پانچویں صدی کے محدث امام حاکم المتوفی ٤٠٥ ھ نے کتاب المدخل میں بہت سے راویوں پر جرح کی لیکن پھر کسی مرض تغیر کا شکار ہوئے اور صحیحین پر اپنا استدراک امت کو پیش کیا – اس میں جا بجا ٹھوکریں کھائی اور بہت سی روایات کو صحیح قرار دے دیا جو بخاری و مسلم کی شرط پر نہیں تھیں- چھٹی صدی میں اس کے بعد ابن جوزی المتوفی ٥٩٧ ھ آئے جو احادیث کے معاملے میں متشدد متصور کیے گئے – ان کی کتاب الموضوعات بہت مشہور ہوئی – لیکن اپنی تاریخ کی کتاب المنتظم اور ذم یزید میں سخت رجعت قہقری کا مظاہرہ کیا اور حق یہ ہے حق ادا نہ ہوا –اس دور میں حنابلہ بغداد دو حصوں میں بٹ چکے تھے – ایک امیر یزید کی تعریف کرتا ایک شدید تنقیص کرتا – ابن جوزی گروپ بندی کا شکار ہوئے اور تاریخ میں صحیح و سقم کو انہوں نے الگ نہ کیا جس کی اس وقت شدید ضرورت تھی –
ساتویں صدی میں ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) نے حدیث خلافت تیس سال رہے گی کو رد کیا لیکن ان کی سنی نہ گئی
آٹھویں صدی میں الذھبی ہوں یا ابن کثیر دونوں نے اپنی کتب تاریخ میں ضعیف روایات سے دلیل لے کر ان کو مکدر کر دیا – اگرچہ انہوں نے بعض روایات پر جرح کی بھی کی اور بعض کے انقطاع کا ذکر کیا – فتووں میں رہی سہی کسر امام ابن تیمیہ و ابن قیم نے پوری کر دی کہ ان روایات کو صحیح قرار دے دیا جو سخت ضعیف تھیں مثلا حرہ میں قبر نبوی سے اذان کی آواز آنا- ساتھ ہی معاویہ رضی الله عنہ کو بادشاہ قرار دے دیا
مورخین مثلا الذھبی یا ابن کثیر وغیرہ ان مورخین میں سے ہیں جنہوں نے پہلے سے تصورات قائم کر کے تاریخ کو رقم کیا ہے – تاریخ کو اس طرح پرکھنے اور پڑھنے کا رواج اب دنیا میں معدوم ہو چلا ہے – لہذا اس کو جدید غیر جانب دار خطوط پر استوار کرنا از بس ضرروری ہے – پہلے سے چند تصورات قائم کر کے ان کے تحت روایات کی شرح کرتے رہنا جدید تاریخ بینی میں اب معدوم بات ہے –
غیر جانب داری کا عنصر بر قرار رکھنا تبھی ممکن ہے جب متن پر تنقیدی انداز اختیار کیا جائے جس کو Criticism Textual کہتے ہیں –دوسری طرف ہمارے عصر حاضر کے روایتی علماء کو نہ تو تواریخ عالم کا علم ہے نہ ادیان عالم پر کوئی سنجیدہ کام انہوں نے کیا ہے بلکہ صرف متقدمین کی کتابوں کا سرقه کیا ہے – ان کا کام بس یہ ہوتا ہے کہ پارینہ آراء کو برقرار رکھا جائے اور ہر چیز پر ان کرم فرماؤں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب روایات جمع بھی کر رکھی ہیں – روایات کی صرف جرح و تعدیل کرنے والے علماء کا یہ گمان ہے کہ اگر راوی ثقہ ہوں اور سند متصل ہو تو جو بھی کہا گیا وہ آٹو میٹک صحیح ہو جاتا ہے – اس فکر و منہج سے جو تضاد جنم لیتا ہے اس کی جھلک اپ مسند احمد کی تحقیقات میں دیکھ سکتے ہیں جس میں ہر قسم کا رطب و یابس بھرا ہے – عصر حاضر کے عرب محققین دکتور شعیب الأرنؤوط ، دکتور احمد شاکر اور ناصر الدین البانی نے مسند احمد کی بعض تاریخی روایات کو صحیح کہا ہے لیکن جب ہم ان عرب محققین کی ان آراء کا تقابل صحیح بخاری سے کرتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایک ہی سانس میں مسند کی روایات کو بھی صحیح گردان رہے ہوتے ہیں اور صحیح بخاری کو بھی قبول کرتے ہیں جبکہ دونوں کا متن ایک دوسرے کی تغلیظ کر رہا ہوتا ہے- ان محققین کی آراء کو قبول کرنے سے خود صحیح بخاری کی روایات ہی مشکوک ہو جاتی ہیں – لہذا صرف راوی کو دیکھ کر یا کسی پرانے عالم کی رائے کو دیکھ کر حدیث کو صحیح قرار دے دینا اور متن پر کوئی تحقیق نہ کرنا ایک بے کار و عبث مشقت ہے- یہ فکری تضاد راقم کی اس کتاب کو پڑھ کر عیاں ہو جائے گا – اپ کو بس کیمپ بدل کر دیکھنا ہو گا کہ راوی کس کیمپ میں ہے اور کیا روایت کر رہا ہے-
صحیح خطوط پر تحقیق کی ضرورت آج جس قدر ہے پہلے نہیں تھی – اس کی وجہ مشرق وسطی کا بدلتا نقشہ ہے جہاں شیعہ سنی کی بنیاد پر تفریق گہری ہوتی جا آ رہی ہے – انٹرنیٹ کی بدولت وہ تاریخی روایات جو شام غریباں میں ہی سننے کو ملتی تھیں یار دوست ذکر کرتے تھے اور لوگ بھول جاتے تھے اب ہر وقت نظروں کے سامنے لائی جا رہی ہیں – آج امام مہدی کو کوئی مدینہ میں تو کوئی عراق میں ڈھونڈ رہا ہے – کوئی خلافت قائم کرنے جا رہا ہے جبکہ قریشی النسل ہونے کا سرٹیفکیٹ کسی کے پاس نہیں – کوئی بیان کر رہا ہے کہ حجر اسود کوفہ منتقل کیا جائے گا- عوام تو عوام علماء بھی مغالطوں کا شکار ہیں – ان مغالطوں کی پیداوار اصل میں روایات ہیں جن کو حدیث رسول سمجھ کر مستقبل کی پیشنگوئی قرار دے دیا گیا تھا اور دلائل النبوه میں لکھ دیا گیا تھا –
اب ازراہ مثال کچھ مغالطوں کا ذکر کرتے ہیں

.
.
.
بہر کیف تاریخ کا مطالعہ نہ کرنے اور صرف روایات کی تصحیح کرتے رہنے سے جو مغالطے جنم لے رہے ہیں ان کی ایک جھلک اپ کو دکھائی گئی ہے –
الغرض صحیح تاریخ کے حوالے سے جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا یہاں تک کہ مصر سے سن ٢٠٠٩ ع میں ١٣ جلدوں میں صحيح وضعيف تاريخ الطبري ، محمد بن طاهر البرزنجي – محمد صبحي حسن حلاق کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے – یعنی ١٣ صدیوں بعد مسلمانوں نے تاریخ کے اس ضخیم مصدر کی تہذیب و تحقیق کی ہے –
ان تمام روایات کو نہ صرف بطور تاریخ پڑھنا بلکہ ان کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے اور اس کتاب کا مدعا یہی ہے-

الغرض خلافت حاصل کرنے اور اس کو قائم رکھنے کی کی مسلمانوں کی کاوش کو سمجھا جانا ضروری ہے – یہ ضروری ہے کہ تاریخی روایات چاہے وہ صحیح بخاری و مسلم میں ہی کیوں نہ ہوں ان کو صرف مذھب سمجھ کر نہ پڑھا جائے بلکہ اس میں راوی کے رجحانات کا تعین کیا جائے اور اس کی مستقبل بینی یا پیش بندی کو دیکھا جائے جو وہ حدیث رسول کے پردے میں بیان کر رہا ہے – اس کی وجہ ہے کہ لوگوں نے رسول الله پر جھوٹ تک باندھا ہے اور احتمال ممکن ہے ہم کو ان کے کذب کی خبر نہ پہنچی ہو- اس میں یہ بھی ممکن ہے حدیث صحیح ہو لیکن راوی خود اس کے فہم پر مغالطہ میں ہو ، یہ بھی سکتا ہے کہ راوی سامعین و
مغالطہ جان بوجھ کر دیے رہا ہو – اس قسم کے احتمالات و امکانات موجود ہیں- قارئیں سے درخواست ہے کہ اغلاط کی نشاندہی کریں اور اگر کسی مسئلہ میں وہ زاویہ نگاہ الگ رکھتے ہیں تو آگاہ کریں کیونکہ تحقیق کا باب کھلا رکھنا چاہیے –
یہ کتاب نہ ہوتی اگر اسلامک بلیف ویب سائٹ پر قارئین سوال نہ کرتے – یہ کتاب اصلا ان سوالات کا جواب ہیں جو ملک اعوان صاحب، وجاہت صاحب، لولی آل ٹائم ، انعم شوکت صاحبہ، جواد صاحب، عائشہ بٹ صاحبہ نے گزشتہ سالوں میں کیے ہیں – راقم اس حوالے سے ان سب کا شکر گزار ہے
اب ہم کتاب کا آغاز کرتے ہیں
ابو شہر یار
٢٠١٨

عقیدہ آسیب چڑھنا

 

[wpdm_package id=’8852′]

معاشرے میں پھیلے ہوئے توہمات کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد اس مقام تک آ چکے ہیں کہ اپنے جرائم  کو جنات کے زیر اثر قرار دے رہے ہیں –   افسوس کہ بعض   علماء اس میں ان  مجرمین کے ہمنوا بن گئے کہ ہاں واقعی جن چڑھتا ہے  جرائم کراتا ہے اور  یہ شریعت میں  ممکن ہے- واضح رہے کہ شیطان کا ورغلانا تو قرآن میں بیان ہوا ہے لیکن اس کا جسم میں داخل ہو نا یہاں تک کہ عدالت میں   مجرم کو قابل  سزا  نہ گردانا جائے   بلکہ جن کو سزا وار قرار دیا جائے  یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے  –  ان علماء کی تفسیری موشگافیوں کی وجہ سے قرآن کی واضح آیات میں التباس پیدا ہو جاتا ہے جس کی طرف اس مضمون میں نشاندہی کی  گئی ہے – زیر نظر مضمون انہی توہمات کے خاتمہ کی طرف ایک ادنی سی کوشش ہے جس میں عقیدہ آسیب یا جن چڑھنا پر بحث کی گئی ہے –

شرعی تعویذات کا فراڈ

عام مسلمان جن کے گلے میں تعویذ ہو جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اپ تعویذ کیوں لٹکاتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن کلام الله ہے اس میں قوت و طاقت ہے اس کی وجہ سے جنات بھاگ جاتے ہیں شیاطین قریب نہیں اتے اور بیماری نہیں ہوتی کیونکہ اس میں شفا ہے

قرآن  سوره الاسراء  ٨٢ میں  ہے

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

أور هم نے اس قرآن میں نازل کیا  ہے وہ جس میں  شفاء اور  رحمت  ہے اور ظالموں کے لئے سوائے خسارے کے یہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا

یہاں  شفا سے مراد قرانی اصطلاح فی قلوبھم مرض کی طرف اشارہ ہے کہ آیات سے ان کو شفا مل سکتی ہے – ظاہر ہے جب ہم قرآن میں فی قلوبھم مرض پڑھتے ہیں تو ہم اس کا مطلب یہ نہیں لیتے کہ کفار عنید کو دل کا آپریشن یا ٹرانسپلانٹ درکار ہے بلکہ ان الفاظ کی تاویل کی جاتی ہے – فرقوں کی جانب سے  آیت کا مفہوم ایک طرف تو اس کے ظاہر پر لیا جاتا ہے کہ  مومن کو شفا ملتی ہے لیکن یہ نہیں کہتے کہ  ظالم  (یا مشرک ) کو قرآن سے  شفا نہیں ملتی –   دوسری طرف فرقہ پرستوں کی جانب سے حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں ایک  مشرک سردار  کو شفا ملنے کا ذکر ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ واقعہ خاص تھا عام نہیں تھا

امام بخاری الصحيح  میں ابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الغَنَمِ روایت کرتے ہیں کہ

ابن عباس اور ابو سعید الخدری رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی الله علیہ وسلم کے کچھ اصحاب سفر میں تھے – دوران سفر انہوں نے اک قبیلے کے پاس پڑاؤ کیا – صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے ان کو مہمان تسلیم کریں  لیکن قبیلہ والوں نے صاف انکار کر دیا – ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا – قبیلہ والوں نے اصحاب رسول سے  ہی علاج کے لئے مدد طلب کی جس پر ایک صحابی نے سوره الفتاحہ پڑھ کر سردار کو دم کیا اور وہ اچھا بھی ہو گیا -اس کے بدلے میں انہوں نے تیس بکریاں بھی لے لیں – صحابہ نے اس پر کراہت کا اظہا ر کیا اور مدینہ پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے قصہ سننے کے بعد کہا  

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

بے شک تم حق رکھتے تھے اس اجر  پر جو تم نے کتاب الله سے حاصل کیا

اس حدیث کی غلط تاویل  کر کے  تعویذ لکھنے پر علماء کی طرف سے اجرت طلب کی جاتی ہے یا با الفاظ دیگر تعویذ بیچا جاتا ہے –  اس طرح قرآن اور حدیث سے اس پر اپنی  پسند کی نص لانے کے بعد سلف کا عمل بھی دلیل میں پیش ہوتا ہے -فرقہ پرستوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں تعویذ جائز ہے اور اس کے لئے دلیل سلف کا عمل ہے مثلا    امام احمد کے صلبی  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی   جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

 میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والوں اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

شریعت کا یہ حکم  کوئی بتائے جس میں ہو کہ  سرعت ولادت کے لئے  باریک کپڑے پر تعویذ لکھنا جائزہے اور یہ بھی جائز ہے کہ اس تعویذ کو  گھول کر پیا جائے یا جسم پر باندھا جائے –  اسی طرح کے سلف کے فتووں کی وجہ سے   بعض علماء نے  قرآن لکھ کر عورت کے جسم پر باندھنے کا بھی فتوی دیا ہے مثلا   اشرف علی تھانوی  اعمال قرآن حصہ اول صفحہ ۲۴,۲۵ میں اسی طرح لکھتے ہیں

 سہولت ولادت
إِذَا السَّمَاء انشَقَّتْ (1) وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (2) وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (3) وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ (4)
ان آیتوں کو لکھ کر ولادت کی آسانی کے لیے بائیں ران میں باندھ دے ان شاء اللہ تعالى بہت آسانی سے ولادت ہوگی , مگر بعد ولادت تعویذ کو فورا کھول دینا چاہیے اور اسی عورت کے سر کے بالوں کی دھونی مقام خاص پر دینا مفید ولادت ہے

نہ صرف سرعت ولادت بلکہ عام حالات میں تعویذ کے جواز کا فتوی سلف سے منقول  ہے – كتاب الفروع  از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں امام احمد کے فتووں میں ارتقاء کا ذکر  ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی  صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا  الخلال کہتے ہیں اور امام احمد  تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

المروزی کی وفات ٢٥١ ھ میں ہوئی اور ان کے مطابق امام احمد قرانی تعویذ نہیں کرتے تھے- أبو داود   المتوفی ٢٧٥ ھ  کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا- یعنی مرزوی کے انتقال کے بعد احمد کا نقطہ نظر تعویذ پر بدل  گیا تھا – مزید  سوال ہے کہ تمیمہ تھا تو کس نوعیت کا تھا؟

ایک اہل  حدیث عالم   تمیمہ کی وضاحت اس طرح  کرتے ہیں

مشہور و معروف لغت دان مجد الدین فیرزآبادی القاموس المحیط میں لکھتے ہیں

والتمیم التام الخلق ، والشدید ، وجمع تمیمة کا لتمائم لخرزة رقطاء تنظم فی السیر ، ثم یعقد فی العنق

تمیمہ کا لفظ دھاری دار کرزہ ومنکہ جو چمڑے کی تندی میں پرولیا جاتا، پھر گردن میں باندھ دیا جاتا ہے پر بولا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس قسم کے خرزات و منکوں ، کوڈوں اور گھک منکوں کے لٹکانے کو شرک قرار دے رہے ہیں نہ کہ کاغذوں یا چمڑوں میں لکھے ہوئے کتاب و سنت کے کلمات لٹکانے کو۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

ابن قیم نے کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں واضح اقرار کیا ہے کہ امام احمد تعویذ کرتے تھے
قَالَ حرب: وَلَمْ يُشَدِّدْ فِيهِ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ أحمد: وَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَكْرَهُهُ كَرَاهَةً شَدِيدَةً جِدًّا. وَقَالَ أحمد وَقَدْ سُئِلَ عَنِ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ؟ قَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ.

حرب کرمانی نے کہا امام احمد تعویذ میں شدت نہیں کرتے تھے اور احمد نے کہا ابن مسعود کو اس سے سخت کراہت تھی اور کہا احمد سے تمائم پر سوال ہوا کہ آفت کے بعد لٹکایا جائے تو فرمایا امید ہے اس میں برائی نہیں ہے

امام احمد سے متاثر ابن تیمیہ  کا بھی تاریخ میں ذکر ہے –   البدایہ و النہایہ میں ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ کی موت پر جو ازدہام ہوا اس کے ذکر میں ابن کثیر  (المتوفى: 774هـ) نے یہ   نقل کیا ہے

 وَشَرِبَ جَمَاعَةٌ الْمَاءَ الَّذِي فَضَلَ مِنْ غُسْلِهِ، وَاقْتَسَمَ جَمَاعَةٌ بَقِيَّةَ السِّدْرِ الّذي غسل به، ودفع في الْخَيْطَ الَّذِي كَانَ فِيهِ الزِّئْبَقُ الَّذِي كَانَ في عنقه بسبب القمل مائة وخمسون درهما
ایک جماعت نے اس پانی کو پیا جو ان کے غسل (میت) میں زائد تھا اور جو بیری غسل کے بعد بچی اس کو بانٹ دیا گا اور ان کے گلے میں جوؤں کے سبب جو مرکری کا دھاگہ تھا اس کو ١٥٠ درہم میں دور کیا گیا

https://www.youtube.com/watch?v=Pa7Q2_j7VLE

 

اس کے برعکس مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي [ص:652] شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا أُبَالِي مَا أَتَيْتُ أَوْ مَا رَكِبْتُ، إِذَا أَنَا شَرِبْتُ تِرْيَاقًا، أَوْ تَعَلَّقْتُ تَمِيمَةً، أَوْ قُلْتُ الشِّعْرَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي»
عبد الله رضی الله عنہ  نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں بے پرواہ ہوا اس سے جو مجھے ملا .. کہ اگر میں تریاق پی لوں یا تعویذ لٹکا لوں یا اشعار کہوں

حیرت ہے کہ ابن تیمیہ فتوی میں اس روایت کا متن  تک تبدیل کرتے  ہیں
مَا رُوِيَ أَيْضًا فِي سُنَنِهِ: «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – نَهَى عَنْ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ» وَهُوَ نَصٌّ جَامِعٌ مَانِعٌ، وَهُوَ صُورَةُ الْفَتْوَى فِي الْمَسْأَلَةِ. الْوَجْهُ السَّادِسُ: الْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ: «مَا أُبَالِي مَا أُتِيت أَوْ مَا رَكِبْت – إذَا شَرِبْت تِرْيَاقًا، أَوْ نَطَقْت تَمِيمَةً، أَوْ قُلْت الشِّعْرَ مِنْ نَفْسِي

اس میں  ابن تیمیہ نے تعویذ لٹکانے کو  نَطَقْت تَمِيمَةً یعنی تَمِيمَةً بولوں کر دیا ہے  – یہ الفاظ مجموعہ کتب احادیث میں نہیں ہیں

دوم کتب ابن تیمیہ میں تعویذ کی ممانعت والی احادیث   نہیں ملیں  اسی طرح  ممکن ہے یہ دم شدہ دھاگہ ہو جس میں مرکری پر دم کیا گیا ہو – مرکری ایک زہریلا مادہ ہے ممکن ہے ابن تیمیہ کی ہلاکت اسی دھاگہ کے سبب ہوئی ہو کیونکہ ابن تیمیہ سائنس  سے نا بلد تھے

جن اتارنے کا علاج بتاتے ہوئے ابن تیمیہ نے فتوی لکھا ہے جب سوال ہوا کہ شرع میں جن اتارنے کا علاج تمیمہ سے کیا جائے؟

هَلْ الشَّرْعُ الْمُطَهَّرُ يُنْكِرُ مَا تَفْعَلُهُ الشَّيَاطِينُ الجانة مِنْ مَسِّهَا وتخبيطها وَجَوَلَانِ بَوَارِقِهَا عَلَى بَنِي آدَمَ وَاعْتِرَاضِهَا؟ فَهَلْ لِذَلِكَ مُعَالَجَةٌ بِالْمُخَرَّقَاتِ وَالْأَحْرَازِ وَالْعَزَائِمِ وَالْأَقْسَامِ وَالرُّقَى وَالتَّعَوُّذَاتِ وَالتَّمَائِمِ؟

جواب دیا
وَأَمَّا مُعَالَجَةُ الْمَصْرُوعِ بِالرُّقَى، وَالتَّعَوُّذَاتِ. فَهَذَا عَلَى وَجْهَيْنِ: فَإِنْ كَانَتْ الرُّقَى وَالتَّعَاوِيذُ مِمَّا يُعْرَفُ مَعْنَاهَا، وَمِمَّا يَجُوزُ فِي دِينِ الْإِسْلَامِ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهَا الرَّجُلُ، دَاعِيًا لِلَّهِ، ذَاكِرًا لَهُ، وَمُخَاطِبًا لِخَلْقِهِ، وَنَحْوُ ذَلِكَ، فَإِنَّهُ يَجُوزُ أَنْ يُرْقَى بِهَا الْمَصْرُوعُ، وَيُعَوَّذَ
اور جس پر جن چڑھا ہو اس کا علاج دم سے یا تعویذ سے کرنا اس میں دو رخ ہیں کہ اگر ان کا مطلب معروف ہے اور دین اسلام میں جائز ہو تو الله کو پکارا گیا ہو اس کا ذکر ہو اور … تو اس سے دم جائز ہے اس سے پناہ لی جا سکتی ہے

 اپ دیکھ سکتے ہیں ابن تیمیہ نے تعویذ پر سوال ہوا لیکن اس کا رد نہیں کیا کہ اس کو لٹکانا شرک ہے بلکہ دم و تعویذ کو ملا کر ان کو جائز کہا ہے – جبکہ اگر کوئی سائل شرک پر سوال کرے تو لازم اتا ہے کہ سب سے پہلے اس شرک کا رد کیا جائے

زاد المعاد میں ابن قیم نے اپنے شیخ ابن تیمیہ کا ذکر کیا
كِتَابٌ للرّعاف: كَانَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ ابْنُ تَيْمِيَّةَ رَحِمَهُ اللَّهُ يكتب على جبهته:
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ «2» .
وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: كَتَبْتُهَا لِغَيْرِ وَاحِدٍ فَبَرَأَ،

نکسیر پھوٹنے پر لکھنا- شیخ اسلام ابن تیمیہ … پیشانی پر لکھا کرتے
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ
اور میں نے ان کو کہتے سنا کہ ایک سے زائد کے لئے لکھا وہ اس سے صحت یاب ہوئے

آیات کو جسم پر ٹیٹو کی طرح لکھنا کس سنت سے معلوم ہے ؟   ابن تیمیہ  نے آیات سے تجربات کر کے یہ جانا کہ کون سی آیات کس مرض میں افاقہ دے سکتی ہیں ان کو جسم پر مقام مرض کے پاس لکھا جائے – اس طرح قرآن عظیم پر ان کے تجربات جاری تھے کہ موصوف کا انتقال اس حال میں  ہوا کہ گلے میں مرکری میں آلودہ  تار پڑا تھا

ابدال اور محدثین

صوفیاء کی جانب سے پر اسرار خواص  میں سے ابدال کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کی بدولت بارش ہوتی ہے زمیں کی گردش چلتی ہے اور ان کی تعداد ٣٠ یا ٤٠ بتائی جاتی ہے

فرقہ اہل حدیث کی جانب سے ابدال پر تمام روایات کو رد کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر وہ حدیث جس میں ابدال کا ذکر ہو موضوع ہے – ان کی اس ناقص تحقیق  پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ محدثین قرن ثالث ابدال کا ذکر کرتے رہے ہیں  یعنی امام ابو داود و امام بخاری و الدارمی و یزید بن ہارون و غیرھم – راقم کے نزدیک یہ محدثین کی غلطیوں میں شمار ہوتا ہے

مستدرک حاکم کی روایت ہے جس میں ابدال کی خبر ہے اور الذھبی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنْبَأَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: «سَتَكُونُ فِتْنَةٌ يُحَصَّلُ النَّاسُ مِنْهَا كَمَا يُحَصَّلُ الذَّهَبُ فِي الْمَعْدِنِ، فَلَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ، وَسَبُّوا ظَلَمَتَهُمْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْأَبْدَالُ، وَسَيُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ سَيْبًا مِنَ السَّمَاءِ فَيُغْرِقُهُمْ حَتَّى لَوْ قَاتَلَتْهُمُ الثَّعَالِبُ غَلَبَتْهُمْ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ عِنْدَ ذَلِكَ رَجُلًا مِنْ عِتْرَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا إِنْ قَلُّوا، وَخَمْسَةَ عَشْرَ أَلْفًا إِنْ كَثُرُوا، أَمَارَتُهُمْ أَوْ عَلَامَتُهُمْ أَمِتْ أَمِتْ عَلَى ثَلَاثِ رَايَاتٍ يُقَاتِلُهُمْ أَهْلُ سَبْعِ رَايَاتٍ لَيْسَ مِنْ صَاحِبِ رَايَةٍ إِلَّا وَهُوَ يَطْمَعُ بِالْمُلْكِ، فَيَقْتَتِلُونَ وَيُهْزَمُونَ، ثُمَّ يَظْهَرُ الْهَاشِمِيُّ فَيَرُدُّ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ إِلْفَتَهُمْ وَنِعْمَتَهُمْ، فَيَكُونُونَ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى يَخْرُجَ الدَّجَّالُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

8658 – صحيح

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيَّ نے کہا انہوں نے علی سے سنا  … اہل شام کوگالی مت دو ان میں ابدال ہیں

اتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة میں  أبو العباس  البوصيري   (المتوفى: 840هـ) لکھتے ہیں

عَنْ صَفْوَانِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ- أَوْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانٍ- قَالَ: ” قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ. فَقَالَ عَلِيٌّ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-: لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غفيرًا، فإن بها الأبدال- قالها ثَلَاثًا “.

رَوَاهُ إِسْحَاقُ، وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے صفین کے  روز کہا الله کی لعنت ہو اہل شام پر اس پر  علی نے کہا اہل شام کے جم غفیر  کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں – اس کو اسحاق نے روایت کیا ہے اس کے راوی ثقہ ہیں

فضائل صحابہ از امام احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أنا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، وَقَالَ مَرَّةً: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ فَقَالَ: عَلِيٌّ «لَا تَسُبَّ أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ»

امام زہری نے عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے صفین کے  روز کہا الله کی لعنت ہو اہل شام پر اس پر  علی نے کہا اہل شام کے جم غفیر  کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں

معمر بن أبي عمرو راشد (المتوفى: 153هـ) روایت کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ، قَالَ: فَقَالَ عَلِيٌّ: «لَا تَسُبَّ أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ»

امام زہری نے عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے صفین کے  روز کہا الله کی لعنت ہو اہل شام پر اس پر  علی نے کہا اہل شام کے جم غفیر  کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں

مجمع البحرين في زوائد المعجمين  از ہیثمی میں ہے

قال سعيد: سمعت قتادة يقول: لسنا نشك أن الحسن منهم

قتادہ بصری کا قول ہے جو سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا کہ ان کو اس میں شک  نہیں کہ حسن بصری بھی ابدال میں سے ہیں

تہذیب الکمال از المزی میں ہے امام أبو زرعة الرازي بھی ابدال کا ذکر کرتے تھے

وقال أبو زرعة الرازي: محمد بن عبيد عندنا إمام، وعلي بن أبي بكر من الأبدال

أبو زرعة الرازي نے کہا محمد بن عبید  ہمارے امام ہیں اور علی بن ابی بکر ابدال میں سے ہیں

ابن حبان صحیح میں باب قائم کیا

ذِكْرُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْءِ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا لِمَنْ يُصَلِّي عَلَيْهِ الْإِبْدَالَ

آدمی کے لئے مستحب ہے کہ جب الله جَلَّ وَعَلَا سے سوال کرے تو اس پر ابدال سے دعا کرائے

أبو بكر بن أبي عاصم الشيباني (المتوفى: 287هـ) کتاب السنة میں ایک سند میں ابدال کا ذکر کرتے ہیں

حَدَّثَنَا ابْنُ الْبَزَّارِ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا زِيَادُ أَبُو عُمَرَ وَكَانَ يُقَالُ لَهُ إِنَّهُ مِنَ الأَبْدَالِ عَنِ الْوَلِيدِ أَبِي بِشْرٍ عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ: قُلْتُ لحذيفة أين عثمان؟ قال: في الجنة ورب الكعبة قَالَ: قُلْتُ قَتَلَتُهُ قَالَ فِي النَّارِ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.

سند میں زِيَادُ أَبُو عُمَرَ کو شُعَيْبُ بْنُ حَرْبٍ نے ابدال میں سے قرار دیا ہے

أبو محمد عبد الله  الدارمي (المتوفى: 255هـ) نے ایک راوی کو ابدال میں سے قرار دیا

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عَقِيلٍ، أَنَّهُ: سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرٌ فِي [ص:2157] الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأهاَ عِشْرِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرَانِ فِي الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأَهَا ثَلَاثِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا ثَلَاثَةُ قُصُورٍ فِي الْجَنَّةِ». فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَنْ لَنَكْثُرَنَّ قُصُورُنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُ أَوْسَعُ مِنْ ذَلِكَ» قَالَ أَبُو مُحَمَّد: «أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَزَعَمُوا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ»

 امام دارمی نے ا أَبُو عُقَيْلٍ زَهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ کا سند میں ذکر کرتے ہوئے لکھا وَكَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ  وہ ابدال میں سے تھے

أبو بكر  ابن المقرئ (المتوفى: 381هـ)  کتاب المعجم لابن المقرئ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ عَبْدِ الْأَكْرَمِ الْأَنْطَاكِيُّ، وَكَانَ يُقَالُ أَنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى النَّوْسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْغَيْثَ قَالَ: «اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا»

اس  سند میں أبو بكر  ابن المقرئ نے اپنے شیخ کو ابدال میں سے قرار دیا ہے

إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني  از  أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري کے مطابق طبرانی کے شیخ   أحمد بن محمد بن عبد الله بن الحسن بن حفص أبو الحسن الأصبهاني بھی ابدال میں سے تھے

قال أبو نعيم: أحد الأبدال والزهاد

ابو نعیم نے کہا یہ زہاد و ابدال میں سے ایک تھے

المقاصد الحسنة  میں ابن حجر کے شاگرد محدث السخاوي (المتوفى: 902هـ) لکھتے ہیں

وقال يزيد بن هارون: الأبدال هم أهل العلم

يزيد بن هارون نے کہا ابدال سے مراد اہل علم ہیں

المقاصد الحسنة میں السخاوي (المتوفى: 902هـ) نے یہ بھی لکھا

وقول البخاري في غيره: كانوا لا يشكون أنه من الأبدال، وكذا وصف غيرهما من النقاد والحفاظ والأئمة غير واحد بأنهم من الأبدال

امام بخاری کا قول کہ اس میں شک نہیں یہ ابدال میں سے تھے اور اسی طرح نقاد محدثین و ائمہ کا تعریف کرنا  تھا کہ یہ ابدال میں سے ہے

شوکانی (المتوفى: 1250هـ)  کتاب الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة میں لکھتے ہیں کہ ابدال  کے بارے میں حسن حدیث ہے اور یہ متواتر کے درجے پر ہیں

وله طرق عن أنس أخرجها الطبراني والخلال، وابن عساكر (3) وأبو نعيم والطبراني (4) . قال في اللآلىء: وقد ورد ذكر الأبدال من حديث على رضي الله عنه وسنده حسن (1) . ومن حديث [عبادة بن الصامت. وسنده حسن (2) ، ومن حديث عوف بن مالك رضي الله عنه. أخرجه الطبراني (1) .

ومن حديث معاذ رضي الله عنه. أخرجه أبو عبد الرحمن السلمي في كتاب سنن الصوفية (2) .

ومن حديث أبي الدرداء رضي الله عنه. أخرجه الحكيم الترمذي في نوادر الأصول (3) .

ومن حديث أبي هريرة: أخرجه ابن حبان في الضعفاء. والخلال في كرامات الأولياء (4) .

ومن حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه. أخرجه ابن عساكر في تاريخه (5) .

ومن حديث حذيفة رضي الله عنه. أخرجه الحكيم الترمذي في نوادر الأصول (6) .

وعن ابن عباس موقوفًا أخرجه أحمد في الزهد (1) قال الفتى في موضوعاته.

قلت: هو صحيح وإن شئت قلت: هو متواتر

میں شوکانی کہتا ہوں یہ صحیح ہیں اور چاہو تو کہو متواتر ہیں

ابدال – ایک لایعنی اصطلاح

عصر حاضر کے اہل حدیث کے لئے مثال ہے کہ  ابدال سے متعلق محدثین نے ذکر کیا ہے اور روایات کو صحیح کہہ کر قبول بھی کیا ہے – احادیث کی صحیح کی کتاب میں باب بھی قائم کیا ہے تو پھر ان کو تامل کیوں ہے کہ ابدال سے متعلق احادیث صحیح نہیں – دوسری طرف عود روح سے متعلق منکر روایات کو یہی طبقہ ان اجزاء کی وجہ سے قبول کرتا ہے

ہیکل سلیمانی ، زکریا اور مریم

مزید تفصیل کے لئے پڑھیں
تاریخ قبلتین

187 Downloads

یہود مسجد الاقصی کو هيكل سلیمان بولتے تھے اور ہیں – مسجد عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب عبادت کا مقام ہے اور الاقصی بھی عربی کا لفظ  ہے جس کا مطلب دور ہے – اور یہ دور اصل میں مکہ سے دوری کے طور پر بولا گیا تھا جب واقعہ معراج کا ذکر الله تعالی نے سورہ بنی اسرائیل میں کیا

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ (1)

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

الْاَقْصَى اصل میں فاصلے پر نسبت ہے  کہ اتنی دور ایک رات میں ہی لے کر گئے- ظاہر ہے دور سلیمان و داود میں اور اس کے بعد بھی یروشلم میں رہنے والے احبار و ربانی  اہل کتاب اس مسجد کو مسجد الاقصی نہیں بولتے ہوں گے- بنی اسرائیل کی تاریخ کے مطابق اس مسجد کو ہیکل سلیمان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا

هيكل کا لفظ  عربی اور عبرانی دونوں میں مستعمل ہے اور عربی لغت تاج العروس من جواهر القاموس میں بھی موجود ہے  

الهَيْكَلُ: الضَّخْمُ مِنْ كُلِّ شَيْء یعنی کسی بھی چیز کا بڑا ہونا – ہیکل سلیمان کا مطلب  ہے مسجد الاقصی بہت بڑی تھی

لغت مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) میں ہے

الهيكل – ذو الضخامة والشرف، ثم استعمل فيما يكتب من الأسماء الإلهية والأدرعة الربانية ونحو ذلك

الهيكل – بہت عظمت و شرف   والا پھر اس لفظ کا استمعال ہوا اگر اسماء الہی  وغیرہ لکھے ہوں

ظاہر ہے یہ لفظ عربی میں بھی موجود ہے تو مسجد الاقصی کو اگر ہیکل کہا جائے تو اس میں کوئی عیب نہیں کیونکہ دور سلیمان میں ظاہر ہے اس کو الاقصی نہیں کہا جا سکتا – سلیمان  علیہ السلام کی مملکت ارض مقدس میں تھی

ہیکل سلیمانی  کا مطلب ہے سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا ہیکل

Heikal

جس میں ایک    چٹان یا  الصخرہ تھی اس کو یہودی زمین کا سب سے مقدس مقام سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق زمیں کا آغاز اسی چٹان سے ہوا اور مسلمان ہونے والے  یمنی یہودیوں کے مطابق اس کے نیچے تمام دنیا کی ہوائیں اور نہریں ہیں  جیسا کہ ایک روایت میں ہے- یہود کے مطابق اس چٹان پر تابوت سکینہ رکھا ہوا تھا اور معلوم ہوا ہے کہ اس ہیکل پر کسوہ کعبہ کی طرح کا ایک غلاف بھی ہوتا تھا  اس کے سامنے

Altar

تھا جس میں قربانی کا گوشت جلا کر الله کی نذر کیا جاتا تھا اور خون کوقربان گاہ پر  چھڑکا جاتا- اس قربان گاہ کے پاس حجرات تھے جن میں منتظم سامان رکھتے اور اس مسجد کے صحن سے بھی زمزم کی طرح ایک چشمہ ابلتا تھا جس کو جیحوں

Gihon

کہا جاتا ہے

مسلمان مورخین کے مطابق تبع نے بعثت نبوی سے کئی سو سال پہلے سب سے پہلے غلاف کعبہ دیا – تبع (المتوفی ٤٢٠ بعد مسیح عیسوی ) ایک  یمنی یہودی بادشاہ تھا جس  نے کعبہ کو سب سے پہلے غلاف دیا کیونکہ مسجد اقصی میں ہیکل سلیمانی میں قدس الاقدس پر بھی غلاف تھا اس کا ذکر انجیل میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی مزموعہ صلیب کے وقت مقدس کا غلاف یا کسوہ پھٹ گیا

At that moment the curtain of the temple was torn in two from top to bottom. The earth shook, the rocks split

اور اس ( موت کے) وقت ہیکل کا کسوہ اوپر سے نیچے تک  پھٹ گیا زمیں لرز گئی اور چٹانیں چٹخ گئیں

http://biblehub.com/matthew/27-51.htm

قرآن میں ذکر ہے کہ زوجہ عمران  نے منت مانی کہ اگر لڑکا ہوا تو میں اس کو الله کی نذر کر دوں گی –

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

اور جب مریم کی ماں  نے کہا اے رب  میرے بطن میں جو ہے اس کو نذر کر رہی ہوں وقف کرتے ہوئے پس اس کو قبول کر بے شک توسننے والا جاننے والا ہے 

اس میں محرر کا لفظ ہے یعنی اب اس بطن میں جو ہے وہ تمام عمر کے لئے وقف نذر ہو چکا ہے – اس نذر کی بنا پر مریم اب کبھی بھی شادی نہیں کر سکتی تھیں –

قرآن میں مریم کو اخت ہارون کہا گیا یعنی وہ ہارون علیہ السلام کی نسل سے تھیں اور اس طرح ان کے والد عمران بھی نسل ہارون میں سے تھے – اہل کتاب کے  مطابق ہیکل سلیمان یا مسجد الاقصی  میں رسوم کی ادائیگی صرف نسل ہارون والے کر سکتے ہیں –  بہر حال زوجہ عمران نے لڑکے کی بجائے ایک لڑکی مریم کو جنا اور ان کو بطور منت کی ادائیگی ہیکل سپرد کر دیا گیا –

نذر کا مطلب تورات کتاب گنتی باب ٦ میں موجود ہے

اسلام میں بھی معتکف بال نہیں کاٹ سکتا

اس منت کو پورا کرانے کے لئے  اقلام ڈالے گئے یعنی قرع اندازی ہوئی  کہ کون مریم کی کفالت کرے گا

 ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ 

يه غیب کی خبریں ہیں جو ہم الوحی کر رہے ہیں تم ان کے ساتھ نہ تھے جب یہ اقلام پھینک رہے تھے کہ کون مریم کی دیکھ بھال کرے گا اور نہ ساتھ تھے جب یہ اس (کفالت ) کے لئے لڑ رہے تھے

ہیکل میں امور سر انجام دینے کے لئے اقلام کیسے ڈالے جاتے  تھے اس کا ذکر یہود کی کتاب  مشنا میں ہے

The officials of Temple said to them, Come and cast lots to decide who among  them would kill the sacrifice, who would sprinkle the blood and who would clear the altar of  ashes, who would light the menorah ” ∗. The room Gazith (Lots casting room) was in form of  large Hall. The casting took place from the east side of it. With an elder sitting on the west. The priest stood about in a circle and official grabbed the hat off this or that person, and by this they understood where the lot was to begin

Mishnah Tamid 3.1; see from Jesus Christ in Talmud by J. Lightfoot published in 1658

ہیکل سلیمانی میں خدمت انجام دینے کے لئے مسجد اقصی کے منتظمین کہتے کہ اقلام ڈالو اور ہم فیصلہ کریں کہ کون قربانی کرے گا کون خون کو چھڑکے گا کون قربان گاہ کی راکھ کو صاف کرے گا اور کون منورہ میں شمع جلاۓ گا – ایک بہت بڑا  حجرہ غازث (مسجد الاقصی میں) تھا جس میں اقلام ڈالے جاتے تھے اور وہ اس کے مشرق سے شروع کیا جاتا جب ایک عالم کرسی پر بیٹھتا اور تمام خدمت گزار ایک دائرے کی صورت کھڑے ہوتے اور عالم اشارہ دیتا  کہ اقلام ڈالنا کہاں سے شروع ہو گا

اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقلام ڈالنا مسجد الاقصی میں کیا جاتا تھا اور قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے جس سے ظاہر ہے نسل ہارون یا خدمت  گزار  لوگ  جن کو لاوی کہا جاتا تھا اس  اقلام ڈالنے میں شریک ہوتے تھے

قرآن میں مزید موجود ہے کہ مریم علیہ السلام جس مقام پر  منت کر رہی تھیں وہ المحراب تھی – یہ اس قدر واضح اشارہ ہے کہ شاید ہی کوئی اور اشارہ قرآن میں اس کے سوا ہو کہ یہ اعتکاف مسجد الاقصی میں تھا اور جب الله نے اس کا ذکر کیا تو کسی بھی یہودی پر یہ مخفی نہ رہا ہو گا-المحراب اصل میں مسجد الاقصی کا ایک حجرہ تھا جو اس کے شمال میں تھا یہ  کمرہ خدمت گزاروں کے لئے وقف تھا وہ  وہاں رکتے نماز پڑھتے اور اپس میں مسجد کے انتظام کا ذکر کرتے تھے –

Bet ha-Moed or Bet Hamoked (Chamber of the Hearth) was the domed chamber in temple, was in north of the ’Azarah (inner court where burning altar was placed), See Jewish Encyclopedia

بیت ہا معید یا بیت ہموکد ایک گنبد نما حجرہ ہیکل میں تھا جو مسجد اقصی کے صحن کے شمالی سمت میں تھا

This dome-covered structure was the quarters for the priests who performed the services

محراب نما حجرہ متظمین ہیکل کے لئے تھا

Architecture of Herod, the Great Builder by Ehud Netzer, Baker Academic, October 1, 2008

Beth-haMoked,  … was built on arches

بیت ہموکد میں محرابیں تھیں

The Temple–Its Ministry and Services by Alfred Edersheim

قرآن میں موجود ہے کہ زکریا علیہ السلام نماز محراب میں پڑھ رہے تھے جب ان پر الوحی ہوئی کہ یحیی علیہ السلام کی ولادت ہو گی

فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا

پس زکریا محراب سے باہر نکل کر قوم کے پاس آیا اور ان کو اشارہ کیا کہ صبح و شام تسبیح کرو

اسی طرح ذکر ہے کہ جب بھی زکریا محراب میں اتے تو مریم کے پاس رزق ہوتا

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا

محراب میں جب بھی زکریا مریم کے پاس داخل ہوتے ان کے پاس رزق پاتے 

 یعنی یہ محراب ایک بہت بڑا حجرہ تھا جس میں مریم بھی تھیں اور زکریا بھی تھے اور  یہاں مریم معتکف تھیں ان کے باقی حجرہ کے درمیان ایک پردہ تھا اور وہ اس حجرہ کے مشرق میں تھیں

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا (16) فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا

أور الكتاب  میں مریم کا ذکر کرو جب وہ اپنے اہل کو چھوڑ(محراب میں ) شرقی جانب میں (معتکف ہو) گئی اور اپنے اور باقی لوگوں کے درمیان ایک پردہ ڈالا تو ہم نے ایک روح (ناموس یا فرشتہ) اس کی طرف بھیجا جو ایک آدمی کی صورت ظاہر ہوا

یقینا مریم اس اشکال میں ہوں گی کہ وہ ایک لڑکی ہیں اور مسجد الاقصی میں کس طرح ان کا قیام جاری رہے گا – لہذا ان کو خبر دی گئی کہ وہ اب حیض کی حالت میں کبھی نہ جائیں گی – اللہ نے خبر دی

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ

اور فرشتوں نے مریم سے کہا اے مریم الله نے اپ کو منتخب کر لیا ہے اور پاک کر دیا ہے   تمام عالمین کی عورتوں میں سے اپ کو چنا ہے

طہر کا لفظ  اشارہ ہے کہ مریم اب کبھی بھی نطفہ سے ماں نہیں بن سکیں گی اور نہ ان کو  عام عورتوں کی طرح حیض آئے گا – ساتھ ہی خبر دی گئی کہ وہ بن بیاہی ماں بن جائیں گی

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (45)

اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم بے شک الله اپ کو بشارت دیتا ہے اپنے جانب سے کلمہ کی جس کا نام المسیح عیسیٰ بن مریم ہو گا دنیا و آخرت میں مقربوں میں سے ہو گا

یقینا مریم اہل کتاب کی اس خواہش  کا علم رکھتی ہوں گی جس کا ذکر کتاب یسعیاہ میں ہے کہ ان میں ایک کنواری کے بطن سے مسیح کا ظہور ہو جو  مردوں کو زندوں کر دے جو نابینا کو نگاہ دے اور جو اپاہج کو صحیح کر دے  – فرشتوں نے ان کو خبر دی کہ وہ وہ کنواری ہیں جو المسیح کو جنم دے گی

اللہ نے اس طرح  مسیح کو کسی بھی نسب کا نہ کیا کیونکہ اہل کتاب میں اختلاف چل رہا تھا ایک گروہ کا دعوی تھا کہ مسیح داود کی نسل سے ہو گا اور دوسرے گروہ کا دعوی تھا کہ یوسف کی نسل سے ہو گا – الله نے نسل ہارون کو پسند کیا اس کی لڑکی کو المسیح کی ماں بننے کا شرف ملا اس طرح ان تمام جھگڑوں کو ختم کر دیا جو مسیح کے نسب پر اہل کتاب میں تھا

و الله اعلم

سامری کا مذھب

قرآن مجید میں قوموں کا ذکر ہے کہ کس طرح انہوں نے شرک کو ترویج دی  – ان میں امت موسی میں ایک بنی اسرائیلی کا ذکر بھی ہے جس کو سامری کہا جاتا ہے  – اس کے بارے میں خبر دی گئی کہ جب موسی جبل طور پر کتاب الله توریت حاصل کرنے گئے اس وقت ہارون کو خلیفہ کر گئے اور سامری نے  فتنہ برپا  کیا اور دعوی کیا کہ اصل رب ایک بچھڑا ہے-اس  کی صنم گری کی گئی اور بنی اسرائیلی عورتوں نے اپنے زیور سامری کو دیے کہ ان کو پگھلا کر اس مورت کو ایجاد کرے – سامری کی صناعی و کاریگری کی بدولت اس مورت کے جسد میں سے بیل کی آواز بھی  انے لگی-یہ آواز سنتے ہی بنی اسرائیلی اس کو رب مان بیٹھے اور سجدوں میں گر گئے-اس سب کا ظاہر ہے کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن   اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس کا  تعلق راقم  کے نزدیک دجال سے ہو سکتا ہے

قرآن میں ہے

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ 

أور برجوں والا آسمان

سورہ الفرقان  میں ہے

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا

بابرکت ہے جس نے آسمان کو برجوں والا بنایا اور اس میں  چراغ رکھا اور چمکتا چاند

سورہ الحجر میں ہے

 وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ

اور بے شک ہم نے آسمان میں بروج بنا دیے اور ان کو دیکھنے والوں کے لئے مزین کر دیا

قرآن میں ہے کہ خود فرعون بھی کئی معبودوں کا قائل تھا   وہ مشرک تھا   سورہ المومن یا غافر میں ہے- رجل مومن نے جب تقریر کی تو کہا تم گمان کرتے تھے کہ  الله یوسف کے بعد کوئی رسول نہ بھیجے گا- اس کا مطلب ہوا کہ فرعون کوالله اور رسالت کا علم تھا لیکن وہ مصر میں جادو گروں کے ذریعہ سیاست کر رہا تھا

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ (34)

اور بے شک اس سے قبل یوسف نشانیاں لے کر آیا تم لوگ شک میں رہے جو وہ لایا یہاں تک کہ جب وہ ہلاک ہوا تم نے کہا اب الله یہاں کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا اس طرح الله گمراہ کرتا ہے جو حد سے گزر جائے 

معلوم ہوا ال فرعون کو الله کی الوہیت کا علم تھا اور ان کے نزدیک یوسف الله کے ایک نبی تھے

سورہ الاعراف میں ہے

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَقَوْمَهٝ لِيُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِـهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُـقَتِّلُ اَبْنَـآءَهُـمْ وَنَسْتَحْيِىْ نِسَآءَهُـمْۚ وَاِنَّا فَوْقَهُـمْ قَاهِرُوْنَ (127 

اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسٰی اور اس کی قوم کو چھوٹ دیتا ہے تاکہ وہ ملک میں فساد کریں اور (موسٰی) تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے، (فرعون نے) کہا ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے، اور بے شک ہم ان پر غالب ہیں۔

یعنی ال فرعون  الله کے ساتھ ساتھ اس کائنات میں دوسرے معبودوں کا وجود بھی مانتے تھے اور اس کا ذکر سورہ الاعراف میں ہے کہ وہ الله تعالی کو بھی انسانی معملات میں مداخلت کرنے والا سمجھتے تھے

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْـهِـمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالـدَّمَ اٰيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍۖ فَاسْتَكْـبَـرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ (133)
پھر ہم نے ان پر طوفان اور ٹدی اور جوئیں اور مینڈک اور خون یہ سب کھلے کھلے معجزے بھیجے، پھر بھی انہوں نے تکبر ہی کیا اور وہ لوگ گناہگار تھے۔
وَلَمَّا وَقَـعَ عَلَيْـهِـمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يَا مُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ۖ لَئِنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُـؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُـرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ (134)
اور جب ان پر کوئی عذاب آتا تو کہتے اے موسٰی! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر جس کا اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے، اگر تو نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا تو بے شک ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْـهُـمُ الرِّجْزَ اِلٰٓى اَجَلٍ هُـمْ بَالِغُوْهُ اِذَا هُـمْ يَنْكُـثُوْنَ (135)
پھر جب ہم نے ان سے ایک مدت تک عذاب اٹھا لیا کہ انہیں اس مدت تک پہنچنا تھا اس وقت وہ عہد توڑ ڈالتے۔

یعنی ان کے نزدیک موسی و یوسف کا رب بھی زمین کے  معاملات  دیکھ سکتا  تھا اور اسی طرح ان کے اپنے اور معبود بھی

راقم سمجھتا ہے کہ یہ دوسرے معبود ان کے نزدیک آسمان کے برج یا تارے   تھے  انہی برجوں کو مصریوں نے شکلیں دے کر پوجا ہے –  مصری مذھب کے مطابق کائنات  میں ١٢ برج ہیں جو اثر زیادہ رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ جو برج ہیں وہ بھی زمیں پر اثر کرتے ہیں

یہ معلومات مصری  مندر داندرہ

Dandera zodiac

سے ملتی ہے  جس کی چھت پر  برج بنے تھے

Dendera Zodiac   in the temple complex Hathor in Dendera.

دندرہ کے مندر میں جو منظر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  کائنات کی  ابتداء کے وقت برج سرطان  سے زمین گزری

زمین کا محور ایک دائرے میں گھوم رہا ہے اس کی مدت ٢٥٩٢٠ سال ہے اور یہ مصریوں اور ہندوؤں کے علم میں ہے – ہندو اسی ٢٥٩٢٠ سال کو کئی یگوں میں ٹورتے ہیں اور اس میں بیشتر کے نزدیک ابھی کالی یگ چل رہا ہے- مزید یہ کہ ہندو کہتے ہیں کہ زمین اصل میں سورج کے گرد نہیں کسی اور ستارے کے گرد ایک بیضوی فلک میں  گھوم رہی ہے جس کو سپر سن

Super Sun

کہتے ہیں -ایک برج کی مدت ٢١٦٠ سال ہے جس کو اعیان

Aeon

کہا جاتا ہے -بہر حال زمین کے قطب کو مسلسل نظر میں رکھنے کی وجہ سے  مصری بھی  یہ جانتے تھے کہ قطب   بدل جاتا ہے  ایک دور میں قطب نسر الواقع

Vega

تھا پھر ثعبان

ہوا – ثعبان  تارہ جس برج میں  ہے اس کو مصری ایک عورت و دریائی گھوڑے کی شکل میں بناتے تھے – دندرہ کے مندر میں زوداک میں بیچ میں یہی ہے یعنی جس وقت یہ مندر بنا اس وقت ثعبان  کا تارہ قطب شمالی تھا جس کے گرد زمین گھوم رہی تھی

 آجکل زمین کا  قطب شمالی  کا تارا

Phoenice

  ہے – سفر میں اس کی اہمیت تھی  کیونکہ زمین میں سمت کا تعین اسی سے کیا جاتا تھا

بہر حال دندرہ مندر جو مصر  میں  ہے اس  میں برجوں کی آمد کا جو ذکر ہے اس کے مطابق  برج    زمیں پر اثر کرتا ہے اس کو دور یا

age

کہا جاتا ہے

سامری نے جو یہ سب ایجاد کیا تو اس کے پیچھے کیا فلسفہ چل رہا تھا اس کی رسائی میں معلوم ہوتا ہے کہ اصلا یہ مصریوں کا مذھب تھا اور اہل مصر کے نزدیک آسمان کے رب کئی تھے جو بروج تھے  اور سامری کا دور اصل میں

Age of Taurus

تھا یا برج ثور کا دور تھا جس میں  اس ثور یا بیل کی پوجا کرنے کو صحیح سمجھا جا رہا تھا

اس وقت ثعبان قطب شمالی تھا لیکن چونکہ بنی اسرائیل پر بادل رہا ان کو آسمان پر سمت کا تعین نہیں ہو سکا اور اسی طرح دشت میں ہی بھٹکتے رہے

موسی علیہ السلام نے اس صنم ثور  جس کو قرآن میں عجل (بیل) کہا گیا ہے اس کو توڑ کر پیس دیا

آجکل کا دور

Age of Aquarius

کہا جاتا ہے یعنی برج دلو کا دور جس کا برجوں کے پجاری بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے اور سن ١٩٦٩   میں ایک گانے میں اس کا ذکر بھی ہے

When the moon is in the Seventh House

And Jupiter aligns with Mars

یہ آسمانی وقوعہ  اسی سال جنوری ٢٠١٨ میں ان کے مطابق  ہوا ہے  اور اس طرح آج ہم سب برج دلو کے دور میں آ چکے  ہیں

انہی برجوں کو دجالی لوگ  پہلے بھی استعمال کرتے رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ  مسیح الدجال  بھی  اس  کواستعمال  کرے و الله اعلم

کلام المیت علی الجنازة

ایک مشھور روایت ہے کہ مردہ کو جب کھاٹ پر رکھا جاتا ہے وہ کلام کرتا ہے – اس بلاگ میں اس کی اسناد پر بحث کی گئی ہے

صحیح بخاری -> کتاب الجنائز –  باب کلام المیت علی الجنازۃ
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا

حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق”.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے اگر انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

الطبقات الكبرى از  المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اور مسند احمد میں ہے کہ یہ قول ابو ہریرہ کا تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، وَأَسْرِعُوا بِي إِسْرَاعًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي. وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَتِي أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي “

ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، نے المقبری سے روایت کیا انہوں نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو بستر پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو بستر پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے کہ ابو ہریرہ کا قول تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ بِأَبِي هُرَيْرَةَ الْمَوْتُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَى قَبْرِي فُسْطَاطًا , وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، فَإِذَا حَمَلْتُمُونِي , فَأَسْرِعُوا , فَإِنْ أَكُنْ صَالِحًا تَأْتُونَ بِيِ إِلَى رَبِّي، وَإِنْ أَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ , فَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ تَطْرَحُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

ابو معشر نے کہا سعید المقبری نے کہا جب ابو ہریرہ کی وفات کا وقت آیا کہا میری قبر پر خیمہ نہ لگانا نہ میرے  پیچھے اگ لے کر جانا پس جب مجھے اٹھانا جلدی کرنا کیونکہ اگر میں نیک ہوں تو تم مجھے میرے رب کی طرف لے جا رہے ہو اور اگر اس کے علاوہ ہوں تو تم ایک چیز اپنے کندھوں سے پھینک رہے ہو

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِي بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَهُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي؟ “

المقبری نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً [ص:466] قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصُعِقَ ” قَالَ حَجَّاجٌ: لَصُعِقَ

سعید المقبری نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو سعید الخدری سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ کورکھتے  ہیں اور مرد  اس کو گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر یہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو اس آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

سعید بن ابی سعید ( أَبُو سَعْدٍ بنُ كَيْسَانَ) ایک ہی روایت تین  سندوں سے بیان کر رہا ہے

 ایک سعید المقبری  عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

دوسری  سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

تیسری سعید المقبری  عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، کی سند سے

سعید المقبری سے تین لوگوں نے اس روایت کو لیا أبي معشر الْمَدِينِيّ ، دوسرے لَيْثٌ بن سعد ، تیسرے ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني کا تفرد ہے

ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق

سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث

ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے

ابی معشر کے مطابق یہ الفاظ ابو ہریرہ کے ہیں اس کو حدیث نبوی نہیں کہا ہے  یعنی موقوف عن ابو ہریرہ ہے

یہ بات کہ میت کے اس قول کو انسان کے سوا سب سنتے ہیں یہ صرف ابو سعید الخدری  کی سند سے ہیں

لہذا محدثین اس کو صرف دو سندوں سے قبول کرتے ہیں جو لیث اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ کی اسناد ہیں

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے

المختلطين از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني:

 قال شعبة: ساء بعد ما كبر.

وقال محمد بن سعد: ثقة إلا أنه اختلط قبل موته بأربع سنين.

شعبہ کہتے ہیں یہ بوڑھے ہوئے تو خراب ہوئے

ابن سعد نے کہا یہ ثقہ ہیں لیکن یہ مرنے سے ٤ سال قبل اختلاط کا شکار ہوئے

قال الواقدى: كبُر واختلط قبل موته بأربع سنين – واقدی نے کہا بوڑھے ہوئے اور مرنے سے ٤ سال قبل مختلط ہوئے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ)  کے مطابق ١٢٥ ھ میں وفات ہوئی

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق

وفي كتاب الباجي عن ابن المديني: قال ابن عجلان: كانت عنده أحاديث سندها عن رجال عن أبي هريرة فاختلطت عليه فجعلها كلها عن أبي هريرة.

اور الباجی کی کتاب میں ابن المدینی سے روایت ہے کہ ابن عجلان نے کہا ان کے پاس احادیث تھیں جو عن رجال عن ابو ہریرہ سے تھیں ان کو جب اختلاط ہوا تو انہوں نے تمام کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

شعبہ نے بھی احتیاط کی ہے اور کہا ہے کہ سعید  بوڑھے ہو چکے تھے

وَقَال يَعْقُوب بْن شَيْبَة: قد كَانَ تغير وكبر واختلط قبل موته، يقال: بأربع سنين، حَتَّى استثنى بعض المحدثين عنه ما كتب عنه فِي كبره مما كتب قبله، فَكَانَ شعبة يَقُول: حَدَّثَنَا سَعِيد الْمَقْبُرِيّ بعدما كبر.

يَعْقُوب بْن شَيْبَة نے کہا کہ یہ بدل گئے اور بوڑھے ہوئے اور مرنے سے پہلے مختلط ہو چکے تھے کہا جاتا ہے ٤ سال یہاں تک کہ بعض محدثین نے اس کو الگ کیا ہے جو ان کے بڑھاپے سے پہلے لکھا یہاں تک کہ شعبہ کہتے کہ سعید المقبری نے روایت کیا بوڑھا ہونے کے بعد

قال يحيى القطان: “سمعتُ محمد بن عجلان يقولُ: كان سعيدٌ المقبري يُحَدِّث عن أبيه عن أبي هريرة، وعن رجل عن أبي هريرة، فاختلط عليَّ فجعلتها كلها عن أبي هريرة   الميزان: (3/645)

یحیی القطان کہتے ہیں میں نے ابن عجلان کو سنا کہ سعید المقبری اپنے باپ سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے اور سعید ایک آدمی سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتا لیکن جب سعید کو اختلاط ہوا تو سعید المقبری نے ان تمام روایات کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيدا المقبري سمع من أبي هريرة ومن أبيه عن أبي هريرة وأنه اختلف عليه في أحاديث وقالوا أنه اختلط قبل موته وأثبت الناس فيه الليث بن سعد يميز ما روى عن أبي هريرة مما روى عن أبيه عنه وتقدم أن ما كان من حديثه مرسلا عن أبي  هريرة فإنه لا يضر لأن أباه الواسطة

سعید المقبری نے ابو ہریرہ سے سنا اور اپنے باپ سے انہوں نے ابو ہریرہ سے اور ان کی احادیث پر اختلاف ہوا اور کہا کہ یہ مرنے سے قبل مختلط ہوئے اور لوگوں میں سب سے ثابت ان سے روایت کرنے میں اللیث ہیں جو اس کی  تمیز کر سکتے ہیں کہ یہ ابو ہریرہ سے کیا روایت کرتے ہیں اور کیا اپنے باپ سے کرتے ہیں اور جیسا کہ گزرا ان کا ابو ہریرہ سے روایت کرنا مرسل ہے اگرچہ اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے سنا ہے

سعید المقبری کو اختلاط تھا الذھبی نے اس کا انکار کیا اس پر ابن الكيال (المتوفى: 929هـ) نے کتاب  الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات میں لکھا

 والعجب من الذهبي انكار اختلاطه وقد أقر باختلاطه الواقدي وابن سعد ويعقوب بن شيبة وابن حبان

اور الذھبی کی عجیب بات ہے کہ اس کا انکار کیا اور اس اختلاط کا ذکر کیا ہے واقدی نے  ابن سعد نے یعقوب نے اور ابن حبان نے 

اگرچہ ابن معین نے کہا تھا کہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت سب سے مناسب ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین اس کو بھی منکر کہتے ہیں –  العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)  کے مطابق ایک روایت اس کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  روایت کرتے ہیں

عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ  ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص)   : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.

قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ

ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے

ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے

یعنی  سعید المقبری  کی باپ سے ان کی ابو ہریرہ سے روایت منکر بھی کہی گئی ہے

امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں ایک اور روایت کا حوالہ دیا

وَقال ابْنُ طَهمان،  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُريّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم؛ مَا سَمِعتُم عَنِّي مِن حَدِيثٍ تَعرِفُونَهُ فَصَدِّقُوهُ.  وَقال يَحيى: عَنْ أَبي هُرَيرةَ، وَهُوَ وهمٌ، لَيْسَ فِيهِ أَبو هُرَيرةَ.

ابْنِ أَبي ذِئب نے سعید المقبری سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میری جو حدیث سنو اس کو پہچانو تصدیق کرو اور یحیی نے کہا یہ عن ابو ہریرہ ہے –   لیکن یہ وہم ہے اس میں ابو ہریرہ نہیں ہے

یعنی امام بخاری کے نزدیک   ابْنِ أَبي ذِئب کی روایت میں سعید المقبری نے براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب نے دور اختلاط میں سنا ہے

یاد رہے کہ ابن أبي ذئب مدلس بھی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ رجال کے حوالے سے احتیاط سے بھی کام نہیں لیتے تھے

اس سند میں عبد الرحمن بن مهران بھی  ہے – جس کے بارے میں محدثین کی معلومات کم ہیں

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

البرقانی کہتے ہیں میں دارقطنی سے کے بارے میں پوچھا  کہا  مدنی بوڑھا اعتبار کیا جاتا ہے

یہاں اعتبار محدثین کی اصطلاح ہے  کہ روایت لکھ لی جائے حتی کہ شاہد ملے

ابن حجر نے صرف مقبول من الثالثة  تسرے درجے کا مقبول کہا ہے – اس کی وضاحت خود تقریب میں اس طرح کی

من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ ” مقبول ” حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.

جس کی احادیث بہت کم ہوں اور اس پر کوئی بات ثابت نہیں کہ اس کی حدیث ترک کی جائے تو اس کے لئے مقبول کا لفظ سے اشارہ کیا ہے  جب متابعت ہو ورنہ یہ لین الحدیث ہو گا

یعنی ایسا راوی جس پر کوئی جرح کا خاص کلمہ نہ ہو اس کی احادیث بھی کم ہوں تو اس کی روایت لکھی جائے گی جسکی  روایت کی متابعت ملنے پر یہ مقبول کہلائے گا وگرنہ لین الحدیث  (کمزور ) ہے

ان وجوہات کی بنا پر اس طرق کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا

اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟

وقال الساجي: حدثني أحمد بن محمد قال: قلت ليحيى بن معين: من أثبت الناس في سعيد المقبري؟ قال: ابن أبي ذئب

ابن معین نے کہا اس سے روایت کرنے میں اثبت ابن أبي ذئب ہے

ابن حراش: جليل، أثبت الناس فيه الليث بْن سَعْد –  ابن خراش نے کہا اثبت لیث ہے

دارقطنی کہتے ہیں

لأنَّ الليث بن سعد ضبط عن المقبري ما رواه عن أبي هريرة، وما رواه عن أبيه عن أبي هريرة

لیث بن سعد یاد رکھتے تھے المقبری کی روایت جو انہوں  نے ابو ہریرہ سے روایت کی اور جو انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے  ابو ہریرہ سے روایت کی

  وقال عبد الله: سَمِعتُهُ يقول (يعني أَباه) : أصح الناس حديثًا عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ليث بن سعد، يفصل ما روى عن أبي هريرة، وما (روى) عن أبيه، عن أبي هريرة، هو ثبت في حديثه جدًا. «العلل» (659) .

عبد الله نے کہا میں نے باپ سے سنا کہ سعید المقبری سے روایت کرنے میں سب سے صحیح ليث بن سعد ہے جو واضح کرتے ہیں جو یہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے روایت کر دیتے ہیں اور جو یہ صرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں

محدثین میں بعض نے لیث کی سند پسند کی اور بعض نے ابن أبي ذئب کی سند – لیکن جیسا واضح کیا اس میں ابن أبي ذئب بھی قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ محدثین کی اس طرق سے روایت کردہ متن کو رد کرتے ہیں- لیث کو اس لیے پسند کیا جاتا تھا کہ وہ تمیز کر لیتے تھے کہ سعید المقبری نے  اختلاط میں جو روایات اپنے باپ سے اور ابو ہریرہ سے روایت کی ہیں ان میں کون سی صحیح ہیں گویا یہ ایک طرح کا لیث کا اندازہ ہے جس کی بنیاد پر سعید المقبری کے اختلاط والی روایات کو لیا گیا ہے

 الليث بن سعد بن عبد الرحمن بن عقبة مصری ہیں سن ٩٤ میں پیدا ہوئے اور سن ١١٣ میں حج کیا  اور ١٧٥ میں وفات ہوئی

قال ابن بكير  سَمِعْتُ اللَّيْثَ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَمائَةٍ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِيْنَ سَنَةً

ابن بکیر نے کہا میں نے اللَّيْثَ سے سنا کہ انہوں نے امام الزہری سے مکہ میں سن ١١٣ میں سنا

  سعید المقبری سن ١١٩ ھ سے ١٢٣ ھ تک مختلط تھے- محدثین کا یہ کہنا کہ لیث کے اندر صلاحیت تھی کہ وہ سعید المقبری کی سند میں علت کو جان لیتے تھے ظاہر کرتا ہے کہ سعید المقبری میں اختلاط کی کیفیت شروع ہی ہوئی تھی کہ لیث نے ان سے سنا

عجیب بات یہ ہے کہ لیث کو جب سعید یہ روایت سناتے ہیں تو اس کو سعید الخدری رضی الله عنہ کی حدیث کہتے ہیں اور جب ابن ابِي ذئبٍ کو یہ سناتے ہیں تو اس کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث قرار دیتے ہیں

اس اشکال کو اپ مندرجہ ذیل جدول میں دیکھ سکتے ہیں

ابن ابِي ذئبٍ کی سند

 

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

لیث کی سند کتاب
حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند أبي يعلى

 

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ سنن نسائی
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ مسند احمد
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند احمد
حَدَّثَنا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: صحیح بخاری
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صحیح بخاری
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أبو داود الطيالسي
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، مسند أحمد
حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَحَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أحمد
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ سنن نسائی
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،

 

صحیح ابن حبان

المزی تہذیب الکمال میں  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة  کے ترجمہ میں یہ روایت لکھ کر کہتے ہیں

هكذا رواه ابن أَبي ذئب، وخالفه الليث بْن سعد (س)  فرواه عَنْ سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ

ایسا ابن أَبي ذئب نے روایت کیا ہے (یعنی  ابن أَبي ذئب عَن سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة ) اور ان کی مخالفت کی ہے الليث بْن سعد نے انہوں نے اس کو  سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ کی سند سے روایت کیا ہے

راقم کے خیال میں یہ روایت دور اختلاط کی ہے جس کی بنا پر اسناد میں یہ گھپلا پیدا ہو رہا ہے اور چونکہ لیث کا حجاز پہنچنا بھی اسی دور کے پاس کا ہے جس میں لیث کو مختلط کہا گیا ہے گمان غالب ہے کہ اسناد میں  یہ تضاد اس کیفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ سفیان بن عُيَيْنَة،   سعید المقبری کے پاس  پہنچے لیکن

فإن ابن عُيَيْنَة أتاه فرأى لعابه يسيل فلم يحمل عنه، وحدث عنه مالك والليث

اس کا لعاب اس کے منہ سے بہہ رہا تھا لہذا نہیں لکھا

سفيان بن عيينة بن أبي عمران ميمون سن ١٠٧ میں پیدا ہوئے

کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق

سمع في سنة تسع عشرة ومائة ، وسنة عشرين ، وبعد ذلك

سفيان بن عيينة نے سن ١١٩ اور ١٢٠ اور اس کے بعد سنا ہے

سفيان بن عيينة کوفہ میں پیدا ہوئے اس کے بعد حجاز کا سفر کیا جہاں ١١٩ کے بعد لوگوں سے سنا اس دور میں انہوں نے سعید المقبری کو دیکھا جن کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا

تہذیب الکمال کے مطابق

وَقَال نوح بْن حبيب القومسي: سَعِيد بْن أَبي سَعِيد، وابن أَبي مليكة، وقيس بْن سَعْد، ماتوا سنة سبع عشرة ومئة.

نوح بْن حبيب نے کہا کہ سعید بن ابی سعید کی موت سن ١١٧ میں ہوئی

 خليفة بْن خياط کے بقول ١٢٦ میں ہوئی

أَبُو بَكْر بْن أَبي خَيْثَمَة اور ابن سعد کے مطابق ١٢٣ میں ہوئی

وَقَال الواقدي، ويعقوب بْن شَيْبَة، وغير واحد: مات فِي أول خلافة هشام بن عبد الملك.

الواقدي اور يعقوب بْن شَيْبَة  اور ایک سے زائد محدثین کہتے ہیں  هشام بن عبد الملك (١٠٥ سے ١٢٥ تک خلیفہ) کی خلافت کے شروع میں ہوئی

اس طرح دیکھا جائے تو  زیادہ ترمحدثین  سعید المقبری کی موت کو ١١٧ ہجری کے پاس لے اتے ہیں جس میں اللیث نے مکہ جا کر حج کیا  گویا اللیث نے سعید المقبری کو عالم اختلاط میں پایا ہے یہ قول کہ وفات ١٢٠ کے بعد ہوئی یہ ہشام بن عبد الملک کی خلافت کا آخری دور بن جاتا ہے لہذا یہ صحیح نہیں ہے- ہشام نے ٢٠ سال حکومت کی ہے تو تاریخ وفات میں  یہ کوئی معمولی فرق نہیں رہتا

اختلاط کا دورانیہ ٤ سال کا تھا لیکن تاریخ وفات میں اختلاف کی بنا پر واضح نہیں رہا کہ یہ کب شروع ہوا

اگر ١١٧ وفات لی جائے تو اس کا مطلب ہے اختلاط سن ١١٣ میں شروع ہوا

قال الْبُخَارِيّ : مات بعد نَافِع.

نافع کی موت ١١٩ یا ١٢٠ میں ہوئی ہے بحوالہ سیر الاعلام النبلاء

امام بخاری نے  تاريخ الصغير یا  التاريخ الأوسط میں  صرف یہ لکھا ہے کہ سعید المقبری کی وفات نافع کے بعد ہوئی کوئی سال بیان نہیں کیا جبکہ اختلاط کا علم ہونا ضروری ہے- امام بخاری نے یھاں سعید المقبری کے حوالے سے اللیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے

امام مالک نے بھی سعید المقبری سے روایت لی ہے لیکن یہ نہیں لکھی بلکہ روایت بیان کی

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني کی سند ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ، فَقَالَ: ” أَنَا لَعَمْرِ اللَّهِ أُخْبِرُكَ، أَتْبَعُهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَإِذَا وُضِعَتْ كَبَّرْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَصَلَّيْتُ عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ “، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قِرَاءَةَ عَلَى الْجِنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ

امام مالک نے سعید المقبری سے انہوں نے  اپنے باپ سے روایت کیا  انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ جنازہ پر نماز کیسے پڑھیں؟ ابو ہریرہ نے  کہا لعمر الله میں اس کی خبر دیتا ہوں میت کے اہل کے ساتھ ہوں گے پس جب رکھیں تو الله کی تکبیر و حمد کہیں اور نبی پر درود پھر کہیں

اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ

امام محمد نے کہا یہ قول ہم لیتے ہیں کہ جنازہ پر قرات نہیں ہے اور یہی قول ابو حنیفہ رَحِمَهُ اللَّهُ کا ہے 

قابل غور ہے  کہ امام مالک تو مدینہ کے ہی تھے انہوں نے یہ  قدمونی والی روایت  نہ لکھی جبکہ اللیث جو ١١٧ میں مصر سے آئے ان کو اختلاط کی کیفیت میں سعید المقبری ملے اور انہوں نے اس کو روایت کیا

الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے
قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين

امام حاکم نے کہا – امام مالک حکم ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر

مستدرک میں حاکم کہتے ہیں

مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ الْحَكَمُ فِي حَدِيثِ الْمَدَنِيِّينَ….. وَاحْتَجَّ بِهِ فِي الْمُوَطَّأِ

اہل مدینہ کی احادیث پر امام مالک فیصلہ کرنے والے ہیں   یہ وہ حدیث ہے جس  سے امام مالک نے موطا میں دلیل لی ہے

لہذا سعید المقبری کی روایت جو امام مالک نے نہ  لکھی ہو  اس کی کوئی نہ کوئی تو وجہ ضرور ہے جس میں یہ کلام المیت والی روایت بھی ہے

قیصر روم کے بعد

ایک روایت بیان کی جاتی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ قیصر روم کے بعد کوئی اور قیصر نہ ہو گا –  اس کو تین اصحاب رسول سے منسوب کیا گیا ہے جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اور ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے

کسری شاہ فارس  تھا اور قیصر بازنیطی رومی سلطنت کا حاکم  کا ٹائٹل تھا

Heraclius (Herakleios) was emperor of the Byzantine Empire from 610 to 641 CE.

مسئلہ : اس روایت کا متن شاذ و منکر ہے – قیصر روم  ہرقل کے بعد بھی متعدد قیصر آئے ہیں البتہ كسرى بن هرمز دور نبوی میں مر گیا پھر کوئی کسری نہ ہوا بلکہ اس کی بیٹی ملکہ بنی پھر وہاں بغاوت ہوئی اور ایک جنرل  ان کا حاکم بنا- دور عمر میں اصحاب رسول نے فارس فتح کیا اور ان کے خزانے مسلمانوں نے لئے – قیصر روم ہرقل کا خزانہ مسلمانوں کو نہ ملا قیصر زندہ رہا اور طبعی موت مرا اس کے بعد بھی متعدد قیصر حاکم ہوئے

جابر بن سمرہ رضی الله کی سند

صحيح بخاري اور مسند احمد ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، سَمِعَ جَرِيرًا، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلاَ كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلاَ قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ  لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ
عبد الملک بن عمير کہتا ہے جابر رضي الله عنہ نے کہا نبي صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا : جب کسري ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئي کسري نہيں ہو گا اور جب قيصر ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئي قيصر نہ ہو گا – اور وہ جس کے ہاتھ ميں ميري جان ہے تم ان کے خزانے نکالو گے

اس طرق میں عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ کا تفرد ہے اور یہ مختلط ہو گئے تھے لہذا اس میں احتمال ہے کہ یہ دور اختلاط کا ذکر ہے

ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی سند
صحيح بخاري ميں ابو ہريرہ رضي الله عنہ کي سند سے ہے
حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلاَ كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلاَ قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي  نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ»

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى، فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ، فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ  بِيَدِهِ، لَتُنْفِقُنَّ كُنُوزَهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ»

مسند إسحاق بن راهويه میں ہے
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ زِيَادٍ، مَوْلَى بَنِي مَخْزُومٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَهَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَيُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ»

ابو داود طیالسی میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَلْقَمَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ»

مسند البزار میں ہے
وحَدَّثَنا إبراهيم بن نصر حَدَّثَنا عمرو أَخْبَرنا شعبة , عن يعلى بن عطاء , عن أبي علقمة , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا هلك كسرى فلا كسرى , وإذا هلك قيصر فلا  قيصر بعده.

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے اس روایت کو ان راویوں نے نقل کیا ہے
الأَعْرَجِ
سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ
زِيَادٍ مَوْلَى بَنِي مَخْزُومٍ
أبي علقمة

ابو ہریرہ رضی الله عنہ بعض اوقات کعب الاحبار کی خبر کو بھی اس طرح بیان کرتے تھے کہ سننے والا سمجھ بیٹھتا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دی گئی خبر ہے

کتاب التمييز( ص /175 ) کے مطابق امام مسلم نے بسر بن سعيد کا قول بیان کیا
حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حدیث میں حفاظت کرو – الله کی قسم ! ہم دیکھتے ابو ہریرہ کی مجالس میں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے اور وہ (باتیں) کعب ( کی ہوتیں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روایت کرتے جو حدیثیں رسول الله سے ہوتیں

احمد العلل میں کہتے ہیں

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث  أبي هريرة. «العلل» (946) .

احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے
روایت کیا – اعمش نے کہا : ابراھیم النخعي، ابوہریرہ کی احادیث میں چیزوں کو ترک کر دیتے

ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ

الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار

ابراھیم النخعي نے کہا ہم ابو ہریرہ کی احادیث کو نہیں لیتے سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو

ابو سعید الخدری کی سند
المعجم الصغير از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ كَثِيرٍ التَّمَّارُ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى , وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِي، لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبَانَ إِلَّا ابْنُ الْأَجْلَحِ تَفَرَّدَ بِهِ مِنْجَابٌ

اس کی سند عطیہ العوفی کی وجہ سے ضعیف ہے

راقم کا گمان ہے کہ روایت ابو ہریرہ نے سب سے پہلے بیان کی جو کعب الاحبار کا قول تھا لوگ اس کو حدیث نبوی سمجھ بیٹھے اور پھر عبد الملک بن عمیر نے اختلاط کے عالم میں اس کو جابر بن سمرہ سے منسوب کر دیا

کعب الاحبار ایک سابقہ یہودی تھے اور کعب کی زندگی میں  ہرقل کے خلاف یہود نے بغاوت کر دی تھی اس تناظر میں یہ معمہ حل ہو جاتا ہے کہ اس بغاوت پر کلام  ہوا ہو گا اور اس کو حدیث رسول سمجھا جانے لگا –

نحمیاہ  اور بن یامین نام کا دو  یہودی جنرل فارسی لشکر کو لے کر ہرقل سے لڑ  رہے تھے

Nehemiah ben Hushiel

Benjamin of Tiberias

روایت کی تاویل

نووي نے شرح صحيح مسلم ميں لکھا ہے
قَالَ الشَّافِعِيُّ وَسَائِرُ الْعُلَمَاء: مَعْنَاهُ لَا يَكُونُ كِسْرَى بِالْعِرَاقِ، وَلَا قَيْصَرُ بِالشَّامِ كَمَا كَانَ فِي زَمَنِهِ – صلى الله عليه وسلم – فَعَلَّمَنَا – صلى الله عليه وسلم – بِانْقِطَاعِ مُلْكِهِمَا فِي هَذَيْنِ الْإِقْلِيمَيْنِ
امام الشافعي اور تمام علماء کہتے ہيں کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم کا مطلب تھا کہ کسري عراق پر نہ ہو گا اور قيصر شام پر نہ ہو گا وہ جو رسول الله کے دور ميں تھے – پس ہم کو علم ديا  کہ ان دونوں کي آقاليم کا انقطاع ہو جائے گا

ابن حبان صحيح ميں کہتے ہيں
قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَى، فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ» أَرَادَ بِهِ بِأَرْضِهِ، وَهِيَ الْعِرَاقُ، وَقَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرُ بَعْدَهُ» يُرِيدُ بِهِ بِأَرْضِهِ وَهِيَ الشَّامُ، لَا أَنَّهُ لَا يَكُونُ كِسْرَى بَعْدَهُ، وَلَا قَيْصَرُ

رسول اللہ صلي الله عليہ وسلم کے قول کہ جب کسري ہلاگ ہو گا تو کوئي کسري بعد ميں نہ ہو گا ان کا مقصد عراق کي زمين تھا اور رسول الله کا قول کہ جب قيصر ہلاک ہو گا تو کوئي اور نہ ہو گا تو اس سے مراد ارض شام تھي نہ کہ يہ کہ کسري يا قيصر ہي نہ ہوں گے

مشکل الاثار ميں امام طحاوي کہتے ہيں
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَسَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ أَبِي عِمْرَانَ عَنْ تَأْوِيلِ هَذَا الْحَدِيثِ فَأَجَابَنِي بِخِلَافِ هَذَا الْقَوْلِ وَذَكَرَ أَنَّ مَعْنَى قَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: ” إذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ “، قَالَ فَهَلَكَ كِسْرَى كَمَا أَعْلَمَنَا أَنَّهُ سَيَهْلِكُ فَلَمْ يَكُنْ  بَعْدَهُ كِسْرَى، وَلَا يَكُونُ بَعْدَهُ كِسْرَى إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَكَانَ مَعْنَى قَوْلِهِ: ” إذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ ” إعْلَامًا مِنْهُ إيَّاهُمْ أَنَّهُ سَيَهْلِكُ وَلَمْ يَهْلِكْ إلَى الْآنَ , وَلَكِنَّهُ هَالِكٌ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَخُولِفَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ كِسْرَى فِي تَعْجِيلِ هَلَاكِ كِسْرَى وَتَأْخِيرِ هَلَاكِ قَيْصَرَ لِاخْتِلَافِ مَا كَانَ مِنْهُمَا عِنْدَ وُرُودِ كِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا. قَالَ لَنَا ابْنُ أَبِي عِمْرَانَ وَرُوِيَ فِي ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ميں نے احمد بن ابي عمران سے اس حديث کي تاويل پوچھي تو جواب ديا … ہميں معلوم ہے کہ کسري ہلاک ہوا تو اس کے بعد کوئي کسري نہ ہوا اور نہ قيامت تک ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ اس قول کہ  جب قيصر ہلاک ہو گا تو کوئي قيصر نہ ہو گا کا مطلب ہے کہ يہ علامت ہے کہ يہ ہلاک ہو گا اور يہ ابھي تک نہيں مرا ہے ليکن يہ ہلاک ہو گا قيامت سے پہلے اور اس کے اور کسري کے درميان  خلاف کيا کہ کسري پہلے ہلاک ہو گا اور قيصر کي ہلاکت دير سے ہو گي

قال الخطابي: معناه: فلا قيصر بعده يملك مثل ما يملك
خطابی نے کہا کہ قیصر ایسی حکومت نہ کر پائے گا جیسی کرتا تھا

امام ابو حنیفہ کی آراء
قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ) میں
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب
اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال: أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة. واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ. واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم. اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد
ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس  کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے

المحيط البرهاني في الفقه النعماني فقه الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه از أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (المتوفى: 616هـ) میں ہے
ابو حنیفہ نے کہا .. اصحاب رسول کی تقلید ہو گی سوائے انس اور ابو ہریرہ اور سمرہ کے کہ … انس آخری عمر میں مختلط تھے اور علقمہ سے پوچھتے تھے

اس بحث سے معلوم ہوا کہ روایت متنا صحیح نہیں

لوگوں نے اس روایت کی تاویل کی ناکام کوشش کی ہے اور قیصر کی حکومت کو شام تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ اس کی حکومت  بابل شام اور قسطنطنیہ ترکی سے لے کر یورپ تک تھی – صرف دور نبوی میں فارسیوں کو ایلیا  یا بیت المقدس یا یروشلم پر مختصر مدت کے لئے غلبہ ملا جس کا ذکر سورہ روم میں ہے  لیکن رومی چند  سال میں  غالب ہوئے اور ایلیا بیت المقدس میں قیصر روم ہرقل جنگی معاملات کو دیکھنے آیا اور اسی دور میں ابو سفیان رضی الله عنہ سے اس نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے سوالات کیے – مسلمانوں نے شام میں اس  کی مملکت کو کم کیا لیکن ترکی اور یورپ تک قیصر ہرقل کی حکومت بر قرار رہی  اور اس کے خزانے مسلمانوں کو نہ ملے

بعد وفات انبیاء کا حج کرنا

وہابی اور اھل حدیث اور ڈاکٹر عثمانی کی تنظیم کے موحد علماء کا کہنا ہے کہ نبی علیہ السلام بعد وفات بریلویاں کے گھر انڈیا پاکستان میں نہیں اتے – راقم اس قول سے متفق ہے اور اتنے دن سے رو رہا ہے کہ انبیاء کے حوالے سے جو بیان کیا جاتا ہے کہ  قبروں  میں  نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے – یہاں تک کہ اعصاب شکن ہوئے جب وہابی عالم مشہور حسن سلمان وہابی عالم کا فتوی دیکھا کہ  انبیاء نہ صرف  قبروں میں زندہ ہیں بلکہ  یہاں تک کہ آج کل بھی  حج  کرتے ہیں

https://ar.islamway.net/fatwa/31129/هل-يصلي-الأنبياء-في-قبورهم-وكيف-يكون-ذلك
السؤال 256: قرأت في كتاب “أحكام الجنائز” لشيخنا رحمه الله، حديثاً عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم عن سؤال الملكين للمؤمن في قبره: ((…. فيقال له اجلس وقد دنت له الشمس وقد آذنت للغروب، فيقال له: أرأيت في هذا الذي كان فيكم ما تقول فيه؟ ماذا تشهد عليه؟ فيقول: دعوني حتى أصلي، فيقولان إنك ستفعل)) فقال الشيخ الألباني معلقاً على هذا الحديث: صريح في أن المؤمن يصلي في قبره، وذكر حديثاً {أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون}، ما صفة هذه الصلاة، هل هي كصلاتنا أم ما هي صفتها؟
الجواب: الله أكبر، المؤمن في قبره لما يأتيه الملكان عقله وقلبه متعلق بالصلاة، فيقول للملائكة: دعوني حتى أصلي، ثم اسألوني، وهكذا شأن المؤمن.
والكلام على دار البرزخ، ودار البرزخ قوانينها ليست كقوانين الدنيا، ولها قوانين خاصة، والروح والبرزخ أشياء لا تدرك بالعقل ولا يجوز أن تخضع للمألوف، فعالم البرزخ العقل يبحث فيه عن صحة النقل فقط، فإن كان صحيح نقول يصلي، وكيف يصلي؟ لا ندري، والأنبياء لهم حياة في قبورهم، وكيف هذه الحياة، لا نعرفها، فهذا خبر في عالم الغيب، ليس للعقل إلا أن يتلقى ويبحث عن الصحة، فإن صح الخبر نقول: سمعنا وأطعنا.
وبهذا نرد على المفوضة وعلى الذين ينكرون صفات الله فإذا كان الإنسان نفسه عندما ينتقل من دار لدار العقل يتوقف، فكيف نعطل صفات ربنا عز وجل بحجة أنها تشبه صفات الخلق؟ فنحن نثبت صلاة للأنبياء وللمؤمن في القبور، بل نثيت حجاً وعمرة للأنبياء، كما جاء في صحيح مسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى يحج في المنام ورؤيا الأنبياء حق، فنثبت ما ورد فيه النص ونسكت ونعرف قدر أنفسنا ولا نزيد على ذلك، ولا يوجد أحد ذهب لعالم البرزخ فجاء فأخبرنا وفصل لنا والعقل لا يدرك والنص قاضٍ على العقل، والله أعلم…

حسن مشہور سلمان نے جواب دیا : … دار البرزخ کے قوانین الگ ہیں  … انبیاء کی حیات قبر کی ہے لیکن کیسی ہے پتا نہیں ہے  ہم نہیں جانتے یہ عالم الغیب کی خبر ہے … اور المفوضہ انکار کرتے ہیں  ہم  (وہابی) اس کا اثبات کرتے ہیں کہ انبیاء (بعد وفات)  اور مومن قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ہم اس کا بھی اثبات کرتے ہیں کہ انبیاء (بعد وفات) حج  و عمرہ کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے نیند میں موسی کو دیکھا کہ وہ حج کر رہے ہیں اور انبیاء کا خواب  حق ہے  پس ہم اثبات کرتے ہیں جو نص میں آیا

راقم کہتا ہے حدیث میں موسی یا یونس علیہما السلام کا حج کرنے کا جو ذکر ہے وہ ان کی زندگی کی خبر ہے لیکن وہابیوں نے اس حدیث کو بعد وفات کی طرف موڑ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انبیاء قبروں سے نکل کر  میقات کی حدود میں داخل ہوتے ہیں – یہ قول باطل ہے

صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِوَادِي الْأَزْرَقِ، فَقَالَ: «أَيُّ وَادٍ هَذَا؟» فَقَالُوا: هَذَا وَادِي الْأَزْرَقِ، قَالَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ هَابِطًا مِنَ الثَّنِيَّةِ، وَلَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللهِ بِالتَّلْبِيَةِ»، ثُمَّ أَتَى عَلَى ثَنِيَّةِ هَرْشَى، فَقَالَ: «أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ؟» قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى، قَالَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ جَعْدَةٍ عَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ، خِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ وَهُوَ يُلَبِّي

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   وادی ازرق سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا یہ کونسی وادی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یہ  وادی ازرق  ہے آپ نے فرمایا : گویا میں موسی علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں وہ پہاڑ سے اتر رہے ہیں تلبیہ کی وجہ سے ان کا ایک اللہ کے ہاں ایک مقام قرب ہے- پھر آپ ایک پہاڑ پر پہنچے فرمایا یہ کونسا پہاڑ ہے؟ عرض کی   ہرشی   پہاڑ ہے  آپ نے فرمایا گویا کہ میں یونس بن متی علیہ السلام کو نحیف سرخ اونٹنی پر دیکھ رہا ہوں ان پر اون کا جبہ ہے، اونٹنی کی نکیل خشک کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ہے اور آپ علیہ السلام تلبیہ کہہ رہے ہیں

اس روایت میں نیند کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو جاگنے کی حالت میں اپ صلی الله علیہ وسلم کو غیبی کشف کیا گیا کہ گویا موسی اور یونس علیہما السلام  نے جب حج کیا تو ایسے لگ رہے تھے

وہابی عالم صالح المنجد کا فتوی ہے

وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : ( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون ) رواه البزار وصححه الألباني في صحيح الجامع ( 2790 ) وهذه الصلاة مما يتمتعون بها كما يتنعم أهل الجنة بالتسبيح .

https://islamqa.info/ar/26117

اور بے شک صحیح ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انبیاء زندہ ہیں قبروں میں نماز  پڑھتے ہیں اس کو البزار نے روایت کیا ہے اور البانی نے نے صحیح کیا ہے اور یہ وہ نماز ہے جس سے یہ  فائدہ لیتے ہیں  جیسی کہ اہل جنت  تسبیح سے لیتے ہیں 

راقم کہتا ہے سلفی عالم اسمعیل سلفی کے بقول کہ اس روایت سے عقیدے ثابت نہیں کر سکتے

 

خواب میں نبی اکرم کا دیدار

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

بخاری کی حدیث میں یہ بات خاص دور نبوت کے لئے بتائی گئی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا تھا

بخاری میں دو حدیثیں ہیں

من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی

          جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل  نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم

دوسری حدیث ہے

من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته

جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے  کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے

 ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے  فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے  دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا

حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري کتاب الرؤيا میں لکھتے ہیں

المازري کہتے ہیں

احتمل أن يكون أراد أهل عصره ممن يهاجر إليه فإنه إذا رآه في المنام جعل ذلك علامة على أنه سيراه بعد ذلك في اليقظة

اغلبا اس سے مراد ان (نبی صلی الله علیہ وسلم) کے ہم عصر ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور ان کو خواب میں دیکھا اور یہ (خواب کا مشاہدہ) ان کے لئے علامت ہوئی اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کو بیداری میں بھی دیکھا

امام بخاری  نے بھی باب میں امام محمد آبن سیرین کا یہ قول لکھا ہے کہ

  یہ اس صورت میں ہے جب رسول صلى اللہ عليہ وسلم کو آپ ہی کی صورت میں دیکھا جائے

 یعنی شیطان تو کسی بھی صورت میں آ کر بہکا سکتا ہے ہم کو کیا پتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کیسے تھے؟ صرف شمائل پڑھ لینے سے وہی صورت نہیں بن سکتی . اگر  آج کسی  نے دیکھا بھی تو آج اس کی تصدیق کس صحابی سے کرائیں گے؟

 لیکن جن دلوں میں بیماری ہے وہ اس حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کو آج بھی خواب میں دیکھنا ممکن ہے اور خواب پیش کرتے ہیں

انس رضی الله عنہ کا خواب

طبقات ابن سعد میں ایک روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الذَّارِعُ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: مَا مِنْ لَيْلَةٍ إِلا وَأَنَا أَرَى فِيهَا حَبِيبِي. ثُمَّ يَبْكِي.

ابن سعد نے کہا ہم کو مسلم بن ابراہیم نے خبر دی انہوں نے کہا ان پر  الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الذَّارِعُ نے حدیث بیان کی  کہا میں نے انس بن مالک کو کہتے سنا کہ کوئی ایسی رات نہیں کہ جس میں میں اپنے حبیب کو نہ دیکھ لوں پھر رو دیے

تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از أَبِي يَعْلَى البغدادي، الحنبلي (المتوفى: 580هـ) کے مطابق اس نام کے دو راوی ہیں دونوں بصری ہیں

المثنى بن سعيد، اثنان    بصريان

أحدهما:1 – أبو غفار الطائي. حدث عن: أبي عثمان النهدي، وأبي قلابة الجرمي، وأبي تميمة الهجيمي، وأبي الشعثاء، مولى ابن معمر.روى عنه: حماد بن زيد، وعيسى بن يونس، وأبو خالد الأحمر، ويحيى بن سعيد القطان، وسهل بن يوسف.قال الخطيب: أنا محمد بن عبد الواحد الأكبر: أنا محمد بن العباس: ثنا ابن مرابا: ثنا عباس بن محمد، قال: سمعت يحيى بن معين يقول: أبو غِفَار الطَّائي بصري اسمه المثنى بن سعيد، يحدث عنه يحيى، وقال يحيى: المثنى بن سعيد ثقة.

والآخر:  أبو سعيد الضَّبِّي القَسَّام.رأى أنس بن مالك، وأبا مجلز، وسمع قتادة، وأبا سفيان طلحة بن نافع.

انس رضی الله عنہ سے اس قول کو منسوب کرنے والا  أبو سعيد المثنى بن سعيد  الضَّبِّي القَسَّام ہے جس نے ان کو صرف  دیکھا ہے

تاریخ الاسلام میں الذھبی نے اس راوی پر لکھا ہے رأى أنسا کہ اس نے انس کو دیکھا تھا

ابن حبان نے اس کے لئے ثقات میں کہا ہے  يخطىء غلطیاں کرتا ہے

المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از  أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کی تحقیق کے مطابق بھی اس نے انس رضی الله عنہ کو دیکھا ہے سنا نہیں ہے

أبو سعيد، المثنى بن سعيد، الضُبَعِيّ – بضم المعجمة، وفتح الموحدة – البصري، القسام، الذارع، القصير، كان نازلا في بني ضبيعة، ولم يكن منهم ويقال: إنه أخو ريحان بن سعيد، وروح بن سعيد، والمغيرة بن سعيد، رأى أنس بن مالك

توضيح المشتبه في ضبط أسماء الرواة وأنسابهم وألقابهم وكناهم کے مؤلف: محمد بن عبد الله (أبي بكر) ابن ناصر الدين (المتوفى: 842هـ) کا کہنا ہے کہ رأى أنس بن مَالك اس نے انس بن مالک کو دیکھا

طبقات ابن سعد میں ہی یہ راوی قتادہ کے واسطے سے انس رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ. حَدَّثَنَا قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَزُورُ أُمَّ سُلَيْمٍ أَحْيَانًا فَتُدْرِكُهُ الصَّلاةُ فَيُصَلِّي عَلَى بِسَاطٍ لَنَا وَهُوَ حَصِيرٌ يَنْضَحُهُ بِالْمَاءِ.

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمْ يَخْضِبْ قَطُّ. إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ فِي الْعَنْفَقَةِ قَلِيلا وَفِي الرَّأْسِ نَبْذٌ يَسِيرٌ لا يَكَادُ يُرَى.

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَتَّابٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ: ” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخْضِبْ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ، وَفِي الْعَنْفَقَةِ قَلِيلًا، وَفِي الرَّأْسِ نَبْذٌ يَسِيرٌ، لَا يَكَادُ يُرَى “، وَقَالَ الْمُثَنَّى: ” وَالصُّدْغَيْنِ

سنن ابو داود کی روایت ہے

حدَّثنا مسلمُ بن إبراهيم، حدَّثنا المثنى بن سعيد، حدَّثنا قتادةُ عن أنس بن مالك: أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم – كان يزورُ أم سُلَيمٍ، فتُدركُه الصلاةُ أحياناً، فيُصلي على بِساطٍ لنا، وهو حَصيرٌ تَنضَحُه بالماء

سنن الکبری نسائی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ الْقَاسِمِ الْمَكِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا قَالَ: «اللهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي، وَنَصِيرِي، وَبِكَ أُقَاتِلُ»

معلوم ہوا کہ اس راوی کا سماع انس رضی الله عنہ سے نہیں ہے جو بھی اس نے لیا وہ قتادہ کی سند سے ہے اور اس کا طبقات کی سند میں سمعت (میں نے سنا) کہنا غلطی ہے

افسوس کفایت الله سنابلی اس روایت کو صحیح کہہ رہے ہیں

بلال رضی الله تعالی عنہ کا خواب

ابن عساکر تاریخ الدمشق میں إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال کے ترجمے میں لکھتے ہیں

إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ابن أبي الدرداء الأنصاري صاحب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أبو إسحاق روى عن أبيه روى عنه محمد بن الفيض أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال

  لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم  الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنزل  داريا في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين  وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي (صلى الله عليه وسلم) وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي (صلى الله عليه وسلم) فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها  فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم قال أبو الحسن محمد بن الفيض توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين

 أبي الدرداء فرماتے ہیں کہ

جب عمر الجابیہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے بلال سے کہا کہ شام آ جائیں پس بلال شام منتقل ہو گئے … پھر بلال نے خواب میں نبی کودیکھا کہ فرمایا اے بلال یہ کیا بے رخی ہے؟ کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا .. پس بلال قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر گئے اور روئے اور چہرے کو قبر پر رکھا … اس کے بعد حسن و حسین کی فرمائش پر آپ نے اذان بھی دی

 بلال بن رباح الحبشي رضی الله تعالی عنہ کی وفات سن ٢٠ ہجری میں ہوئی  اور ایک قول تاریخ الاسلام از ذھبی میں ہے

قَالَ يحيى بْن بكير: تُوُفيّ بلال بدمشق في الطاعون سنة ثماني عشرة.

بلال کی دمشق میں طاعون  سے سن ١٨ ہجری میں وفات ہوئی

 الذھبی اپنی کتاب سیر الاعلام  ج ١ ص ٣٥٨ میں اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہتےہیں

إِسْنَادُهُ لَيِّنٌ، وَهُوَ مُنْكَرٌ.

اس کی اسناد کمزور ہیں اور یہ منکر ہے

 ابن حجر لسان المیزان میں اور الذھبی میزان  میں اس راوی پر لکھتے ہیں

فيه جهالة

اس کا حال مجھول ہے

 ذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں اس راوی پر لکھتے ہیں

مجهول، لم يروِ عنه غير محمد بْن الفيض الغسَّانيّ

مجھول ہے سوائے محمد بْن الفيض الغسَّانيّ کے کوئی اس سے روایت نہیں کرتا

 ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کا خواب

 ترمذی روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَزِينٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعْنِي فِي المَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ الله، قَالَ: “شَهِدْتُ قَتْلَ الحُسَيْنِ آنِفًا” هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

 سلمی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ  رضی الله تعالی عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے؟  آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے . کا سر اور ریش مبارک گرد آلود تھی.میں نے عرض کی ، یارسول ،آپ کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ رسول الله نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسین کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

 ترمذی اور مستدرک الحاکم میں یہ روایت نقل ہوئی ہے

 اس کی سند میں سَلْمَى الْبَكْرِيَّةِ ہیں

 تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں مبارکپوری لکھتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ لِجَهَالَةِ سَلْمَى

سَلْمَى کے مجھول ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے

 کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق

 وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ

اور ام سلمہ کی وفات ٥٩ ھ میں ہوئی

 تاریخ کے مطابق حسین کی شہادت سن ٦١ ہجری میں ہوئی

 لہذا یہ ایک جھوٹی روایت ہے

ابن عباس کا خواب کی تعبیر کرنا 

ابن حجر فتح الباری  ص ۳۸۴ میں بتاتے ہیں کہ حاکم روایت کرتے ہیں کہ

فَأَخْرَجَ الْحَاكِمُ مِنْ طَرِيقِ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ قَالَ صِفْهُ لِي قَالَ ذَكَرْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ فَشَبَّهْتُهُ بِهِ قَالَ قَدْ رَأَيْتُهُ وَسَنَدُهُ جَيِّدٌ

امام حاکم نے روایت کیا ہے … ایک شخص نے عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے حسن بن علی رضی   االله  عنہ کی شکل کے ایک شخص کو دیکھا ہے اس پر انہوں نے کہا تم نے نبی کو دیکھا ہے

ابن حجر نے کہا اس کی سند جید ہے

حالانکہ حیرت ہے  عبد الله بن عباس اور ابن زبیر میں اپس میں اختلاف ہوا اور  ابن عباس طائف جا کر قیام پذیر ہوئے لیکن اس اختلاف کو ختم کرنے نبی صلی الله علیہ وسلم نہ ابن عباس  رضی الله عنہ کے خواب میں آئے نہ ابن زبیر رضی الله عنہ کے

مستدرک الحاکم کی اس روایت  کو اگرچہ الذھبی نے صحیح کہا ہے لیکن اسکی  سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ  ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر  يحيى القطان نے کلام کیا ہے

وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً

صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم  جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا

مسلمان بادشاہوں کے سیاسی خواب

 نور الدین زنگی کا خواب

  علي بن عبد الله بن أحمد الحسني الشافعي، نور الدين أبو الحسن السمهودي المتوفى٩١١ھ  کتاب  وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى  میں سن ٥٥٧ ھ پر لکھتے ہیں

 الملك العادل نور الدين الشهيد نے ایک ہی رات میں تین دفعہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ ہر دفعہ فرما رہے ہیں

 أن السلطان محمودا المذكور رأى النبي صلّى الله عليه وسلّم ثلاث مرات في ليلة واحدة وهو يقول في كل واحدة: يا محمود أنقذني من هذين الشخصين الأشقرين تجاهه

اے  قابل تعریف! مجھ کو ان دو شخصوں سے بچا

 یہ دو اشخاص عیسائی تھے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد مطہر حاصل کرنا چاہتے تھے

مثل مشھور ہے الناس علی دین ملوکھم کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں اسی طرح یہ قصہ اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ گویا اس کی سچائی قرآن و حدیث جیسی ہو

 مقررین حضرات یہ قصہ سنا کر بتاتے ہیں کہ یہودی سازش کر رہے تھے لیکن ریکارڈ کے مطابق یہ نصرانی سازش تھی

 وقد دعتهم أنفسهم- يعني النصارى- في سلطنة الملك العادل نور الدين الشهيد إلى أمر عظيم

اور نصرانیوں نے ایک امر عظیم کا ارادہ کیا بادشاہ عادل نور الدین الشہید کے دور ہیں

 اس کے بعد یہ خواب کا واقعہ بیان کرتے ہیں اور بعد میں پکڑے جانے والے عیسائی تھے

أهل الأندلس نازلان في الناحية التي قبلة حجرة النبي صلّى الله عليه وسلّم من خارج المسجد عند دار آل عمر بن الخطاب

اہل اندلس سے دو افراد دار ال عمر بن خطاب ،حجرے کی جانب مسجد سے باہر ٹھہرے ہوۓ ہیں

  اس قصے میں عجیب و غریب عقائد ہیں.  اول نبی صلی الله علیہ وسلم کو علم غیب تھا کہ دو نصرانی سازش کر رہے ہیں  دوئم انہوں نے الله کو نہیں پکارا بلکہ نور الدین کے خواب میں تین دفعہ ایک ہی رات میں ظاہر ہوئے . سوم نبی صلی الله علیہ وسلم نے نورالدین زنگی کو صلیبی جنگوں میں عیسائی تدبریوں کے بارے میں نہیں بتایا جن سے ساری امت مسلمہ نبرد آزما تھی بلکہ صرف اپنے جسد مطہر کی بات کی

  الله کا عذاب نازل ہو اس جھوٹ کو گھڑنے والوں پر. ظالموں الله سے ڈرو اس کی پکڑ سخت ہے .الله کے نبی تو سب سے بہادر تھے

 دراصل یہ سارا قصہ نور الدین زنگی  کی بزرگی کے لئے بیان کیا جاتا ہے جو صلیبی جنگوں میں مصروف تھے اور ان کے عیسائیوں سے  معرکے چل رہے تھے

شاہ عراق فیصل بن حسین المعروف فیصل اول کا خواب

فیصل بن حسین ١٩٢١ ع سے ١٩٣٣ ع تک عراق کے بادشاہ تھے اور شریف المکّہ کے تیسرے بیٹے. شریف المکہ عثمانی خلافت میں ان کی جانب سے حجاز کے امیر تھے. فیصل اول نے خلافت عثمانیہ ختم کرنے میں انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیا.   بر صغیر کے مشھور شاعر علامہ اقبال نے ان پر تنقید کی کہ

کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا

لیکن روحانیت میں شاہ فیصل کا کچھ اور ہی مقام تھا انگریز بھی خوش اور الله والے بھی خوش

جو لوگ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں انے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ سن ١٩٣٢ عیسوی میں عراق میں جابر بن عبدللہ اور حذیفہ بن یمان رضوان الله علیھم شاہ عراق کے خواب میں آئے اور انہوں نی اس سے کہا کہ ان کو بچائے کیونکہ نہر دجلہ کا پانی ان کی قبروں تک رس رہا ہے

قبر ١قبر ٢

حیرت کی بات ہے کہ شیعہ حضرات بھی اس خواب کو لہک لہک کر بیان کرتے ہیں لیکن اس سے تو فیصل اول کی الله کی نگاہ میں قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے اور فیصل شیعہ عقیدے پر نہیں تھے

ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں اتے ہیں اب کہا جا رہا ہے کہ صحابی بھی اتے ہیں گویا جو نبی کی خصوصیت تھی وہ اب غیر انبیاء کی بھی ہو گئی

ہمارے قبر پرست بادشاہوں کو  خوابوں میں انبیاء اور صحابہ نظر آ رہے ہیں اور وہ بھی صرف اپنے جسمکو  بچانے کے لئے

لیکن اب خواب نہیں آیا

حال ہی میں شام میں حکومت مخالف باغیوں نے ایک   قبر کشائی کی  جو صحابی رسول حجر بن عدی  المتوفی 51 ہجری کی طرف منسوب ہے لیکن حیرت ہے اس دفعہ ان  صحابی کو خیال نہیں آیا کہ دوسرے صحابہ تو اپنی قبروں کو بچانے کے لئے خوابوں میں آ جاتے ہیں مجھے بھی یہی کرنا چاہئے یہ صحابی نہ سنیوں کے خواب میں آئے نہ شیعوں کے خواب میں. جب قبر پر پہلا کلہاڑا پڑا اسی وقت خواب میں آ جاتے

قبر ٣

حجر بن عدی رضی اللہ تعالی علیہ سے منسوب قبر ، قبر کی بے حرمتی کے بعد

دوسری طرف یہی قبر پرست  ایک سانس میں کہتے ہیں کہ صحابہ کے جسد محفوظ تھے اور دوسری سانس میں روایت بیان کرتے ہیں الله نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے تو بھلا بتاؤ کیا  مانیں اگر غیر نبی کا جسد بھی محفوظ ہے تو یہ انبیاء کی خصوصیت کیسے رہی

 الغرض  نبی صلی  الله علیہ وسلم نے دنیا کی رفاقت چھوڑ کر جنت کو منتخب کیا اور آج امت سے ان کا کوئی  رابطہ نہیں اور نہ ان کو امت کے حال کا پتا ہے ،ورنہ جنگ جمل نہ ہوتی نہ جنگ صفین، نہ حسین شہید ہوتے، بلکہ ہر لمحہ آپ امت کی اصلاح کرتے

انبیاء صحابہ اور اولیاء کا خواب میں انے کا عقیدہ سراسر غلط اور خود ساختہ ہے اور عقل سلیم سے بعید تر قبروں سے فیض حاصل کرنے کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم ان قبروں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ان سے دعائیں کروانے جاتے ہیں الله ان کی سنتا ہے لیکن اگر الله ان کی سنتا ہے تو جب ان کی قبر پر پانی اتا ہے یا کوئی دوسرے دین کا شریر شخص شرارت کرنا چاہتا ہے تو اس وقت  بادشاہ لوگ کے خواب میں ان کو آنا پڑتا ہے سوچوں یہ کیا عقیدہ ہے  تمہاری عقل پر افسوس ! الله شرک سے نکلنے کی توفیق دے

نبی صلی الله علیہ وسلم اور امام ترمذی سے ناراضگی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں بیان کرتے ہیں کہ امام ترمذی اس عقیدے کے خلاف تھے کہ روز محشر نبی صلی الله علیہ وسلم کو نعوذباللہ عرش پر الله تعالی اپنے ساتھ بٹھائے گا. ابو بکر الخلال ، نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا نقل کرتے ہیں

وَسَمِعْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ صَدَقَةَ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ الْجَبَلِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ صَاحِبِ النَّرْسِيِّ قَالَ: ثُمَّ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَحَدَّثَنِي، قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ لِي: هَذَا التِّرْمِذِيُّ، أَنَا جَالِسٌ لَهُ، يُنْكِرُ فَضِيلَتِي “

عبدللہ بن اسمعیل کہتے ہیں کہ میرے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم آئے اور کہا  یہ ترمذی!  میں اس کے لئے  بیٹھا ہوں اور یہ میری فضلیت کا انکاری ہے

ابو بکر الخلال نے واضح نہیں کیا کہ اس خواب میں  نبی صلی الله علیہ وسلم کا کہنا کہ میں بیٹھا ہوں، تو اصل میں وہ کہاں بیٹھے  ہیں . مبہم انداز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا گیا ہے تاکہ امام ترمذی پر جرح ہو سکے

ایک دوسرا خواب بھی پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ الْعَطَّارُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ، قَالَ: ” رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ عَنْ يَمِينِهِ، وَعُمَرُ عَنْ يَسَارِهِ، رَحْمَةُ الله عَلَيْهِمَا وَرِضْوَانُهُ، فَتَقَدَّمْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ الله، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَقُولَ شَيْئًا فَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: قُلْ، فَقُلْتُ: إِنَّ التِّرْمِذِيَّ يَقُولُ: إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لَا يُقْعِدُكَ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، فَكَيْفَ تَقُولُ يَا رَسُولَ الله، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ شِبْهَ الْمُغْضَبِ وَهُوَ يُشِيرُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى عَاقِدًا بِهَا أَرْبَعِينَ، وَهُوَ يَقُولُ: «بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، ثُمَّ انْتَبَهْتُ

مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ نے کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور ابو بکر و عمر رحمہ الله تعالی ان کےساتھ تھے ابو بکر دائیں طرف اور عمر بائیں طرف بیٹھے تھے پس میں عمر کی دائیں طرف آیا اور عرض کیا : یا رسول الله میں چاہتا ہوں اپ پر ایک چیز پیش کرتا – رسول الله نے فرمایا بولو- میں نے کہا یہ ترمذی کہتا حیا کہ اپ الله عزوجل اپ کے ساتھ عرش پر نہیں بیٹھے گا تو اپ کیا کہتے ہیں اس پر یا رسول الله ! پس میں نے دیکھا کہ رسول الله ناراض ہوئے اور انہوں نے سیدھے ہاتھ سے اشارہ کیا … اور کہہ رہے تھے بالکل الله کی قسم ، بالکل الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا ، الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا پھر خبردار کیا 

استغفر الله ! اس طرح کے عقائد کو محدثین کا ایک گروہ حق مانتا آیا ہے

الله کا شکر ہے کہ  بدعتی عقائد پر کوئی نہ کوئی محدث اڑ جاتا ہے اور آج ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حق کیا ہے ,مثلا یہ عقیدہ  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا اور انبیاء کے اجسام سلامت رہنےکا بدعتی عقیدہ جس کو امام بخاری اور ابی حاتم  رد کرتے ہیں

حدیث میں اتا ہے کہ

میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لئے اپنے اہل و مال سب کچھ صَرف کردیں 

اس سے ظاہر ہے کہ نبی کو خواب میں دیکھنا ممکن نہیں بلکہ اگر کوئی نبی کو دیکھنا چاہتا ہے تو کیا صرف  سوتا رہے  کہ ہو سکتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں آ جائیں حدیث میں ہے کہ وہ اہل و مال تک صرف کرنا چاہیں گے کیونکہ وہ دیکھ نہیں پائیں گے

کہا جاتا ہے کہ  علمائے اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ اگر خواب میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم کسی کو کوئی ایسی بات بتائیں یا کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہے تو اس پر عمل جائز نہ ہوگا  لیکن یہ احتیاط کیوں اگر حلیہ شمائل کے مطابق ہو اور اپ کا عقیدہ ہے کہ شیطان،  نبی صلی الله علیہ وسلم کی شکل بھی نہیں بنا سکتا تو اس خوابی حکم یا حدیث کو رد کرنے کی کیا دلیل ہے. دوم یہ اجماع کب منعقد ہوا کون کون شریک تھا کبھی نہیں بتایا جاتا

کہا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا ان کی خصوصیت ہے اس کا مطلب ہوا کہ جو لوگ یہ دعوی کریں کہ کوئی ولی یا صحابی خواب میں آیا وہ کذاب ہیں کیونکہ اگر یہ بھی خواب میں آ جاتے ہوں تو نبی کی خصوصیت کیسے رہی؟

خواب کے ذریعہ احادیث کی تصحیح

 صحیح بخاری میں ابن مسعود سے مروی ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل ‘اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ….”(صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس حدیث پر لوگوں کو شک ہوا لہذا کتاب جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم از ابن رجب میں ہے
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الَّذِي حَدَّثَ عَنْكَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ حَدَّثْتُهُ بِهِ أَنَا ” يَقُولُهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ غَفَرَ اللَّهُ لِلْأَعْمَشِ كَمَا حَدَّثَ بِهِ، وَغَفَرَ اللَّهُ
مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ نے روایت کیا کہ میں نے خواب میں نبی کو دیکھا کہا اے رسول الله حدیث ابن مسعود جو انہوں نے اپ سے روایت کی ہے کہا سچوں کے سچے نے کہا ؟ فرمایا وہ جس کے سوا کوئی الہ نہیں میں نے ہی اس کو ان سے روایت کیا تھا تین بار کہا پھر کہا الله نے اعمش کی مغفرت کی کہ اس نے اس کو روایت کیا

یعنی لوگوں نے اس حدیث کو خواب میں رسول الله سے ثابت کرایا تاکہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث کو صحیح سمجھا جائے

مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ)   میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ خَمْسَ مِائَةِ حَدِيثٍ، أَوْ ذَكَرَ أَكْثَرَ، فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا الْيَسِيرَ خَمْسَةَ أَوْ سِتَّةَ أَحَادِيثَ، فَتَرَكْتُ الْحَدِيثَ عَنْهُ»

ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں

امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو نقل کیا ہے

ابان بن ابی عیاش کو محدثین  منکر الحدیث ، متروک ، کذاب کہتے ہیں اور امام ابو داود سنن میں روایت لیتے ہیں

ابان سے متعلق قول کا دارومدار سوید بن سعيد الحَدَثاني پر ہے جو امام بخاری کے نزدیک   منكر الحديث ہے اور يحيى بن معين کہتے حلال الدم اس کا خون حلال ہے

یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خواب اور اس میں جرح کا  قول خود ضعیف ہے جو امام مسلم نے پیش کیا ہے

سوید بن سعيد اختلاط کا شکآر ہوئے اور اغلبا یہ روایت بھی اسی وقت کی ہے

لہذا خواب میں سن کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات بیان کرنا حدیث نہیں اور یہ قول بھی جرح کے لئے نا قابل قبول ہے -لیکن ظاہر ہے محدثین کا ایک گروہ  جرح و تعدیل میں خواب سے دلیل لے رہا تھا  جبکہ اس کی ضرورت نہ تھی

سنن ابو داود کی روایت ٥٠٧٧ ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، وَوُهَيْبٌ، نَحْوَهُ عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَائِشٍ، وَقَالَ حَمَّادٌ: عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” مَنْ قَالَ إِذَا أَصْبَحَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَانَ لَهُ عِدْلَ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَكُتِبَ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَحُطَّ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَكَانَ فِي حِرْزٍ مِنَ الشَّيْطَانِ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ قَالَهَا إِذَا أَمْسَى كَانَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ حَتَّى يُصْبِحَ ” قَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ: فَرَأَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا عَيَّاشٍ يُحَدِّثُ عَنْكَ بِكَذَا وَكَذَا، قَالَ: “صَدَقَ أَبُو عَيَّاشٍ”

حَمَّادٌ نے أَبِي عَيَّاشٍ سے انہوں نے رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سے روایت کیا کہ جس نے صبح کے وقت کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تو اس کے لئے ایسا ہو گا کہ اس نے إِسْمَاعِيلَ کی اولاد میں سے  ایک گردن کو آزاد کیا اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور دس گناہ مٹ جائیں گے اس کے دس درجات بلند ہوں گے یہ الفاظ  شام تک شیطان سے حفاظت کریں گے .. حماد بن سلمة نے کہا پھر ایک شخص نے رسول الله کو خواب میں دیکھا کہا یا رسول الله ابی عیاش نے ایسا ایسا روایت کیا ہے – اپ نے فرمایا سچ کہا أَبُو عَيَّاشٍ نے 

اس روایت کو البانی نے صحیح کہہ دیا ہے جبکہ   المنذري (المتوفى: 656 هـ) نے  مختصر سنن أبي داود میں خبر دی تھی کہ

ذكره أبو أحمد الكرابيسي في كتاب الكنى، وقال: له صحبة من النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-، وليس حديثه من وجه صحيح، وذكر له هذا الحديث.

أبو عياش الزُّرقي الأنصاري جس کا نام زيد بن الصامت ہے اس کا ذکر الکنی میں  أبو أحمد الكرابيسي نے کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا صحابی  ہونے کا شرف پایا ہے لیکن یہ حدیث اس طرق سے صحیح نہیں ہے اور خاص اس روایت کا ذکر کیا

قال أبو زرعة الدمشقي، عن أحمد بن حنبل: أبو عياش الزرقي، زيد بن النعمان. «تاريخه» (1245)

وقال أبو محمد ابن حزم في «المحلى»: زيد أبو عياش لا يدري من هو

بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ شخص صحابی نہیں بلکہ کوئی مجہول ہے

حماد بن سلمہ نے  خبر دی کہ ایک شخص نے دیکھا یہ شخص کون تھا معلوم  نہیں – خیال رہے حماد خود مختلط بھی ہو گئے تھے

بیداری میں بھی دیکھنا ممکن ہے 

فیض الباری میں انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں

ويمكن عندي رؤيته صلى الله عليه وسلّم يقظةً (1) لمن رزقه الله سبحانه كما نقل عن السيوطي رحمه الله تعالى – وكان زاهدًا متشددًا في الكلام على بعض معاصريه ممن له شأن – أنه رآه صلى الله عليه وسلّم اثنين وعشرين مرة وسأله عن أحاديث ثم صححها بعد تصحيحه صلى الله عليه وسلّم

میرے نزدیک بیداری میں بھی رسول الله کو دیکھنا ممکن ہے جس کو الله عطا کرے جیسا سیوطی سے نقل کیا گیا ہے جو ایک سخت زاہد تھے … انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ٢٨ مرتبہ دیکھا اور ان سے احادیث کی تصحیح  کے بعد ان کو صحیح قرار دیا

انور شاہ نے مزید لکھا

والشعراني رحمه الله تعالى أيضًا كتب أنه رآه صلى الله عليه وسلّم وقرأ عليه البخاري في ثمانية رفقة معه

الشعراني نے رسول اللہ کو دیکھا اور ان کے سامنے صحیح بخاری اپنے ٨ رفقاء کے ساتھ پڑھی

جلال الدین سیوطی  الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ٣١٣ میں بہت سے علماء و صوفیا کے اقوال نقل کیے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے   نبی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی روح اقدس کو ملکوت ارض و سما میں تصرف وسیع عطا کر دیا ہے، دن ہو یا رات، عالم خواب ہو یا عالم بیداری، جس وقت اور جب بھی  چاہیں کسی بھی غلام کو اپنے دیدار اور زیارت سے نواز سکتے ہیں، جسے چاہیں چادر مبارک عطا کر جائیں اور جسے چاہیں موئے مبارک دیں۔

الألوسي (المتوفى: 1270هـ)  سورہ الاحزاب کی تفسیر میں روح المعاني میں لکھتے ہیں

وأيد  بحديث أبي يعلى «والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري وقال يا محمد لأجيبنه» . وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسّلام روحانية ولا بدع في ذلك فقد وقعت رؤيته صلّى الله عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة

اور اس کی تائید ہوتی ہے حدیث ابی یعلی سے جس میں ہے کہ وہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور عیسیٰ نازل ہوں گے پھر جب میری قبر پر آئیں گے اور کہیں گے یا محمد میں جواب دوں گا اور جائز ہے کہ یہ اجتماع انبیاء کا روحانی ہو اور یہ بعید بھی نہیں کیونکہ اس امت کے ایک سے زائد کاملین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو بعد وفات بیداری میں دیکھا ہے

راقم اس سے متفق نہیں ہے ابی یعلی کی روایت کو منکر سمجھتا ہے

اسی تفسیر میں سورہ یس کے تحت الوسی لکھتے ہیں

والأنفس الناطقة الإنسانية إذا كانت قدسية قد تنسلخ عن الأبدان وتذهب متمثلة ظاهرة بصور أبدانها أو بصور أخرى كما يتمثل جبريل عليه السلام ويظهر بصورة دحية أو بصورة بعض الأعراب كما جاء في صحيح الأخبار حيث يشاء الله عز وجل مع بقاء نوع تعلق لها بالأبدان الأصلية يتأتى معه صدور الأفعال منها كما يحكى عن بعض الأولياء قدست أسرارهم أنهم يرون في وقت واحد في عدة مواضع وما ذاك إلا لقوة تجرد أنفسهم وغاية تقدسها فتمثل وتظهر في موضع وبدنها الأصلي في موضع آخر

نفس ناطقہ انسانی جب پاک ہو جاتا ہے تو اپنے بدن سے جدا ہو کر مماثل ظاہری ابدان سے یا کسی اور صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جیسے کہ جبریل کی  شکل میں یا دحیہ کلبی کی صورت یا بدو کی صورت جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے جیسا الله چاہے اس بدن کی بقاء کے ساتھ جو اصلی بدن سے بھی جڑا ہو ایک ہی وقت میں لیکن کئی مقام پر ہو اس طرح حکایت کیا گیا ہے اولیاء سے جن کے پاک راز ہیں کہ ان کو ایک ہی وقت میں الگ الگ جگہوں پر دیکھا گیا

اس طرح الوسی نے یہ ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک ہی وقت میں کئی مقام پر ظاہر ہو سکتے ہیں

آج یہ عقیدہ بریلویوں کا ہے – راقم اس فلسفے کو رد کرتا ہے

فرقوں میں متضاد خواب 

وہابی عالم صالح المغامسي کا کہنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھنا ممکن ہے یہ مبشرات میں سے ہے یہاں تک کہ امہات المومنین کو بھی دیکھا جا سکتا ہے

زبیر علی زئی اپنے مضمون محمد اسحاق صاحب جہال والا : اپنے خطبات کی روشنی میں میں لکھتے ہیں

علامہ رشید رضامصری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مفتی محمد عبدہ (رحمہ اللہ) نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور انہوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! اگر احد کے دن اللہ تعالیٰ جنگ کے نتیجہ کے بارے میں آپ کو اختیار دیتا تو آپ فتح پسند فرماتے یا شکست پسند فرماتے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ شکست کو پسند کرتا حالانکہ ساری دنیا فتح کو پسند کرتی ہے ۔(تفسیر نمونہ بحوالہ تفسیر المنار ۹۲/۳)” (خطباتِ اسحاق ج ۲ ص ۱۹۳، ۱۹۴)
تبصرہ : اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ محمد عبدہ (مصری، منکرِ حدیث بدعتی) نے خوا ب میں ضرور بالضرور رسول اللہ ﷺ کو ہی دیکھا تھا ۔ کیا وہ آپﷺ کی صورت مبارک پہنچانتا تھا ؟ کیا اس نے خواب بیان کرنے میں جھوٹ نہیں بولا؟

 اہل حدیث علماء نبی کا خواب میں انا مانتے ہیں ایک منکر حدیث دیکھے تو ان کو قبول نہیں – نبی صلی الله علیہ وسلم کی صورت کس اہل حدیث نے دیکھی ہے یہ زبیر علی نہیں بتایا

غیر مقلدین کا ایک اشتہار نظر سے  گزرا

khwab-ahl-hadith

نبی صلی الله علیہ وسلم منکرین حدیث کے خواب میں آ رہے ہیں اہل حدیث کے خواب میں ا رہے ہیں صوفیاء کے خواب میں آ رہے ہیں عقل سلیم رکھنے والے سوچیں کیا یہ مولویوں کا جال نہیں کہ اپنا معتقد بنانے کہ لئے ایسے انچھر استعمال کرتے ہیں

مولویوں کا تماشہ یہ ہے کہ جو بھی کہتا ہے کہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اس سے حلیہ مبارک پوچھتے ہیں – اور اگر شمائل میں جو ذکر ہے اس سے الگ حلیہ ہو تو   اس خواب کو رد کر دیتے ہیں –

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ زَمَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَكَانَ يَزِيدُ يَكْتُبُ الْمَصَاحِفَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: ” إِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَشَبَّهَ بِي، فَمَنْ رَآنِي فِي النَّوْمِ، فَقَدْ رَآنِي ” فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي رَأَيْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، ” رَأَيْتُ رَجُلًا بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، جِسْمُهُ وَلَحْمُهُ، أَسْمَرُ إِلَى الْبَيَاضِ، حَسَنُ الْمَضْحَكِ، أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ، جَمِيلُ دَوَائِرِ الْوَجْهِ، قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ، حَتَّى كَادَتْ تَمْلَأُ نَحْرَهُ ” – قَالَ: عَوْفٌ لَا أَدْرِي مَا كَانَ مَعَ هَذَا مِنَ النَّعْتِ – قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَوْ رَأَيْتَهُ فِي الْيَقَظَةِ مَا اسْتَطَعْتَ أَنْ تَنْعَتَهُ فَوْقَ هَذَا

عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، نے یزید سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس کے دور میں نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا …(حلیہ جو خواب میں  دیکھا  بیان کیا گیا )  ابن عباس نے کہا اگر تم بیداری میں دیکھ لیتے تو اس سے الگ نہ ہوتا

شعيب الأرنؤوط – کہتے ہیں
إسناده ضعيف، يزيد الفارسي في عداد المجهولين

قال البخاري في ” التاريخ الكبير ” 8 / 367 وفي ” الضعفاء ” ص 122: قال لي علي – يعني ابن المديني -:
قال عبد الرحمن – يعني ابن مهدي -: يزيد الفارسي هو ابن هرمز، قال: فذكرته ليحيى فلم يعرفه
امام بخاری نے اس کا ذکر تاریخ الکبیر میں کیا ہے اور الضعفاء میں کیا ہے کہا مجھ سے امام علی نے کہا کہ عبد الرحمان المہدی نے کہا یزید الفارسی یہ ابن ہرمز ہے اس کا ذکر امام یحیی القطان سے کیا تو انہوں نے اس کو نہ پہچانا

ابن ابی حاتم کے بقول یحیی القطان نے اس کا بھی رد کیا کہ یہ الفارسی تھا
وأنكر يحيى بن سعيد القطان أن يكونا واحداً،

شعيب الأرنؤوط نے اس کا شمار مجہولین میں کیا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں صحابہ کو خواب میں نظر آئے  ہوں گے اور پھر صحابہ نے ان کو بیداری میں بھی دیکھا ہو گا لیکن آج ہم میں سے کون اس شرط کو پورا کر سکتا ہے ؟ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا ان کی زندگی تک ہی تھا وہ بھی ان لوگوں کے لئے جو اسلام قبول کر رہے تھے اور انہوں نے نبی کو دیکھا نہیں تھا. نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحیح حدیث میں ان کا خواب میں آنا بیان نہیں ہوا . ہم تو صحابہ کا پاسنگ  بھی نہیں!

اخباری خبروں کے مطابق جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہاں کے حاکم ملا عمر کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دیدار خواب میں ہوا اور حکم دیا گیا کہ کابل چھوڑ دیا جائے الله جلد فتح مبین عنایت کرنے والا ہے – لہذا اپنی عوام کو چھوڑ ملا عمر ایک موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے اور پیچھے  جہاد کے آرزو مند جوانوں کو خاب و خاسر کر گئے

امت کا یہ حال ہوا کہ فقہی اختلاف یا حدیث رسول ہو یا جنگ و جدل ہو یا یہود و نصرانی سازش ہو سب کی خبر رسول الله کو ہے اور وہ خواب میں آ کر رہنمائی کر رہے ہیں

راقم کہتا ہے یہ علم الغیب میں نقب کی خبر ہے جو الله کا حق ہے – اس پر ڈاکہ اس امت نے ڈالا ہے تو اس کی سزا کے طور پر ذلت و مسکنت چھا گئی ہے

حدیث میں ہے ایک شخص خواب بیان کر رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا اور کہا
لَا تُخْبِرْ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِكَ فِي الْمَنَامِ
اس کی خبر مت دو کہ شیطان نے تیرے ساتھ نیند میں کیا کھیلا

ظاہر ہے یہ کوئی صحابی تھے جن کو منع کیا گیا کہ جو بھی خواب میں دیکھو اس کو حقیقت سمجھ کر مت بیان کرو

الله ہم سب کو ہدایت دے

==========

مزید معلومات کے لئے پڑھیں

 کتاب الرویا کا بھید

خواب میں رویت باری تعالی

محدثین  اور خوابوں کی دنیا

نور محمدی کا ذکر

محدثین اور صوفیاء کی کتب میں ایک روایت بیان ہوئی ہے جس کا متن ہے

 يا جابر إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره ، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله تعالى ، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ولا سماء ولا أرض ولا شمس ولا قمر ولا جني ولا إنسي ، فلما أراد الله تعالى أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول القلم ، ومن الثاني اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول حملة العرش ومن الثاني الكرسي ومن الثالث باقي الملائكة ، ثم قسم الجزء الرابع إلى أربعة أجزاء فخلق من الأول نور أبصار المؤمنين ومن الثاني نور قلوبهم وهي المعرفة بالله ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله ثم نظر إليه فترشح النور عرقاً  فتقطرت منه مائة ألف قطرة

رسول الله نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا اور یہ الله کی قدرت سے جہاں الله چاہتا جاتا اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم نہ جنت نہ جہنم نہ فرشتے نہ آسمان نہ زمین نہ سورج نہ چاند نہ جن و انس- پس جب الله نے ارادہ کیا خلق  کرنے کا تو اس نور کے چار ٹکرے کیے- ایک جز سے قلم بنا دوسرے سے لوح،  تیسرے سے عرش،  پھر چوتھے کے بھی چار جز اور کیے ان میں سے ایک سے عرش کو اٹھانے والے، دوسرے سے کرسی ، تیسرے سے باقی فرشتے –  پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے  مومنوں کی آنکھوں کا نور بنا،  دوسرے سے دلوں کا نور جو الله کی   معرفت ہے ،  تیسرے سے ان کے نفسوں کا نور جو توحید ہے لا إله إلا الله محمد رسول الله –  پھر اس (کلمہ) پر نظر کی تو اس  نور سے پسینہ  نکلا  جس سے ایک لاکھ قطرے اور نکلے

یہ مکمل روایت نہیں ہے اس کا متن بہت طویل ہے اور  متن عجیب و غریب ہے – عرش و کرسی  موجود تک نہ تھے جب قلم بنا اور لوح بنی اور فرشتے بنے-  طاہر القادری نے اس وجہ سے اس روایت کامکمل ترجمہ تک اپنی کتاب نور محمدی میں نہیں کیا کیونکہ آگے جو پسینہ کا ذکر ہے وہ کیا ہے اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہو گا

اہل تشیع عالم  ملا باقر مجلسی نے بھی اس کو بحار الأنوار میں بیان کیا ہے – رياض الجنان از فضل الله بن محمود الفارسي میں ہے

في البحار، عن رياض الجنان لفضل الله بن محمود الفارسي: عن جابر بن عبد الله قال: قلت لرسول الله (صلى الله عليه وآله): أول شئ خلق الله تعالى ما هو ؟ فقال: نور نبيك يا جابر، خلقه ثم خلق منه كل خير

فضل الله بن محمود الفارسي نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ میں نے رسول الله (صلى الله عليه وآله) سے پوچھا کہ کیا چیز الله تعالی نے سب سے پہلے خلق کی؟ فرمایا تیرے نبی کا نور اے جابر ! اس نور کو تخلیق کیا اور پھر اس سے ساری اشیاء کو خلق کیا

 اہل سنت میں السيوطيُّ نے الخصائص الكبرى میں  اس طرق کا ذکر کیا ہے –  القسطلاني اور ابن عربي الصوفي نے اپنی کتب میں اس طرق کا ذکر کیا ہے-  برصغیر میں  أحمد رضا بريلوي نے کہا ہے کہ یہ مصنف عبد الرزاق کی روایت تھی –   محدثین میں  العجلوني نے كشف الخفاء  میں بھی ذکر ہے کہ یہ روایت مصنف عبد الرزاق میں تھی لکھا

أول ما خلق اللهُ نورُ نبِيكِ يا جابر – الحديث  رواه عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله بلفظ قال قلت: يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، أخبرني عن أول شئ خلقه الله قبل الأشياء

الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة میں المؤلف: محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ) نے ذکر کیا ہے کہ مصنف عبد الرزاق میں ایک روایت جابر رضی الله عنہ سے مروی تھی جس میں ہے کہ سب سے پہلے نور محمدی کو خلق کیا گیا

وَمِنْهَا: مَا يَذْكُرُونَهُ فِي ذِكْرِ الْمَوْلِدِ النَّبَوِيّ أَن نور مُحَمَّد خُلِقَ مِنْ نُورِ اللَّهِ بِمَعْنَى أَنَّ ذَاتَهُ الْمُقَدَّسَةَ صَارَتْ مَادَّةً لِذَاتِهِ الْمُنَوَّرَةِ وَأَنَّهُ تَعَالَى أَخَذَ قَبْضَة من نوره فخلق من نُورَهُ، وَهَذَا سَفْسَطَةٌ مِنَ الْقَوْلِ، فَإِنَّ ذَاتَ رَبِّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْ أَنْ تَكُونَ مَادَةً لِغَيْرَةٍ وَأَخْذُ قَبْضَةٍ مِنْ نُورِهِ لَيْسَ مَعْنَاهُ أَنَّهُ قُطِعَ مِنْهُ جُزْءٌ فَجَعَلَهُ نُورَ نَبِيِّهِ فَإِنَّهُ مُسْتَلْزِمٌ لِلْتَجَزِي وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يَتْبَعَهُ فِي ذَاتِهِ تَعَالَى اللَّهُ عَنْهُ.
وَالَّذِي أَوْقَعَهُمْ فِي هَذِهِ الْوَرْطَةِ الظَّلْمَاءِ هُوَ ظَاهِرُ رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ فِي مُصَنَّفَةٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ اللَّهُ قَبْلَ الأَشْيَاءِ، فَقَالَ: يَا جَابِرُ! إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ قَبْلَ الأَشْيَاءِ نُورُ نَبِيِّكَ مِنْ نُورِهِ ….. وَقَدْ أخطأوا فِي فَهْمِ الْمُرَادِ النَّبَوِيِّ وَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ الإِضَافَةَ فِي قَوْلِهِ مِنْ نُورِهِ كَالإِضَافَةِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى فِي قِصَّةِ خَلْقِ آدَمَ ونفخت فِيهِ من روحي وَكَقَوْلِهِ تَعَالَى مِنْ قِصَّةِ سَيِّدِنَا عِيسَى وَرَوْحٌ مِنْهُ، وَكَقَوْلِهِمْ بَيْتُ اللَّهِ الْكَعْبَةُ وَالْمَسَاجِدُ وَقَوْلِهِمْ رَوْحُ اللَّهِ لِعِيسَى وَغَيْرِ ذَلِكَ.

اور ان میں ہیں جو ولادت نبوی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ نور محمدی کو نور رب تعالی سے خلق کیا گیا ان معنی میں کہ ذات مقدس سے نور نکلا …رب تبارک و تعالیٰ نے اپنے نور میں سے کچھ نور نکال کر اسے اپنے نبی کا نور بنایا، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے کوئی جزء کاٹ کر علیحدہ کیا اور اس سے اپنے نبی کا نور بنایا، ورنہ اس سے تو اللہ تعالیٰ کا اجزاء میں جانا لازم ہو گا۔۔۔جن قصاص و مذکرین نے عبدالرزاق کی اس روایت کے ظاہر کو اپنایا ہے وہ ورطہ ظلمات کا شکار ہوئے ہیں (پھر حدیث نقل کرتے ہیں) …. ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سمجھنے میں خطا کی ہے۔ وہ لوگ نہیں جانتے کہ اس حدیث میں  (من نوره)  سے اضافت مراد ہے۔ بالکل اس اضافت کی طرح جیسی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اس میں اپنی روح پھونکنے کے قصہ میں بیان کی ہے، یا جیسے اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے قصہ میں  (روح منه)  کہا۔ یا کعبہ و مساجد کو بیت اللہ اور حضرت عیسی علیہ السلام کو (روح الله)  وغیرہ کہا۔
 

حال ہی میں ایک نئی تحقیق بریلووی علماء کی طرف سے کی گی ہے اور دعوی کیا گیا ہے کہ نور محمدی والی روایت مصنف عبد الرزاق میں تھی لیکن طباعت کے دوران یہ جزمفقود ہو گیا  تھا اس کی وجہ سے یہ روایات مطبوعہ نسخے میں سے غائب ہو گئی
https://archive.org/details/MusanafAbdulRazzaqByAbuBakrAbdulRazzaqBinHammam
یہ جز اب پاکستان سے چھپا ہے

اس روایت کی سند اس کتاب کے ص ٦٢ پر ہے  عبد الرزاق عن معمر عن ابن المنکدر عن جابر

یہ سند بظاہر صحیح ہے- البتہ راقم  کے نزدیک یہ روایت  عبد الرزاق کے دور اختلاط کی معلوم ہوتی ہے

قابل غور ہے کہ القسطلاني شارح صحيح البخاري نے المواهب اللدنية میں اس روایت کا ذکر کیا ہے ، أبن عربي الصوفي نے تلقيح الأذهان ومفتاح معرفة الإنسان میں اس کا ذکر کیا ہے – محدثین میں إسماعيل العجلوني نے كشف الخفا اور الأربعين میں إس روایت  كا ذكر كيا ہے – حسين بن محمد بن الحسن الديار بكري نے تاريخ الخميس في أحوال أنفس نفيس میں اس کا ذکر کیا ہے – أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي السعدي الأنصاري، شهاب الدين شيخ الإسلام، أبو العباس (المتوفى: 974هـ) نے فتوی میں اس کا ذکر کیا ہے کہ یہ مصنف عبد الرزاق میں تھی-   محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ)   نے بھی اس کو مصنف عبد الرزاق کی روایت قرار دیا ہے – اس روایت کے مصدر کو بیان کرنے  میں احمد رضا بریلوی  یا ابن عربی یا سیوطی کا تفرد نہیں ہے – اس کو غیر صوفی عجلونی نے بھی ذکر کیا ہے – اب کیا یہ ممکن ہے کہ یہ روایت موجود نہ ہو لیکن اس کا ذکر کیا جاتا ہو وہ بھی متن کے ساتھ ! اگر یہ روایت مصنف عبد الرزاق کی نہیں تھی تو پھر کہاں سے آئی؟ اس کا جواب کون دے گا – کیا ان لوگوں نے اس کو گھڑا ؟ کسی نے اس بنا پر  القسطلاني اور العجلوني کو کذاب قرار نہیں   دیا ہے

نوٹ: احناف بھی اس روایت کو رد کرتے ہیں
إرشاد العاثر لوضع حديث أول ما خلق الله نور نبيك يا جابر از حسن السقاف
مرشد الحائر لبيان وضع حديث جابر از عبد الله بن الصديق الغماري

سیوطی نے اس روایت کا دفاع نہیں کیا ہے بلکہ ان سے سوال ہوا اس روایت پر
وَهَلِ الْوَارِدُ فِي الْحَدِيثِ: أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ نُورَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَزَّأَهُ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ
تو کہا
وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ فِي السُّؤَالِ لَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ،
یہ مذکورہ حدیث جس پر سوال ہے اس کی اسناد پر اعتماد نہیں ہے
الحاوي للفتاوي

دور جدید میں لوگ اس جز مفقود کو غیر ثابت کہہ رہے ہیں- لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ اینے سارے لوگ جن میں بعض خود علم حدیث کے جاننے والے ہیں وہ اس روایت کا ذکر مصنف عبد الرزاق کے حوالے سے کر گئے ہیں – بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ “ممکن” ہے ان سب لوگوں نے حوالے کو مواھب الدنیہ از قسطلانی سے نقل کیا ہو یعنی ان سب نے تحقیق نہیں کی بلکہ مکھی پر مکھی ماری اور مصنف عبد الرزاق کا حوالہ دیتے رہے – یہ قول وہابیوں میں مشہور ہے اس روایت کے جواب کے طور پر
سليمان بن سحمان النجدي (المتوفى: 1349هـ) نے کتاب الصواعق المرسلة الشهابية على الشبه الداحضة الشامية میں لکھا
هذا حديث موضوع مكذوب على رسول الله صلى الله عليه وسلم مخالف لصريح الكتاب والسنة، وهذا الحديث لا يوجد في شيء من الكتب المعتمدة
یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے رسول الله پر جھوٹ ہے کتاب و سنت کی مخالف ہے اور کتب معتمد میں نہیں ہے

یعنی ٧٨ سال پہلے اس کو گھڑی ہوئی کہا جاتا تھا – اس وقت کسی نے اس مصنف عبد الرزاق جز مفقود کا ذکر نہیں کیا کہ اس کی سند ثابت نہیں ہے

راقم کا  نقطہ نظر ہے کہ ممکن ہے کہ  یہ روایت عبد الرزاق نے روایت کی لیکن یہ ان کے دور اختلاط کی ہے

تقریب التہذیب از ابن حجر میں ہے

عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع من التاسعة مات سنة إحدى عشرة وله خمس وثمانون

عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري .. ثقہ حافظ تھے مصنف   ہیں … آخری عمر میں تغیر کا شکار تھے اور ان میں تشیع تھی

محدث  ابن صلاح کا قول ہے عبد الرزاق ابن همام  مختلط تھے – اس پر  حافظ عراقی نے لکھا ہے
لم يذكر المصنف أحدا ممن سمع من عبد الرزاق بعد تغيره إلا إسحق بن إبراهيم الدبرى فقط وممن سمع منه بعد ما عمى أحمد بن محمد بن شبوية قاله أحمد بن حنبل وسمع منه أيضا بعد التغير محمد بن حماد الطهرانى والظاهر أن الذين سمع منهم الطبرانى فى رحلته إلى صنعاء من أصحاب عبد الرزاق كلهم سمع منه بعد التغير وهم أربعة أحدهم الدبرى الذى ذكره المصنف وكان سماعه من عبد الرزاق سنة عشر ومائتين

مصنف ( ابن الصلاح) نے ذکر نہیں کیا کہ عبد الرزاق سے کس نے تغیر کے بعد سنا صرف اسحاق بن ابراہیم کے اور جس نے سنا ان کے نابینا ہونے کے بعد ان میں ہیں احمد بن محمد یہ امام احمد نے کہا اور ان سے اس حالت میں سنا محمد بن حماد نے اور ان سے سنا طبرانی نے جب صنعاء کا سفر کیا – ان سب نے بعد میں سنا اور یہ چار ہوئے جن میں الدبری ایک ہیں ان سب نے ١٢٠  ھ میں سنا

  عالم اختلاط میں   عبد الرزاق  نے معمر عن ابن المنکدر کی سند سے بھی روایات بیان کی ہیں اور غیر عالم اختلاط میں بھی کی ہیں   مثلا

شعب الإيمان از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، قَالَ: أَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّنْعَانِيُّ، قَالَ: نَا إِسْحَاقُ الدَّبَرِيُّ، قَالَ: نَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: ” ثَلَاثَةٌ هُنَّ فَوَاقِدُ: جَارُ سَوْءٍ فِي دَارِ مَقَامِهِ، وَزَوْجَةُ سَوْءٍ إِنْ دَخَلْتَ عَلَيْهَا آذَتْكَ، وَإِنْ غِبْتَ عَنْهَا لَمْ تَأْمَنْهَا، وَسُلْطَانٌ إِنْ أَحْسَنْتَ لَمْ يَقْبَلْ مِنْكَ وَإِنْ أَسَأْتَ لَمْ يُقِلْكَ “

سنن الکبری بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّغَانِيُّ , ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أنبأ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ” إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الْفَيْءِ فَقَلَصَ عَنْهُ , فَلْيَقُمْ؛ فَإِنَّهُ مَجْلِسُ الشَّيْطَانِ “

سوالات ابن هاني؛ 228/5 کے مطابق احمد نے  عبد الرزاق کے حوالے سے کہا
لا يعبأ بحديث من سمع منه وقد ذهب بصره، كان يلقن أحاديث باطلة
جس نے عبد الرزاق  کے نابینا ہونے کے بعد اس سے احادیث سنی ہیں، ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ وہ باطل حدیثوں کی تلقین قبول کر لیتے  تھے۔

نور محمد کا عقیدہ اہل تشیع کا عقیدہ ہے –  اور  عبد الرزاق کو شیعہ بھی کہا گیا ہے

تقریب التہذیب از ابن حجر میں یہ الفاظ ہیں

عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع من التاسعة مات سنة إحدى عشرة وله خمس وثمانون

اس میں عبد الرزاق کو شیعہ لکھا گیا ہے

قال الذهبي: عبد الرزاق بن همام ابن نافع، الحافظ الكبير، عالم اليمن، أبو بكر الحميري الصنعاني الثقة الشيعي
امام الذھبی نے ان کو شیعی کہا ہے

رجال الطوسي جو شیعوں کی کتاب ہے اس میں عبد الرزاق کا شمار شیعوں میں کیا گیا ہے
اور امام جعفر کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے

کتاب نقد الرجال از السيد مصطفى بن الحسين الحسيني التفرشي کے مطابق
عبد الرزاق بن همام اليماني: من أصحاب الباقر والصادق عليهما السلام، رجال الشيخ

امام احمد نے کہا
العلل ومعرفة الرجال: 2 / 59 الرقم 1545
قال عبد الله بن أحمد بن حنبل: سألت أبي، قلت له: عبد الرزاق كان يتشيع ويفرط في التشيع ؟ فقال: أما أنا فلم أسمع منه في هذا شيئا، ولكن كان رجلا تعجبه أخبار الناس – أو الأخبار
عبد الله نے احمد سے سوال کیا : کیا شیعہ تھے اور مفرط تھے ؟ احمد نے کہا جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے ان سے ایسا کچھ نہیں سنا لیکن یہ ایک آدمی تھے جن کی خبروں پر لوگوں کو تعجب ہوتا

ابن عدی نے کہا
وقد روى أحاديث في الفضائل مما لا يوافقه عليها أحد من الثقات
یہ فضائل علی میں وہ روایت کرتے جن کی ثقات موافقت نہیں کرتے

یعنی اہل تشیع کے پاس یہ شیعہ تھے اور امام جعفر سے اور امام صادق سے روایت کرتے تھے

 جامع الترمذي ،  أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (بَابٌ فِي فَضْلِ النَّبِيِّ ﷺ​) جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں  باب: نبی صلی الله علیہ وسلم  کی فضیلت کا بیان حدیث ٣٦٠٩ ہے​

حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِي الْبَاب عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ
 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا:’ جب آدم روح اورجسم کے درمیان تھے

 امام ترمذی کہتے ہیں:   ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں  اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔

  مسند احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: ” وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ
عبد الله بن أبي الجذعاء مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ رضی الله عنہ  نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا اپ کب نبی ہوئے؟ فرمایا جب آدم جسد و روح کے درمیان تھے

اس کو شعیب نے صحیح کہا ہے- یہ روایت قابل غور ہے اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ آدم علیہ السلام اس وقت نبی نہیں تھے کیونکہ تخیلق سے پہلے تقدیر لکھی گئی اس میں تمام انبیاء جو صلب آدم سے ہیں ان کو نبی مقرر کیا گیا ان کی ارواح کو خلق کیا گیا اور آدم جب جسد و روح کے درمیان تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقدر لکھا گیا کہ یہ آخری نبی ہوں گے

طحاوی مشکل الاثار میں کہتے ہیں
وَأَمَّا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ “، فَإِنَّهُ، وَإِنْ كَانَ حِينَئِذٍ نَبِيًّا، فَقَدْ كَانَ اللهُ تَعَالَى كَتَبَهُ فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ نَبِيًّا
اس حدیث میں ہے کہ وہ اس وقت نبی تھے   پس الله نے ان کا نبی ہونا لوح محفوط میں لکھا- یعنی بنی آدم کی تقدیر لکھی گئی جب آدم علیہ السلام  جسد اور روح کے درمیان کی حالت میں تھے

 مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَلْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى بْنِ هِلَالٍ السُّلَمِيِّ، عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنِّي عَبْدُ اللهِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمُنْجَدِلٌ   فِي طِينَتِهِ

عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میں الله کا غلام  ، نبیوں پر مہر ہوا اور ہے شک آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے

اس کی سند میں سعيد ابن سويد الكلبي ہے اور امام بخاري کہتے ہیں : لم يصح حديثه اس کی حدیث صحیح نہیں

اور ابن حجر نے کتاب تعجيل المنفعة بزوائد رجال الأئمة الأربعة میں اس کا ذکر کیا

قال البُخَارِيّ لم يَصح حَدِيثه يَعْنِي الَّذِي رَوَاهُ مُعَاوِيَة عَنهُ مَرْفُوعا إِنِّي عبد الله وَخَاتم النَّبِيين فِي أم الْكتاب وآدَم منجدل فِي طينته

امام بخاري کہتے ہیں اس کی حدیث صحیح نہیں یعنی حدیث جو مُعَاوِيَةُ بْنَ صَالِحٍ  نے سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَلْبِيِّ سے  موفوع روایت کیا ہے کہ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میں الله کا غلام  ، نبیوں پر مہر ہوا اور ہے شک آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے

کتاب الموضوعات  از ابن جوزی میں ہے

وَقد رَوَى جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ بَيَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ الطَّائِيِّ عَنْ أَبِيهِ سُفْيَانَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْد عَن الْوَلِيد بن عبد الرحمن عَنْ نُمَيْرٍ الْحَضَرِيِّ عَنْ أَبِي ذَر قَالَ قَالَ رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” خُلِقْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ مِنْ نُورٍ وَكُنَّا عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ آدَمَ بِأَلْفَيْ عَامٍ ثُمَّ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ فَانْقَلَبْنَا فِي أقلاب الرِّجَالِ ثُمَّ جَلَلْنَا فِي صُلْبِ عبد المطلب، ثُمَّ شَقَّ اسْمَانَا مِنِ اسْمِهِ فَاللَّهُ مَحْمُودٌ وَأَنَا مُحَمَّدٌ، وَاللَّهُ الاعلى وعَلى عليا “.

هَذَا وَضعه جَعْفَر بن أَحْمَدَ وَكَانَ رَافِضِيًّا يضع الحَدِيث.

أَبِي ذَر نے کہا رسول الله نے فرمایا میں اور علی کو نور سے خلق کیا گیا اور ہم تخلیق آدم سے ہزار سال پہلے سے  عرش کے دائیں طرف  تھے  پھر الله تعالی نے آدم کو خلق کیا پھر ہم کو رجال کے دلوں میں سے گزارا پھر صلب عبد المطلب میں رکھا پھر ہمارے ناموں کو الله کے نام کے ساتھ شق کیا گیا کہ میں محمد ہوں  اور الله محمود ہے اور الله الاعلى ہے اور علی علیا ہے

ابن جوزی نے کہا اس کو رافضی جَعْفَر بن أَحْمَدَ (بن علي بن بيان المتوفی ٣٠٤ ھ )  نے گھڑا ہے

فضائل الصحابة از أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) کی روایت ہے
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قثنا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ قثنا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ قثنا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ حَبِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «كُنَّا أَنَا وَعَلِيٌّ نُورًا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَامٍ، فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ قَسَمَ ذَلِكَ النُّورَ جُزْءَيْنِ، فَجُزْءٌ أَنَا، وَجُزْءٌ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ»
سلمان نے روایت کیا کہ میں نے اپنے حبیب رسول الله سے سنا کہ میں اور علی الله تعالی کے سآمنے ١٤٠٠٠ سال تک ایک نور کی طرح تھے قبل اس کے کہ آدم خلق ہوتے پس جب الله نے آدم کو خلق کیا اس نور کو تقسیم کیا ایک جز سے میں بنا ایک سے علی

اس کی سند میں الحسن بن على ہے- تاریخ دمشق میں اس کی سند ہے
أخيرنا أبو غالب بن البنا أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو علي محمد بن أحمد بن يحيى العطشي نا أبو سعيد العدوي الحسن بن علي أنا أحمد بن المقدام العجلي أبو الأشعث (2) أنا الفضيل بن عياض عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن زاذان عن سلمان قال سمعت حبي رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول كنت أنا وعلي نورا بين يدي الله مطيعا يسبح الله ذلك النور ويقدسه قبل أن يخلق ادم بأربعة عشر ألف عام فلما خلق الله ادم ركز ذلك النور في صلبه فلم نزل (3) في شئ واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب فجزء أنا وجزء علي

اس سند سے معلوم ہوتا ہے کہ سند میں أبو سعيد العدوي الحسن بن علي ہے جو اصل میں
أبو سعيد العدوي الحسن بن على بن زكريا بن صالح ، اللؤلؤى، البَصْري، الذئب ہے اور متروک ہے – یہ روایت أبو بكر بن مالك القطيعي کا اضافہ ہے کیونکہ أبو سعيد العدوي الحسن بن على کی پیدائش ٢١٠ ہجری کی ہے اور امام احمد کی وفات  کے وقت یہ بچہ ہو گا

شیعوں کی کتاب الخصال از صدوق أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى
المتوفى 381 ھ ، منشورات  جماعة المدرسين في الحوزة العلمية قم المقدسة میں روایت ہے

روى الصدوق في الخصال: 481 ـ 482؛ وفي معاني الأخبار: 306 ـ 308، حدثنا أحمد بن محمد بن عبد الرحمن بن عبد الله بن الحسين بن إبراهيم
ابن يحيى بن عجلان المروزي المقرئ قال : حدثنا أبوبكر محمد بن إبراهيم الجرجاني
قال : حدثنا أبوبكر عبد الصمد بن يحيى الواسطي قال : حدثنا الحسن بن علي المدني، عن عبد الله بن المبارك، عن سفيان الثوري، عن جعفر بن محمد الصادق، عن أبيه، عن جدّه، عن عليّ بن أبي طالب(عم) قال: «إنّ الله تبارك وتعالى خلق نور محمد(ص) قبل أن خلق السماوات والأرض والعرش والكرسيّ واللوح والقلم والجنّة والنار، وقبل أن خلق آدم ونوحاً…، ثمّ أظهر عزَّ وجلَّ اسمَه على اللوح، وكان على اللوح منوِّراً أربعة آلاف سنة، ثم أظهره على العرش، فكان على ساق العرش مثبَتاً سبعة آلاف سنة، إلى أن وضعه اللهُ عزَّ وجلَّ في صلب آدم…».

اس کتاب کے محقق على اكبر الغفارى کا کہنا ہے کہ سند میں مجہولین ہیں

 على بن الحسن بن شقيق أبو عبد الرحمن المروزى ، وجميع رجال السند إلى هنا مجهول ولم أظفر بهم

بھر حال شیعہ آجکل اس کا رد کر رہے ہیں کہ نور محمد کو سب سے پہلے خلق کیا گیا

http://hobbollah.com/motabeat/قراءةٌ-في-العدد-المزدوج-40ـ41-من-مجلة-الاج/?download_file=true&type_download=word

حرہ کی رات اور ابن المسیب کا قول

سنن الدارمی میں ہے

أخبرنا مروان بن محمد، عن سعيد بن عبد العزيز، قال: لما كان أيام الحرة لم يؤذن في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا، ولم يقم، ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد، وكان لا يعرف وقت الصلاة إلا بهمهمة يسمعها من قبر النبي صلى الله عليه وسلم فذكر معناه

سعیدبن عبد العزیز کہتے ہیں کہ جب ایام حرہ  کے دن تھے تو تین دنوں تک مسجد نبوی میں اذان اوراقامت نماز  نہیں ہوئی ، اورسعید بن المسیب ان دنوں مسجد نبوی ہی میں ٹہرے رہے  اور  جب نماز کا وقت ہوجاتا پتا نہیں چلتا سوائے اس کے کہ   قبر نبوی سے اذان کی آواز سنائی دیتی

یہ سند منقطع ہے – سعید بن عبدالعزیز کی پیدائش  نوے  ہجری میں ہوئی ہے یہ   آخری عمر میں مختلط  بھی تھے

امام الذھبی    سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں :   وُلِدَ: سَنَةَ تِسْعِيْنَ، فِي حَيَاةِ سَهْلِ بنِ سَعْدٍ  یہ سن ٩٠ میں سھل بن سعد کی زندگی میں پیدا ہوا –  امام الذھبی    سير أعلام النبلاء میں   یہ بھی لکھتے ہیں :  وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ، وَعَلِيُّ بنُ المَدِيْنِيِّ: تُوُفِّيَ سَنَةَ ثَلاَثٍ وَتِسْعِيْنَ   ابو نعیم  اور امام علی کا کہنا ہے کہ  سعیدبن المسیب کا انتقال سن ٩٣ میں ہوا

دوسرا طرق  طبقات ابن سعد میں ہے

 أخبرنا الوليد بن عطاء بن الأغر المكي قال: أخبرنا عبد الحميد بن سليمان عن أبي حازم قال: سمعت سعيد بن المسيب يقول: لقد رأيتني ليالي الحرة وما في المسجد أحد من خلق الله غيري، وإن أهل الشام ليدخلون زمرا زمرا يقولون: انظروا إلى هذا الشيخ المجنون، وما يأتي وقت صلاة إلا سمعت أذانا في القبر ثم تقدمت فأقمت فصليت وما في المسجد أحدغيري

 اسی سند سے   تاريخ ابن أبي خيثمة میں ہے

 حَدَّثَنا مُحَمَّد بن سُلَيْمَان لوين ، قال : حدثنا عَبْد الحميد بن سُلَيْمَان ، عن أبي حازم ، عن سعيد بن الْمُسَيَّب ، قال : لقد رأيتني ليالي الْحَرَّة وما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أحدٌ غيري ، ما يأتي وقت صلاةٍ إلا سمعت الآذان مِن القبْر

 عبد الحميد بن سليمان نے ابو حازم سے روایت کیا کہا میں نے سعید بن المسیب کو کہتے سنا کہتے میں نے حرہ کی راتیں دیکھیں اور مسجد میں کوئی خلق الله میرے سوا نہ تھی اور اہل شام  گروہ گروہ مسجد میں آ رہے تھے اور کہتے اس بڈھے مجنوں کو دیکھو اور نماز کا وقت نہ اتا سوائے اس کے کہ میں قبر النبی سے اذان سنتا تو نماز  پڑھتا اور مسجد میں میرے سوا کوئی نہ تھا

ان سندوں میں عبد الحميد بن سليمان الخزاعى   ہے جو ضعیف ہے

تیسرا طرق طبقات ابن سعد میں  ہے

قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثني طلحة بن محمد بن سعيد عن أبيه قال: كان سعيد بن المسيب أيام الحرة في المسجد لم يبايع ولم يبرح، وكان يصلي معهم الجمعة ويخرج إلى العيد، وكان الناس يقتتلون وينتبهون وهو في المسجد لا يبرح إلا ليلا إلى الليل. قال فكنت إذا حانت الصلاة أسمع أذانا يخرج من قبل القبر حتى أمن الناس وما رأيت خبرا من الجماعة

طلحة بن محمد بن سعید بن المسیب  نے اپنے باپ (یعنی ابن المسیب کے بیٹے ) سے روایت کیا کہ سعید بن المسیب ایام الحره میں مسجد میں ہی رہے انہوں نے بیعت نہ کی اور وہ جمعہ کی نماز تو ان کے ساتھ پڑھتے لیکن عید پر نہ نکلتے اور لوگ قتل ہو رہے تھے اور ابن المسیب کو تنبیہ کی جا رہی تھی وہ مسجد میں ہی رکے رہے سوائے راتوں میں – کہا پس جب نماز کا وقت اتا وہ اذان قبر سے سنتے جو قبر سے نکلتی یہاں تک کہ امن ہوا

طلحة بن محمد بن سعید بن المسیب کے لئے امام ابی حاتم کا کہنا ہے

قال أبو حاتم: لا أعرفه  میں اس کو نہیں جانتا

معلوم ہوا کہ سعید بن المسیب سے اس قول کو دو  غیروں اور ایک پوتے نے منسوب کیا ہے

عبد الحميد بن سليمان الخزاعى  – مدینہ کا ہے لیکن بغداد میں جا کر رہا وفات ١٧٠ سے  ١٨٠ ھ کے درمیان ہے

طلحة بن محمد بن سعید بن المسیب – وفات معلوم نہیں ہے مدینہ کا ہے

سعيد بن عبد العزيز بن أبى يحيى التنوخى – وفات  ١٦٧ ھ  کے قریب ہے  – دمشق کے ہیں

راقم کہتا ہے یہ روایت منقطع و مجہول و ضعیف سند سے تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اجماع کیسے ہوا کہ ایک دمشقی  پھر ایک بغدادی اور ایک مدنی نے اس قول کو ابن المسیب سے الگ الگ علاقوں میں منسوب کیا – اس کے علاوہ اس قول کو منسوب کرنے میں دو غیر ہیں ایک پوتا ہے – یہ سب قابل غور ہے – روایت ضعیف تو ہے لیکن اس قول کی تہہ تک جانا ہو گا کہ ایسا ابن المسیب سے منسوب کیوں کیا گیا یا واقعی انہوں نے کہا

اب دو ہی صورتیں ہیں

اگر یہ ابن المسیب نے نہیں کہا تو سوال ہے کہ   ان تین راویوں کو کس نے  مجبور کیا کہ وہ اس قول کو ابن المسیب سے منسوب کریں- کیا بنو عباس نے ان راویوں سے کہلوایا کہ وہ  بنو امیہ کی تنقیص میں اس کو بیان کریں؟ راقم کو بنو عباس کا اس قسم کا اثر رسوخ معلوم نہیں ہے لیکن یہ دور سن ١٥٠ سے ١٨٠ ھ  کا معلوم ہوتا ہے – ابو جعفر المنصور  کی خلافت  سن ١٥٨ ھ تک تھی اور إس کے بعد أبو عبد الله محمد بن عبد الله المنصور بن محمد بن علي المهدي بالله  کی خلافت سن ١٦٩ ھ  تک تھی

اگر واقعی یہ قول ابن المسیب نے کہا تو اس کا مطلب ہے کہ سعید بن المسیب آخری عمر میں مختلط تھے

راقم سمجھتا ہے کہ   اغلبا سعید بن المسیب آخری عمر میں مختلط تھے

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابٌ) صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں (باب)

4024 . وَعَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النَّتْنَى لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ وَقَالَ اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ الْأُولَى يَعْنِي مَقْتَلَ عُثْمَانَ فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ أَحَدًا ثُمَّ وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ الثَّانِيَةُ يَعْنِي الْحَرَّةَ فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ أَحَدًا ثُمَّ وَقَعَتْ الثَّالِثَةُ فَلَمْ تَرْتَفِعْ وَلِلنَّاسِ طَبَاخٌ

اور اسی سند سے مروی ہے ، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد ( جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ ) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا ، اگر مطعم بن عدی رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے اور ان پلید قیدیوں کے لیے سفارش کرتے تو میں انہیں ان کے کہنے سے چھوڑ دیتا ۔ اور لیث نے یحییٰ بن سعید انصاری سے بیان کیا ، ا نہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ پہلا فساد جب برپا ہوا یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا ، پھر جب دو سرا فساد برپا ہوا یعنی حرہ کا ، تو اس نے اصحاب حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا ، پھر تیسرا فساد برپا ہوا تو وہ اس وقت تک نہیں گیا جب تک لوگوں میں کچھ بھی خوبی یا عقل باقی تھی

یہ حدیث تاریخا غلط ہے – بہت سے بدری اصحاب رسول کی وفات دور معاویہ رضی الله عنہ میں ہوئی ہے اور یہ قول کہنا کہ  عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت   نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا  – یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ابن المسیب کا اختلاط ہے

عرض عمل نہیں ہوتا سلف کا قول

 امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) سے طلاق کے حوالے سے سوال کیا گیا جو  ان کے فتووں میں موجود ہے جس کو  فَتَّاوَى الإِمامِ النَّوَوَيِ  یا المَسَائِل المنْثورَةِ  کہا جاتا

مسألة: رجل حلف “بالله” أو بالطلاق، أن ابن صياد هو الدجال، وأن النبي – صلى الله عليه وسلم – يسمع الصلاة عليه، من غير مبلغ هل يحنث

الجواب: لا يحكم بالحنث للشك في ذلك والورع أن يلزم الحنث.

مسئلہ : ایک شخص نے الله کی قسم کھائی یا (بیوی کو) طلاق کی قسم لی کہ ابن صیاد ہی الدجال ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم  اپنے اپ پر درود سنتے ہیں ، (ان کو) پہنچتا نہیں ہے ، تو کیا قسم ٹوٹ گئی؟

جواب: اس قسم کا حکم ٹوٹنے کا نہیں ہے  کیونکہ اس میں شک ہے اور احتیاطا    لازم ہے کہ قسم ٹوٹ جائے گی

قریب ٣٠٠ سال بعد امام شمس محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902 هـ) سے امام النووی کے اس فتوے پر سوال ہوا جس کا ذکر الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية  میں ہے

 مسألة ما قولكم في قول صاحب العلم المنشور في فضل الأيام والشهور: أولعت فسقة القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، ثم أبطل ما احتجوا به وفي حديث: “ما من أحد يسلم علي … ” إلى آخره وهل تعم الصلاة أم لا؟ وهل هو في الحاضر عند الحرجة الشريفة أو يعم وإن بعدت المسافة أم لا؟ وقول بعض الخطباء في الثانية: فإنه في هذا اليوم يسمع بأذنيه صلاة من يصلي عليه، ومعنى “لتعرض”في حديث أنس “وتبلغني” في غيره، وهل هذا الكتاب مشهور، أو عليه العمل أم لا؟

وفي مسألة في فتاوى النووي، وهي: رجل حلف بالطلاق الثلاث، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة عليه وفي الجواب لا يحكم بالحنث للشك في ذلك والورع أن يلتزم الحنث بينوا لنا ذلك مبسوطًا؟

نعم، قد جاء أنه صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة والسلام ممن يصلي ويسلم عليه عند قبره الشريف خاصة. ومن كان بعيدًا عنه يبلغه، ومما ورد في ذلك ما رواه أبو الشيخ الحافظ في كتاب “الثواب” له بسند جيد كما قال شيخنا …. وإذا تقرر هذا، فما نقله السائل عن صاحب “العلم المنشور في فضل الأيام والشهور” أنه قال: أولعت فسقه القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، فيشبه أن يكون إنكارًا منه لمن يقول بسماعه له بلاد واسطة عن بعد، وإذا كان كذلك فهو إنكار صحيح، وأما مطلقًا بحيث يتناول القريب فلا، والعلم المنشور وإن كان مشهورًا ففي مصنفع وهو الإمام أبو الخطاب ابن دحية مع كونه موصوًا بالمعرفة، وسعة العلم مقال وفي وإذا تقرر هذا، فما نقله السائل عن صاحب “العلم المنشور في فضل الأيام والشهور” أنه قال: أولعت فسقه القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، فيشبه أن يكون إنكارًا منه لمن يقول بسماعه له بلاد واسطة عن بعد، وإذا كان كذلك فهو إنكار صحيح، وأما مطلقًا بحيث يتناول القريب فلا، والعلم المنشور وإن كان مشهورًا ففي مصنفع وهو الإمام أبو الخطاب ابن دحية مع كونه موصوًا بالمعرفة، وسعة العلم مقال وفي تواليفه أشياء تنقم عليه من تصحيح وتضعيف عفا الله عنا وعنه….. والفرع المنقول عن فتاوي النووي رحمه الله في عدم الحكم باحلنث فيمن حلف بالطلاق الثلاث أنه صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة عليك للشك في ذلك صحيح، ولكن الورع كما قال: أن يلتزم الحنث. وقد صرح النووي في مقدمه شرح مسلم أنه لو حلف في غير أحاديث الصحيحين بالطلاق أنها من قول النبي صلى الله عليه وسلم أنا لا نحنثه، لكن تستحب له الرجعة احتياطًا لاحتمال الحنث وهو احتمال ظاهر، فهذا يوافق ما في الفتاوي بخلاف ما لو حلف في أحاديث الصحيحين، لأن احتمال الحنث فيهما هو في غاية من الضعف، ولذلك لا يستحب له المراجعة، لضعف احتمال موجبها، والهل الموفق.

مسئلہ:  کیا کہنا ہے اپ  کا ایک صاحب کتاب  العلم المنشور في فضل الأيام والشهور  دنوں اور مہینوں کی افضلیت کے حوالے سے قول پر : قصہ گوؤں نے بکواس کی کہ اپ صلی الله علیہ وسلم  سننتے ہیں جب درود ان پر پڑھا جاتا ہے پھر اس  کی دلیل کو رد کیا اور  حدیث میں ہے کوئی نہیں جو مجھ پر  سلام  کہے  (اور الله میری روح کو نہ لوٹا دے ) آخر تک تو کیا اپ نبی علیہ السلام پر (درود) ہمیشہ (پیش) ہوتا ہے یا نہیں ؟ اور کیا وہ اپنے حجرہ شریفہ میں حاضر ہیں وہاں ہوتے ہیں اور اگر (درود پڑھنے والے میں اور  حجرہ شریفہ میں بھی) مسافت   دور ہو  ؟ اور بعض خطیبوں کا  دوسرے قول پر کہنا کہ یہی دن ہے کہ اپ صلی الله علیہ وسلم  درود اپنے  کانوں سے سنتے ہیں جو ان پر درود کہے اور حدیث میں عرض (درود ) کا کیا مطلب ہے اور حدیث انس میں تبلغني (پہنچتا  ہے ) کا کیا مفہوم ہے ؟ اور کیا یہ کتاب مشہور ہے اس پر عمل ہے یا نہیں؟

اسی طرح فتاوی نووی میں ہے ایک شخص نے الله کی قسم کھائی یا (بیوی کو) طلاق کی قسم لی کہ ابن صیاد ہی الدجال ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم  اپنے اپ پر درود سنتے ہیں ، (ان کو) پہنچتا نہیں ہے ، تو کیا قسم ٹوٹ گئی؟ نووی نے کہا  اس قسم کا حکم ٹوٹنے کا نہیں ہے  کیونکہ اس میں شک ہے اور احتیاطا    لازم ہے کہ قسم ٹوٹ جائے گی  تو اس حوالے سے ہمارے لئے تفصیل سے وضاحت کر دیں

 سخاوی نے جواب دیا: ہاں یہ آیا ہے کہ اپ صلى الله عليه وسلم بے شک درود و سلام سنتے ہیں جب کوئی نبی صلى الله عليه وسلم پر درود و سلام قبر شریف پر  خاص کہے  اور جو دور ہے اس کا پہنچتا ہے اور اس حوالے سے کتاب الثواب از ابو الشیخ میں حدیث اتی ہے سند جید کے ساتھ جیسا ہمارے شیخ  (ابن حجر ) کا کہنا ہے ….. تو اس سب کے اقرار کے بعد جو سائل نے کتاب العلم المنشور في فضل الأيام والشهور کے حوالے سے سوال کیا ہے قصہ گوؤں نے بکواس کی کہ  رسول الله صلى الله عليه وسلم اپنے اوپر  پڑھے جانے والا درود  سنتے ہیں  تو اس پر شبہ ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ انکار کر رہے ہیں جو یہ بلا واسطہ سننے کا کہے اور اگر ایسا ہے تو یہ انکار صحیح ہے اور اگر وہ مطلقا انکار کر رہے ہیں کہ قریب کو بھی ملا رہے ہیں تو ایسا نہیں ہے اور یہ کتاب العلم المنشور جو مشہور ہے یہ تصنیف ہے امام أبو الخطاب ابن دحية (أبو الخطاب عمر بن الحسن بن علي   الكلبي المتوفی ٦٣٣ ھ) کی جو موصوف ہیں معرفت و وسعت علم سے اور ان کی توالیف میں چیزیں ہیں جن میں صحیح و ضعیف ہے الله کی مغفرت کرے … اور جو امام نووی سے منقول ہے کہ تین طلاق کی قسم نہ ٹوٹے گی کہ اگر شک ہو کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں یا نہیں تو یہ صحیح ہے لیکن احتیاط یہ ہے جیسا کہ نووی نے کہا کہ یہ ٹوٹ جائے گی اور نووی نے مقدمہ صحیح مسلم میں صراحت کی ہے کہ کہ اگر صحیین سے باہر کی احادیث پر  قسم لی کہ یہ قول نبی نہیں ہیں تو قسم نہ ٹوٹے گی لیکن مستحب ہے کہ کہ احتیاط ہے کہ یہ ٹوٹ جائے گی جو ظاہر احتمال ہے تو یہ موافق ہے اس فتوی سے کہ اگر صحیحین کی احادیث ہوں تو قسم ٹوٹ جائے گی کیونکہ وہ ضعیف ہو سکتی ہیں

اس بحث سے معلوم ہوا کہ

أبو الخطاب عمر بن الحسن بن علي  الأندلسي السبتي  الكلبي المتوفی ٦٣٣ ھ   نے اپنی کتابوں میں نبی صلی الله علیہ وسلم پر عرض عمل یا درود پیش ہونے کو رد کیا تھا

امام النووی کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات میں شک موجود تھا

لیکن افسوس متاخرین نے ان اقوال کو رد کر دیا اور واپس انہی احادیث کو صحیح کہہ دیا جن میں عرض عمل کا شرکیہ عقیدہ موجود تھا

اہل بیت کی خفیہ تحریریں

کیا قرن اول میں شیعأن علي کوئی خفیہ سوسائٹی تھی؟ جس کے گرینڈ ماسٹر علی رضی الله عنہ تھے ؟ راقم إس قول کو رد کرتا ہے لیکن قابل غور ہے کہ علی کے حوالے سے اس خفیہ علم کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو بقول اہل تصوف اور اہل تشیع صرف خواص کے لئے تھا عوام کے لئے نہ تھا- اہل تشیع کے بعض جہلاء کی جانب سے یہ پروپیگنڈا بھی سننے کو ملتا رہتا ہے کہ علی رضی الله عنہ کے پاس کوئی خفیہ قرآن تھا جس کو وہ چھپا کر رکھتے تھے اور کہتے تھے اس کو قیامت تک کوئی نہ دیکھ سکے گا – کہا جاتا ہے اس وقت یہ قرآن سر من رأى – سامراء العراق میں کسی غار
میں امام المھدی کے پاس ہے جو وقت انے پر ظاہر کیا جائے گا – اس خفیہ قرآن کی خبر اہل سنت کی کتب میں بھی در کر آئی ہیں جس کا ذکر امام الحاکم کرتے ہیں

مستدرک حاکم ميں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُصْلِحٍ الْفَقِيهُ بِالرِّي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ السَّعْدِيُّ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، رَضِيَ
اللَّهُ عَنْه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللهِ، وَأَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
زيد بن ارقم رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ميں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں کتاب الله  اور ميرے اہل بيت اور يہ دونوں جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ يہ ميرے حوض پر مجھ سے مليں گے
امام حاکم کہتے ہيں کہ يہ حديث صحيح الاسناد ہے بخاري و مسلم کي شرط پر ہے

سند ميں الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ نامعلوم و مجہول ہے

مستدرک حاکم کي ایک اور روايت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَفِيدُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ طَلْحَةَ الْقَنَّادُ، الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي ثَابِتٍ، مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجَمَلِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ عَائِشَةَ وَاقِفَةً دَخَلَنِي بَعْضُ مَا يَدْخُلُ النَّاسَ، فَكَشَفَ اللَّهُ عَنِّي ذَلِكَ عِنْدَ صَلَاةِ الظُّهْرِ، فَقَاتَلْتُ مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا فَرَغَ ذَهَبْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَأَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ فَقُلْتُ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا جِئْتُ أَسْأَلُ طَعَامًا وَلَا شَرَابًا وَلَكِنِّي مَوْلًى لِأَبِي ذَرٍّ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا فَقَصَصْتُ عَلَيْهَا قِصَّتِي، فَقَالَتْ: أَيْنَ كُنْتَ حِينَ طَارَتِ الْقُلُوبُ مَطَائِرَهَا؟ قُلْتُ: إِلَى حَيْثُ كَشَفَ اللَّهُ ذَلِكَ عَنِّي عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ، قَالَ:
أَحْسَنْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَأَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ هُوَ عُقَيْصَاءُ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

ابو ثابت مولي ابو ذر نے کہا ميں جمل ميں علي کے ساتھ تھا ليکن جب ميں نے عائشہ کو ديکھا اور ان کو پہچان گيا …. پس الله نے ميرا دل نماز ظہر پر کھول ديا اور ميں نے علي کے ساتھ قتال کيا پس جب فارغ ہوا ميں مدينہ ام سلمہ کے پاس پہنچا انہوں نے مرحبا کہا اور ميں نے قصہ ذکر کيا … ميں نے تذکرہ کيا کہ الله نے مجھ پر زوال کے وقت (حق کو) کشف کيا – پس ام سلمہ نے کہا اچھا کيا ميں نے رسول الله سے سنا ہے کہ علي قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علي کے ساتھ ہے يہ الگ نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض پر مليں گے
امام حاکم نے کہا يہ حديث صحيح الاسناد ہے

سند ميں علي بن هاشم بن البريد ہے جس کو شيعي غال کہا گيا ہے

الکامل از ابن عدي ميں ہے
وَعلي بْن هاشم هُوَ من الشيعة المعروفين بالكوفة ويروي فِي فضائل علي أشياء لا يرويها غيره بأسانيد مختلفة وقد حدث عنه جماعة من الأئمة، وَهو إن شاء الله صدوق في روايته
علي بْن هاشم کوفہ کے معروف شيعوں ميں سے ہے جو فضائل علي ميں وہ چيزيں روايت کرتا ہے جو کوئي اور نہيں کرتا مختلف اسناد سے اور اس سے ائمہ کي جماعت نے روايت کيا ہے اور يہ
صدوق ہے

ابن حبان نے کہا
كان غاليا في التشيع وروى المناكير عن المشاهير
يہ غالي شيعہ ہے

سؤالات الحاكم ” للدارقطني: هاشم بن البريد ثقة مأمون وابنه علي كذاب
دارقطني کہتے ہيں علي بن هاشم بن البريد کذاب ہے

یہ روایات غالی شیعوں کی بیان کردہ ہیں لیکن امام حاکم نے اپنی حالت اختلاط میں منکر و موضوع روایات تک کو صحیح قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے مستدرک عجیب و غریب روایات کا
مجموعہ بن گئی اور اہل سنت میں شیعیت کو فروغ ملا –

اب ہم اہل تشیع کے معتبر ذرائع کو دیکھتے ہیں کہ علی کے پاس کیا کیا علوم تھے – الکافي از کليني باب النوادر کي حديث 23 ہے

محمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، عن عبدالرحمن بن أبي هاشم، عن سالم بن سلمة قال: قرأ رجل على أبي عبدالله عليه السلام وأنا أستمع حروفا من القرآن ليس على ما يقرؤها الناس، فقال أبوعبدالله عليه السلام: كف عن هذه القراء ة اقرأ كما يقرأ الناس حتى يقوم القائم فإذا قام القائم عليه السلام قرأ كتاب الله عزو جل على حده وأخرج المصحف الذي كتبه علي عليه السلام وقال: أخرجه علي عليه السلام إلى الناس حين فرغ منه وكتبه فقال لهم: هذا كتاب الله عزوجل كما أنزله [الله] على محمد صلى الله عليه وآله وقد جمعته من اللوحين فقالوا: هو ذا عندنا مصحف جامع فيه القرآن لا حاجة لنا فيه، فقال أما والله ما ترونه بعد يومكم هذا أبدا، إنما كان علي أن اخبركم حين جمعته لتقرؤوه.

سالم بن سلمة نے کہا امام ابو عبد الله کے سامنے کسي شخص نے قرات کي اور ميں سن رہا تھا قرآن کے وہ حروف تھے جو لوگ قرات نہيں کرتے پس امام ابو عبد الله نے فرمايا اس قرات سے رک جاو ايسا ہي پڑھو جيسا لوگ پڑھتے ہيں يہاں تک کہ القائم کھڑے ہوں گے تو کتاب الله کي قرات اس کي حد تک کريں گے اور وہ مصحف نکاليں گے جو علي نے لکھا تھا اور کہا جب علي نے مصحف لکھ کر مکمل کيا اس سے فارغ ہوئے اس کو لوگوں کے پاس لائے اور کہا يہ کتاب الله ہے جو اس نے محمد پر نازل کي اور اس کو انہوں نے الواح ميں جمع کيا تو لوگوں نے کہا وہ جو مصحف ہمارے پاس ہے وہ جامع ہے ہميں اس کي ضرورت نہيں پس علي نے کہا الله کي قسم آج کے بعد اس کو کبھي نہ ديکھو گے يہ ميرے پاس تھا اب جب تم جمع کر رہے ہو تو ميں نے خبر دي کہ اس کو پڑھو

اس روايت کا راوي سالم شيعہ محققين کے نزديک مجہول ہے – الخوئي کتاب معجم رجال الحديث ميں کہتے ہيں

سالم بن سلمة :
روى عن أبي عبدالله عليه السلام ، وروى عنه عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 23 .
ـ 22 ـ
أقول كذا في الوافي والطبعة المعربة من الكافي ايضا ولكن في الطبعة
القديمة والمرآة : سليم بن سلمة ، ولا يبعد وقوع التحريف في الكل والصحيح
سالم أبوسلمة بقرينة الراوي والمروي عنه .

سالم بن سلمة يہ ابو عبد الله سے روايت کرتا ہے اور اس سے عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 22 اور 23 ميں

ميں کہتا ہوں ايسا ہي الوافي ميں اور الکافي کي الطبعة المعربة ميں ہے ليکن جو قديم طباعت ہے اس ميں ہے سليم بن سلمة اور يہ بعيد نہيں کہ يہ تحريف ہو الکل ميں اور صحيح ہے کہ سالم ابو سلمہ ہے راوي اور مروي عنہ کے قرينہ سے

الخوئي نے اس راوي کو سالم بن سلمة، أبو خديجة الرواجنى سے الگ کيا ہے جو طوسي کے نزديک ثقہ ہے ليکن الخوئي کے نزديک مجہول ہے

معلوم ہوا کہ تحريف قرآن سے متعلق يہ روايت ہي ضعيف ہے

سالم بن سلمة نام کے شخص کي يہ الکافي ميں واحد روايت ہے جس کا ترجمہ ہي کتب رجال شيعہ ميں نہيں ہے

الکافي کي روايت ہے

محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن عبدالله بن فرقد والمعلى بن خنيس قالا: كنا عند أبي عبدالله عليه السلام ومعنا ربيعة الرأي فذكرنا فضل القرآن فقال أبوعبدالله عليه السلام: إن كان ابن مسعود لا يقرأ على قراء تنا فهو ضال، فقال ربيعة: ضال؟ فقال: نعم ضال، ثم قال أبوعبدالله عليه السلام: أما نحن فنقرأ على قراء ة أبي
ابو عبد الله نے کہا ان کے ساتھ (امام مالک کے استاد اہل سنت کے امام ) ربيعة الرأي تھے پس قرآن کي فضيلت کا ذکر ہوا تو ابو عبد الله نے کہا اگر ابن مسعود نے بھي وہ قرات نہيں کي جو ہم نے کي تو وہ گمراہ ہيں – ربيعة الرأي نے کہا گمراہ ؟ امام نے کہا جہاں تک ہم ہيں تو ہم ابي بن کعب کي قرات کرتے ہيں

حاشيہ ميں محقق کہتے ہيں
يدل على أن قراء ة ابى بن كعب أصح القراء ات عندهم عليهم السلام
يہ دليل ہوئي کہ ابي بن کعب کي قرات امام ابو عبد الله کے نزديک سب سے صحيح قرات تھي

اس کي سند ميں معلى بن خنيس ہے نجاشي نے اس کا ذکر کيا ہے
قال النجاشي : ” معلى بن خنيس ، أبوعبدالله : مولى ( الصادق ) جعفر بن
محمد عليه السلام ، ومن قبله كان مولى بني أسد ، كوفي ، بزاز ، ضعيف جدا ،
لا يعول عليه ، له كتاب يرويه جماعة

دوسرا شخص عبدالله بن فرقد ہے اس پر بھي شيعہ کتب رجال ميں کوئي معلومات نہيں ہيں

کتاب الکافی میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عبدالله بن الحجال، عن أحمد بن عمر الحلبي، عن أبي بصير قال: دخلت على أبي عبدالله عليه السلام فقلت له: جعلت فداك إني أسألك عن مسألة، ههنا أحد يسمع كلامي(1)؟ قال: فرفع أبوعبد عليه السلام سترا بينه وبين بيت آخر فأطلع فيه ثم قال: يا أبا محمد سل عما بدا لك، قال: قلت: جعلت فداك إن شيعتك يتحدثون أن رسول الله صلى الله عليه وآله علم عليا عليه السلام بابا يفتح له منه ألف باب؟ قال: فقال: يا أبا محمد علم رسول الله صلى الله عليه وآله عليا عليه السلام ألف باب يفتح من كل باب ألف باب قال: قلت: هذا والله العلم قال: فنكت ساعة في الارض ثم قال: إنه
لعلم وما هو بذاك.قال: ثم قال: يا أبا محمد وإن عندنا الجامعة وما يدريهم ما الجامعة؟ قال: قلت: جعلت فداك وما الجامعة؟ قال: صحيفة طولها سبعون ذراعا بذراع رسول الله صلى الله عليه وآله وإملائه(2) من فلق فيه وخط علي
بيمينه، فيها كل حلال وحرام وكل شئ يحتاج الناس إليه حتى الارش في الخدش وضرب بيده إلي فقال: تأذن لي(3) يا أبا محمد؟ قال: قلت: جعلت فداك إنما أنا لك فاصنع ما شئت، قال: فغمزني بيده وقال: حتى
أرش هذا – كأنه مغضب – قال: قلت: هذا والله العلم(4) قال إنه لعلم وليس بذاك.
ثم سكت ساعة، ثم قال: وإن عندنا الجفر وما يدريهم ما الجفر؟ قال قلت: وما الجفر؟ قال: وعاء من أدم فيه علم النبيين والوصيين، وعلم العلماء الذين مضوا من بني إسرائيل، قال قلت: إن هذا هو العلم، قال: إنه
لعلم وليس بذاك.ثم سكت ساعة ثم قال: وإن عندنا لمصحف فاطمة عليها السلام وما يدريهم ما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: قلت: وما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: مصحف فيه مثل قرآنكم هذا ثلاث مرات، والله ما فيه
من قرآنكم حرف واحد، قال: قلت: هذا والله العلم قال: إنه لعلم وما هو بذاك.

ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عر ض کی : میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیا یہا ں کوئی اور شخص تو موجود نہیں ہے جو میری بات سن رہا ہو ؟ امام جعفر صادق نے اپنے کمرے اور دوسرے کمرے میں پڑے ہو ئے پر دہ کو اٹھا کر دیکھا اور پھر فرمایا ابو محمد تمہیں جو کچھ پو چھنا ہو پو چھو ؛میں نے عر ض کی میں آپ پر قربان جاوُں شیعہ ایک حد یث بیان کر تے ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضر ت علی کو ایک علم کے باب کی تعلیم دی جس سے علم کے ہزار باب کھل گئے تھے پھر میں نے کہا خدا کی قسم کیا یه کامل اور
حقیقی علم ہے ،امام صادق کچھ دیر سو چتے رہے اور پھر فرمایا ! وہ علم ہے لیکن پھر بھی وہ کامل علم نہیں ہے

پھر آپ نے فرمایا . ابو محمد ہما رے پاس جامعہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ جامعہ کیا ہے ؟جواب میں آپ نے کہا : وہ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا طو ل( ہاتھ کی لمبائی ) پیغمبر(ص) کے مطابق ستر ہاتھ لمبا ہے رسول خدا نے اسے املا کیا ا ور حضر ت علی نے اسے لکھا، اس میں تمام حلال و حرام اور لوگوں کی جملہ دینی ضروریات حتیٰ کہ خراش لگانے کے جرمانہ تک کا ذکر ہے ، پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے بدن پر مار کر فرمایا : ابو محمد کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو ؟

میں نے کہا ؛ میں آپ ہی کا جزو ہوں آپ جو چاہیں انجام دیں آپ کو اس کا اختیار حاصل ہے ، پھر آپ نے میرے جسم پر چٹکی کاٹی اور فرمایا کہ اس چٹکی کاٹنے کی دیت اور جرمانہ بھی جامعہ میں موجود ہے . آپ نے یہ الفاظ کہے اور آپ اس وقت غصے میں دکھائی دے رہے تھے ، میں نے کہا خدا کی قسم ! یہ کامل علم ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن پھر بھی یہ کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : ہمارے پاس جفر ہے لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے ؟میں نے کہا کہ جفر کیا ہے ؟

آپ نے فرمایا : وہ چمڑے کا ایک مخزن ہے جس میں سابقہ انبیاء و اوصیاء اور علمائے بنی اسرائیل کا علم ہے میں نے عرض کیا:یہ علم کامل ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن یہ بھی کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : و ان عندنا لمصحف فاطمہ علیہا السلام ؛

ہما رے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ مصحفِ فاطمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک ایسا مصحف ہے جو تمہارے ہاتھوں میں مو جود قرآن مجید سے تین گنا بڑ ا ہے خدا کی قسم اس میں تمہا رے قرآن مجید کا ایک بھی حرف نہیں ہے ؛

میں نے عرض کیا ؛ کیا یه کامل علم ہے ؟آپ نے فر مایا ؛ یه بھی علم ہے لیکن کامل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا ہما رے پاس گزشتہ اور قیا مت کے دن تک آنے والے حالات کا علم موجود ہے میں نے عرض کیا:یہ کامل علم ہے ؟ آ پ نے فرمایا ؛ یہ بھی علم ہے لیکن کا مل علم نہیں ہے میں نے پو چھا کہ کامل علم کیا ہے؟ آپ نے فر مایا: علم کامل وہ علم ہے جو روزانہ دن رات میں ایک عنوان کے بعد دوسر ے عنوان اور ایک چیز کے بعد دوسری  چیز کے بارے میں سامنے آتا رہتا ہے اور جو قیا مت تک ظاہر ہوتا رہے گا

اس کی سند میں عبدالله بن الحجال ہے جو مجہول ہے

الکافی کی روایت ہے
عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن الحسين ابن أبي العلاء قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: إن عندي الجفر الابيض، قال: قلت: فأي شئ فيه؟ قال: زبور داود، وتوراة موسى،
وإنجيل عيسى، وصحف ابراهيم عليهم السلام والحلال والحرام، ومصحف فاطمة، ما أزعم أن فيه قرآنا، وفيه ما يحتاج الناس إلينا ولا نحتاج إلى أحد حتى فيه الجلدة، ونصف الجلدة، وربع الجلدة وأرش الخدش.
وعندي الجفر الاحمر، قال: قلت: وأي شئ في الجفر الاحمر؟ قال: السلاح وذلك إنما يفتح للدم يفتحه صاحب السيف للقتل، فقال له عبدالله ابن أبي يعفور: أصلحك الله أيعرف هذا بنو الحسن؟ فقال: إي والله كما
يعرفون الليل أنه ليل والنهار أنه نهار ولكنهم يحملهم الحسد وطلب الدنيا على الجحود والانكار، ولو طلبوا الحق بالحق لكان خيرا لهم.

الحسين ابن أبي العلاء نے کہا میں نے امام جعفر سے سنا وہ کہہ رہے تھے میرے پاس سفید جفر ہے – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا داود کی زبور اور موسی کی توریت اور عیسیٰ کی انجیل اور ابراہیم کا مصحف ہے اور حلال و حرام ہے اور مصحف فاطمہ ہے میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ اس میں قرآن ہے لیکن اس میں ہے وہ ہے جس کو لوگوں کو حاجت ہے اور ہمیں اس کی بنا پر کسی کی حاجت نہیں … اور میرے پاس جفر سرخ ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا : اسلحہ ہے جس سے خون کھولا جاتا ہے اور تلوار والا قتل کرتا ہے اس پر عبدالله ابن أبي يعفور نے امام
جعفر سے کہا الله اصلاح کرے اپ کو بنو الحسن کی حرکت کا علم ہے ؟ فرمایا ہاں الله کی قسم جیسے تم رات کو جانتے ہو کہ رات ہے اور دن کو کہ دن ہے لیکن انہوں نے حسد کو اور طلب دنیا
کو لیا ہے اگر حق کو حق سے طلب کرتے تو اچھا ہوتا

اس کی سند میں الحسين ابن أبى العلاء الخفاف أبو على الاعور یا الخصاف أبو على الاعور ہے – اس کا ایک نام أبو العلاء الحسين ابن أبي العلاء خالد بن طهمان العامري بھی بیان کیا جاتا ہے اس کا ایک
نام الزندجي أبو علي بھی بیان کیا گیا ہے
راقم کہتا ہے یہ شخص مجہول ہے – التحرير الطاووسى کے مولف حسن صاحب المعالم شیعہ عالم کا کہنا ہے
فيه نظر عندي لتهافت الاقوال فيه
اس راوی پر نظر ہے اس کے بارے میں بے شمار (متخالف ) اقوال کی وجہ سے

یعنی اہل تشیع اس راوی کا تعین نہیں کر سکے ہیں اور تین نام کے مختلف قبائل کے لوگوں کو ملا کر ان کے علماء کا دعوی ہے کہ ایک شخص ہے – حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی یقینی
قول نہیں کہ کون ہے

الکافی کی ایک اور روایت ہے

علي بن إبرإهيم، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عمن ذكره، عن سليمان بن خالد قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: إن في الجفر الذي يذكرونه(1) لما يسوؤهم، لانهم لا يقولون الحق(2) والحق فيه، فليخرجوا
قضايا علي وفرائضه إن كانوا صادقين، وسلوهم عن الخالات والعمات(3)، وليخرجوا مصحف فاطمة عليها السلام، فإن فيه وصية فاطمة عليها السلام، ومعه(4) سلاح رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله
عزوجل يقول: ” فأتوا بكتاب من قبل هذا أو أثارة من علم إن كنت صادقين

سليمان بن خالد نے کہا امام جعفر نے مصحف فاطمہ نکالا جس میں فاطمہ کی وصیت تھی اور ان کے پاس رسول الله صلی الله علیہ و اله کا اسلحہ تھا

اس کی سند میں عمن ذكره، لوگ مجہول ہیں

الکافی کی ایک اور روایت ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عمر بن عبدالعزيز، عن حماد بن عثمان قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: تظهر الزنادقة في سنة ثمان وعشرين ومائة وذلك أني نظرت في مصحف فاطمة
عليها السلام، قال: قلت: وما مصحف فاطمة؟ قال: إن الله تعالى لما قبض نبيه صلى الله عليه وآله دخل على فاطمة عليها السلام من وفاته من الحزن ما لا يعلمه إلا الله عزوجل فأرسل الله إليها ملكا يسلي غمها
ويحدثها، فشكت ذلك(1) إلى أمير المؤمنين عليه السلام فقال: إذا أحسست بذلك وسمعت الصوت قولي لي فأعلمته بذلك فجعل أمير المؤمنين عليه السلام يكتب كلما سمع حتى أثبت من ذلك مصحفا قال: ثم قال: أما
إنه ليس فيه شئ من الحلال والحرام ولكن فيه علم ما يكون.

حماد بن عثمان نے کہا میں نے امام جعفر المتوفی ١٤٥ ھ کو کہتے سنا الزنادقة سن ١٢٨ میں ظاہر ہوئے اور اس وقت میں مصحف فاطمہ دیکھ رہا تھا – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا جب الله تعالی نے اپنے نبی کی روح قبض کی وہ فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور وہاں رہے جس کو علم صرف اللہ کو ہے اس وقت اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا جو ان کے غم کو دور کرے (علی کو اس پر خبر دیر سے ہوئی) اس پر علی نے شکوہ کیا اور کہا اگر مجھے احساس ہوتا اور (فرشتے کی) آواز سن لی ہوتی تو میں اس علم کو جان جاتا- پس علی نے وہ لکھا جو سنا (یعنی جو فرشتہ نے علم دیا
س کا آدھا پونا لکھا) اس کو مصحف میں ثبت کیا – امام جعفر نے کہا اس میں نہ صرف حلال و حرام ہے بلکہ اس کا علم بھی ہے جو ہو گا

کہا جاتا ہے کہ سند میں حماد بن عثمان بن عمرو بن خالد الفزاري ہے – اس کا سماع امام جعفر سے نہیں ہے کیونکہ بصائر الدرجات کے مطابق یہ حماد بن عثمان اصل میں عمر بن يزيد کی سند سے
امام جعفر سے روایت کرتا ہے دوم سند میں عمر بن عبدالعزيز أبوحفص بن أبي بشار المعروف بزحل ہے قال النجاشي انه مختلط
الفضل بن شاذان کا کہنا ہے أبو حفص يروى المناكير
معلوم ہوا سند ضعیف ہے انقطاع بھی ہے

الغرض علی رضی الله عنہ کےپاس کوئی الگ  علم خواص نہ تھا جو اور اصحاب رسول کو معلوم نہ ہو اور نہ ہی کوئی الگ قرآن تھا بلکہ اس کی تمام خبریں غالیوں کی بیان کردہ ہیں جو  مجہول و غیر معروف یا مختلط یا ضعیف  راوی ہیں

مہر نبوت کی خبر

کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسم اطہر پر پیٹھ پر کبوتری کے انڈے برابر ایک مسا  تھا اس پر بال بھی تھے – اس کو مہر نبوت کا نام دیا گیا – آج ہم اس سے  متعلق روایات کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ کن راویوں نے اس کو بیان کیا ہے

جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایات

طبقات ابن سعد میں ہے

ذِكْرُ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ الَّذِي كَانَ بَيْنَ كَتِفَيْ رَسُولِ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ وَالْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالا: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سماك أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ

وَصَفَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ: وَرَأَيْتُ خَاتَمَهُ عِنْدَ كَتِفَيْهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ تُشْبِهُ جِسْمَهُ.

سماک بن حرب نے کہا اس نے جابر رضی الله عنہ سے سنا کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا وصف بیان کیا کہا میں نے ان کے شانوں کے پاس مہر دیکھی جو کبوتری کے انڈے جیسی تھی

قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سِمَاكٍ.حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ قَالَ: رَأَيْتُ الْخَاتَمَ الَّذِي

فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – سَلْعَةً مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ.

جابر بن سمرہ نے کہا انہوں نے وہ مہر دیکھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسم پر تھی اس کی جنس کبوتری کے انڈے جیسی تھی

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ: نَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ

عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَأَنَّهُ بَيْضَةٌ.

سماک نے کہا جابر نے کہا میں نے دیکھی وہ مہر جو رسول الله  کی پیٹھ پر تھی جیسے کہ کوئی انڈا ہو

صحیح مسلم میں ہے

حديث:1583و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاکٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ وَکَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ وَکَانَ کَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ قَالَ لَا بَلْ کَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَکَانَ مُسْتَدِيرًا وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ کَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ يُشْبِهُ جَسَدَهُ

 جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک اور داڑھی مبارک کا اگلا حصہ سفید ہوگیا تھا اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیل لگاتے تو سفیدی ظاہر نہ ہوتی اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک کے بال پراگندہ ہوتے تو سفیدی ظاہر ہوجاتی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک کے بال بہت گھنے تھے ایک آدمی کہنے لگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس تلوار کی طرح ہے – جابر (رض) کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس سورج اور چاند کی طرح گولائی مائل تھا اور میں نے مہر نبوت آپ کے کندھے مبارک کے پاس دیکھی جس طرح کہ کبوتر کا انڈہ اور اس کا رنگ آپ کے جسم مبارک کے مشابہ تھا۔

حديث:1584حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاکٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ خَاتَمًا فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَأَنَّهُ بَيْضَةُ حَمَامٍ

جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پشت مبارک میں مہر نبوت دیکھی جیسا کہ کبوتر کا انڈا۔

حديث:1585و حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سِمَاکٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ

ان تمام کی اسناد میں سماک بن حرب کا تفرد ہے جس کا کہنا ہے کہ یہ کبوتر کے انڈے برابر مسا تھا

احمد کہتے ہیں سماک مضطرب الحدیث ہے

قال أبو طالب أحمد بن حميد: قلت لأحمد بن حنبل: سماك بن حرب مضطرب الحديث؟ قال: نعم. «الجرح والتعديل

قال يعقوب بن سفيان: قال أحمد بن حنبل: حديث سماك بن حرب مضطرب. «المعرفة والتاريخ

کتاب  ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از الذھبی کے مطابق

كان شعبة يضعفه وقال ابن المبارك ضعيف الحديث

امام شعبة اس کی تضعیف کرتے اور ابن مبارک اس کو ضعیف الحدیث قرار دیتے

سماک کا انتقال بنو امیہ کے آخری دور میں هشام بن عبد الملك کے دور میں ہوا

أَبِي رمثة رضی الله عنہ سے منسوب روایات

طبقات ابن سعد میں ہے

[أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ. أَخْبَرَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ. أَخْبَرَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ عَنْ أَبِي رمثة قال: قال لي رسول الله. ص: يَا أَبَا رِمْثَةَ ادْنُ مِنِّي امْسَحْ ظَهْرِي. فَدَنَوْتُ فَمَسَحَتْ ظَهْرَهُ ثُمَّ وَضَعَتْ أَصَابِعِي عَلَى الْخَاتَمِ فَغَمَزْتُهَا. قُلْنَا لَهُ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعْرٌ مُجْتَمِعٌ عِنْدَ كَتِفَيْهِ] .

عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے أَبِي رمثة سے روایت کیا کہ کہا مجھ سے رسول الله نے کہا اے أَبِي رمثة میری پیٹھ کو صاف کرو میں ایسا کیا تو میں نے پیٹھ مبارک کو چھوا پھر میری انگلی اس مہر پر لگی تو میں نے اس کو دبایا- ہم نے کہا یہ

مہر کیا تھی؟ کہا کچھ بال جمع تھے ان  کے شانوں کے پاس

سند میں  الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ،  امام احمد کے نزدیک یثبج الحدیث  ہے

 عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے بیان کیا کہ یہ بال تھے – یہی الفاظ ا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے ایک دوسرے صحابی سے بھی منسوب کیے ہیں

طبقات ابن سعد میں ہے

[أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ وَهِشَامٌ أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَسَعْدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالُوا: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ. حَدَّثَنِي إِيَادُ بْنُ لَقِيطٍ عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: فَنَظَرَ أَبِي إِلَى مِثْلِ السِّلْعَةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كَأَطَبِّ الرِّجَالِ أَلا أُعَالِجُهَا لَكَ؟ فَقَالَ: لا. طَبِيبُهَا الَّذِي خَلَقَهَا] .

إِيَادُ بْنُ لَقِيطٍ نے أَبِي رِمْثَةَ سے روایت کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  کے پاس گیا

تو میرے باپ نے ایک چیز شانوں پر دیکھی تو کہا یا رسول الله میں لوگوں کا طبیب جیسا ہوں کیا اس کا علاج نہ کر دوں ؟ فرمایا : نہیں اس کا علاج وہ کرے گا جس نے اس کو خلق کیا

اس سند میں عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ  المتوفی ١٦٩ ھ ہے جس کو البزار نے ضعیف کہا ہے

[أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِيُّ. حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِذَا فِي كَتِفِهِ مِثْلَ بَعْرَةِ الْبَعِيرِ أَوْ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ.

فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلا أُدَاوِيكَ مِنْهَا؟ فَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ نَتَطَبَّبُ. فَقَالَ: يُدَاوِيهَا الَّذِي وَضَعَهَا]

عَاصِمٍ نے أَبِي رِمْثَةَ سے روایت کیا کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم پاس پہنچا  تو ان کے  شانے پر اونٹ کی آنکھ یا کبوتری کے انڈے جیسی تھی تو میں کہا اے رسول الله یہ کیا ہے اس کی دوا اپ کیوں نہیں لیتے ؟ میں اپنے گھر والوں کا طبیب ہوں پس فرمایا اس کو دوا دے گا جس نے اس کو بنایا

سند میں عاصم بن بهْدلة اور حماد بن سلمہ دونوں مختلط ہوئے ہیں

قرہ سے منسوب روایات

طبقات ابن سعد میں ہے

أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ. أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُشَيْرٍ. حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي رَهْطٍ مِنْ مُزَيْنَةَ فبايعته وإن قميصه لمطلق ثم أدخلت يدي فِي جَيْبِ قَمِيصِهِ فَمَسِسْتُ الْخَاتَمَ.

مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ نے اپنے باپ سے روایت کیا کہا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچا ایک مزینہ کے گروہ کے ساتھ ان کی ہم نے بیعت کی .. پھر میں نے ان کی قمیص کی جیب میں ہاتھ داخل کر کے انکی مہر کو

چھوا

اس کی سند  میں قرہ بن آیاس ہیں

کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق

قرة بن إياس والد معاوية بن قرة أنكر شعبة أن يكون له صحبة والجمهور أثبتوا له الصحبة والرواية

قرة بن إياس …..   شعبہ نے انکار کیا ہے کہ یہ صحابی تھے اور جمہور کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ صحابی ہیں

امام شعبہ کی اس رائے کی وجہ احمد العلل میں بتاتے ہیں

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدَّثنا سليمان ابو داود، عن شعبة، عن معاوية -يعني ابن قرة – قال: كان أبي يحدثنا عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، فلا أدري سمع منه، أو حدث عنه

عبد الله بن احمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے شعبہ ہے انہوں نے معاویہ سے روایت کیا کہ

میرے باپ قرہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے پس میں نہیں جانتا کہ انہوں نے سنا تھا یا صرف ان

کی بات بیان کرتے تھے

جب معاویہ بن قرہ کو خود ہی شک ہو کہ باپ نے واقعی رسول الله سے سنا بھی تھا یا نہیں تو آج ہم اس کو کیسے قبول کر لیں؟

لہذا روایت ضعیف  ہے

عبد الله بن سرجس سے منسوب روایات

[أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ وَخَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ. أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسٍ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَهُوَ جَالِسٌ فِي أَصْحَابِهِ. فَدُرْتُ مِنْ خَلْفِهِ فَعَرَفَ الَّذِي أُرِيدُهُ. فَأَلْقَى الرِّدَاءَ عَنْ ظَهْرِهِ. فَنَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ عَلَى بَعْضِ الْكَتِفِ مِثْلَ الْجُمْعِ. قَالَ حَمَّادٌ: جُمْعُ الْكَفِّ. وَجَمَعَ حَمَّادٌ كَفَّهُ وَضَمَّ أَصَابِعَهُ. حَوْلَهُ خِيلانٌ كَأَنَّهَا الثَّآلِيلُ. ثُمَّ جِئْتُ فَاسْتَقْبَلْتُهُ فَقُلْتُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: وَلَكَ! فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَسْتَغْفِرُ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ وَلَكُمْ. وَتَلا الآيَةَ: «وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِناتِ» محمد: 19. هَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ.

عَاصِمٌ الأَحْوَلُ نے عبد الله بن سرجس سے روایت کیا کہا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچا وہ اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے میں ان کے پیچھے آیا تو وہ جان گئے میں کیا چاہتا ہوں پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے پیٹھ پر سے چادر ہٹا دی تو میں نے وہ مہر دیکھی جو شانوں میں سے بعض پر تھی جیسے جمع ہو – حماد نے کہا جیسے مٹھی جمع ہوتی ہے اور حماد نے انگلیاں بند کر کے مٹھی بنائی – اس کے گرد ایسا تھا جیسے مسے ہوں – پھر میں ان کے سامنے آیا اور میں نے کہا الله اپ کی مغفرت کرے یا رسول الله ! فرمایا اور تمہاری بھی مغفرت کرے – ان سے بعض قوم نے کہا  رسول الله نے تمہاری مغفرت مانگی ؟ کہا ہاں تمھاری بھی ! اور تلاوت کیا اور اپنے لیے استغفار کرو اور مومنوں اور مومنات کے لئے  سورہ محمد – ایسا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ نے کہا

عبد الله بن سرجس کی سند سے دیگر کتب میں بھی ہے مثلا

صحیح مسلم

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ – رضي الله عنه – قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَأَكَلْتُ مَعَهُ خُبْزًا وَلَحْمًا أَوْ قَالَ ثَرِيدًا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ أَسْتَغْفَرَ لَكَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ نَعَمْ وَلَكَ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ) قَالَ ثُمَّ دُرْتُ خَلْفَهُ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عِنْدَ نَاغِضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى (9) جُمْعًا (10) عَلَيْهِ خِيلَانٌ (11) كَأَمْثَالِ الثَّآلِيلِ. (م 7/ 86 – 87)

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَرْجِسَ، قَالَ: ” تَرَوْنَ هَذَا الشَّيْخَ، يَعْنِي نَفْسَهُ، كَلَّمْتُ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكَلْتُ مَعَهُ، وَرَأَيْتُ الْعَلَامَةَ الَّتِي بَيْنَ كَتِفَيْهِ، وَهِيَ فِي طَرَفِ نُغْضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى، كَأَنَّهُ جُمْعٌ، يَعْنِي الْكَفَّ الْمُجْتَمِعَ، وَقَالَ بِيَدِهِ فَقَبَضَهَا عَلَيْهِ، خِيلَانٌ كَهَيْئَةِ الثَّآلِيلِ ” (2)

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ: «أَنَّهُ رَأَى الْخَاتَمَ الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صُحْبَةٌ» (حم) 20774

– حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عِيسَى أَبُو بِشْرٍ الرَّاسِبِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ أَبُو زَيْدٍ الْقَيْسِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، أَنَّهُ قَالَ: «قَدْ رَأَى عَبْدُ اللَّهِ

بْنُ سَرْجِسَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ تَكُنْ لَهُ صُحْبَةٌ» (حم) 20779

لیکن امام احمد کا کہنا ہے عبد الله بن سرجس صحابی نہیں اس نے رسول الله کو صرف دیکھا سنا نہیں

السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ سے منسوب روایات

صحیح  بخاری میں ہے

6352 – حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنِ الجَعْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ، «فَمَسَحَ رَأْسِي، وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الحَجَلَةِ»

السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ نے کہا میں اپنی خالہ کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا پس  انہوں نے کہا یا رسول الله میرے بھانجے کو مرگی ہے پس اپ نے میرے سر کا مسح کیا اور برکت کی دعا کی پھر وضو کیا پس میں نے وضو کا پانی پیا پھر میں ان کی پیٹھ  پیچھے کھڑا ہوا تو دیکھا وہاں ایک مہر تھی زِرِّ الحَجَلَةِ کا ابھار  ہو

یہی روایت کتاب  الشريعة از أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے

وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي حَسَّانَ الْأَنْمَاطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ , فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ , ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ , ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ مِثْلِ زِرِّ الْحَجَلَةِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا “

ان دونوں کی سند میں الجعد بن عبد الرحمن بن أوس أبو زيد الكندي ہے اور امام علی المدینی کا کہنا ہے کہ امام مالک اس سے کچھ روایت نہ کرتے تھے

كذا ذكره أبو الوليد الباجي في كتاب «التعديل والتجريح» وقال: قال علي ابن المديني: لم يرو عنه مالك بن أنس شيئا.

اس حدیث کے الفاظ غیر واضح ہیں – صحیح بخاری میں ہے

، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحُجْلَةُ:‏‏‏‏ مِنْ حُجَلِ الْفَرَسِ الَّذِي بَيْنَ عَيْنَيْهِ

محمد بن عبیداللہ نے کہا کہ«حجلة» ، «حجل الفرس» سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں جو اس کی دونوں

آنکھوں کے بیچ میں ہوتی ہے۔

اس سے کچھ واضح نہیں ہوا کہ  یہ مہر یا مسا کس قسم کا تھا

اس کے برعکس دلائل النبوه از بیہقی اور شرح السنہ از بغوی میں ہے

وَحَكَى أَبُو سُلَيْمَانَ ” عَنْ بَعْضِهِمْ: أَنَّ رِزَّ الْحَجَلَةِ: بَيْضُ الْحَجَلِ

ان الفاظ کا مطلب مادہ پرندے کا انڈا ہے

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے منسوب روایات

 مسند احمد میں ہے

– حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ، حَدَّثَنَا أَبُو لَيْلَى، قَالَ أَبِي: ” سَمَّاهُ سُرَيْجٌ: عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَيْسَرَةَ الْخُرَاسَانِيَّ “، عَنْ عَتَّابٍ الْبَكْرِيِّ قَالَ: كُنَّا نُجَالِسُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ بِالْمَدِينَةِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَانَ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، فَقَالَ: بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ، «هَكَذَا لَحْمٌ نَاشِزٌ بَيْنَ كَتِفَيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (حم) 11656

عَتَّابٍ الْبَكْرِيِّ  نے کہا ہم ابو سعید الخدری کے ساتھ  مدینہ میں مجلس کرتے پس ان سے پوچھتے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مہر نبوت پر جو ان کے شانوں کے درمیان تھی –پس انہوں نے کہا شہادت کی انگلی کی طرح – اس کا گوشت تھا کندھوں کے درمیان

عَتَّابٍ الْبَكْرِيِّ ، ابن حجر کے نزدیک مقبول ہے ایسا وہ مجہول  کہنے کی بجائے کہتے ہیں – البتہ روایت میں ہے کہ یہ انگلی کی طرح گوشت تھا

ابو زید عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ رضی الله عنہ سے منسوب روایات

مسند احمد میں ہے

– حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَزْرَةُ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْتَرِبْ مِنِّي»، فَاقْتَرَبْتُ مِنْهُ، فَقَالَ: «أَدْخِلْ يَدَكَ فَامْسَحْ ظَهْرِي»، قَالَ: فَأَدْخَلْتُ يَدِي فِي قَمِيصِهِ، فَمَسَحْتُ ظَهْرَهُ، فَوَقَعَ خَاتَمُ

النُّبُوَّةِ بَيْنَ إِصْبَعَيَّ، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ، فَقَالَ: «شَعَرَاتٌ بَيْنَ كَتِفَيْهِ» (حم) 20732

عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے کہا ابو زید نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے کہا میرے پاس آو – پس میں ان کے پاس گیا – اپ نے فرمایا اپنا ہاتھ داخل کرو اور میری کمر کو مسح کرو – پس میں نے قمیص میں ہاتھ داخل کیا اپ کی پیٹھ کا مسح کیا تو میرا ہاتھ پڑا مہر النبوت پر جو انگلی کے  بیچ میں آئی – پس میں نے اس مہر نبوت پر سوال کیا – پس اپ نے فرمایا یہ بال ہیں کندھوں کے درمیان

– حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَهِيكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا زَيْدٍ عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ قَالَ: «رَأَيْتُ الْخَاتَمَ

الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرَجُلٍ قَالَ بِإِصْبَعِهِ الثَّالِثَةِ هَكَذَا، فَمَسَحْتُهُ بِيَدِي» (حم) 22882

أَبَا نَهِيكٍ عثمان بن نهيك الأزدي الفراهيدي کہتے عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ نے کہا میں نے وہ مہر دیکھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے شانوں کے درمیان تھی  جیسا کہ ایک آدمی نے اپنی تیسری انگلی سے اس طرح کہا، میں نے اسے ہاتھ سے چھوا

سند میں عثمان بن نهيك الأزدي الفراهيدي  مجہول ہے

– حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا زَيْدٍ ادْنُ مِنِّي، وَامْسَحْ ظَهْرِي». وَكَشَفَ ظَهْرَهُ، فَمَسَحْتُ ظَهْرَهُ، وَجَعَلْتُ الْخَاتَمَ بَيْنَ أَصَابِعِي. قَالَ: فَغَمَزْتُهَا. قَالَ فَقِيلَ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعَرٌمُجْتَمِعٌ عَلَى كَتِفِه. (حم) 22889

– أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي عَاصِمٍ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ الْيَشْكُرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “ادْنُ مِنِّي فَامْسَحْ ظَهْرِي”. قَالَ: فَكَشَفْتُ عَنْ ظَهْرِهِ، وَجَعَلْتُ الْخَاتَمَ بَيْنَ أُصْبُعِي فَغَمَزْتُهَا،

قِيلَ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعْرٌ مُجْتَمِعٌ عَلَى كَتِفِهِ (رقم طبعة با وزير: 6267) , (حب) 6300 [قال الألباني]: صحيح – “المختصر” (31/ 17).

عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے ابو زید کا قول بیان کیا کہ مہر اصل میں بال جمع  تھے

سلمان الفارسی رضی الله عنہ کی روایت

مسند احمد میں سلمان کے ایمان لانے کے قصے کی روایت ہے

وَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ، فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، فَقُلْتُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ

میں ان کے پیچھے کھڑا ہوا اس پر سے چادر کو ہٹایا تو کہا میں گواہی دیتا ہوں اپ نبی ہیں

سند ضعیف  ہے – سند میں  أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ ہے  جس کی توثیق نہیں ملی

طبرانی میں ہے سلمان نے خبر دی

فَإِنَّهُ النَّبِيُّ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمَ النُّبُوَّةِ

یہ نبی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی اور اس کی نشانی یہ ہے کہ ان کے شانوں کے درمیان نبوت کی مہر ہے

سند میں السَّلْمُ بْنُ الصَّلْتِ  مجہول ہے

طبرانی الکبیر میں ہے سلامة العجلي نے کہا سلمان نے خبر دی

بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ

ان کے شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے

لسان المیزان از ابن حجر کے مطابق سلامہ مجہول ہے

طبرانی الکبیر اور مستدرک الحاکم  میں ہےعبد الله بن عبد القدوس نے أَبُو الطُّفَيْلِ کی سند سے روایت کیا کہ  سلمان نے خبر دی

فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، فَقُلْتُ: اللهُ أَكْبَرُ، هَذِهِ وَاحِدَةٌ،

جب نظر ختم نبوت پر گئی جو شانوں کے درمیان تھی میں بولا الله اکبر یہ وہی ہے

سند میں عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ  سخت ضعیف راوی ہے

معلوم ہوا کہ اس قسم کا کوئی اہل کتاب کا قول تھا

دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَالَ: كُنْتُ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ مِنْ أَهْلِ أَصْبَهَانَ …. وَإِنَّ فِيهِ عَلَامَاتٍ لَا تَخْفَى: بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ

سلمان نے خبر دی کہ وہ فارس اصفہان کے ہیں … انہوں نے رسول الله کی علامت جو چھپی نہیں تھیں دیکھیں کہ ان کے شانوں کے درمیان مہر  نبوت ہے

سند میں أحمد بن عبد الجبار بن محمد العطاردي الكوفي  ضعیف ہے جو مدلس بھی ہے

ابن عباس رضی الله عنہ  کی روایت

دلائل النبوه از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ مَحْبُوبٍ الدَّهَّانُ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ، عَنِ الْكَلْبِيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ حَبْرًا مِنْ أَحْبَارِ الْيَهُودِ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَكَانَ قَارِئًا لِلْتَوْرَاةِ فَوَافَقَهُ وَهُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ يُوسُفَ كَمَا أُنْزِلَتْ عَلَى مُوسَى فِي التَّوْرَاةِ فَقَالَ لَهُ الْحَبْرُ: يَا مُحَمَّدُ، مَنْ عَلَّمَكَهَا؟ قَالَ: «اللهُ عَلَّمَنِيهَا» ، قَالَ: فَتَعَجَّبَ الْحَبْرُ لِمَا سَمِعَ مِنْهُ فَرَجَعَ إِلَى الْيَهُودِ، فَقَالَ لَهُمْ: أَتَعْلَمُونَ وَاللهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَا أُنْزِلَ فِي التَّوْرَاةِ، قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى دَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ وَنَظَرُوا إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ فَجَعَلُوا يَسْتَمِعُونَ إِلَى قِرَاءَتِهِ لِسُورَةِ يُوسُفَ، فَتَعَجَّبُوا مِنْهُ وَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، مَنْ عَلَّمَكَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَّمَنِيهَا اللهُ» ، وَنَزَلَ: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} [يوسف: 7] . يَقُولُ لِمَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرِهِمْ وَأَرَادَ أَنْ يَعْلَمَ عِلْمَهُمْ، فَأَسْلَمَ الْقَوْمُ عِنْدَ ذَلِكَ

الْكَلْبِيّ نے ْ أَبِي صَالِحٍ سے روایت کیا کہ ابن عباس نے کہا علمائے یہود میں سے ایک عالم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس  ایک روز آیا اور وہ توریت کی قرات کرتا تھا  لہذا جانتا تھا اور رسول الله اس وقت سورہ یوسف قرات کر رہے تھے جیسی موسی پر توریت میں نازل ہوئی – پس حبر یہود نے کہا اے محمد کس نے یہ سکھائی؟ اپ نے فرمایا الله نے – یہودی  حیران ہوا جب اس نے سورت سنی پھر یہود کے پاس گیا اور ان سے کہا کیا تم کو معلوم بھی ہے الله کی قسم محمد تو قرآن میں قرات کرتا ہے ایسا ہی توریت میں ہے – پس ایک گروہ یہود اپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور ان کو صفت سے پہچان گیا اور ان کی مہر کو دیکھا جو شانوں کے درمیان تھی  پس وہ سورہ یوسف سننے لگے اور حیران ہوتے رہے اور بولے اے محمد کس نے سکھائی؟ اپ نے فرمایا الله نے سکھائی

اس کی سند الکلبی کی وجہ سے ضعیف ہے

الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ رضی الله عنہ  کی روایت

طبرانی الکبیر میں روایت ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُدَ الْمَكِّيُّ، ثنا النُّعْمَانُ بْنُ شِبْلٍ الْبَاهِلِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ قَالَا: ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُخَرِّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي أُمُّ بَكْرِ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ: مَرَّ بِي يَهُودِيٌّ وَأَنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ فَوَقَعَ ثَوْبُهُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فِي ظَهْرِهِ» ، فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: ارْفَعْ ثَوْبَهُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَذَهَبْتُ أَرْفَعُ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ظَهْرِهِ «فَنَفَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِيَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ»

 أُمُّ بَكْرِ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ ایک یہودی گزرا اور میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے تھا اور رسول الله وضو کر رہے تھے تو کمر پر سے کپڑا تھا اور وہاں نبوت کی مہر تھی- پس یہودی بولا اس کپڑے کو ہٹاو- پس میں رسول الله کے پاس گیا ان کی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹا دیا – پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک چلو پانی کا میرے منہ پر مارا

سند ضعیف ہے أُمُّ بَكْرِ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ راویہ  مجہول ہے

أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدٍ کی روایت

طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا مَسْعَدَةُ بْنُ سَعْدٍ الْعَطَّارُ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّقْرِ السُّكَّرِيُّ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، ثنا بَكَّارُ بْنُ جَارَسْتَ، ثنا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدٍ، قَالَتْ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ

اس کی سند ضعیف ہے – سند میں بَكَّارُ بْنُ جَارَسْتَ  جس کو لین الحدیث کہا جاتا ہے

مستدرک الحاکم میں بھی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ، ثنا خَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ، عَنْ عَمِّهِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَكْبَرِ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ وَمَعَهُ ابْنَتُهُ أُمُّ خَالِدٍ، فَجَاءَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا قَمِيصٌ أَصْفَرُ وَقَدْ أَعْجَبَ الْجَارِيَةَ قَمِيصُهَا، وَقَدْ كَانَتْ فَهِمَتْ بَعْضَ كَلَامِ الْحَبَشَةِ فَرَاطَنَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَلَامِ الْحَبَشَةِ سَنَهْ سَنَهْ وَهِيَ بِالْحَبَشَةِ حَسَنٌ حَسَنٌ، ثُمَّ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْلِي وأَخْلِقِي، أَبْلِي وأَخْلِقِي» قَالَ: فَأَبْلَتْ وَاللَّهِ، ثُمَّ أَخْلَقَتْ، ثُمَّ مَالَتْ إِلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَتْ يَدَهَا عَلَى مَوْضِعِ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَأَخَذَهَا أَبُوهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهَا» صَحِيحُ الْإِسْنَادِ قَدِ اتَّفَقَ الشَّيْخَانِ عَلَى إِخْرَاجِ أَحَادِيثَ لِإِسْحَاقَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ آبَائِهِ وَعُمُوَمَتِهِ، وَهَذِهِ أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ الَّتِي حَمَلَهَا أَبُوهَا صَغِيرَةً إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَحِبَتْ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَوَتْ عَنْهُ

اس کی سند کو الذھبی نے تلخیص میں  منقطع قرار دیا ہے

علی رضی الله عنہ کی روایت

ترمذی کی ایک مشہور حدیث شمائل پر ہے

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنِ الحُسَيْنِ بْنِ أَبِي حَلِيمَةَ مِنْ قَصْرِ الأَحْنَفِ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ المَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ، إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ وَلَا بِالقَصِيرِ المُتَرَدِّدِ وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ القَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ بِالجَعْدِ القَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ كَانَ جَعْدًا رَجِلًا وَلَمْ يَكُنْ بِالمُطَهَّمِ، وَلَا بِالمُكَلْثَمِ، وَكَانَ فِي الوَجْهِ تَدْوِيرٌ، أَبْيَضُ مُشْرَبٌ، أَدْعَجُ العَيْنَيْنِ، أَهْدَبُ الأَشْفَارِ، جَلِيلُ المُشَاشِ، وَالكَتَدِ، أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ شَثْنُ الكَفَّيْنِ وَالقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ، وَإِذَا التَفَتَ التَفَتَ مَعًا، بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، أَجْوَدُ النَّاسِ صَدْرًا، وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً، وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيكَةً، وَأَكْرَمُهُمْ عِشْرَةً، مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ، يَقُولُ نَاعِتُهُ: لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ “: «هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ». قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: سَمِعْتُ الأَصْمَعِيَّ، يَقُولُ فِي تَفْسِيرِ صِفَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: المُمَّغِطُ الذَّاهِبُ طُولًا. وَسَمِعْتُ أَعْرَابِيًّا يَقُولُ فِي كَلَامِهِ: تَمَغَّطَ فِي نُشَّابَتِهِ أَيْ مَدَّهَا مَدًّا شَدِيدًا. وَأَمَّا المُتَرَدِّدُ: فَالدَّاخِلُ بَعْضُهُ فِي بَعْضٍ قِصَرًا. وَأَمَّا القَطَطُ. فَالشَّدِيدُ الجُعُودَةِ، وَالرَّجِلُ الَّذِي فِي شَعْرِهِ حُجُونَةٌ أَيْ: يَنْحَنِي قَلِيلًا. [ص:600] وَأَمَّا المُطَهَّمُ، فَالبَادِنُ الكَثِيرُ اللَّحْمِ. وَأَمَّا المُكَلْثَمُ: فَالمُدَوَّرُ الوَجْهِ. وَأَمَّا المُشْرَبُ: فَهُوَ الَّذِي فِي بَيَاضِهِ حُمْرَةٌ. وَالأَدْعَجُ: الشَّدِيدُ سَوَادِ العَيْنِ، وَالأَهْدَبُ، الطَّوِيلُ الأَشْفَارِ، وَالكَتَدُ، مُجْتَمَعُ الكَتِفَيْنِ، وَهُوَ الكَاهِلُ. وَالمَسْرُبَةُ، هُوَ الشَّعْرُ الدَّقِيقُ الَّذِي هُوَ كَأَنَّهُ قَضِيبٌ مِنَ الصَّدْرِ إِلَى السُّرَّةِ. وَالشَّثْنُ: الغَلِيظُ الأَصَابِعِ مِنَ الكَفَّيْنِ وَالقَدَمَيْنِ. وَالتَّقَلُّعُ: أَنْ يَمْشِيَ بِقُوَّةٍ. وَالصَّبَبُ: الحُدُورُ، نَقُولُ: انْحَدَرْنَا فِي صَبُوبٍ وَصَبَبٍ. وَقَوْلُهُ:جَلِيلُ المُشَاشِ، يُرِيدُ رُءُوسَ المَنَاكِبِ. وَالعِشْرَةُ: الصُّحْبَةُ، وَالعَشِيرُ: الصَّاحِبُ. وَالبَدِيهَةُ: المُفَاجَأَةُ، يُقَالُ بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ: أَيْ فَجَأْتُهُ

علی رضی اللہ عنہ نے (نبی  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے) فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آخری نبی ہیں۔

اگرچہ اس کو صحیح کہہ دیا جاتا ہے جبکہ اس کی سند منقطع ہے – جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

إبراهيم بن محمد بن الحنيفة عن جده علي رضي الله عنه قال أبو زرعة مرسل

ابراہیم بن محمد کی اپنے دادا علی سے روایت مرسل ہے

ابراہیم المَهدِيُ مِنّا أَهلَ البَيتِ والی روایت کے بھی راوی ہیں – اس تناظر میں قابل غور ہے کہ یہ مہر نبوت کا ذکر کرتے ہیں

عائشہ رضی الله عنہا کی روایت

دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا قَالَتْ: ” كَانَ مِنْ صِفَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،…. کَانَ وَاسِعَ الظَّهْرِ، بَيْنَ کَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

6: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /362، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 /304.

  عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ   نبی   صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پشتِ اقدس کشادہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی۔

اس کی سند صَبِيحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْفَرَغَانِيُّ  کی وجہ سے ضعیف ہے جو صَاحِبُ مَنَاكِيرَ مشہور ہے

أَبِي مُوسَى رضی الله عنہ کی روایت

دلائل النبوه از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ طَلْحَةُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الصَّقْرِ الْبَغْدَادِيُّ، بِهَا قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى الْآدَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّامِ،… لَمْ يَمُرَّ بِشَجَرَةٍ وَلَا حَجَرٍ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ، خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فِي أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلُ التُّفَّاحَةِ

نصرانی رَّاهِبُ نے کہا  رسول الله  کسی درخت یا یا پتھر کے پاس سے نہ گزرتے لیکن وہ سب ان کو سجدہ کرتے اور یہ سجدہ نبی کو ہی کرتے ہیں اور میں ان کو پہچانتا ہوں مہر نبوت سے جو شانوں  پر سیب جیسی ہے

سند میں عبد الرحمن بن غزوان  ، أبو نوح، قراد ہے جو منکرات بیان کرتا ہے اس روایت کا متن بھی منکر ہے کیونکہ سورہ حج میں ہے درخت و شجر صرف الله کو سجدہ کرتے ہیں.

یہاں بیان ہوا کہ بچپن میں ہی مہر اس قدر بڑی تھی کہ گویا سیب ہو

ابن اسحاق کی روایت

دلائل النبوه از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ : وَكَانَ أَبُو طَالِبٍ هُوَ الَّذِي يَلِي أَمْرَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ جَدِّهِ، كَانَ إِلَيْهِ وَمَعَهُ , ثُمَّ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ خَرَجَ فِي رَكْبٍ إِلَى الشَّامِ تَاجِرًا…. فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُهُ فَيُوَافِقُ ذَلِكَ مَا عِنْدَ بَحِيرَاءَ مِنْ صِفَتِهِ , ثُمَّ نَظَرَ إِلَى ظَهْرِهِ فَرَأَى خَاتَمَ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عَلَى مَوْضِعِهِ مِنْ صِفَتِهِ الَّتِي عِنْدَهُ

بَحِيرَاءَ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کمر کو دیکھا ان کے شانوں کے درمیان اس مقام پر جس کی صفت اس کے پاس (پہلے سے) تھی

یہ سند منقطع ہے – ابن اسحٰق سے لے کر ابو طالب تک کوئی راوی نہیں

مہر نبوت پر  کیا لکھا تھا؟

بعض روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس مہر پر محمد رسول الله لکھا تھا – اس کو محدثین عصر نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن قابل غور ہے کہ اس ابھار کو  مہر نبوت کیوں کہا گیا؟ کس طرح یہ نبوت کا نشان تھا؟

 صحیح ابن حبان میں ہے

أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ الْفَتْحِ بْنِ سَالِمٍ الْمُرَبَّعِيُّ (2) الْعَابِدُ، بِسَمَرْقَنْدَ، حَدَّثَنَا رَجَاءُ بْنُ مُرَجًّى الْحَافِظُ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَاضِي سَمَرْقَنْدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «كَانَ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ الْبُنْدُقَةِ مِنْ لَحْمٍ عَلَيْهِ، مَكْتُوبٌ مُحَمَّدُ رَسُولِ اللَّهِ

موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان از أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي (المتوفى: 807هـ) میں ہے

 أنبأنا نصر بن الفتح بن سالم (1) المربعي (2) العابد بسمرقند، حدثنا رجاء بن مُرَجَّى الحافظ، حدثنا إسحاق بن إبراهيم قاضي سمرقند، حدثنا ابن جريج، عن عطاء. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ خَاتَمُ النُبُوَّةِ في ظَهْرِ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- مِثْلَ

الْبُنْدُقَةِ  مِنْ لَحْمٍ عَلَيْهِ مُكْتُوبٌ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله” (1).

قُلْتُ: اخْتَلَطَ عَلَى بَعْضِ الرُّوَاةِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ بِالخَاتَمِ الَّذِي كَانَ يَخْتِمُ بِهِ الْكُتُبَ.

ابن عمر سے مروی ہے کہ اس مہر پر محمد رسول الله لکھ تھا

ہیثمی نے کہا میں کہتا ہوں اس میں بعض راویوں نے ملا دیا ہے اس مہر (جسم والی)  کو اس مہر سے جس کو تحریر میں استعمال کیا

قابل غور ہے امام المہدی یعنی محمد بن عبد اللہ بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب المعروف نفس الزکیہ کو بھی

صاحب الخال کہا جاتا تھا یعنی مسے  والا یا تل والا

 مقاتل الطالبيين  از أبو الفرج اصبہانی یعنی  علي بن الحسين بن محمد بن احمد بن الهيثم بن عبد الرحمن ابن مروان بن عبد الله بن مروان  میں روایت ہے

حدثني محمد بن إسماعيل بن جعفر الجعفري عن امه رقية بنت موسى بن عبدالله بن الحسن بن الحسن عن سعيد ابن عقبة الجهني – وكان عبدالله بن الحسن اخذه منها فكان في حجره – قال.ولد محمد وبين كتفيه خال اسود كهيئة البيضة عظيما فكان يقال له.المهدي

سعيد ابن عقبة الجهني نے بیان کیا کہ عبد الله بن الحسن ان سے (بات) لیتے – وہ اپنے  حجرے میں  تھے کہا محمد بن عبد الله المہدی پیدا ہوا تو اس کے شانوں کے درمیان ایک کالا  مسا تھا جیسے بڑا انڈا  ہو اس کو   المہدی کہا جاتا

مہر نبوت کی خبر معروف اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے بیان نہیں کی نہ ہی امہات المومنین رضی الله عنہم نے اس کی خبر دی – مزید براں جن لوگوں کا اس کی روایات میں تفرد ہے وہ بعد کے ہیں اور ان کے بیانات میں تضاد بہت ہے

سنن نسائی کی روایت ہے

الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ مُزَاحِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «خَرَجَ مِنَ الْجِعِرَّانَةِ لَيْلًا فَنَظَرْتُ إِلَى ظَهْرِهِ كَأَنَّهُ سَبِيكَةُ فِضَّةٍ فَاعْتَمَرَ وَأَصْبَحَ بِهَا كَبَائِتٍ

 مخرش کعبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ   نبی   صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات کو مقام جعرانہ سے نکلے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیٹھ مبارک کی طرف دیکھا تو اُسے خالص سفید چاندی کی طرح چمکتا ہوا پایا، پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عمرہ ادا فرمایا۔

یعنی پیٹھ مبارک پر  کوئی انڈے جیسی یا اونٹ کی آنکھ جیسی یا بالوں کا گچھا یا سیب جیسی غدود نما کوئی  چیز نہیں تھی

گمان غالب ہے کہ مہدی کی تحریک جو ١٢٠ ہجری کے بعد برپا ہوئی اس میں محمد المہدی کی تائید میں مہر نبوت کو بطور ایک نشانی بیان کیا گیا تاکہ عوام الناس کو یہ بتایا جائے کہ اس  المہدی کے جسم پر بھی وہی نشان ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسم اطہر پر تھا

و الله اعلم

فرشتوں کو پکارنا

الله تعالی نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ صرف اسی کو پکارا جائے- انبیاء کی خبریں دیں کی انہوں نے مصیبت و پریشانی میں صرف الہ واحد کو پکارا

مشرکین مکہ اس کے برعکس فرشتوں کو پکارتے ان کو عورت کی شکل میں رکھتے یعنی لات عزی اور منات

قرآن کہتا ہے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بهَا من سُلْطَان

کیا تم نے اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور ایک اور  تیسری  مَنَاةَ کو دیکھا؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو صرف چند نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں، الله کی طرف سے ان پر  کوئی سند نہیں اتری

اللات  طائف میں، العُزَّى مکہ میں اور مَنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں

الكلبي (المتوفى: 204هـ) کی کتاب الاصنام میں ہے

عرب طواف میں پکارتے

 وَاللاتِ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الأُخْرَى … فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شفاعتهن لَتُرْتَجَى

اور اللاتِ اور الْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ

یہ تو بلند  پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے

کتاب غریب الحدیث از ابن الجوزی کے مطابق

تِلْكَ الغرانيق الْعلَا قَالَ ابْن الْأَعرَابِي الغرانيق الذُّكُور من الطير
وَاحِدهَا غرنوق وغرنيق وَكَانُوا يدعونَ أَن الْأَصْنَام تشفع لَهُم فشبهت بالطيور الَّتِي ترْتَفع إِلَى السَّمَاء وَيجوز أَن تكون الغرانيق جمع الغرانق وَهُوَ الْحسن

یہ تو بلند غرانیق ہیں – ابن الاعرابی کہتے ہیں غرانیق سے مراد نر پرندے ہیں جن کا واحد  غرنوق ہے اور غرنيق  ہے یہ مشرکین ان ( دیویوں) کو اس نام سے اس لئے پکارتے تھے کیونکہ یہ بت ان کے لئے شفاعت کرتے اور(نر) پرندے بن کر جاتے جو آسمان میں بلند ہوتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حسن ہو

تاج العروس اور غریب الحدیث از ابن قتیبہ  میں  کہا گیا ہے  کہ غرانیق سے مراد

طيور الماء طويلة العنق

پانی کے پرندے ہیں جن کی طویل گردن ہوتی ہے

 اردو میں ان کو بگلا کہتے ہیں مشرکین نے فرشتوں کو بگلے بنا دیا اور پھر ان کو دیوی کہا

 قرآن میں ایک مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے  

  وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ 

(فاطر 13 – 14)

 اور جن لوگوں کو یہ مشرکین اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کھجور کی گٹھلی کے باریک غلاف کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے اور قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے لاعلمی کا اظہار کریں گے اور آپ کو (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا

اس کے برعکس ایک روایت کو امت میں صحیح قرار دے کر فرشتوں کو پکارنے کا جواز پیدا کیا گیا ہے

یہ روایت مسند البزار بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا أَصَابَهُ شَيْءٌ بِأَرْضٍ فَلاةٍ 3128 میں بیان ہوئی ہے

– حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْحَاقَ، ثنا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ، ثنا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبَانِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِنَّ للَّهِ مَلائِكَةً فِي الأَرْضِ، سِوَى الْحَفَظَةِ، يَكْتُبُونَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدُكُمْ عَرْجَةً، بِأَرْضٍ فَلاةٍ، فَلْيُنَادِ: أَعِينُوا، عِبَادَ اللَّهِ “.

قَالَ الْبَزَّارُ: لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا اللَّفْظِ إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إن لله ملائكة في الأرض سوی الحفظة، يكتبون ا سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة، فليناد : أعينوا عبادالله.
زمین میں حفاظت والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہوتے ہیں جو درختوں کے گرنے والے پتوں کو لکھتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویرانے میں چلتے ہوئے پاؤں میں موچ آ جائے تو وہ کہے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔

الْبَزَّارُ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ اس کو نبی علیہ السلام سے کسی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہو سوائے اس سند سے

راقم کہتا ہے یہ سند ضعیف ہے

أبان بن صالح بن عمير القرشي نے مجاہد سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کیا ہے – سند میں حاتم بن إسماعيل   المدني بھی ہے جس کو  ثقة مشهور صدوق بھی کہا گیا ہے اور نسائی کی جانب سے ليس بالقوى  قوی نہیں بھی کہا گیا ہے – إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از  مغلطاي میں ہے

ذكره ابن خلفون في «الثقات» قال: قال أبو جعفر البغدادي: سألت أبا عبد الله عن حاتم بن إسماعيل فقال: ضعيف.

ابن خلفؤن نے اس کا ذکر ثقات میں کیا ہے اور أبو جعفر البغدادي نے کہا میں نے امام ابو عبد الله (یعنی امام احمد)  سے اس کے بارے میں پوچھا تو کہا ضعیف ہے

سوال ہے کہ کیا فرشتوں کو مدد کے لئے پکارا جا سکتا ہے ؟ یہ تو مشرکین مکہ کا عمل تھا وہ دیویوں کو فرشتے

سمجھ کر ان کو پکارتے تھے

فرشتوں سے مدد مانگنا کیا الله سے مدد مانگنے کے مترادف ہے ؟ میرے علم میں یہ تو  شرک ہے

افسوس ایک اہل حدیث عالم غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری اس کے برعکس اس حدیث سے فرشتوں کی پکار کو ثابت کرتے ہیں

http://www.tohed.com/وسیلے-کی-ممنوع-اقسام-کےدلائل-کا-تحقیقی-2/

البتہ اگر ان میں مذکور ’’عباداللہ“ سے مراد فرشتے لیے جائیں تو صحیح حدیث سے ان کی تائید ہو جائے گی، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
إن لله ملائكة في الأرض سوی الحفظة، يكتبون ا سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة، فليناد : أعينوا عبادالله. 
’’زمین میں حفاظت والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہوتے ہیں جو درختوں کے گرنے والے پتوں کو لکھتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویرانے میں چلتے ہوئے پاؤں میں موچ آ جائے تو وہ کہے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔“ (كشف الأستار عن زوائد البزار:3128/1، وسنده حسن) 

 حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
رجاله ثقات. ’’اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔“ (مجمع الزوائد:32/10) 

 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ھذا حديث حسن الإسناد، غريب جدا . 
’’اس کی سند حسن ہے لیکن یہ انوکھی روایت ہے۔“ (مختصر زوائد البزار:120/2، شرح ابن علان علي الأذكار:15/5) 

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
إنما هم الملائكة، فلا يجوز أن يلحق بهم المسلمون من الجن أو الإنس ممن يسمونهم برجال الغيب من الأولياء والصالحين، سواء كانوا أحياء أو أمواتا، فإن الاستغاثة بهم وطلب العون منهم شرك بين لأنهم لا يسمعون الدعاء، ولوسمعوا لما استطاعوا الاستجابة وتحقيق الرغبة، وهذا صريح في آيات كثيرة، منها قوله تبارك وتعالى : ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ.﴾ (فاطر 13 – 14) 
’’اس حدیث میں اللہ کے بندوں سے مراد صرف فرشتے ہیں۔ ان کے ساتھ مسلمان جنوں اور ان اولیاء اور صالحین کو ملانا جنہیں غیبی لوگ کہا جاتا ہے، جائز نہیں، خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہو گئے ہوں۔ ان جنوں اور انسانوں سے مدد طلب کرنا واضح شرک ہے کیونکہ وہ پکارنے والے کی پکار کو سن نہیں سکتے۔ اگر وہ سن بھی لیں تو اس کا جواب دینے یا حاجت روائی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں۔ ایک مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾ (فاطر 13 – 14) ”اور جن لوگوں کو یہ مشرکین اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کھجور کی گٹھلی کے باریک غلاف کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے اور قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے لاعلمی کا اظہار کریں گے اور آپ کو (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔“ (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرھا السيء في الأمة:111/2، ح:655) 

http://shamela.ws/browse.php/book-12762/page-986

 یعنی اس حدیث میں ماتحت الاسباب مدد مانگنے کا بیان ہے، کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے وہاں ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نیک بندوں کی اعانت پر مامور کر رکھا ہے۔

راقم کہتا ہے البانی کا قول کہ اس سے مراد فرشتے ہیں اس کی حماقت ہے – یہ حدیث ضعیف و منکر ہے

اپنی اس غلط بات کو کہ فرشتوں سے مدد لی جا سکتی ہے غلام مصطفی  نے امام احمد سے بھی دلیل لی ہے

کتاب مسائل الإمام أحمد لابنه عبدالله میں ہے امام احمد کے بیٹے عبد الله نے بیان کیا کہ ان کے باپ احمد بن حنبل نے کہا

حَدثنَا قَالَ سَمِعت ابي يَقُول حججْت خمس حجج مِنْهَا ثِنْتَيْنِ رَاكِبًا وَثَلَاثَة مَاشِيا اَوْ ثِنْتَيْنِ مَاشِيا وَثَلَاثَة رَاكِبًا فضللت الطَّرِيق فِي حجَّة وَكنت مَاشِيا فَجعلت اقول يَا عباد الله دلونا على الطَّرِيق فَلم ازل اقول ذَلِك حَتَّى وَقعت الطَّرِيق اَوْ كَمَا قَالَ ابي

میرے باپ نے کہا میں نے پانچ حج کیے جن میں دو سواری پر اور تین چل کر کیے  یا کہا تین سواری پر  اور دو پیدل – تو مجھ پر حج کا  راستہ کھو گیا اور میں پیدل چل رہا تھا تو میں نے کہنا شروع کر دیا

اللہ کے بندو ! مجھے راستہ بتاؤ۔ میں مسلسل کہتا رہا حتی کہ صحیح راستے پر آ گیا – ایسا میرے باپ نے کہا

اس کو البانی نے بھی بیان کیا

أن حديث ابن عباس الذي حسنه الحافظ كان الإمام أحمد يقويه، لأنه قد عمل به 

حدیث ابن عباس جس کو حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے اس کو امام احمد نے قوی کیا ہے کیونکہ وہ اس پر عمل کرتے تھے

مزید براں البانی نے بھی اس کو منکر نہیں بلکہ حسن کہا

قلت: وهذا إسناد حسن كما قالوا

میں البانی کہتا ہیں یہ اسناد حسن ہیں جیسا انہوں نے کہا 

http://shamela.ws/browse.php/book-12762/page-986

راقم کہتا ہے مدد و پکار صرف الله کا حق ہے – مصیبت میں الله ہی کو پکارا جائے  

افسوس امام احمد کے نزدیک راوی  حاتم بن إسماعيل ضعیف تھا لیکن وہ اس ضعیف حدیث پر عمل کرتے تھے کیونکہ ان کا خود کا قول تھا کہ ضعیف سے دلیل لو

عبد اللہ بن احمد اپنے باپ  احمد سے  کتاب السنہ میں  نقل کرتے  ہیں

http://shamela.ws/browse.php/book-323/page-199

سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ الله عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ [ص:181] قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ

میں نے اپنے باپ سے اس آدمی کے بارے میں  پوچھا جو دین کے کسی کام پر جس سے ایمان برباد نہ ہو جسے طلاق یا دیگر پر اصحاب رائے کے پاس جائے یا ان اصحاب حدیث کے پاس جائے جو حدیث کو صحیح طرح یاد نہیں رکھتے اور قوی الاسناد کو ضعیف الاسناد سے جدا نہیں کر پاتے  تو ان دونوں میں سے کس سے سوال کرے اصحاب رائے سے یا قلت معرفت والے اصحاب حدیث سے   امام احمد نے کہا  اصحاب حدیث سے سوال کرے اور اصحاب رائے سے نہیں ایک ضعیف حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے

اس قسم کی ایک روایت  عتبَة بن غَزوَان  سے بھی مروی ہے جو المعجم الكبير از طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الصُّوفِيُّ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا أَضَلَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُكُمْ عَوْنًا وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ، فَلْيَقُلْ: يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، فَإِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ ” وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِكَ

زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ نے کہا عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ نے نبی علیہ السلام سے روایت کیا کہ فرمایا جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز کھو جائے یا کوئی مدد طلب کرے جو ایسی زمین میں ہے جہاں کوئی دوست نہ ہو تو پس کہے اے الله کے بندوں مدد کرو اے عباد الله مدد کرو کیونکہ عباد الله نظر نہیں آتے- اورمیں (طبرانی) نے بھی اس کو آزمایا  ہے

افسوس امام  سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360هـ) نے بھی اس بد عقیدگی کو پھیلایا

اس کا ذکر الشوکانی نے  تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين من كلام سيد المرسلين  میں کیا ہے

حَدِيث عتبَة بن غَزوَان عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ إِذا ضل على أحدكُم شَيْء وَأَرَادَ أحدكُم عونا وَهُوَ بِأَرْض فلاة لَيْسَ بهَا أحد فَلْيقل يَا عباد الله أعينوا يَا عباد الله أعينوا يَا عباد الله أعينوا فَإِن لله عباد لَا يراهم قَالَ فِي مجمع الزَّوَائِد وَرِجَاله وثقوا على ضعف فِي بَعضهم إِلَّا أَن زيد بن عَليّ لم يدْرك عتبَة

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد أز  أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي (المتوفى: 807هـ) میں لکھتے ہیں

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ وُثِّقُوا عَلَى ضَعْفٍ فِي بَعْضِهِمْ، إِلَّا أَنَّ زَيْدَ بْنَ عَلِيٍّ لَمْ يُدْرِكْ عُتْبَةَ.

اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال ثقہ ہیں جن میں بعض میں کمزوری ہے الا یہ کہ زید بن علی  نے

عُتْبَة کو نہیں پایا

افسوس شوکانی نے اس کے باوجود لکھا

وَفِي الحَدِيث دَلِيل على جَوَاز الِاسْتِعَانَة بِمن لَا يراهم الْإِنْسَان من عباد الله من الْمَلَائِكَة وصالحي الْجِنّ وَلَيْسَ فِي ذَلِك بَأْس كَمَا يجوز للْإنْسَان أَن يَسْتَعِين ببني آدم إِذا عثرت دَابَّته أَو انفلتت

اس حدیث سے دلیل ہے ان سے مدد کے جواز کی جو الله کے بندے نظر نہ آتے ہوں  فرشتوں میں سے یا صالح جنوں میں سے اس میں کوئی برائی نہیں ہے جیسا یہ جائز ہے کہ انسان بنی آدم سے مدد لے جب اس کا جانور مر جائے یا کھو جائے

غیر مقلد شوکانی نے قریب  ٢٠٠ سال پہلے  یہ بھی لکھا

قلت وَحكى لي بعض شُيُوخنَا الْكِبَار فِي الْعلم أَنَّهَا انفلتت دَابَّته أظنها بغلة وَكَانَ يعرف هَذَا الحَدِيث فقاله فحبسها الله عَلَيْهِ فِي الْحَال وَكنت أَنا مرّة مَعَ جمَاعَة فانفلتت مَعنا بَهِيمَة فعجزوا عَنْهَا فقلته فوقفت فِي الْحَال بِغَيْر سَبَب

میں کہتا ہوں مجھ سے حکایت کیا ہمارے علم کے اکابر شیوخ نے کہ اگر جانور کھو جائےیہ حدیث معلوم ہو تو ان (الفاظ کو) کہے پس الله کافی ہو گا  اور ایک بار میں ایک جماعت میں تھے ہمارا جانور کھو گیا ہم عاجز ہو گئے پس ہم نے یہ کہا تو مل گیا بلا سبب کے

اصل میں یہ الفاظ امام النووی  (المتوفى: 676هـ) کے ہیں جو انہوں نے الاذکار میں لکھے ہیں

روينا في كتاب ابن السني، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “إذَا انْفَلَتَتْ دابَّةُ أحَدِكُمْ بأرْضِ فَلاةٍ فَلْيُنادِ: يا عِبادَ الله! احْبِسُوا، يا عِبادَ اللَّهِ! احْبِسُوا، فإنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ في الأرْضِ حاصِرًا سَيَحْبِسُهُ”. قلت: حكى لي بعض شيوخنا الكبار في العلم أنه افلتت له دابّة أظنُّها بغلة، وكان يَعرفُ هذا الحديث، فقاله؛ فحبسَها الله عليهم في الحال. وكنتُ أنا مرّةً مع جماعة، فانفلتت منها بهيمةٌ وعجزوا عنها، فقلته، فوقفت في الحال بغيرِ سببٍ سوى هذا الكلام.

کتاب ذم الكلام وأهله از  أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي الأنصاري الهروي (المتوفى: 481هـ) میں ہے کہ عبد الله بن مبارک  نے اس روایت کی سند سفر میں دیکھی

وَضَلَّ ابْنُ الْمُبَارَكِ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فِي طَرِيقٍ وَكَانَ قَدْ بَلَغَهُ أَنَّ مَنِ اضْطُرَّ فِي مَفَازَةٍ فَنَادَى عِبَادَ اللَّهِ أَعِينُونِي أُعِينَ قَالَ

فَجَعَلْتُ أَطْلُبُ الْجُزْءَ أَنْظُرُ إِسْنَادَهُ

. قال الهروي: فلم يستجز أن يدعو بدعاء لا يرى إسناده

اور ابن مبارک پر رستہ کھو گیا ان کے سفروں میں سے ایک میں اور ان کو پہنچا ہوا تھا کہ جو مصیبت میں ہو وہ پکارے اے الله کے بندوں میری مدد کرو اس کی مدد ہو گی کہا انہوں نے جز طلب کیا کہ اس کی سند دیکھیں 

   الهروي نے کہا : پس انہوں نے دعا نہ کی جس کی سند انہوں نے نہ دیکھی ہو  

وہابی عالم محمد صالح المنجد کہتے ہیں

 لأنهما صريحان بأن المقصود بـ ” عباد الله ” فيهما خلقٌ من غير البشر بدليل قوله في الحديث الأول : (فإن لله في الأرض حاضراً سيحبسه عليهم) ، و قوله في هذا الحديث : (فإن لله عبادا لا نراهم) . وهذا الوصف إنما ينطبق على الملائكة أو الجن ؛ لأنهم الذين لا نراهم عادة … فلا يجوز أن يُلحَق بهم المسلمون من الجن أو الإنس ممن يسمونهم برجال الغيب من الأولياء والصالحين ، سواء كانوا أحياء أو أمواتا ، فإن الاستغاثة بهم وطلب العون منهم شرك بيِّن ؛ لأنهم لا يسمعون الدعاء ، ولو سمعوا لما استطاعوا الاستجابة وتحقيق الرغبة .

https://islamqa.info/ar/132642

اس میں صریحا ہے کہ عباد الله سے مقصود اس میں وہ مخلوق ہے جو غیر بشری ہے قول حدیث اول ہے کہ الله کے لئے زمین میں  حاضر رہتے ہیں جو حساب کرتے ہیں اور قول حدیث میں ہے کہ عباد الله کو نہیں دیکھا جا سکتا اور یہ وصف صرف فرشتوں اور جنات پر ہی  منطبق کیا جا سکتا ہے کہ ان کو عادت (جاری) میں نہیں دیکھا جا سکتا … پس یہ جائز نہیں کہ اس میں جن و انس کے  مسلمانوں ، اولیاء و الصالحین میں سے ، برابر ہے کہ زندہ ہوں یا مردہ کو بھی فرشتوں سے  ملا دیا جائے  جن کو رجال الغیب کا نام دیا گیا ہے  ، کیونکہ اس سے مدد طلب کرنا  واضح شرک ہے کیونکہ یہ پکار نہیں سنتے اگر سن لیں تو جواب نہیں دے سکتے 

دور جدید کے غیر مقلد   البانی سلسلة الأحاديث الضعيفة : 108/2، 109، ح655 میں کہتے ہیں

العبادات لا تؤخذ من التجارب، سيما ما كان منھا في أر غيي كھذا الحديث، فلا يجوز الميل الي تصحيحه، كيف وقد تمسك به بعضھم في جواز الاستغاثه بالموتي عند الشدائد، وھو شرك خالص، والله المستعان ! 
 عبادات تجربوں سے اخذ نہیں کی جا سکتیں، خصوصاً ایسی عبادات جو کسی غیبی  امر کے بارے میں ہوں، جیسا کہ یہ حدیث ہے، لہٰذا تجربے کی بنیاد پر  اس کو صحیح قرار دینے کی طرف میلان  کرنا جائز نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے، جب کہ بعض لوگوں نے اس سے مصیبتوں پر مرنے والوں سے مدد مانگنے پر بھی استدلال کیا ہے۔ یہ خالص شرک ہے، اللہ محفوظ فرمائے   

راقم کہتا ہے البانی کی یہ بات صحیح ہے البتہ اہل حدیث کا دین میں عقائد میں ارتقاء جاری ہے

عیسیٰ کی قبر نبوی پر آمد

احادیث میں اتا ہے عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد جب مدینہ پہنچیں گے تو قبر نبوی پر  آئیں گے

امام حاکم اور امام الذھبی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں – مستدرک الحاکم کی  سند ہے

أَخْبَرَنِي أَبُو الطَّيِّبِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْحِيرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ثنا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَهْبِطَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، وَإِمَامًا مُقْسِطًا وَلَيَسْلُكَنَّ فَجًّا حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيِّتِهِمَا وَلَيَأْتِيَنَّ قَبْرِي حَتَّى يُسَلِّمَ وَلَأَرُدَّنَ عَلَيْهِ» يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: ” أَيْ بَنِي أَخِي إِنْ رَأَيْتُمُوهُ فَقُولُوا: أَبُو هُرَيْرَةَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ»

ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم حاکم و عادل ہو کر ہبوط کریں گے ایک عدل والے امام ہوں گے اور فج (فَجّ الرَّوْحَاء ) میں جا رکیں گے وہاں سے حج و عمرہ کریں گے یا اس کے درمیان سے اور پھر میری قبر تک آئیں گے جب سلام کہیں گے میں جواب دوں گا- ابو ہریرہ نے کہا اے بھتیجے جب ان کو دیکھو کہو ابوہریرہ اپ کو سلام کہتے ہیں – حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح سند سے ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی اس متن سے

یہ روایت ایک دوسرے طرق سے مسند ابی یعلی میں  بھی ہے

قَالَ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ: ثنأ احمد بْنُ عِيسَى ثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عن أبي صخر أن سعيداً المقبري أخبره أنه سمع أباهريرة يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: ” وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ لينزلن عيسى ابن مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلًا فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وليقتلن الخنزير وليصلحن ذات البين ولتذهبن الشحناء وليعرضن عليه المال فلا يقبله ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي فَقَالَ: يَا محمد لأُجِيبنَّه

ابو ہریرہ نے کہا میں نے رسول الله سے سنا کہ وہ جس کے ہاتھ میں ابو قاسم کا نفس  ہے عیسیٰ ضرور نازل ہوں گے امام عادل حاکم بن کر، صلیب توڑ دیں گے، سور کو قتل کریں گے اور اپس کی کدورت ختم کریں گے اور ان پر مال پیش ہو گا نہ قبول کریں گے پھر جب میری قبر پر کھڑے ہوں گے  کہیں گے اے محمد – میں جواب دوں گا

الهيثمي مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.

اس کے رجال صحیح کے ہیں

 مسند ابو یعلی کے محقق حسين سليم أسد کہتے ہیں إسناده صحيح

کتاب أشراط الساعة وذهاب الأخيار وبقاء الأشرار  از عبد الملك بن حَبِيب بن حبيب بن سليمان بن هارون السلمي الإلبيري القرطبي، أبو مروان (المتوفى: 238هـ)   میں اس کا  تیسرا  طرق ہے

قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: وَحَدَّثَنِي ابْنُ الْمَاجِشُونِ وَغَيْرُهُ عَنِ الدَّرَاوَرْدِيِّ عَنِ الْمُغِيرَةِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَمُرَّنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ, حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا بِالْمَدِينَةِ وَلَيَقِفَنَّ عَلَى قَبْرِي وَلَيَقُولَنَّ يَا مُحَمَّدُ، فَأُجِيبُهُ   وَلَيُسَلِّمَنَّ عَلَيَّ فَأَرُدُّ عَلَيْهِ السَّلامَ.

وَحَدَّثَنِيهِ أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي صَخْرٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ, عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

المغيرة بن حَكيم الصَّنْعانيُّ الأبناويُّ نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم حج و عمرہ پر نکلیں گے مدینہ سے وہ میری قبر پر رکیں گے اور بولیں گے اے محمد ، پس میں جواب دوں گا اور وہ سلام کہیں گے تو میں جوابا ان کو سلام کہوں گا

اور اس کو َاصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي صَخْرٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے بھی روایت کیا گیا ہے

کتاب المعرفة والتاريخ  از يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ وَابْنُ بُكَيْرٍ ومُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ عَنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ أبا هريرة يقول: قال رسول الله صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ليسهلنّ ابن مريم بِفَجِّ [1] الرَّوْحَاءِ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ لَيُثَنِّيهِمَا

حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ نے خبر دی کہ ابو ہریرہ سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے ابن مریم فَجِّ  الرَّوْحَاءِ سے حج و عمرہ  کریں گے

یہ صحیح مسلم میں بھی ہے یہ اور بات ہے کہ راوی خود کہتا ہے اس کو معلوم نہیں یہ کلام حدیث نبوی ہے یا ابو ہریرہ کا اپنا کلام ہے – تاریخ دمشق اور مسند احمد میں ہے

فزعم حنظلة أن أبا هريرة قال يؤمن به قبل موت عيسى فلا أدري هذا كله في حديث النبي (صلى الله عليه وسلم) أو شئ قاله أبو هريرة

حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ نے دعوی کیا کہ ابو ہریرہ نے کہا یہ سب عیسیٰ کی موت سے قبل ایمان لائیں گے پس مجھے معلوم نہیں یہ سب حدیث النبی صلی الله علیہ وسلم تھی یا ابو ہریرہ نے خود کوئی چیز کہی

البانی نے اس روایت کو قبری کے الفاظ کے ساتھ رد کیا ہے لیکن جو علتین بیان کی ہیں وہ ہر طرق میں نہیں-  اوپر جو طرق ہیں ان سے معلوم ہوا کہ روایت میں عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ  کا تفرد نہیں ہے  جس کو مجہول کہا جاتا ہے – اس میں ابو صخر حمید بن زیاد کا تفرد بھی نہیں جس کو ضعیف کہا جاتا ہے اور سعید بن ابی سعید المقبری کا بھی تفرد نہیں جس کو آخری عمر میں  مختلط  کہا گیا ہے اور ابن اسحٰق کا تفرد بھی نہیں جس کو مدلس کہا گیا ہے –  اس میں ایک راوی کا تفرد ہی نہیں چار طرق ہیں جن میں لوگ الگ الگ ہیں – سوال ہے کہ اس روایت کا مقصد کیا ہے ؟   راقم کے نزدیک روایت کا  مقصد یہ ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کا معجزہ دکھایا گیا ہے چونکہ مردوں کو زندہ کرتے تھے وہ قبر النبی پر آ کر کہیں گے اے محمد تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم زندہ ہو جائیں گے جواب دیں گے – اغلبا یہ کعب احبار کا  کلام ہے جو ابو ہریرہ نے بیان کیا اور لوگ حدیث سمجھے

کتاب التمييز( ص /175 ) کے مطابق امام مسلم نے بسر بن سعيد کا قول بیان کیا
حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حدیث میں حفاظت کرو – الله کی قسم ! ہم دیکھتے ابو ہریرہ کی مجالس میں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے اور وہ (باتیں) کعب ( کی ہوتیں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روایت کرتے جو حدیثیں رسول الله سے ہوتیں

احمد العلل میں کہتے ہیں

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .

احمد  نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي  حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے  کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے روایت کیا – اعمش نے  کہا : ابراھیم  النخعي،   ابوہریرہ کی احادیث  میں چیزوں کو ترک کر دیتے

ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ

 الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار

 ابراھیم النخعي نے کہا  ہم ابو ہریرہ  کی احادیث کو نہیں لیتے  سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو

ابن قتیبہ المعارف میں ذکر کرتے ہیں

وَأَمَّا قَوْلُهُ: قَالَ خَلِيلِي، وَسَمِعْتُ خَلِيلِي”. يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَأَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لَهُ: “مَتَى كَانَ خَلِيلَكَ”؟ “. …. وَقَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا

ابو ہریرہ کا قول میرے دوست نے کہا یا میں نے اپنے دوست سے سنا یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم سے – تو بے شک علی نے ابو ہریرہ سے کہا تم کب سے رسول اللہ کے دوست بن گئے؟

اور رسول الله کا تو قول ہے کہ میں کسی کو اس امت میں خلیل کرتا تو ابو بکر کو کرتا

بہر حال سابقوں اولون کو ابو ہریرہ کا بہت روایت کرنا پسند نہ تھا

نعمان الوسی  میں لکھتے ہیں

لا يبعد أن يكون عليه السّلام قد علم في السماء بعضا ووكل إلى الاجتهاد والأخذ من الكتاب والسنّة في بعض آخر، وقيل: إنه عليه السّلام يأخذ الأحكام من نبينا صلّى الله عليه وسلم شفاها بعد نزوله وهو في قبره الشريف عليه الصلاة والسّلام، وأيد
بحديث أبي يعلى «والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري وقال يا محمد لأجيبنه» .
وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسّلام روحانية ولا بدع في ذلك فقد وقعت رؤيته صلّى الله عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة،

اور یہ بعید نہیں جھ عیسیٰ علیہ السلام کو اسمان میں شریعت محمدی کا کچھ علم دیا جائے  … اور کہا جاتا ہے کہ وہ احکام اخذ کریں گے جب وہ قبر النبی پر آئیں گے سلام کہنے جیسا ابو یعلی میں حدیث ہے … اور یہ جائز ہے کہ ان  کا روجانی  اجتماع ہو جیسا اس امت کے بہت سے کاملین نے جاگتے میں رسول الله کو دیکھا ہے

روایات اور قبائل کا ذکر

برصغیر میں مشھور ہے کہ قبائل صرف انسانوں کو پہچاننے کے لئے ہیں اس کی دلیل  قرآن میں ہے

 وجعلناكم شعوبا وقبائل لتعارفوا

أور تم کو قبائل کیا کہ تعارف ہو

لیکن احادیث رسول جو ہم تک پہنچی ہیں ان میں قبائل کے حوالے سے منصبوں کا ذکر ہے کہ امت میں خلافت ، امامت، بیت المال پر چند قبائل کا ہی حق ہے مثلا  حدیث مشہور ہے خلفاء قریش سے ہوں گے اس کے علاوہ مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو مَرْيَمَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْمُلْكُ فِي قُرَيْشٍ، وَالْقَضَاءُ فِي الْأَنْصَارِ، وَالْأَذَانُ فِي الْحَبَشَةِ، وَالسُّرْعَةُ فِي الْيَمَنِ “، وَقَالَ زَيْدٌ مَرَّةً يَحْفَظُهُ: وَالْأَمَانَةُ فِي الْأَزْدِ

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کا  قول  ہے
الـْمُلْكُ فِى قُرَيْشٍ وَالْقَضَاءُ فِى الأَنْصَارِ وَالأَذَانُ فِى الْحَبَشَةِ وَالأَمَانَةُ فِى الأَزْدِ  يَعْنِى الْيَمَنَ
بادشاہت (یعنی خلافت) قریش میں رہنی چاہیے۔(عہدہ )  قضا انصار میں، اذان اہل حبشہ میں اورامانت قبیلہ ازد یعنی یمن میں

 شعيب الأرنؤوط  کہتے ہیں

رجاله رجال الصحيح غير أبي مريم -وهو الأنصاري- فقد روى له أبو داود والترمذي وهو ثقة.

رجال صحیح کے ہیں سوائے أبي مريمکے جو  الأنصاري ہیں ابو داود و ترمذی نے روایت لی ہے ثقہ ہیں

دوسری طرف قبائل سے متعلق متضاد روایات بھی ملتی ہیں- اس تحقیق میں چند قبائل کا ذکر ہے

بنو تمیم سے متعلق متضاد روایات

 بنو تمیم میں سے لوگ نکلیں گے جو دین سے نکل جائیں گے نبو تمیم دجال مخالف ہوں گے
حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قِسْمًا، أَتَاهُ ذُو الخُوَيْصِرَةِ، وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ، فَقَالَ: «وَيْلَكَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ، قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ». فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِيهِ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ؟ فَقَالَ: «دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَمَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى نَضِيِّهِ، – وَهُوَ قِدْحُهُ -، فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، قَدْ سَبَقَ الفَرْثَ وَالدَّمَ، آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ، إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ المَرْأَةِ، أَوْ مِثْلُ البَضْعَةِ تَدَرْدَرُ، وَيَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ» قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَمَرَ بِذَلِكَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَأُتِيَ بِهِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَهُ

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جنگ حنین کا مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا۔ اس کے نفی (نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی (یعنی خوارج سے) اس وقت میں بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا (جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کی علامت کے طور پر بتلایا تھا) آخر وہ لایا گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا۔

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ القَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لاَ أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ بَعْدَ ثَلاَثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا فِيهِمْ: «هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ» وَكَانَتْ فِيهِمْ سَبِيَّةٌ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَ: «أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ»، وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ: ” هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمٍ، أَوْ: قَوْمِي

صحیح بخاری

 

ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا رہا ہوں (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) مجھ سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں حارث نے، انہیں ابوزرعہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، (تیسری سند) اور مغیرہ نے عمارہ سے روایت کی، انہوں نے ابوزرعہ سے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ (ایک

مرتبہ) بنو تمیم کے یہاں سے زکوٰۃ (وصول ہو کر آئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کر دے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔

ربیعہ و مضر سے متعلق متضاد روایات

ربيعة اور مضر عربوں کے دو طاقت ور قبیلے تھے جو ایام جاہلیت میں یمن میں تھے پھر  جزیرہ عرب کے شمال مشرق   میں گئے اور پھر  فرات کی طرف منتقل ہوئے – یہ قبائل علی رضی الله عنہ کے مدد گار بن گئے تھے

اہل تشیع کی کتب میں مضر اور کی تعریف کی گئی ہے

 

مضر جو مشرق میں تھے یھاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا
 

شفعه الله تعالى يوم القيامة في مثل ربيعة و مضر

مستدرك الوسائل

 

 

قَالاَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، يَدْعُو لِرِجَالٍ فَيُسَمِّيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ، فَيَقُولُ: اللَّهُمَّ أَنْجِ الوَلِيدَ بْنَ الوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ المُؤْمِنِينَ اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ ” وَأَهْلُ المَشْرِقِ يَوْمَئِذٍ مِنْ مُضَرَ مُخَالِفُونَ لَهُ

صحیح بخاری

ابوبکر اور ابوسلمہ دونوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سر مبارک (رکوع سے) اٹھاتے تو«سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد‏» کہہ کر چند لوگوں کے لیے دعائیں کرتے اور نام لے لے کر فرماتے۔ یا اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور تمام کمزور مسلمانوں کو (کفار سے) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ کچل دے اور ان پر قحط مسلط کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آیا تھا۔ ان دنوں مشرق والے قبیلہ مضر کے لوگ مخالفین میں تھے۔

 

صحیح مسلم

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ كُلُّهُمْ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ – وَاللَّفْظُ لَهُ – حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا يَرْوِي عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: أَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: «أَلَا إِنَّ الْإِيمَانَ هَهُنَا، وَإِنَّ الْقَسْوَةَ وَغِلَظَ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ، عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ، حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ فِي رَبِيعَةَ، وَمُضَرَ

 

 

قحطان سے متعلق  روایات  

کتاب  مسند الموطأ للجوهري کے مطابق

قَالَ الزُّبَيْرُ: وَزَعَمَ نُسَّابُ أَهْلِ الْيَمَنِ: أَنَّ قَحْطَانَ هُوَ يَقْطُنُ بْنُ عَابِرٍ وَهُوَ هُودٌ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بْنُ شَالِخِ بْنِ أرفخشد بْنِ سَامِ بْنِ نُوحِ بْنِ لامك بْنِ متوشلخ بْنِ أخنوخ بْنِ يرد بْنِ مهلابيل بْنِ فسيان بْنِ أنوش بْنِ شيث بْنِ آدَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وَزَعَمَ نُسَّابُ أَهْلِ الْحِجَازِ: أَنَّ قَحْطَانَ بْنَ يَمَنَ بْنِ بِنْتِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

الزبیر نے کہا اہل نسب کا دعوی ہے کہ قحطان یمنی ہیں جو ہود علیہ السلام بن شَالِخِ بْنِ أرفخشد بْنِ سَامِ بْنِ نُوحِ بْنِ لامك بْنِ متوشلخ بْنِ أخنوخ بْنِ يرد بْنِ مهلابيل بْنِ فسيان بْنِ أنوش بْنِ شيث بْنِ آدَمَ کی نسل سے ہیں

قحطان اور المراد یا تجوبی یا سکونی یہ قبائل کا ایک جتھہ تھا جو اپنے اپ کو قریش سے قدیم مانتا ہے اور مکہ کے جنوب میں یمن میں ہے –شروع میں یہ علی کے ساتھ تھے  پھر مرادی و قحطانی خوارج بنے اور علی کا قتل کیا

لشکر علی میں انکا اثر و رسوخ تھا کہ  حدیث بیان کی گئی

 قحطان کا کوئی شخص بھی عمل دار ہو گا  کہ  خلافت قریش سے نکل کر قحطان میں چلی جائے گی – یہ گمان بعض قحطان مخالف راویوں کو  ہوا  جب قحطان کی اکثریت علی رضی الله عنہ کے کیمپ میں شامل ہوئی  اور ان کے ساتھ جنگ جمل اور صفین میں لڑی اور لگنے لگا کہ  قحطان سے خلیفہ ہو جائے گا- بعض قحطانیوں نے اختلاف کیا اور بالاخر ایک قحطانی عبد الرحمن ابن ملجم بن عمرو نے علی رضی الله عنہ کا قتل کیا

بعض محدثین اس  روایت کی علتوں کو بھانپ نہ سکے اور یہ روایت متفق علیہ بن گئی

صحيح بخاري كي روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ، حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»

صحیح مسلم کی سند ہے

وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»

سالم  أَبِي الغَيْثِ ، ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قحطان قبیلے کا ایک شخص نہ نکلے   جو  لوگوں کو اپنی چھڑی سے   ہانکے گا.

موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله  کے مطابق امام احمد کہتے ہیں

سالم، أبو الغيث المدني، مولى عبد الله بن مطيع.  قال أبو الحسن الميموني، عن أحمد بن حنبل، وسألته عن أبي الغيث، الذي يروي، عن أبي هريرة. فقال: لا أعلم أحداً روى عنه إلا ثور، وأحاديثه متقاربة

سالم، أبو الغيث المدني، مولى عبد الله بن مطيع. أبو الحسن الميموني نے کہا امام احمد سے اس پر سوال کیا تو انہوں نے کہا اس سے سوائے ثور کوئی اور روایت نہیں کرتا اس کی احادیث  سرسری یا واجبی  سی ہیں

مقارب الحدیث یا وأحاديثه متقاربة اس وقت بولا جاتا ہے جب راوی بہت مشھور نہ ہو اور اس کی مرویات میں کوئی خاص بات نہ ہو بلکہ واجبی سی ہوں

مغلطاي کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال  میں کہتے ہیں

وقال أحمد بن حنبل: أبو الغيث سالم- الذي يروي عنه ثور ثقة، وقال: وقال مرة أخرى: ليس بثقة.

امام احمد نے کہا أبو الغيث سالم جس سے ثور روایت کرتا ہے ثقہ ہے اور دوسری دفعہ کہا ثقہ نہیں ہے

میزان الآعتدال از الذھبی کے مطابق ابن معین نے بھی اسکو ثقہ اور پھر غیر ثقہ کہا

لہذا یہ راوی مشتبہ ہو گیا اور   روایت اس سند سے ضروری نہیں صحیح ہو

كتاب الفتن از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: وَجَدْتُ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ: يَوْمَ غَزَوْنَا يَوْمَ الْيَرْمُوكِ «أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، عُمَرُ الْفَارُوقُ قَرْنٌ مِنْ حَدِيدٍ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، عُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ أُوتِيَ كِفْلَيْنِ مِنَ الرَّحْمَةِ لِأَنَّهُ قُتِلَ مَظْلُومًا أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، ثُمَّ يَكُونُ سَفَّاحٌ، ثُمَّ يَكُونُ مَنْصُورٌ، ثُمَّ يَكُونُ مَهْدِيُّ، ثُمَّ يَكُونُ الْأَمِينُ، ثُمَّ يَكُونُ سِينٌ وَسَلَامٌ، يَعْنِي صَلَاحًا وَعَافِيَةً، ثُمَّ يَكُونُ أَمِيرُ الْغَضَبِ، سِتَّةٌ مِنْهُمْ مِنْ وَلَدِ كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَرَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، كُلُّهُمْ صَالِحٌ لَا يُرَى مِثْلُهُ»

عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عبد الله بن عمرو سے روایت کرتا ہے کہ میں نے بعض کتب میں پایا  جنگ یرموک کے دن …. قحطان کا آدمی یہ سب صالح ہیں ان سا کوئی نہیں

سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين کے مطابق

قال ابن الغلابي:  يزعمون أن عقبة بن أوس السدوسي لم يسمع من عبد الله بن عمرو

ابن الغلابي کہتے ہیں (محدثین) دعوی کرتے ہیں کہ عقبہ نے عبد الله بن عمرو سے نہیں سنا

مسند احمد اور صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ، فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ، فَقَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ [ص:65] رِجَالًا مِنْكُمْ يُحَدِّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ، لَا يُنَازِعُهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَكَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّينَ»

امام الزُّهْرِيِّ کہتے ہیں کہ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ نے بتایا کہ وہ معاویہ کے پاس پہنچے اور وہ ایک قریشی وفد کے ساتھ تھے – عبد الله بن عمرو نے کہا کہ عنقریب بادشاہت قحطان میں سے ہو گی اس پر معاویہ غضب ناک ہوئے اور کہا الله کی حمد کی جس کا وہ اہل ہے پھر کہا پس مجھے پہنچا ہے کہ تم میں سے بعض مرد ایسی   احادیث بیان کرتے ہو جو کتاب الله میں نہیں ہیں نہ ہی اثر میں ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملا ، یہ لوگ تمہارے جاہل ہیں ان سے بچو اور انکی خواہشات سے جس سے گمراہ ہوئے پس میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا یہ امر قریش میں رہے گا اس میں کسی کا جھگڑا نہ ہو گا سواۓ اس کے کہ وہ اوندھآ ہو جائے گا اپنے چہرے پر – جب تک یہ دین قائم کریں

اسکی سند  میں  بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ  ہے جو اپنے باپ سے روایت کر رہا ہے محدثین کا اس پر اختلاف ہے  کہ اس نے اپنے باپ سے سنا یا نہیں- امام  یحیی ابن معین  اور امام احمد کے مطابق نہیں سنا-  یعنی مسند احمد کی یہ روایت خود امام احمد کے نزدیک منقطع ہے لیکن امام بخاری نے اس کو متصل سمجھ لیا ہے

صحیحین میں ہے

سالم  أَبِي الغَيْثِ ، ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قحطان قبیلے کا ایک شخص نہ نکلے   جو  لوگوں کو اپنی چھڑی سے   ہانکے گا.

یہ روایت منکر ہے  – خلافت قریش سے نکل کر منگولوں اور ترکوں میں چلی گئی – البتہ اس روایت کو آج تک صحیح سمجھا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر محمد بن عبد الله القحطانی نے مکہ  میں ١٩٧٨ میں  مسجد الحرام پر قبضہ کیا اور وہاں قتل عام کیا

امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں  صحابی کی ذِي مِخبَر الحَبَشيّ  ایک   روایت بیان کی ہے
قَالَ أَبو اليَمان: حدَّثنا حَرِيز بْنُ عُثمان، عن راشد، عن أبي حَيٍّ المُؤَذن، عَنْ ذِي مِخبَر الحَبَشيّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم: كَانَ هَذا الأَمرُ فِي حِميَرَ، فَنَزَعَهُ اللَّهُ مِنهُم، وجَعَلَهُ فِي قُرَيش، وسَيَعُودُ إِلَيهِم”.
رسول الله نے فرمایا یہ خلافت حمیر میں تھی، پس الله نے ان سے جھگڑا کیا اور اس کو قریش کے لئے کر دیا اور پھر یہ ان میں واپس پلٹ جائے گی

 روایات اصل میں دور معاویہ و علی کے دوران بنی ہیں کیونکہ قحطانی قبائل کا اثر بہت تھا- روایت میں بیان کیا گیا ہے  شام میں سمجھا جا رہا تھا کہ علی کے خلیفہ قریشی نہیں قحطانی ہو  جائے گا – قحطانی  خلیفہ تو نہیں ہو سکے لیکن علی کا قتل کر گئے

کتاب  الاستيعاب في معرفة الأصحاب از قرطبی

عَبْد الرَّحْمَنِ بْن ملجم [1] ، قيل التجوبي، وقيل السكوني، وقيل الحميري. قَالَ الزُّبَيْر: تجوب رجل من حمير، كَانَ أصاب دما فِي قومه، فلجأ إِلَى مراد فَقَالَ لهم: جئت إليكم أجوب البلاد، فقيل لَهُ: أنت تجوب. فسمي بِهِ فهو اليوم في مراد، وهو رهط بعد الرَّحْمَنِ بْن ملجم المرادي ثُمَّ التجوبي، وأصله من حمير، ولم يختلفوا أَنَّهُ حليف لمراد وعداده فيهم

ابن ملجم کہا جاتا ہے تجوبی ہے کہا جاتا ہے سکونی ہے کہا جاتا ہے حمیری ہے … یہ المرادی ہے پھر تجوبی ہے جن کی اصل حمیر ہے

طبقات ابن سعد کے مطابق

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ مُلْجَمٍ الْمُرَادِيُّ. وَهُوَ مِنْ حِمْيَرَ. وِعِدِادُهُ فِي مُرَادٍ. وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي جَبَلَةَ مِنْ كِنْدَةَ

عبد الرحمان ابن ملجم حِمْيَرَ کا تھا جو کندہ کا حلیف ہے

کتاب الإنباه على قبائل الرواة  المؤلف: أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) کے مطابق

وَبَنُو قرن بن ردمان بن نَاجِية بن مُرَاد رَهْط اويس الْقَرنِيوَفِي عداد مُرَاد تجوب

قَالَ ابْن الزبير تجوب رجل من حمير كَانَ أصَاب دَمًا فِي قومه فلجأ إِلَى مُرَاد فَقَالَ جِئْت إِلَيْكُم أجوب الْبِلَاد لأحالفكم فَقيل لَهُ أَنْت تجوب فَسُمي بِهِ وَهُوَ الْيَوْم فِي مُرَاد رَهْط عبد الرَّحْمَن بن ملجم الْمرَادِي ثمَّ التجوبي وأصلهم من حمير

ابن ملجم التجوبي ہے جو حمیر کا ہے

کتاب  الأنساب  المؤلف: عبد الكريم بن محمد بن منصور التميمي السمعاني المروزي، أبو سعد (المتوفى: 562هـ)   کے مطابق

التدؤليّ  بفتح التاء المنقوطة باثنتين من فوقها وسكون الدال المهملة وهمزة الواو المضمومة [4] وفي آخرها/ اللام، هذه النسبة الى تدؤل وهو بطن من مراد من جملتهم عبد الرحمن بن ملجم المرادي التدؤلي أحد بنى تدؤل

ابن ملجم التدؤليّ   ہے  المرادی ہے

کتاب سلم الوصول إلى طبقات الفحول  المؤلف: مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني المعروف بـ «كاتب جلبي» وبـ «حاجي خليفة» (المتوفى 1067 هـ)   کے مطابق

عبد الرحمن بن ملجم التجوبي   قاتل علي.

التُجِيبي: [نسبة] إلى تُجِيب، بضم التاء وكسر الجيم وبفتح، قبيلة من كندة

ابن ملجم التُجِيبي ہے جو کندہ کا قبیلہ ہے

شیعہ کتاب اضبط المقال فى ضبط اسماء الرجال کے مطابق

تجوب : قبيلة من حمير حلفاء لمراد منهم ابن ملجم المرادي

تجوب اج حمیر کا قبیلہ ہے اس کے حلفا میں سے ابن ملجم المرادی تھا

تاریخ دمشق کے مطابق

فلما مات علي ودفن بعث الحسن بن علي إلى عبد الرحمن بن ملجم فأخرجه من السجن ليقتله فاجتمع الناس وجاؤوا بالنفط والبواري والنار فقالوا : نحرقه فقال عبد الله بن جعفر وحسين بن علي ومحمد بن الحنفية : دعونا حتى نشفي أنفسنا منه فقطع عبد الله بن جعفر يديه ورجليه فلم يجزع ولم يتكلم فكحل عينيه بمسمار محمى فلم يجزع وجعل يقول : إنك لتكحل عيني عمك بملمول ممض وجعل يقرأ : ” اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق ” حتى أتى على آخر السورة كلها وإن عينيه لتسيلان ثم أمر به فعولج عن لسانه ليقطعه فجزع فقيل له قطعنا يديك ورجليك وسملنا عينيك يا عدو الله فلم تجزع . فلما صرنا إلى لسانك جزعت ؟ ! فقال : ما ذاك من جزع إلا أني أكره أن أكون في الدنيا فواقا لا أذكر الله فقطعوا لسانه ثم جعلوه في قوصرة وأحرقوه بالنار والعباس بن علي يومئذ صغير فلم يستأن به بلوغه

بَنُو أُمَيَّةَ وَثَقِيفٌ وَبَنُو حَنِيفَةَ کا ذکر

مسند ابو یعلی ح ٧٤٢١ میں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، جَارِهِمْ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ: «كَانَ أَبْغَضَ الْأَحْيَاءِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنُو أُمَيَّةَ وَثَقِيفٌ وَبَنُو حَنِيفَةَ

أَبِي بَرْزَةَ، رضی الله عنہ نے فرمایا زندوں میں سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بغض رکھنے میں سب سے بڑھ کر بنو امیہ اور ثقیف اور بنو حنفیہ تھے

حسين سليم أسد کہتے ہیں اسناد حسن ہیں

باقی قسط کا انتظار کریں

يا سارية الجبل روایت

 أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  میں روایت کیا گیا ہے کہ

أنا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: نا أَبُو عَمْرٍو الْحَارِثُ بْنُ  مِسْكِينٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: أنا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ “، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ جَيْشًا أَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ. قَالَ: فَبَيْنَا عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ: فَجَعَلَ يَصِيحُ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» . قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ” يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقِينَا عَدُوَّنَا فَهَزَمْنَاهُمْ، فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» ، فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا بِالْجَبَلِ، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ “. فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: «إِنَّكَ كُنْتَ تَصِيحُ بِذَلِكَ» قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ

يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ نے محمد بن عجلان سے روایت کیا  کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا سالار ایک مرد ساریہ کو بنایا۔ ایک دن  خطبہ کے دوران عمر  نے یکایک یہ پکارنا شروع کر دیا  اے ساریہ پہاڑ- پہاڑ- اس طرح تین مرتبہ کہا۔ پھر اس لشکر کا خبری  مدینہ آیا۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنیین ہم لوگ شکست کھا گئے اور اس شکست کی حالت میں تھے کہ ہم نے یکایک ایک آواز سنی جس نے تین بار کہا کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف رخ کرو۔ ہم نے پشت پہاڑ سے لگا دی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دشمن کو شکست دیدی۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ ہی تو تھے جو اس طرح چیخے تھے۔ ابن عجلان نے کہا ایسا ہی إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی بیان کیا

تخریج روایت :   دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر 2655  میں ، جامع الأحاديث للسيوطي،حرف الياء   فسم الافعال،مسند عمر بن الخطاب، حديث نمبر 28657  میں ،   الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف ،   ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم   في الدلائل واللالكائي في السنة ، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن

 

محدثین متاخرین کی رائے

فتح الباری کے مولف ابن حجر نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے

زرکشی لکھتے  ہیں
وَقد افرد الْحَافِظ قطب الدّين عبد الْكَرِيم الْحلَبِي لهَذَا الحَدِيث جُزْءا ووثق رجال هَذِه الطَّرِيق
حافظ قطب الدین حلبی نے اس اثر پر مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے ، جس میں اس واقعہ کے سارے طرق جمع کیے ہیں ، اور اس طریق کے تمام رجال کو ثقہ قرار دیا ہے ۔
التذكرة في الأحاديث المشتهرة = اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة   میں  سیوطی کہتے  ہیں
وألف القطب الحلبي في صحته جزءاً.
قطب الحلبی نے مستقل رسالے میں اس کی صحت کو ثابت کیا ہے ۔

صوفیاء کی رائے

  یہ روایت پھیلی اور محدثین نے اس کو قبول کیا اور سند کو حسن جید سب کہہ ڈالا –  دوسری طرف اہل طریقت  جن کو  اہل معرفت بھی کہا جاتا ہے ان  متصوفین کے نزدیک  روحانی تصرف   ہر کسی کے   بس کی بات نہیں جب اللہ چاہتا تو اسباب پیدا فرماتا ہے –  جیسا کہ اس اثر سے وضاحت ہوتی ہے  – مزید براں اس اثر سے صوفیاء کے ہاں  ثابت ہوتا ہے  کہ بذریعہ کشف غائب سے رہنمائی مل  سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب کشف اپنے کشف سے اجتماعی طور پر دوسروں کی رہبری کر سکتا ہے

ابن تیمیہ کی رائے

اولیاء الله کو کشف ممکن ہے – آٹھویں صدی کے نام نہاد سلفی محقق ابن تیمیہ کتاب  مجموعة الرسائل والمسائل میں لکھتے ہیں

وأما المعجزات التي لغير الأنبياء من باب الكشف والعلم فمثل قول عمر في قصة سارية، وأخبار أبي بكر بأن ببطن زوجته أنثى، وأخبار عمر بمن يخرج من ولده فيكون عادلاً. وقصة صاحب موسى في علمه بحال الغلام، والقدرة مثل قصة الذي عنده علم من الكتاب. وقصة أهل الكهف، وقصة مريم، وقصة خالد بن الوليد وسفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي مسلم الخولاني، وأشياء يطول شرحها. فإن تعداد هذا مثل المطر. وإنما الغرض التمثيل بالشيء الذي سمعه أكثر الناس. وأما القدرة التي لم تتعلق بفعله فمثل نصر الله لمن ينصره وإهلاكه لمن يشتمه.

اور جہاں تک معجزات غیر انبیاء کے علم و کشف کے باب میں ہے تو اس کی مثال ساریہ کا عمر والا قصہ ہے  — ان قصوں کی تعداد اس قدر ہے جیسے بارش

اپنی دوسری کتابوں النبوات، قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق، الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية   میں ابن تیمیہ نے اس کا کئی بار اس قصہ کا  ذکر کشف کی دلیل کے طور پر   کیا

بلکہ دقائق التفسير الجامع لتفسير ابن تيمية میں وضاحت کرتے ہیں

وَعمر رَضِي لما نَادَى يَا سَارِيَة الْجَبَل قَالَ إِن لله جُنُودا يبلغون صوتي وجنود الله هم من الْمَلَائِكَة وَمن صالحي الْجِنّ فجنود الله بلغُوا صَوت عمر إِلَى سَارِيَة وَهُوَ أَنهم نادوه بِمثل صَوت عمر

اور عمر نے جب ساریہ کو پہاڑ کی ندا کی تو کہا الله کے  لشکر ہیں جو میری آواز لے کر جاتے ہیں اور الله کے لشکر فرشتے ہیں اور نیک جنات پس الله کے لشکروں نے عمر کی آواز ساریہ تک پہنچائی اور وہ ان کو آواز دیتے تھے عمر کی آواز کی طرح

ابن قیم کی رائے

ابن قیم کتاب میں مدارج السالکین میں لکھتے ہیں

 والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن

اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہیوں نے یا ساریـۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے۔

البانی کی رائے

محمد بن عجلان نے   یہ  روایت  یاس بن معاویہ بن قرۃ سے بھی سماعت کی ہے ۔  لالکائی کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة میں ایک مقام پر ہے قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ – ابن عجلان نے کہا اس اثر کو إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی ایسا ہی روایت کیا – اس بنا پر اس کو ابن عجلان کے طرق سے البانی نے صحیح قرار دیا –  البانی  نے  تحقيق الآيات البينات في عدم سماع الأموات (ص: 112) میں اس اثر کی سند کو جید حسن کہا  اور  سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3/ 101۔104)     میں اس پر طویل گفتگو کی ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ واقعہ صرف ابن عجلان کی سند سے صحیح ہے
 قلت: …. فتبين مما تقدم أنه لا يصح شيء من هذه الطرق إلا طريق ابن عجلان وليس فيه إلامناداة عمر ” يا سارية الجبل ” وسماع الجيش لندائه وانتصاره بسببه.ومما لا شك فيه أن النداء المذكور إنما كان إلهاما من الله تعالى لعمر وليس ذلك بغريب عنه، فأنه ” محدث ” كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ولكن ليس فيه أن عمر كشف له حال الجيش، وأنه رآهم رأي العين

میں البانی کہتا ہوں : پس کے واضح ہوا کہ اس سلسلے میں ایک ہی طرق صحیح ہے جو ابن عجلان کی سند سے ہے اور اس میں عمر کی پکار کا ذکر ہے کہ يا سارية الجبل اور لشکر کا اس آواز کو سننا اور اس کے سبب مدد پانا تو اس میں شک نہیں کہ یہ الہام میں سے ہے جو الله تعالی نے عمر کو کیا اور اس میں کوئی عجیب بات بھی نہیں کیونکہ وہ محدث ہیں جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس میں یہ نہیں ہے کہ  عمر پر لشکر کا حال کشف ہوا اور انہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا

ڈاکٹر عثمانی کی رائے

سن ١٩٨٠کی  دہائی میں رجل مومن ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے ایک ضعیف روایت یا ساریہ کا  کتاب مزار یا میلے میں رد کیا-

زبیر علی زئی کی رائے

سن ١٩٩٠ کی دہائی میں اہل حدیث عالم زبیر علی زئی میں بھی ہمت پیدا ہوئی کہ اس اثر کا رد کر سکیں

وہابیوں کی رائے

تقریبا تمام  معروف  وہابی علماء اس اثر کو صحیح قرار دیتے ہیں

محمد بن صالح العثيمين  اس اثر کو مشھور قرار ہے اور اولیاء الله کی کرامت قرار دیا

https://www.youtube.com/watch?v=N6k1EtknPE0

 السؤال: ما حكم الشرع فيما يروى أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه رأى سارية , وهو يخطب على المنبر في المعركة في موقف حرج مع الأعداء, فقال له: يا سارية الجبل! هل هذه القصة حقيقة حدثت, أم من الخيال؟ الجواب: هذه القصة مشهورة عن أمير المؤمنين عمر رضي الله عنه أنه كان يخطب الناس يوم الجمعة على منبر النبي صلى الله عليه وسلم, وكان سارية بن زنيم رضي الله تعالى عنه قائداً لإحدى السرايا في العراق, فحصر الرجل, فأطلع الله تعالى أمير المؤمنين عمر على ما أصابه, فخاطبه عمر من المنبر, وقال له: يا سارية ! الجبل, يعني: اصعد الجبل أو لذ بالجبل أو ما أشبه ذلك من التقديرات, فسمعه سارية فاعتصم بالجبل فسلم, ومثل هذه الحادثة تعد من كرامات الأولياء, فإن للأولياء كرامات يجريها الله تعالى على أيديهم تثبيتاً لهم ونصرة للحق, وهي موجودة فيما سلف من الأمم وفي هذه الأمة, ولا تزال باقية إلى يوم القيامة, وهي أمر خارق للعادة يظهره الله تعالى على يد الولي تثبيتاً له وتأييداً للحق, ولكن يجب علينا الحذر من أن يلتبس علينا ذلك بالأحوال الشيطانية من السحر والشعوذة وما أشبهها؛ لأن هذه الكرامات لا تكون إلا على يد أولياء الله, وأولياء الله عز وجل هم المؤمنون المتقون؛ قال الله عز وجل: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [يونس:62] قال شيخ الإسلام رحمه الله أخذاً من هذه الآية: من كان مؤمناً تقياً كان لله ولياً, وليست الولاية بتطويل المسبحة, وتوسيع الكم, وتكبير العمامة, والنمنمة, والهمهمة, وإنما الولاية بالإيمان والتقوى, فيقاس المرء بإيمانه وتقواه لا بهمهمته ودعواه. بل إني أقول: إن من ادعى الولاية فقد خالف الولاية؛ لأن دعوى الولاية معناه تزكية النفس, وتزكية النفس معصية لله عز وجل, والمعصية تنافي التقوى؛ قال الله تعالى: هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى [النجم:32]، ولا نعلم أحداً من أولياء الله المؤمنين المتقين قال للناس: إني أنا ولي, فاجتمعوا إلي, وخذوا من بركاتي ودعواتي وما أشبه ذلك, لا نعلم هذا إلا عن الدجالين الكذابين الذين يموهون على عباد الله ويستخدمون شياطين الجن للوصول إلى مآربهم. وإن نصيحتي لأمثال هؤلاء أن يتقوا الله عز وجل في أنفسهم وفي عباد الله, ونصيحتي لعباد الله أن لا يغتروا بهؤلاء وأمثالهم.

دائمی کمیٹی کا فتوی

سعودی دائمی کیمٹی کے پانچ علماء کا متفقہ فتوی ہے

فتاوى اللجنة الدائمة  الجزء رقم : 26، الصفحة رقم  41 پر

تصفح برقم المجلد > المجموعة الأولى > المجلد السادس والعشرون (كتاب الجامع 3) > السيرة > قول عمر رضي الله عنه يا سارية الجبل
الفتوى رقم ( 17021 )س: جاء محاضر إلى مدرستنا، وكانت المحاضرة عن كرامات الأولياء والصالحين ، وقال في محاضرته: كان عمر بن الخطاب يخطب على المنبر، فنادى السارية التي أرسلها للحرب، فقال: (يا سارية الجبل) فسمعت السارية كلامه فانزاحت إلى الجبل. علمًا بأن   بينهما مسافة بعيدة، هل هذه الرواية صحيحة أم خطأ، وهل هي من الكرامات؟
ج : هذا الأثر صحيح عن عمر رضي الله عنه، ولفظه: أن عمر رضي الله عنه، بعث سرية فاستعمل عليهم رجلاً يدعى سارية ، قال: فبينا عمر يخطب الناس يومًا قال: فجعل يصيح وهو على المنبر: يا سارية الجبل، يا سارية الجبل، قال فقدم رسول الجيش، فسأله فقال: يا أمير المؤمنين لقينا عدونا فهزمنا، فإذا بصائح يصيح: يا سارية الجبل، فأسندنا ظهورنا بالجبل فهزمهم الله.
رواه أحمد في (فضائل الصحابة)،  وأبو نعيم في (دلائل النبوة)  والضياء في (المنتقى من مسموعاته) وابن عساكر في (تاريخه) والبيهقي في (دلائل النبوة) وابن حجر في (الإصابة) وحسن إسناده،  ومن قبله ابن كـثير في (تاريخه) قال: إسناد جيد حسن، والهيثمي في (الصواعق المحرقـة) حسن إسناده أيضًا –  وهذا إلهام من الله سبحانه، وكرامة لعمر رضي الله عنه، وهـو المحدث الملهم، كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في الأثر أنه رضي الله عنه كشف له عن الجيش وأنه رآه رأي العيـن إلى غير ذلك من الروايات الضعيفة التي يتعلق بها غلاة المتصوفة في الكشف، واطلاع المخلوقين على الغيب، وهذا باطل؛ لأن الاطلاع على الغيب من صفات الله سبحانه وتعالى، وما ذكر في السؤال أعلاه مـن أن عمر رضي الله عنه نادى السارية التي أرسلها للحرب فسمعت السـارية كلامه فانزاحت للجبل، فهذا جهل في معنى الحديث.وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء​

 عضوالرئيس : بكر أبو زيد –  عبد العزيز آل الشيخ –  صالح الفوزان –  عبد الله بن غديان –  عبد العزيز بن عبد الله بن باز

سوال: ہمارے مدرسے میں کرامت اولیاء پر تقریر ہوئی اس میں مقرر نے اثر بیان کیا کہ  عمر رضی الله عنہ کا قول یا ساریہ پہاڑ  جنگ کے دوران … اور عمر اور ساریہ میں مسافت بہت دور تھی تو کیا یہ روایت صحیح ہے یا غلطی ہوئی یا یہ کرامت ہے ؟

جواب : یہ اثر صحیح ہے عمر رضی الله عنہ کے حوالے سے  اور اس کے الفاظ ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے ایک سریہ بھیجا اس پر سالار ایک مرد کو کیا جس کا نام ساریہ تھا- اور عمر اس دوران کہ وہ خطبہ دے رہے تھے ایک دن وہ چیخے اور وہ منبر پر تھے اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ – پس جب لشکر کا خبری آیا اس سے سوال ہوا – اس نے کہا امیر المومنین ہمارے دشمن نے ہم کو شکست دی یہاں تک کہ ہم نے ایک چیخ سنی کہ اے ساریہ پہاڑ پس ہم نے اپنی پیٹھ اس کے ساتھ کر دی اور الله نے دشمن کو شکست دی – اس کو احمد نے ، ابو نعیم نے الضیاء نے ابن عساکر نے بیہقی نے ابن حجر نے روایت کیا ہے –ابن حجر نے اس کو حسن قرار دیا ہے اور ان سے قبل ابن کثیر نے تاریخ میں اسکو اسناد جید حسن کہا ہے اور ہیثمی نے بھی اسناد حسن کہا ہے اور یہ الله تعالی کا الہام تھا اور عمر کی کرامت تھی اور وہ   الہام پانے  والوں میں  تھے  جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے – اور اس اثر میں یہ نہیں ہے کہ لشکر کا کشف ان پر اس طرح ہوا کہ وہ آنکھ سے  دیکھ رہے  تھے جو ضعیف روایات میں ہے جو کشف کے سلسلے میں غالی صوفیوں نے اس میں متعلق کر دی ہیں- اور مخلوق کی خبر غیب میں سے ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ غیب کی خبر پانا اللہ کی صفات میں سے ہے اور جو سوال میں ذکر ہوا کہ عمر نے ساریہ کو پکارا جس کو جنگ میں بھیجا تھا اور ساریہ نے اس کو سنا تو یہ حدیث کے معنوں میں جھل ہے  .وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم

وہابی عالم صالح المنجد بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں

https://islamqa.info/ur/12778

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ ثابت اور صحیح ہے ، نافع بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لشکر پر ساریہ نامی شخص کو امیر بنایا ، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما خطبہ جعمہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک کہنے لگے ” اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ ” تو انہوں نے ایسا پایا کہ جمعہ کے دن اسی وقت ساریہ نے پہاڑ کی جانب حملہ کیا تھا حالانکہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما اور ساریہ کے درمیان ایک مہینہ کی مسافت تھی ۔مسند احمد فضائل صحابہ ( 1/ 269 ) اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے سلسلہ الصحیحہ میں صحیح کہا ہے ( 1110 )

تویہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما کی کرامت ہے یا تو الہام اور آواز کا پہنچنا – یہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی راۓ ہے – یا پھر کشف نفسانی اور آواز کا پہنچنا – اس پر شیخ البانی رحمہ اللہ کی کلام آگے آۓ گی – تو دونوں حالتوں میں بلا شک وشبہ یہ کرامت ہے ۔

اہل حدیث کی جدید رائے

عصر حاضر کے اہل حدیث   عالم  غلام مصطفی ظہیر اس روایت  کو صحیح قرار دیتے ہیں

https://www.facebook.com/muhammed.kashif.796/videos/794954507276957/

 فتاویٰ الدین الخالص، امین پشاوری (ج1ص212) میں ہے

راقم کہتا ہے ابن عجلان جس کے طرق سے اس روایت کو پیش و قبول کیا گیا ہے اس کے بارے میں امام مالک نے کہا تھا کہ  اس کو حدیث کا کوئی علم نہیں – کتاب  الضعفاء الكبير از امام  العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، 

 امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے

راقم اس سلسلے میں امام مالک  کی رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ یہ اثر قابل قبول نہیں ہے

یہ بھی معلوم ہوا کہ غالی شیعوں کی طرح غالی اہل سنت کا ایک طبقہ موجود تھا جس کا ذکر کھل کر نہیں کیا گیا

اہل بیت کی انگوٹھیاں

انگوٹھی پر آیات یا اسماء الحسنی کندہ کروانا

صحیح احادیث کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک انگوٹھی تھی جس پر محمد رسول الله کندہ تھا -اس کو اپ صلی الله علیہ وسلم  بطور مہر استعمال کرتے تھے- لیکن بعد میں یہ انگوٹھی   عثمان رضی الله عنہ سے مدینہ میں  اریس نامی ایک کنواں میں گر گئی اور ملی نہیں

کتب اہل سنت

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلابِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ قَالَ: قَرَأْتُ نَقْشَ خَاتَمِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي صُلْحِ أَهْلِ الشَّامِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ.

ابی اسحٰق الشیبانی نے کہا میں نے علی کی انگوٹھی پر نقش اہل شام سے صلح کے وقت دیکھا اس پر لکھا تھا محمد رسول الله

سند میں أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ  الكوفي ہے جس کو سُلَيْمَانُ بْنُ فَيْرُوزَ یا  سُلَيْمَانُ ابْنُ خَاقَانَ یا سلَيْمَان بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ بھی کہا جاتا ہے  – اس نے علی کو نہیں پایا اور  اس طرح کی انگوٹھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تھی جو معدوم ہوئی- کتاب  إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع از  المقريزي (المتوفى: 845هـ) کے محقق   محمد عبد الحميد النميسي کہتے ہیں

 قال أحمد بن يحى بن جابر: نسبت إلى أريس رجل من المدينة من اليهود، عليها مال لعثمان بن عفان رضى اللَّه عنه، وفيها سقط خاتم النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم من يد عثمان، في السنة السادسة من خلافته، واجتهد في استخراجه بكل ما وجد إليه سبيلا، فلم يوجد إلى هذه الغاية، فاستدلوا بعد به على حادث في الإسلام عظيم

احمد بن یحیی بن جابر نے کہا : اس کنواں کی نسبت اریس کی طرف ہے جو مدینہ کا ایک یہودی تھا اور اس پر عثمان کا مال لگا اور کنواں میں رسول الله صلّى اللَّه عليه وسلّم  کی مہر عثمان کے ہاتھ سے گری ان کی خلافت کے چھٹے سال اور انہوں نے اس کو نکلالنے کا اجتہاد کیا لیکن کوئی سبیل نہ پائی اس میں کامیاب نہ ہوئے اور اس پر استدلال کیا گیا کہ یہ  اسلام کا ایک عظیم حادثہ ہے

یعنی محمد رسول الله کے الفاظ سے کندہ کرائی انگوٹھی کھو گئی تھی- رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے یہ جائز  نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی انگوٹھی اپنے لئے  بناتا

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، “أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، فَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ”، ثُمَّ قَالَ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَى قَوْلِهِ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”، نَهَى أَنْ يَنْقُشَ أَحَدٌ عَلَى خَاتَمِهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ

رسول الله نے حکم دیا اس نقش (محمد رسول الله) کو  کوئی اور کندہ نہ کروائے

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبَانُ بْنُ قَطَنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى: أَنَّ

عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ تَخَتَّمَ فِي يَسَارِهِ

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى  نے کہا علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

اس کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جس کو امام احمد نے  مضطرب الحديث قرار دیا ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ عَنْ جعفر بن محمد عَنْ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عَلِيًّا تَخَتَّمَ فِي الْيَسَارِ.

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

معجم ابن الأعرابي از أبو سعيد بن الأعرابي أحمد بن محمد بن زياد بن بشر بن درهم البصري الصوفي (340هـ) کی روایت ہے

نا مُحَمَّدٌ الْغَلَابِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى بْنِ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي الْحُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ «الْمُلْكُ لِلَّهِ، عَلِيٌّ عَبْدُهُ»

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی   انگوٹھی پہنتے تھے جس پر نقش تھا الله  کے لئے بادشاہت ہے علی اس کا بندہ ہے

سند میں امام جعفر ہیں جو   روایت حدیث میں مضطرب ہیں

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

[قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الأَشْيَبُ وَعَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الْمِصْرِيُّ قَالا: أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] . [قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] .

جابر جعفی نے  ابن حنفیہ سے روایت کیا کہ علی کی انگوٹھی پر لکھا تھا الله الملک

اس کی سند میں جابر جعفی سخت ضعیف ہے

کتب اہل تشیع

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

عن الصّادق، عن أبيه(عليهما السلام): إنّ خاتم رسول الله(صلى الله عليه وآله) كان من فضّة ونقشه «محمّد رسول الله». قال: وكان نقش خاتم عليّ(عليه السلام): الله الملك. وكان نقش خاتم والدي رضي الله عنه: العزّة لله

امام جعفر صادق  نے باپ سے روایت کیا کہ رسول الله صلى الله عليه وآله کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس پر نقش تھا محمد رسول الله اور علی کی انگوٹھی پر نقش تھا الله الملک اور  امام جعفر کے باپ کی انگوٹھی پر نقش تھا عزت الله کی ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

الكافي: عن أبي عبدالله(عليه السلام) قال: في خاتم الحسن والحسين الحمدلله(3).

وعن الرّضا(عليه السلام): كان نقش خاتم الحسن: العزّةلله، وخاتم الحسين: إنّ الله بالغ أمره(4).

الکافی از کلینی میں ہے ابو عبد الله سے روایت ہے کہ امام حسن و حسین کی انگوٹھی پر کندہ تھا الحمد للہ اور امام رضا سے روایت ہے حسن کی انگوٹھی پر لکھا تھا العزّةلله، اور حسین کی انگوٹھی پر لکھا تھا إنّ الله بالغ أمره

قرآن کی آیت إنّ الله بالغ أمره سورہ طلاق میں ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

أمالي الصدوق: عن الباقر(عليه السلام): كان للحسين بن عليّ(عليه السلام) خاتمان نقش أحدهما: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله، ونقش الآخر: إنّ الله بالغ أمره. وكان نقش خاتم عليّ بن الحسين(عليه السلام): خزي وشقي قاتل الحسين بن عليّ(عليه السلام)(5). في أنّ الحسين(عليه السلام) أوصى إلى ابنه عليّ بن الحسين(عليه السلام) وجعل خاتمه في إصبعه وفوّض أمره إليه، ثمّ صار الخاتم إلى محمّد بن عليّ، ثمّ إلى جعفر بن محمّد وكان يلبسه كلّ جمعة ويصلّي فيه، فرآه محمّد بن مسلم في إصبعه وكان نقشه: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله(6).

أمالي  از  الصدوق میں امام   الباقر(عليه السلام) سے روایت ہے کہ حسین بن علی علیہ السلام کی انگوٹھیاں تھیں- ان میں سے  ایک پر لکھا تھا لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله اور دوسری پر لکھا تھا  إنّ الله بالغ أمره اور علی بن حسین علیہ السلام کی انگوٹھی پر کندہ تھا  ذلیل و رسوا ہوں حسین بن علی کے قاتل کیونکہ حسین نے اپنے بیٹے علی بن حسین کو امر سونپ دیا تھا پھر یہ انگوٹھی گئی محمد بن علی کے پاس وہ اس کو ہر جمعہ پہنتے اور اسی میں نماز پڑھتے  اس کو محمد بن مسلم نے ان کی انگلی میں  دیکھا کہ اس پر کندہ تھا   لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

عن سعد: عن ابن عيسى، عن ابن فضال، عن ابن بكير، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه  السلام قال: إن لرسول الله صلى الله عليه واله عشرة أسماء: خمسة منها في القرآن،  وخمسة ليست في القرآن، فأما التي في القرآن: فمحمد، وأحمد، وعبد الله، ويس، ون، وأما التي ليست في القرآن: فالفاتح، والخاتم، والكاف، والمقفي، والحاشر

محمد بن مسلم نے أبي جعفر عليه  السلام سے روایت کیا کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پانچ نام قرآن میں ہیں اور پانچ اس میں نہیں ہیں – جو پانچ قرآن میں ہیں وہ ہیں محمد ، احمد ، عبد الله ، یس، ن اور جو نہیں ہیں وہ ہیں فاتح ،  خاتم، کاف اور مقفی اور حاشر

یہ نام بھی تعویذات میں لکھے جاتے ہیں

انگوٹھیوں پر  اسماء الحسنی اور آیات قرانی کندہ کروانا دونوں  اہل سنت  اور اہل تشیع نے اہل بیت النبی سے منسوب کیا ہے – اس کا مقصد کیا تھا مہر تھی یا تعویذ یہ واضح نہیں ہوا

انگوٹھیوں میں پتھر پہنا

کتب اہل سنت

صحیح مسلم  اور مسند ابو یعلی  میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ، وَكَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا»

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ کَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ وَکَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا

ترجمہ :  یحیی بن ایوب، عبداللہ بن وہب، مصری یونس بن یزید ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبش کا تھا۔

حديث:990

و حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبَّادُ بْنُ مُوسَی قَالَا حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَی وَهُوَ الْأَنْصَارِيُّ ثُمَّ الزُّرَقِيُّ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ خَاتَمَ فِضَّةٍ فِي يَمِينِهِ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ کَانَ يَجْعَلُ فَصَّهُ مِمَّا يَلِي کَفَّهُ

عثمان بن ابی شیبہ، عباد بن موسی، طلحہ بن یحیی، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کی انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی تھی جس میں حبشہ کا نگینہ تھا انگوٹھی پہنتے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا نگینہ اپنی ہتھیلی کی رخ کی طرف کرلیتے تھے۔

محمد فؤاد عبد الباقي شرح میں لکھتے ہوں

  (حبشيا) قال العلماء يعني حجرا حبشيا أي فصا من جزع أو عقيق فإن معدنهما بالحبشة واليمن وقيل لونه حبشي أي أسود

علماء کہتے  ہیں حبشی پتھر تھا یعنی نگ سنگ مرمر کا یا عقیق کا تھا اور کہا جاتا ہے کالا تھا جیسے حبشی ہوتے ہیں

بیہقی شعب الایمان میں اس روایت پر کہتے ہیں

وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ كَانَ خَاتَمَانِ أَحَدُهُمَا فَصُّهُ حَبَشِيًّا،

یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ رسول الله کے پاس انگوٹھیاں تھیں جن میں ایک میں حبشہ کا نگ لگا تھا

صحیح مسلم کی اس روایت میں يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري  کا تفرد ہے- یہ مختلف فیہ ہے ابن سعد نے کہا   ليس بحجة  حجت نہیں ہے اور امام وكيع نے کہا  سيئ الحفظ  اس کا حافظہ خراب ہے اور امام احمد نے اس کی بعض احادیث کو منکر قرار دیا

  وقال الاثرم: ضعف أحمد أمر يونس.

الاثرم نے کہا احمد نے يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري کے کام کو ضعیف کہا

علمائے اہل سنت میں سے بعض مثلا اہل حدیث اور وہابیوں کے نزدیک یہ پتھر بطور زینت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے  پہنا

یہ قول قابل غور ہے کہ ائمہ شیعہ عقیق نماز کے وقت پہنتے  کیونکہ قرآن میں ہے

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ

اے بنی آدم  ہر سجدے پر اپنی زینت  لو

کتب اہل تشیع

کتاب بشارة المصطفى ( صلى الله عليه وآله ) لشيعة المرتضى ( عليه السلام ) کے مطابق

حدثنا عبد الرزاق ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة : قالت :« دخلت على رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) وفي يده خاتم فضة عقيق فقلت : يارسول الله ما هذا الفص ؟ فقال لي : من جبل أقر لله بالربوبية ولعلي بالولاية ولولده بالامامة ولشيعته بالجنة

عائشہ سے روایت ہے کہ میں رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) کے پاس داخل ہوئی دیکھا ان کے ہاتھ میں عقیق کی چاندی کی انگوٹھی ہے پوچھا یہ نگ کس لئے؟ فرمایا : یہ پہاڑ ہے جو الله کی ربوبیت کا اقراری ہے اور علی کی ولایت کا اور ان کی اولاد کی امامت جا اور ان کے شیعوں کے لئے جنت کا

یہ روایت عبد الرزاق سے صحیح سند سے ہے لیکن کتب اہل سنت میں نہیں ملی

مسند امام الرضا میں ہے

عنه عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن على بن معبد، عن الحسين بن خالد عن الرضا عليه السلام، قال: كان أبو عبد الله عليه السلام يقول: من اتخذ خاتما فصه عقيق لم يفتقر ولم يقض له إلا بالتى هي أحسن

الحسين بن خالد نے امام الرضا سے روایت کیا کہ أبو عبد الله عليه السلام نے کہا جس نے عقیق کو انگوٹھی چاندی کے ساتھ لی وہ فقیر نہ ہو گا  اس کا کوئی کام پورا نہ ہو گا لیکن احسن انداز سے

اہل تشیع کی بعض روایات میں ہے عقيق أصفر پہنو یا عقيق احمر پہنو

الکافی از کلینی میں ہے

عنه، عن بعض أصحابه، عن صالح بن عقبة، عن فضيل بن عثمان، عن ربيعة الرأي قال: رأيت في يدعلي بن الحسين عليه السلام فص عقيق فقلت: ماهذا الفص؟ فقال: عقيق رومي، وقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من تختم بالعقيق قضيت حوائجه.

(12631 5) عنه، عن بعض أصحابه رفعه قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: العقيق أمان في السفر.

ربيعة الرأي نے کہا میں نے علی بن حسین کے ہاتھ میں عقیق کا نگ دیکھا پوچھا یہ کیسا نگ ہے ؟ کہا یہ رومی عقیق ہے اور رسول الله صلى الله عليه وآله نے فرمایا  جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اس کی حاجات پوری ہوئیں- اور … ابو عبد اللہ سے روایت ہے عقیق سے سفر میں امان ملتی  ہے

فیروزہ پہنے پر روایات

وسائل الشيعة   باب استحباب لبس الداعي خاتم فيروزج وخاتم عقيق

أحمد بن فهد في ( عدة الداعي ) عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : قال الله عز وجل : إني لأستحيي من عبدي يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

الصادق عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه واله: قال الله سبحانه:

إني لاستحيي من عبد يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة.

حدیث قدسی ہے کہ میں اس سے حیا کرتا ہوں کہ بندہ ہاتھ دعا کے لئے بلند کرے اور اس میں فیروزہ ہو اور میں اس کو قبول نہ کروں

ابن سبا کا فلسفہ

یہود کے مطابق عقیق اور فیروزہ ان دو پتھروں کا تعلق  یہود کے ١٢ میں سے دو قبیلوں سے تھا جن کے نام دان اور نفتالی ہیں – یہ یہود کے کھو جانے والے قبائل ہیں –

ہیکل سلیمانی کے امام کے گلے کے ہار میں ١٢ نگ ہونے چاہیے ہیں جو ١٢ قبائل سے منسوب ہیں  – توریت کتاب خروج میں ہے

Exodus 28:18 the second row shall be turquoise, lapis lazuli and emerald;
Exodus 28:19 the third row shall be jacinth, agate and amethyst;

دوسری رو میں فیروزہ  … ہو گا

تیسری میں … عقیق ہو گا

یہود کی کتاب ترجم میں ہے

Targum, Jewish Magic and Superstition, by Joshua Trachtenberg, 1939

Shebo [agate] is the stone of Naphtali
Turquoise is the stone of Dan

شیبو یا عقیق یہ نفتالی کا پتھر ہے

فیروزہ یہ دان کا نگ ہے

یہودی محقق ٹیوڈر پارفٹ لکھتے ہیں

The Road to Redemption: The Jews of the Yemen, 1900 – 1950 by Tudor Parfitt, 1996, Brill  Publisher, Netherland

In the nineteenth century even the Jewish world knew relatively little of  the Jews of South Arabia. In 1831 Rabbi Yisrael of Shklov sent an emissary to Yemen … emissaries who had visited Yemen some years before and who had claimed to have met members of the tribe of Dan in the deserts of  Yemen..

انیسویں صدی میں دنیائے یہود کو جزیرہ العرب کے جنوب میں یہود کے بارے میں  بہت کم معلومات تھیں – سن ١٨٣١ میں ربی اسرائیل جو شخلو کے تھے انہوں نے ایک سفارتی وفد یمن بھیجا جہاں ان کی ملاقات یہودی قبیلہ دان کے لوگوں سے ہوئی جو یمن کے صحراء میں ٹہرے

 

The conviction that the lost tribes were to be found in the more remote areas of the Yemen was one which was shared by the Yemenite Jews themselves. Over the centuries they had elaborated numerous legends about the tribes, and particularly about the supposed valour of the Tribe of Dan

یہ یقین کہ کھوئے ہوئے قبیلے یمن کے دور افتادہ علاقوں میں ملیں گے یہ یقین یمنی یہودیوں کو بھی ہے – صدیوں سے ان کے قبائل کے  بارے میں بہت سی حکایتیں جمع ہیں جن میں قبیلہ دان کی بہادری کے تزکرے ہیں

 راقم کہتا ہے ابن سبا بہت ممکن ہے دان یا نفتالی قبیلہ کا تھا جو یمن میں آباد تھے اور لشکر علی میں شامل ہو کر کوفہ پہنچے اور شیعوں میں مل گئے لیکن قبائلی عصبیت باقی رہی اور اپنے قبیلوں سے منسوب نگوں کو اہل بیت کی انگوٹھیوں میں لگوا دیا یعنی ان سے منسوب کیا

دان نفتالی ابن سبا اور آصف بن برخیاہ پر مزید دیکھیں

اصف بن بر خیا کا راز

دعا میں وسیلہ کرنا – شرک یا توحید؟

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

=======================================================

فہرست

———— التوسل بذوات الصالحین———–

زندگی میں   ولی  یا نبی سے دعا کروانا= التوسل بالدعا

یعقوب علیہ السلام کا دعا کرنا

عمر رضی الله عنہ کا عباس رضی الله عنہ سے دعا کروانا

فوت شدہ اولیاء سے وسیلہ لینا

قوم نوح اور  ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر

————– التوسل بالنبی ————-

ولادت النبی سے قبل التوسل بالنبی کے دلائل

آدم علیہ السلام کا   نبی صلی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے  دعا کرنا

خیبر کے یہود کا     جنگ میں فتح کے   لئے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا وسیلہ لینا

حیات النبی میں  التوسل بالنبی کے دلائل

عبد المطلب  کا   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے بارش طلب کرنا

منافقین  کے لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دعا کرنا

بعد وفات النبی  ، التوسل بالنبی کے دلائل

ایک بدو کا واقعہ

ایک نابینا کا واقعہ

قبر النبی  اور آسمان سے  بارش برسنا

مالک الدار والی روایت

ابو ایوب انصاری رضی الله عنہ کا قبر النبی سے وسیلہ لینا

———— التوسل بالاستغاثہ کے دلائل ———

جنگ یمامہ میں اصحاب رسول کا یامحمداہ کی پکار لگانا

اعینوا یا عباد الله؟

یا عباد الله : احسبوا علی؟

———— التوسل پر علماء کی متضاد آراء ———

=======================================

پیش لفظ

قرآن میں ہے کہ قوم نوح   نے کہا  ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر  کو مت چھوڑو

وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آَلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا 23

اور انہوں نے  کہا تم اپنے الہ  کو مت چھوڑنا   د، سواع، یغوث، یعوق اور نسر  کو

صحیح بخاری میں ابن عباس سے مروی ہے کہ أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِينَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ    یہ لوگ قوم نوح کے صالح لوگ تھے –

اور پھر  یہ لوگ عربوں میں بھی پوجے گئے

صَارَتِ الأَوْثَانُ الَّتِى كَانَتْ فِى قَوْمِ نُوحٍ فِى الْعَرَبِ

عرب میں قوم نوح کے بت پھیل گئے

یعنی عربوں میں توسل اور وسیلہ لینا معروف تھا – لیکن انہوں نے ان شخصیات کو بت کی شکل دی لیکن مقصد توسل ہی تھا  لہذا مشرک کہتے   یہ اولیاء الله ہیں جن کے بت ہیں ان کی اس پوجا کا مقصد تقرب الی الله ہے – سوره الزمر میں ہے


أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ

خبردار دین خالص الله کے لئے ہو، اور وہ جنہوں نے اس کے علاوہ دیگر ولی اختیار  کیے ہیں – (وہ کہہ رہے ہیں) ہم عبادت نہیں کرتے سوائے اس کے کہ  الله کا قرب ملے –  الله ان کا فیصلہ کرے گا جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں – الله جھوٹے  کفار کو ہدایت نہیں کرتا

مشرکین  کے اولیاء الله سے وسیلہ لینے پر جرح کی گئی  اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے ایمان والوں الله سے ڈرو اور اس کی طرف الوسیلہ تلاش کرے اور اس کی راہ میں کوشش کرو تاکہ فلاح پاؤ

ظاہر ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ  انبیاء اور اولیاء کی وفات کے بعد ان کا وسیلہ مسلمان لے سکتے ہیں لیکن یہی کام مشرک کریں تو صحیح نہیں – آیت میں وسیلہ سے مراد الله کا قرب حاصل کرنا ہے جو نیکی  میں سبقت سے حاصل ہوتا ہے  اگر ایمان صحیح ہو – قرآن میں ہے

لَّيْسَ الْبِـرَّ اَنْ تُـوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِـرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلَآئِكَـةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّيْنَۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَالسَّآئِلِيْنَ وَفِى الرِّقَابِۚ وَاَقَامَ الصَّلَاةَ وَاٰتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِـمْ اِذَا عَاهَدُوْا ۖ وَالصَّابِـرِيْنَ فِى الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۗ اُولٰٓئِكَ الَّـذِيْنَ صَدَقُوْا ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُتَّقُوْنَ (177)

یہی نیکی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی تو یہ ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر، اور اس کی محبت میں رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں مال دے، اور نماز پڑھے اور زکوٰۃ دے، اور جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کرلیں، اورتنگدستی میں اور بیماری میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ  هم  جو أولياء کا  ان کی وفات کے بعد دعا میں وسیلہ لیتے ہیں یا اللہ کو واسطہ دیتے ہیں یا بحق   محمد یا بجاہ محمد   کہتے ہیں تو  یہ شرک نہیں ہے کیونکہ   نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ امت شرک نہ کرے گی اور بخاری کی روایت پیش کرتے ہیں

وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي

اور الله کی قسم مجھے اس کا خوف نہیں کہ تم شرک کرو گے

یہ روایت صحیح ہے لیکن اس کو اس کے سیاق و سباق میں ہی سمجھا جا سکتا ہے

بخاری میں یہ حدیث عقبہ بن عامر رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ  وسلم ایک روز  پہلے اصحاب کے ساتھ مقام احد گئے اورشہداء کے لئے دعا  کی پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور  یہ  الفاظ فرمائے- یہ الفاظ صحابہ کے لئے مخصوص ہیں نہ کہ ساری امت کے  لئے . اگر نبی صلی الله علیہ وسلم امت کے حوالیے سے بالکل مطمین ہوتے تو وہ یہ نہ کہتے کہ قرآن حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ یہ نہ کہتے کہ ایمان اجنبی ہو جائے گا وہ یہ نہ کہتے کہ بہتر فرقے جہنم کی نذر ہوں گے-

الله تعالی پر مخلوق کا حق نہیں ہے – مخلوق پر الله کا حق ہے- اسی وجہ سے الله کی عبادت خالص ہونی چاہئیے –

  قرآن میں ہے  الله تعالی سب کی سنتا ہے اور انسان کے شہ رگ سے بھی قریب ہے تو پھر سوال ہے کہ آیت میں وسیلہ سے کیا مراد ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

امام طبری تفسیر میں لکھتے ہیں

وابتغوا إليه الوسيلة”، يقول: واطلبوا القربة إليه بالعمل بما يرضيه

اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو  کہا اس کی قربت طلب کرو اس عمل سے جس سے وہ خوش ہو

عبد الله بن كثير، مجاہد، حسن بصری ، قتادہ سب نے اس کو تقرب الی الله قرار دیا ہے جو نیکی کرنے سے حاصل ہوتا ہے

یعنی وسیلہ تلاش کرو سے مراد کسی بزرگ کو تلاش کرنا نہیں ہے جس سے دعا کرا سکیں اس سے مراد ہے الله کا تقرب حاصل کرو اور شرح کی کہ اس کی راہ میں جہاد سے یہ حاصل ہو گا یا نیک عمل سے

سوره بنی اسرائیل یا  الإسراء: 57 میں ہے

أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا

وہ   (مشرک و اہل کتاب) جن کو پکار رہے  ہیں وہ   (خود)الله  کا وسیلہ چاہتے ہیں جو ان کو الله کا   قرب دے اور وہ اللہ  سے رحمت کی امید رکھتے  ہیں اور اس کے  عذاب سے ڈرتے ہیں کہ ان کے  رب کا عذاب ایسا ہے جس سے ڈرا جائے

یعنی فرشتے اور انبیاء جن کو مشرک اور اہل کتاب پکارتے  ہیں وہ فرشتے اور انبیاء خود  الله کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں

تفسیر یحیی بن سلام میں ہے

سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: نَزَلَتْ فِي نَفَرٍ مِنَ الْعَرَبِ كَانُوا يَعْبُدُونَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ، فَأَسْلَمَ الْجِنِّيُّونَ، وَلَمْ يَعْلَمْ بِذَلِكَ النَّفَرُ مِنَ الْعَرَبِ.

[أخرج عبد الرَّزَّاق وَالْفِرْيَابِي وَسَعِيد بن مَنْصُور وَابْن أبي شيبَة وَالْبُخَارِيّ وَالنَّسَائِيّ وَابْن جرير وَابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم وَالطَّبَرَانِيّ وَالْحَاكِم وَابْن مرْدَوَيْه وَأَبُو نعيم فِي الدَّلَائِل عَن ابْن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ]

ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت عربوں کے ایک ٹولے کے لئے نازل ہوئی جو جنوں کی عبادت کرتا اور جنات ایمان لائے اور ان کے ایمان کی خبر پجاریوں کو نہیں ہوئی

قرون ثلاثہ کے اندر مفسرین وسیلہ سے مراد نیک عمل ہی لیتے تھے اس سے مراد ولی الله سے دعا کروانا بھی نہیں تھا بلکہ اس کا وسیلہ سے تعلق بھی نہیں ہے – کیونکہ دعا ایک دوسرے کے لئے کرنا معلوم ہے

یہ قول کہ آیت   (اتقوا الله وابتغوا اليه الوسيلة) میں وسیلہ سے مراد شخصی وسیلہ  ہے یہ  اہل تشیع نے بیان کیا اور تفسیر قمی میں ہے

فقال تقربوا اليه بالامام

امام کے ذریعہ قربت حاصل کرو

اس کے برعکس علی رضی الله عنہ سے منسوب الکافی کی روایت ہے جس کو خطبہ الوسیلہ کہا جاتا ہے اس میں صریحا لکھا ہے کہ علی نے کہا

أيها الناس إن الله تعالى وعد نبيه محمدا صلى الله عليه وآله الوسيلة ووعده الحق ولن يخلف الله وعده، ألا وإن الوسيلة على درج الجنة

اے لوگوں الله  تعالی نے اپنے نبی محمد صلی الله علیہ و الہ سے الوسیلہ کا وعدہ کیا ہے اس کا وعدہ سچا ہے خبردار وسیلہ جنت کا درجہ ہے

کتاب نہج البلاغہ میں علی سے منسوب خطبہ ہے

إِنَّ أفضلَ ما توسلَ بِهِ المتوسلون إِلى الله سبحانه وتعالى، الإِيمان بِهِ وَبِرَسُولِهِ، والجهادُ في سبيله، وأقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وَصومُ شهرِ رمضان، وَحج البيت واعتمارُه، وَصلة الرحم، وصدقة السّر، وصدقة العلانية

سب سے افصل توسل الی الله  یہ ہے اس کے رسول پر ایمان لایا جائے اور اس کی راہ میں جہاد کیا جائے اور نماز قائم کی جائے اور زكاة   دی جائے اور رمضان کے روزے رکھے جائیں اور حج بیت الله کیا جائے  اور اس کا  اعتمارُ کیا جائے (یعنی نظم و نسق) اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی جائے اور چھپ کر صدقه کیا جائے اور اعلانیہ بھی

اس میں وہ تمام نیکیاں آ گئیں جو معروف ہیں – علی نے اپنی ذات کے وسیلہ کا حکم نہیں کیا-

لیکن  بعض  شیعہ اور اہل سنت  نے وسیلہ کو جائز قرار دے دیا ہے کہ  الإِمام یا نبی کی ذات کا وسیلہ لیا جا سکتا ہے

الله تعالی  نے قرآن میں بیان کیا کہ ابناء یعقوب کے لئے یعقوب علیہ السلام نے مغفرت کی دعا کی – معلوم ہوا نیک لوگوں سے ان کی زندگی میں دعا کی درخواست کی جا سکتی ہے- راقم اس کو وسیلہ قرار نہیں دیتا  – قرانی لفظ الوسیلہ سے مراد  علی  رضی الله عنہ کے نزدیک نیکیاں کرنا ہے  – راقم اسی کا قائل ہے کہ کسی سے دعا کروانا  ایک مسلمان کا دوسرے کے حق میں دعا کرنا ہے وسیلہ نہیں ہے-

بعد وفات الانبیاء و صلحاء و اولیاء ان کے ناموں  کو دعا میں استعمال کرنا کہ الله پر ان کا حق جتلانا بلا ثبوت ہے – اس عمل کے وجوب  پر نہ کوئی قرانی آیت ہے نہ حدیث معلوم ہے  بلکہ شرک  ہے اور عمل مشرکین مکہ  سے مماثلت رکھتا ہے  جو اولیاء قوم نوح کو پکارتے تھے

اس کتاب میں ان روایات پر تبصرہ ہے جو دعا میں انبیاء و اولیاء کے  وسیلہ لینے  کے حق میں پیش کی جاتی ہیں

ابو شہر یار

٢٠١٧

 

موت و نیند پر اضطراب


فرقہ پرستوں کا عقیدہ   جمہور صحیح عقیدہ
نیند میں روح کو جسم سے نکال لیا جاتا ہے –   زندہ کی روح  عالم بالا جاتی ہے  جہاں روح کی  ملاقات  مردوں کو روح سے ہوتی ہے (ابن قیم    فی کتاب الروح ،  ابن تیمیہ فی الفتاوی)

اس  قول  سے خواب کی تعبیر کا عقیدہ    ان فرقوں نے گھڑا   ہے

روح یا نفس جسد میں ہی  قید رہتا ہے  اس کو توفی یا قبض   کرنا کہا   گیا ہے  یعنی پکڑنا یا قبضہ میں لینا   اور نفس کے  ارسال سے مراد نفس کو ( واپس جسد میں ہی ) چھوڑنا ہے

نیند میں روح  نہ تو عالم بالا میں جاتی ہے نہ ہی  زندہ  کی روح کی مردوں کی روح سے ملا قات ہوتی ہے      – اس سے متعلق تمام روایات  ضعیف ہیں

نیند
سلفی  و غیر مقلد علماء:

بد کاروں کی روحیں  برھوت  یمن میں ہیں   (وہابی  علماء، ابن تیمیہ )   نیکوکاروں  کی  روحیں  شام میں جابیہ میں ہیں   (عبد الوہاب النجدی) – روح  کا جسم سے  شعاع جیسا تعلق رہتا ہے اور جسد میں آتی جاتی رہتی ہے   – (ابن قیم    فی کتاب الروح ،  ابن تیمیہ فی الفتاوی   اور وہابی و اہل حدیث علماء   قبل تقسیم ہند)

روح جسد میں   ایک دفعہ سوال جواب کے وقت آتی ہے اس کے بعد   جنت و جہنم میں جاتی ہے  (اہل حدیث پاکستان کا عقیدہ جدید    سن ٢٠٠٠  ع کے بعد سے)

عود روح ہونے پر مردہ زندہ  ہو جاتا ہے

(قاضی ابو یعلی،    شیخ الکل  نذیر  حسین، بدیع الدین  راشدی )

عود  روح ہونے پر مردہ ، مردہ ہی ہے  (ابن عبد الھادی،   اہل حدیث  فرقہ پاکستان)-

اس    خود ساختہ قول    سے حیات برزخی  کا   تصور  نکالا گیا ہے

 

تقلیدی  علماء:

روح جسم میں عجب الذنب میں سمٹ جاتی ہے   (  ملا علی القاری   فی مرقاة    شرح مشكاة )

عام  لوگوں کی روحیں  زمیں و آسمان کے درمیان ہیں  (النسفی     فی  شرح العقائد)

ارواح  قبرستا نوں میں (یعنی جسد  میں)  ہی رہتی ہیں (التمہید از ابن عبد البر   اور   بیشتر دیو بندی و بریلوی   علماء )

ان     فرقوں کے نزدیک   عود  روح ہوتا ہے  اور  مردہ   دفنانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتا ہے سوائے معدودے چند کے یہ ان کا متفقہ  جمہور کا عقیدہ ہے

روح      کا  توفی یا  قبض  ( یعنی پکڑا اور قبضہ میں ) کیا جاتا ہے  لیکن روح یا نفس  کو جسم سے نکال  بھی  لیا جاتا ہے-  قرآن میں   توفی کے ساتھ ساتھ اخراج بھی کہا گیا ہے –  روح  جسم سے مکمل الگ ہو جاتی ہے    –  قرآن میں امساک روح کا ذکر ہے کہ جس پر  موت حکم لگتا ہے وہ مر جاتا ہے اور اس کی روح کو   روک  لیا جاتا ہے  یعنی  اخراج کے بعد  واپس جسد میں نہیں ڈالا جاتا

 

روح   دنیا میں واپس  کسی صورت نہیں آتیں الا یہ کہ الله کا کوئی معجزہ ہو جن کا صدور    ہو چکا   اور قرآن میں اسکی خبر  دے دی گئی

 

روح اب روز محشر ہی اس دنیا میں یا زمین میں جسد میں ڈالی جائے گی

 

موت

نوٹ:  فرقوں کا دعوی ہے کہ یہ امت گمرآہی ور جمع نہ ہو گی لہذا     ان کا عقیدہ کا اضطراب  صواب ہے – واضح رہے کہ یہ قول کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی کسی صحیح سند سے نہیں بلکہ ضعیف و متروک راویوں کا بیان کردہ ہے

قتل عثمان کا پس منظر

[wpdm_package id=’9807′]

اہل سنت میں شروع سے دو رحجان رہے ہیں ایک شیعیت ہے اور دوسرا ناصبییت ہے ایک میں علی رضی الله عنہ کی  طرف داری ہے دوسری میں انکی مخالفت ہے – اس رحجان میں کبھی اضافہ ہو جاتا ہے کبھی کمی ہو جاتی ہے  ہمارے اکثر قاری اس سلسلے میں ہماری تحقیق جاننا چاہتے ہیں جو  راقم نے کافی اصرار پر یہاں لگا دی ہے

اس بلاگ میں سوالات  کا جواب نہیں دیا جائے گا  


علی رضی الله عنہ کا شیخین (ابو بکر و عمر رضی الله عنہما) سے خلافت پر اختلاف تھا انہوں نے ٦ ماہ تک ابو بکر رضی الله عنہ کی بیعت نہیں کی اور آخر کار فاطمہ رضی الله عنہا کی وفات کے بعد ابو بکر رضی الله عنہ کی بیعت کی (صحیح بخاری)- ابو بکر نے وفات کے وقت عمر رضی الله عنہ کو خلیفہ کر دیا اور علی سے اس وقت بھی کچھ پوچھا نہیں گیا – شیخین نے علی کو کہیں کا گورنر بھی مقرر نہیں کیا یہاں تک کہ کوفہ میں علی کے خیر خواہوں نے ایک فیصلہ کیا کہ امراء کے خلاف محاذ کھڑا کیا جائے اور ممکن ہے جب یہ معزول ہوں تو علی کو عامل مقرر کر دیا  جائے-  سوال یہ ہے کہ ایسا بعض کوفیوں کو کیا ہوا کہ وہ علی کے حق میں اتنا آگے تک جا رہے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کوفی اصلا یمنی تھے جن کو ان کے علاقوں سے عمر نے نکال کر کوفہ منتقل کر دیا تھا اس میں قبیلہ بنو اسد والے کثیر تعداد میں تھے اور بعد میں علی کے شیعوں میں بھی اسدیوں کی کثرت تھی اسی طرح علی کے ساتھ لڑنے والے بھی یمنی قبائل تھے – کوفیوں میں شیخین مخالف جذبات پیدا ہو چکے تھے

یمنی قحطانی قبائل اپنے اپ کو قریش سے زیادہ قدیم بتاتے ہیں – حدیث رسول کہ امراء قریش میں سے ہوں گے  کی وجہ سے وہ امت میں خلیفہ نہیں بن سکتے تھے  -علی کے لشکر میں قحطانی اور مرادی یمنی ہمدردوں کی بھی اکثریت ہے – یہاں تک کہ علی  کا قتل بھی قحطانی ہی کرتے ہیں- قحطانیقبیلہ سے مسلمانوں کا امیر ہو گا اس قسم کی  ایک روایت صحیح بخاری میں بھی آ گئی ہے جو اسی دور اختلاف کی ایجاد ہے – ہر چند کہ امام الذھبی نے اس کو منکر قرار دیا تھا لیکن بھر بھی اس کو صحیح کہا جاتا ہے

ایک طرف تو عربوں میں یہ قبائلی عصبیت بدل رہی تھی دوسری طرف خود علی خلیفہ بنتے بنتے رہ جاتے ہیں – عمر رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد ٦ رکنی کیمٹی میں علی موجود ہیں جس کو خلیفہ کا انتخاب کرنا ہے – عبد الرحمن بن عوف رضی الله عنہ جو اس کے سربراہ ہیں وہ عثمان رضی الله عنہ کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں – علی رضی الله عنہ اب بھی خلیفہ نہیں بن پاتے – عثمان اور علی دونوں صحابی ہیں   دونوں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے داماد ہیں لیکن دونوں میں فرق بہت ہے عثمان عمر میں بڑے اور متمول ہیں اور علی عمر میں بہت چھوٹے اور غریب تھے علی کے گھر میں لونڈی غلام تک نہ تھے اور دوسری بیوی تک کی اجازت ان کو نہیں دی گئی (صحیح بخاری)- علی رضی الله عنہ کے پاس گزر اوقات کے لئے صرف ایک ہی ذریعہ تھا کہ ان کو مال فدک ملتا اور یہی وجہ تھی کہ وہ مسلسل شیخین سے اس کا مطالبہ کر رہے تھے – جو  بالاخر عمر رضی الله عنہ نے ان کو دے دیا

علی رضی الله عنہ نے ابو بکر رضی الله عنہ کی وفات کے بعد اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا سے شادی کی اور ابو بکر کے صلبی بیٹے محمد بن ابی بکر(جو ١٠ھ میں پیدا ہوا) اب علی کے لے پالک تھے – علی رضی الله نے فاطمہ رضی الله عنہ کی وفات کے بعد شیخین اور عثمان  کی خلافت میں کئی شادیاں کیں اور متعدد لونڈیاں رکھیں – اس طرح علی کا کنبہ بہت بڑا ہوا  جو ظاہر کرتا ہے علی فارغ البال ہو گئے تھے

سن ٣١ ہجری کا واقعہ ہے جو صحیح البخاری میں ہی ہے

حدیث نمبر: 3717حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَصَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رُعَافٌ شَدِيدٌ سَنَةَ الرُّعَافِ حَتَّى حَبَسَهُ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصَى فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “اسْتَخْلِفْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالُوهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَنْ فَسَكَتَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ أَحْسِبُهُ الْحَارِثَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اسْتَخْلِفْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عُثْمَانُ وَقَالُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَنْ هُوَ فَسَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَعَلَّهُمْ قَالُوا الزُّبَيْرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُ لَخَيْرُهُمْ مَا عَلِمْتُ وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”.ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ مجھے مروان بن حکم نے خبر دی کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اس سال عثمان رضی اللہ عنہ کو اتنی سخت نکسیر پھوٹی کہ آپ حج کے لیے بھی نہ جا سکے، اور (زندگی سے مایوس ہو کر) وصیت بھی کر دی، پھر ان کی خدمت میں قریش کے ایک صاحب گئے اور کہا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنا دیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: کیا یہ سب کی خواہش ہے، انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کسے بناؤں؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے،۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ بنا دیں، آپ نے ان سے بھی پوچھا کیا یہ سب کی خواہش ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: لوگوں کی رائے کس کے لیے ہے؟ اس پر وہ بھی خاموش ہو گئے، تو آپ نے خود فرمایا: غالباً زبیر کی طرف لوگوں کا رجحان ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے علم کے مطابق بھی وہی ان میں سب سے بہتر ہیں اور بلاشبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں بھی ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔

یہ خبر کہ عثمان رضی الله عنہ کے بعد زبیر بن العوام رضی الله عنہ کا نام بطور خلیفہ لیا جا رہا ہے امت میں پھیل چکی تھی –   اس کی خبر کوفیوں کو بھی ہوئی اور مصریوں کو بھی –  حدیث نبوی کے مطابق جو عھدہ مانگے اس کو وہ نہ دو لہذا علی رضی الله عنہ یہ مطالبہ نہیں کر سکتے تھے کہ ان کو عامل مقرر کیا جائے لیکن ان کے ہمدرد یہ کر سکتے تھے لہذا کوفہ کے لوگ عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے پاس پہنچا شروع ہوئے کہ امراء کو تبدیل کیا جائے

سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کو عمر رضی الله عنہ نے  ٢١ ھ میں کوفہ کے عامل کی حیثیت سے معزول کیا

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ  کوفہ کے عامل ہوئے اور دور عثمان تک رہے

 سعد بن ابی وقاص کو عثمان نے  واپس کوفہ کا  گورنر کیا

ولید بن عقبہ رضی الله عنہ کو ٢٥ ھ میں گورنر کیا

سعید بن العاص رضی الله عنہ کو ٢٩ ہجری میں گورنر کیا

ابو موسی رضی الله عنہ کو ٣٤ ہجری میں گورنر کیا

 سعید بن العاص رضی الله عنہ  کو ٣٤ ہجری میں گورنر کیا

یعنی کوفی مسلسل درد سر بن چکے تھے امراء کے خلاف جھوٹے سچے قصے گھڑ کر مدینہ پہنچ جاتے اور عثمان رضی اللہ عنہ پر زور ڈالتے کہ ان کو تبدیل کرو لیکن عثمان اس سب کو بھانپ چکے تھے کہ ان کا مقصد  کیا ہے  – ان کوفی ہمدردروں کے نام معلوم ہیں اور یہ سب اصحاب علی ہیں (میل بن زیاد ، والأشتر النخعی ، مالک بن یزید ، و علقمہ بن قیس النخعی ، وثابت بن زید النخعی ، و جندب بن زھیر العامری ، و جندب بن کعب الأزدی ، وعروۃ بن الجعد ، وعمرو بن الحمق الخزائی، وصعصعۃ بن صوحان ، وأخوہ زید بن صوحان و ابن الکوا)  ان کے شیعہ ہیں یعنی یہ ہمدرد  علی کو بتائے بغیر بالا ہی بالا ان کے حق میں ایک تحریک چلا رہے تھے

مسند احمد کی روایت جس کو شعیب اور البانی صحیح کہتے ہیں  میں ہے

عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ – رضي الله عنه – قَالَ: قَالَ لِي أَبِي: يَا بُنَيَّ , إِنْ وَلِيتَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ شَيْئًا فَأَكْرِمْ قُرَيْشًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ: ” مَنْ أَهَانَ قُرَيْشًا , أَهَانَهُ اللهُ – عز وجل

 عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ نے کہا کہ میرے باپ رضی الله عنہ نے کہا اے بیٹے اگر تجھ کو والی لوگوں پر کیا جائے تو قریش کی تکریم کرنا کیونکہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے قریش کی اہانت کی الله عز وجل اس کی اہانت کرے گا

شیعان علی میں کثیر تعداد یمنی کوفیوں کی تھی جن کو اس پر اعتراض تھا کہ قریشی امراء ہی کیوں مقرر کیے جا رہے ہیں

دوسرا صوبہ مصر تھا یہاں صحابی رسول عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح رضی الله عنہ گورنر تھے اور ان کا سیکریٹری عثمان رضی الله عنہ کا لے پالک  محمّدابن أَبِي حُذيفة تھا –  کتاب مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار از ابن حبان کے مطابق

محمد بن أبى حذيفة بن عتبة له صحبة كان عامل عثمان بن عفان على مصر

 محمد بن أبى حذيفة بن عتبة  صحابی ہے اس کو عثمان بن عفان نے  مصرپر عامل مقرر کیا تھا

وفات نبی کے وقت یہ  گیارہ سال کا تھا اور اس کی پرورش عثمان رضی الله عنہ نے کی

جبکہ کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل کے مطابق

 محمد بن أبي حذيفة بن عتبة بن ربيعة ولد أيضا بأرض الحبشة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وله رؤية

محمّد حبشہ میں پیدا ہوا اور اس نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو صرف دیکھا

الذھبی  تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

فنشأ مُحَمَّد فِي حُجْر عُثْمَان، ثُمَّ إنّه غضب على عُثْمَان لكونه لم يستعمله أو لغير ذلك، فصار إلْبًا على عُثْمَان

پس محمّد ،عثمان  رضی الله عنہ کے حجرے میں پلا بڑھا لیکن عثمان پر غضب ناک ہوا کہ انہوں نے اس کو کیوں عامل نہیں کیا اور انہی پر پلٹا

کتاب أسد الغابة کے مطابق

ولما قتل أبوه أَبُو حذيفة، أخذ عثمان بْن عفان مُحَمَّدا إليه فكفله إِلَى أن كبر ثُمَّ سار إِلَى مصر فصار من أشد الناس تأليبا عَلَى عثمان

جب محمّد کے باپ  شہید ہوئے تو اس کو عثمان نے  لے لیا اور کفالت کی یہاں تک کہ بڑا ہوا پھر مصر بھیجا

جھگڑا یہ ہوا کہ محمّد بن ابو حذیفہ کو عثمان نے امارت سے معزول کیا اور محمّد بن ابی بکر کو امیر مقرر کیا محمّد بن ابو حذیفہ نے محمّد ابن ابی بکر کے کان بھرے کہ میرے پاس عثمان کا خط آیا ہے کہ جیسے ہی نیا گورنر محمد بن ابی بکر مصر پہنچے اس کو قتل کر دینا – یہ سن کر محمد بن ابی بکر بدک گیا- بالاخر مصریوں اور کوفیوں نے پلان بنایا کہ اب بغاوت و خروج کیا جائے اور عثمان کو معزول کر دیا جائے – لیکن کیسے ؟ مدینہ تو عثمان کے ہمدرد اصحاب رسول سے بھرا پڑا تھا لہذا مناسب وقت ایام حج  تھے جس میں اصحاب رسول مشغول ہوں تو عثمان کو محصور کیا جائے زور ڈال کر ان کو ہٹا دیا جائے اور علی کو امام و خلیفہ مقرر کیا جائے  لہذا حاجیوں کے روپ میں ہدی کے جانوروں کے ساتھ نکلا جائے لیکن مدینہ پہنچ کر  احرام کھول دیا جائے اور دم میں انہی جانوروں کو قربان کیا جائے-  مدینہ پر اس قسم کا حملہ شمال سے ممکن تھا کیونکہ یہ مکہ کے رستے میں اتا ہے یہی وجہ ہے کہ عراق و مصر سے باغی خروج کرتے ہیں اور علی کو مجبورا مدینہ اس بنا پر چھوڑنا پڑتا ہے کہ اس قسم کی بغاوت ان کے خلاف بھی ہو سکتی تھی

باغیوں میں اصحاب بیعت شجرہ میں سے عبد الرحمن بن عُدَيْسٍ بھی ہے -دیگر اصحاب رسول میں سے زيد بن صوحان، زياد بن النضر الحارثي، حكيم بن جبلة (جو عثمان کے بصرہ کے بیت المال کے عمل دار تھے )، حرقوص بن زهير السعدي ہیں – محمّد بن ابو حذیفہ ہیں – محمد بن ابی بکر ہیں (یہ صحابی نہیں ہے) – یہ باغیوں کے سرغنہ تھے اور ان میں بعض  کے ساتھ ٢٠٠ سے ٣٠٠ سو لوگ تھے جو ساتھ مل کر ٧٠٠ سے   ہزار کی تعداد بن گئی تھی

قتل سے پہلے

گورنر کا شراب پینا

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحُدُودِ (بَابُ حَدِّ الْخَمْرِ) صحیح مسلم: کتاب: حدود کا بیان

(باب: شراب کی حد)

4457 .

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ الدَّانَاجِ، ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ فَيْرُوزَ، مَوْلَى ابْنِ عَامِرٍ الدَّانَاجِ، حَدَّثَنَا حُضَيْنُ بْنُ الْمُنْذِرِ أَبُو سَاسَانَ، قَالَ: شَهِدْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَأُتِيَ بِالْوَلِيدِ قَدْ صَلَّى الصُّبْحَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَزِيدُكُمْ، فَشَهِدَ عَلَيْهِ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا حُمْرَانُ أَنَّهُ شَرِبَ الْخَمْرَ، وَشَهِدَ آخَرُ أَنَّهُ رَآهُ يَتَقَيَّأُ، فَقَالَ عُثْمَانُ: إِنَّهُ لَمْ يَتَقَيَّأْ حَتَّى شَرِبَهَا، فَقَالَ: يَا عَلِيُّ، قُمْ فَاجْلِدْهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ: قُمْ يَا حَسَنُ فَاجْلِدْهُ، فَقَالَ الْحَسَنُ: وَلِّ حَارَّهَا مَنْ تَوَلَّى قَارَّهَا، فَكَأَنَّهُ وَجَدَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ جَعْفَرٍ قُمْ فَاجْلِدْهُ، فَجَلَدَهُ وَعَلِيٌّ يَعُدُّ حَتَّى بَلَغَ أَرْبَعِينَ، فَقَالَ: أَمْسِكْ، ثُمَّ قَالَ: «جَلَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ»، وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَعُمَرُ ثَمَانِينَ، ” وَكُلٌّ سُنَّةٌ، وَهَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ. زَادَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: وَقَدْ سَمِعْتُ حَدِيثَ الدَّانَاجِ مِنْهُ فَلَمْ أَحْفَظْهُ

 ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب اور علی بن حجر سب نے کہا: ہمیں اسماعیل بن علیہ نے ابن ابی عروبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ داناج (فارسی کے لفظ دانا کو عرب اسی طرح پڑھتے تھے) سے روایت کی، نیز اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے ۔۔ الفاظ انہی کے ہیں ۔۔ کہا: ہمیں یحییٰ بن حماد نے خبر دی، کہا: ہمیں عبدالعزیز بن مختار نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ان عامر داناج کے مولیٰ عبداللہ بن فیروز نے حدیث بیان کی: ہمیں ابو ساسان حُضین بن منذر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا، ان کے پاس ولید (بن عقبہ بن ابی معیط) کو لایا گیا، اس نے صبح کی دو رکعتیں پڑھائیں، پھر کہا: کیا تمہیں اور (نماز) پڑھاؤں؟ تو دو آدمیوں نے اس کے خلاف گواہی دی۔ ان میں سے ایک حمران تھا (اس نے کہا) کہ اس نے شراب پی ہے اور دوسرے نے گواہی دی کہ اس نے اسے (شراب کی) قے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اس نے شراب پی ہے تو (اس کی) قے کی ہے۔ اور کہا: علی! اٹھو اور اسے کوڑے مارو۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: حسن! اٹھیں اور اسے کوڑے ماریں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: اس  کی ناگوار باتیں بھی انہی کے سپرد کیجیے جن کے سپرد اس کی خوش گوار ہیں۔ تو ایسے لگا کہ انہیں ناگوار محسوس ہوا ہے، تب انہوں نے کہا: عبداللہ بن جعفر! اٹھو اور اسے کوڑے مارو۔ تو انہوں نے اسے کوڑے لگائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ شمار کرتے رہے حتی کہ وہ چالیس تک پہنچے تو کہا: رک جاؤ۔ پھر کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس کوڑے لگوائے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چالیس لگوائے اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسی (کوڑے) لگوائے، یہ سب سنت ہیں اور یہ (چالیس کوڑے لگانا) مجھے زیادہ پسند ہے۔ علی بن حجر نے اپنی روایت میں اضافہ کیا: اسماعیل نے کہا: میں نے داناج کی حدیث ان سے سنی تھی لیکن اسے یاد نہ رکھ سکا

راقم کہتا ہے  ولید بن عقبہ   رضی الله عنہ سے کوفیوں کو بہت خنس تھی اور کوفیوں کا مقصد شروع سے یہ رہا کہ علی کو وہاں کا گورنر کرا دیا جائے -کوفی یمنی  تھے لہذا شیعان علی کی ایک روایت یہ ہے کہ قرآن میں ایک فاسق کا ذکر ہے جو ولید بن عقبہ رضی الله عنہ تھے

﴿قال: قدمت علی رسول اللہ ﷺ فدعانی الی الاسلام ، فدخلت فیہ، واٴقررت بہ۔۔۔﴾ (مسند احمد بن حنبل ،ج ۳۰، ص ۴۰۳، رقم ۸۴۵۹  پر الحدیث

ترجمہ: (میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی جو میں نے منظور کر لی اور مسلمان ہوگیا۔ پھر آپ نے زکوة کی فرضیت سنائی میں نے اس کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ میں واپس اپنی قوم کے پاس جاتا ہوں اور ان میں سے جو ایمان لائیں اور زکوة ادا کریں میں ان کی زکوة جمع کرتا ہوں۔ اتنے اتنے دنوں کے بعد آپ میری طرف کسی آدمی کو بھیج دیں میں اس کے ہاتھ جمع شدہ مال زکوة آپ کی خدمت میں بھجوادوں گا۔ سیدنا حارث نے واپس آکر یہی مال زکوة جمع کیا جب وقت مقررہ گزر چکا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کوئی قاصد نہ آیا تو آپ نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے کہا یہ تو نا ممکن ہے کہ اللہ کے رسول اپنے وعدے کے مطابق اپنا آدمی نہ بھیجیں ۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں کسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ہم سے ناراض نہ ہوگئے ہوں؟ اور اس بنا پر آپ نے اپنا کوئی قاصد مال زکوة لینے کے لیے نہ بھیجا ہو، اگر آپ متفق ہوں تو ہم اس مال کو لے کر خود ہی مدینہ منورہ چلیں اور آپ کی خدمت میں پیش کر دیں۔ یہ تجویز طے پاگئی اور یہ حضرات اپنا مال زکوة لے کر چل کھڑے ہوئے۔ ادھر سے رسول اللہ ﷺ ولید بن عقبہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیج چکے تھے۔ لیکن یہ حجرات راستے میں ہی ڈر کے مارے لوٹ آئے اور یہاں آ کر کہہ دیا کہ حارث نے زکوة بھی روک لی اور میرے قتل کے درپے ہوئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ ناراض ہوئے اور کچھ آدمی حارث کی تنبیہ کے لیے روانہ فرما دیے۔ مدینے کے قریب راستے میں ہی اس مختصر سے لشکر نے حضرت حارث کو پالیا۔ سیدنا حارث نے پوچھا آخر کیا بات ہے؟ تم کہاں اور کس کے پاس جا رہے ہو؟ انہوں نے آپ کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ پوچھا کیوں؟ کہا اس لیے کہ تم نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد ولید کو زکوة نہ دی بلکہ انہیں قتل کر نا چاہا۔ حارث نے فرمایا قسم ہے اس رب کی جس نے محمد ﷺ کو سچا بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے اسے دیکھا نہ وہ میرے پاس آیا، چلو میں تو خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں۔ یہاں جو آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا تم نے زکوة بھی روک لی اور میرے آدمی کو قتل کرنا چاہا۔ آپ نے جواب دیا ہر گز نہیں یا رسول اللہﷺ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے انہیں دیکھا ہے اور نہ ہی وہ میرے پاس آئے، بلکہ قاصد کو نہ دیکھ کر اس ڈر کے مارے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول مجھ سے ناراض نہ ہوگئے ہوں اور اسی وجہ سے قاصد نہ بھیجا ہو میں خود حاضر خدمت ہوا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
 يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا۔۔۔۔۔۔
(الحجرات: ۶)

اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔۔۔۔ حکیم تک نازل ہوئی۔

سند میں محمد بن سابق ہے جو ضعیف ہے۔
دینار کا باپ  عیسٰی مجھول ہے۔
محمد بن سابق التمیمی:
قال یحییٰ بن معین : ضعیف۔
قال ابو حاتم لا یحتیج بہ۔
وقال یعقوب بن شیبة : ولیس ممن یوصف بالضبط للحدیث۔تھذیب التھذیب ،ج۷، ص۱۶۳، تھذیب الکمال للمزی،ج۲۵،ص۶۳۳، تاریخ الکبیرللبخاری الترجمة ۳۱۲، الجرح والتعدیل

اس تناظر میں صحیح مسلم کی روایت میں بھی ایسا ہی ہے دو کوفیوں کی شکایات پر عثمان نے گورنر کو کوڑے لگوائے اور وہ بھی خاص اہل بیت النبی سے – کیا یہ ہر وقت  مجلس عثمان میں ہی رہتے تھے ؟ کسی اور صحابی کا ذکر بھی اس روایت میں نہیں ہے

کہا جاتا ہے کہ حُضَيْنُ بْنُ الْمُنْذِرِ المتوفی ٩٩ ھ  جو گواہ بن کر کھڑا ہوا یہ  بعد میں  كَانَ صَاحِبَ شُرْطَةِ عَلِيٍّ  علی کا خصوصی گارڈ بنا اس کا بیان بھی صحیح بخاری کی روایت سے جدا ہے

حدیث نمبر 3872:
حدثنا عبد الله بن محمد الجعفي، ‏‏‏‏حدثنا هشام، ‏‏‏‏أخبرنا معمر، ‏‏‏‏عن الزهري، ‏‏‏‏حدثنا عروة بن الزبير، ‏‏‏‏أن عبيد الله بن عدي بن الخيار، ‏‏‏‏أخبره أن المسور بن مخرمة وعبد الرحمن بن الأسود بن عبد يغوث قالا له ما يمنعك أن تكلم خالك عثمان في أخيه الوليد بن عقبة وكان أكثر الناس فيما فعل به‏.‏ قال عبيد الله فانتصبت لعثمان حين خرج إلى الصلاة فقلت له إن لي إليك حاجة وهى نصيحة‏.‏ فقال أيها المرء، ‏‏‏‏أعوذ بالله منك، ‏‏‏‏فانصرفت، ‏‏‏‏فلما قضيت الصلاة جلست إلى المسور وإلى ابن عبد يغوث، ‏‏‏‏فحدثتهما بالذي قلت لعثمان وقال لي‏.‏ فقالا قد قضيت الذي كان عليك‏.‏ فبينما أنا جالس معهما، ‏‏‏‏إذ جاءني رسول عثمان، ‏‏‏‏فقالا لي قد ابتلاك الله‏.‏ فانطلقت حتى دخلت عليه، ‏‏‏‏فقال ما نصيحتك التي ذكرت آنفا قال فتشهدت ثم قلت إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم وأنزل عليه الكتاب، ‏‏‏‏وكنت ممن استجاب لله ورسوله صلى الله عليه وسلم وآمنت به، ‏‏‏‏وهاجرت الهجرتين الأوليين، ‏‏‏‏وصحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورأيت هديه، ‏‏‏‏وقد أكثر الناس في شأن الوليد بن عقبة، ‏‏‏‏فحق عليك أن تقيم عليه الحد‏.‏ فقال لي يا ابن أخي أدركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال قلت لا، ‏‏‏‏ولكن قد خلص إلى من علمه ما خلص إلى العذراء في سترها‏.‏ قال فتشهد عثمان فقال إن الله قد بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق وأنزل عليه الكتاب، ‏‏‏‏وكنت ممن استجاب لله ورسوله صلى الله عليه وسلم وآمنت بما بعث به محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ وهاجرت الهجرتين الأوليين كما قلت، ‏‏‏‏وصحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبايعته، ‏‏‏‏والله ما عصيته ولا غششته حتى توفاه الله، ‏‏‏‏ثم استخلف الله أبا بكر فوالله ما عصيته ولا غششته، ‏‏‏‏ثم استخلف عمر، ‏‏‏‏فوالله ما عصيته ولا غششته، ‏‏‏‏ثم استخلفت، ‏‏‏‏أفليس لي عليكم مثل الذي كان لهم على قال بلى‏.‏ قال فما هذه الأحاديث التي تبلغني عنكم فأما ما ذكرت من شأن الوليد بن عقبة، ‏‏‏‏فسنأخذ فيه إن شاء الله بالحق قال فجلد الوليد أربعين جلدة، ‏‏‏‏وأمر عليا أن يجلده، ‏‏‏‏وكان هو يجلده‏.‏ وقال يونس وابن أخي الزهري عن الزهري أفليس لي عليكم من الحق مثل الذي كان لهم‏.
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ ہم سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عدی بن خیارنے خبر دی، انہیں مسور بن مخرمہ اور عبد الر حمن بن اسود بن عبد یغوث ان دونوں نے عبیداللہ بن عدی بن خیار سے کہا تم اپنے ماموں (امیرالمؤمنین) عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کے بھائی ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے باب میں گفتگو کیوں نہیں کرتے، (ہوا یہ تھا کہ لوگوں نے اس پر بہت اعتراض کیا تھا جو حضرت عثمان نے ولید کے ساتھ کیا تھا)، عبیداللہ نے بیان کیا کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے نکلے تو میں ان کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، آپ کو ایک خیرخواہانہ مشورہ دینا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بھلے آدمی! تم سے تو میں خدا کی پنا ہ مانگتا ہوں۔ یہ سن کر میں وہاں سے واپس چلا آیا۔ نماز سے فا رغ ہونے کے بعد میں مسور بن مخرمہ اور ابن عبد یغوث کی خدمت میں حاضر ہوا اور عثمان رضی اللہ عنہ سے جو کچھ میں نے کہا تھا اور انہوں نے اس کا جواب مجھے جودیا تھا، سب میں نے بیان کر دیا۔ ان لوگوں نے کہا تم نے اپنا حق ادا کر دیا۔ ابھی میں اس مجلس میں بیٹھا تھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا آدمی میرے پاس (بلانے کے لیے) آیا۔ ان لوگوں نے مجھ سے کہا تمہیں اللہ تعالیٰ نے امتحان میں ڈالا ہے۔ آخر میں وہاں سے چلا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے دریافت کیا تم ابھی جس خیرخواہی کا ذکر کر رہے تھے وہ کیاتھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے کہا اللہ گواہ ہے پھر میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی، آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا تھا۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے دو ہجرتیں کیں (ایک حبشہ کو اور دوسری مدینہ کو) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو دیکھا ہے۔ بات یہ ہے کہ ولید بن عقبہ کے بارے میں لوگوں میں اب بہت چرچا ہونے لگا ہے۔ اس لئے آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس پر (شراب نوشی کی) حد قائم کریں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے بھتیجے یا میرے بھانجے کیا تم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی باتیں اس طرح میں نے حاصل کی تھیں جو ایک کنوا ری لڑکی کو بھی اپنے پردے میں معلوم ہو چکی ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سن کر پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ کو گواہ کر کے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر اپنی کتاب نازل کی تھی اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر (ابتداء ہی میں) لبیک کہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کر آئے تھے میں اس پر ایمان لایا اور جیسا کہ تم نے کہا میں نے دو ہجرتیں کیں۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت بھی کی۔ اللہ کی قسم! میں نے آپ کی نافرمانی نہیں کی اور نہ کبھی خیانت کی آخر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتحب ہوئے۔ اللہ کی قسم! میں نے ان کی بھی کبھی نافرمانی نہیں کی اور نہ ان کے کسی معاملہ میں کوئی خیانت کی۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے میں نے ان کی بھی کبھی نافرمانی نہیں کی اور نہ کبھی خیانت کی۔ اس کے بعد میں خلیفہ ہوا۔ کیا اب میرا تم لوگوں پر وہی حق نہیں ہے جو ان کا مجھ پر تھا؟ عبیداللہ نے عرض کیا یقیناً آپ کا حق ہے پھر انہوں نے کہا پھر ان باتوں کی کیا حقیقت ہے جو تم لوگوں کی طرف سے پہنچ رہی ہیں؟ جہاں تک تم نے ولید بن عقبہ کے بارے میں ذکر کیا ہے تو ہم انشاءاللہ اس معاملے میں اس کی گرفت حق کے ساتھ کریں گے۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر (گواہی کے بعد) ولید بن عقبہ کو چالیس کوڑے لگوائے گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کوڑے لگائیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نے اس کو کوڑے مارے تھے۔ اس حدیث کو یونس اورزہری کے بھتیجے نے بھی زہری سے روایت کیا اس میں عثمان رضی اللہ عنہ کا قول اس طرح بیان کیا، کیا تم لوگوں پر میرا وہی حق نہیں ہے جو ان لوگوں کا تم پر تھا۔
—-

روایات کے مطابق گواہوں نے ایک انگوٹھی پیش کی کہ ہم نے ولید رضی اللہ عنہ کو شراب نوشی کرتے دیکھا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم ان کی انگوٹھی اتار لائے اور انہیں علم نہیں ہو سکا۔   عثمان رضی اللہ عنہ نے   ولید کو طلب کیا اور ان سے فرمایا: “جھوٹے گواہ کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اے میرے بھائی! تم صبر کرو۔” اس کے بعد انہوں نے ولید پر شراب کی سزا نافذ کی   طبری۔ 3/1-314 –   اس میں ایک الزام بیان ہوا لوگ گواہ بنے اور حد قائم ہوئی- اب یہ صحیح ہوئی اس کا فیصلہ تو اب الله کے پاس ہے جب  ولید بن عقبہ  رضی الله عنہ  محشر میں سوال کریں گے

حج میں اختلاف

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ

(بَابُ جَوَازِ التَّمَتُّعِ)

صحیح مسلم2964: کتاب: حج کے احکام ومسائل

(باب: حج تمتع کرنما جائز ہے)

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: اجْتَمَعَ عَلِيٌّ، وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا بِعُسْفَانَ، فَكَانَ عُثْمَانُ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ أَوِ الْعُمْرَةِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: «مَا تُرِيدُ إِلَى أَمْرٍ فَعَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَنْهَى عَنْهُ؟» فَقَالَ عُثْمَانُ: دَعْنَا مِنْكَ، فَقَالَ: إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَدَعَكَ، فَلَمَّا أَنْ رَأَى عَلِيٌّ ذَلِكَ، أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا

عمرو بن مرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی،کہا:(ایک مرتبہ) مقام عسفان پر   علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکھٹے ہوئے۔  عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع سے یا (حج کے مہینوں میں ) عمرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔  علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا:آپ اس معاملے میں کیا کرنا چاہتے ہیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے منع فرماتے ہیں؟  عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:آپ  ہمیں   چھوڑ دیں (یعنی جو دل چاہے کریں)۔  علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں آپ استطاعت نہیں رکھتا کہ اپ کو  چھوڑ دوں ۔جب   علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ   دیکھا توحج وعمرہ دونوں کا تلبیہ پکارنا شروع کردیا ۔

‌صحيح البخاري 1563: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ) صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان

(باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان۔۔۔)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ شَهِدْتُ عُثْمَانَ وَعَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَعُثْمَانُ يَنْهَى عَنْ الْمُتْعَةِ وَأَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُمَا فَلَمَّا رَأَى عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ قَالَ مَا كُنْتُ لِأَدَعَ سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ أَحَدٍ

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے علی بن حسین ( حضرت زین العابدین ) نے اور ان سے مروان بن حکم نے بیان کیا کہ   عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کو میں نے دیکھا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ حج اور عمرہ کو ایک ساتھ ادا کرنے سے منع کیا  لیکن   علی رضی اللہ عنہ نے اس کے باوجود دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا اور کہا ” لبیک بعمرۃ وحجۃ “ اور کہا کہ میں کسی ایک شخص کی بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں چھوڑ سکتا۔

راقم کہتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے صرف ایک حج کیا ہے اور اس میں حج و عمرہ کو ملانے کا ذکر نہیں ہے

صحیح مسلم میں ہے

ثُمَّ قَالَ عَلِيٌّ: ” لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّا قَدْ تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَجَلْ، وَلَكِنَّا كُنَّا خَائِفِينَ

علی نے عثمان سے کہا اپ جانتے ہیں کہ ہم نے تمتع کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ- عثمان نے کہا ٹھیک ہے لیکن ہم اس میں خوف زدہ تھے

مشکل الاثار میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَيْمَةَ , قَالَ: ثنا الْحَجَّاجُ , قَالَ: ثنا أَبُو عَوَانَةَ , عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاقَ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: سُئِلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ مُتْعَةِ الْحَجِّ , فَقَالَ: كَانَتْ لَنَا , لَيْسَتْ لَكُمْ

عثمان نے کہا یہ ہمارے لئے تھا تمھارے لئے نہیں ہے

ابن حجر نے کہا

ويحتمل أن يكون عثمان أشار إلى أن الأصل في اختياره – صلى اللَّه عليه وسلم – فسخ الحجّ إلى العمرة في حجة الوداع دفع اعتقاد قريش منع العمرة في أشهر الحجّ، وكان ابتداء ذلك بالحديبية؛ لأن إحرامهم بالعمرة كان في ذي القعدة، وهو من أشهر الحجّ، وهناك يصحّ إطلاق كونهم خائفين، أي من وقوع القتال بينهم وبين المشركين، وكان المشركون صدّوهم عن الوصول إلى البيت، فتحلّلوا من عمرتهم، وكانت أول عمرة وقعت في أشهر الحجّ، ثم جاءت عمرة القضيّة في ذي القعدة أيضًا، ثم أراد – صلى اللَّه عليه وسلم – تأكيد ذلك بالمبالغة فيه، حتى أمرهم بفسخ الحجّ إلى العمرة

اور احتمال ہے کہ عثمان کا اشارہ ہے جو اصل میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے اختیار کیا کہ حج کو عمرہ سے بدلا حجه الوداع میں قریش کے عقیدہ کو دفع کرنے کہ حج کے ماہ میں عمرہ منع ہے اور اس کی شروعات حدیبیہ میں ہوئی جب عمرہ کا احرام باندھا جو ذیقعدہ میں تھا جو حج کا مہینہ ہے اور اس پر خوف کا اطلاق صحیح ہے کہ ان میں اور مشرکین میں قتال ہو سکتا تھا اور مشرکین نے راستہ روکا تو اس کو عمرہ سے بدلا اور پہلا عمرہ حج کے مہینوں میں ہوا پھر عمرہ قضیہ ہوا جو ذیقعدہ میں ہوا

عثمان رضی الله عنہ کے نزدیک ایسا کرنا علت کی بنا پر  تھا  لہذا یہ خصوص تھا کہ میقات میں ایام حج میں عمرہ کی نیت سے داخل ہوں اور علی رضی الله عنہ نے اس کو عموم سمجھا

عثمان کی طرح ابو ذر رضی الله عنہ بھی اس کو حکم خصوصی کہتے تھے جو صرف اصحاب النبی کے لئے ہے

أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: «كَانَتْ الْمُتْعَةُ لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً

مصری پروپیگنڈا : عثمان حدیث چھپاتا ہے

سنن دارمی ۔ جلد دوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 275

ایک دن اور رات کے لئے پہرہ دینے کی فضیلت۔

راوی:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ عُثْمَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ إِنِّي كُنْتُ كَتَمْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرَاهِيَةَ تَفَرُّقِكُمْ عَنِّي ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ لِيَخْتَارَ امْرُؤٌ لِنَفْسِهِ مَا بَدَا لَهُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنْ الْمَنَازِلِ

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منبر پر یہ بات بیان کی میں نے تم سے ایک حدیث چھپائی تھی جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زبانی سنی تھی کیونکہ مجھے یہ اندیشہ تھا کہ تم لوگ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ گے لیکن پھر میں نے سوچاکہ مجھے وہ تمہارے سامنے بیان کردینا چاہیے تاکہ ہر شخص اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کرسکے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے “اللہ کی راہ میں ایک دن کے لئے پہرہ دینا دیگر مقامات پر ایک ہزار بسر کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔

مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 440

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مرویات

حَدَّثَنَا هَاشِمٌ حَدَّثَنَا لَيْثٌ حَدَّثَنِي زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ الْقُرَشِيُّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي كَتَمْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرَاهِيَةَ تَفَرُّقِكُمْ عَنِّي ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ لِيَخْتَارَ امْرُؤٌ لِنَفْسِهِ مَا بَدَا لَهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنْ الْمَنَازِلِ

ابوصالح جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو منبر پر دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگو! میں نے اب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے بیان نہیں کی تاکہ تم لوگ مجھ سے جدا نہ ہو جاؤ لیکن اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم سے بیان کردوں تاکہ ہر آدمی جو مناسب سمجھے، اسے اختیار کر لے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے راستہ میں ایک دن کی پہرہ داری، دوسری جگہوں پر ہزار دن کی پہرہ داری سے بھی افضل ہے۔

اس کی سند میں أبو صالح مولى عثمان بن عفان – مجہول ہے مصر کا تھا – اس سے أَبُو عقيل زهرة بن معبد القرشي المِصْرِي نے یہ روایت لی ہے

متن منکر ہے

محصور عثمان

الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: آخِرُ خرجةٍ خَرَجَهَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى الْمِنْبَرِ حَصَبَهُ النَّاسُ، فَحِيلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الصَّلاةِ، فَصَلَّى لِلنَّاسِ يومئذٍ أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ.

عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ کہتے ہیں کہ آخری بار جب عثمان نکلے تھے تو جمعہ کا دن تھا پس جب منبر پر آئے تو لوگوں نے گھیر لیا پس وہ ان کے اور نماز کے بیچ حائل ہوئے اور اس دن لوگوں نے أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنہ  کے پیچھے نماز پڑھی

مسند احمد کی روایت أبي إمَامَة بن سَهْل سے مروی  ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَعَفَّانُ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى  بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، قَالَ:   كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ يَتَوَعَّدُونِني بِالْقَتْلِ، قُلْنَا: يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: وَلِمَ يَقْتُلُونَنِي؟! سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ: رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلاَمِهِ أَوْ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ أَوْ قَتَلَ نَفْسًا فَيُقْتَلُ بِهَا، فَوَاللَّهِ مَا أَحْبَبْتُ [أَنَّ لِي] بِدِينِي [بَدَلاً]   مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ، وَلاَ زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلاَ إِسْلاَمٍ قَطُّ وَلاَ قَتَلْتُ نَفْسًا، فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي

ہم عثمان کے ساتھ تھے اور وہ محصور تھے گھر میں پس عثمان نے کہا انہوں نے مجھے قتل کی دھمکی دی ہے- ہم نے کہا الله اپ کے لئے کافی ہے امیر المومنین- عثمان نے کہا یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاھتے ہیں؟ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک مسلم کا خون حلال نہیں سوائے تین کے – ایک شخص کفر اختیار کرے اسلام قبول کرنے کے بعد یا زنا کرے شادی کے بعد یا نفس کا قتل کرے پس اس کو قتل کیا جائے الله کی قسم جب سے الله نے ہدایت دی ہے مجھ کو دین بدلنا پسند نہیں اور نہ میں جاہلیت میں زنا کیا، نہ اسلام میں کبھی،  نہ قتل نفس کیا تو یہ مجھے کیوں قتل کریں گے

 محقق  احمد شاکر اور شعیب اس کو صحیح کہتے ہیں

اس دوران نماز میں امام عبد الرحمان بن عدیس تھا  اور عید کی نماز میں امام علی رضی الله عنہ  تھے یہ دونوں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں

صحیح بخاری کی روایت ہے

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَقَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، – وَهُوَ مَحْصُورٌ – فَقَالَ: إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ، وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى، وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ، وَنَتَحَرَّجُ؟

عبید الله بن عدی،  عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور وہ محصور تھے ان سے کہا کہ آپ امام ہیں لیکن ہم کو امام الفتنہ نماز پڑھا رہا ہے اور ہم کراہت کر رہے ہیں

اس روایت میں امام الفتنہ سے مراد عبد الرحمن بن عدیس البلوی ہے

ابن شبہ اپنی کتاب، تاریخ المدینہ، ج ۴، ص ۱۱۵٦، میں روایت ہے

فَطَلَعَ ابْنُ عُدَيْسٍ مِنْبَرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَخَطَبَ النَّاسَ وَصَلَّى لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ الْجُمُعَةَ، وَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ: أَلَا إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَنِي أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ كَذَا وَكَذَا» ، وَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَكْرَهُ ذِكْرَهَا

ابن عدیس منبر رسول پر چڑھا اور خطاب کیا، اور لوگوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی، اور خطبے میں کہا کہ آگاہ ہو جاو، مجھے ابن مسعود نے کہا کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ عثمان بن عفان ایسے ایسے ہیں۔ راوی کہتا ہے ابن عدیس نے ایسا کلام کیا کہ جو بیان کرنے سے مجھے کراہت ہو رہی ہے

یہ بات جب عثمان رضی الله عنہ تک پہنچی توعثمان نے جواب دیا

كذب والله ابن عديس ما سمعها من ابن مسعود، ولا سمعها ابن مسعود من رسول الله قط

اللہ کی قسم! ابن عدیس نے جھوٹ بولا، نہ اس نے ابن مسعود سے کچھ سنا، نہ ابن مسعود نے (اس بارے میں) رسول اللہ سے

ایک روایت موضوعات ابن الجوزی میں ہے جس کے مطابق منبر پر ابن عدیس نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا

أَلا إِن عُثْمَان أضلّ من عَيْبَة على قفلها

خبردار بے شک عثمان گمراہ ہے اس کے بارے میں جس کے یہ عیب قفل پر کرتا ہے

یعنی تالا لگا کر عثمان رضی الله عنہ علی رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے تھے

الذھبی تلخیص الموضوعآت میں اس پر لکھتے ہیں

قد افتراه ابْن عديس

اس کو ابن عدیس نے افتری کیا ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَدِّي أَبُو أُمِّي أَبُو حَبِيبَةَ، أَنَّهُ دَخَلَ الدَّارَ وَعُثْمَانُ مَحْصُورٌ فِيهَا، وَأَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَسْتَأْذِنُ عُثْمَانَ فِي الْكَلَامِ، فَأَذِنَ لَهُ، فَقَامَ فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ” إِنَّكُمْ تَلْقَوْنَ بَعْدِي فِتْنَةً وَاخْتِلَافًا “، أَوْ قَالَ: ” اخْتِلَافًا وَفِتْنَةً “، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ مِنَ النَّاسِ: فَمَنْ لَنَا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ” عَلَيْكُمْ بِالْأَمِينِ وَأَصْحَابِهِ “، وَهُوَ يُشِيرُ إِلَى عُثْمَانَ بِذَلِكَ

رواه: الإمام أحمد، والحاكم في “مستدركه”، وقال “صحيح الإسناد

عثمان جب محصور تھے تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے عثمان رضی الله عنہ سے کلام کی اجازت مانگی – پس ان کو اجازت دی گئی ابو ہریرہ کھڑے ہوئے اور الله کی حمد کی اور تعریف کی پھر کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہا تم کو میرے بعد فتنہ و اختلاف ملے گا …. پس لوگوں میں سے کسی  نے کہا : پس ہم کیا کریں رسول الله  فرمایا تمھارے لئے امین ہے اس کے  اصحاب ہیں،  ان کا اشارہ عثمان کے لئے تھا

اس روایت کو بعض علماء صحیح کہتے ہیں جبکہ اس کی سند میں أَبُو حَبِيبَةَ  مجھول ہیں ان کی ثقاہت ابن حبان اور عجلی نے کی ہے  جو ان دونوں کا تساہل ہے – کوئی اور ان کی تعدیل نہیں کرتا

شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ)  کی روایت ہے

أنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ مُوسَى بْنِ مُجَاهِدٍ، قَالَ: نا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: نا خَلَفُ بْنُ تَمِيمٍ، قَالَ: نا عَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: نا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أن عليا أتى عثمان وهو محصور فأرسل إليه أني قد جئت لأنصرك فأرسل إليه بالسلام وقال: لا حاجة لي فأخذ علي عمامته من رأسه فألقاها في الدار التي فيها عثمان وهو يقول ذلك ليعلم أني لم أخنه بالغيب.

ميمون بن مهران کی ابن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ علی رضی الله عنہ عثمان رضی الله عنہ کے پاس آئے اور وہ محصور تھے پس انہوں نے کسی کو  عثمان رضی الله عنہ کے پاس بھیجا کہ میں آیا ہوں تمہاری مدد کے لئے تو عثمان نے ان کو سلام کہا اور کہا مجھ  تیری حاجت نہیں- پس علی نے اپنا عمامہ جو سر پر تھا اس کو دار عثمان پر پھینکا اور کہا یہ اس لئے کہ {«ذَلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ» } [يوسف: 52]  تو جان لے کہ میں چھپ کر خیانت نہیں کر رہا

 امام احمد کہتے ہیں وجعفر بن برقان، ثقة، ضابط لحديث ميمون جعفر بن برقان، مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ سے روایت کرنے میں ثقہ ضابط ہیں

مسند احمد کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ:  حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الشَّرِيدِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ فَقَالَ: ” إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ [ص:91] أَكُونَ وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرَرٍ مُتَقَابِلِينَ} [الحجر: 47]

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الشَّرِيد کہتے ہیں میں نے علی کو کہتے سنا  وہ خطبہ دے رہے تھے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ میں اور عثمان وہ ہیں جن پر الله کا قول ہے  وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرَرٍ مُتَقَابِلِينَ

كتاب الفتن از أبو عبد الله نعيم بن حماد بن معاوية بن الحارث الخزاعي المروزي (المتوفى: 228هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا وَعُثْمَانُ مِمَّنْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرَرٍ مُتَقَابِلِينَ} [الحجر: 47]

علی کہتے کہ میں امید کرتا ہوں میں اور عثمان ہی وہ ہیں جن کے لئے قرآن میں ہے  کہ ہم ان کے دلوں کی کدورت دور کر دیں گے

یعنی عثمان اور علی رضی الله عنہما میں اختلافات شدید تھے آخری وقت میں عثمان رضی الله عنہ نے علی رضی الله عنہ سے ملاقات تک کو پسند نہ کیا اور علی کو یہ گمان تھا کہ عثمان شاید یہ سمجھتے ہیں کہ  علی  درپردہ خیانت کر رہے ہیں

ظاہر ہے جب علی کی آفر کو عثمان رضی الله عنہ نے رد کر دیا تو وہاں الدار پر چوکیداری ال علی میں کوئی نہیں کر رہا تھا –

ابن کثیر البداية والنهاية میں لکھتے ہیں

فروى الواقدي عن موسى بن محمد بن إبراهيم بن الحارث التميمي عن أبيه أن عمر…. كان عثمان بن عفان يكرم الحسن والحسين ويحبهما وقد كان الحسن بن علي يوم الدار وعثمان بن عفان محصور عنده ومعه السيف متقلداً به يحاجف عن عثمان

واقدی کی موسى بن محمد بن إبراهيم بن الحارث التميمي سے ان کی باپ سے ان کی عمر سے روایت ہے کہ عثمان رضی الله عنہ کے گھر پر حسن و حسین رضی الله عنہما تلوار لٹکائے تھے ان  کی چوکیداری کے لئے

اس کی سند میں واقدی کذاب ہے – موسى بن محمد بن أبراهيم بن الحارث القرشي، التيمي کو امام احمد ضعیف کہتے ہیں – امام بخاری کہتے ہیں یہ منکر روایات بیان کرتا ہے – أبو أحمد الحاكم  اس کو منكر الحديث کہتے ہیں – عقیلی کہتے ہیں امام بخاری اس کو  منكر الحديث کہتے ہیں  – يحيى بن معين اس کو ضعیف اور دارقطنی متروک کہتے ہیں

کتاب المجالسة وجواهر العلم  ازأبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) کی روایت ہے جس کو محقق   أبو عبيدة مشهور بن حسن آل سلمان صحیح کہتے ہیں

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيِّ، نَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ الصَّفَّارُ، نَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنِ زِيَادٍ، نَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: [ص:161] أَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَوْمًا الدَّارَ، فَقُلْتُ: جِئْتُ أُقَاتِلُ مَعَكَ، قَالَ: أَيَسُرُّكَ أَنْ تَقْتُلَ النَّاسَ كُلَّهُمْ؟ قُلْتُ: لَا. قَالَ: فَإِنَّكَ إِنْ قَتَلْتَ نَفْسًا وَاحِدَةً كَأَنَّكَ قَتَلْتَ النَّاسَ كُلَّهُمْ. فَقَالَ: انْصَرِفْ مَأْذُونًا غَيْرَ مَأْزُورٍ. قَالَ: ثُمَّ جَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ، فقال: جئت يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُقَاتِلُ مَعَكَ، فَأْمُرْنِي بِأَمْرِكَ. فَالْتَفَتَ عُثْمَانُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: انْصَرِفْ مَأْذُونًا لَكَ، مَأْجُورًا غَيْرَ مَأْزُورٍ، جَزَاكُمُ اللهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ خَيْرًا

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حسن رضی الله عنہ ، عثمان رضی الله عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ میں اپ کے ساتھ لڑوں گا لیکن عثمان نے ان کو چلے جانے کا حکم دیا اور جزا کی دعا کی

عثمان کی حفاظت ان کے چند پہرے دار کر رہے تھے لہذا صدردروازے سے کوئی داخل نہیں ہوا بلوائی ایک پڑوسی کے گھر سے اندر کودے اور عثمان رضی الله عنہ تک  جا پہنچے ان میں علی رضی الله عنہ کے لے پالک اور ابو بکر رضی الله عنہ کے صلبی بیٹے محمد بن ابی بکر سر فہرست تھے

الذھبی لکھتے عمرو بن حزم رضی الله عنہ کے گھر کے راستے سے عثمان پر بلوائی داخل ہوئے

فجاء محمد بن أبي بكر في ثلاثة عشر رجلا، فدخل حتى انتهى إلى عثمان، فأخذ بلحيته، فقال بها حتى سمعت وقع أضراسه، فقال: ما أغنى عنك معاوية، ما أغنى عنك ابن عامر، ما أغنت عنك كتبك. فقال: أرسل لحيتي يا ابن أخي

پس محمد بن ابی بکر تیس آدمیوں کے ساتھ آیا اور گھر میں داخل ہوا حتی کہ عثمان تک جا پہنچا اور ان کو داڑھی سے پکڑا اور کہا  تجھ کو معاوية نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، تجھ کو بنی عامر نے فائدہ نہیں پہنچایا، تجھ کو تیری تحریر نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، عثمان نے کہا اے بھائی کے بیٹے میری داڑھی چھوڑ دے

اسی بلوہ میں عثمان رضی الله عنہ شہید ہو گئے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَيْسٌ، عَنْ أَبِي سَهْلَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” ادْعُوا لِي بَعضَ أَصْحَابِي “، قُلْتُ: أَبُو بَكْرٍ؟ قَالَ: ” لَا “. قُلْتُ: عُمَرُ؟ قَالَ: ” لَا “. قُلْتُ: ابْنُ عَمِّكَ عَلِيٌّ؟ قَالَ: ” لَا “. قَالَتْ: قُلْتُ: عُثْمَانُ؟ قَالَ: ” نَعَمْ “، فَلَمَّا جَاءَ، قَالَ: ” تَنَحَّيْ “. فَجَعَلَ يُسَارُّهُ، وَلَوْنُ عُثْمَانَ يَتَغَيَّرُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الدَّارِ وَحُصِرَ فِيهَا، قُلْنَا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلَا تُقَاتِلُ؟ قَالَ: ” لَا، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، وَإِنِّي صَابِرٌ نَفْسِي عَلَيْهِ

وأخرجه الترمذي (3711) عن سفيان بن وكيع، عن أبيه، ويحمل بن سعيد القطان، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس بن أبي حازم، عن أبي سهلة، قال: قال عثمان يوم الدار: إن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قد عهد إليَّ عهدا فأنا صابر عليه. قال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح، لا نعرفه إلا من حديث إسماعيل بن أبي خالد.

ابو سہلہ رحمہ اللہ(سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا :میرے پاس میرے کسی صحابی کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا : ابو بکر کو بلائیں؟فرمایا : نہیں۔عرض کیا : عمر کو؟ فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : آپ کے چچا زاد علی کو؟ فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : عثمان کو؟ فرمایا : ہاں۔ جب  عثمان رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک طرف ہونے کا کہا اور رازدارانہ انداز میں کچھ فرمانے لگے، اس بات کو سنتے ہوئے   عثمان رضی اللہ عنہ کا رنگ تبدیل ہو رہا تھا۔ ابو سہلہ کہتے ہیں : جب   عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن آیا اور آپ کا محاصرہ کر لیا گیا تو ہم نے عرض کیا : امیر المومنین! کیا آپ باغیوں سے قتال نہیں کریں گے؟ فرمانے لگے : نہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (شہادت کا)وعدہ دیا تھا، میں اسی پر اپنے آپ کو پابند رکھوں گا۔

سند میں قیس بن ابی حازم ہے جو مختلط تھا اور جنگ جمل کے حوالے سے اس کی روایات قابل اعتماد  نہیں ہیں یہی راوی حواب کے کتوں والی روایت بھی بیان کرتا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَيْنَا رَسُولَ اللهِ (1) صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَقْبَلَتْ إِحْدَانَا عَلَى الْأُخْرَى، فَكَانَ مِنْ آخِرِ كَلَامٍ كَلَّمَهُ، أَنْ ضَرَبَ مَنْكِبَهُ (2) ، وَقَالَ: ” يَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي، يَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللهَ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي ” ثَلَاثًا، فَقُلْتُ لَهَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَيْنَ كَانَ هَذَا عَنْكِ؟ قَالَتْ: نَسِيتُهُ، وَاللهِ فَمَا ذَكَرْتُهُ. قَالَ: فَأَخْبَرْتُهُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، فَلَمْ يَرْضَ بِالَّذِي أَخْبَرْتُهُ حَتَّى كَتَبَ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ اكْتُبِي إِلَيَّ بِهِ، فَكَتَبَتْ إِلَيْهِ بِهِ كِتَابًا

مسند احمد

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا۔(جب وہ حاضر ہوئے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ ہم (ازواج)نے بھی یہ دیکھ کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلام تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ مار کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عثمان! اللہ تعالٰی آپ کو خلافت کی قمیص پہنائیں گے، اگر منافق آپ سے وہ قمیصِ خلافت چھیننا چاہیں تو آپ نے اسے اتارنا نہیں، یہاں تک مجھے آ ملو(شہید ہو جاؤ)۔پھر فرمایا : عثمان! اللہ تعالیٰ آپ کو خلعت ِ خلافت پہنائیں گے، اگر منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو آپ نے شہید ہونے تک اسے نہیں اتارنا۔یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی

شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں

إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح غير الوليد بن سليمان فقد روى له النسائي وابن ماجه وهو ثقة.

قتل کے بعد

فضائل الصحابة از امام احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ قثنا عَبْدُ الْمَلِكِ، يَعْنِي: ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ، وَعُثْمَانُ مَحْصُورٌ، قَالَ: فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَقْتُولٌ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَقْتُولٌ السَّاعَةَ، قَالَ: فَقَامَ عَلِيٌّ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَأَخَذْتُ بِوَسَطِهِ تَخَوُّفًا عَلَيْهِ، فَقَالَ: خَلِّ لَا أُمَّ لَكَ، قَالَ: فَأَتَى عَلِيٌّ الدَّارَ، وَقَدْ قُتِلَ الرَّجُلُ، فَأَتَى دَارَهُ فَدَخَلَهَا، وَأَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَهُ، فَأَتَاهُ النَّاسُ فَضَرَبُوا عَلَيْهِ الْبَابَ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ قُتِلَ وَلَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ خَلِيفَةٍ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَا مِنْكَ، فَقَالَ لَهُمْ عَلِيٌّ: ” لَا تُرِيدُونِي، فَإِنِّي لَكُمْ وَزِيرٌ خَيْرٌ مِنِّي لَكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ مَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَا مِنْكَ، قَالَ: فَإِنْ أَبَيْتُمْ عَلَيَّ فَإِنَّ بَيْعَتِي لَا تَكُونُ سِرًّا، وَلَكِنْ أَخْرُجُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَمَنْ شَاءَ أَنْ يُبَايِعَنِي بَايَعَنِي، قَالَ: فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَبَايَعَهُ النَّاسُ.

مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ کہتے ہیں کہ میں علی کے ساتھ تھا اور عثمان محصور تھے پس ایک شخص آیا اور کہا امیر المومنین کا قتل ہو گیا پھر دوسرا آیا اس نے کہا امیر المومنین کا ابھی قتل ہوا- پس علی اٹھے اور محمد کہتے ہیں میں نے ان کو تھام لیا … پس وہ عثمان کے گھر تک گئے وہاں ایک شخص  مقتول تھا پس وہ داخل ہوئے اور دروازہ (اندر سے) بند کر دیا پس لوگ آئے اور دروازہ کو پیٹنا  شروع کیا اور اندر داخل ہو گئے اور کہا یہ شخص تو قتل ہی ہو گیا اور اب (اےعلی) اپ کو ہی خلیفہ ہونا چاہیے اور ہم نہیں جانتے کہ اپ سے زیادہ کوئی حقدار ہو پس علی نے کہا تم کو میری ضرورت نہیں ہے امیر سے بہتر میں وزیر ہوں انہوں نے کہا الله کی قسم ہم اپ سے زیادہ حق دار کسی اور کو نہیں جانتے پس علی نے کہا اگر تم زور دیتے ہو تو میری بیعت چھپ کر نہیں مسجد میں ہو گی پس جو چاہے بیعت کرے پس مسجد میں آئے اور بیعت ہوئی

یہ روایت صحیح نہیں ہو سکتی- اس کے مطابق علی کو جب  قتل کی خبر ملی وہ عثمان کے گھر چلے گئے دروازہ اندر سے بند کر لیا – کیا قتل گاہ جا کر کوئی ایسا کرے گا ؟    سند میں سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ کٹر شیعہ ہے

امیر المومنین علی رضی الله عنہ کی بیعت کا ایک قصہ ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں ج ٧ ص ٢٢٦ میں  پیش کرتے ہیں جو واقدی کذاب  اور مجہولین کی سند سے ہے

وَقَالَ الْوَاقِدِيُّ: بَايَعَ النَّاسُ عَلِيًّا بِالْمَدِينَةِ، وَتَرَبَّصَ سَبْعَةُ نَفَرٍ لَمْ يُبَايِعُوا، مِنْهُمُ ابْنُ عُمَرَ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وصهيب، وزيد بن ثابت، ومحمد بن أبى مَسْلَمَةَ، وَسَلَمَةُ بْنُ سَلَامَةَ بْنِ وَقْشٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَلَمْ يَتَخَلَّفْ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِلَّا بَايَعَ فِيمَا نَعْلَمُ. وَذَكَرَ سَيْفُ بْنُ عُمَرَ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنْ شُيُوخِهِ قَالُوا: بَقِيَتِ المدينة خمسة أيام بعد مقتل عُثْمَانَ وَأَمِيرُهَا الْغَافِقِيُّ بْنُ حَرْبٍ، يَلْتَمِسُونَ مَنْ يُجِيبُهُمْ إِلَى الْقِيَامِ بِالْأَمْرِ. وَالْمِصْرِيُّونَ يُلِحُّونَ عَلَى عَلِيٍّ وَهُوَ يَهْرُبُ مِنْهُمْ إِلَى الْحِيطَانِ، وَيَطْلُبُ الْكُوفِيُّونَ الزَّبِيرَ فَلَا يَجِدُونَهُ، وَالْبَصْرِيُّونَ يَطْلُبُونَ طَلْحَةَ فَلَا يُجِيبُهُمْ، فَقَالُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ لَا نُوَلِّي أَحَدًا مِنْ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ، فَمَضَوْا إِلَى سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ فَقَالُوا: إِنَّكَ مِنْ أَهْلِ الشورى فلم يقبل منهم، ثم راحوا إِلَى ابْنِ عُمَرَ فَأَبَى عَلَيْهِمْ، فَحَارُوا فِي أَمْرِهِمْ، ثُمَّ قَالُوا: إِنْ نَحْنُ رَجَعْنَا إِلَى أَمْصَارِنَا بِقَتْلِ عُثْمَانَ مِنْ غَيْرِ إِمْرَةٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَمْرِهِمْ وَلَمْ نَسْلَمْ، فَرَجَعُوا إِلَى على فألحوا عليه، وأخذ الأشتر بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يَقُولُونَ: أَوَّلُ مَنْ بَايَعَهُ الْأَشْتَرُ النَّخَعِيُّ وَذَلِكَ يَوْمَ الْخَمِيسِ الرَّابِعُ وَالْعِشْرُونَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَذَلِكَ بَعْدَ مُرَاجَعَةِ النَّاسِ  َهُمْ فِي ذَلِكَ، وَكُلُّهُمْ يَقُولُ: لَا يَصْلُحُ لَهَا إِلَّا عَلِيٌّ، فَلَمَّا كان يوم الجمعة وصعد على الْمِنْبَرَ بَايَعَهُ مَنْ لَمْ يُبَايِعْهُ بِالْأَمْسِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ بَايَعَهُ طَلْحَةُ بِيَدِهِ الشَّلَّاءِ، فَقَالَ قَائِلٌ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ،    ثُمَّ الزُّبَيْرُ، ثُمَّ قَالَ الزُّبَيْرُ: إِنَّمَا بَايَعْتُ عَلِيًّا واللج على عنقي والسلام، ثم راح إلى مكة فأقام أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ، وَكَانَتْ هَذِهِ الْبَيْعَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ لخمسة بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ،

واقدی نے کہا کہ لوگوں نے علی کی بیعت مدینہ میں کی اور … سات لوگوں نے بیعت نہیں کی جن میں ابن عمر ہیں سعد بن ابی وقاص ہیں صہیب الرومی ہیں اور زید بن ثابت ہیں اور محمد بن ابی مسلمہ ہیں اور سلامہ بن وقش ہیں اور اسامہ بن زید ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ انصار میں سے کسی نے اس بیعت پر اختلاف کیا ہو اور سیف بن عمر نے ذکر کیا اپنے شیوخ کی ایک جماعت سے انہوں نے کہا عثمان کے قتل کے بعد پانچ دن تک الْغَافِقِيُّ بْنُ حَرْبٍ مدینہ پر امیر تھا – … مصری علی سے ملے اور علی ان سے فرار کر کے باغوں میں چلے گئے اور کوفی زبیر کو طلب کرتے تھے وہ ان کو نہ ملے اور بصری طلحہ کو انہوں نے بھی جواب نہ دیا  …. لوگ سعد کے پاس آئے کہ اپ اہل شوری میں سے ہیں لیکن انہوں نے قبول نہ کیا پھر ابن عمر کے پاس وہ ان سے دور ہوئے … سب سے پہلے کوفیوں میں سے ُ الْأَشْتَرُ النَّخَعِيّ نے علی کی بیعت کی…. پھر علی منبر پر گئے سب سے پہلے طَلْحَةُ جن کا ہاتھ شل تھا  نے بیعت کی

یہ روایت ہمارے مورخین ابن کثیر وغیرہ نے لکھی ہے جبکہ یہ جھوٹ کا درخت ہے- علی رضی الله عنہ  نہ تو کہیں چھپے تھے بلکہ وہ ان سب باغیوں کو عید کی نماز پڑھا چکے تھے

الأم از امام  الشافعي  المكي (المتوفى: 204هـ) کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ قَالَ: شَهِدْنَا الْعِيدَ مَعَ عَلِيٍّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – وَعُثْمَانُ مَحْصُورٌ.

ابْنِ أَزْهَرَ سے مراد عبد الرحمن بن أزهر الزهري، صحابي صغير، مات قبل الحرة. (التقريب ص 336) .

ابی عبید سعد بن عبيد الزهري، ثقة من الثانية، وقيل: له إدراك. (التقريب ص 231)

موطا کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ….فَقَالَ: ثُمَّ شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عَلِيٍّ، وَعُثْمَانُ مَحْصُورٌ فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَخَطَبَ

ابِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں ہم نے عید علی کے ساتھ دیکھی اور عثمان محصور تھے پس علی نے نماز پڑھائی پھر پلٹے اور خطبہ دیا

کتاب  تاريخ الإسلام از الذھبی کے مطابق

يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ: اسْتَعْمَلَ عُثْمَانُ عَلَى الْحَجِّ وَهُوَ مَحْصُورٌ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَلَمَّا صَدَرَ عَنِ الْمَوْسِمِ إِلَى الْمَدِينَةِ، بَلَغَهُ وَهُوَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ قَتْلُ عُثْمَانَ

یونس بن یزید نے کہا عثمان نے ابن عباس کو حج پر امیر مقرر کیا اور وہ محصور تھے … وہ رستے ہی میں تھے کہ قتل عثمان کی خبر ملی

 أنساب الأشراف کے مطابق

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيُّ:
عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، قَالَ: قُتِلَ عُثْمَانُ وَعَلِيٌّ بِأَرْضٍ لَهُ يُقَالُ لَهَا: الْبُغَيْبِغَةُ فَوْقَ الْمَدِينَةِ بِأَرْبَعَةِ فَرَاسِخَ، فَأَقْبَلَ عَلِيٌّ فَقَالَ لَهُ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ: لَتُنَصِّبَنَّ لَنَا نَفْسَكَ أَوْ لَنَبْدَأَنَّ بِكَ، فَنَصَّبَ لَهُمْ نَفْسَهُ فَبَايَعُوهُ.

جس روز عثمان کا قتل ہوا اس روز علی مدینہ سے چار فرسخ دور الْبُغَيْبِغَةُ میں تھے

طلحہ اور زبیر رضی الله عنہما  بھی اس وقت مدینہ میں نہیں تھے یہ دونوں مکہ میں تھے – اور ان کو شہادت عثمان رضی الله عنہ کی خبر رستے میں ملی اور مدینہ پہنچنے کی بجائے ان لوگوں نے اور قریشیوں کے ساتھ بصرہ کا رخ کیا-

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: صَلَّى الزُّبَيْرُ عَلَى عُثْمَانَ، وَدَفَنَهُ، وَكَانَ أَوْصَى إِلَيْهِ

قتادہ سے روایت ہے کہ  زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ نے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی تدفین کی۔

 شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں روایت منقطع ہے  قتادہ نے عثمان  کو نہیں پایا

 قتادة لم يدرك عثمان

 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: قَالَ أَبِي: حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ:أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ فِي أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ .
عثمان رضی الله عنہ کا قتل ایام تشریق کے وسط میں ہوا

مسند احمد کی اس  روایت  کو صحیح کہا گیا ہے

باغیوں  کا مطالبہ  یہ تھا کہ عثمان خلافت چھوڑ کر اس سے دور ہو جائیں لیکن عثمان رضی الله عنہ نے اس سے انکار کر دیا – باغی واپس جانے والے نہیں تھے حج بھی ختم ہو رہا تھا ان کا اضطراب بڑھ رہا تھا دوسری طرف یہ خبر حاجیوں کو مل گئی تھی کہ مدینہ میں کیا تماشہ ہو رہا ہے لہذا اصحاب رسول  جن میں اکثریت قریشیوں کی ہے انہوں نے ان مصری و یمننیوں کو  روکنے کا قصد کیا – ابھی راستہ میں ہی تھے کہ عثمان  کے قتل کی خبر ملی اور یہ  خبر بھی کہ علی نے باغیوں کی افر قبول کر لی ہے اور اب وہ امام بن گئے ہیں – یہ  خبر اس قبولیت عامہ کے خلاف تھی جس کے مطابق عوام کا میلان زبیر بن العوام رضی الله عنہ کی طرف تھا- لہذا یہ علی نے بد نیتی سے کیا یا وقت کی کروٹ نے ان کو خلیفہ کیا واضح نہیں تھا – اس گروہ نے بصرہ کا رخ کیا اور یہ لشکر مدینہ نہیں گیا – علی کو اس لشکر کی خبر ہوئی ان کے نزدیک صورت حال تیزی سے بدل رہی تھی لھذا انہوں نے حسن رضی الله عنہ کو بھیجا کہ وہ اشتعال پھیلنے سے روک دیں لیکن اب پانی سر سے اوپر جا چکا تھا- دونوں گروہوں میں اختلاف شدید تھا یہاں تک کہ ابن عمر رضی الله عنہ نے  جو  مدینہ میں ہی تھے  علی رضی الله عنہ کی بیعت سے انکار کر دیا

اب اس تمام صورت الحال میں دونوں گروہ اصحاب رسول کے ہیں – ان کو الله آزما چکا ہے لہذا ان پرمنفی کلام ممنوع ہے

ان روایات کو اس بلاگ میں اس لئے جمع کیا گیا تاکہ جو ہوا اور جیسے ہوا اس کو سمجھا جائے اس کا مقصد نہ علی رضی الله عنہ  کی حمایت ہے نہ عثمان  رضی الله عنہ کی بلکہ امت فرقوں میں میں کیسے بٹی  اس کی تفصیل ہے

مزید دیکھئے

⇑  کیا جنگ جمل میں اصحاب رسول نے شرکت نہیں کی ؟

https://www.islamic-belief.net/q-a/%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae/

تدفین پر ابہام

ابن جوزی نے اپنی کتاب تلقيح فهوم أهل الأثر میں لکھا کیا

 وَكَانَ يَوْمئِذٍ صَائِما وَدفن لَيْلَة السبت بِالبَقِيعِ فِي حش كَوْكَب والحش الْبُسْتَان وكوكب رجل من الْأَنْصَار وأخفي قَبره وَفِي سنه ثَلَاثَة أَقْوَال أَحدهَا تسعون وَالثَّانِي ثَمَان وَثَمَانُونَ وَالثَّالِث اثْنَان وَثَمَانُونَ وَقيل لم يبلغ الثَّمَانِينَ وَقَالَ عُرْوَة مكث عُثْمَان فِي حش كَوْكَب مطروحا ثَلَاثًا لَا يُصَلِّي عَلَيْهِ حَتَّى هتف بهم هَاتِف ادفنوه وَلَا تصلوا عَلَيْهِ فَإِن الله قد صلى عَلَيْهِ وَاخْتلفُوا فِيمَن صلى عَلَيْهِ فَقيل الزبير وَقيل حَكِيم بن حزَام وَقيل جُبَير بن مطعم

http://shamela.ws/browse.php/book-6700#page-71

اور قتل کے دن عثمان رضی الله عنہ روزے سے تھے اور ہفتہ کی رات میں بقیع  میں حش کوکب میں دفن ہوئے انصار کی جانب سے اور ان کی قبر کو تین سال مخفی رکھا گیا اور ایک قول ہے ٩١ ہجری تک اور دوسرا ہے سن ٨٨ ہجری تک اور تیسرا ہے سن ٨٠ ہجری تک اور عروه نے کہا تین دن تک عثمان کی لاشحش کوکب میں کھلی پڑی رہی یہاں تک کہ ہاتف غیبی نے آواز دی کہ اس کو دفن کرو اور اس پر نماز مت پڑھو کیونکہ اس پر سلامتی من جانب  الله تعالی  ہے اور اس میں اختلاف ہے کہ کس نے نماز جنازہ پڑھائی زبیر نے یا حکیم بن حزام نے یا جبیر نے

طبرانی اور دیگر اہلسنت بھی کچھ ایسا ہی روایت کرتے ہیں

حدثنا عَمْرُو بن أبي الطَّاهِرِ بن السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ ثنا عبد الرحمن بن عبد اللَّهِ بن عبد الْحَكَمِ ثنا عبد الْمَلِكِ الْمَاجِشُونُ قال سمعت مَالِكًا يقول قُتِلَ عُثْمَانُ رضي اللَّهُ عنه فَأَقَامَ مَطْرُوحًا على كُنَاسَةِ بني فُلانٍ ثَلاثًا فَأَتَاهُ اثْنَا عَشَرَ رَجُلا فِيهِمْ جَدِّي مَالِكُ بن أبي عَامِرٍ وَحُوَيْطِبُ بن عبد الْعُزَّى وَحَكِيمُ بن حِزَامٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن الزُّبَيْرِ وَعَائِشَةُ بنتُ عُثْمَانَ مَعَهُمْ مِصْبَاحٌ في حِقٍّ فَحَمَلُوهُ على بَابٍ وَإِنَّ رَأْسَهُ يقول على الْبَابِ طَقْ طَقْ حتى أَتَوْا بِهِ الْبَقِيعَ فَاخْتَلَفُوا في الصَّلاةِ عليه فَصَلَّى عليه حَكِيمُ بن حِزَامٍ أو حُوَيْطِبُ بن عبد الْعُزَّى شَكَّ عبد الرحمن ثُمَّ أَرَادُوا دَفْنَهُ فَقَامَ رَجُلٌ من بني مَازِنٍ فقال وَاللَّهِ لَئِنْ دَفَنْتُمُوهُ مع الْمُسْلِمِينَ لأُخْبِرَنَّ الناس فَحَمَلُوهُ حتى أَتَوْا بِهِ إلى حَشِّ كَوْكَبٍ فلما دَلُّوهُ في قَبْرِهِ صَاحَتْ عَائِشَةُ بنتُ عُثْمَانَ فقال لها بن الزُّبَيْرِ أسكتي فَوَاللَّهِ لَئِنْ عُدْتِ لأَضْرِبَنَّ الذي فيه عَيْنَاكِ فلما دَفَنُوهُ وَسَوَّوْا عليه التُّرَابَ قال لها بن الزُّبَيْرِ صِيحِي ما بَدَا لَكِ أَنْ تَصِيحِي قال مَالِكٌ وكان عُثْمَانُ بن عَفَّانَ رضي اللَّهُ عنه قبل ذلك يَمُرُّ بِحُشٍّ كَوْكَبٍ فيقول لَيُدْفَنَنَّ ها هنا رَجُلٌ صَالِحٌ.

عبد الْمَلِكِ الْمَاجِشُونُ نے کہا کہ امام مالک نے کہا قتل عثمان کے بعد ان کو کھلا چھوڑ دیا بنی فلاں کے کناسہ میں تین دن پھر بارہ مرد گئے جن میں مالک بن ابی آمر اور حُوَيْطِبُ بن عبد الْعُزَّى وَحَكِيمُ بن حِزَامٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن الزُّبَيْرِ وَعَائِشَةُ بنتُ عُثْمَانَ  تھے

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاى360هـ)، المعجم الكبير، ج 1، ص78، ح109، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء – الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ – 1983م.
التميمي، أبو العرب محمد بن أحمد بن تميم بن تمام (متوفاى333هـ )، المحن، ج 1، ص87، تحقيق : د عمر سليمان العقيلي، ناشر : دار العلوم – الرياض – السعودية، الطبعة : الأولى، 1404هـ – 1984م؛
الأصبهاني، ابو نعيم أحمد بن عبد الله (متوفاى430هـ)، معرفة الصحابة، ج 1، ص68، طبق برنامه الجامع الكبير.
ابن عبد البر النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفاى 463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3، ص1047، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 19، ص225، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير، ج 2، ص145، تحقيق السيد عبدالله هاشم اليماني المدني، ناشر: – المدينة المنورة – 1384هـ – 1964م.

هيثمى نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَقَالَ: الْحُشُّ: الْبُسْتَانُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ

 راقم کہتا ہے یہ قول صحیح نہیں ہے  کیونکہ زبیر رضی الله عنہ اس وقت مدینہ میں نہیں مکہ میں تھے اور ممکن ہے کہ بلوائیوں کی جانب سے ایسا کیا گیا ہو لیکن یہ صحیح سند سے نہیں آیا جس کو متصل سمجھا جائے

امام طبری اپنی کتاب تاریخ طبری میں بھی لکھتے ہیں کہ

ذكر الخبر عن الموضع الَّذِي دفن فِيهِ عُثْمَان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ومن صلى عَلَيْهِ وولي أمره بعد مَا قتل إِلَى أن فرغ من أمره ودفنه

حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عبد الله المحمدي، قال: حدثنا عمرو بن حماد وعلى ابن حُسَيْن، قَالا: حَدَّثَنَا حُسَيْن بن عِيسَى، عَنْ أبيه، عن أبي ميمونة، عن أبي بشير العابدي، قَالَ: نبذ عُثْمَان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثلاثة أيام لا يدفن، ثُمَّ إن حكيم بن حزام القرشي ثُمَّ أحد بني أسد بن عبد العزى، وجبير بن مطعم بن عدي بن نوفل بن عبد مناف، كلما عَلِيًّا فِي دفنه، وطلبا إِلَيْهِ أن يأذن لأهله فِي ذَلِكَ، ففعل، وأذن لَهُمْ علي، فلما سمع بِذَلِكَ قعدوا لَهُ فِي الطريق بالحجارة، وخرج بِهِ ناس يسير من أهله، وهم يريدون بِهِ حائطا بِالْمَدِينَةِ، يقال لَهُ: حش كوكب، كَانَتِ اليهود تدفن فِيهِ موتاهم، فلما خرج بِهِ عَلَى الناس رجموا سريره، وهموا بطرحه، فبلغ ذَلِكَ عَلِيًّا، فأرسل إِلَيْهِم يعزم عَلَيْهِم ليكفن عنه، ففعلوا، فانطلق حَتَّى دفن رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حش كوكب، فلما ظهر مُعَاوِيَة بن أَبِي سُفْيَانَ عَلَى الناس أمر بهدم ذَلِكَ الحائط حَتَّى أفضى بِهِ إِلَى البقيع، فأمر الناس أن يدفنوا موتاهم حول قبره حَتَّى اتصل ذَلِكَ بمقابر الْمُسْلِمِينَ.

أبي بشير العابدي نے کہا عثمان تین دن تک دفن نہ ہوئے پھر حکیم بن حزام نے اور نبی اسد میں سے کوئی اور جبیر بن معطم نے علی سے تدفین پر کلام کیا اور ان سے اجازت لی کہ صرف ان کے گھر والے ہی ان کو دفن کریں پس ایسا کیا گیا اور علی نے جازت دی پس اس پر راستہ میں پتھر ڈالے گئے اور بہت تھوڑے گھر والوں میں سے نکلے اور انہوں نے مدینہ کا ایک باغ لیا جس کو حش کوکب کہا جاتا تھا اس میں یہودی اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے پس جب یہ لوگ نکلے تو لوگوں نے عثمان کے جنازہ پر پتھر برسائے اور اس کی خبر علی کو دی گئی پس انہوں نے لوگ بھیجے جنہوں نے عثمان کو کفن دیا اور پھر یہ لوگ حش کوکب تک پہنچے  تو وہاں دفن ہوئے پس جب معاویہ خلیفہ ہوئے انہوں نے اس قبر کو منہدم کیا  عثمان کو بقیع منتقل کیا  جو مسلمانوں کا مقابر تھا

سند میں أبو ميمونة اور أبي بشير العابدي دونوں   مجہول ہیں

عمرو بن العاص کی وصیت پر تیسری نظر

فرقہ اہل حدیث جن  کا دعوی ہے کہ وہ  کتب  احادیث کو جانتے ہیں – ان کی علمی سطحیت کا عالم یہ ہوا ہے کہ عصر حاضر کے ان کے چند   محققین کی جانب سے  ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے خلاف باطل پروپیگنڈا  جاری ہے کہ  ڈاکٹر مرحوم نے  صحیح مسلم کی روایت میں مطلب براری کے لئے اس کا متن تبدیل کیا اور روایت  کے وہ الفاظ نقل کیے جو درحقیقت اس کے نہیں – اس سلسلے میں ان کو جو ” ناریل”  ہاتھ لگا ہے وہ یہ ہے کہ عثمانی صاحب نے  عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وہ روایت جس میں ان کی جان کنی کے عالم کا ذکر ہے – اس میں الفاظ کو تبدیل کیا لہذا کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے  سیاقتہ الموت کو سیاق الموت  اور تنحر کو ینحر کر دیا تاکہ اپنا مدعا ثابت کر سکیں

سیاقتہ الموت یا  سیاق الموت

یہ الفاظ کتاب مشكاة المصابيح از محمد بن عبد الله الخطيب العمري، أبو عبد الله، ولي الدين، التبريزي (المتوفى: 741هـ) میں ہیں

وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ لِابْنِهِ وَهُوَ فِي سِيَاقِ الْمَوْتِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي. رَوَاهُ مُسلم

احادیث کی تخریج کی کتاب جامع الأصول في أحاديث الرسول از مجد الدين أبو السعادات المبارك بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الكريم الشيباني الجزري ابن الأثير (المتوفى : 606هـ) میں ہے کہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں
–عبد الرحمن بن شماسة المهدي – رحمه الله -: قال: «حضرنا عمرو بن العاص [وهو] في سِياقِ الموت، فبكى طويلاً، وحول وجهه إلى الجدار
ابن اثیر کے مطابق بھی صحیح مسلم میں الفاظ ہیں سیاق الموت

کتاب جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد از محمد بن محمد بن سليمان بن الفاسي بن طاهر السوسي الردواني المغربي المالكي (المتوفى: 1094هـ) کے مطابق صحیح مسلم کی اس حدیث کے الفاظ ہیں
عبد الله بن شماسة المهري: حضرنا عمرو بن العاص وهو في سياق الموت فبكى طويلًا وحوَّل وجهه إلى الجدار فجعل ابنه يقول: ما يبكيك يا أبتاه؟ أما بشرك

معلوم ہوا کہ ہے قدیم نسخوں سیاقه الموت کی بجائے سیاق الموت بھی لکھا تھا

سیاق الموت یا سیاقه الموت میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے

شرح صحیح مسلم از النووی میں ہے
وَأَمَّا أَلْفَاظُ مَتْنِهِ فَقَوْلُهُ (فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ) هُوَ بِكَسْرِ السين أى حال حضور الموت
اور متن کے الفاظ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ … یعنی موت کے حاضر ہونے کے حال پر تھے

مبارکپوری اہل حدیث کتاب مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں
يقال: ساق المريض نفسه وسيق إذا شرع في نزع الروح.
یہ نزع الروح کا وقت ہے

یہی مفہوم عربی لغت میں لکھا ہے جس کا ذکر الدكتور موسى شاهين لاشين کتاب فتح المنعم شرح صحيح مسلم میں کرتے ہیں
وفي القاموس: ساق المريض شرع في نزع الروح.

محمد الأمين بن عبد الله الأُرَمي العَلَوي الهَرَري الشافعي کتاب الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم میں کہتے ہیں
أن عمرًا (في سياقة الموت) أي في سكرة الموت وحضور مقدماته
عمرو سیاق الموت میں تھے یعنی سکرات الموت میں تھے اس کے مقدمات کی حاضری پر

اس حال میں زبان صحابی سے جو کلام ادا ہوا اس کو علماء نے بدعت قرار دیا ہے جس میں محمد بن صالح العثيمين بھی ہیں
خواجہ محمد قاسم کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں عمرو بن العاص کا خیال صحیح نہیں تھا

تنحر یا ینحر

شرح السنة   از  البغوي الشافعي (المتوفى: 516هـ)  میں اس روایت میں ہے

وَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ، وَهُوَ يَبْكِي: أَنَا مِتُّ فَلا يَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي، فَسُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ سَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي

یہاں بھی  يُنْحَرُ ہے

ایمان ابن  مندہ المتوفي ٣٩٥ ھ میں ہے

أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى الزُّجَاجُ، ح، وَأَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، ثَنَا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ، قَالَ: حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ فَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْحَائِطِ يَبْكِي طَوِيلًا وَابْنُهُ يَقُول….. فَإِذَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ، وَلَا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، فَإِذَا فَرَغْتُمْ مِنْ دَفْنِي، فَامْكُثُوا حَوْلِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا فَإِنِّي آنَسُ بِكُمْ حَتَّى أَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي

ابن مندہ کے مطابق متن میں یہاں    يُنْحَرُ ہے

التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبيراز أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) میں ہے

وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ لَهُمْ فِي حَدِيثٍ عِنْدَ مَوْتِهِ “إذَا دَفَنْتُمُونِي أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٍ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ رُسُلَ رَبِّي”

اور صحیح مسلم میں ہے کہ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے اپنی موت کے وقت ان سے کہا … “إذَا دَفَنْتُمُونِي أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٍ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ رُسُلَ رَبِّي”

یہاں بھی  يُنْحَرُ ہے

البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير از  ابن الملقن   الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) کے مطابق

وَمِنْهَا: حَدِيث عَمْرو بن الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه أَنه قَالَ: «إِذا دفنتموني فسنوا عَلّي التُّرَاب سنّا، ثمَّ أقِيمُوا حول قَبْرِي قدر مَا ينْحَر جزور وَيقسم لَحمهَا؛ حَتَّى أستأنس بكم، وَأعلم مَاذَا أراجع رسل رَبِّي» . رَوَاهُ مُسلم فِي «صَحِيحه» فِي كتاب الْإِيمَان، وَهُوَ بعض من حَدِيث طَوِيل.

حَدِيث عَمْرو بن الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه  میں ينْحَر ہے  جس کو امام مسلم نے صحیح میں روایت کیا ہے

ڈاکٹر عثمانی سے پہلے بھی لوگ اس روایت میں  سیاق الموت اور ینحر  کے الفاظ نقل کرتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں یہ صحیح مسلم کے ہیں

 معلوم ہوا فرقہ پرستوں کا پروپیگنڈا   بالکل باطل ہے کہ ڈاکٹر صاحب  نے الفاظ اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے تبدیل کیے

روایات کے الفاظ مختلف نسخوں میں الگ الگ ہوئے اس وجہ سے یہ اختلاف پیدا ہوا چونکہ صحیح مسلم کا وہ نسخہ جو برصغیر میں ہے  اس میں وہ الفاظ نہیں تھے جو اوپر دیے گئے ہیں  طاغوت پرستوں  نے عوام کے لئے شوشہ چھوڑا کہ یہ ڈاکٹر  نے اپنے مقصد حاصل کرنے کے لئے تبدیل کیے ہیں جبکہ  ان درس حدیث  دینے والوں کو تو خوب معلوم ہو گا کہ یہ تبدیلی کیوں اور کیسے ہوتی ہے – یہ حال ہوا ہے امت کے علماء کا

یاد رہے کہ الله کا حکم ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو  اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو  عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو

قرآن کی قسم ؟

صحيح بخاري ميں ہے

مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ
جو شخص قسم کھانا چاہے، اسے چاہيے کہ وہ اللہ کي قسم کھائے يا خاموش رہے

الله کے نبي صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ہے کہ

خبردار الله کے سوا کسي کي قسم نہ کھاؤ – (بخاري : کتاب مناقب الانصار ، باب:ايام الجاہليہ

جس نے الله کے سوا کسي اور کي قسم کھائي اس نے شرک کيا 

(ابو داؤد : کتاب ايمان و النذور ، باب:في کراہيتہ الحلف بالاباء)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب غیر ثابت اقوال

مصنف عبد الرزاق ح 15948 اور مصنف ابن ابی شیبہ ح 12228 میں اس کو مجاہد تابعی نے حدیث نبوی کہا ہے لیکن یہ ارسال قابل قبول نہیں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينُ صَبْرٍ، فَمَنْ شَاءَ بَرَّهُ، وَمَنْ شَاءَ فَجَرَهُ»

مجاہد نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت کی قسم کھائی اس پر اس کی ہر آیت کے بدلے قسم ہوئی

مجاہد صحابی نہیں ہیں لہذا یہاں سند میں انقطاع ہے

سنن الکبری البیہقی میں اس کو حسن بصری نے حدیث نبوی قرار دیا ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَرَدَسْتَانِيُّ، أنبأ أَبُو نَصْرٍ الْعِرَاقِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْوَلِيدِ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينُ صَبْرٍ، مَنْ شَاءَ بَرَّ، وَمَنْ شَاءَ فَجَرَ “

الإبانة الكبرى لابن بطة میں بھی حسن بصری کا قول ہے کہ یہ حدیث نبوی ہے
حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، وَعَوْنٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَبِكُلِّ آيَةٍ مِنْهَا يَمِينٌ»
حسن بصری نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت کی قسم کھائی تو اس کی ہر آیت پر قسم کھا لی

یہ روایت منقطع ہے – حسن بصری صحابی نہیں ہیں

یعنی مجاہد اور حسن بصری نے اس کو مرسل روایت کیا ہے جو قابل قبول نہیں ہے

مجاہد اور حسن بصری مدلسین بھی ہیں ان کی روایت میں اس کا خطرہ بھی ہوتا ہے یہاں تو صحابی کا نام ہی سرے سے نہیں لیا گیا

ابن مسعود رضی الله عنہ سے منسوب اقوال

مصنف عبد الرازق 15946 ميں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «مَنْ كَفَرَ بِحَرْفٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَقَدْ كَفَرَ بِهِ أَجْمَعَ، وَمَنْ حَلَفَ بِالْقُرْآنِ فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ مِنْهُ يَمِينٌ»

ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا جس نے قرآن کے ایک حرف کا بھی کفر کیا اس نے تمام قرآن کا کفر کیا اور جس نے قرآن کی قسم کھائی اس پر اس کی ہر آیت کے بدلے قسم ہوئی

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
سند ميں إبراهيم النخعي ہيں جن کا کسي صحابي سے سماع نہيں ہے
وقال علي بن المديني إبراهيم النخعي لم يلق أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
امام علی نے کہا إبراهيم النخعي کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے

المحلی میں ہے
وَرُوِّينَا مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ: أَتَيْت مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ السُّوقَ فَسَمِعَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: أَمَا إنَّ عَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينًا.
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ نے کہا میں ابن مسعود رضی الله عنہ کے ساتھ بازار میں نکلا پس ایک شخص کو سنا جس نے سورہ بقرہ کی قسم کھائی- پس ابن مسعود نے کہا اس پر اس کی ہر آیت کی قسم ہو گئی

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
ابْنُ فُضَيْلٍ، وَوَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ لَقِيَ اللَّهَ بِعَدَدِ آيَاتِهَا خَطَايَا»

دونوں کی سند میں سعيد بن سنان البرجمي، أبو سنان الشيباني ہے
وقال أبو طالب: قال أحمد بن حنبل: أبو سنان، سعيد بن سنان، كان رجلاً صالحاً، ولم يكن يقيم الحديث. «الجرح والتعديل»
وقال ابن إبراهيم بن هانىء: سَمِعتُهُ يقول (يعني أحمد بن حنبل) : سعيد بن سنان، ليس حديثه بشيء. «بحر الدم»
امام احمد کے نزدیک حدیث میں کوئی چیز نہیں ہے

کتاب التفسير من سنن سعيد بن منصور میں یہی ابن مسعود کا قول کہا گیا ہے
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ (عَبْدِ اللَّهِ) بْنِ مُرَّة ، عَنْ أَبِي كَنِف ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ فِي سُوقِ الرَّقيق، إِذْ سَمِعَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِنَّ عَلَيْهِ لِكُلِّ آية منها يمينًا
اس کی سند میں أبو كَنِف العَبْدي، مجهول الحال ہے اس سے الشعبي اور عبد الله بن مرة نے روایت کیا ہے

یعنی ابن مسعود رضی الله عنہ سے یہ قول ثابت نہیں ہے البتہ جو اس کو ثابت سمجھتے ہیں ان کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس کا مطلب ہے کہ ہر آیت کے بدلے کفارہ دینا ہو گا – یہ قول ابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) کا کتاب حكاية المناظرة في القرآن مع بعض أهل البدعة میں ہے
وَقَالَ عبد الله بن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ من حلف بِالْقُرْآنِ فَعَلَيهِ بِكُل حرف كَفَّارَة

اور عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا جس نے قرآن کی قسم کھائی اس پر اس کے ہر حرف کے بدلے کفارہ ہے 

ابن المنذر کی رائے

کتاب الإشراف على مذاهب العلماء از أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) میں ہے

وقال أحمد: ما أعلم شيئاً يدفعه.
وقال أبو عبيد: يكون يميناً واحدة.
وقال النعمان: لا كفارة عليه.

احمد نے کہا میں نہیں جانتا کہ یہ قسم کیسے رد ہو گی
ابی عبید نے کہا یہ قسم ہو گی
ابو حنیفہ نے کہا اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے

احناف کی آراء

احناف متقدمین قرآن پر قسم کھانے کو غیر شرعی کہتے تھے –

کتاب المبسوط از محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ) میں ہے
وَكَانَ بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ يَقُولُ فِي قَوْلِهِ وَالرَّحْمَنِ: إنْ أَرَادَ بِهِ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ يَمِينٌ، وَإِنْ أَرَادَ بِهِ سُورَةَ الرَّحْمَنِ لَا يَكُونُ يَمِينًا؛ لِأَنَّهُ حَلِفٌ بِالْقُرْآنِ.
بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ نے کہا اپنے ایک قول میں الرحمان کی قسم کھائی – پس اگر اس سے اس کا ارادہ الله کے نام پر قسم کھانا تھا تو قسم واقع ہو گئی لیکن اگر ارادہ سوره الرحمان پر قسم کھانا تھا تو نہیں ہوئی کیونکہ یہ قرآن کی قسم ہوئی

یہی بات علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) نے کتاب بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں بیان کی ہے
وَحُكِيَ عَنْ بِشْرٍ الْمَرِيسِيِّ فِيمَنْ قَالَ وَالرَّحْمَنِ أَنَّهُ إنْ قَصَدَ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ حَالِفٌ وَإِنْ أَرَادَ بِهِ سُورَةَ الرَّحْمَنِ فَلَيْسَ بِحَالِفٍ فَكَأَنَّهُ حَلَفَ بِالْقُرْآنِ

احناف کی فقہ کی کتاب الهداية في شرح بداية المبتدي از المرغيناني (المتوفى: 593هـ) کے مطابق

ومن حلف بغير الله لم يكن حالفا كالنبي والكعبة ” لقوله عليه الصلاة والسلام: ” من كان منكم حالفا فليحلف بالله أو ليذر ” وكذا إذا حلف بالقرآن لأنه غير متعارف قال رضي الله عنه معناه أن يقول والنبي والقرآن أما لو قال أنا بريء منهما يكون يمينا لأن التبري منهما كفر.
جس نے غیر الله کی قسم لی جیسے نبی کی یا کعبہ کی تو یہ قسم نہ ہو گی جیسا کہ قول نبوی ہے کہ جو قسم لے وہ الله کی قسم لے .. اور اسی طرح قرآن کی قسم (شریعت میں ) متعارف نہیں ہے کہنے کا مقصد ہے کہ اگر کہے نبی کی قسم یا قرآن کی قسم (تو قسم نہ ہو گی لیکن) اگر کہے میں تم دونوں سے بريء ہوں تو قسم واقعہ ہو گی کیونکہ ان دونوں (قرآن اور نبی) سے برات کرنا کفر ہے

شرح صحیح البخاری میں ابن بطال نے لکھا
وقال أبو حنيفة: من حلف بالقرآن فلا كفارة عليه. وهو قول عطاء، وروى عن على ابن زياد عن مالك نحوه
ابو حنیفہ نے کہا جس نے قرآن کی قسم کھا لی اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے اوریہی قول عطا بن ابی رباح کا ہے اور ایسا ہی قول امام مالک سے على ابن زياد نے روایت کیا ہے

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں عینی نے لکھا

وَقَالَ أَبُو يُوسُف: من حلف بالرحمن فَحنث إِن أَرَادَ بالرحمن الله فَعَلَيهِ كَفَّارَة يَمِين، وَإِن أَرَادَ سُورَة الرَّحْمَن فَلَا كَفَّارَة
امام ابو یوسف نے کہا جس نے رحمان کی قسم لی اور پھر قسم ٹوٹی اور اس کا ارادہ رحمان سے الله تعالی تھا تو کفارہ ہے اور اگر مراد سوره الرحمان تھی تو کفارہ نہیں ہے

احناف متاخرین میں اس قول کو چھوڑ دیا گیا – صدر الدين عليّ بن عليّ ابن أبي العز الحنفي (المتوفى 792 هـ) نے کتاب التنبيه على مشكلات الهداية میں لکھا
قوله: (وكذا إذا حلف بالقرآن لأنه غير متعارف). ينبغي أن يكون الحلف بالقرآن يمينًا لأنه قد صار متعارفًا في هذا الزمان، كما هو مذهب الأئمة الثلاثة وغيرهم، ولا يلتفت إلى من علل كونه ليس يمينًا بأنه غير الله على طريقة المعتزلة وقولهم بخلقه

المرغيناني کا قول کہ کہ قرآن کی قسم غیر متعارف ہے- اب ہونا چاہیے کہ قرآن پر بھی قسم کھا لی جائے کہ یہ اب واقع ہو گی اس دور میں کیونکہ یہ اس زمانے میں متعارف ہو چکی ہے جیسا کہ تین ائمہ اور دیگر کا مذھب ہے اور اس کی علت کے قول کی طرف التفات مت کرو کہ یہ قسم نہ ہو گی کہ یہ طريقة المعتزلة ہے ان کے خلق قرآن کے قول پر

کتاب رد المحتار على الدر المختار میں ابن عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) لکھتے ہیں

وَكَذَا يُفِيدُ أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ قَسَمٍ الْحَلِفُ بِغَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى بَلْ هُوَ مِنْ قَسَمِ الصِّفَاتِ وَلِذَا عَلَّلَهُ بِأَنَّهُ غَيْرُ مُتَعَارَفٍ
یہ فائدہ دیتا ہے کہ قرآن کی قسم ان میں سے نہیں جو غیر الله کی قسم کھانا ہے بلکہ یہ قسم صفات پر ہے اور اس وجہ سے اس پر علت ہے کہ یہ غیر متعارف ہے

محمد ثناء الله کی تفسیر المظہری میں ہے
لو حلف بالقران يكون يمينا عند الائمة الثلاثة وعند ابى حنيفة لا يكون يمينا لعدم العرف
اگر قرآن کی قسم کھا لی تو ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ہو گئی اور ابو حنیفہ کے نزدیک نہیں ہوئی کہ یہ جانی نہیں جاتی

ملا قاری کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں
قَالَ صَاحِبُ الْهِدَايَةِ: وَكَذَا إِذَا حَلَفَ بِالْقُرْآنِ لِأَنَّهُ غَيْرُ مُتَعَارَفٍ يَعْنِي: وَمِنَ الْمُقَرَّرِ أَنَّ صِفَةَ اللَّهِ لَا تَكُونُ يَمِينًا إِذَا كَانَ الْحَلِفُ بِهَا مُتَعَارَفًا
صَاحِبُ الْهِدَايَةِ نے کہا کہ اگر قرآن کی قسم لی تو یہ غیر متعارف ہے یعنی مقرر یہ ہے کہ صفات الله کی
قسم نہیں لی جا تی کیونکہ قسم لینا (سب جانتے ہیں) مُتَعَارَفً ہے

ابو حنیفہ کے الفاظ کا مطلب ہے کہ قسم عربوں میں الله کی ذات کی ہی لی جاتی ہے وہی شریعت نے بتائی ہے – لہذا کلامی بحث سے اس میں غیر متعارف قسم شامل نہیں کی جا سکتی -خیال رہے کہ خلق قرآن کی بات کا آغاز معتزلہ نے کیا تھا

مالکی فقہاء کی رائے

مالکی فقہ میں امام مالک سے دو متخالف قول منسوب ہیں

کتاب التبصرہ از علي بن محمد الربعي، أبو الحسن، المعروف باللخمي (المتوفى: 478 هـ) کے مطابق
وقيل لابن القاسم فيمن حلف بالقرآن أو بالكتاب، أو بما أنزل الله تعالى: أترى ذلك كله (5) يمينًا؟ قال: أحسنُ ذلك والذي تكلمنا فيه: أن كل ما سمى من ذلك يمين؛ يريد: أنه اختلف فيه، وروى علي بن زياد، عن مالك إذا قال: لا والقرآن، لا والمصحف؛ ليس بيمين، ولا كفارة على من حلف به فحنث
اور ابن قاسم سے کہا گیا کہ کسی نے قرآن پر قسم کھائی یا جو الله نے نازل کیا اس پر – اپ اس کو کیسا دیکھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے اور ایسا ہم کہتے ہیں اس میں جو بھی ہے وہ قسم واقع ہوئی- اور علی بن زیاد کی روایت ہے کہ امام مالک نے کہا نہ قرآن کی قسم ہے نہ مصحف کی اس کی قسم نہیں ہے اور نہ اس پر کفارہ ہے اگر ٹوٹ جائے

کتاب التوضيح في شرح المختصر الفرعي لابن الحاجب از خليل بن إسحاق بن موسى، ضياء الدين الجندي المالكي المصري (المتوفى: 776هـ) کے مطابق

ولا فرق بني أني حلف بالقرآن، أو بسورة منه أو آية، رواه ابن حبيب، وفي العتبية عن ابن حبيب لزوم الكفارة في الحالف بالتوراة والإنجيل
اس میں کوئی فرق نہیں کہ قرآن کی قسم کھائی جائے یا کسی سورت کی یا آیت کی – ابن حبیب نے اس کو روایت کیا – اور العتبية میں ہے ابن حبیب سے ہے کہ اس پر کفارہ لازم ہے اگر کوئی توریت و انجیل کی قسم کھائے

متاخرین مالکیہ میں یہ قول مشہور ہے کہ کتاب اللہ کی قسم ہو جاتی ہے

(المسالِك في شرح مُوَطَّأ مالك از القاضي محمد بن عبد الله أبو بكر بن العربي المعافري الاشبيلي المالكي (المتوفى: 543هـ
میں ہے
ورَوَى ابنُ زيادٍ عن مالك في “العُتْبِيَّة”  فيمن حَلَفَ بالمُصْحَفِ أنّه لا كفَّارةَ عليه. قال ابنُ أبي زَيدٍ   “هي روايةٌ مُنْكَرَةٌ، والمعروفُ عن مالك غير هذا” وإن صحَّتْ فإنّها محمولةٌ على أنّه أرادَ الحالِفَ بذلك جِسْم المصحف دون المكتوب فيه
اور ابن زیاد نے امام مالک سے میں روایت کیا ہے کہ جس نے مصحف کی قسم لی اس پر کفارہ نہیں ہے- ابن ابی زید نے کہا یہ روایت منکر ہے اور معروف امام مالک سے ہے اس سے الگ ہے اور اگر اس کی صحت ہو تو اس کو محمول کیا جائے گا کہ جب حلف لینے والی کی اس سے مراد مصحف کا جسم ہو نہ کہ وہ جو اس میں لکھا ہے

شوافع کی رائے

کتاب البيان في مذهب الإمام الشافعي از أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي (المتوفى: 558هـ) کے مطابق

وقال أبو حنيفة وأصحابه: (إذا حلف بالعلم.. لم يكن يمينا، وإذا حلف بكلام الله أو بالقرآن.. لم يكن يمينا) . فمنهم من قال: لأن أبا حنيفة كان يقول: (القرآن مخلوق) .ومنهم من قال: لم يكن يقول: القرآن مخلوق، وإنما لم تجر العادة بالحلف به.
دليلنا: ما روى ابن عمر – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا -: أن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: «القرآن كلام الله، وليس بمخلوق» . وإذا كان غير مخلوق.. كان صفة من صفات الذات، كعظمة الله، وجلاله.
ولو حلف بالقرآن.. كان يمينا، سواء نوى اليمين، أو لم ينو أو أطلق، فكذلك هذا مثله. والأول أصح. هذا مذهبنا. وقال أبو حنيفة: (لا يكون يمينا؛ لأن حقوق الله تعالى طاعته، وذلك محدث) .

ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ اگر الله کے علم کی قسم لی تو قسم نہیں ہو گی اور اگر کلام الله اور قرآن کی قسم لی تو بھی قسم نہیں ہو گی- پھر ان احناف میں سے کچھ نے کہا ابو حنیفہ کا کہنا تھا قرآن مخلوق ہے اور ان میں سے کچھ نے کہا : ابو حنیفہ نے نہیں کہا کہ قرآن مخلوق ہے بلکہ یہ قسم عموما نہیں لی جاتی-  ہم شوافع کی دلیل ہے جو ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے قرآن الله کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے اور جب کہا مخلوق نہیں ہے یہ  الله کی صفت میں سے ایک ہوا جیسے اس کی عظمت اور جلال –  اگر قرآن کی قسم کھا لی .. تو قسم ہو گئی … اور ابو حنیفہ کا کہنا ہے قسم نہیں ہوئی کیونکہ الله کے حقوق اس کی اطاعت ہے جو محدث ہے

راقم کہتا ہے یعنی امام ابو حنیفہ کا کہنا تھا کہ قسم کھانا مخلوق کا عمل ہے جو الله نے تخلیق کیا ہے  ایسا عمل محدث ہے    – مزید کہتا ہے الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ وَلَيْسَ بِمَخْلُوقٍ کے الفاظ سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے

وہابیوں کی رائے

سعودي دائمي کميٹي اللجنة الدائمة کا فتوى رقم ‏(‏4950‏)‏‏ ہے
يجوز الحلف بآيات الله إذا كان قصد الحالف الحلف بالقرآن ؛ لأنه من كلام الله وكلامه سبحانه صفة من صفاته ، وأما إن أراد بآيات الله غير القرآن ، فإنه لا يجوز .
يہ جائز ہے کہ الله کي آيات کي قسم کھائي جائے اگر مقصد قرآن سے قسم لينا ہو کيونکہ يہ کلام الله ہے اور کلام الله کي صفات ميں سے ہے اور اگر مراد وہ نشانيياں ہيں جو آيات الله نہيں ہيں تو جائز نہيں ہے

يعني قرآن کي آيات کي قسم کھانا وہابييوں کے نزديک صحيح ہے کيونکہ يہ مسئلہ صفات سے ان کے نزديک جائز ہے

وہابي محمد بن صالح العثيمين فتوي ميں کہتے ہيں
وأما الحلف بالقرآن الكريم فإنه لا بأس به، لأن القرآن الكريم كلام الله – سبحانه وتعالى – تكلم الله به حقيقة بلفظه مريدًا لمعناه وهو – سبحانه وتعالى – موصوف بالكلام ، فعليه يكون الحلف بالقرآن الكريم حلفًا بصفة من صفات الله – سبحانه وتعالى – وذلك جائز.
قرآن کي قسم کھانا جائز ہے

امام بخاری کا موقف

امام بخاري نے صحيح ميں باب قائم کيا ہے بَابُ الحَلِفِ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَصِفَاتِهِ وَكَلِمَاتِهِ باب قسم کھانا الله کي عزت کي اس کی صفات کی  اس کے کلام کی –  اس باب ميں بخاري نے حديث ذکر کي کہ جہنم ميں جب الله قدم رکھے گا تو وہ بولے گي قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ بس بس تيري عزت کي قسم –  ليکن اس باب ميں کلام اللہ پر قسم کھانے کي کوئي حديث بخاري کو نہيں ملي ہے

عزت کی قسم کھانا عربوں میں معروف ہے- یہ فعلی صفت نہیں جیسا کہ کلام یا سماع یا بصر ہے – عزت شخصيت سے متعلق ہی ہے جیسے جلال و اکرام- بحث اس میں ہے کہ کلام الله کی قسم لی جا سکتی ہے یا نہیں

قرآن میں سورة الشعراء مين ہے ساحروں نے فرعون کی عزت کی قسم لی

قالوا بعزة فرعون إنا لنحن الغالبون

ایسا اکثر ہوتا ہے کہ صحیح میں باب ہے لیکن اس سے متعلق حدیث نہیں ملی اور اس کے تحت کچھ بیان نہیں ہوا- لہذا یہاں اس باب سے مطلقا یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ امام بخاری کی بھی یہی رائے تھی

ابن حزم کی رائے

کتاب المحلی میں ہے
فَهِيَ يَمِينٌ وَعَلَيْهِ كَفَّارَةٌ إنْ حَنِثَ؛ لِأَنَّ كَلَامَ اللَّهِ تَعَالَى هُوَ عِلْمُهُ
قرآن کی قسم ہے اس پر کفارہ ہے اگر ٹوٹ جائے کیونکہ یہ الله کا کلام ہے جو اس کا علم ہے

======================================================

شیعہ امامیہ کی رائے

کتاب الشيعة في الميزان از محمد جواد مغنية کے مطابق

 قال الشيعة الإمامية : لا يتحقق معنى اليمين إِلا إذا كان القسم باللّه وأسمائه الحسنى وصفاته الدالة عليه صراحة، فمن حلف بالقرآن والنبي والكعبة، وما إلى ذلك لا يكون القسم شرعياً، ولا يترتب على مخالفته إِثم ولا كفارة، ولا تُفصل به الدعاوى في المحاكمات، ووافقهم على ذلك أبو حنيفة. قال الشافعي ومالك وابن حنبل تنعقد اليمين إذا كان الحلف بالمصحف، وتفرد ابن حنبل عن الجميع بأنها تنعقد بالحلف بالنبي

شیعہ امامیہ کہتے ہیں : قسم حق نہیں ہو گی الا یہ کہ اگر قسم الله کی  یا اسماء الحسنی کی یا صفات جن پر صریح دلائل ہوں ان کی لی جائے- پس جس نے قرآن کی یا نبی کی یا کعبہ کی یا اسی طرح  کی قسم لی تو یہ شرعی قسم نہیں ہے اور نہ اس قسم کی مخالفت پر گناہ ہے یا کفارہ ہے … اور اس میں ان کی موافقت کی ہے ابو حنیفہ نے – شافعی ، مالک اور احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ قسم ہو جائے گی اگر مصحف کی قسم لی اور احمد بن حنبل کا تفرد ہے ان سب پر جن کا کہنا ہے کہ اگر نبی کی قسم لی تو ہو جائے گی

 


راقم کہتا ہے ایسی قسم کھانا جس کا حدیث میں حکم نہ ہو بدعت ہے  – یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کو الله کا ذکر کرنا معلوم ہے لیکن اس طرح جس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی  کسی اور طرح نہیں – اسی طرح ابو حنیفہ کا قول صواب ہے  کہ قرآن کی قسم کا حکم نہیں دیا گیا ہے یہ شریعت میں معلوم نہیں ہے

کتاب سرگزشت سحر

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

باب ١ : سحر اوربابل کی غلامی  کا دور

باب ٢: ھاروت و ماروت   کون؟

باب٣ :بابل کی غلامی کے بعد شیطان کے تصور   میں تبدیلی

باب ٤ :  سانپ مقرب بارگاہ الہی؟

باب ٥ : صوفیاء کا یہود سے اکتساب

باب٦ :سحر سے متعلق چند سوال و جواب

======================================================

پیش لفظ

کتاب   هذا      میں سحر سے متعلق مختلف مباحث  کو جمع  کیا گیا  ہے –  سحر قرآن سے ثابت ہے کہ اس میں موسی علیہ السلام کو لاٹھیاں اور چھڑیاں   اڑتی ہوئی محسوس ہوئیں – نہ صرف موسی علیہ السلام بلکہ تمام مجمع  مسحور ہو گیا- البتہ   جادو گروں  نے جب اس کو ختم  ہوتے دیکھا تو اقرار کیا کہ انہوں نے مجبورتاً اس کو کیا-  معلوم ہوا جادو   فعل قبیح ہی  تھا لیکن  فرعون کے حکم کی وجہ سے انھوں نے کیا –

 الله تعالی   نہ صرف  خالق خیر بلکہ خالق شر  بھی ہے –   قرآن میں ہے پناہ مانگو

من شر ما خلق

اس شر سے جو الله نے خلق کیا

عبد الله بن امام احمد  العلل  میں روایت کرتے ہیں   ابن عون نے کہا

  إن قومًا يزعمون أن الله لم يخلق الشر. فقال: أستعيذ بالسميع العليم-قل أعوذ برب الفلق من شر ما خلق-. «العلل» (4860)

 ابن عون نے کہا ایک قوم ہے جو دعوی کرتی ہے کہ الله نے شر کو خلق نہیں کیا- پس کہا السمیع  العلیم سے پناہ مانگو؟  کہو میں پناہ مانگتا ہوں  پھاڑنے والے رب کی جس نے شر کو خلق کیا

 کتاب إعراب القرآن للأصبهاني  از   إسماعيل بن محمد بن الفضل الأصبهاني (المتوفى: 535هـ)  کے مطابق    المعتزلة    میں

قرأ عمرو بن عبيد (مِنْ شَرٍّ مَا خَلَقَ) بالتنوين؛ لأنّه كان [ … ] أنّ الله لم يخلق الشَّرَّ

عمرو بن عبيد[1]  آیت کی قرات تنوین سے کرتا مِنْ شَرٍّ مَا خَلَقَ .. کہ الله نے شر خلق نہیں کیا

یعنی  شر کو اسم کر دیا جو   اس کے نزدیک مخلوق کا عمل ہے یا ان کی تخلیق ہے-  المعتزلة کہتے  تھے کہ   ان کے پانچ اصول ہیں جن میں ایک عدل ہے اس سے ان کی  مراد تھی   أن الله لم يخلق الشر  وأن كل عبد يخلق أفعاله  الله تعالی نے شر کو خلق نہیں کیا اور   ہر بندہ اپنا عمل خود خلق کر رہا ہے- اسی طرح  قدری کہتے

حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَبْدُ الصَّمَدِ، نا عِكْرِمَةُ، قَالَ: سَأَلْنَا يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ عَنِ الْقَدَرِيَّةِ، فَقَالَ: «هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يُقَدِّرِ الشَّرَّ»

يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ نے قدریوں سے متعلق کہا:  یہ کہتے ہیں کہ الله نے شر کو تقدیر میں نہیں لکھا

سحر مصر میں ہوتا تھا اور اسی طرح بابل میں بھی کیا جاتا تھا- اس کتاب میں قرانی آیات کو سمجھنے کے لئے چند مباحث کی تفصیل ہے- الله ہم کو حق کی طرف ہدایت دے

ابو شہر یار

٢٠١٧

[1]

عمرو بن عبيد بن كيسان بن باب، أبو عثمان البصري المعتزلي مولى بني تميم، كان أصله من فارس سكن البصرة، مات في طريق مكة سنة 144 هـ، قال ابن حبان في المجروحين ج2/68: “كان من العباد الخشن وأهل الورع الدقيق ممن جالس الحسن سنين كثيرة ثم أحدث ما أحدث من البدع واعتزل مجلس الحسن وجماعة معه فسموا بالمعتزلة، وكان عمرو بن عبيد داعية إلى الاعتزال يشتم أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ويكذب مع ذلك في الحديث توهما لا تعمداً” والذي أزاله عن مذهب أهل السنة هو واصل بن عطاء. قال أحمد بن محمد الحضرمي سألت ابن معين، عن عمرو بن عبيد فقال: “لا يكتب حديثه. فقلت له: كان يكذب. فقال: كان داعية إلى دينه. فقلت له: فلم وثقت قتادة وابن أبي عروبة وسلام بن مسكين؟ فقال: كانوا يصدقون في حديثهم، ولم يكونوا يدعون إلى بدعة”. انظر: ترجمته في ميزان الاعتدال ج3/273-280؛ تاريخ بغداد ج12/166-188.

 

امام احمد اور حب علی

پیش لفظ

امام  احمد بن  حنبل کو  امام بخاری  کا استاد کہا  جاتا ہے ، لیکن اگر ان کی کتب احاديث کا مطالعہ  کیا  جائے تو دونوں میں حیرت انگیز  تفاوت پایا جاتا ہے – زیرنظر   مضمون سن ٨٠ کی دہائی میں شمارہ حبل الله میں شائع ہوا تھا،  جو مسند احمد بن حنبل اور صحیح بخاری کے سلسلے میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی رحمہ الله علیہ کے  تحقیقی مقالہ کے طور پر چھپا تھا- اس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ تاریخ کے حوالے سے امام بخاری  اور امام احمد کے منہج میں فرق ہے جو ان کی کتب کا تقابل کرنے سے واضح ہوتا ہے – مزید یہ کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں امام احمد سے براہ راست  کوئی بھی روایت بیان نہیں کی جبکہ دونوں ہم عصر تھے اور امام احمد کے لئے مشھور کیا گیا ہے کہ وہ امام بخاری کے استاد تھے  –   علم دوستوں کے لئے اس مضمون کو کتابی شکل دی گئی ہے

عصر حاضر کے  عرب محققین دکتور    شعیب الأرنؤوط ،   دکتور     احمد شاکر اور  ناصر الدین البانی نے    اس مضمون میں پیش کردہ  مسند احمد کی بعض روایات کو صحیح کہا ہے اور بعض کو ضعیف-   لہذا ان   محقیقن  کے اختلاف و اجماع کا بھی   حاشیہ    میں ذکر کر دیا گیا  ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ  عرب  محققین کی ان آراء کو قبول کرنے سے خود صحیح بخاری کی روایات ہی مشکوک ہو جاتی ہیں – واضح رہے کہ ہمارے نزدیک  اس مضمون  میں پیش کردہ  مسند احمد کی تمام روایات ضعیف ہیں اور اس  پر  ویب سائٹ پر  پہلے سے  کافی مواد  موجود ہے جو محققین کے لئے قابل غور ہے-


دیگر مباحث

اہل سنت میں رافضیت کے بیچ

مستشرقین واقدی اور مسند احمد

امام احمد اور عمار (رضی) کا قتل

امام احمد اور حدیث کساء

————-

حرف آخر

امام احمد کا علی رضی الله عنہ  کے مخالفین کے حوالے سے بغض کا انداز تھا وہ  معاویہ رضی الله عنہ کو خلفیہ نہیں مانتے تھے  اور ان کو بادشاہ قرار دیتے تھے – امام احمد کے نزدیک معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت شروع ہونے سے پہلے ہی حقیقی خلافت ختم ہو چکی تھی – امام احمد کے نزدیک اگرچہ اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں کہ  معاویہ یا لشکر شام  نے  عمار رضی الله عنہ  کا قتل کیا-  امام احمد حدیث کساء کو بھی   منکر قرار دیتے تھے – امام احمد اس سے بھی منع کرتے کہ کوئی امیر یزید سے روایت بھی کرے

امام احمد کے نزدیک وہ شخص لائق کرم نہیں جو معاویہ رضی الله عنہ کو گالی دے

وقال ابن هانيء: وسئل (يعني أبا عبد الله أحمد بن حنبل) عن الذي يشتم معاوية أيصلى خلفه؟ قال: لا يصلى خلفه ولا كرامة. «سؤالاته» (296) .

ابن هانيء: نے کہا میں نے احمد سے پوچھا کیا اس کے پیچھے نماز پڑھ لوں جو معاویہ کو گالی دے ؟ کہا اس کے پیچھے نماز مت پڑھو نہ عزت کرو

   البتہ احمد نے  حب علی میں  مسند میں  شیعیت  کی راویات کو اکھٹا کر دیا جو بغداد میں اس دور میں سر چڑھ چکی تھی –

محدثين أور صوفیاء کا   اتحاد

سن ٢٠٠ ہجری کے بعد مسلمانوں میں قبر والوں سے شغف بڑھ رہا تھا – وہاں جا کر محدثین اپنی ببتائیں عرض کرتے اور قبور کو تریاق مجرب قرار دیتے تھے

ذهبی کتا ب سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب
اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے

امام احمد ابدال کی تلاش میں رہتے جن سے دعا کرا سکیں

امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله، دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة

احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے

اور ابن حبان کتاب ثقات میں لکھتے ہیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

ابن عساکر تاریخ الدمشق ج ٢ ص ٣١٥ میں لکھتے ہیں

مسجد مغارة الدم مسجد الدير الذي  كان لرهبان النصارى فجعل مسجدا

مسجد مغارة الدم  مسجد دیر عیسائی راہبوں کا مسکن تھے جن کو مسجد بنایا گیا

یہ مقام  جبل قاسيون دمشق میں ہے اور  ہابیل علیہ السلام سے منسوب تھا اور بعض کے نزدیک عزیر سے

کتاب البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق

بِجَبَلِ قَاسِيُونَ شَمَالِيَّ دِمَشْقَ مَغَارَةٌ يُقَالُ لَهَا مَغَارَةُ الدَّمِ مَشْهُورَةٌ بِأَنَّهَا الْمَكَانُ الَّذِي قَتَلَ قَابِيلُ أَخَاهُ هَابِيلَ عِنْدَهَا وَذَلِكَ مِمَّا تَلَقَّوْهُ عَنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَاللَّهُ أَعْلَمُ بِصِحَّةِ ذَلِكَ.

 جبل قاسیون شمال دمشق میں ایک غار ہے جس کو مَغَارَةُ الدَّمِ  کہا جاتا ہے جو اس مکان کے طور پر مشھور ہے اس میں قابیل نے ہابیل  کا قتل کیا تھا اور ایسا اہل کتاب میں قبول چلا آ رہا  ہے اور الله ہی اس بات کی صحت جانتا ہے

ابن کثیر مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ قدامة کے لئے البداية والنهاية میں لکھتے ہیں کہ ہر پیر اور جمعرات کو وہ اس مقام پر جاتے

 وَكَانَ يَزُورُ مَغَارَةَ الدَّمِ فِي كُلِّ يَوْمِ اثنين وخميس

یعنی زمین کے ان مقامات سے جہاں اولیاء الله کا قتل ہوا یا ان کی قبریں ہیں یہ تبرک  حاصل کرنے کے مقامات عوام کے علاوہ خواص محدثین میں بھی مشہور ہو چلے تھے- زمین و آسمان میں روحانیت کے ڈانڈے قبروں پر جا کر مل رہے تھے

اسی دوران محدثین اپس میں غیر محسوس انداز میں وہ روایات صحیح کہہ رہے تھے جن کو بیان کرنے سے سلف امت یعنی امام مالک منع کرتے تھے یعنی روایت کہ الله نے آدم کو صورت رحمان پر پیدا کیا

کتاب قوت القلوب از  أبو طالب المكي میں ہے

وهجر الإمام أحمد بن حنبل رحمه الله تعالى أبا ثور صاحب الشافعي لما سئل عن معنى قول النبي: إن اللّه تعالى خلق آدم على صورته قال: إن الهاء عائدة على آدم فغضب وقال: ويله وأي صورة كانت لآدم يخلقه عليها؟ ويله يقول إن اللّه تعالى خلق على مثال فأي شيء يعمل في الحديث المفسر إن الله تعالى خلق آدم على صورة الرحمن، فبلغ ذلك أبا ثور فجاءه واعتذر وحلف أنه ما قلت عن اعتقاد وإنما هو رأي رأيته والقول ما قلت وهو مذهبي

اور امام احمد بن حنبل نے ابو ثور صاحب الشافعی   کی تفسیر پر  اختلاف کیا  جب ابو ثور  سے  قول نبوی پر سوال ہوا  کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا ؟  أبا ثور صاحب الشافعي  نے کہا اس میں  الهاء کی ضمیر  آدم کی طرف ہے- پس احمد کو غصہ آیا اور کہا : افسوس   آدم  کے لئے پھر کیا  صورت پر تھی جس پر ان کی تخلیق ہوئی؟   تو کس چیز  (صورت )  پر   تخلیق آدم میں عمل ہوا (  پھر)  حدیث  میں تفسیر  آ گئی ہے کہ الله تعالی نے آدم کو صورت رحمان پر خلق کیا- پس  جب یہ بات ابو ثور کو پہنچی وہ   آئے اور عذر  پیش کیا اور قسم لی کہ انہوں نے رائے سے کلام کیا تھا ، نہ کہ اعتقاد  سے اور ان  کا قول بھی وہی ہے جو احمد کا ہے اور یہی (اب ) ان کا مذھب ہے

ساتویں صدی ہجری میں انہی اجزاء کو شیخ صوفیاء  محی الدین ابن العربی المتوفی ٦٣٨ ھ  جن کو شیخ اکبر کہا جاتا ہے انہوں نے اس پر کتاب الفتوحات المکیہ میں   حدیث إن الله خلق آدم على صورة الرحمن کے حوالہ سے لکھا

ج ١ ص ٧٨ : ورد في الحديث إضافة الصورة إلى الله في الصحيح وغيره مثل حديث عكرمة قال عليه السلام ” رأيت ربي في صورة شاب الحديث ” هذا حال من النبي صلى الله عليه وسلم وهو في كلام العرب معلوم متعارف وكذلك قوله عليه السلام ” إن الله خلق آدم على صورته اعلم أن المثلية الواردة في القرآن لغوية لا عقلية

اور الصحیح میں  حدیث میں آیا ہے صورت کی اضافت الله کی طرف ہے اور دیگر میں بھی جیسے عکرمہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو جوان کی صورت دیکھا یہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حال بیان کیا جو کلام عرب معلوم ہے اور متعارف ہے اور اسی طرح اپ کا قول ہے بے شک الله نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا – جان لو کہ  مثالین جو  قرآن میں  ہیں وہ لغوی ہیں عقلی نہیں ہیں

ج ١ ص ٩ : من الخبر الثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الله خلق آدم على صورته من حيث إعادة الضمير على الله ويؤيد هذا النظر الرواية الأخرى وهي قوله عليه السلام على صورة الرحمن وهذه الرواية وإن لم تصح من طريق أهل النقل فهي صحيحة من طريق الكشف

نبی صلی الله علیہ وسلم سے خبر ثابت ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا اس وجہ سے کہ اس میں ضمیر پلٹتی ہے الله کی طرف اور اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہے جس میں ہے صورت الرحمان پر خلق کیا اور یہ وہ روایت ہے اور اگر یہ اہل نقل کے نزدیک سندا صحیح نہ بھی ہو تو یہ صحیح  ہوئی ہے کشف سے

پھر ابن عربی حروف  کے اسرار پر بات کرتے ہیں

ج ٣ ص ٥١ : فقوله للشئ كن بحرفين الكاف والنون بمنزلة اليدين في خلق آدم

الله کا قول کہ کن کہتا ہے اس میں دو حرف ہیں ک اور ن  یہ آدم کی تخلیق میں ہاتھوں کی طرح ہیں

ج ٤ ص ٤٩ : وورد في الصحيح أن الله خلق آدم على صورته وهو الإنسان الكامل

اور الصحیح میں آیا ہے کہ الله نے آدم کو اپنی  صورت پر خلق کیا اور وہ الانسان الکامل تھے

ج ١ ص ٣٣ : ولهذا قال إن الله خلق آدم على صورة الرحمن فنطقت بالثناء على موجدها فقالت لام ياء هاء حاء طاء فأظهرت نطقاً ما خفي خطاً لأن الألف التي في طه وحم وطس موجودة نطقاً خفيت

اور اس وجہ سے الله نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا پس اپنی موجودات کی تعریف بولی پس کہا

ل  ی ھ ح ط  پس اس سے ظاہر ہوا گویائی ظاہر ہوئی

پھر ابن عربی نے اس کتاب میں حروف کو عالموں سے ملایا

عالم الجبروت عند أبي طالب المكي ونسميه نحن عالم العظمة وهو الهاء والهمزة

العالم الأعلى وهو عالم الملكوت وهو الحاء والخاء والعين والغين

العالم الوسط وهو عالم الجبروت عندنا وعند أكثر أصحابنا وهو التاء والثاء والجيم والدال والذال والراء والزاي والظاء والكاف واللام والنون والصاد والضاد والقاف والسين والشين والياء

عالم الامتزاج بين عالم الجبروت الوسط وبين عالم الملكوت وهو الكاف والقاف

العالم الأسفل وهو عالم الملك والشهادة وهو الباء والميم والواو

یعنی ابن عربی نے حدیث سے وہ وہ ثابت کر دیا کہ خالق و مخلوق کے بیچ کی حدیں سمٹنے لگیں

اس طرح انسان الکامل کا تصور بن گیا

محدثین قبروں پر جا رہے تھے وہاں دعا کرتے صاحب قبر کو پکارتے نہیں تھے – امام الذھبی نے اس کا ذکر کیا کہ

سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٣٤٣ پر  کہتے ہیں  ہیں

يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

  ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

محدثین خواب  میں صوفیاء کی خبریں پا رہے تھے –  القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ  از  شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) کے مطابق

أبي بكر بن محمد بن عمر قال كنت عند أبي بكر بن مجاهد فجاء الشبلي فقام إليه أبو بكر بن مجاهد فعانقه وقبل بين عينيه، وقلت له يا سيدي تفعل بالشبلي هكذا وأنت وجميع من ببغداد يتصوران أو قال يقولون أنه مجنون فقال لي فعلت كما رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فعل به وذلك أني رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في المنام وقد أقبل الشبلي فقام إليه وقبل بين عينيه فقلت يا رسول الله أتفعل هذا بالشبلي فقال هذا يقرأ بعد صلاته لقد جاءكم رسول من أنفيكم إلى آخر السورة ويتبعها بالصلاة علي وفي رواية لأنه لم يصل صلاة فريضة إلا ويقرأ {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ} الآية، ويقول ثلاث مرات صلى الله عليك يا محمد، صلى الله عليك يا محمد، صلى الله عليك يا محمد، قال فلما دخل الشبلي سألته عما يذكر في الصلاة فذكر مثله، وهي عند ابن بشكوال من طريق أبي القاسم الخفاف قال كنت يوماً اقرأ القرآن على رجل يكني أبا بكر وكان ولياً لله فإذا بأبي بكر الشبلي قد جاء إلى رجل يكني بأبي الطيب كان من أهل العلم فذكر قصة طويلة وقال في آخرها: ومشى الشبلي إلى مسجد أبي بكر بن مجاهد فدخل عليه فقام إليه فتحدث أصحاب ابن مجاهد بحديثهما وقالوا له أنت لم تقم لعلي بن عيسى الوزير وتقوم للشبلي فقال ألا أقوم لمن يعظمه رسول الله – صلى الله عليه وسلم – رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في النوم فقال لي يا أبا بكر إذا كان في غد فييدخل عليك رجل من أهل الجنة فإذا جاءك فأكرمه قال ابن مجاهد فلما كان بعد ذلك بليلتين أو أكثر رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في المنام فقال لي يا أبا بكر أكرمك الله كما أكرمت رجلاً من أهل الجنة، فقلت يارسول الله لم أستحق الشبلي هذا منك فقال هذا رجل يصلي خمس صلوات يذكر في أثر كل صلاة ويقرأ {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ} الآية، يقول ذلك منذ ثمانين سنة أفلا أكرم من يفعل هذا؟ قلت ويستأنس هنا بحديث أبي إمامه – رضي الله عنه – عن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال من دعا بهؤلاء الجعوات في دبر كل صلاة مكتوبة حلت له الشفاعة مني يوم القيامة، اللهم أعط محمداً الوسيلة وأجعل في المصطفين محبته وفي العالمين درجته وفي المقربين داره رواه الطبراني في الكبير وفي سنده مطرح بن يزيد وهو ضعيف, وأما عند إقامة الصلاة فعن الحسن البصري قال من قال مثل ما يقول المؤذن فإذا قال المؤذن قد قامت الصلاة قال اللهم رب هذه الدعوة الصادقة والصلاة القائمة صل على محمد عبدك وروسلك وأبلغه درجة الوسيلة في الجنة، دخل في شفاعة محمد صلى الله عليه وسلم أو نالته شفاعة محمد – صلى الله عليه وسلم – رواه الحسن بن عرفة والنميري.

الزاهد أبو بكر دلف بن جعفر بن يونس الشبلي كي پیدائش سن ٢٤٧ ہے اور وفات ٣٣٤ ہجری  ہے

 

تذکرہ کچھ متصوفین کا

غیر مقلد  عبد اللہ محدث روپڑی

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 150 – 155 جلد 01 فتاویٰ اہل حدیث – حافظ عبد اللہ محدث روپڑی – ادارہ احیاء السنۃ النبویۃ، سرگودھا​

اب رہی ”توحید الٰہی” سو اس کے متعلق بہت دنیا بہکی ہوئی ہے۔ بعض تو اس کا مطلب ” ہمہ اوست” سمجھتے ہیں یعنی ہر شئے عین خدا ہے، جیسے برف اور پانی بظاہر دو معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت ایک ہے اسی طرح خدا اور دیگر موجودات ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تمام موجودات وحدت حقیقی کا عکس ہیں۔ جیسے ایک شخص کے ارد گرد کئی شیشے رکھ دیئے جائیں تو سب میں اس کا عکس پڑتا ہے ایسے ہی خدا اصل ہے اور باقی اشیاء اس کا عکس ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ کُلی جزئ کی مثال ہے جیسے انسان اور زید عمر بکر ہیں۔ حقیقت سب کی خدا ہے اور یہ تَعَیُّنَات حوادث ہیں۔ غرض دُنیا عجیب گھورکھدندے میں پڑی ہوئی ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔
صحیح راستہ اس میں یہ ہے کہ اگر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ خدا کے کوئی شئے حقیقۃً موجود نہیں اور یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ محض توہمات ہیں جیسے ”سوفسطائیہ” فرقہ کہتا ہے کہ آگ کی گرمی اور پانی کی برودت وہمی اور خیالی چیز ہے تو یہ سراسر گمراہی ہے۔ اور اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ موجودات انسانی ایجادات کی طرح نہیں کہ انسان کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں بلکہ یہ ان کا وجود خدا کے سہارے پر ہے اگر اُدھر سے قطع تعلق فرض کیا جائے تو ان کا کوئی وجود نہیں۔ تو یہ مطلب صحیح ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بجلی کا کرنٹ (برقی رَو) قمقموں کے لئے ہے۔ گویا حقیقت میں اس وقت بھی ہر شئے فانی ہے مگر ایک علمی رنگ مین اس کو سمجھنا ہے اور ایک حقیقت کا سامنے آنا ہے۔ علمی رنگ مین تو سمجھنے والے بہت ہیں مگر حقیقت کا اس طرح سامنے آنا جیسے آنکھوں سے کوئی شے دیکھی جاتی ہے یہ خاص اربابِ بصیرت کا حِصّہ ہے گویا قیامت والی فنا اس وقت ان کے سامنے ہے۔ پس آیہ کریمہ کل شئ هالك الا وجهه۔ ان کے حق مین نقد ہے نہ اُدھار۔
نوٹ:
ابن عربیؒ، رومیؒ اور جامیؒ وغیرہ کے کلمات اس توحید مین مشتبہ ہیں۔ اس لئے بعض لوگ ان کے حق مین اچھا اعتقاد رکھتے ہیں بعض بُرا۔ ابن تیمیہؒ وغیرہ ابن عربیؒ سے بہت بدظن ہیں۔ اسی طرح رومیؒ اور جامیؒ کو کئی علماء برا کہتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ جب ان کا کلام محتمل ہے جیسے جامیؒ کا کلام اُوپر نقل ہو چکا ہے اور وہ درحقیقت ابن عربیؒ کا ہے۔ کیونکہ ابن عربی کی کتاب ”عوارف المعارف” سے ماخوذ ہے تو پھر ان کے حق مین سُوء ظنی ٹھیک نہیں۔ اسی طرح رومیؒ کو خیال کر لینا چاہیئے، گرض حتی الوسع فتویٰ میں احتیاط چاہیئے۔ جب تک پُوری تسلی نہ ہو فتویٰ نہ لگانا چاہیئے خاص کر جب وہ گزرچکے۔اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہو چکا تو اَب کُرید کی کیا ضرورت؟ بلکہ صرف اس آیت پر کفایت کرنی چاہیئے۔
تلك امة قد خلت لها ماكسبت ولكم كسبتم ولا تسئلون عما كانو تعملون
نوٹ:
ابن عربیؒ وغیرہ کاکچھ ذکر ”تنظیم” جلد 9 نمبر 22 مورخہ 29 مارچ 1940 ء مطابق 20 صفر المظفر 1359 ھ میں بھی ہو چکا ہے اور رسال ”تعریف اہلسنت” کے صفحہ 365 ، 366 میں بھی ہم اس کے متعلق کافی لکھ چکے ہیں زیادہ تفصیل مطلوب ہو تو وہاں ملاحظہ ہو۔

ابن عربی کو رحمہ الله علیہ لکھا گیا ہے

 

نذیر حسین

ملا حظہ فرمائیں: صفحہ 123 – 124 الحیاۃ بعدالمماۃ – فضل حسین بہاری – المکتبۃ الاثریہ، سانگلہ ہل

یعنی شیخ کی آخری تصنیف فتوحات مکیہ سے ان کے گناہ کا کفارہ ہو گیا ہے

ثناء اللہ امرتسری  

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 334 جلد 01 فتاویٰ ثنائیہ – ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری – ادارہ ترجمان السنہ، لاہور

خطبات بہاولپوری

راقم کہتا ہے تصوف سے ہندوستان ہی نہیں محدثین بھی متاثر تھے – سچ بولیں اور سچ  پھیلائیں

 

کتاب رد عقیدہ عرض اعمال

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

عقیدہ عرض اعمال  قرآن میں

عقیدہ عرض اعمال اہل تشیع  کے مطابق

عقیدہ عرض اعمال اہل سنت کے مطابق

حرف آخر


سلام اسلامی معاشرت کا شعار ہے. مسلم کی حدیث ہے کہ

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرةَ  رَضِی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حتّٰی تُوٴْمِنُوْا وَلَا تُوٴْمِنُوْا حتّٰی تَحَابُّوا، اَولَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شيءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ․ (روا ہ مسلم

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں  کہ جب تک تم ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو‘کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ

معلوم ہوا کہ سلام کا تعلق ادب سے ہے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیہ کلمات ہیں.  ہم براہ راست الله سے دوسرے شخص کے لئے دعا کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں دوسرے شخص کو ہمارے خلوص کا پتا نہیں چلے گا لہذا معاشرت میں خلوص کی وجہ سے  اس کی تلقین کی گئی  ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں . ہم خط لکھ کر دوسرے شخص کو بھیجتے ہیں اس میں بھی یہی خلوص مقصد ہوتا ہے . لیکن جب کوئی شخص انتقال کر جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور دعائیہ کلمات میت کو سنانا مقصد نہیں ہوتا، نہ ہی اس میت سے واپس جواب کی امید کی جاتی ہے. میت کو تو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کس نے اس کی تعریف کی اور کس نے برائی ، کس نے نماز جنازہ پڑھی اور کس نے نہیں، کس نے غسل دیا اور کس نے کفن دیا-  اسلامی معاشرت کے تحت نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو سلام کیا اور صحابہ نے آپ کو. پھر نبی کے لئے درود یعنی رحمت کی دعا کرنے کا الله نے حکم دیا

اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (56)

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اس پر رحمت اور سلام بھیجو۔

جب ہم الله کے نبی پر درود پڑھتے ہیں تو ہمارا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں ہوتا بلکہ الله  کی بارگاہ میں نبی کے لئے دعائے رحمت مقصود ہوتی ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں درود جھر (بلند آواز) سے پڑھنے کا حکم نہیں دیا ورنہ کسی کا خیال ہو سکتا تھا کہ صحابہ ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو درود سناتے تھے-    اگر درود پیش ہونا ہی حقیقت ہوتا تو نماز کا درود جھر سے پڑھا جاتا تاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم سن سکیں کہ کون امتی درود پڑھ رہا ہے اور کون منافق ہے-  صحیح مسلم کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے کہ اس دن اعمال الله کے پاس پیش ہوتے ہیں

عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ

ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال میرے سامنے لائے گئے تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا میں نے اچھے اعمال میں پایا اور برے اعمال میں میں نے وہ تھوک اور بلغم دیکھا جو مسجد سے صاف نہ کیا گیا ہو

نبی صلی الله علیہ وسلم کو امت کے ان اعمال کی خبر زندگی میں ہی دی گئی تاکہ نیک اور برے اعمال سے امت کو باخبر کر سکیں لیکن وفات کے بعد اعمال پیش ہونے کا فائدہ کیا ہے کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوا-   بئر معونہ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کفّار نے اصحاب رسول کو گھیر لیا اور قتل کرنا شروع کیا صحابہ نے اللہ سے دعا کی کہ ہمارے قتل کی خبر نبی کو دے دے اگر درود پیش ہونے کا عقیدہ ہوتا تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی. ایک ہی روز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو پتا چل جاتا کہ درود پیش نہیں ہو رہا. اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی -اب تو امت میں درود تاج، درود تنجینا جسے درود بھی ہیں یہ بھی نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوتے ہونگے تو پھرقیامت کے دن الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم  سے ان کی  امت کے گمراہ لوگوں کے  لئے کیسے کہا جائے گا

مَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَتْ بَعْدَكَ

آپ کونہیں پتا کہ انہوں نے آپ کےبعد کیا باتیں نکالیں

درود سلام الله تک جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم تک اس کو پہنچانا اصل میں علم غیب کا دعوی کرنا ہے اپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کی زندگی ہی میں معلوم تھا کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے جبکہ قرآن میں ہے  تم ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں-

ایک اہل حدیث عالم اسی تفریق کو نہ سمجھتے ہوئے نبی صلی الله علیہ وسلم پر امت کے درود و سلام کا عقیدہ اختیار کئی ہوئے ہیں اور اس کا دفاع اس انداز میں کرتے ہیں

میت کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں نمازِ جنازہ میں بھی اور نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی وقتا فوقتا فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ دعائیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کو پہنچتی ہیں۔ پھر ہم بذریعہ خط و کتابت یا بذریعہ دوست و احباب دوسروں کو سلام دعاء پہنچاتے رہتے ہیں تو یہ سلام دعاء بھی ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھئے آپ اپنا یہ مکتوب جس میں آپ کا میری طرف سلام بھی درج ہے، مجھ پر پیش کیا تو وہ مجھ پر پیش ہوگیا ہے تو آپ غور فرمائیں اگر کوئی فرمائے: ’’ بقول آپ کے کسی بھائی یا دوست کو بھیجے ہوئے سلام دعاء اس پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کو پہنچ جاتے ہیں۔ دعاء و سلام ایک عبادت ، دعائیہ عمل ہے سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ دعاو سلام کسی کو بھیجتے وقت بھی ہم دعاء اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے فلاں بھائی یا دوست پر سلامتی نازل فرما تو سننے والے اس دعاء کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے ہمارے فلاں دوست یا بھائی کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے دعائیہ کلمات سلام ودعاء سننے والے ہمارے بھائی دعاء سلام دوسروں تک پہنچانے والے عربی، اُردو، انگریزی وغیرہ سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال ہمارے دوستوں اور بھائیوں کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟

 ان عالم کا قول سراسر غلط ہے –  میت کے لئے ہم دعا کرتے ہیں تو اگر دعا قبول ہوئی تو ان کے نتیجے میں الله تعالی میت پر رحمت کرتے ہیں – یہ عقیدہ کہ میت کو خبر دی جاتی ہے کہ کس رشتہ دار نے اس کے لئے دعا کی گمراہی ہے-  سلام کا مقصد  سنانا نہیں  ایک دوسرے  کے حق میں الله سے رحمت  طلب کرنا ہے  اب چاہے یہ خط میں لکھا جائے یا نہ لکھا جائے –  دنیا میں ایک دوسرے کو خط و کتابت سے یا پھر ای میل سے جو دعا بھیجی جائے ان سب کا مقصد الله سے  دعا  کرنا ہے

ہمارے تمام اعمال  کی تفصیل فرشتے لکھتے ہیں اور الله تک پہنچاتے ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن دنیا میں جو بھی کام ہوتے ہیں کیا وہ الله تک نہیں جاتے اس میں تعمق فرماتے ہوئے عالم لکھتے ہیں

پھر سورۂ الشوریٰ کی محولہ بالا آیت کریمہ کے الفاظ: ﴿أَلَا إِلَى اللَّـهِ تَصِيرُ‌ الْأُمُورُ‌ (٥٣)﴾اس کا ترجمہ و مطلب آپ نے لکھا ہے: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ جبکہ قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ کی ہم معنی و مطلب دیگر آیات کے الفاظ ہیں: ﴿وَإِلَى اللَّـهِ تُرْ‌جَعُ الْأُمُورُ‌ (١٠٩)﴾’’ اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ ﴿ وَإِلَيْهِ يُرْ‌جَعُ الْأَمْرُ‌ كُلُّهُ ﴾آپ ذرا مزید غور فرمالیں- پھر ان آیات کریمہ میں اعمال کی کوئی تخصیص نہیں۔ آخرت کی بھی کوئی تخصیص نہیں تو اگر کوئی صاحب ان آیات کریمہ کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے فرمادیں کہ جج صاحبان کے ہاں جو کاغذات پیش کیے جاتے ہیں یا دوسرے محکموں میں کاغذات وغیرہ کی جو پیشیاں ہوتی ہیں یہ سب سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر ۵۳ کہ: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ کے منافی و مخالف ہیں تو کیا خیال ہے آپ کی تحقیق کی رو سے ان کی یہ بات درست ہوگی؟

آیت اپنے مفہوم  میں بالکل واضح ہے. دینا کیا چیز ہے، اس کے جج، حاکم، شہنشاہ سب کے اعمال الله کے حضور پیش ہو رہے ہیں- موصوف کہنا  چاہتے ہیں کہ    جس طرح جج و  احکام  کے سامنے کاغذات پیش ہو سکتے  ہیں اسی طرح  الله تعالی کے حضور بھی پیش ہوتے ہیں –     دنیا میں جب    دستاویزات  پیش کی جاتی ہیں تو ان کا مقصد   عرض اعمال نہیں بلکہ   متعدد  وجوہات ہو سکتی ہیں-   دستاویزات جعلی بھی ہوتے ہیں  انسان ان کو بھی قبول کر لیتے ہیں لیکن مالک الملک کے سامنے جب عمل اتا ہے تو وہ اس کو جانتا ہے کہ کون خلوص سے کر رہا ہے اس بظاہر  انسان کے عمل کے پیچھے کیا کارفرما ہے اس کو سب خبر ہے

اس کتاب میں    اسی عرض اعمال کے گمراہ کن عقیدہ یعنی  نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات   اور رشتہ داروں پر عمل پیش ہونے والی روایات  کا جائزہ پیش کیا گیا  ہے  تاکہ اپ اس عقیدہ  سے متعلق روایات میں ضعیف راویوں کی حثیت کو جان سکیں – یاد رہے کہ جو الله کا حق ہے وہ اسی کا ہے جو اس کو چھیننے کی کوشش کرے گا وہ جواب دہ ہو گا

ابو شہر یار

٢٠١٧

کتاب اثبات عذاب القبر

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

پیش لفظ

مبحث اول:  کليات و اصول

علماء اور موت کی تعریف

العموم و الخصوص

ايک جاہل کي وصيت

مبحث دوم:  ارواح کا مقام  اور ان  کے قالب

روح  کا پرندہ  بننا؟

 روح کے بدلتے قالب

برزخي جسم کيا ہے

مبحث سوم:  البرزخ

سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی روایت

فرقہ پرستوں کی  تاویلات باطلہ

سجین  و  برھوت  یا  جہنم

مبحث چہارم:  عقیدہ رجعت روح یا عود روح

عقیدہ عود روح کی اساسی  روایت

ابو ہريرہ سے منسوب روايات

مبحث پنجم:  مردے کي قوت ادراک و سماع و حس پر بحث

کيا مردہ قبر سے باہر والے کو سنتا ہے ؟

كلام قليب البدر – معجزه يا آيت

عائشہ (رض) اور سماع الموتي پر موقف

حديث قرع النعال پر ايک نظر

حديث قرع النعال پر ايک اور  نظر

کيا مردہ قبر سے باہر دفنانے والوں سے مانوس ہو سکتا  ہے ؟

عمرو بن العاص کي وصيت

عمرو بن العاص کي وصيت 2

کيا مردہ قوت احساس رکھتا ہے ؟

بريدہ اسلمي کي وصيت

بغوي کي رائے

کیا میت دیکھتی، بولتی  ہے ؟

صحیح مسلم کی روایت

حديث قدموني قدموني پر ايک نظر

موت کے بعد کوئي ہے  جو بول اٹھا؟

کيا ميت زائر کو پہچانتي ہے؟

عائشہ رضی الله عنہ وفات شدہ لوگوں سے پردہ کرتی تھیں؟

مبحث ششم:  قبر کا وسيع و تنگ ہونا

سعد بن معاذ رضي الله عنہ اور قبر کا ان کو دبوچنا

مبحث ہفتم: عالم غیب میں نقب

کیا  عذاب قبر  فرقہ پرستوں کے ہاں  غیب   کا معاملہ ہے ؟

کیا چوپائے عذاب قبر  سنتے ہيں؟

تم دفنانا چھوڑ دو گے اگر عذاب سن لو؟

مبحث ہشتم: بقائے جسد کا نظریہ

  کيا مردہ کفار کا گوشت سانپ کھا جاتا ہے

مبحث  نہم: عذاب قبر کا انکار و اقرار

الْمُعْتَزلَة غير مقلدين اور عذاب قبر

خوارج کا عذاب قبر کا انکار

تصوف کی جڑ حیات فی القبر

مبحث دھم: روحوں سے متعلق مزید غلط عقائد

کتاب الرویا کا بھید

تلاقی الارواح کا عقیدہ

==========================================================

 رزم حق و باطل چلا آ رہا ہے –  افسوس حق میں باطل کی تلبس کرنا حامل کتاب الہی قوموں کا شغف بھی رہا ہے – اس کی خبر ہم کو کتاب الله سے مل چکی ہے کہ الفاظ کو اس کے مقام سے ہٹانا ،  مدعا ثابت کرنے کے لئے  اسباط (ثقات کی فہرست)  کو پیش کرنا اور پھر قول موسی و احبار کی بنیاد پر  کلام الہی کی الٹی تاویل کرنا یہود کا شیوہ تھا-  اس میں     شریعت کو بدلا   گیا تھا کہ یعقوب علیہ السلام کی منت کا قول لے کر اونٹ کو مطلقا  حرام قرار دیا گیا تھا –   کیا اپ نے غور کیا  یہ سب کرنا  کیسے ممکن ہوا کہ حاملین توریت نے   ایک حلال کو حرام کر دیا ؟ یہ اقوال رجال کی وجہ سے ہی ممکن ہوا –یہ  اقوال رجال   و اتباع سلف سے ممکن ہوا  ورنہ توریت کی  آیات کی یہ تاویل ممکن نہیں تھی-  کسی حبر یا  یہودی مولوی نے  آیات کی غلط تاویل کی اور وہ  ان میں رواج پا گئی – اس کے خلاف اگر کہا بھی گیا تو سنی ان سنی کر دی گئی-

کچھ اسی انداز میں اس امت میں بھی عقائد میں تبدیلی آتی گئی ہے – زہد کی وجہ سے لوگ   قبروں پر گئے جن پر معتکف  ہونے سے منع کیا گیا تھا – اہل کتاب کے علماء کی طرح ہمارے علماء نے بھی قبر  سے فیض لینے کو سند جواز دیا اور اس  کی وجہ یہ سمجھنا تھا کہ صاحب قبر اب مقرب بارگاہ الہی ہے اس کی روح   قبر  سے عرش تک  آتی جاتی رہتی ہے اور یہ روشنی یا سورج کی شعاع جیسی کوئی چیز ہے – افسوس روح کو شعاع کی مانند متحرک کہنا   ، اس کا عالم بالا کی   سیر کرتے رہنا ، انہوں نے بھی بیان کیا ہے جو بظاہر قبر وں سے فیض لینے کے انکاری تھے  یعنی   یہ قول ابن تیمیہ اور ابن قیم کا بھی ہے-    قبروں سے فیض  کے  منکروں کے لئے یہ بات  اب  ایک  امر صعب  بن کے رہ  گئی ہے   کہ  ایک طرف تو  اس فعل  سے منع کرتے ہیں اور دوسری طرف   ارواح    کو غیر مقید ماننے،  ان کے عالم بالا میں پھرتے رہنے کے قائل علماء  کے لئے رطب اللسان رہتے ہیں – اس دو رخی کی وجہ سے توحید کی خالص دعوت   ایک مذاق بن جاتی ہے  کیونکہ تحقیق کرنے والا چند دنوں میں ہی جان جاتا ہے کہ یہ سب مایا   جال ہے –  ہیں کواکب کچھ نظر اتے ہیں کچھ

اس بات کو سمجھتے ہوئے ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے   توحید کی دعوت دی اس کو فرقہ پرستی  اور   اکابر پرستی کی بیڑیوں سے آزاد کیا-      ڈاکٹر  صاحب نے ١٢ سے ١٥ صفحات پر مشتمل عوام کے لئے چند  کتب  لکھیں  تاکہ وہ حق کو جان سکیں- لیکن عالم سفلی کے طواغییت جمع ہونے لگے اور  ان چند اوراق کے جواب میں ٢٠٠ سے ٣٠٠   قرطاس میں رد لکھے جانے لگے-    ان  کے ذہنی خلفشار کو رد کرنے کے لئے     ویب سائٹ کا اجراء ٢٠١٣میں ہوا- وقت کے ساتھ اس پر کافی مواد جمع ہوا جس کو   آج کتاب کی صورت یہاں رکھا جا رہا ہے – کہتے ہیں شریف آدمیوں کے سینے رازوں کے دفینے ہوتے ہیں –راقم کو بھی   ان رازوں کو طشت از بام کرنا پڑا  ہے

   محدثین   نے  عود روح کی روایت کو رد کیا   تھا لیکن کچھ کے تساہل کی وجہ سے یہ روایت عقیدہ کی کلید بنی اور رد کتاب الله کا وجہ بن رہی ہے -کفار پر جہنم  میں  یا البرزخ میں عذاب کی خبر مکی زندگی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دی گئی جب ال فرعون اور قوم نوح پر عذابات سے مطلع کیا گیا – یہ دونوں  غرق اب ہوئے اور  ان کا معاملہ ایک عموم سمجھا گیا ہے  کہ جہنم میں عذاب قبل محشر بھی ہو گا ال فرعون پر عذاب  کے حوالے سے  تفسيرابن كثيرسوره غافر میں ابن کثیر لکھتے ہیں

أنَّ الْآيَةَ دَلَّتْ عَلَى عَرْضِ الْأَرْوَاحِ إِلَى النَّارِ غُدُوًّا وَعَشِيًّا فِي الْبَرْزَخِ، وَلَيْسَ فِيهَا دَلَالَةٌ عَلَى اتِّصَالِ تَأَلُّمِهَا بِأَجْسَادِهَا فِي الْقُبُورِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ ذَلِكَ مُخْتَصًّا بِالرُّوحِ، فَأَمَّا حُصُولُ ذَلِكَ لِلْجَسَدِ وَتَأَلُّمُهُ بِسَبَبِهِ، فَلَمْ يَدُلَّ عَلَيْهِ إِلَّا السُّنَّةُ فِي الْأَحَادِيثِ

بے شک یہ آیت دلالت کرتی ہے ارواح کی آگ پر پیشی پر صبح و شام کو البرزخ میں،  اور اس میں یہ دلیل نہیں کہ یہ عذاب ان کے اجساد سے جو قبروں میں ہیں متصل ھو جاتا ہے، پس اس (عذاب) کا جسد کو پہنچنا اور اس کے عذاب میں ہونے پر احادیث دلالت کرتی ہیں

ابن کثیر اسی آیت کی تفسیر میں یہ بھی لکھتے ہیں

وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور

اور یہ آیت قبروں میں عذاب البرزخ پر اہل سنت کے استدلال میں سب سے بڑی ہے

ابن کثیر   نے صحیح کہا مومن پر عذاب کی خبر احادیث سے ملی ہے   اور آیت میں یہ نہیں ہے کہ یہ عذاب جسد کو بھی ہوتا ہے –  مکی زندگی میں مومنوں پر  عذاب  جہنم کی خبر نہیں تھی –  مومنوں پر عذاب  کا علم ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز سے منسلک خطبہ  میں  دیا گیا   جس روز  مارية القبطية  رضی الله تعالی عنہ اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم انتقال کر گئے (  ذیقعدہ    سن  ١٠ ہجری   از   امام ابن حزم    )- جب ہم کسوف کی روایات اور خطبہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں جو عذاب ہیں وہ   جہنم کے مناظر ہیں جو    مسجد النبی میں براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم کو دکھائے گئے یہاں تک کہ روایت کے مطابق جہنم کی تپش تک مسجد النبی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے محسوس کی اور نماز میں پیچھے ہٹے-  اس کے بعد خطبہ میں اپ نے  ایک عورت کا ذکر کیا جس نے بلی کو باندھے رکھا وہ مر گئی –  حاجیوں کا سامان چوری کرنے والے کا ذکر کیا – بتوں کے نام پر جانور چھوڑنے والے کا ذکر کیا – ان سب پر جہنم میں عذاب کی خبر دی اور کہا تم کو بھی قبر میں آزمایا جائے  گا –

یعنی  مومنوں پر عذاب قبر کی تمام روایات اس سے بعد کی ہیں جو ایک نہایت مختصر مدت  تقریبا ایک سال ہے    یا اس سے بھی کم  ہے  (نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ١٢ ربیع الاول 11 ہجری کی ہے ) اس کے برعکس اگر اس مسئلہ پر تمام صحیح (و ضعیف) روایات اکٹھی کی جائیں   تو اس سے گمان ہوتا ہے کہ ساری مدنی زندگی میں صرف اسی مسئلہ پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے گفتگو  کی-   یعنی چند  ماہ میں ہر وقت عذاب قبر کا مسئلہ کی بیان ہوا کہ اس قدر روایات جمع ہوئیں یا یہ کسی اور وجہ سے اس قدر زیادہ ہیں ؟   یہاں تک کہ سعد بن معاذ  رضی الله عنہ جنگ کی شہادت  شروع میں ہوئی ان کے لئے بھی راویوں  نے بیان کر دیا ہے کہ ان کی قبر  نے ان کو دبوچہ!       لہذا  عذاب  قبر  کی روایات کی تحقیق ضروری ہے کہ اس کو  جانا جائے کہ اس سلسلے  میں کیا  صحیح اور کیا غلط ہے-  بخاری میں ایک دوسری  روایت ہے کہ بنو نجارہی کے ایک مقام پر اپ نے مشرکین کی قبریں اکھڑ وا دیں اور وہاں اب مسجد النبی ہے اس تاریخی پس منظر میں یہ واضح ہے کہ عذاب اگر ارضی قبر میں ہوتا تو اس مقام پر نہ ہی مسجد النبی ہوتی نہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کو کھدواتے اور کسی اور مقام پر جا کر مسجد النبی کی تعمیر کرتے.خوب یاد رکھیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو مشرکین پر عذاب قبر کی خبر  مکّہ میں ہو چکی ہے لیکن پھر بھی قبرین کھدواتے ہیں

ہمارے لئے حبل الله کتاب الله ہے اور صحیح سند سے  قول نبوی ہے –    کتاب الله کا حکم ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم مانو –  یہ بات دور نبوی کے لئے ہے اور بعد والوں کے لئے بھی ہے –  لیکن    امداد زمنہ  کی وجہ سے  ہم تک قول نبوی لوگوں کی سند سے پہنچا ہے – لوگ ثقہ بھی ہوں تو بھول جاتے ہیں  ، روایت  کو معنوی انداز میں بیان کر دیتے ہیں  جو الفاظ نبوی نہیں ہوتے –  لوگ  اختلاط کا شکار بھی ہوتے ہیں جو ایک بشری کمزوری ہے –   یہاں تک کہ اگر روایت کو صحیح بھی سمجھا جائے  تو  لوگوں کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ صحیح قول نبوی  کا کیا   مفہوم  ہے ؟ کیا اس کی تاویل ہے ؟  مثلا جن اقوال نبوی کی بنیاد پر   لوگ صاحب  قبر  کو سننےوالا اور سمجھنے  کہتے ہیں قرآن کی آیات کا ظاہر اسی  مفہوم اس کا رد کرتا ہے – اس اختلاف کی بنا پر عقیدہ میں صحیح  منہج کو بر قرار رکھنا ضروری ہے   –   جس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن سے پہلے صحیح عقیدہ سمجھا جائے اور پھر حدیث نبوی کو دیکھا جائے – ہم کو معلوم ہے کہ ثقہ بیمار بھی ہوتا ہے اس کو اختلاط بھی ہو سکتا ہے وہ بھول بھی سکتا ہے – ظاہر ہے جو   کسی بیماری کی وجہ سے بھولا یا روایت سننے سمجھنے کی غلطی کر گیا اس کو شاید معافی مل جائے لیکن جو سب جان کر قرآن کا رد کرے اس کو کون بچائے گا ؟

الله تعالی نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ اس کی کتاب کی اتباع کی جائے اور اس کے رسول کا حکم چلے گا کسی اور  کی اتباع کی قرآن میں کوئی سند نہیں ہے     لہذا ہر مسلم پر فرض ہے کہ کتاب الله پر اپنا عقیدہ جانچ لے یہ قرآن کا حکم ہے

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى الله والرسول إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بالله واليوم الآخر ذلك خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً     سورة النساء آية  59

پس کسی بات میں تمہارا تنازع ہو جائے تو اس کو الله اور اس کے رسول کی طرف پلٹ دو اگر تم الله روز آخرت پر ایمان والے ہو یہ خیر ہے اور اچھی تاویل ہے

اور کہا
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فحكمه إلى الله
اور جس چیز میں بھی اختلاف کرو تو حکم الله ہی کا ہے

اور کہا
بَلْ كَذَّبُواْ بِمَا لَمْ يُحِيطُواْ بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ
بلکہ انہوں نے انکار کیا اس کا احاطہ ان کا علم نہ کر سکا اور اس کی تاویل ان تک نہ پہنچی

اور کہا
مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ
ہم سے کتاب میں (وضاحت پر) کوئی چیز نہیں رہ گئی

اور کہا
تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ
ہر چیز کی اس میں وضاحت ہے

  حیات فی قبر   عقیدہ کا ایک اہم مسئلہ ہے لہذا اس کو کتاب الله پر پیش کریں کہیں بھی حیات فی القبر کی دلیل نہیں ملتی
لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں شہداء کی حیات کا ذکر ہے کہ ان کو مردہ مت کہو لیکن وہ ان آیات کا سیاق و سباق نہیں دیکھتے صرف ایک آیت لی اور اس کو اپنی مرضی کامعنی پہنا دیا –    یہ آیت منافقین کے اس قول کے رد میں نازل ہوئی تھی کہ بے چارے مسلمان اپنے نبی کے چکر میں جنگوں میں ہلاک ہو گئے ہمارے ساتھ مدینہ میں ہی رهتے تو بچ گئے ہوتے-  یہ بات قرآن کہتا ہے انہوں نے بولی اور الله نے کہا نہیں اگر ان    کی موت کا وقت ہوتا تو کہیں بھی ہوتے ہلاک ہوتے اور جو میدان میں شہید ہوئے وہ معدوم نہیں ہوے وہ زندہ ہیں الله کے پاس رزق پا رہے ہیں-  مسلمانوں کا تو پہلے سے یہ عقیدہ تھا کہ مریں گے تو جنت میں جائیں گے یہ منافقین کی حماقت تھی جو ایسا کہہ رہے تھے کیونکہ وہ الله کے رسول اور آخرت کے انکاری تھے-  ان پر حجت تمام کی گئی کہ جو مرے ہیں وہ الله کے پاس رزق پا رہے ہیں-  صحیح مسلم کی مسروق کی حدیث میں اسکی وضاحت ا گئی کہ یہ شہداء اپنی قبروں میں نہیں انکی ارواح الله کے عرش کے نیچے ہیں-  اس کے علاوہ ایک عام مومن کے لئے بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر ہے کہ اس کی روح جنت کے درخت پر معلق ہے-  لہذا قرآن میں مکمل وضاحت ہے کہ یہ ارواح جنت میں ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف جہنم میں ہیں

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (13) وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ   سورة الانفطار
بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہیں اور فاجر جہنم میں قیامت کے روز اس میں جلیں گے

اسی طرح موسی علیہ السلام کے مخالف جہنم میں ہیں پورا ال فرعون کا لشکر جہنم میں اگ پر پیش ہو رہا ہے جو ڈوب کر مرا

الله تعالی نے خبر دی کہ نوح علیہ السلام نے پوری دنیا کو بد دعا دے دی کہ ایک کافر بچ نہ پائے

الله کا غضب بھڑک گیا اس نے پوری زمین کو پھاڑ ڈالا اور آسمان سے پانی گرنا شروع ہوا

فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ

هم نے آسمان کے دروازے کھول دیے نہروں جیسے پانی کے ساتھ

آسمان کے دروازے کھلے ہیں کفار مر رہے ہیں اور روحیں جلدی جلدی جہنم میں ڈالی جا رہی ہیں

زمین پر اس وقت پانی ہی پانی ہے

وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا

اور ہم نے زمیں کو پھآڑ کر چشموں میں بدل دیا

یعنی قبریں ختم کسی کی بھی قبر نہ رہی نہ آدم علیہ السلام نہ ود کی نہ سواع کی نہ یغوث کی نہ نسر کی جو صالح تھے اور نہ کفار کی سب کی لاشیں پانی میں زندہ بھی مر رہے ہیں اور مردہ بھی تیر رہے ہیں-  آدم کیا قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ؟ نہیں وہ تو جنت میں تھے ان کا جسم مٹی ہو چکا ہو گا یا اگر جسد تھا بھی تو وہ بھی اسی پانی میں تھا جس سے پوری زمین کو بھرا جا رہا تھا-   ان صاف ظاہر بصیرت کے بعد مردے میں عود روح کا عقیدہ رکھنا ایک باطل عقیدہ ہے اس کی دلیل نہ قرآن میں ہے نہ صحیح احادیث میں  –

لہذا الله کے بندوں کتاب الله پر عقیدہ بنا لو -راویوں کی غلطیاں ان کی غلطیاں ہیں ان کو اپنے سر مت لیں الله ان کو معاف کر دے گا کیونکہ جو بیماری میں بھول گیا اس کی خطا نہیں لیکن جو پورے ہوش میں جان کر کتاب الله کو چھوڑ گیا اس کے پاس کیا جواب ہو گا؟

واضح رہے کہ راقم یہ نہیں کہہ رہا کہ حدیث کو مطلقا رد کرو –   راقم کہتا ہے یہ قول خوارج کا تھا کہ حدیث کو قرآن پر پیش کر دو    تاکہ  ناسخ و منسوخ کو رد کیا جائے [1]–     بلکہ راقم کہتا ہے قرآن و حدیث کا جمع و تقابل عقائد میں کیا جاتا ہے- محدثین نے بہت سی  خلاف عقل   اور خلاف قرآن  روایات کو رد کیا ہے
علوم الحديث ومصطلحه – عرضٌ ودراسة  از مؤلفدکتور صبحي إبراهيم الصالح (المتوفى: 1407هـ)   کے مطابق ایسی حدیث جو خلاف عقل ہوں رد کی گئی ہیں

أن يكون المروي مخالفًا للعقل أو الحس والمشاهدة، غير قابل للتأويل (2). قِيلَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ: حَدَّثَكَ أَبُوكَ عَنْ جَدِّكَ أَن رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ سَفِينَةَ نُوحٍ طَافَتْ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَصَلَّتْ خَلْفَ المَقَامِ رَكْعَتَيْنِ؟ قَالَ: نَعَمْ. (3). وواضع هذا الخبر، عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، مشهور بكذبه وافترائه، ففي ” التهذيب ” نقلاً عن
الإمام الشافعي: «ذَكَرَ رَجُلٌ لِمَالِكٍ حَدِيثًا، مُنْقَطِعًا، فَقَالَ: اذْهَبْ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ يُحَدِّثْكَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نُوحٍ!

اگر حدیث خلاف عقل ہو تو رد ہو گی اس کی مثال ہے کہ عبد الرحمان بن زید نے اپنے باپ سے پھر دادا سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ نوح کی کشتی نے کعبہ کا طواف کیا

کتاب الموضوعات کے مقدمہ میں ابن جوزی نے کہا
أَلا ترى أَنه لَو اجْتمع خلق من الثِّقَات فَأخْبرُوا أَن الْجمل قد دخل فِي سم الْخياط لما نفعننا ثقتهم وَلَا أثرت فِي خبرهم، لأَنهم أخبروا بمستحيل، فَكل حَدِيث رَأَيْته يُخَالف الْمَعْقُول، أَو يُنَاقض الْأُصُول، فَاعْلَم أَنه مَوْضُوع فَلَا تتكلف اعْتِبَاره.
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اگر مخلوق کے تمام ثقات جمع ہوں اور خبر دیں کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر گیا تو ان کی ثقاہت کا کوئی فائدہ ہم کو اس خبر سے نہیں کیونکہ انہوں نے وہ خبر دی جو ممکن نہیں – پس ہر وہ حدیث جو عقل والے کی مخالفت کرے اور اصول (عقائد) سے متصادم ہو تو جان لو وہ گھڑی ہوئی ہے پس اس کے اعتبار کی تکلیف نہ کرو
ابن جوزی نے مزید کہا
وَاعْلَم أَنه قد يجِئ فِي كتَابنَا هَذَا من الْأَحَادِيث مَا لَا يشك فِي وَضعه، غير أَنه لَا يتَعَيَّن لنا الْوَاضِع من الروَاة، وَقد يتَّفق رجال الحَدِيث كلهم ثقاة والْحَدِيث مَوْضُوع أَو مقلوب أَو مُدَلّس، وَهَذَا أشكل الْأُمُور، وَقد تكلمنا فِي هَذَا فِي الْبَاب الْمُتَقَدّم.

اور جان لو کہ اس کتاب میں آئیں گی روایات جن پر کوئی شک نہیں کہ وہ گھڑی ہوئی ہیں لیکن اس میں یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ کس راوی نے گھڑی ہے اور اس میں اتفاق بھی ہو گا کہ تمام رجال ثقہ ہیں جبکہ یہ حدیث یا تو گھڑی ہوئی ہے یا مقلوب ہے یا تدلیس ہے اور یہ مشکل کاموں میں ہے

اسی کتاب میں ابن جوزی نے کہا
وَاعْلَم أَن حَدِيث الْمُنكر يقشعر لَهُ جلد طَالب الْعلم مِنْهُ
اور جان لو کہ حدیث منکر سنتے ہی طالب علم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں

گویا علم حدیث کا دارومدار صرف سند اور رجال ہی نہیں اس کا متن بھی ہے

گمراہ فرقوں کی جانب سے  آج  کہا جا   رہا ہے  کہ  عقل معیار نہیں بن سکتی [2]    –  دوسری طرف ہم جس مذھب کو مانتے ہیں   یعنی اسلام  اس کو تو  کو دین فطرت کہا جاتا ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ما مِنْ موْلودٍ إلا يولَدُ على الفِطرةِ

ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے

فطرت انسان میں  جبلی قوت دی گئی ہیں ان میں حواس خمسہ رکھے گئے ہیں – جس میں قرآن میں بار بار سمع و الابصار کا ذکر ہے کہ مشرک اس کو استعمال نہیں کرتے اور اس کی وجہ قرآن کہتا ہے کہ یہ اندھے نہیں ان کے دل اندھے ہیں- یعنی جو لوگ الله کی دی ہوئی نعمتوں کو حق کی تلاش کے لئے استعمال  نہیں کرتے ان کے قلوب پر زنگ آ جاتا ہے وہ اگرچہ آنکھوں سے بینا ہیں لیکن ان میں عقل و سمجھ مفقود ہے لہذا قرآن میں الله تبارک و تعالی کہتے ہیں

فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ   النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ

یہ الله کی (دی ہوئی) فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو خلق کیا ہے ، الله کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں

یعنی ہر انسان اس فطرت پر پیدا ہو رہا ہے جس میں تعقل و فکر کر کے وہ الله کو پا سکتا ہے

هود عليه السلام نے اپنی قوم سے کہا جب انکی قوم نے گمراہی پر اصرار کیا

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ

 بلا شبہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے رجس و غضب واقع ہو چکا ہے

سوره الانعام میں کہا

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

پس الله جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اور جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو گھٹتا ہوا تنگ کرتا ہے  گویا کہ وہ آسمان کی طرف جا رہا ہو – اس طرح الله گندگی ڈالتا ہے ان پر جو ایمان نہیں لاتے

سوره یونس میں کہا

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (100)

اور نفس کے لئے نہیں ہے کہ ایمان لائے سوائے الله کے اذن سے اور وہ گندگی ڈالتا ہے ان پر جو عقل سے کام نہیں لیتے

یعنی عقل استعمال نہ کرنے کی وجہ سے جب و فطرت سے ہٹے تو الله نے ان پر رجس یا گندگی ڈال دی جس نے ان کو قبر پرستی اصنام پرستی،   اکابر پرستی کی لعنت میں مبتلا کیا اور وہ اس کے جواز کے فتوے دینے لگے –   اس میں کتاب الله اور حکمت    اور حدیث موسی  کا درس دینے والے بھی تھے لیکن الله نے اہل کتاب کے علماء کے لئے کہا کہ ان پر گدھوں کی طرح کتابیں لدھی ہیں ان کو پڑھتے ہیں لیکن رجس سے نہیں نکل پا رہے –  عقل و فراست ہی تفقہ فی الدین ہے کہ روایت کو آگے کرنے حدثنا و اخبرنا کہنے والے تو بہت ہیں لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس  میں تفقہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے

مسند احمد میں  ایک روایت بیان ہوئی ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَرِيزٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ الْجُرَشِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ يَنْثَنِي شَبْعَانًا  عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ، وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، أَلَا وَلَا لُقَطَةٌ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ، فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُمْ  ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُمْ، فَلَهُمْ أَنْ يُعْقِبُوهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُمْ

الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا   خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے    ممکن ہے کہ کوئی مال و دولت کے نشہ سے سرشار اپنے تخت پر بیٹھ کر یہ کہے کہ تمہارے پاس قرآن ہے  اس میں تم جو چیز حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو حرام پاؤ اسے حرام قرار دو۔ سُن لو! پالتو گدھے تمہارے لئے حلال نہیں (اسی طرح) درندوں میں سے کچلی والے بھی (حلال نہیں) اور معاہد (ذمی) کی گری پڑی چیز بھی حلال نہیں الا یہ کہ اس کا یہ مالک اس سے بے نیاز ہوجائے اور جو شخص کسی قوم کے ہاں مہمان ٹھہرے تو اس کی ضیافت و اکرام ان پر فرض ہے اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو وہ اپنی مہمان نوازی کے بقدر ان سے لے سکتا ہے۔

اس پر دکتور شعيب الأرنؤوط اس روایت کے تحت  کہتے ہیں

قلت: كأنه أراد به العرض لقصد رد الحديث بمجرد أنه ذُكر فيه ما ليس في الكتاب، وإلا فالعرض لقصد الفهم والجمع والتثبت لازم

میں کہتا ہوں  کہ گویا اس ( حدیث) کو (قرآن پر)  پیش کرنے کا مقصد مجرد حدیث کو رد کرنا ہے کہ اس میں اس چیز کا ذکر ہے جو کتاب الله میں نہیں (تو یہ صحیح نہیں) لیکن اگر پیش کرنا  فہم اور جمع اور اثبات کے لئے ہو تو یہ لازم ہے

 -حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول و فعل ہے- اس میں احکام نبوی، وحی کی نوع کے ہیں کیونکہ قرآن  کی تعبیر و تشریح  کرنا الله کا کام ہے- رسول شریعت نہیں بناتے وہ الله کی جانب سے انے والے احکام کی تشریح کرتے ہیں جو الله کی طرف سے  رسول الله کو سمجھائی گئی-   لہذا جب ایک بات رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کی ہو تو اس کا انکار بھی کفر ہے

ہم جب قرآن کو دیکھتے ہیں تو اس میں صرف دو زندگیاں اور دو موتوں کا اصول پاتے ہیں – قرآن میں   جس پر موت طاری ہو رہی ہے اس کے لئے  امساک روح  کا ذکر ہے کہ اس کو روک لیا جاتا ہے- لہذا ہم عود روح کی روایت کو باطل و منکر قرار دیتے ہیں – ہم کہتے ہیں مردہ  لا شعور ، بے جان اور بے حس ہے- جس کو عذاب قبر کہا جاتا ہے وہ عذاب جہنم کی شکل ہے جس کو کتاب الله میں النار کہا گیا ہے  –      یہ   عقیدہ      کہ   عذاب و راحت  اور  سوال  الملکین   سب   روح  سے ہوتا ہے     اہل  سنت کا ہی عقیدہ ہے-   امام الأشعري   (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور

اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ  المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو  جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا

 گمراہ فرقوں کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ عود روح حدیث میں آیا ہے لہذا اس کی روایت کو قرآن پر پیش نہیں کرنا چاہیئے اور قبول کرنا چاہیے لیکن یہ بات درست نہیں قرآن میں واضح طور پر امسک روح کا ذکر ہے کہ روح کو روک لیا جاتا ہے لہذا اس کو واپس جسد میں ڈالنے والی روایت صحیح نہیں – محدث  ابن حبان کے مطابق عود روح والی روایت کی سند میں ہی گھپلا ہے ذھبی اس کو نکارت و غرابت سے بھر پور قرار دیتے ہیں-  پھر محدثین میں أبو بسطام شعبة بن الحجاج بن الورد المتوفي ١٦٠ هجري کے نزدیک المنھال بن عمرو متروک تھا لہذا یہ عود روح کا عقیدہ اس دور میں  محدثین رد کر چکے تھے –  محدث خراسان محمد بن محمد بن أحمد بن إسحاق النيسابوري الكرابيسي ، الحاكم الكبير المتوفی ٣٧٨ھ   ، مؤلف كتاب  الكنى کہتے تھے کہ زاذان کی روایت اہل علم کے نزدیک مظبوط نہیں ہے –  ظاہر  یہ اہل علم ، حدیث رسول کے مخالف  نہیں تھے  جو انہوں نے عود روح کی روایت کے راویوں کو ہی رد کر دیا؟       راقم کہتا ہے یہ  محدثین کا  منہج   ہے کہ وہ    ان راویوں کی روایت  کو عقائد میں قبول نہیں کرتے-

ایک  طرف تو محدثین تھے جو عود روح کی روایت رد کر رہے تھے اور دوسری طرف ایک  صوفی  محمد بن كرام  تھا جو   سجستان میں پلا بڑھا اور  بيت المقدس  میں  256ھ میں وفات ہوئی یعنی یہ  امام بخاری کا ہم عصر تھا –  ابن حزم الملل و النحل میں لکھتے ہیں کرامیہ وہ ہیں جو

أصحاب أبي عبد الله محمد بن كرام ، وإنما عددناه من الصفاتية لأنه كان ممن يثبت الصفات إلا أنه ينتهي فيها إلى التجسيم والتشبيه

اصحاب ابی عبد الله محمد بن کرام ہیں اور ہم نے ان کو الصفاتیہ میں شمار کیا ہے کیونکہ یہ وہ ہیں جو صفات کا اثبات کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اس کو تجسیم و تشبیه پر ختم کرتے ہیں

ابن حزم مزید کہتے ہیں

نص أبو عبد الله على أن معبوده على العرش استقرارا، وعلى أنه بجهة فوق ذاتا، وأطلق عليه اسم الجوهر. فقال في كتابه المسمى “عذاب القبر” إنه أحدى الذات، أحدى الجوهر، وإنه مماس للعرش من الصفح العليا، وجوز الانتقال، والتحول، والنزول، ومنهم من قال إنه على بعض أجزاء العرش. وقال بعضهم: امتلأ العرش به، وصار المتأخرون منهم إلى أنه تعالى بجهة فوق، وأنه محاذ للعرش.

اور ابو عبدالله نے نص کیا کہ اس کا معبود عرش پر استقرار کیے ہوئے ہے اور نص کیا کہ وہ ذات عرش کے اوپر ہے اور اس ذات پر اسم الجوہر کا اطلاق کیا پس اپنی کتاب بنام عذاب القبر میں کہا وہ ایک ذات ہے ایک جوہر ہے اور وہ ذات عرش کو اوپر سے چھو رہی ہے اور اس کا منتقل ہونا جائز ہے اور بدل جانا اور نزول اور ان میں سے بعض نے کہا وہ عرش کے بعض اجزاء پر ہے اور بعض نے کہا عرش کو بھرا ہوا ہے اور ان کے متاخرین اس طرف گئے کہ وہ اوپر سے اس کو چھو رہا ہے اور وہ عرش کے پاس ہے

محمد بن کرام    المشبہ کا عقیدہ   الله تعالی کے حوالے سے تجسیم کا تھا اور اس عقیدہ کا ذکر اس نے اپنی کتاب عذاب قبر میں کیا  اور کہا کہ مردہ پر عذاب ہوتا ہے بلا روح-   ماضی میں مردہ  جسد کو عذاب و راحت کا عقیدہ  اہل سنت کا   نہیں تھا یا تو صرف  روح پر عذاب کے  قائلین تھے  یا پھر   روح و جسم    دونوں پر عود روح کے بعد عذاب کے قائلین تھے- الشوکانی   کتاب   الفتح الرباني من فتاوى الإمام الشوكاني، مكتبة الجيل الجديد، صنعاء – اليمن   میں فتوی دیتے  ہیں

أنه قد ثبت بالأحاديث المتواترة عذاب القبر لمن يستحقه، ومعلوم  أنه لا يعذب إلا وروحه معه، وإدراكه، ولو لم يكن كذلك لكان العذاب الواقع على مجرد الجسم بلا روح ولا إحساس ليس بعذاب، لأن إدراك الألم واللذة مشروط بوجود ما به الإدراك- وإلا فلا إدراك لمن ليس له حياة ولا إحساس لمن لا روح له-

اور بے  شک متواتر احادیث سے  عذاب القبر ثابت ہے اس کے لئے جو اس کا مستحق ہو اور یہ معلوم ہے کہ  عذاب نہیں ہوتا الا یہ کہ روح ساتھ ہو اور ادرک ہو اور اگر ایسا نہ ہو کہ روح نہ ہو تو یہ عذاب  صرف جسم   پر بلا روح    اور بغیر احساس کے واقع ہوا،   جو  عذاب نہیں ،  کیونکہ الم اور لذت    کا  ادرک   مشروط  ہے     اس  وجود سے جس   کو ادرک بھی ہو – اور اگر ایسا نہ ہو (کہ روح نہ ہو تو)  پس  ادرک نہیں ہے مگر    اس میں جس میں زندگی ہو،  اور  جس میں روح نہ ہو اس میں  احساس نہیں    ہے-

النووی ، شرح  المسلم میں لکھتے ہیں

الْمُعَذَّبُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ الْجَسَدُ بِعَيْنِهِ أَوْ بَعْضُهُ بَعْدَ إِعَادَةِ الرُّوحِ إِلَيْهِ أَوْ إِلَى جُزْءٍ مِنْهُ وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إِعَادَةُ الرُّوحِ قَالَ أَصْحَابُنَا هَذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ الْأَلَمَ وَالْإِحْسَاسَ إِنَّمَا يَكُونُ فِي الْحَيِّ

معذب ، اہل السنت کے نزدیک جسد بعینہ ہے یا اس کے بعض حصے اس میں إِعَادَةِ الرُّوحِ ہونے کے بعد اور اس کی مخالفت کی ہے محمّد بن جریر اور عبدللہ بن کرام اور ایک گروہ نے اور کہا کہ إِعَادَةِ الرُّوحِ عذاب کی شرط نہیں- ہمارے اصحاب کہتے ہیں یہ فاسد قول ہے بے شک الم و احساس زندہ کے لئے ہے

معلوم    ہوا     صرف  روح  پر  عذاب  کے  قائلین     ابن  حزم  سے  پہلے   بھی تھے  لہذا  بعض کا یہ  دعوی کہ  عود روح کا انکار  سب سے پہلے ابن حزم نے کیا باطل ہے-

ابن الجوزی   المتوفی  ٥٩٧ ھ   اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں  کہ

فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار

پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ  سے تعريفا  (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف  (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش  میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف  میں

محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ) کتاب  العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں لکھتے ہیں

ثم لأهل السنة قولان؛ قيل: إن العذاب للروح فقط، وقيل: للروح والجسد والمشهور الثاني

پھر اہل السنہ ہے دو قول ہیں: کہتے ہیں کہ عذاب صرف روح کو ہے اور کہتے ہیں روح و جسد کو ہے اور دوسرا قول مشھور ہے

 کسی قول کا مشہور ہونا اس کی دلیل نہیں کہ وہ صحیح عقیدہ ہے- چودہ سو سال کی شہادت آپ کے سامنے ہے ہر دور میں صرف روح پر عذاب کے قائل رہے ہیں

اس کتاب میں ان مباحث کو  تفصیلا پیش کیا گیا ہے تاکہ دیکھا جائے کیا قول صواب  ہے

ابو شہر یار

٢٠١٧

عذاب القبر

 

علی ، علم غیب اور سائنسی حقائق

مسند احمد کے مطابق علی رضی الله عنہ اور خوارج کا جب اختلاف ہوا تو علی نے ان کو سمجھانے کے لئے ابن عباس رضی الله عنہ کو بھیجا انہوں نے ان کو نصیحت کی تو
فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ، فِيهِمُ ابْنُ الْكَوَّاءِ
ان میں چار ہزار واپس لوٹ آئے جن میں ابْنُ الْكَوَّاءِ بھی تھا

روایات کے مطابق ابْنُ الْكَوَّاءِ اس کے بعد علی رضی الله عنہ کے ساتھ رہا اور ان سے ٹیڑھے سوالات کرتا رہتا تھا

کہا جاتا ہے کہ علی نے علم غیب تک رسائی کا دعوی کیا کہ یہ کہا کہ وہ جو قیامت تک جو  ہو گا وہ اس کو جانتے ہیں گویا علی الوحی سے یہ سب بتا سکتے تھے

مصنف عبد الرزاق میں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ ابْنَ الْكَوَّاءِ، سَأَلَ عَلِيًّا عَنِ الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ مَا هُوَ؟ فَقَالَ عَلِيٌّ: «ذَلِكَ الضّرَاحُ فِي سَبْعِ سَمَاوَاتٍ فِي الْعَرْشِ، يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
أَبَا الطُّفَيْلِ کہتے ہیں انہوں نے ابن الکواء سے سنا کہ اس نے علی سے بیت المعمور پر سوال کیا کہ یہ کیا ہے ؟ علی نے کہا یہ شیشہ ہے سات آسمان اوپر عرش پر اس میں ہر روز ستر ہزار داخل ہوتے ہیں جو واپس نہیں پلٹتے یہاں تک کہ قیامت ہو

کتاب الجامع في الحديث لابن وهب از أبو محمد عبد الله بن وهب بن مسلم المصري القرشي (المتوفى: 197هـ) کے مطابق
وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عُمَرَ مَوْلَى غُفْرَةَ، وَحَمَّادِ بْنِ هِلَالٍ، أَنَّ ابْنَ الْكَوَّاءِ، قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: مَا قَوْسُ قُزَحَ؟ قَالَ: «لَا تَقُولُوا قَوْسَ قُزَحَ، فَإِنَّ قُزَحَ الشَّيْطَانُ، وَلَكِنْ أَمَنَةٌ مِنَ اللَّهِ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْغَرَقِ بَعْدَ قَوْمِ نُوحٍ»
ابْنَ الْكَوَّاء نے علی رضی الله عنہ سے کہا یہ قَوْسَ قُزَحَ کیا ہے ؟ علی نے جواب دیا اس کو قَوْسَ قُزَحَ مت کہو کیونکہ   قُزَحَ شیطان ہے لیکن یہ امان ہے جو الله نے نوح کے بعد زمین والوں کو غرق ہونے سے دی

کتاب ادب المفرد از امام بخاری کی روایات ہیں
عن أبي الطفيل سأل ابن الكواء عليا رضي الله عنه عَنِ الْمَجَرَّةِ قَالَ: هُوَ شَرَجُ السَّمَاءِ، وَمِنْهَا فتحت السماء بماء منهمر.
صحيح الإسناد.
البانی نے صحیح قرار دیا ہے

الأدب المفرد پر تحقیق میں البائی کہتے ہیں یہ صحیح ہے
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ وَغَيْرِهِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ سَأَلَ ابْنُ الْكَوَّا عَلِيًّا عَنِ الْمَجَرَّةِ، قَالَ: هُوَ شَرَجُ السَّمَاءِ، وَمِنْهَا فُتِحَتِ السَّمَاءُ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ
[قال الألباني] : صحيح

أبي الطفيل نے ابن الکواء سے روایت کیا کہ اس نے علی رضی الله عنہ سے کہکشاں ملکی وے (جادہ شیر) پر سوال کیا – علی نے کہا یہ آسمان کی مقعد ہے اور اس میں نہر کی طرح پانی برسا

یاد رہے کہ طوفان نوح کے حوالے سے سوره القمر میں ہے کہ فُتِحَتِ السَّمَاءُ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ آسمان کو کھول دیا گیا کہ اس میں سے نہر کی طرح پانی برسا

الفقيه و المتفقه از المؤلف: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) میں ہے

أناه أَبُو الْحُسَيْنِ أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ رَوْحٍ , وَأَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ فَهْدٍ النَّهْرَوَانِيَّانِ بِهَا , قَالَا: أنا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَلَمَةَ الْكُهَيْلِيُّ بِالْكُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْحَضْرَمِيُّ , نا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَرْوَزِيُّ , نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , نا مَعْمَرٌ , عَنْ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي دُبَيٍّ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ , قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا , وَهُوَ يَخْطُبُ , وَهُوَ يَقُولُ [ص:352]: «سَلُونِي , وَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ يَكُونُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا حَدَّثْتُكُمْ بِهِ»
أَبِي الطُّفَيْلِ نے کہا میں نے علی رضی الله عنہ کو دیکھا وہ خطبہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے مجھ سے پوچھو اللہ کی قسم تم کوئی چیز نہ ہو گی جو قیامت تک ہو کہ وہ تم پوچھو اور میں اس کا تم سے ذکر نہ کر دوں

محقق عادل بن یوسف العزازی کہتے ہیں اسناده صحيح

اخبار مکہ از الازرقی کی روایت ہے

حَدَّثنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ: حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ أَبِي الْمَهْدِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الصَّنْعَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَهُوَ يَخْطُبُ، وَهُوَ يَقُولُ: «سَلُونِي، فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ يَكُونُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا حَدَّثْتُكُمْ بِهِ، وَسَلُونِي عَنْ كِتَابِ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ مَا مِنْهُ آيَةٌ إِلَّا وَأَنَا أَعْلَمُ أَنَّهَا بِلَيْلٍ نَزَلَتْ أَمْ بِنَهَارٍ، أَمْ بِسَهْلٍ نَزَلَتْ أَمْ بِجَبَلٍ» فَقَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ، وَأَنَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَهُوَ خَلْفِي، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ الْبَيْتَ الْمَعْمُورَ، مَا هُوَ؟ قَالَ: «ذَاكَ الضُّرَاحُ فَوْقَ سَبْعِ سَمَوَاتٍ تَحْتَ الْعَرْشِ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ لَا يَعُودُونَ فِيهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
أَبِي الطُّفَيْلِ نے کہا میں نے علی رضی الله عنہ کو دیکھا وہ خطبہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے سوال کرو الله کی قسم کوئی چیز نہ ہو گی جو قیامت تک ہو کہ تم اس کا پوچھو اور میں جواب نہ دوں اور کتاب الله کے بارے میں پوچھو الله کی قسم کوئی اس میں آیت نہیں کہ جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ دن میں اتری یا رات میں سیدھی زمین پر اتری یا پہاڑ پر پس ابن الکواء کھڑا ہوا اور میں اس کے اور علی کے درمیان تھا اور یہ میرے پیچھے تھا کہا کیا اپ نے بیت المعمور دیکھا ہے کیا ہے یہ ؟ علی نے کہا یہ شیش ( محل) ہے سات آسمان اوپر عرش کے نیچے ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جو واپس نہیں پلٹتے یہاں تک کہ قیامت ہو

کتاب جامع بيان العلم وفضله از ابن عبد البر دار ابن الجوزی کے مطابق

وَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ فَتْحٍ، نا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، نا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: ” شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَخْطُبُ وَيَقُولُ: سَلُونِي فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ يَكُونُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا حَدَّثْتُكُمْ بِهِ وَسَلُونِي عَنْ كِتَابِ اللَّهِ؛ فَوَاللَّهِ مَا مِنْهُ آيَةٌ إِلَّا  وَأَنَا أَعْلَمُ بِلَيْلٍ نَزَلَتْ أَمْ بِنَهَارٍ أَمْ بِسَهْلٍ نَزَلَتْ أَمْ بِجَبَلٍ، فَقَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ وَأَنَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: مَا {الذَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا} [الذاريات: 2] ؟ قَالَ: وَيْلَكَ سَلْ تَفَقُّهًا وَلَا تَسَلْ تَعَنُّتًا، {الذَّارِيَاتُ ذَرْوًا} [الذاريات: 1] : رِيَاحٌ، {فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا} [الذاريات: 2] : السَّحَابُ {فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا} [الذاريات: 3] : السُّفُنُ {فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا} [الذاريات: 4] : الْمَلَائِكَةُ قَالَ: أَفَرَأَيْتَ السَّوَادَ الَّذِي فِي الْقَمَرِ؟ قَالَ: أَعْمَى سَأَلَ عَنْ عَمْيَاءَ أَمَا سَمِعْتَ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ} [الإسراء: 12] فَمَحْوُهُ السَّوَادُ الَّذِي فِيهِ، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ ذَا الْقَرْنَيْنِ؟ أَنَبِيًّا كَانَ أَمْ مَلِكًا؟ قَالَ: لَا وَاحِدًا مِنْهُمَا وَلَكِنَّهُ كَانَ عَبْدًا صَالِحًا أَحَبَّ اللَّهَ فَأَحَبَّهُ اللَّهُ وَنَاصَحَ اللَّهَ فَنَاصَحَهُ اللَّهُ، دَعَا قَوْمَهُ إِلَى الْهُدَى فَضَرَبُوهُ عَلَى قَرْنِهِ ثُمَّ دَعَاهُمْ إِلَى الْهُدَى فَضَرَبُوهُ عَلَى قَرْنِهِ الْآخَرِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ قَرْنَانِ كَقَرْنَيِ الثَّوْرِ، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ هَذَا الْقَوْسَ مَا هُوَ؟ قَالَ: هِيَ عَلَامَةٌ بَيْنَ نُوحٍ وَبَيْنَ رَبِّهِ وَأَمَانٌ مِنَ الْغَرَقِ قَالَ: أَفَرَأَيْتَ الْبَيْتَ الْمَعْمُورَ مَا هُوَ؟ قَالَ: الصُّرَاحُ فَوْقَ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ  تَحْتَ الْعَرْشِ يُدْخِلَهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ [ص:465] أَلْفَ مَلَكٍ لَا يَعُودُونَ فِيهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ: فَمَنِ الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ؟ قَالَ: هُمَا الْأَفْجَرَانُ مِنْ قُرَيْشٍ كُفِينَهُمَا يَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ: فَمَنِ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا؟ قَالَ: كَانَ أَهْلُ حَرُورَاءَ مِنْهُمْ “

أَبِي الطُّفَيْلِ نے کہا میں نے علی رضی الله عنہ کو دیکھا وہ خطبہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے مجھ سے پوچھو اللہ کی قسم تم کوئی چیز نہ ہو گی جو قیامت تک ہو کہ وہ پوچھو اور میں اس کا تم سے ذکر نہ کر دوں اور کتاب الله کے بارے میں پوچھو الله کی قسم کوئی اس میں آیت نہیں کہ جس کو میں نہ جانتا ہوں  کہ دن میں اتری یا رات میں سیدھی زمین پر اتری یا پہاڑ پر پس ابن الکواء کھڑا ہوا اور میں اس کے اور علی کے درمیان تھا اور یہ میرے پیچھے تھا کہا یہ الذَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا} [الذاريات: 2] کیا ہے ؟ علی نے جواب دیا تیری بربادی ہو وہ سوال کر جس سے تفقہ ہو نہ کہ بھڑاس نکال- {الذَّارِيَاتُ ذَرْوًا} [الذاريات: 1] یہ ہوائیں ہیں {فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا} [الذاريات: 2] یہ بادل ہیں {فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا} [الذاريات: 3] یہ کشتیاں ہیں {فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا} [الذاريات: 4] یہ فرشتے ہیں – ابن الکواء نے کہا یہ چاند میں اپ نے دھبے دیکھے ہیں؟ علی نے کہا اندھے نے اندھے سے سوال کیا ہے کیا  تو نے قرآن میں الله کا کہا نہیں سنا ؟ {وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ} [الإسراء: 12] (پس ہم رات کی نشانی کو مٹا دیتے ہیں )تو اس میں جو مٹا دیا جاتا ہے وہ یہ دھبے ہیں ابْنُ الْكَوَّاءِ نے پوچھا اپ نے ذو القرنین کو دیکھا ، نبی ہیں کہ فرشتہ ہیں ؟ علی نے کہا ان دونوں میں سے ایک بھی نہیں بلکہ صالح شخص ہیں الله سے محبت کرنے والے تو الله نے ان سے محبت کی اور … قوم کو پکارا ہدایت کی طرف تو ان کے ایک سینگ پر مارا اور پھر پکارا تو دوسرے سینگ پر مارا اور ذوالقرنین کے بیل جیسے دو سینگ نہیں تھے ابْنُ الْكَوَّاءِ نے پوچھا یہ قَوْسَ قُزَحَ کیا ہے ؟ علی نے کہا یہ نوح اور الله کے درمیان غرق ہونے سے امان کی علامت ہے ابْنُ الْكَوَّاءِ نے پوچھا کیا اپ نے بیت المعمور کو دیکھا؟ یہ کیا ہے ؟ علی نے کہا ایک شیش ( محل) ہے سات آسمان اوپر عرش کے نیچے ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جو واپس نہیں پلٹتے یہاں تک کہ قیامت ہو ابْنُ الْكَوَّاءِ نے پوچھا آیت بَدَّلُوا  نِعْمَةَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ میں یہ کون ہیں ؟ علی نے کہا قریش کے فاجر لوگ جن سے بدر کے دن بچے ابن الکواء نے پوچھا آیت الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا میں یہ کون ہیں ؟ علی نے کہا یہ اہل حَرُورَاءَ خوارج ہیں

محقق ابی الاشبال الزھیری کہتے ہیں
اسنادہ صحیح و رجاله ثقات
سند میں وهْب بن عَبد اللَّهِ بن أَبي دبي الكوفي ہے

مکتبہ عباد الرحمان سے اسی کتاب کا جو نسخہ چھپا ہے اس کے محقق ابو عبد الله محمد بن عبد الرحمان الصالح اس روایت پر کہتے ہیں
اسنادہ صحیح

امام بخاری نے بھی یہ روایت تاریخ الکبیر میں عبد الله بن وھب کے ترجمہ میں دی ہے لیکن اس کو مکمل نقل نہیں کیا صرف یہ لکھا کہ علی رضی الله عنہ نے کہا مجھ کو علم ہے کون سی آیت کہاں اتری

====================================================

قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ محققین جو اہل سنت میں سے ہیں وہ ان روایات کو صحیح کہہ رہے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہیں

روایت سند سے صحیح بھی ہوں تو ان کا متن خود بخود صحیح نہیں ہو جاتا

روایت کے مطابق ابن الکواء نے پوچھا آیت الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا میں یہ کون ہیں ؟ علی نے کہا یہ اہل حَرُورَاءَ خوارج ہیں – یہ قول   صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت جہنمیوں کے بارے میں ہے اور علی نے خوارج کو کافر قرار  نہیں دیا نہ اہل سنت کے ائمہ نے ان کو کافر قرار دیا ہے- یہاں تک کہ ابن زبیر اور ابن عباس نے خوارج کو حج بھی کرنے دیا ہے

قوس قزح کو طوفان نوح کے بعد الله اور اہل ارض کے درمیان ایک امان نامہ قرار دیا گیا ہے اصلا یہ قول یہود کا ہے
کتاب پیدائش باب ٩ میں ہے

I have set my rainbow in the clouds, and it will be the sign of the covenant between me and the earth. Whenever I bring clouds over the earth and the rainbow appears in the clouds,  I  will remember my covenant between me and you and all living creatures of every kind. Never again will the waters become a flood to destroy all life.
میں نے اپنا قوس قزح بادلوں میں رکھا ہے اور یہ میرے اور زمین کے درمیان ایک عہد میثاق ہے
میں جب بھی زمیں پر بادل لاؤں گا اور قوس قزح بادلوں میں ظاہر کروں گا تو میں اپنے اور تمہارے تمام زندہ مخلوقات درمیان اس عہد کو یاد کروں گا کہ آئندہ کبھی بھی پانی سیلاب نہ بنے گا کہ تمام حیات کو برباد کر دے

یہ نظم کائنات کا تغیر ہے کیونکہ اگر قوس قزح نوح علیہ السلام کے دور سے شروع ہوا ہے تو روشنی کا انعکاس پہلے نہ ہوا ہو گا اور نہ آدم علیہ السلام نے دیکھا ہو گا جبکہ زمیں و آسمان کے اس تغیر کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث نبوی میں

بابل کی غلامی میں یہود کو قوس قزح پر یہ قول بابل سے ملا جن کی

Epic of Gilgamesh

کے مطابق دیوی اشتار

Ishtar

نے اہل ارض  سے وعدہ کے کہ ان کو  آج کے بعد طوفان سے تباہ نہ کرے گی اور وعدہ کے طور پر اپنا ہار دیا جو قوس قزح ہے

اہل کتاب کے محققین کہتے ہیں کہ کتاب پیدائش کا یہ حصہ

Priests of Temples

نے توریت میں شامل گیا کہ اس کو  اپنے حساب سے بیان کیا

اسی طرح علی رضی الله عنہ سے منسوب اس قول میں کہا گیا ہے کہ علی نے ملکی وے کہکشاں کو آسمان کی مقعد قرار دیا جس سے  طوفان نوح پر پانی نکلا  اور زمین پر آیا – یہ بھی ایک غیر سائنسی بات ہوئی کیونکہ آسمان کا پانی بادل سے اتا ہے نہ کہ ملکی وے سے

ملکی وے یا جاہ شیر کہکشاں ایک نہر ہے یہ قول قدیم فراعنہ مصر کا تھا ان کے نزدیک دریائے نیل اصل میں آسمان کی نہر ہے جو ملکی وے سے ملی ہوئی ہے – ابن الکواء نے جس طرح پانی اور ملکی وے کو ملایا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ قول عربوں میں ابن الکواء سے آیا – یاد رہے کہ خوارج مصر سے آئے تھے جو فراعنہ مصر کی تہذیب کا مقام تھا اور ابن الکواء بھی سابقہ خارجی تھا اس طرح ان کے ڈاک خانے مل جاتے ہیں

Ancient Egypt: The Light of the World Book by Gerald Massey

علی نے چاند کے گڑھوں کو مستقل قرار نہیں دیا اور کہا وہ مٹ جاتے ہیں اور آیت کی غلط تاویل بھی کی کیونکہ آیت میں چاند کی گھٹتی بڑھتی منازل کا ذکر ہے جو زمین سے نظر اتی ہیں-  چاند کے گڑھے اس پر حقیقی ہیں کالے دھبے نہیں ہیں جو مٹ جائیں

یعنی ابن الکواء یا ابی الطفیل  کے بقول علی رضی الله عنہ نے تین اقوال کہے جو فی الحقیقت غلط ہیں آج سائنس سے ہم کو  ان کا علم ہے

أبو الطفيل عامر بن واثلة الليثي بہت سے محدثین کے نزدیک صحابی نہیں – امام احمد نے کہا اس نے رسول الله کو دیکھا سنا نہیں ہے

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو سعيد مولى بني هاشم. قال: حدثني مهدي بن عمران المازني. قال: سمعت أبا الطفيل، وسئل هل رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم -؟ قال: نعم، قيل: فهل كلمته؟ قال: لا. «العلل» (5822)

دارقطنی نے کہا الله کو پتا ہے کہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا یا نہیں

قال الدَّارَقُطْنِيّ: أبو الطفيل رأى النبي – صلى الله عليه وسلم – وصحبه، فأما السماع فالله أعلم. «العلل» 7 42.

الکامل از ابن عدی میں ان کے بارے میں لکھا ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثني صَالِحُ بْنُ أَحْمَد بْن حنبل، قَال: حَدَّثَنا علي، قَالَ: سَمِعْتُ جرير بْن عَبد الحميد، وقِيلَ لَهُ: كَانَ مغيرة ينكر الرواية، عَن أبي الطفيل؟ قَال: نَعم.

جرير بْن عَبد الحميد سے پوچھا گیا کہ مغیرہ کیا ابو الطفیل کی روایت کا انکار کرتے تھے کہا ہاں

جامع التحصیل کے مطابق

له رؤية مجردة وفي معجم الطبراني الكبير روايته عن زيد بن حارثة وهو مرسل لم يدركه

ابو طفیل نے مجرد دیکھا ہے اور معجم طبرانی میں اس کی روایت زید بن حارثہ سے ہے جو مرسل ہے اس کی ملاقات زید سے نہیں

الذھبی کے بقول انہوں نے

رَأَى النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَهُوَ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ

نبی کو حجه الوداع کے موقعہ پر دیکھا

بحوالہ سير أعلام النبلاء

تاریخ دمشق کے مطابق

الأخرم: لم ترك البخاري حديث أبي الطفيل؟ قال: لأنه كان يُفرط في التشيع.

الأخرم نے کہا بخاری نے ابو طفیل کی حدیث کیوں ترک کی ؟ کہا کیونکہ یہ شیعیت میں  افراط کرتے تھے

اہل تشیع کے مطابق یہ صحابی

عامر بن واثلة ل، ى، ين (كش) كان كيسانيا يقول بحياة محمدابن الحنيفة وخرج تحت راية المختار

کیسانیہ فرقے کے تھے جو اس کے قائل ہیں کہ محمد بن حنفیہ کو موت نہیں اور یہ مختار ثقفی کے جھنڈے تلے نکلے

اہل سنت کے امام  ابن حزم نے ابو طفیل کو  صاحب راية المختار  قرار دیا ہے  بحوالہ ھدی الساری از ابن حجر

مختار ثقفی اہل سنت میں کذاب ہے اور اہل تشیع کے مطابق غلط شخص کو امام سمجھتا تھا صحیح عقیدے پر نہیں تھا

آخر میں روایت میں علی کا دعوی کہ وہ ہر اس بات کو جانتے ہیں جو قیامت تک ہو گی بھی صحیح نہیں ہوسکتا ورنہ تو یہ علی کی لیلا بن جائے گی کہ ابن ملجم آگے اتا ہے وہ نماز میں کھڑے رہتے ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ابن ملجم ان کو قتل کرنے کے لیے بڑھ رہا ہے

ان شواہد کی روشنی میں یہ روایت باطل متن منکر ہے

جو قول اغلبا صحیح ہے وہ صرف یہ کہ علی نے ذو القرنین پر خیال کا اظہار کیا

مشکل الآثار از طحاوی میں ہے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ دَاوُدَ الْخُرَيْبِيُّ , عَنْ بِسَامٍّ الصَّيْرَفِيِّ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: ” سَلُونِي قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلُونِي , وَلَنْ تَسْأَلُوا بَعْدِي مِثْلِي ” فَقَامَ إِلَيْهِ ابْنُ الْكَوَّاءِ فَقَالَ: مَا كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ , أَمَلَكٌ كَانَ أَوْ نَبِيٌّ؟ قَالَ: ” لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا وَلَا مَلَكًا , وَلَكِنَّهُ كَانَ عَبْدًا صَالِحًا , أَحَبَّ اللهَ فَأَحَبَّهُ , وَنَاصَحَ اللهَ فَنَصَحَهُ , ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْمَنِ فَمَاتَ , ثُمَّ بَعَثَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ , ثُمَّ ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْسَرِ فَمَاتَ , وَفِيكُمْ مِثْلُهُ
ابْنُ الْكَوَّاءِ نے کہا ذُو الْقَرْنَيْنِ کون ہیں نبی یا فرشتہ ؟ علی نے کہا نہ نبی ہیں نہ فرشتہ ہیں بس نیک بندے ہیں الله سے محبت کرنے والے تو الله نے ان سے محبت کی اور الله سے مشورہ کیا تو الله نے ان کو نصیحت دی انہوں نے دائیں جانب ایک قریہ پر ضرب کی وہ ہلاک ہوئے پھر الله نے انہیں بھیجا بائیں جانب قریہ پر ضرب کی وہ بھی ہلاک ہوئے اور تمھارے درمیان ان کے جیسا موجود ہے

طحاوی نے اس روایت کو قبول کیا ہے اور علی کے قول کہ وہ ذو القرنین جیسے ہیں کی تاویل بھی کی ہے
فَقَالَ قَائِلٌ: فَفِي حَدِيثِ عَلِيٍّ الَّذِي رَوَيْتَهُ: ” وَفِيكُمْ مِثْلُهُ ” فَمَا الْمُرَادُ بِذَلِكَ مِمَّا قَدْ جُعِلَ فِيهِ مِثْلًا لِذِي الْقَرْنَيْنِ. فَكَانَ جَوَابَنَا لَهُ فِي ذَلِكَ بِتَوْفِيقِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَوْنِهِ: أَنَّهُ أُرِيدَ بِهِ أَنَّهُ مِثْلٌ لِذِي الْقَرْنَيْنِ فِي دُعَائِهِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَفِي قِيَامِهِ بِالْحَقِّ , دُعَاءً وَقِيَامًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , كَمَا كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ فِيمَا دَعَا إِلَيْهِ , وَفِيمَا قَامَ بِهِ قَائِمًا وَدَاعِيًا بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.

طحاوی نے کہا : ہمارا جواب الله کی توفیق و مدد سے یہ ہے کہ علی کی مراد ہے کہ وہ ذو القرنین کی مثل ہیں الله سے دعا کرنے میں  اور حق پر قائم ہونے پر  جیسا کہ ذو القرنین حق پر قائم ہوئے اور اس کی دعوت دی روز محشر تک کے لئے

راقم کہتا ہے علی نے اہل جمل اور اہل صفیں کو شکست دی تھی لہذا  علی اگر کوفہ میں مسجد میں خطاب کر رہے تھے تو کعبہ پشت کی طرف تھا بصرہ دائیں طرف تھا جہاں اہل جمل سے لڑے اور رقہ بائیں طرف تھا جہاں اہل شام سے لڑے اس طرح علی نے اپنے اپ کو مرد صالح  ذو القرنین سے ملایا جنہوں نے دائیں اور بائیں جانب قتال کیا

 

محدثین سجین اور برھوت

قرآن میں ہے

وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (20) يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ
 اورتم کیا جانو عِلِّيُّونَ کیا ہے- کتاب ہے رقم کی ہوئی- جس کی نگہبانی مقرب کرتے ہیں

فرمایا

وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَرْقُومٌ
 اور تم کیا جانو سجین کیا ہے-  کتاب ہے رقم کی ہوئی

لیکن افسوس اقوال رجال کی بنیاد پر قرآن کی ان آیات کا مفہوم تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ عقائد باطلہ کا اثبات کیا جا سکے اور یہ کوئی آج کل کی بات نہیں صدیوں سے چلی آئی روایت ہے کہ معنی و مفاہیم قرآن کو اپنے فرقوں کے سانچوں میں ڈھالا جائے

تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم کے مطابق سجین کے لئے

عَنِ السُّدِّيِّ وَمَا تَحْتَ الثَّرَى قَالَ: هي الصخرة التي تحت الأَرْض السابعة، وهي خضراء وهو سجين الّذِي فيه كتاب الكفار
السدي نے کہا یہ تحت الثری میں ہے یہ چٹان ہے ساتویں زمین کے نیچے جو سبز ہے اور یہ سجین ہے جس میں کفار کی کتاب ہے

یہ سند ضعیف ہے السدی مجروح راوی ہے

تفسیر طبری کی روایت ہے
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني جرير بن حازم، عن سليمان الأعمش، عن شمر بن عطية، عن هلال بن يساف، قال: كنا جلوسا إلى كعب أنا وربيع بن خيثم وخالد بن عُرْعرة، ورهط من أصحابنا، فأقبل ابن عباس، فجلس إلى جنب كعب، فقال: يا كعب أخبرني عن سِجِّين، فقال كعب: أما سجِّين: فإنها الأرض السابعة السفلى، وفيها أرواح الكفار تحت حدّ إبليس.

هلال بن يساف نے کہا میں اور ربيع بن خيثم اور خالد بن عُرْعرة کعب کے پاس بیٹھے تھے اور ہمارے اصحاب کا ایک ٹولہ پس ابن عباس آئے اور کعب کے برابر بیٹھ گئے اور کہا اے کعب ہم کو سجین کی خبر دو پس کعب الاحبار نے کہا سجین یہ تو ساتویں زمین ہے نیچے جس میں کفار کی روحیں ہیں ابلیس کے قید خانہ کے نیچے

تفسیر طبری میں اسی سند سے ہے

حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني جرير بن حازم، عن الأعمش، عن شمر بن عطية، عن هلال بن يساف، قال: سأل ابن عباس كعبًا وأنا حاضر عن العليين، فقال كعب: هي السماء السابعة، وفيها أرواح المؤمنين
ابن عباس نے العليين پر سوال کیا کعب نے کہا ساتواں آسمان جس میں مومنوں کی روحیں ہیں

دونوں کی سند منقطع ہے کتاب الاکمال کے مطابق
وفي كتاب «سؤالات حرب الكرماني» قال أبو عبد الله: الأعمش لم يسمع منه شمر بن عطية
اعمش کا سماع شمر بن عطية سے نہیں ہے

بعض جہلا نے اس کعب الاحبار کو کعب بن مالک رضی الله عنہ بنا دیا ہے یا کعب الاحبار کو صحابی سمجھا ہے جبکہ کعب الاحبار صحابی نہیں ہے

یہود کا قول ہے کہ جہنم زمین میں ہے اور اس کا ایک دروازہ ارض مقدس میں ہے

The statement that Gehenna is situated in the valley of Hinnom near Jerusalem, in the “accursed valley” (Enoch, xxvii. 1 et seq.), means simply that it has a gate there. It was in Zion, and had a gate in Jerusalem (Isa. xxxi. 9). It had three gates, one in the wilderness, one in the sea, and one in Jerusalem (‘Er. 19a).

Jewish Encyclopedia, GEHENNA
http://www.jewishencyclopedia.com/articles/6558-gehenna

یہ عبارت کہ جہنم ہنوم کی وادی میں یروشلم کے پاس ہے ، پھٹکار کی وادی میں (انوخ ٢٧ ، ١ ) کا سادہ مطلب ہے کہ وہاں اس (جہنم) کا دروازہ ہے- یہ (جہنم) صیہون (بیت المقدس کا ایک پہاڑ) میں تھی اور دروازہ یروشلم میں تھا (یسیاہ باب ٣١: 9 ). اس کے تین دروازے (کھلتے) تھے ایک صحرآ میں، ایک سمندر میں، ایک یروشلم میں

لہذا کعب الاحبار نے جو بھی بیان کیا یا جو اس سے منسوب کیا گیا وہ اسرائیلات میں سے ہے قول نبوی نہیں ہے

تفسیر طبری کی دوسری روایت ہے
حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس، في قوله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) يقول: أعمالهم في كتاب في الأرض السفلى.

عطیہ عوفی نے ابن عباس سے روایت کیا کہ قول الله تعالی (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) کہا یہ کتاب ہے جس میں ان کے اعمال ہیں جو زمین سفلی میں ہے

محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية العوفى شیخ طبری ہیں – کتاب المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کے مطابق
سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد، العوفي، البغدادي، والد محمد بن سعد، شيخ الطبري ہے

عطية بن سعد، العوفي، سخت مجروح راوی ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص بن حميد، عن شمر، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار، فقال له ابن عباس: حدِّثني عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ … ) الآية، قال كعب: إن روح الفاجر يصعد بها إلى السماء، فتأبى السماء أن تقبلها، ويُهبط بها إلى الأرض فتأبى الأرض أن تقبلها، فتهبط فتدخل تحت
سبع أرضين، حتى ينتهي بها إلى سجين، وهو حدّ إبليس، فيخرج لها من سجين من تحت حدّ إبليس، رَقّ فيرقم ويختم ويوضع تحت حدّ إبليس بمعرفتها
شمر نے کہا ابن عباس کعب الاحبار کے پاس پہنچے اس سے کہا الله کے قول پر بیان کرو- کعب نے کہا فاجر کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان اس کو قبول کرنے میں کراہت کرتا ہے اس کو زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے تو زمین کراہت کرتی ہے تو اس کو ساتویں زمین میں داخل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سجین میں جا پہنچتی ہے جو ابلیس کی حد ہے .. وہاں ایک ورقه نکلتا ہے جس میں رقم کیا جاتا ہے اور مہر لگائی جاتی ہے اور رکھا جاتا ہے ابلیس کے قید کے نیچے جاننے کے لئے

اسی سند سے تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص، عن شمر بن عطية، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فسأله، فقال: حدثْنِي عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الأبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ … ) الآية، فقال كعب: إن الروح المؤمنة إذا قُبِضت، صُعد بها، فَفُتحت لها أبواب السماء، وتلقَّتها الملائكة بالبُشرَى، ثم عَرَجُوا معها حتى ينتهوا إلى العرش،
فيخرج لها من عند العرش فيُرقَم رَقّ، ثم يختم بمعرفتها النجاة بحساب يوم القيامة، وتشهد الملائكة المقرّبون.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے عِلِّيِّينَ سے متعلق پوچھا تو کعب نے کہا مومنوں کی روحیں جب قبض ہوتی ہیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے بشارت دیتے ہیں پھر بلند ہوتی ہیں یھاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں پس عرش کے پاس ایک ورقه ہے جس میں رقم کرتے ہیں پھر مہر لگتی ہے معرفت کے لئے کہ قیامت میں حساب سے نجات ہو گی اور مقرب فرشتے گواہ بنتے ہیں

دونوں کی سند ایک ہے ضعیف ہے
میزان کے مطابق حفص بن حميد، أبو عبيد القمى کو ابن المديني: مجهول کہتے ہیں
دوسرے راوی يعقوب بن عبد الله القمي کو الدارقطني ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا ابن نمير، قال: ثنا الأعمش، قال: ثنا المنهال بن عمرو، عن زاذان أبي عمرو، عن البراء، قال: (سِجِّينٍ) الأرض السفلى.
منہال بن عمرو نے زاذان سے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا سجین نچلی زمین ہے

دوسری سند ہے
حدثنا أبو كُرَيب، قال: ثنا أبو بكر، عن الأعمش، عن المنهال، عن زاذان، عن البراء، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وذكر نفس الفاجر، وأنَّهُ يُصعَدُ بها إلى السَّماء، قال: ” فَيَصْعَدُون بها فَلا يمُرُّونَ بِها عَلى مَلإ مِنَ المَلائِكَة إلا قالُوا: ما هَذَا الرُّوحُ الخَبِيثُ؟ قال: فَيَقُولُونَ: فُلانٌ بأقْبَحِ أسمَائِهِ التي كان يُسَمَّى بها في الدنيا
حتى يَنْتَهوا بِهَا إلى السَّماء الدُّنْيا، فيَسْتَفْتِحُونَ لَهُ. فَلا يُفْتَحُ لَهُ، ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” (لا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ) فَيَقُولُ اللهُ: اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي أسْفَلِ الأرْضِ فِي سجِّينٍ فِي الأرْضِ السُّفْلَى”.

زاذان نے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا … اس کی کتاب کو زمین میں نیچے سجین میں لکھو جو الأرْضِ السُّفْلَى ( زمین کا نچلا حصہ) ہے

زاذان اہل علم کے نزدیک مضبوط راوی نہیں اور غلطیاں کرتا ہے

البتہ اس کو صحیح کہنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ سجین ایک مقام کہا جا رہا ہے جبکہ قرآن میں صریح اس کو کتاب کہا گیا ہے

مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ میں ہے

3539 – عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: عِلِّيِّينَ قَالَ: «فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ عِنْدَ قَائِمَةِ الْعَرْشِ الْيُمْنَى»
معمر نے قتادہ بصری سے روایت کیا کہ عِلِّيِّينَ ساتویں آسمان پر ہے عرش کے داہنا پایہ کے پاس

راقم کہتا ہے عرش کو تو مسلسل فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے

محدثین کہتے ہیں
قَالَ أَبُو حَاتِم مَا حدث معمر بن رَاشد بِالْبَصْرَةِ فَفِيهِ أغاليط
ابو حاتم نے کہا معمر نے جو بصرہ میں روایت کیا اس میں غلطیاں ہیں

پھر معمر مدلس اور قتادہ بھی مدلس – یہ قول قابل رد ہے

کتاب صفة النار از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: ” كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَإِنَّ جَهَنَّمَ فِي الْأَرَضِينَ السَّبْعِ

عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ کہتے ہیں ان کو ابو ہلال نے خبر دی انہوں نے قتادہ سے روایت کیا کہ کہا کہ وہ کہتے جنت ساتویں آسمان پر اور جہنم ساتویں زمین پر ہے

قتادہ نے واضح نہیں کیا کہ وہ کہتے ہیں میں کون مراد ہے – ایسے مجہول لوگوں کے اقوال بیان بھی نہیں کرنے چاہییں

 ایک شاذ قول عبد اللہ بن سلام رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا ہے

وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ

اور بے شک جنت آسمان میں اور جہنم زمین میں ہے

اس قول کی ایک سند کتاب صفة الجنة از ابی نعیم  میں ہے

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ أَبِي نَصْرٍ الطُّوسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرَّقِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْقُرْدُوَانِيُّ، ثنا خَضِرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ، الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ

سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْقُرْدُوَانِيُّ ہے جس کے لئے الذھبی کہتے ہیں

قال ابن عروبة: … ولم يكن يعرف الحديث

ابن عروبة نے کہا  یہ حدیث نہیں جانتا

اور میزان میں کہا

قال أبو أحمد الحاكم: ليس بالمتين عندهم.

أبو أحمد الحاكم نے کہا مضبوط نہیں ہے

دوسری سند مسند الحارث میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبَانَ , ثنا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ , عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ يَقُولُ: إِنَّ ” أَكْرَمَ خَلِيقَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارَ فِي الْأَرْضِ , فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بَعَثَ اللَّهُ الْخَلِيقَةَ أُمَّةً أُمَّةً وَنَبِيًّا نَبِيًّا , حَتَّى يَكُونَ أَحْمَدُ وَأَمَّتُهُ آخِرَ الْأُمَمِ مَرْكَزًا , ثُمَّ يُوضَعُ جِسْرٌ عَلَى جَهَنَّمَ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ: أَيْنَ أَحْمَدُ وَأُمَّتُهُ , فَيَقُومُ وَتَتْبَعُهُ أُمَّتُهُ بَرُّهَا وَفَاجِرُهَا “

یھاں سند میں عبد العزيز بن أبان ہے جو متروک مشہور ہے

تیسری سند کتاب الکنی از الدولابی میں ہے

حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ:، ثَنَا الْخَضِرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شُجَاعٍ قَالَ:، ثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ [ص:7]، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ»

یہاں هلال بن العلاء بن هلال مضبوط نہیں ہے جو منکرات بیان کرتا ہے

چوتھی سند مستدرک الحاکم کی ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ، ثَنَا عَفَّانُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَا: ثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ
یہاں سند میں محمد بن غالب بن حرب الضبي، تمتام ہے جس کے لئے ہے کہ دارقطنی نے کہا
وكان وهم في أحاديث
ان کی احادیث میں وہم ہے
اس کی ایک روایت شَيَّبَتْنِي هُودٌ کو موسى بن هَارُون کی طرف سے موضوع بھی کہا گیا ہے

مجاہد جو ابن عباس کے شاگرد ہیں  ان کے لئے اعمش نے کہا – سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی، مجاہد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ الحَافِظُ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَبْدِ القُدُّوْسِ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: كَانَ مُجَاهِدٌ لاَ يَسْمَعُ بِأُعْجُوْبَةٍ، إِلاَّ ذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ذَهَبَ إِلَى بِئْرِ بَرَهُوْتَ   بِحَضْرَمَوْتَ

اعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں  سنتے تھے الا یہ کہ وہاں جا کر اس کو دیکھتے لہذا برھوت حضر الموت گئے کہ اس کو جا کر دیکھیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا مهران، عن سفيان، عن منصور، عن مجاهد، عن مغيث بن سميّ، قال: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) قال: الأرض السفلى، قال: إبليس مُوثَق بالحديد والسلاسل في الأرض السفلى.

مجاہد نے مغیث سے روایت کیا کہ  آیت میں سجین سفلی زمین ہے کہا اس میں ابلیس ہے جو لوہے کی زنجیر سے جکڑا ہوا ہے  نچلی زمین میں

معلوم هوا کہ مفسرین میں مجاہد  یہ بھی روایت کرتے تھے کہ ابلیس زمین میں قید ہے جبکہ قرآن کہتا ہے کہ ابلیس کو محشر تک چھوٹ دی گئی ہے

اسی طرح الجامع لتفسير الإمام ابن رجب الحنبلي کے مطابق

وخرج ابن مندة ، من حديث أبي يحيى القتات عن مجاهد ، قال: قلت لابن عباس: أين الجنة ؟ قال : فوق سبع سموات ، قلت : فأين النار؟ قال: تحت سبعة أبحر مطبقة .

ابن مندہ ایک روایت بیان کی ہے کہ أبي يحيى القتات نے مجاہد سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہ سے پوچھا کہ جنت کہاں ہے بولے سات آسمانوں سے اوپر .- پوچھا اور جہنم؟ بولے سات سمندر کے اندر

اس کی سند میں أبو يحيى القتات المتوفی 130 ھ ہے ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وفيه ضعف اس میں ضعف ہے – الكامل في ضعفاء الرجال از ا بن عدي کے مطابق نسائی کہتے ہیں ليس بالقوي – الذھبی نے ديوان الضعفاء میں ذکر کیا ہے

لہذا یہ ایک ضعیف روایت ہے

ان اقوال کی بنیاد پر ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں

 والصحيح أن سجِّيناً مأخوذ من السجن، وهو الضيق ….. والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة

اور صحیح بات ہے کہ سجین ماخوذ ہے سجن قید خانہ سے اور یہ تنگ ہے … اور اس کا مقام ساتویں زمین کا وسط کا مرکز ہے

یعنی سجین ارض کا

CORE

ہے  جہاں زمین کا مرکز ووسط ہے

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

أنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: أنا مُحَمَّدُ بْنُ   هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، قَالَ: نا الرَّبِيعُ، قَالَ: نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: ” تَخْرُجُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، فَتَعْرُجُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهُ فَتَلْقَاهُ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا هَذَا الَّذِي جِئْتُمْ بِهِ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: تَوِّجُوهُ، هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ كَانَ يَعْمَلُ كَيْتَ وَكَيْتَ لِأَحْسَنِ عَمَلٍ لَهُ , قَالَ: فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ، وَحَيَّا مَا جِئْتُمْ بِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ الَّذِي يَصْعَدُ فِيهِ قَوْلُهُ وَعَمَلُهُ، فَيُصْعَدُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ حَتَّى يَأْتِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَهُ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، وَرُوحُ الْكَافِرِ أَنْتَنُ يَعْنِي: مِنَ الْجِيفَةِ وَهُوَ بِوَادِي حَضْرَ مَوْتَ، ثُمَّ أَسْفَلَ الثَّرَى مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ “

ابو موسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو اس میں سےمشک کی سی خوشبو اتی ہے پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تم کیا لے کر آئے ہو ؟ پس فرشتے کہتے ہیں ادھر دیکھو یہ فلاں بن فلاں ہے اس نے ایسا ایسا عمل کیا ہے اچھا – پس فرشتے کہتے ہیں الله تم پر سلامتی کرے اور جو تم لائے ہو اس پر پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں یہاں تک کہ رب تعالی کے پاس جاتے ہیں اور ان کے لئے سورج کی طرح یہ ثبوت ہوتا  ہے   اور کافر کی روح سڑتی ہے یعنی سڑی ہوئی جو حضر الموت کی وادی میں ہے الثری کی تہہ ہیں سات زمین نیچے

اس میں حضر الموت میں وادی کا ذکر ہے جس میں برھوت ہے لیکن یھاں روایت برھوت کا ذکر نہیں ہے

اس سند کی علت یہ ہے کہ اس میں الربیع مجہول ہے – یہ الرویانی نے روایت کی ہے اور اس نام کا ان کا کوئی شیخ نہیں ہے اور یہ روایت مسند الرویانی میں بھی نہیں ہے

یہ منکر متن رکھتی ہے

ابو موسی ألاشعري رضي الله تعالى عنه سے منسوب ایک اور روایت میں ان الفاظ کی تشریح ہے کہ الله تعالی  نعوذ باللہ سورج کی طرح چمک رہا ہوتا ہے

یہی بات رب العالمین کے لئے أبو موسى ألاشعري رضي الله تعالى عنه کے حوالے سے ارشد کمال نے المسند فی عذاب القبر میں لکھی ہے

arshad-48

کیا رب العالمین کے چہرے کی چمک ، سورج کی چمک کے برابر ہے. کیا الله تعالی نے یہ نہیں کہ  ليس كمثله شئ کہ اس کی مثل کوئی شی نہیں

لھذا یہ روایات منکر ہیں

مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: «تَخْرُجُ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنَ الْمِسْكِ»، قَالَ: ” فَيَصْعَدُ بِهَا الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهَا فَتَلَقَّاهُمْ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا مَعَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ وَيَذْكُرُونَهُ بِأَحْسَنِ عَمَلِهِ، فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ وَحَيَّا مَنْ مَعَكُمْ “، قَالَ: «فَتُفْتَحُ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ»، قَالَ: «فَيُشْرِقُ وَجْهُهُ فَيَأْتِي الرَّبَّ وَلِوَجْهِهِ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ»، قَالَ: ” وَأَمَّا الْآخَرُ فَتَخْرُجُ نَفْسُهُ وَهِيَ أَنْتَنُ مِنَ الْجِيفَةِ، فَيَصْعَدُ بِهَا الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهَا فَتَلَقَّاهُمْ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا مَعَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ وَيَذْكُرُونَهُ بِأَسْوَأِ عَمَلِهِ “، قَالَ: ” فَيَقُولُونَ: رُدُّوهُ فَمَا ظَلَمَهُ اللَّهُ شَيْئًا “، قَالَ: وَقَرَأَ أَبُو مُوسَى: ” {وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40]

اس کی سند میں عاصم بن بھدلہ کا تفرد ہے جو آخری عمر میں اختلاط کا شکار  ہوئے اور رب تعالی کو سورج کے مثال قرار دینا اسی کی وجہ لگتا ہے

اس میں متن صحیح مسلم کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایت کے خلاف ہے

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا

عبد الله بن شقیق نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ  … جب کافر کی روح نکلتی ہے … اہل آسمان کہتے ہیں خبیث روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے کہا پھر وہ کہتے ہیں اس کو آخری اجل تک کے لئے لے جاؤ

محدثین : زمیں کے وسط میں مچھلی ہے 

دوسری طرف محدثین کہتے ہیں کہ زمین کے مرکز میں ایک مچھلی ہے

مستدرک الحاکم کی روایت ہے جس کو امام حاکم صحیح کہتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الْأَرَضِينَ بَيْنَ كُلِّ أَرْضٍ إِلَى الَّتِي تَلِيهَا مَسِيرَةُ خَمْسُمِائَةِ سَنَةٍ فَالْعُلْيَا مِنْهَا عَلَى ظَهْرِ حُوتٍ قَدِ التَّقَى طَرَفَاهُمَا فِي سَمَاءٍ، وَالْحُوتُ عَلَى ظَهْرِهِ عَلَى صَخْرَةٍ، وَالصَّخْرَةُ بِيَدِ مَلَكٍ، وَالثَّانِيَةُ مُسَخَّرُ الرِّيحِ، فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُهْلِكَ عَادًا أَمَرَ خَازِنَ الرِّيحِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْهِمْ رِيحًا تُهْلِكُ عَادًا، قَالَ: يَا رَبِّ أُرْسِلُ عَلَيْهِمُ الرِّيحَ قَدْرَ مِنْخَرِ الثَّوْرِ، فَقَالَ لَهُ الْجَبَّارُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِذًا تَكْفِي الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا، وَلَكِنْ أَرْسِلْ عَلَيْهِمْ بِقَدْرِ خَاتَمٍ، وَهِيَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ الْعَزِيزِ: {مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ} [الذاريات: 42] ، وَالثَّالِثَةُ فِيهَا حِجَارَةُ جَهَنَّمَ، وَالرَّابِعَةُ فِيهَا كِبْرِيتُ جَهَنَّمَ ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِلنَّارِ كِبْرِيتٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ فِيهَا لَأَوْدِيَةٌ مِنْ كِبْرِيتٍ لَوْ أُرْسِلَ فِيهَا الْجِبَالُ الرُّوَاسِي لَمَاعَتْ، وَالْخَامِسَةُ فِيهَا حَيَّاتُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَفْوَاهَهَا كَالْأَوْدِيَةِ تَلْسَعُ الْكَافِرَ اللَّسْعَةَ فَلَا يَبْقَى مِنْهُ لَحْمٌ عَلَى عَظْمٍ، وَالسَّادِسَةُ فِيهَا عَقَارِبُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَدْنَى عَقْرَبَةٍ مِنْهَا كَالْبِغَالِ الْمُؤَكَّفَةِ تَضْرِبُ الْكَافِرَ ضَرْبَةً تُنْسِيهِ ضَرْبَتُهَا حَرَّ جَهَنَّمَ، وَالسَّابِعَةُ سَقَرُ وَفِيهَا إِبْلِيسُ مُصَفَّدٌ بِالْحَدِيدِ يَدٌ أَمَامَهُ وَيَدٌ خَلْفَهُ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُطْلِقَهُ لِمَا يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَطْلَقَهُ» هَذَا حَدِيثٌ تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو السَّمْحِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ وَقَدْ ذَكَرْتُ فِيمَا تَقَدَّمَ عَدَالَتَهُ بِنَصِّ الْإِمَامِ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

عبد الله بن عمرو نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : زمینیں ایک مچھلی کی پیٹھ پر ہیں

تفسیر ابن کثیر میں ہے

حدیث میں ہے ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں، یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے، وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں، چوتھی میں جہنم کی گندھک ہے، پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں، چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں۔ ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے، جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے

حاکم اپنی وضاحت دیتے ہیں

” وقالَ: تفرد به أبو السمح، وقد ذكرتْ عدالتُه بنصِ الإمامِ يحيى بنِ معين، والحديثُ صحيحٌ ولم يخرِّجاه

اس میں ابو السمح کا تفرد ہے جس کی عدالت پر ابن معین کی نص ہے اور حدیث صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو بیان نہیں کیا

ابن کثیر کہتے ہیں

وهذا حَدِيثٌ غَرِيبٌ جِدًّا، وَرَفْعُهُ فِيهِ نَظَرٌ.

یہ منفرد بہت سے اس کے مرفوع ہونے پر نظر ہے

لیکن ابن کثیر نے اس کو ضعیف یا موضوع یا منکر قرار نہیں دیا

تفسیر طبری کی روایت ہے

حدثني أبو السائب، قال: ثنا ابن إدريس، عن الأعمش، عن المنهال، عن عبد الله بن الحارث، قال: الصخرة خضراء على ظهر حوت.

المنھال بن عمرو نے عبد الله بن الحارث رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ چٹان سبز ہے جس کی پیٹھ پر مچھلی ہے

یعنی زمیں کے اندر تین چیزیں ہوئیں

ایک سجین یا جہنم

دوسری مچھلی

تیسرا ابلیس جو قید میں ہے

فرقہ پرست آج کل مچھلی والی حدیث ہے ابلیس کا قید خانہ والا کعب کا قول چھپا دیتے ہیں لیکن جب کعب الاحبار سجین کا ذکر کرتا ہے تو بہت ادب کے ساتھ کعب الاحبار کو کعب رضی الله عنہ لکھ کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں

اب قرآن دیکھتے ہیں

قرآن:  جس کا وعدہ ہے وہ آسمان میں ہے 

قرآن میں سوره الذاریات میں ہے

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا توعَدُونَ

اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے

الله تعالی نے انسانوں سے جنت و جہنم کا وعدہ کیا ہے کہ اہل ایمان کو جنت اور کفار کو جہنم میں ڈالے گا

سوره التین میں ہے

ثم رَدَدْنَاہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ
پھر ہم نے اسے  نیچوں کا نیچ کر دیا، ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال والے ہیں

بعض کے نزدیک یہ استعارہ نہیں بلکہ حقیقی مطلب ہے کہ جہنمی کو زمین کے اندر کر دیا جو الثری یا السفلی ہے

جبکہ یہ نرا گمان ہے

فرقہ پرست : سجین  کتاب ہے نہیں روحوں کا مسکن ہے  

رفیق طاہر لکھتے ہیں

علیین اور سجین کسی جگہ کا نام نہیں بلکہ “کتاب مرقوم” ہے جن میں نیک وبد کا اندراج کیا جاتا ہے

دامانوی صاحب دین الخالص قسط اول میں لکھتے ہیں

سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں

شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ) کتاب المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري میں لکھتے ہیں کہ

قال شيخ الإسلام ابن حجر وغيره: إن أرواح المؤمنين في عليين، وهو مكان في السماء السابعة تحت العرش وأرواح الكفار في سجين وهو مكان تحت الأرض السابعة، وهو محل إبليس وجنوده.

شیخ الاسلام ابن حجر اور دیگر کہتے ہیں: بے شک مومنین کی ارواح عليين میں ہیں، اور وہ ساتوے آسمان پر عرش کے نیچے ہے اور کفار کی ارواح سجين میں ہیں اور وہ جگہ ساتویں زمین کے نیچے ہے جو ابلیس اور اسکے لشکروں کا مقام ہے

فتاوی علمائے حدیث میں ہے

روح کہاں ہے

اسی کتاب میں ج  ١٠ میں ہے

روح کا مسکن

فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں یہ بھی ہے کہ سجین جہنم کا پتھر ہے

سجیں

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں

tozeh-563

ایک ہی فرقہ کے لوگ اس قدر متضاد عقائد رکھتے ہیں اور سب اپنے اپ کو سلف کا متبع بھی کہتے  ہیں

ابن قیم کا عقیدہ سجین اور علیین ارواح کا مقام ہے 

ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

فصل وَأما قَول من قَالَ إِن أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين فِي السَّمَاء السَّابِعَة وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين فِي الأَرْض السَّابِعَة فَهَذَا قَول قد قَالَه جمَاعَة من السّلف وَالْخلف وَيدل عَلَيْهِ قَول النَّبِي اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى وَقد تقدم حَدِيث أَبى هُرَيْرَة أَن الْمَيِّت إِذا خرجت روحه عر ج بهَا إِلَى السَّمَاء حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل وَتقدم قَول أَبى مُوسَى أَنَّهَا تصعد حَتَّى تَنْتَهِي إِلَى الْعَرْش وَقَول حُذَيْفَة أَنَّهَا مَوْقُوفَة عِنْد الرَّحْمَن وَقَول عبد الله بن عمر إِن هَذِه الْأَرْوَاح عِنْد الله وَتقدم قَول النَّبِي أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء تأوي إِلَى قناديل تَحت الْعَرْش وَتقدم حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَنَّهَا تصعد من سَمَاء إِلَى سَمَاء ويشيعها من كل سَمَاء مقربوها حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة وَفِي لفظ إِلَى السَّمَاء الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل

وَلَكِن هَذَا لَا يدل على استقرارها هُنَاكَ بل يصعد بهَا إِلَى هُنَاكَ للعرض على رَبهَا فَيقْضى فِيهَا أمره وَيكْتب كِتَابه من أهل عليين أَو من أهل سِجِّين ثمَّ تعود إِلَى الْقَبْر للمسألة ثمَّ ترجع إِلَى مقرها الَّتِي أودعت فِيهِ فأرواح الْمُؤمنِينَ فِي عليين بِحَسب مَنَازِلهمْ وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين بِحَسب مَنَازِلهمْ

بیان کہ کہنے والے کا قول بے شک  ارواح المومنین عليين  میں ساتویں آسمان پر ہیں اور کفّار کی اورح سجین میں ساتویں زمین میں ہیں پس یہ قول ہے جو سلف و خلف نے کہا ہے اور اس پر دلالت کرتا ہے نبی کا قول کہ اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى اور پیش کی ہے ابو ھریرہ کی حدیث کہ جب میت کی روح نکلتی ہے تو وہ آسمان  پر چڑھتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی ہے جس پر الله عز وَجل ہے اور پیش کرتے ہیں ابو موسیٰ کا قول کہ وہ اوپر جاتی ہے یہاں تک کہ عرش تک اور حذیفہ کا قول کہ وہ رحمان کے پاس رکی ہوئی ہے اور عبد الله ابن عمر کا قول کہ بے شک یہ ارواح الله کے پاس ہیں اور نبی کا قول ہے کہ شہداء کی ارواح قندیلوں میں عرش رحمان کے نیچے ہیں اور الْبَراء بن عَازِب کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ یہ ارواح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک جاتی ہیں .. یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچتی ہیں جس پر الله عز وَجل ہے

لیکن یہ اس پر دلالت نہیں کرتیں کہ ارواح وہاں روکتی بھی ہیں بلکہ وہ تو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے چڑھتی ہیں پس ان کا فیصلہ ہوتا ہے  اور ان کی کتاب اہل عليين یا اہل سجیں میں لکھی  جاتی ہے پھر قبر میں لوٹایا جاتا ہے سوال کے لئے پھر لوٹایا جاتا ہے اور انکی جگہ جمع کیا جاتا ہے  ، پس ارواح المومنین عليين میں حسب منازل ہوتی ہیں اور کفار کی ارواح سجین میں حسب منازل ہوتی ہیں

ابن قیم کے بقول روح تو اب جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

ابن تیمیہ : کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

ابن تیمیہ : مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢١ میں لکھتے ہیں

 وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرْتَعُ فِي الْجَنَّةِ وَتَأْوِي فِي فِنَاءِ الْعَرْشِ. وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ فِي برهوت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں جنت میں بلند ہوتی ہیں اور عرش تک جاتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

فتوی میں کہتے ہیں

وَإِنَّمَا فِي أَسْفَلِ سَافِلِينَ مَنْ يَكُونُ فِي سِجِّينٍ لَا فِي عِلِّيِّينَ كَمَا قَالَ تَعَالَى {إنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ}

اور اسفل سافلین میں وہ ہے جو سجین میں ہے نہ کہ علیین میں جیسا الله کا قول ہے کہ منافقین اگ کے اسفل میں ہیں

یعنی ابن تیمیہ نے سجین کو مقام قرار دیا

کبری و صغری ملا لیں سجین ابن تیمیہ کے نزدیک برھوت ہوا

کتاب الجامع الصحيح للسنن والمسانيد  کے مطابق

 وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهما – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -: ” خَيْرُ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ , مَاءُ زَمْزَمَ , فِيهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ , وَشِفَاءٌ مِنَ السُّقْمِ، وَشَرُّ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ , مَاءٌ بِوَادِي بَرَهوتٍ , بِقُبَّةِ حَضْرَمَوْتَ , كَرِجْلِ الْجَرَادِ مِنَ الْهوامِّ , تُصْبِحُ تَدَفَّقُ , وَتُمْسِي لَا بَلالَ بِهَا 

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا زمین کے اوپر سب سے اچھا پانی زمزم کا ہے اس میں غذائیت ہے اور بیماری سے شفا ہے اور سب سے برا پانی وادی برھوت کا ہے حضر الموت میں ایک قبہ 

البانی  صَحِيح الْجَامِع: 3322 والصحيحة: 1056 میں اس کو صحیح کہتے ہیں

مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ، کی روایت 9118  ہے
عبد الرزاق  عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: ” خَيْرُ وَادِيَيْنِ فِي النَّاسِ ذِي مَكَّةُ، وَوَادٍ فِي الْهِنْدِ هَبَطَ بِهِ آدَمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ هَذَا الطِّيبُ الَّذِي تَطَّيَّبُونَ بِهِ، وَشَرُّ وَادِيَيْنِ فِي النَّاسِ وَادِي الْأَحْقَافِ، وَوَادٍ بِحَضْرَمَوْتَ يُقَالُ لَهُ: بَرَهَوْتُ، وَخَيْرُ بِئْرٍ فِي النَّاسِ زَمْزَمُ، وَشَرُّ بِئْرٍ فِي النَّاسِ بَلَهَوْتُ، وَهِيَ بِئْرٌ فِي بَرَهَوْتَ تَجْتَمِعُ فِيهِ أَرْوَاحُ الْكُفَّارِ “

علی رضی الله عنہ نے فرمایا  … شری وادیوں میں سے ہے وادی جو حضر الموت میں ہے جس کو برھوت کہا جاتا ہے … اور یہ کنواں ہے جس میں کفار کی روحیں جمع ہوتی ہیں

مسلک پرستوں کے اصول پر اس کی سند صحیح ہے اور یہ قول علی پر موقوف ہے لہذا اس کو  ان کے اصول پر حدیث رسول سمجھا جائے گا

صحیح ابن حبان میں ہے

قَالَ قَتَادَةَ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ تُجْمَعُ بِالْجَابِيَتِيْنِ وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ تُجْمَعُ بِبُرْهُوتَ سَبِخَةٌ بِحَضْرَمَوْتَ   قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ الله تعالى عَنْهُ: هَذَا الْخَبَرُ رَوَاهُ مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوَهُ مَرْفُوعًا  الْجَابِيَتَانِ باليمن وبرهوت: من ناحية اليمن.

قتادہ نے ایک رجل سے روایت کیا اس نے ابن مسیب سے کہ ابن عمرو رضی الله عنہ نے کہا مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت حضر الموت میں جو وہاں ایک چٹیالی گھڑا ہے- ابن حبان نے کہا اس خبر کو  مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے مرفو عا روایت کیا گیا ہے -الْجَابِيَتَانِ یمن میں ہے اور برھوت اس کے قرب میں

یعنی ابن حبان کے نزدیک برھوت ارواح کا مقام ہوا یہ مرفوع قول نبوی ہے

اوپر والی روایت کے بعد ابن حبان میں صحیح میں قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے  روایت بیان کی

أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بن أخزم حَدثنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا قُبِضَ أَتَتْهُ مَلائِكَةُ الرَّحْمَةِ بحريرة بَيْضَاء فَيَقُولُونَ اخْرُجِي إِلَى رَوْحِ اللَّهِ فَتَخْرُجُ كَأَطْيَبِ رِيحِ الْمسك حَتَّى إِنَّه ليناوله بَعضهم بَعْضًا فيشمونه حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ مَا هَذِهِ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ الَّتِي جَاءَتْ مِنَ الأَرْضِ وَلا يَأْتُونَ سَمَاءً إِلا قَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى يَأْتُوا بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَهْلِ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ فَيَقُولُونَ مَا فَعَلَ فُلانٌ فَيَقُولُونَ دَعُوهُ حَتَّى يَسْتَرِيحَ فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا فَيَقُولُ قَدْ مَاتَ أَمَا أَتَاكُم فَيَقُولُونَ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ وَأَمَّا الْكَافِر فَتَأْتِيه مَلائِكَةُ الْعَذَابِ بِمُسْحٍ فَيَقُولُونَ اخْرُجِي إِلَى غَضِبِ الله فَتخرج كأنتن ريح جيفة فَيذْهب بِهِ إِلَى بَاب الأَرْض

اس میں باب الارض کا ذکر ہے اور محدث  ابن حبان کے مطابق یہ برھوت کی خبر ہے

کتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء  از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَنَانٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَتَقْصِدَنَّكُمْ نَارٌ هِيَ الْيَوْمَ خَامِدَةٌ فِي وَادٍ يُقَالُ: لَهُ بَرْهُوتُ، يَغْشَى النَّاسَ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ،

حُذَيْفَةَ بْنِ الْيمَانِ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں تصدیق کرتا ہوں اس اگ کی جو … وادی برھوت میں ہے اس میں لوگ بے ہوش عذاب الیم میں ہیں

اس کی سند میں  يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ الدِّمَشْقِيُّ جس کو ثقہ و ضعیف کہا گیا  ہے لیکن اغلبا اسی کی بنیاد پر ابن تیمیہ نے فتوی میں برھوت کو ارواح کفار کا مقام کہا ہے

ماتریدی عقیدہ : روحیں زمیں و آسمان کے بیچ ہیں؟

بحر الکلام نامی کتاب أبو المعين ميمون بن محمد ﺍﻟﻨﺴﻔﻲ ﺍﻟﺤﻨﻔﻲ المتوفی ٥٠٨ ھ کی تصنیف ہے جس میں ماتریدی مسلک

کے مطابق عقائد کی شرح ہے اس کتاب میں مستقر ارواح پر لکھا ہے

مومن گناہ گاروں کی روحیں آسمان و زمین کے درمیان ہوا میں ہیں
کفار کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹ میں سجین میں ہیں اور سجین ساتویں زمین کے نیچے ہے اور یہاں سے روحیں جسموں سے کنکشن میں ہیں جس میں روحیں عذاب میں ہیں تو جسم کو الم ہوتا ہے جیسے سورج آسمان میں ہے اور اس کا نور زمین پر
اور جہاں تک مومنوں کی روحوں کا تعلق ہے تو وہ علیین میں ہیں اور ان کا نور ان کے جسم سے کنکشن میں ہے اور ایسا

جائز ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ سورج آسمان میں ہے اور اس کا نور زمین پر ہے

أبو المعين النسفي کے قول کہ روحیں آسمان و زمین کے درمیان میں ہے پر کوئی نص نہیں ہے – دوم سورج پر قیاس کر کے روح کو ایک انرجی تصور کیا گیا ہے جو جسد سے ملی ہوئی ہے لیکن دونوں میں میلوں کا فاصلہ ہے

عبد الوھاب النجدی : ارواح برھوت یا جابیہ میں ہیں

عبد الوہاب النجدی اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا

اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

برھوت یمن میں ہے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

یعنی عبد الوھاب النجدی کے مطابق روحیں دنیا میں اتی ہیں کفار کی یمن میں برھوت میں اور مومنوں کی جابیہ شام میں

راقم کہتا ہے یہ روایت مستدرک الحاکم میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّيْدَلَانِيُّ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قُتَيْبَةَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنِ الْأَخْنَسِ بْنِ خَلِيفَةَ الضَّبِّيِّ، قَالَ: رَأَى كَعْبُ الْأَحْبَارِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يُفْتِي النَّاسَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ قَالَ: قُلْ لَهُ: يَا عَبْدِ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، لَا تَفْتَرِ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكَ بِعَذَابٍ، وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى. قَالَ: فَأَتَاهُ الرَّجُلُ فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَصَدَّقَ كَعْبٌ، قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى وَلَمْ يَغْضَبْ. قَالَ: فَأَعَادَ عَلَيْهِ كَعْبٌ الرَّجُلَ، فَقَالَ: سَلْهُ عَنِ الْحَشْرِ مَا هُوَ؟ وَعَنْ أَرْوَاحِ الْمُسْلِمِينَ أَيْنَ تَجْتَمِعُ؟ وَأَرْوَاحُ أَهْلِ الشِّرْكِ أَيْنَ تَجْتَمِعُ؟ فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: «أَمَّا أَرْوَاحُ الْمُسْلِمِينَ فَتَجْتَمِعُ بِأَرِيحَاءَ، وَأَمَّا أَرْوَاحُ أَهْلِ الشِّرْكِ فَتَجْتَمِعُ بِصَنْعَاءَ، وَأَمَّا أَوَّلُ الْحَشْرِ، فَإِنَّهَا نَارٌ تَسُوقُ النَّاسَ يَرَوْنَهَا لَيْلًا، وَلَا يَرَوْنَهَا نَهَارًا» ، فَرَجَعَ رَسُولُ كَعْبٍ إِلَيْهِ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَ: فَقَالَ: صَدَقَ هَذَا عَالِمٌ فَسَلُوهُ

الْأَخْنَسِ بْنِ خَلِيفَةَ الضَّبِّيِّ کہتا ہے کہ کعب الاحبار نے عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کو فتوی دیتے دیکھا – پوچھا یہ کون ہے ؟ پس کہا یہ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ہیں- کعب الاحبار نے اپنے اصحاب میں سے لوگ ان کی طرف بھیجے اور کہا ان سے کہو اے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ الله پر جھوٹ نہ بولو وہ تم کو عذاب دے گا اور برباد ہوا جس نے جھوٹ کہا – کہا پس ایک آدمی گیا اس نے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سے یہ کہا – عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے کہا سچ کہا کعب الاحبار نے برباد ہوا جس نے جھوٹ گھڑا اور ان کو غصہ نہیں آیا – پس کعب الاحبار نے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ کی طرف آیا ایک اور شخص کو بھیجا  اور کہا ان سے حشر پر سوال کرنا کہ یہ کیا ہے ؟ مسلمانوں کی روحیں کہاں جمع ہیں اور اہل شرک کی کہاں جمع ہیں ؟ پس وہ گیا اور  سوال کیا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے کہا مومنوں کی روحیں یہ أَرِيحَاءَ میں جمع ہوتی ہیں اور اہل شرک کی روحیں یہ صَنْعَاءَ میں اور حشر تو ایک اگ ہے جو لوگوں کو دن اور رات میں ہانکے گی پس کعب کا سفیر واپس آیا اور خبر کی اس پر کعب بولا سچ کہا یہ عالم ہے اس سے سوال کرو

یہ حال ہے امام حاکم کا – یہ ان کا استدراک ہے ! کہاں ہیں وہ جو کہتے ہیں مومنوں کی روحیں علیین میں آسمان میں ہیں ؟ یہاں تو کہا گیا ہے کہ  ارواح آسمان میں نہیں ہیں وہ تو زمین میں ہی ہیں

اب یہ ایک یہودی طے کرے گا کہ اصحاب رسول  میں کون سچا ہے ؟

معلوم ہوا کہ سلف کا عقیدہ تھا کہ روحیں  صنعا اور اریحا میں  جمع ہوتی ہیں

اہل حدیث کا  عقیدہ ارتقاء: روحیں قیدی ہیں

صادق سیالکوٹی کتاب مسلمان کا سفر آخرت میں لکھتے ہیں

سیالکوٹی کے بقول روحیں قید ہیں ؟

جبکہ ابن تیمیہ و ابن قیم کے بقول یہ تو سورج کی روشنی کی طرح ہیں آنا فانا یھاں سے عالم بالا اور وہاں سے زمین

ابن قیم کتاب الروح میں خواب مين ارواح کی ملاقات والی روایات پر کہتے ہیں

فَفِي هَذَا الحَدِيث بَيَان سرعَة انْتِقَال أَرْوَاحهم من الْعَرْش إِلَى الثرى ثمَّ انتقالها من الثرى إِلَى مَكَانهَا وَلِهَذَا قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت

ان احادیث میں ارواح کا عرش سے الثرى  تک  جانے میں سرعت کا ذکر ہے پھر الثرى سے اس روح کے مکان تک جانے کا ذکر ہے اور اسی وجہ سے امام  مالک اور دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ چھوڑی جانے والے روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

خوارج : ارواح برھوت یا جابیہ میں ہیں

کتاب  مشارق أنوار العقول از نور الدين أبو محمد عبد الله بن حميد السالمي کے مطابق خارجی عالم الباجوري نے کہا

قال الباجوري: وأما بعد الموت فأرواح السعداء بأفنية القبور على الصحيح وقيل عند آدم عليه السلام في سماء الدنيا، لكن لا دائما فلا ينافي إنها تسرح حيث شاءت وأما أرواح الكفار ففي سجين في الأرض السابعة السفلى محبوسة، وقيل أرواح السعداء بالجابية في الشام، وقيل ببئر زمزم، وأرواح الكفار ببئر برهوت في حضرموت التي هي مدينة في اليمن

الباجوري نے کہا اور موت کے بعد نیک لوگوں ک روحیں قبرستان کے میدان میں ہیں صحیح ہے – اور کہا گیا ہے آدم علیہ السلام کے پاس ہیں آسمان دنیا پر لیکن وہاں مستقل نہیں ہیں اور اس میں نفی نہیں ہے کہ وہاں جہاں جانا چاہیں جا سکیں – اور کفار کی روحیں یہ سجین میں ساتویں زمین میں قید ہیں اور نیکو کاروں کی جابیہ میں شام میں ہیں اور کہا جاتا ہے زمزم کے کنواں میں اور کفار کی روحیں یہ یمن میں حضرموت میں برھوت کے کنواں میں ہیں

یہ عقیدہ خوارج میں بھی چل رہا ہے

شیعہ روحیں سجین یعنی برھوت میں ہیں

تفسیر :التبيان في تفسير القرآن المؤلف :شيخ الطائفة أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسی کے مطابق

وقال أبوجعفر (ع) أما المؤمنون فترفع أعمالهم وأرواحهم إلى السماء، فتفتح لهم أبوابها. وأما الكافر، فيصعد بعمله وروحه حتى اذا بلغ السماء نادى مناد: اهبطوا بعمله إلى سجين، وهوواد بحضر موت يقال له: برهوت.

اور امام ابو جعفر الباقر ع نے کہا جہاں تک مومن ہیں تو ان کے اعمال اور ارواح آسمان تک بلند ہوتے ہیں پس دروازے کھل جاتے ہیں اور جہاں تک کافر ہیں تو ان کا عمل بلند ہوتا اور روح یہاں تک آسمان پر پہنچتے ہیں تو سدا اتی ہے اس کو اس کے عمل کے ساتھ سجین کی طرف لے جاؤ جو حضرالموت میں ایک وادی ہے اس کو برھوت کہا جاتا ہے

معلوم ہوا کہ سجین تک جانے کا راستہ برھوت سے ہے

چلیں آج برھوت کی سیر کریں

ہوائی جہاز سے برھوت کی تصویر

برھوت (سرخ نشان) اور  جابیہ (سبز نشان) میں فاصلہ

 برھوت کی خبر یمنی  لوگوں نے دی اور اہل تشیع کے مطابق یہ سجین کا رستہ ہے-

یہود کے مطابق جہنم کا ایک دروازہ سمندر میں ہے – اغلبا یمنی یہود مثلا کعب الاحبار کے  نزدیک یہ دلیل تھا کہ جہنم تک رستہ یہاں سے ہے جو زمین کے وسط میں ہے جہاں شیطان قید ہے اس قول کو قبولیت عامہ ملی یہاں تک کہ عبد الوہاب النجدی اور خوارج اور شیعہ کے مطابق یہ مستقر ارواح ہے – غور طلب ہے کہ  وہ فرقے جو عرب سے نکلے ان کے نزدیک برھوت اور سجین ایک ہیں لیکن وہ فرقے جو برصغیر کے ہیں وہ برھوت کا ذکر نہیں کرتے صرف سجین کہتے ہیں

قارئیں یہ سب پڑھ کر اپ کو اب تک سمجھ آ چکا ہو گا کہ برھوت کو سجین قرار دیا گیا جو یمن میں ایک کنواں ہے جو زمین کی تہہ تک جانے کا رستہ ہے – اب سنن نسائی کی ایک روایت دیکھتے ہیں جس کا ذکر ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے اور اسی روایت کو ابن حبان کہتے کہ برھوت کی خبر ہے

 أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

یہاں روایت میں خاص باب الارض کا ذکر ہے کہ کفار کی روحیں زمین کے دروازے پر لائی جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو  کفار کی روحوں تک لے جایا جاتا ہے

یہ روایت ابن حبان کے مطابق  برھوت کی ہی خبر ہے کیونکہ یہ زمین میں کنواں ہے جس سے اندر جا سکتے ہیں

تہذیب الکمال از المزی میں قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ کے ترجمہ میں اس روایت کے متن میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبُخَارِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الصَّيْدَلانِيُّ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحداد، قال: أَخْبَرَنَا أبو نعيم الْحَافِظُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ أَحْمَدَ: قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ النُّعْمَانِ الشَّيْبَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْقَاسِم بْن الفضل الحداني، عن قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَن أَبِي هُرَيْرة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِحَرِيرَةٍ فِيهَا مَسْكٌ ومِنْ صَنَابِرَ الرَّيْحَانِ وتَسَلُّ رُوحَهُ كما تَسَلُّ الشَّعْرَةَ مِنَ الْعَجِينِ، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً مَرْضِيًّا عَنْكِ، وطُوِيَتْ عَلَيْهِ الْحَرِيرَةُ، ثُمَّ يُبْعَثُ بِهَا إِلَى عِلِّيِّينَ، وإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِمِسْبَحٍ فِيهِ جَمْرٌ فَتَنْزِعُ رُوحَهُ انْتِزَاعًا شَدِيدًا، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى هَوَانٍ وعَذَابٍ، فَإِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وضِعَت عَلَى تِلْكَ الْجَمْرةِ، فَإِنَّ لَهَا نَشِيشًا فَيُطْوَى عَلَيْهَا الْمِسْبَحُ ويُذْهَبُ بِهَا إِلَى سِجِّينَ

فرشتے روح کو لے کر سجین جاتے ہیں

ابن رجب اپنی کتاب  أهوال القبور  میں حنابلہ کے لئے لکھتے ہیں

ورجحت طائفة من العلماء أن أرواح الكفار في بئر برهوت منهم القاضي أبو يعلى من أصحابنا في كتابه المعتمد وهو مخالف لنص أحمد: أن أرواح الكفار في النار.
ولعل لبئر برهوت اتصالا في جهنم في قعرها كما روي في البحر أن تحته جهنم والله أعلم ويشهد لذلك ما سبق من قول أبي موسى الأشعري: روح الكافر بوادي حضرموت في أسفل الثرى من سبع أرضين.

اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کفار کی روحیں برھوت میں کنواں میں ہیں جن میں قاضی ابو یعلی ہیں ہمارے اصحاب میں سے اپنی کتاب المعتمد  میں اور یہ مخالف ہے نص احمد پر کہ کفار کی روحیں اگ میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ برھوت جہنم سے تہہ میں ملا ہو جیسا کہ روایت ہے کہ سمندر کے لئے کہ اس کے نیچے جہنم ہے و الله اعلم اور اس پر گواہی ہے ابو موسی رضی الله عنہ کے قول کی کہ کافر کی روح حضر الموت کی ایک وادی میں ہے تحت الثری کے پیندے میں ساتویں زمین میں

اخبار مکہ کی روایت ہے جو ضعیف ہے لیکن دلچسپ ہے

وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ، [ص:44] عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ قَالَ: ” أَمْسَى عَلَيَّ اللَّيْلُ وَأَنَا بِبَرَهُوتَ، فَسَمِعْتُ فِيهِ أَصْوَاتَ أَهْلِ الدُّنْيَا، وَسَمِعْتُ قَائِلًا يَقُولُ: يَا دُومَةُ، يَا دُومَةُ، قَالَ: فَسَأَلْتُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي سَمِعْتُ، فَقَالَ: إِنَّ الْمَلَكَ الَّذِي عَلَى أَرْوَاحِ الْكُفَّارِ يُقَالُ لَهُ دُومَةُ “

أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ نے کہا مجھ کو یمن کے ایک رجل نے خبر دی کہا میں نے ایک رات برھوت کے پاس گزاری تو میں نے وہاں آوازیں سنیں اہل دنیا کی اور ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے دومہ اے دومہ پس میں نے اہل کتاب میں سے کسی سے پوچھا اور اس کو خبر کی جو سنا تھا اس نے کہا یہ فرشتہ ہے جو کفار کی روحوں پر مقرر ہے جس کو دومہ کہا جاتا ہے

اب تلمود دیکھتے ہیں

موت  کے مراحل کا ذکر تلمود میں اسطرح کیا گیا ہے کہ جب آدمی اس جہان کو چھوڑ رہا ہوتا ہے تو ملک الموت اتا ہے جو روح یا نسمہ کو نکالتا ہے – نسمہ ایک خون سے بھری رگ جیسا ہوتا ہے جو تمام بدن میں بکھری ہے ملک الموت اس کا اوپر پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے  نیک کے جسم سے اس کو آہستگی سے جیسے دودھ میں بال ہو لیکن بدکار کے بدن میں ایسے کھینچتا ہے جیسے روئی کے گالے کو کانٹوں پر گھسیٹا جائے جس سے وہ ٹوٹ جائے- جیسی ہی نسمہ نکلتا ہے آدمی مر جاتا ہے اور روح ناک میں ا جاتی ہے  جب یہ ہوتا ہے تو وہ روتی اور چیختی ہے کہ اے مالک اے رب العالمین مجھ کو کہاں لے جایا جا رہا ہے ؟ فورا ہی دومہ فرشتہ  اس کو لیتا ہے اور روحوں کے مقام پر لے جاتا ہے 

زاذان کی عود روح کی روایت میں یہ بیان ہوا ہے

 ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَغَضَبٍ “. قَالَ: ” فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ  فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ [ص:502] عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ

پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے

الغرض  برھوت  کو سجین قرار دیا گیا اور وہاں جا کر آواز سنی گئی اس کو باب الارض سمجھا گیا یہاں تک کہ فرشتہ کا  عمل بھی تلمود سے لے کر حدیث رسول کے طور پر بیان کیا گیا

جہنم کے طبقات میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان یا مشرقین کے درمیان اقبال کیلانی کی کتاب جہنم کا بیان میں ہے

اب اگر یہ عالم ہے تو جہنم برھوت میں یا  زمین کے اندر نہیں ہو سکتی

والله بكل شيء عليم

 

قدمونی قدمونی پر ایک نظر

ایک مشھور روایت ہے کہ مردہ کو جب کھاٹ پر رکھا جاتا ہے وہ کلام کرتا ہے – اس بلاگ میں اس کی اسناد پر بحث کی گئی ہے

صحیح بخاری -> کتاب الجنائز –  باب کلام المیت علی الجنازۃ
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا

حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق”.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے اگر انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

الطبقات الكبرى از  المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اور مسند احمد میں ہے کہ یہ قول ابو ہریرہ کا تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، وَأَسْرِعُوا بِي إِسْرَاعًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي. وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَتِي أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي “

ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، نے المقبری سے روایت کیا انہوں نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو بستر پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو بستر پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے کہ ابو ہریرہ کا قول تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ بِأَبِي هُرَيْرَةَ الْمَوْتُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَى قَبْرِي فُسْطَاطًا , وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، فَإِذَا حَمَلْتُمُونِي , فَأَسْرِعُوا , فَإِنْ أَكُنْ صَالِحًا تَأْتُونَ بِيِ إِلَى رَبِّي، وَإِنْ أَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ , فَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ تَطْرَحُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

ابو معشر نے کہا سعید المقبری نے کہا جب ابو ہریرہ کی وفات کا وقت آیا کہا میری قبر پر خیمہ نہ لگانا نہ میرے  پیچھے اگ لے کر جانا پس جب مجھے اٹھانا جلدی کرنا کیونکہ اگر میں نیک ہوں تو تم مجھے میرے رب کی طرف لے جا رہے ہو اور اگر اس کے علاوہ ہوں تو تم ایک چیز اپنے کندھوں سے پھینک رہے ہو

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِي بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَهُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي؟ “

المقبری نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً [ص:466] قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصُعِقَ ” قَالَ حَجَّاجٌ: لَصُعِقَ

سعید المقبری نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو سعید الخدری سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ کورکھتے  ہیں اور مرد  اس کو گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر یہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو اس آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

سعید بن ابی سعید ( أَبُو سَعْدٍ بنُ كَيْسَانَ) ایک ہی روایت تین  سندوں سے بیان کر رہا ہے

 ایک سعید المقبری  عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

دوسری  سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

تیسری سعید المقبری  عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، کی سند سے

سعید المقبری سے تین لوگوں نے اس روایت کو لیا أبي معشر الْمَدِينِيّ ، دوسرے لَيْثٌ بن سعد ، تیسرے ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني کا تفرد ہے

ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق

سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث

ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے

ابی معشر کے مطابق یہ الفاظ ابو ہریرہ کے ہیں اس کو حدیث نبوی نہیں کہا ہے  یعنی موقوف عن ابو ہریرہ ہے

یہ بات کہ میت کے اس قول کو انسان کے سوا سب سنتے ہیں یہ صرف ابو سعید الخدری  کی سند سے ہیں

لہذا محدثین اس کو صرف دو سندوں سے قبول کرتے ہیں جو لیث اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ کی اسناد ہیں

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے

المختلطين از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني:

 قال شعبة: ساء بعد ما كبر.

وقال محمد بن سعد: ثقة إلا أنه اختلط قبل موته بأربع سنين.

شعبہ کہتے ہیں یہ بوڑھے ہوئے تو خراب ہوئے

ابن سعد نے کہا یہ ثقہ ہیں لیکن یہ مرنے سے ٤ سال قبل اختلاط کا شکار ہوئے

قال الواقدى: كبُر واختلط قبل موته بأربع سنين – واقدی نے کہا بوڑھے ہوئے اور مرنے سے ٤ سال قبل مختلط ہوئے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ)  کے مطابق ١٢٥ ھ میں وفات ہوئی

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق

وفي كتاب الباجي عن ابن المديني: قال ابن عجلان: كانت عنده أحاديث سندها عن رجال عن أبي هريرة فاختلطت عليه فجعلها كلها عن أبي هريرة.

اور الباجی کی کتاب میں ابن المدینی سے روایت ہے کہ ابن عجلان نے کہا ان کے پاس احادیث تھیں جو عن رجال عن ابو ہریرہ سے تھیں ان کو جب اختلاط ہوا تو انہوں نے تمام کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

شعبہ نے بھی احتیاط کی ہے اور کہا ہے کہ سعید  بوڑھے ہو چکے تھے

وَقَال يَعْقُوب بْن شَيْبَة: قد كَانَ تغير وكبر واختلط قبل موته، يقال: بأربع سنين، حَتَّى استثنى بعض المحدثين عنه ما كتب عنه فِي كبره مما كتب قبله، فَكَانَ شعبة يَقُول: حَدَّثَنَا سَعِيد الْمَقْبُرِيّ بعدما كبر.

يَعْقُوب بْن شَيْبَة نے کہا کہ یہ بدل گئے اور بوڑھے ہوئے اور مرنے سے پہلے مختلط ہو چکے تھے کہا جاتا ہے ٤ سال یہاں تک کہ بعض محدثین نے اس کو الگ کیا ہے جو ان کے بڑھاپے سے پہلے لکھا یہاں تک کہ شعبہ کہتے کہ سعید المقبری نے روایت کیا بوڑھا ہونے کے بعد

قال يحيى القطان: “سمعتُ محمد بن عجلان يقولُ: كان سعيدٌ المقبري يُحَدِّث عن أبيه عن أبي هريرة، وعن رجل عن أبي هريرة، فاختلط عليَّ فجعلتها كلها عن أبي هريرة   الميزان: (3/645)

یحیی القطان کہتے ہیں میں نے ابن عجلان کو سنا کہ سعید المقبری اپنے باپ سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے اور سعید ایک آدمی سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتا لیکن جب سعید کو اختلاط ہوا تو سعید المقبری نے ان تمام روایات کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيدا المقبري سمع من أبي هريرة ومن أبيه عن أبي هريرة وأنه اختلف عليه في أحاديث وقالوا أنه اختلط قبل موته وأثبت الناس فيه الليث بن سعد يميز ما روى عن أبي هريرة مما روى عن أبيه عنه وتقدم أن ما كان من حديثه مرسلا عن أبي  هريرة فإنه لا يضر لأن أباه الواسطة

سعید المقبری نے ابو ہریرہ سے سنا اور اپنے باپ سے انہوں نے ابو ہریرہ سے اور ان کی احادیث پر اختلاف ہوا اور کہا کہ یہ مرنے سے قبل مختلط ہوئے اور لوگوں میں سب سے ثابت ان سے روایت کرنے میں اللیث ہیں جو اس کی  تمیز کر سکتے ہیں کہ یہ ابو ہریرہ سے کیا روایت کرتے ہیں اور کیا اپنے باپ سے کرتے ہیں اور جیسا کہ گزرا ان کا ابو ہریرہ سے روایت کرنا مرسل ہے اگرچہ اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے سنا ہے

سعید المقبری کو اختلاط تھا الذھبی نے اس کا انکار کیا اس پر ابن الكيال (المتوفى: 929هـ) نے کتاب  الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات میں لکھا

 والعجب من الذهبي انكار اختلاطه وقد أقر باختلاطه الواقدي وابن سعد ويعقوب بن شيبة وابن حبان

اور الذھبی کی عجیب بات ہے کہ اس کا انکار کیا اور اس اختلاط کا ذکر کیا ہے واقدی نے  ابن سعد نے یعقوب نے اور ابن حبان نے 

اگرچہ ابن معین نے کہا تھا کہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت سب سے مناسب ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین اس کو بھی منکر کہتے ہیں –  العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)  کے مطابق ایک روایت اس کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  روایت کرتے ہیں

عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ  ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص)   : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.

قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ

ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے

ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے

یعنی  سعید المقبری  کی باپ سے ان کی ابو ہریرہ سے روایت منکر بھی کہی گئی ہے

امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں ایک اور روایت کا حوالہ دیا

وَقال ابْنُ طَهمان،  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُريّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم؛ مَا سَمِعتُم عَنِّي مِن حَدِيثٍ تَعرِفُونَهُ فَصَدِّقُوهُ.  وَقال يَحيى: عَنْ أَبي هُرَيرةَ، وَهُوَ وهمٌ، لَيْسَ فِيهِ أَبو هُرَيرةَ.

ابْنِ أَبي ذِئب نے سعید المقبری سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میری جو حدیث سنو اس کو پہچانو تصدیق کرو اور یحیی نے کہا یہ عن ابو ہریرہ ہے –   لیکن یہ وہم ہے اس میں ابو ہریرہ نہیں ہے

یعنی امام بخاری کے نزدیک   ابْنِ أَبي ذِئب کی روایت میں سعید المقبری نے براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب نے دور اختلاط میں سنا ہے

یاد رہے کہ ابن أبي ذئب مدلس بھی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ رجال کے حوالے سے احتیاط سے بھی کام نہیں لیتے تھے

اس سند میں عبد الرحمن بن مهران بھی  ہے – جس کے بارے میں محدثین کی معلومات کم ہیں

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

البرقانی کہتے ہیں میں دارقطنی سے کے بارے میں پوچھا  کہا  مدنی بوڑھا اعتبار کیا جاتا ہے

یہاں اعتبار محدثین کی اصطلاح ہے  کہ روایت لکھ لی جائے حتی کہ شاہد ملے

ابن حجر نے صرف مقبول من الثالثة  تسرے درجے کا مقبول کہا ہے – اس کی وضاحت خود تقریب میں اس طرح کی

من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ ” مقبول ” حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.

جس کی احادیث بہت کم ہوں اور اس پر کوئی بات ثابت نہیں کہ اس کی حدیث ترک کی جائے تو اس کے لئے مقبول کا لفظ سے اشارہ کیا ہے  جب متابعت ہو ورنہ یہ لین الحدیث ہو گا

یعنی ایسا راوی جس پر کوئی جرح کا خاص کلمہ نہ ہو اس کی احادیث بھی کم ہوں تو اس کی روایت لکھی جائے گی جسکی  روایت کی متابعت ملنے پر یہ مقبول کہلائے گا وگرنہ لین الحدیث  (کمزور ) ہے

ان وجوہات کی بنا پر اس طرق کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا

اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟

وقال الساجي: حدثني أحمد بن محمد قال: قلت ليحيى بن معين: من أثبت الناس في سعيد المقبري؟ قال: ابن أبي ذئب

ابن معین نے کہا اس سے روایت کرنے میں اثبت ابن أبي ذئب ہے

ابن حراش: جليل، أثبت الناس فيه الليث بْن سَعْد –  ابن خراش نے کہا اثبت لیث ہے

دارقطنی کہتے ہیں

لأنَّ الليث بن سعد ضبط عن المقبري ما رواه عن أبي هريرة، وما رواه عن أبيه عن أبي هريرة

لیث بن سعد یاد رکھتے تھے المقبری کی روایت جو انہوں  نے ابو ہریرہ سے روایت کی اور جو انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے  ابو ہریرہ سے روایت کی

  وقال عبد الله: سَمِعتُهُ يقول (يعني أَباه) : أصح الناس حديثًا عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ليث بن سعد، يفصل ما روى عن أبي هريرة، وما (روى) عن أبيه، عن أبي هريرة، هو ثبت في حديثه جدًا. «العلل» (659) .

عبد الله نے کہا میں نے باپ سے سنا کہ سعید المقبری سے روایت کرنے میں سب سے صحیح ليث بن سعد ہے جو واضح کرتے ہیں جو یہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے روایت کر دیتے ہیں اور جو یہ صرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں

محدثین میں بعض نے لیث کی سند پسند کی اور بعض نے ابن أبي ذئب کی سند – لیکن جیسا واضح کیا اس میں ابن أبي ذئب بھی قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ محدثین کی اس طرق سے روایت کردہ متن کو رد کرتے ہیں- لیث کو اس لیے پسند کیا جاتا تھا کہ وہ تمیز کر لیتے تھے کہ سعید المقبری نے  اختلاط میں جو روایات اپنے باپ سے اور ابو ہریرہ سے روایت کی ہیں ان میں کون سی صحیح ہیں گویا یہ ایک طرح کا لیث کا اندازہ ہے جس کی بنیاد پر سعید المقبری کے اختلاط والی روایات کو لیا گیا ہے

 الليث بن سعد بن عبد الرحمن بن عقبة مصری ہیں سن ٩٤ میں پیدا ہوئے اور سن ١١٣ میں حج کیا  اور ١٧٥ میں وفات ہوئی

قال ابن بكير  سَمِعْتُ اللَّيْثَ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَمائَةٍ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِيْنَ سَنَةً

ابن بکیر نے کہا میں نے اللَّيْثَ سے سنا کہ انہوں نے امام الزہری سے مکہ میں سن ١١٣ میں سنا

  سعید المقبری سن ١١٩ ھ سے ١٢٣ ھ تک مختلط تھے- محدثین کا یہ کہنا کہ لیث کے اندر صلاحیت تھی کہ وہ سعید المقبری کی سند میں علت کو جان لیتے تھے ظاہر کرتا ہے کہ سعید المقبری میں اختلاط کی کیفیت شروع ہی ہوئی تھی کہ لیث نے ان سے سنا

عجیب بات یہ ہے کہ لیث کو جب سعید یہ روایت سناتے ہیں تو اس کو سعید الخدری رضی الله عنہ کی حدیث کہتے ہیں اور جب ابن ابِي ذئبٍ کو یہ سناتے ہیں تو اس کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث قرار دیتے ہیں

اس اشکال کو اپ مندرجہ ذیل جدول میں دیکھ سکتے ہیں

ابن ابِي ذئبٍ کی سند

 

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

لیث کی سند کتاب
حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند أبي يعلى

 

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ سنن نسائی
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ مسند احمد
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند احمد
حَدَّثَنا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: صحیح بخاری
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صحیح بخاری
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أبو داود الطيالسي
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، مسند أحمد
حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَحَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أحمد
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ سنن نسائی
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،

 

صحیح ابن حبان

المزی تہذیب الکمال میں  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة  کے ترجمہ میں یہ روایت لکھ کر کہتے ہیں

هكذا رواه ابن أَبي ذئب، وخالفه الليث بْن سعد (س)  فرواه عَنْ سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ

ایسا ابن أَبي ذئب نے روایت کیا ہے (یعنی  ابن أَبي ذئب عَن سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة ) اور ان کی مخالفت کی ہے الليث بْن سعد نے انہوں نے اس کو  سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ کی سند سے روایت کیا ہے

راقم کے خیال میں یہ روایت دور اختلاط کی ہے جس کی بنا پر اسناد میں یہ گھپلا پیدا ہو رہا ہے اور چونکہ لیث کا حجاز پہنچنا بھی اسی دور کے پاس کا ہے جس میں لیث کو مختلط کہا گیا ہے گمان غالب ہے کہ اسناد میں  یہ تضاد اس کیفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ سفیان بن عُيَيْنَة،   سعید المقبری کے پاس  پہنچے لیکن

فإن ابن عُيَيْنَة أتاه فرأى لعابه يسيل فلم يحمل عنه، وحدث عنه مالك والليث

اس کا لعاب اس کے منہ سے بہہ رہا تھا لہذا نہیں لکھا

سفيان بن عيينة بن أبي عمران ميمون سن ١٠٧ میں پیدا ہوئے

کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق

سمع في سنة تسع عشرة ومائة ، وسنة عشرين ، وبعد ذلك

سفيان بن عيينة نے سن ١١٩ اور ١٢٠ اور اس کے بعد سنا ہے

سفيان بن عيينة کوفہ میں پیدا ہوئے اس کے بعد حجاز کا سفر کیا جہاں ١١٩ کے بعد لوگوں سے سنا اس دور میں انہوں نے سعید المقبری کو دیکھا جن کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا

تہذیب الکمال کے مطابق

وَقَال نوح بْن حبيب القومسي: سَعِيد بْن أَبي سَعِيد، وابن أَبي مليكة، وقيس بْن سَعْد، ماتوا سنة سبع عشرة ومئة.

نوح بْن حبيب نے کہا کہ سعید بن ابی سعید کی موت سن ١١٧ میں ہوئی

 خليفة بْن خياط کے بقول ١٢٦ میں ہوئی

أَبُو بَكْر بْن أَبي خَيْثَمَة اور ابن سعد کے مطابق ١٢٣ میں ہوئی

وَقَال الواقدي، ويعقوب بْن شَيْبَة، وغير واحد: مات فِي أول خلافة هشام بن عبد الملك.

الواقدي اور يعقوب بْن شَيْبَة  اور ایک سے زائد محدثین کہتے ہیں  هشام بن عبد الملك (١٠٥ سے ١٢٥ تک خلیفہ) کی خلافت کے شروع میں ہوئی

اس طرح دیکھا جائے تو  زیادہ ترمحدثین  سعید المقبری کی موت کو ١١٧ ہجری کے پاس لے اتے ہیں جس میں اللیث نے مکہ جا کر حج کیا  گویا اللیث نے سعید المقبری کو عالم اختلاط میں پایا ہے یہ قول کہ وفات ١٢٠ کے بعد ہوئی یہ ہشام بن عبد الملک کی خلافت کا آخری دور بن جاتا ہے لہذا یہ صحیح نہیں ہے- ہشام نے ٢٠ سال حکومت کی ہے تو تاریخ وفات میں  یہ کوئی معمولی فرق نہیں رہتا

اختلاط کا دورانیہ ٤ سال کا تھا لیکن تاریخ وفات میں اختلاف کی بنا پر واضح نہیں رہا کہ یہ کب شروع ہوا

اگر ١١٧ وفات لی جائے تو اس کا مطلب ہے اختلاط سن ١١٣ میں شروع ہوا

قال الْبُخَارِيّ : مات بعد نَافِع.

نافع کی موت ١١٩ یا ١٢٠ میں ہوئی ہے بحوالہ سیر الاعلام النبلاء

امام بخاری نے  تاريخ الصغير یا  التاريخ الأوسط میں  صرف یہ لکھا ہے کہ سعید المقبری کی وفات نافع کے بعد ہوئی کوئی سال بیان نہیں کیا جبکہ اختلاط کا علم ہونا ضروری ہے- امام بخاری نے یھاں سعید المقبری کے حوالے سے اللیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے

امام مالک نے بھی سعید المقبری سے روایت لی ہے لیکن یہ نہیں لکھی بلکہ روایت بیان کی

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني کی سند ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ، فَقَالَ: ” أَنَا لَعَمْرِ اللَّهِ أُخْبِرُكَ، أَتْبَعُهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَإِذَا وُضِعَتْ كَبَّرْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَصَلَّيْتُ عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ “، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قِرَاءَةَ عَلَى الْجِنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ

امام مالک نے سعید المقبری سے انہوں نے  اپنے باپ سے روایت کیا  انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ جنازہ پر نماز کیسے پڑھیں؟ ابو ہریرہ نے  کہا لعمر الله میں اس کی خبر دیتا ہوں میت کے اہل کے ساتھ ہوں گے پس جب رکھیں تو الله کی تکبیر و حمد کہیں اور نبی پر درود پھر کہیں

اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ

امام محمد نے کہا یہ قول ہم لیتے ہیں کہ جنازہ پر قرات نہیں ہے اور یہی قول ابو حنیفہ رَحِمَهُ اللَّهُ کا ہے 

قابل غور ہے  کہ امام مالک تو مدینہ کے ہی تھے انہوں نے یہ  قدمونی والی روایت  نہ لکھی جبکہ اللیث جو ١١٧ میں مصر سے آئے ان کو اختلاط کی کیفیت میں سعید المقبری ملے اور انہوں نے اس کو روایت کیا

الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے
قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين

امام حاکم نے کہا – امام مالک حکم ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر

مستدرک میں حاکم کہتے ہیں

مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ الْحَكَمُ فِي حَدِيثِ الْمَدَنِيِّينَ….. وَاحْتَجَّ بِهِ فِي الْمُوَطَّأِ

اہل مدینہ کی احادیث پر امام مالک فیصلہ کرنے والے ہیں   یہ وہ حدیث ہے جس  سے امام مالک نے موطا میں دلیل لی ہے

لہذا سعید المقبری کی روایت جو امام مالک نے نہ  لکھی ہو  اس کی کوئی نہ کوئی تو وجہ ضرور ہے جس میں یہ کلام المیت والی روایت بھی ہے

یا النبی سلام علیک

نبی صلی الله علیہ وسلم  کے لئے  سلامتی  کی دعا یا درود کا حکم الله تعالی کا ہے-  درود پڑھنے کا ثواب ہے لیکن اس کا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں یا ان تک پہنچانا نہیں  ہے بلکہ قرآن کے مطابق تمام اعمال آسمان میں جاتے ہیں اور صحیح حدیث کے مطابق یہ سدرہ المنتہی پر آ کر رک جاتے ہیں –

فرشتے کیا الله تک پہنچا رہے ہیں اس کا ذکر صحیح بخاری کی روایت میں  ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:87]: “ إِنَّ لِلَّهِ مَلاَئِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ ” قَالَ: «فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا» قَالَ: ” فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ، وَهُوَ أَعْلَمُ مِنْهُمْ، مَا يَقُولُ عِبَادِي؟ قَالُوا: يَقُولُونَ: يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ ” قَالَ: ” فَيَقُولُ: هَلْ رَأَوْنِي؟ ” قَالَ: ” فَيَقُولُونَ: لاَ وَاللَّهِ مَا رَأَوْكَ؟ ” قَالَ: ” فَيَقُولُ: وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً، وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا وَتَحْمِيدًا، وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا ” قَالَ: ” يَقُولُ: فَمَا يَسْأَلُونِي؟ ” قَالَ: «يَسْأَلُونَكَ الجَنَّةَ» قَالَ: ” يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا ” قَالَ: ” يَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا، وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا، وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً، قَالَ: فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: مِنَ النَّارِ ” قَالَ: ” يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا ” قَالَ: ” يَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا، وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً ” قَالَ: ” فَيَقُولُ: فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ ” قَالَ: ” يَقُولُ مَلَكٌ مِنَ المَلاَئِكَةِ: فِيهِمْ فُلاَنٌ لَيْسَ مِنْهُمْ، إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ. قَالَ: هُمُ الجُلَسَاءُ لاَ يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ ” رَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَرَوَاهُ سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پھر جہاں وہ کچھ ایسے لوگوں کو پا لیتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا۔ پھر وہ پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر امنڈتے رہتے ہیں۔ پھر ختم پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے …. حالانکہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے …. کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے، تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ کہا کہ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا جب وہ مجھے دیکھے ہوئے ہوتے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کر لیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی سب سے زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح سب سے زیادہ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ اے رب! انہوں نے تیری جنت نہیں دیکھی۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ خواہشمند ہوتے، سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں، دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے جہنم دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ، انہوں نے جہنم کو دیکھا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ  بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ(ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا لیکن اس کو مرفوع نہیں کیا۔ اور سہیل نے بھی اس کو اپنے والدین ابوصالح سے روایت کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے

ابن مسعود  رضی الله عنہ سے منسوب روایات 

ایک راوی زاذان نے ان الفاظ کو تبدیل کیا اور مسند البزار کی روایت ہے

حَدَّثَنَاهُ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا جَرِيرٌ، عَنْ حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، قَالَ حُسَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي  الطُّرُقِ يُبَلِّغُونَ، عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ

حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيّ نے روایت کیا کہ عبد الله بن السَّائِبِ نے زاذان سے روایت کیا اس نے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ .. اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک لاتے ہیں

معجم الشیوخ از امام الذہبی کے مطابق زاذان کبھی بھی ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ملا لہذا یہ روایت انقطاع کے سبب ضعیف ہے- تلخیص الموضوعات میں بھی الذھبی نے کہا ہے زاذان کی ملاقات ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ہے –الذھبی حیرت ہے  کہ تلخیص مستدرک میں اس روایت کو  صحیح کہہ گئے ہیں

زاذان اہل تشیع کے مطابق کٹر شیعہ ہیں اور  ابو بکر و عمر کی تنقیص کرتے ہیں اس کا ذکر بشار عواد المعروف نے تہذیب الکمال کے حاشیہ میں بھی کیا ہے

شیعہ عالم ابن داوود الحلي  کتاب رجال ابن داود میں کہتے ہیں

 أبو عمرو الفارسى زاذان، بالزاي والذال المعجمتين ى (جخ) خاص به

زاذان، علی کے خاص اصحاب میں سے ہے

رجال البرقي کے مطابق بھی زاذان خاص تھے

کہا جاتا ہے یہ قبیلہ مضر کا تھا

شیعہ عالم کتاب الكنى والالقاب ج1 از  عباس القمي   لکھتے ہیں

نقل الاغا رضا القزويني في ضيافة الاخوان عن القاضي ابى محمد ابن ابي زرعة الفقيه القزويني ان زاذان كان من اصحاب امير المؤمنين ” ع ” وقتل تحت رايته ثم انتقل اولاده إلى قزوين.  قال الرافعي زاذانية قبيلة في قزوين فيهم أئمة كبار من المتقدمين والمتأخرين انتهى

آغا رضا القزويني نے ضيافة الاخوان میں القاضي ابى محمد ابن ابي زرعة الفقيه القزويني سے روایت کیا ہے کہ زاذان امیر المومنین علی کے اصحاب میں تھا اور ان کے جھنڈے تلے قتل ہوا پھر اس کی اولاد قزوین منتقل ہوئی اور  الرافعي نے کہا کہ  زاذانية  قبیلہ ہے قزوين میں  جس سے بہت متقدمین اور متاخرین میں بہت سے (شیعہ) علماء آئے ہیں

اہل سنت میں ابن حجر نے بھی اس کو متشیع قرار دیا ہے –  اسی طرح اندلس کے مشہور محدث  امام أحمد بن سعيد بن حزم الصدفي المنتجالي    نے زاذان کو اصحاب علی میں شمار کیا ہے – الکمال از مغلطاي  میں ہے

وفي «كتاب المنتجالي»: زاذان أبو عمر كان صاحب علي

یاد رہے کہ امام أحمد بن سعيد بن حزم الصدفي المنتجالي ، امام ابن حزم  (علي بن أحمد بن سعيد بن حزم بن غالب) کے والد ہیں جو ایک عظیم محدث ہیں – اندلس  کے محدثین زاذان کی روایت کردہ  عود روح والی روایت کو رد کرتے تھے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے اس بات کا ذکر کتابچہ ایمان خالص میں کیا تھا

دراصل قبر میں مردے کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت ِجعفریہ کی روایت ہے جو اس روایت کے راوی زاذان (شیعہ) نے وہاں سے لے کر براء بن عازب سے منسوب کر دی ہے۔

( ایمانِ خالص ، دوسری قسط،ص : 18)

اس پر مولویوں نے ایک واویلا مچا دیا کہ زاذان کو اہل سنت میں سے کسی نے شیعہ نہیں کہا لہذا ڈاکٹر صاحب نے دلیل دی کہ اس کو ابن حجر  نے تقریب التہذیب میں شیعہ قرار دیا ہے- ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا ہے

فیه شیعیة

اس میں شیعیت ہے

اس پر زاذان کے   کرم فرماؤں نے مزید خامہ فرسائی کی اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے

ایک غیر مقلد مولوی صاحب نے لکھا

فیہ شیعیة  ( اس میں شیعیت ہے۔) تو اب کے شیعیت کو شیعہ بنانے والوں کو کچھ نہ کچھ تو ضرور حاصل ہوگا، کیونکہ یہ بھی تو ایک کارنامہ ہی ہے نا

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/4888/156/

دوسری غیر مقلد مولوی رفیق طاہر صاحب لکھتے ہیں

احمد بن حجر جنہوں نے زازان پر شیعہ ہونے کی تہمت لگائی ہےاور یہ بھی نہیں کہا کہ وہ شیعہ ہے بلکہ یہ کہا ہے : ’فیہ تشیع قلیل‘ اس کے اندر تھوڑا سا تشیع ہے ، تھوڑی سی شیعیت ہے

http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=18614
http://forum.mohaddis.com/threads/منکرین-برزخ-کا-عقیدہ-اور-اس-کا-رد.3280/

اپ دیکھیں کس قدر دھوکہ ہے کہ ابن حجر کے الفاظ تک تبدیل کر دے ہیں کہ فیه شیعیة  کو فیہ تشیع قلیل بنا دیا اور یہ حوالہ بھی نہیں دیا کہ کس کتاب سے اس کو اخذ کیا

رفیق طاہر کی تقریر (٢٣ منٹ پر ) یہاں سن سکتے ہیں جہاں وہ زاذان کو فیه تشیع قلیل کہہ رہے ہیں

رفیق طاہر کے التباس کا رد اسی سے ہو جاتا ہے کہ

تاریخ ابن خلدون ج ٢ ص ٢٩٩ کے مطابق رفض کا لفظ زید بن علی (المتوفی ١٢٢ ھ) نے سب سے پہلے شیعوں کے لئے استعمال کیا.  شیعوں نے زید بن علی سے پوچھا کہ آپ کی ابو بکر اور عمر کے بارے میں کیا رائے ہے. انہوں نے کہا کہ ہم ان سے زیادہ امارت کے حقدار تھے لیکن انہوں  نے یہ حق ہم سے چھین لیا لیکن یہ کام کفر تک نہیں پہنچتا. اس پر شیعوں نے ان کو برا بھلا کہا اور جانے لگے. زید نے کہا

 رفضونی  تم نے مجھے چھوڑ دیا

اسی وقت سے شیعہ رافضیہ کے نام سے موصوف ہوۓ

 زید بن علی سے پہلے شیعہ چاہے سبائی ھو یا غالی یا غیر غالی سب کو شیعہ ہی بولا جاتا رہا اور یہ انداز جرح و تعدیل کے ائمہ کا ہے اس کی متعدد مثالیں ہیں

تفصیل کے لئے دیکھیں

⇑ ائمہ جرح و تعدیل جب کسی راوی کو شیعہ کہتے ہیں اس سے کیا ان کی مراد علی کا خاص ساتھی ہوتی ہے ؟

https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/

مولانا نیاز احمد جن کا ڈاکٹر عثمانی کی تنظیم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے وہ فیه شیعیة کا ترجمہ کرتے ہیں

ابو جابر دامانوی کتاب دین الخالص میں اثر پیش کرتے ہیں

اس پر محدثین کا کہنا ہے کہ اس میں عطاء بن السائب الثقفي الكوفي ہے جس سے خالد بن عبد الله نے روایت کیا ہے کتاب المختلطين  از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

من سمع منه بأخرة فهو مضطرب الحديث. منهم: هشيم، وخالد بن عبد الله.

جس نے عطاء بن السائب الثقفي الكوفي  سے آخر میں سنا ہے تو وہ مضطرب الحدیث ہے اور ان سننے والوں  میں ہیں  هشيم اور خالد بن عبد الله.

لہذا یہ اثر قابل رد ہے کیونکہ یہ دور  اختلاط کا  ہے

میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے کہ عطاء بن السائب کو بصرہ میں  وہم ہوتا تھا محدثین میں ابن علیہ نے کہا

ابن علیہ :  قدم علينا عطاء بن السائب البصرة، فكنا نسأله، فكان يتوهم فنقول له: من؟ فيقول: أشياخنا ميسرة، وزاذان، وفلان.

عطاء بن السائب ہمارے پاس بصرہ پہنچا تو ہم نے اس سے سوال کیے پس یہ وہم کا شکار ہوتا ہم اس سے کہتے کس نے کہا ؟ تو کہتا  ہمارے شیوخ ميسرة،  اور زاذان  اور فلاں نے

محدثین میں مشھور ہوا کہ جب بھی تین نام ایک ساتھ بیان کرے تو یہ اس کا  اختلاط ہے

دامانوی صاحب اثر پیش کرتے ہیں کہ

لیکن جیسا واضح کیا یہ مشکوک اثر ہے کیونکہ اس  میں نے تین نام لئے ہیں

طبقات ابن سعد میں ہے ابن علیہ نے کہا

  وسألت عنه شعبة فقال: إذا حدثك عن رجل واحد فهو ثقة. وإذا جمع فقال زاذان وميسرة وأبو البختري فاتقه .

میں نے امام شعبہ سے اس کے متعلق پوچھا: کہا جب یہ ایک شخص سے روایت کرے تو صحیح ہے لیکن جب یہ زاذان اور ميسرة اور أبو البختري کو ایک ساتھ جمع کرے تو بچو 

اسی طرح تاریخ الاسلام از الذھبی میں ہے

قال ابن المديني: قُلْتُ لِيَحْيَى الْقَطَّانِ: مَا حَدَّثَ سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ صَحِيحٌ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ إِلا حَدِيثَيْنِ كَانَ شُعْبَةُ يَقُولُ: سَمِعْتُهُمَا بِأَخَرَةٍ عَنْ زَاذَانَ

ابن المدینی نے کہا میں نے یحیی سے پوچھا کہ جو شعبہ اور سفیان نے عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ سے روایت کیا کیا صحیح ہے ؟ کہا ہاں سوائے دو حدیثوں کے جو شعبہ کہتے عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ نے آخر میں زاذان سے سنی تھیں

یعنی محدثین کو عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ  کی زاذان سے روایت تک پر اعتبار نہ تھا

دوسری طرف  عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ کی بنیاد پر زاذان کو پابند تراویح ثابت کیا جا رہا ہے

حبل الله کیایک اشاعت میں کتاب  إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از کے حوالے سے ابو بشر دولابی کا قول لکھا گیا تھا

 كان فارسيا من شيعة علي، ومات سلطان عبد الملك

زاذان شیعہ تھا عبد الملک بن مروان کے دور میں مرا

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے الدولابی کو  زاذان کو بچانے کے لئے ضعیف قرار دے دیا ہے لہذا کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا

جبکہ کتاب وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان  از  ابن خلكان میں ابو بشر الدولابی کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے

أبو بشر محمد بن أحمد بن حماد بن سعد، الأنصاري بالولاء، الوراق الرازي الدولابي؛ كان عالما بالحديث والأخبار والتواريخ

أبو بشر محمد بن أحمد بن حماد بن سعد، الأنصاري … حدیث کے عالم اور تاریخ کے عالم ہیں

لسان المیزان کے مطابق  الدولابی کے حوالے سے اس قول کو نعیم بن حماد نے کہا ہے

قال ابن عَدِي: ابن حماد متهم فيما قاله في نعيم بن حماد لصلابته في أهل الرأي.
ابن عدی نے کہا نعیم نے کہا اہل رائے کی اولاد میں سے ہے متہم ہے

یہ جرح غیر مفسر ہے کیونکہ کسی کا اہل رائے میں سے ہونا قابل جرح نہیں ہے- صحیح بخاری کی کتاب کی سند میں بہت سے اہل رائے کے لوگ ہیں

دارقطنی، الدولابی کے بارے میں  کہتے ہیں
تكلموا فيه، لما تبين من أمرة الأخير
ان پر کلام کیا جاتا ہے میں ان کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتا

امام دولابی کا تذکرہ  ارشاد الحق اثری نے مقالات  اثری میں تفصیل سے ذکر کیا ہے

دامانوی نے الدولابی پر خوب بھڑاس نکالنے کے بعد رخ محدث  مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) کی طرف کیا اور کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا

اور ” کنجری” قرار دیا ؟

اس کتاب کی اشاعت سال ١٩٩٥  میں ہوئی تب سے اب تک وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ لفظ   مغلطاي بن قليج کے لئے کیوں زبیر علی زئی نے استمعال کیا

خطوط میں زبیر علی محدثین کو گالیاں لکھ کر ابو جابر دامانوی کو پوسٹ کرتے رہے اور وہ بھی بلا تحقیق بیان کرتے رہے

ممکن ہے یہ ٹائپ کی غلطی ہو لیکن کیا یہ علماء کے لئے مناسب ہے کہ نظر ثانی کیے بغیر مسودے کی تشہیر کرتے ہیں

اس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اغلاط سے پر ہے جس میں تحقیق کم اور مخالف پر بھڑاس زیادہ ہے

چند سال پہلے ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں اسی قسم کی حماقتوں کا مظاہرہ کیا

دوسری طرف  یہ حیرت انگیز ہے کہ ابن حجر نے ٢٠٠ سے زائد مرتبہ تہذیب التہذیب  میں واقدی کا حوالہ دیا ہے اور خبر کو لیا ہے

الکنی میں محدث دولابی نے ٣٥ مرتبہ اسی سند سے رجال پر کلام کیا ہے

ارشد کمال نے تاریخ بغداد کے حوالے سے محمد بن ابراہیم کو غیر ثقہ قرار دیا ہے جبکہ اس کتاب میں ان پر کوئی جرح منقول نہیں ہے

ابن تیمیہ نے فتووں میں واقدی کو جرح کو رد کیا ہے مثلا راس حسین میں کہا

ومعلوم أن الواقدي نفسه خير عند الناس

اور معلوم ہے کہ بے شک واقدی نفسا لوگوں کے نزدیک خیر والا ہے

ابن ہمام   نے کہا: وهذا تقوم به الحجة عندنا إذا وثقنا الواقدي إلخ [فتح القدير ج 1ص 69 

محدثین نے رجال کے حالات اور پیدائش و وفات میں واقدی کے اقوال پر بھروسہ کیا ہے  اور یھاں بھی ایسا ہی ہے کہ واقدی نے خبر دی کہ زاذان شیعان میں سے تھا واقدی نے یہ خبر دی ہے جرح نہیں کی

مزید علتیں

اس سند میں  عَبد اللهِ بْنُ السائب  پر محدثین کی آراء ہیں

الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم میں ہے

حدثنا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد بن حنبل نا علي – يعني ابن المديني – قال سمعت يحيى – يعني ابن سعيد – قال: أنكر سفيان في حديث عبد الله بن السائب عن زاذان (والأمانة في كل شئ في الوضوء وفي الركوع) قال سفيان: أنا ذهبت بالأعمش إلى عبد الله بن السائب

یحیی بن سعید نے سفیان کی روایت کا انکار کیا حدیث (والأمانة في كل شئ في الوضوء وفي الركوع)  جو عبد  الله بن السائب عن زاذان سے ہے- سفیان نے کہا میں اعمش کے ساتھ  عبد الله بن السائب کے پاس گیا تھا 

یعنی عبد  الله بن السائب عن زاذان  کی سند سے   روایات کو  امام یحیی بن سعید نے رد کیا

خود عبد  الله بن السائب  پر امام احمد کا کوئی قول نہیں ہے نہ جرح ہے نہ تعدیل ملتی ہے

  عبدللہ کی کتاب   العلل ومعرفة الرجال میں الثوري  کی تدلیس پر ہے 

سَمِعت أبي يَقُول قَالَ يحيى بن سعيد مَا كتبت عَن سُفْيَان شَيْئا إِلَّا مَا قَالَ حَدثنِي أَو حَدثنَا إِلَّا حديثين ثمَّ قَالَ أبي حَدثنَا يحيى بن سعيد عَن سُفْيَان عَن سماك عَن عِكْرِمَة ومغيرة عَن إِبْرَاهِيم فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ قَالَا هُوَ الرجل يسلم فِي دَار الْحَرْب فَيقْتل فَلَيْسَ فِيهِ دِيَة فِيهِ كَفَّارَة قَالَ أبي هذَيْن الْحَدِيثين الَّذِي زعم يحيى أَنه لم يسمع سُفْيَان يَقُول فيهمَا حَدثنَا أَو حَدثنِي

عبدللہ کہتے ہیں کہ میرے باپ احمد نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا میں نے سفیان سے کچھ نہ لکھا سوائے اس کے جس میں انہوں نے حدثنی یا حدثنا بولا      –    اور دو حدیثین ہیں (جن میں انہوں نے   تحدیث نہیں کی )-       قَالَ أبي حَدثنَا يحيى بن سعيد عَن سُفْيَان عَن سماك عَن عِكْرِمَة ومغيرة عَن إِبْرَاهِيم فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ قَالَا هُوَ الرجل يسلم فِي دَار الْحَرْب فَيقْتل فَلَيْسَ فِيهِ دِيَة فِيهِ كَفَّارَة  عبد الله نے کہا میرے باپ نے کہا یہ دو حدیثین ہیں جن پر یحیی کا دعوی ہے ان کو سفیان نے نہیں سنا اور ان میں حدثنا اور حدثنی کہا ہے  

دوسری طرف  احمد کا قول تہذیب الکمال میں ہے جس کے مطابق عبد الله بن السائب الكندي، الشيباني، الكوفي سے الثوري  نے صرف تین روایات سنی ہیں

وقال: أحمد بن حنبل: سمع منه الثوري ثلاثة أحاديث. «تهذيب الكمال» 14/ (3289

اب یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ امام سفیان باوجود اس کے کہ انہوں نے حدیث سنی نہیں ہوتی تھی اس پر بھی حدثنی کہہ دیتے تھے – اس علم کے بعد سفیان پر کذب کا فتوی جاری کیوں نہیں ہوا؟ یہ محدثین نے وضاحت نہیں کی کیونکہ اگر راوی نے سنا نہ ہو اور وہ حدثنی کہے تو یہ سراسر جھوٹ ہے

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ہی منسوب دیگر روایات ہیں

مسند احمد میں ہے

 حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سريج قال ثنا عبد الله بن نافع عن بن أبي ذئب عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تتخذوا قبري عيدا ولا تجعلوا بيوتكم قبورا وحيثما كنتم فصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني

معجم الاوسط طبرانی میں ہے

 حدثنا موسى بن هارون ، نا مسلم بن عمرو الحذاء المديني ، نا عبد الله بن نافع ، عن ابن أبي ذئب ، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ، عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « لا تجعلوا بيوتكم قبورا ، ولا تجعلوا قبري عيدا ، وصلوا علي ، فإن صلاتكم تبلغني حيث ما كنتم » «

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر کو میلہ کے لئے اختیار مت کرو اور نہ اپنے گھروں کو قبر بناؤ اور جہاں کہیں بھی تم ہو مجھ پر درود کہو کہ یہ مجھ تک پہنچتا ہے

طبرانی کہتے ہیں

لم يصل هذا الحديث عن ابن أبي ذئب إلا عبد الله بن نافع

صرف عبد الله بن نافع نے اس  روایت کو ابن ابی ذئب سے ملایا ہے

 الہیثمی  مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

  رواه أبو يعلى وفيه عبد الله بن نافع وهو ضعيف

اس کو أبو يعلى نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں  عبد الله بن نافع ہے جو ضعیف ہے

اپ اوپر دونوں سندوں کو دیکھ سکتے ہیں اس میں عبد الله بن نافع  ہے جو ضعیف ہے

اسی سند سے سنن ابوداود میں یہ روایت ہے

 علی  رضی الله عنہ سے منسوب روایات

مسند ابویعلی میں اس قسم کی ایک روایت علی رضی الله عنہ سے بھی منسوب کی گئی ہے

حدثنا موسى بن محمد بن حيان ، حدثنا أبو بكر الحنفي ، حدثنا عبد الله بن نافع ، أخبرني العلاء بن عبد الرحمن قال : سمعت الحسن بن علي بن أبي طالب قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « صلوا في بيوتكم ، لا تتخذوها قبورا ، ولا تتخذوا بيتي عيدا ، صلوا علي وسلموا ، فإن صلاتكم  وسلامكم يبلغني أينما كنتم »

علی نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : گھروں میں نماز پڑھو – ان کو قبر مت کرو – میرے گھر پر میلہ  نہ لگاو – اور مجھ پر سلام کہو اور درود کیونکہ تمہارا درود و سلام مجھ تک اتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو

یہاں بھی عبد الله بن نافع الصائغ  (پیدائش ١٢٠ کے اس پاس – وفات  ٢٠٦ ہجری ) کا تفرد ہے

الکامل از ابن عدی میں ہے امام احمد نے کہا

لم يكن صاحب حديث كان ضيقا فيه

یہ صاحب حدیث نہیں بلکہ اس سے تو اس کا سینہ تنگ ہوتا ہے

امام احمد کے بقول یہ ٤٠ سال امام مالک کے ساتھ رہا لیکن کچھ روایت نہیں کیا جبکہ ابن عدی کہتے ہیں

وعبد الله بن نافع قد روى عن مالك غرائب یہ امام مالک سے عجیب و غریب باتیں روایت کرتا ہے

شیعہ عالم کی کتاب أصحاب الامام الصادق (ع)از  عبد الحسين الشبستري کے مطابق عبد الله بن نافع الصائغ اصحاب محمد بن عبد الله المہدی میں سے ہے  جو اس امت کے المہدی تھے اور ان سے متعلق روایات گھڑی گئیں ہیں جن کا ذکر راقم نے اپنی کتاب میں کیا ہے

ہیثمی کی کتاب  كشف الأستار عن زوائد البزار میں ایک اور سند ہے

حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ اللَّيْثِ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، ثنا عِيسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الطَّالِبِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَصَلُّوا عَلَيَّ وَسَلِّمُوا، فَإِنَّ صَلاتَكُمْ تَبْلُغُنِي» .
قَالَ الْبَزَّارُ: لا نَعْلَمُهُ عَنْ عَلِيٍّ إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَقَدْ رَوَى بِهِ أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ، وَفِيهَا أَحَادِيثُ صَالِحَةٌ، وَهَذَا غَيْرُ مُنْكَرٍ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: «لا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا» .

البزار نے کہا علی سے منسوب ہم اس روایت کو اسی سند سے جانتے ہیں اور اس نے منکر روایات بیان کی ہیں اور اس کی احادیث صالح بھی ہیں اور یہ روایت کئی طرق سے ہے قبر کو میلہ مت کرو اور نہ گھروں کو قبر

سند میں عِيسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مجھول ہے اور علي بن عمر  کو ابن حجر نے مستور قرار دیا ہے

حسن رضی الله عنہ سے منسوب روایات

معجم الکبیر طبرانی کی روایت ہے

 حدثنا أحمد بن رشدين المصري ثنا سعيد بن أبي مريم ثنا محمد بن جعفر أخبرني حميد بن أبي زينب : عن حسن بن حسن بن علي بن أبي طالب عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : حيث ما كنتم فصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني

حسن بن حسن بن علی  نے حسن رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم جہاں بھی ہو درود کہو کیونکہ یہ مجھ تک پہچ رہا ہے

 ہیثمی مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

رواه الطبراني في الكبير والأوسط وفيه حميد بن أبي زينب ولم أعرفه، وبقية رجاله رجال الصحيح.

اس کو طبرانی نے روایت کیا الکبیر میں اور الاوسط میں اس میں حميد بن أبي زينب  ہے جس کو میں نہیں جانتا اور باقی رجال صحیح کے ہیں

حیرت ہے کہ سخاوی کتاب القول البديع ص 153  میں اس سند کو حسن کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں

إنّ فيه من لم يعرف

اس میں راوی ہے جس کو میں نہیں جانتا

کتاب سير أعلام النبلاء از الذھبی میں حسن رضی الله عنہ کے ترجمہ میں ہے

ابْنُ عَجْلاَنَ: عَنْ سُهَيْلٍ، وَسَعِيْدٍ مَوْلَى المُهْرِيِّ، عَنْ حَسَنِ بنِ حَسَنِ بنِ عَلِيٍّ:
أَنَّهُ رَأَى رَجُلاً وَقَفَ عَلَى البَيْتِ الَّذِي فِيْهِ قَبْرُ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَدْعُو لَهُ، وَيُصَلِّي عَلَيْهِ، فَقَالَ لِلرَّجُلِ (1) : لاَ تَفْعَلْ، فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: (لاَ تَتَّخِذُوا بَيْتِيَ عِيْداً، وَلاَ تَجْعَلُوا بُيُوْتَكُم قُبُوْراً، وَصَلُّوا عَلَيَّ حَيْثُ مَا كُنْتُم، فَإِنَّ صَلاَتَكُم تَبْلُغُنِي) (2) .
هَذَا مُرْسَلٌ، وَمَا اسْتَدَلَّ حَسَنٌ فِي فَتْوَاهُ بِطَائِلٍ مِنَ الدَّلاَلَةِ، فَمَنْ وَقَفَ عِنْدَ الحُجْرَةِ المُقَدَّسَةِ ذَلِيْلاً، مُسْلِماً، مُصَلِيّاً عَلَى نَبِيِّهِ، فَيَا طُوْبَى لَهُ، فَقَدْ أَحْسَنَ الزِّيَارَةَ، وَأَجْمَلَ فِي التَّذَلُّلِ وَالحُبِّ، وَقَدْ أَتَى بِعِبَادَةٍ زَائِدَةٍ عَلَى مَنْ صَلَّى عَلَيْهِ فِي أَرْضِهِ، أَوْ فِي صَلاَتِهِ، إِذِ الزَّائِرُ لَهُ أَجْرُ الزِّيَارَةِ، وَأَجْرُ الصَّلاَةِ عَلَيْهِ، وَالمُصَلِّي عَلَيْهِ فِي سَائِرِ البِلاَدِ لَهُ أَجْرُ الصَّلاَةِ فَقَطْ، فَمَنْ صَلَّى عَلَيْهِ وَاحِدَةً، صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْراً، وَلَكِنْ مَنْ زَارَهُ – صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ – وَأَسَاءَ أَدَبَ الزِّيَارَةِ، أَوْ سَجَدَ لِلْقَبْرِ، أَوْ فَعَلَ مَا لاَ يُشْرَعُ، فَهَذَا فَعَلَ حَسَناً وَسَيِّئاً، فَيُعَلَّمُ بِرفْقٍ، وَاللهُ غَفُوْرٌ رَحِيْمٌ.
فَوَاللهِ مَا يَحْصَلُ الانْزِعَاجُ لِمُسْلِمٍ، وَالصِّيَاحُ وَتَقْبِيْلُ الجُدْرَانِ، وَكَثْرَةِ البُكَاءِ، إِلاَّ وَهُوَ مُحِبٌّ للهِ وَلِرَسُوْلِهِ، فَحُبُّهُ المِعْيَارُ وَالفَارِقُ بَيْنَ أَهْلِ الجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ، فَزِيَارَةُ قَبْرِهِ مِنْ أَفَضْلِ القُرَبِ، وَشَدُّ الرِّحَالِ إِلَى قُبُوْرِ الأَنْبِيَاءِ وَالأَوْلِيَاءِ، لَئِنْ سَلَّمْنَا أَنَّهُ غَيْرُ مَأْذُوْنٍ فِيْهِ لِعُمُوْمِ قَوْلِهِ – صَلَوَاتُ اللهُ عَلَيْهِ -: (لاَ تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلاَّ إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ) (3) .
فَشَدُّ الرِّحَالِ إِلَى نَبِيِّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-مُسْتَلْزِمٌ لِشَدِّ الرَّحْلِ إِلَى مَسْجِدِهِ، وَذَلِكَ مَشْرُوْعٌ بِلاَ نِزَاعٍ، إِذْ لاَ وُصُوْلَ إِلَى حُجْرَتِهِ إِلاَّ بَعْدَ الدُّخُوْلِ إِلَى مَسْجِدِهِ، فَلْيَبْدَأْ بِتَحِيَّةِ المَسْجِدِ، ثُمَّ بِتَحِيَّةِ صَاحِبِ المَسْجِدِ – رَزَقَنَا اللهُ وَإِيَّاكُمْ ذَلِكَ آمِيْنَ

ابْنُ عَجْلاَنَ: عَنْ سُهَيْلٍ، وَسَعِيْدٍ مَوْلَى المُهْرِيِّ، عَنْ حَسَنِ بنِ حَسَنِ بنِ عَلِيٍّ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو اس گھر میں رکا جس میں قبر النبی ہے اس سے دعا کر رہا تھا درود کہہ رہا تھا پس ایک رجل نے کہا یہ مت کر کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے میرے گھر کو میلہ مت کرو اور نہ اپنے گھروں کو قبر بنا دو اور مجھ پر درود کہو جہاں بھی تم ہو کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے -یہ مرسل ہے پر اس فتوے میں جو اچھا ہے اس پر اور دلائل سے نشاندھی ہوتی ہے  –  پس جو حجرہ مقدس کے پاس اپنے اپ کو تذلل میں رکھتے ہوئے مسلم بنا   اور درود نبی پر کہتے ہوئے رکا تو اس کے لئے بشارت ہے تو پس یہ بہترین زیارت ہے اور تذلل میں سب سے اجمل ہے اور محبت میں اور جو زائر نبی صلی الله علیہ وسلم پر ان کی زمین پر درود کہے تو یہ عبادت میں زائد ہے تو اس پر اجر بھی زائد ہے اور درود کہنے کا اجر ہے اور تمام شہروں میں جو درود کہیں ان کے تو فقط اجر ہے اور جس نے ایک بار کہا اس پر دس بار سلامتی ہے لیکن جس نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی اور ادب زیارت میں خرابی کی یا قبر کو سجدہ کیا یا کوئی غیر شرعی کام کیا تو یہ کام اچھا و برا ہے پس فرق کو جانو اور الله تو غفور و رحیم ہے – الله کی قسم مسلمان کو جو مشکل ملتی ہے  اور جو وہ روتا ہے اور دیواروں کو چومتا ہے اور بہت روتا ہے تو یہ کچھ نہیں صرف الله اور اس کے رسول سے محبت ہے تو اس محبت کا معیار ہے اور یہ اہل جنت و جہنم کو الگ کرنے والی ہے پس قبر نبی کی زیارت قرب میں افضل ہے اور سواری کسنا انبیاء اور اولیاء کی قبور کے لئے ہے اور اس میں قول نبوی سے ممانعت نہیں ہے کہ اپ نے فرمایا سواری نہ کسی جائے صرف تین مسجدوں کے لئے پس ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے سواری کسنا تو لازم ہے کہ ان کی مسجد کا سفر ہو اور یہ مشروع ہے اس میں نزاع نہیں ہے کیونکہ حجرہ نہیں ملے گا جب تک مسجد میں داخل نہ ہو لیں پس تَحِيَّةِ المَسْجِدِ سے شروعات کرو پھر تَحِيَّةِ صاحب المَسْجِدِ سے شروع کرو الله تم کو اور ہم کو یہ دے امین

الذھبی نے چند جملوں سے ابن تیمیہ کی کتاب کا رد کر دیا

حسین رضی الله عنہ سے منسوب روایات

 مسند ابی یعلی، مصنف ابن ابی شیبہ  میں حسین رضی الله عنہ سے منسوب ایک روایت ہے

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا جعفر بن إبراهيم ، من ولد ذي الجناحين ، قال : حدثنا علي بن عمر ، عن أبيه ، عن علي بن حسين ، أنه رأى رجلا يجيء إلى فرجة كانت عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فيدخل فيها فيدعو ، فنهاه ، فقال : ألا أحدثكم حديثا سمعته من أبي ، عن جدي ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : « لا تتخذوا قبري عيدا ، ولا بيوتكم قبورا ، فإن تسليمكم يبلغني أينما كنتم »

علی بن حسین نے ایک آدمی کو دیکھا جو اس سوراخ تک آیا جو قبر النبی میں ہے اس میں سے قبر میں داخل ہوا اور وہاں دعا کی – پس انہوں نے منع کیا اور کہا میں تم سے حدیث بیان کرتا ہو جو میں نے حسین سے سنی انہوں نے علی سے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کہ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : میری قبر کو میلہ کا مقام مت کرو –اور نہ اپنے گھروں کو قبر کرو  کیونکہ  تمہارا درود مجھ تک پہنچ رہا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو

ہیثمی  مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

رواه أبو يعلى وفيه جعفر بن إبراهيم الجعفري ذكره ابن أبي حاتم ولم يذكر فيه جرحاً وبقية رجاله ثقات

اس کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس میں جعفر بن إبراهيم الجعفري ہے جس کا ذکر ابن ابی حاتم نے کیا ہے اور اس پر کوئی جرح ذکر نہیں کی اور باقی سب ثقات ہیں

ابن حجر لسان المیزان میں کہتے ہیں

فلعل إبراهيم نسبه إلى جده الأعلى جعفر إن كان الخبر لجعفر

اگر یہ خبر جعفر ہی کی ہے تو ممکن ہے کہ جعفر کو اس کے جد اعلی ابراہیم کی طرف نسبت دی گئی ہے

 ساتھ ہی ابن حجر کہتے ہیں

وذكره ابن أبي طي في رجال الشيعة

اور ابن أبي طي نے  جعفر بن إبراهيم کا ذکر رجال شیعہ میں ذکر کیا ہے

اس سند میں زيد بن الحباب بھی ہے جس کو کثیر الخطا  امام احمد نے قرار دیا ہے

سب سے بڑھ کر قبر نبوی میں ایک سوراخ بھی تھا ؟ جس میں سے انسان گزر کر قبر میں داخل ہو جاتا تھا ایسا کسی بھی صحابی نے بیان نہیں کیا- اس سوراخ کو بند کیوں نہیں کیا گیا- یہ روایت منکر ہے

حسن بن حسن بن علی کی روایت

مصنف عبد الرزاق [ص:577]  6726  ٤٨٣٩  اور مصنف ابن ابی شیبہ ٧٥٤٣ کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ: سُهَيْلٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: رَأَى قَوْمًا عِنْدَ الْقَبْرِ فَنَهَاهُمْ وَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَتَّخِذُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَصَلُّوا عَلِيَّ حَيْثُمَا كُنْتُمْ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي»

ابن عجلان نے کہا کہ ایک شخص جس کو سہیل کہا جاتا تھا اس نے حسن بن حسن بن علی سے روایت کیا کہ  حسن بن حسن بن علی نے ایک بار ایک قوم کو دیکھا کہ وہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں  پس انہوں نے منع کیا اور کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے  کہ لوگوں میرے گھر پر میلا نہ لگاو اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بناو ،البتہ جہاں کہیں بھی رہومیرے اوپر درود بھیجتے رہو، اسلئے کہ تمھارا درود مجھ تک یقینا پہنچے گا

روایت مقطوع ہے اس میں  صحابی کا نام نہیں جس سے یہ روایت سنی

ابن تیمیہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم 1/ 298 – 299 و 2/ 656  میں سنن سعید بن منصور کے حوالے سے سند دیتے ہیں

عن عبد العزيز بن محمد الدراوردي أني سهيل بن أبي سهيل قال: رآني الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب عند القبر فناداني وهو في بيت فاطمة يتعشى، فقال: هلم إلى العشاء، فقلت: لا أريده، فقال: ما لي رأيتك عند القبر؟ قلت: سلمت على النبي – صلى الله عليه وسلم -، فقال: إذا دخلت المسجد فسلم. ثم قال: إنّ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال “لا تتخذوا قبري عيدا، ولا تتخذوا بيوتكم مقابر، لعن الله اليهود اتخذوا قبور أنبياءهم مساجد، وصلوا عليّ، فإنّ صلاتكم تبلغني حيث ما كنتم” ما أنتم ومن بالأندلس إلا سواء.

سهيل بن أبي سهيل نے کہا مجھ کو حسن بن حسن نے دیکھا میں قبر کے پاس تھا پس انہوں نے مجھے پکارا اور وہ فاطمہ کے گھر میں رات کا کھانا کھا رہے تھے انہوں نے کہا کھا لو – میں نے کہا مجھے ضرورت نہیں- پوچھا کہ میں نے تم کو قبر کے پاس کیوں دیکھا ؟ میں نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم پر سلام کہہ رہا تھا – انہوں نے کہا جب مسجد میں داخل ہو سلام کہو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر کو میلہ مت بناؤ اور نہ گھروں کو قبریں – الله کی لعنت ہو یہود پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا – مجھ پر درود کہو کیونکہ تم جہاں بھی ہو یہ مجھ تک اتا ہے اور یہ برابر ہے تم میں اور اندلس والوں میں

امام بخاری تاریخ الکبیر میں کہتے ہیں سہیل کا سماع حسن سے نہیں ہے

سهيل عن حسن بن حسن روى عنه محمد بن عجلان منقطع

سہیل جس سے حسن بن حسن نے روایت کیا اور اس سے ابن عجلان نے – منقطع ہے

ابو مسعود الانصاری رضی الله عنہ سے منسوب روایات

  الحاكم  کتاب   المستدرك على الصحيحين میں روایت پیش کرتے ہیں

حدثنا الشيخ أبو بكر بن إسحاق الفقيه ، أنبأ أحمد بن علي الأبار ، ثنا أحمد بن عبد الرحمن بن بكار الدمشقي ، ثنا الوليد بن مسلم ، حدثني أبو رافع ، عن سعيد المقبري ، عن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « أكثروا علي الصلاة في يوم الجمعة ، فإنه ليس أحد يصلي علي يوم الجمعة إلا عرضت علي صلاته »

أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه  سے مروی ہے کہ  نبي صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم کثرت سے جمعہ کے دن درود کہو کتونکہ ایسا کوئی نہیں جو درود  جمعہ کے دن اور وہ فرشتے مجھ تک نہ پہنچا دیں

اس کی سند میں أبو رافع إسماعيل بن رافع  ہے جس کو امام ابن معین نے ضعیف کوئی چیز نہیں کہا ہے اور احمد نے منکر الحدیث قرار دیا ہے –  نسائی نے متروک قرار دیا ہے

انس رضی الله عنہ سے منسوب روایات

حدثنا أحمد قال : نا إسحاق قال : نا محمد بن سليمان بن أبي داود قال : نا أبو جعفر الرازي ، عن الربيع بن أنس ، عن أنس بن مالك ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « من ذكر الله ففاضت عيناه من خشية الله حتى تصيب الأرض دموعه لم يعذبه الله يوم القيامة » وقال النبي صلى الله عليه وسلم : « من صلى علي بلغتني صلاته ، وصليت عليه ، وكتبت له سوى ذلك عشر حسنات » « لم يرو هذين الحديثين عن أبي جعفر إلا محمد بن سليمان

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو الله کا ذکر کرے اور اس کے خوف سے اس کی آنکھ نم ہو جائے حتی کہ آنسو زمیں تک آ جائے تو  اس کو روز محشر عذاب نہ ہو گا  .. اور جس نے مجھ پر درود کہا وہ مجھ تک آ گیا اور میں نے اس کے لئے دعا کی اور اس کے لئے دس نیکییاں لکھ دی گئیں

اس کی سند میں أبو جعفر الرازي  عيسى بن ماهان ہے جس کو عقیلی نے  ليس بالقوي في الحديث قرار دیا ہے – احمد نے بھی کمزور اور مضطرب الحدیث کہا ہے

 قارئیں اپ دیکھ سکتے ہیں تمام اسناد ضعیف ہیں

کتاب ذہن پرستی از مسعود احمد بی ایس سی میں اوپر والی تمام روایات کی تصحیح و تحسین کی گئی ہے دیکھتے ہیں امیر جماعت المسلمین کیا لکھ گئے ہیں

اپ ہماری تحقیق  کو  غیر مقلدین کی تحقیق سے ملا کر دیکھ سکتے ہیں کہ حق کیا ہے

یاد رہے کہ جو الله کا حق ہے وہ اسی کا ہے جو اس کو چھیننے کی کوشش کرے گا وہ جواب دہ ہو گا

سلف کے متعدد  لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں درود و سلام سنتے ہیں یہاں تک کہ  بعض کے نزدیک اگر قبر نبوی کے قریب سلام کہا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور دور سے کہا جائے، تو خود نہیں سنتے، بلکہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ درود و سلام پہنچاتے ہیں۔ اس عقیدے کے قائل بڑے بڑے نام ہیں مثلا ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، النووی وغیرہ – اسی عقیدے کے قائل وہابی علماء ہیں اور آج بھی روضہ رسول کے اوپر سوره الحجرات کی آیت لگی ہے کہ اپنی آواز کو رسول کی آواز سے پست رکھو – اس کا مقصد یہ ہے کہ قبر نبوی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم،  سلام کا جواب دے رہے ہیں جو دھیمی آواز کی وجہ سے سنا  نہیں جا رہا لہذا جو یہاں مجمع لگائے ہوئے ہیں وہ بھی اسی قدر انداز  میں درود و سلام کہیں- اس کے بر عکس نبی   صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں قریب یا دور سے سلام سننا قطعاً ثابت نہیں۔ جو لوگ ایسے عقائد  رکھتے ہیں ان کی اساس بعض ضعیف روایات ہیں-

کتاب الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي میں  شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ) کہتے ہیں

فأخبر أنه يسمع الصلاة من القريب وأنه يبلغ ذلك من البعيد

پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کہ اپ قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور کا پہنچا دیا جاتا ہے

ابن تيمية  ، مجموع الفتاوى ( 27 / 384 ) میں کہتے ہیں

 أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

بے شک اپ صلی الله علیہ وسلم قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں

کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں امام السخاوی کہتے ہیں

 وعنه أيضاً – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي من بعيد أعلمته أخرجه أبو الشيخ في الثواب له من طريق أبي معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عنه ومن طريقه الديلمي وقال ابن القيم أنه غريب قلت: وسنده جيد كما أفاده شيخنا

اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر کے پاس درود پڑھا  گیا تو یہ میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا تو یہ مجھ تک پہنچتا ہے اس کی تخریج ابو الشیخ نے کی ہے أبي معاوية عن الأعمش عن أبي صالح کے طرق سے اور الديلمي کے طرق سے اور ابن قیم نے کہا یہ منفرد ہے میں السخاوی کہتا ہوں اس کی سند جید ہے جیسا فائدہ ہمارے شیخ ابن حجر نے دیا ہے

 جو یہ مانتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم درود نہیں سنتے وہ یہ عقیدہ اختیار کر گئے ہیں کہ درود فرشتے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر پیش کر رہے ہیں – فرقہ پرستوں کے مطابق جب بھی کوئی درود کہتا ہے تو روح نبوی جسد نبوی میں واپس ڈالی جاتی ہے اور پھر امت کا عمل درود و دعا  پیش ہوتا ہے-

کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں امام السخاوی، قبر نبوی میں روح کی واپسی والی روایت پر  کہتے ہیں

وقال شيخنا رواته ثقات، قلت لكن أفرد به يزيد عبد الله بن قسيط براوية له عن أبي هريرة وهو يمنع من الجزم بصحته لأن فيه مقالاً وتوقف مالك فقال في حديث خارج الموطأ ليس بذاك وذكر التقي بن تيمية ما معناه أن رواية أبي داود فيها يزيد بن عبد الله وكأنه لم يدرك

ہمارے شیخ ابن حجر کہتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن میں کہتا ہوں اس میں یزید بن عبد الله بن قسیط کا تفرد ہے جو ابو ہریرہ سے روایت پر ہے اور جزم کے ساتھ اس کی روایت کی صحت کا کہنے پر منع ہے کیونکہ اس پر کلام ہے اور امام مالک کا توقف ہے  اور ایک حدیث جو موطا  میں نہیں ہے اس پر ان کا کہنا ہے کہ یہ لیس بذاک ہے اور ابن تیمیہ نے ذکر کیا اس کی روایت کا جو سنن ابو داود میں اس معنوں میں کہ گویا عبدالله نے ابوہریرہ کو نہیں پایا

یعنی مسلک پرستوں کی ممدوح شخصیت خود کہہ رہی ہیں کہ رد الله علی روحی والی روایت مشکوک ہے

راقم کہتا ہے سخاوی کا قول صحیح ہے لیکن ابن تیمیہ کے حوالے سے جو انہوں نے سمجھا ہے وہ صحیح نہیں کہ وہ اس روایت کو رد کرتے ہیں

سردست یہاں نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات کا جائزہ پیش کیا گیا  ہے  تاکہ اپ اس عقیدہ  سے متعلق روایات میں ضعیف راویوں کی حثیت کو جان سکیں

درود سلام الله تک جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم تک اس کو پہنچانا اصل میں علم غیب کا دعوی کرنا ہے اپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کی زندگی ہی میں معلوم تھا کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے جبکہ قرآن میں ہے  تم ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں- شیعہ راویوں یا شیعہ نواز راویوں  نے اس عقیدہ کو گھڑا تاکہ اس کو پہلے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے قبول کروایا جائے پھر ائمہ کے لیے بھی اس کا دعوی کیا جائے-

اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ امت کا عمل ائمہ پر پیش ہوتا ہے

کتاب الأمالي للطوسي کی روایت ہے

 أخبرنا محمد بن محمد، قال أخبرنا أبو الحسن علي بن بلال المهلبي، قال حدثنا علي بن سليمان، قال حدثنا أحمد بن القاسم الهمداني، قال حدثنا أحمد بن محمد السياري، قال حدثنا محمد بن خالد البرقي، قال حدثنا سعيد بن مسلم، عن داود بن كثير الرقي، قال كنت جالسا عند أبي عبد الله )عليه السلام( إذ قال مبتدئا من قبل نفسه يا داود، لقد عرضت علي أعمالكم يوم الخميس

 داود بن كثير الرقى (مجھول الحال ہے نسائی نے خصائص علی میں روایت لی ہے) نے کہا امام ابو عبد الله نے کہا .. تمہارے اعمال  مجھ پر جمعرات کو پیش ہوتے ہیں 

الکافی میں باب عرض الاعمال على النبي صلى الله عليه وآله والائمة عليهم السلام دیکھا جا سکتا ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن النضر بن سويد، عن يحيى الحلبي، عن عبدالحميد الطائي، عن يعقوب بن شعيب قال: سألت أبا عبدالله عليه السلام عن قول الله عزوجل: ” اعملوا فسيرى الله عملكم ورسوله والمؤمنون ” قال: هم الائمة.

يعقوب بن شعيب نے کہا میں نے امام ابو عبد الله سے قول الله  اعملوا فسيرى الله عملكم ورسوله والمؤمنون  پر سوال کیا- فرمایا اس سے مراد ائمہ ہیں

تفسیر القمی میں ہے

وعن محمد بن الحسن الصفار عن ابي عبدالله عليه السلام قال ان اعمال العباد تعرض على رسول الله صلى الله عليه وآله كل صباح ابرارها وفجارها فاحذروا فليستحيي احدكم ان يعرض على نبيه العمل القبيح، وعنه صلوات الله عليه وآله قال ما من مؤمن يموت او كافر يوضع في قبره حتى يعرض عمله على رسول الله صلى الله عليه وآله وعلى امير المؤمنين عليه السلام

اور  محمد بن الحسن الصفار سے روایت ہے کہ امام ابو عبد الله علیہ السلام نے کہا بے شک  بندوں کا عمل رسول الله صلی الله علیہ و الہ پر پیش ہوتا ہے ہر صبح کو نیکو کاروں اور گناہ گاروں کا پس حیا کرو کہ تمہارا عمل قبیح نبی پر پیش ہو اور اپ صلوات الله عليه وآله نے فرمایا ہے کوئی مرنے والا مومن یا کافر نہیں جو قبر میں ہو  حتی کہ اس کا عمل رسول الله صلی الله علیہ و الہ اور امیر المومننیں علیہ السلام پر پیش نہ ہو

عقیدہ عرض اعمال کا سیاسی پہلو

شیعہ راویوں یا شیعہ نواز رویوں نے اغلبا عرض اعمال کا عقیدہ اس لئے  گھڑا کہ بنو ہاشم نے دور بنو امیہ میں کئی بار خروج کیا اس دوران یہ ثابت کرنے کے لئے کہ مخالف اصل میں مسلمان نہیں بلکہ منافق ہیں اس عقیدہ کا اجراء ہوا کہ یہ کہا جائے کہ امت میں منافق ختم نہیں  ہوئے بلکہ اقتدار نشیں ہو گئے ہیں ان کے خلاف خروج کرنا ہو گا اور یہ بات کہ مخالف منافق ہیں اس کی خبر درود سے مل رہی ہے کہ ان منافقوں کا درود نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش نہیں ہوتا اور ائمہ پر بھی پیش نہیں ہوتا

عرض اعمال کی روایات پر مزید تحقیق یہاں ہے

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2015/11/مصطفی-سراپا-رحمت-پہ-لاکھوں-سلام.pdf

تصوف کی جڑ – حیات فی القبر

ابراہیمی ادیان میں تصوف کی جڑ حیات فی القبر ہے – قبر سے فیض لینا  پریکٹیکل تصوف ہے  اور یہ تبھی ممکن ہے جب صاحب سلوک اس کی منازل طے کرے اور نیکوکار ہو لہذا تصوف کے بنیادی عقائد میں سے ہیں

اول ارواح عالم ارض و سما میں سفر کرتی ہیں

دوم مردے سنتے ہیں

سوم  مردے کلام بھی کر سکتے ہیں

چہارم مردوں سے فیض لیا جا سکتا ہے یعنی ان کو وسیلہ بنا سکتے ہیں چونکہ ان کی ارواح عرش تک جاتی ہیں

تصوف  کے شجر کی جڑیں اصلا ارواح سے متعلق عجیب و غریب عقیدہ میں تھیں کہ حالت نیند میں روح کہیں بھی جا سکتی ہے –  چھٹی صدی اسلامی ہجری کے اختتام تک یہ عقائد پھیل چکے تھے  اور آٹھویں صدی تک ان عقائد کو قبولیت عام مل چکی تھی اگرچہ  بعض احناف متقدمین سماع الموتی کے یکسر خلاف تھے کیونکہ یہ نہ قرآن میں ہے نہ رائےسے اس عقیدہ تک پہنچا جا سکتا ہے – دوسری طرف اہل رائے کے مخالف جو روایت پسند تھے انہوں نے فقہ کے بعد فضائل میں اور عقائد میں بھی ضعیف روایات کو داخل کر دیا تھا

انسانی روح کہیں بھی جا سکتی ہے؟

إس قول کو سب سے پہلے مصنف ابن ابی شیبہ میں عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا

غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ، فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ يُخْلَى بِهِ يَسْرَحُ حَيْثُ شَاءَ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ»

دنیا مومن  کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مومن  مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے

اس کی سند میں يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ کو ابن حبان اور عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے

کتاب كشف الخفاء ومزيل الإلباس از إسماعيل بن محمد بن عبد الهادي الجراحي العجلوني الدمشقي، أبو الفداء (المتوفى: 1162هـ)  میں روایت “الدنيا سجن المؤمن، وجنة الكافر کی بحث میں  العجلوني  لکھتے ہیں حدیث میں ہے

فإذا مات المؤمن تخلى سربه يسرح حيث شاء
”جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔

انہی الفاظ کا ذکر فتاوی رضویہ میں ہے

وھذا لفظ امام ابن المبارك قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض ویتفسح فیھا١[1]۔ولفظ ابی بکر ھکذا الدنیا سجن المومن وجنۃ لکافر فاذا مات المومن یخلی سربہ یسرح حیث شاء

اور یہ روایت امام ابن مبارك کے الفاظ ہیں۔ ت) بیشك دنیا کافر کی جنت اور مسلمان کی زندان ہے، اور ایمان والے کی جب جان نکلتی ہے توا س کی کہاوت ایسی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اب اس سے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتاا ور بافراغت چلتا پھرتا ہے۔(اور روایت ابوبکر کے الفاظ یہ ہیں۔ ت) دنیا مسلمان کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مسلمان مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔

http://www.dawateislami.net/bookslibrary/1454/page/722

مسلک پرست  غیر مقلدین کے اصول پر موقوف صحابی بھی قابل قبول ہے اور اس سے دلیل بنتی ہے مومن کی روح عالم میں اڑتی پھرتی ہیں  لہذا ابن قیم کتاب الروح میں خواب مين ارواح کی ملاقات والی روایات پر کہتے ہیں

فَفِي هَذَا الحَدِيث بَيَان سرعَة انْتِقَال أَرْوَاحهم من الْعَرْش إِلَى الثرى ثمَّ انتقالها من الثرى إِلَى مَكَانهَا وَلِهَذَا قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت

ان احادیث میں ارواح کا عرش سے الثرى  تک  جانے میں سرعت کا ذکر ہے پھر الثرى سے اس روح کے مکان تک جانے کا ذکر ہے اور اسی وجہ سے امام  مالک اور دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ چھوڑی جانے والے روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

ارواح قدسیہ عالم بالا سے مل جاتی ہیں اور تمام عالم شہود ہوتا ہے؟

کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير  از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ)  کے مطابق

قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.

اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور  عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود  دیکھتی ہیں یا بادشاہت کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں

اب کچھ شبھات کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں التباس غیر مقلدین پیدا کرتے ہیں

شبہ نمبر١ : سلف کہتے تھے  قبور انبیاء  سے فیض نہیں لیا جا سکتا

قبور انبیاء سے فیض لینے کے عقیدہ کو امام ابن کثیر نے بھی اپنی کتب میں بیان کیا ہے    اس حوالے سے تفسیر ابن کثیر کا ایک متن پیش کیا جاتا ہے

وقد شرع النبي صلى الله عليه وسلم لأمته : إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه، فيقول المسلم: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل، ولولا ذلك لكان هذا الخطاب منزلة خطاب المعدوم والجماد، والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب وہ قبروں والوں کو سلام کہیں تو انہیں اسی طرح سلام کہیں جس طرح اپنے مخاطبین کو سلام کہتے ہیں۔ چنانچہ سلام کہنے والا یہ کہے : اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِينَ”اے مومنوں کے گھروں (قبروں) میں رہنے والو ! تم پر سلامتی ہو۔“ سلام کا یہ انداز ان لوگوں سے اختیار کیا جاتا ہے جو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سلام مخاطب کو کہا جانے والا سلام نہ ہوتا تو پھر مردوں کو سلام کہنا معدوم اور جمادات کو سلام کہنے جیسا ہوتا۔ سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے۔ ان سے متواتر آثار مروی ہیں کہ میت، قبر پر آنے والے زندہ لوگوں کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔

 [ تفسير ابن كثير : 325/6، بتحقيق سامي بن محمد سلامة، طبع دار طيبة للنشر والتوزيع]

غیر مقلد عالم  ابو یحیی نور پوری کے بقول یہ عبارت الحاقی ہے- مضمون مردے سنتے ہیں لیکن،  میں  لکھتے ہیں

تفسیر ابن کشیر کی یہ عبارت الحاقی ہے جو کہ کسی ایسے ناقص نسخے سے لی گئی ہے جس کا ناسخ نامعلوم ہے، لہذا اس کا کوئی اعتبار ہیں۔ اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں، لہٰذا یہ عبارت ناقابل استدال والتفات ہے۔
◈ ڈاکٹر اسماعیل عبدالعال تفسیر ابن کثیر کے نسخوں کے بارے میں کہتے ہیں :
وأرى من الواجب على من یتصدى لتحقيق تفسير ابن كثير تحقيقا علميا دقيقا، سيما من المآخذ، أن لا يعتمد على نسخة واحدة، بل عليه أن يجمع كل النسخ المخطوطة والمطبوعة، ويوازن بينها مع إثبات الزيادة والنقص، والتحريف والتصحيف.
’’ جو شخص تفسیر ابن کثیر کی دقیق اور علمی تحقیق کرنا چاہے، خصوصاً مختلف مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے، تو میرے خیال میں اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ایک نسخے پر اعتماد نہ کر بیٹھے، بلکہ وہ تمام مخطوط اور مطبوع نسخوں کو جمع کرے، پھر زیادت و نقص اور تحریف و تصحیف کو سامنے رکھتے ہوئے سب نسخوں کا موازنہ کرے۔“ [ابن کثیر و منهجه فی التفسیر، ص : 128]
٭پھر تفسیر ابن کثیر جو سامی بن محمد سلامہ کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، جس کا حوالہ بھی اوپر مذکور ہے، اس میں محقق نے پندرہ نسخوں کو مدنظر رکھا ہے۔ مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد محقق لکھتے ہیں : زيادة منْ ت، أیعنی یہ عبارت نسخہ المحمدیۃ جو ترکی میں ہے، میں مذکور ہے۔ اس نسخے کا ناسخ (لکھنے والا) نامعلوم ہے۔ نیز یہ عبارت نسخہ ولي الله بن جار اللہ میں موجود ہے۔ اس کا ناسخ علی بن یعقوب جو کہ ابن المخلص کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ یوں یہ دونوں نسخے قابل اعتماد نہ ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر جو پانچ محققین کی تحقیق کے ساتھ پندرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے، اس کی پہلی طبع نسخہ أزھریۃ اور نسخہ دارالكتب کے تقابل کے ساتھ چھپی ہے۔ اس میں یہ عبارت نہیں ہے۔ یہ بات بھی اس عبارت کے مشکوک ہونے کی واضح دلیل ہے۔

راقم کہتا ہے کاش ایسا ہی ہوتا لیکن اب مزید دیکھیں کہ ابن کثیر  نے نہ صرف تفسیر لکھی بلکہ دیگر کتب بھی لکھی ہیں

ابن کثیر اپنی کتاب : البداية والنهاية ج ٧ ص ٩١ اور ٩٢  میں روایت نقل کرتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ اللَّهَ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنام فقال: ايت عمر فأقره منى السلام وأخبرهم أنهم مسقون، وقل له عليك بالكيس الْكَيْسَ. فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَ عُمَرَ فَقَالَ: يَا رب ما آلوا إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.

ابن-کثیر

إس كي سند ضعیف ہے اعمش مدلس عن سے روایت کر رہا ہے جبکہ امام مالک سے عمر رضی الله عنہ تک سند نہیں ہے ابو صالح غیر واضح ہے افسوس ابن کثیر اتنی علتوں کے باوجود اس کو صحیح کہتے ہیں جبکہ قبر پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سننا ثابت نہیں

لہذا ابن کثیر کی بد عقیدگی کی نشانی ہے

شبہ نمبر ٢ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں بولتے

مردے نہیں بولتے پر ابو یحیی نور پوری  مضمون مردے سنتے ہیں لیکن میں  لکھتے ہیں

عہد فاروقی میں ایک نوجوان تھا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے بہت خوش تھے۔ دن بھر مسجد میں رہتا، بعد عشاء باپ کے پاس جاتا۔ راہ میں ایک عورت کا مکان تھا۔ وہ اس پر عاشق ہو گئی۔ ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی مگر جوان نہیں دیکھتا تھا۔ ایک رات قدم نے لغزش کی، ساتھ ہو لیا۔ دروازے تک گیا۔ جب اندر جانا چاہا، اللہ تعالیٰ یاد آیا اور بے ساختہ یہ آیت کریمہ زبان سے نکلی : ﴿إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ﴾ آیت پڑھتے ہی غش کھا کر گرا۔ عورت نے اپنی کنیر کے ساتھ اٹھا کر اس کے دروازے پر پھینک دیا۔ باپ منتظر تھا۔ آنے میں دیر ہوئی۔ دیکھنے نکلا۔ دروازے پر بے ہوش پڑا پایا۔ گھر والوں کو بلا کر اندر اٹھوایا۔ رات گئے ہوش آئی۔ باپ نے حال پوچھا: کہا: خیریت ہے۔ کہا: بتا دے۔ ناچار قصہ بیان کیا۔ باپ بولا: جان پدر ! وہ آیت کون سی ہے ؟ جوان نے پھر پڑھی۔ پڑھتے ہی غش آیا۔ حرکت دی، مردہ حالت میں پایا۔ رات ہی نہلا کر کفنا کر دفن کر دیا۔ صبح کو امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خبر پائی۔ باپ سے تعزیت کی اور خبر نہ دے کی شکایت فرمائی۔ عرض کی : اے امیر المؤمنین ! رات تھی۔ پھر امیر المؤمنین ساتھیوں کو لے کر قبر پر گئے۔ فقال عمر : يا فلان ! ولمن خاف مقام ربه جنتان . فأجابه الفتي من داخل القبر : يا عمر قد أعطانيهما ربى يا عمر ! ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے فلاں ! جو شخص اپنے رب کے سامنے جوابدہی سے ڈر جائے، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا : اے عمر ! اللہ تعالیٰ نے وہ دونوں جنتیں مجھے عنایت فرما دی ہیں۔ [ ذم الهوي لابن الجوزي : 252-253، تاريخ دمشق لابن عساكر : 450/45 ]
تبصرہ : 
٭اس واقعہ کی سند باطل ہے، کیونکہ :
اس میں یحییٰ بن ایوب غافقی مصری (م : 168ھ) کہتے ہیں :
سمعت من يذكر انهٔ كان فى زمن عمر . . . 
”میں نے ایک بیان کرنے والے کو سنا کہ عہد فاروقی میں۔۔۔“
یوں یہ سند سخت ”معضل“ ہے۔ نہ جانے وہ قصہ گو کون تھا اور اس نے کہاں سے یہ حکایات سنی تھی ؟
٭ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ایک قول کی سند بیان کرتے ہوئے کہا:
سمعت بعض أصحاب عبد الله (ابن المبارك ) . . . 
”میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا۔۔۔“ [ مقدمة صحيح مسلم : 19 ]
٭ تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے :
٭ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) کہتے ہیں :
سمعت بعض أصحاب عبد الله، هذا مجهول، ولا يصح الاحتجاج به .
”امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک کے ایک شاگرد کو سنا ہے۔ یہ شاگرد مجہول ہے اور اس سند سے دلیل لینا صحیح نہیں۔“ [ شرح صحيح مسلم : 19 ]
مبہم اور نامعلوم لوگوں کی روایات پر اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد رکھنا جائز نہیں۔

راقم کہتا ہے نور پوری کی بات صحیح ہے – افسوس عبد الوہاب النجدی کے نزدیک نورپوری ایک جاہل ہیں

عبد الوہاب النجدی نہ صرف سماع الموتی کے قائل تھے وہ مردوں کے کلام کے بھی قائل تھے اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں لکھتے ہیں اور ترجمہ بریلوی عالم کرتے ہیں

تاریخ دمشق میں ابن عساکر نے عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد بن حرب أبو الحسن الكوفي  کے ترجمہ میں اس روایت کو پیش کیا ہے

سند میں  يحيى بن أيوب الخزاعي مجھول ہے جو عمر رضی الله عنہ کا دور کسی مجھول سے نقل کر رہا ہے جس کا اس نے نام تک نہیں لیا

حیرت ہے کہ اس قسم کی  بے سر و پا روایات النجدی لکھتے ہیں اور دو دو عالم تحقیق میں شامل ہونے کے باوجود ایک بار بھی نہیں کہتے کہ یہ منقطع  روایت ہے مجہولوں کی روایت کردہ ہے

شبہ نمبر ٣ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں سنتے

ابن تیمیہ فتاوی الکبریٰ ج ٣ ص ٤١٢ میں لکھتے ہیں

فَهَذِهِ النُّصُوصُ وَأَمْثَالُهَا تُبَيِّنُ أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ فِي الْجُمْلَةِ كَلَامَ الْحَيِّ وَلَا يَجِبُ أَنْ يَكُونَ السَّمْعُ لَهُ دَائِمًا ، بَلْ قَدْ يَسْمَعُ فِي حَالٍ دُونَ حَالٍ كَمَا قَدْ يُعْرَضُ لِلْحَيِّ فَإِنَّهُ قَدْ يَسْمَعُ أَحْيَانًا خِطَابَ مَنْ يُخَاطِبُهُ ، وَقَدْ لَا يَسْمَعُ لِعَارِضٍ يَعْرِضُ لَهُ ، وَهَذَا السَّمْعُ سَمْعُ إدْرَاكٍ ، لَيْسَ يَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ جَزَاءٌ ، وَلَا هُوَ السَّمْعُ الْمَنْفِيُّ بِقَوْلِهِ : { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى } فَإِنَّ الْمُرَادَ بِذَلِكَ سَمْعُ الْقُبُورِ وَالِامْتِثَالِ 

پس یہ نصوص اور اس طرح کی امثال واضح کرتی ہیں کہ بے شک میّت زندہ کا کلام سنتی ہے اور یہ واجب نہیں آتا کہ یہ سننا دائمی ہو بلکہ یہ سنتی ہے حسب حال جیسے  زندہ سے پیش اتا ہے پس بے شک کبھی کھبی یہ سنتی ہے مخاطب کرنے والے کا خطا ب، .. اور یہ سنا ادرک کے ساتھ ہے  اور یہ سننا الله کے قول  { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى}  کے منافی نہیں جس سے مراد قبروں اور الِامْتِثَالِ  (تمثیلوں) کاسننا ہے

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى  ج ٤ ص ٢٧٣ پر لکھتے ہیں

أَمَّا سُؤَالُ السَّائِلِ هَلْ يَتَكَلَّمُ الْمَيِّتُ فِي قَبْرِهِ فَجَوَابُهُ أَنَّهُ يَتَكَلَّمُ وَقَدْ يَسْمَعُ أَيْضًا مَنْ كَلَّمَهُ؛ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إنَّهُمْ يَسْمَعُونَ قَرْعَ نِعَالِهِمْ

اور سائل کا سوال کہ کیا میت   قبر میں کلام کرتی ہے؟ پس اس کا جواب ہے بے شک وہ بولتی ہے اور سنتی ہے جو اس سے کلام کرے ، جیسا صحیح میں نبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے مروی ہے کہ بے شک وہ جوتوں کی چآپ سنتی ہے

ابن تیمیہ ج ١ ص ٣٤٩ پر لکھتے ہیں

وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَذَا مُوَافِقٌ لِهَذَا فَكَيْفَ يَدْفَعُ ذَلِكَ ؟ وَمِنْ الْعُلَمَاءِ مَنْ قَالَ : إنَّ الْمَيِّتَ فِي قَبْرِهِ لَا يَسْمَعُ مَا دَامَ مَيِّتًا كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ

اور بے شک صحیحین سے یہ ثابت ہے اور دیگر کتب سے بے شک میت جوتوں کی چاپ سنتی ہے جب دفنانے والے پلٹتے ہیں پس یہ موافق ہے اس (سننے ) سے لہذا اس کو کیسے رد کریں؟ اور ایسے علماء بھی ہیں جو کہتے ہیں : بے شک میت قبر میں نہیں سنتی جب تک کہ وہ مردہ ہے جیسے کہ عائشہ  (رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا

 

البانی الایات البینات از نعمان الالوسی میں تعلیق میں لکھتے ہیں

وأما حديث ” من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته ” فهو موضوع كما قال شيخ الإسلام ابن تيمية في ” مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 ) وقد خرجته في ” الضعيفة ” ( 203 ) . ولم أجد دليلا على سماعه صلى الله عليه وسلم سلام من سلم عند قبره وحديث أبي داود ليس صريحا في ذلك فلا أدري من أين أخذ ابن تيمية قوله ( 27 / 384 ) : أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

اور جہاں تک حدیث جس نے میری قبر پر درود پڑھا اس کو میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے کا تعلق ہے تو پس وہ  گھڑی ہوئی ہے  جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 )  میں کہا اور اس کی تخریج میں نے الضعيفة ” ( 203 ) میں کی اور مجھے اس کی دلیل نہیں ملی کہ نبی صلى الله عليه وسلم قبر کے پاس پڑھے جانے والا درود و سلام سنتے ہیں اور ابو داود کی حدیث اس میں واضح نہیں اور نہیں معلوم کہ ابن تیمیہ نے کہاں سے پکڑ لیا قول ( 27 / 384 )  کہ نبی صلى الله عليه وسلم قریب سے پڑھے جانے والا سلام سنتے ہیں

 

عصر حاضر میں جب ان عقائد پر ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے تیشہ چلایا تو نصرت ائمہ کی خاطر علماء کی وہ جماعت جو فکری انتشار کا شکار ہیں انہوں نے انہی شخصیات کا دفاع کرنے کی ٹھانی  لیکن چلتے چلتے  اس کا اقرار کیا کہ امام ابن تیمیہ اور ابن قیم اور شاہ ولی الله کے قلم سے تصوف کے شجر کی آبیاری ہوتی رہی ہے

غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں لکھتے ہیں

دوسری طرف علماء کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے التباس پیدا کرنے کی راہ اپنائی چانچہ  زبیر علی زئی لکھتے ہیں

http://www.tohed.com/2014/09/blog-post_80.html

میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کی کتابوں میں شرک اکابر کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، تاہم ابن القیم کی ثابت شدہ “کتاب الروح” اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔ یہ دونوں حضرات مردوں سے مدد مانگنے کے قائل نہیں تھے ، رہا مسئلہ سماع موتیٰ کا تو یہ سلف صالحین کے درمیان مختلف فیہا مسئلہ ہے ،اسے کفر و شرک سمجھنا غلط ہے

سوال یہ ہے کہ  اگر یہ مسئلہ کفر و شرک کا نہیں تو اس پھر علمی ذوق کی تسکین کے لئے کیا مردے سنتے ہیں کیوں لکھی گئی – اس مسئلہ پر تو  پر بحث ہی  بےکار ہے- اسی قبیل کے ایک دوسرے عالم   خواجہ محمد قاسم کی بھی یہی رائے ہے کہ  سماع الموتی کا مسئلہ شرک کا چور دروازہ نہیں وہ کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں

مسعود احمد ذہن پرستی میں لکھتے ہیں

سماع الموتی کے قائلین علماء کا دفاع کرتے ہوئے ایک اہل حدیث عالم لکھتے ہیں

صرف اتنی بات ہے: ﴿إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰ﴾اور ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ﴾ جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کے اسماع موتی (مردوں کو سنانے ) کی نفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ درج بالا آیات سے ایک آیت کریمہ میں آیا ہے: ﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء ﴾ کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ، سنادیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اسماع موتی کا اثبات ہے ، جن مردوں کو اللہ تعالیٰ چاہے سنا دے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہ سنیں تو اللہ تعالیٰ کا سنانا چہ معنی دارد؟ تو جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بعض موتی بعض اوقات بعض چیزیں اللہ تعالیٰ کے سنانے سے سن لیتے ہیں، جیسے خفق نعال اور قلیب بدر والی احادیث میں مذکور ہوا تو ایسے لوگ نہ قرآنِ مجید کی کسی آیت کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی حدیث کا۔ البتہ جو لوگ یہ نظریہ اپنائے ہوئے ہیں کہ کوئی مردہ کسی وقت بھی کوئی چیز نہیں سنتا، حتی کہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہیں سنتا تو انہیں غور فرمانا چاہیے کہیں آیت:﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء﴾اور احادیث خفق نعال اور احادیث قلیب بدر کا انکار تو نہیں کر رہے؟

مسئلہ الله کی قدرت کا نہیں اس کے قانون کا ہے  ان اہل حدیث عالم کی بات جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے بریلوی مکتب فکر کی بات شروع ہوتی ہے

مردے سنتے ہیں ! یہی تو تصوف کی طرف پہلا قدم ہے- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا نے اس بات کا صریح انکار کیا کہ مردے سنتے ہیں اور ابن عمر رضی الله عنہ نے بھی   جب ابن زبیر رضی الله عنہ کی لاش پر اسماء رضی الله عنہا کو  روتے دیکھا تو کہا ارواح اللہ کے پاس ہیں

سننے کے لئے عود روح ضروری سمجھا جاتا ہے لہذا اس سے متعلق البراء بن عازب رضی الله عنہ سے منسوب کردہ شیعہ زاذان کی منکر روایت کا دفاع کیا جاتا ہے

 

شبہ نمبر ٤ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں دیکھتے

غیر مقلد عالم ابو یحیی نور پوری  سوال کا جواب دیتے ہیں کہ مردے نہیں دیکھتے

https://www.youtube.com/watch?v=mCeQVoz26Q0

اگر ان کا بولنا دیکھنا دنیا سے تعلق رکھتا ہے تو ان کے پاس رشتہ دار نئے نئے کپڑے پہن کر جائیں …. عقیدہ صرف سننے کا رکھا جاتا ہے

ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ

اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے

كتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم للإمام ابن تيميه ج ٢ ص ٢٦٢  دار عالم الكتب، بيروت، لبنان میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

فأما استماع الميت للأصوات، من القراءة أو غيرها – فحق.

پس میت کا آوازوں کو،  جیسے قرات اور دیگر کا سننا  حق ہے.

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ٢٨ ص ١٤٧ میں کہتے ہیں

وَقَالَ: {أَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ. فَقَالُوا: كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْك؟ وَقَدْ أَرِمْت أَيْ بَلِيتَ. قَالَ إنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ} فَأَخْبَرَ أَنَّهُ يَسْمَعُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَأَنَّهُ يَبْلُغُهُ ذَلِكَ مِنْ الْبَعِيدِ.

رسول الله نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے دن درود  کہو اور جمعہ کی رات  کیونکہ تمہارا درود مجھ  پر پیش ہوتا ہے – اصحاب نے کہا اپ پر کیسے پیش ہوتا ہے ؟ جبکہ اپ تو مٹی ہو جائیں گے ؟ فرمایا الله نے زمیں پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کہ اس قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا پہنچا دیا جاتا ہے 

كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت  کے مطابق امام احمد کہتے تھے

كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس

وہ  (امام احمد)کہا کرتے تھے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے

عائشہ رضی الله عنہا کے مسلسل پردہ والی روایت  سے دلیل لیتے ہوئے تھذیب الکال کے مولف  امام المزی کہا کرتے تھے

قال شيخنا الحافظ عماد الدين بن كثير ووجه هذا ما قاله شيخنا الإمام أبو الحجاج المزي أن الشهداء كالأحياء في قبورهم و هذه أرفع درجة فيهم

حافظ ابن کثیر کہتے ہیں اسی وجہ  سے ہمارے شیخ المزی کہتے ہیں کہ شہداء  اپنی قبروں میں زندوں کی طرح ہیں اور یہ ان کا بلند درجہ ہے

الإجابة فيما استدركته عائشة على الصحابة للإمام الزركشي 

منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى (المتوفى: 1051هـ)  اپنی کتاب كشاف القناع عن متن الإقناع  میں لکھتے ہیں

قَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ: وَاسْتَفَاضَتْ الْآثَارُ بِمَعْرِفَةِ الْمَيِّتِ بِأَحْوَالِ أَهْلِهِ وَأَصْحَابِهِ فِي الدُّنْيَا وَأَنَّ ذَلِكَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ وَجَاءَتْ الْآثَارُ بِأَنَّهُ يَرَى أَيْضًا وَبِأَنَّهُ يَدْرِي بِمَا فُعِلَ عِنْدَهُ وَيُسَرُّ بِمَا كَانَ حَسَنًا وَيَتَأَلَّمُ بِمَا كَانَ قَبِيحًا وَكَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُولُ ” اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِك أَنْ أَعْمَلَ عَمَلًا أُجْزَى بِهِ عِنْدَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَوَاحَةَ وَكَانَ ابْنَ عَمِّهِ وَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ عِنْدَ عَائِشَةَ كَانَتْ تَسْتَتِرُ مِنْهُ، وَتَقُولُ ” إنَّمَا كَانَ أَبِي وَزَوْجِي فَأَمَّا عُمَرُ فَأَجْنَبِيٌّ ” وَيَعْرِفُ الْمَيِّتُ زَائِرَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَهُ أَحْمَدُ.

ابن تیمیہ کہتے ہیں اور جو اثار ہیں ان سے معلوم ہوتا ہےکہ میت اپنے احوال سے اور دنیا میں اصحاب سے با خبر ہوتی ہے اور اس پر (زندوں کا عمل) پیش ہوتا ہے اور وہ دیکھتی اور جانتی ہے جو کام اس کے پاس ہو اور اس میں سے جو اچھا ہے اس پر خوش ہوتی اور اس میں سے جو برا ہو اس پر الم محسوس کرتی ہے اور ابو الدرداء کہتے تھے اے الله میں پناہ مانگتا ہوں اس عمل سے جس سے میں عبد الرحمان بن رَوَاحَةَ  کے آگے شرمندہ ہوں اور وہ ان کے چچا زاد تھے اور جب عمر دفن ہوئے تو عائشہ ان سے پردہ کرتیں اور کہتیں کہ یہ تو میرے باپ اور شوہر تھے لیکن عمر تو اجنبی ہیں اور امام احمد کہتے ہیں کہ میت زائر کو جمعہ کے دن طلوع سورج سے پہلے پہچانتی ہے

البهوتى حنابلہ کے مشھور امام ہیں

الغرض ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ  کی  بات صحیح ہے کہ سلف امت کے عقائد میں  نصوص کی مخالفت تھی اور ان عقائد کو اپنایا گیا جو تھے ہی غلط اور مقصد ان کا حیات فی القبر کا اثبات تھا

حیرت اس امر پر ہے کہ جب غیر مقلدین کے نزدیک بھی یہ عقائد درست نہیں تو پھر ان  پر بطل پرستی کیوں طاری ہے ؟

دوغلا پن

ایک اسلامی غیر مقلد فورم والوں کا کہنا ہے کہ سلام پر روح لوٹائے جانے والی روایت حسن ہے لنک اور راوی صحیح مسلم کا ہے لنک

اسی فورم پر یہی عالم کہتے ہیں کہ روایت ضعیف ہے لنک

پہلے کہا گیا تھا کہ ویسے یاد رہے صحیح مسلم کے راوی کو ۔۔ضعیف ۔۔قرار دینا کوئی مذاق نہیں لیکن بعد میں یہ مذاق زبیر علی زئی سے منسوب کیا گیا ہے

بریدہ اسلمی کی وصیت

صحیح بخاری   کی روایت ہے

حدیث نمبر: 218  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ  عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَمَّا أَحَدُهُمَا  فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لِمَ فَعَلْتَ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا”، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا مِثْلَهُ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ.

ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے مجاہد کے واسطے سے روایت کیا، وہ طاؤس سے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے

صحیح بخاری میں ایک معلق روایت بھی اتی ہے –  امام بخاری نے صحیح میں باب میں روایت نقل کی ہے کہ بريدة بن الحصيب الصحابي رضي الله عنه  نے وصیت کی أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ  کہ بریدہ رضی الله عنہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر پر ٹہنیاں لگائی جائیں

وَأَوْصَى بُرَيْدَةُ الأَسْلَمِيُّ: «أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ

امام بخاری جب ابواب میں اس طرح کی روایات نقل کرتے ہیں تو اس کا مقصد اس مسئلہ پر کچھ اقوال  نقل کرنا ہوتا ہے جن کی وہ  سند  نہیں دیتے انہوں نے اس قول کو نقل کرنے کے بعد ابن عمر کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک قبر پر خیمہ دیکھا تو کہا کہ صاحب قبر کا عمل اس پر سایہ کرے گا -شارحین کی رائے ہے کہ امام بخاری نے بریدہ رضی الله عنہ کے قول کو ابن عمر رضی الله عنہ  کے قول کے ساتھ پیش کیا کیونکہ ان کے نزدیک  ٹہنی لگانا نبی کے لئے خاص تھا

تغليق التعليق على صحيح البخاري از  أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) میں اس کی سند ہے

أما أثر بُرَيْدَة فَقَالَ ابْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ ثَنَا حَمَّادُ ابْن سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ قَالَ أَوْصَى بُرَيْدَةُ أَنْ يُوضَعَ عَلَى قَبْرِهِ جَرِيدَتَانِ وَمَاتَ بِأَدْنَى خُرَاسَانَ

وَقد وَقع لي من طَرِيق أُخْرَى لأبي بَرزَة الْأَسْلَمِيّ أَيْضا وفيهَا حَدِيث مَرْفُوع من حَدِيثه قَرَأت عَلَى أَحْمد بن عمر اللؤْلُؤِي عَن الْحَافِظ ز 116 ب أبي الْحجَّاج الْمزي أَن يُوسُف بن يَعْقُوب [بن المجاور] أخبرهُ أَنا أَبُو الْيمن الْكِنْدِيّ أَنا أَبُو مَنْصُور الْقَزاز أَنا أَبُو بَكْرٍ الْخَطِيبُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَخْلَدٍ ثَنَا أَبُو سَعِيدٍ النَّسَوِيُّ سَمِعت أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ بِسْطَامٍ يَقُولُ سَمِعت أَحْمد ابْن سَيَّارٍ يَقُولُ ثَنَا الشَّاهُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَني أَبُو صَالِحٍ سُلَيْمَانُ بْنُ صَالِحٍ [اللَّيْثِيُّ] ثَنَا النَّضْرُ بْنُ الْمُنْذِرِ بْنِ ثَعْلَبَة [الْعَبْدِيُّ] عَن حَمَّاد بن سَلمَة عَن قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا بَرْزَةَ الأَسْلَمِيَّ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى قَبْرٍ وَصَاحِبُهُ يُعَذَّبُ فَأَخَذَ جَرِيدَةً فَغَرَسَهَا فِي الْقَبْرِ وَقَالَ عَسَى أَنْ يُرَفِّهَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً))وَكَانَ أَبُو بَرزَة يُوصي إِذا مت فضعوا فِي (قَبْرِي) معي جريدتين قَالَ فَمَاتَ فِي مفازة بَين كرمان وقومس فَقَالُوا كَانَ يوصينا أَن نضع فِي قَبره جريدتين وَهَذَا مَوضِع لَا نصيب فِيهِ فَبَيْنَمَا هم كَذَلِك إِذْ طلع عَلَيْهِم ركب من قبل سجستان فَأَصَابُوا مَعَهم سَعَفًا فَأخذُوا مِنْهُم جريدتين فوضعوهما مَعَه فِي قَبره

اور جہاں تک بریدہ کے اثر کا تعلق ہے تو ابن سعد نے (طبقات میں) کہا أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ ثَنَا حَمَّادُ ابْن سَلَمَةَ ، انہوں نے عَاصِمٍ الأَحْوَلِ سے انہوں نے مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ سے روایت کیا کہا بریدہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں لگا دی جائیں اور وہ ادنی خراسان میں مرے

اور مجھے (ابن حجر) ایک اور طرق ملا ابی برزہ اسلمی سے جو حدیث مرفوع ہے .. قتادہ نے کہا أَبَا بَرْزَةَ الأَسْلَمِيَّ نے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک قبر پر سے گزرے جس کے صاحب کو عذاب ہو رہا تھا پس ایک ٹہنی لی اس کو قبر پر گاڑھا اور فرمایا ہو سکتا ہے یہ عذاب اٹھ جائے جب تک یہ تر رہے

مورق المتوفی ١٠٥ ھ کا سماع بریدہ رضی الله عنہ المتوفی ٦٢ ھ  سے ثابت  نہیں ہو سکا

مورق کی وفات ابن سعد کے مطابق  توفّي فِي ولَايَة عمر بن هُبَيْرَة عمر بن ہبیرہ کے دور میں ہوئی

تاریخ الدمشق کے مطابق عمر بن ہبیرہ كان أمير العراقين من قبل يزيد بن عبد الملك- خلیفہ یزید بن عبد الملک کے دور( ١٠١ سے َ٠٥ ہجری ) میں عراق کے امیر تھے- بریدہ رضی الله عنہ کی وفات سن ٦٢ ھ میں خراسان میں ہوئی

ذخیرہ احادیث میں مورق کی یہ بریدہ رضی الله عنہ سے واحد روایت ہے- مورق، صحابی رسول ابی ذر رضی الله عنہ سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں – مورق کے  بریدہ سے سماع کا متقدمین محدثین میں سے کسی   نے ذکر بھی نہیں کیا

کتاب  كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري   از   الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق

قال الطُرْطُوشيّ: لأن ذلك خاص ببركة يده

الطُرْطُوشيّ کہتے ہیں : یہ تو نبی کے ہاتھ کی خاص برکت تھی

یعنی کسی غیر نبی کے ہاتھ سے ٹہنی لگنے سے وہ عذاب میں تخفیف کا باعث نہیں ہو سکتیں

الشنقيطي کہتے ہیں

قلت: وعلى كل حال، فعل بُريدة فيه استئناس لما تفعله الناس اليوم من وضع الجريد ونحوه على القبر، فإن الصحابي أدرى بمقاصد الحديث من غيره، خلافًا لما مرَّ عن الخَطّابي

میں کہتا ہوں:  ہر صورت میں بریدہ کے فعل سے متاثر ہو کر ہی لوگ آج ٹہنی قبر پر لگاتے ہیں، کیونکہ صحابی  حدیث کے مقصد کو جانتے ہیں اور یہ اس کے خلاف ہے جس طرف الخطابی گئے ہیں

فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں

قَالَ بن رَشِيدٍ وَيَظْهَرُ مِنْ تَصَرُّفِ الْبُخَارِيِّ أَنَّ ذَلِكَ خَاص بهما  

ابن رشید نے کہا اور بخاری کے تصرف سے ظاہر ہے کہ (یہ ٹہنی لگانا ) ان کے نزدیک یہ خاص ان (دو معذبین) کے لئے تھا

عبد الرحمن مبارک پوری  جناب بریدۃ الاسلمی رضی الله عنہ کے  اس اجتہاد کو قبول کرتے ہیں
’’ میں کہتا ہوں جیسا کہ حضرت بریدہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی اور قبر میں کھجور کی شاخ کو رکھنا جائز سمجھا اسی طرح اب بھی اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع کرے اور قبر میں کھجور کی شاخ گاڑے تو اس میں کچھ حرج نہیں معلوم ہوتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم اوربہت سے لوگ جو بیر کی شاخ یا انار کی شاخ قبر میں گاڑتے ہیں ‘ سو اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے ‘(کتاب الجنائز ص۷۳)

 ابن الحسن محمدی اپنے مضمون قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا کیسا ہے؟  میں لکھتے ہیں

قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا کیسا ہے؟

الحلل الإبريزية من التعليقات البازية على صحيح البخاري  میں وہابی عالم   عبد العزيز بن عبد الله بن باز کہتے ہیں

وهو الذي جعل بريدة يوصي بذلك، والعلماء على خلاف ذلك، والنبي – صلى الله عليه وسلم – لم فعله في غيرهما، وهذا خاص بهما، ولم يفعله بأصحابه، ولا ببناته، وبريدة ظن أنه مشروع.

اور ایسا بریدہ نے وصیت کی اور علماء اس کے خلاف ہیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کسی اور کے لئے نہیں کیا اور یہ ان دو کے لئے خاص تھا اور نہ ان کے اصحاب نے کیا اور نہ  ان کی بیٹیوں نے اور بریدہ نے گمان کیا کہ یہ مشروع ہے

الغرض بریدہ اسلمی رضی الله عنہ کی وصیت ان کا اجتہاد تھا لیکن یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم  نہیں کیونکہ جو نبی صلی الله علیہ وسلم نے کیا وہ ان کے لئے خاص تھا – یہ بیشترعلماء کی رائے ہے راقم کے نزدیک روایت ضعیف ہے مورق کا سماع بریدہ رضی الله عنہ سے ثابت نہیں

اس وصیت کا مختصرا تذکرہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے کتاب عذاب البرزخ میں کیا

اسی طرح بعض انتہائی ہوشیار بریدۃ الاسلمیؓ کی وصیت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قبر میں کھجور کی دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت کی تھی۔ بخاری باب ’’ الجرید علی القبر‘‘ لا کر بتلاتے ہیں کہ یہ ان کی بات وصیت کے وقت کی ہے ورنہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جب عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ کی قبر پر خیمہ دیکھا تو حکم دیا ’’یا غلام انزعہ فانما یظلہ عملہ‘‘ اے لڑکے خیمہ ہٹا دے ‘ان کے اوپر تو صرف ان کا عمل سایہ کرے گا ’ خیمہ یا شاخ نہیں‘۔(بخاری عربی ص۱۸۱ جلد ۱۔ عذاب قبر ص۱۸)

کتاب عذاب قبر الناشر​مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی​ میں ابو جابر دامانوی اپنی علمی استعداد کے مطابق ڈاکٹر عثمانی کے لکھے پر کہتے ہیں

آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ جناب بریدۃ الاسلمیؓ نے جو وصیت کی تھی موصوف کے نزدیک ان کی یہ بات وصیت کے وقت کی تھی گویا موصوف کے نزدیک جو شخص بھی مرض الموت میں مبتلا ہوا وہ ضرور اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گا۔اور ضرور بحرانی کیفیت میں مبتلا ہو۔ غور فرمائیے کہ یہ نقطہ نگاہ کس قدر غلط اور خطرناک ہے جو بات بھی موصوف کے نظریات کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے جھٹلا دیتے ہیں۔

افسوس دوسروں کا چبایا کھا کھا کرقرطاس کالا کرنے کی سعی میں  موصوف نے دھیان ہی نہیں دیا کہ وہابی اور علم مسلک غیر مقلدین کیا کہتے ہیں

 کتاب بدعات کا انسائیکلوپیڈیا میں البانی کا قول بیان ہوا ہے

البانی کہتے ہیں کہ بریدہ رضی الله عنہ کی رائے کی کوئی دلیل نہیں ہے – البانی کے نزدیک ایسا کرنا بدعت ہے

ان علماء کے نزدیک  حدیث نبوی  کا منشا یہ نہیں ہے کہ  جو  بریدہ سے منسوب روایت میں بیان کیا گیا ہے

شب معراج سے متعلق

https://www.islamic-belief.net/واقعہ-معراج-سے-متعلق/
اس بلاگ میں تفصیلی  کتاب موجود ہے

اسلامی تاریخ کا ایک بہت اہم واقعہ ہے کہ  مکی دور میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عالم بالا لے جایا گیا اس میں عالم ملکوت و جبروت کا مشاہدہ ہوا- جنت  کا دورہ ہوا اور اس کی نعمت کو دیکھا –  انبیاء سے وہاں ملاقات ہوئی جن میں فوت شدہ اور زندہ عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے

سوره النجم میں ہے

اسے پوری طاقت والے  نے سکھایا ہے (5) جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا (6

اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا (7

پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا (8

پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (9

پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (10

دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا (11

کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں (12) اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (13) سدرةالمنتہیٰ کے پاس (14)

اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے (15

جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی (16

نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی (17

یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں (18

صحیح بخاری کتاب التوحید میں امام بخاری نے شریک بن عبد الله کی سند سے روایت لا کر  بتایا ہے کہ یہاں ان آیات میں الله تعالی کا ذکر ہے

، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، ‏‏‏‏‏‏وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَدَلَّى، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ 

۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی

راقم کہتا ہے امام بخاری سے غلطی ہوئی ان کا اس روایت کو صحیح سمجھنا غلط ہے اس کی تفصیل نیچے آئی گی

معراج کا کوئی چشم دید شاہد نہیں یہ رسول الله کو جسمانی ہوئی ان کو عین الیقین کرانے کے لئے اور ایمان والے ایمان لائے  اس کا ذکر سوره النجم میں بھی ہے

اس واقعہ پر کئی آراء اور روایات ہیں جن میں سے کچھ مباحث کا یہاں تذکرہ کرتے ہیں

معراج جسمانی تھی یا خواب تھا؟

رسول الله صلی الله علیہ وسلم آسمان پر گئے وہاں سے واپس آئے اور اسکی خبر مشرکین کو دی انہوں نے انکار کیا کہ ایسا ممکن نہیں اس پر سوره الاسراء یا بنی اسرائیل نازل ہوئی اس کی آیت ہے کہ مشرک کہتے ہیں کہ

وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا (90) أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا (91) أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا (92)
أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا (93)

ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک تم زمین پھاڑ کر نہریں نہ بنا دو، انگور و کھجور کے باغ نہ لگا دو ، آسمان کا ٹکڑا نہ گرا دو یا الله اور کے فرشتے آ جائیں یا تمہارا گھر سونے کا ہو جائے یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے کتاب لاؤ جو ہم پڑھیں! کہو: سبحان الله! کیا میں ایک انسانی رسول کے علاوہ کچھ ہوں؟

بعض لوگوں نے معراج کا انکار کیا اور دلیل میں انہی  آیات کو  پیش کیا

آسمان پر چڑھنے کا مطلب ہے کہ یہ عمل مشرکین کے سامنے ہونا چاہیے کہ وہ دیکھ لیں جیسا شق قمر میں ہوا لیکن انہوں نے اس کو جادو کہا –  اگر وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو آسمان پر جاتا دیکھ لیتے تو کیا ایمان لے اتے؟ وہ اس کو بھی جادو کہتے-  خواب کے لئے لفظ حَلَم ہے اسی سے احتلام نکلا ہے جو سوتے میں ہوتا ہے –  رویا کا مطلب دیکھنا ہے صرف الرویا کا مطلب منظر ہے جو نیند اور جاگنے میں دونوں پر استمعال ہوتا ہے

کتاب معجم الصواب اللغوي دليل المثقف العربي از الدكتور أحمد مختار عمر بمساعدة فريق عمل کے مطابق
أن العرب قد استعملت الرؤيا في اليقظة كثيرًا على سبيل المجاز
بے شک عرب الرویا کو مجازا جاگنے (کی حالت) کے لئے بہت استمعال کرتے ہیں

سوره بني إسرائيل میں ہے

{وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء: 60]

اور ہم نے جو الرویا (منظر) تمھارے لئے کیا جو تم کو دکھایا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کے لئے تھا 

صحیح ابن حبان میں ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے کہ

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْذِرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ الطَّائِيُّ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ بن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ} قَالَ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ

یہ منظر کشی یہ آنکھ سے دیکھنے پر ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے معراج کی رات دیکھا

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

لما کذبنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطغت اخبرھم عن آیاتہ وانا انظر الیہ
کہ جب کفار مکہ نے میرے اس سفر کو جھٹلایا اور مجھ سے بیت المقدس کے متعلق سوال شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کر دیا میں اسے دیکھ کر بتاتا جا رہا تھا۔

بعض لوگوں نے کہا معراج ایک خواب تھا مثلا امیر المومنین فی الحدیث الدجال من الدجاجله  محمد بن اسحاق کہتے تھے کہ معراج ایک خواب ہے  تفسیر طبری میں ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: ثنا سَلَمَةُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: ثني بَعْضُ آلِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ عَائِشَةَ، كَانَتْ تَقُولُ: مَا فُقِدَ جَسَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَسْرَى بِرُوحِهِ

محمد نے کہا کہ اس کو بعض ال ابی بکر نے بتایا کہ عائشہ کہتیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جسد نہیں کھویا تھا بلکہ روح کو معراج ہوئی

ابن اسحاق اس قول کو ثابت سجھتے تھے لہذا کہتے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال ابن إسحاق: فلم ينكر ذلك من قولها الحسن أن هذه الآية نزلت (وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ) ولقول الله في الخبر عن إبراهيم، إذ قال لابنه (يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى) ثم مضى على ذلك، فعرفت أن الوحي يأتي بالأنبياء من الله أيقاظا ونياما، وكان رسول صلى الله عليه وسلم يقول: “تَنَامُ عَيْني وَقَلْبي يَقْظانُ” فالله أعلم أيّ ذلك كان قد جاءه وعاين فيه من أمر الله ما عاين على أيّ حالاته كان نائما أو يقظانا كلّ ذلك حقّ وصدق.

ابن اسحاق نے کہا : عائشہ رضی الله عنہا کے اس قول کا انکار نہیں کیا … انبیاء پر الوحی نیند اور جاگنے دونوں میں اتی ہے اور رسول الله کہتے میری آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے

 کتاب السيرة النبوية على ضوء القرآن والسنة  از محمد بن محمد بن سويلم أبو شُهبة (المتوفى: 1403هـ)  کے مطابق

وذهب بعض أهل العلم إلى أنهما كانا بروحه- عليه الصلاة والسلام- ونسب القول به إلى السيدة عائشة- رضي الله عنها- وسيدنا معاوية- رضي الله عنه- ورووا في هذا عن السيدة عائشة أنها قالت: «ما فقدت «1» جسد رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ولكن أسري بروحه» وهو حديث غير ثابت، وهّنه القاضي عياض في «الشفا» «2» سندا ومتنا، وحكم عليه الحافظ ابن دحية بالوضع

اور بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ معراج روح سے ہوئی اور اس قول کی نسبت عائشہ اور معاویہ رضی الله عنہم سے کی جاتی ہے رضی الله عنہم اور عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جسد کہیں نہیں کھویا تھا بلکہ معراج روح کو ہوئی اور یہ حدیث ثابت نہیں ہے اس کو قاضی عیاض نے کمزور کیا ہے الشفا میں سندا اور متنا اور اس پر ابن دحیہ نے گھڑنے کا حکم لگایا ہے

اگر یہ روایت گھڑی ہوئی ہے تو اس کا بار امیر المومنین فی الحدیث، الدجال من الدجاجلہ  محمد بن اسحاق پر ہے کہ نہیں؟

ابن اسحٰق باوجود اس کے کہ اس میں انہوں نے نام تک نہیں لیا جس سے سنا اس قول کا دفاع کرتے تھے لگتا ہے اس دور میں اصول حدیث ہی الگ تھے

بعض لوگوں نے ابن اسحاق کو چھپا کر اس میں نام محمد بن حميد بن حيان  کر دیا جو بہت بعد کا ہے اور خود تفسیر طبری میں اس روایت کے تحت ابن اسحاق کا نام لیا گیا ہے

اسی طرح کا ایک قول معاویہ رضی الله عنہ سے منسوب ہے لیکن  وہ منقطع  ہے کیونکہ اس کا قائل  يعقوب بن عتبة بن المغيرة بن الأخنس المتوفی ١٢٨ ھ  ہے جس کی ملاقات  معاوية المتوفی ٦٠ ھ سے نہیں بلکہ کسی بھی صحابی سے نہیں

کیا معراج پر بعض اصحاب رسول مرتد ہوئے؟

ایک روایت کتاب دلائل النبوه از البیہقی کی ہے جس کو شیعہ اور یہاں تک کہ اہل سنت بھی  پیش کرتے رہتے ہیں کہ معراج کی خبر پر بعض اصحاب رسول مرتد ہوئے- روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْمِهْرَانِيُّ الْمُزَكِّي قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِيهُ بِبَغْدَادَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْقَاضِي أَبُو الْأَحْوَصِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْمِصِّيصِيُّ، (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ [ص:361] الصَّنْعَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ مِمَّنْ كَانُوا آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَعَوْا بِذَلِكَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ فِي صَاحِبِكَ؟ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ فِي اللَّيْلِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ: أَوَقَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ: لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: وَتُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ قَالَ: نَعَمْ , إِنِّي لَأُصَدِّقُهُ بِمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ: أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ فِي غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ. فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقَ

عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ جس رات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد الاقصی تک سیر کی اس سے اگلی صبح جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات لوگوں میں ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے جو اس سے پہلے با ایمان اور (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی) تصدیق کرنے والے تھے. کچھ لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا آپ کو اپنے صاحب کے بارے میں کچھ معلوم ہے وہ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وہ راتوں رات بیت المقدس سے ہو کر مکہ واپس آ گئے ہیں. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کیا واقعی انہوں نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں بالکل کہی ہے. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا پھر میں شہادت دیتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ ہے! لوگوں نے کہا کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کے وہ ایک ہی رات میں شام تک چلے گئے اور واپس مکہ صبح ہونے سے پہلے آ گئے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! میں ان کی تصدیق اس سے دور مسافت پر بھی کرتا ہوں کیونکہ میں اس کی تصدیق آسمانوں کی خبر کی صبح و شام کرتا ہوں. راوی کہتے ہیں اسی معاملے کے بعد ان کا لقب صدیق مشہور ہو گیا.

أخرجه الحاكم في «المستدرك» (3: 62- 63) ، وقال: «هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه» ، ووافقه الذهبي، وأخرجه ابن مردويه من طريق هشام بن عروة، عن أبيه، عنها.

امام حاکم اس کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے

اس کی سند میں  محمد بن كثير الصنعاني المصيصي ہے کتاب  الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط کے مطابق

قال ابن سعد ـ:ـ يذكرون أنه اختلط في آخر عمره

ابن سعد نے کہا ذکر کیا جاتا ہے یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھا

عقیلی نے اس کا الضعفاء  میں ذکر کیا ہے

قال عبد الله بن أحمد: ذكر أبي محمد بن كثير المصيصي فضعفه جدًا، وقال سمع من معمر، ثم بعث إلى اليمن فأخذها فرواها، وضعف حديثه عن معمر جدًا وقال: هو منكر الحديث، أو قال: يروي أشياء منكره. «العلل» (5109) .

عبد الله بن امام احمد نے کہا میں نے باپ سے محمد بن کثیر کا ذکر کیا انہوں نے شدت سے اس کی تضعیف کی اور کہا اس  نے معمر سے سناپھر یمن  گیا ان سے اخذ کیا اور روایت کیا اور یہ معمر سے روایت کرنے میں شدید ضعیف ہے اور یہ منکر الحدیث ہے 

مستدرک میں امام الذھبی سے غلطی ہوئی ایک مقام پر اس روایت کو صحیح کہا ہے

أَخْبَرَنِي مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ” لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ فَمَنْ كَانَ آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَمِعُوا بِذَلِكَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ إِلَى صَاحِبِكَ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ: أَوَ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: أَوَ تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنِّي لَأَصُدِّقُهُ فِيمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ فِي غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ، فَلِذَلِكَ سُمَيَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
4407 – صحيح

لیکن آگے جا کر اس کو تلخیص میں نقل نہیں کیا لہذا محقق کہتے ہیں یہ ضعیف تھی

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السَّمَّاكِ الزَّاهِدُ، بِبَغْدَادَ ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمُ الْبَلَوِيِّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا مَعْمَرُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ” لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ مِمَّنْ كَانَ آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَعَى رِجَالٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ إِلَى صَاحِبِكِ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ قَالَ: أَوَقَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَئِنْ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: أَوَ تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، إِنِّي لَأَصُدِّقُهُ فِي مَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ أُصَدِّقُهُ فِي خَبَرِ السَّمَاءِ فِي غُدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ، فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» ، «فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيَّ صَدُوقٌ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
4458 – حذفه الذهبي من التلخيص لضعفه

اس طرح کی ایک روایت مسند احمد میں ابن عباس سے مروی ہے

حسنه الألباني في كتاب الإسراء والمعراج ص76، وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.  وصححه الحافظ ابن كثير في “تفسيره” 5/26.

البانی نے كتاب الإسراء والمعراج ص76 میں اس کو حسن کہہ دیا ہے اور ابن کثیر ،  شعیب اور احمد شاکر  نے صحیح

مسند احمد میں ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثُمَّ جَاءَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَحَدَّثَهُمْ بِمَسِيرِهِ وَبِعَلَامَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَبِعِيرِهِمْ فَقَالَ نَاسٌ قَالَ حَسَنٌ نَحْنُ نُصَدِّقُ مُحَمَّدًا بِمَا يَقُولُ فَارْتَدُّوا كُفَّارًا … وَرَأَى الدَّجَّالَ فِي صُورَتِهِ رُؤْيَا عَيْنٍ لَيْسَ رُؤْيَا مَنَامٍ … الی آخر الحدیث(مسند احمد جلد 3 صفحہ477-478 روایت نمبر 3546 مکتبہ دار الحدیث قاہرہ ،مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 476-477 روایت نمبر 3546، مکتبۃ الشاملہ)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج بیت المقدس کی سیر کرائی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات واپس بھی آ گئے اور قریش کو اپنے جانے کے متعلق اور بیت المقدس کی علامات اور ان کے ایک قافلے کے متعلق بتایا، کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس بات کی کیسے تصدیق کر سکتے ہیں، یہ کہہ کر وہ دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے…اسی شب معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نہ کہ خواب میں.

سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، وَحَسَنٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ حَسَنٌ أَبُو زَيْدٍ: قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: قَالَ: حَدَّثَنَا هِلَالٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

اس کی سند میں  هلال بن خباب البصري کا تفرد ہے

 ابن القطان: تغير بأخرة

 ابن القطان کہتے ہیں  یہ آخری عمر میں تغير  کا شکار تھا

کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط   کے مطابق

قال يحيى القطان أتيته وكان قد تغير وقال العقيلي في حديثه وهم وتغير بأخرة

ابن حبان ، الساجی ، عقیلی، ابن حجر سب کے مطابق یہ راوی  اختلاط  کا شکار تھا

ابن حبان کہتے ہیں  ابن حبان: لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد. اس کی منفرد روایت سے دلیل نہ لی جائے

واقعہ معراج اور انبیاء سے ملاقات

واقعہ معراج صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ان میں بھی اضطراب بھی  ہے

صحیح بخاری صحیح بخاری صحیح بخاری صحیح بخاری صحیح مسلم مسند البزار
امام الزہری کی روایت قتادہ بصری کی روایت شریک کی روایت حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ  بصری کی روایت حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ  بصری کی روایت
حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدَّثنا حَمَّادٌ، عَنْ ثابتٍ الْبُنَانِيِّ، عَن أَنَس بْنِ مَالِكٍ
سِدْرَةُ المُنْتَهَى سِدْرَةُ المُنْتَهَى تک پہنچے سِدْرَةُ المُنْتَهَى تک پہنچے السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى تک پہنچے السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى تک پہنچے
ساتواں آسمان إِبْرَاهِيمُ مُوسَى ابراہیم – الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ ابراہیم
 چھٹا آسمان ابراہیم ابراہیم مُوسَى إِبْرَاهِيمَ موسی موسی
پانچواں آسمان هَارُونُ ھارُونَ ھارُونَ
چوتھا آسمان إِدْرِيسَ هَارُونَ إِدْرِيسَ ادریس
تیسرا آسمان يُوسُفُ يُوسُفَ یوسف
دوسرا آسمان يَحْيَى وَعِيسَى إِدْرِيسَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَيَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّاءَ عِيسَى وَيَحْيَى
پہلا آسمان آدم آدم آدم آدَمَ آدم آدم

صحیح بخاری کی شریک بن عبد الله کی روایت پر محدثین کو بہت اعتراض ہے

شريك بن عبد الله النخعي القاضي

وسماع المتأخرين عنه بالكوفة فيه أوهام انتهى

اس سے کوفہ کے متاخرین نے سنا ہے اور اس کو وہم بہت ہے

الذھبی میزان میں کہتے ہیں

ووهاه ابن حزم لاجل حديثه في الاسراء،

ابن حزم نے اس کو واہی قرار دیا ہے اس کی حدیث معراج کی بنا پر

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں

وَهُوَ رَاوِي حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ وَانْفَرَدَ فِيهِ بِأَلْفَاظٍ غَرِيبَةٍ

یہ حدیث معراج کا راوی ہے اور اس میں غریب الفاظ پر اس کا تفرد ہے

سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی  کہتے ہیں

وَفِي حَدِيْثِ الإِسْرَاءِ مِنْ طَرِيْقِه أَلْفَاظٌ، لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهَا، وَذَلِكَ فِي (صَحِيْحِ البُخَارِيِّ) .

اور اس کی حدیث معراج ہے ان الفاظ سے جن کی متابعت نہیں ہے اور ایسا صحیح بخاری میں ہے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطآئی میں ہے

وفي كتاب ابن الجارود: ليس به بأس، وليس بالقوي، وكان يحيى بن سعيد لا يحدث عنه.

ابن الجارود کی کتاب میں ہے اس میں برائی نہیں ، یہ قوی نہیں اور یحیی بن سعید القطان اس سے روایت نہیں کرتے

 شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ نے اس روایت میں دعوی کیا کہ معراج ایک خواب تھا جو نبوت سے پہلے  کا واقعہ ہے

 لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الكَعْبَةِ: جَاءَهُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ، قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ، وَهُوَ نَائِمٌ فِي مَسْجِدِ الحَرَامِ

جس رات نبی صلی الله علیہ وسلم کو معراج ہوئی وہ مسجد کعبہ میں تھے … قبل اس کے ان پر الوحی  ہوئی

 کتاب التوشيح شرح الجامع الصحيح از السيوطي  کے مطابق

فمما أنكر عليه فيه قوله: “قبل أن يوحى إليه”، فإن الإجماع على أنه كان من النبوة، وأجيب عنه بأن الإسراء وقع مرتين، مرة في المنام قبل البعثة وهي رواية شريك، ومرة في اليقظة بعدها.

شریک کی روایت کا جو انکار کیا گیا ہے اس میں یہ قول ہے کہ یہ الوحی کی آمد سے پہلے ہوا پس اجماع ہے کہ معراج نبوت میں ہوئی اور اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ دو بار ہوئی ایک دفعہ نیند میں بعثت سے پہلے اور دوسری بار جاگتے ہیں 

راقم کہتا ہے یہ بات عقل سے عاری ہے روایت صحیح نہیں لیکن زبر دستی اس کو صحیح قرار دیا جا رہا ہے

معراج کی رات کیا انبیاء کو نماز پڑھائی؟

اس میں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کا اختلاف تھا سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھیں یہ سب ایک کرشمہ الہی اور معجزاتی رات ہے اس میں جو بھی ہو گا وہ عام نہیں ہے خاص ہے

امام طحآوی نے مشکل الاثار میں اس بات  پر بحث کی ہے اور ان کی رائے میں نماز پڑھائی ہے

وہاں انہوں نے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی ایک روایت دی ہے

 عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی ایک  روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے براق کو باندھا اور وہاں تین انبیاء ابراہیم علیہ السلام ، موسی علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی بشمول دیگر انبیاء کے جن کا نام قرآن میں نہیں ہے واضح رہے کہ مسجد الاقصی داود یا  سلیمان علیہ السلام کے دور میں بنی اس میں نہ موسی علیہ السلام نے نماز پڑھی نہ ابراہیم علیہ السلام نے نماز پڑھی  لہذا روایت میں ہے انبیاء نے نماز پڑھی  فَصَلَّيْتُ بِهِمْ إِلَّا هَؤُلَاءِ النَّفْرَ سوائے ان تین کے جن میں إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى عَلَيْهِمُ السَّلَامُ ہیں  – اسکی سند میں مَيْمُون أَبُو حَمْزَة الْقَصَّاب الأعور كوفي. کا تفرد ہے جو متروک الحدیث ہے حیرت ہے امام حاکم اس روایت کو اسی سند سے  مستدرک میں پیش کرتے ہیں

الهيثمي  اس ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت کو کتاب  المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي میں پیش کرتے ہیں کہتے ہیں

قُلْتُ: لابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ فِي الإِسْرَاءِ فِي الصَّحِيحِ غَيْرُ هَذَا

میں کہتا ہوں صحیح میں اس سے الگ روایت ہے

مسند احمد میں انس رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے براق کو باندھا  ثُمَّ دَخَلْتُ، فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ میں اس مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعت پڑھی-   لیکن انبیاء کی امامت کا ذکر نہیں – اس روایت میں حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ البصری کا تفرد بھی ہے جو آخری عمر میں  اختلاط کا شکار تھے  اور بصرہ  کے ہیں

مشکل آثار میں الطحاوی نے اس بات کے لئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انبیاء کی امامت کی کچھ اور روایات پیش کی ہیں مثلا

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا جَاءَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي أُسْرِيَ بِهِ إِلَيْهِ فِيهَا، بُعِثَ لَهُ آدَمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ دُونَهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَمَّهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ،  انس سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم بیت المقدس معراج کی رات پہنچے وہاں آدم علیہ السلام دیگر انبیاء کے ساتھ آئے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امامت کی

اس کی سند میں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ہیں جو مجھول ہیں دیکھئے المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ

قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ الْأَقْصَى قَامَ يُصَلِّي، ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا النَّبِيُّونَ أَجْمَعُونَ يُصَلُّونَ مَعَهُ

جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصی میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگے، پھر آپ نے ادھر ادھر دیکھا تو تمام انبیائے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ نماز ادا کر رہے تھے

امام احمد ( 4 / 167 ) نے اس کو ابن عباس سے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند بھی کمزور ہے سند میں قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ الْجَنْبِيُّ ہے جس کے لئے ابن سعد کہتے ہیں  وَفِيهِ ضَعْفٌ لَا يُحْتَجُّ بِهِ اس میں کزوری ہے نا قابل دلیل ہے البتہ ابن کثیر نے اس روایت کو تفسیر میں صحیح کہا ہے شعيب الأرنؤوط  اس کو اسنادہ ضعیف اور احمد شاکر صحیح کہتے ہیں

صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ بیت المقدس میں فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ  نمازکا وقت آیا تومیں نے انبیاء کی امامت کرائی

 سندآ یہ بات  صرف  أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمنِ بنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ  المتوفی ١١٠ ھ  ، أَبِي هُرَيْرَةَ سے نقل کرتے ہیں

یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس وقت – وقت نہیں ہے –  وقت تھم چکا ہے اور کسی نماز کا وقت نہیں آ سکتا کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رات کی نماز پڑھ کر سوتے تھے انکو سونے کے بعد جگایا گیا اور اسی رات میں آپ مکہ سے یروشلم  گئے وہاں سے سات آسمان اور پھر انبیاء سے مکالمے  ہوئے – جنت و جنہم کے مناظر، سدرہ المنتہی کا منظر یہ  سب دیکھا تو کیا وقت ڈھلتا رہا؟ نہیں

صحیح بخاری کی کسی بھی حدیث میں معراج کی رات انبیاء کی امامت کا ذکر نہیں ہے جبکہ بخاری میں أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کی سند سے روایات موجود ہیں – لہذا انس رضی الله عنہ کی کسی بھی صحیح روایت میں انبیاء کی امامت کا ذکر نہیں ہے

الغرض یہ قول اغلبا  ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بیت المقدس میں انبیاء کی امامت کی بقیہ اصحاب رسول اس کو بیان نہیں کرتے

روایات کا اضطراب آپ کے سامنے ہے ایک میں ہے باقاعدہ نماز کے وقت جماعت ہوئی جبکہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رات کے وقت سونے کی حالت میں آپ  کو جگایا گیا دوسری میں ہے رسول الله نے خود دو رکعت پڑھی امامت کا ذکر نہیں تیسری میں ہے رسول الله نماز پڑھ رہے تھے جب سلام پھیرا تو دیکھا انبیا ساتھ ہیں یعنی یہ سب مضطرب روایات ہیں

صحیح ابن حبان اور مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: أَتَيْتُ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: ” فَانْطَلَقْتُ ـ أَوْ انْطَلَقْنَا   ـ حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ “، فَلَمْ يَدْخُلَاهُ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ دَخَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ وَصَلَّى فِيهِ، قَالَ: مَا اسْمُكَ يَا أَصْلَعُ؟ فَإِنِّي أَعْرِفُ وَجْهَكَ، وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُكَ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا زِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ، قَالَ: فَمَا عِلْمُكَ بِأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهِ لَيْلَتَئِذٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: الْقُرْآنُ يُخْبِرُنِي بِذَلِكَ، قَالَ: مَنْ تَكَلَّمَ بِالْقُرْآنِ فَلَجَ، اقْرَأْ، قَالَ: فَقَرَأْتُ: {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} [الإسراء: 1] ، قَالَ: فَلَمْ أَجِدْهُ صَلَّى فِيهِ، قَالَ: يَا أَصْلَعُ، هَلْ تَجِدُ صَلَّى فِيهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: وَاللهِ مَا صَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ، لَوْ صَلَّى فِيهِ لَكُتِبَ عَلَيْكُمْ صَلَاةٌ فِيهِ، كَمَا كُتِبَ عَلَيْكُمْ صَلَاةٌ فِي الْبَيْتِ الْعَتِيقِ، وَاللهِ مَا زَايَلَا الْبُرَاقَ حَتَّى فُتِحَتْ لَهُمَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَرَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ، ثُمَّ عَادَا عَوْدَهُمَا عَلَى بَدْئِهِمَا، قَالَ: ثُمَّ ضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ، قَالَ: وَيُحَدِّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ   أَلِيَفِرَّ مِنْهُ؟، وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، قَالَ: قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ اللهِ، أَيُّ دَابَّةٍ الْبُرَاقُ؟ قَالَ: دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ الْبَصَرِ

أَبُو النَّضْرِ  کہتے ہیں ہم سے شَيْبَانُ نے روایت کیا ان سے ْ عَاصِمٍ نے ان سے  زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ نے کہا میں حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رضی الله عنہ کے پاس پہنچا اور وہ معراج کی رات کا بیان کر رہے تھے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ  میں چلا یا ہم چلے (یعنی جبریل و نبی) یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے لیکن اس میں داخل نہ ہوئے- میں ( زر بن حبیش ) نے کہا بلکہ وہ داخل ہوئے اس رات اور اس میں نماز پڑھی – حُذَيْفَةَ رضی الله عنہ نے کہا اے گنجے تیرا نام کیا ہے ؟ میں تیرا چہرہ جانتا ہوں لیکن نام نہیں – میں نے کہا زر بن حبیش- حُذَيْفَةَ نے کہا تمہیں کیسے پتا کہ اس رات رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز بھی پڑھی ؟ میں نے کہا قرآن نے اس پر خبر دی – حُذَيْفَةَ نے کہ جس نے قرآن کی بات کی وہ حجت میں غالب ہوا  – پڑھ !  میں نے پڑھاپاک ہے وہ جو لے گیا رات کے سفر میں  اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی  .. حُذَيْفَةَ نے کہا مجھے تو اس میں نہیں ملا کہ نماز بھی پڑھی – انہوں نے کہا اے گنجے کیا تجھے اس میں ملا کہ نماز بھی پڑھی ؟ میں نے کہا نہیں – حُذَيْفَةَ نے کہا الله کی قسم کوئی نماز نہ پڑھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس رات  اگر پڑھی ہوتی تو فرض ہو جاتا جیسا کہ بیت الحرام کے لئے فرض ہے اور الله کی قسم وہ براق سے نہ اترے حتی کہ آسمان کے دروازے کھلے اور جنت و جہنم کو دیکھا اور  دوسری باتوں کو دیکھا جن کا وعدہ ہے پھر وہ آسمان ویسا ہی ہو گیا  جسے کہ پہلے تھآ -زر نے کہا  پھر حُذَيْفَةَ ہنسے  اور کہا اور لوگ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کو (براق کو) باندھا کہ بھاگ نہ جائے،  جبکہ اس کو تو عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے مسخر کیا

حذیفہ رضی الله عنہ کی روایت عاصم بن ابی النجود سے ہے جو اختلاط کا شکار ہو گئے تھے لہذا اس روایت کو بھی رد کیا جاتا ہے لیکن جتنی کمزور امامت کرنے والی روایت ہے اتنی ہی امامت نہ کرنے والی ہے

 راقم کے نزدیک حذیفہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث صحیح ہے اور  صوآب  ہے- یہ صحابہ کا اختلاف ہے – حذیفہ رضی الله عنہ  کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم یروشلم گئے آپ کو مسجد الاقصی فضا سے ہی  دکھائی گئی –  واضح رہے  براق سے اترنے کا صحیح بخاری میں بھی  کوئی ذکر نہیں ہے- محدث ابن حبان  کے نزدیک حذیفہ رضی الله عنہ کی روایت صحیح ہے اور انہوں نے اسکو صحیح ابن حبان میں بیان کیا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے دوسرے اصحاب کے اقوال بھی نقل کیے ہیں جن میں براق سے اترنے کا ذکر ہے

راقم  کہتا ہے اگر یہ مان لیں کہ انبیاء کو نماز پڑھائی  تو وہاں بیت المقدس میں عیسیٰ  علیہ السلام بھی تھے  ان کا بھی جسد عنصری تھا کیونکہ ان پر ابھی موت واقع نہیں ہوئی – یعنی   امام مسلم کا عقیدہ تھا کہ دو انبیا کو جسد عنصری کے ساتھ اس رات معراج ہوئی ایک نبی علیہ السلام اور دوسرے عیسیٰ علیہ السلام – راقم کہتا ہے یہ موقف کیسے درست ہے ؟ اس طرح تو نزول مسیح معراج پر ہو چکا لہذا انبیاء زمین پر نہیں آئے نہ نماز ہوئی

معراج پر سدرہ المنتہی سے آگے جانا؟

نعلین کے حوالے سے غلو کی ایک وجہ بریلوی فرقہ اور صوفیاء کی جانب سے  بیان کی جاتی ہے کہ

موسی علیہ السلام جب طوی کی مقدس وادی میں تشریف لے گئے تو سورۃ طہ کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیا طه،٢٠ : ١١۔

 إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى

 اے موسٰی بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو

اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم جب معراج پر عرش تک گئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں ملتا کہ کسی مقام پر ان کے نعلین مبارک اتروائے گئے ہوں اس کو دلیل بناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یقینا یہ نعلین بہت مبارک ہیں اور ان کی شبیہ بنانا جائز ہے حالانکہ صحیحین کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی تک ہی گئے اس سے آگے  نہیں اور یہ تو کسی حدیث میں نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم عرش تک  گئے

جلتے ہیں پر جبریل کے جس مقام پر

اسکی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو

ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم جب سدرہ المنتہی سے آگے بڑھے تو جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اگے جائیے ہماریے تو پر جلتے ہیں

تفسیر روح البیان از مفسر إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي , المولى أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ)  کے مطابق جبریل کے الفاظ تھے

لو تجاوزت لاحرقت بالنور. وفى رواية لو دنوت انملة لاحترقت

ان الفاظ کو فصوص الحکم میں ابن عربی   ٦٣٨ ہجری نے نقل کیا  ہے اور شیعوں کی کتاب بحار الانوار از ملا باقر مجلسی (المتوفی ١١١١ ھ) میں بھی یہ الفاظ نقل ہوئے  ہیں

ابن عربی کی تفسیر میں ہے

تفسير ابن عربي – ابن العربي – ج 2 – ص 148
هو الذي يصلي عليكم ) * بحسب تسبيحكم بتجليات الأفعال والصفات دون
الذات لاحتراقهم هناك بالسبحات ، كما قال جبريل عليه السلام : ‘ لو دنوت أنملة
لاحترقت ‘ .

جیسا کہ جبریل نے کہا : اگر سرکوں تو بھسم ہو جاؤں

اصل میں بات کس سند سے اہل سنت کو ملی پتا نہیں

شیخ سعدی صوفی شیرازی المتوفی ٦٩٠ ھ کے اشعار ہیں

چنان كرم در تيه قربت براند … كه در سدره جبريل از وباز ماند
بدو كفت سالار بيت الحرام … كه اى حامل وحي برتر خرام
چودر دوستى مخلصم يافتى … عنانم ز صحبت چرا تافتى
بگفتا فرا تر مجالم نماند … بماندم كه نيروى بالم نماند
اگر يك سر موى برتر پرم … فروغ تجلى بسوزد پرم

آخری شعر اسی پر ہے

لگتا ہے ساتویں صدی میں ابن عربی اور شیخ سعدی کو یہ بات کسی شیعہ سے ملی اور عالم میں پھیل گئی

تفسير الميزان از العلامة الطباطبائي کے مطابق

و في أمالي الصدوق، عن أبيه عن علي عن أبيه عن ابن أبي عمير عن أبان بن عثمان عن أبي عبد الله جعفر بن محمد الصادق (عليه السلام) قال: لما أسري برسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) إلى بيت المقدس حمله جبرئيل على البراق فأتيا بيت المقدس و عرض عليه محاريب الأنبياء و صلى بها

و فيه، بإسناده عن عبد الله بن عباس قال: إن رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) لما أسري به إلى السماء انتهى به جبرئيل إلى نهر يقال له النور
….
فلما بلغ إلى سدرة المنتهى و انتهى إلى الحجب، قال جبرئيل: تقدم يا رسول الله ليس لي أن أجوز هذا المكان و لو دنوت أنملة لاحترقت.
پس جب سدرہ المنتہی تک پھنچے اور حجاب تک آئے جبریل نے کہا یا رسول الله اپ آگے جائیے میری لئے جائز نہیں کہ آگے جاؤں اس مکان سے اور اگر ایک قدم بھی سرکوں گا میں جل جاؤں گا

یعنی یہ بات امالی صدوق المتوفی ٣٨١ ھ کی ہے جو شیعوں کی مستند کتاب ہے

کتاب حقيقة علم آل محمد (ع) وجهاته – السيد علي عاشور – ص 44 کے مطابق
وعن أبي عبد الله ( عليه السلام ) : ” ان هذه الآية مشافهة الله لنبيه لما أسرى به إلى
السماء ، قال النبي ( صلى الله عليه وآله ) : انتهيت إلى سدرة المنتهى ” ( 3 ) .
ومنها الحديث المستفيض : قول جبرائيل للنبي محمد ( صلى الله عليه وآله ) : تقدم .
فقال النبي ( صلى الله عليه وآله ) : ” في هذا الموضع تفارقني ” .
فقال جبرائيل : لو دنوت أنملة لاحترقت

اس کتاب کے شیعہ محقق کے مطابق یہ قول ان شیعہ تفاسیر اور کتابوں میں بھی ہے

راجع تفسير الميزان : 19 / 35 ، وتفسير نور الثقلين : 5 / 155 ، وعيون الأخبار
1 / 205 باب 26 ح 22 ، وينابيع المودة : 2 / 583 ، وكمال الدين : 1 / 255 وبحار الأنوار :
26 / 337 ، وتاريخ الخميس : 1 / 311 ذكر المعراج .

اب اس قول کی سند اور متن اصل مصدر سے دیکھتے ہیں
الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 435 – 436
ثم قال : تقدم يا محمد .
فقال له : يا جبرئيل ، ولم لا تكون معي ؟ قال : ليس لي أن أجوز هذا المكان . فتقدم
‹ صفحة 436 ›
رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ما شاء الله أن يتقدم ، حتى سمع ما قال الرب تبارك وتعالى : أنا
المحمود ، وأنت محمد ، شققت اسمك من اسمي ، فمن وصلك وصلته ومن قطعك
بتلته ( 1 ) انزل إلى عبادي فأخبرهم بكرامتي إياك ، وأني لم أبعث نبيا إلا جعلت له
وزيرا ، وأنك رسولي ، وأن عليا وزيرك .

جبریل نے رسول الله سے کہا : اپ آگے بڑھیے -رسول الله نے پوچھا اے جبریل اپ نہیں جائیں گے؟

جبریل نے کہا : میرے لئے نہیں کہ اس مقام سے آگے جاؤں پس رسول الله خود گئے جہاں تک اللہ نے چاہا یہاں تک کہ رب تبارک و تعالی کو سنا : میں محمود ہیں اور اپ محمد ہیں میں نے اپنا نام  تمہارے نام میں ملایا  جس کو تم جوڑو میں جوڑوں گا جس کو تم توڑوں میں اس کو ختم کر دوں گا میرے بندوں پر نازل کرو پس ان کو خبر دو جو تمہاری کرامت میرے پاس ہے کہ میں کوئی نبی مبعوث نہیں کرتا لیکن اس کا  وزیر کرتا ہوں اور تم میرے رسول ہو اور علی تمہارے وزیر

اس کی سند اس کتاب  الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 435 میں ہے

576 / 10 –

حدثنا أبي ( رضي الله عنه ) ، قال : حدثنا سعد بن عبد الله ، قال : حدثنا
أحمد بن أبي عبد الله البرقي ، عن أبيه ، عن خلف بن حماد الأسدي ، عن أبي الحسن
العبدي ، عن الأعمش ، عن عباية بن ربعي ، عن عبد الله بن عباس ، قال : إن رسول
الله ( صلى الله عليه وآله ) لما أسري به إلى السماء ، انتهى به جبرئيل إلى نهر يقال له النور ، وهو
….قول الله عز وجل : ( خلق الظلمات والنور

روایت کی سند میں  عباية  بن ربعى ہے  الذھبی میزان میں اس پر کہتے ہیں
من غلاة الشيعة.

شیعہ کے غالییوں میں سے ہیں

اس سے اعمش روایت کرتے ہیں میزان میں الذھبی لکھتے ہیں

قال العلاء بن المبارك: سمعت أبا بكر بن عياش يقول: قلت للاعمش: أنت حين  تحدث عن موسى، عن عباية..فذكره، فقال: والله ما رويته إلا على وجه الاستهزاء.

ابو بکر بن عیاش نے اعمش سے کہا : تم کہاں تھے جب  موسى بن طريف نے  عباية بن ربعى سے روایت کی ؟ اعمش نے کہا والله میں تو  عباية بن ربعى کا مذاق اڑنے کے لئے اس سے روایت کرتا ہوں

الغرض اس کی سند میں غالی شیعہ ہیں اور اعمش کھیل کھیل میں ان کی روایات بیان کرتے تھے

ما شاء اللہ

اس میں دو باتیں قابل غور ہیں کتاب الامالی از صدوق میں یہ بھی تھا کہ جبریل نے کہا میرے پر جل جائیں گے جیسا لوگ لکھتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کتاب میں یہ الفاظ اب نہیں ہیں

یہ کتاب اب قم  سے چھپی ہے

قسم الدراسات الإسلامية – مؤسسة البعثة – قم
Print : الأولى
Date of print : 1417
Publication :
Publisher : مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة
ISBN : 964-309-068-X

دوسری اہم بات ہے کہ عباية بن ربعى نے ایسا کیوں کہ کہ جبریل کو ہٹا دیا – ؟ اس کی وجہ ہے کہ عباية بن ربعى یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ بات کہ علی وزیر ہیں  الوحی کی اس قسم میں سے نہیں جو جبریل سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ملی لہذا علی کی امامت کا ذکر قرآن میں اس وجہ سے نہیں کیونکہ  یہ تو رسول الله کو الله تعالی نے براہ راست حکم دیا تھا کہ علی وزیر ہیں  اس کی خبر تک جبریل علیہ السلام کو نہ ہو سکی

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی (بحار الأنوار / جزء 3 / صفحة [ 315 ]) میں روایت ہے

ع: أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن ابن محبوب، عن مالك بن عيينة (2) عن حبيب السجستاني قال: سألت أبا جعفرعليه السلام عن قوله عزوجل: ” ثم دنى فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى فأوحى إلى عبدهاقرأ: ثم دنى فتدانا فكان قاب قوسين أو أدنى، فأوحى الله إلى عبده يعني رسول الله صلى الله عليه وآله ما أوحى، يا حبيب إن رسول الله صلى الله عليه وآله لما فتح مكة أتعب نفسه في عبادة الله عزوجل والشكر لنعمه في الطواف بالبيت وكان علي عليه السلام معه فلما غشيهم الليل انطلقا إلى الصفا والمروة يريدان السعي، قال: فلما هبطا من الصفا إلى المروة وصارا في الوادي دون العلم الذي رأيت غشيهما من السماء نور فأضاءت هما جبال مكة، وخسأت أبصارهما، (1) قال: ففزعا لذلك فزعا شديدا، قال: فمضى رسول الله صلى الله عليه وآله حتى ارتفع من الوادي، وتبعه علي عليه السلام فرفع رسول الله صلى الله عليه وآله رأسه إلى السماء فإذا هو برمانتين على رأسه، قال: فتناولهما رسول الله صلى الله عليه وآله فأوحى الله عزوجل إلى محمد: يا محمد إنها من قطف الجنة فلا يأكل منها إلا أنت ووصيك علي بن أبي طالب عليه السلام، قال: فأكل رسول الله صلى الله عليه وآله إحديهما، وأكل علي عليه السلام الاخرى ثم أوحى الله عزوجل إلى محمد صلى الله عليه وآله ما أوحى. قال أبو جعفر عليه السلام: يا حبيب ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” يعني عندها وافا به جبرئيل حين صعد إلى السماء، قال: فلما انتهى إلى محل السدرة وقف جبرئيل دونها وقال: يا محمد إن هذا موقفي الذي وضعني الله عزوجل فيه، ولن أقدر على أن أتقدمه، ولكن امض أنت أمامك إلى السدرة، فوقف عندها، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله إلى السدرة وتخلف جبرئيل عليه السلام، قال أبو جعفر عليه السلام: إنما سميت سدرة  المنتهى لان أعمال أهل الارض تصعد بها الملائكة الحفظة إلى محل السدرة، و الحفظة الكرام البررة دون السدرة يكتبون ما ترفع إليهم الملائكة من أعمال العباد في الارض، قال: فينتهون بها إلى محل السدرة، قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وآله فرأى أغصانها تحت العرش وحوله، قال: فتجلى لمحمد صلى الله عليه وآله نور الجبار عزوجل، فلما غشي محمدا صلى الله عليه وآله النور شخص ببصره، وارتعدت فرائصه، قال: فشد الله عزوجل لمحمد قلبه و قوى له بصره حتى رأى من آيات ربه ما رأى، وذلك قول الله عزوجل: ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” قال يعني الموافاة، قال: فرأي محمد صلى الله عليه وآله ما رأى ببصره من آيات ربه الكبرى، يعني أكبر الآيات

حبيب السجستاني کہتے ہیں میں نے امام جعفر سے (سورہ النجم)  پر سوال کیا اپ نے فرمایا الله تعالی نے نبی صلی الله علیہ وسلم پر الوحی کی … یعنی سدرہ المنتہی کے پاس جبریل وہاں آسمان پر چڑھے سدرہ کے پاس اور کہا جب سدرہ کے مقام پر پہنچے تو رک گئے اور کہا اے محمد یہ میرے رکنے کا مقام ہے جو الله تعالی نے میرے لئے بنایا ہے اور میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ آگے جا سکوں لیکن اپ سدرہ سے آگے جائیے اور وہاں رک جائیں- امام جعفر نے کہا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے سدرہ سے اور جبریل کو پیچھے چھوڑ دیا … پس وہاں عرش کے نیچے دیکھا اور اس کے گرد پس وہاں محمد صلی الله علیہ و الہ پر نور جبار تجلی ہوا جس سے اپ پر نیند طاری ہوئی  … پس الله تعالی نے اپ کا دل مضبوط کیا اور بصارت قوی کی یہاں تک کہ اپ نے آیات الله دیکھیں جو دیکھیں

یعنی اہل تشیع کے ہاں یہ بات قبول کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے اور وہاں خاص الوحی ہوئی جس میں علی  کا ذکر تھا

خیال رہے کہ سند میں مالك بن عيينة  ایک مجھول ہے جس کا ذکر کتب رجال شیعہ میں نہیں ملا

لب لباب ہے کہ  یہ دعوی کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے عرش تک گئے اور ان کے نعلین پاک نے نعوذباللہ عرش عظیم کو مس کیا سراسر بے سروپا بات ہے

بیت المعمور یا بیت المقدس ؟

اہل تشیع کی ایک دوسری روایت کے مطابق مسجد الاقصی سے مراد بیت المعمور ہے

کتاب  اليقين – السيد ابن طاووس – ص 294 –  میں  علی کی امامت پر روایت ہے جس  کی سند اور متن ہے

حدثنا أحمد بن إدريس قال : حدثنا أحمد بن محمد بن عيسى قال : حدثنا الحسين بن سعيد عن فضالة بن أيوب عن أبي بكر الحضرمي عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه . فقال : يا أمير المؤمنين ، إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني ! قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل * ( واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) *   ، فهل في ذلك الزمان نبي غير محمد صلى الله عليه وآله فيسأله عنه ؟ . فقال له أمير المؤمنين عليه السلام : إجلس أخبرك إنشاء الله ، إن الله عز وجل يقول في كتابه : * ( سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله لنريه من آياتنا ) * ، فكان من آيات الله التي أريها محمد صلى الله عليه وآله أنه انتهى جبرئيل إلى البيت المعمور وهو المسجد الأقصى ، فلما دنا منه أتى جبرئيل عينا فتوضأ منها ، ثم قال يا محمد ، توضأ . ‹ صفحة 295 › ثم قام جبرئيل فأذن ثم قال للنبي صلى الله عليه وآله : تقدم فصل واجهر بالقراءة ، فإن خلفك أفقا من الملائكة لا يعلم عدتهم إلا الله جل وعز . وفي الصف الأول : آدم ونوح وإبراهيم وهو وموسى وعيسى ، وكل نبي بعث الله تبارك وتعالى منذ خلق الله السماوات والأرض إلى أن بعث محمدا صلى الله عليه وآله . فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله فصلى بهم غير هائب ولا محتشم . فلما انصرف أوحى الله إليه كلمح البصر : سل يا محمد * ( من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) * . فالتفت إليهم رسول الله صلى الله عليه وآله بجميعه فقال : بم تشهدون ؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأنت رسول الله وأن عليا أمير المؤمنين وصيك ، وأنت رسول الله سيد النبيين وإن عليا سيد الوصيين ، أخذت على ذلك مواثيقنا  لكما بالشهادة . فقال الرجل : أحييت قلبي وفرجت عني يا أمير المؤمنين

ایک شخص، علی رضی الله عنہ کے پاس آیا اور وہ مسجد کوفہ میں تھے اور ان کی تلوار ان کی کمر سے بندھی تھی – اس شخص نے علی سے کہا اے امیر المومنین قرآن میں آیت ہے جس نے  مجھے اپنے دین میں اضطراب میں مبتلا کیا ہے انہوں نے پوچھا کون سی آیت ہے وہ شخص بولا

  واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون

اور پوچھو  پچھلے بھیجے جانے والے رسولوں  میں سے کیا ہم نے  رحمان کے علاوہ کوئی اور الہ بنایا جس کی انہوں نے  عبادت  کی ؟

امام علی نے کہا بیٹھ جاؤالله نے چاہا تو میں بتاتا ہوں- الله نے قرآن میں کہا متبرک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کو با برکت بنایا تاکہ اپنی کچھ نشانیاں دکھائے

ایک نشانی جو دکھائی گئی وہ یہ تھی کہ محمد صلی الله علیہ و الہ کو جبریل بیت المعمور لے گئے جو مسجد الاقصی ہے – وہ وضو کا پانی لائے اور جبریل نے اذان دی اور محمد کو کہا کہ آگے آئیے اور امامت کرائیے- فرشتے صفوں میں کھڑے ہوئے اور ان کی تعداد الله ہی جانتا ہے اور پہلی صف میں آدم، عیسیٰ اور ان سے پہلے گزرے انبیاء  تھے – جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کو کہا گیا کہ رسولوں سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے الله کے سوا دوسرے خدائوں کی عبادت کی ؟ تو جب انہوں نے پوچھا تو رسولوں نے کہا ہم گواہی دتیے ہیں کہ الله کے سوا کوئی الہ نہیں، آپ الله کے رسول ہیں اور علی امیر المومنین آپ کے وصی ہیں – آپ سید الانبیاء ہیں اور علي،  سيد الوصيين ہیں اس کے بعد انہوں نےعہد کیا  – وہ شخص بولا اے امیر المومنین آپ نے میرے دل کو خوشی دی اور مسئلہ کھول دیا

بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج 18 – ص ٣٩٤ میں  اس  روایت کی سند ہے

 كشف اليقين : محمد بن العباس ، عن أحمد بن إدريس ، عن ابن عيسى ، عن الأهوازي عن فضالة ، عن الحضرمي عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين ( عليه السلام ) وهو في مسجد الكوفة

کتاب  تأويل الآيات – شرف الدين الحسيني – ج 2 – ص  ٥٦٤ کے مطابق سند ہے

وروى محمد بن العباس ( رحمه الله ) في سورة الإسراء عن أحمد بن إدريس عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسين بن سعيد ، عن فضالة بن أيوب ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين عليه السلام وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه ، فقال : يا أمير المؤمنين إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل : ( وسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمن آلهة يعبدون ) فهل كان في ذلك الزمان نبي غير محمد فيسأله عنه ؟

أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري کو   أحمد بن محمد أبو جعفر اور أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري القمي بھی کہا جاتا ہے یہ الحسين بن سعيد الأهوازي سے روایت کرتے ہیں مندرجہ بالا تمام کتب میں مرکزی راوی  الحسين بن سعيد ہیں  جو فضالة سے روایت کرتے ہیں  کتاب  معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج 14 – ص 290 – ٢٩١ کے مطابق

 قال لي أبو الحسن بن البغدادي السوراني البزاز : قال لنا الحسين ابن يزيد السوراني : كل شئ رواه الحسين بن سعيد عن فضالة فهو غلط ، إنما هو الحسين عن أخيه الحسن عن فضالة ، وكان يقول إن الحسين بن سعيد لم يلق فضالة ، وإن أخاه الحسن تفرد بفضالة دون الحسين ، ورأيت الجماعة تروي ‹ صفحة 291 › بأسانيد مختلفة الطرق ، والحسين بن سعيد عن فضالة ، والله أعلم

ابو الحسن نے کہا کہ الحسین بن یزید  نے کہا کہ جو کچھ بھی حسین بن سعید ، فضالة سے روایت کرتا ہے وہ غلط ہے بے شک وہ حسین اپنے بھائی حسن سے اور وہ فضالة سے روایت کرتا ہے اور کہتے تھے کہ حسین کی فضالة

 سے تو ملاقات تک نہیں ہوئی اور ان کا بھائی حسن ، فضالة سے روایت میں منفرد ہے  اور ایک جماعت  اس سے روایت کرتی ہے .. و الله اعلم

الغرض یہ روایت  شیعہ محققین کے نزدیک منقطع ہے لیکن بعض اس کو جوش و خروش سے سناتے ہیں

تفسیر فرات میں ہے

فرات قال: حدثنا جعفر بن أحمد معنعنا [ عن عباد بن صهيب عن جعفر بن محمد عن أبيه ] عن علي بن الحسين: عن فاطمة [ بنت محمد.أ، ب.عليهم السلام.ر ] قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: لما عرج بي إلى السماء فصرت إلى سدرة المنتهى (فكان قاب قوسين أو أدنى) فرأيته بقلبي ولم أره بعيني، سمعت الاذان قالوا: شهدنا وأقررنا، قال: واشهدوا يا ملائكتي وسكان سماواتي وأرضي وحملة عرشي بأن عليا وليي وولي رسولي وولي المؤمنين.قالوا: شهدنا وأقررنا

عباد بن صهيب نے روایت کیا …. فاطمہ سے انھوں نے اپنے باپ نبی صلی الله علیہ و الہ سے کہ جب میں آسمان پر بلند ہوا تو سدرہ المنتہی تک گیا پس وہ دو کمانوں سے بھی کم پر قریب آیا میں نے اس کو قلب سے دیکھا آنکھ سے نہ دیکھا اور  کانوں نے سنا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے اور  الله نے کہا اے فرشتوں گواہ ہو جاؤ اور اے آسمان کے باسیوں اور زمین کے اور عرش کو اٹھانے والے کہ علی میرے ولی ہیں اور رسول اور مومنوں کے – ان سب نے کہا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے

سند میں عباد بن صهيب ہے جو اہل سنت میں متروک ہے اور شیعوں میں ثقہ ہے

معراج پر کیا نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا؟

امام بخاری نے اس سلسلے میں متضاد روایات پیش کی ہیں ایک میں ان کے مطابق نبوت سے قبل رسول الله پر الوحی ہوئی اس میں دیکھا کہ الله تعالی قاب قوسین کے فاصلے پر ہیں اور پھر صحیح میں ہی عائشہ رضی الله عنہا کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے سختی سے اس کا انکار کیا کہ معراج میں الله تعالی کو دیکھا

عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ – رضى الله عنها -: يَا أُمَّتَاهْ! هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ – صلى الله عليه وسلم – رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِى مِمَّا قُلْتَ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ}، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} , وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى غَدٍ؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166)، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ [شَيئاً مِمَا أنْزِلَ إِليهِ 5/ 188} [مِنَ الوَحْي 8/ 210]؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} الآية. [قالَ: قلت: فإنَّ قَوْلَهُ: {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى}. قالَتْ:] ولكنَّهُ [قَدْ 4/ 83] رَأَى جِبْرِيلَ – عَلَيْهِ السَّلاَمُ – (وفى روايةٍ: ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِى صُورَةِ الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ الْمَرَّةَ) فِى صُورَتِهِ [الَّتِى هِىَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الأُفُقَ]؛ مَرَّتَيْنِ

عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مسروق رحمہ الله علیہ نے پوچھا کہ اے اماں کیا  محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ تمہاری اس بات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دے تم سے جو کوئی تین باتیں کہے اس نے جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ محمّد نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے قرات کی {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} نگاہیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نگاہوں تک پہنچ جاتا ہے اور وہ باریک بین اور جاننے والا ہے ، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ الله اس سے کلام کرے سوائے وحی سے یا پردے کے پیچھے سے   آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ  جو یہ کہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جانتے تھے کہ کل کیا ہو گا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے تلاوت کی {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166) اور ایک روایت کے مطابق کوئی نہیں جانتا غیب کو سوائے الله کے . اور اس نے بھی جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ آپ نے وحی میں سے کچھ چھپایا  پھر آپ نے تلاوت کی ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} اے رسول جو الله نے آپ پر نازل کیا ہے اس کو لوگوں تک پہنچے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہ کیا . مسروق کہتے  ہیں میں نے عرض کی کہ الله تعالی کا قول ہے {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} پھر قریب آیا اور معلق ہوا اور دو کمانوں اور اس اس سے کم فاصلہ رہ گیا. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا اور ایکروایت میں ہے کہ وہ جبریل تھے وہ آدمی کی شکل میں اتے تھے اور اس دفعہ وہ اپنی اصلی شکل میں آئے یہ وہی صورت تھی جو افق پر دیکھی تھی دو دفعہ

دوسری طرف  قاضی ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ اپنی دوسری کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں کہ معراج کے موقعہ پر

ورأى ربه، وأدناه، وقربه، وكلمه، وشرّفه، وشاهد الكرامات والدلالات، حتى دنا من ربه فتدلى، فكان قاب قوسين أو أدنى. وأن الله وضع يده بين كتفيه فوجد بردها بين ثدييه فعلم علم الأولين والآخرين وقال عز وجل: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60] . وهي رؤيا يقظة (1) لا منام. ثم رجع في ليلته بجسده إلى مكة

اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا وہ قریب آیا ہم کلام ہوا شرف دیا اور کرامات دکھائی یہاں تک کہ قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔   اور بے شک الله تعالی نے اپنا باتھ شانے کی ہڈیوں کے درمیان رکھا اور اسکی ٹھنڈک نبی صلی الله علیہ وسلم نے پائی اور علم اولین ا آخرین دیا اور الله عز و جل نے کہا {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60]  اور یہ دیکھنا جاگنے میں ہوا نہ کہ نیند میں. پھر اس کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسد کے ساتھ واپس مکہ آئے

حنبلیوں کا یہ عقیدہ قاضی ابو یعلی مولف طبقات الحنابلہ پیش کر رہے ہیں جو ان کے مستند امام ہیں

حنبلی عالم عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ)  کتاب الاقتصاد في الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وأنه صلى الله عليه وسلم رأى ربه عز وجل كما قال عز وجل: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى}  قال الإمام أحمد في ما روينا عنه: وأن النبي صلى الله عليه وسلم رأى عز وجل، فإنه مأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم، صحيح رواه قتادة عكرمة عن ابن عباس. [ورواه الحكم بن إبان عن عكرمة عن ابن عباس] ، ورواه علي بن زيد عن يوسف بن مهران عن ابن عباس. والحديث على ظاهره كما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم، والكلام فيه بدعة، ولكن نؤمن به كما جاء على ظاهره، ولا نناظر فيه أحداً

وروى عن عكرمة عن ابن عباس قال: ” إن الله عز وجل اصطفى إبراهيم بالخلة واصطفى موسى بالكلام، واصطفى محمدً صلى الله عليه وسلم بالرؤية ” ـ وروى عطاء عن ابن عباس قال: ” رأى محمد صلى الله عليه وسلم ربه مرتين ” وروي عن أحمد ـ رحمه الله ـ أنه قيل له: بم تجيب عن قول عائشة رضي الله عنها: ” من زعم أن محمداً قد رأى ربه عز وجل …” الحديث؟ قال: بقول النبي صلى الله عليه وسلم: ” رأيت ربي عز وجل

بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا جیسا کہ اللہ تعالی نے کہا وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى امام احمد کہتے ہیں جیسا ہم سے روایت کیا گیا ہے کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا  پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے اور عکرمہ ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک الله تعالی نے نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے چنا اور  موسٰی کو دولت کلام کے لئے چنا اور محمد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے دیدار کے لئے چنا  اور عطا ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا اور احمد سے روایت کیا جاتا ہے الله رحم کرے کہ وہ ان سے پوچھا گیا ہم عائشہ رضی الله عنہا کا قول کا کیا جواب دیں کہ جس نے یہ دعوی کیا کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا … الحدیث ؟ امام احمد نے فرمایا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول سے (ہی کرو) کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے  اپنے رب عز وجل  کودیکھا

راقم کے  نزدیک ابان عن عکرمہ والی روایت اور قتادہ عن عکرمہ والی رویت باری تعالی لی روایات  صحیح نہیں ہیں

  قاضی عیاض  کتاب  الشفاء بتعريف حقوق المصطفی میں لکھتے ہیں  کہ چونکہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا اور  عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی ہے، لہذا اس معاملے میں ان کی خبر معتبر نہیں ہے

صحیح ابن خزیمہ کے مولف أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة المتوفی ٣١١ ھ كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل  کہتے ہیں

فَأَمَّا خَبَرُ قَتَادَةَ، وَالْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہ عَنْهُمَا، وَخَبَرُ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهعَنْهُمَا فَبَيِّنٌ وَاضِحٌ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُثْبِتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى رَبَّهُ

پس جو خبر قتادہ اور الحکم بن ابان سے عکرمہ سے اور ابن عباس سے آئی ہے اور خبر جو عبد الله بن ابی سلمہ سے وہ ابن عباس سے آئی ہے اس میں بین اور واضح ہے کہ ابن عباس سے ثابت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا

ابن خزیمہ  اسی کتاب میں لکھتے ہیں

وَأَنَّهُ جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخْصُوصًا بِرُؤْيَةِ خَالِقِهِ، وَهُوَ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، لَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ وَهُوَ فِي الدُّنْيَا،

اور بے شک یہ جائز ہے کہ اپنے خالق کو دیکھنا نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہو اور وہ ساتویں آسمان پر تھے اور دینا میں نہیں تھے جب انہوں نے الله تعالی کو دیکھا تھا

اس طرح محدثین اور متکلمیں کے گروہ کا اجماع ہوا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا ہر چند کہ ام المومنین عائشہ صدیقه رضی الله عنہا اس کا انکار کرتی تھیں

یہ بات کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا مختلف سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہ سے منسوب ہیں جن میں بعض میں ہے کہ الله تعالی کو دل کی آنکھ سے دیکھا

لیکن بعض میں یہ بھی ہے کہ الله تعالی کو ایک جوان مرد کی صورت گھنگھریالے بالوں کے ساتھ دیکھا جس کی تصحیح بہت سے علماء نے کی ہے

ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ج ٧ ص ٢٢٥ پر ان روایات کو پیش کرتے ہیں اور امام احمد کا قول نقل کرتے ہیں کہ
قال حدثنا عبد الله بن الإمام أحمد حدثني أبي قال حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء قال وأبلغت أن الطبراني قال حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس في الرؤية صحيح وقال من زعم أني رجعت عن هذا الحديث بعدما حدثت به فقد كذب وقال هذا حديث رواه جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم وجماعة من التابعين عن ابن عباس وجماعة من تابعي التابعين عن عكرمة وجماعة من الثقات عن حماد بن سلمة قال وقال أبي رحمه الله روى هذا الحديث جماعة من الأئمة الثقات عن حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم وذكر أسماءهم بطولها وأخبرنا محمد بن عبيد الله الأنصاري سمعت أبا الحسن عبيد الله بن محمد بن معدان يقول سمعت سليمان بن أحمد يقول سمعت ابن صدقة الحافظ يقول من لم يؤمن بحديث عكرمة فهو زنديق وأخبرنا محمد بن سليمان قال سمعت بندار بن أبي إسحاق يقول سمعت علي بن محمد بن أبان يقول سمعت البراذعي يقول سمعت أبا زرعة الرازي يقول من أنكر حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عيه وسلم رأيت ربي عز وجل فهو معتزلي

عبد الله کہتے ہیں کہ امام احمد نے کہا حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا میں نے اپنے رب کو ایک مرد کی صورت دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے اور مجھ تک پہنچا کہ طبرانی نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے جو یہ کہے کہ اس کو روایت کرنے کے بعد میں نے اس سے رجوع کیا جھوٹا ہے اور امام احمد نے کہا اس کو صحابہ کی ایک جماعت رسول الله سے روایت کرتی ہے …. اور ابو زرعہ نے کہا جو اس کا انکار کرے وہ معتزلی ہے

یعنی امام ابن تیمیہ ان روایات کو صحیح کہتے تھے اور ان کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو قلب سے  دیکھا حنابلہ میں بہت سے  لوگ مانتے ہیں کہ معراج حقیقی تھی جسم کے ساتھ تھی نہ کہ خواب اور وہ ان روایات کو معراج پر مانتے ہیں ابن تیمیہ ان کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن قلبی رویت مانتے ہیں

صالح المنجد یہ اقرار کرتے ہیں کہ اس حدیث کو ائمہ نے صحیح کہا ہے
=================
ورد حديث يفيد رؤية النبي صلى الله عليه وسلم ربه مناما على صورة شاب أمرد ، وهو حديث مختلف في صحته ، صححه بعض الأئمة ، وضعفه آخرون
https://islamqa.info/ar/152835
————-
اور ان کے مطابق صحیح کہتے والے ہیں
===============
وممن صحح الحديث من الأئمة : أحمد بن حنبل ، وأبو يعلى الحنبلي ، وأبو زرعة الرازي .
==================
یہ وہ ائمہ ہیں جن میں حنابلہ کے سرخیل امام احمد اور قاضی ابویعلی ہیں اور ابن تیمیہ بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص مانتے ہیں

===============
صالح المنجد کہتے ہیں
وممن ضعفه : يحيى بن معين ، والنسائي ، وابن حبان ، وابن حجر ، والسيوطي .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية في “بيان تلبيس الجهمية”: (7/ 229): ” وكلها [يعني روايات الحديث] فيها ما يبين أن ذلك كان في المنام وأنه كان بالمدينة إلا حديث عكرمة عن ابن عباس وقد جعل أحمد أصلهما واحداً وكذلك قال العلماء”.
وقال أيضا (7/ 194): ” وهذا الحديث الذي أمر أحمد بتحديثه قد صرح فيه بأنه رأى ذلك في المنام ” انتهى .
=============

یہ علمی خیانت ہے ابن تیمیہ نے معاذ بن جبل کی روایت کو خواب والی قرار دیا ہے نہ کہ ابن عباس سے منسوب روایات کو

اسی سوال سے منسلک ایک تحقیق میں محقق لکھتے ہیں کہ یہ مرد کی صورت والی روایت کو صحیح کہتے تھے
http://www.dorar.net/art/483
((رأيت ربي في صورة شاب أمرد جعد عليه حلة خضراء))
وهذا الحديث من هذا الطريق صححه جمعٌ من أهل العلم، منهم:
الإمام أحمد (المنتخب من علل الخلال: ص282، وإبطال التأويلات لأبي يعلى 1/139)
وأبو زرعة الرازي (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/144)
والطبراني (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/143)
وأبو الحسن بن بشار (إبطال التأويلات 1/ 142، 143، 222)
وأبو يعلى في (إبطال التأويلات 1/ 141، 142، 143)
وابن صدقة (إبطال التأويلات 1/144) (تلبيس الجهمية 7 /225 )
وابن تيمية في (بيان تلبيس الجهمية 7/290، 356) (طبعة مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف- 1426هـ)

حنابلہ یا  غیر مقلدین میں فرق صرف اتنا ہے کہ حنابلہ کے نزدیک یہ دیکھا اصلی آنکھ سے تھا اور غیر مقلدین کے نزدیک قلبی رویت تھا

راقم کہتا ہے روایات ضعیف ہیں اس کے خلاف  الذھبی نے ابن جوزی نے حکم لگائے ہیں

صحیح مسلم کی روایت  نور دیکھا؟

صحیح مسلم کی ایک روایت ٤٤٣   اور   ٤٤٤ ہے  جو ابو ذر رضی الله عنہ سے مروی ہے اس میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ
یزید بن ابراہیم نے قتادہ سے ، انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے اور انہوں نے حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کی کہا : میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا؟ آپ نے جواب دیا : وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھتا 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي ح، وَحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا عفَّانُ بْنُ مُسْلمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ كِلَاهمَا عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتَ لِأَبِي ذرٍّ، لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: عَنْ أيِّ شيْءٍ كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُ، فَقَالَ: رَأَيْتُ نُورًا
ہشام اورہمام دونوں نے، قتادہ سے روایت  کیا  انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے ،انہوں نےکہا : میں نےابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا : اگرمیں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو آپ سے سوال کرتا ۔ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا : تم ان کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ؟ عبد اللہ بن شقیق نے کہا : میں آپ ﷺ سے سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے آپ سے (یہی) سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایاتھا : ’’ میں نے نور دیکھا ۔

کتاب كشف المشكل من حديث الصحيحين  میں ابن جوزی نے اس پر تبصرہ کیا ہے

وَفِي الحَدِيث السَّابِع عشر: سَأَلت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: هَل رَأَيْت رَبك؟ فَقَالَ: ” نور، أَنى اراه “.  ذكر أَبُو بكر الْخلال فِي كتاب ” الْعِلَل ” عَن أَحْمد بن حَنْبَل أَنه سُئِلَ عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَ: مَا زلت مُنْكرا لهَذَا الحَدِيث وَمَا أَدْرِي مَا وَجهه. وَذكر أَبُو بكر مُحَمَّد بن إِسْحَق بن خُزَيْمَة فِي هَذَا الحَدِيث تضعيفا فَقَالَ: فِي الْقلب من صِحَة سَنَد هَذَا الْخَبَر شَيْء، لم أر أحدا من عُلَمَاء الْأَثر فطن لعِلَّة فِي إِسْنَاده، فَإِن عبد الله بن شَقِيق كَأَنَّهُ لم يكن يثبت أَبَا ذَر وَلَا يعرفهُ بِعَيْنِه واسْمه وَنسبه، لِأَن أَبَا مُوسَى مُحَمَّد ابْن الْمثنى حَدثنَا قَالَ: حَدثنَا معَاذ بن هِشَام قَالَ: حَدثنِي أبي عَن قَتَادَة عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: أتيت الْمَدِينَة، فَإِذا رجل قَائِم على غَرَائِر سود يَقُول: أَلا ليبشر أَصْحَاب الْكُنُوز بكي فِي الجباه والجنوب فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَر، فَكَأَنَّهُ لَا يُثبتهُ وَلَا يعلم أَنه أَبُو ذَر. وَقَالَ ابْن عقيل: قد أجمعنا على أَنه لَيْسَ بِنور، وخطأنا الْمَجُوس فِي قَوْلهم: هُوَ نور. فإثباته نورا مَجُوسِيَّة مَحْضَة، والأنوار أجسام. والبارئ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لَيْسَ بجسم، وَالْمرَاد بِهَذَا الحَدِيث: ” حجابه النُّور ” وَكَذَلِكَ رُوِيَ فِي حَدِيث أبي مُوسَى، فَالْمَعْنى: كَيفَ أرَاهُ وحجابه النُّور، فَأَقَامَ الْمُضَاف مقَام الْمُضَاف إِلَيْهِ.  قلت: من ثَبت رُؤْيَة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ربه عز وَجل فَإِنَّمَا ثَبت كَونهَا لَيْلَة الْمِعْرَاج، وَأَبُو ذَر أسلم بِمَكَّة قَدِيما قبل الْمِعْرَاج بِسنتَيْنِ ثمَّ رَجَعَ  إِلَى بِلَاد قومه فَأَقَامَ بهَا حَتَّى مَضَت بدر وَأحد وَالْخَنْدَق، ثمَّ قدم الْمَدِينَة، فَيحْتَمل أَنه سَأَلَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حِين إِسْلَامه: هَل رَأَيْت رَبك، وَمَا كَانَ قد عرج بِهِ بعد، فَقَالَ: ” نور، أَنى أرَاهُ؟ ” أَي أَن النُّور يمْنَع من رُؤْيَته، وَقد قَالَ بعد الْمِعْرَاج فِيمَا رَوَاهُ عَنهُ ابْن عَبَّاس: ” رَأَيْت رَبِّي “.

رسول الله سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ فرمایا نور ہے کیسے دیکھتا اور اس کا ذکر ابو بکر الخلال نے کتاب العلل میں امام احمد کے حوالے سے کیا کہ ان سے اس حدیث پر سوال ہوا پس کہا میں اس کو منکر کہنے سے نہیں ہٹا اور … ابن خزیمہ نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا  اس خبر کی صحت پر دل میں کچھ ہے اور میں نہیں دیکھتا کہ محدثین  سوائے اس کے کہ وہ اس کی اسناد پر طعن ہی کرتے رہے کیونکہ اس میں عبد الله بن شقیق ہے جو ابو ذر سے روایت کرنے میں مضبوط نہیں  اور اس کو  نام و نسب سے نہیں جانا جاتا کیونکہ ابو موسی نے روایت کیا  حَدثنَا قَالَ: حَدثنَا معَاذ بن هِشَام قَالَ: حَدثنِي أبي عَن قَتَادَة کہ  عبد الله بن شَقِيق نے کہا میں مدینہ پہنچا تو وہاں ایک شخص کو … کھڑے دیکھا … پس لوگوں نے کہا یہ ابو ذر ہیں.. کہ گویا کہ اس عبد الله کو پتا تک نہیں تھا کہ ابو ذر کون ہیں! اور ابن عقیل نے کہا ہمارا اجماع ہے کہ الله نور نہیں ہے  اور مجوس نے اس قول میں غلطی کی کہ وہ نور ہے پس اس کا اثبات مجوسیت ہے  اور اجسام منور  ہوتے ہیں نہ کہ الله سبحانہ و تعالی اور یہ حدیث میں مراد ہے کہ نور اس کا حجاب ہے … اور میں ابن جوزی کہتا ہوں : اور جس کسی  نے اس روایت کو ثابت کہا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا انہوں نے اس کو  معراج کی رات میں ثابت کیا ہے اور ابی ذر مکہ میں ایمان لائے معراج سے دو سال پہلے پھر اپنی قوم کی طرف لوٹے ان کے ساتھ رہے یھاں تک کہ بدر اور احد اور خندق گزری پھر مدینہ پہنچے پس احتمال ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا ہو جب ایمان لائے ہوں کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ اور اس وقت اپ کو معراج نہیں ہوئی تھی پس رسول الله نے فرمایا نور ہے اس کو کیسے  دیکھوں اور بے شک معراج کے بعد کہا جو ابن عباس نے روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا

صحیح مسلم میں ایک طرف تو معراج کی  روایت میں کہیں نہیں کہ اپ صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے ہوں دوسری طرف علماء کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نور دیکھا جو حجاب عظمت تھا جو نوری ہے اور اس کی روشنی اس قدر تھی کہ آنکھ بشری سے کچھ دیکھ نہ  سکے

اس تضاد کو  شارح مسلم امام ابو عبداللہ مازری  نے بیان کیا  اور ان کے بعد سب لوگ شروحات میں  بغیر سوچے نقل کرتے رہے – مازری کہتے ہیں

الضمير في أراه عائد على الله سبحانه وتعالى ومعناه أن النور منعني من الرؤية كما جرت العادة بإغشاء الأنوار الأبصار ومنعها من إدراك ما حالت بين الرائى وبينه وقوله صلى الله عليه وسلم (رأيت نورا) معناه رأيت النور فحسب ولم أر غيره 

حدیث کے الفاظ  أراه میں  ضمیر اللہ تعالی کی طرف  پلٹتی  ہے ، یعنی میں اللہ کو کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ کیونکہ نور جو اس کا حجاب ہے وہ مجھے اللہ کو دیکھنے سے روک لیتا ہے ، جیسا کہ عادت جاری میں ہے کہ  تیز روشنی نگاہ  پر چھا  جاتی ہے اور ادراک میں  مانع ہوتی ہے  دیکھنے والے کو سامنے والی چیز دکھائی نہیں دیتی ، اور رسول الله کا قول ہے   میں نے نور دیکھا تو مطلب یہ ہے کہ میں نے صرف نور ہی دیکھا اور کچھ نہیں دیکھا 

 بحث اس میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیا سدرہ المنتہی سے بھی آگے حجاب عظمت تک پہنچ گئے تھے ؟

کیونکہ ابو ذر رضی الله عنہ کے قول سے یہی ثابت ہوتا ہے اگر یہ صحیح ہے

یعنی علماء کے ایک گروہ کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اصلی آنکھ سے بعض کہتے ہیں دیکھا قلبی آنکھ سے اور بعض کہتے ہیں سدرہ المنتہی سے آگے جانا ہی نہیں ہوا تو کب دیکھا

راقم آخری قول کا قائل ہے اور ابو ذر رضی الله عنہ سے منسوب روایات کو رد کرتا ہے


رجب کے فضائل؟

سال کے چار ماہ مسجد الحرام کی وجہ سے روز ازل سے الله نے حرمت والے مقرر کیے ہیں
رجب میں عمرہ کیا جاتا ہے یہ باقی تین سے بالکل الگ ہے جبکہ شوال، ذیقعدہ، ذو الحجہ ساتھ اتے ہیں

( إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ
آیت میں فَلا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ سے مراد مشرکین کا رد ہے جو ان مہینوں کو النسی سے بدل دیتے تھے
اس طرح مہینے اپنی تاریخوں میں نہیں رہتے تھے یا کہہ لیں کہ جو گردش سماوات و ارض میں بندھے ہیں ان مہینوں کو ان کے مقام سے ہٹا دیا جاتا تھا

اس وجہ سے حج ہوتا لیکن اس مدت میں نہیں جو الله نے مقرر کی

جدال کی یہ قید تمام عالم پر ہے جہاں سے بھی حاجی مکہ آ سکتے ہوں وہاں وہاں جنگ نہیں کی جا سکتی نہ مکہ تک انے کے رستہ کو فضا سے یا بحر و بر سے روکا جا سکتا ہے ورنہ یہ الله کے حکم کی خلاف ورزی ہے

باقی گناہ کرنا ہر وقت منع ہے لیکن بعض مفسرین نے ان چار ماہ کو گناہ نہ کرنے سے ملا دیا ہے جو نہایت سطحی قول ہے

رجب میں روزہ رکھنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے

غلغلہ مہدی ، جہادی اور علماء ٢

کتاب  روایات ظہور مہدی

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

راقم  سن ٢٠٠٠ ع  سے  روایات مہدی و مسیح پر  تحقیق کر رہا ہے –  راقم اپنی تحقیقات کو حرف آخر نہیں کہتا بلکہ  یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جہت میں مزید باب کھلیں گے اگر  مسئلہ مہدی پر   غیر جانبداری سے تحقیق ہو- افسوس   امام ابن خلدون    نے مسئلہ  پر کلام کیا تھا لیکن ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا – یہ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ اپنے عبقری اذہان کی ناقدری کرتے ہیں –   اس کتاب کو ٢٠١٥ میں اس ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا-  کتاب میں صرف  اہل سنت    کے  نظریہ مہدی  پر غور کیا گیا  ہے جس کو بعض لوگ عقیدہ سمجھ رہے ہیں –      نظریہ مہدی  کے پس پردہ کیا    مذہبی  و سیاسی   افکار ہیں ؟ ان پر غور کیا گیا ہے –     اس     کی جڑیں     وہ    احادیث  و آثار ہیں جو محدثین نے اپنی کتابوں میں سب سے آخر میں نقل کیں -کتاب  میں    تاریخی حقائق  کے میزان پر   روایات مہدی کا جانچا  گیا ہے –   اس سلسلے میں  رہنمائی  جرح و تعدیل کی کتب سے   ملتی ہے کہ متقدمین محدثین اس سلسلے میں کسی بھی مرفوع قول  نبوی کو صحیح نہیں قرار دیتے تھے مثلا  امام وکیع بن جراح  اور عبد الرحمان بن المہدی    وغیرہ

عصر حاضر میں    شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد پر ایک گروہ   مدینہ میں مہدی تلاش کر رہا ہے اور اپنا مخالف   کوئی اصفہانی فارسی  دجال بتاتا  ہے – دوسری طرف شیعہ ہیں  جنہوں نے  امام مہدی کو   مافوق الفطرت  قرار دے دیا ہے جو ابھی تک اپنے غار میں ہیں

 مسلمانوں میں اس بنا پر مشرق وسطی کا پورا خطہ  خون کی ہولی میں نہا رہا ہے –   اپنی سیاست کی بساط  احادیث رسول  و اہل بیت کے نام پر بچھا  کر  نوجوانوں کو شطرنج   کے  مہروں کی طرف  جنگ و جدل میں   دھکیلا  جا رہا  ہے –    داعش اور اس قبیل کی فسادی تنظیموں نے عراق میں خلافت  بھی بنا لی ہے اور ابھی  نا معلوم کتنی معصوم مسلمان لڑکیوں کو  خلیفہ  کی مخالفت کے جرم میں لونڈی بنایا جا رہا ہو گا ؟       پتا نہیں کس کا سر کاٹا جا رہا ہو گا ؟ اور دلیل  روایت سے لی جا رہی  ہو گی –  اب یہ تو ظاہر فساد ہے اور پس پردہ  معصوم بنے یہ علماء ہیں جو چپ سادھے   لونڈی کو کھنگالنے   والی  روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں کہ اس کو سر بازار  کھول کر دیکھا جا سکتا ہے – افسوس   شام کے عرب محقق  البانی اس طرح کی   روایات کو صحیح الاسنا د کہہ گئے ہیں –  شام کے فضائل پر کتابیں   جو لوگ بھول چلے تھے  البانی    نے   ان پر  تعلیق لکھی–  اور نهایة العالم      (عالم کا اختتام ) نام کی کتب نے  لوگوں کو اس طرف لگا دیا کہ  قرب قیامت ہے ، مہدی انے والا ہے –   ساتھ ہی  مدخلیت   (ربیع المدخلی سے منسوب تکفیری سوچ)   مدینہ سے نکلی  جو ایک وبا کی طرح  عربوں میں پھیلی  اور  مصر سے  یہ  تکفیری سوچ  عرب سے ہوتی  اسامہ بن لادن کے ساتھ افغانستان پہنچی اور ایک وبا کی طرح عالم   اسلام میں پھیلی

اب  ایک کے بعد ایک مہدی آ رہے ہیں اور آئیں  گے

 ایک عام مسلمان آخر کیا کرے – مسئلہ کے  حل کے لئے کہاں جائے؟     مسجدوں میں  محراب و منبر سے  نظریہ مہدی کی تبلیغ کی جاتی ہے   اور دعوی کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے کی تمام احادیث صحیح ہیں –  ہر بدلتی صدی میں    قائلین   ظہور مہدی کے تضاد لا تعداد  ہیں  مثلا  ایک روایت جو  ثوبان رضی الله عنہ سے مروی ہے اس کے مطابق  عرب کے مشرق سے   ، خراسان سے جھنڈے آئیں گے اور   ان میں الله کا خلیفہ المہدی ہو گا – اس روایت کو متقدمیں محدثین رد کرتے تھے –  لیکن   بعد میں  لوگ آئے   جنہوں نے علم چھپایا اور   اس روایت کو صحیح کہا – اس کے بعد خراسان میں طالبان آ گئے – مخالف  حلقوں میں  اب ثوبان والی روایت ضعیف قرار پائی  اور واپس وہی محدثین  کی آراء پیش کرنے لگ گئے کہ یہ روایت صحیح نہیں –  ام سلمہ رضی الله عنہا سے مروی  ایک حدیث ہے کہ تین خلفاء کے بیٹوں میں فساد ہو گا  وغیرہ  (اس کی تفصیل کتاب میں ہے)  اس کو البانی نے ضعیف کہا تھا   لیکن   اس کو صحیح مان کر  کتابوں میں پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ حوثی نکل آئے اب  واپس البانی  کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ یہ ضعیف تھی –   اس طرح    مہدی و مسیح کے نام پر سیاست جاری ہے جس میں علماء پس پردہ کام کر رہے ہیں

راقم کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کاش یہ علماء  دیدہ بینا  کے ساتھ اس ظلم سے کنارہ کشی کرتے

اے کاش

ہمارے گراں قدر ناقدین نے ہماری توجہ چند کتب کی طرف کرائی ہے  – ایک عبد العليم البستوي کتاب  الاحاديث الواردة في المهدي في ميزان الجرح والتعديل ہے   جو مدینہ یونیورسٹی   میں ایک مقالہ کے طور پر لکھی گئی تھی  اور دوسری   کتاب مہدی علیہ السلام سے متعلق صحیح عقیدہ میں عبد الہادی  عبد الخالق مدنی   جو سعودی عرب میں  الاحسا  ء  سے  چھپی ہے –  اس کے علاوہ اردو میں اس مسئلہ مہدی پر جو کتب ہیں ان سے بھی استفادہ کیا گیا ہے –  لہذا   محقیقن کی آراء کو    کتاب هذا   میں  حواشی میں  اور بعض مقام پر متن میں  شامل کر دیا گیا ہے  تاکہ  قارئین کے  آگے     صرف ہماری رائے ہی نہ ہو  تو وہ پوری دیانت سے جو راقم  کہنا چاہتا ہے اس کو سمجھ سکیں

الله مومنوں کا حامی و ناصر ہو اور ان کو شر  اور فتنہ مہدی و دجال سے محفوظ رکھے

امین

ابو شہریار

٢٠١٧


عرش کے گرد سانپ کی کنڈلی

اہل کتاب نے اپنے ایک نبی یسعیاہ کے نام پر ایک کتاب گھڑی جس کو

Book of Isaiah

کہا جاتا ہے

اس کتاب کے باب ٦ کی آیات ہیں

سرافیم سے مراد سانپ ہیں

Hebrew Strong Dictionary

کے مطابق

  1. שָׂרָף saraph, saw-rawf´; from 8313; burning, i.e. (figuratively) poisonous (serpent); specifically, a saraph or symbolical creature (from their copper color):—fiery (serpent), seraph.

https://www.blueletterbible.org/lang/lexicon/lexicon.cfm?Strongs=H8314&t=KJV

یہود کی ایک قدیم کتاب

Book of Enoch

میں  باب ٢٠ بھی اس کا ذکر ہے

 Hence they took Enoch into the seventh heaven 

1 And those two men lifted me up thence on to the seventh heaven, and I saw there a very great light, and fiery troops of great archangels (2), incorporeal forces, and dominions, orders and governments, cherubim and seraphim, thrones and many-eyed ones, nine regiments, the Ioanit stations of light, and I became afraid, and began to tremble with great terror, and those men took me, and led me after them, and said to me: 

 2Have courage, Enoch, do not fear, and showed me the Lord from afar, sitting on His very high throne. For what is there on the tenth heaven, since the Lord dwells there? 

پس وہ انوخ (ادریس علیہ السلام) کو لے گئے ساتویں آسمان پر اور ان دو آدمیوں نے مجھ (انوخ) کو اٹھایا اور وہاں میں نے ایک عظیم نور دیکھا اور اور ملائکہ ملا الاعلی کی آتشی افواج،  روحانی قوتیں ، احکام و حکم ، کروبیں اور سرافیم، تخت  اور بہت آنکھوں والے … اور میں خوف زدہ ہوا اور لڑکھڑا گیا دہشت سے اور وہ مجھ کو لے گئے اور کہا ہمت کرو انوخ ، ڈرو مت اور الله تعالی کو دور سے دکھایا اپنے عظیم عرش پر تھا- (انوخ نے سوال کیا) یہ دسویں آسمان پر کیا ہے کہ الله وہاں ہوتا ہے ؟

کتاب انوخ کا متن حبشی زبان میں ملا ہے جہاں سرافیم کے مقام پر لکھا

 Ikisat (Ethiopic: አክይስት — “serpents”, “dragons

اکسات حبشی میں سانپ ہے

https://en.wikipedia.org/wiki/Seraph

توریت کے مطابق بنی اسرئیل کی دشت میں سر کشی کی بنا پر ایک وقت الله تعالی نے سانپ ان پر چھوڑ دیے

Num. 21:6 Then the LORD sent fiery serpents among the people, and they bit the people, so that many people of Israel died.

اور الله نے ان پر آتشی سانپ چھوڑ دیے

عبرانی میں سرافیم کو سانپ اور  فرشتہ کہا جاتا  ہے  چونکہ اہل کتاب ابلیس کو ایک فرشتہ یا

Fallen Angel

کہتے ہیں

لہذا مسلمانوں میں ابلیس کو سانپ سے ملانے یا جنات کو سانپ قرار دینے کا نظریہ ا گیا

ہندو مت میں عرش کے گرد سانپ

ہندو مت کے مطابق ان کے تین بڑے اصنام میں سے ایک آسمان میں ہے جس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے گرد سانپ لپٹا ہوا ہے جس کو انانتا شیشا یا ادی شیشا کہتے ہیں

Ananta Shesha,  Adishesha “first Shesha”.

یعنی کسی دور قدیم میں عرش رحمن کے گرد سانپوں کا تصور موجود تھا جس کو اہل کتاب اور ہندو دونوں بیان کرتے تھے

اسلام میں عرش کے گرد سانپ

اس قسم کی روایات اسلام میں بھی ہیں  جن کو محدثین روایت کرتے ہیں  – اس روایت کو عبد الله بن أحمد   “السنة” (1081) میں باپ امام احمد سے روایت کرتے ہیں  الدينوري  کتاب “المجالسة” (2578)  میں علي بن المديني سے اور أبو الشيخ کتاب “العظمة” (197) میں روایت کرتے ہیں

طبرانی کتاب المُعْجَمُ الكَبِير میں روایت کرتے ہیں

حدثنا محمَّد بن إسحاق بن راهُوْيَه، ثنا أبي ، أبنا معاذ ابن هشام، حدثني أبي (هشام الدستوائي) عن قَتادة، عن كَثير بن أبي كَثير البصری  ، عن أبي عِياض (عمرو بن الأسود العنسي)  ، عن عبد الله بن عَمرو، قال: إن العَرْشَ لَيُطَوَّق بحَيَّةٍ، وإن الوَحْيَ ليُنَزَّلُ

في السَّلاسِل

 أبي عِياض نے کہا کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے کہا: عرش کے گرد ایک سانپ کنڈلی مارے ہوئے ہے اور  الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے

کتاب السنہ میں ہے

حَدَّثَنِي أَبِي، نا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، بِمَكَّةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ لَمُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَإِنَّ الْوَحْيَ لِيَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ

کتاب العظمة از أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ)  میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ مُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ»

کتاب مختصر العلو  میں البانی کہتے ہیں

قلت: إسناده صحيح، أخرجه أبو الشيخ في “العظمة” “33/ 1-2″ حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود ثم رأيته في السنة” “ص150”: حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.

میں البانی کہتا ہوں اس کی اسناد صحیح ہیں اس کی تخریج ابو شیخ نے کتاب العظمة” “33/ 1-2” حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود میں کی ہے پھر میں نے اس کو دیکھا السنہ میں ص ١٥٠ پر بھی کہ حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.

مجمع الزوائد  (8/135) میں   الهيثمى اس روایت پر کہتے ہیں

رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح غير كثير بن أبي كثير ، وهو ثقة   

اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں سوائے کثیر بن ابی کثیر کے جو ثقہ ہیں

بعض علماء نے غلو میں یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ صحیح بخاری و مسلم کے تمام راوی ثقہ ہیں ان پر جرح مردود ہے – الهيثمى  اسی گروہ کے ہیں جو روایت پر کہہ دیتے ہیں کہ راوی صحیح والے ہیں- اس طرح یہ غلو چلا آ رہا ہے

 أبو الشيخ   العظمة  (4/1298) میں روایت کرتے ہیں

 حدثنا محمد بن أبي زرعة ثنا هشام بن عمار ثنا عبد الله بن يزيد ثنا شعيب بن أبي حمزة عن عبد الأعلى بن أبي عمرة عن عبادة بن نسي عن عبد الرحمن بن غنم عن معاذ بن جبل عن النبي صلى الله عليه وسلم قال :   المجرة التي في السماء عرق الحية التي تحت العرش   .

معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے

الهيثمى   مجمع الزوائد  (8/135)  میں کہتے ہیں

  وفيه عبد الأعلى بن أبي عمرة ولم أعرفه ، وبقية رجاله ثقات

اس میں عبد الأعلى بن أبي عمرة ہے جس کو میں نہیں جانتا اور باقی تمام ثقہ ہیں

امام  العقيلى  کتاب الضعفاء الكبير  (3/60)  میں اس روایت کو بیان کرتے ہیں کہ یمن بھیجتے وقت رسول الله نے معاذ بن جبل کو کہا کہ اہل کتاب سانپ پر سوال کریں تو یہ کہنا سند ہے

  حدثنا حجاج بن عمران ثنا سليمان بن داود الشاذكونى ثنا هشام بن يوسف ثنا أبو بكر بن عبد الله بن أبي سبرة عن عمرو بن أبى عمرو عن الوليد بن أبي الوليد عن عبد الأعلى بن حكيم عن معاذ بن جبل قال : لما بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فذكره مثله .
اس روایت کو امام عقیلی نے غیر محفوظ قرار دیا ہے

کتاب المنار المنیف میں ابن قیم کہتے ہیں

أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ بَاطِلا فِي نَفْسِهِ فَيَدُلُ بُطْلانِهِ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَلامِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  كَحَدِيثِ “الْمَجَرَّةُ الَّتِي فِي السَّمَاءِ مِنْ عِرْقِ الأَفْعَى الَّتِي تَحْتَ العرش

اور بعض احادیث ایسی باطل ہوتی ہیں کہ ان کا بطلان دلیل ہوتا ہے کہ کلام نبوی ہو ہی نہیں سکتا جیسے حدیث کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے

صرف روایت کو رد کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا وقتی دب جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد یہ بات عوام پھر بیان کرنے لگ جاتے ہیں – اس روایت کو تو رد کر دیا گیا کہ کہکشاں کسی سانپ کی رال ہے لیکن یہ قول کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے آج تک علماء مانتے چلے ا رہے ہیں اور اسقول کو موقوف صحابی پر صحیح مانتے ہیں اور چونکہ اصحاب رسول عدول ہیں اس روایت کی اس غیبی خبر کی کوئی اور تاویل نہیں رہتی، سوائے اس کے کہ اس کو قول نبوی قرار دیا جائے

راقم البتہ اس کا سرے سے ہی انکار کرتا ہے کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے ایسا کوئی کلام کیا ہو گا

  عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب اس قول کی سند میں  كَثِير بن أَبي كَثِير البَصْرِيّ   مولى عَبْد الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَة الْقُرَشِيّ ہے- اس راوی پر امام عقیلی نے کلام کیا ہے اور نسائی نے سنن النسائي 6/147 اس کی ایک روایت کو منکر قرار دیا ہے اور بیہقی نے  السنن الكبرى 7/349   میں کہا ہے

وكثير هذا لم يثبت من معرفته ما يوجب قبول روايته

اور یہ کثیر معرفت حدیث میں مظبوط نہیں کہ اس کی روایت کو قبول کیا جائے

یہاں تک کہ ابن حزم نے اس کو مجھول قرار دیا ہے

غیر مقلد عالم البانی اس موقوف قول کو صحیح السند کہتے ہیں اور عبد الله بن عمرو پر الإسرائيليات روایت کرنے کا الزام لگاتے ہیں

کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني  میں البانی کے سوالات پر جوابات کا مجموعہ ہے

السائل: السؤال قد سألتك إياه في التلفون، الذي هو قلت لك حديث: (العرش مطوق بحية، والوحي ينزل بالسلاسل) ذكرت لي أني أرجع أرى هل

هو حديث …. في «مختصر العلو» أنت قلت: حديث عبد الله بن عمرو أو قال حديث عبد الله بن عمر، وعلقت عليه فقلت: وإسناده صحيح عن عبد الله بن عمرو، وقلت: إسناده صحيح، فهل هو في حكم المرفوع إلى رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم –

بهذا الإسناد؟

الشيخ: ما عندي جواب غير ما سمعته، إن كان مصرحاً برفعه فهو كذلك، وإن كان غير مصرح فهو موقوف.

مداخلة: لا ما هو مصرح فهل يعني إذا كان موقوفاً كيف النظر إلى الحديث، هل نقول: أن العرش مطوق بحية؟

الشيخ: لا، ما نقول، وأظن أجبتكم يوم كان الجواب، يعني: لك، هو كان جواباً متكرراً لغيرك؛ أقوال الصحابة إذا صحت عنهم لِتكون في منزلة الأحاديث المرفوعة إلى الرسول عليه السلام يجب أن تكون أولاً: مما لا يقال بالرأي وبالاجتهاد، هذه النقطة بالذات هناك مجال للاختلاف بين العلماء والفقهاء في بعض ما يتفرع من هذا الشرط، وهو أن يكون قول الصحابي أو الحديث الموقوف على الصحابي مما لا يقال بالرأي، ممكن يصير فيه اختلاف، مثلاً: إذا جاء حديثٌ ما فيه النهي عن شيء، هل هذا في حكم المرفوع أم لا، فمن يظن أن النهي عن الشيء لا يمكن أن يكون بالاجتهاد يقول: حكمه حكم المرفوع، ومن يظن مثلي أنا أنه يمكن للصحابي ولمن جاء من بعدهم من الأئمة أن يجتهد وينهى عن شيء ويكون في اجتهاده مخطئاً فيجب إذاً: أن يكون الحديث الموقوف على الصحابي الذي يراد أن نقول: إنه في حكم المرفوع يجب أنه لا يحيط به أي شك في أنه في حكم المرفوع، ومتى يكون ذلك؟ حين لا مجال أن يقال بمجرد الرأي والاجتهاد، هذا الشرط الأول.

والشرط الثاني، أو قبل ما أقول الشرط الثاني: الشرط الأول يعود في الحقيقة إلى أمر غيبي، وهو من معانيه التحريم والتحليل، لكن هذا الأمر الغيبي ينقسم قسمين: قسم يتعلق بالشريعة الإسلامية، وقسم يتعلق بما قبل الشريعة من الشرائع المنسوخة، فلكي يكون الحديث الموقوف في حكم المرفوع ينبغي أن يكون متعلقاً بالشريعة الإسلامية وليس متعلقاً بما قبلها، لماذا؟

هنا بيت القصيد، لأنه يمكن أن يكون من الإسرائيليات، والتاريخ الذي يتعلق بما قبل الرسول عليه السلام … معناه من بدء الخلق إلى ما قبل الرسول عليه السلام وبعثته هو من هذا القبيل.

فإذا جاءنا حديث يتحدث عما في السماوات من عجائب ومخلوقات، وهو لا يمكن أن يقال جزماً بالرأي والاجتهاد فيتبادر إلى الذهن إذاً هذا في حكم المرفوع، لكن لا، ممكن أن يكون هذا من الإسرائيليات التي تلقاها هذا الصحابي من بعض الذين أسلموا من اليهود والنصارى، ولذلك فينبغي أن يكون الحديث الموقوف والذي يراد أن نجعله في حكم المرفوع ما يوحي بأنه ليس له علاقة بالشرائع السابقة.

فهذا الحديث عن عبد الله بن عمرو يمكن أن يكون من الأمور الإسرائيلية التي تتحدث عما في السماء من العجائب، ومن خلق الملائكة، لكن الذي ثابت … الآن عكس ذاك تماماً، يشعر الإنسان فوراً أن هذا لا يمكن أن يكون من الإسرائيليات، فهو إذاً موقوف في حكم المرفوع ولا مناص، ما هو؟

الحديث المعروف والمروي عن ابن عباس بالسند الصحيح، قال رضي الله عنه: نزل القرآن إلى بيت العزة في السماء الدنيا جملة واحدة، ثم نزل أنجماً حسب الحوادث، فهو إذاً: يتحدث عن القرآن وليس عن التوراة والإنجيل، فلو كان حديثه هذا الموقوف عن التوراة والإنجيل ورد الاحتمال السابق، فيقال: لا نستطيع أن نقول هو في حكم المرفوع، لكن ما دام يتعلق بالقرآن وأحكام القرآن وكل ما يتعلق به لا يمكن أن يتحدث عنه بشيء غيبي إلا ويكون الراوي قد تلقاه من الرسول عليه السلام، لأنه كون القرآن نزل جملة هذا غيب من أين يعرف ابن عباس تلقاه من بعض الإسرائيليات هذا مستحيل، ونزل إلى بيت العزة في السماء الدنيا تفصيل دقيق [لا يمكن] للعقل البشري أن يصل إليه، لذلك هذا الحديث يتعامل العلماء معه كما لو كان قد صرح ابن عباس فيه برفعه إلى النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -.

باختصار: إن الأحاديث الموقوفة ليس من السهل أبداً أن يحكم عليها بحكم المرفوع إلا بدراسة دقيقة ودقيقة جداً، وذلك لا يستطيعه إلا كبار أهل العلم.

سؤال: جزاك الله خير يا شيخنا.

الشيخ: وإياك بارك الله فيك.

مداخلة: هذه فائدة فريدة عضوا عليها بالنواجذ والأضراس والثنايا.

الشيخ: جزاك الله خيراً.

“الهدى والنور” (255/ 56: 07: 00).

سائل : یہ سوال ہے جو ٹیلی فون پر اپ سے کیا تھا حدیث جو میں نے اپ سے ذکر تھا  کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے اور الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے اپ نے  ذکر کیا کہ میں پھر سوال کروں تو  کیا یہ حدیث صحیح ہے  جو مختصر العلو میں ہے حدیث عبداللہ بن عمرو جس پر تعلیق میں کہا اس کی اسناد صحیح ہیں اور  ( وہاں اپ نے کہا) میں (البانی) کہتا ہوں  اسناد صحیح ہیں – تو کیا یہ مرفوع قول نبی صلی الله علیہ وسلم کے حکم میں اتا ہے  اس اسناد سے ؟

البانی : میرا جواب اس سے الگ ہے جو اپ نے سنا اگر رفع کی صراحت ہے تو ایسا ہے ورنہ یہ موقوف ہے

مداخلة:  نہیں یہ صراحت نہیں ہے تو اگر یہ موقوف ہے تو   ہم حدیث کو کیسا دیکھیں؟ کیا ہم کہیں کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے؟

البانی : نہیں ، ہم یہ نہیں بول سکتے اور میرا گمان ہے کہ اس روز جو میں نے جواب دیا تھا وہ  اپ کے لئے تھا ،  یہ جواب مکرر ہے دوسروں کے لئے – ایسے اقوال جو اصحاب رسول کے ہوں اور ان کی صحت معلوم ہو تو  ان کا مقام حدیث مرفوع جو نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتی ہو جیسا ہے اگر اول: جو انہوں نے کہا وہ رائے نہ ہو اجتہاد نہ ہو – اس بات پر علماء و فقہاء کا اختلاف  ہوتا ہے کہ اس کے مشتقات میں یہ شرط ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے قول صحابی یا حدیث موقوف ، رائے سے نہ کہی گئی بات ہو – اس امکان کی بنا پر اس میں اختلاف ہوتا ہے  مثلا جب حدیث میں کسی چیز کی  ممانعت کا ذکر ہو ، تو کیا یہ حکم مرفوع ہے یا نہیں ؟ پس جو (علماء) گمان کرتے ہیں کہ یہ نہی ہے وہ اس کو اجتہاد نہیں لیتے اور کہتے ہیں یہ حکم مرفوع حکم ہے اور بعض میرے جیسے (علماء ) یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صحابی کا قول ہو اور جو ان  کا جو کے بعد  ائمہ آئے ہیں کہ وہ اجتہاد کریں کسی چیز سے منع کریں یا اجتہاد میں غلطی کریں ….. پس یہ پہلی شرط ہے – اور شرط اول (کے تحت حدیث) حقیقت سے امر غیبی تک جاتی ہے اور اپنے معنی میں حلال و حرام پر ہو گی – لیکن اس امر غیبی میں دو قسمیں ہیں- ایک کا تعلق شریعت سے ہے اور ایک کا منسوخ شریعتوں سے-  پس میرے نزدیک حدیث موقوف جو ہے وہ حدیث مرفوع کے حکم پر ہے تو اس میں شریعت اسلامی کا ذکر ہونا چاہیے اور اس سے قبل کی باتوں (اہل کتاب کی شریعت) پر نہیں – کیوں ؟ کیونکہ یہ نکتہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو اور اس تاریخ سے متعلق جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے گذری .. اس معنوں میں ہے مخلوق کا شروع ہونا سے لے کر بعثت نبوی تک کا دور- پس جب کوئی حدیث ہو جس میں آسمانوں کے عجائب و مخلوقات کا ذکر ہو اور یہ امکان نہ رہے کہ یہ بات اجتہاد یا رائے کی ہے تو ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ حکم مرفوع میں سے ہے  لیکن نہیں ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جو ان اصحاب رسول نے بیان کیے جو یہود و نصاری میں سے ایمان لائے اس وجہ سے یہ حدیث موقوف ہونی چاہیے اور اس کا تعلق سابقہ شریعت سے  نہیں ہونا چاہیے

پس یہ حدیث جو عبد الله بن عمرو سے ہے ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جس میں آسمان کے عجائبات کا ذکر ہے اور ملائکہ کی تخلیق لیکن جو ثابت ہے … ابھی وہ اس سے مکمل الٹ ہے –  انسان فورا  جان جاتا  ہے  کہ یہ الإسرائيليات میں سے نہیں ہو سکتی- پس حدیث موقوف، مرفوع  کے حکم میں ہو اور قابل رد نہ ہو ، تو پھر کیا ہے ؟

ایک معروف حدیث ابن عباس سے صحیح سند سے ہے اپ رضی الله عنہ نے فرمایا قرآن بیت العزہ سے آسمان دنیا پر ایک بار نازل ہوا پھر حسب حوادث تھوڑا تھوڑا نازل ہوا پس جب یہ قرآن کے بارے میں ہے  التوراة والإنجيل کے بارے میں  نہیں ہے تو یہ حدیث موقوف ہے  التوراة والإنجيل کے لئے اور اس پر وہی احتمال اتا ہے پس کہا جاتا ہے ہم اس کو حکم مرفوع نہیں کہیں گے لیکن جب تک یہ قرآن سے متعلق ہو اور احکام قرآن سے متعلق ہو اس وقت تک … قصہ مختصر احادیث موقوف میں یہ کبھی بھی آسان نہ ہو گا کہ ان پر حکم مرفوع لگایا جائے سوائے ان کی تحقیق دقیق کے اور بہت دقیق تحقیق کے اور اس پر  سوائے کبار علماء کے کوئی قادر نہیں ہیں

اس تمام بحث کے چیدہ نکات ہیں کہ البانی کے نزدیک عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کی حدیث موقوف صحیح ہے –  اپ غور کریں یہ روایت  عرش  کی خبر ہے  اوراس کا سابقہ شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے  – یہ غیبی خبر ہے جس میں رائے کا دخل نہیں ہے لیکن البانی کے گلے میں اٹک گئی ہے کیونکہ وہ اس کو صحیح کہہ چکے تھے اب  یہ بھی نہیں کہتے کہ  لوگ بولیں کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے کیونکہ ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو

اصل میں غیر مقلدین علماء کافی دنوں سے  عبد الله بن  عمرو رضی الله عنہ کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ  الإسرائيليات روایت کرتے تھے ؟ ابن کثیر نے اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر عبد الله بن عمرو کی روایت بیان کی اور مذاق اڑانے والے انداز میں کہا

 لَعَلَّهُ مِنَ الزَّامِلَتَيْنِ اللَّتَيْنِ أَصَابَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَ الْيَرْمُوكِ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَكَانَ يُحَدِّثُ مِنْهُمَا أَشْيَاءَ غَرَائِبَ.

لگتا ہے ان اونٹنیوں والی کتب جو  اہل کتاب میں سے تھیں جو ان کے ہاتھ لگیں یوم یرموک میں  پس اس سے غریب چیزیں روایت کرتے تھے

اس طرح سات بار اس قول کا اعادہ کیا اور افسوس ایک بار بھی سند میں مجہولین اور ضعیف راویوں پر روایت کا بار نہ ڈالا

بھول جانے والے، غلطی کرنے والے  یا اختلاط کا شکار راویوں  کی بنیاد پر ہم یہ مان رہے ہیں کہ اصحاب رسول روایت کرنے میں  اور اجتہاد میں غلطیاں کرتے تھے مثلا حواب کے  کتوں والی روایت جو ایک مختلط قیس بن ابی حازم کی روایت کردہ ہے اس کی بنیاد پر ام المومنین رضی الله عنہا  کی اجتہادی خطا کا ذکر ہوتا رہتا ہے – یعنی ہم یہ مان گئے کہ راوی غلطی نہیں کر سکتا اصحاب رسول کر سکتے ہیں – یہ کہاں کا انصاف ہے

جھمیوں کے رد میں محدثین پر ایک جنوں سوار تھا کہ کسی طرح عرش کو ایک ٹھوس چیز ثابت کریں لہذا وہ جوش میں اس قسم کی روایات جمع کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ یہ روایت امام احمد کے بیٹے کی کتاب السنہ میں بھی ملتی ہے اور عرش سے متعلق محدثین کی کتابوں میں بھی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ الإسرائيليات میں سے ہیں اور اس طرح انہوں نے اپنا مقدمہ خود کمزور کیا اور معتزلہ کو عوامی پذیرائی ملی

  قرآن یقینا محفوظ ہے

الله تعالی کتاب الله میں کہتے ہیں

﴿ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221) تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (222) يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ

کیا ہم تم کو خبر دیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں ؟ نازل ہوتے ہیں ہر گناہ گار جھوٹے پر جو سنتے ہیں اس میں بات ملاتے اور اکثر جھوٹے ہیں

کچھ افاک اثیم اس امت میں ایسے گزرے جو  شوم نصیبی کے چکر  میں ایسے الجھے کہ  کتاب الله کو پڑھتے تھے لیکن دل میں سے سلاخ کی طرح گزرتی تھی – ان کا دل مانتا نہ تھا کہ عرب کے بدوؤں پر رحمت الہی متوجہ ہوئی اور کوئی چیز عرش سے یہاں لق و دق صحرا میں  اتری بھی –  لھذا ان خالی خولوں میں ایک شاطر شیخ (ابلیس)  کا کنڑول ہوا اور نوک قلم  سے ان  بیمار اذہان کا غبار  صفحہ قرطاس پر منتقل ہوا- مدعآ یہ تھا کہ قرآن اصلی حالت میں نہیں لہذا بس روایات دیکھیں اور فرما دیا کہ قرآن بدل گیا لیکن اس میں جو تبدیلی بتائی اس سے نہ معنوں میں کوئی قرق پڑا نہ اس کی حکت بالغہ میں کوئی کمی آئی

قارئین کے لئے ان کے اس قسم کے التباس ذہنی کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں –

اب  یہاں ہم  اختلاف قرات کی روایات پر تبصرہ کریں گے

البراء بن عآزب رضی الله عنہ کی قرات کا اختلاف

 فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ غَيْرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ

بخاری کی روایت ہے

بخاری ٤٩٩٠ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي} [النساء: 95] القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95]، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْعُ لِي زَيْدًا وَلْيَجِئْ بِاللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ وَالكَتِفِ – أَوِ الكَتِفِ وَالدَّوَاةِ -» ثُمَّ قَالَ: ” اكْتُبْ {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ} [النساء: 95] ” وَخَلْفَ ظَهْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَأْمُرُنِي، فَإِنِّي رَجُلٌ ضَرِيرُ البَصَرِ؟ فَنَزَلَتْ مَكَانَهَا: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ} [النساء: 95] {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95] {غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} [النساء: 95]

اسرائیل ، ابی اسحاق سے وہ البراء سے روایت کرتے ہیں کہ جب نازل ہوئی {لاَ يَسْتَوِي} [النساء: 95] القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95]

اس میں اصل آیت سوره النساء کی ہے

 لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ 

لیکن اوپر روایت میں یہ آگے پیچھے ہے- اس سے بعض کو بہانہ ہاتھ آ گیا کہ قرآن میں آیات صحیح طور رقم نہیں ہوئیں

اس کا جواب ہے کہ بخاری ہی کی دوسری روایت میں ہے

بخاری ٢٨٣١ حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ} [النساء: 95] مِنَ المُؤْمِنِينَ ” دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا، فَجَاءَ بِكَتِفٍ فَكَتَبَهَا، وَشَكَا ابْنُ أُمِّ [ص:25] مَكْتُومٍ ضَرَارَتَهُ، فَنَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} [النساء: 95] “

شعبہ ، ابی اسحاق سے وہ البراء سے روایت کرتے ہیں کہ جب نازل ہوئی لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ

یہاں روایت میں آیت اسی طرح ہے جیسی ہم تلاوت کرتے ہیں –اس کا مطلب ہے کہ آیت میں تقدم و تاخیر اصل میں راوی إسرائيل بن يونس بن أبى إسحاق السبيعى سے ہوئی ہے شعبہ کی سند میں نہیں ہے

ابو سعید الخدری، ابو ہریرہ  کی قرات میں الله الواحد الصمد؟

راویان حدیث جب روایت لکھتے تو اس میں بعض اوقات الفاظ اپنی پسند کے بھی لکھ دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اضطراب بھی بعض اوقات ہو جاتا ہے اس بات سے لا علم بعض شیعوں اور انکے ہم نوا ملحدین  نے  مسئلہ اختلاف قرات سے جوڑنے کی کوشش کی

ابو سعید الخدری کی قرات

بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، وَالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ ثُلُثَ القُرْآنِ فِي لَيْلَةٍ؟» فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ وَقَالُوا: أَيُّنَا يُطِيقُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «اللَّهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ ثُلُثُ القُرْآنِ»

الأَعْمَشُ کہتے ہیں ہم سے روایت کیا إِبْرَاهِيمُ اور َالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ نے وہ ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا کیا تم میں سے کسی کو ہمت ہے کہ ہر رات ایک تہائی قرآن کی قرات کر  لے؟ پس یہ صحابہ پر سخت گذرا اور انہوں نے کہا اے رسول الله ہم میں کون ایسا کر سکتا ہے آپ نے فرمایا  الله الواحد الصمد ایک تہائی قرآن ہے

مسند ابو یعلی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي سَمِينَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الضَّحَّاكِ الْمَشْرِقِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ»

الأَعْمَشُ کہتے ہیں ہم سے روایت کیا  َالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ نے وہ ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں ابو سعید الخدری سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہو قل ھو الله احد یہ ایک تہائی قرآن ہے

یعنی ایک ہی سند ہے لیکن الأَعْمَشُ سے اوپر راوی نے اس کو الگ الگ طرح روایت کیا جس کی وجہ سے بعض کو ابہام ہوا کہ آیات کسی اور طرح نازل ہوئی تھیں

واضح رہے کہ الأَعْمَشُ  خود بھی کوفہ کے شیعہ ہیں

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کی قرات میں قل ھو الله احد ہی تھا اس کی مثال موطا امام مالک کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ” أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلا مِنَ اللَّيْلِ يَقْرَأُ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يُرَدِّدُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّ الرَّجُلَ يُقَلِّلُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدَهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ “

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کہتے ہیں انہوں نے ایک شخص کو سنا جو رات کو قرات کرتا قل ھو الله احد …. رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک تہائی قرآن ہے

ان دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ ابو سعید الخدری کی قرات وہی تھی جو آج ہم کرتے ہیں

ابو ہریرہ کی قرات

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَزَالُونَ يَسْأَلُونَ حَتَّى يُقَالُ: هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؟ ” قَالَ: فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: ” فَوَاللَّهِ، إِنِّي لَجَالِسٌ يَوْمًا إِذْ قَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ: هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَجَعَلْتُ أُصْبُعَيَّ فِي أُذُنَيَّ، ثُمَّ صِحْتُ، فَقُلْتُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ …. اہل عراق میں سے ایک شخص آیا اور کہنے لگا یہ الله ہے جس نے ہم کو خلق کیا ہے تو اسکو کس نے خلق کیا ؟ ابو ہریرہ نے کہا ….میں نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سچ کہا الله الواحد الصمد لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

اس کی سند میں عمر بن أبي سلمة بن عبد الرحمن الزهري  ہے جس کو ليس بالقوي قوی نہیں النسائي نے کہا اور ابن معين نے تضعیف کی ہے

اس کے مقابلے پر  موطا کی روایت ہے

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، مَوْلَى آلِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. «فَسَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَجَبَتْ»، فَسَأَلْتُهُ: مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «الْجَنَّةُ»

ابو ہریرہ کہتے ہیں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ایک شخص کو سنا جو قل ھو الله احد قرات کر رہا تھا رسول اللہ نے کہا واجب ہو گئی میں نے کہا کیا؟ فرمایا جنت

مسند ابی یعلی صحیح السند روایت جو ابو ہریرہ سے مروی ہے اس میں بھی قل ھو الله احد ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْشِدُوا فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ»، فَحَشَدُوا فَقَرَأَ عَلَيْنَا {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} [الإخلاص: 1]، حَتَّى خَتَمَهَا، ثُمَّ دَخَلَ فَقَالَ بَعْضُنَا: قَدْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ» وَلَمْ يَقْرَأْ مَا هَذَا إِلَّا لِخَبَرٍ جَاءَهُ مِنَ السَّمَاءِ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا فَقَالَ: «إِنَّهَا ثُلُثُ الْقُرْآنِ»

الغرض قل ھو الله احد کو عام بول چال میں الله الواحد الصمد کہا جا رہا تھا جیسے آج ہم کہتے ہیں قل پڑھنا یا فاتحہ پڑھنا محدثین کے  دور میں چونکہ سورتوں کے نام نہیں تھے لہذا سورت کو چھوٹا کر کے بیان کر دیا جاتا تھا

ابی بن کعب اور عمر کا قرآن پر اختلاف تھا؟

بعض لوگوں نے عمر اور ابی بن کعب رضی الله عنہ کا اختلاف قرات  کے حوالے سے تذکرہ کیا اور اس میں اپنی طرف سے الفاظ بڑھا کر بات کو  اپنے مدعآ میں پیش کیا

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الفَضْلِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: أُبَيٌّ أَقْرَؤُنَا، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ لَحَنِ أُبَيٍّ، وَأُبَيٌّ يَقُولُ: «أَخَذْتُهُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلاَ أَتْرُكُهُ لِشَيْءٍ»، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا} [البقرة: 106]

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں حبیب بن ابی ثابت نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے   ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ   عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، ابی بن کعب ہمارے  قاری ہیں اور بے شک ہم لحن ابی (تلفظ) پر جاتے ہیں اور ابی کہتے ہیں کہ میں نے تو اس قرات کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے لیا  ہے، میں اس میں سے کوئی چیز چھوڑنے والا نہیں اور (جبکہ) اللہ نے خود فرمایا ہے کہ ماننسخ من آیۃ اوننسھا الآیۃ یعنی ہم جب کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں پھر یا تو اسے بھلا دیتے ہیں یا اس سے بہتر لاتے ہیں۔

اس روایت کا غلط ترجمہ آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں

http://www.urdumajlis.net/threads/صحیح-بخاری.26533/page-90

 جس میں ہے کہ

  لیکن ابی جہاں غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں (وہ بعض منسوخ التلاوۃ آیتوں کو بھی پڑھتے ہیں) اور کہتے ہیں

حالانکہ روایت میں یہ الفاظ  ” ابی جہاں غلطی کرتے ہیں ” سرے سے  ہیں ہی نہیں –

عربی لغت مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) کے مطابق الفاظ

لندع من “لحن” أبي، هو الطريق واللغة، وأراد روايته وقراءته

لندع من “لحن” أبي (بن کعب) یہ طریقه ہے اور لغت ہے اور مقصد ہے انکی روایت اور قرات کے مطابق

دوسری روایت ہے

بخاری حدیث ٤٤٨١ حَدَّثَنا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ، وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ قَوْلِ أُبَيٍّ، وَذَاكَ أَنَّ أُبَيًّا يَقُولُ: لاَ أَدَعُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “. وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا}

ابن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں عمر رضی الله عنہ نے کہا ابی بن کعب ہمارے لئے قرات کرتے ہیں اور علی ہمارے قاضی کے فیصلے کرتے ہیں اور ہم بلا شبہ ان ابی بن کعب  کے  قول (لحن)  پر جاتے ہیں  اور یہ ابی بن کعب کہتے ہیں میں کسی چیز کو نہیں چھوڑ سکتا جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو ، جبکہ الله نے کہا ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی یا اسے بھلایا تو پھر اس سے اچھی آیت لائے۔

یعنی باوجود اس کے کہ ابی بن کعب منسوخ قرات بھی کرتے ہیں ہم انہی کی قرات لیتے ہیں اور اسکی دلیل ہے  کہ

عمر رضی الله عنہ نے رمضان میں نماز الترآویح کے لئے  مسلمانوں کو مسجد النبی میں ابی بن کعب رضی الله عنہ  کی قرات پر جمع کیا بخاری ہی کی حدیث ہے فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ان سب پر  ابی بن کعب  کو (امام)  کیا

اس پر مزید یہ کہ عثمان رضی الله عنہ کے دور میں بھی جمع القرآن  کی کمیٹی میں  ابی بن کعب شامل تھے اس کا مطلب ہے کہ وہ منسوخ آیات بھی ہم قرات کرتے ہیں جن کے لئے عمر رضی الله عنہ کی رائے تھی کہ انکو چھوڑ سکتے ہیں

عبد الله ابن  مسعود کا اختلاف

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ خُمَيْرِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أُمِرَ بِالْمَصَاحِفِ أَنْ تُغَيَّرَ قَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَغُلَّ مُصْحَفَهُ فَلْيَغُلَّهُ فَإِنَّ مَنْ غَلَّ شَيْئًا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ ثُمَّ قَالَ قَرَأْتُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ سُورَةً أَفَأَتْرُكُ مَا أَخَذْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

خمير بن مالک کہتے ہيں کہ حکم ہوا کہ مصاحف قرآني کو بدل ديا جائے – ابن مسعود رضي اللہ عنہ نے کہا  تم ميں سے جو شخص اپنا نسخہ چھپا سکتا ہو، چھپالے، کيونکہ جو شخص جو چيز چھپائے گا، قيامت کے دن اس کے ساتھ ہي آئے گا، پھر فرمايا کہ ميں نے نبي (صلي اللہ عليہ وسلم) کے دہن مبارک سے ستر سورتيں پڑھي ہيں ، کيا ميں ان چيزوں کو چھوڑ دوں، جو ميں نے رسول الله (صلي اللہ عليہ وسلم)  سے حاصل کي ہيں

مسند ابو داود طیالسی میں ہے عبد الله ابن مسعود نے یہ بھی کہا

وَإِنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَصَبِيُّ مِنَ الصِّبْيَانِ

اور زید بن ثابت تو بچوں میں ایک بچہ تھا

گویا کہ جمع القران زید بن ثابت نے کیا حالانکہ اس میں ابی بن کعب بھی موجود ہیں

مسند احمد میں ہے ابن مسعود نے کہا

وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ لَهُ ذُؤَابَةٌ فِي الْكُتَّابِ

اور زید بن ثابت اس کے لئے  الکتاب گچھا  ہے

یعنی زید کے پس کا روگ نہیں ہے

ان تمام کی سند میں خمير بن مالك کا تفرد ہے ابن أبي حاتم کی کتاب الجرح والتعديل 3/391، کے مطابق یہ کوفی ہے حمصی نہیں ہے –

اس  خمير بن مالك  نام کے دو راوی ہیں ایک کوفی ہے اور ایک شامی ہے- کوفی سے صرف ابی اسحاق روایت کرتا ہے اور ابن مسعود بھی کوفہ میں تھے دوسرا شامی ہے جس سے صرف عَبد اللهِ بْن عِيسَى  روایت کرتا ہے بعض لوگوں کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس کو شامی سمجھ کر روایت کو صحیح سمجھا- اصلا یہ خمير بن مالك کوفی ہے

اس کی وضاحت کتاب تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از القاضي أَبِي يَعْلَى البغدادي، الحنبلي (المتوفى: 580هـ) میں موجود ہے

خمير بن مالك کوفی مجھول ہے جس کا اتا پتا نہیں کون ہے لہذا روایت ضعیف ہے

مسند احمد میں ہے

حدثنا عفان حدثنا عبد الواحد حدثنا سليمان الأعمش عن شَقِيق بن سَلَمة قال: خطَبَنَا عبدُ الله بن مسعود فقال: لقد أخذتُ من في رسول الله – صلى الله عليه وسلم – بضعاً وسبعين سورة، وزيد بن ثابت غلام له ذؤابتان، يلعبُ مع الغِلْمان

شَقِيق بن سَلَمة کہتے ہیں عبد الله ابن مسعود نے خطبہ دیا بلاشبہ میں نے رسول الله سے ستر کے قریب سوره لیں اور زید بن ثابت تو لڑکا تھا جس کے (سر پر) دو (بالوں کے) لچھے تھے لڑکوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا

یعنی زید بن ثابت کے سر کے بال تک صحیح طرح نہیں نکلے تھے جب ابن مسعود مدینہ میں انکو دیکھتے تھے

 اسکی  سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ  ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر  يحيى القطان نے کلام کیا ہے

وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً

صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم  جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا

زید بن ثابت انصاری رضی الله عنہ ہجرت سے ١٢ سال قبل پیدا ہوے – ابن مسعود رضی الله عنہ حبشہ ہجرت کر گئے اور وہاں سے جنگ بدر سے پہلے  مدینہ پہنچے تو اس وقت تک زید بن ثابت ١٣ یا ١٤ سال کے تھے جو اسلام میں  لڑکوں کی بلوغت  کی  عمر   ہے  ظاہر ١٣ یا ١٤ سال کے لڑکے کے سر پر بالوں کے دو لچھے نہیں ہوتے نہ وہ بچہ سمجھا جاتا ہے

ترمذی ح ٣١٠٤  میں ہے

قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، كَرِهَ لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَسْخَ المَصَاحِفِ … وَاللَّهِ لَقَدْ أَسْلَمْتُ  وَإِنَّهُ لَفِي صُلْبِ رَجُلٍ كَافِرٍ يُرِيدُ زيد بن ثَابت

امام زہری نے کہا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ نے کہا کہ عبد الله ابن مسعود زید بن ثابت سے کراہت کرتے کہ مصاحف مٹا دیے گئے … اور الله کی قسم میں ایمان لایا جب یہ زید تو ایک کافر کے صلب میں تھا

لیکن مصاحف تلف کرنا عثمان رضی الله عنہ خلیفہ وقت کا حکم تھا نہ کہ زید رضی الله عنہ کا- سندا یہ بات منقطع ہے

عبيد الله بن عبد الله بن عتبة کا سماع عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ہے

بخاری حدیث ٥٠٠٠ میں ہے

حدثنا عمر بن حفص،‏‏‏‏ حدثنا أبي،‏‏‏‏ حدثنا الأعمش،‏‏‏‏ حدثنا شقيق بن سلمة،‏‏‏‏ قال خطبنا عبد الله فقال والله لقد أخذت من في رسول الله صلى الله عليه وسلم بضعا وسبعين سورة،‏‏‏‏ والله لقد علم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أني من أعلمهم بكتاب الله وما أنا بخيرهم‏.‏ قال شقيق فجلست في الحلق أسمع ما يقولون فما سمعت رادا يقول غير ذلك‏.

ہم سے عمرو بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے کچھ اوپر ستر سورتیں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر حاصل کی ہیں۔ اللہ کی قسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن مجید کا جاننے والا ہوں حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ شقیق نے بیان کیا کہ پھر میں مجلس میں بیٹھا تاکہ صحابہ کی رائے سن سکوں کہ وہ کیا کہتے ہیں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔

یہ روایت صحیح کی ہے اس میں وہ طنزیہ جملے نہیں جو زید بن ثابت رضی الله عنہ کے لئے راویوں نے نقل کیے ہیں نہ اس میں قرآن کے مصاحف چھپانے کا ذکر ہے

سوره اللیل کی قرات

سوره اللیل میں  وَ الذَّكَرِ وَالْأُنثَىٰ ہے یا  وَ ما خلق الذَّكَرِ وَالْأُنثَىٰ ہے؟

بعض احادیث میں بیان ہوا ہے کہ علقمہ شام گئے وہاں ابو الدرداء رضی الله عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ ابن مسعود کی قرات سناو  پھر کہا سوره و اللیل سناو

كَيْفَ كَانَ يَقْرَأُ: {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] ؟» ، قُلْتُ     وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى

انہوں نے اس طرح پڑھا تو  ابو الدرداء نے کہا واللہ میں نے بھی ایسا ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا تھا

مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ  کی سند سے مسند احمد ،صحیح بخاری ، میں ہے

  الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ کی سند سے مسند احمد ، ترمذی، صحیح بخاری  میں ہے

إس میں إبراهيم بن يزيد النخعي کآ تفرد ہے – إبراهيم بن يزيد النخعي كا سماع محدثين  کے نزدیک اصحاب عبد الله سے ہے لیکن بعض اوقات یہ تدلیس بھی کرتے ہیں جن میں وہ روایات بھی بیان کرتے ہیں جو اصحاب عبد الله سے نہیں سنی ہوتیں

کتاب موسوعة المعلمي اليماني وأثره في علم الحديث المسماة از عبد الرحمن بن يحي المعلمي اليماني کے مطابق

وإبراهيم أيضًا يُدخل بينه وبين أصحاب عبد الله مثل: هُني بن نُويرة، وسهم بن منجاب، وخزامة الطائي، وربما دلّس عنهم

إبراهيم بن يزيد النخعي اپنے اور اصحاب عبد الله کے درمیان راوی  مثلا هُني بن نُويرة، وسهم بن منجاب، وخزامة الطائي  ڈالتے ہیں اور یہ تدلیس بھی کرتے تھے

کتاب خلاصة تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال از أحمد بن عبد الله بن أبي الخير بن عبد العليم الخزرجي الأنصاري الساعدي اليمني، صفي الدين (المتوفى: بعد 923هـ) کے مطابق

إِبْرَاهِيم بن يزِيد بن قيس بن الْأسود النَّخعِيّ أَبُو عمرَان الْكُوفِي الْفَقِيه يُرْسل كثيرا عَن عَلْقَمَة

راقم کے خیال میں شیخین سے یہاں تسامح ہوا اور یہ روایت صحیحین میں لکھ دی جبکہ یہ منقطع تھی

یہ بات داود بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ کی سند سے مسند احمد، صحیح مسلم  میں ہے

أبو بكر ابن الأنباري (تفسیر قرطبی) أبو بكر ابن العربي (أحكام القرآن)، أبو حيان (البحر)  میں اس قرات کو شاذ کہا گیا ہے

اس روایت پر سوال اٹھتا ہے کہ

هشام بن عمار اور ابن ذکوان کی سند سے جو قرات ملی ہے جس کی سند ابو الدرداء تک جاتی ہے نہ اس میں یہ قرات ہے نہ ابن مسعود کی کسی قرات میں یہ ہے تو یہ بات کیسے ثابت کہی جا سکتی ہے

https://audio.islamweb.net/audio/index.php?page=souraview&qid=776&rid=26

https://audio.islamweb.net/audio/index.php?page=audioinfo&audioid=91047

اہل تشیع کی رائے

  تفسير نور الثقلين – الشيخ الحويزي – ج 5 – ص 589کے مطابق

في جوامع الجامع وفي قراءة النبي صلى الله عليه وآله وعلي عليه السلام وابن عباس ” والذكر والأنثى ” . 7 – في مجمع البيان في الشواذ قراءة النبي صلى الله عليه وآله وقراءة علي بن أبي طالب عليه السلام ” والنهار إذا تجلى وخلق الذكر والأنثى ” بغير ” ما ” روى ذلك عن أبي عبد الله عليه السلام . 8 – في كتاب المناقب لابن شهرآشوب الباقر عليه السلام في قوله : ” وما خلق الذكر والأنثى ” فالذكر أمير المؤمنين والأنثى فاطمة عليهما السلام ان سعيكم لشتى لمختلف فأما من اعطى واتقى وصدق بالحسنى بقوته وصام حتى وفى بنذره وتصدق بخاتمه وهو راكع ، وآثر المقداد بالدينار على نفسه ، قال : ” وصدق بالحسنى ” وهي الجنة والثواب من الله بنفسه فسنيسره لذلك بأن جعله إماما في القبر وقدوة بالأئمة يسره الله لليسرى .

اور جوامع الجامع  میں ہے اور نبی صلی الله علیہ و الہ اور علی علیہ السلام اور ابن عباس کی قرات میں ہے والذكر والأنثى – اور مجمع البيان في الشواذ قراءة النبي صلى الله عليه وآله وقراءة علي بن أبي طالب عليه السلام میں ہے والنهار إذا تجلى وخلق الذكر والأنثى ، لفظ ما کے بغیر یہ امام ابی عبد الله سے روایت کیا گیا ہے اور کتاب المناقب لابن شهرآشوب میں امام باقر کا قول ہے وما خلق الذكر والأنثى پس اس میں الذکر (مرد) امیر المومنین  ہیں اور  والأنثى  فاطمہ عليهما السلام ہیں  

یعنی اہل تشیع کی روایات کے مطابق قرات میں وخلق الذكر والأنثى تھا دوسری روایت کے مطابق والذكر والأنثى  تھا اور تیسری کے مطابق وما خلق الذكر والأنثى  تھا

صحابہ کی تشریحات

دور صحابہ میں تفسیر کی کتب اور مصاحف الگ الگ نہیں تھے بلکہ تشریحی و تفسیری آراء کو مصحف میں ہی لکھا جا رہا تھا اور اس میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے – اسی طرح کی کچھ روایات ہیں جن سے بعض کو اشتباہ ہوا کہ گویا یہ اضافی تشریحی الفاظ قرات کا حصہ ہیں مثلا

في مواسم الحج

صحيح بخاري ميں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ” كَانَتْ عُكَاظٌ، وَمَجَنَّةُ، وَذُو المَجَازِ، أَسْوَاقًا فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الإِسْلاَمُ، فَكَأَنَّهُمْ تَأَثَّمُوا فِيهِ، فَنَزَلَتْ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ} [البقرة: 198] فِي مَوَاسِمِ الحَجِّ ” قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ

ابن عباس رضی الله عنہ نے قرآن کی آیت لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ پڑھی تو اس کے بعد فی مواسم الحج بھی پڑھا

سنن ابو داود میں راوی عُبيد بن عُمَيرٍ  کہتا ہے یہ قرات تھی –

 قال: فحدَّثني عُبيد بن عُمَيرٍ أنه كان يقرؤها في المصحف

عُبيد بن عُمَيرٍ نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس اس کو مصحف میں قرات کرتے تھے

  شعَيب الأرنؤوط  سنن ابو داود کی روایت کے الفاظ  پر تعلیق میں  لکھتے ہیں

وهذا إسناد ضعيف. عبيد بن عمير: هو مولى ابن عباس فيما قاله أحمد بن صالح المصري الحافظ، وأيده المزي في ترجمة عبيد بن عمير مولى ابن عباس من “تهذيب الكمال” 19/ 226 – 227، لأن ابن أبي ذئب – وهو محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة العامري – يقول في آخر الحديث: “فحدثني عبيد بن عمير”، ولم يدرك ابن أبي ذئب عبيدَ بن عمير الليثي الثقة. وعبيد بن عمير مولى ابن عباس مجهول

اس کی اسناد ضعیف ہیں عبيد بن عمير … مجھول ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

عبيد بن عمير [د] .  عن ابن عباس.  لا يعرف.  تفرد عنه ابن أبي ذئب

عبيد بن عمير ، ابن عباس سے روایت کرتا ہے میں نہیں جانتا اس سے روایت کرنے میں ابن أبي ذئب کا تفرد ہے

کتاب   تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از القاضي أَبِي يَعْلَى البغدادي (المتوفى: 580هـ) کہتے ہیں

قال عبد الله بن سليمان: ليس هذا عبيد بن عمير الليثي، هذا عبيد بن عمير مولى أم الفضل، ويقال: مولى ابن عباس

عبد الله بن سلیمان نے کہا یہ عبيد بن عمير الليثي نہیں ہے یہ عبيد بن عمير أم الفضل اور کہا جاتا ہے  مولى ابن عباس ہے

وَرَاءَهُمْ یا أَمَامَهُمْ

اسی طرح کے تشریحی الفاظ سوره الکھف کے لئے بھی ہیں

{وَكَانَ وَرَاءَهُمْ} [الكهف: 79] وَكَانَ أَمَامَهُمْ – قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ: أَمَامَهُمْ مَلِكٌ

اور ان کے پیچھے – اور انکے آگے اس کو قرات  کیا ابن عباس نے

وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا

اور ان کے پیچھے بادشاہ تھا جو ہر سفینہ کو غصب کر لیتا

راوی کو اشتباہ ہوا یہ قرات ہے جبکہ یہ شرح ہے – موسی و خضر کشتی میں تھے کشتی آگے جا رہی تھی لیکن الفاظ ہیں وَرَاءَهُمْ  یعنی ان کے پیچھے-  وَرَاءَهُمْ   قریش کی عربی ہے  جس میں قرآن نازل ہوا

مثلا قرآن میں ہے

مِّن وَرَآئِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَى مِن مَّآءٍ صَدِيدٍ

 الأخفش کتاب معانى القرآن ل میں لکھتے ہیں

وقال {مِّن وَرَآئِهِ} اي: من أمامه.

اور ان کے پیچھے جہنم  ہے … اور کہا مِّن وَرَآئِهِ یعنی ان کے آگے

یعنی قریش کی زبان میں وَرَاءَهُمْ    کا مفھوم أَمَامَهُمْ تھا

الصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ

یہی معاملہ

238. حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی اور الله کے لیے ادب سے کھڑے رہا کرو

میں بھی ہے کہ ام المومنین رضی الله عنہا نے اس میں تشریحی اضافہ کیا کیونکہ تفسیر الگ نہیں تھیں اور مصحف لوگوں کا ذاتی نسخہ ہوتا تھا عام پڑھنے کے لئے نہیں تھا

769- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ لَحْن الْقُرْآنِ: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، وَ (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3) ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي، هَذَا عَمَلُ الكُتَّاب، أخطأوا في الكِتَاب (4)

عربی کی غلطیاں؟

عروہ کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی الله عنہا  سے ان آیات کے بارے میں پوچھا

{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، اوَر (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3)

تو انہوں نے جواب دیا اے میری بہن کے بیٹے! یہی تو کاتبین کرتے ہیں کہ لکھتے ہوئے خطا کر دیتے ہیں

راقم کہتا ہے یہ روایت صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ عربی صحیح ہے تو اس پر کوئی اعتراض کیسا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ آخری عمر میں عراق گئے اور وہاں ان پر بعض محدثین کے مطابق اختلاط کا اثر تھا

شیعہ عالم کتاب مراجعات قرآنية أسئلة شبهات.. وردود تأليف السيد رياض الحكيم کہتے ہیں
س 504 ـ لماذا لم ينصب اسم (إِنْ) فيقول: إنّ هذين لساحران، وليس: ((إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ))؟
ج ـ أولاً: ان هذا ليس غلطاً، بل قد يكون جرياً على لغة (كنانة) الذين يثبتون ألف المثنى في كل الأحوال فيقولون إنّ الرجلان نائمان قال بعض شعرائهم:

السيد رياض الحكيم نے اس بات کو رد کیا کہ اس آیت میں عربی کی کوئی غلطی ہے

شیعہ عالم علي الكوراني کتاب تدوين القرآن میں اسی روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں
ما وردت روايات اخرى تدعي ان الكتاب عندما جمعوا القرآن اشتبهوا في الكتابة ودخلت اغلاطهم في نسخة القرآن عروة , عن ابيه قال : سالت عائشة رضي اللّه عنها عن لحن القرآن ان هذان لساحران وقوله ان الذين آمنوا والذين هادوا والصابئون والنصارى والمقيمين الصلاة والمؤتون الزكاة واشباه ذلك ؟ فقالت : اي بني ان الكتاب يخطئون ) وهي روايات مرفوضة
یہ روایات مسترد شدہ ہیں

یعنی یہ روایت اہل تشیع کے علماء خود قبول نہیں کرتے

الحمد للہ اہل تشیع خود کہتے ہیں کہ وہ قرآن کو کامل مانتے ہیں لیکن ان کےبعض جہلاء ابھی تک ٥٠٠ ہجری میں زندہ ہیں

بلاگ طویل ہوا لیکن سرے  دست یہ کافی ہے

الله ہم سب کو  کتاب الله پر ایمان پر قائم رکھے

 

عمرو بن العاص کی وصیت ٢

مصر میں بعض عمل جنازہ کے بعد کیے جاتے تھے جو حجاز میں اہل اسلام سے نہیں ملے تھے اس کا ذکر امام الشافعی نے کیا  – کتاب الام میں امام الشافعی لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ قَالَ (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَقَدْ بَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ مَنْ مَضَى أَنَّهُ أَمَرَ أَنْ يُقْعَدَ عِنْدَ قَبْرِهِ إذَا دُفِنَ بِقَدْرِ مَا تُجْزَرُ جَزُورٌ (قَالَ) : وَهَذَا أَحْسَنُ، وَلَمْ أَرَ النَّاسَ عِنْدَنَا يَصْنَعُونَهُ 

الرَّبِيعُ نے خبر دی کہ امام الشافعی نے کہا مجھ تک پہنچا کہ جو لوگ گزرے ہیں ان میں سے بعض اس کا حکم کرتے تھے کہ  تدفین کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر بیٹھا جائے کہ اس میں اونٹ ذبح ہو جائے امام الشافعی نے کہا یہ احسن ہے اور ہمارے پاس جو لوگ ہیں ہم نے نہیں دیکھا کہ  لوگ ایسا کرتے ہوں

عصر حاضر کے وہابی علماء اور ہمارے نزدیک یہ عمل بدعت ہے اور حق کا تقاضہ ہے کہ کوئی امام کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کی تقلید نہ کی جائے –  یہ عمل مصریوں کی ایک بدعت تھا اور اس کو سند جواز بھی انہوں نے ہی دیا لہذا مصریوں نے روایت بیان کی کہ اس قسم کی وصیت صحابی رسول عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے کی

صحیح مسلم کی روایت ہے جس کا ترجمہ ابو جابر دامانوی نے کتاب عذاب قبر میں پیش کیا ہے

http://forum.mohaddis.com/threads/عذاب-قبر.25558/page-4

جناب ابن شماسہ المہری ؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب عمرو بن العاص ؓ کے پاس اس وقت گئے جب کہ ان کی وفات کا وقت قریب تھا وہ بہت دیر تک روتے رہے او ردیوار کی طرف منہ پھیر لیا۔بیٹے نے کہا ابا جان کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں بشارت نہیں دی؟ پھر آپ اس قدر کیوں روتے ہیں ؟ تب انہوں نے اپنا منہ ہمارے طرف کیا اور فرمایا ہمارے لئے بہترین توشہ تو اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں (پھر فرمایا) میں تین ادوار سے گزرا ہوں۔ایک دور تو وہ تھا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی سے بغض نہ تھا اور کوئی چیز میری نظر میں اتنی محبوب نہ تھی جتنی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قدرت حاصل ہو جائے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالوں (معاذ اللہ)پھر دوسرا دور وہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کا خیال میرے دل میں پیدا کیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہاتھ پھیلائیے تا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا تو میں نے اپناہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا میں شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ شرط یہ ہے کہ میرے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں۔ فرمایا عمروؓ کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام تمام سابقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت تمام پہلے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے اور حج تمام گناہوںکو مٹا دیتا ہے (چنانچہ میں نے بیعت کر لی) اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھے کسی سے محبت نہ تھی اور نہ میری آنکھوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی صاحب جلال تھا۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و جلال کے باعث آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکتا تھا اور چونکہ پورے طور پر چہرہ مبارک نہ دیکھ سکتا تھا اس لئے مجھ سے ان کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں بیان نہیں کر سکتا۔ اگر میں اسی حالت میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا۔اس کے بعد ہم بہت سی باتوں کے ذمہ دار بنائے گئے۔ معلوم نہیں میرا ان میں کیا حال رہے گا۔جب میں مر جائوں تو کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ جائے اور نہ آگ ساتھ لے جائی جائے اور جب مجھے دفن کرنا تو اچھی طرح مٹی ڈال دینا پھر میری قبر کے چاروں طرف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے تا کہ میں تم سے انس حاصل کر سکوں اور دیکھوں کہ اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( صحیح مسلم جلد ۱ص۷۶ مسند احمد جلد ۴ ص۱۹۹)

عصر حاضر کے ایک مشھور و معروف  وہابی عالم شیخ   محمد بن صالح العثيمين اپنے فتوی میں کہتے ہیں جو  مجموعة أسئلة تهم الأسرة المسلمة  ج ٢١٩ ص ٣٥ میں چھپا ہے کہ

هذا أوصى به عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه ـ فقال: «أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها»، لكن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرشد إليه الأمة، ولم يفعله الصحابة ـ رضي الله عنهم ـ فيما نعلم

 یہ عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه نے وصیت کی پس کہا میری قبر کے اطراف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے .. لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہ ہی اسکی نصیحت امت کو کی، نہ صحابہ رضی الله تعالی عنہم نے ایسا کیا  جیسا ہمیں پتا ہے

کتاب  شرح رياض الصالحين  میں وہابی عالم  محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)   مزید وضاحت کرتے ہیں

 أما ما ذكره رحمه الله عن عمرو بن العاص رضي الله عنه أنه أمر أهله أن يقيموا عنده إذا دفنوه قدر ما تنحر جزور قال لعلي أستأنس بكم وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي يعني الملائكة فهذا اجتهاد منه رضي الله عنه لكنه اجتهاد لا نوافقه عليه لأن هدي النبي صلى الله عليه وسلم أكمل من هدي غيره ولم يكن النبي صلى الله عليه وسلم يقف أو يجلس عند القبر بعد الدفن قدر ما تنحر الجزور ويقسم لحمها ولم يأمر أصحابه بذلك 

اور جہاں تک وہ ہے جو امام نووی .. نے عمرو بن العاص رضی الله عنہ کے لئے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اہل کو حکم کیا کہ وہ دفنانے کے بعد قبر کے گرد کھڑے ہوں اور اونٹ کو ذبح کرنے کی مدت کھڑے ہوں اور کہا کہ ہو سکتا ہے کہ میں مانوس ہو جائیں اور دیکھوں کہ کیا جواب دوں اپنے رب کے فرشتوں کو پس یہ ان کا اجتہاد تھا رضی الله عنہ لیکن یہ اجتہاد اس پر نہیں ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت اکمل ہدایت ہے کسی غیر سے اور نبی صلی الله علیہ وسلم تو نہ قبر پر رکے نہ بیٹھے قبر میں دفنانے کے بعد اونٹ نحر کرنے اور گوشت باٹنے کی مدت اور نہ اس کا حکم اصحاب رسول کو کیا اس کام کے لئے 

اسی طرح فتاوى نور على الدرب میں عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ)   کہتے ہیں

 أما كونهم يجلسون قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها فهذا من اجتهاد عمرو وليس عليه دليل

ان کے لئے قبر کے گرد اس قدر پیٹھنا کہ اس میں اونٹ نحر ہو اور اس کا گوشت تقسیم ہو تو یہ عمرو کا اجتہاد ہے اس اس پر کوئی دلیل نہیں 

وہ علماء جنہوں نے عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے منسوب  اس وصیت کے آخری الفاظ پر جرح کی ہے ان کے متعلق ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں کہ یہ روافض جیسے ہیں

http://forum.mohaddis.com/threads/عذاب-قبر.25558/page-4

شیعہ (روافض) توویسے ہی عمرو بن العاصؓ سے خا ر کھائے بیٹھے ہیں اوروہ ان سے سخت بغض و عداوت رکھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ موصوف نے بھی روپ بدل کر اور تقیہ کالباس اوڑھ کر یہ سلسلہ شروع کر دیا ہو اور عمرو ؓ دشمنی کو توحید کا نام دے دیا ہو

مزید کہتے ہیں

عمرو بن العاص ؓ نے جو کچھ فرمایا اس کا ایک ایک لفظ احادیث سے ثابت ہے

دامانوی وہ الفاظ جو نزاع کا باعث ہیں ان کو چھوڑ کر ان روایات کو پیش کرتے ہیں جن پر ہمیں اور وہابی علماء کو  اعتراض نہیں بلکہ روایت کے آخری حصہ کو وہابی علماء بدعت قرار دیا ہے  – لیکن ابو جابر کہتے ہیں

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمرو بن العاصؓ کی وصیت بالکل صحیح تھی۔

دامانوی مزید کہتے ہیں

اگر عمرو بن العاصؓ نے سکرات موت میں غلط وصیت کی تھی تو ان کے صاحبزادے جناب عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ (جو خود ایک جلیل القدر اور عابد و زاہد صحابی ؓ ہیں ) کو ضرور اس غلط بات کی تردید کرنا چاہئے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا

افسوس اس جھل صریح پر کیا لب کشائی کریں ضروری نہیں کہ روایات میں ہر چیز ہو – کیا ان کے بیٹوں نے اس پر عمل کیا؟ اس کی روایت ہے کسی کے پاس ؟

اس روایت کو کتاب الزهد والرقائق لابن المبارك ، مسند امام احمد، مستدرک الحاکم  میں بیان کیا گیا ہے بعض میں متن ہے

 وَلَا تَجْعَلَنَّ فِي قَبْرِي خَشَبَةً وَلَا حَجَرًا، فَإِذَا وَارَيْتُمُونِي فَاقْعُدُوا عِنْدِي قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِيعِهَا، أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ

سند ہے

أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ، وَأَبُو بَكْرٍ الْوَرَّاقُ قَالَا: أَخْبَرَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ،

یہاں سند میں ابْنُ لَهِيعَةَ سخت ضعیف ہے اور یہ روایت عبادلہ  سے نہیں ہے یہ بھی مصری ہیں اور يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ اور عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ بھی مصری ہیں

 ابن سعد 4/258-259، ومسلم (121) (192) ، وابن أبي عاصم في “الآحاد والمثاني” (801) ، وابن خزيمة (2515) ، وأبو عوانة 1/70، وابن منده في “الإيمان” (270) ، والبيهقي 9/98، وابن عساكر 3/ورقة 534 من طريق حيوة بن شريح، عن يزيد بن أبي حبیب

امام مسلم نے اس کی سند دی ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ، وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، كُلُّهُمْ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ يَعْنِي أَبَا عَاصِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ

اس میں ابو عاصم النبیل  سے لے کر ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ تک سب مصری ہیں اس میں ابو عاصم النبیل خود امام احمد کے نزدیک یثبج الحدیث (یعنی حدیث کو مضطرب کرنے والا) ہے

یہ اس روایت کی علت ہے کہ اس کو اہل مصر روایت کرتے ہیں تدفین کے بعد اس عمل کا کوئی اور شہر ذکر نہیں کرتا جبکہ اونٹ سب جگہ ہیں- نہ اس پر کوئی اور صحابی عمل کرتا ہے لہذا اس منفرد عمل پر شک ہوتا ہے کہ ایسا مصریوں نے کیوں روایت کیا کہ چار چار گھنٹے تک قبر کے گرد ہی بیٹھا جائے

اب  اس روایت میں الفاظ پر غور کرتے ہیں اور اردو ترجمے  دیکھتے ہیں

دیوبندی غلام رسول سعیدی کا ترجمہ اور شرح

اہل حدیث وحید الزمان کا ترجمہ

اہل حدیث خواجہ محمد قاسم کا ترجمہ

اہل حدیث صادق سیالکوٹی کا ترجمہ

آج کل اہل حدیث کہتے ہیں مردہ صرف جوتوں کی چاپ سنتا ہے جبکہ پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ مردہ اذکار و استغفار سنتا ہے

اہل حدیث ابو سعید سلفی کا ترجمہ

قارئیں اپ ان ترجموں کا تضاد دیکھ سکتے ہیں

الفاظ

وخشت سے بچ جاؤں

تنہائی میں گھبرا جاؤں

سرے سے متن میں ہیں ہی نہیں

اس روایت سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مردہ اتنا پاور فل ہوتا ہے قبر کے باہر لوگوں سے انس حاصل کر سکتا ہے اور ان کو دیکھ کر جواب بھی دیتا ہے؟ یقینا یہ روایت صحیح نقل نہیں ہوئی

مسند احمد میں ہے فَاقْعُدُوا عِنْدِي قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِيعِهَا، أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ کہ میری قبر یا میرے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ جانا اس قدر تک کہ اس میں اونٹ ذبح ہو اور  کٹے اور بٹے یہاں تک کہ میں انسیت حاصل کروں

اونٹ ذبح ہو اور  کٹے اور بٹے اس میں تین چار گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے گویا فرشتوں کے  مختصر سوالات

تمہارا رب کون ہے؟

تمہاری اس شخص (نبی صلی الله علیہ وسلم) پر کیا رائے ہے ؟

پر بیرونی دنیا سے اہل قبور کا انسیت حاصل کرنا فائدہ مند نہیں ہو سکتا جبکہ الله تو سریع الحساب ہے

عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے الفاظ کا ترجمہ کیا جاتا ہے

حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ))یعنی میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا تاکہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو اور میں فرشتوں کو صحیح جواب دے سکوں ۔۔

حالانکہ أستأنس  کا یہ ترجمہ صحیح نہیں أستأنس کا مطلب مانوس ہونا ہی  ہے  أستأنس کا ترجمہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو کرنا غلط ہے

بخاری کی عبدللہ بن سلام سے متعلق حدیث ہے

 قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فِي نَاسٍ، فِيهِمْ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فِي وَجْهِهِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزُ فِيهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ فَاتَّبَعْتُهُ، فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، وَدَخَلْتُ، فَتَحَدَّثْنَا، فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ قُلْتُ لَهُ

قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں لوگوں کے ساتھ تھا بعض ان میں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم بھی تھے پس ایک شخص آیا جس کے چہرے پر خشوع تھا لوگوں نے کہا یہ اہل جنت میں سے ہے …. (اس کے بعد قیس عبدللہ بن سلام سے ملے) حتی کہ وہ (أستأنس)  مانوس ہوئے

صحیح رائے یہی ہے کہ عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وصیت کی روایت شاذ ہے اس میں اہل مصر کا تفرد ہے اور اس کا متن  نصوص سے متصادم ہے

طبقات ابن سعد اور سیر الاعلام النبلاء  میں عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وفات کا ذکر موجود ہے

إِسْرَائِيْلُ: عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ المُخْتَارِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بنِ قُرَّةَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَرْبٍ بنُ أَبِي الأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْرٍو:
أَنَّ أَبَاهُ أَوْصَاهُ: إِذَا مِتُّ، فَاغْسِلْنِي غَسْلَةً بِالمَاءِ، ثُمَّ جَفِّفْنِي فِي ثَوْبٍ، ثُمَّ اغْسِلْنِي الثَّانِيَةَ بِمَاءٍ قَرَاحٍ، ثُمَّ جَفِّفْنِي، ثُمَّ اغْسِلْنِي الثَّالِثَةَ بِمَاءٍ فِيْهِ كَافُوْرٌ، ثُمَّ جَفِّفْنِي، وَأَلْبِسْنِي الثِّيَابَ، وَزِرَّ عَلَيَّ، فَإِنِّي مُخَاصَمٌ.
ثُمَّ إِذَا أَنْتَ حَمَلْتَنِي عَلَى السَّرِيْرِ، فَامْشِ بِي مَشْياً بَيْنَ المِشْيَتَيْنِ، وَكُنْ خَلْفَ الجَنَازَةِ، فَإِنَّ مُقَدَّمَهَا لِلْمَلاَئِكَةِ، وَخَلْفَهَا لِبَنِي آدَمَ، فَإِذَا أَنْتَ وَضَعْتَنِي فِي القَبْرِ، فَسُنَّ عَلَيَّ التُّرَابَ سَنّاً.
ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ أَمَرْتَنَا فَأَضَعْنَا، وَنَهَيْتَنَا فَرَكِبْنَا، فَلاَ بَرِيْءٌ فَأَعْتَذِرَ، وَلاَعَزِيْزٌ فَأَنْتَصِرَ، وَلَكِنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ.
وَمَا زَالَ يَقُوْلُهَا حَتَّى مَاتَ

 شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں اس کی  سند قوی ہے

 إسناده قوي، وهو في ” طبقات ابن سعد ” 4 / 260، و” ابن عساكر ” 13 / 269 / آ.

عبد الله بن عمرو کہتے ہیں میرے باپ نے وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے پانی سے غسل دینا پھر .. پھر جب مجھ کو کھاٹ پر لے کر چلو … میرے جنازے کے پیچھے رہنا اس اس اگلا فرشتوں کے لئے ہے اور پچھلا بنی آدم کے لئے ہے پس جب قبر میں رکھو تو مجھ پر مٹی ڈالنا پھر کہا اے الله تو نے حکم کیا ہم کمزور ہوئے تو نے منع کیا ہم اس کی طرف گئے میں بے قصور نہیں کہ معذرت کر سکوں میں طاقت والا نہیں کہ نصرت والا ہوں لیکن اے الله تیرے سوا کوئی اله نہیں ہے اور وہ یہ کہتے رہے یہاں تک کہ مر گئے

اس روایت میں وہ اختلافی و بدعتی  الفاظ سرے سے نہیں جو صحیح مسلم کی روایت میں ہیں

تفصیل کے لئے دیکھئے

⇓ عمرو بن العاص کی وصیت  کو وہابی عالم  ابن العثيمين  نے بدعت کہا ہے ایسا کیوں؟

حیات بعد الموت

إن أمتي لا تجتمع على ضلالة؟

ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

إن أمتي لا تجتمع على ضلالة

میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی

 اس روایت کو امام بخاری رد کرتے ہیں ترمذی میں ہے کہ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کا راوی  سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هَذَا مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، منکر الحدیث ہے

 اس روایت کو  امام عقیلی  ضعفا الکبیر میں يَحْيَى بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْمَكْفُوفُ صَاحِبُ بُهَيَّةَ سے روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام ابن معین کہتے ہیں کوئی شئے نہیں

مستدرک الحاکم کی روایت ہے کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی

حَدَّثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ السَّكَنِ الْوَاسِطِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا مُبَارَكٌ أَبُو سُحَيْمٍ، مَوْلَى عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَأَلَ رَبَّهُ أَرْبَعًا: «سَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَمُوتَ جُوعًا فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَجْتَمِعُوا عَلَى ضَلَالَةٍ فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَرْتَدُّوا كُفَّارًا فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَغْلِبَهُمْ عَدُوٌّ لَهُمْ فَيَسْتَبِيحَ بَأْسَهُمْ فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَكُونَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَلَمْ يُعْطَ ذَلِكَ» . «أَمَّا مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا يَمْشِي فِي مِثْلِ هَذَا الْكِتَابِ، لَكِنِّي ذَكَرْتُهُ اضْطِرَارًا. الْحَدِيثُ الثَّالِثُ فِي حُجَّةِ الْعُلَمَاءِ بِأَنَّ الْإِجْمَاعَ حُجَّةٌ»

انس بن مالک رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب سے چار چیزیں طلب کیں انہوں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میں بھوکا نہ وفات پاؤں پس عطا کیا گیا اور رب سے سوال کیا کہ کہ یہ (امت) گمراہی پر جمع نہ ہو پس یہ عطا کیا گیا اور انہوں نے سوال کیا کہ ان پر دشمن غالب نہ آئے … پس یہ عطا کیا گیا   اور یہ دعا کی کہ ان میں تیر نہ چلیں پس یہ عطا نہیں کیا گیا

امام حاکم لکھتے ہیں اس کتاب میں مُبَارَكُ بْنُ  سُحَيْمٍ کا ذکر نہیں چلنا چاہئے لیکن اضطرارا اس کا ذکر کیا  جو علماء کےلئے حجت ہے کہ اجماع حجت ہے.

افسوس امت پر یہ وقت آ گیا کہ گھٹیا سے گھٹیا راوی پیش کیا گیا  اس کی سند میں مُبَارَكُ بْنُ  سُحَيْمٍ ہے جو متروک ہے آخر امام الحاکم کو ایسی روایات لکھتے کی کیا ضرورت پیش ا گئی کہ ردی کی نذر کی جانے والی روایات ان کو اپنے مدّعا میں پیش کرنی پڑھ رہی ہیں

 مستدرک کی دوسری روایت ہے

مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ

جو جماعت سے علیحدہ ہوا بالشت برابر پس نے اسلام کو گلے میں سے نکال دیا

امام الحاکم اس کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں

خَالِدُ بْنُ وُهْبَانَ لَمْ يُجْرَحُ فِي رِوَايَاتِهِ وَهُوَ تَابِعِيٌّ مَعْرُوفٌ

خَالِدُ بْنُ وُهْبَانَ کسی نے ان پر ان کی روایات کی وجہ سے جرح نہیں کی اور وہ معروف تَابِعِيٌّ ہیں

الذہبی میزان میں  ان معروف تَابِعِيٌّ کو لکھتے ہیں

خالد بن وهبان [د] . عن أبي ذر مجهول.

مستدرک کی تیسری روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ بَالَوَيْهِ، ثنا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ وَكَانَ يُسَمَّى قُرَيْشَ الْيَمَنِ وَكَانَ مِنَ الْعَابِدِينَ الْمُجْتَهِدِينَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ» . قَالَ الْحَاكِمُ: «فَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ الْعَدَنِيُّ هَذَا قَدْ عَدَّلَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ إِمَامُ أَهْلِ الْيَمَنِ وَتَعْدِيلُهُ حُجَّةٌ

ابن عباس رضی اللّہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرےگا کبھی بھی اور الله کا ہاتھ جماعت پر ہے  امام حاکم نے کہا پس ابراہیم بن میمون عدنی ہے اس کی تعدیل عبد الرزاق نے کی ہے اور تعریف کی ہے اور عبد الرزاق اہل یمن کے امام ہیں اور ان کی تعدیل حجت ہے 

اس کی سند میں إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ ہے جس کے متعلق عبد الرزاق کی تعدیل ہے لیکن

قال الميموني: قال أبو عبد الله: إبراهيم بن ميمون، لا نعرفه.

 الميموني کہتے ہیں میں نے  أبو عبد الله (احمد) سے پوچھا: إبراهيم بن ميمون، (کہا) نہیں جانتا

ابن ابی حاتم کہتے ہیں ان کے باپ نے کہا لا يحتج به نا قابل احتجاج

طبرانی معجم الکبیر کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مَرْزُوقٍ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»

ابن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی کبھی بھی پس تمہارے لئے جماعت ہے کیونکہ الله کا ہاتھ جماعت پر ہے

اس کی سند میں مرزوق الباهلى ، أبو بكر البصرى ، مولى طلحة بن عبد الرحمن الباهلى ہے جن کو ابن حبان ثقات میں لائے ہیں اور کہا ہے يخطىء غلطی کرتے ہیں ابن حجر ان کو ثقاہت کا سب سے ادنی درجہ صدوق دیتے ہیں

 الغرض امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی صحیح کے درجے کی روایت نہیں اور نہ ہی امام بخاری اور امام مسلم   کے معیار کی ہے

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ امت شرک نہ کرے گی اور بخاری کی روایت پیش کرتے ہیں

وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي

اور الله کی قسم مجھے اس کا خوف نہیں کہ تم شرک کرو گے

یہ روایت صحیح ہے لیکن اس کو اس کے سیاق و سباق میں ہی سمجھا جا سکتا ہے

بخاری میں یہ حدیث عقبہ بن عامر رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہآخری ایام میں  نبی صلی الله علیہ  وسلم ایک روز  پہلے اصحاب کے ساتھ مقام احد گئے اورشہداء کے لئے دعا  کی پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور  یہ  الفاظ فرمائے

یہ الفاظ صحابہ کے لئے مخصوص ہیں نہ کہ ساری امت کے  لئے . اگر نبی صلی الله علیہ وسلم امت کے حوالے سے بالکل مطمین ہوتے تو وہ یہ نہ کہتے کہ اس امت میں لوگ ہوں گے جن کے  حلق سے قرآن نیچے نہ اترے گا وہ یہ نہ کہتے کہ ایمان اجنبی ہو جائے گا وہ یہ نہ کہتے کہ بہتر فرقے جہنم کی نذر ہوں گے

خواب میں رویت باری تعالی

سر  میں لگی آنکھوں سے الله تعالی کا دیدار کرنا ممکن نہیں  لیکن آخرت میں چونکہ انسانی جسم کی تشکیل نو ہو گی اس کو تبدیل کیا جائے گا اور اس وقت محشر میں اہل ایمان اپنے رب کو دیکھ لیں گے

صحیح بخاری و مسلم میں معراج سے متعلق کسی حدیث میں نہیں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے ہوں اور الله تعالی کو دیکھا ہو البتہ بعض ضعیف اور غیر مظبوط روایات میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  میں نے اپنے رب کو دیکھا بغیر داڑھی مونچھ جس پر سبز لباس تھا – قاضی ابو یعلی کے مطابق یہ معراج پر ہوا اور ابن تیمیہ کے مطابق یہ قلب پر آشکار ہوا – محدثین کی ایک جماعت نے اس طرح کی روایات کو رد کیا اور ایک نے قبول کر کے دلیل لی – اسی طرح ایک دوسری روایت بھی ہے جس میں رب تعالی کا نبی صلی الله علیہ وسلم کو  چھونے تک  کا ذکر ہے

جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایت

کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں البانی  کہتے ہیں

ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ثنا يَحْيَى بْنُ أبي بكير ثنا إبراهيم ابن طَهْمَانَ ثنا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَلَّى لِي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَسَأَلَنِي فِيمَا يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: رَبِّي لا أَعْلَمُ بِهِ, قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثديي أو وضعهما بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ كَتِفَيَّ فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شيء إلا علمته”.

– إسناد حسن رجاله ثقات رجال الشيخين غير سماك بن حرب فهو من رجال مسلم

إبراهيم ابن طَهْمَانَ  نے  سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ  سے اس نے  جَابِرِ بْنِ سَمُرَة رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله تعالی نے میرے لئے تجلی کی حسین صورت میں پھر پوچھا کہ یہ ملا الاعلی کیوں جھگڑتے رہتے ہیں  پھر اپنا ہاتھ میرے شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک محسوس کی

اس کی اسناد حسن ہیں اس کے رجال ثقات ہیں سوائے سماك بن حرب کے جو صحیح مسلم کا راوی ہے

اس کے برعکس مسند احمد کی تحقیق میں شعيب الأرنؤوط  اس کو إبراهيم ابن طَهْمَانَ کی وجہ سے  ضعیف قرار دیتے ہیں

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ کی روایت

سنن دارمی، ج 5، ص 1365 پر ایک روایت درج ہے

2195 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، وَسَأَلَهُ، مَكْحُولٌ أَنْ يُحَدِّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:1366] يَقُولُ: «رَأَيْتُ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ فَقُلْتُ: «أَنْتَ أَعْلَمُ يَا رَبِّ» ، قَالَ: ” فَوَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، [ص:1367] فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَتَلَا {وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ}

نبی اکرم نے فرمایا کہ میں نے رب کو اچھی صورت میں دیکھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آسمانوں میں کس بات پر لڑائی ہے؟ میں نے کہا کہ اے رب! آپ زیادہ علم رکھتے ہیں۔ نبی اکرم فرماتے ہیں کہ پھر اللہ نے اپن ہاتھ میرے چھاتی کے درمیان رکھا حتی کہ مجھے اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے، مجھے اس کا علم ہو گیا۔ پھر نبی اکرم نے اس ایت کی تلاوت کی کہ اس طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھائی تاکہ وہ یقین والوں میں ہو

کتاب کے محقق، حسین سلیم اسد نے سند کو صحیح قرار دیا جبکہ سلف اس کو رد کر چکے تھے

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے جبکہ یہ صحابی نہیں ہے

وقال أبو حاتم الرازي هو تابعي وأخطأ من قال له صحبة وقال أبو زرعة الرازي ليس بمعروف
ابو حاتم نے کہا یہ تابعی ہے اور اس نے غلطی کی جس نے اس کو صحابی کہا اور ابو زرعہ نے کہا غیر معروف ہے

ابن عبّاس رضی الله عنہ  سے منسوب  روایت

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَتَانِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ اللَّيْلَةَ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ – أَحْسِبُهُ يَعْنِي فِي النَّوْمِ – فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا ” قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ – أَوْ قَالَ: نَحْرِي – فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، يَخْتَصِمُونَ فِي الْكَفَّارَاتِ وَالدَّرَجَاتِ، قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ وَالدَّرَجَاتُ؟ قَالَ: الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَى الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِبْلَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَقُلْ يَا مُحَمَّدُ إِذَا صَلَّيْتَ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً، أَنْ تَقْبِضَنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ، قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ: بَذْلُ الطَّعَامِ، وَإِفْشَاءُ السَّلَامِ، وَالصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ “

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ترمذی ح ٣٢٣٤  میں سند میں ابو قلابہ اور ابن عباس کے درمیان ْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ   ہے

. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ رَبِّ لَا أَدْرِي فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ فَقُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى  قُلْتُ فِي الدَّرَجَاتِ وَالْكَفَّارَاتِ وَفِي نَقْلِ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ فِي الْمَكْرُوهَاتِ وَانْتِظَارِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَمَنْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں  باب: سورہ  ص  سے بعض آیات کی تفسیر

 عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم  نے فرمایا: میرا رب بہترین صورت میں   آیا اور اس نے مجھ سے کہا: محمد-  میں نے کہا : میرے رب  میں تیری خدمت میں حاضر وموجود ہوں، کہا: اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: رب  میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت وعزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان  محسوس کی، اور مجھے مشرق ومغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہوگیا، (پھر) کہا: محمد  میں نے عرض کیا: رب  میں حاضر ہوں، اور تیرے حضور میری موجود گی میں  – میں نے کہا: انسان کا درجہ ومرتبہ بڑھانے والی اور گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں تکرار کررہے ہیں، جماعتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والے قدموں کے بارے میں اور طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل وضو کرنے کے بارے میں۔ اور ایک صلاۃ پڑھ کر دوسری صلاۃ کا انتظار کرنے کے بارے میں، جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا، اور خیر (بھلائی) ہی کے ساتھ مرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک وصاف ہوجائے گا جس دن کہ ان کی ماں نے جنا تھا، اور وہ گناہوں سے پاک وصاف تھا”۔ امام ترمذی کہتے ہیں: – یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے

البانی  کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں یہ بھی کہتے ہیں

قد روى معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس مرفوعا بلفظ: “رأيت ربي عز وجل فقال: يا محمد فيم يختصم الملأ الأعلى..” الحديث. أخرجه الآجري ص 496 وأحمد كما تقدم 388 فالظاهر أن حديث حماد بن سلمة مختصر من هذا وهي رؤيا منامية

اس کو معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس کی سند سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا اس نے پوچھا الملأ الأعلى کیوں لڑ رہے ہیں ؟ اس کی تخریج کی ہے الآجري اور احمد نے جیسا کہ گزرا ہے پس ظاہر ہے کہ حماد بن سملہ کی حدیث مختصر ہے اور یہ دیکھنا نیند میں ہے

اس کے بر عکس  شعيب الأرنؤوط  مسند احمد میں اس پر حکم لگاتے ہیں

إسناده ضعيف، أبو قلابة- واسمه عبد الله بن زيد الجرمي- لم يسمع من ابن عباس، ثم إن فيه اضطراباً

اس کی اسناد ضعیف ہیں – أبو قلابة-  جس کا نام عبد الله بن زيد الجرمي ہے اس کا سماع ابن عباس سے نہیں ہے پھر اس روایت میں اضطراب بہت ہے

راقم کہتا ہے جامع الترمذی کی روایت بھی صحیح نہیں ہے  :  کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق خالد کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے ان سے مرسل روایت کرتا ہے
خالد بن اللجلاج العامري ذكره الصغاني فيمن اختلف في صحبته وهو تابعي يروي عن أبيه وله صحبة وفي التهذيب لشيخنا أنه يروي عن عمر وابن عباس مرسلا ولم يدركهما
الذھبی تاریخ الاسلام میں اس کے لئے کہتے ہیں
وَقَدْ أَرْسَلَ عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
عمر اور ابن عباس سے یہ ارسال کرتا ہے

اسی طرح اس میں قتادہ مدلس ہے جو عن سے روایت کر رہا ہے
ان علتوں کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے

معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے منسوب  روایت

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا جَهْضَمٌ يَعْنِي الْيَمَامِيَّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ وَهُوَ زَيْدُ بْنُ سَلَّامِ بْنِ أَبِي سَلَّامٍ نَسَبُهُ إِلَى جَدِّهِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَ: احْتَبَسَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى كِدْنَا نَتَرَاءَى قَرْنَ الشَّمْسِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيعًا، فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ وَصَلَّى وَتَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ. قَالَ: ” كَمَا أَنْتُمْ عَلَى مَصَافِّكُمْ كَمَا أَنْتُمْ (2) “. ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَيْنَا. فَقَالَ: ” إِنِّي سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْكُمُ الْغَدَاةَ إِنِّي قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ، فَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَتَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي يَا رَبِّ. قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي رَبِّ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي يا رَبِّ   ، فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ صَدْرِي فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: فِي الْكَفَّارَاتِ. قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ؟ قُلْتُ: نَقْلُ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجُمُعَاتِ، وَجُلُوسٌ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَواتِ،   وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عِنْدَ الْكَرِيهَاتِ. قَالَ: وَمَا الدَّرَجَاتُ؟ قُلْتُ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَلِينُ الْكَلَامِ، وَالصَّلَاةُ وَالنَّاسُ نِيَامٌ. قَالَ: سَلْ. قُلْتُ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِي قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ، وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ “. وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا وَتَعَلَّمُوهَا

معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں رات کو اٹھا، میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی جتنی میرے مقدر میں تھی پھر مجھے نماز میں اونگھ آ گئی۔ اچانک میں نے اپنے رب کو سب سے اچھی صورت میں دیکھا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی

البانی نے اس کو صحیح کہہ دیا ہے

جبکہ دارقطنی علل ج ٦ ص ٥٤ میں اس روایت پر کہتے ہیں
وسئل عن حديث مالك بن يخامر عن معاذ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال رأيت ربي في أحسن صورة فقال لي يا محمد فيم يختصم الملا الاعلى الحديث بطوله فقال ……… قال ليس فيها صحيح وكلها مضطربة

اس کی کوئی سند صحیح نہیں تمام مضطرب ہیں

شعيب الأرنؤوط مسند احمد میں اس روایت پر کہتے ہیں
ضعيف لاضطرابه
اضطراب کی بنا پر ضعیف ہے

ابن حجر کتاب “النكت الظراف  4/38 میں کہتے ہیں

هذا حديث اضطرب الرواةُ في إسناده، وليس يثبت عن أهل المعرفة.

اس حدیث کی اسناد میں اضطراب ہے اور یہ اہل معرفت کے ہاں ثابت نہیں ہیں

 کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات   میں  القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ)  کہتے ہیں

وقوله: ” فيم يختصم الملأ الأعلى ” وقد تكلمنا عَلَى هَذَا السؤال فِي أول الكتاب فِي قوله: ” رأيت ربي ” فإن قِيلَ: هَذَا الخبر كان رؤيا منام، والشيء يرى فِي المنام عَلَى خلاف مَا يكون

اور قول  کس پر الملأ الأعلى جھگڑا کر رہے ہیں ؟ اور اس سوال پر ہم نے اس کتاب کے شروع میں کلام کیا ہے کہ اگر کہیں کہ یہ خبر نیند کا خواب ہے اور یا چیز جو نیند میں دیکھی تو یہ اس کے خلاف ہے جو کہا گیا

القاضي أبو يعلى کے مطابق یہ سب معراج پر ہوا نہ کہ نیند میں

اس کے برعکس ابن تیمیہ نے منہاج السنہ میں موقف لیا کہ یہ نیند میں ہوا

وَإِنَّمَا الرُّؤْيَةُ فِي أَحَادِيثَ مَدَنِيَّةٍ كَانَتْ فِي الْمَنَامِ كَحَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: ” «أَتَانِي الْبَارِحَةَ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» ” إِلَى آخِرِهِ، فَهَذَا مَنَامٌ رَآهُ   فِي الْمَدِينَةِ، * وَكَذَلِكَ مَا شَابَهَهُ كُلُّهَا كَانَتْ فِي الْمَدِينَةِ فِي الْمَنَامِ

اور یہ دیکھنا نیند میں تھا جو مدینہ کی احادیث ہیں جیسے معاذ بن جبل کی حدیث  کل   میرا رب اچھی صورت میرے پاس آیا آخر تک تو یہ نیند میں دیکھا تھا مدینہ میں اور اسی طرح روایات ہیں جو مدینہ میں نیند میں ہیں

یعنی ٥٠٠ صدی ہجری کے بعد حنابلہ کا ان روایات پر اختلاف ہوا کہ یہ نیند میں دیکھا تھا یا معراج پر پس ان مخصوص روایات کو ابن تیمیہ نے  خواب  قرار دیا

ابن تیمیہ کے ہم عصر امام الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں اس قسم کی ایک روایت (رأيت ربي جعدا أمرد عليه حلة خضراء  میں نے اپنے رب کو بغیر داڑھی مونچھ مرد کی صورت سبز لباس میں دیکھا ) پر لکھتے ہیں

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:  قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ .  وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَ السَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:  قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.  وَالَّذِي دَلَّ عَلَيْهِ الدَّلِيْلُ عَدَمُ الرُّؤْيَةِ مَعَ إِمْكَانِهَا   ، فَنَقِفُ عَنْ هَذِهِ المَسْأَلَةِ، فَإِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ المَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيْهِ، فَإِثْبَاتُ ذَلِكَ أَوْ نَفْيُهُ صَعْبٌ، وَالوُقُوْفُ سَبِيْلُ السَّلاَمَةِ – وَاللهُ أَعْلَمُ -. وَإِذَا ثَبَتَ شَيْءٌ، قُلْنَا بِهِ، وَلاَ نُعَنِّفُ مَنْ أَثْبَتَ الرُّؤْيَةَ لِنَبِيِّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي الدُّنْيَا، وَلاَ مَنْ نَفَاهَا، بَلْ نَقُوْلُ: اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، بَلَى نُعَنِّفُ وَنُبَدِّعُ مَنْ أَنْكَرَ الرُّؤْيَةَ فِي الآخِرَةِ، إِذْ رُؤْيَةُ اللهِ فِي الآخِرَةِ ثَبَتَ بِنُصُوْصٍ مُتَوَافِرَةٍ.

بیہقی نے کتاب الصفات میں روایت کیا …. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے  فرمایا  میں نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا .. اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے اور یہ خبر منکر ہے – ہم الله سے اس پر سلامتی چاہتے ہیں پس نہ تو یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر ہے اور اگر یہ سب غیر الزام زدہ ہوں بھی تو یہ خطاء و نسیان سے کہاں معصوم ہیں ؟  اب جو پہلی خبر ہے اس میں ہے کہ رسول الله نے فرمایا  میں نے اپنے رب کو دیکھا – اس میں نیند کی کوئی قید نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو معراج کی رات دیکھا اس حدیث کے ظاہر سے دلیل لیتے ہوئے –  پر رویت نہیں ہے اس کا امکان ہے جو اس دلیل میں ہے – پس ہم جانتے ہیں کہ اس مسئلہ میں کہ اسلام کا حسن ہے کہ آدمی اس کو چھوڑ دے جس کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس رویت باری کا اثبات یا نفی مشکل ہے اور اس میں توقف میں سلامتی ہے و الله اعلم اور اگر ایک چیز ثابت ہو تو ہم اس کا کہیں گے   اور نہ ہی ہم برا کہیں گے جو ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے اس کا اثبات کرے کہ انہوں نے دیکھا اس دنیا میں نہ اس کا انکار کریں گے بلکہ کہیں گے الله اور اسکا رسول جانتے ہیں بلا شبہ ہم برا کہیں گے اور رد کریں گے جو اس کا انکار کرے کہ یہ رویت آخرت میں بھی نہیں ہے کیونکہ الله کو آخرت میں دیکھنا نصوص  موجودہ سے ثابت ہے

الذھبی کے بعد انے والے ابن کثیر سوره النجم کی تفسیر میں لکھتے ہیں

فَأَمَّا الْحَدِيثُ الَّذِي رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ   : حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ» فَإِنَّهُ حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ عَلَى شَرْطِ الصَّحِيحِ، لَكِنَّهُ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثِ الْمَنَامِ كَمَا رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ

پس جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جو امام احمد نے روایت کی ہے حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ کو دیکھا تو اس کی اسناد الصحیح کی شرط پر ہیں لیکن اس کو مختصرا روایت کیا ہے نیند کی حدیث میں جیسا امام احمد نے کیا ہے

الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ)  کتاب تشنيف المسامع بجمع الجوامع لتاج الدين السبكي میں لکھتے ہیں

هل يجوز أن يرى في المنام؟ اختلف فيه فجوزه معظم المثبتة للرؤية من غير كيفية وجهة مقابلة وخيال، وحكي عن كثير من السلف أنهم رأوه كذلك ولأن ما جاز رؤيته لا تختلف بين النوم واليقظة وصارت طائفة إلى أنه مستحيل لأن ما يرى في النوم خيال ومثال وهما على القديم محال، والخلاف في هذه المسألة عزيز قل من ذكره وقد ظفرت به في كلام الصابوني من الحنفية في عقيدته والقاضي أبي يعلى من الحنابلة في كتابه (المعتمد الكبير)، ونقل عن أحمد أنه قال: رأيت رب (94/ك) العزة في النوم فقلت: يا رب، ما أفضل ما يتقرب به المتقربون إليك؟ قال: كلامي يا أحمد قلت: يا رب، بفهم أو بغير فهم، قال: بفهم وبغير فهم قال: وهذا يدل من مذهب أحمد على الجواز، قال: ويدل له حديث: ((رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة)) وما كان من النبوة لا يكون إلا حقا ولأن من صنف في تعبير الرؤيا ذكر فيه رؤية الله تعالى وتكلم عليه، قال ابن سيرين: إذا رأى الله عز وجل أو رأى أنه يكلمه فإنه يدخل الجنة وينجو من هم كان فيه إن شاء الله تعالى. واحتج المانع بأنه لو كان رؤيته في المنام جائزة لجازت في اليقظة في دار الدنيا. والجواب: أن الشرع منع من رؤيته في الدنيا ولم يمنعه في المنام

کیا یہ جائز ہے کہ الله تعالی کو نیند میں دیکھا جائے ؟ اس میں اختلاف ہے … اور بہت سے سلف سے حکایت کیا گیا ہے انہوں نے دیکھا  … اور ایک طائفہ گیا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ نیند میں جو دیکھا جاتا ہے وہ خیال و مثال ہوتا ہے  …. اور اسکے خلاف  احناف میں الصابونی کا عقیدہ میں کلام ہے اور حنابلہ میں قاضی ابو یعلی کا  کتاب المعتمد میں … اور امام احمد کا مذھب جواز کا ہے  … اور اس کا جواب ہے ہے کہ شرع میں دنیا میں دیکھنا منع ہے لیکن نیند میں منع نہیں ہے

ابن حجر فتح الباری ج ١٢ ص ٣٨٧ میں قاضی عیاض کا قول نقل کرتے ہیں

وَلَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَازِ رُؤْيَةِ اللَّهِ تَعَالَى فِي الْمَنَامِ

اور  الله تعالی کو نیند میں دیکھنے پر علماء میں کوئی اختلاف نہیں ہے

تابعین اور اصحاب رسول کا الله تعالی کو خواب میں دیکھنا

ابو بکر رضی الله عنہ کا قول

کتاب ظلال الجنه کے مطابق

ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرَ عَنِ ابْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:  أَفْضَلُ مَا يَرَى أَحَدُكُمْ فِي مَنَامِهِ أَنْ يرى ربه أو نَبِيَّهُ أَوْ يَرَى وَالِدَيْهِ مَاتَا على الإسلام.

ابو بکر نے کہا سب سے افضل جو تم نیند میں دیکھتے ہو وہ یہ ہے کہ اپنے رب کو دیکھو یا اپنے نبی کو یا اپنے والدین کو جن کی موت اسلام پر ہوئی

البانی اس اثر کے تحت لکھتے ہیں

إسناده ضعيف ورجاله ثقات غير العباس بن ميمون فلم أعرفه

اس کی اسناد ضعیف ہیں اور رجال ثقات ہیں سوائے عباس بن میمون کے جس کو میں نہیں جانتا

ابن سیرین کا قول

مسند  الدارمی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ   قُطْبَةَ، عَنْ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: «مَنْ رَأَى رَبَّهُ فِي الْمَنَامِ دَخَلَ الْجَنَّةَ

ابْنِ سِيرِينَ نے کہا جس نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا وہ جنت  میں داخل ہوا

اس کی سند میں یوسف الصَّبَّاغِ ہے جو سخت ضعیف ہے لیکن صوفی منش ابو نعیم نے حلیہ الاولیاء میں اس کو نقل کر دیا

مسند دارمی کے محقق حسين سليم أسد الداراني اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں

یعنی بعض نے اس طرح کی  روایات کو رد کیا- بعض نے اس کو معراج کا واقعہ کہا جو نیند  نہیں تھا اور بعض نے اس کو خواب قرار دیا – بعض نے تقسیم کی مثلا ابن تیمیہ کے نزدیک ابن عباس کی رویت باری سے متعلق روایات صحیح ہیں لیکن شانوں پر ہاتھ رکھنے والی روایت مدینہ کا خواب ہے اور گھنگھریالے بالوں والی روایت قلبی رویت ہے اور دونوں صحیح ہیں – الذھبی کے نزدیک دونوں لائق التفات نہیں ہیں

الغرض الله تعالی کو خواب میں دیکھنا سلف میں اختلافی مسئلہ رہا ہے جس  میں راقم کی رائے   میں یہ روایات ضعیف ہیں

 

محدثین  اور خوابوں کی دنیا

بخاری میں دو حدیثیں ہیں

من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی

          جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل  نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم

دوسری حدیث ہے

من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته

جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے  کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے

 ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے  فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے  دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا

ہماری اسلامی کتب میں سن ١٣٠  ہجری  اور اس کے بعد سے آج تک  عالم مادی اور عالم روحانی اس طرح خلط ملط ملتے ہیں کہ  غیب میں گویا نقب لگی ہو مسلسل عالم بالا سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم   محدثین کے خوابوں میں آ رہے تھے   یہاں ہم صرف ایک کتاب سیر الاعلام  النبلاء از امام الذھبی  کو دیکھتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  اور یہاں تک کہ الله تعالی کس کس کے خواب میں آ رہے تھے

بصری سلیمان بن طرخان المتوفی ١٤٣ ھ   کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

جَرِيْرُ بنُ عَبْدِ الحَمِيْدِ: عَنْ رَقَبَةَ بنِ مَصْقَلَةَ، قَالَ:رَأَيْتُ رَبَّ العِزَّةِ فِي المَنَامِ، فَقَالَ: لأُكْرِمَنَّ مَثْوَى سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، صَلَّى لِيَ الفَجْرَ بِوُضُوْءِ العِشَاءِ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً.

جَرِيْرُ بنُ عَبْدِ الحَمِيْدِ روایت کرتے ہیں رَقَبَةَ بنِ مَصْقَلَةَ، سے کہ میں نے رب العزت کو نیند میں دیکھا مجھ سے کہا سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ جیسوں کا اکرام کرو میرے لئے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھتا  تھا عشاء کے وضو سے

الله تعالی عالم الغیب ہیں اور قادر ہیں لیکن الله تعالی کسی صحابی کے خواب میں نہیں آئے تابعی کے خواب میں نہیں آئے لیکن تبع تابعین کا دور ختم ہوتے ہی لوگ  بیان کرنے لگ جاتے ہیں کہ الله تعالی اور رسول الله ان کو غیب کی خبریں دیتے ہیں

بصری عبد الله بن عون المتوفی ١٣٢ ھ  کے ترجمہ میں الذہبی لکھتے ہیں

حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ فَضَاءٍ  قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي المَنَامِ، فَقَالَ: (زُوْرُوا ابْنَ عَوْنٍ، فَإِنَّهُ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ، أَوْ أَنَّ اللهَ يُحِبُّه وَرَسُوْلَه)

حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ فَضَاءٍ کہا میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا خواب میں فرمایا ابن عون کی زیارت کرو کیونکہ یہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے یا کہ الله اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہے

عباد بن کثیر کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

الحَكَمُ بنُ مُوْسَى: حَدَّثَنَا الوَلِيْدُ بنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: مَا كُنْتُ أَحْرِصُ عَلَى السَّمَاعِ مِنَ الأَوْزَاعِيِّ، حَتَّى رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي المَنَامِ، وَالأَوْزَاعِيُّ إِلَى جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! عَمَّنْ أَحْمِلُ العِلْمَ؟قَالَ: (عَنْ هَذَا) ، وَأَشَارَ إِلَى الأَوْزَاعِيِّ.قُلْتُ: كَانَ الأَوْزَاعِيُّ كَبِيْرَ الشَّأْنِ.

الحَكَمُ بنُ مُوْسَى کہتے ہیں کہ ولید بن مسلم دمشقی المتوفي ١٩٥ ھ  نے کہا  مجھے الأَوْزَاعِيِّ سے سماع کا کوئی شوق نہیں تھا یہاں تک کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور الأَوْزَاعِيِّ  ان کے پہلو میں تھے  میں نے پوچھا کس سے علم لوں یا رسول الله ؟ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اور الأَوْزَاعِيِّ کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے – میں الذھبی کہتا ہوں الأَوْزَاعِيِّ کی بڑی شان ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا اس لئے بیان کیا جاتا تھا تاکہ لوگوں پر رعب جمایا جا سکے الولید کو پروپگینڈا کرنا پڑ رہا ہے کہ اس کا سماع الأوزاعي سے ٹھیک  ہے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق

 وقال أبو داود: الوليد أفسد حديث الأوزاعي

ابوداود کہتے ہیں الولید بن مسلم نے  الأوزاعي کی حدیث میں فساد کر دیا ہے

بغداد کے هُشَيْمُ بنُ بَشِيْرِ بنِ أَبِي خَازِمٍ أَبُو مُعَاوِيَةَ السَّلَمِيُّ  المتوفی ١٨٣ ھ کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

قَالَ يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ العَابِدُ: سَمِعْتُ نَصْرَ بنَ بسَّامٍ وَغَيْرَهُ مِنْ أَصْحَابِنَا، قَالُوا: أَتَيْنَا مَعْرُوْفاً الكَرْخِيَّ فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي المَنَامِ، وَهُوَ يَقُوْلُ

لهُشَيْمٍ: (جَزَاكَ اللهُ عَنْ أُمَّتِي خَيْراً) .

يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ العَابِدُ نے کہا میں نے نصر بن بسام سے اور ہمارے بہت سے اصحاب سے سنا کہ معروف الکرخی نے کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور وہ کہہ  هُشَيْمُ بنُ بَشِيْرِ  کے لئے رہے تھے  کے لئے جَزَاكَ اللهُ عَنْ أُمَّتِي خَيْراً

امام الشافعی کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ يَقُوْلُ: رَأَيْتُ فِي المَنَامِ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي مَسْجِدِه بِالمَدِيْنَةِ، فَكَأَنِّيْ جِئْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَكْتُبُ رَأْيَ مَالِكٍ؟ قَالَ: (لاَ) .  قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ أَبِي حَنِيْفَةَ؟  قَالَ: (لاَ) .  قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ؟  فَقَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا، كَأَنَّهُ انْتَهَرَنِي، وَقَالَ: (تَقُوْلُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ! إِنَّهُ لَيْسَ بِرَأْيٍ، وَلَكِنَّهُ رَدٌّ عَلَى مَنْ خَالَفَ سُنَّتِي) .

زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي کہتے ہیں میں نے أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ کو سنا کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اپ مسجد النبی میں تھے پس میں ان تک پہنچا اور سلام کیا اور کہا اے رسول الله کیا  مالک کی رائے لکھوں؟ فرمایا نہیں – میں نے پوچھا کیا ابو حنیفہ کی رائے لکھوں ؟ فرمایا نہیں – پوچھا کیا شافعی کی رائے لکھوں ؟  باتھ کو اس طرح کیا کہ گویا منع کر رہے ہوں اور کہا تو شافعی کی رائے کا کہتا ہے وہ میری رائے نہیں ہے بلکہ میری سنت کی مخالف ہے

یعنی رسول الله نے خواب میں امام شافعی کا قول نا پسند کیا

اسی طرح ایک قول ہے

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نَزِيْلُ مَكَّةَ – فِيْمَا كَتَبَ إِلَيَّ – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيُّ، قَالَ: قُلْتُ فِي المَنَامِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا تَقُوْلُ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَالشَّافِعِيَّ، وَمَالِكٍ؟  فَقَالَ: (لاَ قَوْلَ إِلاَّ قَوْلِي، لَكِنَّ قَوْلَ الشَّافِعِيِّ ضِدُّ قَوْلِ أَهْلِ البِدَعِ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ کہتے ہیں مکہ والے أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نے روایت کیا اس خط میں جو لکھا کہ مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيُّ نے کہا میں نے خواب میں رسول الله سے پوچھا اے رسول الله  اپ   مالک شافعی اور ابو حنیفہ کی رائے پر کیا کہتے ہیں ؟ فرمایا ان کا قول وہ نہیں  جو میرا ہے اور شافعی کا قول اہل بدعت کی ضد ہے

یعنی رسول الله نے خواب میں امام شافعی کا قول پسند کیا

یہ متضاد اقوال خواب میں لوگ سن رہے تھے اور جمع کر رہے تھے

عصر حاضر کے محقق شعيب الأرناؤوط  اس پر تعلیق میں جھنجھلا کر رہ گئے لکھتے ہیں

ومتى كان المنام حجة عند أهل العلم؟ ! فمالك وأبو حنيفة وغيرهما من الأئمة العدول الثقات اجتهدوا، فأصاب كل واحد منهم في كثير مما انتهى إليه اجتهاده فيه، وأخطأ في بعضه، وكل واحد منهم يؤخذ من قوله ويرد، فكان ماذا؟

اور کب سے خواب اہل علم کے ہاں حجت ہو گئے؟ پس مالک اور ابو حنیفہ اور دوسرے ائمہ عدول ہیں ثقات ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا ہے پس ان سب میں بہت سا ہے جو ان کے اجتہاد پر ہے اور اس میں بعض کی خطا بھی ہے اور ان سب کا قول لیا جاتا ہے اور رد بھی ہوتا ہے تو یہ کیا ہے ؟

یعنی جب خوابوں سے ائمہ پر سوال اٹھتا ہے تو فورا اس کو غیر حجت کہا جاتا ہے اگر یہ سب غیر حجت ہے تو ان کو جمع کرنے اور لوگوں کا ان کو بیان کرنا کتنا معیوب ہو گا ؟ جس دور میں ان کو بیان کیا گیا اس دور میں یقینا یہ معیوب نہ ہو گا بہت سے  ان خوابوں کو جمع کر رہے تھے

اس کے برعکس الموسوعة الفقهية الكويتية جو ٤٥ جلدوں میں فتووں کا مجموعہ ہے اور وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية – الكويت نے چھاپا ہے  اس میں وہابی علماء کا فتوی ج ٢٢ ص ١٠ پر ہے

وَهَذِهِ الأْحَادِيثُ تَدُل عَلَى جَوَازِ رُؤْيَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، وَقَدْ ذَكَرَ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ، وَالنَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ مُسْلِمٍ أَقْوَالاً مُخْتَلِفَةً فِي مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَسَيَرَانِي فِي الْيَقَظَةِ. وَالصَّحِيحُ مِنْهَا أَنَّ مَقْصُودَهُ أَنَّ رُؤْيَتَهُ فِي كُل حَالَةٍ لَيْسَتْ بَاطِلَةً وَلاَ أَضْغَاثًا، بَل هِيَ حَقٌّ فِي نَفْسِهَا، وَلَوْ رُئِيَ عَلَى غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي حَيَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَصَوُّرُ تِلْكَ الصُّورَةِ لَيْسَ مِنَ الشَّيْطَانِ بَل هُوَ مِنْ قِبَل اللَّهِ، وَقَال: وَهَذَا قَوْل الْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ وَغَيْرِهِ، وَيُؤَيِّدُهُ قَوْلُهُ: فَقَدْ رَأَى الْحَقَّ

اور یہ احادیث (جو اوپر پیش کی گئی ہیں) دلیل ہیں نیند میں رسول الله کو دیکھنے کے جواز پر اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور النووی نے شرح المسلم میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں جو اس معنی پر ہیں قول نبوی ہے جس  نے نیند میں مجھے دیکھا پس اس نے جاگنے میں دیکھا اور  مقصود ان میں صحیح  ہے کہ دیکھنا ہر حال میں باطل نہیں اور نہ پریشان خوابی ہے بلکہ یہ  فی نفسہ حق ہے اور اگر اس صورت پر دیکھے جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم زندگی میں نہیں تھے تو اس صورت کا تصور شیطان کی طرف سے نہیں بلکہ یہ الله کی طرف سے ہے اور کہا یہ قول ہے قاضی ابو بکر بن الطیب اور دوسروں کا اور اس کی تائید اس قول سے ہوتی ہے پس اس نے حق دیکھا  

پانچویں صدی کے حنابلہ کے امام ابن الزغوانی کہتے ہیں کہ ان کے سامنے أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی سند پر قرات ہوئی اور الذہبی لکھتے ہیں

أَملَى عليَّ القَاضِي عَبْدُ الرَّحِيْمِ بن الزَّرِيْرَانِي  أَنَّهُ قرَأَ بِخَطِّ أَبِي الحَسَنِ بنِ الزَّاغونِي: قرَأَ أَبُو مُحَمَّدٍ الضّرِير عليَّ القُرْآن لأَبِي عَمْرٍو، وَرَأَيْتُ فِي المَنَامِ رَسُوْلَ اللهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَقَرَأْتُ عَلَيْهِ القُرْآن مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ بِهَذِهِ القِرَاءة، وَهُوَ يَسْمَع، وَلَمَّا بلغت فِي الحَجّ إِلَى قَوْلِهِ: {إِنَّ اللهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} [الحَجّ:14] الآيَة، أَشَارَ بِيَدِهِ، أَي: اسْمَعْ، ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ الآيَة مَنْ قرَأَهَا، غُفِرَ لَهُ، ثُمَّ أَشَارَ أَن اقرَأْ، فَلَمَّا بلغتُ أَوّل يَس، قَالَ لِي: هَذِهِ السُّورَة مَنْ قرَأَهَا، أَمِنَ مِنَ الفَقْر، وَذَكَرَ بَقِيَّةَ المَنَام.

ابن زغوانی نے کہا کہ … میں نے خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور اپ نے مجھ پر قرآن اول سے آخر تک پڑھا اس قرات پر … اور اس میں (صلی الله علیہ وسلم نے) فرمایا سوره یس وہ سوره ہے جو  پڑھے اس کو فقر سے امن ہو گا

کہا جاتا ہے خواب محدثین نے بیان تو کیے لیکن علماء نے  ان سے دلیل نہیں لی جبکہ الزغوانی نے سوره یس کی فضیلت نقل کی –  امام مسلم خواب سے مقدمہ میں دلیل لیتے ہیں

مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ)   میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ خَمْسَ مِائَةِ حَدِيثٍ، أَوْ ذَكَرَ أَكْثَرَ، فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا الْيَسِيرَ خَمْسَةَ أَوْ سِتَّةَ أَحَادِيثَ، فَتَرَكْتُ الْحَدِيثَ عَنْهُ»

ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں

امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو بلا جرح  نقل کیا ہے گویا یہ ان کے نزدیک دلیل تھا جبکہ اس کی سند ضعیف ہے

  القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ از  شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) کے مطابق

وعن سليمان ابن سحيم قال رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في النوم فقلت يا رسول الله هؤلاء الذين يأتونك فيسلمون عليك اتفقه سلامهم قال نعم وأرد عليهم رواه ابن أبي الدنيا والبيهقي في حياة الأنبياء والشعب كلاهما له ومن طريقه ابن بشكوال وقال إبراهيم بن شيبان حججت فجئت المدينة فتقدمت إلى القبر الشريف فيلمت على رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فيمعته من داخل الحجرة يقول وعليك السلام

 سليمان بن سحيم نے کہا میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ان سے کہا یا رسول الله یہ جو اپ تک اتے ہیں اور سلام کہتے ہیں کیا اپ ن کا سلام پہچانتے ہیں ؟ فرمایا ہاں میں جواب دیتا ہوں

اس کو ابن ابی الدنیا نے اور البیہقی نے روایت کیا ہے حیات الانبیاء میں اور شعب الایمان میں اور ان دونوں نے اس کو ابن بشکوال کے طرق سے روایت کیا ہے اور کہا ابراہیم بن شیبان نے حج کیا اور مدینہ پہنچے تو قبر النبوی پر حاضر ہوئے پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سلام کہا حجرہ میں داخل ہو کر اور وہاں جواب آیا تم پر بھی سلام ہو

امام السخاوی نے اس کو بیان کیا ہے اور اس طرح رد الله علی روحی والی روایت کی تصحیح کی گئی ہے

  خواب میں   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا آنا صحیح حدیث سے  ثابت نہیں ہے اس پر تفصیل یہاں ہے

⇓  کیا  اج نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا حدیث سے ثابت  ہے ؟

اہم مباحث

الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّةِ کا انتظار

 سن ٩٣ ہجری کا دور ہے مدینہ پر عمر بن عبد العزیز  گورنر ہیں – عمر کو امیر المومنین الولید کی طرف سے حکم ملتا ہے

امام بخاری تاریخ الکبیر میں بتاتے ہیں

قَالَ عَبد اللهِ بْن مُحَمد الجُعفي، حدَّثنا هِشام بْن يُوسُف، أَخبرنا مَعمَر، عَنْ أَخي الزُّهري، قَالَ: كتب الوليد إلى عُمر، وهو على المدينة، أن يضرب خُبَيب بْن عَبد اللهِ بْن الزُّبَير، فضربه أسواطا، فأقامه، فمات

اخی الزہری نے کہا الولید نے عمر بن عبد العزیز کو لکھا اور وہ اس کی طرف سے مدینہ کے عامل تھے کہ خبیب بن عبد الله بن زبیر کو کوڑے لگائے جائیں  پس ان کو درے مارے گئے جس میں ان کی وفات ہوئی

شیعہ مورخ أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب کتاب تاریخ الیعقوبی کے مطابق

وكتب إلى عمر بن عبد العزيز أن يهدم مسجد رسول الله، ويدخل فيه المنازل التي حوله، ويدخل فيه حجرات أزواج النبي، وهدم الحجرات، وأدخل ذلك في المسجد. ولما بدأ بهدم الحجرات قام خبيب بن عبد الله بن الزبير إلى عمر والحجرات تهدم، فقال: نشدتك الله يا عمر أن تذهب باية من كتاب الله، يقول: إن الذين ينادونك من وراء الحجرات، فأمر به، فضرب مائة سوط، ونضح بالماء البارد، فمات، وكان يوماً بارداً. فكان عمر لما ولي الخلافة، وصار إلى ما صار إليه من الزهد، يقول: من لي بخبيب

اور الولید نے عمر بن عبد العزیز کو حکم دیا کہ مسجد النبی کو منہدم کیا جائے اور اس میں اس کے گرد کی منزلوں کو شامل کیا جائے اور حجرات ازواج النبی کو بھی پس حجرات کو گرایا گیا اور مسجد میں شامل کیا گیا پس  خبیب ، عمر بن عبد العزیز کے خلاف کھڑے ہوئے اور حجرات گرائے جا رہے تھے  انہوں نے کہا میں شہادت دیتا ہوں اے عمر کہ تو کتاب الله کی آیات سے ہٹ گیا – جس میں ہے إن الذين ينادونك من وراء الحجرات – پس عمر نے حکم دیا اس کو سو کوڑے مارو اور ٹھنڈا پانی ڈالو پس اس میں خبیب مر گئے پس جب عمر خلیفہ ہوا اور اس پر زہد کا اثر ہوا کہا میرے لیے خبیب کے حوالے سے کیا ہے

  حجرات ازواج النبی صلی الله علیہ وسلم   کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو اچھا تھا لیکن مسجد النبي کو وسیع کرنا بھی ضروری تھا

اہل سنت کی کتب میں خبیب کو کوڑنے مارنے کی وجہ الگ ہے – ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں

وكان عالما فبلغ الوليد بن عبد الملك عنه أحاديث كرهها. فكتب إلى عامله على المدينة. أن يضربه مائة سوط. فضربه مائة سوط. وصب عليه قربة من ماء بارد بيتت بالليل. فمكث أياما ثم مات.

خبیب ایک عالم تھے پس الولید کو  ان کی احادیث پہنچیں جن سے  الولید   کو کراہت ہوئی  پس اپنے گورنر کو مدینہ میں حکم دیا کہ اس کو سو کوڑے لگاؤ پس سو کوڑے لگائے گئے اور ٹھنڈا پانی ڈالا گیا اور رات میں پس کچھ دن بعد  یہ مر گئے

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ: ضَرَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِذْ كَانَ أَمِيرَ الْمَدِينَةِ بِأَمْرِ الْخَلِيفَةِ الْوَلِيدِ خَمْسِينَ سَوْطًا، وَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ قِرْبَةً فِي يومٍ بَارِدٍ، وَأَوْقَفَهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَوْمًا، فَمَاتَ رَحِمَهُ اللَّهُ.

ابن جریر الطبری نے کہا عمر بن عبد العزیز نے خبیب کو خلیفہ الولید کے حکم پر پچاس کوڑے مارے جب وہ مدینہ کے امیر تھے اور ان کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا اور مسجد کے دروازے پر (عبرت نگاہی کے لئے) ڈال دیا

ابن سعد کے مطابق خبیب کو روایت بیان کرنے پر لگے جو  الولید کے نزدیک صحیح نہیں تھیں اور عمر بن عبد العزیز نے بھی اس میں موافقت کی اور کوئی انکار نہ کیا

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

قال الزبير بن بكار: أدركت أصحابنا يذكرون أَنَّهُ كَانَ يَعْلَمُ عِلْمًا كَثِيرًا لا يَعْرِفُونَ وَجْهَهُ وَلا مَذْهَبَهُ فِيهِ، يُشْبِهُ مَا يَدَّعِي النَّاسُ مِنْ عِلْمِ النُّجُومِ

الزبیر بن بکار نے کہا میں بہت سے اصحاب سے ملا وہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ بہت عالم تھے جس کا منبع وہ اصحاب نہیں جانتے نہ ان کا اس پر مذھب تھا ،  وہ اس  علم نجوم سے ملتا جلتا تھا جس کی طرف لوگ بلاتے ہیں

جمهرة نسب قريش وأخبارها از الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي الأسدي المكي (المتوفى: 256هـ) میں ہے

حدثنا الزبير قال، وحدثني عمي مصعب بن عبد الله قال: كان خبيب قد لقي كعب الأحبار، ولقي العلماء، وقرأ الكتب، وكان من النساك، وأدركت أصحابنا وغيرهم يذكرون أنه كان يعلم علماً كثيراً لا يعرفون وجهه ولا مذهبه فيه، يشبه ما يدعي الناس من علم النجوم.

الزبير نے کہا کہ میرے چچا مصعب بن عبد الله بن زبیر نے روایت کیا کہ خبیب ، کعب الاحبار سے ملا اور علماء سے ملاقات کی اور کتابیں پڑھیں  اور وہ نساک (راہب صفت) تھے اور وہ ہمارے اصحاب اور دوسروں سے ملے ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کو بہت علم تھا جس کے رخ (اصل) کا پتا نہیں تھا نہ ان کا مذھب تھا – یہ اس کے مشابہ تھا جس کی طرف لوگ بلاتے ہیں علم نجوم میں سے

الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي ،  خبیب کے رشتہ دار ہیں- صحاح ستہ میں سنن نسائی میں خبیب کی ایک روایت ہے

الزبیر بن بکار کے مطابق وَلَمَّا مَاتَ نَدِمَ عُمَرُ وَسُقِطَ فِي يَدِهِ وَاسْتَعْفَى مِنَ الْمَدِينَةِ جب خبیب کی وفات ہوئی عمر نادم ہوئے اور

گورنر مدینہ کے عہدے سے اسْتَعْفَى دے دیا

یعنی ان سزا کا مقصد سبق سکھانا تھا نہ کہ خبیب کا قتل

صحاح ستہ کے مولفین نے خبیب سے کوئی روایت نہیں لی صرف سنن نسائی میں ایک روایت پر ابن حجر کا کہنا ہے کہ وہ خبیب کی ہے لھذا تہذیب التہذیب میں ہے روى له النسائي حديثا واحدا في صبغ الثياب بالزعفران ولم يسمه في روايته ان سے النسائي نے ایک روایت لی کپڑوں کو زعفران سے رنگنے والی جس روایت میں ان کا نام نہ لیا

محدثین  خبیب کو ثقہ کہنے کے باوجود ان کی کوئی روایت کیوں نہیں لکھتے یہ ایک معمہ ہے اغلبا ان کی روایات کا متن عجیب و غریب ہو گا جس کی بنا پر خلیفہ مسلمین نے ان کو کوڑے مارے اور عمر بن عبد العزیز نے بھی ساتھ دیا

امام احمد العلل میں کہتے ہیں عمر بن عبد العزیز  کو الولید نے معزول کیا

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا سفيان، قال: قال الماجشون، لما عزله الوليد -يعني عمر بن عبد العزيز

یعنی اسْتَعْفَى نہیں دیا بلکہ خود الولید نے ان کو معزول کیا

البتہ الولید نے ان کو امیر حج مقرر کیا

تاریخ دمشق کے مطابق

قال خليفة: سنة سبع وثمانين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.

وقال: سنة تسع وثمانين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة تسعين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة اثنيتين وتسعين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز

سن ٨٧ سے سن ٩٢ میں چار مواقع پر سن ٨٧ ، ٨٩ ، ٩٠ ، ٩٢ ہجری میں امیر حج رہے

بنو امیہ کے ” ظلم” کے پیچھے  کیا  وجوہات کارفرما تھیں ان کی  تحقیق غیر جانب انداز میں کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی تک امت میں نہیں کی گئی ہے

مسند امام احمد میں مالك بن دينار کہتے ہیں

 إنما الزاهد عمر بن عبد العزيز، الذي أتته الدنيا فتركها. «المسند» 5/249 (22495) 

بے شک عمر بن عبد العزیز ایک زاہد تھے جن کو دنیا پہنچی لیکن انہوں نے اسکو ترک کیا

سیر الاعلام النبلاء از امام الذھبی کے مطابق

وَقَالَ أَبُو مُسْهِرٍ: وَلِيَ عُمَرُ المَدِيْنَةَ فِي إِمْرَةِ الوَلِيْدِ مِنْ سَنَةِ سِتٍّ وَثَمَانِيْنَ إِلَى سَنَةِ ثَلاَثٍ وَتِسْعِيْنَ.

ابو مسهر نے کہا عمر مدینہ کے والی الولید کے حکم پر ہوئے سن ٨٦ ہجری  سے لے کر سن ٩٣ ہجری تک

امام الذھبی کہتے ہیں سن ٧٢ ہجری تک عمر بن عبد العزیز کے مدینہ میں کوئی آثار نہیں ملتے کیونکہ وہاں جابر بن عبد الله رضی الله عنہ تھے اگر یہ ٧٢ سے پہلے وہاں ہوتے تو ان سے روایت کرتے

لَيْسَ لَهُ آثَارٌ سَنَةَ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ بِالمَدِيْنَةِ، وَلاَ سَمَاعٌ مِنْ جَابِرِ بنِ عَبْدِ اللهِ، وَلَوْ كَانَ بِهَا وَهُوَ حَدَثٌ، لأَخَذَ عَنْ جَابِرٍ.

جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سب سے آخر میں فوت  ہوئے جن سے عمر بن عبد العزیز کا سماع نہیں ہے لیکن یار دوستوں نے ایک روایت بیان کی جو سیر از امام الذھبی میں ہی ہے

العَطَّافُ بنُ خَالِدٍ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ أَسْلَمَ، قَالَ لَنَا أَنَسٌ: مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ بَعْدَ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَشْبَهَ صَلاَةً بِرَسُوْلِ اللهِ مِنْ إِمَامِكُم هَذَا -يَعْنِي: عُمَرَ بنَ عَبْدِ العَزِيْزِ-.
زید بن اسلم نے کہا انس  رضی الله عنہ نے ہم سے کہا میں نے کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھی جس کی نماز رسول الله صلی الله علیہ وسلم جیسی ہو سوائے اس امام کے یعنی عمر بن عبد العزیز 

محدثین اس قول کے راوی زید بن اسلم کے لئے کہتے ہیں

قال علي بن الحسين بن الجنيد زيد بن أسلم عن جابر مرسل

زید بن اسلم کی روایت جابر سے مرسل ہے

لہذا جب جابر سے ہی سماع نہیں تو زید کا سماع انس بن مالک سے کیسے ہو سکتا ہے ؟ معلوم ہوا انس بن مالک رضی الله عنہ  نے عمر بن عبد العزیز کے پیچھے کوئی نماز نہیں پڑھی

اس تمہید کے بعد اب ہم بات کرتے ہیں  الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّة والی روایت پر – کہا جاتا ہے کہ صحیح خلافت صرف تیس سال ہو گی اس کے بعد دور آئے گا جس میں  ملک عضوض  بھنبھوڑنے والی بادشاہت ہو گی –  ہمارے روایت پسند علماء (مثلا امام احمد، امام ابن تیمیہ، ابن حجر اور ایک جم غفیر)  اس کا آغاز معاویہ رضی الله عنہ کے دور سے کرتے ہیں اس طرح ان تمام اصحاب رسول  بشمول حسن رضی الله عنہ کو مورد الزام دیتے ہیں جو امت پر ایک بادشاہ  (یعنی معاویہ) کو مسلط کر گئے – ان علماء کے مطابق اس معاویہ رضی عنہ سے لے کر پورا دور بنو امیہ دور ظلم تھا

اس سلسلے میں امام احمد مسند میں ایک روایت پیش کرتے ہیں

عن النعمان بن بشير عن حذيفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فيكون ما شاء الله أن يكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج نبوة ثم سكت قال حبيب فلما قام عمر بن عبد العزيز كتبت إليه بهذا الحديث أذكره إياه وقلت أرجو أن تكون أمير المؤمنين بعد الملك العاض والجبرية فسر به وأعجبه يعني عمر بن عبد العزيز . رواه أحمد والبيهقي في دلائل النبوة .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1309 مکررات 0 متفق علیہ 0
 نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔ حضرت حبیب بن سالم نے  بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور حکومت قائم کی تو میں نے  یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔     عمر بن عبدالعزیز اس تشریح سے (حیرانی سے) خوش  ہوئے

خلافة على منهاج نبوة  کی اصطلاح زبان زد عام ہے لیکن امام بخاری اس روایت کے سخت مخالف ہیں اس روایت کا دارومدار ایک راوی حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ  پر ہے

مسند احمد میں سند ہے

– حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ

حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ کے لئے امام بخاری فیه نظر کہتے ہیں اور ان سے صحیح میں کوئی روایت نہیں لی

امام مسلم نے صرف ایک روایت لی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز میں سوره الغاشیہ پڑھتے تھے

کتاب من قال فيه البخاري فيه نظراز أبو ذر عبد القادر بن مصطفى بن عبد الرزاق المحمدي کے مطابق

حبيب بن سالم الأنصاري مولى النعمان بن بشير: قال البخاري: “فيه نظر”. وقال ابن عدي: ليس في متون أحاديثه حديث منكر بل اضطرب في أسانيد ما يروى عنه، ووثقه أبو حاتم وأبو داود، وأورده ابن حبّان في الثقات، وقال عنه ابن حجر: لا بأس به. قلت: له عند مسلم حديثٌ واحدٌ متابعةً، وروى له أحمد والدارمي والأربعة ما مجموعه أربعة أحاديث دون المكرر.

بخاری اس راوی (حبيب بن سالم الأنصاري مولى النعمان بن بشير) کو فیہ نظر کہتے ہیں ابن عدی کہتے ہیں حدیثوں میں توازن نہیں اس کی حدیث منکر ہے بلکہ اسناد میں اضطراب بھی کرتا ہے .ابو حاتم اور ابو داود ثقہ کہتے ہیں اور ابن حبان ثقات میں لائے ہیں اور اس کو ابن حجر کہتے ہیں کوئی برائی نہیں. میں  ( أبو ذر عبد القادر) کہتا ہوں مسلم نے متابعت میں صرف ایک حدیث نقل کی ہے اور اس سے احمد ،دارمی اور چاروں سنن والوں نےبلا تکرار حدیث لی ہے 

السیوطی کتاب تدريب الراوي  میں وضاحت کرتے ہیں

تنبيهات الأول البخاري يطلق فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه 

پہلی تنبیہ بخاری اگرکسی راوی پر  فیه نظر کا اطلاق کریں اور سكتوا عنه کہیں تو مراد حدیث ترک کرنا ہے

کتاب التنكيل از الشيخ المعلمي کے مطابق

وكلمة فيه نظر معدودة من أشد الجرح في اصطلاح البخاري

اور کلمہ فیہ نظر بخاری کی شدید جرح کی چند اصطلاح میں سے ہے 

اللكنوي کتاب الرفع والتكميل في الجرح والتعديل میں اس پر کہتے ہیں

 فيه نظر: يدل على أنه متهم عنده ولا كذلك عند غيره

فیہ نظر دلالت کرتا ہے کہ راوی بخاری کے نزدیک متہم ہے اور دوسروں کے نزدیک ایسا نہیں 

افسوس بخاری کی شدید جرح کو نظر انداز کردیا گیا

اس روایت کو صحیح ماننے والے عوام کے سامنے تقرر میں اس روایت کو  پورا نہیں سناتے کہ راوی خود  الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ  کے دور کو بتاتا ہے کہ وہ گذر چکا ہے جو سن ٩٩ ہجری میں عمر بن عبد العزیز کا دور تھا

دوسری طرف آج   الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ  والی روایت قادیانیوں ، جہادی تنظیموں اور معتدل لیکن  معجزات کی منتظر مذہبی تنظیموں کی نہایت پسندیدہ ہے –  لیکن اگر  غیر جانب داری کے ساتھ اوپر دی گئی صورت حال   کو دیکھیں تو عقل سلیم رکھنے والوں  جان سکتے ہیں کہ روایت صحیح نہیں ہے