Category Archives: تحذیر من زلة عالم – Alert

ذو القرنین   فرشتہ  ہے  یا انسان

ساحل عدیم  نے اپنی پورٹل   تھیوری  میں  ایک بار ذکر  کیا کہ ذو القرنین  انسان  تھا  پھر  ایک دوسری تقریر  میں ذکر  کیا کہ وہ  فرشتہ تھا- راقم نے دونوں  روایات  کا تعاقب  کیا  اور  جو اسناد ملی وہ  مخدوش ہیں

 

عمر  رضی  اللہ عنہ  کا قول ذو القرنین   فرشتہ ہے

العظمة از أبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ)

علی رضی   اللہ  عنہ  کا قول  ذو  القرنین   صالح  بندہ ہے

مشکل اثار  از طحاوی

 قَالَ سَلَمَةُ: عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ فَقَالَ: «مَلِكٌ مَسَحَ الْأَرْضَ مِنْ تَحْتِهَا بِالْأَسْبَابِ» قَالَ [ص:1480] خَالِدٌ: وَسَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَجُلًا يَقُولُ: يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «اللَّهُمَّ غَفْرًا، أَمَا رَضِيتُمْ أَنْ تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ حَتَّى تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْمَلَائِكَةِ؟»  

خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ نے ذکر  کیا  کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم سے ذو القرنین  پر   سوال ہوا    پس  فرمایا    بادشاہ  جس   نے زمین کو  نیچے  سے چھوا      اسباب  کے ساتھ  

اور  خالد  نے ذکر کیا کہ عمر   رضی  اللہ عنہ نے  ایک شخص کو کہتے  سنا   کہہ رہا   تھا   اے  ذو  القرنین –   پس  عمر  نے    کہا  اے اللہ  اس کو معاف  کر  ،  کیا  تم اس  پر  راضی  نہیں  ہو  کہ   انبیاء  کے ناموں  پر نام  رکھو     یہاں  تک کہ   اب  تم  لوگ  فرشتوں  کے ناموں   پر آ   گئے  ہو

 

 

راقم   کہتا  ہے سند  منقطع  ہے –  خالد بن معدان الحمصي  کا  سماع  عمر  سے ثابت  نہیں ہے

عن أبي الطفيل قال: قام عليّ على المنبر فقال: سلوني قبل أن تسألوني ولن تسألوا بعدي مثلي، فقام إليه ابن الكوا فقال: ما كان ذو القرنين أملكًا كان أم نبيًا؟ قال: لم يكن ملكًا ولا نبيًا ولكنه كان عبدًا صالحًا

 

علی رضی اللہ عنہ سے  سوال  ہوا کہ ذو القرنین  کون تھے، نبی  یا فرشتہ  ؟  علی  نے  کہا   نہ   نبی  نہ  فرشتہ    بلکہ    صالح  بندے   تھے  

 

سند ضعیف  ہے  – سند  میں  ابو  طفیل   پر  بعض  محدثین  کا  کہنا  ہےحل   کہ  یہ  صحابی  نہیں  کیسانیہ   فرقہ  کا  بدعتی  ہے

تفسیر ابی حاتم کی  روایت  ہے

 عَنْ الأحوص بن حكيم عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ ذي القرنين فقال: «هُوَ ملك مسح الأَرْض بالإحسان

الأحوص بن حكيم  نے اپنے باپ سے روایت  کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   جب  ذو القرنین   پر سوال  ہوا  :   وہ  ایک  بادشاہ  ہے  جس  نے  زمین  کو احسان  سے چھوا

امام احمد  کہتے ہیں کہ انوہں نے   سے روایت  لکھی پھر ان کو جلا  دیا

وقال ابن هانىء: سألت أبا عبد الله عن الأحوص بن حكيم؟ فقال: ضعيف لا يسوى حديثه شيئًا. قال أبو عبد الله: كان له عندي شيء فخرقته

 وقال النسائي: ضعيف. (الضعفاء والمتروكون) 62.

  وقال الدارقطني: منكر الحديث. (الضعفاء والمتروكون)

تفسیر  ابی حاتم  میں ہے

حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ ثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عِلْبَاءِ بْنِ أَحْمَرَ: أَنَّ ذَا الْقَرْنَيْنِ قَدِمَ مَكَّةَ، فَوَجَدَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ يَبْنِيَانِ قَوَاعِدَ الْبَيْتِ مِنْ خمسة أجبل. فقال لهما: ما لكما وَلأَرْضِي؟ فَقَالَ: نَحْنُ عَبْدَانِ مَأْمُورَانِ أُمِرْنَا بِبِنَاءِ هَذِهِ الْكَعْبَةِ. قَالَ: فَهَاتَا بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَا تَدَّعِيَانِ؟ فَقَامَتْ خَمْسَةُ أَكْبُشٍ، فَقُلْنَ: نَحْنُ نَشْهَدُ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ عَبْدَانَ مَأْمُورَانِ أُمِرَا بِبِنَاءِ الْكَعْبَةِ.  فَقَالَ: قَدْ رَضِيتُ وَسَلَّمْتُ ثُمَّ مَضَى.

عِلْبَاءِ بْنِ أَحْمَرَ نے  کہا  ذو القرنین    مکہ    پہنچے   وہاں  ابراہیم و  اسمعیل کو پایا   جو  بیت  اللہ کو  تعمیر   کر رہے  تھے

سند  میں  عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ  ہے  جس  پر  السليماني کا کہنا  ہے : فيه نظر  اس پر نظر  ہے

ایک معتزلی کی تقریر پر تبصرہ ‏

قرن دوم میں   انکار حدیث سے منسلک ایک فرقہ معتزلہ  تھا   اس کے بعض سرخیل کو عباسی خلافت  میں قرب خلیفہ ملا اور انہوں نے ایک کلامی  مسئلہ  گھڑا – اس مسئلہ   کے مطابق  قرآن  ، کلام اللہ نہیں بلکہ   اللہ تعالی کی  مخلوق کی مد میں سے ہے

اس فرقہ کے خلاف اہل سنت کے علماء کھڑے ہوئے اور انہوں نے اس عقیدے کا صریح رد کیا – ان کا رد کرنے والوں میں امام بخاری پیش پیش تھے اور امام بخاری نے ضروری سمجھا کہ اس پر باقاعدہ ایک کتاب تالیف کریں جس کا نام انہوں نے رکھا

خلق الافعال العباد

بندوں کے عمل کی تخلیق

امام بخاری کے نزدیک  قرآن   یہ الوحی ہے اور الوحی مخلوق نہیں  البتہ  قرآن کی قرات  مخلوق ہے

امام  بخاری  نے  اس کتاب میں  بار بار  اس قول کی  تکرار کی ہے کہ قرآن  مخلوق نہیں ہے – کتاب  کا آغاز ہی  اس جملے سے کیا

باب : اہل  علم  نے  معطلہ کے  حوالے سے  کیا ذکر کیا  جو  کلام  اللہ کو  بدلنا چاھتے ہیں

سفیان  نے  کہا  میں  اپنے شیوخ سے ملا جن میں  عمرو بن دینار بھی ہیں سب  کہتے  ہیں قرآن کلام اللہ ہے اور مخلوق نہیں ہے

امام بخاری  نے امام  ابن مبارک  کا قول  نقل کیا

ابن مبارک  نے  کہا  جو یہ کہے کہ   قرآن کی آیت  اننی  آنا اللہ لا الہ الا انا مخلوق ہے تو وہ کافر  ہے اور  مخلوق  کے لئے جائز نہیں کہ ایسا کہے

صحیح بخاری میں حدیث ہے

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ  پیروی کرنے والے میرے ہوں گے

بعض جاہلوں نے اس روایت سے اخذ کیا ہے کہ معجزہ مخلوق ہے جبکہ اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ بھی نہیں ہے – قرآن اپنی بلاغت کی بنا پر معجزہ ہے- اس کی سی سورت آج تک کوئی نہیں بنا سکا – اس کو حفظ کیا جا سکتا ہے – دنیا کی دوسری کتب کے لئے یہ ممکن نہیں ہے – یہ سب نشانیاں ہیں کہ قرآن من جانب اللہ ہے – اور اللہ اس الوحی کے ذریعہ  سے نازل کیے جانے والے قرآن  کی حفاظت کر رہا ہے

قابل غور ہے کہ الوحی تو تمام انبیاء و رسل  پر کی گئی ہے – بغیر الوحی کے کوئی بھی نبی و رسول کہلا ہی نہیں سکتا – یہاں بتایا گیا ہے  پچھلے  انبیاء کی نشانیاں ان کے دور تک ہی تھیں لیکن   ہمارے رسول پر  الوحی   کی جانے والی کتاب  قیامت تک رہے گی اور موجب ہدایت رہے گی – اس طرح یہ ایک عظیم نشانی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی تھے

اس حدیث سے کند ذہن  لوگوں نے اخذ  کیا ہے کہ  اس حدیث  میں قرآن کو مخلوق کہا گیا ہے – حاشا للہ – ایسا ہرگز نہیں ہے – قرآن  الوحی ہوا تمام امت کو ملا  اور ہم اس کی تلاوت کرتے ہیں تو اس طرح یہ کتاب یا روشن آیات ہمارے  گھروں میں بھی پڑھی جاتی ہیں یعنی اللہ کی یہ نشانی  گھر گھر آ گئی ہے کہ وہ حق و باطل کو جان سکتے ہیں

 

پس منظر

قصہ مختصر چند سال قبل محمد حنیف نے ایک تحریر شائع کی جس میں اس نے دعوی کیا کہ اللہ تعالی نے  اپنی صفت

عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کر دی ملاحظہ ہو اس پر حنیف کی اہل حق کی جانب سے پکڑ کی گئی کہ  یہ سب شرک کے دفاع کی باتیں ہیں  –  اللہ کی صفات میں کوئی شریک نہیں-اس پر محمد حنیف اور اس کے بعض  حواریوں نے اس صفت باری تعالی کی یہ تاویل کرنا شروع کر دی کہ صفات باری کو ہی مخلوق قرار دینا شروع کر دیا اور بعض نے صفت  کے لفظ  کو لغوی صفت کہنا شروع کر دیا کہ یہ محض عیسیٰ کی  صفت  ہے – جبکہ جس طرح اس قوت الاحیاء الموتی پر تبصرہ کیا گیا ہے اس کو اللہ کا خاص  فیصلہ بنا پر پیش کیا ہے کہ اللہ جو چاہے رہے اور یہاں تک کہ اپنی صفت کسی کو دے دے تو اس پر اللہ سے سوال نہیں کیا جا سکتا ، اس سے ظاہر ہے حنیف اینڈ کمپنی کا مدعا تھا کہ اللہ تعالی کی صفت الحی انہوں نے عیسیٰ کو دے دی تھی –  یاد رہے  کہ اسی قسم کا عقیدہ بریلویوں کا ہے کہ اللہ تعالی نے علم غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا ہے  اور اگر وہ بھی اس کو اللہ کی مرضی قرار دے کر بات ختم کرتے ہیں

اللہ تعالی بلا شبہ جو چاہے کرے لیکن اس نے سورہ کہف میں  کہا ہے

ولا يشرك في حكمه أحدا

وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا

اور یہ بھی بتایا کہ عیسیٰ کا مردوں کا زندہ کرنا اصل میں اللہ کا حکم ہے

وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ

اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

یعنی معجزہ اصل میں اللہ کے حکم سے ہے  اور یہ انبیاء کی قوت نہیں کہ کچھ بھی کر سکیں

اس پر محمد حنیف کے جدید  کٹر حواری سعید احمد نے یہ  عقیدہ لیا کہ کہ قرن دوم کے فرقے معتزلہ کا عقیدہ  صحیح تھا اور تمام معجزات انبیاء کو بھی انبیاء کا عمل کہنا شروع کر دیا گویا کہ اللہ تعالی نے ان کو یہ اخیتار تفویض کر دیا ہو-  اس طرح رافضی مفوضہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے اماموں کے پاس زمین کا کنٹرول ہے اسی طرح کا عقیدہ بنایا گیا  کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوت سے  مردوں کو زندگی بخشی

سعید معتزلی کے چیلے آصف خان الجہمی جدید  نے موقف اپنایا کہ کہ  حنیف  نے توبہ کی  ہے

جبکہ حنیف مردار ہو  چکا ہے اور اس کی کوئی توبہ معلوم نہیں ہے – جہمی اصف کے گھر کی گواہی اس میں شامل ہے کہ توبہ کا کوئی  لفظ معلوم نہیں ہے – حنیف نے اپنے الفاظ کی تاویل کر کے اپنے شرک کو چھپایا ہے اور اسی پر مومنوں  کو اعتراض ہے شرک کی تاویل نہیں کی جا سکتی –

جھمی  اصف  نے   اپنی دلیل میں امام بخاری  کا   ذکر کیا

اسی قسم کا سوال جب  ڈاکٹر عثمانی سے ہوا تھا کہ انہوں نے تمام ان محدثین پر فتوی کیوں نہیں لگایا جنہوں نے عود روح کی روایت لکھی  ہے تو ان  کا جوابا کہنا تھا

کیا امام بخاری نے کہیں  لکھا ہے  کہ ان کا عقیدہ  اس ادب مفرد  کی  روایت پر ہے ؟ ہرگز نہیں

اس حوالے سے ایک  معتزلی  جدید سعید احمد کی تقریر پر راقم کی رائے پوچھی گئی  جس میں اس شخص نے اہل سنت سے الگ  اپنے معتزلی  عقائد کا برملا اظہار کیا اور ان پر شدت اختیار کی

سعید   احمد     کی    معتزلی  تقریر پر تبصرہ

سعید نے کہا
2:40
الله اپنی صفت دیتا ہے تو اللہ صوفی میں حلول کرتا ہے

١٦:٢٨
اللہ اپنی صفت کسی کو نہیں دیتا – دینے کا طلب ہے کہ اس نے اپنا وجود دے دیا

تبصرہ
یہ کسی بھی تصوف کی کتاب میں نہیں ہے – صوفیا کے نزدیک تو اللہ مخلوق میں موجود ہے جس کو وحدت الوجود کہتے ہیں
اور اس میں تمام مخلوق شامل ہے – سعید لوگوں کی ذہن سازی کر رہا ہے کہ اگر ہم عقیدہ رکھیں کہ اللہ صفت مخلوق (عیسیٰ ) کو دیتا ہے تو اس قول کو قبول کرنے سے ہم مشرک نہ ہوں گے کیونکہ صوفیا کا مذھب ہمارے مذھب سے الگ ہے

سعید نے کہا

12:30
اللہ کی صفت کا مقابلہ مخلوق سے نہیں کیا جا سکتا
١٦:٠٠
اللہ کا سمیع و بصیر ہونا

تبصرہ

یہ ڈوج دے رہا ہے کیونکہ اللہ ایک انسان کی طرح سمیع و بصیر نہیں ہے
اللہ نے اپنے اپ کو
السمیع و البصیر
کہا ہے

اللہ نے اپنے اپ کو العلی بھی کہا ہے
اور علی ایک صحابی کا نام بھی ہے

لیکن ال عربی میں جب اتا ہے تو وہ اس کو باقی اسماء سے الگ کر دیتا ہے

اس  کا مقصد یہ  کہنے   کا یہ ہے کہ  اس موقف ہے کہ اللہ الحیی  نے اپنی  مردہ کرنے کی  ایک  صفت   کو مخلوق کی  شکل میں عیسیٰ کو دے دیا –  اس طرح اس کے نزدیک   سورہ المائدہ کی  آیت کی تاویل  ہو جاتی ہے کہ

وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِىْ

اور جب تم نے مردوں  کو  نکالا   میرے   اذن   سے

سعید نے کہا

١٧:٠٠
حنیف نے لکھا کہ اللہ تعالی نے عیسیٰ کو صفت دی تو حنیف کو اس میں مغالطہ ہوا وہ معجزے کو اللہ کی صفت سمجھا
معجزے اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ اللہ خلق کرتا ہے

تبصرہ

معجزہ غیر اللہ کی صفت ممکن نہیں ہے

وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ
اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

یعنی معجزہ صرف اللہ کے حکم سے ہی ممکن ہے
جو چیز صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں وہی اللہ کی صفت کہی جاتی ہے
اگر معجزہ اللہ کے حکم سے نہیں تو اس کا مطلب ہے معجزہ اللہ نے نہیں بلکہ انبیاء نے کیا اور انبیاء سے کہیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ سب کمالات ان کی کاوش سے ہوئے ہیں

سعید نے کہا

١٩:٠٠
معجزہ اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ کو اللہ کی صفت کہنا شرک ہے
معجزہ اللہ کی خلق ہیں

تبصرہ

معجزہ کا لفظ قرآن و حدیث میں نہیں ہے معجزہ کی تعریف ہے
اللہ کا ایسا فعل جو قانون قدرت سے الگ ہو اتنا بڑا ہو کہ انسانی عقل کو معلوم ہو کہ انسان کے بس میں نہیں ہے
اس کو معجزہ کہتے ہیں

سانپ کو لکڑی میں واپس بدلنا موسی کا عمل ہے یا یہ اللہ کا حکم ہے ؟ ظاہر ہے یہ اللہ کے حکم سے ہے
جب یہ عظیم بات حکم اللہ کی وجہ سے ہو تو اس کام کو مخلوق کا عمل نہ کہا جائے گا
اس کو اللہ تعالی کی نشانی کہا جائے گا

سعید نے کہا

١٩:٢٥
اللہ نے موسی کو نو نشانی عطا کیں

٢٩:٢٥
معجزہ اللہ کا فعل ہے اور فعل کیا ہے
اللہ کا امر

کن فیکون ہے

تبصرہ
سورہ الاسرا میں ہے

وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ ءَايَٰتٍ بَيِّنَٰتٍۢ
ہم نے موسی کو نو نشانیاں دیں

عطا کا لفظ عربی کا ہے لیکن قرآن میں آیت اللہ دینے پر یہ نہیں آیا – عطا کا ترجمہ کر سکتے ہیں
ایسا دینا کہ اس پر مکمل کنٹرول اس شخص کا ہو جائے جس کو عطا ہوا
لیکن یہاں لفظ ءَاتَيْنَا ہے جس کو مطلب دینا ہے  لیکن یہ عطا کے مفہوم پر نہیں ہے- یہ
dedicate
کے مفہوم پر ہے

یعنی یہ نو نشان ال فرعون کے لئے ہیں ان کو دیکھائی  جائیں گی –   موسی کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
اور یہ بات ال فرعون کو بھی معلوم تھی وہ کہتے موسی اپنے رب سے دعا کر
یعنی قرآن میں واضح کیا گیا کہ موسی کا ان آیت پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
جو بھی تھا وہ اللہ کے حکم سے ہو رہا تھا
لہذا ان نو نشان کی اابتداء اللہ کے امر یعنی حکم سے ہوتا ہے

اگر معجزہ اللہ کا امر ہے کن فیکون ہے تو یہ اللہ کا حکم ہے جو غیر مخلوق ہے

یہ تو بنیادی بحث ہے جو کام صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں کوئی حکم صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں  تو وہ غیر اللہ کی صفت نہیں ہے

بحث اس پر ہوئی چاہے کہ کس طرح ہوا ؟ تو ظاہر ہے معجزہ الله کے امر و حکم سے ہوا

اس کے نتیجے میں اگر کچھ نیا خلق ہوا تو وہ مخلوق ہے
مثلا موسی کا عصا سانپ بن گیا تو سانپ مخلوق ہے

لیکن سانپ معجزہ نہیں ہے – لاٹھی کا سانپ میں کے وجود میں بدلنا معجزہ ہے

یہی اللہ کی نشانی ہے کہ اس نے حکم دیا اور لکڑی ایک زندہ شی میں بدل گئی
اینڈ پروڈکٹ سانپ ہے لیکن ہم اینڈ پروڈکٹ کو نہیں دیکھ رہے ہم تو اس کمال کو معجزہ کہتے ہیں یا
process
کو معجزہ کہتے ہیں

اگر کوئی جاہل
process
کی بجائے
اینڈ پروڈکٹ
یعنی سانپ کو معجزہ کہے
تو اس سے سوال کیا جائے کہ سانپ تو انسان پالتے ہیں ہندو ان کو دودھ پلاتے ہیں
یہ ال فرعون کے پاس بھی ہوں گے
تو سانپ کو معجزہ کس نے کہا ہے
کوئی متکلم و محقق نہیں گزرا جس نے اینڈ میں ببنے والی مخلوق کو معجزہ کہا ہو

بعض اوقات معجزہ ہوا اور کوئی نئے چیز نہیں بنتی مثلا انسان مرا – عیسیٰ نے اللہ کے حکم سے زندہ کر دیا
اب اس کو عیسیٰ کا معجزہ اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ ان کی قوم کو اللہ کا یہ کمال و معجزہ و آیت دکھائی گئی
نہ کہ عیسیٰ کو قوت الاحیا الموتی مل گئی – اسی طرح اللہ نے چاند کو توڑا  اور پھر جوڑا   – اس میں کوئی  نیا نہیں بنا –  لیکن یہ جو سب ہوا یہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہیں ہوا  بلکہ انہوں نے  بس اس بات کی پیشگی خبر  قریش  کو کی –

جو بھی شخص معجزہ کو  محض   مخلوق  کے تحت لے گا وہ گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی کرے گا

قرآن میں لفظ آیت بولا گیا ہے – متکلمین نے انسانوں کو سمجھانے معجزہ کا لفظ استعمال کیا ہے
یعنی عقل کو عجز یا کمزور کرنے والا اللہ کا فعل و حکم
اس میں اللہ خلق و حکم دونوں کرتا ہے

اللہ کے رسول صرف اس کی خبر کرتے ہیں کہ فلاں پہاڑ سے اوٹنی نکلے گی
یعنی چٹان ، گوشت و خون میں بدلے گی
اس میں پہاڑ کو حکم کیا جا رہا ہے گوشت میں بدلے
نتیجتا اینڈ پروڈکٹ اوٹنی نکلتی ہے

تبدیلی کا عمل ہے جو پہاڑ نے کیا
انسانی عقل عاجز ہو گی
اس    کو ہم معجزہ کہہ رہے ہیں

قرآن اس کو آیت اللہ کہتا ہے
بس اتنا ہمارے لئے کافی ہے

سعید نے کہا
٢٩:٣٠
پورے قرآن میں معجزے کو کہیں نہیں لکھا کہ یہ اللہ کی صفت ہے

تبصرہ
صفت کا لفظ غیر قرانی غیر قریشی ہے
امام ابن حزم کے مطابق اس کا استعمال بھی حرام ہے

ہم کو اسماء اللہ کا بتایا گیا ہے اور جو کام صرف اللہ کرتا ہو وہی اس کا اسم ہے
قرآن میں ہے
قل إنما الآيات عند الله
سورہ الانعام
کہو آیات اللہ (معجزات)، اللہ کی طرف سے ہیں

جن باتوں کو نسبت صرف اللہ کی طرف ہو وہ اس کا اسم ہیں
اور یہ اللہ کے نام
القادر کے تحت ہے
کہ وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے

نبی یا مخلوق جو چاہتی نہیں کر سکتی ٠ ان کو حکم رب کا انتظار کرنا پڑتا ہے

لہذا یہ بے تکی تان کرنا کہ قرآن میں معجزہ کو صفت نہیں کھا گیا معنی چست؟ قرآن میں نہ تو صفت کا لفظ ہے
نہ معجزے کا لہذا ان دونوں کو ہٹا کر اگر سمجھیں تو یہ سب اسما الحسنی نے تحت سمجھنا ہو گا کہ اصل میں اللہ القادر ہے
وہ نبی کی قوم کو اپنی نشانی دکھاتا ہے
ایک چیز کو دوسری سے بدل کر
یا مردہ کو زندہ کر کے
وغیرہ

سعید نے کہا
٣٤:٠٠
پورے قرآن میں اللہ کے اذن کی definition
نہیں ہے
تو ہم کیسے اس پر بحث کریں گے ؟

تبصرہ
تو سعید کیوں معجزے پر بحث کر رہا ہے
جو ہے ہی اللہ کے اذن کے تحت ؟

سعید نے کہا
٣٩:٠٠

اللہ نے قرآن کو عربی زبان میں بنایا ہے
یعنی اللہ نے عربی میں قرآن تخلیق کیا ہے

اللہ نے اپنے کلام کو عربی میں کنورٹ کر کے نازل کیا

تبصرہ
بلا شبہ زبان مخلوق ہے
لیکن جب اللہ اس زبان میں کلام کرے تو وہ کلام، کلام اللہ ہے
اور مخلوق نہیں ہے

سعید کے مطابق قرآن مخلوق کی مد میں ہے
اب یہ ایک عظیم مسئلہ ہے امام بخاری نے اس پر مکمل کتاب لکھی
خلق افعال العباد
کہ قرآن کلام الله ہے غیر مخلوق ہے
اس کی تلاوت جو انسان یا نبی یا فرشتہ کرتا ہے وہ مخلوق ہے

جو تمام زبانوں کو جانتا ہے یعنی اللہ ، اس کو
convert
کرنے کی خبر سعید کو کس نے دی
یعنی اللہ نے کسی ایسی زبان میں کلام کیا جو صرف اس کو معلوم تھی پھر اس نے اس کو عربی میں
convert
کیا
یہ سب علم غیب کی بات ہے یہ قرآن و حدیث میں نہیں

میری سمجھ سے باہر ہے کہ علم غیب پر نکتہ سنجی سے کیا فائدہ ہے

سعید نے کہا

40:٠٠
اللہ نے اپنا کلام لوح محفوظ میں اتارا ہے
ہم تک جو کلام اللہ پہنچا وہ مخلوق ہے

اللہ اعبرانی نہیں بولتا

ہر نبی اپنی زبان بولتا تھا لیکن اللہ کوئی اور زبان میں کلام کرتا ہے
پھر ان کو
convert
کر کے
بیان کرتا ہے

تبصرہ

یہ بات تو ظاہر ہے کہ زبانیں الگ الگ ہیں لیکن کیا اللہ عربی میں کلام نہیں کرتا ؟ اس کی خبر سعید کو کس نے دی
یہ ضرورت سے زائد کلام ہے جس پر ہم بات نہیں کرتے کیونکہ یہ علم ہماری بساط سے باہر ہے

اللہ ہر زبان میں کلام کر سکتا ہے
اس جاہل کو کس نے خبر دی کہ لوح میں کسی ایسی زبان میں لکھا ہے جس کو کوئی نہیں جانتا ہے؟

لوح محفوظ میں جو کلام اللہ ہے وہ سعید کے نزدیک غیر مخلوق ہوا

سعید کے فلسفے کا یہ جھول ہے کہ لوح جو مخلوق ہے اس میں درج قرآن اس کے نزدیک غیر مخلوق ہے اور جو زمینی کاغذ میں لکھا ہے وہ کلام اللہ نہیں بلکہ کونورٹڈ  یا ترجمہ شدہ ہے

قرآن سورہ ال عمران آیت ٤٩  میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ مریم علیہ السلام  کو فرشتوں نے بتایا

وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا ، ( وہ لوگوں سے کہے گا ) میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لایا ہوں میں تمہارے سامنے مٹی سے ایک پر ندے کی شکل بناتا ہوں ، پھر اس میں پھونک مارتاہوں تووہ اللہ کے حکم سے واقعی پر ندہ بن جاتا ہے نیزمیں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور کو ڑھی کو ٹھیک کرتا ہوں اور مرُدوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو سب تمہیں بتلا دیتاہوں اگر تم ایمان لانے والے ہو تو تمہارے لئے ان باتوں میں نشانی ہے

اس آیت سے بعض لوگوں نو دلیل لی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قوت مل گئی تھی وہ یہ تمام کام خود ہی کر لیتے ہیں – ان لوگوں نے نزدیک نشانی لانے یا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی بعض صفات میں انبیاء کو اختیار دے دیا تھا کہ قوت الاحیاء الموتی کے حامل تھے – اس کو سن کر  خیال  اتا ہے کہ بر صغیر کے بریلوی فرقے کی کسی کتاب نے ان لوگوں نے یہ سب اخذ کیا ہے – راقم کو معلوم ہے کہ اپنی سابقہ زندگی میں یہ لوگ اسی فرقے سے تھے اور وہاں سے ہی اس قسم کے عقائد دین میں داخل کر رہے ہیں –  بریلوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو زندہ کر دیتے تھے  ان کو اس کا اختیار مل گیا تھا – یہ اختیار و عطائی  علم غیب کی سوچ البتہ   سعید   المعتزلی  سے منسلک  لوگوں میں در کر آئی ہے  کی یاد اتی ہے – بس فرق اتنا ہے کہ اپنی لفاظی سے یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ  یہ علم غیب کی عطا یر مردوں کو زندہ کرنے کی قوت اللہ تعالی نے عیسیٰ علیہ السلام کو دان کر دی تھی

اس طرح اپنے گھڑے باطل عقائد پر قرانی آیت پیش کرتے ہیں کہ عیسیٰ تو واقعی اس قدرت و اختیار کے مالک تھے جبکہ قرآن میں اس آیت کی تشریح سورہ المائدہ  ١١٠ کے مقام پر  اس طرح کی

اِذْ قَالَ اللّـٰهُ يَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَـمَ اذْكُرْ نِعْمَتِىْ عَلَيْكَ وَعَلٰى وَالِـدَتِكَۘ اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِۖ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِى الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْاِنْجِيْلَ ۖ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْـرِ بِاِذْنِىْ فَـتَنْفُخُ فِيْـهَا فَتَكُـوْنُ طَيْـرًا بِاِذْنِىْ ۖ وَتُبْـرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْـرَصَ بِاِذْنِىْ ۖ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِىْ ۖ وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَـهُـمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْـهُـمْ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ 

جب اللہ کہے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! میرا احسان یاد کر جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہوا ہے، جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی، تو لوگوں سے بات کرتا تھا گود میں اور ادھیڑ عمر میں، اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائی، اور جب تو مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے بناتا تھا پھر تو اس میں پھونک مارتا تھا تب وہ میرے حکم سے اڑنے والا ہو جاتا تھا، اور مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، اور جب مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا جب تو ان کے پاس نشانیاں لے کر آیا پھر جو ان میں کافر تھے وہ کہنے لگے کہ یہ تو بس صریح جادو ہے

آیت کے قرآن میں کئی مطلب ہیں

یہ علامت کے لئے بھی اتا ہے

قوله تعالى: {وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ} البقرة: 248.

ان کے نبی نے کہا کہ اس کی مملکت کی علامت یہ ہے کہ اس میں تابوت تم کو واپس ملے گا جس میں تمھارے رب کی طرف سے  سکون ہے

یہ عبرت کے لئے بھی استعمال ہوا ہے
والآية كذلك العبرة، كما قال تعالى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (7)} يوسف: 7، أي أمور وعبر مختلفة.

یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں سائل کے لئے نشان (عبرت) ہے

یہ معجزہ کے لئے بھی ہے
وتطلق الآية على المعجزة، قال تعالى: {وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (50)} المؤمنون: 50.

اور ہم نے ابن مریم اور اس کے بیٹے کو نشانی بنا دیا

یعنی مریم بن شوہر کے ماں بن گئیں اور عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہو گئے   – یہ اہل کتاب مومنوں کے لئے حیرت کی وجہ تھی کہ یہ نہ ممکن تھا لیکن ہوا

یہ زمینی عجائب کے لئے بھی ہے

وآيات الله أي: عجائبه: وهي الآيات الكونية والدلائل، المقصودة في قوله تعالى: {وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (4)} الجاثية: 4، وقوله سبحانه: {سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ} فصلت: 53.

اور عربی میں یہ  جماعت کے لئے بھی استعمال ہوتا  ہے  ويراد بها الجماعة: يقال: خرج القوم بآيتهم أي: بجماعاتهم

آیت مطلب نشان ، علامات ، عجائب  ہیں – متاخرین نے اس کا ایک نام معجزہ بھی کر دیا ہے اور اردو میں یہ اکثر استعمال ہوتا ہے

اب سوال یہ ہے کہ نشانی قوت النبی ہے یا اللہ کے حکم سے ہے ؟ تو قرآن میں اس کا واضح جواب ہے کہ انبیاء میں کسی کو یہ اختیار نہ تھا کہ نشانی لا سکتا اور عیسیٰ سے بھی یہ کہا گیا کہ یہ باذن اللہ یعنی اللہ کے حکم ہو رہا ہے – سورہ المائدہ کی آیت  سے یہ بالکل واضح ہے کہ مردے کو زندہ کرنا  عیسیٰ کا خود کا  ذاتی عمل نہ تھا کہ اس کو قوت عیسیٰ کہا جا سکے

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کفار پر مٹی پھینکی اور وہ بھکر گیا بھاگ گیا – اللہ تعالی نے تبصرہ میں فرمایا

وما رميت اذ رميت ولكن الله رمى

وہ مٹی تم نے نہیں پھینکی ، جب پھینکی تھی بلکہ وہ اللہ نے پھینکی تھی

رسول اللہ صلی اللہ کا یہ معجزہ تھا کہ مسلمانوں نے دیکھا کہ انہوں نے مٹی پھینکی  اور کافر بھاگ گئے لیکن اللہ نے اس عمل کو اپنی طرف منسوب کیا – اس طرح ہم کو تعلیم دی گئی کہ معجزات انبیاء اصل میں سب اللہ کے حکم سے ہو رہے ہیں بظاہر تو لگ رہا ہے موسی نے عصا مارا  لیکن اصل میں موسی کا اس میں کوئی کمال نہیں  اللہ کی جانب سے سمندر کو حکم ملا اور وہ پھٹ گیا

اس طرح ہم انبیاء کو ملنے والی آیات کی شرح کرتے ہیں

ولقد آتینا موسی تسع آیات بینات۔ سورۃ بنی اسرائیل ایۃ 101.  ۔ اور یقینا ہم نے موسیٰ کو نو واضح نشانیاں دیں

اس آیت سے بعض فاتر العقل لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ موسی علیہ السلام کو ان نو نشانوں کو کرنے کی قوت مل گئی تھی – وہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکتے تھے ، طوفان لا سکتے تھے – ہاتھ چمکا سکتے تھے – سمندر پھاڑ سکتے تھے

جبکہ اللہ تعالی نے ان نو نشانیوں کو قرآن میں قوت موسی کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کو  کرشمہ الہی کے طور کر پیان کیا ہے

اس فاتر العقل شخص نے کہا

موسیٰ علیہ السلام کا عصا معجزاتی تھا اور یہ مخلوق ہے اسکا سانپ بن جانا اژدھا بن جانا معجزہ ہے اور مخلوق ہے۔

راقم کہتا ہے موسی کا عصا ، سانپ یقینا مخلوق ہیں لیکن یہ قوت نہ تو عصا میں ہے نہ موسی میں کہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکیں

اس فاتر العقل شخص نے مزید کہا

معجزہ مخلوق پر ظاھرو رونما ہوتا ہے۔ یاد رکھیں اللہ کی الوہی صفات مخلوقات پر ظاھر و رونما نہیں ہوتیں

راقم اس پر کہتا ہے کہ معجزہ  یقینا اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور مخلوق پر ظاہر بھی ہوتا ہے – اللہ الخالق ہے جو چاہے خلق کرے اور یہ صفت تمام مخلوق دیکھ سکتی ہے  – ہر وقت اس زمین میں کچھ  خلق ہو رہا ہے – اللہ کی صفت الخالق ہونا ہے اور یہ صفت خلاقیت مخلوق  پر عیاں ہے

پھر فرشتے اللہ تعالی سے کلام کرتے ہیں ، اس کا حکم سنتے ہیں –   اللہ تو السمیع و البصیر ہے اور فرشتے باوجود مخلوق ہونے کے اس صفت کو جانتے ہیں –  لہذا یہ جملہ کہ اللہ تعالی کی صفات مخلوق نہیں ظاہر ہوتیں سمجھ سے باہر ہے – یاد رہے کہ عیسیٰ بھی اللہ کا معجزہ ہیں مخلوق نے ان کو دیکھا سنا اور ان سے تعلیم حاصل کی

معجزہ  قوت انبیاء نہیں اور نہ اس کو اس پر قدرت و اختیار حاصل تھا – اصل قدرت و اختیار اللہ تعالی کے پاس ہے

مزید  وضاحت  اس  مضمون میں ہے

نشانی کی حقیقت

مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِىَ لَهُۥ

مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِىَ لَهُۥ ۚ وَيَذَرُهُمْ فِى طُغْيَٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ

جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں، اور انہیں اللہ چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں حیران پھیریں

اہل ایمان کی آزمائش ہوتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی عالم گمراہ ہوتا ہے –  گزرے صوفیاء کو گمراہ کہنا آسان ہے کیونکہ ان سے ہماری ملاقات نہیں ہے لیکن جب ہم کسی عالم کو دیکھیں کہ وہ خود گمراہ ہو گیا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کہہ رہا ہے تو یہ یقینا ایک آزمائش ہے

یاد رہے کہ طاغوت کا دفاع نہیں کیا جا سکتا – نہ اس حوالے سے کوئی جھول یا گول مول بات کی جا سکتی ہے – محسن ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کو اللہ تعالی جنت میں اعلی مقام دے جنہوں نے صوفیاء ہوں یا محدثین دونوں کے گمراہ عقائد کی تبین کی  اور آج مزید تحقیق سے یہ واضح سے واضح تر ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی تحقیق درست ہے

گزشتہ امتوں میں گمراہی اغلبا اسی طرح آئی کہ ان کے علماء نے ہی حق و سچ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا – اپنے سابقہ موقف کو بہکنا کہ کر ایمان کو مشکوک بنانے کی کوشش کی – خود بھی گمراہ ہوئے اور اورروں  کو بھی گمراہ کیا

اللہ ہر طرح کی گمراہی سے بچائے

اللھم اھدنا فیمن ھدیت

یا اللہ ہم کو  ان ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل فرما جن کو تو نے ہدایت بخشی ہے

زبیر صاحب کی تلبیسات

حافظ زبیر صاحب نے یو ٹیوب پر یہ بیان دیا ہے

 زبیر صاحب نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر عثمانی متشدد تھے اور اہل حدیث غیر متشدد تھے  اور دو مسائل  پر توجہ دی  اول  برزخی زندگی پر کتاب اور دوم قرآن پر اجرت لینا   کو گمراہ کہنا – ساتھ ہی انہوں نے  واضح نہیں کیا کہ  امام احمد ، امام بخاری متشدد تھے یا غیر متشدد جو مسئلہ خلق قرآن میں اہل بیت میں سے  بنو عباس کی  تکفیر کرتے رہے

زبیر صاحب کے نزدیک عذاب قبر کا مسئلہ،   توحید کی وجہ سے الجھ  گیا تھا  اور پنج پیر والوں نے شرک کی تعریف کی کہ قبر میں مردہ زندہ ہے  لہذا اگر مردہ کو مردہ مان لیا جائے تو قبر پرستی کا انکار کرنا ہو گا

زبیر صاحب نے کہا کہ حدیث میں ہے کہ  شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں – یہ جملہ نوٹ کریں کیونکہ بعد میں جن علماء کی کتب کا ذکر کیا گیا وہ اس کے انکاری ہیں

زبیر صاحب نے ذکر کیا کہ سلف میں صرف ابن حزم رہے ہیں جو صرف روح پر عذاب کے قائل ہیں – راقم کہتا ہے یہ غلط ہے امام اشعری نے   صرف روح پر عذاب کا ذکر کیا ہے پھر اسی بیان  میں آگے زبیر نے ذکر کیا روح پر عذاب کے قائل علماء آج بھی ہیں

زبیر صاحب نے لوجک یا تعقل کی بنیاد پر ذکر کیا کہ جسم کو عذاب ضروری ہے – زبیر صاحب نے یو ٹیوب میں جواب میں ذکر کیا
مادہ یعنی میٹر اپنی صورت یعنی فارم تبدیل کر لیتا ہے، ختم نہیں ہوتا ہے۔ یہ سائنس کا بنیادی ترین اصول ہے

مادہ کی بقا ہے یہ فزکس کا اصول ہے لیکن جب ہم دین کی بات کرتے ہیں تو اس مٹی سے کرتے ہیں جس سے آدم علیہ السلام کو خلق کیا گیا اور اسی طرح نسل آدم بھی مٹی بن رہی ہے
اسی طرح اس زمین میں شجر و بناتات بھی مٹی بن جاتے ہیں
گویا زمین کی اصل مٹی ہی ہے اسی کی طرف جانا ہے –
عذاب قبر میں اگر مٹی کو عذاب ہو رہا ہے تو یا عالم ارضی کو عذاب ہوا اور یہ فہم سراسر غلط ہے ورنہ زمین سب سے پہلے اس پر اللہ سے فریاد کرتی کہ گناہ انسان نے کیا میری مٹی نے تو نہیں کیا اس کو عذاب کیوں ہے -راقم کہتا ہے جسم مٹی ہو جانا قرآن میں موجود ہے اور   مٹی کو عذاب نہیں ہوتا  ورنہ یہ زمین کومسلسل  عذاب الہی  دینے کے مترادف ہے

عرب  میں  سلفی وہابی تنظیموں میں تکفیر کرنا  معروف ہے – زبیر صاحب نے مسئلہ اتباع  طاغوت کی  کھلی اڑاتے  ہوئے  سماع الموتی کے قائل   علماء کو حق پر قرار دے دیا ہے

امام  احمد جو فرشتوں کو پکارنے کے قائل تھے ان کو زبیر صاحب  نے توحید پر قائم  بتایا ہے  جبکہ  انڈیا  میں اسی بنا پر اہل حدیث ٹولوں میں  پھوٹ پڑی ہوئی ہے

ایک اہل حدیث عالم مقبول احمد  سلفی ، اہل حدیث  انڈیا  میں پھوٹ پڑنے پر لکھتے ہیں لنک 

آخر میں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیرالہ اور کرناٹک وغیرہ میں مذکورہ بالا حدیث کو لیکر سلفیوں کے درمیان بھی یہ مسئلہ نزاع کا باعث بناہواہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ جب حدیث ہی سرے سے قابل استناد نہیں تو بات ہی ختم اور اگر اسلاف میں سے کسی نے اس حدیث پر عمل بھی کیا ہوتو انہوں نے نہ تو جن سے مدد طلب کی اور نہ ہی ولیوں اور قبر والوں کو پکارا بلکہ انہوں نے ویسے ہی پکارا جیسے پکارنے کا حدیث میں حکم ملا ہے اور وہ ہے فرشتوں کو پکارنا جیساکہ میں نے وہ حدیث بھی پیش کردی جس میں فرشتوں کی جماعت کا ذکر ہے

زبیر صاحب   کے بیان سے معلوم ہوا کہ  اہل حدیث فرقوں  میں اب فرشتوں کو پکارنا عین توحید سمجھا جانے لگا  ہے

راقم کہتا ہے یہ زوال امام احمد کو عقائد میں  لاحق  ہوا تھا  کہ تعویذ  کرنے لگے اور فرشتوں کو پکارنے لگے تھے اس کو توحید پر مبنی نہیں کہا جا سکتا

امام ابن تیمیہ جو سماع الموتی کے قائل تھے ان کا ذکر زبیر صاحب نے کیا کہ امام ابن تیمیہ کہتے تھے کہ  بعض  لوگ ایک نقطہ نظر بنا  لیتے ہیں پھر تاویل کرتے ہیں  دوسری طرف اہل حدیث کہتے ہیں سماع الموتی  گمراہی ہے گویا اہل حدیث کے نزدیک خود ابن تیمیہ کا عقیدہ صحیح  نہیں  ہے

قلیب بدر  کے خاص واقعہ کو زبیر نے   فروعی کہہ دیا جبکہ  معجزہ  پر ایمان لانا ضروری ہے یہ فروعی مسئلہ نہیں ہے عقیدہ کا ہے- اصحاب رسول کا اس کے خاص ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا- نہ کہیں لکھا ہے کہ ابن عمر سماع الموتی کے قائل تھے – صحیح بخاری میں ذکر ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک حدیث غلط سمجھے تھے جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس حدیث پر کلام ہوا تو انہوں نے  وضاحت کی کہ مردہ نہیں سنتا اور قلیب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مردہ مشرکوں سے کلام  محض جذبات تھا  کیونکہ بدر میں   مشرکوں کو قتل کے بعد  علم ہو چکا تھا کہ حق کیا ہے  – راقم کہتا ہے ابراہیم علیہ السلام کا بتوں سے کلام قرآن میں موجود ہے کہ کھاتے کیوں   نہیں ؟ اس سے یہ نہیں سمجھا جائے کہ ابراہیم علیہ السلام  سماع الاصنام   یا   بتوں کے سننے کے قائل تھے

زبیر کے بقول جو قبرستان میں دعا کی جاتی ہے وہ مردے سنتے ہیں – راقم کہتا ہے یہ غلط موقف ہے – ہر مومن نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی کی دعا کرتا ہے اوراس کا مقصد سنانا نہیں تھا

 زبیر صاحب اس طرح سماع الموتی کا عقیدہ بھی رکھ رہے ہیں – دوسری طرف اس وجہ سے وہ  اہل حدیث فرقہ  سے الگ عقیدے پر آ گئے ہیں جو سماع الموتی کے رد میں کتب لکھ رہے ہیں، قلیب بدر کو خاص ما نتے ہیں ، اس کو عام  کہہ کر اصحاب رسول کی صحیح و غلط عقائد میں تقسیم نہیں کرتے  ہیں

زبیر صاحب  کے بقول روح کا جسم سے نکلنا موت ہے -دوسری طرف اہل حدیث فرقوں میں اس  کا انکار ہے مثلا اہل حدیث  علماء میں ابو جابر دامانوی اور رفیق طاہر اس کے انکاری ہیں

 زبیر صاحب کا یہ جملہ قابل غور ہے کیونکہ چند منٹ بعد وہ خود اس کا رد کرتے ہیں  – راقم کہتا ہے  نیند میں روح، جسم سے نہیں نکلتی اور مردے میں روح واپس نہیں آتی  -قرآن میں موت کے حوالے سے  امسک روح کا لفظ ہے یعنی روح کو روک لیا جاتا ہے ظاہر  ہے جو چیز الگ ہے گئی ہو اسی کو روکا جاتا  ہے لہذا موت پر جسم میں روح پھر قیامت تک  نہیں آ سکتی – یہ قرآن سے واضح ہے

اہل سنت میں قبر کے لفظ پر موقف یہ بھی ہے کہ قبر وہ ہے جہاں روح  ہے جس پر تفصیلی بحث اس ویب سائٹ پر  موجود ہے

 زبیر صاحب کے بقول نیند  بھی موت ہے ، جبکہ نیند ، موت ، بے ہوشی سب الگ ہیں – اس پر راقم کی مکمل کتاب  ہے

برے خواب کو زبیر صاحب نے جسم  پر  عذاب قرار دے دیا – راقم کہتا ہے خواب تو مومن بھی دیکھتا ہے اور یہ عذاب جسم  قرار نہیں دیا گیا –  زبیر صاحب نے موت کے بعد عذاب کو بھی ڈروانے خواب پر قیاس کر لیا گیا  جو سراسر غلط سلط ہے

زبیر صاحب کے بقول انبیاء  کا  قبر  میں نماز پڑھنا  بھی ثابت ہے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ  انبیاء کو زندہ بھی نہ کہا جائے- راقم کہتا ہے یہ  ریکوسٹ  قابل رد ہے – موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا  سلف میں قابل بحث رہا ہے اور ابن حبان نے اس کو خاص صرف اس معراج کی  رات کا واقعہ کہا ہے – ابن حزم نے اس کو جنت میں ہی نماز  کہا ہے

سجین و علیین  ،زبیر صاحب کے بقول یہ مقام ہیں  جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں – راقم کہتا ہے سننے والے سن سکتے ہیں کہ زبیر صاحب نے  یہ واضح نہیں کیا کہ روح  کو سجین و علیین میں موجود ماننا کس قرآن کی آیت سے معلوم  ہے  – بقول زبیر صاحب ارواح اوپر جاتی ہیں  اور نیند میں بھی روح جسم سے نکل جاتی ہے -راقم کہتا ہے    زبیر صاحب  خود کنفیوز ہیں کیونکہ بقول زبیر  صاحب  روح کا جسم سے نکلنا ہی   موت ہے تو نیند بھی موت بن گئی  جبکہ قرآن میں نیند کو موت سے الگ کیا گیا ہے

زبیر صاحب نے سلف کے ان تمام علماء کو گمراہ قرار دے دیا جو برزخی جسم کا ذکر کرتے ہیں مثلا  ابن عقیل، ابن جوزی  وغیرہم

زبیر صاحب کے نزدیک انبیاء   درہم ،دینار نہیں  لیتے لیکن علماء جو اپنے آپ کو انبیاء کا وارث کہتے ہیں ان کا درہم لینا جائز ہے پھر زبیر صاحب نے چند مخصوص واقعات سے اجرت کے دلائل لئے ہیں جن کی وضاحت اس ویب سائٹ پر موجود ہے – قرآن میں ہے کہ ظالم کو قرآن سے شفاء نہیں ملے گی لیکن حدیث میں جب مشرک و کافر سردار کو سورہ فاتحہ سے دم کیا گیا تو شفاء ہوئی – ظاہر ہے یہ مخصوص ہے

  زبیر صاحب  نے عذاب قبر کی بحث میں  چند کتب کا ذکر کیا – راقم  کہتا ہے یہاں بھی   لوگوں کو مغالطہ دے  دیا گیا ہے – کیا اہل حدیث  کے نزدیک یہ  نیچے دیے گئے تمام متضاد عقائد صحیح ہیں

١- عود روح  بالکل نہیں ہو گا    (قاری خلیل رحمان     ، کتاب پہلا زینہ)

٢- روح جسم سے جڑے گی   اور تعلق ہو گا جس میں روح جسم سے نکلے گی اور جب چاہے  واپس بھی آئے گی  ( فتاوی ابن تیمیہ،  کتاب الروح از  ابن قیم، عبد الرحمان کیلانی  ، فتح الباری از  ابن حجر،  وہابی  علماء، زبیر علی زئی   بعض مواقع  پر )  یعنی بار بار عود روح ممکن ہے  

٣- روح   ، جنت  یا جہنم میں ہی  رہے گی  لیکن  قبر میں جسد سے تعلق ہو گا     (  نورپوری    کا  مضمون ،   مقالات از زبیر علی زئی    )

٤-  کچھ کہتے ہیں  مردہ جسد کو عذاب ہو گا بلا روح اور عود روح صرف ایک دفعہ ہو گا   (مثلا   کتاب الدین الخالص از    ابو جابر  دامانوی اور  کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال

راقم کہتا ہے زبیر صاحب کی بات درست  ہے ان اہل حدیث علماء کی یہ تمام کتب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو صحیح عقیدہ کا متلاشی ہو اور جاننا چاہتا ہو کہ فرقہ اہل حدیث کے اپنے تضادات کتنے ہیں

چھ ماہ قبل زبیر صاحب نے اپنے فیس بک پیج پر بھی تبصرہ جاری کیا تھا –  قارئین اس کو بھی دیکھ سکتے  ہیں   

کتب عثمانی پر ایک تبصرہ / Islamic-Belief.net (islamic-belief.net)    

کتب عثمانی پر ایک تبصرہ

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر اہل حدیث   ڈاکٹر  رانا محمد اسحاق  کی تعریفی آراء 

غیر مقلد ڈاکٹر رانا محمد اسحاق کتاب قبر اور عذاب قبر میں اقرار کرتے ہیں

فرقہ اہل حدیث کے ایک سرخیل صلاح الدین یوسف نے ہفت روزہ الاعتصام جلد ۲۸ ، ۲۲ اکتوبر ۱٩٨٤ میں ڈاکٹر عثمانی ؒکو مبارکباد پیش کی – یہ چیز حبل اللہ نمبر ٣ میں عبد القادر سومرو کے مضمون میں پیش کی جا چکی ہے کہ اہل حدیث ڈاکٹر صاحب کے لئے رطب اللسان تھے حتی کہ قبر کے حوالے سے خود فرقہ اہل حدیث کے فضل الرحمان کلیم  کاشمیری کہتے بنانگ دھل مضامین میں لکھتے تھے کہ قبر زمین کا کھڈا نہیں ہے

 

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر  مخالفین کی عنادی آراء
بہت سے لوگ جو ڈاکٹر عثمانی کی توحید پسندی سے حقیقی طور پر لا علم تھے ان میں بد نام زمانہ کتاب کراچی کا عثمانی مذھب کے مصنف خواجہ  محمد قاسم  تھے – خواجہ قاسم کھلے بندوں جھوٹ گھڑتے اور تحاریر پڑھ کے سمجھنے کی بجائے سنی سنائی پر زیادہ یقین رکھتے تھے

خواجہ قاسم جھوٹ گھڑتے ہیں

امام اہل سنت احمد بن حنبل ، امام ابو داود ، امام نسائی .. ان سب پر فتوی لگایا ہے اس لئے کہ ان کی کتابوں میں حدیث بیان ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے دنوں میں افضل دن جمعہ کا دن ہےکیونکہ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے۔ ۔۔۔۔ ۔پس اس دن کثرت سے درود پڑھو حقیقی بات یہ ہے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔صحابہ رضی اللہ عنھم نے کہا کہ ہمارا درود اس وقت کیسے پیش  کیا جائے گا جب آپ کا جسم ریزہ ریزہ ہو گیا ہو گا یعنی وفات کے بعد بوسیدہ ہو چکا ہو گا۔فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔

خواجہ قاسم کے افکار  پر مختصر  تبصرہ یہاں  ہے

سنجیدہ نظر انے والے   قلم کار عصر حاضر کے ڈاکٹر حافظ محمد زبیر بھی ہیں جنہوں خواجہ قاسم صاحب کا بیان کردہ چربہ ,   چربہ نقل کیا  ہے – موصوف لکھتے ہیں

عثمانی صاحب تابعین اور تبع تابعین کے بعد امت میں بس دو چار لوگوں کو ہی مسلمان سمجھتے ہیں جن میں ایک امام ابو حنیفہ ہیں اور دوسرے امام بخاری ہیں،  رحمہما اللہ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو فتنے کی جڑ قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول یہ امام احمد ہی ہے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اپنی حدیث کی   کتاب “مسند احمد” میں یہ روایت نقل کی کہ قبر میں مردے کے جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے۔ اسی طرح امام ابو داود، امام نسائی، امام ابن تیمیہ، امام ابن
قیم اور دیگر سلفی اور حنبلی علماء کو بھی اس حدیث کے صحیح ماننے کی وجہ سے گمراہ قرار دیتے ہیں۔

ایسا عثمانی صاحب نے کہیں نہیں لکھا کہ ان کے نزدیک امام ابو داود ، امام نسائی بھی اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ انہوں نے حدیث عود روح کو نقل کیا  ہے – اسی قسم کا مغالطہ غیر مقلد شفیق الرحمان نے گھڑا تھا – اس پر عثمانی فرماتے ہیں

حوالہ دیکھیے حبل اللہ شمارہ 7 صفحہ 9 پر اسکرین شوٹ پوسٹ میں موجود ہے ملاحظہ فرمائیے۔

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ عثمانی صاحب نے مسند احمد کو کیوں کوٹ کیا اگر امام احمد کا عقیدہ درست نہیں تھا لہذا وہ لکھتے ہیں

۔ عجیب طرفہ تماشا یہ ہے کہ “عذاب قبر” کے مسئلے میں جن امام احمد کو ضال اور مضل قرار دیا، قرآن مجید پر اجرت نہ لینے کے مسئلے میں انہی کی مسند احمد کی روایتوں کو اپنا کل استدلال بنا لیا۔ کوئی اصول ضابطہ تو ہے نہیں، جہاں چاہتے ہیں کسی راوی کی بنیاد پر ایک روایت کو ضعیف قرار دیے دیتے ہیں اور دوسری جگہ اسی راوی کی روایت قبول کر لیتے ہیں۔

راقم کہتا ہے کیونکہ فرقوں میں یہ  عمل جاری و ساری ہے،  باوجود امام احمد کو مشرک بتانے کے  وہ ان کی باتوں کو قبول کرتے ہیں

اہل حدیث میں البانی اور متعدد اہل حدیث نے اقرار کیا ہے کہ امام احمد بیابان میں اللہ کو نہیں فرشتوں کو پکارتے تھے اس پر گواہ خود احمد کے بیٹے ہیں
یہ عمل خود ان فرقوں کے نزدیک شرک ہے

لنک 

عبد الوہاب النجدی نے بیان کیا کہ امام احمد وسیلہ کے قائل تھے – آج اہل حدیث کہتے ہیں یہ شرک ہے

امام احمد کے بیٹے گواہ ہیں کہ ان کے باپ تعویذ لکھتے تھے – یہ فرقوں کو معلوم ہے کہ شرک ہے

اب جب امام احمد شرک کرتے ہیں تو یہ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟

علم حدیث اصولوں پر منبی ہے یا شخصیات پر ؟ خود فرقے کہیں گے اصولوں پر – تو پھر حدیث کسی کی کتاب سےنقل کرنا قابل جرم کب ہوا ؟ کیا  محدثین خود رافضیوں کی روایت نہیں لیتے تھے جن کے عقائد میں یہ خود کلام کرتے تھے ؟

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں

ان کے افکار ونظریات پر بہت اچھا محاکمہ ڈاکٹر عبد اللہ دامانوی صاحب نے اپنی کتاب “عذاب قبر کی حقیقت” میں کیا ہے۔ اسی طرح مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب “عذاب قبر کا بیان” میں ان کا عمدہ تعاقب کیا ہے۔ مزید مولانا ارشد کمال صاحب کی “المسند فی عذاب القبر” بھی ان کے رد میں اچھی کتاب ہے۔ اچھا یہ فرقہ عذاب قبر کو مانتا ہے لیکن اس دنیاوی قبر میں عذاب کو نہیں مانتا بلکہ برزخی قبر میں عذاب کو مانتا ہے۔ ایک عامی جب ان کا لٹریچر پڑھتا ہے تو متاثر ہو جاتا ہے لیکن جب پڑھنے کے بعد دوسری طرف کے لٹریچر کا بھی مطالعہ کرے گا تو تحقیق کی سطحیت واضح ہو جائے گی۔

حقیقت میں ڈاکٹر عثمانی کے ناقدین میں جو اہل حدیث علماء ہیں وہ وہ ہیں جو بھانت بھانت کے عقیدے عذاب قبر کے باب میں رکھتے ہیں مثلا

١- عود روح بالکل نہیں ہو گا (قاری خلیل رحمان ، کتاب پہلا زینہ)
٢- روح جسم سے جڑے گی اور تعلق ہو گا جس میں روح جسم سے نکلے گی اور جب چاہے واپس بھی آئے گی ( فتاوی ابن تیمیہ، کتاب الروح از ابن قیم ، فتح الباری از ابن حجر، وہابی علماء، زبیر علی زئی بعض مواقع پر ) یعنی بار بار عود روح ممکن ہے
٣- روح ، جنت یا جہنم میں ہی رہے گی لیکن قبر میں جسد سے تعلق ہو گا ( نورپوری کا  مضمون ، مقالات از زبیر علی زئی )
٤- کچھ کہتے ہیں مردہ جسد کو عذاب ہو گا بلا روح اور عود روح صرف ایک دفعہ ہو گا (مثلا کتاب الدین الخالص از ابو جابر دامانوی اور کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال )

جب ایک عامی ان تمام کی کتب پڑھتا ہے تو مزید کنفیوز ہو جاتا ہے – ان کی حقیقت کے لئے راقم کی کتاب اثبات عذاب قبر و رد عقیدہ عود روح بہت ہے  اس میں ان تمام مخالف  علماء کے عقائد حوالوں کے ساتھ درج ہیں اور قاری سمجھ سکتا ہے کون کیا فرما رہا ہے

لنک

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں
عذاب قبر کے مسئلے کو اتنا بڑا اصولی اور عقیدے کا مسئلہ سمجھتے ہیں کہ صرف اس کی وجہ سے بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث تینوں کی تکفیر کرتے ہیں

راقم کہتا ہے اس جملے سے ظاہر ہے زبیر صاحب نے تفصیلی مطالعہ نہیں کیا ہے- عذاب قبر نہیں مسائل توحید  کی وجہ سے  اختلاف ہوا ہے  – تصوف کی بنیادوں میں اتحاد ثلاثہ موجود ہے یعنی حلول ، وحدت الوجود ، وحدت الشہود – مختصرا یہ جھمی عقائد ہیں جو محدثین میں امام احمد کے نزدیک بھی کفر ہے – یہ عقائد بریلوی، دیوبندی فرقوں میں تصوف کی وجہ سے موجود ہیں – اشعار میں منصور حلاج جو حلول کا قائل تھا  اس کی تعریف کرنا  اردو شاعری میں معروف ہے – جو چیز عراق میں کفر تھی وہ پاکستان میں آ کر خالص توحید کس طرح بن جاتی ہے یہ زبیر صاحب ہی بتا سکتے ہیں

اہل حدیث فرقے پر عثمانی صاحب کا رد بنیادی طور پر توحید کی وجہ سے ہے – توحید قرانی کے مطابق تمام معاملات و عمل مخلوق اللہ تعالی پر پیش ہوتا ہے – کسی اور پر عمل پیش ہونا غیر قرانی و توحید باری کے مخالف ہے اس وجہ سے عرض عمل کی روایات کو عثمانی صاحب نے رد کیا – لا محالہ ابن تیمیہ و اہل حدیث فرقے پر زد پڑی کیونکہ انہوں نے درود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرا کر علم غیب کا میں نقب لگا دی

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ

عثمانی صاحب کے نزدیک قبر سے مراد دنیاوی قبر نہیں بلکہ برزخی قبر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ مردہ قدموں کی چاپ سنتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس درود شریف پڑھا جائے تو آپ سنتے ہیں، یا مردے کے جسم میں سوال وجواب کے وقت روح اس میں لوٹائی جاتی ہے اور منکر نکیر اس دنیاوی قبر میں اس سے سوال پوچھتے ہیں تو اس سے قبر کی زندگی ثابت ہو جاتی ہے۔ اور قبر میں مردے کو زندہ مان لیا گیا تو کفر اور شرک ہو جائے گا۔

اس جملہ پر زبیر صاحب نے خود غور نہیں کیا – جب آپ نے مان لیا کہ دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام مسلسل پڑھا جا رہا ہے اور وہ ان پر مسلسل پپیش ہو رہا ہے تو اسی کی بنیاد پر علماء قبر میں رسول اللہ کی حیات دائمی کے قائل ہیں – لنک
عثمانی کہتے ہیں الحی تو صرف اللہ تعالی ہے – کوئی حیات دائمی کیسے حاصل کر سکتا ہے ؟ فرقوں میں دیگر نصوص سے یہ بھی کشید کیا جاتا ہے کہ تمام اولیاء قبروں میں زندہ ہیں – سنتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، یہاں تک کہ بریلوی کہتے

ہیں امہات المومنین قبر نبوی میں رسول اللہ تک جاتی ہیں -اس سب کو حیرت ہے کہ زبیر صاحب کیسے بھول گئے ؟

ڈاکٹر  زبیر  صاحب  لکھتے ہیں  کہ

ان کا نام “برزخی فرقہ” اس لیے پڑا کہ ان کے افکار ونظریات میں سے بنیادی ترین نظریہ یہی ہے 

زبیر صاحب نے علماء کی کتب کا مطالعہ نہیں  کیا  محض سنی سنائی  بیان کی ہے

تقسیم ہند سے قبل کے اہل حدیث مولانا ثناء الله امرتسری  فتاوی ثنائیہ صفحہ 292  میں جواب دیتے ہیں

 

فرقہ اہل حدیث کے عالم اسمعیل سلفی نے کتاب حیات النبی میں پاکستان میں  سب سے پہلے برزخی جسم کا ذکر کیا  ملاحضہ کریں

دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی

 

الوسی باقاعدہ برزخی جسم کا لفظ استمعال کرتے ہیں مولانا سلفی ترجمہ کرتے ہیں

 

اس وقت تک عثمانی صاحب  نے کوئی کتاب نہیں  لکھی تھی

سوال یہ ہے کہ  عثمانی صاحب جو  توحید پیش  کرتے ہیں اس   میں خامی  کیا  ہے ؟   اہل حدیث  اس کا جواب اس  طرح دیتے ہیں کہ  بلا شبہ یہ توحید قرآن سے اخذ  کردہ ہے کہ مزارت پر شرک ہو رہا ہے  لیکن اس کی جڑ نظریہ  حیات فی القبر صحیح نہیں  بلکہ مسئلہ  مردے کے سننے کا ہے – دوسری طرف  امام ابن تیمیہ کا   کہنا  ہے کہ مردہ  سنتا ہے اور امام عبد الوہاب النجدی  کا  فرمانا  ہے کہ مردہ  نہ صرف سنتا بلکہ  دیکھتا   بھی ہے

بعض اہل حدیث کہتے ہیں شرک،  مردہ کا سننا ہے- راقم کہتا ہے تو یہ فتوی تو امام ابن تیمیہ و ابن قیم و ابن کثیر و تمام وہابی علماء پر جاتا ہے عبد الرحمن کیلانی صاحب نے صاف لفظوں میں کتاب روح، عذاب قبر اور سماع موتیٰ صفحہ ۱۰۹ پر اقرار کیا کہ

اب دیکھئے جہاں تک شرک کی اصل بنیاد کے استیصال کا تعلق ہے ، ہم بدل و جان عثمانی صاحب کے ساتھ ہیں۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ شرک کی اصل بنیاد اس دنیاوی قبر میں عذاب ِقبر کا اثبات اور حیات فی القبر کو قرار دیتے ہیں جبکہ ہم شرک کی اصل بنیاد سماع موتیٰ کا علی الاطلاق وقوع کو قرار دیتے ہیں۔۔۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ آپ حضرات اپنی جملہ مساعی سماع موتیٰ کی تردید میں صرف کیجئے۔ 

قارئین  سمجھ سکتے ہیں کہ عقائد  پسند  نا  پسند  پر نہیں بلکہ نصوص قرانی  پر منبی ہوتے ہیں لہذا  قرآن سے تقابل کریں

اور سمجھیں کہ کون جق پر ہے  عثمانی   صاحب کی حق کی پکار  یا  فرقوں کی خاندانی نوعیت کی  پشت پناہیاں

 

بعد حج زیارت قبر النبی علیہ السلام

حج کے بعد  قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر زیارت کے لئے  جانا امت میں ایک اختلافی مسئلہ رہا ہے –  اس میں صواب رائے یہ ہے کہ اس کا ارکان حج سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی حکم نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے بلکہ اس کی بیشتر روایات عباسی دور خلافت کی ایجاد و گھرنٹ ہیں

کتاب الموضوعات (گھڑی ہوئی احادیث ) از ابن الجوزي (المتوفى: 597هـ)، بَاب ذمّ من حج وَلم يزر رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب کہ اس کی  قَدْح  کا ذکر جس نے حج کیا اور زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ کی میں ہے

أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الْبَزَّارُ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ على عَن الدَّارقطني عَن أبي حَاتِم بن حبَان حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ شِبْلٍ حَدَّثَنِي جَدِّي عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: ” من حَجَّ الْبَيْتَ وَلَمْ يَزُرْنِي فَقَدْ جَفَانِي “.

مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ شِبْلٍ نے اپنے دادا سے انہوں نے امام مالک سے انہوں بے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے روایت کیا کہ قال رسول اللہ : جس نے حج بیت اللہ کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ سے روگردانی و جفا کی

قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: ” النُّعْمَان يَأْتِي عَن الثقاة بالطامات.
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ: الطعْن فِي هَذَا الحَدِيث من مُحَمَّد بْن مُحَمَّد لَا من النُّعْمَان.

الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي از شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ) میں ہے
فالذي حكيناه من كلام الدارقطني هو الإنكار لا التضعيف، فيحصل من هذا إبطال الحكم عليه بالوضع،
جو کلام دارقطنی کا اس راوی پر نقل کیا گیا ہے وہ انکار اس کو ضعیف کہنے پر نہیں بلکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ گھڑتا ہے

ابن حجر نے لسان المیزان میں ذکر کیا کہ دارقطنی نے اس کا ذکر حدیث منکر کے طور پر کیا ہے

وقال ابن حجر: وقد أخرج الدَّارَقُطْنِيّ في «غرائب مالك» أحاديث من طريق ابن شبل محمد بن محمد بن النعمان بن شبل البصرى حدثنا جدي، حدثنا مالك، واستنكرها.
اس کی حدیث کا انکار کیا جاتا ہے

راقم کہتا ہے ایسا راوی جو مسلسل منکرات بیان کرتا ہو اس کا درجہ منکر الحدیث کا ہو جاتا ہے اور یہاں محمد بن محمد بن نعمان کا یہی حال ہے

عثمانی صاحب نے یہ  مزار  یہ میلے  میں ذکر کیا
امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں عثمانی صاحب کے تسامحات کو کذب کی صورت بیان کیا گیا ہے
امین صاحب اپنی تحقیق میں  ذکر کرتے ہیں

راقم  کہتا ہے یہاں حوالہ غلط ہے جو عثمانی صاحب نے دیا البتہ جو جرح نقل کی وہ جھوٹ ہرگز نہیں لہذا اس تسامح  کو  جھوٹ نہیں کہا جا سکتا

کتاب الموضوعات از ابن الجوزي (المتوفى: 597هـ)، میں ہے

أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الرَّزَّازُ قَالَ أَنبأَنَا مُحَمَّد بن عبد الله الشَّافِعِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا عبد الملك بْنُ قُرَيْبٍ الأَصْمَعِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” من صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا وَكَّلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَّل مَلَكًا يُبْلِغُنِي وَكُفِيَ أَمْرَ دُنْيَاهُ وَآخِرَتِهِ وَكُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا “.
هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَان هُوَ السدى.
قَالَ يَحْيَى: لَيْسَ بِثِقَةٍ.
وَقَالَ ابْن نمير: كَذَّاب.
وَقَالَ السَّعْدِيّ: ذَاهِب.
وَقَالَ النَّسَائِيُّ: مَتْرُوكٌ.
وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: لَا يَحِلُّ كَتْبُ حَدِيثِهِ إِلا اعْتِبَارا.
قَالَ الْعقيلِيّ: لَا أصل لهَذَا الحَدِيث من حَدِيث الْأَعْمَش وَلَيْسَ بِمَحْفُوظ.

محمد بن یونس بن موسی نے عبد الملک بن قریب سے روایت کیا اس نے مروان سے اس نے اعمش سے اس نے ابو صالح سے اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا جس نے میری قبر کے پاس درود پڑھا وہ میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا تو اللہ اس پر ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے جو اس کو مجھ تک لاتا ہے اور اس کے لئے دنیا و آخرت کا کام کافی ہو جاتا ہے اور میں اس پر گواہ ہو جاتا ہوں اور شفاعت کرنے والا
ابن جوزی نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں اور محمد بن مروان السدی ہے – یحیی نے کہا ثقہ نہیں ہے ابن نمیر نے کذاب کہا ہے اور جوزجانی نے ذاھب اور نسانی نے متروک قرار دیا ہے اور ابن حبان نے کہا اس کی حدیث حلال نہیں سوائے یہ کہ اعتبار کے لئے لکھی جائے
عقیلی نے کہا اس کی حدیث کی اصل نہیں ہے اور اس کی حدیث اعمش سے غیر محفوظ ہے

عثمانی صاحب  نے روایت پیش کی اور تبصرہ کیا

 

امین اکاڑوی کہتے ہیں

 

یہاں محمد بن یونس بن موسی اپنے دادا سے منسوب ہے لہذا نام محمد بن موسی لیا جاتا ہے – جیسے امام احمد بن حنبل میں حنبل دادا کا نام ہے باپ  کا نام نہیں ہے  – میزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی  میں موجود ہے

قال ابن عدي: قد اتهم الكديمى بالوضع.
وقال ابن حبان: لعله قد وضع أكثر من ألف حديث.
وقال ابن عدي: ادعى الرواية عمن لم يرهم، ترك عامة مشايخنا الرواية عنه.
وقال أبو عبيد الآجرى: رأيت أبا داود يطلق في الكديمى الكذب، وكذا كذبه موسى بن هارون، والقاسم (1) المطرز.

ابن عدی نے کہا اس پر کذب کا الزام ہے

ابن حبان نے کہا اس نے ہزار احادیث گھڑی ہیں

یہ سب میزان از الذھبی میں موجود ہے – امین صاحب کو خود یہاں تسامح ہوا ہے

 

عثمانی صاحب نے یہ مزاریہ میلے میں  ذکر کیا

عثمانی صاحب نے الموضوعات ابن جوزی کے اقتباس کو میزان الاعتدال از الذھبی بنا دیا ہے جو ممکن ہے کتابت کی

غلطی ہو – بہر حال یہ سب جروح ثابت ہیں

میزان از الذھبی میں ہے

محمد بن مروان السدى الكوفي، وهو السدى الصغير.
يروي عن هشام بن عروة والأعمش.
تركوه واتهمه بعضهم بالكذب.

اس کو ترک کر دیا گیا ہے اور بعض نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے

تہذیب الکمال میں ہے وَقَال النَّسَائي : متروك الحديث.
قال عبد السلام (1) بن عاصم عن جرير بن عبد الحميد: كذاب.

امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں عثمانی صاحب کے تسامحات کو کذب کی صورت بیان کیا گیا ہے
امین صاحب اپنی تحقیق عمیق کا ذکر کرتے ہیں

راقم  کہتا ہے عدل و انصاف یہ ہے عثمانی صاحب سے ایک ادھ حوالہ میں غلطی ہوئی ان کا حوالہ درست نہیں تھا  لیکن امین صاحب کی غلطی اس سے بڑھ کر ہے کہ انہوں نے سرے سے ہی ان حوالوں کو کذب کہہ دیا جبکہ یہ حوالے مختلف کتب سے معلوم ہیں اور خود میزان از الذھبی میں بعض  موجود ہیں

عثمانی صاحب نے روایت پیش کی اور تبصرہ کیا

 

امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر میں اس پر تنقید کی کہ

راقم کہتا ہے حفص بن سليمان الأسدي کا حدیث میں متروک ہونا مشہور و معروف ہے  اور اس کی بنا پر کوئی اس کی حدیث نہیں لیتا اور نہ محدث پر تنقید کرتا ہے کہ وہ قاری قرآن پر جرح کیوں کر رہا ہے مثلا امام احمد کا قول ہے کہ حفص بن سليمان الأسدي متروک ہے

قرآن کی قرات کئی سندوں سے معلوم ہے حفص بن سليمان الأسدي کے متروک ہونے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا

ابن عدی  الکامل میں کہتے ہیں امام بخاری کاقول ہے

سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ حفص بن سليمان تركوه.

حفص متروک ہے

وقال بن خراش كذاب متروك يضع الحديث

شیعوں میں بھی یہ متروک ہے کتاب أصحاب الامام الصادق  از  عبد الحسين الشبستري  میں ہے

حفص ابن أبي داود سليمان بن المغيرة الأسدي بالولاء، الغاضري، وقيل الفاخري، البزاز، الكوفي، المعروف بحفيص. محدث إمامي مجهول الحال، وقيل من الحسان، وبعض العامة ضعفوا حديثه وتركوه. كان كوفيا نزل بغداد، وجاور مكة المكرمة. كان مقرئا مشهورا، قاضيا، وكان قارئ الكوفة وقاضيها، وأعلم أصحاب عاصم بن بهدلة القارئ بقراءته.

اب اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ہوں دونوں اس کو قرآن کا قاری کہتے ہیں اور متروک بھی قرار دیتے ہیں  تو یہ ترک حدیث میں ہے قرآن میں نہیں ہے کیونکہ قرآن  کی آیات تواتر سے معلوم ہیں – اختلاف  قرات  میں اکثر  اختلاف اشکال و اعراب پر ہوتا ہے یا لحن پر جو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے – مسئلہ اس وقت آتا جب حفص  قرآن میں آیات کا اضافہ کرتا

زیارت قبر نبوی پر امت کا اجماع کہا جاتا ہے کہ امت کا ساتویں صدی تک اس پر اجماع تھا کہ قبر النبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی جائے گی – قاضی عیاض اس کا دعوی کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى میں کرتے ہیں

وَزِيَارَةُ قَبْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ الْمُسْلِمِينَ مُجْمَعٌ عَلَيْهَا، وَفَضِيلَةٌ مُرَغَّبٌ فيها.

اور قبر صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی زیارت کرنا مسلمانوں میں سنت میں سے ایک سنت ہے اس پریہ جمع ہیں اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں

ملا علی القاری شرح الشفا میں کہتے ہیں

زيارة قبره عليه ألسلام سنة من سنن المسلمين مجمع عليها أي مجتمع علي كونها سنة و فضيلة مرغب فيها

قبر نبوی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت مسلمانوں کی سنت میں سے ایک ہے اس پر جمع ہیں یعنی اس پر اجتماع ہے کہ یہ سنت ہے اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں

لیکن آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ اس اجماع کے انکاری تھے اور انہوں نے اس پر کتاب تصنیف کی کہ زیارت قبر نبوی  کی غرض سے کیا جانے والا سفر بدعت ہے

ابن تیمیہ کو اس بنا پر بدعتی قرار دیا جاتا ہے

سوال ہے کہ  قبر النبی کے پاس پہنچنے پر مومن کیا کرے گا ؟  اس کا جواب اثر میں موجود ہے کہ وہ  ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کر سکتا ہے

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني میں ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عبد الله بن دینار المتوفی ١٢٧ ھ نے کہا کہ ابن عمر جب سفر کا ارادہ کرتے اور سفر سے اتے تو قبر نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتے اور وہاں درود پڑھتے اور دعا کرتے پھر جاتے

امام محمد نے کہا : اس طرح  یہ ہونا چاہیے کہ  جب وہ مدینہ جاتے ہوں کہ قبر نبی صلی الله علیہ وسلم پر آتے ہوں 

یعنی مومن  درود ابراہیمی  پڑھ سکتا ہے  اور اس کا مقصد اللہ سے دعا کرنا ہو گا نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنانا کیونکہ انبیاء   اب جنت میں ہیں قبروں میں نہیں  ہیں

کیا انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ؟ امین اکاڑوی  لکھتے ہیں

راقم کہتا ہے اس حدیث کو  متواتر کہنا  انصاف کا قتل ہے اس کی سند میں کیا تیس تیس اصحاب کا ایک ہی دور میں اتفاق رہا ہے جوایک شہر کے نہ ہوں اور یہ  معلوم تواتر کی تعریف ہے – لیکن اس میں اہل عراق کا تفرد ہے – اس کا راوی حجاج مجہول الحال ہے اور پھر راوی  مستلم ہے جو شہر  واسط  کا جوگی ہے جو پانی کو اپنے اوپر حرام کر لیتا تھا

اس حالت میں اس کے ذہن میں جو امنڈتا ہو گا اسی کو حدیث بنا دیتا ہو گا – پانی سے چالیس دن دور رہنا ہندوؤں جوگیوں میں معروف عمل ہے لیکن اطبا اسلام نے اس کو جسم پر ظلم کہا ہے اور جسم پر ظلم کرنا  حرام ہے – اس قسم کے بدعتییوں کی روایت قابل قبول نہیں ہے – پھر کیا شہداء کے لئے کوئی نص ہے کہ وہ دنیا میں ہی زندہ ہیں ؟ زندگی تو جنت سے شروع  ہوئی زمین سے نہیں اور اسی میں لوٹنا اصل  نعمت ہے

 

کراچی کا عثمانی مذھب

تبصرہ    کتاب

نام :     کراچی  کا  عثمانی  مذھب   اور  اس کی حقیقت      از     خواجہ  قاسم

تبصرہ  نگار     :  ابو  شہر یار

تبصرہ در کتاب  کراچی کا عثمانی مذھب 

ایک متعصب  تحریر  پڑھنے  کو ملی جو  ایک  آنجہانی  اہل حدیث عالم کی تھی –  کتاب کا ٹائٹل ہی عصبیت    پر منبی تھا  اور    عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی دعوت توحید کو کراچی  کا مذھب   کہہ کر بھپتی کسی  گئی  تھی – بہر حال   یہ    کتاب     خواجہ محمد قاسم  غیر مقلد کی    تحریر کردہ  تھی   جس کا     عنوان  تھا  کراچی کا عثمانی مذھب –افسوس تحریرغیر سنجیدہ اور عامیانہ تھی – حیرت ہے کہ علمی تحقیق سے عاری اس کتاب کو پبلشر نے چھاپ بھی دیا چونکہ  یہ  مولویانہ  دھندا کا حصہ ہے کہ دین کو کوڑی  کے مول بیچا  جائے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کے مخالفین میں متصادم عقائد رکھنے والے علماء تھے جو سب اپنے آپ کو اہل حدیث تو کہتے تھے لیکن ایک دوسرے کا ہی رد اپنی کتابوں میں لکھ کر آنجہانی ہوئے۔اس کلب میں خواجہ قاسم کے ساتھ ساتھ عبد الرحمان کیلانی   ، اٹک کے    زبیر علی زئی   اور کیماڑی  کے   ابو جابر دامانوی بھی شامل تھے ۔

عبد الرحمان کیلانی کہتے تھے  کہ عود روح بار بار ہوتا ہے- ابو جابر دامانوی ہر دو گھنٹے بعد عود روح پر نیا عقیدہ پیش کرتے  تھے  – خواجہ قاسم کہتے تھے     ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ امتی کے سلام پر روح النبی واپس جسم میں آتی ہے ضعیف ہے-    زبیر علی زئی، عثمانی صاحب کے دور میں ان روایات کو صحیح کہتے   تھے    لیکن مرنے سے پہلے انہوں   نے  انٹرویو میں حیات النبی سے متعلق روایات کو ضعیف قرار دیا-  بہر حال ان تضادات کے ساتھ جو لوگ اس کلب میں جاتے اور حظ منکر یعنی دلچسپی لیتے وہ، وہ تھے جو فتنہ اتباع الطاغوت کا شکار تھے

 ایک مختصر تبصرہ خواجہ قاسم کے افکار پر پیش خدمت ہے

ایک کوشش اور

[wpdm_package id=’8837′]

قرآن سے متصادم ایک منکر روایت جس میں مردے میں روح کے انے کا ذکر ہے اس کا دفاع فرقہ پرستوں کے پلیٹ فارم سے ہوتا رہتا ہے اگرچہ وہ اس روایت کو صحیح کہتے اس کے راویوں کا دفاع کرتے ہیں لیکن اس روایت کے متن کو پیش کر کے اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے کہ اس میں کیا کیا منکرات بیان ہوئی ہیں – اس روایت کا متن نکارت رکھتا ہے اس کا اقرار خود فرقوں کے امام امام الذھبی نے کیا ہے

پہلے ہم دفاع شیعہ راویان کی چند جدید کوششوں پر نظر ڈالتے ہیں

اہل حدیث عالم نورپوی مضمون حدیث عود روح، ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ میں لکھتے ہیں
لنک

مختلف ادوار کے ایک درجن سے زائد محدثین اور اہل علم کی طرف سے اس حدیث کی صحت کی توثیق ہو چکی ہے۔ کسی ایک بھی اہل فن محدث نے اسے ضعیف قرار نہیں دیا۔ اہل سنت و الجماعت کا ہر دور میں اتفاقی طور پر یہی عقیدہ رہا ہے، لیکن موجودہ دور میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے اس کے دو راویوں منہال بن عمرو اور زاذان ابوعمر کے بارے میں جرح ذکر کی ہے

راقم کہتا ہے دوسری طرف محدثین میں امام شعبہ نے المنھال کو متروک قرار دیا اس کی حدیث لینا چھوڑ دیا تھا

۔ امام الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں لکھا ہے
اس میں غرایب باتیں اور منکر باتیں ہیں
حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ

قبر کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے۔

ابن حبان کہتے ہیں عود روح والی روایت کی سند میں انقطاع ہے۔

خبر الأعمش عن المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سمعه الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو
الأعمش کی خبر ، المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سے اصل میں الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو سے ہے۔

ابن حبان کے نزدیک حدیث عود روح کی سند میں تدلیس کی گئی ہے۔

نور پوری صاحب نے المنھال بن عمرو کے دفاع کی بھی بھر پور کوشش کی ہے، چناچہ وہ عینی کی معاني الاخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جوزجانی نے اس کو سنی المذہب (سنی مذھب والا) قرار دیا ہے-

اس کو صریح تحریف کہتے ہیں- نورپوری نے کرم خوردہ ، ناقص نسخوں سے استفادہ کیا – سيء المذهب (بد مذھب) کے الفاظ ابن حجر نے فتح الباری اور تہذیب التہذیب وغیرہمیں نقل کیے ہیں جو عینی کے ہم عصر ہیں
جوزجانی نے المنھال کو سيء المذهب (بد مذھب) قرار ديا ہے- جوزجانی یہ الفاظ شیعہ راویوں کے لئے بولتے ہیں- جوزجاني كي كتاب أحوال الرجال حديث اكادمي – فيصل آباد سے چھپ چکی ہے اس میں کو سنی المذہب (سنی مذھب والا) کے الفاظ موجود نہیں- سيء المذهب (بد مذھب) جوزجاني کی جرح کے یہ مخصوص الفاظ ہیں جو انہوں نے اور راویوں کے لئے بھی استمعال کیے ہیں

اگرچہ متاخرین میں ابن حجر نے جوزجانی کی جرح کو بلا دلیل رد کیا ہے لیکن العلامة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني کتاب التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل میں لکھتے ہیں
وقد تتبعت كثيراً من كلام الجوزجاني في المتشيعين فلم أجده متجاوزاً الحد ، وإنما الرجل لما فيه من النصب يرى التشيع مذهباً سيئاً وبدعة ضلالة وزيغاً عن الحق وخذلانا ، فيطلق على المتشيعين ما يقضيه اعتقاده كقوله زائغ عن القصد – سيء المذهب ونحو ذلك
اور بہت سوں نے الجوزجاني کا شیعہ راویوں کے بارے میں کلام کو بغور دیکھا ہے لیکن ان کو حد سے متجاوز نہیں پایا- اور ان صاحب (الجوزجاني) میں اگرچہ نصب تھا اور شیعت کو ایک بد مذھب اور بدعت اور ضلالت اور حق سے ہٹی ہوئی بات سمجھتے تھے ، لیکن انہوں نے المتشيعين کے اعتقاد کے مطابق الفاظ کا اطلاق کیا ہے جیسے راہ سے ہٹا ہوا، سيء المذهب اور اس طرح کے اور الفاظ

علامہ الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني صاحب تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں

المنھال ایک متعصبی شیعہ ہے – ابن ماجہ کے مطابق المنھال بن عمرو نے روایت بیان کی کہ علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا
أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ
میں عبد الله ہوں اور رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور میں سب سے بڑا صدیق ہوں، اس کا دعوی میرے بعد کوئی نہیں کرے گا سوائے كَذَّابٌ کے

اس پر تعلیق لکھنے والے محمد فؤاد عبد الباقي، دار إحياء الكتب العربية لکھتے ہیں
في الزوائد هذا الإسناد صحيح- رجاله ثقات- رواه الحاكم في المستدرك عن المنهال
وقال صحيح على شرط الشيخين-
اس کے راوی ثقه ہیں، حاکم نے اسکو المستدرك میں المنهال بن عمرو سے روایت کیا ہے اور کہا ہے الشيخين کی شرط پر صحیح ہے

اس روایت سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مرتبہ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے

افسوس إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة میں ابن حجر نے اس کو صحیح کہا ہے

حَدِيثٌ (كم) : أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ … . الْحَدِيثَ.
كم فِي الْمَنَاقِبِ: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ. ح وَثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَارِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَبْسِيُّ، قَالا: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْهُ، بِهِ. وَقَالَ:
[ص:466] صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا.

الذھبی نے تلخیص میں حاکم  پر جرح کرتے ہوئے کہا

قلت: كذا قال! وما هو على شرط واحد منهما، بل ولا هو صحيح، بل هو حديث باطل، فَتَدَبَّرْه،

میں کہتا ہوں ایسا حاکم نے کہا ہے کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے بلکہ یہ تو صحیح تک نہیں بلکہ باطل ہے اس پر غور کرو

لوگوں نے اس روایت پر  عباد بن عبد الله الأسدي کو مہتمم کیا ہے جس کو ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے اور  العجلي کہتے ہیں  كوفيٌّ تابعيٌّ ثقةٌ   ہے – اس سے سنننے والا المنھال ہے

نورپوری کا جوابا کہنا ہے کہ ادب المفرد میں المنھال نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین کہا ہے اور رضی اللہ عنہا کی دعا بھی دی ہے

راقم کہتا ہے کہ حدیث لٹریچر میں غالی سے غالی راوی بھی یہ الفاظ نقل کرتا ہے آور شیعہ کتب میں بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین بھی لکھا جاتا ہے کیونکہ ازواج النبی کے لئے قرآن میں ہے کہ امت کی مائیں ہیں لہذا اس ٹائٹل کو وہ رد نہیں کرتے – اس کی مثال ہے اہل سنت  کی کتب میں وارد ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث پر شیعوں نے  تنقید کی ہے – کتاب کے  عنوان   میں ہی ام المومنین لکھا ہے

کتاب أحاديث أم المؤمنين عائشة   از السيد مرتضى العسكري

ملا باقر مجلسی نے بھی ام المومنین لکھا ہے ملاحظہ کریں

بحار الانوار /جزء 32 / صفحة [226]

بحار الانوار /جزء 33 / صفحة [245]

بحار الانوار /جزء 33 / صفحة [332]

بحار الانوار / جزء 42 / صفحة [141]

 

دوم دعا رضی اللہ عنہ وغیرہ کے کلمات پبلشر آجکل حدیث کا جو نسخہ چھپتا ہے اس میں خود ہی لگا دیتے ہیں – اس کی مثال ہے کہ جرح و تعدیل کی کتب میں رضی اللہ عنہ لکھا ہوا نہیں ملتا لیکن احادیث کی کتب چونکہ عام لوگوں کے لئے ہیں ان میں اس لاحقہ کا اضافہ کر دیا گیا ہے
سوم شیعہ کا تقیہ کرنا معلوم ہے تو اس سے مطلق ثابت نہیں ہوتا کہ المنھال ایک بدعتی نہیں تھا جبکہ اہل شہر کا اس پر قول ہے یہ بد مذھب تھا

اسی ادب المفرد کی روایت کی ایک سند ہے
عَنْ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ
یہاں زاذان نے ابن عمر کے ساتھ رضی اللہ عنہ کا لاحقہ کیوں نہیں لگایا ؟
اسی ادب المفرد میں ہے
عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ زَاذَانَ أَبِي عُمَرَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَدَعَا بِغُلَامٍ لَهُ كَانَ ضَرَبَهُ
زاذان نے کہا ہم ابن عمر کے ساتھ تھے انہوں نے لڑکے کو بلا کر اس کو مارا

اس قسم کے حوالہ جات سے کچھ ثابت نہیں ہوتا
نور پوری نے اقرار کیا کہ بعض سندوں میں
زاذان نے سیدنا علی کے بارے میں ”امیر المؤمنین“ یا ”رضی اللہ عنہ“ کا لفظ نہیں بولا

اس سے نور پوری نے سمجھا کہ زاذان علی کو دعا نہیں دیتا تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ کو دیتا تھا جس سے ثابت ہوا وہ شیعہ نہیں تھا

راقم کہتا ہے کہ شیعہ کے نزدیک علی تو امام زمانہ ہیں اور باقی کو دعا کی ضرورت ہے اس لئے تقیہ اختیار کیا
بہر حال یہ مثالیں جو نور پوری لے کر آئے ہیں ان کو اگر تمام غالی راویوں پر لگایا جائے تو کوئی بھی غالی نہ رہے گا سب علی کے خاص احباب بن جائیں گے کیونکہ آجکل پبلشر نے ہر روایت ، میں اپنی طرف سے رضی اللہ عنہ و رضی اللہ عنہما لکھ دیا ہے

نورپوری نے عثمانی صاحب پر جرح کی کہ انہوں نے تعویذ پر کتاب میں شیعہ یحییٰ بن جزار سے روایت کیوں لی جبکہ غالی قسم کا شیعہ تھا

راقم کہتا ہے ہم اگر نوری پوری تحقیق کا انداز یہاں اپپلائی کرتے ہیں – کتاب المعجم
أبو يعلى میں سند ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ النِّيلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا، وَأَدَّى فِيهِ الْأَمَانَةَ يَعْنِي: سَتَرَ مَا يَكُونُ عِنْدَ ذَلِكَ كَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ “. قَالَتْ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِيَلِهِ أَقْرَبُكُمْ مِنْهُ إِنْ كَانَ يَعْلَمُ، فَإِنْ كَانَ لَا يَعْلَمُ فَرَجُلٌ مِمَّنْ تَرَوْنَ أَنَّ عِنْدَهُ وَرَعًا وَأَمَانَةً»

سند میں يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ خود عَائِشَةَ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا کہہ رہے ہیں تو نور پوری کے اصول پر یہ غالی نہیں ہو سکتے

شرح معاني الآثار میں سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو أَيُّوبَ يَعْنِي ابْنَ خَلَفٍ الطَّبَرَانِيَّ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، قَالَ: ثنا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهَا عَنِ النَّبِيِّ

یہاں بھی دعا کی گئی ہے

معلوم ہوا کہ نور پوری اصولوں پر یحیی بن جزار غالی نہیں تھا
راقم کا مدعا نور پوری تحقیق کی بے بضاعتی کو ظاہر کرنا ہے کہ کھوکلے ستونوں پر کھڑی ہے

راقم کہتا ہے اہل حدیث مولوی جب جی  چاہتا ہے خود راوی کی شیعیت کو جرح بنا کر پیش کر دیتے ہیں مثلا امام  بخاری کے استاد محدث علی بن الجعد کا ذکر زبیر علی زئی نے تراویح  سے متعلق ایک روایت پر  قیام رمضان نامی مضمون میں  اس طرح کیا

نور پوری کا کہنا ہے کہ
جرح و تعدیل اور صحت و سقم حدیث کی معرفت ابن حزم رحمہ اللہ کا میدان نہیں تھا۔

راقم کہتا ہے ابن تیمیہ و ابن قیم بھی محض ناقل ہیں اور رہی بات امام حاکم کی تو ان کے محدثین نے سخت اعتراضات کیے ہیں مثلا وسیلہ کی شرکیہ روایات کو صحیح قرار دینے پر – خود ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا ہے کہ مستدرک لکھتے وقت ان کی دماغی حالت صحیح نہیں تھی

نورپوری صاحب نے المنھال کے دفاع کا حق ادا کر دیا ہے اور مضمون میں لکھتے ہیں کہ المنھال قرآن کی تلاوت کر رہے تھے جس کو سن کر شعبہ نے المنھال کو ترک کیا
دکتور بشار عواد معروف کتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں لکھتے ہیں وَقَال علي بْن المديني ، عَن يحيى بْن سَعِيد أتى شعبة المنهال بْن عَمْرو فسمع صوتا فتركه، يعني الغناء

اس کے بعد حاشیہ میں دکتور بشار عواد معروف اس پر لکھتے ہیں
هذا الخبر أصح، والله أعلم- من خبر تركه بسبب سماعه قراءة القرآن بالتطريب، فهذا غير ذاك-
یہ خبر زیادہ صحیح ہے، واللہ اعلم- اس (قول) سے جس میں خبر دی گئی تھی کہ ان کے ترک کرنے کی وجہ قرآن کی سر کے ساتھ قرات تھی – پس ایسا نہیں تھا

فرقہ پرست بار بار ذکر کرتے ہیں کہ ابن حزم کے نزدیک موسیقی حرام نہیں تو المنھال پر شعبہ کی جرح مردود ہے
جبکہ ان کو اتنا معلوم نہیں کہ گانا گانا اور صرف موسیقی سننا دو الگ چیزیں ہیں

نور پوری لکھتے ہیں
زاذان کی روایات کو چھوڑنے والے امام حکم بن عتیبہ شیعہ تھے۔ زاذان کا شیعہ ہونا تو ثابت نہیں ہوا، البتہ امام حکم کا شیعہ ہونا ثابت ہے، جیسا کہ
امام، ابوالحسن، احمد بن عبداللہ، عجلی رحمہ اللہ (م 261ھ) فرماتے ہیں
وكان فيه تشيع، إلا أنّ ذلك لم يظهر منه إلا بعد مؤته .
ان میں شیعیت تھی، البتہ اس کا علم ان کی وفات کے بعد ہی ہو سکا۔
[تاريخ الثقات، ص : 125، ت : 315، طبعة دار الباز]
ذرا سوچیں کہ بھلا کوئی شیعہ اپنے مذہب کا پرچار کرنے والے کسی شیعہ پر کیوں جرح کرے گا ؟ اور فیصلہ کریں کہ ڈاکٹر عثمانی نے کتنے فیصد انصاف سے کام لیا ہے

راقم کہتا ہے نور پوری کو علم نہیں کہ خود عجلی بھی شیعہ کہے گئے ہیں اور وہ اگر شیعہ تھے تو وہ الحکم پر جرح نہیں ان کی تعریف کر رہے ہیں
شیعہ تو عام لفظ ہے جو لشکر علی پر بولا جاتا تھا جس میں غالی ابن سبا بھی تھا اور زاذان بھی اور اصحاب رسول بھی – یہ سب شیعان علی تھے
ظاہر ہے جب محدث شیعہ کہتا ہے تو اس کے پیچھے شواہد ہوتے ہیں اور زاذان کو شیعہ خود ابن حجر نے قرار دیا ہے

البتہ نور پوری کا قول ہے
حقیقت وہی ہے جو ہم نے ابن حجر کے بقول بیان کر دی ہے کہ راوی اگر سچا ہو تو اس کا شیعہ ہونا اس کی روایت کو نقصان نہیں دیتا۔ لہٰذا زاذان کا شیعہ ہونا اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس سے اس کی حدیث میں کوئی خرابی نہیں آتی

راقم کہتا ہے خود متقدمین شیعہ کے لئے ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں غالی کا اطلاق کیا ہے
مثلا
عدي بن ثَابت الْأنْصَارِيّ الْكُوفِي التَّابِعِيّ الْمَشْهُور پر الدَّارَقُطْنِيّ نے کہا كَانَ يغلو فِي التَّشَيُّع
تشیع میں غلو کرتا تھا
اس حوالے کو ابن حجر نے بھی فتح الباری میں تہذیب التھذیب میں لکھا ہے
عَبْدِ الله بن الْكواء، جو علی کے اصحاب میں سے ہے اس پر ابن حجر نے فتح الباری ج ص ٨٧ پر لکھا ہے
وَإِنَّمَا كَانَ يَغْلُو فِي الرَّفْضِ
بے شک یہ رفض میں غلو کرتا

دوسری طرف ابن حجر نے تشیع کی تعریف اس طرح کی

تہذیب التہذیب از ابن حجر ترجمہ ابان بن تغلب

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليه آله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة

پس تشیع (شیعیت) کا مطلب متقدمین کے نزدیک علی کی عثمان پر فضیلت کا اعتقاد رکھنا ہے، اور یہ کہ بے شک علی اپنی جنگوں میں حق پر تھے اور انکے مخالف غلطی پر، ساتھ ہی شیخین (ابو بکر اور عمر) کی فضیلت کا اعتقاد رکھنا، اور ان میں سے بعض کا کبھی یہ اعتقاد رکھنا کہ علی، نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد افضل مخلوق ہیں اور اگر یہ عقیدہ ھو اور وہ شیعہ راوی مجتہد، دین میں صادق ھو تو اس وجہ سے اس کی روایت رد نہیں کی جائے گی، خاص طور سے اگر داعی نہ ھو، اور تشیع متاخرین کے نزدیک محض رفض ہے پس اس رافضی ، غالی کی نہ روایت لی جائے اور نہ کوئی عزت کی جائے

اس سے نتیجہ نکلا کہ جو علی سے محبت کرے وہ شیعہ ہے اورغالی شیعہ یا رافضی وہ ہے جو ابو بکر اور عمر پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے

اس پیراگراف پر فرقہ پرستوں کا فہم ہے کہ تابعین میں رافضی نہیں تھے جبکہ حوالہ جات دے دیے گئے ہیں خود ابن حجر نے اصحاب علی میں رافضی کے وجود کا اقرار کیا ہے

نورپوری ابن حبان کے خلاف ایک مصنوعی ماحول پیدا کر کے لکھتے ہیں
تیسری بات یہ کہ اگر امام ابن حبان رحمہ اللہ کبار ائمہ دین کی موافقت میں منہال بن عمرو کی حدیث کو صحیح قرار دیں تو ڈاکٹر عثمانی اس کا ذکر تک نہ کریں اور جب وہ ان سب کی مخالفت میں زاذان پر جرح کریں تو ڈاکٹر عثمانی جھٹ سے اسے قبول کر لیں، حالانکہ وہ خود اسے ثقہ بھی قرار دے چکے ہوں اور اس کی حدیث کو صحیح بھی کہہ چکے ہوں، کیا اسے انصاف کہتے ہیں ؟

راقم کہتا ہے ابن حبان نے تو عود روح کی روایت کو منقطع قرار دیا ہے
صحیح ابن حبان میں ابن حبان لکھتے ہیں

وزاذان لم يسمعه من البراء
اور زاذان نے البراء سے نہیں سنا

ڈاکٹر عثمانی نے ابو احمد الحاکم کے قول پر کہا ہے کہ محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں
مُحَمَّدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ بنِ إِسْحَاقَ النَّيْسَابُوْرِيُّ ، أبو أحمد الحاكم المتوفی ٣٧٨ ھ ہیں الذھبی کہتے ہیں وَكَانَ مِنْ بُحورِ العِلْمِ علم کا سمندر تھے (سیر الاعلام النبلاء ج ١٢ ص ٣٦٦ دار الحدیث)- لیکن جدید محدث نورپوری ان کی علمی حیثیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں

یہ بات ابو احمد الحاکم کی علمی لغزش ہے۔ وہ اہل علم کون ہیں جنہوں نے زاذان کو کمزور کہا ہو

ظاہر ہے سن ٣٧٨ ھ سے پہلے زاذان محدثین کے نزدیک مضبوط راوی نہیں تھا
خاص کر نیشا پور میں اس پر تنقید کی جاتی ہے یہ اور بات ہے بغداد کے ابن معین یا احمد نے اس کو ثقہ کہا
یہ اختلاف محدثین میں اس دور میں حدیث زاذان پر موجود تھا اور اس کو متاخرین کی ثقاہت سے رد نہیں کیا جا سکتا
ابو احمد الحاکم کے ہم عصر ابن حبان نے بھی زاذان کو وہمی اور بہت غلطیاں کرنے والا قرار دیا ہے

نور پوری کہتے ہیں
اگر زاذان شیعہ ہیں بھی تو اس سے مراد فقہ جعفریہ کے ماننے والے شیعہ نہیں۔

راقم کہتا ہے یہ قول محض گمان ہے کیونکہ روافض خود زاذان کو اپنے جیسوں میں شمار کرتے ہیں
کیا عقیدہ رجعت شیعوں کا عقیدہ نہیں ہے ؟ اور حدیث عود روح میں اسی روح کے واپس آنے کا قبر میں قیامت تک رہنے کا ذکر ہے

صحیحین کے راوی

نور پوری  نے ابن حجر کی بات کو صحیح طرح سمجھا بھی نہیں اور بیان کر دیا لکھتے ہیں

ابن حجر رحمہ اللہ (م :852 ھ) فرماتے ہیں :
ينبغي لكل منصف ان يعلم ان تخريج صاحب الصحيح لاي راو، كان مقتض لعدالته عنده، وصحة ضبطه، وعدم غفلته، ولا سيما ما انضاف إلى ذلك من إطباق جمهور الأئمة على تسمية الكتابين بالصحيحين، وهذا معنى لم يحصل لغير من خرج عنه فى الصحيح، فهو بمثابة اطباق الجمهور على تعديل من ذكر فيها 
’’ ہر منصف شخص کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امام بخاری و مسلم کے کسی راوی سے حدیث نقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی ان کے نزدیک کردار کا سچا اور حافظے کا پکا ہے، نیز وہ حدیث کے معاملے میں غفلت کا شکار بھی نہیں۔ خصوصاً جب کہ جمہور ائمہ کرام متفقہ طور پر بخاری و مسلم کی کتابوں کو ”صحیح“ کا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ مقام اس راوی کو حاصل نہیں ہو سکتا جس کی روایت صحیح (بخاری و مسلم ) میں موجود نہیں۔ گویا جس راوی کا صحیح بخاری و مسلم میں ذکر ہے، وہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتماد راوی ہے۔“ [فتح الباري شرح صحيح البخاري : 384/1، طبعة دار المعرفة، بيروت]

↰ معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک منصف شخص وہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم کے راویوں کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر جمہور ائمہ حدیث کی توثیق کی بنا پر ثقہ اور قابل اعتماد سمجھے۔ اب ڈاکٹر عثمانی کی طرح کا جو شخص صحیح بخاری کے راویوں کو ’’ ضعیف، مجروح اور متروک“ کہتا ہے، وہ بقول ابن حجر، منصف نہیں، بلکہ خائن ہے۔

نور پوری کے نزدیک جو بھی المنھال کو ضعیف کہے وہ خائن  ہے – دوسری طرف  ابن حجر النکت میں   اس  بات کی وضاحت کرتے   ہیں

قلت : ولا يلزم في كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحاً ، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة

میں کہتا ہوں اور کسی روایت کی اسناد میں اگر صحیح کا راوی ہو تو اس سے وہ حدیث صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ اس میں شذوذ یا علت ہو

مبارک پوری اہل حدیث ہیں ، ترمذی کی شرح تحفہ الاحوذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ  میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا قَوْلُ الْهَيْثَمِيِّ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ فَلَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّتِهِ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مُدَلِّسٌ وَرَوَاهُ بِالْعَنْعَنَةِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مُخْتَلِطٌ وَرَوَاهُ عَنْهُ صَاحِبُهُ بَعْدَ اِخْتِلَاطِهِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ لَمْ يُدْرِكْ مَنْ رَوَاهُ عَنْهُ أَوْ يَكُونَ فِيهِ عِلَّةٌ أَوْ شُذُوذٌ ، قَالَ الْحَافِظُ الزَّيْلَعِيُّ فِي نَصْبِ الرَّايَةِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ الْجَهْرِ بِالْبَسْمَلَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ ثِقَةِ الرِّجَالِ صِحَّةُ الْحَدِيثِ حَتَّى يَنْتَفِيَ مِنْهُ الشُّذُوذُ وَالْعِلَّةُ ، وَقَالَ الْحَافِظُ اِبْنُ حَجَرٍ فِي التَّلْخِيصِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ حَدِيثِ بَيْعِ الْعِينَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِ الْحَدِيثِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا اِنْتَهَى

اور   الْهَيْثَمِيِّ کا یہ کہنا کہ رجال ثقہ ہیں دلیل نہیں بنتا کہ یہ روایت صحیح ہے کیونکہ اسمیں شذوذ یا علّت ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے اس میں مدلس ہو جو عن سے روایت کرے – الزَّيْلَعِيُّ کہتے ہیں… کسی حدیث میں ثقہ راوی ہونے سے وہ صحیح نہیں ہو جاتی

معلوم ہوا کہ صحیحین کے راویوں کی وہ روایات جو صحیحین سے باہر ہیں ضعیف ہو سکتی ہیں اس کی مثال ہے کہ کفایت اللہ سنابلی جو اہل حدیث میں نور پوری کے استاد کی طرح ہیں ن کے نزدیک المنھال کی روایت صحیح نہیں ہے اس کا شمار ضعیف راویوں میں کیا گیا ہے

کتاب  التلخيص الحبير میں ابن حجر لکھتے ہیں

لا يلزم من كون رجاله ثقات أن يكون صحيحا؛ لأن الأعمش مدلِّس ولم يذكرسماعه من عطاء

ثقہ رجال ہونے سے روایت صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس میں اعمش ہے جس نے عطا سے سماع کا ذکر نہیں کیا

قارئین نوٹ کریں کہ اعمش صحیحین کے راوی ہیں لیکن ابن حجر روایت رد کر رہے ہیں

فتح الباری کے مقدمہ انیس الساری کا حاشیہ لکھنے والے  نبيل بن مَنصور بن يَعقوب البصارة
ابن حجر کا قول پیش کرتے ہیں

لا يلزم من كون الإسناد محتجا برواته في الصحيح أن يكون الحديث الذي يُروى به صحيحا لما يطرأ عليه من العلل

اگر سند میں صحیح کے راوی سے احتجاج کیا گیا ہو تو اس کی حدیث صحیح نہیں ہو جاتی اگر اس کو معلول گردانا گیا ہو

  أحمد بن محمد بن الصدِّيق بن أحمد کتاب  المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي میں کہتے ہیں

قلت: لا يلزم من كون السند رجاله رجال الصحيح أن يكون الحديث صحيحا بل قد يكون ضعيفا

ایک دوسری حدیث پر کہتے ہیں

قلت: لا يلزم من كون الرجال رجال الصحيح أن يكون الحديث صحيحًا، إذ قد يكون مع ذلك منقطعًا أو معلولًا بشذوذ واضطراب

کتاب المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ کے محقق سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري
لکھتے ہیں

لا يلزم من كون الرجل أخرج له أصحاب الصحيح، صحة الإسناد،

ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ یہ کوئی عثمانی فکر نہیں کہ صحیحین کے راوی کی روایت ضعیف ہو سکتی ہے بلکہ اس بات کو ابن حجر نے بھی اور دیگر محققین نے بھی بیان کیا ہے

حدیث عود روح کو رد کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا ذکر اگلے بلاگ میں ہو گا

 

 

زبیر علی زئی تحقیقات کی روشنی میں ٢

ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی عذاب قبر سے متعلق کچھ متضاد روایات پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ایک سنن ابن ماجہ، مسند احمد  میں بیان ہوئی ہے

زبیر علی زئی  توضح الاحکام میں اس کوعود روح کی دلیل پر پیش کرتے ہیں

tozeh-555

مسند احمد  کی روایت  ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ” إِنَّ الْمَيِّتَ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ  الطَّيِّبَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، اخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ “، قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيَقُولُونَ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، ادْخُلِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ ” قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، اخْرُجِي ذَمِيمَةً، وأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ، وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٍ، فَلَا تَزَالُ تَخْرُجُ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، ارْجِعِي ذَمِيمَةً، فَإِنَّهُ لَا يُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَاءِ، ثُمَّ تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَيُقَالُ لَهُ: مِثْلُ مَا قِيلَ لَهُ فِي الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السَّوْءُ

اس روایت کا بقیہ حصہ ابن مآجہ بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى  میں بیان ہوا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ

إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ، غَيْرَ فَزِعٍ، وَلَا مَشْعُوفٍ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ، فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ؟ فَيَقُولُ: مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ، فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا، وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، وَيُقَالُ لَهُ: عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ، فَزِعًا مَشْعُوفًا، فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا، فَقُلْتُهُ، فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا، يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى

اس کا ترجمہ ارشد کمال المسند فی عذاب القبر میں کرتے ہیں

arshad-taseer-ila-qbr

یہ  دو روایات ہیں اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، کی سند سے آ رہی ہے

 مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ الْقُرَشِيّ العامري اور ابن أبي ذئب ثقه  ہیں لیکن  ابن أبي ذئب یعنی محمَّد ابن عبد الرحمن بن المغيرة بن الحارث کے لئے احمد کہتے ہیں ( سوالات ابی داود، تہذیب الکمال ج ٢٥ ص ٦٣٠

 إلا أن مالكًا أشد تنقية للرجال منه، ابن أبي ذئب لا يبالي عمن يحدث

بے شک امام مالک ان سے زیادہ رجال کو پرکھتے تھے جبکہ  ابن أبي ذئب اس کا خیال نہیں رکھتے کہ کس سے روایت کر رہے ہیں

  اس ر وایت کا متن  مبہم اور منکر ہے

اس روایت میں ہے کہ مومن کی

حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.

روح اوپر لے جائی جاتی ہے حتی کہ اس آسمان پر جا پہنچتی ہے جس پر الله عَزَّ وَجَلَّ ہے

قرآن کہتا ہے کہ الله عرش پر ہے اور راوی کہہ رہے ہیں کہ اللّہ تعالی کسی آسمان پر ہے

 زبان و ادب میں  اللہ کو آسمان والا کہا جاتا ہے

  صحیح مسلم کی روایت ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈى سے پوچھا تھا كہ : اللہ کہاں ہے ؟ تو اس نے کہا : آسمان میں ، پھر آپ نے فرمایا : میں کون ہوں ؟ تو اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا : اسے آزاد کردو ، یہ ایمان والی ہے

قرآن کہتا ہے

الرحمن علی العرش الستوی   طٰہٰ :۵

رحمن عرش پر مستوی ہوا۔

سوره الحدید میں ہے
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‌پیدا کیا ، پھر عرش  پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں‌داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں‌ چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے سورہ الحدید

بخاری میں ہے کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(( اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا… فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ )) [بخاری،کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : { بل ھو قرآن مجید ¡ فی لوح محفوظ} (۷۵۵۴)]

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے … جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔

لیکن اس روایت  زیر بحث میں روح کو خاص اس آسمان پر لے جایا جا رہا ہے جس پر الله ہے  جو ایک غلط عقیدہ ہے

اہل حدیث زبیر علی زئی نے   اس روایت کو  اپنے مضمون عذاب قبر حق ہے شمارہ الحدیث میں پیش کیا اور جو نتائج اخذ کیے ان پر نظر ڈالتے ہیں

غور کریں کے نتائج میں نتیجہ نمبر ٦ میں   زبیر علی نے لکھا ہے

اللہ تعالی ساتویں آسمان سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے

جبکہ ابن ماجہ کی روایت میں یہ  سرے سے موجود ہے ہی نہیں  اور اسی سند سے مسند احمد  میں جو متن آیا ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالی کسی آسمان پر ہیں- راوی  نے واضح نہیں کیا کہ پہلا ، دوسرا ، تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ، چھٹا یا ساتواں

راقم کہتا ہے   آنکھوں میں دھول جھوکنے میں اہل حدیث کو ملکہ حاصل ہے

اللہ کا شکر جس نے اس جھمی   عقیدے کی  روایت سے   ہم  کو  نجات دی – و للہ الحمد

اشاعرہ میں ملا علی القاری نے ان الفاظ کی تاویل کی ہے

إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ) أَيْ: أَمْرُهُ وَحُكْمُهُ أَيْ: ظُهُورُ مُلْكِهِ وَهُوَ الْعَرْشُ، وَقَالَ الطِّيبِيُّ: أَيْ: رَحْمتُهُ بِمَعْنَى الْجَنَّةِ

اس آسمان پر لے جاتے ہیں جس میں اللہ تعالی ہیں یعنی اس کا حکم یعنی اس کی مملکت کا ظہور جو عرش ہے اور طیبی نے کہا یعنی رحمت جو جنت ہے

البتہ سلفی اصول کہتا ہے کہ قرآن و حدیث میں جب بھی اللہ تعالی کا ذکر ہو تو اس کی  تاویل نہیں کی جائے گی اور متن کو اس کے ظاہر پر لیا جائے گا

اس حساب سے یہ تاویل سلفی و وہابی فرقے کے موقف کے خلاف ہے

زاذان کی روایت میں ہے کہ روح کو سات آسمان پر لے جایا جاتا ہے

 حتى ينتهي بها إلى السماء السابعة

یہاں تک کہ وہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتی ہے

ان دونوں احادیث  سے ثابت ہوا کہ  اللہ تعالی عرش پر نہیں ساتویں آسمان پر ہے

چونکہ یہ بات قرآن کے خلاف ہے یہ روایات صحیح ممکن نہیں ہیں افسوس ان کو قبول کر کے ان پر عقیدہ رکھا گیا ہے

اضطراب سند 

کتاب اخبار الدجال از عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ)  سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی سند میں مجہول راوی ہے

قال محمد بن عمرو فحدثني سعيد بن معاذ عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل الصالح قالوا اخرجي أيتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب واخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ولا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح له فيقال من هذا فيقال فلان فيقال مرحبا بالنفس الطيبة كانت في الجسد الطيب ادخلي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السماء التي فيها الله عز وجل وتعالى فإذا كان الرجل السوء قالوا اخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث اخرجي منه ذميمة وأبشري بحميم وغساق وآخر من شكله أزواج فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح لها فيقال من هذا فيقال فلان فيقال لا [ص:84] مرحبا بالنفس الخبيثة التي كانت في الجسد الخبيث ارجعي ذميمة فإنه لا تفتح لك أبواب السماء فيرسل من السماء ثم يصير إلى القبر فيجلس الرجل الصالح

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس کو کسی سعید بن معاذ سے سنا تھا نہ کہ سعید بن یسار سے

سعید بن معاذ ایک مجہول راوی ہے

کتاب جمع الجوامع المعروف بـ «الجامع الكبير» از سیوطی کے مطابق یہ سعید بن مینا ہے نہ کہ سعید بن یسار

ابن ماجه في الزهد عن أَبى بكر بن أَبِى شيبة عن شبابة عن ابن أَبى ذئب عن محمد بن عمرو بن عطاء عن سعيد بن ميناءَ عن أَبى هريرة مرفوعًا) (1).

العلل دارقطنی میں ہے

فَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، فَقَالَ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَوَهِمَ فِي ذَلِكَ

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس متن کو سعید بن مسیب سے بھی  روایت  کیا ہے

دارقطنی کا خیال ہے کہ یہ غلطی ابراہیم بن عبد السلام نے کی ہے – جبکہ راقم کی تحقیق سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ نام بدلنا ایک سند میں نہیں   بہت سی سندوں میں ہے

اغلبا مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ کو یاد نہیں رہا کہ اس نے کس سعید سے سنااور اس نے چار  الگ الگ نام روایات میں بیان کر دیے

ان شبھات کی موجودگی  میں اس سند کو صحیح نہیں سمجھا جا سکتا

تذکرہ نافعہ در عقائد احمد

[wpdm_package id=’9133′]

امام احمد کے مشہور و معروف عقائد جو حنابلہ میں  مقبول  ہیں  ان میں سے ہیں

اول : مردے ميں روح کا آنا
دوم : روز محشر عرش عظيم پر رسول اللہ کو بٹھايا جانا
سوم بيابان ميں فرشتوں کو غيبي مدد کے لئے پکارنا
چہارم : تعويذ لکھا اور حاملہ عورتوں پر بندھوانا

کتاب صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للالبانی ص 26 حاشیہ 3 ط المکتب الاسلامی 1403ھ، اور  العجلونی کی  کشف الخفاء 1961 میں امام مالک رحمہ اللہ  کا قول ہے کہ  امام مالک کا ہم عصر علماء کی غلطیوں پر  حکم تھا کہ

ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے

اب ہم  التحذير من زلة العالم  (عالم کی غلطی پر عوام کو متنبہ کرنا ) کے تحت  ان عقائد  پر نگاہ ڈالتے ہیں

مردے میں قبر میں روح کا  واپس آنا

قرآن سورة الزمر 42 آیت ٣٩ میں موحود ہے کہ مرنے والے کی روح کو روک لیا جاتا ہے اس کو جسم میں نہیں ڈالا جاتا

اللہ جانوں کو پکڑتا  ہے ان کي موت کے وقت اور جو نہ مريں انہيں ان کے سوتے ميں پھر جس پر موت کا حکم فرماديا اسے روک رکھتا ہے اور دوسري ايک ميعاد مقرر تک چھوڑ ديتا ہے بيشک اس ميں ضرور نشانياں ہيں سوچنے والوں کے ليے

اس کے برخلاف امام احمد نے مسدد ابن المسرھد کو خط لکھ کر صحیح عقیدہ بتایا کہ ارواح کو جسموں میں سوال و جواب کے لئے لوٹایا جاتا ہے -یہ عقیدہ امام احمد کا  مشہور ہے اور امام ابن تیمیہ اس کے ناقل ہیں   – امام احمد کی طرف اس عقیدے کی نسبت کو جب عثمانی صاحب نے پیش کیا تو وہ لوگ جو خود اس کے قائل کہ یہ عقیدہ صحیح ہے انہوں نے دعوی کیا کہ امام احمد سے یہ عقیدہ ثابت نہیں ہے کہ یہ خط ثابت نہیں ہے  -گویا یہ صحیح عقیدہ ہے لیکن  امام احمد  سے ثابت نہیں ہے –  اس عجیب و غریب موقف کو اس لئے گھڑا کیا کہ بے جا حق کی مخالفت کی جائے

ابو جابر دامانوی نے دین الخالص میں لکھا

ابن تیمیہ نے  ابن مندہ کا قول نقل کیا تھا کہ اس کی سند میں مجہول ہے لیکن ابن تیمیہ نے لکھا کہ ابن مندہ نے یہ شوشہ اس لئے چھوڑا ہے کیونکہ وہ اس کا قائل ہے کہ اللہ کا عرش خالی ہو جاتا ہے جب اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے – ابن تیمیہ نے ابن مندہ کا رد کیا اور اس خط کو قبول کیا لہذا دامانوی نے ابن  تیمیہ کو سمجھننے میں غلطی کی کیونکہ دامانوی عربی نہیں جانتے تھے

خط ایک خبر کی طرح ہے اور اس حوالے سے خود ان کے اصول کے مطابق یہ علم کی ایک قسم ہے – علم کی قسموں پر بات کرتے ہوئے ابن تيميه فتوی میں کہتے ہیں اول علم وہ ہے

والاستدلال يوجب العلم من أربعة أوجه: أحدها: أن تتلقاه الأمة بالقبول، فيدل ذلك على أنه حق، لأن الأمة لا تجتمع على الخطأ ولأن قبول الأمة له يدل على أن الحجة قد قامت عندهم بصحته، لأن العادة أن خبر الواحد الذي لم تقم الحجة به لا تجتمع الأمة على قبوله، وإنما يقبله قوم ويرده قوم.

جس کو امت نے درجہ قبولیت دیا ہو تو یہ دلیل ہے کہ پس یہ حق ہے کہ امت غلطی پر مجتمع نہیں ہوئی اور امت کا اس کو قبول کرنا دلالت کرتا ہے کہ اس کی صحت قائم ہے کیونکہ یہ عادت میں ہے کہ خبر واحد اگر قابل حجت نہ ہو تو اس پر امت جمع نہ ہو گی

ابن تیمیہ مزید کہتے ہیں
مذهب أصحابنا أن أخبار الآحاد المتلقاة بالقبول تصلح لإثبات أصول الديانات.
ہمارے اصحاب کا مذھب ہے کہ خبر واحد جو درجہ قبولیت پر ہو تو اس سے دین کے اصول لینا صحیح ہے

خط کے تناظر میں ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا رسالہ جو مسدد کو لکھا گیا تھا اس کو امت نے تلقھا بالقبول کا درجہ دیا ہے اور ابن مندہ کا عقیدہ باطل ہے جس نے شوشہ چھوڑا کہ اس رسالہ کی سند میں مجہول ہے
کتاب حدیث شرح النزول میں لکھتے ہیں
وأما رسالة أحمد بن حنبل إلى مُسَدَّد بن مسرهد، فهي مشهورة عند أهل الحديث والسنة من أصحاب أحمد وغيرهم، تلقوها بالقبول، وقد ذكرها أبو عبد الله بن بطة في كتاب [الإبانة] ، واعتمد عليها غير واحد كالقاضي أبي يعلى وكتبها بخطه.

اور جہاں تک امام احمد کا خط ہے مسدد کی طرف تو یہ اہل سنت و حدیث میں مشہور ہے ، امام احمد کے اصحاب میں اس کو درجہ قبولیت حاصل ہے اور اس کا ذکر ابن بطہ نے کتاب ابانه میں کیا ہے اور اس پر قاضی ابو یعلی اور ایک سے زائد کا اعتماد ہے

ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے بھی اس خط کا ذکر اپنی کتاب کیا ہے یعنی ان دونوں نے اس خط کے مندرجات کو رد نہیں کیا
ابن مفلح نے بھی اس خط کا ذکر کیا ہے جو ابن تیمیہ کے بعد آئے

فرشتوں کو بیابان میں پکارنا

کتاب مسائل الإمام أحمد لابنه عبدالله میں ہے امام احمد کے بیٹے عبد الله نے بیان کیا کہ ان کے باپ احمد بن حنبل نے کہا

حَدثنَا قَالَ سَمِعت ابي يَقُول حججْت خمس حجج مِنْهَا ثِنْتَيْنِ رَاكِبًا وَثَلَاثَة مَاشِيا اَوْ ثِنْتَيْنِ مَاشِيا وَثَلَاثَة رَاكِبًا فضللت الطَّرِيق فِي حجَّة وَكنت مَاشِيا فَجعلت اقول يَا عباد الله دلونا على الطَّرِيق فَلم ازل اقول ذَلِك حَتَّى وَقعت الطَّرِيق اَوْ كَمَا قَالَ ابي

میرے باپ نے کہا میں نے پانچ حج کیے جن میں دو سواری پر اور تین چل کر کیے یا کہا تین سواری پر اور دو پیدل – تو مجھ پر حج کا راستہ کھو گیا اور میں پیدل چل رہا تھا تو میں نے کہنا شروع کر دیا

اللہ کے بندو ! مجھے راستہ بتاؤ۔ میں مسلسل کہتا رہا حتی کہ صحیح راستے پر آ گیا – ایسا میرے باپ نے کہا

امام احمد کے پیش نظر مسند البزار کی ایک منکر روایت تھی جس پر وہ عمل کر رہے تھے

إن لله ملائكة في الأرض سوی الحفظة، يكتبون ا سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة، فليناد : أعينوا عبادالله.
زمین میں حفاظت والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہوتے ہیں جو درختوں کے گرنے والے پتوں کو لکھتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویرانے میں چلتے ہوئے پاؤں میں موچ آ جائے تو وہ کہے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو

اس کو البانی نے بھی بیان کیا

أن حديث ابن عباس الذي حسنه الحافظ كان الإمام أحمد يقويه، لأنه قد عمل به

حدیث ابن عباس جس کو حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے اس کو امام احمد نے قوی کیا ہے کیونکہ وہ اس پر عمل کرتے تھے

فرشتوں کو غیبی مدد کے لئے  پکارنا  مشرکانہ عمل  ہے

تعویذ و تمیمہ کرنا

ابی داوود مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني میں کہتے ہیں کہ میں نے
رَأَيْتُ عَلَى ابْنٍ لِأَحْمَدَ، وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أَدِيم
میں نے احمد کے بیٹے جبکہ وہ چھوٹے تھے ایک چمڑے کا تَمِيمَةً (تعویذ ) گلے میں دیکھا

امام احمد کو ایک منکر اثر ملا جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا، فَيَكْتُبُ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَاتِ فِي صَحْفَةٍ ثُمَّ تُغْسَلُ فَتُسْقَى مِنْهَا «بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ» {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات: 46] {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} [الأحقاف: 35]

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ جب عورت کو بچہ جننے میں مشکل ہو تو اس کے لئے یہ دو آیات اور کلمات ایک صفحہ پر لکھو پھر ان کو دھو کر اس کا دھون عورت کو پلا دو
بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَـهَا لَمْ يَلْبَثُوٓا اِلَّا عَشِيَّةً اَوْ ضُحَاهَا
جس دن اسے دیکھ لیں گے (تو یہی سمجھیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھہرے تھے۔

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ لَمْ يَلْبَثُـوٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّـهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُوْنَ
ایک دن میں سے ایک گھڑی بھر رہے تھے، آپ کا کام پہنچا دینا تھا، سو کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا۔
اسکی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جو خراب حافظہ کا مالک تھا

امام احمد کے بیٹے نے خبر دی کہ اسی روایت کی بنیاد پر امام احمد تعویذ کرتے تھے کتاب المسائل امام احمد بن حنبل میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے- خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے-

محمد عمرو بن عبد اللطيف مصری عالم نے تكميل النفع بما لم يثبت به وقف ولا رفع میں لکھا ہے
مع ضعف هذا الأثر، فقد عمل به الإمام أحمد رحمه الله …. قال الخلال : أنبأنا أبو بكر المروذي (3) أن أبا عبد الله جاءه رجل فقال : يا أبا عبد الله تكتب لامرأة قد عسر عليها ولدها منذ يومين ، فقال : قل له يجئ بجام واسع وزعفران . ورأيته يكتب لغير واحد … )) . قلت : وفي هذا دليل على أن الإمام أحمد رحمه الله كان يأخذ بالأحاديث والآثار الضعيفة إذا لم يجد في الباب غيرها ، ولم يكن هناك ما يدفعها ، والله أعلم

اور اس اثر کے ضعیف ہونے کے باوجود امام احمد کا اس پر عمل ہے …. خلال نے ذکر کیا کہ ہمیں ابو بکر المروزی نے خبر دی کہ ایک شخص امام احمد کے پاس آیا اور کہا اے ابو عبد اللہ میرے بیوی کے لئے تعویذ لکھیں اس کو جننے میں مشکل ہے دو روز سے پس امام احمد نے کہا ایک بڑا برتن لاو اور زعفران اور میں نے دیکھا کہ ایک سے زائد کے لئے یہ لکھتے تھے
میں (محمد عمرو بن عبد اللطيف) کہتا ہوں یہ دلیل ہے کہ احمد ان احادیث و اثار کو لیتے تھے جو ضعیف ہوتے تھے جب ان کو اس باب میں کوئی اور نہ ملتا و اللہ اعلم

كتاب الفروع از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا الخلال کہتے ہیں اور امام احمد تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

إسحاق بن منصور بن بهرام أبو يعقوب الكوسج المروزی کی وفات ٢٥١ ھ میں امام ابو داود  سے پہلے    ہوئی اورأبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق المتوفی ٢٧٥ ھ کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا – پھر گھر والوں کی گواہی  سب سے اہم ہے کیونکہ  احمد کے  بیٹوں نے  اپنی  کتب باپ  احمد کی وفات کے بعد مرتب کی ہیں

عرش عظیم پر رسول اللہ (ص) کا بٹھایا جانا

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم الله سے دعا کریں گے جو ان کی نبی کی حیثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا
ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه
محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم
اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے
معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

امام احمد نے امت پر ظلم کیا کہ یہ عقیدہ دیا کہ ہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا

ابن أبي يعلى کتاب الاعتقاد میں لکھتے ہیں
وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء
ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں
القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں
ونظر أَبُو عبد اللَّه فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها
اور ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا
کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں
وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث”.
ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے
کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ
قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ
ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا
یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو در کر آیا ہے
سعودی مفتی ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم بھی کہتے ہیں کہ مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں
قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة
فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ
جلد2 ، ص136
دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا یہ قول فضائل کی وجہ سے ہے

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا

عصر حاضر میں مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں
وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته … وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه
اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

================================================

مخالفین کا کہنا ہے کہ ہم امام احمد کے اقوال کیوں نقل کرتے ہیں جبکہ وہ صحیح عقیدہ نہیں تھے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اصول حدیث امام احمد کے مرتب کردہ نہیں ہیں اس میں حدیث عود روح کو رد کرنے والے امام شعبہ ہیں- اس میں اماموں کے امام یحیی بن سعید القطان تھے جو کہتے تھے کہ راوی پر جرح کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے جھگڑا کریں – ان میں امام مالک بھی ہیں
علم حدیث کسی ایک شخص کا مرتب کردہ نہیں ہے نہ ہی کسی مدرسہ کی پروڈکٹ ہے
ان ائمہ کو اہل فن و صنعت کہا جاتا ہے لہذا انہی اصولوں کو ہم بھی قبول کرتے ہیں

=======================================

نتائج

فرقوں  کے محققین  مثلا ابن تیمیہ اور ایک جم کثیر   اس کے قائل ہیں کہ احمد کا یہ عقیدہ کہ نبی کو عرش پر بٹھایا جائے گا صحیح نہیں ہے

فرقوں کے  محققین  اور خود برصغیری اہل حدیث  کہتے ہیں کہ فرشتوں کو پکارنا بھی باطل عقیدہ  ہے

فرقوں کے  محققین میں وہابی  اور خود بعض  برصغیری اہل حدیث  کہتے ہیں کہ تعویذ و تمیمہ شرک ہے

ہمارے نزدیک عقیدہ عود روح بھی باطل  ہے 

اس طرح ہم سب اس پر جمع ہیں کہ امام احمد صحیح عقیدہ پر نہیں تھے

 قُلْ يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّـٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (64)

کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے اللہ کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور سوائے اللہ کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے، پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں۔

زبیر علی زئی اپنی تحقیقات کی روشنی میں

اہل حدیث فرقہ کے ایک سر خیل ضلع اٹک کے غیر مقلد عالم ( جو ابن تیمیہ کے مقلد تھے ) اور نام حافظ زبیر علی زئی رکھتے تھے گزرے ہیں – یہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ  کے کٹر دشمن تھے  اور   خط و کتابت سے دشمن حق ابو جابر دامانوی کو خام مال مہیا کرتے کہ لوگ ڈاکٹر عثمانی کا رد لکھ سکیں

افسوس حافظ زبیر علی زئی اب  ہمارے درمیان نہیں ان کی ایک زندگی اور دو موتیں ہو چکی ہیں  اور بلا توبہ کے  ان جہانی ہو چکے ہیں -البتہ ہم احقاق حق کے لئے اور  تبین کے لئے حیات فی القبر کی دو مشہور روایات پر ان کی بدلتی آراء کا ذکر کرنا چاہیں گے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم  میں روح کا آنا

سنن ابو داود کی حدیث ٢٠٤١ ہے کہ

باب في الصلاة على النبي – صلَّى الله عليه وسلم – وزيارة قبره (1)
 – حدَّثنا محمدُ بنُ عوفٍ، حدَّثنا المقرئ، حدَّثنا حيوةُ، عن أبي صَخْرٍ حميدِ بنِ زياد، عن يزيدَ بنِ عبد الله بن قُسيطٍ عن أبي هريرة أن رسولَ اللهِ – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “ما مِنْ أحَدٍ يُسلِّمُ علي إلا ردَّ اللهُ عليَّ رُوحي حتى أردَّ عليه السَّلامَ 

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ پرسلام کہے تو اللہ میری روح نہ لوٹا دے

سن ٨٠ کی دہانی میں رجل مومن ڈاکٹر عثمانی نے سب سے پہلے اس روایت کو ضعیف کہا – ان سے قبل علماء کا جمہور اس روایت کو صحیح کہتا آیا تھا لیکن حق کو حق کہنا جوان مردوں کا کام ہے جس کی ہمت ڈاکٹر صاحب میں پیدا ہوئی اور اس کا بطلان انہوں نے واضح کیا – پھر خواجہ محمد قاسم اہل حدیث نے بھی اس کو ضعیف کہا – لیکن زبیر علی اور ان کے شاگرد رشید ابو جابر اس پر قائم رہے کہ یہ روایت صحیح ہے

زبیر علی کے ذہن میں یقینا یہ روایت ایک الجھن بن گئی اور وہ اس پر تحقیق کرتے رہے اور بالاخر  مرنے سے قبل  انہوں نے اس روایت پر جو کلام کیا وہ حاضر خدمت ہے

 زبیر علی زئی   کا  موقف :  زبیر علی   کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں

یو ٹیوب پر موجود   ١٧ جون  ٢٠٠٩  کی ایک ویڈیو  ہے

اس ویڈیو میں ١٠:٣٠    منٹ پر جناب زبیر زئی بیان کرتے ہیں کہ  یہ فتوی مقالات   جلد اول  میں صفحہ  ١٩  پر چھپا ہے   کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی برزخی ہے –

یو ٹیوب پر موجود   اسی سلسلے کی ایک دوسری ویڈیو      (٥٣:٣٠    منٹ)میں سوال ہواکہ کیا  قبروں    میں انبیاء نماز پڑھتے ہیں- ؟

زبیر علی زئی کے مطابق   یہ روایت ضعیف ہے

اسی ویڈیو میں     ٥٤:٣٤ منٹ پر قبر میں روح  لوٹائے جانے والی روایت پر سوال   ہوا

ما من یسلم کی وضاحت فرمائیں کہ صحیح ہے یا نہیں ؟

اس پر  زبیر علی  تفصیلی جواب میں  کہتے ہیں

اس میں آتا ہے کہ  کوئی مجھ پر سلام پڑھتا  ہے    تو الله تعالی میری روح کو لوٹا دیتا ہے –   یہ بھی بڑی مشکل روایتوں میں سے ہے –   اس کو بھی کچھ لوگ ، البانی وغیرہ صحیح کہتے ہیں –   تو ہم یہ کہتے ہیں کہ بھئی    روح کو لوٹانے سے مراد کیا  ہے ؟  پہلی تو یہ بات ہے روح تو نکلی پھر آئی – نکلی پھر آئی –  نکلی آئی – نکلی آئی –  (ہاتھ سے اشارات کیے) –  یہ کیا ہوا ؟  یہ تو مسئلہ عجیب ہوا !   پھر یہ بھی اس وقت لوٹانی جائے گی جب قبر پر کوئی    درود  پڑھے گا  نا  – علماء تو اس کو قبر کے باب میں لے کر آئیں ہیں – تو قبر پر تو درود پڑھتا ہی کوئی نہیں سارے  حجرہ کے باہر پڑھتے ہیں –   قبر پر تو پرویز (مشرف ) نے پڑھا ہو گا ، جو بادشاہ بیٹھا ہوا تھا ڈکٹیٹر –  اس   (پرویز مشرف) کے لئے جب جاتے ہیں تو    (وہابی)کھولتے ہیں نا  حجرہ  –     اندر چلا جاتا ہے یا کوئی اور – زرداری جا کر پڑھتا ہو گا –  ہمارے لئے تو قبر،  کدھر دروازہ کھلتا ہے جی –   (سائل نے دخل در مقولات کی، مرزا :  لیکن علمائے عرب  تو قائل ہیں؟ ) – زبیر: مجھے بات کرنے دیں –   ہم قبر پر نہیں جا سکتے  ہم باہر   کھڑے  ہوتے  ہیں ، باہر سے تو کوئی ثبوت نہیں ہے –  یہ لوگ دروازہ کھولیں  ، قبر پر کوئی جائے گا تو پھر روح لوٹائی جائے گی –  اچھا !  تو قبر پر بادشاہوں کے لئے سعودی عرب والے دروازہ کھولتے ہیں، عام لوگوں کے لئے نہیں کھولتے  – .. ابن عبد الہادی اور دوسرے علماء نے اس سے یہی مراد لیا ہے کہ  یہ قبر پر مراد ہے – یہ حدیث میری تحقیق میں ضعیف ہے – صحیح نہیں-  عالم  اس کو صحیح کہتے ہیں نا ، وہ تو بعد میں بات کریں گے –  جلال الدین سیوطی نام کے ایک مولوی صاحب گزرے تھے   وہ حیات النبی کے قائل تھے  ان کے لئے یہ حدیث بڑی پکی تھی   انہوں نے اٹھارہ جواب دیے کبھی یہ کبھی وہ – لیکن ہے تو بڑی عجیب بات – اگر باہر سے بھی روح لوٹائی جاتی ہے تو   لاکھوں آدمی باہر سے سلام دے رہے ہیں تو لاکھوں بار لوٹائی جائے گی – ایک دفعہ نہیں ہے کہ روح لوٹائی گئی اور قیامت تک کے لئے لوٹائی گئی – … تو یہ تو بڑی عجیب بات ہے ، امت میں اس کا کوئی قائل نہیں –  (سائل نے دخل در مقولات کی  )   زبیر : برزخی معاملہ ہے   ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے –   اس میں یزید بن عبد الله   بن قسیط جو  ہے جو    یہ روایت کرتا ہے تابعین سے ،   اسکی تو عام روایتیں تابعین سے ہیں تو اس نے نہیں بتایا   کہ یہ حدیث ابو  ہریرہ سے سنی ہے –  جس روایت میں آتا ہے کہ اس نے ابو صالح سے سنی ہے، ان کے شاگروں سے اس کی سند ضعیف ہے  

یعنی   زبیر علی زئی  زبانی جوابات اور تحریری مقالات میں  روح لوٹائے جانے والی  روایت کو ضعیف کہتے رہے لیکن ٢٠٠٤  میں جب عربوں کے لئے انوار  الصحیفہ فی الاحادیث  الضعیفہ مرتب کی  تو  ارض و سماء  حیران  تھے  اس میں سے روح لوٹائے جانے والی روایت  موجود نہیں تھی [1]– اور اس کتاب میں   مقدمہ میں یہ لکھا

تنبیہ: سنن  الاربعہ کی   ہر وہ حدیث جس کا ذکر یہاں نہ ہو وہ ہمارے نزدیک صحیح یا حسن ہے   قابل  احتجاج  ہے و الله اعلم

اس  کتاب میں زبیر علی نے روح لوٹانے والی روایت شامل نہیں کی یعنی    چار  ماہ کے اندر   (توضیح الاحکام میں شعبان ھ١٤٢٤ سے   انوار الصحیفہ محرم ١٤٢٥ ھ )    انہوں نے اس روایت کی تضعیف سے رجوع کیا  ؟    زبیر علی زئی پر اکتوبر ٢٠٠٣     (شعبان ١٤٢٤ ھ ) میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت صحیح نہیں ہے    لیکن محرم    ٥  سن    ١٤٢٥  ھ   بمطابق     ٢٥ فروری  ٢٠٠٤   عیسوی   میں انوار الصحیفہ    میں اس ضعیف روایت کو شامل نہیں کیا – پھر ٢٠٠٩ میں ویڈیو میں اس کو   پھر ضعیف کہا[2]

پھر  اگلے سال زبیر علی زئی  نے سنن ابوداود  دارالسلام   (جس پر زبیر علی زئی   نے مقدمہ   تحقیق  میں   مارچ   ٢٠٠٥ کی تاریخ ڈالی ہے ) میں   حدیث(   ٢٠٤١   )   اس کی تحقیق میں   اپنے منفرد گول مول انداز میں  لکھا ہے   

  اسنادہ ضعیف ، اخرجہ احمد عن المقریء وصححہ ابن الملقن فی تحفۃ المحتاج ، یزید بن عبد بن قسیط ثبت سماعہ من ابی ھریرۃ عند البیہقی ، ولکنہ یروی عن التابعین عن الصحابۃ ، ولم یصرح ھاھنا بالسماع ،فالسند شبہ الانقطاع  ​

  اسکی سند ضعیف ہے ،    اس کی تخریج احمد نے المقریء   سے کی ہے  اور  ابن ملقن نے  اگرچ    اسے تحفۃ المحتاج میں صحیح کہا ہے ،      یزید بن عبداللہ کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیہقی کی ایک روایت میں ثابت ہوتا ہے ،   لیکن وہ تابعین   کی سند  سے صحابہ  کی  روایات بیان کرتا ہے ،اور یہاں اس سند میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی جس سے سند میں انقطاع کا شبہ ہے  

یعنی    عربی تحقیق میں   اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا لیکن جو   اردو میں تحقیق لکھی اس میں اس کو ضعیف کہا – اس قدر تضاد بیانی اس لئے کی گئی کیونکہ انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ عربی میں تھی – عرب علماء دیکھتے کہ زبیر علی نے روح لوٹائی جانے والی روایت ضعیف قرار دے دی ہے تو اس کتاب کو پذیرائی نہیں مل پاتی لہذا سنن اربعہ کی  ضعیف روایات کے مجموعہ میں  اس روایت کو شامل نہیں کیا  گیا-

زبیر علی کے حوالے سے اس روایت کی تصحیح آج تک فورمز پر پیش کی جا رہی ہے- مثلا  کہا  جاتا ہے کہ زبیر علی زئی نے،ریاض الصالحین کی تخریج میں اس حدیث کو ’’ حسن ‘‘ کہا ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اسے عراقی  نے ’’ جید ‘‘ کہا ہے

معلوم ہوا کہ زبیر علی زئی  اس روایت کی تصحیح پر پینترے بدلتے رہے اور اپنی ناقص تحقیق  کی بنیاد پر ڈاکٹر عثمانی کی بے جا مخالفت پر جمے رہے کبھی  رد  روح النبی والی روایت کو صحیح کہا تو کبھی حسن اور یہاں تک کہ  آخر میں ضعیف  لکھا  تو اردو میں  لکھا لیکن  عربی میں  یہ  لکھنے کی ہمت نہ ہوئی

[1]

http://www.urdumajlis.net/threads/انوار-الصحيفة-في-الاحاديث-الضعيفة-من-السنن-الاربعة-مع-ادلة-طبعة-ثالثة.31/

[2]

حالیہ اڈیشن چونکہ کتاب کا تیسرا اڈیشن ہے جس کوزبیر علی زئی اپنی زندگی میں مکمل کر چکے تھے مگر یہ اڈیشن طبع نہ ہوسکا۔اس اڈیشن کے صفحہ اول پر ایسی احادیث کی فہرست مرتب کر دی گئی ہے جن کے بارے میں ان کی تحقیق تبدیل ہو گئی تھی اور انہوں نے اس کتاب کے سابقہ اڈیشنوں میں درج شدہ احکامات سے رجوع کر لیا تھا۔لہذا کتاب سے استفادہ کرتے وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھنا جائے۔   یہاں آسانی کے لئے یہ لسٹ پیش خذمت ہے جس میں سنن ابو داود کی روایات لی لسٹ ہے

روح لوٹائے جانے والی روایت رقم ٢٠٤١   سے ہے دیکھا جا سکتا ہے کہ جن  روایات سے زبیر علی  نے حکم پر رجوع کیا ان میں رقم  ٢٠٤١ موجود نہیں-

انبیاء کے اجسام باقی رہتے ہیں ؟

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت پیش کی جاتی ہے
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے

 زبیر علی زئی کتاب فضائل درود و سلام  (جس کی اشاعت فروری ٢٠١٠ کی ہے) میں تعلیق میں ص ٦٥ اور ٦٦ پر لکھتے ہیں

ابن کثیر کتاب  البداية والنهاية   میں لکھتے ہیں

وَقَالَ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عن أبى خلد بْنِ دِينَارٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ قَالَ لَمَّا افْتَتَحْنَا تُسْتَرَ وَجَدْنَا فِي مَالِ بَيْتِ الْهُرْمُزَانِ سَرِيرًا عَلَيْهِ رَجُلٌ مَيِّتٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مُصْحَفٌ .. قُلْتُ مَنْ كُنْتُمْ تَظُنُّونَ الرَّجُلَ قَالَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ دَانْيَالُ قُلْتُ مُنْذُ كَمْ وَجَدْتُمُوهُ قَدْ مَاتَ قَالَ مُنْذُ ثَلَاثِمِائَةِ سَنَةٍ قُلْتُ مَا تَغَيَّرَ مِنْهُ شَيْءٌ قَالَ لَا إِلَّا شَعَرَاتٌ مِنْ قَفَاهُ إِنَّ لُحُومَ الْأَنْبِيَاءِ لَا تُبْلِيهَا الْأَرْضُ وَلَا تَأْكُلُهَا السِّبَاعُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ إِلَى أَبِي الْعَالِيَةِ وَلَكِنْ إِنْ كَانَ تَارِيخُ وَفَاتِهِ مَحْفُوظًا مِنْ ثَلَاثِمِائَةِ سَنَةٍ فَلَيْسَ بِنَبِيٍّ بَلْ هو رجل صالح لأن عيسى بن مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ بِنَصِّ الْحَدِيثِ الَّذِي فِي الْبُخَارِيِّ

جب تستر فتح ہوا تو ایک لاش ملی جس کے اوپر مصحف رکھا تھا  …  ظن و گمان ہوا کہ یہ لاش دانیال کی ہے لوگوں سے پتہ کیا کہ یہ کب مرا کہا تین سو سال پہلے .. ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں اسکی سند أَبِي الْعَالِيَةِ  تک صحیح ہے لیکن اگر یہ تاریخ  ٣٠٠ سال صحیح ہے تو یہ نبی نہیں ہو سکتا…  ہمارے نبی اور عیسیٰ کے ردمیان ٦٠٠ سال کا  فاصلہ ہے جیسا بخاری نے روایت کیاہے

معلوم ہوا کہ شخص نبی نہیں تھا   کیونکہ اس کی موت میں اور نبی صلی الله علیہ وسلم میں صرف ٣٠٠ سال کا فرق تھا

عود روح کی روایت

زاذان کی مشہور عود روح والی روایت کو زبیر علی ساری زندگی صحیح کہتے رہے اس کے شیعہ راویوں کا دفاع کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی-لیکن یہ روایت بھی ان کی ذہنی الجھن میں اضافہ کرتی رہی-

سن ٢٠٠٢ میں زبیر علی نے اثبات عذاب قبر از بیہقی کا اردو میں ترجمہ کیا

اس میں زاذان والی روایت کو حسن قرار دیا اور اس کے آخر میں ایک اضافہ کو بھی حسن کہا

یہان تک کہ سن ٢٠٠٩ میں شائع کردہ کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال  سے معلوم ہوا کہ زبیر اس  میں بھی اب شک  کرنے لگے ہیں لہذا ارشد کمال نے لکھا

زاذان کی روایت جس کے کسی بھی حصے کو جمہور علماء نے مشکوک نہیں کہا تھا تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس کا بعض حصہ مشکوک ہے-

و  للہ الحمد

اس اضافہ کو ان علماء نے صحیح قرار دیا ہے

بیہقی اثبات عذاب القبر ص ٣٩ پر

ابن تیمیہ مجموع الفتاوی ج ١ ص ٣٤٩ اور  ج ٤ ص ٢٨٩ پر

ابن قیم کتاب الروح ص ٤٨ پر

ناصر الدین البانی صحیح ترغیب و ترھیب ص ٢١٩ ج ٣ پر اور احکام الجنائز ص ١٥٩ پر اور مشکاة المصابيح ص ٢٨

راقم کہتا ہے زبیر علی کا قول صحیح نہیں کہ اس میں اعمش کی تدلیس ہے کیونکہ اعمش نے سماع کی تصریح کر دی ہے – سنن ابو داود ٤٧٥٤ میں ہے

حدثنا هناد بن السري حدثنا عبد الله بن نمير حدثنا الأعمش حدثنا المنهال عن أبي عمر زاذان قال سمعت البراء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال فذكر نحوه.

یعنی اس متن پر اعمش کی تدلیس کہنا سرے سے ہی غلط ہے

بہر کیف زبیر میں کچھ صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ اس روایت کی تحقیق کر سکیں اور اس کو صحیح کہنے کی بجائے اب وہ نیچے  حسن کے درجہ پر لے آئے – یہ ارتقاء کی منزلیں چل رہی تھیں اور وہ حق کی طرف جا رہے تھے  افسوس وہ مکمل تحقیق نہ کر پائے لیکن حیات فی القبر کی دو  اہم روایات کو رد کر گئے اور ایک میں شک پیدا کر گئے

زبیر علی زئی  کا عقیدہ تھا کہ مردہ میں روح رہتی ہے یہں تک کہ قبر سے باہر بھی اتا ہے لہذا کتاب میں اس روایت کو حسن کا درجہ دیا

قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “

زبیر کی موت اس عقیدے پر   نہ ہوئی  جو  آجکل  جمہور  اہل حدیث کا ہے کہ عود روح استثنائی ہے  بلکہ ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں

اس روایت کی بنیاد پر زبیر علی  منکر عقیدے کا پرچار کرتا رہا کہ قبر میں روح انے کے بعد نکلتی یا نہیں نکلتی معلوم ہی نہیں

گویا اس کے نزدیک روح کا واپس نکلنا معلوم ہی نہیں دوسری طرف  ابو جابر دامانوی یہ عقیدہ  ہے کہ روح نکل کر جنت یا جہنم میں چلی جاتی ہے

ہمارے نزدیک تو یہ شروع سے ہی منکر روایات ہیں

الغرض ڈاکٹر صاحب کی رد  کردہ   احادیث کو غیر مقلد عالم ان کی وفات کے کئی سال بعد ضعیف کہنے پر مجبور ہوئے

السلام علينا و على عباد الله الصالحين

فرشتہ   کا خواب میں آنا

مناقب   امام احمد میں ابن جوزی نے امام ابو داود کے خواب کا ذکر کیا

أخبرنا محمد بن أبي منصور، قال: اخبرنا عبد القادر بن محمد؛ قال: أنبأنا إبراهيم بن عمر، قال: أنبأنا عبد العزيز بن جعفر، قال: أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد الخلال، قال: حدثنا أبو داود السجستاني، قال: رأيت في المنام سنة ثمان وعشرين ومئتين كأني في المسجد الجامع، فأقبل رجل شبه الخصي من ناحية المقصورة وهو يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتدوا باللذين من بعدي أحمد بن حنبل وفلان- قال أبو داود: لا أحفظ اسمه- فجعلت أقول في نفسي، هذا حديث غريب، ففسرته على رجل، فقال: الخصي ملك.

ابو داود نے کہا  میں نے خواب میں دیکھا سن   ٢٢٨   ھ  میں  کہ  میں  مسجد   الجامع  میں ہوں   تو ایک شخص   ہیجڑے  جیسا  آیا  مقصورہ کی طرف سے   اور وہ کہہ رہا تھا   رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے   ان کی  اقتداء  کرنا  میرے بعد –  احمد بن حنبل کی اور فلاں کی –  ابو داود نے کہا  اس کا نام یاد نہیں رہا  تو  میں نے اپنے دل  میں کہا  یہ حدیث غریب ہے   پس ایک  شخص نے اس کی تفسیر کی کہ  یہ فرشتہ  ہیجڑا  تھا

زبیر   علی  زئی    شمارہ   الحدیث   نمبر ٢٦  میں  اس کی سند کو صحیح کہتے ہیں  اور ایک انوکھا تبصرہ کرتے ہیں

کیسا دجل  ہے  ایک ثقہ محدث   کو  خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم   کی تلقین پیش کی گئی    لیکن اس بار  اس     تلقین   رسول    کا دین کو کوئی فائدہ نہیں ہے-