رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر ایک ذمہ داری ڈالی تھی کہ ان کے اہل بیت کا خیال رکھا جائے
اہل بیت سے مراد گھر و خاندان والے و ازواج رسول ہیں- ان سب پر صدقه کھانا حرام ہے – ظاہر ہے صدقه حرام ہے کہ تو ان کی معاش کا ذریعہ بعد رسول کیا ہو گا ایک اہم سوال ہے –
جنگ بدر میں مسلمانوں کو کفار پر فتح نصیب ہوئی اس کے نتیجے میں جو مال غنیمت ملا اس کی تقسیم پر الله نے حکم دیا سوره انفال
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
[41]
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ اپنے بندے (محمد ) پر نازل فرمائی۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
سارا مال پانچ برابر حصوں میں تقسیم ہو گا اور اس کے پانچوں حصوں کی تقسیم اس طرح ہو گی
پہلا حصہ الله اور اس کے رسول کا
دوسرا حصہ الله کے رسول کے رشتہ دار
تیسرا حصہ یتیم کا
چوتھا حصہ مسکین کا
پانچواں حصہ مسافر
بنو نضیر ایک یہودی آبادی تھی جو مدینہ میں تھی یہ لوگ کھیتی باڑی، تجارت اور لیں دیں کا کاروبار کرتے تھے اور ان کے مشرکین مکہ سے بھی اچھے تعلقات تھے لیکن بد قسمتی سے ان کا میلان نبی صلی الله علیہ وسلم کی مسلسل مخالفت اور سازش کرنا تھا یہاں تک کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کی بھی کوشش کی جس کی خبر الله نے اپنے نبی کو دی اور ان کو مدینہ سے نکال دیا گیا اور مال و متاع لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی بس جان بخشی ہوئی – یہی یہودی مدینہ کے مغرب میں جا کر ایک دوسری یہودی بستی میں بس گئے وہاں بھی سازشی ماحول کی وجہ سے سن ٧ ہجری میں ان پر حملہ (خیبر) کیا گیا اور سوره الحشر میں اس پر تبصرہ کیا گیا اس میں بہت سے باغات ملے جن کو مال فیے کہا جاتا ہے یہ الله کی طرف سے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص تحفہ تھے
سوره الحشر میں ہے
وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
[6]
اور جو (مال) الله نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن الله اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور الله ہر چیز پر قادر ہے
مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
[7]
جو مال الله نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ الله کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔ سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور الله سے ڈرتے رہو۔ بےشک الله سخت عذاب دینے والا ہے
انہی باغوں میں فدک کے باغ تھے جو الله نے نبی صلی الله علیہ وسلم قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کو دیے
بخاری کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
لاَ يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي، فَهُوَ صَدَقَةٌ
میری وراثت کا دینار تقسیم نہیں ہو گا میں جو چھوڑوں اس میں ازواج کے نفقہ اور عامل کی تنخواہ کے علاوہ سب صدقه ہے
اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ فاطمہ اور عبّاس دونوں ابوبکر صدیق کے پاس آئے آپ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے آپ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکر نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہی
عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ
فقال لها أبو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا نورث، ما تركنا صدقة»، فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهجرت أبا بكر، فلم تزل مهاجرته حتى توفيت، وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر
رسول اللہ کی بیٹی فاطمہ رضی الله عنہا نے ابوبکر رضی الله عنہ سے رسول کی وفات کے بعد میراث طلب کی جس پر ابو بکر رضی الله عنہ نے کہا وہ صدقه ہے اس پر فاطمۂ ناراض ہوئیں اور انہوں نے اپنی وفات تک خلیفئہ اول کو چھوڑا ( ترک کلام رکھا) یہ رسول الله کی وفات کے بعد چھہ ماہ تک زندہ رہی
یہی مطالبہ امہات المومنین نے بھی ابو بکر سے کرنا چاہا
عن عائشه أن أزواج النبی صلی اللہ علیه وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنه مبراثھن فقالت عائشة ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا نورث ماترکنا صدقة»( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقة)
عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو آپ کی بیویوں نے یہ ارادہ کیاکہ عثمان کو ابوبکر کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس پر میں ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول الله نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘
در حقیقیت نبی صلی الله علیہ وسلم نے کچھ دینار و درہم چھوڑا بھی نہیں تھا بخاری کی حدیث ہے
عمرو بن الحارث کہتے ہیں کہ
ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم عند موته درهما ولا دينارا
رسول الله نے اپنی موت پر نہ کوئی دینار چھوڑا نہ درہم
فدک و خیبر کے باغات صرف اہل بیت کے لئے نہیں تھے ان میں غیر اہل بیت یتیم ، حاجت مند اور مسافروں کا بھی حق تھا لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کو اہل بیت کو نہیں دیا گیا اور ابو بکر رضی الله عنہ نے ان کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا عمر رضی الله عنہ نے باغ فدک کا انتظام علی اور عباس رضی الله عنہ کے باتھ میں اس شرط پر دیا کہ یہ اس کو انہی مدوں میں خرچ کریں گے جن میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے کیا
کتاب فتوح البلدان از البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ) کے مطابق
حدثنا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثُ صَفَايَا، مَالُ بَنِي النَّضِيرِ وَخَيْبَرَ، وَفَدَكَ، فَأَمَّا أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ فَكَانَتَ حَبْسًا لِنَوَائِبِهِ، وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ لأَبْنَاءِ السَّبِيلِ، وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا ثَلاثَةَ أَجْزَاءٍ، فَقَسَّمَ جُزْأَيْنِ منها بين المسلمين وحبسر جُزْءًا لِنَفْسِهِ وَنَفَقَةِ أَهْلِهِ، فَمَا فَضَلَ مِنْ نَفَقَتِهِمْ رَدَّهُ إِلَى فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ
عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے مال غنیمت سے آمدنی کے تین ذرائع تھے مال بنو النَّضِيرِ اور مال خیبر اور مال فدک -پس مال بنو النَّضِيرِ کو کیا نوائب کے لئے اور فدک کو مسافر کے لئے اور خیبر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جن میں سے دو حصے (غریب) مسلمانوں کے لئے کیے اور ایک حصہ اپنے اور اہل کے نفقے کے لئے کیا اور جو زیادہ ہوتا تو اس کو (بھی) فقراء مہاجرین کو دیتے
اسی کتاب کی دوسری روایت ہے
حَدَّثَنَا الْحُسَيْن بن الأسود، قال حدثنا يحيى بن آدم، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَان عَنِ الزهري قَالَ. كانت أموال بني النضير مما أفاء اللَّه عَلَى رسوله ولم يوجف المسلمون عَلَيْهِ بخيل ولا ركاب فكانت لرسول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خالصة فقسمها بَيْنَ المهاجرين ولم يعط أحدا منَ الأنصار منها شيئا إلا رجلين كانا فقيرين، سماك بْن خرشة أَبَا دجانة، وسهل بْن حنيف
الزہری کہتے ہیں کہ بنو النضير کے اموال رسول الله کے لئے خاص تھے …..پس اپ نے (اپنی خوشی سے) ان
کو مہاجرین میں تقسیم کیا اور انصار میں سے کسی کو کچھ نہ دیا سوائے دو افراد کے جو
فقیر تھے ایک سماك بْن خرشة أَبَا دجانة اوردوسرے سهل بْن حنيف تھے
درحقیقت عباس اور علی رضی الله عنہما نے ایک زبردست ذمہ داری کو اٹھا لیا کہ وہ مال فدک میں نہ صرف اہل بیت حصہ نکالیں گے بلکہ الله اور اس کے رسول کا ، مسافروں، یتیموں ،مسکینوں کا بھی حصہ نکالیں گے اگر یہ کام خلیفہ کو دیا جاتا تو اس میں انتظام کا مسئلہ نہیں ہوتا
اہل بیت پر صدقه کی حرمت
اہل بیت پر ان خصوصی انعام و اکرام کے ساتھ یہ پابندی بھی لگائی جا چکی تھی کہ ان پر صدقه حرام کر دیا گیا تھا جس پر شیعہ و سنی دونوں متفق ہیں-
مسند احمد کی بريدة رضی الله عنہ کی حدیث ہے
حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا زيد بن الحباب حدثني حسين حدثني عبد الله بن بريدة قال سمعت بريدة يقول : جاء سلمان إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم حين قدم المدينة بمائدة عليها رطب فوضعها بين يدي رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم ما هذا يا سلمان قال صدقة عليك وعلى أصحابك قال أرفعها فانا لا نأكل الصدقة
سلمان رضی الله عنہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کو تازہ کھجور پیش کی پس رسول الله نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ سلمان رضی الله عنہ نے کہا یہ صدقه ہے آپ اور آپ کے لوگوں کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کو اٹھا لو ہم صدقه نہیں کھاتے
ایک دفعہ حسن رضی الله عنہ نے بچپن میں صدقه کی کھجور اپنے منہ میں ڈالی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ان کے منہ سے نکالا
صدقه کی یہ پابندی اس قدر تھی کہ گھر والیوں اور غلاموں اور عام رشتہ داروں سب پر لاگو ہوتی تھی
مسند احمد کی روآیت ہے
حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا وكيع ثنا سفيان عن عطاء بن السائب قال أتيت أم كلثوم ابنة علي بشيء من الصدقة فردتها وقالت حدثني مولى للنبي صلى الله عليه و سلم يقال له مهران أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إن آل محمد لا تحل لنا الصدقة ومولى القوم منهم
عطاء بن السائب کہتے ہیں میں أم كلثوم بن علی کے پاس گیا صدقه لے کر انہوں نے اس کو لوٹا دیا اور کہا مجھ کو رسول الله کے آزاد کردہ غلام مهران نے کہا کہ ال محمّد صدقه نہیں کھاتے اور ان کے غلام بھی
مسلم کی حدیث ہے
حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا يحيى بن آدم ثنا بن المبارك عن يونس عن الزهري عن عبد الله بن الحرث بن نوفل عن عبد المطلب بن ربيعة بن الحرث انه هو والفضل أتيا رسول الله صلى الله عليه و سلم ليزوجهما ويستعملهما على الصدقة فيصيبان من ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن هذه الصدقة إنما هي أوساخ الناس وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد
نبی صلی الله علیہ وسلم نے عبد المطلب بن ربيعة بن الحرث اور الفضل بن عباس کو صدقه کے معاملات دینے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ لوگوں کا میل ہے اور محمّد اور ال محمد پر حرام ہے
ال محمد سے مراد نبی صلی الله علیہ وسلم کی ازواج ، چار بیٹیاں یعنی زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہما ہیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے خاندان والے
مسلم میں ہے
يزيد بن حيان التيمي کہتے ہیں میں اور حصين بن سبرة اور عمر بن مسلم ، زيد بن أرقم رضی الله عنہ کے پاس گئے
فقال له حصين ( بن سبرة) ومن أهل بيته يا زيد (بن أرقم) أليس نساؤه من أهل بيته قال ان نساءه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده قال ومن هم قال هم آل على وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال أكل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم
حصين ( بن سبرة) نے زيد (بن أرقم) سے پوچھا کہ اے زید کیا نبی کی ازواج ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا بے شک وہ اہل بیت میں سے ہیں لیکن اہل بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقه حرام ہے ان کے بعد پوچھا وہ کون ؟ کہا وہ ال علی ال عقیل ال جعفر ال عباس ہیں کہا ان سب پر صدقه حرام ہے ؟ کہا ہاں
اس میں امہات المومنین کو بھی اہل بیت کہا گیا ہے
مسلم میں اسی روایت کی دوسری سند میں الفاظ ہیں جن میں امہات المومنین کو خارج کیا گیا ہے جو زید بن ارقم کی روایت میں الفاظ کا اضطراب ہے کیونکہ مسلم کی دوسری روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں اس مخصوص روایت کے الفاظ ہیں
مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا، وَايْمُ اللهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَه
اہل بیت کون ہیں ؟ ازواج؟ زید نے کہا الله کی قسم ایک عورت آدمی کے ساتھ ہوتی ہے ایک عرصۂ تک پھر وہ اس کو طلاق دیتا ہے اور وہ اپنے باپ اور قوم میں لوٹ جاتی ہے اور اہل بیت تو اصل والے اور جڑ والے ہیں جن پر صدقه حرام ہے
اس کی سند میں حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى المتوفی ١٨٩ یا ١٨٦ ھ ہیں جن کو النسائى : ليس بالقوى کہتے ہیں ، ابن حجر ، صدوق يخطىء صدوق غلطیاں کرتے تھے کہتے ہیں ابن عدی کہتے ہیں من أهل الصدق إلا أنه يغلط في الشئ ولا يتعمد یہ اہل صدق میں سے ہیں لیکن غلطیاں کرتے ہیں اور قابل اعتماد نہیں ہیں
اس کی واضح مخالف حدیث بخاری میں موجود ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک لونڈی بریرہ نے گوشت دیا (یہ اس وقت ام المومنین کی لونڈی نہ تھیں ) – جو ان کے پاس کہیں سے صدقہ کا گوشت آیا جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بھیج دیا تو اس گوشت کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اچھا یہ وہی ہے جو بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے۔ یہ ان کے لیے تو صدقہ ہے لیکن ہمارے لئے ہدیہ ہے ۔
ابن عبّاس رضی الله عنہ کی بخاری کی روایت ہے
وجد النبي صلى الله عليه وسلم شاة ميتة، أعطيتها مولاة لميمونة من الصدقة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «هلا انتفعتم بجلدها؟» قالوا: إنها ميتة: قال: «إنما حرم أكلها
نبی صلی الله علیہ وسلم کو ایک بکری ملی نظر آئی جو مری پڑی تھی اور میمونہ رضی الله عنہا کی لونڈی کو کسی نے صدقه میں دی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کا گزر اس بکری کے پاس ہواتو آپ نے فرمایا: ” ان لوگوں نے اس کی کھال کیوں نہیں اتار لی کہ اسے دباغت دے کر کام میں لے آتے ” ؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو مردار ہے، آپ نے فرمایا: ” صرف اس کا کھانا حرام ہے
الغرض صدقه کی پابندی میں امہات المومنین، نبی صلی الله علیہ وسلم کی بیٹیاں ، نبی صلی الله علیہ وسلم کے خاندان بنو عبد المطلب کے مسلم افراد اور ان کے لونڈی غلام (الا یہ کہ ان کو آزاد کر دیا جائے) سب شامل تھے
حدیث کساء کی حیثیت
صحیح مسلم میں عائشہ رضی الله عنہا سے مروی حدیث ہے
خرج النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ غداةً وعليه مِرْطٌ مُرحَّلٌ ، من شعرٍ أسودٍ . فجاء الحسنُ بنُ عليٍّ فأدخلَه . ثم جاء الحسينُ فدخل معه . ثم جاءت فاطمةُ فأدخلها . ثم جاء عليٌّ فأدخلَه . ثم قال ” إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ” [ 33 / الأحزاب / 33 ] .
عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر علی رضی الله عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : بے شک اللہ چاہتا ھے کہ وہ تم اہل بیت سے رجس کو دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔
امام مسلم اس کی سند دیتے ہیں
وحَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، ح وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ،
اس کی سند میں مصعب بن شيبة بن جبير بن شيبة کا تفرد ہے – امام احمد اس روایت کو پسند نہیں کرتے
قال أحمد بن محمد بن هانىء: ذكرت لأبي عبد الله الوضوء من الحجامة، فقال: ذاك حديث منكر، رواه مصعب بن شيبة، أحاديثه مناكير، منها هذا الحديث، وعشيرة من الفطرة، وخرج رسول الله – صلى الله عليه وسلم – وعليه مرط مرجل. «ضعفاء العقيلي» (1775)
احمد بن محمد بن ہانی کہتے ہیں میں نے ابی عبد الله سے حدیث ذکر کی کہ حجامہ میں وضو پس کہا یہ حدیث منکر ہے اس کو مُصْعَبِ بْنِ شيبة روایت کرتا ہے اس کی حدیثیں منکر ہیں جن میں یہ حدیث ہے اور … اور نبی صلی الله علیہ وسلم ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے والی
- وقال أبو بكر الأثرم: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل يقول: مصعب بن شيبة روى أحاديث مناكير. «الجرح والتعديل» 8/ (1409) .
کتاب ضعفاء العقيلي میں امام احمد اس کی خاص اس ایک اونی منقش چادر والی روایت کو رد کرتے ہیں
ترمذی میں بھی یہ موجود ہے جہاں اس کی سند ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا» قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ”اہلِ بیت! اللہ چاہتا ھے کہ وہ تم سے رجس دُور کر دے اور تمہیں طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔” نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ اور حسنین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔”
امام ترمذی اس کو حسن بھی نہیں کہتے بلکہ لکھتے ہیں وهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ یہ حدیث انوکھی ہے اس طرق سے
دونوں احادیث میں ایک ہی واقعہ ہے- ایک دفعہ اس میں عائشہ رضی الله عنہا کو دکھایا گیا اور دوسری دفعہ ام سلمہ رضی الله عنہا کو – ظاہر ہے یہ ایک دفعہ ہی ہوا ہو گیا اگر ہوا بھی – مسلم کی حدیث امام احمد کے نزدیک ضعیف ہے
اہل سنت کے جن علماء نے اس کو لکھا ہے ان کے نزدیک یہ حدیث امہات المومنین کو اہل بیت میں سے خارج نہیں کرتی لہذا یہ متنا صحیح ہے کیونکہ اس میں ہے کہ تم خیر میں ہو
امہات المومنین
وفات |
نکاح |
امہات المومنین رضی الله عنہما |
١٠بعد بعثت |
١٥ قبل نبوت |
خدیجہ بنت خویلد |
٢٢ ھ |
١٠ بعد بعثت شوال |
سودہ بنت زمعہ |
٥٣ یا ٥٧ ھ |
٢ ھ شوال |
عائشہ بنت ابی بکر |
٤٥ھ |
٣ھ شعبان |
حفصہ بنت عمر |
٤ھ |
٤ ھ |
زینب بنت خزیمہ |
٥٩ھ |
٤ھ شوال |
ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ |
٢٠ھ |
٥ ھ ذیقعدہ |
زینب بنت جحش |
٥٠ھ |
٦ ھ شعبان |
جویریہ بنت حارث |
٤٤ھ |
٦ھ |
ام حبیبہ رملہ بنت ابو سفیان |
٥٠ھ |
٧ھ محرم |
صفیہ بنت حی بن اخطب |
٥١ھ |
٧ھ ذیقعدہ |
میمونہ بنت حارث |
یہ سب امت کی مائیں ہیں اور اہل بیت میں سے ہیں سوره الاحزاب کی آیات تطہیر بھی انہی سے متعلق ہیں انہی کو ہدایات دی جا رہی ہیں کہ آگے مستقبل میں کیا کیا کرنا ہے جس کے بعد وہ منافقین کے کسی بھی رجس سے پاک رہیں گی یا با الفاظ دیگر منافقین ان کے حوالے سے کچھ بھی پروپیگنڈا کرنے میں ناکام رہیں گے
اس آیت کے نزول کے وقت میمونہ بنت حارث ، زینب بنت جحش ، جویریہ بنت حارث،صفیہ بنت حی بن اخطب، ام حبیبہ رملہ بنت ابو سفیان رضی الله عنہما آپ صلی الله علیہ وسلم کے نکاح میں نہیں تھیں لیکن اس میں الله کا ارادہ کا ذکر ہے جو ظاہر ہے سب بعد میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے نکاح میں انے والیوں کے لئے ہے
اہل بیت کے الفاظ نبی صلی الله علیہ وسلم کے خاندان کے لئے اس لئے بعض حلقوں میں مخصوص ہوئے کیونکہ
امہات المومنین کے انتقال کے بعد وہی اہل بیت میں سے باقی رہ گئے تھے اور انہوں نے اپنی تقریروں میں بنو امیہ سے بلند دکھانے کے لئے ان الفاظ کو استمعال کیا لیکن انہوں نے کہیں بھی دعوی نہیں کیا کہ امہات المومنین اہل بیت نہیں تھیں
شیعہ نقطۂ نظر
شیعہ پہلے آیات کو ان کے محل سے ہٹا کر ان کے مفہوم سے امہات المومنین کو نکالتے ہیں پھر آیت تطہیر کو پانچ لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں اس کے بعد اہل بیت میں معصوم لوگوں کا عقیدہ نکالتے ہیں اور اس کے بعد امامت کا عقیدہ
شیعہ مذھب میں حدیث کساء نہایت مقبول ہے لیکن انہوں نے بھی اس کے نقص پر غور نہیں کیا -شیعہ مذھب کے مطابق اہل بیت معصومین تو پیدا ہی الگ طرح ہوتے ہیں ان کی تخلیق ہی کائنات کے رازوں میں سے ہے لہذا ان سب افراد کی پیدائش کے اتنے عرصہ بعد ان کو رجس سے پاک کرنا کیا مطلب ہوا؟ اگر یہ صرف دکھانے کے لئے تھا تو بھی تک نہیں بنتی اس کا مطلب ہے مخصوص اہل بیت کے معصوم ہونے کا عقیدہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے امت پر پیش تک نہیں کیا تھا – شیعوں نے افراط میں امہات المومنین کو اہل بیت سے نکال دیا لیکن اس کاوش میں خدیجہ رضی الله عنہا کو بھی اہل بیت سے نکال دیا گیا
آیات کو ان کے محل سے ہٹا کر دیکھنا ، کیا صحیح طرز عمل ہے؟ – آیت تطہیر پر عمل
حسین کی ولادت کے بعد ہوا ، کیا اس سے پہلے یہ پانچ معصومین تھے یا نہیں ؟
انبیاء کی وراثت پر ان کے دلائل درج ذیل ہیں
شیعہ کتب کے مطابق داود علیہ السلام نے سلیمان علیہ السلام کو اپنا وارث بنایا اگر داود نے کوئی میراث نہیں چھوری تھی تو سلیمان کو وارث بنانے کا مقصد کیا تھا -حالانکہ قرآن میں یہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ انبیاء کسی کو وارث بولتے ہوں قرآن میں ہے
وورث سليمان داود
اور سلیمان، داود کا وارث ہوا
قرآن نے صرف ایک وقوعہ بتایا ہے- کیا نبوت اور جائداد میں کوئی فرق نہیں ؟کیا موسی علیہ السلام کسی جائداد کے مالک تھے جب بنی اسرائیل صحرا میں تھے؟ ان کے بیٹے تو ان کے وارث نہیں تھے بلکہ یوشع بن نوں خلیفہ ہوئے؟
قرآن میں زکریا علیہ السلام کی دعا ہے کہ ایک بیٹا دے جو
يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيّا
میرا اور ال یعقوب کا وارث ہو
زکریا علیہ السلام اس وقت کس سلطنت کے حاکم تھے؟ اس میں ان کے پاس کیا جائداد تھی جس کے ضائع ہونے کا ان کو خطرہ تھا کچھ بیان نہیں ہوا بلکہ رومیوں کے دور میں تو ان پر ایک ظالم بادشاہ حاکم تھا- ال یعقوب کہہ کر زکریا علیہ السلام نے اس وراثت کو بنوت و رسالت کی طرف موڑ دیا
الکافی کی روایت ہے الكافي – از الكليني – ج 1 – ص ٣٤ باب ثواب العالم والمتعلم
محمد بن الحسن وعلي بن محمد ، عن سهل بن زياد ، ومحمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد جميعا ، عن جعفر بن محمد الأشعري ، عن عبد الله بن ميمون القداح ، وعلي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن حماد بن عيسى ، عن القداح ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله : من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة
وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر ، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر ، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا
دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر
جعفر صادق نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا …. بے شک علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی باتیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا
الكافي از الكليني – ج 5 – ص ١٣ / ١٥ کی روایت ہے کہ
علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن بكر بن صالح ، عن القاسم بن بريد ، عن أبي عمرو الزبيري ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال
ثم أخبر عن هذه الأمة وممن هي وأنها من ذرية إبراهيم ومن ذرية إسماعيل من سكان الحرم ممن لم يعبدوا غير الله
قط الذين وجبت لهم الدعوة ، دعوة إبراهيم وإسماعيل من أهل المسجد الذين أخبر عنهم في كتابه أنه أذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا الذين وصفناهم قبل هذا في صفة أمة إبراهيم
امام جعفر کہتے ہیں پھر الله نے خبر دی اس امت کے بارے میں اور یہ ابراہیم کی نسل میں سے ہے اور اسمٰعیل کی نسل میں سے جو حرم میں اقامت پذیر ہوئے ان میں سے جو غیر الله کی عبادت نہیں کرتے ہوں ان پر دعوت واجب ہوئی ابراہیم اور اسمعیل کی دعوت مسجد والوں کے لئے جن کے لئے کتاب میں خبر دی گئی کہ ان سے رجس (شرک) کو دور کیا گیا اور ان کو پاک کیا گیا اور اس صفت سے ان سے پہلے امت ابراہیم کو بھی متصف کیا گیا