Author Archives: Islamic-Belief

یسعیاہ، ابن سبا، الرجعة اورعود روح

قرن اول میں امت میں ایک عقیدہ پھیلایا گیا جس کو عقیدہ  الرجعة  یا رجعت کہا جاتا ہے – اس عقیدے کے اہل سنت انکاری ہیں  اور شیعہ اقراری ہیں-  عقیدہ الرجعة کیا ہے کتب شیعہ سے سمجھتے ہیں

سوره البقرہ کی آیت  ألم تر إلى الذين خرجوا من ديارهم وهم ألوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم أحياهم إن الله لذو فضل على الناس ولكن أكثر الناس لا يشكرون(243) پر بحث کرتے ہوئے شیعہ عالم  أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي المتوفی ٤٦٠ ھ  تفسیر التبيان في تفسير القرآن میں لکھتے ہیں

وفي الاية دليل على من أنكر عذاب القبر والرجعة معا، لان الاحياء في القبر، وفي الرجعة مثل إحياء هؤلاء الذين أحياهم للعبرة.

اور اس آیت میں دلیل ہے اس پر جو عذاب قبر کا اور رجعت کا انکار کرے کیونکہ قبر میں زندہ ہونا اور رجعت میں ان کی مثل ہے جن (کا ذکر آیت میں ہے جن کو) کو عبرت کے لئے زندہ کیا گیا

آیت فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم ألا خوف عليهم ولاهم يحزنون(170) کی تفسیر  میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

وفي الآية دليل على أن الرجعة إلى دار الدنيا جائزة لاقوام مخصوصين

اور اس آیت میں دلیل ہے کہ دار دنیا میں مخصوص اقوام کی رجعت جائز ہے

آیت ثمَّ بَعَثْنَكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكمْ تَشكُرُونَ(56) کی تفسیر میں شیعہ عالم تفسیر میں  تفسير مجمع البيان لکھتے ہیں

  و استدل قوم من أصحابنا بهذه الآية على جواز الرجعة و قول من قال إن الرجعة لا تجوز إلا في زمن النبي (صلى الله عليه وآله وسلّم) ليكون معجزا له و دلالة على نبوته باطل لأن عندنا بل عند أكثر الأمة يجوز إظهار المعجزات على أيدي الأئمة و الأولياء و الأدلة على ذلك مذكورة في كتب الأصول

اور ہمارے اصحاب کی ایک قوم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے رجعت کے جواز پر  اور کہا کہ جس نے کہا رجعت جائز نہیں ہے سوائے  دور نبوی صلی الله علیہ و الہ وسلم کے کہ وہ معجزہ ہوتا ان کی نبوت کی دلیل پر تو یہ باطل قول ہے کیونکہ ہمارے اکثر ائمہ  اور اولیاء  کے ہاتھ پر  معجزات کا ظہور جائز  ہے جس پر دلائل مذکورہ کتب اصول میں موجود ہیں

ائمہ شیعہ کے مطابق الرجعة کا ایک خاص وقت ہے جس  کا انکار لوگوں نے کیا کیونکہ وہ اس کی تاویل تک نہیں پہنچ سکے

قرآن کی آیت ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام لوگوں کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں اور اہل تشیع کے مطابق صرف ان دشمنان اہل بیت کو ملی ہیں جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا

تفسیر نور ثقلین  از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى  المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق

وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة

علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے

اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کو زندہ کرے گا

http://www.come-and-hear.com/sanhedrin/sanhedrin_90.html

اس کی دلیل بائبل کی کتاب  یسعیاہ    باب ٢٦ آیت  ١٩ ہے

Your dead shall live; their bodies shall rise.

                     You who dwell in the dust, awake and sing for joy

           For your dew is a dew of light,

                     and the earth will give birth to the dead.

تمھارے مردے جی اٹھیں گے ان کے اجسام زندہ ہوں گے

تم وہ جو خاک میں ہو اٹھو اور گیت گاؤ

کیونکہ تمہاری اوس، روشنی کی شبنم ہے

اور زمیں مردہ کو جنم دے گی

حزقی ایل کی کتاب میں رجعت کا ذکر ہے کہ یہود کو کس طرح جی بخشا جائے گا

Behold I will open your graves and raise you from your graves, My people; and I will bring you into the Land of Israel. You shall know that I am G‑d when I open your graves and when I revive you from your graves, My people. I shall put My spirit into you and you will live, and I will place you upon your land, and you will know that I, G‑d, have spoken and done, says G‑d.” (Ezekiel 37:12-14)

خبردار میں تمہاری قبریں کھول دوں گا اور تم کو جی بخشوں گا میرے لوگ! اور میں تم کو ارض مقدس لاؤں گا

تم جان لو گے کہ میں ہی الله ہوں میں  قبروں کو کھولوں گا

آور تم کو ان میں سے اٹھاؤں گا میرے لوگ ! میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا

اور تم زندہ ہو گے اور میں تم کو تمہاری زمین پر رکھوں گا اور تم جان لو گے کہ میں رب نے جو کہا پورا کیا

 

ان آیات کی بنیاد پر یہود کہتے ہیں کہ مسیح مردوں کو بھی زندہ کرے گا اور یہی عقیدہ اہل تشیع کا بھی ہے جس کی قلمیں قرانی آیات میں لگائی گئیں تاکہ اس عقیدہ کو ایک اسلامی عقیدہ  ثابت کیا جا سکے

لہذا قرن اول میں یہ عقیدہ شیعوں میں پھیل چکا تھا اور اہل سنت اس  کا انکار کرتے تھے کہ رجعت ہو گی البتہ  کچھ شیعہ عناصر نے اس کو بیان کیا جو کوفہ کے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کے شاگرد تھے- اب اپ کبری صغری کو ملائیں – ابن سبا عثمان رضی الله عنہ کے دور میں یمن سے حجاز آیا اپنا عقیدہ پھیلانے لگا اور وہاں سے مصر اور عراق میں آیا- اسی دوران ابن مسعود کی وفات ہوئی عثمان کی شہادت ہوئی اور علی خلیفہ ہوئے – تاریخ دمشق کے مطابق وہاں کوفیوں میں ابن سبا بھی تھا جس نے ایک دن مجمع میں علی سے کہا

انت انت

تو، تو ہے

یعنی تو اے علی رب العالمین ہے – اس کی وضاحت کے لئے ویب سائٹ پر کتاب مجمع البحرین دیکھیں

کتاب رجال ابن داود از ابن داوود الحلي کے مطابق

 عبدالله بن سبا ي (جخ) رجع إلى الكفر وأظهر الغلو (كش) كان يدعي النبوة وأن عليا عليه السلام هو الله، فاستتابه عليه السلام (ثلاثة أيام) فلم يرجع فأحرقه في النار في جملة سبعين رجلا ادعوا فيه ذلك

عبد الله بن سبا ان ستر میں تھا جن کو جلا دیا گیا

الکشی کہتے ہیں امام جعفر نے کہا

أن عبدالله بن سبأ كان يدعي النبوة ويزعم أن أمير المؤمنين ( عليه السلام ) هو الله

ابن سبا نبوت کا مدعی تھا اور دعوی کرتا تھا کہ علی وہ الله ہیں

کتاب   خلاصة الاقوال از  الحسن بن يوسف بن علي بن المطهر الحلي کے مطابق

عبدالله بن سبا بالسين المهملة والباء المنقطة تحتها نقطة واحده غال ملعون حرقه أميرالمؤمنين عليه السلام بالنار كان يزعم أن عليا عليه السلام إله وأنه نبي لعنه الله.

عبد الله بن سبا کو علی نے جلوا دیا کیونکہ اس نے ان کو الہ کہا

بعض مستشرقین نے یہودی سازش کی چھپانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس ابن سبا کی حکایت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  ضعیف ہے اس کے بعد شیعہ حضرات بہت خوش ہوئے اور اپنے ائمہ پر جھوٹ گھڑنے کا اتہام لگا دیا جو ابن سبا کا ذکر کرتے آئے ہیں – اہل سنت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے بعض روایات ابن سبا سے متعلق لی گئی ہیں لیکن کیا کتب شیعہ میں ابن سبا کی تمام خبریں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  کی سند سے ہیں ؟ نہیں ان کے مختلف راوی ہیں جو ثقہ سمھجے جاتے ہیں اور متقدمیں شیعہ ابن سبا کو ایک حقیقی شخص سمجھتے آئے ہیں- اس کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں ٢٠ سے ٣٠ راوی ایسے ہیں جو کھلم کھلا اپنے اپ کو سبائی کہتے ہیں یا محدثین إن کو السبئية یا السبائية مين شمأر کرتے ہیں یا وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں – جن  میں سے بعض سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے پہلے کے ہیں

 السبئية سے متعلق  روایات کو محمد بن حنفیہ کے  بیٹے علی بن محمد بن علی نے جمع کیا تھا یعنی علی رضی الله عنہ کے پوتے نے اس کی خبر امام فسوی المعروفة والتاريخ میں دیتے ہیں

 وكان عَبد الله جمع أحاديث السبئية

اور عبد الله نے  السبئية کی روایات جمع کیں

مورخین کے نزدیک السبئية  سے مراد وہ قبائل بھی ہیں جو یمن میں آباد تھے اور وہیں سے ابن سبا کا تعلق تھاجو یمن سے کوفہ پہنچا اور مورخین کے مطابق اس کی ماں کالی تھی – یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ یہ اصلی یہودی بھی نہیں تھا کیونکہ یہود کے مطابق  کالے لوگ اصلی یہود نہیں اگرچہ اتھوپیا میں کالے یہودی ہیں لیکن باقی یہودی ان کو اصل نہیں مانتے دوسرا یہود میں نسل باپ سے نہیں ماں سے چلتی ہے

قرن اول میں  کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں   شیعہ  زاذان ہیں جو عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی وفات کے بعد اب   اصحاب علی  میں سے ہیں،  وہ روایت کرتے ہیں کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان  سے پہلے،  نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے

اس روایت کو زاذان سے ایک  اور متعصب شیعہ المنھال بن عمرو روایت کرتا ہے  یا عدی بن ثابت روایت کرتا ہے  یہ بھی شیعہ ہیں

اس طرح ابن سبا کے  عقیدہ رجعت کا  اسلامی عقیدہ کے طور پر ظہور ہوتا  ہے اور اب اہل سنت میں بھی مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے- عود روح کی روایت کے مطابق  روح آسمان پر نہیں جا سکتی لھذا وہ قبر میں ہی رہتی ہے گویا اب صرف انتظار ہے کہ    الساعہ  (وہ گھڑی) کب ہو گئی – اہل سنت جب اس روایت کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں اس میں الساعہ  سے مراد روز محشر ہے جبکہ  الساعہ  سے مراد رجعت ہے اسی لئے امام المہدی کو القائم کہا جاتا ہے جو صحیح غلط کا فیصلہ کریں گے اور انتقام لیں گے

شیعہ کتب کے مطابق  ابوحمزہ ثمالي کہتے ہیں: میں نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا: اے  فرزند رسول    کیا آپ سارے ائمہ قائم بالحق نہیں ہیں؟  فرمایا: کیوں نہیں؟  میں نے عرض کیا: تو پھر صرف امام مہدی  کیوں القائم قرار دیئے گئے ہیں اور صرف امام مہدی   کو ہی کیوں القائم کہا جاتا ہے؟  فرمایا: جب میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو کائنات کے فرشتوں کے رونے کی صدائیں بلند ہوئیں اور سارے فرشتے بارگاہ الہی میں شدت سے روئے اور عرض کیا: پروردگارا  کیا آپ بہترین بندے اور اشرف مخلوقات کے فرزند اور مخلوقات میں پسندیدہ ترین ہستی کے قاتلوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دے گا؟  اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی کہ: میرے فرشتوں  پرسکون ہوجاؤ۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ ان سے انتقام لونگا خواہ یہ انتقال طویل زمانے گذرنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو؛ اس کے بعد اللہ تعالی نے فرشتوں کو امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے آنے والے ائمہ کا دیدار کرایا تو فرشتے مسرور ہوئے اور سب نے اچانک دیکھا کہ ائمہ میں سے ایک امام کھڑے ہوئے ہیں اور نماز ادا کررہے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرشتوں سے خطاب کرکے فرمایا: میں اس القائم کے ذریعے ان سے انتقام لوں گا

اس طرح عقیدہ عود روح ابن سبا  کے دور میں ہی کوفہ میں شیعان علی میں پھیل چکا تھا – یہ ایک خفیہ تحریک تھی علی رضی الله عنہ  کو بھی اس  تحریک کا احساس دیر سے ہوا جب ابن سبا نے کھلم کھلا ان کو مجمع میں  رب العالمین کہا- علی نے اس  کے اصحاب کو مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا  اور بعض اور کو جلا ڈالا – جس کی خبر،  علی کے گورنر ، ابن عباس رضی الله عنہ کو بصرہ میں ہوئی لیکن دیر ہو چکی تھی ابن عباس نے کہا اس  عمل سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا تھا

الغرض عقیدہ رجعت اور عقیدہ عود روح ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں- اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں

كلام قليب البدر – معجزه يا آیت

جنگ بدر کے اختتام پر اپ صلی الله علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی لاشیں ایک کنواں میں ڈلوا دیں اور تیسرے روز اپ اس قلیب یا کنواں کی منڈھیر پر آئے اور مشرکین مکہ کو نام بنام پکار کر کہا کہ

کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ سچا پایا؟

عمر رضی الله عنہ اور دیگر اصحاب نے کہا اپ گلے ہوئے جسموں سے خطاب کر رہے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس پر کہا یہ اس وقت سن رہے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی موقعہ پر ابن عمر رضی الله عنہ نے رائے پیش کی کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ تھا اس کی خبر عائشہ رضی الله عنہا کو ہوئی انہوں نے اس  کی تاویل کی کہ یہ علم ہونا تھا کہ کفار  نے حق جان لیا اور مردے نہیں سنتے

ابن رجب تفسیر میں لکھتے ہیں

قد وافقَ عائشةَ على نفي سماع الموتى كلامَ الأحياءِ طائفة من العلماءِ. ورجَّحَهُ القاضي أبو يعْلى من أصحابِنا، في كتابِ “الجامعِ الكبيرِ” له. واحتجّوا بما احتجتْ به عائشةُ – رضي الله عنها -، وأجابُوا عن حديثِ قليبِ بدرٍ بما أجابتْ به عائشة – رضي الله عنها – وبأنه يجوزُ أن يكونَ ذلك معجزةً مختصةً بالنبيِّ – صلى الله عليه وسلم –

علماء کا ایک گروہ عائشہ سے موافقت کرتا ہے مردوں کے سننے کی نفی پر جب زندہ ان سے کلام کریں – اور اسی کو راجح کیا ہے قاضی ابویعلی  ہمارے اصحاب (حنابلہ) میں سے کتاب جامع الکبیر میں اور دلیل لی ہے جس سے عائشہ رضی الله عنہا نے دلیل لی ہے اور اس سے جائز ہے کہ یہ معجزہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر خاص تھا

آیت فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (52)  کی تفسیر محاسن التأويل   میں   محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ)  لکھتے ہیں

وقال ابن الهمام: أكثر مشايخنا على أن الميت لا يسمع استدلالا بهذه الآية ونحوها. ولذا لم يقولوا: بتلقين القبر. وقالوا: لو حلف لا يكلم فلانا، فكلمه ميتا لا يحنث. وأورد عليهم  قوله صلّى الله عليه وسلّم في أهل القليب (ما أنتم بأسمع منهم)  وأجيب تارة بأنه روي عن عائشة رضي الله عنهما أنها أنكرته. وأخرى بأنه من خصوصياته صلّى الله عليه وسلّم معجزة له. أو أنه تمثيل

ابن الھمام نے کہا: ہمارے اکثر مشایخ اس آیت سے اور اسی طرح کی دیگر آیات سے استدلال کر کے اس موقف پر ہیں کہ میت نہیں سنتی – اس وجہ سے وہ نہیں کہتے قبر پر تلقین کے لئے- اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی قسم لے کہ فلاں سے کلام نہ کرو گا پھر اس کی موت کے بعد کلام کر لیا تو قسم نہیں ٹوٹے گی- اور اس پر آیا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول ” تم سماع میں ان سے بڑھ کر نہیں” –  اور جواب دیا جاتا ہے کہ روایت کیا گیا ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے اس سماع کا انکار کیا ہے اور دوسرا جواب ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے ان کے لئے معجزہ ہے یا ان کے لئے مثال ہے

کتاب  مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) لکھتے ہیں

ثُمَّ قَالَ وَتَارَةً بِأَنَّ تِلْكَ خُصُوصِيَّةٌ لَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مُعْجِزَةٌ وَزِيَادَةُ حَسْرَةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ

پھر کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص ہے معجزہ ہے اور کافرین پر حسرت کی زیادتی ہے

معلوم ہوا کہ قلب بدر کے واقعہ کو علماء معجزہ کہتے آئے ہیں اسی چیز کا اعادہ البانی نے بھی کیا ہے کہ یہ معجزہ تھا

لیکن بعض علماء نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ مردہ ہر وقت سنتا ہے جب بھی کوئی اسکو پکارے مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم – اور عصر حاضر کے حیات فی القبر کے اقراری غیر مقلدین  بھی  تدفین کے فورا بعد مردے کے سماع  کے قائل ہیں

معجزہ کی سادہ فہم تعریف لغت میں دیکھی جا سکتی ہے اس کے علاوہ اصول کی کتب میں بھی ہے – قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-

لیکن ایک صاحب جھنجھلا کر کہتے ہیں

معجزہ ۔۔ یا ۔۔ خرق عادۃ کی یہی تعریف کسی آیت ، یا حدیث شریف یا کسی صحابی سے ثابت کریں

بہت خوب یعنی مناظرہ بازی کے انچھر پھینکے جا رہے

دیکھتے ہیں معجزہ میں کیا اقوال ہیں ظاہر ہے یہ اصطلاح اصول و علم کلام کی ہے جو  قرآن میں نہیں ہے نہ حدیث میں تو پھر  ان لوگوں سے   عارفانہ کلام کیوں ادا ہو رہا ہے

مجموعة الرسائل والمسائل میں ابن   تيمية الحراني (المتوفى : 728هـ) لکھتے ہیں

وإن كان اسم المعجزة يعم كل خارق للعادة في اللغة وعرف الأئمة المتقدمين كالإمام أحمد بن حنبل وغيره – ويسمونها: الآيات – لكن كثير من المتأخرين يفرق في اللفظ بينهما، فيجعل المعجزة للنبي، والكرامة للولي. وجماعهما الأمر الخارق للعادة.

اور اگرچہ معجزہ کا اسم لغت میں  عام طور سے خارق عادت کے لئے  ہے اور ائمہ متقدمین جیسے امام احمد اور دیگر اس کو جانتے ہیں– اس کو نام دیا ہے آیات کا لیکن متاخرین میں سے اکثر نے ان الفاظ میں فرق کیا ہے تو معجزہ کو کیا نبی کے لئے اور کرامت کو کیا ولی کے لئے  اور ان سب کو امر خارق عادت کیا

النبوات از ابن تیمیہ الدمشقي (المتوفى: 728هـ) کے مطابق

ليس في الكتاب والسنة لفظ المعجزة وخرق العادة وليس في الكتاب والسنة تعليق الحكم بهذا الوصف، بل ولا ذكر خرق العادة، ولا لفظ المعجز، وإنّما فيه آيات وبراهين

کتاب و سنت میں معجزہ یا خارق عادت  کا لفظ ہی نہیں ہے نہ کتاب و سنت میں اس وصف پر کوئی حکم ہے نہ خرق عادت کا ذکر ہے نہ لفظ معجزہ کا بلکہ اس میں آیات و براہین ہیں

اس کے بعد ابن تیمیہ اپنی مختلف کتب میں معجزہ اور خارق عادت کے لفظ کے بجائے آیات اور براہین کے الفاظ بولنے پر زور دیتے ہیں اور اشاعرہ ، معتزلہ اور امام ابن حزم کے اقوال کا رد کرتے ہیں لب لباب یہ ہے

سلفي المعتزلة  وابن حزم و علماء ظاہر اشاعرہ
 

والشيخ رحمه الله يوضح أن خرق العادة وعدم المعارضة هذا من صفات المعجزة، ليس من حدودها.

 

فالآيات التي أعلم الله بها رسالة رسله، وصدّقهم، لا بُدّ أن تكون مختصةً بهم، مستلزمةً لصدقهم؛ فإنّ الإعلام والإخبار بأنّ هذا رسول، وتصديقه في قوله: إنّ الله أرسلني، لا يُتصوّر أن يوجد لغير رسول.

__________

 

الآيات التي جعلها الله علامات: هي إعلامٌ بالفعل الذي قد يكون أقوى من القول، فلا يُتصوّر أن تكون آيات الرسل إلا دالّة على صدقهم، ومدلولها أنّهم صادقون، لا يجوز أن توجد بدون صدق الرسل البتة.

 

ابن تیمیہ کے نزدیک کرامات غیر نبی بھی خرق عادت ہیں جن کا صدور ممکن ہے اور ان کو آیات نہیں  کہا گیا ہے  

 

اس طرح کو انبیاء کرتے ہیں وہ آیات ہیں اور جو شعبدہ باز ساحر کرتے ہیں وہ معجزہ ہے

لا يُثبتون النبوة إلا بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة.

انظر: شرح الأصول الخمسة للقاضي عبد الجبار المعتزلي ص 585-586. والمحلى لابن حزم 136. والدرة فيما يجب اعتقاده له أيضاً ص 194.

 

إن خرق العادة لا يكون إلا للأنبياء.

 

 

معتزلہ اور امام ابن حزم کے نزدیک جو خرق عادت بات انبیاء سے صدور ہو وو معجزہ ہے اور غیر نبی سے یہ ممکن نہیں لہذا کرامت کوئی چیز نہیں

المعجزات عند الأشاعرة هي ما تعجز قدرات العباد عنها

إنّه إذا لم يقدر على الفعل، فلا بُدّ أن يكون عاجزاً، أو قادراً على ضدّه.

 

أور

متأخروا الأشاعرة حذفوا القيد الذي وضعه المتقدمون

ولهذا لما رأى المتأخرون ضعف هذا الفرق؛ كأبي المعالي ، والرازي ، والآمدي ، وغيرهم حذفوا هذا القيد

 

أور

المعجزة عند الأشاعرة دعوى النبوة وعدم المعارضة وليست الآية بجنسها معجزة

النبوات أز ابن تيميه

 

فيُثبتون النبوة بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة، أو بطريق الضرورة، إلا أنّ طريق المعجزة عندهم هي أشهر الطرق.

انظر: المواقف للإيجي ص 349، 356، 357. والإرشاد للجويني ص 331. والإنصاف للباقلاني ص 93. والبيان له ص 37-38.

وجوزوا أن يأتي غير الأنبياء بمثل ما أتوا به ولو لم يدعوا النبوة، فسووا بين خوارق الأنبياء والأولياء والسحرة والكهان

 

 

متقدمین اشاعرہ کے نزدیک معجزہ وہ چیزیں ہیں جو صرف الله کی قدرت سے ممکن ہیں جو انسان نہ کر سکتا ہو

 

متاخرین کے نزدیک آیات معجزہ کی جنس سے نہیں ہیں  اور ان کا صدور نبی،  غیر نبی دونوں سے ممکن ہے جس میں غیر نبی نبوت کا دعوی نہیں کرتا

خوراق انبیاء اور خوارق اولیاء کا لفظ بولا گیا ہے

 

 

ابن تیمیہ کی اصطلاحی تعریف  کو قبول کرتے ہوئے عصر حاضر کے وہابی علماء نے کہا ہے

منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ) قرانی لفظ  الآية  پر

 لکھتے ہیں

لأن هذا التعبير القرآني والآية أبلغ من المعجزة لأن الآية معناها العلامة على صدق ما جاء به هذا الرسول، والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره، لكن التعبير بـ “الآية” أبلغ وأدق وهي التعبير القرآني فنسمي المعجزات بالآيات هذا هو الصواب.

یہ قرانی تعبیر ہے اور آیت کا لفظ معجزہ سے زیادہ مفھوم والا ہے کیونکہ آیت کا معنی علامت ہے اس  سچ پر جو یہ رسول لایا ہے اور معجزہ کسی شعبدہ باز یا انسان کے ہاتھ پر ہوتا ہے جس میں اس کو دوسروں سے بڑھ کر قوت ہوتی ہے کہ دوسرے عجز کا شکار ہوتے ہیں لیکن آیت کی تعبیر ابلغ اور دقیق ہے اور یہ قرانی تعبیر ہے پس ہم معجزات کو آیات کہیں گے جو ٹھیک ہے

شرح العقيدة السفارينية – میں  محمد بن صالح بن محمد العثيمين لکھتے ہیں

المعجزات: جمع معجزة، وهي في التعريف أمر خارق للعادة يظهره الله سبحانه وتعالى على يد الرسول شهادة بصدقه، فهو يشهد بصدقه بالفعل وهو إظهار هذه المعجزة.

معجزات: جو معجزہ کی جمع ہے یہ تعریف ہے خرق عادت کام پر جو اللہ تعالی کرتے ہیں رسول کے ہاتھ پر سچ پر بطور شہادت کہ وہ سچائی کو دیکھتا ہے بالفعل اور یہ معجزہ کا اظہار ہے

اصلا ابن تیمیہ اور غیر مقلدین اس گروہ صوفیا میں سے ہیں جو غیر نبی کے ہاتھ پر کرامت مانتے ہیں اور اسی چیز کو اپنی کتابوں میں ابن تیمیہ معجزہ کہتے ہیں – لہذا یہ کھل کر نہیں کہنا چاہتے کہ معجزہ  صرف الله کا  فعل ہے نبی کے ہاتھ پر

ابن تیمیہ سے منسلک لوگوں کے تضادات دیکھیں

ابن تیمیہ کے نزدیک نبی کے ہاتھ پر جو فعل خرق عادت ہوا وہ معجزہ نہیں ہے- جو غیر نبی کرے وہ معجزہ ہے

منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)کہتے ہیں

 والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره

اور معجزہ وہ ہے جو شعبدہ باز کے ہاتھ پر ہو

 اور اہل حدیث مولانا عبد المجید سوہدری    کہتے ہیں

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کرامات-اہل-حدیث.74916/

%da%a9%d8%b1%d8%a7%d9%85%d8%a7%d8%aa-%d8%a7%db%81%d9%84-%d8%ad%d8%af%db%8c%d8%ab

اہل حدیث
ترجمہ محمد جونا گڑھی

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور جب آپ کوئی معجزه ان کے سامنے ﻇاہر نہیں کرتے تو وه لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزه کیوں نہ ﻻئے؟ آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں
7:203

وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو پھر کوئیمعجزه لے آؤ تو کرو اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راه راست پر جمع کر دیتا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے
6:35

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَمُنُّ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَعلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزه تمہیں ﻻ دکھائیں اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے
14:11

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کیے اور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزه اللہ کی اجازت کے بغیر ﻻ سکے پھر جس وقت اللہ کا حکم آئےگا حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس جگہ اہل باطل خسارے میں ره جائیں گے
40:78

یھاں یہ اہل حدیث عالم آیات کا ترجمہ معجزہ کرتے ہیں لیکن کچھ اہل حدیث معجزہ لفظ سے ہی الرجک ہیں

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ قلیب بدر معجزہ تھا

لیکن یہی عالم بعد میں  کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین پر جوتوں کی چاپ سنتے ہیں تو قلیب بدر معجزہ کیسے ہوا ؟

لہذا معجزہ کی تعریف بدلتے رہتے ہیں

جو لوگ معجزہ کی تعریف ہی بدلتے رهتے ہوں ان سے اب کیا توقع کی جائے کہ وہ معجزہ کو معمول بنا دیں گے اور معمول کو معجزہ

بقول حسرت

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

علی علی علی علی

یمن کا ایک شخص عبد الله ابن سبا ، عثمان رضی الله عنہ کے دور میں ایمان لایا – یہ اس سے قبل ایک یہودی تھا اور قرآن و حدیث پر اس کا اپنا ہی  نقطۂ نظر تھا – یہود میں موسی و ہارون (علیھما السلام)  کے بعد  انبیاء کی اہمیت واجبی   ہے –  کوئی بھی نبی موسی (علیہ السلام) سے بڑھ کر نہیں ہے اور موسی  (علیہ السلام) نے الله سے براہ راست کلام کیا اللہ کو ایک جسم کی صورت دیکھا –  باقی انبیاء میں داود  (علیہ السلام) قابل اہم سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی اہمیت ایک موسیقار سے زیادہ یہود کے نزدیک نہیں ہے –  جنہوں نے آلات موسیقی کو ایجاد کیا اور ان  کے سازووں سے ہیکل سلیمانی گونجتا رہتا تھا – ان کے بعد اہمیت الیاس  (علیہ السلام) کی ہے جو شمال کی یہودی ریاست اسرئیل میں آئے اور ان کو زجر و توبیخ کی – آج جو یہودیت ہم کو ملی ہے وہ شمال مخالف یہودا کی ریاست کی ہے- اس ریاست میں یہودا اور بن یامین نام کے دو قبائل تھے جو یہود کے بقول ١٢ میں بچ گئے جبکہ باقی ١٠ منتشر ہو گئے جن کی اکثریت شمالی ریاست میں تھی-  راقم کی تحقیق کے مطابق ابن سبا  کے اجداد کا تعلق بھی شمالی یہود سے تھا –  الیاس  (علیہ السلام) کی اسی لئے اہمیت ہے کہ شمال سے تھے اور وہ ایک آسمانی بگولے میں اوپر چلے گئے

اب ابن سبا کا فلسفہ دیکھتے ہیں

علی الیاس ہیں اورآنے والا دابة الارض ہیں

سبائیوں  کو قرآن سے آیت ملی

 و رفعناه مکانا علیا

اور ہم نے اس کو ایک بلند مقام پر اٹھایا

اس  آیت میں علیا کا لفظ  ہے  یعنی الیاس کو اب بلند کر کے علی کر دیا گیا ہے

اپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیا عجیب بات ہے- تو حیران نہ ہوں یہ کتب شیعہ میں موجود ہے

مختصر بصائر الدرجات  از الحسن بن سليمان الحليي  المتوفی ٨٠٦ ھ روایت پیش کرتے ہیں

حدثنا الحسين بن أحمد قال حدثنا الحسين بن عيسى حدثنا يونس ابن عبد الرحمن عن سماعة بن مهران عن الفضل بن الزبير عن الاصبغ ابن نباتة قال: قال لي معاوية يا معشر الشيعة تزعمون ان عليا دابة الارض فقلت نحن نقول اليهود تقوله فارسل إلى رأس الجالوت فقال ويحك تجدون دابة الارض عندكم فقال نعم فقال ما هي فقال رجل فقال اتدري ما اسمه قال نعم اسمه اليا قال فالتفت الي فقال ويحك يا اصبغ ما اقرب اليا من عليا.

الاصبغ ابن نباتة کہتے ہیں کہ معاویہ نے کہا اے گروہ شیعہ تم گمان کرتے ہو علی دابة الارض ہے پس میں الاصبغ ابن نباتة نے معاویہ کو جواب دیا ہم وہی کہتے ہیں جو یہود کہتے ہیں  پس معاویہ نے یہود کے سردار جالوت کو بلوایا اور کہا تیری بربادی ہو کیا تم اپنے پاس دابة الارض کا ذکر پاتے ہو؟ جالوت نے کہا ہاں – معاویہ نے پوچھا کیا ہے اس میں ؟ جالوت نے کہا ایک شخص ہے – معاویہ نے پوچھا اس کا نام کیا ہے ؟ جالوت نے کہا اس کا نام الیا (الیاس) ہے – اس پر معاویہ میری طرف پلٹ کر بولا بردبادی اے الاصبغ یہ الیا ، علیا کے کتنا قریب ہے

الاصبغ ابن نباتة کا تعلق یمن سے تھا یہ علی کا محافظ تھا – یعنی الیاس اب علی ہیں

اسی کتاب میں دوسری روایت ہے

 حدثنا الحسين بن احمد قال حدثنا محمد بن عيسى حدثنا يونس عن بعض اصحابه عن ابى بصير قال: قال أبو جعفر (ع) اي شئ يقول الناس في هذه الآية (وإذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم) فقال هو أمير المؤمنين

ابى بصير  يحيى بن القاسم الاسدى ، امام جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ اس آیت  (وإذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم) پر کیا چیز بول رہے ہیں پس امام نے کہا یہ تو امیر المومنین ہیں

ابى بصير  يحيى بن القاسم الاسدى کے لئے  الطوسي کہتے ہیں  إنه واقفي یہ واقفی تھے اور الکشی کہتے ہیں مختلط تھے
 بحوالہ سماء المقال في علم الرجال – ابو الهدى الكلباسي
كليات في علم الرجال از جعفر السبحاني  کے مطابق  الواقفة سے مراد وہ لوگ ہیں
وهم الذين ساقوا الامامة إلى جعفر بن محمد، ثم زعموا أن الامام بعد جعفر كان ابنه موسى بن جعفر عليهما السلام، وزعموا أن موسى بن جعفر حي لم يمت، وأنه المهدي المنتظر، وقالوا إنه دخل دار الرشيد ولم يخرج منها وقد علمنا إمامته وشككنا في موته فلا نحكم في موته إلا بتعيين
جو کہتے ہیں امامت امام جعفر پر ختم ہوئی پھر انہوں نے دعوی کیا کہ ان کے بیٹے موسی  امام ہیں اور دعوی کیا کہ موسی مرے نہیں زندہ ہیں اور وہی امام المہدی ہیں اور کہا کہ وہ دار الرشید میں داخل ہوئے اور اس سے نہ نکلے اور ہم ان کو امام جانتے ہیں اور ان کی موت پر شک کرتے ہیں پس ہم ان کی موت کا حکم تعین کے ساتھ نہیں لگا سکتے

علی رضی الله عنہ ہی الیاس تھے- جو اب بادلوں میں ہیں – علی کی قبر قرن اول میں کسی کو پتا نہیں تھی – سبائیوں کے نزدیک یہ نشانی تھی کہ وہ مرے نہیں ہیں – البتہ قرن اول اور بعد کے شیعہ یہ عقیدہ آج تک رکھتے ہیں کہ علی مدت حیات میں بادل الصعب کی سواری کرتے تھے اور علی اب دابتہ الارض ہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے- اسی بنا پر روایات میں ہے کہ اس جانور کی داڑھی بھی ہو گی – یعنی یہ انسان ہے- عام اہل سنت کو مغالطہ ہے کہ یہ کوئی جانور ہے

مسند امام الرضا کے مطابق امام الرضا اور یہود کے سردار جالوت میں مکالمہ ہوا

 قال لرأس الجالوت: فاسمع الان السفر الفلاني من زبور داود عليه السلام. قال: هات بارك الله فيك وعليك وعلى من ولدك فتلى الرضا عليه السلام السفر الاول من الزبور، حتى انتهى إلى ذكر محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين فقال سألتك يا رأس الجالوت بحق الله أهذا في زبور داود عليه السلام ولك من الامان والذمة والعهد ما قد أعطيته الجاثليق فقال راس الجالوت نعم هذا بعينه في الزبور باسمائهم. فقال الرضا عليه السلام: فبحق العشر الآيات التي أنزلها الله تعالى على موسى بن عمران في التورية هل تجد صفة محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين في التوراية منسوبين إلى العدل والفضل، قال نعم ومن جحد هذا فهو كافر بربه وأنبيائه. فقال له الرضا عليه السلام: فخذ على في سفر كذا من التورية فاقبل الرضا عليه السلام يتلو التورية وأقبل رأس الجالوت يتعجب من تلاوته وبيانه وفصاحته ولسانه، حتى إذا بلغ ذكر محمد قال رأس الجالوت: نعم، هذا أحماد وبنت أحماد وإيليا وشبر و شبير تفسيره بالعربية محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين. فتلى الرضا عليه السلام إلى آخره

یہود کے سردار جالوت نے کہا میں نے زبور میں( اہل بیت کے بارے میں ) پڑھا ہے امام رضا نے شروع سے آخر تک زبور کو پڑھا یہاں تک کہ محمد اور علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین کا ذکر آیا پس کہا اے سردار جالوت الله کا واسطہ کیا یہ داود کی زبور ہے ؟  جالوت نے کہا جی ہاں … امام رضا نے کہا الله نے دس آیات موسی پر توریت میں نازل کی تھیں جس میں  محمد ، علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین کی صفت ہیں جو عدل و فضل سے منسوب ہیں جالوت بولا جی ہیں ان پر  حجت نہیں کرتا مگر وہ جو کافر ہو

علی ہارون ہیں

یہود کے مطابق اگرچہ موسی کو کتاب الله ملی لیکن موسی لوگوں پر امام نہیں تھے – امام ہارون تھے لہذا دشت میں خیمہ ربانی

Tabernacle

میں صرف بنی ہارون کو داخل ہونے کا حکم تھا

 “Then bring near to you Aaron your brother, and his sons with him, from among the people of Israel, to serve me as priests—Aaron and Aaron’s sons, Nadab and Abihu, Eleazar and Ithamar.”

Exodus. 28:1

تم بنی اسرائیل کے ہاں  سے صرف ہارون اور اس کے بیٹے  میرے قریب آئیں کیونکہ یہ امام بنیں گے – ہارون اور اس کے بیٹے ندب اور ابیہو، علییضر اور اثمار

اسی بنا پر جب یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جو حدیث منزلت کے نام سے مشھور ہے جس کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم نے علی سے کہا کہ تم کو وہی  منزلت حاصل ہے جو موسی کو ہارون سے تھی تو اس کا مفھوم سبائیوں اور اہل تشیع کے نزدیک وہ  نہیں جو اہل سنت کے ہاں مروج ہے بلکہ  جس طرح  ہارون کو امام اللہ تعالی نے مقرر کیا اسی طرح علی کا امام مقرر ہونا بھی من جانب الله ہونا چاہیے

ali-facets

علی صحابی سے ہارون بنے پھر خلیفہ پھر امام پھر الیاس اور پھر دابتہ الارض

جس طرح موسی کے بعد ان کے بھائی ہارون  اور ان کے بیٹے امام ہوئے اسی طرح محمد کے بعد ان کے چچا زاد  بھائی اور ان کے بیٹے امام ہوں گے یعنی ابن سبا توریت کو ہو بہو منطبق کر رہا تھا

حسن و حسین کو  بنی ہارون کے نام دینا

حسن اور حسین رضی الله عنہما کے دو نام شبر اور شبیر بھی بتائے جاتے ہیں – ان ناموں کا عربی میں کوئی مفھوم نہیں ہے نہ یہ عربی   میں قرن اول سے پہلے بولے جاتے تھے – آج لوگ اپنے بچوں کا نام شبیر اور شبر بھی رکھ رہے ہیں – یہ نام کہاں سے آئے ہیں ؟  ان پر غور کرتے ہیں

ان ناموں کی اصل سمجھنے کے لئے اپ کو سبائی فلسفہ سمجھنا ہو گا تاکہ اپ ان ناموں کی روح تک پہنچ سکیں

امام حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِيُّ بِمَرْوَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا وَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحَسَنَ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، قَالَ: «بَلْ هُوَ حَسَنٌ» فَلَمَّا وَلَدَتِ الْحُسَيْنَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، فَقَالَ: «بَلْ هُوَ حُسَيْنٌ» ثُمَّ لَمَّا وَلَدَتِ الثَّالِثَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، قَالَ: «بَلْ هُوَ مُحْسِنٌ» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّمَا سَمَّيْتُهُمْ بِاسْمِ وَلَدِ هَارُونَ شَبَرٌ وَشُبَيْرٌ وَمُشْبِرٌ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب فاطمه نے حسن کو جنا تو نبی صلی الله علیہ وسلم  آئے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ تو حسن ہے  – پھر جب فاطمہ نے حسین کو جنا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  بلکہ یہ تو حسین ہے  – پھر تیسری دفعہ فاطمہ نے بیٹا جنا تو  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ محسن ہے – پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ان کو ہارون کے بیٹوں کے نام دیے ہیں شبر ، شبیر اور مبشر

امام حاکم اور الذھبی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں
 سند میں هانئ بن هانئ الهمداني الكوفي  ہے  یعنی یمن کے قبیلہ ہمدان کے تھے پھر کوفہ منتقل ہوئے امام بخاری تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں علی سے سنا ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں
هانئ بن هانئ [د، ت، ق] .عن علي رضي الله عنه.
قال ابن المديني: مجهول.  وقال النسائي: ليس به بأس.
ابن المدینی کہتے ہیں یہ مجھول ہے اور نسائی کہتے ہیں اس میں برائی نہیں ہے
الذھبی نے نسائی کی رائے کو ترجیح دی ہے
ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وَكَانَ يَتَشَيَّعُ , وَكَانَ مُنْكَرَ الْحَدِيثِ یہ شیعہ تھے منکر الحدیث ہیں
ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذھبی نے اس کا شمار مجہولین میں کیا ہے یعنی الذھبی مختلف کتابوں میں رائے بدلتے رہے
محدث ابن حبان جو امام الرضا کی قبر سے فیض حاصل کرتے ہیں وہ اس روایت کو صحیح ابن حبان میں نقل کرتے ہیں

أمالي الصدوق: 116 / 3. (3 – 4) البحار: 43 / 239 / 4 وص 263 / 8. (5 – 6) كنز العمال: 37682، 37693. کی روایت ہے

 الإمام زين العابدين (عليه السلام): لما ولدت فاطمة الحسن (عليهما السلام) قالت لعلي (عليه السلام): سمه فقال: ما كنت لأسبق باسمه رسول الله، فجاء رسول الله (صلى الله عليه وآله)… ثم قال لعلي (عليه السلام): هل سميته ؟ فقال: ما كنت لأسبقك باسمه، فقال (صلى الله عليه وآله): وما كنت لأسبق باسمه ربي عزوجل. فأوحى الله تبارك وتعالى إلى جبرئيل أنه قد ولد لمحمد ابن فاهبط فأقرئه السلام وهنئه وقل له: إن عليا منك بمنزلة هارون من موسى فسمه باسم ابن هارون. فهبط جبرئيل (عليه السلام) فهنأه من الله عزوجل ثم قال: إن الله تبارك وتعالى يأمرك أن تسميه باسم ابن هارون. قال: وما كان اسمه ؟ قال: شبر، قال: لسان عربي، قال: سمه الحسن، فسماه الحسن. فلما ولد الحسين (عليه السلام)… هبط جبرئيل (عليه السلام) فهنأه من الله تبارك وتعالى ثم قال: إن عليا منك بمنزلة هارون من موسى فسمه باسم ابن هارون، قال: وما اسمه ؟ قال: شبير، قال: لساني عربي، قال: سمه الحسين، فسماه الحسين

 الإمام زين العابدين (عليه السلام) کہتے ہیں کہ جب فاطمہ نے حسن کو جنا تو علی نے کہا اس کا نام رکھو انہوں نے کہا میں  رسول الله سے پہلے نام نہ رکھو گی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آئے اور علی سے پوچھا نام رکھا ؟ علی نے کہا نام رکھنے میں اپ پر سبقت نہیں کر سکتا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمآیا میں نام رکھنے میں اپنے رب پر سبقت نہیں کر سکتا پس الله تعالی نے الوحی کی اور جبریل کو زمین کی طرف بھیجا کہ محمد کے ہاں بیٹا ہوا ہے پس ہبوط کرو ان کو سلام کہو اور تہنیت اور ان سے کہو کہ علی کی منزلت ایسی ہے جیسی ہارون کو موسی سے تھی پس اس کا نام ہارون کے بیٹے کے نام پر رکھو پس جبریل آئے …. اور کہا اس کا نام شبر رکھو نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا عربی زبان میں کیا ہے؟ کہا: اس کا نام الحسن ہے پس حسن رکھو پھر جب حسین پیدا ہوئے تو جبریل آئے (یہی حکم دہرایا گیا اور من جانب اللہ نام رکھا گیا) شبیر- رسول الله نے پوچھا عربی میں کیا ہے ؟ حکم ہوا حسین پس حسین رکھا گیا

تفسیر قرطبی سوره الاعراف کی آیت ١٥٥ میں کی تفسیر میں قرطبی المتوفي ٦٧١ ھ  روایت پیش کرتے ہیں

أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَبْدٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: انْطَلَقَ مُوسَى وَهَارُونُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَانْطَلَقَ شَبَّرُ وَشَبِّيرُ- هُمَا ابْنَا هَارُونَ- فَانْتَهَوْا إِلَى جَبَلٍ فِيهِ سَرِيرٌ، فَقَامَ عَلَيْهِ هَارُونُ فَقُبِضَ رُوحُهُ. فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالُوا: أَنْتَ قَتَلْتَهُ، حَسَدْتَنَا  عَلَى لِينِهِ وَعَلَى خُلُقِهِ، أَوْ كَلِمَةٍ نَحْوَهَا، الشَّكُّ مِنْ سُفْيَانَ، فَقَالَ: كَيْفَ أَقْتُلُهُ وَمَعِيَ ابْنَاهُ! قَالَ: فَاخْتَارُوا مَنْ شِئْتُمْ، فَاخْتَارُوا مِنْ كُلِّ سِبْطٍ عَشَرَةً. قَالَ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ:” وَاخْتارَ مُوسى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقاتِنا” فَانْتَهَوْا إِلَيْهِ، فَقَالُوا: مَنْ قتلك يا هارون؟ قال: ما قتلني حَدٌ وَلَكِنَّ اللَّهَ تَوَفَّانِي. قَالُوا: يَا مُوسَى، مَا تُعْصَى

عُمَارَةَ بْنِ عَبْدٍ، علی رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے کہ موسی اور ہارون چلے اور ان کے ساتھ شبر و شبیر چلے پس ایک پہاڑ پر پہنچے جس پر تخت تھا اس پر ہارون کھڑے ہوئے کہ ان کی جان قبض ہوئی پس موسی قوم کے پاس واپس لوٹے – قوم نے کہا تو نے اس کو قتل کر دیا ! تو حسد کرتا تھا  … موسی نے کہا میں نے اس کو کیسے قتل کیا جبکہ اس کے بیٹے شبیر اور شبر میرے ساتھ تھے پس تم جس کو چاہو چنو اور ہر سبط میں سے دس چنو کہا اسی پر قول ہے  وَاخْتارَ مُوسى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقاتِنا پس وہ سب ہارون کی لاش  تک آئے اور ان سے پوچھا : کس نے تم کو قتل کیا ہارون؟ ہارون نے کہا مجھے کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ الله نے وفات دی

یعنی قرطبی نے تفسیر میں اس قول کو قبول کیا کہ شبر و شبیر ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام تھے

روایت میں   عُمارة بْن عَبد، الكُوفيُّ ہے العلل میں احمد کہتے ہیں
قال عبد الله بن أحمد: سألته (يعني أَباه) : عن عمارة بن عبد السلولي، قال: روى عنه أبو إسحاق. «العلل» (4464) .
یہ کوفہ کے ہیں – لا يروي عنه غير أبي إسحاق. «الجرح والتعديل  صرف أبي إسحاق روایت کرتا ہے
امام بخاری کہتے ہیں اس نے علی سے سنا ہے جبکہ امام ابی حاتم کہتے ہیں مجهول لا يحتج به، قاله أبو حاتم. یہ مجھول ہے دلیل مت لو

اس قصہ کا ذکر اسی آیت کی تفسیر میں  شیعہ تفسیر  مجمع البيان از  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  میں بھی ہے

 و رووا عن علي بن أبي طالب (عليه السلام) أنه قال إنما أخذتهم الرجفة من أجل دعواهم على موسى قتل أخيه هارون و ذلك أن موسى و هارون و شبر و شبير ابني هارون انطلقوا إلى سفح جبل فنام هارون على سرير فتوفاه الله فلما مات دفنه موسى (عليه السلام) فلما رجع إلى بني إسرائيل قالوا له أين هارون قال توفاه الله فقالوا لا بل أنت قتلته حسدتنا على خلقه و لينه قال فاختاروا من شئتم فاختاروا منهم سبعين رجلا و ذهب بهم فلما انتهوا إلى القبر قال موسى يا هارون أ قتلت أم مت فقال هارون ما قتلني أحد و لكن توفاني الله

شیعہ عالم الموفق بن احمد بن محمد المكي الخوارزمي المتوفى سنة 568 کتاب المناقب میں ہے کہ ایک دن نبی صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا کہ

 الحسن والحسين ابناه سيدا شباب أهل الجنة من الاولين والآخرين وسماهما الله تعالى في التورأة على لسان موسى عليه السلام ” شبر ” و “شبير ” لكرامتها على الله عزوجل

علی کے بیٹے حسن و حسین اہل جنت کے پچھلوں اور بعد والوں کے جوانوں کے سردار ہیں  اور الله نے ان کو توریت میں نام دیا ہے شبر و شبیر- یہ الله کا علی پر کرم ہے

ابن شہر آشوب کتاب مناقب علی میں اسی قسم کی ایک روایت پیش کرتے ہیں – توریت میں شبر و شبیر کا کوئی ذکر نہیں ہے

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں

قلت: وقد جاء في التسمية سبب آخر، فقد روى أحمد 1/159، وأبو يعلى “498”، والطبراني “2780”، والبزار “1996” من طريقين عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن محمد بن علي وهو ابن الحنفية، عن أبيه علي بن أبي طالب أنه سمى ابنه الأكبر حمزة، وسمى حسينا بعمه جعفر، قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، فلما أتى قال: “غيرت اسم ابني هذي”، قلت: الله ورسوله أعلم، فسمى حسنا وحسينا. قال الهيثمي في “المجمع” 8/52 بعد أن نسبه غليهم جميعا: وفيه عبد الله بن محمد بن عقيل، حديثه حسن، وباقي رجاله رجال الصحيح.

میں کہتا ہوں اور ایک روایت میں ایک دوسری وجہ بیان ہوئی ہے پس کو احمد اور ابو یعلی نے طبرانی نے اور البزار نے دو طرق سے عبد الله بن محمد سے انہوں نے ابن حنفیہ سے انہوں نے اپنے باپ علی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بڑے بیٹے کا نام حمزہ رکھا تھا اور حسین کا جعفر پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی کو طلب کیا  اور کہا ان کے نام بدل کر حسن و حسین کر دو

شبر و شبیر کا بھیانک انجام

اہل سنت کی تفسير روح البيان أز  أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ)  کے مطابق

وكان القربان والسرج فى ابني هارون شبر وشبير فامرا ان لا يسرجا بنار الدنيا فاستعجلا يوما فاسرجا بنار الدنيا فوقعت النار فاكلت ابني هارون

اور قربانی اور دیا جلانا بنی ہارون میں شبر اور شبیر کے لئے تھا پس حکم تھا کہ کوئی دنیا کی اگ سے اس کو نہ جلائے لیکن ایک روز ان دونوں نے علجت کی اور اس کو دنیا کی اگ سے جلایا جس پر اگ ان دونوں کو کھا گئی

شیعہ عالم  الحسين بن حمدان الخصيبي  المتوفی ٣٥٨ ھ کتاب الهداية الكبرى میں بتاتے ہیں ایسا کیوں ہوا

وان شبر وشبير ابني هارون (عليه السلام) قربا قربانا ثم سقياه الخمر وشراباها ووقفا يقربان، فنزلت النار عليهما وأحرقتهما لأن الخمر في بطونهما فقتلا بذلك.

اور شبر اور شبیر بنی ہارون میں سے انہوں نے قربانی دی پھر شراب پی لی اور قربانی کو وقف کیا پس اگ آسمان سے نازل ہوئی اور اگ نے ان دونوں کو جلا ڈالا کیونکہ شراب ان کے پیٹوں میں تھی اس بنا پر یہ قتل ہوئے

اور توریت کے مطابق

Book of Leviticus, chapter 10:
Aarons sons Nadab and Abihu took their censers, put fire in  them and added incense; and they offered unauthorized fire before the Lord,  contrary to his command. So fire came out from the presence of the Lord  and consumed them, and they died before the Lord. Moses then said to  Aaron, This is what the Lord spoke of when he said: Among those who approach me I will be proved holy; in the sight of all the  people I will be honoured. Aaron remained silent.

ہارون کے بیٹے ندب اور ابیھو نے اپنے اپنے دیے لئے اس میں اگ جلائی اور اس ممنوعہ اگ کو رب پر پیش کیا اس کے حکم کے بر خلاف – لہذا اگ رب کے پاس سے نکلی اور ان کو کھا گئی اور وہ دونوں رب کے سامنے مر گئے – موسی نے ہارون سے کہا یہ وہ بات ہے جس کا ذکر الله نے کیا تھا کہ تمہارے درمیان جو میرے پاس آئے میری پاکی بیان کرے – لوگوں کی نگاہ میں میں محترم ہوں – ہارون  اس پر چپ رہے

واضح رہے کہ توریت کی کتاب لاوی کے مطابق ہارون کے بیٹوں کی یہ المناک وفات ہارون کی زندگی ہی میں ہوئی اور ان کا نام ندب اور ابہو ہے نہ کہ شبر و شبیر

یہود کے ایک مشہور حبر راشی

Rashi

کے بقول ندب اور ابیہو کا یہ بھیانک انجام شراب پینے کی بنا پر ہوا

AND THERE WENT OUT FIRE — Rabbi Eleizer said: the sons of Aaron died only because they gave decisions on religious matters in the presence of their teacher, Moses (Sifra; Eruvin 63a). Rabbi Ishmael said: they died because they entered the Sanctuary intoxicated by wine. You may know that this is so, because after their death he admonished those who survived that they should not enter when intoxicated by wine (vv. 8—9). A parable! It may be compared to a king who had a bosom friend, etc., as is to be found in Leviticus Rabbah (ch. 12; cf. Biur).

http://www.sefaria.org/Rashi_on_Leviticus.10.3?lang=en

 اس طرح شیعہ کتب اور بعض قدیم یہودی احبار کا اجماع ہے کہ   شبر اور شبیر کا اگ سے خاتمہ ہوا

 دور نبوی میں توریت ایک طومار کی صورت میں صرف علماء اہل کتاب کے پاس تھی -عام مسلمان تک اس کی رسائی  نہیں تھی -دوم اس کی زبان  بھی غیر عرب تھی اس لئے عرب مسلمان تو صرف یہ جانتے تھے کہ یہ ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام ہیں لیکن ان کے بھیانک انجام سے بے خبر تھے –   شبر و شبیر  کے نام حسن و حسین کو دینا جو عذاب الہی سے قتل ہوئے کی اور کیا وجہ ہوئی؟ شبر و شبیر ابن سبا کے ایجاد کردہ نام ہیں جس کو سبانیوں نے حسن و حسین سے منسوب کر دیا

اس سے یہ واضح ہے کہ سبائییوں کا ایجنڈا تھا کہ کسی نہ کسی موقعہ پر حسن و حسین کو شبر و شبیر   بنا ہی  دیا جائے گا یعنی قتل کیا جائے گا

کہتے ہیں  کوئی دیکھنے نہ دیکھے کم از کم  شبیر تو دیکھے گا


 

قرن اول میں ہی علی کے حوالے سے کئی آراء گردش میں آ چکی تھیں  ان کی تفصیل اس ویب سائٹ پر کتاب

Ali in Biblical Clouds

میں موجود ہے

حدیث قرع النعال پر ایک نظر ٢

قرع النعال والی روایت صحیحین میں  جن سندوں سے آئی ہے وہ یہ ہیں- اس روایت کو دنیا میں صرف ایک صحابی انس بن مالک رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں ان سے  دنیا میں صرف بصرہ ایک مشھور مدلس قتادہ روایت کرتے ہیں قتادہ بصری سے اس کو دو اور بصری روایت کرتے ہیں – جن میں ایک عبد الرحمان بن شیبان بصری ہیں اور دوسرے  سعید بن ابی عروبہ بصری  ہیں- امام مسلم صحیح میں اس کو شیبان کی سند سے لکھتے ہیں اور امام بخاری اس کو سعید بن ابی عروبہ  المتوفی ١٥٦ ھ کی سند سے لکھتے ہیں

روایت  میں عربی کی غلطی پر محققین کی آراء

قرع النعال کی روایت ان الفاظ سے نہیں آئی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بولے تھے یہ روایت بالمعنی ہے اور اس میں دلیل یہ ہے کہ عربی کی غلطی ہے

کتاب الميسر في شرح مصابيح السنة میں فضل الله بن حسن التُّورِبِشْتِي (المتوفى: 661 هـ) حدیث قرع النعال پر لکھتے ہیں
لما أشرنا إليه من دقيق المعنى وفصيح الكلام، وهو الأحق والأجدر ببلاغة الرسول – صلى الله عليه وسلم – ولعل الاختلاف وقع في اللفظين من بعض من روى الحديث بالمعنى، فظن أنهما ينزلان في هذا الموضع من المعنى بمنزلة واحدة.
ومن هذا الوجه أنكر كثير من السلف رواية الحديث بالمعنى خشية أن يزل في الألفاظ المشتركة، فيذهب عن المعنى المراد جانبا.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (لا دريت ولا تليت) هكذا يرويه المحدثون، والمحققون منهم على أنه غلط، والصواب مختلف فيه، فمنهم من قال: صوابه: لا أتليت- ساكنة التاء، دعا عليه بأن لا تتلى إبله. أي: لا يكون لها أولاد تتلوها، فهذا اللفظ على هذه الصيغة مستعمل في كلامهم، لا يكاد يخفى على الخبير باللغة العربية، فإن قيل: هذا الدعاء لا يناسب حال المقبور؛ قلنا: الوجه أن يصرف معناه إلى أنه مستعار في الدعاء عليه بأن لا يكون لعمله نماء وبركة. وقال بعضهم: أتلي: إذا أحال على غيره، وأتلى: إذا عقد الذمة والعهد لغيره. أي: ولا ضمنت وأحلت بحق على غيرك، لقوله: (سمعت الناس) ومنهم من قال: (لا ائتليت) على أنه افتعلت، من قولك: ما ألوت هذا، فكأنه يقول: لا استطعت، ومنهم من قال: (تليت) أصله: تلوت، فحول الواو ياء لتعاقب الياء في دريت.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (يسمعها من يليه غير الثقلين) إنما صار الثقلان/ 19 ب عن سماع ذلك بمعزل لقيام التكليف ومكان الابتلاء، ولو سمعوا ذلك

جب ہم معنی کی گہرائی اور کلام کی فصاحت دیکھتے ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بلاغت کلام کے لئے احق ہو – تو دو الفاظ میں بالمعنی روایت کی وجہ سے اختلاف ہو جاتا ہے پس گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں معنی میں اپنے مقام سے گر گئے اور اسی وجہ سے سلف میں سے بہت سوں نے روایت بالمعنی کا انکار کیا اس خوف سے کہ مشترک الفاظ معنی میں ایک ہو جائیں جن کا معنی الگ ہوں – رسول الله کا قول ہے (لا دريت ولا تليت) اور ایسا محدثین نے روایت کیا ہے اور جو (عربی زبان کے) محقق ہیں ان کے نزدیک یہ غلط ہیں ، ٹھیک یا صحیح ہے لا أتليت- ساكنة التاء، جو پکارتا ہے اس پر نہیں پڑھا گیا یعنی اس کی اولاد نہیں تھی جو اس پر پڑھتی پس یہ لفظ ہے جو اس صیغہ پر ہے جو کلام میں استمعال ہوتا ہے اور یہ عربی زبان جاننے والے سے مخفی نہیں ہے پس اگر کہے یہ پکار ہے جو قبر والے کے لئے مناسب نہیں ہے تو ہم کہیں گے اگر معنی پلٹ جائیں کہ وہ اس پر استعارہ ہیں پکار کے لئے کیونکہ اس کے لئے عمل نہیں ہے جس میں بڑھنا اور برکت ہو – اور بعض نے کہا أتلي جب اس کو کسی اور سے تبدیل کر دیا جائے اور أتلي جب ذمی سے عقد کرے اور عھد دوسرے سے کرے یعنی اس میں کسی اور کا حق حلال یا شامل نہ کرے … اور کہا لا ائتليت کہ اس نے کیا اس قول سے ما ألوت هذا یعنی میں نے نہیں کیا اور ان میں ہے تليت اس کی اصل تلوت ہے پس واو کو تبدیل کیا ی سے

کتاب غریب الحدیث میں خطابی (المتوفى: 388 هـ) کہتے ہیں
في حديث سؤال القبر: “لا دريت ولا تليت” . هكذا يقول المحدثون، والصواب: ولا ائْتَلَيت، تقديره: افتعلت، أي لا استطعت, من قولك: ما ألوت هذا الأمر, ولا استطعت.

بغوی شرح السنہ میں لکھتے ہیں

قَوْلُهُ: «وَلا تَلَيْتَ»، قَالَ أَبُو سُلَيْمَانَ الْخَطَّابِيُّ: هَكَذَا يَقُولُ الْمُحَدِّثُونَ، وَهُوَ غَلَطٌ

خطابی نے کہا محدثین نے کہا ہے وَلا تَلَيْتَ جو غلط ہے

اور قبر میں سوال والی حدیث میں ہے “لا دريت ولا تليت” ایسا محدثین نے کہا ہے اور ٹھیک ہے ولا ائْتَلَيت

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار میں جمال الدين الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) کہتے ہیں
ومنه حديث منكر ونكير: لا دريت ولا “ائتليت” أي ولا استطعت أن تدري يقال: ما ألوه أي ما استطيعه، وهو افتعلت منه، وعند المحدثين ولا تليت والصواب الأول

اور حدیث منکر نکیر میں ہے لا دريت ولا “ائتليت” … اور محدثین کے نزدیک ہے ولا تليت اور ٹھیک وہ ہے جو پہلا ہے

لسان العرب میں ابن منظور المتوفی ٧١١ کہتے ہیں
لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ
، وَالْمُحَدِّثُونَ يَرْوُونَهُ:
لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ
، وَالصَّوَابُ الأَول.

لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ اور یہ محدثین ہیں جو اس کو روایت کرتے ہیں لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ اور ٹھیک پہلا والا ہے

پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن  کتاب توفیق الباری جلد سوم میں لکھتے ہیں

tofeq

یعنی اس میں بصرہ کے محدثین نے غلطی کی اور روایت میں عربی کی فحش غلطی واقع ہوئی جو کلام نبوی کے لئے احق نہیں ہے کہ اس میں عربی کی غلطی ہو

عربی کی اس غلطی سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت اس متن سے نہیں ملی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہے

ڈاکٹر عثمانی کا کہنا تھا کہ اس میں یسمع مجھول کا صیغہ ہے اس پر امیر جماعت المسلمین مسعود احمد نے ذہن پرستی میں لکھا تھا

مسعود احمد کا یہ دعوی کہ یہ روایت تلفظا وہی ہے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا  ہوئے عربی نحویوں اور شارحین حدیث  کے موقف کے خلاف ہے کہ یہ روایت عربی کی غلطی رکھتی ہے

رواة پر محدثین کی آراء 

شَيبَان بن عبد الرحمن التَّمِيمِي بصره کے محدث ہیں – امام مسلم نے اس روایت کو ان کی سند سے نقل کیا ہے انکے لئے امام ابن ابی حاتم  کتاب الجرح و التعدیل میں کہتے ہیں میرے باپ نے کہا

يكتب حديثه ولا يحتج به

اس کی حدیث لکھ لو دلیل مت لینا

اسی کتاب میں ابی حاتم اپنے الفاظ لا یحتج بہ کا مفہوم واضح کرتے ہیں

کتاب الجرح و تعدیل میں لکھتے ہیں

قال عبد الرحمن بن أبي حاتم: قلت لأبي: ما معنى (لا يحتج به) ؟ قال:  كانوا قوما لا يحفظون، فيحدثون بما لا يحفظون، فيغلطون، ترى في أحاديثهم اضطرابا ما شئت “. انتهى.

فبين أبوحاتم في إجابته لابنه: السبب في أنه لا يحتج بحديثهم،  وهو ضعف حفظهم، واضطراب حديثهم.

عبد الرحمن بن أبي حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ  لا يحتج به  کیا مطلب ہے انہوں نے کہا  ایک قوم ہے رجال کی جو یاد نہیں رکھتے تھے اور حدیثیں بیان کرتے ہیں جو انکو یاد نہیں ہوتیں پس ان میں غلطیاں کرتے ہیں پس تم دیکھو گے کہ انکی حدیثوں میں اضطراب کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے

ابن ابی حاتم نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ  لا يحتج به کا کیا مطلب ہے

امام بخاری نے قرع النعال کو سعید بن ابی عروبہ کی سند سے لکھا ہے اور ان سے دو لوگ روایت کرتے ہیں

یزید بن زریع اور عبد الاعلی بن عبد الاعلی

مسئلہ یہ ہے کہ سعید بن ابی عروبہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے اور ان  کی اس کیفیت پر محدثین میں اختلاف ہے کہ یہ کب واقع ہوا

امام البزار کہتے ہیں ١٣٣ ہجری میں ہوا تہذیب التہذیب از ابن حجر

قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” میں

یحیی ابن معین کہتے ہیں ١٤٢ ھ میں ہوا

یحیی بن سعید کہتے ہیں ١٤٥ ھ میں ہوا

يزيد بن زريع

ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں

وقال ابن السكن كان يزيد بن زريع يقول اختلط سعيد في الطاعون يعني سنة 132 وكان القطان ينكر ذلك ويقول إنما اختلط قبل الهزيمة قلت والجمع بين القولين ما قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” ولم يستحكم ولم يطبق به وأستمر على ذلك ثم استحكم به أخيرا

اور ابن السکن کہتے ہیں یزید بن زریع نے کہا سعید بن ابی عروبہ کو اختلاط طاعون پر سن ١٣٢ میں ہوا اور القطان نے اس کا انکار کیا اور کہا ہزیمت پر ہوا اور ان اقوال میں اس طرح جمع ممکن ہے جو البزار نے کہا کہ ان  کے اختلاط کی ابتداء سن ١٣٣ میں ہوئی لیکن مستحکم نہ تھی اور اس میں استحکام ہوتا گیا یہاں تک کہ آخر میں مستحکم ہو گیا

ابن حجر کے مطابق سن ١٣٣ میں سعید کو اختلاط شروع ہو چکا تھا اور کلابازی کے مطابق سن ١٣٩ ھ میں ابن زریع نے سنا

الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از  أبو نصر البخاري الكلاباذي (المتوفى: 398هـ) کے مطابق

وَقَالَ الْغلابِي نَا ابْن حَنْبَل قَالَ نَا يزِيد قَالَ مر بِنَا سعيد بن أبي عرُوبَة قبل سنة 39 فسمعنا مِنْهُ

الْغلابِي کہتے ہیں ابن حنبل نے کہا ہم سے یزید نے بیان کیا کہ سعید ہمارے پاس ١٣٩ ھ سے پہلے گزرے جب ہم نے سنا

امام احمد کے مطابق سعید سے یزید کا سماع صحیح ہے کیونکہ انہوں نے ١٤٥ ھ میں اختلاط والی رائے کو ترجیح دی ہے

عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي

امام بخاری نے اس روایت کو عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي   کی سند سے بھی نقل کیا ہے اس میں بھی سماع پر محدثین کا اختلاف ہے

تهذيب التهذيب از ابن حجر کے مطابق

وقال ابن القطان حديث عبد الأعلى عنه مشتبه لا يدري هو قبل الاختلاط أو بعده

اور ابن القطان نے کہا عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي کی سعید بن ابی عروبہ سے روایت مشتبہ ہے – نہیں پتا کہ اختلاط سے قبل سنا یا بعد میں

عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي تمام محدثین کے نزدیک ثقہ بھی نہیں ہیں

وقال ابن سعد: “لم يكن بالقوي

ابن سعد کہتے ہیں یہ قوی نہیں تھے

سنن اربعہ اور مسند احمد میں یہ روایت عبد الوھاب بن عطا اور روح بن عبادہ کی سند سے ہے- یہ دونوں راوی بھی تمام محدثین کے نزدیک ثقہ نہیں مثلا عبد الوہاب ، امام بخاری کے نزدیک ضعیف ہیں  اور روح بن عبادہ،  امام  النسائی اور ابی حاتم کے نزدیک ضعیف ہیں

روایت پر علماء کا عمل

محدثین کا ایک گروہ اس روایت سے دلیل نہیں لیتا جن میں امام احمد ہیں

امام احمد باوجود  یہ کہ قر ع النعال والی روایت کو مسند میں روایت کرتے ہیں لیکن جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت پر  عمل نہیں کرتے اور قبرستان میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتارنے کا حکم کرتے تھے ظاہر ہے نہ جوتیاں ہوں گی نہ ان کی چاپ کا سوال اٹھے گا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله  کے مطابق

وَقَالَ أبي يخلع نَعْلَيْه فِي الْمَقَابِر

میرے باپ (احمد ) کہتے ہیں قبرستان میں نعل اتار دو

 وَكَانَ يَأْمر بخلع النِّعَال فِي الْمَقَابِر

امام احمد حکم دیتےتھے کہ قبرستان میں  نعل اتار دو

رَأَيْت ابي اذا اراد ان يدْخل الْمَقَابِر خلع نَعْلَيْه وَرُبمَا رَأَيْته يُرِيد ان يذهب الى الْجِنَازَة وَرُبمَا لبس خفيه اكثر ذَلِك وَينْزع نَعْلَيْه

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ جب قبرستان میں داخل ہوتے تو جوتے اتار دیتے

امام احمد کے بیٹے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں لکھتے ہیں

رَأَيْت أبي إِذا دخل الْمَقَابِر يخلع نَعْلَيْه فَقلت لَهُ إِلَى أَي شَيْء تذْهب فَقَالَ إِلَى حَدِيث بشير بن الخصاصية

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ قبرستان میں اتے تو جوتے اتارتے پس میں نے کہا کس بنا پر اس کو کیا؟ انہوں نے کہا حدیث بشیر بن الخصاصية  سے لیا

 ابی داود کتاب میں لکھتے ہیں

رَأَيْتُ أَحْمَدَ إِذَا تَبِعَ جِنَازَةً فَقَرِبَ مِنَ الْمَقَابِرِ خَلَعَ نَعْلَيْهِ

میں نے احمد کو دیکھا جب وہ جنازہ کے پیچھے قبرستان کے پاس پہنچتے تو جوتے اتار دیتے

کتاب  مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق امام احمد

فلما سلم خلع نعليه ودخل المقابر في طريق [عامية] 2 مشياً على القبور حتى بلغ القبر

پس جب (نماز جنازہ سے)  سلام پھرنے کے بعد جوتے اتارتے اور قبرستان میں داخل ہوتے  حتی کہ قبر تک پہنچتے

امام احمد کا عمل قرع النعال والی روایت پر نہیں بلکہ  بشیر بن الخصاصية   کی روایت پر تھا جو ابو داود نے بَابُ الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ میں  روایت کی ہے جس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ قرع النعال سے زیادہ صحیح روایت تھی ورنہ اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر عمل کیوں تھا

  ابن قدامة  المغني  ج 2 ص ٤٢١ میں کہتے ہیں
قال الإمام أحمد رحمه الله  إسناد حديث بشير بن الخصاصية جيد أَذْهَبُ إلَيْهِ، إلَّا مِنْ عِلَّةٍ

امام احمد کہتے ہیں بشير بن الخصاصية والی حدیث کی اسناد جید ہیں اسی پر مذھب ہے سوائے اس کے کہ کوئی علت ہو

اتنے سارے حوالے واضح کرتے ہیں کہ امام احمد نے سرے سے اس روایت پر عمل ہی نہیں کیا کہ جوتیاں پہن کر مردے کو دفناتے وقت چلے ہوں امام احمد جس قسم کے روایت پسند سخص تھے ان سے اس روایت پر عمل کرنا سرے سے بیان ہی نہیں ہوا کیوں ؟ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بشير بن الخصاصية رضی الله عنہ کی روایت پر مذھب ہے


الغرض قارئین اپنے ذھن میں رکھیں کہ اس حدیث پر اجماع خود امام بخاری کے دور میں نہیں ملتا  اس پر بعض محدثین خود عمل نہیں کرتے اس میں بعض محدثین کے نزدیک سماع فی اختلاط کا  مسئلہ ہے خود امام بخاری نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا- روایت پر باب باندھنا تبصرہ نہیں ہے جس کی مثال ہے کہ ادب المفرد میں بھی امام بخاری  باب باندھتے ہیں جبکہ اس کی تمام راویات صحیح نہیں ہیں

 اس روایت کی بنیاد پر ارضی قبر میں سوال و جواب کا عقیدہ بنانے والے  دیکھ سکتے ہیں اس میں کیا آراء ہیں

حدیث قرع النعال پر ایک نظر

صحیح بخاری کی حدیث ہے

عن أنس بن مالك رضي الله عنه، أنه حدثهم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه، وإنه  ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه، فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم، فأما المؤمن، فيقول: أشهد أنه عبد الله ورسوله، فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة، فيراهما جميعا – قال قتادة: وذكر لنا: أنه يفسح له في قبره، ثم رجع إلى حديث أنس – قال: وأما المنافق والكافر فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلي

بخاری ح1374کتاب الجنائز باب ماجاء عذاب القبر

۔  انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب بندہ  اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے اصحاب اس سے  پلٹ چکے  تو بلاشبہ وہ  جوتوں کی آوز سنتا  ہے کہ  اس کے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں: “تو اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟” اب اگر وہ ایماندار ہے تو کہتا ہے کہ “میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں” پھر اس سے کہا جاتا ہے “تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدل تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔” تو وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ قتادہ کہتے ہیں “اور ہم سے یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے” پھر انس کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا۔ اور اگر وہ منافق یا کافر ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا ہے؟” تو وہ کہتا ہے “میں نہیں جانتا۔ میں تو وہی کچھ کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔” پھر اس سے کہا جائے گا کہ “نہ تو تُو خود سمجھا اور نہ ہی خود پڑھا۔” اور لوہے کے ہنٹروں سے اسے ایسی مار پڑے گی کہ وہ بلبلا اٹھے گا۔ اور اس کی یہ چیخ جن و انسان کے سوا تمام آس پاس کی چیزیں سنتی ہیں۔”

اس روایت پر عثمانی صاحب کی رائے ہے کہ یہ قبر برزخی مقام ہے جہاں بندہ فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتا ہے اور یہی رائے امام ابن حزم کی بھی ہے

اس پر عبد الرحمن کیلانی نے کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں عثمانی صاحب کی تطبیق کو رد کرنے کو کوشش ناکام کی – عبد الرحمان کیلانی لکھتے ہیں

روایت میں نعالهم  ہے جس میں  “ھم” جمع کی ضمیر ہے۔ اگر اس سے مراد فرشتے ہیں  تو مخالفین کی طرف سے کہا گیا کہ  تثنیہ کی ضمیر “ھما”  آنا چاہئے تھی۔اس کا جواب عثمانی صاحب یہ دیتے ہیں کہ “عربی زبان میں دونون طریقے رائج ہیں۔ تثنیہ کے لیے جمع کا استعمال عام ہے۔ جیسے قرآن کی آیت ہے:(قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ ( سورۃ شعرا15 ))”فرمایا، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر۔ ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔””(فاذهبا)” میں تثنیہ کی ضمیر ہے اور “(معكم)” میں جمع کی۔اس طرح بخاری کی حدیثِ خضر میں یہ الفاظ ہیں:(فمرت بهما سفينة فكلموهم ان يحملو هما)”پس گزری ان دونوں (موسی علیہ السلام و خضر علیہ السلام) کے پاس سے ایک کشتی، پس انہوں نے (جمع کا صیغہ) کشتی  والوں سے بات کی کہ وہ ان دونوں کو کشتی میں سوار کر لیں۔” (بخاری عربی جلد 1 ص23، سطر 15،16)”(فكلموهم)” کے ساتھ ساتھ “(فكلماهم)” بھی بخاری کی روایت میں ہے مگر حاشیہ پر اور نسخہ کے طور پر تین میں “(كلموهم)” کو ہی ترجیح دی گئی ہے جو تثنیہ کے بجائے جمع کا صیغہ ہے۔”

عبد الرحمان کیلانی کا جواب :عربی زبان میں تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ عام نہیں۔ اگر عام ہوتا تو گرائمر کی کتابوں میں اس کا ضرور ذکر پایا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ تثنیہ کی صورت میں جمع کا استعمال شاذ ہے اور اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ مثلا:پہلی مثال میں “کم” کی ضمیر “مع” وجہ سے آتی ہے۔ گویا فرعون کی طرف جانے والے تو صرف دو تھے مگر سننے والوں میں اللہ بھی ساتھ شامل ہو گیا ور ضمیر جمع بدل گئی۔

دوسری مثال میں ایک مقام پر “(كلموهم)” اس لیے آیا ہے کہ موسی علیہ السلام کے ساتھ ان کا ایک ساتھی (یوشع بن نون) بھی تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ لیکن قابل ذکر چونکہ دو ہی ہستیاں تھیں یعنی موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام، اس لیے اکثر تثنیہ کا ضمیر آیا اور ایک جگہ اشتباہ کی وجہ سے جمع کا ضمیر بھی آیا۔ اگرچہ اس کی حاشیہ میں تصحیح کر دی گئی۔

جواب در جواب

 لیکن کہا گیا

تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ

 

 ہونا چاہیے تھا

عربی زبان میں تثنیہ کے لیے تثنیہ کا صیغہ

 

قرآن سے مثال

 

معكم معكما

ہونا چاہیے تھا

فاذهبا بآياتنا إنا معكمآ مستمعون

 

فاذهبا بآياتنا إنا معكم مستمعون

(الشعراء:15)،

پس تم دونوں جاؤ ہماری آیات کے ساتھ ہم تمہارے ساتھ سنیں گے

يختصمون فإذا هم فريقان يختصمان

 

فإذا هم فريقان يختصمون} (النمل:45)،

پس جب دو فریق لڑ پڑے

 

اقتتلوا وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلتا  

{وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا} (الحجرات:9)

اور جب مومنوں میں دو گروہ قتال کریں

 

تسوروا وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسورا المحراب

 

خصمان بغى بعضنا على بعض} (ص:22)

قرآن میں ان کو دو جھگڑنے والے کہا گیا لہذا یھاں تثنیہ کا صغیہ ہونا  چاہیے

{وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسوروا المحراب} (ص:21)

اور کیا تم کو خبر پہنچی جھگڑے گی جب وہ محراب میں چڑھ آئے

ابن  عاشور التحریر و التنویر   میں لکھتے ہیں

 وأكثر استعمال العرب وأفصحه في ذلك أن يعبروا بلفظ الجمع مضافاً إلى اسم المثنى لأن صيغة الجمع قد تطلق على الاثنين في الكلام فهما يتعاوران 

اور عرب اکثر  استمعال میں اور فصاحت کرتے ہوئے عبارت کرتے ہیں لفظ جمع سے جو مضاف ہوتا ہے اسم المثنی پر کیونکہ جمع کا صیغہ کا اطلاق تثنیہ پر کلام میں ہوتا ہے

مخالفین نے اعتراض کیا “ھم” کی ضمیر اگر “(ملكان)” فرشتوں  سے متعلق ہے تو یہ پہلے کیسے آ گئی؟ اس کا جواب عثمانی صاحب یوں دیتے ہیں کہ:”عربی ادب کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر بات بالکل صاف ہو اور سننے والے سے غلطی کرنے کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو پہلے اسم کا ذکر نہیں کیا جاتا جیسے قرآن میں ہے:إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً (35) فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا(سورة الواقعه:35تا36)”ہم نے ان کو (ان کی بیویوں کو) ایک خاص اٹھان سے اٹھایا ہے اور ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں۔”سورۃ یس میں:(وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ”اور ہم نے اس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) کو شعر کی تعلیم نہیں دی۔”

عبد الرحمان کیلانی کا  جواب نمبر 1: پہلی مثال اس لحاظ سے غلط ہے کہ “( إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً)” سے چند آیات پہلے “(وَحُورٌ عِينٌ (22) كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ(سورة الواقعه 22تا23)” کا ذکر آ چکا ہے۔ بعد میں جنت کی چند صفات بیان کر کے “( وَحُورٌ عِين أَنْشَأْنَاهُنَّ ٌ)” کی ضمیر “( وَحُورٌ عِينٌ کی طرف پھیری گئی ہے جو درست ہے۔ لیکن عثمانی صاحب اسے خواہ مخواہ “( أَبْكَارًا)” کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ لفظ بعد میں آیا ہے۔

جواب نمبر 2: مثال تو ایسی درکار تھی کہ ضمیر پہلے آئے اور اس کا مرجع اسم بعد میں ہو۔ پہلی مثال میں آپ نے بعد میں مرجع “( أَبْكَارًا)” جو بتلایا ہے وہ ویسے ہی غلط ہے اور دوسری مثال میں ضمیر کا مرجع اسم مذکور ہی نہیں۔تو ڈاکٹر صاحب کا جواب درست کیسے سمجھا جائے؟

جواب در جواب :  تفسیر ابن کثیر کے مطابق

قال الأخفش في قوله انا أنشأناهن إنشاء  أضمرهن ولم يذكرهن قبل ذلك

الأخفش نے کہا اس قول میں انا أنشأناهن إنشاء ضمیر بیان کی ہے اور ان کا ذکر اس سے قبل نہیں کیا

یعنی یہ وہی بات ہے جو ڈاکٹر عثمانی نے کی ہے – الأخفش عربی زبان کے مشھور نحوی ہیں

اس  بحث کو عود الضمير على متأخر کہا جاتا ہے

المقاصد النحوية في شرح شواهد شروح الألفية المشهور میں العيني (المتوفى 855 هـ)  پر تعلیق میں دکتور علي محمد فاخر، دکتور أحمد محمد توفيق السوداني،  دکتور عبد العزيز محمد فاخر   لکھتے ہیں

قال ابن الناظم: “فلو كان ملتبسًا بضمير المفعول وجب عند أكثر البصريين تأخيره عن المفعول؛ نحو: زان الشجر نوره، وقوله تعالى: {وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ} [البقرة: 124] لأنه لو تأخر المفعول عاد الضمير على متأخر لفظًا ورتبة.

ابن ناظم کہتے ہیں پس اگر مفعول کی ضمیر ملتبس ہو تو اکثر بصریوں کے نزدیک  مفعول  کی تاخیر واجب ہے  جیسے  زان الشجر نوره سج گیا درخت اس کی روشنی سے . اور الله تعالی کا قول ہے اور جب مبتلا کیا ابراہیم کو تمہارے رب نے پس بے شک اگر مفعول کو متاخر کیا جائے تو اس کی ضمیر اسی  لفظ اور مرتبہ کے ساتھ پلٹے گی

ایسا عربی میں کم ہوتا ہے لیکن یہ نا ممکنات میں سے نہیں المسوغأت (جو قاعدة میں ممکن ہوں اگرچہ کم ہوں) میں سے ہے  جیسا کہ قرآن میں اسکی مثال بھی ہے اور عربی بلاغت کی کتب میں اس پر بحث بھی موجود ہے

سورة طه    الآية 67 میں بھی اس کی مثال ہے

فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى 

پس محسوس کیا  اپنے نفس میں خوف موسی نے

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ – کہو وہ – الله احد ہے – ھو ضمیر ہے الله بعد میں ہے

فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

پس بے شک یہ آنکھیں اندھی نہیں لیکن دل اندھے ہیں – جو دلوں میں ہیں

فَإِنَّها کی ضمیر پہلے ہے اور یہ الْقُلُوبُ کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے

إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكَافِرُون

بے شک فلاح نہیں پاتے کفار

إِنَّهُ میں الھا کی ضمیر الْكَافِرُون کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے

یہ انداز قرآن میں ہے اور بصرہ کے نحویوں نے اس کو بیان کیا ہے واضح رہے کہ قرع النعال والی روایت میں بھی بصریوں کا تفرد ہے

کتاب عروس الأفراح في شرح تلخيص المفتاح از أحمد بن علي بن عبد الكافي، أبو حامد، بهاء الدين السبكي (المتوفى: 773 هـ) کے مطابق

وقوله: (هو أو هى زيد عالم) يريد ضمير الشأن مثل قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (3) أصله الشأن الله أحد وقوله: أو هى زيد عالم صحيح على رأى البصريين، أما الكوفيون فعندهم أن تذكير هذا الضمير لازم، ووافقهم ابن مالك واستثنى ما إذا وليه مؤنث أو مذكر شبه به مؤنث أو فعل بعلامة تأنيث فيرجح تأنيثه باعتبار القصة على تذكيره باعتبار الشأن، والمقصود من ذلك أن يتمكن من ذهن السامع ما يعقب الضمير لأنه بالضمير يتهيأ له ويتشوق، ويقال فى معنى ذلك: الحاصل بعد الطلب أعز من المنساق بلا تعب، وسيأتى مثله فى باب التشبيه.

قاعدہ یہ ہے کہ ضمیر سے پہلے اس کا  مفعول ہونا چاہیے لیکن قرآن میں ہی ضمیریں بعض اوقات  پہلے آ جاتی ہیں اور اسم کا ذکر ہی نہیں ہوتا جیسے

إنا أنزلناه في ليلة القدر – ہم نے اس کو نازل کیا القدر کی رات کو —  کس کو یھاں بیان ہی نہیں ہوا- آگے کا سیاق بتا رہا ہے قرآن کی بات ہے

عبس وتولى – منہ موڑا اور پلٹ گیا – کون ؟ بیان نہیں ہوا تفسیری روایات کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت کی گئی

المستشرقين  قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ عربی ادب نہیں ہے – اس کا جواب علماء نحوی دیتے رہے ہیں کہ یہ قرآن کا خلاف قاعدہ انداز بلاغت ہے

الغرض ڈاکٹر عثمانی کی بات عربی نحویوں نے بیان کی ہے اور اس میں بصریوں کا انداز رہا ہے کہ وہ ضمیر کو مفعول یا اسم سے پہلے بیان کر دیتے ہیں جیسا کہ قرع النعال والی روایت میں ہے

اس طرح اس روایت کی قرآن سے تطبیق ممکن ہے جو عربی قوائد کے اندر رہتے ہوئے کی گئی ہے

 کتاب الرویا کا بھید

https://www.islamic-belief.net/کتاب-الرویا/
اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے

بعض  علماء اس عقیدہ کے قائل ہیں کہ انسانی جسم میں دو روحیں ہوتی ہیں –  ان میں سے ایک کو نفس  بالا یا روح بالا  کہتے ہیں جو حالت نیند میں انسانی جسم چھوڑ کر عالم بالا جاتی  ہے وہاں اس کی ملاقات فوت شدہ لوگوں کی ارواح سے ہوتی ہے ، دوسری روح یا نفس، نفس زیریں ہے یا معروف  روح ہے  جو جسد میں رہتی ہے-   اس تمام فلسفہ کو ضعیف روایات سے کشید کیا گیا ہے اور اس کی ضرورت اس طرح پیش آئی کہ خوابوں کی دنیا میں تعبیر رویا کی صنف میں عرب مسلمانوں کو مسائل در پیش تھے – اگرچہ قرآن میں تعبیر رویا کو خاص ایک وہبی علم کہا گیا ہے جو انبیاء کو ملتا ہے اور اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس صنف میں کوئی طبع آزمائی نہیں کی- حدیث کے مطابق ایک موقعہ پر امت کے سب سے بڑے ولی ابو بکر رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ ایک خواب کی تعبیر کی کوشش کریں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوا تھا لیکن وہ بھی اس کی صحیح تعبیر نہ کر سکے – اس کے علاوہ کسی صحیح حدیث میں خبر نہیں ملتی کہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم یا امہات المومننین بھی خواب کی تعبیر کرتے ہوں –

تعبیر رویا کی تفصیل کہ اس میں مرنے والوں اور زندہ کی روحوں کا  لقا ہوتا ہے اور وہ ملتی ہے  اشارات دیتی ہیں نہ صرف فراعنہ مصر کا عقیدہ تھا بلکہ ان سے یونانیوں نے لیا اور ان سے یہود سے ہوتا ہم تک پہنچا ہے

عنطیفون پہلا یونانی فلسفی نے جس نے عیسیٰ سے پانچ صدیوں قبل   تعبیر خواب پر کتاب لکھی

Antiphon the Athenian (480 BC-411 BC)

اس نے دعوی کیا کہ زندہ کی روحیں مرنے والوں سے ملتی ہیں

dreams

A History of dream Interpretation in western society, J. Donald Hughes,  Dreaming 10(1):7-18 · March 2000

یہ بات یہود کی کتاب  مدرش ربه میں بھی موجود تھی کہ زندوں کی ارواح اپنے اجسام سے نکل کر عالم بالا میں مرنے والوں کی ارواح سے ملتی ہیں مثلا

when they sleep their souls ascend to Him… in the morning He restores one’s soul to everyone.

Midrash Rabba, Deuteronomy 5:15

جب یہ سوتے ہیں تو ان کی ارواح بلند ہوتی ہیں رب تک جاتی ہیں  مدرش ربه

کتاب  تعبير الرؤيا از  أبو طاهر الحراني المقدسي النميري الحنبلي المُعَبِّر (المتوفى: نحو 779هـ) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں یہ دانیال کا قول ہے

قَالَ دانيال عَلَيْهِ السَّلَام: الْأَرْوَاح يعرج بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة حَتَّى توقف بَين يَدي رب الْعِزَّة فَيُؤذن لَهَا بِالسُّجُود فَمَا كَانَ طَاهِرا مِنْهَا سجد تَحت الْعَرْش وَبشر فِي مَنَامه

دانیال علیہ السلام کہتے ہیں ارواح بلند ہوتی ہیں سات آسمان تک جاتی ہیں یہاں تک کہ رب العزت کے سامنے رکتی ہیں ان کو سجدوں کی اجازت ملتی ہے اگر طاہر ہوں تو وہ عرش کے نیچے سجدہ کرتی ہیں اور ان کو نیند میں بشارت ملتی ہے

دانیال یہود کے مطابق ایک ولی الله تھے نبی نہیں تھے اور ان سے منسوب ایک کتاب دانیال ہے  جس میں   ایک خواب لکھآ ہے  کہ انہوں نے عالم بالا کا منظر خواب میں دیکھا رب العالمین کو عرش پر دیکھا اور ملائکہ اس کے سامنے کتب کھولے بیٹھے تھے سجدے ہو رہے تھے احکام لے رہے تھے – یہ کتاب عجیب و غریب عقائد کا مجموعہ ہے جس میں یہ تک لکھا ہے کہ جبریل علیہ السلام ایک مہینہ تک بابل والوں کے قیدی رہے  ان کا معلق وجود رہا یہاں تک کہ اسرافیل علیہ السلام نے آزاد کرایا وغیرہ-  یہ کتاب یہودی تصوف کی صنف میں سے ہے – اگرچہ مسلمانوں نے دانیال کو ایک نبی بنا دیا ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے نہ قرآن میں ذکر ہے نہ صحیح  حدیث میں

دانیال کے خواب کی بنیاد پر یہودی علماء کہتے ہیں کہ وہ بھی خواب بتا سکتے ہیں کیونکہ دانیال نبی نہیں ولی تھے اسی طرح خواب  میں مردوں کی روحوں سے ملاقات ممکن ہے- لیکن مسمانوں کو اس پر دلیل چاہیے تھی کیونکہ ان کے نزدیک دانیال نبی تھے اور ایک غیر نبی کے لئے خواب کی تعبیر کرنے کی کیا دلیل ہے  لہذا روایات بنائی گئیں کہ یہ تو عالم بالا میں ارواح سے ملاقات ہے

واضح رہے کہ خود نبی صلی الله علیہ وسلم  کو معراج ہوئی جو جسمانی تھی اس  کے بر عکس کسی حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں بیان کیا کہ وہ خواب میں  عرش تک گئے- اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں تابعین میں بعض افراد نے تعبیر رویا کو ایک ایسا علم قرار دینے کی کوشش کی جو محنت سے حاصل ہو سکتا ہے – اس میں بصرہ کے تابعی ابن سیرین سے منسوب ایک کتاب بھی ہے لیکن اس کی سند ثابت نہیں ہے-  یہ ایک جھوٹی کتاب ہے جو ابن سیرین سے منسوب کی گئی ہے – بہت سے بہت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس  رجحان کا  بعض لوگوں میں اضافہ ہو رہا تھا کہ تعبیر رویا ایک علم ہے جو کسب سے حاصل ہو سکتا ہے  – اس صنف  کے پروآن چڑھنے کی وجہ مال تھا کیونکہ اکثر بادشاہوں کو اپنی مملکت  کے ختم ہونے کا خطرہ رہتا تھا-  شاہ مصر نے خواب دیکھا اس کی تعبیر یوسف علیہ السلام نے کی- قیصر  نے خواب دیکھا کہ مختون لوگ اس کی سلطنت تباہ کر رہے ہیں جس سے اس نے مراد یہودی لیے – دانیال نے شاہ بنی نبوکد نصر کے خواب کی تعبیر کی – وغیرہ لہذا خلفاء و حکمران جو خواب دیکھیں اس کی تعبیر بتانے والا کوئی تو ہو –  اس سے منسلک مال حاصل کرنے کے لئے کتاب تعبیر الرویا لکھی گئیں اور لوگوں نے اس فن میں طاق ہونے کے دعوی کرنے شروع کیے

اس معاملے میں ابہام پیدا کرنے کے لئے قرآن کی   آیات کا استمعال کیا جاتا ہے – قبض یا توفی کا مطلب ہے کسی چیز کو پورا پکڑنا- نکالنا یا اخراج یا  کھینچنا اس کا مطلب نہیں ہے لیکن مترجمین اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت اس کا خیال نہیں رکھتے- قرآن میں الله تعالی عیسیٰ علیہ السلام سے کہتے ہیں انی متوفیک میں تم کو قبض کروں گا یعنی پورا پورا  تھام لوں گا – اس کا مطلب یہ نہیں کہ موت دوں گا

سوره الزمر میں ہے

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى

الله پورا قبضے میں لیتا ہے نفس کو موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نفس  نیند کے وقت،  پس پکڑ  کے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کا حکم لگاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو اک وقت مقرر تک کے لئے

حالت نیند میں اور موت میں قبض نفس ہوتا ہے- نیند میں قبض جسم میں ہی ہوتا ہے اور نفس کا اخراج نہیں ہوتا جبکہ موت میں امساک کا لفظ  اشارہ کر رہا  ہے کہ روح کو جسم سے نکال لیا گیا ہے

سوره الانعام میں آیات ٦٠ تا ٦١ میں ہے

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ  ( )  وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ

 اور وہی تو ہے جو رات  میں تم کو قبض کرتا ہے  اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ  معین مدت پوری کردی جائے پھر تم  کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے   وہ تم کو تمہارے عمل جو کرتے ہو  بتائے گا – اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے  قبض کرلیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے

بے ہوشی یا نیند میں نفس جسد میں ہی ہوتا ہے لیکن اس پر قبض ہوا ہوتا ہے انسان کو احتلام ہو رہا ہوتا ہے پسینہ آ رہا ہوتا ہے سانس چل رہی ہوتی ہے نبض رکی نہیں ہوتی اور دماغ بھی کام کر رہا ہوتا ہے دل دھڑک رہا ہوتا ہے معدہ غذا ہضم کر رہا ہوتا ہے انسان پر زندگی کے تمام آثار غالب اور نمایاں ہوتے ہیں اور موت پر یہی مفقود ہو جاتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی تبدیلی جسم پر اتی ہے اور وہ ہے روح کا جسد سے نکال لیا جانا

بحر الحال تعبیر رویا کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور یہاں تک کہ  آٹھویں صدی کے امام  ابن تیمیہ اپنے فتوی اور کتاب  شرح حديث النزول میں لکھتےہیں کہ حالت نیند میں زندہ لوگوں کی روح، مردوں سے ملاقات کرتی ہیں . ابن تیمیہ لکھتے ہیں

 ففي هذه الأحاديث من صعود الروح إلى السماء، وعودها إلى البدن، ما بين أن صعودها نوع آخر، ليس مثل صعود البدن

ونزوله.

پس ان احادیث میں ہے کہ روح آسمان تک جاتی ہے اور بدن میں عود کرتی ہے اور یہ روح کا اٹھنا دوسری نوع کا ہے اور بدن اور اس کے نزول جیسا نہیں

 اس کے بعد ابن تیمیہ لکھتے ہیں

وروينا عن الحافظ أبي عبد الله محمد بن منده في كتاب [الروح والنفس] : حدثنا أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا عبد الله بن الحسن الحراني، ثنا أحمد بن شعيب، ثنا موسى بن أيمن، عن مطرف، عن جعفر بن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما ـ في تفسير هذه الآية: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42] . قال: تلتقي أرواح الأحياء في المنام بأرواح الموتى ويتساءلون بينهم، فيمسك الله أرواح الموتى، ويرسل

أرواح الأحياء إلى أجسادها.

اور الحافظ أبي عبد الله محمد بن منده في كتاب الروح والنفس میں روایت کیا ہے حدثنا أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا عبد الله بن الحسن الحراني، ثنا أحمد بن شعيب، ثنا موسى بن أيمن، عن مطرف، عن جعفر بن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما اس آیت کی تفسیر میں : {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42] کہا:  زندوں کی روحیں نیند میں مردوں کی روحوں سے ملتی ہیں اور باہم سوال کرتی ہیں، پس الله مردوں

کی روحوں کو روک لیتا ہے اور زندوں کی روحیں چھوڑ دیتا ہے

یہ روایت ہی کمزور ہے اسکی سند میں جعفربن أبي المغيرة الخزاعي ہیں . تہذیب التہذیب  کے مطابق جعفر بن أبي المغيرة الخزاعي کے لئے ابن مندہ کہتے ہیں

وقال بن مندة ليس بالقوي في سعيد بن جبير

اور ابن مندہ کہتے ہیں  سعيد بن جبير  سے روایت کرنے میں قوی نہیں

ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں

وروى الحافظ أبو محمد بن أبي حاتم في [تفسيره] : حدثنا عبد الله بن سليمان، ثنا الحسن، ثنا عامر، عن الفُرَات، ثنا أسباط عن السدى: {وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} قال: يتوفاها في منامها. قال: فتلتقي روح الحي وروح الميت فيتذاكران ويتعارفان. قال: فترجع روح الحي إلى جسده في الدنيا إلى بقية أجله في الدنيا. قال: وتريد روح الميت أن ترجع إلى جسده فتحبس.

اور الحافظ أبو محمد بن أبي حاتم اپنی تفسیر میں روایت کرتے ہیں حدثنا عبد الله بن سليمان، ثنا الحسن، ثنا عامر، عن الفُرَات، ثنا أسباط عن السدى: {وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} کہا> نیند میں قبض کیا. کہا پس میت اور زندہ کی روح ملتی ہے پس گفت و شنید کرتی ہیں اور پہچانتی ہیں. کہا پس زندہ کی روح جسد میں پلٹی ہے دنیا میں تاکہ اپنی دنیا کی زندگی پوری کرے. کہا:  اور میت کی روح جسد میں لوٹائی جاتی ہے تاکہ قید ہو

اس روایت کی سند بھی کمزور ہے اس کی سند میں السدی ہے جو شدید ضعیف راوی ہے

 اس کے بعد ابن تیمیہ نے کئی سندوں سے ایک واقعہ پیش کیا جس کے الفاظ میں بھی فرق ہے کہ عمر رضی الله تعالی عنہ نے علی رضی الله تعالی عنہ سے سوال کیا کہ انسان کا خواب کھبی سچا اور کبھی جھوٹا کیوں ہوتا ہے ؟ جس پر علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا کہ روحیں آسمان پر جاتی ہیں

 وقال ابن أبي حاتم: ثنا أبي، ثنا عمر بن عثمان، ثنا بَقيَّة؛ ثنا صفوان بن عمرو، حدثني سليم بن عامر الحضرمي؛ أن عمر بن الخطاب ـ رضي الله عنه ـ قال لعلي بن أبي طالب ـ رضي الله عنه: أعجب من رؤيا الرجل أنه يبيت فيرى الشيء لم يخطر له على بال! فتكون رؤياه كأخذ باليد، ويرى الرجل الشيء؛ فلا تكون رؤياه شيئًا، فقال على بن أبي طالب: أفلا أخبرك بذلك يا أمير المؤمنين؟ إن الله يقول: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} [الزمر: 42] ، فالله يتوفي الأنفس كلها، فما رأت ـ وهي عنده في السماء ـ فهو الرؤيا الصادقة. وما رأت ـ إذا أرسلت إلى أجسادها ـ تلقتها الشياطين في الهواء فكذبتها، فأخبرتها بالأباطيل وكذبت فيها، فعجب عمر من قوله.   وذكر هذا أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن منده في كتاب [الروح والنفس] وقال: هذا خبر مشهور عن صفوان بن عمرو وغيره، ولفظه: قال على بن أبي طالب: يا أمير المؤمنين، يقول الله تعالى: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} والأرواح يعرج بها في منامها، فما رأت  وهي في السماء فهو الحق، فإذا ردت إلى أجسادها تلقتها الشياطين في الهواء فكذبتها، فما رأت من ذلك فهو الباطل.

اور ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں … کہ سلیم بن عامر نے روایت کیا کہ عمر بن الخطاب رضی الله عنہ نے علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے کہا مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی خواب دیکھتا ہے جس میں اس کا شائبہ تک اس کے دل پر نہیں گزرا ہوتا …. علی نے کہا امیر المومنین کیا میں اپ کو اس کی خبر دوں؟ الله تعالی نے  فرمایا

{اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} [الزمر: 42] ، پس الله نے نفس کو قبضہ میں لیا موت پر اور جو نہیں مرا اس کا نیند میں پس اس کو روکا جس پر موت کا حکم کیا اور دوسری کو چھوڑ دیا ایک مدت تک – تو الله نے نفس کو مکمل قبضہ کیا  تو یہ اس کے پاس آسمان پر ہے جو سچا خواب ہے اور جو جسد میں واپس آیا اس پر شیطان نے القا کیا … عمر کو اس قول پر حیرت ہوئی

اور اس کا ذکر ابن مندہ نے کتاب الروح و النفس میں کیا ہے اور کہا ہے یہ خبر مشھور ہے

   اس روایت  کے راوی سليم بن عامر کا عمر رضی الله تعالی عنہ سے سماع ثابت نہیں ہو سکا.

 اپنے عقیدہ  کے اثبات کے لئے ابن تیمیہ نے ابن لَهِيعَة تک کی سند پیش کی. جب کہ ان کی روایت بھی ضعیف ہوتی ہے

 قال الإمام أبو عبد الله بن منده: وروى عن أبي الدرداء قال: روى ابن لَهِيعَة عن عثمان بن نعيم الرُّعَيْني، عن أبي عثمان الأصْبَحِي، عن أبي الدرداء قال: إذا نام الإنسان عرج بروحه حتى يؤتى بها العَرْش قال: فإن كان طاهرًا أذن لها بالسجود، وإن كان جُنُبًا لم يؤذن لها بالسجود. رواه زيد بن الحباب وغيره.

 ابن تیمیہ نے یہ واقعہ ابن مندہ کے حوالے سے    ایک ضعیف راوی کی سند سے بھی پیش  کیا

وروى ابن منده حديث على وعمر ـ رضي الله عنهما ـ مرفوعًا، حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد، ثنا محمد بن شعيب، ثنا ابن عياش بن أبي إسماعيل، وأنا الحسن بن علي، أنا عبد الرحمن بن محمد، ثنا قتيبة والرازي، ثنا محمد بن حميد، ثنا أبو زهير عبد الرحمن بن مغراء الدوسي، ثنا الأزهر بن عبد الله الأزدي، عن محمد بن عجلان، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه قال: لقي عمر بن الخطاب على بن أبي طالب فقال: يا أبا الحسن … قال عمر: اثنتان. قال: والرجل يرى الرؤيا: فمنها ما يصدق، ومنها ما يكذب. فقال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” ما من عبد ينام فيمتلئ نومًا إلا عُرِج بروحه إلى العرش، فالذي لا يستيقظ دون العرش فتلك الرؤيا التي تصدق، والذي يستيقظ دون العرش فهي الرؤيا التي تكذب

یہ روایت معرفة الصحابة  از أبو نعيم  میں بھی حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الطَّلْحِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَبِيبٍ الطَّرَائِفِيُّ الرَّقِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، ثنا الْأَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَوْدِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِيهِ کی سند سے بیان ہوئی ہے لیکن راوی الْأَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ  ضعیف ہے

ابن حجر لسان المیزان میں اس پر بحث کرتے ہیں کہ

أزهر بن عبد الله خراساني.  عنِ ابن عجلان.

تُكلم فيه.

قال العقيلي: حديثه غير محفوظ، رواه عنه عبد الرحمن بن مغراء، انتهى.

والمتن من رواية ابن عجلان، عن سالم، عَن أبيه، عَن عَلِيّ رفعه: الأرواح جنود مجندة … الحديث.

وذكر العقيلي فيه اختلافا على إسرائيل، عَن أبي إسحاق عن الحارث، عَن عَلِيّ في رفعه ووقفه ورجح وقفه من هذا الوجه.

قلت: وهذه طريق أخرى تزحزح طريق أزهر عن رتبة النكارة.

وأخرج الحاكم في كتاب التعبير من المستدرك من طريق عبد الرحمن بن مغراء، حَدَّثَنَا أزهر بن عبد الله الأزدي بهذا السند إلى ابن عمر قال: لقي عمر عَلِيًّا فقال: يا أبا الحسن الرجل يرى الرؤيا فمنها ما يصدق ومنها ما يكذب قال: نعم، سمعت رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: ما من عبد، وَلا أمة ينام فيمتلىء نوما إلا عرج بروحه إلى العرش فالذي لا يستيقظ دون العرش ذلك الرؤيا التي تصدق والذي يستيقظ دون العرش فذلك الرؤيا التي تكذب.

قال الذهبي في تلخيصه: هذا حديث منكر، لم يتكلم عليه المصنف وكأن الآفة فيه من أزهر.

 أزهر بن عبد الله خراساني.   ابن عجلان سے (روایت کرتے ہیں)

انکے بارے میں کلام ہے

عقیلی کہتے ہیں: ان کی حدیث غیر محفوظ ہے اس سے عبد الرحمن بن مغراء روایت کرتے ہیں انتھی

اور اس روایت کا متن ابن عجلان، عن سالم، عَن أبيه، عَن عَلِيّ سے مرفوعا روایت کیا ہے …

میں (ابن حجر) کہتا ہوں: اور اس کا دوسرا طرق أزهر کی وجہ سے ہٹ کر نکارت کے رتبے پر جاتا ہے

اور حاکم نے مستدرک میں کتاب التعبیر میں اس کی عبد الرحمن بن مغراء، حَدَّثَنَا أزهر بن عبد الله الأزدي کی ابن عمر سے روایت بیان کی ہے کہ عمر کی علی سے ملاقات ہوئی پس کہا اے ابو حسن  ایک آدمی خواب میں دیکھتا ہے جس میں سے کوئی سچا ہوتا ہے اور کوئی جھوٹا پس علی نے کہا ہاں میں نے رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے سنا ہے کہ  کوئی بندہ نہیں ، اور بندی نہیں جس کو نیند آئے  الا یہ کہ اپنی روح کے ساتھ عرش تک اوپر جائے پس جو نہ سوئے عرش کے بغیر وہ خواب سچا ہے اور جو سوئے عرش کے بغیر  اس کا خواب جھوٹا ہے

الذهبي تلخیص میں کہتے ہیں یہ حدیث منکر ہے  مصنف نے اس پر کلام نہیں کیا اور اس میں آفت أزهر کیوجہ سے ہے

کتاب : الفتح الرباني من فتاوى الإمام الشوكاني میں شوکانی اس کی بہت سی سندیں دیتے ہیں ان کو رد کرتے ہیں پھر لکھتے ہیں

والحاصل: أن رؤية الأحياء للأموات في المنام كائنة في جميع الأزمنة منذ عصر الصحابة إلى الآن. وقد ذكر من ذلك الكثير الطيب القرطبي في تذكرته، وابن القيم   في كثير من مؤلفاته، والسيوطي في شرح الصدور   بشرح أحوال الموتى في القبور.

الوجه الثامن: من وجوه الأدلة المقتضية لالتقاء أرواح الأحياء والأموات، وهو دليل عقلي لا يمكن الإنكار له، ولا القدح في دلالته، ولا التشكيك عليه، وذلك أنه قد وقع في عصرنا فضلا عن العصور المتقدمة أخبار كثيرة من الأحياء أفم رأوا في منامهم أمواتا فأخبروهم بأخبار هي راجعة إلى دار الدنيا

اور حاصل یہ ہے کہ زندوں کا مردوں کو نیند میں دیکھنا  چلا آ رہا ہے عصر صحابہ سے ہمارے دور تک- اور اس کا ذکر کیا ہے قرطبی نے تذکرہ میں اور ابن قیم نے اپنی بہت سی مولفات میں اور السيوطي نے شرح الصدور بشرح أحوال الموتى في القبور میں  

اور دوسری وجہ : اور وہ دلائل جو ضرورت کرتے ہیں کہ زندوں کی روحیں مرنے والوں سے ملتی ہیں وہ عقلی ہیں جن پر کوئی قدح نہیں نہ ان پر شک ہے اور ہمارے زمانے کے بہت سے فضلا کو خبریں ملی ہیں ان مردوں کو جو اس دار سے جا چکے ہیں

غیر مقلدین کی ایک معتبر شخصیت عبد الرحمن کیلانی کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں لکھتے ہیں

کیلانی خواب ١

اس فلسفہ کا خمیر انہی ضعیف روایات پر اٹھا ہے جس سے معبروں (خواب کی تعبیر کرنے والوں) کی دکان چل رہی تھی

 ظاہر ہے اس فلسفہ کی قرآن و حدیث میں جڑیں نہیں لہذا اس پر سوال پیدا ہوتے ہیں جو کرتے ہی زبان بند ی کرا دی جاتی ہے

kelani khwab

صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق اچھا خواب الله کی طرف سے ہے اور برا شیطان کی طرف سے  نہ کہ اس میں روحیں نکل کر عالم بالا جاتی ہیں

حدیث میں ہے ایک شخص خواب بیان کر رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا اور کہا
لَا تُخْبِرْ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِكَ فِي الْمَنَامِ
اس کی خبر مت دو کہ شیطان نے تیرے ساتھ نیند میں کیا کھیلا

صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، جَمِيعًا عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ عَمْرٍو الدَّوْسِيَّ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ لَكَ فِي حِصْنٍ حَصِينٍ وَمَنْعَةٍ؟ – قَالَ: حِصْنٌ كَانَ لِدَوْسٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ – فَأَبَى ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلَّذِي ذَخَرَ اللهُ لِلْأَنْصَارِ، فَلَمَّا هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ، هَاجَرَ إِلَيْهِ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو وَهَاجَرَ مَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَاجْتَوَوُا الْمَدِينَةَ، فَمَرِضَ، فَجَزِعَ، فَأَخَذَ مَشَاقِصَ لَهُ، فَقَطَعَ بِهَا بَرَاجِمَهُ، فَشَخَبَتْ يَدَاهُ حَتَّى مَاتَ، فَرَآهُ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فِي مَنَامِهِ، فَرَآهُ وَهَيْئَتُهُ حَسَنَةٌ، وَرَآهُ مُغَطِّيًا يَدَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: مَا صَنَعَ بِكَ رَبُّكَ؟ فَقَالَ: غَفَرَ لِي بِهِجْرَتِي إِلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكَ مُغَطِّيًا يَدَيْكَ؟ قَالَ: قِيلَ لِي: لَنْ نُصْلِحَ مِنْكَ مَا أَفْسَدْتَ، فَقَصَّهَا الطُّفَيْلُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ وَلِيَدَيْهِ فَاغْفِرْ»

حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ بصری روایت کرتے ہیں ابی زبیر سے وہ جابر رضی الله عنہ سے کہ
طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (مکہ میں ہجرت سے پہلے) اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ ایک مضبوط قلعہ اور لشکر چاہتے ہیں؟ (اس قلعہ کے لیے کہا جو کہ جاہلیت کے زمانہ میں دوس کا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے قبول نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے حصے میں یہ بات لکھ دی تھی ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ان کی حمایت اور حفاظت میں رہیں گے) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی (اور ان کے پیٹ میں عارضہ پیدا ہوا) تو وہ شخص جو سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا تھا، بیمار ہو گیا اور تکلیف کے مارے اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہوگیا، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا اور ا س کی حالت اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا :’’مجھے اس لیے بخش دیا کہ میں نے اس کے پیغمبرکی طرف ہجرت کی تھی۔‘‘ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے ہے؟ وہ بولا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ ہم اس کو نہیں سنواریں گے جس کو تو نے خود بخود بگاڑا ہے۔ پھر یہ خواب سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر کرم کیا ہے۔ (یعنی اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی درست کر دے)۔ ‘‘

اس روایت کے مطابق طفیل رضی الله عنہ نے اس شخص کو خواب میں دیکھا اور اس نے بتایا کہ اس کی بخشش ہو گئی

اس کی سند میں ابی زبیر ہے جو جابر رضی الله عنہ سے روایت کر رہا ہے
محدثین کہتے ہیں ابو زبیر کی وہی روایت لینی چاہیے جو لیث بن سعد کی سند سے ہوں امام مسلم نے اس اصول کو قبول نہیں کیا
اور روایت کو صحیح سمجھا ہے جبکہ دیگر محدثین اس سے الگ کہتے ہیں ان کے مطابق یہ روایت صحیح نہیں بنتی

كتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مشهور بالتدليس قال سعيد بن أبي مريم ثنا الليث بن سعد قال جئت أبا الزبير فدفع لي كتابين فانقلبت بهما ثم قلت في نفسي لو أني عاودته فسألته اسمع هذا كله من جابر قال سألته فقال منه ما سمعت ومنه ما حدثت عنه فقلت له اعلم لي على ما سمعت منه فاعلم لي على هذا الذي عندي ولهذا توقف جماعة من الأئمة عن الاحتجاج بما لم يروه الليث عن أبي الزبير عن جابر وفي صحيح مسلم عدة أحاديث مما قال فيه أبو الزبير عن جابر وليست من طريق الليث وكأن مسلما رحمه الله اطلع على أنها مما رواه الليث عنه وإن لم يروها من طريقه والله أعلم

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي تدلیس کے لئے مشھور ہیں – سعيد بن أبي مريم نے لیث بن سعد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں ابو الزبیر کے پاس گیا اس نے دو کتابیں دیں ان کو لے لر واپس آیا – پھر میں نے دل میں کہا جب اس کے پاس جاؤں گا تو اس سے پوچھوں گا کہ کیا یہ سب اس نے جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سے سنا بھی ہے ؟ لیث نے ابو الزبیر سے (واپس جا کر) سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا: اس میں ہے جو ان سے سنا اور وہ بھی جو میں نے ان سے روایت کر دیا ہے- میں (لیث) نے اس سے کہا: مجھے اس کا علم دو جو تم نے سنا ہو- پس اس نے صرف وہ بتایا اور یہ اب میرے پاس ہے-اس وجہ سے ائمہ (حدیث) کی جماعت نے اس (ابو الزبیر) سے دلیل نہیں لی سوائے اس کے کہ جو لیث کی سند سے ہو – اور صحیح مسلم میں اس کی چند روایات ہیں جس میں ابو الزبیر عن جابر کہا ہے جو لیث کی سند سے نہیں اور امام مسلم اس بات سے واقف تھے کہ اس کی لیث کی سند والی روایات کون سی ہیں ، انہوں نے اس کو اس طرق سے روایت نہیں کیا الله آعلم

ابن سیرین سے منسوب کتاب تفسیر الاحلام یا کتاب الرویا غیر ثابت ہیں لیکن یہ کتاب  صوفیوں کی گھڑی ہوئی ہے

عرب عالم مشھور بن  حسن ال سلمان اپنی  كتاب  كتب حذر منها العلماء  (وہ کتب جن سے علماء نے احتیاط برتی) میں اس پر بحث کرتے ہیں

ibn-seren-dreambook

لب لباب یہ ہے کہ یہ کتاب ابن سیرین سے ثابت نہیں ہے اس کا تین قرون میں تذکرہ نہیں ملتا ابن سیرین ایک محتاط محدث تھے اور تعبیر کے لئے ممکن نہیں کہ انہوں نے قوانین بنائے ہوں

لیکن افسوس بر صغیر کے علماء نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور غیر مقلدین علماء تک اس کو فتووں میں استمعال کر رہے ہیں

 

خوارج سے متعلق روایات

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

عصر حاضر میں البانی ، شعیب الآرنوط ، احمد شاکر صاحبان نے احادیث کی تصحیح و تضعیف  وغیرہ پر کافی محنت کی ہے جو سنن اور مسانید تک ہی محدود ہے-  بطور مسلم  تاریخ کے حوالے سے ہمارا منہج صحیح نہیں رہا – ہمارے مورخین نے ہر طرح کا رطب و یابس اپنی کتابوں میں نقل کر دیا اور محدثین نے روایات کو فضائل سمجھتے ہوئے یا علامات النبوه میں لکھ دیا – اس طرح انسانی شخصیات بشری جامے سے نکل کر غیر بشری تصورات میں تبدیل ہو گئیں – راویوں کی چھان پھٹک کافی بعد میں شروع  ہوئی جب فتنے پورے جوبن پر آ گئے اور محدثین کہنے لگے کہ اسناد دین ہیں اور برملا اعتراف کرنے لگے کہ یہ تب احساس ہوا جب  فتنوں نے سر اٹھا لیا-  ابن سيرين  بتاتے ہیں

كَانُوا لَا يسْأَلُون عَن الْإِسْنَاد فَلَمَّا وَقعت الْفِتْنَة قَالُوا سموا لنا رجالكم

ہم تو اسناد پوچھتے تک نہیں تھے پس جب فتنہ ہوا پھر ہم نے کہنا شروع کیا اپنے رجال کے نام لو

بحوالہ النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزرکشی

قرن اول میں ہی  جعلی حدیثیں گھڑی گئیں اور ان  گھڑنے والوں  کی نگاہ انتخاب علی اور ان کی اولاد پر تھی جن کو مافوق الفطرت سمجھا جا رہا تھا-  علی  کی موت کا انکار کیا جاتا ، علی کو بادلوں میں بتایا جاتا اور ان کی خلافت کو من جانب الله ثابت کرنے کے لئے علی ہی کے اصحاب عجیب و غریب اقوال لوگ  بیان کر رہے تھے جن سے اصحاب رسول  نا واقف تھے

اس قسم کا ایک واقعہ خوارج کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے  کہ علی رضی الله عنہ نے جب خوارج سے قتال کیا تو انہوں نے اس کے بعد کہا ان کی لاشوں میں ایک پستان جیسے ہاتھ والا شخص تلاش کرو لہذا خارجیوں کی لاشیں کھنگالی گئیں اور ایک ایسا شخص مل گیا – اس پر علی نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ میری جنگ ہو گی اور ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے بازو ہو گا ، لیکن ہاتھ نہ ہو گا، اس کے بازو پر پستان کی  گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہو گی، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے – اس روایت کو بہت سے محدثین نے نقل کیا ہے (سوائے امام بخاری کے ) لیکن اس روایت کے مخالف روایت بھی ہے اسکو پیش نہیں کیا جاتا اور خود جو الفاظ ہم تک پہنچے ہیں وہ بھی دلیل رکھتے ہیں کہ یہ روایت صحیح  مفھوم سے منقول  نہیں ہوئی

اب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں

زید بن وھب الجھنی کی روایت

صحیح مسلم میں  ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَيْسَ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ»، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ، مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَاتَّكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، «وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ، وَلَيْسَ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى رَأْسِ عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ» فَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُكُونَ هَؤُلَاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَاللهِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللهِ. قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلًا، حَتَّى قَالَ: مَرَرْنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ يَوْمَئِذٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ، فَقَالَ: لَهُمْ أَلْقُوا الرِّمَاحَ، وَسُلُّوا سُيُوفَكُمْ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، فَرَجَعُوا فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ، وَسَلُّوا السُّيُوفَ، وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلَّا رَجُلَانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، قَالَ: أَخِّرُوهُمْ، فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ، فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللهُ، وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلِلَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، لَسَمِعْتَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: إِي، وَاللهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلَاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ لَهُ “

 عبد بن حمید، عبدالرزاق بن ہمام، عبدالملک بن ابی سلیمان، سلمہ بن کہیل، زید بن وہب جہنی  سے روایت ہے کہ وہ اس لشکر میں شریک تھا جو سیدنا علی (رض) کی معیت میں خوارج سے جنگ کے لئے چلا۔ تو حضرت علی (رض) نے فرمایا اے لوگو! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ ایک قوم میری امت سے نکلے گی وہ قرآن اس طرح پڑھیں گے کہ تم ان کی قرأت سے مقابلہ نہ کرسکو گے اور نہ تمہاری نماز ان کی نماز کا مقابلہ کرسکے گی اور نہ تمہارے روزے ان کے روزوں جیسے ہوں گے وہ قرآن پڑھتے ہوئے گمان کریں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے حالانکہ وہ ان کے خلاف ہوگا اور ان کی نماز ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے ان سے قتال کرنے والے لشکر کو اگر یہ معلوم ہوجائے جو نبی کریم کی زبانی ان کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے اسی عمل پر بھروسہ کرلیں اور نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کے بازو کی بانہہ نہ ہوگی اور اس کے بازو کی نوک عورت کے پستان کی طرح لوتھڑا ہوگی اس پر سفید بال ہونگے فرمایا تم معاویہ (رض) اور اہل شام سے مقابلہ کے لئے جاتے ہوئے ان کو چھوڑ جاتے ہو کہ یہ تمہارےپیچھے تمہاری اولادوں اور تمہارے اموال کو نقصان   پہنچائیں۔ اللہ کی قسم میں امید کرتا ہوں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حرام خون بہایا اور ان کے مویشی وغیرہ لوٹ لئے تم اور لوگوں کو چھوڑو اور ان کی طرف اللہ کے نام پر چلو سلمہ بن کہیل کہتے ہیں پھر مجھے زید بن و ہب نے ایک منزل کے متعلق بیان کیا۔ یہاں تک کہ ہم ایک پل سے گزرے اور جب ہمارا خوارج سے مقابلہ ہوا تو عبداللہ بن و ہب راسبی انکا سردار تھا۔ اس نے اپنے لشکر سے کہا تیر پھینک دو اور اپنی تلواریں میانوں سے کھینچ لو میں خوف کرتا ہوں کہ تمہارے ساتھ وہی معاملہ نہ ہو جو تمہارے ساتھ حروراء کے دن ہوا تھا تو وہ لوٹے اور انہوں نے نیزوں کو دور پھینک دیا اور تلواروں کو میان سے نکالا۔ لوگوں نے ان سے نیزوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور یہ ایک دوسرے پر قتل کئے گئے ہم میں صرف دو آدمی کام آئے علی (رض) نے فرمایا ان میں سے ناقص ہاتھ والے کو تلاش کرو تلاش کرنے پر نہ ملا تو علی (رض) خود کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان لوگوں پر آئے جو ایک دوسرے پر قتل ہوچکے تھے آپ نے فرمایا ان کو ہٹاؤ پھر اس کو زمین کے ساتھ ملا ہوا پایا آپ نے اَللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر فرمایا اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہنچایا تو پھر عبیدہ سلمانی نے کھڑے ہو کر کہا اے امیرالمومنین اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ آپ نے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث سنی۔ تو علی (رض) نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی یہاں تک عبیدہ نے تین بار قسم کا مطالبہ کیا اور آپ نے تین بار ہی اس کے لئے قسم کھائی۔

سنن ابوداود  ۴۷۶۸ میں بھی ہے

 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَيْسَتْ قِرَائَتُكُمْ إِلَى قِرَائَتِهِمْ شَيْئًا، وَلا صَلاتُكُمْ إِلَى صَلاتِهِمْ شَيْئًا، وَلاصِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ شَيْئًا، يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لاتُجَاوِزُ صَلاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ ﷺ لَنَكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلا لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَتْ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ > أَفَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُكُونَ هَؤُلاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ؟ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلاءِ الْقَوْمَ؛ فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلا مَنْزِلا، حَتَّى مَرَّ بِنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ، قَالَ: فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا السُّيُوفَ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، قَالَ: فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ، وَاسْتَلُّوا السُّيُوفَ، وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقَتَلُوا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضِهِمْ، قَالَ: وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلا رَجُلانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلامُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَلَمْ يَجِدُوا، قَالَ: فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه بِنَفْسِهِ، حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: أَخْرِجُوهُمْ، فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الأَرْضَ، فَكَبَّرَ، وَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ، وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! [وَ] اللَّهِ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ لَقَدْ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لاإِلَهَ إِلا هُوَ، حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ ۔
* تخريج: م/ الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۰) (صحیح)

زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:” میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قر آن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا ، نہ تمہاری صلاۃ ان کی صلاۃ کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا صیام ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے ، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لئے ( ثواب) ہے حالاں کہ وہ ان پر (عذاب ) ہو گا ، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی ، وہ اسلام سے نکل جائیں گے ، جس طرح تیرشکار سے نکل جاتا ہے ، اگر ان لوگوں کو جو انہیں قتل کر یں گے ، یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے لئے ان کے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبا نی کس چیز کا فیصلہ کیا گیا ہے ، تو وہ ضر ور اسی عمل پر بھروسا کرلیں گے -ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے بازو ہو گا ، لیکن ہاتھ نہ ہو گا، اس کے بازو پر پستان کی گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہو گی، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے”، تو کیا تم لوگ معاویہ اور ہل شام سے لڑ نے جائوگے ، اور انہیں اپنی اولاد اور اسباب پر چھو ڑدو گے (کہ وہ ان پر قبضہ کریں اور انہیں برباد کریں) اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں ( جن کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے ) اس لئے کہ انہوں نے ناحق خون بہایا ہے، لوگوں کی چراگاہوں پر شب خون مارا ہے ، چلو اللہ کے نام پر ۔ سلمہ بن کہیل کہتے ہیں : پھر زید بن وہب نے مجھے ایک ایک مقام بتا یا ( جہاں سے ہو کر وہ خارجیوں سے لڑ نے گئے تھے) یہاں تک کہ وہ ہمیں لے کر ایک پل سے گزرے۔  وہ کہتے ہیں: جب ہماری مڈ بھیڑ ہوئی تو خارجیوں کا سردا رعبداللہ بن وہب راسبی تھا اس نے ان سے کہا : نیزے پھینک دو اور تلواروں کو میان سے کھینچ لو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تم سے اسی طرح صلح کا مطالبہ نہ کریں جس طرح انہوں نے تم سے حروراء کے دن کیا تھا ، چنانچہ انہوں نے اپنے نیز ے پھینک دئیے ،تلواریں کھینچ لیں، لوگوں (مسلمانوں ) نے انہیں اپنے نیزوں سے روکا اور انہوں نے انہیں ایک پر ایک کر کے قتل کیا اور ( مسلمانوں میں سے) اس دن صرف دو آدمی شہید ہوئے ، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں مخدج یعنی لنجے کو تلاش کرو، لیکن وہ نہ پاسکے، تو آپ خود اٹھے اور ان لوگوں کے پاس آئے جو ایک پر ایک کرکے مارے گئے تھے ، آپ نے کہا: انہیں نکالو ، تو انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ سب سے نیچے زمین پر پڑا ہے ،آپ نے  نعرہ تکبیر بلند کیا اور بولے: اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے سا ری باتیں پہنچا دیں ۔ پھر عبیدہ سلمانی آپ کی طرف اٹھ کر آئے کہنے لگے: اے امیر المو منین ! قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے ؟ وہ بولے : ہاں، اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، یہاں تک کہ انہوں نے انہیں تین بار قسم دلائی اور وہ (تینوں با ر) قسم کھاتے رہے

زيد بن وهب  ایک بد مذھب شخص تھا – امام  يعقوب الفسوي کے مطابق فی حديثه خلل كثير اسکی روایات میں خلل ہوتا ہے اور

یہ کہا کرتا إن خرج الدجال تبعه من كان يحب عثمان. اگر دجال نکلے تو اس کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے جو عثمان  (رضی الله عنہ) سے محبت کرتے ہوں –  الذہبی،  ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين میں بتاتے ہیں کہ اسکی ایک حدیث عمر  (رضی الله عنہ) کے حوالے سے کہ انہوں نے حذیفہ  (رضی الله عنہ) سے کہا بالله أنا منافق الله کی قسم میں منافق ہوں-  ان روایات  کو امام يعقوب الفسوي رد کرتے اور اس کی روایات کا خلل کہتے – علی رضی الله عنہ پر بھی موصوف نے ہاتھ صاف کیا اور اس کو مسلم نے صحیح میں روایت 2071 بیان  کر دیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی  (رضی الله عنہ) کو ایک چادر دی اور وہ علی رضی الله عنہ نے اوڑھ لی اور رسول الله کے پاس گئے جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم  کے چہرے پر غضب آیا اور فرمایا  کہ فَشَقَقْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي اپنی عورتوں میں اس کو بانٹ دو- یعنی چادر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ رضی الله عنہا یا علی کی لونڈیوں کے لئے دی تھی لیکن علی اس قدر معصوم تھے یہ سب سمجھ نہ سکے اور ایسی زنانہ چادر اوڑھ بھی لی- حیرت ہے کہ امام مسلم نے اس کو صحیح میں روایت بھی کر دیا

عبيدة السلماني المرادي الهمداني کی روایت

صحیح مسلم میں روایت ہے

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،   ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،  ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، – وَاللَّفْظُ لَهُمَا – قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: ذَكَرَ الْخَوَارِجَ فَقَالَ: «فِيهِمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ»، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَحَدَّثْتُكُمْ بِمَا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ، عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ قُلْتُ: آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ

عبيدة السلماني المرادي الهمداني سے اس روایت کو امام ابن سیرین روایت کرتے ہیں اور ان سے ایوب السختیانی جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں-

ابن سیرین اور ایوب  دونوں بصری ہیں مدلس ہیں- ابن سيرين خود تو دوسروں سے کہتے رجال بتاؤ لیکن یہ خود تدلیس کر کے رجال چھپاتے ہیں

عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی روایت

صحیح مسلم کی روایت ہے عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ قبیلہ مضر کے تھے علی کے کاتب تھے بتاتے ہیں

حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْحَرُورِيَّةَ لَمَّا خَرَجَتْ، وَهُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالُوا: لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ، قَالَ عَلِيٌّ: كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَ نَاسًا، إِنِّي لَأَعْرِفُ صِفَتَهُمْ فِي هَؤُلَاءِ، «يَقُولُونَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَجُوزُ هَذَا، مِنْهُمْ، – وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ – مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللهِ إِلَيْهِ مِنْهُمْ أَسْوَدُ، إِحْدَى يَدَيْهِ طُبْيُ شَاةٍ أَوْ حَلَمَةُ ثَدْيٍ» فَلَمَّا قَتَلَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: انْظُرُوا، فَنَظَرُوا فَلَمْ يَجِدُوا شَيْئًا، فَقَالَ: ارْجِعُوا فَوَاللهِ، مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ وَجَدُوهُ فِي خَرِبَةٍ، فَأَتَوْا بِهِ حَتَّى وَضَعُوهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ عُبَيْدُ اللهِ: وَأَنَا حَاضِرُ ذَلِكَ مِنْ أَمْرِهِمْ، وَقَوْلِ عَلِيٍّ فِيهِمْ “، زَادَ يُونُسُ فِي رِوَايَتِهِ: قَالَ بُكَيْرٌ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ عَنِ ابْنِ حُنَيْنٍ أَنَّهُ، قَالَ: رَأَيْتُ ذَلِكَ الْأَسْوَدَ

عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ روایت کرتے ہیں کہ الْحَرُورِيَّةَ نے جب خروج کیا اور وہ علی بن ابی طالب کے ساتھ تھے تو الْحَرُورِيَّةَ نے کہا  حکم نہیں صرف الله کے لئے علی نے کہا یہ کلمہ حق ہے یہ اس سے باطل چاہتے ہیں بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان لوگوں کی صفت بیان کی تھی اور میں انکو انکی صفت سے جانتا ہوں یہ اپنی زبانوں پر حق کہتے ہیں جو ان کے لئے جائز نہیں ہے پھر حلق کی طرف اشارہ کیا اور ان میں سب سے برا جو اللہ نے خلق کیا ہے وہ ، وہ کالا ہے جس کا ہاتھ ایک بکری کے پستان جیسا ہے پس جب ان کا قتل ہوا تو علی نے کہا دیکھو پر نہ پایا پھر کہا واپس جاؤ دیکھو نہ میں نے جھوٹ کہا نہ انہوں نے دو یا تین دفعہ کہا پھر اس کو پایا اور ہاتھ میں اس کو دیکھا عبد الله نے کہا میں بھی ان میں تھا

اس  روایت میں دو مختلف  اقوال مبہم انداز میں مل گئے ہیں ایک یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صفت بتائی تھی کہ وہ جو بولیں گے وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا – علی رضی الله عنہ نے اس حدیث نبوی کو الْحَرُورِيَّةَ پر منطبق کیا پھر علی نے  کہا ان میں ایک کالا ہے جس کا  ہاتھ پستان جیسا ہے پھر ڈھندوایا گیا کہ وہ مر گیا یا نہیں

اغلبا  اصحاب علی کو اشتباہ ہوا اور انہوں نے حدیث نبوی  اور قول علی کو ملا کر اس کو ایک مکمل حدیث بنوی  بنا دیا

أَبُو الْوَضِيئِ کی روایت

سنن ابو داود  ۴۷۶۹ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَضِيئِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: اطْلُبُوا الْمُخْدَجَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَاسْتَخْرَجُوهُ مِنْ تَحْتِ الْقَتْلَى فِي طِينٍ، قَالَ أَبُو الْوَضِيئِ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حَبَشِيٌّ عَلَيْهِ قُرَيْطِقٌ لَهُ إِحْدَى يَدَيْنِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ عَلَيْهَا شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ شُعَيْرَاتِ الَّتِي تَكُونُ عَلَى ذَنَبِ الْيَرْبُوعِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۳۹، ۱۴۰، ۱۴۱)

– ابو الوضی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: مخدج ( لنجے ) کو تلاش کرو ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے: لوگوں نے اسے مٹی میں پڑے ہوئے مقتولین کے نیچے سے ڈھونڈ نکالا ،گویا میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں ، وہ ایک حبشی ہے چھوٹا سا کرتا پہنے ہوئے ہے، اس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے ، جس پر ایسے چھوٹے چھوٹے بال ہیں ، جیسے جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں

عباد بن نسيب کا حال مجھول ہے ابن خلفون  نے اس کو ثقات میں شمار کیا ہے اس سے قبل کسی نے توثیق نہیں کی

أَبِي مَرْيَمَ کی روایت

سنن ابوداود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: إِنْ كَانَ ذَلِكَ الْمُخْدَجُ لَمَعَنَا يَوْمَئِذٍ فِي الْمَسْجِدِ، نُجَالِسُهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَكَانَ فَقِيرًا، وَرَأَيْتُهُ مَعَ الْمَسَاكِينِ يَشْهَدُ طَعَامَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام مَعَ النَّاسِ وَقَدْ كَسَوْتُهُ بُرْنُسًا لِي.
قَالَ أَبُو مَرْيَمَ: وَكَانَ الْمُخْدَجُ يُسَمَّى نَافِعًا ذَا الثُّدَيَّةِ، وَكَانَ فِي يَدِهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ، عَلَى رَأْسِهِ حَلَمَةٌ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ سِبَالَةِ السِّنَّوْرِ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ عِنْدَ النَّاسِ اسْمُهُ حَرْقُوسُ] ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۳۳) (ضعیف الإسناد)

أبي مريم قيس الثقفي المدائني کہتے ہیں  کہ یہ مخدج( لنجا) مسجد میں اس دن ہمارے ساتھ تھا ہم اس کے ساتھ رات دن بیٹھا کرتے تھے ، وہ فقیر تھا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ مسکینو ں کے ساتھ آکر علی رضی اللہ عنہ کے کھانے پر لوگوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور میں نے اسے اپنا ایک کپڑا دیا تھا۔  ابو مریم کہتے ہیں : لوگ مخدج ( لنجے ) کو نا فع ذوالثدیہ ( پستان والا) کا نام دیتے تھے، اس کے ہاتھ میں عورت کے پستان کی طرح گوشت ابھرا ہوا تھا، اس کے سرے پر ایک گھنڈی تھی جیسے پستان میں ہوتی ہے اس پر بلی کی مونچھوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال تھے ۔  ابو داود کہتے ہیں:لوگوں کے نزدیک اس کا نام حرقوس تھا۔

البلاذري الأنساب میں کہتے ہیں نہروان میں  حرقوص بن زهير کا قتل ہوا- لہذا  پہلا خیال یہ اتا ہے  کہ اس روایت میں حَرْقُوسُ غلط ہے کتابت کی غلطی ہے لیکن مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ نام مسلسل حَرْقُوسُ لکھا گیا ہے دیگر کتب میں بھی –  یہ کوئی فرضی کردار ہے یا حقیقی ہے یہ بھی نہیں پتا  – مسند ابی یعلی کی روایت ہے

هَذَا حُرْقُوسٌ وَأُمُّهُ هَاهُنَا، قَالَ: فَأَرْسَلَ عَلِيٌّ إِلَى أُمِّهِ فَقَالَ لَهَا: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَتْ: مَا أَدْرِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ أَرْعَى غَنَمًا لِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِالرَّبَذَةِ، فَغَشِيَنِي شَيْءٌ كَهَيْئَةِ الظُّلَّةِ فَحَمَلْتُ مِنْهُ فَوَلَدْتُ هَذَا

لوگوں نے کہا یہ حُرْقُوسٌ ہے اس کی ماں ادھر کی ہے پس علی نے اس کی ماں کے پاس بھیجا اور پوچھا یہ  حُرْقُوسٌ  کیا شی ہے ؟  بولی مجھے نہیں پتا امیر الْمُؤْمِنِينَ سوائے اس کے کہ ایام جاہلیت میں میں زبده میں بکریاں چرا رہی تھی کہ غشی آ گئی اور ایک سایہ کی طرح چیز سے میں حآملہ ہوئی اور اس کو جنا

  أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ کی روایت

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا  37899 – يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو شَيْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ، قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِيٌّ ذَا الثُّدَيَّةِ قَالَ سَعْدٌ: «لَقَدْ قَتَلَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ جَانَّ  الرَّدْهَةِ»

جب اس پستان جیسے شخص کا قتل ہوا تو سعد نے کہا علی نے الرَّدْهَةِ کے جن کا قتل کر دیا

سند میں  أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ ہے جس کا حال مجھول ہے

الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة کی روایت

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَرْبِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرَةَ الْحَنَفِيُّ، أَنَّهُ شَهِدَ يَوْمَ النَّهْرَوَانِ، قَالَ: وَكُنْتُ فِيمَنِ اسْتَخْرَجَ ذَا الثِّدْيَةِ فَبَشَّرَ بِهِ عَلِيٌّ قَبْلَ أَنْ يَنْتَهِيَ إِلَيْهِ قَالَ: فَانْتَهَى إِلَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَرَحًا

علی خوشی سے سجدہ میں گر گئے

  الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة مجهول ہے

بکر بن قرواش کی روایت

مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند احمد کی روایت ہے

يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ، يُخْبِرُ عَنْ بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ ذَا الثُّدَيَّةِ الَّذِي كَانَ مَعَ أَصْحَابِ النَّهْرِ فَقَالَ: شَيْطَانُ الرَّدْهَةِ يَحْتَدِرُهُ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ يُقَالُ لَهُ الْأَشْهَبُ أَوِ ابْنُ الْأَشْهَبِ عَلَامَةُ سُوءٍ فِي قَوْمٍ ظَلَمَةٍ , فَقَالَ عَمَّارٌ الدُّهْنِيُّ حِينَ كَذَّبَ بِهِ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ , قَالَ: وَأَرَاهُ قَالَ: مِنْ دُهْنٍ , يُقَالُ لَهُ الْأَشْهَبُ أَوِ ابْنُ الْأَشْهَبِ

بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ  نے  سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ذکر کیا پستان جیسے ہاتھ والے شخص کا جو اصحاب النہر میں سے تھا اور کہا یہ تو الرَّدْهَةِ (پہاڑ میں بسنے والا) شیطان ہے

اس روایت کا ذکر الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا الفضل بن عَبد اللَّه بْنِ سُلَيْمَانَ الأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنا لُوَيْنٌ، حَدَّثَنا سُفيان، عَن الْعَلاءِ بْنِ أَبِي الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ عَنْ سَعْدٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ شَيْطَانُ الرَّدْهَةِ يَحْتَدِرُهُ رَجُلٌ مِنْ بُجَيْلَةَ، يُقَال لَهُ: الأَشْهَبُ، أَوِ ابْنُ الأشهب راعي الخيل أو راعي الْخَيْلِ عَلامَةٌ فِي قَوْمٍ ظَلَمَةٍ.

قَالَ الشَّيْخُ: وَهَذَا الْحَدِيثُ لا يُعْرَفُ إلاَّ بِبَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ عَنْ سَعْدٍ وَبَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ ما أقل ما له من الرِّوَايَاتِ.

ابن عدی کہتے ہیں اس حدیث کو صرف بکر بن قرواش روایت کرتا ہے اور … اس کی تھوڑی سی روایات ہیں

ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذهبي (المتوفى: 748هـ) لکھتے ہیں

بكر بن قرواش: عن سعد بن مالك، لا يعرف. کو میں نہیں جانتا

میزان از الذھبی میں ہے  بكر بن قرواش. ..الحديث منكر، رواه  عنه أبو الطفيل.  قال ابن المديني: لم أسمع بذكره إلا في هذا الحديث – يعنى في ذكر ذي الثدية.

بكر بن قرواش اس کی حدیث منکر ہے جو اس سے ابو طفیل روایت کرتا ہے اور امام علی المدینی کہتے ہیں میں نے اس کے حوالے سے صرف یہی حدیث سنی ہے جس میں پستان جیسے ہاتھ کا ذکر ہے

الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کی روایت

کتاب  السنة از أبو بكر الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ)   کی روایت ہے

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَدَقَةَ، قَالَ: ثَنَا الْعَبَّاسُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: ثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، وَالضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ، كَذَا قَالَ، وَإِنَّمَا  هُوَ الضَّحَّاكُ الْمِشْرَقِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، الْحَدِيثُ طَوِيلٌ فِيهِ قِصَّةُ ذِي الثُّدَيَّةِ، وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ، وَأَشْهَدُ أَنِّي كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِينَ قَتَلَهُمْ، وَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَى فَأُتِيَ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “

الْأَوْزَاعِيُّ کہتے ہیں الزُّهْرِيُّ  نے مجھ سے کہا کہ الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِم نے روایت کیا ، میں سمجھتا ہوں یہ الضَّحَّاكُ الْمِشْرَقِيّ ہے کہ ابو سعید الخدری نے روایت کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ایک طویل قصہ پستان جیسے ہاتھ والے کا … ابو سعید نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ اس کو میں نے رسول الله سے سنا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ جب ان کا قتل ہوا میں ساتھ تھا اور اس صفت تک پہنچا جو رسول الله نے بیان کی

الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کے لئے ابی حاتم کہتے ہیں  لم يدرك أبا سعيد رضي الله عنهم

جامع التحصيل في أحكام المراسيل

اس کا مطلب ہے کہ  الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ، صحابی ابو سعید سے بھی  روایت کرتا ہے

امام الْأَوْزَاعِيُّ  کی رائے میں بھی یہ  الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ نہیں ہو سکتا ان کی رائے میں یہ اغلبا الضَّحَّاكُ الْمِشْرَقِيُّ، ہے لیکن اس میں ظاہر ہے کہ یہ صرف رائے ہے امام الزہری  نے دوسرا نام لیا ہے

رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ  کی روایت

امام بخاری تاریخ الکبیر میں روایت پیش کرتے ہیں

قَالَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حدَّثنا الْحَكَمُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِيرة، عَنْ أَبي صَادِقٍ، عَن رَبِيعَةَ بنِ ناجِدٍ، عَن عَلِيٍّ: دَعانِي النَّبيُّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم، فَقال: يَا عَلِيٌّ، إِنَّ لَكَ مِن عِيسَى مَثَلاً، أَبغَضَتهُ اليَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ، وأَحَبَّتهُ النَّصارَى حَتَّى أَنزَلُوهُ بِالمَنزِلِ الَّذِي لَيسَ به.

رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، علی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور کہا اے علی تمہاری مثال تو عیسیٰ جیسی ہے جن سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ انکی ماں پر بہتان لگا دیا اور نصاری نے محبت کی اور اس منزل پر لے گیر جو ان کے لئے نہیں تھی

المعجم الأوسط   از طبرانی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا حَمْدَانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَامِرِيُّ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ قَالَ: نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْعُودِيُّ قَالَ: نا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: «لَقَدْ عَلِمَ أُولُو الْعِلْمِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وعَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ فَسَلُوهَا، أَنَّ أَصْحَابَ الْأَسْوَدِ ذِي الثُّدَيَّةِ مَلْعُونُونَ عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ، وقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى»

رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، علی سے روایت کرتا ہے یقینا ال محمد صلی الله علیہ وسلم کے اہل علم جانتے ہیں اور عائشہ سے پوچھ لو کہ اس کالے پستان جیسے ہاتھ والا کے اصحاب  ان پر زبان نبی سے لعنت کی گئی ہے اور برباد ہوا وہ جس نے جھوٹ گھڑا

ان دونوں کی سند میں رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ہے

 الذھبی  میزان میں لکھتے ہیں

ربيعة بن ناجد [ق] عن علي، لا يكاد يعرف.

رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ   ، علی سے روایت کرتا ہے میں اس کو  نہیں جانتا

یہ مجھول شخص روایت کرتا ہے اور خاص ام المومنین کا حوالہ دے رہا ہے کیونکہ اس واقعہ پر ام المومنین کو اعتراض تھا جس  کی ان عراقیوں کو خبر تھی تفصیل نیچے ا رہی ہے

عبد الله بن شداد کی روایت

اب ہم جو روایت پیش کر رہے ہیں وہ مسند احمد کی ہے اور علی رضی الله عنہ کے خاص ساتھی عبد الله بن شداد بیان کرتے ہیں

 پہلے محققین کی آراء پیش کی جاتی ہیں

احمد شاکر تعلیق میں کہتے ہیں

إسناده صحيح، عبيد الله بن عياض: تابعي ثقة. عبد الله بن شداد بن الهاد: تابعي ثقة أيضاً. “خثيم” بالتصغير وتقديم المثلثة، وفي ح “خيثم” وهو تصحيف. والحديث ذكره ابن كثير في تاريخه 7/ 279 – 280 وقال: “تفرد به أحمد، وإسناده صحيح، واختاره الضياء” يعني في المختارة. وهو في مجمع الزوائد 6/ 235 – 237 وقال: “رواه أبو يعلى ورواته ثقات”، وفي هذا خطأ يقيناً، فلا أدري أصحته “رواه أحمدل” أم “رواه أحمد وأبو يعلى”. قوله “لا تواضعوه كتاب الله” و”والله لنواضعنه كتاب الله” أصل المواضعة المراهنة، فهو يريد تحكيم كتاب الله في المجادلة، فكأنهم وضعوه حكماً بينهم. الثبت، بفتح الثاء والباء: الحجة والبينة. وانظر 626. وقد رواه الحاكم 2: 152 من طريق محمد بن كثير العبدي “حدثنا يحيى بن سليم وعبد الله بن واقد عن عبد الله بن عثمان بن خثيم عن عبد الله بن شداد بن الهاد. قال: قدمت على عائشة .. ” الخ، وصححه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي، وانظر 1378 و 1379.

اس کی اسناد صحیح ہیں

شعيب الأرنؤوط مسند احمد کی تعلیق میں کہتے ہیں

إسناده حسن، يحمى بن سُليم- وهو الطائفي- مختلف فيه يتقاصر عن رتبة الصحيح له في البخاري حديث واحد، واحتجّ به مسلم والباقون، وباقي رجاله ثقات رجال الصحيح غيرَ عبيد الله بن عياض بن عمرو، فقد روى له البخاري في “الأدب المفرد” وهو ثقة، وقال ابنُ كثير في “تاريخه” 7/292 بعد أن ذكر من رواية أحمد: تَفَرد به أحمد وإسناده صحيح، واختاره الضياء (يعني في “المختارة”) .

وأخرجه أبو يعلى (474) عن إسحاق بنِ أبي إسرائيل، عن يحيى بنِ سُليم، بهذا الإسناد. وأورده الهيثمي في “المجمع” 6/235-237 ونسبه إلى أبي يعلى، ولم ينسبه إلى أحمد مع أنَّه من شرطه! وقال: رجاله ثقات.

اس کی اسناد حسن ہیں … ابن کثیر اس روایت کو صحیح کہتے ہیں اور اسی کو الضياء نے اختیار کیا ہے

یہ روایت مسند ابو یعلی میں بھی ہے جس پر محقق حسين سليم أسد کہتے ہیں  : إسناده صحيح

اب مسند احمد کی  یہ روایت  ہے

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ شَدَّادٍ، فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، وَنَحْنُ عِنْدَهَا جُلُوسٌ، مَرْجِعَهُ مِنَ الْعِرَاقِ لَيَالِيَ قُتِلَ عَلِيٌّ، فَقَالَتْ لَهُ: يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ شَدَّادٍ، هَلْ أَنْتَ صَادِقِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ؟ تُحَدِّثُنِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ، قَالَ: وَمَا لِي لَا أَصْدُقُكِ؟ قَالَتْ: فَحَدِّثْنِي عَنْ قِصَّتِهِمْ قَالَ: فَإِنَّ عَلِيًّا لَمَّا كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ، وَحَكَّمَ الْحَكَمَيْنِ (1) ، خَرَجَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةُ آلافٍ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، فَنَزَلُوا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا: حَرُورَاءُ، مِنْ جَانِبِ الْكُوفَةِ، وَإِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا: انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِيصٍ أَلْبَسَكَهُ اللهُ تَعَالَى، وَاسْمٍ سَمَّاكَ اللهُ تَعَالَى بِهِ، ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَكَّمْتَ فِي دِينِ اللهِ، فَلا حُكْمَ إِلا لِلَّهِ تَعَالَى. فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِيًّا مَا عَتَبُوا عَلَيْهِ، وَفَارَقُوهُ عَلَيْهِ، فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ: أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ. فَلَمَّا أَنِ امْتَلاتِ الدَّارُ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِيمٍ، فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ،  فَجَعَلَ يَصُكُّهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ: أَيُّهَا الْمُصْحَفُ، حَدِّثِ النَّاسَ، فَنَادَاهُ النَّاسُ فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا تَسْأَلُ عَنْهُ إِنَّمَا هُوَ مِدَادٌ فِي وَرَقٍ، وَنَحْنُ نَتَكَلَّمُ بِمَا رُوِينَا مِنْهُ، فَمَاذَا تُرِيدُ؟ قَالَ: أَصْحَابُكُمْ هَؤُلاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا، بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ كِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، يَقُولُ اللهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحًا يُوَفِّقِ اللهُ بَيْنَهُمَا فَأُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَةً مِنَ امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَنَقَمُوا عَلَيَّ أَنْ كَاتَبْتُ مُعَاوِيَةَ: كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَقَدْ جَاءَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، حِينَ صَالَحَ قَوْمَهُ قُرَيْشًا، فَكَتَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ “. فَقَالَ: سُهَيْلٌ لَا تَكْتُبْ (1) : بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. فَقَالَ: ” كَيْفَ نَكْتُبُ (2) ؟ ” فَقَالَ: اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللهُمَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَاكْتُبْ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ” فَقَالَ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ لَمْ أُخَالِفْكَ. فَكَتَبَ: هَذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ قُرَيْشًا. يَقُولُ: اللهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ” فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْكَرَهُمْ، قَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: يَا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ، إِنَّ هَذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهُ فَأَنَا أُعَرِّفُهُ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا يَعْرِفُهُ بِهِ، هَذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ وَفِي قَوْمِهِ: قَوْمٌ خَصِمُونَ

فَرُدُّوهُ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلا تُوَاضِعُوهُ كِتَابَ اللهِ. فَقَامَ خُطَبَاؤُهُمْ فَقَالُوا: وَاللهِ لَنُوَاضِعَنَّهُ كِتَابَ اللهِ، فَإِنْ جَاءَ بِحَقٍّ نَعْرِفُهُ لَنَتَّبِعَنَّهُ، وَإِنْ جَاءَ بِبَاطِلٍ لَنُبَكِّتَنَّهُ بِبَاطِلِهِ. فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللهِ الْكِتَابَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ، فِيهِمُ ابْنُ الْكَوَّاءِ، حَتَّى أَدْخَلَهُمْ عَلَى عَلِيٍّ الْكُوفَةَ، فَبَعَثَ عَلِيٌّ، إِلَى بَقِيَّتِهِمْ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَيْتُمْ، فَقِفُوا حَيْثُ شِئْتُمْ، حَتَّى تَجْتَمِعَ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا تَسْفِكُوا دَمًا حَرَامًا، أَوْ تَقْطَعُوا سَبِيلًا، أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّةً، فَإِنَّكُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَيْكُمِ الْحَرْبَ عَلَى سَوَاءٍ، إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ. فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: يَا ابْنَ شَدَّادٍ، فَقَدْ قَتَلَهُمْ فَقَالَ: وَاللهِ مَا بَعَثَ إِلَيْهِمْ حَتَّى قَطَعُوا السَّبِيلَ، وَسَفَكُوا الدَّمَ، وَاسْتَحَلُّوا أَهْلَ الذِّمَّةِ. فَقَالَتْ: آَللَّهُ؟ قَالَ: آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كَانَ. قَالَتْ: فَمَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ يَتَحَدَّثُونَهُ؟ يَقُولُونَ: ذُو الثُّدَيِّ، وَذُو الثُّدَيِّ. قَالَ: قَدْ رَأَيْتُهُ، وَقُمْتُ مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلَى، فَدَعَا النَّاسَ فَقَالَ: أَتَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَمَا أَكْثَرَ مَنْ جَاءَ يَقُولُ: قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَرَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَلَمْ يَأْتُوا فِيهِ بِثَبَتٍ يُعْرَفُ إِلَّا ذَلِكَ. قَالَتْ: فَمَا قَوْلُ عَلِيٍّ حِينَ قَامَ عَلَيْهِ كَمَا يَزْعُمُ أَهْلُ الْعِرَاقِ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ قَالَتْ: هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ؟ قَالَ: اللهُمَّ لَا. قَالَتْ: أَجَلْ، صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، يَرْحَمُ اللهُ عَلِيًّا إِنَّهُ كَانَ مِنْ كَلَامِهِ لَا يَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ إِلَّا قَالَ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، فَيَذْهَبُ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَيَزِيدُونَ عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثِ

عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو کہتے ہیں عبد الله بن شداد عائشہ رضی الله عنہا کے پاس آئے اور ہم ان کے پاس بیٹھے تھے وہ عراق سے لوٹے تھے جس رات علی کا قتل ہوا پس عائشہ رضی الله عنہا نے عبد الله بن شداد سے کہا کیا تم سچ سچ بتاؤ گے جو میں تم سے پوچھوں؟ مجھے ان کے بارے میں بتاؤ جنہوں نے علی کو قتل کیا عبد الله نے کہا اور میں سچ کیوں نہ بولوں –  ام المومنین نے کہا ان کا قصہ بیان کرو عبد الله نے کہا جب علی نے معاویہ کے لئے  (صلح نامہ) لکھ دیا اور حکم الحکمیں ہوا تو علی کی اطاعت سے ٨٠ ہزار قاری نکل پڑے اور ایک مقام جس کو حَرُورَاءُ کہا جاتا ہے کوفہ کی جانب اس میں انہوں نے پڑاؤ کیا

اور انہوں نے علی پر عتاب نکالا اور کہا  اس کی قمیص میں سے خلافت جو الله نے دی نکل گئی اور وہ نام جو الله نے اسکو دیا  پھر یہ (علی) چلا اور دین الله میں خود حکم  دینے لگا اور جبکہ حکم نہیں سوائے الله کے لئے-  پس جب یہ باتیں جن پر ان کا عتاب ہوا علی تک پہنچیں اور وہ الگ ہوئے تو علی نے حکم دیا ان کو  واپس انے کا لیکن وہ نہیں پلٹے –  اور کہا ہم امیر المومنین کی طرف داخل نہیں ہوں گے سوائے ایک شخص قرآن اٹھائے ہو … پس مصحف آگے رکھا گیا  پس علی نے اس کو اپنے ہاتھوں میں تھاما اور کہا اے مصحف! لوگوں کو بتاؤ پس لوگوں کو پکارا گیا اوراصحاب علی نے کہا اے امیر المومنین اپ مصحف سے کیسے کلام کر رہے ہیں؟ یہ تو کاغذ پر سیاہی ہے اور ہم اپ سے بات کر رہے جو اس میں روایت ہے پس اپ کیا چاہتے ہیں؟  علی نے کہا تمہارے یہ اصحاب جنہوں نے خروج کیا ہے ان کے اور میرے بیچ کتاب الله ہے – الله اس کتاب میں کہتا ہے ایک مرد و عورت کے لئے

 وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحًا يُوَفِّقِ اللهُ بَيْنَهُمَا

پس اے امت محمد خون و حرمت ہے مرد اور عورت کے لئے اور تم مجھے الزام دیتے ہو کہ میں نے معاویہ سے (صلح نامہ) لکھ لیا –  علی بن ابی طالب نے کہا  اور ہمارے پاس سہیل (مشرکین مکہ کی طرف سے) آیا اور ہم رسول الله کے ساتھ حدیبیہ میں تھے … پس رسول الله نے لکھا بسم الله الرحمان الرحیم اس پر سہیل نے کہا یہ مت لکھو پوچھا پھر کیا لکھیں بولا لکھو باسم اللھم پس رسول الله نے کہا  لکھو محمد رسول الله انہوں نے کہا اگر ہم تم کو رسول الله جانتے تو مخالفت نہ کرتے پس لکھا یہ وہ صلح ہے جو محمد بن عبد الله قریشی نے کی-   الله تعالی نے کتاب میں کہا

 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ

پس علی نے ان لوگوں پر عبد الله ابن عباس کو بھیجا- اور جو ان کو جانتا نہ ہو،  تو میں ان کو جانتا ہوں کتاب الله سے جو یہ نہیں جانتے یہ اس میں نازل ہوا ہے یہ قوم ہے ایک جھگڑالو قوم ہے – پس علی نے اپنے اصحاب کو خوارج  پر بھیجا (انہوں نے کہا) کیا  تم کتاب الله کو پیش نہیں رکھتے؟  خوارج  نے کہا ہم رکھتے ہیں پس اگر حق ہو تو ہم اس کو پہچان لیں گے اور اگر باطل ہوا تو اس کو بھی –  پس عبد الله بن عباس  نے کتاب الله  تین دن تک آگے رکھی پھر وہ ٤ ہزار کے ساتھ واپس لوٹے جو تائب ہوئے  ان میں ابْنُ الْكَوَّاءِ تھا حتی کہ یہ علی کے پاس کوفہ میں داخل ہوئے

پس علی نے باقی پر  لوگ بھیجے اور ان سے کہا کہ ہمارا تمہارا معاملہ امت محمد کے سامنے ہے لہذا جو چاہے کرو لیکن خون نہ بہانا نہ راستہ روکنا نہ ذمی پر ظلم کرنا اور اگر یہ کیا تو ہماری تم سے جنگ شروع ہو جائے گی  الله خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

پس عائشہ رضی الله عنہا نے کہا

اے ابن شداد تو کیا انہوں نے قتل کیا؟ کہا و الله انہوں نے نہیں بھیجا کسی کو سوائے اس کے کہ  خوارج نے رستہ روکا اور خون گرایا اور اہل ذمہ کو نقصان دیا پس ام المومنین نے فرمایا الله !  آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ یہ ہوا

اور وہ کیا چیز ہے جو اہل عراق کی مجھ تک پہنچی جس کی یہ روایت کر رہے ہیں؟

کہتے ہیں  پستان والا تھا

ابن شداد نے کہا میں نے اسکو دیکھا اور علی کے ساتھ اس کے قتل گاہ پر بھی کھڑا ہوا اور لوگوں کو پکارا اور پوچھا تم اس کو پہچانتے ہو؟ تو  اکثر نے کہا ہاں ہم نے اسکو مسجد فلاں  میں دیکھا تھا نماز پڑھتے ہوئے اور اس مسجد بنی فلاں میں نماز پڑھتے ہوئے  اور کوئی نہیں تھا  جو اثبات سے اس کو جانتا ہو سوائے اس  کے

ام المومنین نے فرمایا اور علی نے کیا کہا جب وہ اس پر کھڑے ہوئے جیسا کہ اہل عراق دعوی کر رہے ہیں؟ ابن شداد نے کہا میں نے سنا کہتے ہیں سچ کہا  الله اور  رسول الله نے –

ام المومنین نے فرمایا

کیا تم نے ان سے سنا کہ انہوں نے اس کے علاوہ کہا

ابن شداد نے کہا اللھم نہیں

ام المومنین نے فرمایا ٹھیک ہے سچ کہا الله اور اس کے رسول نے -الله رحم کرے علی پر – بے شک ان کے کلام میں کوئی چیز ایسی نہیں جو حیران کرے سوائے اس کے کہا سچ کہا الله اور اس کے رسول نے-  پس اہل عراق چلے ان پر جھوٹ بولنے اور ان کی بات میں اضافہ کرنے

یعنی اس پستان والے خارجی کو کوئی جانتا تک نہیں تھا سوائے اس کے کہ یہ مسجد میں نماز پڑھتا تھا اور نہ علی نے اس موقعہ پر اس کو کوئی نشانی قرار دیا  نہ اس میں ہے کہ علی نے کوئی سجدہ کیا اور کوئی حدیث سنائی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پستان والے کی خبر دی نہ اس کو سب سے برا خارجی قرار دیا  – ایک نامعلوم لاش ملی اس کی بابت سوال کیا کہ کون ہے  اور لوگ بھی اس سے لا علم تھے کون ہے

سنن الکبری البیہقی میں اس روایت پر امام بیہقی کہتے ہیں

حَدِيثُ الثُّدَيَّةِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ , قَدْ ذَكَرْنَاهُ فِيمَا مَضَى , وَيَجُوزُ أَنْ لَا يَسْمَعَهُ ابْنُ شَدَّادٍ , وَسَمِعَهُ غَيْرُهُ , وَاللهُ أَعْلَمُ

پستان والی حدیث صحیح ہے اس کا ہم نے ذکر کیا جو گزرا ہے اور یہ جائز ہے کہ ابن شداد نے اس کو نہ سنا ہو اوروں نے سنا ہو و الله اعلم

راقم کہتا ہے امام بیہقی کی تاویل باطل ہے ابن شداد کوئی نابالغ بچہ نہیں علی کے اصحاب میں سے ہے اور وہ وہ بیان کر رہے ہیں جو ان کو پتا ہے کہ لوگوں نے علی کی بات میں اضافہ کیا

قول نبوی کے مطابق یہ آخری دور میں ہو گا

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَإِنَّ الحَرْبَ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، حُدَثَاءُ [ص:201] الأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ البَرِيَّةِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ»

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن کوفی نے، ان سے سوید بن غفلہ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایک قوم پیدا ہو گی نوجوانوں  اور کم عقلوں کی۔ یہ لوگ ایسا بہترین کلام پڑھیں گے جو بہترین خلق کا (پیغمبر کا) ہے یا ایسا کلام پڑھیں گے جو سارے خلق کے کلاموں سے افضل ہے۔ (یعنی حدیث یا آیت پڑھیں گے اس سے سند لائیں گے) لیکن اسلام سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کر کے نکل جاتا ہے ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو۔ کیونکہ ان کا قتل قیامت میں اس شخص کے لیے باعث اجر ہو گا جو انہیں قتل کر دے گا

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، قِتَالُهُمْ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ “

صحیح مسلم میں ہے

حديث:2455حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ جَمِيعًا عَنْ وَکِيعٍ قَالَ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ إِذَا حَدَّثْتُکُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنْ السَّمَائِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ وَإِذَا حَدَّثْتُکُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَکُمْ فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَائُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ :  محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبداللہ بن سعید اشج، وکیع، اعمش، خیثمہ، حضرت سو ید بن غفلہ  سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا اگر میں تم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث بیان کروں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمائی تو مجھے آسمان سے گر پڑنا زیادہ محبوب ہے اس سے کہ میں وہ بات کہوں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں بیان فرمائی اور جب وہ بات بیان کروں جو میرے اور تمہارے درمیان ہے تو جان لو کہ جنگ دھوکہ بازی کا نام ہے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے عنقریب اخیر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی نوعمر اور ان کے عقل والے بیوقوف ہونگے بات تو سب مخلوق سے اچھی کریں گے قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نہ اترے گا دین سے وہ اسطرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے جب تم ان سے ملو تو ان کو قتل کردینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والے کو اللہ کے ہاں قیامت کے دن ثواب ہوگا۔

التنقيح کے مطابق دارقطنی کہتے ہیں

ليس لسويد بن غفلةَ عن علي صحيحٌ مرفوعٌ إلى النبي – صلى الله عليه وسلم – غيرُ هذا

سوید کی علی سے روایت کردہ کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں سوائے اس روایت کے

التوشيح شرح الجامع الصحيح از امام  السيوطي کے مطابق

قال حمزة الكتاني: ليس يصح له عن عليّ غير هذا الحديث

حمزة الكتاني کہتے ہیں اس کی علی سے کوئی صحیح حدیث نہیں سوائے اس کے

راقم کہتا ہے یہ روایت قرن اول کے لئے نہیں ہے   – اس روایت میں اس واقعہ کا ہونا  آخری زمانہ یا قرب قیامت  میں بتایا گیا ہے  سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ کی سند سے اسی طرح  مسند ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

نا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ النَّاسِ، يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَمَنْ لَقِيَهُمْ فَلْيَقْتُلْهُمْ، فَإِنَّ لِمَنْ قَتَلَهُمْ أَجْرًا عِنْدَ اللَّهِ»

یہاں یہ عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے جس میں زر بن حبیش اس کو روایت کرتے ہیں اور یہ وقوعہ آخری دور کا ہے

سند میں أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ اور عاصم بن ابی النجود دو مختلط ہیں

باوجود تلاش کے کوئی شارح نہیں ملا جو يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ  آخری زمانے کے الفاظ کو قرن اول سے ملانے پر کوئی بحث کرے سب اس سے کترا گئے

یہ روایت علی رضی الله عنہ کی ہی روایت کردہ ہے

قول نبوی : ان کو پاتا تو قتل کرتا

صحیح بخاری میں روایت ہے جس میں ایک شخص عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذِي الخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ اتا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تقسیم مال پر جرح کرتا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی نسل میں سے ایک قوم نکلے گی  جو دین سے ایسا نکلے گی جیسے تیر کمان سے  –

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا: یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا۔ اس پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے سامنے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر جانور میں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تیر کے پر کو دیکھا جائے لیکن اس پر کوئی نشان نہیں

راوی کہتا ہے وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ میں گمان کرتا ہوں انہوں نے کہا میں ان کو پاتا تو ثمود کی طرح قتل کرتا  بعض اوقات راویوں نے قوم عاد کے الفاظ استمعال کیے ہیں

یہ الفاظ بہت شدید ہیں – لیکن اس روایت پر عبد الله بن زبیر اور ابن عباس رضی الله عنہم عمل نہیں کرتے وہ خوارج کو حج کرنے دیتے ہیں ان کے سوالات کے جواب دیتے ہیں یہاں تک کہ امام بخاری جو اس روایت کو نقل کر رہے ہیں وہ خوارج سے روایت لیتے ہیں صحیح میں لکھتے ہیں

ظاہر ہے  عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی کی نسل تو علی رضی الله عنہ کے دور میں  قوم بنی بھی نہیں ہو گی- اس سے بھی ظاہر ہے کہ یہ قرن اول میں نہیں ہو گا

سمت و جہت  کی اہمیت

صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ، يُحَدِّثُ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ المَشْرِقِ، وَيَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لاَ يَعُودُونَ فِيهِ حَتَّى يَعُودَ السَّهْمُ إِلَى فُوقِهِ»، قِيلَ مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: ” سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ – أَوْ قَالَ: التَّسْبِيدُ –

مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ ، أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سے روایت کرتے ہیں کہ مشرق سے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا اور دین سے ایسا نکلیں ہے جیسے تیر کمان سے پھر واپس اس دین میں نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر سر کے اوپر سے گزرے پوچھا ان کی کیا نشانی ہے فرمایا : سر کا حلق کرانا

اس روایت  کے مطابق یہ گروہ مدینہ کے  مشرق سے نکلے گا نہ کہ عراق سے جو شمال میں ہے دوم وہ دین سے نکلیں گے یہاں تک کہ جب جنگ ہو گی تو واپس اسلام میں آئیں گے سوم سر مونڈھ دیں گے

اس میں سے کوئی بھی نشانی حروریہ پر فٹ نہیں بیٹھتی- شروع کے   خوارج یمنی قحطانی  اور مصری تھے جو مغرب اور جنوب ہے وہاں سے مدینہ کے شمال میں عراق میں گئے

خوارج کی اکثریت علی کی شہادت کے بعد قبیلہ ازد کی  ہوئی جو مدینہ کے مشرق میں ہے اور عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذِي الخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ جو قبیلہ بنو تمیم کا  تھا ، مدینہ کے مشرق کا تھا اس پر اس روایت کو منطبق کیا جا سکتا ہے  لیکن دور علی میں خوارج یمنی اور مصری تھے- قاتل علی ،  ابن ملجم  المرادی خود ایک قحطانی تھا جو مصر منتقل ہوا اور وہاں سے کوفہ

اس روایت میں اضافہ ہے کہ خوارج واپس رجوع کر لیں گے جب تیر سروں پر سے گزرے گا

جو فرقہ  عبادت میں سختی کرتا ہو اور ایک سخت موقف اپنا لے اس کو جنگ کر کے واپس قائل کرنا ناممکن ہے یہ دلائل سے ہی کیا جا سکتا ہے جیسا علی رضی الله عنہ نے کیا کہ انہوں نے عباس رضی الله عنہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ قرآن سے ہی دلائل دے کر ان کو سمجھائیں

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، فَسَأَلاَهُ عَنْ الحَرُورِيَّةِ: أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لاَ أَدْرِي مَا الحَرُورِيَّةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الأُمَّةِ – وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا – قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَكُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ، يَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ، – أَوْ حَنَاجِرَهُمْ – يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَيَنْظُرُ [ص:17] الرَّامِي إِلَى سَهْمِهِ، إِلَى نَصْلِهِ، إِلَى رِصَافِهِ، فَيَتَمَارَى فِي الفُوقَةِ، هَلْ عَلِقَ بِهَا مِنَ الدَّمِ شَيْءٌ

ابی سلمہ اور عطا بن یسار کہتے ہیں وہ ابی سعید الخدری کے پاس پہنچے اور ان سے حروریہ پر سوال کیا کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے حروریہ کے متعلق کچھ سنا تھا ؟  ابو سعید رضی الله عنہ نے کہا  ان کو نہیں پتا کہ  حروریہ  کیا ہے- میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ اس امت میں اور انہوں نے نہیں کہا اس میں سے ایک قوم نکلے گی جو اپنی نماز کو تمہاری نماز سے حقیر سمجھیں گے قرآن پڑھیں گے جو حلق سے نیچے نہیں جائے گا ۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جانور میں سے پار نکل جاتا ہے اور پھر تیر پھینکنے والا اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے بعد جڑ میں (جو کمان سے لگی رہتی ہے) اس کو شک ہوتا ہے شاید اس میں خون لگا ہو مگر وہ بھی صاف

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ نے حروریہ پر براہ راست اس روایت کو ثبت نہیں کیا بلکہ کہا اس امت میں ایک قوم نکلے گی –  اوپر دی گئی دونوں روایات ایک ہی صحابی سے ہیں ایک میں وہ حروریہ سے لا علم ہیں دوسری میں وہ کہتے ہیں قتال پر یہ گروہ واپس آ جائے گا یہ قابل غور ہے حروریہ مشرق میں نہیں شمال میں سے نکلے اور شاید اسی وجہ سے ابو سعید رضی الله عنہ نے جو سنا تھا اس کے مطابق کہا

یہ عربی النسل ہوں گے

صحيح البخاري كي روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الحَضْرَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الخَوْلاَنِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ يَقُولُ: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ» قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ» قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ: «هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا» قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ «فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى [ص:200] ذَلِكَ

حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ تو اکثر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر ونیکی اور بھلائی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر و برائی کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں میں کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤ   حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ اسلام سے قبل جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے پھر الله نے اس خیر کو بھیجا پس کیا اس خیر کے بعد شر ہے ؟ رسول الله نے فرمایا ہاں -میں نے پوچھا اور کیا شر کے بعد پھر خیر ہو گا؟ فرمایا ہاں لیکن اس میں دخن ہو گا میں نے پوچھا دخن ؟ فرمایا قوم ہو گی جو بغیر ہدایت ، ہدایت کی بات کریں گے تم ان کو جانو پہچانو گے میں نے کہا اس کے بعد کیا شرہو گا ؟  فرمایا ہاں داعی ہوں گے جو  جہنم کے دروازوں پر کھڑے لوگوں کو پکاریں گے جو ان کو جواب دے اس کو اس میں جھونک دیں گے میں نے کہا ان کی نشانی بیان کر دیں – آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ ہماری کھال جیسے اور ہماری زبان بولتے ہوں گے – میں نے پوچھا ان کو پاؤ تو کیا اس پر میں کیا کروں ؟ فرمایا مسلمانوں کی جماعت کو لازم کرو اور ان کے امام کو میں نے پوچھا اگر نہ جماعت ہو نہ امام اپ نے فرمایا تو درخت کی جڑ چبا لو یہاں تک کہ موت ا جائے اور تم اسی پر رہو

الغرض ان روایات کو یہاں جمع کیا گیا ہے تاکہ ان کا تجزیہ کیا جا سکے- مختلف کتابوں میں الگ الگ سندووں سے  اس  واقعہ  کوپڑھنے سے قاری پر اس کا تضاد ظاہر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان  میں جو مافوق الفطرت بات کہی گئی ہے کہ علی نے ایک جن کا قتل کرا دیا اس کو بیان کیا جاتا ہے-  روایت صحیح متن سے منقول نہیں ہوئی اور اس میں راویوں کا اختلاف ہے خود اصحاب علی سے ہی نقل ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ  علی رضی الله عنہ کا قول سمجھنے میں لوگوں کو غلطی ہوئی اور بات کچھ سے کچھ ہوتی چلی گئی- بعض روایات میں ہے علی مقتل گاہ تک گئے بعض میں ہے اپنے مقام پر ہی رہے لوگوں سے کھوج کرواتے رہے

یہ روایات اہل سنت کی کتب  میں ہیں حیرت ہے اہل تشیع کی معتمد علیہ کتاب الکافی از کلینی میں اس قسم کی ایک بھی روایت نہیں ہے جبکہ یہ روایات علی رضی الله عنہ   کے فضائل میں سے ہے

حروریہ سے علی کی جنگ ان کی خلافت سے خروج کی وجہ سے ہوئی کیونکہ وہ بیعت دے  کر  علی کو چھوڑ چکے تھے اور اولوالامر کی اطاعت کے منکر ہو گئے تھے – معاویہ یا عمرو بن العاص رضی الله عنہم نے علی رضی الله عنہ کی بیعت ہی نہیں کی لہذا ان پر خارجی کا حکم نہیں لگایا گیا- معاویہ رضی الله عنہ نے علی رضی الله عنہ  کو خلیفہ تسلیم نہیں کیا یہاں تک کہ حسن  رضی الله عنہ نے الٹا   خلافت چھوڑ کر معاویہ رضی الله عنہ کو مسند خلافت دے دی

حروریہ علی رضی الله عنہ کے اجتھاد کے خلاف تھے کہ معاویہ رضی الله عنہ سے صلح ہو وہ کسی بھی طرح یہ قبول نہیں کر پائے  اور علی رضی الله عنہ سے ہی  حجت کرنے لگے ان سے قتال کا علی نے کوئی حکم نہیں دیا جب تک انہوں نے خود فساد فی الارض کا مظاہرہ نہیں کیا نہ فورا ان کو عاد و ثمود کہا بلکہ ابن عبّاس رضی الله عنہ کو بھیجا کہ ان کو سمجھائیں – لہذا علی کا ان خوارج سے قتال بطور حاکم  حد شرعی کا نفاذ تھا نہ کہ کسی حدیث رسول کی روشنی میں ان کا قتل عام

اصحاب علی میں سے مفرط لوگوں نے علی کی  ابن ملجم کے ہاتھوں شہادت کے بعد علی کا حروریہ سے متعلق موقف  اتنا مسخ کر دیا کہ ان کا تاریخی و شرعی پہلو ہی غیر واضح ہو کر رہ گیا

انے والے دور میں اصحاب رسول نے حروریہ کو خوارج کا نام دیا اور خوارج نے بہت سے متواتر مسائل کا انکار کیا یہاں تک کہ ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کسی پر جرح کرتیں تو کہتیں کیا تو حروریہ ہے


نتائج

ان روایات میں تطبیق اس طرح ممکن ہے ایسے گمراہ گروہ نکلیں  گے

جو بنو تمیم سے عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی کی نسل سے  ہوں گے

مدینہ کے مشرق میں ہوں گے

عرب نسل اور زبان والے ہوں گے

حذیفہ اور ابو سعید الخدری رضی الله عنہم کے مطابق یہ لوگ  قرن اول میں نہیں ہیں   اسی طرح علی رضی الله عنہ بھی ان کو آخری زمانے میں بتاتے ہیں 

احادیث میں ان گمراہ گروہوں کو خاص حروریہ یا خوارج نہیں کہا گیا بلکہ خوارج ،  اہل سنت اور اہل تشیع کے گمراہ فرقے بھی ان میں سے ہو سکتے  ہیں جو قرآن پڑھ رہے ہیں لیکن حلق سے نیچے نہیں جا رہا

 روایت کی سب سے اہم بات نہ تو اس کی جرح تعدیل ہوتی ہے نہ راوی کی بحث بلکہ اس کا متن سب سے اہم ہوتا ہے کہ آخر ایسا کہا ہی کیوں گیا – راوی پر جرح کر کے اس کو رد کرنا آسان ہے لیکن اس کے متن میں چھپی بات تک پہنچنا اسی وقت ممکن ہے جب تمام  روایات کو دیکھا اور ان کی جانچ کی جائے –-  تاریخ کے حوالے سے علم  الحدیث میں متن کی صنف میں اتنا کام نہیں ہوا جتنا درکار ہے

وقت کےساتھ بدلتی برزخ

غیر مقلدین جن کا عقائد میں ارتقاء جاری و ساری ہے ان کی کتب میں برزخ کے حوالے سے پچھلے چند سالوں میں اس قدر متضاد بیانات سامنے آئے ہیں کہ عقل سلیم سے بہرور لوگ مجبور ہیں کہ ان کے اس تضاد کو کشف از بام کریں

محب الراشدی اپنے فتوی میں لکھتے ہیں

Rasidia-207

اس فتوی میں ظاہر ہے کہ مرنے والوں کی روحیں نکال کر برزخ لے جائی گئیں جہاں ان کی ملاقات پہلے مر جائے والوں کی ارواح سے ہوا

برزخ کا یہ مفھوم کہ یہ عالم ارواح ہے یا عالم بالا ہے سب کے ذہن میں ہے اس سلسلے میں ایک منکر شیخ ارشد کمال ، کمال دکھاتے ہیں ایک طرف تو صریحا برزخ کا بطور عالم انکار کرتے ہیں اس پر کتاب عذاب قبر میں ایک فلسفہ جھاڑتے ہیں

arshad-57

لیکن پھر چونکہ ذہین میں ہے کہ برزخ  کے مفھوم میں گھپلا کیا ہے لہذا ان کا قلم چوک گیا اور الٹا المسند فی عذاب القبر میں لکھ گئے

arshad-95

جب اپ برزخ کو کوئی مقام مانتے ہی نہیں تو اس پر یہ عنوان قائم کرنا نری حماقت ہے

موصوف کے بقول جو بھی عالم برزخ میں ہے وہ غیب میں ہے اس کو ہم نہیں جان سکتے

arshad-135

قارئیں اپ دیکھ سکتے ہیں فرقہ غیر مقلدین کسی دور میں عقیدہ میں ایک بات لکھتے ہیں اور پھر مل کر اس عقیدہ کو بدل دیتے ہیں ایسا  تبھی ہوتا ہے جب عقیدہ بدلتی رتوں پر مبنی ہو نہ کہ قرآن  پر

وهو الله في السماوات وفي الأرض يعلم سركم وجهركم ويعلم ما تكسبون

دين میں عقل و فکر کی اہمیت

 کیا عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے ؟

اسلام کو دین فطرت کہا جاتا ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ما مِنْ موْلودٍ إلا يولَدُ على الفِطرةِ

ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے

فطرت انسان میں  جبلی قوت دی گئی ہیں ان میں حواس خمسہ رکھے گئے ہیں – جس میں قرآن میں بار بار سمع و الابصار کا ذکر ہے کہ مشرک اس کو استمعال نہیں کرتے اور اس کی وجہ قرآن کہتا ہے کہ یہ اندھے نہیں ان کے دل اندھے ہیں- یعنی جو لوگ الله کی دی ہوئی نعمتوں کو حق کی تلاش کے لئے استمعال نہیں کرتے ان کے قلوب پر زنگ آ جاتا ہے وہ اگرچہ آنکھوں سے بینا ہیں لیکن ان میں عقل و سمجھ مفقود ہے لہذا قرآن میں الله تبارک و تعالی کہتے ہیں

فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ   النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ

یہ الله کی (دی ہوئی) فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو خلق کیا ہے ، الله کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں

یعنی ہر انسان اس فطرت پر پیدا ہو رہا ہے جس میں تعقل و فکر کر کے وہ الله کو پا سکتا ہے

هود عليه السلام نے اپنی قوم سے کہا جب انکی قوم نے گمراہی پر اصرار کیا

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ

 بلا شبہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے رجس و غضب واقع ہو چکا ہے

سوره الانعام میں کہا

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

پس الله جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اور جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو گھٹتا ہوا تنگ کرتا ہے  گویا کہ وہ آسمان کی طرف جا رہا ہو – اس طرح الله گندگی ڈالتا ہے ان پر جو ایمان نہیں لاتے

سوره یونس میں کہا

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (100)

اور نفس کے لئے نہیں ہے کہ ایمان لائے سوائے الله کے اذن سے اور وہ گندگی ڈالتا ہے ان پر جو عقل سے کام نہیں لیتے

یعنی عقل استمعال نہ کرنے کی وجہ سے جب و فطرت سے ہٹے تو الله نے ان پر رجس یا گندگی ڈال دی جس نے ان کو قبر پرستی اصنام پرستی اکابر پرستی کی لعنت میں مبتلا کیا اور وہ اس کے جواز کے فتوے دینے لگے اس میں کتاب الله اور حدیث کا درس دینے والے بھی تھے لیکن الله نے اہل کتاب کے علماء کے لئے کہا کہ ان پر گدھوں کی طرح کتابیں لدھی ہیں ان کو پڑھتے ہیں لیکن رجس سے نہیں نکل پا رہے –  عقل و فراست ہی تفقہ فی الدین ہے کہ روایت کو آگے کرنے حدثنا و اخبرنا کہنے والے تو بہت ہیں لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس  میں تفقہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے

عقل کتنی بے کار شی ہے اس پر ارشد کمال کتاب عذاب قبر ص ١٨٢ میں لکھتے ہیں

aqel-baykar

یقینا  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فہم و فراست سب سے بلند ہے لیکن کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ  کی آراء یا سلمان فارسی کی آراء یا اذان  کے سلسلے میں اصحاب رسول کی آراء نہیں سنیں- پھر ایک حدیث ضعیف ہو یا موضوع  ہو اور اپ لوگ مسلسل اصرار کرتے رہیں کہ یہی فہم دین ہے تو یہ سب ہم ماننے سے رہے

صحیح بخاری تک کی احادیث پر محدثین اعتراض کرتے رہے ہیں مثلا کتاب التوحید صحیح بخاری کی معراج کی روایت ہے جس کا راوی شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ  ہے

الذھبی میزان میں کہتے ہیں

ووهاه ابن حزم لاجل حديثه في الاسراء

ابن حزم نے اسکو ضعیف قرار دیا  ہے اس کی حدیث معراج کی وجہ سے

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں

وَهُوَ رَاوِي حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ وَانْفَرَدَ فِيهِ بِأَلْفَاظٍ غَرِيبَةٍ

اور یہ راوی ہے حدیث معراج کا جس میں یہ منفرد ہے اور اس کے الفاظ عجیب و غریب ہیں

سیر الاعلام النبلاء  میں الذھبی  کہتے ہیں

وَفِي حَدِيْثِ الإِسْرَاءِ مِنْ طَرِيْقِه أَلْفَاظٌ، لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهَا، وَذَلِكَ فِي صَحِيْحِ البُخَارِيِّ

اور معراج والی حدیث میں جو الفاظ ہیں انکی متابعت کوئی نہیں کرتا اور یہ صحیح البخاری میں ہے

یعنی غرابت کی وجہ سے اس روایت کو علماء رد کر رہے ہیں

اسی طرح صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَيَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا»

سعید بن ابی ہلال روایت کرتا ہے زید بن اسلم سے وہ عطا سے وہ ابی سعید سے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سنا انہوں نے فرمایا ہمارا رب اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا

قرآن میں آیت يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [القلم: 42]  جس روز پنڈلی کھل جائے گی –  عربی زبان کے علماء کے مطابق یہ الفاظ شدت وقوعہ میں بولے جاتے ہیں کہ محشر میں سختی ہو گی-  مصطفی البغاء تعلیق صحیح بخاری میں لکھتے ہیں

هذا الكلام عبارة عن شدة الأمر يوم القيامة للحساب والجزاء والعرب تقول لمن وقع في أمر يحتاج إلى اجتهاد ومعاناة شمر عن ساقه وتقول للحرب إذا اشتدت كشفت عن ساقها

یہ کلام عبارت ہے روز محشر کی شدت سے حساب اور جزا  کی وجہ سے اور عرب ایسا کہتے ہیں اس کام کے لئے جس میں اجتہاد ہو…  اور جنگ کے لئے کہتے ہیں جب یہ شدت اختیار کرے گی تو  پنڈلی کھل جائے گی

لیکن بعض علماء نے اس روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے پنڈلی کو الله کی صفت ذات بنا دیا

ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) نے کتاب  التوضيح لشرح الجامع الصحيح میں لکھا

هذا يدل -والله أعلم- أن الله تعالى عرف المؤمنين على ألسنة الرسل يوم القيامة أو على ألسنة الملائكة المتلقين لهم بالبشرى، أن الله تعالى قد جعل لكم علامة تجليه لكم الساق

اور یہ دلیل ہے کہ و الله اعلم … کہ الله تعالی   تمہارے لئے ایک علامت کرے گا کہ تجلی  کرے گا پنڈلی کی

ابن جوزی اپنی کتاب دفع  شبه ألتشبھة  میں لکھتے ہیں کہ قاضی ابو یعلی نے اس قسم کی روایات سے یہ نکالا کہ الله کی پنڈلی اس کی صفت ذات ہے

ابن جوزی -ساق

یہاں تک کہ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَوَقَعَ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ وَهُوَ مِنْ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَأَخْرَجَهَا الْإِسْمَاعِيلِيُّ كَذَلِكَ ثُمَّ قَالَ فِي قَوْلِهِ عَنْ سَاقِهِ نَكِرَةٌ ثُمَّ أَخْرَجَهُ مِنْ طَرِيقِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ بِلَفْظ يكْشف عَن سَاق قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيُّ هَذِهِ أَصَحُّ لِمُوَافَقَتِهَا لَفْظَ الْقُرْآنِ فِي الْجُمْلَةِ لَا يُظَنُّ أَنَّ اللَّهَ ذُو أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ مُشَابَهَةِ الْمَخْلُوقِينَ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء

اور صحیح بخاری میں اس مقام پر ہے يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ کہ ہمارا رب اپنی پنڈلی کو کھولے گا اور یہ روایت ہے سعید بن ابی ہلال کی عن زید بن اسلم کی سند سے پس اس کی تخریج کی ہے الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے اسی طرح پھر کہا ہے اپنی پنڈلی پر یہ نَكِرَةٌ ہے پھر اس کی تخریج کی حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ  کے طرق سے  اور الفاظ ہیں يكْشف عَن سَاق اور الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے کہا یہ زیادہ صحیح ہے جو قرآن کی موافقت میں ہے فی جملہ – نا گمان کرو کہ الله   أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ  والا ہے  کیونکہ یہ مخلوق سے مشابہت کا قول ہے الله تعالی اس سے بلند ہے  اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے

یعنی صحیح بخاری کی اس روایت کا متن صحیح نقل نہیں ہوا اس متن میں سعید بن ابی ہلال نے غلطی کی

ارشد کمال کتاب عذاب القبر میں  لکھتے ہیں

ڈاکٹر عثمانی ارشد

ڈاکٹر عثمانی نے صحیح بخاری کی کسی روایت کو اپنی کتابوں میں ضعیف نہیں کہا بلکہ جہاں تک ممکن ہوا بظاہر متصادم روایات کی انہوں نے  تاویل کی ہے لیکن ان سے قبل انے والے علماء  اس مقام پر نہیں رکے بلکہ کھل کر صحیح کی روایت کو غلط بھی کہا جس کی سر دست دو مثالیں اوپر دی ہیں

امت میں قبر پرستی کو سند جواز دینے والے علماء نے آج یہ لکھنا شروع کر دیا ہے کہ دینی معاملات میں عقل کو معیار نہیں بنایا جا سکتا – تشابھت قلوبھم – ان کے اور اہل کتاب کے علماء کی تان یہیں آ کر ٹوٹی کہ اگر ہم غور و فکر کریں تو علمانے اسباط یا سلف  کے  اقوال غلط ہو جاتے ہیں – اسی فرقہ پرستی سے دین میں منع کیا گیا تھا کہ جب حق عقل و فکر کے میزان میں کتاب الله کی  تائید  میں آ جائے تو پھر اس کو قبول کر لینا چاہیئے

اس قبیل کے علمائے سوء کی جانب سے علی رضی الله کا ایک قول پیش کیا جاتا ہے

علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ دین کا دارومدار رائے (اور عقل) پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اوپر مسح کرنے سے اور بلاشبہ میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں کے اوپر مسح کیا کرتے تھے۔(رواہ ابو دائود‘والدارمی معناہ ‘ مشکوٰۃ ص ۵۴

ہم کہتے ہیں  کیا رائے ہمیشہ عقل سے نکلتی ہے ؟ رائے تو نصوص سے بھی اتی ہے اور عقل و فکر سے دانش سے فقہ سے سب سے اتی ہے – یہ قول سنن دارمی  اور ابی داود کا ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ، وَقَدْ «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ

رائے کا لفظ صحابہ کے دور میں مستعمل نہیں تھا لہذا یہ متن منکر ہے اس میں ابی اسحاق ہے جو مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے-  اس کی سند میں  الأعمش ہے جو مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے

العلل دارقطنی میں اس روایت کی اسناد و متن پر بحث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رائے کا لفظ الاعمش کی سند میں ہے
وَاخْتَلَفُوا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ فَقَالَ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ فِيهِ لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ.
وَقَالَ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ فِيهِ كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ أَعَلَاهُمَا
وَتَابَعَهُمَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ وَإِسْرَائِيلُ عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ.
وَالصَّحِيحُ مِنْ ذَلِكَ قَوْلُ مَنْ قَالَ: كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْخُفَّيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُمَا.

لہذا رائے (یا غیر مقلدین کے بقول عقل) کا لفظ جو اس روایت میں بیان ہوا ہے وہ دارقطنی کے بقولصحیح روایت نہیں ہے بلکہ صحیح وہ ہے جس میں رائے کا لفظ نہیں ہے

کتاب الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم کے مطابق

قال علي إنما ذكره يحيى على أن الأعمش كان مضطربا في حديث أبي إسحاق.

علی المدینی نے ذکر کیا کہ یحیی القطان کے حوالے سے کہ اعمش  مضطرب ہے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ، وَأَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، فَقَالُوا بِالرَّأْيِ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

عبد الله بن عمرو بن العآص رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا بنی اسرائیل کا امر معتدل رہا یہاں تک کہ ان میں الْمُوَلَّدُونَ پیدا کرنے والے بڑھے اور فاحشہ کی اولادیں  پس انہوں نے رائے سے کلام کیا گمراہ ہوئے اور  گمراہ کیا

ابن ماجه كي اس روایت کو شعيب الأرنؤوط ، محمد فؤاد عبد الباقي اور البانی  ضعیف کہتے ہیں

یہ روایت مسند البزار میں بھی ایک دوسری سند سے ہے

وَأَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى بَدَا فِيهِمْ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، فَأَفْتَوْا بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» . وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ: عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، إِلَّا قَيْسٌ، وَرَوَاهُ غَيْرُ قَيْسٍ مُرْسَلًا

اس میں قیس بن الربیع ہے جس پر محدثین کی جرح ہے یہ ایک جاہل تھا اور ائمہ اہل رائے  کی شان میں سب و شتم کرتا تھا وكِيع  اس کی تضعیف کرتے تھے اور جب اس کا ذکر ہوتا کہتے الله المستعان- امام احمد کہتے ہیں منکرات بیان کرتا تھا

مسند دارمی میں هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  اسکو ابن زبیر رضی الله عنہ کا قول کہا گیا ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ – هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ-، عَنْ هِشَامٍ- هُوَ ابْنُ عُرْوَةَ-، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: مَا زَالَ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلاً لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الأُمَمِ, أَبْنَاءُ النِّسَاءِ الَّتِي سَبَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ مِنْ غَيْرِهِمْ، فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَأَضَلُّوهُمْ.

مصنف ابن ابی شیبہ میں هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  اس کو عبد الله بن عمرو بن العآص کا قول کہا گیا ہے

وَكِيعٌ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمْ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ , فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

ان دونوں میں ہشام بن عروه کا تفرد ہے اور یہ روایات انہوں نے کوفہ میں بیان کی ہیں اور کبھی اسکو ابن زبیر کا قول کہا ہے کبھی اسکو عبد الله کا قول – محدثین نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ اچھا نہیں رہا تھا – رائے کا لفظ بولنے میں بھی  ان کا تفرد ہے

کتاب  السنن المأثورة للشافعي  از إسماعيل بن يحيى بن إسماعيل، أبو إبراهيم المزني (المتوفى: 264هـ) میں اس کو عمر بن عبد العزیز کا قول کہا گیا ہے

وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُؤَمَّلٍ الْمَخْزُومِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْصِنٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَنَّهُ قَالَ: ” لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسْتَقِيمًا حَتَّى حَدَّثَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

اسکی سند میں عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُؤَمَّلٍ الْمَخْزُومِيَّ خود ایک مجھول ہے

مسند ابی یعلی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْهُذَيْلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحِمَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعْمَلُ هَذِهِ الْأُمَّةُ بُرْهَةً بِكِتَابِ اللَّهِ، ثُمَّ تَعْمَلُ بُرْهَةً بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، ثُمَّ تَعْمَلُ بِالرَّأْيِ، فَإِذَا عَمِلُوا بِالرَّأْيِ فَقَدْ ضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

أَبِي هُرَيْرَةَ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت ایک دور تک کتاب الله پر عمل کرے گی پھر ایک دور سنت رسول پر پھر جب یہ رائے پر عمل کرے گی  تو گمراہ ہو گی اور کرے گی

اس کی سند میں عثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ ہے جو کذاب اور متروک ہے

کتاب  أمالي ابن بشران – الجزء الثاني از  أبو القاسم عبد الملك  البغدادي (المتوفى: 430هـ) کی روایت ہے

وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: ” ثَلاثَةٌ لا يُقْبَلُ مَعَهُنَّ عَمَلٌ: الشِّرْكُ , وَالْكُفْرُ , وَالرَّأْيُ “.  قَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا الرَّأْيُ؟ قَالَ: «تَدَعُ كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ وَتَعْمَلُ بِالرَّأْيِ

الأَعْمَشِ نے عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ سے روایت کیا اس نے زر سے اس نے علی رضی الله عنہ سے کہ تین  کے ساتھ عمل قبول نہیں ہوتا شرک اور کفر اور رائے ہم نے کہا اے امیر المومنین یہ رائے کیا ہے کہا تم کو کتاب الله اور سنت کی طرف بلایا جائے اور تم رائے پر عمل کرو

روایت کے الفاظ کہ لوگوں نے پوچھا یہ رائے کیا ہے ظاہر کرتا ہے کہ اس دور میں یہ لفظ مستعمل نہ تھا اور یہ ہی بات اس روایت کے رد کے لئے کافی ہے – اسنادی حیثیت میں اس میں الأَعْمَشِ کا عنعنہ ہے اور عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ خود مفرط شیعہ ہے

سنن دارقطنی کی روایت ہے

نا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , نا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ , نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَرِيكٍ , نا أَبِي , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , قَالَ:  «إِيَّاكُمْ وَأَصْحَابَ الرَّأْيِ فَإِنَّهُمْ أَعْدَاءَ السُّنَنِ أَعْيَتْهُمُ الْأَحَادِيثُ أَنْ يَحْفَظُوهَا فَقَالُوا بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

مُجَالِدٍ بن سعید، الشَّعْبِيِّ سے ، وہ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ سے وہ عمر رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب رائے سے بچو کیونکہ یہ سنت کے دشمن ہیں – احادیث میں ملوث  ہیں کہ انکو یاد کریں پھر رائے سے بولیں گمراہ ہوں اور کریں

اسکی سند میں مُجَالِدُ بنُ سَعِيْدِ بنِ عُمَيْرِ بنِ بِسْطَامَ الهَمْدَانِيُّ المتوفی ١٤٤ ھ  ہے

 أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں لاَ يُحْتَجُّ بِهِ اس سے دلیل نہ لی جائے

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں اس کی حدیث: لَهُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ أَحَادِيْثُ صَالِحَةٌ  صالح ہیں

أَبُو سَعِيْدٍ الأَشَجُّ اس کو  شِيْعِيٌّ یعنی شیعہ کہتے ہیں

الميموني کہتے ہیں ابو عبدللہ کہتے ہیں

 قال أبو عبد الله: مجالد عن الشعبي وغيره، ضعيف الحديث. «سؤالاته» احمد کہتے ہیں مجالد کی الشعبي سے روایت ضعیف ہے

ابن سعد کہتے ہیں  كان ضعيفا في الحديث، حدیث میں ضعیف ہے

المجروحین میں ابن حبان کہتے ہیں كان رديء الحفظ يقلب الأسانيد ويرفع، ردی حافظہ اور اسناد تبدیل کرنا اور انکو اونچا کرنا  کام تھا

ابن حبان نے صحیح میں اس سے کوئی روایت نہیں لی

ابن حبان المجروحین میں لکھتے ہیں کہ امام الشافعی نے کہا  وَالْحَدِيثُ عَنْ مُجَالِدٍ يُجَالِدُ الْحَدِيثَ

اور مجالد   يُجَالِدُ الْحَدِيثَ ہے یعنی اس سے روایت کرنا حدیث کو کوڑے مارنے کے مترادف ہے

صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ  : حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

امام مالک ، هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، سے وہ اپنے باپ سے وہ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ  سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله اس علم کو قبض یکایک نہیں کرے گا … بلکہ علماء کو قبض کرے گا یہاں تک کہ کوئی عالم نہ رہے گا لہذا لوگ جہلاء کو سردار بنا لیں گے ان سے سوال کریں گے وہ فتوی دیں گے بغیر علم کے، پس گمراہ ہوں گے اور کریں گے

یہ روایت ہشام بن عروہ نے مدینہ میں بیان کی ہے  – صحیح ابن حبان  اور مسند احمد کے مطابق  بصرہ اور کوفہ میں اس میں اضافہ کیا مثلا حماد بن زید اور وَكِيعٌ بنُ الجَرَّاحِ بنِ مَلِيْحِ  کہتے ہیں ہشام نے کہا:

وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعُلَمَاءَ بِعِلْمِهِمْ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ

لیکن الله علماء کو انکے علم کے ساتھ قبض کرے گا یہاں تک کہ ایک بھی عالم باقی نہ رہے گا

مسند احمد کے مطابق کوفہ میں یحیی کہتے ہیں اور طبرانی کے مطابق ابن عيينة کہتے ہیں  ہشام نے کہا حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا یہاں تک کہ کوئی عالم نہیں رہے گا

صحیح مسلم میں  جرير بن عبد الحميد الضبي کوفی عن هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ کی یہی روایت ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ اللهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

ہشام بْنِ عُرْوَةَ نے یہ روایت کوفہ میں بیان کی ہے یہاں پر رائے کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ بغیر علم فتوی دیں گے

صحیح بخاری میں بهز بن أسد العمى أبو الأسود البصرى کی روایت میں ہے کہ ہشام نے بصرہ میں بغیر علم کی بجائے  کہا فَيُفْتُونَ بِرَأْيِهِمْ وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے

محدثین کے مطابق ہشام بْنِ عُرْوَةَ نے عراق میں روایات آخری عمر میں بیان کیں جب ان کا حافظہ اتنا اچھا نہیں تھا اسی وجہ امام مالک ان کی عراق میں بیان کردہ روایات سے راضی نہیں تھے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

عبد الرحمن بن خراش: كان مالك لا يرضاه، نقم عليه حديثه لاهل العراق

بحر کیف رائے بغیر علم صحیح نہیں ہے جو ظاہر ہے نہایت منطقی بات ہے- جو اس کا ارتکاب کرے جاہل ہے لیکن رائے اگر منبی بر علم ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے لہذا اس روایت کو مطلقا اہل رائے کے خلاف پیش کرنا نری جہالت ہے

سنن نسائی میں ہے

باب: اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5399
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ “إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَسْنَا هُنَالِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ”. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہٰذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آ پڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب(قرآن) میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو ۱؎، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو، نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیئے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث بہت اچھی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۳۹۹) (صحیح الإسناد)

دوسری روایت ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحٍ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ يَسْأَلُهُ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ، «أَنْ اقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَقْضِ بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ شِئْتَ فَتَقَدَّمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَتَأَخَّرْ، وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ»

شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے انہیں ایک خط لکھا تو انہوں نے لکھا: فیصلہ کرو اس کے مطابق جو کتاب اللہ(قرآن) میں ہے، اور اگر وہ کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو سنت رسول (حدیث) کے مطابق، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول (حدیث)میں تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا تھا، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اور نہ ہی نیک لوگوں کا کوئی فیصلہ ہو تو اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (اور اپنی عقل سے کام لے کر فیصلہ کرو) اور اگر چاہو تو پیچھے رہو (فیصلہ نہ کرو) اور میں پیچھے رہنے ہی کو تمہارے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ والسلام علیکم۔

الألباني: صحيح الإسناد موقوف

واضح رہے ک انہی محدثین میں سے بہت سے اہل رائے کے امام ابو حنیفہ کی بات کو بغور سنتے

کتاب  سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين میں ابن جنید کہتے ہیں

 قلت ليحيى بن معين: ترى أن ينظر الرجل في شيء من الرأي؟ فقال: «أي رأي؟» ، قلت: رأي الشافعي وأبي حنيفة، فقال: «ما أرى لمسلم أن ينظر في رأي الشافعي، ينظر في رأي أبي حنيفة أحب إلي من أن ينظر في رأي الشافعي

میں نے ابن معین سے کہا اپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو رائے کے کو دیکھے؟ انہوں نے پوچھا کس کی رائے؟ کہا شافعی یا ابو حنیفہ! ابن معین نے کہا میرے مطابق مسلمان  کے لئے  شافعی کی رائے میں کچھ (برائی) نہیں اور ابو حنیفہ کی رائے جاننا میرے لئے شافعی کی رائے سے زیادہ محبوب ہے

اسی کتاب میں ابن معین یحیی بن سعید کی بات نقل کرتے ہیں

وسمعت يحيى يقول: «سمعت يحيى بن سعيد يقول: أنا لا أكذب الله، ربما بلغنا الشيء من قول أبي حنيفة، فنستحسنه فنأخذ به

یحیی کہتے ہیں بے شک میں جھوٹ نہیں کہتا بعض اوقات ہم کو ابو حنیفہ کی بات ملتی ہے اس کو پسند کرتے ہیں اور لیتے ہیں

معلوم ہوا کہ ابو حنیفہ  کی آراء کو محدثین  یحیی ابن معین اور  یحیی بن سعید القطان قبول کرتے تھے

امام  الشافعي بھی رائے اور قیاس لینے کے قائل تھے – کتاب الأم  میں امام  الشافعي (المتوفى: 204هـ) لکھتے ہیں

وَالْعِلْمُ مِنْ وَجْهَيْنِ اتِّبَاعٌ، أَوْ اسْتِنْبَاطٌ وَالِاتِّبَاعُ اتِّبَاعُ كِتَابٍ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَسُنَّةٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ فَقَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفِنَا لَا نَعْلَمُ لَهُ مُخَالِفًا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى قَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفٍ لَا مُخَالِفَ لَهُ وَلَا يَجُوزُ الْقَوْلُ إلَّا بِالْقِيَاسِ وَإِذَا قَاسَ مَنْ لَهُ الْقِيَاسُ فَاخْتَلَفُوا وَسِعَ كُلًّا أَنْ يَقُولَ بِمَبْلَغِ اجْتِهَادِهِ وَلَمْ يَسَعْهُ اتِّبَاعُ غَيْرِهِ فِيمَا أَدَّى إلَيْهِ اجْتِهَادُهُ بِخِلَافِهِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ

اور علم کے دو رخ ہیں اتباع ہے یا استنباط ہے- اتباع ،  کتاب الله کی اتباع ہے اور اگر اس میں نہ ہو تو پھر سنت اور اگر اس میں نہ ہو تو ہم وہ کہیں گے جو ہم سے پہلے گزرنے والوں نے  کہا اس میں ہم انکی مخالفت نہیں جانتے، پس اگر اس میں بھی نہ تو ہم پھر کتاب الله پر قیاس کریں گے ، اگر  کتاب الله  پر نہیں تو سنت رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  پر قیاس کریں گے – اوراگر سنت رسول  پر نہیں تو بیشتر سلف نے جو کہا ہو اس پر قیاس کریں گے اس میں انکی مخالفت نہیں کریں گے اور قول جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ قیاس ہو اور جب قیاس ہو تو  (اپس میں مسلمان) اختلاف بھی کریں گے  اس سب میں وسعت ہے کہ ہم ان کے اجتہاد  کی پہنچ اور اتباع کی کوشش پر بات  کریں کہ یہ پیروی نہ کر سکے  جو لے جاتا ہے اس کے خلاف  اجتہاد پر والله اعلم

امام الشافعی قیاس اور اجتہاد کو ایک ہی سمجھتے ہیں – اسی طرح کتاب الام میں لکھتے ہیں

  إنَّ مَنْ حَكَمَ أَوْ أَفْتَى بِخَيْرٍ لَازِمٍ أَوْ قِيَاسٍ عَلَيْهِ فَقَدْ أَدَّى مَا عَلَيْهِ وَحَكَمَ وَأَفْتَى مِنْ حَيْثُ أُمِرَ فَكَانَ فِي النَّصِّ مُؤَدَّيَا مَا أُمِرَ بِهِ نَصًّا وَفِي الْقِيَاسِ مُؤَدِّيًا مَا أُمِرَ بِهِ اجْتِهَادًا وَكَانَ مُطِيعًا لِلَّهِ فِي الْأَمْرَيْنِ.  ثُمَّ لِرَسُولِهِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَمَرَهُمْ بِطَاعَةِ اللَّهِ ثُمَّ رَسُولِهِ  ، ثُمَّ الِاجْتِهَادِ فَيُرْوَى «أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاذٍ بِمَ تَقْضِي؟ قَالَ بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ قَالَ أَجْتَهِدُ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -» وَقَالَ: «إذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ  – وَإِنْ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ» فَأَعْلَمَ أَنَّ لِلْحَاكِمِ الِاجْتِهَادَ وَالْمَقِيسَ فِي مَوْضِعِ الْحُكْمِ

امام الشافعی کہتے ہیں جو فیصلہ کرے یا فتوی دے خیر کو لازم کرے، یا اس پر قیاس کرے تو اس معاملہ میں بھی خیر کو لازم کرے۔اس طرح اس نے اس کو وہ پورا کیا جو اس پر لازم تھا کہ فیصلہ اور قیاس کرتا ہے جیسا کہ حکم ہے تو وہ نص جس پر قیاس کیا گیا ہے وہ نص مودیا ہے۔یا جس پر اجتہاد کیا ہے تو وہ قیاس مودیا ہے یہ ان معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی اطاعت اور پھر اسکے رسول کی اطاعت اور اس کے بعد اس پر اجتہاد کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ مروی ہے کہ آپ نے معاذ بن جبل سے فرمایا کس پر فیصلہ کرو گے تو انہوں نے جواب دیا اللہ کی کتاب پر۔آپ نے فرمایا اگر وہ اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو ؟ معاذ نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق۔اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر اس میں بھی نہ ملے تو کیا کرو گے۔انہوں نے جواب دیا اجتہاد کروں گا۔اس پر اللہ کے نبی نے کہا الحمد للہ ۔اور معاذ کی اس بات کی اللہ کے نبی نے موافقت فرمائی۔اور کہا جب کوئی حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ صحیح ہو تو اس کو دوھرا اجر ہے اور اگر اس میں غلطی ہوجائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر تو ہے ہی۔ جان لو کہ حاکم کے اجتہاد اور قیاس کا درجہ حکم کا ہے۔

امام الشافعی تو باقاعدہ وہی معاذ بن جبل والی روایت سے دلیل لے رہے ہیں جس کو منکر کہتے اہل حدیث نہیں تھکتے اور طرفہ تماشہ ہے کہ اپنے اپ کو سلف کا متبع کہتے ہیں امام الشافعی نے سنت رسول سے دلیل لی اور اس میں اہل رائے کی موافقت کی ہے

غیر مقلدین کے  شمارہ ١٩٤ محدث سن ١٩٩٣  میں مضمون  امام بخاری اور الجامع الصحیح چھپا اس میں محقق محمد عبدہ الفلاح  لکھتے ہیں

امام بخاری نے استخراج مسائل اور استنباط کے ذریعہ قوانین نقلیہ کو قواعد عقلیہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور دوسرے الفاظ میں ان کو معیار عقل پر پرکھا ہے جسے درایت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

عصر حاضر کے محقق بشارعواد معروف کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مقدمہ میں لکھتے ہیں

وقد وجدنا الذهبي بعد ذلك لا يقتصر على أسلوب واحد في النقد، بل يتوسل بكل ممكن يوصله إلى الحقيقة، فنقد السند والمتن، واستعمل عقله في رد كثير من الروايات.

اور ہم نے پایا ہے کہ الذھبی نے اس کے بعد  تنقید  میں ایک اسلوب ہی نہیں لیا بلکہ اس تنقید کو حقیقت سے ملایا ہے پس سند و متن پر تنقید کی ہے اور عقل کا استمعال کیا ہے کثیر روایات کے رد کے لئے

معلوم ہوا عقل سے احادیث کو پرکھنا بھی محدثین کا اصول ہے جس کا انکاری یہ غیر مقلدین کا ٹولہ ہے

الغرض دین میں عقل کی اہمیت ہے اس کو شجر ممنوعہ قرار نہیں دیا گیا – عقل کو رائے والی احادیث سے ملا کر دینی معاملات میں یہ کہنا کہ عقل معیار نہیں بن سکتی ،  نری جہالت ہے – حقیقت میں یہ قول خود  ایک رائے ہے

 الْمُعْتَزلَة غیر مقلدین اور عذاب قبر

غیر مقلدین جن کا عقائد میں ارتقاء جاری ہے ان کے ایک علم کلام کے ماہر ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

اس امت میں خوارج اور معتزلہ وغیرہ پیدا ہوئے جو عذاب قبر کا انکار کر چکے ہیں اور موجودہ دور میں ڈاکٹر عثمانی صاحب ان پرانے فرقوں کی بازگشت ہیں۔  عذاب القبر کے متعلق اہل اسلام کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ قبر کی راحت و آرام اور قبر کا عذاب حق ہے اور قبر میں دفن میت کے بعد دو فرشتوں منکر و نکیر کا آنا اور ان کا میت سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق سوال کرنا مومن کا راحت و آرام میں رہنا اور اس پر صبح و شام جنت کا پیش کیا جانا جب کہ کفار و مشرکین اور منافقین کا قبر میں عذاب میں مبتلا ہونا فرشتوں کا انہیں لوہے کے گرز سے مارنا میت کا چیخنا و چلانا اور ہیبت ناک آوازیں نکالنا۔غرض احادیث صحیحہ میں قبر کے حالات کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر ایمان لانا لازم اور ضروری ہے اور ایمانیات میں شامل ہے۔جبکہ عذاب قبر کا انکار کفر ہے اس کا انکاری ایمان و توحید سے خالی ہے چاہے وہ اپنے ایمان کو کتنا ہی خالص کیوں نہ کہے۔ 

ائمہ غیر مقلدین مثلا  نذیر حسین جن کو یہ شیخ الکل  کہتے ہیں اور بدیع الدین راشدی اور  قاضی شوکانی  یمنی کا عقیدہ تھا کہ مردہ میں روح واپس پلٹ اتی ہے اور  زندہ حالت میں ہی عذاب ہوتا ہے – امام ابن عبد البر کے مطابق روح قیامت تک افنیہ القبور میں ہی رہتی ہیں یعنی قبرستان  کے میدان میں اور شیخ ابن تیمیہ و ابن قیم کا عقیدہ تھا کہ روح سورج کی شعآع جیسی کوئی شی ہے جو قبر میں  آتی جاتی رہتی ہے   گویا انرجی ہے- عبد الوہاب النجدی  کا عقیدہ بھی ابن تیمیہ جیسا ہے جس میں روح نہ صرف عام آدمی میں انبیاء  میں بھی اتی ہے

غیر مقلدین کا  سن ٢٠٠٠ سے  عقیدہ ہے کہ مردے میں تدفین کے بعد روح کو واپس ڈالا جاتا ہے جس سے میت میں  قوت سماعت آ جاتی ہے وہ قدموں کی چاپ سننے لگتی ہے اور صحیح مسلم کی ایک روایت کی غلط تاویل کے بعد ان کے مطابق مردہ قبر پر موجود افراد سے مانوس ہوتا ہے اور اس دوران فرشتے سوال کرتے ہیں – اس کے بعد روح کو نکال لیا جاتا ہے وہ آسمان منتقل کر دی جاتی ہے  پھر میت پر بلا روح   عذاب ہوتا ہے جس میں پسلیاں ادھر ادھر ہوتی ہیں مردہ چیخیں مارتا ہے جس کو چوپائے سنتے ہیں – اس کے پیچھے  ضعیف و معلول روایات کا انبار ہے جن کو صحیح  روایات سے ملا کر ایک گنجلک عقیدہ بنا دیا گیا ہے  اور اس کو ایسے پیش کیا جاتا ہے گویا یہ سلف سے چلا آ رہا ہو

اس سلسلے میں باربار غیر مقلدین معتزلہ کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ عذاب قبر کے انکاری تھے – معتزلہ اور ان  کی تحاریر تو معدوم ہیں لیکن اہل سنت ان کا کیا عقیدہ عذاب قبر کے حوالے سے بتاتے ہیں اس کو دیکھتے ہیں

تمام  الْمُعْتَزلَة عذاب قبر کے انکاری نہیں تھے

فتح السلام شرح عمدة الأحكام، للحافظ ابن حجر العسقلاني مأخوذ من كتابه فتح الباري از أبو محمد عبد السلام بن محمد العامر کے مطابق

قوله: (من عذاب القبر) فيه ردّ على من أنكره مطلقاً من الخوارج وبعض المعتزلة كضرار بن عمرو وبشر المريسيّ ومن وافقهما.

وخالفهم في ذلك أكثر المعتزلة وجميع أهل السّنّة وغيرهم , وأكثروا من الاحتجاج له. وذهب بعض المعتزلة كالجيّانيّ: إلى أنّه يقع على الكفّار دون المؤمنين.

ابن حجر کا قول (من عذاب القبر) اس میں رد ہے خوارج کا اور بعض الْمُعْتَزلَة کا   جنہوں نے  مطلقا عذاب کا انکار  کیا ہے جیسے  ضرار بن عمرو اور بشر المريسيّ  اور وہ جنہوں نے انکی موافقت کی ہے

كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از   محمَّد الخَضِر بن سيد عبد الله بن أحمد الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق

وأنكرت المعتزلة عذاب القبر والخوارج وبعض المرجئة، لكن قال القاضي عبد الجبار رئيس المعتزلة: إن قيل: مذهبكم أدّاكم إلى إنكار عذاب القبر، وقد أطبقت عليه الأمة. قيل: هذا الأمر إنما أنكره ضِرار بن عمرو، ولما كان من أصحاب واصل ظنوا أن ذلك مما أنكرته المعتزلة، وليس الأمر كذلك، بل المعتزلة رجلان: أحدهما: يُجوِّز ذلك كما وردت به الأخبار، والثاني: يقطع بذلك، وأكثر شيوخنا يقطعون بذلك، وإنما يُنْكَر قول جماعة من الجهلة: إنهم يعذَّبون وهم موتى. ودليل العقل يمنع من ذلك.

اور المعتزلة نے عذاب قبر کا انکار کیا اور خوارج اورکچھ مرجیہ نے انکار کیا ہے لیکن قاضی عبد الجبار   المعتزلة  کے سردارکہتے ہیں  کہا جاتا ہے  تمہارا مذھب تم کو عذاب قبر کے انکار پر لے جاتا ہے اور بے شک اس میں امت کو طبقات میں کر دیتا ہے – کہا جاتا ہے کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس کا انکار ضِرار بن عمرو نے کیا جبکہ وہ  اصحاب واصل بن عطا  میں سے ہے – اس سے لوگوں نے یہ گمان کیا  المعتزلة اس کے انکاری ہیں جبکہ ایسا نہیں تھا بلکہ المعتزلة میں دو  (بڑے ) اشخاص تھے ایک اس  کے جواز کا قائل ہے  اور یہ بات روایات میں بیان ہوئی ہے  اور دوسرا اس سے الگ ہے  – اور ہمارے اکثر شیوخ اس سے الگ ہی ہیں اور انکی طرف سے ایک  جاہلوں کی اس  جماعت کا  انکار کیا گیا ہے  جو یہ کہتے ہیں کہ ان کو عذاب ہو گا اور یہ مردہ ہوں گے اور عقل کی دلیل اس سے مانع   ہے 

کتاب شرح سنن ابن ماجه – الإعلام بسنته عليه السلام از  مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) کے مطابق

إنّما أنكره أولًا ضرار بن عمرو، ولما كان من

أصحاب واصل ظنوا أن ذلك مما أنكرته المعتزلة، وليس الأمر كذلك بل

المعتزلة رجلان: أحدهما يجوز ذلك كما وردت به الأخبار، والثاني يقطع

بذلك، وأكثر شيوخنا يقطعون بذلك إنّما ينكرون قول طائفة من الجهلة أنّهم

يعذبون وهم موتى، ودليل العقل يمنع من ذلك، وبنحوه قاله أبو عبد الله

المرزباني في كتاب الطبقات أيضًا،

بے شک اس کا شروع شروع میں ضرار بن عمرو نے انکار کیا اور اصحاب واصل نے گمان کیا کہ اس کا انکار المعتزلة نے کیا ہے جبکہ  اصل بات یہ ہے کہ  المعتزلة میں دو اشخاص تھے ایک اس  کے جواز کا قائل ہے  اور یہ بات روایات میں بیان ہوئی ہے  اور دوسرا اس سے الگ ہے  – اور ہمارے اکثر شیوخ اس سے الگ ہی ہیں اور انکی طرف سے ایک  جاہلوں کی اس  جماعت کا  انکار کیا گیا ہے  جو یہ کہتے ہیں کہ ان کو عذاب ہو گا اور یہ مردہ ہوں گے اور عقل کی دلیل اس سے مانع   ہے  –  ابو عبد الله المرزباني کہتے ہیں کتاب الطبقات میں ایسا ہی ہے

معلوم ہوا کہ معتزلہ کے بعض  جہلاء نے وہی عقیدہ اختیار کیا جو آج غیر مقلدین کا ہے کہ مردہ میت کو بغیر روح عذاب ہوتا ہے اسکا رد کیا گیا

المعتزلةِ کی طرف انکار عذاب قبر ثابت نہیں ہے

کتاب   فيض الباري على صحيح البخاري میں  محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري   الديوبندي (المتوفى: 1353هـ) لکھتے ہیں

وما نُسِب إلى المعتزلةِ أنهم يُنْكِرون عذابَ القَبْر فلم يثبت عندي إلا عن بِشْر المَرِيسي وضِرار بنِ عمروِ. وبِشْرٌ كان يختلف إلى دَرْس أبي يوسف رحمه الله تعالى، فلما بلغه من شأَن بِشْر قال: إني لأَصْلِبنَّك – وكَان قاضيًا – فَفَرَّ المَرِيسي   خائفًا، ثُم رَجَعَ بعد وفاته. أما ضِرارًا فلا أَعْرف مَنْ هو.

اور جو المعتزلةِ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ عذاب قبر کا انکار کرتے ہیں تو یہ میرے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے سوائے  ضرار بن عمرو اور بشر المريسيّ کے لئے –   اور بشر المريسيّ امام ابو یوسف سے درس میں اختلاف کرتا تھا پس جب  انکو بشر کی حالت پتا چلی انہوں نے کہا میں تجھ کو صلیب دوں گا اور وہ قاضی تھے پس بشر المریسی فرار ہو گیا ڈر کر پھر پلٹا انکی وفات کے بعد – اور ضرار بن عمرو کو میں نہیں جانتا یہ کون ہے

امام بخاری اور عذاب قبر

  فتح الباري شرح صحيح البخاري از  أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي کے مطابق

لم يتعرض المصنف في الترجمة لكون عذاب القبر يقع على الروح فقط، أو عليها وعلى الجسد، وفيه خلاف شهير عند المتكلمين، وكأنه تركه لأن الأدلة التي يرضاها ليست قاطعة في أحد الأمرين، فلم يتقلد الحكم في ذلك، واكتفى بإثبات وجوده، خلافًا لمن نفاه مطلقًا من الخوارج، وبعض المعتزلة، كضرار بن عمرو وبِشر المريسيّ ومن وافقهما. وخالفهما في ذلك أكثر المعتزلة، وجميع أهل السُنَّة وغيرهم، وأكثروا من الاحتجاج له.وذهب بعض المعتزلة كالجبائيّ إلى أنه يقع على الكفار دون المؤمنين، وبعض الأحاديث الآتية عليهم أيضًا.

مصنف امام بخاری نے یہاں ترجمہ میں  اس پر  زور نہیں دیا (یا ظاہر نہیں کیا)  کہ عذاب قبر صرف روح کو ہوتا ہے یا روح پر اور جسم  (دونوں) پر ہوتا ہے اور اس کے خلاف متکمین میں بہت کچھ مشھور ہے اور گویا کہ (قصدا) انہوں نے ترک کیا کیونکہ دلائل جس سے راضی ہوں وہ قطعی نہیں تھے پس انہوں نے اس پر حکم نہیں باندھا اور صرف اثبات وجود (عذاب قبر) پرہی اکتفآ کیا ہے – یہ خلاف ہے اس نفی مطلق کے  جو خوارج اور بعض المعتزلة نے کی ہے  جیسے ضرار بن عمرو  اور بِشر المريسيّ  اور وہ جنہوں نے انکی دونوں کی موافقت کی اور اس کی (عذاب قبر کے انکار کی ) اکثر المعتزلة  اور اہل سنت نے مخالفت کی  اور  اس سے الاحتجاج   لینے والوں کی اکثریت  ہے اور بعض المعتزلة جیسے الجبائيّ کہتے ہیں یہ (صرف) کفار کو ہو گا مومنوں پر نہیں اور بعض احادیث سے اس پر اخذ کیا ہے 

یہ اقوال ثابت کرتے ہیں کہ تمام المعتزلة   عذاب قبر کے انکاری نہیں تھے بلکہ ایک دو ہی افراد تھے

الْمُعْتَزلَة کا عقیدہ :  الم و عذاب میت کو ہے

کتاب  المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج از  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) میں ہے

أَنَّ مَذْهَبَ أَهْلِ السُّنَّةِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ كَمَا ذَكَرْنَا خِلَافًا لِلْخَوَارِجِ وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَةِ وَبَعْضُ الْمُرْجِئَةِ نَفَوْا ذَلِكَ ثُمَّ الْمُعَذَّبُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ الْجَسَدُ بِعَيْنِهِ أَوْ بَعْضُهُ بَعْدَ إِعَادَةِ الرُّوحِ إِلَيْهِ أَوْ إِلَى جُزْءٍ مِنْهُ وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إِعَادَةُ الرُّوحِ قَالَ أَصْحَابُنَا هَذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ الْأَلَمَ  وَالْإِحْسَاسَ إِنَّمَا يَكُونُ فِي الْحَيِّ

بے شک اہل سنت کا مذھب اثبات عذاب قبر ہے جیسا ہم نے ذکر کیا بر خوارج اور الْمُعْتَزِلَةِ کے بڑوں اور بعض الْمُرْجِئَةِ  کے- یہ لوگ اس کا  انکار کرتے ہیں  – پھر عذاب پانے والا اہل سنت میں پورا جسد ہے   یا اس کا بعض حصہ آعآدہ روح کے  بعد جو  پورے جسد یا اس کے اجزاء میں ہوتا ہے  اور اس کی مخالفت کی ہے امام  ابن جریر طبری نے اور عبد الله بن کرام نے اور ایک گروہ نے اور کہا ہے عذاب کے لئے روح لوٹنا شرط نہیں ہے – ہمارے اصحاب ( اہل سنت جواب میں) کہتے ہیں یہ ( قول یا رائے)  فاسد ہے کیونکہ الم و احساس زندہ کے لئے ہے

وهابي عالم عاصم القریوتی نے  ٣٦ سال قبل لکھا تھا

qaryuti1

سن ١٩٨٤ میں شمارہ محدث میں مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی نے اپنا عقیدہ ان الفاظ میں بیان کیا

جب ہم خود اس بات کے قائل ہیں کہ عذاب و ثواب قبر کا بیشر انحصار روح یا روح کے جسم پر ہوتا ہے۔ البتہ اس کی شدت سے کبھی کبھار قبر میں پڑا ہوا جسدِ عنصری بھی متاثر ہو جاتا ہے

یعنی عذاب قبر اصلا روح کو ہے جس کا اثر کبھی کبھار جسد عنصری پر ہوتا ہے

حیرت ہے کہ آج غیر مقلدین نے قریوتی  اور کیلانی صاحب کا عقیدہ چھوڑ  دیا ہے

ابو جابر دامانوی کا عقیدہ ہے کہ عذاب قبر تدفین سے پہلے شروع ہو جاتا ہے  اعادہ روح سے بھی پہلے لہذا کتاب دین الخالص قسط اول و دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عذاب١

غیر مقلدین ٣٠ سال پہلے  عذاب قبر کی ابتداء حالت نزع سے بتاتے تھے یعنی اس کا آغاز قبر میں عود روح سے نہیں ہوتا

روح صرف چند سوالوں کے لئے اتی ہے دامانوی دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عقیدہ٢

یہ کس حدیث میں ہے کہ روح واپس جسم سے نکال لی جاتی ہے ؟ عود روح کی روایت جو شیعہ راویوں المنھال اور زاذان نے البراء بن عازب رضی الله عنہ سے منسوب کی ہے اس میں تو اس سے الٹ لکھا ہے اس کے مطابق  روح جب بھی آسمان کی طرف جائے گی اس کو واپس زمین کی طرف  پھینک دیا جائے گا

دامانوی کے مطابق روح پر عذاب قبر نہیں ہوتا اس پر عذاب جہنم ہوتا ہے دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عقید٣٢

یہ بھی قیاس ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے

اسی کتاب میں دامانوی لکھتے ہیں

دامانوی عقید٤

یعنی روح جہنم میں ہی رہے گی اور جسد بلا روح کو عذاب ہو گا

کہتے ہیں

سانپ نکل گیا لکیر پیٹا کرو

اہل سنت کا یہ عقیدہ نہیں ہے یہ کرامیہ کا عقیدہ ہے جو غیر مقلدین اختیار کر چکے ہیں

شَرْحُ صَحِيح مُسْلِمِ لِلقَاضِى عِيَاض المُسَمَّى إِكمَالُ المُعْلِمِ بفَوَائِدِ مُسْلِم از قاضی  عياض بن موسى  (المتوفى: 544هـ) کے مطابق

وأن مذهب أهل السنة تصحيح هذه الأحاديث وإمرارها على وجهها؛ لصحة طرقها، وقبول السلف لها. خلافًا لجميع الخوارج، ومعظم المعتزلة، وبعض المرجئة؛ إذ لا استحالة فيها ولا رد للعقل، ولكن المعذب الجسد بعينه بعد صرف الروح إليه أو إلى جزء منه، خلافاً لمحمد بن جرير (3) وعبد الله بن كرام (4) ومن قال بقولهما؛ من أنه لا يشترط الحياة؛ إذ لا يصح الحس والألم واللذة إلا من حى

اور اہل سنت کا مذھب ان احادیث کی تصحیح ہے اور اس کو ظاہر پر منظور کرتے ہیں اس سے صحیح طرق کی وجہ سے اور سلف کے قبول کی وجہ سے  اور خلاف ہے یہ تمام خوارج اور المعتزلة کے بڑوں اور المرجئة کے – کیونکہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں اور عقل کا رد نہیں ہے بلکہ جسد جیسا ہے اس کی طرف روح لانے پر یا اس کے اجزاء پر عذاب ہے اور یہ خلاف ہے امام طبری اور عبد الله بن کرام کے اور وہ جس نے اس جیسا قول کہا  کہ عذاب کی شرط زندگی نہیں ہے – کیونکہ اگر حس صحیح نہیں تو الم و لذت تو نہیں ہے سوائے زندہ کے لئے

کتاب  عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں العینی لکھتے ہیں

 وَقَالَ الصَّالِحِي من الْمُعْتَزلَة وَابْن جرير الطَّبَرِيّ وَطَائِفَة من الْمُتَكَلِّمين يجوز التعذيب على الْمَوْتَى من غير إحْيَاء وَهَذَا خُرُوج عَن الْمَعْقُول لِأَن الجماد لَا حس لَهُ فَكيف يتَصَوَّر تعذيبه

اور (ابو حسین  محمد بن مسلم) الصَّالِحِي  (مصنف كتاب الْإِدْرَاك)  نے الْمُعْتَزلَة میں سے  اور امام طبری نے اور متکمین کے ایک گروہ نے جائز کیا ہے کہ بغیر زندگی کے  مردوں  پر  عذاب ہو   اور یہ عقل سے عاری بات ہے کیونکہ جمادات میں حس نہیں ہوتی تو پھر عذاب کا  تصور کیسے کیا جا سکتا ہے

علامہ عینی کے قول سے ثابت ہے جسد بلا روح پر عذاب الْمُعْتَزلَة کا عقیدہ تھا جس کو غیر مقلدین اختیار کر چکے ہیں

کتاب التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة از  القرطبي (المتوفى: 671هـ) کے مطابق

وقال الأكثرون من المعتزلة: لا يجوز تسمية ملائكة الله تعالى بمنكر ونكير، وإنما المنكر ما يبدو من تلجلجله إذا سئل، وتقريع الملكين له هو النكير، وقال صالح: عذاب القبر جائز، وأنه يجري على الموتى من غير رد الأرواح إلى الأجساد، وأن الميت يجوز أن يألم ويحس ويعلم. وهذا مذهب جماعة من الكرامية.  وقال بعض المعتزلة: إن الله يعذب الموتى في قبورهم، ويحدث فيهم الآلآم وهم لا يشعرون، فإذا حشروا وجدوا تلك الآلام. وزعموا أن سبيل المعذبين من الموتى، كسبيل السكران أو المغشى عليه، لو ضربوا لم يجدوا الآلام، فإذا عاد إليهم العقل وجدوا تلك الآلام، وأما الباقون من المعتزلة.  مثل ضرار بن عمرو وبشر المريسي ويحيى بن كامل وغيرهم، فإنهم أنكروا عذاب القبر أصلاً، وقالوا: إن من مات فهو ميت في قبره إلى يوم البعث وهذه أقوال كلها فاسدة تردها الأخبار الثابتة وفي التنزيل: {النار يعرضون عليها غدواً وعشياً} . وسيأتي من الأخبار مزيد بيان، وبالله التوفيق والعصمة والله أعلم.

اور المعتزلة میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ الله کے فرشتوں کو منکر نکیر نہیں کہنا چاہیے اور  صالح نے کہا عذاب قبر جائز ہے اور یہ مردوں پر ہوتا ہے روحیں لوٹائے بغیر اور میت کے لئے  جائز ہے کہ وہ الم کا احساس کرے اور جانتی ہو اور یہ مذہب کرامیہ کی ایک جماعت کا ہے – اور بعض المعتزلة نے کہا الله مرودں کو قبروں میں عذاب کرتا ہے اور ان پر الم اتا ہے اور وہ اس کا شعور نہیں کرتے لیکن جب حشر ہو گا ان کو اس کا احساس ہو گا اور انہوں نے دعوی کیا کہ مردوں میں عذاب پانے والے ایک بے ہوش اور غشی والے شخص کی طرح ہیں اس پر ضرب لگاو تو اس کو احساس نہیں ہوتا لیکن جب عقل اتی ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے اور المعتزلة میں باقی کہتے ہیں مثلا ضرار اور بشر اور یحیی اور دیگر یہ وہ ہیں جنہوں نے اصلا عذاب کا انکار کیا ہے اور کہتے ہیں جو مرا وہ میت ہے اپنی قبر میں قیامت تک کے لئے اور یہ تمام اقوال فاسد ہیں جو رد ہوتے ہیں ثابت خبروں سے اور قرآن میں ہے ال فرعون اگ پر پیش کیے جاتے ہیں 

قرطبی کے بقول بعض المعتزلة اور کرامیہ کا عقیدہ ایک تھا کہ میت بلا روح عذاب سہتی ہے جو آج کل کے غیر مقلدین کا عقیدہ ہے

الإعلام بفوائد عمدة الأحكام ابن الملقن الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)کے مطابق

وقال بعضهم: عذاب القبر جائز وأنه يجري على [الموتى]   من غير رد أرواحهم إلى أجسادهم وأن الميت يجوز أن يألم ويحس وهذا مذهب جماعة من الكرامية. وقال بعض المعتزلة: إن الله يعذب [الموتى]   في قبورهم ويحدث فيهم الآلام وهم لا يشعرون فإذا حُشروا وجدو تلك الآلام، كالسكران والمغشي عليه، لو ضربوا لم يجدوا ألمًا   فإذا عاد عقلهم إليهم وجدوا تلك الآلام. وأما الباقون سنن المعتزلة مثل ضرار  بن [عمرو]   وبشر   المريسي ويحيى   بن أبي كامل وغيرهم: فإنهم أنكروا عذاب القبر أصلًا.  وهذه أقوال كلها فاسدة تردها الأحاديث الثابتة، والله الموفق.  وإلى الإِنكار أيضًا ذهبت الخوارج وبعض المرجئة. ثم المعذب عند أهل السنة: الجسد بعينه أو بعضه بعد إعادة الروح إليه [أو]  إلى جزء منه، وخالف في ذلك محمد بن [حزم]  وابن كرام   وطائفة، فقالوا: لا يشترط إعادة الروح، وهو فاسد توضحه الرواية السالفة (سمع صوت إنسانين يعذبان) فإن الصوت لا يكون [إلَّا]   من جسم حي  أجوف 

اور بعض کہتے ہیں عذاب قبر جائز ہے اور یہ مردوں کو ہوتا ہے روح لوٹائے بغیر اور یہ میت کے لئے جائز ہے کہ احساس الم کرے اور یہ کرامیہ کی جماعت کا مذھب ہے  اور بعض المعتزلة کہتے ہیں اللہ مردوں کو قبروں میں عذاب کرتا ہے اور ان پر الم ہوتا ہے لیکن انکو اسکا شعور نہیں ہے پس جب حشر ہو گا انکو یہ الم مل جائے گا – (مردوں کی کیفیت ایسی ہے ) جیسے غشی ہوتی ہے کہ انکو مارو تو انکو الم نہیں ملتا پس جب عقل واپس اتی ہے انکو الم ملتا ہے- اور باقی المعتزلة  مثلا  ضرار  بن [عمرو]   وبشر   المريسي ويحيى   بن أبي كامل وغيرهم تو یہ سب اصلا  عذاب کا انکار کرتے ہیں – اور یہ تمام اقوال فاسد ہیں جن کا رد ثابت حدیثوں سے ہوتا ہے اللہ توفیق دینے والا ہے اور اسی انکار کی طرف  خواراج اور بعض المرجئة کا مذھب ہے- پھر معذب اہل سنت کے نزدیک جسد اور اس کے جیسا ہے روح لوٹانے پر یا اجزاء پر اور اسکی مخالفت کی ہے ابن حزم نے ابن کرام نے اور ایک گروہ نے اور کہا کہ اعادہ روح اس کی شرط نہیں ہے اور یہ فاسد ہے انکی وضاحت ہوتی ہے پچھلی حدیثوں سے (دو انسانوں کی آواز سنی جن کو عذاب ہو رہا تھا)  کیونکہ آواز نہیں ہے الا جسم زندہ ہو (مٹی سے) خالی ہو

ابن ملقن کے بقول عذاب   اہل سنت میں حی یا زندہ کے لئے ہے جس کے جسم میں مٹی نہ ہو اور کرامیہ کا مذھب ہے کہ یہ لاش کو بلا روح ہوتا ہے

اہل سنت کی عقیدہ عذاب قبر میں دو آراء

العرف الشذي شرح سنن الترمذي از المؤلف: محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ)

ونسب إلى المعتزلة أنهم ينكرون عذاب القبر، ويرد عليه أن المعتزلة المختار عدم إكفارهم، وإذا كانوا أنكروا عذاب القبر فكيف يكونوا أهل القبلة؟ أقول: يقال أولاً: لعل التواتر نظري، وثانياً: أنه لم ينكر أحد منهم إلا ضرار بن عمرو وبشر المريسي، وإني في هذا أيضاً متردد ما لم ير عبارتهما. ثم لأهل السنة قولان؛ قيل: إن العذاب للروح فقط، وقيل: للروح والجسد والمشهور الثاني، اختاره أكثر شارحي الهداية وهو المختار

اور المعتزلة سے عذاب قبر کا انکار منسوب کیا جاتا ہے اور اس کا رد کیا جاتا ہے کہ  المعتزلة جو  مختار تھے کہ وہ عذاب قبر کا کفر  کرتے ہیں  اور اگر وہ عذاب قبر کے انکاری ہیں تو انکو اہل قبلہ کیسے لیں؟ میں کہتا ہوں پہلی بات تواتر نظری ہے اور دوسری اس کا انکار صرف ضرار بن عمرو وبشر المريسي نے کیا ہے اور میں خود متردد ہوں کیونکہ میں نے اس پر انکی  کوئی عبارت اس پر نہیں پائی- پھر خود اہل سنت میں عذاب قبر پر دو قول ہیں ایک یہ کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے دوسرا یہ کہ یہ جسم و روح کو ہوتا ہے اور دوسرا مشھور ہے اس کو الهداية کے اکثر شارحین نے  لیا ہے اور یہ مختار ہے

امام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور
اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا

کتاب  إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از المؤلف: أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) کے مطابق بھی بعض ٩٢٣ ھ میں کہہ رہے تھے کہ یہ صرف روح کا سننا ہے

إما بآذان رؤوسهم، كما هو قول الجمهور، أو بآذان الروح فقط، والمعتمد قول الجمهور، لأنه: لو كان العذاب على الروح فقط، لم يكن للقبر بذلك اختصاص، وقد قال قتادة، كما عند المؤلّف في غزوة بدر: أحياهم الله تعالى حتى أسمعهم توبيخًا أو نقمة.

اور سروں میں موجود کان ہیں وہ سنتے ہیں یہ جمہور کہتے ہیں یا پھر فقط روح کے کان ہیں اور معتمد جمہور کا قول ہے کیونکہ عذاب اگر صرف روح کو ہو تو قبر کی کوئی خصوصیت نہیں ہے اور قتادہ نے غزوہ بدر کے لئے کہا کہ ان مشرکین کو زندہ کیا توبیخ کے لئے

یعنی قسطلانی نے ایک معجزہ کو معمول سمجھ لیا  جبکہ امت میں صرف روح پر عذاب کی رائے بھی چلی آ رہی ہے

لہذا اس  مسئلہ میں دو قول ہیں ایک یہ ہے کہ عذاب صرف روح کو ہوتا ہے جس کا ذکر سلف کرتے ہیں لیکن یہ قول کہ یہ صرف جسد کو بلا روح ہوتا ہے عبد الله بن کرام کے فرقہ کرامیہ اور الْمُعْتَزلَة میں الصالحی کا تھا

خوارج اور غیر مقلدین

ابو جابر دامانوی نے خوارج کے انکار عذاب قبر کا حوالہ دیا ہے- اطلاعا عرض ہے کہ اس میں خوارج مختلف الخیال ہیں اکثر کی رائے میں عذاب کفار و منافق پر ہوتا ہے ایمان والوں کے لئے وہ اس کو جزم سے بیان نہیں کرتے

یہاں ہم ایک خارجی عالم  ناصر بن أبي نبهان  الأباضي المتوفی ١٢٦٣  کی رائے پیش کرتے ہیں

إن الله قادر أن يخلق له نوع حياة، يجوز بها ما يدرك الألم والتنعيم، من غير إعادة الروح إليه لئلا يحتاج إلى نزع حياة جديدة، ويجوز بإعادة الحياة دون إعادة الروح

اور بے شک الله تعالی قادر ہے کہ ایک نوع کی حیات (مردوں میں) پیدا کر دے جس سے ان کو الم و راحت کا ادرک ہو بغیر روح لوٹائے کیونکہ اس کو اس نئی حیات کی ضرورت ہے اور جائز ہے کہ حیات کا لوٹنا ہو بغیر إعادة روح کے

بحوالہ  آراء الشيخ ابن أبي نبهان في قاموس الشريعة

ان کا ترجمہ یہاں دیکھ سکتے ہیں

https://ar.wikipedia.org/wiki/ناصر_بن_جاعد_الخروصي#.D9.85.D8.A4.D9.84.D9.81.D8.A7.D8.AA.D9.87

یہ رائے آج سے ١٧٤ سال پہلے خوارج  کے ایک عالم پیش کر چکے تھے – سن ٢٠٠٠ ع سے اس کی تبلیغ فرقہ غیر مقلدین کر رہے  ہیں

گھنگھریالے بالوں والا رب؟

https://www.islamic-belief.net/كتاب-التوحيد-و-ألأسماء-الحسني/
اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے

خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

کتاب  الصفات از  الدارقطني (المتوفى: 385هـ) کے مطابق اس کی اسناد ابو ہریرہ اور ابن عمر سے ہیں اب ہم ان اسناد پر بحث کرتے  ہیں

ابو ہریرہ کی مرویات

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ الْفَضْلِ الْكَاتِبُ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

دوسری سند ہے

حَدَّثَنَا عَلَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَطَّانُ، وَثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ نَهْشَلُ بْنُ دَارِمٍ التَّمِيمِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ، قَالَا: ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ “

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

جب تم میں سے کوئی کسی کو مارے تو چہرہ پر مارنے سے بچے اور یہ نہ کہے کہ الله تیرا چہرہ بگاڑ دے کیونکہ اس کا چہرہ اسی کے جیسا ہے کیونکہ الله نے آدم کو تخلیق کیا اپنی صورت پر 

محمد بن عجلان نے اس کو سعید بن ابی سعید سے انہوں نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے

کتاب  الضعفاء الكبير از امام  العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے   حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ  اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا  (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک  کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں

فقہ مالکیہ کی معتمد  کتاب  المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي    السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

دارقطنی کے مطابق محمد بن عجلان کے علاوہ المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ  نے بھی اس کو ابی الزناد سے روایت کیا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو شَيْبَةَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ بَكْرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى أَبُو مُوسَى، ثنا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، ثنا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا»

سیر الآعلام البنلاء از الذھبی کے مطابق  المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ  کے لئے امام یحیی بن معین کہتے   : لَيْسَ حَدِيْثُهُ بِشَيْءٍ اس کی حدیث کوئی چیز نہیں ہے-  ابن حبان  کتاب مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں کہتے ہیں  وكان يهم في الشئ بعد الشئ اس کو  چیز چیز پر وہم ہوتا ہے

امام مالک کی بات کا رد کرتے ہوئے کتاب  سير أعلام النبلاء میں  الذهبي (المتوفى : 748هـ) کہتے ہیں

قُلْتُ: الخَبَرُ لَمْ يَنْفَرِدْ بِهِ ابْنُ عَجْلاَنَ، بَلْ وَلاَ أَبُو الزِّنَادِ، فَقَدْ رَوَاهُ:

 شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ.

وَرَوَاهُ: قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَرَوَاهُ: ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَرَوَاهُ: مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَصحَّ أَيْضاً مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عُمَرَ.

میں (الذھبی) کہتا ہوں : اس خبر میں ابن عجلان  منفرد نہیں ہے اور نہ ابو الزناد منفرد ہے  اس کو روایت کیا ہے

شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ. نے

اور روایت کیا ہے  قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ سے .

اور روایت کیا ہے  ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. 

اور روایت کیا ہے  مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. سے

  راقم کہتا ہے قتادہ مدلس نے یہ روایت عن سے روایت کی ہے امام مسلم نے قتادہ کے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے – الذھبی کی پیش کردہ دوسری سند میں  ابْنُ لَهِيْعَةَ سخت ضعیف ہے –  شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ    کی روایت مسند الشامیین از طبرانی کی ہے لیکن یہ بھی ضعیف ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مَيْمُونٍ أَيُّوبُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ الصُّورِيُّ، ثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَذَّاءُ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سَبْعُونَ ذِرَاعًا

اس کی سند میں محمد بن حمير الحمصي ہے جو محدثین مثلا ابن ابی حاتم کے مطابق نا قابل احتجاج ہے اور الفسوی اس کو قوی نہیں کہتے ہیں اس راوی کو الذہبی نے خود ديوان الضعفاء میں ضعیف راویوں میں  شمار کیا ہے

کتاب السنہ از ابن ابی عاصم کی روایت ہے

ثنا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثنا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ثنا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي يُونُسَ سُلَيْمُ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ قَاتَلَ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ فَإِنَّ صُورَةَ وَجْهِ الإِنْسَانِ عَلَى صُورَةِ وَجْهِ الرَّحْمَنِ”.

ابو یونس ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو لڑے وہ چہرہ سے بچے کیونکہ انسان کے چہرے کی صورت الرحمن کے چہرے کی صورت ہے

یہ ہے وہ روایت جو الذہبی نے دلیل میں پیش کی ہے جس کے متن  میں نکارت ہے اور سند میں ابن لَهِيعَةَ ہے جس پر خراب حافظہ آختلاط اور ضعف کا حکم ہے

اب صرف مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. کی سند ہے جو قابل بحث ہے – امام بخاری نے اس کو اسی سند سے روایت کیا ہے  إس میں معمر بن راشد ہیں جو مدلس ہیں  لیکن محدثین کی ایک جماعت ان کی ہمام بن منبہ والی روایات قبول کرتی ہے – ہمام بن منبہ  یمن سے مدینہ پہنچے اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ١٤٠ روایات لیں ان میں اپنی باتیں بھی شامل کر دیں اور ان کا نسخہ بقول امام احمد اسی وجہ سے معدوم ہوا کہ لوگ یہ تمیز ہی نہیں کر پائے  کیا قول نبی اور کیا ان کا اپنا قول ہے – ہمام سوڈان گئے وہاں معمر بن راشد ملے اور ان کو روایت سنائیں اس کے بعد حجاز میں ابن زبیر رضی الله عنہ کی فوج نے ہمام کو  پکڑا اور یہ عباسیوں کے خروج تک زندہ تھے سن ١٣٢  هجري میں فوت ہوئے –   الذھبی کے مطابق ممکن ہے سو سال انکی زندگی ہو لیکن اس دوران انہوں نے  بہت کم لوگوں کو روایات سنائی ہیں  ان سے صرف  ان کے  بھائی وھب بن منبہ   صَاحِبُ القَصَصِ ، ان کے بھتیجے عَقِيْلُ بنُ مَعْقِلٍ  اور معمر بن راشد  اور ایک یمنی عَلِيُّ بنُ الحَسَنِ بنِ أَنَسٍ الصَّنْعَانِيُّ  روایت کرتے ہیں – الذھبی  سیر الآعلام النبلاء میں کہتے ہیں وَمَا رَأَينَا مَنْ رَوَى الصَّحِيْفَةَ عَنْ هَمَّامٍ إِلاَّ مَعْمَرٌ اور ہم نہیں دیکھتے کہ اس الصَّحِيْفَةَ کو ہمام سے کوئی روایت کرتا ہو سوائے معمر کے- امام احمد کے مطابق معمر نے یہ صحیفہ سوڈان میں سنا- معمر خود کوفی ہیں وہاں سے یمن گئے اور پھر سوڈان  – سوڈان علم  حدیث کے لئے کوئی مشھور مقام نہ تھا –   خود معمر روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہ سختی سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی کوئی ایک  روایت کو رد کرتے

كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق

ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.

البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں

ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون   جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی  شخص   ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ   محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے

البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں  کہتے ہیں

يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.

یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی  حدیث  مراد تھی جس  کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ  ٨٦٠ میں کی ہے

ہمام ایک سابقہ یہودی تھے – یہود میں الله کے لئے تجسیم کا عقیدہ ہے کیونکہ موجودہ توریت میں الله کو  ایک مرد کی صورت بیان کیا  گیا ہے جس کے آعضآ بھی ہیں –  یہودی تصوف کی ایک قدیم کتاب جو بعثت نبوی سے قبل کی ہے اس کا نام  کتاب شر قومہ ہے جس  میں الله  تعالی کے آعضآ کی پمائش بھی بیان کی گئی  ہے – موجود توریت میں ہے

Then God said,  “Let us make man in our image,  after our likeness.

پھر الله نے کہا ہم انسان کو اپنے عکس  צֶ֫לֶם  پر بنائیں گے –اپنی דְּמוּת  مشابہت  کے مطابق

Genesis 1:26

لفظ דְּמוּת کا ترجمہ مشابہت کے علاوہ  یہود کے مطابق شکل اور تناسب بھی ہو سکتا ہے

لفظ צֶלֶם کا ترجمہ عکس کے علاوہ غیر مرئی چیز  بھی کیا جاتا ہے

اس کے برعکس قرآن میں ہے

(فِیْ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَ (الانفطار:8/82
جس صورت میں چاہا اس نے تجھے بنایا۔

اسی متن کی ایک روایت ابن عمر سے بھی مروی ہے  جس کے مطابق چہرے کو برا نہ کرو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا

ابن عمر کی مرویات

العلل دارقطنی کی سند ہے

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ الزَّيَّاتُ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ [ص:36]: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ»

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الطُّوسِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ إِشْكَابَ، ثنا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ [ص:37]، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ»

ابن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرہ کو مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو الرحمن کی شکل پر پیدا کیا ہے

اس کی سند میں مدلس حبيب بن أبي ثابت ہیں جو عن سے اس کو عطاء بْن أَبي رباح  سے روایت کر رہے ہیں –  کتاب  المدلسين  از  ابن العراقی کے مطابق

ابن حبان کہتے ہیں

: كان مدلساً وروى أبو بكر بن عياش عن الأعمش قال لي حبيب بن أبي ثابت: لو أن رجلاً حدثني عنك ما باليت أن أرويه عنك.

یہ مدلس تھے  – الأعمش کہتے ہیں حبيب بن أبي ثابت نے مجھ سے کہا اگر کوئی آدمی تم سے میری  روایت بیان  کرے تو میں اس سے بے پرواہ ہوں جو وہ روایت کرے

عطاء بْن أَبي رباح کی سند سے اس روایت کو بیان کرنے میں حبيب بن أبي ثابت منفرد ہیں چونکہ یہ مدلس ہیں اور عن سے روایت ہے لہذا یہ مظبوط نہیں

ابن خزیمہ کتاب التوحید میں اس روایت پر تبصرہ کرتے ہیں اور  ابن عمر کی روایت کو رد کرتے ہیں

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: تَوَهَّمَ بَعْضُ مَنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ أَنَّ قَوْلَهُ: «عَلَى صُورَتِهِ» يُرِيدُ صُورَةَ الرَّحْمَنِ عَزَّ رَبُّنَا وَجَلَّ عَنْ أَنْ يَكُونَ هَذَا مَعْنَى الْخَبَرِ، بَلْ مَعْنَى قَوْلِهِ: «خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، الْهَاءُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ كِنَايَةٌ عَنِ اسْمِ الْمَضْرُوبِ، وَالْمَشْتُومِ، أَرَادَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ هَذَا الْمَضْرُوبِ، الَّذِي أَمَرَ الضَّارِبَ بِاجْتِنَابِ وَجْهِهِ بِالضَّرْبِ، وَالَّذِي قَبَّحَ وَجْهَهَ، فَزَجَرَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ: «وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ» ، لِأَنَّ وَجْهَ آدَمَ شَبِيهُ وُجُوهِ بَنِيهِ، فَإِذَا قَالَ الشَّاتِمُ لِبَعْضِ بَنِي آدَمَ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ، كَانَ مُقَبِّحًا وَجْهَ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ [ص:85] عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ، الَّذِي وُجُوهُ بَنِيهِ شَبِيهَةٌ بِوَجْهِ أَبِيهِمْ، فَتَفَهَّمُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ مَعْنَى الْخَبَرِ، لَا تَغْلَطُوا وَلَا تَغَالَطُوا فَتَضِلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَتَحْمِلُوا عَلَى الْقَوْلِ بِالتَّشْبِيهِ الَّذِي هُوَ ضَلَالٌ

بعض لوگ جن کو علم نہیں پہنچا ان کو اس میں وہم ہوا کہ قول اسکی صورت پر سے انہوں نے صورت رحمان مراد لی گویا کہ یہ کوئی خبر ہو بلکہ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اس کا معنی ہے  کہ اس میں ھآ یہاں کنایہ کے طور پر ہے جس کو مارا جا رہا ہے اس کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم  کا مقصد ہے کہ الله نے آدم کو خلق کیا اسی مارنے والے کی صورت پہ جس نے مارنے کا حکم دیا چہرہ پر اور چہرہ کو برآ کیا پس اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ڈانٹا کہ کہہ کر اس کا چہرہ بھی تمہارے چہرہ جیسا ہے ….. پس ان لوگوں کو وہم ہوا کہ الله نے خبر دی پس دین میں غلو نہ کرو نہ کراو ورنہ گمراہ ہو گے سیدھی راہ سے اور اس پر التَّشْبِيهِ  کاقول مت لو یہ گمراہی ہے

ابن خزیمہ  سفیان ثوری  کے طرق عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ،  پر کہتے ہیں

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَقَدِ افْتُتِنَ بِهَذِهِ اللَّفْظَةِ الَّتِي فِي خَبَرِ عَطَاءٍ عَالِمٌ مِمَّنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ، وَتَوَهَّمُوا أَنَّ إِضَافَةَ الصُّورَةِ إِلَى الرَّحْمَنِ فِي هَذَا الْخَبَرِ مِنْ إِضَافَةِ صِفَاتِ الذَّاتِ، فَغَلَطُوا فِي هَذَا غَلَطًا بَيِّنًا، وَقَالُوا مَقَالَةً شَنِيعَةً مُضَاهِيَةً لِقَوْلِ الْمُشَبِّهَةِ، أَعَاذَنَا اللَّهُ وَكُلُّ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَوْلِهِمْ وَالَّذِي عِنْدِي فِي تَأْوِيلِ هَذَا الْخَبَرِ إِنْ صَحَّ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ مَوْصُولًا: فَإِنَّ فِي الْخَبَرِ عِلَلًا ثَلَاثًا , إِحْدَاهُنَّ: أَنَّ الثَّوْرِيَّ قَدْ خَالَفَ الْأَعْمَشَ فِي إِسْنَادِهِ، فَأَرْسَلَ الثَّوْرِيُّ وَلَمْ يَقُلْ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَالثَّانِيَةُ: أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، لَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ وَالثَّالِثَةُ: أَنَّ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ: أَيْضًا مُدَلِّسٌ، لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ عَطَاءٍ

اور اس لفظ صورت الرحمن سے فتنہ ہوا وہ خبر جو عطا بن ابی رباح سے ملی ایک عالم تھے جنہوں نے علم میں جانچ پڑتال نہیں کی اور اس اضافت صورت الرحمن سے وہم ہوا یہ اضافہ ذات باری کی صفات پر ہے پس انہوں نے غلطی کھائی جس کو ہم نے واضح کیا اور قول برا قول ہے الْمُشَبِّهَةِ کی گمراہی جیسا الله اس سے بچائے  تمام مسلمانوں کو اس قول سے اور ہمارے نزدیک اس کی تاویل ہے کہ یہ خبر اگر نقلی لحاظ سے درست ہو تو یہ موصول ہے کیونکہ اس خبر میں تین علتیں ہیں ایک ثوری نے کی مخالفت کی ثوری نے ارسال کیا اور یہ نہیں کہا عن ابن عمر اور دوسری الْأَعْمَشَ مدلس ہے اور اس نے ذکر نہیں کیا کہ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ سے  اس کا سماع  ہے اور تیسری حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ  بھی مدلس ہے اس کا سماع عطا بن ابی رباح سے ہے بھی پتا نہیں

صورت رحمان پر تخلیق کہنا  توریت کی اس آیت کی تائید ہے – ابن عباس رضی الله عنہ اور امام مالک نے اس کا متن سنتے ہی اس کو رد کر دیا – اس کے بعد سن ٢٠٠ ہجری میں اس روایت کا پھر سے دور دورہ ہوا اور جھمیہ کی مخالفت میں اس کو محدثین صحیح کہنے لگے کیونکہ اس میں الله کے چہرے کا ذکر تھا اور جھمیہ  اللہ کو   انرجی نما کوئی چیز سمجھتے تھے جو تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے –  چونکہ قرآن میں بھی وجھہ الله  کے الفاظ ہے   محدثین اس روایت کو جھمیہ کی مخالفت میں پیش کرنے لگے

کتاب  الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کے مطابق ابن خزیمہ کی بات کا امام احمد رد کرتے تھے

وَحَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيُّ , حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ حَنْبَلٍ: يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ , حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَخِيرِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا , أَلَيْسَ تَقُولُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ؟ وَيَرَاهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَعْنِي رَبَّهُمْ عَزَّ وَجَلَّ؟ وَلَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى وَضَعَ فِيهَا قَدَمَهُ , وَإِنَّ مُوسَى لَطَمَ مَلَكَ الْمَوْتِ قَالَ [ص:1128] أَحْمَدُ: «كُلُّ هَذَا صَحِيحٌ» , قَالَ إِسْحَاقُ: «هَذَا صَحِيحٌ , وَلَا يَدْفَعُهُ إِلَّا مُبْتَدِعٌ أَوْ ضَعِيفُ الرَّأْيِ»

إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ کہتے ہیں میں نے امام احمد سے کہا کیا الله تعالی ہر رات آسمان دنیا پر  نزول کرتے ہیں جب رات کا آخری تین تہائی رہ جائے کیا بولتے ہیں آپ ان احادیث پر ؟ اور اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ اور چہرہ مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا  اور جہنم کی اگ نے اپنے رب سے شکایت کی یہاں تک کہ الله نے اس پر قدم رکھا – اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی؟ احمد نے کہا : یہ سب صحیح ہیں اور اسحاق نے کہا یہ سب صحیح ہیں اور ان کو رد  نہیں کرتا لیکن بدعتی اور کمزور رائے والا

وہابی محقق  محمد حسن عبد الغفار کتاب  شرح كتاب التوحيد لابن خزيمة  میں ابن خزیمہ کے قول کو ضعیف کہتے ہیں اور تبصرہ کرتے ہیں

 وهل ابن خزيمة في مسألة الصورة يثبت لله صفة الصورة أم لا؟! نقول: هناك تأويلان: أولاً: الهاء في الحديث عائدة على المضروب، وليست عائدة على الله، فأخبره أن هذا المضروب خلق على صورة أبيه آدم عليه السلام، وهذا التأويل فيه ضعف؛ والحديث في الرواية الأخرى جاء بنص: (خلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعاً)، إذاً: الهاء عائدة على آدم عليه السلام، فطوله ستون ذراعاً وسبعة أذرع عرضاً، وجاء بإسناد صحيح عند الطبراني وغيره: (أن الله خلق آدم على صورة الرحمن) فإذا قلنا: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن فكيف نفهم هذا المعنى؟ نقول: أولاً: لله صورة، وهي صفة من صفات الله، وهل الصورة تشبه صورة الإنسان؟ حاشا لله! فمعنى: (خلق آدم على صورة الرحمن) أن آدم متكلم كما أن الله متكلم، وأن آدم سميع كما أن الله سميع، وإن آدم بصير كما أن الله بصير….وابن خزيمة يقول: الصورة إضافتها إضافة مخلوق إلى خالقه.
ونحن نخالفه في هذا

اور کیا ابن خزیمہ نے مسئلہ صورت میں الله کی طرف صفت صورت کا اثبات کیا یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں اس میں دو تاویلات ہیں ایک یہ کہ یہ مارنے والے کی طرف ھآ کی ضمیر ہے … اور یہ تاویل ضعیف ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ الله نے آدم کو ٦٠ ہاتھ  لمبا اور ٧ ہاتھ چوڑا خلق کیا … تو اس کا کیا مطلب ہے ؟ ہم کہتے ہیں اول الله کی صورت ہے اور یہ اس کی صفت ہے اور کیا یہ صورت انسان سے ملتی ہے ؟ حاشا للہ ! پس اس کا معنی ہے خلق آدم علی صورت الرحمن کا کہ آدم اسی طرح بولتا ہے جس طرح الله بولتا ہے اور سنتا ہے جس طرح الله سنتا ہے اور دیکھتا ہے جس طرح الله دیکھتا ہے .. … اور ابن خزیمہ نے کہا کہ صورة  کی اضافت مخلوق کی  خالق کی طرف ہے اور ہم اس قول کے انکاری ہیں

روایت سندا صحیح نہیں ہے  یہ کہنے کی بجائے اس کو صحیح بھی کہہ رہے ہیں اور خالق کو مخلوق سے بھی ملا رہے ہیں

چوتھی صدی ہجری میں ابن حبان  نے  اس کو صحیح قرار دیا جو ابن خزیمہ کے ہم عصر تھے لیکن صحیح ابن حبان میں اس پر تبصرہ میں کہا

، وَالْهَاءُ رَاجِعَةٌ إِلَى آدَمَ، وَالْفَائِدَةُ مِنْ رُجُوعِ الْهَاءِ إِلَى آدَمَ دُونَ إِضَافَتِهَا إِلَى الْبَارِئِ جَلَّ وَعَلَا – جَلَّ رَبُّنَا وَتَعَالَى عَنْ أَنْ يُشَبَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ – أَنَّهُ جَلَّ وَعَلَا جَعَلَ سَبَبَ الْخَلْقِ الَّذِي هُوَ الْمُتَحَرِّكُ النَّامِي بِذَاتِهِ اجْتِمَاعَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، ثُمَّ زَوَالَ الْمَاءِ عَنْ قَرَارِ الذَّكَرِ إِلَى رَحِمِ الْأُنْثَى، ثُمَّ تَغَيُّرَ ذَلِكَ إِلَى

اور اس میں الْهَاءُ راجع ہے آدم کی طرف اور اس میں فائدہ ہے کہ یہ وَالْهَاءُ آدم کی طرف ہو نہ کہ الله کی طرف جو بلند و بالا ہے کہ اس سے کسی چیز کو تشہیہ دی جائے اس کی مخلوق میں سے وہ بلند ہے اس نے خلق کیا ہے وہ سونے والے کو متحرک کرتا مرد و عورت کو ملاتا پھر اس کا پانی ٹہراتا  ہے پھر اس کو بدلتا ہے

یعنی ابن خزیمہ نے ابن عمر کی روایت کو ضعیف کہا لیکن ابن حبان نے صحیح کر دیا لیکن دونوں الھا کی ضمیر کو مارنے والے کی طرف لے جاتے ہیں اس کے برعکس حنبلی علماء اس کو الله کی طرف لے جاتے ہیں

کتاب  تأويل مختلف الحديث میں  أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ)  نے اس روایت پر لکھا

قَدِ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِي تَأْوِيلِ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّهُ خَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى صُورَتِهِ “.
فَقَالَ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ الْكَلَامِ: أَرَادَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، لَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، وَلَوْ كَانَ الْمُرَادُ هَذَا، مَا كَانَ فِي الْكَلَامِ فَائِدَةٌ.

وَمَنْ يَشُكُّ فِي أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَى صُورَتِهِ، وَالسِّبَاعَ عَلَى صُوَرِهَا، وَالْأَنْعَامَ عَلَى صُوَرِهَا

وَقَالَ قَوْمٌ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةٍ عِنْدَهُ.

وَهَذَا لَا يَجُوزُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَخْلُقُ شَيْئًا مِنْ خَلْقِهِ عَلَى مِثَالٍ.

وَقَالَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: “لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صورته

يُرِيد أَنَّ اللَّهَ -جَلَّ وَعَزَّ- خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الْوَجْهِ.

وَهَذَا أَيْضًا بِمَنْزِلَةِ التَّأْوِيلِ الْأَوَّلِ، لَا فَائِدَةَ فِيهِ.

وَالنَّاسُ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقَ آدَمَ، عَلَى خَلْقِ وَلَدِهِ، وَوَجْهَهُ عَلَى وُجُوهِهِمْ.

وَزَادَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: إِنَّهُ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- مَرَّ بِرَجُلٍ يَضْرِبُ وَجْهَ رَجُلٍ آخَرَ، فَقَالَ: “لَا تَضْرِبْهُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، خَلَقَ آدَمَ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- عَلَى صُورَتِهِ”، أَيْ صُورَةِ الْمَضْرُوبِ.

وَفِي هَذَا الْقَوْلِ مِنَ الْخَلَلِ، مَا فِي الْأَوَّلِ.

وَلَمَّا وَقَعَتْ هَذِهِ التَّأْوِيلَاتُ الْمُسْتَكْرَهَةُ، وَكَثُرَ التَّنَازُعُ فِيهَا، حَمَلَ قَوْمًا اللَّجَاجُ عَلَى أَنْ زَادُوا فِي الْحَدِيثِ، فَقَالُوا: رَوَى بن عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا1: “إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.

يُرِيدُونَ أَنْ تَكُونَ الْهَاءُ2 فِي “صُورَتِهِ” لِلَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، وَإِنَّ ذَلِكَ يَتَبَيَّنُ بِأَنْ يَجْعَلُوا الرَّحْمَنَ مَكَانَ الْهَاءِ كَمَا تَقُولُ: “إِنَّ الرَّحْمَنَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”، فَرَكِبُوا قَبِيحًا مِنَ الْخَطَأِ.

وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ نَقُولَ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ السَّمَاءَ بِمَشِيئَةِ الرَّحْمَنِ” وَلَا على إِرَادَة الرَّحْمَن

بلا شنہ لوگوں کا اس روایت کی  تاویل میں اضطراب ہوا جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس ایک اصحاب الکلام کی قوم  نے کہا اس میں مقصد ہے کہ آدم کو آدم کی صورت ہی پیدا کیا گیا اس سے زیادہ نہیں اور اگر اس سے یہ مراد ہے تو ایسے کلام کا فائدہ کیا ہے ؟ اور جس کو شک ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر کیا تو پھر گدھ کی اور چوپایوں کی صورتیں کس پر ہیں ؟ ایک دوسری قوم نے کہا الله نے آدم کو  اس صورت پر پیدا کیا جو اس کے پاس ہے تو یہ ایسا کلام جائز نہیں ہے کیونکہ الله عزوجل نے کسی کو بھی خلق میں سے اپنے مثل نہیں بنایا –   اور ایک قوم نے حدیث پر کہا چہرہ مت بگاڑو  کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا مراد ہے الله نے اپنی ہی چہرہ پر  بنایا –  تو یہ بھی ویسی ہی تاویل ہے جیسی پہلی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے – اور لوگ جانتے ہیں کہ الله تبارک و تعالی نے آدم کو خلق کیا ان کی اولاد کے مطابق اور انکا چہرہ انکی اولاد کا ہے اور ایک قوم نے حدیث میں اضافہ کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ایک شخص پر سے گزر ہوا جو دوسرے کے چہرہ پر مار رہا تھا آپ نے فرمایا اس کے چہرہ پر مت مارو کیونکہ الله نے آدم کو اس کی صورت پیدا کیا یعنی مارنے والے کی ہی صورت پر اور اس قول میں خلل ہے جو پہلے میں نہیں ہے – تو جب اس قسم کی تاویلات منکرات واقع ہوئیں اور جھگڑا بڑھا تو ایک قوم نے بےہودگی اٹھائی اور اس حدیث میں الفاظ کا اضافہ کر دیا اور کہا کہ ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے الله تعالی نے آدم کو صورت  رحمان پر خلق کیا – ان کا مقصد تھا کہ الھا کی ضمیر کو صورتہ کی طرف لے جائیں یعنی الله تعالی کے لئے اور اس میں واضح ہے کہ انہوں الرحمن کا لفظ کر دیا جہاں الھا تھا جیسا کہ کہا بے شک الرحمن نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا پس وہ ایک قبیح غلطی پر چلے اور ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ میں کہیں بے شک الله نے آسمان کو مشیت الرحمن کے مطابق خلق کیا نہ ہی رحمان کا ارادہ کہیں – 

ابن قتیبہ نے جو تیسری صدی کے محدث ہیں اور امام احمد کے ہم عصر ہیں ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں ہے اس کا متن منکر ہے

ان کے مقابلے پر امام احمد  اور اسحاق بن راہویہ تھے جو اس کو صحیح کہتے

کتاب : مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه  از  إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) کے مطابق امام احمد اس میں الھا کی ضمیر کو الله کی طرف لے جانا قبول کیا

أليس تقول بهذه الأحاديث. و “يرى أهل الجنة ربهم عز وجل” “ولا تقبحوا الوجه فإن الله عز وجل خلق آدم على صورته” يعني صورة رب العالمين، و “اشتكت النار إلى ربها عز وجل حتى يضع الله فيها قدمه” و “إن موسى عليه السلام لطم ملك الموت عليه السلام”؟
قال الإمام أحمد: كل هذا صحيح.
قال إسحاق: كل هذا صحيح، ولا يدعه1 إلا مبتدع أو ضعيف الرأي

کیا کہتے ہیں اس حدیث پر کہ اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے اور حدیث چہرہ مت بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یعنی رب العالمین کی صورت پر اور اگ نے اپنے رب سے شکایت کی حتی کہ اس نے اس پر قدم رکھا اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی ؟ امام احمد نے کہا یہ تمام صحیح ہیں اور امام اسحاق نے کہا یہ تمام صحیح ہیں  اور ان کا انکار  کوئی نہیں کرتا سوائے بدعتی اور کمزور رائے والا

البيان والتحصيل والشرح والتوجيه والتعليل لمسائل المستخرجة  از  أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ)

والحديث في قوله: «إن الله خلق آدم على صورته» يروى على وجهين؛ أحدهما: «إن الله خلق آدم على صورته» . والثاني: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن، فأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورته» فلا خلاف بين أهل النقل في صحتها؛ لاشتهار نقلها، وانتشاره من غير منكر لها، ولا طاعن فيها، وأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورة الرحمن» فمن مصحح لها، ومن طاعن عليها، وأكثر أهل النقل على إنكار ذلك، وعلى أنه غلط وقع من طريق التأويل لبعض النقلة توهم أن الهاء ترجع إلى الله عز وجل، فنقل الحديث على ما توهم من معناه، فيحتمل أن يكون مالك أشار في هذه الرواية بقوله وضعفه إلى هذه الرواية، ويحتمل أن يكون إنما ضعف بعض ما تؤول عليه الحديث من التأويلات، وهي كثيرة.

اور حدیث جس میں قول ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یہ دو طرح  سے روایت ہوئی  ہے ایک میں ہے الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دوسری میں آدم کو الرحمن کی صورت خلق کیا – جہاں تک تعلق ہے کہ اپنی صورت پر خلق کیا تو اس کی صحت پر  اہل نقل کا اختلاف نہیں ہے  لیکن جو دوسری ہے کہ آدم کو رحمن کی صورت خلق کیا تو اس کو صحیح کہنے والے ہیں اور اس پر طعن کرنے والے ہیں اور اکثر اہل نقل اس کا انکار کرتے ہیں اور بعض اہل تاویل کہتے ہیں کہ اس میں  ھ کی ضمیر غلطی سے الله کی طرف ہے  تو حدیث نقل کرنے والوں کو وہم ہوا اس کے معنی پر اور احتمال ہے کہ امام مالک نے اسی کی طرف اشارہ کیا اس کو ضعیف کہہ کر اور احتمال ہے کہ انہوں نے اس کی تاویلات کی وجہ سے ضعیف کہا اور یہ بہت ہیں

کتاب  المنتخب من علل الخلال میں  ابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) کہتے ہیں

أخبرني حرب، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ يَقُولُ: قَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) أَنَّهُ قَالَ: “إِنَّ آدَمَ خُلِقَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ: ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عن عطاء، عن ابن أبي عُمَرَ، عَنْ رَسُولَ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) قَالَ: “لا تُقبِحوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.قَالَ إِسْحَاقُ: وَإِنَّمَا عَلَيْهِ أَنْ يَنْطِقَ بِمَا صحَّ عَنْ رسول الله أَنَّهُ نَطَقَ بِهِ.وَأَخْبَرَنَا الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: كَيْفَ تَقُولُ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ): “خُلِقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”؟

قَالَ: الأَعْمَشُ يَقُولُ: عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: “أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرحمن”. فأما الثوري فأوفقه -يَعْنِي: حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ.وَأَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى الله عليه وسلم) “على صورته فنقول كَمَا فِي الْحَدِيثِ.

حرب نے خبر دی انہوں نے إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ سے سنا کہ بلاشبہ صحیح ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور ہم سے اسحاق نے روایت کیا  ان سے جریر نے بیان کیا ان سے حبیب بن ابی ثابت نے ان سے عطا نے ان سے ابن عمر نے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرے کو مٹ بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو   صورت رحمان  پر خلق کیا – اسحاق نے کہا  ہم پر ہے کہ ہم وہی بولیں جو رسول الله نے بولا ہو – اور المروزی نے خبر دی کہ انہوں امام احمد سے پوچھا کیا کہتے ہیں آپ اس حدیث پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ انہوں نے کہا : الأَعْمَشُ کہتے ہے حبیب بن ابی ثابت نے روایت کیا  اس نے عطا سے اس نے ابن عمر سے … پس ہم وہی کہتے ہیں جو حدیث میں ہے

أبي بطين  فتوی میں کہتے ہیں

رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين (مطبوع ضمن مجموعة الرسائل والمسائل النجدية، الجزء الثاني

وقال في رواية أبي طالب: من قال: إن الله خلق آدم على صورة آدم، فهو جهمي، وأي صورة كانت لآدم قبل أن يخلقه؟ وعن عبد الله بن الإمام أحمد قال: قال رجل لأبي: إن فلانا يقول في حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إن الله خلق آدم على صورته” 1 فقال: على صورة الرجل، فقال أبي: كذب، هذا قول الجهمية، وأي فائدة في هذا؟  وقال أحمد في رواية أخرى: فأين الذي يروي: “إن الله خلق آدم على صورة الرحمن”؟ وقيل لأحمد عن رجل: إنه يقول: على صورة الطين، فقال: هذا جهمي، وهذا كلام الجهمية، واللفظ الذي فيه على صورة الرحمن رواه الدارقطني، والطبراني، وغيرهما بإسناد رجاله ثقات.

اور ابی طالب کی روایت میں ہے کہ امام احمد نے کہا کہ جو یہ کہے کہ  الله نے آدم کو آدم کی صورت پر پیدا کیا تو وہ جھمی ہے اور آدم تخلیق سے پہلے کس صورت پر تھے؟ اور عبد الله کی روایت میں ہے کہ امام احمد سے ایک آدمی نے کہا کہ فلاں کہتا ہے حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا تو  کہا آدمی کی صورت اس پر امام احمد نے کہا جھوٹ یہ جھمیہ کا قول ہے اور اس کا فائدہ ؟ اور ایک دوسری روایت کے مطابق تو وہ کہاں ہے جس میں ہے کہ بے شک الله نے آدم کو الرحمن کی صورت پیدا کیا؟ اور امام احمد سے  کہا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے ان کو مٹی کی صورت پیدا کیا احمد نے کہا یہ جھمی ہے اور یہ باتیں جہمیہ کی ہیں اور الفاظ ہیں رحمان کی صورت پیدا کیا اس کو دارقطنی طبرانی  اور دوسروں نے ان اسناد سے روایت کیا ہے جن میں ثقہ ہیں

امام احمد صریحا اس کے انکاری تھے کہ الھا کی ضمیر کو انسانوں یا مٹی کی طرف لے جایا جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کو جھمی کہتے –  امام احمد کا فتوی امام ابن خزیمہ اور ابن حبان پر لگا کہ یہ دونوں جھمی ہوئے ان کے نزدیک جو الھا کی ضمیر کو انسان کی طرف لے جاتے – واضح رہے کہ جھمیہ کا موقف غلط تھا وہ الله کے سماع و کلام کے انکاری تھے لیکن بعض علماء نے  جھمیہ کی مخالفت میں   روایات کی بنیاد  صورت کو بھی الله کی صفت مناتے ہوئے  ایک طرح یہ بھی مان لیا کہ آدم اور اس کے رب کی صورت ایک جیسی ہے

امام احمد کو اس مسئلہ سے بچانے کے لئے الذھبی نے میزان الآعتدال میں  حمدان بن الهيثم کے ترجمہ میں لکھا

حمدان بن الهيثم. عن أبي مسعود أحمد بن الفرات.  وعنه أبو الشيخ ووثقه.  لكنه أتى بشيء منكر عن أحمد عن أحمد بن حنبل في معنى قوله عليه السلام إن الله خلق آدم على صورته.  زعم أنه قال صور الله صورة آدم قبل خلقه ثم خلقه على تلك الصورة فأما أن يكون خلق الله آدم على صورته فلا فقد قال تعالى {ليس كمثله شيء

حمدان بن الهيثم ، ابی مسعود احمد بن الفرات سے اور ان سے ابو شیخ اور یہ ثقہ ہیں لیکن ایک منکر چیز امام احمد بن حنبل کے لئے لائے  اس  قول النبی پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دعوی کیا کہ وہ کہتے تھے کہ تخلیق سے پہلے الله  نے  آدم کی صورت گری کی تو وہ الله کی  صورت تھی جس پر وہ بنے  – (الذہبی تبصرہ کرتے ہیں) تو اگر یہی  صورت تھی تو یہ نہیں تھی کیونکہ الله نے کہا اس کے مثل کوئی نہیں

لیکن المروزی نے جن مسائل میں امام احمد سے اس روایت کے متعلق پوچھا تھا اس میں صریح الفاظ میں صورة رب العالمين لکھا ہے  دوم ابابطین کے مطابق یہ قول امام احمد کے بیٹے سے بھی منسوب ہے لہذا اس میں حمدان بن الهيثم  کا تفرد نہیں ہے

حنبلی علماء میں حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: 1413هـ)  نے اپنی کتاب عقیدہ  أهل الإيمان في خلق آدم على صورة الرحمن  میں لکھا کہ امام احمد سے یہ قول ثابت ہے کہ الھا کی ضمیر الله کی طرف ہے اور جو اس کے خلاف کہے وہ جھمی ہے

والقول بأن الضمير يعود على آدم وأن الله تعالى خلق آدم على صورته، أي على صورة آدم مروي عن أبي ثور إبراهيم بن خالد الكلبي. وبه يقول بعض أكابر العلماء بعد القرون الثلاثة المفضلة، وهو معدود من زلاتهم،

اور یہ قول کہ ضمیر جاتی ہے آدم کی طرف اور بے شک الله تعالی نے ان کو انکی صورت پر بنایا یعنی آدم کی صورت پر جو مروی ہے ابو ثور ابراہیم بن خالد اور الکلبی سے اور اسی طرح بعض اکابر علماء نے کہا ہے قرن تین کے بعد اور وہ چند ہیں اپنی  غلطیوں کے ساتھ

اس کتاب میں تعلیق میں  حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري دعوی کرتے ہیں

وأنه لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله.

اور بے شک سلف کے درمیان تین قرون میں اس پر کوئی نزاع نہ تھا کہ  (صورته ميں الهاء) ضمیر الله کی طرف جاتی ہے 

حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري نے ابن حبان، ابن خزیمہ، امام مالک، امام ابن قتیبہ ، سب کو ایک  غلط قرار دے کر خود جمہور میں  امام احمد کو قرار دیا یہاں تک کہ ابن حجر اور الذھبی کی رائے کو بھی غلط قرار دے دیا

ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں لکھتے ہیں

لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله فإنه مستفيض من طرق متعددة عن عدد من الصحابة وسياق الأحاديث كلها يدل  على ذلك وهو أيضاً مذكور فيما عند أهل الكتابين من الكتب كالتوراة وغيرها

قرون ثلاثہ میں سلف میں  کوئی نزاع نہ تھا کہ یہ ضمیر الله کی طرف جاتی ہے کیونکہ  اس پر بہت سے طرق سے اصحاب رسول سے روایات ہیں اور ان سب احادیث کا سیاق دلالت کرتا ہے اسی پر اور یہ اہل کتاب کی کتب میں بھی مذکور ہے جیسے توریت اور دیگر

وہابی   عالم  محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421 هـ) کتاب   شرح العقيدة الواسطية میں لکھتے ہیں

أن الإضافة هنا من باب إضافة المخلوق إلى خالقه، فقوله: “على صورته”، مثل قوله عزوجل في آدم: {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72]، ولا يمكن أن الله عز وجل أعطى آدم جزءاً من روحه، بل المراد الروح التي خلقها الله عز وجل، لكن إضافتها إلى الله بخصوصها من باب التشريف، كما نقول: عباد الله، يشمل الكافر والمسلم والمؤمن والشهيد والصديق والنبي لكننا لو قلنا: محمد عبد الله، هذه إضافة خاصة ليست كالعبودية السابقة

یہاں پر (الھا) کی اضافت، مخلوق کی خالق کی طرف اضافت ہے قول ہے علی صورته الله تعالی کے قول {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72] کی مثل ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ الله تعالی نے آدم کو اپنی روح کا جز دیا ہو بلکہ مراد ہے وہ روح جو اللہ نے تخلیق کی لیکن اس کی اضافت الله کی طرف کی ہے اس کی خصوصیت کی بنا پر شرف کی وجہ سے جیسے ہم کہیں الله کے بندے جن میں کافر اور مسلم اور مومن اور شہید اور صدیق اور نبی سب ہیں لیکن اگر ہم کہیں محمد الله کے بندے تو یہ اضافت خاص ہے ویسی نہیں جیسے دوسرے بندوں کے لئے تھی

یعنی  وہابیوں میں اس اضافت پر اختلاف ہوا جس میں متاخرین نے امام احمد کے قول کی اتباع کی اور اضافت کو بقول ابن العثيمين ، المماثلة کی طرح الله کی طرف کر دیا

محدثین کے اس اختلاف میں  الجهمية ، المعتزلة ،  الأشاعرة اور الماتريدية نے صورت کی بطور صفت الہی  نفی کی اور

دوسرے گروہ نے اس کا اثبات کیا (جن میں امام احمد، ابن تیمیہ وغیرہ ہیں) لیکن بعد میں ان میں بھی اختلاف ہوا جیسے حنابلہ میں

کتاب أبكار الأفكار في أصول الدين از سيف الدين الآمدي (المتوفى: 631هـ) کے مطابق

وقد روى عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال:  إنّ اللّه خلق آدم على صورته

فذهبت المشبهة: إلى أن هاء الضمير في الصورة عائدة إلى الله- تعالى-، وأن الله  تعالى- مصور بصورة مثل صورة آدم؛ وهو محال

اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا بے شک الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس المشبهة اس طرف گئے ہیں کہ صورته میں هاء کی ضمیر الله کی طرف جاتی ہے اور الله تعالی ، آدم کی شکل والا کوئی  صورت گر ہے اور يه محال ہے

الآمدي کے مطابق وہ تمام لوگ ( بشمول محدثین) جو الھا کی ضمیر الله کی طرف لے کر گئے ہیں المشبهة ہیں

اہل تشیع میں بھی یہ روایت مقبول رہی جہاں ابا جعفر اس کو بیان کرتے ہیں

 الكافي – الشيخ الكليني – ج 1 – ص  134کی روایت ہے

عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد بن خالد ، عن أبيه ، عن عبد الله بن بحر ، عن أبي أيوب الخزاز ، عن محمد بن مسلم قال : سألت أبا جعفر عليه السلام عما يروون أن الله خلق آدم على صورته ، فقال هي : صورة ، محدثة ، مخلوقة واصطفاها الله واختارها على سائر الصور المختلفة ، فأضافها إلى نفسه ، كما أضاف الكعبة إلى نفسه ، والروح إلى نفسه ، فقال : ” بيتي ” ، ” ونفخت فيه من روحي

محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ابا جعفر علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا وہ  یہ دیکھتے ہیں کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پیدا کیا تو انہوں نے کہآ یہ صورت ایک نئی تھی مخلوق تھی اور الله نے اس کو دیگر تمام مختلف صورتوں میں سے چنا اور لیا پھر اس کی اضافت اپنی طرف کی جیسے کعبه الله کی اضافت اپنی طرف کی اور روح اضافت اپنی طرف کی جیسے کہا بیتی میرا گھر یا ونفخت فيه من روحي میں اس میں اپنی روح پھونک دوں گا

یہ تشریح مناسب ہے اور اس حدیث سے تجسیم کا عقیدہ نہ نکلے اس کی یہ تاویل  ہی صحیح ہے

لیکن اہل سنت میں بعض لوگوں نے  الله کو ایک مرد کی صورت دے دی   اور الله تعالی کا چہرہ  ، مرد کا چہرہ بنا دیا گیا  کتاب اسماء و الصفات از البیہقی کی روایت ہے

 أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي سُوَيْدٍ الذِّرَاعُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح. وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظَ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ثنا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي جَعْدًا أَمْرَدَ [ص:364] عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . قَالَ: وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، ثنا ابْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَوْصِلِيُّ وَابْنُ شَهْرَيَارَ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى، ثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ. فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ جَعْدٍ» . قَالَ: وَزَادَ عَلِيُّ بْنُ شَهْرَيَارَ: «عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . وَرَوَاهُ النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ.

حماد بن سلمہ،  قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا – ….ایک مرد کی صورت دیکھا اس پر سبز لباس تھا

 البیہقی، صحیح مسلم کے راوی حماد بن سلمہ پر برستے ہیں اور لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ، نا ابْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، قَالَ: «كَانَ حَمَّادُ بْنُ [ص:366] سَلَمَةَ لَا يُعْرَفُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ حَتَّى خَرَجَ خَرْجَةً إِلَى عَبَادَانَ، فَجَاءَ وَهُوَ يَرْوِيهَا، فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا شَيْطَانًا خَرَجَ إِلَيْهِ فِي الْبَحْرِ فَأَلْقَاهَا إِلَيْهِ» . قَالَ أَبُو عَبْدِالله الثَّلْجِيُّ: فَسَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ صُهَيْبٍ يَقُولُ: إِنَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ كَانَ لَا يَحْفَظُ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّهَا دُسَّتْ فِي كُتُبِهِ،

عبد الرحمان  بن مہدی کہتے ہیں کہ ان قسم کی احادیث سے حماد بن سلمہ نہیں پہچانا جاتا تھا حتی کہ عَبَادَانَ پہنچا پس وہ وہاں آیا اور ان کو روایت کیا  پس میں (عبد الرحمان بن مہدی) سمجھتا ہوں اس پر شیطان آیا جو سمندر میں سے نکلا اور اس نے حماد پر یہ القاء کیا.  ابو بکر الثلجی کہتے ہیں میں نے عباد بن صہیب کو سنا کہا بے شک حماد بن سلمہ حافظ نہیں ہے اور محدثین کہتے ہیں اس نے اپنی کتابیں دفن کیں

حماد بن سلمہ کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ اس اوپر والے قول کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ  ہے جس پر جھوٹ کا الزام ہے   میزان الاعتدل میں الذہبی ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قال ابن عدي: كان يضع الحديث في التشبيه ينسبها إلى أصحاب الحديث يسابهم   ذلك.

قلت: جاء من غير وجه أنه كان ينال من أحمد وأصحابه، ويقول: إيش قام به أحمد! قال المروزي: أتيته ولمته

ابن عدي کہتے ہیں تشبیہ کے لئے حدیث گھڑتا تھا جن کو اصحاب حدیث کی طرف نسبت دیتا ان کو بے عزت کرنے کے لئے

الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں ایک سے زائد رخ سے پتا ہے کہ یہ امام احمد اور ان کے اصحاب کی طرف مائل تھے اور کہتے کہ احمد کہاں رکے ہیں المروزی نے کہا یہ اتے اور ملتے

یہاں تو مسئلہ ہی الٹا ہے حماد بن سلمہ،  نعوذ باللہ ،  الله کو مرد کی شکل کا کہہ رہے ہیں جو تشبیہ و تجسیم کا عقیدہ  ہے  اس  روایت کو البانی صحیح کہہ رہے  ہیں

مالکیہ کے بر خلاف حنابلہ نے یہ عقیدہ اختیار کیا  کہ الله تعالی  کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے دیکھا – اس میں ان کے نزدیک  ایک مضبوط روایت یہ ہی تھی  جس کی سند کو انہوں نے صحیح کہنا شروع کیا

کتاب طبقات الحنابلة ج ١ ص ٢٤٢  از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک یہ اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں اور یہ عقیدہ ایمان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا

والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما روى عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الأحاديث الصحاح وأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قد رأى ربه فإنه مأثور عَنْ رَسُولِ  الله  صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صحيح قد رواه قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ والحديث عندنا عَلَى ظاهره كما جاء عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – والكلام فيه بدعة ولكن نؤمن به كما جاء عَلَى ظاهره ولا نناظر فيه أحدًا

اور ایمان لاؤ روز قیامت الله کو دیکھنے پر جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم کی روایت میں آیا ہے .. اور صحیح احادیث میں  کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے

البانی   کے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت صحیح ہے  اور إبطال التأويلات لأخبار الصفات از  القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) میں بہت سی روایات ہیں جن میں الله تعالی کو ایک مرد نوجوان گھنگھریالے بالوں والا کہا گیا ہے وہاں ان تمام روایات کو پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہےکہ الله تعالی کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا اس کو متقدمین حنابلہ نے قبول کیا

کتاب  غاية المرام في علم الكلام  از الآمدي (المتوفى: 631هـ)  کے مطابق کرامیہ نے بھی یہ عقیدہ اختیار کیاکہ الله  ایک گھنگھریالے بال والا  نوجوان کی صورت ہے – السفاريني کے مطابق بعض غالی شیعوں نے بھی اس عقیدہ کو اختیار کیا –

 اہل تشیع کے تمام فرقے اس کے قائل نہیں تھے بعض میں  میں الله کی تجسیم کا انکار تھا  کتاب  التوحيد – از الصدوق – ص 103 – 104 کی روایت ہے

 حدثني محمد بن موسى بن المتوكل رحمه الله ، قال : حدثنا عبد الله بن جعفر الحميري ، عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسن بن محبوب ، عن يعقوب السراج ، قال : قلت لأبي عبد الله عليه السلام : إن بعض أصحابنا يزعم أن لله صورة مثل صورة الإنسان ، وقال آخر : إنه في صورة أمرد جعد قطط ، فخر أبو عبد الله ساجدا ، ثم رفع رأسه ، فقال : سبحان الله الذي ليس كمثله شئ ، ولا تدركه ‹ صفحة 104 › الأبصار ، ولا يحيط به علم ، لم يلد لأن الولد يشبه أباه ، ولم يولد فيشبه من كان قبله ، ولم يكن له من خلقه كفوا أحد ، تعالى عن صفة من سواه علوا كبيرا .

یعقوب سراج نے کہا کہ میں ابی عبد الله علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے بعض اصحاب (شیعہ) دعوی کرتے ہیں کہ الله کی صورت ایک انسان کی صورت جیسی ہے اور دوسرا کہتا ہے وہ ایک  گھنگھریالے بالوں والا مرد ہے – پس امام ابو عبد الله  سجدے میں گر گئے پھر سر اٹھایا اور کہا الله پاک ہے اس کے مثل کوئی شی نہیں ہے نگاہیں اس کا ادرک نہیں کر سکتیں اور اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا اور وہ نہ پیدا ہوا  کیونکہ لڑکا اپنے باپ کی شکل ہوتا ہے اور نہ اس نے کسی کو جنا اس سے پہلے اور نہ مخلوق میں کوئی اس کا کفو ہے وہ بلند ہے

ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس میں حنابلہ کا رد کیا جو تجسیم کی طرف چلے گئے

ابن جوزی صورہ

اور بے شک قاضی ابویعلی نے صفت الله کا اثبات کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ (الله) ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد تھا جس  نے لباس اور جوتیاں پہن رکھیں تھیں اور تاج تھا اس نے اس کا اثبات کیا لیکن اس کے معنوں پر عقل نہیں دوڑائی .. اور ہم جانتے ہیں جوان اور امرد کا کیا مطلب ہے … ابن عقیل کہتے ہیں یہ حدیث ہم جزم سے کہتے ہیں جھوٹ ہے پھر راوی کی ثقاہت کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر متن میں ممکنات نہ ہوں  

افسوس ابن جوزی حنبلی کے ڈیڑھ سو سال  بعد  انے والے ایک امام ، امام ابن تیمیہ نے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية  میں الله تعالی کو جوان اور گھنگھریالے بالوں والا جوان والی روایت پر لکھا کہ امام احمد کے نزدیک یہ صحیح ہیں

حدثني عبد الصمد بن يحيى الدهقان سمعت شاذان يقول أرسلت إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل أستأذنه في أن أحدث بحديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال رأيت ربي قال حدث به فقد حدث به العلماء قال الخلال أبنا الحسن بن ناصح قال حدثنا الأسود بن عامر شاذان ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه جعدًا قططا أمرد في حلة حمراء والصواب حلة خضراء

شاذان کہتے ہیں میں نے بھیجا امام احمد کی طرف اور پوچھا کہ وہ اس حدیث پر کیا حکم کرتے ہیں جو قتادہ عن عکرمہ عن ابن عباس کی سند سے روایت کرتا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا – امام احمد نے کھا اس کی روایت کرو کیونکہ اس کو علما نے روایت کیا ہے …. ابن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا  گھونگھر والے بالوں والا, بغیر داڑھی مونچھ والا جوان جس پر سرخ یا سبز لباس تھا

اسی کتاب میں   رویہ الباری  تعالی پر ابن تیمیہ  کہتے ہیں

وأخبر أنه رآه في صورة شاب دونه ستر وقدميه في خضرة وأن هذه الرؤية هي المعارضة بالآية والمجاب عنها بما تقدم فيقتضي أنها رؤية عين كما في الحديث الصحيح المرفوع عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء

اور رسول الله نے خبر دی  کہ انہوں نے الله کو ایک مرد کی صورت دیکھا درمیان پردہ تھا اور اس کے قدموں پر سبزہ تھا اور اس خواب  کی مخالفت آیات سے ہوتی ہے اور اس کا جواب دیا گیا ہے جو گزرا کہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے آنکھ سے دیکھا جیسا کہ صحیح مرفوع حدیث میں ہے عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس کی سند سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد کی صورت ، بہت گھونگھر والے بالوں والا سبز باغ میں دیکھا  

دوسری طرف ابن تیمیہ کے ہم عصر الذھبی دمشق ہی میں اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں  شَاذَانُ أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ الشَّامِيُّ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ (2) .
وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَالسَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:
قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.حماد بن سلمہ روایت کرتا ہے قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا یعنی نیند میں اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے جو  خبر منکر ہے ہم الله سے اس پر سلامتی کا سوال کرتے ہیں دین میں نہ یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر اور اگر اس کے راوی غیر متہم ہوں تو بھی وہ نسیان خطا سے پاک نہیں اور پہلی خبر میں نے رب کو دیکھا جس میں نیند کی قید ہے اور بعض روایات میں ہے نبی نے کہا میں نے معراج پر رب کو دیکھا اس میں ظاہر حدیث سے اجتجاج کیا گیا ہے

الذھبی اسی کتاب میں امام لیث بن سعد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: مَا أَدْركنَا أَحَداً يُفَسِّرُ هَذِهِ الأَحَادِيْثَ، وَنَحْنُ لاَ نُفَسِّرُهَا.

قُلْتُ: قَدْ صَنَّفَ أَبُو عُبَيْدٍ (1) كِتَابَ (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ) ، وَمَا تَعرَّضَ لأَخْبَارِ الصِّفَاتِ الإِلَهِيَّةِ بِتَأْوِيلٍ أَبَداً، وَلاَ فَسَّرَ مِنْهَا شَيْئاً.

اور ابو عبید نے کہا  ہمیں کوئی نہیں ملا جو ان (صفات والی) احادیث کی تفسیر کرے اور ہم بھی نہیں کریں گے

میں الذھبی کہتا ہوں اس پر ابو عبید نے کتاب (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ)  تصنیف کی ہے انہوں نے اس میں صفات الہیہ کی کبھی بھی تاویل نہیں کی نہ ان  میں کسی چیز کی تفسیر کی

اسی کتاب میں الذھبی محدث ابن خزیمہ کے لئے لکھتے ہیں

وَكِتَابُه فِي (التَّوحيدِ) مُجَلَّدٌ كَبِيْرٌ، وَقَدْ تَأَوَّلَ فِي ذَلِكَ حَدِيْثَ الصُّورَةِ

فَلْيَعْذُر مَنْ تَأَوَّلَ بَعْضَ الصِّفَاتِ، وَأَمَّا السَّلَفُ، فَمَا خَاضُوا فِي التَّأْوِيْلِ، بَلْ آمَنُوا وَكَفُّوا، وَفَوَّضُوا عِلمَ ذَلِكَ إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِه

اور ان کی کتاب توحید ہے مجلد کبیر اور اس میں حدیث صورت کی تاویل ہے پس ان کو معاف کریں صفات کی تاویل کرنے پر اور جہاں تک سلف ہیں تو وہ تاویل میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ ان پر ایمان لائے اور رکے اور علم کو الله اور اس کے رسول سے منسوب کیا

الذھبی نے اس قسم کے اقوال کو بالکل قبول کرنے سے انکار کیا کہ سلف صفات الہیہ پر ایسا نہیں کہہ سکتے لیکن ابن تیمیہ نے بھر پور انداز میں جھمیہ پر کتاب میں ان تمام اقوال کو قبول کیا

کتاب سیر الاعلام النبلا میں ابن عقیل کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

قُلْتُ: قَدْ صَارَ الظَّاهِرُ اليَوْم ظَاهِرَيْنِ: أَحَدُهُمَا حقّ، وَالثَّانِي بَاطِل، فَالحَقّ أَنْ يَقُوْلَ: إِنَّهُ سمِيْع بَصِيْر، مُرِيْدٌ متكلّم، حَيٌّ عَلِيْم، كُلّ شَيْء هَالك إِلاَّ وَجهَهُ، خلق آدَمَ بِيَدِهِ، وَكلَّم مُوْسَى تَكليماً، وَاتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلاً، وَأَمثَال ذَلِكَ، فَنُمِرُّه عَلَى مَا جَاءَ، وَنَفهَمُ مِنْهُ دلاَلَةَ الخِطَابِ كَمَا يَليق بِهِ تَعَالَى، وَلاَ نَقُوْلُ: لَهُ تَأْويلٌ يُخَالِفُ ذَلِكَ. وَالظَّاهِرُ الآخر وَهُوَ البَاطِل، وَالضَّلاَل: أَنْ تَعتَقِدَ قيَاس الغَائِب عَلَى الشَّاهد، وَتُمَثِّلَ البَارِئ بِخلقه، تَعَالَى الله عَنْ ذَلِكَ، بَلْ صفَاتُهُ كَذَاته، فَلاَ عِدْلَ لَهُ، وَلاَ ضِدَّ لَهُ، وَلاَ نَظيرَ لَهُ، وَلاَ مِثْل لَهُ، وَلاَ شبيهَ لَهُ، وَلَيْسَ كَمثله شَيْء، لاَ فِي ذَاته، وَلاَ فِي صفَاته، وَهَذَا أَمرٌ يَسْتَوِي فِيْهِ الفَقِيْهُ وَالعَامِيُّ – وَاللهُ أَعْلَمُ -.

میں کہتا ہوں: آج ہمارے ہاں ظاہر ہوئے ہیں  ایک وہ ہیں جو حق ہیں اور دوسرے وہ جو باطل ہیں پس جو حق پر ہیں وہ کہتے ہیں کہ الله سننے والا دیکھنے والا ہے اور کلام کرنے والا ہے زندہ جاننے والا ہے ہر چیز ہلاک ہو گی سوائے اس کے وجھہ کے اس نے آدم کو ہاتھ سے خلق کیا اور موسی سے کلام کیا اور ابراہیم کو دوست کیا اور اس طرح کی مثالیں پس ہم ان پر چلتے ہیں جو آئیں ہیں اور ان کا وہی مفھوم لیتے ہیں جو اللہ سے متعلق خطاب میں دلالت کرتا ہے

اور ظاہر ہوئے ہیں دوسرے جو باطل ہیں اور گمراہ ہیں جو اعتقاد رکھتے ہیں غائب کو شاہد پر قیاس کرتے ہیں اور الباری تعالی کو مخلوق سے تمثیل دیتے ہیں بلکہ اس کی صفات اسکی ذات ہیں پس اس کی ضد نہیں اس کی نظیر نہیں اس کے مثل نہیں اس کی شبیہ نہیں اس کے جیسی کوئی چیز نہیں نہ اس کی ذات جیسی نہ صفات جیسی اور یہ وہ امر ہے جو برابر ہے فقیہ اور عامی کے لئے والله اعلم

یہودیوں کی کتاب سلیمان کا گیت میں الفاظ ہیں

His head is purest gold; his locks are wavy and black as a raven.

اس کا سر خالص سونا ھے اور  بالوں کا گھونگھر لہر دار  ہے اور کالے ہیں کوے کی طرح 

Song  of Solomon

اس کتاب کو علماء یہود کتب مقدس کی سب سے اہم کتاب کہتے ہیں جو تصوف و سریت پر مبنی ہے اور عشق مجازی  کے طرز پر لکھی گئی  ہے

یاد رہے اس امت میں دجال ایک گھنگھریالے بالوں والا جوان ہو گا جو رب ہونے اور مومن ہونے کا دعوی کرے گا

اور کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ دجال کے نکلنے پر اس کی اتباع صرف یہودی ہی کریں گے بلکہ امام ابن عقیل حنبلی کتاب الفنون میں اپنے دور کے دجالوں کا ذکر کرتے ہیں  اور ان کے متبع مسلمانوں کا

ibn-aqeel-dajjal

لوگ چل دیے انہی المشبه کی طرح جنھیں وہم ہوا اور جنہوں نے اپنے دلوں میں یہ بات بٹھائی کہ ان کا رب ایک آدمی کی صورت ہے پس انہوں نے ( صفت) صورہ کا انکار نہ کیا اور ان (دجالوں) کے ہاتھوں ظاہر ہوئے وہ افعال الہی جن میں مردوں کا زندہ کرنا ہے اور بادل کو اٹھانا ہے اور اسی طرح کے فتنے پس یہاں تک کہ کوئی نہ تھا جو ان کا انکار کرتا
ان میں سے ایک (ان دجالوں کی اتباع کرنے والے) نے کہا اور وہ جو اسکے دل میں تھا اس کو چھپایا اور پٹنے سے گھبرا کر بولا کہ وہ (اصل الدجال اکبر تو) کانا ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تمہارا رب کانا نہیں ہے

اس سے حنبلی (ابن عقیل) نے کہا: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شیخ (اس دجال کا ساتھی) اگر دجال (اکبر) کو صحیح آنکھوں سے پائے تو اس کے پاس جائے گا اور اسکی عبادت کرے گا کہ اس کی صورت کامل ہے – پس تیرے دل میں جو تھا وہ نکل آیا ہے تو عبادت سے نہیں رکے گا الا یہ کہ وہ کانا ہو-اور الله سبحانہ و تعالی نے مسیح اور انکی ماں کی الوہیت کا انکار کیا یہ کہہ کر کہ وہ کھانا کھاتے تھے- اور اگر یہی تیری معذرت ہے تو تیرے لئے واجب ہے کہ عیسیٰ کی عبادت کر کیونکہ وہ مردے کو زندہ کرتا تھا اور کانآ نہیں تھا

ابن عقیل کے شاگرد ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس کے مقدمہ میں اعتراف کیا کہ حنابلہ نے گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے کف افسوس ملتے ہوئے مقدمہ میں لکھتے ہیں

ibn-jozi-afsos

میں نے اپنے اصحاب (حنابلہ) کو دیکھا جو اصول میں ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو صحیح نہیں ہیں

أور إس میں تین تصانیف ہیں ابو عبد الله بن حامد کی اور ان کے صاحب قاضی ابو یعلی کی اور ابن الزغوانی کی پس انہوں نے ان کو اپنے مذھب کے مطابق تصنیف کیا اور میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مرتبے سے گر کر عوام کی سطح پر آ گئے اور انہوں نے صفات باری تعالی کو اس محسوسات تک کا متقاضی کر دیا پس انہوں نے الله تعالی کو نام دیا کہ اس نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر خلق کیا پس الله کے لئے صورت کا اثبات کیا

اور (ہمارے مخالفین نے کہا کہ الله) كا چہره ذات بر اضافہ ہے اور دو انکھیں ہیں اور منہ … اور اس کے چہرہ کا نور کرنیں ہیں اور اس کے دو ہاتھ ہیں اور انگلیاں اور ہتھیلی اور چھنگلیا اور انگوٹھے اور سینہ اور ران اور پنڈلی اور دو پیر ہیں اور کہا انہوں نے کہ ہم نے اس کے سر کا نہیں سنا اور کہا یہ جائز ہے کہ اس کو چھوا جائے أور وه بذات اپنے بندے کے پاس آئے اور ان میں سے بعض نے کہا وہ سانس لے پھر عوام ان کے اس اس قول سے راضی ہوئی نہ کہ عقل سے

اور انہوں نے اسماء و الصفات کو اس کے ظاہر پر لیا پس ان کو صفات کا نام دیا بدعتوں کی طرح ان کے پاس کوئی عقلی و نقل سے پہنچی دلیل نہیں تھی نہ انہوں نے نصوص کی طرف التفات کیا جن کا معانی الله کے لئے واجب ہے

.
.
.
.
أور يه كلام صريح ألتشبيه كا ہے جس میں خلق نے انکی اتباع کی … جبکہ تہمارے سب سے بڑے امام احمد بن حنبل الله رحم کرے کہا کرتے تم کیسے کہہ دیتے ہو جو میں نے نہیں کہا پس خبردار ایسا کوئی مذھب نہ ایجاد کرو جو ان سے نہ ہو

اب اگلی صدیوں میں ابن تیمیہ ، امام ابن الجوزی کے کہے  کو میٹ دیں گے اور الله  کی صفات میں اس قدر الحاد کریں کریں گے کہ اس کو رجل امرد تک کہہ دیں گے

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة  از  ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق

وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا.
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے

الغرض امام مالک   مطلقا اس خلق آدم علی صورتہ کو  قبول نہیں کرتے تھے اور وہ اس کو سنتے ہی رد کرتے تھے – امام احمد، امام اسحٰق ، امام بخاری امام مسلم  اس کو صحیح سمجھتے تھے- بعض گمراہ لوگ اس سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا استخراج کرتے اور شوافع اس کو کذب کہتے اور حنابلہ اس سے ساتھ ایک دوسری روایت سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا عقیدہ رکھتے  –   آٹھویں صدی تک جا کراہل سنت میں (مثلا الذھبی)  خلق آدم علی صورتہ  والی روایت کی تاویل سے منع کر دیا گیا اور الله کے لئے کسی بھی تجسیم کا عقیدہ غلط قرار دیا جانے لگا

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے

الأسماء و الصفات

ابن خزیمہ اور عذاب قبر کا عقیدہ

محمد بن إسحاق بن خزيمة بن المغيرة بن صالح بن بكر السلمي النيسابوري الشافعي  المتوفی ٣١١  ہجری   سن ٢٢٣ ہجری میں پیدا ہوئے –  سترہ سال کی عمر کے پاس انہوں نے قتیبہ بن سعید سے قرآن سیکھنے کے لئے سفر کیا

 کتاب طبقات الشافعية الكبرى از  تاج الدين عبد الوهاب بن تقي الدين السبكي (المتوفى: 771هـ) کے مطابق ابن خزیمہ سے بخاری و مسلم نے بھی روایت لی جو صحیحین سے باہر کی کتب میں ہیں لکھتے ہیں

روى عَنهُ خلق من الْكِبَار مِنْهُم البخارى وَمُسلم خَارج الصَّحِيح

ابن خزیمہ  سے کبار مثلا بخاری و مسلم نے صحیح سے باہر روایت لی

امام بخاری کی وفات ٢٥٦ ہجری میں ہوئی اس وقت ٣٣ سال کے ابن خزیمہ تھے –  صحیح بخاری امام بخاری کی آخری تصنیف ہے – ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بخاری ان سے سنی گئی روایات اس میں ذکر کرتے اس کے برعکس  دوسری طرف عجیب بات ہے صحیح ابن خزیمہ میں امام  بخاری سے کوئی روایت نہیں لی گئی – معلوم ہوتا ہے یار دوستوں نے ان کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے

اس کی مثال ہے کہ ابن خزیمہ سے ایک قول منسوب ہے کہا جاتا  ہے امام ابن خزیمہ  فرماتے ہیں

ما تحت أديم السماء أعلم بحديث رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ولا أحفظ من محمد بن إسماعيل البخاري

آسمان کی چھت کے نیچے حدیث رسول  صلی الله علیہ وسلم کا محمد بن اسماعیل البخاری سے بڑھ کر علم رکھنے والا اور حفظ کرنے والا کوئی نہیں ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس علم کی جھلک صحیح ابن خزیمہ میں ہوتی لیکن امام بخاری سے صحیح ابن خزیمہ میں ایک بھی روایت نہیں ہے

المليباري کتاب عُلوم الحديث في ضوء تطبيقات المحدثين النقاد میں لکھتے ہیں

ولا ابن خزيمة يروي عن البخاري ولا عن مسلم

أور ابن خزيمة نے نہ امام بخاری سے روایت لی نہ امام مسلم سے

بحر الحال ابن خزیمہ نے کتاب التوحید لکھی جس میں جنت و جہنم کا انکار کرنے والے جھمیوں کا رد کیا اور چلتے چلتے عذاب قبر کا بھی ذکر چھڑ گیا یہاں اس کا ترجمہ  پیش کیا جاتا ہے جو غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے دین الخا لص قسط دوم میں پیش کیا

ibn-khuzaimah-azab

اہل حدیث جو سلف کو اپنآ ہم عقائد بتاتے ہیں وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا عقیدہ کس حد تک ابن خزیمہ جیسا ہے

ابن خزیمہ کے بقول بغیر روح عذاب قبر نہیں ہوتا جبکہ اہل حدیث کا عقیدہ ہے  عود روح صرف ایک دفعہ ہوتا ہے پھر روح  کو جسد سے نکال لیا جاتا ہے

ابن خزیمہ کہتے ہیں قبر والا قبر میں زندہ ہوتا ہے جبکہ اہل حدیث کا عقیدہ ہے وہ میت ہے جو مردے کو کہتے ہیں

بحر الحال ہمارے نزدیک صحیح عقیدہ ہے کہ روح جسم سے نکلنے کے بعد اب قیامت کے دن ہی آئی گی اور جسد مٹی میں تبدیل ہو جائے گا عذاب کا مقام البرزخ ہے نہ کہ ارضی قبر

العموم و الخصوص

عقائد  کا قرآن و حدیث سے استخراج کرتے وقت خبر عام ہے یا خاص کا خیال رکھا جاتا ہے یہ اصول نہایت منطقی ہے جس سے قرآن کی بعض باہم مخالف آیات کی تشریح و تطبیق کی جاتی ہے

گمراہ عقائد کو کشید کرنے کے لئے قرآن کے نصوص کو رد کر کے ان میں باہم اختلاف کا ذکر کیا جاتا ہے مثلا قرآن کے مطابق روح  کے جسم سے خروج کے بعد اس کا امساک کیا جاتا ہے یعنی روک لیا جاتا ہے (سوره الزمر اور سوره الانعام)  اس کے برعکس حیات فی القبر کا عقیدہ اس امت کے گمراہ فرقوں نے اختیار کیا ہوا ہے جس میں مردہ میں  عود روح کروایا جاتا ہے اس کو استثنیٰ قرار دے کر ایک خاص بات کہا جاتا ہے پھر اس کو تمام مردوں پر عام کر دیا جاتا ہے

اسی طرح سماع الموتی کے مسئلہ میں بھی زبردستی ابن عمر  اور عائشہ رضی الله عنہا کی آراء کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ  گویا بعض کو صحیح عقیدہ پتا نہیں  تھا  اس طرح اصحاب رسول اور امہات المومنین کو مختلف العقائد بتایا جاتا ہے جبکہ اصول جو قرآن میں دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ  و ما یستوی الاحیاء و الاموات ان الله یسمع من یشاء  کہ مردہ زندہ برابر نہیں  الله جس کو چاہے سنوائے-  اس کے بعد تمام مردوں میں زبردستی ایک  عجیب حیات کا بزعم خود دعوی کیا جاتا  ہے جس میں وہ دفنانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتے ہیں  اور ان سے مانوس بھی  ہوتے ہیں

قرآن کے عموم و خصوص  میں التباس پیدا کر کے،  قبر پرستی پر سند جواز دینے کے بعد،  معصوم بن کر ان  لا علم لوگوں پر کفر کا فتوی لگایا جاتا ہے جو بعض محدثین کے منہج پر قبروں سے فیض جاصل کر رہے ہیں مثلا

محدث  ابن حبان طوس جاتے ہیں اور قبر سے فیض لیتے ہیں – ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل  تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

 ابن کثیر  سوره التوبہ کی تفسیر میں  فوت شدہ رشتہ داروں پر زندوں کا عمل پیش ہونا لکھتے ہیں جبکہ  قرآن میں کہیں یہ عقیدہ نہیں ابن کثیر  تفسیر میں  کہتے ہیں

قَدْ وَرَدَ: أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْيَاءِ تُعرَض عَلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَقْرِبَاءِ وَالْعَشَائِرِ فِي الْبَرْزَخِ

بے شک یہ آیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر البرزخ میں پیش ہوتے ہیں

ابن قیم کہتے ہیں سلف اس پر جمع ہیں کہ میت زائر سے خوش ہوتی ہے اور روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے  کتاب الروح

ابن تیمیہ عقیدہ رکھتے ہیں  قبر سے اذان سنی جا سکتی ہے اور میت  قرات سنتی ہے

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

افسوس علماء ہی نے ان عقائد کو پھیلایا جو تھے ہی غلط اور غیر ثابت – ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان پر توبہ کرتے لیکن اسلاف پرستی میں ان سند یافتہ علماء  نے  اپنی خو الگ ہی ڈالی اور لگے ان شخصیات اور ناموں کا دفاع کرنے اور اپنے تعلی و علمیت کا رعب بٹھانے

 عقائد میں  اضطراب کو دور کرنے کے لئے اصول و خاص کی بحث بہت اہم ہے جو اصول و فقہ کی کتب میں ہے – کتاب    منهج علماء الحديث والسنة في أصول الدين از  مصطفى محمد حلمي  الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت  الطبعة: الأولى – 1426 هـ قرآن کے عموم و خصوص پر لکھتے ہیں

فأنزل الله عز وجل القرآن على أربعة أخبار خاصة وعامة (1) .

فمنها: 1 – خبر مخرجه مخرج الخصوص ومعناه معنى الخصوص وهو قوله تعالى: (إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ) [ص، الآية: 71] وقوله: (إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ) [آل عمران، الآية: 59] ثم قال: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى) [الحجرات، الآية: 13] والناس اسم يجمع آدم وعيسى وما بينهما وما بعدهما فعقل المؤمنون عن الله عز وجل أنه لم يعن آدم وعيسى لأنه قدم خبر خلقهما.

پس اللہ عز و جل نے چار قسم کی خاص و عام  خبریں قرآن میں دیں جن میں ہیں

خبر جو خصوص سے نکلے اور اس کا معنی بھی مخصوص ہو اور یہ ہے الله تعالی کا قول  (إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ) [ص، الآية: 71] میں گیلی مٹی سے ایک بشر خلق کر رہا ہوں اور الله تعالی کا قول (إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ) [آل عمران، الآية: 59]  بے شک عیسی کی مثال الله کے نزدیک ایسی ہے جیسی آدم کی – پھر کہا   (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى) [الحجرات، الآية: 13] اے لوگوں ہم نے تم کو مرد و عورت سے پیدا کیا اور الناس میں آدم و عیسی جمع ہو گئے اور ان کے درمیان اور بعد والے انسان پس مومن تعقل کرتے ہیں کہ آدم و عیسی کو (مرد و عورت سے تخلیق میں) شمار نہیں کیا گیا کیونکہ انکی تخلیق کی خبر دی گئی

2 خبر مخرجه مخرج العموم ومعناه معنى الخصوص وهو قوله تعالى: (وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) [الأعراف، الآية: 156] فعقل عن الله أنه لم يعن إبليس فيمن تسعه الرحمة لما تقدم فيه من الخبر الخاص قبل ذلك وهو قوله: (لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ) [ص، الآية: 85] فصار معنى ذلك الخبر العام خاصًا لخروج إبليس ومن تبعه من سعة رحمة الله التي وسعت كل شيء.

خبر جو عموم سے نکلے اور اس کا معنی مخصوص ہو اور یہ الله تعالی کا قول ہے (وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) [الأعراف، الآية: 156]  میری رحمت ہر شی پر پھیلی ہے پس یہ الله کا مقصد ہے کہ اس میں ابلیس کو شمار نہیں کیا گیا جس کو رحمت سے الگ کیا ہے جیسا کہ اسکی خبر  خاص دی پہلے  (لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ) [ص، الآية: 85] بلاشبہ میں جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور جو تیری اتباع کریں گے ،سب کو!  پس یہ خبر معنا عام ہے خاص ابلیس کا خروج ہے اور جو اس کی اتبآع کریں انکو اس رحمت سے  الگ کیا جو چیز پر چھائی ہے

3 – خبر مخرجه مخرج الخصوص ومعناه معنى العموم وهو قوله: (وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى) [النجم، الآية: 49] ، فكان مخرجه خاصًا ومعناه عامًا.

خبر جو نکلی ہے خصوص سے اور اسکا معنی عموم ہے اور الله تعالی کا قول ہے (وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى) [النجم، الآية: 49] اور بے شک وہ الشِّعْرَى کا رب ہے  پس یہ خاص خبر ہے لیکن اس کا معنی عام ہے

4- خبر مخرجه العموم ومعناه العموم.

فهذه الأربعة الأخبار خص الله العرب بفهمها ومعرفة معانيها وألفاظها وخصوصها وعمومها والخطاب بها، ثم لم يدعها اشتباهاً على خلقه وفيها بيان ظاهر لا يخفى على من تدبره من غير العرب ممن يعرف الخاص والعام،

خبر جو عموم سے ملی اور معنی بھی عام ہے

پس ان چار خبروں سے الله تعالی نے عربوں کا فہم ، معنوں کی معرفت، الفاظ اور اس کا خصوص و عموم اور خطاب  خاص کیا پھر اس میں اشتباہ مخلوق کے لئے نہیں رہا اور اس کا بیان غیر عرب پر  ظاہر  ہے جو اس میں تدبر کرنے والوں پر مخفی نہیں جو خاص و عام کو جانتے ہیں  

الغرض تمام مردے نہیں سنتے الله جس کو چاہتا سنواتا ہے جیسا قلیب بدر میں ہوا اسی طرح عود روح صرف ان لوگوں کا ہوا جو موسی علیہ السلام کے ساتھ تھے اور عذاب کا شکار ہوئے یا جن کو عیسی علیہ السلام نے واپس زندہ کیا اس کے علاوہ کوئی اور خبر قرآن و احادیث صحیحہ میں نہیں ہے

عائشہ  (رض) اور  عذاب قبر کی روایات

کفار پر  عذاب قبر کی خبر مکی دور میں دی گئی جب ال فرعون اور قوم نوح کا قرآن میں ذکر ہوا لیکن مدینہ پہنچ کر بھی مومن پر عذاب قبر کا عقیدہ  نہیں تھا – نہ یہ اصحاب بدر کے علم میں تھا نہ اصحاب احد کے بلکہ آخری دور میں وفات سے چار ماہ پہلے مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی

 بخاری اور مسلم میں  عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مروی   روایات میں یہ آیا ہے کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کے گھر دو یہودی عورتیں آئیں، انہوں نے عذاب قبر کا تذکرہ کیا، نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی اور مسلم کی روایت کے مطابق کہا یہ  یہود کے لئے ہے پھر فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ کچھ راتوں بعد اپ نے فرمایا أَمَا شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ کیا تمہیں شعور ہوا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم کو قبروں میں ازمایا جائے گا

صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کا بیان ۔ حدیث 1314

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی قَالَ هَارُونُ حَدَّثَنَا وَقَالَ حَرْمَلَةُ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ مِنْ الْيَهُودِ وَهِيَ تَقُولُ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ فَارْتَاعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّمَا تُفْتَنُ يَهُودُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ يَسْتَعِيذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
ہارون بن سعید، حرملہ بن یحیی، ہارون، حرملہ، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ کیا تم جانتی ہو کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر کانپ اٹھے اور فرمایا کہ یہودی آزمائے جائیں گے -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چند راتیں ٹھہرے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتی ہو کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے رہے۔

—–

عمرۃ’ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ  عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عائذا باللّٰہ من ذٰلک ۔ میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر ایک دن آپ  صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر (اس دن) سورج کو گرہن لگ گیا۔ (آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
انی قد رایتکم تفتنون فی القبور کفتنۃ الدجال … اسمع رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بعد ذالک یتعوذ من عذاب النار و عذاب القبر
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح۔ … میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فقال ما شاء اللّٰہ ان یقول ثم امرھم ان یتعوذوا من عذاب القبر
پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا فرمایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قبرکے عذاب سے پناہ مانگیں۔

صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد۱صفحہ ۱۴۳عربی ح:۱۰۴۹۔ صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱صفحہ۲۹۷عربی ح:۲۰۹۸


ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے) ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔

حدیث نمبر: 1043

صحیح بخاری جلد 2

سوال یہ ہے کہ ابراہیم کی وفات کس دن ہوئی؟

ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں قول پیش کیا ہے

 وذكر الواقدي: أن إبراهيم ابن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مات يوم الثلاثاء لعشر ليالٍ خلون من شهر ربيع الأول سنة عشر ودفن بالبقيع،

اور واقدی نے ذکر کیا بے شک ابراہیم بن رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی پیر کے روز ربیع الاول میں دس رات کم دس ہجری میں وفات ہوئی

لیکن واقدی پر جھوٹ تک کا فتوی لگایا جاتا ہے

بغوی شرح السنہ میں لکھتے ہیں

وُلِدَ فِي ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَمَانٍ مِنَ الْهِجْرَةِ، وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا

ابراہیم پسر نبی ذِي الْحِجَّةِ  سن ٨ ہجری میں پیدا ہوئے اور ١٦ ماہ زندہ رہے

یعنی ربیع الاول سن ١٠ ہجری میں وفات ہوئی گویا نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل

مسند ابی یعلی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْفِنُوهُ بِالْبَقِيعِ، فَإِنَّ لَهُ مُرْضِعًا تُتِمُّ رَضَاعَهُ فِي الْجَنَّةِ»
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده صحيح

انساب  کے ماہر ابن حزم الأندلسي القرطبي   (المتوفى: 456هـ) کتاب جمهرة أنساب العرب میں لکھتے ہیں

ومات إبراهيم قبل موت النبي صلى الله عليه وسلم، بأربعة أشهر؛ ودفن بالبقيع

اور ابراہیم کی وفات نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے چار ماہ پہلے ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئے

یعنی ذیقعد میں ١٠ ہجری میں وفات ہوئی اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی

  صحیح مسلم میں ہے: عمرو نے کہا: جب ابراہیم کی وفات ہوئی تو  رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے کہا: بے شک ابراہیم میرا بیٹا ہے اور وہ دودھ پیتے بچے کی عمر میں مرا ہے اور بے شک اس کے لئے دودھ پلانے والی ہے جو جنت میں اس کی رضاعت پوری کرائے گی

یعنی مومن کے لئے عقیدہ یہ تھا کہ اسکو عذاب نہیں ہوتا اور روح فورا جنت میں جاتی ہے جہاں اس کو ایک ایسا جسم ملتا ہے جو دودھ پی سکتا ہے اس کے لئے عذاب کی کوئی خبر نہیں تھی

  بخاری و مسلم  کی ہی بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو ابراہیم کی وفات والے دن ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز کے دوران    مومن کے لئے  عذاب قبر  سے مطلع کیا گیا. مشرک عمرو  ابن لحیی الخزاعی  جو مر چکا تھا اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھاتے ہوئے  بیداری میں دیکھا جو دس ہجری کا واقعہ ہے نہ صرف عمرو (ابن لحیی الخزاعی) کو دیکھا بلکہ اپ جہنم کی تپش کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور ایک موقعہ پر جنت میں سے انگور کا خوشہ لینے کے لئے آگے بھی بڑھے  ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک عورت کو بھی دیکھا جس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور بھوک پیاس کی وجہ سے وہ بلی مر گئی.   اس کی تفصیل بخاری و مسلم میں کسوف کی روایات میں دیکھی جا سکتی ہیں

لہذا انہی ایام میں جبکہ یہودی عورتوں نے مومنوں پر عذاب قبر کا ذکر کیا ابراہیم پسر نبی کی بھی وفات ہوئی اور سورج گرہن کے دن مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی –

 اس کے بعد چار ماہ کی قلیل مدت ہے جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجه الوداع کیا اور غدیر خم کا واقعہ ہوا پھر آپ مدینہ پہنچے اور بالاخر صفر کے مہینے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہونا شروع ہوئی اور ربیع الاول میں وفات ہوئی-

عذاب قبر کی روایات تعداد میں اتنی زیادہ ہیں کہ چار ماہ کی قلیل مدت اس کے تمام مسائل  اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار-  اس میں تطبیق کی صورت نہیں ہے –

ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں

وقال الحافظ بن تَيْمِيَةَ فِي كِتَابِ التَّوَسُّلِ وَالْوَسِيلَةِ … وَأَنَّهُ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ

 ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے صرف ایک بار گرھن کی نماز پڑھی جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی

یہی بات مبارک پوری نے مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں دہرائی ہے ج ٥ ص١٢٨ پر

وأنه لم يصل الكسوف إلا مرة واحدة يوم مات إبراهيم

اور بلا شبہ گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ اس روز جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی

حاشية السندي على سنن النسائي  میں ابن کثیر کے حوالے سے لکھتے ہیں

فَإِن رَسُول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً بِالْمَدِينَةِ فِي الْمَسْجِدِ هَذَا

بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گرہن نہیں ملا سوائے ایک دفعہ مدینہ میں اس مسجد (النبی) میں

تيسير العلام شرح عمدة الأحكام میں البسام  لکھتے ہیں

أن الخسوف لم يقع إلا مرة واحدة في زمن النبي صلى الله عليه وسلم

بے شک گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں

محمد بن صالح بن محمد العثيمين شرح ریاض الصالحین میں لکھتے ہیں

إن الكسوف لم يقع في عهد النبي صلي الله عليه وسلم إلا مرة واحدة

بے شک گرہن واقع نہیں ہوا عہد نبوی میں سوائے ایک دفعہ

سلفی مقلد اہل حدیث عالم ابو جابر دامانوی  عذاب قبر الناشر مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی میں لکھتے ہیں

بخاری و مسلم کی تفصیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیہ کے عذاب قبر کے ذکر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذا ب قبر کی تفصیلات صلوۃ کسوف کے بعد بتائیں اور سورج کو گرہن ۱۰ ؁ھ میں لگا تھااور اسی دن آپ کے صاحبزادے جناب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات بھی ہوئی تھی ۔ گویا آپ کو بھی اسی سال عذاب قبر کا تفصیلی علم ہوا اور آپ نے اپنی امت کو اس اہم مسئلہ سے آگاہ فرمایا۔
مسند احمد کی حدیث جسے حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے جس میں ہے کہ شروع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا تھا حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
کَذَّبَتْ یَہُوْدُ وَھُمْ عَلَی اﷲِ عَزَّ وَ جَلَّ کَذِبٌ لَا عَذَابَ دَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
(مسند احمد ج ۶ ص ۸۱، فتح الباری ج ۳ ص ۲۳۶)
’’یہود نے جھوٹ کہا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹی بات کہی ہے کیونکہ قیامت سے قبل کوئی بھی عذاب نہیں ہے‘‘ ۔ لیکن کچھ دنوں بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے عذاب قبر کی حقیقت کا پتہ چلا تو آپ بے حد غمگین تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا: فَاِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌ ’’بے شک قبر کا عذاب حق ہے‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے: (اے عائشہ) کیا تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبروں میں آزمائش ہو گی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس دن سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز میں) عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب استحباب التعوذ من عذاب القبر (حدیث نمبر ۱۳۱۹) مسند احمد ج۶ ص ۸۹)۔

لہذا ایک طرف چار ماہ کی قلیل مدت اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار اب بس ایک ہی رستہ تھا کہ عائشہ رضی الله عنہا کو کہا جائے کہ وہ عقائد بھول جاتی تھیں

ایک عرب محقق عکاشہ عبد المنان کتاب المسند الصحیح فی عذاب القبر و نعیمہ میں لکھتے ہیں

ukasha-azab

اور جو ظاہر ہے یہودی بوڑھی عورتوں کے واقعہ اور عائشہ رضی الله عنہا کے انکار (عذاب قبر) سے کہ بے شک وہ بھول گئیں جو ان سے پہلے بیان ہوا تھا پس جب انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ بلند کیے اور عذاب سے پناہ مانگی – پس نبی صلی الله علیہ وسلم کا عائشہ رضی الله عنہا کو جواب دلالت کرتا ہے کہ وحی رسول الله کے دل میں تھی وہ نہیں بھولے تھے جیسا کہ الله نے خبر دی ہم تم پر پڑھیں گے تم نہیں بھول پاؤ کے  (سوره الآعلی) اور جہاں تک عائشہ کا تعلق ہے تو وہ بے شک بھول گئیں جیسے اور بشر اور یہ کوئی عیب نہیں ہے

اور دوسری وجہ ہے : وہ دور جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عذاب قبر کے وجود کی خبر دینے کے لئے  وحی نہیں آئی اس کے بعد آپ کو بتایا گیا یہودیوں کے کلام کا اور عائشہ رضی الله عنہآ کی خبر کا پس آپ نے جواب دیا  آوروں  کی بجائے  یہود کے اثبات میں    یہاں تک کہ  وحی آئی اور خبر دی گئی کہ یہ حق ہے ہر میت اسکی مستحق ہے پس اسکی خبر لوگوں کو باہر نکل کر دی جو وحی ہوئی تھی و الله آعلم

یہ تاویل سراسر لغو ہے اور ذہن سازی ہے – عائشہ رضی الله عنہا اگر عذاب قبر جیسے مسئلہ کو بھول  گئیں تو پتا نہیں دین کا کتنا حصہ بھول گئی ہوں؟  صحیح مسلم کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی لیکن   کئی راتوں کے بعد  عائشہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ عذاب ہوتا ہے –  یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مومن پر عذاب قبر کی خبر دس ہجری میں دی گئی اس سے قبل اس کا ذکر نہیں تھا

جادو برج فرشتے اور محدثین ٢

قرآن میں سوره البقرہ میں ہے  کہ بابل میں یہود سحر کا علم حاصل کرتے تھے جو ان کی آزمائش تھا آیات ہیں

واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون

اور  (یہود) لگے اس  (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان  نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر!  لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو-  اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں،  آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا

سحر کا علم ان کو فرشتوں هاروت وماروت  سے ملا  تھا لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ فتنہ ہے لیکن اپنی سابقہ حرکتوں کو توجیہ دینے کے لئے انہوں نے تمام علوم کا مخزن چاہے ( شرک و سحر ہی کیوں نہ ہو ) سانپ کو  قراردیا – یہود کے مطابق یہ سب اس شجر علم میں چھپا تھا جو جنت عدن کے بیچوں بیچ تھا –  واضح رہے کہ موجودہ  توریت کی  کتاب پیدائش میں سانپ سے مراد شیطان نہیں ہے بلکہ انسانوں کا ہمدرد ایک مخلوق ہے جو چھپ کر انسان کو علم دیتا ہے جبکہ الله تعالی کا ارادہ انسان کو کم علم رکھنے کا تھا – یہ سب کیوں لکھا گیا اس پر آپ تفصیل

https://www.islamic-belief.net/muslim-belief/satan/ابراہیمی-ادیان-میں-شیطان-کا-تصور/

میں پڑھ سکتے ہیں

سحر کا علم دنیا میں ہاروت و ماروت سے پہلے مصریوں کے پاس بھی تھا جس کا ذکر موسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن میں موجود ہے کہ جادو گرووں نے موسی علیہ السلام اور حاضرین  کا تخیل تبدیل کر دیا اور ایک عظیم سحر کے ساتھ ائے جس میں لاٹھیاں اور رسیاں چلتی ہوئی محسوس ہوئیں

یہاں سوره البقرہ میں بتایا گیا کہ بابل میں یہود کا ذوق شادی شدہ عورتوں کو حاصل کرنے کی طرف ہوا جس میں ان کو طلاق دلانے کے لئے سحر و جادو کیا جاتا – اگر سحر صرف نظر بندی ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا لہذا اس کو ایک شیطانی عمل  کہا جاتا ہے جس میں شریعت کی پابندی کو رد کیا جاتا ہے اور حسد انسان کو سحر کی طرف لے جاتا ہے

اس میں گرہ لگا کر پھونکا جاتا ہے سوره الفلق

تیسری صدی میں جب معتزلہ کا زور تھا انہوں نے مجوسیوں کی طرح الله کی طرف شر کو منسوب کرنے سے انکار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا حسن کی طرح قبیح و سحر و شر کی نسبت الله کی طرف درست ہے ؟ کیا الله خالق سحر و شر ہے ؟

علماء نے اس کا جواب دیا کہ قرآن سے ثابت ہے کہ الله ہی شیطان کا خالق ہے اور تمام گناہ اس نے لکھ دیے ہیں لہذا وہی شر کا خالق ہے – کسی بھی علم کا اثر انگیز ہونا بھی اسی حکم کے تحت ہے لہذا اگرچہ سحر شرک و ناپسندیدہ ہے اس کی تاثیر من جانب الله ہے

 ہاروت و ماروت الله کے دو فرشتے تھے جو سحر کا علم لے کر بابل میں اترے اور یہود کی آزمائش بنے- اگر ہاروت و ماروت نے جادو نہیں سکھایا تو وہ یہ کیوں کہتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں کفر مت کرو

دوسری صدی ہجری

سابقہ یمنی یہودی کعب الاحبار ایک قصہ سناتے

تفسیر عبد الرزاق  المتوفي ٢١١ هجري کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَال – نا الثَّوْرِيُّ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ سَالِمٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ كَعْبٍ , قَالَ: «ذَكَرَتِ الْمَلَائِكَةُ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ , وَمَا يَأْتُونَ مِنَ الذُّنُوبِ» فَقِيلَ لَهُمْ: «اخْتَارُوا مَلَكَيْنِ , فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ» قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا: «إِنِّي أُرْسِلُ رُسُلِي إِلَى النَّاسِ , وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمَا رَسُولٌ , انْزِلَا وَلَا تُشْرِكَا بِي شَيْئًا , وَلَا تَزْنِيَا , وَلَا تَسْرِقَا» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ كَعْبٌ: «فَمَا اسْتَكْمَلَا يَوْمَهُمَا الَّذِي أُنْزِلَا فِيهِ حَتَّى عَمِلَا مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا»

کعب نے کہا : ذکر کیا فرشتوں کا ان کا جو نبی آدم پر نگہبان تھے اور جو ان کے گناہوں کے بارے میں ہے پس ان فرشتوں سے کہا گیا کہ چن لو فرشتوں کو انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا اور ہاروت و ماروت سے کہا میں اپنے سفیر بنی آدم کی طرف بھیج رہا ہوں اور میرے اور تمھارے درمیان کوئی اور نہیں ہو گا بنی آدم  پر نازل ہو اور شرک نہ کرنا نہ زنا اور نہ چوری – ابن عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ کعب نے کہا انہوں نے وہ کام نہ کیا جس پر نازل کیا گیا تھا یہاں تک کہ حرام کام کیا

اسنادی حیثیت سے قطع نظر ان روایات میں یہود کی کتاب

Book of Enoch

Book of Jubilees

کا قصہ نقل کیا گیا ہے ہبوط شدہ فرشتے

Fallen Angels

یا

Watchers

اپنے ہی ہبوط شدہ فرشتوں میں سے دو کو انسانوں کو سحر سکھانے بھیجتے ہیں

یہود کے مطابق انوخ اصلا ادریس علیہ السلام  کا نام ہے

ایک روایت قتادہ بصری سے منسوب ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ نا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: «كَتَبَتِ الشَّيَاطِينُ كُتُبًا فِيهَا كُفْرٌ وَشِرْكٌ , ثُمَّ دَفَنَتْ تِلْكَ الْكُتُبَ تَحْتَ كُرْسِيِّ سُلَيْمَانَ , فَلَمَّا مَاتَ سُلَيْمَانُ اسْتَخْرَجَ النَّاسُ تِلْكَ الْكُتُبَ» فَقَالُوا: هَذَا عِلْمٌ كَتَمَنَاهُ سُلَيْمَانُ فَقَالَ اللَّهُ: {وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102]

شیاطین نے کتابیں لکھیں جس میں کفر و شرک تھا پھر ان کو سلیمان  کے تخت کے نیچے چھپا دیا پھر جب سلیمان کی وفات  ہوئی تو لوگوں نے ان کو نکالا اور کہا یہ وہ علم ہے جو سلیمان نے ہم سے چھپایا پس الله نے کہا{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة:

تذكرة الحفاظ از الذھبی کے مطابق مفسر مجاہد نے تحقیق کی

ذكر محمد بن حميد أخبرنا عبد الله بن عبد القدوس عن الأعمش قال: كان مجاهد لا يسمع بأعجوبة إلا ذهب لينظر إليها. ذهب الى حضرموت ليرى بئر برهوت وذهب الى بابل وعليه وال فقال له مجاهد: تعرض على هاروت وماروت فدعا رجلا من السحرة فقال: اذهب به فقال اليهودي بشرط ألا تدعو الله عندهما قال فذهب به الى قلعة فقطع منها حجرا ثم قال خذ برجلى فهوى به حتى انتهى الى جوبة فإذا هما معلقين منكسين كالجبلين فلما رأيتهما قلت سبحان الله خالقكما فاضطربا فكأن الجبال تدكدكت فغشي على وعلى اليهودي ثم أفاق قبلى فقال قد أهلكت نفسك وأهلكتنى.

الأعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں سنتے یہاں تک کہ اس کو دیکھتے وہ حضر الموت گئے تاکہ برهوت کا کنواں دیکھیں اور بابل گئےوہاں افسر تھا اس سے کہا مجھ پر ہاروت و ماروت کو پیش کرو پس  جادو گروں کو بلایا گیا ان سے کہا کہ وہاں تک لے چلو ایک یہودی نے کہا اس شرط پر کہ وہاں ہاروت و ماروت کے سامنے اللہ کو نہیں پکارو گے  – پس وہ وہاں گئے قلعہ تک اس کا پتھر نکالا گیا پھر یہودی نے پیر سے پکڑا اور لے گیا جہاں دو پہاڑوں کی طرح ہاروت و ماروت معلق تھے پس ان کو دیکھا  (تو بے ساختہ مجاہد بولے) سبحان الله جس نے ان کو خلق کیا – اس پر  وہ (فرشتے) ہل گئے اور مجاہد  اور یہودی غش کھا گئے پھرجب  افاقہ ہوا تو یہودی بولا:  تم نے تو اپنے آپ کو اور مجھے مروا ہی دیا تھا

تیسری صدی ہجری

امام احمد اس قصے  کو منکر کہتے تھے – الكتاب: أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از آبو حذيفة، نبيل بن منصور بن يعقوب بن سلطان البصارة الكويتي

وقال أحمد بن حنبل: هذا منكر، إنما يروى عن كعب” المنتخب لابن قدامة ص 296 ہ

امام احمد نے کہا یہ منکر ہے اس کو کعب نے روایت کیا ہے

چوتھی صدی ہجری

تفسیر ابن ابی حاتم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ- يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَيُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ مُجَاهِدٍ. قَالَ: كُنْتُ نَازِلا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَالَ لِغُلامِهِ. انْظُرْ طَلَعَتِ الْحَمْرَاءُ لَا مَرْحَبًا بِهَا وَلا أَهْلا وَلا حَيَّاهَا اللَّهُ هِيَ صَاحِبَةُ الْمَلَكَيْنِ- قَالَتِ الْمَلائِكَةُ: رَبِّ كَيْفَ تَدَعُ عُصَاةَ بَنِي آدَمَ وَهُمْ يَسْفِكُونَ الدَّمَ الْحَرَامَ، وَيَنْتَهِكُونَ مَحَارِمَكَ، وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ؟  قَالَ: إِنِّي قَدِ ابْتَلَيْتُهُمْ فَلَعَلِّي إِنِ ابْتَلَيْتُكُمُ بِمِثْلِ الَّذِي ابْتَلَيْتُهُمْ بِهِ فَعَلْتُمْ كَالذي يَفْعَلُونَ قَالُوا: لَا. قَالَ: فَاخْتَارُوا مِنْ خِيَارِكُمُ اثْنَيْنِ، فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ فَقَالَ لَهُمَا إِنِّي مُهْبِطُكُمَا إِلَى الأَرْضِ وَعَاهِدٌ إِلَيْكُمَا أَنْ لَا تُشْرِكَا وَلا تَزْنِيَا، وَلا تَخُونَا. فَأُهْبِطَا إِلَى الأَرْضِ، وَأَلْقَى عَلَيْهِمَا الشَّبَقَ وَأُهْبِطَتْ لَهُمَا الزُّهْرَةُ فِي أَحْسَنِ صُورَةِ امْرَأَةٍ فَتَعَرَّضَتْ

مجاہد کہتے ہیں ہم سفر  میں آبن عمر رضی الله عنہ کے ساتھ تھے  پس جب رات ہوئی انہوں نے لڑکے سے کہا دیکھو الْحَمْرَاءُ کا طلوع ہوا اس میں خوش آمدید نہیں ہے نہ اس کے اہل کے لئے … یہ ان فرشتوں کی ساتھی ہے – فرشتوں نے کہا اے رب ہم انسانوں کے گناہوں کو کیسے دور کریں وہ خون بہا رہے ہیں اور زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں؟ کہا : بے شک میں ان کی آزمائش کروں گا جس طرح میں نے تم کو آزمائش میں ڈالا اور دیکھوں گا کیسا عمل کرتے ہیں ؟ … پس اپنے فرشتوں میں سے چنوں دو کو – انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا ان سے کہا زمین پر ہبوط کرو اور تم پر عہد ہے نہ شرک کرنا نہ زنا اور نہ خیانت پس وہ زمین پر اترے اور ان پر شہوانیت القی کی گئی اور الزہرا کو بھی اترا یا ایک حسین عورت کی شکل میں اور ان کا دیکھنا ہوا

سياره الزهراء يا

Venus

کو الْحَمْرَاءُ کہا گیا ہے یعنی سرخی مائل اور اس کو ایک عورت کہا گیا ہے جو مجسم ہوئی اور فرشتوں ہاروت و ماروت کی آزمائش بنی  خبر دی گئی کہ فرشتے انسانوں سے جلتے تھے اس تاک میں رہتے کہ الله تعالی کے سامنے ثابت کر سکیں کہ ہم نے جو پہلے کہا تھا کہ یہ انسان فسادی ہے اس کو صحیح ثابت کر سکیں – اس پر الله نے کہا کہ تم فرشتوں سے خود دو کو چنوں اور پھر وہ فرشتے کیا آزمائش بنتے وہ خود الزہرا پر عاشق ہو گئے

کتاب العلل از ابن ابی حاتم میں ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے اس روایت پر سوال کیا

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ معاذ بن خالد العَسْقلاني عَنْ زُهَير (1) بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَير (2) ، عَنْ نَافِعٍ، عن عبد الله بْنِ عُمَرَ؛ أنَّه سَمِعَ النبيَّ (ص) يقول: إِنَّ آدَمَ [لَمَّا] (3) أَهْبَطَهُ (4) اللهُ إلَى الأَرْضِ، قَالَتِ المَلاَئِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (5) ، قَالُوا: رَبَّنَا، نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ … وذكَرَ الحديثَ: قِصَّةَ (6) هاروتَ وماروتَ؟

قَالَ أَبِي: هذا حديثٌ مُنكَرٌ

میرے باپ نے کہا یہ منکر ہے

ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج 10، ص 3241-3242 پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں

قَوْلُهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
18355 – وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَرَادَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ فَأَعْطَى الْجَرَادَةَ خَاتَمَهُ وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ، وَكَانَتْ أَحَبَّ نِسَائِهِ إِلَيْهِ فَجَاءَ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهَا: هَاتِي خَاتَمِي فَأَعْطَتْهُ فَلَمَّا لَبِسَهُ دَانَتْ لَهُ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَالشَّيَاطِينُ، فَلَمَّا خَرَجَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْخَلَاءِ قال لها: هَاتِي خَاتَمِي فَقَالَتْ: قَدْ أَعْطَيْتُهُ سُلَيْمَانَ قَالَ: أَنَا سُلَيْمَانُ قَالَتْ: كَذَبْتَ لَسْتَ سُلَيْمَانَ فَجَعَلَ لَا يَأْتِي أَحَدًا يَقُولُ: أَنَا سُلَيْمَانُ إِلا كَذَّبَهُ حَتَّى جَعَلَ الصِّبْيَانُ يَرْمُونَهُ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَامَ الشَّيْطَانُ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ.
فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدَّ عَلَى سليمان عليه السلام سلطانه ألْقَى فِي قُلُوبِ النَّاسِ إِنْكَارَ ذَلِكَ الشَّيْطَانِ فَأَرْسَلُوا إِلَى نِسَاءِ «1» سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَقَالُوا لهن أيكون من سليمان شيء؟ قلنا: نَعَمْ إِنَّهُ يَأْتِينَا وَنَحْنُ حُيَّضٌ، وَمَا كَانَ يَأْتِينَا قَبْلَ ذَلِكَ

قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام بیت الخلاء میں جاتے، اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے، جو کہ ان کی بیوی تھی، اور سب سے عزیز تھی۔ شیطان حضرت سلیمان کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے میری انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی، تو سب جن و انس و شیطان اس کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نکلے، تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیمان کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیمان ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم سلیمان نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیمان ہوں، اور ان کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا- جب اللہ نے اس بات کا ارادہ کیا کہ حضرت سلیمان کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیمان میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب وہ ہمارے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔

یہاں اس پر قوی سند لکھا ہوا ہے راقم کہتا ہے

تفسیر ابن حاتم ٩٠٠ صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355 ہے جس پر وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں تصرف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟

اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضًا ما قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن حسين، قال: حدثنا محمد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة وعلي بن محمد، قال: حدثنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الأعمش، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله – تعال ى-: {وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ}، قال: أراد سليمان -عليه الصلاة والسلام- أن يدخل الخلاء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها

اس کی سند میں المنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے

چوتھی صدی کے ہی  ابن حبان اس روایت کو صحیح ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ  میں نقل کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكير عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  (إِنَّ آدَمَ ـ لَمَّا أُهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ ـ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مِنْ يُفسد فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ونُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: 30] قَالُوا: رَبَّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلَانِ قَالُوا: رَبَّنَا هَارُوتُ وَمَارُوتُ قَالَ: فَاهْبِطَا إِلَى الْأَرْضِ قَالَ: فَمُثِّلَتْ لَهُمُ الزُّهْرةُ امْرَأَةً مِنْ أَحْسَنِ الْبَشَرِ فَجَاءَاهَا فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تكَلِّما بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ مِنَ الْإِشْرَاكِ قَالَا: وَاللَّهِ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ أَبَدًا فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بصبيٍّ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيَّ فَقَالَا: لَا وَاللَّهِ لَا نَقْتُلُهُ أَبَدًا فَذَهَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحٍ مِنْ خَمْرٍ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْرَ فَشَرِبَا فَسَكِرَا فَوَقَعَا عَلَيْهَا وَقَتَلَا الصَّبِيَّ فَلَمَّا أَفَاقَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ: وَاللَّهِ مَا تركتُما مِنْ شَيْءٍ أَثِيمًا إِلَّا فَعَلْتُمَاهُ حِينَ سَكِرْتُما فخُيِّرا ـ عِنْدَ ذَلِكَ ـ بَيْنَ عَذَابِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الآخرة فاختارا عذاب الدنيا)

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: الزُّهرة ـ هَذِهِ ـ: امْرَأَةٌ كَانَتْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ، لَا أَنَّهَا الزُّهرة الَّتِي هِيَ فِي السَّمَاءِ، الَّتِي هِيَ مِنَ الخُنَّسِ.

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا فرمایا: جب آدم کا زمین کی طرف ہبوط ہوا فرشتوں نے کہا اے رب کیا اس کو خلیفہ کیا ہے کہ اس میں فساد کرے اور خون بہائے اور ہم آپ کی تعریف کرتے ہیں اور تقدس کرتے ہیں ؟ فرمایا : میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے – فرشتوں نے کہا  ہمارے رب ہم انسانوں سے بڑھ کر آپ کے اطاعت گزار ہیں الله تعالی نے فرشتوں سے کہا : فرشتوں کو لو پس دیکھیں یہ کیا عمل کرتے ہیں- فرشتوں نے کہا : آے رب ہاروت و ماروت ہیں- حکم الہی ہوا : زمین کی طرف ہبوط کرو – وہاں الزہرا انسانوں میں سے ایک حسن عورت ان کو ورغلائے گی پس وہ ان فرشتوں کے پاس گئی اور نفس کے  بارے میں سوال کیا (یعنی زنا کی ہاروت و ماروت نے ترغیب دی) اور بولی : نہیں الله کی قسم میں نہیں کروں گی یہاں تک کہ تم شرکیہ کلمات ادا کرو – ہاروت و ماروت نے کہا و الله ہم یہ کلمات نہیں بولیں گے پس وہ لوٹ گئی ایک لڑکے کے ساتھ اور واپس انہوں نے  نفس کا سوال کیا  وہ بولی میں اس لڑکے کو مار ڈالوں گی فرشتوں نے کہا نہیں مارو وہ لوٹ گئی پھر آئی ایک قدح لے کر شراب کا اس پر سوال کیا فرشتوں نے کہا ہم نہیں پییں گے یہاں تک کہ وہ پی گئے پس وہ واقعہ ہوا (زنا) اور لڑکے کو قتل کیا – جب افاقہ ہوا عورت بولی الله کی قسم میں نے تم کو کہیں کا نہ چھوڑا گناہ میں کوئی چیز نہیں جو تم نہ کر بیٹھے ہو اور تم نے نہیں کیا جب تک شراب نہ پی لی  … تم نے دنیا و آخرت میں سے دنیا کا  عذاب چنا

ابو حاتم ابن حبان نے کہا الزہرہ یہ اس دور میں عورت تھی وہ وہ نہیں جو آسمان میں ہے جو الخنس ہے

ابن حبان نے اس روایت کو صحیح میں لکھا اس میں اختلاف صرف یہ کیا کہ الزہرہ کو ایک مسجم عورت کی بجائے ایک حقیقی عورت کہا

البدء والتاريخ  از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ)  قصة هاروت وماروت،  اختلفوا المسلمون [1] فيه اختلافا كثيرا

القدسی نے تاریخ میں لکھا کہ مسلمانوں کا اس پر اختلاف ہے

یعنی ابن ابی حاتم اس کو منکر کہتے ہیں اور ابن حبان صحیح

العلل دارقطنی از امام دارقطنی المتوفی ٣٨٥ ھ  میں ہے

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وسلم: أن آدم لما أهبطه الله إلى الأرض قالت الملائكة: أي رب: {أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء} ، قالوا: ربنا، نحن أطوع لك من بني آدم، قال الله للملائكة: هلموا ملكين … فذكر قصة هاروت وماروت.

فقال: اختلف فيه على نافع:

فرواه موسى بن جبير، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وَخَالَفَهُ مُوسَى بْنُ عقبة، فرواه عن نافع، عن ابن عمر، عن كعب الأحبار، من رواية الثوري، عن موسى بن عقبة.

وقال إبراهيم بن طهمان: عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه، عن كعب.

دارقطنی نے العلل میں اس کی اسناد نقل کیں لیکن رد نہیں کیا

پانچویں صدی ہجری

امام حاکم  المتوفی ٤٠٥ ھ مستدرک میں اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

آٹھویں صدی ہجری

الذھبی سیر میں لکھتے ہیں

قُلْتُ: وَلِمُجَاهِدٍ أَقْوَالٌ وَغَرَائِبُ فِي العِلْمِ وَالتَّفْسِيْرِ تُسْتَنْكَرُ، وَبَلَغَنَا: أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَابِلَ، وَطَلَبَ مِنْ مُتَوَلِّيْهَا أَنْ يُوْقِفَهُ عَلَى هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ.

میں کہتا ہوں : مجاہد کے اقوال اور علم و تفسیر میں غریب باتیں ہیں جن کا انکار کیا جاتا ہے اور ہم تک پہنچا ہے کہ یہ بابل گئے اور وہاں کے متولی سے کہا کہ ہاروت و ماروت سے ملاو

لیکن  الذھبی مستدرک حاکم کی تلخیص میں ہاروت و ماروت کے  اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، أَنْبَأَ إِسْحَاقُ، أَنْبَأَ حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ وَكَانَ ثِقَةً، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102] الْآيَةُ. قَالَ: ” إِنَّ النَّاسَ بَعْدَ آدَمَ وَقَعُوا فِي الشِّرْكِ اتَّخَذُوا هَذِهِ الْأَصْنَامَ، وَعَبَدُوا غَيْرَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَتِ الْمَلَائِكَةُ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ وَيَقُولُونَ: رَبَّنَا خَلَقْتَ عِبَادَكَ فَأَحْسَنْتَ خَلْقَهُمْ، وَرَزَقْتَهُمْ فَأَحْسَنْتَ رِزْقَهُمْ، فَعَصَوْكَ وَعَبَدُوا غَيْرَكَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُمْ فِي غَيْبٍ فَجَعَلُوا لَا يَعْذُرُونَهُمْ ” فَقَالَ: اخْتَارُوا مِنْكُمُ اثْنَيْنِ أُهْبِطُهُمَا إِلَى الْأَرْضِ، فَآمُرُهُمَا وَأَنْهَاهُمَا ” فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ – قَالَ: وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِيهِمَا – وَقَالَ فِيهِ: فَلَمَّا شَرِبَا الْخَمْرَ وَانْتَشَيَا وَقَعَا بِالْمَرْأَةِ وَقَتَلَا النَّفْسَ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَظَرُوا إِلَيْهِمَا وَمَا يَعْمَلَانِ فَفِي ذَلِكَ أُنْزِلَتْ {وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ، وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ} [الشورى: 5] الْآيَةُ. قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ الْمَلَائِكَةُ يَعْذُرُونَ أَهْلَ الْأَرْضِ وَيَدْعُونَ لَهُمْ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]  3655 – صحيح

نویں صدی ہجری

هیثمی  المتوفی ٨٠٧ ہجری کتاب مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: اسْمُ الْمَلَكَيْنِ اللَّذَيْنِ يَأْتِيَانِ فِي الْقَبْرِ مُنْكَرٌ وَنَكِيرٌ، وَكَانَ اسْمُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ – وَهُمَا فِي السَّمَاءِ – عَزَرًا وَعَزِيزًا ..  رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

اس کی اسناد حسن ہیں

ابن حجر المتوفي ٨٥٢ هجري  فتح الباری میں کہتے ہیں

قال الحافظ: وقصة هاروت وماروت جاءت بسند حسن من حديث ابن عمر في مسند أحمد

اور ہاروت و ماروت کا قصہ حسن سند سے مسند احمد میں ہے ابن عمر کی سند سے

دسویں صدی ہجری

التخريج الصغير والتحبير الكبير  ابن المِبْرَد الحنبلي (المتوفى: 909 هـ)

حديث: “هَارُوتَ وَمَارُوتَ” الإمام أحمد، وابن حبان، بسند صحيح.

ابن المِبْرَد  کے مطابق مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں اس کی سند صحیح ہے

الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)

قصة هاروت وماروت.  وفي مسند أحمد، وصحح ابن حبان من حديث ابن عمر بسند صحيح.

قلت: لها طرق عديدة استوعبتها في التفسير المسند، وفي تخريج أحاديث الشفاء، انتهى.

قصہ ہاروت و ماروت کا یہ مسند احمد صحیح ابن حبان میں ہے صحیح سند سے ابن عمر رضی الله عنہ کی

میں السيوطي کہتا ہوں اس کے بہت سے طرق مسند احمد کی تفسیر میں ہے اور احادیث کتاب الشفاء کی تخریج میں

کتاب  تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة  المؤلف: نور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (المتوفى: 963هـ)

” وَمن طَرِيقه (خطّ) من حَدِيث ابْن عمر، وَفِيه قصَّة لنافع مَعَ ابْن عمر وَلَا يَصح، فِيهِ الْفرج بن فضَالة، وسنيد ضعفه أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ (تعقبه) الْحَافِظ ابْن حجر فِي القَوْل المسدد فَقَالَ: أخرجه أَحْمد فِي مُسْنده وَابْن حبَان فِي صَحِيحه من وَجه آخر، وَله طرق كَثِيرَة جمعتها فِي جُزْء مُفْرد يكَاد الْوَاقِف عَلَيْهَا لكثرتها وَقُوَّة مخارج أَكْثَرهَا يقطع بِوُقُوع هَذِه الْقِصَّة، انْتهى قَالَ السُّيُوطِيّ: وجمعت أَنا طرقها فِي التَّفْسِير الْمسند وَفِي التَّفْسِير الْمَأْثُور فَجَاءَت نيفا وَعشْرين طَرِيقا مَا بَين مَرْفُوع وَمَوْقُوف، وَلِحَدِيث ابْن عمر بِخُصُوصِهِ طرق مُتعَدِّدَة.

اور جو طرق حدیث ابن عمر کا ہے اور اس میں نافع کا ابن عمر کے ساتھ کا قصہ ہے صحیح نہیں ہے اس میں فرج بن فضالہ ہے اور سنید ہے جس کی تضعیف کی ہے ابو داود نے اور نسائی نے اس کا تعقب کیا ہے ابن حجر نے کتاب القول لمسدد میں اور کہا ہے اس کی تخریج کی ہے احمد نے مسند میں ابن حبان نے صحیح میں  دوسرے طرق سے اور اس کے کثیر طرق ہیں جو سب مل کر ایک جز بن جاتے ہیں اور واقف جان جاتا ہے اس کثرت پر اور مخارج کی قوت پر … السُّيُوطِيّ نے کہا اور میں نے جمع کر دیا ہے اس کے طرق تفسیر میں اور … خاص کر ابن عمر کی حدیث کے تو بہت طرق ہیں

تذكرة الموضوعات میں محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ) لکھتے ہیں

قِصَّةُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ مَعَ الزَّهْرَةِ وَهُبُوطِهِ إِلَى الأَرْضِ امْرَأَةً حَسَنَةً حِينَ طَغَتِ الْمَلائِكَةُ وَشُرْبِهِمَا الْخَمْرَ وقتلهما النَّفس وزناهما» عَن ابْن عمر رَفعه وَفِيه مُوسَى ابْن جُبَير مُخْتَلف فِيهِ وَلَكِن قد توبع، وَلأبي نعيم عَن عَليّ قَالَ «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّهْرَةَ وَقَالَ إِنَّهَا فتنت الْملكَيْنِ» وَقيل الصَّحِيح وَقفه على كَعْب وَكَذَا قَالَ الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز قصتهما فِي الْفرج بن فضَالة: ضَعِيف قلت قَالَ ابْن حجر لَهَا طرق كَثِيرَة يقطع بوقوعها لقُوَّة مخارجها.

قصہ ہاروت و ماروت کا الزہرا کے ساتھ اور ان کا زمین پر ہبوط کرنا ایک حسین عورت کے ساتھ اور فرشتوں کا بغاوت کرنا اور شراب پینا اور قتل نفس کرنا اور زنا کرنا جو ابن عمر سے مروی ہے ان تک جاتا ہے اور اس میں موسی بن جبیر ہے مختلف فیہ ہے لیکن اس کی متابعت کی ہے ابو نعیم نے علی کی روایت سے کہ الله کی لعنت ہو الزہرا پر اور کہا اس نے فرشتوں کو آزمائش میں ڈالا اور کہا ہے صحیح ہے کعب پر موقوف ہے اور اسی طرح کہا ہے البیہقی نے اور فرج کےقصہ پر کہا ضعیف ہے میں کہتا ہوں ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے طرق بہت سے ہیں

ابن کثیر نے تفسیر میں لکھا

ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر، ج 7، ص 59-60 میں درج کیا ہے۔ سند کے بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ

إسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما قَوِيٌّ، وَلَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَلَقَّاهُ ابْنُ عباس رضي الله عنهما إِنْ صَحَّ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ طائفة لا يعتقدون نبوة سليمان عليه الصلاة والسلام فَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا كَانَ فِي هذا السِّيَاقِ مُنْكَرَاتٌ مِنْ أَشَدِّهَا ذِكْرُ النِّسَاءِ فَإِنَّ المشهور عن مجاهد وغير واحد من أئمة السلف أَنَّ ذَلِكَ الْجِنِّيَّ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَى نِسَاءِ سليمان بل عصمهن الله عز وجل منه تشريفا وتكريما لنبيه عليه السلام. وَقَدْ رُوِيَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ مُطَوَّلَةً عَنْ جَمَاعَةٍ من السلف رضي الله عنهم كَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَجَمَاعَةٍ آخَرِينَ وَكُلُّهَا مُتَلَقَّاةٌ مِنْ قَصَصِ أَهْلِ الْكِتَابِ، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.

اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حضرت سلیمان کی نبوت کا منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر ائمہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور شرف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ سلف میں ایک جماعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت، زید بن اسلم، اور بعد کی ایک جماعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے ملا

راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے یہ کام ابن عباس رضی الله عنہ کا نہیں کہ اہل کتاب سے روایت کریں بلکہ اس میں جرح منہال بن عمرو پر ہے

چودھویں صدی ہجری

کتاب التحرير والتنوير از محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) کے مطابق

وَلِأَهْلِ الْقِصَصِ هُنَا قِصَّةٌ خُرَافِيَّةٌ مِنْ مَوْضُوعَاتِ الْيَهُودِ فِي خُرَافَاتِهِمُ الْحَدِيثَةِ اعْتَادَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ ذِكْرَهَا مِنْهُمُ ابْنُ عَطِيَّةَ وَالْبَيْضَاوِيُّ وَأَشَارَ الْمُحَقِّقُونَ مِثْلُ الْبَيْضَاوِيِّ وَالْفَخْرِ وَابْنِ كَثِيرٍ وَالْقُرْطُبِيِّ وَابْنِ عَرَفَةَ إِلَى كَذِبِهَا وَأَنَّهَا مِنْ مَرْوِيَّاتِ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَقَدْ وَهِمَ فِيهَا بَعْضُ الْمُتَسَاهِلِينَ فِي الْحَدِيثِ فَنَسَبُوا رِوَايَتَهَا عَنِ النَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ عَنْ بَعْضِ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ وَاهِيَةٍ وَالْعَجَبُ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى كَيْفَ أَخْرَجَهَا مُسْنَدَةً لِلنَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَعَلَّهَا مَدْسُوسَةٌ عَلَى الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَوْ أَنَّهُ غَرَّهُ فِيهَا ظَاهِرُ حَالِ رُوَاتِهَا مَعَ أَنَّ فِيهِمْ مُوسَى بْنَ جُبَيْرٍ وَهُوَ مُتَكَلَّمٌ فِيهِ

اور اہل قصص کے لئے اس میں بہت سے یہودیوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں جس سے مفسرین دھوکہ کھا گئے ان میں ابن عطیہ اور بیضاوی ہیں اور محققین مثلا بیضاوی اور فخر الرازی اورابن کثیر اور قرطبی اور ابن عرفہ نے ان کے کذب کی طرف اشارہ کیا ہے  جو  بے شک کعب الاحبار کی مرویات ہیں اور اس میں وہم ہے بعض متساهلین کا حدیث کے لئے تو انہوں نے ان قصوں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے  یا بعض اصحاب رسول کی طرف واہیات اسناد کے ساتھ اور عجیب بات ہے کہ امام احمد بن حنبل الله رحم کرے نے ان کو کیسے مسند میں لکھا اور ہو سکتا ہے وہ بہک گئے ہوں اس کے ظاہر حال پر اس میں موسی بن جبیر ہے اور متکلم فیہ ہے

یہ بھی لکھتے ہیں

وَ (هَارُوتَ وَمَارُوتَ) بَدَلٌ مِنَ (الْمَلَكَيْنِ) وَهُمَا اسْمَانِ كَلْدَانِيَّانِ دَخَلَهُمَا تَغْيِيرُ التَّعْرِيفِ لِإِجْرَائِهِمَا عَلَى خِفَّةِ الْأَوْزَانِ الْعَرَبِيَّةِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَارُوتَ مُعَرَّبُ (هَارُوكَا) وَهُوَ اسْمُ الْقَمَرِ عِنْدَ الْكَلْدَانِيِّينَ وَأَنَّ مَارُوتَ مُعَرَّبُ (مَا رُودَاخَ) وَهُوَ اسْمُ الْمُشْتَرِي عِنْدَهُمْ وَكَانُوا يَعُدُّونَ الْكَوَاكِبَ السَّيَّارَةَ مِنَ الْمَعْبُودَاتِ الْمُقَدَّسَةِ الَّتِي هِيَ دُونَ الْآلِهَةِ لَا سِيَّمَا الْقَمَرِ فَإِنَّهُ أَشَدُّ الْكَوَاكِبِ تَأْثِيرًا عِنْدَهُمْ فِي هَذَا الْعَالَمِ وَهُوَ رَمْزُ الْأُنْثَى، وَكَذَلِكَ الْمُشْتَرِي فَهُوَ أَشْرَفُ الْكَوَاكِبِ السَّبْعَةِ عِنْدَهُمْ وَلَعَلَّهُ كَانَ رَمْزَ الذَّكَرِ عِنْدَهُمْ كَمَا كَانَ بَعْلٌ عِنْدَ الْكَنْعَانِيِّينَ الْفِنِيقِيِّينَ.

اور ہاروت و ماروت فرشتوں کا بدل ہیں اور یہ نام کلدانی کے ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے تبدیل کر کے عربیوزن پر اور ظاہر ہے ہاروت معرب ہے ہاروکا کا جو چاند کا نام ہے کلدانیوں کے نزدیک اور ماروت معرب ہے ماروداخ کا جو مشتری کا نام ہے ان کے ہاں – اور یہ کواکب کو مقدس معبودات میں شمار کرتے تھے  خاص طور پر چاند کو کیونکہ یہ کواکب میں سب سے بڑھ کر تاثیر رکھتا ہے ان کے نزدیک تمام عالم میں اور یہ رمز ہے مونث پر اور اسی طرح مشتری سات کواکب میں سب سے با عزت ہے جو اشارہ ہے مذکر پر ان کے نزدیک جیسا کہ بعل تھا فونشیوں  اور کنعآنیوں کے نزدیک

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں  شعيب الأرنؤوط   لکھتے ہیں

قلت: وقول الحافظ ابن حجر في “القول المسدد” 40-41 بأن: للحديث طرقاً كثيرة جمعتها في جزء مفرد يكاد الواقف عليه أن يقطع بوقوع هذه القصة لكثرة الطرق الواردة فيها وقوَّة مخارج أكثرها، خطأ مبين منه -رحمه الله- ردَّه عليه العلامة أحمد شاكر -رحمه الله- في تعليقه على “المسند” (6178) فقال: أمَّا هذا الذي جزم به الحافظ بصحة وقوع هذه القصة صحة قريبة من القطع لكثرة طرقها وقوة مخارج أكثرها، فلا، فإنها كلها طرق معلولة أو واهية إلى مخالفتها الواضحة للعقل، لا من جهة عصمة الملائكة القطعية فقط، بل من ناحية أن الكوكب الذي نراه صغيراً في عين الناظر قد يكون حجمه أضعاف حجم الكرة الأرضية بالآلاف المؤلفة من الأضعاف، فأنَّى يكون جسم المرأة الصغير إلى هذه الأجرام الفلكية الهائلة!

  شعيب الأرنؤوط نے ابن حجر کی تصحیح کو ایک غلطی قرار دیا اور احمد شاکر نے بھی ابن حجر کی رائے کو رد کیا

بابل کا مذھب

بابل میں مردوک

Marduk

 کی پوجا ہوتی تھی – بابلی زبان میں مردوک کو

Marutuk

ماروتک

بولا جاتا تھا

 Frymer-Kensky, Tikva (2005). Jones, Lindsay, ed. Marduk. Encyclopedia of religion 8 (2 ed.). New York. pp. 5702–5703. ISBN 0-02-865741-1.

https://en.wikipedia.org/wiki/Marduk

بعض مغربی محققین اس بات تک پہنچے ہیں کہ یہ بابلی دیوتا اصلا فرشتے تھے تصاویر میں بھی اس کو پروں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے

جادوگروں نے اس قصے میں  سیارہ الزہرا یعنی وینس ، چاند اور مشتری کا  اثر  تمثیلی انداز میں سکھایا  ہے کہ یہ چاند اور مشتری کا جادو الزہرا کی موجودگی میں بڑھ جاتا ہے – چاند کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس کی ٢٧ منزلیں  ہیں جن میں چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے اور عبرانی کے بھی ٢٧ حروف ہیں لہذا کلمات شرکیہ کو ان سے ملا کر اخذ کیا جاتا  تھا

In general, though not always, the zodiac is divided into 27 or 28 segments relative to fixed stars – one for each day of the lunar month, which is 27.3 days long

https://en.wikipedia.org/wiki/Lunar_mansion

بابل کی اسیری سے پہلے بنی اسرائیل جو عبرانی استمال کرتے تھے اس کو

Palaeo-Hebrew alphabet

کہا جاتا ہے جس میں ٢٢ حروف تھے جو ابجد حروف کہلاتے ہیں

یہود کے مطابق بابل کی اسیری میں کسی موقع پر ان  کی زبان تبدیل ہوئی جس میں اشوری اور بابلی زبان سے حروف لئے گئے

بائیس حروف کو ٢٧ میں بدلنے کے پیچھے کیا چاند کی ٢٧ منازل تھیں ؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب ہمارے اسلامی جادو یا سحر کی کتب میں ہے جس پر کسی اور بلاگ میں بحث ہو گی

موت کے بعد جو بول اٹھا

کتب رجال و اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم میں ایک صحابی کے لئے اتا ہے

من تکلم بعد الموت

موت کے بعد جو بول اٹھا

یہ زید بن خارجہ رضی الله عنہ ہیں جو بدری صحابی ہیں اور عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی

تہذیب الکمال از المزی کے مطابق

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقُرَشِيُّ، قال: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ الْفَاخِر الْقُرَشِيّ فِي جماعة، قَالُوا: أَخْبَرَتْنا فَاطِمَةُ بِنْتُ عَبد اللَّهِ، قَالَتْ: أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبد اللَّهِ الضَّبِّيُّ، قال: أخبرنا سُلَيْمان بْن أَحْمَد (2) ، قال: حَدَّثَنَا عِيسَى بْن مُحَمَّد السمسار الواسطي، قال: حَدَّثَنَا عبد الحميد بْن بيان، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاق الأزرق، عَنْ شَرِيك، عَنْ إِبْرَاهِيم بْن مهاجر، عَنْ حَبِيب بْن سالم، عن النعمان بْن بشير، قال: لما توفي زَيْد بْن خَارِجَة انتظر بِهِ خروج عُثْمَان، فقلت (3) : أصلي ركعتين، فكشف الثوب عَنْ وجهه، فَقَالَ: السلام عليكم، السلام عليكم. قال: وأهل البيت يتكلمون، فقلت وأنا فِي الصلاة: سبحان الله، سبحان الله! فَقَالَ: انصتوا، انصتوا، مُحَمَّد رَسُول اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق أَبُو بَكْر الصديق، ضعيف فِي جسده قوي فِي أمر اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق عُمَر بْن الخطاب، قوي فِي جسده، قوي فِي أمر الله، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق عُثْمَان بْن عَفَّان، مضت اثنتان وبقي أربع، وأبيحت الأحماء بئر أريس وما بئر أريس، السلام عليك عَبد اللَّهِ بْن رواحة، هل أحسست لي (1) خَارِجَة وسعدا؟ قال شَرِيك: هما أبوه وأخوه. وقد رويت هذه القصة من وجوه كثيرة، عَنِ النعمان بْن بشير وغيره.

حبیب بن سالم روایت کرتا ہے النعمان بْن بشير رضی الله عنہ سے کہ جب زید بن خارجہ کی وفات ہوئی ہم عثمان کے نکلنے کا انتظار کر رہے  تھے- پس ان سے کہا : دو رکعت پڑھ لیں پس زید کے چہرے پر سے کپڑا ہٹایا کہا السلام علیکم السلام علیکم  کہا : اور گھر والے بات کرنے لگ گئے اور میں نماز میں تھامیں  نے کہا سبحان الله سبحان الله (یعنی گھر والوں کو روکنے کی کوشش کی اور نماز میں سبحان الله پکارآ ک وہ چپ رہیں اسی اثنا میں)  زید بن خارجہ   نے کہا (یعنی میت بولی)چپ رہو چپ رہو، محمد رسول الله ہیں ایسا کتاب اول میں تھا- سچ سچ سچا ہے ابو بکر الصدیق، جسم میں کمزور ہے قوی الله کے کام میں ایسا ہی کتاب اول میں تھا، سچا سچ سچا عمر بن الخطاب ہے جسم میں قوی ہے اور الله کے کام میں بھی ایسا ہی کتاب اول میں تھا – سچا سچا سچا عثمان ہے دو سال گزرے اور چار باقی ہیں – گرم ہوا بئر أريس (کا پانی) اور کیا ہے بئر أريس؟، السلام ہو آپ پر عبد الله بن رواحة، کیا  آپ نے میرے لئے محسوس کیا اور سعد کے لئے ؟ شریک نے کہا یہ دونوں باپ بیٹا تھے اور اس قصے کو روایت کیا ہے کئی طرح النعمان بْن بشير اور دیگر سے

اس واقعہ کو بیان کرنے والآ حبیب بن سالم ہے جو مختلف فیہ ہے- امام بخاری نے اس سے صحیح میں روایت نہیں لی ہے-

ابن مندہ نے کتاب میں روایت نقل کی ہے

أخبرنا خيثمة بن سليمان، ومحمد بن يعقوب بن يوسف، قالا: حدثنا العباس بن الوليد بن مزيد، قال: أخبرني أبي، قال: حدثني ابن جابر، ح: وحدثنا عبد الرحمن بن يحيى، قال: حدثنا أبو مسعود، قال: حدثنا هشام بن إسماعيل، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، عن ابن جابر، قال: سمعت عمير بن هاني، يحدث عن النعمان بن بشير، قال: توفي رجل منا يقال له خارجة بن زيد، فسجينا عليه ثوبًا وقمت أصلي، فسمعت ضوضأة، فانصرفت فإذا به يتحرك، وظننت أن حية دخلت بينه وبين الثياب، فلما وقفت عليه قال: أجلد القوم وأوسطهم عبد الله عمر أمير المؤمنين، الذي لا تأخذه في الله لومة لائم كان في الكتاب الأول صدق صدق عبد الله بن أبو بكر أمير المؤمنين، الضعيف في جسمه القوي في أمر الله، وفي الكتاب الأول صدق صدق عبد الله عثمان أمير المؤمنين الضعيف العفيف المتعفف، الذي يعفو عن ذنوب كثيرة، خلت ليلتان وبقيت أربع، اختلف الناس ولا نظام، وأييحت الأحماء، أيها الناس، اقبلوا على إمامكم واسمعوا له وأطيعوا، فمن تولى فلا يعهدن دمًا، كان أمر الله قدرًا مقدورًا ثلاثًا، هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، سلام عليك يا رسول الله، هذا عبد الله بن رواحة ما فعل خارجة بن زيد، ثم رفع صوته، فقال: يقول: {كَلَّا إِنَّهَا لَظَى} [المعارج: 15] أخذت بئر أريس ظلمًا، ثم خفت الصوت فرفعت الثوب، فإذا هو على حاله ميت.

عمير بن هاني کہتا ہے اس نے نعمان بن بشیر سے سنا: ہم میں سے ایک شخص جس کو خارجہ بن زید کہا جاتا تھا کی وفات ہوئی- پس اس پر کپڑا ڈالا اور نماز پڑھی پس خارجہ بن زید میں ایک گرگڑآہت سنی پس ہم اس میت  تک ایے کیونکہ وہ ہلی – اور گمان کیا کہ سانپ کپڑے اور خارجہ بن زید کے درمیان داخل ہو گیا ہے – پس جب ان پر رکے خارجہ نے کہا کوڑے مارنے والی قوم اور ان کا درمیان الله کا بندہ  عمر امیر المومنین جس نے الله کے لئے کوئی لومة لائم نہیں رکھا یہ کتاب اول میں ہے اور سچا سچا الله کا بندہ  ابو بکر امیر المومنین ہے جسم میں ضعیف ہے الله کے امر میں قوی ہے اور کتاب اول میں ہے سچا سچا الله کا بندہ عثمان امیر المومنین ہے کمزور و نا توا و نرم ہے جو اکثر گناہوں کو معاف کرتا ہے دو راتیں باقی ہیں چار گزری ہیں –  قبول کرو اپنے اماموں کو انکی سمع و اطاعت کرو پس جس نے منہ موڑا اس کے خون کا عہد نہیں ہے – لوگوں کا اختلاف ہوا کوئی نظام نا رہا اور الله اپنے کام کو کروانے والا ہے تین دفعہ، یہ رسول الله ہیں صلی الله علیہ وسلم ، سلام ہو آپ پر یا رسول الله یہ عبد الله بن رواحة ہیں ، خارجہ بن زید نے جو کیا پھر آواز اٹھ گئی پس کہا ہرگز نہیں یہ (اگ) تو چاٹ جائے گی – ظلم سے اریس کا کنواں لیا گیا پھر آواز مدھم ہوئی اور کپڑا اٹھا تو وہ تو حال میت تھے

اس روایت کے مطابق میت پر کپڑا ہی تھا کہ اندر سے یہ ہولناک آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور برزخ کی خبریں جاری تھیں – میت ابھی دفن بھی نہیں تھی

طبرانی الکبیر کی روایت کے مطابق ایسا واقعہ خارجہ بن زید کے ساتھ بھی ہوا جو زید کے بیٹے تھے یا روایت میں راویوں نے غلطی سے باپ بیٹا کا نام ڈال دیا

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُعَلَّى الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِي، أَنَّ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنَّا يُقَالُ لَهُ خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ فَسَجَّيْنَاهُ بِثَوْبٍ، وَقُمْتُ أُصَلِّي إِذْ سَمِعْتُ ضَوْضَاءَةً وَانْصَرَفْتُ، فَإِذَا أَنَا بِهِ يَتَحَرَّكُ، فَقَالَ: ” أَجَلْدُ الْقَوْمِ أَوْسَطُهُمْ عَبْدُ اللهِ، عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ الْقَوِيُّ فِي جِسْمِهِ الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ الْعَفِيفُ الْمُتَعَفِّفُ الَّذِي يَعْفُو عَنْ ذُنُوبِ كَثِيرَةٍ حَلَّتْ لَيْلَتَانِ، وَبَقِيَتْ أَرْبَعٌ، وَاخْتَلَفَ النَّاسُ وَلَا نِظَامَ لَهُمْ، يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَقْبِلُوا عَلَى إِمَامِكُمْ وَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنُ رَوَاحَةَ، ثُمَّ قَالَ: مَا فَعَلَ زَيْدُ بْنُ خَارِجَةَ – يَعْنِي أَبَاهُ -، ثُمَّ قَالَ: أَخَذْتُ سَرَارِيسَ ظُلْمًا ثُمَّ خَفُتَ الصَّوْتُ

ولید بن مسلم ، عبد الرحمن بن یزید بن جابر سے روایت کرتے ہیں وہ عُمَيْرِ بْنِ هَانِی سے وہ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ سے بولے: ہم میں سے ایک شخص مرا جس کو خارجہ بن زید کہا جاتا تھا اس کو ہم نے کپڑے سے ڈھانک دیا، اور نماز جنازہ پڑھی  پس میں نے شور سنا اور گیا پس جب ان پر آیا تو وہ ہلے اور بولے : کوڑا مارنے والی قوم کے درمیان الله کا بندہ  عمر امیر المومنین ہیں جسم میں قوی ہیں اور الله کے کام میں، عثمان امیر المومنین ہیں کمزور و نا توآ ہیں جو اکثر گناہوں کو معاف کرتے ہیں دو راتیں گزرین چار باقی ہیں اور لوگوں کا اختلاف ہوا اور کوئی نظام باقی نہ رہا اے لوگوں اپنے اماموں کو قبول کرو اور ان کی سمع و اطاعت کرو- یہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں اور ابن رَوَاحَةَ- پھر کہا زید بن خارجہ نے کیا کیا یعنی ان کے باپ نے پھر کہا ارِيسَ کا راز ظلم سے لیا گیا پھر آواز مدھم ہو گئی

اس کی سند میں ولید بن مسلم ہیں جو تدلیس التسویہ کرتے ہیں یعنی استاد کے استاد کو ہڑپ کرتے ہیں جب حدثنا بولیں تو بھی شک کیا جاتا ہے – سند میں جان بوجھ کر انہوں نے عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِر کہا ہے جبکہ امام بخاری اور ابن ابی حاتم کے مطابق یہاں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے

اس قسم کی مبہم روایات کو محدثین نے بلا تنقید نقل بھی کیا- قصہ گھڑنے والوں نے نام میں بھی مخلط ملط کر دیا ہے اس پر ابن حجر کو اسد الغابہ میں کہنا پڑا

قلت: قال أَبُو نعيم أول الترجمة: إنه الذي تكلم بعد الموت، وقال: أراه الأول، وهذا من غريب القول، بينا نجعل الأول قتل بأحد، ونجعل هذا توفي في خلافة عثمان رضي اللَّه عنه، وأنه الذي تكلم بعد الموت، ثم يقول: أراه الأول، فكيف يكون الأول وذلك قتل بأحد، وهذا توفي في خلافة عثمان، كذا قال أَبُو نعيم في هذه الترجمة.  وأما ابن منده فذكر الأول وأنه شهد بدرًا، وذكر فيه الاختلاف أَنَّهُ الذي تكلم بعد الموت، ولم يذكر أَنَّهُ قتل بأحد، فلم يتناقض قوله.  وأما أَبُو عمر فذكر الأول، وجعل ابنه زيدًا هو الذي تكلم بعد الموت، فلو صح أن المتكلم خارجة بْن زيد لكان غير الأول، لا شبهة فيه، لأن الأول قتل بأحد، والمتكلم توفي في خلافة عثمان فيكون غيره.  والصحيح أن المتكلم زيد بْن خارجة. والله أعلم

میں ابن حجر کہتا ہوں : ابو نعیم نے ترجمہ کے شروع میں کہا کہ بے شک یہ وہ ہیں جنہوں نے مرنے کے بعد کلام کیا – اور کہا میں دیکھتا ہوں شروع میں اور یہ قول عجیب ہے اول سے مراد ہے ان کا قتل احد میں ہوا اور پھر کر دیا ان کی وفات عثمان مئی دور میں ہوئی اور انہوں نے مرنے کے بعد کلام کیا – پھر کہا میں دیکھتا ہوں دور اول میں پس کیسے ممکن ہے کہ یہ دور اول میں ہوئی اور احد میں قتل ہوں اور یہاں ہے دور عثمان میں ایسا ابو نعیم نے اس ترجمہ میں کہا ہے اور جہاں تک ابن مندہ کا تعلق ہے تو انہوں نے ان کا ذکر اول دور میں کیا جنہوں نے جنگ بدر دیکھی اور اختلاف کا ذکر کیا کہ انہوں نے موت کے بعد کلام کیا اور یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کا قتل احد میں ہوا پس وہاں تناقص نہیں ہے اور جہاں تک ابو عمر  کا تعلق ہے تو اس نے ذکر کیا دور اول میں اور ان کے بیٹے زید کے لئے کہا کہ اس نے مرنے کے بعد کلام کیا ہے پس اگر یہ صحیح ہے کہ بولنے والا خارجہ بن زید تھا تو وہ شروع میں نہیں ہو سکتا اس میں شبہ نہیں ہے کہ وہ احد میں قتل ہوئے اور وہ جس نے کلام کیا وہ عثمان کے دور میں ہوا جو زید بن خارجہ تھے الله کو پتا ہے

کتاب  الاستيعاب في معرفة الأصحاب از ابن عبد البر کے مطابق

زيد بن خارجة بن زيد بن أبي زهير بن مالك، من بني الحارث بن الخزرج. روى عن النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة عليه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وهو الذي تكلم بعد الموت، لا يختلفون  في ذَلِكَ، وذلك أنه غشي عليه قبل موته، وأسري بروحه، فسجى عليه بثوبه، ثم راجعته نفسه، فتكلم بكلام حفظ عنه في أبي بكر، وعمر، وعثمان، ثم مات في حينه. روى حديثه هذا ثقات الشاميين عن النعمان بن بشير، ورواه ثقات الكوفيين، عن يزيد بن النعمان بن بشير، عَنْ أَبِيهِ. ورواه يَحْيَى بن سعيد الأنصاري، عن سعيد بن المسيب.

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بن محمد، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ابن مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بلال، عن يحيى، عن سعيد ابن الْمُسَيِّبِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَارِجَةَ الأَنْصَارِيَّ، ثُمَّ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ. تُوُفِّيَ زَمَنَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَسُجِّيَ بِثَوْبٍ، ثُمَّ إِنَّهُمْ سَمِعُوا جَلْجَلَةً فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ تَكَلَّمَ فَقَالَ: أحمد أحمد في الكتاب [الأول [1]] . صدق صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، الضَّعِيفُ فِي نَفْسِهِ، الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول. صدق صَدَقَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْقَوِيُّ الأَمِينُ فِي الكتاب الأول. صدق صَدَقَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَلَى مِنْهَاجِهِمْ، مَضَتْ أَرْبَعُ سِنِينَ وَبَقِيَتِ اثْنَتَانِ [2] ، أَتَتِ الْفِتَنُ، وَأَكَلَ الشديد الضعيف، وقامت الساعة، وسيأتيكم خبر بئر أريس وما بئر أَرِيسٍ [3] .  قَالَ يَحْيَى بن سعيد: قَالَ سعيد بن المسيب: ثم هلك رجل من بني خطمة فسجى بثوب فسمعوا جلجلة في صدره، ثم تكلم فَقَالَ: إن أخا بني الحارث بن الخزرج صدق صدق.

زيد بن خارجة بن زيد بن أبي زهير بن مالك، بنی حارث بن الخزرج میں سے تھے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا درود کے بارے میں اور یہ وہ ہیں جنہوں نے موت کے بعد کلام کیا اس میں اختلاف نہیں ہے اور یہ ہوا کہ ان کو غشی آئی موت سے قبل، ان کی روح اوپر گئی اور ان پر کپڑا ڈال دیا گیا  پھر ان کا نفس پلٹ آیا پس کلام کیا ابو بکر عمر اور عثمان کے بارے میں جو انھیں یاد رہا پھر اس وقت ان کی وفات ہوئی اس حدیث کو شام کے ثقات نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے اور کوفہ کے ثقات نے روایت کیا ہے يزيد بن النعمان بن بشير، عَنْ أَبِيهِ سے اور اسکو َحْيَى بن سعيد الأنصاري، عن سعيد بن المسيب سے روایت کیا ہے-  ہم کو خبر دی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ ان سے حدیث بیان کی إِسْمَاعِيلُ بن محمد نے ان سے إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ نے کہا ہم سے بیان کیا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ نے ہم سے بیان کیا عَبْدُ اللَّهِ ابن مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ نے ان سے سُلَيْمَانُ بْنُ بلال نے ان سے  يحيى نے ان سے سعيد ابن الْمُسَيِّبِ نے کہ زید بن خارجہ انصاری جو بنی حارث بن الخزرج میں سے تھے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی ان کو کپڑے سے ڈھک دیا گیا پھر ان کے سینے میں ایک کڑک ہوئی پھر یہ بولے احمد احمد جو پہلی کتاب میں ہے ، سچا سچا ابو بکر الصدیق ہے جسم میں کمزور ہے اور الله کے کام میں قوی ہے اور یہ پہلی کتاب میں ہے سچا سچا عمر ہے جو قوی ہے امین ہے پہلی کتاب میں اور سچا سچا عثمان ہے اپنے کاموں میں چار سال گزر گئے اور دو باقی ہیں فتنہ آیا اور شدت سے کھا گیا  اور قیامت قائم ہوئی ، اور تم کو بئر أريس (کا کنواں) کی خبر پہنچے گی اور بئر أريس کیا ہے ؟  – یحیی بن سعید نے کہا کہ سعید بن المسیب نے کا پھر بني خطمة میں سے ایک شخص ہلاک ہوا اس پر بھی کپڑا ڈالا گیا اس کے سینے میں کڑک ہوئی پھر بولا میرے بھائی جو بنی حارث بن ال خزرج میں سے تھا سچ کہا سچ کہا

سندا روایت مظبوط نہیں ہے کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيد بن المسيب ……ولد لسنتين مضتا من خلافة عمر رضي الله عنه

سعيد بن المسيب ،….خلافة عمر رضي الله عنه کے ختم ہونے کے دو سال پہلے پیدا ہوئے

یعنی  سعيد بن المسيب ٢١ ہجری میں پیدا ہوئے اور زید بن خارجہ المتوفی 30 ہجری کی وفات  کے وقت  سعيد بن المسيب نو سال کے تھے- روایت میں واضح نہیں کہ ان کا سماع زید بن خارجہ رضی الله عنہ سے ہوا یا نہیں

کتاب معرفة الصحابة از أبو نعيم الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) کے مطابق اس قصے کو

وَرَوَاهُ الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ وَلَمْ يُسَمِّهِ

الزُّبَيْدِيُّ نے اس کو روایت کیا ہے الزہری سے انھوں نے سعید بن المسیب سے انہوں نے انصار میں سے ایک شخص سے جس کا نام نہیں لیا

یعنی یہ منقطع روایت ہے یا مجھول شخص سے ہے

تاریخ مدینہ از ابن شبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَارِجَةَ الْأَنْصَارِيَّ، ثُمَّ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ تُوُفِّيَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَسُجِّيَ بِثَوْبِهِ، ثُمَّ إِنَّهُمْ سَمِعُوا [ص:1106] جَلْجَلَةً فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ تَكَلَّمَ فَقَالَ: «أَحْمَدُ أَحْمَدُ فِي الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، صَدَقَ صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ الضَّعِيفُ فِي نَفْسِهِ الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللَّهِ فِي الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، صَدَقَ صَدَقَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ فِي الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، صَدَقَ صَدَقَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَلَى مِنْهَاجِهِمْ، مَضَتْ أَرْبَعٌ وَبَقِيَتْ سَنَتَانِ، أَتَتِ الْفِتَنُ وَأَكَلَ الشَّدِيدُ الضَّعِيفَ، وَقَامَتِ السَّاعَةُ، وَسَيَأْتِيكُمْ عَنْ جَيْشِكُمْ خَبَرٌ بِبِئْرِ أَرِيسَ، وَمَا بِئْرُ أَرِيسَ»

سعید بن المسیب نے کہا کہ زید بن خارجہ کی عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی پس کپڑے سے ڈھانک دیا گیا پھر ان سے سینے میں کڑک ہوئی پھر بولے احمد احمد کتاب اول میں سچ سچ ابو بکر صدیق جسم میں کمزور الله کے امر میں قوی کتاب الله میں، سچ سچ عمر قوی امین کتاب اول میں سچ سچ عثمان اپنے کاموں میں چار گزرے دو سال باقی ہیں فتنہ آیا اور کمزور کو کھا گیا اور قیامت برپا ہوئی اور عنقریب تم تک پہنچے کی خبر  اپنے لشکر کی طرف سے اریس کے کنواں کی – اریس کا کنوآں کیا ہے

روایت  کے مطابق زید بن خارجہ کو عثمان رضی الله عنہ سے مطابق فتنہ کا علم  تھا – یہ تفصیل تو کوئی ایسا ہی شخص بیان کر سکتا ہے جس نے یہ سب دیکھا ہو – تمام کتب کے مطابق زید بن خارجہ کی وفات دور عثمانی میں ہوئی

کتاب الوافي بالوفيات از صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ) کے مطابق

وتوفّي فِي حُدُود الثَّلَاثِينَ لِلْهِجْرَةِ

زید بن خارجہ کی وفات سن 30 ہجری کی حدود میں ہوئی

عثمان رضی الله عنہ کی وفات ٣٥ ہجری میں ہوئی

کیا یہ ممکن ہے کہ سن 30 ہجری میں چند ساعتوں میں غشی کے دوران زید بن خارجہ کو مستقبل میں ہونے والے اہم  حادثات کی خبر ہو گئی؟ بلا شبہ یہ کوئی گھپلا ہے-

بئر أريس  کا کیا چکر ہے؟  کچھ مبہم بات راوی نے زید بن خارجہ سے منسوب کی ہے – اس کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے – جو لوگ اس قصے کو اصلی سمجھتے ہیں ان کو اس پر غور کرنا چاہے- بئر أريس مسجد قبا کے پاس باغ میں ایک کنواں تھا اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مہر عثمان رضی الله عنہ کے ہاتھ سے گر پڑی اس کنواں کا سارا پانی نکال دیا گیا لیکن انگوٹھی نہ نکلی اس پر محمد رسول الله لکھا ہوا تھا راوی کو شاید قلق ہے کہ اس کنواں کو کیوں خشک کیا گیا

کتاب  إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع از  المقريزي (المتوفى: 845هـ) کے محقق   محمد عبد الحميد النميسي کہتے ہیں

 قال أحمد بن يحى بن جابر: نسبت إلى أريس رجل من المدينة من اليهود، عليها مال لعثمان بن عفان رضى اللَّه عنه، وفيها سقط خاتم النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم من يد عثمان، في السنة السادسة من خلافته، واجتهد في استخراجه بكل ما وجد إليه سبيلا، فلم يوجد إلى هذه الغاية، فاستدلوا بعد به على حادث في الإسلام عظيم

احمد بن یحیی بن جابر نے کہا : اس کنواں کی نسبت اریس کی طرف ہے جو مدینہ کا ایک یہودی تھا اور اس پر عثمان کا مال لگا اور کنواں میں رسول الله کی مہر عثمان کے ہاتھ سے گری ان کی خلافت کے چھٹے سال اور انہوں نے اس کو نکلالنے کا اجتہاد کیا لیکن کوئی سبیل نہ پائی اس میں کامیاب نہ ہوئے اور اس پر استدلال کیا گیا کہ یہ  اسلام کا ایک عظیم حادثہ ہے

معلوم ہوا کہ انگوٹھی زید بن خارجہ یا خارجہ بن زید کی وفات سے قبل گر چکی تھی جس  کو راوی نے ظلم سے ہتھیایا گیا کنواں قرار دیا ہے

بیہقی دلائل  النبوہ میں اس روایت پر  کہتے ہیں

فعند ذلك تغيرت عماله، وظهرت الفتن كما قيل على لسان زيد بن خارجة

پس اس انگوٹھی گرنے کے بعد سے ان کے گورنر وں میں تغیر آیا اور فتنہ ظاہر ہوا جیسا کہ زید بن خارجہ کی زبان پر ظاہر ہوا

لیکن یہ درست نہیں فتنہ تو سن ٣٥  ہجری ذی الحجہ میں ہوا اس سے قبل اس کے آثار نہ تھے اور زید 30 ہجری میں مرے

بہت سے علماء ان روایات کو میت کے شعور کی دلیل پر پیش کرتے ہیں کہ میت ابھی دفن بھی نہیں ہوتی کہ زندوں سے کلام کرتی ہے اگر ایسا ہے تو ایسا روز کیوں نہیں ہوتا ؟

اسی طرح کا ایک اور واقعہ دلائل النبوة للبیهقی میں ہے

أخبرنا أبو الحسین بن الفضل القطان ببغداد أخبرنا إسماعیل بن محمد الصفار حدثنا محمد بن علی الوراق حدثنا عبد الله بن موسى حدثنا إسماعیل بن أبی خالد عن عبد الملک بن عمیر عن ربعی بن حراش قال أتیت فقیل لی إن إخاک قد مات فجئت فوجدت أخی مسجى علیه ثوب فأنا عند رأسه استغفر له وأترحم علیه إذ کشف الثوب عن وجهه فقال السلام علیک فقلت وعلیک فقلنا سبحان الله أبعد الموت قال بعد الموت إنی قدمت على الله عز عدکما فتلقیت بروح وریحان ورب غیر غضبان وکسانی ثیابا خضرا من سندس واستبرق ووجدت الأمر أیسر مما تظنون ولا تتکلوا إنی استأذنت ربی عز وجل أن أخبرکم وأبشرکم فاحملونی إلى رسول الله فقد عهد إلی أن لا أبرح حتى ألقاه ثم طفی کما هو.

 ربعی بن حراش نے کہا میں پہنچا تو کہا گیا اپ کا بھائی مر گیا پس میں بھائی کے پاس گیا اس پر کپڑا پڑا تھا اس کے سرھاننے میں نے استغفار و رحم کی دعا کی کپڑا چہرے پر سے ہٹایا تو بھائی بولا السلام علیک میں نے بھی کہا السلام علیک بلکہ سب نے کہا سبحان الله اپ سے موت دور ہوئی – میت نے کہا موت کے بعد مجھ کو الله تعالی کے پاس لے جایا گیا وہ رحمت سے ملا – غضب ناک نہ ہوا اور مجھ و ریشم و مخمل کا لباس دیا اور میں نے اس امر کو آسان پایا جیسا تم لوگ گمان کرتے ہو … میں نے اپنے رب سے اجازت لی ہے کہ تم کو جا کر اس کی خبر کروں اور بشارت دوں
(میت فرشتوں سے مخاطب ہوئی)
پس اب مجھ کو رسول اللہ کے پاس لے چلو میں نے ان کو عہد دیا ہے کہ میں عہد نہ ٹوروں گا یہاں تک کہ تم لوگوں سے ملوں گا پھر وہ بجھ گئے جیسے تھے

طبقات ابن سعد میں  ہے

ربعى بن حراش بن جحش بن عمرو المتوفی قریب ١٠٠ ہجری ہے
ایام جاہلیت میں تھے نہ صحابی ہیں نہ رسول الله کو دیکھا

مَسْعُودُ بْنُ حِرَاشٍ أَخُو رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے

ایک بھائی کا نام  ربیع بن حراش بھی لیا جاتا ہے جو  عجلی کے مطابق كوفي تابعي   ہے

مرنے کے بعد کلام کے بہت سے قصے آج بھی سننے کو ملتے ہیں – اہل مغرب میں یہ عام ہے مثلا کوئی ایلین مخلوق کو دیکھتا ہے کوئی عیسیٰ علیہ السلام سے مل کر واپس اتا ہے  کوئی بتاتا ہے کہ وہ ایک سرنگ میں سے جا رہا تھا کہ عود روح ہوا اس کو

Near death experience

کہا جاتا ہے

 اگر آپ زید بن خارجہ والے واقعہ کو بظاہر قبول کر لیں اور الفاظ پر پر غور کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی وفات نہیں ہوئی تھی نہ ہی روح جسد سے نکلی تھی بلکہ لوگوں کو اشتباہ ہوا کہ انکی وفات ہوئی ہے

 

قرآن یقینا محفوظ ہے ٢

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں کس کس نے  جمع القرآن کیا ؟ کیا  جمع کرتے وقت کچھ آیات مفقود ہوئیں ؟

جواب

المحبر از  محمد بن حبيب بن أمية بن عمرو الهاشمي، بالولاء، أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ) کے مطابق ٦ لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن جمع کیا

سعد  بن عبيد بن النعمان بن قيس

 أبو الدرداء  عويمر بن زيد بن قيس

 ابى بن كعب بن قيس بن عبيد

 زيد  بن ثابت بن الضحاك

 معاذ  بن جبل بن عمرو

 أبو زيد  ثابت بن زيد بن النعمان ابن مالك

صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ جَمَعَ القُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: ” أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ

انس رضی الله عنہ سے قتادہ نے پوچھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں قرآن کس کس نے جمع کیا ؟ انھوں نے جواب دیا چار نے جو سب انصار میں سے تھے : أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ

جمع القرآن  تمام صحابہ کا عمل نہیں تھا کیونکہ  ہزاروں صحابہ کو قرآن یاد تھا اور سب اس کی تلاوت کرتے تھے لیکن چونکہ تمام قریشی نہیں تھے اس لئے عرب میں ہی میں تلفظ کی معمولی تبدیلی تھی مثلا جیسے اردو ہندوستان پاکستان میں بولی جاتی ہے لیکن لکھنو  میں بولی جانے والی اردو وہ نہیں جو حیدر آباد ہندوستان میں بولی جاتی ہے یا پاکستان میں یا دلی میں بولی جاتی ہے بعض تلفظ کی تبدیلی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ہو جاتی ہے لیکن اس سے مفھوم میں کوئی تبدیلی نہیں اتی – زبان میں اس لچک کی  وجہ سے قرآن کو سات حروف  پر نازل کیا گیا اور اس وجہ سے بظاہر دو قراتین الگ الگ محسوس ہوتیں لیکن ایک ہی تھیں

منسوخ القرات یا مفقود آیات؟

واضح رہے آیات کا منسوخ ہونا اور ان کا مصحف میں نہ لکھا جانا دو الگ باتیں ہیں قرآن کی بہت کی آیات منسوخ القرات ہیں لیکن حکم باقی ہے اسی طرح بہت سی منسوخ ہیں جن کی قرات کی جاتی ہے لیکن حکم باقی نہیں ہے

لیکن یہاں بحث اس پر ہے کہ کیا کچھ ایسا بھی تھا جو قرآن میں نہ لکھا جا سکا- بعض سطحی قسم کے لوگوں نے منسوخ القرات کی بات کو آیات کے مفقود ہونے سے ملا دیا جو صحیح نہیں ہے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ” لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ قَدْ أَخَذْتُ الْقُرْآنَ كُلَّهُ وَمَا يُدْرِيهِ مَا كُلَّهُ؟ قَدْ ذَهَبَ مِنْهُ قُرْآنٌ كَثِيرٌ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: قَدْ أَخَذْتُ مِنْهُ مَا ظَهْرَ مِنْهُ “

ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب اور انہوں نے نافع اور انہوں نے ابنِ عمر سے کہ انہوں نے کہا: کوئی یہ نہ کہے کہ اس نے تمام  قرآن پا لیا ہے، اور اسے کیا پتہ کہ اس کا تمام  کیا ہے، اس میں سے بہت سآ  قرآن چلا گیا ، بلکہ اسے کہنا چاہیے: میں نے اس سے (قرآن سے) وہی کچھ لیا ہے جو اس میں ظاہر ہوا ہے

اس روایت کو  إسماعيل بن إبراهيم بن مقسم الأسدي  المعروف بابن عُلَيَّة ،  أيوب بن أبى تميمة   كيسان السختياني پیدائش ٦٨ ھ –  المتوفی ١٣١ ھ –   کے واسطے سے  بیان  کر رہے ہیں – ایوب مدلس ہیں اور  اس مخصوص روایت کی تمام اسناد میں ان کا تفرد ہے اور ہر سند عن سے ہے- ظاہر ہے یہ محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں

شارحین کے مطابق  اس سے مراد قرآن کی  منسوخ القرات آیات کا ذکر ہے جن کی تعداد کا علم نہیں کیونکہ وقتا فوقتا قرآن میں سے کچھ آیات واپس لی گئیں اور ان کی قرات منسوخ کر دی گئی اور الفاظ اٹھ گئے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ لِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ: يَا زِرُّ، كَأَيِّنْ تَعُدُّ؟ أَوْ قَالَ: كَأَيِّنْ تَقْرَأُ سُورَةَ الْأَحْزَابِ؟ قُلْتُ: اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ آيَةً، أَوْ ثَلَاثًا وَسَبْعِينَ آيَةً. فَقَالَ: «إِنْ [ص:321] كَانَتْ لَتَعْدِلُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَإِنْ كُنَّا لَنَقْرَأُ فِيهَا آيَةَ الرَّجْمِ» . قُلْتُ: وَمَا آيَةُ الرَّجْمِ؟ قَالَ: (إِذَا زِنًا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ. وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ) “

زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ  کہتے ہیں  اُبی بن کعب نے مجھ سے کہا: اے زِر تم نے سورۃ الاحزاب میں کتنی آیات شمار کیں اور پڑھیں؟ میں نے کہا: بہتر یا تہتر، اس نے کہا: یہ طوالت میں سورۃ بقرۃ جتنی تھی اور ہم اس میں رجم کی آیت بھی پڑھا کرتے تھے، تو میں نے ان سے کہا: رجم کی آیت کیا ہے؟ ابی  نے کہا: (إِذَا زِنًا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ. وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)

یعنی رجم کی آیت جس کی تلاوت منسوخ ہوئی وہ سوره الاحزاب میں تھی

الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ  کا خلیفہ المہدی کے دور میں انتقال ہوا یہ بھی مدلس تھے اور ابو داود کہتے ہیں جب صرف حدثنا کہیں اسی وقت قبول کرتے یہاں ان کا عنعنہ ہے لہذا ضعیف سند ہے-  ان کے دادا أبو أمية مولى عمر بن الخطاب تھے یعنی عمر کے آزاد کردہ غلام تھے

الألوسي کہتے ہیں وكل خبر ظاهره ضياع شيء من القرآن إما موضوع أو مؤوّل

ہر وہ خبر جس میں  قرآن میں کسی چیز کے ضائع ہونے کی بات ہے وہ گھڑی ہوئی یا  بڑھ ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کی قرآن کے حوالے سے  تین عجیب روایات

عَبد اللهِ بْن لَهِيعَة عباسی خلفاء کے منظور نظر تھے اور یہ پہلے قاضی ہیں جن پر اسلام میں رشوت لینے کا الزام ہے

سن ١٥٥ ہجری میں السفاح کے دور میں ان کو خلیفہ بنا دیا گیا یہ ایک حدیث پیش کرتے جو  كتاب الفتن از ابو نعیم میں ہے

 حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ يَدُومَ الْحِمْيَرِيُّ، سَمِعَ تُبَيْعَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: «يَعِيشُ السَّفَّاحُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، اسْمُهُ فِي التَّوْرَاةِ طَائِرُ السَّمَاءِ»

السفاح چالیس سال زندہ رہیں گے ان کا نام توریت میں آسمانی پرندہ ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ  مدلس ہے اور عن سے روایت نا قابل قبول ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کو آخری عمر میں اختلاط ہوا اس لئے اس کی روایات مطلقآ قبول نہیں کی جاتیں

ابْنِ لَهِيعَةَ نے اپنی  کتب سے روایات بیان کیں لیکن جب لوگوں کو شک ہوا تو سن ١٧٠ ہجری میں مرنے سے چار سال قبل  اس کی کتب جل گئیں

ابْنِ لَهِيعَةَ نے قرآن کے حوالے سے تین عجیب روایات بیان کیں

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ بَجَالَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، مَرَّ بِرَجُلٍ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ (النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ، وَهُوَ أَبُوهُمْ) فَقَالَ عُمَرُ: «لَا تُفَارِقْنِي حَتَّى نَأْتِيَ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ» . فَأَتَيَا أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقَالَ: «يَا أُبَيُّ، أَلَا تَسْمَعُ كَيْفَ يَقْرَأُ هَذَا هَذِهِ الْآيَةَ؟» فَقَالَ أُبَيُّ: «كَانَتْ فِيمَا أُسْقِطَ» . قَالَ عُمَرُ: ” فَأَيْنَ كُنْتَ عَنْهَا؟ فَقَالَ: شَغَلَنِي عَنْهَا مَا لَمْ يَشْغَلْكَ

عبد الغفار بن داود نے ابْنِ لَهِيعَةَ سے اور اس نے علی بن دینار سے روایت کیا اس نے بَجَالَةَ  سے روایت کیا  کہ عمر بن الخطاب ایک آدمی کے پاس سے گزرے  جو   مصحف میں پڑھ رہا تھا، النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ، وَهُوَ أَبُوهُمْ  (سورۃ احزاب آیت 6)، تو عمر نے اس سے کہا: جب تک اُبی بن کعب نہ جائیں تم مجھے چھوڑ کر مت جانا ، اور جب اُبی بن کعب آ گئے تو عمر نے ابی سے کہا: اے اُبی تم نے سنا یہ کیسے تلاوت کرتا ہے ؟ ابی نے کہا گویا کہ یہ  اس (قرآن) میں (لکھنے)  سے رہ گئی عمر نے اس شخص کو کہا تم کو یہ کہاں سے ملی؟ اس نے کہا میں اس میں مشغول رہا اور آپ اس اس میں مشغول نہیں رہے

  بَجَالَةُ بْنُ عَبَدَةَ التَّمِيمِيُّ الْبَصْرِيُّ کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے کتاب  المعرفة از بیہقی کے مطابق امام الشافعی کہتے ہیں یہ مجھول ہے

روایت آوٹ پٹانگ ہے  –  ابی بن کعب رضی الله عنہ  نے جب عثمان  رضی الله عنہ کے دور میں قرآن جمع کیا تو پھر بھی نہیں لکھا

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ الْكَلَاعِيِّ، أَنَّ مَسْلَمَةَ بْنَ مُخَلَّدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ لَهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ: أَخْبِرُونِي بِآيَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ لَمْ تُكْتَبَا فِي الْمُصْحَفِ، فَلَمْ يُخْبِرُوهُ، وَعِنْدَهُمْ أَبُو الْكَنُودِ سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، فَقَالَ مَسْلَمَةُ: (إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)

ابو عبید نے کہا کہ ہمیں ابن ابی مریم نے ابْنِ لَهِيعَةَ سے اور انہوں نے یزید بن عمرو المغافری سے اور انہوں نے ابی سفیان الکلاعی سے روایت کیا کہ مسلمۃ بن مخلد الانصاری نے انہیں ایک دن کہا: مجھے قرآن کی ایسی دو آیتیں بتاؤ جو مصحف میں نہیں لکھی گئیں تو انہوں نے اسے نہیں بتایا، ان کے ہاں ابو الکنود سعد بن مالک موجود تھا تو ابو مسلمۃ نے کہا: “(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ابی سفیان الکلاعی مجھول ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کہنا چاہتا ہے کہ ١٢٠ سال پہلے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں جو قرآن جمع ہوا اس میں تمام آیات نہیں لکھی گئیں خاص طور پر سوره الاحزاب پر اس کی خاص نظر ہے- اس کے مطابق اس میں ٢٠٠ کے قریب آیات تھیں اور اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو باپ کہا گیا تھا- افسوس اسی قرآن میں ہے

ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شئی علیما

اور محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے لیکن الله کا رسول ہے اور الله ہر چیز سے باخبر ہے

عَبد اللهِ بْن لَهِيعَة نے روایت میں  بتایا کہ قرآن میں اس میں تھا جو  نفس سوره سے  ہی متصادم ہے

آیت  جوروایت میں مفقود بتائی گئی ہے

(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

اس متن کی قرآن میں آیات ہیں اور ان کو ہی ملا کراس روایت میں ایک نئی آیت بنا دی گئی ہے لہذا اس روایت کا مقصد صرف موجودہ قرآن پر شک پھیلانا ہے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ” كَانَتْ سُورَةُ الْأَحْزَابِ تُقْرَأُ فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَتَيْ آيَةٍ، فَلَمَّا كَتَبَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ لَمْ يَقْدِرْ مِنْهَا إِلَّا عَلَى مَا هُوَ الْآنَ

 ہمیں ابن ابی مریم نے ابْنِ لَهِيعَةَ  سے اور انہوں نے ابی الاسود (مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الأَسَدِيُّ الْمَدِينِيُّ) سے اور انہوں نے عروۃ بن الزبیر سے اور انہوں نے عائشہ سے کہ انہوں  نے کہا: رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  کے دنوں میں سورۃ الاحزاب پڑھی جاتی تھی اور اس میں دو سو آیتیں ہوتی تھیں مگر جب عثمان نے قرآن جمع کیا تو اس میں اتنی پر ہی قادر ہو سکے جو  اس میں اب ہیں

الانتصار للقرآن میں  أبو بكر الباقلاني المالكي (المتوفى: 403هـ) کہتے ہیں

فجوابُنا عن كل ما يردُ من هذا الجنس أنه مما كان قرآناً رُفع ونُسخت تلاوتُه، وذلك ما لا ينكره ولا يُدفعُ في الجملة أن يكون الله سبحانَه قد أنزلَ  قرآناً كثيراً ثم نسخَ تلاوتَه وإن كنَّا لا نتيقن صحة كل خبر من هذه الأخبار.

پس ہمارا جواب اس قسم کی تمام روایات پر یہ ہے ہے قرآن میں تھا جو اٹھ گیا اور اس کی تلاوت منسوخ ہوئی اور یہ ایسی بات ہے جس کا انکار نہیں ہے اور نہ ہی اس کا رد کرتے ہیں کہ الله سبحانہ نے قرآن میں بہت کچھ نازل کیا پھر اس کی تلاوت منسوخ کی  اگرچہ  ہم اس قسم کی تمام خبروں کی صحت پر یقین نہیں کرتے

اہل تشیع کے علماء میں أبو جعفر الطوسي  کتاب التبيان: 1/ 394  کہتے ہیں

قد جاءت أخبار متضافرة بأنه كانت أشياء في القرآن نسخت تلاوتها وعددها، وذكر منها أن سورة الأحزاب كانت تعادل سورة البقرة في الطول

بلا شبہ  روایات آئی ہیں کہ قرآن میں ایسی  چیزیں تھیں جن کی تلاوت منسوخ ہوئی اور ان کو گنا گیا اور ذکر کیا گیا ہے کہ سوره الاحزاب میں آیات سوره بقرہ برابر تھیں

یعنی یہ بات کہ سوره الاحزاب میں منسوخ آیات تھیں اہل تشیع کے ہاں بھی قبول کی جاتی ہے

  الخلع والحفد کی حقیقت

بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ اس نام کی سورتیں تھیں ان کا متن کیا تھا ؟ اس پر روایات میں ہے

مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يَقْنُتُ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ فِي الْفَجْرِ، غَيْرَ أَنَّهُ يُقَدِّمُ الْآخِرَةَ وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخ‍َيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ

عبد الرزاق ، حسن بن عمارہ سے وہ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ سے وہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ سے وہ علی سے روایت کرتے ہیں کہ علی نماز فجر میں ان دو سورتوں سے قنوت کرتے اور کہتے

اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخ‍َيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ

یہ دعائے قنوت ہے نہ کہ سورتیں – لیکن بعض میں اس کو دو سورتیں کہا گیا ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا قَنَتَ فِي الْفَجْرِ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ، وَلَا نَكْفُرُ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»

یہاں سند میں  عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ کہا گیا ہے جبکہ مصنف عبد الرزاق میں سند میں  نام عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ  ہے دونوں مقام پر اس کو سورتیں کہا گیا ہے –  عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ  مجہول ہے لگتا ہے یہ  حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ کی غلطی سے ہوا ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کو قرات کہا گیا ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، فِي قِرَاءَةِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»

مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ نے کہا  ابی بن کعب کی قرات میں تھا

سند میں جعفر بن برقان الكلابي ضعیف ہے

مصنف ابن ابی شبیہ میں ہے کہ ابن مسعود رضی الله عنہ نے دعا قنوت سکھائی

حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: عَلَّمَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ أَنْ نَقُولَ فِي الْقُنُوتِ يَعْنِي فِي الْوِتْرِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكُ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي، وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ»

طبرانی الکبیر کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ، ثنا أَبِي، ثنا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: «أَمَّنَا أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ بِخُرَاسَانَ فَقَرَأَ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ

عِيْسَى بنُ يُوْنُسَ بنِ أَبِي إِسْحَاقَ عَمْرِو بنِ عَبْدِ اللهِ الهَمْدَانِيُّ کہتے ہیں میرے باپ نے میرے دادا ابو اسحاق سے روایت کیا کہ خراسان میں أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ   المتوفی ٨٧ ھ  کی بدولت ہم ایمان لائے اور وہ وہاں دو سورتیں إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ پڑھتے تھے

واضح رہے کہ أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ ایک اموی تھے جن کو خراسان پر گورنر خلیفہ عَبْدِ المَلِكِ بنِ مَرْوَانَ  مقرر کیا تھا جو شیعہ نہ تھے لیکن  اس روایت کو بیان کرنے والے ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ  شیعہ مشھور ہیں

ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ جو خود ایک کٹر شیعہ تھے ان کے مطابق ابو امیہ کے دور تک ان سورتوں کی تلاوت ہو رہی تھی – اغلبا ابو اسحاق ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ کو مغالطہ ہوا کہ یہ سورتیں ہیں جبکہ یہ دعا قنوت تھی جو آج تک کی جاتی ہے اور مصحف کا حصہ نہیں ہیں

مصنف عبد الرزاق  اور ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَأْثِرُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي الْقُنُوتِ … بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللَّهُمَّ إِنَّا، نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ

ابن جریج   کہتے ہیں عَطَاءٌ   کے واسطے سے وہ کہتے ہیں   عبيد بن عمير بن قتادة بن سعد أبو عاصم الليثي  کو سنا انہوں نے بیان کیا عمر نے نماز میں قنوت کیا اور . بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، پڑھ کر اللَّهُمَّ إِنَّا، نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ پڑھی – بعض کا اس پر گمان گیا کہ اگربسم الله پڑھی گئی ہے تو گویا یہ سورت ہے

بسم الله پڑھنے سے یہ قطعی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قرآن ہے یا نہیں کیونکہ بسم الله کو قرآن میں آیت سمجھ کر نہیں لکھا گیا بلکہ سنت کا طریقہ ہے تلاوت سے پہلے اس کو پڑھا جاتا تھا اس پر علماء  کا اختلاف ہے کہ کیا بسم الله سوره الفاتحہ کا حصہ ہے اور یہ اختلاف بھی صرف سوره الفاتحہ پر ہے – جمہور علماء کی رائے میں بسم الله قرآن کا حصہ نہیں ہے

روایت کو علماء صحیح کہتے ہیں لیکن وہ اس سے دلیل نہیں لیتے کہ یہ سورتیں ہیں مثلا کتاب إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل  میں البانی اس روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں

قلت: قد ثبت القنوت قبل الركوع عن عمر من عدة طرق صحيحة عنه

میں کہتا ہوں یہ ثابت ہے کہ عمر رکوع سے قبل قنوت کرتے تھے جو بہت سے صحیح طرق سے مروی ہے

سورةِ الخلْعِ کے الفاظ کہے جاتے ہیں

اللهمَّ إِنّا نَستعينُك ونَستغفرُك، ونُثْني عليكَ ولا نَكْفُرُك، ونَخلعُ ونَتركُ مَنْ يَفجرُك

سورةِ الحَفْدِ کے الفاظ کہے جاتے ہیں

اللهمَّ إِيّاك نَعْبُد، ولك نُصَلّي  ونَسجد، وإِليكَ نَسْعى ونَحْفِد، نَرجو رحمتَك ونَخشى عَذابَك، إِنَّ عذابَك  بالكفارِ مُلْحِق

کتاب البرهان في علوم القرآن از الزركشي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق

وَأَنَّهُ ذَكَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَقْرَأَهُ إِيَّاهُمَا وَتُسَمَّى سُورَتَيِ الْخَلْعِ وَالْحَفْدِ

اور ذکر کیا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم ان کی قرات کرتے تھے اور اس  کو الْخَلْعِ وَالْحَفْدِ   سوره کہا گیا ہے

اسی طرح کہا جاتا ہے ابی بن کعب کے قرآن میں ایک سو سولہ سورتیں تھیں یعنی موجودہ قرآن کے علاوہ دعائے قنوت بھی اس کے آخر میں لکھی ہوئی تھی

البرهان للزركشي

اب کوئی یہ بتائے کہ کیا یہ دعائے قنوت کوئی ایسا کلام ہے جس سے ایمانیات میں کوئی کمی اتی ہو یہ تو دعآ کے کلمات ہیں اور امت کی ایک کثیر تعداد ان الفاظ کو قنوت میں پڑھتی ہے الرزقانی  کتاب مناهل العرفان في علوم القرآن میں کہتے ہیں

وهذا الدعاء هو القنوت الذي أخذ به السادة الحنفية

اور یہ دعا ہے جو قنوت میں ہے جس کو سادات حنفیہ نے لیا ہے

 لہذا الخلع والحفد  مفقود ہیں  ایک شوشہ ضرور ہے لیکن اس شوشے میں جان نہیں ہے

ابن جوزی اپنی کتاب فنون الأفنان في عيون علوم القرآن میں لکھتے ہیں کہ

وجملة سوره على ما ذكر عن أُبي بن كعب رضي اللَّه عنه مائة  وست عشرة سورة. وكان ابن مسعود رضي اللَّه عنه يُسقط
المعوذتين، فنقصت جملته سورتين عن جملة زيد. وكان أُبي بن  كعب يُلحقهما ويزيد إليهما سورتين، وهما الحَفدة والخَلع.
إحداهما،: “اللهم إِنا نستعينك ونستغفرك … “، وهي سورة  والْأُخرى: (اللهم إياك نعبد … ) ، وهي سورة الحفد.  فزادت جملته على جملة زيد سورتين، وعلى جملة  ابن مسعود أربع سور. وكل أدى ما سمع، ومصحفنا أولى بنا أن نتبع.

اور وہ جملہ سورتیں جو ابی بن کعب کے حوالے سے ذکر کی گئی ہیں ان کی تعداد ١١٦ ہے اور ابن مسعود نے المعوذتين  کو مصحف  میں سے گرا دیا اس سے دو سورتیں کم ہوئیں جو زید بن ثابت کے پاس تھیں- اور ابی بن کعب اس میں دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور وہ ہیں : الخَلع ایک ہے  “اللهم إِنا نستعينك ونستغفرك … “ اور دوسری ہے اللهم إياك نعبد …  جو سورہ الحفد ہے پس ان پر دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور ابن مسعود اس طرح چار سورتوں کا انکار کرتے یعنی  ( المعوذتين  اور الحَفدة والخَلع کا ) … اور ہمارے لئے جو مصحف ہے ہمارے لئے اولی ہے کہ اس کی اتباع کریں

ابن قتیبة بھی اپنی کتاب تأویل مشکل القرآن میں ذکر کرتے ہیں کہ

وأما نقصان مصحف عبد الله بحذفه (أمّ الکتاب) و (المعوّذتین) ، وزیادة أبیّ بسورتی القنوت- فإنا لا نقول: إن عبد الله وو أبیّا أصابا وأخطأ المهاجرون والأنصار، ولکنّ (عبد الله) ذهب فیما یرى أهل النظر إلى أن (المعوذتین) کانتا کالعوذة والرّقیة وغیرها، وکان یرى رسول الله، صلّى الله علیه وآله وسلّم، یعوّذ بهما الحسن والحسین وغیرهما ، کما کان یعوّذ بأعوذ بکلمات الله التّامة ، وغیر ذلک، فظنّ أنهما لیستا من القرآن

ابن مسعود کے مصحف میں   کمی تھی کہ سورہ الفاتحہ محذوف تھی اور المعوّذتین اور – اور ابی بن کعب کے مصحف میں  قنوت پر دو سورتیں تھیں  تو اس پر ہم یہ نہیں کہتے کہ ابن مسعود یا ابی بن کعب  ٹھیک تھے اور باقی مہاجرین و انصار نے خطا کی لیکن ابن مسعود نے اس کو اہل نظر کی طرح دیکھا کہ سورہ فلق و الناس سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے تعوذ کیا اور دم کیا اور اسی طرح دیگر سے اور دیکھا کہ رسول الله نے حسن و حسین کو اس سے تعوذ کیا اور دیگر کو جیسے وہ أعوذ بکلمات الله التّامة سے تعوذ کرتے تھے  پس انہوں نے گمان کیا کہ قرآن سے نہیں ہیں

پھر آگے لکھتے ہیں کہ

وإلى نحو هذا ذهب أبیّ فی (دعاء القنوت) ، لأنه رأى رسول الله، صلّى الله علیه وآله وسلّم، یدعو به فی الصلاة دعاء دائما، فظن أنه من القرآن، وأقام على ظنه، ومخالفة الصحابة

اور اسی  طرح ابی بن کعب گئے اس طرف کہ دیکھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں دعا قنوت نماز میں دائمی پڑھتے تو وہ سمجھے یہ قرآن میں سے ہے اور ان کا یہ ظن برقرار رہا اور صحابہ نے اس ظن کی مخالفت کی

طرفہ تماشہ ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عثمان رضی الله عنہ نے قرآن میں سے ان سورتوں کو نکال دیا دوسری طرف بنو امیہ کے خلیفہ عبد الملک کے دور تک کہا جاتا ہے کہ ان کو پڑھا جا رہا تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مغالطہ نو مسلموں کوہوا جن کو جمع القران کی جزیات تک کا علم نہ تھا

الله ہم کو ایمان پر قائم رکھے امین

ذي القرنين  أفريدون سے  سكندر تک

ارنسٹ والس بج  ایک مغربی  تاریخ دان تھے اور قدیم کتب کا ترجمہ کرنے میں ماہر تھے مثلا انہوں نے اہرام مصر کی دیواروں پر موجود عبارت کا ترجمہ کیا اسی طرح ایک کتاب ان کو ملی جو سکندر کے سفر نامے پر تھی اور اس  کے دو نسخنے ہیں –  والس نے اس نسخے کا ترجمہ کیا جو سریانی  کی زبان میں تھا-  سریانی زبان والا نسخہ میں  کہانی کا ایک  حصہ جو ہماری دلچپسی کا ہے اس میں ہے کہ مصر اسکندریہ میں  سکندر ایک جنگ کا اردہ کرتا ہے اور خدا سے مدد مانگتا ہے

And king Alexander bowed himself and did reverence, saying, “0 God, Lord of kings and judges, thou who settest up kings and destroyest their power, I know in my mind that thou hast exalted me above all kings, and thou hast made me horns upon my head, wherewith I might thrust down the kingdoms of the world۔

اور شاہ سکندر نے سجدہ کیا اور کہا اے رب مالک الملک والقضآة  جو بادشاہ کرتا ہے اور انکی قوت کو تباہ کرتا ہے مجھے اپنے نفس میں خبر ہے آپ نے مجھ کو تمام بادشاہوں پر بلند کیا اور آپ نے میرے سر پر سینگ کیے جس سے میں بادشاہتوں کو دھکیل دیتا ہوں

The History of Alexander the Great,  Being the Syriac Version of the Pseudo-Callisthenes,

Volume 1″,page 146, The University Press, 1889.  By Ernest A. Wallis Budge

یہاں والس ایک نوٹ لگاتے ہیں

wallis-note

دو سینگوں والا ایک مشھور لقب ہے سکندر کا اتھوپیا کے مسودہ میں ہے …. دو سینگ – قرآن سوره 18 – کچھ کہتے ہیں کہ قرآن میں اس سے مراد سکندر ہے جبکہ دوسرے کہتے ہیں ابراہیم کا ہم عصر ہے جو فارس کا بادشاہ تھا اور کچھ یمن کے بادشاہ کو کہتے ہیں

حکایت کے مطابق سکندر  مصر کے لوہاروں کو لیتا ہے اور عراق سے ہوتا ہوا ارمنینا تک جاتا ہے اور وہاں ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے قریب جنت ہے اور وہ سمندر، جھیل اور نہروں میں گھری ہے

wallis-2

اے بادشاہ ہم اور ہمارے اجداد اس پہاڑ پر نہیں چڑھ پاتے اور یہ ایک سرحد کے طور ہمارے اور دیگر قوموں کے بیچ ہے سکندر نے پوچھا اس پہاڑ کے اندر تم کس قوم کو دیکھتے ہو ؟ بوڑھے نے کہا  “ھن” کو – سکندر نے پوچھا ان کے بادشاہ کون ہیں ؟ بوڑھے نے کہا یاجوج اور ماجوج اور نوال جو جافث کی نسل سے ہیں اور جج اورتیمروں اور تمروں اور یکشفر اور سلگادو اور نسلک اور معرفل اور کوزہ ھن کے شاہ ہیں – سکندر نے پوچھا یہ دیکھنے میں کیسے ہیں کیا پہنتے ہیں کیا بولتے ہیں؟

سریانی میں سکندر کی اس کہانی میں یاجوج ماجوج کو بہت سے بادشاہوں میں سے  چند  بتایا گے ہے جو نہ صرف بائبل کے خلاف ہے بلکہ قرآن  کے بھی خلاف ہے –

 سکندر اپنی فوج سے کہتا ہے

wallis-3

سکندر نے اپنی فوج سے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہمیں اس جگہ کوئی عظیم کام کرنا چاہیے ؟ فوج نے کہا جیسا آپ کا حکم سکندر نے کہا ایک دروازہ اس درہ کے بیچ بناؤ جس سے اس کو پاٹ دیں – اور سکندر نے 3 ہزار آدمی اس کام پر لگا دیے اور انہوں نے آٹے کی طرح لوہا اور تانبہ گوندھ دیا جس سے دروازہ بنا ….

والس یہاں نوٹ لکھتے ہیں

wallis-4

یہ گزرگاہ یا درہ وہی ہے .. جس کو ترک

 Demir Kapija

کہتے تھے  –

 دمیر کاپیا کا مطلب ہے آہنی دروازہ –

Demir Kapija

میسی ڈونیا (مقدونیہ) کے علاقے میں ایک جگہ کا نام ہے نہ کہ ارمنینا میں

بحر الحال اس کتاب کے قصے سے  بعض مستشرقین  کو اشتباہ ہوا کہ یہ وہی دیوار ہے جس کا قرآن میں  ذی القرنین کے قصے میں ذکر ہے

سفرنامہ سکندر پر کتاب کا  ایک دوسرا نسخہ بھی ہے جو ارمیننا کی زبان کا ہے

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

Translated from the Armenian Version  with an Introduction by

Albert Mugrdich Wolohojian

COLUMBIA UNIVERSITY PRESS New York and London 1969

دوسرا  نسخہ میں جو ارمنینا کا ہے اس میں سرے سے اس   دیوار کے قصے کا ذکر ہی نہیں کہ سکندر نے آرمینا میں کچھ بنوایا بھی تھا یا نہیں – اس کے علاوہ یاجوج و ماجوج کا ذکر بھی نہیں ہے

لاطینی سیاح مارکو پولو کے بقول انہوں نے بھی سد سکندری

Rampart of Alexander

کو دیکھا

The Travels of Marco Polo: The Complete Yule-Cordier Edition By Marco Polo, Sir Henry Yule, Henri Cordier

ہینری کوردئر اس پر تبصرہ کرتے ہیں  کہ یہ مفروضہ کہ تاتار ، یاجوج و ماجوج ہیں ، سد سکندری  کو دیوار چین سے ملانے کا سبب بنا – یعنی مارکو پولو دیوار چین کو سد سکندری سمجھ بیٹھا

لیکن وہاں ایک اور دلچسپ حوالہ دیتے ہیں

henry-marco-1

ریکولڈ مونٹکرو دو دلیل دیتے ہیں جس سے یہود  کو تاتاریوں سے ملایا گیا ہے جن کو سکندر نے دیوار سے بند کیا ایک یہ کہ تاتاری سکندر کے نام سے ہی نفرت کرتے ہیں اور وہ اس کو سن نہیں سکتے اور دوسرا یہ کہ ان کی تحریر بابل جیسی ہے جو سریانی کی طرح ہے  لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہود کی اس سے کوئی مماثلت نہیں ہے اور ان کو شریعت کا پتا نہیں ہے

پس ظاہر ہوا کہ  جان بوجھ کر اتھوپیا کے عیسائیوں  نے یہود کی مخالفت میں اس کتاب

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

کو گھڑا

اسلام سے قبل  عیسائیوں اور یہود میں بنتی نہیں تھی – اس دور چپقلش میں عیسائیوں  نے یہ کتاب گھڑی جس میں اپنی  مذہبی آراء کو یہود کے خلاف استمعال کیا – اس کے لئے انہوں نے سکندر کا کردار چنا – وجہ یہ تھی کہ یہود بابل کے غلام تھے پھر فارس  نے بابل پر قبضہ کیا اور یہود کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دی یہود نے اپنی حکومت وہاں بنا لی لیکن سکندر کے بعد یونانیوں نے یہود کو غلام بنا لیا- یہود میں اس پر یونان  مخالف جذبات پیدا ہوئے اور وہ فارس کی طرف دیکھتے کہ کوئی ائے اور ان کو بچائے –

عیسیٰ علیہ السلام کے بعد یہود اور نصاری میں خوب جگھڑے ہوئے اور بالاخر عیسائیوں  نے یہود کے مخالف کے طور پر سکندر کے اوپر ایک فرضی داستان گھڑی – سکندر ایک بت پرست مشرک تھا لیکن عیسائیوں  نے اس کو کہانی میں الہ پرست   قرار دیا – اس کو مسیح کا منتظر دکھایا جو یروشلم کو مسیح کے حوالے کرے اور یہود کا مذاق اڑایا کہ سکندر نے  ایک  دیوار بنا کر ان وحشی یہود کو باقی دنیا سے الگ کر دیا

واضح رہے کہ بائبل کی کتاب  حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور ماجوج قوم ہے – لیکن عیسائیوں  نے ارمیننا کے “ھن” قوم کے  بادشاہوں میں ماجوج کو بھی ایک بادشاہ قرار دے دیا اس طرح یاجوج و ماجوج قوموں کی بجائے بادشاہوں کے نام بنا دیے- اتھوپیا کے عیسائیوں  نے سکندر کو ایک افریقی گینڈے کی طرح تشبیہ دی جو اپنے سینگوں سے مخالف حکومتوں کو دھکیلتا ہے-

نزول قرآن کے دور میں  یہود بھی یہی کہتے ہونگے کہ ذو القرنین سکندر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود کو بخوبی پتا تھا کہ سکندر کا یاجوج ماجوج سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب سکندر پیدا بھی نہیں ہوا تھا حزقی ایل جو بابل میں غلام تھے وہ یاجوج ماجوج کا تذکرہ اپنی کتاب میں کر چکے تھے – تاریخ کے مطابق  سکندر کے یہود سے اچھے تعلقات تھے یہاں تک کہ یہود نے اس کی اجازت سے کوہ گزیرم پر موجود یروشلم مخالف  سامرہ کے یہودیوں کی عبادت گاہ کو مسمار کیا اور وہاں موجود   اس فرقے کا قتل عام کیا – گویا سکندر یروشلم پہنچ کر مسیحا کے لئے گدی چھوڑنے کی بجائے خود یہود سے دوستی کر چکا تھا – عیسائیوں  کا  اس کتاب کو گھڑنا یہود کے لئے نہ تھا بلکہ وہ اپنے ہی ہم مسلک عیسائیوں  کو جھوٹی کہانیاں سنا کر تسلیاں دے رہے تھے

اب  اس سوال کی طرف  توجہ کرتے ہیں کہ ذوالقرنین کس دور میں گذرا- بابل کی غلامی کے دور میں یہود اس کی شخصیت سے واقف ہوئے جب نہ کورش تھا ن سکندر لہذا یہ  ان دونوں سے قبل گزرنے والی کوئی شخصیت ہے-

قدیم مورخین کے مطابق ذو القرنین  افریدوں

Fereydun

Faridon

Fereydoun

ہے جس کا ذکر قدیم فارس کی

Proto- Iranian

داستانوں میں ہے یعنی یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو تاریخ لکھے جانے سے پہلے کا دور ہے یہی وجہ ہے کہ اس پر معلومات کم تھیں اور یہود و نصاری میں اس شخصیت پر جھگڑا تھا کہ کون ہے

فریدوں کی ایک تصویر ١٩ صدی میں بنائی گئی جس میں اس کے ہاتھ میں عصآ ہے جس پر دو سینگ ہیں

https://en.wikipedia.org/wiki/Fereydun

 یقینا مصور کے پاس اس پر کوئی معلومات تھیں جس کی بنا پر افریدوں کو دو سینگوں کے ساتھ دکھایا گیا

اس سب تفصیل کو بٹاتے کا مقصد ہے کہ بعض مستشرقین  نے اس مذکورہ کتاب کو قرآن کی سوره الکھف کا منبع قرار دیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گویا ذو القرنین کا قصہ اصلا اس کتاب کا سرقه ہے

http://wikiislam.net/wiki/Dhul-Qarnayn_and_the_Alexander_Romance#Early_Jewish_Legends

سوره کہف ، حکایات سکندر  سے گھڑنے کی بات کس قدر احمقانہ ہے اس کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے خود اہل کتاب   نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ذو القرنین پر سوال کیا تھا – انکو عیسائیوں  کی یہود مخالف تحاریر کا بھی علم تھا اور اگر مذکورہ بالا  سکندر پر کتاب اس وقت  موجود تھی تو یقینا اس کا بھی یہود و نصاری کو  علم ہو گا

اول  قرآن نے یاجوج ماجوج کو قوم قرار دیا نہ کہ بادشاہ

دوم قرآن نے یاجوج ماجوج کو یہود قرار نہیں دیا

سوم ذو القرنین کو سکندر نہیں کہا حالانکہ  سکندر جیسا مشہور حاکم  قرار دینا نہایت آسان تھا

واللہ اعلم

حمورابی کوڈ اور توریت

کیا  توریت کے  احکام اصلا حمورابی  کے احکام کا چربہ ہیں ؟ بعض لوگ کہتے ہیں  موسی علیہ السلام  ایک فرضی کردار ہے کیونکہ قدیم تاریخ  میں ان کا ذکر نہیں اور آرکیالوجی سے بھی کچھ دریافت نہیں ہوا

جواب

حمورابی  نے میسوپوتما یا بابل  پر ١٧٩٢ سے ١٧٥٠  تک ٤٢ سال  حکومت کی یعنی عیسیٰ سے 18 صدیوں پہلے- حمورابی کے ٣٥٠ سال بعد پیدا ہونے والے بنی اسرائیلی نبی موسی علیہ السلام  یہودی روایات کے مطابق  ١٣٩٣ ق م میں پیدا ہوئے اور ١٢٧٣ ق م میں وفات پا گئے

حمورابی کوڈ ٣٠٠ قوانین پر مشتمل  ایک تحریر ہے جو  ستون پر درج  ہے جس کے تین مختلف ٹکڑے تھے ان hamurabiCodeکو سوس ایران  کے شہر سے فرانسیسی محققین نے دریافت کیا – ستون پر حمورابی بابلی  خدائے سما و ارض شمس کے سامنے ہاتھ باندہے کھڑا ہے اور احکام لے رہا ہے –

 حمورابی کا کوڈ بابلی عقیدے کے مطابق خدا شمس کا عطا کردہ ہے نہ کہ حمورابی کی ذاتی کاوش لہذا یہ بابل کا الہامیادب ہے –  توریت کے احکام الله تعالی یا یہوی کے عطا کردہ ہیں – بعض احکام میں مماثلت ہے مثلا

حمورابی کوڈ توریت کے احکام 
 ١٢٩ اور ١٤ زنا اور اغوا  خروج باب ٢١ آیت ١٠ ، لاوی باب ٢٠  آیت ١٦
١٩٦ آنکھ کے بدلے آنکھ لاوی باب ٢١ آیات ٢٣ تا ٢٥
٢٠٦ خروج باب ٢١ آیت  ١٨ تا ١٩

شروع میں کہا گیا کہ  توریت حمورابی کے قوانین کا ایک چربہ ہے لیکن اب اس   تھیوری کو رد کر دیا گیا ہے اس کی وجہ ہے تین چار کے علاوہ حمورابی کوڈ میں سخت سزایں  توریت سے زیادہ ہیں مثلا   چوری کی سزا ١٠  سے ٣٠ گنا مال واپس دینا بصورت دیگر قتل ہے- توریت میں ایسا نہیں ہے – اس میں سخت قوانین ہیں لیکن حمورابی  کوڈ اس سے بھی سخت ہے

جو چیز ایک دور میں قبولیت عامہ اختیار کر لے اس کو معروف کہا جاتا ہے اور ابراہیمی ادیان میں اسی معروف پر بھی عمل ہوتا ہے اور یہی قانونی شکل لیتا ہے – حمورابی کوڈ یا توریت ایک ایسے دور میں ہیں جن میں معاشروں کی بقا کے لئے سخت قوانین کو اپنانا ضروری تھا اور یہی اس دور میں انسانی ذہن کے لئے قابل قبول تھا – ملحدین کہہ سکتے ہیں کہ موسی کو دشت میں بنی اسرائیل پر کنٹرول کے لئے سخت قوانین درکار تھے لیکن بابل  کے کشادہ و فارغ البال  ملک میں اس قسم کے سخت احکام کیوں  لگائے گئے ؟ اس کے جواب میں یہی مضمر ہے کہ اس دور میں قبولیت عامہ اسی جیسے قواینن کو تھی  لہذا چند قوانین میں مماثلت اصلا نقل یا سرقه نہیں

موسی علیہ السلام پر فراعنہ مصر کی تحریریں خاموش ہیں-  نہ کتبوں پر کچھ ملا نہ تابوتوں پر نہ دیواروں پر نہ کھنڈرووں میں ان کے بارے میں کچھ ملا – ایسا کیوں ہوا ؟ اس کا جواب ہے کہ  موسی ایک فرد ہیں اور فرعونوں کے خاندان سے نہیں – کیا فراعنہ مصر کے علاوہ  کسی اور شخصیت کا ذکر  ملا؟  نہیں ملا – کیونکہ بادشاہتوں میں رویل فیملی ہی کی اہمیت ہوتی ہے اور مخالفین کا ذکر نہیں ہوتا الا یہ کہ وہ کوئی مشھور بادشاہ ہو- موسی علیہ السلام ایک غریب و غلام قوم کے شخص تھے  ان کا نام و نسب فرآعنہ مصر کیوں لکھواتے؟  کہا جاتا ہے  یونانی مورخ ہیروڈوٹس

Herodotus

  جو تاریخ مصر میں طاق تھے انہوں بھی موسی کا ذکر نہیں کیا- لیکن کیا ہیروڈوٹس   جو ٤٨٤ ق م میں پیدا ہوئے کیا تمام مصر کی تاریخ لکھ گئے یا صرف اپنے زمانے کی ہی لکھ پائے اور ان یونانی مورخین نے جو تاریخی غلطیاں کی ہیں ان کا ذکر ہم کیوں بھول جاتے ہیں ؟ ہیروڈوٹس کو جھوٹ کا باپ بھی کہا جاتا ہے – اس کے بقول ایران میں لومڑی کے سائز کی چونٹی ہوتی ہے جو سونا  پھیلاتی ہیں جب زمین میں سوراخ کرتی ہیں تاریخ کتاب 3 اقتباس ١٠٢  تا ١٠٥ – اسی قسم  کے  قول  کو مفسرین نے سوره  النمل میں سلیمان علیہ السلام سے کلام کرنے والی چیونٹی کی  تفسیر  کے لئے استمعال کیا (ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں أَوْرَدَ ابْنُ عَسَاكِرَ مِنْ طَرِيقِ إِسْحَاقَ بْنِ بِشْرٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ اسْمَ هَذِهِ النَّمْلَةِ حَرَسُ، وَأَنَّهَا مِنْ قَبِيلَةٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو الشَّيْصَانِ، وأنها كانت عرجاء، وكانت بقدر الذئب ابن عساکر نے اسحاق بن بشر عن سعید عن قتادہ عن حسن کی سند سے روایت کیا ہے کہ وہ چیونٹی لومڑی کے سائز کی تھی- یہ ابن کثیر کی غلطی ہے کیونکہ اس کی سند میں اسحاق بن بشر ہے جو قصہ گو ہے اور ضعیف ہے بلکہ محدثین کہتے ہیں موضوعآت بیان کرتا ہے)–  بابل اور مصر کے حوالے سے موصوف نے کافی زمین و آسمان کے قلابے ملائے اور ارکیلوجی سے ثابت ہوا کہ یہ سب فرضی قصے تھے – لق و دق  میسوپوتما کے شہروں کو ٹروپیکل جزیروں کی شکل میں پیش کرنا انہی کا فن تھا – بحر الحال قصہ مختصر بندر کی بلا طویلے کے سر کا مقولہ مشھور ہے –

pyramids

آرکیالوجی سے ثابت ہو چکا ہے کہ مصر میں غلامی زوروں پر تھی اور تقریبا تمام دنیا میں ہی غلامی تھی – بعض عرب مفکروں مثلا دکتور نديم عبد الشافى السيار نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مصر میں بنی اسرائیل غلام نہیں تھے اور قدماء فراعنہ مصر موحد تھے –  مصر پر تحقیق کرنے والے مغربی محققین کے خیال میں صرف ایک فرعون بنام اخناتوں

Akhenaten

میں اس عقیدے کا اثر تھا اس کی موت کے بعد اس کی تصویریں مقابر و مندروں میں توڑی گئیں اور اس کی توحید یہ تھی کہ صرف  اتان  دیوتا کی پوجا ہو – اس سے پہلے اوربعد میں کسی فرعون کے لئے یہ عقیدہ نہیں ملتا-  الغرض اگر کسی ممی کے سر کی ہڈی پردراڑ ہو تو محققین اس پر پوری قتل کی کہانی بنا دیتے ہیں اور یہ مصر پر تحقیق کا انداز ہے اس میں کوئی چیز حتمی نہیں ہے بلکہ تھیوری ہے – ایک نشان سے رائی کا پربت بنا دیا جاتا ہے- قدیم تاریخ لکھنے سے بھی پہلے کی باتیں ثابت نہ ہوں تو ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا – دوم جتنی بھی قدیم تاریخیں ہیں  وہ سب بائبل سے لی گئی ہیں زمین کی عمر یہود کے مطابق ٦٠٠٠ سال کے قریب  ہے  لہذآ جو بھی واقعہ قدیم دور کا بتایا جاتا ہے وہ اسی مدت کے اندر کا ہی ہوتا ہے اس کی وجہ ہے کہ مغربی محققین چاہے ملحد ہوں یا لا دین یا بے دین یا عقیدہ رکھنے والے ان  کے پاس قدیم تحریروں میں بائبل ہی ایک ذریعہ ہے جس سے  یہ تمام تواریخ مقرر کی گئی ہیں- لہذا  جملہ معترضہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیا انصاف ہے کہ بائبل کے نام نہاد مصنف موسی   کو فرضی کہا جائے اور ان کی کتاب سے قدیم تاریخ مقرر کی جاتی ہے- قدیم مصر کی تواریخ

Manetho

سے منسوب ہے جو 3 قبل مسیح کا ایک مصری پروہیت  تھا اور کہا جاتا ہے  فراعنہ مصر کے دین پر تھا – اس دور میں آرکیالوجی نہیں تھی لیکن اس کی مقرر کردہ تاریخ میں کھینچ تان کر کے اس کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ ایک مستند ذریعہ ہو- کہنے کا مقصد ہے جس چیز میں خود جھول ہو اس کی بنیاد پر الہامی کتب کو رد کرنا سفیہانہ عمل ہے

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

السنہ شمارہ ٤٩ تا ٥٤ ذی الحجہ ١٤٣٣ جمادی اولی الموافق نومبر ٢٠١٢ تا اپریل ٢٠١٣ نظر سے گزرا اس کے مباحث کافی اہم  تھے – بظاہر  سلف کے صحیح عقیدہ پر بات کا  آغاز کیا گیا لیکن السنہ شمارہ میں مضمون “مردوں کا دیکھنا اور سلام سننا”  از ابو سعید سلفی میں غیر محسوس انداز میں ان عقائد پر جرح کی گئی جو سلف سے تسلیم شدہ ہیں مثلا مردوں کا زائر کو پہچاننے  اور سلام کا جواب دینے کا عقیدہ – اس مضمون میں انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ تمام روایات جو سلف اپنی کتب میں مردہ کے علم کے  اثبات پر پیش کرتے ہیں ان پر جرح کی گئی – ضروری ہے کہ دیکھیں کہ اس سلسلے میں  شیخ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کیا عقیدہ بیان کرتے تھے

مزید تفصیل کے لئے ڈاؤن لوڈ کریں

منکرین نزول مسیح کے دلائل کا بطلان

کیا حسن رضی الله عنہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے ؟

جواب

طبقات از ابن سعد کی روایت ہے

: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالا: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ   …..  وَلَقَدْ قُبِضَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُرِجَ فِيهَا بِرُوحِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ لَيْلَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ.

أَبِي إِسْحَاقَ  مدلس عن سے روایت کرتے ہوئے هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ کا قول نقل کر رہا ہے کہ اس نے حسن رضی الله عنہ کا علی رضی الله عنہ کی شہادت پر خطبہ سنا اس میں انہوں نے کہا

بے شک علی کی جان قبض ہوئی اسی رات جس رات اپنی روح کے ساتھ عیسیٰ  بلند ہوئے  یعنی ٢٧ رمضان کو

اس کی  سند میں هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ہے جس پر محدثین کی جرح ہے

 النسائي: ليس بالقوي. قوی نہیں ہے  ابن خراش: ضعيف،  أبو حاتم: شبيه بالمجهول. مجھول جیسا ہے

سوال  معتزلہ کا نظریہ رفع عیسیٰ پر کیا تھا؟

جواب

قرآن کی سوره ال عمران کی آیت إِذْ قالَ اللَّهُ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَّ  کی تفسیر ، الزمخشري جار الله (المتوفى: 538هـ) الكشاف میں کرتے ہیں

إنى عاصمك  من أن يقتلك الكفار ومؤخرك إلى أجل كتبته لك. ومميتك حتف أنفك لا قتيلا بأيديهم وَرافِعُكَ إِلَيَّ إلى سمائي ومقرّ ملائكتي

میں تجھے بچاؤں گا کہ  کفار تجھ کو قتل کریں  اور اسکو تمہارے لئے  موخر کردوں گا جو لکھ دیا ہے اور موت دوں گا تیری موت کے وقت نہ کہ ان کے ہاتھ سے قتل کرواؤں گا اور تم کو اٹھاؤں گا اپنے آسمان کی طرف اور فرشتوں کے ساتھ مقام کروں گا

الزمخشري کا قول مبہم ہے کہ الله نے اگر عیسیٰ کو بچا لیا تو کب کہاں کیسے موت دی اور ان کو آسمان  کی طرف  کب  اٹھایا گیا لہذا وہ مزید غیر مبہم باتیں کرتے ہیں

وقيل: مميتك في وقتك بعد النزول من السماء ورافعك الآن: وقيل: متوفى نفسك بالنوم

اور کہا جاتا ہے موت دوں گا تمہارے (مقدر شدہ) وقت پر آسمان میں انے کے بعد،  اور تم کو رفع کروں گا – اور کہا جاتا ہے تم کو نیند میں موت دوں گا

یعنی معتزلہ کی کوئی ایک رائے نہیں تھی کیونکہ وہ نزول عیسیٰ کی روایات قبول نہیں کرتے تھے ان کے پاس میدان صاف تھا جتنی چاہتے قیاس ارائیاں کر سکتے تھے

عصر حاضر کے مصری معتزلہ جدید مثلا محمد متولي الشعراوي (المتوفى: 1418هـ)  نے عقیدہ اختیار کیا کہ عیسیٰ کی وفات ہو چکی ہے- محمد رشيد بن علي رضا   (المتوفى: 1354هـ) نے تفسیر المنار میں لکھا

 إِنِّي مُمِيتُكَ وَجَاعِلُكَ بَعْدَ الْمَوْتِ فِي مَكَانٍ رَفِيعٍ عِنْدِي

میں تجھے موت دوں گا اور موت کے بعد ایک مکان رفیع میں کروں گا

محمد بن أحمد بن مصطفى بن أحمد المعروف بأبي زهرة (المتوفى: 1394هـ) اپنی تفسیر زهرة التفاسير  میں کہتے ہیں

ففريق من العلماء وهم الأقل عددا، أجروا قوله تعالى في الآية الكريمة التي نتكلم في معناها على ظاهرها وأولوا ما عداها، ففسروا قوله تعالى: (إِنِّي مُتَوَفِيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ) بمعنى مميتك ورافع منزلتك وروحك إليّ، فالله سبحانه وتعالى توفاه كما يتوفى الأنفس كلها، ورفع روحه كما يرفع أرواح النبيين إليه.

علماء کا ایک فریق جو تعداد میں بہت کم ہیں انہوں نے الله تعالی کے قول کہا کہ ہم ظاہری معنوں پر بات کریں گے  پس انہوں نے تفسیر کی کہ قول  (إِنِّي مُتَوَفِيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ) سے مراد موت دوں گا ہے اور رفع منزلت آ  روح کا  الله کی طرف  پس الله نے انکو وفات دی جیسی ہر نفس کو دیتا ہے اور ان کی روح کا رفع ہوا جیسے باقی نبیوں کی روحوں کا ہوا

اسی تفسیر میں  (بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ)  پر لکھا فيه إشارة إلى معنى الكرامة والإعزاز والحماية اس میں اشارہ ہے کہ انکی تکریم ہو گی اور اعزاز و حمایت ہو گی

اسی طرح سر سید،   ابو الکلام آزاد،  عبید اللہ سندھی   نے بھی نزول مسیح کا انکار کیا

ان سب  نزول عیسیٰ کے انکاریوں میں جو  چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ یہ ان علاقوں کے محققین  ہیں جو غلام بنائے گئے اور ایک ہی دور کے ہیں یا  قریب کے ہیں

سوال کیا حسن بصری بھی عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں؟

جواب

یہ قول تفسیر از أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ)  میں ہے سند ہے

حَدَّثَنَا النجار، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْد الرزاق، عَنْ معمر، عَنْ الحسن، فِي قوله: {إِنِّي مُتَوَفِّيكَ} قَالَ   متوفيك فِي الأرض

معمر ، حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ الله تعالی کا قول کہا میں تجھ کو زمین میں موت دوں گا

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ)  کے مطابق

وقال أحمد بن حنبل لم يسمع من الحسن ولم يره بينهما رجل ويقال إنه عمرو بن عبيد

اور امام احمد کہتے ہیں معمر نے حسن سے نہیں سنا نہ دیکھا اور کہا جاتا ہے کہ انکے اور حسن کے بیچ کوئی آدمی ہے کہا جاتا ہے عمرو بن عبید ہے

افسوس عمرو بن عبید رئیس معتزلہ  سے  مدلس معمربن راشد  روایت لیتے تھے

اسی کتاب میں ایک دوسرا قول بھی ہے

حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنَا محمد بْن يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا محمد بْن يوسف، قَالَ: حَدَّثَنَا محرز، قَالَ: سألت الحسن عَنْ قول الله عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا} قَالَ ” عِيسَى مرفوع عِنْد الرب تبارك وتعالى، ثُمَّ ينزل قبل يَوْم الْقِيَامَةِ

محرز ، أَبو إِسرائِيل کہتے ہیں میں نے حسن بصری سے آیت إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا پر پوچھا  کہا عیسیٰ کو رب تعالی کی طرف اٹھا لیا گیا پھر وہ اتریں گے قیامت کے دن سے پہلے

محرز پر جرح و تعدیل کی کتب خاموش ہیں

سوال کیا امام مالک عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے؟

جواب  کتاب  المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز از ابن عطية الأندلسي المحاربي (المتوفى: 542هـ) میں ایک قول ہے

قال مالك في جامع العتبية: مات عيسى وهو ابن ثلاث وثلاثين سنة

أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ)  نے کہا

قوله ومات ابن ثلاث وثلاثين سنة، معناه خرج من الدنيا ورفع إلى الله عز وجل وهو في هذا السن، …. وسينزل في آخر الزمان على ما تواترت به الآثار

اور مالک کا قول کہ وہ مرے تو سن ٣٣ کے تھے اسکا معنی ہے دنیا سے نکلے اور ان کا رفع ہوا الله کی طرف تو اس عمر کے تھے … اور وہ واپس نازل ہوں گے آخری زمانے میں جس پر تواتر سے آثار ہیں

  ابْنُ رُشْدٍ نے یہ بھی کہا

 ويحتمل أن يكون معنى قوله: {بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ} [النساء: 158] أي رفع روحه إليه بعد أن مات ويحييه في آخر الزمان فينزله إلى الأرض على ما جاءت به الآثار، فيكون قول مالك على هذا ومات وهو ابن ثلاث وثلاثين سنة على الحقيقة لا على المجاز، وبالله التوفيق.

اور ایک احتمال یہ ہے کہ قول {بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ} [النساء: 158] کا مطلب ہے کہ انکی روح کے درجات بلند ہوئے انکی موت کے بعد اور وہ زندہ ہیں آخری زمانے تک پس پھر نازل ہوں گے زمین پر جس پر آثار آ چکے ہیں یعنی احادیث تو ہو سکتا ہے امام مالک کا یہ قول کہ وہ ٣٣ سال کے ہو کر مر گئے سے مراد حقیقت ہو نہ کہ مجاز

یعنی چونکہ نزول عیسیٰ قیامت کی نشانی ہے معجزہ ہے تو ممکن ہے عیسیٰ کی وفات کے باوجود انکو واپس بھیجا جائے جیسا کہ احادیث میں ہے

منکرین نزول مسیح صرف ادھی پونی بات پیش کر کے اپنا مدعآ ثابت کرتے ہیں

دوم یہ کتاب  جامع العتبية مفقود ہے اور اغلبا اس میں امام مالک کے اس قول کی سند بھی نہیں ہو گی کیونکہ کسی نے بھی اسکو سند سے پیش نہیں کیا ہے لہذا امام مالک سے قول ثابت نہیں ہے

سوال  ان اقوال کی اسناد کیسی ہیں

حضرت عیسیٰ بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے ۔ (کنزالعمال جلد ۶ صفحہ ۱۲۰ از علاؤالدین علی المتقی ۔ دائرہ المعارف النظامیہ ۔ حیدرآباد ۱۳۱۲ھ)

اگر حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیرچارہ نہ ہوتا ۔ (الیواقیت والجواہر صفحہ ۲۲ از علامہ عبدالوہاب شعرانی مطبع ازہریہ مصر ، مطبع سوم ، ۱۳۲۱ھ)

ایک اور روایت میں ہے ۔ اگرحضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔(شرح فقہ اکبر مصری صفحہ ۱۱۲ از حضرت امام علی القاری مطبوعہ ۱۳۷۵ھ)

آنحضرت ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرے گامگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔ (اسباب النزول صفحہ ۵۳ از حضرت ابوالحسن الواحدی طبع اولیٰ ۱۹۵۹ء مطبع مصطفی البابی مصر)

جواب

کتاب  الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية از السخاوي (المتوفى: 902 هـ)  میں روایت

وإن عيسى عاش عشرين ومائة سنة اور بے شک عیسیٰ ١٢٠ سال زندہ رہے پر لکھتے ہیں

وهو غريب جدًا، ولذا قال ابن عساكر: الصحيح أن عيسى لم يبلغ هذا العمر، وإنما أراد مدة مقامه في أمته،

اور یہ بہت غریب ہے اور اس لئے ابن عساکر نے کہا صحیح ہے کہ عیسیٰ اس عمر تک نہیں پہنچے اور ان کا ارادہ انکی امت کے ساتھ مدت اقامت کا ہے

کتاب  المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ از ابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کے مطابق

أخرجه يعقوب بن سفيان كما في البداية والنهاية 2/ 95، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني 5/ (2970) عن عمر بن الخطاب السجستاني، والطحاوي في شرح المشكل 1/ (146)، 5/ (1937) عن يوسف بن يزيد، والطبرانى في الكبير 22/ 416 عن يحيى بن أيوب العلاف  أربعتهم عن سعيد ابن أبي مريم، عن نافع بن يزيد، حدَّثني عمارة بن غزية عن محمد بن عبد الله بن عمرو بن عثمان، عن أمّه فاطمة بنت الحسن حدَّثته عن عائشة.

وهذا إسناد لين محمد بن عبد الله بن عمرو، وهو الديباج لين الحديث كما في ترجمته في تهذيب الكمال 25/ 516.

اور اس کی اسناد کمزور ہیں محمد بن عبد الله بن عمرو الديباج لين الحديث ہے

وأخرجه البزّار كما في الكشف 2/ 846 عن سعيد ابن أبي مريم، والدولابي في الذرية الظاهرة رقم 186 عن عثمان بن سعيد.

كلاهما عن ابن لهيعة عن جعفر بن ربيعة، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عنها.

وعبد الله هذا لم أعرفه وعند الدولابي عبد الملك وعبد الله بن لهيعة ضعيف

اور اس میں عبد الله کا مجھے پتا نہیں ہے اور عبد الله بن لهيعة ضعيف ہے.

ثانيًا عن يزيد بن زياد، ولفظه: لم يكن نبي إلَّا عاش نصف عمر أخيه الذي قبله، عاش عيسى ابن مريم مائة وخمسة وعشرين سنة، وهذه اثنتان وستون سنة.

أخرجه ابن سعد 2/ 194، أخبرنا هاشم بن القاسم، أخبرنا أبو معشر عن يزيد بن زياد به، وهذا على إرساله ضعيف الإِسناد. نجيح السعدي أبو معشر ضعيف واختلط.

دوسری یزید بن زیاد سے ہے اور اس میں لفظ  …. عیسیٰ ١٢٥ سال زندہ رہے ہے اور یہ ہے ٦٢ سال

ابو معشر کا ارسال ہے جو ضعیف اور مختلط تھا

 دوسری روایت

اگر حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیرچارہ نہ ہوتا ۔ (الیواقیت والجواہر صفحہ ۲۲ از علامہ عبدالوہاب شعرانی مطبع ازہریہ مصر ، مطبع سوم ، ۱۳۲۱ھ)

ایک اور روایت میں ہے ۔ اگرحضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔(شرح فقہ اکبر مصری صفحہ ۱۱۲ از حضرت امام علی القاری مطبوعہ ۱۳۷۵ھ)

لو كان موسى وعيسى حيَّينِ؛ لما وسعهما إلا اتباعي

جواب

تفسیر ابن کثیر میں ہے

وفي بعض الأحاديث: «لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِي» فَالرَّسُولُ مُحَمَّدٌ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ دَائِمًا إِلَى يَوْمِ الدِّينِ

اسی طرح تفسیر البحر المحيط في التفسير از أبو حيان   الأندلسي (المتوفى: 745هـ) میں یہ لکھا ہے

روایت کسی بھی حدیث کی کتاب میں عیسیٰ  و موسی کے الفاظ  سے نہیں ہے ابن کثیر نے اغلبا ابو حیان کی تفسیر سے ان الفاظ کو سرقه کیا لیکن کہتے ہیں نقل کے لئے بھی عقل درکار ہے یہ مثال آپ کے لئے ہے

تیسری روایت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے  نے نجران کے عیسائیوں کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرے گامگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔ (اسباب النزول صفحہ ۵۳ از حضرت ابوالحسن الواحدی طبع اولیٰ ۱۹۵۹ء مطبع مصطفی البابی مصر)

جواب کتاب  أسباب نزول القرآن از  الواحدي، النيسابوري، الشافعي (المتوفى: 468هـ) میں الفاظ ہیں کہ مفسرین کہتے ہیں اور پھر الواحدی بلا سند ایک اقتباس لکھتے ہیں جس میں ہے رسول الله نے نصاری سے کہا

قَالَ: “أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَبَّنَا حَيٌّ لَا يَمُوتُ، وأن عيسى أتى عَلَيْهِ الْفَنَاءُ؟ ” قَالُوا: بَلَى

کیا تم کو پتا نہیں کہ ہمارا رب زندہ ہے اسکو موت نہیں ہے اور عیسیٰ (جن کو تم رب سمجھ رہے ہو) پر فنا آئی ؟ انہوں نے کہا ایسا ہے

ان الفاظ کی سند نہیں ہے لیکن واضح ہے کہ نصاری کے بقول عیسیٰ نے صلیب پر جان دی اور ان پر موت طاری ہوئی اس کو دلیل بناتے ہوئے ان کے غلط عقائد  پر جرح ہو رہی ہے

زمین اور تحت الثری کا بیل

آج سائنس کی دنیا ہے اور بہت سے لوگ قرآن و سائنس کو ملا کر دین کی حقانیت ثابت کرتے ہیں – سائنس  میں کلیات کے ساتھ ساتھ  ارتقائی  تجزیے بھی ہوتے ہیں-  کچھ تحقیقی زوایے وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں – یعنی قرآن کو سائنس سے ملا کر سمجھنا صحیح نہیں الا یہ کہ اس پر بصری شواہد آ جائیں مثلا زمین گول ہے آج  خلا سے اس کی تصویر لی جا چکی ہے لہذا اس کو تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے – لیکن کسی تھیوری کو قرآن سے ملانا  جو خود حتمی نہ ہو غلط عمل ہے- زمینی حقائق کی طرف مسلمانوں نے  سائنسی انداز میں تحقیق کی ہے جن کو فلسفی اور ملحد کہا گیا

بصرہ عراق کی فضا نرالی تھی یہاں محدثین میں سے حسن البصری کے شاگردوں میں سے  عمرو بن عبید نکلا  جو ایک محدث تھا اور اس نے المعتزلہ کی بنیاد رکھی  (واصل بن عطا اس کا شاگرد تھا)- اسی طرح یہاں سے اخوان الصفا نکلے جو فلسفہ یونان اور حکمت ہند کو دین سے ملا کر رسائل لکھ رہے تھے- اخوان الصفا  ایک خفیہ سوسائٹی تھی جس کا تعلق بصرہ سے تھا ان کو شوق تھا کہ اس دور کی سائنس سے دین کو ثابت کیا جائے – ان کے خیال میں شاید اسطرح دین کی قبولیت عامہ بڑھ  جاتی – لہذا یہ عمل بادی النظر میں مستحسن تھا لیکن وقت نے ان دونوں کو فنا کر دیا– دوسری طرف جب آپ دین کی بات کرتے ہیں تو اس میں علماء کا ایک گروہ روایت پسندی کا شکار ہے

سبحان الله – الله سے سوا کون  بے عیب ہے ؟  تحت الثری  پر روایات اور علماء  کیا کہتے ہیں دیکھتے ہیں

اہل سنت کی کتب

تفسیر الطبری ج ٢٣ ص ٥٢٤ میں ہے

حدثنا واصل بن عبد الأعلى، قال: ثنا محمد بن فُضَيل، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس قال: “أوّل ما خلق الله من شيء القلم، فقال له: اكتب، فقال: وما أكتب؟ قال: اكتب القدر، قال فجرى القلم بما هو كائن من ذلك إلى قيام الساعة، ثم رفع بخار الماء ففتق منه السموات، ثم خلق النون فدُحيت الأرض على ظهره، فاضطرب النون، فمادت الأرض، فأُثبتت بالجبال فإنها لتفخر على الأرض

أبي ظبيان ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں سب سے پہلی چیز جو الله نے خلق کی وہ قلم ہے پس اس کو حکم دیا لکھ – قلم نے کہا کیا لکھوں ؟ فرمایا تقدیر لکھ پس قلم لکھنا شروع ہوا جو بھی ہو گا قیامت تک پھر اس کی سیاہی کے بخارت آڑ گئے جس سے آسمان بن گئے پھر النون کو تخلیق کیا جس پر زمین کو پھیلا دیا پھر النون پھڑکی جس سے زمین ڈگمگائی پس پہاڑ جما دیے

حصين بن جندب أبو ظبيان الجنبي کا سماع ابن عباس سے ثابت کہا جاتا ہے انہوں نے یزید بن معاویہ کے ساتھ القُسْطَنْطِيْنِيَّةَ پر حملہ میں شرکت کی – سند میں الأعمش ہے جو مدلس ہے اور اس بنیاد پر یہ روایت ضعیف ہے

الأعمش صحیحین کا بھی راوی ہے اور یہ مثال ہے کہ صحیحین کے راویوں کی تمام روایات صحیح نہیں ہیں

سوره القلم کی تفسیر میں ابن کثیر لکھتے ہیں

وَقَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَهُ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كَانَ يُقَالُ النُّونُ الْحُوتُ الْعَظِيمُ الذي تحت الأرض السابعة، وقد ذكر الْبَغَوِيُّ وَجَمَاعَةٌ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ إِنَّ عَلَى ظَهْرِ هذا الحوت صخرة سمكها كغلظ السموات وَالْأَرْضِ، وَعَلَى ظَهْرِهَا ثَوْرٌ لَهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ قَرْنٍ وَعَلَى مَتْنِهِ الْأَرَضُونَ السَّبْعُ وَمَا فِيهِنَّ وما بينهن، والله أَعْلَمُ.

اور ابن أَبِي نَجِيحٍ نے کہا کہ ان کو ابراہیم بن بکر نے خبر دی کہ مجاہد نے کہا وہ (لوگ) کہا کرتے النون ایک عظیم مچھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے اور البغوی نے ذکر کیا اور مفسرین کی ایک جماعت نے کہ اس مچھلی کے پیچھے چٹان ہے جیسے زمین و آسمان ہیں اور اس کے پیچھے بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں    

سند میں إِبْرَاهِيم بْن أَبي بكر، الأخنسيُّ  کا  حال مستور ہے

کسی دور میں مسلمانوں میں یہ روایت چل رہی تھی چاہے شیعہ ہوں یا سنی ہوں کافی بعد میں انکا رد کیا گیا

مثلا  ابو حیان نے تفسیر میں اس کو بے اصل بات کہا اسی طرح اللؤلؤ المرصوع فيما لا أصل له أو بأصله موضوع

میں  القاوقجي (المتوفى: 1305هـ) نے اس کو موضوع روایت کہا – ابن قیم نے کتاب المنار المنيف في الصحيح والضعيف میں اسکو الْهَذَيَانَاتِ کہا ہے- جو بات سند سے ہو اس کو محض الْهَذَيَانَاتِ کہہ کر سلف کے محدثین کا رد کرنا اور راوی پر بحث نہ کرنا بھی عجیب ہے دوم جب یہ الْهَذَيَانَاتِ  میں سے تھی  تو ابن کثیر نے اسکو تفسیر جیسی چیز میں شامل کیوں کیا

حیرت ہے کہ بہت سی اسلامی ویب سائٹ پر اس کو آج تک حدیث رسول کہہ کر اس کا دفاع کیا جا رہا ہے دوسری طرف عیسائی مشنری اس کو تنقید کے طور پر پیش کر رہے ہیں

مستدرک الحاکم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الْأَرَضِينَ بَيْنَ كُلِّ أَرْضٍ إِلَى الَّتِي تَلِيهَا مَسِيرَةُ خَمْسُمِائَةِ سَنَةٍ فَالْعُلْيَا مِنْهَا عَلَى ظَهْرِ حُوتٍ قَدِ التَّقَى طَرَفَاهُمَا فِي سَمَاءٍ، وَالْحُوتُ عَلَى ظَهْرِهِ عَلَى صَخْرَةٍ، وَالصَّخْرَةُ بِيَدِ مَلَكٍ، وَالثَّانِيَةُ مُسَخَّرُ الرِّيحِ، فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُهْلِكَ عَادًا أَمَرَ خَازِنَ الرِّيحِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْهِمْ رِيحًا تُهْلِكُ عَادًا، قَالَ: يَا رَبِّ أُرْسِلُ عَلَيْهِمُ الرِّيحَ قَدْرَ مِنْخَرِ الثَّوْرِ، فَقَالَ لَهُ الْجَبَّارُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِذًا تَكْفِي الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا، وَلَكِنْ أَرْسِلْ عَلَيْهِمْ بِقَدْرِ خَاتَمٍ، وَهِيَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ الْعَزِيزِ: {مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ} [الذاريات: 42] ، وَالثَّالِثَةُ فِيهَا حِجَارَةُ جَهَنَّمَ، وَالرَّابِعَةُ فِيهَا كِبْرِيتُ جَهَنَّمَ ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِلنَّارِ كِبْرِيتٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ فِيهَا لَأَوْدِيَةٌ مِنْ كِبْرِيتٍ لَوْ أُرْسِلَ فِيهَا الْجِبَالُ الرُّوَاسِي لَمَاعَتْ، وَالْخَامِسَةُ فِيهَا حَيَّاتُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَفْوَاهَهَا كَالْأَوْدِيَةِ تَلْسَعُ الْكَافِرَ اللَّسْعَةَ فَلَا يَبْقَى مِنْهُ لَحْمٌ عَلَى عَظْمٍ، وَالسَّادِسَةُ فِيهَا عَقَارِبُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَدْنَى عَقْرَبَةٍ مِنْهَا كَالْبِغَالِ الْمُؤَكَّفَةِ تَضْرِبُ الْكَافِرَ ضَرْبَةً تُنْسِيهِ ضَرْبَتُهَا حَرَّ جَهَنَّمَ، وَالسَّابِعَةُ سَقَرُ وَفِيهَا إِبْلِيسُ مُصَفَّدٌ بِالْحَدِيدِ يَدٌ أَمَامَهُ وَيَدٌ خَلْفَهُ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُطْلِقَهُ لِمَا يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَطْلَقَهُ» هَذَا حَدِيثٌ تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو السَّمْحِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ وَقَدْ ذَكَرْتُ فِيمَا تَقَدَّمَ عَدَالَتَهُ بِنَصِّ الْإِمَامِ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

عبد الله بن عمرو نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : زمینیں ایک مچھلی کی پیٹھ پر ہیں

امام حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور الذھبی نے منکر

سوال ہے کہ ٤٠٠ سے ٨٠٠ ہجری تک جو امام حاکم اور الذھبی کے بیچ کا دور ہے لوگ اس روایت پر کیا کہتے تھے؟

شیعہ کتب

الكافي – از الكليني – ج 8 – ص  89 کی روایت ہے

 حديث الحوت على أي شئ هو   55 – محمد ، عن أحمد ، عن ابن محبوب ، عن جميل بن صالح ، عن أبان بن تغلب ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : سألته عن الأرض على أي شئ هي ؟ قال : هي على حوت ، قلت : فالحوت على أي شئ هو ؟ قال : على الماء ، قلت : فالماء على أي شئ هو ؟ قال : على صخرة ، قلت : فعلى أي شئ الصخرة ؟ قال : على قرن ثور أملس  ، قلت : فعلى أي شئ الثور ؟ قال : على الثرى ، قلت : فعلى أي شئ الثرى ؟ فقال : هيهات عند ذلك ضل علم لعلماء    

باب  مچھلی کی حدیث کہ یہ کس پر ہے ؟ محمد ، احمد سے وہ ابن محبوب سے وہ جمیل بن صالح سے وہ ابان بن تغلب سے وہ ابی عبد الله امام جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ میں ابان نے امام سے زمین کے بارے میں پوچھا کہ یہ کس چیز پر ہے ؟ امام نے فرمایا مچھلی پر میں نے پوچھا یہ مچھلی کس چیز پر ہے ؟ فرمایا پانی پر میں نے پوچھا پانی کس پر ہے ؟ فرمایا چٹان پر میں نے پوچھا اور چٹان کس چیز پر ہے ؟ فرمایا چکنے بیل کے سینگ پر  اس پر پوچھا بیل کس چیز پر ہے کہا یہ الثری پر ہے میں نے پوچھا الثری ؟ پس فرمایا دور بہت دور! علماء کا علم پر پر ضائع ہو گیا

اس پر حاشیہ لکھنے والے لکھتے ہیں

في هذا الحديث رموز إنما يحلها من كان من أهلها . ( في ) وذلك لان حديثهم صعب مستصعب

اس حدیث میں رموز ہیں جن کو وہی حل کر سکتا ہے جن میں اہلیت ہو اور انکی حدیث الجھی ہوئی مشکل ہے

یہ روایت تفسیر قمی میں بھی ہے اور صدوق نے اسکو قبول کیا ہے البتہ مفید نے اس کی صحت  پر شک کیا ہے

اس قسم کی روایات سے باطنی شیعوں کے مطابق تاویل کا علم نکلتا ہے

زمیں ایک بیل کے سنگ پر ہے ہمالیہ کے ہندووں کا بھی عقیدہ ہے

Hindus of the Himalayas: Ethnography and Change page 105  By Gerald Duane Berreman

Himalayan Heritage page 123 By J. P. Singh Rana

گویا کسی دور میں یہ بات بہت پھیلی ہوئی تھی

آئیں ہم تحت الثری میں اترتے ہیں زمین کی سطح کے نیچے ترتیب یہ ہے

مچھلی

پانی

چٹان

بیل کے سینگ

یہ اصلا اشارت ہیں برجوں کی طرف لہذا مندرجہ ذیل برج ترتیب میں اتے ہیں

مچھلی – برج حوت

پانی – برج دلو

چٹان – برج الحمل

چکنے بیل کے سینگ – برج ثور

الحمل کے عربي میں کئی مفھوم ہیں ان میں دنبہ اور وزن بھی ہے اسی سے  عربی اور اردو میں  حمل ٹہرنا کہا جاتا ہے  پاؤں بھاری ہونا کہا جاتا ہے لہذا چٹان کو وزن کی وجہ سے  برج الحمل سے نسبت دی گئی ہے

زمین کسی دور میں گول نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ چپٹی سمجھی جاتی تھی اور اس کے نیچے سمجھا جاتا تھا کہ برج ہیں جو آسمان پر نمودار ہوتے ہیں – اوپر روایات میں  برجوں کی ترتیب تمثیلی انداز میں سمجھائی گئی ہے

الغرض نہ المعتزلہ کا طریقه صحیح تھا نہ روایت پسند علماء کا اور یہ بات آج ہم سمجھ سکتے ہیں – افسوس  جب ابن کثیر اس قسم کی روایت کو لکھ رہے تھے وہ اس کو سمجھ نہیں سکے

گرمی سردی کا سورج اور سورج کا قطر

مفسرین مثلا قرطبی الوسی وغیرہ نے ایک اثر نقل کیا ہے جس کے مطابق

تفسیر القرطبی، تفسیر آیت 71:16
وقيل لعبد الله بن عمر: ما بال الشمس تَقْلِينا أحياناً وتَبْرُد علينا أحياناً؟ فقال: إنها في الصيف في السماء الرابعة، وفي الشتاء في السماء السابعة عند عرش الرحمن، ولو كانت في السماء الدنيا لما قام لها شيء.
اور عبداللہ ابن عمر سے سورج کے متعلق پوچھا گیا کہ یہ بعض مرتبہ جھلسا دینے والا گرم ہوتا ہے اور کبھی راحت پہنچانے والی گرمی دے رہا ہوتا ہے۔ اس پر ابن عمر نے کہا: بے شک گرمی کے موسم میں سورج چوتھے آسمان میں ہوتا ہے ، جبکہ سردیوں کے موسم میں یہ ساتویں آسمان پر اللہ کے عرش کے قریب چلا جاتا ہے۔ اور اگر سورج اس دنیا کے آسمان میں آ جائے تو اس دنیا میں کوئی چیز نہ بچے۔

اس اثر کو و جعل الشمس سراجا کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے لیکن اس کی سند نہیں ملی

اسی طرح ایک اور قول تفسير القرطبي میں  ہے

وحكى القشيري عن ابن عباس أن الشمس وجهها في السموات وقفاها في الأرض

اور القشیری نے حکایت کیا ہے  ابن عباس سےکہ سورج کا چہرہ آسمانوں کی طرف اور پشت زمین کی طرف ہے

اسکی سند  کتاب العظمة از ابو الشیخ ، مستدرک الحاکم میں ہے

 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هُدْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: {وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا} [نوح: 16] قَالَ: «قَفَاهُ مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ، وَوَجْهُهُ مِمَّا يَلِي السَّمَاءَ

اس کی سند میں  يوسف بن مهران ہے الميموني کہتے ہیں امام احمد اس کے لئے کہتے لا یعرف نہیں جانتا

یعنی یہ ایک مجھول شخص ہے جس سے صرف  علي بن زيد نے روایت لی ہے

امام الحاکم اس کو امام مسلم کی شرط پر کہتے ہیں جو صحیح نہیں اور حاکم غلطیاں کرنے کے لئے مشھور ہیں

امام بخاری تاریخ الکبیر میں یوسف کے لئے لکھتے ہیں وكَانَ يهوديا فأَسلَمَ. یہ یہودی تھے پھر مسلمان ہوئے

بہت سے اقوال یہود کی کتب کے ہمارے پاس اس وجہ سے آئے اور ان کو اسرائیلیت کہا جاتا ہے اگر وہ کسی نبی کی عجیب و غریب خبر ہو لیکن جب کائنات و تکوین کی خبر ہوتی تھی تو اس کو مفسرین لکھ لیتے تھے کیونکہ اس پر تفصیل کم  تھی

اسی کتاب العظمة کی دوسری روایت ہے

حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ رَاهَوَيْهِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ: {وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا} [نوح: 16] قَالَ: «وَجْهُهُ يُضِيءُ السَّمَاوَاتِ، وَظَهْرُهُ يُضِيءُ الْأَرْضَ

قتادہ ابن عبّاس سے روایت کرتے ہیں کہ چاند  کا چہرہ آسمانوں کو روشن کرتا ہے اور اسکی پشت زمین کو روشن کرتی ہے

سند میں قتادہ مدلس ہے عن سے روایت کرتا ہے لہذا روایت ضعیف ہے

مفسرین نے ان روایات کو تفسیر میں لکھا ہے جبکہ یہ صحیح نہیں ہیں

شیعہ کتاب علل الشرائع میں ہے

سأل رجل من أهل  الشام أميرالمؤمنين عليه السلام عن مسائل فكان فيما سأله أن سأله عن أول ما خلق الله تعالى  قال : خلق النور ، وسأله عن طول الشمس والقمر وعرضهما ، قال : تسعمائة فرسخ  في تسعمائة فرسخ

اہل شام میں سے کسی شخص نے علی علیہ السلام سے پوچھا کہ سورج اور چند کا عرض کتنا ہے؟ علی نے کہا ٩٠٠ فرسنگ

ایک فرسنگ ٥.٧ میٹر کا ہوتا ہے اور سورج و چاند کا یہ عرض نہیں ہے

تفسیر قمی میں ہے علی نے کہا سورج والشمس ستون فرسخا في ستين فرسخا یعنی ٦٠ فرسنگ اس کا قطر ہے

جس دور میں یہ کتب لکھی جا رہی تھیں اس دور میں ان مخصوص روایات کو رد کرنے کی کوئی دلیل نہیں تھی لہذا ان کو لکھ دیا گیا آج ہم سمجھ سکتے ہیں کہ رآویوں نے غلطیاں کی ہیں

 افسوس بعض جہلاء  کہتے ہیں کہ یہ تفسیری ضعیف روایات رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے گھڑیں! محدثین نے اگر تین ہزار روایات لکھی ہیں تو ٥٠ ہزار سے اوپر رد بھی کی ہیں اور یہ بات معروف ہے کہ لوگوں نے رسول الله پر جھوٹ باندھا اور راویوں کا حافظہ خراب ہوا  کیا- آج لوگوں کا حافظہ خراب نہیں ہوتا یا وہ اختلاط کا شکار نہیں ہوتے ؟

شہاب ثاقب

قرآن کہتا ہے

تم کو کا پتا طارق کیا ہے؟ ایک بھڑکتا ہوا تارہ ہے

اس پر ایک ملحد لکھتے ہیں کہ یہ غلط ہے شہاب ثاقب   صرف ٹوٹے ہوئے تارے ہیں

آج سے ١٤٠٠ سال پہلے عربی زبان اتنی وسیع نہیں تھی کہ اس طرح کی تمام جزیات کو وہ اسی سائنسی پیرائے میں بیان کرتی جس طرح ہم سننے کے عادی ہیں

جو  چٹان بھی زمین کے گرد تھی اور اس کی فضا میں داخل نہیں تھی وہ تارہ کہی گئی کیونکہ عربی میں اس کا متبادل لفظ نہیں تھا

سورج کا پانی میں ڈوبنا

قرآن میں سوره الکھف میں ہے کہ ذو القرنین زمین فتح کرتے کرتے ایک ایسے مقام تک آیا جہاں

 حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِ‌بَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُ‌بُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ

یہاں تک کہ جب سورج غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اسے ایسا پایا کہ کیچڑ کی ندی میں ڈوب رہا ہے

 اس پر بعض کا اعتراض ہے کہ یہ غیر سائنسی بات ہے- جی بات غیر سائنسی ہے لیکن ادبی ہے –  یہ آیت  شاہد یا آبزرور کی اپروچ سےبیان ہو رہی ہے ایسا سائنس میں بھی ہوتا ہے کہ آبزرور کس مقام سے دیکھ رہا ہے اور اس سے کیا سمجھا جا سکتا ہے

خود ہمارے سامنے ہر روز سورج غروب ہوتا ہے جو زمین یا سمندر میں اترتا لگتا ہے  ادب میں بھی اس کو لکھا جاتا ہے

ذو القرنین جس ندی پر پہنچے اس  کی وسعت اس قدر تھی کہ یہ منظر دیکھا

زمین کو بچھایا

قرآن 15:19

والارض مددناها والقينا فيها رواسي وانبتنا فيها من كل شئ موزون

ترجمہ: اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس پر پہاڑ رکھ دیے اوراس میں ہر چیز اندازے سے اگائی

 قرآن 20:53

الذي جعل لكم الارض مهدا وسلك لكم فيها سبلا وانزل من السماء ماء فاخرجنا به ازواجا من نبات شتى

ترجمہ: جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے لیے اس میں راستے بنائے اور آسمان سے پانی نازل کیا پھر ہم نے اس میں طرح طرح کی مختلف سبزیاں نکالیں

 قرآن 43:10

الذي جعل لكم الارض مهدا وجعل لكم فيها سبلا لعلكم تهتدون

ترجمہ: وہ جس نے زمین کو تمہارا بچھونا بنایا اور تمہارے لیے اس میں راستے بنائے تاکہ تم راہ پاؤ

قرآن 50:7

والارض مددناها والقينا فيها رواسي وانبتنا فيها من كل زوج بهيج

ترجمہ: اور زمین کو بچھایا ہم نے اور ڈال دیے اس میں (پہاڑوں کے) لنگر اور اگائیں اس میں ہرطرح کی خوش منظر نباتات۔

 قرآن 51:48

والارض فرشناها فنعم الماهدون

ترجمہ: اور زمین کو بچھایا ہے ہم نے اور کیا ہی اچھے ہموار کرنے والے ہیں ہم۔

 قرآن 71:19
والله جعل لكم الارض بساطا
ترجمہ: اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا۔

قرآن 78:6
الم نجعل الارض مهادا
ترجمہ: کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا۔

 قرآن 88:20
والى الارض كيف سطحت
ترجمہ: اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟

 قرآن 91:6
والارض وماطحاها
ترجمہ: اور زمین کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے بچھایا۔

الله نے زمین کو  ہموار بھی کیا تاکہ انسان اس پر آرام سے چل سکیں اگر چاہتا تو تمام زمین اوپر نیچے کر دیتا اور انسان پہاڑوں کو عبور کرتے رہتے لہذا الله اپنا احسان بتا رہا ہے کہ اس نے انسانوں کے لئے آسانی کی دی

ہم جانتے ہیں اس زمین پر پہاڑ ہیں سمندر ہیں جن پر ہم چل نہیں سکتے لیکن ان کے اپنے فوائد ہیں

الغرض  سائنس ایک تجرباتی و مشاہداتی و ارتقائی علم ہے اس کو اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے – قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کو عرب کے فضلا سے لے کر  عام عربی بد و تک نے قبول کیا تھا  قرآن نظم کائنات کا وہ نظریہ پیش کرتا ہے جو اس کو دین سے جوڑتا ہے نہ یہ فلسفہ کی بات کرتا ہے نہ منطق کی نہ سائنس کی

حشر دوم سے عبد الملک تک

قصہ مختصر
اصل مسجد الاقصی یروشلم میں تھی- یہ سن ٧٠ بعد مسیح میں رومیوں کی جانب سے تباہ کر دی گئی اور اس کے اثر کو زمین سے مٹا دیا گا یہاں تک کہ یہودی مورخ جوسیفث کے بقول کوئی اس مقام سے گزرتا تو اس کو یقین تک نہ اتا کہ یہاں کبھی کوئی بستا بھی تھا -صحیح ابن حبان اور سنن ترمذی کی روایت کے مطابق معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان سے ہی اصل مسجد الاقصی دکھائی گئی اور پھر آپ علیہ السلام سات آسمان کی طرف چلے گئے – سن ١٧ ھ میں عمر رضی اللہ عنہ نے یروشلم میں ایک رومی قلعہ پر مسجد عمر بنا دی – اس کو بعد میں مسجد بیت المقدس کہا جانے لگا اور الولید بن عبد الملک کے دور میں مسجد عمر کے پاس قبہ الصخرہ بنایا گیا جس کا مقصد زائرین بیت المقدس کے لئے ایک ہوٹل یا سرائے بنانا تھا – بعد کے ادوار میں مسجد عمر کو مسجد القبلی کہا جانے لگا اور یہاں تک کہ اس کا نام پھر مسجد الاقصی ہی رکھ دیا گیا – اس بلاگ میں اس چیز کی وضاحت ہے کہ مسجد القبلی ، مسجد الاقصی نہیں ہے یہ مسجد عمر ہے – اصل مسجد الاقصی کسی زندہ بشر کو معلوم نہیں کہاں ہے – نہ کسی صحابی کو معلوم تھی – نہ  آج کسی مسلمان کو معلوم ہے نہ کسی یہوودی کو معلوم ہے

مزید تفصیل کے لئے پڑھیں
تاریخ قبلتین

187 Downloads

قرآن سوره الاسراء کی آیات ہیں کہ

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ  

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

یہ معراج کا واقعہ تھا جس میں جسمانی طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر کیا ایک گھوڑے اور خچر نما مخلوق پر جس کو براق کہا جاتا ہے- اس میں ایک ان میں آپ مسجد الحرام سے اصلی مسجد الاقصی پہنچ  گئے اور آپ کے ہمراہ جبریل علیہ السلام بھی تھے

دوسرے دن آپ نے جب قریش کو اس کی خبر دی تو انہوں نے آزمائشی سوالات کیے اور حجر یا حطیم میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیت المقدس شہر کو آپ کے سامنے کر دیا گیا

الله تعالی فرماتے ہیں

فإذا جاء وعد الآخرة ليسوءوا وجوهكم وليدخلوا المسجد كما دخلوه أول مرة وليتبروا ما علوا تتبيرا عسى ربكم أن يرحمكم وإن عدتم عدنا وجعلنا جهنم للكافرين حصيرا

پس جب دوسرا وعدا ہونے کو  آیا کہ چہروں کو بگاڑ دے اور اسی طرح مسجد میں داخل ہوں جیسے پہلے ہوا تھا اور تتر  بتر کر دیں جس پر بھی غلبہ پائیں ہو سکتا ہے کہ اب تم پر تمہارا رب رحم کرے لیکن اگر تم پلٹے تو ھم بھی پلٹیں گے   اور  ہم جہنم کو  تمام کافروں کے لئے گھیرا بنائیں گے

arch-titus

روم میں آرچ اف ٹائیتس پر بنا ایک نقش -رومی فوجی قدس الاقدس کا خالص سونے کا چراغ مال غنیمت کے طور پر لے جا رہے ہیں

یہودی مورخ جوسفس لکھتا ہے

For the same month and day were now observed, as I said before, wherein the holy house was burnt formerly by the Babylonians 

– Josephus Wars chapter 4

قدس الاقدس اسی مہینے اور دن جلایا گیا جس دن بابلیوں نے اس کو جلایا تھا

ظاہر ہے اصل مسجد الاقصی کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بیت المقدس شہر دکھایا گیا اور کفار مکہ نے بھی اسی شہر پر سوالات کیے وہاں کوئی مسجد تھی ہی نہیں لہذا جو بھی دیکھا وہ اصلی مسجد الاقصی  اور اس کا ماحول تھا جو الله کی قدرت کا نمونہ تھا کہ اسی مسجد کو اصل حالت میں  دکھایا گیا  جبکہ وہ وہاں تباہ شدہ حال میں تھی یعنی یہ ایک نشانی تھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص تھی

ایک بات سمجھنے کی ہے اور قرآن میں یہی بات سوره الاسراء کے شروع میں بیان ہوئی ہے اور معراج کے ساتھ مسجد الاقصی کی تباہی کا خاص ذکر ہے تاکہ غور کرنے والے بات سمجھیں

رومی مشرکوں کا بیت المقدس کو آباد کرنا

یروشلم کے لئے بیت المقدس بہت بعد میں مستعمل ہوا مشرکین مکہ اس شہر کو عیلیا کہتے تھے

بیت المقدس اصلا یہود کی زبان  کا لفظ ہے عرب مشرکین اس کو عیلیا کہتے تھے جو اصل میں

AELIA CAPITOLINA

ہے  جو ایک رومن کالونی تھی جو ہیرود کے شہر پر بنی

عیلیا کپٹلونا کو رومن ملٹری کیمپ بنانے کا حکم شاہ ہیڈرین

Hadrian

نے دیا جو رومن سلطنت کا ١٤ واں بادشاہ تھا اس کا مکمل نام تھا

Publius Aelius Hadrianus Augustus

لہذا اپنے نام

Aelius

پر اس نے یروشلم کا نام رکھا جو بعد میں ایلیا میں بدل گیا

CAPITOLINA

کا مطلب دار الحکومت ہے یعنی ایسا مقام جہاں سے اس صوبے کی عمل داری ہو گی اسی سے انگریزی لفظ کیپٹل نکلا ہے

–واضح رہے کہ  شاہ ہیڈرین کے  وقت اس شہر میں نہ عیسائیوں کے کلیسا تھے نہ یہود کے معبد  تھے کیونکہ اس دور میں یروشلم تباہ شدہ کھنڈرات کا شہر تھا – مشرک رومی فوجیوں  نے اس شہر میں ١٣٥ بعد مسیح میں پڑاو کیا اور وہاں یہودی بدعتی فرقہ عیسیٰ کے ماننے والوں کو انے دیا اور یہود  کا داخلہ بند رہا –  سن ٣٢٥ ع  ب م میں  رومن بادشاہ کونسٹنٹین عیسائی ہوا جو دین متھرا پر تھا  – اس وقت اس شہر پر متھرا دھرم کا راج تھا اور تمام مندر اسی مذھب والوں کے تھے جن میں رومیوں کی کثرت تھی جو اجرام فلکی اور برجوں  کے پجاری تھے  – متھرا اصلا ایک فارسی مذھب تھا لیکن اس کی اپیل بہت تھی انہی کا تہوار نو روز ہے جس کو آج تک ایران سے لے کر ترکی  تک منایا جاتا ہے –  عیلیا کپٹلونا کو مختصر کر کے اور ساتھ ہی  اس لفظ  کو تبدیل کر کے  اہل کتاب اور مسلمانوں نے  ایلیا کہنا شروع کر دیا  جبکہ ایلیا  عبرانی میں ایک نبی کا نام تھا نہ کہ اس شہر کا نام– یہ ایک تاریخی غلط العام چیز ہے

یہود میں ایلیا اصل میں  عیسیٰ سے 9 صدیوں قبل انے والے ایک نبی الیاس علیہ السلام کا نام ہے جو یروشلم میں نہیں آئے تھے ان کا نام انگریزی میں

Elijah

ہے جو شمال میں ایک  علاقے میں آئے تھے اور یروشلم میں کبھی بھی نہیں آئے

AELIA CAPITOLINA , name given to the rebuilt city of Jerusalem by the Romans in 135 c.e. Following the destruction of Jerusalem by the Romans in 70 c.e. the city remained in ruins except for the camp (castrum) of the Tenth Legion (Fretensis), which was situated in the area of the Upper City and within the ruins of the Praetorium (the old palace of Herod the Great), protected, according to the first-century historian Josephus (War, 7, 1:1) by remnants of the city wall and towers on the northwest edge of the city. Although Jews were banished from the city (except apparently during the Ninth of *Av), some Jewish peasants still lived in the countryside, and remains of houses (with stone vessels) have been found immediately north of Jerusalem (close to Tell el-Ful).

http://www.encyclopedia.com/article-1G2-2587500497/aelia-capitolina.html

عیلیا کپٹلونا نام ہے جو یروشلم کو دیا گیا رومیوں کی جانب سے سن ١٣٥ ب م میں جب یروشلم تباہ ہوا رومیوں کے ہاتھوں سن ٧٠ ب م میں اور اس کے کھنڈرات پر ایک لشکر تعنات ہوا جو پرایتروریم (جو ہیرود کا محل تھا)  پر رکا – اور پہلی صدی کے جوزیفس مورخ  (کتاب جنگیں ج ٧ ) کہتے ہیں شہر کی دیوار کے کنارے اور ان میناروں کے پاس جو شمال مغربی کناروں پر تھیں وہاں پڑاؤ ڈالا  – اگرچہ یہود پر داخلہ بند تھا (سوائے او کے ماہ کی نویں تاریخ پر ) کچھ یہودی کسان اس کے باہر آباد تھے جن کے گھروں کی باقیات ملی ہیں یروشلم کے شمال میں

آج اس   پرایتروریم

Praetorium

 پر ہی مسجد الأقصى ہے

فتح بیت المقدس اور عمر رضی الله عنہ کی آمد

سوره  الاسراء میں بتایا گیا کہ رومیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے دور کی مسجد  الاقصی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہر اس چیز کو تباہ کر دیا جس پر ان کا ہاتھ پڑا بالکل اسی طرح جس طرح اس سے پہلے اس کواشوریوں کے ذریعہ  تباہ کیا گیا یعنی الله کا عذاب بن کر اشوری یروشلم پر پڑے اور انہوں نے حشر اول کیا اس کے بعد رومیوں نے حشر دوم کیا-مسجد الاقصی ٧٠ بعد مسیح  میں رومیوں نے مسمار کی اور انجیل کے مطابق یہ عیسیٰ کی زبان سے اہل کتاب پر  لعنت تھی کہ  اس مسجد کا ایک پتھر بھی اپنی جگہ نہ رہے گا یہاں تک کہ اس کا نشان مٹا دیا گیا اور صخرہ چٹان تک کو کھود دیا گیا اس وجہ سے اس کا مقام انسانوں سے محو ہو گیا

جب عمر رضی الله  عنہ ١٧ ہجری میں  بیت المقدس میں داخل ہوئے تو طبری کی تاریخ کی ایک بے سند روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ أبو إسحاق كعب بن ماتع الحميرى اليمنى( یمن کے حبر یعنی یہودی عالم تھے- عمر رضی الله عنہ کے دور میں ایمان لائے لیکن شاید ہی انہوں نے کبھی مسجد الاقصی کا سفر کیا ہو کیونکہ یہودی ہونے کی وجہ سے    ان پر یروشلم میں  داخلے پر پابندی تھی-  انہوں)  نے عمر رضی الله عنہ کو مشورہ دیا کہ الصخرہ پر مسجد الاقصی  تھی-

عمر رضی الله عنہ نے اجتہاد سے کام لیا اور  مسجد الاقصی کو  الگ رومی فورٹ انتونیا   ( پرایتروریم ) پر ایک مقام پر بنایا اور  وہ یروشلم کا سب سے اونچا مقام تھا – لہذا مسجد الاقصی ایک غیر متنازعہ  جگہ بنائی گئی-  بعض مسلمانوں کو روایات میں الفاظ ملے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے  یروشلم میں محراب داودی پر نماز پڑھی لیکن ان محققین  کو خود نہیں پتا کہ محراب داودی کی کوئی اصل نہیں – یہ اصل میں جافا گیٹ

Jaffa Gate

ہے  جو عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد  ( موجودہ الاقصی) سے بہت دور شہر کا مخالف سمت میں دروازہ ہے جو یقینا داود علیہ السلام کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ رومیوں کی تعمیر ہے  اس کو بعض  باب الخلیل بھی کہتے ہیں -عمر رضی الله عنہ کی بنائی ہوئی مسجد الاقصی اصل میں   عمر رضی الله  عنہ نے اپنے اجتہاد سے بنائی –     عمر رضی الله عنہ نے کعب  الاحبار سے پوچھا کہ  مسجدالاقصی کہاں تھی،   جس سے ظاہر ہے ان کو خود عمر  کو بھی معلوم نہ تھا کہ کہاں تھی نہ کسی اور صحابی نے اس کی کوئی مر فوع حدیث میں بیان کردہ  کوئی ایسی نشانی بتائی جس سے اس تک پہنچا جاتا-

طبری کی عمر رضی الله عنہ  اور کعب کے مکالمے کی  اس  روایت کی سند ہے وعن رجاء بْن حيوة، عمن شهد، قال جس میں مجھول راوی ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حدثنا أسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن أبي سنان عن عُبيد بن آدم وأبي مريم وأبي شعيب: أن عمر بن الخطاب كان بالجابية، فذكر فتح بيت المقدس، قال: فقال أبو سلمة: فحدثني أبو سنان عن عبيد بن آدم قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول لكعب: أين ترى أن أصلي؟ فقال: إن أخذت عني صليت خلف الصخرة فكانت القدس كلها بين يديك! فقال عمر: ضاهيت اليهودية، لا، ولكن أصلى حيث صلى رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، فتقدم إلى القبلة فصلى، ثم جاء فبسط رداءه، فكنس الكناسة في ردائه وكنس الناس.

أبو سنان ،  عبيد بن آدم سے روایت کرتا ہے کہ میں نے سنا عمر رضی الله عنہ نے کعب سے پوچھا کہ تمھاری رائے میں کہاں نماز پڑھیں ؟ کعب نے کہا اگر میں پڑھوں تو صخرہ سے پیچھے پڑھوں گا اس طرح پورا قدس آپ کے سامنے ہو گا پس عمر نے کہا یہودیوں کی گمراہی ! نہیں ہم نماز پڑھیں گے جہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھی پس آگے بڑھ کر قبلہ کی طرف نماز پڑھی

اس کی سند میں أَبُو سِنَانٍ  عِيسَى بْنُ سِنَانٍ الْقَسْمَلِيُّ   ہے جس کی تضعیف محدثین نے کی ہے ابو حاتم کہتے ہیں  ليس بقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے  ابن معين وأحمد بن حنبلاس کو ضعیف کہتے ہیں اور أبو زرعة  اس کو مخلط ضعیف الحدیث کہتے ہیں الذھبی کہتے ہیں ضعیف ہے متروک نہیں ہے ابن حجر لین الحدیث کہتے ہیں البیہقی سنن الکبری میں ضعیف کہتے ہیں المعلمي  بھی ضعیف کہتے ہیں یہ روایت صرف بصرہ کی ہے کیونکہ اس راوی نے اسکو بصرہ میں بیان کیا ہے اسکی وفات  141 – 150 ھ کے دوران ہوئی ہے

مسند احمد کی روایت کی سند میں عبید بن ادم بھی مجھول ہے – المعلمي  کہتے ہیں لم يُذْكرْ له راوٍ إلا أبو سنان اس سے صرف ابو سنان ہی روایت کرتا ہے

شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں اسکی سند ضعیف ہے حیرت ہے کہ اس روایت کو  ابن کثیر اور احمد شاکر حسن کہتے ہیں

کتاب فضائل بيت المقدس از المقدسی  کی روایت کی  ابو سنان کی روایت ہے

أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عِيسَى بْنِ سَنَانَ الشَّامِيِّ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ فِي كَنِيسَةٍ يُقَالُ لَهَا كَنِيسَةُ مَرْيَمَ فِي وَادِي جَهَنَّمَ قَالَ ثُمَّ دَخَلْنَا الْمَسْجِدَ فَقَالَ عُمَرُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فِي مَقْدِمِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَى الصَّخْرَةِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ

ابو سنان ، المغیرہ سے وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ میں نے عمر رضی الله عنہ کے ساتھ چرچ میں نماز پڑھی جس کو مریم کا چرچ کہا جاتا ہے جو وادی جہنم میں ہے –  کہا پھر ہم مسجد میں آئے اور عمر نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ  معراج کی رات میں نے مسجد کے مقام پر نماز پڑھی پھر صخرہ آیا اور بیت المقدس شہر میں داخل ہوا

دوسری تاریخی روایات کے مطابق تو عمر رضی الله عنہ نے کسی چرچ میں نماز نہ پڑھی ابو سنان کی یہ دونوں روایآت ضعیف ہیں اگرچہ اس میں ایک نئی چیز ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز مسجد الاقصی پر پڑھی اور پھر صخرہ تک آئے جبکہ شیعہ روایات کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم صخرہ آئے جو مسجد تھی اس پر تفصیل نیچے آئے گی

کنیسہ مریم

وادی ہنوم/وادی جہنم میں کنیسہ مریم کا اندرونی منظر قبر مریم کا مقام 

Church of Assumption

قبروں پر نماز پڑھنا منع ہے – عمر رضی الله عنہ , مریم علیہ السلام کی قبر پر نماز کیوں پڑھتے –  یہ نحوست ابو سنان  کی ہے

ابو سنان کی بیت المقدس کی ان روایات میں تفرد ہے انکو کوئی اور بیان نہیں کرتا خود یہ فلسطین کے ہیں اور بصرہ جا کر اس قسم کی روایات بیان کی ہیں

مسجد الاقصی

الغرض عمر اور کعب کی صخرہ کے حوالے سے بحث  فرضی اور من گھڑت قصہ ہے اس کی کوئی صحیح سند نہیں ہے اور ١٥٠ سال بعد کی قصہ گوئی ہے

عیسائیوں کے مطابق 

کہا جاتا ہے کہ الصخرہ پر عیسائیوں  کا ایک چرچ  ، چرچ اف  ہولی وسڈوم   تھا  جس کو ٦١٤ ع میں فارس والوں نے تباہ  کیا – یہ وہی حملہ تھا جس کا ذکر سوره الروم میں ہے کہ روم پر(فارسی) غالب آ گئے – شاید اسی کلیسا کا ملبہ الصخرہ پر تھا-   اس کا تذکرہ    عیسائیوں  کی کتاب   زیارت  میں ملتا ہے   جس کا عنوان ہے

Bordeaux Pilgrim

سن  ٣٣٣ ع  میں ایک عیسائی  زائر نے یروشلم کا دورہ کیا اور بتایا کہ   قلعہ انتونیا پر ایک چٹان پر ایک چرچ ہے جہاں پلاٹس نے عیسیٰ  پر    فیصلہ سنایا –  اس چٹان کا یہودی مورخ  جوسیفس  نے بھی ذکر کیا ہے

The tower of Antonia…was built upon a rock fifty cubits high and on all sides precipitous…the rock was covered from its base upwards with smooth flagstones”

(Jewish War, V.v,8 para.238)

انتونیا کا مینار  جو ٥٠ کیوبت بلند اور تمام طرف سے عمودی ہے اس نے  چٹان کو گھیرا ہوا ہے اس کی تہہ سے اوپر تک پتھر جڑے ہیں  

یعنی ہیرود کے رومی قلعہ پر بھی ایک چٹان تھی  اسی کو اب  الصخرہ کہا جاتا ہے

عیسائیوں میں یہ مشہور ہوا کہ اور اس پر عیسیٰ کے قدم کے نشان ہیں  ( جیسے  ہم مقام ابراہیم کے لئے مانتے ہیں کہ اس پر ابراہیم علیہ السلام کے قدم کے نشان تھے) کہ جب ان سے رومی تفتیش کر رہے تھے ان کو اس چٹان پر کھڑا کیا گیا اسلام کے مطابق ایسا کوئی موقعہ ہی نہیں آیا عیسیٰ کا اس سب سے قبل رفع ہو گیا لیکن عسائیوں کو اپنے مذھب کی حقانیت  کے لئے کچھ اقوال درکار تھے جس میں سے ایک یہ بھی ہے

 –  شاید یہی وجہ کے کہ  عبد الملک نے  قبہ الصخرہ کی  عمارت پر جو آیات  لکھوائیں ان میں عیسیٰ کی الوہیت کا انکار ہے  اور ہیکل کی تباہی سے متعلق ایک آیت   بھی نہیں-

صلاح الدین ایوبی کے دور کے عزالدین الزنجلی  نے اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے اسی پلیٹ فارم پر ایک  قبه المعراج بنوایا جہاں آج بھی عیسائی آ کر رفع عیسیٰ کی تقریبات کرتے ہیں  – صلیبی جنگوں کا اصل مدعآ تھا کہ قبه الصخرہ اصل میں ایک چرچ ہے جیسے سوفیا چرچ یا چرچ اف ہولی وسڈوم کہا جاتا تھا جب بیت المقدس عسائیوں سے آزاد ہوا تو اس مسئلہ کو سمجھتے ہوئے اسی پلیٹ فارم پر ایک نیا قبه رفع

Dome of Ascension

بنا دیا گیا اور مسلمانوں کے لئے اس کو قبه المعراج  کہا گیا

صليبي عسائیوں نے یروشلم پر قبضہ ہی اس مقام کی اہمیت کی وجہ سے کیا- اب کتاب البدایہ و النہایہ از ابن کثیر کی ایک بے سند روایت کا قول جو روینا یعنی ہم سے روایت کیا گیا ہے سے شروع ہو رہا ہے اس میں لکھا ہے

 وَقَدْ كَانَتِ الرُّومُ جَعَلُوا الصَّخْرَةَ مَزْبَلَةً ; لِأَنَّهَا قِبْلَةَ الْيَهُودِ، حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ كَانَتْ تُرْسِلُ خِرْقَةَ حَيْضَتِهَا مِنْ دَاخِلِ الْحَوْزِ لِتُلْقَى فِي الصَّخْرَةِ

اور اہل روم نے صخرہ کو کوڑا ڈالنے کی جگہ بنایا ہوا تھا کہ یہ یہود کا قبلہ ہے یہاں تک کہ انکی عورتیں اپنے حیض کا کپڑا بھی اس پر پھینکتیں 

 عیسائیوں میں حیض کوئی نا پاک چیز نہیں رہی تھی –  یہ توریت کا حکم تھا جوانکے مطابق  عیسیٰ کے انے پر معطل ہو چکی ہے

صلیبی عسائیوں نے قبه الصخرہ کو

Templum Domini

کا نام دیا اور یہ اس دور کا ایک مقدس چرچ تھا اس کو انکی مہروں پر بھی بنایا گیا – جبکہ موجودہ مسجد الاقصی کو انہوں نے محل میں تبدیل کر دیا-  اب پروٹسٹنٹ کے نزدیک صلیبیوں کی طرح قبه  متبرک  ہے اصل ہیکل سلیمانی کا مقام ہے

یہود کے مطابق

    یہود کے مطابق ہیکل  سلیمانی کا سب سے اہم مقام ایک  چٹان تھی جس کو کعبہ  کی طرح  قبلہ سمجھا جاتا اورقُدس‌الاقداس   (ہولی آف ہولیز) کہا جاتا تھا –  قُدس‌الاقداس کے گرد  ، تباہ ہونے سے پہلے،  غلاف کعبہ کی طرح    ایک   دبیز پردہ تھا –  سال میں صرف ایک دن  امام یا  پروہت  اس   میں  سے  داخل ہوتا تھا-  لیکن یہود  کو خود پتا نہیں کہ اصل مسجد الاقصی کس مقام پر تھی – جب انہوں نے دیکھا کہ  مسلمانوں نے پرایتروریم پر  ایک مقام پر مسجد  کو مسجد سلیمان سے نسبت دیتے ہوئے مسجد الاقصی کہنا شروع کر دیا ہے تو انہوں بھی اس پر دعوی دائر کر دیا ہے جبکہ خود انکی کتب میں اس پر اشارات موجود ہیں کہ اس کا مقام موجودہ مسجد الاقصی والا نہیں ہے

پہلی دلیل  یہود کی کتاب تلمود کے مطابق ہیرود کے محل سے ہیکل سلیمانی میں اٹھنے والا الاو اور بخور دیکھا جا سکتا تھا اور مقصد تھا کہ ہر وقت ہیکل پر نگاہ رکھی جائے جیسا کہ آجکل سعودی حکومت نے عین حرم کے سامنے بلند عمارت بنوا رکھی ہیں بالکل اسی طرح شاہ ہیرود کی محل سے  ہیکل پر نظر تھی  اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہیکل سلیمانی (اصل مسجد الاقصی) نیچے اور ہیرود کا محل اوپر ہوں جیسا کہ یہودی مورخ جوسیفس نے کہا ہے کہ ہیرود کا محل پرتوریم پر فورٹ انتونیا پر تھا جہاں آج مسجد الاقصی ہے یعنی اسلامی مسجد الاقصی ایک سابقہ قلعہ پر ہے اور یہود کی اس سے نیچے تھی

دوسری دلیل ہے کہ آج جس مقام پر مسجد الاقصی ہے وہ تاریخی شہر سے جو سلیمان یا دود علیہ السلام نے آباد کیا اس سے باہر ہے – کیا یہ  انبیاء کی سنت تھی کہ وہ مسجد شہر سے باہر  بناتے اور  اپنے گھر کے برابر میں نہیں بناتے ہیں؟ سیرت النبوی میں تو ایسا نہیں ہے اور یہی انبیاء کی سنت ہو گی

سوم اصل مسجد کے صحن سے جیحوں کا چشمہ ابلتا تھا جو آج دریافت ہو چکا ہے اور وہ بھی موجودہ مسجد سے دور قدیم شہر ہی میں ہے اور یہودی موجودہ مسجد الاقصی کی بنیادیں کھودتے رہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے نیچے پانی کا کوئی چشمہ ہے لہذا اس کے سکین کرتے ہیں – پرتوریم کا پلیٹ فارم اصلا مختلف آرچ پر بنا کر کھڑا کیا گیا ہے اگر وہ ستون ہلا دے جائیں تو پورا پلیٹ فارم اور اس کے اوپر موجود عمارتیں دھنس جائیں گئی

چوتھی دلیل ہے کہ مسجد الاقصی کسی ہموار مقام پر نہ تھی جیسی آج ہے جیسے جیسے آدمی ہیکل سلیمانی  میں داخل ہوتا تھا وہ سیڑھیاں چڑھتا جاتا اور بلند ہوتا جاتا تھا جیسا کہ کتاب

Book of Kings

اور

Book of Chronicles

میں ہے

یعنی اصل مسجد ایک سطح مرتفع پر تھی اور آج اگر قدیم  داودی یروشلم سے موجودہ مسجد الاقصی کی سمت میں چلا جائے  تو سطح بلند ہوتی جاتی ہے

 پانچویں دلیل قدس الاقدس سے مشرقی سمت میں کوہ زیتون تھا  آج اس کوہ کا نام

Hill of  Gethsemane

رکھ دیا گیا ہے اور کوہ زیتون کو پرتوریم کے پاس بتایا جاتا ہے کیونکہ اہل کتاب کے ذہن میں ہے کہ موجودہ مسجد الاقصی ہی اصل ہیکل سلیمانی تھا – جس  پہاڑ کو کوہ زیتون کہا جا رہا ہے وہ اصلا صحیح نہیں ہے یہ بات انجیل سے پتا چلتی ہے کہ آخری وقت میں رفع سے پہلے عیسیٰ اسی پہاڑ میں چھپے ہوئے تھے اس کا  نام اب لاطینی میں گھاتصمنی  رکھ دیا گیا ہے جبکہ یہ اصل کوہ زیتون ہے

اگر اس پہاڑ کا مقام دیکھا جائے تو یہ بھی اصل مسجد الاقصی کو قدیم شہر میں لے اتی ہے

چھٹی دلیل ہیکل سلیمانی  کا مطلب ہے سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا ہیکل

Heikal

جس میں ایک    چٹان یا  الصخرہ تھی اس کو یہودی زمین کا سب سے مقدس مقام سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق زمیں کا آغاز اسی چٹان سے ہوا اور مسلمان ہونے والے  یمنی یہودیوں کے مطابق اس کے نیچے تمام دنیا کی ہوائیں اور نہریں ہیں  جیسا کہ ایک روایت میں ہے-الصخرہ  جو قبه الصخرہ کے نیچے ہے وہ بنیادی طور پر ایک چھوٹا سا غار ہے –   اصل الصخرہ جو ہیکل میں قدس الاقداس میں تھی اس کے بارے میں کسی بھی یہودی کتاب میں  غار کی خبر نہیں -ہاں وہاں ایک معمولی ابھری ہوئی چٹان ضرور تھی ( لیکن اتنی بے ہنگم   ابھری ہوئی چٹان نہ تھی جیسی کہ قبه الصخرہ کے نیچے ہے )– ہیکل کی سطح اس معمولی ابھری چٹان کے باوجود بھی ایسی تھی کہ اس پر پروہت کھڑا ہوتا تھا  جبکہ الصخرہ کے نیچے والی چٹان ہموار نہیں ہے – چٹان جو ہیکل میں تھی وہ چھوٹی تھی اور ہیکل کی جو پیمائش یہودی کتب میں ہیں ان کو جب قبه الصخرہ کے اوپر رکھا جاتا ہے تو قبه الصخرہ والی چٹان بہت بڑی ہے

ساتویں دلیل یہودی مسجد الاقصی کی ایک دیوار جس کو دیوار گریہ  کہتے ہیں اس کے پاس عبادت کرتے ہیں کیونکہ اس دیوار پر ایک آیت لکھی ہے جس میں ہے

And when ye see this, your heart shall rejoice, and their bones as grass

اور جب تم اس کو دیکھو گے تمہارا دل باغ ہو گا اور انکی ہڈیاں گھانس جیسی

یہ یسیعآہ باب ٦٦ کی ١٤ وین آیت ہے جو عین دیوار گریہ پر لکھی ہے اس میں اشارہ ہے کہ یہ مقام کسی دور میں قبرستان تھا چونکہ یہود کے مطابق یہ جگہ ہیکل تھی وہ اب  کہتے ہیں کہ کسی نے غلط آیت غلط مقام پر لکھ دی ہے لیکن یہ آج ان کا موقف  ہے جب شروع میں یہودی واپس اس شہر میں آئے ہوں گے تو اسی دیوار پر آیت دیکھ کر ہی  یہاں جمع ہوئے اور انکی غلطی کو چھپا کر موجودہ مسجد الاقصی پر انہوں نے دعوی کیا ہے

آٹھویں دلیل صخرہ کا پتھر لائم اسٹون

Lime Stone

ہے جبکہ یہود کے مطابق یہ چٹان دنیا کی پہلی تخلیق ہے یہود اسکو

Eben haShetiya

کہتے ہیں یعنی بنیاد کا پتھر لہذا اگر یہ اتنی قدیم  چٹان ہے  تو اس کا پتھر اگنیوس

Igneous

ہونا چاہیے جو لاوا سے بنا ہو کیونکہ چٹانوں میں لائم اسٹون بعد کے ہیں اگنیوس ان سے بھی  قدیم ہیں

نویں دلیل یہودی مورخ جوسیفس لکھتا ہے

It was so thoroughly laid even with the ground by those that dug it up to the foundation, that there was nothing left to make those that came thither believe it   had ever been inhabited.   – War VII.1,1.

رومیوں نے مسجد الاقصی کو مکمل تباہ کر دیا زمین تک یہاں تک کہ اسکی بنیادیں کھود دیں اور اس پر کچھ باقی نہ رہا کہ جو اس پر سے گزرتا اس کو یقین تک نہ اتا کہ کبھی یہاں کوئی رہتا بھی تھا

یعنی صخرہ تک کو کھود دیا گیا یہ الله کا عذاب تھا کیونکہ قدس الاقدس کی دیواروں میں سونا لگا ہوا تھا  یہاں تک کہ جوسیفس کے بقول جب اس میں روشنی ہوتی تو دیکھنے والے کو نگاہ ہٹآنی پڑتی- جوسیفس لکھتا ہے جب مسجد الاقصی کو اگ لگائی گئی تو

Moreover, the hope of plunder induced many to go on; as having this opinion, that all the places within were full of money: and as seeing that all round about it was made of gold. And besides, one of those that went into the place prevented Cæsar, when he ran so hastily out to restrain the soldiers: and threw the fire upon the hinges of the gate, in the dark. Whereby the flame burst out from within the holy house itself immediately: when the commanders retired, and Cæsar with them; and when nobody any longer forbad those that were without to set fire to it. And thus was the holy house burnt down, without Cæsar’s approbation.

War 4,7

رومی فوجی اپے سے باہر ہو چکے تھے یہاں تک کہ اگرچہ مسجد الاقصی جل رہی تھی اس کا قدس الاقدس نہیں جلا تھا اور انکا کمانڈر سیزر مسلسل فوجیوں کو اگ لگانے سے منع کر رہا تھا لیکن فوج میں اس قدر غصہ تھا اور شاید سونے کی لالچ تھی کہ انہوں نے اس کے دروازے پر اگ پھینکی اور اور قدس الاقدس بھڑک گیا ظاہر ہے اس میں موجود  سونا پگھل کر صخرہ پر پھیل گیا ہو گا اور  اسکو حاصل کرنے کے لئے صخرہ کو توڑ توڑ کر سونا نکالا گیا  ہو گا – لہذا  ممکن ہے اصل  صخرہ اس طرح معدوم ہو گیا

اہل سنت  اور مسجد الاقصی

مسلمانوں میں  عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد کو  آہستہ آہستہ مسجد الاقصی کہا جانے لگا اور دوسری طرف امت میں تعمیراتی جھگڑے  بھی ہو رہے تھے

کعبہ کو ابن زبیر کے دور میں  جمادى الآخرة   ٦٤ ھ  میں گرایا گیا اور دوبارہ  بنایا گیا جس میں حطیم کو اس میں شامل کر دیا گیا

 اموی خلیفہ عبد الملک  بن مروان  نے  ابن زبیر کی تعمیراتی کاوش کو کم کرنے کے لئے دو سال کے اندر  صخرہ پر (چٹان)  پر ایک   آٹھ کونوں والی عمارت بنوائی جس میں عیسیٰ کے بارے میں آیات ہیں کیونکہ عسائیوں کے مطابق یہ ہیرود کا محل تھا اور اس میں چٹان پر عیسیٰ کے قدموں کے نشان تھے

 اور اس کو مسجد میں آنے والوں کے لئے سرائے کہا ساتھ  یہ سرائے اب مسجد کا ہی حصہ بن گئی

کتاب   الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل  میں   عبد الرحمن بن محمد الحنبلي، أبو اليمن (المتوفى: 928هـ)  لکھتے ہیں

فَلَمَّا دخلت سنة سِتّ وَسِتِّينَ ابْتَدَأَ بِبِنَاء قبَّة الصَّخْرَة الشَّرِيفَة وَعمارَة الْمَسْجِد الْأَقْصَى الشريف وَذَلِكَ لِأَنَّهُ منع النَّاس عَن الْحَج لِئَلَّا يميلوا مَعَ ابْن الزبير فضجوا فقصد أَن يشغل النَّاس بعمارة هَذَا الْمَسْجِد عَن الْحَج فَكَانَ ابْن الزبير يشنع على عبد املك بذلك وَكَانَ من خبر الْبناء أَن عبد الْملك بن مَرْوَان حِين حضر إِلَى بَيت الْمُقَدّس وَأمر بِبِنَاء الْقبَّة عل الصَّخْرَة الشَّرِيفَة بعث الْكتب فِي جَمِيع عمله وَالِي سَائِر الامصار إِن عبد الْملك قد أَرَادَ أَن يَبْنِي قبَّة على صَخْرَة بَيت الْمُقَدّس تَقِيّ الْمُسلمين من الْحر وَالْبرد وَأَن يَبْنِي الْمَسْجِد وَكره أَن يفعل ذَلِك دون رَأْي رَعيته فلتكتب الرّعية إِلَيْهِ برأيهم وَمَا هم عَلَيْهِ فوردت الْكتب عَلَيْهِ من سَائِر عُمَّال الْأَمْصَار نر رَأْي أَمِير الْمُؤمنِينَ مُوَافقا رشيدا إِن شَاءَ الله

پس جب سن ٦٦ ہجری  شروع ہوا تو   قبہ   الصَّخْرَة   اور مسجد الاقصی کی تعمیر  شروع ہوئی  اور یہ یوں کہ   عبد الملک لوگوں کو حج سے  منع کرنا چاہتا تھا کہ ممکن ہے ان کا میلان ابن زبیررضی الله عنہ  کی طرف ہو جائے     اور وہ (واپس آ کر اس کے خلاف)  شور کریں  پس اس نے لوگوں کو اس عمارت کی تعمیر میں حج میں مشغول کیا –  پس ابن زبیر نے عبد الملک کو اس  کام سے منع کیا    اور  تعمیر کی خبر میں ہے کہ  عبد الملک    بن مروان جب بیت المقدس پہنچا اور قبہ بنانے کا حکم دیا  تو اس نے اپنے تمام گورنروں کو لکھا اور ساری مملکت میں  لکھ بھیجا کہ  بے شک  عبد الملک نے ارادہ کیا ہے چٹان پر قبہ بنانے کا ،    بیت المقدس میں،    تاکہ مسلمانوں کو سردی ،گرمی سے بچائے اور مسجد کو بنائے   اور وہ کراہت کرتے ہیں کہ ایسا کریں سوائے اس کے کہ رعیت بھی اس کے حق میں ہو سو تمام گورنروں نے لکھا کہ ہم امیر المومنین کی رائے سے موافقت   رشید رکھتے ہیں    جیسا الله نے چاہا!

عبد الملک کا مقابلہ ابن زبیر رضی الله عنہ سے تھا جو مکہ میں اپنی خلافت میں کعبه کو بدل رہے تھے  اور اس میں حطیم کو شامل کر رہے تھے دوسری طرف عبد الملک بن مروان اپنے علاقہ شام میں  صخرہ پر تعمیر کر رہے تھے اس طرح کے تعمیراتی منصوبوں کا مقصد رائے عامہ کو اپنی طرح متوجہ کرنا تھا

کتاب  ابن تيمية  (اقتضاء الصراط المستقيم) میں اور ابن القيم  (المنار المنيف) میں اور محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ (المتوفى: 1389هـ) اپنے  فتاوى ورسائل میں بیان کرتے ہیں کہ

 عن كعب أنه قال: قرأت في ” التوراة” أن الله يقول للصخرة أنت عرشي الأدنى إلخ …
كذب وافتراء على الله، وقد قال عروة بن الزبير لما سمع ذلك عن كعب الأحبار عند عبد الملك بن مروان قال عروة: سبحان الله؟

کعب سے روایت کیا جاتا ہے کہ اس نے توریت  میں سے پڑھا بے شک الله صخرہ کے لئے کہتا ہے تو میرا نچلا عرش ہے … محمد بن ابراہیم نے کہا یہ جھوٹ ہے اور بے شک عروہ نے جب اسکو سنا عبد الملک سے تو کہا سبحان اللہ

یعنی صخرہ پر تعمیر کے وقت کعب الاحبار کے اقوال سے دلیل لی گئی

تاریخ الیعقوبی ج ٢ ص  ٣٦١ اور کے  الدولَة الأمويَّة  از عَلي محمد محمد الصَّلاَّبي مطابق

  معظم العالم الإسلامي كان قد بايع عبد الله بن الزبير بالخلافة (64 ـ 73هـ) ما عدا إقليم الأردن (2)، فقد قال في كتابه: ومنع عبد الملك أهل الشام من الحج، وذلك لأن ابن الزبير كان يأخذهم إذا حجوا بالبيعة، فلما رأى عبد الملك ذلك منعهم من الخروج إلى مكة فضج الناس وقالوا: تمنعنا من حج بيت الله الحرام، وهو فرض علينا، فقال: هذا ابن شهاب الزهري يحدثكم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تشد الرحال إلا إلى ثلاث مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي ومسجد بيت المقدس. وهو يقوم لكم مقام المسجد الحرام، وهذه الصخرة التي يروى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وضع قدمه لما صعد إلى السماء

عالم اسلامی کی اکثریت نے عبد الله بن زبیر کی خلافت کی بیعت کی سوائے اردن  کے اور اپنی کتاب میں یعقوبی نے لکھا کہ عبد الملک نے شام والوں کو حج پر جانے سے منع کیا اور یہ اس وجہ سے کہ ابن زبیر ان سے زبردستی بیعت لیتے پس جب عبد الملک نے یہ دیکھا ان کے خروج پر پابندی عائد کر دی اور لوگ بگڑ گئے اور کہا ہم حج بیت الله کرنا چاہتے ہیں یہ فرض ہے ہم پر پس عبد الملک نے کہا کہ ابن شہاب الزہری تم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سواری نہ کسی جائے سواۓ تین مسجدوں کے لئے مسجد الحرام میری مسجد اور مسجد بیت المقدس اور وہ تو مسجد الحرام ہے اور یہ صخرہ اس کے لئے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پر قدم رکھا جب آسمان کی طرف گئے

اس پر اعتراض اتا ہے

 تاريخ دمشق 11/ ق66 پر ابن عساکر کہتے ہیں

أخبرنا أبو القاسم السمرقندي أنا أبو بكر محمد بن هبة الله أنامحمد بن الحسين أنا عبد الله نا يعقوب نا ابن بكير قال قال الليث: وفي سنة اثنتين وثمانين قدم ابن شهاب على عبد الملك

امام الزہری سن ٨٢ ھ میں عبد الملک کے پاس پہنچے اور ابن زبیر کی شہادت ٧٢ ھ میں ہوئی

وبالإسناد السابق نا يعقوب قال سمعت ابن بكير يقول: مولد ابن شهاب سنة ست وخمسين

امام الزہری سن ٥٦ ھ میں پیدا ہوئے یعنی امام الزہری دس سال کے تھے جب قبه الصخرہ پر تعمیر کی گئی لہذا یعقوبی کی بات صحیح نہیں ہو سکتی

الغرض مسجد عمر وقت کے ساتھ مسجد الاقصی بن گئی اور قبه الصخرہ کو مقام معراج کہا جانے لگا جبکہ اصلا نہ یہ مسجد الاقصی ہے نہ معراج کا مقام ہے  جن روایات میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے معراج کی رات اس   کو دیکھا تو اس سے مراد نہ مسجد عمر ہو سکتی ہے نہ عبد الملک کا قبه الصخرہ کیونکہ یہ بعد کی تعمیرات ہیں  اصل مسجد  الاقصی کا مقام اب  شاید ابد تک مخفی ہی رہے گا کیونکہ اس کا مقصد و غایت فنا ہو گئی و الله اعلم

الصخرہ

قبه الصخرہ  کا اندرونی منظر  اس چٹان کے نیچے غار ہے

well of souls

Well of Souls- sakhrh cave روحوں کا غار

اہل تشیع کی معراج سے متعلق مضطرب روایات

الأمالي – از الصدوق – ص 534 – 538 کی روایت ہے

حدثنا الحسن بن محمد بن سعيد الهاشمي ، قال : حدثنا فرات بن إبراهيم بن فرات الكوفي ، قال : حدثنا محمد بن أحمد بن علي الهمداني ، قال : حدثنا الحسن بن علي الشامي ، عن أبيه ، قال : حدثنا أبو جرير ، قال : حدثنا عطاء الخراساني ، رفعه ، عن عبد الرحمن بن غنم ، …..   ثم مضى حتى إذا كان بالجبل الشرقي من بيت المقدس ، وجد ريحا حارة ، وسمع صوتا قال : ما هذه الريح يا جبرئيل التي أجدها ، وهذا الصوت الذي أسمع ؟ قال : هذه جهنم ، فقال النبي ( صلى الله عليه وآله ) : أعوذ بالله من جهنم . ثم وجد ريحا عن يمينه طيبة ، وسمع صوتا ، فقال : ما هذه الريح التي أجدها ، وهذا الصوت الذي أسمع ؟ قال : هذه الجنة . فقال : أسأل الله الجنة . قال : ثم مضى حتى انتهى إلى باب مدينة بيت المقدس ، وفيها هرقل ، وكانت أبواب المدينة تغلق كل ليلة ، ويؤتى بالمفاتيح وتوضع عند رأسه ، فلما كانت تلك الليلة امتنع الباب أن ينغلق فأخبروه ، فقال : ضاعفوا عليها من الحرس . قال : فجاء رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) فدخل بيت المقدس ، فجاء جبرئيل عليه السلام إلى الصخرة فرفعها ، فأخرج من تحتها ثلاثة أقداح : قدحا من لبن ، وقدحا من عسل ، وقدحا من خمر ، فناوله قدح اللبن فشرب ، ثم ناوله قدح العسل فشرب ، ثم ناوله قدح الخمر ، فقال : قد رويت يا جبرئيل . قال : أما إنك لو شربته ضلت أمتك وتفرقت عنك . قال : ثم أم رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) في مسجد بيت المقدس بسبعين نبيا . قال : وهبط مع جبرئيل ( عليه السلام ) ملك لم يطأ الأرض قط ، معه مفاتيح خزائن الأرض ، فقال : يا محمد ، إن ربك يقرئك السلام ويقول : هذه مفاتيح خزائن الأرض ، فإن شئت فكن نبيا عبدا ، وإن شئت فكن نبيا ملكا . فأشار إليه جبرئيل ( عليه السلام ) أن تواضع يا محمد . فقال : بل أكون نبيا عبدا . ثم صعد إلى السماء ، فلما انتهى إلى باب السماء استفتح جبرئيل ( عليه السلام ) ، ‹ صفحة 536 › فقالوا : من هذا ؟ قال : محمد . قالوا : نعم المجئ جاء فدخل فما مر على ملا من الملائكة إلا سلموا عليه ودعوا له ، وشيعه مقربوها ، فمر على شيخ قاعد تحت شجرة وحوله أطفال ، فقال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : من هذا الشيخ يا جبرئيل ؟ قال : هذا أبوك إبراهيم . قال : فما هؤلاء الأطفال حوله ؟ قال : هؤلاء أطفال المؤمنين حوله يغذوهم .

عبد الرحمن بن غنم سے مروی ہے (کہ جبریل آئے اور نبی کو بیت المقدس لے کر گئے )…  یہاں تک کہ بیت المقدس کے ایک مشرقی پہاڑ پر سے گزرے جہاں کی ہوا گرم تھی اور آواز سنی رسول الله نے پوچھا  جبریل ! یہ کیسی بو ہے جو آئی اور جو آواز سنی؟ جبریل نے کہا یہ جہنم ہے – رسول الله صلی الله علیہ و الہ  نے فرمایا اس سے الله کی پناہ – پھر ایک خوشبو آئی اور آواز آئی پوچھا یہ کیا ہے ؟ جبریل نے کہا یہ جنت ہے – آپ صلی الله علیہ و الہ نے فرمایا میں الله سے جنت کا سوال کرتا ہوں – پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس کے شہر کے دروازے تک پہنچے اور وہاں ہرقل تھا اور شہر کے دروازے تمام رات کو بند رھتے- … پس رسول الله بیت المقدس میں داخل ہوئے اور جبریل صخرہ تک آئے اس کو اٹھایا اور اس کے نیچے سے تین قدح نکالے – ایک قدح دودھ کا تھا ایک شہد کا ایک شراب کا – پس رسول الله نے دودھ پسند کیا اور پیا – پس کہا کہ جبریل بیان کرو- انہوں نے کہا اگر آپ اس شراب سے پی لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی اور اس میں تفرقہ ہوتا –  پھر رسول الله نے ستر انبیاء کی امامت کی  اور کہا جبریل کے ساتھ اترآ ایک فرشتہ جو اس سے پہلے زمین پر نہیں آیا تھا ….. پھر آپ آسمان پر پہنچے اور ایک شیخ پر سے گزرے جن کے ساتھ بچے تھے پوچھا یہ کون شیخ ہیں ؟ کہا گیا ابراہیم آپ کے باپ – رسول الله نے فرمایا اور ان کے ارد گرد یہ بچے ؟ جبریل نے کہا یہ مومنوں کی اولاد ہیں

اس روایت کے مطابق جنت و جہنم دونوں بیت المقدس میں ہیں اور صخرہ سے آپ کو آسمان پر لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیاء سے نہیں صرف ٧٠ کی امامت کی

صخرہ  کو اصل مسجد الاقصی بھی بیان کیا گیا ہے

بیت المقدس میں جہنم کا ہونا ایک یہودی قول ہے جس کو ہنوم کی وادی کہا جاتا ہے

اہل تشیع کی ایک دوسری روایت کے مطابق مسجد الاقصی سے مراد بیت المعمور ہے

کتاب  اليقين – السيد ابن طاووس – ص 294 –  میں  علی کی امامت پر روایت ہے جس  کی سند اور متن ہے

حدثنا أحمد بن إدريس قال : حدثنا أحمد بن محمد بن عيسى قال : حدثنا الحسين بن سعيد عن فضالة بن أيوب عن أبي بكر الحضرمي عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه . فقال : يا أمير المؤمنين ، إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني ! قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل * ( واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) *   ، فهل في ذلك الزمان نبي غير محمد صلى الله عليه وآله فيسأله عنه ؟ . فقال له أمير المؤمنين عليه السلام : إجلس أخبرك إنشاء الله ، إن الله عز وجل يقول في كتابه : * ( سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله لنريه من آياتنا ) * ، فكان من آيات الله التي أريها محمد صلى الله عليه وآله أنه انتهى جبرئيل إلى البيت المعمور وهو المسجد الأقصى ، فلما دنا منه أتى جبرئيل عينا فتوضأ منها ، ثم قال يا محمد ، توضأ . ‹ صفحة 295 › ثم قام جبرئيل فأذن ثم قال للنبي صلى الله عليه وآله : تقدم فصل واجهر بالقراءة ، فإن خلفك أفقا من الملائكة لا يعلم عدتهم إلا الله جل وعز . وفي الصف الأول : آدم ونوح وإبراهيم وهو وموسى وعيسى ، وكل نبي بعث الله تبارك وتعالى منذ خلق الله السماوات والأرض إلى أن بعث محمدا صلى الله عليه وآله . فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله فصلى بهم غير هائب ولا محتشم . فلما انصرف أوحى الله إليه كلمح البصر : سل يا محمد * ( من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) * . فالتفت إليهم رسول الله صلى الله عليه وآله بجميعه فقال : بم تشهدون ؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأنت رسول الله وأن عليا أمير المؤمنين وصيك ، وأنت رسول الله سيد النبيين وإن عليا سيد الوصيين ، أخذت على ذلك مواثيقنا  لكما بالشهادة . فقال الرجل : أحييت قلبي وفرجت عني يا أمير المؤمنين

ایک شخص، علی رضی الله عنہ کے پاس آیا اور وہ مسجد کوفہ میں تھے اور ان کی تلوار ان کی کمر سے بندھی تھی – اس شخص نے علی سے کہا اے امیر المومنین قرآن میں آیت ہے جس نے  مجھے اپنے دین میں اضطراب میں مبتلا کیا ہے انہوں نے پوچھا کون سی آیت ہے وہ شخص بولا

  واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون

اور پوچھو  پچھلے بھیجے جانے والے رسولوں  میں سے کیا ہم نے  رحمان کے علاوہ کوئی اور الہ بنایا جس کی انہوں نے  عبادت  کی ؟

امام علی نے کہا بیٹھ جاؤالله نے چاہا تو میں بتاتا ہوں- الله نے قرآن میں کہا متبرک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کو با برکت بنایا تاکہ اپنی کچھ نشانیاں دکھائے

ایک نشانی جو دکھائی گئی وہ یہ تھی کہ محمد صلی الله علیہ و الہ کو جبریل بیت المعمور لے گئے جو مسجد الاقصی ہے – وہ وضو کا پانی لائے اور جبریل نے اذان دی اور محمد کو کہا کہ آگے آئیے اور امامت کرائیے- فرشتے صفوں میں کھڑے ہوئے اور ان کی تعداد الله ہی جانتا ہے اور پہلی صف میں آدم، عیسیٰ اور ان سے پہلے گزرے انبیاء  تھے – جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کو کہا گیا کہ رسولوں سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے الله کے سوا دوسرے خدائوں کی عبادت کی ؟ تو جب انہوں نے پوچھا تو رسولوں نے کہا ہم گواہی دتیے ہیں کہ الله کے سوا کوئی الہ نہیں، آپ الله کے رسول ہیں اور علی امیر المومنین آپ کے وصی ہیں – آپ سید الانبیاء ہیں اور علي،  سيد الوصيين ہیں اس کے بعد انہوں نےعہد کیا  – وہ شخص بولا اے امیر المومنین آپ نے میرے دل کو خوشی دی اور مسئلہ کھول دیا

بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج 18 – ص ٣٩٤ میں  اس  روایت کی سند ہے

 كشف اليقين : محمد بن العباس ، عن أحمد بن إدريس ، عن ابن عيسى ، عن الأهوازي عن فضالة ، عن الحضرمي عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين ( عليه السلام ) وهو في مسجد الكوفة

کتاب  تأويل الآيات – شرف الدين الحسيني – ج 2 – ص  ٥٦٤ کے مطابق سند ہے

وروى محمد بن العباس ( رحمه الله ) في سورة الإسراء عن أحمد بن إدريس عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسين بن سعيد ، عن فضالة بن أيوب ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين عليه السلام وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه ، فقال : يا أمير المؤمنين إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل : ( وسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمن آلهة يعبدون ) فهل كان في ذلك الزمان نبي غير محمد فيسأله عنه ؟

أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري کو   أحمد بن محمد أبو جعفر اور أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري القمي بھی کہا جاتا ہے یہ الحسين بن سعيد الأهوازي سے روایت کرتے ہیں مندرجہ بالا تمام کتب میں مرکزی راوی  الحسين بن سعيد ہیں  جو فضالة سے روایت کرتے ہیں  کتاب  معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج 14 – ص 290 – ٢٩١ کے مطابق

 قال لي أبو الحسن بن البغدادي السوراني البزاز : قال لنا الحسين ابن يزيد السوراني : كل شئ رواه الحسين بن سعيد عن فضالة فهو غلط ، إنما هو الحسين عن أخيه الحسن عن فضالة ، وكان يقول إن الحسين بن سعيد لم يلق فضالة ، وإن أخاه الحسن تفرد بفضالة دون الحسين ، ورأيت الجماعة تروي ‹ صفحة 291 › بأسانيد مختلفة الطرق ، والحسين بن سعيد عن فضالة ، والله أعلم

ابو الحسن نے کہا کہ الحسین بن یزید  نے کہا کہ جو کچھ بھی حسین بن سعید ، فضالة سے روایت کرتا ہے وہ غلط ہے بے شک وہ حسین اپنے بھائی حسن سے اور وہ فضالة سے روایت کرتا ہے اور کہتے تھے کہ حسین کی فضالة

 سے تو ملاقات تک نہیں ہوئی اور ان کا بھائی حسن ، فضالة سے روایت میں منفرد ہے  اور ایک جماعت  اس سے روایت کرتی ہے .. و الله اعلم

عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد الاقصی اور اموی خلیفہ عبد الملک کے تعمیر شدہ قبه الصخرہ کی اہمیت پر اہل تشیع کا جلوس نکالنا اور اس کے حق میں تقریریں کرنا بھی عجیب  بات ہے- کسی بھی شیعہ امام کا مسجد الاقصی جا کر عبادت کرنا ثابت نہیں ہے

=========

یہ بلاگ چند سال پہلے کا ہے – سن ٢٠١٧ میں یہ ویڈیو یو ٹیوب پر آئی ہے جس کے مطابق اصل مسجد اقصی داود علیہ السلام کے شہر میں تھی آج جہاں کہا جا رہا ہے وہاں نہیں تھی

ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ کعبہ کو خراب کرے گا

ایک حدیث میں ہے کہ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ   کعبہ کو خراب کرے گا اس کا کیا مطلب ہے ؟

جواب

یہ روایت عبد الله بن عمرو اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما کی سند سے المُعْجَمُ الكَبِير للطبراني ، مسند البزار، سنن أبي داود  آئی ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ، فَيَسْلُبُهَا حُلِيَّهَا وَيُجَرِّدُهَا مِنْ كِسْوَتِهَا، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ أُصَيْلِعَ أُفَيْدِعَ، يَضْرِبُ عَلَيْهَا بِمِسْحَاتِهِ وَمِعْوَلِهِ “

عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کو (دو پتلی پنڈلیوں یا) دو چادروں والا حبشہ میں سے خراب کرے گا اس کی نمائش کو لے گا اور اس کے غلاف کو گویا کہ میں اس کو دیکھ رہا ہوں

اس راویت کا ترجمہ کیا جاتا ہے دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی

النهاية في غريب الحديث والأثر از ابن الأثير (المتوفى: 606هـ) کے مطابق

السُّوَيْقَة تصْغيرُ السَّاقِ، وَهِيَ مُؤَنثة، فَلِذَلِكَ ظَهَرت التاءُ فِي تصْغيرها. وَإِنَّمَا صَغَّر السَّاقَ لِأَنَّ الغالبَ عَلَى سُوقِ الحبَشة الدِّقَّةُ والحُموشَة.

السُّوَيْقَة (کا لفظ) السَّاقِ کی تصغیر ہے اور یہ مونث ہے اس لئے اس کے ساتھ التاءُ ہے تاکہ تصغیر ہو اور یہ پنڈلی کا چھوٹا ہونا ہے کہ اکثر حبشیوں کی پنڈلیاں کم ہوتی ہیں

ابن حبان صحیح میں لکھتے ہیں السويقتين: الكسائين  یعنی دو چادروں والا

مُجَاهِدٍ کا  عبد الله بن عمرو  سماع سے ثابت نہیں ہے – کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از   العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

واختلف في روايته عن عبد الله بن عمرو فقيل لم يسمع منه قلت أخرج له البخاري عنه حديثين

اور مجاہد کا عبد الله بن عمرو سے روایت کرنے میں اختلاف ہے کہا جاتا ہے انہوں نے ان سے نہیں سنا میں کہتا ہوں اس سے بخاری نے دو حدیثیں لی ہیں

سنن أبي داود میں یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی ہے

حدَّثنا القاسِمُ بن أحمد البغداديُّ، حدَّثنا أبو عامرِ، عن   زُهير ابن محمدٍ، عن موسى بنِ جُبير، عن أبي أمامة بن سهل بن حُنيفٍ عن عبد الله بن عمرو، عن النبي – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “اتركوا الحبشةَ ما تركوكم، فإنه لا يستخرِجُ كَنزَ الكعبةِ إلاَّ ذو السُّوَيْقَتَينِ من الحبشة”

عبد الله بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا حبشیوں کو چھوڑ دو جو انہوں نے چھوڑ

دیا ہے  کیونکہ   کعبه کا خزانہ کوئی نہیں نکالے گا سوائے دو پتلی پنڈلیوں ( یا دو چادروں)  والے کے

 مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے جس میں کعبہ کے خزانے کا ذکر ہے لیکن اسکی سند میں صَالِحٍ، مَوْلَى التَّوْأَمَةِ ابو ہریرہ کا قول نقل کرتا ہے کہ اس کو گمان ہے یہ حدیث ہے

عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ صَالِحٍ، مَوْلَى التَّوْأَمَةِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ رَفَعَهُ أَظُنُّهُ قَالَ: «اتْرُكُوا الْحَبَشَةَ مَا تَرَكُوا، فَإِنَّهُ لَا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ إِلَّا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ»

روایت متنا صحیح نہیں ہے- کعبه کا خزانہ نکل چکا ہے لٹ چکا ہے اور یہ واقعہ فتنہ الافطس کہلاتا ہے

کعبہ کے اندر ایک گڑھا تھا  جس میں  تحفے میں ملنے والا سونا ڈالا جاتا تھا اور یہ روایت زمانہ جاہلیت سے چلی آ رہی تھی

تاریخ ابن خلدون ج١ ص  ١٩٨ کے مطابق

وقد وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افتتح مكة في الجب الذي كان فيها، سبعين ألف أوقية من الذهب، مما كان الملوك يهدون للبيت قيمتها ألف ألف دينار مكررة مرتين بمائتي قنطار وزناً

جس روز فتح مکہ ہوئی تو رسول الله کو کعبہ میں اس کے  الجب   (گڑھے) سے جو اس میں ہے   ستر ہزار  أوقية  سونا ملا جو بادشاہوں نے   بیت الله کے لئے تحفتا دیا تھا جس کی قیمت  ہزار ہزار دینار مکرر دو دفعہ،      سو قنطار وزن کے حساب سے  تھی

صحیح مسلم کی حدیث ہے

حَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مَخْرَمَةَ ح وَحَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِى بَكْرِ بْنِ أَبِى قُحَافَةَ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ – أَوْ قَالَ بِكُفْرٍ – لأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالأَرْضِ وَلأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ

عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا   کہ  اگر تمہاری قوم عہد جاہلیت کے قریب نہ ہوتی  یا کہا کفر کے   تو میں  کعبہ کا خزانہ  الله کی راہ میں   صدقه کر دیتا    اور اس کا دروازہ زمین کے پاس کرتا کہ اس میں جانے کے لئے کوئی پتھر    (بطور سیڑھی کے) استعمال نہیں کرتا

نبی صلی الله علیہ وسلم نے کعبہ کے  خزانہ کو صدقه نہیں کیا اور یہ اسی میں سن ١٩٩ ھ تک  رہا- ابن خلدون  تاریخ میں لکھتے ہیں

وأقام ذلك المال إلى أن كانت فتنة الأفطس، وهو الحسن بن الحسين بن علي بن علي زين العابدين سنة تسع وتسعين ومائة، حين غلب على مكة عمد إلى الكعبة فأخذ ما في خزائنها وقال: ما تصنع الكعبة بهذا المال موضوعاً فيها لا ينتفع به، نحن أحق به نستعين به على، حربنا، وأخرجه وتصرف فيه وبطلت الذخيرة من الكعبة من يومئذ

اور یہ مال  ،  فتنة الأفطس  تک کعبہ ہی میں رہا   اور وہ فتنہ ہے  حسن بن حسین بن علی بن علی بن  زین العابدین کا سن ١٩٩ ھ میں ،جب وہ مکہ  پر وہ غالب ہوا اور  کعبہ کا خزانہ  نکالا اور کہا کعبہ اس مال کا کیا   کرے گا  جس کا کوئی فائدہ بھی نہیں، ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں  اس سے  اپنی لڑائی میں مدد چاہیں گے ، اس نے خزانہ نکالا اور اس زور کعبہ کا خزانہ  ضائع ہو گیا –

ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ  کی روایت الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے  اور ثور بن زيد الديلي عن سالم أبو الغيث مولى عبد الله بن مطيع العدوي   عَن أَبِي هُرَيرة  کی سند سے بہت کی کتب میں آئی ہے

لیکن اس کے متن میں صرف یہ ہے

يخرِّبُ الكعبةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ   منَ الحبَشةِ

کعبه کو حبشہ کا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ خراب کرے گا

یہ کب ہو گا ؟ کسی صحیح سند روایت میں وقت کا تعین نہیں ہے – مصنف عبد الرزاق ، مسند البزار  کی روایت  میں الفاظ ہیں فِي آخِرِ الزَّمَانِ یعنی آخری زمانہ میں یہ ہو گا لیکن  معمر مدلس ہیں اور ان  کا سماع الزہری سے ہر سند کے لئے  ثابت  نہیں  اگرچہ صحیح بخاری میں ان کی اس سند سے روایات ہیں لیکن یقینا معمر نے ان پر تحدث کا اشارہ دیا ہو گا – اس مخصوص روایت کو وہ ان کے الفاظ کے ساتھ عن سے ہی نقل کرتے ہیں لہذا یہ ثابت نہیں

مسند البزار کی ایک دوسری روایت میں ہے يظهر في آخر الزمان  جس میں اسکو أحمد بن أبان القُرَشيّ  نے بیان کیا ہے اور الفاظ زیادت ہیں – الفرائد على مجمع الزوائد ترجمة الرواة الذين لم يعرفهم الحافظ الهيثمي میں  الهيثمي  جیسے متساہل لوگ تک کہتے ہیں میں ان کو نہیں جانتا لہذا یہ مجھول راوی ہیں

کتاب أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار  از الأزرقي (المتوفى: 250هـ)  کے مطابق ابن زبیر نے کعبه کو منہدم  کرنے کا ارادہ کیا اس پر لوگوں میں اختلاف ہوا بعض کا کہنا تھا کہ یہ کرنے پر عذاب نازل ہو گا

وَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ هَدْمَهَا، وَكَانَ أَشَدَّهُمْ عَلَيْهِ إِبَاءً عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ

اور لوگوں کی اکثریت نے کعبہ کو منہدم کرنے سے انکار کیا جن میں سب سے زیادہ شدت عبد الله ابن عباس رضی الله عنہ نے ظاہر کی

لیکن ابن زبیر نے پھر بھی ارادہ  کیا اور  جب لوگ نہ ملے تو

وَأَرْقَى ابْنُ الزُّبَيْرِ فَوْقَهَا عَبِيدًا مِنَ الْحَبَشِ يَهْدِمُونَهَا؛ رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ صِفَةُ الْحَبَشِيِّ الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ»

اور اس کعبہ پر چڑھایا حبشہ کے غلاموں کو جو اس کو منہدم کر رہے تھے کہ ان میں وہی صفت تھی جس کا ذکر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کعبہ کو حبشہ کا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ خراب کرے گا

مجاہد جو اس روایت کو عبد اللہ بن عمرو سے منسوب کرتے تھے وہ کہتے ہیں جب کعبه منہدم کرنے کا اردہ  کیا جا رہا تھا تو

فَلَمَّا هَدَمَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْكَعْبَةَ جِئْتُ أَنْظُرُ، هَلْ أَرَى الصِّفَةَ الَّتِي قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو؟ فَلَمْ أَرَهَا، فَهَدَمُوهَا

ابن زبیر نے اس کو دیکھا لیکن ان  کو وہ صفت نظر نہ آئی جو عبد الله نے بیان کی تھی پس منہدم کیا گیا

یعنی مجاہد نے امیر المومنین  ابن زبیر رضی الله عنہ کی طرف داری کی اور اپنے استاد ابن عباس رضی الله عنہ  کی مخالفت کی

ابن عباس رضی الله عنہ کے ابن زبیر رضی الله عنہ سے اختلافات اسقدر بڑھے کہ انہوں نے طائف جا کر سکونت اختیار کی

اہل تشیع اور دجال

عموما اہل تشیع  دجال کی روایات بیان نہیں کرتے لہذا یہاں ان کی کتب کی کچھ روایات نقل کی جاتی ہیں تاکہ دیکھیں کہ اس کے بارے میں ان کی کیا آراء ہیں

الكافي – از  الكليني – ج 8 – ص 296 – 297 کی روایت ہے

حمید بن زياد ، عن الحسن بن محمد الكندي ، عن غير واحد من أصحابه عن أبان بن عثمان ، عن أبي جعفر الأحول : والفضيل بن يسار ، عن زكريا النقاض ( 4 ) . عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : سمعته يقول : الناس صاروا بعد رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) بمنزلة من اتبع هارون ( عليه السلام ) ومن اتبع العجل وإن أبا بكر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) ( 5 ) إلا القرآن ‹ صفحة 297 › وإن عمر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإن عثمان دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإنه ليس من أحد يدعو إلى أن يخرج الدجال إلا سيجد من يبايعه ومن رفع راية ضلال [ – ة ] فصاحبها طاغوت .

زكريا النقاض  ، ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابی جعفر علیہ السلام کو سنا کہہ رہے تھے لوگ رسول الله صلى الله عليه وآله  کے بعد ہو گئے اس کے ساتھ جس کی منزلت ان کی سی تھی جنہوں نے ہارون کی اتباع کی اور (دوسرا گروہ) ان کی جنہوں نے گوسالہ پرستی کی اور ابو بکر نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (ابو بکر کی اتباع کی)  اور عمر نے پکارا تو علی نے انکار کیا  سوائے قرآن کے لئے (عمر کی اتباع کی)  اور عثمان نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (عثمان کی اتباع کی)  اور ایسا کوئی نہ ہو گا کہ وہ دجال کے لئے پکارے  تو وہ خود ان میں  سے ہو جائے گا  جوگمراہی کا جھنڈا اٹھائے ہوں اور طاغوت کے  ساتھی ہوں

الأمالي – از الصدوق – ص 345 – 347 کی روایت ہے

حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق ( رحمه الله ) ، قال : حدثنا عبد العزيز ابن يحيى الجلودي ، قال : [ حدثنا محمد بن عطية ، قال : حدثنا عبد الله بن عمرو بن سعيد البصري ، قال : حدثنا ] ( 3 ) هشام بن جعفر ، عن حماد ، عن عبد الله بن سليمان ( 4 ) ، وكان قارئا للكتب ، قال : قرأت في الإنجيل : يا عيسى ، جد في أمري ولا ‹ صفحة 346 › تهزل ، واسمع وأطع ، يا بن الطاهرة الطهر البكر البتول ، أتيت ( 1 ) من غير فحل ، أنا خلقتك آية للعالمين ، فإياي فاعبد ، وعلي فتوكل ، خذ الكتاب بقوة ، فسر لأهل سوريا السريانية ، وبلغ من بين يديك أني أنا الله الدائم الذي لا أزول ، صدقوا النبي ( صلى الله عليه وآله ) الأمي صاحب الجمل والمدرعة ( 2 ) والتاج – وهي العمامة – والنعلين والهراوة – وهي القضيب – الأنجل العينين ( 3 ) ، الصلت الجبين ( 4 ) ، الواضح ( 5 ) الخدين ، الأقنى الانف ، المفجل ( 6 ) الثنايا ، كأن عنقه إبريق فضة ، كأن الذهب يجري في تراقيه ، له شعرات من صدره إلى سرته ، ليس على بطنه ولا على صدره شعر ، أسمر اللون ، دقيق المسربة ( 7 ) ، شثن ( 8 ) الكف والقدم ، إذا التفت التفت جميعا ، وإذا مشى كأنما يتقلع ( 9 ) من الصخرة وينحدر من صبب ( 10 ) ، وإذا جاء مع القوم بذهم ( 11 ) ، عرقه في وجهه كاللؤلؤ ، وريح المسك ينفح منه ، لم ير قبله مثله ولا بعده ، طيب الريح ، نكاح النساء ذو النسل القليل ، إنما نسله من مباركة لها بيت في الجنة ، لا صخب فيه ولا نصب ، يكفلها في آخر الزمان كما كفل زكريا أمك ، لها فرخان مستشهدان ، كلامه القرآن ، ودينه الاسلام ، وأنا السلام ، طوبى لمن أدرك زمانه ، وشهد أيامه ، وسمع كلامه . ‹ صفحة 347 › قال عيسى ( عليه السلام ) : يا رب ، وما طوبى ؟ قال : شجرة في الجنة ، أنا غرستها ، تظل الجنان ، أصلها من رضوان ، ماؤها من تسنيم ، برده برد الكافور ، وطعمه طعم الزنجبيل ، من يشرب من تلك العين شربة لا يظلما بعدها أبدا . فقال عيسى ( عليه السلام ) : اللهم اسقني منها . قال : حرام – يا عيسى – على البشر أن يشربوا منها حتى يشرب ذلك النبي ، وحرام على الأمم أن يشربوا منها حتى تشرب أمة ذلك النبي ، أرفعك إلي ثم أهبطك في آخر الزمان لترى من أمة ذلك النبي العجائب ، ولتعينهم على العين الدجال ، أهبطك في وقت الصلاة لتصلي معهم إنهم أمة مرحومة

عبد الله بن سليمان جو کتب سماوی کو پڑھنے والے تھے کہتے ہیں میں نے انجیل میں پڑھا … عیسیٰ نے الله سے کہا اے رب یہ طوبی کیا ہے ؟ کہا جنت کا درخت ہے  اس کا پانی تسنیم ہے اس کی ٹھنڈک کافور جیسی ہے اور کھانا زنجبیل جیسا ہے اور جو اس چشمہ سے پی لے اس کو پیاس نہ لگے گی کبھی بھی عیسیٰ نے کہا اے الله مجھے پلا دے فرمایا حرام ہے اے عیسیٰ کہ کوئی اس میں سے بشر پئے جب تک اس کو النبی (محمد) نہ پئے اور اس کی امت پر حرام ہے حتی کہ انکا النبی نہ پئے- میں تجھ کو اٹھا لوں گا پھر واپس آخری زمانے میں تیرا هبوط ہو گا کہ تم اس النبی العجائب کی امت دیکھو گے اور اس امت کی لعین دجال کے مقابلے میں مدد کرو گے اور تمہارا هبوط نماز کے وقت ہو گا کہ تم اس رحمت والی امت کے ساتھ نماز پڑھو

انجیل میں  طوبی کا کہیں نہیں لکھا عبد بن سلیمان کو یہ انجیل کہاں سے ملی پتا نہیں

الخصال – از الصدوق – ص 431 – 432 کی روایت ہے

عن أبي الطفيل ( 2 ) ، عن حذيفة بن أسيد قال : اطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وآله من غرفة له ونحن نتذاكر الساعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لا تقوم الساعة حتى تكون عشر آيات : الدجال ، والدخان ، وطلوع الشمس من مغربها ، ودابة الأرض ، و يأجوع ومأجوج ، وثلاث خسوف : خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة ‹ صفحة 432 › العرب ، ونار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر ، تنزل معهم إذا نزلوا وتقيل معهم إذا قالوا . عشر خصال جمعها الله عز وجل لنبيه وأهل بيته صلوات الله عليهم

حذيفة بن أسيد کہتے ہیں ان کو رسول الله صلى الله عليه وآله نے خبر دی اپنے  غرفة میں  اور ہم وہاں قیامت کا ذکر کر رہے تھے  رسول الله صلى الله عليه وآله  نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ہوں دجال دھواں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا  دابه الارض یاجوج اور ماجوج  تین خسوف مغرب مشرق اور عرب میں اور اگ جو عدن کی تہہ سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف جمع کرے گی

ثواب الأعمال – از الصدوق – ص 54  کی روایت ہے

 ومن صام من رجب أربعة أيام عوفي من البلايا كلها من الجنون والجذام والبرص وفتنة الدجال واجبر من عذاب القبر

 جس نے رجب کے چار دن کے  روزے رکھے  وہ اس کو بچائیں گے جنون سے جذام سے برص سے اور دجال کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے بھی

الأمالي – از الصدوق – ص 681

 حدثنا محمد بن علي ماجيلويه ( رحمه الله ) ، قال : حدثني عمي محمد ابن أبي القاسم ، قال : حدثني محمد بن علي الكوفي ، عن المفضل بن صالح الأسدي ، عن محمد بن مروان ، عن أبي عبد الله الصادق ، عن أبيه ، عن آبائه ( عليهم السلام ) ، قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يوم القيامة يهوديا . قيل : يا رسول الله ، وإن شهد الشهادتين ؟ قال : نعم ، فإنما احتجز بهاتين الكلمتين عن سفك دمه ، أو يؤدي الجزية عن يد وهو صاغر . ثم قال : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يهوديا . قيل : فكيف ، يا رسول الله ؟ قال : إن أدرك الدجال آمن به

أبي عبد الله الصادق اپنے باپ اور ان کے اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا اے رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) اور اگر وہ دو شہادتیں دے دے  فرمایا ہاں ….   رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے پھر فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا کیسے اے رسول الله ؟ فرمایا جب وہ دجال کو پائے گا تو اس پر ایمان لائے گا

یہ روایت دلیل ہوئی کہ دجال یہودی ہو گا اس کو ذہن میں رکھیں ابھی نیچے اس پر بحث آ رہی ہے

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 14 – ص 348

 وبإسناده عن الحسين بن سعيد ، عن صفوان وابن فضال ، عن ابن بكير ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : ذكر الدجال فقال : لا يبقى ( 1 ) منهل إلا وطأه إلا مكة والمدينة ، فإن على كل ثقب من أثقابها ( 2 ) ملكا يحفظها من الطاعون والدجال

أبي عبد الله عليه السلام نے فرمایا اور انہوں نے دجال کا ذکر کیا پس فرمایا اس سے کوئی (شہر) نہ بچے گا کہ جو  اس کا مطیع نہ ہو سوائے مکہ مدینہ کے کہ  اس کے ہر گھڑے اور خندق میں فرشتہ ہو گا اور وہاں دجال اور طاعون نہ آ سکے گا

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 16 – ص 179

وفي ( صفات الشيعة ) عن محمد بن موسى بن المتوكل ، ( عن محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، ) ( 1 ) عن الحسن بن علي الخزاز قال : سمعت الرضا ( عليه السلام ) يقول : إن ممن ينتحل مودتنا أهل البيت من هو أشد فتنة على شيعتنا من الدجال ، فقلت : بماذا ؟ قال : بموالاة أعدائنا ، ومعاداة أوليائنا إنه إذا كان كذلك اختلط الحق بالباطل ، واشتبه الامر فلم يعرف مؤمن من منافق

الحسن بن علي الخزاز کہتے ہیں انہوں نے امام الرضا علیہ السلام کو سنا انہوں نے کہا جس کے اندر ہماری محبت ہو وہ اس دجال کے فتنہ میں اس پر بہت سخت ہو گا میں نے پوچھا ایسا کیوں؟ فرمایا ہمارے دشمنوں سے دوستی کی وجہ سے اور ہمارے دوستوں سے عداوت رکھنے کی وجہ سے سو جب ایسا ہو تو حق و باطل مل جائے گا اور امر مشتبہ ہو جائے گا لہذا مومن اور منافق پہچان نہ سکیں گے

یہ روایات اہل تشیع  کی کتب کی ہیں – ان میں اہم بات ہے کہ امام مہدی کا ذکر ہی نہیں حالانکہ امام مہدی اور  عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر شیعہ اور سنی ایک ساتھ بیان کرتے ہیں- اہل تشیع نے اس کا حل نکالا کہ صرف امام مہدی کا ذکر کرو- دجال کی روایات وہ مجلس میں بیان نہیں کرتے اور اس میں ایک عام شیعہ کا تصور ہے کہ قرب قیامت میں صرف امام مہدی آئیں گے اور سنی ختم ہو جائیں گے صرف شیعہ رہ جائیں گے لیکن یہاں روایات میں ہے کہ اہل بیت کے دشمن دجال کی تمیز کھو دیں گے اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی کے بعد انے والے دجال کے وقت تک اہل بیت کے دشمن ہوں- یہ تضاد ہے جو امام مہدی اور خروج دجال کے حوالے سے ان کی کتب میں پایا جاتا ہے

عصر حاضر کے شیعہ محققین اور شارحین نے ایک نئی شخصیت سفیانی کو دجال سے ملا دیا ہے – سفیانی ایک شخص بتایا جاتا ہے جو ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل سے ہے اس کا نام عثمان بن عنبسہ  لیا جاتا ہے اور اس  کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ روم سے آئے گا اس کا چہرہ سرخ اور انکھیں نیلی ہوں گی اور گلے میں صلیب ہو گی (صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص651۔  نعمانی، الغیبة، ترجمه: جواد غفاری، ص435۔  طوسی، الغیبة، بصیرتی، قم، ص278۔   مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص205) –

سفیانی کے لئے شیعہ کتب میں  کچھ روایات میں ہے

وخروج السفياني براية خضراء وصليب من ذهب» (مختصر بصائر الدرجات للحسن بن سليمان الحلي: ص199

سفیانی کا خروج سبز جھنڈے اور سونے کی صلیب کے ساتھ ہے

وعن بشير بن غالب قال: يقبل السفياني من بلاد الروم منتصرا في عنقه صليب وهو صاحب القوم) (كتاب الغيبة للشيخ الطوسي: ص463

سفیانی بلاد روم سے مدد لے گا گلے میں صلیب ہو گی اور اس قوم میں سے ہو گا

السفياني… لم يعبد الله قط ولم ير مكة ولا المدينة قط» (بحار الأنوار للعلامة المجلسي: ج52، ص254

سفیانی الله کی عبادت نہ کبھی کرے گا نہ مکہ دیکھے گا نہ مدینہ

یعنی سفیانی ایک نصرانی ہو گا  اللہ کی عبادت نہ کرتا ہو گا اور روم کی مدد لے گا اور انہی میں سے ہو  گا

یہ روایات الکافی کی نہیں ہیں – الکافی میں دجال سے متعلق  اس قسم کی کوئی روایت نہیں

اس کے برعکس اہل سنت کے مطابق دجال ایک گھنگھریالے بال والا ہو گا اس کی شکل عربوں میں حجازیوں جیسی ہو گی اور ایک انکھ پھولنے والے انگور جیسی ابلی پڑ رہی ہو گی- گویا دجال اہل سنت بد صورت ہو گا اور دجال اہل تشیع کے ہاں نیلی آنکھوں والا رومیوں جیسا ( اغلبا حسین) ہو گا

اب ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل کے لوگ کب روم منتقل ہوئے الله کو پتا ہے اور وہاں سے ایک خالص عربی نام  عثمان بن عنبسہ  کے ساتھ اس کا خروج بھی عجیب بات ہے – دوم سفیانی کے گلے میں صلیب بھی ہے یعنی اگر سفیانی دجال ہے تو اہل تشیع کا دجال اب عیسائیوں میں سے ہے اور اہل سنت اس کو یہودی بتاتے ہیں یہ بھی اختلاف اہم ہے

سفیانی کی حقیقت – کتب شیعہ میں

تاریخ کے مطابق  السفیانی   سے مراد  يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان  جو   معاویہ رضی الله عنہ کے پڑ پوتے ہیں  انہوں نے دمشق  میں بنو امیہ کے آخری دور میں  خروج کیا-

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٦٤ – ٢٦٥

 عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد ، عن عثمان بن عيسى ، عن بكر بن محمد ، عن سدير قال : قال أبو عبد الله ( عليه السلام ) : يا سدير ألزم بيتك وكن حلسا من  أحلاسه  واسكن ما سكن الليل والنهار فإذا بلغك أن السفياني قد خرج فارحل إلينا ولو على رجلك

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اے سدير اپنے گھر میں رہو .. پس جب السفیانی کی خبر آئے تو ہمارے طرف سفر کرو چاہے چل کر آنا پڑے

تبصرہ السفیانی سے مراد ایک اموی ہیں جو ابو سفیان رضی الله تعالی عنہ کے پڑ پڑ پوتے ہیں. تاریخ الیعقوبی از الیعقوبی المتوفی ٢٨٤ ھ کے مطابق

وخرج أبو محمد السفياني، وهو يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان، بما لديه……… ، وكان ذلك سنة ١٣٣ ھ

اور ابو محمد السفیانی کا خروج ہوا اور وہ ہیں اور یہ سن ١٣٣ ھ میں ہوا-   امام جعفر المتوفی ١٤٨ ھ کے دور میں السفیانی کا خروج ہو چکا تھا

السفیانی کا خروج ہو گیا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٠٩

 علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن محبوب عن إسحاق بن عمار ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : لا ترون ما تحبون حتى يختلف بنو فلان  فيما بينهم فإذا اختلفوا طمع الناس وتفرقت الكلمة وخرج السفياني

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا کیا تم دیکھتے نہیں جو تم کو پسند ہے کہ بنو فلاں میں جو ان کے پاس ہے اس پر اختلاف ہوا ، پس جب اختلاف ہوا لوگوں کا لالچ بڑھا اور وہ بکھر گئے اور السفیانی کا خروج ہوا

تبصرہ    بنو فلاں سے مراد بنو امیہ ہیں جن میں آپس میں خلافت پر  پھوٹ پڑھ گئی تھی. امام جعفر کے مطابق السفیانی کا خروج ہو گیا ہے یہ دور ١٢٦ سے ١٣٣ ھ کا  ہے

السفیانی  کو قتل کر دیا جائے گا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٣٣١

حميد بن زياد ، عن أبي العباس عبيد الله بن أحمد الدهقان ، عن علي ابن الحسن الطاطري ، عن محمد بن زياد بياع السابري ، عن أبان ، عن صباح بن سيابة عن المعلى بن خنيس قال : ذهبت بكتاب عبد السلام بن نعيم وسدير وكتب غير واحد إلى أبي عبد الله ( عليه السلام ) حين ظهرت المسودة قبل أن يظهر ولد العباس بأنا قد قدرنا أن يؤول هذا الامر إليك فما ترى ؟ قال : فضرب بالكتب الأرض ثم قال : أف أف ما أنا لهؤلاء بإمام أما يعلمون أنه إنما يقتل السفياني

جب (بنو عبّاس سے پہلے) المسودہ  ظاہر ہوئے  (ابو عبدللہ سے بذریعہ خط ان کی رائے پوچھی گئی تو) انہوں نے خط زمین پر پھینک دیا پھر أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اف اف کیا میں ان لوگوں کے نزدیک امام نہیں،   کیا ان کو پتا نہیں کہ  یہی تو السفیانی کو قتل کریں گے

تبصرہ      حاشیہ میں المسودہ سے مراد أصحاب أبي مسلم المروزي لکھا ہے جو درست ہے ابو مسلم خراسانی کالے کپڑے اور کالے پگڑیاں باندھ کر نکلے تھے .امام جعفر کا گمان درست ثابت ہوا السفیانی کو قتل کیا گیا

المھدی کا اعلان

بحارالانوارج۲۵ص۹۱۱ص٨٤   میں روایت ہے  ،    ابوبصیر ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں

 راوی: میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں،قائم علیہ السلام کا خروج کب ہوگا؟

 امام جعفر صادق:اے ابامحمد!ہم اہل بیت علیہ السلام اس وقت کو متعین نہیں کرتے،آپ نے فرمایا کہ وقت مقرر کر دینے والے جھوٹے ہیں، لیکن اے ابومحمد قائم کے خروج سے پہلے پانچ کام ہوں گے

 ماہ رمضان میں آسمان سے نداءآئے گی  سفیانی کاخروج ہوگا  ، خراسانی کا خروج ہوگا،   نفس ذکیہ کاقتل ہوگا  بیداءمیں زمین دھنس جائے گی۔

راوی: میں نے پوچھا کس طرح نداءآئے گی؟

 امام علیہ السلام:حضرت قائم علیہ السلام کا نام اور آپ کے باپ کے نام کےساتھ لیا جائے گا اور اسی طرح اعلان ہوگا   فلاں کا فلاں بیٹا قائم آل محمد علیہم السلام ہیں، ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو، اللہ کی کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں بچے گی کہ جس میں روح ہے مگر یہ کہ وہ اس آواز کو سنے گی سویا ہوا اس آواز سے جاگ جائے گا اور اپنے گھر کے صحن میں دوڑ کر آ جائے گا اور پردہ والی عورت اپنے پردے سے باہر نکل آئے گی، قائم علیہ السلامیہ آواز سن کر خروج فرمائیں گے یہ آوازجبرئیل علیہ السلام کی ہوگی

تبصرہ ابو مسلم خراسانی کا خروج ہو گیا اور محمّد بن عبدللہ المھدی نفس الزکیہ کا بھی خروج ہو چکا. ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رویوں کا گمان تھا کہ   حسین  کی نسل سے  المہدی ظاہر ہونے والا ہے-  لیکن دو نشانیاں  رمضان  میں آسمان سے نداء  اور  بیدا میں زمین کا دھنسنا نہیں ہوا-

 یہ تمام نشانیاں    ایک ساتھ ظاہر ہونی تھیں  لیکن نہیں ہوئیں

سفیانی کو اہل تشیع کا اب دجال کہنا سراسر غلط ہے اور اوپر والی روایت کو جو دجال سے متعلق تھیں ان میں زبر دستی اپنی رائے کو شامل کرنے کے مترادف ہے

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية نام کے ابو سفیان رضی الله عنہ کے ایک پوتے تھے جو اپنے زمانے میں ایک معتدل شخصیت تھے اور قبول عامہ ایسی تھی کہ لوگ ثآلث مقرر کرتے تھے

ابن حزم نے کتاب  جمهرة أنساب العرب  میں لکھا ہے

أراد أهل الأردن القيام به باسم الخلافة، إذ قام مروان: أمه زينب بنت الزبير بن العوام

اہل اردن نے ارادہ کیا تھا  کہ مروان کے قیام (خلافت) پر ان کے نام پر خلافت قائم کرنے کا – ان کی والدہ کا نام زينب بنت الزبير بن العوام ہے

کتاب نسب قريش از أبو عبد الله الزبيري (المتوفى: 236هـ) کے مطابق کے والد عنبسة بن عمرو بن عثمان بن عفان ہیں

اغلبا شیعان کو خطرہ تھا کہ کہیں اہل اردن (جن میں ممکن ہے عیسائی ہوں ) کہیں اس شخص کے لئے خلافت  قائم نہ کر دیں – یہ ابو سفیان رضی الله عنہ کی اولاد میں سے بھی ہیں لہذا اس بنیاد پر عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية کے خلاف روایات بنا دی گئیں – عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية تو انتقال کر گئے لیکن روایات شیعوں کے پاس رہ گئیں

عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ کی خلافت مکہ سے بصرہ تک تھی اور عبد الملک کی شام میں دونوں میں رابطہ کے فرائض عثمان بن عنبسة  انجام دیتے تھے کیونکہ عثمان بن عنبسة دونوں کے رشتہ دار تھے عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ عثمان بن عنبسة کے ماموں تھے

یعنی  اہل تشیع جس السفیانی کا انتظار کر رہے ہیں وہ گزر چکا  ہے چاہے يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہوں یا عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية ہوں

الله ہم سب کو ہدایت دے

اصف بن بر خیا کا راز

قرآن میں بعض واقعات کا ذکر ہے جن کی صحیح تعبیر کا علم نہیں دیا گیا مثلا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں جب سلیمان نے سوال کیا کہ کون ہے جو ملکہ سبا کا عرش یہاں یروشلم  میں  لے آئے تو

قال عفريت من الجن أنا آتيك به قبل أن تقوم من مقامك وإني عليه لقوي أمين 

قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك فلما رآه مستقرا عنده قال هذا من فضل ربي ليبلوني أأشكر أم أكفر ومن شكر فإنما يشكر لنفسه ومن كفر فإن ربي غني كري

 عفریت میں سے ایک نے کہا میں لاتا ہوں اس سے پہلے کہ یہ اجلاس برخاست ہو اس پر ایک شخص جس کو کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں اس کو پلک جھپکتے میں ہی لاتا ہوں اور یکایک عرش  اہل دربار کے سامنے تھا – سلیمان نے  اس پر الله کا شکر ادا کیا

مقصد یہ تھا کہ جنات کی قوت کو  انسانی علم سے کم تر کیا گیا کہ اگرچہ جنات میں قوت ہے لیکن انسانوں کی طرح  علم مکمل نہیں ہے انسان علم میں ان سے بڑھ کر ہیں- ان کے مقابلے پر سرکش جنات کا  علم  اصل میں سحر و کہانت ہے جس میں انسانوں میں سے بعض ان کی مدد حاصل کرتے ہیں اور یہ شیطانی علوم ہیں

سوره النمل كي اس آیت کی  مختلف فرقوں نے تاویلات کی ہیں

اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ، دونوں اپنی تفسیروں میں ایک شخصیت آصف بن برخیا کا ذکر کرتے ہیں

اہل تشیع کی آراء

سلیمان کے دربار کے اس شخص کے بارے میں جس کو کتاب کا علم دیا دیا تھا ، الکافی باب ١٦ کی روایت ہے کہ

محمد بن يحيى وغيره ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن محمد بن  الفضيل قال : أخبرني شريس الوابشي ، عن جابر ، عن أبي جعفر عليه السلام قال : إن اسم الله  الأعظم على ثلاثة وسبعين حرفا وإنما كان عند آصف منها حرف واحد فتكلم به فخسف  بالأرض ما بينه وبين سرير بلقيس حتى تناول السرير بيده ثم عادت الأرض كما  كانت أسرع من طرفة عين ونحن عندنا من الاسم الأعظم اثنان وسبعون حرفا ، وحرف  واحد عند الله تعالى استأثر به في علم الغيب عنده ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي  العظيم

شريس الوابشي نے جابر سے انہوں نے ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کیا کہ

الله کے اسم اعظم کے تہتر ٧٣ حروف ہیں. ان میں سے اصف نے صرف ایک حرف کو ادا کیا تھا کہ اسکے اور ملکہ بلقیس کے عرش کے  درمیان زمین کو دھنسا دیا گیا کہ اس نے تخت تک ہاتھ بڑھا لیا اور زمین واپس اپنی جگہ لوٹ آئی. یہ سب پلک جھپکتے میں ہوا.  ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتتر ٧٢ حروف ہیں . الله نے  بس علم  غیب میں  ہم سے ایک حرف  پوشیدہ رکھا ہے

کتاب بصائر الدرجات کی روایت ہے

وعن ابن بكير، عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: كنت عنده، فذكروا سليمان وما أعطي من العلم، وما أوتي من الملك.

 فقال لي: وما أعطي سليمان بن داود؟ إنما كان عنده حرف واحد من الاسم الأعظم، وصاحبكم الذي قال الله تعالى: قل: كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب. وكان ـ والله ـ عند علي [عليه السلام]، علم الكتاب.

 فقلت: صدقت والله جعلت فداك

ابن بکیر ابی عبد الله امام جعفر سے روایت کرتے ہیں  کہ میں ان کے پاس تھا پس سلیمان اور ان کو جو علم عطا ہوا اس کا ذکر ہوا اور جو فرشتہ لے کر آیا  پس  انہوں (امام جعفر) نے مجھ سے کہا اور سلیمان بن داود کو کیا ملا ؟ اس کے پاس تو الاسم الأعظم کا صرف ایک ہی حرف تھا اور ان کے صاحب جن کے لئے الله تعالی کہتا ہے : قل كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب الرعد: 43  اور وہ تو الله کی قسم ! علی علیہ السلام کے پاس ہے علم الکتاب

تفسير القمي ج1 ص368 کے مطابق

عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: الذي عنده علم الكتاب هو أمير المؤمنين

ابی عبد الله سے روایت ہے کہ  قال الذي عنده علم الكتاب  یہ امیر المومنین (علی) ہیں

کہتے ہیں سلیمان علیہ السلام کے دربار میں اس  شخص کا نام اصف بن برخیا تھا  یعنی علی کرم الله وجھہ  اس دور میں اصف بن برخیا   کی شکل میں تھے

اٹھارہ ذی الحجہ یعنی عید الغدیر کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کتاب  السرائر – ابن إدريس الحلي – ج 1 – ص 418 میں لکھتے ہیں

وفيه أشهد سليمان بن داود سائر رعيته على استخلاف آصف بن برخيا وصيه ، وهو يوم عظيم ، كثير البركات

اور اس روز سلیمان بن داود اور تمام عوام کو اصف بن برخیا  کی خلافت کی وصیت کی اور وہ دن بہت عظیم اور بڑی برکت والا ہے

کتاب الإمامة والتبصرة از ابن بابويه القمي  میں نے اصف کی خلافت کا ذکر کیا ہے

کتاب  الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 487 – 488 میں  اور كمال الدين وتمام النعمة از الشيخ الصدوق  ص ٢١٢ میں ہے

وأوصى داود ( عليه السلام ) إلى سليمان ( عليه السلام ) ، وأوصى سليمان ( عليه السلام ) إلى آصف بن برخيا ، وأوصى آصف بن برخيا إلى  زكريا ( عليه السلام 

 اور داود نے سلیمان علیہ السلام کی وصیت کی اور سلیمان نے اصف بن برخیا کی وصیت کی اور اصف بن برخیا نے زکریا علیہ السلام کی وصیت کی

کتاب تحف العقول – ابن شعبة الحراني – ص 476 – 478 کے مطابق  يحيى بن أكثم  نے علی بن محمد الباقر سے سوال کیا

قلت : كتب يسألني عن قول الله : ” قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك  ” نبي الله كان محتاجا إلى علم آصف  ؟

میں يحيى بن أكثم نے پوچھا :   (میرے نصیب میں ) لکھا ہے کہ میں سوال کروں گا اللہ کے قول قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك  پر  کہ   الله کا نبی کیا اصف کا محتاج تھا ؟

امام الباقر نے جواب دیا

سألت : عن قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب ” فهو آصف بن برخيا ولم يعجز سليمان عليه السلام عن معرفة ما عرف آصف لكنه صلوات الله عليه أحب أن يعرف أمته من الجن والإنس أنه الحجة من بعده ، وذلك من علم سليمان عليه السلام أودعه عند آصف بأمر الله ، ففهمه ذلك لئلا يختلف عليه في إمامته ودلالته كما فهم سليمان عليه السلام في حياة داود عليه السلام لتعرف نبوته وإمامته من بعده لتأكد الحجة على الخلق

تم نے سوال کیا کہ قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب پر تو وہ اصف بن برخیا ہیں اور سلیمان عاجز نہیں تھے اس معرفت میں جو اصف کو حاصل تھی لیکن آپ صلوات الله عليه نے اس کو پسند کیا کہ اپنی جن و انس کی امت پر اس کو حجت بنا دیں اس کے بعد اور یہ سلیمان کا علم تھا جو اصف کو ان سے عطا ہوا تھا-  اس کا فہم دینا  تھا کہ بعد میں امامت و دلالت پر کہیں (بنو اسرائیل) اختلاف نہ کریں جیسا ان سلیمان  کے لئے  داود کی  زندگی میں  (لوگوں کا ) فہم تھا کہ انکی نبوت و امامت کو مانتے تھے تاکہ خلق پر حجت کی تاکید ہو جائے

یعنی آصف اصل میں سلیمان علیہ السلام کے خلیفہ ہونے کو تھے تو ان کو ایک علم دیا گیا تاکہ عوام میں ان کی دھاک بٹھا دی جائے اور بعد میں کوئی اس پر اختلاف نہ کر سکے

کتاب مستدرك الوسائل – الميرزا النوري الطبرسی – ج 13 – ص 105 میں ہے کہ

 العياشي في تفسيره : عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : ” لما هلك سليمان ، وضع إبليس السحر ، ثم كتبه في كتاب وطواه وكتب على ظهره : هذا ما وضع آصف بن برخيا للملك سليمان بن داود ( عليهما السلام ) من ذخائر كنوز العلم ، من أراد كذا وكذا فليقل كذا وكذا ، ثم دفنه تحت السرير ، ثم استثاره لهم ، فقال الكافرون : ما كان يغلبنا سليمان الا بهذا ، وقال المؤمنون : هو عبد الله ونبيه ، فقال الله في كتابه : ( واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان )   اي : السحر

العياشي اپنی تفسیر میں کہتے ہیں عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) سے کہ امام ابی جعفر نے کہا جب سلیمان ہلاک ہوئے تو ابلیس نے سحر لیا اور ایک کتاب لکھی  ..(اور لوگوں کو ورغلایا). یہ وہ کتاب تھی جو اصف کو سلیمان سے حاصل ہوئی جو علم کا خزانہ ہے جو اس میں یہ اور یہ کہے اس کو یہ یہ ملے گا پھر اس سحر کی کتاب کو تخت کے نیچے دفن کر دیا پھر اس کو (دھوکہ دینے کے لئے واپس) نکالا اور کافروں نے  کہا ہم پر سلیمان غالب نہیں آ سکتا تھا  سوائے اس (جادو) کے (زور سے) اور ایمان والوں نے کہا وہ تو الله کے نبی تھے پس الله نے اپنی کتاب میں کہا اور لگے وہ (یہود)  اس علم کے پیچھے جو شیاطین ملک سلیمان کے بارے میں پڑھتے تھے یعنی جادو

یعنی شیعوں کے نزدیک اصف بن برخیا  اصل میں سلیمان علیہ السلام کے امام بنے اور وہ ایک خاص علم رکھتے تھے بعض کے نزدیک علی رضی الله عنہ ہی تھے اور اس دور  میں وہ اصف بن بر خیا کہلاتے تھے یہاں تک کہ اصف نے مریم علیہ السلام کے کفیل زکریا علیہ السلام کے وصی ہونے کی وصیت کی  گویا اصف کئی ہزار سال تک زندہ ہی تھے پتا نہیں  شیعوں کے نزدیک اب وفات ہو گئی یا نہیں

اہل سنت  کی آراء

تفسیر السمرقندي یا تفسير بحر العلوم أز أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373هـ) میں ہے

ويقال: إن آصف بن برخيا لما أراد أن يأتي بعرش بلقيس إلى سليمان- عليه السلام- دعا بقوله يا حي يا قيوم- ويقال: إن بني إسرائيل، سألوا موسى- عليه السلام- عن اسم الله الأعظم فقال لهم: قولوا اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-

اور کہا جاتا ہے جب اصف بن برخیا نے بلقیس کا عرش سلیمان کے پاس لانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا يا حي يا قيوم- اور کہا جاتا ہے نبی اسرئیل نے موسی سے اسم الأعظم کا سوال کیا تو ان سے موسی نے کہا کہو اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-

تفسیر القرطبی میں ہے

وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” إِنَّ اسْمَ اللَّهِ الْأَعْظَمَ الَّذِي دَعَا بِهِ آصَفُ بْنُ بَرْخِيَا يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ” قِيلَ: وَهُوَ بِلِسَانِهِمْ، أَهَيَا شَرَاهِيَا

اور عائشہ رضی الله عنہا  کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا وہ اسم اللَّهِ الْأَعْظَمَ جس سے اصف نے دعا کی وہ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ہے  ان کی زبان میں تھا َاهَيَا شَرَاهِيَا

اهَيَا شَرَاهِيَا کا ذکر شوکانی کی فتح القدیر اور تفسیر الرازی میں بھی ہے

اس سے قطع النظر کہ وہ الفاظ کیا تھے جو بولے گئے جو بات قابل غور ہے وہ اصف بن برخیا کا ذکر ہے جو اہل سنت کی کتب میں بھی ہے

صوفیاء نے اس آیت سے ولی کا تصور نکالا کہ ولی نبی سے بڑھ کر ہے اور محی الدین ابن العربی کی کتب میں اس قول کو بیان کیا گیا اور صوفیاء میں اس کو تلقہا بالقبول کا درجہ حاصل ہوا

پردہ اٹھتا ہے

اصف بن برخیا کا کردار اصلا یمنی یہودیوں کا پھیلایا ہوا ہے جو اغلبا عبد الله ابن سبا سے ہم کو ملا ہے اگرچہ اس بات کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اصل میں چکر کچھ اور ہی ہے

 اصف بن برخیا کا ذکر بائبل کی کتاب تواریخ  میں ہے

Asaph the son of Berechiah, son of Shimea

اس نام کا ایک شخص اصل میں غلام بنا جب اشوریوں نے مملکت اسرایل پر حملہ کیا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد نبی اسرائیل میں پھوٹ پڑی اور ان کی مملکت دو میں تقسیم ہو گئی ایک شمال میں تھی جس کو اسرئیل کہا جاتا تھا اور دوسری جنوب میں تھی جس میں یروشلم تھا اور اس کو یہودا کہا جاتا تھا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے کئی سو سال بعد ختم ہونے والی ان دو  ریاستوں میں بادشاہت رہی اور  کہیں بھی اتنی طویل مدت تک زندہ رہنے والے شخص کا ذکر ملتا

سلیمان علیہ السلام (وفات ١٠٢٢ ق م) کے بعد ان کے بیٹے رهوبم خلیفہ ہوئے اور اس کے بعد مملکت دو حصوں میں ٹوٹ گئی جس میں شمالی سلطنت کو ٧١٩  قبل مسیح میں اشوریوں نے تباہ کیا – یعنی مفسرین کے مطابق ٣٠٣ سال بعد جب اشوریوں نے غلام بنایا تو ان میں سلیمان کے درباری اصف بن برخیا بھی تھے جو ایک عجیب بات ہے

شمال میں اسرائیل  میں دان اور نفتالی کے یہودی  قبائل رہتے تھے جو اشوریوں کے حملے کےبعد یمن منتقل ہوئے اور بعض وسطی ایشیا میں آرمینیا وغیرہ میں  – دان اور نفتالی قبائل کا رشتہ اصف بن برخیا سے تھا کیونکہ وہ  مملکت اسرئیل کا تھا اور وہیں سے غلام بنا اور چونکہ یہ ایک اہم شخصیت ہو گا اسی وجہ سے اس کے غلام بننے کا خاص طور پر بائبل کی کتاب میں ذکر ہے-

ابن سبا بھی یمن کا ایک یہودی تھا جو شاید انہی قبائل سے ہو گا جن کا تعلق دان و نفتالی قبائل سے تھا- پر لطف بات ہے کہ ان میں سے ایک قبیلے  کا نشان ترازو  تھا اور عدل کو اہمیت دیتا تھا جو ان کے مطابق توحید کے بعد سب سے اہم رکن تھا – شمال میں امراء پر جھگڑا رہتا تھا اور ان پر قاضی حکومت کرتے تھے ایک مرکزی حکومت نہیں تھی یہاں تک کہ آج تک  ان کے شہر کو

Tel Dan

یا

Tel Qadi

کہا جاتا ہے

یعنی اس قبیلہ میں امراء کے خلاف زہر اگلنا اور عدل کو توحید کے بعد سب سے اہم سمجھنا پہلے سے موجود ہے اور ابن سبا نے انہی فطری اجزا کو جمع کیا اور اس پر مصر میں  اپنا سیاسی منشور مرتب کیا

اهَيَا شَرَاهِيَا بھی اصلا عبرانی الفاظ ہیں جو یمنی یہودیوں نے اصف سے منسوب کیے اور یہ توریت سے لئے گئے جس میں موسی علیہ السلام  اور الله تعالی کا مکالمہ درج ہے – توریت کا یہ حصہ یقینا موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد کا ہے کیونکہ اصلی توریت  میں احکام درج تھے  لہذا اهَيَا شَرَاهِيَا کو اصلا الحی القیوم کہنا راقم کے نزدیک ثابت نہیں ہے

اصف بن بر خیا اصل میں یہود کی جادو کی کتب کا راوی ہے اور اس سے منسوب ایک کتاب کتاب الاجنس ہے جس میں انبیاء پر جادو کی تہمت ہے اس قسم کے لوگ جن پر اشوری قہر الہی بن کر ٹوٹے ان کو مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کا درباری بنا کر ایک طرح سے  جادو کی کتاب  کے اس راوی کی ثقاہت قبول کر لی

 بائبل ہی میں یہ بھی ہے کہ اصف نام کا ایک شخص داود علیہ السلام کے دور میں  ہیکل میں موسیقی کا ماہر تھا  – کتاب سلاطین  میں پہلے ہیکل میں موسیقی کا کوئی ذکر نہیں جبکہ کتاب تواریخ میں اس کا ذکر ہے لہذا  اس پر اعتراض اٹھتا ہے کہ موسیقی کا عبادت میں دخل بعد میں کیا گیا ہے جو اغلبا عزیر اور نحمیاہ نے کیا ہو گا اور انہوں نے جگہ جگہ اصف کا حوالہ موسیقی کے حوالے سے شامل کیا

داود علیہ السلام اسلامی روایات کے مطابق موسیقی اور سازوں کی مدد سے عبادت نہیں کرتے تھے یہ یقینا اہل کتاب کا اپنے  دین میں اضافہ ہے اور اس میں انہوں نے اصف نام کا ایک شخص گھڑا جو موسیقار تھا اور  مسجد سلیمان ہر وقت موسیقی سے گونجتی رہنے کا انہوں نے دعوی کیا  اور اس کو سند دینے کے لئے اصف کو  پروہتوں کے قبیلہ لاوی سے بتایا پھر اس کی مدت  عمر کو اتنا طویل کہا کہ وہ داود و سلیمان سے ہوتا ہوا اشوریوں کا قیدی تک بنا

یہ سب داستان بائبل کی مختلف کتب میں ہے جس کو ملا کر آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے

اسلامی کتب میں الفہرست ابن ندیم میں بھی اس کا ذکر ہے یہاں بات کو بدل دیا ہے

وكان يكتب لسليمان بن داود آصف بن برخيا

اور اصف بن برخیا سلیمان کے لئے لکھتے تھے

یعنی اصف بن بر خیا ایک کاتب تھے نہ کہ موسیقار

اصف کو یہود ایک طبیب بھی کہتے ہیں اور اس سے منسوب ایک کتاب سفرریفوط  ہے جس میں بیماریوں کا ذکر ہے

زبور کی مندرجہ ذیل ابیات کو اصف کی ابیات کہا جاتا ہے

Asaph Psalm 50, 73, 74,75,76,77,78,79,80,81,82,83

گویا خود یہود کے اس پر اتنے اقوال ہیں کہ اس کی شخصیت خود ان پر واضح نہیں

ابراہیم بن ادھم

مسلمان متصوفین کی ایک اہم شخصیت ابراھیم بن ادھم ہیں – طبقات الصوفیہ میں ابراہیم بن ادھم المتوفی ١٦٥ ھ  کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے

إبراهيم بن أدهم، أبو إسحاق. من أهل بَلْخ كان من أبناء الملوك و المَياسير. خرج متصيِّداً، فهتف به هاتف، أيقظه من غَفْلَتِه. فترك طريقته، في التَّزَيُّن بالدنيا، و رَجَع إلى طريقة أهل الزُّهْد و الورع. و خرج إلى مكة، و صحب بها سفيان الثَّوري، و الفُضَيْل بن عِياض. و دخل الشام، فكان يعمل فيه، و يأكل من عمل يده

ابو اسحاق ابراہیم بن ادھم بلخی تھے شاہی خاندان سے تعلق تھا.  شکار کے لیے نکلے اور ایک آواز سنی، غفلت سے بیدار ہوۓ ، دنیا کی زینت کا راستہ چھوڑ دیا ، زہد و تقویٰ کی طرف مائل ہوۓ  اور مکہ کی طرف رخ کیا.  امام سفیان ثوری اور امام الفُضَيْل بن عِياض کے ساتھ رہے،  داخل شام  ہوۓ ، پس وہاں ہاتھ سے کام کیا  اور اپنے باتھ کا کھایا ۔

 ابراہیم بن ادھم  کے لئے ایک انگریز شاعر نے نظم کہی  جس کی ترجمانی اردو میں کی جاتی ہے

 

Abou Ben Adhem (may his tribe increase!)

Awoke one night from a deep dream of peace,

And saw, within the moonlight in his room,

Making it rich, and like a lily in bloom,

An angel writing in a book of gold:—

Exceeding peace had made Ben Adhem bold,

And to the Presence in the room he said

“What writest thou?”—The vision raised its head,

And with a look made of all sweet accord,

Answered “The names of those who love the Lord.”

“And is mine one?” said Abou. “Nay, not so,”

Replied the angel. Abou spoke more low,

But cheerly still, and said “I pray thee, then,

Write me as one that loves his fellow men.”

 

The angel wrote, and vanished. The next night

It came again with a great wakening light,

And showed the names whom love of God had blessed,

And lo! Ben Adhem’s name led all the rest.

 

James Henry Leigh Hunt

 

ابو بن ادھم (اس کا گروہ بڑھے)

اک روز گہرے خواب امن سے بیدار ہوا

اور چاندنی میں اپنے حجرہ میں دیکھا

جس نے اس کو بھرا ہوا تھا جیسے سوسن کھلا  ہو

اک فرشتہ سنہری کتاب میں لکھ رہا تھا

بڑھتے امن نے بن ادھم کی ہمت بندھائی

اور وہ گویا ہوئے

تم کیا لکھ رہے ہو؟  فرشتے نے سر اٹھایا اور نگاہ واحد میں معاملہ کر لیا

 

ان لوگوں کے نام جو خدا سے محبت کرتے ہیں

کیا میرا نام ہے اس میں؟ بن ادھم نے پوچھا

نہیں فرشتہ بولا

 

ابو بن ادھم نے دھیمی لیکن خوشی کی آواز میں کہا

میں تم سے گزارش کرتا ہوں مجھ کو بھی ان میں لکھ دو

جو اسکے بندوں سے محبت کرتے ہیں

 

فرشتہ نے لکھا اور غائب ہوا-

اگلی رات پھر ظاہر ہوا

 

اب وہ ایک بیدار کر دینے والی روشنی کے ساتھ آیا

اور ان کو وہ نام دکھائے جن کو محبوب ربانی کی سند ملی

 

اور خبردار! ابو بن ادھم کے بعد دوسروں کے نام تھے

 

جمیز ہینری لائح ہنٹ

جمیز ہینری لائح ہنٹ   انجہانی ١٨٥٩ ع  کو ابراھیم بن ادھم کی شخصیت میں ایسی کیا کشش نظر آئی کہ ان پر ایک نظم کہہ ڈالی؟  اس سوال کا جواب کافی عرصۂ تلاش کیا لیکن  کافی دن بعد ملا جب ایک کتاب  روحانی باغ پڑھی – یہ کتاب ان عیسائیوں کی ہے جو دور بنوی میں غاروں میں رہتے اور سخت مشقتیں کر رہے تھے – وہ اس معبود برحق کی تلاش میں تھے جس کو ان کے نزدیک کسی بھی وحی کے بغیر سمجھا جا سکتا  تھا – شام عراق مصر اردن کے پہاڑوں کے غاروں میں بیٹھے ان اہل کتاب صوفیا کا مقصد کشف تھا- وہ پردہ غیب میں جھانک کر حقیقت کو چھونا چاہتے تھے – اس کاوش کو قرآن ان کی ذاتی ایجاد کہتا ہے- الله تعالی سوره الحدید  ٢٧ میں کہتا ہے

 ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الإنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ

پھر اس کے بعد ہم نے  اپنے انبیاء  اور عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اس کو انجیل دی اور ان ماننے والوں کے دلوں میں رحم اور رقت ڈال دی اور رہبانیت کو انہوں نے شروع کیا تاکہ الله کی رضا حاصل کریں ،  ہم نے اس کا حکم نہ دیا تھا،   لیکن وہ اس کو کما حقہ ادا نہ کر سکے پس ہم نے ایمان والوں کو اجر دیا اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں

عیسائیوں کے کے ایک مشھور راہب یوحنا مسکوس (المتوفی ٤ ھ/  ٦١٩ع )   تھے جن کا ذکر نصرانی کتب میں ملتا ہے.  ان کی پیدائش ٥٥٠ ع کی ہے یعنی یہ دور بنوی کے ہیں . یوحنا مسکوس  ، صوفرونئوس (المتوفی ١٧ ھ/  ٦٣٨ ع) کے استاد تھے جو یروشلم کے   پیٹرآرک بنے اور  یہ صوفرونئوس ہی تھے جنہوں نے ١٦ ھ میں عمر رضی الله عنہ کو یروشلم کا فتح ہونے کے بعد دورہ کرایا تھا. صوفرونئوس اور انکے شیخ  یوحنا مسکوس نے  شام، مصراور عراق میں راہبوں کی حکایات جمع کی ہیں جن سے ان کے متصوفانہ طرز حیات کا پتا چلتا ہے

درج ذیل اقتباس کتاب  روحانی باغ

  Pratum Spirituale

سے لیا گیا ہے . یہ سب ایک کی کتاب کے نام ہیں یونانی اور لاطینی زبانوں میں لیکن

Spiritual Meadow

کے نام سے چھپی ہے

When we were in Alexandria we visit Abba Theodoulos who was at the church of Saint Sophia holy wisdom by the Lighthouse. He told us:  It was in the community of our saintly father Theodoulos which is  in the wilderness of the city of Christ our God that I renounced the World there I met a great elder named Christopher, a Roman by race. One day I prostrated myself before him and said of your  charity Abba tell how you have spent your life from youth up I persisted in my request and because he knew I was making it for the benefit of my soul. He told me saying When  I renounced the World child I was full of ardour for monastic way of life. By day I would carefully observe the rule of prayer and at night I would go to pray in the cave where the saintly Theodoulos and the other holy fathers are buried. As I went down into the cave I would make a hundred prostrations to God at each step: there were eighteen steps. Having gone down all the steps, I would stay there until they struck the wood at which time I would come back up for the regular office. After ten years spent in that way with fastings and continence and physical labour, one night I came as usual to go down into the cave. After I had performed my prostrations on each step, as I was about to set foot on the floor of the cave I felt into the trance. I saw the entire floor of the cave covered with  lamps, some of which were lit and some were not. I also saw two men, wearing  mantles and clothed in white, who tended those lamps. I asked them why they had set those lamps out in such way that we could not go down and pray. They replied: These  are the lamps of the fathers. I spoke  to them again: Why some of them lit while others are not?  Again they answered those who wished to do so lit there own lamps. Then I said to them: Of your charity is my lamp lit or not? Pray they said and we will light it. Pray I immediately retorted and what I have been doing until now? With these words I returned to my senses and, and when I turned round, there was not a person to be seen. Then I said to myself Christopher , if you want to be saved,  then yet greater effort is required. At dawn  I left monastery and went to Mount Sinai. I had nothing with me but the clothes I stood up in, after I had spent fifty years of monastic endeavours. There, a voice came to me Christopher, go back to your community in which you fought in the good fight so that you may die with your fathers.

جب ہم اسکندریہ میں تھے تو ہم ابّا تھودولوس سے ملے جو نور مینارکے پاس  سینٹ صوفیا پاک حکمت والے  کلیسا میں تھے. انہوں نے بتایا: میں بزرگ تھودولس جو ہمارے آقا (عیسیٰ علیہ السلام) کے شہر کے بیابان میں رہتے ہیں، کی معیت میں تھا،  وہاں میں ایک بزرک کرسٹوفر سے ملا جو نسلا رومی تھے ایک دن میں نے ان کو سجدہ کیا اور کہا ابا آپ مجھے اپنی زندگی کے بارے میں بتائے جوانی سے آج تک اور میں مسلسل اصرار کرتا رہا چونکہ وہ جانتے تھے کہ میں اپنی روح کے فائدے کے لئے ایسا کر رہا ہوں انہوں نے مجھ کو بتایا کہ جب میں نے دنیا ( کی آسائش) کوخیرباد کہا ، بیٹا اس وقت میں خانقاہی زندگی کے حوالے سے بہت جوش میں تھا. دن میں،  میں بہت لگن سے عبادت کے اصول پر عمل کرتا اور رات میں غار میں جس میں بزرگ تھودولوس اور دوسرے بزرگ دفن ہیں، میں عبادت کرتا. جب میں غار میں اترتا تو میں الله کو ١٠٠ سجدے ہر قدم پر کرتا، کل ١٨ قدم پڑتے تھے.  میں وہی رہتا حتیٰ کہ یہ لوگ لکڑی پر ضرب لگاتے اور میں واپس دفتر اتا.  قریب ١٠ سال اسی طرح صوم و عبادت کی مشقت میں گزارنے کے بعد ، ایک رات میں حسب روایت غار کے فرش پر قدم رکھنے لگا تو میں غرق مکاشفہ ہوا. میں نے دیکھ کہ غار کا سارا فرش دیوں سے  بھرا ہے جس میں سے کچھ جل رہے ہیں  اور کچھ بجھے ہیں . میں نے دو آدمیوں کو بھی دیکھا کہ سفید لباس میں ہیں جو ان دیوں کو لگا رہے ہیں میں نے پوچھا کہ آخر اس طرح کیوں دیے لگانے گئے ہیں کہ ہم اندر جا بھی نہ سکیں؟  انہوں نے جواب دیا کہ یہ دیے بزرگوں کے ہیں . میں نے دوبارہ بات کی: ایسا کیوں ہے کہ کچھ جل رہے ہیں اور کچھ بجھے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جن کو جلانا ہو وہ خود جلاتے ہیں. میں نے پوچھا کہ میرا دیا جل رہا ہے یا بجھا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا عبادت کرو ہم اسکو جلائیں گے. میں نے کہا عبادت! تو بھی تک میں کیا کر رہا تھا؟  اس کے بعد مکاشفہ کی کفیت ختم ہوئی. اور میں نے دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا. پھر میں نے اپنے آپ سے کہا کرسٹوفر، اگر تم نجات پانا چاہتے ہو تو اس سےزیادہ  کاوش چاہیے.  واپس اپنے لوگوں میں جاؤ  جن میں تم (شیطان کی اکساہٹوں سے) لڑو پھر جب مرو گے تو بزرگوں کے ساتھ ھو گے.

ابراہیم بن ادھم ، ابّا تھودولوس سے بڑھ کر صوفی تھے ان میں اختلاف نہ صرف عقیدے کا تھا بلکہ فرشتہ نے ابّا تھودولوس کو کہا کہ اور محنت کرو لیکن ابو بن ادھم ان سے آگے نکل گئے

کسی دور میں متصوفین میں یہ جھگڑا پیدا ہوا کہ کون اور کہاں کے صوفیاء بہتر ہیں؟ کیا عرب کے یا افغانستان و سینٹرل ایشیا کے ؟  کیونکہ اسلام پھیل رہا تھا اور کئی علاقوں میں صرف تصوف کو ہی اصلی اسلام سمجھا جاتا تھا –

ابراہیم بن ادھم اغلبا ایک فرضی کردار تھا جس میں بدھآ کی حکایات پر ابراھیم بن ادھم کا اسلامی کردار تراشا گیا-  عرب متصوفین نے بلخ کے اس راہب کا کردار گھڑا – ابراہیم بن ادھم اغلبا  ابراہیم بن آدم ہے یعنی ابن آدم کی اولاد میں سے – ابراہیم سے نسبت دی گئی ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے وحی الہی کے بغیر مشاہدے سے کائنات کی حقیقت کو جانا تو گویا یہ کوئی بھی عام صوفی  کر سکتا ہے – نہ صرف یہ بلکہ بدھآ نے بھی نروان اسی وقت حاصل کیا جب کائنات میں موجود جبر و قدر نے اس کو الجھا دیا – لہذا بلخ ایک مناسب جگہ تھی جہاں سے ایک اسلامی بدھآ کو نکالا جاتا ہے جس نے بدھآ کی طرح بادشاہت کو خیر باد کہا اور بدھ مت کے سادھوں کی طرح ہر دو قدم پر سجدہ کرتے  خدا کے لئے کعبه کے قصد سے نکلا

حکایت بیان کرنے والا جانتا ہے کہ وہ   بدھ مت کے کس طرز کی بات کر رہا ہے آپ شاید نہ جانتے ہوں لہذا یہ دیکھیں

اب کہانی آگے بڑھتی ہے ابراہیم بن ادھم ١٤ سال میں مکہ پہنچتے ہیں لیکن کیا ہوتا ہے-   انیس الارواح  از عثمان ہارونی مرتبہ  معین الدین چشتی، ص ١٧، ١٨ پر حکایت لکھی ہے کہ عثمان ہارونی نے

ibraheemBinAdham

اس حکایت میں ضعیفہ ، رابعة العدوية (المتوفی ١٣٥ ھ یا ١٨٥ ھ) جن کا مکمل نام   رابعة بنت اسماعيل أم عمرو العدوية ہے. ان کو أم الخير بھی کہا جاتا ہے کا ذکر ہے جو  یہ دعوی کرتی تھیں کہ یہ الله کی عبادت جنّت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ الله کی خوشنودی کے لئے کرتی ہیں (یعنی باقی صوفی ایسا کرتے تھے مثلا ابراہیم بن ادھم بلخی).

حکایت میں بتایا گیا ہے کہ ایک عربی صوفی بڑھیا رابعة  بلخ کے صوفیوں سے بہتر تھیں اور یہاں تک کہ ابراہیم بن  ادھم  کے حوالے سے پردۂ غیب کو ہٹا بھی سکتی تھیں – ابراہیم کی یہ تمام محنت اکارت گئی کیونکہ وہ اصلی صوفی نہیں تھے اصلی تو عراق میں بصرہ کی ایک بڑھیا تھی

یعنی یہ کہانی گھڑنے والوں نے ابراہیم کا مقابلہ کسی مرد سے نہیں کرایا بلکہ ایک عورت اور وہ بھی بڈھی کو دکھایا کہ ہماری عرب صوفی بڑھیا بھی بلخیوں سے بڑھ کر ہے

ابراہیم بن ادھم بعد میں اپنی غلطی درست کرتے ہیں عرب صوفیا کے ساتھ رہتے ہیں

یہ ان کے کردار کا مرکزی خیال ہے

غور طلب

الله تعالی نے کتاب الله میں واضح کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک کوئی قوم منتخب کردہ نہیں – امت الوسطی ہے جس پر ذمہ داری ہے کہ وہ الوسطی کا کردار ادا کریں کہ نہ یہود کی طرح رحمت الہی کو مقید کریں نہ نصاری کی طرح اس کو لام و عام  بلکہ افراط و تعصب  سے بچیں اور دین میں غلو نہ کریں

صحیح روایات میں ہے کہ  رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے نجد میں بھی۔ آپ نے فرمایا ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور ہمارے یمن میں بھی۔ لوگوں نے پھر کہا ہمارے نجد میں بھی۔ راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تیسری بار رسول اللہ نے فرمایا کہ وہاں پر زلزلے آئیں گے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔

ایسی روایات سے بعض لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلمان اگر رہ گئے ہیں تو وہ صرف شام اور یمن میں ہیں حالانکہ اس میں برکت کا ذکر ہے اور ایمان کا ذکر نہیں ہے – ایمان کا تعلق تو دل سے ہے اور اس کا کسی علاقے سے تعلق نہیں ہے – شام کی فضیلت کا ذکر صحیح احادیث میں ہے جن کو قرب قیامت کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا لیکن اس کے علاوہ بعض دوسرے ، تیسرے اور چوتھے درجے کی کتب میں ایسی ضعیف روایات بھی ہیں جن میں ملک شام کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے  اور بہت سے شام پسند اور اس میں سکونت اختیار کرنے والے علماء نے فضائل الشام پر کتب میں ان ضعیف روایات کو درجہ قبولیت دے دیا ہے – ایسی  کتب سے نوجوانوں کا ایک طبقہ متاثر ہوا جو علم حدیث اور علل حدیث کی پیچدگیوں سے نا واقف تھا اور پھر جو ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کےسامنے ہے

واضح رہے کہ دور نبوی میں شام سے مراد وہ علاقہ تھا جو آج ملک شام اردن اسرائیل پر مشتمل ہے

شام کی یہ اہمیت کہ اس پر کوئی غالب نہ ہو گا اور یہاں پر وقت فرشتے سایہ رکھتے ہیں اور یہاں ابدال رہتے ہیں قابل غور ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ اس کو صلیبیوں نے قبضے میں کیا  –  پہلی صلیبی جنگ   ١٠٩٦ ع  میں شروع ہوئی اور نویں ١٢٧٢ ع میں ہوئی  یعنی ڈیڑھ سو سال سے اوپر شام کا با برکت علاقہ مسلمانوں کے پاس نہ تھا یہاں تک کہ شام میں ارض مقدس میں قبلہ اول بھی آج نہیں ہے

اس تاریخی تناظر میں اب یہاں   علماء کی صحیح قرار دی گئی روایات پر   نظر ڈالتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کیا یہ واقعی حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم ہو سکتی ہیں

مدینہ سے ایمان کا شام منتقل ہونا

حدثنا أحمدُ بن محمَّد بن يحيى بن حَمْزَة الدمشقي، ثنا يحيى بن صالح الوُحَاظِي، ثنا سعيدُ بن عبد العزيز، عن يونُس بن مَيْسَرة بن حَلْبَس، عن عبد الله بن عَمرو بن العاص، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: «رَأَيْتُ عَمُودَ الكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَإِذَا هُو نُورٌ سَاطِعٌ إِلَى الشَّامِ

عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب (الله) کو مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا، ادھرشام  سے بہت نور پھوٹ رہا تھا۔

اس حدیث کو ابو نعیم نے الحلیۃ میں، ابن عساکر نے، الطبرانی نے الکبیر میں مسند الشاميين میں اور الاوسط میں روایت کیا ہے  الحاکم نے صحیح قرار دیا ہے

اس کی سند میں سعيدُ بن عبد العزيز ہیں جو مدلس تھے اور آخری عمر میں مختلط بھی ہوئے

افسوس روایت کے راوی يونس بن ميسرة بن حلبس  خود ایک فتنہ میں ہلاک ہوئے کتاب   الطبقات الكبرى   از  ابن سعدکے مطابق

لما دخل المسودة في أول سلطان بني هاشم دمشق دخلوا مسجدها فقتلوا من وجدوا فيه فقتل يومئذ يونس بن ميسرة بن حلبس

جب کالیے  (بنو ہاشم جنہوں نے کالے کپڑے پہن کر بنو امیہ کے خلاف خروج کیا) جو بنو ہاشم کے لیڈر تھے دمشق میں مسجد میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس میں تمام (مسلمانوں) کو قتل کر دیا  پس اس روز  يونس بن ميسرة بن حلبس قتل ہوئے

معجم طبرانی کی اسی متن کی  روایت أَبِي أُمَامَةَ سے بھی  ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الْمِصِّيصِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عُفَيْرِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ قَالَ: «رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَإِذَا هُوَ نُورٌ سَاطِعٌ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَدْ هَوَى بِهِ، فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، وَإِنِّي أَوَّلْتُ أَنَّ الْفِتَنَ إِذَا وَقَعَتْ أَنَّ الْإِيمَانَ بِالشَّامِ

 اسکی سند میں الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں سند میں عفير بن معدان الحضرمى  ہے جو ضعیف ہے منکر الحدیث  ہے

ایک روایت مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، إِذْ رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ احْتُمِلَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِي، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ مَذْهُوبٌ بِهِ، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلَا وَإِنَّ الْإِيمَانَ حِينَ تَقَعُ الْفِتَنُ بِالشَّامِ

أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ کتاب میرے سر کے نیچے سے سیدھی اوپر گئی پھر میں نے گمان کیا کہ یہ جا رہی ہے پس میری نگاہ نے اس کا تعاقب کیا تو دیکھا یہ شام کی طرف جا رہی ہے خبر دار ایمان شام میں ہے جب فتنہ ہو

الغرض یہ روایت شاذ و منکر ہے- یہ روایت ایمان  کا مدینہ سے شام منتقل ہونا بتا رہی ہے  جبکہ صحیحین کے مطابق تو ایمان مدینہ میں سمٹے گا اور دجال کی آمد پر مدینہ تین بار لرز جانے گا اور مدینہ منافقین سے خالی ہو گا

 شام  پر فرشتوں کے پر

امام احمد اور امام ترمذی اپنی کتب میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی الله

علیہ وسلم نے فرمایا:

حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حِينَ قَالَ: “طُوبَى لِلشَّامِ، طُوبَى لِلشَّامِ ” قُلْتُ: مَا بَالُ الشَّامِ؟ قَالَ: “الْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَجْنِحَتِهَا عَلَى الشَّامِ

“شام کتنی مبارک جگہ ہے!”، صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: “اے اللہ کے رسول، ایسا کیوں ہے؟”، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: “میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھتا ہوں کہ انھوں نے شام کے اوپر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔”

اسکی سند میں ابْنُ لَهِيعَةَ   ہے  جو ضعیف ہے دوسری میں يحيى بن أيوب الغافقي  ہے وہ بھی ضعیف ہے

شام  میں ہر وقت جہاد

حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ دِمَشْقَ، وَمَا حَوْلَهُ وَعَلَى أَبْوَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ، لَا يَضُرُّهُمْ خُذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ

 مسند ابی یعلی ج۱۳ ص۱۸۱ رقم:۶۲۸۶۔ المعجم الکبیر للطبرانی ج ۱۹ص۹۸۔ مجمع الزوائد ج۱۰ص۶۰واسنادہ صحیح

  ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

میری امت کا ایک گروہ لڑتا رہے گا دمشق کے دروازوں اور اس کے اطراف اور بیت المقدس کے دروازوں اور اس کے اطراف، ان کی مخالفت کرنے والا ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا اور وہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

لوگوں نے اس روایت کو صحیح قرار دے دیا ہے جبکہ  میزان الآعتدل میں الذھبی سند کے راوی کے لئے کہتے ہیں الوليد بن عباد، شيخ.  حدث عنه إسماعيل بن عياش مجهول  ہے

مسند احمد، مسند ابو داود الطیالسی، مسند البزار  کی روایت ہے

ابو عبداللہ شامی  کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ  امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سناکہ مجھے انصاری صحابی  زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا اور مجھے امید ہے کہ اے ا ہل شام! یہ تم ہی ہو۔ (مسند احمد)

  اس کی سند میں ابو عبد الله الشامی کون ہے محققین پر واضح نہیں ہو سکا الشيخ مصطفى العدوي ، المنتخب من مسند عبد بن حميد پر اس روایت کی تعلیق پر لکھتے

أبو عبد الله لم نستطع تمييزه  ابو عبد الله ہم اس کی تمیز نہ کر سکے

مسند البزار میں امام البزار کہتے ہیں وَأبُو عَبد اللَّهِ الشَّامِيُّ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا سَمَّاهُ، ولاَ نَعْلَمُ رَوَى عَنْهُ إلاَّ شُعْبَة

اور ابو عبد الله الشامی پس ایسا نام کسی کو نہ دیا گیا اور ہم  نہیں جانتے کہ شعبہ کے علاوہ اس سے کسی نے روایت کیا ہو

 شعیب  الآرنوط مسند احمد کی تعلیق میں  کہتے ہیں وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبي عبد الله الشامي اور یہ روایت ابی عبد الله الشامی کی مجہولیت کی وجہ سے ضعیف ہے

لہذا روایت ضعیف ہے

اہل شام ……آخری دور میں فتنوں کی زمین

تاریخ الکبیر از امام بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن يوسف أنا يحيى ابن حَمْزَةَ حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ وَكَثِيرَ بْنَ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيَّ قَالا: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ وَابْنَ السِّمْطِ قَالا: لا يَزَالُ الْمُسْلِمونَ فِي الأَرْضِ حَتَّي تَقُومَ السَّاعَةُ وَذَلِكَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لا تَزَالُ

عِصَابَةٌ قَوَّامَةً، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُمْ أَهْلُ الشَّامِ

ابو ہریرہ اور ابن السمط رضی الله عنہما نے کہا کہ مسلمان زمین پر نہیں جائیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہی اور یہ اس وجہ سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ایک گروہ کو زوال نہ ہو گا جو قائم رہے گا اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ اہل شام ہیں

کتاب  المعرفة والتاريخ  از  يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ)  کے مطابق

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن يوسف قال: حدثنا يحي بْنُ حَمْزَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَلْقَمَةَ نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ الْحَضْرَمِيُّ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ أَنَّ عمير بن الْأَسْوَدِ وَكَثِيرَ بْنَ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيَّ قَالا: إِنَّ أبا هُرَيْرَةَ وَابْنَ السِّمْطِ  كَانَا يَقُولَان

لا تزالُ من أمَّتي عِصابةٌ قوَّامةٌ على أمْرِ الله عزّ وجلّ، لا يضرُّها من خالفَها؛ تقاتلُ أعداءها، كلما ذهبَ حربٌ نشِبَ حربُ قومٍ آًخرين، يزيغُ اللهُ قلوب قوم ليرزقَهم منه، حتى تأتيهم الساعةُ، كأنّها قطعُ الليلِ المظلمِ، فيفزعونَ لذلك؛ حتّى يلبسُوا له أبدانَ الدُّروع، وقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: همْ أهلُ الشّامِ، ونكَتَ رسولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – بإصبعِه؛ يومئُ بها إلى الشّامِ حتّى أوجَعها

  ابو ھریرۃ  اور ابن السمط رضی اللہ عنہما  سے اسی سند سے طویل  حدیث مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

میری امت کا ایک گروہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے قتال کرتا رہے گا، ان کو ان کے مخالف نقصان نہ دےسکیں گے  اور وہ اپنے دشمنوں سے لڑتے رہیں گے جب بھی جنگ جائے گی ایک اور لڑنے والی جنگ ان سے الجھ جائے گی  اللہ ایک قوم کے دل ٹیڑھے کر دے گا کہ ان کو رزق دے  (کر آزمائش میں ڈالے گا) یہاں تک کہ قیامت  آئے جیسے کہ کالی رات –  پس وہ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے اس پر یہاں تک کہ ان کے بدن  ڈھال بن جائیں گے  اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: ’ وہ اہل شام ہونگے‘ پھر نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی   انگلی سے شام کی طرف اشارہ کیا، یہاں تک کہ انھیں افسوس ہوا ۔

البانی سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات

میں کہتا ہوں اس کی اسناد صحیح ہیں اس کے رجال ثقہ ہیں

  لوگوں نے اس روایت سے اہل شام کی تعریف لی ہے حالانکہ اس میں ان کی برائی کی جا رہی ہے – شام میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دور نبوی سے آج تک جنگ جدل کا بازار گرم رہا ہو جیسا کہ اس روایت میں ہے یہ ایک عظیم تاریخی غلطی ہے  ایسی روایت منکر  ہے بلکہ بنو امیہ کا ٩٠ سال کے دور میں یہ عموما پر امن رہا ہے

روئے زمین کے بہترین جنگجو

سنن ابو داود، مسند احمد ، مستدرک الحاکم کی روایت ہے

حدَّثنا حيوةُ بن شُريح الحضرمي، حدَّثنا بقيةُ، حدثني بَحيرٌ، عن خالدٍ – يعني ابنَ مَعدانَ – عن أبي قُتَيلةَ عن ابن حَوالةَ، قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “سيصير الأمرُ إلى أن تكونوا جنُوداً مُجنَّدةً، جندٌ بالشام، وجندٌ باليمن، وجندٌ بالعراق” قال ابن حَوالة: خِرْ لي يا رسول الله إن أدركتُ ذلك، فقال: “عليك بالشامِ فإنها خِيَرةُ اللهِ من أرضِه، يجْتبي إليها خِيَرتَه من عبادِه، فأما إن أبيتُم فعليكم بيَمَنِكم، واسقُوا من غُدُرِكم، فإن الله تَوكّل لي بالشامِ وأهلِه

عبداللہ بن حَوالةَ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “تم لوگ عنقریب کچھ فوجی دستے ترتیب دو گے؛ شام کی فوج، عراق کی فوج، اور یمن کی فوج۔”  تو عبداللہ ؓ نے کہا: “اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم میرے لئے ایک دستہ چن لیں!”  تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “شام جاؤ، اور جو بھی ایسا نہیں کر سکے وہ یمن جائے، جیسے کہ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے میرے لئے شام اور اس کے لوگوں کو پسند کیا ہے۔”

اسکی سند میں أبي قُتَيلةَ  ہے  جو مجھول ہے بعض محدثین نے اس سے صحابی  مَرثَد بْن وداعَة  رضی الله عنہ مراد لئے ہیں – لیکن کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از  العلائي (المتوفى: 761هـ)  کے مطابق قال أبو حاتم وغيره لا صحبة له  ابو حاتم اور دوسرے محدثین کہتے ہیں صحابی نہیں ہے – أبي قُتَيلةَ کے حالات  پر جرح و تعدیل کی کتب خاموش ہیں لہذا یہ مجھول ہے اور روایت ضعیف ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا مَكْحُولٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَوَالَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” سَيَكُونُ جُنْدٌ بِالشَّامِ، وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ “، فَقَالَ رَجُلٌ: فَخِرْ لِي يَا رَسُولَ اللهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عَلَيْكَ بِالشَّامِ، عَلَيْكَ بِالشَّامِ   – ثَلَاثًا، عَلَيْكَ بِالشَّامِ   – فَمَنْ أَبَى فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ، وَلْيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فَإِنَّ اللهَ قَدْ تَكَفَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ “، قَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّتَيْنِ: فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ

عَبْدِ اللهِ بْنِ حَوَالَةَ  رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے شام   میں  لشکر ہوں گے اور یمن میں لشکر ہوں گے ہے پس ایک آدمی نے کہا پس مجھے چن لیں کہ میں بھی وہاں ہوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  تمہارے لئے وہاں شام میں شام میں تین بار کہا

اس کی سند میں ہے  محمد بن راشد   المكحولي ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے  کہ اس نے مکحول سے بہت ارسال کیا ہے ، وهو لم يسمع هذا الحديث من ابن حوالة اور یہ حدیث ابن حوالہ سے نہیں سنی.

لہذا یہ ضعیف روایت ہے

صحیح ابن حبان اور طبرانی الکبیر  میں اس کی سند میں سَعِيدَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ ہے جو مختلط اور مدلس تھے  دوم عبد الله بن العباس بن الوليد بن مزيد العذري البيروتي ہیں جن کے لئے  أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري  کتاب إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني میں  کہتے ہیں یہ مجھول ہے

شام و یمن کا محاذ

كتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء    أز أبو نعيم  الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)   كي روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ النَّحَّاسُ، ثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ اللهَ اسْتَقْبَلَ بِيَ الشَّامَ وَوَلَّى ظَهْرِي الْيَمَنَ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَكَ مَا تُجَاهَكَ غَنِيمَةً وَرِزْقًا، وَمَا خَلْفَ ظَهْرِكَ مَدَدًا وَلَا يَزَالُ اللهُ يَزِيدُ – أَوْ قَالَ -: يُعِزُّ الْإِسْلَامَ وَأَهْلَهُ وَيُنْقِصُ الشِّرْكَ وَأَهْلَهُ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ بَيْنَ كَذَا – يَعْنِي الْبَحْرَيْنِ – لَا يَخْشَى إِلَّا جَوْرًا، وَلَيَبْلُغَنَّ  هَذَا الْأَمْرَ مَبْلَغَ اللَّيْلِ ” غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الشَّيْبَانِيِّ، تَفَرَّدَ بِهِ عَنْهُ ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ

ابو امامۃ الباھلی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے: اے محمد صلی الله علیہ وسلم! میں نے تمہارے سامنے غنیمتوں اور رزق کو رکھا ہے اور تمھارے پیچھے مدد رکھی ہے۔ … یہ حدیث غریب ہے …..اس میں ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ کا تفرد ہے

 راوی  ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ  کو صالح الحدیث کہا جاتا ہے الذھبی ، میزان الآعتدل میں کہتے ہیں مشهور ما فيه مغمز مشھور ہے ان میں غلطیاں  ہیں

بہترین زمین اور بہترین بندے

البانی نے صحیحہ میں ایک روایت لکھی ہے

وعن العرباض بن سارية رضي الله عنه عن النبيِّ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -:  أنَّه قامَ يوماً في الناسِ فقال:  يا أيُّها الناسُ! توشِكونَ أنْ تكونوا أجْناداً مجنَّدَةً، جُنْدٌ بالشامِ، وجُنْدٌ بالعراقِ، وجندٌ باليَمنِ”.  فقال ابنُ حَوالةَ: يا رسول الله! إنْ أدْرَكني ذلك الزمانُ فاخْتَرْ لي قال: “إنِّي أختارُ لكَ الشامَ، فإنَّه خِيرَة المسْلمِينَ، وصَفْوَةُ الله مِنْ بلادِه، يَجْتَبي إليْها صَفْوَتَهُ مِنْ خَلْقِه. فَمَنْ أبى فَلْيَلْحَقْ بيَمَنِه،  ولَيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فإنَّ الله قد تكفَّل لي بالشامِ وأهْلِه”.رواه الطبراني، ورواته ثقات.

 عرباض بن سارية رضي الله عنه روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور کہا اے لوگوں تم شک کرتے ہو کہ تم پر لشکر آئیں گے اور لشکر ہوں گے عراق میں اور یمن میں پس ابو حوالہ نے کہا اے رسول الله کیا میں یہ زمانہ پاؤں گا پس آپ نے فرمایا میں تیرے لئے شام منتخب کرتا ہوں کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لئے خیر ہے اور الله کا پسندیدہ ہے ملکوں میں .. طبرانی کہتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں

جبکہ اس کی سند میں فضالة بن شريك ہے جس کے لئے أبو حاتم کہتے ہیں لا أعرفه   ،میں اس کو نہیں جانتا

ضَعيفُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب  از البانی کی  عبد الله بن حوالہ رضی الله عنہ کی روایت ہے

يا رسول الله! خِر لي بلداً أكون فيه، فلو أعلم أنك تبقى لم أخْتَرْ عن قُرِبكَ شيئاً. فقال: “عليك بالشام”  فلما رأى كراهيتي للشام، قال:  “أتدري ما يقول الله في الشام؟ إن الله عز وجل يقول: يا شامُ! أنتِ صفوتي من بلادي، أدخل فيك خيرتي من عبادي،. . .”.

عبداللہ بن حوالۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: “اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم! آپ مجھے بتائیں کہ میں کس علاقے میں رہوں، اگر مجھے پتا ہو کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہمارے ساتھ لمبے عرصے تک رہیں گے، تو میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت کے علاوہ کہیں اور رہنے کو ہرگز ترجیح نہیں دوں۔” رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “شام کی طرف جاؤ، شام کی طرف جاؤ ، شام کی طرف جاؤ۔” پس جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ مجھے شام پسند نہیں ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: “کیا تم جانتے ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ (اس کے بارے میں) کیا فرماتا ہے؟” پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: “شام میری زمینوں میں سے وہ منتخب کردہ زمین ہے جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں۔

البانی کتاب  ضَعيفُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب میں کہتے ہیں یہ ضعیف ہے اور لکھتے ہیں رواه الطبراني من طريقين، إحداهما جيدة طبرانی نے اس کو دو سندوں سے روایت کیا ہے جس میں  ایک جید ہے

لیکن ان جید سندوں پر اوپر بلاگ میں بحث کی جا چکی ہے کہ وہ بھی ضیف سے خالی نہیں

ابو داود کی روایت ہے

حدثنا أحمد بن صالح حدثنا أسد بن موسى حدثنا معاوية بن صالح حدثني ضمرة أن ابن زغب الإيادي حدثه قال نزل علي عبد الله بن حوالة الأزدي فقال لي بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لنغنم على أقدامنا فرجعنا فلم نغنم شيئا وعرف الجهد في وجوهنا فقام فينا فقال اللهم لا تكلهم إلي فأضعف عنهم ولا تكلهم إلى أنفسهم فيعجزوا عنها ولا تكلهم إلى الناس فيستأثروا عليهم ثم وضع يده على رأسي أو قال على هامتي ثم قال يا ابن حوالة إذا رأيت الخلافة قد نزلت أرض المقدسة فقد دنت الزلازل والبلابل والأمور العظام والساعة يومئذ أقرب من الناس من يدي هذه من رأسك قال أبو داود عبد الله بن حوالة حمصي.

ابن زغب الإيادي نے بیان کیا کہ ہم عبد اللہ بن حوالہ کے پاس پہنچے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا … اے ابن حوالہ جب تو دیکھے کہ خلافت ارض مقدس (یعنی شام میں) نازل ہوئی ہے پس وہاں زلزلوں ، بلاوں اور بڑے کاموں اور قیامت کا  لوگوں پر آنا  اس دن اتنا قریب ہو گا جتنا تیرا ہاتھ تیرے سر کے قریب ہے

البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں – ابن حوالہ کے دور میں قیامت نہیں آئی جبکہ رسول الله سے منسوب اس حدیث میں ہے کہ شام میں جب خلافت آئے گی تو قیامت قریب ہو گی

روایت منکر ہے

المعجم الكبير از طبرانی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ حَمَّادٍ الرَّمْلِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا بِشْرُ بْنُ عَوْنٍ، ثنا بَكَّارُ بْنُ تَمِيمٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: وَهُمَا يَسْتَشِيرَانِهِ فِي الْمَنْزِلِ فَأَوْمَى إِلَى الشَّامِ ثُمَّ سَأَلَاهُ، فَأَوْمَى إِلَى الشَّامِ، ثُمَّ سَأَلَاهُ فَأَوْمَى إِلَى الشَّامِ قَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ، فَإِنَّهَا صَفْوَةُ بِلَادِ اللهِ يَسْكُنُهَا خِيرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ، فَمَنْ أَبَى فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ، وَلْيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فَإِنَّ اللهَ تَكَفَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ»

وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ُحذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ اور َمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ کو کہتے سنا  اور وہ ان دونوں کو بشارت دے رہے تھے …. تمھارے لئے شام ہے ،  وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہترین زمین ہے، اور وہ اُدھر اپنے بہترین مخلوق کو لے آتا ہے …

 البانی نے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے

ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی کے مطابق راوی بَكَّارُ بْنُ تَمِيمٍ مجھول ہے

ہجرت کے لئے بہترین جگہ

صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب از البانی کی روایت ہے

وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يقول: “ستكونُ هجرةٌ بعدَ هجرةٍ، فخيارُ أهلِ الأرضِ ألزَمُهم مُهاجَر! إبراهيمَ، ويبقى في الأرض أشرارُ أهلِها تلفظُهم أَرَضُوهم، وتَقْذَرُهم نَفْسُ اللهِ، وتحشرهم النارُ مع القردة والخنازير”.

  عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی الله علیہ وسلم فرما رہے تھے:  ایک وقت آئے گا جب ہجرت پر ہجرت ہونگی، اور بہترین لوگ وہ ہونگے جو ابراہیم علیہ السلام کے (شام کی طرف) ہجرت کریں گے اور زمین پر بدترین لوگ وہ ہونگے، جن کو ان کی اپنی زمینیں نکال باہر کریں گیں اور اللہ ان سے بری ہوگا (یعنی اللہ کو انکا ہجرت کرنا پسند نہیں ہوگا اس لئے ان کو یہ توفیق ہی نہیں ملے گی- ابن کثیر)، اور آگ ان کو بندروں اور خنزیروں کے ساتھ جمع کرے گی

البانی اس کو صحیح الغیرہ کہتے ہیں اور الصحیحہ میں ٣٢٠٣ میں اس کو مکمل صحیح کر دیتے ہیں  وہاں بیہقی کی ایک روایت کو دلیل بنا کر لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال البخاري، فهو صحيح؛ لولا الواسطة  بين الأوزاعي ونافع؛ فإنه لم يسم، مع أن رواية الأوزاعي عن نافع ثابتة في “صحيح البخاري “. وعلى كل حال؛ فهو شاهد صالح، وبه يرتقي الحديث إلى مرتبة الصحة إن شاء الله تعالى.

میں کہتا ہوں اس کی اسناد میں ثقہ رجال ہیں بخاری والے پس یہ صحیح ہے  چاہے اس میں نافع اور الأوزاعي کے بیچ کا واسطہ  (غیر واضح) ہو کہ اس کا نام نہیں لیا گیا پس الأوزاعي کی نافع سے روایت ثابت ہے جیسا صحیح بخاری میں ہے اور ہر حال میں یہ  کی روایت کی شاہد صآلح  ہے جو حدیث کو ترقی دے کر صحت کے مرتبے پر لے جاتی ہے ان شاء الله

بیہقی کی کتاب الأسماء والصفات للبيهقي کی روایت ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ، أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثنا يَعْقُوبُ بْنُ  سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيَّانِ، قَالَا: ثنا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، ثنا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيُهَاجِرُ أَهْلُ الْأَرْضِ هِجْرَةً بَعْدَ هِجْرَةٍ إِلَى مُهَاجِرِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، حَتَّى لَا يَبْقَى إِلَّا شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمُ الْأَرَضُونَ وَتَقْذَرُهُمْ رُوحُ الرَّحْمَنِ، وَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرُ، تَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا، وَلَهَا مَا يَسْقُطُ مِنْهُمْ» . وَظَاهَرُ هَذَا أَنَّهُ قَصَدَ بِهِ بَيَانَ نَتَنِ رِيحِهِمْ، وَأَنَّ الْأَرْوَاحَ الَّتِي خَلَقَهَا اللَّهُ تَعَالَى تَقْذَرُهُمْ. وَإِضَافَةُ الرُّوحِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى بِمَعْنَى الْمُلْكِ وَالْخَلْقِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ “

نافع ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا زمین کے لوگ ہجرت پر ہجرت کریں گے جیسا ابراہیم علیہ السلام نے کیا یہاں تک کہ اس پر کوئی  نہ رہے گا سوائے شریروں کے  .اور… جن کا حشر بندروں اور سورروں کے ساتھ ہو گا

علل ابن ابی حاتم کے مطابق نافع اور الأوزاعي کے درمیان راوی ہیں مثلا  عبدِالواحد بْنِ قَيْسٍ  اور محمَّد بْنِ محمَّد  –  صحیح مسلم میں الأوزاعي  اور نافع کے بیچ الزُّهْرِيِّ ہیں البتہ امام بخاری نے الأوزاعي کی نافع سے دو روایات لی ہیں جن میں ایک شاہد ہے اس بنیاد پر مطلقآ نہیں کہا جا سکتا ہے یہ روایت صحیح ہے

روایت کے متن میں  الفاظ وَتَقْذَرُهُمْ رُوحُ الرَّحْمَنِ   انتہائی واہیات و عجیب ہیں جس کی البانی نے تاویل کی ہے لیکن بات واضح نہیں ہوتی

اہل شام زمین میں چابک ہیں

مسند احمد میں خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ الْأَسَدِيَّ  رضی الله عنہ کا قول ہے

حَدَّثَنَا هَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، سَمِعَ خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ الْأَسَدِيَّ، يَقُولُ: «أَهْلُ الشَّامِ سَوْطُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ، يَنْتَقِمُ بِهِمْ مِمَّنْ يَشَاءُ، كَيْفَ يَشَاءُ، وَحَرَامٌ عَلَى مُنَافِقِيهِمْ أَنْ يَظْهَرُوا عَلَى مُؤْمِنِيهِمْ، وَلَنْ يَمُوتُوا إِلَّا هَمًّا أَوْ غَيْظًا أَوْ حُزْنًا

 خریم بن فاتک  رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ: اہل شام زمین میں  چابک (کوڑا)  ہیں اللہ ان کے ذریعے جس سے چاہتا ہے انتقام لے لیتا ہے اور ان کے منافقین کے لیے ان کے مومنین پر غالب آنا حرام کردیا گیا ہے وہ جب بھی  مریں گے توغم غصے کی اور پریشانی کی حالت ہی میں مریں گے۔

اس کی سند میں أيوب بن ميسرة بن حلبس  ہے جنہوں نے خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ الْأَسَدِيَّ کا قول بیان کیا ہے  ابن حجر لسان المیزان میں کہتے ہیں رأيت له ما ينكر میں دیکھتا ہوں یہ منکر بیان کرتے ہیں – ابن حجر کہتے ہیں

رواية عن خريم بن فاتك، وَغيره ولم يذكر فيه ابن أبي حاتم جرحًا.

ان کی روایت خريم بن فاتك  اور دیگر سے ہے اور ابن ابی حاتم نے ان پر جرح نہ کی

معلوم ہوا یہ مجھول ہے کیونکہ أيوب بن ميسرة بن حلبس کی توثیق بھی کسی نے نہیں کی

المروزي نے ان کا ذکر امام احمد سے کیا اور انہوں نے اشارہ دیا کہ : كأنه (يعني أبا عبد الله) لم یعرف هؤلاء  گویا امام احمد ان کو نہیں جانتے

 

اہل شام کا فساد

ابو داود میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ، لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمُ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ

ترمذی میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلاَ خَيْرَ فِيكُمْ، لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور میری (امت میں سے) ایک گروہ  کی مدد کی جاتی رہے گی اور انہیں  کسی کی مخالفت کا کوئی نقصان نہ ہو گا یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

اس کی تمام اسناد میں قرہ بن آیاس ہیں-  کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق

 قرة بن إياس والد معاوية بن قرة أنكر شعبة أن يكون له صحبة والجمهور أثبتوا له الصحبة والرواية

 قرة بن إياس …..   شعبہ نے انکار کیا ہے کہ یہ صحابی تھے اور جمہور کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ صحابی ہیں

امام شعبہ کی اس رائے کی وجہ احمد العلل میں بتاتے ہیں

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدَّثنا سليمان ابو داود، عن شعبة، عن معاوية -يعني ابن قرة – قال: كان أبي يحدثنا عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، فلا أدري سمع منه، أو حدث عنه

عبد الله بن احمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے شعبہ ہے انہوں نے معاویہ سے روایت کیا کہ

میرے باپ قرہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے پس میں نہیں جانتا کہ انہوں نے سنا تھا یا صرف ان

کی بات بیان کرتے تھے

جب معاویہ بن قرہ کو خود ہی شک ہو کہ باپ نے واقعی رسول الله سے سنا بھی تھا یا نہیں تو آج ہم اس کو کیسے قبول کر لیں؟

لہذا روایت ضعیف  ہے

قارئیں آپ کے سامنے ان روایات کی اسنادی حیثیت ہے  آپ خود فیصلہ کریں کیا یہ روایات اس قابل ہیں کہ ان کو صحیح کہا جائے

یہود مسلم تعلقات اور روایات

متشدد تنظیمیں  جن کے خیال میں اس صدی میں قیامت آ جائے گی اور دجال اور عیسی کا معرکہ بھی ہو جائے گا انہوں نے کتب ستہ اور اس سے باہر کی کتب کو کھنگال کر وہ تمام روایات جو بین المذاھب شدت پسندی پر اکساتی ہوں ان کو جمع کر دیا ہے –اس قسم کی کتب ایک منیول کی طرح تشدد پر اکسا رہی ہیں اور   عصر حاضر میں مسلمانوں میں تشدد کی جو لہر چلی ہے اس کو روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں –  متشدد عناصر عرب علماء سے درس لے کر خود کش حملے کر رہے ہیں اور دنیا کے مسائل کا کوئی حل ان کے مطابق ڈائلاگ سے ممکن نہیں بلکہ تمام فساد کی جڑ غیر مسلم اقوام خاص کر یہود کو قرار دینا ایک معمول بن چکا ہے

ضروری ہے کہ یہود مسلم تعلقات پر بحث کی جائے تاکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور اصحاب رسول کا منہج سمجھا جا سکے اور صحیح و ضعیف کو پرکھا جائے – یہود اپنے آپ کو دور نبوی میں بڑے شوق سے عیسیٰ کا قاتل کہتے تھے اور عیسائیوں سے ان کی بنتی نہ تھی- اس دور میں  یہ قرآن تھا جس نے ان سے اس بات کو اٹھایا کہ یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کا قتل  نہیں کیا – لیکن افسوس وہ اس بات کو سمجھ نہ سکے یہاں تک کہ آج یہودی کتابوں میں لکھ رہے ہیں کہ ہم نے نہیں بلکہ رومیوں نے عیسیٰ کا قتل کیا

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وعظ  و نصیحت کی دقت کو وہ سمجھ نہ سکے اور اپنے مولویوں کے چکر میں رہے یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دس یہودی ایمان لے آئیں تو تمام یہودی ایمان لے آئیں گے

افسوس یہ موقعہ نہ آ سکا اور قرآن کہتا ہے کہ انہوں نے اپنے احبار کو رب بنا لیا

اس پس منظر کو متشدد یہودیوں نے خوب اچھالا کہ ہم سے مدینہ میں زبردستی غلط سلط عقائد منوائے جا نے کا مطالبہ تھا اور اہانت رسول کرنے میں  انہوں نے کوئی شرم محسوس نہ کی دوسری طرف ترکی بہ ترکی کی روایت پر بعض مسلمانوں نے بھی خود کش حملوں کا جواز پیدا کیا اور اسطرح پوری دنیا میں ایک بے کلی کی کیفیت نے جنم لیا – نصیحت تو اہل تقوی کو ہی کارگر ہوتی ہے اس بنیاد پر کچھ روایات کو سمجھنا ضروری ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ، وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ

ابو عبيدة بن الجراح  کہتے ہیں کہ آخری کلام جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا وہ یہ تھا کہ یہود کو حجاز میں سے نکال دو

اس کی سند میں سعد  بن سَمُرَة بن جُنْدَب الفَزَاري ہے – کتاب  الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة از ابن قُطْلُوْبَغَا السُّوْدُوْنِي   (المتوفى: 879هـ)  میں سعد  بن سَمُرَة بن جُنْدَب الفَزَاري کے لئے  کہتے ہیں

قلت: حديثه عن أبيه عن أبي عبيدة رَفَعَهُ: «أخرِجُوا اليهود من الحجاز

میں ابن قُطْلُوْبَغَا کہتا ہوں:  اس کی حدیث اپنے باپ سے ان کی ابو عبیدہ سے اس نے رفع کی ہے

ابن قُطْلُوْبَغَا  کا مطلب ہے کہ سند ابوعبیدہ رضی الله عنہ تک نہیں جاتی

مزید براں اس روایت کی تمام  اسناد میں إبراهيم بن ميمون الصائغ المروزي کا تفرد  ہے اس کو ابن معين  نے ثقه کہا  أبو زرعة نے کہا  لا بأس به کوئی برائی نہیں اور  أبو حاتم لا يحتج به ، نا قابل دلیل کہا ہے- لہذا یہ ضعیف روایت ہے

روایت سراسر غلط ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے آخری الفاظ ہم تک صحیح اسناد سے پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے قرآن کی آیت پڑھی اور کہا اے الله تو ہی رفیق الاعلی ہے

صحیح ابن حبان اور صحیح مسلم کی روایت ہے رسول الله  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا

  لأخرجن اليهود والنصارى من جزيرة العرب حتى لا أدع إلا مسلماً” (رواه مسلم/كتاب الجهاد برقم (1767

میں  یہود و نصاری کو جزیرہ العرب سے نکال دوں گا یہاں تک کہ اس میں صرف مسلمان ہوں گے

اس کی سند میں مدلس أبو الزبير  محمد بن مسلم بن تُدرُس المكي ہے

كتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين   العلائي (المتوفى: 761هـ)   کے مطابق

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مشهور بالتدليس قال سعيد بن أبي مريم ثنا الليث بن سعد قال جئت أبا الزبير فدفع لي كتابين فانقلبت بهما ثم قلت في نفسي لو أني عاودته فسألته اسمع هذا كله من جابر قال سألته فقال منه ما سمعت ومنه ما حدثت عنه فقلت له اعلم لي على ما سمعت منه فاعلم لي على هذا الذي عندي ولهذا توقف جماعة من الأئمة عن الاحتجاج بما لم يروه الليث عن أبي الزبير عن جابر وفي صحيح مسلم عدة أحاديث مما قال فيه أبو الزبير عن جابر وليست من طريق الليث وكأن مسلما رحمه الله اطلع على أنها مما رواه الليث عنه وإن لم يروها من طريقه والله أعلم

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي تدلیس کے لئے مشھور ہیں – سعيد بن أبي مريم نے لیث بن سعد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں ابو الزبیر کے پاس گیا اس نے دو کتابیں دیں ان کو لے لر واپس آیا – پھر میں نے  دل میں کہا جب اس کے پاس جاؤں گا تو اس سے پوچھوں گا کہ کیا یہ سب اس نے جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سے سنا بھی ہے ؟ لیث نے ابو الزبیر سے (واپس جا کر) سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا:  اس میں ہے جو ان سے سنا اور وہ بھی جو میں نے  ان سے روایت کر دیا ہے- میں (لیث) نے اس سے کہا: مجھے اس کا علم دو جو تم نے سنا ہو-  پس اس نے صرف وہ بتایا اور یہ اب میرے پاس ہے-اس وجہ سے ائمہ (حدیث) کی جماعت نے اس (ابو الزبیر) سے دلیل نہیں لی سوائے اس کے کہ جو لیث کی سند سے ہو – اور صحیح مسلم  میں اس کی چند روایات ہیں جس میں ابو الزبیر عن جابر کہا ہے جو لیث کی سند سے نہیں اور امام مسلم اس بات سے واقف تھے کہ اس کی لیث کی سند والی روایات کون سی ہیں ، انہوں نے اس کو اس طرق سے روایت نہیں کیا الله آعلم

یعنی یہ امام مسلم کا مخصوص عمل ہے کہ انہوں نے ائمہ حدیث کے خلاف جا کر ابو الزبیر کی جابر سے وہ روایت بھی لے لی ہیں جو لیث کے طرق سے نہ تھیں- اس سے معلوم ہوا کہ یہ  مخصوص روایت تمام محدثین کے نزدیک صحیح نہیں تھی

مسند البزار کی سند ہے

وَحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُمَيْرٍ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْكَرِيمِ الصَّنْعَانِيُّ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَقِيلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لَا أَدَعَ فِيهَا إِلَّا مُسْلِمًا» وَلَا نَعْلَمُ رَوَى وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ. إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ وَقَدْ رَوَى وَهْبٌ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ صَالِحَةً

وھب بن منبہ کہتے ہیں کہ جابر رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے … پھر یہ روایت بیان کی

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين  العلائي (المتوفى: 761هـ) کہتے ہیں

وهب بن منبه قال بن معين لم يلق جابر بن عبد الله إنما هو كتاب وقال في موضع آخر هو صحيفة ليست بشيء

وھب بن منبہ : ابن معین کہتے ہیں اس کی جابر بن عبد الله سے ملاقات نہیں ہوئی – بلکہ ایک کتاب تھی اور ایک دوسرے مقام پر کہا یہ کتاب کوئی چیز نہیں

مسند البزار کی روایت بھی ضعیف ہے

المعجم الكبير طبراني کی روایت ہے

حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى السَّاجِيُّ، ثنا بُنْدَارٌ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ النَّرْسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، ثنا أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْرِجُوا الْيَهُودَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ

أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں کہ ام سلمہ رضی الله عنہا نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود کو جزیرہ العرب سے نکال دو

اسکی سند میں يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ أَبُو العَبَّاسِ الغَافِقِيُّ ہے جن  کے لئے  ابو حاتم کہتے ہیں  أَبُو حَاتِمٍ: وَمَحَلُّهُ الصِّدْقُ، وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ ان کا مقام صدق ہے اور  ناقابل دلیل ہے – نسائی ان کو قوی نہیں کہتے ہیں الدارقطني کہتے ہیں  في بعض حديثه اضطراب سيء الحفظ ان کی بعض احادیث مضطرب ہیں اور خراب حافظہ کے حامل ہیں ابن سعد کہتے ہیں  منكر الحديث ہے

لہذا روایت ضعیف ہے

موطآ امام مالک کی روایت ہے

 وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم قَالَ لا يجتمع دينان في جزيرة العرب

امام الزہری نے کہا کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے

اس کی سند منقطع ہے – امام الزہری سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک کی سند نہیں ہے

امام مالک اس کے ذیل میں کہتے ہیں

 قَالَ مَالِك: وَقَدْ أَجْلَى عُمَر بْنُ الخَطَّابِ يَهُودَ نَجْرَانَ وَفَدَكَ. اور عمر نے نجران اور فدک کے یہود کو جلا وطن کیا

امام مالک نے وضاحت کی کہ عمر نے (صرف) نجران اور فدک (خیبر)  کے یہود کو جلاوطن کیا نہ کہ تمام جزیرہ عرب کے یہود کو-  عرب میں یمن شامل ہے اس میں یہود آج تک رہ رہے ہیں

شرح صحیح المسلم میں النووی کہتے ہیں

وَالصَّحِيحُ الْمَعْرُوفُ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهَا مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ واليمامة وَالْيَمَامَةُ وَالْيَمَنُ 

اور صحیح و معروف امام مالک سے ہے کہ جزیرہ العرب سے مراد مکہ مدینہ یمامہ اور یمن ہے

مصنف ابن ابی شیبه کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «لَا يَتْرُكُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالْمَدِينَةِ فَوْقَ ثَلَاثٍ قَدْرَ مَا يَبِيعُوا سِلْعَتَهُمْ»، وَقَالَ: «لَا يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ»

عمر رضی الله عنہ نے کہا … عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے

کتاب الأموال لابن زنجويه کی روایت ہے کہ یہ عمر رضی الله کی رائے تھی نہ کہ حدیث رسول  ہے

أنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ، أَخْرَجَ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسَ مِنَ الْمَدِينَةِ، وَضَرَبَ لِمَنْ قَدِمَهَا مِنْهُمْ أَجَلًا، إِقَامَةُ ثَلَاثِ لَيَالٍ قَدْرَ مَا يَبِيعُونَ سِلَعَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ يَدَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يُقِيمُ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، وَكَانَ يَقُولُ: «لَا يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ

ابن عمر کہتے ہیں عمر رضی اللہ نے یہود اور نصآری اور مجوس کو مدینہ سے نکال دیا اور ان کو پابند کیا کہ تین رات کی مقدار مدینہ میں بزنس کریں اور اس کے بعد تین دن سے زیادہ کوئی نہ رکے اور کہتے کہ عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے

طحآوی مشکل الاثآر میں کہتے ہیں

قَالَ: أَبُو عُبَيْدَةَ جَزِيرَةُ الْعَرَبِ بَيْنَ حَفْرِ أَبِي  مُوسَى إِلَى أَقْصَى الْيَمَنِ فِي الطُّولِ , وَأَمَّا الْعَرْضُ فَمَا بَيْنَ رَمْلِ يَبْرِينَ إِلَى مُنْقَطَعِ السَّمَاوَةِ قَالَ: وَقَالَ الْأَصْمَعِيُّ جَزِيرَةُ الْعَرَبِ مِنْ أَقْصَى عَدَنَ أَبْيَنَ إِلَى رِيفِ الْعِرَاقِ فِي الطُّولِ , وَأَمَّا الْعَرْضُ فَمِنْ جُدَّةَ وَمَا وَالِاهَا مِنْ سَاحِلِ الْبَحْرِ إِلَى أَطْرَارِ الشَّامِ

ابوعبیدہ نے کہا جزیرہ العرب حفر ابو موسی سے لے کر دور یمن تک طول میں ہے اور … الْأَصْمَعِيُّ نے کہا کہ عدن یمن سے لے کر عراق کے ملک تک ہے

سنن ابی داود کی روایت ہے

حدَّثنا محمودُ بن خالدٍ، حدَّثنا عمرُ – يعني ابنَ عبد الواحد قال: قال سعيدٌ -يعني ابنَ عبد العزيز-: جزيرةُ العرب ما بين الوادي إلى أقصى اليمن إلى تُخُومِ العِراق إلى البحر

سعيد بن عبد العزيز التّنوخي الدمشقى کہتے ہیں کہ جزیرہ العرب یمن سے لے کر عراق کی سرحد تک ہے سمندر تک

صحیح بخاری میں ہے

وَقَالَ يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ، سَأَلْتُ المُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ: فَقَالَ مَكَّةُ، وَالمَدِينَةُ، وَاليَمَامَةُ، وَاليَمَنُ، وَقَالَ يَعْقُوبُ وَالعَرْجُ أَوَّلُ تِهَامَةَ

يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ کہتے ہیں میں نے المُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سے جزیرہ العرب پر سوال کیا انہوں نے کہا مکہ مدینہ یمامہ یمن

یعنی یمن بھی جزیرہ العرب کا حصہ ہے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر یہود کو جزیرہ العرب سے نکالنے کا کوئی حکم نبوی تھا تو اس پر ابو بکر رضی الله عنہ کے دور میں عمل نہ ہوا بلکہ عمر رضی الله عنہ نے اس پر واجبی عمل کیا ؟ – اوپر عمر رضی الله عنہ کے اقوال دیے گئے ہیں کہ انہوں نے مدینہ میں یہود کے تین دن سے اوپر رہنے پر پابندی لگا دی تھی اور وہ شاید اس کو تمام عرب پر لگانا چاھتے تھے لیکن ایسا کر نہ سکے-

عثمان رضی الله عنہ نے بھی یمن کے یہود کو چھوڑ دیا بلکہ عبد الله ابن سبا جس نے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں فتنہ پردازی کی وہ بھی یمن سے تھا

مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کو مرض وفات میں نصیحت کی کہ

جب تم خلیفہ بنو تو یہود کو یمن سے نکال دینا

 اس کی سند میں قيس ابن الربيع الأسدي الكوفي متکلم فیہ راوی ہے

وقال ابن هانىء: وسئل (يعني أبا عبد الله) عن قيس بن الربيع؟ فقال: ليس حديثه بشيء. «سؤالاته» (2267

ابن ہانی کہتے ہیں میں نے امام احمد سے قیس پر سوال کیا کہا اس کی حدیث کوئی چیز نہیں 

وقال المروذي: سألته (يعني أبا عبد الله) عن قيس بن الربيع، فلينه

مروزی کہتے ہیں امام احمد سے قیس پر سوال کیا تو انہوں نے کہا اس میں کمزوری ہے

  تاریخ کے مطابق علی رضی الله عنہ خود مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہوئے یعنی جزیرہ العرب (جو بقول روایات  عمر نے یہود سے خالی کرا دیا تھا  )   اس کو چھوڑ کر یہود جہاں رہتے تھے (یعنی عراق و بابل) وہاں منتقل ہو گئے

یہ تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی حکم نبوی نہ تھا اگر ہوتا تو خلفا اربع سب سے پہلے اس پر عمل کرتے-

سوال ہے کیا کوئی وصیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

صحیح بخاری کی روایت ہے

طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى – رضي الله عنهما -: هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -؟ , فَقَالَ: لَا , قُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الْوَصِيَّةُ؟ , أَوْ فَلِمَ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ؟ , قَالَ: ” أَوْصَى بِكِتَابِ اللهِ – عزَّ وجل

طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ کہتے ہیں میں نے صحابی رسول عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رضی الله عنہ سے سوال کیا کہ کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وصیت کی ؟ انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا کیسے جبکہ مسلمانوں پر وصیت فرض ہے یا ان کو وصیت کا حکم ہے ؟ عبد الله نے کہا انہوں نے کتاب اللہ کی وصیت کی

صحیح مسلم کی روایت ہے

حدَّثنا مُسدَّدٌ ومحمدُ بن العلاءِ، قالا: حدَّثنا أبو معاويةَ، عن الأعمشِ، عن أبي وائلٍ، عن مسروقٍ عن عائشة، قالتْ: ما تركَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم – ديناراً، ولا درهماً، ولا بعيراً، ولا شاةً، ولا أوصىَ بشيءٍ

عائشہ رضی الله عنہآ فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نہ دینار چھوڑا نہ درہم نہ بعیر نہ بکری اور نہ کسی چیز کی وصیت کی

مسند احمد کی روایت ہے

عَنِ الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهما – مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى الشَّامِ … فَمَاتَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – وَلَمْ يُوصِ

الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہ کے ساتھ مدینہ سے شام تک کا سفر کیا …. (اس دوران سوالات کیے).. ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا – رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور انہوں نے کوئی وصیت نہ کی

شعيب الأرنؤوط اور احمد شاکر اس کو إسناده صحيح کہتے ہیں

یعنی عبد بن ابی اوفی رضی الله عنہ ، عائشہ رضی الله عنہا اور ابن عباس رضی الله عنہ سب بیان کر رہے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہیں کی

اب ایک اور روایت صحیح بخاری میں ہے جو ان تمام اوپر والی روایات کی مخالف ہے

سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل کہتے ہیں انہوں نے  سَعِيدَ بْنَ جُبَيْر سے سنا انہوں نے َ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سے سنا … ابن عباس کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تین وصیتیں کیں

أَخْرِجُوا المُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ

مشرکین کو جزیرہ العرب سے نکال دینا

وَأَجِيزُوا الوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ

وفود کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنا جیسا میں کرتا ہوں

تیسری وصیت راوی سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل  بھول گیا

عجیب بات ہے یہ اتنی اہم وصیت جو ابن عباس سے سعید بن جبیر نے سنی انہوں نے کسی اور کو نہ بتائی

 صحیح بخاری میں سفیان بن عینیہ کہتے ہیں سلیمان الأَحْوَل بھول گیا تھا  اور اگر سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل بھول گیا تو کوئی اور راوی  ہی بتا دیتا – سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل بصرہ کے ہیں اور  المدائن  میں قاضی تھے – تاریخ بغداد میں ہے

علي بْن عبد اللَّه ابْن المديني، قَالَ: سمعت يحيى بْن سعيد، وذكر عنده عاصم الأحول، فقال يحيى: لم يكن بالحافظ

علی المدینی کہتے ہیں انہوں نے یحیی بن سعید کو سنا اور ان کے سامنے عاصم الأحول کا ذکر ہوا انہوں نے کہا حافظ نہیں ہے

 اس کے برعکس  مصنف عبد الرزاق اور مسند الحمیدی کے مطابق سلیمان  الأحول خود کہتے

  فَإِمَّا أَنْ يَكُونَ سَعِيدٌ سَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ عَمْدًا، وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا

پتا نہیں سعید بن جبیر اس تیسری وصیت پر عمدا خاموش رہے یا انہوں نے کہا بھول گئے

یعنی تیسری وصیت کو میں نے نہیں سعید بن جبیر بھولے یا چھپایا

واضح رہے کہ اس موقعہ پر ایک حدیث پیش کی جائے جس میں ہے کہ جس نے کوئی علمی بات جو اس کو پتا ہو چھپایا اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا

یہ کیسے ممکن ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک وصیت جو امت میں صرف سعید بن جبیر کو پتا تھی اور انہوں نے بھی صرف سلیمان الأحول کو بتائی وہ خود یا سلیمان اس کو بھول گئے؟  دوم یہود نہیں بلکہ مشرکین کو نکالنے کا حکم دیا  سوم  قرآن  سوره النصر کے مطابق عرب میں وفات رسول تک مشرکین جوق در جوق اسلام قبول کر چکے تھے اور اسلام عرب کے تمام ادیان پر غالب تھا – -اس تناظر میں واضح ہے کہ ایسے کوئی مشرکین رہے ہی نہ تھے  جن کی کوئی اجتمآعیت ہو اور ان کو نکالنے کا کوئی حکم رہ گیا  اور مرض وفات میں اس کا حکم عام نہ کیا بلکہ صرف ابن عباس رضی الله عنہ کو دیا- یہی روایت  صحیح مسلم میں  طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ  ابن عباس رضی الله عنہ سے ایک دوسری سند سے مروی ہیں جن میں  ان تین وصیتوں کا ذکر نہیں ہے

شیعہ حضرات کو بخاری کی اس روایت سے ایک جواز مل گیا کہ وہ کہہ سکیں کہ صحابہ نے علی وصی الله کی بات چھپائی لیکن اصل میں یہ راوی کی غلطی ہے – خود ابن عباس رضی الله  عنہ کے مطابق  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہ کی

ہر راوی اپنے اپنے ذوق کے مطابق وصیت گنوا رہا تھا

بعض کہتے تھے علی کی خلافت کی وصیت کی

بعض کہتے یہود کو جزیرہ العرب سے نکالنے کی وصیت کی

بعض کہتے تھے مشرکین کو جزیرہ العرب سے نکالنے کی وصیت کی

انہی اقوال کو اب متشدد شیعہ تنظیمیں اور سنی جہادی تنظیمیں استمعال کر رہی ہیں تاکہ حکمرانوں پر جرح کر سکیں بلکہ خود شیعہ و سنی آپس میں انہی روایات کی وجہ سے الجھتے ہیں

رسول الله کی وصیت سے متعلق روایات میں جو اضطراب ہے وہ آپ نے دیکھ لیا الغرض یہود کو عرب سے نکالنا بھی ایک فرضی وصیت ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے  ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہود مدینہ کو کہا

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأَنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَرْضِ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

جان لو کہ زمین الله اور اسکے رسول کی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ تم کو جلاوطن کر دوں اس زمین سے پس تم میں جو مال پائے وہ اسکو بیچ دے اور جان لو کہ زمین الله اور اس کے رسول کی ہے

شارحیں حدیث نے اس روایت  کی تاویل کی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صرف مدینہ کے یہود کو نکالنے کا اردہ کیا تھا نہ کہ تمام عرب کے  اور جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے  مرض وفات میں زرہ گروی رکھ کر انہی یہودیوں سے آپ نے جو ادھار لیا  – کتاب  إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از القسطلاني(المتوفى: 923هـ ) میں الزركشي  نے رسول الله کے قول کی وضاحت میں کہا

إن اليهود هم بنو النضير والظاهر أنهم بقايا من اليهود تخلفوا بالمدينة بعد إجلاء بني قينقاع وقريظة والنضير والفراغ من أمرهم، لأن هذا كان قبل إسلام أبي هريرة لأنه إنما جاء بعد فتح خيبر كما هو معروف، وقد أقر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يهود خيبر على أن يعملوا في الأرض واستمروا إلى أن أجلاهم عمر -رضي الله عنه-

یہ یہودی  بنو نضیر کے (باقی رہ جانے والے لوگ) تھے اور ظاہر ہے کہ یہ وہ باقی رہنے والے یہودی تھے جو بني قينقاع وقريظة والنضير کی جلا وطنی کے بعد رہ گئے تھے ( کیونکہ انکا جلاوطن کیا جانا ) ابو ہریرہ کے اسلام لانے سے قبل  ہوا اور ابو ہریرہ فتح خیبر کے بعد (ایمان) آئے اور رسول الله نے خیبر کے یہود کو (خیبر میں) ٹہرنے کی اجازت دی کہ اپنی زمین پر عمل داری کریں اور رکیں یہاں تک کہ عمر نے انکو جلا وطن کیا

کتاب  مصابيح الجامع از  ابن الدماميني  (المتوفى: 827 ھ)  میں  ابن المنیر کا قول ہے

قال ابن المنير: لا يُتصور أن يروي أبو هريرة حديثَ بني النضير وإجلائهم، ولا أن يقول: بينا نحن في المسجد خرج علينا رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم -، ثم يقتص بإجلاء بني النضير، وذلك أن إجلاءهم في أول السنة الرابعة من الهجرة اتفاقاً، وإسلامُ أبي هريرة إنما كان بعدَ هذا بكثير، يقال: إنه أسلم في السنة السابعة، وحديثه صحيح، لكنه لم يكن في بني النضير، بل فيمن بقي من اليهود بعدهم كان – صلى الله عليه وسلم –  يتربص بجلائهم أن يوحى إليه،فتأخر ذلك إلى مرض [موته -عليه السلام-، فأُوحي إليه بإجلائهم، فأوصى أن لا يبقى دينان في جزيرة العرب] ، ثم تأخر الأمر إلى زمان عمر -رضي الله عنه

ابن المنیر کے کہا یہ متصور(ممکن) نہیں کہ اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے روایت کیا ہو بنی النضیر کی جلا وطنی کے لئے ، نہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلا اور پھر بنی النضیر کی جلا وطنی کا قصہ نقل کریں کیونکہ وہ تو چار ہجری کے شروع میں باتفاق ہوئی ہے اور ابو ہریرہ کے بارے میں بکثرت پتا ہے وہ سن سات میں اسلام لائے اور حدیث تو صحیح ہے لیکن یہ بنو النضیر سے متعلق نہیں ہو سکتی بلکہ ان کے بارے میں ہے جو یہودی (مدینہ میں) باقی رہ گئے تھے-  پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وحی کا انتظار کیا  اس بارے میں اور ارادہ موخر کیا اپنے وفات تک اور پھر اسکی وصیت کی پھر اس میں دیر ہوئی اور عمر رضی الله عنہ کے دور میں اس کو کیا گیا

اس بات پر وہی اعترض اٹھتا ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ نے اس پر عمل کیوں نہ کیا ؟ 

ممکن ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا ارادہ کیا لیکن قرآن میں جزیہ لینے  کا حکم آ گیا

قرآن میں سوره التوبة، الآية: 29 میں ہے

 قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

اور جو الله اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں کرتے جس کو الله اور اس کا رسول حرام کر رہے ہیں اور نہ وہ جن کو ہم نے کتاب دی دین حق کو تسلیم کرتے ہیں، ان سے قتال کرو،   یہاں تک کہ جزیہ دیں اپنے باتھ سے اور کم تر ہو جائیں

قرآن کا حکم ہے کہ   اہل کتاب سے جزیہ لیا جائے اور جب وہ جزیہ دیں تو ان کے اموال کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہو جاتی ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس قرانی حکم کے خلاف تمام اہل کتاب کو جزیرہ العرب سے نکالنے کا حکم دیتے

بالفرض ان روایات کو تسلیم کر بھی لیں تو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس سے کیا حاصل ہوا ؟

جزیرہ العرب سے یہود عراق و بابل میں اور مصر میں ان بستیوں میں جا کر ٹہرے ہوں گے جہاں ازمنہ قدیم سے بعثت رسول سے بھی پہلے سے رہ رہے تھے بلکہ وہ عباسی دور تک رہے – یہاں تک کہ ایک یمنی یہودی موسى بن ميمون (١)  مسلمانوں کے امیر صلاح الدین ایوبی کا سرکاری طبیب تھا  اور صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد اپنی موت تک سرکاری طبیب رہا -یہ آج تک یہود کا ایک اہم حبر ہے

(١)Maimonides

بعض یہود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف تھے لیکن رسول الله نے ان پر بالعموم کوئی زیادتی نہیں کی – ایک قبیلہ کو فتنہ پردازی پر جلا وطن کیا اور ایک کو عہد شکنی کی سزا دی لیکن ان کے علاوہ یہودی مدینہ میں رہتے رہے – صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ جب یہودی کا جنازہ گزرتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے –  احادیث کے مطابق یہودی عورتوں کا امہات المومنین کے پاس آنا جانا تھا اور وہ ان کے لئے اچھی دعآ بھی کرتیں مثلا دس ہجری میں عائشہ رضی الله عنہا کے پاس یہودی عورتیں آئیں اور واپس جاتے وقت انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا کے لئے دعا کی کہ الله ان کو عذاب قبر سے بچائے – بلکہ خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مرض وفات سے پہلے ایک یہودی کے پاس اپنا جنگی سامان گروی رکھ کر جو لیا – حدیث کے مطابق ایک مسلمان اور یہودی میں موسی اور رسول الله صلی الله علیھما کی فضیلت پر جھگڑا ہوا کہ کون افضل ہے اس بحث میں مسلمان نے یہودی کو تھپڑ مار دیا اور یہودی روتا ہوا رسول الله کے پاس پہنچ گیا – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  کہ روز محشر جب میں اٹھوں گا تو مجھ سے پہلے موسی عرش الہی کے پاس ہوں گے یعنی آپ نے حتی المقدور کوشش کی کہ ابرآہیمی ادیان میں اصول میں  اختلاف ، ذاتی عناد میں اور ظلم میں تبدیل نہ ہو اور جس کو جو فضیلت ملی اس کو تسلیم کیا جائے

یاد رہے کہ قرآن کا حکم ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو  اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو  عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو

توریت کے تین حکم

مدینہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے مد مقابل ٹھیٹھ مولوی تھے جنہوں نے دین کو پیشہ بنا رکھا تھا اور کتاب الله یعنی توریت کو چھپایا جاتا اور اس کے مقابلے پر اپنا مسلک و روایت پیش کی جاتی – مدینے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم حاکم تھے اور کئی موقعوں پر آپ نے یہود کو دین کی طرف بلایا اور صحیح بخاری کے مطابق ان کے مدارس بھی گئے

صحیح بخاری کی حدیث ہے

أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي المَسْجِدِ، خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ»، فَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ المِدْرَاسِ فَقَالَ:  أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ہم مسجد میں تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نکلے اور کہا یہود کی طرف چلو پس ہم نکلے یہاں تک کہ بیت المدارس پہنچے پس آپ نے فرمایا اسلام قبول کرو امان ملے گا اور جان لو کہ زمین الله اور اس کے رسول کے لئے ہے

ہمارے راویات پسند علماء کی غلطی ہے کہ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ سابقہ شریعت منسوخ ہے جبکہ قرآن سوره المائدہ میں  اہل کتاب کو کہتا ہے

قل ياأهل الكتاب لستم على شيء حتى تقيموا التوراة والإنجيل وما أنزل إليكم من ربكم وليزيدن كثيرا منهم ما أنزل إليك من ربك طغيانا وكفرا فلا تأس على القوم الكافرين

کہو اے اہل کتاب تم کوئی چیز نہیں جب تک تم توریت و انجیل کو قائم نہیں کرتے اور وہ جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے ان کی سر کشی و بغاوت میں ہی اضافہ ہوا – پس انکاریوں  کی حالت پر افسوس نہ کرو

یعنی قرآن میں یہ واضح ہے کہ توریت و انجیل اہل کتاب کو پتا ہے لیکن اس کو چھپاتے ہیں اور اس کو قائم نہیں کرتے-

یہ بحث  کہ اصل توریت کیا ہے اس کے لئے اس  ویب سائٹ پر کتاب

In Search of Hidden Torah

دیکھئے

اس میں اہل کتاب کی کتب اور قرآن و حدیث کا تقابل کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اصل  توریت کتاب  استثنا کے باب ١٢ یا ٢٦ میں ہے جس کا اقرار اہل کتاب آج کر رہے ہیں کہ اس کی عبرانی باقی توریت سے الگ  ہے – اس کو انگریزی میں

Book of Deuteronomy

کہا جاتا ہے – عجیب بات ہے جب بھی قرآن کہتا ہے ہم نے توریت میں یہ حکم دیا تو وہ استثنا کے اسی باب ١٢ یا ٢٦ میں موجود ہے جو آہل ایمان کے لئے نشانی ہے

تورات کا ایک حکم – رجم  کی سزا

نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس   یہودیوں کے زنا کا مقدمہ پیش ہوا –  یہود نے اس کی سزا گدھے پر بٹھا کر منہ کالا کرنا بتائی –   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت لانے اور اسکو پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : میں تورات ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ چنانچہ (اُس یہودی اور یہودیہ کے بارے میں) حکم دیا گیا اور وہ دونوں سنگ سار کر دیے گئے

تورات کتاب استثنا باب ٢٢ کی آیت  ٢٠  اگر کوئی شادی شدہ مرد اپنی بیوی میں باکرہ ہونے کی علامت نہ پائے تو ایسی عورت کو سنگسار کر دو

استنسنا2121

یہودیوں میں توریت پر فقہی مباحث جاری تھے اور اس مجموعے کو تلمود کہا جاتا ہے اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں یروشلم اور بابل میں کام جاری تھا تلمود کے مطابق( سات) بڑے گناہوں  کی سزا کوڑے ہے اور قتل یا رجم نہیں کیونکہ زنا کی سزا کے لئے دو گواہ ہونے چاہییں – اگردو گواہ مرد و عورت کو حالت زنا میں دیکھیں اور بولیں الگ ہو جاؤ اور وہ زانی الگ ہو جائیں تو توریت کا حکم نہیں لگے گا -یہ علماء کا فتوی تھا جو تلمود میں ہے-  لیکن مدنیہ والے ان سے بھی ایک ہاتھ آگے تھے انہوں نے فتوی دیا کہ صرف گدھے پر منہ کالا کر کے بیٹھا دو- نہ کوڑے کی سزا دے رہے تھے جو تلمود میں ہے،  نہ رجم کر رہے تھے جو توریت میں ہے

تفصیل کے لئے  کتاب دیکھئے

The Religious and Spiritual Life of the Jews of Medina
By Haggai Mazuz, Brill Publisher, 2014

صحیح مسلم کی ایک مدلس الْأَعْمَشِ کی عن سے  روایت میں ہے مَجْلُودًا   کہ ان یہودیوں کو کوڑے بھی مارے گئے لیکن  یہ روایت غریب اور شاذ  ہے کوڑے مارنے کا  مجموعہ کتب حدیث میں کہیں اور  ذکر نہیں ہے جس حدیث میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہے وہاں صرف منہ کالا کرنا اور گدھے پر بیٹھانا لکھا ہے

رجم کا یہ حکم توریت سے لیا گیا اور اخلاقا یہ ممکن نہیں کہ یہودیوں کے زانی کو تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم توریت کا حوالہ دے کر رجم کا حکم دیں اور مسلمانوں کو بچا لیں لہذا  شادی شدہ مسلمان زانی کے لئے یہی حکم جاری ہوا

عینی عمدہ القاری میں لکھتے ہیں کہ بعض معتزلہ اور خوارج نے  رجم کی سزا کا انکار کیا – اسی طرح بعض اہل سنت کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس سلسلے میں انے والی صحیح و ضعیف روایات کو ملا کر ان پر تبصرہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان تمام روایات میں اضطراب ہے –   دوسری طرف روایت پسند علماء نے رجم کی ایک ایک روایت کو صحیح کہہ دیا جس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے اور الجھ گیا – عصر حاضر میں   مصری علماء مثلا محمد الصادق عرجون نے رجم  کی روایات پر جرح کی  – اسی طرح برصغیر میں جاوید احمد غامدی نے اس سزا کو واپس موضوع بحث بنایا اور اس پر اپنی کتاب میزان میں تبصرہ کیا اور اپنی ویب سائٹ پر اس سسلے کی ضعیف و صحیح روایات باہم ملا کر ان پر تبصرہ کر دیا-

غامدي صاحب رجم کی سزا کو مانتے ہیں کہ یہ دی جا سکتی ہے لیکن اس کی دلیل وہ سوره المائدہ سے لیتے ہیں کہ جو لوگ بغاوت کریں اور فساد کریں ان کو سولی دی جائے، ملک بدر کیا جائے، ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دے جائیں –

سوره المائدہ کی آیت ٣٣ ہے

بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا زمین سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے

اس طرح غامدی صاحب رجم کی سزا کو فساد فی الارض کے زمرے میں یا لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ  لے کرموقف رکھتے ہیں کہ حاکم وقت چاہے تو یہ سزا دے سکتا ہے اس کا تعلق خاص شادی شدہ زانی کے لئے نہیں بلکہ اس موقف کے تحت غیر شادی شدہ کو بھی رجم کی سزا دی جا سکتی ہے اگر وہ غنڈہ ہو اور زنا بالجبر کرتا ہو- اس کے لئے ان کی تحاریر دیکھی جا سکتی ہیں – لیکن اس موقف میں کئی خامیاں ہیں اول سوره المائدہ کی آیات قرآن كي سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے جس میں  اليوم أكملت لكم دينكم   کی آیت بھی ہے – قرطبی کہتے ہیں سوره المائدہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے (الهداية إلى بلوغ النهاية في علم معاني القرآن وتفسيره)- کہا جاتا ہے مَا نَزَلَ لَيْسَ فِيهَا مَنْسُوخٌ اس میں سے کچھ منسوخ نہیں ہے (تفسیر القرطبی) –  محمد سيد طنطاوي التفسير الوسيط للقرآن الكريم میں کہتے ہیں أن سورة المائدة من آخر القرآن نزولا بے شک سوره المائدہ قرآن میں سب سے آخر میں نازل ہوئی – سوره المائدہ کی آیات حجه الوداع پر مکمل ہوئیں یعنی ١٠ ہجری میں اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی –  اب مسئلہ یہ اٹھتا ہے دور نبوی میں جن افراد کو رجم کی سزا دی گئی وہ سب ظاہر ہے اس سوره المائدہ کے نزول کے بعد ہی دی گئی ہو گی تو اس ایک سال میں اتنے سارے لوگوں کو رجم کیا گیا – مدینہ میں ایسی کیا ہیجانی کیفیت تھی کہ حجه الوداع کے بعد اتنی زنا بالجبر کی کروائیاں ہو رہی تھیں اس کی تہہ میں کیا تحریک پوشیدہ تھی ؟ غامدی صاحب اس سب کو گول کر جاتے ہیں اور چونکہ ایک عام آدمی اس سب سے لا علم ہے وہ ان کی تحقیق کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا ہے  اور اس پر ان کی تحقیق کا جھول واضح نہیں ہوتا – دوم سوره النور  میں جو زانی کی سزا ہے اور بقول غامدی صاحب  ” چنانچہ یہ آیت بھی اِس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، اُس کے جرم کی انتہائی سزا قرآن مجید کی رو سے سو کوڑے ہی ہے ۔ قرآن کی اِن دونوں آیات میں سے سورۂ نور کی آیت ۸ کے بارے میں کوئی دوسری رائے ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی ” (برہان از جاوید غامدی)  – یعنی غامدی صاحب کے نزدیک  سوره النور کی آیات  کا تعلق  شادی شدہ یا غیر شادی شدہ دونوں سے ہے – سوال ہے کیا اس کا  حکم  سوره المائدہ کی آیت سے منسوخ ہے ؟  اپنی مختلف تحاریر میں اس سے خوبصورتی سے کترا جاتے ہیں

غامدی صاحب کی پیش کردہ روایات مندرجہ ذیل ہیں جن سب کو صحیح سمجھتے ہوئے انہوں نے ان میں اضطراب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے

رجم کی ضعیف روایات

مسند احمد کی روایت ہے

 عن الشعبی ان علیاً جلد شراحۃ یوم الخمیس ورجمھا یوم الجمعۃ وقال: اجلدھا بکتاب اللّٰہ وارجمھا بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.(احمد، رقم ۸۳۹) ’

 شعبی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے شراحہ نامی عورت کو جمعرات کے دن کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن اُسے رجم کرا دیا اور فرمایا: میں نے اِسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سنگ سار کرتا ہوں۔‘‘

کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

عامر بن شراحيل الشعبي أحد الأئمة روى عن علي رضي الله عنه…..وهو لا يكتفي بمجرد إمكان اللقاء

عامر بن شراحيل الشعبي ائمہ میں سے ایک ہیں علی سے روایت کرتے ہیں اور…. یہ امکان لقاء کی بنیاد پر مجردا صحیح نہیں

یعنی شعبی کا سماع علی رضی الله عنہ سے مشکوک ہے

دوسری ضعیف روایت

 سنن ابو داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى الْبَزَّازُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، «أَنَّ رَجُلًا زَنَى بِامْرَأَةٍ فَلَمْ يَعْلَمْ بِإِحْصَانِهِ، فَجُلِدَ، ثُمَّ عَلِمَ بِإِحْصَانِهِ، فَرُجِمَ

 عن جابر ان رجلاً زنیٰ بامراۃ، فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجلد الحد، ثم اخبر انہ محصن فامر بہ فرجم.(ابوداؤد، رقم ۴۴۳۸)

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

کہ ایک شخص نے کسی عورت کے ساتھ بدکاری کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں سزا کا حکم دیا ۔ چنانچہ اُسے کوڑے لگائے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ محصن (شادی شدہ) ہے تو حکم دیا گیا اور اُسے رجم کر دیا گیا۔

اس کی سند میں محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مدلس ہے –  کتاب التبيين لأسماء المدلسين از  ابن العجمي کے مطابق   مشهور بالتدليس یہ تدلیس کے لئے مشھور ہے- البانی اس  روایت کو ضعیف کہتے ہیں

تیسری ضعیف روایت

طبقات الکبری از ابن سعد کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي هشام بن عاصم بن الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ حَمْزَةَ بْنِ سِنَانٍ كَانَ قَدْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَدِمَ الْمَدِينَةَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنْ يَرْجِعَ إِلَى بَادِيَتِهِ فَأَذِنَ لَهُ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالضَّبُّوعَةِ عَلَى بُرَيْدٍ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى الْمَحَجَّةِ إِلَى مَكَّةَ لَقِيَ جارية من العرب وضيئة فنزعه الشَّيْطَانُ حَتَّى أَصَابَهَا وَلَمْ يَكُنْ أُحْصِنَ. ثُمَّ نَدِمَ فَأَتَى النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَأَخْبَرَهُ فَأَقَامَ عَلَيْهِ الْحَدَّ. أَمَرَ رَجُلا أَنْ يَجْلِدَهُ بَيْنَ الْجِلْدَيْنِ بِسَوْطٍ قَدْ رُكِبَ بِهِ ولان.

عمرو بن حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں حاضر تھے ۔ وہ مدینہ آئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت چاہی کہ اپنے بادیہ کی طرف لوٹ جائیں۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی تو نکلے، یہاں تک کہ جب مدینہ سے مکہ کی طرف راستے کے درمیان ایک منزل ضبوعہ پہنچے تو عرب کی ایک خوب صورت لونڈی سے ملاقات ہوئی۔ شیطان نے اکسایا تو اُس سے زنا کر بیٹھے اور اُس وقت وہ محصن نہ تھے۔ پھر نادم ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو بتایا۔ چنانچہ آپ نے اُن پر حد جاری کر دی

اس نسخہ میں اس روایت کی سند میں غلطی ہے کتاب تلخيص المتشابه في الرسم از  الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ)  کے مطابق اصل میں راوی يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ الأَسْلَمِيُّ الْمَدِينِيُّ ہے جو  الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ سے روایت کرتا ہے اور یحیی سے مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ نے  كِتَابِ الْمَغَازِي میں روایت لکھی ہے- لہذا یہی راوی ہے جس سے واقدی نے روایت کیا اور ان سے ابن سعد نے – اب  چاہے یہ يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ  ہو یا هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ  – دونوں کا حال مجھول ہے

لہذا روایت ضعیف ہے

چوتھی ضعیف روایت

سنن ابو داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ الْبُرْدِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ فَيَّاضٍ الْأَبْنَاوِيِّ، عَنْ خَلَّادِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ  ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ” أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَكْرِ بْنِ لَيْثٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَرَّ أَنَّهُ زَنَى بِامْرَأَةٍ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَجَلَدَهُ مِائَةً، وَكَانَ بِكْرًا، ثُمَّ سَأَلَهُ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمَرْأَةِ، فَقَالَتْ: كَذَبَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَلَدَهُ حَدَّ الْفِرْيَةِ ثَمَانِينَ “

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلۂ بکر بن لیث کا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے چار مرتبہ اقرار کیا کہ اُس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے ۔ وہ کنوارا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سو کوڑے لگوائے ۔ پھر اُس سے عورت کے خلاف ثبوت چاہا تو اُس بی بی نے کہا : اللہ کی قسم ، اِس نے جھوٹ بولا ہے ، یا رسول اللہ ۔ اِس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے قذف کے اسی کوڑے لگوائے

البانی اس  روایت کو منکر کہتے ہیں

پانچویں ضعیف روایت

أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ , أَنَّهُ بَلَغَهُ , أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أُتِيَ بِامْرَأَةٍ قَدْ وَلَدَتْ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ , فَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُرْجَمَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: لَيْسَ ذَلِكَ عَلَيْهَا ,وقد قال اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ: {وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاَثُونَ شَهْرًا} , وَقَالَ: {وفصاله في عامين} وقال: {وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ} قال: والرضاعة أربعة وعشرون شهراً والْحَمْلُ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فأمر بها عُثْمَانُ أن ترد , فَوَجَدَت قَدْ رُجِمَتْ

ایک عورت نے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں شادی کے بعد چھ ماہ میں بچا جنا – اس کا مقدمہ عثمان رضی الله عنہ پر پیش ہوا انہوں نے اس کو رجم کرا دیا –  بعد میں جب ان کو سمجھایا گیا کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے تو انہوں نے حکم واپس لیا لیکن اس وقت تک عورت رجم کی جا چکی تھی

موطآ امام مالک کی روایت ہے کہ امام مالک کو یہ بات پہنچی ہے – امام مالک نے اس کی سند نہیں دی لہذا یہ بھی ایک ضعیف روایت ہے- اگر اس کو صحیح مانا جائے تو خلیفہ اور اس کی شوری کی اجتماعی غلطی ہے جبکہ اس میں جلیل القدر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم شامل ہیں  اور ان سے یہ غلطی ممکن نہیں

چھٹی ضعیف روایت

مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے جو مسروق کا قول ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: «الْبِكْرَانِ يُجْلَدَانِ أَوْ يُنْفَيَانِ، وَالثَّيِّبَانِ يُرْجَمَانِ وَلَا يُجْلَدَانِ، وَالشَّيْخَانِ يُجْلَدَانِ وَيُرْجَمَانِ

کنوارے زانی کی سزا سو کوڑے اور جلا وطنی ہے۔ شادی شدہ زانی کو صرف رجم کی سزا دی جائے گی اور بوڑھے زانیوں کو پہلے کوڑے مارے جائیں گے او ر اِس کے بعد رجم کیا جائے گا

یہ نہ مرفوع حدیث ہے نہ موقوف قول صحابی ہے نہ مرسل روایت ہے – یہ ایک تابعی کا قول ہے- دلیل نہیں بن سکتا

ساتویں روایت ہے

صحیح مسلم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَالرَّجْمُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے لو ، مجھ سے لو ،مجھ سے لو ، زانیہ عورتوں کے معاملے میں اللہ نے ان کے لئے رستہ نکالا (جو حکم نازل کرنے کا وعدہ کیا تھا، وہ نازل فرما دیا )۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیرشادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ مرد کی شادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور رجم

اسکی سند میں الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ ہیں  جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں – اس روایت کا کوئی اور طرق نہیں ملا اور دیگر روایات کے خلاف ہے لہذا ضعیف ہے

  مسند الإمام الشافعي  میں اس روایت پر ہے

وَقَدْ حَدَّثَنِي الثِّقَةُ: أنَّ الحَسَنَ كانَ يَدْخُلُ بَيْنَهُ وبينَ عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي

اور ایک ثقہ نے بتایا کہ حسن بصری اپنے اور عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي کے درمیان ایک دوسرے شخص کو داخل کرتے تھے

مسند البزار میں ہے

 وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ  الْحَسَنِ، عَنْ عُبَادَةَ مُرْسَلًا

اور ایک سے زیادہ نے اس کو حسن بصری سے انہوں نے  عبادہ سے مرسل  روایت  کیا ہے

یعنی صحیح مسلم کی یہ روایت ضعیف ہے اور اس کو صحیح میں لکھنا امام مسلم کی غلطی ہے ان  کے ہم عصر علماء اس کو مرسل کہتے تھے

اب ان تمام روایات سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا یا ان کو صحیح روایات کے ساتھ ملا کر خلط مبحث کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ یہ  ہیں ہی ضعیف  روایات – غامدی صاحب نے ان ضعیف روایات کو صحیح سے ملا کر ایک کھچڑی بنا دی ہے اور پھر اس طرح تمام روایات پر جرح کرکے  آن روایات میں اضطراب ثابت کیا جاتا ہے – حقیقیت میں اوپر والی روایات ضعیف ہیں

رجم سے  متعلق  بعض صحیح روایات

سنن النسائی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا يَحِلُّ دَمَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: زَانٍ مِحْصَنٌ يُرْجَمُ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا فَيُقْتَلُ، أَوْ رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ لِيُحَارِبَ اللهَ عَزَّ وَجَلّ وَرَسُولَهُ فَيُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کا خون صرف تین صورتوں میں حلال ہے : ایک شادی شدہ زانی  اُسے رجم کیا جائے گا۔ دوسرے وہ شخص جس نے کسی کو جان بوجھ کر قتل کیا ہو، اُسے اس شخص کے قصاص میں قتل کیا جائے گا ۔ تیسرے وہ شخص جو اسلام چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول سے آمادۂ جنگ ہو ، اُسے قتل کیا

جائے گا یا سولی دی جائے گی یا وہ جلا وطن کر دیا جائے گا

البانی اس کو صحیح کہتے ہیں

نتیجہ :  ایک شادی شدہ زانی  رجم کیا جائے گا۔

صحیح بخاری کی روایت ہے

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ اور زین بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے ان میں سے ایک نے کہا ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے دوسرے نے کہا ہاں یا رسول اللہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے اور مجھ کو واقعہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔اس نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدوری کرتا تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا ۔میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی۔پھر میں نے علماء سے مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگساری کی سزا اس کی عورت کو ملے گی (اس لئے کہ وہ شادی شدہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سن کر فرمایا۔خبردار قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔تیری لونڈی اور تیری بکریاں تجھ کو واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انیس! تو اس عورت کے پاس جا اگر وہ جرم کا اقرار کرے تو اس کو سنگسار کر دے چنانچہ عورت نے اقرار کیا اور انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر دیا۔(بخاری و مسلم)

روایت اپنے متن میں بالکل واضح ہے کہ شادی شدہ عورت  کو رجم کر دیا گیا اور شریعت کا حکم آگے پیچھے کرنے کے جرم میں  کنوارے آدمی کو سو کوڑے کے ساتھ جلا وطن بھی کیا گیا – غامدی صاحب  نے اس کو تفتیش کا کیس بنا کر بیانات و شواہد کا  مطالبہ کیا ہے جو صرف اور صرف خلط مبحث ہے اور اس بحث سے روایت میں جو بیان ہوا ہے اس پر کیا اثر پڑتا ہے ؟  غیر شادی شدہ نے ایک شادی شدہ کے ساتھ زنا کیا – مجرم کے باپ نے معاملہ ڈیل میں تبدیل کیا لیکن بلاخر مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک پہنچا – یہ کس قسم کا خاندان تھا یا یہ کوئی سازش تھی یہ غیر ضروری سوالات ہیں کیونکہ یہ اعتراض تو کسی بھی مقدمہ پر ہو سکتا ہے

نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو کوڑے مارے جائیں گے اور اگر ڈیل کرنے کی کوشش کرے تو جلا وطن بھی کیاجائے گا

يه روایت دلیل ہے کہ  اگر کوئی غیر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے بدکاری کا ارتکاب کرے تو اُس کی سزا  غیر شادی شدہ کے لئے کوڑے  ہونی چاہیے

لیکن اگر   شادی شدہ مرد یا عورت  غیر شادی شدہ مرد یا  عورت سے زنا کرے تو شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا

موطأ  اور بخاری كي ایک   روایت

امام مالک ، امام یحییٰ بن سعید سے وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے کہا

قَالَ:  إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ». أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ. فَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ: زَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى لَكَتَبْتُهَا – الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ – فَإِنَّا قَدْ قَرَأْنَاهَا

قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ:، قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: «فَمَا انْسَلَخَ ذُو الْحِجَّةِ حَتَّى قُتِلَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ» قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: قَوْلُهُ الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ يَعْنِي: «الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ

تم آیت رجم کا انکار کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے بچو۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے والے کہیں کہ ہم تو اللہ کی کتاب میں دو سزاؤں (تازیانہ اور رجم) کا ذکر کہیں نہیں پاتے ۔ بے شک ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا او ر ہم نے بھی ۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، مجھے اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کر دیا تو میں یہ آیت : الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ  ’’بوڑھے زانی اور بوڑھی زانیہ کو لازماً رجم کردو ، قرآن مجید میں لکھ دیتا، اِس لیے کہ ہم نے یہ آیت خود تلاوت کی ہے ۔

امام مالک نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ سعید بن المسیب نے کہا  الشَّيْخُ وَالشَّيْخَة  سے مراد الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ   (شادی شدہ زانی) ہے – یہ ادبی انداز ہے کہ انداز ہے کہ بڈھا یا بڈھی کو رجم کرو اس میں یہ مستمر ہے کہ وہ شادی شدہ ہیں –

موطا کی  روایت  کی سند کا مسئلہ ہے کہ اس میں سعید بن المسیب کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از العلائي (المتوفى: 761هـ)  کے مطابق

قال يحيى القطان سعيد بن المسيب عن عمر رضي الله عنه مرسل

یحیی بن سعید جو اس روایت کے ایک راوی ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب کی عمر رضی الله عنہ سے روایت مرسل ہے

کیونکہ سعید بن المسیب  ، عمر رضی الله عنہ کے دور میں پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کو دیکھا  کچھ سنا نہیں

شاید اسی وجہ سے امام بخاری نے یہ روایت ایک دوسری سند سے دی ہے – امام بخاری اس کو عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کی سند سے صحیح میں دو جگہ لکھا ہے

(عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ) بے شک ، اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور اُن پر اپنی کتاب نازل کی۔ اُس میں آیت رجم بھی تھی ۔ چنانچہ ہم نے اُسے پڑھا اور سمجھا اور یاد کیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی بنا پررجم کیا اور اُن کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ کہنے والے کہیں گے کہ ہم تو رجم کی آیت اللہ کی کتاب میں کہیں نہیں پاتے اور اِس طرح اللہ کے نازل کردہ ایک فرض کو چھوڑ کر گم راہ ہوں گے ۔ یاد رکھو، رجم اللہ کی کتاب میں ہر اُس مرد و عورت پر واجب ہے جو شادی کے بعد زنا کرے

نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا

غامدی صاحب نے الشیخ اور الشیخہ سے ایک بوڑھا اور بوڑھی لیا اور اس کو ایک مہمل بات قرار دیا ہے – حالانکہ جب بات زنا کے  تناظر میں ہو تو اس کو سمجھنا مشکل نہیں – مثلا آج الشیخ کا لفظ علماء کے لئے عرب ملکوں میں عام ہے کسی کو الشیخ بولا جائے تو وہ ہو سکتا ہے کوئی امیر آدمی ہو یا عالم ہو یا قبیلہ کا سردار ہو- آج سیدنا کا لفظ انبیاء کے ساتھ استعمال ہونے لگا ہے خود غامدی صاحب بھی کرتے ہیں لیکن سو سال پہلے اس طرف انبیاء کے ساتھ سیدنا نہیں لکھا جاتا تھا – اسی طرح  علم حدیث کے قدیم قلمی نسخوں  میں کہیں بھی انبیاء کے ناموں کے ساتھ صلی الله علیہ وسلم یا علیہ السلام نہیں لکھا ملتا لیکن آج جو نئی کتب چھپ رہی ہیں ان میں یہ لاحقہ عام ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں الشیخ ایک عمر رسیده اور منجھے ہوئے شخص کے لئے بولا جاتا تھا اور عربوں میں ایسے لوگ  عموما شادی شدہ ہی ہوتے تھے-   قرآن میں شیخآ کا لفظ ہے جس کو سارہ علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کے لئے استعمال کیا  (سوره الهود)– الشيخ كبير كا لفظ يعقوب عليه السلام  کے لئے سوره یوسف میں ہے  اور شیخ مدین سسر موسی کے لئے سوره قصص میں ہے – اور سوره الغآفر میں شیوخا کا لفظ ہے –  یعنی بعض کا  یہ کہنا کہ شیخ کا لفظ غیر قرانی ہے اور مخمل میں ٹآٹ کا پیوند ہے صحیح نہیں –  الشیخ و الشیخہ کے حوالے سے   کتب شیعہ مثلا  تهذيب الأحكام للطوسي 8/195، الاستبصار ً 3/377، اور وسائل الشيعة از آلحر العاملي 15/610  میں بھی روایت ہے جس کو بعض متقدمین شیعہ جمع القرآن پر اعتراض کے حوالے سے پیش کرتے ہیں اس میں بما قضيا الشهوة کے الفاظ بھی ہیں – ان کے اس پرو پگندے سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے یہ حل نکالا کہ اس روایت کا انکار کر دیا جائے – اور اسی وجہ سے اس پر بحث کا باب کھل گیا اور دور قدیم سے ابھی تک اس میں ایک خلجان پایا جاتا ہے – فقہاء نے اس کا حل یہ دیا کہ آیت منسوخ ہوئی اور اس کا حکم باقی ہے –  اہل تشیع کے مطابق امام جعفر اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے الشيخ والشيخة فارجموهما البتة بما قضيا الشهوة  اور رجم کا حکم دیتے یعنی رجم کی سزا کا حکم ان کے ہاں بھی ہے – اہل تشیع کا جمع القرآن پر اعتراض غیر منطقی ہے کیونکہ قرآن ابو بکر رضی الله عنہ  نے جمع ضرور کیا لیکن وہ عثمان رضی الله عنہ  کے دور تک تقسیم نہیں ہوا تھا – عمر رضی الله عنہ کے دور میں بھی جو قرآن پڑھا جاتا تھا  اس کا کوئی ایک نسخہ نہ تھا مختلف قرات تھیں اور یہ قرات  علی اور عمر رضی الله عنہما اس وقت تک کر رہے تھے جس سے ظاہر ہے کہ یہ آیت نہ علی کی قرات میں تھی نہ عمر کی-  سوال اٹھتا ہے کہ شیعوں نے اس قرات کو کب اور کیوں چھوڑا اگر یہ علی رضی الله عنہ  اور اہل بیت کی قرات تھی؟ اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے اور امام جعفر کو تو پتا ہو گا کہ اصلی قرآن کیا ہے تو ایک دفعہ ہی اس کو املا کرا دیتے – انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا

بخاری کی اس حدیث میں  کسی علت کا علم نہیں ہے لہذا اس کو رد نہیں کیا جاتا – ممکن ہے رجم کی یہ آیت ہو اور منسوخ ہو گئی ہو ایسا دوسری آیات میں بھی ہوا ہے – لیکن یہاں اس کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھ سکتے ہیں

اگر کوئی رجم کی سزا  کو توریت کے تناظر میں سمجھے تو مسئلہ فورا حل ہو جاتا ہے کہ یہ حکم یہود کے لئے  توریت سے لیا گیا اور ایسا ممکن نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے  یہود پر سخت سزا اور مسلمانوں پر کم تر سزا نافذ کی جاتی –  سوال اٹھتا ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ شادی شدہ یہودی نے شادی شدہ مسلمان سے پہلے زنا کیا اور مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پیش ہوا؟  مدینہ میں یہود کے تین  بڑےقبائل تھے دو نکال دے گئے – تسرے قبیلہ بنو قريظة کے مردوں  کو قتل کیا گیا جس کا ذکر آ رہا ہے یہ سب سن ٥ ہجری ميں ہوا –  ایک روایت کے مطابق یہود نے جب زنا کی اپنی خود ساختہ سزا کو   نافذ کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان  کو کہا   کہ توریت لاو اور پڑھو تو ان کے ایک  عالم عَبْدَ اللهِ  ابْنَ صُورِيَا نے اس کو پڑھا  اور آیات پر ہاتھ رکھ کر اسکو چھپایا (مسند الحميدي، مسند أحمد، صحیح ابن حبان، شرح مشکل الآثار، البداية والنهاية ) –   سیرت  ابن اسحٰق  اور البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق یہ اس وقت عرب میں یہود کا سب سے بڑا عالم تھا  اور بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ الْفِطْيَوْنِ  میں سے تھا –- سنن الکبری البیہقی  کے مطابق اس توریت کو پڑھنے والے واقعہ کے وقت ابن صوریا کے ساتھ بنی قریظہ والے تھے – ایک دوسری روایت کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلے جن کو رجم کا حکم دیا وہ یہودی تھے (مصنف عبد الرزاق)- ان تمام شواہد کی روشنی میں واضح ہے کہ یہود پر رجم کی حد سن ٥ ہجری یا اس سے قبل لگی اور یہ مدینہ میں سب سے پہلے یہود پر لگی

توریت کا دوسرا حکم – عہد شکنی کی سزا

جنگ خندق میں بنو قریظہ  کی عہد شکنی کے معآملے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  نے سعد بن معاذ رضی الله عنہ پر فیصلہ چھوڑا – انہوں نے عہد شکنی کی سزا تجویز کی کہ  جس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بادشاہ کا فیصلہ دیا یعنی الله کا فیصلہ-

توریت کتاب استثنآ باب ٢٠ آیات ١٠  تا  ١٤ ہے

استنسنا٢٠١٣

صحیح مسلم کی روایات ہیں

۔ و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی وَابْنُ بَشَّارٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ نَزَلَ أَهْلُ قُرَيْظَةَ عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی سَعْدٍ فَأَتَاهُ عَلٰی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا قَرِيبًا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلٰی سَيِّدِکُمْ أَوْ خَيْرِکُمْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هٰٓؤُلَآءِ نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِکَ قَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ وَتَسْبِي ذُرِّيَّتَهُمْ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ اللہِ وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ وَلَمْ يَذْکُرْ ابْنُ الْمُثَنّٰی وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ۔

 ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، ابوبکر، غندر، شعبہ، سعد بن ابراہیم ابوامامہ، سہل بن حنیف،   ابوسعید رضی اللہ عنہ خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو قریظہ والوں نے   سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر اتر آنے کی رضا مندی کا اظہار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   ، سعد رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر حاضر ہوئے، جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا اپنے سردار یا اپنے افضل ترین کی طرف اٹھو، پھر فرمایا یہ لوگ تمہارے فیصلہ پر اترے ہیں سعد رضی اللہ عنہ نے کہا ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور ان کی اولاد کو قیدی بنالیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے حکم کے مطابق ہی فیصلہ کیا ہے اور کبھی فرمایا تم نے بادشاہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے، ابن مثنی نے بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کو ذکر نہیں کیا۔

مسلم کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ سعد نے  کہا کہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیں اور ان کے مال کو تقسیم کر لیں

انکار حدیث کے رد میں کہا جاتا ہے کہ یہ سزا قرآن میں نہیں لہذا یہ حدیث میں ہے جو وحی خفی یا غیر متلو کی مثال

 ہے یہ ہمارے علماء کی غلطی ہے اصلا یہ سزا توریت کی ہے – وحی غیر متلو تو تب بنتی جب یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تجویز کی ہوتی اور ہم اسکو قرآن میں نہ پاتے – یہ تو سعد کی تجویز کردہ سزا ہے اور توریت سے مطابقت رکھتی ہے اسی لئے کہا گیا کہ تم نے بادشاہ یعنی الله کے فیصلے کے مطابق حکم دیا-  سعد بن معآذ مدینہ کے قبیلہ کے سردار تھے اور یہود کا قبیلہ بھی ان کو سردار مانتا تھا

توریت کا تیسرا حکم – ارتاد کی سزا

توریت کا حکم ہے کہ مرتد کی سزا موت ہے- مرتد کے حوالے سے  غامدی صاحب  کا موقف یہ ہے کہ یہ سزا صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور کے مرتدین کے  لئے تھی جو مشرک تھے  ،اس کے بعد کسی شخص کو ارتداد کی یہ سزا نہیں دی جاسکتی ۔[برھان ،ص:۱۴۲،۱۴۳]۔ لیکن یہ دعوی بلا دلیل ہے – توریت کا انکار ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین(اسلام) تبدیل کرے اس کو قتل کردو

غامدی صاحب لکھتے ہیں

ارتداد کی سزا کا یہ مسئلہ محض ایک حدیث کا مدعا نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ابن عباس کی روایت سے یہ حدیث بخاری میں اِس طرح نقل ہوئی ہے – جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اُسے قتل کردو۔ ہمارے فقہا اِسے بالعموم ایک حکم عام قرار دیتے ہیں جس کا اطلاق اُن کے نزدیک اُن سب لوگوں پرہوتا ہے جوزمانۂ رسالت سے لے کر قیامت تک اِس زمین پر کہیں بھی اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں گے۔اُن کی راے کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنی آزادانہ مرضی سے کفر اختیار کرے گا، اُسے اِس حدیث کی رو سے لازماً قتل کردیا جائے گا۔اِس معاملے میں اُن کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہے تو بس یہ کہ قتل سے پہلے اِسے توبہ کی مہلت دی جائے گی یا نہیں اور اگر دی جائے گی تو اُس کی مدت کیا ہونی چاہیے۔فقہاے احناف، البتہ عورت کو اِس حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔اُن کے علاوہ باقی تمام فقہا اِس بات پر متفق ہیں کہ ہر مرتد کی سزا،خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اسلامی شریعت میں قتل ہی ہے۔ لیکن فقہا کی یہ راے محل نظر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو، بے شک ثابت ہے، مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا، بلکہ صرف اُنھی لوگوں کے ساتھ خاص تھا جن پر آپ نے براہ راست اتمام حجت کیا اور جن کے لیے قرآن مجید میں ’مشرکین‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

غامدی صاحب کی رائے میں اس سزا کو مشرکین پر لگایا گیا کیونکہ ان پر اتمام حجت ہو گیا تھا – لیکن کیا اہل کتاب پر اتمام حجت ہونے سے رہ گیا ظاہر ہے جس کو بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر پہنچی اس پر اتمام حجت ہو گیا اور سوره البقرہ میں اس کا مکمل بیان ہے کہ اتمام حجت میں یہود شامل ہیں

اصل میں ارتاد کی سزا کا  تعلق اصلا اہل کتاب سے ہے –  اہل کتاب  کی اسٹریٹجی تھی کہ صبح کو ایمان لاو اور شام کو کافر ہو جاؤ غامدی صاحب سوره ال عمران کی آیات ٨٢ تا ٨٤ کا ترجمہ کرتے ہیں

اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمانوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے ، اُس پر صبح ایمان لاؤ اورشام کو اُس کا انکار کردیا کر و تاکہ وہ بھی برگشتہ ہوں۔ اور اپنے مذہب والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانا کرو ۔۔۔ اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر ) کہ ہدایت تو اصل میں اللہ کی ہدایت ہے ۔۔۔ (اِس لیے کسی کی بات نہ مانا کرو کہ ) مبادا اِس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جو تمھیں ملی ہے یا تم سے وہ تمھارے پروردگار کے حضور میں حجت کرسکیں۔ اِن سے کہہ دو کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جسے چاہتا ہے عطاکردیتا ہے اوراللہ بڑی وسعت اوربڑے علم والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کرلیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

اس رجحان کو روکنے کے لئے حکم نبوی تھا کہ جو دین بدلے اس کو قتل کر دو –  یہود کے مطابق اسی حکم کی  بنیاد پر عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا فتوی دیا گیا تھا کہ اس نے  (نعوذ باللہ) ابن الله ہونے کا دعوی کیا ہے (جو اصلا یہود کا اتہام ہے) – توریت کی   استثنا کے باب ١٣ کی آیات ٦ تا ١٠ ہے

استنسنا١٣٦

ارتاد پر مشرکین اور اہل کتاب کا قتل ہوا  مثلا یمن میں جب معآذ بن جبل  رضی الله عنہ پہنچے تو دیکھا ایسا ایک مقدمہ مرتد یہودی پر چل رہا ہے انہوں نے کہا میں گھوڑے سے نہ اتروں گا جب تک اس کا قتل نہ ہو

یہودی تعداد میں کم تھے لہذا ان میں قتل کی سزا عملا ختم ہو چکی تھی  وہ توریت کی ان آیات پر عمل نہ کرنا چاہتے تھے اور قرآن نے سوره المائدہ میں اہل کتاب  کو کہا کہ جو الله کا حکم نافذ نہ کرے وہ کافر ہے وہ ظالم ہے وہ فاسق ہے

لہذا رجم ہو یا عہد شکنی ہو یا ارتاد ہو ان سب کا  حکم توریت سے لیا گیا اور اسی کو اسلام میں جاری رکھا گیا – کیا یہ منبی بر انصاف تھا کہ ان سخت حدوں کو اہل کتاب پر تو لگایا جائے لیکن اہل اسلام کو بچا لیا جائے؟ سوچئے

و سلام على من اتبع الهدى

دجالوں میں سے

منکرین حدیث اور قادیانیوں میں کیا اقدار مشترک ہیں؟

جواب

سر سید احمد خان جو ١٨١٧ میں پیدا ہوئے  اور ١٨٩٨ میں وفات ہوئی  ایک منکر حدیث تھے اور نیچری کے نام سے مشھور تھے انہوں نے تفسیر القران لکھی اور اس میں فرشتوں و جنات کے وجود، معجزات  کا انکار کر دیا – کعبه کو بطور قبلہ تسلیم نہ کر سکے اور ہر عبادت کو خام خیالی قرار دے ڈالا –  سن ١٨٣٦ ع میں مرزا غلام احمد پیدا ہوا اور سن ١٨٩١ ع میں اس نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا پھر ١٩٠١ ع میں نبوت کا دعوی کیا بحوالہ سیرت المہدی از بشیر الدین محمود- یعنی ٥٥ سال تک اس کا عقیدہ نزول مسیح کا رہا اور پھر ایک دن خود ہی مسیح بن بیٹھا

یہ دونوں افراد ہم عصر تھے ایک نے انکار حدیث اور تاویل قرآن میں شہرت پائی اور دوسرے نے جھوٹی نبوت سے- لیکن دونوں ایک بات میں ہم خیال تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہو گئی ہے – اصلی عیسیٰ کی وفات  کا انکار ان دونوں نے کیا

مرزا غلام احمد کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی موت ہو چکی ہے ان کی قبر کشمیر میں ہے بحوالہ براہین احمدیہ ص ٢٢٨ لیکن غلام احمد نزول مسیح سے مراد اپنے آپ کو لیتا تھا اور اس کے نزدیک وہ ان احادیث کا مصداق تھا جن میں ہے کہ مسیح علیہ السلام دمشق میں نازل هوں گے – اس کے نزدیک اس میں دمشق سے مراد استعارہ و تشبیہ تھی اور اس کے بقول رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس میں اجمالی علم دیا گیا تھا اور اس طرح اس کذآب نے خود کو کہا کہ اس کو مکمل علم ہوا ہے بحوالہ ازالہ اوہام ص ٣٤٦ ج دوم

احادیث میں ہے کہ مسیح علیہ السلام کا نزول دمشق میں ہو گا – اس کے  القا پر مرزا لکھتا ہے :” پس واضح ہوا کہ دمشق کے لفظ کی تاویل میں میرے پر من جانب الله یہ ظاہر کیا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات و خیالات کے پیرو ہیں جن کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی کچھ محبت اور احکام الہی کی کچھ عظمت نہیں جنہوں نے اپنی خواہشوں کو اپنا معمول بنا رکھا ہے اور اپنے نفس امارہ کے حکموں کے ایسے مطیع ہیں کہ مقدسوں اور پاکوں کا خون بھی ان کی نظر میں سہل اور آسان ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور خدا تعالی کا موجود ہونا ان کی نگاہ میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو انھیں سمجھ نہیں اتا اور کیونکہ طبیب کو بیماروں کی طرف آنا چاہیے اس لئے ضروری تھا کہ مسیح ایسے ہی لوگوں میں نازل ہو” بحوالہ حاشیہ ازالہ اوہام ص ٣٣ سے ٣٤

حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام دو زرد چادریں اورٹھے ہوئے نازل ہوں گے- اس کی اس کذاب نے تاویل کی کہ اس سے مراد ہے کہ دو بیماریاں مسیح کو ہوں گے- مرزا نے کہا” میرے سر میں کمی خواب ہے… تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ ہے اور…. نیچے رات دن کثرت پیشآب رہتا ہے” بحوالہ سیرت المہدی ج ٢ ص  ١٤٥پر

مرزا کذاب نے خود کو ہندووں کا کرشن  قرار دیا  – اس کے ایک معتقد نے لکھا :غلام احمد صاحب نے خدا سے الہام پا کر دعوی کیا :” میں مسلمانوں کے واسطے مہدی ہوں ، عسائیوں  کے لئے مسیح ہوں اور ہندووں کے لئے کرشن ہوں اور دوسری قوموں کے لئے موعود ہوں “بحوالہ تبلیغ ہدایت از مرزا بشیر احمد ص ١٦ اور ١٧ پر

مرزا کا عقیدہ تھا کہ الله ہر طرف موجود ہے لہذا نزول مسیح پر اس نے لکھآ:”  اب ظاہر ہے الله تعالی ہر جگہ موجود ہے صرف آسمان کے اندر محدود نہیں پس اس کی طرف اٹھائے جانے کے معنی آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے کس طرح ہو سکتے ہیں” بحوالہ تبلیغ ہدایت ص ٣٧ پر

قرآن کی آیت یا عیسیٰ انی متوفیک و رفعک الی کا قادیانی مرزا بشیر احمد نے ترجمہ کیا کہ

اے عیسیٰ میں ہی تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا – بحوالہ تبلیغ ہدایت

یہ ترجمہ آج تک منکرین حدیث میں مقبول ہے

مرزا کو ایک الہام انگریزی میں ہوا جس میں گرامر کی غلطیاں تھیں اس پر اس نے قرآن میں بھی گرامر کی غلطی گنوا دی

مرزا کا عقیدہ تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا امتی نبی بن سکتا ہے اور یہ خاتم النبین یعنی نبوت کی مہر کا مطلب ہے

مرزا ممکن ہے ایک نفسیانی مریض ہو اور اس دور میں چونکہ علاج معالجہ کی سہولیات نہ تھیں تو یہ اپنے القا کو وحی  سمجھتا ہو جیسا کہ اس نے خود اپنے دعوی نبوت کا اعلان کیا  پھر انکار کیا اور پھر اقرار کیا مرزا نے حقیقت الوھی میں لکھا

اللہ نے مجھ پر وحی بھیجی اور میرا نام رسل رکھا یعنی پہلے ایک رسول ہوتا تھا اورپھر مجھ میں سارے رسول جمع کر دیے گئے ہیں۔میں آدم بھی ہوں۔ شیش بھی ہوں۔ یعقوب بھی ہوں اور ابراہیم بھی ہوں۔اسمائیل بھی میں اور محمد احمد بھی میں ہوں

الله اس کے پیرو کاروں کو ہدایت دے

 

مرزا کو بطور نبی کافی لوگوں نے تسلیم کیا اور ساتھ ہی جنہوں نے نہیں کیا لیکن اس کو پڑھا ان میں انکار حدیث کا رجحان پیدا ہوا- سر سید کا مشن سیاسی تھا اور مرزا کا خالص دینی- اس طرح ایک اضطراب کی کیفیت اس دور میں پیدا ہوئی دوسری طرف اس رجحان کو اور تقویت ملتی گئی اور انکار حدیث میں تاویل قرآن بھی شامل ہو گیا اس کے لئے مرزا پرویز نے نام کمایا

غلغلہ مہدی، جہادی اورعلماء

مرجان مصطفى سالم الجوهري المتوفی ١٤٣٦ ھ   / ٢٠١٥ جس كا قلمي نام أبو عمرو عبد الحکیم حسان تھا اس نے کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان  لکھی  جس میں   اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا – اس شخص نے اہرام مصر اور آثار قدیمہ کو منہدم کرنے کا فتوی دیا یہ مصر  میں قید   میں ٢٠١٥ میں  ہلاک ہوا – یہ كلية أصول الدين جامعہ ازہر کا طالب علم تھا اور بعد میں افغانستان میں  ملا عمر کا استاد تھا – یہ یمن سے افغانستان منتقل ہوا اور سلفی جہادی سوچ رکھتا تھا-  اس شخص نے جماعة الجهاد الإسلامي کی بنیاد رکھی اور حکمرانوں کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے مزاحمت کے دوران معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا – سن ٢٠٠٣ میں  اس کی سوچ کا علمبردار اسامہ بن لادن تھا  جس کو سفید گھوڑے پر سوار دکھایا جاتا یا گویا وہ افغانوں کا مہدی تھا جو قدیم خراسان سے ظاہر ہونے کو تھا – ان کے پشتبان طالبان اس کے سحر میں گرفتار تھے جو  اپنے آپ کو انہی جھوٹی موضوع روایات کا محور سمجھ رہے تھے جو ظہور مہدی کے حوالے سے ہیں جن کو  سلفی و دیوبندی حضرات نے تعویذ کی طرح گلے میں ڈال رکھا ہے سلفی جہادی ابن تیمیہ کی متشدد سوچ سے ابھرنے والی تنظیمیں ہیں جن کی پشت پر بہت سے عرب علماء ہیں اور ان کے ہتھیار کے طور پر برصغیر و افغانستان  کے مسلمان ردعمل ظاہر کرتے ہیں – دوسری طرف برصغیر کے دیوبندی حلقوں میں بھی امام مہدی کا چرچا تھا یہاں سرفراز خان صفدر اپنی کتاب توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام میں  لکھ رہے تھے کہ طالبان نما مخلوق مسیح علیہ السلام کے ساتھ خواب میں دیکھی- مفتی شامزی  نے بھی امام مہدی پر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں کیا موضوع روایت ہوتی کیا مدلس راوی ہوتا ہے ان کو اس سے کوئی سرورکار نہ تھا – بس ایک تلاطم روایات تھا جس میں صحیح اور غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز مٹ چکی تھی- الغرض مدرسوں میں ایک کلائمیکس کا وقت تھا علماء کا سرور دیکھنے والا تھا اور نوک قلم سے جھلک رہا تھا

لیکن افسوس ایک عفریت اپنے عقب سے نکلنے کو تھا- شوق جہاد میں نظر و فکر  کے تجزیے رخصت پر جا چکے تھے  اور مہدی آخر الزمان کی رن میں آمد کے نوبت کے شور میں  سلفی و دیوبندی عوام واپس سنن اربع کی کتب کو کھنگال کر روایات مہدی جمع  کررہی تھیں

کہتے ہیں جب کسی چیز کا وقت نہ ہو اور اس کا انتظار کیا جائے تو اس کا ردعمل ختم نہیں ہوتا ہمارے لئے اہل کتاب کی تاریخ تھی کہ کس طرح ہر دور میں مسیح کا انتظار کرتے رہے اور اصلی تک کو قتل کرنے کے در پے ہوئے کہ علماء کی رائے  اصلی مسیح کی رائے سے موافقت نہ رکھتی تھی – علمائے یہود نے اس کا حل نکالا کہ الله کو مجبور کر دو کہ مسیح کو بھیجے لہذا جنگ کی اگ بھڑکاو – جنگ ہو گی مسیح آئے گا (جس کے لئے الله قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اس کو بجھا دیتا ہے) – یہی انداز ان جہادی گروہوں کا ہوا کہ  جہاد کرو مہدی آئے گا گویا ایک شعر پر ایمان لائے کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے – جبکہ یہ شعر ہی غلط ہے یہ شاعرانہ بات ہے وحی الہی نہیں-

علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں

سن ٧٠ کی دہائی میں مطووں کی فوج میں سے ایک،  محمد بن عبد الله القحطانی کو خیال آیا کہ میں مہدی ہوں ایک جماعت کثیر کو لیا حرم پر قابض ہوا اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے  جہنم واصل ہوا – اس کے ساتھ جن علماء کا اٹھنا بیٹھنا تھا ان کو بچا لیا گیا  کچھ واپس برصغیر بھی پہنچے- اس وقت اس دبی چنگاری کو بجھا دیا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن سلفی علماء اپنے من پسند لوگوں کو بچا لے گئے- ایک عالم  عبد الله بن زيد آل محمود  المتوفی ١٤١٧ ھ  نے   سچ بولتے ہوئے  المہدی کی روایات کو  کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر  میں رد کیا    اور صاف  کہا کہ یہ ایک  اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد سلفی سوچ واپس متحرک ہوئی اور  عبد العزيز بن عبد الله بن باز کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ)  نے اپنی کتاب   الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر   میں  عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور  رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا اور اگر آپ کتاب دیکھیں تو ٤١١ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کوئی علمی بات نہیں ایک منقطع روایت کو دس سے اوپر دفعہ لکھا گیا ہے کہ اس کی سند جید ہے – افسوس درس حدیث دینے والے  چوٹی کے علماء  میں اتنی قابلیت نہیں کہ ایک دفعہ ہی سند چیک کر لیں بھلا کیا روایت ہے سنئے مسند الحارث بن أبي أسامة  کی روایت ہے

حدثنا إسماعيل بن عبد الكريم، حدثنا إبراهيم بن عقيل، عن أبيه، عن وهب بن منبه، عن جابر -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «ينزل عيسى ابن مريم، فيقول أميرهم المهدي: تعال صلِّ بنا، فيقول: لا، إن بعضهم أمير بعض، تكرمة الله لهذه الأمة

جابر رضي الله عنه  سے  مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا  بے شک عیسیٰ ابن مریم  نازل ہونگے اور ان سے امیر المہدی کہیں گے   آ جائیں نماز پڑھائیں پس وہ کہیں گے نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں اللہ نے اس امت کی تکریم کی ہے

یہ روایت  منقطع ہے- کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل   کے مطابق

وهب بن منبه قال بن معين لم يلق جابر بن عبد الله

وهب بن منبه  کے لئے ابن معين  کہتے ہیں ان کی ملاقات جابر بن عبد الله سے نہیں ہوئی

اس کتاب میں ابن معین کہتے ہیں وھب  کی روایت ابن جابر سے ایک کتاب سے تھی ، یہ بھی کہا ان کے پاس ایک صحیفہ تھا

 هو صحيفة ليست بشيء

وہ صحیفہ کوئی چیز نہیں

حمود بن عبد الله اس  کتاب میں بس یہی راگ لاپتے رہے  کہ ابن قیم  اس کا ذکر کتاب  المنار المنيف   میں کرتے ہیں کہتے ہیں وهذا إسناد جيد اس کی سند جید ہے – مسلک پرستی یہ نہیں تو اور کیا ہے

انہی حلقوں میں ایک رجحان مدخلیت بھی ہے- یعنی اس سلسلے میں اس قدر لٹریچر آ موجود ہوا ہے کہ الہی توبہ جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ایڈونچرازم کا درس ہے – تکفیر ہے –  مغربی ملکوں میں پڑھنا حرام ہے، ان کی سیر حرام ہے، ان میں جانا حرام ہے – ضابطہ اخلاق اور تہذیب کا  عملا جنازہ ہی اٹھا دیا گیا ہے اور ہر جانب سے نئے  افکار کو پیش کیا جا رہا ہے کسی کو شام میں اب سفیانی نظر آ رہا ہے (یہ بھی ضعیف روایت ہے ) –  ایک اور بات جو ان گروہوں میں مشترک ہے وہ ہے کفار و اہل کتاب سے دوستی کی بحث

اب ہم پوچھتے ہیں

ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح  بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا

کیا  آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے  کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا

جب مسلمان کا دوسروں سے معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا

عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ  اہل کتاب میں سے تھیں

اہل کتاب سے شادی ہو سکتی ہے دوستی نہیں! مطلب آپ بات سمجھ نہ پائے

بقول حافظ

چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطاست

سخن شناس نئی ، دلبرا، خطا اینجاست

  بعض آیات  کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام  کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا

ایک اور کتاب دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار یا الولاہ و البراء از صالح  بن الفوزان میں بھی اسی خارجی طرز کا انداز ہے موصوف غیر مسلموں کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے حتی کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو کاتب کی نوکری تک نہ دی جائے (صفحہ ١٨ اور ١٩)- جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بنو امیہ کے خلفاء نے اہل کتاب کو اپنی بیرو کریسی میں شامل کیا انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا لیکن   یہ روایت بیہقی شعب ایمان کی   ہے

أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيُّ بِالْكُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ دُحَيْمٌ , نا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ , نا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ , عَنْ أَسْبَاطٍ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ , عَنْ أَبِي مُوسَى , فِي كَاتِبٍ لَهُ نَصْرَانِيٍّ عَجِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ كِتَابِهِ , فَقَالَ: إِنَّهُ نَصْرَانِيٌّ قَالَ أَبُو مُوسَى: فَانْتَهَرَنِي وَضَرَبَ فَخِذِي وَقَالَ: ”   أَخْرِجْهُ ” وَقَرَأَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] , وَقَالَ: {لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51] , قَالَ أَبُو مُوسَى: وَاللهِ مَا تَوَلَّيْتُهُ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ , قَالَ: ” أَمَا وَجَدْتَ فِي أَهْلِ الْإِسْلَامِ مَنْ يَكْتُبُ لَكَ لَا تُدْنِهِمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللهُ , وَلَا تَأْمَنْهُمْ إِذَا خَانَهُمُ اللهُ , وَلَا تُعِزَّهُمْ بَعْدَ إِذْ أَذَلَّهُمُ اللهُ

 اسباط بن نصر  روایت کرتا ہے سماک سے  وہ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ سے وہ ابو موسی سے کہ عمر رضی الله عنہ نے ان کے نصرانی کاتب پر تعجب کیا اور دلیل میں سوره ممتحنہ اور المائدہ کی آیات سنائی

اسکی سند میں سماک بن حرب کا تفرد ہے کتاب المختلطين از  العلائي  کے مطابق وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن حجة

نسائی کہتے ہیں جس میں یہ منفرد ہو وہ حجت نہیں ہے  دوم اسباط بن نصر  خود ایک ضعیف راوی ہے

صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩)  ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں

اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک  تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے

اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے

ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ  کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم  سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی

اصل میں اس قبیل کے علماء کا غلطی یہ ہے کہ آیات کو جو مشرکین مکہ کے لئے تھیں ان کو آج کل کے اہل کتاب پر لگا دیتے ہیں اور جو احکام اہل کتاب کے لئے تھے  ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں اور جو ان کی نہ سنے اس کو منافق قرار دے دیتے ہیں اور مسند رسالت پر براجمان ہونے کی کوشش میں ہیں اگرچہ زبان سے اس کے انکاری ہیں لیکن وہ عمل جو خالص وحی الہی سے ہی ممکن ہیں ان کی تلقین کرتے پھرتے ہیں مثلا کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے اختلاف ہوا تو اس پر مرتد کا فتوی جڑنا ، ان کی بیویوں کو علیحدگی کا حکم دینا ، ان کے حمل گروانا ، پھر معاشی بائیکاٹ اور کوئی  انکی پارٹی کا جوان مرد عامی ذہین اٹھ کر ایسے صحیح العقیدہ  مخالفین کو قتل کر دے تو اس گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا

اس خوف و دہشت میں رہنے والے علماء جس تفسیاتی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اسی میں اپنے معتقدین کو بھی مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ دین تو نصیحت کا نام ہے کچھ اور نہیں

مشرکین مکہ کا دھرم ختم ہوا تو وہ ایک فطری عمل تھا-  اس پر نوشتہ دیوار آ چکا تھا لوگ جوق در جوق اسلام میں آ رہے تھے پرانے مندروں کے بچے کچھے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان کے بت توڑے اور مندر ڈھا دیے گئے لیکن یہ صرف عرب میں ہوا- مسلمانوں نے مصر فتح کیا لیکن فرعونوں کی مورتیاں آج تک باقی رہیں – کسی من چلے کو خیال نہ آیا کہ ان تو توڑا جائے- یہ آج ان سلفی علماء کو ہی خیال کیوں آیا؟ بدھآ کے بتوں تو نہیں توڑا گیا اور عباسی خلافت تک آتش کدہ نوبہار البوزی میں اگ جلتی رہی – ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کو اسی وقت بجھا دیا جاتا

مدینہ کی سیاست ایک وقتی نوعیت کی چیز تھی- جس میں منافق اور یہود کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ تھا جس میں ان کا مقصد تھا کہ رسول الله کو کسی طرح مشرکین مکہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے اور ہم واپس مدینہ کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس کا منصوبہ الگ تھا اس تناظر میں آیات نازل ہوئیں کہ جس نے رسول الله کی مخالفت کی وہ منافق ہے اور کافر سے درپردہ دوستی سے منع کیا گیا وہ دور گزر گیا

امت مسلمہ اتنی وسیع ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس کو کوئی ختم نہ کر سکے گا لہذا علماء کو چاہیے اس نفسیاتی خوف سے باہر نکلیں  اور تہذیب کے دائرے میں  بین المذآھب ڈائلاگ کرنا سیکھیں

امت کے بدلتے اجماع

فقہ  کی اصطلاح میں اجماع کسی معاملہ پر امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ کے اتفاق کرنے کو کہتے ہیں۔  اصول کی کتابوں میں ہے  رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اہلِ حل و عقد کے کسی معاملہ میں اتفاق کا نام اجماع ہے۔

کہتے ہیں اجماع امت کا انکار کفر ہے

اس کے لئے سوره النساء کی آیت ١١٥  پیش کی جاتی ہے

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے،  بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

اجماع پر ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٣٤١ لکھتے ہیں

الطَّرِيقُ الرَّابِعُ: الْإِجْمَاعُ وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ بَيْنَ عَامَّةِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ الْفُقَهَاءِ وَالصُّوفِيَّةِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ وَالْكَلَامِ وَغَيْرِهِمْ فِي الْجُمْلَةِ وَأَنْكَرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْبِدَعِ مِنْ الْمُعْتَزِلَةِ وَالشِّيعَةِ لَكِنَّ الْمَعْلُومَ مِنْهُ هُوَ مَا كَانَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ وَأَمَّا مَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَعَذَّرَ الْعِلْمُ بِهِ غَالِبًا وَلِهَذَا اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا يُذْكَرُ مِنْ الإجماعات الْحَادِثَةِ بَعْدَ الصَّحَابَةِ وَاخْتَلَفَ فِي مَسَائِلَ مِنْهُ كَإِجْمَاعِ التَّابِعِينَ عَلَى أَحَدِ قَوْلَيْ الصَّحَابَةِ وَالْإِجْمَاعِ الَّذِي لَمْ يَنْقَرِضُ عَصْرُ أَهْلِهِ حَتَّى خَالَفَهُمْ بَعْضُهُمْ وَالْإِجْمَاعِ السكوتي وَغَيْرِ ذَلِكَ.

اجماع  پر عام مسلمانوں میں سے فقہاء اور صوفیاء اور اہل حدیث اور اہل کلام اور دیگر بھی سب متفق ہیں  اور اس کا انکار اہل بدعت نے کیا ہے  الْمُعْتَزِلَةِ وَالشِّيعَةِ  نے

یقینا مسلمانوں کی راہ چھوڑنا گمراہی ہے لیکن یہ اصل صحیح العقیدہ مسلمانوں کی بات ہے آج جس قسم کے قبر پرست، پیر پرست مسلمان ہیں کیا ان کا اجماع حجت ہے؟ یقینا یہ بات غلط ہے

اس لئے اگر کوئی اجماع ، امت میں حجت ہے ، تو وہ صرف اجماع صحابہ ہے

فقہی مسائل میں اجماع تو رہنے دیں عقائد تک میں اجماع کا انکار موجود ہے مثلا کہا جاتا ہے

جمہور کا اس بارے میں یہ مذہب ہے کہ اجماع حجت ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا واجب ہے۔ اس مسئلہ میں نظام طوسی،  شیعہ اور خوارج نے جمہور کی مخالفت کی ہے۔بحوالہ  کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر

یہاں بطور امثال چند اجماع نقل کیے جاتے ہیں جن کا انکار کیا گیا ہے

اجماع امت ١ : خضر علیہ السلام زندہ ہیں

محدث ابن الصلاح المتوفي 643 ھ (بحوالہ فتح الباري از ابن حجر) کہتے ہيں

وَقَالَ بن الصَّلَاحِ هُوَ حَيٌّ عِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ

خضر جمہور علماء کے نزديک اب بھي زندہ ہيں

امام النووي المتوفي 676 ھ شرح صحيح مسلم ميں لکھتے ہيں

جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّهُ حَيٌّ مَوْجُودٌ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَذَلِكَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ عِنْدَ الصُّوفِيَّةِ وَأَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ

جمہور علماء کے نزديک وہ زندہ ہيں اور ہمارے ساتھ موجود ہيں اور يہ بات صوفيہ اور أَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ ميں متفق ہے

کتاب شذرات الذهب في أخبار من ذهب از ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ) کے مطابق

قيل: كان ملكا وقيل بشرا وهو الصحيح، ثم قيل: إنه عبد صالح ليس بنبيّ وقيل: بل نبيّ هو الصحيح. والصحيح عندنا أنه حيّ، وأنه يجوز أن يقف على باب أحدنا مستعطيا له، أو غير ذلك.

کہا جاتا ہے وہ (خضر) فرشتہ تھے اور کہا جاتا ہے بشر تھے اور يہ صحيح ہے پھر کہا جاتا ہے کہ وہ ايک صالح بندے تھے نبي نہيں تھے اور يہ صحيح ہے اور ہمارے نزديک يہ صحيح ہے کہ وہ زندہ ہيں اور يہ بھي جائز ہے کہ کسي کے در پر رکيں اور ديں يا اسي طرح ديگر

شيعوں کے نزديک بھي خضر زندہ ہيں

ابن کثیر اس اجماع کا تفسیر میں انکار کرتے ہیں  اور اسی طرح ابن تیمیہ اور ان سے متاثر لوگ یعنی غیر مقلدین اور وہابی حضرات

اجماع امت ٢ : مردہ اپنے زائر کو پہچانتا ہے

آبن قيم کہتے ہيں اس پر اجماع ہے. ابن قيّم کتاب الروح ميں لکھتے ہيں

وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ

اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ ميّت قبر پر زيارت کے لئے آنے والے کو پہچانتي ہے اور خوش ہوتي ہے

ابن قیم کتاب اعلام الموقعین، ج ۱، ص ۳۰۔ میں امام الشافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں

حجتِ شرعیہ صرف اللہ کی کتاب، سنتِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ کا اجماع ہے۔ علم کے تین درجات ہیں کتاب حدیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم اور اس مسئلہ میں ائمہ کا اجماع جس کے بارے میں کوئی نصِ شرعی موجود نہیں ہے۔

غیر مقلدین ، مردوں کے زائر کو پہچاننے کے  عقیدے پر اجماع کا انکار کرتے ہیں جبکہ وہابیوں کی اکثریت اس کی قائل ہے

اجماع امت ٣ وہ زمین کا حصہ جو جسد نبوی کو چھو رہا ہے کعبہ سے افضل ہے

کتاب شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية  از الزرقاني المالكي (المتوفى: 1122هـ) میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت پر لکھا گیا

وأجمعوا على أن الموضع الذي ضمَّ أعضاءه الشريفة -صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض، حتى موضع الكعبة، كما قاله ابن عساكر والباجي والقاضي عياض، بل نقل التاج السبكي كما ذكره السيد السمهودي في “فضائل المدينة”, عن ابن عقيل الحنبلي: إنها أفضل من العرش، وصرَّح الفاكهاني بتفضيلها على السماوات

اور اس پر اجماع ہے کہ وہ مقام جوأعضاءه الشريفة  سے ملے ہوئے ہیں صلی الله علیہ وسلم کے  وہ افضل ہیں باقی زمین سے حتی کہ کعبه سے بھی جیسا کہ ابن عساکر اور الباجی اور قاضی عیآض نے کہا بلکہ التاج السبکی کہتے ہیں کہ  السيد السمهودي نے کتاب میں ابن عقیل حنبلی سے نقل کیا ہے کہ یہ تو عرش سے بھی افضل ہے اورالفاكهاني  نے صرآحت کی ہے کہ سات آسمانوں سے بھی افضل ہے

محدث سخاوی کتاب التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفةالمؤلف: شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن  أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) میں لکھتے ہیں

فلنرجع للنبذة الأخرى في الإشارة بألخص عبارة لما الاهتمام باستحضاره للزائر منهم وللسائر الساري في القربات التي بها يلم مما يتعلق بالمدينة الشريفة وجهاتها المبهجة المنيفة كأسمائها وارتفعت لدون مائة عند المجد منها زيادة على ثلثيها وأفضليتها على مكة وقد ذهب لكل من القولين جماعة مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة بل على العرش فيما صرح به ابن عقيل من الحنابلة
وہ ٹکڑا جو نبي صلي الله عليہ وسلم سے ملا ہوا ہے اسکي افضليت پر اجماع ہے حتي کہ کعبه سے بھي افضل ہے جو اصل شہر مدينہ سے فضليت ميں زيادہ ہے بلکہ عرش سے بھي بڑھ کر جيسا حنابلہ ميں ابن عقيل نے کہا ہے

  کتاب بدائع الفوائد از  محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية المتوفى: 751ھ کے مطابق

فائدة: هل حجرة النبي صلى الله عليه وسلم أفضل أم الكعبة؟
قال ابن عقيل: “سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي صلى الله عليه وسلم الكعبة فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش
وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح

فائدہ کیا حجرہ نبی صلی الله علیہ وسلم کعبہ سے افضل ہے؟

ابن عقیل نے کہا ایک سائل نے مجھ سے پوچھا کہ ان میں کون افضل ہے حجرہ نبی یا کعبہ؟ میں نے کہا اگر تم کہنا چاہتے ہو کہ کمرہ ؟ تو کعبہ افضل ہے لیکن اگر ارادہ ہے کہ جو اس میں ہے تو الله کی قسم نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے نہ جنت عدن نہ افلاک کے مدار کیونکہ حجرہ میں جسد ہے اگر اس کا وزن کرو تو دونوں جہان سے بھی بڑھ جائے

تمام دیوبندی اس اجماع کا اقرار کرتے ہیں لیکن غیر مقلدین اس عقیدہ پر جرح کرتے ہیں

اجماع امت ٤ قبر نبی میں رزق دیا جانا

ابن حجر کے شاگرد السخاوی کتاب القول البديع في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي

میں کہتے ہیں

يؤخذ من هذه الأحاديث أنه – صلى الله عليه وسلم – حي على الدوام وذلك أنه محال عادة أن يخلو الوجود كله من واحد يسلم عليه في ليل ونهار نحن نؤمن ونصدق بأنه – صلى الله عليه وسلم – حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا

ان احادیث سے اخذ کیا جاتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور یہ دن و رات ہر ایک آن پر سلام کہہ رہا ہے لہذا ان کا وجود روح سے خالی نہیں – ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، قبر میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے جسد شریف کو زمیں نہیں کھاتی اور اس پر اجماع ہے

رزق کا قبر میں دیا جانا دنیاوی حیات جیسا ہے جس کے دیوبندی قائل ہیں اور غیر مقلدین انکار کرتے ہیں

امام سخاوی کے بقول اس اجماعی عقیدہ کو امت نے اختیار کیا ہے

المہند میں ہے

اجماع امت ٥ : مقلد اندھے جیسا ہے

 ابن قیم  القصیدۃ النونیۃ میں لکھتے ہیں

إذ أجمع العلماء أن مقلدا للناس والأعمى هما أخوان والعلم معرفة الهدى بدليله ما ذاك والتقليد مستويان

علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر

اس امت میں مجتہدین کے  مقلد ہی زیادہ ہیں غیر مقلدین کی کبھی بھی کثرت نہ تھی تو گویا امت اندھی قرار پائی 

اجماع امت ٦ : اجماع صحابہ رضی الله عنھم کا انکار

اس امت کا سب سے اہم اجماع تھا جب وفات النبی پر اختلاف ہوا اور عمر رضی الله عنہ نے اس کا انکار کیا پھر ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے اس پر خطبہ دیا اور تمام صحابہ نے وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کا عقیدہ قبول کیا

افسوس امت میں اس کا بھی صریح انکار کر کے رسول الله کو قبر النبی میں زندہ کی صفت دی گئی ہے لہذا ایک اہل حدیث عالم کہتے ہیں

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع والی بات تو …..اس وقت ابھی رسول اللہ ﷺ قبر میں داخل ہی نہیں کیے گئے تھے، پھر وہ اجماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی موت اور دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر تھا

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

یعنی ان عالم کے مطابق اجماع تو تدفین سے پہلے ہوا اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہو گئے

دیوبندی کہتے ہیں کہ روح نبوی جسد مبارک سے نکلی ہی نہیں بلکہ قلب میں سمٹ گئی

گویا فرشتے خالی لوٹ گئے

امام بیہقی کتاب الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث  میں لکھتے ہیں

 وَالْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ بَعْدَمَا قُبِضُوا رُدَّتْ إِلَيْهِمْ أَرْوَاحُهُمْ فَهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ

اور انبیاء علیھم السلام کی روحیں قبض ہونے کے بعد واپس لوٹا دی گئیں اور اب وہ شہید کی طرح اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں

بیہقی کیا  کہہ رہے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں شاید ان کے نزدیک روحیں قبض ہونے کے بعد فرشتے زمیں و آسمان میں بھٹکتے رہے پتا نہ کر پائے کہ ان کو کہاں رکھیں لہذا واپس قبروں میں انبیاء کے جسد میں ہی روحیں واپس ڈال دی گئیں

آپ دیکھ سکتے ہیں  اس قسم کے اقوال جن  پر اجماع کا دعوی نقل کیا گیا ہے

یہ  امثال پیش کی گئی ہیں کہ امت کا حقیقت میں کسی بھی بات پر اجماع نہیں ہے بلکہ یہ اجماع کے تمام دعوے غلط ہیں اور اس کا دعوی کرنے کا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی ان گمراہ عقائد پر جرح نہ کرے

اجماع امت ٧: زیارت قبر نبوی 

امت کا ساتویں صدی تک اس پر اجماع تھا کہ قبر النبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی جائے گی

قاضی عیاض اس کا دعوی کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى میں کرتے ہیں

وَزِيَارَةُ قَبْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ الْمُسْلِمِينَ مُجْمَعٌ عَلَيْهَا، وَفَضِيلَةٌ  مُرَغَّبٌ فيها.

اور قبر  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی زیارت کرنا مسلمانوں میں سنت میں سے ایک سنت ہے اس پریہ جمع ہیں  اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں

ملا علی القاری شرح الشفا میں کہتے ہیں

زيارة قبره عليه ألسلام سنة من سنن المسلمين مجمع عليها أي مجتمع علي كونها سنة و فضيلة مرغب فيها

قبر نبوی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت مسلمانوں کی سنت میں سے ایک ہے اس پر جمع ہیں یعنی اس پر اجتماع ہے کہ یہ سنت ہے اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں

لیکن آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ اس اجماع کے انکاری تھے اور انہوں نے اس پر کتاب تصنیف کی

ابن تیمیہ کو اس بنا پر بدعتی قرار دیا جاتا ہے –

دار العلوم دیوبند کے چھپنے والے رسالہ دار العلوم میں تبریز عالم لکھتے ہیں

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Rauza%20Rasul%20SAW_MDU_7-8_July&Aug_16.pdf

إعلاء السنن  کے مولف  ظفر أحمد العثماني التهانوي ہیں اور محقق  محمد تقي عثماني ہیں

حاشیہ میں لکھا ہے

کسی سے بھی اس  (قبر نبوی کی زیارت) کا انکار منقول نہیں ہے کیونکہ اس پر اجماع ہے

اجماع امت ٨ : اہل حدیث کا لقب آجکل اپنے لئے استعمال کرنا جائز ہے 

مسلک پرستوں کا حال یہ ہے کہ اپنے فرقوں کے نام تک پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں مثلا زبیر علی از مقالات الحدیث ص ٤٥٨ میں محب الله شاہ حاشیہ میں لکھتے ہیں

تمام محدثین سے اس مرکب اضافی کا استعمال منقول ہی نہیں نہ تمام سلف کا اس پر اجماع ہے

اجماع امت ٩ : علم ہیت و رویت کا استمعال نہیں کیا جائے گا

فتح الباری ج ٤ ص ١٢٧ پر ابن حجر لکھتے ہیں

قَالَ الْبَاجِيُّ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ الصَّالح حجَّة عَلَيْهِم وَقَالَ بن بَزِيزَةَ وَهُوَ مَذْهَبٌ بَاطِلٌ فَقَدْ نَهَتِ الشَّرِيعَةُ عَنِ الْخَوْضِ فِي عِلْمِ النُّجُومِ لِأَنَّهَا حَدْسٌ وَتَخْمِينٌ لَيْسَ فِيهَا قَطْعٌ وَلَا ظَنٌّ غَالِبٌ

الباجی نے کہا کہ سلف صالح کا اجماع حجت ہے .. اور شریعت میں علم نجوم سے لو لگانا منع ہے کتونکہ یہ ظن و تخمین ہے اس میں کوئی قطعی چیز نہیں اور نہ ظن غالب ہے

ابن تيميہ نے مجموع الفتاوى ( 25 / 132 – 133 ) ميں علماء كا اتفاق بيان كيا ہے كہ رمضان اور عيد وغيرہ كے ثبوت ميں فلكى حساب پر اعتماد كرنا جائز نہيں

لیکن اس اجماع کا انکار بھی آج کل موجود ہے جب عرب ممالک میں اسلامی کلینڈر سال شروع ہونے سے پہلے ہی جاری کر دیا جاتا ہے سرکاری چھٹیاں اس کی بنیاد پر پہلے سے بتا دی جاتی ہیں یہاں تک کہ یہ کلنڈر کئی ممالک تک میں مستعمل ہے

اجماع امت ١٠ : روحیں قبرستانوں میں رہتی ہیں

عبد البر المتوفی ٤٦٣ ھ کا عقیدہ تھا کہ روحیں قبرستان میں ہی قیامت تک رہتی ہیں اسی بنا پر صوفیا قبر پر مراقبہ کر کے کشف قبور کرتے ہیں

ابن حجر عسقلانی اپنے خط میں کہتے ہیں جو  کتاب الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع  کے ساتھ چھپا ہے  خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں

ما معرفَة الْمَيِّت بِمن يزروه وسماعه كَلَامه فَهُوَ مُفَرع عَن مَسْأَلَة مَشْهُورَة وَهِي أَيْن مُسْتَقر الْأَرْوَاح بعد الْمَوْت فجمهور أهل الحَدِيث عل أَن الْأَرْوَاح على أقنية قبورها نَقله ابْن عبد الْبر وَغَيره

جمہور اہل حدیث کا مذھب ہے کہ ارواح قبرستان میں ہیں جس کو ابن عبد البر اور دوسروں نے نقل کیا ہے

لیکن اس جمہور کے مذھب کو بھی فرقے چھوڑ چکے ہیں فرقہ اہل حدیث آج کل سن ٢٠٠٠ سے کہہ رہا ہے کہ روحیں صرف چند سوالات کے لئے قبر میں اتی ہیں پھر واپس نہیں آتیں

اجماع امت ١١ : یزید بن معاویہ پر لعنت کی جائے

کتاب فیض القدیر میں المناوی نے لکھا

أطلق جمع محققون حل لعن يزيد به حتى قال التفتازاني: الحق أن رضى يزيد بقتل الحسين وإهانته أهل البيت مما تواتر معناه وإن كان تفاصيله آحادا فنحن لا نتوقف في شأنه بل في إيمانه لعنة الله عليه وعلى أنصاره وأعوانه

جمیع محققین  نے یزید پر لعنت کرنے کے حلال ہونے کا اطلاق کیا ہے یہاں تک کہ تفتازانی نے کہا حق یہ ہے کہ تواتر معنوی سے آیا ہے کہ یزید قتل حسین پر اور اہانت اہل بیت پر  راضی تھا اور  .. ہم اس پر توقف نہیں کریں گے کہ اس پر اور اس کے مدد گاروں پر لعنت کریں

اس کے برعکس محدث ابن الصلاح کہتے ہیں

لم يصح عندنا أنه أمر بقتله – أي الحسين رضي الله عنه – ، والمحفوظ أن الآمر بقتاله المفضي إلى قتله – كرمه الله – إنما هو عبيد الله بن زياد والي العراق إذ ذاك

ہمارے ( محدثین)  کے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ یزید نے قتل حسین کا حکم کیا ہو

ابن تیمیہ کہتے ہیں

إن يزيد بن معاوية لم يأمر بقتل الحسين باتفاق أهل النقل

اہل نقل کا اتفاق ہے کہ یزید نے قتل حسین کا حکم نہیں کیا

غزالی کہتے ہیں

هذا لم يثبت أصلاً فلا يجوز أن يقال إنه قتله

یہ اصلا ثابت نہیں کہ پس کسی کے لئے جائز نہیں کہ کہے کہ یزید نے قتل کرنے کا کہا

اجماع امت ١٢ : جو  کہے محمد صلی الله علیہ وسلم  وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے

امام ابن تیمیہ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ

ومن قال أن النبى صلى الله عليه و سلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر بإتفاق المسلمين

مجموع فتاوى شيخ الإسلام أحمد بن تيمية جلد 8 صفحہ 283 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف

ترجمہ: اور جس نے کہا کہ   النبى صلى الله عليه و سلم وحی نازل ہونے سے پہلے سے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتقاق ( اجماع ) ہے

 دوسری طرف   تصوف میں ایک بحث ہے جس کو الحقيقة المحمدية کہا جاتا ہے اس پر ابن عربی نے اپنی کتب میں بحث کی ہے اور مقصد یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پہلی مخلوق ہیں

برصغیر میں مجدد الف ثانی نے اپنے رسائل میں اس کو بطور دلائل پیش کیا ہے
جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مخلوق اول کہا جاتا ہے تو پھر نور محمدی کا ذکر ہوتا ہے

ظاہر ہے ابن تیمیہ متصوفین کا رد کر رہے ہیں لیکن ان کا نام نہیں لے رہے

اجماع امت ١٣ : علی اپنی جنگوں میں حق پر تھے؟

آج کل کے حنابلہ جو وہابی ہیں اس قول کو واضح انداز میں نہیں کہتے کہ علی جنگوں میں حق پر تھے

یہ قول کہ علی رضی الله عنہ کا موقف صحیح تھا اور ان سے لڑنے والے اجتہادی غلطی کر رہے تھے یہ قول ابن جوزی کے ہم عصر حنابلہ کا تھا اور یہ قول ان میں چلا آ رہا تھا جو جنبلی صوفی السفاريني النابلسي نے بھی پیش کیا

وَقَدِ اتَّفَقَ أَهْلُ الْحَقِّ أَنَّ الْمُصِيبَ فِي تِلْكَ الْحُرُوبِ وَالتَّنَازُعِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ – رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ – مِنْ غَيْرِ شَكٍّ وَلَا تَدَافُعٍ

اور اہل حق کا اتفاق ہے کہ ان جنگوں میں حق پر اور امیر المومنین علی رضی الله عنہ تھے

شوافع میں النووی نے ساتویں صدی میں اس کو پیش کیا اور الطيبي (743هـ) نے آٹھویں صدی میں سيوطي نے نویں صدی میں
وإن كان علي رضي الله عنه هو المحق المصيب في تلك الحروب. هذا مذهب أهل السنة

احناف میں ملا علی قاری نے گیارہویں صدی میں پیش کیا
وَكَانَ عَلِيٌّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – هُوَ الْمُحِقُّ الْمُصِيبُ فِي تِلْكَ الْحُرُوبِ، وَهَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ

البتہ علی (الْمُحِقُّ الْمُصِيبُ) جنگوں میں حق پر تھے یہ قول اہل سنت میں چھٹی صدی سے پہلے نہیں ملتا
بلکہ تیسری صدی میں ان اختلافات پر توقف کی رائے تھی اور بعض کا انداز علی پر جرح کا بھی تھا مثال
امام جوزجانی نصب کے لئے مشھور ہیں اسی طرح اور محدثین بھی علی رضی الله عنہ پر جرح کرتے تھے

کتاب  الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة  میں أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي السعدي الأنصاري، شهاب الدين شيخ الإسلام، أبو العباس (المتوفى: 974هـ ) لکھتے ہیں

قلت الْإِجْمَاع حجَّة على كل أحد وَإِن لم يعرف مُسْتَنده لِأَن الله عصم هَذِه الْأمة من أَن تَجْتَمِع على ضَلَالَة وَيدل لذَلِك بل يُصَرح بِهِ قَوْله تَعَالَى وَيتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ نوله مَا تولى ونصله جَهَنَّم وَسَاءَتْ مصيرا النِّسَاء 115 وَقد أَجمعُوا أَيْضا على استحقاقهم الْخلَافَة على هَذَا التَّرْتِيب لَكِن هَذَا قَطْعِيّ كَمَا مر بأدلته مَبْسُوطا فَإِن قلت لم لم يكن التَّفْضِيل بَينهم على هَذَا التَّرْتِيب قَطْعِيا أَيْضا حَتَّى عِنْد غير الْأَشْعَرِيّ للْإِجْمَاع عَلَيْهِ قلت أما بَين عُثْمَان وَعلي فَوَاضِح للْخلاف فِيهِ كَمَا تقدم وَأما بَين أبي بكر ثمَّ عمر ثمَّ غَيرهمَا فَهُوَ وَإِن أَجمعُوا عَلَيْهِ إِلَّا أَن فِي كَون الْإِجْمَاع حجَّة قَطْعِيَّة خلاف فَالَّذِي عَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ أَنه حجَّة قَطْعِيَّة مُطلقًا فَيقدم على الْأَدِلَّة كلهَا وَلَا يُعَارضهُ دَلِيل أصلا وَيكفر أَو يبدع ويضلل مخالفه وَقَالَ الإِمَام الرَّازِيّ والآمدي إِنَّه ظَنِّي مُطلقًا وَالْحق فِي ذَلِك التَّفْضِيل فَمَا اتّفق عَلَيْهِ المعتبرون حجَّة قَطْعِيَّة وَمَا اخْتلفُوا كالإجماع السكوتي وَالْإِجْمَاع الَّذِي ندر مخالفه فَهُوَ ظَنِّي وَقد علمت مِمَّا قَرّرته لَك أَن هَذَا الْإِجْمَاع لَهُ مُخَالف نَادِر فَهُوَ وَإِن لم يعْتد بِهِ فِي الْإِجْمَاع على مَا فِيهِ من الْخلاف فِي مَحَله لكنه يُورث انحطاطه عَن الْإِجْمَاع الَّذِي لَا مُخَالف لَهُ فَالْأول ظَنِّي وَهَذَا قَطْعِيّ وَبِهَذَا يتَرَجَّح مَا قَالَه غير الْأَشْعَرِيّ من أَن الْإِجْمَاع هُنَا ظَنِّي لِأَنَّهُ اللَّائِق بِمَا قَرَّرْنَاهُ من أَن الْحق عِنْد الْأُصُولِيِّينَ التَّفْضِيل الْمَذْكُور وَكَانَ الْأَشْعَرِيّ من الْأَكْثَرين الْقَائِلين بِأَنَّهُ قَطْعِيّ مُطلقًا

میں کہتا ہوں کہ اجماع ہر ایک کے لیے حجت ہےاگرچہ کہ اس سے استناد نہ کیا جاتا ہو۔کیونکہ اللہ تعالٰی نے اس امت کو گمراہی پر جمع ہونے سے بچایا ہے۔ اسپر دلالت کرتا ہے بلکہ صراحت کرتا ہے اللہ تعالٰی کا فرمان ( نساء آیت 115 )خلافت کے استحقاق اور اس کی ترتیب پر بھی یقینا  اجماع قطعی ہے جیسا کہ اس کے مضبوط دلائل پہلے بیان ہوئے ہیں۔اگر میں کہوں ( یا تم کہو ) کہ خلافت کی ترتیب میں افضلیت قطعی نہیں ہے جبکہ غیر اشعریوں کے نزدیک اس پر اجماع ہے ۔ میں کہتا ہوں عثمان اور علی کے درمیان یہ معاملہ برعکس ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ۔ اور ابوبکر پھر عمر اور پھر ان دونوں کے علاوہ کا معاملہ ہے اس پر اجماع ہے سوائے اس سے کہ جو اجماع حجت قطعی کے خلاف ہو پس یہی معاملہ ہے اکثر کا کہ وہ اسے قطعی حجت مانتے ہیں ۔ اس کے تمام دلائل گزرچکے ۔ اور اس کے خلاف اصلا  کوئی دلیل نہیں ہے ۔ مکفرہ بدعتی اور گمراہ فرقے اس کے مخالف ہیں ۔ امام رازی اور آمدی کے نزدیک یہ مطلق ظنی ہے ۔ تفضیل کے معاملہ میں حق تو وہی ہے کہ جس پر قابل اعتبار لوگوں کا اتفاق ہے کہ یہ حجت قطعی ہے ۔انکا اختلاف نہیں جیسا کہ اجماع سکوتی اور وہ اجماع جس کی تھوڑی مخالفت کی گئی وہ ظنی ہے ۔ تم نے جان لیا جو کہ تمھارے لیے قرار وقعی ہے کہ وہ اجماع جس کی تھوڑی مخالفت کی گئی ہو وہ اس اس اجماع سے باہر نہیں جس کی اس کی جگہ موقع پر کوئی مخالفت نہ کی گئی ہو ۔ لیکن اجماع سے مخالفت یا اس سے ہٹنے کا معاملہ توارث ہوا ہو ۔ بنا بریں پہلا ظنی اور یہ والا قطعی ہے ۔ اس وجہ سے راجح وہ ہے جو غیر اشعریوں کا کہنا ہے کہ یہ والا اجماع ظنی ہے ۔ بہتر ہے اور ہمارے لیے موقر ہے کہ حق اصولیوں کے نزدیک مذکورہ تفضیل کے مسئلہ پر ہے اور اشعریوں کی اکثریت اس کی قائل ہے کہ یہ قطعی اور مطلق ہے ۔

الفاظ خلافت کی ترتیب میں افضلیت قطعی نہیں ہے جبکہ غیر اشعریوں کے نزدیک اس پر اجماع ہے قابل غور ہیں

یعنی عثمان کے پہلے خلیفہ ہونے سے وہ علی سے افضل نہیں

اجماع امت ١٤ : صحیح بخاری و مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں؟

أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)  اپنی کتاب المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج میں لکھتے ہیں کہ

اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول وكتاب البخاري أصحهما

علماء  الله ان پر رحم کرے کا اجماع ہے کہ سب سے صحیح کتاب قرآن کے بعد دو صحیح ہیں صحیح بخاری و مسلم اور امت نے ان کو تلقھا بالقبول کیا ہے اور امام بخاری کی کتاب ان دو میں صحیح ہے

http://shamela.ws/browse.php/book-1711#page-14

النووی مزید کہتے ہوں

وقد قال امام الحرمين لو حلف انسان بطلاق امرأته أن ما في كتابي البخاري ومسلم مما حكما بصحته مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لما ألزمته الطلاق ولا حنثته لاجماع علماء المسلمين

http://shamela.ws/browse.php/book-1711#page-19

اور بے شک امام الحرمین نے کہا کہ اگر کوئی انسان قسم کھا لے   صحیح بخاری و مسلم میں قول نبوی کی صحت پر  تو اس کو طلاق نہ ہو گی اور نہ نکاح ٹوٹے گا کہ یہ علماء مسلمین کا اجماع ہے

أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن إبراهيم بن أبي بكر ابن خلكان البرمكي الإربلي (المتوفى: 681هـ)اپنی کتاب وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان میں لکھتے ہیں کہ

وقال الحافظ أبو علي النيسابوري: ما تحت أديم السماء أصح من كتاب مسلم في علم الحديث

http://shamela.ws/browse.php/book-1000#page-2192

الحافظ أبو علي النيسابوري نے کہا : آسمان تلے علم حدیث میں صحیح مسلم سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں

امام ذھبی اپنی کتاب تذكرة الحفاظ = طبقات الحفاظ للذهبي میں لکھتے ہیں کہ

قال زكريا الساجي: كتاب الله أصل الإسلام وسنن أبي داود عهد الإسلام

http://shamela.ws/browse.php/book-1583#page-424

اور آگے جا کر لکھتے ہیں کہ

ومن كان في بيته هذا الكتاب -يعني الجامع- فكأنما في بيته نبي يتكلم

http://shamela.ws/browse.php/book-1583#page-450

——–

اسی طرح صطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ) اپنی کتاب كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون میں لکھتے ہیں کہ

وهو الثاني من الكتاب الستة، وأحد الصحيحين، اللذين هما أصح الكتب بعد كتاب الله العزيز

http://shamela.ws/browse.php/book-2118#page-4118

 

أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس اپنی کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں کہ

وقال الذهبي في تاريخ الإسلام: وأما جامع البخاري الصحيح فأجلّ كتب الإسلام وأفضلها بعد كتاب الله تعالى

http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-29

لیکن آج علمائے   ہی کہہ رہے ہیں کہ صحیح بخاری و مسلم میں ضعیف احادیث ہیں مثلا

البانی الضعیفہ ج ٣ ص ٤٦٥  پر کہتے ہیں  کہ کوئی معترض کہے

إن الألباني قد طعن في ” صحيح البخاري ” وضعف حديثه، فقد تبين لكل ذي بصيرة
أنني لم أحكم عقلي أورأيي كما يفعل أهل الأهواء قديما وحديثا، وإنما تمسكت
بما قاله العلماء في هذا الراوي وما تقتضيه قواعدهم في هذا العلم الشريف
ومصطلحه من رد حديث الضعيف، وبخاصة إذا خالف الثقة. والله ولي التوفيق.

بے شک البانی نے صحیح البخاری پر طعن کیا ہے اور اسکی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے تو پس ہر دیدہ بینا پر واضح ہے کہ میں نے عقل اور رائے سے یہ حکم نہیں لگآیا جیسا کہ قدیم و جدید اہل الهواء کا عمل ہے میں نے تو اس پر تمسک کیا ہے جو علماء نے اس راوی پر کہا ہے اور جو اس علم حدیث اور اس کے مصطلح کے قواعد  کا رد حدیث ضعیف کے حوالے سے تقاضہ ہے ، خاص کر جب ثقہ کی مخالف ہوں والله الولی التوفیق

البانی نے ہی صحیح مسلم کی متعدد روایات کو بھی ضعیف قرار دیا ہے

اس کی تفصیل اس ویب سائٹ کے سوالات کے سیکشن میں علم حدیث میں ہے

یہ کیسا اجماع ہے جس کا انکار بھی ہے ؟

اجماع امت ١٥ جنازہ میں چار تکبیرات دی جائیں

 نووی  نے شرح صحیح مسلم میں لکھا
دل الإجماع على نسخ هذا الحديث لأن ابن عبد البر وغيره نقلوا الإجماع على أنه لا يكبر اليوم إلا أربعا ، وهذا دليل على أنهم أجمعوا بعد زيد بن أرقم ، والأصح أن الإجماع يصح من الخلاف (شرح مسلم
ابن عبدالبر وغیرہ نے اس بات پہ اجماع نقل کیا ہے کہ اس وقت صرف چار تکبیرات کہی جائے گی ، یہ اس بات پہ دلیل ہے کہ زید بن ارقم کے بعد اس پہ اجماع کرلیا گیا اور صحیح بات یہ ہے کہ اختلاف سے اجماع صحیح ہوتا ہے ۔

دوسری طرف امام ترمذی سنن الترمذی، باب ماجاء فی التکبیر علی الجنازۃ  نجاشی والی روایت جس میں چار تکبیر کا ذکر ہے اسے بیان کرکے لکھتے ہیں کہ اسی حدیث پر  اصحاب رسول کا عمل ہے اور دیگر اہل علم کا بھی کہ جنازہ کی تکبیرات چار ہیں ۔ یہ قول سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن المبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق وغیرھم کا ہے ۔

اگر اس پر اجماع ہے تو وہ اہل علم جو اس پر عمل نہیں کرتے ان کا ایمان ہے یا نہیں ؟ کیونکہ ترمذی نے کہا دیگر اہل علم کا عمل ہے سب کا نہیں کہا – دوم جب حدیث موجود ہے کہ تکبیر چار ہیں تو اس پر اجماع کی کیا ضرورت تھی

اجماع امت ١٦ مُعْتَزِلَةِ کفار ہیں

کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة از ابن قیم

الْمُعْتَزِلَةِ الَّذِينَ اتَّفَقَ السَّلَفُ عَلَى تَكْفِيرِهِمْ

مُعْتَزِلَةِ جن کی تکفیر پر سلف کا اتفاق ہے

کتاب رد المحتار على الدر المختار از  ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) کے مطابق

وأنت خبير بأن الصحيح في المعتزلة والرافضة وغيرهم من المبتدعة أنه لا يحكم بكفرهم

اور تم کو معلوم ہے کہ المعتزلة اور رافضیوں اور دیگر بدعتوں  کے حوالے سے صحیح یہ ہے  کہ ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا گیا

اجماع امت ١٧ : غیر الله کو سجدہ کرنا حرام ہے 

ابن تیمیہ فتوی میں کہتے ہیں

وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى: أَنَّ السُّجُودَ لِغَيْرِ اللَّهِ مُحَرَّمٌ

اور مسلمان اس پر جمع ہیں کہ غیر الله کو سجدہ حرام ہے

مجموع الفتاوى (4/358) میں

دوسری طرف صوفیاء میں آج تک مروج ہے

اجماع امت ١٨  : آخری تشہد میں درود پڑھنا فرض نہیں ہے 

غلام مصطفی امن پوری مضمون  درود کے فرض ہونے کے مواقع میں لکھتے ہیں کہ بعض  کا اس پر بھی اجماع کا دعوی ہے جو صحیح نہیں

 اجماع امت  ١٩   :     تین  طلاق     ایک ہی  وقت میں واقع  ہو جاتی ہے  

 محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري کتاب  الإجماع میں لکھتے ہیں

وأجمعوا على أنه إن قال لها: أنت طالق ثلاثا إلا ثلاثا، أنها تطلق ثلاثا

اور اس پر اجماع ہے کہ اگر کہہ دے  تجھ کو تین طلاق ہے  تو تین طلاق ہو گئیں

وأجمعوا على أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثًا: أنها لا تحل له إلا بعد زوج غيره على ما جاء به حديث النبي صلى الله عليه وسلم، وانفرد سعيد بن المسيب، فقال: أن تزوجها تزويجًا صحيحًا لا تريد به إحلالا؛ فلا بأس أن يتزوجها الأول

اس پر اجماع  ہے کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے تو وہ کے لئے حلال نہیں الا یہ کہ وہ عورت کسی اور سے  کرے  جیسا حدیث میں ہے

الإقناع في مسائل الإجماع میں  علي بن محمد بن عبد الملك الكتامي الحميري الفاسي، أبو الحسن ابن القطان (المتوفى: 628هـ) فرماتے ہیں

 وأن قال: أنت طالق ثلاثًا أنها تطلق ثلاثًا

اور اگر مرد کہہ دے تجھ کو تین طلاق  تو عورت پر تین طلاق واقع ہو گئیں

اس اجماع   کا انکار  غیر مقلد  کرتے ہیں   جس  کا ذکر   سب  کرتے رهتے ہیں [1]

[1]

موسوعة الإجماع في الفقه الإسلامي

إعداد: د. أسامة بن سعيد القحطاني، د. علي بن عبد العزيز بن أحمد الخضير، د. ظافر بن حسن العمري، د. فيصل بن محمد الوعلان، د. فهد بن صالح بن محمد اللحيدان، د. صالح بن عبيد الحربي، د. صالح بن ناعم العمري، د. عزيز بن فرحان بن محمد الحبلاني العنزي، د. محمد بن معيض آل دواس الشهراني، د. عبد الله بن سعد بن عبد العزيز المحارب، د. عادل بن محمد العبيسي

الناشر: دار الفضيلة للنشر والتوزيع، الرياض – المملكة العربية السعودية

إذا طلق الرجل امرأته ثلاث طلقات متواليات، فيقع الطلاق ثلاثًا، ونقل الإجماع على ذلك جمع من أهل العلم• من نقل الإجماع:

1 – ابن المنذر (318 هـ) حيث قال: “وأجمعوا أن من طلق زوجته أكثر من ثلاث، أن

ثلاثًا منه تحرمها عليه” (2).

2 – ابن عبد البر (463 هـ) حيث قال: “أما وقوع الثلاث تطليقات مجتمعات بكلمة واحدة، فالفقهاء مختلفون في هيئة وقوعها كذلك، هل تقع للسنة أم لا؟ مع إجماعهم على أنها لازمة لمن أوقعها” (3). وقال أيضًا: “. . . وقوع الثلاث مجتمعات غير متفرقات، ولزومها، وهو ما لا خلاف فيه بين أئمة الفتوى بالأمصار، وهو المأثور عن جمهور السلف” (4). وقال أيضًا: “. . . الطلاق الثلاث مجتمعات لا يقعن لسُنّة. . . وهم مع ذلك يلزمونه ذلك الطلاق، ويحرمون به امرأته، إلا بعد زوج، كما لو أوقعها متفرقات عند الجميع” (5).

3 – ابن العربي (546 هـ) حيث قال: “. . . وليس معناه ما يتوهمه المبتدعة والجهّال من أن طلاق الثلاث إذا قالها الرجل في كلمة لا يلزم، وقد ضربت شرق الأرض وغربها، فما رأيت ولا سمعت أحدًا يقول ذلك إلا الشيعة الخارجين عن الإسلام” (1).

4 – ابن هبيرة (560 هـ) حيث قال: “واتفقوا على أن الطلاق الثلاث بكلمة واحدة، أو بكلمات في حالة واحدة، أو في طهر واحد يقع؛ ولم يختلفوا في ذلك” (2).

5 – الكاساني (587 هـ) حيث قال: “وروينا عن عمر -رضي اللَّه عنه- أنه كان لا يؤتى برجل قد طلق امرأته ثلاثًا إلا أوجعه ضربًا، وأجاز ذلك عليه، وكانت قضاياه بمحضر من الصحابة -رضي اللَّه عنهم-، فيكون إجماعًا منهم على ذلك” (3).

6 – ابن قدامة (620 هـ) حيث قال: “وجملة ذلك أن الرجل إذا قال لامرأته: أنت طالق ثلاثًا، فهي ثلاث، وإن نوى واحدة، لا نعلم فيه خلافًا” (4).

7 – القرطبي (671 هـ) حيث قال: “واتفق أئمة الفتوى على لزوم إيقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة، وهو قول جمهور السلف” (5).

8 – ابن جزي (741 هـ) حيث قال: “الطلاق الرجعي والبائن، فأما البائن، فهو في أربعة مواضع: وهي طلاق غير المدخول بها، وطلاق الخلع، والطلاق بالثلاث، فهذه الثلاثة بائنة اتفاقًا، . . . ” (6). وقال أيضًا: “وتنفذ الثلاث، سواء طلقها واحدة بعد واحدة اتفاقًا، أو جمع الثلاث في كلمة واحدة” (7).

9 – قاضي صفد (بعد 780 هـ) حيث قال: “اتفق الأئمة على أن الطلاق في الحيض لمدخول بها، أو في طهر جامع فيه محرّم؛ إلا أنه يقع، وكذلك جمع الطلاق الثلاث يحرم ويقع” (8).

10 – ابن حجر (852 هـ) حيث قال: “فالراجح في الموضعين تحريم المتعة، وإيقاع الثلاث للإجماع الذي انعقد في عهد عمر على ذلك، ولا يحفظ أن أحدًا في عهد عمر خالفه في واحدة منهما، وقد دل إجماعهم على وجود ناسخ، وإن كان خفي عن بعضهم قبل ذلك حتى ظهر لجميعهم في عهد عمر، فالمخالف بعد هذا الإجماع منابذ له، والجمهور على عدم اعتبار من أحدث الاختلاف بعد الاتفاق” (9).

١١

 – العيني (855 هـ) حيث قال: “لما خاطب عمر الصحابة بذلك فلم يقع منهم إنكار، صار إجماعًا” (1).

12 – ابن الهمام (861 هـ) حيث قال: “إجماعهم ظاهر، فإنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر -رضي اللَّه عنه- حين أمضى الثلاث” (2).

13 – ابن نجيم (970 هـ) حيث قال: “ولا حاجة إلى الاشتغال بالأدلة على رد قول من أنكر وقوع الثلاث جملة؛ لأنه مخالف للإجماع” (3).

14 – ابن عابدين (1252 هـ) فذكره، كما قال ابن الهمام (4).

15 – ابن قاسم (1392 هـ) حيث قال: “من طلق زوجته ثلاثًا بكلمة واحدة، وقعت الثلاث، وهو مذهب الأئمة الأربعة، وجماهير العلماء، . . . وحكى ابن رشد إجماع علماء الأمصار على أن الطلاق بلفظ الثلاث حكمه حكم الطلقة الثالثة” (5).

  • الموافقون على الإجماع: ما ذكره الجمهور من الإجماع على أن الرجل إذا طلق ثلاث تطليقات مجتمعات، وقعت ثلاثًا وافق عليه ابن حزم (6). وهو قول الثوري، وابن أبي ليلى، والأوزاعي، والليث، وعثمان البتي، والحسن بن حي، وإسحاق، وأبي ثور

=====================

اجماع کی بحث اھل علم کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں

کیونکہ کہا جاتا ھے کہ عود روح کا عقیدہ امت کا اجماعی عقیدہ ھے لیکن اس کا انکار ابن حزم المتوفی ٤٦٥ه  کرتے ھیں جنھوں نے مراتب الاجماع کے عنوان سے کتاب لکھی جو آج تک اجماع کے حوالے سے ایک انساکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ھے

جو  شخص اجماع کی اھمیت پر کتاب لکھے اور عود روح کے عقیدے کا انکار کرے اس کی یقینا کوئی تو وجہ ھے

جادو، برج، فرشتےاورمحدثین

بابل میں جادو کا بہت زور تھا اور اس طرف اہل کتاب کا میلان ہوا اس کا ذکر قرآن میں سوره البقرہ میں موجود ہے

وہاں غلامی کے دور کے ایک شخص حزقی ایل نے دیکھا کہ

ezekiel-2

++====================================================

ezekiel-3

ezekiel-4

ترجمہ جیو لنک ریسورس کنسلٹنٹ بار اول ٢٠١٠

اس پورے مکاشفہ میں اہم بات یہ ہے

حزقی ایل باب ١: ٢٦ میں لکھتے ہیں

וּמִמַּעַל, לָרָקִיעַ אֲשֶׁר עַל-רֹאשָׁם, כְּמַרְאֵה אֶבֶן-סַפִּיר, דְּמוּת כִּסֵּא; וְעַל, דְּמוּת הַכִּסֵּא, דְּמוּת כְּמַרְאֵה אָדָם עָלָיו, מִלְמָעְלָה

اور آسمان سے اوپر جو ان کے سروں پر تھا  ایک عرش تھا جیسا کہ نیلم کا پتھر ہوتا ہے اور اس عرش نما پر ایک انسان نما  تخت افروز تھا

یہودیت تصوف میں ان آیات کا مفہوم اللہ کے حوالے سے لیا جاتا ہے اور مرکبہ کو عرش ہی سمجھا جاتا ہے جو بادلوں اوربجلی کی کڑک میں  ہے

 الله ، مرکبہ پر  تھا جس کو چار فرشتے اٹھاتے ہیں اور وہ بادل میں ہے فرشتوں کی شکلوں کے بارے میں ہے کہ ان میں سے

ایک چہرہ بیل جیسا

ایک انسان جیسا

ایک شیر جیسا

ایک عقاب جیسا تھا

اگلی صدیوں میں جب یہود نے بیت الفا  کی عبادت گاہ تعمیر کی تو اس کے فرش پر بارہ برج بھی بناۓ

buni-circle

https://en.wikipedia.org/wiki/Beth_Alpha

اس تصویر میں جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ چار چہرے ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی ہیں

ایک برج انسان جیسا (برج دلو) ہے اس کے متوازی ایک برج (اسد) شیر جیسا  ہے

ایک برج  بیل جیسا (برج ثور) اور اسکے متوازی برج بچھو  (عقرب) جیسا  ہے

دیو ملائی آسٹرولوجی یا علم نجوم پر ایک کتاب کے مطابق

Scorpio also holds out the promise of ressurection of returning to light; thus Scorpio is regarded as sign of transformation. And certainly it is scorpio that has always been associated with occult wisdom. Some astrologers have imagined scorpio as a fourfold process – from angry scorpion into introspective lizard (the underworld sojourn) to doaring eagle (rebirth) to whitewinged dove (Holy Spirit). (pg 312)

Babylonian linked this (scorpion) sign with the deadly scorpion they also linked it with eagle, as is clear in vision of Ezekiel. (pg 312)

Mythic Astrology: Archetypal Powers in the Horoscope  

By Ariel Guttman, Gail Guttman, Kenneth Johnson

بچھو  دوبارہ زندگی، روشی کی طرف پلٹنے کی نوید رکھتا ہے لہذا بچھو کو تبدیلی کا نشان کہا جاتا ہے …… اور اسی بچھو کو  چھپکلی (قبر کی زندگی) یا عقاب سے(دوبارہ زندگی) اور سفید پروالی فاختہ (روح القدس) سے  تبدیل کیا گیا صفحہ ٣١٢

بابلیوں نے اس (برج والے) نشان کو زہریلے بچھو سے ملایا اور اسی کو عقاب سے بھی ملایا جیسا کہ حزقی ایل کے مکاشفہ سے ظاہر ہے

اس اقتباس کے مطابق  ایک برج کو بابل میں بچھو (عقرب) یا عقاب سے بدلا جاتا رہا ہے اور جیسا کہ اوپر والی تصویر سے ظاہر ہے  اسی کو یہودیوں نے اپنی عبادت گاہ میں بنایا

اب دیکھیں محدثین کے کہہ رہے ہیں

کتاب نقض الإمام أبي سعيد على المريسي العنيد  از عثمان بن سعید میں ایک مقطوع حدیث نقل ہوئی ہے جو کتاب حزقی ایل کی  آیت ١٠ کی نقل ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ثنا حَمَّادٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، قَالَ : ” حَمَلَةُ الْعَرْشِ مِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ الْإِنْسَانِ ، وَمِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ النِّسْرِ ، وَمِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ الثَّوْرِ ، وَمِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ الْأَسَدِ

عروه کہتے ہیں کہ عرش کو جنہوں نے اٹھایا ہوا ہے ان میں انسانی صورت والے ہیں اور عقاب کی صورت والے اور بیل کی صورت والے اور شیر کی صورت والے

ابن ابی شیبہ کی  کتاب العرش  کی روایت ہے

حدثنا : علي بن مكتف بن بكر التميمي ، حدثنا : يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، عن أبيه ، عن محمد بن إسحاق ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن أبي ربيعة ، عن عبد الله بن أبي سلمة قال : أرسل إبن عمر (ر) إلى إبن عباس (ر) يسأله : هل رأى محمد ربه ؟ فأرسل إليه إبن عباس : أن نعم ، قال : فرد عليه إبن عمر رسوله أن كيف رآه ؟ ، قال : رآه في روضة خضراء ، روضة من الفردوس دونه فراش من ذهب ، على سرير من ذهب يحمله أربعة من الملائكة ، ملك في صورة رجل ، وملك في صورة ثور ، وملك في صورة أسد ، وملك في صورة نسر.

عبد الله بن أبي سلمة کہتے ہیں کہ  ابن عمر نے ابن عباس کے پاس بھیجا کہ کیا نبی نے الله کو دیکھا؟ ابن عباس نے کہا ہاں دیکھا. اس پر ابن عمر نے اس کو رد کیا اور کہا کیسے؟ ابن عباس نے کہا الله  کو سبز باغ میں دیکھا،  فردوس کے باغ میں جس میں سونے کا فرش تھا اور ایک تخت تھا سونے کا جس کو چار فرشتوں نے اٹھایا ہوا تھا، ایک کی شکل انسان جیسی، ایک کی بیل جیسی ،ایک کی شیر جیسی ،ایک کی عقاب جیسی تھی

اس سند سے عبدللہ بن احمد بھی کتاب السنہ میں روایت کرتے ہیں، إبن خزيمة – التوحيد – باب ذكر الأخبار المأثورة میں ، البيهقي – الأسماء والصفات – باب ما جاء في العرش والكرسي میں، الآجري – الشريعة میں روایت کرتے ہیں

اس کی سند میں محمد بن إسحاق بن يسار کا تفرد ہے جس کو امام مالک دجالوں میں سے ایک دجال کہتے  ہیں

ابن  الجوزی اس کو کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ وَقَدْ كَذَّبَهُ مَالِكٌ وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ.

یہ حدیث صحیح نہیں اس میں محمد بن اسحاق کا تفرد ہے اور اس کو امام مالک اور ھشام بن عروہ جھوٹا کہتے ہیں

ابن کثیر سوره غافر کی آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں

 رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (8) وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9)
يخبر تعالى عن الملائكة المقربين من حَمَلة العرش الأربعة، ومن حوله من الكروبيين، بأنهم يسبحون بحمد ربهم

الله نے خبر دی ان چار مقربین فرشتوں کے بارے میں جنہوں نے عرش کو اٹھایا ہوا ہے اور اس کے ارد گرد کروبیں کے بارے میں کہ وہ الله کی تسبیح کرتے ہیں اس کی تعریف کے ساتھ ……ہ

اس کے بعد ابن کثیر ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں محمد بن اسحاق ہے اور کے کچھ اشعار نقل ہوئے ہیں جن  میں آدمی، بیل، شیر اور عقاب کا ذکر ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کہتے ہیں سچ کہا

 وقد قال الإمام أحمد: حدثنا عبد الله بن محمد -هو ابن أبي شيبة -حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن إسحاق، عن يعقوب بن عتبة، عن عكرمة عن ابن عباس [رضي الله عنه]  أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صَدّق أمية في شيء من شعره، فقال:

رَجُلٌ وَثَور تَحْتَ رِجْل يَمينه … وَالنَّسْرُ للأخْرَى وَلَيْثٌ مُرْصَدُ …فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “صدق”..

اس کے بعد ابن کثیر  کہتے ہیں

وهذا إسناد جيد: وهو يقتضي أن حملة العرش اليوم أربعة، فإذا كان يوم القيامة كانوا ثمانية

اس کی سند جید ہے عرش کو چار فرشتوں نے آج اٹھایا ہوا ہے پس جب قیامت ہو گی تو آٹھ اٹھائے ہوں گے

یعنی ابن کثیر کے نزدیک یہ جانوروں کے منہ والے فرشتے جو برجوں کی شکل تھے اصل میں فرشتے ہیں

کتاب  بحر الفوائد المشهور بمعاني الأخبار ازالكلاباذي  الحنفي (المتوفى: 380هـ) کے مطابق

وَقِيلَ فِي حَمَلَةِ الْعَرْشِ إِنَّهُمْ أَمْلَاكٌ أَحَدُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْإِنْسَانِ، يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ فِي أَرْزَاقِهِمْ، وَالثَّانِي عَلَى صُورَةِ النَّسْرِ يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ فِي أَرْزَاقِ الطَّيْرِ، وَالثَّالِثُ عَلَى صُورَةِ الْأَسَدِ يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي أَرْزَاقِ الْبَهَائِمِ وَدَفْعِ الْأَذَى عَنْهُمْ، وَالرَّابِعُ عَلَى صُورَةِ الثَّوْرِ يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي أَرْزَاقِ الْبَهَائِمِ، وَدَفْعِ الْأَذَى عَنْهُمْ يُصَدِّقُ ذَلِكَ

کہا جاتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک انسان کی شکل کا ہے جو الله سےانسانوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے دوسرا عقاب کی شکل کا ہے جو پرندوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے تیسرا شیر کی شکل کا ہے جو درندوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے چوتھا بیل کی شکل کا ہے جو چوپایوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے

ایک اور روایت ہے ایک روز یہود رسول اللہﷺ کے پاس آئے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقْبَلَتْ يَهُودُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا أَبَا القَاسِمِ، أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا هُوَ؟ قَالَ: مَلَكٌ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ مَعَهُ مَخَارِيقُ مِنْ نَارٍ يَسُوقُ بِهَا السَّحَابَ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ فَقَالُوا: فَمَا هَذَا الصَّوْتُ الَّذِي نَسْمَعُ؟ قَالَ: زَجْرَةٌ بِالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَهُ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى حَيْثُ أُمِرَ قَالُوا: صَدَقْتَ

 اور چند باتیں دریافت کرنے لگے کہ اے ابوالقاسم! رعد کون ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: رعد اس فرشتے کا نام ہے جو بادلوں کو چلانے پر مقرر ہے اور کڑک اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کو ہانکنے کے وقت اس فرشتے کے منہ سے نکلتی ہے ۔ اس فرشتے کے پاس آگ کے کوڑے ہیں جن سے وہ بادلوں کو ہانکتا ہے۔ یہ چمک (بجلی) اسی کی آواز ہے

ترمذی اس کو حسن اور احمد شاکر اور البانی  صحیح کہتے ہیں جبکہ یہ حزقی ایل کی کتاب سے مماثلت رکھتی ہے

سند میں  بكير بن شهاب الدامغانى ہے جس کو ابن حجر اور ابن عدی منکر الحدیث کہتے ہیں

کتاب  بغية النقاد از ابن المواق (المتوفى: 642 هـ)  کے مطابق یہ روایت    وليست بصحيحة صحیح نہیں ہے

سوال ہے کہ یہ آثار کیوں پھیلائے گئے؟ اس پر کوئی تحقیق نہیں کرتا –  ان احادیث و آثار کو صحیح کہنے والے محدثین صرف سند دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہے جبکہ یہ اصلا بابل کا جادو تھا

محدثین سند سے چلتے تھے اور اس میں ان کا منہج قبول عامہ والا تھا کہ کسی کی روایت اگر قبول ہوتی ہو تو اس کو ثقہ کہا جاتا لیکن یہ علم بھی غلطی سے پاک نہیں اور اس میں بھی خطا ممکن ہے کیونکہ انسانی علم محدود ہے

عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف

کیا مردے سنتے ہیں ؟  اس طرح کے رسالے بعض علماء چھاپتے ہیں اور عوام کو باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مردے نہیں سنتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علماء اس  انبوہ میں شامل ہیں جن کے نزدیک نہ  صرف مردے سنتے ہیں  بلکہ ان کے نزدیک مردے اتنے پاور فل ہیں کہ قبر پر کھڑے لوگوں سے مانوس بھی ہو سکتے ہیں

اس قبیل کے علماء قبر پرستوں  کو ان کے عقائد پر سند جواز دیتے ہیں –قبروں پر جانے کا ایک  مقصد صاحب قبر کو سنانا ہوتا ہے کہ وہ عرضداشت رب العالمین تک پہنچا دیں گے –

اب قرآن میں اگر ہو کہ

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ  سوره النمل ٨٠ آیت

اے نبی آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پلٹ کر جائیں

اسی طرح قرآن میں اگر ہو

 وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [فاطر: 22

اور زندہ مردہ برابر نہیں بے شک الله جس کو چاہے سنا دےاور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو سنانے والے نہیں

ان آیات میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ کفار کو ایمان کی طرف نہیں لا سکتے یہ سب الله کے اختیار میں ہے

تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے  اس کا مطلب مجازی لینا ہو گا کہ آپ کفار کو نہیں سنا سکتے لیکن قبر میں پڑے مردوں کو سنا سکتے ہیں- جبکہ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جب مثال بھی دیتا ہے تو حقیقت بر مبنی ہوتی ہے

ابن الجوزي كتاب السر المصون (بحوالہ الفروع  از ابن مفلح ) میں کہتے ہیں

 الذي يوجبه القرآن والنظر أن الميت لا يسمع ولا يحس قال تعالى وما أنت بمسمع من في القبور سورة فاطر 22 ومعلوم أن آلات الحس قد فقدت

جو چیز قرآن و (نقد و) نظر سے واجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے – الله تعالی کہتے ہیں اور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو نہیں سنا سکتے سوره فاطر ٢٢ اور یہ معلوم ہے کہ سننے کے آلات (یعنی کان) ضائع ہو چکے ہوتے ہیں

سماع الموتی کی سب سے اہم دلیل،  قلیب بدر کے مردوں کا سماع ہے- جنگ بدر میں فتح کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار کی لاشیں ایک کنواں میں پھینک دی جائیں تین دن بعد آپ اس مقام پر گئے اور کنواں  کے اوپر آپ نے ٢٤ سرداران قریش کو پکارآ اس وقت عمر رضی الله عنہ نے کہ

  يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَكَلَّمَ مِنْ أَجْسَادٍ، لَا أَرْوَاحَ لَهَا

 یا رسول الله آپ ایسے اجسام سے مخاطب ہیں جن میں ارواح نہیں؟

 رسول الله نے فرمایا

إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ

بے شک یہ سن رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں

عائشہ رضی الله عنہآ سماع الموتی کی انکاری تھیں اور کہتیں تھیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ یہ سنتے ہیں اصل میں علم ہونا ہے

اور ایسا وہ کیوں نہ کہتیں جبکہ قرآن میں ہے

ابراہیم علیہ السلام نے بتوں سے کلام کیا اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں ؟

حدیث میں ہے عمر رضی الله عنہ نے حجر الاسود سے کلام کیا

ابن عمر رضی الله عنہ نے ابن زبیر رضی الله عنہ کی سولی پر لٹکتی لاش سے کلام کیا اور اسماء رضی الله عنہا سے کہا صبر کریں بے شک ارواح الله کے پاس ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مردہ بیٹے سے کلام کیا

وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے

فرط جذبات میں مردوں سے زندہ مخاطب ہو سکتا ہے لیکن اس میں اس کا مقصد مردے کو سنانا نہیں ہوتا – امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر کوئی قسم کھا لے کہ میں کسی سے کلام نہ کروں گا اور مرنے کے بعد اس کے لاشے سے کلام کر بیٹھا تو اس کی قسم نہ ٹوٹے کی

ابن رجب کتاب أهوال  القبور میں  قبول کرتے  ہیں

قال الحافظ ابن رجب:  وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء

اور عائشہ (رضی الله عنہا) سے موافقت کی ہے بہت سے علماء نے مردوں کے سننے کی نفی میں

واضح رہے کہ الله کی قدرت و منشا میں بحث نہیں ہے وہ تو جو چاہے کر سکتا ہے سوال انسانوں کا ہے کہ کیا وہ اپنی بات مردوں کو سنا سکتے ہیں کہ نہیں

قرآن میں ہے

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سوره فاطر ٢٢

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں، بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ انہیں ، جو قبروں میں ہیں، سنانے والے نہیں

یعنی انسان قبر والوں کو نہیں سنا سکتا اللہ چاہے تو ایسا ممکن ہے لہذا اسی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک قلیب بدر کا واقعہ ایک معجزہ تھا

البانی کتاب آیات البینات از نعمان الوسی کی تعلیق میں کہتے ہیں

قلت : ولذلك أورده الخطيب التبريزي في ” باب المعجزات ” من ” المشكاة “ج 3 رقم 5938

میں کہتا ہوں اسی لئے خطیب التبریزی نے مشکاہ میں اس (قلیب بدر والے واقعہ) کو المعجزات کے باب میں ذکر کیا ہے

سماع الموتی کے دلائل کا تضاد

سماع الموتی کے قائلین کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین کے بعد چاپ سنتے ہیں اس سلسلے میں انبوہ غیر مقلدین کی جانب سے کہا جاتا ہے :”  یہ ایک استثناء ہے”- جبکہ یہ استثناء تو تمام مردوں کے لئے بولا جا رہا ہے تو مخصوص کیسے ہوا

ان میں سے بعض   لوگوں کی جانب سے کہا جاتا ہے :”جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے” لیکن پھر یہی لوگ عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے منسوب وصیت بھی پیش کرتے ہیں جس کے مطابق انہوں نے کہا کہ مجھ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر اتنی دیر رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے تاکہ میں تم لوگوں سے مانوس ہو جاؤں -گویا ان لوگوں کو خود بھی نہیں پتا کہ ان کے اس نام نہاد  استثناء میں کیا کیا شامل ہے اور اسکی حدود کیا ہیں

الشِّنقيطي   ایک وہابی عالم تھے ١٩٧٤ میں وفات ہوئی – ان کی آراء کو الجموع البهية للعقيدة السلفية  الَّتِي ذكرهَا الْعَلامَة الشِّنقيطي مُحَمَّد الْأمين بن مُحَمَّد الْمُخْتَار الجَكَنِي  فِي تَفْسِيره أضواء الْبَيَان میں جمع کیا گیا  جس کو  أبو المنذر محمود بن محمد بن مصطفى بن عبد اللطيف المنياوي نے جمع کیا ہے اور  مكتبة ابن عباس، مصر نے چھاپہ ہے

اپنی ایک تقریر میں مسئلہ سماع الموتی پر جرات دکھائی اور ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کے حوالے سے انہوں نے   کہا

الشِّنقيطي  هَل يسمع الْمَوْتَى؟ کیا  مردے سنتے ہیں کے سلسلے میں کہتے ہیں

وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.

أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے  اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی  جنہوں نے  ان کی اتبآع کی ہے

الشِّنقيطي   سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں

 إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة

عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ  ضرورت کے تحت  دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے  

وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ 

ابو جابر دامانوی دین الخالص میں  اکابر پرستی میں  مبتلا ہو کر  اپنے بت کوبچانے کے لئے لکھتے ہیں

دامانوی عائشہ ابن تیمیہ

جوچیز دامانوی صاحب  کو سمجھ نہیں آئی وہ الشنقیطی صاحب کو آئی اور اس پر ہی ڈاکٹر عثمانی نے جرح کی ہے

فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ عائشہ رضی الله عنہا وہ عقیدہ رکھتی تھیں جو الله اور اس کے رسول کے قول سے الگ تھا

موصوف گویا کہنا چاہتے ہیں کہ قول نبوی سن کر بھی عائشہ رضی الله عنہا نے جو تاویل کی وہ غلط تھی جبکہ ام المومنین رضی الله عنہا جو فقہاء مدینہ کی استاد ہیں ان کے فہم پر مبنی   اس تاویل پر  اعتراض سات صدیوں تک علمائے اسلام نے

نہیں کیا یہاں تک کہ ابن تیمیہ کا جنم ہوا

Real Islam  facebook page & Associated pages plagiarism 

[do not copy paste stuff without due credit]

لنک

قرآن اور قرات عشرہ

قرآن کے حوالے سے ایک مسلم کو علم ہونا چاہیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ على سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فاقرؤوا منه ما تَيَسَّرَ
قرآن سات حروف پر نازل ہوا جیسا آسان ہو پڑھو صحیح البخاری

اس کی تعبیر و تشریح کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے لیکن احادیث میں ہے کہ اس کی بنا پر قرآن کی بعض قرات دوسری سے الگ محسوس ہوتی تھیں یہاں تک کہ ایک موقع پر عمر رضی الله عنہ نے ایک دوسرے صحابی کو برا بھلا کہا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھی پیش کیا اپ نے دونوں کی الگ الگ قرات سنی اور دونوں کو صحیح قرار دیا

قرآن کو دور صدیقی میں مصحف کی صورت میں جمع کیا گیا کیونکہ یہ ایک کتاب کی صورت میں نہ تھا

تلفظ اور لحن کے مسئلہ پر عثمان رضی الله عنہ نے قرآن کو واپس ایک کیا اور نہ صرف مصحف ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کو لیا بلکہ بعد میں کوئی اعتراض نہ کرے زید بن ثابت رضی الله عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ مسجد النبی میں بیٹھ کر ہر آیت پر دو گواہیاں طلب کرو کہ وہ گواہی دیں کہ قرآن کا حصہ ہیں –  لہذا نہایت احتیاط سے جمع ہوا

اس خط کو خط حجازی کہا جاتا ہے جو زیر زبر کے بغیر تھا جو اپ نیچے دیکھ سکتے ہیں کہ اصل میں نقطۂ اور اعراب نہیں تھے

قرآن کے قدیم ترین نسخے ١٩٧٢ میں صنعا یمن سے ملے ہیں

سناء

قرآن مصحف کی صورت نہیں پھیلا تھا وہ قرات سے مسلم علاقوں تک پہنچا تھا لہذا تلاوت کرنا سب کو اتا تھا اور اس کو حفظ کیا جاتا تھا لیکن جب مصحف میں لکھا گیا تو نقطے لگائے گئے جو ایک روایت  کے مطابق علی رضی الله عنہ کا خیال تھا اور دوسری  کے مطابق عبد الملک کا خیال تھا

قرطبی لکھتے ہیں

عبدالملک مروان نے مصحف کے حروف کو متشکل کرنے اور ان پر نقطے لگانے کا حکم دیا ، اس نے اس کام کے لیے حجاج بن یوسف کو شہر واسط سے  فارغ کیا (تاکہ اعراب کا کام صحیح طور پر ہو)  ۔اس نے بہت محنت و لگن سے اس کام کو انجام دیا اور اس میں احزاب کا اضافہ کیا اس وقت حجاج عراق کا گورنر تھا ۔ اس نے حسن اور یحیی ابن یعمر کے ذمہ  یہ کام لگایا ، اس کے بعد واسط میں ایک کتاب لکھی ، جس میں قراءت کے متعلق مختلف روایات کو جمع کیا ، بڑے عرصہ تک لوگ اس کتاب پر عمل کرتے رہے ، حتی کہ ابن مجاہدنے قراءت میں ایک کتاب لکھی

تفسیر القرطبی

 ابن خلکان لکھتے ہیں

ابوالاسود الدولی وہ پہلے شخص ہیں ، جنہوں نے سب سے پہلے علم نحو کو وضع کیا ، علی رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا کہ  کلام کی کل تین قسمیں ہیں : اسم ، فعل اور حرف، اور فرمایا : اس پر تم قواعد تحریر کرو ،

وفیات الاعیان از ابن خلکان

اعراب اور بعض اوقات نقطے لال رنگ سے لگائے گئے تھے اور متن کالی سیاہی سے لکھا جاتا تھا تاکہ واضح کیا جائے کہ نئی چیز کیا ہے

اب یہخط،  خط کوفی کہلایا

تشکیل١

https://ar.wikipedia.org/wiki/مخطوطات_صنعاء#/media/File:Sanaa_-_manuscript_Surat_al_Maida.jpg

قرآن پر اعراب کا لگنا  سامی زبانوں میں ایک ترقی تھی کیونکہ آج تک عبرانی بغیر نقطوں اور اعراب کے لکھی جاتی ہے اس کے برعکس عرب مسلمانوں نے نقطے اور اعراب کو داخل کیا اور قرآن میں جو تلفظ کے مسائل تھے ان کو دور کیا یہاں تک کہ اختلاف معنی نہ ہوا

ابن تیمیہ فتوی ج 3 ص ٤٠٢ میں لکھتے ہیں

تشکیل2

مسلمانوں نے (قرآن) مصحف (کی صورت) لکھا اور نقطے نہ  لگآنا اور اور(تشکیل) اعراب نہ لگانا جائز تھا کیونکہ صحابہ نے اپنے مصحف نقطوں اور اعراب کے بغیر لکھے تھے کیونکہ وہ عرب تھے اور لحن (لہجوں میں اختلاف) نہ کرتے تھے- اور ایسے تھے یہ مصاحف جو عثمان نے بھیجے اور تابعین کے دور تک تھے- پھر کھڑا ہوا لحن (لہجوں میں اختلاف)  کا مسئلہ لہذا مصاحف پر نقطے لگائے گئے اور نقطوں کو لال لکھا، پھر ان کو حروف کی طرح ہی لکھا جانے لگا (یعنی جس سیاہی میں خط ہوتا اسی میں نقطے) پس علماء کا تنازع ہوا اس پر کراہت کے حوالے سے جو امام احمد کا اس کے خلاف  آیا ہے الله رحم کرے، اور دیگر علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے کیونکہ یہ بدعت ہے، اور کہا جاتا ہے کہ وہ کراہت نہ کرتے تھے کیونکہ اس کی ضرورت تھی، اور کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے نقطوں سے بغیر اعراب کے  

مخطوطات صنعاء کی دو باتیں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں اول یہ اس وقت قرآن کے سب سے قدیم نسخوں میں سے ہے دوم اس میں عبد الله ابن مسعود کی قرات ہے جس پر یمن میں قرآن پڑھا جاتا تھا اور سوم اس پر دو تحریریں ہیں ایک کو مٹا کر دوسری کو لکھا گیا ہے

سناء٣

https://ar.wikipedia.org/wiki/مخطوطات_صنعاء#/media/File:Qur%27anic_Manuscript_-_3_-_Hijazi_script.jpg

چونکہ ایک مخصوص فرقہ کی جانب سے قرآن کے حوالے سے متضاد بیان اتے رہتے ہیں کہ اس کو دور اول میں تبدیل کیا گیا تھا لہذا اس میں تمام دنیا کی دلچسپی پیدا ہوئی اور ہارورڈ اور ستانفورڈ یونیورسٹی نے ان مخطوطات کو حاصل کیا اور ان پر سائنسی انداز میں تحقیق کی نہ صرف نچلی تحریر پڑھی بلکہ کاربن ڈیٹنگ بھی ہوئی

سوچا یہ جا رہا تھا کہ نچلی تحریر میں کوئی دوسرآ قرآن ہو گا جس کو مٹا کر حکم عثمان پر نیا قرآن لکھا گیا

الغرض  جو نتائج نکلے وہ  اچھے تھے

اول نسخے دور صحابہ  کے ہیں

 دوم نسخوں کی نچلی تحریر آج کے قرآن سے الگ نہیں اور ان میں نقطے اور اعراب نہیں ہیں

مخطوطات صنعاء پر محقیقین لکھتے ہیں

In any case, textual criticism suggests that the standard version is the most faithful representation, among the known codices, of the Quran as recited by the Prophet.

کسی بھی صورت میں تحریری تنقید بتاتی ہے کہ جو سٹندرد قرآن ہے وہ بہت ایمان و احتیاط کے ساتھ لکھا گیا ہے جیسا کہ رسول نے اس کی تلاوت کی

Behnam Sadeghi and Uwe Bergmann, The Codex of a Companion of the Prophet and the Qur’a n of the Prophet, Arabica 57 (2010) 343-436, Brill Publisher.

قابل غور ہے کہ یہ تحقیق امریکا کی  یونیورسٹیز میں ہوئی ہے جس کے لئے اہل اسلام کو ان کی تعریف کرنی چاہیے کیونکہ تحقیق کا اصول ہے کہ اس کو کسی بھی تعصب سے الگ ہو کر کیا جائے- مذہبی اورمسلکی تعصب بعض اوقات انسان کے اندر سمجھنے کی صلاحیت کم کر دیتا ہے

دس متواتر قراتیں

قرآن کی قرات بہت سے صحابہ تابعین اور تبع تابعین سے ہم تک آئی ہے جس کو دس متواتر قرات کہا جاتا ہے

سوره الفاتحہ کی دس قرات یو ٹیوب پر اس طرح موجود ہیں

اہل مدینہ کی قرات

نافع بن عبد الرحمن بن أبي نعيم المدني  المتوفی ١٦٩ ھ  ان کی قرات کی سند ابی بن کعب اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما تک جاتی ہے

ان کی قرات کی سند قالون سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=jjbu_5eKZKE

اور

ورش سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=vaXUaw_rXbo

https://archive.org/details/mos7af_warch_maghribi_by_Morocco-Islamic.com

افریقہ کے ممالک میں ان کی قرات پر قرآن پڑھا جاتا ہے

نافع حدیث میں ضعیف ہیں اور امام احمد کہتے ہیں

قال أبو طالب: سألت أحمد، يعني ابن حنبل، عن نافع بن عبد الرحمن، قال: كان يؤخذ عنه القراءة، وليس في الحديث بشيء. «الجرح والتعديل» 8/ (2089)

ان سے قرات لی جائے اور حدیث میں کوئی چیز نہیں

أبو جعفر يزيد بن القعقاع المدني المتوفی ١٣٠ ھ کی قرات ابن عبّاس، ابو ہریرہ اور عیاش بن ابی ربیعہ رضی الله عنہما سے ہے

ان کی قرات کی سند عيسى بن وردان المدني، أبو الحارث الحذاء سے ہم تک آئی  ہے

https://www.youtube.com/watch?v=lM-Apn5gmco

اور

ابن جمّاز سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=1rNqqFmsVwM

أهل مكة کی قرات

عبد الله بن كثير الداري المكي المتوفي ١٢٠ هجرة کی قرات مجاهد و درباس مولى ابن عباس سے ہے

ان کی قرات البزي   کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=jmaN5GM3M6U

ان کی قرات  قنبل  کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=ubZXRYrfdw0

العلل میں امام احمد ان کے لئے کہتے ہیں

ذكرا أنهما عرضا على درباس مولى ابن عباس، وقرأ درباس على عبد الله بن عباس، وقرأ عبد الله بن عباس على أصحاب النبي – صلى الله عليه وسلم -. «العلل» (408) .

ان سب نے قرات کو درباس مولی ابن عباس پر پیش کیا اور درباس نے ابن عباس پر اور ابن عباس نے اصحاب رسول پر پیش کیا

اہل شام کی قرات

عبد الله بن عامر اليحصبي الشامي المتوفی ١١٨ ھ کی قرات کی سند  ابو الدرداء رضی الله عنہ تک جاتی ہے

یہ  قاضي دمشق في أيام الوليد بن عبد الملك، وإمام مسجد دمشق، ورئيس أهل المسجد تھے

ان کی قرات کی سند هشام بن عمار  اور

https://www.youtube.com/watch?v=oDHGFedU9ws

  ابن ذكوان سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=5YA7qBOYewo

اہل بصرہ کی قرات

أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی قرات کی سند سعید بن جبیر اور مجاہد تک جاتی ہے

ان کی سند  حفص بن عمر بن عبد العزيز  الدوري  سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=g4rhOizucAU

اور

 السوسي   سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=q_IGe7x_Wqo

مندرجہ ذیل لنک سے اس قرات پر مصحف دیکھا جا سکتا ہے

https://upload.wikimedia.org/wikisource/ar/8/8b/المصحف_برواية_السوسي_عن_أبي_عمرو.pdf

يعقوب بن اسحاق الحضرمي البصری المتوفی ٢٠٥ ھ کی قرات  عاصم بن ابی النجود سے ہے

ان کی قرات کی سند رويس سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=W2XubMdqPT4

اور

أبو الحسن الهذلي سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=7AUyY7Eor4A

اہل کوفہ کی قرات

عاصم بن أبي النَّجود الأسدي الكوفي المتوفی  ١٢٥ ھ  کی سند علی بن ابی طالب اور زر بن حبیش کی سند سے  ابن مسعود رضی الله عنہما تک جاتی ہے

ان کی قرات کی سند حفص بن سلیمان الاسدی سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=ve4K3TV-kU4

اور

شعبة سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=zB4Jr4FcLH8

ان کی قرات سب سے مشھور ہے

عاصم حدیث میں ضعیف ہیں لیکن قرات کے امام ہیں

حمزة  بن حبيب الزيات المتوفي ١٥٦ هجره کی قرات الاعمش سے ہے

ان کی قرات  خلف بن هشام المتوفي ٢٢٩ هجرة  کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=mbDfcBJzy_U

أحمد العلل میں کہتے ہیں

 قال المروذي: قال أبو عبد الله: حمزة الزيات، ثقة في الحديث، ولكني أكره قراءته. «سؤالاته» (191

مروزی کہتے ہیں امام احمد نے کھا حمزہ حدیث میں ثقہ ہیں لیکن ان کی قرات سے کراہت کرتا ہوں

تہذیب التہذیب کے مطابق سلمة بن شبيب کہتے ہیں امام احمد ایسے قاری کے پیچھے نماز پڑھنے ہی میں کراہت کرتے

أبو الحسن علي بن حمزة الكسائي النحوي الكوفي المتوفی ١٨٩ ھ   کی سند صحابی رسول أبي حيوة شريح بن يزيد رضی الله عنہ تک جاتی ہے

ان کی قرات أبو الحارث الليث بن خالد البغدادي  سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=2nWEPXNxoFM

اور

حفص بن عمر الدوري،

https://www.youtube.com/watch?v=g2tRx7Prom0

اہل بغداد کی قرات

خلف بن ہشام اصل میں المفضل الضبی الكوفي المتوفي ١٧٨ هجري کی قرات ہے

ان کی قرات اسحاق بن ابراہیم اور  ادریس بن عبد الکریم کی سند سے آئی ہے

خلف ،  حمزة  بن حبيب الزيات المتوفي  كي قرات كي راوي بھی ہیں

الغرض ان  قراتوں میں جو اختلاف ہے صوتی ہے معنوی نہیں ہے لیکن یہ تبدیلی سات حروف میں تنزیل کی طرف اشارہ دیتی ہے

——————————————————————————————————-

مختلف قرات پر قرآن یہاں سے پڑھ سکتے ہیں

http://www.nquran.com/index.php?group=othm_view&rewaya=24&sora_no=1

حیات النبی فی القبر کا مسئلہ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

امت کے ولی ابو بکر رضی الله عنہ کہتے ہیں

 ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا  قد مات  -صحیح بخاری

 سن لو! جو شخص محمد  (صلی الله علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو (جان لے کہ) بلا شبہ محمد  فوت ہو گئے

عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک   روایت میں مروی ہے کہ

لقد مات رسول اللہ ۔صحیح مسلم

 یقیناً رسول اللہ فوت ہو گئے

انبیاء ، شہداء سے افضل ہیں اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انبیاء جنت میں ہیں شہداء بھی جنت میں ہی ہیں کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے چند لمحہ قبل قرآن کی آیت پڑھی

ان لوگوں کے ساتھ جن پر انعام ہوا- انبیاء ، صدیقین اور شہداء

بعض علماء  اشکال پیش کرتے ہیں کہ انبیاء و شہداء جنت میں کیسے ہو سکتے ہیں حتی کہ ان میں سے بعض کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی اسی مدینہ والی قبر میں ہیں

قبر میں حیات النبی کے قائلین کچھ روایات پیش کرتے ہیں

امام ابویعلی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو الجہم الا زرق بن علی نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے مستلم بن سعید نے بیان کیا۔ وہ حجاج سے اور وہ ثابت بنانی سے اور وہ حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا الانبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں

 ( شفاالسقام ص134) حیات الانبیاء للبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔  ابن حجر عسقلانی کہتے  ہیں و صححہ البیہقی امام بیہقی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتح الباری جلد ۶ ص352علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری  لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کہتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے  انس بن مالک  رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180۔

اصلا روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی حجاج غیر واضح ہے انہی میں سے بعض لوگوں نے جن کے نام اوپر لکھے ہیں اس کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے مثلا لسان المیزان از ابن حجر میں راوی کا نام الگ ہے اور فتح الباری میں الگ ان سب کے نزدیک اس راوی کا نام الگ الگ ہے اور اس کا سماع واقعی ثابت البنانی سے ہے ثابت نہیں ہے- سب سے پہلے اسکی تصحیح امام البیہقی نے کی ہے اس پر تفصیلا بحث سوالات کے سیکشن میں ہے

دیکھئے

کہا جاتا ہے انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس کی کوئی صحیح حدیث ہے ؟

یہ روایت نماز کی اہمیت پر بصرہ میں گھڑی گئی اس کی سند کا راوی حجاج مجھول ہے جس کو بصرہ کا بتایا جاتا ہے اور اس سے نیچے ثابت البنانی بھی بصرہ کے ہیں

قبرستان میں نماز حرام ہے اور یہ فقہ میں موجود ہے تو اس میں پڑھی گئی نماز کیسے  قبول ہو گی ایسی نماز شریعت میں حرام ہے اور طریقت میں عین دین ہے لہذا صوفی منش بیہقی کی پسندیدہ بنی

یہ دور تھا جب تصوف اور حدیث اپس میں مل رہے تھے اس کا روی مستلم بن سعید ہے اس کے لئے تہذیب الکمال میں ہے

وَقَال الْحَسَن بْن علي الخلال عَنْ يزيد بْن هارون، مكث المستلم بْن سَعِيد أربعين سنة لا يضع جنبه إلى الأرض. قال: وسمعته يقول: لم أشرب الماء منذ خمسة وأربعين يوما.

اور الحسن بن علی الخلال نےیزید بن ہارون سے روایت کیا کہ یزید کہتے ہیں مستلم نے چالیس سال تک زمین پر پہلو نہیں لگایا اور میں نے ان سے سنا کہتے تھے میں نے ٤٥ دن سے پانی نہیں پیا

یعنی مستلم ایک سادھو اور جوگی تھی سخت مشقتیں کرتے اور بصرہ کے جملہ محدثین ان کی روایات نقل کر کے اپنے تئیں دین کی خدمت کر رہے تھے

یہ لوگ مندرجہ ذیل روایت بھی پیش کرتے ہیں

امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب  نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ ابوالدراد  رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ  نے ارشاد فر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ آپ کی موت کے بعد ؟ آپ نے فرمایا الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے جسموں کو کھائے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے

ابن ماجہ 119)  ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات، التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔ حافظ منذری   الترغيب والترهيب لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297 علامہ عزیزی لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔ اسی طرح زرقانی ، سمہووی، ملاعلی قاری، شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، نیل الاوطار جلد5ص 264، عون المعبود جلد ۱ص405۔

عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ  کا سماع ابو الدرداء سے نہیں ہے اور اس کو مرسل کہا جاتا ہے

راوی ثقہ ہوں لیکن ان کا سماع نہ ہو تو روایت ضعیف ہی ہوتی ہے یہ سادہ اصول علم حدیث کی تمام کتب میں ہےابن حجر خود تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں

زيد بن أيمن. روى عن عبادة بن نسي. وعنه سعيد بن أبي هلال وذكره ابن حبان في الثقات روى له ابن ماجة حديثا واحدا في فضل الصلاة على النبي صلى الله عليه وآله وسلم1. قلت رجاله ثقات لكن قال البخاري زيد بن أيمن عن عبادة بن نسي مرسل.

زید بن ایمن جو سے روایت کرتا ہے اور ان سے سعید بن ابی ہلال اس کا ذکر ابن حبان نے ثقات میں کیا ہے ابن ماجہ نے ان سے روایت کی ہے ایک حدیث جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود سے متعلق ہے میں کہتا ہوں اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن امام بخاری کہتے ہیں زید بن ایمان اور وہ عبادہ سے مرسل ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

زيد بن أيمن [ق .
عن عبادة بن نسى.
عن أبي الدرداء، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الانبياء، فنبي الله حى يرزق.
روى عنه سعيد بن أبي هلال فقط، لكن ذكره ابن حبان في الثقات على قاعدته

زید بن ایمان ان سے عبادہ کی روایت اور ان سے ابو درداء کی کہ  رسول الله نے فرمایا کہ الله نے حرام کر دیا ہے زمیں پر کہ انبیاء کے جسموں کو کہئے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے ان سے اس کو فقط سعید نے روایت کیا ہے لیکن ابن حبان نے اپنے قاعدے کے مطابق اس کو ثقات میں شمار کر دیا ہے

ابن حبان پر تساہل کا زور تھا اس کی طرف الذھبی نے اشارہ دیا ہے

. البوصيري “مصباح الزجاجة” میں کہتے ہیں

هذا إسناد رجاله ثقات إلا أنه منقطع في موضعين: عبادة بن نسي روايته عن أبي الدرداء مرسلة؛

اس روایت کی اسناد میں ثقہ رجال ہیں لیکن یہ دو مقام پر منقطع ہے عبادہ بن نسی کی ابو درداء سے روایت مرسل ہے

ابن کثیر تفسیر  میں سوره الاحزاب پر بحث میں  اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِيهِ انْقِطَاعٌ بَيْنَ عُبَادَةَ بْنِ نُسِيٍّ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فَإِنَّهُ لَمْ يُدْرِكْهُ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

یہ حدیث غریب ہے اس سند سے اس میں انقطاع ہے عبادہ اور ابی الدرداء کے درمیان کیونکہ انکی ملاقات نہ ہوئی

یہ اقوال بھی ہیں جو واضح کرتے ہیں روایت منقطع ہے

اسی سند سے تفسیر الطبری کی ایک اور روایت ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: ثني عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا عَلَيَّ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ يَوْمٌ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ

ابو الدردا رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر کثرت سے جمعہ کے دن درود پڑھو کیونکہ یہ وہ دن ہے جو یوم مشہود ہے فرشتے دیکھتے ہیں

یہ روایت بھی مرسل ہے ضعیف ہے اور کیا فرشتے عام دنوں میں نہیں ریکارڈ کرتے

قائلین حیات النبی صحیح مسلم کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَنَا أَکْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ   رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تمام انبیاء سے زیادہ میرے پیروکار ہوں گے اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔

 اِسے امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

  عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتَفْتِحُ فَيَقُوْلُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُوْلُ: بِکَ أُمِرْتُ لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَکَ  رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ حُمَيْدٍ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب في قول النبي صلی الله عليه واله وسلم : أنا أوّل النّاس يشفع في الجنّة

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: روزِ محشر میں جنت کے دروازے پر آ کر دستک دوں گا، دربانِ جنت دریافت کرے گا: آپ کون ہیں؟ تو میں کہوں گا: میں محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہوں، وہ کہے گا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے جنت کا دروازہ کسی اور کے لیے نہ کھولوں۔

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو عوانہ اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔.

جو غیر مقلدین اس حدیث کو پیش کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ حدیث دال ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابھی بھی مدینہ والی قبر میں ہی ہیں اور ان کی قبر جنت کے باغ میں سے ایک ہے- یہی بعض  وہابی علماء کا نظریہ ہے جو قرآن و احادیث صحیحہ کے یکسر خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ وہابی و سلفی علماء ابن تیمیہ کی تقلید میں سماع الموتی کے قائل ہیں (بشمول ابن کثیر، ابن حجرو غیرھم ) جبکہ غیر مقلدین کے مطابق یہ گمراہی ہے

البانی سماع الموتی کے انکاری لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں روح لوٹائے جانے کے قائل ہیں

کتاب  موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني «موسوعة تحتوي على أكثر من  عملاً ودراسة حول العلامة الألباني وتراثه الخالد  از مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية وتحقيق التراث والترجمة، صنعاء – اليمن کے مطابق البانی سے سوال ہوا کہ کیا رسول الله زندہ ہیں- البانی کہتے ہیں ان کا جسم قائم ہے اور

al-bani-1546-front

قال: «إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء» ,أي: أنا كسائر الأنبياء جسدي في القبر حي طري, ولكن اصطفاني ربي عز وجل بخصلة أخرى أنه كلما سلم علي مسلمون رد الله إلي روحي فأرد عليه السلام, وهذا الحديث وهو ثابت فيه دلاله على أن الرسول عليه السلام خلاف ما يتوهم كثير من العامة, بل وفيهم بعض الخاصة وهي أن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – لا يسمع سلام المسلمين عليه, وإنما كما جاء في الحديث الصحيح: «إن لله ملائكة سياحين, يبلغوني عن أمتي السلام» , إن لله ملائكة سياحين: يعني طوافين على المسلمين, فكلما سمعوا مسلماً يصلي على النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – بلغوه بذلك وهو لا يسمع؛ لأن الميت لا يسمع, انفصل عن هذه الحياة الدنيا ومتعلقاتها كلها, ولكن الله عز وجل اصطفى نبيه عليه السلام فيما ذكرنا من الحياة ومن تمكينه بإعادة روحه إلى جسده, ورد السلام على المسلمين عليه, ومن ذلك أيضاً أن هناك ملائكةً يبلغونه السلام فكلما سلموا عليه من فلان هو رد عليهم السلام.  الهدى والنور” (268/ 08: 22: 00)

al-bani-1546

رسول  الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے اجسام کو کھائے – یعنی کہ میں تمام انبیاء  کے جسموں کی طرح قبر میں تازہ رہوں گا – لیکن الله نے مجھے چن لیا ایک دوسری خصوصیت کے لئے کہ جب مسلمان مجھ پر سلام کہیں گے تو الله میری روح کو لوٹا دے گا اور میں جواب دوں گا اور یہ حدیث ثابت ہے دلیل ہے کہ اس کے خلاف جس پر بہت سوں کو وہم ہے – بلکہ اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہے وہ یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کا سلام نہیں سنتے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ الله کے فرشتے ہیں جو  سلام لاتے ہیں یعنی الله کے سیاح فرشتے ہیں جو مسلمانوں میں پھرتے رہتے ہیں پس جب وہ کسی کو سلام کہتے سنتے ہیں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک لاتے ہیں اور رسول الله اس کو خود سن نہیں پاتے – کیونکہ میت نہیں سنتی – وہ دنیا اور اس کے متعلقات سے کٹی ہوتی ہے لیکن الله نے اپنے نبی کو چنا جس کا ہم نے ذکر کیا کہ روح کو جسم میں جگہ ملتی ہے روح لوٹانے جانے پر اور مسلمانوں کے  سلام کا جواب دینے کے لئے  اور ساتھ ہی فرشتے ہیں جو سلام پہنچاتے ہیں پس جب فلاں سلام کہتا ہے اس روح کو لوٹا دیا جاتا ہے

البانی کی احمقانہ منطق دیکھیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم روح لوٹانے پر سن نہیں سکتے لیکن بول سکتے ہیں

 بقول سراج اورنگ آبادی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

علم حدیث عقل سے عاری ہو تو یہ نتیجہ نکلتا ہے

المناوي  المتوفی ١٠٣١ ھ اس کے خلاف کہتے ہیں

 يعني ردّ علىَّ نطقي، لأنه – صلَّى الله عليه وسلم – حي على الدوام، وروحه لا تفارقه أبداً

 المناوي کہتے ہیں : یعنی بولنے کی صلاحیت  لوٹائی جاتی ہے ، بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل 

 زندہ ہیں اور روح جسد سے الگ نہیں

المناوی نے امام سیوطی  (المتوفى: 911هـ) کا قول نقل کیا ہےسیوطی الحاوی للفتاوی میں کہتے روح لوٹانے والی حدیث سے

حاوی الفتاوی فرنٹ

حاوی الفتاوی ١٥١png

 يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ عَلَى الدَّوَامِ

اخذ کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم دائمی زندہ ہیں

وہابی عالم ابی بطين  کتاب  رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين  کہتے ہیں

الحديث المشهور: “ما من مسلم يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام” 1؛ فهذا يدل على أن روحه صلى الله عليه وسلم ليست دائمة في قبره.
ومعرفة الميت زائره ليس مختصا به صلى الله عليه وسلم

حدیث مشھور ہے کہ کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس کا جواب دینے کے لئے الله میری روح نہ لوٹا دے پس یہ دلیل  ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح مسلسل قبر میں نہیں اور میت کا زائر کو جاننا رسول الله کے لئے خاص نہیں

وہابی عالم ابی بطين  کتاب تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس  کہتے ہیں

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس front

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس 119

 جیسا ابو داود نے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کوئی مسلم نہیں جو مجھ کو سلام کرے اور اللہ میری روح نہ لوٹا دے جواب پلٹنے کے لئے پس یہ دلیل ہے کہ روح شریف ان کے بدن میں دائما نہیں ہے بلکہ اعلیٰ علیین میں ہے اور اس کا بدن سے کنکشن ہے جس کی حقیقت الله کو پتا ہے نہ اس میں حس سے نہ عقل اور نہ یہ ان کے لئے خاص ہے

یعنی  ہر میت زائر کو جانتی ہے یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں ہے

ابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٩ میں لکھتے ہیں

فتح الباري ج ٧ فرونت

فتح الباري ج ٧ ص ٣٦

 إِنَّ حَيَاتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْر لايعقبها مَوْتٌ بَلْ يَسْتَمِرُّ حَيًّا وَالْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ 

بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر میں زندگی پر موت نہیں اتی، بلکہ آپ مسلسل زندہ ہیں اور(تمام) انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں

ان کے شاگرد السخاوی کتاب القول البديع في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ  ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي  میں کہتے ہیں

ساخاوي 1

يؤخذ من هذه الأحاديث أنه – صلى الله عليه وسلم – حي على الدوام وذلك أنه
محال عادة أن يخلو الوجود كله من واحد يسلم عليه في ليل ونهار

نحن نؤمن ونصدق بأنه – صلى الله عليه وسلم – حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا

ساخاوي ٢

ان احادیث سے اخذ کیا جاتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور یہ دن و رات  ہر ایک آن پر  سلام کہہ رہا ہے لہذا ان کا وجود روح سے  خالی نہیں – ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، قبر میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے جسد شریف کو زمیں نہیں کھاتی اور اس پر اجماع ہے

رزق کا قبر میں دیا جانا دنیاوی حیات جیسا ہے جس کے دیوبندی قائل ہیں اور غیر مقلدین انکار کرتے ہیں

مفتی بن باز کہتے ہیں

https://binbaz.org.sa/fatwas/49/هل-الرسول-ﷺ-حي-في-قبره-ام-لا

قد صرح الكثيرون من أهل السنة بأن النبي صلى الله عليه وسلم حي في قبره حياة برزخية لا يعلم كنهها وكيفيتها إلا الله سبحانه، وليست من جنس حياة أهل الدنيا بل هي نوع آخر يحصل بها له صلى الله عليه وسلم الإحساس بالنعيم، ويسمع بها سلام المسلم عليه عندما يرد الله عليه روحه ذلك الوقت

اکثر اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ جس کی کیفیت صرف الله ہی جانتا ہے اور یہ دنیا کی زندگی جیسی نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی طرح کی ہے جس سے صلی الله علیہ وسلم کو راحت کا احساس ہوتا ہے اور اس سے سلام سنتے ہیں اور اس وقت الله اپ کی روح لوٹا دیتا ہے

كتاب  الدرر السنية في الأجوبة النجدية از   عبد الرحمن بن محمد بن قاسم کے مطابق محمد بن الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ عبد الرحمن کہتے ہیں

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ j1front

ونعتقد أن رتبته صلى الله عليه وسلم أعلى رتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية، أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنْزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه،

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ

اور ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا رتبہ مخلوق میں  علی اطلاق سب سے اعلی ہے اور بے شک وہ قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ , جو شہداء کی زندگی سے بلند ہے جس پر نصوص ہیں تنزیل میں (یعنی  قرآن میں ) کہ جب وہ (رسول الله ) افضل ہیں (شہداء سے) بلا شک تو،  بے شک وہ  سلام سنتے ہیں جب کوئی مسلم سلام کہتا ہے ان پر اور ایسی زندگی جو علم کی متقاضی ہو، تصرف چاہتی ہو، تدبیر کے حرکت چاہتی ہو، تو وہ ان صلی الله علیہ وسلم میں نہیں ہے

خوب ایک کہتا ہے نبی سلام نہیں سنتے دوسرا کہتا ہے سنتے ہیں

اس کتاب ج ١٢ ص  ١٧٨ کے مطابق نجدی علماء مانتے ہیں

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ j12-front

ولم يرد حديث صحيح بأنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ٢

کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا کہ آپ’ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں

لیکن شہید سے تقابل کرکے یہ استخراج کیا گیا

اس کا استخرآج شہداء کی زندگی سے کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انبیاء سے کم تر ہیں لہذا انبیاء قبروں میں  زندہ ہونے چاہییں

أصول الإيمان از المؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) تحقيق: باسم فيصل الجوابرة لناشر: وزارة الشؤون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد – المملكة العربية السعودية الطبعة: الخامسة، 1420هـ میں ہے

والذي نعتقده أن مرتبَة نبينا محمد صَلَّى اللَّه عليه وسَلَّم أعلى مراتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه

ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ مخلوق میں على الإطلاق سب سے اعلی ہے
اور وہ قبر میں زندہ ہیں حیات برزخی کے ساتھ جو حیات شہداء سے بلند ہے اس پر قرآن میں نصوص ہیں پس جب وہ افضل ہیں جس میں کوئی شک نہیں تو بلاشبہ وہ سلام سنتے ہیں جب کوئی سلام کہے

 کتاب  تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس میں نجدی عالم أبابطين کہتے ہیں

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس front

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس 118

قال ابن القيم: لم يرد حديث صحيح أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره

ابن قیم کہتے ہیں کسی صحیح حدیث میں نہیں کہ رسول الله قبر میں زندہ ہوں

یہ الفاظ ابن قیم کی کسی کتاب میں نہیں ملے اگرچہ ان کے استاد موسی علیہ السلام کے لئے لکھتے ہیں

وَأَمَّا كَوْنُهُ رَأَى مُوسَى قَائِمًا يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ وَرَآهُ فِي السَّمَاءِ أَيْضًا فَهَذَا لَا مُنَافَاةَ بَيْنَهُمَا فَإِنَّ أَمْرَ الْأَرْوَاحِ مِنْ جِنْس أَمْرِ الْمَلَائِكَةِ. فِي اللَّحْظَةِ الْوَاحِدَةِ تَصْعَدُ وَتَهْبِطُ كَالْمَلَكِ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالْبَدَنِ

مجموع الفتاوی از ابن تیمیہ ج ٤ ص ٣٢٩ پر

اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ رسول الله نے موسی کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کو آسمان پر بھی دیکھا تو اس میں کوئی فرق نہیں کیونکہ روحیں فرشتوں کے امر کی جنس سے ہیں ایک لحظہ میں چڑھتی اترتی ہیں جیسا کہ فرشتہ اور بدن ایسا نہیں ہے

یعنی انبیاء جنت میں بھی ہیں اور دنیا کی قبروں میں بھی ان کی روحیں فرشتوں کی طرح آنا فانا اترتی چڑھتی ہیں اور ان کی روحیں بدن میں جاتی نکلتی ہیں

ابن تیمیہ زیارت قبر نبی کے لئے سفر کو بدعت کہتے تھے لیکن یہ مانتے تھے کہ قبر پر پڑھا جانے والا سلام نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں لہذا وہ  کتاب  قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق میں کہتے تھے

qaida- alazemah -ibn temiah front

qaida- alazemah -ibn temiah 57

فمقصودُهُ صلى الله عليه وسلم بقوله: «مَا مِنْ رَجُلٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ (4) » بيان حياتِه، وأنه  يَسمع السلام من القريب، ويبلَّغ السلامَ من البعيد، ليس مقصودُهُ أمر الأمة بأن يأتوا إلى القبر ليسلموا عليه عند قبره

پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس پر الله میری روح اس کو جواب دینے کے لئے لوٹا نہ دے ،  یہ کہنے کا مقصد ان کی زندگی تھا اور بے شک وہ قریب کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا ان کو پہنچایا جاتا ہے اس کو کہتے کا مقصد یہ نہ تھا کہ امت کو حکم دیں کہ وہ قبر پر آ کر ہی سلام کہے

اسی روایت کا کتاب قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة میں ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں

وعلى هذا الحديث اعتمد الأئمة في السلام عليه عند قبره، صلوات الله وسلامه عليه.

اور اس حدیث پر ائمہ اسلام نے اعتماد کیا ہے کہ سلام قبر پر کہا جائے 

ابن تیمیہ کے مخالفین مثلا السبکی اپنی کتاب  شفاء السقام میں آیت پیش کرتے   ہیں

یا ایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فوق صوت النبی…….. الخ (پارہ26 ۔الحجرة

اے ایمان والوں اپنی آواز کو رسول اللہ کی آواز سے بلند نہ کرو 

السبکی کے مطابق وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابل ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس میں زندہ ہیں

شفا السقام ١

۔  ابوبکر الصدیق سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  کے سامنے بلند آواز کرنا جائز نہیں نہ زندگی میں نہ حالت میت میں  اور عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہ  خبردار رسول الله کو تکلیف نہ دو اور  علی بن ابی طالب رضی الله عنہ  نے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے ایسا الحسینی نے روایت کیا اخبار مدینہ میں اور تمام دلیلیں ہیں کہ وہ رسول الله کو زندہ دیکھتے تھے

  کتاب  الدرة الثمينة في أخبار المدينة از  محب الدين أبو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن المعروف بابن النجار (المتوفى: 643هـ) میں عائشہ  اور علی رضی الله عنہما کی روایت کی سند ہے

أنبأنا يحيى بن أسعد بن بوش، عن أبي علي الحداد، عن أبي نعيم الحافظ، عن جعفر الخلدي، أنبأنا أبو يزيد المخزومي، حدثنا الزبير بن بكار، حدثنا محمد بن الحسن قال: حدثني غير واحد، منهم عبد العزيز بن أبي حازم، ونوفل بن عمارة قالوا: إن عائشة رضي الله عنها كانت تسمع صوت الوتد والمسمار يضرب في بعض الدور المطنبة بمسجدالنبي صلى الله عليه وسلم، فترسل إليهم: أن لا تؤذوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما عمل علي بن أبي طالب رضي الله عنه مصراعي داره إلا بالمناصع توقياً لذلك.

اس کی سند منقطع ہے ایک سے زائد نے روایت کیا کون ہیں پتا نہیں ہے لہذا السبکی کی دونوں روایات ضعیف ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے خدیجہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ ان کے لئے جنت میں گھر ہے جس میں شور نہ ہو گا

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امہات المومنین جو دنیا و آخرت میں رسول الله کی ازواج ہیں وہ جنت میں ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں جہاں پر وقت شور ہی شور ہے اور مومن کا قید خانہ ہے اس میں رسول الله ابھی تک ہوں

اصل میں یہ امت کا غلو ہے اور  غم کی  نفسیاتی کیفیت ہے کہ اپنے نبی کی وفات اس کو قبول نہیں ہو رہی ایسی کیفیت عمر رضی الله عنہ پر بھی چند گھنٹوں رہی لیکن زائل ہو گئی تھی

اب صورت حال یہ ہوئی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم قبر میں مسلسل زندہ ہیں روح جسد سے الگ نہیں محدث  ابن حجراور السبکی

رسول الله صلی الله  علیہ وسلم کو قبر میں رزق دیا جاتا ہے محدث  السخاوی

رسول الله صلی الله  علیہ وسلم کی روح ہر وقت قبر میں نہیں  نجدی مفتی ابا بطین

 رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم  قبر میں سنتے بھی ہیں سعودی مفتی بن باز، محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح جسد میں اتی ہے لیکن سنتے نہیں بولتے ہیں البانی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں قوت نطق دی جاتی ہے المناوی

رسول اللہ کی قبر میں زندگی پر کوئی صحیح حدیث نہیں  ابا بطین

رسول الله صلی الله علیہ وسلم (اور دیگر انبیاء ) کی روح قبر میں بدن میں آنا فانا اتی جاتی رہتی ہیں ابن تیمیہ

یعنی  ایک طرف تو کہا جا رہا ہے کہ رسول الله کی وفات ہوئی دوسری طرف ان میں عود روح بھی کرایا جا رہا ہے اس طرح متضاد روایات میں ایک نرالی تطبیق پیدا کی جاتی ہے جو  التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ   یا دور کی کوڑی کی شکل ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ  خرج رسول اللہ من الدنیا صحیح بخاری

    رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  دنیا سے نکل  گئے 

واضح رہے کہ سلام کہنے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب کی جاتی ہے جبکہ وہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ابو ہریرہ خود رسول الله کی روح دنیا سے نکل جانے کے قائل ہیں

ایک طرف تو علماء کہتے ہیں کہ رسول الله کی قبر میں زندگی برزخی ہے دوسری طرف ان کو قبر میں نماز بھی پڑھواتے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں ہے کہ انبیاء جنتوں میں ہیں- شب معراج وہیں ملاقات ہوئی اور جنت میں موسی و آدم کے کلام کا ذکر بھی احادیث میں ہے خود زندہ نبی عیسیٰ علیہ السلام بھی جنت میں ہیں – مسلم کی اوپر والی جنت کا دروازہ کھولنے والی حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر روز محشر الله کا خاص انعام ہے جہاں تمام بنی نوع آدم کے سامنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے- صلی الله علیہ وسلم

musalmano-ka-aqdiah

فرشتوں کا سلام پہنچانا اور غیر مقلدین

فرقہ غیر مقلدین سے منسلک ایک ویب سائٹ

kitabosunnat.com

پر کتاب دیکھنے کو ملی کتاب تبلیغی نصاب کے رد میں تھی اور اس کا عنوان تھا تبلیغی نصاب کا جائزہ قرآن و حدیث کی نظر میں از محمد منیر

زاذان  صحابی رسول  عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت نقل کرتا ہے

  إنّ لله ملائكة سیّاحین في الأرض یبلغوني من أمتی السلام

بے شک الله کے سیاح فرشتے ہیں زمین پر جو میری امت کا سلام لاتے ہیں

یہاں اس کی تصحیح کرنے والے علماء کی لسٹ دیں تو کافی طویل ہو گا اس کے لئے کتابچہ عرض اعمال کی روایات دیکھیں جو ہماری اس ویب سائٹ پر موجود ہے

محمد منیر لکھتے ہیں

muneer-arz-amal-tableeghi

ان اقتباسات میں تبلیغی بھائیوں کی بجائے اہل حدیث بھائیوں بھی پڑھا جائے تو ٹھیک ہے کیونکہ عرض اعمال

اہل حدیث کا بھی عقیدہ ہے

یہ ایک اچھی بات ہے کہ اہل حدیث بھائی تصویر کے دونوں رخ اپنی ویب سائٹ پر رکھتے ہیں تاکہ تقلید کا کوئی شکار نہ ہو الله ہم سب کو ہدایت دے

عقیدہ عرض اعمال کا ارتقاء

قرآن الله تعالی کی طرف سے ہے اور ان تمام عقائد کی وضاحت کرتا جو ایک انسان کی اخروی فلاح کے لئے ہوں

افسوس !

عقائد میں اضافے کیے جاتے رہے صوفیا ہوں یا محدثین دونوں نے روایات کی بنیاد پر اضافے کیے ہیں

قرآن کہتا ہے

أَفَمَنۡ هُوَ قَآٮِٕمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ‌ۗ وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ۔
تو کیا جو (اللہ) ہر متنفس کے اعمال کا نگراں (ونگہباں) ہے (وہ تمہارے معبودوں کی طرح بےعلم وبےخبر ہوسکتا ہے) اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں۔ سورة الرعد ۳۳

يَعۡلَمُ مَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَفۡسٍ۬‌ۗ۔
ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ سورة الرعد٤۲

وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِۦ خَبِيرَۢا بَصِيرً۬ا
اور تمہارا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے اور دیکھنے کیلئے کافی ہے۔ سورة بنی اسرائیل۱۷

وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ
اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔ سورة البقرہ۲۱۰

وَإِلَيۡهِ يُرۡجَعُ ٱلۡأَمۡرُ كُلُّهُ ۥ
اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے۔ سورة ھود ۱۲۳

وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ سورة الحج ٤۱

وَإِلَى ٱللَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور (سب)کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے ۔ سورة لقمان۲۲

أَلَآ إِلَى ٱللَّهِ تَصِيرُ ٱلۡأُمُورُ
دیکھو سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوں گے ۔ سورة الشوریٰ۵۳

اس کے برعکس رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت پیش کی جاتی ہے
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے

اس روایت کو اگر درست تسلیم کیا جائے تواس سے یہ نکلتا ہے

اول عرض اعمال قبر میں انبیاء پر ہوتا ہے

دوم رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جمعہ کے دن قبر میں عمل پیش ہوتا ہے

سوم انبیاء کے اجسام محفوظ رہیں گے

چہارم درود رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر  زندگی میں بھی پیش ہو رہا تھا صحابہ کو اشکال وفات کےبعد والے دور پر ہوا

بعض علماء ایسی روایات کو سنتے ہی وجد میں آ گئے اور تصحیح کر بیٹھے مثلا

البانی کتاب صحیح ابی داود میں  ابن ابی حاتم کا قول پیش کرتے ہیں

وقد أعِل الحديث بعلة غريبة، ذكرها ابن أبي حاتم في “العلل ” (1/197) ،  وخلاصة كلامه: أن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر- وهو شامي- لم يحدتْ عنه  أحد من أهل العراق- كالجعفي-، وأن الذي يروي عنه أبو أسامة وحسين الجعفي واحد، وهو عبد الرحمن بن يزيد بن تميم، وهو ضعيف؛ وعبد الرحمن بن يزيد بن  جابر ثقة، وهذا الحديث منكر، لا أعلم أحداً رواه غير حسين الجعفي!  قلت: ويعني: أنه أخطأ في قوله: عبد الرحمن بن يزيد بن جابر؛ وإنما هو:  عبد الرحمن بن يزيد بن تميم؛ الضعيف! وهذه علة واهية كما ترى؛ لأن الجعفي ثقة اتفاقاً؛ فكيف يجوز تخطئته لمجرد عدم العلم بأن أحداً من العراقيين لم يحدِّث عن ابن جابر؟! وما المانع من أن يكون الجعفي العرافي قد سمع من ابن جابر حين لزل هذا البصرة قبل أن يتحول إلى دمشق، كما جاء في ترجمته؟! وتفرد الثقه بالحديث لا يقدح؛ إلا أدْ يثبت خَطَأهُ كماهو معلوم.

اور بے شک اس پر ایک انوکھی علت بیان کی جاتی ہے جس کا ذکر ابن ابی حاتم نے العلل 1/ ١٩٧ میں کیا اور خلاصہ کلام ہے کہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر جو شامی ہے اس سے کسی عراقی نے روایت نہیں کی جیسے یہ الجعفی  – اور وہ جس سے  ابو اسامہ اور  حسين الجعفي روایت کرتے ہیں وہ اصل میں عبد الرحمن بن يزيد بن تميم  ہے جو ضعیف ہے جبکہ عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ثقہ ہے اور یہ حدیث منکر ہے جس کو سوائے حسین کے کوئی روایت نہیں کرتا

البانی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اور اس کا مطلب ہوا کہ اس حسين الجعفي    نے عبد الرحمن بن يزيد بن جابر بولنے میں غلطی کی اور وہ عبد الرحمن بن يزيد بن تميم تھا جو ضعیف ہے (حد ہو گئی) اور ابی حاتم کی پیش کردہ علت واہیات ہے جیسے کہ دیکھا کیونکہ یہ الجعفي  ثقہ بالاتفاق ہے اور یہ کیسے جائز ہے کہ ایک لا علمی پر مجرد غلطی کہا جائے کہ کسی عراقی نے ابن جابر سے روایت نہیں کیا ہے؟ اور اس میں کچھ مانع نہیں کہ عراقی الجعفي  نے ابن جابر سے سنا ہو جب بصرہ گئے دمشق سے پہلے جیسا کہ ان کے ترجمہ میں ہے اور ثقہ کا تفرد حدیث میں مقدوح نہیں

البانی کا مقصد ہے کہ حسين الجعفي  جو کوفی تھا ممکن ہے کبھی بصرہ میں اس کی ملاقات عبد الرحمان بن یزید بن جابر سے ہوئی ہو- ایسے ممکنات کو دلیل بناتے ہوئے البانی اس کی تصحیح کے لئے بے چین ہیں اور حد ہے کہ ائمہ حدیث ابی حاتم تک پر جرح کر رہے ہیں اور ان کے قول کو واھی کہہ رہے ہیں- باقی امام بخاری کی رائے بھی ابی حاتم والی ہی ہے اس کو خوبصورتی سے گول کر گئے

البانی کے عقائد پر کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني  کے مطابق البانی  اس روایت کی دلیل پر ایک دوسری روایت بھی پیش کرتے ہیں

ولعل مما يشير إلى ذلك قوله صلى الله عليه وسلم: “ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام”   وعلى كل حال فإن حقيقتها لا يدريها إلا الله سبحانه وتعالى، ولذلك فلا يجوز قياس الحياة البرزخية أو الحياة الأخروية على الحياة الدنيوية

اور ہو سکتا ہے کہ اسی بات پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے  قول  میں اشارہ دیا گیا کہ   تم میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام پڑھے اور الله میری روح کو نہ لوٹا دے اور ہر حال میں حقیقت الله ہی جانتا ہے اور اس لئے یہ جائز نہیں کہ حیات برزخی یا اخروی کو دنیاوی پر قیاس کیا جائے

سلام بولنے پر روح لوٹانے والی روایت کو اہل حدیث علماء خواجہ محمّد قاسم اور زبیر علی زئی رد کرتے ہیں جبکہ البانی اسی کو دلیل میں پیش کر رہے ہیں –  ابن کثیر تفسیر میں سورہ الاحزاب  میں اس سلام پر روح لوٹائے جانے والی روایت کو صحیح کہتے ہیں اور دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں

وَمِنْ ذَلِكَ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ الصَّلَاةُ والسلام عليه عند زيارة قبره صلى الله عليه وسلم

اور اس لئے یہ مستحب ہے کہ  زيارة قبر نبی صلى الله عليه وسلم  کے وقت  الصَّلَاةُ والسلام کہے

عرض اعمال والی روایت کو صحیح کہنے والے ابو داود کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اس پر سکوت کیا ہے اور ان سے منسوب ایک خط میں انہوں نے کہا کہ قد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح  جس پر بھی میں سکوت کروں وہ صحیح سمجھی جائے –اس کے برعکس البانی اس قول کو خاطر میں نہیں لاتے اور پوری ایک کتاب ضیف ابو داود تالیف کر بیٹھے جس میں اکثر وہ روایات ہیں جن پر ابو داود کا سکوت ہے

سوال یہ ہے کہ یہ تضاد کیوں ہے عقیدے کی ضعیف سے ضعیف روایت پر ابو داود کے سکوت کا حوالہ دینا اور قبول کرنا اور  عمل میں انہی کو رد کرنا

عرض اعمال والی درود پیش ہونے والی روایت پر ابن حبان کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کو صحیح میں لکھا ہے – ابن حبان چوتھی صدی ہجری کے محدث ہیں ان سے ایک   صدی قبل بخاری اور ابی حاتم اس روایت کو معلول قرار دے چکے تھے لیکن وہ اس کی تصحیح کر بیٹھے – اس کی وجہ ابن حبان کا اپنا عقیدہ ہے کہ قبروں کے پاس دعائیں قبول ہوتی ہیں اور ابن حبان سماع الموتی کے قائل تھے

 ابن حبان المتوفی  ٣٥٤ ھ   اپنی صحیح میں روایت کرتے  ہیں

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ سُرَيْجٍ النَّقَّالُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا مَرَرْتُمْ بِقُبُورِنَا وَقُبُورِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّهُمْ فِي النَّارِ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب تم ہماری (اہل اسلام) اور اہل الْجَاهِلِيَّةِ کی قبروں پر سے گزرتے ہو تو پس ان کو خبر دو کہ وہ اگ والے ہیں

البانی کتاب التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں  کہتے ہیں صحيح اور اسی طرح – «الصحيحة» (18)، «أحكام الجنائز» (252) میں اس کو صحیح قرار دیتے ہیں

ابن حبان اس حدیث پر صحیح ابن حبان میں حاشیہ لکھتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَرَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْخَبَرِ الْمُسْلِمَ إِذَا مَرَّ بِقَبْرِ غَيْرِ الْمُسْلِمِ، أَنْ يَحْمَدَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا عَلَى هِدَايَتِهِ إِيَّاهُ الْإِسْلَامَ، بِلَفْظِ الْأَمْرِ بِالْإِخْبَارِ إِيَّاهُ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، إِذْ مُحَالٌ أَنْ يُخَاطَبَ مَنْ قَدْ بَلِيَ بِمَا لَا يَقْبَلُ عَنِ الْمُخَاطِبِ بِمَا يُخَاطِبُهُ بِهِ

  نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا اس حدیث میں کہ جب کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کی قبر پر سے گزرے تو الله کی تعریف کرے اس ہدایت پر جو اس نے اسلام سے دی اور حکم کے الفاظ جو اس حدیث میں ہیں کہ وہ اگ میں سے ہیں سے یہ محال ہے کہ ان  کو مخاطب کیا جائے جو بے شک (اتنے) گل سڑ گئے ہوں کہ  خطاب کرنے والے (کی اس بات ) کو قبول نہ کر سکتے ہوں جس پر ان کو مخاطب کیا گیا ہے

ابن حبان کے حساب سے ایسا خطاب نبی صلی الله علیہ وسلم نے سکھایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے سمجھنے اور سننے کے قابل  ہیں اس ضعیف روایت کو اپنی صحیح  میں بھی لکھتے ہیں اس سے بھی عجیب بات ہے کہ مردوں کے نہ سننے کے قائل البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں جبکہ سندا یہ روایت کمزور ہے

ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل  تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتی

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

 قبروں سے فیض حاصل کرنے اور مردوں کے سننے کے ابن حبان قائل تھے

شیعہ اماموں کی قبروں سے اہلسنت کے محدثین کا فیض حاصل کرنا کسی شیعہ نے لکھا ہوتا تو سب رافضی کہہ کر رد کر دیتے لیکن یہ ابن حبان خود لکھ رہے ہیں – اس ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے وہ صحیح ابن حبان میں عرض اعمال کی روایت کی تصحیح کر گئے

عرض اعمال والی  روایت کو پانچویں صدی کے  امام حاکم نے بھی صحیح قرار دیا اور شیخین کی شرط پر کہا جبکہ بخاری تاریخ الکبیر اور الصغیر میں اس روایت کے راوی حسین الجعفی پر بات کر چکے ہیں – امام حاکم خود شیعیت کی طرف مائل ہوئے اور حدیث طیر کو صحیح کہتے تھے کہ علی سب صحابہ سے افضل ہیں

چوتھی صدی کے امام دارقطنی (المتوفى: 385هـ) بھی حرم علی الازض والی روایت کی تصحیح کر گئے حالانکہ اپنی کتاب العلل میں ایک روایت پر لکھتے ہیں

وَرَوَاهُ أَبُو أُسَامَةَ، فَقَالَ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ وَوَهِمَ فِي نَسَبِهِ، وَإِنَّمَا هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ تَمِيمٍ

اور اس کو ابو اسامہ نے روایت کیا ہے اور کہا ہے عبد الرحمان بن یزید بن جابر اور اس کے نسب میں وہم کیا اور یہ تو بے شک عبد الرحمان بن یزید بن تمیم ہے

یعنی دارقطنی یہ مان رہے ہیں کوفی ابو اسامہ نے عبد الرحمن بن یزید  کے نسب میں غلطی کی لیکن اس کو حسین الجعفی کے لئے نہیں کہتے جو بالکل یہی غلطی کر رہا ہے

آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ اور ابن قیم نے ایسی روایات کی بھرپور تائید کی

حسين بن علي الجعفي صحيح بخاري کے راوی ہیں لیکن امام بخاری کے نزدیک ان کی تمام روایات صحیح نہیں ہیں اور یہ غلطی نسب میں کر گئے ہیں اور عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کو ابن جابر کہہ گئے

حسین بن علی الجعفي کے لئے ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں

وَكَانَ مَأْلَفًا لِأَهْلِ الْقُرْآنِ وَأَهْلِ الْخَيْرِ

اور یہ اہل قرآن اور اہل خیر کی طرف مائل تھے

الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ کہتے ہیں

وَكَانَ رَاهِبَ أَهْلِ الكُوْفَةِ.

اور یہ اہل کوفہ کے راھب تھے

اور يَحْيَى بنُ يَحْيَى التَّمِيْمِيُّ  کے مطابق

إِنْ كَانَ بَقِيَ مِنَ الأَبْدَالِ أَحَدٌ، فَحُسَيْنٌ الجُعْفِيُّ

اگر ابدال میں سے کوئی رہ گیا ہے تو وہ  حُسَيْنٌ الجُعْفِيُّ ہیں

صحیح مسلم کے مقدمے میں امام مسلم  لکھتے ہیں کہ اہل خیر کے بارے میں ائمہ محدثین کی رائے اچھی نہیں تھی

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَفَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ»   قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ: فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ: عَنْ أَبِيهِ، «لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ». قَالَ مُسْلِمٌ: ” يَقُولُ: يَجْرِي الْكَذِبُ عَلَى لِسَانِهِمْ، وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْكَذِبَ

حسین بن علی  الجعفی کا روایت میں غلطی کرنا ان کا اہل خیر کی طرف مائل ہونا اور لوگوں کا ان کو ابدال کہنا اور راہب کوفہ کہنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ زہد کی طرف مائل تھے اور روایت جب عبد الرحمان بن یزید بن تمیم سے سنی تو اس قدر پسند آئی کہ اس کے متن اور عبد الرحمان سے اس کا پورا نسب تک نہ جانا اور بیان کر دی

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات محدثین نے صرف ان کے لئے کی ہے نہیں ائمہ محدثین تو نسب میں غلطیاں بہت سے راویوں سے منسوب کرتے ہیں جس کے لئے کتب تک موجود ہیں لہذا بخاری  اور ابی حاتم جیسے پائے کے محدثین کی رائے کو لفاظی کر کے رد نہیں کیا جا سکتا

مرض وفات النبی کا واقعہ

مرض وفات کا ایک مشھور واقعہ ہے (جو صرف اہل سنت کی کتب میں آیا ہے ) کہ صحیح بخاری کے مطابق جمعرات کے دن یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے چار دن پہلے، نبی صلی الله علیہ وسلم نے شدت مرض میں حکم دیا

قَالَ النَّبِى (صلى الله عليه وسلم) : (هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لا تَضِلُّوا بَعْدَهُ) ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِى عليه السلام قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ، وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ، حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ

جاؤ میں کچھ تمھارے لئے تحریرلکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو. پس عمر نے کہا کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کا غلبہ ہو رہا ہے اور تمہارےپاس قرآن ہے ،کتاب الله ہمارے لئے کافی ہے ، پس اہل بیت کا اس پر اختلاف ہو گیا

نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے شور ہوا کہ جاو قلم و تختی لےآؤ بعض نے کہا نہیں اس پر آوازیں بلند ہوئیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا

صحیح مسلم ، دار إحياء التراث العربي – بيروت کی تعلیق میں محمد فؤاد عبد الباقي لکھتے ہیں

(فقال ائتوني أكتب لكم كتابا) اعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم معصوم من الكذب ومن تغير شيء من الأحكام الشرعية في حال صحته وحال مرضه ومعصوم من ترك بيان ما أمر ببيانه وتبليغ ما أوجب الله عليه تبليغه وليس معصوما من الأمراض والأسقام العارضة للأجسام ونحوها مما لا نقص فيه لمنزلته ولا فساد لما تمهد من شريعته وقد سحر النبي صلى الله عليه وسلم حتى صار يخيل إليه أنه فعل الشيء ولم يكن فعله ولم يصدر منه صلى الله عليه وسلم في هذا الحال كلام في الأحكام مخالف لما سبق من الأحكام التي قررها فإذا علمت ما ذكرناه فقد اختلف العلماء في الكتاب الذي هم النبي صلى الله عليه وسلم به فقيل أراد أن ينص على الخلافة في إنسان معين لئلا يقع فيه نزاع وفتن وقيل أراد كتابا يبين فيه مهمات الأحكام ملخصة ليرتفع النزاع فيها ويحصل الاتفاق على المنصوص عليه وكان النبي صلى الله عليه وسلم هم بالكتاب حين ظهر له أنه مصلحة أو أوحي إليه بذلك ثم ظهر أن المصلحة تركه أو أوحي إليه بذلك ونسخ ذلك الأمر الأول وأما كلام عمر رضي الله عنه فقد اتفق العلماء المتكلمون في شرح الحديث على أنه من دلائل فقه عمر وفضائله ودقيق نظره لأنه خشي أن يكتب صلى الله عليه وسلم أمورا ربما عجزوا عنها واستحقوا العقوبة عليها لأنها منصوصة لا مجال للاجتهاد فيها فقال عمر حسبنا كتاب الله لقوله تعالى {ما فرطنا في الكتاب من شيء} وقوله {اليوم أكملت لكم دينكم} فعلم أن الله تعالى أكمل دينه فأمن الضلال على الأمة وأراد الترفيه على رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان عمر أفقه من ابن عباس وموافقيه.

پس (نبی صلی الله علیہ وسلم کا) یہ کہنا کہ کچھ تحریر لکھ دوں. جان لو کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم معصوم من الکذب ہیں اور اس سے معصوم ہیں کہ شریعت کے احکام میں تبدیلی کریں حالت صحت اور مرض دونوں میں اور اس سے بھی معصوم ہیں کہ وہ تبلیغ جس کا کیا جانا واجب ہے اس کو نہ کیا ہو . لیکن وہ امراض و اسقام ، عارضہ اجسام اور اسی نو کی چیزوں سے معصوم نہیں جس سے نبی کے درجے اور منزلت میں کوئی تنقیص نہیں آتی اور نہ کوئی فساد شریعت ہوتا ہے اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم پر جادو ہوا حتی کہ انہیں خیال ہوا کہ انہوں نے کوئی کام کیا ہے لیکن نہیں کیا ہوتا تھا اور اس حال میں نبی سے کوئی ایسا حکم بھی نہیں صادر ہوا جو پہلے سے الگ ہو پس جو ہم نے کہا اگر تم نے جان لیا تو پس (سمجھو) علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ کیا تحریر تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم لکھوانا چاہتے تھے. کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کو خلافت پر مقرر کرنا چاہتے تھے تاکہ نزآع یا فتنہ رونما نہ ہو اور کہا جاتا ہے کہ تحریر لکھوانا چاہتے تھے جس میں اہم احکام کی وضاحت کریں جو نزآع بڑھا سکتے ہوں اور ان پر اتفاق حاصل کرنا چاہتے تھے … اور جہاں تک عمر رضی الله عنہ کے قول کا تعلق ہے تو اس پر متکلم علماء کا اتفاق ہے ،اس حدیث کی شرح میں کہ یہ عمر کی دقیق النظری اور فضیلت کی دلیل ہے کہ وہ ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں نبی صلی الله علیہ وسلم ایسا حکم نہ لکھوا دیں جس کو کر نہ سکیں …

روایت کے الفاظ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَع ( بے شک ان پر بیماری کی شدت ہے) کی شرح کی جاتی ہے

شرح صحيح البخارى میں ابن بطال المتوفی ٤٤٩ ھ لکھتے ہیں

فقنع عمر بهذا، وأراد الترفيه عن النبى (صلى الله عليه وسلم) ، لاشتداد مرضه وغلبة الوجع عليه

پس عمر نے اس (کتاب الله) پر قناعت کی ان کا ارادہ نبی کو خوش کرنے کا تھا، کیونکہ نبی پر مرض کی شدت اور بیماری غالب آ رہی ہے

ایک دوسری روایت میں ہے فقالوا ما شأنه ؟ أهجر

پس صحابہ نے کہا ان کی کیا کیفیت ہے کیا انکو ھجر ہوا

أهجر کے شروحات میں مختلف مفہوم ہیں

ابن الملقن المتوفی ٨٠٤ ھ کتاب آلتوضيح لشرح الجامع الصحيح میں لکھتے ہیں

أهجر سلف بيانه، وهو سؤال ممن حضر في البيت، هل هو هذيان؟ يقال: هجر العليل: إذا هذى، ويحتمل أن يكون من قائله على وجه الإنكار، كأنه قال: أتظنونه هجر؟ وقيل: إن عمر قال: غلبه الوجع، فيجوز أن يكون قال للذي ارتفعت أصواتهم على جهة الزجر، كقول القائل: نزل فلان الوجع فلا تؤذوه بالصوت

أهجر … یہ سوال تھا انکا جو گھر میں اس وقت موجود تھے کیا یہ ہذیان ہے کہا هجر العليل (بیمار کو هجر) جب وہ ہذیان کہے اور احتمال ہے کہ کہنے والا اس کیفیت کا انکاری ہو جسے کہے کیا سمجھتے ہو کہ یہ ہذیان ہے ؟ اور کہا جاتا ہے عمر نے کہا ان پر بیماری کی شدت ہے پس جائز ہے کہ انہوں نے شور کرنے والوں کو ڈآٹنے کے لئے ایسا کہا ہو جیسے کوئی قائل کہے ان پر بیماری آئی ہے پس اپنی آوازوں سے ان کو اذیت نہ دو

القسطلاني (المتوفى: 923هـ) کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں

وقال النووي: وإن صح بدون الهمزة فهو لما أصابه الحيرة والدهشة لعظيم ما شاهده من هذه الحالة الدالة على وفاته وعظم المصيبة أجرى الهجر مجرى شدة الوجع. قال الكرماني: فهو مجاز لأن الهذيان الذي للمريض مستلزم لشدة وجعه فأطلق الملزوم وأراد اللازم، وللمستملي والحموي: أهجر بهمزة الاستفهام الإنكاري أي أهذى إنكارًا على من قال: لا تكتبوا أي لا تجعلوه كأمر من هذى في كلامه أو على من ظنه بالنبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في ذلك الوقت لشدة المرض عليه.

اور النووی کہتے ہیں اور اگر یہ لفظ همزة (استفھامیہ) کے بغیر ہے (یعنی اس وقت کسی نے یہ سوال نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایسا کہا ) تو پس جو انہوں نے یہ کیفیت دیکھی تو اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات جانا اور بڑی دہشت کے عالم میں ان سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ بیماری کی شدت ہے . کرمانی کہتے ہیں یہ مجاز ہے کیونکہ هذيان اس مریض کے لئے ہے جس پر بیماری کی شدت ہو

اس روایت کو شیعہ دلیل بناتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ، علی رضی الله تعالی عنہ کی امامت و خلافت کا حکم کرنے والے تھے جس کو بھانپتے ہوئے نعوذ باللہ عمر رضی الله تعالی عنہ نے یہ چال چلی اور کہنا شروع کر دیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے صلح حدیبیہ میں بھی محمد رسول الله کے الفاظ علی رضی الله تعالی عنہ سے پوچھ کر منہا کئے لہذا عمررضی الله تعالی عنہ اس کیفیت کو پہچان گئے نبی صلی الله علیہ وسلم کا فرمانا کہ میں لکھ دو اس بات کا غماز ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت تھی. اس کے بعد چار دن میں کسی بھی وقت اپ نے واپس ایسا حکم نہیں دیا

لہذا غالب رائے یہی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت تھی ورنہ اپ ایسا حکم نہیں دیتے

ھجر کی شرح امام احمد ، مسند احمد ج ٣ ص ٤٠٨ ح ١٩٣٥میں کرتے ہیں

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ، خَالِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ [ص:409]: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟، ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ – وَقَالَ مَرَّةً: دُمُوعُهُ – الْحَصَى، قُلْنَا: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ: وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ: «ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا، فَتَنَازَعُوا وَلا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ» فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ – قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي هَذَى – اسْتَفْهِمُوهُ، فَذَهَبُوا يُعِيدُونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ» ، وَأَمَرَ بِثَلاثٍ – وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: أَوْصَى بِثَلاثٍ – قَالَ: «أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ» وَسَكَتَ سَعِيدٌ عَنِ الثَّالِثَةِ، فَلا أَدْرِي أَسَكَتَ عَنْهَا عَمْدًا – وَقَالَ مَرَّةً: أَوْ نَسِيَهَا – وقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ تَرَكَهَا، أَوْ نَسِيَهَا

امام احمد، سفیان ابْن عُيَيْنَة کے حوالے سے واقعہ قرطاس پر حدیث لکھتے ہیں .حدیث میں ھجر کے الفاظ کی تشریح کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کی شرح سفیان ابْن عُيَيْنَة کے لفظ هَذَى یعنی ہذیان سے کرتے ہیں

شاید یہ سب سے قدیم شرح ہے جو حدیث ہی کی کتاب میں ملتی ہے نہ کہ ان پر لکھی جانے والی شروحات میں

آخر امام احمد نے ایسا کیوں کیا وہ چاہتے تو سفیان ابْن عُيَيْنَة کے الفاظ نقل نہ کرتے اور ان کو چھپاتے

سفیان ابْن عُيَيْنَة کے الفاظ نقل کرنے کا مطلب ہے احمد کی بھی یہی رائے ہے

غور کریں نبی صلی الله علیہ وسلم کیا کہہ رہے ہیں اکتب لکم کتابا کہ میں لکھ دوں ایک تحریر جبکہ اپ صلی الله علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے. نبی صلی الله علیہ وسلم کو جب کچھ لکھوانا ہوتا تھا تو اپ حکم کرتے جیسے اپ نے ایک صحابی کی درخواست پر، حج کے موقعہ پر فرمایا اکتبو لابی شاہ کہ ابی شاہ کے لئے لکھ دو

بعض لوگوں نے متن کا  مطلب بدل کے شرح کی   ہے

لنک

تو (کچھ لوگوں ) نے ( مانعین کتابت سے ) کہا ۔۔ أهجر۔۔کیا (تم سمجھتے ہو ) رسول اللہ ﷺ مرض کی شدت سےایسا فرمارہے ہیں ؟؟؟ (نہیں ،تکلیف کی بناء پر ایسا نہیں فرمارہے ،بلکہ پوری سمجھ داری سے فرمایا ہے )
استفهموه، فذهبوا يعيدون عليه جائو انہی سے پوچھ لو کہ انکی منشا ،مراد کیا ہے ،
فذهبوا يعيدون عليه، فقال: «دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه»تو لوگ آپ کے پاس (پوچھنے ) کیلئے گئے ،
تو آپ نے فرمایا :مجھے چھوڑ دو ،تم جس طرف مجھے لانا چاہتے ہو،میں اس سے بہتر میں (مشغول ) ہوں

محدث فورم والوں کی شرح کا مطلب ہے کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم ایک حکم دے رہے ہیں اور اس میں صحابہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور اپس میں جھگڑ رہے ہیں پھر وہ جا کر جب ان سے پوچھتے ہیں جبکہ ان کو پتا ہے کہ نبی نے پوری سمجھ داری سے فرمایا ہے تو معاملہ سلجھنے کے بجائے اور الجھ جاتا ہے اگر سب سمجھ داری سے فرمایا اور اس کو جا کر ان سے پوچھا تو پھر نبی صلی الله علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ مجھے چھوڑ دو ،تم جس طرف مجھے لانا چاہتے ہو،میں اس سے بہتر میں (مشغول ) ہوں کا کیا مطلب ہے

یہ سب اس لئے ہوا کہ روایت کے ترجمہ میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے الفاظ کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا
دوم ھجر کا بھی صحیح ترجمہ نہیں کیا گیا اور اس کو زبر دستی دوسری طرف موڑا گیا جبکہ صحیح مسلم میں اس کی شرح ہو چکی ہے
سوم سفیان بن عیینہ کے الفاظ کا بھی ترجمہ نہیں کیا گیا

اس تشریح کے بعد الفاظ

أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا – میں ایک کتاب لکھ دوں 

کا ترجمہ تک ان لوگوں نے  بدلا ہے کہ اس کو کر دیا لائو میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دیتا ہوں  تاکہ  مدعا ثابت کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے لیکن لکھنے نہیں دیا گیا

لنک

راقم کہتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے اس پر قرآن گواہ ہے اور متعدد روایات سے معلوم ہے

  عرب محقق احمد شاکر مسند احمد ح ١٩٣٥ کی تعلیق میں  کہتے ہیں

قول اھجر اس کی تفسیر ابن عیینہ نے کی  کہ یہ ہذیان ہے اور   النہایہ (از ابن اثیر ) میں ہے کہ مرض کے سبب سے مریض کا کلام میں اختلاط کرنا  یہ استفہام کے لئے ہے (یعنی سوال ہے ) کہ کیا ان کا کلام بدلنا اور اختلاط یہ مرض کی وجہ سے ہے 

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون مسند احمد ح ١٩٣٥ کی تعلیق میں کہتے ہیں

وقوله: “أهجر” قال في “النهاية”: أي: اختلف كلامه بسبب المرض على سبيل الاستفهام، أي: هل تَغير كلامُه واختلط لأجل ما به من المرض.

راقم کہتا ہے صحیح مسلم میں اس  استفہام انکاری کا بھی رد کیا گیا ہے اور اس کو خبر کے طور پر بیان کیا گیا ہے

ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ جَعَلَ تَسِيلُ دُمُوعُهُ، حَتَّى رَأَيْتُ عَلَى خَدَّيْهِ كَأَنَّهَا نِظَامُ اللُّؤْلُؤِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ – أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ – أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا»، فَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهْجُرُ

  کہا بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم سے ھجر ادا ہوا

یہ سعید بن جبیر کی ابن عبّاس سے سنی ہوئی روایت ہے اور اس میں اس کو خبر کے طور پر کہا گیا ہے کہ

واقعہ قرطاس بہت سادہ سا وقوعہ ہے جس کو بحث نے غیر ضروری طور پر اہم بنا دیا ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم کو بیماری کی شدت تھی اس کیفیت میں اپ نے ایک بات کہ دی جو حقیقت حال کے خلاف تھی. صحابہ اور اہل بیت نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی بعد میں اس پر کوئی جھگڑا ہوا اور نہ ہی طنزا علی رضی الله تعالی عنہ نے اس کو کبھی استمعال کیا نہ حسن نے نہ حسین نے . نبی صلی الله علیہ وسلم نے اگلے چار دن واپس اس کا حکم نہیں دیا ، بس اور یہ کچھ بھی نہیں

شیعہ حضرات کے لئے اس میں دلیل نہیں کیونکہ اگر نبی صلی الله علیہ وسلم ، علی کی خلافت کا حکم لکھوا بھی دیتے تو بھی علی خلیفہ نہیں بن پاتے کیونکہ ان کے خیال میں تو سب صحابہ نعوذ باللہ منافق تھے . علی رضی الله تعالی عنہ اس نوشتہ کو بھی علم باطن ، قرآن اور علم جفر کی طرح چھپا کر ہی رکھتے. یاد رہے کہ شیعوں کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم حجه الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر دبے لفظوں میں علی کو دوست کہہ چکے ہیں لیکن کھل کر ایک دفعہ بھی ان کو خلیفہ نہیں بتایا

مسلمانوں کی خلافت پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے کسی کو بھی مقرر نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد ہدایت پہنچانا تھا جو انہوں نے کر دیا تھا. اصل مسئلہ شرک کی طرف صحابہ کا پلٹنا تھا جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے خود واضح فرمایا بخاری کی حدیث ہے

وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي

اور الله کی قسم مجھے اس کا خوف نہیں کہ تم شرک کرو گے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ امت بارہ خلفاء تک سر بلند رہے گی اور وہ سب قریشی ہونگے

اور تاریخ گواہ ہے ایسا ہی ہوا
راقم کے خیال میں نبی صلی الله علیہ وسلم اگر کچھ لکھواتے تو اس کا تعلق امت کی قبر پرستی سے ہوتا آخری لمحات میں اپ کپڑا چہرے پر ڈالتے اور ہٹاتے اور کہتے

اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاری پر جنہوں نے انبیاء و صلحاء کی قبروں کو مسجد بنا دیا

آج حب اہل بیت پر انکی قبریں ہی پوجی جا رہی ہیں

اہل سنت میں بھی قبر پرستی زوروں پر ہے اور اس کو سند جواز ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے علماء نے فراہم کیا ہے جس پر انکی کتب شاہد ہیں

راقم اس تین وصیتوں والی روایت کو سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ کی منکرات میں شمار کرتا ہے کیونکہ ان تین میں سے ایک  پر اضطراب ہے بعض اوقات یہ کہتا ہے سعید نے اس کو چھپایا  بعض اوقات کہتا ہے بھول گئے پھر مزید کہ ان وصیتوں پر خلفاء  کا عمل بھی نہیں ملا کہ مشرکوں کو جزیرہ العرب سے نکال دیا گیا ہو – جو صحیح متن ہے وہ صرف امام مسلم نے طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کی سند سے روایت کیا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کو زبردستی دوا پلائی گئی

ایک دوسرا واقعہ ہے(جو صرف اہل سنت کی کتب میں آیا ہے ) جس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود ان کو دوا پلا دی گئی . نبی صلی الله علیہ وسلم کو جب ہوش آیا تو اپ نے فرمایا کہ میرے منع کرنے کے باوجود دوا کیوں دی ؟ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس وقت حجرے میں موجود سب کو جو اس وقت وہاں موجود تھے ان سب کو یہ دوا پلائی جائے سوائے ان کے چچا عبّاس کے کیونکہ وہ دوا پلاتے وقت وہاں نہیں تھے

بخاری کتاب الطب کی حدیث ہے

حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، حدثنا موسى بن أبي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله قَالَتْ عَائِشَةُ لَدَدْنَاهُ فِي مَرَضِهِ، فَجَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا، أَنْ لاَ تَلُدُّونِي‏.‏ فَقُلْنَا كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ‏.‏ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ ‏”‏ أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِي ‏”‏‏.‏ قُلْنَا كَرَاهِيَةَ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ لاَ يَبْقَى فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ إِلاَّ لُدَّ ـ وَأَنَا أَنْظُرُ ـ إِلاَّ الْعَبَّاسَ فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُمْ

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض ( وفات ) میں دوا آپ کے منہ میں ڈالی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ کیا کہ دو ا منہ میں نہ ڈالو ہم نے خیال کیا کہ مریض کو دوا سے جو نفرت ہوتی ہے اس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما رہے ہیں پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ دوا میرے منہ میں نہ ڈالو ۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی دوا سے طبعی نفرت کی وجہ سے فرمایا ہو گا ۔ اس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب گھر میں جتنے لوگ اس وقت موجود ہیں سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے اور میں دیکھتا رہوں گا ، البتہ عباس رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ میرے منہ میں ڈالتے وقت موجود نہ تھے ، بعد میں آئے ،

مسند احمد مستدرک الحاکم مسند اسحاق میں مختلف الفاظ کے ساتھ روایت میں یہ بھی ہے کہ

فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ هَذَا مِنْ فِعْلِ نِسَاءٍ جِئْنَ مِنْ هُنَا وَأَشَارَ إِلَى الْحَبَشَةِ وَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ عَلَيَّ ذَاتَ الْجَنْبِ مَا كَانَ اللَّهُ لِيَجْعَلَ لَهَا عَلَيَّ سُلْطَانًا وَاللَّهِ لَا يَبْقَى أَحَدٌ فِي الْبَيْتِ إِلَّا لُدَّ فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ فِي الْبَيْتِ إِلَّا لُدَّ وَلَدَدْنَا مَيْمُونَةَ وَهِيَ صَائِمَةٌ

پس جب نبی صلی الله علیہ وسلم کو ہوش آیا تو اپ نے فرمایا یہ عورتوں کا کام ہے جو وہاں سے آئی ہیں اپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کیا اور (کہآ) کیا تم یہ دیکھتے ہو کہ الله ذَاتَ الْجَنْبِ (دوا کا عنصر) کو میرے اوپر مسلط کرے گا الله اس کو میرے اوپر اختیار نہیں دے گا . الله کی قسم ! اب گھر میں کوئی ایسا نہ رہے جس کو یہ دوا پلائی نہ جائے . پس کوئی نہ چھوڑا گیا جس کے منہ میں دوا نہ ڈالی گئی ہو اور (ام المومنین) مَيْمُونَةَ (رضی الله عنہا) کو بھی پلائی جبکہ وہ روزے سے تھیں

شیعہ حضرات اس روایت سے دلیل لیتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو شبہ تھا کہ ان زہر دیا جا رہا ہے لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کیا اور نبی صلی الله علیہ وسلم کو زہردے کر شہید کیا گیا

افسوس ان کی عقل پر اہل بیت میں سے عباس رضی الله تعالی عنہ کی موجوگی میں سب کو دوا پلائی گئی عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے بھی پی لیکن سب زندہ رہے اگر اس دوا میں زہر تھا تو کسی اور کی وفات کیوں نہیں ہوئی

نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا المهلب کہتے ہیں

وجه ذلك – والله أعلم – أنه لما فعل به من ذلك ما لم يأمرهم به من المداواة بل نهاهم عنه

شرح صحيح البخارى لابن بطال

اس کی وجہ اللہ کو پتا ہے ، پس جب انہوں نے ایسا کیا جس کا حکم نہیں دیا گیا تھا تو منع کرنے کے لئے ایسا کیا 

نبی صلی الله علیہ وسلم نے شاید کسی بیماری میں بھی دوا نہیں لی یہ ان کی خصوصیت تھی لیکن چونکہ مرض وفات میں شدت بہت تھی اس وجہ سے اہل بیت نے دوا پلا دی. نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا الله اس دوا کو میرے اوپر اختیار نہیں دے گا جس سے ظاہر ہے کہ اگر زہر ہوتا تو وفات نہیں ہوتی

نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس وفات کی پہلے سے خبر تھی جیسا کہ بخاری حدیث میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور کہا کہ

إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ

الله نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ دنیا کی زینت لے یا وہ جو الله کے پاس ہے، پس اس بندے نے اختیار کر لیا

ان دو واقعات سے شیعہ حضرات کا اپنے عقائد کے لئے دلیل پکڑنا صحیح نہیں بلکہ ان کے مذھب میں تو امام سب کر سکتا ہے اس کے آگے کائنات کا زرہ رزہ سر نگوں ہوتا ہے. دوئم الله تعالی اپنا پرانا حکم بدل دیتا ہے لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم پر زہر کا اثر کیوں ہونے دیا گیا ؟ امام تو عالم الغیب ہوتا ہے . اس با خبری کے عالم میں تو یہ نعوذ باللہ علی رضی الله عنہ کی چال بنتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑ دیا گیا کہ جلدی خاتمہ ہو اور خلافت ملے

تاریخ الطبری میں ابو مخنف (جو شیعوں کا معتبر راوی ہے ) کی روایت ہے کہ اس دوا پلانے والے واقعہ میں علی بن ابی طالب بھی شامل تھے

دوا اسماء بنت عمیس رضی الله تعالی عنہا نے بنائی جن سے ابو بکر رضی الله عنہ کی وفات کے بعد علی رضی الله عنہ نے شادی کی ہمارا شیعہ حضرات سے سوال ہے کہ اگر یہ کوئی سازش تھی تو علی اس سازش کا بھرپور حصہ بنے اور ایسی عورت کو بعد میں نکاح میں لیا جو زہر بناتی تھی

اہل سنت سے بھی ہماری گزارش ہے کہ عمر رضی الله تعالی عنہ کے الفاظ کی وہی تاویل کریں جو حقیقت کے قریب ہو یہ کہنا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت نہیں تھی بخاری کی حدیث کے خلاف ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم پر اگر بیماری کی شدت نہیں تھی تو صحابہ نے انکو زبردستی دوا کیوں پلائی

عمر رضی الله تعالی عنہ کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا گمان نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے وفات النبی والے دن کہا کہ جو یہ کہے کہ نبی کی وفات ہو گئی اس کی میں گردن اڑا دوں گا

عائشہ رضی الله تعالی عنہا کو بھی آخری وقت تک نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا گمان نہیں تھا لیکن جب نبی صلی الله علیہ وسلم نے آخری الفاظ کہے کہ

مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا

ان لوگوں کے ساتھ جن پر الله نے انعام کیا نبیوں صدیقین شہداء صالحین

فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ، يَقُولُ: {مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ} [النساء: 69] الآيَةَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ

پس اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے (دنیا کی رفاقت چھوڑنے کا) فیصلہ کر لیا

الله ہم سب کو ہدایت دے