ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے جوابات
جواب : آپ کا پہلا نکاح جو خدیجہ رضی الله عنھا کے ساتھ ہوا اس کے بارے میں تاریخ میں آتا ہے کہ اس زمانے کے رواج کے مطابق ابو طالب نے وہ نکاح پڑھایا تھا.لیکن احادیث میں یہ معاملہ واضح نہیں ہے.
باقی اس کے بعد الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کے جو نکاح ہوۓ اس میں نہ کسی نے نکاح پڑھاۓ ہیں اور نہ ایجاب و قبول کرایا.یہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت کا معاملہ ہے.خیبر کی فتح کے بعد جب صفیہ رضی الله عنھا قید ہو کر آئیں ہیں تو صحابہ کرام رضی الله عنہ نے کہا اب دیکھنا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم انکو ملک یمین،لونڈی بناتے ہیں یا بیوی.اگر آپ پردہ کراتے ہیں تو سمجھ لیجئے کے یہ آپ کی بیوی ہیں اور اگر پردہ نہیں کراتے تو یہ لونڈی ہیں . اورآخر جب آپ نے انکو پردہ کرایا تو تب صحابہ کرام رضی الله عنہ جان گئے کہ صفیہ رضی الله عنھا کو آپ نے لونڈی نہیں بنایا بلکہ وہ آپ کی بیوی ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کا نہ پڑھایا جانا اور ایجاب و قبول کا نہ کرانا نبی علیہ السلام کی خصوصیت تھی .عائشہ اور سودہ رضی الله عنھما کے ساتھ آپکے نکاح جو مکے میں ہوۓ اور اسکے بعد جو آپ کے نکاح ہوۓ ہیں اس میں بھی اسکا کوئی ذکر نہیں ہے
Questions answered by Abu Shahiryar
متعہ نکاح کی ایک قسم تھا جو عربوں میں رائج تھا اس کی اسلام میں اجازت صرف غزوات وغیرہ میں حالتِ سفر میں دی گئی اور اسی میں ان پر پابندی بھی لگائی گئی
سنن سعید بن منصور کی روایت ہے
سنن سعید بن المنصور کی روایت ہے سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ کہتے ہیں
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ عَامَ الْفَتْحِ
بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فتح مکہ کے سال منع فرمایا
فتح مكه رمضان ٨ هجري میں ہوئی خیبر ٧ ہجری میں ہوئی
عبدللہ ابن عبّاس کی ولادت ہجرت سے تین سال پہلے ہوئی اور سن ٨ ہجری میں آپ عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ مدینہ پھنچے یعنی آپ ١١ سال کے تھے چونکہ اپ بہت چھوٹے تھے لہذا بالغوں کے مسائل سے اگاہ نہیں تھے اور نکاح المتعہ جو عربوں میں رائج تھا اس کی ممانعت آپ تک نہیں پہنچی اور آپ اس کے قائل رہے
ان کے برعکس دیگر اصحاب اور اہل بیت اس کی ممانعت سے اگاہ تھے لہذا علی رضی الله عنہ نے اس سے ان کو اگاہ کیا
صحیح مسلم اور سنن سعید بن المنصور کے مطابق
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، سَمِعَ عَبْدَ الله، وَالْحَسَنَ، ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ يُحَدِّثَانِ عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ الله عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى زَمَنَ خَيْبَرَ عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ
علی رضی الله عنہ نے ابن عباس رضی الله عنہ سے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خیبر کے دنوں میں اس سے منع کیا اور پالتو گدھے کے گوشت سے بھی
لیکن شاید وہ پھر بھی قائل نہیں ہو سکے کیونکہ بعض روایات میں اس کی ممانعت فتح مکہ کے سال کہی گئی ہے یہاں تک کہ اس حوالے سے ان کا ابن زبیر رضی الله عنہ سے اختلاف بھی ہوا
عامہ اصحاب اور تابعین اس کے قائل نہیں تھے سنن سعید بن المنصور کے مطابق حسن بصری کہتے تھے
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا هُشَيْمٌ، قَالَ: أنا مَنْصُورٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «إِنَّمَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ مِنَ النِّسَاءِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَلَمْ يَكُنْ قَبْلَ ذَلِكَ وَلَا بَعْدَهُ
حسن بصری کہتے ہیں متعہ صرف تین دن تھا نہ اس سے پہلے نہ بعد میں
اس تناظر میں ظاہر ہے ابن عباس کسی کا متعہ کرنا سنتے تو اس کو غلط نہیں گردنتے اب مصنف عبد الرزاق کی روایت دیکھینے
عبد الرزاق عن ابن جريج عن عطاء قال : لاول من سمعت منه المتعة صفوان بن يعلى ، قال : أخبرني عن يعلى أن معاوية استمتع بامرأة بالطائف ، فأنكرت ذلك عليه ، فدخلنا على ابن عباس ، فذكر له بعضنا ، فقال له : نعم ، فلم يقر في نفسي ، حتى قدم جابر ابن عبد الله ، فجئناه في منزله ، فسأله القوم عن أشياء ، ثم ذكروا له المتعة ، فقال : نعم ، استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأبي بكر ، وعمر ، حتى إذا كان في آخر خلافة عمر استمتع عمرو بن حريث بامرأة – سماها جابر فنسيتها – فحملت المرأة ، فبلغ ذلك عمر ، فدعاها فسألها ، فقالت : نعم ، قال : من أشهد ؟ قال عطاء : لا أدري قالت : أمي ، أم وليها ، قال : فهلا غيرهما ، قال : خشي أن يكون دغلا الاخر ، قال عطاء : وسمعت ابن عباس يقول : يرحم الله عمر ، ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عزوجل ، رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وسلم ، فلو لا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي
ابن جریج عطا سے روایت کرتے ہیں کہ پہلا شخص کے جس سے میں نے متعہ کے بارے میں سنا، وہ صفوان بن یعلی تھا۔ اس نے کہا کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ معاویہ نے طائف میں متعہ کیا؛ مگر میں نے اس کی تردید کی۔ سو ہم ابن عباس سے ملے، اور اس کا کچھ تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ مگر میں نے نہ مانا۔ یہ رہا یہاں تک کہ ہم جابر بن عبداللہ سے ملے، ہم ان کے گھر آئے، اور لوگوں نے ان سے سوال پوچھے۔ پھر متعہ کی بات چھڑی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی پاک کی زندگی میں متعہ کیا، پھر ابو بکر کی زندگی میں، اور پھر عمر کے زمانے میں یہاں تک کہ ان کی خلافت کے آخری عرصے میں عمر ابن حریث نے متعہ کیا ایک عورت کے ساتھ، جابر نے اس کا نام لیا تاہم میں بھول گیا۔ وہ حاملہ ہو گئی، اور یہ بات عمر تک پہنچی، عمر نے اسے بلایا اور اس بارے میں پوچھا عطا نے پھر کہا کہ میں نے ابن عباس سے سنا کہ اللہ عمر پر رحم کرے، متعہ اللہ کی جانب سے ایک رخصت تھی امت محمدیہ کے لیے۔ اگر اسے منع نہ کیا جاتا، تو سوائے شقی کے، کوئی زنا نہ کرتا
یہ روایت ان وجوہات کی بنا پر صحیح نہیں
اول ابن جريج مدلس ہیں عن سے روایت کر رہے ہیں یہ جلیل القدرتبہ تابعین میں سے ہیں – عَطاء بن أبي رَبَاح المتوفی ١١٥ھ ہیں الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں کہتے ہیں وُلِدَ: فِي أَثْنَاءِ خِلاَفَةِ عُثْمَانِ یہ عثمان رضی الله عنہ کے دور میں پیدا ہوئے-
دوم اس میں کہا گیا ہے کہ عمر رضی الله عنہ نے اس سے منع کیا جو تاریخی طور پر صحیح نہیں ہے ابو بکر رضی الله عنہ کے دور میں تو یہ ثابت ہی نہیں ہے
سوم صفوان بن يعلى بْنِ أُمَيَّةَ التَّمِيمِيُّ کو ان کے باپ نے خبر دی کہ معاویہ نے متعہ کیا یہ بھی عجیب ہے جس کو سن کر ابن عباس کو کہنا چاہیے تھا اس میں کیا برائی ہے کیونکہ ایک طرف تو روایات ہیں کہ ابن عباس خود اس کے قائل تھے دوسری طرف کوئی تو وہ اپنا موقف واضح نہیں کرتے
بعض روایات میں ہے کہ ابن عباس نے اس رائے سے رجوع کر لیا تھے- ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
إِنَّمَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ، كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ البَلْدَةَ لَيْسَ لَهُ بِهَا مَعْرِفَةٌ فَيَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ بِقَدْرِ مَا يَرَى أَنَّهُ يُقِيمُ فَتَحْفَظُ لَهُ مَتَاعَهُ، وَتُصْلِحُ لَهُ شَيْئَهُ، حَتَّى إِذَا نَزَلَتِ الآيَةُ: {إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ}، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَى هَذَيْنِ فَهُوَ حَرَامٌ.
متعہ اوّل اسلام میں جائز تھا یہاں تک کہ آیت (الّا علیٰ ازواجھم اوماملکت ایمانھم)نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہو گیا اس کے بعد ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زوجہ اور مملوکہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔” (ترمذی۱/۱۳۳)
ابو بکر جصاص ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے رجوع کے متعلق لکھتے ہیں
تمام صحابہ رضی اللہ عنہ میں سوائے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے کوئی بھی حلت متعہ کا قائل نہیں اور انہوں نے بھی متعہ کے جواز سے اس وقت رجوع کر لیا تھا جب تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے متعہ کی حرمت ان کے ہاں تواتر کے ساتھ ثابت ہو گئی۔” (احکام القرآن۲/۱۵۶)
البانی کتاب إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل میں لکھتے ہیں
أن ابن عباس رضى الله عنه روى عنه فى المتعة ثلاثة أقوال:
الأول: الإباحة مطلقا.
الثانى: الإباحة عند الضرورة.
والآخر: التحريم مطلقا , وهذا مما لم يثبت عنه صراحة , بخلاف القولين الأولين , فهما ثابتان عنه.
ابن عباس رضی الله عنہ کے سے متعلق تین اقوال ہیں
اول مطلق مباح ہے
دوم ضرورتا مباح ہے
سوم مطلق حرام ہے اور یہ وہ قول ہے جو صراحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے
الغرض ابن عباس رضی الله عنہ اس کے قائل تھے پھر انہوں نے اس سے رجوع کیا ابو بکر الجصاص کی رائے میں اور البانی کی رائے ہے انہوں نے رجوع نہیں کیا –
الغرض معاویہ رضی الله عنہ کا متعہ کرنا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس روایت کا متن دیگر روایات سے متصادم اور سند غیر مظبوط ہے
عبدالرزاق ابن ہمام، جو کہ بخاری کے شیوخ میں ہیں؛ اپنی کتاب المصنف، جلد ۷، صفحہ ۴۹٦-۴۹۷؛ لکھتے ہیں
ابن جریج عطا سے روایت کرتے ہیں کہ پہلا شخص کے جس سے میں نے متعہ کے بارے میں سنا، وہ صفوان بن یعلی تھا۔ اس نے کہا کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ معاویہ نے طائف میں متعہ کیا؛ مگر میں نے اس کی تردید کی۔ سو ہم ابن عباس سے ملے، اور اس کا کچھ تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ مگر میں نے نہ مانا۔ یہ رہا یہاں تک کہ ہم جابر بن عبداللہ سے ملے، ہم ان کے گھر آئے، اور لوگوں نے ان سے سوال پوچھے۔ پھر متعہ کی بات چھڑی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی پاک کی زندگی میں متعہ کیا، پھر ابو بکر کی زندگی میں، اور پھر عمر کے زمانے میں یہاں تک کہ ان کی خلافت کے آخری عرصے میں عمر ابن حریث نے متعہ کیا ایک عورت کے ساتھ، جابر نے اس کا نام لیا تاہم میں بھول گیا۔ وہ حاملہ ہو گئی، اور یہ بات عمر تک پہنچی، عمر نے اسے بلایا اور اس بارے میں پوچھا
عطا نے پھر کہا کہ میں نے ابن عباس سے سنا کہ اللہ عمر پر رحم کرے، متعہ اللہ کی جانب سے ایک رخصت تھی امت محمدیہ کے لیے۔ اگر اسے منع نہ کیا جاتا، تو سوائے شقی کے، کوئی زنا نہ کرتا
عربی متن یوں ہے
عبد الرزاق عن ابن جريج عن عطاء قال : لاول من سمعت منه المتعة صفوان بن يعلى ، قال : أخبرني عن يعلى أن معاوية
استمتع بامرأة بالطائف ، فأنكرت ذلك عليه ، فدخلنا على ابن عباس ، فذكر له بعضنا ، فقال له : نعم ، فلم يقر في نفسي ، حتى قدم جابر ابن عبد الله ، فجئناه في منزله ، فسأله القوم عن أشياء ، ثم ذكروا له المتعة ، فقال : نعم ، استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأبي بكر ، وعمر ، حتى إذا كان في آخر خلافة عمر استمتع عمرو بن حريث بامرأة – سماها جابر فنسيتها – فحملت المرأة ، فبلغ ذلك عمر ، فدعاها فسألها ، فقالت : نعم ، قال : من أشهد ؟ قال عطاء : لا أدري قالت : أمي ، أم وليها ، قال : فهلا غيرهما ، قال : خشي أن يكون دغلا الاخر ، قال عطاء : وسمعت ابن عباس يقول : يرحم الله عمر ، ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عزوجل ، رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وسلم ، فلو لا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي
Link : http://islamport.com/d/1/mtn/1/115/4335.html
جواب
عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: لَأَوَّلُ مَنْ سَمِعْتُ مِنْهُ الْمُتْعَةَ صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى قَالَ: أَخْبَرَنِي، عَنْ يَعْلَى، أَنَّ مُعَاوِيَةَ اسْتَمْتَعَ بِامْرَأَةٍ بِالطَّائِفِ فَأَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَيْهِ
اسکی سند میں ابن جریج مدلس ہیں اور عن سے روایت ہے لھذا بن باز کا اس کو صحیح کہنا درست نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر یہ جائز سمجھا جاتا تو معاویہ رضی الله عنہ کو کوئی نہیں روک سکتا تھا کہ وہ اس کے جواز کا بھی فتوی دیتے اور اپنی خلافت میں اس کی اجازت دیتے لیکن ٢٠ سال کے دور میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا
موطا کی حدیث ہے
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ خَوْلَةَ بِنْتَ حَكِيمٍ دَخَلَتْ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَتْ: إِنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ اسْتَمْتَعَ بِامْرَأَةٍ فَحَمَلَتْ مِنْهُ، فَخَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَزِعًا يَجُرُّ رِدَاءَهُ، فَقَالَ: «هَذِهِ الْمُتْعَةُ. وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهَا، لَرَجَمْتُ»
خولہ بنت حکیم ، عمر رضی الله عنہ کے پاس آئیں اور کہا کہ ربیعیہ بن امیہ نے ایک عورت سے متعہ کیا جس سے وہ حاملہ ہوئی پس عمر نکلے جلدی سے اپنی چادر کو گھسیٹے ہوئے اور کہا یہ تو متعہ ہے
تاریخ دمشق کی روایت ہے کہ
حتى صعد المنبر فقال: إنه بلغني أن ربيعة بن أمية بن خلف، تزوج مولدةً من مولدات المدينة بشهادة امرأتين؛ وإني لو كنت قدمت في مثل هذا لرجمته.
عمر منبر پر چڑھے اور کہا مجھ تک دو عورتوں کی گواہی پہنچی ہے کہ ربيعة بن أمية بن خلف نے ایک دائی سے نکاح کیا اگر یہ پیش ہوا ہوتا تو میں اس میں رجم کرتا
ربيعة بن أمية بن خلف بن وهب بن حذافة ایک صحابی ہیں یہ شراب بھی پی لیتے تھے یہاں تک کہ عمر رضی الله عنہ کے دور میں یہ کوڑووں کے خوف سے شام چلے گئے
تاریخ دمشق کے مطابق
ربيعة بن أمية بن خلف بن وهب بن حذافة ابن جمح الجمحي القرشي (2) أدرك النبي (صلى الله عليه وسلم) وأسلم ثم شرب الخمر في خلافة عمر فهرب خوفا من إقامة الحد إلى الشام
ظاہر ہے اگر ایک صحابی نے کوئی غلط کام کیا شراب پی لی یا متعہ کیا تو اس پر اس کو آج جائز نہیں کہا جائے گا لگتا ہے یہ واقعہ شراب پینے کی وجہ سے ہوا
———
موطا امام محمد میں ہے
قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمُتْعَةُ مَكْرُوهَةٌ، فَلا يَنْبَغِي، فَقَدْ نَهَى عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَاءَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ، وَلا اثْنَيْنِ، وَقَوْلُ عُمَرَ: لَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهَا لَرَجَمْتُ، إِنَّمَا نَضَعُهُ مِنْ عُمَرَ عَلَى التَّهْدِيدِ، وَهَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
امام محمد نے کہا متعہ مکروہ ہے پس یہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا … اور عمر کا قول کہ اگر مجھ پر پہلے پیش ہوتا تو میں رجم کر دیتا یہ عمر کا اس کے خطرہ سے ڈرانا تھا اور یہی قول ابو حنیفہ جا ہے اور عام فقہاء کا ہے
أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ) التعليق الممجد على موطأ محمد میں لکھتے ہیں
وأخرج الطبراني في الأوسط عن سالم بن عبد الله قال: قيل لعبد الله بن عمر: إنَّ ابن عباس يأمر بنكاح المتعة، فقال: سبحان الله؟ ما أظنه يفعل هذا، قالوا: إنه يأمر به، قال: وهل كان ابن عباس إلاَّ غلاماً صغيراً في عهد رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، نهانا رسول الله صلّى الله عليه وسلّم عن المتعة وما كنا مسافحين. وعن عمر أنه خطب حين استُخلف فقال: إن رسول الله أذن لنا في المتعة ثلاثاً ثم نهى عنه، أخرجه ابن المنذر والبيهقي.
طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے کہ سالم بن عبد الله نے عبد اللہ بن عمر سے کہا کہ ابن عباس متعہ کے نکاح کا حکم کرتے ہیں تو ابن عمر نے کہا سبحان اللہ میں نہیں گمان کرتا وہ یہ کرتے ہیں کہا وہ کرتے ہیں ابن عمر نے کہا ابن عباس تو ایک چھوٹے بچے تھے دور نبوی میں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے متعہ سے منع کیا اور ہم فحاشی کرنے والے نہیں تھے اور جب عمر خلیفہ ہوئے انہوں نے کہا کہ رسول الله نے اس کی اجازت دی تین پھر منع کر دیا اس کی تخریج ابن منذر اور بیہقی نے کی ہے
ابو الحسنات لکھتے ہیں
والمشهور عن ابن عباس هو الحلُّ، لكن ثبت أنه رجع عنه،
اور مشھورہے کہ ابن عباس اس کو حلال کرتے تھے لیکن جو ثابت ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کیا
صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا [ص:13] شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: سُئِلَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ «فَرَخَّصَ»، فَقَالَ لَهُ مَوْلًى لَهُ: إِنَّمَا ذَلِكَ فِي الحَالِ الشَّدِيدِ، وَفِي النِّسَاءِ قِلَّةٌ؟ أَوْ نَحْوَهُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «نَعَمْ»
أَبِي جَمْرَةَ نے کہا میں نے ابن عباس کو کہتے سنا ان سے متعہ عورتوں سے کرنے پر سوال ہوا پس انہوں نے اس کی اجازت دی ان سے ایک آزاد کردہ غلام نے کہا یہ اس وقت ہے جب حالت شدید ہو عورتیں کم ہوں ابن عباس نے کہا ہاں
جمہور اصحاب رسول کی رائے اس کے خلاف تھی
——–
متعہ جمہور کے مطابق ایک وقت تھا جب جائز تھا اس کو کچھ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے کیا اس کے بعد اس سے منع کر دیا گیا اس میں کچھ شرطیں تھیں کہ ایام جنگ میں جائز کیا گیا جس میں اضطراری کیفیت تھی اور اس کو مقیم کے شہر میں نہیں کیا گیا اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے پیشگی اجازت لی گئی
متعه کی ممانعت کب ہوئی اس میں بہت سی روایات ہیں کہا گیا ہے یہ جنگ خیبر سن ٧ میں منع ہوا لیکن بعض کے مطابق فتح مکہ کے سال سن ٨ ہجری میں منع ہوا
صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، وَأَخُوهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِمَا، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ المُتْعَةِ، وَعَنْ لُحُومِ الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، زَمَنَ خَيْبَرَ»
محمد بن علی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے باپ علی رضی الله عنہ نے ابن عباس رضی الله عنہ سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع کیا اور پالتو گدھوں کے گوشت سے خیبر کے زمانے میں
صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو، عَنِ الحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالاَ: كُنَّا فِي جَيْشٍ، فَأَتَانَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُمْ أَنْ تَسْتَمْتِعُوا فَاسْتَمْتِعُوا»
جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ کہتے ہیں ہم ایک جنگ میں تھے پس رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا گیا بے شک انہوں نے اجازت دی متعہ پس کر لو
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «وَبَيَّنَهُ عَلِيٌّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَنْسُوخٌ»
امام بخاری نے کہا پس علی نے وضاحت کر دی کہ یہ منسوخ ہے
——-
چونکہ ابن عبّاس نے اس کو جائز سمجھا ہے اس لیے امت میں اس پر ابہام آ گیا اور اہل تشیع نے ابن عباس کا فتوی لیا اور اہل سنت نے جمہور کا
صحیح مسلم میں ہے
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَامَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: «إِنَّ نَاسًا أَعْمَى اللهُ قُلُوبَهُمْ، كَمَا أَعْمَى أَبْصَارَهُمْ، يُفْتُونَ بِالْمُتْعَةِ»، يُعَرِّضُ بِرَجُلٍ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَجِلْفٌ جَافٍ، فَلَعَمْرِي، لَقَدْ كَانَتِ الْمُتْعَةُ تُفْعَلُ عَلَى عَهْدِ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ – يُرِيدُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ لَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ: «فَجَرِّبْ بِنَفْسِكَ، فَوَاللهِ، لَئِنْ فَعَلْتَهَا لَأَرْجُمَنَّكَ بِأَحْجَارِكَ
عروه نے نے خبر دی کہ ابن زبیر نے مکہ میں خطبہ دیا انہوں نے کہا وہ جن کے دل الله نے اندھے کر دے جس طرح ان کی آنکھیں وہ متعہ کا کہتے ہیں اس پر ایک شخص نے اعتراض کیا اور پکارا اور کہا (اے ابن زبیر) تیری (آنکھ کی) پتلی تنگ ہے لعمری بے شک متعہ ہوا امام المتقین کے دور میں ان کا مقصد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تھے پس ابن زبیر نے کہا تو اپنے اپ کو دیکھ- الله کی قسم اگر ایسا کیا تو میں تیرے پتھر سے تجھ کو رجم کروں گا
———–
جمہور اصحاب رسول نے اس کو منسوخ کہا ہے اور اس طرح یہ حرام بھی کہا گیا ہے
ابن عباس بھی اس کو عموم نہیں مانتے تھے بلکہ ایک اضطراری کیفیت میں جائز کہتے جب عورتیں کم ہوں اور عمل جنسی کرنے کی شدید خواہش ہو ظاہر ہے عورتیں کم کب ہوں گی جب اپ اپنے علاقے میں نہ ہوں اور دوران سفر ہوں
و الله اعلم
جواب
ربيعة بن أمية بن خلف الجمحي نے شراب پی ، عمر رضی الله عنہ نے ان کو جلاوطن کیا جب یہ چلے گئے تو بھید کھلا کہ یہ دائی سے متعہ بھی کر چکے ہیں اس کی خبر جب عمر رضی الله عنہ کو ہوئی انہوں نے کہا کہ پہلے پتا چلتا تو اس کو رجم کرتا
موطا امام مالک میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , أَنَّ خَوْلَةَ بِنْتَ حَكِيمٍ دَخَلَتْ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ – رضي الله عنه – , فَقَالَتْ: إِنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ اسْتَمْتَعَ بِامْرَأَةٍ مُوَلَّدَةٍ , فَحَمَلَتْ مِنْهُ، فَخَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَجُرُّ رِدَاءَهُ فَزِعًا، وقَالَ: هَذِهِ الْمُتْعَةُ، وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهَا، لَرَجَمْتُ.
تاریخ مدینہ ابن شبہ میں ہے عمر نے کہا
بَلَغَنِي أَنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ تَزَوَّجَ امْرَأَةً سِرًّا فَحَمَلَتْ مِنْهُ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَوْ تُقُدِّمْتُ فِي هَذَا لَرَجَمْتُ فِيهِ
رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ نے ایک عورت سے خفیہ روجیت کی
اسی کتاب میں سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ کا قول ہے
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَرَّبَ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ فِي الْخَمْرِ، أُرَاهُ قَالَ: إِلَى خَيْبَرَ، فَلَحِقَ بِهِرَقْلَ فَتَنَصَّرَ , فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا أُغَرِّبُ أَحَدًا بَعْدَهُ
عمر رضی الله عنہ نے رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ کو شراب پینے کی بنا پر خیبر جلا وطن کیا یہ وہاں سے نکل کر ھرقل سے مل گئے عمر نے کہا آئندہ کسی کو مغرب کی طرف نہیں بھیجوں گا
اسی کتاب کی روایت ہے
كَانَ قَدْ أَدْمَنَ الشَّرَابَ، فَشَرِبَ فِي رَمَضَانَ، فَضَرَبَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَغَرَّبَهُ إِلَى ذِي الرِّدَّةِ، فَلَمْ يَزَلْ بِهَا حَتَّى تُوُفِّيَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ شراب کے عادی تھے پس عمر نے کوڑے لگوائے اور ذی الردہ کی طرف جلاوطن کیا یہاں تک کہ عمر رضی الله عنہ فوت ہوئے
الموطأ پر محمد مصطفى الأعظمي کی تعلیق میں یہ موجود ہے
یہ روم میں رہے یہاں تک کہ عثمان رضی الله عنہ نے ابو الأعور السلمي عَمْرو بْن سُفْيَانَ بْن قائف کو ان کے پاس بھیجا کہ واپس آئیں اور یہ واپس مدینہ ا گئے
معرفة الصحابة از أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)
معرفة الصحابة لابن منده از أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن محمد بن يحيى بن مَنْدَه العبدي (المتوفى: 395هـ)
معجم الصحابة از أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز بن المَرْزُبان بن سابور بن شاهنشاه البغوي (المتوفى: 317هـ)
میں ان کا شمار اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا گیا ہے
تاریخ الطبری کی روایت ہے حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لما قبض النبي ص كَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَجَاءَ بَعْدَ ثَلاثٍ، وَلَمْ يَجْتَرِئْ أَحَدٌ أَنْ يَكْشِفَ عَنْ وَجْهِهِ، حَتَّى أُرْبِدَ بَطْنُهُ
کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا پیٹ پھول گیا اور ابو بکر صدیق رضی الله عنہ تین دن بعد آئے
اس کی سند منقطع ہے ابراہیم النخعی کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی کتاب جامع التحصیل کے مطابق وقال علي بن المديني إبراهيم النخعي لم يلق أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
علی بن المدینی کہتے ہیں کہ ابراہیم کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی دوم ان سے سننے والے ابی ایوب بھی مجھول ہیں
کتاب المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کے مطابق . أبو أيوب – غير مسمى، ولا منسوب – من الخامسة، عن إبراهيم. وعنه: أبو معشر، زياد بن كليب، التميمي، الحنظلي، الكوفي (3219) لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
یہ ابو ایوب مجھول ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم کے جنازہ پڑھنے سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں
فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِذَا أَنْتَ قُبِضْتَ فَمَنْ يُغَسِّلُكَ؟ وَفِيمَ نُكَفِّنُكَ؟ وَمَنْ يُصَلَّى عَلَيْكَ؟ وَمَنْ يَدْخُلُ الْقَبْرَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَلِيُّ أَمَّا الْغُسْلُ فاغْسِلْنِي أَنْتَ، وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ يَصُبُّ عَلَيْكَ الْمَاءَ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ ثَالِثُكُمَا، فَإِذَا أَنْتُمْ فَرَغْتُمْ مِنْ غُسْلِي فَكَفِّنُونِي فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ جُدُدٍ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَأْتِينِي بِحَنُوطٍ مِنَ الْجَنَّةِ، فَإِذَا أَنْتُمْ وَضَعْتُمُونِي عَلَى السَّرِيرِ فَضَعُونِي فِي الْمَسْجِدِ وَاخْرُجُوا عَنِّي، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ، ثُمَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ مِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، ثُمَّ الْمَلَائِكَةُ زُمَرًا زُمَرًا، ثُمَّ ادْخُلُوا، فَقُومُوا صُفُوفًا لَا يَتَقَدَّمُ عَلَيَّ أَحَدٌ»
عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني اپنے باپ سے وہ وھب بن منبہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا یا سول اللہ! جب آپ کی روح قبض ہو گی تو آپ کو غسل کون دے گا؟ ہم آپ کو کفن کس طرح دیں گے، آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا اور آپ کو قبر میں کون اُتارے گا؟ اس پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا غسل مجھے تم دینا، فضل بن عباس مجھ پر پانی بہائیں گے اور جبرئیل علیہ السلام تمہارے تیسرے ساتھی ہوں گے۔ سو جب تم میرے غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے تین نئے کپڑوں میں کفنانا اور جبرئیل علیہ السلام میرے لئے جنت سے حنوط (خوشبو) لائیں گے اور تم مجھے چارپائی میں رکھو تو مجھے مسجد میں رکھ کر مجھ سے پرے ہٹ جانا۔ چنانچہ سب سے پہلے جو میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے، وہ ربّ تعالیٰ عرش کے اوپر سے پڑھیں گے۔ پھر جبرئیل بعد ازاں میکائیل، اس کے بعد اسرافیل پھر تمام فرشتے جماعت در جماعت میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔ پھر تم حجرہ میں داخل ہونا اور صفوں میں کھڑے ہونا، کوئی بھی میرا پیش امام نہ بنے
طبرانی الکبیر میں اس کی سند ہے حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْبَرَاءِ، ثنا عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ إِدْرِيسَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ
اس کی سند میں عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني ہے دارقطنی کتاب الضعفاء والمتروكين کہتے ہیں اپنے باپ سے روایت کرنے میں متروک ہیں
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا بَهْزٌ، وَأَبُو كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ يَعْنِي الْجَوْنِيَّ، عَنْ أَبِي عَسِيبٍ، أَوْ أَبِي عَسِيمٍ، قَالَ بَهْزٌ: إِنَّهُ شَهِدَ الصَّلَاةَ عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْهِ؟ قَالَ: «ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا» ، قَالَ: «فَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنْ هَذَا الْبَابِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ» ، قَالَ: ” فَلَمَّا وُضِعَ فِي لَحْدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: قَدْ بَقِيَ مِنْ رِجْلَيْهِ شَيْءٌ لَمْ يُصْلِحُوهُ، قَالُوا: فَادْخُلْ فَأَصْلِحْهُ، فَدَخَلَ، وَأَدْخَلَ يَدَهُ فَمَسَّ قَدَمَيْهِ، فَقَالَ: أَهِيلُوا عَلَيَّ التُّرَابَ، فَأَهَالُوا عَلَيْهِ التُّرَابَ، حَتَّى بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَكَانَ يَقُولُ أَنَا أَحْدَثُكُمْ عَهْدًا بِرَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابو عسیب ابو عسیم بیان کرتے ہیں وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ میں حاضر ہوئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ آپ کی نمازِ جنازہ کیسے پڑھیں؟ اس پر صحابہ کرام نے کہا: ٹولیوں کی شکل میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ایک دروازے سے داخل ہوتے اور آپ نماز ِجنازہ پڑھتے، پھر دوسرے دروازے سےنکل جاتے تھے پس جب آپ کو لحد میں رکھ دیا گیا مغیرہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قدموں میں سے کوئی صحیح نہیں ہے پس کہا داخل ہو اور صحیح کرو پس ہاتھ ڈال کر قدم کو مس کیا کہا مٹی ڈالو پس مٹی ڈالی گئی یہاں تک کہ نصف پنڈلیوں کے پس اس کے بعد (دفنانے والے) باہر نکلے
یہ وہ واحد روایت کے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا گیا لیکن اس میں کچھ مشکلات ہیں
اول حجرہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا میں دو دروازے تھے کسی حدیث میں بیان نہیں ہوا
دوم قدم مبارک دفنانے میں صحیح انداز میں نہیں رکھا جا سکا اور پھر بعد میں اس کو ہاتھ ڈال کر درست کرنا پڑا بھی عجیب بات ہے جبکہ علی رضی الله تعالی عنہ وہاں موجود ہیں اور اہل بیت میں ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داری ہے کہ تدفین کا انتظام کریں لیکن مغیرہ بن شعبہ رضی الله تعالی عنہ بتاتے ہیں کہ قدم درست نہیں رکھا گیا
دوسری روایت ہے کہ
مستدرک الحاکم کی روایت ہے حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ الْعَقَبِيُّ، بِبَغْدَادَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوْحٍ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَامُ بْنُ سُلَيْمٍ الطَّوِيلُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ طَلِيقٍ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: مَنْ يُصَلِّي عَلَيْكَ يَا رَسُولَ الله فَبَكَى وَبَكَيْنَا وَقَالَ: «مَهْلًا، غَفَرَ الله لَكُمْ، وَجَزَاكُمْ عَنْ نَبِيِّكُمْ خَيْرًا، إِذَا غَسَّلْتُمُونِي وَحَنَّطْتُمُونِي وَكَفَّنْتُمُونِي فَضَعُونِي عَلَى شَفِيرِ قَبْرِي، ثُمَّ اخْرِجُوا عَنِّي سَاعَةً، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ خَلِيلِي وَجَلِيسِي جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ، ثُمَّ مَلَكُ الْمَوْتِ مَعَ جُنُودٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، ثُمَّ لِيَبْدَأْ بِالصَّلَاةِ عَلَيَّ رِجَالُ أَهْلِ بَيْتِي، ثُمَّ نِسَاؤُهُمْ، ثُمَّ ادْخُلُوا أَفْوَاجًا أَفْوَاجًا وَفُرَادَى وَلَا تُؤْذُونِي بِبَاكِيةٍ، وَلَا بِرَنَّةٍ وَلَا بِصَيْحَةٍ، وَمَنْ كَانَ غَائِبًا مِنْ أَصْحَابِي فَأَبْلِغُوهُ مِنِّي السَّلَامَ، فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ عَلَى أَنِّي قَدْ سَلَّمْتُ عَلَى مَنْ دَخَلَ فِي الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَابَعَنِي عَلَى دِينِي هَذَا مُنْذُ الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
جب رسو ل اللہ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو ہم نے پوچھا : یارسول اللہ! آپ کی نمازِ جنازہ کون پڑھائے گا؟ اس پر آپ رو دیئے او رہم بھی اشک بار ہوگئے۔ پھر کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا: اللہ تعالی تمہاری مغفرت فرمائے اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں جزائے خیر دے۔ جب تم مجھے غسل دے لو ، مجھے کافور لگا لو اور مجھے کفن دے دو تو مجھے میری قبر کے کنارے رکھ دینا، پھر کچھ دیر کے لئے مجھ سے دور ہوجانا، چنانچہ سب سے پہلے میری نمازِ جنازہ میرے جبرئیل و میکائیل پڑھیں گے، پھر اسرافیل، ازاں بعد ملک الموت فرشتوں کے لشکروں سمیت میری نماز جنازہ پڑھیں گے۔پھر میری نمازِ جنازہ کا آغاز میرے اہل بیت کے فرد، ان کے بعد اہل بیت کی عورتیں کریں۔پھر تم گروہ در گروہ اور تنہا تنہا داخل ہونا(اور نماز ادا کرنا) الحاکم کہتے ہیں عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الَّذِي فِي هَذَا الْإِسْنَادِ مَجْهُولٌ، لَا نَعْرِفُهُ بِعَدَالَةٍ وَلَا جَرْحٍ وَالْبَاقُونَ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ ”
اس کی سند میں عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہے جو مجھول ہے
ابن ماجہ ، الشريعة از ابو بكر الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ [ص:2362]: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: وَحَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الله , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَذَكَرَ وَفَاةَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ , وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ , وَقَدْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ , فَقَالَ قَائِلٌ: نَدْفِنُهُ فِي مَسْجِدِهِ , وَقَالَ قَائِلٌ: يُدْفَنُ مَعَ أَصْحَابِهِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا قُبِضَ نَبِيُّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ» فَرُفِعَ فِرَاشُ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ عَلَيْهِ فَحُفِرَ لَهُ تَحْتَهُ ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا , الرِّجَالُ حَتَّى إِذَا فَرَغُوا دَخَلَ النِّسَاءُ , حَتَّى إِذَا فَرَغْنَ دَخَلَ الصِّبْيَانُ , وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ ثُمَّ دُفِنَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَسَطِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ عبدللہ ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات منگل کو ہوئی … ابوبکر نے کہا کہ نبی جہاں وفات پائیں وہیں دفن ہوتے ہیں بدھ کی رات تدفین ہوئی
ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، َقُثَمُ ُ، وَشُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے آپ کو قبر میں اتارا
اس کی سند میں راوی حسين بن عبد الله ابن عبيد الله بن عباس بن عبد المطلب المدني ہے جو ضعیف ہے اس کے علاوہ محمّد بن اسحاق بن یسار ہے جو مختلف فیہ ہے
یہ روایت صحیح روایت کے بھی خلاف ہے جس کے مطابق آپ کی وفات پیر کو ہوئی
الموطأ میں امام مالک کہتے ہیں ان کو یہ بات پہنچی ہے
وَصَلَّى النَّاسُ عَلَيْهِ أَفْذَاذاً اور لوگوں نے الگ الگ نماز کی
صلی کا لفظ نماز کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور دعا کے لئے بھی لہذا اس میں واضح نہیں کہ باقاعدہ نماز جنازہ ہوئی
قرین قیاس بات یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جنازہ نہیں ہوئی بلکہ اگر غور کریں تو اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ دعا تو عام لوگوں کے لئے کی جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ہےکہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہیں جیسا قرآن میں ہے لہذا کسی نماز جنازہ کی ضرورت نہیں تھی
نبی صلی الله علیہ وسلم کو
كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا
یہ صحیح مسلم کی روایت ہے
الشمائل للترمذی ، مسند عبد بن حمید ، ، المعجم الکبیر للطبرائی دلائل النبوۃ للبیھقی السنن الکبری للنسائی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بْنُ دَاوُدَ قَالَ [ص:337]: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ نُبَيْطٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ نُبَيْطِ بْنِ شَرِيطٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ فَأَفَاقَ، فَقَالَ: «حَضَرَتِ الصَّلَاةُ» ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ. فَقَالَ: «مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ للنَّاسِ» – أَوْ قَالَ: بِالنَّاسِ – قَالَ: ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ: «حَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟» فَقَالُوا: نَعَمْ. فَقَالَ: «مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، إِذَا قَامَ ذَلِكَ الْمَقَامَ بَكَى فَلَا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ قَالَ: ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ فَقَالَ: «مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ أَوْ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ» قَالَ: فَأُمِرَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ، وَأُمِرَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّةً، فَقَالَ: «انْظُرُوا لِي مَنْ أَتَّكِئِ عَلَيْهِ» ، فَجَاءَتْ بَرِيرَةُ [ص:338] وَرَجُلٌ آخَرُ، فَاتَّكَأَ عَلَيْهِمَا فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِينْكُصَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ يَثْبُتَ مَكَانَهُ، حَتَّى قَضَى أَبُو بَكْرٍ صَلَاتَهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ، فَقَالَ عُمَرُ: وَالله لَا أَسْمَعُ أَحَدًا يَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ إِلَا ضَرَبْتُهُ بِسَيْفِي هَذَا قَالَ: وَكَانَ النَّاسُ أُمِّيِّينَ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ نَبِيٌّ قَبْلَهُ، فَأَمْسَكَ النَّاسُ، فَقَالُوا: يَا سَالِمُ، انْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَادْعُهُ، فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَأَتَيْتُهُ أَبْكِي دَهِشًا، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: أَقُبِضَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: إِنَّ عُمَرَ يَقُولُ: لَا أَسْمَعُ أَحَدًا يَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ إِلَا ضَرَبْتُهُ بِسَيْفِي هَذَا، فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَجَاءَ هُوَ وَالنَّاسُ قَدْ دَخَلُوا عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْرِجُوا لِي، فَأَفْرَجُوا لَهُ فَجَاءَ حَتَّى أَكَبَّ عَلَيْهِ وَمَسَّهُ، فَقَالَ: {إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ} [الزمر: 30] ثُمَّ قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَقُبِضَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَعَلِمُوا أَنْ قَدْ صَدَقَ، قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُصَلَّى عَلَى رَسُولِ الله؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: وَكَيْفَ؟ قَالَ: يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَدْعُونَ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ، ثُمَّ يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَدْعُونَ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ، حَتَّى يَدْخُلَ النَّاسُ، قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُدْفَنُ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: أَينَ؟ قَالَ: فِي الْمكَانِ الَّذِي قَبَضَ الله فِيهِ رُوحَهُ، فَإِنَّ الله لَمْ يَقْبِضْ رُوحَهُ إِلَا فِي مَكَانٍ طَيِّبٍ. فَعَلِمُوا أَنْ قَدْ صَدَقَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَغْسِلَهُ بَنُو أَبِيهِ وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ يَتَشَاوَرُونَ، فَقَالُوا: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوانِنَا مِنَ الْأَنْصَارِ نُدْخِلُهُمْ مَعَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَنْ لَهُ مِثْلُ هَذِهِ الثَّلَاثِ {ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ الله مَعَنَا} [التوبة: 40] مَنْ هُمَا؟ قَالَ: ثُمَّ بَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ بَيْعَةً حَسَنَةً جَمِيلَةً
سالم عبید الاشجعیؓ بیان کرتے ہیں
رسول اللہ کے مرض میں آپ پر غشی طاری ہوئی، پھر افاقہ ہو گیا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ عرض کی گئی، جی ہاں! آپ نے فرمایا، بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہؓ نے عرض کی، میرے والد تو نہایت نرم دل آدمی ہیں۔ جب وہ اس جگہ (مصلی رسول) پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، اگر آپ کسی اور کو حکم دیں تو اچھا ہو گا۔ آپ غشی طاری ہوئی، پھر افاقہ ہوا تو فرمایا، بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف والیاں ہو۔ پھر سیدنا بلالؓ کو حکم دیا گیا، انہوں نے اذان کہی اور سیدنا ابوبکرؓ کو حکم دیا گیا، انہوں نے نماز پڑھائی۔ پھر رسول اللہ نے کچھ سکون محسوس کیا تو فرمایا، میرے سہارا لینے (اور مسجد جانے) کے لیے کسی کو دیکھو۔ بریرہ اور ایک آدمی آئے۔ آپ نے ان دونوں کا سہارا لیا(اور مسجد میں آگئے)، جب سیدنا ابوبکرؓ نے آپ کو دیکھا تو (مصلی امانت سے) پیچھے ہٹنے لگے، آپ نے ان کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ اپنی جگہ میں رہیں، یہاں تک کہ سیدنا ابوبکرؓ نے نمازپوری کر لی۔ پھر رسول اللہ فوت ہوگئے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا، اللہ کی قسم! میں کسی کو یہ کہتے نہیں سنوں گا کہ رسول اللہ فوت ہوگئے۔ مگر اپنی تلوار سے قتل کر دوں گا اور کہا، لوگ ان پڑھ تھے، ان میں آپ سے پہلے کوئی نبی نہیں تھا (جہالت ابھی باقی ہے، پھر رسول اللہ کیسے فوت ہو سکتے ہیں؟)۔ لوگ سہم گئے اور انہوں نے کہا، اے سالم! تم رسول اللہ کے ساتھی (سیدنا ابوبکرؓ) کے پاس جاؤ اور ان کو بلاؤ۔ میں سیدنا ابوبکرؓ کے پاس گیا، آپؓ اپنی مسجد میں تھے، میں آپؓ کے پاس روتے ہوئے اور دہشت زوہ گیا۔ جب آپؓ نے مجھے دیکھا تو پوچھنے لگے، کیا رسول اللہ وفات پا گئے ہیں؟ میں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ میں کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنوں گا، مگر اپنی اس تلوار سے اسے قتل کردوں گا۔ آپؓ نے مجھے فرمایا، چلو۔ میں آپؓ کے ساتھ چلا۔ آپؓ تشریف لائے تولوگ رسول اللہ کے گھر میں داخل چکے تھے۔ آپؓ نے فرمایا، لوگو! مجھے راستہ دو! لوگوں نے آپؓ کو راستہ دے دیا۔ آپؓ آ کر رسول اللہ پر جھک گئے اور آپ کو بوسہ دیا، پھر قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
(اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ)(الزمر:۳۰/۳۹)
(اے نبی! یقیناً آپ فوت ہونے والے ہیں اور وہ کافر بھی فوت ہونے والے ہیں)، پھر لوگوں نے کہا، اے اللہ کے رسول کے ساتھی! کیا رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا، ہاں! لوگوں نے یقین کر لیا کہ آپؓ سچ کہہ رہے ہیں۔ لوگوں نےکہا، اے رسول اللہ کے ساتھی! کیا رسول اللہ کا جنازہ پڑھا جائے گا؟ آپؓ نے فرمایا، ہاں! انہوں نے کہا، کیسے؟ فرمایا، کچھ لوگ (حجرۂ عائشہ میں) داخل ہوں گے اور اللہ اکبر کہیں گے، درود و سلام پڑھیں گے اور دعا کریں گے، پھر وہ نکل آئیں گے، پھر کچھ لوگ داخل ہوں گے اور اللہ اکبر کہیں، درود و سلام پڑھیں گے اور دعا کرکے نکل آئیں گے، یہاں تک کہ(تمام) داخل ہو جائیں گے۔ لوگوں نے کہا، اے اللہ کے رسول کے ساتھی؟ کیا رسول اللہ کو دفن کیا جائے گا؟ فرمایا، ہاں! انہوں نے کہا، کہاں؟ فرمایا، اسی جگہ میں، جہاں اللہ تعالی نے ان کی روح قبض کی ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ان کی روح عمدہ جگہ میں قبض فرمائی ہے۔ انہوں نے جان لیا کہ آپ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر آپؓ نے حکم دیا کہ آپ کو آپ کے خاندان والے غسل دیں۔ مہاجرین مشورہ کے لیے جمع ہوئے، انہوں نے کہا، آپ ہمارے ساتھ ہمارے انصاری بھائیوں کی طرف چلیں تاکہ ہم ان کو بھی اس معاملے میں اپنے ساتھ شامل کرلیں۔ انصار نے کہا، ایک امیر ہم میں سے ایک تم میں سے ہو گا۔ اس پر سیدنا عمربن خطابؓ نے فرمایا، کس کے لیے ان تین فضائل جیسی کوئی فضیلت ہے؟ اس جیسی منقبت کس کے لیے ہے؟
(ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ الله مَعَنَا) (التوبہ: ۴۰/۹)
آپ دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب آپ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے کہ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے
وہ دونوں کون ہیں؟ پھر آپ نے ہاتھ بڑھایا اوربیعت کی اور سب لوگوں نے اچھی اور خوبصورت بیعت کی۔
اس کی سند اتنی مظبوط نہیں
کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط از سبط ابن العجمي (المتوفى: 841هـ) کے مطابق
سلمة بن نبيط بن شريط الأشجعي
قال البخاري يقال اختلط بآخره
بخاری کہتے ہیں آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے
کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي (المتوفى: 762هـ)کے مطابق
وذكره العقيلي في جملة الضعفا
عقیلی نے ان کا ذکر ضعیف راویوں میں کیا ہے
روایت کا متن بھی صحیح احادیث کے خلاف ہے اس میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا انہوں نے نماز مکمل کی اور نبی صلی الله علیہ وسلم کی روح قبض ہوئی
حَتَّى قَضَى أَبُو بَكْرٍ صَلَاتَهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ،
حالانکہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی کی وفات کے وقت ابو بکر مقام السنح میں تھے
اس روایت میں ہے کہ ابو بکر کی بیعت مسجد النبی میں ہوئی یہ بھی صحیح احادیث کے خلاف ہے
اسی طرح عمر رضی الله عنہ پر کوئی غم کی کیفیت نہیں ہے جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ انہوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ جس نے کہا رسول الله کی وفات ہوئی اس کی گردن اڑا دوں گا
لہذا یہ منکر روایت ہے
شیعہ کہتے ہیں کہ ابن سعد نے لکھا ہے
جب حضور کی وفات ہوئی اور حضرت عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ مسجد نبوی میں آئے اور اتنے جوش سے تقریر فرمائی کہ ان کی دونوں باچھوں سے جھاگ نکلنے لگی. حضرت عمر نے کہا کہ حضور نے وفات نہیں پائی بلکہ ان کی روح معراج پر گئی ہے اور جلد واپس لوٹے گی. جس کسی نے بھی کہا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں اس کے ہاتھ اور پاؤں تلوار سے کاٹ دئیے جائیں گے. اتنے میں حضرت عبّاس رضی اللہ عنہہ آئے اور حضرت عمر کو بتایا کہ حضور کے جسم سے بو آنے لگی ہے اور وہ واقعی وفات پا گئے ہیں. ان کو اب دفنا دیا جائے. تب جا کر کہیں حضرت عمر خاموش ہوۓ. (طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم، صفحہ نمبر ٢٢٥)
یہ درست نہیں عمر رضی الله عنہ کو تو اسی روز یہ خیال آیا جس دن وفات ہوئی اور جس روز وفات ہوئی اس وقت تک جسد مطہر سڑتا کیسے؟ افسوس ان کی عقل پر اہل بیت جن کو یہ معصوم و طاہر کہتے ہیں ان سے بلند شخصیت نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد کیسے ناپاک ہو سکتا ہے
طبقات ابن سعد کی روایات میں واقدی اور ابن لہیہ وغیرہ ہیں جو قابل قبول نہیں دوم ان میں جسد میں سے بو انے منہ سے جھاگ نکلنے کا کوئی تذکرہ نہیں
آپ ان شیعہ کی عقلوں پر ماتم کریں ایک طرف تو کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد تدفین سے پہلے ہی سڑ گیا اور دوسری طرف غلو میں انبیاء اور اماموں کو قبروں میں زندہ مانتے ہیں اور ان کے جسد کی بقا کے قائل ہیں- نبی کا جسد سڑ گیا؟ لیکن حسین کا کٹا ہوا سر مہینوں تلاوت کرتا رہا وہ نہیں سڑا سب بکواس ان کے مولویوں نے انکو سکھا دی ہے
اس کی دلیل ان کے مطابق واقعہ قرطاس کی حدیث ہے جس میں الفاظ ہیں
قَالَ النَّبِى (صلى الله عليه وسلم) هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لا تَضِلُّوا بَعْدَهُ
نبی نے کہا جاؤ میں کچھ تمھارے لئے تحریرلکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو.
ان کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے لیکن ان کو سازش کے تحت لکھنے نہیں دیا گیا
لیکن یہ الفاظ مرض وفات میں وفات سے چار دن پہلے کہے اور طبعیت سنبھلنے پر واپس قلم و قرطاس کا حکم نہیں دیا لہذا
یہ الفاظ شدت مرض میں ادا ہوئے اور یہ حقیقت حال اور قرآن کے خلاف ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے
صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ بیعت رضوان کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا مجھے دکھاؤ کہاں محمد رسول الله لکھا ہے پھر آپ نے اس کو اپنے باتھ سے مٹا دیا
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي البَرَاءُ رَضِيَ الله عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَرْسَلَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ يَسْتَأْذِنُهُمْ لِيَدْخُلَ مَكَّةَ، فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لاَ يُقِيمَ بِهَا إِلَّا ثَلاَثَ لَيَالٍ، وَلاَ يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ، وَلاَ يَدْعُوَ مِنْهُمْ أَحَدًا، قَالَ: فَأَخَذَ يَكْتُبُ الشَّرْطَ بَيْنهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله، فَقَالُوا: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ الله لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ، وَلكِنِ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله، فَقَالَ: «أَنَا وَالله مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَنَا وَالله رَسُولُ الله» قَالَ: وَكَانَ لاَ يَكْتُبُ، قَالَ: فَقَالَ لِعَلِيٍّ: «امْحَ رَسُولَ الله» فَقَالَ عَلِيٌّ: وَالله لاَ أَمْحَاهُ أَبَدًا، قَالَ: «فَأَرِنِيهِ»، قَالَ: فَأَرَاهُ إِيَّاهُ فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ،
بعض منکرین حدیث اور نام نہاد اہل حدیث بھی اس کے قائل ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم امی نہیں تھے ان کی دلیل یہ آیت ہے
وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ تم اس سے قبل کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے
سوره العنکبوت جو مکہ میں اتری ہے اس کی آیات میں یہ ہے ہی نہیں کہ آپ لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تھے بلکہ یہ ہے کہ تم اس سے قبل لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے
مدنی آیات میں بھی نبی کو امی کہا گیا ہے تفسیر طبری میں ہے حدثنا بشر قال : ثنا يزيد قال : ثنا سعيد ، عن قتادة قوله : ( وما كنت تتلو من قبله من كتاب ولا تخطه بيمينك ) قال : كان نبي الله لا يقرأ كتابا قبله ، ولا يخطه بيمينه ، قال : كان أميا ، والأمي : الذي لا يكتب
قتادہ کہتے ہیں نبی امی تھے اور امی وہ ہوتا ہے جو لکھنا نہ جانتا ہو
اور صحیح بخاری کی اوپر والی حدیث سے واضح ہے کہ آپ پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے
اس قرانی تناظر میں حق یہی ہے کہ قلم و قرطاس والی حدیث میں نبی کے الفاظ مرض کی شدت میں ادا ہوئے
جب پہلی وحي آئی تو جبریل نے کہا کہ اقرا پڑھ آپ نے فرمایا
ما انا بقارئ
میں نہیں پڑھ سکتا
جواب اس کی تفصیل قرآن و حدیث میں نہیں البتہ عیسائیوں کی کتب میں ہے کہ ان کی عمر ١٢ سال تھی
دیکھئے Protoevangelium of James
یہودیوں میں ١٣ سال کے لڑکے اور ١٢ سال کی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے
جواب
تاریخ الطبری کے مطابق زیاد بن کلیب، مغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب ، علی کے گھر کی طرف گئے ان کے گھر میں طلحہ زبیر اور مہاجرین تھے عمر نے کہا الله کی قسم میں تم سب کو آج اگ میں جلاؤں گا یا پھر بیعت کرنے نکلو
تاریخ الطبری میں سند ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، قَالَ: أَتَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَنْزِلَ عَلِيٍّ وَفِيهِ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَرِجَالٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَ: وَالله لأَحْرِقَنَّ عَلَيْكُمْ أَوْ لَتَخْرُجُنَّ إِلَى الْبَيْعَةِ
أبو معشر الكوفى زياد بن كليب التميمى الحنظلى المتوفی ١٢٠ ھ نے عمر رضی الله عنہ کا دور نہیں دیکھا ان کو ثقہ کہا جاتا ہے لیکن میزان الاعتدال کے مطابق
قال أبو حاتم: ليس بالمتين في حفظه.
ابو حاتم کہتے ہیں ان کا حافظہ مظبوط نہیں
کتاب جمل من أنساب الأشراف از أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ) کے مطابق شیعوں کا ثقہ راوی الْمَدَائِنِيُّ کہتا ہے کہ
الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ مَسْلَمَةَ بْنِ مُحَارِبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التيمى، وعى ابْنِ عَوْنٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَرْسَلَ إِلَى عَلِيٍّ يُرِيدُ الْبَيْعَةَ، فَلَمْ يُبَايِعْ. فَجَاءَ عُمَرُ، ومعه فتيلة .
فتلقته فاطمة على الباب، فقالت فاطمة: يا ابن الْخَطَّابِ، أَتُرَاكَ مُحَرِّقًا عَلَيَّ بَابِي؟ قَالَ: نَعَمْ، وَذَلِكَ أَقْوَى فِيمَا جَاءَ بِهِ أَبُوكِ. وَجَاءَ عَلِيٌّ، فَبَايَعَ وَقَالَ:
كُنْتُ عَزَمْتُ أَنْ لا أَخْرُجَ مِنْ مَنْزِلِي حَتَّى أَجْمَعَ الْقُرْآنَ
فاطمہ نے عمر سے کہا اے ابن الخطاب کیا تم چاھتے ہو کہ میرے سامنے میرا دروازہ جلا دو ؟ عمر نے کہا ہاں … (اتنے میں ) علی آئے اور بیعت کر لی اور کہا میں نے ارادہ کیا کہ قرآن جمع کر لو پھر اتا ہوں
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے
مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ الله بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: «يَا بِنْتَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالله مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ الله مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ الله لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ
زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کی بیعت ہوئی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو علی اور زبیر، فاطمہ کے پاس آئے اور ان سے مشورہ کرنے لگے اور … پس جب اس کی خبر عمر کو ہوئی تو وہ فاطمہ کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ کی بیٹی الله کی قسم ہم کو آپ کے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا اور ان کے بعد آپ سے زیادہ لیکن الله کے لئے یہ مجھے مانع نہ ہو گا کہ میں ایک جتھا اپ کے لئے لے آوں کہ وہ اس گھر کو جلا دے، پس جب عمر چلے گئے تو فاطمہ نے علی سے کہا کیا اپ کو پتا ہے عمر آئے تھے اور الله کی قسم لے کر گئے ہیں کہ اگر دیر کی تو وہ گھر جلا ڈالیں گے اور الله کی قسم وہ یہ کر دیں گے جس کی قسم لی ہے پس سید ھے سیدھے جاؤ …. اور واپس نہ آنا حتی کہ ابو بکر کی بیعت کر لو
معلوم ہوا یہ سب متضاد قصے ہیں
ایک میں ہے کہ عمر نے گھر جلانے کی دھمکی دی اور علی کو فاطمہ نے بھیجا کہ فورا بیعت کرو – عمر اور علی میں کوئی مکالمہ نہ ہوا
دوسری میں ہے عمر اور علی میں مکالمہ ہوا، علی نے بہانہ کیا کہ قرآن جمع کر رہا تھا
کچھ نے اور ڈرامائی قصہ سنایا کہ فاطمہ کا حمل بھی ضائع ہوا
أبو الفتح محمد بن عبد الكريم بن أبى بكر أحمد الشهرستاني (المتوفى: 548هـ) نے کتاب الملل و النحل میں لکھا ہے کہ روافض یہ الزام لگاتے ہیں کہ
وزاد في الفرية فقال: إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها
اور انہوں نے جھوٹ میں اضافہ کیا کہ عمر نے فاطمہ کو ضرب لگائی بیعت کے دن یہاں تک کہ حمل ضائع ہو گیا
اس کو شیعہ ویب سائٹ پر ایسے پیش کیا گیا ہے جیسے کہ الشهرستاني اس قول کے حق میں ہوں
یہی دھوکہ کتاب الوافی الوفیات از صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ)
کے حوالے سے پھیلایا جا رہا ہے جس میں ہے
وَمِنْهَا ميله إِلَى الرَّفْض ووقوعه فِي أكَابِر الصَّحَابَة رَضِي الله عَنْهُم وَقَالَ نَص النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم على أَن الإِمَام عَليّ وعينه وَعرفت الصَّحَابَة ذَلِك وَلَكِن كتمه عمر لأجل أبي بكر رَضِي الله عَنْهُمَا وَقَالَ إِن عمر ضرب بطن فَاطِمَة يَوْم لبيعة حَتَّى أَلْقَت المحسن من بَطنهَا
اور ان (گمراہوں) میں سے کچھ رفض کی طرف مائل ہوئے اور اکابر صحابہ کو برا کہا اور کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی کی خلافت پر نص دی تھی لیکن اس کو عمر نے چھپا دیا ابو بکر کے لئے اور کہا کہ عمر نے فاطمہ کو ضرب لگائی بیعت کے لئے بیعت کےدن ، جس سے محسن پیٹ سے نکل آئے
الله کے شیر، علی رضی الله کو ایسے پیش کرنا کہ وہ بیوی کا حمل ضائع ہونے پر بھی خاموش رہے کیا علی رضی الله عنہ کے شایان شان ہے ؟ اور جب گھر جلا ہی نہیں تو اس قدر واویلا کیوں ؟ ایسا جھوٹ بولنے والے الله سے توبہ کریں
جواب
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہےمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ الله بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: «يَا بِنْتَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالله مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ الله مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ الله لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ
زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کی بیعت ہوئی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو علی اور زبیر، فاطمہ کے پاس آئے اور ان سے مشورہ کرنے لگے اور … پس جب اس کی خبر عمر کو ہوئی تو وہ فاطمہ کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ کی بیٹی الله کی قسم ہم کو آپ کے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا اور ان کے بعد آپ سے زیادہ لیکن الله کے لئے یہ مجھے مانع نہ ہو گا کہ میں ایک جتھا اپ کے لئے لے آوں کہ وہ اس گھر کو جلا دے، پس جب عمر چلے گئے تو فاطمہ نے علی سے کہا کیا اپ کو پتا ہے عمر آئے تھے اور الله کی قسم لے کر گئے ہیں کہ اگر دیر کی تو وہ گھر جلا ڈالیں گے اور الله کی قسم وہ یہ کر دیں گے جس کی قسم لی ہے پس سید ھے سیدھے جاؤ …. اور واپس نہ آنا حتی کہ ابو بکر کی بیعت کر لو
یہ روایت متن میں غیر واضح اور تنقیص علی رضی الله عنہ پر مبنی ہے – علی رضی الله عنہ ناراض تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کو اس سے مطلع کیا جاتا اور روایات سے معلوم ہے کہ ابو بکر اور عمر رضی الله عنہما سعد بن عبادہ کو روکنے گئے تھے جو انصار میں سے خلیفہ کا ارادہ رکھتے تھے- عبادہ کو یہ حدیث نہیں پہنچی تھی کہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے اس کی وضاحت کے لئے ابو بکر و عمر نے عجلت کی اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہو جاتا تو مسلمان دو حصوں میں بٹ جاتے ایک طرف انصار ہوتے اور دوسری طرف مہاجرین
اہل بیت اور زبیر رسول الله کے خاندان کے لوگ تھے یہ تدفین اور رشتہ داروں کے ساتھ تھے ان سب کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب ہو گیا ہے – الفرض اگر جانے سے پہلے شیخین مسجد النبی میں اعلان کرا دیتے کہ اس باغ میں یہ ہو رہا ہے ہم وہاں جا رہے ہیں تو یہ اشتعال پر مبنی ہوتی کیونکہ قریش اور مہاجرین بدک جاتے اور ان کے انصار سے تعلقات کشیدہ ہو جاتے
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے ابو بکر رضی الله عنہ کی بیعت نہیں کی کیونکہ ان کو لگا کہ اسلام میں اب انصار کا رول ختم ہو گیا ہے اب تو صرف قریشی خلفاء ہوں گے
علی رضی الله عنہ کسی سے ڈرنے والے نہ تھے ان کا اپنا مزاج تھا اور صحیح بخاری کے مطابق ٦ ماہ بعد انہوں نے ابو بکر کی بیعت کی
راقم مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کو پہلے أَسْلَمُ العَدَوِيُّ العُمَرِيُّ مَوْلَى عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ کی بڑھ کہا تھا لیکن تحقیق سے معلوم ہوا اس سند میں یہ نہیں ہیں
یہ روایت فضائل صحابہ از احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قثنا أَبُو مَسْعُودٍ قَالَ: نا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو قثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ فَيُشَاوِرَانِهَا، فَبَلَغَ عُمَرَ فَدَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ، مَا أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ، وَمَا أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ بَعْدَ أَبِيكِ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْكِ، وَكَلَّمَهَا، فَدَخَلَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَتِ: انْصَرِفَا رَاشِدَيْنِ، فَمَا رَجَعَا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعَا.
——
مستدرک الحاکم میں ہے
حَدَّثَنَا مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفُ الْهَمْدَانِيُّ، ثنا عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ عَلِيٍّ الزَّعْفَرَانِيُّ، ثنا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا فَاطِمَةُ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ أَبِيكِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْكِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
4736 – غريب عجيب
اس کو عجیب و غریب الذھبی نے کہا ہے
سند میں زيد بن أسلم العَدَوِي العمري المدني المتوفی ١٣٦ ھ ہے جس کا ذکر ابن عدی نے الکامل میں کیا ہے لیکن ثقہ کہا ہے
دوسرے عبيد الله بن عمربن ميسرة القواريري المتوفی ٢٤٠ ھ ہیں جو حماد بن زید بصری کے ہم عصر ہیں یہ ثقہ ہیں
امکان ہے کہ یہ محمد بْن بِشْر بْن الفَرَافِصَة بْن المختار ، أبو عَبْد اللَّه الكُوفيُّ المتوفی ٢٣٠ ھ نے مرسل بیان کیا ہے کیونکہ دیگر اسناد میں واقعہ بیان نہیں ہوا جو محمد بن بشر العبدي نے بیان کیا ہے
محمد بن بشر العبدي ارسال بھی کرتا ہے – ممکن ہے یھاں ارسال ہو اور اصل نام نہیں لیا گیا جس نے اس واقعہ کو بیان کیا
لگتا ہے زيد بن أسلم اور عبيد الله بن عمربن ميسرة القواريري کے درمیان انقطاع ہے
البتہ الکامل از ابن عدی میں ہے
حماد بن زيد قال قدمت المدينة وأهل المدينة يتكلمون في زيد بْن أسلم فقلت لعبد اللَّه ما تقول في مولاكم هذا قَال: مَا نعلم به بأسا إلا أنه يفسر القرآن برأيه.
حماد بن زید نے کہا میں مدینہ پہنچا اور اہل مدینہ زید بن اسلم پر کلام کرتے پس میں نے عبد الله سے پوچھا کہ یہ اس پر کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا یہ قرآن کی تفسیر رائے سے کرتا ہے
بعض کتابوں میں ہے کہ حماد سے اس کو عبيد الله بن عمربن ميسرة نے بیان کیا گویا عبيد الله بن عمربن ميسرة اتنے بڑے تھے کہ وہ زید پر تبصرہ کر سکتے تھے جبکہ ان دونوں کی وفات میں سو سال سے اوپر کا فرق ہے – اس قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ زید اور عبید الله کا سماع بھی ہوا ہے – کتب حدیث میں یہ واحد روایت ہے جو عبید الله نے زید کی سند سے بیان کی ہے
راقم کو مسند احمد میں سند ملی
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَادَةَ الزُّرَقِيُّ الْأَنْصَارِيُّ، مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ
یھاں حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ اور زید کے درمیان دو راوی ہیں
مسند ابویعلی میں سند ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ»
یہاں عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ اور زید کے درمیان ایک راوی ہے
اسی کتاب میں بعض دفعہ ان کے درمیان دو راوی اتے ہیں
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ
لہذا صحیح بات ہے کہ ُعبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ کا سماع زید بن اسلم سے نہیں ہے
اگر ایسا ہے تو پھر سند میں حدثنا کیوں ہے ؟ یہ اغلبا محمد بن بشر کی غلطی ہے
جواب
البانی صاحب کتاب سلسلہ احادیث الصحیحہ میں ایک روایت کے شاہد پر دلیل دیتے ہیں
كما في “تفسير ابن كثير” (4/159) – عن عبد الله البهي قال:
إني لفي المسجد حين خطب مروان فقال: إن الله تعالى قد أرى أمير المؤمنين
في (يزيد) رأياً حسناً وأن يستخلفه، فقد استخلف أبو بكر عمر- رضي الله عنهما-. فقال عبد الرحمن بن أبي بكر- رضي الله عنهما-: أهرقلية؟! إن أبا بكر- رضي
الله عنه- ما جعلها في أحد من ولده، وأحد من أهل بيته، ولا جعلها معاوية
إلا رحمة وكرامة لولده! فقال مروان: ألست الذي قال لوالديه: (أفٍّ لكما) ؟ فقال
عبد الرحمن: ألست يا مروان! ابن اللعين الذي لعن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أباك؟! قال: وسمعتهما عائشة- رضي الله عنها-، فقالت: يا مروان! أنت القائل لعبد الرحمنكذا وكذا؟! كذبت! ما فيه نزلت، ولكن نزلت في فلان بن فلان. ثم انتحب
مروان (!) ثم نزل عن المنبر حتى أتى باب حجرتها، فجعل يكلمها حتى انصرف. قلت: سكت عنه ابن كثير، وهو إسناد صحيح.
جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ
عبداللہ بہی نے کہا کہ ہم مسجد میں تھے جب مروان نے خطبہ دیا کہ اللہ نے معاویہ کو یزید کے بارے میں اچھی رائے دی ہے، کہ وہ انہیں اپنا خلیفہ بنائے جیسے ابو بکر نے عمر کو خلیفہ بنایا۔ عبدالرحمن بن ابو بکر نے کہا کہ کیا ہرقل کے مطابق؟ ابوبکر نے اپنی اولاد میں کسی کو نہیں بنایا نہ اپنے گھر والوں میں، معاویہ اپنی اولاد پر رحمت و کرامت کر رہا ہے۔ مروان نے کہا کہ تہمارے لیے یہ آیت آئی ہے۔ اس پر عبدالرحمن نے کہا یہ اے مروان! کیا تم لعنتی کے بیٹے نہیں جس کے باپ پر اللہ کے رسول نے لعنت کی؟ یہ عائشہ رضی الله عنہا نے سنا تو انہوں نے کہا کہ اے مروان! تم عبدالرحمن کے لیے فلان فلان چیز کے قائل ہو؟ تم نے جھوٹ بولا، یہ فلان فلان کے لیے نازل ہوئی۔ مروان نیچے اترا جلدی سے، اور آپ کے حجرے پر آیا، کچھ بولا اور پھر چلا گیا۔
میں البانی یہ کہتا ہوں کہ ابن کثیر اس پر چپ رہے ہیں، مگر یہ سند صحیح ہے
عبد الله البھی کا عائشہ رضی الله عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے کتاب جامع التحصیل کے مطابق امام احمد کے نزدیک ان کا سماع نہیں ہے
عبد الله البهي سئل أحمد بن حنبل هل سمع من عائشة رضي الله عنها قال ما أرى في هذا شيئا إنما يروي عن عروة
اہم سوال ہے کہ کیا علی رضی الله عنہ نے ہرقل کی سنت پر عمل نہ کیا؟
جواب ایک روایت کتاب الاحاد و المثانی از ابن ابی عاصم کی ہے
أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ فَاسْتَأْذَنَ عَلَى عَائِشَةَ فَأَذِنَتْ لَهُ وَحْدَهُ، وَلَمْ يَدْخُلْ مَعَهُ أَحَدٌ، فَلَمَّا دَخَلَ قَالَتْ عَائِشَةُ: «أَكُنْتَ تَأْمَنُ أَنْ أُقْعِدَ لَكَ رَجُلًا فَيَقْتُلَكَ كَمَا قَتَلْتَ أَخِي مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ؟» قَالَ: مَا كُنْتِ تَفْعَلِينَ ذَلِكَ. قَالَتْ: «لِمَ؟» قَالَ: إِنِّي فِي بَيْتِ أَمْنٍ. قَالَتْ: «أَجَلْ»
معاویہ رضی الله عنہ مدینہ آئے تو عائشہ رضی الله عنہا سے ملنے گئے۔ ان کے ساتھ کوئی اندر نہ گیا۔ عائشہ رضی الله عنہا نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کونسی چیز اس بات سے امن میں رکھے گی کہ میں ایک شخص کو لا کر نہ بیٹھاؤں جو تمہارا قتل کر دے جیسا کہ تم نے میرے بھائی محمد بن ابو بکر کا کیا۔ اس پر معاویہ نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کریں گی۔ عائشہ رضی الله عنہا نے پوچھا کیوں؟ معاویہ نے کہا کہ میں امن والے گھر میں داخل ہو چکا ہوں- عائشہ رضی الله عنہا نے کہا ٹھیک ہے
کتاب جامع التحصیل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق امام ابن معین کہتے ہیں کہ راوی معمر بن راشد نے امام الزہری سے نہیں سنا
يقول فيه معمر أخبرت عن الزهري يعني لم يسمعه منه
وہ معمر کے لئے کہتے کہ یہ الزہری کی خبر بھی دیتا ہے یعنی معمر نے ان سے نہیں سنا
معمر مدلس تھے اور یہ روایت بھی عن سے ہے لہذا قابل رد ہے
مستدرک حاکم کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَتَّابٍ الْعَبْدِيُّ بِبَغْدَادَ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ النَّرْسِيُّ، ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلَابِيُّ، ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ مُعَاوِيَةَ، عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَتْ: يَا مُعَاوِيَةُ، قَتَلْتَ حُجْرًا وَأَصْحَابَهُ وَفَعَلْتَ الَّذِي فَعَلْتَ أَمَا تَخْشَى أَنْ أَخْبَأَ لَكَ رَجُلًا فَيَقْتُلَكَ؟ قَالَ: لَا إِنِّي فِي بَيْتِ أَمَانٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْإِيمَانُ قَيْدُ الْفَتْكِ، لَا يَفْتِكُ مُؤْمِنٌ»
مروان بن حکم کہتے ہیں کہ میں معاویہ رضی الله عنہ کے ساتھ عائشہ رضی الله عنہا کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا کہ اے معاویہ تم نے حجر اور اس کے ساتھیوں کو مار ڈالا، اور وہ کیا جو کیا۔ کیا تم اس سے خوفزدہ نہیں کہ میں کسی کو بلا لوں تا کہ تم کو قتل کر دے۔ معاویہ نے کہا نہیں میں امن والے گھر میں ہوں۔ اور میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ ایمان بربادی کو قید کر لیتی ہے۔ مومن بربادی یا تباہی نہیں کرتا
سند میں علی بن زید بن جدعان ہے جس کو دارقطنی ضعیف کہتے ہیں المعلمي فوائد میں ضعیف کہتے ہیں
ابن معین اور احمد ليس بشي کہتے ہیں
الغرض یہ روایات ضعیف ہیں
کونڈے ایک قسم کی نیاز ہے جو اہل تشیع کے ائمہ میں کسی کے لئے کی جاتی ہے- غیر الله کی نذر حرام ہے
لیکن چونکہ شیعوں کا امام عالم الغیب ہوتا ہے تو ان کے مطابق وہ سب جانتا ہے اور سفارش بھی کرتا ہے
بعض اہل سنت نے اس کو امیر معاویہ کی وفات کا دن کہا ہے جبکہ یہ تسلیم شدہ امر نہیں ہے انکی تاریخ وفات میں اختلاف ہے مثلا
کتاب المحبر میں محمد بن حبيب بن أمية بن عمرو الهاشمي، بالولاء، أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ) لکھتے ہیں
مات معاوية لهلال رجب من سنة ستين
معاویہ کی موت ہوئی رجب کے ہلال پر سن ٦٠ ہجری میں
ہلال یعنی مہینے کے شروع میں
————-
تاريخ خليفة بن خياط کے مطابق
مَاتَ مُعَاوِيَة بِدِمَشْق يَوْم الْخَمِيس لثمان بَقينَ من رَجَب
معاویہ دمشق میں مرے جمرات کے دن جب رجب میں آٹھ دن رہ گئے
————-
تاریخ ابن خلدون میں ہے معاویہ
وتوفي في منتصف رجب
رجب کے بیچ میں مرے
——————-
کتاب المنتظم از ابن الجوزی میں ہے
توفي معاوية فِي رجب لأربع ليال خلت من سنة ستين
معاویہ کی وفات رجب میں چار رات گزرنے پر ہوئی سن ٦٠ ھ میں
————-
کتاب الكامل في التاريخ از ابن الأثير (المتوفى: 630هـ
کے مطابق
ثُمَّ مَاتَ بِدِمَشْقَ لِهِلَالِ رَجَبٍ، وَقِيلَ لِلنِّصْفِ مِنْهُ، وَقِيلَ لِثَمَانٍ بَقِينَ مِنْهُ،
پھر دمشق میں معاویہ کی رجب کے ہلال پر وفات ہوئی اور کہا جاتا ہے رجب کے بیچ میں ہوئی اور کہا جاتا ہے جب اس میں آٹھ راتیں رہیں
لہذا اس کو معاویہ رضی الله عنہ کی وفات سے ملآنا صحیح نہیں ہے زبردستی کا جھگڑا ہے
کونڈوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ امام جعفر کی نیاز ہے جن کی وفات شوال میں ہوئی ہے اس پر اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ اصل میں معاویہ سے دشمنی ہے
راقم کی رائے : امام موسى الكاظم بن جعفر الصادق کی وفات رجب کی ہے اور اغلبا غلطی سے لوگوں کو امام موسی کے والد کا نام یاد رہ گیا اور عوام میں مشھور ہوا کہ یہ نیاز رجب میں امام جعفر کی ہے جبکہ یہ ان کے بیٹے موسى الكاظم بن جعفر الصادق کی تھی
غیر الله کی نذر ہر صورت حرام ہے چاہے کسی کی بھی ہو لیکن اس مسئلہ کو صحابہ دشمنی کہنا بھی صحیح نہیں ہے
مثلا اہل سنت ١٢ ربیع اول کو میلاد النبی بناتے ہیں لیکن اس کووفات کا دن بھی کہا جاتا ہے اور یہی دن بارہ وفات سے مشھور تھا
عوام میں مشھور باتوں کو تختہ مشق بنانا صحیح نہیں
شاید یہ کسی شیعہ عالم نے لکھا بھی نہیں ہو گا کہ ہم ایسا معاویہ دشمنی میں کرتے ہیں
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ :قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( لَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي أُسْرِيَ بِي فِيهَا ، أَتَتْ عَلَيَّ رَائِحَةٌ طَيِّبَةٌ ، فَقُلْتُ : يَا جِبْرِيلُ ، مَا هَذِهِ الرَّائِحَةُ الطَّيِّبَةُ ؟ فَقَالَ : هَذِهِ رَائِحَةُ مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ وَأَوْلادِهَا ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا شَأْنُهَا ؟ قَالَ : بَيْنَا هِيَ تُمَشِّطُ ابْنَةَ فِرْعَوْنَ ذَاتَ يَوْمٍ ، إِذْ سَقَطَتْ الْمِدْرَى مِنْ يَدَيْهَا ، فَقَالَتْ : بِسْمِ اللَّهِ ، فَقَالَتْ لَهَا ابْنَةُ فِرْعَوْنَ : أَبِي ؟ قَالَتْ : لا ، وَلَكِنْ رَبِّي وَرَبُّ أَبِيكِ اللَّهُ ، قَالَتْ : أُخْبِرُهُ بِذَلِكَ ! قَالَتْ : نَعَمْ ، فَأَخْبَرَتْهُ ، فَدَعَاهَا فَقَالَ : يَا فُلانَةُ ؛ وَإِنَّ لَكِ رَبًّا غَيْرِي ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ؛ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ ، فَأَمَرَ بِبَقَرَةٍ مِنْ نُحَاسٍ فَأُحْمِيَتْ ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا أَنْ تُلْقَى هِيَ وَأَوْلادُهَا فِيهَا ، قَالَتْ لَهُ : إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً ، قَالَ : وَمَا حَاجَتُكِ ؟ قَالَتْ : أُحِبُّ أَنْ تَجْمَعَ عِظَامِي وَعِظَامَ وَلَدِي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَتَدْفِنَنَا ، قَالَ : ذَلِكَ لَكِ عَلَيْنَا مِنْ الْحَقِّ ، قَالَ : فَأَمَرَ بِأَوْلادِهَا فَأُلْقُوا بَيْنَ يَدَيْهَا وَاحِدًا وَاحِدًا إِلَى أَنْ انْتَهَى ذَلِكَ إِلَى صَبِيٍّ لَهَا مُرْضَعٍ ، وَكَأَنَّهَا تَقَاعَسَتْ مِنْ أَجْلِهِ ، قَالَ : يَا أُمَّهْ ؛ اقْتَحِمِي فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ ، فَاقْتَحَمَتْ ) . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما : تَكَلَّمَ أَرْبَعَةُ صِغَارٍ : عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلام ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَشَاهِدُ يُوسُفَ ، وَابْنُ مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ .
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اسراء کی رات ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ خوشبو کی مہک آنے لگی۔ میں نے کہا اے جبریل ! یہ کیسی اچھی خوشبو ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی (خادمہ) اور اُس کی اَولاد کی ہے‘ اس کی شان پوچھی گئی توعرض کیا‘فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتے ہوئے اس مومنہ خاتون کے ہاتھ سے اتفاقاً کنگھی گر پڑی تو اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا۔ فرعون کی بیٹی نے کہا اللہ تو میرا باپ ہے۔ اُس (خادمہ) نے جواب دیا کہ نہیں، میرا اور تیرے باپ کا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کہ میں اس کی خبر اپنے باپ کو دے دوں گی تو اس نے کہی کوئی حرج نہیں۔پس اُس نے اپنے باپ کو ساری بات سُنائی۔ فرعون نے اُس (خادمہ) کو بلوایا اور کہا کیا تم میرے سوا کسی اور کو ربّ مانتی ہو۔ کہا ہاں میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون نے اُسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی گائے کو آگ میں تپایا جائے‘ جب وہ بالکل آگ جیسی ہو جائے تو پھر اِسے اور اِس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اُس میں ڈال دیا جائے۔ اُس مومنہ عورت نے فرعون سے کہا میری ایک درخواست ہے اُس نے کہا کیا ہے؟ اُس نے کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک کپڑے میں جمع کرکے دفن کردینا ۔ فرعون نے کہا اَچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اِس لئے یہ منظور ہے۔
بعد ازیں فرعون نے حکم دیا کہ ایک ایک کر کے اِس کے بچوں کو آگ کی طرح تپتی ہوئی آگ میں ڈال دو۔ جب دُودھ پیتے بچے کی باری آئی (فرعون کے سپاہیوں نے جب اُس بچے کو چھینا) تو وہ گھبرائی( تو اللہ تعالیٰ نے دُودھ پیتے بچے کو گویائی عطا فرمائی)۔ اُس نے (اپنی ماں سے) کہا امی جان اَفسوس نہ کریں بلکہ (آگ میں) ڈال دیں کیونکہ دنیا کا عذاب ،آخرت کےعذاب سے بہت ہلکا ہے، تب (ماں نے بچے کوآگ میں) ڈال دی ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ چارچھوٹے بچوں نے بات کی وہ یہ ہیں۔
(1)عیسی بن مریم علیہ السلام(2)صاحب جریج(3)یوسف کی گواہی دینے والا(4)فرعون کی بیٹی کی مشاطہ کا بیٹا
جواب
یہ مسند ابو یعلی موصلی، مسند البزار ، الرد على الجهمية ، مسند الإمام أحمد بن حنبل صحیح ابن حبان ، حاکم میں ہے
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
البانی نے «الضعيفة» (880) میں اس کو ضعیف کہا ہے کہ اس کے متن میں نکارت ہے – شعيب الأرنؤوط صحیح ابن حبان کی تعلیق میں سندہ قوی کہتے ہیں اور مسند احمد میں حسن کہتے ہیں – احمد شاکر مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح کہتے ہیں – امام حاکم اور الذھبی اس کو صحیح کہتے ہیں
جو صحیح کہتے ہیں وہ کہتے ہیں حماد بن سلمة سمع من عطاء قبل اختلاطه. حماد کا سماع عطا سے اختلاط سے قبل ہے
لیکن امام عقیلی کہتے ہیں
قال أبو سعيد العلائي: ” وذكر العقيلي أن حماد بن سلمة ممن سمع منه بعد الاختلاط.
حماد بن سلمہ نے عطا سے الاختلاط کے بعد سنا ہے
لہذا یہ روایت ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے
جواب
عبدالرحمن بن ابی بکر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے زید بن حارثہ کو وادی القریٰ بھیجا، وہاں بنو فزارا سے ان کی مٹھ بھیڑ ہوئی۔ ان کے بہت سے ساتھی شہید ہوئے اور خود زید بھی مقتولین کے درمیان سے سخت مجروح اٹھائے گئے۔ اس واقعہ میں بنو بدر کے ایک شخص کے ہاتھ سے بنو سعد بن ہذیم کے ورد بن عمر مارے گئے۔ مدینہ آ کر زید نے عہد کیا کہ تا وقتیکہ وہ بنو فزارا پر چڑھائی نہ کر لیں، غسل جنابت بھی نہیں کریں گے۔ جب وہ اپنے زخموں سے صحت یاب ہوئے، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک فوج کے ساتھ بنو فزارہ کے ساتھ لڑنے کیلئے بھیجا۔ وادی القریٰ میں حریفوں کا مقابلہ ہوا، زیدؓ نے ان کے بہت سے آدمی قتل کر دیئے۔ قیس بن المسحر الیعمری نے معدہ بن حکمہ بن مالک بن بدر کو قتل کر دیا، اور ام قرفہ فاطمہ بن ربیعہ بن بدر کو جو مالک بن حذیفہ بن بدر کی بیوی تھی گرفتار کر لیا۔ یہ ایک بہت سن رسیدہ عورت تھی، اس کے ہمراہ اس کی ایک بیٹی اور عبداللہ بن معدہ بھی گرفتار ہوا۔ زید کے حکم سے ام قرفہ کو نہایت بے دردی سے اس طرح قتل کیا گیا کہ اس کے دونوں پیروں میں رسیاں باندھی گئیں اور پھر اسے دو اونٹوں کے درمیان لٹکا کر ان اونٹوں کو ہانکا گیا، جس سے اس کے دو ٹکڑے ہو گئے “۔
طبری:تاریخ الاامم و الملوک
حدثني ابن إسحاق، عن عبد الله بن أبي بكر، قال بعث رسول الله ص زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلَى وَادِي الْقُرَى، فَلَقِيَ بِهِ بَنِي فَزَارَةَ، فَأُصِيبَ بِهِ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَارْتَثَّ زَيْدٌ مِنَ بَيْنِ الْقَتْلَى، وَأُصِيبَ فيها ورد ابن عَمْرٍو أَحَدُ بَنِي سَعْدٍ بَنِي هُذَيْمٍ، أَصَابَهُ أَحَدُ بَنِي بَدْرٍ، فَلَمَّا قَدِمَ زَيْدٌ نَذَرَ الا يَمَسَّ رَأْسَهُ غُسْلٌ مِنْ جَنَابَةٍ حَتَّى يَغْزُوَ فَزَارَةَ، فَلَمَّا اسْتَبَلَّ مِنْ جِرَاحِهِ بَعَثَهُ رَسُولُ الله ص فِي جَيْشٍ إِلَى بَنِي فَزَارَةَ، فَلَقِيَهُمْ بِوَادِي الْقُرَى، فَأَصَابَ فِيهِمْ، وَقَتَلَ قَيْسُ بْنُ الْمُسَحِّرِ الْيَعْمُرِيُّ مَسْعدَةَ بْنَ حِكْمَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ بَدْرٍ، وَأَسَرَ أُمَّ قِرْفَةَ- وَهِيَ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَبِيعَةَ بْنِ بَدْرٍ، وَكَانَتْ عِنْدَ مَالِكِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ، عَجُوزًا كَبِيرَةً- وَبِنْتًا لَهَا، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعَدَةَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ أَنْ يَقْتُلَ أُمَّ قِرْفَةَ، فَقَتَلَهَا قَتْلا عَنِيفًا، رَبَطَ بِرِجْلَيْهَا حَبْلَيْنِ ثُمَّ رَبَطَهُمَا إِلَى بَعِيرَيْنِ حَتَّى شَقَّاهَا.
اس کی سند میں عبد الله بن أبي بكر، هو المقدمي، البصري ہے جو ضعیف ہے اور اس کی سند بھی منقطع ہے کیونکہ اس سے لے کر زید تک کی سند نہیں ہے
٢.
فاطمہ بنت ربیعہ
فاطمہ بنت ربیعہ المعروف ام قرفہ کا تعلق بنو فزارا نام کے بت پرست قبیلے سے تھا۔ وہ بارہ بیٹوں اور ایک انتہائی خوبصورت بیٹی کی ماں تھی۔ ام قرفہ وادی القریٰ کے ارد گرد کے تقریبا سو دیہات کی مشترکہ سردارنی/ رئیسہ تھی۔ اس کے سماجی مرتبے کے اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کے گھر میں پچاس سے زیادہ تلواریں لٹکی ہوئی تھیں ، جو مختلف قبائل کے سرداروں نے اسے عزت کے طور پر نذر کی تھیں۔ ایک روایت کے مطابق اگر کہیں دو قبیلے آپس میں لڑ پڑتے تھے تو انہیں لڑائی سے روکنے کیلئے ام قرفہ کا دوپٹہ بھیجا جاتا تھا جسے نیزے پر نصب کر کے میدان جنگ میں گاڑ دیا جاتا تھا اور لڑائی فوراََ بند ہو جایا کرتی تھی۔
۔” راوی کہتا ہے کہ ام قرفہ اپنی قوم میں ایسی بلند مرتبہ سمجھی جاتی تھی۔ کہ لوگ تمنا کیا کرتے تھے کہ ہم کو ام قرفہ کی سی عزت نصیب ہو”۔
ابن اسحاق، سیرۃ رسول اللہ
جواب
یہ ایک قصہ میں کردار ہے اس سے زیادہ نہیں اور اس قصہ کی سند نہیں
٣.
ہم (جابرؓ بن عبداللہ) نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ بھی بکریاں چراتے تھے۔ فرمایا، ہاں، اور کوئی ایسا پیغمبر نہیں جس نے نہ چرائی ہوں۔
طبقات ابن سعد، جلد اول، صفحہ 139
جواب
یہ اگر کسی نے تنقید کے لئے پیش کی ہے تو جاہل ہے اصل میں بکری چرانا یعنی گلہ بانی کا کہا گیا ہے نہ کہ سرقه کرنا
عربی متن میں گلہ بانی ہے
٤.
قتیلہ بنت نوفل
سیرۃ کی تمام کتابوں میں ایک عورت کا ذکر ہے، جس کا نام قتیلہ بنت نوفل بتایا جاتا ہے، وہ عورت کعبہ کے نزدیک رہتی تھی۔ ایک دن جب عبداللہ بن عبدالمطلب اپنے باپ کے ساتھ جا رہے تھے اور اس عورت کے پاس سے گذرے تو اس نے کہا:
۔” اے عبداللہ، کہاں جاتے ہو؟، فرمایا، اپنے والد کے ساتھ جا رہا ہوں۔ اس نے کہا جتنے اونٹ تمہاری طرف سے ذبح کئے گئے ہیں، اسی قدر میں تمہاری نذر کرتی ہوں، مجھ سے شادی کر لو۔ عبداللہ نے فرمایا، میں اپنے باپ کا مطیع فرمان ہوں، ان کی منشا کے خلاف نہیں کر سکتا“۔
سیرۃ رسول اللہ، ابن اسحاق
جواب
کعبه کسی کا گھر نہیں تھا کہ کوئی عورت اس میں رہ جائے اس کو کھولنے اور بعد کرنے اور اس کو چوکیداری کا مکمل انتظام تھا جو ایام جاہلیت سے چلا آ رہا تھا اور اسلام میں اس کو باقی رکھا گیا
عن محمد بن إسحاق قال: لما فدي عبد الله بن عبد المطلب من الذبح بمائة من الإبل ونحرت عنه انصرف عبد المطلب آخذا بيد ابنه عبد الله فمر به على امرأة من بني أسد وهي عند الكعبة فقالت له حين نظرت إلى وجهه: أين تذهب يا عبد الله؟ قال: مع أبي، قالت: لك مثل الإبل قوله: «عن محمد بن إسحاق» :
هو في سيرته [/ 42] ، ومن طريقه ابن هشام [1/ 155] ، والبيهقي في الدلائل [1/ 102]
إس مين ایک قصہ ہے کہ عبد الله کے اندر نور تھا جو انکی پشانی سے جھلکتا تھا اور یہ نور ان سے آمنہ کے رحم میں منتقل ہوا جو ولادت نبوی کے وقت نکلا جس سے شام تک کے محل روشن ہو گئے اور فارس کا اتش کدہ بجھ گیا اور بت گر گئے وغیرہ
ان کی اسناد میں رآویوں پر جھوٹ تک کا حکم محدثین نے لگایا ہے
٥.
۔”حضرت طلق بن علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو صحبت کیلئے بلائے تو وہ ہر حال میں اس کے پاس جائے، خواہ وہ تندور پر ( روٹیاں پکا رہی ) ہی کیوں نہ ہو”۔
جامع ترمذی، ابواب الرضاع، حدیث نمبر 1031
جواب
اس کی سند میں قیس بن علی ہے جس پر محدثین کہتے ہیں
قيس بن طلق [عو] بن علي الحنفي.
عن أبيه.
ضعفه أحمد، ويحيى في إحدى الروايتين عنه.
وقال ابن أبي حاتم: سألت أبي وأبا زرعة عنه، فقالا: ليس ممن تقوم به حجة.
قال ابن القطان: يقتضى أن يكون خبره حسنا لا صحيحا.
امام احمد اور یحیی نے اس کو تضعیف کی ہے
ابن ابی حاتم کہتے ہیں اس سے حجت قائم نہیں ہوتی
ابن القطان کہتے ہیں اس کی خبر صحیح نہیں حسن ہے
لہذا یہ ایک روایت ہے جو مظبوط نہیں ہے
اسلام سے قبل عرب معاشرہ میں عورتوں کی دو حصوں میں تقسیم تھی ایک وہ تھیں جو خاندان میں دولت کی وجہسے ایک مقام رکھتی تھیں اور تجارت کرتی تھیں اور مردوں کو ملازم رکھتی تھیں اس میں خدیجہ رضی الله عنہا ایک ایسی ہی مال دار عورت تھیں
بعض عورتیں شاعری بھی کرتی تھیں اور سرداروں کو بیویاں جنگوں میں ان سے ساتھ بھی ہوتی تھیں
بعض جنگ میں آگے آگے جزر پڑھتی اور لوگوں کو جنگ کے لئے ابھرتی تھیں
اس کے علاوہ جو لوگ مکہ میں اتے قریش مکہ باہر والوں کے لباس اترواتے تھے اور اس کو بے حیائی نہیں سمجھا جاتا تھا
عرب کے علاوہ پوری دنیا میں لونڈیاں رکھی جاتی تھیں جو معاشرہ کا کمزور طبقہ تھا
اسلام نے اس طبقہ کو ختم نہیں کیا لیکن ان کو آزاد کرنا نیکی کر یا اور ان کو رکھنا ایک کنٹریکٹ بنا دیا
لہذا مسلمان لونڈیاں عموما جنگوں میں ملنے والی غیر عرب عورتیں ہوتی گئیں جو نو مسلم تھیں یا اہل کتاب میں سے تھیں
تمام عرب لڑکیوں کو دفن نہیں کرتے تھے بلکہ یہ چند قبائل کا عمل تھا لیکن عوام میں اولاد نرینہ کو مادہ پر فوقیت دی جاتی تھی
جواب
اس کے بارے میں مشھور قول ہے کہ انکی عمر ٤٠ سال تھی
دیکھئے طبقات ابن سعد 1/ 132 و 8/ 17 عن الواقدي ، والطبري 2/ 280 عن الكلبي، وقال البلاذري 1/ 98: وذلك الثبت عند العلماء. وانظر السبل 2/ 225.
سیرت نگاروں نے ان کو قبول کیا ہے
یہ سب شیعہ مورخین مثلا واقدی ،کلبی، بلاذری کے اقوال ہیں اور اس عمر پر عورتیں بچے جننے کے قابل نہیں رہتیں لہذا صرف تیسری بیٹی فاطمہ رضی الله عنہا کی پیدائش ثابت کرنے کے لئے اس کو بیان کیا گیا کیونکہ شیعوں کے نزدیک رسول الله کی باقی تین بیٹیاں خدیجہ رضی الله عنہا کے پہلے شوہر سے تھیں
بیہقی نے دلائل النبوه میں أبو عبد الله الحاكم اور مصعب بن عبد الله الزبيري کے مطابق عمر ٤٠ کے قریب تھی
ابن عساکر کے مطابق حكيم بن حزام کے مطابق عمر چالیس تھی
غیر مقلد علماء کے مطابق بھی چالیس سال تھی الرحيق المختوم از صفي الرحمن المباركفوري
بعض اہل سنت کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم کی پیدائش ١٩ قبل نبوت میں ہوئی (یعنی جب رسول الله ٢١ سال کے تھے) اور فاطمہ کی بعثت نبوی سے پانچ سال پہلے
انساب کے ماہر امام ابن حزم کتاب جمهرة أنساب العرب میں کہتے ہیں
زينب، أكبرهنّ؛ وتاليتها رقيّة؛ وتاليتها فاطمة؛ وتاليتها أم كلثوم. أم جميع ولده صلى الله عليه وسلم
زینب سب سے بڑی تھیں پھر رقیہ پھر فاطمہ اور پھر ام کلثوم اور یہ تمام رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اولاد ہیں
راقم کے نزدیک یہ قول صحیح ہے
شیعوں کی کتاب تاريخ أهل البيت (ع) – رواية كبار المحدثين والمؤرخين – ص 90 – 92 از آلسيد محمد رضا الحسيني کے مطابق
ولد النبي صلى الله عليه وآله قال الفريابي : حدثني أخي عبد الله بن محمد – وكان عالما بأمر أهل البيت : حدثني أبي : حدثني ابن سنان ، عن أبي بصير : ( 2 ) . عن أبي عبد الله عليه السلام ، قال : ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله ، من خديجة : القاسم وعبد الله و ( هو ) الطاهر ( 3 ) . ‹ صفحة 92 › وزينب ورقية وأم كلثوم وفاطمة عليها السلام ومن مارية القبطية – أهداها إلى النبي صلى الله عليه وآله ، ملك الإسكندرية المقوقس – : إبراهيم .
ابی عبد الله علیہ السلام کہتے ہیں خدیجہ سے رسول الله صلی الله علیہ و الہ کی اولاد ہوئی قاسم اور عبد الله اور طاہر اور زینب اور رقیہ اور ام کلثوم اور فاطمہ
یعنی شیعہ کتب میں سچ بھی بولا گیا ہے جس کی یہ مثال ہے
انساب الاشراف از بلاذری میں ہے پہلے قاسم کی ولادت ہوئی
الْقَاسِم بْن رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وبه كَانَ يكنى. ومات وقد مشى، وهو ابن سنتين.
قاسم دو سال کی عمر میں فوت ہوئے
پھر
زينب بنت رسول الله. وهي أكبر بنات رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
زینب پیدا ہوئیں جو سن سے بڑی تھیں
اور رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں
—–
ابن حزم انساب میں لکھتے ہیں
وكان لرسول الله صلى الله عليه وسلم من الولد سوى إبراهيم: القاسم، وآخر اختلف في اسمه، فقيل: الطاهر، وقيل: الطيّب، وقيل: عبد الله، وقيل: عبد العزى ، ماتوا صغاراً جدّا.
اور رسول الله کے بیٹے ابراہیم کے علاوہ قاسم پیدا ہوئے اور ایک اور جن کے نام میں اختلاف ہے
کہا جاتا ہے طاہر یا طیب یا عبد الله یا عبد العزی
یعنی نبوت سے قبل قاسم اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں
مصعب الزُّبيريُّ کہتے ہیں دوسرے بیٹے
وُلِدَ بعد الوحي
طیب یا طاہر نبوت کے بعد پیدا ہوئے
اس میں کہیں بھی سال کا ذکر نہیں ہے کہ کب کون پیدا ہوا
اسی طرح ابراہیم مدینہ میں پیدا ہوئے
جواب
یہ بات کہ جویرہ رضی الله عنہا کسی اور کی لونڈی بنیں پھر انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مدد مانگی اور اپ نے ان سے شادی کی سیرت ابن ھشام میں ہے
أخرجه ابن راهويه في “مسنده” (725) ، وأبو داود (3931) ،وابن الجارود فى “المنتقى” (705) ، وأبو يعلى في “مسنده” (4963) ،والطبرى فى “التاريخ” 2/610، والطحاوي في “شرح مشكل الآثار” (4748) ،وفى “شرح معانى الآثار 3/21،” وابن حبان في “صحيحه” (4054) و (4055) ، والطبرانى فى “الكبير” (159) /24،والحاكم في “المستدرك” 4/26، والبيهقى فى “السنن
أخرجه ابن هشام في ” السيرة ” 2 / 294، 295، عن ابن إسحاق ومن طريقه أحمد 6 / 277 حدثني محمد بن جعفر بن الزبير، عن عروة بن الزبير عن عائشة قالت: لما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم سبايا بني المصطلق، وقعت جويرية بنت الحارث في السهم لثابت بن قيس بن الشماس أو لابن عم له، فكاتبته على نفسها، وكانت امرأة حلوة ملاحة لا يراها أحد إلا أخذت بنفسه، فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم نستعينه في كتابتها، قالت عائشة: فوالله ما هو إلا أن رأيتها على باب حجرتي، فكرهتها وعرفت أنه سيرى فيها صلى الله عليه وسلم ما رأيت، فدخلت عليه فقالت: يا رسول الله أنا جويرية بنت الحارث بن أبي ضرار سيد قومه، وقد أصابني من البلاء ما لم يخف عليك، فوقعت في السهم لثابت بن قيس بن الشماس أو لابن عم له، فكاتبته على نفسي، فجئتك أستعينك على كتابتي، وأتزوجك، قالت: نعم يا رسول الله.قال: ” قد فعلت “، قالت: وخرج الخبر إلى الناس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد تزوج جويرية ابنة الحارث بن أبي ضرار، فقال الناس: أصهار رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأرسلوا ما بأيديهم، قالت: فلقد أعتق لتزويجه إياها مئة أهل بيت من بني المصطلق، فما أعلم امرأة كانت أعظم على قومها بركة منها.
اس کی تمام اسناد میں ابن اسحاق کا تفرد ہے جو امام مالک کے نزدیک دجالوں سے ایک دجال ہیں- ابن اسحاق کی منفرد روایت قابل رد ہے
احمد کہتے ہیں اس کی روایت حلال و حرام میں نہیں لی جائے گی
غزوہ بنو المصطلق سن ٥ میں ہوا ایسا بعض نے کہا ہے اور ٣ ہجری کا بھی قول ہے
یعنی مدینہ انے کے تیسرے سال یہ جنگ ہوئی جس میں جویرہ رضی الله عنہا ملیں
روایت مظبوط نہیں ہیں طبقات ابن سعد کی سند ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
اس میں زَيْدِ بْنِ قُسَيْطٍ مجھول ہے یا یہ یزید ہے لیکن یہ بھی مجھول ہے
طبقات ابن سعد میں ہے
وَكَانَتْ مِنْ مِلْكِ يَمِينِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
جویرہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی لونڈی تھیں پھر اپ نے ان سے نکاح کر لیا
سند ہے
أَخْبَرَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَالْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ زَكَرِيَّاءُ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ
یہ مرسل تابعی ہے صحابی تک نہیں جاتی
طبقات میں یہ بھی ہے کہ جویرہ کے والد آئے اورگزارش کی کہ ان کی بیٹی کو آزاد کر دیا جائے پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے شادی کی
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ قَالَ: حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – سَبَى جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ فَجَاءَ أَبُوهَا إِلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –
فَقَالَ: إِنَّ ابْنَتِي لا يُسْبَى مِثْلُهَا فَأَنَا أَكْرَمُ مِنْ ذَاكَ فَخَلِّ سَبِيلَهَا. قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ خَيَّرْنَاهَا أَلَيْسَ قَدْ أَحْسَنَّا؟ قَالَ: بَلَى وَأَدَّيْتَ مَا عَلَيْكَ. قَالَ: فَأَتَاهَا أَبُوهَا فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ خَيَّرَكِ فَلا تَفْضَحِينَا. فَقَالَتْ: فَإِنِّي قَدِ اخْتَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: قَدْ وَاللَّهِ فَضَحَتْنَا.
یعنی مورخین نے اس میں دو اقوال دیے ہیں ایک وہ ہے جس میں ہے وہ کسی اور کی لونڈی تھیں اور پھر اپنا مقدمہ رسول الله کے سامنے رکھا دوسرا ہے وہ نبی کی ہی لونڈی تھیں لیکن ان کے باپ کی درخواست پر رسول الله نے ان سے نکاح کیا ان کے باب حارث اور چچا زاد مُسَافِعُ بنُ صَفْوَانَ بنِ أَبِي الشُّفَرِ دونوں مسلمان ہوئے
راقم کہتا ہے باپ والی بات زیادہ صحیح ہے کیونکہ ان کا صحابی ہونا پتا ہے
جواب
سوره الفتح میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بشارت دی گئی
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا
کہ الله اپ کے پچھلے اور اگلے گناہ معاف کر دے اور نعمت تمام کر دے اور سیدھے رستہ پر ہدایت دے
اور سوره النصر میں کہا استغفار کرو وہ توبہ قبول کرے گا
وفات سے چند دن پہلے رسول الله نے خبر دی کہ ایک بندے کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ دینا کو لیں یا آخرت کو
عائشہ رضی الله عنہا نے کہا کہ اپ نے جو الفاظ کہے اس پر میں جان گئی کہ اپ نے آخرت کو چن لیا ہے
اور سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی آخری دور کی حدیث میں خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ان کا بہشت میں مقام دکھا دیا گیا اور کہا گیا کہ زندگی پوری کر کے ہاں ا جائیں گے
اس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نماز جنازہ کی ضرورت ختم ہوئی ان کی نماز جنازہ نہیں ہوئی
نماز جنازہ تو اس کی ہوتی ہے جس کے گناہ ہوں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے ایسا ہم قبول نہیں کرتے کہ ان کے نامہ اعمال میں وفات کے وقت گناہ تھے لہذا اس بنا پر ان کی نماز جنازہ کا کسی صحیح السند روایت میں ذکر نہیں ہے
موطا میں ہے کہ امام مالک کو پہنچا کہ نبی کی وفات پیر کو ہوئی اور تدفین منگل کو
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «تُوُفِّيَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ، وَدُفِنَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَصَلَّى النَّاسُ عَلَيْهِ أَفْذَاذًا لَا يَؤُمُّهُمْ أَحَدٌ»
إس میں بَلَغَهُ ہے یعنی پہنچا یہ باقاعدہ روایت نہیں ہوا صرف زبان زد عام کی طرح مدینہ میں مشھور تھا کہ رسول الله پر لوگوں الگ الگ صلی کیا
یہ بات موطا کے تمام نسخوں میں نہیں ہے صرف ایک کاتب کی سند میں ہے امام محمد اس کو روایت نہیں کرتے
صلی راقم کے نزدیک یہاں نماز نہیں درود ہے
مسند احمد میں أبو عسيب مولى رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یا أَبِي عَسِيمٍ نام کے ایک شخص سے ایک روایت ہے جس کا متن عجیب و غریب ہے اس میں ہے نماز ہوئی
حَدَّثَنَا بَهْزٌ، وَأَبُو كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ يَعْنِي الْجَوْنِيَّ، عَنْ أَبِي عَسِيبٍ، أَوْ أَبِي عَسِيمٍ، قَالَ بَهْزٌ: إِنَّهُ شَهِدَ الصَّلَاةَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْهِ؟ قَالَ: ” ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا “، قَالَ: ” فَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنْ هَذَا الْبَابِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ “، قَالَ: ” فَلَمَّا وُضِعَ فِي لَحْدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: قَدْ بَقِيَ مِنْ رِجْلَيْهِ شَيْءٌ لَمْ يُصْلِحُوهُ، قَالُوا: فَادْخُلْ فَأَصْلِحْهُ، فَدَخَلَ، وَأَدْخَلَ يَدَهُ فَمَسَّ قَدَمَيْهِ، فَقَالَ: أَهِيلُوا عَلَيَّ التُّرَابَ، فَأَهَالُوا عَلَيْهِ التُّرَابَ، حَتَّى بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَكَانَ يَقُولُ أَنَا أَحْدَثُكُمْ عَهْدًا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ”
البغوي کہتے ہیں : لا أدري له صحبة أم لا نہیں جانتا کہ یہ صحابی بھی ہے یا نہیں
ابن حجر نے الإصابة في تمييز الصحابة میں أبو عسيب اور أبو عسيم کو دو الگ لوگوں میں شمار کیا ہے
سوال یہ ہے کہ جو اماموں کو معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں وہ اماموں کی نماز جنازہ کیوں پڑھتے ہیں؟
اس پر مزید بحث یہاں ہے
⇓ تاریخ الطبری کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسم تین دن بعد دفن ہوا کیا یہ بات صحیح ہے؟ کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جنازہ ہوئی تھی؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/
مختار بن ابی عبید الثقفی ملحد نہیں فتنہ پرداز سیاسی شیعہ تھا یہ ابن عمر رضی الله عنہ کا سالا تھا اس کو ثقیف کا کذاب کہا جاتا ہے
اس کا باپ ایک صحابی ہیں لیکن یہ چراغ تلے اندھیرا تھا
اس نے جھوٹا دعوی کہ عمر بن سعد بن ابی وقاص نے حسین رضی الله عنہ کا قتل کیا پھر اس نے دعوی کیا کہ یہ حسین کے قتل میں اتنے لوگ قتل کرے گا جتنے یحیی علیہ السلام کے قتل کے بدلے قتل کیے گئے یہ بات اس جھوٹے نے بولی جبکہ یحیی علیہ السلام کے بدلے میں کسی کا قتل نہیں ہوا
تاريخ المذاهب الإسلامية محمد أبو زهرة
اس جھوٹے نے دعوی کیا کہ محمد بن علی (ابن حنفيه) جو علی رضی الله عنہ کے بیٹے ہیں وہ امام ہیں
محمد بن علی نے اس کا انکار کیا عجب بات یہ ہے کہ اثنا عشری شیعوں نے مختار کو ایک سچا آدمی قرار دیا جبکہ اس کا فریب ظاہر ہے
اس کا فرقہ الكيسانية کہلاتا ہے
فرقة قالت بإمامة محمد بن الحنفيّة، و إنّما سمّوا بذلك لأنّ المختار بن أبي عُبَيد الثقفي كان رئيسهم و كان يلقّب كيسان، و هو الذي طلب بدم الحسين(ع) و ثأره حتّى قتل من قتله، و ادّعى أنّ محمد بن الحنفيّة أمره بذلك، و أنّه الإمام بعد أبيه.
فِرق الشيعة، ص 41.
مختار نے کوفہ میں ایک کرسی لوگوں کو دکھائی اور دعوی کیا کہ یہ علی کی کرسی ہے جنگ میں ساتھ ہو تو فتح ہو گی لہذا یہ کرسی جنگ میں ساتھ رہتی
اس نے نبوت کا بھی دعوی کیا
مسند ابو داود طیالسی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: كُنْتُ أَبْطَنَ شَيْءٍ بِالْمُخْتَارِ يَعْنِي الْكَذَّابَ قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ: دَخَلْتَ وَقَدْ قَامَ جِبْرِيلُ قَبْلُ مِنْ هَذَا الْكُرْسِيِّ
مختار نے رفاعہ سے کہا تو داخل ہوا تو جبریل اس کرسی کے پیچھے تھا
رفاعہ نے کہا مَا أَنْتَظِرُ أَنْ أَمْشِيَ بَيْنَ رَأْسِ هَذَا وَجَسَدِهِ
میں انتظار نہیں کروں گا اس تیرے سر اور دھڑ کے بیچ چلوں
مختار کو مصعب بن زبیر نے ابن زبیر رضی الله عنہ کی خلافت میں جہنم رسید کیا اور ابن زبیر کی جانب سے علی رضی الله عنہ کے بیٹے عبید الله جو لیلی بنت ابن مسعود کے بطن سے تھے انہوں نے بھی مختار کذاب سے قتال کیا
———–
کوئی بھی صحابی اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا تھا
⇓ صحابہ خوارج کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور کیا تابعین مختار کذاب کے پیچھے نماز پڑھتے تھے؟
https://www.islamic-belief.net/masalik/خوارج/
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ تابعین کذاب مختار کے پیچھے نماز پڑھتے تھے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ الله يُصَلُّونَ مَعَ الْمُخْتَارِ الْجُمُعَةَ، وَيَحْتَسِبُونَ بِهَا
عبد الله ابن مسعود کے اصحاب مختار کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے اور (ایک دوسرے کو) گنتے تھے
سُفْيَانَ الثوری مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں لہذا روایت مظبوط نہیں- دوم اصحاب عبد الله تمام اہل سنت میں سے نہ تھے ان سے بعض داعی شیعہ بھی تھے اور ان کا مختار غالی کے پیچھے نماز پڑھنا چندہ بعید نہیں
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُقْبَةَ الْأَسَدِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، «أَنَّ أَبَا وَائِلٍ جَمَعَ مَعَ الْمُخْتَارِ
يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ کہتے ہیں کہ ابو وَائِلٍ، مختار کے ساتھ (نماز میں؟) جمع ہوئے
سند میں يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ہے جو مجھول ہے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَجَعَ مِنْ أُحُدٍ، فَجَعَلَتْ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ يَبْكِينَ عَلَى مَنْ قُتِلَ مِنْ أَزْوَاجِهِنَّ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَلَكِنْ حَمْزَةُ لَا بَوَاكِيَ لَهُ ” قَالَ: ثُمَّ نَامَ فَاسْتَنْبَهَ وَهُنَّ يَبْكِينَ قَالَ: فَهُنَّ الْيَوْمَ إِذًا يَبْكِينَ يَنْدُبْنَ بِحَمْزَةَ
جب رسول الله نے انصار کے گھروں سے شہداء پر رونے کی صداییں سنیں تو آپ کی انکھیں اشکوں سے بھر گییں اور آپ گریہ کرنے لگے پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا: افسوس حمزہ پرکویی گریہ کرنے والا نہیں ہے
عبد الله بن أحمد: سَمِعتُهُ قول (يعني أباه) : روى أسامة بن زيد عن نافع أحاديث مناكير. «العلل» (503)
امام احمد نے کہا اسامہ بن زید ، نافع سے منکر احادیث روایت کرتا ہے
يحيى بن سعيد کے نزدیک یہ راوی متروک ہے
———-
کسی کے مرنے پر رونا منع نہیں ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر روئے
اسلام میں رونے پر شور کرنا منع ہے کہہ چیخ و پکار کی جاۓ جس کو گریہ و زاری یا عزہ داری کہا جاتا ہے یہ منع ہے
تفسیر فیروزآبادی اصل میں مُحَمَّد بن مَرْوَان عَن الْكَلْبِيّ عَن ابي صَالح عَن ابْن عَبَّاس کی سند سے تفسیر ہے جس سے یہ قول لیا گیا ہے
اس میں کلبی پر کذب کا حکم محدثین لگاتے ہیں اور اس کی ابی صالح سے روایت رد کی گئی ہے
اسی طرح کا ایک مرسل قول أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عمرو بن حزم سے بھی منسوب ہے جو طبقات ابن سعد میں ہے لیکن اس کی سند میں واقدی ہے یہ بھی شیعہ تھے اور ان کی بدمذہبی روایت ناقابل قبول ہے
اسی طرح یہ قول مقاتل بن سلیمان سے بھی منسوب ہے
روي أن هذه الآية نزلت في رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: لئن قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم لأنكحن عائشة قال مقاتل بن سليمان: هو طلحة بن عبيد الله فأخبر الله تعالى أن ذلك محرم،
ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں
وأصحاب الحديث يتقون حديثه وينكرونه.
اصحاب حدیث اس کی حدیث سے بچتے ہیں اور انکار کرتے ہیں
ابن جوزی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں
وزعم مقاتل أن ذلك الرجل طلحة بن عبيد الله.
اور مقاتل نے دعوی کیا یہ طلحہ تھے
یعنی یہ قول مقاتل کا ہے
الله کا عذاب اس مقاتل کو گھیر لے گا
قرطبی تفسیر میں لکھتے ہیں
قُلْت: وَكَذَا حَكَى النَّحَّاسُ عَنْ مَعْمَرٍ أَنَّهُ طَلْحَةُ، وَلَا يَصِحُّ. .
میں کہتا ہوں اسی طرح حکایت کیا ہے النحاس نے معمر سے کہ یہ طلحہ تھے اور یہ صحیح نہیں ہے
مصنف عبد الرزاق میں ہے
قَالَ مَعْمَرٌ: سَمِعْتُ أَنَّ هَذَا الرَّجُلَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ
معمر نے کہا میں نے سنا یہ طلحہ تھے
معمر نے کس مجھول سے سنا؟
التحرير والتنوير میں محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) کہتے ہیں
وَأَقُولُ: لَا شَكَّ أَنَّهُ مِنْ مَوْضُوعَاتِ الَّذِينَ يَطْعَنُونَ فِي طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ. وَهَذِهِ الْأَخْبَارُ وَاهِيَةُ الْأَسَانِيدِ وَدَلَائِلُ الْوَضْعِ وَاضِحَةٌ فَإِنَّ طَلْحَةَ إِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ بِلِسَانِهِ لَمْ يَكُنْ لِيَخْفَى عَلَى النَّاسِ فَكَيْفَ يَتَفَرَّدُ بِرِوَايَتِهِ مَنِ انْفَرَدَ.
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گھڑی ہوئی بات ہے طلحہ بن عبید الله کے لئے اور یہ خبریں اور اسناد واہی ہیں
محمد إبن سعد – الطبقات الكبرى – الجزء : ( 8 ) – رقم الصفحة : ( 59 ) 9584 – أخبرنا : عبد الله بن نمير ، عن الأجلح ، عن عبد الله بن أبي ملكية قال : خطب رسول الله (ص) عائشة بنت أبي بكر الصديق ، فقال : إني كنت أعطيتها مطعماً لإبنه جبير فدعني حتى أسلها منهم ، فإستسلها منهم فطلقها فتزوجها رسول الله (ص)
ترجمہ —-رسول اکرم ﷺ نے ابوبکر سے عائشہ سے شادی کرنے کا پوچھا تو ابوبکر نے کہا میں اسے پہلے ھی معطم بن جبیر کو دے چکا ھوں مجھے اس سے پوچھنے دیں اور اس سے پوچھا تو جبیر نے اسے طلاق دے دی اور عائشہ کی شادی رسول اللہ ﷺ سے کروا دی
جواب
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَجْلَحِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: ” خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم عَائِشَةَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي كُنْتُ أَعْطَيْتُهَا مُطْعِمًا لِابْنِهِ جُبَيْرٍ فَدَعْنِي حَتَّى أَسُلَّهَا مِنْهُمْ. فَاسْتَسَلَّهَا مِنْهُمْ , فَطَلَّقَهَا فَتَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم ”
اس روایت کے راوی الأجلح بْن عَبد اللَّهِ أَبُو حجية الكندي شیعہ ہیں
اس روایت میں ہے کہ میں عائشہ رضی الله عنہا کی بات مطعم بن جبیر سے کر چکا ہوں
اس میں نکاح کے الفاظ نہیں ہیں اور یہ شیعوں کی اڑائی ہوئی ہی روایت ہے
امام بخاری و مسلم نے اس سے صحیح میں کوئی روایت نہیں لی
محدثین کا اصول ہے کہ بدعتی کی روایت اس کی بد مذھب کے حق میں ناقابل قبول ہے