الملحمة الكبرى کی روایات
203 Downloads
یہودیوں نے خبر دی ہے کہ یروشلم میں لومڑیاں نظر آ رہی ہیں – اس قسم کی خبر کہا جاتا ہے کہ کتاب گریہ بائبل میں موجود ہے جس میں گیڈروں کے گزرنے کا ذکر ہے
https://biblehub.com/lamentations/5-18.htm
for Mount Zion, which lies desolate, with jackals prowling over it.
صیھون کے پہاڑ پر بربادی ہو گی اور اس پر گیڈر چلیں گے
اول تو کوہ صیھون کہاں ہے اس پر یہود میں خود اختلاف ہے – خاص وہ مقام جہاں مسجد بیت المقدس ہے وہ کوہ صیھون نہیں ہے
بہرحال میڈیا میں مسلسل یہودی اپنی جنگ کا ذکر کرتے رهتے ہیں
ملحمہ سے مراد
Armageddon
ہے – جس کی اسلام میں کوئی دلیل نہیں ہے- یہ یہود و نصاری کی بڑھ ہے جس میں ان کے مطابق اہل کتاب تمام دنیا پر غالب ہوں گے
اللہ تعالی نے قرآن سوره أل عمران میں بتایا ہے کہ یہود کی سرکشی کی وجہ سے اس نے یہود پر ذلت و مسکنت قیامت تک لکھ دی ہے
ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ
ان پر ذلت کی مار ہے جہاں بھی جائیں مگر ساتھ اللہ کی (وقتی ) پناہ سے یا لوگوں کی (وقتی ) پناہ سے اور وہ اللہ کے غضب میں گھرے ہوۓ ہیں اور ان پر پستی لازم کی گئی، یہ اس لیے ہے کہ اللہ کی آیات کا کفر کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ لیے کہ انہوں نے سرکشی کی اور حد کو پار کیا
اس آیت سے بتایا گیا کہ مدینہ کے یہودی ہوں یا کہیں اور کے ہوں – یہودی ، اللہ کے نزدیک معذب ہیں – ان کی کامیابی یا دولت زیادہ عرصے نہ رہے گی – دوسری طرف یہود نے اپنے انبیاء کے نام پر یہ آیات گھڑیں کہ عنقریب ان کا باقی دنیا سے معرکہ ہو گا اور وہ تمام عالم پر غالب ہو جائیں گے – اس بات کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے بھی مان لیا اور نصرانییوں نے اس کو اپنے لئے بیان کیا ہے –
نام
Armageddon
پر اہل کتاب کے علماء کا کہنا ہے کہ یہ اصل مقام
Megiddo
ہے جو اب اسرائیل میں ہے – اس کا ذکر صرف عہد نامہ جدید میں ہے – کتاب الرویا از مجہول الحال یحیی میں ہے
Revelation 16:16
And they assembled them at the place that in Hebrew is called Harmagedon.
اور وہ اس جگہ جمع ہوں گے جس کو عبرانی میں ہر مجدون کہتے ہیں
فَجَمَعَهُمْ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي يُدْعَى بِالْعِبْرَانِيَّةِ «هَرْمَجَدُّونَ كتاب الرويا
ھر کا مطلب عبرانی میں پہاڑ یا جبل ہے اور مجدون جگہ کا مقام ہے جو آجکل
bikat megiddon
کہلاتا ہے -اس کا ذکر بائبل کتاب زکریا میں ہے اور اس کو یروشلم میں ایک مقام بتایا گیا ہے
Zechariah (12:11)
In that day there shall be a great mourning in Jerusalem, like the mourning at Hadad Rimmon in the plain of Megiddo.
اس روز یروشلم میں خوب رونا پیٹنا ہو گا جیسے حداد رمؤن میں مجدوں میں ہوا تھا
فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ يَعْظُمُ النَّوْحُ فِي أُورُشَلِيمَ كَنَوْحِ هَدَدْرِمُّونَ فِي بُقْعَةِ مَجِدُّونَ.
زكريا 12 : 11
اصل لفظ مَجِدُّونَ کا پہاڑ ہے جو اصل میں بیت المقدس ہی مراد ہے –
یعنی
Armageddon
سے مراد جنگ کے بعد یروشلم میں اس مقام پر نوحہ و گریہ زاری ہے
اب سوال یہ ہے کہ بائبل کے انبیاء کی کتب میں اس مقام کا ذکر کیوں ہے ؟ وہاں کون گریہ کرے گا ؟ راقم نے اس سوال پر دو سال تحقیق کی ہے اور جو معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ یہ آیات یہود نے گھڑی ہیں – ان آیات کو گھڑنے کا اصل مدعا یہ تھا حشر دوم کے بعد یہود جب واپس اسرائیل پہنچے تو دیکھا کہ وہاں غیر یہودی آباد ہیں – شروع میں انے والے گروہوں نے مقامی آبادی میں شادیان کر لیں اور مسجد اقصی کو تعمیر بھی کیا – وہاں اس وقت متعین ایک افسر عزیر
Ezra
بھی تھا جو فارسیوں کا ملازم تھا – نوٹ کیا گیا کہ بنی اسرائیل میں بغاوت کے جذبات آ رہے ہیں وہ نسل داود سے واپس کسی کو بادشاہ مقرر کرنا چاہتے ہیں – اس دوران دو فارس مخالف انبیاء ظاہر ہوۓ ایک نام زکریا تھا اور دوسرے کا نام حججی تھا – اسی طرح چند اور لوگوں نے دعوی کیا کہ ان کو بنی اسرائیل کے سابقہ انبیاء کے نام سے کتب ملی ہیں جن میں کتاب یسعیاہ، یرمییاہ ، حزقی ایل ، عموس وغیرہ ہیں – یعنی یہودی اپس میں لڑنے لگے اور انبیاء کے نام پر کتب ایجاد کیں – یہ بات یہود کی ان کتب انبیاء کو پڑھنے اور تقابل کرنے پر ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ اگر ان کتب کا اپس میں تقابل کیا جائے تو باہم متضاد اور مخالف بیانات ملتے ہیں – انبیاء جھوٹ نہیں بولتے یہ یہودی جھوٹے ہیں جنہوں نے ان کے نام سے کتب کو جاری کیا – یہود میں فارس کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا ہو چلے تھے – فارس کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے لگے- اس بغاوت کو کچلنے کے لئے فارسیوں نے ایک افسر نحمیاہ کو بھیجا اور اس نے سختی سے اس بغاوت کو کچل دیا اورمیں نبوت کے دعویداروں کا قتل بھی ہوا اور ہیکل کے پروہتوں کا بھی
فرضی نبی زکریا نے ہر مجدون میں جس رونے پیٹنے کا ذکر کیا ہے وہ اصل میں انہی اپس کے اختلاف پر یہود کا ایک دوسرے کو قتل کرنا ہے – واضح رہے یہ زکریا وہ نبی نہیں جن کا ذکر قرآن میں ہے بلکہ ان کا دور اس فرضی نبی سے کئی سو سال بعد کا ہے
اب عزیر ایک بیوروکریٹ تھا اور نحمیاہ ان کا نیا گورنر تھا – عزیر نے ایک نئی توریت یہود کو دی اور الہامی متن کو تبدیل کیا – توریت اصلا عبرانی میں تھی عزیر نے اس کو بدل کر آشوری میں کر دیا – یہود کے اپس کے اس جھگڑے میں لیکن ایک مسیح کا تصور باقی رہ گیا کہ کوئی نسل داود سے آئے گا جو بنی اسرائیل کو غیر قوموں کے چنگل سے نکالے گا – اس بغاوت کے قریب ٥٠٠ سال بعد اللہ تعالی نے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کو بھیجا- اس وقت تک بنی اسرائیل پر رومیوں کا قبضہ ہو چکا تھا لیکن یہود کے معاملات پر وہ حاکم تھے جو عزیر کی دی گئی توریت کو پڑھتے تھے – عزیر خود یہود کے مطابق اللہ کا نبی نہیں تھا وہ محض ایک سرکاری افسر تھا جو فارس کا مقرر کردہ تھا البتہ بعض یہودی فرقوں نے اس سوال کا جواب کہ اس نے توریت کو اشوری میں کیسے کر دیا اس طرح دیا کہ اس کو اللہ کا بیٹا کہنا شروع کر دیا – جس کو وہ بنو الوھم کہتے تھے یعنی اللہ کے بیٹے جن پر روح القدس کا نزول ہوا اور توریت موسی ، اصلی عبرانی سے فارس میں بولی جانے والی اشوری میں بدل گئی
افسوس مسلمانوں نے عزیر کو نبی کہنا دینا شروع کر دیا ہے اور اس کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ بھی لگایا جاتا ہے جبکہ ابی داود کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
مَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لَا
مجھے نہیں پتا کہ عزیر نبی ہے یا نہیں
جیسا عرض کیا کہ یہود نے انبیاء کے نام پر کتب گھڑیں تو وہ ان میں باقی رہ گئیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انہی کتب کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے لیا اور انہوں نے ذکر کردہ بغاوت اور نتیجے میں ہونے والی جنگ پر استخراج کیا کہ سابقہ انبیاء سے منسوب کتب میں جس جنگ کا ذکر ہے وہ نصرانییوں کی جھوٹے مسیح سے جنگ کے بارے میں ہے –
دو مسیح کا تصور انہی انبیاء سے منسوب کتب میں اختلاف سے نکلا ہے
ایک داود کی نسل کا اور ایک یوسف کی نسل کا
یا
ایک حاکم مسیح اور ایک منتظم مسجد و روحانی مسیح
یا
ایک اصلی مسیح اور ایک دجال
یہ تصورات یہود میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے سے آ گئے تھے – ان کی بازگشت بحر مردار کے طومار
Dead Sea Scrolls
میں سنی جا سکتی ہے
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسیح ابن مریم رسول اللہ کو بھیجا ہے یعنی وہ مسیح جو کسی نسب کا نہیں ہے نہ داود کی نسل سے ہے نہ یوسف کی نسل سے وہ نبی ہے شاہ نہیں اور مسیح عیسیٰ علیہ السلام کا مشن کسی عالمی جنگ کی سربراہی کرنا نہیں ہے بلکہ توحید کا سبق دینا ہے اصل کامیانی آخرت کی ہے دنیا کی جنگوں نہیں – نزول ثانی پر عیسیٰ علیہ السلام کا مشن جنگیں کرنا نہیں بلکہ گمراہ مسلمان فرقوں کو توحید کی تبلیغ کرنا ہو گا – اسی لئے حدیث نبوی میں دجال اور عیسیٰ دونوں کا کعبہ کا طواف کرنے کا ذکر ہے
عرب نصرانی اسی جنگ کو ملحمہ الکبری کہتے ہیں – اور یہود میں سے مسلمان ہونے والا کعب الاحبار اسی کو الْمَلْحَمَةَ الْعُظْمَى یا الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى کہتا تھا (کتاب الفتن از نعیم بن حماد )- شامی مسلمانوں نے الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى سے متعلق اقوال کو حدیث نبوی بنا کر پیش کر دیا ہے
عصر حاضر میں اس جنگ کا ذکر پھر سننے میں آ رہا ہے جبکہ یہ محض یہود کا پروپیگنڈا تھا اور اب اسی کو بعض لا علم لوگ حدیث رسول بنا کر پیش کر رہے ہیں-احادیث رسول سے معلوم ہے کہ دجال سے جنگ مسلمان نہیں کریں گے وہ پہاڑوں میں روپوش رہیں گے اور نزول عیسیٰ پر دجال فورا ہی عیسیٰ ابن مریم کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا
مسند احمد اور سنن ترمذی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ، وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ، وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ، وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ “. ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الَّذِي حَدَّثَهُ أَوْ مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّ هَذَا لَحَقٌّ (1) كَمَا أَنَّكَ هَاهُنَا “. أَوْ كَمَا ” أَنَّكَ قَاعِدٌ ” يَعْنِي: مُعَاذًا
مُعَاذٍ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس کی آبادی، مدینہ کی بربادی ہے اور مدینہ کی بربادی ملحمہ (خون ریز جنگیں) کا نکلنا ہے اور ملحمہ کا نکلنا الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح ہے اور الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح دجال کا خروج ہے
اس کی سند ضعیف ہے سند میں عبد الرحمن بن ثوبان ہے جس کی وجہ سے مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے اس روایت کو رد کیا ہے- نسائی نے اس راوی کو ليس بالقوي قرار دیا ہے
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق لابن أبي حاتم کہتے ہیں
سمعت أبي يقول عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان قد أدرك مكحولا ولم يسمع منه شيئا
میں نے اپنے باپ سے سنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان نے مکحول شامی کو پایا لیکن ان سے سنا نہیں
زیر بحث روایت بھی مکحول سے اس نے روایت کی ہے
ابو حاتم کہتے ہیں وتغير عقله في آخر یہ آخری عمر میں تغیر کا شکار تھے
ضعفاء العقيلي کے مطابق امام احمد نے کہا لم يكن بالقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے
الكامل في ضعفاء الرجال کے مطابق يَحْيى نے کہا یہ ضعیف ہے
ابو داود میں روایت کی سند میں ہے جو شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کے مطابق ضعیف ہے اور البانی نے صحيح الجامع: 4096 , المشكاة: 5424 میں اس کو صحیح کہا ہے – راقم کے نزدیک شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کی تحقیق صحیح ہے
اس متن کا ایک دوسرا طرق ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ح 37209 ہے
حَدَّثَنَا – أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: ” عِمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ , وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ , وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ , ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِ رَجُلِ وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ
اس روایت کی علت کا امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب تاریخ اور علل میں ذکر کی ہے کہ ابو اسامہ نے عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کا نام غلط لیا ہے اور دادا کا نام ابن جابر کہا ہے
جبکہ یہ نام غلط ہے اصلا یہ عبد الرحمان بن یزید بن تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ ابْنِ أَبِي بِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” بَيْنَ الْمَلْحَمَةِ وَفَتْحِ الْمَدِينَةِ سِتُّ سِنِينَ، وَيَخْرُجُ مَسِيحٌ الدَّجَّالُ فِي السَّابِعَةِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْر نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خون زیر جنگوں اور مدینہ کی فتح میں چھ سال ہیں اور ساتویں سال دجال نکلے گا
شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد کہتے ہیں
إسناده ضعيف لضعف بقية- وهو ابن الوليد- ولجهالة ابن أبي بلال – واسمه عبد الله
مسند احمد کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْطَاةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُبَيْرَ بْنَ نُفَيْرٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ الْغُوطَةُ، إِلَى جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ
أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کا کیمپ ملحمہ کے دن غوطہ میں ہو گا اس شہر کی جانب جس کو دمشق کہا جاتا ہے
مسند احمد میں اس کو بعض اصحاب رسول سے مرفوع نقل کیا گیا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الشَّامُ وَإِنَّ بِهَا مَكَانًا يُقَالُ لَهُ الْغُوطَةُ، يَعْنِي دِمَشْقَ، مِنْ خَيْرِ مَنَازِلِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ
اس میں رجل من اصحاب النبی کہا ہے نام نہیں لیا – بہت سے محدثین کے نزدیک یہ سند قابل قبول نہیں ہے
ان اسناد میں روایت کو مرفوع روایت کیا گیا ہے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ محدثین کے نزدیک یہ حدیث مرفوع نہیں قول تبع التابعی ہے
مختصر سنن أبي داود از المؤلف: الحافظ عبد العظيم بن عبد القوي المنذري (المتوفى: 656 هـ) میں ہے
وقال يحيى بن معين -وقد ذكروا عنده أحاديث من ملاحم الروم- فقال يحيى: ليس من حديث الشاميين شيء أصح من حديث صدقةَ بن خالد عن النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-: “معقل المسلمين أيام الملاحم: دمشق”.
ابن معین نے کہا اور ملاحم روم کے بارے میں حدیث ذکر کیں پھر ابن معین نے کہا شامییوں کی احادیث میں اس سے زیادہ کوئی اصح حدیث نہیں جو صدقةَ بن خالد (تبع تابعی) نے نبی صلى اللَّه عليه وسلم سے روایت کی ہے کہ ملاحم کے دنوں میں مسلمانوں کا قلعہ دمشق ہو گا
یعنی ابن معین کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ انہوں نے ابو درداء کی روایت کا ذکر نہیں کیا
تاريخ ابن معين (رواية الدوري) میں ہے
قَالَ يحيى وَكَانَ صَدَقَة بن خَالِد يكْتب عِنْد الْمُحدثين فِي أَلْوَاح وَأهل الشَّام لَا يَكْتُبُونَ عِنْد الْمُحدثين يسمعُونَ ثمَّ يجيئون إِلَى الْمُحدث فَيَأْخُذُونَ سماعهم مِنْهُ
ابن معین نے کہا کہ صدقه بن خالد محدثین سے لکھتے تھے الواح پر اور اہل شام محدثین سے نہیں لکھتے تھے وہ بس سنتے تھے پھر محدث کے پاس جاتے اور ان سے سماع کرتے
معلوم ہوا کہ صدقه بن خالد کے لکھنے کی وجہ سے ابن معین کے نزدیک ان کی سند صحیح تھی جبکہ باقی اہل شام کی روایات پر ان کو شک تھا
ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “مَوْضِعُ فُسْطَاطِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ
اس میں مکحول کوئی صحابی نہیں لیکن لوگوں نے اس سند کو بھی صحیح کہہ دیا ہے
فضائل صحابہ از احمد کے مطابق یہ قول تابعی مکحول کا تھا
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا أَبُو سَعِيدٍ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ: نا مَكْحُولٌ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فُسْطَاطُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْمَلْحَمَةِ، الْغُوطَةُ مَدِينَةٌ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ هِيَ خَيْرُ مَدَائِنِ الشَّامِ» .
الولید بن مسلم المتوفی ١٥٩ ھ نے ان اس روایت میں اضافہ کیا – کتاب الفتن از نعیم بن حماد میں ہے
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ ….وَيَظْهَرُ أَمْرُهُ وَهُوَ السُّفْيَانِيُّ، ثُمَّ تَجْتَمِعُ الْعَرَبُ عَلَيْهِ بِأَرْضِ الشَّامِ، فَيَكُونُ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ حَتَّى يَتَحَوَّلَ الْقِتَالُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَتَكُونُ الْمَلْحَمَةُ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ»
ولید بن مسلم نے کہا سفیانی کے خروج کے بعد عرب شام میں جمع ہوں گے پھر یہ جدل و قتال مدینہ منتقل ہو گا بقیع الغرقد پر
ولید اپنے دور کی ہی بات کر رہا ہے جب بنو امیہ میں سے سفیانی کا خروج ہوا اور امام المہدی محمد بن عبد اللہ نے مدینہ میں اپنی خلافت کا اعلان سن ١٢٥ ھ میں مدینہ میں کر چکا تھا
سفیانی سے مراد يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہیں اور یہ خروج سفیانی سن ١٣٣ ھ میں ہوا-
سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عبد الله بن محمَّد النُّفيليُّ، حدَّثنا عيسى بن يونس، عن أبي بكر بن أبي مريم، عن الوليد بن سُفيان الغسانيِّ، عن يزيد بن قُطَيب السَّكونىِّ، عن أبي بحرية
عن معاذ بنِ جبلِ، قال: قالَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: الملحمَةُ الكبرى وفتحُ القُسطنطينية وخروجُ الدجال في سَبعَة أشهر
معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑی خونریز جنگوں اور فتح القُسطنطينية اور خروج دجال میں سات ماہ ہیں
شعیب کہتے ہیں سند ضعیف ہے
إسناده ضعيف لضعف أبي بكر بن أبي مريم والوليد بن سفيان، ولجهالة يزيد بن قُطيب. أبو بحرية: هو عبد الله بن قيس
ابو داود نے دوسرا طرق دیا ہے اور کہا
حد ثنا حيوة بن شُرَيح الحمصيُّ، حدَّثنا بقيَّة، عن بَحِيْرٍ، عن خالدٍ، عن ابن أبي بلالٍ
عن عبدِ الله بن بُسرٍ، أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “بين الملحمةِ وفتح المدينة ستُّ سنينَ، ويخرج المسيحُ الدَّجالُ في السابعة”
قال أبو داود: هذا أصحُّ من حديثِ عيسى
یہ طرق عيسى بن يونس سے اصح ہے
لیکن اس طرق کو بھی شعیب نے رد کیا ہے
إسناده ضعيف لضعف بقية -وهو ابن الوليد الحمصي- وجهالة ابن أبي بلال -واسمه عبد الله- خالد: هو ابن معدان الكلاعي، وبَحِير: هو ابن سعد السَّحُولي
اور ابن ماجہ کی تعلیق میں البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے
الغرض ملحمہ ایک فرضی جنگ کا قصہ ہے اور یہود کا پروپیگنڈا تھا جو ان سے نصرانییوں کو ملا اور پھر اسرائیلیات پسند کرنے والے راویوں کی وجہ سے اس کا ذکر احادیث میں شامل ہو گیا
واضح رہے کہ دنیا میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں – جنگ عظیم اول و دوم کا ہم کو علم ہے لیکن ان جنگوں کو مذھب کے تحت کوئی اخروی معرکہ نہیں سمجھتا – اسی طرح مستقبل کی بھی کسی بھی جنگ کو آخری معرکہ قرار دینا غیر دانشمندی ہے
مسلمانوں کے دانشمند اسی قسم کے مغالطے دیتے رہے ہیں مثلا عباسی خلیفہ واثق پر یاجوج ماجوج کا اتنا اثر ہوا کہ خواب میں دیکھا کہ ان کا خروج ہو گیا ہے فورا ایک شخص کو بھیجا کہ جا کر خبر لائے اور اس شخص نے جا کر یاجوج ماجوج کو بھی دیکھ لیا -یا للعجب – اسی طرح تاتاریوں کے حملے کو بھی خروج یاجوج موجوج سمجھ کر ان سے جنگ نہ کی گئی – ان کا اتنا رعب بیٹھا کہ تلوار تک نہ اٹھا سکے
عصر حاضر میں اصل میں یہود یہ چاہتے ہیں کہ ملحمہ ہو جس کا ذکر اصل میں ان کی کتب میں موجود ہے – یہ کوئی نئی بات نہیں ایسا یہودی کرتے آئے ہیں قرآن میں ہے
كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ المائدة:64
جب بھی یہ جنگ کی اگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے
سوال ہے کہ یہود ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب راقم نے یہود کی کتب میں پڑھا ہے کہ اس کا مقصد ہے کہ اللہ کو نعوذ باللہ مجبور کیا جائے کہ وہ اصلی مسیح کو ظاہر کرے
اللہ سب مسلمانوں کو کفار کے شر سے اور فتنوں سے محفوظ رکھے