عثماني صاحب نے کتاب مزار يہ ميلے ميں لکھا
کچھ دوسرے لوگ کہتے ہيں کہ ہم فلاں بزرگ کے مزار پر جاتے ہيں تو اس لئے جاتے ہيں کہ آپ کے مزار کي زيارت کي بڑي فضليت ہے – يہ بات بھي صحيح نہيں ہے کيونکہ عام قبروں کي زيارت مستحب ہے مگر کسي خاص قبر کي زيارت حتي کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي قبر کي زيارت کے سلسلے کي جتني روايات ہيں وہ ضعيف ہيں – ان کے متعلق ائمہ حديث کا فيصلہ ہے کہ وہ موضوع يعني گھڑي ہوئي ہيں ايک حديث بھي صحيح نہيں … رہا قبر نبوي تک جانا تو يہ کام نہ صحابہ نے کيا ہے نہ تابعين نے
راقم کہتا ہے حج کے بعد زيارت قبر النبي سے متعلق تمام روايات پر ائمہ حديث کا جرح کا کلام ہے – ان روايات کو رد کيا گيا ہے ليکن جہاں تک عثماني صاحب کا يہ قول ہے کہ قبر نبي تک کوئي صحابي يا تابعي نہيں گيا تو يہ صحيح نہيں ہے کيونکہ متعدد تابعين نے حجرہ عائشہ تک کا قصد کيا ہے اور ام المومنين سے احاديث کو سنا ہے – قبر النبي حجرہ عائشہ رضي اللہ عنہا ميں ہي ہے – لہذا درست قول يوں ہوتا کہ صرف زيارت قبر النبي کے مقصد سے قبر نبوي تک جانا تو يہ کام نہ صحابہ نے کيا ہے نہ تابعين نے
بعض لوگوں نے موقف اختیار کیا کہ زیارت القبور فی المقابر جائز ہے یعنی اگر قبرین ، قبرستان میں ہوں تو صرف اس صورت میں ان کی زیارت کی جا سکتی ہے – یہ محض گمان ہے
احناف میں الآثار لمحمد بن الحسن میں ہے
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَبْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مُسَنَّمَةً نَاشِزَةً مِنَ الْأَرْضِ عَلَيْهَا فَلَقٌ مِنْ مَدَرٍ أَبْيَضَ [ص:185]، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ يُسَنَّمُ الْقَبْرُ تَسْنِيمًا، وَلَا يُرَبَّعُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
امام محمد نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا انہوں نے حماد سے انہوں نے ابراہیم نخعی سے کہ ان کو اس نے خبر دی جس نے قبر النبی کو دیکھا اور ابو بکر و عمر کی قبر کو دیکھا
اس روایت کو امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد نے بیان کیا ہے یعنی کوئی گیا اور اس نے جا کر قبر النبی کو دیکھا کہ کس طرح کی تھی – ظاہر ہے جب تک ان خاص قبروں کی زیارت نہ ہو تو معلوم ہی نہ ہو پائے گا کہ قبروں کی شکل کس نوعیت کی تھی
اسی کتاب میں امام محمد نے روایت کیا
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «نَهَيْنَاكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا؛ فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، وَعَنْ لَحْمِ الْأَضَاحِيِّ أَنْ تُمْسِكُوهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَأَمْسِكُوهُ مَا بَدَا لَكُمْ، وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّا إِنَّمَا نَهَيْنَاكُمْ لِيَتَّسِعَ مُوسِعُكُمْ عَلَى فَقِيرِكُمْ، وَعَنِ النَّبِيذِ فِي الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ، فَانْتَبِذُوا فِي كُلِّ ظَرْفٍ فَإِنَّ ظَرْفًا لَا يُحِلُّ شَيْئًا وَلَا يُحَرِّمُهُ [ص:314]، وَلَا تَشْرَبُوا الْمُسْكِرَ» قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، لَا بَأْسَ بِزِيَارَةِ الْقُبُورِ لِلدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ وَلِذِكْرِ الْآخِرَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ، اب قبروں کی زیارت کرو اور هُجْر نہ بولو – کیونکہ محمد کو قبر ماں (آمنہ ) کی زیارت کی اجازت ملی – اور میں نے قربانی کے گوشت سے منع کیا تھا کہ اس کو رکھو، تو اب اس کو رکھو … امام محمد نے کہا ہم یہ سب کہتے ہیں کہ زیارت قبور میں کوئی برائی نہیں ہے میت پر دعا کے لئے اور آخرت کے ذکر کے لئے اور یہی امام ابو حنیفہ کا قول ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ماں کی قبر پر جانا سلف امت امام محمد ، امام ابو حنیفہ ، کے لئے دلیل بنا کہ قبروں کی زیارت پر جا سکتے ہیں
اصحاب رسول رضي الله عنہم ميں کوئي بھي سماع النبي عند القبر کا قائل نہيں تھا – سب جانتے تھے کہ وفات النبي ہو چکي ہے – ابن عمر رضي اللہ عنہ واقعہ حرہ کے وقت مدينہ ميں تھے ليکن مدينہ ميں حالات کي خرابي کي وجہ سے مکہ منتقل ہو گئے – وہاں ابن زبير خليفہ ہوئے اور ايک دور ميں ابن زبير کي حکومت حجاز ميں مکمل تھي – اس کے بعد ابن عمر رضي اللہ عنہ مدينہ بھي ذاتي کاموں کے مقصد سے جاتے تھے اور جب سفر کر کے وہاں پہنچتے تو قبر النبي صلي اللہ عليہ وسلم پر جا کر درود کہتے تھے
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني ميں ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد الله بن دينار المتوفي 127 ھ نے کہا کہ ابن عمر جب سفر کا ارادہ کرتے اور سفر سے اتے تو قبر نبي صلي الله عليہ وسلم تک جاتے اور وہاں درود پڑھتے اور دعا کرتے پھر جاتے
امام محمد نے کہا : يہ اس طرح ہونا چاہيے کہ جب وہ مدينہ (سفر کر کے ) جاتے ہوں تب قبر نبي صلي الله عليہ وسلم پر آتے ہوں
امام محمد نے ايسا کہا کيونکہ ابن عمر رضي الله عنہ مدينہ سے مکہ منتقل ہو گئے تھے – موطا کي اور اسناد عن: معن والقعنبي، وابن بكير، وأبي مصعب. وقال
ابن وهب ميں ہے ثم يدعو لأبي بكر وعمر
پھر ابن عمر رضي الله عنہ ، ابو بکر اور عمر کے لئے دعا کرتے
امام مالک اور ان کے شاگرد امام محمد جو امام ابو حنيفہ کے شاگرد بھي تھے – قبر النبي ، مسجد النبي کا حصہ نہيں بلکہ حجرہ عائشہ کا حصہ ہے متعدد تابعين نے اس حجرہ کا قصد کيا اور ام المومنين عائشہ رضي اللہ عنہا سے اکتساب علم کيا ہے لہذا حجرہ عائشہ تک جانا بدعت و کفر قرار نہيں ديا جا سکتا – اگر کوئي قبر النبي تک بلا کسي نيکي کے تصور سے جائے تو اس ميں کوئي قباحت نہيں ہے – جس طرح انسان کسي بھي قبر پر جا کر دعا سلامتي کرتا ہے اسي طرح قبر النبي پر جا کر درود پڑھے گا کيونکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے امت کو دعا اسي انداز ميں سکھائي گئي ہے – واضح رہے کہ اس دعائے درود کو پڑھنا ، يہ ثابت نہيں کرتا کہ اس کو کہنے والا سماع کا عقيدہ رکھتا ہے – يہ ثابت ہے کہ ابن عمر رضي اللہ عنہ نے اس درود کو پڑھا ہے اور وہ يقينا سماع الموتي کا عقيدہ نہيں رکھتے تھے
موطا کے بعض نسخوں ميں ہے
وحدثني عن مالك، عن عبد الله بن دينار، قال: رأيت عبد الله بن عمر «يقف على قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فيصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، وعلى أبي بكر وعمر
عبد اللہ بن دينار نے کہا ميں نے ابن عمر کو ديکھا وہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي قبر پر رکتے پھر نبي صلي اللہ عليہ وسلم پر درود کہتے اور ابو بکر اور عمر پر بھي درود کہتے
اس روايت پر اختلاف الفاظ ہے کہ کيا عمر و ابو بکر رضي اللہ عنہما پر بھي درود کہتے تھے يا دعا کرتے تھے
عن: معن والقعنبي، وابن بكير، وأبي مصعب. وقال ابن وهب: ثم يدعو لأبي بكر وعمر.
موطا کے راوي معن اور القعنبي اور ابن بكير اور أبي مصعب. کہتے ہيں پھر ابو بکر و عمر کے لئے دعا کرتے
وقال روح بن عبادة: ثم يسلم على أبي بكر وعمر.
اور روح بن عبادة کي سند سے ہے کہ ابو بکر و عمر پر سلام کہتے
وقال أيوب بن صالح: يقف على قبر النبي ويدعو لأبي بكر وعمر.
اور أيوب بن صالح کي سند سے ہے کہ قبر نبوي پر رکتے اور ابو بکر و عمر کے لئے دعا کرتے
ابن عمر ارادہ سفر پر ايسا کرتے تھے اور سندوں سے بھي معلوم ہے مثلا موطا سے باہر کتب ميں بھي اس کو روايت کيا گيا ہے
حماد بن زيد، عن أيوب، عن نافع “أن ابن عمر كان إذا قدم من سفر دخل المسجد ثم أتى القبر فقال: السلام عليك يا رسول الله، السلام عليك يا أبا بكر، السلام عليك يا أبتاه”.
ان الفاظ ميں اختلاف اس پر ہے کہ ابو بکر و عمر پر درود کہا جا سکتا ہے يا نہيں ؟
غير نبي کے لئے صلي اللہ کے الفاظ کہنا سنت النبي سے ثابت ہيں – حديث ابن ابي اوفي ميں ہے
اللهم صل على آل أبي أوفى
اے اللہ ال ابي اوفي پر درود بھيج
لہذا اگر وہ صلي علي ابو بکر و عمر کہتے تھے تو يہ سنت سے معلوم ہے – دوسرا مسئلہ جو امام مالک کے سامنے پيش ہوا وہ يہ تھا کہ کيا اہل مدينہ کا آجکل کا عمل درست ہے جو سفر سے انے يا سفر پر جاتے وقت تو قبر النبي پر درود نہيں کہتے بلکہ جمعہ کے دن ميں وہاں جمع ہو جاتے ہيں
الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي از شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ) ميں ہے
وقال مالك في المبسوط أيضاً، ولا بأس لمن قدم من سفر أو خرج إلى سفر أن يقف على قبر النبي صلى الله عليه وسلم فيصلي عليه ويدعو له ولأبي بكر وعمر قيل له: فإن ناساً من أهل المدينة يقدمون من سفر ولا يريدون يفعلون ذلك في اليوم مرة أو أكثر، وربما وقفوا في الجمعة أو الأيام المرة والمرتين أو أكثر عند القبر فيسلمون ويدعون ساعة، فقال: لم يبلغني هذا عن أهل الفقه ببلدنا وتركه واسع، ولن يصلح آخر هذه الأمة إلا ما أصلح أولها، ولم يبلغني عن أول هذه الأمة وصدرها أنهم كانوا يفعلون ذلك، ويكره إلا لمن جاء من سفر أو أراده
امام مالک نے المبسوط ميں فرمايا کوئي برائي نہيں کہ کوئي جو سفر سے آيا ہو يا سفر پر نکل رہا ہو ہو قبر النبي صلي اللہ عليہ وسلم پر رکے اور درود کہے اور ابو بکر و عمر پر دعا کرے – ان سے کہا گيا اہل مدينہ ميں لوگ ہيں جو سفر سے اتے ہيں اور وہ يہ کام نہيں کرنا چاہتے اور کبھي کبھار وہ جمعہ ميں قبر پر رکتے ہيں اور بعض دنوں ميں ايک يا دو بار اور ايک ساعت تک قبر پر درود کہتے ہيں – امام مالک نے کہا اس امت کي اصلاح نہ ہو گي مگر جيسي پہلوں کي ہوئي اور اس امت کے پہلے والے اس کام (قبر النبي پر رکنا اور درود کہنا ) کو صرف سفر سے انے پر يا ارادہ سفر پر کرتے تھے
يعني جو (مدينہ کا باسي) مدينہ سے سفر کي غرض سے باہر نکل رہا ہو يا اس ميں سفر کر کے داخل ہوا ہو اس کے لئے يہ گناہ کي بات نہيں کہ قبر النبي تک جائے اور درود پڑھے ليکن خاص اسي مقصد کے لئے دور دراز سے مدينہ تک کا سفر کرنا سنت اصحاب رسول نہيں تھا
اسی طرح کسی خاص قبر کی زیارت کی دلیل میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے کہ انہوں نے عبد اللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ کو ان کی قبر سے نکالا اور دوسرے مقام پر قبر دی – ظاہر ہے یہ سب کرنا ممکن نہیں جب تک اس قبر تک نہ جایا جائے
آٹھويں صدي ہجري ميں امام ابن تيميہ نے اس پر فتوي ديا تھا کہ اہل شام کا سفر کر کے خاص مدينہ قبر النبي کو ديکھنے کي غرض سے جانا بدعت ہے ليکن اس ميں دليل ابن تيميہ نے اس روايت کو بنايا کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے جبکہ يہ روايت ثابت نہيں تھي – اسي طرح ابن تيميہ نے اس روايت کو دليل بنايا کہ
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى
سواري نہ کسي جائے مگر تين مسجدوں کے لئے ايک مسجد الحرام دوسري مسجد النبي اور تيسري مسجد الاقصي
اس حديث کا متن بھي شاذ ہے کيونکہ مسجد الاقصي اصحاب رسول کو معلوم نہيں تھي کہ کہاں ہے ، کس مقام پر ہے؟ تو ظاہر ہے کوئي مسجد اقصي کے سفر کا قصد کر ہي نہيں سکتا تھا – خود نبي صلي اللہ عليہ وسلم سواري پر مسجد قبا تک جاتے تھے جو اس دور ميں مدينہ کے مضافات ميں مدينہ سے باہر کي مسجد سمجھي جاتي تھي اور وہاں امام بھي سالم رضي اللہ عنہ کو مقرر کيا گيا تھا
صحيح بخاري ميں ہے
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّ نَافِعًا، أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ قَالَ: «كَانَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَؤُمُّ المُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ، وَأَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَأَبُو سَلَمَةَ، وَزَيْدٌ، وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ
موطا ميں ہے کہ دور نبوي ميں
كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ
ايک انصاري مسجد قباء ميں امامت کرتے تھے
صحيح بخاري ميں ہے
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ كُلَّ سَبْتٍ، مَاشِيًا وَرَاكِبًا
نبي صلي اللہ عليہ وسلم ہر ہفتہ کو سواري پر يا پيدل مسجد قبا جاتے تھے
اصحاب رسول بھي ايسا کرتے مثلا صحيح بخاري ميں ہے کہ ابن عمر رضي اللہ عنہ پر ہفتے مسجد قباء جاتے تھے
فَإِنَّهُ كَانَ يَأْتِيهِ كُلَّ سَبْتٍ
اس طرح معلوم ہوا کہ سواري کسي بھي مسجد کے لئے کسي جا سکتي ہے اور لا تشد الرحال والي روايت شاذہ پر خود نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا اور ان کے اصحاب کا عمل نہيں ہے
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اپني ماں کي قبر تک گئے اور امام نسائي اس پر زيارت قبر مشرک کا باب قائم کيا ہے -کسي بھي قبرستان ميں مسلمان موت کو ياد کرنے داخل ہو سکتے ہيں – اب بحث اس ميں ہے کہ کيا کوئي مومن اپنے ماں باپ کي قبر پر جا سکتا ہے تو شرع ميں اس پر کوئي قباحت نہيں ہے کہ اس کو کفر و شرک قرار ديا جائے
مزارات وہ عمارتین ہیں جو صوفیاء کے اولیاء سے منسوب ہیں – وہاں ان اولیاء کے حوالے سے غلو پر مبنی کلام ہوتا ہے جس کو قوالی کہتے ہیں – پرستش کے مماثل کلمات ادا کیے جاتے ہیں – شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں – شرع میں قبر دیکھنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن مزارات کا ماحول ایمان کشا ہے – شرع میں خود اپنے آپ کو فتنہ میں ڈالنا منع ہے