قصہ مختصر
عذاب قبر کی بحث میں لوگ جنہوں نے صحیح طرح صحیح بخاری و مسلم نہیں پڑھی وہ بار بار ایک قول کو حدیث کی طرح پیش کرتے ہیں کہ میت کو رونے پر عذاب ہوتا ہے – راقم نے غور کیا تو پایا کہ یہ قول نبوی ہرگز نہیں بلکہ قول ابن عمر تھا جو ان کو مغالطہ سے ایجاد ہوا – اس قول کو علم حدیث کی متعدد کتب میں سامع کی غلطی کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے بسا اوقات ایک شخص کسی اور سے کچھ سنتا ہے لیکن اصل مدعا نہیں جان پاتا تو متن حدیث نبوی میں علت قادحہ آ جاتی ہے جس کی تحقیق ضروری ہوتی ہے
روایات میں آیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث غلط بیان کی کہ کہا میرے والد ابو عبد الرحمان عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے میں نے سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ
میت کو عذاب ہوتا ہے جب اس کے گھر والے اس پر روتے ہیں
یہ قول عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا
إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِّي عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ، وَلاَ مُكَذَّبَيْنِ، وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ صحیح مسلم
یہ حدیث ان سے روایت کی گئی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے تھے لیکن سننے میں غلطی ہو جاتی ہے
صحیح بخاری میں ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا
قَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، لاَ وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بِهَذَا
اللہ عمر پر رحم کرے ، اللہ کی قسم ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل نہیں فرمایا
علم حدیث میں یہ مثال بن گئی کہ یہ متن درست نہیں کہ میت کو عذاب ہوتا ہے اور کو متعدد کتب میں بیان کیا گیا مثلا
اليواقيت والدرر في شرح نخبة ابن حجر از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ) میں ہے
وَقع هَذَا عَن الثِّقَات لَا عَن تعمد بل لنسيان كَمَا رُوِيَ أَن ابْن عمر روى أَن الْمَيِّت يعذب ببكاء أَهله فَبلغ ابْن عَبَّاس فَقَالَ: ذهل أَبُو عبد الرَّحْمَن
ثقات سے غلطی ہوتی ہے جان بوجھ کر نہیں بلکہ بھول جانے کی وجہ سے جیسا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ میت کو عذاب ہوتا ہے پس یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو فرمایا ابو عبد الرحمان (صحیح متن ) بھول گئے
علوم الحديث ومصطلحه – عرضٌ ودراسة از د. صبحي إبراهيم الصالح (المتوفى: 1407هـ) کے مطابق
ويروي عبد الله بن عمر عن النبي – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ
فتقضي عليه عاثشة أم المؤمنين بأنه لم يأخذ الحديث على وجهه، ولم يضبط لفظه،
اور عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا میت کو اس کے اہل کے رونے سے عذاب ہوتا ہے پس ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فیصلہ دیا کہ ابن عمر نے یہ حدیث اس کے اصل پر نہیں لی اور (اصلی) الفاظ کو یاد نہ رکھا
قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث از محمد جمال الدين الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ) میں ہے
ومنها: اختلاف الضبط مثاله ما روى ابن عمر1 أو عمر عنه -صلى الله عليه وسلم- من أن الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقضت عائشة عليه بأنه لم يأخذ الحديث على وجهه
اور حدیث کے الفاظ کو یاد رکھنے میں اختلاف کی مثالوں میں سے ہے وہ جو عمر یا ابن عمر نے رسول اللہ سے روایت کیا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے پس عائشہ رضی اللہ عنہا نے فیصلہ دیا کہ انہوں نے حدیث کو صحیح رخ سے نہیں لیا
تحرير علوم الحديث از عبد الله بن يوسف الجدیع میں ہے
وعن عروة بن الزبير، قال: ذكر عند عائشة أن ابن عمر يرفع إلى النبي صلى الله عليه وسلم: ” إن الميت يعذب في قبره ببكاء أهله عليه “، فقالت: وَهل
ابن زبیر سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے ابن عمر کی ایک حدیث بیان کی گئی جس کو رفع کر کے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر رہے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے پس عائشہ نے فرمایا بھول گئے
ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے ساتھ کوئی قول نہیں فرمایا کہ میت کو عذاب ہوتا ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جب آپ ایک جنازہ پر سے گزرے کہ مرنے والے یہودی کو عذاب ہوتا ہے – اور ہم کو معلوم ہے کہ عذاب کفار کو وہیں ہے جہاں ال فرعون کو عذاب ہوتا ہے جہنم کی اگ کے پاس جیسا کہ قرآن میں وارد ہے