Category Archives: ایمانیات – Aqaid

سرخ گائے کا بھسم

یهود کے نزدیک وہ ملعون ہیں اور الوہی لعنت کا خاتمہ اس وقت ہو گا جب ان کے کوہن یا ائمہ ہیکل پاکیزہ نہ ہو جائیں – صرف غسل کرنے سے وہ پاک نہیں ہوں گے بلکہ ان کو باقاعدہ ایک رسم کرنی ہو گی جس میں گائے کی سوختنی قربانی دینی ہو گی – اس کا ذکر بائبل کی کتاب گنتی کے باب ١٩ میں ہے اور اس وجہ سے اس گئے کو
Number 19

گائے کہا جاتا ہے – مکمل رسم کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے

 

بائبل  کے  محققین  کہتے ہیں یہ اقتباسات  موسی علیہ السلام کو جو توریت ملی اس کے نہیں ہیں –  اور ایک مشہور محقق

Richard Elliot Friedman

کی کتاب

The Bible with Sources Revealed

میں انکشاف  کیا گیا ہے کہ یہ اقتباسات  بابل کی غلامی کے دوران  ہیکل کے بچے کچھے  پروہتوں  نے  توریت میں شامل کر  دیے تھے

اگر یہ  ابواب  بابل  کی غلامی  کے دوران میں شامل  کیے  گئے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ یہ سب سحر  کی وجہ سے کتاب اللہ میں داخل  کیے  گئے  ہوں کیونکہ وہاں بابل میں یہود  سحر میں مبتلا رہے ہیں  دیکھئے  سورہ البقرہ

بہر حال  اس سرخ  گائے کو  قتل کرنے کے بعد  اس  کی لاش کو گوبر سمیت  جلایا جائے  گا  اور پھر  اس کو  پانی میں شامل کر کے غسل طہارت  کوہن و  پروہت  لیں  گے – اس طرح  وہ اس قابل ہوں گے کہ  جدید  ہیکل سلیمانی میں داخل ہو سکیں

لہذا   الله کا شکر ادا کریں کہ اس   نے آخری رسول و نبی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا  اور ہم کو شرک سے بچایا اور قرآن کو نازل  کیا – یہ فرقان ہے اور ہر  باطل کا پردہ چاک کرنے والی  کتاب ہے

 

القرآن کلام اللہ غیر مخلوق

قران   اللہ کا کلام  ہے  اور  متعدد   بار  قرآن  میں   آیات کو کلام اللہ کہا گیا  ہے – کلام اللہ تعالی   کرتا ہے  تو کسی بھی زبان میں  کر سکتا ہے –  مثلا  موسی علیہ السلام سے  کلام  کیا  تو  یا تو وہ  ال فرعون کی زبان تھی یا بنی اسرائیل کی زبان تھی  کیونکہ دونوں سے ہی موسی علیہ السلام  واقف  تھے

معتزلہ  نے یہ  موقف  لیا کہ اللہ تعالی کلام نہیں  کرتا کیونکہ  کلام  کرنا  ان کے  نزدیک انسانوں  کا یا مخلوق کا کام ہے اور   اسی طرح  حواس خمسہ والی کوئی  صفت نہیں رکھتا  یعنی  نہ وہ سنتا ہے نہ وہ دیکھتا ہے بس وہ علم رکھتا ہے  اس بنا پر انہوں نے السمیع  و البصیر  والی  آیات  کو بھی بدلنا شروع کر دیا تھا

اسی سے ملتا جلتا  موقف   آجکل  بعض  لوگوں نے باطل موقف  اپنا لیا ہے کہ  قرآن   الوحی  ہے مخلوق  ہے

اس  پر ان لوگوں  کا رد کیا  گیا  تو انہوں نے یہ شوشہ  گھڑا  کہ امام  بخاری  کا عقیدہ  یہ تھا کہ قرآن  مخلوق ہے – یہ صریح  کذب ہے اور تاریخ کو  اپنے مقصد کے  لئے  مسخ کرنا ہے اور ساتھ ہی ظاہر  کرتا ہے کہ ان لوگوں  کو اس کا علم  نہیں کہ  یہ انکشاف کسی  شارح حدیث کو بھی نہیں ہوا کہ  امام  بخاری  کا عقیدہ   قرآن کو مخلوق  کہنے  کا ہے

 – –  صدیوں  سے یہ  معروف چلا آ رہا ہے کہ امام بخاری  قرآن کو غیر مخلوق کہتے  تھے

اس بات کو تنظیم  سے چھپنے والے لٹریچر میں بھی بیان کیا گیا ہے دیکھئے واتقوا اللہ

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/09/WattaqullahQist06-part2.pdf

 

صفحہ 24 دیکھیں

اس  بات سے  کہ امام الذھلی کے نام  پر تدلیس  کی گئی ہے تو یہ ظاہر  کرتا ہے کہ صحیح  بخاری امام بخاری کی آخری  تصنیف  ہے

اور وہ بات  جس پر نیشاپور  جھگڑا ہوا  وہ  یہی تھا کہ امام بخاری کے نزدیک  قرآن  اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور  اس کی تلاوت  مخلوق ہے

امام   بخاری  نے کہیں  نہیں لکھا کہ انہوں نے اپنی پچھلی  کتب سے رجوع کر لیا ہے-  ساتھ  ہی ڈاکٹر عثمانی  کی کوئی ایسی  تحریر  و تقریر نہیں جس میں  ہو  کہ ان کی تحقیق کے مطابق  امام  بخاری  نے  اپنی  تمام کتب سے رجوع  کر لیا تھا سوائے صحیح البخاری کے – اگر ایسا  ڈاکٹر  صاحب  کا موقف  ہوتا تو  ان کے جائز نہ تھا کہ اپنی کتاب ایمان خالص دوم  میں  تاریخ الکبیر از  امام  بخاری  کے حوالے دیتے جو صحیح   البخاری سے  پہلے کی کتاب ہے

فرق  صرف اتنا ہے کہ صحیح  میں وہ روایات جو  امام بخاری کے نزدیک صحیح السند ہیں  جبکہ دیگر  کتب میں ضعیف و صحیح دونوں طرح کی ہیں –  حبل اللہ شمارہ سات میں ڈاکٹر  شفیق  کو جواب دیتے  عثمانی نے لکھا

اس  کی وضاحت ڈاکٹر صاحب  نے اس طرح کی کہ اگر امام بخاری  نے  کوئی ضعیف روایت کسی کتاب میں لکھ دی ہے  البتہ  اس پر ان کا عقیدہ ثابت   نہیں ہے تو محض سندا  روایت  بیان کرنے کی وجہ سے ان کا رد و کفر  نہیں ہو گا فتوی نہیں لگے گا – البتہ  کتاب خلق الافعال  العباد  میں   امام بخاری نے  متعدد بار  کہا ہے قرآن غیر مخلوق ہے

امام  ابو عبداللہ  البخاری  نے کہا :  قرآن کی حرکات ، اس کی آواز قرات اور اس کو حاصل کرنا اور اس کو لکھنا یہ مخلوق ہے – پس جہاں تک قرآن  متلو مبین جو مصحف میں ہے  لکھا ہوا اور مکتوب ہے اور دلوں میں ہے وہ کلام اللہ ہے خلق شدہ نہیں ہے  – اللہ تعالی نے کہا : بلکہ یہ آیات واضح ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن کو علم دیا گیا ہے

اپنی کتاب  خلق افعال  میں امام بخاری نت باب قائم کیا اور لکھا

بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ يَسْتَعِيذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ لَا بِكَلَامِ غَيْرِهِ وَقَالَ نُعَيْمٌ: «لَا يُسْتعَاذُ بِالْمَخْلُوقِ، وَلَا بِكَلَامِ الْعِبَادِ وَالْجِنِّ وَالْإِنْسِ، وَالْمَلَائِكَةِ وَفِي هَذَا دَلِيلٌ أَنَّ كَلَامَ اللَّهِ غَيْرُ مَخْلُوقٍ، وَأَنَّ سِوَاهُ مَخْلُوقٌ»

باب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے کلمات سے  پناہ مانگی  ہے  نہ کہ کسی  اور کلام سے اور نعیم  نے  کہا  مخلوق  پر نہیں ہے کہ بندوں یا جنات یا انس یا فرشتوں کے  کلام سے  پناہ طلب کرے اور یہ دلیل  ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ہے  اور اس کے سوا مخلوق ہے

اسی طرح  امام بخاری نے مزید لکھا

اور بے شک اللہ تعالی  پکارتا ہے آواز سے جس  کو دور والا بھی سنتا ہے جیسا  قریب والا سنتا ہے  اور کسی غیر اللہ کے کلام میں ایسا نہیں ہے  – امام  ابو عبد اللہ بخاری نے کہا :  اور یہ دلیل  ہے کہ اللہ کی آواز مخلوق جیسی نہیں اور فرشتے اس کی اوز سے غش  کھا  کر گر جاتے ہیں مخلوق کی آواز  ایسی نہیں

 امام بخاری  نے  کہا: اگر تیرا دعوی ہے کہ تو اللہ کا کلام لوگوں کو اس طرح سناتا ہے جیسا اللہ نے اپنا کلام موسی کو سنایا (اللہ تعالیٰ نے موسی سے کہا کہ بے شک میں تیرا رب ہوں) تو یہ رب ہونے کا دعوی ہے جبکہ تو فرق نہ کرے اپنی قرأت اور اللہ کے کلام کے درمیان

امام   بخاری  تاریخ  الکبیر  میں  لکھتے  ہیں

سَمِعَ سُفْيَانَ بْن عُيَينة، قَالَ: أدركتُ مشيختنا، منذ سبعين سنة، منهم عَمرو بْن دينار، يَقُولُون: القرآن كلام اللَّه، وَلَيْسَ بمخلوقٍ.

سَمِعَ مُعاوية بْن عَمّار، عَنْ جَعفر بْن مُحَمد، قَالَ: القرآن كلام اللهِ، لَيْسَ بمخلوقٍ

اب کسی کے نزدیک امام  بخاری  کے تمام جملے  کفر ہیں تو اس کو امام بخاری  پر فتوی دینا  ہو  گا کیونکہ الفاظ  قرآن غیر مخلوق سے رجوع   کے الفاظ امام بخاری سے منقول نہیں ہیں

راقم  کہتا ہے کہ امام  بخاری کا عقیدہ خلق قرآن کے حوالے سے  درست  منہج پر ہے اور اسی کو اہل سنت نے قبول کیا ہے – باقی اس کے مخالف  اہل سنت میں نہ کوئی گروہ رہا ہے نہ عالم گزرا ہے لہذا یہ   کہنا کہ قرآن کے منزل میں اللہ الفاظ اور الوحی  جو جبریل لائے  وہ مخلوق کا کلام ہے  جھمیہ و معتزلہ   کا مذھب  ہے

جھمی  جاہل  سعید  اور اس کے چیلے اصف  خان کو کوئی روایت  ملی ہے تو یہ  ہے

صحیح بخاری میں حدیث ہے

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ  پیروی کرنے والے میرے ہوں گے

اس روایت میں کہاں ہے کہ  قرآن  مخلوق ہے؟؟؟؟؟؟؟

پھر دوبارہ نگاہ کر تیری طرف نگاہ ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔

اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ نہیں ہے کہ منزل  من اللہ  کتاب کو مخلوق کہا جائے – پھر مزید یہ کہ  ان لوگوں کے نزدیک   خبر واحد صحیح سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا

قَالَ حُذَيْفَةُ: مَنْ احْتَجَّ بِالقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ

حُذَيْفَةُ رضی اللہ عنہ  نے کہا جس نے قرآن سے دلیل لی وہ فلاح پا گیا

راقم کہتا ہے قرآن سے دلیل پیش کی جائے  کہ قرآن  مخلوق ہے  و أمر صعب

امام أبي موسى الأشعري (المتوفى: 324هـ) کتاب الإبانة عن أصول الديانة میں کہتے ہیں

ومن قال: إن القرآن غير مخلوق، وإن من قال بخلقه كافر من العلماء، وحملة الآثار، ونقلة الأخبار، وهم لا يحصون كثرة، ومنهم: حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد
بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون، وغيرهم

اور وہ جنہوں نےکہا قرآن غیر مخلوق ہے اور اس کومخلوق  کہنے والا کافر ہے ان میں علماء ہیں جو آثار بیان کرتے ہیں اور خبریں اور ان علماء کی تعداد بے شمار ہے اور ان میں ہیں حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون اور دیگر

نہ صرف یہ کہ  امام   بخاری   کا مذھب  قرآن کو غیر  مخلوق  کہنے  کا ہے  بلکہ یہی  مذھب امام ابو حنیفہ  اور امام مالک کا بھی ہے

حنفی فقہ کی کتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق جس کا حوالہ ڈاکٹر عثمانی نے بھی دیا ہے جس کے مؤلف: زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) وہ لکھتے ہیں

الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ تَعَالَى غَيْرُ مَخْلُوقٍ وَلَا مُحْدَثٍ     قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے نہ بنایا گیا ہے

جوابا  جھمی  نے کہا

جھمی جلد ( ننگے  جمہی )    نے   یہ  اگلا  کہ  امام   بخاری  کا عقیدہ غلط  بتایا  جا رہا ہے  انہوں  نے قرآن کو نشانی  کہا ہے

جبکہ اس  جھمی جاہل کو  یہ تک معلوم نہیں کہ قرآن  کا ایک ایک جملہ  اللہ تعالی نے خود  آیت  یعنی نشانی  کہا ہے اور اس کو کلام  اللہ بھی کہا ہے اور اس کو  عربی میں  اپنا کلام  بھی کہا ہے

یقینا قرآن  ایک   معجزہ  ہے اور  اللہ کی نشانی  ہے اس کا کلام ہے –  لیکن قرآن   مخلوق ہے؟   ایسا اللہ تعالی یا اس کے رسول نے   کہیں نہیں  کہا    یہی وجہ ہے  کہ جمہی اور  معتزلی  عقائد  دنیا سے معدوم  ہوئے  کیونکہ   ان کے پاس قرآن سے کوئی دلیل نہیں   تھی  جس سے ثابت  کر سکیں  کہ    آسمان سے نازل  ہونے  والا اللہ کا کلام  مخلوق ہے

قرآن کی تو یہ صفت  ہے کہ اگر  پہاڑ  پر نازل  ہو  جاتا تو  وہ اللہ کے خوف  سے  لرز جاتا – کیا  کسی  مخلوق کا ایسا اثر  ہے پہاڑ   پر ؟  ہرگز  نہیں  یہ اللہ  تعالی کے کلام کی ہی صفت  ہے    کسی  مخلوق کی یہ صفت  نہیں

جمہی نے  کہا

سورہ الاسراء میں ارشاد  باری ہے

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْـــَٔلْ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اِذْ جَاۤءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا

اس میں کہاں  لکھا  ہے کہ یہ نشانیاں موسی  کا کمال  تھا ؟  جو بات ہی اللہ کے حکم سے ہو رہی ہو  اس کو مخلوق  کا عمل  کیسے کہا جا سکتا ہے ؟ کیا موسی علیہ السلام کے علم میں تھا کہ وہ جب چاہے نشانی لا سکتے ہیں ؟ ایسا تو خود موسی کے علم میں نہیں   جو یہ جھمی کا دعوی ہے

معجزہ  وہ نشانی  ہے جو کافر کو دکھائی  جاتی ہے  جس طرح آفاق و انفس کو بھی نشانی کہا جاتا ہے  اسی طرح یہ بھی ایک اللہ کے وجود کی نشانی ہے – بعض  جاہل جہمیوں  نے  عطائی  عقیدہ اختیار  کر لیا ہے  کہ اللہ نے اپنی  معجزہ  کرنے کی صفت یعنی  القادر میں سے کچھ حصہ  انبیاء کو دے دیا ہے – لفظ   نشانی سے جھمی  نے  یہ اخذ  کر لیا ہے کہ  انبیاء کا عمل ہے ان کا ذاتی کرشمہ ہے جو صریح جھل و افتری ہے

جاہل  جھمی  نے  نہ صرف دیدہ  دلیری سے  امام  بخاری کو  ہم عقیدہ قرار دیا اورتو اور ڈاکٹر عثمانی  پر بھی  جھوٹا الزام  لگا دیا کہ ان کا عقیدہ صحیح احادیث پر منبی نہیں تھا  – جھمی  نے کہا

در حالنکہ   ڈاکٹر  عثمانی  نے  لکھا

ڈاکٹر صاحب  نے نہ صرف  اخبار  احاد  یعنی صحیح  روایات سے دلیل لی بلکہ اس سے  برزخی جسم  کے عقیدے  کا  پرچار  بھی کیا اور اس پر صحیح مسلم کی حدیث بھی پیش کی –  قابل غور ہے کہ  جھمی نے برزخی جسم کے عقیدے  پر کافی تکرار کی تھی اور اس کوعقیدہ  ماننے سے انکار  کر دیا تھا

عقیدہ وہی ہے جس کا انسان  پرچار کرتا ہے -افسوس اس شخص نے  گمراہی  پھیلائی اور  عثمانی صاحب کو حدیث رسول کا مخالف بنا پر پیش کیا – کتنی ہی صحیح احادیث ہیں جو  سنن سعید بن منصور میں ہیں ، مسند ابو یعلی  میں ہیں لیکن اس  جھمی کے بقول  عثمانی صاحب نے ان صحیح احادیث پر اپنا عقیدہ استوار نہ کیا تھا – یہ کذب صریح ہے اور آنکھوں میں دھول جھوکنے  کے مترادف  ہے

عثمانی صاحب اگر صحیح احادیث پر عقیدہ نہیں رکھتے تھے وہ یہ نہ کہتے

کیا  خبر واحد  کا انکار کرنے والا  کافر ہے  ؟   صحیح احادیث جو  ڈاکٹر عثمانی نے اپنی کتاب میں پیش کی ہیں وہ  اخبار  احاد ہیں   – اگر ان کا انکار جائز ہے تو ان کا انکار  کرنے والے   لوگ  کافر کیسے  ہوئے ؟

اس سے قبل جھمی  نے اپنے  متعدد عقائد  کا اظہار کیا  مزید  دیکھئے

قدمونی قدمونی پر ایک نظر

Life, Sleep, Unconsciousness, Death

Before the creation of Adam, Allah Almighty created the souls of all humans – and at that time these souls had all life – on the other hand, the clay which had no life was being made into the body of Adam – Adam was being created in a lifeless form – now there was neither life in them nor any movement, neither the heart was beating nor there was breath – then (according to Surah Al-Hijr) Allah Almighty commanded the angels

‘When I have proportioned him and breathed into him of My [created] soul, then fall down to him in prostration.’

The body of Adam was in a lifeless state and the angels were waiting for the moment when the soul would enter Adam – as soon as the soul entered Adam, the body of Adam began to breathe, it became a breather

As soon as he had to breathe, all the angels of the sky fell in prostration for Adam

Thus began the creation of man, now the soul entering Adam could also be called Nafs because it started the act of breathing from it

In this way, the soul has three names in Abrahamic religions

Soul
Nasmah, i.e., like air
Nafs, i.e., from which the act of breathing continues

Human souls are still together in the upper world, it is in the Hadith

Sahih Bukhari Chapter: The Souls are like conscripted soldiers
The souls are like conscripted soldiers, those who recognize each other (in the spiritual world) will have affinity in the world and those who do not recognize each other will be at variance

So this souls are interactive beings who when pass by each other, and there is consciousness in these souls – on the contrary, the bodies in which they go are unconscious and in the event of the soul leaving, they return to the same state

The souls born from this army of souls are taken and they are completely separated from this army and brought down to the womb of the mother on earth below the seven heavens.

 

The concept of Ensoulment or The Arrival of the Soul in the Offspring of Adam

Human life began, and now it was the turn of the offspring of Adam – a sperm came out of the body of Adam and went into the womb of Eve – there this sperm was soulless – it had life like a germ but no soul. The Hadith details that the heart starts beating in the womb after 6 weeks (42 days after the arrival of semen) – it can be heard from the eighth week.

Narrated by Huzayfa bin Asid Ghafari, I heard from the Prophet (peace be upon him), he was the truthful and the trusted, he said: ‘When 42 nights pass over the sperm, Allah sends an angel to it, who shapes its form, ears, eyes, skin, flesh, and bones. Then he says, O Lord, is it male or female? Then whatever Allah wills, it happens – the angel writes it down, then he says, O Lord, what is its age? So Allah commands whatever He wills and the angel writes it down, then he says, O Lord, what is its sustenance? The Lord commands whatever He wills and the angel writes it down – then the angel takes that book in his hand and comes out, in which there is neither any shortage nor any excess.” (Sahih Muslim, Chapter of Destiny)

Anas bin Malik (may Allah be pleased with him) says that the Prophet (peace be upon him) said: Allah has appointed an angel over the womb of the mother. He keeps saying, O my (Lord, so far) this is a sperm. O my Lord, (now) this is a clot (i.e., a lump of coagulated blood). O my Lord, (now) this is a lump of flesh. Then when Allah intends to complete its creation, the angel asks, O my Lord (what is the command about it) will it be a man or a woman, unfortunate or fortunate, what will be its sustenance and what will be its age. So in the mother’s womb, the angel writes all these things as he is commanded. That is why it is said that every child is born with its sustenance and age.

After the state of the lump (linguistic meaning chewed matter), the heart beats in the womb – as if it has now become a statue in which the soul comes – forty-two days later the angel comes and it can be heard on it. The heartbeat is one thing, so the Hadith and science say the same thing.

Note: A strange narration in Sahih Bukhari mentions that the soul comes in the womb after 4 months, which contradicts the correct narration of Sahih Muslim – this narration is attributed to Ibn Masood, according to which the soul comes after 120 days i.e., 4 months.

Narrated Hasan bin Rabi, narrated Abu Ahwas, from Al-A’mash, from Zaid bin Wahb, Abdullah said: The Messenger of Allah (peace be upon him) told us, and he is the truthful, the trusted, he said: “Indeed, one of you is created in his mother’s womb for forty days, then he becomes a clot like that, then he becomes a lump of flesh like that, then Allah sends an angel and he is commanded with four words, and he is told: write his deeds, his sustenance, his age, and whether he is unfortunate or fortunate, then the soul is breathed into him, for indeed a man among you does work until there is only an arm’s length between him and Paradise, then his book precedes him, and he does the work of the people of Hellfire, and he

does work until there is only an arm’s length between him and Hellfire, then his book precedes him, and he does the work of the people of Paradise.”

Each of you, your creation is gathered in your mother’s womb for forty days, then you remain a clot for the same period, then a lump of flesh for the same period, then Allah sends an angel to write four words, he is commanded to write his deeds, his sustenance, his age, and whether he is unfortunate or fortunate, then the soul is breathed into him…. (Sahih Bukhari Chapter Beginning of Creation. Sahih Muslim Chapter of Destiny)

Although this narration has been declared authentic by Imam Bukhari and Muslim, there is a solitary narration from Zaid bin Wahb in its chain, and according to Imam Al-Faswi, there is a defect in his narrations.

Tahawi has discussed this narration in Mushkil Al-Athar and then said
And we have found this hadith from the narration of Jarir bin Hazim, from Al-A’mash, which indicates that this speech is from the speech of Ibn Masood, not from the speech of the Messenger of Allah, peace be upon him.

But Tahawi said this must have been told to Ibn Masood by the Prophet, peace be upon him.

The narrator says that the chain which has been declared authentic has a solitary narration from Zaid, which is not strong.

Thus, it has been coming in the offspring of Adam that after 42 days the soul comes, science says that then the human heart beats.

The soul in the human body now stays until death, it cannot come out – it is also the work of angels to take it out, just as it was the work of angels to put it in the body.

 

The Departure of the Soul from the Body at Death

It is in the Quran:

“Until, when death comes to one of you, Our messengers take him, and they do not fail in their duties.”

The meaning of Tawaffa is to take possession, to grip tightly – this word is metaphorically spoken on death that so-and-so has died i.e., death has come.

Surah Al-Anam:
“If only you could see when the wrongdoers are in the agonies of death, while the angels are stretching forth their hands (saying): “Deliver your souls! This day you shall be recompensed with the torment of degradation because of what you used to utter against Allah other than the truth. And you used to reject His Ayat with disrespect!”

“Allah takes the souls at the time of their death, and those that do not die during their sleep. He retains those souls for which He has ordained death, whereas He releases the rest for an appointed term.”

Allah holds or retains the soul on which He commands death, i.e., it is not left back in the body now.

For the same reason, the body decays – the Quran says:
“We already know what the earth diminishes of them, and with Us is a retaining record.”

It is in Sunan Ibn Majah:

Narrated by Abu Bakr bin Abi Shaiba, narrated by Abu Muawiya, from Al-A’mash, from Abu Salih, from Abu Hurairah, he said: The Messenger of Allah (peace be upon him) said: “Nothing of the human being will decay except one bone, and it is the tailbone, and from it will the creation be composed on the Day of Resurrection.”

Abu Hurairah (may Allah be pleased with him) said that the Messenger of Allah (peace be upon him) said: “Every part of a man’s body decays, except for one bone, and that is the tailbone (the last bone of the spine), and from it, the human will be created on the Day of Resurrection.

The Journey of the Soul’s Return to the Higher Realm

After death, the soul is returned to heaven.

There is a narration in Sahih Muslim, narrated by Abu Hurairah (may Allah be pleased with him):
Narrated by Ubaidullah bin Umar Al-Qawariri, narrated by Hammad bin Zaid, narrated by Budail, from Abdullah bin Shaqiq, from Abu Hurairah, he said: “When the soul of the believer departs, two angels receive it and ascend with it.” Hammad said: He mentioned its pleasant smell and mentioned musk. He said: “And the inhabitants of the sky say: ‘A pure soul has come from the earth, may Allah bless you and the body you used to inhabit.’ Then it is taken to its Lord, the Almighty, and then He says: ‘Take it to the end of the term.’ He said: “And indeed, when the soul of the disbeliever departs – Hammad said and mentioned its stench, and mentioned a curse – and the inhabitants of the sky say: ‘A wicked soul has come from the earth.’ Then it is said: ‘Take it to the end of the term.’ Abu Hurairah said: The Messenger of Allah (peace be upon him) returned a cloth that was on him, on his nose, like this.”

In this way, whether the soul is of a disbeliever or a believer, it goes to the sky or the higher realm – in this state, the soul of a believer stays on a great tree in heaven until the Day of Judgment.

It is in Al-Muntakhab from Musnad Abd bin Humaid that Ka’b bin Malik, when he was on his deathbed, and in Musnad Ahmad, it is narrated:
Narrated by Abdur Razzaq, he said: Narrated by Ma’mar, from Az-Zuhri, from Abdur Rahman bin Ka’b bin Malik, he said: Umm Mubashir said to Ka’b bin Malik, while he was in doubt: “Read the Salam on my son,” meaning Mubashir, so he said: “May Allah forgive you, O Umm Mubashir, have you not heard what the Messenger of Allah (peace be upon him) said: ‘Indeed, the soul of a Muslim is a bird hanging in the trees of Paradise until Allah, the Almighty, returns it to its body on the Day of Resurrection.’ She said: ‘You have spoken the truth, so I seek forgiveness from Allah.’

The State of Sleep

In the Quran, the word Tawaffi is also spoken for sleep, in which the soul is seized – along with this, we know that in sleep, a person breathes, mutters, he also sweats – he is alive i.e., this is not the act of seizing that happens at the time of death.

In sleep, the soul is seized within the body and the soul is not separated from the body – whereas in the act of death, the soul is separated from the body so that it can be returned to the same thin state that was of Adam – for the same reason, after death, the body becomes dust and after sleep, this does not happen – in sleep, there is consciousness but subconsciousness is limited – because of this consciousness, the sleeping person wakes up on noise.

The State of Unconsciousness

Unconsciousness is also sleep but deep sleep – in this state, even if a doctor cuts the body of a person, he does not get the news – the body cannot feel the pain of this torment – during this time, the soul is in the body but cannot feel the torment of the doctor and the surgeon.

What

is the difference between sleep and unconsciousness? It is only a difference in consciousness – in sleep, there is memory, a person sees dreams in which he sees his relatives and loved ones or those people whom he has met i.e., the consciousness in the brain has not completely ended yet – in sleep, one part of the brain fully works and creates dreams.

In contrast, in unconsciousness, memory is completely eliminated – along with this, the sensation of pain is also eliminated.

Unconsciousness is such a deep sleep in which both subconsciousness and consciousness are limited.

Whether it is sleep or unconsciousness, in both of these, the soul is confined within the body, which is said in the Quran to be seized.

The meaning of Qabz in Arabic is neither to remove nor to pull, but the alternative word for this Qabz in English is to ‘seize’, and in Urdu, it is to ‘grip’.

The Earth is in constant torment from Allah?

A critic commented on this writing, saying that the Earth obeys Allah’s command – its stones fall out of divine fear, meaning there is consciousness in the soil, and it was found that the soil feels torment – his claim was that the human body, even after becoming dust, suffers torment.

In response, I said, yes, Allah has informed that the soil has consciousness and the entire universe prostrates to it, even to the extent that the shadow of the body of a disbeliever is also prostrating to Allah, but the disbeliever is not doing so – in this way, the entire universe has become obedient to Allah, but it is not in the Quran and Hadith that this Earth feels Allah’s torment. When Allah inflicts torment on a disbeliever or fills the womb of this Earth with lava, He is not tormenting the Earth, but He has placed a property in the Earth that it tolerates this degree of intensity, it does not call it torment. It was found that the Earth and its soil, its stones, are conscious of the existence of Allah, but do not feel torment.

Similarly, there are trees, it is in the Hadith that it can cry when the Prophet (peace be upon him) did not deliver a sermon near it, meaning trees also have consciousness – but we know that the Prophet (peace be upon him) ordered to cut the tree.

‘Whether you cut down (O Muslims) the tender palm-trees, or you left them standing on their stems, it was by leave of Allah, and in order that He might disgrace the rebellious.’ (5)

The date-palm trees you cut down or left standing on their roots, it was by Allah’s leave, and so that He might disgrace the transgressors.

If trees felt torment, the Prophet, the mercy to all worlds, would not have ordered them to be cut down.

On the same basis, Nawawi’s saying is that torment is not possible without a soul, and Anwar Shah Kashmiri’s saying is that inanimate objects do not suffer torment.

See more.”

 

 

ساحل عدیم کی پورٹل تھیوری

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس کتاب میں آیات ہیں جو متشابھات ہیں اور اہل علم ان پر ایمان رکھتے ہیں ان کی صحیح تاویل کا علم صرف اللہ کو ہے

سورہ الطلاق کی آخری آیات

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} قَالَ: لَوْ حَدَّثْتُكُمْ بِتَفْسِيرِهَا لَكَفَرْتُمْ وَكُفْرُكُمْ تَكْذِيبُكُمْ بِهَا
ابن عباس رضی الله عنہ نے اللہ تعالی کے قول پر کہا سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ سات آسمان اور سات زمین ان کی جیسی پر کہا اگر اس کی تفسیر کروں تو تم کفر کرو گے

اس کی سند میں إبراهيم بن مهاجر البجلي الكوفي ہے جس پر امام القطان و امام نسائی کا کہنا ہے
عن طارق بن شهاب ونحوه قال القطان لم يكن بالقوي وكذا قال النسائي
یہ قوی نہیں

حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: ثنا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ الْقُمِّيُّ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ [ص:79] {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} الْآيَةُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا يُؤَمِّنُكَ أَنْ أُخْبِرَكَ بِهَا فَتَكْفُرَ

سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ابن عباس سے ایک شخص نے کہا کہ اللہ کے قول
سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ سات آسمان اور سات زمین ان کی جیسی
کا کیا مطلب ہے

پس ابن عباس نے فرمایا تم اس پر ایمان نہ لاؤ گے اگر اس کی خبر کروں

وفي «كتاب الصريفيني»: قال ابن منده: ليس بقوي في سعيد بن جبير

ابن مندہ کا قول ہے کہ راوی جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ ، سعید بن جبیر سے روایت میں قوی نہیں ہے

نوٹ سات زمین موجود ہیں ان پر ایمان ہے لیکن یہ  قرآن میںموجود نہیں کہ ان تک انسان جا کر واپس زمین پر بھی آ جاتے ہیں

سورہ کہف میں سببا کا مطلب ؟

ساحل عدیم صاحب کی  پورٹل تھیوری کی دوسری بڑی دلیل  سورہ کہف کی آیات ہیں جن میں سببا کا لفظ ہے

سبب کا لفظ ہم اردو میں بھی بولتے ہیں اور اس کا مطلب ہے وجہ یا رخ یا جانب یا سرا

اس کا کیا سبب ہے  یعنی اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا سرا دیں ؟ اس کا رخ بتائیں ؟ ان تمام جملوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس مسئلہ کو اس جانب ، رخ سے سمجھا جائے اس حوالے سے کوئی سرا ملے – عربی  میں بھی اس لفظ کے یہی مطلب ہیں

إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا (84) فَأَتْبَعَ سَبَبًا (85)

ہم نے اس کو زمین میں بادشاہت دی اور اس کو ہر چیز کا سرا دیا

پھر اس نے اس سرے  کو فالو کرنا شروع کیا

یہاں کہا جا رہا ہے کہ ذو القرنین کو کوئی نشان یا سرا ملا اور انہوں نے اس پر کھوج کی کہ سفر کیا

تفسیر طبری میں ہے

حدثني عليّ، قال ثنا عبد الله، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) يقول: علما

ابن عباس نے فرمایا  ہم نے اس کو ہر چیز پر سبب دیا ، فرمایا یعنی علم دیا

اس پر متعدد تفسیری اقول ہیں
– حدثنا القاسم، قال ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جريج، قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) قال: علم كلّ شيء.
حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) علما.
حُدثت عن الحسين، قال: سمعت أبا معاذ يقول: ثنا عبيد، قال: سمعت الضحاك يقول في قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) يقول: علما.

ان سب کا کہنا ہے کہ یہ سبب یہاں علم  دیا جانا ہے

اس حوالے سے ساحل عدیم صاحب کو جو روایت سب سے پسند آئی ہے وہ تفسیر طبری میں ہے

حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد، في قوله (فاتَّبَعَ سَبَبا) قال: هذه الآن سبب الطرق (1) كما قال فرعون (يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الأسْبَابَ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ) قال: طرق السماوات

 عبد الرحمان بن زید بن اسلم نے  قول (فاتَّبَعَ سَبَبا) پر کہا   کہ یہ وہی سبب ہے جیسا فرعون نے کہا تھا اے ہامان میرے لئے ایک صرح بنالو  جس سے میں آسمانوں نے اسباب کو دیکھوں – کہا یہ آسمان کے رستے ہیں

امام بخاری اپنی کتاب تاریخ الکبیر میں  عَبد الرَّحمَن بْن زَيد بْن أَسلَم پر  کہتے ہیں

ضَعَّفَهُ عليٌّ جِدًّا.

امام علی المدینی اس کی شدید تضعیف کرتے تھے

امام الذھبی اپنی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين
میں ذکر کرتے ہیں

عبد الرحمن بن زيد بن أسلم: ضعفه أحمد بن حنبل، والدارقطني

امام احمد و دارقطنی فی اس کی ضعیف کہتے ہیں

المعلمی  کتاب التغليق میں کہتے ہیں أولاد زيد بن أسلم ضعفاء  زید بن اسلم کی تمام اولاد ضعیف ہے

قال النسائي: ضعيف مدني. “الضعفاء والمتروكون

لب لباب ہوا کہ یہ تفسیری قول  کہ ذو القرنین کا سبب وہی ہے جس کا فرعون نے ذکر کیا وہ قول ہی ضعیف ہے

سورہ النمل میں ہے کہ سلیمان نے ملکہ سبا سے کہا ادْخُلِي الصَّرْحَ  عمارت میں داخل ہو

فرعون نے عمارت بنانے کا حکم دیا  نہ کہ ہامان کو پورٹل کھولنے کا حکم دیا

فرعون نے کہا کہ وہ آسمان میں  کوئی نشان دیکھے کہ اللہ بھی وہاں سے زمین کو کنٹرول کر رہا ہے

ال فرعون اللہ کے وجود کے انکاری نہیں تھے – سورہ المومن میں ہے ال فر عون سمجھتے تھے کہ یوسف کے بعد مصر میں اللہ کا کوئی اور نبی نہ آئے گا – یعنی وہ اللہ کو جانتے تھے لیکن بحث اس میں تھی کہ کیا اللہ تعالی  زمین کے قریب ہے یا دیگر اجرام فلکی  – ان کے نزدیک زمین کے قریب اجرام فلکی زمین پر اثر رکھتے تھے نہ کہ دور آسمانوں سے باہر کا کوئی رب  – لہذا فرعون نے ہامان سے کہا کہ کوئی مینار  بنا دو دیکھوں کہ ستاروں کے سوا بھی  کوئی اور مصر پر اثر کر سکتا ہو

دیکھا جا سکتا ہے کہ عبد الرحمان بن اسلم کی تفسیری رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے  جس سے ثابت کیا جا رہا ہے کہ تابعین کے نزدیک زمین پر پورٹل کھلتے تھے اور اصحاب کہف ، یاجوج و ماجوج ، ذوالقرنین و دجال تمام پورٹل سے اتے جاتے رہے ہیں

عَيْنٍ حَمِئَةٍ پر ساحل عدیم کا تصور

سورہ کہف کی آیت ہے ذو القرنین ایسی جگہ پہنچا جہاں

حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ

یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب کی جگہ پہنچا تو پایا اس کو کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہوتے ہوئے

طبری نے ذکر کیا کہ اس آیت میں اختلاف قرات موجود ہے

فقرأه بعض قراء المدينة والبصرة (فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ) بمعنى: أنها تغرب في عين ماء ذات حمأة، وقرأته جماعة من قراء المدينة، وعامَّة قرّاء   الكوفة (فِي عَيْنٍ حامِيَةٍ (يعني أنها تغرب في عين ماء حارّة.

مدینہ و بصرہ کے قاری قرات کرتے ہیں  فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ یعنی کیچڑ کا چشمہ  اور  کوفہ میں  جماعت  نے قرات کی  عَيْنٍ حامِيَةٍ  یعنی سورج کھولتے پانی میں غروب ہو رہا تھا

ساحل عدیم کا خیال ہے کہ عَيْنٍ کا مطلب عربی میں آنکھ ہے اور  حَمِئَةٍ  گرم ہے لہذا یہ  آتشی آنکھ بن گئی  گویا کہ ایک گول پورٹل بنا گیا

عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ (المطفّفين – 28)

مقربین عین سے پئیں ہے

یعنی چشموں سے

اللہ تعالی نے موسی سے کہا

فإنك باعيننا

تم ہماری آنکھوں میں تھے

یعنی موسی تم پر ہماری نظر ہے

عین کا لفظ  چشمہ کے لئے  ہے – آنکھ پر اس کا اطلاق مجازی ہے کیونکہ آنکھ سے انسؤ یا پانی اتا ہے

دابه ألأرض  بر تصور

دابه ألأرض پر ساحل عدیم کا قول ہے کہ یہ زمین کا جانور بھی اسی زمین سے نہیں بلکہ کسی اور سیارہ سے آئے گا

ساحل عدیم کے نزدیک دجال کا گدھا ہے جو ٹائم ٹریول کرتا ہے  جبکہ اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں

ان تمام تصورات کو بنانے کا مقصد ساحل عدیم کے نزدیک یہ ہے کہ روایتوں میں ہے کہ سورہ کہف فتنہ دجال سے بچائے گی –  راقم کہتا ہے  تحقیق سے ثابت کہ سورہ کہف مانع دجال  والی روایات  میں ہابمی اضطراب موجود ہے – اور مضطرب روایات پر عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا

مزید تفصیل کے لئے دیکھینے کتاب

ساحل صاحب  کی تھیوری میں مسائل یہ ہیں کہ وہ معجزہ کو   انبیا  کے  ساتھ ساتھ   دجال سے منسوب کر رہے ہیں کہ دجال کسی اور

سیارہ سے آئے گا – اس تصور سے گمراہی پھیلنے کا  خطرہ ہے

==========================================================================

 

In the Quran, Allah Almighty has said that there are verses in this book that are ambiguous, and those who are well-versed in knowledge have faith in them. Only Allah has the knowledge of their true interpretation.

The last verses of Surah At-Talaq:

Narrated by ‘Amr ibn ‘Ali: Wakī’ narrated from Al-A’mash, who narrated from Ibrahim ibn Muhajir, who narrated from Mujahid, who narrated from Ibn ‘Abbas regarding the statement of Allah: “Seven heavens and of the earth the like thereof.” Ibn ‘Abbas said: “If I were to explain it to you, you would disbelieve, and your disbelief would be similar to the denial of it.”

Ibrahim ibn Muhajir, the narrator in the chain, is mentioned by Imam Al-Qutayni and Imam An-Nasa’i. They said he was not reliable.

Narrated by Ibn Humaid: Yahya ibn Ya’qub narrated from Ja’far ibn Abi Al-Mughira that Sa’id ibn Jubayr said: A man asked Ibn ‘Abbas about the verse: “It is Allah who created seven heavens and of the earth, the like of them.” The man asked, “What does it mean?” So Ibn ‘Abbas said, “What makes you think that I would tell you its meaning, and then you would disbelieve?”

In the book “Kitab As-Sarifini,” Ibn Mandah said: Sa’id ibn Jubayr is not reliable.

Note: The existence of seven heavens is confirmed, and people have faith in them. However, it is not mentioned in the Quran that humans can travel to these heavens and return to Earth.

Meaning of word Sabab

The word “sabab” in Surah Al-Kahf has different interpretations. Saahil Adim Sahib’s second major evidence for his portal theory is based on the verses of Surah Al-Kahf that contain the word “sabab.”

In Urdu, we also use the word “sabab,” which means cause, direction, side, or path. All these phrases convey the same meaning that the issue should be understood from a certain direction or perspective without deviating. In Arabic, the same meanings are associated with this word.

The verses in Surah Al-Kahf (18:84-85) state: “Indeed, We established him upon the earth, and We gave him [the means of] everything as a sabab. Then he followed a sabab.”

Here it is mentioned that Zul-Qarnain was given dominion over the earth and he was provided with the means for everything. Then he followed a path or direction.

According to the Tafsir of Tabari, Ibn Abbas said that it means they were given knowledge of everything.

There are various interpretations regarding this:

– Qasim narrated from Al-Husayn, who narrated from Hujaj, who narrated from Ibn Jurayj, regarding the statement of Allah: “And We gave him [the means of] everything as a sabab.” He said: “Knowledge of everything.”
– Muhammad bin Sa’d narrated from his father, who narrated from his uncle, who narrated from his father, who narrated from Ibn Abbas: “And We gave him [the means of] everything as a sabab” means knowledge.
– It is mentioned that Abu Mu’adh said: “Ubayd narrated to me, he said: ‘I heard Dahhak saying about the statement of Allah: “And We gave him [the means of] everything as a sabab” – he said: “Knowledge of the paths of the heavens.”‘

These narrations suggest that the meaning here is knowledge.

Saahil Adim Sahib prefers the interpretation mentioned in Tabari’s Tafsir.

According to Imam Bukhari in his book “Tarikh al-Kabir,” Ali said that Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam is extremely weak.

Imam Ali Al-Madini also considered him very weak.

Imam Ath-Tha’labi mentioned in his book “Diyar Al-Ifta’ Wal-Matrookin” that the children of Zaid bin Aslam are weak.

Al-Nasai said: “Weak in Madinan narrations” (Al-Du’afa’ Wal-Matrookin).

It can be concluded that the interpretation by Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam holds no authority, and it is a weak opinion to link the portals mentioned in Surah Al-Kahf with the idea of people traveling through them.

In Surah An-Naml, it is mentioned that Solomon addressed the Queen of Sheba and said, “Enter the palace.” It was a command to enter a building, not to open a portal. Pharaoh commanded the construction of a building, not the opening of a portal through Haman.

Pharaoh asked for a tower to be built so that he could see signs beyond the stars and observe their influence on Egypt. Pharaoh and his people did not deny the existence of Allah; rather, their debate was whether Allah was near the Earth or if celestial bodies close to the Earth had an influence. They believed that the celestial bodies had an impact on the Earth, not that there was a god beyond the distant heavens. Therefore, Pharaoh instructed Haman to build a tower to observe the stars and their effects on Egypt.

It can be observed that the interpretation provided by Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam does not hold any significant authority. It cannot be considered as conclusive evidence to support the notion that portals were opened on Earth during the time of the Companions, allowing the people of the Cave, Ya’juj and Ma’juj, Dhul-Qarnayn, or the Dajjal to pass through them.

The idea of portals enabling such travel is not supported by strong and reliable evidence from the Qur’an or authentic Hadith sources. It is important to rely on sound scholarly interpretations and established sources of Islamic knowledge when considering these matters.

Meaning of Aynin hami’ah:

The concept of “عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (aynin hami’ah) according to Sahil Adim is found in the verse of Surah Al-Kahf where it is mentioned that Dhu al-Qarnayn reached a place where “حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (until he reached the setting of the sun, he found it [as if] setting in a muddy spring). It is stated that when he reached the place of the sunset, he found it setting in a spring of murky water.

Tabari mentioned that there is a difference in the recitation of this verse. Some readers in Medina and Basra recite “فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (in a muddy spring) in the sense that the sun appeared to set in a spring of hot water. And a group of readers in Medina and the majority of readers in Kufa recite it as “فِي عَيْنٍ حَامِيَةٍ” (in a hot spring), meaning that the sun appeared to set in hot water.

According to the recitation of Medina and Basra, it means a muddy spring, and according to the recitation of Kufa, it means the setting of the sun in water that is being heated. Sahil Adim suggests that the meaning of “عَيْنٍ” (ayn) in Arabic is an eye, and “حَمِئَةٍ” (hami’ah) means hot. So it is as if an fiery eye was formed, like a round portal.

In Surah Al-Mutaffifin (83:28), it is mentioned “عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ” (A spring from which those near [to Allah] drink). Here, the term “مُقَرَّبُونَ” (those near [to Allah]) is drinking from the spring.

It means through their eyes.

Allah has said to Musa (Moses) “فإنك باعيننا” (For you are in our sight). Meaning, “you were in our eyes.”

The term “عَيْنٌ” (ayn) refers to a spring, but it is metaphorically used for an eye because the eye is a means of perceiving water or moisture.

Regarding the creature “دابة ألأرض” (Dabbah al-Ardh), Sahil Adim suggests that it is mentioned that this creature will not come from the same earth but from another planet.

According to Sahil Adim, near the coast, there is a misconception that the creature of Dajjal is a donkey-like animal that engages in time travel. However, there is no authentic hadith to support this.

The purpose of creating all these concepts by Sahil Adim is to convey the narrations that Surah Al-Kahf will protect from the trials of the Dajjal (the Antichrist). This Site Author states that there is significant uncertainty regarding the authenticity of the narrations that consider Surah Al-Kahf as a safeguard against the Dajjal. Through research, it has been established that there is ambiguity present in these narrations, and a belief cannot be formed based on uncertain narrations.

 

مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِىَ لَهُۥ

مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِىَ لَهُۥ ۚ وَيَذَرُهُمْ فِى طُغْيَٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ

جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں، اور انہیں اللہ چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں حیران پھیریں

اہل ایمان کی آزمائش ہوتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی عالم گمراہ ہوتا ہے –  گزرے صوفیاء کو گمراہ کہنا آسان ہے کیونکہ ان سے ہماری ملاقات نہیں ہے لیکن جب ہم کسی عالم کو دیکھیں کہ وہ خود گمراہ ہو گیا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کہہ رہا ہے تو یہ یقینا ایک آزمائش ہے

یاد رہے کہ طاغوت کا دفاع نہیں کیا جا سکتا – نہ اس حوالے سے کوئی جھول یا گول مول بات کی جا سکتی ہے – محسن ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کو اللہ تعالی جنت میں اعلی مقام دے جنہوں نے صوفیاء ہوں یا محدثین دونوں کے گمراہ عقائد کی تبین کی  اور آج مزید تحقیق سے یہ واضح سے واضح تر ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی تحقیق درست ہے

گزشتہ امتوں میں گمراہی اغلبا اسی طرح آئی کہ ان کے علماء نے ہی حق و سچ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا – اپنے سابقہ موقف کو بہکنا کہ کر ایمان کو مشکوک بنانے کی کوشش کی – خود بھی گمراہ ہوئے اور اورروں  کو بھی گمراہ کیا

اللہ ہر طرح کی گمراہی سے بچائے

اللھم اھدنا فیمن ھدیت

یا اللہ ہم کو  ان ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل فرما جن کو تو نے ہدایت بخشی ہے

قبر میں حیات النبی پر سوال ہو گا ؟

معلوم ہے کہ حدیث بخاری جس میں قبر میں سوال کا ذکر ہے اس میں مندرجہ ذیل سوال ہیں

 من نبیک ہے کہ تمہار ا نبی کون ہے

کون رب ہے ؟ اس میں کونی وضاحت نہیں کہ اللہ کو عالم الغیب مانا تھا یا نہیں

تیرا دین کیا ہے ؟

غور طلب ہے اسی  روایت میں  فتنہ قبر کا ذکر ہے یعنی یہ سوال محض تین نہیں ہیں یہ سوال فتنہ یا آزمائش میں بدل جائیں گے اور اس فتنہ قبر کا مقابلہ فتنہ دجال سے کیا گیا ہے

احادیث  میں ذکر موجود ہے کہ نماز کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا میں فتنہ قبر اور فتنہ دجال دونوں سے پناہ مانگنے کا ذکر کیا ہے

 

سائل نے  دیو بند کے علماء سے سوال کیا کہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر  کے حوالے سے مرنے کے بعد مسلمان سے  سوال ہو گا ؟

مفتی تقی عثمانی کے بقول قبر میں حیات النبی پر سوال نہیں ہو گا

مفتی تقی عثمانی کے التباس ذہنی کا جواب ایک دوسرے دیوبندی عالم  الیاس گھمن صاحب دیتے ہیں

ڈاکٹر عثمانی اور ایک خبر منکر

ڈاکٹر عثمانی سے قبل پتا نہیں کتنی صدیوں تک عوام میں یہ خبر پھیلائی جاتی رہی کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ، قرآن کا ترجمہ نہ کیا گیا ، اس کو چھت کے قریب  طاق پر رکھ دیا گیا ، لوگ قبروں پر معتکف رہے لیکن جان نہ پائے  کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں محدثین کے نزدیک ایک خبر منکر ہے
اس منکر روایت کے دفاع میں فرقوں کی جانب سے ہر سال نیا مواد شائع ہوتا رہتا ہے – مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار از أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق بن خلاد بن عبيد الله العتكي المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) میں ہے
حَدَّثنا رزق الله بن موسى، حَدَّثنا الحسن بن قتيبة، حَدَّثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَن الحَجَّاج، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس؛ أَن رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ.
أَنَس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں ، نماز پڑھتے ہیں

– اس روایت کو امام الذھبی نے منکر قرار دیا ہے جنہوں نے جرح و تعدیل پر کتب لکھی ہیں – البتہ فرقوں میں اس بات کو چھپایا جاتا ہے – ميزان الاعتدال في نقد الرجال
شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) لکھتے ہیں
حجاج بن الأسود.
عن ثابت البناني.
نكرة.
ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد، فأتى بخبر منكر، عنه، عن أنس في أن الانبياء أحياء في قبورهم يصلون.
حجاج بن الأسود یہ ثابت سے روایت کرتا ہے ، منکر روایتیں اور جو روایت کیا  اس سے صرف مستلم بن سعيد  نے کہ  پس ایک منکر خبر لایا ہے جو انس سے مروی ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں ، نماز پڑھتے ہیں

خالد الملیزی نام کے ایک صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے لکھا
اپ نے ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب کی کتاب یہ مزار یہ میلے ص 24 سے 25 کی جو عبارت پیش کی ہے جس میں انہوں نے مستلم بن سعید کو ضعیف کہا ہے اس بارے میں عرض ہے
الجواب: مستلم بن سعید صدوق و حسن الحدیث تھے اور ان کو ضعیف الحدیث گرداننا جھوٹ یا جھل ہے
جہاں تک مستلم سے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی بات ہے تو ان کی آدھی گواہی پیش کرنا اور آدھی چھپالینا یقینا خیانت اور کتمان ہے
ابن حجر عسقلانی نے مستلم بن سعید کے بارے میں فرمایا ہے
صدوق عابد ربما وھم (تقریب التھذیب ص 934،تھذیب التھذیب 56/4)
صدوق،عابد تھے اور کھبی کھبی وھم کرتے تھے
یہاں پر حافظ ابن حجر عسقلانی نے توثیق کی ہے جبکہ ربما وھم کوئی جرح نہیں ہے
لیکن ابن حجر کے الفاظ ربما وھم کا اظہار کرنا اور صدوق عابد چھپالینا فریب ہے
المزید: مستلم بن سعید کے بارے میں
امام الجرح والتعدیل یحی ابن معین نے فرمایا ہے صویلح (تاریخ ابن معین بروایة الدوری 161/4)
یاد رہے صویلح دراصل تعدیل برائے احساس جرح ہے عند بعض الناس اسلئے اس کو صرف جرح پر محمول کرنا درست نہیں ہے
احمد ابن حنبل نے فرمایا شیخ ثقة من اھل واسط قلیل الحدیث (سوالات ابی داود ص 321)
امام ابوداود نے خود ثقہ کہا ہے(سوالات ابی داود ص 321)
امام نسائی نے فرمایا لیس به بأس (الجرح والتعدیل 438/8)
امام حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے(الثقات لابن حبان 520/7) جبکہ ربما خالف کوئی چیز نہیں ہے
امام ذھبی نے صدوق کہا ہے(الکاشف 255/2)
معلوم ہوا کہ مستلم بن سعید صدوق و حسن الحدیث تھے اور ان کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی رائے میں صدوق عابد کے مقابلے میں ربما وھم کا ہونا اور نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا جبکہ صدوق عابد کو چھپا کر ربما وھم کے تحت فتوی دینا کتمان مبین ہے

راقم اس سب پر کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ مستلم بن سعید کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن ثقہ کہہ کر محدث یہ نہیں کہتا کہ جو بھی  اس کی سند سے آئے اس کو قبول کر لیا جائے بلکہ متعدد ثقات کی منکر روایات کا علل کی کتب میں ذکر ہے

تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں ہے
قال عبّاس: وسمعت يزيد بن هارون يقول: كان مستلم عندنا ها هنا بواسط، وكان لا يشرب إلا في كلّ جمعة
يزيد بن هارون کہتے تھے یہ مستلم واسط میں ہمارے ساتھ تھا اور صرف جمعہ کے دن پانی پیتا تھا

وقال الحسن بن عليّ، عن يزيد بن هارون: مكث المستلم أربعين سنة لا يضع جنبه على الأرض
يزيد بن هارون نے کہا : چالیس سال تک اس نے پہلو زمین سے نہ لگایا
تالي تلخيص المتشابه از أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
الْحسن بن الْخلال حَدثنَا يزِيد بن هَارُون قَالَ مكث المستلم بن سعيد أَرْبَعِينَ سنة لَا يضع جنبه إِلَى الأَرْض قَالَ وسمعته يَقُول لم أشْرب المَاء مُنْذُ خَمْسَة وَأَرْبَعين يَوْمًا
يزِيد بن هَارُون کہتے ہیں میں نے المستلم بن سعيد کو کہتے سنا کہ میں نے ٤٥دن سے پانی نہیں پیا

اب جب یہ حال ہو تو اس کی روایت جائز نہیں ہے کیونکہ یہ سنت النبی پر عمل نہ کرتا تھا – انبیاء نے زمین پر آرام کیا ہے اور پانی پیا ہے
ایسا نہیں کہ صرف جمعہ کے دن پانی پیتے ہوں یا چالیس سال تک لیٹے نہ ہوں
اس قسم کے بدعتی اور حواس باختہ راویوں کا دفاع فرقوں کی جانب سے کیا جانا آنکھوں دیکھی مکھی کھانے کے ساتھ ساتھ اس مکھی کو لذیذ قرار دینے کے بھی مترادف ہے

مستلم کی اس حالت کو دیکھ کر سلیم الفطرت مسلمانوں کے ذہن میں جو مستلم کی شکل بنتی ہے وہ ایک ہندو سادھو والی ہے نہ کہ متقن راوی کی

امام شعبہ ، المستلم کے بارے میں کہتے تھے
ما كنت أظن ذاك يحفظ حديثين
یہ اس قابل بھی نہیں کہ دو حدیثین یاد رکھ سکے

امام ابن معین نے مستلم کوصویلح  قرار دیا ہے

تاريخ ابن معين (رواية عثمان الدارمي) ، المحقق: د. أحمد محمد نور سيف ، الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق میں ہے
امام ابن معین کے شاگرد عثمان الدارمي راوی محمد بن أبي حَفْصَة پر سوال کرتے ہیں تو امام ابن معین کہتے ہیں
قَالَ صُوَيْلِح لَيْسَ بِالْقَوِيّ
صُوَيْلِح ہے قوی نہیں ہے
اس سے معلوم ہوا کہ ابن معین کے نزدیک صُوَيْلِح وہ راوی ہے جو قوی نہیں ہے – اور ظاہر ہے غیر قوی راوی سے دلیل نہیں لی جا سکتی

سير أعلام النبلاء میں المُسْتَلِم بن سَعِيْدٍ کی ایک اور روایت کو بھی الذھبی نے منکر کہا ہے
قَرَأْنَا عَلَى عِيْسَى بنِ يَحْيَى، أَخبركُم مَنْصُوْرُ بنُ سَنَد، أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ السِّلَفِيُّ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ الحَافِظ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بنُ عَبْدِ اللهِ بن عُمَرَ الوَاعِظ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ العَسَّال، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ رُسْتَه، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ المُسْتَلِم بن سَعِيْدٍ، عَنِ الحَكَمِ بنِ أَبَانٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:
أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: (مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ يَنْظُرُ إِلَى وَالِدِهِ نَظْرَةَ رَحْمَةٍ إِلاَّ كَانَتْ لَهُ بِكُلِّ رَحْمَةٍ حَجَّةٌ مَبْرُوْرَةٌ) ، قِيْلَ: وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ مائَةُ رَحمَةٍ (1) ؟ قَالَ: (نَعَمْ، إِنَّ اللهَ أَطْيَبُ وَأَكْثَرُ (2)) .
هَذَا مُنْكَرٌ.

امام الذھبی اس کی منکر روایات کا مسلسل ذکر رہے ہیں – ان کا مدعا یہ رہا ہے کہ محض راوی کو ثقہ کہہ دینے سے اس کی تمام روایات قابل قبول نہیں ہیں اور جیسا ہم نے دیکھا کہ اس نے پانی تک نہیں پیا – اب جو پانی نہ پئے اس کی دماغی حالت کیا ہو گی – اس قسم کے جوگی کی روایت سن کر وجد میں آ جانے والے ملا قبروں پر دھمال ڈال رہے ہیں ، ہو ھا کی ضربیں لگا رہے ہیں لیکن ہم ان کے اس رقص قبور میں شامل نہ ہوں گے

کیا انسانی عدالتوں میں اس شخص کی گواہی معتبر ہے جس نے چالیس دن پانی نہ پیا ہو ، ہوش و حواس میں نہ ہو ؟ ظاہر ہے نہیں – جب ہم انسانی جھگڑوں کا فیصلہ اس قسم کے گواہ سے نہیں لیں گے تو پھر ایک مجذوب کے قول کو کیوں حدیث نبوی سمجھیں جس نے پانی کو چھ دن حرام کر لیا ہو اور ٤٠ سال لیٹ کر سویا   نہ ہو ؟

پھر اس نے زمین کو دبایا

وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا

قرآن سورہ فصلت میں ہے
قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْـفُرُوْنَ بِالَّـذِىْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِىْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَـهٝٓ اَنْدَادًا ۚ ذٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ (9)
کہہ دو کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھہراتے ہو، وہی سب جہانوں کا پروردگار ہے۔
وَجَعَلَ فِيْـهَا رَوَاسِىَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيْـهَا وَقَدَّرَ فِـيْـهَآ اَقْوَاتَـهَا فِىٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيْنَ (10)
اور اس نے (زمین میں) اوپر سے پہاڑ رکھے اور اس میں برکت ڈالی اور چار دن میں اس کی قوتوں کا تخمینہ کیا، (یہ جواب) پوچھنے والوں کے لیے پورا ہے۔
ثُـمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَـهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاۖ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَـآئِعِيْنَ (11)
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا پس اس کو اور زمین کو فرمایا کہ خوشی سے آؤ یا جبر سے، دونوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں۔
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَـمَاوَاتٍ فِىْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِىْ كُلِّ سَـمَآءٍ اَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الـدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ۚ ذٰلِكَ تَقْدِيْـرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِـيْـمِ (12)
پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا، اور ہم نے پہلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور اسے محفوظ بنایا، یہ زبردست جاننے والے کا کام ہے۔

ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ آسمان بنانے سے قبل اللہ تعالی نے زمین کو خلق کیا جس میں دو دن لگے
اس میں سطح پر پہاڑ بنائے گئے ، زمین کو برکت دی گئی اور اس کی قوتوں (اقوات) کا اندازہ لگایا گیا جس میں چار دن لگے

ابھی آسمان دھواں کی حالت میں تھا جب زمین پر اس کے پہاڑ بنا دیے گئے تھے اور کی قوت کا اندازہ لگایا گیا تھازمین پر ابھی نہریں نہیں ہیں

أقواتَها یہ قوت کی جمع ہے یعنی قوتیں اور اس سے مراد قوت ثقل و قوت مقناطیس وغیرھھم ہے ، غذا نہیں ہے

قرآن سورہ َالنَّازِعَاتِ میں ہے کہ آسمان کو جب بنا دیا گیا اور اس کو ایک چھت کی طرح بنا دیا گیا تو آسمان میں رات و صبح کو نکالا گیا
پھر زمین کا دح کیا

أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا (27) رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا (28) وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا (29) وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا (30) أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا (31) وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا (32) مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ
کیا تمہارا بنانا بڑی بات ہے یا آسمان کا جس کو ہم نے بنایا ہے۔
اس کی چھت بلند کی پھر اس کو سنوارا۔
اور اس کی رات اندھیری کی اور اس کے دن کو ظاہر کیا۔
اور اس کے بعد زمین کو دَحَ کیا ۔
اس سے اس کا پانی اور اس کا چارا نکالا۔
اور پہاڑوں کو خوب جما دیا۔
تمہارے لیے اور تمہارے چار پایوں کے لیے سامان حیات ہے۔

ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ زمین بن چکی تھی، اس کے پہاڑ بن چکے تھے ، پھر دھواں جیسے  آسمان کو سات آسمانوں  میں بدلا گیا ، سورج و چاند بنا دیے گئے
پھر زمین کا دَحَ ہوا جس سے نہریں نکلیں

دَحَ کا لفظ عربی میں زمین پر کسی چیز کو رکھ کر دبانے  کے لئے بولا جاتا ہے -كتاب العين از أبو عبد الرحمن الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) میں ہے
وهو أن تضع شيئاً على الأرض ثمَّ تَدُقُّه وتَدُسُّه حتّى يَلْزَقَ
کسی چیز کو زمین پر رکھ کر اس کو دبانا یہاں تک روندیں کہ وہ ٹوٹ کر بکھر جائے

معجم مقاييس اللغة از أحمد بن فارس بن زكرياء القزويني الرازي، أبو الحسين (المتوفى: 395هـ) المحقق: عبد السلام محمد هارون میں ہے
تَقُولُ الْعَرَبُ: دَحَحْتُ الْبَيْتَ وَغَيْرَهُ، إِذَا وَسَّعْتَهُ
عرب کہتے ہیں میں نے گھر کو دَحَحْتُ کیا یعنی اس کو وسعت دی

بعض مترجمین نے دَحَ سے مراد زمین کا پھیلانا لیا ہے البتہ راقم کے نزدیک  ایک ترجمہ دبانا بھی ہے

سائنسدانوں نے سیٹالائٹ کی مدد سے زمین کی کشش ثقل کو جانا ہے جس سے زمین کی بلا پانی والی شکل نکل کر سامنے آئی ہے اس کو اب جرمنی کے شہر

Potsdam

کے نام پر

پوٹس-ڈام  پوٹاتو
Potsdam gravity potato
یعنی
پوٹس-ڈام  کا آلو کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہر اس تحقیق کا مذکر تھا

زمین سے اگر اس کا تمام پانی بھاپ بن کر اڑا دیا جائے تو جو شکل بنے گی وہ کچھ یوں ہو گی

 

راقم سمجھتا ہے یہ زمین دح کی حالت میں اب نظر آ رہی ہے – زمین گول تھی لیکن جب اس کو اللہ تعالی نے دبایا تو اس کا ایک حصہ نکل کر باہر آ گیا اور زمین مکمل گول نہ رہی نہ بیضوی رہی بلکہ پچکی ہوئی شکل میں بدل گئی – اس  الوہی  عمل سے زمین میں موجود پانی نہروں کی صورت باہر  نکلا جو اس کے اندر تھا یہاں تک کہ سمندر وجود میں آ گئے

شمس العلوم ودواء كلام العرب من الكلوم از نشوان بن سعيد الحميرى اليمني (المتوفى: 573هـ) میں ابن عباس سے منسوب قول ہے

خلق اللہ الأرضَ قبل السماء فقدَّر فيها أقواتَها ولم يدحُها، ثم خلق السماء، ثم دحا الأرض بعدَها
اللہ نے زمین کو خلق کیا آسمان سے پہلے ،  اس (سے منسلک ) قوتوں کا اندازہ کیا لیکن زمین  کو دبایا نہیں ، پھر آسمان کو خلق کیا پھر زمین کو دبایا

و اللہ اعلم

فزکس کے مطابق اس طرح اگر کیا جائے کہ کرہ یا گول جسم کو دبایا جائے تو اس طرح اس کا مرکز کشش ثقل یا
center of gravity
اس کے مرکز سے ہٹ جاتا ہے

مذکورہ تحقیق کی وجہ یہی بات بنی تھی کہ سائنسدان جاننا چاہتے ہیں کہ آخر زمین پر کشش ثقل ہر مقام پر ایک کیوں نہیں اگر یہ گول

ہے- بہر حال یہ  ابھی تک ایک معمہ ہے

====================================================================

“And the earth, after that, He spread it out.” This is in the Quran, Surah Fussilat.

“Say, ‘Do you indeed disbelieve in He who created the earth in two days and attribute to Him equals? That is the Lord of the worlds.’ (9)
He set on the (earth), mountains standing firm, high above it, and bestowed blessings on the earth, and measured therein all things to give them nourishment in due proportion, in four Days, in accordance with (the needs of) those who seek (Sustenance). (10)
Then He turned to the heaven when it was smoke and said to it and to the earth, ‘Come [into being], willingly or by compulsion.’ They said, ‘We have come willingly.’ (11)
And He completed them as seven heavens within two days and inspired in each heaven its command. And We adorned the nearest heaven with lamps and as protection. That is the determination of the Exalted in Might, the Knowing. (12)”

These verses tell us that before creating the heavens, Allah created the earth, which took two days. Mountains were formed on its surface, the earth was blessed, and its powers (forces) were estimated, which took four days. The heavens were still in a state of smoke when the mountains on the earth were formed and its powers were estimated. There are no rivers on the earth yet.

The term “أقواتَها” is the plural of power, meaning powers, and it refers to gravitational force, magnetic force, etc., not food.

In Surah An-Nazi’at of the Quran, it is mentioned that when the heavens were created and made like a roof, night and day were brought out in the heavens. Then the earth was spread out.

“Are you a more difficult creation or is the heaven? Allah constructed it. (27)
He raised its ceiling and proportioned it. (28)
And He darkened its night and extracted its brightness. (29)
And after that He spread the earth. (30)
He extracted from it its water and its pasture, (31)
And the mountains He set firmly (32)
As provision for you and your grazing livestock.”

From these verses, it is known that the earth was created, its mountains were formed, then the heavens were transformed into seven heavens, the sun and the moon were created. Then the earth was spread out from which rivers emerged.

The term “دَحَ” in Arabic is used to press something on the ground – “كتاب العين” by Abu Abd al-Rahman al-Khalil bin Ahmad bin Amr bin Tamim al-Farahidi al-Basri (died: 170 AH).

“And it is that you put something on the ground, then you press it and trample it until it sticks.”

Some translators have taken the meaning of “دَحَ” to spread, however, this author also translates it as pressing.

Scientists have known the gravitational pull of the earth with the help of satellites, from which the shape of the earth without water has emerged. It is called the “Potsdam gravity potato” named after the city of Potsdam, Germany, because this city was mentioned in this research.

If all the water from the earth is evaporated, the shape that will be formed will be something like this:

Author believes that the earth is now appearing in the state of “دَحَ”. The earth was spherical, but when Allah pressed it, a part of it came out and the earth was no longer completely spherical, it changed into a squeezed shape – from this divine process, the

water present in the earth came out in the form of rivers, which were inside it, to the extent that seas came into existence.

“دَحَ” in Arabic is used to press something on the ground – “كتاب العين” by Abu Abd al-Rahman al-Khalil bin Ahmad bin Amr bin Tamim al-Farahidi al-Basri (died: 170 AH).

“And it is that you put something on the ground, then you press it and trample it until it sticks.”

Some translators have taken the meaning of “دَحَ” to spread, however, Raqam also translates it as pressing.

Scientists have known the gravitational pull of the earth with the help of satellites, from which the shape of the earth without water has emerged. It is called the “Potsdam gravity potato” named after the city of Potsdam, Germany, because this city was mentioned in this research.

If all the water from the earth is evaporated, the shape that will be formed will be something like this:

Author believes that the earth is now appearing in the state of “دَحَ”. The earth was spherical, but when Allah pressed it, a part of it came out and the earth was no longer completely spherical, it changed into a squeezed shape – from this divine process, the water present in the earth came out in the form of rivers, which were inside it, to the extent that seas came into existence.

According to physics, if a sphere or spherical body is pressed in this way, its center of gravity or “center of gravity” moves away from its center.

The reason for the mentioned research was that scientists wanted to know why the gravitational pull on the earth is not the same everywhere if it is spherical – however, this is still a mystery.

And Allah knows best.

‎‏ خواب میں دیدار مصطفی

قصہ مختصر
خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے تمام فرقے قائل ہیں – ہر فرقے کے علماء کے خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں کہ وہی حق پر ہیں – اس طرح گمراہ فرقوں میں ہر ایک کو داد و تحسین مل جاتی ہے یہاں تک کہ دجال و مدعی نبوت بھی خواب میں رسول اللہ کو دیکھ کر دعوی کرتا ہے کہ اس کو بشارت ملی ہے – خواب میں بعض علماء نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درس صحیح البخاری بھی لیتے ہیں اور محدثین بتاتے ہیں جن احادیث کی صحت پر شک ہو ان کی تصحیح کے حوالے سے بات چیت بھی ہوتی ہے – بعض علماء مثلا علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ خواب کے بعد اب وہ بیداری میں بھی رسول اللہ سے ملاقات کرتے ہیں – اس طرح رسول اللہ نہ صرف خواب بلکہ اس کے علاوہ بھی ظاہر ہو جاتے ہیں
راقم کہتا ہے یہ سب فراڈ ہے اور ابلیس کا دھوکہ ہے جس میں یہ مبتلا ہوئے – آپ مت ہوں –

237 Downloads

اس کتاب میں دیدار  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات  جمع کی گئی ہیں  جن کو دلیل مان  کر دعوی کیا جاتا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ  وسلم کو   خواب  میں  دیکھا جا سکتا ہے – تحقیق  سے اس کا عکس ثابت  ہوتا ہے اور کوئی بھی صحیح السند روایت نہیں ملتی جن میں   خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے   کا ذکر ہو –  اس کتاب میں  اس  موضوع   پر بہت سی  ضعیف روایات  جمع کی گئی  ہیں  – بعض  فرقوں  کا دعوی  ہے کہ   روایت میں  رانی    (مجھے دیکھا )   کے الفاظ ہیں   اور بیداری میں بھی  رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کو دیکھا جا سکتا  ہے  اور آپ   صلی  اللہ علیہ  وسلم  زمین میں کہیں  بھی   آ سکتے ہیں  یہاں تک کہ مسلمانوں  کی جنگوں میں   بھی  بعد  وفات  شرکت فرماتے ہیں –   یہ تمام  باطل  اقوال  و موقف ہیں

آغاز الوحی کی ایک روایت

قصہ مختصر
غامدی صاحب نے ذکر کیا کہ ان کے نزدیک سورہ علق و سورہ مدثر پہلی سورتیں نہیں – پھر آغاز الوحی والی صحیح بخاری کی امام الزہری والی روایت پر جرح کی اور بتایا کہ وہ ان کو پسند نہیں- پھر اپنی پسندیدہ روایت سیرت ابن اسحاق (جو امام مالک فرماتے ہیں دجال ہے ) سے پیش کی جس میں ذکر کیا کہ آغاز الوحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے کٹم و خاندان کو لے کر غار حرا میں جاتے ، نیچے مسکین ہوتے ان کو انفاق کرتے وغیرہ – راقم کہتا ہے اس سے ظاہر ہوا کہ نہ تو ابن اسحاق نے غاز حرا دیکھا نہ غامدی صاحب نے کہ اس میں چار جوان سال لڑکیوں اور بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نہیں رہا جا سکتا کیونکہ وہ نہایت مختصر غار ہے بمشکل صرف ایک مرد وہاں بیٹھ سکتا ہے – ابھی غور ہی کر رہے تھے کہ غامدی صاحب نے انکشاف کیا کہ یہ روایت بھی صحیح نہیں کیونکہ اس میں سورہ علق کو پہلی الوحی کہہ دیا گیا ہے – پھر بتایا کہ سورہ مدثر کے مضامین تند و تیز ہیں وہ بھی پہلی الوحی نہیں
راقم نے بھی کچھ  تھوڑا بہت غور کیا جو پیش خدمت ہے

قرآن میں ہے
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (52)
أور إس طرح روح (امر الوحی ) ہم نے تمہاری طرف الوحی کی ، تم نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے ایمان کیا ہے

اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول بننے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلق کتاب اللہ کا کوئی علم نہ تھا

اس کے بر خلاف سیرت ابن اسحاق میں ہے
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ [1] ، مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ. قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَهُوَ يَقُولُ لِعُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ: حَدِّثْنَا يَا عُبَيْدُ، كَيْفَ كَانَ بَدْءُ مَا اُبْتُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ النُّبُوَّةِ، حِينَ جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ؟ قَالَ: فَقَالَ: عُبَيْدٌ- وَأَنَا حَاضِرٌ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ ابْن الزُّبَيْرِ وَمَنْ عِنْدَهُ مِنْ النَّاسِ-: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ [2] فِي حِرَاءٍ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ شَهْرًا، وَكَانَ ذَلِكَ مِمَّا تَحَنَّثَ بِهِ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّة. والتحنث التبرّر.
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَقَالَ أَبُو طَالِبٍ:
وَثَوْرٍ وَمَنْ أَرْسَى ثَبِيرًا مَكَانَهُ … وَرَاقٍ لِيَرْقَى فِي حِرَاءٍ وَنَازِلِ

ابن اسحاق نے کہا مجھ سے وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْر نے بیان کیا کہ انہوں نے عبد اللہ بن زبیر سے سنا جو کہتے تھے کہ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ سے پوچھا
اے عبید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الوحی کا آغاز کس طرح ہوا جب ان پر جبریل آئے ؟
عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ نے کہا میں حاضر تھا اور عبد اللہ بن زبیر نے بیان کیا جب لوگ بھی تھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال میں ایک ماہ کے لئے حرا میں رہتے تھے اور وہاں جیسا قریش جاہلیت میں کرتے وہی تَحَنَّثَ کرتے

نوٹ : اس روایت میں اعتکاف کا کوئی ذکر نہیں ہے – یجآور کا مطلب کسی جگہ رکنا ہے اسی سے مجاورت کا لفظ نکلا ہے

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ قَالَ: قَالَ عُبَيْدٌ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ ذَلِكَ الشَّهْرَ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ، يُطْعِمُ مَنْ جَاءَهُ مِنْ الْمَسَاكِينِ، فَإِذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِوَارَهُ مِنْ شَهْرِهِ ذَلِكَ، كَانَ أَوَّلُ مَا يَبْدَأُ بِهِ، إذَا انْصَرَفَ مِنْ جِوَارِهِ، الْكَعْبَةَ، قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ، فَيَطُوفُ بِهَا سَبْعًا أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إلَى بَيْتِهِ، حَتَّى إذَا كَانَ الشَّهْرُ الَّذِي أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ فِيهِ مَا أَرَادَ مِنْ كَرَامَتِهِ، مِنْ السّنة الَّتِي بَعثه اللَّهُ تَعَالَى فِيهَا، وَذَلِكَ الشَّهْرُ (شَهْرُ) [2] رَمَضَانَ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى حِرَاءٍ، كَمَا كَانَ يَخْرُجُ لِجِوَارِهِ وَمَعَهُ أَهْلُهُ، حَتَّى إذَا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَكْرَمَهُ اللَّهُ فِيهَا بِرِسَالَتِهِ، وَرَحِمَ الْعِبَادَ بِهَا، جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِأَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ، وَأَنَا نَائِمٌ، بِنَمَطٍ [3] مِنْ دِيبَاجٍ فِيهِ كِتَابٌ [4] ، فَقَالَ اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَقْرَأُ [5] ؟ قَالَ: فَغَتَّنِي [6] بِهِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ الْمَوْتُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَقْرَأُ؟ قَالَ: فَغَتَّنِي بِهِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ الْمَوْتُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَاذَا أَقْرَأُ؟ قَالَ: فَغَتَّنِي بِهِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ الْمَوْتُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي [1] ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَاذَا أَقْرَأُ؟ مَا أَقُولُ ذَلِكَ إلَّا افْتِدَاءً مِنْهُ أَنْ يَعُودَ لِي بِمِثْلِ مَا صَنَعَ بِي، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنْسانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ 96: 1- 5. قَالَ: فَقَرَأْتهَا ثُمَّ انْتَهَى فَانْصَرَفَ عَنِّي وَهَبَبْتُ مِنْ [2] نَوْمِي، فَكَأَنَّمَا كَتَبْتُ فِي قَلْبِي كِتَابًا. قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتَّى إذَا كُنْتُ فِي وَسَطٍ مِنْ الْجَبَلِ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَاءِ يَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا جِبْرِيلُ، قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي إلَى السَّمَاءِ أَنْظُرُ، فَإِذَا جِبْرِيلُ فِي صُورَةِ رَجُلٍ صَافٍّ قَدَمَيْهِ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ يَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا جِبْرِيلُ. قَالَ: فَوَقَفْتُ أَنْظُرُ إلَيْهِ فَمَا أَتَقَدَّمُ وَمَا أَتَأَخَّرُ، وَجَعَلْتُ أَصْرِفُ وَجْهِي عَنْهُ فِي آفَاقِ السَّمَاءِ، قَالَ: فَلَا أَنْظُرُ فِي نَاحِيَةٍ مِنْهَا إلَّا رَأَيْتُهُ كَذَلِكَ، فَمَا زِلْتُ وَاقِفًا مَا أَتَقَدَّمُ أَمَامِي وَمَا أَرْجِعُ وَرَائِي حَتَّى بَعَثَتْ خَدِيجَةُ رُسُلَهَا فِي طَلَبِي، فَبَلَغُوا أَعْلَى مَكَّةَ وَرَجَعُوا إلَيْهَا وَأَنَا وَاقِفٌ فِي مَكَانِي ذَلِكَ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنِّي

ابن اسحاق نے کہا کہ وھب بن کیسان نے بیان کیا کہ عبید نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ رکتے ایک ماہ تک ہر سال اور جو مسکین اتا اس کو کھانا دیتے جب یہ مکمل ہو جاتا تو سب سے پہلے واپس کعبہ جاتے ، گھر میں جانے سے پہلے طواف کرتے سات بار یا جو اللہ چاہتا پھر گھر جاتے حتی کہ جب وہ ماہ آیا جس میں اللہ نے چاہا کہ آپ کی کرامت ہو اس سال اور ماہ میں جو رمضان کا تھا تو رسول اللہ غار حرا کے لئے گئے اور آپ کے گھر والے آپ کے ساتھ تھے … پس جبریل آئے اللہ کا حکم لے کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سو رہا تھا تو جبریل دیباج میں ایک جز دان تھا جس میں کتاب تھی اور کہا پڑھو – میں نے کہا : میں نہیں پڑھ سکتا ؟ پس مجھے بھینچا حتی کہ مجھے گمان ہوا کہ یہ موت ہے پھر چھوڑ دیا
کہا پڑھو – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پڑھوں ؟ …. جبریل چلے گئے اور میری آنکھ کھل گئی اور  تحریر دل پر نقش ہو گئیں

اس کی سند منقطع ہے
عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ قَتَادَةَ اللَّيْثَيَّ سے لے کر آگے تک سند نہیں ہے

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے
عبيد بن عمير ذكر البخاري أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم وذكره مسلم فيمن ولد على عهده يعني ولا رؤية له وهو معدود من التابعين فحديثه مرسل
عبيد بن عمير کے لئے امام بخاری نے کہا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور امام مسلم نے ذکر کیا کہ یہ دور نبوی میں پیدا ہوا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا

واضح رہے کہ عبید بن عمیر نے رسول اللہ سے نہیں سنا

یہ روایت حقائق پر نہیں اترتی کیونکہ اس میں ہے کہ غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کو لے کر جاتے تھے
جبکہ غار حرا نہایت مختصر سی جگہ ہے جس میں بمشکل ایک وقت میں ایک ہی شخص آ سکتا ہے
دوم غار مکہ سے باہر بیابان میں ہے اور یہ ممکن نہیں کہ گھر والوں کو وہاں لے کر ایک ماہ تک رکا جائے

غامدی صاحب کے بقول غار حرا میں عبد المطلب بھی تحنث کرتے تھے جبکہ یہ سیرت ابن اسحاق میں نہیں اور اس روایت سے غامدی صاحب نے طے کیا کہ قرآن کی آیات ، پیغمبری کا منصب ملنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھوائی گئیں – یہ سب تمثیلی واقعہ تھا

ابن اسحق کی روایت میں ہے کہ خواب سے آنکھ کھل گئی اور رسول اللہ غار حرا سے اتر کر نیچے جا رہے تھے یہاں تک کہ پہاڑ کے بیچ میں تھے
تو جبریل نے کہا تم رسول اللہ ہو

صحیح بخاری کے مطابق غار حرا کے واقعہ کے بعد ایک عرصہ تک الوحی نہ آئی اور دور فترت رہا

ابن اسحق کی روایت کے تحت قرانی الوحی ، ایک غیر نبی پر خواب میں پہلے آ رہی ہے
یہ اس روایت کی منکرات میں سے ہے
قرآن یا کتاب اللہ کی بھی کوئی آیت خواب میں نہیں آ سکتی کیونکہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی نہیں تھے

علم حدیث میں  ابن اسحاق دجال کے  طور پر بھی یاد کیے جاتے ہیں اور  یہ لقب امام مالک نے ان کو  دیا ہے

صحیح ابن حبان اور صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ: أَيُّ القُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ؟ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ} [المدثر: 1]، فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1]، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ القُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ؟ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ} [المدثر: 1] فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1]، فَقَالَ: لاَ أُخْبِرُكَ إِلَّا بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” جَاوَرْتُ فِي حِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَاسْتَبْطَنْتُ الوَادِيَ فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي، وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، وَأُنْزِلَ عَلَيَّ: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ} [المدثر: 2] يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ نے ابو سلمہ سے سوال کیا کہ قرآن میں سب سے پہلے کیا نازل ہو ؟ ابو سلمہ نے کہا {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ} [المدثر: 1]، یحیی نے کہا مجھ کو خبر ملی کہ {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1] نازل ہوئی پس ابو سلمہ نے کہا جابر بن عبد اللہ سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا میں وہ کہتا جو میں نے رسول اللہ سے سنا کہ میں حرا میں رکا ہوا تھا جب یہ ختم ہوا تو وہاں سے اترا یہاں تک کہ وادی میں آ گیا کہ آواز سنی ، دائیں بائیں دیکھا کہ فرشتہ ایک کرسی پر ہے زمین و آسمان کے درمیان
پس میں خدیجہ کے پاس پہنچا اور کہا مجھ کو اڑا دو اور ٹھنڈا پانی ڈالو پس نازل ہوا
{يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: فِي خَبَرِ جَابِرٍ هَذَا: إِنَّ أَوَّلَ مَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ: {يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ} [المدثر: 1]، وَفِي خَبَرِ عَائِشَةَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} [العلق: 1]، وَلَيْسَ بَيْنَ هَذَيْنِ الْخَبَرَيْنِ تَضَادٌّ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْزَلَ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} [العلق: 1] وَهُوَ فِي الْغَارِ بِحِرَاءَ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ دَثَّرَتْهُ خَدِيجَةُ وَصَبَّتْ عَلَيْهِ الْمَاءَ الْبَارِدَ، وَأُنْزِلَ عَلَيْهِ فِي بَيْتِ خَدِيجَةَ: {يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ} [المدثر: 1] مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْخَبَرَيْنِ تَهَاتُرٌ أَوْ تَضَادٌّ
ابن حبان نے کہا جابر کی حدیث میں ہے سورہ مدثر نازل ہوئی اور عائشہ نے کہا {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ} [العلق: 1] اور دونوں میں تضاد نہیں ہے
پہلے غار میں اقرا نازل ہوئی اور بعد میں سورہ مدثر

مسند احمد میں ہے
جَاوَرْتُ بِحِرَاءَ شَهْرًا، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي، نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي
میں ایک ماہ حرا میں رکا وہاں جب رکنا ختم کیا میں اترا اور بطن وادی میں آ گیا

صحیح مسلم میں ہے
وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيَّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ
امام زہری نے خبر دی کہ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کیا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا اور وہ فترت الوحی کی بات کر رہے تھے

غور طلب ہے کہ یہاں سند میں امام زہری ہیں اور امام زہری کے نزدیک سورہ مدثر پہلی سورت نہیں ہے

غامدی صاحب کے نزدیک  اغازالوحی کی صحیح بخاری والی  روایت ، سیرت ابن اسحاق کی روایت  دونوں صحیح نہیں کیونکہ ان میں سورہ علق یا سورہ مدثر کو پہلی الوحی کہا گیا ہے اور ان کا ذہن کہتا  ہے یہ دونوں سورتیں پہلی الوحی نہیں کیونکہ ان سورتوں کے مضامین تند و تیز ہیں

راقم کہتا ہے کہ جس نے بھی آغاز الوحی کی روایات کا ذکر کیا محض ان دو سورتوں کا ہی کیا ہے

ابن اسحاق کو عادت ہے کہ وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے رشتہ داروں کے نام سے جھوٹ بولتا ہے
ابن اسحاق کو دجال اغلبا ان وجوہات کی بنا پر کہا گیا ہے کیونکہ اس نے روایت کیا
اول وفات النبی پر عائشہ رضی الله عنہا نے ماتم کیا
دوم قرآن کی آیات بکری کھا گئی
سوم نبی  علیہ السلام کی تدفین بدھ کی رات میں ہوئی
چہارم وفات النبی  کے وقت ام المومنین عائشہ نہیں ، ام المومنین صفیہ رضی الله عنہا پاس تھیں ‏
پنجم ام المومنین عائشہ ، معراج کو خواب کہتی تھیں

معلوم ہے کہ یہ تمام جھوٹ ہیں جو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بولے گئے ہیں  کیونکہ صحیح اسناد سے اس کے خلاف معلوم ہے

 

===========================================================================

 

“In the Quran, it is said:
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (52)
And thus We have inspired unto you (Muhammad) a Spirit of Our command. You knew not what the Scripture was, nor faith, but We have made it a light whereby We guide whom We will of Our servants. And indeed, you guide to a straight path.”

This verse reveals that before becoming a prophet, the Messenger of Allah, peace be upon him, had absolutely no knowledge of the book of Allah.

Contrary to this, in the biography by Ibn Ishaq, it is stated:
Ibn Ishaq said: Wahb ibn Kaysan, the freed slave of the family of Zubayr, told me that he heard Abdullah ibn Zubayr saying to Ubayd ibn Umayr ibn Qatadah al-Laythi: “Tell us, O Ubayd, how did the prophecy begin with the Messenger of Allah, peace be upon him, when Gabriel, peace be upon him, came to him?” Ubayd said: “I was present and Abdullah ibn Zubayr narrated in the presence of people that the Messenger of Allah, peace be upon him, would spend a month every year in seclusion in Hira, following the pre-Islamic practice of Tahannuth, as practiced by Quraysh.”

Note: This narration does not mention I’tikaf. The word يُجَاوِرُ means to stay at a place, from which the term ‘Mujawir’ is derived.

Ibn Ishaq said that Ubayd mentioned: “The Messenger of Allah, peace be upon him, would seclude himself for that month every year, feeding any needy who came to him. When he completed his seclusion, the first thing he would do, before entering his house, was to visit the Kaaba and perform Tawaf around it seven times or as Allah willed, and then return to his home. Until the month came in which Allah intended to bestow His grace upon him, in the year he was chosen by Allah, which was the month of Ramadan, the Messenger of Allah went to Hira as he used to do for his seclusion along with his family, until the night Allah honored him with His message and showed mercy to His servants, Gabriel came with Allah’s command…”

This narration’s chain of transmission is disconnected, as there is no link from Ubayd ibn Umayr onwards.

In “Jami’ al-Tahsil fi Ahkam al-Marasil” by Salah al-Din Abu Sa’id Khalil ibn Kaykaldi ibn Abdullah al-Dimashqi al-Alai (died 761H), it is mentioned that Ubayd ibn Umayr is considered by Bukhari to have seen the Prophet, and by Muslim as being born during his time, meaning he did not see him, and is counted among the Tabi’un, thus his hadiths are Mursal (disconnected).

It should be clear that Ubayd ibn Umayr did not hear from the Messenger of Allah.

This narration does not conform to reality because it mentions the Messenger of Allah, peace be upon him, taking his family to Hira Cave. However, Hira is a very small place, barely big enough for one person at a time, located outside Mecca in the wilderness. It is not feasible that he stayed there with his family for a month.

According to Ghamidi, Abd al-Muttalib also practiced Tahannuth in Hira, which is not mentioned in Ibn Ishaq’s biography. From this narration, Ghamidi concluded that the verses of the Quran, before the prophetic mission, were recited to the Prophet Muhammad, peace be upon him, as a symbolic event.

Ibn Ishaq’s narration includes the Prophet, peace be upon him, waking from a dream and descending from Hira until he was midway down the mountain when Gabriel addressed him as the Messenger of Allah.

According to Sahih Bukhari, after the Hira incident, there was a period without revelation, known as the period of Fatrah.

Under Ibn Ishaq’s account, the Quranic revelation began with a non-prophet through a dream, which is among the questionable aspects of the narration. No verse of the Quran or the Book of Allah could come in a dream because, at that time, the Prophet Muhammad, peace be upon him, was not yet a prophet.

Ibn Ishaq is also remembered in the study of Hadith as a “Dajjal” (deceiver), a title given to him by Imam Malik.

Both Sahih Ibn Hibban and Sahih Bukhari mention:
Ishaq ibn Mansur narrated from Abd al-Samad, from Harb, from Yahya, who said: “I asked Abu Salama: ‘Which part of the Quran was revealed first?’ He said: ‘O you wrapped up (in the mantle)!’ I said: ‘I was informed that it was: ‘Read in the name of your Lord Who creates.” Abu Salama said he asked Jabir ibn Abdullah which part of the Quran was revealed first, and he replied the same. I said: ‘I was informed that it was: ‘Read in the name of your Lord Who creates.’ He said: ‘I only tell you what the Messenger of Allah, peace be upon him, said.'”

This discrepancy in reports, whether Surah Al-Alaq or Surah Al-Muddathir was the first revelation, does not indicate a contradiction, as both events happened at different times and contexts.

In Musnad Ahmad, it is mentioned:
“I sequestered myself in Hira for a month, and when I concluded my seclusion, I descended and reached the valley’s bottom.”
This signifies the Prophet Muhammad’s practice of secluding himself in the cave of Hira, highlighting a period of contemplation and spiritual quest before receiving revelation.

In Sahih Muslim, it is narrated:
“Abu al-Tahir told me, Ibn Wahb said, Yunus reported, Ibn Shihab informed me from Abu Salama bin Abd al-Rahman, who narrated from Jabir bin Abdullah al-Ansari, a companion of the Messenger of Allah, peace be upon him, that he narrated, saying the Messenger of Allah, peace be upon him, spoke about the period of cessation of revelation.”
This narration points to a phase where the Prophet Muhammad experienced a pause in the revelation process, indicating the profound impact of initial revelations and the anticipation of further guidance.

It’s noteworthy that Imam Zuhri, mentioned in the chain of transmission, does not consider Surah Al-Muddathir as the first chapter revealed, suggesting a nuanced understanding of the Quran’s revelation order among early Islamic scholars.

Ghamidi holds the view that the narrations in Sahih Bukhari and the biography by Ibn Ishaq, which mention Surah Al-Alaq or Surah Al-Muddathir as the first revelations, are not accurate because the themes of these Surahs are intense and assertive. He questions the traditional sequence of revelation based on the content and tone of these chapters.

The writer states that only these two Surahs have been mentioned in the context of the beginning of revelation.

Ibn Ishaq has been criticized for falsely attributing various incidents to Umm al-Mu’minin Aisha and her relatives, leading some to label him as a “Dajjal” (deceiver) for such fabrications. These include:
1. Aisha mourning the Prophet’s death,
2. Verses of the Quran being eaten by a goat,
3. The Prophet being buried on a Wednesday night,
4. Safiyya, not Aisha, being present at the Prophet’s death, and
5. Aisha supposedly considering the Isra and Mi’raj as a dream.

These allegations are contradicted by authentic traditions, highlighting the importance of rigorous scrutiny and authentication in the transmission of historical and religious narratives.

مادہ کی حالتیں ، انسانی جسم ،مسلمان متکلمین

قصہ مختصر
غیر مقلدوں کے ایک نئے شیخ ڈاکٹر محمد زبیر نے ڈاکٹر عثمانی کی کتب کو پڑھے بغیر تبصرہ کیا – جس میں انہوں نے ایک بیان یو ٹیوب پر جاری کیا اور کمینٹ میں بار بار ذکر کیا کہ مادہ کی حالت ٹھوس ہے ٹھوس ہے اور عذاب قبر مٹی کو ہوتا ہے – اس تکرار سے ظاہر ہوا کہ بعض علماء یہ بھول گئے کہ مادہ یعنی میٹر کی تین حالتیں ہیں
ٹھوس ، مائع ، گیس
انسانی جسم جب جلے گا تو سائنس کہتی ہے کہ ان تین میں بدلے گا مٹی نہیں بنے گا بلکہ پانی اور کاربن ڈائی اکسائیڈ میں بھی بدلے گا

انسانی جسم جب جل جاتا ہے تو ہندو یا بدھمت والے اس کی راکھ کو اٹھا لیتے ہیں جس میں لکٹری بھی ہوتی ہے – اس طرح ہاتھ میں تو راکھ آتی ہے لیکن سائنس سے معلوم ہے کہ یہ مکمل انسان کی باقیات نہیں ہیں – اس کے جسم کا ایک بھت بڑا حصہ اس وقت آسمان و زمیں میں گیس کی صورت معلق ہو چکا ہوتا ہے

سائنس میں کیمسٹری کے مطابق انسانی جسم ایلیمنٹس پر مشتمل ہے – ان میں ہڈیو ں میں کیلشیم ہوتا ہے اور بالوں اور ناخن میں کیوراطن ہوتا ہے جو نائٹروجن، آکسیجن ، سلفور ہائیڈروجن پر مشتمل ہے – کھال میں نائٹروجن، آکسیجن ، کاربن ، سلفور ، ہائیڈروجن وغیرہ ہوتا ہے   – انسانی پٹھوں میں نائٹروجن، آکسیجن ، کاربن ، ہائیڈروجن، پروٹیین ہوتا ہے

اب جب انسانی جسم کو جلایا جاتا ہے تو صرف راکھ یا بھسم ہی نہیں ملتا بلکہ انسانی جسم گیس کی صورت میں بھی بدل کر آسمان و زمین کے درمیان چلا جاتا ہے
سائنس کا علم اللہ نے ہی انسان کو دیا ہے  افسوس روایت پسند علماء نےسائنس  ایک مغربی علم سمجھ لیا ہے –  گمراہ فرقے جو جسم پر عذاب کے قائل ہے ان کی عقل کی محدودیت واضح ہو جاتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مادہ صرف ٹھوس یا   سولڈ ہے جبکہ سائنس میں مادہ کی تین حالتوں کی بات کی جاتی ہے جن میں گیس بھی ہے

انسان  میں موجود ایلیمنٹس یا گیس کے اجزاء

Oxygen 65%
Carbon 18%
Hydrogen 9.5%
Nitrogen 3.2%
Calcium 1.5%
Phosphorus 1.2%
Potassium 0.4%
Sulphur 0.2%
Chlorine 0.2%
Magnesium 0.1%
Other >1%

آٹھویں صدی کے مسلمان متکلمین مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم اس سب سے نابلد تھے اور انہوں نے سمجھا ہے جسم جلنے کے بعد محض راکھ بن جاتا ہے اور چونکہ راکھ اسی زمین پر رہتی ہے یا ہوا میں اڑتی بھی ہے تو واپس زمین پر آتی ہے لہذا انہوں نے عقیدہ دیا کہ اللہ تعالی اس راکھ پر عذاب کرتا ہے اور یہ عذاب قبر کی صورت ہے

ہندؤں میں ایک فرقہ  اگوری سادھوں کا  ہے جو شمشان گھاٹ میں جاتا ہے اور جلتی چتا میں سے راکھ  نکال کر اس  کو لیتا ہے جب وہ ٹھنڈی ہو جاتی ہے تو گنگا میں نہانے کے بعد اسی راکھ کو جسم پر ملتا ہے

اگر اس طرح عذاب قبر راکھ کو ہوتا تو سادھو اس چتا کے  بھسم کو جسم پر کبھی بھی نہ ملتے

آج ہم کو معلوم ہے کہ آٹھویں صدی کے متکلمین علماء کی معلومات ناقص تھیں،  انہوں نے اپنے زمانے کی سائنس سے سمجھا کہ جسم جلنے پر راکھ بن جاتا ہے جبکہ اس کا کثیر حصہ پانی پر مشتمل ہے اور ان اجزاء پر مشتمل ہے جن کو گیس کہا جاتا ہے لہذا یہ پھر عذاب زمینی قبر   نہیں ہے کہ زمین سے اس کا تعلق رہے بلکہ یہ اصل میں عذاب برزخ ہے – اس کو عذاب قبر صرف اس وجہ سے کہا گیا کہ اکثر مردوں کو دفن کیا جاتا ہے یا آسمان  میں روح کا مقام قبر کہا گیا ہے

برزخی جسم کی خبر

قصہ مختصر
برزخی جسم کا ذکر سن ٨٠ کی دہائی میں ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب عذاب البرزخ میں کیا – اس سے قبل بر صغیر میں تقسیم ہند سے قبل برزخی جسم کا ذکر سلفی عالم ثناء اللہ امرتسری نے بھی کیا تھا – تقسیم ہند کے بعد سلفی عالم اسمعیل سلفی نے کتاب حیات النبی میں باقاعدہ برزخی جسم کا ذکر کیا کہ متقدمین میں علامہ الوسی نے اس کا ذکر کیا
سن ٩٠ کی دہائی میں غیر مقلدوں کے وہ علماء جن کو صرف اپنے ہاتھ کی کتب پڑھنے کا شوق تھا  اور کمزور مطالعہ تھا انہوں نے دعوی داغ دیا کہ برزخی جسم کا ذکر دجال غلام احمد قادیانی نے کیا – اس طرح اپنے معتقدؤن کو احمق بنا کر داد و تحسین لی – افسوس حق کو چھپانے والے ان کے علماء میں سے بعض یقینا جانتے ہوں گے کہ اسمعیل سلفی نے ایک نہیں کئی بار بررخی جسم کا ذکر اپنی کتاب میں ڈاکٹر عثمانی سے قبل کیا ہے اور اس کا رد نہیں کیا – راقم نے حق کو چھپانے والے ان علماء کا تعقب کیا اور ان کے منہ پر متقدمین  علماء کے حوالہ جات مارے ہیں جن کو اب اس کتاب میں یکجا   کیا گیا ہے   

الله تعالی نے قرآن میں بتایا ہے وہ انسانی جسم کو واپس روزمحشر تخلیق کرے گا اس میں انسان کا جسم واپس بنا دیا جائے گا – احادیث کے مطابق اس تخلیق نو میں انسانی جسم میں تبدیلی بھی ہو گی اس کی جسامت دنیا سے الگ ہو گی –   جہنمیوں کے جسم اس قدر بڑے ہوں گے کہ ان کے شانوں کے درمیان کی مسافت تین دن کی ہو گی اور کھال احد پہاڑ جتنی موٹی ہو گی (صحیح مسلم)

کافر کا جہنمی جسم دیکھئے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی ( یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے)۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔

ان احادیث سے پتا چلا کہ  جہنمیوں کے اجسام اس دنیا جیسے نہیں بلکہ بہت بڑے ہونگے

دوسری طرف یہ جہنمی اجسام مسلسل تبدیل ہونگے اور ان پر نئی کھال آئے گی ینی عذاب ان جسموں کو ہوگا جنہوں نے گناہ نہ کیا ہو گا – گناہ تو ٥ سے ٧ فٹ کے جسم  نی کیے لیکن عذاب اس جسم کو ہے جو عظیم حجم کا ہے

یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ  روح اس جسد عنصری کو چھوڑ کر روز محشر ایک نئے جسم میں جائے گی جو اس جسد عنصری سے الگ  ہے ،  بڑا ہے – روح اس بڑے جسم میں بھی سما جائے گی اور اس جسم کو اپنا لے گی

اسی طرح احادیث  میں آیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے عذاب قبر حق ہے اور  اس کی مثال میں آپ  صلی الله علیہ  وسلم نے   نماز کسوف گرہن  کے بعد جو خطبہ دیا اس میں ذکر کیا

ایک عورت  کا جس کو بلی ابھی بھی  نوچ رہی ہے   (صحیح ابن حبان)

ایک مشرک  شخص    (عمرو  بن لحیی)   کا جو اپنی آنتوں کو گھسیٹ  رہا ہے     (صحیح بخاری )

ایک  شخص کا جو  لاٹھی  پر ٹیک  لگائے  عذاب  جھیل رہا ہے   (صحیح ابن    خزیمہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ  تمام عذابات  براہ  راست  دیکھے  جب پر   نماز کسوف  پڑھا رہے تھے  اور  اس نماز کے بعد خطبہ میں مومن پر عذاب قبر کی خبر پہلی بار سن ١٠ ہجری میں  دی گئی

اتفاق سے اسی دن پسر نبی  ابراہیم  کی بھی وفات ہوئی  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ   اس کے لئے جنت میں اس وقت ایک دائی  ہے جو دودھ پلا رہی ہے

اس طرح ایک ہی دن میں مشرک  اور  مومن   پر عذاب قبر اور مومن پر راحت کا ذکر فرمایا  –  ان سب عذابات  کا مقام اس بنا پر زمین پر  نہیں رہتا کیونکہ  مثالیں دے دے کر سمجھایا  گیا کہ کس طرح روح ایک نئے  جسم میں  عالم بالا  میں جاتی ہے ، عذاب و راحت پاتی ہے

یہ چیز  فقہاء و شارحین  حدیث و متکلمین بیان  کرتے رہے تھے  لیکن افسوس جب آٹھویں صدی  اور اس کے بعد  جمہور  نے روح پر عذاب کا انکار کرنا شروع کیا تو ان احادیث کو چھپایا  جانے لگا کیونکہ ایک بار روح کے لئے نیا عالم بالا میں جسم کا عقیدہ  لوگوں پر واضح  ہو جاتا تو روح پھر اس طرح سات آسمانوں  میں بھٹکتی نہ  پھرتیں جس کے قائل   بہت سے علماء ہو چلے تھے – عقائد میں برزخی  جسم کی خبر کو چھپایا  جانا آٹھویں صدی سے چلا آ رہا ہے

البتہ کتب شرح میں  وہی گروہ جو روح کے سات آسمان میں بھٹکنے کا قائل ہے انہوں نے ہی  شروحات حدیث میں ذکر کیا ہے کہ متقدمین  روح کے جسم کا ذکر ان احادیث  کی وجہ سے کرتے تھے – عثمانی صاحب نے اس حقیقت کو واپس واضح کیا اور مسلک پرستوں نے اس  پر دعوی کیا کہ  ١٤٠٠ سو سال میں  ایسا کسی نے نہیں کہا – راقم کہتا ہے فرقے  جھوٹ بول رہے ہیں – قارئین اس کتاب میں درج حوالہ جات کو دیکھ سکتے ہیں – افادہ عامہ کے تحت ان حوالوں کو جمع کیا گیا ہے –

صحیح  بخاری  میں حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ  میں تفصیل سے مومن پر عذابات کا ذکر وارد ہوا ہے البتہ اس کا ذکر اس کتاب میں نہیں ہے ، راقم کی دوسری کتاب بنام اثبات عذاب قبر میں اس حدیث کی شرح  پر کلام ہے

ابو شہر یار

٢٠٢١

207 Downloads

ڈاکٹر عثمانی کی پریشانی اور امام النسفی کا جواب

قصہ مختصر
محدثین متاخرین جو تصوف کو پسند کرتے تھے ان کی ایک جماعت نے بلخی صوفی ابراھیم بن ادھم کا ذکر اپنی کتب میں کیا ہے – اس کے لئے رطب اللسان رہے – راقم سمجھتا ہے یہ کوئی فرضی کردار تھا جو اویس قرنی کی طرح متصوفین نے گھڑا – اس کردار یعنی ابراھیم بن ادھم کے حوالے سے لوگوں نے ذکر کیا کہ یہ کعبہ حج کرنے پہنچا تو کعبہ غائب تھا یہ کعبہ ڈھونڈتا ہوا عراق آیا تو وہاں کعبہ رابعہ بصری کا طواف کر رہا تھا – قصہ مشہور ہوا اور بعض علماء نے اس کو سنانے پر کفر کا فتوی دیا – یہ متکلم امام النسفی پر بھی پیش ہوا – امام النسفی نے اس کو کرامت بتایا – قصہ واپس مشہور ہوا متصوفین اس کو درج کرتے رہے کوئی نکیر نہ ہوئی یہاں تک کہ ڈاکٹر عثمانی نے صوفیوں پر کتاب ایمان خالص میں تنقید کی
اہل حدیث اور غیر مقلدوں میں سے بعض نے عثمانی کی تحسین کی اور بعض نے صوفیوں کی مدد کی مثلا خواجہ قاسم وغیرہ نے اور دعوی کیا کہ اس قسم کے قصوں کو اہل بدعت ( یعنی بریلویوں) نے گھڑا
راقم کو ملا کہ امام النسفی کا حوالہ لوگ بھلا بیٹھے ہیں – جس سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ بریلویوں نے نہیں گھڑا بلکہ یہ ایک قدیم قصہ ہے

مشہور قصہ ہے کہ  ابراہیم بن ادھم ١٤ سال میں بلخ سے  مکہ پہنچے –   انیس الارواح  از عثمان ہارونی مرتبہ  معین الدین چشتی، ص ١٧، ١٨ پر حکایت لکھی ہے کہ عثمان ہارونی نے

ibraheemBinAdham

اس حکایت میں ضعیفہ ، رابعة العدوية (المتوفی ١٣٥ ھ یا ١٨٥ ھ) جن کا مکمل نام   رابعة بنت اسماعيل أم عمرو العدوية ہے. ان کو أم الخير بھی کہا جاتا ہے کا ذکر ہے جو  یہ دعوی کرتی تھیں کہ یہ الله کی عبادت جنّت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ الله کی خوشنودی کے لئے کرتی ہیں (یعنی باقی صوفی ایسا کرتے تھے مثلا ابراہیم بن ادھم بلخی)

عثمانی صاحب نے اس قصہ پر جرح کی کہ اس میں صوفیوں کو علم غیب کی خبر دی  گئی ہے البتہ راقم کو ملا کہ امام نسفی نے اس قصہ کو قبول کیا

إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بلخ سے مکہ پہنچے تو کعبہ وہاں نہ تھا رابعہ بصری کی زیارت کو گیا ہوا تھا – یہ قصہ عربوں میں مشہور ہوا اور بعض فقہاء نے ان پر کفر کا فتوی دیا جنہوں نے اس قصہ کو بیان کیا

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار از الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ) میں ہے
قُلْت: لَكِنْ فِي عَقَائِدِ التَّفْتَازَانِيُّ جَزَمَ بِالْأَوَّلِ تَبَعًا لِمُفْتِي الثَّقَلَيْنِ النَّسَفِيِّ، بَلْ سُئِلَ عَمَّا يُحْكَى أَنَّ الْكَعْبَةَ كَانَتْ تَزُورُ وَاحِدًا مِنْ الْأَوْلِيَاءِ هَلْ يَجُوزُ الْقَوْلُ بِهِ؟ فَقَالَ: خَرْقُ الْعَادَةِ عَلَى سَبِيلِ الْكَرَامَةِ لِأَهْلِ الْوِلَايَةِ جَائِزٌ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ،
میں کہتا ہوں لیکن عقائد التَّفْتَازَانِيُّ ( شَرْحِهِ عَلَى الْعَقَائِدِ النَّسَفِيَّةِ) میں جزم سے ہے کہ مفتی ثقلین امام النَّسَفِيِّ سے سوال ہوا اس حکایت پر کہ کعبہ نے اولیاء الله میں سے ایک کی زیارت کی ، کہ کیا یہ کہنا جائز ہے ؟ پس امام نسفی نے جواب دیا اہل سنت میں اہل ولایت کی کرامت کے لئے خرق عادت جائز ہے

رد المحتار على الدر المختار از ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) میں ہے کہ ابن عابدین نے کہا
قَالَ إنَّمَا الْعَجَبُ مِنْ بَعْضِ فُقَهَاءِ أَهْلِ السُّنَّةِ حَيْثُ حَكَمَ بِالْكُفْرِ عَلَى مُعْتَقِدِ مَا رُوِيَ عَنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ إلَخْ ثُمَّ قَالَ: وَالْإِنْصَافُ مَا ذَكَرَهُ الْإِمَامُ النَّسَفِيُّ حِينَ سُئِلَ عَنْ مَا يُحْكَى أَنَّ الْكَعْبَةَ كَانَتْ تَزُورُ وَاحِدًا مِنْ الْأَوْلِيَاءِ هَلْ يَجُوزُ الْقَوْلُ بِهِ؟ فَقَالَ: نَقْضُ الْعَادَةِ عَلَى سَبِيلِ الْكَرَامَةِ لِأَهْلِ الْوِلَايَةِ جَائِزٌ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ. اه
اہل سنت کے بعض فقہاء پر حیرت ہوئی جنہوں نے ان لوگوں پر کفر کا فتوی دیا جو اعتقاد رکھ رہے تھے اس پر جو إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ سے روایت کیا گیا ہے اور انصاف وہ ہے جو امام نسفی المتوفی ٥٣٧ ھ نے ذکر کیا

اس طرح اس قصہ کو کرامت ولی کے زمرے میں قبول کر لیا گیا

افسوس علم غیب کی نقاب کشائی  کا کسی متکلم  امام کو خیال تک نہ آیا

ابراھیم کی مقبولیت اہل حدیث میں بھی ہو چلی تھی اور امام الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں ذکر کیا
عِصَامُ بنُ رَوَّادٍ: سَمِعْتُ عِيْسَى بنَ حَازِمٍ النَّيْسَابُوْرِيَّ يَقُوْلُ:
كُنَّا بِمَكَّةَ مَعَ إِبْرَاهِيْمَ بنِ أَدْهَمَ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِي قُبَيْسٍ (2) ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ مُؤْمِناً، مُسْتكمِلَ الإِيْمَانِ، يَهزُّ الجَبَلَ لَتَحَرَكَ.
فَتَحَرَّكَ أَبُو قُبَيْسٍ، فَقَالَ: اسْكُنْ، لَيْسَ إِيَّاكَ أَرَدْتُ
عيْسَى بنَ حَازِمٍ نے ذکر کیا کہ ہم مکہ میں تھے إِبْرَاهِيْمَ بنِ أَدْهَمَ نے جبل ابو قُبَيْسٍ پر نظر ڈالی اور کہا اگر تو مومن ہے ایمان کامل ہے تو یہ پہاڑ سرک جائے – پس جبل ابو قُبَيْسٍ ہلنے لگا – ابراھیم نے کہا رک جا یہ ارادہ نہیں تھا

پھر اس حکایت کا دوسری سند سے ذکر کیا
عَنْ مَكِّيِّ بنِ إِبْرَاهِيْمَ، قَالَ: قِيْلَ لابْنِ أَدْهَم: مَا تَبلُغُ مِنْ كَرَامَةِ المُؤْمِنِ؟
قَالَ: أَنْ يَقُوْلَ لِلْجَبَلِ: تَحرَّكْ، فَيَتحَرَّكُ.
قَالَ: فَتَحَرَّكَ الجَبَلُ، فَقَالَ: مَا إِيَّاكَ عَنَيْتُ

اس طرح محدثین بھی مان رہے تھے کہ ابراھیم نام کا بلخی و سنٹرل ایشیا کا صوفی مکہ کے پہاڑوں کو ہلا  رہا تھا

 

https://www.islamic-belief.net/%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C%D9%85-%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D8%AF%DA%BE%D9%85/

 

حیات النبي في القبر جو مسئلو

175 Downloads

اُمت جا ولي ابوبڪر رضي الله عنه چون ٿا ته

 ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا  قد مات…     صحیح بخاری

ٻُڌي وٺو! جيڪو شخص محمد صلي الله عليه وسلم جي عبادت ڪندؤ ھو ته(ھو ڄاڻي وٺي ته )  بيشڪ محمد فوت ٿي وياـ

عائيشہ رضي الله عنها جو فرمان آھي ته

 لقد مات رسول الله…    صحیح مسلم

يقيناً رسول الله فوت ٿي وياـ

اعمال پيش ٿيڻ جي عقيدي جو رد

302 Downloads

اس ويب سائٹ کي کتب کا سندھي ميں ترجمہ کا آغاز کيا گيا ہے – اس سلسلے کي پہلي کتاب عقيدہ عرض عمل کے بارے میں ہے – قارئين اس کو يہاں سے ڈونلوڈ کر سکتے ہيں
اللہ سے دعا ہے کہ مترجمين کي اس کاوش کو قبول کرے اور ان کو اجر عظيم دے
امين

 

کتب عثمانی پر ایک تبصرہ

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر اہل حدیث   ڈاکٹر  رانا محمد اسحاق  کی تعریفی آراء 

غیر مقلد ڈاکٹر رانا محمد اسحاق کتاب قبر اور عذاب قبر میں اقرار کرتے ہیں

فرقہ اہل حدیث کے ایک سرخیل صلاح الدین یوسف نے ہفت روزہ الاعتصام جلد ۲۸ ، ۲۲ اکتوبر ۱٩٨٤ میں ڈاکٹر عثمانی ؒکو مبارکباد پیش کی – یہ چیز حبل اللہ نمبر ٣ میں عبد القادر سومرو کے مضمون میں پیش کی جا چکی ہے کہ اہل حدیث ڈاکٹر صاحب کے لئے رطب اللسان تھے حتی کہ قبر کے حوالے سے خود فرقہ اہل حدیث کے فضل الرحمان کلیم  کاشمیری کہتے بنانگ دھل مضامین میں لکھتے تھے کہ قبر زمین کا کھڈا نہیں ہے

 

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر  مخالفین کی عنادی آراء
بہت سے لوگ جو ڈاکٹر عثمانی کی توحید پسندی سے حقیقی طور پر لا علم تھے ان میں بد نام زمانہ کتاب کراچی کا عثمانی مذھب کے مصنف خواجہ  محمد قاسم  تھے – خواجہ قاسم کھلے بندوں جھوٹ گھڑتے اور تحاریر پڑھ کے سمجھنے کی بجائے سنی سنائی پر زیادہ یقین رکھتے تھے

خواجہ قاسم جھوٹ گھڑتے ہیں

امام اہل سنت احمد بن حنبل ، امام ابو داود ، امام نسائی .. ان سب پر فتوی لگایا ہے اس لئے کہ ان کی کتابوں میں حدیث بیان ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے دنوں میں افضل دن جمعہ کا دن ہےکیونکہ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے۔ ۔۔۔۔ ۔پس اس دن کثرت سے درود پڑھو حقیقی بات یہ ہے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔صحابہ رضی اللہ عنھم نے کہا کہ ہمارا درود اس وقت کیسے پیش  کیا جائے گا جب آپ کا جسم ریزہ ریزہ ہو گیا ہو گا یعنی وفات کے بعد بوسیدہ ہو چکا ہو گا۔فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔

خواجہ قاسم کے افکار  پر مختصر  تبصرہ یہاں  ہے

سنجیدہ نظر انے والے   قلم کار عصر حاضر کے ڈاکٹر حافظ محمد زبیر بھی ہیں جنہوں خواجہ قاسم صاحب کا بیان کردہ چربہ ,   چربہ نقل کیا  ہے – موصوف لکھتے ہیں

عثمانی صاحب تابعین اور تبع تابعین کے بعد امت میں بس دو چار لوگوں کو ہی مسلمان سمجھتے ہیں جن میں ایک امام ابو حنیفہ ہیں اور دوسرے امام بخاری ہیں،  رحمہما اللہ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو فتنے کی جڑ قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول یہ امام احمد ہی ہے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اپنی حدیث کی   کتاب “مسند احمد” میں یہ روایت نقل کی کہ قبر میں مردے کے جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے۔ اسی طرح امام ابو داود، امام نسائی، امام ابن تیمیہ، امام ابن
قیم اور دیگر سلفی اور حنبلی علماء کو بھی اس حدیث کے صحیح ماننے کی وجہ سے گمراہ قرار دیتے ہیں۔

ایسا عثمانی صاحب نے کہیں نہیں لکھا کہ ان کے نزدیک امام ابو داود ، امام نسائی بھی اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ انہوں نے حدیث عود روح کو نقل کیا  ہے – اسی قسم کا مغالطہ غیر مقلد شفیق الرحمان نے گھڑا تھا – اس پر عثمانی فرماتے ہیں

حوالہ دیکھیے حبل اللہ شمارہ 7 صفحہ 9 پر اسکرین شوٹ پوسٹ میں موجود ہے ملاحظہ فرمائیے۔

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ عثمانی صاحب نے مسند احمد کو کیوں کوٹ کیا اگر امام احمد کا عقیدہ درست نہیں تھا لہذا وہ لکھتے ہیں

۔ عجیب طرفہ تماشا یہ ہے کہ “عذاب قبر” کے مسئلے میں جن امام احمد کو ضال اور مضل قرار دیا، قرآن مجید پر اجرت نہ لینے کے مسئلے میں انہی کی مسند احمد کی روایتوں کو اپنا کل استدلال بنا لیا۔ کوئی اصول ضابطہ تو ہے نہیں، جہاں چاہتے ہیں کسی راوی کی بنیاد پر ایک روایت کو ضعیف قرار دیے دیتے ہیں اور دوسری جگہ اسی راوی کی روایت قبول کر لیتے ہیں۔

راقم کہتا ہے کیونکہ فرقوں میں یہ  عمل جاری و ساری ہے،  باوجود امام احمد کو مشرک بتانے کے  وہ ان کی باتوں کو قبول کرتے ہیں

اہل حدیث میں البانی اور متعدد اہل حدیث نے اقرار کیا ہے کہ امام احمد بیابان میں اللہ کو نہیں فرشتوں کو پکارتے تھے اس پر گواہ خود احمد کے بیٹے ہیں
یہ عمل خود ان فرقوں کے نزدیک شرک ہے

لنک 

عبد الوہاب النجدی نے بیان کیا کہ امام احمد وسیلہ کے قائل تھے – آج اہل حدیث کہتے ہیں یہ شرک ہے

امام احمد کے بیٹے گواہ ہیں کہ ان کے باپ تعویذ لکھتے تھے – یہ فرقوں کو معلوم ہے کہ شرک ہے

اب جب امام احمد شرک کرتے ہیں تو یہ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟

علم حدیث اصولوں پر منبی ہے یا شخصیات پر ؟ خود فرقے کہیں گے اصولوں پر – تو پھر حدیث کسی کی کتاب سےنقل کرنا قابل جرم کب ہوا ؟ کیا  محدثین خود رافضیوں کی روایت نہیں لیتے تھے جن کے عقائد میں یہ خود کلام کرتے تھے ؟

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں

ان کے افکار ونظریات پر بہت اچھا محاکمہ ڈاکٹر عبد اللہ دامانوی صاحب نے اپنی کتاب “عذاب قبر کی حقیقت” میں کیا ہے۔ اسی طرح مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب “عذاب قبر کا بیان” میں ان کا عمدہ تعاقب کیا ہے۔ مزید مولانا ارشد کمال صاحب کی “المسند فی عذاب القبر” بھی ان کے رد میں اچھی کتاب ہے۔ اچھا یہ فرقہ عذاب قبر کو مانتا ہے لیکن اس دنیاوی قبر میں عذاب کو نہیں مانتا بلکہ برزخی قبر میں عذاب کو مانتا ہے۔ ایک عامی جب ان کا لٹریچر پڑھتا ہے تو متاثر ہو جاتا ہے لیکن جب پڑھنے کے بعد دوسری طرف کے لٹریچر کا بھی مطالعہ کرے گا تو تحقیق کی سطحیت واضح ہو جائے گی۔

حقیقت میں ڈاکٹر عثمانی کے ناقدین میں جو اہل حدیث علماء ہیں وہ وہ ہیں جو بھانت بھانت کے عقیدے عذاب قبر کے باب میں رکھتے ہیں مثلا

١- عود روح بالکل نہیں ہو گا (قاری خلیل رحمان ، کتاب پہلا زینہ)
٢- روح جسم سے جڑے گی اور تعلق ہو گا جس میں روح جسم سے نکلے گی اور جب چاہے واپس بھی آئے گی ( فتاوی ابن تیمیہ، کتاب الروح از ابن قیم ، فتح الباری از ابن حجر، وہابی علماء، زبیر علی زئی بعض مواقع پر ) یعنی بار بار عود روح ممکن ہے
٣- روح ، جنت یا جہنم میں ہی رہے گی لیکن قبر میں جسد سے تعلق ہو گا ( نورپوری کا  مضمون ، مقالات از زبیر علی زئی )
٤- کچھ کہتے ہیں مردہ جسد کو عذاب ہو گا بلا روح اور عود روح صرف ایک دفعہ ہو گا (مثلا کتاب الدین الخالص از ابو جابر دامانوی اور کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال )

جب ایک عامی ان تمام کی کتب پڑھتا ہے تو مزید کنفیوز ہو جاتا ہے – ان کی حقیقت کے لئے راقم کی کتاب اثبات عذاب قبر و رد عقیدہ عود روح بہت ہے  اس میں ان تمام مخالف  علماء کے عقائد حوالوں کے ساتھ درج ہیں اور قاری سمجھ سکتا ہے کون کیا فرما رہا ہے

لنک

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں
عذاب قبر کے مسئلے کو اتنا بڑا اصولی اور عقیدے کا مسئلہ سمجھتے ہیں کہ صرف اس کی وجہ سے بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث تینوں کی تکفیر کرتے ہیں

راقم کہتا ہے اس جملے سے ظاہر ہے زبیر صاحب نے تفصیلی مطالعہ نہیں کیا ہے- عذاب قبر نہیں مسائل توحید  کی وجہ سے  اختلاف ہوا ہے  – تصوف کی بنیادوں میں اتحاد ثلاثہ موجود ہے یعنی حلول ، وحدت الوجود ، وحدت الشہود – مختصرا یہ جھمی عقائد ہیں جو محدثین میں امام احمد کے نزدیک بھی کفر ہے – یہ عقائد بریلوی، دیوبندی فرقوں میں تصوف کی وجہ سے موجود ہیں – اشعار میں منصور حلاج جو حلول کا قائل تھا  اس کی تعریف کرنا  اردو شاعری میں معروف ہے – جو چیز عراق میں کفر تھی وہ پاکستان میں آ کر خالص توحید کس طرح بن جاتی ہے یہ زبیر صاحب ہی بتا سکتے ہیں

اہل حدیث فرقے پر عثمانی صاحب کا رد بنیادی طور پر توحید کی وجہ سے ہے – توحید قرانی کے مطابق تمام معاملات و عمل مخلوق اللہ تعالی پر پیش ہوتا ہے – کسی اور پر عمل پیش ہونا غیر قرانی و توحید باری کے مخالف ہے اس وجہ سے عرض عمل کی روایات کو عثمانی صاحب نے رد کیا – لا محالہ ابن تیمیہ و اہل حدیث فرقے پر زد پڑی کیونکہ انہوں نے درود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرا کر علم غیب کا میں نقب لگا دی

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ

عثمانی صاحب کے نزدیک قبر سے مراد دنیاوی قبر نہیں بلکہ برزخی قبر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ مردہ قدموں کی چاپ سنتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس درود شریف پڑھا جائے تو آپ سنتے ہیں، یا مردے کے جسم میں سوال وجواب کے وقت روح اس میں لوٹائی جاتی ہے اور منکر نکیر اس دنیاوی قبر میں اس سے سوال پوچھتے ہیں تو اس سے قبر کی زندگی ثابت ہو جاتی ہے۔ اور قبر میں مردے کو زندہ مان لیا گیا تو کفر اور شرک ہو جائے گا۔

اس جملہ پر زبیر صاحب نے خود غور نہیں کیا – جب آپ نے مان لیا کہ دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام مسلسل پڑھا جا رہا ہے اور وہ ان پر مسلسل پپیش ہو رہا ہے تو اسی کی بنیاد پر علماء قبر میں رسول اللہ کی حیات دائمی کے قائل ہیں – لنک
عثمانی کہتے ہیں الحی تو صرف اللہ تعالی ہے – کوئی حیات دائمی کیسے حاصل کر سکتا ہے ؟ فرقوں میں دیگر نصوص سے یہ بھی کشید کیا جاتا ہے کہ تمام اولیاء قبروں میں زندہ ہیں – سنتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، یہاں تک کہ بریلوی کہتے

ہیں امہات المومنین قبر نبوی میں رسول اللہ تک جاتی ہیں -اس سب کو حیرت ہے کہ زبیر صاحب کیسے بھول گئے ؟

ڈاکٹر  زبیر  صاحب  لکھتے ہیں  کہ

ان کا نام “برزخی فرقہ” اس لیے پڑا کہ ان کے افکار ونظریات میں سے بنیادی ترین نظریہ یہی ہے 

زبیر صاحب نے علماء کی کتب کا مطالعہ نہیں  کیا  محض سنی سنائی  بیان کی ہے

تقسیم ہند سے قبل کے اہل حدیث مولانا ثناء الله امرتسری  فتاوی ثنائیہ صفحہ 292  میں جواب دیتے ہیں

 

فرقہ اہل حدیث کے عالم اسمعیل سلفی نے کتاب حیات النبی میں پاکستان میں  سب سے پہلے برزخی جسم کا ذکر کیا  ملاحضہ کریں

دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی

 

الوسی باقاعدہ برزخی جسم کا لفظ استمعال کرتے ہیں مولانا سلفی ترجمہ کرتے ہیں

 

اس وقت تک عثمانی صاحب  نے کوئی کتاب نہیں  لکھی تھی

سوال یہ ہے کہ  عثمانی صاحب جو  توحید پیش  کرتے ہیں اس   میں خامی  کیا  ہے ؟   اہل حدیث  اس کا جواب اس  طرح دیتے ہیں کہ  بلا شبہ یہ توحید قرآن سے اخذ  کردہ ہے کہ مزارت پر شرک ہو رہا ہے  لیکن اس کی جڑ نظریہ  حیات فی القبر صحیح نہیں  بلکہ مسئلہ  مردے کے سننے کا ہے – دوسری طرف  امام ابن تیمیہ کا   کہنا  ہے کہ مردہ  سنتا ہے اور امام عبد الوہاب النجدی  کا  فرمانا  ہے کہ مردہ  نہ صرف سنتا بلکہ  دیکھتا   بھی ہے

بعض اہل حدیث کہتے ہیں شرک،  مردہ کا سننا ہے- راقم کہتا ہے تو یہ فتوی تو امام ابن تیمیہ و ابن قیم و ابن کثیر و تمام وہابی علماء پر جاتا ہے عبد الرحمن کیلانی صاحب نے صاف لفظوں میں کتاب روح، عذاب قبر اور سماع موتیٰ صفحہ ۱۰۹ پر اقرار کیا کہ

اب دیکھئے جہاں تک شرک کی اصل بنیاد کے استیصال کا تعلق ہے ، ہم بدل و جان عثمانی صاحب کے ساتھ ہیں۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ شرک کی اصل بنیاد اس دنیاوی قبر میں عذاب ِقبر کا اثبات اور حیات فی القبر کو قرار دیتے ہیں جبکہ ہم شرک کی اصل بنیاد سماع موتیٰ کا علی الاطلاق وقوع کو قرار دیتے ہیں۔۔۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ آپ حضرات اپنی جملہ مساعی سماع موتیٰ کی تردید میں صرف کیجئے۔ 

قارئین  سمجھ سکتے ہیں کہ عقائد  پسند  نا  پسند  پر نہیں بلکہ نصوص قرانی  پر منبی ہوتے ہیں لہذا  قرآن سے تقابل کریں

اور سمجھیں کہ کون جق پر ہے  عثمانی   صاحب کی حق کی پکار  یا  فرقوں کی خاندانی نوعیت کی  پشت پناہیاں

 

یہودی تصوف کا اسلامی تصوف پر اثر

اسلامی  تصوف   اور  متاثرہ  فرقوں  میں یہ عقیدہ پایا  جاتا ہے کہ   اولیاء  اللہ کی ارواح  موت کے بعد  فرشتوں  جیسے  کام  کرنے  لگ  جاتی ہیں یا ان کی جماعت  میں ضم  ہو جاتی ہیں – اس عقیدے کو  المناوی   اور شاہ ولی اللہ  بیان  کرتے تھے

  شاہ ولی اللہ کتاب  حجت اللہ البالغہ میں تو کہتے ہیں کہ  ارواح  فرشتوں  کے ساتھ  شامل  ہو جاتی ہیں  اور ان  پر بھی اللہ کا حکم نازل  ہونے لگتا ہے جس کو ارواح  سر  انجام دیتی ہیں

کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير  از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ)  کے مطابق

قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.

اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر ،  تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور  عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود  دیکھتی ہیں یا بادشاہت الہی  کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں

اس طرح  کے اقوال سے  روح  کا  کہیں بھی  آنا  ثابت  کیا  جاتا ہے    جبکہ یہ اقوال بھی  یہود  کی کتب تصوف   کا چربہ  ہیں

Elaborating on cryptic passages found in the Bible (Gen. 5:24; 2 Kings 2:11), it is taught that exceptional mortals, such as Enoch, Elijah, and Serach bat Asher may be elevated to angelic status (I Enoch; Zohar I:100a, 129b; T.Z. Hakdamah 16b).

بائبل  کے بعض   اقتباسات سے یہ تعلیمات  اخذ کی گئی ہیں کہ  انسانوں  میں انوخ ، الیاس  اور سراخ بن عشر   کو فرشتوں  کا درجہ  دیا جا چکا ہے

According to a medieval Midrash, nine people entered Paradise alive (and, by implication,
underwent transformation into Angels): Enoch, Elijah, the Messiah, Eliezer (the
servant of Abraham), Ebed Melech, Batya (the daughter of Pharaoh), Hiram
(who built Solomon’s Temple), Jaabez (son of R. Judah the Prince), and Serach
bat Asher (Derekh Eretz Zut 1)

یہودی کتاب مدرش کے مطابق  نو افراد زندہ  جنت  میں گئے اور فرشتوں میں بدل گئے

روزانہ  جسم  سے روح  نکلنا اور نیند  میں اس کا آسمان میں جانا بھی یہودی تصوف  کا  کلام  ہے

خبردار  نفس  انسانی  اس سے  (نیند میں ) نکلتا ہے اور  بلند ہوتا  ہے جب وہ اپنے بستر  میں جاتا ہے –  اور اگر تم سوال کرو کہ کیا سب آسمان کی طرف بلند  ہوتے ہیں  ؟  تو ایسا نہیں ہے کہ تمام   الملک  کا وجھہ (اللہ تعالی ) کو دیکھ سکیں  (یعنی  سارے  نفس  جسم چھوڑ کر  عرش  تک نہیں جا  پاتے ) – نفس  بلند ہوتا ہے اور اپنے  پیچھے جسم  انسانی  (غف)  میں ایک ذرہ سا چھوڑ جاتا  ہے   ، یہ کم از کم زندگی دل میں ہوتی ہے اور نفس  جسم کو چھوڑتا  ہے اور  سرگرداں   پھرتا  ہے  اور  بلند ہونا چاہتا ہے  اور بلندی تک کئی  مدارج ہیں  – نفس   اگر  دن  میں  نجاست سے (یعنی گناہ سے ) کثیف  نہیں ہوا تو ہی بلند  ہو  پاتا ہے   لیکن اگر نفس  پاک ہے   اگر  دن میں کثیف نہ ہوا تھا تو یہ بلند ہو جاتا ہے  – اگر نفس  کثیف  ہو  چکا  ہے  تو وہ جسم سے ہی جڑا رہتا ہے اور  پھر  بلند  نہیں ہوتا

Book of Zohar   

یہود  کو یہ تصور  مصریوں  سے ملا  تھا  کہ انسانی  روح و  نفس  دو  الگ  چیزیں ہیں – اور ایک نفس  جسم سے نکلتا  ہے تو  اس کا ایک حصہ  جسم میں رہتا   ہے – جو نفس  نکلتا  ہے وہ  جو جو دیکھتا  ہے وہ خواب ہوتا  ہے –  یہودی   تصوف  قبالہ  میں  اسی فلسفہ کی  بنیاد  پر    شجر  حیات

Tree  of Life

کا زائچہ  بنایا  جاتا ہے  جس کا ذکر  جادو  پر  یہودی  کتب  میں  موجود ہے

عراق  کے   مسلمان راویوں  نے بھی یہ فلسفہ بیان  کیا  ہے جو  بابل  کے یہود  کا اثر معلوم ہوتا  ہے  اور ان روایات  پر تفصیلی کلام  راقم کی  کتاب ،  کتاب  الرویا  میں ہے

 

زندگی، نیند ، بے ہوشی،موت

دکتور فاضل صالح السامرائي  جو قرآنی عربی  اور عربی زبان کے ماہر ہیں ، عراقی اسکالر ہیں، لغوی  ہیں ان کا کہنا ہے کہ  لغت کے  تحت توفی  کا مطلب موت نہیں ہے  اصلا  معنی  اخیتار و   شعور کو واپس لینا ہے – اس ویڈیو میں ان کو سن سکتے ہیں – لفظ توفی پر  یہ موقف راقم بھی رکھتا ہے

اس کتاب میں مختصرا زندگی کی ابتداء ، نیند ، بے ہوشی و موت پر آیات قرانی کی روشنی میں بات کی گئی ہے- کتاب کا مقصد قرانی آیا کو یکجا کرنا ہے – ہر انسان کو معلوم ہے زندگی کیا ہے ، نیند کیا ہے – ہم سے بعض کبھی بے ہوش بھی ہوئے ہوں گے لیکن قرآن میں ان سب پر توفی کا لفظ وارد ہوا ہے جس کا مطلب جکڑ لینا ، بھینچ لینا یا مٹھی میں لینا ہے عرف عام میں اس کو قبض کرنا کہا جاتا ہے –

اس  کتاب  میں  روح  اور الروح  کے فرق  کو واضح  کیا گیا  ہے

روح القدس   یعنی  جبریل  کا  ذکر  ہے

توفی  کے  مختلف    مدارج  پر بات کی گئی  ہے

کفر دون کفر – طاووس کا قول

اللہ تعالی کہتا ہے کہ وہ شخص کافر ، ظالم ، فاسق ہے جس نے وہ فیصلہ کیا جو اس نے نازل نہیں کیا (سورہ المائدہ )- ان آیات کا ظاہر بہت سخت ہے لہذا اقوال الرجال کی مدد سے ان کے مفہوم میں الٹ پھیر کی جاتی ہے

سوره المائدہ آیت ٥٠ میں ہے
آپ ان کے درمیان اس (فرمان) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور آپ ان سے بچتے رہیں کہیں وہ آپ کو ان بعض (احکام) سے جو اللہ نے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں پھیر (نہ) دیں، پھر اگر وہ (آپ کے فیصلہ سے) روگردانی کریں تو آپ جان لیں کہ بس اﷲ ان کے بعض گناہوں کے باعث انہیں سزا دینا چاہتا ہے، اور لوگوں میں سے اکثر نافرمان (ہوتے) ہیں

یعنی اہل کتاب کی خواہش پر فیصلہ نہ کرو
اگر اپ ان آیات کا سیاق و سباق دیکھیں تو اس میں احکام توریت کا ذکر ہے کہ ان کو یہود و نصرانی نافذ نہیں کر رہے لہذا جو الله نے نازل کیا اس کے خلاف کرے تو کافر ہے فاسق ہے ظلم ہے- اس میں احکام بھی ہیں اور عقائد بھی ہیں

ان آیات کا سیاق و سباق اہل کتاب کے حوالے سے ہے کہ وہ عقیدہ وہ نہیں رکھتے جو توریت و انجیل کا ہے اس کا حکم بیان نہیں کرتے یعنی توحید کے معاملے میں
اور جو کتاب الله کے مطابق حکم نہ کرے یعنی عقیدہ نہ دے وہ کافر ہے
اسی طرح وہ حکم نہیں کرتے جو ان کی کتاب میں ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ وغیرہ

یہ حکم عام ہے – مسلمانوں پر بھی ہے

ابن عباس سے  منسوب  قول    کفر دون  کفر     ثابت  نہیں ہے   

مستدرک الحاکم کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَوْصِلِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّهُ ” لَيْسَ بِالْكُفْرِ الَّذِي يَذْهَبُونَ إِلَيْهِ إِنَّهُ لَيْسَ كُفْرًا يَنْقِلُ عَنِ الْمِلَّةِ {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} [المائدة: 44] كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ
ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا : جو اس طرف گئے (اغلبا خوارج مراد ہیں) یہ کفر نہیں- یہ کفر نہیں جس پر ان کو ملت سے نکالا جائے
اور وہ جو الله کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کریں وہ کافر ہیں
کفر (امیر)، کفر(باللہ) سے الگ ہے

سفیان ثوری کی تفسیر کے مطابق ابن عباس اس آیت پر کہتے
قال: هي كفره، وليس كمن كفر بالله واليوم الآخر
یہ انکار تو ہے لیکن الله اور یوم آخرت کے انکار جیسا نہیں ہے

مستدرک کی روایت میں هشام بن حجير المكي ہے جو ابن جریج کے شیوخ میں سے ہے اس کو ابن معین اور احمد نے  ضعیف کہا  ہے  – اس قول  کی اور سندیں بھی ہیں جو صحیح ہیں مثلا  تفسیر عبد الرزاق والی  روایت ہے جس میں الفاظ ” لیکن الله اور اس کی کتابوں اور فرشتوں کا کفر کرنے جیسا نہیں ہے ” کو ابن طاوو س کا قول کہا گیا ہے نہ کہ ابن عباس رضی الله عنہ کا

تفسیر عبد الرزاق میں ہے
عبد الرزاق في “تفسيره” (1 / 191) عن معمر، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: سئل ابن عباس عن قوله: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ الله فأولئك هم الكافرون} ، قال: هي كفر، قال ابن طاوس: وليس كمن كفر بالله وملائكته وكتبه ورسله.
ابن عباس سے اس آیت پر سوال ہوا – ابن عباس نے کہا یہ کفر  ہی ہے- ابن طاووس نے کہا لیکن الله اور اس کی کتابوں اور فرشتوں کا کفر کرنے جیسا نہیں ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک کوئی قاضی  احکام میں  ایسا حکم کرے جو اللہ نے نہ دیا ہو تو وہ کفر کا مرتکب ہے اور ان کے شاگرد   طاؤس نے اضافہ کیا کہ یہ کفر ، کفر اکبر نہیں ہے

ابن  عباس  سے جو  قول  ثابت  ہو رہا ہے وہ یہ ہے 

سنن  نسائی    بَابُ: تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ}   کی حدیث   ہے  جس کو  ألباني،  صحيح الإسناد موقوف قرار دیتے ہیں

حدیث نمبر: 5402

أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  كَانَتْ مُلُوكٌ بَعْدَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ بَدَّلُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ، ‏‏‏‏‏‏، وَكَانَ فِيهِمْ مُؤْمِنُونَ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ لِمُلُوكِهِمْ:‏‏‏‏ مَا نَجِدُ شَتْمًا أَشَدَّ مِنْ شَتْمٍ يَشْتِمُونَّا هَؤُلَاءِ،‏‏‏‏ إِنَّهُمْ يَقْرَءُونَ:‏‏‏‏ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سورة المائدة آية 44،‏‏‏‏ وَهَؤُلَاءِ الْآيَاتِ مَعَ مَا يَعِيبُونَّا بِهِ فِي أَعْمَالِنَا فِي قِرَاءَتِهِمْ،‏‏‏‏ فَادْعُهُمْ فَلْيَقْرَءُوا كَمَا نَقْرَأُ، ‏‏‏‏‏‏وَلْيُؤْمِنُوا كَمَا آمَنَّا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُمْ فَجَمَعَهُمْ وَعَرَضَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلَ،‏‏‏‏ أَوْ يَتْرُكُوا قِرَاءَةَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ إِلَّا مَا بَدَّلُوا مِنْهَا،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا تُرِيدُونَ إِلَى ذَلِكَ دَعُونَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ ابْنُوا لَنَا أُسْطُوَانَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْفَعُونَا إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اعْطُونَا شَيْئًا نَرْفَعُ بِهِ طَعَامَنَا وَشَرَابَنَا فَلَا نَرِدُ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ دَعُونَا نَسِيحُ فِي الْأَرْضِ وَنَهِيمُ وَنَشْرَبُ كَمَا يَشْرَبُ الْوَحْشُ فَإِنْ قَدَرْتُمْ عَلَيْنَا فِي أَرْضِكُمْ فَاقْتُلُونَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ ابْنُوا لَنَا دُورًا فِي الْفَيَافِي وَنَحْتَفِرُ الْآبَارَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَحْتَرِثُ الْبُقُولَ فَلَا نَرِدُ عَلَيْكُمْ وَلَا نَمُرُّ بِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْقَبَائِلِ إِلَّا وَلَهُ حَمِيمٌ فِيهِمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَفَعَلُوا ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا سورة الحديد آية 27، ‏‏‏‏‏‏وَالْآخَرُونَ قَالُوا:‏‏‏‏ نَتَعَبَّدُ كَمَا تَعَبَّدَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَنَسِيحُ كَمَا سَاحَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَنَتَّخِذُ دُورًا كَمَا اتَّخَذَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُمْ عَلَى شِرْكِهِمْ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِإِيمَانِ الَّذِينَ اقْتَدَوْا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ، ‏‏‏‏‏‏انْحَطَّ رَجُلٌ مِنْ صَوْمَعَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَاءَ سَائِحٌ مِنْ سِيَاحَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَاحِبُ الدَّيْرِ مِنْ دَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَآمَنُوا بِهِ،‏‏‏‏ وَصَدَّقُوهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ سورة الحديد آية 28،‏‏‏‏ أَجْرَيْنِ بِإِيمَانِهِمْ بِعِيسَى،‏‏‏‏ وَبِالتَّوْرَاةِ،‏‏‏‏ وَالْإِنْجِيلِ،‏‏‏‏ وَبِإِيمَانِهِمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَتَصْدِيقِهِمْ قَالَ:‏‏‏‏ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ سورة الحديد آية 28 الْقُرْآنَ،‏‏‏‏ وَاتِّبَاعَهُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ سورة الحديد آية 29 يَتَشَبَّهُونَ بِكُمْ أَلا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ سورة الحديد آية 29 الْآيَةَ .

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بعد بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل کو بدل ڈالا، ان میں کچھ مومن تھے جو توراۃ پڑھتے تھے-  ان کے بادشاہوں سے (مصاحبین دربار کی جانب سے ) عرض کیا گیا: ہمیں اس سے زیادہ سخت گالی نہیں ملتی جو یہ (مومن ) ہمیں دیتے ہیں، یہ (مومن ) لوگ پڑھتے ہیں  جس نے اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کیا وہ کافر ہیں  یہ لوگ اس قسم کی آیات پڑھتے ہیں ور ساتھ ہی وہ چیزیں پڑھتے ہیں جس میں ہمارا عیب نکلتا ہے تو انہیں بلا کر کہو کہ وہ بھی ویسے ہی پڑھیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور اسی طرح کا ایمان لائیں جیسا ہم لائے ہیں، چنانچہ اس (بادشاہ) نے انہیں بلایا اور اکٹھا کیا اور کہا: قتل منظور کرو یا پھر توراۃ اور انجیل کو پڑھنا چھوڑ دو، البتہ وہ پڑھو جو بدل دیا گیا ہے۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہمیں چھوڑ دو: ہمارے لیے ایک مینار بنا دو اور ہمیں اس پر چڑھا دو پھر ہمیں کھانے پینے کی کچھ چیزیں دے دو، تو ہم تمہارے پاس کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہمیں چھوڑ دو، ہم زمین میں گھومیں اور بھٹکتے پھریں اور جنگلی جانوروں کی طرح پئیں، پھر اگر تم ہمیں اپنی زمین میں دیکھ لو تو مار ڈالنا

 ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: ہمارے لیے صحراء و بیابان میں گھر بنا دو، ہم خود کنویں کھود لیں گے اور سبزیاں بو  لیں گے، پھر پلٹ کر تمہارے پاس نہ آئیں گے اور نہ تمہارے پاس سے گزریں گے، اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا دوست یا رشتہ دار اس میں نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالیٰ نے آیت

 «ورهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم إلا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوها حق رعايتها (الحدید: ۲۷)

  اور جو درویشی انہوں نے خود نکالی تھی ہم نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے، پھر انہوں نے اس کی بھی پوری رعایت نہیں کی

 نازل فرمائی

کچھ دوسرے لوگوں نے کہا: ہم بھی فلاں کی طرح عبادت کریں گے اور فلاں کی طرح گھومیں گے اور فلاں کی طرح گھر بنائیں گے حالانکہ وہ شرک میں مبتلا تھے، یہ ان لوگوں کے ایمان سے باخبر نہ تھے جن کی پیروی کا یہ دم بھر رہے تھے

 جب اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ان میں سے بہت تھوڑے سے لوگ بچے تھے- کوئی  شخص اپنے عبادت خانے سے اترا تو کوئی   اور جنگل میں گھومنے والا گھوم کر لوٹا اور کوئی   گرجا گھر میں رہنے والا گرجا گھر سے لوٹا اور یہ سب کے سب آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا

 «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وآمنوا برسوله يؤتكم كفلين من رحمته»

اے لوگو! جو ایمان رکھتے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کا دوگنا حصہ دے گا  (الحدید: ۲۹)

دوہرا اجر ان کے عیسیٰ، تورات اور انجیل پر ایمان کے بدلے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور تصدیق کے بدلے – پھر فرمایا:  وہ تمہارے چلنے کے لیے ایک روشنی دے گا  یعنی قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی  تاکہ اہل کتاب  یعنی وہ اہل کتاب جو تمہاری مشابہت کرتے ہیں  جان لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے

کیا ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے؟

137 Downloads

ایمان میں کمی و زیادتی کا قول

گناہ کبیرہ کرنے والا فاسق ہے یا کافر ہے ؟ اس سوال پر محدثین و فقہاء کا اختلاف چلا آ رہا ہے – راقم کے نزدیک گناہ کا تعلق ایمان سے نہیں ہے – یہ بحث بہت اہم ہے کیونکہ القاعدہ و داعش لٹریچر میں بعض محدثین کے اقوال سے دلیل لی جاتی ہے

اس  کتاب میں مزید مباحث  ہیں مثلا  تارک نماز کی تکفیر اور  منگول مسلمانوں  کی تکفیر   غلط کی گئی   تھی

 

یہ سوال اس امت میں سن ١٥٠ ہجری کے  بعد پیدا ہوا –  يه بحث اس طرح شروع ہوتی ہے کہ خوارج کے نزدیک بعض صحابہ گناہ کبیرہ کے مرتکب تھے لہذا ان میں ایمان ختم تھا  – اس پر امام ابو حنیفہ کی رائے لوگوں سے منقول ہے کہ ایمان زبان سے اقرار کا نام ہے  گناہ سے ایمان کم نہیں ہوتا – الإرجاء کا مذھب اسی سے نکلتا ہے کہ صحابہ میں ایمان کم نہیں ہوا وہ جہنمی نہیں ہیں بلکہ گناہ کبیرہ والے بھی ایمان والے ہی ہیں ایمان زیادہ تو ہو سکتا ہے کم نہیں ہوتا – اس پر بھی بہت سی احادیث ہیں مثلا ایک فاحشہ جو مومن تھی کتے کو پانی پلاتی ہے جنت میں جاتی ہے – ایک سو لوگوں کا قاتل جنت میں جاتا ہے وغیرہ وغیرہ

سوره توبه میں ہے
{فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا} [التوبة: 124]  پس ان کے ایمان میں اضافہ ہوا
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا – پس جو ایمان لائے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا
وزدناهم هدى  [١٨:١٣]  اور انکی ہدایت میں اضافہ ہوا
بعض فرقوں نے ایمان میں کمی و زیادتی کا نظریہ ان ہی آیات سے استنباط کر کے نکالا اور بعض احادیث سے اس پر دلیل لی
راقم کے نزدیک ایمان پڑھنے سے مراد قلبی اطمننان ہے یا ہدایت ہے جیسے لوگ ایمان لے اتے ہیں لیکن ہدایت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اسی طرح قرآن میں ہدایت بڑھنے اور ایمان و اطمننان بڑھنے کو ساتھ بیان کیا گیا ہے –  ابراہیم علیہ السلام الله پر ایمان لائے لیکن قلبی اطمننان میں اضافہ کے لئے الله سے سوال کیا کہ میت کو زندہ کیسے کرے گا

قرآن میں ہے  وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [محمد: 17] انکی  ہدایت  میں اضافہ ہوا

اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کے دور میں اس بحث کا ذکر نہیں ملتا نہ ہی ایمان میں کمی پر کوئی صریح حدیث ہے – خوارج کی رائے تھی کہ  ایمان میں عمل داخل ہے لہذا جو گناہ کبیرہ کرتے ہیں وہ جہنمی ہیں – خوارج کا فرقہ الأزارقة  تكفير أصحاب الذنوب تمام گناہ والوں کی تکفیر کا قائل تھا   –  الصفرية  فرقہ کفریہ اعمال والوں کے قتل کا قائل تھا –   خوارج  کے فرقے اباضیہ میں بعض کی رائے میں ایمان کم اور زیادہ ہو جاتا ہے  اور بعض اباضیہ  کے نزدیک گناہ کبیرہ والے فاسق ہیں جو کافر ہیں – خوارج کے نزدیک علی اور عثمان رضی الله عنہ گناہ کبیرہ کی وجہ سے ہی واجب القتل بنتے ہیں –

سن ١٥٠ ہجری کے بعد معتزلہ نے منزل بین المنزلتیں کی بحث چھیڑی کہ گناہ کبیرہ والے نہ ایمان والے ہیں نہ کفر والے  وہ بیچ میں ہیں– اس سے اس پر بحث کا باب کھل گیا

مُعَاذٌ بن جبل رضی الله عنہ  کی وفات عثمان رضی الله عنہ سے بھی پہلے ہوئی لیکن ان سے بھی اس مسئلہ پر بحث منسوب کر دی گئی ہے  کتاب السنة از أبو بكر  الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ) کی روایت ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: ثنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَمِسْعَرٍ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاذٌ:  اجْلِسُوا بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً

مُعَاذٌ بن جبل رضی الله عنہ نے الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ سے کہا ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ہم کچھ ساعت ایمان لے آئیں

بیہقی کی شعب ایمان میں اس روایت میں اضافہ ہے کہ  قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ لِأَصْحَابِهِ – مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ نے اپنے اصحاب سے کہا – اس   میں صحابی ایک تابعی سے کہہ رہے ہیں گویا تابعی ، صحابی سے بڑھ کر ہے – سندا اس میں مِسْعَر بن کدام ہیں جو خود مرجیہ ہیں

 شعب ایمان البیہقی میں اس طرح کا قول عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، حدثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ شِبَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ أَنَّهُ قَالَ: ” اجْلِسُوا بِنَا نَزْدَدْ إِيمَانًا

ابن مسعود رضی الله عنہ نے علقمہ سے کہا ہمارے ساتھ بیٹھو تاکہ ایمان میں اضافہ ہو

اس کی سند مظبوط نہیں سند میں  شباك الضبي ہے  جو مدلس ہے عن سے روایت کرتا ہے

 مصنف ابن ابی شیبہ میں عمر رضی الله عنہ کا قول ہے

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ مِمَّا يَأْخُذُ بِيَدِ الرَّجُلِ وَالرَّجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَيَقُولُ: «قُمْ بِنَا نَزْدَدْ إِيمَانًا»

 عمر بن الخطاب رضی الله عنہ  نے اپنے اصحاب سے کہا آ جاؤ ہم ایمان بڑھائیں پس الله عز و جل کا ذکر کریں

سند میں زُبَيْدُ بنُ الحَارِثِ اليَامِيُّ الكُوْفِيُّ ہیں جو زر بن حبیش سے روایت کر رہے ہیں  اس کی سند حسن ہے

بعض محدثین ایمان میں کمی ہے قائل نہیں ہیں اور بعض ہیں جو ایمان میں کمی و زیادتی کے قائل ہیں – ان گروہوں میں اس پر مختلف ارا ہیں جن میں بعض متشدد ہیں

پہلا گروہ کہتا ہے  : ایمان  نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا  ہے

اول ایمان بنیادی ایمانیات کے قبول کا نام ہے جیسے
الله واحد احد ہے
محمد بن عبد الله رسول الله – صلی الله علیہ وسلم –  ہیں
فرشتے، جنات، جنت، جہنم موجود ہیں
قرآن، توریت، زبو،ر انجیل کتب سماوی ہیں

اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں اتی جب تک آدمی ان کا انکار نہ کرے لہذا ایمان تصديق ہے
اگر وہ انکار کرے تو مسلمان ہی نہیں رہے گا لہذا ایمان نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے کیونکہ یہ قلبی کیفیت ہے

امام ابو حنیفہ کے لئے  اس  رائے کو بیان کیا جاتا ہے (العقيدة الطحاوية) – امت میں امام ابو حنیفہ نے فقہ پر بہت محنت کی ہے لہذا اس رائے کو جہمیہ سے منسوب کرنا اور کہنا کہ امام ابو حنیفہ عمل کے خلاف تھے ، مسلکی تعصب ہے – تفسیر فتح الرحمن في تفسير القرآن از  مجير الدين بن محمد العليمي المقدسي الحنبلي (المتوفى: 927 هـ) کے مطابق

فقال أبو حنيفة: لا يزيد ولا ينقص، ولا استثناء فيه

ابو حنیفہ کہتے ہیں ایمان نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے اور اس میں کوئی نہیں الاستثناء ہے

كتاب أصول الدين از  جمال الدين أحمد بن محمد بن سعيد الغزنوي الحنفي (المتوفى: 593هـ) کے مطابق

الْإِيمَان لَا يزِيد وَلَا ينقص بانضمام الطَّاعَات إِلَيْهِ وَلَا ينتقص بارتكاب الْمعاصِي لِأَن الْإِيمَان عبارَة عَن التَّصْدِيق وَالْإِقْرَار

 ایمان نہ بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے طَّاعَات کو اس سے ملانے سے نہ کم ہوتا ہے گناہ کا ارتکاب کرنے سے کیونکہ ایمان عبارت ہے تصدیق و اقرار سے

اس رائے کہ تحت ایمان میں کوئی استثنا نہیں ہے یا تو شخص کافر ہے یا مومن – یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک یا تو شخص مومن ہے یا کافر ہے بیچ میں کوئی چیز نہیں جیسا کہ المعتزلہ کا دعوی تھا  – الْأَشَاعِرَةِ کے علماء مثلا أبو المعالي الجويني  المتوفی ٤٧٨ ھ  جن کو امام الحرمین  کہا جاتا ہے ان کی رائے میں بھی ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ بڑھتا ہے  یہی علامة الآلوسي کہتے ہیں – بعض متعصب اہل سنت نے  ان علماء کے موقف کو  خوارج کا موقف قرار دے دیا ہے مثلا السفاريني   الحنبلي نے العقيدة میں یہ دعوی کیا ہے  جو کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے بلکہ خوارج تو  گناہ کبیرہ والے کو کافر کہتے ہیں

دوسرا گروہ کہتا ہے  : ایمان میں اضافہ اور کمی ہوتی ہے   

محدثین کا ایک دوسرا  گروہ کہتا ہے  ایمان میں اضافہ ہوتا ہے گناہ کرتے وقت ایمان کم ہوتا ہے مثلا امام احمد،   ابن حبان وغیرہ-  محدثین کا یہ گروہ کہتا  ہے الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، يَزِيدُ وَيَنْقُصُ –  ایمان میں  قول اور عمل بھی شامل ہے  جو زیادہ وکم ہوتا ہے – ان محدثین کے بقول اگر کوئی عمل نہ کرے تو اس میں ایمان کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ معدوم ہو جاتا ہے –    امام احمد اور ان کے ہمنوا ایمان میں گھٹنے کے قائل تھے جو قرآن سے ثابت نہیں ہے  بلکہ صرف بعض روایات سے ان کو استنباط کیا گیا ہے –

اس موقف پر صحیح مسلم سے روایت پیش کی جاتی ہے

 مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ
اگر کوئی برائی دیکھے تو اس کو ہاتھ سے روکے نہیں تو زبان سے نہیں تو دل میں برآ ہی سمجھے اور یہ ایمان میں سب سے کمزور ہے

یہ روایت امر و بالمعروف کے لئے مشھور ہے لیکن اس میں واضح نہیں ہے اگر کوئی برائی کو دیکھے اور خلیفہ اس کو نہ سنے تو وہ کیا کرے ؟ صبر کرے یا پھر خلیفہ کا ہی قتل کرے   جیسا خوارج نے کیا-  راقم کے نزدیک یہ روایت حاکم سے متعلق ہے عام افراد کے لئے نہیں ہے- بطور عام آدمی ہم تعاون فی البر کریں گے،  نیکی کا حکم کریں گے،  برائی سے منع کریں گے لیکن اس کو بطور فرد روک نہیں سکتےمثلا آج ہر گلی نکڑ پر شرک ہورہا ہے جو سب سے بری چیز ہے لیکن اس کو بزور بازو حاکم ہی روک سکتا ہے عام آدمی نہیں

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے کہ خیبر والے دن ایک شخص جان باری سے لڑ رہا تھا لوگوں نے اس کے مرنے پر کہا یہ جنتی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس پر غنیمت میں چادر چوری کرنے کی وجہ سے اگ چھائی ہوئی ہے
ابن حبان اس پر کہتے ہیں
فِي هَذَا الْخَبَرِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْإِيمَانَ يَزِيدُ بِالطَّاعَةَ وَيَنْقُصُ بِالْمَعْصِيَةِ
اس خبر میں دلیل ہے کہ ایمان اطاعت سے بڑھتا اور گناہ سے کم ہوتا جاتا ہے

لیکن اس پر بھی بحث ہے کہ کیا یہ شخص واقعی ایمان والا تھا یا یہ غنیمت کے لالچ میں دکھاوے کے لئے لڑ رہا تھا کیونکہ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منادی کرائی  کہ جنت میں صرف مومن جائے گآ

لیکن اسی گروہ میں ایک متشدد رائے بھی ہے – ان میں سے بعض محدثین کہتے تھے کہ گناہ کرتے کرتے ایمان نام کی چیز ہی نہیں رہتی – اس بحث کا آغاز ایک روایت سے ہوتا ہے

 ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہمآ کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
لاَ يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَشْرَبُ الخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ
زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں نہ شرابی شراب پیتے وقت اور نہ چور چوری کرتے وقت
اس روایت میں اضافہ ہے وَالتَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ اس کے توبہ ظاہر کرنی ہو گی
سنن نسائی میں اس میں اضافہ ہے فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ کہ ایسا شخص کے گلے سے اسلام کا حلقہ نکل جاتا ہے البتہ البانی نے اس کو منکر کہا ہے
مصنف عبد الرزاق میں ہے قَالَ مَعْمَرٌ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ إِذَا فَعَلَ ذَلِكَ زَالَ مِنْهُ الْإِيمَانُ قَالَ: يَقُولُ: الْإِيمَانُ كَالظِّلِّ
معمر نے کہا کہ ابن طاوس نے کہا ان کے باپ نے کہا کہ اگر وہ یہ افعال کرے تو ایمان زائل ہو جاتا ہے اور کہا وہ کہتے ایمان سائے کی طرح ہے

الشریعہ لاآجری کے مطابق  امام سفیان ابن عیینہ سے پوچھا گیا  الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ؟ قَالَ ” أَلَيْسَ تَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ ؟ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ ، قِيلَ : يَنْقُصُ ؟ قَالَ : لَيْسَ شَيْءٌ يَزِيدُ إِلا وَهُوَ يَنْقُصُ
کیا ایمان میں کمی اور بیشی ہوتی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟   فَزادَهُم إيمـنًا  اس نے ان کے ایمان میں اِضافہ کردیا  پھر ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایمان کم بھی ہوتا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جس چیز میں زیادتی واقع ہوتی ہے، اس میں کمی بھی واقع ہوتی ہے

لیکن یہ آخری قول  جس چیز میں زیادتی واقع ہوتی ہے، اس میں کمی بھی واقع ہوتی ہے  خالصتا قیاس ہے جس کے خلاف خود قرآن ہے کہ اس میں کمی کا ذکر ہی نہیں ہے

غیر مقلد محب الله شاہ راشدی فتوی میں یہی بات کہتے ہیں ملاحظه ہو

Rasidia-234

یعنی  خالص قیاس کیا گیا  جبکہ نص صرف بڑھنے پر ہے – قرآن میں ایمان کو قول طیب کہا گیا ہے اس کو ایک درخت کہا گیا اور حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم میں اس کی مثال کھجور کے درخت سے دی گئی جس میں یہ خوبی ہے کہ صرف بڑھتا ہی ہے اس کا سائز چھوٹا نہیں ہوتا تو پھر ایمان کم کیسے ہو سکتا ہے قرآن کی مثال بھی سچی   ہوتی ہے – لہذا یہ قیاس باطل ہے

البیہقی شعب الایمان میں اس روایت پر  لکھتے ہیں
وَإِنَّمَا أَرَادَ – وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ – وَهُوَ مُؤْمِنٌ مُطْلَقُ الْإِيمَانِ لَكِنَّهُ نَاقِصُ الْإِيمَانِ بِمَا ارْتَكَبَ مِنَ الْكَبِيرَةِ وَتَرَكَ الِانْزِجَارَ عَنْهَا، وَلَا يُوجِبُ ذَلِكَ تَكْفِيرًا بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ
اور والله أَعْلَمُ ان کا ارادہ ہے کہ اس مومن میں مطلق ایمان تو ہے لیکن ایمان میں نقص ہے اس گنآہ کے ارتکاب سے اور اس پر جو ڈراوا ہے اس کو ترک کرنے سے اور اس پر الله عزوجل کی تکفیر واجب نہیں ہوتی

یہ محدثین ہی کے اسی گروہ کا اپس میں اختلاف ہے-

بعض محدثین مثلا إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ نے اس میں متشدد رویہ اختیار کیا اور کہنا شروع کیا يَنْقُصُ حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ کہ ایمان گھٹتا جاتا ہے حتی کہ اس میں کوئی چیز نہیں رہتی- کتاب السنة از ابو بکر الخلال کے مطابق امام ابن مبارک اور إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ  کا قول تھا ایمان معدوم  ہو جاتا ہے – معجم ابن الأعرابي  اور الإبانة الكبرى لابن بطة  اور شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از ابو قاسم اللالكائي     کے مطابق   یہی موقف سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ کا تھا – یہ موقف نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے-

راقم اس کے خلاف ہے اگر ایسا ہو  تو گناہ کبیرہ والوں پر صرف ارتاد کی حد لگے گی  اور اس سے  خوارج کا موقف صحیح ثابت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض سلفی جہادی تنظیموں نے زمانہ حال میں اس موقف کو پسند کیا ہے اور ان میں اور خوارج میں کوئی تفریق ممکن نہیں رہی ہے

 أبو الحسن علي بن محمد بن علي بن محمد بن الحسن البسيوي الأزدي ایک خارجی عالم  تھے کتاب جامع أبي الحسن البسيوي ، وزارة التراث القومي والثقافة، تحقيق سليمان بابزيز میں  کہتے ہیں

فقد بيَّنا ما قلنا من آيات القرآن ما يَدُلّ عَلَى ما روينا أنَّ الفاسق كافر، وأن ما قالت المعتزلة: “إن الفاسق لا مؤمن ولا كافر”، وما قالت الحشوية والمرجئة هو من الخطإ، والحقُّ ما أيَّده القرآن، وهو الدليل والبرهان.

پس  ہم نے واضح  کیا  جو ہم نے  قرانی آیات کہا کہ یہ  دلالت کرتی ہیں   اس پر جو ہم نے روایت کیا کہ فاسق کافر ہے اور وہ نہیں جو المعتزلة نے کہا کہ فاسق نہ مومن ہے نہ کافر اور نہ وہ جو الحشوية اور المرجئة نے کہا کہ وہ خطا کار ہے اور حق کی تائید قرآن سے ہے جو دلیل و برہان ہے

الخلال کے مطابق   امام إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ کہتے گناہ کبیرہ والے میں ایمان نام کی چیز ہی نہیں رہتی  اور البیہقی کے بقول اس کے ایمان میں نقص ہے یا کمی ہے  – خوارج کی رائے میں بھی گناہ کبیرہ والوں میں ایمان معدوم ہو جاتا ہے

بلکہ مسند اسحاق بن راھویہ میں اس کا الٹا قول ہے

 وَقَالَ شَيْبَانُ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا تَقُولُ فِيمَنْ يَزْنِي وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ وَنَحْوَ هَذَا، أَمُؤْمِنٌ هُوَ؟ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: لَا أُخْرِجُهُ مِنَ الْإِيمَانِ

شیبان نے ابن مبارک سے کہا اے ابو عبد الرحمان اپ کیا کہتے ہیں جو شراب  پیے اور زنا کرے اور اسی طرح کے کام کیا وہ مومن ہے ؟ ابن مبارک نے کہا یہ اس کو ایمان سے خارج نہیں کرتے

 

تیسرا گروہ کہتا ہے :  ایمان کم نہیں ہوتا صرف بڑھتا ہے

اس میں محدثین ہیں جن کو الْإِرْجَاءِ کی رائے والے یا  الْمُرْجِئَةِ کہا جاتا ہے

 إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنْ مَنْ قَالَ: الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ؟ قَالَ:  هَذَا بَرِيءٌ مِنَ الْإِرْجَاءِ
امام احمد سے سوال ہوا اس کے بارے میں جو کہے کہ ایمان بڑھتا ہے، کم ہوتا ہے  – انہوں نے کہا یہ الْإِرْجَاءِ سے بَرِيءٌ (پاک) ہیں

یعنی مرجىء  اس قول کے مخالف تھے ان سے منسوب مشھور قول ہے يزِيد وَلَا ينقص ایمان بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا

بہت سے مشھور محدثین مرجىء   تھے یعنی ان کے نزدیک ایمان کم نہیں ہوتا صرف بڑھتا ہے مثلا امام احمد نے الْمُرْجِئَةِ میں قيس بن مُسلم المتوفی ١٢٠ ھ ،علقمة بن مرْثَد الکوفی المتوفی ١٢٠ ھ ،عَمْرو بن مرّة المتوفی 116 ھ اور مسعربن کدام الکوفی ١٥٥ ھ کو شمار کیا – عراق میں اہل حران میں سے عبد الكريم الجزري، خصيف بن عبد الرحمن الجزري المتوفی ١٤٠ ھ ، سالم بن عجلان الأفطس المتوفی 132 ھ ، علي بن بذيمة المتوفی ١٣٦ ھ (ان میں شیعیت تھی) کو امام احمد نے الْمُرْجِئَةِ میں شمار کیا – اس کے علاوہ کوفہ کے محمد بن أبان الجعفي المتوفی ١٧٠ ھ کو ان میں شمار کیا – المَدَائِنِ کے  محدث  شَبَابَةُ بنُ سَوَّارٍ کو الْمُرْجِئَةُ میں شمار کیا  – امام ابو حنیفہ کے لئے بھی کی رائے کو بیان کیا جاتا ہے –  ابو بکر الخلال کے مطابق امام احمد  الْمُرْجِئَةُ  کی رائے کو قَوْلٌ خَبِيثٌ کہتے تھے-

چوتھا گروہ ایمان بڑھتا ہے اور کم پر توقف ہے یعنی کوئی رائے نہیں  ہے

عمدہ القاری ج ١ ص ١٠٧ میں عینی نے قول پیش کیا ہے

قَالَ الدَّاودِيّ سُئِلَ مَالك عَن نقص الْإِيمَان وَقَالَ قد ذكر الله تَعَالَى زِيَادَته فِي الْقُرْآن وَتوقف عَن نَقصه وَقَالَ لَو نقص لذهب كُله

الدَّاودِيّ نے  کہا :  امام مالک سے سوال ہوا کہ ایمان کم ہوتا ہے ؟ فرمایا الله تعالی نے اضافہ کا ذکر کیا ہے قرآن میں اور کمی پر توقف کیا ہے اور کہا اگر یہ جائے تو سب جائے گا

ترتیب المدارک کے مطابق

وقال القاضي عياض:  قال ابن القاسم: كان مالك يقول: الإيمان يزيد، وتوقف عن النقصان

القاضي عياض کہتے ہیں ابن قاسم نے کہا امام مالک کہا کرتے کہ ایمان بڑھ جاتا ہے اور کم ہونے پر توقف ہے

کتاب حاشية العدوي على شرح كفاية الطالب الرباني از : أبو الحسن الصعيدي العدوي   (المتوفى: 1189هـ) کے مطابق قسطلانی کہتے ہیں

وَأَمَّا تَوَقُّفُ مَالِكٍ عَنْ الْقَوْلِ بِنُقْصَانِهِ فَخَشْيَةَ أَنْ يُتَأَوَّلَ عَلَيْهِ مُوَافَقَةُ الْخَوَارِجِ

اور امام مالک نے جو ایمان کم ہونے پر توقف کا قول کہا ہے تو ان کو ڈر تھا کہ کہیں ان کی بات خوارج سے موافقت اختیار نہ کر جائے

ابن تیمیہ  الفتاوی ج ٧ ص ٥٠٦ کہتے ہیں

وكان بعض الفقهاء من أتابع التابعين لم يوافقوا في إطلاق النقصان عليه. لأنهم وجدوا ذكر الزيادة في القرآن، ولم يجدوا ذكر النقص، وهذا إحدى الروايتين عن مالك

اور تبع التابعين میں سے بعض فقہا ایمان پر کمی کا اطلاق نہیں کرتے کیونکہ وہ قرآن میں بڑھنے کا ذکر پاتے ہیں اور اس میں کمی کا ذکر نہیں ہے اور اسی طرح کی ایک روایت امام مالک سے بھی ہے

یعنی کم ہونے کا قرآن میں ذکر ہی نہیں ہے –

کتاب المقدمات الممهدات از  أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ) کے مطابق مرنے سے قبل امام مالک نے اس رائے سے رجوع کر لیا تھا  جس کو  عبد الله بن نافع الصائغ سے منسوب کیا جاتا ہے کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از    الذهبي (المتوفى: 748هـ) کے مطابق     صاحب مالك قال أحمد لم يكن في الحديث بذاك امام احمد کہتے ہیں اس کی حدیث ایسی مناسب نہیں – الاجری کہتے ہیں ابو داود نے کہا  احمد نے کہا : ثم دخله بأخره شك ابن نافع آخری عمر میں امام مالک کے اقوال کے حوالے سے شک کا شکار تھے

    عبد الرزاق سے منسوب ایک قول  ہے

قال عبدالرزاق:  سمعت معمراً وسفيان الثوري ومالك بن أنس، وابن جريج وسفيان بن عيينة يقولون: الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص

عبدالرزاق آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے – أبو حاتم الرازي کہتے ہیں انکی حدیث يكتب حديثه ولا يحتج به لکھ لو دلیل نہ لو –  کتاب المختلطين از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق سن ٢٠٠ کے بعد عبدالرزاق   کی روایت صحیح نہیں ہے

البیہقی سنن میں روایت  لکھتے ہیں

سمعت مالك بن أنس وحماد بن زيد.. وجميع من حملت عنهم العلم يقولون: الإيمان قول وعمل ويزيد وينقص

اسکی سند میں  سويد بن سعيد الحدثاني ہیں جو اختلاط کا شکار تھے اور مدلس بھی ہیں

الخلال السنہ میں أبي عثمان سعيد بن داود بن أبي زنبر الزنبري کی سند سے امام مالک کا قول پیش کرتے ہیں
قال كان مالك يقول: “الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص

امام مالک کہا کرتے کہ ایمان قول و عمل ہے بڑھتا کم ہوتا ہے

دارقطنی  کہتے ہیں سعيد بن داود الزنبري ضعيف ہے اور امام مالک کے حوالے سے منفرد اقوال کہتا ہے

الخلال کتاب السنہ میں ابن نافع کے حوالے سے امام مالک کا قول پیش کرتے ہیں کہ وہ کہتے ایمان کم ہوتا ہے اس کی سند میں  زَكَرِيَّا بْنُ الْفَرَجِ ہے جو مجھول ہے

کتاب  شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از أبو القاسم هبة الله اللالكائي (المتوفى: 418هـ)  میں امام مالک سے إسحاق بن محمد الفروي کی  سند سے قول منسوب کیا گیا  ہے –  إسحاق بن محمد الفروي   کو امام نسائی ضعیف کہتے ہیں اور الدارقطني متروک کہتے ہیں

الغرض امام مالک سے منسوب دو آراء ہیں جن میں مالکی فقہا نے اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ وہ ایمان میں کمی کے قائل نہیں تھے اور حنابلہ نے ان سے کمی والی روایات منسوب کی ہیں جن کی اسناد میں ضعف ہے

امام بخاری  بھی ایمان میں کمی کے قائل نہیں لگتے –  انہوں نے صحیح میں روایت پیش کی
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ شَرِبَ الخَمْرَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا، حُرِمَهَا فِي الآخِرَةِ
ابن عمر رضی الله عنہ کی روایت جو کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو شراب پینے دنیا میں اور توبہ نہ کرے اس پر یہ آخرت میں حرام ہو گی

اس روایت میں اضافہ بھی ہے

مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا وَلَمْ يَتُبْ، لَمْ يَشْرَبْهَا فِي الْآخِرَةِ , وَإِنْ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ

وہ جنت میں بھی داخل ہو جائے تو شراب اس پر حرام ہو گی

البانی الصَّحِيحَة: 2634  میں اس کو صحیح کہتے ہیں اور ذیادت کو زيادة جيدة کہتے ہیں

یعنی ابو ہریرہ اور ابن عباس کی روایت میں تھا شرابی مومن نہیں اس سے توبہ کرائی جائے اور اس ابن عمر کی روایت سے ثابت ہوا وہ مومن ہی تھا  اس پر آخرت میں شراب حرام ہو گی
اِبْن الْعَرَبِيّ کہتے ہیں  کہ شراب اور ریشم حرام والی حدیثوں سے ظاہر ہے کہ وہ اس کو جنت میں نہیں ملیں گی

ظَاهِرُ الْحَدِيثَيْنِ أَنَّهُ لَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ فِي الْجَنَّة

  مسند الموطأ للجوهري از  أَبُو القَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ مُحَمَّدٍ الغَافِقِيُّ، الجَوْهَرِيُّ المالكي (المتوفى: 381هـ) کہتے ہیں

قِيلِ: وَإِنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَنْسَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا حَتَّى لا يَشْتَهِيهَا

اور کہا جاتا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو گا لیکن اس کو بھلا دیا جائے گا اور اس کو خواہش نہ ہو گی

لیکن جو لوگ گناہ کبیرہ  کرنے والے میں ایمان کی کمی کے قائل ہیں انہوں نے اس سے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے مثلا البغوي (المتوفى: 516هـ)  کتاب شرح السنة میں کہتے ہیں وعيدٌ بِأَنَّهُ لَا يدْخل الْجنّة  یہ شخص جنت میں نہیں جائے گا

ابو قاسم اللالكائي المتوفی ٤١٨ ھ  کی کتاب السنه میں امام بخاری سے ایک قول منسوب کیا ہے جس کو ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کر کے دعوی کیا ہے کہ اس کی سند ان کے مطابق صحیح ہے کہ امام بخاری نے کہا

لَقِيتُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفِ رَجُلٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ بِالْأَمْصَارِ , فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ يَخْتَلِفُ فِي أَنَّ الْإِيمَانَ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، وَيَزِيدُ وَيَنْقُص

میں نے (مختلف) شہروں میں ایک ہزار سے زائد علماے زمانہ سے ملاقات کی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایمان کے قول و عمل ہونے اور اس کے کم و زیادہ ہونے میں اختلاف نہیں کرتا تھا

کتاب  شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از أبو القاسم هبة الله اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی سند ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ الْهَرَوِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا  مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ مُوسَى الْجُرْجَانِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبُخَارِيَّ بِالشَّاشِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ: ” لَقِيتُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ

اسکی سند میں أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ مُوسَى الْجُرْجَانِيُّ مجھول الحال ہے –  سند میں أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبُخَارِيَّ  بھی ہیں جو کتاب محاسن الإسلام وشرائع الإسلام   کے مصنف ہیں  لیکن وہ اپنی کتاب میں ایمان کی کمی زیادتی پر ایک لفظ نہیں کہتے – اس کے علاوہ  جو بات  امام بخاری نے اپنی سب سے اہم کتاب جامع الصحیح میں نہیں لکھی وہ ان کے کان میں پھونک دی ہوئی عجیب بات ہے – لہذا یہ قول جو امام بخاری سے منسوب ہے ثابت نہیں ہے

امام بخاری نے صحیح كتاب الحيض، باب 6: ترك الحائض الصوم میں روایت پیش کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں کے لئے فرمایا

مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ

باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا

بعض علماء مثلا ابن العثيمين  (کتاب تفسير الفاتحة والبقرة) نے اس سے ایمان میں کمی ہونے کا قول لیا ہے جبکہ یہ بات عورتوں کے لئے عام ہے کہ ان کو  حيض اتا ہے جو ایمان میں کمی نہیں ہے بلکہ دین میں ان پر کمی ہے کہ وہ روزہ اور نماز اس حالت میں  پڑھیں

روایت زانی، زنا کرتے وقت مومن نہیں وغیرہ کے حوالے سے یہ بات موجود ہے کہ خود محدثین کو اس روایت کی تفسیر نہیں پہنچی  – العلل دارقطنی میں ہے کہ زانی والی روایت پر
قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ عَنْ تَفْسِيرِ هَذَا الْحَدِيثِ فَنَفَرَ.

امام الْأَوْزَاعِيُّ نے کہا : میں نے امام الزہری سے اس کی تفسیر پوچھ تو وہ بھاگ لئے
اسی میں ہے کہ الْأَوْزَاعِيُّ نے پوچھا
فَقُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ مُؤْمِنًا فَمَهْ؟ قَالَ: فَنَفَرَ عَنْ ذَلِكَ
میں نے الزہری سے پوچھا اگر مومن نہیں رہا تو پھر کیا تھا ؟ پس الزہری چلے گئے

یعنی امام الزہری نے امام مالک کی طرح توقف کا موقف اختیار کیا  اور گمان غالب ہے یہی امام الْأَوْزَاعِيُّ  کا بھی موقف ہو گا

الغرض یہ محدثین کا اختلاف ہے

بعض کہتے ہیں (مثلا البیہقی، ابن حبان ) کم ہو جاتا ہے ختم نہیں ہوتا
بعض کہتے ہیں (مثلا سفیان ابن عیینہ ) ایمان کم ہوتے ہوتے معدوم ہو جاتا ہے
بعض کہتے ہیں (مثلا امام الزہری) گناہ کے وقت پتا نہیں مومن تھا یا نہیں اس سوال سے فرار کرتے ہیں

بعض کے نزدیک (مثلا امام مالک)  قرآن میں اس پر صریحا کمی کا ذکر نہیں ہے -امام بخاری روایات لاتے ہیں جن میں گناہ کبیرہ والے بغیر توبہ کیے جنت میں جاتے ہیں

کیا امت محمد شرک سے پاک ہے ؟

135 Downloads

 کیا    امت  محمد  شرک سے پاک ہے ؟

 بریلوی کہتے ہیں کہ امت محمد شرک کر ہی نہیں سکتی – لہذا امت اب جو بھی کرے وہ شرک نہیں –  بعض دوسرے  لوگ یہ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے فرقے شرک کرنے سے امت مسلمہ  سے خارج ہیں-  ان کا یہ قول بریلویوں جیسا ہی  ہے کہ   امت محمد  شرک  نہیں  کر سکتی – دونوں  گروہوں  کا مقصد  یہی ہے کہ امت محمد شرک نہیں کر سکتی-  راقم  اس کو رد کرتا ہے

عرف عام میں امت محمد کو مسلمان کہا جاتا ہے ان میں شرک بھی ہو رہا ہے مثلا الله نے کہا قوم موسی نے بچھڑے کی پوجا کی – اب ہم بحث  کریں  کہ اس کو قوم موسی نہ کہا جائے یہودی کہا جائے تو یہ صرف لفظی نزاع ہے-حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے  فرمایا     قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے    اور    اسی طرح حدیث    یہ بھی ہے کہ میری امت  فرقوں میں بٹ جائے گی یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم نے کافر و گمراہ فرقوں کو امت میں شمار    کیا ہے    لہذا   وہ بنیادی چیزیں جن کا انکار کیا جائے تو اسلام سے خارج ہو جانا ہے ان میں ہے

توحید کا اقرار   کہ الله ایک ہے اس کی بیوی بیٹی اور بیٹا نہیں ہے – کوئی ہمسر نہیں ، کفو نہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں
قرآن جو ہاتھوں میں ہے آخری الہامی کتاب ہے

اسلام کے ارکان دین کا ظاہر ہیں ان کا مطلق  انکار بھی کفر  ہے –

اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ  فرقے امت محمد کا ہی حصہ ہیں-  اسلام سے خارج نہیں،    ایمان سے خارج     ہوئے  ہیں

ایک حدیث پیش کی جاتی ہے  جو سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ جَارِيَةَ اللَّخْمِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ،

ابو امیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کے پاس آ کر پوچھا: اس آیت کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: آیت یہ ہے: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» انہوں نے کہا: آگاہ رہو! قسم اللہ کی تم نے اس کے متعلق ایک واقف کار سے پوچھا ہے، میں نے خود اس آیت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، آپ نے فرمایا: “بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو، یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ لوگ بخالت کے راستے پر چل پڑے ہیں، خواہشات نفس کے پیرو ہو گئے ہیں، دنیا کو آخرت پر حاصل دی جا رہی ہے اور ہر عقل و رائے والا بس اپنی ہی عقل و رائے پر مست اور مگن ہے تو تم خود اپنی فکر میں لگ جاؤ، اپنے آپ کو سنبھالو، بچاؤ اور عوام کو چھوڑ دو، کیونکہ تمہارے پیچھے ایسے دن آنے والے ہیں کہ اس وقت صبر کرنا (کسی بات پر جمے رہنا) ایسا مشکل کام ہو گا جتنا کہ انگارے کو مٹھی میں پکڑے رہنا، اس زمانہ میں کتاب و سنت پر عمل کرنے والے کو تم جیسے پچاس کام کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا۔ (اس حدیث کے راوی) عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: عتبہ کے سوا اور کئی راویوں نے مجھ سے اور زیادہ بیان کیا ہے۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! (ابھی آپ نے جو بتایا ہے کہ پچاس عمل صالح کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا تو) یہ پچاس عمل صالح کرنے والے ہم میں سے مراد ہیں یا اس زمانہ کے لوگوں میں سے مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: “نہیں، بلکہ اس زمانہ کے، تم میں سے”۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 اس کی سند ضعیف ہے – سند میں  أبو أمية  الشَّعْبانيُّ الدِّمَشْقيُّ. ہے

 قال أبو حاتم: شاميٌّ جاهليّ ابو حاتم کہتے ہیں شامی  ہے پہلے ایام جاہلیت کو دیکھا   ہے

حدیث  حوض      

صحیح بخاری حدیث نمبر: 7048
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَتْ أَسْمَاءُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا عَلَى حَوْضِي أَنْتَظِرُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ، فَيُؤْخَذُ بِنَاسٍ مِنْ دُونِي فَأَقُولُ أُمَّتِي. فَيَقُولُ لاَ تَدْرِي، مَشَوْا عَلَى الْقَهْقَرَى». قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن سری نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر (حوض کوثر) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑ جائیں۔

رسول اللہ کہیں گے یہ میری امت کے لوگ ہیں لیکن یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ امتی نہیں ہیں بلکہ ان کی بد عملی کا ذکر کیا جائے گا

Sahih Bukhari Hadees # 6576

وحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “”أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ وَلَيُرْفَعَنَّ مَعِي رِجَالٌ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَيُخْتَلَجُنَّ دُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ يَا رَبِّ:‏‏‏‏ أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ””، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ عَاصِمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ حُصَيْنٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

نبی   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔ اس روایت کی متابعت عاصم نے ابووائل سے کی، ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔

اصحابی سے مراد منافق ہو سکتے ہیں کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو مدینہ کے تمام منافقین کا علم نہیں تھا  سوره توبہ میں اس کا ذکر آیا  ہے

امتی جنہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات نہیں کی وہ اصحاب رسول نہیں لہذا پہلا قول بھی ممکن ہے کہ حدیث میں اصحابی سے مراد غیر معروف اصحاب رسول ہیں

صحیح بخاری میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کہیں گے

سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِي

دور دور ہو جس نے میرے بعد بدلا

صحیح بخاری میں ہے

إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ

یہ اس سے نہیں ہٹے کہ مرتد ہوئے جب اپ نے ان کو چھوڑا

بغوی نے شرح السنہ میں کہا

وَلَمْ يرْتَد أحد بِحَمْد اللَّه من أَصْحَاب النَّبِيّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا ارْتَدَّ قوم من جُفَاة الْعَرَب.

اور الحمد للہ اصحاب میں سے کوئی مرتد نہ ہوا سوائے عربوں کی ایک قوم کے

بخاری کے شاگرد فربری کا کہنا ہے

قال محمدُ بنُ يوسفَ الفِرَبرِيُّ: ذُكِرَ عن أبي عبدِ اللهِ عن قَبيصة قالَ: هُمُ المُرْتَدُّونَ الذين ارتدُّوا على عَهْدِ أبي بكرٍ، فقاتَلهُم أبو بكرٍ رضي الله عنه

میں نے عبد الله سے اس روایت کا ذکر کیا کہا یہ وہ مرتد ہیں جنہوں نے ابو بکر کے دور میں ارتاد کیا تو ابو بکر نے ان سے قتال کیا

مسند البزار میں ہے کہ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنہ نے اس کو روایت کیا پھر کہا

قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: ادْعُ اللَّهِ أَلا يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ  الله سے دعا کرو کہ مجھے ان میں سے نہ کرے

مسند الشامییں از طبرانی میں ہے

فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ لَا يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ , قَالَ: «لَسْتَ مِنْهُمْ» , فَمَاتَ قَبْلَ عُثْمَانَ بِسَنَتَيْنِ

ابو درداء نے کہا دعا کرو الله ان میں سے نہ کرے – لوگوں نے کہا اپ ان میں سے نہیں پس ان کی وفات قتل عثمان سے دو سال پہلے ہوئی

اس روایت پر ایک تابعی نے کہا

قَالَ: فَكَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَتَنَ عَنْ دِينِنَا

اے الله ہم پناہ مانگتے ہیں کہ اپنی گردنوں پر پلٹ جائیں اور دین میں فتنہ کا شکار ہوں

کتاب الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے

قَالَ أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ: ذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِإِبْرَاهِيمَ الْأَصْبَهَانِيِّ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , كَتَبَ بِهِ إِلَيْنَا يُونُسُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ: وَسَمِعْتُ أَبَا إِبْرَاهِيمَ الزُّهْرِيَّ وَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ: هَذَا فِي أَهْلِ الرِّدَّةِ

ابو بکر نیشاپوری نے کہا ہم نے اس حدیث کا ابراہیم سے ذکر کیا تو کہا عجیب روایت ہے اور انہوں نے یہ یونس کو لکھ بھیجی اور ابو ابراہیم الزہری نے کہا یہ اہل الردہ یعنی مرتدوں کے حوالے سے ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيَرِدَنَّ عَلَى الْحَوْضِ رِجَالٌ مِمَّنْ صَحِبَنِي وَرَآنِي حَتَّى إِذَا رُفِعُوا إِلَيَّ اخْتُلِجُوا دُونِي فَلَأَقُولَنَّ: رَبِّ , أَصْحَابِي , فَلَيُقَالَنَّ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ ”

میرے اصحاب میں سے مرد جنہوں نے مجھے دیکھا اور صحبت اختیار کی ہو گی میرے حوض پر لائے جائیں گے

راقم کے نزدیک سند منقطع ہے حسن نے ابی بکرہ سے سماع نہیں کیا  البتہ امام بخاری کے مطابق حسن بصری کا ابی بکرہ سے سماع ہے

بخاری و مسلم میں اسی حدیث میں الفاظ یہ بھی ہیں       إِنَّهُمْ مِنِّي یہ مجھ سے ہیں      یعنی میرے رشتہ دار ہیں

جن احادیث میں مجھ میں سے ہیں اتا ہے اس میں مراد خاندان نبوی کے افراد لئے جاتے ہیں-

روایت میں الفاظ امتی بھی ہیں یعنی تمام امت میں کوئی بھی ہو سکتا ہے- یعنی

اصحاب رسول اس روایت سے خوف کھاتے

محدثین کہتے یہ مرتدوں کے لئے ہے

مراد منافقین بھی ہو سکتے ہوں

خاندان نبوی کے افراد بھی لئے جا سکتے ہیں

یہ تمام احتمالات ممکن ہیں-  الله سے دعا کریں ہم ان میں سے نہ ہوں

طاغوت سے کیا مراد ہے

162 Downloads

اس  کتابچہ  میں  طاغوت   کے  کفر  پر  بات کی گئی  ہے  جو تمام  انبیاء کی دعوت کا  محور  ہے

طاغوت سے مراد
طاغوت سے مراد ہر وہ فرد بھی ہے جو اللہ تعالی کے کلام کے خلاف فتوی دے رہا ہو، چاہے وہ خود اس بات سے لا علم ہو کہ وہ اللہ کا دشمن بن چکا ہے –

عذاب قبر اب غیب نہیں ہے

یہ اصول و کلیہ ہے کہ غیبی معاملات تک کسی صحابی یا امتی کی رسائی نہیں ہے – حیات النبی میں اس کی کوئی دلیل نہیں کہ صحابی رسول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح غیب کی کسی بات کو دیکھا ہو بلکہ تمام صحیح احادیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غیبی باتوں کا مشاہدہ کیا اور اصحاب رسول نے صرف سنا اور ایمان  لائے

عذاب قبر کے حوالے سے قرآن سے معلوم ہے کہ یہ عذاب جہنم النار کی شکل ہے – ال فرعون وہاں برزخ میں جہنم کی آگ پر پیش ہوتے ہیں – یہ اس دنیا کا معاملہ نہیں ہے کہ زمین کے سانپ بچھو اس عذاب قبر کو بر سر انجام دیں جیسا کہ بعض روایات منکرہ میں بیان ہوا ہے

اس حوالے سے اہل حدیث صحیح کے علاوہ حسن یعنی ضعیف روایات پر بھی عقیدہ استوار کیے ہوئے ہیں – البانی کہتے کہ کہ حسن سے عقائد لئے جا سکتے ہیں

عذاب قبر کے حوالے سے بیہقی کی پیش کردہ ایک روایت کا ترجمہ اہل حدیث عالم زبیر علی کرتے ہیں

قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “

زبیر کی موت اس عقیدے پر   نہ ہوئی  جو  آجکل  جمہور  اہل حدیث کا ہے کہ عود روح استثنائی ہے  بلکہ ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں – اس روایت کی بنیاد پر زبیر علی  منکر عقیدے کا پرچار کرتا رہا کہ قبر میں روح انے کے بعد نکلتی یا نہیں نکلتی معلوم ہی نہیں

حال  میں  ان کے ایک  شاگرد نے اس واقعہ کی تحسین کی اور اس کو خاص واقعہ قرار دیا کہ صحابی ابن عمر پر پردہ غیب چاک ہو گیا اور عذاب قبر کو دیکھا

بقول نورپوری یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی – اس کو ولی اللہ کی کرامت کا درجہ دے دیا ہے

راقم کہتا ہے اس کي سند ميں جويرية بن أسماء ہيں جن کا ذکر تدليس کي ايک کتاب ميں ہے
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
جويرية بن أسماء مكثر عن نافع وقد تقدم قول بن عمار الحافظ في حديثه عنه وافقت ربي في ثلاث وإن بينهما فيه رجلا غير مسمى
جويرية بن أسماء يہ نافع سے بہت روايت کرتے ہيں اور ابن عمار کا قول ان کي حديث کہ ميرے رب نے تين ميں … کہ جويرية بن أسماء اور نافع کے درميان کوئي اور شخص ہے جس کا نام نہيں ليا گيا
يعني جويرية بن أسماء نے نافع سے روايات ميں تدليس بھي کي ہے
اور يہاں سند ميں عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ أَسْمَاءٍ، عَنْ نَافِعٍ، ہي ہے
عباءة بن كليب الليثى کو کمزور قرار ديا ہے
يہ اصل ميں جويرية کا پوتا ہے اس کا نام ہے عباءة بن كليب بن جويرية بن أسماء – ميزان ميں الذھبي نے ذکر کيا ہے
عن جويرية بن أسماء، صدوق، له ما ينكر، وغيره أوثق منه.
حدث عنه أبو كريب، وأخرجه البخاري في كتاب الضعفاء.
فقال أبو حاتم: يحول
يہ صدوق ہے اور اس کي روايت منکر بھي ہے اور ديگر اس سے زيادہ ثقہ ہيں … امام بخاري نے اس کو كتاب الضعفاء ميں شامل کيا ہے
الغرض يہ سند ضعيف ہے اس ميں تدليس کا امکان ہے اور عباءة بن كليب اتنا مضبوط نہيں کہ عقيدہ ليا جا سکے

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

ام المومنین کا نکاح 7
اسماء بنت ابی بکر کی عمر کا ذکر 10
ابن الدغنہ کے واقعہ کی چشم دید گواہ 11
طلحہ رضی اللہ عنہ شادی کے متمنی ؟ 13
ام المومنین کا نکاح پہلے ہوا تھا ؟ 15
ام المومنین کا بلوغت پر قول 16
جنگ بدر کے واقعہ سے دلیل 19
حدیث اسامہ سے دلیل 20
احادیث میں ہشام بن عروہ کا تفرد ہے ؟ 21
غیر موجودگی والی روایات 24
واقعہ افک 26
تمنا عمادی کے اعتراضات 31
اہل تشیع کا موقف 36
واقعہ افک پر خوارج کی آراء 38
حمنہ بنت جحش کا کردار 39
ام المومنین کی عظمت و برکت 44
ازواج النبی سے سے تعلقات 49
نبی کا شہد حرام کرنا 51
وفات النبی اور عائشہ رضی اللہ عنہا 65
قرآن کے ساتھ حادثہ 68
حجرہ میں تین چاند گرنے والا خواب 78
وفات النبی کی وجہ زہر ؟ 83
وفات ابو بکر رضی اللہ عنہ 85
مقتل عثمان اور جنگ جمل 87
لن يفلح قوم ولواأمرهم إمرأة 103
حواب کے کتے بھونکیں گے 107
پہلی روایت 108
دوسری روایت 114
تیسری روایت 116
چوتھی روایت 119
پانچویں روایت 120
پانچویں صدی سے قبل اس روایت کی کوئی حیثیت نہیں تھی 123
حواب بنی عامر کا تالاب نہیں تھا 125
لشکر عائشہ بصرہ پہنچنے پر 128
لشکر علی کی ساخت 129
قصاص کا مطالبہ 143
المصنف ابن ابی شیبه کی روایات 145
عائشہ (رض) کی سواری کو قتل کر دیا گیا 169
حالت افسوس کے فرضی قصے 174
امیر المومنین کو قتل کی دھمکی 177
وفات ام المومنین 179
اہل شام کا ام المومنین پر تنقید کرنا ؟ 181
اعتقادی مباحث 183
لا النبی بعدی کا مطلب 183
معراج ایک خواب تھا ؟ 186
میت پر اس کے اہل کا رونا 188
قلیب بدر پر موقف 199
کیا اللہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ؟ 201
سماع الموتی پر موقف 215
عذاب قبر کی روایات 221
وفات شدہ لوگوں سے پردہ کرنا 230
معراج پر دیدار الہی کے حوالے سے موقف 245
فقہی مباحث 248
نامحرم کو دودھ پلانا 248
غلام سے پردہ نہ کرنا 257
غسل کے حوالے سے روایت 259
قول نبوی پر تبصرہ کیا ؟ 261
حالت حیض کے حوالے سے 262

امہات المومنین کی حیات مسلمان عورتوں کے لئے مشعل راہ ہے – عائشہ رضی اللہ عنہا کی سیرت اور ان کے اعتقاد و فقہ سے متعلق مباحث کو جمع کیا گیا ہے – امہات المومنین کا درجہ تمام مومنوں کے لئے ماں والا ہے بلکہ حقیقت میں ایک ماں سے بڑھ کر ہے کیونکہ ایک ماں کا شوہر باپ ہوتا ہے لیکن ام المومنین کے شوہر اس امت کے نبی ہیں –
راقم نے اس کتاب کی ضرورت محسوس کی جب دیکھا کہ اہل سنت میں سے بعض رافضی پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے ہیں اور کھل کر ام المومنین پر تنقید کر رہے ہیں –ان کو لگتا ہے کہ جنگ جمل و صفین ابھی بھی جاری ہے جبکہ ڈیڑھ ہزار سال قبل صرف دو دن میں یہ جنگیں ختم ہو گئیں تھیں – منحوس لوگوں نے ان جنگوں سے متعلق جھوٹ گھڑا ، محدثین نے جمع کیا ، متاخرین نے سر کا تاج بنا دیا – افسوس جہلاء خود اب حواب کے کتوں کی طرح بھونک رہے ہیں –
عائشہ رضی اللہ عنہا فقہائے مدینہ کی استاد ہیں اور اعتقادی مسائل میں ان کی حکمت مومنوں کے لئے مشعل راہ ہے – آپ کی ہی عظمت ہے کہ سماع الموتی کا رد کرنے والوں کو ہمت ملی ہے – قبر پرستی کے خلاف آواز بلند ہوئی ہے
یہ ام المومنین کا ہی فیض ہے کہ مومن عورتوں کو معلوم ہوا کہ وہ جنگ میں شرکت بھی کر سکتی ہیں ورنہ اس سے قبل اسلام میں اس کی مثال نہیں تھی – یہ ان کی برکت ہے کہ پانی نہ ملے تو تیمم کیا جا سکتا ہے – یہ ان کی شان ہے کہ قرآن میں ان کو معصوم ، رجس سے پاک قرار دیا گیا ہے
ابو شہر یار
٢٠٢٠

 

حوران بہشت کی غیب دانی

صحيح ابن ماجہ 2014 اور ترمذي 1174 میں ہے

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الحَضْرَمِيِّ، عَنْ [ص:469] مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا فِي الدُّنْيَا، إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُهُ مِنَ الحُورِ العِينِ: لَا تُؤْذِيهِ، قَاتَلَكِ اللَّهُ، فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكَ دَخِيلٌ يُوشِكُ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا “: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ»، «وَرِوَايَةُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنِ الشَّامِيِّينَ أَصْلَحُ، وَلَهُ عَنْ أَهْلِ الحِجَازِ وَأَهْلِ العِرَاقِ مَنَاكِيرُ

مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئي عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ايذا پہنچاتي ہے تو بڑی آنکھوں والی حوروں ميں سے اس کی بیوی اس پر کہتی ہے کہ اللہ کی مار تجھ پر (یعنی دنیاوی بیوی پر )، اس کو تنگ مت کر یہ تو ویسے بھی تیرے پاس بس مسافر ہے، قریب ہے کہ یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آ جائے

امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے اس کو إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ نے روایت کیا جس کی شامیوں سے روایت اصلح ہے اور اہل حجاز اور اہل عراق سے اس کی منکر روایات ہیں

امام بخاری کا قول ہے
قال البخاري إذا حدث عن الشاميين فصحيح
جب یہ شامیوں سے روایت کرے تو حدیث صحیح ہے

راقم کہتا ہے کہ ترمذی و بخاری کے قول کے تحت یہاں سند میں إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ نے اس کو حمص شام کے بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ سے روایت کیا ہے لہذا اس روایت کا درجہ اصلح یا صحیح کا ہوا – اس روایت کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے -شعيب الأرنؤوط نے حسن قرار دیا ہے اور امام الذھبی نے صحیح قرار دیا ہے

راقم کہتا ہے متن منکر ہے – حور کو کیا علم الغیب ہے ؟ کیا وہ جنت سے اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھ رہی ہے یا اس پر عرض عمل ہو رہا ہے ؟ اس روایت کی نکارت پر حیرت ہے کہ کسی شارح یا محدث نے کلام نہیں کیا

إسماعيل بن عياش حمص کا رہنے والا ہے اور یہ مختلط بھی ہوا تھا لہذا یہاں اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ اس راوی کی وہ روایات جو اہل شام سے ہیں ان میں بھی مسائل ہیں اس کا دور اختلاط شروع ہو چکا تھا

قاب قوسین

سورہ النجم میں ہے

غالی بریلوی  ترجمہ

https://www.minhajsisters.com/urdu/tid/37060/واقعہ-معراج-النبی-صلیٰ-اللہ-علیہ-وآلہ-وسلم-قرآن-و-حدیث-اور-سیرت-کی-روشنی-میں/

 

ترجمہ صحیح آیت آیت نمبر
یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى ٤
بڑے طاقتور   نے اسے سکھایا ہے عَلَّمَهٝ شَدِيْدُ الْقُوٰى ٥
پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔ جو بڑا زور آور ہے پس وہ قائم ہوا ذُوْ مِرَّةٍ فَاسْتَوٰى ٦
اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے) اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھا وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى ٧
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر نزدیک ہوا پھر معلق ہوا۔ ثُـمَّ دَنَا فَتَدَلّـٰى ٨
پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا) پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ٩
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی پھر اس نے اللہ کے بندے کے دل میں القا کیا جو کچھ القا کیا دل نے۔ فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى ١٠
 جو دیکھا تھا اس کو  جھوٹ دل نے نہ کیا ۔ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى ١١
پھر جو کچھ اس نے دیکھا تم اس میں جھگڑتے ہو۔ اَفَتُمَارُوْنَهٝ عَلٰى مَا يَرٰى ١٢
اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔ وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَـةً اُخْرٰى ١٣
سدرۃ المنتہٰی کے پاس۔ عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى ١٤
جس کے پاس جنت الماوٰی ہے۔ عِنْدَهَا جَنَّـةُ الْمَاْوٰى ١٥

سورہ تکویر میں ہے

اِنَّهٝ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ (19)
بے شک یہ قرآن ایک معزز رسول کا لایا ہوا ہے۔
ذِىْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِى الْعَرْشِ مَكِيْنٍ (20)
جو بڑا طاقتور ہے عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے۔
مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ (21)
وہاں کا سردار امانت دار ہے۔
وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُـوْنٍ (22)
اور تمہارا رفیق (رسول) کوئی دیوانہ نہیں ہے۔
وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ (23)
اور اس نے اس (فرشتہ) کو (آسمان کے) کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔

معلوم ہوا کہ جبریل کو دو بار دیکھا ایک افق مبین پر پھر دوسری بار سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى پر جس کا ذکر سورہ نجم میں کیا گیا کہ اس نے اسی ذات کو دو بار دیکھا ہے

امام بخاری کا موقف

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ ابْنِ الأَشْوَعِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَأَيْنَ قَوْلُهُ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} [النجم: 9] قَالَتْ: «ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ [ص:116] الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ المَرَّةَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الأُفُقَ

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، {لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الكُبْرَى} [النجم: 18] قَالَ: «رَأَى رَفْرَفًا أَخْضَرَ قَدْ سَدَّ الأُفُقَ»

امام بخاری نے ابن مسعود اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا قول بیان کیا کہ  قاب قوسین میں ذکر جبریل علیہ السلام  کا ہے  لیکن صحیح بخاری  کے آخر میں کتاب التوحید میں امام بخاری نے شریک بن عبد الله کی سند سے روایت لا کر اپنا ایک اور  موقف بتایا ہے کہ  سورہ نجم کی آیات میں قاب قوسین  میں  قریب آنے سے مراد الله تعالی کا ذکر ہے

، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، ‏‏‏‏‏‏وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَدَلَّى، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ

۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی

البانی کا قول  ہے

لكن هذه الجملة من جملة ما أُنكر على شريك هذا مما تفرد به عن جماهير الثقات الذين رووا حديث المعراج، ولم ينسبوا الدنو والتدلي لله تبارك وتعالى

لیکن یہ وہ جملہ ہے جس کی وجہ سے شریک کی حدیث کا انکار کیا جاتا ہے کہ جمہور ثقات کے مقابلے میں شریک کا اس حدیث معراج میں  تفرد ہے اور دنو (نیچے انے )  اور تدلی (معلق ہونے ) کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جاتی

اغلبا امام  بخاری کا مقصد ہے کہ اللہ تعالی خواب میں  قریب آئے اور جبریل حقیقت میں  قریب آئے پھر  الوحی کی اگرچہ اللہ کو دیکھا نہیں  کیونکہ الصحیح  میں دوسرے مقام پر عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی حدیث نقل کی ہے کہ  اللہ تعالی کو نہیں دیکھا بلکہ جبریل کو دیکھا – و اللہ اعلم

راقم کے نزدیک یہ امام بخاری کی غلطی ہے شریک کی روایت صحیح نہیں منکر و منفرد  ہے

امام مسلم کا موقف

امام مسلم کا موقف  ہے کہ قاب قوسین سے مراد  جبریل کا اصلی شکل میں  قریب آنا ہے زمین میں افق پر اور پھر سدرہ المنتہی کے پاس

وَحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنِ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: فَأَيْنَ قَوْلُهُ؟ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى} [النجم: 9] قَالَتْ: ” إِنَّمَا ذَاكَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ الرِّجَالِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ فِي هَذِهِ الْمَرَّةِ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ أُفُقَ السَّمَاءِ

اہل تشیع کی شروحات

اہل تشیع کے قدماء کے  مطابق قاب قوسین سے مراد حجاب عظمت کے نور کا قریب آنا ہے – الکافی از کلینی میں ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن القاسم بن محمد الجوهري، عن علي بن أبي حمزة قال: سأل أبوبصير أبا عبدالله عليه السلام وأنا حاضر فقال: جعلت فداك كم عرج برسول الله صلى الله عليه وآله؟ فقال: مرتين فأوقفه جبرئيل موقفا فقال له: مكانك يا محمد فلقد وقفت موقفا ما وقفه ملك قط ولا نبي، إن ربك يصلي فقال: يا جبرئيل وكيف يصلي؟ قال: يقول: سبوح قدوس أنا رب الملائكة و الروح، سبقت رحمتي غضبي، فقال: اللهم عفوك عفوك، قال: وكان كما قال الله ” قاب قوسين أو أدنى “، فقال له أبوبصير: جعلت فداك ما قاب قوسين أو أدنى؟ قال: ما بين سيتها(1) إلى رأسها فقال: كان بينهما حجاب يتلالا يخفق(2) ولا أعلمه إلا وقد قال: زبرجد، فنظر في مثل سم الابرة(3) إلى ما شاء الله من نور العظمة، فقال الله تبارك وتعالى: يا محمد، قال: لبيك ربي قال: من لامتك من بعدك؟ قال: الله أعلم قال: علي بن أبي طالب أمير المؤمنين وسيد المسلمين وقائد الغر المحجلين(4) قال ثم قال أبوعبدالله لابي بصير: يا أبا محمد والله ما جاء ت ولاية علي عليه السلام من الارض ولكن جاء ت من السماء مشافهة.

أبوبصير نے امام جعفر سے سوال کیا اور میں علی بن ابی حمزہ سن رہا تھا کہ رسول الله  صلى الله عليه وآله کو کتنی بار معراج ہوئی؟ فرمایا دو بار[1] جن میں جبریل نے ان کو روکا اور کہا یہ مکان ہے اے محمد اس مقام پر رکیں یہاں اس سے قبل کوئی نبی اور فرشتہ نہیں رکا ہے اپ کا رب نماز پڑھ رہا ہے تو  رسول الله  صلى الله عليه وآله نے جبریل سے پوچھا کیسے نماز پڑھ رہا ہے ؟ جبریل نے کہا وہ کہتا ہے میں پاک ہوں قدوس ہوں میں فرشتوں اور الروح کا رب ہوں میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی – پس رسول الله  صلى الله عليه وآله نے کہا اے الله  میں اپ کی مغفرت چاہتا ہوں – (امام جعفر  نے) کہا : پھر جیسا الله نے ذکر کیا ہے دو کمانوں جتنا یا اس سے بھی کم- ابو بصیر نے کہا : میں اپنے اپ کو اپ پر قربان کروں! یہ دو کمانوں جتنا یا اس سے بھی کم کیا ہے ؟ فرمایا یہ ان کے “سيت” اور سر کے درمیان تھا اور کہا ایک حجاب تھا جو ہل رہا تھا اور میں اس سے زیادہ نہیں جانتا یہ  زبرجد کا تھا پس انہوں (رسول الله  صلى الله عليه وآله) نے سوئی کی نوک جتنا سے لے کر جو الله نے چاہا اتنا نور عظمت دیکھا  – پس الله تبارک و تعالی نے فرمایا : اے محمد – رسول الله  صلى الله عليه وآله نے کہا لبیک میرے رب – اللہ تعالی نے کہا تیرے بعد تیری  امت میں کون ہے ؟ رسول الله  صلى الله عليه وآله نے کہا علي بن أبي طالب أمير المؤمنين وسيد المسلمين وقائد الغر المحجلين – پھر امام جعفر نے کہا علی کی ولایت زمین میں نہیں بلکہ آسمان میں صاف الفاظ میں آئی 

لسان العرب از ابن منظور میں ہے  وطاقُ الْقَوْسِ: سِيَتُها    کمان کی محراب کو سیت کہتے ہیں  –

كتاب العين از أبو عبد الرحمن الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) میں ہے

 ويَدُ القَوْسِ: سِيَتُها کمان پکڑنے کا دستہ

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کمان اس کی “سیت”   پکڑے ہوتے اور اس کو آسمان یا عالم بالا کی طرف کیا ہوتا تو حجاب  “سیت” سے بھی نیچے آ گیا تھا اور اس میں سے نور عظمت دیکھا

بحار الأنوار از  ملا باقر مجلسی میں ہے

محمد بن العباس، عن أحمد بن محمد النوفلي، عن أحمد بن هلال، عن ابن محبوب، عن ابن بكير، عن حمران قال: سألت أبا جعفر (عليه السلام) عن قول الله عزوجل في كتابه: ” ثم دنافتدلى * فكان قاب قوسين أو أدنى ” فقال: أدنى الله محمدا منه، فلم يكن بينه وبينه إلا قنص لؤلؤ فيه فراش (3)، يتلالا فاري صورة، فقيل له: يا محمد أتعرف هذه  الصورة ؟ فقال: نعم هذه صورة علي بن أبي طالب، فأوحى الله إليه أن زوجة فاطمة واتخذه وصيا

امام جعفر نے کہا جب الله تعالی اور رسول الله کے درمیان دو کمان سے بھی کم رہ گیا تو ان کو صورتیں دکھائی گئیں  اور پوچھا کیا ان کو پہچانتے ہو ؟ فرمایا ہاں یہ علی کی صورت ہے  پھر الوحی کی کہ ان کی بیوی فاطمہ ہوں گی اور علی کی وصیت کرنا

تفسیر فرات میں ہے

فرات قال: حدثنا جعفر بن أحمد معنعنا [ عن عباد بن صهيب عن جعفر بن محمد عن أبيه ] عن علي بن الحسين: عن فاطمة [ بنت محمد.أ، ب.عليهم السلام.ر ] قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: لما عرج بي إلى السماء فصرت إلى سدرة المنتهى (فكان قاب قوسين أو أدنى) فرأيته بقلبي ولم أره بعيني، سمعت الاذان قالوا: شهدنا وأقررنا، قال: واشهدوا يا ملائكتي وسكان سماواتي وأرضي وحملة عرشي بأن عليا وليي وولي رسولي وولي المؤمنين.قالوا: شهدنا وأقررنا

عباد بن صهيب نے روایت کیا …. فاطمہ سے انھوں نے اپنے باپ نبی صلی الله علیہ و الہ سے کہ جب میں آسمان پر بلند ہوا تو سدرہ المنتہی تک گیا پس وہ دو کمانوں سے بھی کم پر قریب آیا میں نے اس کو قلب سے دیکھا آنکھ سے نہ دیکھا اور  کانوں نے سنا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے اور  الله نے کہا اے فرشتوں گواہ ہو جاؤ اور اے آسمان کے باسیوں اور زمین کے اور عرش کو اٹھانے والے کہ علی میرے ولی ہیں اور رسول اور مومنوں کے – ان سب نے کہا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے

راقم کہتا ہے سند میں عباد بن صهيب ہے جو اہل سنت میں متروک ہے اور شیعوں میں ثقہ ہے

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی (بحار الأنوار / جزء 3 / صفحة ٣١٥ )  میں روایت ہے

ع: أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن ابن محبوب، عن مالك بن عيينة (2) عن حبيب السجستاني قال: سألت أبا جعفرعليه السلام عن قوله عزوجل: ” ثم دنى فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى فأوحى إلى عبدهاقرأ: ثم دنى فتدانا فكان قاب قوسين أو أدنى، فأوحى الله إلى عبده يعني رسول الله صلى الله عليه وآله ما أوحى، يا حبيب إن رسول الله صلى الله عليه وآله لما فتح مكة أتعب نفسه في عبادة الله عزوجل والشكر لنعمه في الطواف بالبيت وكان علي عليه السلام معه فلما غشيهم الليل انطلقا إلى الصفا والمروة يريدان السعي، قال: فلما هبطا من الصفا إلى المروة وصارا في الوادي دون العلم الذي رأيت غشيهما من السماء نور فأضاءت هما جبال مكة، وخسأت أبصارهما، (1) قال: ففزعا لذلك فزعا شديدا، قال: فمضى رسول الله صلى الله عليه وآله حتى ارتفع من الوادي، وتبعه علي عليه السلام فرفع رسول الله صلى الله عليه وآله رأسه إلى السماء فإذا هو برمانتين على رأسه، قال: فتناولهما رسول الله صلى الله عليه وآله فأوحى الله عزوجل إلى محمد: يا محمد إنها من قطف الجنة فلا يأكل منها إلا أنت ووصيك علي بن أبي طالب عليه السلام، قال: فأكل رسول الله صلى الله عليه وآله إحديهما، وأكل علي عليه السلام الاخرى ثم أوحى الله عزوجل إلى محمد صلى الله عليه وآله ما أوحى. قال أبو جعفر عليه السلام: يا حبيب ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” يعني عندها وافا به جبرئيل حين صعد إلى السماء، قال: فلما انتهى إلى محل السدرة وقف جبرئيل دونها وقال: يا محمد إن هذا موقفي الذي وضعني الله عزوجل فيه، ولن أقدر على أن أتقدمه، ولكن امض أنت أمامك إلى السدرة، فوقف عندها، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله إلى السدرة وتخلف جبرئيل عليه السلام، قال أبو جعفر عليه السلام: إنما سميت سدرة  المنتهى لان أعمال أهل الارض تصعد بها الملائكة الحفظة إلى محل السدرة، و الحفظة الكرام البررة دون السدرة يكتبون ما ترفع إليهم الملائكة من أعمال العباد في الارض، قال: فينتهون بها إلى محل السدرة، قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وآله فرأى أغصانها تحت العرش وحوله، قال: فتجلى لمحمد صلى الله عليه وآله نور الجبار عزوجل، فلما غشي محمدا صلى الله عليه وآله النور شخص ببصره، وارتعدت فرائصه، قال: فشد الله عزوجل لمحمد قلبه و قوى له بصره حتى رأى من آيات ربه ما رأى، وذلك قول الله عزوجل: ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” قال يعني الموافاة، قال: فرأي محمد صلى الله عليه وآله ما رأى ببصره من آيات ربه الكبرى، يعني أكبر الآيات

حبيب السجستاني کہتے ہیں میں نے امام جعفر سے (سورہ النجم)  پر سوال کیا اپ نے فرمایا الله تعالی نے نبی صلی الله علیہ وسلم پر الوحی کی … یعنی سدرہ المنتہی کے پاس جبریل وہاں آسمان پر چڑھے سدرہ کے پاس اور کہا جب سدرہ کے مقام پر پہنچے تو رک گئے اور کہا اے محمد یہ میرے رکنے کا مقام ہے جو الله تعالی نے میرے لئے بنایا ہے اور میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ آگے جا سکوں لیکن اپ سدرہ سے آگے جائیے اور وہاں رک جائیں- امام جعفر نے کہا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے سدرہ سے اور جبریل کو پیچھے چھوڑ دیا … پس وہاں عرش کے نیچے دیکھا اور اس کے گرد پس وہاں محمد صلی الله علیہ و الہ پر نور جبار تجلی ہوا جس سے اپ پر نیند طاری ہوئی  … پس الله تعالی نے اپ کا دل مضبوط کیا اور بصارت قوی کی یہاں تک کہ اپ نے آیات الله دیکھیں جو دیکھیں

یعنی اہل تشیع کے ہاں یہ بات قبول کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے اور وہاں خاص الوحی ہوئی جس میں علی  کا ذکر تھا – خیال رہے کہ سند میں مالك بن عيينة  ایک مجھول ہے جس کا ذکر کتب رجال شیعہ میں نہیں ملا

شیعہ  علامہ  جوادی کا  ترجمہ و جدید  شرح

جدید شروحات میں ان اقوال کو رد کیا گیا ہے مثلا علامہ جوادی کا ترجمہ و شرح ہے

واقعہ معراج سے متعلق

اس کتاب میں اضافہ کیا گیا ہے

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

قتل زکریا کی خبر معراج میں

حدیث ام ہانی

معراج صخرہ سے ہوئی ؟

=========================

اس ویب سائٹ پر موجود معراج سے متعلق مباحث کو کتابی شکل دی گئی ہے – معراج کے حوالے سے غلو پرستوں نے کافی کچھ مشہور کر رکھا ہے دوسری طرف صحیح احادیث کی کتب میں بھی کچھ روایات اس سے متعلق صحیح نہیں ہیں – اس کتاب میں اس قسم کی بعض روایات کی چھان بین کی گئی ہے

اسلامی اعتقادات کا ایک  اہم  عقیدہ ہے  کہ مکی دور نبوی میں رسول صلی الله علیہ وسلم کو بحکم الہی آسمان پر جسمانی  طور پر بلند کیا گیا – اس میں  آپ صلی الله علیہ وسلم کو مکہ سے مسجد الاقصی لے  جایا گیا – اس واقعہ کو الاسراء یا  المعراج کہا جاتا ہے – الاسراء کا لفظ  اَسْرٰى سے ہے جو  قرآن میں موجود ہے اور المعراج کا لفظ طبقات ابن سعد میں ابن اسحاق کی سند سے ایک روایت میں اتا ہے –  قرآن سوره الاسراء کی آیات ہیں کہ

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

یہ معراج کا واقعہ تھا جس میں جسمانی طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر   ایک گھوڑے اور خچر نما مخلوق پر کیا جس کو البراق کہا جاتا ہے- اس میں ایک آن  میں آپ مسجد الحرام سے اصلی مسجد الاقصی پہنچ  گئے اور آپ کے ہمراہ جبریل علیہ السلام بھی تھے[1]

مسجد الاقصی سے  آسمان  دنیا اور اور پھر ایک آسمان سے دوسرے آسمان،  یہاں  تک کہ  سات آسمان   پر موجود   سدرہ المنتہی  تک   کا سفر ہوا – جنت  کا دورہ ہوا اور اس کی نعمت کو دیکھا –  انبیاء سے وہاں ملاقات ہوئی جن میں فوت شدہ اور زندہ عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے  – پھر  وہاں سے واپس  مکہ   لوٹا دیا گیا – اس عالم میں رب تعالی کی عظیم   قدرت و  جبروت کا     منظر دیکھا-

صحیح بخاری: کتاب: انصار کے مناقب (باب: معراج کابیان)

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

3887

 حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِي مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ فَقَالَ لَهُ الْجَارُودُ هُوَ الْبُرَاقُ يَا أَبَا حَمْزَةَ قَالَ أَنَسٌ نَعَمْ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا الْخَالَةِ قَالَ هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ أَوَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِلَى إِدْرِيسَ قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَكَى قِيلَ لَهُ مَا يُبْكِيكَ قَالَ أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ هَذَا أَبُوكَ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ قَالَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ هَذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى وَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ فَقُلْتُ مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ هِيَ الْفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَا أُمِرْتَ قَالَ أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَ أُمِرْتَ قُلْتُ أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ قَالَ فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي

  مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اس شب کا حال بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: “ایسا ہوا کہ میں حطیم یا حجر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے یہاں سے یہاں تک چاک کر دیا ۔۔ راوی کہتا ہے: میں نے جارود  سے پوچھا: جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے: اس سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے کہا: حلقوم سے ناف تک۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ سینے سے ناف تک ۔۔” پھر اس نے میرا دل نکالا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان سے لبریز تھا۔ میرا دل دھویا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا ۔۔ جارود نے کہا: ابوحمزہ! وہ براق تھا؟ ابوحمزہ انس ؓ نے فرمایا: ہاں (وہ براق تھا) ۔۔ وہ اپنا قدم منتہائے نظر پر رکھتا تھا۔ تو میں اس پر سوار ہوا۔ میرے ہمراہ   جبریل علیہ السلام روانہ ہوئے۔ انہوں نے آسمان اول پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: آپ کو یہاں تشریف لانے کا پیغام بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر جواب ملا: مرحبا! آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا بہت اچھا ہے۔ پھر اس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں گیا تو   آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ تمہارے باپ   آدم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اچھے بیٹے اور بزرگ نبی! خوش آمدید۔ اس کے بعد   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے حتی کہ دوسرے آسمان پر پہنچے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ بتایا کہ محمد ﷺ ہیں۔ دریافت کیا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ آنے والا مہمان بہت اچھا ہے اوراس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو   یحییٰ اور   عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد ہیں۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ یحییٰ اور   عیسیٰ علیہما السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا اور ان دونوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: برادر عزیز اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا:   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا مہمان بہت اچھا ہے۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو   یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ یوسف علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کہا: انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: نیک طنیت بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے چوتھے آسمان پر لے کر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! جس سفر پر آئے وہ مبارک اور خوشگوار ہو۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو   ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل نے کہا: یہ   ادریس علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے برادر گرامی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر پانچویں آسمان پر چڑھے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! اور جس سفر پر آئے ہیں وہ خوش گوار اور مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو   ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نےکہا: یہ   ہارون علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے معزز بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چھٹے آسمان پر چڑھے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹایا تو پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! سفر مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو   موسٰی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ   موسٰی علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اخی المکرم اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے۔ پوچھا گیا: آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوعمر جوان جسے میرے بعد رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اس کی امت جنت میں میری امت سے زیادہ تعدادمیں داخل ہو گی۔   جبریل علیہ السلام مجھے ساتویں آسمان پر لے کر چڑھے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! اور جس سفر پر تشریف لائے ہیں وہ خوشگوار اور مبارک ہو۔ پھر میں وہاں پہنچا تو   ابراہیم علیہ السلام ملے۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ آپ کے جد امجد   ابراہیم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اے پسر عزیز اور نبی محترم خوش آمدید۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک بلند کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کی طرح بڑے بڑے ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح چوڑے چوڑے ہیں۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں: (ان میں) دو نہریں بند اور دو نہریں کھلی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ بند نہریں تو جنت کی ہیں اور جو کھلی ہیں وہ نیل اور فرات کا سرچشمہ ہیں۔ پھر بیت المعمور کو میرے سامنے لایا گیا۔ پھر میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا لایا گیا تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ فطرت اسلام ہے جس پر آپ اور آپ کی امت قائم ہے۔ پھر مجھ پر شب و روز میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ جب میں واپس لوٹا تو   موسٰی علیہ السلام کے پاس سے میرا گزر ہوا۔ انہوں نے پوچھا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے دن رات میں پچاس نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔   موسٰی علیہ السلام نے فرمایا: آپ کی امت ہر دن پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ اللہ کی قسم! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور اس معاملے میں بنی اسرائیل کے ساتھ سرتوڑ کوشش کر چکا ہوں، لہذا آپ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں، چنانچہ میں لوٹ کر گیا اور اللہ تعالٰی نے مجھے دس نمازیں معاف کر دیں۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر اللہ کے پاس گیا تو اللہ نے مزید دس نمازیں معاف کر دیں۔ میں پھر موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر میں لوٹ کر گیا تو مجھے دس نمازیں اور معاف کر دی گئیں۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا، چنانچہ میں لوٹ کر گیا تو مجھے ہر دن میں دس نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر لوٹا تو موسٰی علیہ السلام نے پھر ویسا ہی کہا۔ میں پھر لوٹا تو مجھے ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت دن میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکے گی۔ میں تم سے پہلے لوگوں کا خوب تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل پر خوب زور ڈال چکا ہوں، لہذ تم ایسا کرو پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کرو۔ میں نے جواب دیا میں اپنے رب سے کئی دفعہ درخواست کر چکا ہوں، اب مجھے حیا آتی ہے، لہذا میں راضی ہوں اور اس کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں آگے بڑھا تو ایک منادی (خود اللہ تعالٰی) نے آواز دی کہ میں نے حکم جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی۔”

صحیح مسلم ٢٥٩ پر     بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ  بعض نسخوں میں یہ ٤١١ پر ہے

http://mohaddis.com/View/Muslim/411

صحیح مسلم
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان
حديث:411
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَی طَرْفِهِ قَالَ فَرَکِبْتُهُ حَتَّی أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قَالَ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَائُ قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِإِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيلُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ فَرَحَّبَ بِي وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الثَّانِيَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِابْنَيْ الْخَالَةِ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ وَيَحْيَی بْنِ زَکَرِيَّائَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِي إِلَی السَّمَائِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الرَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ
إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الْخَامِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ السَّادِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِمُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَی الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ کُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَی السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَی وَإِذَا وَرَقُهَا کَآذَانِ الْفِيَلَةِ وَإِذَا ثَمَرُهَا کَالْقِلَالِ قَالَ فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَی فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَنَزَلْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا فَرَضَ رَبُّکَ عَلَی أُمَّتِکَ قُلْتُ خَمْسِينَ صَلَاةً قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَبِّي فَقُلْتُ يَا رَبِّ خَفِّفْ عَلَی أُمَّتِي فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا فَرَجَعْتُ إِلَی مُوسَی فَقُلْتُ حَطَّ عَنِّي خَمْسًا قَالَ إِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ قَالَ فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَبَيْنَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام حَتَّی قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لِکُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ فَذَلِکَ خَمْسُونَ صَلَاةً وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا کُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُکْتَبْ شَيْئًا فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً قَالَ فَنَزَلْتُ حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ قَدْ رَجَعْتُ إِلَی رَبِّي حَتَّی اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ
ترجمہ : شیبان بن فروخ، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے لئے براق لایا گیا، براق ایک سفید لمبا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا جانور ہے منتہائے نگاہ تک اپنے پاؤں رکھتا ہے میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس آیا اور اسے اس حلقہ سے باندھا جس سے دوسرے انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے جانور باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہو اور میں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر میں نکلا تو   جبرائیل (علیہ السلام) دو برتن لائے ایک برتن میں شراب اور دوسرے برتن میں دودھ تھا میں نے دودھ کو پسند کیا، جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فطرت کو پسند کیا، پھر   جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ آسمان کی طرف چڑھے، فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو فرشتوں نے پوچھا آپ کون؟ کہا جبرائیل کہا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو ہم نے   آدم (علیہ السلام) سے ملاقات کی آدم (علیہ السلام) نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پھر پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں انہوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں   عیسیٰ بن مریم اور   یحیی بن زکریا (علیہ السلام) کو دیکھا دونوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر   جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر گئے تو دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے   یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا اور اللہ نے انہیں حسن کا نصف حصہ عطا فرمایا تھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھلا تو میں نے   ادریس (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی،   ادریس کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا ( وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا) ہم نے ان کو بلند مقام عطا فرمایا ہے، پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا   جبرائیل نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا تو میں نے   ہارون (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا کہ جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر پوچھا کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہاں کہ ہاں یہ بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے   موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں ساتویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا   جبرائیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو فرشتوں نے پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں ان کو بلانے کا حکم ہوا ہے پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے   ابراہیم (علیہ السلام) کو بیت المعمور کی طرف پشت کئے اور ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا اور بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور انہیں دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملتا ( فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے) پھر   جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہی کی طرف لے گئے اس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح بڑے بڑے تھے اور اس کے پھل بیر جیسے اور بڑے گھڑے کے برابر تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اس درخت کو اللہ کے حکم سے ڈھانکا گیا تو اس کا حال ایسا پوشیدہ ہوگیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض  فرمائیں پھر میں وہاں سے واپس   موسیٰ تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا پچاس نمازیں دن رات میں، موسیٰ نے فرمایا کہ اپنے رب کے پاس واپس جا کر ان سے کم کا سوال کریں اس لئے کہ آپ کی امت میں اتنی طاقت نہ ہوگی کیونکہ میں بنی اسرائیل پر اس کا تجربہ کرچکا اور آزماچکا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے پھر واپس جا کر اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میری امت پر تخفیف فرما دیں تو اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں میں پھر واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں اپنے رب کے پاس جا کر ان میں تخفیف کا سوال کریں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس طرح اپنے اللہ کے پاس سے موسیٰ کے پاس اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے اللہ کے بارگاہ میں آتا جاتا رہا اور پانچ پانچ نمازیں کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا کہ اے محمد ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور ہر نماز کا ثواب اب دس نمازوں کے برابر ہے پس اس طرح ثواب کے اعتبار سے پچاس نمازیں ہوگئیں اور جو آدمی کسی نیک کام کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرسکے تو میں اسے ایک نیکی کا ثواب عطا کروں گا اور اگر وہ اس پر عمل کرلے تو میں اسے دس نیکیوں کا ثواب عطا کروں گا اور جو آدمی کسی برائی کا ارادہ کرے لیکن اس کا ارتکاب نہ کرے تو اس کے نامہ اعمال میں یہ برائی نہیں لکھی جاتی اور اگر برائی اس سے سرزد ہوجائے تو میں اس کے نامہ اعمال میں ایک ہی برائی لکھوں گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں پھر واپس   موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس جا کر تخفیف کا سوال کریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس اس سلسلہ میں بار بار آ جا چکا ہوں یہاں تک کہ اب مجھے اس کے متعلق اپنے اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔

 دوسرے دن آپ نے جب قریش کو اس کی خبر دی تو انہوں نے آزمائشی سوالات کیے اور حجر یا حطیم میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیت المقدس شہر کو آپ کے سامنے کر دیا گیا

  سوره النجم میں ہے[2]

اسے پوری طاقت والے  نے سکھایا ہے (5) جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا (6

اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا (7

پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا (8

پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (9

پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (10

دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا (11

کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں (12) اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (13) سدرةالمنتہیٰ کے پاس (14)

اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے (15

جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی (16

نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی (17

یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں (18

معراج  کے حوالے سے بہت سی ضعیف روایات عوام میں مشہور ہیں جن کو علماء بھی بلا سند بیان کرتے رہے ہیں مثلا    جبریل علیہ السلام کے پروں کا جلنا یا معراج  میں الله تعالی کا دیدار کرنا یا واقعہ معراج پر  اصحاب رسول کا مرتد ہونا  یا   عائشہ رضی الله عنہا سے  یہ قول منسوب کرنا کہ وہ جسمانی معراج کی انکاری تھیں  وغیرہ – اس کتاب میں  اس قسم کی روایات پر  بحث کی گئی ہے

نعلین کے حوالے سے غلو کی ایک وجہ بریلوی فرقہ اور صوفیاء کی جانب سے  بیان کی جاتی ہے کہ موسی علیہ السلام جب طوی کی مقدس وادی میں تشریف لے گئے تو سورۃ طہ کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیا طه،٢٠ : ١١۔

إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى

اے موسٰی بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو

اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم جب معراج پر عرش تک گئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں ملتا کہ کسی مقام پر ان کے نعلین مبارک اتروائے گئے ہوں اس کو دلیل بناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یقینا یہ نعلین بہت مبارک ہیں اور ان کی شبیہ بنانا جائز ہے حالانکہ صحیحین کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی تک ہی گئے اس سے آگے  نہیں اور یہ تو کسی حدیث میں نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم عرش تک  گئے

اہل تشیع کے ہاں معراج کا مقصد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو علی کی امامت کا حکم تھا جو خاص سدرہ المنتہی کے بعد ملا یہاں تک کہ جبریل کو اس کی خبر نہ ہوئی – یہ خبر خاص علم باطن کی طرح تھی جو  الله اور اس کے رسول کے مابین رہی- مزید یہ کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کھل کر اس کو تمام  امت  پر بر سر منبر ظاہر نہیں کیا – مکی دور میں جب سابقوں اولوں  میں سے بعض کو اس   خبر کی بھنک پڑی  تو ان میں سے بعض مرتد تک ہو گئے – افسوس اس قسم کی مبہم روایات  اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں جن سے عوام دھوکہ کھا گئے اور یہ ماننے لگ گئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المتنھی سے گے گئے اور سابقوں اولوں مرتد ہوئے – اہل تشیع کے بقول اس سب کی وجہ علی رضی الله عنہ سے متعلق احکام تھے

بعض  دیوبندی  علماء  نے غلو میں یہ تک کہا کہ عرش پر رسول الله کے پیر پڑے[3]–  دوسری طرف یہی دیوبندی اور بریلوی ، جمہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله اپنے عرش پر نہیں ہے-

 معراج  کب ہوئی اس کے حوالے سے مورخین کے متعدد اقوال ہیں – عصر حاضر میں  اس کو کہا جاتا ہے ماہ رجب میں ہوئی- رجب میں روزہ رکھنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے[4]

ابو شہر یار

٢٠١٨

نور محمدی کا ذکر ٣

متروک و منکر روایات  کو  محراب و  منبر پر بیان کرنے والے  طارق  جمیل  صاحب کی جانب سے ایک روایت پیش کی جا رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ، تخلیق مخلوق سے ہزار سال پہلے ہوئی اور ان کا ایک نام یاسین ہے

٩ منٹ پر

اس قول  کا تعاقب کیا گیا اور یہ معلوم ہوا ہے

کتاب الروض الباسم  از ابو سلیمان جاسم  کے مطابق

– أخبرنا خيثمة بن سليمان: نا جعفر بن محمد بن زياد الزّعفراني الرازي ببغداد: نا إبراهيم بن المنذر الحِزامي (ح). وأخبرنا أبو عبد الله محمد بن إبراهيم بن عبد الرحمن (1) القرشي قراءةً عليه: أنا أبو عبد الملك أحمد بن إبراهيم القرشي قراءةً عليه، قالا (2): نا إبراهيم بن المنذر، -وهو الحِزامي-: نا إبراهيم بن مهاجر بن مِسمار عن عمر بن حفص بن ذكوان عن مولى الحُرَقَة.عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: “إنّ اللهَ -عَزَّ وجَلَّ- قرأ (طه) و (ياسين) قبلَ أن يخلقَ آدمَ بألف عامٍ، فلمّا سَمِعَ الملائكةُ القرآنَ قالوا: طُوبى لأمّةٍ يُنزَّل هذا عليها، وطوبى لأجوافٍ تحمل هذا، وطوبى لألسنٍ تكلَّمُ بهذا”.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی نے  تخلیق آدم سے ہزار سال قبل  (طه) و (ياسين) کی قرات کی جب فرشتوں نے قرآن سنا تو کہا خوشخبری ہو اس امت پر جس پر یہ نازل ہو اور خوشخبری ہو ان جسموں پر جو اس کو اٹھائیں (یعنی حفظ کریں ) اور ان زبانوں پر جو اس کے الفاظ  کو ادا کریں

سند میں ابراہیم بن مہاجر بن مسمار ضعیف ہے

کتاب  الإيماء إلى زوائد الأمالي والأجزاء – زوائد الأمالي والفوائد والمعاجم والمشيخات على الكتب الستة والموطأ ومسند الإمام أحمد

المؤلف: نبيل سعد الدين سَليم جَرَّار کے مطابق

قال الشيخ الإمام أبوبكر الخطيب هذا حديث غريب من حديث عبدالرحمن بن يعقوب مولى الحرقة عن أبي هريرة، تفرد بروايته إبراهيم بن مهاجر بن مسمار المديني، عن حفص بن عمر بن ذكوان.

وقال المنذري: إبراهيم بن مهاجر ضعيف

خطیب بغداد ی نے کہا یہ حدیث غریب ہے  …  منذری نے کہا اس میں ابراہیم بن مھاجر ضعیف ہے

سنن الدارمی میں ہے

– حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَاجِرِ بْنِ [ص:2148] الْمِسْمَارِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه وْ يس قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ، قَالَتْ: طُوبَى لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا، وَطُوبَى لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا، وَطُوبَى لِأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا “

[تعليق المحقق  حسين سليم أسد الداراني ] إسناده ضعيف جدا عمر بن حفص بن ذكوان قال أحمد: تركنا حديثه وحرقناه

سند میں عمر بن حفض  متروک ہے

طارق جمیل نے ذکر کیا کہ نبی مختون پیدا ہوئے اس قول پر امام الذھبی کا کہنا ہے

علّق عليه الحافظ الذهبي في “تلخيص المستدرك” بقوله: ما أعلم صحة ذلك فكيف يكون متواترا؟

اس روایت کی صحت ہی معلوم ہی نہیں ہے ، متواتر کیسے ہے ؟

لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ

سورہ الحجرات کي آيات ہيں

بِسْمِ اللّـهِ الرَّحْـمنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـهِ وَرَسُوْلِـه وَاتَّقُوا اللّـهَ اِنَّ اللّـهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ (1)
اے ايمان والو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـه بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (2)
اے ايمان والو اپني آوازيں نبي کي آواز سے بلند نہ کيا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کيا کرو جيسا کہ تم ايک دوسرے سے کيا کرتے ہو
کہيں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائيں اور تمہيں خبر بھي نہ ہو
اِنَّ الَّـذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَـهُـمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّـهِ اُولئِكَ الَّـذِيْنَ امْتَحَنَ اللّـهُ قُلُوْبَـهُـمْ لِلتَّقْوى لَـهُـمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِـيْمٌ (3)
بے شک جو لوگ اپني آوازيں رسول اللہ کے حضور دھيمي کر ليتے ہيں يہي لوگ ہيں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پرہيزگاري کے ليے جانچ ليا ہے ان
کے ليے بخشش اور بڑا اجر ہے
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَكْثَرُهُـمْ لَا يَعْقِلُوْنَ (4)
بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہيں اکثر ان ميں سے عقل نہيں رکھتے
وَلَوْ اَنَّـهُـمْ صَبَـرُوْا حَتّـى تَخْرُجَ اِلَيْـهِـمْ لَكَانَ خَيْـرًا لَّـهُـمْ وَاللّـهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ (5)
اور اگر وہ صبر کرتے يہاں تک کہ آپ ان کے پاس سے نکل کر آتے تو ان کے ليے بہتر ہوتا اور اللہ بخشنے والا نہايت رحم والا ہے

ان آيات ميں بتايا جا رہا ہے کہ لوگ حجرات النبي کے باہر جمع ہو جاتے اور شور کرتے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم باہر تشريف لائيں-اس عمل پر تنبيہ کي گئي کہ اگر آئندہ ايسا کيا تو عمل فنا ہو جائيں گے اور معلوم تک نہ ہو گا – صحيح بخاري ميں اس کے برعکس بيان کيا گيا ہے
کہ حجرات النبي کے باہر نہيں بلکہ عين نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے شيخين کا جھگڑا ہوا اور اور وہ اپني اپني چلانے کي کوشش کر رہے تھے – حديث بيان کي جاتي ہے

حَدَّثَني إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُمْ: «أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرِ القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ عُمَرُ: بَلْ أَمِّرِ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلاَفِي قَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُقَدِّمُوا} [الحجرات: 1] حَتَّى انْقَضَتْ , (خ) 4367
ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے بيان کيا کہ ابن زبير رضي اللہ عنہ نے ان کو خبر دي کہ نبو تميم کا وفد نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں پہنچا – ابو بکر رضي اللہ عنہ نے کہا القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ کو ان کا امير کريں ، عمر رضي اللہ عنہ نے کہا بلکہ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ کو ان کا امير کريں ،- ابو بکر نے کہا عمر تم تو ميرے خلاف ہي بات کرنا ، عمر نے کہا ميں نے تمہاري مخالفت کا ارادہ نہيں کيا پس اس ميں کلام ہوا اور آواز بلند ہو گئي پس يہ آيت نازل ہوئي
اے مومنوں رسول اللہ کے سامنے پيش قدمي مت کرو

واقعہ بيان کيا جاتا ہے کہ وفد ميں ميں دو صحابي الأقرع بْن حابس التميمي المُجاشِعِي اور القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ تھے
ابن ابي مليکہ نے کہا کہ اس وفد کي آمد کے موقعہ پر امير کے انتخاب پر ابو بکر اور عمر کي بحث ہوئي اور بات شور تک پہنچي تو حکم نازل ہوا کہ رسول کي موجودگي ميں پيش قدمي مت کرو – راوي ابن ابي مليکہ سے يہ قصہ نافع بن عمر الجمحي اور ابن جريج نے نقل کيا ہے نافع بن عمر پر ابن سعد کا قول ہے کہ ثقہ ہے مگر اس ميں کوئي چيز ہے قال ابن سعد ثقة فيه شيء – دوسرا راوي ابن جريج مدلس ہے اور اس قصہ کي تمام اسناد ميں اس کا عنعنہ ہے – يعني يہ روايت صحيح کے درجہ کي نہيں سمجھي جا سکتي

ترمذي نے اس کے تحت لکھا ہے کہ
قَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ مُرْسَلاً وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
بعض نے اس قصہ کو بيان کيا ہے کہ ابن ابي مليکہ اس قصہ کو مرسل بيان کرتا تھا اور اس روايت کي سند کو ابن زبير تک نہيں لاتا تھا

راقم کہتا ہے بہت ممکن ہے ابن ابي مليکہ کو ابن زبير سے يہ قصہ نہيں ملا بلکہ کسي اور سے ملا اور بعد ميں راويوں نے اس کي سند کو بلند کيا اور اس کو ابن زبير کا بيان کردہ قصہ بنا ديا

دوسري طرف صحيح مسلم کي حديث ہے کہ جب يہ آيت نازل ہوئي (رسول اللہ کي موجودگي ميں آواز بلند مت کرو ) تو انصاري موذن ثابت بن قيس
کا ذکر ہوا کہ ان کو لگا ہے کہ آيت ان کے بارے ميں ہے – اس حديث ميں سعد بن معاذ رضي اللہ عنہ کا بھي ذکر ہے جن کي وفات جنگ خندق پر ہوئي جو سن 3 يا 4 ہجري کا واقعہ ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ} [الحجرات: 2] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ جَلَسَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ فِي بَيْتِهِ وَقَالَ: أَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ: «يَا أَبَا عَمْرٍو مَا شَأْنُ ثَابِتٍ؟ اشْتَكَى؟» قَالَ سَعْدٌ: إِنَّهُ لَجَارِي وَمَا عَلِمْتُ لَهُ بِشَكْوَى قَالَ: فَأَتَاهُ سَعْدٌ فَذَكَرَ لَهُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ثَابِتٌ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي مِنْ أَرْفَعِكُمْ صَوْتًا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ»
انس بن مالک نے کہا جب آيت نازل ہوئي اے ايمان والوں اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو آخر تک تو ثابت بن قيس رضي اللہ عنہ (جو موذن تھے ) گھر جا کر بيٹھ گئے اور کہنے لگے ميں جہنمي ہوں … رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے يہ نوٹ کيا کہ قيس موجود نہيں سعد سے پوچھا کہ ابو عمرو ثابت کا کيا حال ہے ؟ سعد بن معاذ نے کہا وہ ميرے پڑوسي ہيں اور مجھ کو کسي شکوہ کا علم نہيں پس سعد قيس کے ہاں پہنچے اور قول رسول کا ذکر کيا – ثابت نے کہا آيت نازل ہوئي ہے کہ اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو ميں تو جہنمي ہو گيا پس اس کا ذکر نبي سے کيا گيا آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا وہ جنتي ہے

اس روايت کي بنا پر صحيح بخاري کي روايت کو صحيح نہيں سمجھا جا سکتا کيونکہ اس کے تحت آيات کا نزول غزوہ خندق سے بھي پہلے ہوا اور تاريخا وفد بنو تميم کي آمد اس غزوہ کے بعد ہي ممکن ہے کيونکہ بنو تميم عرب ميں مدينہ کے مشرق ميں تھے جہاں آجکل رياض ہے اور وہاں سے مدينہ تک رستے ميں مشرکين کے قبائل تھے لہذا وہاں سے کثیر تعداد میں لوگوں کا مسجد النبی تک آنا ممکن نہیں تھا  – متن قرآن ميں موجود ہے کہ لوگ جن کو تنبيہ کي گئي وہ حجرات النبي کے باہر سے پکارا کرتے تھے وہ نبي کے سامنے شور و غل نہيں کر رہے تھے

مشکل الاثار از طحاوي کي روايت ہے جس کے مطابق سورہ حجرات کي پہلي آيت کا تعلق عبادات سے ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ شُعَيْبٍ الْكَيْسَانِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي فِي إمْلَاءِ أَبِي يُوسُفَ عَلَيْهِمْ , عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ عَنْ حِبَالِ بْنِ رُفَيْدَةَ عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ عَرَفَةَ وَالنَّاسُ يَسْأَلُونَ يَرَوْنَ أَنَّهُ يَوْمُ النَّحْرِ فَقَالَتْ لِجَارِيَةٍ لَهَا: ” أَخْرِجِي لِمَسْرُوقٍ سَوِيقًا وَحَلِّيهِ فَلَوْلَا أَنِّي صَائِمَةٌ لَذُقْتُهُ ” فَقَالَ لَهَا: أَصُمْتِ هَذَا الْيَوْمَ وَهُوَ يُشَكُّ فِيهِ؟ فَقَالَتْ: ” نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] كَانَ قَوْمٌ يَتَقَدَّمُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّوْمِ وَفِيمَا أَشَبَهَهُ , فَنُهُوا عَنْ ذَلِكَ

عائشہ رضي اللہ عنہا کے شاگرد مسروق نے روايت کيا کہ ام المومنين نے بيان کيا کہ ايک قوم تھي جو روزے اور اسي قسم کي عبادات ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم پر پيش قدمي کرتي اس آيت {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] کے ذريعہ سے ان کو اس (بدعتي ) عمل سے منع کيا گيا

طبراني ميں ہے
فَقَالَتْ: إِنَّ نَاسًا كَانُوا يَتَقَدَّمُونَ الشَّهْرَ، فَيَصُومُونَ قَبْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
عائشہ رضي اللہ عنہا نے فرمايا لوگ (رمضان کا ) مہينہ انے سے پہلے روزے رکھتے کہ رسول اللہ سے بھي پہلے روزے رکھ ليتے

شيعہ تفسير طوسي ميں ہے
وقال الحسن: ذبح قوم قبل صلاة العيد يوم النحر، فأمروا باعادة ذبيحة اخرى
حسن بصري نے کہا لوگ رسول اللہ سے پہلے عيد ميں ذبح کرتے پس ان کو حکم ديا گيا کہ دوبارہ ذبح کرو ، نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد

شيعہ تفسير طبرسي ميں ہے
نزل قوله « يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم » إلى قوله « غفور رحيم » في وفد تميم و هم عطارد بن حاجب بن زرارة في أشراف من بني تميم منهم الأقرع بن حابس و الزبرقان بن بدر و عمرو بن الأهتم و قيس بن عاصم في وفد عظيم فلما دخلوا المسجد نادوا رسول الله (صلى الله عليهوآلهوسلّم) من وراء الحجرات أن اخرج إلينا يا محمد

آيت آواز بلند مت کرو ، يہ نازل ہوئي وفد بنو تميم کي آمد پر اور اس ميں عطارد بن حاجب بن زرارة تھا جو بنو تميم کے معزز لوگ تھے جن ميں الأقرع بن حابس اور الزبرقان بن بدر اور عمرو بن الأهتم اور قيس بن عاصم بھي تھے – يہ ايک عظيم وفد تھا پس جب يہ مسجد النبي ميں داخل ہوئے انہوں نے پکارنا شروع کر ديا حجرات النبي کے پيچھے سے اے محمد باہر نکلو

راقم کہتا ہے يہ تفسير اس حد تک  متن قرآن سے مطابقت رکھتي ہے کہ حجرات سے باہر لوگ پکار رہے تھے اور آيت کے شان نزول کا ابو بکر يا عمر سے کوئي تعلق نہيں ہے

الکافي از کليني ميں تدفين حسن رضي اللہ عنہ کا ذکر ہے حسين رضي اللہ عنہا نے ام المومنين رضي اللہ عنہا کي شان اقدس ميں طنزيہ جملے بولے اور اس آيت کا ذکر کيا ليکن يہ نہيں کہا کہ يہ آيات ابو بکر کے لئے نازل ہوئي

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن بكر بن صالح [قال الكليني] وعدة من أصحابنا، عن ابن زياد، عن محمد بن سليمان الديلمي، عن هارون بن الجهم، عن محمد ابن مسلم قال سمعت ابا جفعر عليه السلام يقول …. وبهذا الاسناد، عن سهل، عن محمد بن سليمان، عن هارون بن الجهم، عن محمد بن مسلم قال: سمعت أبا جعفر عليه السلام يقول …. فقال لها الحسين بن علي صلوات الله عليهما … قال الله عزوجل ” يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ” ولعمري لقد ضربت أنت لابيك وفاروقه عند اذن رسول الله صلى الله عليه وآله المعاول، وقال الله عزوجل ” إن الذين يغضون أصواتهم عند رسول الله اولئك الذين امتحن الله قلوبهم للتقوى(1) ” ولعمري لقد أدخل أبوك وفاروقه على رسول الله صلى الله عليه وآله بقربهما منه الاذى،

راقم کہتا ہے کہ اسکي سند ضعيف بھي ہے – شيعہ علماء رجال کے مطابق اس کي سند ضعيف ہے -شيعہ کتاب رجال طوسي کے مطابق اس سند ميں محمد بن سليمان الديلمي بصري ضعيف ہے مشايخ الثقات- غلام رضا عرفانيان ميں بھي اس راوي کو ضعيف قرار ديا گيا ہے

غور طلب ہے کہ شيعوں نے جو سن 300 ہجري تک کے ہيں ان ميں کسي نے سورہ حجرات کي ابتدائي آيات کے شان نزول ميں يہ ذکر نہيں کيا جو صحيح بخاري کي روايت ميں بيان ہوا کہ شيخين رضي اللہ عنہما کا جھگڑا نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے ہوااور آيات نازل ہوئيں

راقم اس تحقيق کے تحت صحيح بخاري کي اس منکر روايت کو رد کرتا ہے

کسوف کی خبر

امریکی خلائی ادارہ ناسا کی تحقیق  کے مطابق وہ گرہن جو دور نبوی میں ہوا  اور مدینہ میں دس ہجری میں دیکھا گیا وہ سن ٦٣٢ ع میں ٢٧ جنوری کو ہوا تھا

https://eclipse.gsfc.nasa.gov/SEcat5/SE0601-0700.html

اس گرہن کو 06270 کا نمبر دیا گیا ہے

یہ گرہن زمین سے عرب میں مکمل دیکھا گیا اور اسی روز روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی اور لوگوں نے کہا کہ ان کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے

 

٢٧ جنوری ٦٣٢ عیسوی کو جب ہجری کنلڈر میں تبدیل کریں تو تاریخ ٢٨ شوال سن ١٠ ہجری  بنتی ہے

https://www.islamicity.org/Hijri-Gregorian-Converter/?AspxAutoDetectCookieSupport=1#

امام ابن حزم  کا قول ہے کہ ابراہیم  پسر نبی کی وفات  ، وفات النبی (سن ١١ ہجری ربیع الاول ) سے چار ماہ قبل ہوئی – اس طرح ابن حزم کی تحقیق کے مطابق ابراہیم کی  وفات ذیقعدہ میں ہوئی  اور جدید  حساب فلکیات قمر کے مطابق یہ  ٢٨ شوال کو وفات  ہوئی  اور دونوں تواریخ  بہت قریب ہیں

اس سے معلوم ہوا کہ  کسوف میں جو مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی وہ صرف وفات النبی سے چار ماہ قبل کی تھی اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات  کا انبار ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ان روایات کو گھڑا گیا – مثلا  سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جن کی شہادت جنگ خندق کے فورا بعد ہوئی ان تک پر عذاب قبر کی خبر راویوں نے دے دی ہے

 

معراج صخرہ سے ہوئی ؟

راقم کو ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی

https://www.youtube.com/watch?v=tP2cCRUeGso

https://www.youtube.com/watch?v=E03Xq8gtSPY

اور متعدد تحاریر پڑھنے کو ملیں

https://www.masrawy.com/islameyat/sera-hayat_elrasoul/details/2018/4/13/1324188/صخرة-المعراج-حيث-صعد-النبي-إلى-السموات-السبع

 

اس میں بتایا جا رہا ہے کہ مسجد الصخرہ   کے نیچے موجود  روحوں کے غار مغارة الأرواح  سے معراج  کا آغاز  ہوا –   صخره  بيت المقدس   ابن عباس سے منسوب  روایت کے مطابق  جنت کی چٹان ہے  اور  یہاں سے ایک   پورٹل

Portal

کھل گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اس سے جنت میں داخل ہو گئے

ایک  جگہ تحریر دیکھی جس میں ام ہانی سے منسوب ایک روایت میں ہے

اس کے بعد خواجہ عالم  نے فرمايا نے جبرائيل عليہ السلام نے ميرا ہاتھ پکڑا اور  صخرة (پتھر) پر لے آئے، جب ميں صخرة  پر آيا، ميں نے صنحرہ سے آسمان تک ايسي خوبصورت سيڑھي ديکھي کہ اس سے پہلے ايسي حسين چيز نہيں ديکھي تھي، روايت ميں اس سيڑھي کي تعريف يوں بيان ہوئي ہے اس کے دونوں پہلو دو پنجروں کے مانند تھے ايک سرا زمين پر اور دوسرا آسمان پر تھا، ايک يا قوت سرخ کا بنا ہوا تھا اور دوسرا سبز زمرد ہے، اس کے پائيدان ايک سونے اور ايک چاندي کے جو موتيوں اور جواہرات سے آراستہ تھے بعض روايات ميں ہے کہ اس کرسي کے زمرد کے دو پر تھے اگر ايک پر کوان ميں سے کھولتا تمام دنيا کو گھير ليتا، اس سيڑھي پر پچاس منزليں تھيں، ايک منزل سے دوسري منزل تک ستر ہزار سال کا راستہ تھا، تمام نے ايک دوسرے کو خوشخبري دي، ميري طرف اشارہ کرتے تھے، يہ زينہ فرشتوں کي گزرگاہ بن گيا جو آسمان سے زمين پر اور زمين سے آسمان پر آتے جاتے تھے کہتے ہيں کہ ملک الموت قبض ارواح کے ليے اس سيڑھي سے نيچے اترتے ہيں اور کہتے ہيں کہ موت کے وقت جب آنکھيں خيرہ ہو جاتي ہيں تو وہ سيڑھي دکھائي ديتي ہے القصہ آنحضرت  صحيح ترين روايات کے مطابق براق پر سوار ہوئے اور اس سيڑھي کے ذريعہ آسمان پر پہنچے، ايک روايت يہ ہے کہ جبرائيل عليہ السلام نے مجھے فرمايا: آنکھيں بند کيجئے، جب کھوليں تو ميں آسمان پر تھا

اس  إقتباس میں دعوی  کیا گیا ہے صخرہ  سے ایک رستہ بنا جو جنت پر لے جا رہا تھا یا اس میں ایک سیڑھی نمودار ہوئی اور اس پر قدم  رکھتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں پہنچ گئے

توریت کتاب پیدائش باب ٢٨ میں ہے

یعقوب علیہ السلام نے  خواب میں بیت ایل  میں ایک سیڑھی دیکھی  جس سے فرشتے آسمان سے اترتے چڑھتے ہیں – اسلامی روایات میں اس سیڑھی  کو معراج کی رات صخرہ  میں دکھایا گیا ہے

راقم کہتا ہے یہ خبر اسرائیلاتات  میں سے ہے اور قابل غور ہے کہ آج تک اس کا  روایت کا اثر مسلمانوں پر باقی ہے

میت پر اس کے اہل کا رونا

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1287-1288 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 929 ). میں حدیث ہے کہ

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ تُوُفِّيَتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمَكَّةَ، وَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا – أَوْ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا، ثُمَّ جَاءَ الآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي – فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ أَلاَ تَنْهَى عَنِ البُكَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «إِنَّ المَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»،فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَدْ كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ، ثُمَّ حَدَّثَ، قَالَ صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ سَمُرَةٍ، فَقَالَ اذْهَبْ، فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلاَءِ الرَّكْبُ، قَالَ فَنَظَرْتُ فَإِذَا صُهَيْبٌ، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ادْعُهُ لِي، فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ فَقُلْتُ ارْتَحِلْ فَالحَقْ أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ دَخَلَ صُهَيْبٌ يَبْكِي يَقُولُ وَا أَخَاهُ وَا صَاحِبَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا صُهَيْبُ، أَتَبْكِي عَلَيَّ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»،

ابن مليكہ بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى مكہ ميں فوت ہو گئى اور ہم اس كى نماز جنازہ ميں شركت كے ليے گئے، اور وہاں ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ عنہم بھى موجود تھے اور ميں ان دونوں كے درميان بيٹھا ہوا تھا كہ گھر سے آواز آنے لگى تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے عمرو بن عثمان كو كہا كيا تم رونے سے منع نہيں كرتے ؟ كيونكہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے   ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر عذاب ديا جاتا ہے تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا عمر رضى اللہ تعالى عنہ بھى بعض ایسا  کہا  كرتے تھے، پھر انہوں نے بيان كيا كہ ….. جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو خنجر سے زخمى كيا گيا تو صہيب روتے ہوئے ان كے پاس آئے اور وہ يہ كلمات كہہ رہے تھے ہائے ميرے بھائى، ہائے ميرے دوست تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ اسے كہنے لگے اے صہيب كيا تم مجھ پر روہ رہے اور حالانكہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ديا جاتا ہے

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ اللَّهَ لَيُعَذِّبُ المُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَقَالَتْ حَسْبُكُمُ القُرْآنُ {وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام 164] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا «عِنْدَ ذَلِكَ وَاللَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى» قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ «وَاللَّهِ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا»

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ وفات پا گئے تو ميں نے اس كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ذكر كيا تو وہ فرمانے لگيں اللہ تعالى عمر رضى اللہ عنہ پر رحم فرمائے، اللہ كى قسم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بيان نہيں فرمايا كہ تھا کہ  مومن كو اس كے گھر والوں كے رونے كى وجہ سے عذاب ديا جاتا ہے بلکہ  رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يقينا اللہ تعالى كافر كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر زيادہ عذاب ديتا ہے اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا تمہارے  ليے قرآن كافى ہےاور كوئى بھى كسى دوسرے شخص كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگا . ابن ابى مليكہ كہتے ہيں اللہ كى قسم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے  بھی كچھ  (اعتراض میں ) نہ كہا

التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد میں أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى 463هـ) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول پر لکھا ہے

فَأَمَّا إِنْكَارُ عَائِشَةَ عَلَى ابْنِ عُمَرَ فَقَدْ رُوِيَ مِنْ وُجُوهٍ مِنْهَا مَا رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ وَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ وَهَلَ ابْنُ عُمَرَ إنما مَرَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيٍّ فَقَالَ إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ يُعَذَّبُ وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ وَرَوَى أَيُّوبُ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنِ الْقَاسِمِ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِ عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ عُمَرَ وَابْنِهِ وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ قَالَ أَبُو عُمَرَ لَيْسَ إِنْكَارُ عَائِشَةَ بِشَيْءٍ وَقَدْ وَقَفَ ابْنُ عُمَرَ عَلَى مِثْلِ مَا نَزَعَتْ بِهِ عَائِشَةُ فَلَمْ يَرْجِعْ وَثَبَتَ عَلَى مَا سَمِعَ وَهُوَ الْوَاجِبُ كَانَ عليه

جہاں تک انکار عائشہ کا تعلق ہے جو انہوں نے ابن عمر کے قول کا کیا ہے تو اس کی وجوہات کو ان سے روایت کیا گیا ہے جس میں ہے وہ جو ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے انہوں نے ابن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کو اس کے گھر والوں کے رونے پر عذاب دیا جاتا ہے اور اس قول کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا پس عائشہ نے کہا ابن عمر کو وہم ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک یہودی پر ہوا پس آپ نے فرمایا اس قبر کے صاحب کو عذاب دیا جا رہا ہے اس کے اہل رو رہے تھے اور ایوب نے ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنِ الْقَاسِمِ کی سند سے روایت کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ان سے روایت کیا ہے جو جھوٹے نہیں ہیں یعنی عمر اور ان کے بیٹے
لیکن سننے میں غلطی ہو جاتی ہے – ابن عبد البر نے کہا انکار عائشہ میں کوئی چیز نہیں ہے (یعنی کوئی دلیل نہیں ) اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے توقف کیا ان مسائل میں جن میں عائشہ ان سے نزاع کرتی ہیں اور انہوں نے کوئی رجوع نہ کیا اور یہ ثابت ہے جو ابن عمر نے سنا اور یہ واجب ہے جس پر وہ پہلے تھے

ابن حجر فتح الباری ج 3 ص ١٥٤ پر قرطبی کے قول کا ذکر کرتے ہیں جس کو پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کس قدر بے باک تھے یہ نام نہاد علماء جن کے نزدیک فہم ام المومنین رضی اللہ عنہا کا کوئی درجہ نہ تھا

وَقَالَ الْقُرْطُبِيُّ إِنْكَارُ عَائِشَةَ ذَلِكَ وَحُكْمُهَا عَلَى الرَّاوِي بِالتَّخْطِئَةِ أَوِ النِّسْيَانِ أَوْ عَلَى أَنَّهُ سَمِعَ بَعْضًا وَلَمْ يَسْمَعْ بَعْضًا بَعِيدٌ لِأَنَّ الرُّوَاةَ لِهَذَا الْمَعْنَى مِنَ الصَّحَابَةِ كَثِيرُونَ وَهُمْ جَازِمُونَ فَلَا وَجْهَ لِلنَّفْيِ مَعَ إِمْكَانِ حَمْلِهِ عَلَى مَحْمَلٍ صَحِيحٍ

القرطبى كہتے ہيں : عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا انكار كرنا اور راوى پر غلطى اور بھولنے كا حكم لگانا، يا يہ كہ اس نے كلام كا بعض حصہ سنا ہے اور باقى حصہ نہيں سنا، يہ بعيد ہے، كيونكہ صحابہ كرام ميں سے اس معنى كو روايت كرنے والے بہت ہيں، اور وہ بالجزم روايت كرتے ہيں، تو اس كى نفى كوئى وجہ اور گنجائش نہيں، اور پھر اس كو صحيح چيز پر محمول كرنا بھى ممكن ہے انتہى

المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود از محمود محمد خطاب السبكي میں ہے میت کو رونے پر عذاب ہوتا ہے پر ابن قیم کا کہنا ہے

قال ابن القيم إنكار عائشة رضي الله تعالى عنها لذلك بعد رواية الثقات لا يعوّل عليه, فإنهم قد يحضرون ما لا تحضره ويشهدون ما تغيب عنه واحتمال السهو والغلط بعيد جدًا اهـ
ابن قیم نے کہا ثقات کی روایات کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس پر انکار معتبر نہیں ہے کیونکہ ثقات وہاں موجود تھے جہاں عائشہ موجود نہیں تھیں اور انہوں نے دیکھا جو عائشہ رضی اللہ عنہا پر چھپا رہا اور غلطی اور سہو کا احتمال بہت بعید ہے

راقم کہتا ہے اصحاب رسول میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہی نہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو جاننے کے بعد بھی اپنی رائے رکھی ہو لہذا قرطبی ،ابن عبد البر اور ابن قیم کا قول باطل ہے اور بلا دلیل ہے

قرآن میں موجود ہے کہ محشر میں کوئی بھی کسی اور کا بو جھ اٹھانے پر تیار نہ ہو گا لیکن قرآن میں یہ بھی موجود ہے کہ کفار پر ان کے متتبعین کے گناہوں کا بوجھ ڈال دیا جائے گا – سوره عنكبوت میں ہے

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ( 12 ) عنكبوت –
اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہ اُٹھالیں گے۔ حالانکہ وہ اُن کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اُٹھانے والے نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ( 13 ) عنكبوت
اور یہ اپنے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور (لوگوں کے) بوجھ بھی۔ اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن اُن کی اُن سے ضرور پرسش ہوگی

عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول اس آیت کے تحت بھی صحیح ہے کیونکہ انہوں نے اصحاب رسول کے لئے اصلا بولا ہے کہ اصحاب رسول کو ان کے اہل کے عمل کا عذاب نہیں جائے گا اور ساتھ ہی یہودی پر اہل کے عمل کا بوجھ کا اثبات کیا ہے – یعنی یہ میت کی تربیت کا معاملہ ہے کہ اس نے اپنے اہل کو کیا حکم دیا تھا اگر یہ حکم دیا کہ اس پر رویا جائے تو اس میت کو عذاب ہو گا اور اگر یہ حکم دیا کہ مجھ پر مت رونا تو عذاب نہ ہو گا

شارحین نے اس حوالے سے بعض ضعیف اثار بھی پیش کیے ہیں مثلا ابن ماجہ کی حدیث ١٥٩٤ ہے
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِي، حَدّثَنَا أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، عَنْ مُوسَى الْأَشْعَرِي
عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ، إِذَا قَالُوا وَاعَضُدَاهُ، وَاكَاسِيَاهُ، وانَاصِرَاهُ، واجَبَلَاهُ، وَنَحْوَ هَذَا، يُتَعْتَعُ وَيُقَالُ أَنْتَ كَذَلِكَ؟ أَنْتَ كَذَلِكَ؟ .قَالَ أَسِيدٌ فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ {وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الإسراء 15] قَالَ وَيْحَكَ، أُحَدِّثُكَ أَنَّ أَبَا مُوسَى حَدَّثَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فترَى أَنَّ أَبَا مُوسَى كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؟ أَوْ تَرَى أَنِّي كَذَبْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى؟

اسيد بن ابو اسيد،   موسى بن ابو موسى اشعرى سے بيان كرتے ہيں اور موسى اپنے باپ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا زندہ كے رونے سے ميت كو عذاب ديا جاتا ہے، جب زندہ كہتے ہيں ہائے ميرے بازو، ہائے ميرے پہنانے والے، ہائے ميرى مدد كرنے والے، ہائے ميرے پہاڑ، اور اس طرح كے جملے تو اسے شدت سے كھينچ كر كہا جاتا ہے تو اس طرح تھا ؟ تو ايسا تھا ؟ اسيد كہتے ہيں ميں نے كہا سبحان اللہ اللہ تعالى تو يہ فرماتا ہے اور كوئى بھى كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائےگا .تو وہ كہنے لگے تيرے ليے افسوس ميں تجھے بتا رہا ہوں كہ مجھے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث بيان كى ہے،
تو كيا تيرے خيال ميں ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ باندھا ہے يا تو يہ سمجھتا ہے كہ ميں نے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ پر جھوٹ بولا ہے ؟

سند میں موسى بن أبى موسى الأشعرى ، الكوفى مجہول الحال ہے جس کو صرف ابن حبان نے حسب روایت ثقات میں شمار کیا ہے سند لائق اعتبار نہیں ہے

اسی سند سے سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، أَنَّ مُوسَى بْنَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيَّ، أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ بَاكِيهِ، فَيَقُولُ وَاجَبَلَاهْ وَاسَيِّدَاهْ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، إِلَّا وُكِّلَ بِهِ مَلَكَانِ يَلْهَزَانِهِ أَهَكَذَا كُنْتَ؟ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، فَجَعَلَتْ أُخْتُهُ عَمْرَةُ تَبْكِي وَاجَبَلاَهْ، وَاكَذَا وَاكَذَا، تُعَدِّدُ عَلَيْهِ، فَقَالَ حِينَ أَفَاقَ مَا قُلْتِ شَيْئًا إِلَّا قِيلَ لِي آنْتَ كَذَلِكَ
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ،» قَالَ أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ بِهَذَا فَلَمَّا مَاتَ لَمْ تَبْكِ عَلَيْهِ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا عبد اللہ بن رواحہ رضى اللہ تعالى عنہ پر بے ہوشى طارى ہوئى تو ان كى بہن نے رونا شروع كر ديا اور كہنے لگى ہائے ميرے پہاڑ اور اسى طرح اس نے كئى اور بھى صفات شمار كي اور جب انہيں ہوش آيا تو وہ كہنے لگے تو نے جو كچھ بھى كہا تو مجھے يہ كہا گيا كيا تو اس طرح كا تھا – اور جب وہ فوت ہوئے تو پھر ان كى بہن ان پر نہيں روئى

اس روایت کے متن میں ابہام ہے کہ ان الفاظ پر طنز کیا گیا یا اثبات میں کہا گیا کہ ہاں عبد اللہ بن رواحہ ایک اعلام (پہاڑ) کی طرح تھے -سندا اس میں محمد بن فضيل بن غزوان ہے جس پر ابن سعد کا کہنا ہے کہ بعضهم لا يحتج به بعض محدثین اس سے دلیل نہیں لیتے

قيلة بنت مخرمة کی سند سے ایک روایت المعجم الكبير از طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ الْكَشِّيُّ، ثنا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ الْحَوْضِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَالْفَضْلُ بْنُ الْحُبَابِ أَبُو خَلِيفَةَ، قَالَا ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَوَّارِ بْنِ قُدَامَةَ بْنِ عَنَزَةَ الْعَنْبَرِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمُخَرِّمِيُّ، ثنا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْغَلَابِيُّ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ رَجَاءٍ الْغُدَّانِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ أَبِي الدُّمَيْكِ الْمُسْتَمْلِي، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ التَّيْمِيُّ، قَالُوا ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ حَسَّانٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو الْجُنَيْدِ، أَخُو بَنِي كَعْبٍ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَتْنِي جَدَّتَايْ صَفِيَّةُ وَدُحَيْبَةُ ابْنَتَا عُلَيْبَةَ وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْ قَيْلَةَ، أَنَّ قَيْلَةَ بِنْتَ مَخْرَمَةَ، حَدَّثَتْهُمَا …. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ…. أَتُغْلَبُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ
تُصَاحَبَ فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا، فَإِذَا حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَنْ هُوَ أَوْلَى بِهِ اسْتَرْجَعَ، ثُمَّ قَالَ «رَبِّ آسِنِي مَا أَمْضَيْتُ، فَأَعِنِّي عَلَى مَا أَبْقَيْتُ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِحْدَاكُنَّ لَتَبْكِي، فَتَسْتَعِينُ لَهَا صُوَيْحِبَةً، فَيَا عِبَادَ اللهِ لَا تُعَذِّبُوا مَوْتَاكُمْ، ثُمَّ كَتَبَ لَهَا فِي قَطِيعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ لِقَيْلَةَ وَالنِّسْوَةِ مِنْ بَنَاتِ قَيْلَةَ

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا كيا تم پر غلبہ پا ليا جاتا ہے كہ تم ميں كوئى ايك اپنے ساتھى كے ساتھ دنيا ميں اچھا اور بہتر سلوك كرے، اور جب وہ مر جائے تو انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى جان ہے تم ميں سے كوئى ايك روتا ہے تو اپنے ساتھى پر آنسو بہاتا ہے، تو اے اللہ كے بندو اپنے فوت شدگان كو عذاب سے دوچار مت كرو

اس سند میں عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَّانٍ، أَبُو الْجُنَيْدِ الْعَنْبَرِيُّ البصري کا تفرد ہے جو مجہول الحال ہے اس کی دادی دحيبة بنت عليبة العنبرية یا صفية بنت عليبة بھی مجہول الحال ہیں

بعض سلفی علماء نے ان احادیث کی وجہ سے عرض عمل کا  عقیدہ اختیار کیا ہے کہ میت کو اپنے ورثاء کی حرکتوں کا علم ہوتا ہے – میت کو علم ہوتا ہے کون اس پر رو رہا ہے جس سے میت کو دکھ ہوتا ہے

مجموع فتاوى ابن عثيمين (17/408) کے مطابق وہابی عالم ابن عثيمين سے درج ذيل سوال كيا گيا
ما معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه ) ؟
فأجاب :” معناه أن الميت إذا بكى أهله عليه فإنه يعلم بذلك ويتألم ، وليس المعنى أن الله يعاقبه بذلك لأن الله تعالى يقول : ( وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ) والعذاب لا يلزم أن يكون عقوبة ألم تر إلى قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن السفر قطعة من العذاب ) والسفر ليس بعقوبة ، لكن يتأذى به الإنسان ويتعب ، وهكذا الميت إذا بكى أهله عليه فإنه يتألم ويتعب من ذلك ، وإن كان هذا ليس بعقوبة من الله عز وجل له ، وهذا التفسير للحديث تفسير واضح صريح ، ولا يرد عليه إشكال ، ولا يحتاج أن يقال : هذا فيمن أوصى بالنياحة ، أو فيمن كان عادة أهله النياحة ولم ينههم عند موته ، بل نقول : إن الإنسان يعذب بالشيء ولا
يتضرر به ” انتهى

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى كيا ہے ؟

يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ہوتا ہے

ابن عثيمين کا جواب تھا کہ اس کا مطلب ہے

جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں تو اسے اس كا علم ہوتا اور اس سے اسے تكليف ہوتى ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى ميت كو اس كى سزا ديتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے: كوئى بھى جان كسى دوسرى جان كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .عذاب سے يہ لازم نہيں آتا كہ اسے سزا ہوتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے “حالانكہ سفر كوئى سزا نہيں، ليكن اس سے انسان كو تكليف ہوتى ہے اور تھك جاتا ہے، تو اسى طرح جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں اسے اس سے تكليف ہوتى ہے اور وہ تھک جاتا ہے، اگرچہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے اسے سزا نہيں ہے.حديث كى يہ شرح واضح اور صريح ہے، اور اس پر كوئى اشكال وارد نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس شرح ميں يہ ضرورت ہے كہ كہا جائے كہ يہ اس شخص كے متعلق ہے جو نوحہ كرنے كى وصيت كرے، يا پھر اس شخص كے متعلق ہے جن كى عادت نوحہ كرنا ہو، اور وہ مرتے وقت انہيں نوحہ كرنے سے منع نہ كرے، بلكہ ہم تو يہ كہتے ہيں: انسان كو كسى چيز كے ساتھ عذاب ہوتا ہے ليكن اسے اس سے كوئى ضرر بھى نہيں پہنچتا ” انتہى.
——–

راقم کہتا ہے کہ میت تو لاشعور ہوتی ہے جس کو اپنے ارد گرد ہونے والے عمل کا پتا تک نہیں ہوتا

راقم کہتا ہے  کہ ایک یہودی جو زندگی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا تھا وہ مر گیا لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف تھا اس پر جہنم ثبت ہو گئی  – اب گھر والے اس پر  رو رہے تھے اور نبی علیہ السلام  کا اس کے گھر کے پاس سے گذر ہوا تو فرمایا یہ اس کی موت پر رو رہے ہیں اور اس کو عذاب ہو رہا ہے – اس میں مقصد یہ بتایا نہیں ہے کہ رونے پر میت کو عذاب ہوتا ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اہل کتاب  کا  مرنے والا جہنمی ہے چاہے گھر والوں کے ساتھ حسن عمل رکھتا ہو

مشرک کی شفاعت

نبوت سے قبل نبی صلی الله علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اسی مشرکین کے مذھب پر تھے جو چلا آ رہا تھا – اس کی دلیل البیہقی شعب الایمان کی روایت ہے کہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم پیدا ہوئے تو دادا عبد المطلب نے ان کو ھبل بت پر کعبہ میں پیش کیا

فَأَخَذَهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ فَأَدْخَلَهُ على هُبَلَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، وَذَكَرَ ابْنُ إِسْحَاقَ دُعَاءَهُ وَأَبْيَاتَهُ الَّتِي قَالَهَا فِي شُكْرِ اللهِ تَعَالَى عَلَى مَا وَهَبَهُ

پس عبد المطلب  نے  رسول اللہ کو گود میں لیا اور کعبہ کے بیچ  میں  ھبل  بت پر لے گئے

اس روایت کی سند سیرت کی احادیث کے معیار کے مطابق صحیح ہے-مشرکین اللہ کی عبادت کرتے تھے اور ساتھ ہی اپنے قبائلی اله کی بھی

 نبی صلی الله علیہ وسلم کے سگے چچا  ابو لھب کا ذکر قرآن میں ہے   ابو لھب  کے انجام  کی خبر  قرآن  میں دے دی گئی – شیعہ  مفسر  قمی   تفسیر    سورہ  لھب میں لکھتے  ہیں

وكان اسم ابي لهب عبد مناف فكناه الله لان منافا صنم يعبدونه

اور  ابو لھب   کا نام  تھا  عبد مناف   لیکن  اللہ  تعالی  نے نام پر کنایہ کیا ہے (یا کنیت بیان کی ہے )  کیونکہ   مناف  بت  تھا  جس کو پوجا  جاتا تھا

صحیح  بخاری کی   روایت  ٣٨٨٤  ہے

حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: «أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ» فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ: عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ» فَنَزَلَتْ: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ} [التوبة: 113]. وَنَزَلَتْ: {إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} [القصص: 56]

ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب بن حزن صحابی رضی اللہ عنہ نے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں ابوجہل بھی بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا! کلمہ لا الہٰ الا اللہ ایک مرتبہ کہہ دو، اللہ کی بارگاہ میں (آپ کی بخشش کے لیے) ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آ جائے گی۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: اے ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے! یہ دونوں ان ہی پر زور دیتے رہے اور آخری کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا، وہ یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کے لیے اس وقت تک مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ (سورۃ براۃ میں) یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم‏» نبی کے لیے اور مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے دعا مغفرت کریں خواہ وہ ان کے ناطے والے ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ دوزخی ہیں۔ اور سورۃ قصص میں یہ آیت نازل ہوئی «إنك لا تهدي من أحببت‏» بیشک جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے۔

اس کے برعکس سیرت  ابن اسحاق  میں ہے

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: فَحَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدِ (بْنِ عَبَّاسٍ)  عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ….. قَالَ: فَلَمَّا تَقَارَبَ مِنْ أَبِي طَالِبٍ الْمَوْتُ قَالَ: نَظَرَ الْعَبَّاسُ إلَيْهِ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، قَالَ: فَأَصْغَى إلَيْهِ بِأُذُنِهِ، قَالَ: فَقَالَ يَا بن أَخِي، وَاَللَّهِ لَقَدْ قَالَ أَخِي الْكَلِمَةَ الَّتِي أَمَرْتَهُ أَنْ يَقُولَهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمْ أَسْمَعْ

ابن اسحاق  نے کہا  مجھ سے عباس بن عبد اللہ بن معبد  بن عباس نے اپنے   بعض   اہل   کی سند سے روایت کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے کہا    جب ابو  طالب موت کے قریب پہنچے    تو   عباس     نے   ابو  طالب  کے ہونٹوں    کو     ہلتے   دیکھا    ،  پس  انہوں  نے  اپنے کان ابو طالب  کے ہونٹوں  پر لگا دیے  اور کہا    اے  بھتیجے  (محمد )   اللہ کی قسم   میرے  بھائی  نے کوئی کلمہ   بولا ہے   جو  انہوں نے    حکم دیا ہے کہ تم کو   بتا  دوں –  اس   پر رسول  اللہ صلی   اللہ علیہ وسلم نے فرمایا    میں نے تو کچھ  نہیں سنا

اس  روایت  کا مدعا   یہ ہے کہ یہ ثابت  کیا جائے کہ  نبی صلی  اللہ علیہ  وسلم   اگرچہ  وفات  ابو طالب   کے وقت وہاں تھے   لیکن   سن نہ سکے  فاصلہ پر تھے –  روایت گھڑنے والے  نے یہ نہیں سوچا کہ   نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کو تو  اللہ تعالی  غیب کی   خبر دیتا ہے –    سند  میں    بعض   مجہول  الحال   ہیں   جن کی  خبر نہیں دی گئی کہ کون تھے

شیعہ   مفسر  ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ  (انك لا تهدي من أحببت)   آپ  جس کو  محبوب کریں اس کو ہدایت پر  نہیں کر سکتے  یہ آیت ابو طالب کے لئے ہے
واما قوله: (انك لا تهدي من أحببت) قال نزلت في ابي طالب عليه السلام فان رسول الله صلى الله عليه وآله كان يقول يا عم قل لا إله إلا الله بالجهر نفعك بها يوم القيامة فيقول: يا بن اخي أنا أعلم بنفسى، (وأقول بنفسى ط) فلما مات شهد العباس بن عبدالمطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله انه تكلم بها عند الموت بأعلى صوته، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: اما انا فلم اسمعها منه وأرجو ان تنفعه يوم القيامة، وقال صلى الله عليه وآله: لو قمت المقام المحمود لشفعت في ابي وامي وعمي وأخ كان لي مواخيا في الجاهلية

الله  تعالی کے قول آپ جس کو محبوب کریں اس کو ہدایت نہیں دے سکتے- کہا یہ ابو طالب کے لئے نازل ہو ہے کیونکہ رسول الله صلى الله عليه وآله  کہتے اے چچا  کہہ دیں با آواز بلند لا إله إلا الله  میں روز محشر آپ کو فائدہ دوں گا … ابو طالب کہتے مجھے اپنا پتا ہے – پس جب ان کی وفات ہوئی تو  عباس  نے دیکھا   ابو طالب   بات کر رہے تھے  اونچی آواز سے  لیکن  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا انہوں نے کیا کہا اور امید ہے کہ میں  ان کو  روز محشر فائدہ دوں

معلوم  ہوا  کہ   سن  ٣٠٠  ہجری  تک   اہل  سنت  کہہ رہے تھے کہ   ابو طالب    کفر  پر مرے ،   بعض   شیعہ  و  رافضی  کہہ رہے تھے کہ  نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم  سن ہی نہ سکے  جو  ابو طالب  سکرات الموت   میں     کہہ    رہے تھے –    اور  بعض  رافضی   قبول  کر رہے تھے کہ  ابو طالب  ایمان نہیں لائے

صحیح سند  سے آ  گیا ہے کہ  ابو  طالب  وفات کے وقت اسی مذھب  پر رہے ہو  مشرکین مکہ  کا  تھا  اب ان  کے    انجام  کے حوالے سے روایات  کو دیکھتے ہیں

صحیحین   کی  روایات

انجام  ابو طالب  کے حوالے سے  تین قسم کی روایات   صحیحین  میں ہیں

اول   ابو  طالب   کے عذاب  میں  نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم  کی  وجہ سے   تخفیف ہوئی   ورنہ   اسفل النار میں ہوتے – ابھی     ابو طالب     جہنم  کے مقام ضحضاح پر ہیں

دوم     ابو   طالب      کو     سخت   عذاب  میں دیکھ  کر نبی   صلی اللہ  علیہ  وسلم نے ان کو   وہاں سے نکالا   اور   اب    وہ آگ کے مقام ضحضاح پر ہیں

سوم      ابو  طالب   کے لئے   نبی صلی اللہ علیہ  وسلم       ممکن     ہے  روز  محشر  شفاعت  کریں

الضَّحْضَاح کا  لفظ  اس زمین پر عربی میں بولا جاتا ہے اس  پر پانی  بہے   تو وہ ایڑھی تک  پہنچے-  النہایہ  میں ہے

 ما رَقَّ من الماء على وجه الأرض ما يبلغُ الكَعْبَين ، فاستَعارَه للنار(النهاية)

وہ  پانی  جو زمین پر بہے   اور ایڑھی  سے اوپر نہ جائے  اس کو  الضَّحْضَاح     کہتے ہیں  پس یہ اگ  پر استعارہ ہے

راقم   کہتا ہے  عرب   میں سخت گرمی کی وجہ سے زمین پر بہنے والا پانی جو مقدار میں کم ہو  گرم  ہو جاتا ہے اور پیر جلتا ہے لہذا  اس کو اگ پر استعارہ  کے طور  پر بولا جاتا ہے

شیعہ  تفسیر قمی  میں ہے

ان اهون الناس عذابا يوم القيامة لرجل في ضحضاح من نار عليه نعلان من نار وشرا كان من نار يغلي منها دماغه

سب  سے کم عذاب  یوم قیامت  اس مرد کو ہو گا  جو آگ  میں ضحضاح   میں  ہو گا    اس  کے پیر   میں   آگ   کی چپل  ہو  گی  جس سے اس کا دماغ  کھول  رہا ہو گا

اب   ان    روایات  پر   غور  کرتے ہیں

صحیح مسلم کی  ایک   روایت  میں ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ، وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ

عبید اللہ بن عمر قواریری   اور محمدبن ابی بکر مقدمی   اور  محمد بن عبد المک اموی     کہتے   ہیں کہ   ابوعوانہ   نے بیان کیا  عبدالملک ابن عمیر کی سند  سے  اس نے  عبداللہ بن حارث بن نوفل  سے روایت    کیا   کہ     عباس بن عبد المطلب  سے روایت  کیا  کہ عباس  نے رسول اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ   ابوطالب  کو کسی چیز نے نفع دیا  ہے جو وہ آپ کا اِحاطہ کیے رکھتے تھے اور آپ کے لیے غضبناک ہو جاتے تھے رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ آگ کے مقام ضحضاح پر ہیں اور اگر  میں نہ ہوتا   تو   وہ    آگ کے نچلے طبقہ میں ہوتے

مسلم شریف جلد اول ص ۱۱۵، طبقات ج اول ص ۱۲۴

یعنی  ابو  طالب  کے عذاب  میں کمی   بیشی   کرنا  اللہ تعالی  کا حکم  تھا -یہ   روایت   بتاتی  ہے  کہ   ابھی بھی ابو طالب عذاب میں   ہیں

صحیح بخاری حدیث ٣٨٨٣  میں ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ،‏‏‏‏ وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ”

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں  نہ  ہوتا     تو وہ دوزخ کی تہہ  میں بالکل نیچے ہوتے

اس   حدیث  میں شفاعت  کا ذکر نہیں ہے   بلکہ  صرف  قول ہے اگر میں نہ ہوتا ،یعنی   اللہ  تعالی   نے اپنی جانب سے اس کے عذاب  میں  کمی کی   میرے    دل کی تسکین  کے لئے

ان   روایات  پر بعض  کی جانب سے  اعتراض  میں کہا  جاتا ہے کہ  سندا   ان  میں  عبد الملک  بن عمیر    ہے جو  مختلط  تھا      –  راقم  کہتا ہے     اس روایت    میں اس کا تفرد  نہیں ہے ،  صحیحین   کے علاوہ  دیگر  کتب  مثلا   فوائد  تمام،    المقصد العلي، المعجم الأوسط      میں  یہ  روایت اس سند سے بھی ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَلِيُّ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاكِرٍ، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ   حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُجَالِدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ هَلْ نَفَعَتْهُ نُبُوَّتُكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، أَخْرَجَتْهُ مِنْ غَمْرَةِ جَهَنَّمَ إِلَى ضَحْضَاحٍ مِنْهَا

اس میں   سند  میں  راوی  شیعہ  بھی   ہیں –   طبرانی  کبیر میں ہے    جہاں  سند  میں   عبد الملک  بن عمیر   نہیں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ سَلْمَانَ الْقلوسيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، ثنا عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي كُنْتُ عَلَى صِلَةِ الرَّحِمِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْجَارِ وإِيواءِ الْيَتِيمِ وَإِطْعَامِ الضَّيْفِ وَإِطْعَامِ الْمَسَاكِينِ وَكُلُّ هَذَا قَدْ كَانَ يَفْعَلُهُ هِشَامُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، فَمَا ظَنُّكَ بِهِ أَيْ رَسُولُ اللهِ؟، فَقَالَ: «كُلُّ قَبْرٍ لَا يَشْهَدُ صَاحِبُهُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَهُوَ جَذْوَةٌ مِنَ النَّارِ، وَقَدْ وَجَدْتُ عَمِّي أَبَا طَالِبٍ فِي طَمْطَامٍ مِنَ النَّارِ فَأَخْرَجَهُ اللهُ بِمَكَانِهِ مِنِّي وَإِحْسَانِهِ إِلَيَّ فَجَعَلَهُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ

أُمِّ سَلَمَةَ  رضی  اللہ عنہا      فرماتی   ہیں کہ    حَارِثَ بْنَ هِشَامٍ   حجه  الوداع  کے سال   نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کی    خدمت  میں حاضر  ہوئے   اور   عرض    کیا    یا  رسول  اللہ   میں  صلہ  رحمی کرتا ہوں ،  پڑوسی  پر  احسان   کرتا ہوں ،   یتیم    کی  دیکھ بھال   کرتا ہوں ،   مہمان  و مسکین  کو کھانا  کھلاتا ہوں   اور   اس طرح  سب  جو  میں   کرتا ہوں  ایسا ہی   ہشام   بن مغیرہ   (مشرک )کرتا تھا     تو آپ  صلی  اللہ علیہ  وسلم  کا    اس پر کیا  گمان ہے ؟  رسول  اللہ نے جوابا    فرمایا :   ہر  قبر       جس  میں اس کا صاحب  بغیر     لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ  کی گواہی  پر ہو  اس پر آگ   کا انگارہ  ہے   اور بے شک  میں نے  ابو طالب کو  اگ کی  لپیٹ  میں پایا ،   پھر   اللہ  نے اس  کے  میرے ساتھ   مکان  و  احسان   کی  بنا  پر    ان کو آگ   میں سے نکال   کر    ضَحْضَاحٍ  النار میں کر دیا

اسی  قسم  کا متن   عائشہ  رضی  اللہ عنہا سے مروی ہے

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ ابْنَ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ فَهَلْ ذَالِكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ: ” لَا يَنْفَعُهُ لِأَنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ

عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے پوچھا   یا  رسول  اللہ   صلی  اللہ  علیہ  وسلم      :  ایام   جاہلیت  میں  (مشرک )ابن جدعان     رشتہ  داروں  پر رحم  کرتا  تھا  مسکینوں کو  کھانا  کھلاتا  تھا   کیا  اس کو  اس چیز  نے نفع  دیا ؟  فرمایا   نہیں    کیونکہ  اس  نے ایک دن بھی نہیں کہا   اے رب   روز  محشر   میرے گناہ معاف  کر  دے

بیہقی  نے  کتاب   بعث  و نشور    میں  لکھا ہے

إلا أن اللهَ يَضَعُ عَنه أَلْوانًا مِن العَذَاب عَلى جِنَايَاتٍ جَنَاها سِوى الكُفْر؛ تَطْيِيبًا لِقَلب النَّبي – صلى الله عليه وسلم -، وثَوابًا له في نَفسه، لا لِأَبي طَالِب؛ لأن حَسَناتِ أَبي طَالِب صَارَت بِمَوتِه عَلى كُفره هَباءً مَنثُورًا، وقد وَرَد الخَبر بِأن ثَوابَ الكَافِر عَلَى إِحسَانِه يَكُونُ في الدُّنيا

لب لباب ہے کہ  ابو طالب    کی نیکییاں    اس کی  کفر پر موت   کی وجہ سے  فنا  ہو  گئیں  اور اس کے عذاب  میں تخفیف     اس کے عمل کی وجہ سے نہیں کی گئی  بلکہ  محض  نبی صلی اللہ علیہ  وسلم کو قلبی  اطمینان    دینے کے  لئے  من جانب  اللہ     کی گئی ہے

اب  کچھ   شاذ  روایات   کا  ذکر کرتے  ہیں –  صحیح  مسلم  کی دوسری روایت  میں ہے

 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ، يَقُولُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَبَا طَالِبٍ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَنْصُرُكَ فَهَلْ نَفَعَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَجَدْتُهُ فِي غَمَرَاتٍ مِنَ النَّارِ، فَأَخْرَجْتُهُ إِلَى ضَحْضَاحٍ

ابن عمر سفیان عبدالمک بن عمیر عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے   عباس رضی اللہ عنہ سے سنا رسول اللہ سی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ علیہ وسلم ابوطالب آپ کا احاطہ کیے رہتے تھے اور آپ کی امداد کرتے تھے کیا انہیں کوئی اس کا نفع پہنچا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں   ،  میں   نے   اس کو   آگ   کی  غمراتِ نار میں پایا پس    اس  کو   نکال   کر  ( جہنم  میں)    مقام ضحضاح پر    کر دیا 

صحیح  مسلم ،    جلد اوّل ص۱۱۵

یہ  روایت    شاذ  ہے کیونکہ  اس میں   عذاب   میں  کمی  کو    غیر واضح انداز  میں  رسول  اللہ  صلی  اللہ علیہ وسلم   کی شفاعت  یا  دعا   سے جوڑا  گیا ہے

صحیح  بخاری  کی  حدیث     ٣٨٨٥  میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ الْهَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ”.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ “تَغْلِي مِنْهُ أُمُّ دِمَاغِهِ”.

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن عبداللہ ابن الہاد نے، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا کا ذکر ہو رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کام آ جائے اور انہیں صرف ٹخنوں تک جہنم میں رکھا جائے جس سے ان کا دماغ کھولے گا۔ ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابوحازم اور درا وردی نے بیان کیا یزید سے اسی مذکورہ حدیث کی طرح، البتہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ابوطالب کے دماغ کا بھیجہ اس سے کھولے گا۔

اس   کا متن   بھی  شاذ   ہے  کیونکہ  اس میں    ذکر  ہے  کہ   نبی  صلی  اللہ علیہ  وسلم  نے فرمایا    ” شاید     قیامت  میں “-     گویا کہ یہ تمام  قول   کوئی گمان  ہے  حقیقت  حال  نہیں ہے     جبکہ دیگر    روایات   میں ہے  کہ    ابو طالب ابھی  بھی حالت  عذاب  میں ہیں    مقام      ضَحْضَاحٍ  پہنچ  چکے  ہیں

صحیح      مسلم کی  ایک شاذ  روایت  میں  اس کو  روز محشر    شفاعت سے جوڑا  گیا ہے

 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ: «لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ، يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ

قتیبہ بن سعید ،  لیث ،      يزيد بن عبد الله بن أسامة بن الهاد الليثى ،عبداللہ بن خباب ،  ابوسعید خذری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں   کہ  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ابوطالب   کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہماری شفاعت سے اسے نفع پہنچے گا تو مقام ضحضاح پر ہوں گے آگ میں ان کے پاوں ہوں گے جس سے ان کا دماغ کھولے گا

  ان   روایات   پر    اعتراض    وارد  ہوتا    کہ  مشرک کی  شفاعت    کرنا  انبیاء  پر  ممنوع   ہے جیسا  قصہ نوح سے معلوم ہے   اور   کافر کے عذاب  میں کوئی  کمی  نہ   ہو  گی  –    لہذا   یہ  خلاف  قرآن  ہیں –  راقم   کہتا ہے   یہ   اعتراض ان  شاذ  روایات   پر   درست  ہے –  لیکن     ایمان  ابو طالب  کے حوالے سے یہ  اعتراض  صحیحین  ہی  کی  تمام  روایات  پر لاگو  نہیں ہوتا –   روایت  اس متن  کے ساتھ شاذ  ہے جس میں خبر دی گئی ہے کہ  روز محشر   ابو طالب کی  شفاعت   نبی  صلی  اللہ علیہ  وسلم کریں  گے   یا  زندگی  میں   کسی دعا کی وجہ  سے ابو طالب  کا عذاب  کم ہوا –

   راقم  کہتا ہے ٣٠٠  ہجری تک اہل تشیع بھی یہی کہتے تھے کہ ابو طالب کافر تھے –   ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ  (انك لا تهدي من أحببت)   آپ  جس کو  محبوب کریں اس کو ہدایت پر  نہیں کر سکتے  یہ آیت ابو طالب کے لئے ہے
واما قوله: (انك لا تهدي من أحببت) قال نزلت في ابي طالب عليه السلام فان رسول الله صلى الله عليه وآله كان يقول يا عم قل لا إله إلا الله بالجهر نفعك بها يوم القيامة فيقول: يا بن اخي أنا أعلم بنفسى، (وأقول بنفسى ط) فلما مات شهد العباس بن عبدالمطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله انه تكلم بها عند الموت بأعلى صوته، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: اما انا فلم اسمعها منه وأرجو ان تنفعه يوم القيامة، وقال صلى الله عليه وآله: لو قمت المقام المحمود لشفعت في ابي وامي وعمي وأخ كان لي مواخيا في الجاهلية

الله  تعالی کے قول آپ جس کو محبوب کریں اس کو ہدایت نہیں دے سکتے- کہا یہ ابو طالب کے لئے نازل ہو ہے کیونکہ رسول الله صلى الله عليه وآله  کہتے اے چچا  کہہ دیں با آواز بلند لا إله إلا الله  میں روز محشر آپ کو فائدہ دوں گا … ابو طالب کہتے مجھے اپنا پتا ہے – پس جب ان کی وفات ہوئی تو  عباس  نے دیکھا   ابو طالب   بات کر رہے تھے  اونچی آواز سے  لیکن  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا انہوں نے کیا کہا اور امید ہے کہ میں  ان کو  روز محشر فائدہ دوں

یعنی    نبی  صلی اللہ علیہ  وسلم کو  اس    میں ابہام رہ گیا    تھا  کہ ابو طالب کافر تھے یا مسلم –  یہاں بھی  جاہلوں   نے روایت  گھڑتے  وقت نہ سوچا کہ  غیب کی خبر  اللہ اپنے نبی کو دیتا ہے –   قمی   کے  چند  سالوں بعد  مجمع البیان میں طبرسی المتوفی ٤٦٨ ھ کہتے ہیں

أن أهل البيت (عليهم السلام) قد أجمعوا على أن أبا طالب مات مسلما
اہل بیت کا اجماع ہے کہ ابو طالب مسلمان مرے

اور متاخرین   نے   بھی ائمہ سے    اقوال  منسوب کیے   ہیں  مثلا     اہل   تشیع   کی   روایت     امام باقر  سے منسوب  ہے –  بحار  انوار  از  ملا  مجلسی  کی  روایت ہے

وأخبرني الشيخ محمد بن إدريس، عن أبي الحسن العريضي، عن الحسين بن  طحان، عن أبي علي، عن محمد بن الحسن بن علي الطوسي، عن رجاله، عن ليث المرادي قال  قلت لابي عبد الله عليه السلام: سيدي إن الناس يقولون: إن أبا طالب في ضحضاح من نار  يغلي منه دماغه، قال عليه السلام: كذبوا والله إن إيمان أبي طالب لو وضع في كفة

ميزان وإيمان هذا الخلق في كفة ميزان لرجح إيمان أبي طالب على إيمانهم. ثم قال عليه السلام: كان والله أمير المؤمنين يأمر أن يحج عن أب النبي وأمة وعن أبي طالب في حياته، ولقد أوصى في وصيته بالحج عنهم بعد مماته

 ابو  بصیر لیث  مرادی  کہتے ہیں  میں نے امام  ابو جعفر سے پوچھا  سیدی لوگ کہتے ہیں کہ  ابو طالب  ضحضاح میں ہیں   جس  سے  ان کا دماغ  کھول رہا ہے  –  فرمایا   جھوٹے ہیں  اللہ کی قسم – اگر  ترازو  میں  ابو طالب  کا ایمان ایک پلڑے میں ہو اور ان لوگوں  (یعنی   اہل سنت کے محدثین ) کا ایمان  دوسرے پلڑے میں ہو  تو  ایمان ابو طالب  بڑھ کر ہے     پھر فرمایا  اللہ کی قسم  امیر المومنین  علی  نے  اپنی زندگی  میں حکم دیا تھا   زیارت  (قبر ) والدہ و والد النبی کی  اور زیارت  قبر ابو طالب کی ،  اور موت  کے بعد بھی اس زیارت  کی مجھے وصیت کی

 سند  میں  راوی   الحسين بن طحان     ہے   جس   پر شیعہ کتب  رجال  میں کوئی معلومات  نہیں ہیں   ساتھ ہی عن رجاله،      مجہول  لوگ  ہیں-  یہ  روایت  ثابت   ہی نہیں ہوتی   لیکن  حیرت  ہے کہ     ایمان ابو طالب  پر بحث و جدل  میں  اہل  تشیع  نے    ہر مقام  پر اس کو لکھا ہے

نوٹ

ایک بریلوی عالم نے ذکر کیا کہ روایت میں اتا ہے کہ
لِلَّهِ دَرُّ أَبِي طَالِبٍ لَوْ كَانَ حَيًّا قَرَّتَا عَيْنَاهُ
اللہ ابو طالب کا بھلا کرے اگر زندہ ہوتے تو ان سے آنکھیں ٹھنڈی کرتا

راقم کہتا ہے السيرة الحلبية نام کی ایک کتاب ہے جو ضعیف و موضوع روایات پر مشتمل سیرت ہے – گیارہویں صدی کے شخص علي بن إبراهيم بن أحمد الحلبي، أبو الفرج، نور الدين ابن برهان الدين (المتوفى: 1044هـ) کی تصنیف ہے
قال صلى الله عليه وسلم: لله در أبي طالب لو كان حيا قرت عيناه، من الذي ينشدنا قوله؟ فقام علي كرم الله وجهه فقال: يا رسول الله كأنك أردت قوله فقال الأبيات

اصلا یہ دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے – اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ دُحَيْمٍ الشَّيْبَانِيُّ بِالْكُوفَةِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَنْبَسَةَ، حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ زِيَادٍ الْأَزْدِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيِّ، ح [ص:141] وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ الْأَصْبَهَانِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ أَبُو الشَّيْخِ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ رَشِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ عَمِّي، عَنْ مُسْلِمٍ الْمُلَائِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ

سند میں مسلم بن كيسان الضبى الملائى ہے جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے
قال أبو زرعة: كوفي ضعيف الحديث
وقال أبو حاتم: يتكلمون فيه وهو ضعيف الحديث
وقال ابن معين قال جرير: اختلط
وقال ابن حبان: اختلط في آخر عمره حتى كان لا يدري ما يحدث به فجعل يأتي بما لا أصل له عن الثقات فاختلط
قال الفلاس: متروك الحديث.
وقال أحمد: لا يكتب حديثه.
وقال يحيى: ليس بثقة.

سند میں سعيد بن خثيم بن رشد الهلالى ، أبو معمر الكوفى بھی ہے
قَالَ الأَزْدِيُّ: مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: مِقْدَارُ مَا يَرْوِيهِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.

یہ منکر الحدیث ہے

سند میں أَحْمَدُ بْنُ رَشِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيُّ بھی ہے اس کو دارقطنی نے ضعیف قرار دیا ہے

موت و نیند پر التباس

قرآن سورة الزمر آیت 42 میں ارشاد ہے

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ قبضے میں لے لیتا ہے نفس کو موت پر اور جو نہیں مرا اس کا نیند میں
پس پکڑ کر رکھتا ہے نفس کو جس پر موت کا حکم کرتا ہے اور دوسرے نفس کو چھوڑ دیتا ہے
اس میں نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں

سورہ الانعام آیت ٦٠ تا ٦١ میں ہے

وَهُوَ الَّـذِىْ يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُـمْ بِالنَّـهَارِ ثُـمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُـقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُـمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُـمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ
اور وہ وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کر چکے ہو وہ جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ وہ وعدہ پورا ہو جو مقرر ہو چکا ہے، پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے پھر تمہیں خبر دے گا اس کی جو کچھ تم کرتے تھے۔
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ ۖ وَيُـرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ؕ حَتّــٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّـتْهُ رُسُلُـنَا وَهُـمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے، اور تم پر نگہبان (فرشتے ) بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے قبضہ میں لے لیتے اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے۔

اس میں نفس یا روح کا ذکر ہے کہ نیند میں بھی قبض ہو رہا ہے اور موت پر بھی قبض ہو رہا ہے – ایک ہی نفس ہے جس کو موت اور نیند پر قبض کیا جا رہا ہے – زمخشری تفسیر کشاف میں اس کا ذکر کرتے ہیں

والصحيح ما ذكرت أوّلا، لأنّ الله عز وعلا علق التوفي والموت والمنام جميعا بالأنفس
أور صحیح وہ ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا کہ اللہ تعالی نے قبض ، موت، نیند سب کا اطلاق ایک ہی نفس پر کیا ہے

لیکن اشکال یہ ہے کہ قبض نفس نیند میں ہو جانے پر آدمی مردہ نہیں کہا جاتا اس کو زندہ ہی سمجھا جاتا ہے – سورہ الزمر میں ایک نفس کا ذکر ہے دو کا نہیں ہے – البتہ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے دو نفس بیان کیے ہیں – ایک کو نفس زیریں کہا ہے اور ایک کو نفس بالا کہا ہے

مفسر أبو إسحاق أحمد بن إبراهيم الثعلبي (المتوفى: 427 هـ) لکھتے ہیں
قال مفسرون: إن أرواح الأحياء والأموات تلتقي في المنام فيتعارف ما شاء الله منها فإذا أراد جميعها الرجوع إلى أجسادها أمسك الله أرواح الأموات عنده وحبسها، وأرسل أرواح الأحياء حتى ترجع إلى أجسادها
مفسرین کہتے ہیں زندوں اور مردوں کی روحیں نیند میں آپس میں ملاقات کرتی ہیں پس اس میں پہچان جاتی ہیں جو اللہ چاہے پس جب ان کو لوٹا نے ان کے جسموں میں اللہ ارادہ کرتا ہے تو مردوں کی روحوں کو روک لیتا ہے اور قید کر دیتا ہے اور زندہ کی ارواح کو ان کے اجساد میں لوٹا دیتا ہے

راقم کہتا ہے اس تفسیر کی وجوہات وہ روایات ہیں جن میں مردوں اور زندہ کی روحوں کے ملاقات کے قصے ہیں جو تمام ضعیف اسناد سے ہیں -تفصیل راقم کی کتاب الرویا میں ہے جو اس ویب سائٹ پر موجود ہے – ڈاکٹر عثمانی کے مخالف غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی نے کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں انہی روایت منکرہ و ضعیفہ کے تحت بیان کیا ہے کہ انسانی جسم میں دو روحیں یا نفس ہیں – ایک موت پر نکلتا ہے اور ایک نیند میں نکلتا ہے – یعنی ان علماء کے نزدیک قبض کا مطلب اخراج روح ہے جبکہ عربی میں قبض کا مطلب اخراج نہیں ہے اور نہ ہی آیات قرانی میں نیند میں اخراج روح کا ذکر ہے – قرآن میں قبض روح کا ذکر ہے کہ روح کو پکڑ لیا جاتا ہے – یہاں ہم کو معلوم ہے کہ روح کو نیند میں پکڑنے کے بعد بھی انسان خواب دیکھتا ہے – انسان کی بے ہوشی بھی گہری نیند ہے جس میں ڈاکٹر اس کا جسم کاٹ بھی دیتا ہے تو انسان کو احساس نہیں ہوتا – بسا اوقات انسان نیند میں ہوتا ہے لیکن اس کی نیند کچی ہوتی ہے اس کو اس پاس جو ایا یا بات ہو اس کی آواز بھی آ جاتی ہے – یہ سب ہمارے مشاہدہ میں ہے جس کا انکار کوئی نہیں کر سکتا
ان آیات میں انسان کے فہم، شعور، ادراک اور اختیار کا کوئی ذکر نہیں ہے – بلکہ یہ سب مشاہدات سے علم میں آتا  ہے – جو کفار روح کے وجود کے قائل نہیں ان تک کو معلوم ہے کہ نیند اور بے ہوشی انسان کا شعور کس طرح محدود کرتے ہیں – قرآن میں نیند کے عمل کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ قبض روح یا
seize
ہو جانے کی وجہ سے نیند میں تعقل کم ہو جاتا ہے اور موت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ نہ صرف قبض ہوتا ہے بلکہ فرشتے بھی استعمال ہوتے ہیں جو روح کو مکمل جسم سے الگ کر دیتے ہیں
وہ علماء جو عود روح کے قائل ہیں انہوں نے سورہ الزمر کی آیت میں تفسیر میں التباس پیدا کر دیا اور نیند میں قبض کو اخراج روح بنا دیا اور پھر کہا کہ موت کے بعد اگر روح واپس جسم میں آ بھی جائے تو یہ   میت  ہی  ہے – ابن رجب تفسیر میں کہتے ہیں
فلا ينافي ذلكَ أن يكونَ النائمُ حيًّا، وكذلك اتصالُ روح الميتِ ببدنه وانفصالها عنه لا يوجبُ أن يصيرَ للميتِ حياةً مطلقةً.
اس آیت سورہ الزمر سے نفی نہیں ہوتی کہ سونے والا زندہ ہے ، اسی طرح روح میت کے بدن سے جڑ جائے الگ ہو جائے تو یہ واجب نہیں ہو گا کہ مطلق زندگی ، میت کی ہو گئی

یعنی جس طرح نیند میں قبض نفس ہونے پر مردہ نہیں کہا جاتا اسی طرح قبر میں عود روح ہو جانے کے بعد زندہ نہیں کہا جا سکتا – گویا کہ نہ زندگی واضح ہے نہ موت واضح ہے – جو ان لوگوں کے نزدیک واضح ہے وہ صرف یہ کہ قبض نفس ہو رہا ہے

راقم کہتا ہے ان لوگوں نے آیات پر غور نہیں کیا ہے – قبض کا مطلب اخراج نہیں ہے اور سورہ الزمر میں صرف قبض کرنا بیان ہوا ہے اخراج کا ذکر نہیں ہے اور سورہ انعام میں موت پر اضافی اخراج کا ذکر بھی ہے جو فرشتوں سے کر وایا جا رہا ہے

قرآن میں موت کا لفظ اس دور پر بھی بولا گیا ہے جب جسم و روح اپس میں ملے بھی نہیں تھے
سورہ البقرہ آیت ٢٨ میں ہے

كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّـٰهِ وَكُنْتُـمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۖ ثُـمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُـمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُـمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ
تم اللہ کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم (اموات) بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔

یہ تخلیق آدم کے اس دور کا ذکر ہے جب آدم علیہ السلام مٹی میں خمیر میں خلق ہو رہے تھے- ان کی روح بن چکی تھی لیکن ان کے جسم میں نہیں تھی – جسم اور روح جب الگ ہوں تو ان پر موت کا اطلاق کیا گیا ہے

اشاعرہ علماء ایک دور میں موت کی تعریف یوں ہی  کرتے تھے – راغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں لکھتے ہیں کہ
وقوله: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] فعبارة عن زوال القوّة الحيوانيَّة وإبانة الرُّوح عن الجسد
اور (الله تعالیٰ کا ) قول : : كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] پس یہ عبارت ہے قوت حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے

روح کا جسم سے الگ ہونا ایک دور تھا جب موت سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں لوگوں نے اس تعریف کو بدلا اور آیات کو ایسے پیش کیا کہ گویا ان آیات میں ابہام ہے جسم میں روح انے جانے کا نام موت نہیں ہے – ان لوگوں کو یہ اشکال بعض روایات سے پیدا ہوا ہے مثلا صحیح بخاری کتاب الدعوات حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
الحمد للّٰہ الذی احیانا بعد ما اماتنا و الیہ النشور
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

یہاں نیند کو مجازا موت کہا گیا ہے – البتہ فرقوں نے اس کو حقیقت سمجھ لیا کیونکہ وہ عود روح کی روایت قبول کر چکے تھے – نیند میں بھی ان کے نزدیک روح جسم سے نکل جاتی ہے اور اگر مرنے کے بعد واپس آ بھی جائے تو اس کو زندگی نہیں کہا جائے گا- راقم کہتا ہے یہاں حدیث میں مجازا نیند کو موت بولا گیا ہے اور اس طرح بولنا زبان و ادب میں عام ہے لیکن اس کو حقیقت نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ قرآن میں نیند کو موت نہیں کہا گیا

صحیح البخاری بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ ذَهَابِ الوَقْتِ میں أَبِي قَتَادَةَ رضی الله عنہ سے مروی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نیند کے حوالے سے فرمایا
إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ، وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ
بے شک الله تعالی تمہاری روحوں کو قبض کرتا ہے جب چاہتا ہے اور لوٹاتا ہے جب چاہتا ہے

اس حدیث میں قبض روح سے مراد روح کا جسم سے نکلنا نہیں ہے بلکہ روح کا جسم میں ہی قبض مراد ہے – لیکن فرقوں نے اس قبض کو جسم سے اخراج نفس سمجھا اور اس سے یہ مطلب کشید کیا کہ سونے والے کو بھی مردہ کہا جاتا ہے

سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ عَنْ فِرَاشِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَلْيَنْفُضْهُ بِصَنِفَةِ [ص:473] إِزَارِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي مَا خَلَفَهُ عَلَيْهِ بَعْدُ، فَإِذَا اضْطَجَعَ فَلْيَقُلْ: بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِكَ أَرْفَعُهُ، فَإِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ، فَإِذَا اسْتَيْقَظَ فَلْيَقُلْ: الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي فِي جَسَدِي، وَرَدَّ عَلَيَّ رُوحِي وَأَذِنَ لِي بِذِكْرِهِ ” وَفِي البَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَعَائِشَةَ،: ” وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ وَقَالَ: فَلْيَنْفُضْهُ بِدَاخِلَةِ إِزَارِهِ

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی تم میں سے اپنے بستر پر سے اٹھ جائے پھر لوٹ کر اس پر (لیٹنے، بیٹھنے) آئے تو اسے چاہیئے کہ اپنے ازار (تہبند، لنگی) کے (پلو) کونے اور کنارے سے تین بار بستر کو جھاڑ دے، اس لیے کہ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کے اٹھ کر جانے کے بعد وہاں کون سی چیز آ کر بیٹھی یا چھپی ہے، پھر جب لیٹے تو کہے باسمك ربي وضعت جنبي وبك أرفعه فإن أمسكت نفسي فارحمها وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين اے میرے رب میں تیرا نام لے کر (اپنے بستر پر) اپنے پہلو کو ڈال رہا ہوں
یعنی سونے جا رہا ہوں، اور تیرا ہی نام لے کر میں اسے اٹھاؤں گا بھی، پھر اگر تو میری جان کو (سونے ہی کی حالت میں) روک لیتا ہے (یعنی مجھے موت دے دیتا ہے) تو میری جان پر رحم فرما، اور اگر تو سونے دیتا ہے تو اس کی ویسی ہی حفاظت فرما جیسی کہ تو اپنے نیک و صالح بندوں کی حفاظت کرتا ہے پھر نیند سے بیدار ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ کہے الحمد لله الذي عافاني في جسدي ورد علي روحي وأذن لي بذكره تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے بدن کو صحت مند رکھا، اور میری روح مجھ پر لوٹا دی اور مجھے اپنی یاد کی اجازت (اور توفیق) دی

اس کی سند میں ضعف ہے – سند میں محمد بن عجلان ہے جو مدلس ہے اور اس روایات کی تمام اسناد میں اس کا عنعنہ ہے

صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے لیکن الفاظ رد روحی اس میں نہیں ہیں

حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ فِرَاشَهُ فَلْيَنْفُضْهُ بِصَنِفَةِ ثَوْبِهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، وَلْيَقُلْ: «بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَاغْفِرْ لَهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ»

وہ علماء جو موت اور نیند کو ملاتے ہیں وہ صعق یا بے ہوشی کو بھول جاتے ہیں کہ بے ہوش شخص مردہ نہیں ہوتا اور نہ نیند میں ہوتا ہے  بلکہ  بے ہوشی میں فہم احساس شعور و ادراک  معطل ہونا ہے جبکہ کچی نیند میں انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اس پاس کیا ہو رہا ہے یعنی شعور موجود ہوتا ہے

 

کیا وفات النبی پر اجماع امت ہے ؟

دین میں اصحاب رسول کے متفقہ موقف کی اہمیت ہے – سورہ النساء کی آیت ہے

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے،  بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

یقینا مسلمانوں کی راہ چھوڑنا گمراہی ہے لیکن یہ آیت  اصل صحیح العقیدہ مسلمان یعنی  اصحاب رسول  کی بات ہے-  آج جس قسم کے قبر پرست، پیر پرست مسلمان ہیں کیا ان کا اجماع حجت ہے؟ یقینا یہ بات غلط ہے-  اس لئے اگر کوئی اجماع ، امت میں حجت ہے ، تو وہ صرف اجماع صحابہ ہے

اس امت کا سب سے اہم اجماع تھا جب وفات النبی پر اختلاف ہوا اور عمر رضی الله عنہ نے اس کا انکار کیا پھر ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے اس پر خطبہ دیا اور تمام صحابہ نے وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کا عقیدہ قبول کیا

اسی اجماع صحابہ کا ذکر عثمانی صاحب نے اس طرح کیا

افسوس امت میں اس کا بھی صریح انکار کر کے رسول الله کو قبر النبی میں زندہ کی صفت دی گئی ہے لہذا ایک اہل حدیث عالم کہتے ہیں[1]

[1] http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع والی بات تو …..اس وقت ابھی رسول اللہ ﷺ قبر میں داخل ہی نہیں کیے گئے تھے، پھر وہ اجماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی موت اور دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر تھا

یعنی ان عالم کے مطابق اجماع تو تدفین سے پہلے ہوا اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہو گئے

دیوبندی کہتے ہیں کہ روح نبوی جسد مبارک سے نکلی ہی نہیں بلکہ قلب میں سمٹ گئی

گویا فرشتے خالی لوٹ گئے

امام بیہقی کتاب الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث  میں لکھتے ہیں

 وَالْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ بَعْدَمَا قُبِضُوا رُدَّتْ إِلَيْهِمْ أَرْوَاحُهُمْ فَهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ

اور انبیاء علیھم السلام کی روحیں قبض ہونے کے بعد واپس لوٹا دی گئیں اور اب وہ شہید کی طرح اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں

بیہقی کیا  کہہ رہے ہیں؟ اس کی کوئی دلیل نہیں شاید ان کے نزدیک روحیں قبض ہونے کے بعد فرشتے زمیں و آسمان میں بھٹکتے رہے پتا نہ کر پائے کہ ان کو کہاں رکھیں لہذا واپس قبروں میں انبیاء کے جسد میں ہی روحیں   لوٹا    دی گئیں-

ایک مومن کے نزدیک صرف اصحاب رسول کی اہمیت ہے – متاخرین کے متجدد عقائد اور صوفی صفت محدثین کے عقائد کی کوئی اہمیت نہیں ہے

البانی کے مطابق  انبیاء قبروں میں نماز پڑھ رہے ہیں-  الصحیحہ (2/ 190،178) میں اس پر کہتے ہیں
اعلم أن الحياة التي أثبتها هذا الحديث للأنبياء عليهم الصلاة والسلام، إنما هي حياة برزخية، ليست من حياة الدنيا في شيء،
جان لو اس روایت میں انبیاء کی جس زندگی کا اثبات کیا گیا ہے یہ برزخی زندگی ہے جس میں دنیا کی زندگی کی کوئی چیز نہیں

قاعدہ جلیلہ فی التوسل و الوسیلہ میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

وكذلك الأنبياء والصالحون ، وإن كانوا أحياء في قبورهم ، وإن قدر أنهم يدعون للأحياء وإن وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك ، ولم يفعل ذلك أحد من السلف
اور اسی طرح (فرشتوں کی طرح) انبیاء اور صالحین کا معاملہ ہے ہر چند کہ وہ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور یہ بھی مقدر کر دیا گیا ہے کہ وہ زندوں کے لئے دعائیں کریں اور اس بات کی تصدیق میں روایتیں بھی آئی ہیں مگر کسی کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ان سے کچھ طلب کرے اور سلف میں سے کسی ایک نے بھی ان سے کچھ طلب نہیں کیا

دیو بندیوں کے ایک  محقق نے تقریر میں کہا

مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں امتی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے نکال لیا گیا ہے۔ نبی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے دل میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ارے اگرچہ موت آگئی ہے لیکن دل پہ وفات نہیں آئی اگر نبی ہے تو روح کو سمیٹ کے دل میں رکھ دیا گیا اور اگر امتی ہے تو بدن سے روح کو نکال لیا گیا لیکن نبی کو جو حیات ملتی ہے اسی روح کو پھیلا دیا جاتا ہے اور جب امتی کو حیات ملتی ہے۔امتی کی روح کو لوٹا دیا جاتا ہے “

راقم  کہتا ہے
یہ تو انبیاء کی نشانی ہے کہ زندگی میں ان کا دل سونے کی حالت میں بھی الله کے کنٹرول میں ہوتا ہے    اس میں ان پر شیطان کا القا نہیں ہو سکتا  – اس لئے ا  ن   کے دل کی  بھی حفاظت کی گئی   کیونکہ قرآن کا   یا الوحی نزول دل پر ہوتا ہے-

سورہ بقرہ  :

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ

کہو (اس سے ) جو جبریل کا دشمن  ہو کہ اسی  (جبریل) نے اس قرآن کو میرے دل پر اتارا ہے

 اللہ تعالی نے  قرآن  میں   انبیاء پر لفظ موت کا اطلاق کیا ہے –  آنکھ کا سونا یعنی دماغ پر سونے کی کیفیت کا ظہور ہونا ہے   اور قلب کا جاگنا اس کا کسی بھی شیطانی القا سے دور رہنا ہے –  یہی وجہ ہے کہ مومن کو برا خواب  آتا ہے انبیاء کو نہیں آتا-     عمر رضی الله عنہ اگر   نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے حوالے سے صحیح تھے ان کی بات کے پیچھے یہ فلسفہ تھا  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر موت واقع نہیں ہوئی  تو ابو بکر  رضی الله عنہ  کی تقریر پر وہ  چپ نہ رہتے اور تمام اصحاب رسول کا وفات النبی پر اجماع بھی نہ ہونے پاتا-   ابو بکر رضی الله عنہ نے صحیح کہا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور عمر رضی اللہ عنہ کا رد کیا کہ اب رسول پر دو موتیں جمع نہ ہوں گی جیسا تم کہہ رہے ہو کہ وہ زندہ ہو جائیں گے –

معلوم ہوا کہ ان فرقوں کا اجماع ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ان کے جسد سے الگ نہیں ہے وہ قبر میں زندہ ہیں جبکہ اصحاب رسول کا اجماع وفات النبی پر ہے روح النبی کے جسم اطہر سے الگ ہونے پر اجماع ہے

حدیث میں ہے

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ [ص:139] مِنْ ثَلَاثٍ: الكَنْزِ، وَالغُلُولِ، وَالدَّيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ ” هَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ: الكَنْزُ، وَقَالَ أَبُو 
عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ: الكِبْرُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَعْدَانَ وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی اور وہ تین چیزوں سے  بَرِيءٌ تھا خزانہ ، غنیمت میں خیانت، اور قرض سے تو وہ جنت میں داخل ہوا – ترمذی نے کہا سعید نے روایت میں خزانہ بولا ہے اور … سعید  کی سند سے روایت اصح ہے

کیا یہ انصاف  ہے امتی تو جنتوں کے مزے لیں اور انبیاء کو اس فانی زمین میں رکھا جائے ؟

ایک طرف تو ہمارے ساتھ رہنے والے یہ فرقے ہیں اور دوسری طرف اصحاب رسول ہیں

فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ ہے کہ نبی جنت الفردوس میں ہیں

عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ ہے کہ نبی نے آخرت کی زندگی کو پسند کیا نہ کہ دنیا کی

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے نکل گئے

یہ عقائد صحیح بخاری میں درج ہیں اور فرقوں کو معلوم ہیں لیکن ان فرقوں نے قبوری زندگی کا عقیدہ عوام میں پھیلا دیا  ہے اور معاشرہ میں قبوری کلچر انہی مولویوں کی وجہ سے پنپ رہا ہے

تعویذ کا ناجائز دفاع

فرقہ اہل حدیث و سلفی وہابی فرقوں  میں تعویذ کے جواز پر شدید اختلاف موجود ہے  -پاکستانی اہل حدیث میں سے ایک کثیر تعداد تعویذ کو لٹکاتی ہے اس کو  عین توحید سمجھتی ہے اور دوسری طرف سمندر پار جزیرہ عرب میں عبد الوہاب النجدی نے کتاب التوحید میں اس کو شرک قرار دیا تھا   – اس اختلاف کو چھپا کر رکھا جاتا تھا یہاں تک کہ عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے کتاب تعویذات کا شرک مرتب کی اور عوام میں بانٹی –

عثمانی صاحب نے روایت پیش کی

اس کے بعد سے آج تک اہل حدیث کی جانب سے ہر سال تعویذ پر تحقیق ہو رہی ہے اور نت نئے  انکشافات سامنے اتے رہتے ہیں – مثلا  بعض اھل حدیث محققین کی جانب سے تعویذ کے جواز پر  جوابا کہا جا رہا ہے  کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تعویذ کے خلاف احادیث تمام  کی تمام ضعیف ہیں

عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت

سنن ابو داود ح  3883 میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ» [ص:10] قَالَتْ: قُلْتُ: لِمَ تَقُولُ هَذَا؟ وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: “جھاڑ پھونک (منتر)  گنڈا(تعویذ) اور تولہ  شرک ہیں” عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی میری آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے آتی تھی تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو میرا درد بند ہو جاتا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: یہ کام تو شیطان ہی کا تھا وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ چھوتا تھا تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو وہ اس سے رک جاتا تھا، تیرے لیے تو بس ویسا ہی کہنا کافی تھا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «ذهب الباس رب الناس اشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» “لوگوں کے رب! بیماری کو دور فرما، شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہ رہنے دے”۔

نوٹ : اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے اور حاکم نے بھی صحیح قرار دیا ہے – امام الذھبی نے موافقت کی ہے

اعتراض اہل حدیث جدید کا کہنا ہے کہ یہ متن منکر ہے -یہودی سے اصحاب رسول کا دم کرانا منکر روایت ہے

جواب

قال الربيع بن سليمان ، تلميذ الشافعي :
” سَأَلْت الشَّافِعِيَّ عن الرُّقْيَةِ ؟ فقال : لاَ بَأْسَ أَنْ يرقى الرَّجُلُ بِكِتَابِ اللَّهِ ، وما يَعْرِفُ من ذِكْرِ اللَّهِ .
قُلْت : أيرقى أَهْلُ الْكِتَابِ الْمُسْلِمِينَ ؟
فقال : نعم ؛ إذَا رَقُوا بِمَا يُعْرَفُ من كِتَابِ اللَّهِ ، أو ذِكْرِ اللَّهِ .
فَقُلْت : وما الْحُجَّةُ في ذلك ؟
قال : غَيْرُ حُجَّةٍ ؛ فَأَمَّا رِوَايَةُ صَاحِبِنَا وَصَاحِبِك ـ يعني : الإمام مالكا رحمه الله ـ ؛ فإن مَالِكًا أخبرنا عن يحيى بن سَعِيدٍ عن عَمْرَةَ بِنْتِ عبد الرحمن أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دخل على عَائِشَةَ وَهِيَ تَشْتَكِي وَيَهُودِيَّةٌ تَرْقِيهَا فقال أبو بَكْرٍ أرقيها بِكِتَابِ اللَّهِ ” انتهى .
“الأم” للشافعي (7/228) 

الربيع بن سليمان نے امام شافعی سے پوچھا  دم کرنےپر امام شافعی نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں کہ کتاب اللہ سے دم کیا جائے اور جو اللہ کا ذکر معلوم ہو اس سے 

میں الربيع بن سليمان نے کہا کیا اہل کتاب مسلمانوں کو دم کر سکتے ہیں ؟

امام شافعی نے فرمایا ہاں – جب وہ کتاب اللہ  میں جو جانتے ہوں اس سے دم کریں یا اللہ کے ذکر سے 

میں نے کہا اس کی دلیل کیا ہے  ؟

امام شافعی نے فرمایا  ہمارے اور تمھارے امام مالک صاحب رحمہ اللہ  کی روایت ہے – امام مالک نے خبر دی یحییٰ بن سعید سے انہوں نے عمرہ سے روایت کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر داخل ہوئے تو یہودیہ ان کو دم کر رہی تھی  پس ابو بکر نے کہا کتاب اللہ سے دم کرو

امام محمد نے بھی اسی روایت سے دلیل لی ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهِيَ تَشْتَكِي، وَيَهُودِيَّةٌ تَرْقِيهَا، فَقَالَ: «ارْقِيهَا بِكِتَابِ اللَّهِ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالرُّقَى بِمَا كَانَ فِي الْقُرْآنِ، وَمَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ، فَأَمَّا مَا كَانَ لا يُعْرَفُ مِنْ كَلامٍ، فَلا يَنْبَغِي أَنْ يُرْقَى بِهِ
ہم اسی روایت کو لیتے ہیں کہ قرآن سے دم کرنے میں برائی نہیں ہے جس میں الله کا ذکر ہو جہاں تک وہ کلام ہے جو جانا نہیں جاتا اس سے دم نہیں کرنا چاہیے

معلوم ہوا کہ امام مالک، امام شافعی  اور احناف میں اہل کتاب سے دم کرا سکتے ہیں

وہابی مفتی ابن باز سے سوال ہوا : هل تجوز رقية النصراني واليهودي للمسلم؟
کیا نصرانی و یہودی کا رقیہ مسلم کے لئے ہے ؟

فأجاب: إذا لم يكن من أهل الحرابة، وكانت من الرقية الشرعية، فلا بأس بذلك
پس جواب دیا اگر حربی نہیں ہے اور رقیہ شرعی ہے تو برائی نہیں ہے

 راقم کہتا ہے کہ صحیح بات ہے کہ شرک پر اگر دل مطمئن ہو جائے  تو کفر کا فتوی لگتا ہے – یہاں  ابن مسعود رضی الله عنہ کی  بیوی نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو شرک ہو صرف دم کرایا تھا

   اہل حدیث  مبشر ربانی دور کی کوڑی لاتے ہیں  مبشر ربانی  کتاب مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط ص   ٢٩٥  میں لکھتے ہیں

راقم کہتا ہے اس حدیث میں کہیں نہیں ہے کہ زینب  زوجہ ابن مسعود شرک کی مرتکب تھیں تو اس پر حاشیہ آرائی غیر مناسب ہے – دین میں اہل کتاب سے دم کرا سکتے ہیں – ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اصل میں شرکیہ دم سے منع کیا ہے جو ان کی بیوی نے سمجھا کہ ابن مسعود اس وقت دم کو  مطلق حرام  کہہ رہے ہیں (جبکہ ابن مسعود کا مدعا الگ ہے )   – زوجہ ابن مسعود کا سوال  یہ صرف وضاحت و اشکال والا معاملہ ہے

اس کا ایک ترجمہ مبشر ربانی نے اسی کتاب میں پیش کیا ہے

اس روایت کے متن میں ہے کہ یہودیہ دم کرنے میں مشغول تھی کہ ابن مسعود پہنچ گئے اور اس تانت کو توڑ دیا

اس میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ زوجہ ابن مسعود مشرکہ تھیں

اعتراض : اعمش اس میں مدلس ہے اور سند عن سے ہے

جواب
صحیح بخاری میں اعمش نے حدثنی کے ساتھ روایت کیا ہوا ہے سماع ثابت ہے
اور اہل حدیث کا اصول ہے کہ اگر ایک ہی سند میں سماع کی تصریح مل جائے تو سماع ہوتا ہے
تدلیس کا خطرہ ختم ہو جاتا ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ” قَالَ أَبُو لَهَبٍ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ اليَوْمِ فَنَزَلَتْ: {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ} [المسد: 1] “

وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا [ص:35] الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَزَلَ رَمَضَانُ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَكَانَ مَنْ أَطْعَمَ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا تَرَكَ الصَّوْمَ مِمَّنْ يُطِيقُهُ، وَرُخِّصَ لَهُمْ فِي ذَلِكَ، فَنَسَخَتْهَا: {وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} [البقرة: 184] فَأُمِرُوا بِالصَّوْمِ

یہاں اعمش نے عمرو بن مرہ سے  تحدیث کے ساتھ روایت کیا ہے

مستدرک حاکم 7505  میں یہی روایت اس سند سے بھی   ہے

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزَّاهِدُ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ، ثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ قَيْسِ بْنِ السَّكَنِ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى امْرَأَةٍ فَرَأَى عَلَيْهَا حِرْزًا مِنَ الْحُمْرَةِ فَقَطَعَهُ قَطْعًا عَنِيفًا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الشِّرْكِ أَغْنِيَاءُ وَقَالَ: كَانَ مِمَّا حَفِظْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتَّوْلِيَةَ مِنَ الشِّرْكِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 7505 – صحيح

یہاں الذھبی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے

اعتراض کیا جاتا ہے

مستدرک حاکم 7505 کی سند میں أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ مجہول ہے

جواب
مجہول نہیں ہے
تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
أحمد بن مهران بن المنذر، أبو جعفر الهمذاني القطان. [الوفاة: 261 – 270 ه] سَمِعَ: محمد بن عبد الله الأنصاري، وعثمان بن الهيثم المؤذن، والقعنبي.
وَعَنْهُ: علي بن مهروية القزويني.
قال أبو حاتم: صدوق.

الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة از ابن قُطْلُوْبَغَا میں ہے

أحمد بن مهران بن المنذر القَطَّان الهَمَذَاني، أبو جعفر.
قال ابن أبي حاتم (1): سمع أبي في كتابه كتاب «الموطأ» عن القعنبي، روى عن عثمان بن الهيثم، وعبد الله بن رجاء، وحسن بن موسى الأشيب، والأنصاري، وهو صدوق.

اعتراض

مستدرک حاکم کی سند میں اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق ضعیف ہے

جواب
إِسْرَائِيل بن يُونُس بن أبي إِسْحَاق صحیح بخاری کا راوی ہے اور اس کی ہر روایت اہل حدیث کے اصول پر صحیح متصور ہو گی
ہمارے نزدیک اس متن میں اس کا تفرد نہیں ہے لہذا حدیث اپنی جگہ قائم ہے اس کی اصل ہے

اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں کہ مسند احمد  میں اس روایت کی سند ضعیف ہے

مسند احمد
٣٦٠٥
حَدَّثَنَا (1) جَرِيرٌ، عَنْ الرُّكَيْنِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: ” كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ عَشْرَ خِلَالٍ: تَخَتُّمَ الذَّهَبِ، وَجَرَّ الْإِزَارِ، وَالصُّفْرَةَ – يَعْنِي الْخَلُوقَ -، وَتَغْيِيرَ الشَّيْبِ – قَالَ جَرِيرٌ: إِنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ (2) نَتْفَهُ – وَعَزْلَ الْمَاءِ عَنْ مَحِلِّهِ، وَالرُّقَى إِلَّا بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَفَسَادَ الصَّبِيِّ غَيْرَ (3) مُحَرِّمِهِ، وَعَقْدَ التَّمَائِمِ، وَالتَّبَرُّجَ بِالزِّينَةِ لِغَيْرِ مَحِلِّهَا، وَالضَّرْبَ بِالْكِعَابِ

جواب اگرچہ  مسند کے محقق شعیب نے اس کو منکر ہے لیکن احمد شاکر کا کہنا ہے روایت صحیح ہے

إسناده صحيح، الركين: هو ابن الربيع، سبق توثيقه 868. القاسم بن حسان العامري:
ثقة: وثقه أحمد بن صالح، وذكره ابن حبان في ثقات التابعين، وذكر البخاري في الكبير 4/ 1/ 161 اسمه فقط، ولم يذكر عنه شيئَاً. وترجمه ابن أبي حاتم في الجرح والتعديل 3/ 2/ 108 فلم يذكر عنه جرحاً. عبد الرحمن بن حرملة الكوفي: ذكره ابن حبان في الثفات، وذكره البخاري في الضعفاء21 قال: “عبد الرحمن بن حرملة عن ابن مسعود، روى عنه القاسم بن حسان، لا يصح حديثه”. والحديث رواه أبو داود 4: 143 – 144 من طريق المعتمر عن الركين. قال المنذري: “وأخرجه النسائي، وفي إسناده قاسم بن حسان الكوفي عن عبد الرحمن بن حرملة، قال البخاري: القاسم بن
حسان: سمع من زيد بن ثابت وعن عمه عبد الرحمن بن حرملة، وروى عنه الركين ابن الربيع، لم يصح حديثه في الكوفيين. قال علي بن المديني حديث ابن مسعود أن النبي – صلى الله عليه وسلم – كان يكره عشر خلال: هذا حديث كوفي، وفى إسناده من لا يعرف. وقال =
ابن المديني أيضاً: عبد الرحمن بن حرملة: روى عنه قاسم بن حسان، لا أعلم رُوي عن عبد الرحمن هذا شيء من هذا الطريق، ولا نعرفه من أصحاب عبد الله. وقال عبد الرحمن بن أبي حاتم. سألت أبي عنه؟، فقال: ليس بحديثه بأس، وإنما روى حديثاً واحداً، ما يمكن أن يعتبر به، ولم أسمع أحداً ينكره أو يطعن عليه، وأدخله البخاري في كتاب الضعفاء، وقال أبي: يحوَّل منه”. والذي نقله المنذري عن البخاري في شأن القاسم بن حسان لا أدري من أين جاء به، فإنه لم يذكر في التاريخ الكبير إلا اسمه فقط. كما قلنا، ثم لم يترجمه في الصغير، ولم يذكره في الضعفاء. وأخشى أن يكون المنذري وهم فأخطأ، فنقل كلام ابن أبي حاتم بمعناه منسوباً للبخاري. وأنا أظن أن قول البخاري في عبد الرحمن بن حرملة “لا يصح حديثه” إنما مرده إلى أنه لم يعرف شيئَاً عن القاسم بن حسان، فلم يصح عنده لذلك حديث عمه عبد الرحمن. (فائدة): قال أبو داود، بعد أن روى هذا الحديث: “انفرد بإسناد هذا الحديث أهل البصرة”!، وهو خطأ عجيب، فإن رواته كلهم كوفيون. ليس فيهم بصري!. تفسير جرير “تغير الشيب” بأنه نتفه، هو الصحيح، وبذلك في شه ابن الأثير، وقال “فإن تغيير لونه قد أمر به في غير حديث”. “وفساد الصبي” إلخ: قال ابن الأثير: “هو أن يطأ المرأة المرضع، فإذا حملت فسد لبنها، وكان من ذلك فساد الصبي، ويسمى الغيلة. أقوله غير محرمه: أي أنه كرهه ولم يبلغ حد التحريم”. وانظر معالم السنن 4: 213.

اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں کہ طبرانی کی سند ضعیف ہے

طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ الضَّبِّيُّ، ثنا أَبُو إِسْرَائِيلَ الْمُلَائِيُّ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرِو، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ، دَخَلَ عَلَى بَعْضِ أُمَّهَاتِ أَوْلَادِهِ فَرَأَى فِي عُنُقِهَا تَمِيمَةً، فَلَوى السَّيْرَ حَتَّى قَطَعَهُ، وَقَالَ: «أَفِي بُيُوتِي الشِّرْكُ؟» ثُمَّ قَالَ: «التَّمَائِمُ، وَالرُّقَى، وَالتُّوَلَةُ شِرْكٌ، أَوْ طَرَفٌ مِنَ الشِّرْكِ»

ان کا اعتراض ہے کہ اس سند میں أَبُو إِسْرَائِيلَ الْمُلَائِيُّ منکر الحدیث ہے

جواب ابو اسرئیل إسماعيل بن خليفة العبسي أبو إسرائيل الملائي، الكوفي ایک غالی شیعہ ہے اور بعض محدثین نے اس کو غلو کی بنا پر ترک کیا ہے
بدعتی کی روایت غیر غلو کی صورت قبول کی جاتی تھی

عبد اللہ نے باپ امام احمد سے اس پر سوال کیا تو کہا
قلت: إن بعض من قال: هو ضعيف. قال: لا، خالف في أحاديث
میں نے کہا بعض کہتے ہیں یہ ضعیف ہے ؟ احمد نے کہا نہیں
– یہ بعض احادیث میں اختلاف کرتا ہے

اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں طبرانی کی یہ سند بھی ضعیف ہے

طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، أَوْ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، – شَكَّ مَعْمَرٌ – قَالَ: رَأَى ابْنُ مَسْعُودٍ، فِي عُنُقِ امْرَأَتِهِ خَرَزًا قَدْ تَعَلَّقَتْهُ مِنَ الْحُمْرَةِ فَقَطَعَهُ، وَقَالَ: «إِنَّ آلَ عَبْدِ اللهِ لَأَغْنِيَاءُ عَنِ الشِّرْكِ»

ان کا کہنا ہے کہ اس سند  میں زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ مجہول ہے

جواب
قال البرقاني: سمعت أبا الحسن الدَّارَقُطْنِيّ يقول زياد بن أبي مريم، روى عنه عبد الكريم الجزري، حراني، ثقة.

دارقطنی کے نزدیک یہ ثقہ ہے
قال العجلي: جزري تابعي ثقةٌ
ابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور اس قول میں منفرد نہیں ہے

 معلوم ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح ہے – اس کی اسناد میں سے بعض صحیح ہیں بعض حسن ہیں اور روایت کا اصل ہے

 

عقبہ بن عامر کی روایات

مسند احمد
١٧٤٢٢
17422
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ، عَنْ دُخَيْنٍ الْحَجْرِيِّ،
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَيْهِ رَهْطٌ، فَبَايَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، بَايَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا؟ قَالَ: ” إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً ” فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَطَعَهَا، فَبَايَعَهُ، وَقَالَ: ” مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ

اس پر اہل حدیث کا اعتراض ہے کہ اس میں راوی دخين بن عامر الحجرى ، أبو ليلى المصرى مجہول ہے

جواب

يعقوب بن سفيان ،ابن حبان، ابن حجر ، الذھبی  نے دخين بن عامر الحجري کو ثقہ قرار دیا ہے

البانی نے سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها ح 492   اس حدیث  کو صحیح قرار دیا ہے

احمد شاکر نے بھی صحیح کہا ہے

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد کا حکم ہے کہ اس روایت کی اسناد قوی ہیں
إسناده قوي

تعویذ کی محبت میں گرفتار اہل حدیث کہتے ہیں يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ کی منفرد روایت ضعیف ہے
جواب
یزید بن ابی منصور پر کوئی کلمہ جرح معلوم نہیں ہے اور اس کی تعدیل کا ذکر محدثین نے کیا ہے

لہذا یہ دعوی کہ اس کی منفرد روایت ضعیف ہے قابل رد ہے

معلوم ہوا کہ روایات صحیح ہیں – ان احادیث کو خود اہل حدیث اور سلفی فرقہ کا ایک کثیر گروہ  صحیح کہتا ہے

 

عرض عمل کے دلائل کا جائزہ

مشہور مدرسہ دیوبند والوں کے فتوی ( جو یہاں پر موجود ہے) پر تبصرہ طلب کیا گیا ہے

اس بلاگ میں  ان لوگوں   نے جو دلائل  جمع کیے ہیں اور ان کو صحیح قرار دینے کا جو پروپیگنڈا   کیا ہے اس کو دیکھا جائے گا – راقم  کا تبصرہ جوابات کی صورت نیچے  متن میں دیکھا جا سکتا

فتوی نویس علمائے دیو بند  عقیدہ عرض عمل کے دلائل جمع کرتے ہوئے  فرماتے ہیں

پہلی دلیل

    حا فظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی   المتوفی ۸۰۷ھ نے مجمع الزوائد ومنبع الفوائد میں عرضِ اعمال علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات میں مسند بزارکے حوالہ سے ایک صحیح حدیث نقل فرمائی ہے

باب مایحصل لأمّته صلی اللہ علیہ وسلم من استغفاره بعدوفاته صلی اللہ علیہ وسلم

عن عبداﷲ بن مسعود… قال وقال رسول اﷲ حیاتي خیرلکم تحدثون وتحدث لکم، ووفاتي خیرلکم، تعرض عليّ أعمالکم، فمارأیت من خیرحمدت اﷲعلیه، ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ لکم  رواه البزّار، ورجاله رجال الصحیح  ( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب علامات النبوّة، مایحصل لأمّتها من استغفاره بعد وفاته، (۹/۲۴) ط دار الکتاب بیروت، ۱۹۷۸م)

مذکورہ حدیث کی سندکے رجال صحیحین کے رجال ہیں اورحدیث بالکل صحیح ہے۔

جواب

مسند البزار کی سند ہے

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ

اس کی سند میں زاذان ہے جس پر محدثین کا کلام ہے کہ اس کو وہم ہوتا ہے غلطییاں کرتا ہے – اس کے علاوہ عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ ہے جس کو أبو حاتم کہتے ہیں : ليس بالقوي يكتب حديث. قوی نہیں حدیث لکھ لو.  الدارقطنيُّ کہتے ہیں لا يحتج به، نا قابل احتجاج ہے . أبو زرعة ،ابن سعد ان کو ضعیف گردانتے ہیں-  اس کو ضعیف کہنے کی ایک وجہ  مرجیہ ہونا تھا

راقم کہتا ہے یہ لوگ اس سند کو صحیح  کہہ رہے ہیں جبکہ اس کی سند میں    عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ     پر سخت جرح ہے – عجيب بات ہے کہ تخريج أحاديث إحياء علوم الدين میں  العِراقي (806 هـ)  اس روایت پر یہ تبصرہ کرتے ہیں

قال العراقي: رواه البزار من حديث ابن مسعود ورجاله رجال الصحيح إلا أن عبد المجيد بن عبد العزيز بن رواد وان أخرج له مسلم ووثقه ابن معين والنسائي فقد ضعفه كثيرون

عراقی نے کہا اس حدیث کو البزار نے ابن مسعود سے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں  – بے شک عبد المجید بن عبد العزیز  اگرچہ اس سے امام مسلم نے روایت لی ہے اس کی توثیق ابن معین   اور نسائی نے کی ہے  اس کی  کثیر نے تضعیف بھی کی ہے

دوسری دلیل

                  علامہ سیوطی نے الجامع الصغیرفي أحادیث البشیروالنذیر میں ایک صحیح روایت نقل کی ہے

تُعْرَضُ الأَعْمالُ يَوْمَ الاثْنَيْنِ والخَمِيسِ على الله تَعَالَى وتُعْرَضُ على الأنْبِياءِ وعَلى الآباءِ والأُمَّهاتِ يَوْمَ الجُمُعَةِ فَيَفْرَحُونَ بِحَسَناتِهِمْ وَتَزْدادُ وُجُوهُهُمْ بَياضاً وإِشْراقاً فاتَّقُوا الله وَلَا تؤذُوا مَوْتاكُمْ (الْحَكِيم) عن والد عبد العزيز.

جواب

اس کا ترجمہ ہے

اللہ تعالی پر اعمال پیر و جمعرات کو پیش ہوتے ہیں اور انبیاء پر اور ماں باپ پر جمعہ کے روز – پس یہ نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں … پس اللہ سے ڈرو اور اپنے مردوں کو تکلیف مت دو

البانی نے اس حدیث پر موضوع  کا حکم لگایا ہے حديث رقم: 2446 في ضعيف الجامع

تیسری دلیل

                      علامہ مناوی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طرازہیں

وفائدة العرض علیهم إظهار اﷲ للأموات عذره في مایعامل به أحیاء هم من عاجل العقوبات وأنواع البلیّات في الدنیا، فلوبلغهم ذٰلك من غیرعرض أعمالهم علیهم لکان وجدهم أشدّ  قال القرطبي یجوز أن یکون المیّت یبلغ من أفعال الأحیاء وأقوالهم بمایؤذیه أویسرّه بلطیفة یحدثها اﷲ لهم من ملك یبلغ أوعلامة أودلیل أوماشاء اﷲ وهو القاهر فوق عباده وعلی من یشاء  وفیه زجرعن سوء القول في الأموات، وفعل ماکان یسرّهم في حیاتهم وزجر عن عقوق الأصول والفروع بعد موتهم بمایسوء هم من قول أوفعل، قال وإذاکان الفعل صلة وبرًّا کان ضدّه قطیعة وعقوقًا  (فیض القدیر، شرح الجامع الصغیر للعلامة المناوي، حرف التاء،   رقم الحدیث۳۳۱۶  تعرض الأعمال یوم الإثنین،(۳/۲۵۱) طمطبعۃ مصطفٰی محمّد مصر،۱۳۵۶ھ/ ۱۹۳۸م)

جواب

المناوی   نے اس موضوع  یا گھڑی  ہوئی  روایت پر لکھا ہے

اور عرض عمل کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ مردوں پر ظاہر کرتا ہے کہ جو دنیا میں ہیں ابھی زندہ ہیں وہ کیوں عقوبت و آزمائش میں جاتے ہیں پس ان تک پہنچایا جاتا ہے … قرطبی نے کہا یہ جائز ہے کہ میت پر زندہ کے اعمال پیش ہوں  اور ان کے اقوال بھی یہ اس سے ان کو تکلیف و خوشی ہو  پس اللہ تعالی کے لطف سے یہ فرشتہ پہنچاتا ہے یا علامت یا دلیل یا جو اللہ چاہے اور وہ اپنے بندوں پر قاہر ہے

راقم  کہتا ہے یہ تبصرہ بے کار ہے کیونکہ جب تک دلیل ثابت نہ ہو گھڑی ہوئی روایت پر تبصرہ کوئی درجہ نہیں رکھتا

راقم کہتا ہے یہ روایت حدیث حوض سے متعارض ہے

صحیح بخاری حدیث نمبر: 7048
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَتْ أَسْمَاءُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا عَلَى حَوْضِي أَنْتَظِرُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ، فَيُؤْخَذُ بِنَاسٍ مِنْ دُونِي فَأَقُولُ أُمَّتِي. فَيَقُولُ لاَ تَدْرِي، مَشَوْا عَلَى الْقَهْقَرَى». قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن سری نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر (حوض کوثر) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑ جائیں۔

چوتھی دلیل

   زرقانی  میں ہے

(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله صلی اللہ علیہ وسلم تعرض الأعمال کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة … رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم کلّ یوم علی وجه التفصیل وعلی الأنبیاء  ومنهم نبیّنا  علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز صلی اللہ علیہ وسلم بعرض أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً  (شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع مااختصّ به صلی اللہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، (۷/۳۷۳  ۳۷۴)طدارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔

            مذکورہ حدیث مرسل ہے،امام شافعی  کے سوا باقی ائمہ اورمحدثین رحمہم ﷲکے ہاں مرسل حجت ہے۔

ولذا قال جمهورالعلماء إنّ المرسل حجّة مطلقًا بناءً علی الظاهرمن حاله … وقال الشافعي یقبل أي لامطلقاً، بل فیه تفصیل  (شرح شرح نخبة الفکر لعلي القاري الحنفي المرسل، (ص۴۰۳  ۴۰۷) طقدیمی کتب خانہ کراچی)

بالخصوص سعیدبن المسیب کی مرسل کوبعض ایسے حضرات بھی قبول کرتے ہیں جو حجیۃ المرسل کے قائل نہیں۔

والثاني قوله (وقال الشافعي یقبل المرسل ممّن عرف أنّه لایرسل إلّا عن ثقة، کابن المسیّب  (توضیح الأفکارلمعاني تنقیح الأنظار، للعلامة الصنعاني، مسألة في اختلاف العلماء في قبول المرسل، (۱/۲۸۷  ۲۸۸)طدارإحیاء التراث العربي،بیروت،۱۴۱۸ھ   ۱۹۹۸م

اشتهرعن الشافعي أنّه لایحتجّ بالمرسل، إلّا مراسیل سعید بن المسیب  (تدریب الراوي في شرح تقریب النواوي للسیوطي، المرسل، (ص۱۷۱) طقدیمی کتب خانہ کراچی)

جواب

زرقانی کے لکھے  شرح کے متن میں ہے

(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله صلی اللہ علیہ وسلم تعرض الأعمال کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة … رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم کلّ یوم علی وجه التفصیل وعلی الأنبیاء  ومنهم نبیّنا  علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز صلی اللہ علیہ وسلم بعرض أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً  (شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع مااختصّ به صلی اللہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، (۷/۳۷۳  ۳۷۴)طدارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔

 اور ابن مبارک نے روایت کیا عبد اللہ سے …. تابعی جلیل ابن المسیب سے روایت ہے سے فرمایا کوئی ایسا روز نہیں ہے جب صبح و شام  امت کا عمل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش  نہ ہوتا ہو پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پیشانیوں  و عمل  سے پہچان نہ جائیں  پس آپ اللہ تعالی کی حمد کرتے ہیں  اور ان کے لئے استغفار کرتے ہیں … اور یہ نبی کے قول سے متعارض نہیں ہے کہ ہر پیر و جمعرات کو اللہ تعالی پر  عمل پیش ہوتا ہے اور انبیاء و ماں باپ پر جمعہ کے دن اس کو حکیم الترمذی نے روایت کیا ہے

راقم کہتا  ہے  الزهد والرقائق لابن المبارك (يليه «مَا رَوَاهُ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ فِي نُسْخَتِهِ زَائِدًا عَلَى مَا رَوَاهُ الْمَرْوَزِيُّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي كِتَابِ الزُّهْدِ» ) میں اس روایت کی سند ہے ابن مبارک نے کہا

أَنَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يَقُولُ: ” لَيْسَ مِنْ يَوْمٍ إِلَّا يُعْرَضُ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتُهُ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً، فَيَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ، لِيَشْهَدَ عَلَيْهِمْ، يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا} [النساء: 41] “

انصار میں سے ایک شخص نے خبر دی اس نے المنھال بن عمرو سے روایت کیا کہ اس نے سعید بن المسیب سے سنا فرمایا کوئی ایسا روز نہیں ہے جب صبح و شام  امت کا عمل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش  نہ ہوتا ہو پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو  پیشانیوں  سے پہچان نہ جائیں تاکہ ان پر گواہ ہوں اللہ تبارک و تعالی کا قول ہے پس کیا (عالم ) ہو گا جب ہم ہر امت میں ایک گواہ لائیں گے اور ان سب پر آپ کو گواہ کریں گے

راقم کہتا ہے اس کی سند رجل میں انصار مجہول الحال ہے اور المنھال بن عمرو ہے جس پر بد مذھب کا جوزجانی کا فتوی ہے اور سعید بن المسیب سے اس کا سماع منقطع ہے – سرمایہ حدیث میں یہ واحد روایت ہے جس میں المنھال نے براہراست سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے

پانچویں دلیل

                 علامہ آلوسی  علیہ سورۃ النحل کی  آیت ۸۹  {وَجِئْنَابِكَ شَھِیْداً عَلٰی هٰؤُلآءِ } کے تحت رقم طراز ہیں

المراد به ولآء أمّتها عند أکثرالمفسرین، فإنّ أعمال أمّته علیه الصلاة والسلام تعرض علیه بعدموته  فقد روي عنها أنّه قال حیاتي خیرلکم، تحدثون ویحدث لکم، ومماتي خیرلکم، تعرض عليّ أعمالکم، فمارأیت من خیر حمدت اﷲ تعالیٰ علیه ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ تعالیٰ لکم، بل جاء إنّ أعمال العبد تعرض علی أقاربه من الموتٰی

جواب

اس شرح کا دارومدار  بھی اوپر والی منکر و ضعیف روایت پر ہے

چھٹی دلیل

دیو بندی علماء نے دلیل دی

  فقدأ خرج ابن أبي ا لدنیا عن أبي هریرة أنّ النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم قال لاتفضحوا أمواتکم بسیئات أعمالکم؛ فإنها تعرض علی أولیائکم من أهل القبور

جواب راقم کہتا ہے اس کا ترجمہ ہے

پس ابن ابی الدنیا نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا اپنے مردوں کو ان کے گناہوں پر  برا مت کہو کہ (جو برا بھلا کہا ) وہ تمہارے (مردہ ) دوستوں پر قبروں میں پیش ہوتا  ہے

اور سند کتاب المنامات از ابن ابی الدنیا میں  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثنا أَبُو سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبٍ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ شَيْبَةَ الْحِزَامِيُّ، ثَنَا فُلَيْحُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَالْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَفْضَحُوا مَوْتَاكُمْ بِسَيِّئَاتِ أَعْمَالِكُمْ فَإِنَّهَا تُعْرَضُ عَلَى أَوْلِيَائِكُمْ  مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ»

سند میں أَبُو سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبٍ مجہول ہے – اور الحِزَامِيُّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَبْدِ المَلِكِ بنِ شَيْبَةَ ہے جو ابْنُ أَبِي دَاوُدَ کے مطابق ضَعِيْفٌ ہے

ساتویں دلیل

وأخرج أحمد عن أنس مرفوعاً إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیرذٰلك قالوا اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم  کما هدیتنا

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں

راقم کہتا ہے مسند احمد میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَمَّنْ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ مِنَ الْأَمْوَاتِ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ، قَالُوا: اللهُمَّ لَا تُمِتْهُمْ، حَتَّى تَهْدِيَهُمْ كَمَا هَدَيْتَنَا

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون کہتے ہیں

إسناده ضعيف لإبهام الواسطة بين سفيان وأنس. وهذا الحديث تفرد به الإمام أحمد.

وفي الباب عن أبي أيوب الأنصاري عند الطبراني في “الأوسط” (148) ، لكن إسناده ضعيف جداً، فيه مسلمة بن عُلَيّ الخشني، وهو متروك الحديث، فلا يفرح به.

آٹھویں دلیل

  وأخرجه أ بوداود من حدیث جابر بزیادة وأ لهمهم أن یعملوا بطاعتك

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں

وأخرجه أبو داود من حديث جابر بزيادة «وألهمهم أن يعملوا بطاعتك» .

 ابو داود میں ہے حدیث جابر ہے جس میں اضافہ ہے کہ ان پر الہام ہو کہ اللہ کی اطاعت پر عمل کریں

راقم کہتا ہے یہ حدیث   ابو داود الطيالسي کی   مسند  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى عَشَائِرِكُمْ وَأَقْرِبَائِكُمْ فِي قُبُورِهِمْ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالُوا: اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُمْ أَنْ يَعْمَلُوا بِطَاعَتِكَ “

جابر نے روایت کیا رسول اللہ نے فرمایا تمھارے اعمال رشتہ داروں و آقارب پر قبروں میں پیش ہوتے ہیں اگر وہ اچھے ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر ایسے نہ ہوں تو وہ کہتے ہیں اے آل پر الہام کر کہ تیری اطاعت کریں

سند میں الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ  پر ابن سعد کا کہنا ہے  ضعيف ليس بشيء- احمد کا کہنا ہے ليس بثقة ثقہ نہیں ہے اور ابن حجر نے متروک قرار دیا ہے

نویں دلیل

   وأخرج ابن أبي الدنیاعن أبي الدرداء أنّه قال إنّ أعمالکم تعرض علی موتاکم، فیسرّون ویساؤون، فکان أبوالدرداء یقول عندذلك “اللّٰهم إنّي أعوذبك أن یمقتني خالي عبداﷲ بن رواحة إذا لقیته، یقول ذلك في سجوده، والنبيّ صلی اللہ علیہ وسلم لأمّته بمنزلة الوالد بل أولٰی  (روح المعاني، النحل۸۹ (۱۴/۲۱۳)طإدارۃ الطباعۃ المنیریۃ مصر۔)

            علامہ آلوسی  نے اس سلسلہ میں جن احادیث کونقل فرمایا ان پرکوئی اعتراض نہیں کیا، جب کہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ احادیثِ ضعیفہ یاموضوعہ کی نشان دہی کرتے ہیں اوران پرردفرماتے ہیں، جس سے معلوم ہواکہ یہ مذکورہ احادیث صحیح ہیں، ورنہ کم سے کم درجہ حسن کی ہیں۔

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں – متن کا ترجمہ ہے

اور ابن ابی الدنیا نے ابو الدرداء سے تخریج کی ہے کہ انہوں نے فرمایا بلا شبہ اعمال مردوں پر پیش ہوتے ہیں ..

المنامات از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ، كَانَ يَقُولُ: «إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى مَوْتَاكُمْ فَيُسَرُّونَ وَيُسَاءُونَ»

الذهبی کتاب العبر في خبر من غبر میں لکھتے ہیں

 عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة

عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي ہیں اپنے باپ سے بہت سی روایات کی ہیں اور میں نہیں جانتا ان کی صحابہ سے کوئی روایت اور انہوں نے صحابہ کو دیکھا ہے

ابن ماكولا کتاب الإكمال میں لکھتے ہیں

جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير.

جبير بن نفير قدیم تابعين میں سے ہیں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن جبير بن نفير ہیں

معلوم ہوا کہ یہ روایت متصل نہیں- عبد الرحمن بن جبير بن نفير کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کے باپ خود تابعی ہیں

دسویں دلیل

     تفسیرمظہری میں ہے

{وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْدًا} یشهد النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم علی جمیع الأمّة من رآه ومن لم یره  أخرج ابن المبارك عن سعیدبن المسیّب قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أمّته غدوةً وعشیّةً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم فلذلك یشهد علیهم   (التفسیرالمظهري،   النساء۴۱ (۲/۱۱۰)ط بلوچستان بک ڈپو، کوئٹہ)

جواب

اس تفسیر میں بھی ابن المسیب سے منسوب قول سے دلیل لی گئی ہے جس پر تبصرہ اوپر گزر چکا ہے

گیارہویں دلیل

               صاحب تفسیر ابن کثیر نے آیت کریمہ { وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْداً }کی تفسیرمیں التذکرة للقرطبي کے حوالہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ

وأمّا ما ذکره أبو عبد اﷲ القرطبي فيالتذکرةحیث قال باب ماجاء في شهادة النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی أمّته، قالأنا ابن المبارك، قال أنارجل من الأنصارعن المنهال بن عمرو أنّه سمع سعید بن المسیّب یقول لیس من یوم إلّایعرض فیه علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أمّته غدوةً وعشیًّا، فیعرفهم بأسمائهم وأعمالهم، فلذلك یشهد علیهم، یقول اﷲتعالیٰ{فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهیْدًا}؛ فإنّه أثر، وفیه انقطاع، فإنّ فیه رجلاً مبهمًا لم یسمّ، وهومن کلام سعید بن المسیّب،لم یرفعه، وقدقبله القرطبي، فقال بعد إیراده فقد تقدّم أنّ الأعمال تعرض علی اﷲ کلّ یوم اثنین وخمیس، وعلی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة، قال ولاتعارض، فإنّه یحتمل أن یخصّ نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم بمایعرض علیه کلّ یوم، ویوم الجمعة مع الأنبیاء علیه وعلیهم أفضل الصلاة والسلام  ( تفسیرالقراٰن العظیم للحافظ ابن کثیر،  النساء۴۱ (۱/۴۹۸ ۴۹۹) طقدیمی کراچی)

            حافظ عمادالدین ابن کثیر نے بھی احادیثِ مذکورہ کے بارے میں کچھ نکیر نہیں کی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرضِ اعمال کی احادیث مجموعی اعتبار سے ان کے نزدیک صحیح ہیں۔

جواب

یہاں تفسیر ابن کثیر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ابن کثیر کی بھی غلطی ہے کہ سعید بن المسیب سے منسوب قول کو دلیل بنایا ہے جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے

بارہویں دلیل

                  تفسیرمنار میں ہے

{ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ م بِشَهِیْدٍ…الآیة }، تعرض أعمال کلّ أمّة علی نبیّها   ( تفسیرالقراٰن الحکیم الشهیر بـ “تفسیرالمنار”، للسیّد محمدرشیدرضا، [ النساء ۴۱](۵/۱۰۹)ط مطبعۃ المنارمصر،۱۳۲۸ھ)

جواب

اس آیت کی یہ تفسیر کہ امت کا عمل نبی پر پیش ہو رہا ہے ورنہ گواہ نہ ہوں  گے نبی کو عالم الغیب قرار دینے کے مترادف ہے

تیرہویں دلیل

                      مسنداحمد میں ہے 

 عمّن سمع أنس بن مالك یقول  قال النبيّ   إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیرًا استبشروا، وإن کان غیرذٰلك، قالوا  اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم کماهد یتنا   ( المسند للإمام أحمدبن حنبل، مسندأنس بن مالك رضي اﷲ عنه، [ رقم الحدیث  ۱۲۶۱۹]  (۱۰/۵۳۲-۵۳۳) ط  دارالحدیث  القاهرة)

            واضح رہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ حدیث وفقہ کے امام ہیں، اور ناقد بھی، اور احادیث پر جرح بھی کرتے ہیں، جب کہ آپ نے اس حدیث پر کوئی جرح نہیں فرمائی، گویا آپ نے اس حدیث کی توثیق کی ہے۔

جواب

مسند احمد میں امام احمد نے سوائے ایک دو روایات کے کسی پر جرح نہیں کی  لیکن العلل میں انہی روایات پر جرح کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام روایات امام احمد کے نزدیک صحیح نہیں تھیں یہ صرف احادیث کا مجموعہ تھا – یہاں عمّن سمع جس نے سنا کون ہے ؟ کوئی نہیں جانتا اس کی سند کو سند کو درست کہنا آنکھوں میں دھول جھوکنا ہے

چودہویں دلیل

  شرح الصدور   میں ہے

          وأخرج الطیالسي في  مسنده عن جابر بن عبداﷲ قال  قال رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم   إنّ أعمالکم تعرض علی عشائرکم وأقربائکم في قبورهم، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیر ذلك، قالوا  اللّٰهمّ ألهمهم أن یعملوا بطاعتك 

جواب

یہاں مسند ابو داود الطیالسي سے روایت لی گئی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى عَشَائِرِكُمْ وَأَقْرِبَائِكُمْ فِي قُبُورِهِمْ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالُوا: اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُمْ أَنْ يَعْمَلُوا بِطَاعَتِكَ

اس روایت پر تبصرہ اوپر کیا جا چکا ہے سند میں متروک راوی ہے

پندرہوین دلیل

         وأخرج ابن المبارك وابن أبي الدنیا عن أبي أیّوب، قال  تعرض أعمالکم علی الموتٰی، فإن رأواحسنًا فرحوا واستبشروا، وإن رأوا سوءً، قالوا  اللّٰهمّ راجع به 

جواب

المنامات از ابن ابی الدنیا میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثني يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، ثني عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: ” تُعْرَضُ أَعْمَالُكُمْ عَلَى الْمَوْتَى , فَإِنْ رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا وَقَالُوا: اللَّهُمَّ هَذِهِ نِعْمَتُكَ عَلَى عَبْدِكَ فَأَتِمَّهَا عَلَيْهِ , وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا: اللَّهُمَّ رَاجِعْ بِهِ “

الزهد والرقائق لابن المبارك (يليه «مَا رَوَاهُ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ فِي نُسْخَتِهِ زَائِدًا عَلَى مَا رَوَاهُ الْمَرْوَزِيُّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي كِتَابِ الزُّهْدِ» ) میں ہے

أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ، وَأَبُو بَكْرٍ الْوَرَّاقُ قَالَا: أَخْبَرَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: ” إِذَا قُبِضَتْ نَفْسُ الْعَبْدِ تَلَقَّاهُ أَهْلُ الرَّحْمَةِ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ كَمَا يَلْقَوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ لِيَسْأَلُوهُ، فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَنْظِرُوا أَخَاكُمْ حَتَّى يَسْتَرِيحَ، فَإِنَّهُ كَانَ فِي كَرْبٍ، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ فَيَسْأَلُونَهُ مَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ مَا فَعَلَتْ فُلَانَةٌ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ؟ فَإِذَا سَأَلُوا عَنِ الرَّجُلِ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ، قَالَ لَهُمْ: إِنَّهُ قَدْ هَلَكَ، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ، فَبِئْسَتِ الْأُمُّ، وَبِئْسَتِ الْمُرَبِيَّةُ، قَالَ: فَيُعْرَضُ عَلَيْهِمْ [ص:150] أَعْمَالُهُمْ، فَإِذَا رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا، وَقَالُوا: هَذِهِ نِعْمَتُكَ عَلَى عَبْدِكَ فَأَتِمَّهَا، وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا: اللَّهُمَّ رَاجِعْ بِعَبْدِكِ

اس کے متن میں ہے کہ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ نے کہا  جب کسی کی جان قبض ہوتی ہے اور وہ اہل رحمت سے جب ( عالم البرزخ ) میں ملتا ہے تو  یہ ارواح اپس  میں کلام کرتی ہیں  جاننا چاہتی ہیں کہ کون کس حال میں ہے  پھر دعا کرتی ہیں … ان کو ان کا عمل دکھایا جاتا ہے

اس سند میں أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيِّ کا سماع  أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ سے معلوم نہیں ہو سکا کہ تھا بھی یا نہیں

سولویں دلیل

          وأخرج ابن أبي شیبة في  المصنف والحکیم الترمذي وابن أبي الدنیاعن إبراهیم بن میسرة، قال غزٰی أبو أیّوب القسطنطینة فمرّ بقاصّ وهو یقول  إذاعمل العبد العمل في صدرالنهار عرض علی معارفه إذا أمسی من أهل الآخرة، وإذا عمل العمل في آخرالنهار عرض علی معارفه إذا أصبح من أهل الآخرة، فقال أبوأیّوب  انظر ما تقول! قال  واﷲ إنّه لکما أقول، فقال أبو أیوب  اللّٰهم إنّي أعوذبك أن تفضخي عند عبادة بن الصامت وسعد بن عبادة بما عملت بعدهم، فقال القاصّ  واﷲ لایکتب اﷲ ولایته لعبد إلّاسترعوراته وأثنی علیه بأحسن عمله 

 جواب

إبراهیم بن میسرة نے کہا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  نے القسطنطینة   کا جہاد کیا کا گذر ایک قصہ گو پر ہوا جو کہہ رہا تھا …. ابو ایوب نے کہا دیکھو کیا بول رہے ہو ! پھر فرمایا  اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ عبادة بن الصامت وسعد بن عبادة کے بعد جو عمل میں نے کیا اس پر میری فضاحت ہو

راقم کہتا ہے یہ قول کسی  عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ کا ہے جو ابراہیم کو ملا – کتاب الأولياء از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، نا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو الضَّبِّيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: ” غَزَوْنَا حَتَّى إِذَا انْتَهَيْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ مَدِينَةِ قُسْطَنْطِينِيَّةَ إِذَا قَاصٌّ يَقُولُ: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ عُرِضَ عَلَى مَعَارِفِهِ إِذَا أَمْسَى مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، وَمَنْ عَمِلَ عَمَلًا مِنْ آخِرِ النَّهَارِ عُرِضَ عَلَى مَعَارِفِهِ إِذَا أَصْبَحَ مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو أَيُّوبَ: أَيُّهَا الْقَاصُّ، انْظُرْ مَا تَقُولُ، قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَكَذَلِكَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَفْضَحْنِي عِنْدَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَلَا عِنْدَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِيمَا عَمِلْتُ بَعْدَهُمَا، فَقَالَ الْقَاصُّ: وَإِنَّهُ وَاللَّهُ مَا كَتَبَ اللَّهَ مَا كَتَبَ وِلَايَتَهُ لِعَبْدٍ إِلَّا سَتَرَ عَلَيْهِ عَوْرَتَهُ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِأَحْسَنِ عَمَلِهِ “

عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ کی ثقاہت  کا حال معلوم  نہیں ہے

سترہویں  دلیل

       وأخرج الحکیم الترمذي وابن أبي الدنیا في کتاب المنامات والبیهقي في شعب الإیمان عن النعمان بن بشیر سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اﷲ اﷲ في إخوانکم من أهل القبور، وأنّ أعمالکم تعرض علیهم

جواب

المنامات از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ الْكَلْوَذَانِيُّ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ   قَالَا: نا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، قَالَ: نا أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ، سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أُدَيٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا , فَاللَّهَ اللَّهَ فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ , فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ»

میزان از الذھبی میں ہے  کہ یہ مجہول ہے اور قال الأزدي: لا يصح إسناده  اس کی اسناد صحیح نہیں ہیں

اس کی سند مستدرک حاکم میں بھی ہے

نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا …. لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں

الذهبی کہتے ہیں       فيه مجهولان  اس میں مجھول راوی ہیں

اٹھارویں دلیل

        وأخرج ابن أبي الد نیا وابن منده وابن عساکر عن أحمد بن عبداﷲ بن أبي الحواری، قالحدّثني أخي محمّد بن عبداﷲ، قالدخل عبّاد الخواص علی إبراهیم بن صالح الهاشمي  وهو أمیر فلسطین  فقال له إبراهیم عظني! فقال قد بلغني إنّ أعمال الأحیاء تعرض علی أقاربهم من الموتٰی، فانظر ماتعرض علی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم من عملك  (  روایت نمبر۱۴  سے  روایت نمبر۱۸  تک دیکھیے شرح الصدوربشرح حال الموتیٰ والقبور، باب عرض أعمال الأحیاء علی الأموات،(ص۱۱۴ ۱۱۵) طمطابع الرشید بالمدینۃ المنورۃ۔)

جواب

اس میں حدیث سرے سے ہی نہیں ہے

کسی امیر فلسطین کے قول کا ذکر ہے

انیسویں دلیل

        أکثر وا من الصلاة عليّ في کلّ یوم جمعة؛ فإنّ صلاة أمّتي تعرض عليّ في کلّ یوم جمعة … (هب) عن أبي أمامة  (کنزالعمّال في سنن الأقوال والأفعال، الکتاب الثاني، الباب السادس في الصلاة علیه وآله علیه الصلاة والسلام، (۱/۴۸۸) ط مؤسّسة الرسالة، بیروت،۱۴۰۱ھ ۱۹۸۱م۔)

جواب

حياة الأنبياء میں بیہقی نے اس کو اس طرق سے روایت کیا ہے

   إبراهيم بن الحجاج السامي البصري ثنا حماد بن سلمة عن بُرد بن سنان عن مكحول الشامي عن أبي أمامة رفعه “أكثروا عليّ من الصلاة في كل يوم جمعة، فإنّ صلاة أمتي تعرض عليّ في كل يوم جمعة، فمن كان أكثرهم عليّ صلاة، كان أقربهم مني منزلة”.

سند میں انقطاع ہے

 المنذري اور الذهبي کا کہنا ہے کہ مكحول کا سماع أبي أمامة سے نہیں ہے

  المنذري نے الترغيب میں  کہا :  لم يسمع من أبي أمامة”

وقال الذهبي: قلت: مكحول قيل: لم يلق أبا أمامة” المهذب

بیسویں دلیل

                 بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني میں ہے

عن أبي الدرداء رضي اﷲ عنه قالقال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم أکثروا من الصلاة عليّ یوم الجمعة، فإنّه مشهود تشهده الملائکة، وإنّ أحداً لن یصلي عليّ إلّا عرضت عليّ صلاته حتّٰی یفرغ منها، قال قلت وبعد الموت؟ قالإنّ اﷲ حرّم علی الأرض أن تاکل أجساد الأنبیاء علیهم الصلاة والسلام  رواه ابن ماجه بسند جیّد   (بلوغ الأماني من أسرارالفتح الرباني للإمام أحمدعبدالرحمٰن، أبواب صلاة الجمعة، فصل منه في الحثّ علی الإکثارمن الصلاة علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعة، (۶/۱۱) ط دارالشهاب، القاهرة)

جواب

روایت ہے

عن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أكثروا الصلاة عليّ يوم الجمعة؛ فإنه مشهود تشهده الملائكة. وإن أحدا لا يصلي علي إلا عُرضت عَلَيّ صلاته حتى يفرغ منها”. قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: ” [وبعد الموت]، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء” [فنبي الله حي يرزق].

هذا حديث غريب من هذا الوجه، وفيه انقطاع بين عُبادة بن نَسي وأبي الدرداء، فإنه لم يدركه

اس کی سند میں بھی انقطاع ہے عُبادة بن نَسي  کی أبي الدرداء سے نہ ملاقات ہے نہ سماع ہے


دیوبندیوں کی طرح  سلفی علماء بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ میت کو اپنے ورثاء کی  حرکتوں کا علم ہوتا ہے – میت  کو علم ہوتا ہے کون اس پر رو رہا ہے جس سے میت کو دکھ ہوتا ہے

 ابن عثيمين  سے درج ذيل سوال كيا گيا

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى كيا ہے ؟

” يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ہوتا ہے ”

ابن عثيمين   کا جواب تھا کہ اس کا مطلب ہے

جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں تو اسے اس كا علم ہوتا اور اس سے اسے تكليف ہوتى ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى ميت كو اس كى سزا ديتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے: كوئى بھى جان كسى دوسرى جان كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .عذاب سے يہ لازم نہيں آتا كہ اسے سزا ہوتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے “حالانكہ سفر كوئى سزا نہيں، ليكن اس سے انسان كو تكليف ہوتى ہے اور تھك جاتا ہے، تو اسى طرح جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں اسے اس سے تكليف ہوتى ہے اور وہ تھك جاتا ہے، اگرچہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے اسے سزا نہيں ہے.حديث كى يہ شرح واضح اور صريح ہے، اور اس پر كوئى اشكال وارد نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس شرح ميں يہ ضرورت ہے كہ كہا جائے كہ يہ اس شخص كے متعلق ہے جو نوحہ كرنے كى وصيت كرے، يا پھر اس شخص كے متعلق ہے جن كى عادت نوحہ كرنا ہو، اور وہ مرتے وقت انہيں نوحہ كرنے سے منع نہ كرے، بلكہ ہم تو يہ كہتے ہيں: انسان كو كسى چيز كے ساتھ عذاب ہوتا ہے ليكن اسے اس سے كوئى ضرر بھى نہيں پہنچتا ” انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 17 / 408 ).

راقم کہتا ہے یہ عقیدہ باطل ہے کہ میت کو ورثاء کے رونے کا  علم ہوتا ہے

پیدائش النبی کی عید

نبی صلی الله علیہ وسلم کی اس دنیا میں  پیدائش سے قبل عالم ارضی میں اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن بہت خوشی سے مناتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ نصرانیوں کے بقول عیسیٰ نے موت کے چکر کو ختم کر دیا اب جو بھی ان کو الله کی پناہ رب کا بیٹا مان لے گا وہ ابدی زندگی سے ہمکنار ہو گا اور جو نہیں مانے گا وہ حیات اخروی نہ پائے گا بلکہ اس کی روح معدوم ہو جائے گی

اس کو نئی زندگی کی نوید کہا جاتا ہے لہٰذا عیسیٰ کی آمد کے سلسلے میں جشن منایا جاتا تھا اور ہے – نصرانیوں کی انجیل یوحنا کی آیات ہیں

یعنی عیسیٰ نور تھا جو الله سے جدا ہوا اور کلمہ الله بن کر انسانی صورت مجسم ہوا – یہ شرح یوحنا نے کی جو ایک یونانی ذہن کا شخص تھا اور انجیل کی ابتداء میں اپنی شرح بیان کی

 الله تعالی نے اس کا رد کیا اور خبر دی کہ عیسیٰ ابن مریم نور نہیں بلکہ کتاب الله یعنی انجیل نور تھی اور کلمہ الله مجسم نہیں ہوا بلکہ مریم کو القا ہوا اور ان میں عیسیٰ کی روح پھونکی گئی

لیکن ١٠٠ ہجری کے اندر ہی اس فرق کو میٹ دیا گیا اور راویوں نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر بھی نور نکلا

حدثنا أحمد قال: نا يونس بن بكير عن ابن إسحق قال: حدثني ثور بن يزيد عن خالد بن معدان، عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أنهم قالوا: يا رسول الله، أخبرنا عن نفسك، فقال: دعوة أبي إبراهيم، وبشرى عيسى، ورأت أمي حين حملت بي أنه خرج منها نور أضاءت له قصور بصرى من أرض الشام، واسترضعت في بني سعد بن بكر، فبينا أنا مع أخ لي في بهم لنا، أتاني رجلان عليهما ثياب بياض، معهما طست من ذهب مملوءة ثلجاً، فأضجعاني، فشقا بطني، ثم استخرجا قلبي فشقاه، فأخرجا منه علقة سوداء، فألقياها، ثم غسلا قلبي وبطني بذاك الثلج، حتى إذا أنقياه، رداه كما كان، ثم قال أحدهما لصاحبه: زنه بعشرة من أمته، فوزنني بعشرة، فوزنتهم، ثم قال: زنه بألف من أمته، فوزنني بألف، فوزنتهم، فقال: دعه عنك، فلو وزنته بأمته لوزنهم.

 خالد بن معدان بن أبى كرب الكلاعى ، أبو عبد الله الشامى الحمصى نے اصحاب رسول سے روایت کیا   کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو انہوں نے دیکھا  ان کے جسم سے نور نکلا  جس  سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے

اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

کتاب جامع التحصیل کے مطابق اس راوی کا سماع شام منتقل ہونے والے اصحاب سے ہے ہی نہیں

خالد بن معدان الحمصي يروي عن أبي عبيدة بن الجراح ولم يدركه قال أحمد بن حنبل لم يسمع من أبي الدرداء وقال أبو حاتم لم يصح سماعه من عبادة بن الصامت ولا من معاذ بن جبل بل هو مرسل وربما كان بينهما اثنان وقال أبو زرعة لم يلق عائشة وقال بن أبي حاتم سألته يعني أباه خالد بن معدان عن أبي هريرة متصل فقال قد أدرك أبا هريرة ولا يذكر له سماع

اور خود   الذهبي کا کہنا ہے  كان يرسل ويدلس یہ ارسال و تدلیس بھی کرتا ہے

میرے نزدیک جب تک صحابی کا نام نہ لے اس روایت کو متصل نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ یہ مدلس ہے واضح رہے اصحاب رسول عدول ہیں لیکن ان سے راوی  کا سماع نہیں ہے

امام بخاری نے صحیح میں خالد کی  أَبَا أُمَامَة والمقدام بن معد يكرب وَعُمَيْر بن الْأسود الْعَنسِي سے روایت لی ہے یعنی بخاری کے نزدیک ان اصحاب رسول سے سماع ہے لیکن نور نکلنے والی روایت میں اصحاب رسول کا نام نہیں لیا گیا لہذا یہ بات مشکوک ہے

انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا

اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں

شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن  کو  بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ  بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ

سند میں  سعيد بن سويد شام حمص کا ہے  میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

امام  البخاري: لا يتابع في حديثه.

امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی

البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

یہ حدیث ہم نہیں جانتے  کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے

یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا

صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے  اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے

راقم کہتا ہے روایت  چاہے  سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے

خصائص الکبری میں پیدائش کی روایت تفصیل سے ہے نعوذباللہ جس کے مطابق اپ صلی الله علیہ وسلم کس طرح اپنی ماں سے باہر نکلے بیان کیا گیا ہے
اسی میں ہے کہ
وأبصرت تِلْكَ السَّاعَة مَشَارِق الأَرْض وَمَغَارِبهَا وَرَأَيْت ثَلَاثَة أَعْلَام مضروبات علما فِي الْمشرق وعلما فِي الْمغرب وعلما على ظهر الْكَعْبَة فأخذني الْمَخَاض فَولدت مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَلَمَّا خرج من بَطْني نظرت إِلَيْهِ فَإِذا أَنا بِهِ سَاجِدا
آمنہ نے کہا من نے مشرق و مغرب میں دیکھا اور تین جھنڈے دیکھے ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک کعبہ پر اور محمد باہر آیا تو سجدے میں تھا

یہ طویل روایت ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوہ میں دی ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ

اس کی سند میں أبو بكر بن عبد الله بن أبي مريم الغساني الشامي ہے جو سخت ضعیف ہے
قال ابن حبان: هو رديء الحفظ، وهو عندي ساقط الاحتجاج به إذا انفرد.
ابن حبان نے کہا ردی حافظہ کا مالک تھا اور میرے نزدیک اس کی منفرد روایت ساقط دلیل ہے

اس طرح   شامیوں کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بطن آمنہ میں سے نور نکلنے والے روایت – محراب و منبر پر بیان کی جاتیں ہیں

اس نور کی منظر کشی عصر حاضر میں ایرانی فلم میں کی گئی

  شامی راویوں  کی اس روایت کو اہل تشیع نے قبول کر لیا

شیعوں کی کتاب الخصال از  أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى المتوفى 381 ہجری کے مطابق

حدثنا أبوأحمد محمد بن جعفر البندار الفقيه بأخسيكث ( 2 ) قال : حدثنا
أبوالعباس محمد بن جمهور ( 3 ) الحمادي قال : حدثني أبوعلي صالح بن محمد البغدادي ببخارا
قال : حدثنا سعيد بن سليمان ، ومحمد بن بكار ، وإسماعيل بن إبراهيم قال ( 4 ) : حدثنا
الفرج بن فضالة ، عن لقمان بن عامر ، عن أبي امامة قال : قلت : يا رسول الله ما كان
بدء أمرك ، قال : دعوة أبي إبراهيم ، وبشرى عيسى بن مريم ، ورأت أمي أنه خرج منها شئ أضاءت منه قصور الشام (

الفرج بن فضالة الحمصي الشامی نے روایت کیا لقمان بن عامر سے اس نے ابی امامہ سے کہ میں نے رسول الله سے پوچھا اپ کا امر نبی کیسے شروع ہوا؟ فرمایا میں اپنے باپ ابراھیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ ابن مریم کی بشارت ہوں اور میری امی نے دیکھا کہ ان میں سے نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے

اس کی سند میں الفرج بن فضالة الحمصي الشامی اہل سنت میں سخت ضعیف ہے اور اہل تشیع کی کتب رجال میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملا

رسول الله کی پیدائش پر ان کے ساتھ ان کی ماں کے بطن سے ایک عظیم نور نکلا اس روایت کے مختلف طرق ہیں سب میں شامیوں کا تفرد ہے

مزید دیکھیں

عید میلاد النبی

 

شہادت حسین کی خبریں

 شہادت حسین کی خبریں جرح و تعدیل کے میزان میں

حسین رضی الله عنہ کی شہادت یزید بن معاویہ کے دور میں ہوئی جو خلافت کا قضیہ تھا – حسین اپنی خلافت کوفہ میں قائم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ سپورٹ حاصل نہ کر پائے جو ان کی خلافت کو برقرار بھی رکھ سکے – لہذا انہوں نے اغلبا آخری لمحات میں خلافت کے ارادے کو ترک کیا اور اپنے قافلے کا رخ کوفہ کی بجائے شمال کی طرف موڑ دیا – یہاں تک کہ کوفہ سے ٤٠ میل دور کربلا پہنچ گئے اور یہیں شہید ہوئے جس پر امت ابھی تک غمگین ہے

قاتلین حسین پر الله کی مار ہو

أهل سنت کہتے ہیں خلیفہ کے خلاف خروج کرنا حرام ہے- ہر خروج کا مطلب قتال بالسیف ہے

خروج و فساد کی حد قرآن میں موجود ہے

اِنَّمَا جَزَآءُ الَّـذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَيَسْعَوْنَ فِى الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوٓا اَوْ يُصَلَّبُـوٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْـهِـمْ وَاَرْجُلُـهُـمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۚ ذٰلِكَ لَـهُـمْ خِزْىٌ فِى الـدُّنْيَا ۖ وَلَـهُـمْ فِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْـمٌ (33)
ان کی یہی سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے ہیں یہ کہ انہیں قتل کیا جائے یا وہ سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت ان کے لیے دنیا میں ہے، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

یہ فساد برپا کرنے کی سزا ہے وہ جو خروج کرے اس کے ساتھ یہی کیا گیا اب چاہے کوئی بھی ہو

بنو امیہ اور بنو عباس نے اسی حد کو جاری کیا ہے ہر خروج کرنے والے کا قتل ہوا ہے ان کو قتل یا سولی دی گئی ہے
معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجر بن عدی پر خارجی کی حد جاری کی ہے اس کو قتل کیا ہے

اسی آیت کے تحت علی نے بھی اپنی خلافت میں ایک شخص کو سولی دی اور ائمہ اہل تشیع کے مطابق حاکم  اس کے تحت  الگ الگ حکم کر سکتا ہے

قال: ذلك إلى الامام إن شاء قطع وإن شاء صلب وإن شاء نفى وإن شاء قتل، قلت: النفي إلى أين؟ قال: ينفى من مصر إلى مصر آخر، وقال: إن عليا عليه السلام نفى رجلين من الكوفة إلى البصرة.

الکافی از کلینی باب حد المحارب

جب خلیفہ کی بیعت لی جا چکی ہو اور اس پر ٦ ماہ بھی گزر چکے ہوں تو خروج پھر وہ خروج ہے جس میں حد لگ جائے گی
حسین نے ٦ ماہ کے بعد خروج کیا ہے

افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سب حسین کے ساتھ ہوا انہوں نے اپنی طاقت و عصبیت کے غلط اندازے لگائے اور پھنس گئے

ابن عباس حبر امت کو اس کا اندازا تھا کہ حسین کا اقدام کس قدر غیر سنجیدہ ہے

– المعجم الكبير از طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اسْتَأْذَنَنِي حُسَيْنٌ فِي الْخُرُوجِ، فَقُلْتُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي أَوْ بِكَ لَشَبَكْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ. قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ أَنْ قَالَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي حَرَمُ اللهِ وَرَسُولِهِ» . قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ
(الطبرانی کبیر رقم2859 )
طَاوُسٍ، ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسین نے مجھ سے خروج پر اجازت مانگی میں نے کہا اگر یہ نہ ہوتا کہ میں تمہارا استهزأ کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سر (کے بالوں) کو پکڑتا (یعنی زبردستی روکتا ) – حسین نے کہا تو (گویا) اپ نے اس (امر خلافت) سے مجھ کو دور کیا – اگر میں اس اور اس جگہ قتل ہو جاؤں تو یہ مجھے محبوب ہے کہ میں اس کو حلال کروں جس کو اللہ اور رسول نے حرام کیا ہے – ابن عباس نے کہا تو یہ تو پھر تم نے خود ہی ان کو پیچھے لگوایا
تاریخ الاسلام از الذھبی کے محقق عمر عبد السلام التدمري کہتے ہیں أخرجه الطبراني (2782) رقم (2859) ورجاله ثقات، وهم رجال الصحيح.

اسی جیسی روایت اخبار مکہ الفاکھی کی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: اسْتَشَارَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقُلْتُ لَهُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي وَبِكَ لَنَشَبْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ، قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ بِأَنْ قَالَ: ” لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي مَكَّةُ “، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: فَذَاكَ الَّذِي سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ ثُمَّ حَلَفَ طَاوُسٌ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ تَعْظِيمًا لِلْمَحَارِمِ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ لَبَكَيْتُ
ابن عبّاس رضی الله عنہ نے کہا حسین نے مجھے عراق کی طرف اپنے خروج پر اشارہ دیا – میں نے کہا اگر ایسا نہ ہو کہ میں کم تر کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارا سر پکڑتا – حسین نے جواب میں کہا: اگر میں وہاں یا وہاں قتل ہو جاؤں تو یہ مجھ کو اس سے محبوب ہے کہ میں مکہ کو حلال کر دوں- ابن عباس نے کہا تم نے پھر تم نے خود ہی ان کو پیچھے لگوایا – طاوس نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ ابن عباس سے بڑھ کر رشتہ داروں کی تعظیم کوئی کرتا ہو اور اگر میں چاہوں تو اس پر ہی روؤں

ان روایات میں سلی ہے جو عربی میں کھال اتارنے یا غلاف اتارنے پر بولا جاتا ہے – لسان عرب ج ١٤ ص ٣٦٩ میں ہے السَّلَى سَلى الشاةِ – بکری کی کھال اتاری جائے – سلّى نفسه کا مطلب اپنے اپ کو مشغول کرنا بھی ہو سکتا ہے- اس طرح سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ کا مطلب ہو گا ان کو اپنے آپ میں مشغول کروایا یہ اردو میں کہہ لیں ان کو اپنے پیچھے لگوایا – یعنی اہل بیت کے بڑوں نے بھی حسین رضی الله عنہ کو سمجھایا

البدایہ و النہایہ از ابن کثیر اور تاريخ دمشق از ابن عساکر میں ایک روایت ہے جس میں ہے حسین نے ابن عباس سے اس کلام کے بعد کہا
إنّك شيخ قد كبُرتَ (مختصر تاريخ دمشق ، لابن منظور . (7 /142
بے شک ابن عباس تم اب بوڑھے ہو چکے ہو

یعنی حسین سوچ سمجھ کر نکلے اور واپس انے کا کوئی پلان نہ تھا اس لئے سب گھر والوں کو لے کر چلے گئے

 حسین اقتدار چاہتے تھے اسلام میں یہ کوئی برائی نہیں ہے – لیکن ٹیکنیکل غلطی ہے جب  موقعہ گزر جائے تو خلافت کا دعوی نہیں کیا جاتا

حسین اقتدار حاصل نہ کر سکے اسی لئے  ابن سبا  کے پیرو کاروں نے رجعت کا عقیدہ دیا کہ جو ابھی  مر گئے وہ  مستقبل زندہ ہوں گے واپس آئیں  گے بقول شاعر

حسین کو زندہ تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

ہم تک جو خبریں آئیں ہیں ان کو جرح و تعدیل کے میزان میں پرکھنا ضروری ہے

امت نواسوں کو قتل کرے گی

مسند احمد ج ١ ص ٨٥ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَارَ مَعَ عَلِيٍّ، وَكَانَ صَاحِبَ مِطْهَرَتِهِ، فَلَمَّا حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ، فَنَادَى عَلِيٌّ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، بِشَطِّ الْفُرَاتِ قُلْتُ: وَمَاذَا قَالَ؟، دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَغْضَبَكَ أَحَدٌ، مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ؟ قَالَ: «بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ» قَالَ: فَقَالَ: «هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ أُشِمَّكَ مِنْ تُرْبَتِهِ؟» قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. فَمَدَّ يَدَهُ، فَقَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ فَأَعْطَانِيهَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا

علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے آپ کو ناراض کردیا ہے ؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بلکہ میرے پاس ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا۔

سند میں عَبْدِ الله بْنِ نُجَيٍّ ہے جس کے امام بخاری فیہ نظر کہتے ہیں

اسی الفاظ سے ابن عدی کہتے ہیں من الحديث وأخباره فيها نظر اپنی حدیث اور خبر میں

فیہ نظر ہے

فیہ نظر محدثین جرح کے لئے بولتے ہیں

ایک رافضی لکھتے ہیں

جہاں تک یہ کہنا کہ فیہ نظر جرح کے لیے استعمال ہوتی ہے یہ بھی یاد رکھیں کہ جرح اگر مفسر نہ ہو، تو تعدیل کو اہمیت دی جاتی ہے یعنی آپ صرف کسی کو ضعیف بھی کہہ دیں،تو فائدہ تب ہی دے گا جب آپ وجہ بھی بیان کریں کہ کیوں ضعیف ہے۔ آیا حافظہ ٹھیک نہیں، جھوٹ بولتا ہےآخر وجہ کیا ہے اسے جرح مفسر کہتے ہیں

دیکھتے ہیں کہ کیا فیہ نظر کو جرح غیر مفسر کہا جاتا ہے

السیوطی کتاب تدريب الراوي میں وضاحت کرتے ہیں

تنبيهات الأول البخاري يطلق فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه

پہلی تنبیہ بخاری اگرکسی راوی پر فیه نظر کا اطلاق کریں اور سكتوا عنه کہیں تو مراد حدیث ترک کرنا ہے

کتاب التنكيل از الشيخ المعلمي کے مطابق

وكلمة فيه نظر معدودة من أشد الجرح في اصطلاح البخاري

اور کلمہ فیہ نظر بخاری کی شدید جرح کی چند اصطلاح میں سے ہے

اللكنوي کتاب الرفع والتكميل في الجرح والتعديل میں اس پر کہتے ہیں

فيه نظر: يدل على أنه متهم عنده ولا كذلك عند غيره

فیہ نظر دلالت کرتا ہے کہ راوی بخاری کے نزدیک متہم ہے اور دوسروں کے نزدیک ایسا نہیں

رافضی کہتے ہیں إس کو فلاں اہل سنت کے امام نے ثقہ کہا ہے! سوال ہے کیا اہل تشیع علماء میں راویوں پر اختلاف نہیں ہے اگر کوئی مجروح ہے تو کیا سب کے نزدیک مجروح ہے؟ یا ثقہ ہے تو کیا سب کے نزدیک ثقہ ہے؟

رافضی لکھتے ہیں

علامہ شوکانی نے اپنی کتاب در السحابہ، ص 297 پر لکھا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں

شوکانی ایک وقت تھا جب زیدیہ سے تعلق رکھتے تھے اسی دور میں انہوں نے در السحابہ لکھی تھی

البانی الصحیحہ میں لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد ضعيف، نجي والد عبد الله لا يدرى من هو كما قال الذهبي ولم
يوثقه غير ابن حبان وابنه أشهر منه، فمن صحح هذا الإسناد فقد وهم.

میں کہتا ہوں اس کی اسناد ضعیف ہیں نجی والد عبد الله کا پتا نہیں کون ہے جیسا کہ الذھبی نے کہا ہے اور اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے اور اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشھور ہے اور جس کسی نے بھی اس کی تصحیح کی اس کو اس پر وہم ہے

البانی اس کے بعد اس کی چھ اسناد دیتے ہیں اور ان پر جرح کرتے ہیں اور آخر میں اس روایت کوصحیح (لغیرہ) بھی کہہ دیتے ہیں

کتاب أعيان الشيعة – السيد محسن الأمين – ج 4 – ص ٥٣ پر ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے شیعہ عالم محسن آمین لکھتے ہیں

قلت إنما رواه عن علي رجل مجهول يقال له عبد الله بن نجي

،میں کہتا ہوں اس کو علی سے ایک مجھول شخص نے روایت کیا ہے جس کو عبد الله بن نجی کہا جاتا ہے

محسن امین کی بات صحیح ہے کہ اہل تشیع کے ہاں یہ مجھول ہے اس کا ترجمہ تک معجم رجال الحديث از الخوئی میں نہیں

تاریخ دمشق ابن عساکر کی ایک اور روایت ہے

أخبرنا أبو بكر محمد بن الحسين نا أبو الحسين بن المهتدي أنا أبو الحسن علي بن عمر الحربي نا أحمد بن الحسن بن عبد الجبار نا عبد الرحمن يعني ابن صالح الأزدي نا أبو بكر بن عياش عن موسى بن عقبة عن داود قال قالت أم سلمة دخل الحسين على رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ففزع فقالت أم سلمة ما لك يا رسول الله قال إن جبريل أخبرني أن ابني هذا يقتل وأنه اشتد غضب الله على من يقتله

ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی

اس کی سند میں موسى بن عقبة ہے جو ثقہ ہیں لیکن مدلس. داود مجھول ہے جس سے یہ روایت نقل کر رہے ہیں

معجم الکبیر طبرانی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْحِمَّانِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا ذَاتَ يَوْمٍ فِي بَيْتِي، فَقَالَ: «لَا يَدْخُلْ عَلَيَّ أَحَدٌ» . فَانْتَظَرْتُ فَدَخَلَ الْحُسَيْنُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَسَمِعْتُ نَشِيجَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي، فَاطَّلَعْتُ فَإِذَا حُسَيْنٌ فِي حِجْرِهِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَهُوَ يَبْكِي، فَقُلْتُ: وَاللهِ مَا عَلِمْتُ حِينَ دَخَلَ، فَقَالَ: ” إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ مَعَنَا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: تُحِبُّهُ؟ قُلْتُ: أَمَّا مِنَ الدُّنْيَا فَنَعَمْ. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُ هَذَا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا كَرْبَلَاءُ “. فَتَنَاوَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ تُرْبَتِهَا، فَأَرَاهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُحِيطَ بِحُسَينٍ حِينَ قُتِلَ، قَالَ: مَا اسْمُ هَذِهِ الْأَرْضِ؟ قَالُوا: كَرْبَلَاءُ. قَالَ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، أَرْضُ كَرْبٍ وَبَلَاءٍ

جبریل نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کربلا کی مٹی دکھائی اور اس کو کرب و بلا کی زمیں کہا

اس کی سند میں عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَب ہے جو مجھول ہے

خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پریشانی میں دیکھنا 

مسند احمد کی روایت ہے

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں

اسکی سند کا راوی عمار بن أبي عمار مولى بني هاشم مختلف فیہ ہے کتاب اکمال مغلطائی میں ہے

وقال البخاري: أكثر من روى عنه أهل البصرة…و لا یتابع علیہ

ابن حبان مشاہیر میں کہتے ہیں

وكان يهم في الشئ بعد الشئ

اسکو بات بے بات وہم ہوتا ہے

ابو داود کہتے ہیں شعبہ نے اس سے روایت لی لیکن کہا

وكان لا يصحح لي

میرے نزدیک صحیح نہیں

یحیی بن سعید کہتے ہیں شعبہ نے صرف ایک روایت اس سے لی

امام مسلم نےاس سےصرف ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم مکہ میں کتنے عرصے رہے

ام المومنین نے جنوں کا نوحہ سنا

طبرانی روایت کرتے ہیں کہ عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ کہتا ہے کہ

حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ: عَنْ عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ؛ سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ سَمِعْتُ الجِنَّ يَبكِيْنَ عَلَى حُسَيْنٍ، وَتَنُوحُ عَلَيْهِ

عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ نے کہا: میں نے ام سلمہ کو کہتے  سنا انہوں نے کہا  میں نے ایک جن کو سنا جو حسین پر رو رہے تھا اور  نوحہ کر رہا تھا

جبکہ ام سلمہ تو حسین کی شہادت سے پہلے وفات پا چکی ہیں

خود عمار کی ایک روایت جو صحیح مسلم میں ہے اس پر روافض جرح کرتے ہیں کہ اس میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم مکہ میں ١٥ سال رہے اور ان میں آٹھ سال تک کسی کو نہ دیکھا صرف روشنی دیکھتے رہے

جب صحیحین پر جرح کرنی ہوتی ہے تو روافض خود عمار بن ابی عمار کی روایت پیش کر دیتے ہیں اور جب وہ جنات کی خبریں دیتا ہے تو قبول کرتے ہیں

آسمان سے خون کی بارش ہونا

الأمالي – الشيخ الطوسي – ص 330
أخبرنا ابن خشيش ، قال : أخبرنا الحسين بن الحسن ، قال : حدثنا محمد بن دليل ، قال : حدثنا علي بن سهل ، قال : حدثنا مؤمل ، عن حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار ، قال : أمطرت السماء يوم قتل الحسين ( عليه السلام ) دما عبيط

شیخ الطوسی روایت کرتے ہیں کہ عمار بن ابی عمار کہتا ہے کہ قتل حسین کے دن آسمان سے تازہ خون کی بارش ہوئی

خون کی بارش کا ذکر اہل سنت کی صحاح ستہ کی کسی کتاب میں نہیں ہے عمار بن ابی عمار کی یہ قصہ گوئی ہے

عمار بن ابی عمار تو مدینہ میں تھا خون کی بارش ساری دنیا میں ہوئی؟ کہاں کہاں ہوئی؟ کس کس نے بیان کیا

مدینہ کا کوئی اور شخص اس کو نقل نہیں کرتا اگر کوفہ میں ہوئی تو اس کا فائدہ اس سے تو تمام شواہد مٹ گئے کس نے قتل کیا خون جب ہر طرف ہو گا تو مقتل کا نشان باقی نہ رہا

اتنا اہم ماحولیاتی تغیر اور اس خون سے جو فقہی مسائل پیدا ہوئے اور پینے کا پانی قابل استمعال نہ رہا اس پر کتب خاموش ہیں

لیکن لوگوں کو قصے پسند ہیں سن رہے ہیں اور قبول کر رہے ہیں

امت نے  کر بلا پر قتل کیا جیسا خبر تھی 

تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے

أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو عمر محمد بن العباس أنا أبو الحسن أحمد بن معروف أنا الحسين بن الفهم أنا محمد بن سعد أنا محمد بن عبد الله الأنصاري نا قرة بن خالد أخبرني عامر بن عبد الواحد عن شهر بن حوشب قال أنا لعند أم سلمة زوج النبي (صلى الله عليه وسلم) قال فسمعنا صارخة فأقبلت حتى انتهيت إلى أم سلمة فقالت قتل الحسين قالت قد فعلوها ملأ الله بيوتهم أو قبورهم عليهم نارا ووقعت مغشيا عليها وقمنا

شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے پاس موجود تھا۔ میں نے حسین کی شہادت کی خبر سنی تو ام سلمہ کو بتایا ۔(کہ سیدنا حسینؓ شہید ہوگئے ہیں) انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے یہ کام کردیاہے، اللہ ان کے گھروں یا قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ اور وہ (غم کی شدت سے ) بیہوش ہوگئی

سند میں شہر بن حوشب ہے اس پر بحث آ رہی ہے

تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے

أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي إملاء ح

وأخبرنا أبو نصر بن رضوان وأبو غالب أحمد بن الحسن وأبو محمد عبد الله بن محمد قالوا أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو بكر بن مالك أنا إبراهيم بن عبد الله نا حجاج نا حماد عن أبان عن شهر بن حوشب عن أم سلمة قالت كان جبريل عند النبي (صلى الله عليه وسلم) والحسين معي فبكى فتركته فدنا من النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال جبريل أتحبه يا محمد فقال نعم قال جبرائيل إن أمتك ستقتله وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها فأراه إياه فإذا الأرض يقال لها كربلا

شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا

ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے

النَّسَائِيُّ اپنی کتاب الضعفاء والمتروكون میں کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں .

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.

أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے .

يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ کہتے ہیں.

عَبْدِ اللهِ بنِ عَوْنٍ، قَالَ: إِنَّ شَهْراً تَرَكُوْهُ اس کو متروک کہتے ہیں

الذھبی کہتے ہیں اس کی حدیث حسن ہے اگر متن صحیح ہو اور اگر متن صحیح نہ ہو تو اس سے دور رہا جائے کیونکہ یہ ایک احمق مغرور تھا

الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں اس پر لکھتے ہیں

قُلْتُ: مَنْ فَعَلَهُ لِيُعِزَّ الدِّيْنَ، وَيُرْغِمَ المُنَافِقِيْنَ، وَيَتَوَاضَعَ مَعَ ذَلِكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ، وَيَحْمَدَ رَبَّ العَالِمِيْنَ، فَحَسَنٌ، وَمَنْ فَعَلَهُ بَذْخاً وَتِيْهاً وَفَخْراً، أَذَلَّهُ اللهُ وَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَإِنْ عُوْتِبَ وَوُعِظِ، فَكَابَرَ، وَادَّعَى أَنَّهُ لَيْسَ بِمُخْتَالٍ وَلاَ تَيَّاهٍ، فَأَعْرِضْ عَنْهُ، فَإِنَّهُ أَحْمَقٌ مَغْرُوْرٌ بِنَفْسِهِ.

اس سے سنن اربعا اور مسلم نے مقرونا روایت لی ہے

کتاب رجال صحیح مسلم از ابن مَنْجُويَه (المتوفى: 428هـ) کے مطابق

مسلم نے صرف ایک روایت کہ کھمبی ، من میں سے ہے لی ہے

طبرانی الکبیر میں قول ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ فِيمَنْ قَتَلَ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ، ثُمَّ غُفِرَ لِي، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَمُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْظُرَ فِي وَجْهِي

ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا:اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنہوں نے حسین بن علی کو قتل (شہید) کیا، پھر میری مغفرت کردی جاتی ، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گزرنے سے شرم کرتا کہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں۔

اس کی سند میں مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ ہے – الأزدي اس کو منكر الحديث کہتے ہیں ابن حجر صدوق کہتے ہیں

اسکی سند میں سعيد بن خثيم بن رشد الهلالى ہے جس ابن حجر ، صدوق رمى بالتشيع له أغاليط شیعیت میں مبتلا اور غلطیوں سے پر ہے ، کہتے ہیں

سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ، أَبُو مَعْمَرٍ الْهِلالِيُّ الْكُوفِيّ اور اس کے استاد خالد دونوں کوالازدی نے منکر الحدیث کہا ہے
دیکھئے ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين از الذھبی

راویوں کا ہر قول نہیں لیا جاتا یہی وجہ ہے ابن عدی کہتے ہیں
سعيد بن خثيم الهلالي: قال الأزدي: منكر الحديث، وقال ابن عدي: مقدار ما يرويه غير محفوظ.
بہت کچھ جو سعید روایت کرتا ہے غیر محفوظ ہے

سند میں محمد بن عثمان بن أبي شيبة بھی ہے جس کو کذاب تک کہا گیا ہے دیکھئے میزان الاعتدال
از الذھبی
عبد الله بن أحمد بن حنبل فقال: كذاب.
وقال ابن خراش: كان يضع الحديث.
وقال مطين: هو عصا موسى تلقف ما يأفكون.
وقال الدارقطني: يقال إنه أخذ كتاب غير محدث

بحر الحال اس روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ ابراہیم کا قول ہے کوئی حدیث رسول نہیں ہے، ان کا قتل حسین سے کوئی تعلق نہ تھا

مشخیۃ ابراہیم بن طہمان کی روایت ہے

عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِيَ فَقَالَ: «لَا يَدْخُلُ عَلَيَّ أَحَدٌ فَسَمِعْتُ صَوْتًا، فَدَخَلْتُ، فَإِذَا عِنْدَهُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ وَإِذَا هُوَ حَزِينٌ، أَوْ قَالَتْ: يَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا لَكَ تَبْكِي يَا رَسُولَ ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي جِبْرِيلُ أَنَّ أُمَّتِي تَقْتُلُ هَذَا بَعْدِي فَقُلْتُ وَمَنْ يَقْتُلُهُ؟ فَتَنَاوَلَ مَدَرَةً، فَقَالَ:» أَهْلُ هَذِهِ الْمَدَرَةِ تَقْتُلُهُ “

ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس حسین بن علی موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی

سند میں عَبد الرحمن بن إسحاق (عَبد الرحمن بن إسحاق، وَهو عباد بن إسحاق وعباد لقب مديني) ہے جس کے لئے کتاب الكامل في ضعفاء الرجال کے ابن عدی مطابق

يَحْيى بن سَعِيد، قالَ: سَألتُ عن عَبد الرحمن بن إسحاق بالمدينة فلم أرهم يحمدونه.

یحیی بن سعید کہتے ہیں عبد الرحمان بن اسحاق کے بارے میں اہل مدینہ سے سوال کیا لیکن ایسا کوئی نہ تھا جو اس کی تعریف کرے

طبقات ابن سعد کے محقق محمد بن صامل السلمي جو مكتبة الصديق – الطائف اس روایت کے لئے کہتے ہیں

إسناده ضعيف.

معرفة الصحابة از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ حَسَّانَ، ثنا عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «اسْتَأْذَنَ مَلَكُ الْقَطْرِ أَنْ يَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُذِنَ لَهُ فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَةَ» احْفَظِي عَلَيْنَا الْبَابَ، لَا يَدْخُلَنَّ أَحَدٌ ” قَالَ: فَجَاءَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، فَوَثَبَ حَتَّى دَخَلَ، فَجَعَلَ يَقْعُدُ عَلَى مَنْكِبَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ الْمَلَكُ: أَتُحِبُّهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ» قَالَ: فَإِنَّ فِي أُمَّتِكَ مَنْ يَقْتُلُهُ، وَإِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ الْمَكَانَ الَّذِي يُقْتَلُ فِيهِ، قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ، فَأَرَاهُ تُرَابًا أَحْمَرَ، فَأَخَذَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ، فَصَرَّتْهُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهَا، قَالَ: كُنَّا نَسْمَعُ أَنَّهُ يُقْتَلُ بِكَرْبَلَاءَ

عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ کہتا ہے ہم سے ثابت نے بیان کیا وہ کہتے ہیں ان سے انس بن مالک رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ بارش کے فرشتے نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس انے کی اجازت مانگی پس اس کو اجازت دی اس نے ام سلمہ سے کہا کہ دروازہ کی حفاظت کریں کہ کوئی داخل نہ ہو پس حسین آ گئے اور اندر داخل ہوئے اور رسول الله کے شانے پر بیٹھ بھی گئے تو فرشتہ بولا کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں رسول الله نے کہا ہاں فرشتہ بولا اپ کی امت میں سے کچھ اس کا قتل کر دیں گے اور اگر آپ چاہیں تو اس مکان کو دکھا دوں جہاں یہ قتل ہونگے اس نے ہاتھ پر ضرب لگائی اور سرخ مٹی آپ نے دیکھی جس کو ام سلمہ نے سمیٹ کر اپنے کپڑے میں رکھا کہا ہم سنتے تھے کہ یہ کربلا میں قتل ہونگے

سند میں عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ ہے جس کو محدثین ضعیف کہتے ہیں الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

قال البخاري: ربما يضطرب في حديثه.
وقال أحمد: له مناكير.
وقال أبو حاتم: يكتب حديثه ولا يحتج به.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال أبو داود: ليس بذاك.
وقال أبو زرعة: لا بأس به.

البانی نے بھی اس کی روایت کو ضعیف کہا ہے مثلا ایک دوسری روایت پر الصحیحہ ج 5 ص ١٦٦ میں لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد ضعيف
، عمارة بن زاذان صدوق سيء الحفظ

میں کہتا ہوں اس کی اسناد ضعیف ہیں اس میں عمارة بن زاذان ہے جو صدوق برے حافظہ والا ہے

اس مخصوص کربلا والی روایت کو البانی الصحیحہ میں ذکر کرتے ہیں

قلت: ورجاله ثقات غير عمارة هذا قال الحافظ: ” صدوق كثير الخطأ “. وقال
الهيثمي: ” رواه أحمد وأبو يعلى والبزار والطبراني بأسانيد وفيها عمارة بن
زاذان وثقه جماعة وفيه ضعف وبقية رجال أبي يعلى رجال الصحيح “.

میں کہتا ہوں اس کے رجال ثقہ ہیں سوائے عمارہ کے ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہے غلطیاں کرتاہے اور ہیثمی کہتے ہیں اس کو امام احمد ابو یعلی البزار اور الطبرانی نے جن اسانید سے روایت کیا ہے ان میں عمارہ ہے جن کو ایک جماعت نے ثقہ کہا ہے اور اس میں کمزوری ہے اور باقی رجال ابی یعلی کے رجال ہیں

البانی مبہم انداز میں اس کو رد کر رہے ہیں لیکن التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں کھل کراس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیں

صحيح لغيره

جبکہ دوسری تمام روایات کا ضعیف ہونا اوپر واضح کیا گیا ہے لہذا یہ صحیح الغیرہ نہیں ضعیف ہے

ام سلمہ رضي الله عنہا کي اوپر دي تمام احاديث ضعيف ہيں کيونکہ ان کي وفات حسين کي شہادت سے پہلے ہو گئي تھي
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَزِينٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعْنِي فِي المَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ ، قَالَ: “شَهِدْتُ قَتْلَ الحُسَيْنِ آنِفًا” هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

سلمی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے . کا سر اور ریش مبارک گرد آلود تھی.میں نے عرض کی ، یارسول ،آپ کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ رسول الله نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسین کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

ترمذی اور مستدرک الحاکم میں یہ روایت نقل ہوئی ہے

اس کی سند میں سَلْمَى الْبَكْرِيَّةِ ہیں

تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں مبارکپوری لکھتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ لِجَهَالَةِ سَلْمَى

سَلْمَى کے مجھول ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے

کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق

وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ

اور ام سلمہ کی وفات ٥٩ ھ میں ہوئی

تاریخ کے مطابق حسین کی شہادت سن ٦١ ہجری میں ہوئی

ام سلمہ رضی الله عنہا کی وفات

ایک رافضی لکھتے ہیں

اب مستند روایات تو یہ کہہ رہی ہے کہ بی بی ام سلمہ اس وقت موجود تھیں، اور یہ ناصبی یہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ جناب وہ تو پہلے انتقال کر چکی تھیں

ڈھول ہم ہی نہیں شیعان بھی پیٹ رہے ہیں دیکھیں اور وجد میں آئیں

المعارف از ابن قتیبہ کے مطابق

وتوفيت «أم سلمة» سنة تسع وخمسين، بعد «عائشة» بسنة وأيام.

ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں عائشہ کے ایک سال بعد یا کچھ دن بعد وفات ہوئی

کتاب جمل من أنساب الأشراف از أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ) کے مطابق
وتوفيت أم سلمة فِي شوال سنة تسع وخمسين، ودفنت بالبقيع
ام سلمہ کی وفات شوال ٥٩ ھ میں ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئیں

طبقات ابن سعد کے مطابق واقدی کہتا ہے ام سلمہ رضی الله عنہا کی وفات ٥٩ ھ ہے
طبقات ابن سعد ” 4 / 340، 341

ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی جو خود حسین سے پہلے انتقال کر گئے

ابن قتیبہ واقدی اور البَلَاذُري کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کا میلان شیعیت کی طرف تھا حسن اتفاق ہے ان سب کا ام سلمہ کی وفات پر اجماع ہے کہ وہ ٥٩ ھ میں حسین سے پہلے وفات پا چکی ہیں

کتاب تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير از ابن جوزی کے مطابق
فَتزَوج رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أم سَلمَة فِي لَيَال بَقينَ من شَوَّال سنة أَربع وَتوفيت سنة تسع وَخمسين وَقيل سنة ثِنْتَيْنِ وَسِتِّينَ وَالْأول أصح

پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا سن 4 ھ میں شوال میں کچھ راتیں کم اور ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی اور کہا جاتا ہے سن ٦٢ ھ میں اور پہلا قول صحیح ہے

ابن حبان ثقات میں کہتے ہیں
وَمَاتَتْ أم سَلمَة سنة تسع وَخمسين
ام سلمہ ٥٩ ھ میں وفات ہوئی

الباجی کہتے ہیں کتاب التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح
توفيت فِي شَوَّال سنة تسع وَخمسين فصلى عَلَيْهَا أَبُو هُرَيْرَ

ان کی وفات شوال سن ٥٩ ھ میں ہوئی ابو ہریرہ نے نماز پڑھائی

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

وَقَالَ بَعْضُهُمْ: تُوُفِّيَتْ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ، وَهُوَ غَلَطٌ، لِأَنَّ فِي «صَحِيحِ مُسْلِمٍ» أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ صَفْوَانَ دَخَلَ عَلَيْهَا فِي خِلافَةِ يَزِيدَ
اور بعض نے کہا ان کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی اور یہ غلط ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ عبد الله بن صفوان ان کے پاس داخل ہوا یزید کی خلافت کے دور میں

اسی کتاب میں [حَوَادِثُ] سَنَة تسع وخمسين میں الذھبی لکھتے ہیں
وَيُقَالُ: توفيت فِيهَا أم سلمة، وتأتي سَنَة إحدى وستين
اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ام سلمہ کی وفات ہوئی اور آگے آئے گا کہ سن ٦١ ھ میں ہوئی

یہ الذھبی کی غلطی ہے صحیح مسلم کی معلول روایت میں ہے کہ راویوں نے ان سے ابن زبیر کے دور میں پوچھا جو ٦٤ ھ سے شروع ہوتا ہے

ابن اثیر الکامل میں لکھتے ہیں
وَمَاتَتْ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ، وَقِيلَ: بَعْدَ قَتْلِ الْحُسَيْنِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
اور ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی اور کہا جاتا ہے حسین کے قتل کے بعد ہوئی

ابن کثیر البداية والنهاية میں لکھتے ہیں
وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فِي ذِي الْقِعْدَةِ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ
البیہقی نے روایت کیا ہے کہ ام سلمہ کی وفات ذیقعدہ سن ٥٩ ھ میں ہوئی
اسی کتاب میں ابن کثیر لکھتے ہیں
قَالَ الْوَاقِدِيُّ: تُوُفِّيَتْ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ وَصَلَّى عَلَيْهَا أَبُو هُرَيْرَةَ.
وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ: تُوُفِّيَتْ فِي أيَّام يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ.
قُلْتُ: وَالْأَحَادِيثُ الْمُتَقَدِّمَةُ فِي مَقْتَلِ الْحُسَيْنِ تَدُلُّ عَلَى أَنَّهَا عَاشَتْ إِلَى مَا بَعْدَ مَقْتَلِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

واقدی کہتا ہے ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی ابو ہریرہ نے نماز پڑھائی
ابن ابی خیثمہ کہتا ہے ان کی وفات یزید کے دور میں ہوئی
میں کہتا ہوں اور شروع کی احادیث جو مقتل حسین کے بارے میں ہیں ان سے دلالت ہوتی ہے کہ یہ ان کے قتل کے بعد بھی زندہ رہیں

قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ام سلمہ کی وفات کے حوالے سے موقف ان روایات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بدلا گیا جبکہ یہ خود تاریخ کے مطابق غلط ہیں

ایک رافضی جھوٹ کھلتا دیکھ کر اس قدر گھبرا کر لکھتے ہیں

اب یہ مستند روایت بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ بی بی ام سلمہ امام حسین کی شہادت کے وقت موجود تھیں۔ کسی کو اگر اس پر اعتراض ہے، تو اسے کوئی مستند روایت پیش کرنی ہو گی جو یہ ثابت کر سکے کہ ان کا اس وقت انتقال ہو چکا تھا۔ صرف مولویوں کی رائے پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں

لیکن خود اوپر دی گئی احادیث کی تصحیح کے لئے خود مولویوں شیخ شعیب الارناؤط ، احمد شاکر ، البانی کے اقوال پیش کرتے ہیں

ابن قتیبہ واقدی اور البَلَاذُري کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کا میلان شیعیت کی طرف تھا حسن اتفاق ہے ان سب کا ام سلمہ کی وفات پر اجماع ہے کہ وہ ٥٩ ھ میں حسین سے پہلے وفات پا چکی ہیں

ام۔ سلمہ کی وفات کی خبر سند سے ھی ان مورخین نے بیان کی ھ

ہماری نہیں تو اپنے شیعوں کی ہی مان لیں

خیران کےلینے اور دینے کے باٹ الگ الگ ہیں

خود ہی غور کریں اور عقل سلیم استعمال کریں

ام سلمہ خواب میں دیکھتی ہیں یا جن بتاتا ہے- کتنے راوی ان کی حالت نیند میں ان کے پاس ہی بیٹھے ہیں! ام المومنین پر جھوٹ بولنے والوں پر الله کی مار

ام المومنین کی خواب گاہ میں یہ منحوس داخل کیسے ہوئے؟

قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں – اسناد دین ہیں لہذا محدثین کی جرح کو قبول کرنا چاہیے -نہ کہ محبوب راویوں کو بچانے کے چکر میں تاریخ کو ہی مسخ کر دیا جائے

بہت سے محققین نے ان روایات کو صحیح کہا ہے مثلا البانی صاحب اور صرف ثقاہت کے الفاظ نقل کیے ہیں اس صورت میں یہ روایات صحیح سمجھی جاتی ہیں لیکن اس قدر جھوٹ آپ دیکھ سکتے ہیں ام سملہ سو رہی ہیں راوی ان کے پاس بیٹھے ہیں ان کو جن بتاتے ہیں وہ خواب میں دیکھتی ہیں وغیرہ وغیرہ

یہ راوی حسین کے ساتھ کوفہ کیوں نہ گئے کیا امام وقت کی مدد ان پر فرض نہ تھی؟

عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسیٰ انسانیت کے گناہوں کی وجہ سے جان بوجھ کر سولی چڑھا کچھ اسی نوعیت کا عقیدہ ان راویوں نے بھی پیش کیا ہے کہ حسین کو خبر تھی وہ کوفہ میں قتل ہونگے اور وہ خود وہاں چل کر گئے- ظاہر ہے اسلام میں خودکشی حرام ہے اور اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کی کربلا میں شہادت کی خبر دے دی تھی اور وہ اس کو جانتے ہوئے بھی وہاں گئے

بلکہ ان سب خبروں کے باوجود علی نے مدینہ چھوڑ کر کربلا کے پاس جا کر اپنا دار الخلافہ بنایا

الکافی کی روایت ہے

[5115] 7 – الكليني، عن علي، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن عبد الله بن سنان قال سمعت أبا عبد الله (عليه السلام) يقول: ثلاث هن فخر المؤمن وزينة في الدنيا والآخرة: الصلاة في الليل ويأسه مما في أيدي الناس وولايته الامام من آل محمد (صلى الله عليه وآله وسلم). قال: وثلاثة هم شرار الخلق ابتلى بهم خيار الخلق: أبو سفيان أحدهم قاتل رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) وعاداه ومعاوية قاتل عليا (عليه السلام) وعاداه ويزيد بن معاوية لعنه الله قاتل الحسين بن علي (عليهما السلام) وعاداه حتى قتله (1).

امام جعفر الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تین چیزیں مومن کے لیے دنیا و آخرت میں زینت ہیں: رات کو نماز پڑھنا، جو لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اس سے دوری رکھنا، اور اہل بیت کے امام کی ولایت۔ اور تین ایسے شریر ترین لوگ ہیں کہ جن سے سب سے بہترین لوگوں کا ابتلا/آزمائش میں ڈالا گیا: ابو سفیان کے جس نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے جنگ کی اور دشمنی رکھی، معاویہ کہ جس نے علی سے جنگ کی، اور دشمنی رکھی، اور یزید جس پر اللہ کی لعنت ہو، حسین سے لڑا، ان سے دشمنی رکھی حتی کہ قتل کر دیا

اس روایت کے راوی عبد الله بن سنان بن طریف کے لئے النجاشی لکھتے ہیں

9 – عبد الله بن سنان بن طريف :
قال النجاشي : ” عبد الله بن سنان بن طريف مولى بني هاشم ، يقال مولى
بني أبي طالب ، ويقال مولى بني العباس . كان خازنا للمنصور والمهدي والهادي
والرشيد ، كوفي ، ثقة ، من أصحابنا ، جليل لا يطعن عليه في شئ ، روى عن أبي
عبد الله ( عليه السلام ) ، وقيل روى عن أبي الحسن موسى ، وليس بثبت . له كتاب
الصلاة الذي يعرف بعمل يوم وليلة ، وكتاب الصلاة الكبير ، وكتاب في سائر
الأبواب من الحلال والحرام ، روى هذه الكتب عنه جماعات من أصحابنا لعظمه
في الطائفة ، وثقته وجلالته .

عبد الله بن سنان بن طريف مولى بني هاشم بنی ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں اور کہا جاتا ہے بنو عباس کے آزاد کردہ غلام تھے اور یہ عباسی خلیفہ المنصور کے المہدی کے الہادی کے اور الرشید کے خزانچی تھے کوفی اور ثقہ تھے قابل قدر ہمارے اصحاب میں سے کسی نے ان کو برا نہ کہا عبد الله علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ابی حسن موسی سے اور یہ ثابت نہیں ہے ان کی ایک کتاب الصلاه ہے جو دن و رات کے عمل کے لئے جانی جاتی ہے اور کتاب الصلاه کبیر ہے

عبد الله بن سنان نے چار خلفاء کے لئے کام کیا لیکن اس نام کے شخص کا تاریخ میں ذکر نہیں ملتا لیکن شیعہ روایات ایسی ہی ہیں

المنصور کا دور ١٣٦ ہجری سے شروع ہوتا ہے اور ہارون الرشید کا دور ١٩٢ ہجری پر ختم ہوتا ہے

جو شخص چار خلفاء کے لئے ایک اہم عہدے پر ہو اور اس کا ذکر تاریخ میں نہ ہو تو اس کو کیا کہا جائے

اثنا العشری شیعوں کا کہنا ہے کہ بنو عبّاس ان پر ظلم کرتے تھے لیکن یہاں تو خود ان کے مطابق عبد الله بن سنان ان کے خزانچی تھے جو الکافی کے راوی ہیں؟

سوچیں اور سبائی سوچ سےنکلیں

الله حسین پر اور ان کی ال پر رحم کرے

عرش عظیم اور بعض محدثین کا غلو

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا

ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب  آپ کو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم  الله  سے دعا کریں  گے جو ان کی نبی کی حیثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا

ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه

محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم

اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے

معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا !   افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں-

ابن أبي يعلى کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل  وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء

ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں

القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں

ونظر أَبُو عبد اللَّه فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها

اور  ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا  اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا

کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں

وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث“.

ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ

قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ

ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو  در کر آیا ہے

سعودی مفتی  ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم بھی  کہتے ہیں کہ  مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد  نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں

قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة

فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ

جلد2 ، ص136

دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں   کہ  امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا یہ قول فضائل کی وجہ سے ہے[1]

لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول  رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے

الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے

العلو 2/1081، رقم/422

میزان الاعتدال میں الذھبی،  مجاهد بن جبر  المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات  کے ترجمے میں  کہتے ہیں

ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله  : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش

تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا

الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں  مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں

فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اللَّهَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ

پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے

مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے-

ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول  کو پسند کرتے تھے اور لوگ  ترمذی پر جرح کرتے تھے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ

هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے  انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے  انہوں نے  لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ   التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور  (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے  دور رہو اور بچو حتی کہ حق پرآجائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے

ابو بکر  الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ

اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ  کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ  ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے وہ آپ سے استدلال کرتا ہے (یعنی دلیل لیتا ہے) پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں  پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ  اپنے باتھ سے لکھیں   حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» اس سے متعلق مجاہد کہتے ہیں کہ انھیں  (نبی کو)عرش پر بٹھایا جائیگا . اس کو میں نے اپنے باپ  احمد  سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ محمّد بن فضیل ایسا ہی بیان کرتے ہیں لیکن میں یہ ان سے براہ راست نہیں سن سکا . ہارون نے کہا کہ میں نے ان یعنی عبدالله سے کہا کہ مجھے تمہارے باپ احمد سے متعلق خبر دی گئی ہے کہ انھوں نے عن رجل کے واسطے سے ابن فضیل سے لکھا ہے. عبدالله نے جواب دیا ہاں اس معامله کو لوگ ان سے ایسا  ہی بیان کرتے ہیں   

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، ثَنَا أَبُو الْهُذَيْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ يُنْكِرُهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا فِي وَقْتٍ مَا سَمِعْنَاهُ مِنَ الْمَشَايِخِ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا تُنْكِرُهُ الْجَهْمِيَّةُ، وَأَنَا مُنْكَرٌ عَلَى كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابو مَعْمَرٍ نے  أَبُو الْهُذَيْلِ سے انہوں نے محمّد بن فُضَيْلٍ سے انہوں نے لیث سے انہوں نے مجاہد سے کہا  عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا [الإسراء: 79] کہا ان کو عرش پر بٹھائے گا. عبد اللہ  (بن احمد) نے کہا میں نے اس حدیث کو ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے محدثین میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو اس کو رد کرتا ہو اور ہم اپنے الْمَشَايِخِ  سے سنتے رہے ہیں کہ اس کو سوائے الْجَهْمِيَّةُ کے کوئی رد نہیں کرتا اور میں ہر اس شخص کا منکر ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

 وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي تَرُدُّهَا الْجَهْمِيَّةُ فِي الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ، فَصَحَّحَهَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ: ” قَدْ تَلَقَّتْهَا الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُولِ، نُسَلِّمُ الْأَخْبَارَ كَمَا جَاءَتْ

اور بے شک أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ نے روایت کیا انہوں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ ان احادیث پر جن  کو الْجَهْمِيَّةُ  رد کرتے ہیں یعنی الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ  الْعَرْشِ،  وغیرہ کی پس ابو عبد اللہ نے کہا  ہم ان کو صحیح قرار دیا اور کہا علماء نے ان کو قبول کیا ہے کو تسلیم کرتے ہیں جیسی آئی ہیں

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتو فى:458ھ) کے مطابق

الْمَرُّوذِيُّ  نے اس پر باقاعدہ ایک کتاب بنام كتاب الرد عَلَى من رد حديث مجاهد  مرتب کی تھی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ مُجَاهِدٌ: «عَرَضْتُ الْقُرْآنَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَلَّالُ: قَرَأْتُ كِتَابَ السُّنَّةِ بِطَرَسُوسَ مَرَّاتٍ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ وَغَيْرِهِ سِنِينَ، فَلَمَّا كَانَ فِي سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَتِسْعِينَ قَرَأْتُهُ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، وَقَرَأْتُ فِيهِ ذِكْرَ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، فَبَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا مِمَّنْ طُرِدَ إِلَى طَرَسُوسَ مِنْ أَصْحَابِ التِّرْمِذِيِّ الْمُبْتَدِعِ أَنْكَرُوهُ، وَرَدُّوا فَضِيلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرُوا رَدَّهُ فَشَهِدَ عَلَيْهِمُ الثِّقَاتُ بِذَلِكَ فَهَجَرْنَاهُمْ، وَبَيَّنَا أَمْرَهُمْ، وَكَتَبْتُ إِلَى شُيُوخِنَا بِبَغْدَادَ، فَكَتَبُوا إِلَيْنَا هَذَا الْكِتَابَ، فَقَرَأْتُهُ بِطَرَسُوسَ عَلَى أَصْحَابِنَا مَرَّاتٍ، وَنَسَخَهُ النَّاسُ، وَسَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَهْلَ السُّنَّةِ، وَزَادَهُمْ سُرُورًا عَلَى مَا عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّتِهِ وَقَبُولِهِمْ

اور ابو بکر المروزی نے خبر دی انہوں نے امام احمد سے سنا کہ مجاہد نے کہا میں نے قرآن کو ابن عباس پر تین دفعہ پیش کیا ابن بکر الخلال کہتے ہیں میں نے کتاب السنہ کو مسجد الجامع میں طَرَسُوسَ میں پڑھا پس جب سن ٢٩٢ ھ آیا اور مقام محمود کے بارے میں پڑھا پتا چلا کہ طَرَسُوسَ میں ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں  اور رسول الله کی فضیلت کے انکاری ہیں  اور وہاں ان کا رد کرنا  ظاہر ہوا .  اس پر ثقات نے شہادت دی لہذا ان کو برا  کہا اور ان کا معاملہ (عوام پر)  واضح کیا گیا اور اپنے شیوخ کو(بھی) بغداد (خط) لکھ بھیجا پس انہوں نے جواب بھیجا جس کو طَرَسُوسَ میں اپنے اصحاب پر کئی دفعہ پڑھا  اور لوگوں نے اس کو نقل (لکھا) کیا اور الله تعالی نے اہل السنت کو بلند کیا اور ان کا سرور بڑھایا اس سے جو ان کے پاس ہے اس کی صحت و قبولیت(عامہ) پر

معلوم ہوا کہ ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس عقیدے کے انکاری تھے اور علماء بغداد اس کے اقراری

ابو بکر الخلال نے کتاب السنہ میں ترمذی کو کبھی  الْعَجَمِيُّ التِّرْمِذِيُّ     کہا   اور کبھی  الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ کہا

ترمذی کون ہے؟

ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں  اس سے مراد الجھم بن صفوان المتوفی ١٢٨ ھ ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں کیونکہ  کتاب السنہ از ابو بکر الخلال کے مطابق یہ امام احمد اور ان کے بیٹے کا ہم عصر ہے

کتاب  السنة از ابو بکر الخلال جو  دکتور عطية الزهراني  کی تحقیق کے ساتھ  دار الراية – الرياض  سے سن ١٩٨٩ میں شائع ہوئی ہے اس کے محقق کے مطابق یہ جھم نہیں

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب الزاهد أبو عبدالله محمد بن علي ابن الحسن بن بشر الحكيم الترمذي المتوفی ٣٢٠ ھ  ہیں  لیکن یہ صوفی تھے اور اس عقیدے پر تو یہ ضررور خوش ہوتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا

حکیم الترمذی کتاب نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم میں لکھتے ہیں

حَتَّى بشر بالْمقَام الْمَحْمُود قَالَ مُجَاهِد {عَسى أَن يَبْعَثك رَبك مقَاما مَحْمُودًا} قَالَ يجلسه على عَرْشه

یہاں تک کہ مقام محمود کی بشارت دی جائے گی مجاہد کہتے ہیں ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا

لہذا یہ حکیم ترمذی بھی نہیں

کتاب  السنہ از الخلال میں ہے

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو  کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا

معلوم ہوا کہ  الترمذی،  الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ )  کا ہم عصر ہے

  االْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کا   یہ    قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا؟ اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو  عجیب بات ہے کہ  اس عقیدے کے رد میں   اس زمانے  کا  کوئی محدث  بھی نہیں ملتا-

الذہبی کتاب العرش میں بلا دلیل  اپنا خیال پیش کرتے  ہیں

الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه

یہ الترمذي ،  أبو عيسى  نہیں جو  صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے  ہے  لیکن مشہور  نہیں

ہماری رائے میں یہ  اغلبا امام ترمذی محدث   ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے

 امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79]  پر  فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے

امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

اس کے آخر میں ہے

وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے  …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے

امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا  کہ ابی نضرہ  سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے

لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے  لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ: وَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْجُهَّالِ دَفْعُ الْحَدِيثِ بَقِلَّةِ مَعْرِفَتِهِ فِي رَدِّهِ مِمَّا أَجَازَهُ الْعُلَمَاءُ مِمَّنْ قَبْلَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِمَّنْ ذَكَرْتُ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، إِلَّا وَقَدْ سَلَّمَ الْحَدِيثَ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ الْخَبَرُ، وَكَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ وَسُنَّةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ الْجُهَّالِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ هُوَ الشَّفَاعَةُ لَا مَقَامَ غَيْرُهُ.

محمد بن عثمان نے کہا اور مجھ تک پہنچا کہ بعض جھلا اس (مجاہد والی) حدیث کو قلت معرفت کی بنا پر رد کرتے ہیں … اور دعوی کرتے ہیں کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام ترمذی نے كتاب التفسير اور كتاب التاريخ بھی لکھی تھیں جو اب مفقود ہیں اور ممکن ہے مجاہد کے قول پر تفسیر کی کتاب میں  جرح  بھی کی ہو

مخالفین کو اعتراض ہے کہ اس آیت کی شرح میں یہ کیوں کہا جا  رہا ہے کہ اس سے مراد صرف شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام احمد کی اقتدہ  

علی بن داود کہتے ہیں

أَمَّا بَعْدُ: فَعَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِهَدْيِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَطَعْنٌ لِمَنْ خَالَفَهُ، وَأَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي طَعَنَ عَلَى مُجَاهِدٍ بِرَدِّهِ فَضِيلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْتَدَعٌ، وَلَا يَرُدُّ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ «إِلَّا جَهْمِيُّ يُهْجَرُ، وَلَا يُكَلَّمُ وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، وَعَنْ كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذِهِ الْفَضِيلَةَ وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى هَذَا التِّرْمِذِيِّ أَنَّهُ جَهْمِيُّ خَبِيثٌ

اما بعد تمھارے لئے امام احمد بن حنبل  کی ہدایت ہے جو امام المتقین ہیں بعد والوں کے لئے اور اس پر  طعن کرو  جو ان کی مخالفت کرے اور بے شک یہ ترمذی جو مجاہد پر طعن کرتا ہے اس فضیلت والی حدیث پر….. وہ مبتد عی ہے  اور اس روایت  کو سوائے الجہمی کے کوئی رد نہیں کرتا اس کو برا کہو اس سے کلام نہ کرو اس  سے دور رہو اور میں گواہی دیتا ہوں یہ ترمذی جھمی خبیث ہے

امام احمد اس عرش پر بٹھائے جانےکے  بدعتی عقیدے  والوں کے امام تھے ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ میں ہے کہ محمد بن یونس البصری کہتے ہیں

فَمَنْ رَدَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا فَلَا يُكَلَّمُ، وَإِنْ مَاتَ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، وَقَدْ صَحَّ عِنْدَنَا أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا أَهْلُ السُّنَّةِ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَيَّنَ أَمْرُهُ، فَعَلَيْكُمْ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ، وَمَذْهَبِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ الْإِمَامُ يُقْتَدَى بِهِ

پس جو اس حدیث کو رد کرے اور اس طعن کرے اس سے کلام نہ کرو اور اگر مر جائے تو جنازہ نہ پڑھو اور یہ ہمارے نزدیک صحیح ہے کہ یہ ترمذی اس پر کلام کرتا ہے جس سے اہل سنت احتجاج کرتے ہیں اور اس شخص  کا معاملہ  واضح ہے . پس تمھارے لئے سنت اور اسکا اتباع ہے اور ابو عبدللہ امام احمد بن حنبل کا مذبب ہے جو امام ہیں جن کا اقتدہ کیا جاتا ہے 

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) کے مطابق

وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش …….ہ 

اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ  أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد  نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ  بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا 

یہ قسم اٹھانے کا اس وقت کا انداز تھا کہ اس عقیدے پر اتنا ایمان تھا کہ تین طلاق تک کی قسم کھائی جا رہی ہے

 مشہور  امام أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَأَمَّا حَدِيثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَفْسِيرُهُ لِهَذِهِ الْآيَةِ: أَنَّهُ يُقْعِدُهُ [ص:1613] عَلَى الْعَرْشِ , فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ , وَقَبِلُوهَا بِأَحْسَنِ قَبُولٍ , وَلَمْ يُنْكِرُوهَا , وَأَنْكَرُوا عَلَى مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ إِنْكَارًا شَدِيدًا وَقَالُوا: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوءٍ قُلْتُ: فَمَذْهَبُنَا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ قَبُولُ مَا رَسَمْنَاهُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ , وَقَبُولُ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ , وَتَرْكُ الْمُعَارَضَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ فِي رَدِّهِ , وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ لِكُلِّ رَشَادٍ وَالْمُعِينُ عَلَيْهِ , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ جَمَاعَةٌ

الآجُرِّيُّ کہتے ہیں جہاں تک مجاہد کی نبی صلی الله علیہ وسلم کی تفضیل سے متعلق روایت ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ بے شک ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس کو اہل علم اور حدیث کو نقل کرنے والے لوگوں (یعنی محدثین) کے شیوخ نے قبول کیا ہے بہت بہترین انداز سے اور حسن قبولیت دیا ہے اور انکار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا انکار کیا ہے جو مجاہد کی حدیث کو رد کریں شدت کے ساتھ اور کہا ہے کہ جو مجاہد کی حدیث قبول نہ کرے وہ برا آدمی ہے میں کہتا ہوں پس ہمارا مذھب یہی ہے الحمدللہ …..جو ایک جماعت نے روایت کیا ہے 

الآجُرِّيُّ  کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب ابن تیمیہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے انکے من پسند اہل علم مجاہد کے اس قول کو قبولیت کا درجہ دے چکے تھے

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي، سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود کے بیٹے أبوبكر بن أبي داود عبدالله بن سليمان بن الأشعث السجستاني (ت316هـ)  کے شاگرد ہیں

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا  لیکن الذھبی نے یہ مانا کہ امام ابو داود اس کو تسلیم کرتے تھے دوسری طرف ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ سے واضخ ہے امام ابوداود اور ان کے  استاد امام احمد دونوں اس  قول کو مانتے تھے

الذہبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں لکھتے ہیں

فَمِمَّنْ قَالَ أَن خبر مُجَاهِد يسلم لَهُ وَلَا يُعَارض عَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري الْحَافِظ وَيحيى بن أبي طَالب الْمُحدث وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل السّلمِيّ التِّرْمِذِيّ الْحَافِظ وَأَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عبد الْملك الدقيقي وَأَبُو دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث السجسْتانِي صَاحب السّنَن وَإِمَام وقته إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق الْحَرْبِيّ والحافظ أَبُو قلَابَة عبد الْملك بن مُحَمَّد الرقاشِي وحمدان بن عَليّ الْوراق الْحَافِظ وَخلق سواهُم من عُلَمَاء السّنة مِمَّن أعرفهم وَمِمَّنْ لَا أعرفهم وَلَكِن ثَبت فِي الصِّحَاح أَن الْمقَام الْمَحْمُود هُوَ الشَّفَاعَة الْعَامَّة الْخَاصَّة بنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

 الكتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از المؤلف: عبد العزيز بن فيصل الراجحي
الناشر: مطابع الحميضي – الرياض الطبعة: الأولى، 1424 هـ

میں مولف ، الذہبی کی یہی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں

وأثبتها أيضا أئمة كثير، غير من سمى الذهبي هنا، منهم:. محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد.
. والإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) ، إمام أهل السنة قاطبة.
. وعبد الله بن أحمد بن حنبل الحافظ (ت 290 هـ) .
اور اس کو مانا ہے ائمہ کثیر نے جن کا نام الذہبی نے نہیں لیا ان میں ہیں محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد  اور  لإمام  الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ)  اور عبدللہ بن احمد بن حنبل

 صالح بن فوزان  ، عبد العزیز بن فیصل  کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک  عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا  بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے  

ابن قیم کتاب  بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور کے اشعار  لکھتے ہیں

قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.

ابن قیم  امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں  اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں

وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه

حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده

معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کو الْجَهْمِيَّةُ  کہتے تھے

ہمارے نزدیک یہ عقیدہ  کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے-

افسوس الذھبی کے بعد بھی اس عقیدے کو محدثین نے قبول کیا مثلا

شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ  کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں

 وعن رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من قال اللهم صل على محمد وأنزله المقعد المقرب عندك يوم القيامه وجبت له شفاعتي

رواه البزار وابن أبي عاصم وأحمد بن حنبل وإسماعيل القاضي والطبراني في معجميه الكبير والأوسط وابن بشكوال في القربة وابن أبي الدنيا وبعض أسانيدهم حسن قاله المنذري

 اور رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو کہے اے الله محمّد پر رحمت نازل کر اور روز محشر ان کو پاس بیٹھنے والا مقرب بنا، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی

اس کو   البزار اورابن أبي عاصم اورأحمد بن حنبل اورإسماعيل القاضي اورالطبراني نے معجم الكبير اورالأوسط میں اور ابن بشكوال نے القربة میں اور ابن أبي الدنيا نے روایت کیا ہے اور المنذري کہتے ہیں  اس کی بعض اسناد حسن ہیں

 اس کے بعد السخاوي تشریح کرتے ہیں

والمقعد المقرب يحتمل أن يراد به الوسيلة أو المقام المحمود وجلوسه على العرش أو المنزل العالي والقدر الرفيع والله أعلم

اور قریب بیٹھنے والا ہو سکتا ہے اس سے مراد الوسيلة ہو یا المقام المحمود یا عرش پر بٹھایا جانا ….

السخاوي اگر ان الفاظ کی تشریح نہیں کرتے تو ہم سمجھتے کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہ ہو -لیکن جس طرح انہوں نے اس کی تشریح کی ہے اس سے ظاہر ہے ان کا عقیدہ بھی اس پر تھا

ابن کثیر کتاب النهاية في الفتن والملاحم  میں لکھتے ہیں

وَقَدْ رَوَى لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، وَأَبُو يَحْيَى الْقَتَّاتُ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَ فِي تَفْسِيرِ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ: إِنَّهُ يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَرُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن سلام، وجمع فيه أبو بكر المروزي جزءاً كبيراً، وحكاه هو وغيره وغير وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ كَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ وَخَلْقٍ وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَهَذَا شَيْءٌ لَا يُنْكِرُهُ مُثْبِتٌ وَلَا نَافٍ، وَقَدْ نظمه الحافظ أبو الحسن الدارقطني في صيدة لَهُ.
قُلْتُ: وَمِثْلُ هَذَا لَا يَنْبَغِي قَبُولُهُ إلا عن معصوم، ولم يثبت فيه حَدِيثٌ يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وَلَا يُصَارُ بِسَبَبِهِ إِلَيْهِ، وقول مجاهد في هذا المقام ليس بحجة بمفرده، وَلَكِنْ قَدْ تَلَقَّاهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ بالقبول

ابن کثیر کہتے ہیں میں کہتا ہوں مجاہد کا منفرد قول حجت نہیں لیکن اس کو اہل حدیث نے قبول کیا ہے

عصر حاضر میں  مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں

وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته  وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه

اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی  صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

 الله ہم سب کو غلو  سے بچائے

مخالفین کا جواب 

راقم کی اس تحریر کا جواب لوگوں نے دینے کی کوشش کی ہے جس میں اس فرقے کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کہ عرش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کو بٹھایا جائے گا لیکن یہ بات حق ہے کہ اس غلط عقیدے کو  محدثین نے  قرن دوم و سوم میں  قبول کر لیا تھا – قرن دوم میں اس عقیدے کو رد کرنے والے صرف  جھمی  تھے  – قرن دوم میں کوئی محدث نہیں تھا جو  اس عقیدے کو رد   کرتا ہو

راقم کا جوابا کہنا ہے کہ اگر کوئی محدث اس عقیدے کو رد نہیں کرتا تھا تو اس کو  آٹھویں صدی میں جا کر ابن تیمیہ  کی جانب سے  رد کیوں  کیا گیا ؟ الذھبی  نے بھی رد کیا –  البانی نے بھی رد کیا – لیکن سعودی عرب کے بعض چوٹی کے مفتیان کا عقیدہ ابھی تک اسی عقیدے پر ہے –  مزید یہ کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ   ترمذی جو اس عقیدے کو رد کر رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں محدث امام ترمذی ہی   تھے جن کوقرن دوم میں  جھمی کہا جا رہا تھا – اغلبا یہی وجہ رہی کہ امام ابن حزم کے نزدیک امام ترمذی ایک مجہول تھے

—————————————

[1] http://islamqa.info/ur/154636

نوٹ

ابن تیمیہ کے نزدیک امام ترمذی کے اقوال جھمیوں جیسے ہیں

امام ترمذی سنن میں ایک حدیث بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الحَدِيدِ میں لکھتے ہیں

وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ. عِلْمُ اللهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى العَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.

بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کی ہے کہ وہ کہتے ہیں اللہ کا علم نیچے اتا ہے اور اس کی قدرت و سلطان اس کا علم قدرت و حکومت ہر مقام پر ہے اور وہ عرش پر ہے جیسا اس کی صفت کتاب میں ہے

ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں کہ ترمذی نے کہا

فَحَكَى التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَعْنَى يَهْبِطُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ، وَمُرَادُهُ عَلَى مَعْلُومِ اللَّهِ وَمَقْدُورِهِ وَمُلْكِهِ، أَيِ انْتَهَى عِلْمُهُ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ إِلَى مَا تَحْتَ التَّحْتِ، فَلَا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ.

 ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا تَأْوِيلُ التِّرْمِذِيِّ وَغَيْرِهِ بِالْعِلْمِ فَقَالَ شَيْخُنَا: هُوَ ظَاهِرُ الْفَسَادِ مِنْ جِنْسِ تَأْوِيلَاتِ الْجَهْمِيَّةِ

اور جہاں تک ترمذی اور دوسروں کی تاویل کا تعلق ہے تو شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں وہ ظاہر فساد ہےاور جھمیہ کی
تاویلات کی جنس میں سے ہے

اللہ آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا

صحيح بخاري ميں ہے وفات النبي پر عمر رضي اللہ عنہ جذباتي ہو گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے نبي زندہ ہيں صريح الفاظ ميں انہوں
نے کہا

وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اللہ کي قسم رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم مرے نہيں ہيں

يہ قول حياتي ديوبنديوں جيسا تھا جن کا قول ہے کہ وفات النبي ميں روح جسم سے نہيں نکالي گئي بلکہ روح النبي قلب اطہر ميں سمٹ گئي
– اس عقيدے کا ذکر قاسم نانوتوي صاحب نے کتاب آب حيات ميں کيا ہے

اس کے بعد ابو بکر رضي اللہ عنہ تشريف لائے اور فرمايا

لا يُذِيقُكَ اللهُ المَوْتَتَيْنِ أبداً، أما المَوتَةُ التي كُتِبَتْ عليك؛ فقد مُتَّها
اللہ کبھي بھي آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا – جہاں تک وہ موت ہے جو لکھي تھي بلاشبہ وہ ہو گئي

صحيح ابن حبان اور مسند احمد ميں ہے

لَقَدْ مُتَّ الْمَوْتَةَ الَّتِي لا تَمُوتُ بَعْدَهَا
بے شک ان کي موت نے ان کو مار ديا اب اس کے بعد موت نہيں

اللہ کا شکر ہے کہ ہم تک ابو بکر رضي اللہ عنہ کا قول پہنچ گيا  – ابو بکر رضي اللہ کے الفاظ ضرب کاري تھے ان تمام آنے والے فرقوں کے لئے جو آخري نبي و رسول کو قبر ميں زندہ کہتے ہيں – ابو بکر کا قول ان فرقوں کے گلے ميں زقوم کي طرح اٹک گيا
ابن حجر فتح الباري ميں ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول پر تبصرہ کرتے ہيں

وَأَشَدُّ مَا فِيهِ إِشْكَالًا قَوْلُ أَبِي بَكْرٍ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ وَعَنْهُ أَجْوِبَةٌ فَقِيلَ هُوَ عَلَى حَقِيقَتِهِ وَأَشَارَ بِذَلِكَ إِلَى الرَّدِّ عَلَى مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ سَيَحْيَا فَيَقْطَعُ أَيْدِي رِجَالٍ لِأَنَّهُ لَوْ صَحَّ ذَلِكَ لَلَزِمَ أَنْ يَمُوتَ مَوْتَةً أُخْرَى فَأَخْبَرَ أَنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يَجْمَعَ عَلَيْهِ مَوْتَتَيْنِ كَمَا جَمَعَهُمَا عَلَى غَيْرِهِ كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ وَكَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهَذَا أَوْضَحُ الْأَجْوِبَةِ وَأَسْلَمُهَا وَقِيلَ أَرَادَ لَا يَمُوتُ مَوْتَةً أُخْرَى فِي الْقَبْرِ كَغَيْرِهِ إِذْ يحيا ليسئل ثُمَّ يَمُوتُ وَهَذَا جَوَابُ الدَّاوُدِيِّوَقِيلَ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ مَوْتَ نَفْسِكَ وَمَوْتَ شَرِيعَتِكَ وَقِيلَ كَنَّى بِالْمَوْتِ الثَّانِي عَنِ الْكَرْبِ أَيْ لَا تَلْقَى بَعْدَ كَرْبِ هَذَا الْمَوْتِ كَرْبًا آخَرَ ثَانِيهَا

اور سب سے شديد اشکال ابو بکر کے قول ميں ہے کہ اللہ آپ پر دو موتوں کو جمع نہ کرے گا اور اس اشکال کا جواب ہے کہ کہا گيا ہے يہ جمع موت نہ ہونا حقيقت کے بارے ميں ہے اور اس کي طرف اشارہ ہے کہ اس ميں رد ہے اس کا جو يہ دعوي کرے کہ نبي زندہ ہو کر ہاتھ کاٹيں گے کيونکہ اگر يہ صحيح ہو تو لازم ہو گا کہ ان کو پھر ايک موت اور آئے گي پس خبر دي کہ اللہ نے ان کي تکريم کي کہ ان پر دو موتوں کو جمع نہ کرے گا جيسا اوروں پر کيا (قرآن ميں ہے ) وہ جو گھروں سے نکلے اور وہ ڈر ميں تھے .. اور وہ جو ايک قريہ پر سے گزرا اور يہ سب سے واضح جواب ہے

اور کہا گيا ہے ابو بکر کا اردہ و مقصد تھا کہ ان کو اور موت نہ ہو گي قبر ميں اوروں کي طرح کہ جب ان کو سوال کے لئے زندہ کيا جاتا ہے اور پھر موت دي جاتي ہے اور يہ جواب أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ الدَّاوُدِيُّ المالكي (المتوفي 402 ھ ) نے ديا ہے

اور کہا جاتا ہے اللہ تعالي آپ کے نفس کي موت کو اور آپ کي شَرِيعَتِ کي موت کو جمع نہ کرے گا

اور کہا جاتا ہے يہ موت کنايہ ہے دوسري موت سے کرب پر يعني اب اس کرب کے بعد کوئي اور کرب نہ ہو گا

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) نے شرح کی

قَوْله: (لَا يذيقك الله الموتتين) ، بِضَم الْيَاء من الإذاقة، وَأَرَادَ بالموتتين: الْمَوْت فِي الدُّنْيَا وَالْمَوْت فِي الْقَبْر وهما الموتتان المعروفتان المشهورتان، فَلذَلِك ذكرهمَا بالتعريف، وهما الموتتان الواقعتان لكل أحد غير الْأَنْبِيَاء، عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام، فَإِنَّهُم لَا يموتون فِي قُبُورهم، بل هم أَحيَاء
ابو بکر کا قول اللہ آپ پی دو موتوں کو جمع نہ کرے گا … یہ موت دنیا کی ہے اور قبر میں ہے یہ دو معروف موتیں ہیں جو سوائے انبیاء سب کو اتی ہیں – انبیاء اپنی قبروں میں نہیں مرتے بلکہ زندہ ہیں

حياتي ديوبندي متکلم الياس گھمن کہتے ہيں کہ (منٹ 4 ) ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول کا مقصد ہے کہ ايک موت جو اني تھي وہ آ گئي اور اب قبر ميں دوسري موت نہيں آئے گي جو نيند ہے – ايک عام امتي سے قبر ميں کہا جاتا ہے
نم صالحا
اچھي نيند سو جا
ليکن نبي کو قبر ميں جو حيات ملتي ہے وہ مسلسل ہے (منٹ 4: 55) اس ميں نيند بھي نہيں ہے

الشريعہ از الاجري ميں ہے کہ ابو بکر رضي اللہ عنہ نے حکم ديا کہ قبر النبي سے اجازت طلب کرو کہ پہلو النبي ميں دفن کيا جا سکتا ہے يا نہيں ؟

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ , قَالَ لَهُمْ: إِذَا مِتُّ وَفَرَغْتُمْ مِنْ جَهَازِي فَاحْمِلُونِي حَتَّى تَقِفُوا بِبَابِ الْبَيْتِ الَّذِي فِيهِ قَبْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقِفُوا بِالْبَابِ وَقُولُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَإِنْ أُذِنَ لَكُمْ وَفُتِحَ  الْبَابُ , وَكَانَ الْبَابُ مُغْلَقًا , فَأَدْخِلُونِي فَادْفِنُونِي , وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَكُمْ فَأَخْرِجُونِي إِلَى الْبَقِيعِ وَادْفِنُونِي. فَفَعَلُوا فَلَمَّا وَقَفُوا بِالْبَابِ وَقَالُوا هَذَا: سَقَطَ الْقُفْلُ وَانْفَتَحَ  الْبَابُ , وَسُمِعَ هَاتِفٌ مِنْ دَاخِلِ الْبَيْتِ: أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ فَإِنَّ الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ مُشْتَاقٌ

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) نے کہا روايت کيا جاتا ہے کہ ابو بکر رضي اللہ عنہ کي وفات کا وقت   جب آيا انہوں نے کہا جب ميں مر جاؤں اور تم ميري تجہيز سے فارغ ہو تو مجھے اٹھا کر اس گھر کے باب تک لانا جس ميں قبر النبي صلي اللہ  عليہ وسلم ہے اور وہاں رکنا اور کہنا
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
يہ ابو بکر آيا ہے اجازت ليتا ہے کہ آپ اذن کريں اور اگر مقفل دروازہ کھل جائے تو مجھ کو اس ميں داخل کر کے دفن کرنا
اور اگر اجازت نہ ملے تو الْبَقِيعِ لانا وہاں دفن کرنا
پس ايسا کيا گيا … دروازہ کھل گيا اور ھاتف نے آواز دي ان کو گھر ميں داخل کرو
داخل ہوں اے حبيب، حبيب کي طرف کہ حبيب (رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ) آپ سے ملنے کو مشتاق ہے

راقم کہتا ہے کہ يہ روايت گھڑي گئي جو ابن عساکر (المتوفى571) نے سندا تاريخ دمشق ميں لکھي ہے
اس روايت کو نقل کرنے کے بعد خود ابن عساکر نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس [تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 437]
يہ منکر ہے اس ميں أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي [الوفاة: 221 – 230 ه] اور عبد الجليل مجہول ہيں اور محفوظ ہے کہ ابو بکر کو ان کي بيوي اسماء بنت عميس نے غسل ديا
بعض محدثين نے موسى بن محمد بن عطاء بن طاهر البَلْقاويّ المقدسيّ کو کذاب بھي کہا ہے
ورماه بالكذب أبو زرعة وأبو حاتم .
وقال الدَّارَقُطْنيّ: متروك.
قال العُقَيْلي: يُحَدِّث عن الثقات بالبواطيل والموضوعات.
وقال ابن حبان: كان يضع الحديث على الثقات، لا تحل الرواية عنه – يہ حديث گھڑتا تھا اس سے روايت کرنا حلال نہيں .
وقال ابن عدي: منكر الحديث، يسرق الحديث منکر حديث ہے – حديث چور ہے .

افسوس ابو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) نے ايک کذاب کے قول پر عقيدہ لے ليا

تفسير مفاتيح الغيب المعروف تفسير کبير ج21 ص433 ميں سوره کہف کي آيت فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ميں فخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ) نے کرامت اولياء کي مثال کے طور پر اس کا ذکر کيا
أَمَّا الْآثَارُ» فَلْنَبْدَأْ بِمَا نُقِلَ أَنَّهُ ظَهَرَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنَ الْكَرَامَاتِ ثُمَّ بِمَا ظَهَرَ عَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمِنْ كَرَامَاتِهِ أَنَّهُ لَمَّا حُمِلَتْ جِنَازَتُهُ إِلَى بَابِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُودِيَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ بِالْبَابِ فَإِذَا الْبَابُ قَدِ انْفَتَحَ وَإِذَا بِهَاتِفٍ يَهْتِفُ مِنَ الْقَبْرِ أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ

اس قول سے الياس گھمن صاحب نے بھي دليل لے لي کہ صديق اکبر قبر ميں حيات النبي کا عقيدہ رکھتے تھے نعوذ باللہ
جبکہ يہ روايت بقول ابن عساکر منکر ہے ليکن الياس گھمن صاحب نے دليل لي کہ خليفہ راشد نے فيصلہ کر ديا کہ نبي قبر ميں زندہ ہيں

غور کريں روايت منکر ، راوي حديث چور مشہور اس کي بات سے فيصلہ ہوا کہ ابو بکر قبر ميں زندگي مانتے تھے

اب واپس ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول پر غور کريں

لا يُذِيقُكَ اللهُ المَوْتَتَيْنِ أبداً، أما المَوتَةُ التي كُتِبَتْ عليك؛ فقد مُتَّها
اللہ کبھي بھي آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا – جہاں تک وہ موت ہے جو لکھي تھي بلاشبہ وہ ہو گئي

ابو بکر نے اس موت کی تصدیق کی اور فرمایا کہ یہ اب دوسری بار ممکن نہیں ہے کہ نبی زندہ ہوں پھر وفات ہو

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی

جسم سے روح کا الگ ہونا  موت ہے – ظاہر ہے اس روح کو جنت من لے جایا گیا جہاں معراج کے موقعہ پر دیگر انبیاء کو دیکھا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اے اللہ تو سب سے بڑھ کر رفیق ہے

وفات کے وقت انبیاء کو آپشن  دیا جاتا ہے کہ وہ دنیاوی زندگی واپس  چاہتے ہیں یا اللہ سے ملاقات کو پسند فرماتے ہیں –  عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جب   نبی نے یہ الفاظ  اے اللہ تو سب سے بڑھ کر رفیق ہے  ادا کیے میں سمجھ گئی کہ آپشن دے دیا گیا ہے اور آپ کی  اب (واپس دنیا  میں زندہ ہو کر )  دنیا کے رفقاء سے ملنے کی تمنا نہیں ہے صرف اللہ تعالی سے ملاقات  و لقاء  کی تمنا ہے

قاسم نانوتوی کا فلسفہ

اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے یعنی ان کو قبضہ میں لیتا ہے اور قبض روح انبیاء کا ہو یا عام آدمی کا ایک ہی ہے لیکن الیاس گھمن اس میں التباس پیدا کرتے ہیں

کہتے ہیں (منٹ ٧ پر ) ہم قبض روح کے دو معنی کریں گے – خروج روح اور حبس (قید ) روح – حبس روح کا معنی روح کا جسم میں سمٹ جانا- الیاس گھمن نے کہا قبضت یدی (میں نے مٹھی بنا لی ) کا معنی بسط یدی (میں نے ہاتھ پھیلا دیا ) کی مخالفت میں لیا جائے گا کہ قبض کا مطلب سمیٹنا – اس کے بعد کہا یہ خروج بھی ہے – قبض کے اس طرح دو معنی کیے کہ روح قید کی گئی یا نکل گئی – قاسم نانوتوی قبض کا معنی کبھی خروج کرتے ہیں اور کبھی حبس کرتے ہیں کیونکہ ہم کو اس کا معنی پورا آتا ہے – قاسم نانوتوی کہتے ہیں کہ موت امتی پر آئے تو معنی ہوا قبض روح اور موت نبی پر آئے تو معنی ہوا حبس (قید ) روح – امتی پر موت آئے تو مطلب ہو گا کہ روح جسم سے نکل گئی ہے پیغمبر کو موت آئے تو معنی ہو گا روح قلب اطہر میں سمٹ گئی ہے

راقم کہتا ہے یہ قول بلا دلیل و منکر ہے موت کا مطلب تمام بشر پر ایک ہی ہےکہ روح کا جسم سے مکمل خارج ہو جانا – اگر پیغمبروں کی روحیں ان کے قلوب میں ہیں تو یہ روحین ان کے اعضا میں نہ ہوئیں – پھر تو وہ نہ سن سکتے ہیں نہ جواب دے سکتے ہیں جبکہ یہ فرقے انبیاء کے جواب و کلام و سماع فی القبر کے قائل ہیں- راقم کہتا ہے کہ نیند میں روح کو جسم میں قید کیا جاتا ہے اور موت پر نکال لیا جاتا ہے – یہ عمل ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے چاہے نبی ہو یا ولی

لہذا راقم کے نزدیک  موت پر ہر انسان کا  خروج روح ہو رہا ہے اور نیند میں حبس روح (جسم میں روح  کا قید ہونا ) ہو رہا ہے  اس میں انبیاء و عام بشر میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ انسان کا  شعور  نیند میں ختم ہو جاتا ہے جبکہ انبیاء کا قلب  جاگتا رہتا ہے کیونکہ ان کو نیند میں الوحی آ تی ہے

مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ [ص:139] مِنْ ثَلَاثٍ: الكَنْزِ، وَالغُلُولِ، وَالدَّيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ ” هَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ: الكَنْزُ، وَقَالَ أَبُو
عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ: الكِبْرُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَعْدَانَ وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی اور وہ تین چیزوں سے  بَرِيءٌ تھا خزانہ ، غنیمت میں خیانت، اور قرض سے تو وہ جنت میں داخل ہوا – ترمذی نے کہا سعید نے روایت میں خزانہ بولا ہے اور … سعید  کی سند سے روایت اصح ہے

الدر المنثور از السیوطی میں ہے

وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ إِنَّمَا هُوَ الْكَنْز بالنُّون وَالزَّاي

دارقطنی کہتے ہیں یہ حدیث کنز (خزانہ ) کے لفظ سے ہے

فارق سے ہی اردو میں فراق کا لفظ نکلا ہے یعنی جدائی ہونا- اس کو اردو شاعری میں بہت استعمال کیا جاتا ہے

یہ روایت محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک صحیح ہے البتہ فرقوں کی جانب سے موت کے مفہوم پر اشکالات آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ روح کی جسم سے مکمل فراق کے قائل نہیں ہیں – بعض کے نزدکک روح کا جسم سے تعلق باقی رہتا ہے جس کی تشریح ان کے نزدیک یہ ہے کہ روح جسم میں آتی جاتی رہتی ہے – بعض کہتے ہیں روح دفنانے کے بعد آ جاتی ہے – بعض اس کے قائل ہیں کہ روح چالیس دن میت کے پاس آتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے غسل و تکفین تک کا مشاہدہ کرتی ہے – بعض اس کے قائل ہیں کہ روح جنازہ قبرستان لے جائے جانے کے وقت جسم میں آ جاتی ہے – یہاں تک کہ امام ابن عبد البر کا قول ہے کہ ارواح قبرستان میں ہی رہتی ہیں

قرآن اس کے خلاف ہے جس میں صریحا امساک روح کا ذکر ہے یعنی روح کو روک لیا جاتا ہے – قرآن میں موجود ہے کہ جس پر موت کا حکم لگتا ہے اس کا امساک کیا جاتا ہے

الوسيط في تفسير القرآن المجيد از الواحدی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْفَضْلِ، أنا عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ خَلَفٍ، أنا أُبَيُّ بْنُ خَلَفِ بْنِ طُفَيْلٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي طُفَيْلُ بْنُ زَيْدٍ، نا أَبُو عُمَيْرٍ، نا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَعَّابُ، نا نُعَيْمُ بْنُ عَمْرٍو، نا سُلَيْمَانُ بْنُ رَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّ الرُّوحَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الإِنْسَانِ؛ مَاتَ الْجَسَدُ، وَصَارَ الرُّوحُ صُورَةً أُخْرَى، فَلا يُطِيقُ الْكَلامَ؛ لأَنَّ الْجَسَدَ جِرْمٌ، وَالرُّوحُ يُصَوِّتُ مِنْ جَوْفِهِ وَيَتَكَلَّمُ، فَإِذَا فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ؛ صَارَ الْجَسَدُ صُفْرًا، وَصَارَ الرُّوحُ صُورَةً أُخْرَى، يَنْظُرُ إِلَى النَّاسِ، يَبْكُونَهُ، وَيُغَسِّلُونَهُ وَيَدْفِنُونَهُ، وَلا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَكَلَّمَ، كَمَا أَنَّ الرِّيحَ إِذَا دَخَلَ فِي مَكَانٍ ضَيِّقٍ سَمِعْتَ لَهُ دَوِيًّا، فَإِذَا خَرَجَ مِنْهُ لَمْ تَسْمَعْ لَهُ صَوْتًا، وَكَذَلِكَ الْمَزَامِيرُ، فَأَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ يَنْظُرُونَ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَجِدُونَ

ابن عباس نے کہا جب روح جسم سے نکلتی ہے تو جسد مر جاتا ہے اور روح ایک دوسری صورت لے لیتی ہے پس یہ کلام نہیں کرتی کیونکہ جسم تو ایک مرکب سفینہ ہے اور روح اس کے پیٹ میں آواز پیدا کرتی ہے اور کلام کرتی ہے – پس جب یہ جسم سے الگ ہوتی ہے تو جسد پیلا پڑ جاتا ہے اور روح ایک دوسری صورت لے لیتی ہے ، لوگوں کو دیکھتی ہے کہ اس پر رو رہے ہیں ، اس کو غسل دے رہے ہیں ، اس کو دفن کر رہے ہیں ، روح سب دیکھ کر بول نہیں پاتی جیسے ہوا ہو کہ جب تنگ مکان میں جاتی ہے تو اس کی آواز آتی ہے لیکن جب نکل جاتی ہے تو آواز بھی ختم ہو جاتی ہے – اسی طرح بانسری ہے – پس ارواح مومنین جنت کو دیکھتی ہیں

اس کی سند میں مجھول راوی ہیں

مشرب تصوف والے قصے بیان کرتے ہیں کہ ان کے ہاں مردہ غسل دینے والے کی انگلی پکڑ لیتا ہے

آج بھی تصوف کے مخالفین اس قسم کے قصوں کو مقلدوں کی گھڑنت کہتے ہیں اور ان قصوں کو مریدان کا اضافہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے

چند سال پہلے قندوز میں ایک بمباری میں مسلمان بچے شہید ہوئے – دوران تدفین ایک مقتول نے اپنے باپ کی انکلی پکڑ لی – یہ ویڈیو یو ٹیوب پر وائرل ہو گئی

ملاحظہ کریں

https://www.youtube.com/watch?v=QIK9SAwAcH0

راقم کہتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن بھی ہے – اس کو مغرب والے بھی جانتے ہیں اور انہوں نے اس کو لذارس ایفیکٹ
Lazarus effect
کا نام دیا ہے – انجیل کے مطابق لذارس ایک بنی اسرائیلی تھا جس کو قم باذللہ کہہ کر عیسیٰ علیہ السلام نے معجزہ دکھانے میں زندہ کیا تھا بعد میں جب مردوں میں حرکت کو سائنسدانوں نے نوٹ کیا تو اس کو لذارس ایفیکٹ کا نام دیا اور اس کی وجہ سے  پٹھوں میں حرکت ہے جو انسانی  جسم میں عناصر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے – مثلا ذبح کردہ جانور کا جسم آدھے گھنٹے تک گرم ہوتا ہے اور بعض اوقات جسم میں معمولی جنبش  بھی پیدا ہو جاتی ہے – اسی نوع کی یہ چیز ہے

وہ مسلمان علماء جو سائنس سے نابلد ہیں ، وہ جب لذارس ایفیکٹ کو مردوں میں دیکھتے ہیں تو اس کی کوئی علمی توجیہ ان کے پاس نہیں ہوتی  سوائے اس کے کہ اس کو من جانب اللہ آیا کوئی معجزہ قراردیں – دوسری طرف  انکار کرنے والے اس کو سفید جھوٹ کہتے آئے ہیں

غیر نبی کے جسد کی خبریں

  ہم تک خبریں پہنچی ہیں کہ اللہ تعالی نے بعض اصحاب رسول کے اجسام کو باقی رکھا- ولید بن عبد الملک نے حجرہ عائشہ پر قابض خبیب بن عبد اللہ   بن زبیر کو بے دخل کیا اور اپنے گورنر  عمر بن عبد العزیز کو حکم دیا کہ  خبیب کو بے دخل کرو  – اس کے بعد تعمیراتی  پروجیکٹ کا آغاز کیا کہ حجرہ کی چار دیواروں کو گرا کر پانچ کیا جائے – اس تعمیر  میں ایک    دیوار گر گئی جس کا ذکر صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ التَّمَّارِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  مُسَنَّمًا”. حَدَّثَنَا فَرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ “لَمَّا سَقَطَ عَلَيْهِمُ الْحَائِطُ فِي زَمَانِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَخَذُوا فِي بِنَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ  فَفَزِعُوا،‏‏‏‏ وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ”

ہم سے محمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی) دیوار گری اور لوگ اسے (زیادہ اونچی) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں اللہ گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے

 شیعہ روایات میں ہے کہ ایک مزدور نے امام  جعفر سے اس کام پر اجازت طلب کی – عثمانی صاحب نے ایمان خالص قسط دوم  میں الکافی کی  روایت ذکر کی

راقم  کہتا ہے ایسا  کبھی نہیں ہوا کہ  حجرہ عائشہ کی چھت گر گئی ہو

الکافی کے شیعہ  محقق نے خود  تعلیق میں اس روایت پر اقرار کیا ہے

هذا الحديث مجهول وكأن في السند سقطا او ارسالا فان جعفر بن المثنى من اصحاب الرضا عليه السلام ولم يدرك زمان الصادق عليه السلام

یہ حدیث مجہول کی سند سے ہے اور سند گری ہوئی ہے اور اس میں ارسال ہے کیونکہ جعفر بن المثنی یہ اصحاب امام رضا میں سے ہے اس نے امام جعفر کا دور نہیں پایا ہے 

معلوم ہوا کہ یہ روایت متاخرین کی ایجاد ہے

ایک روایت میں بیان ہوا ہے وہاں قبر النبی پر بھی سجدے بھی  ہو رہے تھے

الشريعة از أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے
وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ بْنِ زَكَرِيَّا أَبُو حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ إِلَى الْقَبْرِ , فَأَمَرَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ اللَّهُ فَرُفِعَ حَتَّى لَا يُصَلِّيَ فِيهِ النَّاسُ , فَلَمَّا هُدِمَ بَدَتْ قَدَمٌ بِسَاقٍ وَرَقَبَةٍ؛ قَالَ: فَفَزِعَ مِنْ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَأَتَاهُ عُرْوَةُ فَقَالَ: هَذَا سَاقُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَرُكْبَتُهُ , فَسُرِّيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ
شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ نے هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ سے روایت کیا کہ میرے باپ عُرْوَةَ المتوفی ٩٤ ھ  نے بیان کیا کہ لوگ قبر کی طرف نماز پڑھتے تھے – پس عمر بن عبد العزیز  المتوفی ١٠١ ھ  نے اس کو بلند کیا کہ لوگ اس میں نماز نہ پڑھیں پس جب اس کو منہدم کیا تو ایک قدم پنڈلی … کے ساتھ دیکھا- کہا پس عمر بن عبد العزیز اس پر گھبرا گئے اور عروه آئے اور کہا یہ عمر کی پنڈلی ہے اور گھٹنا ہے -پس اس سے عمر بن عبد العزیز خوش ہوئے

نوٹ : عُروة بن الزُبير  کی وفات عمر بن عبد العزيز بن مروان بن الحكم الأموي  کی وفات  سے سات سال پہلے ہوئی ہے

الولید بن عبد الملک کے حکم پر گورنر  عمر بن عبد العزیز المتوفی ١٠١ ھ  نے حجرہ عائشہ کی چار دیواروں کو پانچ کیوں کیا ؟ اس کی  تاویلات لوگوں نے کی ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے ایسا اس وجہ سے کیا کہ کعبہ سے مطابقت نہ رہے – جبکہ یہ نہایت عجیب قول ہے کیونکہ دیگر انبیاء سے منسوب قبروں کو بھی اسی طرح ٹیڑھی دیواروں کا بنا دیا جانا چاہیے تھا – تاریخ سے معلوم ہے کہ ایسا صرف اس لئے کیا گیا کہ حجرہ میں خبیب بن عبد اللہ بن زبیر نے قیام اختیار کیا ہوا تھا اور الولید کا مقصد حجرات کو مسمار کرنا تھا تاکہ ان میں کوئی رہائش نہ کرے- حجرہ عائشہ کو مسمار نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا اس میں دیوار کواس انداز پر بنایا گیا کوئی پیر پھیلا کر لیٹ نہ سکے کہ وہاں سو سکے یا رہائش کرے

البداية والنهاية از ابن کثیر (المتوفى: 774هـ) میں ہے

قُلْتُ: كَانَ الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ حِينَ وَلِيَ الْإِمَارَةَ فِي سَنَةِ سِتٍّ وَثَمَانِينَ قَدْ شَرَعَ فِي بِنَاءِ جَامِعِ دِمَشْقَ وَكَتَبَ إِلَى نَائِبِهِ بِالْمَدِينَةِ ابْنِ عَمِّهِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَنْ يُوَسِّعَ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ فَوَسَّعَهُ حَتَّى مِنْ نَاحِيَةِ الشَّرْقِ [1] فَدَخَلَتِ الْحُجْرَةُ النَّبَوِيَّةُ فِيهِ. وَقَدْ رَوَى الْحَافِظُ ابْنُ عَسَاكِرَ بِسَنَدِهِ عَنْ زَاذَانَ مَوْلَى الْفُرَافِصَةِ، وَهُوَ الَّذِي بَنَى الْمَسْجِدَ النَّبَوِيَّ أَيَّامَ [وِلَايَةِ] عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَذَكَرَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَ مَا ذَكَرَهُ الْبُخَارِيُّ، وَحَكَى صِفَةَ الْقُبُورِ كَمَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ.

میں ابن کثیر کہتا ہوں : جب سن ٨٦ ہجری میں الولید کو امارت ملی اس نے جامع دمشق بنانے کا آغاز کیا اور اپنے نائب مدینہ اپنے چچا زاد عمر بن عبد العزیز کو حکم لکھ بھیجا کہ مسجد المدینہ کی توسیع کرے پس حجرہ شریفہ کو اس میں داخل کیا گیا اور حافظ ابن عَسَاكِرَ نے اپنی سند سے زَاذَانَ مَوْلَى الْفُرَافِصَةِ سے روایات کیا ہے جنہوں نے مسجد النبی کی عمر بن عبد العزیز کے دور گورنری میں تعمیر کی – پس سالم سے روایت کیا جیسا امام بخاری نے روایت کیا ہے اور جیسا ابو داود میں ایسا صفت قبور پر بیان کیا

تاریخ مكة المشرفة والمسجد الحرام والمدينة الشريفة والقبر الشريف از محمد بن أحمد بن الضياء محمد القرشي العمري المكي الحنفي، بهاء الدين أبو البقاء، المعروف بابن الضياء (المتوفى: 854هـ) میں ہے

وَأدْخل عمر بن عبد الْعَزِيز …. فَصَارَ لَهَا ركن خَامِس، لِئَلَّا تكون الْحُجْرَة الشَّرِيفَة مربعة كالكعبة، فتتصور جهال الْعَامَّة أَن الصَّلَاة إِلَيْهَا كَالصَّلَاةِ إِلَى الْكَعْبَة

عمر بن عبد العزیز نے اس میں پانچویں دیوار بنا دی کہ حجرہ شریفہ کعبه کی طرف مربع نہ ہو پس بعض عام جاہلوں کا تصور ہے کہ اس کی طرف نماز ایسی ہی ہے جیسی کعبہ کی طرف ہے

 

شہدائے احد کے اجسام کی خبر 

بعض چیزیں من جانب اللہ نشانی تھیں ان سے عموم نہیں لیا جا سکتا مثلا شہدائے بدر احد کا رتبہ سب سے بلند ہے اب کوئی شہید بھی ہو تو بھی ان کے رتبے تک نہیں جا سکتا  اس کو بطور نشانی الله تعالی نے باقی رکھا کہ ان شہداء کے جسم لوگون نے دیکھے کوئی تغیر نہیں آیا تھا

المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخلص از المؤلف: محمد بن عبد الرحمن بن العباس بن عبد الرحمن بن زكريا البغدادي المخَلِّص (المتوفى 393هـ) میں ہے

حدثنا عبدُاللهِ قالَ: حدثنا أبويحيى / عبدُالأعلى بنُ حمادٍ قالَ: حدثنا عبدُالجبارِ بنُ الوردِ قالَ: سمعتُ أبا الزبيرِ محمدَ بنَ مسلمٍ يقولُ: سمعتُ جابرَ بنَ عبدِاللهِ يقولُ: كتبَ معاويةُ إلى عامِلِه بالمدينةِ أَن يُجريَ عَيناً إلى أُحُدٍ، فكتبَ إليه عامِلُه أنَّها لا تَجري إلا عَلى قبورِ الشهداءِ، قالَ: فكتبَإِليه أَن أَنفِذْها، قالَ: فسمعتُ جابراً يقولُ: فرأيتُهم يُخْرَجُون على رقابِ الرجالِ كأنَّهم رجالٌ نُوَّمٌ، حتى أَصابتْ المِسْحاةُ قدمَ حمزةَ عليه السلامُ فانبعثَتْ دماً

أبا الزبيرِ محمدَ بنَ مسلمٍ نے کہا میں نے جابر بن عبد الله سے سنا بولے معاویہ نے اپنے گورنر مدینہ کو لکھا کہ احد میں سے (سیلاب کی) نہر گذارو تو اس نے جواب دیا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ احد میں شہداء کی قبور ہیں – معاویہ نے کہا ان کو نکال لو پس میں نے جابر سے سنا کہ میں نے دیکھا وہ (کھودتے ہوئے ) شہداء کی گردنوں تک آ گئے اور ایسا تھا کہ گویا سو رہے ہوں یہاں تک کہ کھدال حمزہ علیہ السلام کے قدم کو لگی تو اس میں سے خون جاری ہو گیا

تاریخ مدینہ ابن شبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، وَقَالَ: لَيْسَ هَذَا مِمَّا فِي الْكِتَابِ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ” صُرِخَ بِنَا إِلَى قَتْلَانَا يَوْمَ أُحُدٍ حِينَ أَجْرَى مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَيْنَ، فَأَتَيْنَاهُمْ فَأَخْرَجْنَاهُمْ رِطَابًا تَتَثَنَّى أَجْسَادُهُمْ. قَالَ سَعِيدٌ: وَبَيْنَ الْوَقْتَيْنِ أَرْبَعُونَ سَنَةً

ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ اہل احد کے مقتولین کو نکالا جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے چشمہ جاری کرنا چاہا ہم احد میں گئے ان کے جسموں کو تازہ نکالا گیا – سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ نے کہا اس وقت تک ٤٠ سال گزر چکے تھے

اسی کتاب میں ہے

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، وَأَبُو غَسَّانَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ [ص:128] عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْجَمُوحِ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ الْأَنْصَارِيَّيْنِ، ثُمَّ السُّلَمِيَّيْنِ، كَانَا فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، وَكَانَا مِمَّنِ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَكَانَ قَبْرُهُمَا مِمَّا يَلِي السَّيْلَ، فَحُفِرَ عَنْهُمَا لِيُغَيَّرَا مِنْ مَكَانِهِمَا، فَوُجِدَا لَمْ يَتَغَيَّرَا كَأَنَّمَا مَاتَا بِالْأَمْسِ، وَكَانَ أَحَدُهُمَا قَدْ جُرِحَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جُرْحِهِ، فَدُفِنَ وَهُوَ كَذَلِكَ، فَأُمِيطَتْ يَدُهُ عَنْ جُرْحِهِ ثُمَّ أُرْسِلَتْ، فَرَجَعَتْ كَمَا كَانَتْ. وَكَانَ بَيْنَ يَوْمِ أُحُدٍ وَيَوْمَ حُفِرَ عَنْهُمَا سِتٌّ وَأَرْبَعُونَ سَنَةً ”

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ نے کہا کہ ان تک پہنچا کہ عَمْرَو بْنَ الْجَمُوحِ اور عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ انصاریوں میں سے تھے پھر ساتھ مسلمان ہوئے اور ان کی قبر ایک ہے اور ان دونوں نے احد کا دن دیکھا اور ان کی قبروں میں سیلاب کا پانی آیا تو ان کو الگ مقام پر دفنانے کے لئے نکالا گیا تو ان کے جسموں میں کوئی تغیر نہیں آیا تھا جیسے کہ کل مرے ہوں اور ایک کے ہاتھ پر رخم ہوا پس اسی حال میں دفن کیا گیا اور وہ اسی طرح رہے کہ رخم سے خون رستا رہا پھر (اس نئے مقام سے ) نکال کر واپس وہیں دفن کیا جہاں تھے تو خون پھر جاری ہو گیا جیسا پہلے بہہ رہا تھا اور یوں احد سے اس دن تک جب نکالا ٤٦ برس بیت چکے تھے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا 36758 – عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ رِجَالٍ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ قَالُوا: «لَمَّا صَرَفَ مُعَاوِيَةُ عَيْنَهُ الَّتِي تَمُرُّ عَلَى قُبُورِ الشُّهَدَاءِ جَرَتْ عَلَيْهِمَا فَبَرَزَ قَبْرُهُمَا , فَاسْتُصْرِخَ عَلَيْهِمَا فَأَخْرَجْنَاهُمَا يَتَثَنَّيَانِ تَثَنِّيًا كَأَنَّمَا مَاتَا بِالْأَمْسِ , عَلَيْهِمَا بُرْدَتَانِ قَدْ غُطُّوا بِهِمَا عَلَى وُجُوهِهِمَا وَعَلَى أَرْجُلِهِمَا مِنْ نَبَاتِ الْإِذْخِرِ»

بنی سلمہ کے مردوں نے خبر دی کہ جب معاویہ نے وہ نہر جاری کی جو شہدائے احد کی قبروں پر سے گزری تو ان کی قبریں کھودی گئیں پس کھودا تو .. ایسے تھے کہ کل شہید ہوئے ہوں ان پر برد (ایک قسم کی ) چادریں تھیں جس سے ان کے چہروں کو ڈھانپا ہوا تھا اور قدموں پر الْإِذْخِرِ کھانس تھی

 یہ الله کی آیت و نشانی تھی  کہ تابعین اور اصحاب رسول میں سے چند نے ٤٦ سال بعد بھی ان جسموں کو اصلی صورت میں دیکھا -کلی اصول ہے کہ ہر چیز کو فنا ہے لہذا یہ اصول سب پر لگے گا کیونکہ حشر میں پہاڑ چلیں گے کیا انبیاء کے جسم اس وقت ختم ہوں گے ؟ بعض اجسام اللہ تعالی نے ایک مدت باقی رکھے ان کو ظاہر کیا تاکہ لوگوں کا ایمان تازہ ہو – شہداء بدر و احد زندہ نہیں مردہ تھے ان کے جسموں سے ان کی روحوں کا کوئی تعلق نہیں تھا صرف ان کے جسد سالم نکلے ان میں خون  جما  ہوا نہیں تھا -اس کوان شہداء کا  خصوص کہا جائے گا – یہ شہداء احد کی خصوصیت تھی جو ممکن ہے کچھ عرصہ رہی ہو

واضح رہے ہر مقتول و شہید  کا جسم باقی نہیں رہتا-  یہ صرف ان شہدائے اصحاب رسول کی خبر ہے جو سچ کے گواہ بن  کر  شہید ہوئے

و الله اعلم

حجرات النبی جنت کا حصہ ہیں ؟

ایک وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نو ازواج تھیں  اور ان کے گھر مسجد النبی کے پاس تھے – انہی  کو حجرات  قرآن میں کہا گیا ہے اور ایک سورہ  کا نام بھی اسی پر ہے – ان تمام حجرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  جنت قرار نہیں دیا – البتہ ایک حدیث ہے

صحیح بخاری کی حدیث   ١١٩٥    بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ   میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ المَازِنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ»

میرے گھر اور منبر کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے

گھر سے مراد حجرہ عائشہ رضی الله عنہا ہے لہذا اگر آپ دیکھیں تو گھر اور منبر کے درمیان جنت اصل میں مسجد النبی ہے اور مسجد کو جنت کے باغوں میں سے ایک کہا جا رہا ہے –  جب بھی دو چیزوں کے درمیان کی بات ہوتی ہے تو اس میں وہ دو چیزیں شامل نہیں ہوتیں ورنہ یہ کہنا آسان ہے کہ میری قبر جنت کا حصہ ہے نہ کہ یہ کہ میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کا باغ ہے-

قبر و منبر کے درمیان – معلول اسناد 

ایک روایت  میں قبر اور منبر کے درمیان کا لفظ ہے  – طبرانی اوسط کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نا أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ إِلَّا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: أَبُو حَصِينٍ

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے
اس روایت کو عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ سے سوائے يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ کے کوئی روایت نہیں کرتا اور اس میں أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ کا تفرد ہے- عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ کو دارقطنی ضعیف کہتے ہیں ابن معین کہتے ہیں اس کی احادیث قوی نہیں

رسول الله کی روح جنت میں ہے اور وہ مقام الوسیلہ ہے –    وفات کے وقت عائشہ رضی الله عنہا کا قول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله سب سے اعلیٰ دوست ہے،    اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے دنیا کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا

ایک روایت مسند احمد   ١١٦١٠  میں ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ، مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ   عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ أَبِي: إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ حَدَّثَنَا عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ: إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ

شعیب کہتے ہیں یہ منقطع ہے

أبو بكر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر، هو أبو بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر، روايته عن جد أبيه منقطعة

حلية الأولياء وطبقات الأصفياء از  أبو نعيم  الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) اور صحیح ابن حبان میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ، ثنا أَبُو بِشْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُصْعَبٍ , ثنا مَحْمُودُ بْنُ آدَمَ، ثنا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: ” قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَوَائِمُ مِنْبَرِي رَوَاتِبٌ فِي الْجَنَّةِ , وَمَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» تَفَرَّدَ بِهِ الْفَضْلُ عَنْ سُفْيَانَ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میرے منبر کے پائے  جنت کے رَوَاتِبُ ہیں اور میری قبر اور منبر کے درمیان جنت ہے

اس کی سند میں  عمار بن معاوية الدهني    جس نے أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ سے روایت کیا    ہے – عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ کے لئے ابو حاتم کہتے ہیں اس سے دلیل مت لو-

شعب الإيمان از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، أَخْبَرَنَا حَامِدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرًا، وَهُوَ يَبْكِي عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: هَهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ “

سند میں   عَبْدُ اللهِ بْنُ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ   ہے جو مجہول ہے

السنة از  أبو بكر بن أبي عاصم  (المتوفى: 287هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی     ہے  میری قبر اور منبر کے  درمیان جنت ہے

اس کی سند  بظاہر صحیح ہے    لیکن یہ متن معلول   ہے –  دوم   اس میں قبر کو جنت کا باغ قرار نہیں دیا گیا ہے  جیسا لوگوں کا دعوی ہے

صحیح بخاری  میں اسی سند سے ہے

ح  ١٨٨٨  اور ١١٩٦ : حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

یعنی راوی نے خود کبھی    بَيْتِي میرا گھر بولا اور کبھی  قَبْرِي میری قبر بول دیا ہے –

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَا بَيْنَ هَذِهِ الْبُيُوتِ ـ يَعْنِي: بُيُوتَهُ ـ إِلَى مِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَالْمِنْبَرُ عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان گھروں اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے باغ ہے اور منبر جنت کے ٹیلے پر ہے

شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے کہ
حديث صحيح دون قوله: “ما بين هذه البيوت ” بصيغة الجمع، فقد خالف فيها فليحٌ – وهو ابن سليمان
حدیث ان گھروں کے درمیان کے الفاظ یعنی جمع کے ساتھ ضعیف ہے اس متن پر فلیح بن سلیمان نے مخالفت کی ہے

بعض کا قول ہے کہ یہ قبری کا لفظ صحیح سند سے بھی ہے

قبری کے لفظ پر متضاد آراء 

بدر الدين العيني عمدة القاري 10 /248 میں لکھتے ہیں
وكذا وقع في حديث سعد بن أبي وقاص أخرجه البزار بسند صحيح،
قبری کے الفاظ صحیح سند سے مسند البزار میں سعد بن أبي وقاص کی سند سے آئے ہیں

راقم کو مسند البزار میں یہ سند ملی

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: نَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عُبَيْدَةُ بِنْتُ نَابِلٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي، أَوْ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» وَهَذَا الْحَدِيثُ قَدْ رَوَتْهُ عُبَيْدَةُ، وَرَوَاهُ جُنَاحٌ مَوْلَى لَيْلَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهَا

اس سند میں عُبَيدة بنت نابل، حجازية. مجہول ہے

شعيب الأرنؤوط نے مسند احمد کی تعلیق میں اس سند کا ذکر کر کے کہا
قال الهيثمي في “المجمع” 4/9: ورجاله ثقات، فتعقبه الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي بقوله: قلت: كلا، بل فيه إسحاق بن محمد الفروي، وليس بثقة،

حبيب الرحمن الأعظمي کا کہنا ہے اس سند میں بل فيه إسحاق بن محمد الفروي، وليس بثقة، ہے

بعض کا قول ہے کہ قبری کہنا اصل میں روایت بالمعنی ہے مثلا ابن تیمیہ کا القاعدة الجليلة میں قول ہے

ولكن بعضهم رواه بالمعنى، فقال: قبري
لیکن بعض نے کو قبری کے لفظ کے ساتھ روایت بالمعنی کیا ہے

بعض کا قول ہے قبری کا لفظ بے اصل ہے – التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد میں قرطبی کا کہنا ہے

وَقَدْ رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْكُوفِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكِ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَهَذَا أَيْضًا إِسْنَادٌ خَطَأٌ لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ وَلَا أَصْلَ لَهُ

ابن عمر نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر اور منبر کے درمیان جو ہے وہ جنت کا ٹکڑا ہے – ان اسناد میں غلطی ہے – اس کی متابعت نہیں ہے نہ اصل ہے

الرَّوضُ البَّسَام بتَرتيْبِ وَتخْريج فَوَائِدِ تَمَّام کے مؤلف أبو سليمان جاسم بن سليمان حمد الفهيد الدوسري کا کہنا ہے

تنبيه: الحديث بلفظ: “ما بين قبري ومنبري … ” عزاه النووي في “المجموع” (8/ 272) والعراقي في “تخريج الإِحياء” (1/ 260) إلى الصحيحين، وهو وهم، وقد علمت أن روايتهما بلفظ:”بيتي”.

تنبیہ حدیث الفاظ ما بين قبري ومنبري . کو نووی نے لیا ہے … اور یہ وہم ہے اور جان لو کہ روایت ہے بیتی کے الفاظ سے

أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب از محمد بن محمد درويش، أبو عبد الرحمن الحوت الشافعي (المتوفى: 1277هـ) میں ہے

حَدِيث: ” مَا بَين بَيْتِي ومنبري رَوْضَة من رياض الْجنَّة “. مُتَّفق عَلَيْهِ، وَمن يذكرهُ بِلَفْظ قَبْرِي فَهُوَ غلط.
حدیث ہے مَا بَين بَيْتِي ومنبري رَوْضَة من رياض الْجنَّة یہ متفق علیہ ہے اور جس نے اس کو قبری کے لفظ سے ذکر کر دیا ہے اس نے غلطی کی ہے

امام بخاری کا اہتمام : صرف بیت و منبر  والی روایات کی تصحیح کی 

امام بخاری نے  خاص وہ اسناد لی ہیں جن میں بیتی  کے الفاظ ہیں

ح  ٦٥٨٨  :  حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

ح ٧٣٣٥  : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

امام بخاری نے اس طرح خاص اہتمام کیا  ہے کہ صرف وہ متن لکھیں جس میں بیتی  گھر کے الفاظ ہوں نہ کہ قبر کے-

باب پر اشکال 

اب بحث اس میں ہے کہ اگر یہ ہی متن امام صاحب کے نزدیک صحیح تھا تو اس پر باب       بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ   قائم کیوں کیا؟

ابواب بخاری کے حوالے سے راقم کی رائے ہے کہ یہ تمام کے تمام امام بخاری کے قائم کردہ نہیں ہیں – کتاب    التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح  از  أبو الوليد سليمان بن خلف بن سعد بن أيوب بن وارث التجيبي القرطبي الباجي الأندلسي (المتوفى: 474هـ) کے مطابق

وَقد أخبرنَا أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ الْحَافِظ رَحمَه الله ثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي إِبْرَاهِيم بن أَحْمد قَالَ انتسخت كتاب البُخَارِيّ من أَصله كَانَ عِنْد مُحَمَّد بن يُوسُف الْفربرِي فرأيته لم يتم بعد وَقد بقيت عَلَيْهِ مَوَاضِع مبيضة كَثِيرَة مِنْهَا تراجم لم يثبت بعْدهَا شَيْئا وَمِنْهَا أَحَادِيث لم يترجم عَلَيْهَا فأضفنا بعض ذَلِك إِلَى بعض وَمِمَّا يدل على صِحَة هَذَا القَوْل أَن رِوَايَة أبي إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي وَرِوَايَة أبي مُحَمَّد السَّرخسِيّ وَرِوَايَة أبي الْهَيْثَم الْكشميهني وَرِوَايَة أبي زيد الْمروزِي وَقد نسخوا من أصل وَاحِد فِيهَا التَّقْدِيم وَالتَّأْخِير وَإِنَّمَا ذَلِك بِحَسب مَا قدر كل وَاحِد مِنْهُم فِي مَا كَانَ فِي طرة أَو رقْعَة مُضَافَة أَنه من مَوضِع مَا فأضافه إِلَيْهِ وَيبين ذَلِك أَنَّك تَجِد ترجمتين وَأكْثر من ذَلِك مُتَّصِلَة لَيْسَ بَينهمَا أَحَادِيث وَإِنَّمَا أوردت هَذَا لما عني بِهِ أهل بلدنا من طلب معنى يجمع بَين التَّرْجَمَة والْحَدِيث الَّذِي يَليهَا وتكلفهم فِي تعسف التَّأْوِيل مَا لَا يسوغ وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ رَحمَه الله وَإِن كَانَ من أعلم النَّاس بِصَحِيح الحَدِيث وسقيمه فَلَيْسَ ذَلِك من علم الْمعَانِي وَتَحْقِيق الْأَلْفَاظ وتمييزها بسبيل فَكيف وَقد روى أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي الْعلَّة فِي ذَلِك وَبَينهَا إِن الحَدِيث الَّذِي يَلِي التَّرْجَمَة لَيْسَ بموضوع لَهَا ليَأْتِي قبل ذَلِك بترجمته وَيَأْتِي بالترجمة الَّتِي قبله من الحَدِيث بِمَا يَلِيق بهَا

أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ نے خبر دی الْمُسْتَمْلِي نے کہا میں نے  وہ نسخہ نقل کیا جو الْفربرِي کے پاس تھا پس میں نے دیکھا یہ ختم نہیں ہوا تھا اور اس میں بہت سے مقامات پر ترجمہ یا باب قائم کیے ہوئے تھے جس میں وہ چیزیں تھیں جو اس باب کے تحت ثابت نہیں تھیں اور احادیث تھیں جن کے تراجم (یا ابواب) نہ تھے پس ہم نے ان میں اضافہ کیا بعض کا بعض میں اور اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کہ الْمُسْتَمْلِي اور السَّرخسِيّ اور  الْكشميهني اور أبي زيد الْمروزِي نے سب  نے ایک ہی نسخہ سے نقل کیا ہے جس میں تقدیم و تاخیر تھی اور یہ اس وجہ سے تھا کہ ان سب کی حسب مقدار جو طرة میں تھا یہ  اضافی رقْعَة پر موجود تھا جو اس مقام پر لگا تھا اس کا اضافہ کیا گیا اور اس کی تبین ہوتی ہے کہ دو ابواب ایک سے زیادہ  مقام پر ہیں اور ابواب ملے ہیں حدیث نہیں ہے اور ایسا ہی مجھ کو ملا جب اہل شہر نے مدد کی کہ ابواب کو حدیث سے ملا دیں اور تاویل کی مشکل جھیلی جو امام بخاری کے نزدیک تھی اور اگرچہ وہ لوگوں میں حدیث کے صحیح و سقم کو سب سے زیادہ جانتے تھے لیکن علم معنی اور تحقیق الفاظ اور تمیز میں ایسے عالم نہیں تھے تو کیسے (ابواب کی تطبیق حدیث سے ) کرتے – اور الْمُسْتَمْلِي نے اس کی علت بیان کی کہ ایک حدیث اور اس سے ملحق باب میں حدیث ہوتی ہے جو موضوع سے مناسبت نہیں رکھتی

 الباجی    نے جو معلومات دی ہیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ باب کہا جا سکتا ہے کہ امام بخاری کا قائم کردہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اس روایت کے متن میں خاص احتیاط برتی ہے کہ صرف وہ لیں جس میں بیتی  کے الفاظ ہوں نہ کہ قبری  کے

امام بخاری کا عقیدہ 

امام بخاری نے اپنا عقیدہ   ان احادیث پر اس طرح بیان کیا ہے

انس ؓ سے روایت کہ حارثہ بن سراقہ انصاری ؓ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس ؓ کی پھو پھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا ، اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں ۔ نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تم پر رحم کرے ، کیا دیوانی ہو رہی ہو ، کیا وہاں   ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے ۔   صحیح بخاری ، کتاب المغازی​

صحیح بخاری میں ہے

براء بن عازب ؓ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔

امام مسلم کا اہتمام : صرف بیتی والی روایت کی تصحیح

امام مسلم نے بھی امام بخاری کی طرح صرف ان روایات کی تصحیح کی ہے جن میں بیتی کے الفاظ ہوں- امام صاحب دو اسناد دیتے ہیں

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

اب اشکال یہ ہے کہ اگر امام مسلم سے نزدیک یہ متن صحیح تھا تو اس پر باب بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ کیوں قائم کیا ہے

صيانة صحيح مسلم من الإخلال والغلط وحمايته من الإسقاط والسقط میں محدث ابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) کہتے ہیں

أَن مُسلما رَحمَه الله وإيانا رتب كِتَابه على الْأَبْوَاب فَهُوَ مبوب فِي الْحَقِيقَة وَلكنه لم يذكر فِيهِ تراجم الْأَبْوَاب لِئَلَّا يزْدَاد بهَا حجم الْكتاب أَو لغير ذَلِك
اللہ رحم کرے امام مسلم پر انہوں نے کتاب مرتب کی ابواب کے مطابق لیکن اس پر ابواب قائم نہ کیے کیونکہ اس سے کتاب کا حجم بڑھ جاتا یا کوئی اور وجہ تھی

لب لباب 

صحیح اسناد سے وہ حدیث ہے جس میں گھر اور منبر کے درمیان کو جنت کہا گیا ہے

ضعیف و معلول اسناد سے وہ روایات ہیں جن میں قبر اور منبر کو جنت کہا گیا ہے

اگر یہ تسلیم کریں کہ متن میری قبر اور منبر کے درمیان کے الفاظ کے ساتھ صحیح تھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک حصہ یا تمام جنت میں سے تھا اور جو لوگ اس میں زندگی میں داخل ہوئے وہ جنت میں چلے گئے – ایسا دعوی ہم دیکھتے ہیں کسی نے نہیں کیا

انبیاء کی جنت آسمانوں میں ہے – زمین جیسی فانی چیزوں میں نہیں جس پر عظیم پہاڑوں کو چلایا جائے گا حتی کہ زمین چپٹی کر دی جائے گی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھر اور منبر کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے

یعنی بعد حشر اس مسجد النبی کو جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا – جنت مشرک پر حرام ہے اور مسجد النبی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصرانیوں سے کلام کیا ہے – یہود بھی اپنے مقدمات کو لے کر اسی مسجد میں آتے تھے – ظاہر ہے یہود و نصرانی جنت میں نہیں جا سکتے – اس حدیث کا ظاہر پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات حشر کے بعد واقع ہو گی نہ کہ دنیا میں جب اس زمین کے مسجد النبی کے مقام کو باقی زمین سے الگ کر کے جنت کا حصہ بنایا جائے گا اور منبر پر حوض  کوثر ہو گا

واللہ اعلم

روایات عرض عمل اور دیوبندی علماء

عرض عمل کی روایات اس امت میں شیعہ راویوں یا اہل بیت کے غلاموں کی پھیلائی ہوئی ہیں – ان کا اجراء خروج ائمہ کو جواز دینے کے لئے کیا گیا کہ مخالفین اہل بیت، بنو امیہ مسلمان ہی نہیں – ان کا درود نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش نہیں ہوتا

راقم عرض عمل کی روایات کو رد کرتا ہے – عرض عمل کی روایات پر منطقی اعتراض کا ذکر جناب  الیاس گھمن متکلم دیو بند ایک تقریر میں فرماتے ہیں

دیوبندیوں کے متکلم الیاس گھمن ١:٠٠ منٹ پر کہتے ہیں کہ

ایک سآئل نے سوال کیا کہ حدیبیہ میں عثمان مشرکین مکہ کی قید میں تھے
اور نبی پاک نے عثمان کے قتل کا بدلہ لینے پر بیعت لے لی تو کیا عثمان کا درود نبی پر پیش نہ ہوتا تھا ؟
الیاس گھمن جواب دیتے ہیں میں نے اس سائل سے کہا

آج تک کبھی آپ نے ہمارے اکابر کی کتاب میں یہ عقیدہ پڑھا ہو یا ہمارے اکابر سے سنا ہو کہ ہم نے یہ کہا ہو کہ
حضور پاک جب اس دنیا میں زندہ تھے تو حضور پر جو درود دور سے پڑھتا جاتا تھا وہ پیش ہوتا تھا ؟
کہا جی نہیں – میں نے کہا جب یہ ہمارا عقیدہ ہی نہیں ہے تو تم نے اعتراض کیسے کیا

الیاس ٢:٠٠ منٹ پر کہتے ہیں
ہمارا عقیدہ ہے
من صلی علی عند قبری
جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا تو میری قبر کے پاس درود پڑھو گے تو میں سن لوں گا

و من صلی علی نائيا بلغته
جو دور سے پڑھا جائے گا پہنچایا جائے گا

یہ اس اس زندگی میں ہے یا بعد کی بات ہے

اعتراض تب تھا جب ہم یہ کہتے کہ اس دنیا میں جو مدینہ سے باہر رہ کر دورد پڑھتا وہ پیش ہوتا تھا – جب یہ ہمارا عقیدہ ہی نہیں تو اعتراض کی حیثیت کیا ہے ؟

اس دنیا میں مدینہ سے باہر رہ کر درود پڑھتا تھا وہ پیش ہوتا تھا اب اس پر دلیل پیش کرتے ہیں کہ عثمان کا پیش کیوں نہیں ہوا ؟
یہ ہمارا عقیدہ ہی نہیں

الیاس 3:16 منٹ پر کہتے ہیں
سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تھے تو یہ مسئلہ نہیں تھا اور جب دنیا سے چلے گئے تو پھر یہ مسئلہ ہے
ایسا کیوں ہے ؟
جب اس دنیا میں تھے تو ہمارا عقیدہ نہیں ہے کہ دور سے پڑھیں تو فرشتے پہنچاتے ہیں
جب دنیا چھوڑ کر قبر میں تشریف لے گئے اب ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر دور سے درود پڑھیں تو فرشتے پہنچاتے ہیں
یہ فرق کیوں ہے ؟
یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اللہ رب العزت کے دین کو
دنیا والوں تک پہنچانے کے لئے … جب ایک مقصد کو لے کر چلنے والا اس کو لے کر چلتا ہے تو لوگ قبول کریں تو اس کو خوشی ہوتی ہے
جب اللہ کے نبی اس دنیا میں ہیں ، صحابہ اکرام مدینہ آ رہے ہیں مدینہ سے جا رہے ہیں
حضور پاک اپنے کام کی کار گزاری دیکھ رہے ہیں – اب دور سے بذریعہ ملائکہ زندگی میں درود پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے
جب اللہ کے نبی قبر میں تشریف لے گئے …. اب ضرورت ہے کہ پغمبر پر کار گزاری پہنچے
جب قبر پر جائیں اور درود پڑھیں تو حضور سن لیتے ہیں اور دور سے پڑھیں تو ملائکہ پہنچا دیتے ہیں

ساتھ دوسری حدیث بھی ذہن میں رکھ لیں عرض اعمال کی اللہ کے نبی نے فرمایا

تمہارے اعمال مجھ پر پیش ہوتے ہیں

جب اس دنیا میں تھے تو دور سے اعمال پیش ہونے کی حاجت نہیں تھی آنکھوں سے آپ کار گزاری دیکھ رہے تھے
لوگ آ بھی رہے تھے اور جا بھی رہے تھے – جب نبی دنیا سے چلے گئے تو امت کی کار گزاری
حضور قبر میں رہ کر ساری دنیا کو دیکھیں یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے لہذا
اللہ ملائکہ کے ذریعہ امت کے اعمال پیش کر کے نبی کو ان کی کار گزاری سناتے رہتے ہیں

انتھی کلامہ

========================

لب لباب ہوا کہ دیو بندیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ زندگی میں درود تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہی نہیں ہوتا تھا

اس طرح الیاس گھمن صاحب نے ان احادیث کو رد کر دیا

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِي، حَدّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَي عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ،
وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا” قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: “وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ”، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ
امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ ابوالدراد
رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ نے ارشاد فر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس
کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ آپ کی موت کے بعد ؟ آپ نے فرمایا الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے جسموں کو کھائے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے

نوٹ : روایت ضعیف منقطع ہے

سنن ابو داود میں ہے
حدثنا هارون بن عبد الله، ‏‏‏‏‏‏حدثنا حسين بن علي، ‏‏‏‏‏‏عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، ‏‏‏‏‏‏عن ابي الاشعث الصنعاني، ‏‏‏‏‏‏عن اوس بن اوس، ‏‏‏‏‏‏قال ‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال
فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
اوس بن اوس رضی الله عنہ نے کہا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے
جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے

اس روایت میں صریحا زندگی میں دورد پیش ہونے کا ذکر ہے – صحابہ کو اشکال ہوا کہ موت کے بعد بھی ہو گا کہ نہیں تو اس کا جواب بھی اثبات میں دیا گیا ہے

نوٹ :  روایت امام ابن ابی حاتم کے نزدیک معلول ہے 

مسند البزار کی روایت ہے
حَدَّثَنَاهُ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا جَرِيرٌ، عَنْ حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، قَالَ حُسَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ
يُبَلِّغُونَ، عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ
حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيّ نے روایت کیا کہ عبد الله بن السَّائِبِ نے زاذان سے روایت کیا اس نے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ .. اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک لاتے ہیں

اس روایت کو بھی وفات کے بعد کے دور سے مقید نہیں کیا جا سکتا

نوٹ راقم کے نزدیک سند منقطع ہے – زاذان کا ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے سماع نہیں ہے

ان روایات پر مزید تفصیل راقم کی کتاب میں ملاحظہ کریں

[wpdm_package id=’8847′]

ام المومنین اور لا النبی بعدی پر قول

ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه کے ساتھ رہا۔ میں نے خود سنا کہ وہ یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا

عن أَبي هريرةَ قَالَ: قالَ رَسُول اللَّه : كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبيٌّ، وَإنَّهُ لا نَبِيَّ بَعدي، وسَيَكُونُ بَعدي خُلَفَاءُ فَيَكثُرُونَ، قالوا: يَا رسول اللَّه، فَما تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: أَوفُوا بِبَيعَةِ الأَوَّلِ فالأَوَّلِ، ثُمَّ أَعطُوهُم حَقَّهُم، وَاسأَلُوا اللَّه الَّذِي لَكُم، فَإنَّ اللَّه سائِلُهم عمَّا استَرعاهُم

بنی اسرائیل کی قیادت ان کے انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنا دیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، اُن کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو اور ان کے حق اطاعت کو پورا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی رعیت کے متعلق اُن سے سوال کرے گا

دوسری طرف بعض نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے قول منسوب کیا کہ وہ اپنے شاگردوں کو کہتیں
لا تقولوا لا النبی بعدی
یہ نہ کہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا

راقم کو ام المو منین سے منسوب اس قول کی دو سندیں ملی ہیں – مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ قُولُوا ” خَاتَمُ النَّبِيِّينَ , وَلا تَقُولُوا لا نَبِيَّ بَعْدَهُ

راقم کہتا ہے اس کی سند میں انقطاع ہے جرير بن حازم کا عائشة رضي الله عنها سے سماع نہیں ہے۔ کتب حدیث میں جریر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بعض اوقات دو دو راوی ہیں مثلا  جرير بن حَازِم عَن يحيى بن سعيد عَن عُرْوَة عَن عَائِشَة

اس قول کی ایک اور سند ہے

الرَّبِيعُ بْنُ صُبَيْحٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لا تَقُولُوا لا نَبِيَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ، وَقُولُوا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ ، فَإِنَّهُ يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلا وَإِمَامًا مُقْسِطًا ، فَيَقْتُلُ الدَّجَّالَ ، وَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ ، وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا

راقم کہتا ہے اس سند میں الربيع بن صبيح ضعیف ہے اور محمد بن سيرين کا سماع عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں ہے

أنيس الساري میں ابن حجر نے ایک روایت پر لکھا ہے

إسناده منقطع لأنّ ابن سيرين لم يسمع من عائشة، قاله ابن معين وأبو حاتم

إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة میں ابن حجر نے ایک روایت پر حکم لگایا لکھا
منقطع، يعني أن ابن سيرين لم يسمع من عائشة

المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ از ابن حجر میں ہے
أن محمَّد بن سيرين لم يسمع من عائشة كما في جامع التحصيل

ابن قتيبة نے تأويل مختلف الحديث میں (ص 272) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے منسوب اس قول کی تاویل کی ہے

وَأَمَّا قَوْلُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا “قُولُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ”؛ فَإِنَّهَا تَذْهَبُ إِلَى نُزُولِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلَيْسَ هَذَا مِنْ قَوْلِهَا، نَاقِضًا لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “لَا نَبِيَّ بَعْدِي” لِأَنَّهُ أَرَادَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، يَنْسَخُ مَا جِئْتُ بِهِ، كَمَا كَانَتِ الْأَنْبِيَاءُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ تَبْعَثُ بِالنُّسَخِ، وَأَرَادَتْ هِيَ “لَا تَقُولُوا إِنَّ الْمَسِيح لَا ينزل بعده

اور جہاں تک عائشہ کے قول کا تعلق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء کہو یہ مت کہو ان کے بعد نبی نہیں تو ان کا مذھب ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام پر اور یہ اس قول سے متناقص نہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد نبی نہیں

ہم کہتے ہیں یہ قول عائشہ رضی اللہ عنہا  ثابت ہی نہیں لہذا اس کو دلیل میں پیش نہیں کیا جا سکتا

کتاب جنات 

[wpdm_package id=’8964′]

[wpdm_package id=’8852′]

اس کتاب  میں جنات  و شیاطین  سے متعلق  روایات  کو یکجا  کیا گیا ہے – عوام  الناس    میں  جنات ، قرین ، ہمزاد    وغیرہ   کے نام سے ان کو    جانا جاتا ہے –   جنات کو قبضہ  میں کرنے  کا پیر   و فقیر    دعوی  بھی  کرتے ہیں –

جن    ایک  وقت   تھا   ،    جب  زمین سے جنت         تک  چلے جاتے تھے   جیسا  قرآن میں ہے   کہ سرکشی  پر ابلیس  کو  حکم  دیا گیا     اخرج  منها    یعنی   نکل   یہاں سے –   مہلت  ملنے   کے بعد   بھی     ابلیس   کو      واپس جنت  میں داخل   ہونے دیا گیا  تاکہ آدم و حوا علیھما السلام  کو بہکا سکے   کیونکہ یہ وعدہ الہی کی عملی شکل تھا –   اس کے بعد  جب آدم ، حوا  اور ابلیس   کو زمین پر بھیج دیا گیا   تو   اب  شیاطین   پر پابندی  ہے کہ وہ آسمان  اول  تک  بھی جا سکیں –  اب یہ  شیاطین  ،       کاہنوں کی مدد کرنے   آسمان پر جاتے   ضرور   ہیں  تاکہ  کچھ سن لیں   لیکن  یہ   رسائی    آسمان  اول  نہیں ہوتی     بلکہ اس سے بہت نیچے کا کوئی مقام ہوتا ہے   –  سورہ الرحمن  آیت  ٣٣ میں ذکر ہے کہ  زمین کے گرد  ا قطار  الارض  ہے  جس کو پار کرنا  جنات  کے بس و قوت میں نہیں     –    لہذا  جب  جنات   ان   ا قطار  الارض   کے پاس پھٹکتے   ہیں تو     فرشتے  ان کو     دیکھ  کر  ان  پر     شہاب  ثاقب       پھینکتے   ہیں –   دور نبوی  میں   اس  پہرہ  کو   شدید  سخت کر دیا گیا   تاکہ  جنات،   فرشتوں کی  کوئی سن گن نہ  لے سکیں – کاہنوں   کا دھندہ  ٹھپ  ہو گیا  اور   جنات  میں سراسیمگی  پھیل  گئی کہ زمین  پر  شاید   کوئی   بڑا عذاب  آنے  والا ہے   یہاں تک کہ سورہ الجن میں خبر ہے کہ جنوں نے قرآن سنا تو ان کو معاملہ سمجھ آیا –

اس کتاب  میں آپ کو   جنات  پر      بعض     عجیب و غریب روایات  پڑھنے کو ملیں گی  جن کو علماء  کتب میں لکھ  کر سند جواز  دے دیتے ہیں  یا تصحیح  کر بیٹھے  ہیں  –قرآن و  حدیث سے سحر  اور کہانت  کا وجود  ثابت  ہے   ، جس میں شیاطین  کے ذریعہ   اس  ممنوعہ  عمل کو کیا جاتا ہے –     لیکن  جہاں تک ان  باتوں   کا تعلق  ہے کہ جنات   انسان کو اغوا  کرتے ہیں ، قتل  کرتے ہیں ، شکل و ہیت بدلتے   ہیں    ،  انسان پر بیماری  نازل    کرتے ہیں، چوریاں  کرتے ہیں ، انسان سے زنا کرتے ہیں ،    تو    ان   کے دلائل   بہت بودے   ہیں-

   یہودی و نصرانی       ادیان  میں ابلیس کو سانپ     بھی  کہا   گیا ہے-  یہود   کا قول ہے کہ   شیطان   ایک فرشتہ  ہے –  نصرانییوں    کا قول  ہے کہ  شیطان  انسانی و حیوانی جسم میں چلا جاتا ہے   –  البتہ   اسلام   میں ان مفروضات کی کوئی گنجائش  نہیں ہے  –  راقم  کی ایک تصنیف     بعنوان   آسیب   چڑھنا    اس  ویب  پر موجود ہے – ڈریگن    (یعنی    اڑتے  سانپ )  کو دنیا  میں بہت سے مقام پر پوجا جاتا تھا   اور اس کو   مثبت    انداز  میں    فلموں میں  دکھایا   جاتا ہے – آج   بھی     مشرک  قوموں میں سانپوں  کی پوجا   ہوتی   ہے   – یہاں تک کہ ازمنہ  قدیم   میں      فراعنہ  مصر   کے سر   پر تاج  میں بھی سانپ   کی شکل موجود  تھی -قابل  غور ہے کہ موسی  علیہ  السلام   کا عصا    بھی  ایک سانپ   کی صورت لیتا تھا    اور   اللہ   کی نشانی  تھا   -یعنی   اللہ تعالی   نے ظاہر   کیا کہ  اس کی   مخلوقات    ،    اس کی ہی  مطیع   ہیں – تفسیری  کتب  میں اسرائیلات   کی وجہ سے  یہ بات مشہور ہو  گئی   ہے کہ   آدم علیہ  السلام کو  ایک سانپ  نے  بہکایا  اور ابلیس   ، سانپ کی شکل میں ان کے پاس  آیا – یہ  خبر  منکر ہے   –

بہت سے علماء  بد روحوں کے قائل  ہیں  مثلا سلفی  عالم   عبد الرحمان  کیلانی-  اسی طرح ایک کثیر   تعداد  آسیب چڑھنے اور جنات  سوار  ہو جانے کا عقیدہ رکھتی ہے – یہ سب  منکرات   عقائد  ہیں  – راقم کی ایک مکمل  تصنیف   اس عقیدہ کے رد  میں پہلے سے موجود ہے

اللہ  ہم سب کو ہدایت دے امین

ابو   شہر یار

٢٠١٩

روح، زندگی، نیند، بے ہوشی

اللہ تعالی نے تخلیق آدم علیہ السلام سے قبل تمام انسانوں کی ارواح کو تخلیق کیا – اور اس وقت یہ ارواح تمام زندگی رکھتی تھیں – دوسری طرف مٹی جس میں کوئی جان نہیں تھی اس سے آدم کا پتلا بنایا جا رہا تھا – آدم ایک بے جان صورت خلق ہو رہے تھے – ابھی ان میں نہ تو زندگی تھی نہ کوئی حرکت تھی نہ دل دھڑکتا تھا نہ سانس تھی – پھر ( بمطابق سوره الحجر ) اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ
جب میں اس (پتلے) کو متناسب کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونکوں تم سجدے میں گر جانا

پتلا یا جسد آدم بے جان حالت میں تھا اور ملائکہ اس لمحہ کا انتظار کر رہے تھے جب نمسہ یا روح آدم میں داخل ہو – جیسے ہی روح آدم میں داخل ہوئی آدم کا پتلا سانس لینے لگا وہ پتلا ایک متنفس بن گیا

اس سانس کو لینا تھا کہ تمام آسمان کے فرشتے آدم کے لئے سجدہ میں گر گئے

اس طرح تخلیق انسانی کا آغاز ہوا اب آدم میں جانے والی روح کو نفس بھی کہا جا سکتا تھا کیونکہ اس سے عمل تنفس جاری ہوا

روح کے اس طرح تین نام ابراہیمی ادیان میں ہیں

روح
نسمہ یعنی  جو ہوا کی مانند ہو
نفس یعنی جس سے سانس کا عمل جاری ہو

انسان کی ارواح عالم بالا میں ابھی بھی  ایک ساتھ ہیں حدیث میں ہے

صحيح البخاري بَابٌ: الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ
الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ
روحیں لشکروں کی طرح ہیں جہاں ایک دوسری کو پہچانتی ہیں جس سے التفات کریں اس سے ان کا (زمین پر) تعارف باقی رہتا ہے اور جس سے التفات نہ کریں ان سے (زمین پر ) دور ہو جاتی ہیں

اس طرح یہ اروح کا لشکر کوئی جامد لشکر نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے پر سے گزرتی ہیں اور  معلوم ہوا کہ ان ارواح میں شعور ہے – اس کے برعکس جن  جسموں میں یہ جاتی ہیں وہ  بے شعور ہوتے ہیں  اور روح نکلنے کی صورت اسی حالت پر لوٹ جاتے ہیں

اس لشکرارواح  میں سے پیدا ہونے والی روحوں  کو لیا جاتا ہے اور یہ اس لشکر سے مکمل جدا ہو کر سات آسمان نیچے زمین پر رحم مادر میں لے آئی جاتی ہیں

روح کا اولاد آدم میں آنا

انسانی زندگی شروع ہوئی اور اب اولاد آدم کی باری تھی – آدم علیہ السلام کے جسم سے نطفہ نکلا اور حوا علیہ السلام کے رحم میں گیا – وہاں یہ نطفہ بلا روح تھا – اس میں زندگی ایک جرثومہ والی تھی لیکن روح نہیں تھی
حدیث میں اس کی تفصیل ہے کہ رحم مادر میں ٦ ہفتوں میں (٤٢ دن بعد) منی کی آمد کے بعد دل دھڑکنا شروع ہوتا ہے – اس کو آٹھویں ہفتے سے سنا جا سکتا ہے

حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جب نطفے پر ٤٢ راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتاہے جو اس کی صورت،کان ،آنکھ کھال
گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے پھر عرض کر تاہے اے رب یہ مرد ہے یا عورت ؟ پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ حکم ہوتا ہے – فرشتہ لکھ دیتاہے ،پھر عرض کرتاہے ، اے رب اس کی عمر کیاہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتاہے حکم فرماتا ہے اورفرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتاہے کہ اے رب اس کی روزی کیا ہے ؟ پروردگار جو چاہتاہے وہ حکم فرما دیتا ہے اورفرشتہ لکھ دیتاہے – پھر فرشتہ وہ کتاب اپنے ہا تھ میں لے کر باہر نکلتاہے جس میں کسی بات کی نہ کمی ہوتی ہے اورنہ زیادتی ” ( صحیح مسلم باب القدر)

انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ یہ عرض کرتا رہتا ہے اے میرے (رب ابھی تک) یہ نطفہ (کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب
(اب)یہ علقہ (یعنی جمے ہوئے خون کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب) یہ مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کے مرحلے میں) ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ اس کی خلقت کو پورا کرنے کا ارادہ (ظاہر) کرتے ہیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب ( اس کے متعلق کیا حکم ہے) یہ مردہو گا یا عورت، بدبخت ہوگا یا نیک بخت، اس کا رزق کتنا ہوگا اور اس کی عمر کتنی ہوگی۔ تو ماں کے پیٹ میں ہی وہ فرشتہ یہ سب باتیں ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ جیسا اسے حکم دیا جاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق اور عمر لے کر پیدا ہو تا ہے ۔

مضغہ کی حالت (لغوی مفہوم چبایا ہوا مادہ) کے بعد ہی رحم مادر میں دل دھڑکتا ہے – گویا یہ اب ایک بت بن چکا ہوتا ہے جس میں روح اتی ہے – بیالیس دن بعد فرشتہ کا آنا اور اسی پر دل کی دھڑکن کا سنا جانا ایک بات ہے اس طرح حدیث اور سائنس ایک ہی بات کہتے ہیں

نوٹ صحیح بخاری کی ایک شاذ روایت میں ذکر ہے کہ رحم مادر میں ٤ ماہ بعد روح اتی ہے جو صحیح مسلم کی صحیح روایت سے متصادم ہے – یہ روایت ابن مسعود سے منسوب ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ  اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ  الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں  کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے …. (صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

لیکن طحاوی نے کہا یہ بات ابن مسعود کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتائی ہو گی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس طرح اولاد آدم میں چلا آ رہا ہے کہ ٤٢ دن بعد روح اتی ہے سائنس کہتی ہے کہ انسانی دل پھر دھڑکتا ہے

روح انسانی جسم میں اب موت تک رہتی ہے اس سے نکل نہیں سکتی – اس کو نکالنا بھی فرشتوں کا عمل ہے جس طرح اس کو جسم میں ڈالنا فرشتوں کا عمل تھا

موت پر روح کا جسم سے اخراج  

قرآن میں ہے

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ
حتی کہ ان جب موت ان کو اتی ہے تو ان کو ہمارے فرشتے جکرٹتے ہیں اور وہ چوکتے نہیں ہیں

توفی کا مطلب قبضہ میں لینا جکڑنا، مضبوطی سے پکڑنا ہے – یہ لفظ مجازا موت پر بولا جاتا ہے کہ فلاں کی وفات ہو گئی یعنی موت آ گئی

سوره الانعام
کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنا نفس  آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى
الله پورا قبضے میں لیتا ہے نفس کو موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نفس نیند کے وقت پس پکڑ کے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کا حکم لگاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو اک وقت مقرر تک کے لئے

اللہ اس روح کو پکڑے یا روکے رکھتا ہے جس پر موت کا حکم کرتا ہے یعنی اس کو اب جسم میں واپس نہیں چھوڑا جاتا

اسی بنا پر جسم گل سڑ جاتا ہے – قرآن کہتا ہے
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ
بلا شبہ ہم جانتے ہیں جو زمین ان کے جسموں میں سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس محفوظ کتاب ہے

سنن ابن ماجہ میں ہے

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ،‏‏‏‏ حدثنا ابو معاوية ،‏‏‏‏ عن الاعمش ،‏‏‏‏ عن ابي صالح ،‏‏‏‏ عن ابي هريرة ،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ليس شيء من الإنسان إلا يبلى،‏‏‏‏ إلا عظما واحدا،‏‏‏‏ وهو عجب الذنب،‏‏‏‏ ومنه يركب الخلق يوم القيامة
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ عجب الذنب (ریڑھ کی آخری ہڈی) ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہو گی

روح کی عالم بالا میں واپسی کا سفر

موت کے بعد روح کو واپس جنت میں پہنچا دیا جاتا ہے

صحیح مسلم کی روایت ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
: عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو – ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

اس طرح روح کافر کی ہو یا مومن  کی  آسمان یا عالم بالا میں چلی جاتی ہے – اس حالت میں مومن کی روح جنت میں ایک عظیم درخت پر قیامت تک رہتی ہے

المنتخب من مسند عبد بن حميد میں ہے کہ کعب بن مالک أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، کہ جب ان کی وفات کا وقت تھا اور مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ مُبَشِّرٍ لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَهُوَ شَاكٍ: اقْرَأْ عَلَى ابْنِي السَّلَامَ، تَعْنِي مُبَشِّرًا، فَقَالَ: يَغْفِرُ اللهُ لَكِ يَا أُمَّ مُبَشِّرٍ، أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُسْلِمِ طَيْرٌ تَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ” قَالَتْ: صَدَقْتَ، فَأَسْتَغْفِرُ اللهَ
أم بشر بنت البراء بن معرور آئیں اور کعب سے کہا میرے (فوت شدہ) بیٹے کو سلام کہیے گا (یعنی جنت جب ملاقات ہو) اس پر کعب نے کہا الله تمہاری مغفرت کرے کیا تم نے سنا نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلم کی روح پرندہ ہے جنت کے درخت پر لٹکتی ہے یہاں تک کہ روز محشر الله اسکو اس کے جسد میں لوٹا دے ام مبشر نے کہا سچ کہا میں الله سے مغفرت طلب کرتی ہوں

نیند کی حالت

قرآن میں توفی کا لفظ نیند پر بھی بولا گیا ہے کہ اس میں قبض نفس ہوتا ہے – ساتھ ہی ہم کو معلوم ہے کہ نیند میں انسان سانس لیتا ہے ، بڑبڑاتا ہے ، اس کو پسینہ بھی اتا ہے – زندہ ہوتا ہے یعنی یہ عمل قبض وہ نہیں ہے جو عمل قبض موت پر ہوتا ہے

نیند میں قبض نفس جسم میں ہی ہوتا ہے اور روح کو جسم سے الگ نہیں کیا جاتا – جبکہ موت کے عمل میں روح کو جسم سے الگ کیا جاتا ہے تاکہ اسی پتلے والی حالت پر لوٹایا جاۓ جو آدم کی تھی – اسی بنا پر موت کے بعد جسم مٹی ہو جاتا ہے اور نیند
کے بعد ایسا نہیں ہوتا – نیند میں شعور رہتا ہے لیکن تحت شعور محدود ہو جاتا ہے – اسی شعور کی وجہ سے شور پر نیند والا بیدار ہو جاتا ہے

بے ہوشی کی حالت

بے ہوشی بھی نیند ہے لیکن گہری نیند ہے – انسان کا جسم ڈاکٹر اس حالت میں کاٹ بھی دے تو انسان کو خبر نہیں ہوتی – جسم اس عذاب کی کیفیت کو محسوس نہیں کر پاتا – اس دوران روح جسم میں ہی ہوتی ہے لیکن طبیب و ڈاکٹر کے عذاب کو
محسوس نہیں کر پاتی
نیند اور بے ہوشی میں کیا فرق ہے ؟ اس میں صرف شعور کا فرق ہے – نیند میں یادداشت رہتی ہے انسان خواب دیکھتا ہے جس میں اس کو اپنے رشتہ دار و احباب یا وہ لوگ نظر اتے ہیں جن سے اس کو ملاقات ہو یعنی دماغ میں شعور ابھی مکمل ختم نہیں ہوا ہوتا – نیند میں دماغ کا ایک حصہ مکمل کام کرتا ہے اور خواب بنتا ہے

بے ہوشی میں اس کے برعکس  یادداشت کو ختم کر دیا جاتا ہے  – ساتھ ہی  درد کا احساس بھی ختم کر دیا جاتا ہے

بے ہوشی اس طرح گہری نیند ہے جس میں تحت شعور بھی محدود ہو اور شعور بھی

نیند ہو یا بے ہوشی ہو ان دونوں میں روح جسم میں ہی محدود کی جاتی ہے جس کو جکڑنا یا قبض کرنا قرآن میں کہا گیا ہے

قبض کا عربی میں مطلب نہ نکالنا ہے نہ کھیچنا ہے بلکہ اس قبض کا متبادل لفظ انگریری میں
Sieze
کرنا ہے اور اردو میں جکڑنا ہے

زمین مسلسل اللہ کے عذاب میں ہے ؟ 

راقم کی اس تحریر پر ایک معترض نے کہا کہ زمین اللہ تعالی کا حکم مانتی ہے – اس کے پتھر خوف الہی سے گر جاتے ہیں یعنی مٹی میں شعور ہے اور معلوم ہوا کہ مٹی کو عذاب محسوس  ہوتا ہے – اس کا مدعا تھا کہ جسد انسانی خاک ہو  کر بھی عذاب پاتا ہے

راقم نے جوابا کہا کہ ہاں یہ اللہ نے خبر دی ہے کہ مٹی کو شعور ہے اور تمام عالم اس کو سجدہ کرتا ہے یہاں تک کہ کافر کے جسم کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کر رہا ہے لیکن کافر یہ نہیں کر رہا – اس طرح تمام عالم اللہ کا مطیع ہوا لیکن یہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے کہ اس زمین کو اللہ کا عذاب محسوس ہوتا ہے جب اللہ کافر پر عذاب نازل کرے یا اس زمین کی کوکھ کو لاوا سے بھر کر وہ زمین کو عذاب نہیں دے رہا بلکہ زمین میں اس نے خاصیت رکھی ہے کہ وہ اس درجہ حدت کو برداشت کرتی ہے اس کو عذاب نہیں کہتی
معلوم ہوا کہ زمین اور اس کی مٹی، اس کے پتھر اللہ کے وجود کا  شعور رکھتے ہیں  لیکن عذاب محسوس نہیں کرتے

اسی طرح درخت ہیں یہ حدیث میں ہے کہ رو سکتا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس خطبہ نہ دیا  یعنی درخت بھی شعور رکھتے ہیں – لیکن ہم کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کاٹنے کا حکم دیا

مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ ( 5 ) 

(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے

اگر درخت عذاب کو محسوس کرتے تو رسول رحمہ للعالمین ان کو کاٹنے کا حکم نہ کرتے

اسی بنا پر نووی کا قول ہے کہ بلا روح عذاب ممکن نہیں  اور انور شاہ کاشمیری کا قول ہے کہ عذاب جمادات کو نہیں ہوتا

مزید دیکھیں

موت و نیند پر اضطراب

میں نے نور دیکھا یا وہ نور ہے کیسے دیکھتا

یہ مضمون کتاب لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ سے لیا گیا ہے

[wpdm_package id=’8843′]

==========================================================

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا

اَللّهُ نُـوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ مَثَلُ نُـوْرِهٖ كَمِشْكَاةٍ فِيْـهَا مِصْبَاحٌ ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِىْ زُجَاجَةٍ ۖ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّـهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُـوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَكَادُ زَيْتُـهَا يُضِيٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّوْرٌ عَلٰى نُـوْرٍ ۗ يَـهْدِى اللّـٰهُ لِنُـوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللّـٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ (35)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے، قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو، روشنی پر روشنی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

اس آیت   کے  ابتدائی حصے کو لے کر اور اس  کے آگے کے متن کو صرف نظر کر کے دعوی کیا جاتا ہے کہ الله تعالی  نور ہے  – نور اس کی صفت ہے –

آیت میں الله تعالی کو نور  ، نور ہدایت کے معنوں میں کہا گیا ہے نہ کہ ان معنوں میں کہ وہ نور ہے –   اگر الله نور ہے تو النور  الله کا نام بن جائے گا  یہ بات مسئلہ الصفات میں بالکل  واضح قبول کی جاتی ہے – الله تعالی  کے  نام  ننانوے  ہیں  جس کی خبر حدیث میں ہے اور یہ قرآن و حدیث سے لئے جاتے ہیں – ان میں النور کو الله کا نام  نہیں کہا  جا سکتا  کیونکہ  الله تعالی نے خبر دی کہ نور اس کی مخلوق ہے-   سورہ الانعام میں ہے

اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُـمَاتِ وَالنُّوْرَ ۖ ثُـمَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّـهِـمْ يَعْدِلُوْنَ (1)

سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اور اجالا بنایا، پھر بھی یہ کافر اوروں کو اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ نور  تو اللہ  تعالی کی مخلوق ہے اسی کو ہم  دیکھ رہے ہیں –  اگ جلتی ہے تو نور نکلتا ہے – نور سورج سے چاند سے نکلتا ہے  لہذا اس کی کیفیت معلوم ہے مجہول نہیں ہے – سورہ نور کی آیت میں سمجھا کر بتایا گیا ہے کہ الله کا نور      ایسا ہے جیسا زیتون کا خالص  تیل  ہو جو     جب   بطور ایندھن        جلتا  ہے تو اس میں سے (رات)  میں کرنیں  پھوٹتی ہیں تو ماجول   منور ہو جاتا ہے، اسی طرح کفر کے ظلمات  میں ایمان کا نور  جگمگاتا ہے  اور اس کا رسول  سراجا منیرا ہے   یعنی ایک  چمکتا چراغ-

آیت میں الله نے اپنے نور کی مثال زیتون کے جلتے تیل سے دی ہے-  یہ مثال الله کی ذات کے لئے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود فرما دیا

لیس کمثلہ شی
اس کی مثال کوئی چیز نہیں

لہذا زیتون  کا  جلتا تیل الله   تعالی کے  نور ذات کو بیان نہیں کر رہا     اس کے نور ہدایت کو بیان کر رہا ہے-  اس کو   اردو اور عربی میں تشبیہ دینا کہا جاتا ہے-

الله مسلسل ہدایت دے رہا ہے اور اسی کو نور کہا گیا ہے کہ مومن کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے آتا ہے- الله تعالی کے  ننانوے  نام ہیں ان کو اسماء الحسنی کہا جاتا ہے اور یہی حدیث میں ہے –  اور قرآن میں بھی اسماء الحسنی سے مانگنے کا ذکر ہے-  لہذا اسماء الحسنی   ننانوے  سے اوپر نہیں ہیں-   جو بھی الله کا نام ہے وہ الله کے لئے خاص ہے اور کسی اور کا نہیں ہو سکتا-    البانی کا   کہنا ہے کہ اس   پر کوئی صحیح حدیث نہیں کہ النور الله کا اسم ہو [1]

لا أعلم أن (النور) من أسماء الله عز وجل في حديث صحيح[2]

میں نہیں جانتا کہ کسی صحیح حدیث میں النور کو الله   تعالی  کا   اسماء  الحسنی  میں  ذکر کیا گیا ہو

صحیح مسلم ،  ابن ماجہ، مسند احمد  میں ہے

حِجَابُهُ النُّورُ، لَوْ كَشَفَهَا لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ كُلَّ شَيْءٍ أَدْرَكَهُ بَصَرُهُ

النور اس کا حجاب ہے اگر وہ اس  النور کو اٹھادے تو اس کے    وَجْهِهِ   کا        (جمال   یا )  جلال و عظمت[3]  اس سب کو جلا دیں گی جہاں تک الله تعالی کی نگاہ جائے

 یعنی تمام مخلوق بھسم ہو جائے گی-معلوم ہوا کہ النور نام نہیں کیونکہ یہ حجاب عظمت کا نام ہے-

صحیح مسلم میں ہے کہ نور اللہ کا حجاب ہے تو ظاہر ہے الله کا نور اور اس کا حجاب ایک نہیں ہیں-

صحیح مسلم کی ایک مضطرب المتن روایت کا ذکر 

صحیح مسلم کی ایک اور حدیث ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»

ابو ذر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ رسول الله نے فرمایا میں نے ایک نور دیکھا

سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف حجاب کو دیکھا البتہ    اس روایت کی دو سندیں ہیں ایک میں عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِيُّ ضعیف الحَدِيث ہے –   ابن عدی الکامل میں روایت پیش کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا مُحَمد بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنا عُمَر بن حبيب، حَدَّثَنا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَن أَبِي ذَرٍّ، قالَ: قُلتُ يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ قَالَ كَيْفَ أَرَاهُ، وَهو نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ.

وَهَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ خَالِدٍ الحذاء غير محفوظ.

کہتے ہیں یہ روایت خَالِدٍ الحذاء کی سند سے غیر محفوظ ہے-  اس روایت کے دوسرے طرق میں يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي ہے اور اس طرق سے امام مسلم نے صحیح میں اس کو نقل کیا ہے-  کتاب ذخيرة الحفاظ از ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کے مطابق

حَدِيث: نور أَنى أرَاهُ. رَوَاهُ يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي: عَن قَتَادَة، عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: قلت لأبي ذَر: لَو رَأَيْت رَسُول الله لسألته، قَالَ لي: عَمَّا كنت تسأله؟ قَالَ: كنت أسأله: هَل رأى ربه عز وَجل؟ فَقَالَ: قد سَأَلته، فَقَالَ: نور أريه مرَّتَيْنِ أَو ثَلَاثًا. وَهَذَا لم بروه عَن قَتَادَة غير يزِيد هَذَا، وَلَا عَن يزِيد غير مُعْتَمر بن سُلَيْمَان، وَكِلَاهُمَا ثقتان، وَحكي عَن يحيى بن معِين أَنه قَالَ: يزِيد فِي قَتَادَة لَيْسَ بذلك وَأنكر عَلَيْهِ رِوَايَته: عَن قَتَادَة عَن أنس.

حدیث میں نے نور دیکھا اس کو يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي نے قتادہ سے انہوں نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا ہے کہا ہے میں نے ابو ذر سے پوچھا کہ اگر رسول الله کو دیکھتا تو پوچھتا ؟ انہوں نے کہا کیا پوچھتے ؟ میں نے کہا پوچھتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ؟ ابو ذر نے کہا میں نے پوچھا تھا پس کہا میں نے دو یا تین بار نور دیکھا اور اس کو روایت نہیں کیا قتادہ سے مگر یزید نے اور یزید سے کسی نے روایت نہیں کیا سوائے معتمر بن سلیمان کے اور یہ دونوں ثقہ ہیں اور یحیی بن معین سے حکایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا یزید قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا اچھا نہیں ہے اور اس کی روایات کا انکار کیا جو قتادہ عن انس سے ہوں

ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں الذھبی کہتے ہیں     قال القطان ليس بذاك

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں  وَقَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: هُوَ فِي قَتَادَةَ لَيْسَ بِذَاكَ   ابن معین کہتے ہیں قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا (اچھا) نہیں ہے

ميزان الاعتدال في نقد الرجال میں الذھبی اس نور والی روایت کا يزيد بن إبراهيم کے ترجمہ میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں اس کا اور معتمر کا تفرد ہے

محمد بن وزير الواسطي، حدثنا معتمر بن سليمان، عن يزيد بن إبراهيم، عن قتادة، عن عبد الله بن شقيق، قال: قلت لأبي ذر: لو رأيت النبي صلى الله عليه  وسلم لسألته: هل رأى ربه؟ فقال: قد سألته فقال لي: نور إني أراه مرتين أو ثلاثا تفرد به عن قتادة وما رواه عنه سوى معتمر

صحیح مسلم کی جیسی سند سے اس روایت کی تخریج  ابن خزیمہ نے اپنی کتاب التوحید میں بھی کی ہے وہاں اس کو ذکر کیا

حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: ثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، قَالَ: عَمَّا كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُهُ، قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»  قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي الْقَلْبِ مِنْ صِحَّةِ سَنَدِ هَذَا الْخَبَرِ شَيْءٌ، لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِنَا مِنْ عُلَمَاءِ أَهْلِ الْآثَارِ فَطِنَ لِعِلَّةٍ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْخَبَرِ، فَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَقِيقٍ، كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُثْبِتُ أَبَا ذَرٍّ، وَلَا يَعْرِفُهُ بِعَيْنِهِ وَاسْمِهِ وَنَسَبِهِ  لِأَنَّ أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى ثَنَا قَالَ: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى غَرَائِرَ سُودٍ، يَقُولُ: «لِيَبْشِرْ أَصْحَابُ الْكُنُوزِ بُكْرَةً فِي الْحَيَاةِ وَالْمَوْتِ» فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، صَاحِبُ رَسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ يَذْكُرُ بَعْدَ مَوْتِ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَقُولُ هَذِهِ الْمَقَالَةَ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى غَرَائِرَ سُودٍ، خُبِّرَ أَنَّهُ أَبُو ذَرٍّ، كَأَنَّهُ لَا يُثْبِتُهُ وَلَا يَعْلَمُ أَنَّهُ أَبُو ذَرٍّ –  وَقَوْلُهُ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» ، يَحْتَمِلُ مَعْنَيَيْنِ: أَحَدُهُمَا نَفْيٌ، أَيْ: كَيْفَ أَرَاهُ، وَهُوَ نُورٌ، وَالْمَعْنَى الثَّانِي أَيْ: كَيْفَ رَأَيْتَهُ، وَأَيْنَ رَأَيْتَهُ، وَهُوَ نُورٌ، لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ إِدْرَاكَ مَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ، كَمَا قَالَ عِكْرِمَةُ: «إِنَّ اللَّهَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ لَا يُدْرِكُهُ شَيْءٌ» وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ الثَّانِي: أَنَّ إِمَامَ أَهْلِ زَمَانِهِ فِي الْعِلْمِ وَالْأَخْبَارِ: مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ ثَنَا بِهَذَا الْخَبَرِ قَالَ

حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ،: قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ،….  فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ نُورًا»

 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى، وَقَالَ: «نُورًا أَنَّى أَرَاهُ»

 حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، أَيْضًا، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: ثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ….: «نُورًا أَنَّى أَرَاهُ

كَذَا قَالَ لَنَا بُنْدَارٌ» أَنَّى أَرَاهُ “، لَا كَمَا قَالَ أَبُو مُوسَى، فَإِنَّ أَبَا مُوسَى قَالَ: «أَنَّى أَرَاهُ

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ نے کہا ایک شخص نے ابو ذر رضی الله عنہ سے    کہا   کہ  اگر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کو دیکھتا تو ان سے سوال کرتا- ابو ذر نے پوچھا کیا سوال کرتے ؟  کہا  میں سوال کرتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟  ابو ذر نے کہا میں نے یہ سوال کیا تھا  تو انہوں نے کہا    نور میں نے دیکھا  (نور ،  میں کیسے دیکھتا )-    أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة   (المتوفى: 311هـ) نے کہا  دل میں اس سند کی صحت  پر کوئی چیز  (کھٹکتی ) ہے-     اہل اثار    یا محدثین  علماء  میں سے   جو ہمارے اصحاب میں سے ہیں کسی کو نہ دیکھا    جو  اس   خبر کی سند کی علت  پر  جانتے ہوں   کیونکہ    عبد الله بن شقیق   کی روایت ابو ذر  سے مضبوط نہیں ہے   اور نہ یہ     آنکھ سے دیکھا گیا ہے   نہ نام و نسب سے جانا جاتا ہے  – کیونکہ أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى ثَنَا قَالَ: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ  نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا کہ   میں مدینہ پہنچا تو  ایک شخص   کالے خیمہ میں  کھڑا    کہہ رہا تھا     خزانوں   کے اصحاب کو بشارت دو   کہ   زندگی کی صبح   ہے اور موت ہے – پس  (لوگوں  نے ) کہا یہ ابو ذر  ہیں  صاحب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  –   ابن خزیمہ نے کہا پس عبد الله بن شقیق نے   ابو ذر کی موت   کے بعد    کا ذکر کیا   کہ اس نے ایک شخص  کو     کالے خیمہ   میں   کچھ کہتے سنا     ،  خبر دی یہ ابو ذر  تھے   ،  گویا یہ اس کو    بات   ثابت نہیں کہتے  اور   نہ   یہ  جانتے تھے کہ ابو ذر کون ہیں-   پھر اس کا یہ قول   بھی ذو معنی  ہے  ایک   میں نفی ہے   یعنی  اس کو کیسے دیکھتا   وہ نور ہے  اور دوسرا معنی  ہے   اس کو   کیسے کہاں دیکھ پاتا   وہ نور ہے  – …. دوم :   امام اہل زمانہ   علم و اخبار امام بندار نے     اس حدیث پر کہا

    مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ   نے روایت کیا ہے   ….     میں نے   نور دیکھا

اور يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ   نے  أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى     کی طرح روایت کیا ہے ….. میں نے نور دیکھا

اور عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ  نے روایت کیا ہے  …..   نور ہے میں کیسے دیکھتا

اسی طرح بندار نے کہا  اور وہ نہیں کہا جو  أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى       نے روایت کیا ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَبَهْزٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ بَهْزٌ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: لَوْ أَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهُ. قَالَ: عَنْ أَيِّ شَيْءٍ؟ قُلْتُ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» يَعْنِي عَلَى طَرِيقِ الْإِيجَاب. (حم)

21392

فرمایا   نور ہے، کیسے دیکھتا !  یعنی  قبول و ایجاب کے انداز میں کہا

 اس  روایت کا متن مضطرب تو ہے ہی  عبد الله بن شقیق کا ابوذر  رضی الله عنہ سے ملنا بھی مشکوک ہے  کیونکہ یہ دور عمر  رضی الله عنہ کا وقوعہ  بیان کیا گیا ہے

مسند البزار میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: نَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى غَرَايِرَ سُودٍ يَقُولُ: ” أَلَا أُبَشِّرُ أَصْحَابَ الْكُنُوزِ بِكَيٍّ فِي الْجِبَاهِ وَالْجُنُوبِ، فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيق   نے کہا  میں مدینہ  پہنچا   تو  ایک شخص   کالے خیمہ میں  کھڑا    کہہ رہا تھا   خبر دار   میں    خزانوں   کے اصحاب کو بشارت   نہ دوں     وہ   اپنے آگے   اور پہلو پر روئیں  گے  – پس  (لوگوں  نے ) کہا یہ ابو ذر  ہیں  صاحب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  –

سنن الکبری البیہقی میں ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُؤَمَّلِ، ثنا أَبُو عُثْمَانَ عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَصْرِيُّ , ثنا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ أنبأ يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَجُلٌ طَوِيلٌ أَسْوَدُ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ عَلَى أِيِّ حَالٍ هُوَ الْيَوْمَ , قَالَ: قُلْتُ: أَصَائِمٌ أَنْتَ؟ قَالَ: ” نَعَمْ ” وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ الْإِذْنَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَدَخَلُوا فَأُتِينَا بِقِصَاعٍ فَأَكَلَ فَحَرَّكْتُهُ أُذَكِّرُهُ بِيَدِي فَقَالَ: ” إِنِّي لَمْ أَنْسَ مَا قُلْتُ لَكَ أَخْبَرْتُكَ أَنِّي صَائِمٌ إِنِّي أَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَأَنَا أَبَدًا صَائِمٌ “

عبد الله بن شقیق نے کہا  میں مدینہ پہنچا وہاں ایک بہت لمبا آدمی دیکھا جو کالا  تھا  میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟  کہا  گیا ابو ذر  میں نے اس سے کہا  میں دیکھ رہا ہوں کہ آج تم  (ابو ذر ) کس حال میں ہو –  کہا  میں نے کہا  : کیا روزے سے ہو ؟   ابو ذر  نے کہا  ہاں   اور وہ عمر  رضی الله عنہ کی آواز    کا انتظار کر رہے تھے پس ایک  کھانا آیا  اس کو کھایا … پھر کہا   میں تم کو نہیں جانتا  میں نے تم کو جو کہا اس کی خبر دیتا ہوں میں روزے سے تھا میں ہر مہینہ کے   تین دن روزہ رکھتا ہوں پس میں ہمیشہ روزے سے ہوں

طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے

كُنَّا جُلُوسًا بِبَابِ عُمَرَ وَمَعَنَا أَبُو ذَرٍّ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ أَذِنَ عُمَرُ، فَأُتِيَ بِالْعَشَاءِ، فَأَكَلَ

ہم سب مل کر عمر  کے گھر کے باب پر پہنچے اور ابو ذ ر ساتھ تھے – انہوں نے کہا میں روزے سے ہوں  پھر عمر  نے ان کو اجازت دی    تو رات کا کھانا  کھایا –

اس کلام میں کس قدر اضطراب ہے کہ عمر  رضی الله عنہ جن کے دور میں اصحاب رسول فارغ البال  تھے مدینہ میں غلاموں کی کثرت تھی اس دور میں ابو ذر  کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا ؟  یا للعجب

پھر  جندب بن جنادة    ابو ذر غفاری  رضی الله عنہ  سے عبد الله بن شقیق  دور عمر میں مدینہ میں ملے تو ان کا سماع کثیر اصحاب رسول سے کیوں نہیں ہے ؟   تاریخ الکبیر از امام بخاری میں ہے

قال عَبّاس بن الوَلِيد: حدَّثنا عَبد الأَعلى  ، حدَّثنا الجُرَيرِيّ، عَنْ عَبد اللهِ بْنِ شَقِيق، قَالَ: جاورتُ أبا هُرَيرةَ سَنَةً.

عبد الله بن شقیق نے کہا میں نے ابو ہریرہ کے ساتھ ایک سال گزارا

جب  عبد الله بن شقیق نے دور   عمر  پا لیا تو   خود عمر  رضی الله عنہ سے ان کی روایت کی تعداد اتنی کم کیوں ہے جبکہ انہوں نے مدینہ میں ایک سال  گزارا ہے  جو کوئی کم مدت نہیں ہے –  عبد الله  بن  شقیق  نے نہ تو عثمان      رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے نہ علی       رضی الله عنہ   سے نہ ابو سعید الخدری       رضی الله عنہ  سے نہ جابر بن  عبد الله     رضی الله عنہ سے

 محدثین میں   بعض کی رائے عبد الله بن شقیق پر منفی ہے –

العقيلي نے  عبد الله بن شقیق کا شمار  الضعفاء  میں کیا ہے   اور  خبر دی کہ

  كَانَ التَّيْمِيُّ سَيِّءَ الرَّأْيِ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ

 سُلَيْمَانُ   بن طرخان    التّيميّ   کی    عبد الله بن شقیق پر    بری  رائے تھی

اس بحث سے معلوم ہوا کہ صحیح مسلم کی اس حدیث میں محدثین نے کلام کیا تھا    اور اس روایت کے متن میں اضطراب ہے یہاں تک کہ عبد اللہ بن شقیق کی ابو ذر سے ملاقات ہوئی بھی یا نہیں اس پر بھی  شک  ہے

لہذا    اول تو یہ روایت صحیح   نہیں ہے پھر دوسری    حدیث   جو  صحیح ہے اس میں حجاب کو نور کہا گیا ہے

النور اسماء الحسنی میں  مانا جائے ورنہ  اللہ تعالی کی صفات محدود ہو جائیں گی ؟ 

کہا  جاتا ہے کہ اگر ہم کہیں کہ نام صرف ننانوے ہیں  یا  اسماء الحسنی محدود ہیں جو ہمارے علم میں ہیں یا آپ کے علم میں ہیں تو اس سے صفات بھی محدود ہو  جائیں گی  اور ایسا ہونے سے خدا ، خدا کیسے رہے   گا ؟ اس  پر    راقم  کہتا ہے وہ تمام صفات جو کسی ذات کو معبود و اله و رب قرار دیتی ہوں وہ   ان ننانوے ناموں میں سمٹ  کر بیان ہو چکی ہیں – اس سے  الله کی    تعریف  محدود   نہیں  ہوئی بلکہ  ان ناموں کی شرح  مزید کی جا سکتی ہے      – صفت سے مراد لغوی طور پر تعریف ہے لیکن یہ اصلا  فلسفہ کی اصطلاح ہے  جس کی مراد ہے کہ   وہ چزیں جو   کسی  ذات یا جسم کو  دیگر سے ممتاز کر دیں-    جب ہم کسی چیز کو الله کی صفت کہیں گے اور وہ کسی اور میں بھی ہو تو پھر وہ صفت الله کا نام نہیں ہے-

کہا  جاتا ہے کہ  اگر نور  الله  تعالی  کا نام نہیں  تو   بھی یہ صفت تو ممکن ہے –  راقم کہتا ہے  یہ ممکن  نہیں کیونکہ مسلئہ  صفات  میں یہ  بات معروف ہے کہ جو بھی چیز الله کی صفت ہے وہ اس کا نام بن   جاتی ہے    –  لہذا   الله نور سماوات میں نور ہدایت ہی ہے یہ صفت نہیں ہے کیونکہ نور مخلوق ہے

سوال ہو سکتا ہے کہ یہ خوبی  مخلوق میں بھی تو ہو سکتی ہے ؟  تو اس کا جواب ہے کہ   اللہ  کی صفت  اللہ کے لئے خاص ہے کیونکہ یہ اس   نوعیت کی صفت  ہے کہ   اس کے سوا  کسی اور میں ممکن نہیں ہے-  مثلا  بندے کو صرف رحیم کہا جاتا ہے    الرحیم  نہیں کہا  جا سکتا  کیونکہ الرحیم  صرف   الله کا نام ہے- مخلوق اس درجہ  کو نہیں پہنچ سکتی-  الله تعالی رحم کرتا ہے اس کے جیسا کوئی رحم  نہیں کر سکتا اس لئے الرحیم ہے-

انسان کو الله نے حواس خمسہ دیے ہیں اور اس کے لئے کہا

فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً
ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنا دیا

لیکن البصیر نہیں کہا بصیر کہا لہذا البصیر الله ہے

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں
قَالَ الله تبَارك وَتَعَالَى {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم إِنَّه سميع بَصِير لَا كشيء من البصراء وَلَا السامعين مِمَّا فِي الْعَالم وكل سميع وبصير فِي الْعَالم فَهُوَ ذُو سمع وبصر فَالله تَعَالَى بِخِلَاف ذَلِك بِنَصّ الْقُرْآن فَهُوَ سميع كَمَا قَالَ لَا يسمع كالسامعين وبصير كَمَا قَالَ لَا يبصر كالمبصرين لَا يُسَمِّي رَبنَا تَعَالَى إِلَّا بِمَا سمى بِهِ نَفسه وَلَا يخبر عَنهُ إِلَّا بِمَا أخبر بِهِ عَن نَفسه فَقَط كَمَا قَالَ الله تَعَالَى {هُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم هُوَ السَّمِيع الْبَصِير وَلم يقل تَعَالَى إِن لَهُ سمعا وبصرا فَلَا يحل لأحد أَن يَقُول إِن لَهُ سمعا وبصراً فَيكون قَائِلا على الله تَعَالَى بِلَا علم وَهَذَا لَا يحل وَبِاللَّهِ تَعَالَى

الله تعالی کہتا ہے لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے لیکن کسی بینا کی طرح نہیں اور کسی سننے والے کی طرح نہیں جو اس عالم میں ہیں ، اور ہر سننے والا اور دیکھنے والا جو اس عالم میں ہے تو وہ سمع و بصر والا ہے- لیکن الله تعالی کے لئے اس کے خلاف قرآن میں نص ہے پس وہ سننے والا ہے جیسا اس نے کہا ، نہ کہ وہ سنتا ہے ایسے جسے کوئی (انسان یا جانور) سنّتا ہے، اور دیکھتا ہے جیسا اس نے کہا، مگر ایسے نہیں جسے کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے – ہمارے رب تعالی نے کوئی نام نہ رکھا سوائے وہ جو اس نے خود رکھا اور کسی دوسرے نام کی خبر نہیں دی سوائے ان کے جن کی اس نے خبر دی- الله نے کہا کہ هُوَ السَّمِيع الْبَصِير پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے اور الله نے اپنے لئے (قوت) سمع اور بصر نہیں کہا سو یہ حلال نہیں کسی کے لئے بھی کہ وہ الله کے لئے سمع و بصر کہے کیونکہ وہ الله پر وہ بات بولے گا جس کا علم نہیں اور یہ حلال نہیں ہے

  الله تعالی نے رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کو     رحيم  قرار ديا

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

بے شک تمہارے پاس   تم میں سے رسول آ گیا ہے اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے تمہاری بھلائی پر، وہ حریص (فکرمند) ہے مومنوں پر، نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔

أور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو    رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ       قرار دیا

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

اور ہم نے اپ کو  تمام جہانوں کے  لئے  رحمت بنا کر بھیجا ہے

   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعریف کی گئی کہ وہ رحم کرتے ہیں یہ الله کا حکم ہے جس پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے عمل کیا لہذا مالک نے خوش ہو کر اس کا ذکر کیا – لیکن رحم رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ   اور   لوگ  بھی  کر سکتے ہیں- وہ لوگ بھی رحیم ہو سکتے ہیں  قرآن میں ہے

إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ

بیشک ابراہیم  بردبار، نرم دل والا والا بہت رجوع  کرنے والا ہے۔

یہ تمام خوبیاں ابراہیم  علیہ السلام کو بھی رحیم بنا دیتی ہیں

 الله کا نام الرحیم ہے اس کے جیسا کوئی نہیں- العلی الله کا نام ہے اس کے سوا کوئی نہیں-  ایک انسان دوسرے انسان پر رحم کرتا ہے تو رحیم ہوا     –   انسان  کی عزت کی جاتی ہے اس لئے علی ہوا-  یہ  اللہ تعالی   کا  پرتو یا عکس  یا تجلی   نہیں بلکہ الله کے امر   و حکم پر  مخلوق کا عمل  ہے – رسول الله لوگوں پر رحیم تھے کیونکہ یہ الله کا حکم ہے چونکہ وہ  شفقت سے پیش آتے مالک   نے اس  کا خاص ذکر   نبی علیہ السلام کے لئے   کیا ہے- آ پ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو بد دعا بھی نہیں دی اس کے برعکس بعض  انبیاء   نے اپنی   قوموں کو   بد دعا دی  جس کے نتیجے میں وہ عذاب عام سے ہلاک ہوئیں-  اس وجہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں یعنی  اب آنے والے دور کے لئے ایک نمونہ  –

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ  کائنات کی سب چیزیں حق تعالی کے اسماء وصفات کا مظہر ہیں اور تمام مخلوقات میں سے انسان  مظہرِ کامل ہے اور انسانوں میں کے مظہرِ کامل و مکمل و اتّم حضور    (ص)ہیں۔    راقم   کہتا ہے  ہمارا رحم کرنا یقینا الله کی طرف سے عطا کردہ ہے  لیکن اگر کوئی قہر کرے اور کہے کہ یہ میرے رب کی طرف سے ہے وہ القہار ہے مجھ میں اس کی صفت منعکس ہو رہی ہے تو        ہم      کیا اس کو اسماء و صفات  کا مظہر قرار دیں  گے  ؟    لہذا ہم اس کو مظہر نہیں کہتے ہم اس کو حکم الله پر عمل کہتے ہیں- رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی الله کے حکم پر عمل کیا   اور  اپنی قوم پر رحم کیا ان کو فتح مکہ کے دن معاف کر دیا –

غور طلب ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم   رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ  کب سے ہیں ؟  کیا  بطن آمنہ سے پیدا ہونے سے قبل سے تمام زمین پر رحمت فرما رہے تھے ؟  ظاہر ہے ایسا نہیں ہے – اللہ تعالی نے  رحمت للعالمین قرار دیا تو اس کا مطلب  بعثت  کے  بعد کا  دور ہے قبل ولادت کا دور   ممکن نہیں ہے- اسی طرح  خاتم النبیین اور رحمت للعالمین کا اصل مدعا ہدایت کا پہنچانا ہے-  یعنی آخری نبی   کے آنے کے بعد سے قیامت تک کا دور مراد ہے-    اللہ تعالی کہتا ہے

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ
کہو میں رسولوں میں کوئی نیا  (یا انوکھا) نہیں ہوں

خود رسول الله   صلی الله علیہ وسلم   کا فرمان ہے     جس نے کہا میں یونس بن متی   (علیہ السلام)سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے

 الله تعالی نے رسول الله   صلی الله علیہ وسلم  کو رحمت للعالمین کہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم زمین پر آدم علیہ السلام کے ساتھ تھے- رحمت کا مطلب  بعثت  کے بعد آنے  والا  دور کے بارے میں ہے نہ کہ ماضی کے بارے میں-   مثلا   قرآن میں ہے ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو نشاني بنایا   وَجَعَلْنَا ٱبْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُۥٓ ءَايَةً    یعنی بعد والوں کے لئے-   بني اسرائیل کو تمام جہانوں میں فضیلت دی   وأني فضلتكم على العالمين یعنی ماضی میں-

   سورہ مائدہ   میں ہے

اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور آ گیا ہے اور ایک روشن کتاب

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نور کہا ہے ان میں امام طبری بھی ہیں –اور طبری وضاحت کرتے ہیں کہ  ان کی مراد رسول الله کو الله کی طرف سے ہدایت کا نور کہنا ہے طبری نے   تفسیر میں لکھا ہے

يعني بالنور، محمدًا صلى الله عليه وسلم الذي أنار الله به الحقَّ، وأظهر به الإسلام
نور یعنی محمد جن سے الله نے حق کو روشن کیا اور اسلام کو غالب

ان مفسرین نے حدیث جابر کی بنیاد پر ایسا نہیں کہا نہ اس کا ذکر کیا ہے

اس حوالے سے کہ  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نوری ہیں  ایک دعا کا حوالہ  بھی  دیا جاتا ہے  جو صحیح مسلم میں ہے اور اس کو تہجد کی نماز میں پڑھا جاتا ہے – الفاظ ہیں

وَکَانَ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي بَصَرِي نُورًا وَفِي سَمْعِي نُورًا وَعَنْ يَمِينِي نُورًا وَعَنْ يَسَارِي نُورًا وَفَوْقِي نُورًا وَتَحْتِي نُورًا وَأَمَامِي نُورًا وَخَلْفِي نُورًا وَعَظِّمْ لِي نُورًا

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی اے اللہ میرا دل روشن فرما اور میری آنکھیں روشن فرما اور میرے کانوں میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے   نور   کر  اور میرے لئے نور کو   بڑھا دے

 رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے  لئے  اس دعا میں نور طلب کیا  تو اس حوالے سے  درست  بات یہ ہے  ہے کہ یہ بطور اضافہ ہے – ساتھ ہی آپ نے یہ دعا مومنوں کو بھی سکھا دی –  اب  نور مومن بھی مانگ رہا ہے –  سوال یہ ہے کہ   ١٤ صدیوں  سے  کیا کوئی مومن مستجاب الدعوات اس امت میں نہیں گذرا جس کی نور والی دعا پوری ہوئی  ہو  اور وہ سراپا نور بن گیا ہو؟ اگر    اس نور سے مراد  نوری ہو جانا ہے  اور    اگر  کسی کی دعا   پوری ہوئی  ہے تو پھر  نوری ہونا  رسول الله   صلی الله علیہ وسلم   کی خصوصیت نہیں رہتی-  امت کے بہت سے لوگوں کا نوری ہونا قبول کرنا ہو گا- ظاہر ہے یہ نور بطور عنصر تخلیق   مراد و منشا  نہیں ہو سکتا کیونکہ انسان بشر ہے نوری نہیں-

اگر منشا یہ تھی کہ انسانی جسم نوری بن جائے لگے تو بشری لیکن اندر نوری ہو تو  اصحاب رسول اور انبیاء  اور اولیاء  تمام پر نور کا اثبات کرنا ہو گا –   یہ عجیب و غریب   بات ہے  اور   باقی مخلوق  سے عظیم تبدیلی ہے،  جس سے باقی انبیاء بے خبر رہے ہیں اور کسی صحیح مستند روایت میں بھی   اس کا ذکر نہیں  ہے  – اس عظیم الشان تغیر کا ذکر اصحاب کبار – مہاجرین و انصار میں سے کسی نے نہیں کیا یہ کیسے ممکن ہے؟

صحیح مسلم کی ایک  حدیث   جس    میں ہے کہ میرے جسم میں نور کر دے اس کی مثال ہے کہ دن کی  نماز کی دعائے استفتاح  میں ہے

اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج و البرد
میرے گناہ پانی سے، برف سے، سردی سے دھو دے

جبکہ گناہ معاف کرنا اللہ کا فعل ہے موسموں  اور بارش  سے گناہ معاف نہیں ہوتے – اب اس  قول  کی تاویل ہی کی جائے گی-

ضمنی بحث 

آدم  جب کیچڑ کو مٹی کے درمیان تھے اس وقت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  موجود تھے  ؟ 

کہا  جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا تھا  کہ

میں     اپنے پروردگار کے ہاں خاتم النبیین ہو چکا تھا اور آدم ابھی پانی اور کیچڑ کے درمیان تھے

اگر اس  حدیث کو     تقدیری امر     پر ملحوظ   کیا   جائے   یا     حق تعالی کے علم کے لحاظ سے  قرار دیا  جائے    تو پھر یہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم       کی کوئی خصوصیت قرار نہیں پاتی کیونکہ تقدیر میں تو ہر چیز   موجود ہے اور حق تعالی کے علم میں بھی ہر چیز ہے پھر اس کو بیان کرنے کا مقصد و منشا کیا ہے؟

راقم  کہتا ہےاول   سندا  یہ مضبوط  روایت  نہیں ہے –  اس  روایت کو عبد الله بن شقیق  نے روایت کیا ہے  جس کا ذکر اسی مضمون میں پیچھے  گذر چکا ہے –     راقم کو     اس روایت  کے کسی متن میں  خاتم  النبیین  کے الفاظ نہیں ملے

عبد الباقي بن قانع   نے  کتاب جملة الصحابة میں ذکر کیا

 ثنا موسى بن زكريا التستري ثنا طرخان بن العلاء ثنا يزيد بن زريع، ثنا خالد بن الحذاء عن عبد الله بن شقيق العقيلي عن أبيه قال: قام أبي فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم متى كنت نبيا؟ فقال الناس: مه. فقال: «دعوه كنت نبيا وآدم بين الروح والجسد

عبد الله بن شقيق العقيلي نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ  میرے باپ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا  یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آپ کب سے نبی تھے ؟ پس لوگوں نے کہا  مہ (یعنی اس سوال کو برا جانا )  پس نبی نے فرمایا میں  نبی تھا اور آدم جسد و روح کے بیچ تھے

یہاں بھی  روایت کے الفاظ میں اضطراب  مل رہا ہے  بعض اوقات  عبد اللہ  بن شقیق نے کہا ہے میرے باپ نے کھڑے ہو کر سوال کیا گویا کہ دیکھ رہا ہو   پھر بعض اوقات اس کو مَيْسَرَةَ الْفَجْر رضی الله عنہ کی حدیث کہا ہے-  مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

بعض اوقات اس کو  کسی بدو کا سوال کہا ہے  –   کتاب القدر از فریابی  اور الإبانة الكبرى لابن بطة   میں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  : مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ لَهُ النَّاسُ: مَهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعُوهُ، كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

بعض  اوقات اس کو    غیر معروف صحابی    ابْنِ الْجَدْعَاءِ  کی حدیث قرار دیا ہے – کتاب  الأحاديث المختارة  از ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ نَصْرٍ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَتْهُمْ أبنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أبنا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الطَّبَرَانِيُّ ثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِيُّ ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ ثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنِ ابْنِ الْجَدْعَاءِ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

بعض اوقات اس   نے   نام     ابْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ     لیا ہے –  کتاب   الرد على الجهمية از  أبو سعيد عثمان بن سعيد    الدارمي السجستاني (المتوفى: 280هـ) میں ہے

 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَ هُشَيْمُ، عَنْ خَالِدٍ وَهُوَ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

 امام مسلم نے    کتاب  المنفردات و  الواحدان  میں   عبد الله بن أبي الجدعاء   اور عبد الله بن  ابن أبي الحمساء کو الگ الگ افراد قرار دیا ہے –   عبد الله بن أبي الجدعاء   اور عبد الله بن  ابن أبي الحمساء   دو اصحاب رسول بقول  عبد الله بن شقیق ہیں اور ان سے روایت کرنے میں عبد الله بن شقیق کا تفرد ہے

 یہ    روایت معجم طبرانی میں  ابن عباس رضی الله عنہ  سے بھی منسوب ہے

 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْعَبَّاسِ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ صُبَيْحٍ، ثنا نَصْرُ بْنُ مُزَاحِمٍ، ثنا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهُ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

یہاں سند میں   قيس بن الربيع الأسدي أبو محمد الكوفي   ضعیف ہے

ایک دوسرے طرق سے بھی یہ قول  معجم طبرانی میں آ تا ہے

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا زَيْدُ بْنُ الْحَرِيشِ، ثنا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ جُوَيْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ , مَتَى أُخِذَ مِيثَاقُكَ؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

اس طرق  میں جویبر ضعیف ہے

اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے بھی منسوب کیا گیا ہے

مستدرک الحاکم   اور سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ الْبَعْلَبَكِّيُّ، ثنا   الْوَلِيدِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: «بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ وَنَفْخِ الرُّوحِ فِيهِ

سند میں  يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ  مدلس   کا عنعنہ  ہے   اور الولید بن مسلم بھی مدلس ہے  اس کا سماع  الاوزاعی  سے نہیں ہے

اگر ان روایات   کو قبول بھی کر لیں  تو   راقم  کہتا ہے  یہ تقدیر سے ہی متعلق قول ہے اور اس میں سب ایک ہیں- اس کی وجہ ہے کہ بعض اوقات تکرار کے لئے بھی چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے – سب کو معلوم ہے الله نے تقدیر لکھی ہے اور اس میں انبیاء کا کوئی استثنی نہیں ان کی تقدیر بھی لکھی گئی-  جہاں تک رہی تقدیر    اور علم   کی بات تو اس کی مثال اس طرح ہے کہ   الله تعالی نے ہی سب انسانوں کو خلیفہ مقرر کیا ہے لیکن فرشتوں کے سوال پر پیش صرف آدم علیہ السلام کو کیا تھا تمام انسانوں کو نہیں-

قرآن میں   سوره الأعراف    میں ہے

 وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ

اور بے شک ہم نے تم سب کو خلق کیا پھر تم سب کی  صورت بنائی پھر فرشتوں کو ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (پس کیا سب نے ) سوائے ابلیس کے – جو سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا

اس آیت  میں ہے کہ تمام انسان خلق ہوئے ان کی شکل و صورت بھی  آدم کو سجدے کرنے سے پہلے  بن چکی تھی –  اس سے ظاہر ہے کہ تمام مخلوق کی ارواح کو خلق کیا گیا – ان کی شکل و صورت کو لوح میں    جمع کر دیا گیا اور اس میں انبیاء و رسل بلکہ تمام مخلوق شامل ہے-  لہذا جب آدم   علیہ السلام  کا جسم وجود لے رہا تھا   تو ارواح  بن چکی تھیں   اور یہی مفہوم اس حدیث میں بیان ہوا کہ میں خاتم النبین  ہو چکا تھا جب آدم مٹی میں بن رہے تھے

==================================================

حواشی

[1]

ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں لکھا اور اس کو بلا جزم کہا

فالنور وإن كان اسمًا لله، فقد يقع اسم النور على بعض المخلوقين، فليس معنى النور الذي هو اسم لله في المعنى مثل النور الذي هو خلق الله

اور النور اگر الله کا نام  ہو تو پھر اس اسم نور کا اطلاق مخلوق پر بھی کیا گیا  ہے لہذا نور کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ الله  کا وہ  اسم ہے جو ان معنوں میں  ہے کہ وہ مخلوق جیسا ہو گا

[2] https://www.youtube.com/watch?v=IPlrzAU1_90&feature=youtu.be

[3]

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار  از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ)  کے مطابق  سبحات” وجهه، هي جلاله وعظمته، وأصلها جمع سبحة

: كتاب العين از  الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) نے اس کی شرح  ہے کہ

وقال سعد بن مسمع:  ذا سُبْحَةٍ لو كان حلو المعجم  أي: ذا جمال. وهذا من سُبُحات الوجه، وهو محاسنه

سعد بن مسمع نے کہا … یعنی جمال  اور یہ سُبُحات الوجه ہے یعنی محاسن

الأسماء والصفات للبيهقي از  البيهقي (المتوفى: 458هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ , أنا أَبُو الْحَسَنِ الْكَارِزِيُّ , أنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ: يُقَالُ فِي السُّبْحَةِ: إِنَّهَا جَلَالُ وَجْهِ اللَّهِ , وَمِنْهَا قِيلَ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّمَا هُوَ تَعْظِيمٌ لَهُ وَتَنْزِيهٌ

الأسماء والصفات للبيهقي میں ہے

 إِنَّ سُبُحَاتٍ مِنَ التَّسْبِيحِ الَّذِي هُوَ التَّعْظِيمُ

بے شک یہ سُبُحَاتٍ  اس تسبیح میں سے  ہے جو اس  کی تعظیم ہے

===============

قال العثمانی رحمہ اللہ تعالی

part 1

part 2

اللہ کے نبی صلی الله علیہ و سلم نور یا بشر

 تحریر : ابو عفان

قرآن و حدیث اور بریلوی مذهب کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ھوگا یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بلکل اجنبی ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں قرآن و حدیث کے اسلام کی بنیاد توحید ہے دین اسلام میں صرف اور صرف ایک الہ کا تصور اور تیقن ہے الله اکیلا الہ ہے اسکا کوئی ساجھی کوئی شریک نہیں،نہ اسکی ذات میں نہ اسکی صفات میں نہ اسکی مثل کوئی ہے نہ اسکی مانند ہر لحاظ سے یکتا و یگانہ ہے تمام تر عبادات اور مراسم عبودیت اس ہی کے لئے ہیں نماز،روزہ،زکواة،حج جس طرح اس کے لیے ہیں دعا،پکار اسی سے اور نذر و نیاز اسی کے لئے ہیں وہی دینے والا ہے اسی سے مانگنا چاہیے قرآن و حدیث کے دین اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ مصیبت،پریشانی،تکلیف اور ہر قسم کی حاجت میں مدد صرف الله سے مانگنی چاہیے جبکہ بریلویت میں اس کے برعکس غیرالله سے مدد مانگنا غیراللہ سے استمداد چاہنا ہی اصل دین ہے انبیا،اولیا،صلحا،شہدا ہر ایک سے استمداد اور استعانت اس مذہب بریلویت کا خاصہ اور لازمہ ہے ہر وقت غیرالله کی پکاریں لگانا ہر دم ان کی دہائیاں دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے ان کے ہاں ان کا ہر پیشوا مرنے کے بعد پنہچا ہوا بزرگ سمجھا جاتا ہے اس کا مزار اور مقبرہ بنا کر اس کے ساتھ وہ معاملات شروع کردیے جاتے ہیں جو صرف الله کے گھر خانہ کعبہ کے ساتھ ہی جائز ہیں اس طرح ان کے معبودوں کا سلسلہ روز بہ روز بڑھتا جاتا ہے یہ اور بات ہے تمام تر مراسم عبودیت بجا لانے کے باوجود انہیں وہ معبود نہیں کہتے پہنچے ہوے بزرگ اور مقربان بارگاہ الہی قرار دیتے ہیں اپنے جیسے انسانوں کو جب اس درجہ پر مامور کرا جاتا ہے تو لا محالہ ان میں بے شمار انہونی صفات تصور کی جاتی اور انہیں قدرت و اختیار کا حامل گردانا جاتا ہے ان کے متعلق بے سروپا افسانے تراشے جاتے ہیں اور من گھڑت قصّوں سے ان کی شان و توقیر بڑھائی جاتی ہے عوام – عوام کلانعام کے مصداق ان من گھڑت قصّوں کہانیوں کی بدولت ان سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں اس طرح یہ دین مسلسل پھلتا پھولتا نظر آتا ہے انسانوں میں یہ انہونی صفات، ما فوق الفطری قوت و اختیار ماننے کا رجحان اتنا زود ہضم،اتنا پاپولر کیسے ہو گیا ہے جبکہ قرآن و حدیث کا دین اسلام اس کے بلکل برعکس ہونے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی تمام تر ہفوات کو بڑی شدّت سے رد کرتا ہے ان کو کفر و شرک قرار دیتا ہے اسلام کا اقرار قرآن و سنّت کو ماننے کے دعوے کے باوجود کفر و شرک سے والہانہ وابستگی غیر جانبدار مطالعہ کرنے والے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے مگر مسلک اور تعصب کی عینک لگے عقل و خرد سے بے نیاز لوگوں کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں ایک وجہ یہ بھی ہے، بے شمار الہ تراش لینے میں سب سے زیادہ آسانی انہیں اس وجہ سے ہوئی ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے الله کے رسول اسکے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق بہت سے عجیب و غریب گمراہ کن عقائد گھڑ کر عام کر دیے ہیں الله کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کے نام سے ان کو عوام میں خوب پزیرائی ملی ساتھ ساتھ اس میں صحابہ کرام رضی الله عنھم کو بھی اس سلسلے میں شامل کیا گیا اس طرح اولیا ، صلحا ،شہدا سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ ایسا چلا کہ اب ان کا ہر بزرگ کسی نہ کسی درجہ کا معبود بن جاتا ہے

الله کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق اس گروہ کثیر نے جو من گھڑت گمراہ کن عقائد عام کیے ہیں ان تمام کا احاطہ کرنا ممکن نہیں مگر ان میں چند نمایاں یہ ہیں

١) الله کے نبی بشر نہیں بلکہ مجسّمہ نور تھے ایسا نور جو الله کے نور سے جدا ہوا

٢) الله کے نبی عالم الغیب تھے

٣ ) الله کے نبی حاضر و ناظر ہیں

٤) الله کے نبی ہر پکارنے والے کی پکار سنتے ہیں اور اجابت فرماتے ہیں

یہ سلسلہ دراز ہے ، مختصراً یہ کہ الله کی صفات میں شاید ہی کوئی صفت ہو جس میں انھوں نے الله کے نبی کو اس کا شریک نہ ٹھرایا ہو

اللہ کے نبی صلی الله علیہ و سلم نور یا بشر

الله کے نبی صلی الله علیہ و سلم کو نور قرار دینا تو ظلم ہے ہی اس سے بڑھ کر ظلم بلکہ ظلم عظیم یہ ہے کہ آپ کو اللہ کے نور سے جدا ہونے والا نور قرار دیا جاتا ہے یہود و نصاریٰ نے علی الترتیب عزیر اور عیسی علیہ السلام کو الله کا بیٹا قرار دیا (العیاذ باللہ ) یہ ایسا ظلم ہے آسمان پھٹ پڑے ، زمین شق ہو جائے ، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں کم ہے اس ظلم عظیم کیلئے وہ نطفے کا واسطہ لائے مگر انھوں نے الله کے نبی کو براہ راست الله کا شریک ٹھہرایا ہے الله کے نبی کو الله کی ذات کا حصہ قرار دے دیا ہے

                     قُلۡ ہُوَ  اللّٰہُ  اَحَدٌ  ۚ﴿۱﴾اَللّٰہُ  الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾ لَمۡ  یَلِدۡ   وَ  لَمۡ  یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾ وَ  لَمۡ  یَکُنۡ  لَّہٗ   کُفُوًا  اَحَدٌ﴿۴

آپ کہہ دو کہ وہ الله اکیلا ہے ، اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہمسر و ہم ذات ہے

مگر ذات کا شرک اس میں سب سے زیادہ ھولناک اور بھیانک ہے الله کے نبی کو الله کے نور سے ٹھرانا یہی ذات کا شرک ہے الله تو وہ ہے جس کی کوئی مثل نہیں لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ( شوریٰ ١١ ) الله کے نبی کو الله کے نور سے جدا ہونے والا نور ماننے والے محض ذات کا شرک ہی نہیں کرتے بلکہ الله کو بھی نور سمجھتے ہیں حالانکہ الله تو نور کا خالق ہے یعنی نور اس کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے

سوره الانعام کی پہلی آیت ہے

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ

تمام تر تعریف الله کیلئے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے ، نور اور تاریکیاں پیدا کیں

  کیسی ستم ظریفی ہے جس نے نور کو پیدا فرمایا اس خالق کو ہی نور کا قرار دے دیا جائے نور اور تاریکی اس کی ادنی مخلوق ہے یہ بڑی جسارت ہے کہ خالق کائنات کو کسی ادنی مخلوق سے ملایا جائے یا تشبیہ دی جائے ایک طرف اسلام کا دم بھرنا قرآن و سنّت کو ماننے کا دعویٰ کرنا اور دوسری طرف اسلام کی بنیاد ہی کو بیخ و بن سے اکھاڑ ڈالنا یہ بریلویت کا خاصہ ہے الله کو نور کا بتانا نبی کو اس نور کا حصہ یا ٹکڑا کہنا محض بریلویت کا شاخسانہ نہیں دیوبند مکتب فکر نے بھی اس میں اپنا پورا حصہ ڈالا ہے ایسا کیوں نہ ہو ان دونوں کے مشترکہ پیشوا امام ربانی مجدد الف ثانی کہہ گئے ہیں

زمین و آسمان کو انہی ( نبی آخرالزمان صلی الله علیہ وسلم ) کی طفیل پیدا فرمایا ہے کما وردہ ،جاننا چاہیے کہ پیدائش محمدی تمام افراد و انسان کی پیدائش کی طرح نہیں  بلکہ افراد عالم میں سے کسی فرد کی پیدائش کے ساتھ نسبت نہیں رکھتی کیوں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ  وسلم باوجود عنصری پیدائش کے حق تعالی کے نور سے پیدا ہوے ہیں جیسے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے خلقت من نور الله ( میں الله تعالی کے نور سے پیدا ہوا ہوں ) اور دوسروں کو یہ دولت میسر نہیں ہوئی      ترجمہ مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی صفحہ ٢٦٦

بڑے جب فرما دیں ان کے معتقدین کی کیا مجال ہے اس سے انحراف کریں مگر بریلویوں کی طرف سے اس کا بہت پرچار کیا جاتا ہے

الله کی بے شمار مخلوقات ہیں موضوع کے اعتبار سے فرشتے ، اور جن و انس ہی وہ عاقل مخلوق ہیں جن کی اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کر دی جائے تو نور و بشر کے خود ساختہ موضوع کی قلعی کھل جاتی ہے

الله تعالی خالق ہے باقی سب مخلوق ہیں

قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ   الرعد ١٦  کہہ دو الله ہر چیز کا خالق ہے

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ    الزمر ٦٢    اللہ ہر چیز کا خالق ہے

وہ اکیلا خالق ہے باقی سب مخلوق ہیں انبیا ، اولیا ، صلحا ، شہدا ،صددقین ، فرشتے اور جن و انس   غرض برگزیدہ شخصیات ہوں یا عام انسان سب اس کی مخلوق ہیں اس کی مخلوق میں جن و انس مکلف ہیں ان کی تخلیق کا ذکر قرآن میں خصوصیت سے کیا گیا ہے اور انسان کی تخلیق کو تو بڑی ہی شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے فرشتے بھی عباد الرحمن ہیں مگر وہ مکلف نہیں وہ تو جو حکم ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے

فرشتے

 قرآن سے معلوم ہوتا ہے فرشتوں کو الله تعالی نے انسان سے پہلے پیدا فرمایا

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً   البقرہ ٣٠

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں

اور حدیث میں ہے

عن عائشة قالت   قال رسول الله صلى الله عليه و سلم خلقت الملائكة من نور وخلق الجان من مارج من نار وخلق آدم مما وصف لكم      مسلم    كتاب الزهد والرقائق      یعنی رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمایا   فرشتے نور سے پیدا کے گئے ، اور جنات آگ کی لپٹ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جس کا قرآن میں بیان کردیا گیا ہے

جنات

 جنات کو اللہ تعالی انسان سے قبل آگ سے پیدا فرمایا

وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ           الحجر ٢٧  اور اس (انسان ) سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا

وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ          الرحمن ١٥  اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا

انسان

قرآن کریم میں انسان کی نہ صرف اولین تخلیق اور پیدائش کو تفصیل سے بیان کیا گیا بلکہ اس کی بھی تفصیل کی ہے کہ اولین تخلیق کے بعد کس طرح نسل انسانی آگے بڑھی کن کن مراحل سے گزر کر جیتا جاگتا انسان وجود میں آتا ہے

الله تعالی نے انسان کی اولین تخلیق مٹی سے کی

وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ              سجدہ ٧

اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا مٹی سے کی

وَمِنْ آَيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ         الروم ٢٠

الله کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے ) پھیل رہے ہو

سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا مٹی سے انکا پتلا بنا کر اس میں روح پھونکی گئی  حجر ٢٦ تا ٣٣ اور البقرہ ٣٠ تا ٣٤

انسان کے جد امجد آدم علیہ السلام سے ہی ان کی زوجہ، اماں حوا کو پیدا کیا گیا آدم و حوا کی اس جوڑی سے نسل انسانی آگے بڑھی

 يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا         نسا ١

اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا       الحجرات ١٣

لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو

نسل انسانی کے اس پھیلاؤ کی عادت جاریہ کے تحت ہی جزیرہ نما عرب میں قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو ہاشم میں منصوبہ الہی کی تکمیل میں عبدالله کے گھر آمنہ کے بطن سے الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی دوسرے انسانوں کی طرح آپ کے ماں باپ کے علاوہ رشتے ناطے تھے عزیز و اقارب تھے آپ نے نکاح بھی کیے اور آپ کے ہاں اولادیں بھی ہویں آپ کھاتے پیتے بھی تھے سوتے بھی تھے کبھی بیمار بھی ہوتے  غرض جتنے انسانی معاملات ہوتے ہیں سب آپ میں موجود تھے اعلان نبوت سے قبل آپ وہاں کی ایک پروقار اور با وصف شخصیت تھے امین و صادق کے لقب سے معروف تھے  اعلان نبوت کے سلسلہ میں فرمایا گیا

جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ       التوبہ ١٢٨

دیکھو! تو لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ        الجمعه ٢

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا

اور ایسا اس دفعہ ہی نہیں ہوا کہ انسانوں میں سے ہی ایک انسان کو نبی بنایا گیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی جتنے انبیا و رسل انسانوں میں مبعوث ہوے وہ سب کے سب انسان اور مرد ہی تھے نوح علیہ السلام وہ پہلے نبی ہیں جو کسی قوم کی طرف بھیجے گئے

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ        المومنون ٢٣ اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا

معلوم ہوا نوح علیہ السلام اپنی قوم کی طرف بھیجے گۓ یعنی وہ اس قوم کے ہی ایک فرد تھے اور جب الله کا عذاب اس قوم کے اوپر آیا تو الله تعالی نے دوسری قوم کو اٹھایا اور اس میں سے بھی ان ہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا

ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آَخَرِينَ (31) فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ      المومنون ٣١،٣٢

ان کے بعد ہم نے ایک دوسرے دور کی قوم اٹھائی   پھر ان میں خود انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا

           وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ       الانبیا ٧

اور (اے نبی)تم سے پہلے بھی ہم نے مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے

گزشتہ اقوام میں سے انبیا و رسل کے انکاری اپنے انکار اور ہٹ دھرمی کا جواز ہی یہ پیش کرتے تھے یہ کیسا نبی ہے جو ہماری طرح کا انسان ، ہماری طرح کا بشر ہے بازاروں میں چلتا ہے ، کھاتا پیتا ہے،ہمارے اوپر کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا وغیرہ

گزشتہ قوموں نے نبی کو نبی نہ ماننے کے لئے بشریت کو جواز بنایا اور آج اس امّت میں نبی کو نبی ماننے کے لئے اس کی بشریت کا انکار کردیا اور انہیں نور یا مجسّمہ نور قرار دے ڈالا   دونوں میں کس قدر مماثلت ہے  اور حیرت انگیز ہے دونوں ہی بشریت کو نبوت میں مانع قرار دیتے ہیں

الله کی کتاب قرآن مجید نے اس باطل عقیدہ اور خود ساختہ نظریے کی پوری طرح تردید کرکے تشکیک کے تمام دروازے بند کردیے ہیں اور زبان نبوت  سے بڑے واشگاف الفاظ میں اعلان کروا دیا گیا

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ         کہف ١١٠

اے نبی کہہ دو کہ میں تو تمہی جیسا ایک انسان ہوں(ہاں )  میری طرف وحی کی جاتی ہے

                                           قرآن کے بعد احادیث پر بھی نظر ڈال لی جاۓ

 قال   النبي صلى الله عليه و سلم   لا أدري   زاد أو نقص فلما سلم قيل له يا رسول الله أحدث في الصلاة شيء ؟ قال ( وما ذاك )   قالوا صليت كذا وكذا فثنى رجليه واستقبل القبلة وسجد سجدتين ثم سلم   فلما أقبل علينا بوجهه قال ( إنه لو حدث في الصلاة شيء لنبأتكم به ولكن إنما أنا بشر مثلكم أنسى كما تنسون فإذا نسيت فذكروني وإذا شك أحدكم في صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم يسجد سجدتين )     بخاری کتاب الصلاة

عبدالله نے فرمایا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھی ابراہیم نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیاتی ہوئی یا کمی پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ کیا نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے آپ نے فرمایا آخر بات کیا ہے لوگو نے کہا آپ نے اس طرح نماز پڑھی ہے پس آپ نے اپنے دونو پاؤں سمیٹ لئے اور قبلہ کی طرف رخ کر لیا اس کے بعد دو سجدے کئے اور سلام پھیرا ، جب (نماز سے فارغ ہوکر)ہماری طرف متوجہ ہوے تو آپ نے فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوتا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا انسان ہوں جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھولتا ہوں اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلا دیا کرو

أم سلمة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه و سلم أخبرتها: عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه سمع خصومة بباب حجرته فخرج إليهم فقال ( إنما أنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صدق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو فليتركها ) – بخاری کتاب المظالم

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ رضی الله عنہا نے خبر دی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے. آپ نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں اس لیے جب میرے یہاں کوئی جگھڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ (فریقین میں سے) ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ ہو اور میں (اس کی زور تقریر اور مقدمہ کو پیش کرنے کے سلسلے میں موزوں ترتیب کی وجہ سے )یہ سمجھ لوں کہ سچ وہی کہہ رہا ہے اور اس طرح اس کے حق میں فیصلہ کردوں.اس لیے میں جس شخص کے لئے بھی کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں(غلطی سے)تو دوزخ کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے ،چاہے تو وہ اسے لے لے ورنہ چھوڑ دے

اس کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بشر ہونے کا ذکر فرمایا جیسے رافع بن خديج فرماتے ہیں کہ

قال قدم نبي الله صلى الله عليه و سلم المدينة وهم يأبرون النخل يقولون يلقحون النخل فقال ما تصنعون ؟ قالوا كنا نصنعه قال لعلكم لو لم تفعلوا كان خيرا فتركوه فنفضت أو فنقصت قال فذكروا ذلك له فقال إنما أنا بشر إذا أمرتكم بشيء من دينكم فخذوا به وإذا أمرتكم بشيء من رأي فإنما أن بشر قال عكرمة أو نحو هذا قال المعقري فنفضت ولم يشك — مسلم

رافع بن خدیج رضی الله تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے .اور لوگ کھجوروں کا قلم لگارہے تھے یعنی گابہ کررہے تھے آپ نے فرمایا تم کیا کرتے ہو. انھوں نے کہا ہم ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں، آپ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید اچھا ہو گا. لوگو نے پیوند کاری کرنا ترک کردیا.تو کھجوریں گھٹ گئیں.تو صحابہ کرم نے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا.آپ نے فرمایا میں تو بشر ہوں جب میں تمہیں دین کی بات بتاؤں تو اس پر کاربند ہو جاؤ.اور جب کوئی بات میں اپنی رائے سے بتاؤں تو میں بھی تو انسان ہوں.عکرمہ بیان کرتے ہیں، یا اس کے مثل اور کچھ فرمایا اور معقری نے فنفضت بغیر شک کے کہا ہے

عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم اللهم إنما أنا بشر فأيما رجل من المسلمين سببته أو لعنته أو جلدته فاجعلها له زكاة ورحمة . -مسلم کتاب البر والصلة

ابوھریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمایا اے الله میں انسان ہوں تو جس مسلمان کو میں برا کہوں یا لعنت کروں یا اسے سزا دوں تو یہ اس کے لیے باعث پاکی اور رحمت بنا دے

یہ زبان نبوت سے نکلے ہوے الفاظ ہیں جس میں آپ نے اپنی بشریت کو لوگوں کے سامنے بیان کر دیا ہے اس سلسلہ میں احادیث اور بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر ماننے والے کے لیے تو قرآن کی ایک آیت بھی کافی ہے اور نہ ماننے والے کیلئے پورا قرآن پورا سرمایہ حدیث بھی نہ کافی ہے الله تعالی  فرماتا ہے    اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ   الحج ٧٥ الله تعالی فرشتوں میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی وہ سمیع و بصیر ہے

الله تعالی فرشتوں کو ان کے کام کے لحاظ سے منتخب فرماتا ہے جیسے جبرائیل علیہ السلام کو وحی یعنی پیغام رسانی کیلئے منتخب کیا گیا اسی طرح دیگر فرشتوں کو اور انسانوں میں سے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے چونکہ زمین پر انسان بستہ ہے اسکی ہدایت و رہنمائی کے انسان ہی نبی و رسول ہوسکتا ہے

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا     قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا   بنی اسرئیل ٩٤،٩٥

اور لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو  کسی چیز نے نہیں روکا مگر ان کے اسی قول نے کہ ” کیا الله نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ؟ ان سے اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لئے پیغمبر بناکر بھیجتے

فرشتے نوری مخلوق ہیں الله نے انہیں نور سے تخلیق فرمایا ہے انسان خاکی مخلوق ہے الله نے اسکو مٹی سے پیدا کیا ہے انسان افضل المخلوقات ہے

    وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آَدَمَ    بنی اسرئیل ٧٠  یعنی  یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی

  انسان کے جد امجد آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد انسان کے شرف اور فضیلت کیلئے نوری مخلوق فرشتوں کو آدم کے آگے سجدے کا حکم دیا گیا نوری مخلوق کا خاکی مخلوق کے آگے جھکنا خاکی مخلوق کی فضیلت اور برتری ہی تو ہے چناچہ یہ لوگ نبی علیہ السلام کو نوری قرار دے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی کوئی قدر و منزلت نہیں بڑھارہے بلکہ الٹا تنقیص کا سبب بن رہے ہیں العیاذ باللہ

نبی صلی الله علیہ وسلم کو نوری قرار دینے والوں کے پاس اپنے اس خود ساختہ نظریے کے حق میں قرآن و حدیث سے کوئی ایک بھی دلیل موجود نہیں ہے دلیل آئے بھی تو کہاں سے آئے قرآن و حدیث نے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کو نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ اس کو ہر ہر پہلو سے واضع کردیا ہے شاید ہی کوئی گوشہ ہو جو روشن نہ کردیا گیا ہو اس صورت حال میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو نور یا مجسم نور قرار دینا ، بشر تسلیم نہ کرنا قرآن و حدیث کا کھلا انکار ہے اس انکار کو چھپانے کیلئے قرآن کے مقابلہ میں سمجھ میں نہ آنے والا فلسفہ پیش کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں انبیا کی ارواح و بواطن بشریت سے بالا اور ملاء اعلی سے متعلق ہیں کبھی کہتے ہیں آپ کی بشریت کا وجود اصلا نہ رہے اور غلبہ انوار حق آپ پرعلی الدوام حاصل ہو وغیرہ بھلا قرآن کی محکم اور صریح آیات کے سامنے اس بے تکے فلسفے کی کیا حثیت ہے اس کے قائلین کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ قرآن کی آیات پر ایمان لانا بہتر ہے یا اس فلسفے پر ؟

ان کی طرف سے اپنے نوری نظریے کے حق میں مسلہ زیر بحث سے غیر متعلق  قرآن کی بعض آیات بھی پیش کی جاتی ہیں مثلا

 قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ     المائدہ ١٥ تمہارے پاس الله کی طرف سے نور اور واضع کتاب آچکی ہے

ان کا اس آیت سے استدلال یہ ہے کہ اس آیت  میں نور سے اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم مراد ہیں

اس آیت کا مطالعہ کرنے والا دیکھ سکتا ہے کہ اس میں اللہ کے نبی کے نور ہونے کی کوئی صراحت نہیں ہے جس طرح آیت قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ میں الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق صاف و صریح بیان ہوا ہے اس آیت کے مقابلہ میں اپنے خیالی استدلال کو لانا حد درجہ کی جہالت یا ہٹ دھرمی ہے قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس سے جب کوئی غلط یا باطل استدلال کرتا ہے تو قرآن کی دیگر آیات اس کا راستہ مسدود کردیتی ہیں بریلویت کے اس استدلال کا دیگر آیات سے محاسبہ سے قبل اس آیت کو سیاق و سباق کے ساتھ زیر مطالعہ لائیں تو بھی اس کا غلط ہونا ظاہر ہوجاتا ہے

  يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ     المائدہ ١٥ ، ١٦

اے اہل کتاب یقینا تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا جو تمہارے سامنے کتاب الله کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کررہا ہے جنھیں تم چھپارہے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے،تمہارے پاس الله تعالی کی طرف سے نور واضح کتاب آچکی ہے جس کے ذریعه سے الله تعالی ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے حکم سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور سیدھی راہ کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے

ذرا غور سے پڑھیے نور یعنی روشنی آجانے کے ذکر سے پہلے رسول کے آجانے کا باقاعد ذکر کردیا گیا ہے  رسول جو کچھ لاتا ہے اسے روشنی سے تعبیر کیا گیا ہے روشنی اور واضح کتاب کے آجانے کے بعد کہا گیا ہے  يَهْدِي بِهِ اللَّهُ اس کے ذریعہ سے الله تمہیں ھدایت کی راہ دکھاتا ہے اسکے    ذریعہ میں ضمیر واحد آئی ہے جس سے از خود واضح ہوتا ہے کہ نور و کتاب دونوں ایک ہیں اگر یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہوتیں تو ضمیر تثنیہ کی آتی جبکہ ایسا نہیں یعنی نور و کتاب کے درمیان آنے والا واو تفسیری ہے

اب ذرا قرآن کی دیگر آیات کو سامنے رکھیے معلوم ہوگا نور سے مراد وہ ہدایت وہ روشنی ہے جو لوگوں کیلئے الله کی طرف سے نازل کی جاتی رہی ہے سورہ نسا میں آتا ہے    يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا       نسا ١٧٤    اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتارا دیا ہے

یہاں پر بھی واضح نور نازل کرنے کی بات کی گئی ہے نازل کرنے کے الفاظ بتارہے ہیں کہ الله کا دین اسکی ہدایت ہے جوالله نے وحی کے ذریعہ لوگوں کی رہنمائی کیلئے کمال شفقت سے نازل فرمائی ہے اور سورہ تغابن میں ارشاد ہوتا ہے

 فَآَمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ      تغابن ٨    سو تم الله پر اور اسکے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ اور الله تعالی تمہارے ہر عمل پر باخبر ہے

اس آیت میں بھی الله اور اسکے رسول کے علاوہ اس نور پر بھی ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جو الله نے نازل فرمایا ہے معلوم ہوا کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بشریت کا انکار کرنے والوں کا

استدلال قرآن کی دیگر آیات سے مطابقت رکھنا تو درکنار الٹا ان سے براہ راست متصادم ہے

انکی دوسری دلیل یہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو قرآن میں  سِرَاجًا مُنِيرًا  کہا گیا ہے  سِرَاجًا مُنِيرًا کے معنی ہیں روشن چراغ یا چمکتا آفتاب  الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کو روشن چراغ کہا گیا اس میں کوئی شک نہیں مگر اس سے آپ کی بشریت کا انکار کیونکر ممکن ہے؟ اور اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم وجودی اعتبار سے نور کس طرح ثابت ہوتے ہیں ؟ یہ سمجھ سے بالا تر ہے کفر و شرک ، گمراہی و ضلالت کے اندھیروں میں آپ کی بعثت یقینا روشن چراغ ،چمکتا آفتاب ہے جس سے کفر و شرک کا گھٹاٹوپ اندھیرا چھٹا ، گمراہی و ضلالت کی تاریکی دور ہوئی رشد و ہدایت کی راہیں روشن ہوئیں ،حق واضح ہوا،آپ کا روشن چراغ ہونا ان معنوں میں ہے اور بریلویت کے ترجمان کنزالایمان میں بھی یہی معنی و مفہوم لئے گئے ہیں مگر اپنی روایتی لفاظی کے ساتھ جو چاہے رجوع کرکے دیکھ سکتا ہے

قرآن کی آیات کے علاوہ بعض روایات بھی انکی طرف سے پیش کی جاتی ہیں مگر انکی اکثریت کی حثیت محض قصّوں کہانیوں کی ہے قرآن و حدیث کے مقابلے میں ان کی کیا حثیت ہوسکتی ہے ظاہر ہے البتہ ایک دو روایات ایسی بھی ہیں جو صحیح تو ہیں مگر ان سے غلط مفہوم کشید کیا کرتے ہیں

یہ حدیث مثلا

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال   نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن الوصال قالوا إنك تواصل قال ( إني لست مثلكم إني أطعم وأسقى    بخاری کتاب الصوم

عبدالله ابن عمر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صوم وصال سے منع فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ آپ تو وصال کرتے ہیں ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں ، مجھے تو کھلایا اور پلایا جاتا ہے

اس حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں اس سے آپ کے بشر نہ ہونے اور نور ہونے کا استدلال کرتے ہیں اس حدیث کو ایک دفعہ  بغور پڑھیے آپ نے صوم وصال سے لوگوں کو منع فرمایا تو لوگوں کو حیرانی ہوئی کہ آپ تو ایسا کرتے ہیں اور ہمیں اس سے منع فرما رہے ہیں اس کا جواب آپ نے دیا کہ مجھے تو میرا رب کہلاتا اور پلاتا ہے اس وجہ سے میرا معاملہ تمہاری طرح کا نہیں ہے  اس سے اگلی روایت اور بھی واضح ہے  إني لست كهيئتكم إني أبيت لي مطعم يطعمني وساق يسقين   یعنی میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں تو رات اس طرح گزارتا ہوں کہ ایک کھلانے والا کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا سیراب کرتا ہے

معلوم ہوا یہ نبی کی خصوصیت تھی اور آپ کی یہی ایک خصوصیت نہ تھی اور بہت سی خصوصیات آپ کو حاصل تھیں، آپ الله کے نبی اور اسکے رسول تھے لوگوں کو چار سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں مگر آپ کیلئے ایسا نہیں تھا آپ کو جب بخار ہوتا تو اس کی شدت دو انسانوں کو ہونے والے بخار کی طرح ہوتی یعنی عام انسانوں کے مقابلے میں دوگنی تکلیف ہوتی اور اس تکلیف اٹھانے کا اجر بھی دوگنا تھا


حدیث نور پر تفصیلی بحث یہاں ہے

https://www.islamic-belief.net/storage/2018/06/لَا-تَغْلُوا-فِي-دِينِكُمْ.pdf

 

یوسف کو سجدہ کیا یا اللہ کو ؟

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

قرآن کی آیات کی غلط تشریحات کی بنا پر امت   میں  صوفیوں کی  جانب  سے  انسانوں   اور قبروں کو سجدہ  کرنا  قبول کر لیا گیا ہے – اس کو  سجدہ تعظیمی کا نام دیا گیا  ہے اور  جوابا  کہا  جاتا ہے کہ چونکہ  ہم  سجدہ عبادت نہیں  کر رہے،  اس لئے یہ  جائز ہے  –  ایک  بریلوی  عالم   شعر  میں   کہتے ہیں

سنگ در جاناں پہ کرتا ہوں جبیں سائی سجدہ
نہ سمجھ نجدی سر دیتا ہوں نذرانہ

یعنی   ظاہر  میں یہ  سجدہ    ہے مگر  مقصد  و مدعا      اپنا     سر  محبوب (ولی اللہ یا نبی )  کی خدمت  میں   پیش کرنا ہے – راقم  کہتا ہے  کسی سے اتنی محبت کرنا کہ اللہ  کی عبادت اور  مخلوق سے محبت کی سرحد مل جائے تو ایسا عمل  قابل رد ہے  – ایک بت پرست   بھی  پتھر کے صنم سے محبت کرنے لگتا ہے  اور اسی الفت میں شکار ہو کر سجدے کرنے لگ جاتا ہے  –

انبیاء  کو سجدہ کیا جا سکتا ہے  یا نہیں یہ بحث    آجکل کی نہیں ہے بلکہ   اس   حوالے سے  قرن دوم  سے ہی روایات   بیان کی جا رہی ہیں   کہ    اللہ   تعالی کی   غیر مکلف مخلوقات  تک    نبی علیہ السلام کو سجدہ کرتی تھیں- بعض  راویوں  نے بیان کیا  کہ معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ  (جن سے قرآن سیکھنے  کا حکم نبوی   تھا     )  انہوں    نے  بھی   نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کو  سجدہ کر دیا   ،کیونکہ  وہ اہل کتاب   میں مروج    اس عمل سے  متاثر ہوئے – حاشا للہ – یہ سخت مصیبت  کا قول ہے ، روایت کے پردے میں صحابی پر تہمت ہے  اور راقم  نے اس روایت  کا تقاقب  کیا ہے، ثابت کیا ہے کہ یہ   روایات مضطرب السند،  منکر المتن ہیں – کتاب   هذا  میں  سجدہ تعظیمی  کی روایات   پر اسنادی  تحقیق پیش کی گئی ہے –

اس  حوالے سے     يه  اشکال   پیش  نظر ہیں

اول :  کیا  فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو  سجدہ  کیا تھا یا    ان کو  قبلہ   سمجھتے ہوئے   یہ سجدہ    اللہ تعالی کو کیا  گیا تھا ؟

دوم  :  کیا ابناء  یعقوب   علیہ السلام  اور   والدین یوسف  نے   اپنے ہی بھائی  یا بیٹے کو دربار مصر  میں سجدہ    تعظیمی کیا تھا ؟

سوم :  کیا شریعت  میں  (فرض نماز   کے علاوہ    )سجدہ  کو      سات   اعضا    پر کرنا  فرض    کیا گیا ہے ؟

چہارم : شریعت  میں   اور عربی میں  سجدہ  کا لفظ      کن کن  معنوں    پر بولا گیا ہے ؟

ابو شہر یار

٢٠١٩

العموم و الخصوص ٢

یوسف کو سجدہ کیا یا اللہ کو ؟

قرآن  میں آئی آیات بعض صرف اور صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں- ان کو عام کر نے کے نتیجے میں جو موقف اتا ہے وہ خالصتا گمراہی کی طرف لے جاتا ہے

سورہ الحجرات میں ہے

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ (1)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـهٝ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (2)
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

اللہ اللہ – وہ منحوس گھڑی بھی آئی جب جاہلوں نے ان آیات کو امیر تنظیم پر لگایا اور ناصحین کو چپ کرنے کی کوشش کی
اللہ کا شکر ہے جس نے مجھ کو اس ظلم سے بچا لیا اور مصیبت کو جان کر راقم نے گوشہ نشینی کو پسند کیا

اس کی پاداش میں اس روز کتنے ہی جہنمی ہو گئے ا ن کا عمل حبط ہو گیا

آیات جو خاص تھیں ان کو عام کرنے کا مرض تنظیم کی جڑوں میں اتر چکا ہے – سوره النساء کی آیت ١١٥ پیش کی جاتی ہے

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

یہ آیت اپنے سیاق و سباق میں صرف اور صرف اصحاب رسول کے لئے ہے – لیکن اس کو اپنی تنظیموں پر لگا کر اس کو بلا سند ان آیات کا مصداق قرار دینے سے وہی رعونت جنم لیتی ہے جو یہودیوں میں موجود تھی کہ صرف ہم جنتی ہیں، باقی سب جہنمی ہیں – یہ کام جہلاء کی جہالت کو بڑھا رہا ہے کہ وہ اصحاب رسول سے متعلق آیات کو اس تنظیم پر لگا دیتے ہیں

اللہ کے بندو – اپ پر گر اللہ کا احسان ہوا کہ اپ کو اللہ نے ایمان تک پہنچایا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ایمان کسی اور تک اللہ نہیں پہنچا سکتا
اللہ آپ کو گمراہ بھی کر سکتا ہے کیونکہ وہ انسان کو آزماتا ہے

بہت سے عقائد پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے لیکن  تحقیق میں وہ ثابت نہیں ہیں – ایک عرصۂ سے مولوی اس آیت کو اپنے عقائد پر لگا رہے ہیں کہ عرض عمل ، عود روح ، حیات النبی کا عقیدہ امت میں چلا آ رہا ہے اس پر سبیل المومنین ہے لہذا یہ عقائد اللہ کے منظور کردہ ہیں- عثمانی صاحب نے اسی سوچ کا رد کیا کہ امت اگر گمراہی پر جمع ہو جائے تو اس کی گمراہی حق نہیں بن جاتی – افسوس عثمانی صاحب کی وفات کے چند سالوں میں ہی یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سبیل المومنین کے نام پر ایک تفسیری رائے کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ گویا وہ من جانب الله ملی ہے اور اگر عثمانی کے نام پر چلتے فرقے سب مل کر ایک غلط موقف اختیار کر لیں تو وہ ہی سبیل المومنین ہے

سورہ یوسف میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کا خواب پورا ہوا

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّـٰهُ اٰمِنِيْنَ (99)
پھر جب یوسف کے پاس آئے تو اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو جاؤ اگر اللہ نے چاہا تو امن سے رہو گے۔
وَرَفَـعَ اَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَـآ اَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُؤْيَاىَ مِنْ قَبْلُ ؕ قَدْ جَعَلَـهَا رَبِّىْ حَقًّا ؕ وَقَدْ اَحْسَنَ بِىٓ اِذْ اَخْرَجَنِىْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِىْ وَبَيْنَ اِخْوَتِىْ ۚ اِنَّ رَبِّىْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَآءُ ۚ اِنَّهٝ هُوَ الْعَلِيْـمُ الْحَكِـيْـمُ (100)
اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور اس کے آگے سب سجدہ میں جھک گئے ، اور کہا اے باپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تعبیر ہے، اسے میرے رب نے سچ کر دکھایا، اور اس نے مجھ پر احسان کیا جب مجھے قید خانے سے نکالا اور تمہیں گاؤں سے لے آیا اس کے بعد کہ شیطان مجھ میں اور میرے بھائیوں میں جھگڑا ڈال چکا، بے شک میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے مہربانی فرماتا ہے، بے شک وہی جاننے والا حکمت والا ہے۔

الفاظ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا پر عثمانی صاحب کی تفسیری رائے یہ آتی ہے کہ یہاں سجدہ اللہ تعالی کو کیا گیا – یہ تفسیری رائے چلی آ رہی ہے – البتہ اس کو حتمی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ متن قرآن سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ محض ایک قول کی حیثیت رکھتی ہے – متن قرآن میں له کی ضمیر یوسف علیہ السلام کی طرف جا رہی ہے – اور راقم کہتا ہے ایسا مطلب جو  اہل زبان کو یعنی ایک عام بکری چرانے والے  عرب    کو قرآن سے ملے وہی اصل ہے کیونکہ قرآن قریش کی عربی میں ہے – آسان عربی میں ہے- واضح عربی میں ہے –  اس کے مطلب کو تفسیر و تاویل کر کے صرف آیات متشابھات جو ذات باری تعالی پر ہیں ان  میں سمجھا  جاتا ہے – اس کے سوا یہ کرنا صحیح نہیں ہے – مثلا
اللہ نے کہا
و ھو معکم این ما کنتم
وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو

یہاں مطلب اللہ تعالی کا بذات انسانوں کے ساتھ موجود ہونا اگر لیں تو ہم سب ذات الہی میں حلول کر جائیں گے اور لا فانی ہو جائیں گے – اس بنا پر ان آیات کی تاویل کی جاتی ہے اور ان پر ایمان لایا جاتا ہے کیفیت کی کھوج نہیں کی جاتی

سجدہ کا مطلب عربی میں صرف جھکنا ہے – اس کو نماز کا اصطلاحی سجدہ نہیں سمجھا جاتا – مثلا الصلوہ کا مطلب قرآن میں اکثر اوقات نماز ہے لیکن صلی کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب درود بھی ہے –   یہاں یوسف علیہ السلام والے واقعہ میں بھائیوں نے نماز جیسا اصطلاحی سجدہ نہیں کیا بلکہ انحنا کیا یعنی تھوڑا سے جھک کر ان کو مصر کا وزیر تسلیم کیا

حاکم سے ملاقات پر آپ اس کے سامنے تھوڑا جھکیں یہ طریقه کار معروف تھا کہ آپ اگر اسی ملک کے باسی ہوں – اگر اگر آپ کسی دوسرے علاقے کے ہوں اور آپ دوسرے ملک کا سفر کریں تو طریقہ کار یہ تھا کہ اجنبی ملک کے  حاکم سے ملاقات پر آپ کچھ نہیں کریں گے، وہ جان لے گا کہ آپ اس ملک کے نہیں ہیں ، سفیر ہیں یا مسافر ہیں

اس حوالے سے معلوم ہے کہ بعض بادشاہ جو ظالم تھے وہ نماز جیسے سجدہ کا مسافر  کو حکم کرتے  لیکن یہ   منفرد تھے اور اس کو پسند نہیں کیا جاتا تھا

اس میں جب یعقوب علیہ السلام اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کر کے مصر میں داخل ہوئے تو انہوں نے وہاں کے مصری  حاکم کی عمل داری کو قبول کیا  اور رسم کے طور پر مصری حاکم کے وزیر یوسف کے سامنے تھوڑا جھکے
قرآن میں اس عمل کو سجدہ کہا گیا ہے لیکن یہاں  سجدہ کا مطلب زمین پر پیشانی لگانا   نہیں ہے – زمین کی جانب تھوڑا سر جھکانے کو بھی سجدہ عربی میں کہا جاتا ہے- نماز نے رکوع، سجدہ وغیرہ کو ایک اصطلاح ضرور بنا دیا ہے لیکن اس سے ان الفاظ کا اصل  لغوی مطلب تبدیل نہیں ہوتا جو مشرکین مکہ کی زبان میں تھا

عربی لغت تاج العروس من جواهر القاموس از الزَّبيدي کے مطابق سجد کا ایک مطلب إِذا انْحَنى وتَطَامَنَ إِلى الأَرضِ زمیں کی طرف جھکنا بھی ہے – لغت مجمل اللغة لابن فارس کے مطابق وكل ما ذل فقد سجد ہر کوئی جو نیچے آئےاس نے سجد کیا
یہ اس کا لغوی مطلب ہے

یوسف کے خواب اور عملی شکل میں آیات میں سجدہ سے مراد لغوی مطلب ہے جو قریش بولتے تھے یہاں سجدہ کا اصطلاحی مطلب مراد نہیں ہے

یوسف کو سجدہ تعظیمی نہیں کیا گیا – یوسف نے جو خواب دیکھا وہ اپنے ظاہر میں مشرکانہ غیر شرعی تھا – لیکن خواب وہ نہیں تھا جو حقیقیت میں ہونا تھا – سجدا کا مطلب سجدہ نماز نہیں ہے یہ عربی کا لفظ ہے قرآن کے نزول سے پہلے سے معلوم ہے اور اس کا مطلب زمین کی طرف لپکنا یا جھکنا ہے – ممکن ہے یہ کیفیت پیدا ہوئی جب بھائییوں نے یوسف کو تخت مصر پر والدین کے ساتھ دیکھا تو نفسیاتی کیفیت ایسی ہوئی کہ شرم سے زمین پر گر گئے یا جیسا کہ کہا ممکن ہے کہ یہ حاکم و وزیر کے سامنے پیش ہونے پر حکومت کی عمل داری تسلیم کرنے کا انداز ہے

سجدہ یوسف علیہ السلام کو کیا گیا یہ متن قرآن میں له کی ضمیر سے معلوم ہے
سجدہ اللہ تعالی کو کیا یہ تفسیر تاویل پر مبنی ہے کہ اصل مفہوم سے ہٹا کر آیت کو الگ طرح سمجھا جائے- ایسا صرف ان آیات پر کیا جاتا ہے جن میں اللہ کا ذکر ہو مثلا
وجاء ربك والملك صفا صفا
أور اللہ آئے گا اور اس کے فرشتے صف در صف

اللہ آئے گا یہ نزول کرے گا ہم تفسیر نہیں کرتے – ہم اس کو بدل کر کہتے ہیں کہ اللہ تجلی کرے گا – وہ نہ مخلوق کے ساتھ اترتا ہے، نہ چڑھتا ہے، نہ ان کے ساتھ چلتا ہے – وہ عرش پر مستوی ہے – اسی عرش کے ساتھ محشر میں ظاہر ہو گا
اللہ فرشتوں کے ساتھ چلتا ہوا نہیں آئے آئے گا-  یہاں اس کی شان کے مطابق ہم مفہوم لیتے ہیں کہ مقصد ظاہری الفاظ نہیں ہیں-  لیکن یہ تاویل کا عمل مخلوق کے ساتھ نہیں کیا جاتا کہ انبیاء کے عمل کو بھی تاویل کر کے تبدیل کیا جائے

عثمانی صاحب کی تفسیری رائے  : خواب والی شکل بنی، یوسف تخت پر تھے 

عثمانی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں اس سجدہ پر کہا

دوسری بار کہا

جناب یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں اور والدین نے سجدہ کیا ؟
جواب
نہیں حضرت

وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ

کہ اللہ نے یہ رحمت فرمائی- اس خاندان پر خَرُّوا لَهُ – له کی ضمیر اللہ کے لئے ہے کہ اللہ کے لئے سجدہ میں گر پڑے
اور جن کا ایمان صحیح نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی ہمارے یہ شاگرد سجدہ کریں
اس لئے یہ تفسیر نہ کر دیں کہ حضرت یوسف کو سجدہ ہے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ  نے  صوفیوں کے سجدہ تعظیمی کو رد کرنے کے لئے  اس تشریح کو پسند کیا کہ اس سجدہ کو اللہ  کی طرف قرار دیا جائے – اہل طریقت کی باطل تشریحات کا ہم رد کرتے ہیں – لیکن  یہاں عثمانی صاحب کی تفسیر کہ له کی ضمیر اللہ کی طرف ہے اس کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے  –  عثمانی صاحب نے اس کو نماز جیسا سجدہ سمجھا ہے کیونکہ ان کے ذھن میں صوفیوں  کا عمل ہے کہ کہیں اس آیت  کو سجدہ تعظیمی کی دلیل نہ سمجھ لیا جائے – ان کی فکر اپنی جگہ صحیح ہے کہ صوفیوں  کا سجدہ تعظیمی   نماز کی ہیت کا سجدہ  ہوتا ہے اور اس کو ہر مومن رد کرتا ہے – لیکن قرآن میں یہاں له کی ضمیر  یوسف علیہ السلام ہی کی طرف ہے اور یہ سب خواب کی منظر کشی ہو رہی ہے جو تمثیل کے جامے سے نکل کر حقیقت کا روپ لے رہی ہے – خواب میں دیکھا تھا کہ سورج، چاند، ستارے سب یوسف کو سجدہ کر رہے ہیں – اب یہ حقیقت بنا کہ  یعقوب  علیہ السلام  کے بیٹوں  نے بدوی زندگی کو خیر باد کہا  اور  مصری وزیر (یوسف) کے ساتھ  تحت رہنا قبول کیا  

عثمانی صاحب نے جو منظر کشی کی ہے اس کے تحت یوسف اور ان کے والدین تخت پر ہیں- سامنے ان کے بھائی ہیں – اب سوائے یوسف کے سب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ، جو جہاں ہے وہیں سجدے میں گر جاتا ہے – سجدہ اللہ کو ہو رہا ہوتا ہے لیکن دیکھنے والی آنکھ میں منظر یہ ہے کہ  یوسف  بیچ میں تخت پر ہیں – وہی خواب والی شکل بن جاتی ہے

عثمانی صاحب کا مدعا ہے کہ سجدہ کے وقت وہی خواب والی شکل بنی – جس طرح کعبہ ایک عمارت ہے الله نہیں ہے لیکن اللہ کا حکم ہے کہ اس کو اگر سجدہ کرنا ہے تو کعبه کی طرف رخ کیا جائے – اسی طرح معاملہ نیت کا ہے کہ سجدہ کرتے وقت نیت اللہ کو سجدہ کرنے کی تھی لیکن یوسف بیچ میں کرسی پر بیٹھے تھے وہی خواب والی شکل بن گئی

اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ سجدہ نماز جیسا تھا اور الگ سے صف بندی کر کے اللہ کو سجدہ کیا گیا تو خواب والی صورت کبھی بھی نہیں بنتی – راقم کہتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے دور میں قبلہ کا کوئی تصور نہیں تھا – نہ مصر میں موسی علیہ السلام کا کوئی ایک قبلہ تھا بلکہ ہر شہر میں الگ الگ قبلہ مقرر کیا گیا تھا –

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسی اور اس کے بھائی کو الوحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر کرو اور ان گھروں کو قبلہ بنا لو اور نماز قائم کرو اور مومنوں کو بشارت دو ( سورہ یونس)

یعقوب علیہ السلام یا ان کے بیٹے اللہ کو سجدہ کسی بھی رخ پر کر سکتے تھے – اس طرح عثمانی صاحب کی تشریح ایک اچھی تشریح ہے لیکن راقم کے نزدیک یہ سجدہ نماز جیسا سرے سے ہی نہیں ہے  اور نہ یہان له کی ضمیر اللہ تعالی کی طرف لینے کا کوئی قرینہ ہے

تفسیروں میں خر کے کلمہ پر لکھا گیا ہے

الخرّ: السقوط بلا نظام وبلا ترتيب

بغیر نظم و ترتیب کے نیچے آنا

 بعض لوگ جو اس آیت میں  سجدے کو اللہ کی طرف مانتے ہیں وہ اس کے قائل ہیں کہ سجدہ باقاعدہ صف بنا کر کیا گیا  یہ بات متن قرآن میں نہیں ہے

اسی طرح جو لوگ اس سجدے کو اللہ کی طرف مانتے ہیں وہ اس کے قائل ہیں کہ یوسف علیہ السلام نے بھی سجدہ کیا اور جب وہ سجدے سے اٹھے انہوں نے فرمایا یہ میرے خواب کی تاویل ہے – دوسری طرف عثمانی صاحب کہتے ہیں یوسف تخت پر تھے  اور خواب والی شکل بنی – خواب والی شکل اس صورت میں بالکل نہیں بنتی اگر یوسف علیہ السلام بھی سجدہ کرتے

سجدہ یوسف کو کیا گیا اللہ کے لئے 

یہ تشریح یہ بھی بیان کی جاتی ہے

الأخبار الموفقيات للزبير بن بكار میں ہے کہ ابو بکررضی اللہ عنہ  کی خلافت کا سن کر أَبِي لَهَبِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ کی اولاد میں سے کسی نے یہ شعر علی رضی اللہ عنہ کے لیے کہا

أَلَيْسَ أَوَّلَ مَنْ صَلَّى لِقِبْلَتِكُمْ … وَأَعْلَمَ النَّاسِ بِالْقُرْآنِ وَالسُّنَنِ
کیا وہ پہلے نہیں تھے جنہوں نے تمہارے قبلے کے لئے نماز پڑھی؟
اور انسانوں میں قرآن و سنت کے سب سے زیادہ خبر رکھنے والے ہیں

اس شعر میں ہے کہ قبلہ کے لئے نماز پڑھی جبکہ نماز اللہ کے لئے ہوتی ہے – اس سے بعض مفسرین نے دلیل لی ہے کہ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا میں له کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اللہ کے لئے یوسف کو سجدہ کیا گویا کہ یوسف کو قبلہ مانتے ہوئے ایسا کیا گیا – قرآن میں سورہ بنی اسرائیل میں ہے

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا
نماز قائم کرو سورج کے غروب کے لئے، سے لے کر رات کے چھا جانے تک اور فجر کا قرآن ! بے شک قرآن فجر کو دیکھا جاتا ہے

یہاں لِدُلُوكِ ہے یعنی ل + دلوک – دلوک کا مطلب غروب ہے اور ل اس میں اضافی ہے کہ سورج کے غروب کے لئے

یہ عربی کا محاوراتی انداز ہے اس کا اردو میں صاف ترجمہ ممکن نہیں ہے – مدعا یہ ہے کہ سورج کے  غروب ہونے کا ہماری نماز سے کوئی براہ راست تعلق نہیں – سورج تو ہر صورت غروب ہو گا لیکن یہاں ل لگنے سے اس وقت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے –  غور کریں کہ  نماز قائم تو اللہ کے لئے کی جاتی ہے نہ کہ سورج کے غروب کے لئے لیکن کوئی عرب اس کا یہ مطلب نہیں لیتا کہ نماز سورج کے غروب کے لئے پڑھو  – اسی طرح  بعض نے تشریح کی کہ سورہ یوسف میں خروا له سجدا میں ہے کہ یوسف کے لئے سجدہ میں گئے لیکن اللہ کو سجدہ کرنے کی غرض سے – قابل غور ہے کہ ان مفسرین کے نزدیک بھی ضمیر یوسف کی طرف ہے  بس سجدہ اللہ کو ہے کینکہ یہ نیت کا معاملہ ہے – – یوسف کو قبلہ سمجھا گیا

اسی سجدہ کی تعبیر یہ بھی کی جاتی ہے کہ یوسف کو قبلہ سمجھتے ہوئے سجدہ کیا گیا – جس طرح کعبہ مخلوق ہے اور یوسف کو قبلہ سمجھ کر سجدہ کیا گیا – اسی بنا پر اردو میں بر صغیر میں بزرگ کو قبلہ و کعبه کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا   مثلا کسی کو خط لکھا تو شروع میں لکھا :  حضرت قبلہ و کعبه جناب فلاں صاحب  ….. وغیرہ – البتہ یہ ذہن قبول نہیں کرتا کیونکہ انسان کو قبلہ کرنے کا تصور ہم کو مذھب میں معلوم نہیں ہے اور صرف اس آیت سے اس کا استخراج کیا گیا ہے –

متن قرآن کو اردو محاوراتی انداز میں سمجھنا 

سوره یوسف میں بیان ہوا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا

قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں

ایک بھائی کہتے ہیں اس کا ترجمہ یہ درست ہے

سورة يوسف 4

اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَعَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ﴿۴﴾

جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وہ سب میرے ہاں سجدہ کر رہے ہیں ۔

یعنی یوسف کے گھر میں سجدہ کر رہے ہیں
مثلا
سورة آل عمران 40

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ قَدۡ بَلَغَنِیَ الۡکِبَرُ وَ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ﴿۴۰﴾

کہنے لگے اے میرے رب! میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا؟ میں بالکل بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ، فرمایا اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے کرتا ہے ۔

راقم کہتا ہے یہ اردو بولنے والوں نے عربی قرآن کو اپنی زبان پر ڈھال کر اس کو بدلا ہے

ہر زبان میں بول چال کا الگ الگ طریقہ ہے – جو محاروے ہم بولتے ہیں وہ عربی میں نہیں ہیں اور جو عربی میں ادب و زبان ہے وہ اردو کا نہیں ہے –  یہاں ایسا ہی ہے – لی کا مطلب عربی میں مجھ کو یا مجھ سے ہے – میرے ہاں اس کا مطلب نہیں ہے – ہمارے ہاں بولنا یہ اردو ہے عربی نہیں ہے مثلا اردو میں ہم کہیں ہمارے ہاں آنا یعنی ہمارے گھر آنا – اس انداز میں عربی میں نہیں بولا جاتا

عربی میں ہے دخل علی
وہ ان پر داخل ہوا
یعنی ان کے حجرے میں یا گھر گیا

صحیح ترجمہ ہے

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ قَدۡ بَلَغَنِیَ الۡکِبَرُ وَ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ﴿۴۰﴾
کہنے لگے اے میرے رب! میرے لئے لڑکا کیسے ہوگا؟ میں بالکل بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ، فرمایا اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے کرتا ہے ۔

سورہ کہف میں ہے کہ اصحاب کہف نے کہا
وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا
اور ہمارے لئے نہیں ہے کہ ہم اب واپس جائیں

اگر لنا کا ترجمہ ہمارے ہاں کر دیں تو ہو گا
وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا
اور ہمارے ہاں نہیں ہے کہ ہم واپس جائیں

جبکہ اصحاب کہف کے گھر والے مشرک تھے

محشر میں عیسیٰ علیہ السلام رب العالمین سے دعا کریں گے
قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ
آپ پاک ہیں میرے لئے نہیں ہے کہ سوائے حق کے کچھ کہوں

اگر لی کا ترجمہ “میرے ہاں” کر دیں تو یہ گستاخی کا انداز بن جاتا ہے

لہذا صحیح ترجمہ یہی ہے

قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں

راقم کو حیرت ہوئی کہ ایک گروہ نے اس آیت کو اپنے جدل  کے لئے  تختہ مشق بنایا ہوا ہے لیکن اس پر  اپنے متعدد مضامین میں سے کسی  ایک میں  بھی انہوں نو اس آیت کا مکمل  ترجمہ کرنے کی جرات نہیں   بلکہ تقاریر میں پہلے اس  سجدے کو میرے ہاں   کیا (یعنی میرے گھر پر) پھر جب غلطی واضح کی گئی تو اب وہ اس کا زبانی ترجمہ کر رہے ہیں میرے لئے سجدہ کیا کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دیکھا وہ میرے لئے سجدہ کر رہے ہیں

یہ  ترجمہ بھی غلط سلط ہے کیونکہ خواب  میں سورج چاند اور گیارہ ستاروں کو دیکھا کہ وہ سجدہ  کر رہے ہیں یوسف نے سورج چاند اور گیارہ ستاروں کے نفس کا حال نہیں جانا تھا اور یہ ترجمہ کہ وہ میرے لئے سجدہ کر رہے ہیں اسی وقت ممکن ہے جب سورج چاند اور گیارہ ستارے یوسف سے کلام کرتے اپنے سجدہ کی نوعیت واضح کرتے – قرآن میں ان اجرام فلکی کے کلام کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف عمل دیکھنے کا ذکر ہے

چند سال قبل چھپنے والے مضمون میں اس آیت  کی تفہیم  درست تھی کہ   یوسف علیہ السلام نے  دیکھا سورج چاند اور ستارے ان کو سجدہ کر رہے ہیں  لیکن اب اسی گروہ  کی جانب سے نت نئے ترجمے آ رہے ہیں

یعقوب علیہ السلام نے تعبیر کی یا نہیں ؟

یعقوب علیہ السلام نے خواب کی کوئی تعبیر نہیں کی – صرف اس کو چھپانے کا ذکر کیا- یعقوب علیہ السلام نے خواب پر تبصرہ کیا کہ اللہ تم پر مستقبل میں اپنی نعمت تمام کرے گا

وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ وَيُتِـمُّ نِعْمَتَهٝ عَلَيْكَ وَعَلٰٓى اٰلِ يَعْقُوْبَ كَمَآ اَتَمَّهَا عَلٰٓى اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْـرَاهِيْـمَ وَاِسْحَاقَ ۚ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْـمٌ حَكِـيْـمٌ (6)

اور اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدہ کرے گا اور تجھے خواب کی تعبیر سکھائے گا اور اپنی نعمتیں تجھ پر اور یعقوب کے گھرانے پر پوری کرے گا جس طرح کہ اس سے پہلے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر پوری کر چکا ہے، بے شک تیرا رب جاننے والا حکمت والا ہے۔

یعقوب علیہ السلام اصل میں اس وعدہ الہی کی بنیاد پر تبصرہ کر رہے ہیں جو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
سورہ بقرہ ١٢٤
جب تمھارے رب نے ابراھیم کی آزمائش کلمات (احکام) سے کی، تو اس نے ان کو پورا کیا – کہا میں نے تجھ کو انسانوں پر امام کیا بولا اور میری اولاد ؟ کہا میرا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں

یعقوب علیہ السلام نے اس خواب کو چھپانے کا حکم کیا

قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ

کہا اے بیٹے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے خلاف سازش کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے

یوسف (علیہ السلام ) غیر نبی  کو یعقوب علیہ السلام نبوت کو بشارت  دے رہے ہیں کہ عنقریب  مستقبل میں ہو گا کہ تم کو نبی بنا دیا جائے گا   – معلوم ہوا کہ یوسف کا خواب الوحی نہیں تھا کیونکہ بشارت  خواب کے بعد دی کہ ایسا ہوا گا یہ نہیں فرمایا کہ تم نبی بن چکے ہو

یہ خواب الوحی نہیں  تھا  لیکن ایک سچی خبر ضرور تھا جس طرح ایک مومن بندہ خواب دیکھتا ہے جو سچا ہو جاتا ہے  – اس کے الوحی نہ ہونے کی متعدد وجوہات ہیں

اول : یہ ممکن نہیں کہ ایک نبی خواب دیکھے اور اس کی تعبیر خود نہ کر سکے

غور کریں کہ انبیاء کا  خواب اللہ کا  براہراست حکم ہوتا ہے  لیکن خواب دیکھنے والا اگر  نبی نے تو وہ   اس کو سمجھ ہی    نہ سکے کیسے ممکن ہے-    اس خواب کو سمجھنے کے لئے  اس کو کسی دوسرے نبی کو تلاش کرنا پڑے

دوم : الوحی  کو اخفاء رکھنا ظلم ہے 

 انبیاء پر تو لازم ہے کہ جو بھی  الوحی ہو اس کو ببانگ دھل بیان کریں

و اللہ یعصمک من الناس
اللہ ان کو لوگوں سے بچائے گا

سورہ المائدہ ٦٧ میں
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اے رسول پھیلا دو جو تمہارے رب نے تم پر نازل کیا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کو نہیں ادا کیا اور بے شک اللہ لوگوں سے بچائے گا

فرمان مصطفی ہے
جس کو علم کی بات معلوم ہو اوروہ  اس کو چھپا دے تو  اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا حدیث

ان فرمودات کی روشنی میں واضح ہے کہ یعقوب نے اس کو اپنے غیر نبی بیٹے یوسف کا سچا خواب سمجھا جس کو ابھی نبوت نہیں ملی لیکن عنقریب اس پر نعمت تمام ہو گی اور وہ نبی بن جائے گا- یوسف علیہ السلام کا یہ خواب اسی طرح سچی خبر تھا جس طرح ایک عام مومن بندے کو سچا خواب اتا ہے جو پورا ہوتا ہے- یعقوب اس وقت نبی تھے انہوں نے جو کہا اس میں اس کا کہیں اثبات نہیں ہے کہ تم اے یوسف،  نبی بن چکے ہو ،  بلکہ ان کے نزدیک ابھی یوسف پر اتمام نعمت نہیں ہوا تھا – نبی بننا ہی سب سے بڑی نعمت ہے جو یوسف کو اس وقت نہیں ملی تھی

سوم : یعقوب علیہ السلام نے خواب  سمجھایا کہ چونکہ اس میں تم نے اے یوسف  دیکھا کہ اجرام فلکی تم کو سجدہ کر رہے ہیں تو اس کا مطلب تم کو عزت  ملنا ہے اور اس کی اصل تاویل اللہ تم کو ضرور دے گا کہ تم کو تاویل کا علم دے گا – سوال ہے کہ کیا تمام انبیاء   کو خواب کی تعبیر کا علم دیا گیا تھا ؟ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے – اللہ نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی ہے – اس میں جو معجزات ایک نبی کو ملے وہ دوسرے کو نہیں – مثلا عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مردہ زندہ نہ کیا- یعقوب علیہ السلام نے کوئی تعبیر نہ کی بلکہ تبصرہ فرمایا

یعقوب علیہ السلام کا یہ کہنا کہ تم کو تاویل کا علم دیا جائے گا یہ اسی خواب کے تناظر میں نبی کی  پیشنگوئی ہے کہ اس خواب کی حقیقت اللہ تم پر واضح کرے گا

یہاں پر تاویل الاحادیث سے مراد خواب کی تعبیر کا علم ہے  انسانوں کی باتوں کی تشریح نہیں ہے – انبیا کو انسانی باتوں کا شارح نہیں بلکہ شریعت کا شارح مقرر کیا گیا ہے  لیکن ایک مقام پر اس آیت میں   خواب  کی تعبیر کا ذکر کرنے کی بجائے ترجمہ میں کیا گیا ہے

یہ ترجمہ نذر احمد سے مستعار لیا گیا ہے لیکن خواب کی تعبیر  کا مفہوم اس سے نکال دیا گیا ہے

http://lib.bazmeurdu.net/ترجمہ-و-تفسیر-قرآن،حصہ۶-یوسف-تا-اسراء۔/

تاریخ مطول از مسعود بی ایس سی جماعت المسلمین میں  ترجمہ کیا  ہے

غیر اللہ کو سجدہ نہ کرو

ایک سوال کیا جاتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کرو یہ قرآن میں کہاں لکھا ہے ؟

الله تعالی نے فرمایا

ومِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، نہ سورج کو سجدہ کیا کرو اور نہ ہی چاند کو، اور سجدہ صرف اﷲ کے لئے کیا کرو جس نے اِن (سب) کوخلق کیا ہے اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو

اور الله تعالی نے سوره الحج میں فرمایا

الَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ

کیا تم دیکھتے نہیں الله کو سجدہ کر رہے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے ایسے جن پر عذاب ثبت ہو چکا …

قرآن میں اصول بیان ہوا ہے کہ غیر الله کو سجدہ حرام ہے اور یہ اس وقت بھی حرام تھا جب انسان نہ تھا

ضمیر  کیسے پتا کیا جائے کس کی طرف ہے ؟

ایک مضمون میں  ایک صاحب نے لکھا

راقم کہتا ہے یہ قاعدہ کہتا ہے کہ اسم بعد میں آئے گا ضمیر پہلے-  اس  کو عود الضمير على متأخر کہا جاتا ہے –   سورہ یوسف میں سجدے والی بات کے بعد باپ   کا اسم آیا ہے نہ کہ  اللہ تعالی کا ذکر  ہے

وَرَفَـعَ اَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَـآ اَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُؤْيَاىَ مِنْ قَبْلُ ؕ قَدْ جَعَلَـهَا رَبِّىْ حَقًّا

اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور اس کے آگے سب سجدہ میں جھک گئے، اور کہا اے باپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تاویل ہے، میرے رب نے اس خواب کو سچ کر دکھایا،

یہاں رویا کا لفظ ہے جو عربی میں مونث ہے اور لفظ تاویل مذکر ہے – اردو میں الٹا ہے خواب مذکر ہوتا ہے اور اس کی تاویل کو مونث بولا جاتا ہے – عربی میں ایسا نہیں ہے – یوسف نے خواب سچا ہونے کی بات کی ہے اور خواب میں سجدہ یوسف کو کیا جا رہا تھا اللہ تعالی کو نہیں – وَخَرُّوْا لَـهٝ  کے بعد اسم  کہاں ہے جس کی طرح یہ ضمیر جا رہی ہے ؟ بلکہ ایک اورمونث  ضمیر آ جاتی ہے جو  جَعَلَـهَا میں ہے اور اس کی نسبت ربی سے ہے کہ اللہ نے اس  رویا ( مونث) خواب  کو سچا کیا

عربی میں اس کا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ جب عود الضمير على متأخر والا جملہ ہو تو   ضمیر اور اسم کے درمیان ایک  دوسرا مکمل  جملہ وارد ہو جائے – جیسا یہاں ہے اور کہا اے باپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تاویل ہے…. کیونکہ یہ ایک مسلسل جملہ نہیں رہتا اگر ضمیر اور اسم میں دوری ہو

حدیث قرع النعال میں ہے کہ مردہ سنتا ہے ان کے جوتوں کی چاپ کہ دو فرشتے آتے ہیں

اس میں ابہام نہیں ہے کیونکہ یہاں نعالھما اور فرشتوں الملکین میں کوئی دوری نہیں ہے
اوپر آیات میں بھی ایسا ہی ہے فورا فورا اسم اور ضمیر ساتھ ہیں
لہذا سورہ یوسف کی اس آیت کی مثال عود الضمير على متأخر نہیں بنتی

مثأل دی جاتی ہے کہ عربی میں بعض اوقات ضمیر اور اسم میں فاصلہ ہوتا ہے مثلا
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا
پھر ہم نے کہا اس مردہ پر اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو

یہاں بحث ضمیر کے بعد اسم آنے پر ہو رہی ہے نہ کہ اسم کے بعد ضمیر پر لہذا یہ سورہ بقرہ کی آیت کی مثال نہیں لی جا سکتی – جب اسم پہلے آ چکا ہو تو ضمیر کس کی طرف ہے اس میں اشکال بالکل نہیں ہوتا – اشکال اس وقت ہوتا ہے جب ضمیر پہلے ہو اور اسم بعد میں آئے- سورہ بقرہ کی اس آیت سے پہلے تفصیل سے گائے پر بات ہو چکی ہے

ضمیر کے حوالے سے کہا گیا کہ قرآن میں بعض ضمیروں کو ان کی اصل سے ہٹا کر لینا ہو گا مثلا

راقم کہتا ہے یہ فیصلہ قرات سے ہو جاتا ہے – اس آیت کی قرات دو  طرح منقول ہے- كُذِبُوا کے لفظ سے اور كُذِّبُوا کے لفظ سے

حَتّــٰٓى اِذَا اسْتَيْاَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّـوٓا اَنَّـهُـمْ قَدْ كُذِبُـوْا جَآءَهُـمْ نَصْرُنَاۙ فَنُجِّىَ مَنْ نَّشَآءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ (110)

اور کذبوا تشدید کے ساتھ بھی ہے یعنی


یہاں تک کہ جب رسول نا امید ہونے لگے اورگمان کیا کہ (ماننے والوں کی جانب سے بھی ) ان کا انکار کر دیا جائے گا  تب انہیں ہماری مدد پہنچی، پھر جنہیں ہم نے چاہا بچا لیا، اور ہمارے عذاب کو نافرمانوں سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔

https://www.nquran.com/ar/ayacompare?sora=12&aya=110

اس طرح اپنی  طرف سے ضمیریں فٹ نہیں کی جاتیں بلکہ ان کو اختلاف قرات سے  احادیث سے سمجھا جاتا ہے

صحیح بخاری میں اس پر وضاحت موجود  ہے

حدیث نمبر: 3389 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 أَوْ كُذِبُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَعَاذَ اللَّهِ لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا وَأَمَّا هَذِهِ الْآيَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ وَطَالَ عَلَيْهِمُ الْبَلَاءُ وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ اسْتَيْأَسُوا سورة يوسف آية 80 افْتَعَلُوا مِنْ يَئِسْتُ مِنْهُ سورة يوسف آية 80مِنْ يُوسُفَ وَلا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ سورة يوسف آية 87 مَعْنَاهُ الرَّجَاءُ.

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت کے متعلق پوچھا « (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟» (تشدید کے ساتھ) ہے یا «كذبوا‏» (بغیر تشدید کے) یعنی یہاں تک کہ جب انبیاء ناامید ہو گئے اور انہیں خیال گزرنے لگا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا تو اللہ کی مدد پہنچی تو انہوں نے کہا کہ (یہ تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ) ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر معنی کیسے بنیں گے ‘ پیغمبروں کو یقین تھا ہی کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر قرآن میں لفظ «ظن‏.‏» گمان اور خیال کے معنی میں استعمال کیوں کیا گیا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے چھوٹے سے عروہ! بیشک ان کو تو یقین تھا میں نے کہا تو شاید اس آیت میں بغیر تشدید کے «كذبوا‏» ہو گا یعنی پیغمبر یہ سمجھے کہ اللہ نے جو ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: معاذاللہ! انبیاء اپنے رب کے ساتھ بھلا ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار لوگ جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی ان پر جب مدت تک اللہ کی آزمائش رہی اور مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر لوگ اپنی قوم کے جھٹلانے والوں سے ناامید ہو گئے (سمجھے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیں گے) اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان کے تابعدار بنے ہیں وہ بھی ان کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے ‘ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی

اس سے واضح ہوا کہ مضمون نگار کو نہ اختلاف قرات کا علم تھا نہ  اس حدیث کا علم   تھا ورنہ اس قسم کی غلطی نہیں کرتا

سورہ مریم  میں آیت ١٩ میں ہے کہ جبریل علیہ السلام ، محترمہ مریم  علیہ السلام کے سامنے ظاہر ہوئے ان کو کہا

قرات ابی عاصم  میں ہے

 لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا

کہ میں تم کو ایک پاک لڑکا دوں

قرات أبو عمرو بن العلاء میں ہے

ليهب لك غلاما زكيا وہ (الرحمان ) تم کو ایک پاک لڑکا دے 

اس طرح  اختلاف قرات سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ لڑکا  فرشتہ نے اپنی قوت سے نہیں دیا بلکہ اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ہوا

قرأ قالون بخلف عنه، وورش، وأبو عمرو، ويعقوب: (ليهب لك غلاما زكيّا) بالياء، وقرأ الباقون: لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا بالهمزة (1).
وقد أخبر الآلوسي أن الزهري، وابن مناذر، واليزيدي، والحسن، وشيبة قرءوها بالياء أيضا 

قالون ، ورش ، ابو عمرو ، یعقوب نے قرات کی (ليهب لك غلاما زكيّا)  … اور الوسی نے خبر دی کہ الزهري، وابن مناذر، واليزيدي، والحسن، وشيبة  نے بھی ياء سے قرات کی 

http://shamela.ws/browse.php/book-38020/page-143

تفسیری اقوال کی بحث

ایک مضمون نگار لکھتے ہیں

تفسیر رازی میں فخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ) قول ہے
وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي رِوَايَةِ عَطَاءٍ أَنَّ الْمُرَادَ بِهَذِهِ الْآيَةِ أَنَّهُمْ خَرُّوا لَهُ أَيْ لِأَجْلِ وِجْدَانِهِ سَجَدَا للَّه تَعَالَى
عَطَاءٍ کی روایت ہے ابن عباس سے کہ مراد ہے سجدہ اللہ تعالی کو کیا گیا یوسف مل جانے کی وجہ سے 

راقم کہتا ہے  ابن عبّاس سے منسوب اس قول  کی سند نہیں ہے- نہ قدیم  تفسیروں میں اس  قول کی کوئی سند دی گئی ہے – یوسف علیہ السلام مل گئے یہ خبر کنعان میں ہی مل گئی تھی جب یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی اور انبیاء کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سجدہ شکر فورا ہی بجا لاتے ہیں ان کو مصر جا کر سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا مُحَمَّدٌ سَعِيدٌ الْعَطَّارُ، ثنا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرْفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا قَالَ: كَانَتْ تَحِيَّةُ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَأَعْطَاكُمُ اللَّهُ السَّلامَ مَكَانَهَا.
عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ نے وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا پر کہا یہ سلام تھا اس سے قبل پس اللہ نے سلام اس مکان پر عطا کیا

اس کی سند ضعیف ہے – سند میں عبيدة بن حميد الكوفي الحذاء النحوي ہے – کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال
از الذھبی کے مطابق

وقال زكريا الساجي: ليس بالقوى في الحديث
الساجی نے کہا یہ حدیث میں قوی نہیں ہے

قال ابن المديني: أحاديثه صحاح، وما رويت عنه شيئا، وضعفه
امام علی المدینی نے کہا اس کی احادیث صحاح ہیں – اس سے روایت نہیں لیتا اور انہوں نے اس کی تضعیف کی

قتادہ بصری جو قلیب بدر کو معجزہ کہتے تھے ان کا قول ہے کہ سجدہ یوسف کو ہوا اس دور کا سلام تھا
تفسیر طبری میں ہے

حدثنا بشر، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا سعيد، عن قتادة: (وخروا له سجّدًا) وكانت تحية من قبلكم، كان بها يحيِّي بعضهم بعضًا، فأعطى الله هذه الأمة السلام، تحية أهل الجنة، كرامةً من الله تبارك وتعالى عجّلها لهم، ونعمة منه.

حدثنا محمد بن عبد الأعلى، قال: حدثنا محمد بن ثور، عن معمر، عن قتادة: (وخروا له سجدًا) ، قال: وكانت تحية الناس يومئذ أن يسجد بعضهم لبعض.

الضحاك نے کہا یہ اس دور کا سلام تھا

حدثنا ابن وكيع، قال: حدثنا المحاربي، عن جويبر، عن الضحاك: (وخروا له سجدًا) قال: تحيةٌ بينهم.

اسی قول کو ابن کثیر نے قبول کیا ہے البتہ راقم ان اقوال کو رد کرتا ہے کیونکہ الضحاك حدیث میں ضعیف ہے اور قتادہ مدلس ہے معلوم نہیں کس سے یہ اقوال لیے

لہذا مضمون نگار کا سند کی غیر موجودگی میں ضحاك  اور عطا سے منسوب  اقوال پر اعتماد کرنا عجیب بات ہے

ایک صاحب نے تحقیق عمیق کر کے بندر کی بلا طویلے کے سر اس طرح باندھی کہ قتادہ  پر جرح کرنے کی بجائے ابن کثیر پر بھڑاس نکالی اور شروع میں ابن عباس کا قول بھی بلا معرفت سند لکھ ڈالا

بھائی بھول گئے کہ ابن کثیر سے صدیوں پہلے طبری یہ اقوال تفسیر میں قتادہ کی سند سے اور الضحاک کی سندوں سے لکھ چکے ہیں لہذا یہ بات جہاں سے شروع ہوئی وہاں جانا چاہیے

فرشتوں کا سجدہ انسان جیسا نہیں ہو سکتا ؟ 

مقابلے پر کہا جاتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کیا تو وہ کیا تھا – راقم کہتا ہے وہ سجدہ اللہ کا حکم تھا اور اللہ کے حکم پر عمل عبادت الہی ہے – آدم کو سجدہ فرشتوں نے کیا ہے –  بعض نواقض العقول لوگوں کا کہنا ہے کہ آدم علیہ السلام کو بھی سجدہ نہیں ہوا – عجیب بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا سار زور اس پر ہے کہ سورہ یوسف والی آیت میں سجدے کو نماز جیسا ثابت کریں لیکن جب آدم علیہ السلام کو سجدے والی آیت کا ذکر آئے تو اس کو نماز جیسا سجدہ قرار دینے سے احتراز کیا جائے – راقم کہتا ہے یہ کام الٹا ہے کیونکہ سجدہ آدم براہ راست اللہ کا حکم ہے – سورہ یوسف میں جس سجدے کا ذکر ہے ان لوگوں کو چاہیے کہ اس کو اصطلاحی سجدے سے الگ کر کے سمجھیں

جب لوگوں نے یہ مان لیا کہ یوسف علیہ السلام کو نماز جیسا سجدہ ہوا تو مزید اشکال پیدا ہوئے – ایک یہ کہ  قرآن میں آ گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں سے سجدہ کروایا گیا – اس سجدے کو بدلنا ضروری سمجھا گیا کیونکہ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ نے ہی مخلوق کو سجدہ کا حکم دیا – اس پر دو  تحریفات کی گئیں

اول اس وقت شریعت نہیں تھی

دوم فرشتوں کے سجدے کا ہم کو علم نہیں ہے 

اس کا جواب یہ دیا گیا کہ  توحید تو ہر وقت تھی کہ نہیں ؟ اللہ تعالی نے ہی مخلوق  آدم کو سجدہ کا حکم کیا تو اللہ کچھ بھی حکم کر سکتا ہے – شریعت تو منہج کا نام ہے جو کیا عالم بالا میں الگ ہے اور زمین پر الگ ؟

بعض لوگوں  کا کہنا ہے کہ فرشتوں کے سجدے کا ہم کو علم نہیں وہ انسان کی طرح نہیں ہیں- ان کی جانب سے ایک صاحب کا کہنا ہے

یہ لکھتے ہوئے مضمون نگار نے یہ نہیں سوچا کہ اس کی ضرب کہاں تک جائے گی

ڈاکٹر عثمانی اس کے قائل تھے کہ  فرشتے لباس پہنتے ہیں، جوتیاں پہنتے ہیں، برزخ میں چل کر اتے ہیں  – عثمانی صاحب نے فرشتوں کو ایک مرد کی صورت دی ہے – لیکن آج ان کی اس رائے کو بدلا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ فرشتوں کے سجدے کا ہم کو علم ہی نہیں ہے جبکہ اس پر احادیث موجود ہیں

یعنی فرشتوں کے رکوع و سجود کا انکار کر کے کہ وہ انسانوں سے الگ ہیں یہ جان چھڑانا ہے جبکہ خود  ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ وہ الگ شکل و نوعیت کے ہیں

برزخ میں سوال و جواب کے وقت فرشتے  انسان کی طرف چلنے لگیں لیکن سجدہ کے وقت انسان سے الگ کریں اس کی کیا دلیل ہے ؟

صحیح بخاری میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز جبریل نے سیکھائی

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی – باب : فرشتوں کا بیان۔

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے   عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن عصر کی نماز کچھ دیر کر کے پڑھائی ۔ اس پر عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کہا ۔ لیکن جبرئیل علیہ السلام ( نماز کا طریقہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کے لیے ) نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہو کر آپ کو نماز پڑھائی ۔ حضرت عمرو بن عبدالعزیز نے کہا ، عروہ ! آپ کو معلوم بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ عروہ نے کہا کہ ( اور سن لو ) میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا اور انہوں نے ابومسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے کہ   جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے مجھے نماز پڑھائی ۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر ( دوسرے وقت کی ) ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، اپنی انگلیوں پرآپ نے پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا ۔

صحیح مسلم  میں ہے

عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ امنی جبریل علیہ السلام عند البیت مرتین

ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بیت اللہ کے پاس جبریل نے میری دو دفعہ امامت کی

ظاہر  ہے جیسا سجدہ جبریل علیہ السلام نے کیا ویسا ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور امت کو  سکھایا

ان لوگوں نے اپنے موقف کو اب بدل دیا ہے اور کہنا شروع کر دیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی کو سجدہ کیا – قرآن میں باطل داخل نہیں ہو سکتا – قرآن میں سورہ ص میں موجود ہے کہ اللہ تعالی نے ابلیس سے پوچھا

قال يا إبليس ما منعك أن تسجد لما خلقت بيدي أستكبرت أم كنت من العالين قال أنا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين
کہا : اے ابلیس تجھ کو کس نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا- کیا تو متکبر ہے کوئی بلند بالا ہے ؟ ابلیس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں اگ سے بنایا گیا ہوں اور یہ تو مٹی سے بنا ہے

کیا عربی میں رکوع کو بھی سجدہ کہا جا سکتا ہے ؟

سورہ یوسف میں بیان ہوا کہ یوسف نے  دیکھا ان کو سجدہ ہو رہا ہے پھر آیت ١٠٠ میں بتایا گیا کہ گھر والوں نے  سجدہ کیا – راقم نے کہا یہ صرف انحناء تھا یعنی رکوع جیسی کوئی رسم تھی  -سوال اتا ہے کہ کیا عربی میں رکوع کو بھی سجدہ کہا جا سکتا ہے ؟

ایک مضمون نگار کا دعوی کہ حدیث میں جب بھی سجدہ کا لفظ آیا ہےوہ نماز والا ہی سجدہ ہے لکھتے ہیں

اس کا جواب حدیث سے مل جاتا ہے

عربی میں رکوع کی حالت کو بھی سجدہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمین کی طرف جھکنا  ہے اور پیشانی زمین پر لگانا اس کی انتہی ہے – سنن ابن ماجہ میں ہے
حدیث نمبر: 1258 ح
بَابُ: مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الْخَوْفِ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ يُصَلِّي بِطَائِفَةٍ مَعَهُ، فَيَسْجُدُونَ سَجْدَةً وَاحِدَةً، وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ الَّذِينَ سَجَدُوا السَّجْدَةَ مَعَ أَمِيرِهِمْ، ثُمَّ يَكُونُونَ مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا، وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّوا مَعَ أَمِيرِهِمْ سَجْدَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ يَنْصَرِفُ أَمِيرُهُمْ وَقَدْ صَلَّى صَلَاتَهُ، وَيُصَلِّي كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ بِصَلَاتِهِ سَجْدَةً لِنَفْسِهِ، فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ، فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا» قَالَ: يَعْنِي بِالسَّجْدَةِ الرَّكْعَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف کی (کیفیت) کے بارے میں فرمایا:  امام اپنے ساتھ مجاہدین کی ایک جماعت کو نماز پڑھائے، وہ ایک سجدہ کریں اور ایک گروہ ان کے اور دشمن کے درمیان حائل رہے- پھر یہ صف لوٹ جائے جس نے امیر کے ساتھ سجدہ کیا اور وہاں ان کے پاس (دشمن سے لڑنے ) جائیں جنہوں نے نماز ابھی نہیں  پڑھی – اب وہ لوگ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی وہ آگے آئیں وہ امیر کے ساتھ ایک  سجدہ کریں اور لوٹ جائیں –  اب امام تو اپنی نماز سے فارغ ہو جائے گا، اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک (اپنے مقام پر)  ایک سجدہ  اور  کر لیں –  اگر خوف و دہشت اس سے بھی زیادہ ہو، (صف بندی نہ کر سکتے ہوں) تو ہر شخص پیدل یا سواری پر نماز پڑھ لےابن عمر نے کہا سجدہ یہ رکوع ہے

یہ حالت جنگ میں نماز خوف کا ذکر ہے اور یہاں سجدے نہیں صرف رکوع کرنا ہے

کتاب الاقتضاب في شرح أدب از أبو محمد عبد الله بن محمد بن السِّيد البَطَلْيَوسي (المتوفى: 521 هـ) ، الناشر: مطبعة دار الكتب المصرية بالقاهرة میں ہے

(قال المفسر): قد قيل سجد بمعنى انحنى، ويدل على ذلك قوله تعالى (وادخلوا الباب سجداً). ولم يؤمروا بالدخول على جباههم، وإنما أمروا بالانحناء. وقد يمكن من قال القول الذي حكاه ابن قتيبة،
أن يجعل سجداً حالاً مقدرة، كما حكى سيبويه من قولهم: مررت برجل معه صقر صائداً به غداً، أي مقدراً للصيد عازماً عليه، ومثله قوله تعالى: (قل هي للذين آمنوا في الحياة الدنيا خالصة يوم القيامة)، ولكن قد جاء في غير القرآن مايدل على صحة ما ذكرناه. قال أبو عمرو الشيباني الساجد في لغة طيء: المنتصب، وفي لغة سائر العرب: المنحنى، وأنشد:
لولا الزمام اقتحم الأجاردا … بالغرب أو دق النعام الساجدا
ويدل على ذلك أيضاً قول ميد بن ثور الهلالي:
فلما لوين على معصم … وكف خضيب وأسوارها
فضول أزمتها أسجدت … سجود النصارى لأحبارها

مفسر نے کہا کہا جاتا ہے کہ سجدہ انحنا ہے اور اس پر دلیل اللہ کا قول ہے (وادخلوا الباب سجداً). دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو اور یہ حکم نہیں ہے کہ داخل ہوتے وقت اپنی پیشانی زمین پر رکھو بلکہ یہ انحناء کا حکم ہے

پھر اس بات کو عربی اشعار سے بھی ثابت کیا گیا

كنز الكتاب ومنتخب الآداب (السفر الأول من النسخة الكبرى) از مؤلف: أبو إسحاق إبراهيم بن أبي الحسن الفهري المعروف بالبونسي (651هـ) الناشر: المجمع الثقافي، أبو ظبي میں ہے

ومِمَّا جاء من السجود كناية عن الرُّكوع حديث عبد الله بن عمر فيما روى عن عبد الرحمان بن أبي
الزناد عن موسى بن عقبة عن نافع عن ابن عمر انه كان يقول في صلاةِ الخوفِ: “يَقُومُ الإمام وتقوم
معه طائفةٌ، وتكون طائفةٌ بينهم وبين العدو، فيسجد سجدةً واحدةً بمن معه، ثم ينصرف الذين سجدوا
سجدة، فيكونون مكان أصحابهم الذين كانوا بينهم وبين العدو، وتقوم الطائفة الأخرى الذين لم يصلوا،
فيصلون مع الإمام سجدة ثم ينصرف الإمام، وتُصلي كلُّ واحدة من الطائفتين لأنفسهم سجدة سجدة،
فإن كان الخوف أكثر من ذلك فليصلوا قياما على أقدامهم، أو ركباناً علي ظهور الدوائب”.
قال موسى بن هارون الطُّوسي: كُلُّ سَجْدَةِ في هذا الحديث فمعناها ركعة. سمعت أبا خيثمة يقول:أهلُ الحجاز يسمون الركعة سَجْدة.

اور سجدہ کو رکوع پر کنایہ کے طور پر لیا جائے یہ حدیث ابن عمر میں آیا ہے …. موسی بن ھارون طوسی نے کہا اس حدیث میں سارے سجدے اصل میں رکوع  کے معنی پر ہیں -أبا خيثمة کو کہتے سنا کہ اہل حجاز رکوع کو سجدہ بھی کہہ دیتے ہیں 

صحیح مسلم میں ہے

وَحَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح قَالَ: وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ، كِلَاهُمَا عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، وَالسِّيَاقُ لِحَرْمَلَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَهُ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ سَجْدَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، أَوْ مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ، فَقَدْ أَدْرَكَهَا»، وَالسَّجْدَةُ إِنَّمَا هِيَ الرَّكْعَةُ

عَائِشَةَ، رضی اللہ عنہا نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو عصر میں ایک سجدہ ملا قبل اس کے کہ سورج غروب ہو یا صبح کی نماز میں قبل اس کے کہ سورج طلوع ہو اس نے نماز پا لی  عائشہ رضی اللہ عنہا  نے کہا یہ سجدہ بے شک رکوع ہے 

معلوم ہوا کہ فقہ صحابہ کے تحت سجدہ کا لفظ حدیث میں بعض اوقات رکوع پر کنایہ کے طور بولا گیا  ہے اور محققین کہتے کہ یہ اہل حجاز کا طریقہ ہے جن کی زبان میں سورہ یوسف نازل ہوئی ہے – اس علم کے بعد اس پر  اصرار کرنا کہ سجدہ کا لفظ ہمیشہ پیشانی زمین پر لگانا ہے بے جا ہے

تفسیر ابن عطیہ از أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطية الأندلسي المحاربي (المتوفى: 542هـ) میں ہے

واختلف في هذا السجود، فقيل: كان كالمعهود عندنا من وضع الوجه بالأرض، وقيل: بل دون ذلك كالركوع البالغ ونحوه مما كان سيرة تحياتهم للملوك في ذلك الزمان

اس سجدے پر اختلاف ہے کہا جاتا ہے کہ یہ سجدہ زمین پر چہرہ رکھنے کا تھا اور کہا جاتا ہے بلکہ یہ رکوع یا اسی جیسا تھا 

ابن حجر نے فتح الباری ج ١٢ ص ٣٧٦ میں ایک قول لکھا ہے

وَلَمْ يَقَعْ مِنْهُمُ السُّجُودُ حَقِيقَةً وَإِنَّمَا هُوَ كِنَايَةٌ عَنِ الْخُضُوعِ
اور یہ سجدے میں حقیقی نہیں گئے اور بے شک یہ کنایہ ہے الْخُضُوعِ پر

کتاب  حاشيتا قليوبي وعميرة میں ج١ ص ١٨٠     از أحمد سلامة القليوبي وأحمد البرلسي عميرة ، دار الفكر – بيروت الطبعة: بدون طبعة، 1415هـ-1995م کے مطابق

قَوْلُهُ: (السُّجُودُ) وَهُوَ لُغَةً التَّطَامُنُ وَالذِّلَّةُ وَالْخُضُوعُ وَشَرْعًا مَا سَيَأْتِي، وَقَدْ يُطْلَقُ عَلَى الرُّكُوعِ، وَمِنْهُ {وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا} [يوسف: 100] كَمَا مَرَّ

اور الله کا قول السُّجُودُ تو یہ لغت میں کم ہونا یہ ذلت ہے اور ْخُضُوعُ ہے … اور اس کا اطلاق رکوع پر بھی ہے اور الله تعالی کا قول  {وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا} [يوسف: 100]  میں 

اب جب ہم اس کو تسلیم کریں کہ سجدہ کو رکوع یا انحنا لیا جا سکتا ہے تو پھر   سورہ یوسف میں ذکر کردہ  سجدے پر کوئی اشکال نہیں رہتا  کیونکہ  اس کا تعلق عبادت سے سرے سے ہی نہیں ہے

ایک مضمون نگار لکھتے ہیں کہ سورہ یوسف میں  خر کا لفظ ظاہر کرتا  ہے کہ سب سجدے میں گرے نہ کہ جھکے  لہذا انہوں نے  چند  حوالے دیے   یعنی تفسیر شیرازی ، تفسیر روح المعانی اور تفسیر ابی السعود وغیرہ

واضح رہے کہ خر کا مطلب مطلق گرنا نہیں ہے جیسا کہ ان مفسرین نے لکھا ہے بلکہ  نیچے جھکنا  یا  آنا  ہے  جیسا قرآن سورہ ص میں ہے

وخر راكعاً وأناب

داود رکوع میں جھکا اور توبہ کی 

رکوع میں کوئی زمین پر  گرتا نہیں ہے – سورہ یوسف میں ہے  کہ

وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ  اس کے لئے زمین کی طرف جھک گئے

یہاں سجدا کو اس کے اصل مطلب پر لیا گیا ہے جو زمین کی طرف جھکنا ہے نہ کہ نماز والا اصطلاحی سجدہ

سورہ حج میں ہے

وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْـرُ اَوْ تَهْوِىْ بِهِ الرِّيْحُ فِىْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ (31)
اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے نیچے آئے تو اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دیتی ہے۔

جو آسمان سے نیچے آیا ابھی زمیں تک بھی نہیں پہنچا کہ پرندے اس کو اچک لیتے ہیں

معصوم عن الخطا کا عقیدہ

کیا کوئی بشر معصوم عن الخطآ ہے ؟ اصلا یہ بحث ایک سیاسی جھگڑے میں شروع ہوئی اور وہ تھی عثمان رضی الله عنہ کا قتل – مخالفین عثمان  نے خلیفہ وقت کو خآطی کہا اور ان کے مقابلے پر علی رضی الله عنہ  کی فضیلت کی احادیث گھڑی گئیں – اس طرح علی رضی الله عنہ اور ائمہ  کے لئے معصوم ہونے کا  عقیدہ شیعان علی میں آیا- دوسرے طرف اہل سنت جو علی کی امامت کے انکاری تھے انہوں نے مقابلتا  انبیاء کی معصومیت کا عقیدہ اختیار کیا اور اس کے لئے دلائل ڈھونڈے

قرآن میں فرشتوں کی ایک صفت آئی ہے کہ

لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ

یہ انکار نہیں کرتے اس امر پر جو الله نے دیا ہو اور وہی کرتے ہیں جس کا امر ہوتا ہے

چونکہ فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا تو نا ممکن سمجھا جانے لگا کہ انبیاء سے کسی غلطی کا صدور ممکن ہے- اس عقیدے کا تقابل جب قرآن سے کیا جاتا ہے تو جواب نفی میں ملتا ہے- قرآن میں انبیاء کا غلطی سے معصوم ہونے کا رد کیا گیا ہے – سوره الانفعآل میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں غلطی کی نشان دہی کی گئی ہے- قرآن میں کئی مقام پر اگلے پچھلے گناہ معاف کرنے کا ذکر ہے (جس میں ذنب گناہ کا لفظ ہے) – آدم علیہ السلام کا شجر ممنوعہ سے کھانے کا ذکر ہے – نوح علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے لئے دعآ کا ذکر ہے اور اس پر الله تعالی کی ناراضگی کا بھی ذکر ہے – اس طرح  واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی غلطی سے پاک ذات ہے تو وہ صرف الله تعالی ہے- اسی لئے سبحان الله بولا جاتا ہے کہ الله (غلطی و عیب سے) پاک ہے

عصمت انبیاء کے عقیدے کو وحی  سے جوڑا جاتا ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ انبیاء سے غلطی ممکن ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ وحی الہی میں غلطی بھی ہو سکتی ہے – لیکن یہ اعتراض  سطحی ہے قرآن میں واضح ہے کہ وحی  کی حفاظت الله نے خود کی ہے اور اس میں کسی بھی قسم  کے کسی شیطانی القا  کا دخل نہیں ہوا  لہذا قرآن جو کلام الله ہے وہ پاک کلام ہے

عبيد الله  السجزيّ   أبو نصر (المتوفى: 444هـ) کتاب رسالة السجزي إلى أهل زبيد في الرد على من أنكر الحرف والصوت   میں الباقلاني المتوفی ٤٠٢ ھ  اور ان کی اتباع کرنے والے الأشعرية  کے لئے لکھتے ہیں وہ کہتے ہیں

أن وقوع الكبائر من الأنبياء عليهم السلام في حال النبوة جائز إلا فيما يختص بالرسالة  لا يجوز عليهم الكذب فيها ولا التغيير، ولا الكتمان

کہ انبیاء سے کبائر کا وقوع جائز ہے سوائے اس کے جو رسالت کے لئے خاص ہو کہ اس میں جھوٹ اور تغیر اور کتمان ان کے لئے جائز نہیں ہے

یعنی سن ٤٤٤ ہجری تک عصمت انبیاء کا عقیدہ وہ نہیں تھا جس  شکل میں آج یہ عقیدہ  ہے

اگلی چند صدیوں میں اس قول میں مزید تشریحات و آراء شامل ہوتی رہیں اور عصمت انبیاء کو عمومی  طور پر تسلیم کر لیا گیا- لیکن اب اس میں کبائر و صغائر کی تقسیم سرے سے ہی نکال دی گئی – ظاہر ہے انبیاء میں سے کوئی بھی نہیں جو گناہ کبیره کا مرتکب ہو اور جن کو ہم صغائر کہہ رہے ہیں کیا وہ انبیاء کے لئے واقعی صغائر تھے اس کی کیا دلیل  ہے ؟ کہنے کا مقصد ہے کہ گناہ کبیرہ انبیاء میں سے کسی نے نہیں کیے لیکن جن کو ہم صغائر کہہ رہے ہیں کیا وہ انبیاء کے مقام و مرتبہ کے مطابق صغائر میں اتے ہیں ؟  اس کو ایک مثال سے سمجھیں انبیاء میں یونس علیہ السلام ایک فیصلہ کرتے ہیں کہ عذاب الہی  کا سنتے ہی اپنا علاقہ چھوڑ دیتے ہیں دوسری طرف ان کی قوم توبہ میں مشغول ہوتی ہے اور الله ان کو ہدایت دے دیتا ہے لیکن الله تعالی کو یونس علیہ السلام کا عمل پسند نہیں اتا اور ان کو مچھلی میں قید کر دیتا ہے –  اسی طرح آدم علیہ السلام بھی ابدی زندگی کی خواہش میں ابلیس کی باتوں میں ا کر شجر ممنوعہ میں سے کھا لیتے ہیں اس کو قرآن میں  عھد بھولنا کہا گیا ہے – یعنی انبیاء کی معمولی غلطیاں بھی اتنی بڑی سمجھی جاتی ہیں ان کو اس کی سزا بھی دی جاتی ہے  لہذا عام لوگوں میں اور انبیاء میں فرق رکھا گیا ہے

عصمت انبیاء کا عقیدہ اماموں سے منسوب کرنے کے لئے ٢٥٠ سے ٣٥٠ ہجری کے درمیان اہل تشیع نے روایات بیان کین اس وقت تک ائمہ فوت ہو چکے تھے اور راویوں نے متضاد اقوال اماموں سے منسوب کر دیے- شیعوں کی دیکھا دیکھی اہل سنت کے متکلمین نے انبیاء کی معصومیت کا عقیدہ اختیار کر لیا

غلو کے اس سفر نے سن ٨٠ کی دہائی میں ایک نیا موڑ لیا جب نام نہاد امیر جماعت المسلمین مسعود احمد بی ایس سی نے یہ موقف  بنایا کہ قرآن کے تراجم میں غلطیاں ہیں اور اس کا پرچار شروع کیا – مسعود احمد نے اس پر عصمت رسول کے نام سے کتابچہ لکھا جس میں تقریری انداز میں معصوم عن الخطا کے عقیدے کے تحت قرآن میں تحریف کی لہذا اس سلسلے میں انہوں نے کچھ آیات پر بحث کی

اب ہم ان مخصوص آیات کو دیکھتے ہیں ان میں اہل تشیع اور اہل سنت کے تفسیری اقوال میں تضاد  پر غور کرتے ہیں اور پھر امیر المسلمین مسعود بی ایس سی کی آراء کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں

عبس و تولی کی شرح شیعوں میں

ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ یہ آیت عثكن  کے لئے ہے

سورة عبس مكية (بسم الله الرحمن الرحيم عبس وتولى أن جاء ه الاعمى) قال: نزلت في عثكن وابن أم مكتوم وكان ابن أم مكتوم مؤذنا لرسول الله صلى الله عليه وآله وكان اعمى، وجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وعنده اصحابه وعثكن عنده، فقدمه رسول الله صلى الله عليه وآله عليه فعبس وجهه وتولى عنه فانزل الله عبس وتولى يعني عثكن ان جاء ه الاعمى (وما يدريك لعله يزكى) أي يكون طاهرا ازكى (او يذكر) قال يذكره رسول الله صلى الله عليه وآله ثم خاطب عثكن فقال: (أما

سوره عبس مکی ہے … یہ عثكن اور ابن أم مكتوم کے لئے نازل ہوئی ہے – اور ابن ام مکتوم، رسول الله صلى الله عليه وآله کے ایک موذن تھے اور یہ نابینا تھے اور یہ رسول الله صلى الله عليه وآله کے پاس آئے اور ان کے اصحاب کے پاس اور عثكن وہاں تھا پس رسول الله صلى الله عليه وآله  نے اس کو آگے کیا تو اس نے منہ موڑا اور پلٹا پس الله تعالی نے آیات نازل کیں … یعنی عثكن نے کیا جب اس کے پاس نابینا آیا

کتاب مستدرك سفينة البحار از الشيخ علي   کے مطابق  عثكن: المراد بعثكن عثمان، كما قاله العلامة المجلسي – عثكن سے مراد عثمان ہے جیسا کہ علامہ مجلسی نے کہا ہے

عبس و تولی کی شرح اہل سنت میں

  فخر الدين الرازي اپنی تفسیر مفاتيح الغيب میں لکھتے ہیں

 اجمع المفسرون على ان الذي عبس وتولى هو الرسول صلى الله عليه وآله

فخر الدين الرازي نے کہا مفسرین کا اجماع ہے کہ عبس وتولى سے مراد رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں

یہی تفسیر الواحدي المتوفی ٤٦٨ ھ  نے تفسیر التَّفْسِيرُ البَسِيْط  میں کی ہے

عَبَسَ  يعني النبي -صلى الله عليه وسلم

صحیح ابن حبان میں ہے

 الْجُعْفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قالت أنزلت: {عَبَسَ وَتَوَلَّى} في بن أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى قَالَتْ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَقُولُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَرْشِدْنِي قَالَتْ وَعِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ عُظَمَاءِ الْمُشْرِكِينَ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرِضُ عَنْهُ وَيُقْبِلُ عَلَى الْآخَرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “يَا فُلَانُ أَتَرَى بِمَا أَقُولُ بأسا فيقول لا فنزلت: {عَبَسَ وَتَوَلَّى} أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ

 عَائِشَةَ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ عَبَسَ وَتَوَلَّى ، ابن ام مکتوم نابینا کے حوالے سے نازل ہوئی انہوں نے کہا کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا نبی الله مجھ کو ہدایت دیں اور رسول الله کے پاس اس وقت قریش کے سردار تھے پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے منہ موڑا اور دوسرے کو دیکھا اور کہا اے فلاں جو میں کہتا ہوں اس میں تم کوئی برائی پاتے ہو ؟ تو انہوں نے کہا نہیں – پس آیت نازل ہوئی

شعيب الأرنؤوط صحیح ابن حبان کی تعلیق میں کہتے ہیں

إسناده صحيح على شرط مسلم، رجاله ثقات رجال الشيخين غير عبد الله بن عمر الجعفي فهو من رجال مسلم.

اسکی اسناد صحیح ہیں امام مسلم کی شرط پر ہیں اور اس کے رجال ثقات ہیں بخاری و مسلم کے ہیں سوائے عبد الله بن عمر الجعفي  کے کہ وہ رجال صحیح مسلم میں سے ہیں

البانی نے بھی اس طرق کو صحیح قرار دیا ہے

البتہ امام حاکم نے مستدرک میں اس روایت کو کی سند سے بیان کر کے کہا ہے

فَقَدْ أَرْسَلَهُ جَمَاعَةٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ

اس کو ایک جماعت نے ہشام بن عروہ سے مرسل روایت کیا ہے

الذھبی نے اس پر کہا ہے على شرط البخاري ومسلم کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے

عبس و تولی کی شرح مسعود احمد کی نظر میں

لیکن مسعود احمد کہتے ہیں

اور  حدیث پر کہتے ہیں

 جبکہ یہ الفاظ ھو الصواب تلخیص مستدرک میں سرے سے اس روایت پر ہیں ہی نہیں

من ذنبك وما تأخر کی شرح شیعوں میں

سوره فتح کی آیت

إنا فتحنا لك فتحا مبينا ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر

هم نے تم کو واضح فتح دی تاکہ الله تمہارے اگلے و پچھلے گناہ معاف کرے

ابوجعفر محمّد بن یعقوب بن اسحاق رازی معروف به کُلِـینی (پیدائش ٢٤٩ ھ   – وفات ٣٢٩ ھ) کی کتاب الکافی کی روایات صریحا عصمت انبیاء کے عقیدے کا رد کرتی ہیں

الکافی باب الشکر ج ٢ ص ١٤٢ کی روایت ہے

حميد بن زياد، عن الحسن بن محمد بن سماعة، عن وهيب بن حفص، عن أبي بصير، عن أبي جعفر عليه السلام قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله عند عائشة ليلتها، فقالت: يا رسول الله لم تتعب نفسك وقد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وماتأخر؟ فقال: يا عائشة ألا أكون عبدا شكورا.

امام أبي جعفر عليه السلام کہتے ہیں کہ ایک رات رسول الله صلی الله علیہ و الہ عائشہ کے ساتھ تھے – انہوں نے کہا اے رسول الله اپ اتنی مشکل کیوں اٹھاتے ہیں اور الله نے اپ نے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں پس اپ صلی الله علیہ و الہ نے فرمآیا اے عائشہ کیا میں شکر گزار نہ بنوں

الکافی ج ٥ ص ٨٧ ح 8345 کی روایت ہے

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن علي بن أسباط، عن أبي إسحاق الخراساني، عن بعض رجاله قال: إن الله عزوجل أوحى إلى داود عليه السلام أني قد غفرت ذنبك وجعلت عار ذنبك على بنى أسرائيل فقال: كيف يا رب وأنت لا تظلم؟ قال: إنهم لم يعاجلوك بالنكرة

أبي إسحاق الخراساني نے بعض اصحاب سے روایت کیا کہ الله تعالی نے داود علیہ السلام پر الوحی کی کہ میں نے تمھارے گناہ بخش دیے

الکافی ج ٤ ص ٢٧٠  کی آدم علیہ السلام سے متعلق روایت میں  ہے

فقال له جبرئيل: إن الله عزوجل قد غفر ذنبك وقبل توبتك وأحل لك زوجتك

پس جبریل نے آدم علیہ السلام سے کہا الله نے اپ کے گناہ بخش دیے

معلوم ہوا کہ ٣٠٠ ہجری تک اہل تشیع میں  عصمت انبیاء کا عقیدہ متفقہ نہ تھا کلینی اور قمی کا اس پر اختلاف تھا –  تفسیر القمی المتوفی ٣٢٩ ھ میں  لکھا گیا

حدثنا محمد بن جعفر قال حدثنا محمد بن احمد عن محمد بن الحسين عن علي ابن النعمان عن علي بن أيوب عن عمر بن يزيد بياع السابري، قال: قلت لابي عبدالله عليه السلام قول الله في كتابه ” ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر ” قال: ما كان له من ذنب ولا هم بذنب ولكن الله حمله ذنوب شيعته ثم غفرها له

عمر بن يزيد بياع السابري نے امام ابو عبد الله سے کہا الله تعالی کا قول ہے  تو انہوں نے فرمایا ان سے  گناہ نہیں ہوتا نہ وہ گناہ گار ہوتے ہیں لیکن الله نے ان کے شیعوں کے گناہ لئے ہیں اور ان کو بخشا ہے

یہ قول امام جعفر سے منسوب ہے  جبکہ الکافی میں ان کے بیٹے  انبیاء کے گناہ کا ذکر کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے گناہ بخشے گئے

من ذنبك وما تأخر کی شرح اہل سنت  میں

اس آیت میں اہل لغت کا مفسرین کا کوئی اختلاف نہیں کہ یہاں ذنب کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے یعنی گناہ

صحیح ابن حبان کے مطابق

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي قَوْلِهِ: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ} [الفتح: 2]، قَالَ: [ص:93] نَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْجِعَهُ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَإِنَّ أَصْحَابَهُ قَدْ أَصَابَتْهُمُ الْكَآبَةُ وَالْحُزْنُ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  «أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آيَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» فَتَلَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَيَّنَ اللَّهُ لَكَ مَا يَفْعَلُ بِكَ فَمَاذَا يَفْعَلُ بِنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ بَعْدَهَا: {لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ} الآية [الفتح: 5].

انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر حدیبیہ سے واپس پر نازل ہوئی اور ان کے اصحاب حزن و تکلیف میں تھے پس رسول الله نے فرمایا کہ مجھ پر آیت نازل ہوئی جو دنیا اور اس میں جو کچھ سے اس سب سے بڑھ کر مجھ کو پسند ہے

کتاب کشف الباری اردو شرح صحیح البخاری ج ٢ از سلیم الله خان میں ہے

من ذنبك وما تأخر کی شرح احمد رضا خان بریلوی کی نظر میں

کنز الایمان از احمد رضا خان بریلوی میں سورہ فتح کی آیت کا ترجمہ تحریف ہے

http://lib.bazmeurdu.net/کنز-الایمان،-حصہ-دوم-۔۔۔-احمد-رضا-خان-بر/#48

عصمت انبیاء کے پردے میں  آیات میں تحریف کرنا بر صغیر میں  احمد رضا خان کے سر ہے

من ذنبك وما تأخر کی شرح مسعود احمد کی نظر میں

اپنی اس تحقیق میں مسعود احمد نے اہل تشیع کو خوب داد دی اور اہل سنت کے علماء کو دوسروں کہہ کر لتاڑا

مزید لکھا

چنانچہ مسعود بی ایس سی ترجمہ کرتے ہیں

یعنی اپنے مخصوص جامد سوچ کے ساتھ موصوف یہاں تک گئے کہ قرآن میں تحریف معنوی تک کر گئے اور اس کو اپنی تحقیق کی اپج قرار دیا موصوف نے ذنب کا ترجمہ الزامات کر دیا ہے جو ١٤٠٠ سو سال میں عربی لغت کا ایک شاندار اضافہ ہے اور اس مفھوم کو صرف انبیاء تک مخصوص کیوں کیا جہاں جہاں قرآن میں ذنب آئے اس کو الزام سے بدل دیا جائے تو کیا خوب رہے  صوفیوں کا ایک گروہ ایسا بھی گزرا ہے جو کہتا تھا کہ قرآن میں جہاں کافر ہو اس کو مومن پڑھو اور جہاں مومن ہو اس کو کافر پڑھو کو مطلب اور سمجھ میں آئے گا – موصوف بھی اسی ڈگر پر چلے اورعجیب و غریب ترجمہ  کر گئے

عصمت انبیاء کا عقیدہ  قرن اول میں نہ دوم میں نہ سوم میں کہیں نہیں ملتا اس کو ائمہ کی وفات کے بعد اہل تشیع کے غالی لوگوں نے گھڑا اور ان سے بحث میں بعض متکلمین نے اس کو محدود انداز میں  لیا اور یہاں تک کہ سن ٤٠٠ ہجری کے بعد اس کو قبولیت عامہ مل گئی

قرآن میں ہے
واذ قال ابراهيم لابيه آزر أتتخذ اصناما آلهة انى اريك وقومك في ضلال مبين

اس پر تفسیر قمی میں ہے
حدثني ابى عن صفوان عن ابن مسكان قال قال ابوعبدالله عليه السلام ان آزر ابا ابراهيم كان منجما لنمرود بن كنعان فقال له انى ارى في حساب النجوم ان هذا الزمان يحدث رجلا فينسخ هذا الدين ويدعو إلى دين آخر، فقال نمرود في أي بلاد يكون؟ قال في هذه البلاد، وكان منزل نمرود بكونى ربا (كوثي ريا خ ل)

ابن مسکان نے کہا امام ابو عبد الله علیہ السلام نے فرمایا ازر ابراہیم کے والد، نمرود کے ایک منجم تھے

یعنی ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي کے دور تک اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ازر باپ نہیں تھا
اس کی وجہ اہل تشیع کے عقیدہ میں ارتقاء ہے جو معصوم عن الخطا کے حوالے سے ہے کہ جو معصوم ہے اس کی نسل بھی معصوم ہوتی ہے اور یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ سن ٣٢٩  ہجری تک اہل تشیع اس عقیدہ میں ہم خیال نہیں تھے

کتاب حقائق الإيمان (أو حقيقة الإيمان والكفر). از زين الدين   العاملي الشهير بالشهيد الثاني  کے مطابق

فهل يعتبر في تحقق الإيمان أم يكفي اعتقاد إمامتهم ووجوب طاعتهم في الجملة؟ فيه الوجهان السابقان في النبوة. ويمكن ترجيح الاول، بأن الذي دل على ثبوت إمامتهم دل على جميع ما ذكرناه خصوصا العصمة، لثبوتها بالعقل والنقل.
و ليس بعيدا الاكتفاء بالاخير، على ما يظهر من حال (2) رواتهم ومعاصريهم من شيعتهم في أحاديثهم عليهم السّلام، فان كثيرا منهم ما كانوا يعتقدون عصمتهم لخفائها عليهم، بل كانوا يعتقدون أنهم علماء أبرار، يعرف ذلك من تتبع سيرهم وأحاديثهم وفي كتاب أبي عمرو الكشي (1) رحمه اللّه جملة مطلعة على ذلك، مع أن المعلوم من سيرتهم عليهم السّلام مع هؤلاء أنهم كانوا حاكمين بايمانهم بل عدالتهم.

کیا امامت پر اعتقاد اور ان کی فی جملہ اطاعت کرنا ایمان کے لئے کافی ہے یا تحقیق ایمان میں معتبر ہے ؟ تو اس میں دو رخ ہیں جو نبوت میں گزرے ہیں اور اس میں پہلے کی ترجیح کا امکان ہے کہ ان ائمہ کی امامت کا ثبوت ہی دلالت کرتا ہے کہ جو ہم نے ذکر کیا اس پر خصوصا عصمت پر اس پر عقلی و نقلی ثبوت ہیں اور اس میں دوسرے پر بھی بھروسہ کیا جا سکتا ہی جو حال احوال سے ہم پر ظاہر ہوا کہ ان ائمہ سے روایت کرنے والے اور ان کے ہم عصر لوگ جو ان کے شیعوں میں سے ہیں احادیث کی روایت کرنے میں تو ان میں اکثریت ان کی ہے جو ان کی عصمت کا عقیدہ نہیں رکھتے کہ ان پر یہ چھپا رہا  بلکہ یہ ان ائمہ کو نیک جاننے کا عقیدہ رکھتے  تھے – اس کو وہ جانتا ہے جو ان کی احادیث پر سے گزرتا ہے جو کتاب ابو عمرو الکشی میں ہے  کہ ائمہ علیہم السلام کی سیرتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی عدالت کا حکم کرتے ہیں ان کے ایمان کا حکم نہیں

یہ شیعہ عالم شهيد الثاني  کی گواہی ہے کہ ائمہ سے روایت کرنے والے  اکثر وہ ہیں جو عصمت انبیاء کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے

تفسیر قمی میں سوره  المومن کی تفسیر میں ہے

قال: حدثني أبي عن الحسن بن محبوب عن علي بن رياب عن ضريس الكناني عن أبي جعفر عليه السلام قال قلت له جعلت فداك ما حال الموحدين المقرين بنبوة محمد صلى الله عليه وآله من المسلمين المذنبين الذين يموتون وليس لهم إمام ولا يعرفون ولايتكم؟ فقال: اما هؤلاء فانهم في حفرهم لا يخرجون منها فمن كان له عمل صالح ولم يظهر منه عداوة فانه يخد له خدا إلى الجنة التي خلقها الله بالمغرب فيدخل عليه الروح في حفرته إلى يوم القيامة حتى يلقى الله فيحاسبه بحسناته وسيئاته فاما إلى الجنة واما إلى النار فهؤلاء الموقوفون لامر الله قال: وكذلك نفعل بالمستضعفين والبله والاطفال وأولاد المسلمين الذين لم يبلغوا الحلم، واما النصاب من أهل القبلة فانهم يخد لهم خدا إلى النار التي خلقها الله في المشرق فيدخل عليهم اللهب والشرر والدخان وفورة الحميم إلى يوم القيامة ثم بعد ذلك مصيرهم إلى الجحيم

ضريس الكناني نے امام ابی جعفر سے روایت کیا کہ میں نے پوچھا .. ان موحدوں کا کیا حال ہو گا جو نبوت محمدی کا اقرار کرتے ہوں مسلمانوں میں سے جو گناہ گار ہوں جو مر جائیں اور ان کا کوئی امام نہ ہو  اور نہ وہ اس کو پہچانتے ہوں کہ اس کی ولایت ہے ؟ پس ابو جعفر نے کہا  یہ سب (برزخ) گڑھے میں ہوں گے اس میں سے نکل نہ سکیں گے تو ان میں سے جس کا عمل اچھا ہو گا اور عدوات اہل بیت نہ ظاہر ہوئی ہو گی تو ان کو  جنت کی طرف لے جایا جائے گا جو الله نے مغرب کی طرف بنائی ہے  اس میں گڑھے میں ان کی روح قیامت تک رہے گی یہاں تک کہ الله سے ملاقات ہو تو ان کی نیکیوں کا اور گناھوں کا  حساب لے گا پھر یا تو جنت ہے یا جہنم ہے اور اگر جہنم ہوئی تو ان کا امر الله پر موقف ہے اور کہا اور ایسا ہی کمزوروں کے ساتھ ہو گا اور مصیبت زدہ اور بچے اور اولاد مسلمین کے ساتھ جو جوانی کو نہ  پہنچے ہوں اور جہاں تک ناصبی اہل قبلہ ہیں تو ان کو اگ میں ڈالا جائے گا جو الله نے مشرق میں خلق کی ہے جس میں اگ اور انگارے اور دھواں ہے اور گرم پانی کا چشمہ قیامت تک کے لئے پھر ان کو جحیم کی طرف لے جایا جائے گا

یعنی اہل سنت کے نیک لوگ جو ائمہ کو نہیں پہچانتے ہوں گے وہ بھی جنت میں جائیں گے معلوم ہوا کہ قمی کے دور تک ایمانیات میں عصمت انبیاء  و معصومین کے عقیدہ کا تو ذکر ہی نہیں تھا

قرآن میں جو عقیدہ پیش کیا گیا ہے اس کو قبول کرنا ہی صحیح ہے نہ کہ عقائد میں اضافہ کرنا اور وہ آراء لینا جن کی جڑیں قرآن میں نہ ہوں – انبیاء سے بشر ہونے کی بنا پر اجتہاد میں چند مقام پر خطا ہوئی ، ان کے مقام و مرتبہ کی بنا پر رب العزت نے اس کی فورا پکڑ کی اور بعد میں ان کو بخش بھی دیا یھاں تک کہ انبیاء علیھم السلام تمام گناہوں سے پاک اس دنیا سے رخصت ہوئے

ایک فلسفی کے مغالطے

ایک فلسفی کے سوالات

قرآن  و حدیث میں انسان کی موت، اس کی روح، جنت و جہنم یا برزخ میں روح  کا جانا سب بیان ہوا ہے اور اس پر دال قرآن کی آیت اور متعدد احادیث  ہیں –  اس حوالہ سے  مختلف فرقوں کی جانب سے  ہر روز نئی تشریحات سامنے اتی رہتی ہیں  – اس سلسلے میں ایک فلسفی  نے  ایک مومن  سے  کچھ  سوالات کیے  جن کے جواب راقم نے  بھیجے اور اب ان کو یہاں آپ سب  کی نظر کے لئے کتابی صورت لگایا گیا ہے

اللہ ہم سب کو  صحیح عقیدے پر قائم رکھے

امین

سرگزشت تصوف و سرية

سرگزشت تصوف و سرية

تصوف و سرية  داؤن لوڈ  کریں

تصوف ایک   وقت   تھا    جب اسکے    لٹریچر       میں   صرف زہد ہوتا   تھا – دنیا سے غیر ضروری بے زاری کا ذکر ہوتا     اور بس الله تک پہنچنے کا ذکر ہوتا –    پھر  اس میں  ارتقاء   ہوا    کہ  جو الله تک پہنچ گئے یعنی مدفون یا مقبور ان سے   لوگوں  کا  غیر معمولی لگاؤ ہوا – اس کے پیچھے بد نیتی نہیں تھی بس زہد تھا جس کی بنا پر ایسا کیا گیا –      قبروں پر جانا شریعت  میں ممنوع  عمل نہیں   بلکہ دنیا کی  بے ثباتی  یاد رکھنے کے لئے وہاں جانے کا حکم ہے-  زہاد نے     وقت     گزرنے   کے ساتھ ساتھ عباسی  دور خلافت   کے شروع میں     یہ تصور قائم کیا کہ مدفون  اولیاء   اللہ ان قبروں میں  ہی  زندہ ہیں ،  شہداء زندہ ہیں ، انبیاء زندہ ہیں  اور وہ  رزق  بھی  پا رہے ہیں-  اس کو ثابت  کرنے کے لئے قرانی آیات سے  استنباط کیا گیا    اور  احادیث  و روایتوں کو بھی بیان کیا گیا –   تصوف   اس صنف میں جو کتب    تالیف ہو رہی تھیں وہ نہایت غلط سلط روایات کا مجموعہ تھیں- لوگوں نے ان    روایات کو قبول کر لیا اور پھر صحیح    احادیث کے مفہوم  کو بھی اسی سانچے میں ڈھال   کر تشریح  کی گئی –   اس عمل میں زہد  تصوف میں بدل گیا –   متصوفین   چونکہ  علم  حدیث کے عالم نہیں تھے  افسوس وہ انہی ضعیف روایات کی عینک سے  قرآن و  صحیح   احادیث  کی تشریح کرنے لگے      جس سے وہ مفہوم نکلتا  جو قرانی عقائد کے خلاف ہوتا   –    لیکن چونکہ  سن   ٥٠٠ ہجری   تک   امت کی اکثریت  میں   پاپولر   مذھب   قبروں سے متصف ہونا ہی ہو گیا تھا تو اس کو جمہور کی سند پر  اللہ کی مرضی مان لیا گیا –

اعتقادی  مسائل   میں  متصوفین    نے  بہت سے مراحل    و  مدارج طے  کیے     ہیں –  ان میں انڈر  گراونڈ  تحریکوں  کی طرح    جہم بن  صفوان  کے  خیالات،  وحدت الوجود    کی شکل  میں ظاہر ہوئے –  ساتھ  ہی  فلسفہ   یونان بھی شامل  ہو ا –     نصرانی و یونانی    ہومواوسس   یا  ہمہ  اوست   بھی  آ یا  – مصری    غناسطیت   بھی اس میں نظر اتی ہے  –    ہمالیہ   یا سینٹرل  ایشیا   کے   راہب   بھی عرب   ، عراق و شام  پہنچ رہے تھے-  یمنی  ابن سبا   اور   شیعی       زہاد   بھی  اس مجمع    میں     حصہ  رسدی   کا کام کر رہے تھے –   دوسری طرف  روایت پسند محدثین   زہد پر کتب لکھ رہے تھے جس میں ہر قسم کا رطب و یابس  نقل ہو رہا تھا –    ان  تمام  افکار    کا تصوف پر اثر ہوا اور آج      تصوف میں بیک وقت  وحدت الوجود ، ہمہ  اوست ،   فنا و  بقا، حلول ،  چلہ کشی ،   سب موحود   ہے   اور   قبول کر لی  گئی ہے  –

اسلامی تصوف کی      تمام  شکلوں    و   جہتوں   پر بات  کرنا  ایک ہی نشست و کتاب   میں  ممکن نہیں  ہے   –     راقم   کی   کتاب مجمع  البحرین (مجمع البحرین)    ویب سائٹ   پر  پہلے سے  موجود ہے –     کتاب هذا   میں     ویب  سائٹ  اسلامک بلیف   پر      تصوف و سریت  سے متعلق  پیش کردہ   چند     مضامین کو   یکجا کیا گیا  ہے   اور      قارئین کی دلچسپی   کے لئے   کچھ چنیدہ  مباحث   کو  اکٹھا     کیا گیا ہے –

ابو شہر یار

 

ابن صیاد کا دل کا حال جاننا

اسلامی تاریخ میں اتا ہے کہ مدینہ میں دور نبوی میں ایک عورت نے بچے کو جنا جو پیدائشی کانا تھا (مسند احمد) – یہ بچہ مسلمانوں کے بچوں کے ساتھ کھیلتا تھا اور کسی حدیث میں نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو اس سے ملنے سے منع کر دیا ہو- ابن صیاد یا ابْنِ صَائِدٍ کے حوالے سے  مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب بچپن میں ہی اس کا امر مشتبہ ہوا اور اس نے اپنے اوپر القا ہونے کا دعوی بھی کر دیا – اس طرح دجال کی جو نشانیاں تھیں ان میں سے چند اس میں جمع ہونا شروع ہوئیں – اس کی والدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں اور عرض کی کہ آ کر اس کے بیٹے کا معائینہ کریں – اس لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابن صیاد کے گھر گئے اور اس سے سوال و جواب کیا – صحیح بخاری و مسلم  میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تو کیا دیکھتا ہے؟
ابن صیاد : میں سمندر پر عرش دیکھتا ہوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : وہ ابلیس کا عرش ہے
ابن صیاد : میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا اتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تیرا معامله مختلط (مشکوک ) ہو گیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : میں نے تیرے لئے کچھ چھپایا ہے
ابن صیاد : وہ الدخ، الدخ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ہٹ – تو اس پر قدرت نہیں رکھتا

نوٹ : صحیح بخاری کی کسی حدیث میں موجود نہیں کہ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان کا سوچا البتہ یہ بات بعض دیگر کتب حدیث میں ہے

شارحین کا اس الدخ (دھواں) پر جو کہنا ہے اس کی تلخیص صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے پیش کی ہے

قال النووي في شرح مسلم 18/49: الجمهور على أن المراد بالدخ هنا: الدخان، وأنها لغة فيه، وخالفهم الخطابي، فقال: لا معنى للدخان هنا، لأنه ليس مما يخبأ في كف أو كم كما قال، بل الدخ بيت موجود بين النخيل والبساتين، قال: إلا أن يكون معنى “خبأت”: أضمرت لك اسم الدخان وهي قوله تعالى: {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين} قال القاضي: قال الداودي: وقيا: كانت سورة الدخان مكتوبة في يده صلى الله عليه وسلم، وقيل: كتب الآية في يده.قال القاضي: وأصح الأقوال أنه لم يهتد من الآية التي أضمر النبي صلى الله عليه وسلم إلا لهذا اللفظ الناقص على عادة الكهان

نووی نے شرح مسلم میں کہا جمہور کہتے ہیں کہ ابن صیاد کی دخ سے مراد یہاں ہے الدخان ہے اور یہ لغت ہے لیکن خطابی نے مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ دخان یہاں مطلب نہیں ہے کیونکہ یہ وہ نہیں جس کو مٹھی میں چھپایا جا سکے بلکہ گھر میں دھواں موجود تھا جو کھجور وں اور باغ کے بیچ میں تھا (یعنی دھواں پھیلا ہوا تھا )– نووی نے کہا خبأت (چھپانے ) میں مضمر ہے کہ نام الدخان تھا اور یہ اللہ کا قول ہے {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين}- قاضی نے کہا الدوادی نے کہا سورہ الدخان اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر لکھی ہوئی تھی اور کہا گیا اپنے ہاتھ سے آیات لکھی تھیں – قاضی نے کہا ان اقوال میں صحیح یہ ہے کہ ابن صیاد کو ہدایت نہ ہوئی کہ اس آیت تک جاتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچی تھی سوائے کاہنوں کی طرح ایک لفظ ناقص کے

راقم کہتا ہے کہ یہ بات صحیح بخاری میں موجود نہیں کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان سوچی تھی – یہ راقم کے نزدیک امام معمر بن راشد کا ادراج ہے کیونکہ یہ روایت اعمش کی سند سے اور امام الزہری کے دیگر شاگردوں کی سند سے معلوم ہے – انہوں نے سورہ الدخان کا ذکر نہیں کیا ہے – اس لئے خطابی کا قول صحیح ہے ابن صیاد نے صرف اٹکل سے کام لیا دیکھا اس وقت دھواں پھیلا ہوا ہے تو فورا وہی بول دیا کہ شاید اسی چیز کا خیال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہوں – و اللہ اعلم

مسند البزار اور معجم کبیر از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَامِرٍ الْأَنْطَاكِيُّ، قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَابِقٍ، قَالَ: نا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ [ص:169] حَارِثَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ: «انْطَلِقْ» فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصْحَابُهُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلُوا بَيْنَ حَائِطَيْنِ فِي زُقَاقٍ طَوِيلٍ، فَلَمَّا انْتَهَوْا إِلَى الدَّارِ إِذَا امْرَأَةٌ قَاعِدَةٌ، وَإِذَا قِرْبَةٌ عَظِيمَةٌ مَلْأَى مَاءً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرَى قِرْبَةً وَلَا أَرَى حَامِلَهَا» فَأَشَارَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى قَطِيفَةٍ فِي ناحِيَةِ الدَّارِ، فَقَامُوا إِلَى الْقَطِيفَةِ، فَكَشَفُوهَا فَإِذَا تَحْتَهَا إِنْسَانٌ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَاهَ الْوَجْهُ» ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لِمَ تَفْحَشُ عَلَيَّ؟، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْئًا، فَأَخْبِرْنِي مَا هُوَ» ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَبَأَ لَهُ سُورَةَ الدُّخَانِ، فَقَالَ: «الدُّخُّ» ، فَقَالَ: اخْسَهْ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ “، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهَذَا الْحَدِيثُ قَدْ رَوَى بَعْضَهُ أَبُو الطُّفَيْلِ نَفْسُهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ
اس سند میں معمر نہیں ہے لیکن متن میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان سوچی
یہ سند ضعیف ہے – سند میں زياد بن الحسن بن فرات القزاز التميمى الكوفى منکر الحدیث ہے –

معجم الاوسط از طبرانی میں اسی سند سے ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عِيسَى التَّنُوخِيُّ قَالَ: نا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ الْفُرَاتِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: «انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى إِنْسَانٍ قَدْ رَأَيْنَا شَأْنَهُ» قَالَ: فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَمْشِي وَأَصْحَابُهُ مَعَهُ، حَتَّى دَخَلُوا حَائِطَيْنِ فِي زُقَاقٍ طَوِيلٍ، وَانْتَهَوْا إِلَى بَابٍ صَغِيرٍ، فِي أَقْصَى الزُّقَاقِ، فَدَخَلُوا إِلَى دَارٍ، فَلَمْ يَرَوْا فِي الدَّارِ أَحَدًا غَيْرَ امْرَأَةٍ قَاعِدَةٍ، وَإِذَا قِرْبَةٌ عَظِيمَةٌ مَلْأَى مَاءً، فَقَالُوا: نَرَى قِرْبَةً وَلَا نَرَى حَامِلَهَا، فَكَلَّمُوا الْمَرْأَةَ، فَأَشَارَتْ إِلَى قَطِيفَةٍ فِي نَاحِيَةِ الدَّارِ، فَقَالَتْ: انْظُرُوا مَا تَحْتَ الْقَطِيفَةِ فَكَشَفُوهَا، فَإِذَا تَحْتَهَا إِنْسَانٌ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَاهَ الْوَجْهُ» فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لِمَ تَفْحَشُ عَلَيَّ؟ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْأً، فَأَخْبِرْنِي مَا هُوَ» وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: «إِنِّي قَدْ خَبَّأْتُ لَهُ سُورَةَ الدُّخَانِ» فَقَالَ: سُورَةُ الدُّخَانِ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْسَأْ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ، ثُمَّ انْصَرَفَ»
اس متن میں ہے کہ ابن صیاد نے سورہ الدخان تک بولا – سند وہی مسند البزار والی ہے

معجم الاوسط میں ہے
حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: نا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الزِّمَّانِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ: نا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ قَالَ: ثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: لَأَنْ أَحْلِفُ عَشْرَةَ أَيْمَانٍ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ هُوَ الدَّجَّالُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ مَرَّةً أَنَّهُ لَيْسَ بِهِ، وَذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَنِي إِلَى أُمِّهِ، فَقَالَ: «سَلْهَا، كَمْ حَمَلَتْ؟» فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، فَقَالَ: «سَلْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَيْحَتُهُ حِينَ وَقَعَ؟» قَالَتْ: صَيْحَةَ الصَّبِيِّ ابْنِ شَهْرٍ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبَأً، فَمَا هُوَ؟» فَقَالَ: عَظْمُ شَاةٍ عَفْرَاءَ، فَجَعَلَ يُرِيدُ يَقُولُ: الدُّخَانُ فَجَعَلَ يَقُولُ: الدُّخَ الدُّخَ، فَقَالَ: «اخْسَأْ، فَإِنَّكَ لَنْ تَسْبِقَ الْقَدَرَ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْحَارِثِ إِلَّا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں نے ایک چیز چھپائی ہے – ابن صیاد بولا بھیڑ کی سب سے بڑی ہڈی
پس وہ کہنا چاہ رہا تھا الدخان لیکن منہ سے نکلا الدخ – پس نبی نے فرمایا ہٹ پرے تو اس پر قادر نہیں ہے –
سندا اس میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ اور الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ بہت مضبوط نہیں ہیں

لب لباب ہے کہ ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں موجود سورہ الدخان کے الفاظ میں سے الدخ تک پہنچ گیا منکر روایت ہے – یہ بات صرف معمر بن راشد  کے تفرد کے ساتھ معلوم ہے – دل کے حال کا علم صرف اللہ کو ہے

واللہ علیم بذات الصدور

ابن صیاد کی شادی بھی ہوئی اور اولاد بھی کسی روایت میں نہیں کہ اس کو دجال سمجھتے ہوئے مسلمانوں نے اس کو بیٹی دینے سے انکار کیا بلکہ اس کی اولاد موطا امام مالک میں راوی ہے – عمارة ابن عبد الله ابن صياد اس کے بیٹے ہیں اور مدینہ کے فقہا میں سے ہیں – الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر کے مطابق وكان من خيار المسلمين من أصحاب سعيد بن المسيّب
ابن صیاد کے بیٹے اچھے مسلمانوں میں سے تھے سعید بن المسیب کے ساتھیوں میں سے – تاریخ زبیر بن بکار کے مطابق عمارة ابن عبد الله ابن صياد خلیفہ الولید بن عبد الملک کے دور تک زندہ تھے یعنی ابن صیاد پر جو بھی شک ہو وہ صرف اس تک محدود تھا
طبقات ابن سعد کے مطابق وغزا مع المسلمين ابن صیاد نے مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں حصہ بھی لیا اگر تمام اصحاب رسول اس کو دجال ہی سمجھتے تو بنو امیہ اس کو جہاد میں شامل ہی نہ کرتے

روح کے بدلتے پیکر

 الله تعالی نے قرآن میں بتایا ہے وہ انسانی جسم کو واپس روزمحشر تخلیق کرے گا اس میں انسان کا جسم واپس بنا دیا جائے گا – احادیث کے مطابق اس تخلیق نو میں انسانی جسم میں تبدیلی بھی ہو گی اس کی جسامت دنیا سے الگ ہو گی – جنتیوں کے قد ساٹھ ہاتھ تک ہوں گے (صحیح بخاری) – جبکہ جہنمیوں کے جسم اس قدر بڑے ہوں گے کہ ان کے شانوں کے درمیان کی مسافت تین دن کی ہو گی اور کھال احد پہاڑ جتنی موٹی ہو گی (صحیح مسلم) – یعنی جھنمی ، جنتیوں سے قد کاٹھ میں بڑے ہوں گے

یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ  روح اس جسد عنصری کو چھوڑ کر روز محشر ایک نئے جسم میں جائے گی جو اس جسد عنصری سے بڑا ہے – روح اس بڑے جسم میں بھی سما جائے گی اور اس جسم کو اپنا لے گی

اشاعرہ کے امام فخر الدین رازی کتاب نہایہ العقول میں لکھتے ہیں

نهايه العقول ١٤٤ ج٤

                                                                                                                                       اور جان لو کہ تمام مسلمان …. اثبات کرتے ہیں نفس ناطقہ (روح) کا اور دعوی کرتے ہیں کہ یہی حقیقی انسان ہے جو مکلف ہے اطاعت گزار ہے گناہ گار ہے اور رجوع کرنے والا اور انجام پر پہنچنے والا ہے اور بدن اس کے لئے ایک آلہ کے طور چلتا ہے اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ نفس ناطقہ باقی رہتا ہے بدن کے خراب ہو جائے پر بھی پس جب الله کا ارادہ مخلوق  کا حشر کرنے کا ہو گا وہ ان  سب  ارواح کے لئے ایک بدن بنائے گا اور ان میں ان کو لوٹائے گا

اور یہ مذھب ہے جمہور نصاری کا اور تناسخ والوں کا اور کثیر علمائے اسلام کا مثلا ابی حسین حلیمی اور امام غزالی اور ابی قاسم الراغب اور ابی زید الدبوسی اور قدماء متکلمین کا اور ابن الھیصم کا اور کرامیہ کا اور کثیر صوفیاء کا اور روافض کے جمہور کا

خبر دار اہل اسلام اور تناسخیہ کے قول میں فرق ہے دو طرح سے

اول  : بے شک مسلمان کہتے ہیں کہ الله تعالی  ارواح کو ابدان میں لوٹائے گا جو اس عالم (عنصری) کے نہیں بلکہ دار آخرت کے ہیں اور تناسخ والے کہتے ہیں کہ الله تعالی ان ارواح کو اسی عالم کے اجسام میں لوٹائے گا اور وہ دار آخرت کے منکر ہیں اور جنت اور جہنم  کا بھی انکار کرتے ہیں

دوم : بے شک مسلمان ان ارواح  کے لئے حدوث کا اثبات کرتے ہیں اور تناسخ والے ان کی قدامت کا اثبات کرتے ہیں

اور بے شک ہم نے اس فرق کو واضح کر دیا ہے

امام فخر الدین رازی واضح کہہ رہے ہیں کہ حشر پر جو اجسام ہوں گے وہ اس عالم عنصری سے الگ ہوں گے اور یہ بات احادیث کے مطابق ہے

اس سب میں الجھاؤ فرقہ غیر مقلدین کرتے ہیں ایک طرف تو احادیث کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں دوسری طرف ان کے انکار پر منبی فلسفے ایسے پیش کرتے ہیں کہ گویا اس میں کوئی اور رائے ہے ہی نہیں

  احادیث کے مطابق روح جسد عنصری کو چھوڑنے کے بعد بھی روز محشر تک ایک نئے جسم میں رہتی ہے جو عالم بالا یا برزخ ہے اس میں شہداء کو پرندوں جیسے اجسام ملتے ہیں جن کے پیٹوں میں ان کی روحیں رہتی ہیں – غیر مقلدین نے عقیدہ اختیار کیا ہے کہ شہداء کی روحیں ان  پرندوں کو بطور جہاز استمعال کرتی ہیں ان پیٹوں سے نکلتی ہیں اور جب بھی کہیں جانا ہو اس پرندوں کو بطور سواری استمعال کرتی ہیں – اس کے برعکس احادیث میں روحوں کا ان جسموں کو چھوڑنا بیان ہی نہیں ہوا بلکہ روحیں جنت کے پھلوں کی لذت اسی جسم سے حاصل کرتی ہیں

ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

arshad-14

مزید لکھتے ہیں

arshad-59

ارشد کمال نے ترجمہ میں ڈنڈی ماری ہے

ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَمَعْلُوم أَنَّهَا إِذا كَانَت فِي جَوف طير صدق عَلَيْهَا أَنَّهَا طير

اور معلوم ہے جب یہ (روح) پرندے کے پیٹ میں ہے تو اس پر سچ ہوا کہ یہ پرندہ ہی ہے

ابن قیم کتاب الروح میں کہتے ہیں سبز پرندے میں روح کا جانا تناسخ نہیں ہے

 أَن تَسْمِيَة مَا دلّت عَلَيْهِ الصَّرِيحَة من جعل أَرْوَاح الشُّهَدَاء فِي أَجْوَاف طير خضر تناسخا لَا يبطل هَذَا الْمَعْنى وَإِنَّمَا التناسخ الْبَاطِل مَا تَقوله أَعدَاء الرُّسُل من الْمَلَاحِدَة وَغَيرهم الَّذين يُنكرُونَ الْمعَاد أَن الْأَرْوَاح تصير بعد مُفَارقَة الْأَبدَان إِلَى أَجنَاس الْحَيَوَان والحشرات والطيور الَّتِي تناسبها وتشاكلها فَإِذا فَارَقت هَذِه الْأَبدَان انْتَقَلت إِلَى أبدان تِلْكَ الْحَيَوَانَات فتنعم فِيهَا أَو تعذب ثمَّ تفارقها وَتحل فِي أبدان أخر تناسب أَعمالهَا وأخلاقها وَهَكَذَا أبدا فَهَذَا معادها عِنْدهم وَنَعِيمهَا وعذابها لَا معاد لَهَا عِنْدهم غير ذَلِك فَهَذَا هُوَ التناسخ الْبَاطِل الْمُخَالف لما اتّفقت عَلَيْهِ الرُّسُل والأنبياء من أَوَّلهمْ إِلَى آخِرهم وَهُوَ كفر بِاللَّه وَالْيَوْم الآخر

اور یہ جو(طیر) نام دیا گیا ہے یہ صاف دلالت کرتا ہے کہ شہداء کی ارواح کا سبز پرندوں کے پیٹوں میں تناسخ ہوا اس سے مفھوم باطل نہیں ہوتا – اور باطل تناسخ تو وہ ہے جو رسولوں کے دشمنوں اور ملحدوں اور دوسرے معاد کے انکآریوں نے بولا ہے کہ روحیں چلی جاتی ہیں بدن سے الگ ہونے پر حیوانات میں حشرات میں پرندوں میں اپنے تناسب کے مطابق اور شکلوں کے موافق پس جب وہ بدن سے نکلتی ہیں تو ان جانوروں کے جسم میں نعمت پاتی ہیں اور  یہ باطل تناسخ ہے

ابن قیم نے اس کا اقرار کیا ہے کہ سبز پرندے میں شہید کی روح کا جانا تناسخ نہیں ہے

ابن القیم الجوزیہ کا یہ شعر بڑا برموقع ہے  
العلم قال الله، قال رسوله‘ قال الصحابة، ليس بالتمويه
علم وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور صحابہ کرام کا فرمان ہو، ملمہ سازی علم نہیں

ایک اہل حدیث عالم  حافظ محمد یونس اثری صاحب، ماہنامہ دعوت اہل حدیث حیدر آباد، مارچ ٢٠١٦ میں  لکھتے ہیں

sbz-parinday

حافظ صاحب کا ترجمہ بالکل صحیح ہے روحیں سنز پرندوں کے اندر ہیں نہ کہ ان پر سوار ہیں  –

عالم آخرت – ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العریفی – دارالسلام کی کتاب میں بھی ترجمہ دیکھتے ہیں

محب الله شاہ رشدی فتاویٰ راشدیہ میں جواب دیتے ہیں

شہیدوں کو سبز پرندوں کی صورت جنت میں رکھا گیا ہے

اقبال کیلانی کتاب قبر کا بیان میں اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہیں

ان کے برعکس

ارشد کمال یہ  لکھتے ہیں

arshad-96-a

عبد الرحمان  عاجز غیر مقلد الم   کتاب  عالم  البرزخ میں  لکھتے ہیں

صحیح عقیدہ یہی ہے کہ نہ صرف قبض موت کے بعد بلکہ محشر کے بعد بھی جنت و جہنم میں برزخ  میں انسانی جسم ان اجزاء پر مشتمل نہیں ہو گا جو صرف جسد عنصری ہے

یاد رہے کہ

کتاب  القائد إلى تصحيح العقائد میں عالم   عبد الرحمن بن يحيى بن علي بن محمد المعلمي العتمي اليماني (المتوفى: 1386هـ) لکھتے ہیں

alqaid-moalimi

بلاشبہ بہت سے نصوص ميں آيا ہے جو دلالت کرتا ہے کہ اہل جنت و جہنم کے جسم کے بعض حصے يا تمام   ان پر مشتمل نہيں ہوں گے جس پر وہ دنيا ميں تھے پس الصحيحين ميں قصہ ہے ان کا جن کو جہنم سے نکالا جائے گا پس وہ نکليں گے کہ  جل بھن گئے ہوں گے ان  کو نہر حيات ميں انڈيلا جائے گا پس يہ اگيں گے جيسے ايک بيج اگتا ہے  اور بہت سي احاديث ميں آيا ہے کہ اہل جنت کے قد 60 ہاتھ ہوں گے صورت آدم پر  … اور الله تبارک و تعالي کہتے ہيں اہل النار کے لئے جب بھي ان کي کھاليں جليں گي ہم ان کو دوسري سے بدلتے رہيں گے کہ عذاب کا مزہ ليں اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا کافر کے شانوں کے درميان تين دن کي مسافت ہو گي جہنم ميں – اور الله تعالي نے فرمايا جو الله کي راہ ميں قتل ہوئے ہيں ان کو مردہ گمان مت کرو بلکہ وہ زندہ ہيں اپنے رب کے پاس زرق پاتے ہيں ال عمران اور صحيح مسلم ميں ابن مسعود کي حديث ہے کہ ان سے اس آيت  پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا ہم نے بھي رسول الله صلي الله عليہ وسلم سے اس پر سوال کيا تھا پس اپ صلي الله عليہ نے فرمايا انکي روحيں سبز پرندوں کے پيٹ ميں ہيں ان کے لئے قنديليں ہيں جو عرش رحمان سے لٹک رہي ہيں جنت ميں جہاں کي سير چاھتے ہيں کرتے ہيں پھر واپس انہي قنديلوں ميں اتے ہيں پس ان کے رب نے ان سے پوچھا … اس کو ايک جماعت نے اعمش سے روايت کيا ہے انہوں نے عبد الله بن مرہ سے انہوں نے مسروق سے انہوں نے ابن مسعود سے اور اس کي تخريج کي ہے ابن جرير نے تفسير ميں ج 4 ص 106- 107 پر شعبہ کے طرق سے …. کہ انہوں نے ابن مسعود سے پوچھا تو انہوں نے کہا شہداء کي ارواح   پس اعمش کا سماع ثابت ہے اس حديث پر عبد الله بن مرہ سے کيونکہ شعبہ  نہيں روايت کرتے اعمش سے سوائے اسکے کہ سماع ہو  … اس پر اہل مصطلح کي نص ہے اور ديگر کي اور اسي طرح اس حديث کي دارمي نے تخريج کي ہے … اور مسند احمد ميں ج 1 ص 265 پر  … ابن عبّاس کي روايت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ جب تمہارے بھائیوں کو احد میں شہادت ملی تو الله نے انکی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں کر دیا جس سے وہ جنت کی نہروں تک جاتے اور پھلوں میں سے کھاتے ہیں  …. اور حاکم نے اس کي تخريج مستدرک ميں کي ہے … اور حاکم نے اس کو صحيح کہا ہے مسلم کي شرط پر اور الذھبي نے اقرار کيا ہے اور الله تعالي فرماتے ہيں اور  ال فرعون کو برے عذاب نے گھير ليا  اگ ہے جو ان پر صبح و شام پيش ہوتي ہے اور بروز قيامت – داخل کرو ال فرعون کو شديد عذاب ميں سوره المومن 

أور ابن جرير نے تفسير ميں تخريج کي ہے روايت ثقات سے صحيح سند کے ساتھ  ، عن هزيل بن شرحبيل  تابعين ميں سے ايک سے کہ ال فر عون کي ارواح کالے پرندوں ميں ہيں اگ پر سے  اڑتے ہيں اور يہ ان پر پيش ہونا ہے

البانی کہتے ہیں

البانی جسم

مولف نے یہاں اصرار کیا ہے قول پر کہ تمام اجزاء کا جمع ہونا  ایک بدن میں یا پھر بہت سے ابدان میں   اور اس پر جو گواہی ہے کہ ایک بدن ہے یا بہت سے بدن ہیں اس میں مولف کی عمیق نظری ہے جس کو مولف نے کثرت سے بیان کیا ہے اور ذکر کیا ہے ان مفاسد و شبھات کا جو متکلمین کو قرآن و سنت کی تصدیق سے دور لے گئے … اور سب سے اچھا  مولف کا قول ہے جو گزرا کہ بدن تو صرف ایک آلہ ہے روح کا جس سے یہ اشکال حل ہو جاتا ہے اور غور کی پھر حآجت نہیں رہتی اور میں البانی کہتا ہوں بدن انسانی شخصیت  کا مطیع ہوتا ہے اور اس کا لباس ہوتا ہے چاہے  انسان کوئی اور  لباس نیا یا پرانا پہنے  … و الله اعلم

اپ دیکھ سکتے ہیں المعلمی کے مطابق نہ صرف  محشر کے بعد بلکہ قیامت سے پہلے بھی روح کے جسم ہیں جن میں قالب بدل رہے ہیں ال فرعون اس دنیا میں جسد عنصری میں تھے البرزخ میں کالے پرندوں میں ہیں اور روز محشر بطور کافر ان کا جسم اتنا بڑا ہو گا کہ کھال ہی احد پہاڑ برابر حدیث میں بیان کی گئی ہے اور یہ تناسخ نہیں ہے

نعمان الوسی   (المتوفى: 1270هـ) تفسیر ج ١١ ص ٨٣ آیت وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ کی تفسیر میں لکھتے ہیں

وذكر الشيخ إبراهيم الكوراني في بعض رسائله أن الأرواح بعد مفارقتها أبدانها المخصوصة تتعلق بأبدان أخر مثالية حسبما يليق بها وإلى ذلك الإشارة بالطير الخضر في حديث الشهداء

اور شیخ ابراہیم الکورانی ( الملا برهان الدين إبراهيم بن حسن بن شهاب الدين الكردي الشهرزوري الشهراني الكوراني (ت1101هـ)) نے اپنے بعض رسائل میں ذکر کیا ہے کہ ارواح اپنے  مخصوص جسموں (جسد عنصری) کو چھوڑنے کے بعد ایک دوسرے اسی جیسے بدن سے تعلق اختیار کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ ہے پرندوں والی حدیث میں جو شہداء سے متعلق ہے

 کتاب  الأعلام از الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) میں الکورانی کا ترجمہ ہے

الكُوراني  (1025 – 1101 هـ = 1616 – 1690 م)  إبراهيم بن حسن بن شهاب الدين الشهراني الشهرزوريّ الكوراني، برهان الدين: مجتهد، من فقهاء الشافعية. عالم بالحديث. قيل إن كتبه تنيف عن ثمانين

 تفسير ابن أبي العز از  صدر الدين محمد بن علاء الدين عليّ بن محمد ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) میں آیت وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتاً   کی تفسیر میں ہے

 فإنهم لما بذلوا أبدانهم لله عز وجل حتى أتلفها أعداؤه فيه، أعاضهم منها في البرزخ أبداناً خيراً منها، تكون فيها إلى يوم القيامة، ويكون تنعمها بواسطة تلك الأبدان، أكمل من تنعم الأرواح المجردة عنها. 

کہ ان شہداء نے جب اپنے بدن الله کے لئے لگا دیا جس کو ان کے دشمنوں نے تباہ کیا تو ان شہداء کو دوسرے بدن دیے گئے جو اس بدن (عنصری) سے بہتر ہیں اور یہ نعمتیں ان بدنوں کے واسطے سے پاتے ہیں جو صرف روحوں کے نعمت پانے سے زیادہ اکمل ہے

یعنی صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ شہداء کی روحیں ان نئے بدنوں میں ہیں

المنهاج في شعب الإيمان از  الحسين بن الحسن بن محمد بن حليم البخاري الجرجاني، أبو عبد الله الحَلِيمي (المتوفى: 403 هـ) کے مطابق

 فأما الشهداء فإنه لا يفرق بين أرواحهم وأنفسهم، ولكنها تنقل إلى أجواف طير خضر، كما ورد به الحديث الذي هو أولى ما يقال به، ويستسلم له. وتعلق تلك الطير من ثمر الجنة، فتستمد روحه من غذاء بدن الطائر كما كان يستمد في بدن الشهيد من غذائه،

 پس جہاں تک شہداء کا تعلق ہے تو ان کے نفوس اور ارواح میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ان کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے جیسا حدیث میں آیا ہے جو اولی ہے کہ اس میں جو کہا گیا ہے اس کو تسلیم کریں اور ان پرندوں کو جنت کے پھلوں سے ملا دیا جاتا ہے  پس روح پاتی ہے غذا پرندے کے پیٹ سے جیسا شہید کا بدن غذا پاتا تھا  

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے

حیات بعد الموت

 

لفظ الأية کا عموم و خصوص

قرآن اللہ تعالی نے قریش کی عربی میں نازل کیا ہے یعنی جو مشرکین عرب  کو بھی  سمجھ آئے – عربی کا ایک لفظ آیت ہے جس سے مراد لغوی طور پر علامت ہے  اور اسی مفہوم میں یہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے

اللہ تعالی نے فرمایا

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَاخْتِلاَفُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ   (الرّوم -22 

اور اس کی نشانیوں( آیات) میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور زبانوں اور رنگوں کا اختلاف

معلوم ہوا کہ ہر فرد ہر انسان اللہ کی آیت و نشانی ہے کہ وہ الگ الگ رنگ کے ہیں الگ الگ زبان بولتے ہیں – یہ زبان و رنگ  بدلنا صرف قدرت الہی کا کرشمہ ہے –   اس مقام پر لفظ     آيَاتِهِ   استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب یہاں معجزہ نہیں ہے  بلکہ علامت  توحید   مراد   ہے

وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ   (الرّوم – 23

اور  اس کی آیات میں   سے  تمہارا سونا  دن و رات میں

یہاں ہر روز انسان جو سوتا ہے اس کو نشانی یا آیت کہا گیا  ہے –      یہ  عموم ہے

وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ   (الشورى – 32

اور  اس کی نشانیوں میں سے ہے سمندر میں   کشتی    جیسے  ہو  عظیم پہاڑ

یہاں    انسان کی  خود ساختہ،   تخلیق کردہ کشتی   کو  آیت  کہا گیا  ہے   یعنی یہ علم من جانب اللہ آیا ہے

حدیث میں ہے

إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَةٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ

سورج اور چاند کا گرہن اللہ کی آیات میں سے ایک ہے  

زمین پر سورج و چاند گرہن ہوتا رہتا ہے – اس کا سب کو علم ہے

حدیث میں ہے

آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

منافق کی تین آیات (نشانیاں ) ہیں بات کرے تو جھوٹ بولے وعدہ کرے تو خلافی کرے اور امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے

حدیث میں ہے

آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ

ایمان کی آیت انصار سے محبت کرنا ہے اور منافق کی آیت انصار سے بغض کرنا ہے

ان تمام مقامات پر عموم  کو   آیات   کہا گیا ہے – دوسری طرف  بعض اوقات آیت یا  آیات  کا لفظ اپنے اصطلاحی معنوں میں بھی اتا ہے جس سے مراد وہ  نشانیاں ہیں  جو صرف انبیاء کو ملتی ہیں جن کو معجزات کہا   جاتا ہے اور    ان کا شمار خصوص  میں ہوتا ہے

علامات قیامت جن کو اردو میں قیامت کی نشانی کہا جاتا ہے وہ تمام علامتین ہیں – ان میں دو عظیم ہیں ایک سورج کا مغرب سے نکلنا اور دوسرا زمین سے جانور کا نکل کر کلام کرنا – باقی تمام انسان  کو معلوم ہیں مثلا زمین کا دھنسنا انسان دیکھتا ہے ، یاجوج ماجوج سے انسان مل چکے ہیں تبھی ان پر دیوار بنائی گئی اور دجالوں کا بھی علم ہے، دھواں بھی انسان دیکھتا ہے – فرق صرف امر کی وسعت کا ہے –  لہذا علامات قیامت میں تمام کی تمام خرق عادت نہیں ہیں اور ان کی شرح بھی معجزہ کے ذیل میں نہیں کی جانی چاہیے

انبیاء  کے قبل نبوت خواب

قرآن و حدیث  میں انبیاء کے قبل نبوت سچے خوابوں  کا ذکر موجود ہے – ان خوابوں  کے بارے میں  جو رہمنائی ملتی ہے  وہ یہ ہے کہ  اگرچہ یہ خواب سچے تھے لیکن یہ الوحی کی مد میں سے نہیں تھے

قبل   نبوت –  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب

صحیح بخاری کی آغاز الوحی والی روایت میں ذکر ہے کہ نبی پر  اس امر نبوت کا آغاز سچے خوابوں سے ہوا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دیکھتے دوسرے دن پورا ہو جاتا – اس کیفیت نے آپ کو دنیا سے بے رغبت کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے التحنث   پہاڑ پر جا کر کرنا شروع کر دیا-

صحیح بخاری حدیث ٣ ہے اس میں  الوحی کا لفظ ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ

عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الوحی شروع ہوئی تو نیند میں سچے خواب دیکھے

صحیح بخاری ح ٦٩٨٢ میں   الوحی کا لفظ  ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ

 عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الوحی شروع ہوئی تو نیند میں سچے خواب دیکھے

صحیح بخاری ح ٤٩٥٥ میں اسی سند سے الوحی کا لفظ نہیں ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: ” أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ

 عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ سلسلہ  شروع ہوا تو نیند میں سچے خواب دیکھے

صحیح بخاری ٤٩٥٣ میں ہے اس میں الوحی کا لفظ نہیں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ح وَحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ سَلْمَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ،

 عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ سلسلہ  شروع ہوا تو نیند میں سچے خواب دیکھے

ان تمام سندوں  اور مختصر متن سے ظاہر ہے کہ کوئی  راوی الوحی کے لفظ کو خود کم کر دیتا ہے یا بڑھا دیتا ہے

یہ ایک ہی سند ہے اصلا تو امام زہری کی روایت ہے – صحیح میں پانچ مقام پر اسی سند سے ہے اور متن میں ایک لفظ بدل رہا ہے-   الفاظ میں الوحی کا اضافہ ہو جاتا ہے-

الوحی کا لفظ اس میں اضافہ ہے جو دیگر مقام پر انہی اسناد سے نہیں آ رہا –  لہذا جو بات صحیح ہے وہ یہ کہ ام المومنین نے کہا کہ شروع میں نبی نے صرف سچے خواب دیکھے –  انہوں نے الوحی کا ذکر کیا یہ راویوں کا اپنا اضافہ ہے

کتاب عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل والسير میں اس واقعہ کی دوسرے صحابی سے بھی تفصیل ہے وہ بھی اس کو الوحی کا آغاز نہیں کہتے

وَرُوِّينَا عَنْ أَبِي بِشْرٍ الدَّوْلابِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَبُو قُرَّةَ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ عِيسَى بْنِ تَلِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضْلَةَ عَنْ أَبِي الطَّاهِرِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم أَنَّهُ كَانَ مِنْ بَدْءِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَأَى فِي الْمَنَامِ رُؤْيَا،

جس وقت سچے خواب آ رہے تھے اس وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس سے لا علم تھے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے-

متن کی تاویل

ہم ان روایات کی تاویل کریں گے کہ راوی کا الوحی کا اضافہ کرنے سے مراد النُّبُوَّة یعنی خبر ملنا ہے-  ابھی اس النبوه کی کیفیت وہی ہے جو ایک عام مومن کی ہوتی ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے

حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري حدثني سعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لم يبق من النبوة إلا المبشرات قالوا وما المبشرات قال الرؤيا الصالحة

صحیح بخاری ٦٥٨٩

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا النبوه میں کچھ باقی نہیں سوائے مبشرات کے جو اچھے خواب ہیں

اس کی تائید سیرت ابن ہشام سے ہوتی ہے جس میں ہے

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: فَذَكَرَ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ: أَنَّ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ النُّبُوَّةِ، حِينَ أَرَادَ اللَّهُ كَرَامَتَهُ وَرَحْمَةَ الْعِبَادِ بِهِ، الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ،

امام زہری نے کہا عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا النبوہ  میں رسول اللہ پر سب سے پہلے جب اللہ تعالی نے ان پر رحم و کرامت کا ارادہ کیا تو سچے خوابوں سے کیا

یہ آغاز الوحی والی روایت ہی ہے فرق ہے تو الوحی کو النبوه سے بدلا گیا ہے اور النبوہ سے مراد صرف سچی خبر ہے

متن میں مدرج جملے

فتح الباری میں ابن حجر نے اس پر لکھا ہے کہ اس روایت شروع میں التحنث کا ذکر راوی کا ادراج ہے

قَالَ وَالتَّحَنُّثُ التَّعَبُّدُ هَذَا ظَاهِرٌ فِي الْإِدْرَاجِ إِذْ لَوْ كَانَ مِنْ بَقِيَّةِ كَلَامِ عَائِشَةَ لَجَاءَ فِيهِ قَالَتْ وَهُوَ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ مِنْ كَلَامِ عُرْوَةَ أَوْ مَنْ دُونَهُ

راقم کے نزدیک شروع کے جملوں میں الفاظ مدرج ہیں – زہری نے عروہ سے جو سنا اس میں اپنا فہم ملا دیا ہے

ایسا مرویات زہری میں مسئلہ رہا ہے کہ اصل متن کیا تھا معلوم نہیں ہو پاتا

الوحی کا آغاز

الوحی کا آغاز اقراء سے ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے رب کا حکم  آنے لگا-  اس کے بعد تمام خواب الوحی ہیں –  اس سے قبل جو خواب تھے وہ الوحی نہیں تھے کیونکہ اس میں صرف جو دیکھا وہ پورا ہو رہا تھا کسی تبلیغ کا حکم نہیں تھا نہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ وہ نبی بننے والے ہیں

قرآن میں  سورہ  شوری آیت ٥٣ میں ہے

وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب ولا الإيمان

اور اسی طرح ہم نے تم پر اپنے حکم سے الوحی کیا – تم نہیں جانتے تھے کتاب کیا ہے- ایمان کیا ہے

جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھ رہے تھے یہ ہی وہ وقت تھا جب آپ کو نہ کتاب کا معلوم تھا نہ ایمان کا معلوم تھا لہذا اس وقت آپ نبی نہیں تھے-  اگر جانتے ہوتے تو جبریل کی آمد کے منتظر ہوتے- ان کو دیکھ کر گھبراتے نہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کتاب اللہ کا علم تھا نہ ایمان کا ،  الوحی کے آنے سے پہلے اور یہ باتیں انبیاء کو فرشتے بناتے ہیں- کیا خواب میں ایمان کامل کا معلوم ہو سکتا ہے ؟ خواب اس وقت الوحی بنتا ہے جب انبیاء – انبیاء بن چکے ہوتے ہیں

  اگر   ہم   مان  لیں   کہ رسول اللہ پر خوابی الوحی سب سے پہلے آئی تو اس کا دور کب شروع ہوا ؟ اس کی کوئی حد نہیں ہے – بعض علماء نے اسی متن سے دلیل لی ہے کہ  رسول اللہ پیدائشی نبی تھے- ہم کو معلوم ہے کہ الوحی تین طرح اتی ہے

ترجمه: اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ اس سے بات کرے ۔ سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام لانے والا ( فرشتہ ) بھیج دے ، اور وہ اس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کا پیغام پہنچا دے ۔ یقینا وہ بہت اونچی شان والا بڑی حکمت کا مالک ہے ۔

اور سچا خواب مومن بھی دیکھتا ہے اور نبی بھی لیکن چونکہ نبی بننے کے بعد انبیاء کا دل نہیں سوتا ان کا خواب الوحی کی قسم میں سے ہے   جبکہ ایک عام شخص کا خواب سچا تو ہو سکتا ہے لیکن الوحی ہرگز نہیں –

کیا التحنث سنت ہے ؟

  اگر آمد جبریل سے قبل خواب میں رسول اللہ پر الوحی آ رہی تھی تو یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ ایمان کے مندرجات (مثلا فرشتوں پر غیب پر ایمان )کو جانتے تھے (لیکن اس کی تبلیغ نہیں کرتے تھے) تو پھر فرشتہ دیکھ کر گھبرائے کیوں ؟ – اگر آمد جبریل سے قبل کے خوابوں کو الوحی مان لیں تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ جبریل کی آمد سے قبل ہی رسول اللہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ ایمان کیا ہے اور کتاب کیا ہے- سوال ہے  تو پھر وہ التحنث کیوں کر رہے تھے ؟ کیا دین میں اس عبادت کی کوئی دلیل موجود ہے کہ رہبان کی طرح پہاڑ پر جا کر بیٹھ جاؤ ؟ اسلام میں تو گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانے کا حکم  نہیں ہے – اللہ نے رہبانیت کو نصرانی بدعت قرار دیا ہے –   عرب کے حنفاء کو یہ چیز انہی سے ملی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئی اور آپ نے بھی مراقبہ غار میں کیا- پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا وہاں مراقبہ یا التحنث کرنا، یہ عمل نبی بننے سے پہلے کا  تھا اسی لیے ہمارے لئے دلیل نہیں ہے –   اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آمد جبریل سے قبل سے نبی سمجھیں  گے تو التحنث  سنت  ہوا – گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا دلیل ہوا

یوسف علیہ السلام کا  خواب

سوره یوسف میں بیان ہوا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا

قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے  سجدہ کررہے ہیں

یعقوب علیہ السلام نے اس خواب کو سننے کے بعد یہ نہیں کہا کہ ہماری شریعت میں سجدہ جائز ہے یہ کوئی خاص چیز نہیں بلکہ آپ علیہ السلام نے اندازہ لگا لیا کہ الله کی طرف سے یوسف کی توقیر ہونے والی ہے. یعقوب علیہ السلام نے خواب چھپانے کا حکم دیا

قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ

کہا اے بیٹے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے خلاف سازش کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے

پھر یوسف کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں پھینکا وہاں سے الله نے مصر پہنچایا اور الله نے عزیز مصر کا وزیر بنوایا  پھر قحط پڑنے کی وجہ سے بھائیوں کو مصر آنا پڑا اور بلاخر ایک وقت آیا کہ خواب سچ ہوا

رَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ ھ۔ذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا

اور احترام سے بٹھایا اس نے اپنے والدین کو تخت پر اور جھک گئے سب اس کے لئے سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا: ابّا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچّا

اس خواب کی بابت بعض لوگوں نے  بلا دلیل موقف اختیار کر لیا ہے کہ یہ خواب دیکھنا ہی  یوسف کی نبوت کا آغاز تھا- یہ    موقف اس لئے اپنایا گیا کہ کسی  طرح   اس سجدہ  کو حکم الہی  قرار دیا جائے جو     سورت میں بیان ہوا کہ اولاد یعقوب  سے یوسف کے حوالے سے ہوا  –   بعض نے  اس سجدے کو اللہ  تعالی کو سجدہ  قرار دیا جبکہ  آیت میں ضمیر الہا     یوسف کی طرف ہے نہ کہ اللہ تعالی کی طرف –   راقم کا موقف ہے کہ یہ سجدہ  انحنا  تھا   یعنی صرف  شرمندہ ہو کر جھکنا   تھا   نہ کہ معروف نماز   کا اصطلاحی  سجدہ-   یاد رہے کہ سجد  کا لفظ    قریش کی عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب زمین کی طرف لپکنا ہے – جب ان کے بھائی مصر کے دربار میں پہنچے تو یوسف کے بھائی  شرم و ندامت سے  جھک  گئے اور اس طرح وہ خواب حق ہو گیا جو دیکھا تھا – یہ سجدہ تعظیمی نہ تھا یہ صرف زمین کی طرف  جھکنا تھا جس کو الانحناء بھی کہا جاتا ہے-  یوسف علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو فرمایا

وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ

اے باپ یہ میرے پچھلے خواب کی تاویل تھی (آج) میرے رب نے اس کو حق کر دیا

یوسف کا خواب الوحی نہیں تھا

اس پر دلیل یہ ہے کہ  انبیاء پر تو لازم ہے کہ جو الوحی ہو اس کو ببانگ دھل بیان کریں  و اللہ یعصمک من الناس

اللہ ان کو لوگوں سے بچائے گا

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ

اے رسول پھیلا دو جو تمہارے رب نے تم پر نازل کیا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کو نہیں ادا کیا اور بے شک اللہ لوگوں سے بچائے گا

سورہ المائدہ ٦٧ میں

جس کو علم کی بات معلوم ہو اور اس کو چھپا دے اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا حدیث

ان فرمودات کی روشنی میں واضح ہے کہ یعقوب نے اس کو اپنے غیر نبی بیٹے یوسف کا سچا خواب سمجھا جس کو ابھی نبوت نہیں ملی لیکن عنقریب اس پر نعمت تمام ہو گی اور وہ نبی بن جائے گا-  یوسف علیہ السلام کا یہ خواب اسی طرح سچی خبر تھا جس طرح ایک عام مومن بندے کو سچا خواب اتا ہے جو پورا ہوتا ہے- یعقوب اس وقت نبی تھے انہوں نے جو کہا اس میں اس کا کہیں اثبات نہیں ہے کہ تم اے یوسف نبی بن چکے ہو بلکہ ان کے نزدیک ابھی یوسف پر اتمام نعمت نہیں ہوا تھا –  نبی بننا ہی سب سے بڑی نعمت ہے جو یوسف کو اس وقت نہیں ملی تھی

کوئی بھی خواب دیکھ کر عام مومن نہیں کہہ سکتا ایسا ہو گا لیکن اگر وہ عام مومن اپنا خواب نبی پر پیش کرے تو وہ نبی اس کی تاویل کر سکتا ہے –  یوسف (علیہ السلام ) جب غیر نبی تھے تو انہوں نے اپنا خواب نبی یعقوب (علیہ السلام ) پر پیش کیا –  یعقوب علیہ السلام نے تاویل کی- یعقوب  کو بھی  اس خواب کی مکمل تفصیل الوحی سے نہیں پتا چلی تھی کہ یوسف بچھڑ جائیں گے اور یہ سب مصر میں ہو گا –  انبیاء جب تاویل کرتے ہیں تو وہ ان کو اشارات پر کرتے ہیں اس پر الوحی نہیں اتی  کیونکہ  تاویل ایک علم ہے جو سکھا دیا جاتا ہے اس کا استعمال کر کے انبیاء خواب کی تعبیر کرتے ہیں – دوسری طرف الوحی ہے جو کب آئے کی خود انبیاء کو بھی علم نہیں ہوتا-

  یوسف  علیہ السلام کے تمثیلی خواب کو اگر ہم وحی مان لیں تو ثابت ہو جائے گا کہ انبیاء نے جو تمثیلی خواب دیکھے ان کو اس کا مطلب  خود بھی نہیں پتا تھا  جو ممکن نہیں کہ ایک  نبی کو خواب دکھایا جائے لیکن وہ اس خواب کی تاویل کو سمجھ ہی نہ پائے –  لہذا ثابت یہی ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام  اس خواب کے  آنے کے وقت نبی نہیں عام بشر تھے – یوسف علیہ السلام کے خواب پر یعقوب علیہ السلام  نے  پیغمبرانہ تبصرہ  کیا  اور  تبصرہ بھی انبیاء کر سکتے ہیں اور دعا بھی دے سکتے ہیں-   یعقوب علیہ السلام  کے  تبصرے میں  الفاظ محض دعا جیسے کلمات ہیں –

یعقوب علیہ السلام اصل میں اس وعدہ الہی کی بنیاد پر تبصرہ کر رہے ہیں جو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا

وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ

سورہ بقرہ ١٢٤

جب تمھارے رب نے ابراھیم کی آزمائش کلمات (احکام) سے کی، تو اس نے ان کو پورا کیا – کہا میں نے تجھ کو انسانوں پر امام کیا بولا اور میری اولاد ؟ کہا میرا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں

یوسف علیہ السلام کا خواب سن کر یعقوب علیہ السلام کی بات اسی وعدہ کی عملی شکل کا ذکر ہے کہ  اب ابراہیم کے بعد اللہ تعالی یوسف کو امام بنا رہا ہے- فرمایا

 (سورہ یوسف، آیت6)

اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا، اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا اور تم پر اور یعقوب کی اولاد پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسے اس نے اس سے پہلے تمہارے ماں باپ پر اور ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی۔ یقینا تمہارا پروردگار علم والا اور حکمت والا ہے۔

کتاب الرویا

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

اس مختصر  کتاب میں  خواب   سے متعلقہ  مباحث    کا ذکر ہے-  جن     میں    ان  روایات  پر تحقیق کی گئی ہے  جو  تعبیر  خواب کے  نام   پر دھندہ  کرنے والے  پیش کر  کے عوام   کا  مال بتوڑتے  ہیں –  کتاب  میں  خواب میں الله تعالی  کو دیکھنے  اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کا دیدار  کرنے سے متعلق  بھی روایات  پیش کی گئی ہیں   اور  ان کی اسناد  پر تحقیق کی گئی ہے- آخری ابواب میں  فرقوں کے متضاد  خواب    جمع  کیے   گئے ہیں   اور  ان کی تلبسات  باطلہ کا  رد  کیا گیا ہے –   اس کتاب میں انبیاء کے وہ خواب جو انہوں نے نبی بننے سے قبل  دیکھے ان پر  نظر ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہ خواب محض سچے خواب تھے نہ کہ الوحی-

حدیث سمرہ (رض) پر نگارشات

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کی حدیث سمرہ بن جندب کو الوحی تسلیم کیا ہے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب ہے اور انبیاء کا خواب الوحی کی قسم میں سے ہے – اس کے بر عکس  فرقوں  نے اس  خواب کو  الوحی ماننے سے انکار کیا اور اس حدیث کو عذاب قبر کی کتب میں نکال دیا ہے – اگرچہ سن ٨٠ کی دہائی سے قبل وہ بھی اس  حدیث کو عذاب جہنم  یا عذاب البرزخ کے طور پر اپنے فتووں میں لکھتے رہے ہیں

حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ    جو صحیح البخاری میں موجود ہے وہ یہ  ہے

اس  کے شروع میں برزخی اجسام پر عذاب کا ذکر ہے جو جہنم میں ہو رہا ہے اور اس کو ارض مقدس کہا گیا ہے پھر اسی ارض مقدس میں انبیاء و شہداء کا ذکر ہے ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے اور اسی ارض مقدس میں بادل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے  برزخی مقام کا ذکر ہے

لیکن اس حدیث  کے شروع کے حصے کا سب اہل حدیث انکار کرتے ہیں کہ

ارض مقدس ملک  شام ہے آسمان نہیں

ارض مقدس میں عذاب ممکن نہیں

ارض مقدس میں عذاب خواب میں دیکھا یہ خواب تمثیلی تھا وغیرہ وغیرہ

لیکن جب اس کے آخری حصے پر اتے ہیں تو بعض  اسی ارض مقدس کو آسمان میں نبی کا گھر قرار دیتے ہیں مثلا زبیر علی زئی نے توضح الاحکام میں لکھا ہے

یعنی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں  انبیاء و شہداء کے حوالے سے ارض مقدس سے مراد عالم برزخ و عالم الارواح ہے  یعنی جنت  کا دور

جنت فرقوں کے نزدیک بھی آسمان میں ہے  جس سے ثابت ہوا کہ ارض مقدس  سے مراد عالم بالا ہے لیکن اہل حدیث مولوی  دامانوی   کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

مگر اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ آپ کو الارض المقدس میں لے جایا گیا جہاں مختلف مناظر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا اور یہ تمام واقعات آپ نے زمین ہی ملاحظہ فرماتے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ قبر کا عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے

اہل حدیث مولوی    رفیق طاہر تقریر  اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں کہتے  ہیں

یہ واقعہ خواب کا ہے اور کیا ہے کہ دو بندے آپ کے پاس آئے۔ ”فاخرجاني الی الارض المقدسة“ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ اب کوئی پوچھے کہ ارض کا معنی آسمانوں والا گھر کرنا ، یہ دین کی خدمت ہے؟ یہ کون سی فقاہت ہے؟ نبی فرمارہے ہیں کہ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ واقعہ بھی خواب کا ہے ، اور لے کر کہاں جارہے ہیں؟ ”الى الارض المقدسة“ ارض مقدسہ کی طرف۔ اور وہاں پر نبی نے اوپر اپنا گھر دیکھا اور کہا گیا کہ یہ آپ کا گھر ہے۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ آسمانوں والے گھر میں ہیں۔ یا للعجب! بڑی عجیب اور حیرانی کی بات ہے۔یہ اعتراض بھی ان کا حدیث کے شروع والے الفاظ پڑھتے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اور ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔

راقم کہتا ہے کہ ایک اہل حدیث اسی حدیث کو عالم بالا پر  لگا رہا ہے تو دوسرا  اسی کا مذاق اڑا رہا ہے کہ یہ کون سی دینی خدمت ہے

 رفیق طاہر صاحب، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

اور پھر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے کہا “إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوْ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ” یقینا آپکی کچھ عمر باقی ہے اگرآپ وہ پوری کر لیں گے تو آپ اپنے گھر میں آ جائیں گے۔ مرنے کے بعد ہی اخروی گھر جنت یا جہنم میں انسان جاتا ہے ۔ لیکن فورا بعد یا کچھ دیر بعد ‘ اسکا کوئی تذکرہ اس حدیث میں موجود ہی نہیں ہے ۔

اس کے برعکس ابو جابر دامانوی کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

جناب سمرہ بن ـجذب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خواب بیان فرماتے ہیں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں اپنا گھر دکھایا جاتا ہے آگے کے الفاظ یہ ہیں (جناب جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ :۔

 ذرا اپنا سر اوپر اٹھائیے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنا سر اٹھایا تو میں نے اپنے سر کے اوپر ایک بادل سا دیکھا ۔ان دونوں نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے گھر میں داخل ہو جائوں ۔ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا نہیں کیا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پورا کر لین تو اپنے اس گھر میں آ جائیں گے ۔ (صحیح و بخاری ‘عذاب قبر ص

 ان احادیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں کا جنت میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔

معلوم ہوا کہ اہل حدیث میں سے بعض  اس حدیث کے شروع  کے  متن کا انکار کر کے اس کے آخری کلمات کو قبول کر رہے ہیں اور ان  میں سے بعض سرے سے ہی اس خواب کو الوحی ماننے کے لئے تیار ہی نہیں

نوٹ

اس حدیث سے متعلق آشکالات کا کافی و شافی جواب یہاں موجود ہے

⇑  سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی روایت کی فرقہ پرستوں کی طرف سے تاویلیں کی جاتی ہیں ان کا کیسے رد کیا جائے

حیات بعد الموت

تعویذ کے جواز کے دلائل کا جائزہ

فرقہ پرست تعویذ کے جواز پر جو دلائل دیتے ہیں ان پر تبصرہ یہاں ایک جگہ کیا گیا ہے

فرقوں کی دلیل
قرآن میں ہے
وننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃ للمومنین۔
سورۃ بنی اسرائیل
اور ہم نے قرآن نازل کیا جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔

تبصرہ
اس آیت کا تعلق قلبی بیماریوں سے ہے جن کو قرآن میں فی قلوبھم مرض کہا گیا ہے

غور طلب ہے قرآن فرقہ پرستوں کے مطابق شفاء ہے جس کی  دلیل ان کے نزدیک قرآن ہی کی یہ آیت سوره الاسراء ٨٢ میں ہے
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا
أور هم نے اس قرآن میں نازل کی ہے شفاء اور مومنوں کے لئے رحمت اور یہ ظالموں کے لئے کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتی سوائے خسارے کے

فرقہ پرست دم کرنے کے حوالے سے ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ایک سردار کو بچھو ڈستا ہے اور اس کافر کو قرآن سے شفاء ہو جاتی ہے
حالانکہ قرآن میں ہے کہ کفار کو قرآن سے شفاء ممکن نہیں ہے

روایت کے مطابق قبیلہ کا سردار کافر تھا یعنی شرک کا ظلم کرتا تھا تو آیت میں اگر شفاء سے مراد جسمانی شفاء ہے تو وہ روایت تو اس کے بر خلاف بیان کر رہی ہے جس میں سوره فاتحہ کے دم سے سردار کو شفاء ملتی ہے – اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت جسمانی بیماریوں کے متعلق نہیں بلکہ اعتقادی مرض سے متعلق ہے جس کو قرآن فی قلوبھم مرض کہتا ہے-

فرقوں کی دلیل

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔
سنن ابن ماجہ

تبصرہ
اس روایت کو فرقوں کے اماموں نے رد کیا ہے
حدثنا محمد بن عبيد بن عبد الرحمن الكندي قال: حدثنا علي بن ثابت قال: حدثنا سعاد بن سليمان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير الدواء القرآن»
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای بہترین دوا قرآن مجید ہے ۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۵۶) (ضعیف) (سند میں حارث الاعور ضعیف راوی ہے)

قال زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة
ضعيف / تقدم:3501

قال الألباني: ضعيف

فرقوں کی دلیل

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تعویذات لکھا کرتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 75 ابوداود ج 2 ص 543 پر

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبد اللهؓ بن عمرو(بن العاص) یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے

۔[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ ۔۔۔ رقم الحديث: 3475 (3528)

تبصرہ : عمرو بن شعيب بن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص ضعیف ہے – بعض محدثین کے نزدیک اسکی روایت حسن ہے- عمل میں اس کی روایت سے فقہاء نے دلیل لی ہے – سند میں محمد بن اسحاق بھی ہے جس کو ثقہ کے علاوہ دجال بھی کہا گیا ہے –بعض کے نزدیک حسن الحدیث ہے

یہ روایت انڈیا کے اہل حدیث  کفایت اللہ سنابلی و غیرھم  کے نزدیک بھی ضعیف  ہے – یہی بات جب سن ٨٠ میں ڈاکٹر عثمانی کرتے تھے تو اہل حدیث اس روایت کے دفاع میں تقریریں کرتے تھے  – اللہ کا شکر ہے جس نے  ہم کو سن ٨٠ میں ہی اس روایت سے بچا لیا  جبکہ  متعدد اہل حدیث تعویذ گلوں میں  لکٹائے  اپنے  مقام برزخ میں پہنچ  گئے –  و للہ الحمد

فرقوں کی دلیل عیسیٰ علیہ السلام کا تعویذ کا حکم

المجالسة وجواهر العلم از المؤلف : أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ قُتَيْبَةَ، نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ مِنْ وَلَدِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، عَنْ أَبِي بِشْرِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: [ص:170] مَرَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ [صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ] بِبَقَرَةٍ قَدِ اعْتَرَضَ وَلَدُهَا فِي بَطْنِهَا، فَقَالَ: يَا كَلِمَةَ اللهِ! ادْعُ اللهَ أَنْ يُخَلِّصَنِي. فقال [صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ] : ياخالق النَّفْسِ مِنَ النَّفْسِ! وَيَا مُخْرِجَ النَّفَسِ مِنَ النَّفْسِ! خَلِّصْهَا، فَأَلْقَتْ مَا فِي بَطْنِهَا. قَالَ: فَإِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلْدُهَا؛ فَلْيُكْتَبْ لَهَا هَذَا

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا ایک گائے پر گزر ہوا جس کے بطن میں اولاد نے مشکل کی تھی پس گائے نے کہا اے کلمہ اللہ اللہ سے دعا کریں کہ اس مشکل سے خلاصی ہو – پس عیسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے   کہا اے نفس سے نفس کو خلق کرنے والے اے نفس میں سے نفس کو نکالنے والے اس کو خلاصی دے پس جو اس گائے کے  بطن میں تھا نکل آیا – ابن عباس نے کہا جب عورت کو اس طرح جننا مشکل ہو تو یہ کلمات اس کے لئے لکھ دو

سند میں ابراہیم بن سلیمان مجہول ہے

لیکن تفسیر روح البيان میں اس قصہ کو درج کیا گیا ہے

سلف کی دلیل جلد ولادت کا مجرب نسخہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بچے کی پیدائش کے لیے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے کہ ان کو دھو کر مریضہ کو پلا دو
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60 پر
بلکہ طبرانی شریف میں اس حدیث کے بعض الفاظ یوں بھی ملتے ہیں کہ کچھ پانی اس کے پیٹ اور منہ پر چھڑک دو۔

تبصرہ

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا، فَيَكْتُبُ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَاتِ فِي صَحْفَةٍ ثُمَّ تُغْسَلُ فَتُسْقَى مِنْهَا «بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ» {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات: 46] {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} [الأحقاف: 35]

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ جب عورت کو بچہ جننے میں مشکل ہو تو اس کے لئے یہ دو آیات اور کلمات ایک صفحہ پر لکھو پھر ان کو دھو کر اس کا دھون عورت کو پلا دو
بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَـهَا لَمْ يَلْبَثُوٓا اِلَّا عَشِيَّةً اَوْ ضُحَاهَا
جس دن اسے دیکھ لیں گے (تو یہی سمجھیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھہرے تھے۔

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ لَمْ يَلْبَثُـوٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّـهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُوْنَ
ایک دن میں سے ایک گھڑی بھر رہے تھے، آپ کا کام پہنچا دینا تھا، سو کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا۔
اسکی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جو خراب حافظہ کا مالک تھا

تفسیر الدر المنثور از السیوطی میں ہے
أخرج ابْن السّني والديلمي عَن ابْن عَبَّاس – رَضِي الله عَنْهُمَا – قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: إِذا عسر على الْمَرْأَة وِلَادَتهَا أَخذ اناءٌ نظيفٌ وكُتِبَ عَلَيْهِ (كَأَنَّهُمْ يَوْم يرَوْنَ مَا يوعدون ) (الْأَحْقَاف الْآيَة 35) إِلَى آخر الْآيَة (وَكَأَنَّهُم يَوْم يرونها ) (النازعات الْآيَة 46) إِلَى آخر الْآيَة {لقد كَانَ فِي قصصهم عِبْرَة لأولي الْأَلْبَاب} إِلَى آخر الْآيَة ثمَّ تغسل وتسقى الْمَرْأَة مِنْهُ وينضح على بَطنهَا وفرجها

تفسیر قرطبی میں ہے
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا تَكْتُبُ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَتَيْنِ فِي صَحِيفَةٍ ثُمَّ تُغَسَّلُ وَتُسْقَى مِنْهَا، وَهِيَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ” كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَها لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً «4» أَوْ ضُحاها” [النازعات: 46].” كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ” صَدَقَ اللَّهُ الْعَظِيمُ. وَعَنْ قتادة: لا يهلك الله»

الدعوات الكبير از طبرانی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي الْمَرْأَةِ يَعْسُرُ عَلَيْهَا وَلَدُهَا قَالَ: يُكْتَبُ فِي قِرْطَاسٍ ثُمَّ تُسْقَى: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَكِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ تَعَالَى رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، بَلَاغٌ، فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} [الأحقاف: 35] ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات: 46] “. هَذَا مَوْقُوفٌ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ

المجالسة وجواهر العلم از أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) میں ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُسْلِمٍ؛ قَالَ: حَدَّثُونِي عَنْ يَعْلَى، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: [ص:171] إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وِلَادُهَا؛ فَلْيُكْتَبْ لَهَا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهَ الْحَلِيمَ الْكَرِيمَ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلا القوم الفاسقون} [الأحقاف: 35]

اہل حدیث کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے فتوی میں سندا اس روایت کو لکھا ہے اور محدث کا تجربہ بھی نقل کیا ہے
مجموع الفتاوى ج ١٩ ص ٦٥ پر

قال علي: يكتب في كاغدة فيعلق على عضد المرأة قال علي: وقد جربناه فلم نر شيئا أعجب منه فإذا وضعت تحله سريعا ثم تجعله في خرقة أو تحرقه.
علي بن الحسن بن شقيق المتوفی ٢١٥ ھ نے کہا اس کو کاغذ پر لکھے پھر اس کو عورت کی ران پر لٹکا دے اور ہم نے اس کا تجربہ کیا اور ہم نے اس سے زیادہ حیرانگی والی چیز نہ دیکھی جیسے ہی عورت جن دے  اس تعویذ کو خرقے میں جلدی  رکھو  یا  پھر اس کو  جلا دو

مکمل متن ہے
كَمَا نَصَّ عَلَى ذَلِكَ أَحْمَد وَغَيْرُهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَد: قَرَأْت عَلَى أَبِي ثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ؛ ثَنَا سُفْيَانُ؛ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْحَكَمِ؛ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وِلَادَتُهَا فَلْيَكْتُبْ: بِسْمِ اللَّهِ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} . قَالَ أَبِي: ثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ بِمَعْنَاهُ وَقَالَ: يُكْتَبُ فِي إنَاءٍ نَظِيفٍ فَيُسْقَى قَالَ أَبِي: وَزَادَ فِيهِ وَكِيعٌ فَتُسْقَى وَيُنْضَحُ مَا دُونَ سُرَّتِهَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: رَأَيْت أَبِي يَكْتُبُ لِلْمَرْأَةِ فِي جَامٍ أَوْ شَيْءٍ نَظِيفٍ. وَقَالَ أَبُو عَمْرٍو مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَد بْنِ حَمْدَانَ الحيري: أَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ النسوي؛ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَد بْنِ شبوية؛ ثنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ؛ ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ؛ عَنْ سُفْيَانَ؛ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى؛ عَنْ الْحَكَمِ؛ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وِلَادُهَا فَلْيَكْتُبْ: بِسْمِ اللَّهِ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ؛ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ؛ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} . قَالَ عَلِيٌّ: يُكْتَبُ فِي كاغدة فَيُعَلَّقُ عَلَى عَضُدِ الْمَرْأَةِ قَالَ عَلِيٌّ: وَقَدْ جَرَّبْنَاهُ فَلَمْ نَرَ شَيْئًا أَعْجَبَ مِنْهُ فَإِذَا وَضَعَتْ تُحِلُّهُ سَرِيعًا ثُمَّ تَجْعَلُهُ فِي خِرْقَةٍ أَوْ تُحْرِقُهُ.

الغرض ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ سلف میں اس عمل کو کیا گیا ہے اور یہ عمل ابن عباس سے منسوب کیا گیا ہے

لیکن یہ ابن عباس سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کی سندوں میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى کا تفرد ہے جو ضعیف ہے
محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى الفقيه: صدوق، سيء الحفظ، قال ابن معين: ضعيف، وقال مرة: ليس بذاك، وقال النسائي: ليس بالقوي

وہابی عالم أبو عبيدة مشهور بن حسن آل سلمان نے المجالسة وجواهر العلم از أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) میں اس سند کو کتاب میں ضعیف قرار دیا ہے-

سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ہے
محمد بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا بہت خراب حافظہ کے مالک تھے-
اور اس حالت میں اس نے اس روایت کو ابن عباس سے منسوب کر دیا ہے-

أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ نے کہا : لا يُحْتَجُّ بِهِ، سَيِّئُ الحفظ.دلیل مت لینا خراب حافظہ کا ہے
وَرَوَى مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ مَعِينٍ: ضَعِيفٌ. ابن معین نے کہا ضعیف ہے
وَقَالَ النَّسَائِيُّ، وَغَيْرُهُ: لَيْسَ بِالْقَوِيِّ.نسائی نے کہا قوی نہیں ہے
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: رديء الحفظ، كثير الوهم.دارقطنی نے کہا ردی حافظہ اور کثرت سے وہم کا شکار تھا-

امام احمد نے اس سند کو ناقابل دلیل قرار دیا ہے لیکن ان کے بیٹے نے خبر دی کہ اسی روایت کی بنیاد پر امام احمد تعویذ کرتے تھے کتاب المسائل امام احمد بن حنبل میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے- خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے-

محمد عمرو بن عبد اللطيف مصری عالم نے تكميل النفع بما لم يثبت به وقف ولا رفع میں لکھا ہے
مع ضعف هذا الأثر، فقد عمل به الإمام أحمد رحمه الله …. قال الخلال : أنبأنا أبو بكر المروذي (3) أن أبا عبد الله جاءه رجل فقال : يا أبا عبد الله تكتب لامرأة قد عسر عليها ولدها منذ يومين ، فقال : قل له يجئ بجام واسع وزعفران . ورأيته يكتب لغير واحد … )) . قلت : وفي هذا دليل على أن الإمام أحمد رحمه الله كان يأخذ بالأحاديث والآثار الضعيفة إذا لم يجد في الباب غيرها ، ولم يكن هناك ما يدفعها ، والله أعلم

اور اس اثر کے ضعیف ہونے کے باوجود امام احمد کا اس پر عمل ہے …. خلال نے ذکر کیا کہ ہمیں ابو بکر المروزی نے خبر دی کہ ایک شخص امام احمد کے پاس آیا اور کہا اے ابو عبد اللہ میرے بیوی کے لئے تعویذ لکھیں اس کو جننے میں مشکل ہے دو روز سے  پس امام احمد نے کہا ایک بڑا برتن لاو اور زعفران اور میں نے دیکھا کہ ایک سے زائد کے لئے یہ لکھتے تھے
میں (محمد عمرو بن عبد اللطيف) کہتا ہوں یہ دلیل ہے کہ احمد ان احادیث و اثار کو لیتے تھے جو ضعیف ہوتے تھے جب ان کو اس باب میں کوئی اور نہ ملتا و اللہ اعلم

ہمارا سوال ہے کہ باریک کپڑے پر لکھنے کا مقصد کیا ہے؟اصلا توہم پرست ان آیات لکھےکپڑوں کو کھاتے تھے یا زعفران سےآیات کٹورے کے کناروں پر لکھتے پھر اس میں پانی ڈال کر دھون پیتے-

امام ابن تیمیہ کتاب إيضاح الدلالة في عموم الرسالة میں لکھتے ہیں

قال عبد الله بن أحمد بن حنبل – قال أبي : حدثنا أسود بن عامر بإسناده بمعناه وقال يكتب في إناء نظيف

فيسقى … قال عبد الله رأيت أبي يكتب للمرأة في حام أو شئ نظيف

عبد الله بن احمد کہتے ہیں میرے باپ نے کہا ہم سے اسود نے روایت کیا….. اور کہا اور وہ صاف برتن پر لکھتے اور پھر پیتے عبد الله کہتے ہیں میرے باپ باریک چیز یا صاف چیز پر لکھتے۔

ابن تیمیہ اس کی تائید میں کہتے ہیں:

يجوز أن يكتب للمصاب وغيره شئ من كتاب الله وذكره بالمداد المباح – ويسقى

اور یہ جائز ہے کہ مصیبت زدہ کے لئے کتاب الله اور ذکر کو مباح روشنائی سے لکھے اور پی لے

اس کو ابن قیم نے بھی کتاب زاد المعاد میں جائز کہا ہے۔

فرقوں کی دلیل : فاطمہ پر دم

ابن السنی نے میں ایک اور روایت دی ہے
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَامِرٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَاءٍ، ثنا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَنَا وِلَادُهَا أَمَرَ أُمَّ سُلَيْمٍ، وَزَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ أَنْ تَأْتِيَا فَاطِمَةَ، فَتَقْرَآ عِنْدَهَا آيَةَ الْكُرْسِيِّ، وَ {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ} [الأعراف: 54] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَتُعَوِّذَاهَا بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ “

حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی ماں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ولادت کا وقت انے کا پتا چلا آپ نے ام سلیم اور زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ فاطمہ کے پاس جائیں اور ان پر آیت الکرسی پڑھیں اور سورہ الاعراف کی آیت ٥٤ سے آخر تک اور مُعَوِّذَتَيْنِ   پڑھیں

تبصرہ
سند میں بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ضعیف ہے
موسى بن أبي حبيب بھی ضعیف ہے – الذھبی نے دیوان میں اس کا ذکر کیا ہے عن زين العابدين علي، ضعفه أبو حاتم

فرقوں کی دلیل

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کی قائل تھیں کہ پانی میں تعویذ ڈال کر وہ پانی مریض پر چھڑکا جائے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص60
تبصرہ
عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:-

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّهَا كَانَتْ لَا تَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَوَّذَ فِي الْمَاءِ ثُمَّ يُصَبَّ عَلَى الْمَرِيضِ»

أَبِي مَعْشَرٍ سے مروی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس میں برائی نہیں دیکھتی تھیں کہ پانی پر تعوذ کیا جائے پھر مریض پر اس کو ڈالا جائے-

ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق

سَأَلت یحیی بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث
ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے-

ابی معشر زياد بن كليب کا سماع تابعین سے ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی روایت منقطع ہے اور ان دونوں کے درمیان إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ اور الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ کا واسطہ ہے اور بعض اوقات ان دونوں کے درمیان الشَّعْبيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ کا واسطہ اتا ہے-

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، أَنَّ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ سُئِلَتْ عَنِ النُّشَرِ، فَقَالَتْ: «مَا تَصْنَعُونَ بِهَذَا؟ هَذَا الْفُرَاتُ إِلَى جَانِبِكُمْ، يَسْتَنْقِعُ فِيهِ أَحَدُكُمْ يَسْتَقْبِلُ الْجِرْيَةَ»
الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ نے ام المومنین عائشہ سے نشر کا (عمل ) پوچھا – انہوں نے کہا کیسے کرتے ہیں ؟ یہ میٹھا پانی تمہارے پہلو میں ہے تم میں سے کوئی اس پانی کو لے اور گلے کے حلقوم کے سامنے لائے-

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَنْ أَصَابَهُ بُسْرَةٌ أَوْ سُمٌّ أَوْ سِحْرٌ فَلْيَأْتِ الْفُرَاتَ، فَلْيَسْتَقْبِلِ الْجِرْيَةَ، فَيَغْتَمِسْ فِيهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ»
الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ نے ام المومنین عائشہ سے روایت کیا انہوں نے فرمایا جس کو بسرہ کی بیماری ہو یا زہر یا جادو- وہ میٹھا پانی لے اس کو حلقوم کے سامنے کرے اور اس پانی میں سات بار اپنے آپ کو ڈبوئے-

عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس میں پانی پر دم کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ صرف سات بار پانی سے بخار ٹھنڈا کرنے کا ذکر کیا ہے

فرقوں کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کا تعویذ کرنا

اماں عائشہ رضی ش عنہانے فرمایا کہ: ”(تمیمہ) تعویذ اسے کہتے ہیں جسے کسی مصیبت کے لاحق ہونے سے پہلے لٹکایا جائے، نہ کہ اس کے بعد“ (البیہقی: 9/351)۔

تبصرہ

اس کے متن میں اضطراب ہے
بیہقی سنن الکبریٰ میں عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:

لَيْسَتْ التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ قَبْلَ الْبَلَاءِ إنَّمَا التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ بَعْدَ الْبَلَاءِ لِتَدْفَعَ بِهِ الْمَقَادِيرَ
تعویذ وہ نہیں جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت کے بعد دفع کے لئے لٹکایا جائے

اس کے برعکس حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں

وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «لَيْسَتِ التَّمِيمَةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ بَعْدَ الْبَلَاءِ، إِنَّمَا التَّمِيمةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ قَبْلَ الْبَلَاءِ
عائشہ رضی الله روایت کرتی ہیں کہ تعویذ نہیں جو آفت کے بعد لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے

مضطرب المتن روایت بھی قابل رد ہوتی ہے کیونکہ یہ واضح نہیں رہا کہ کیا کہا گیا تھا

فرقوں کی دلیل مجاہد کا تعویذ کرنا

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ قرآنی آیات کو لکھ کر ڈرنے والے مریض کو پلائی جائیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74 پر
تبصرہ

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ثُوَيْرٍ، قَالَ: «كَانَ مُجَاهِدٌ يَكْتُبُ لِلنَّاسِ التَّعْوِيذَ فَيُعَلِّقُهُ عَلَيْهِمْ»

ثوير بن أبى فاختة نے کہا مجاہد لوگوں کے لئے تعویذ لکھتے اور ان پر لٹکاتے

تبصرہ: سند میں ثوير بن أبى فاختة سخت ضعیف ہے

فرقوں کی دلیل سعید بن المسیب کا تعویذ کرنا
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ»
أَبِي عِصْمَةَ کہتے ہیں میں نے ابن المسیب سے سوال کیا تعویذ پر – کہا اگر چمڑے میں ہو تو کوئی برائی نہیں ہے

سنن الکبری البیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَأَلَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ عَنِ الرُّقَى وَتَعْلِيقِ الْكُتُبِ، فَقَالَ: كَانَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ يَأْمُرُ بِتَعْلِيقِ الْقُرْآنِ وَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ. قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: وَهَذَا كُلُّهُ يَرْجِعُ إِلَى مَا قُلْنَا مِنْ أَنَّهُ إِنْ رَقَى بِمَا لَا يُعْرَفُ أَوْ عَلَى مَا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ إِضَافَةِ الْعَافِيَةِ إِلَى الرُّقَى لَمْ يَجُزْ , وَإِنْ رَقَى بِكِتَابِ اللهِ أَوْ بِمَا يَعْرِفُ مِنْ ذِكْرِ اللهِ مُتَبَرِّكًا بِهِ وَهُوَ يَرَى نُزُولَ الشِّفَاءِ مِنَ اللهِ تَعَالَى فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ

نافع بن یزید ( الكلاعي أبو يزيد المصري المتوفی ١٦٨ ھ یا کوئی مجھول) نے یحیی بن سعید المتوفی ١٩٨ ھ سے دم اور تعویذ پر سوال کیا انہوں نے کہا کہ سعید بن المسیب قرآن لٹکانے کا حکم کرتے تھے –

یہ روایت ہی منقطع ہے کیونکہ یحیی بن سعید سے ابن مسیب تک کی سند نہیں ہے اس کے علاوہ نافع بن یزید خود یحیی سے کافی بڑے ہیں ان کا سوال کرنا بھی عجیب لگ رہا ہے

تبصرہ:
احمد العلل میں کہتے ہیں
أبو عصمة صاحب نعيم بن حماد، وقد روى شعبة، عن أبي عصمة، عن رجل، عن ابن المسيب، في التعويذ. «العلل» (1460)
معلوم ہوا کہ اس روایت میں مجھول راوی ہے

فرقوں کی دلیل امام ابو جعفر الباقر کا تعویذ کرنا
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَكْتُبَ الْقُرْآنَ فِي أَدِيمٍ ثُمَّ يُعَلِّقُهُ»
امام جعفر نے کہا میرے باپ نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں اگر قرآن کو چمڑے پر لکھا جائے پھر لٹکایا جائے

تبصرہ: اس روایت کے راوی کون سے حسن ہیں؟ کیونکہ حسن نام کے سات راوی ہیں جو جعفر الصادق سے روایات بیان کرتے ہیں اور یہ سب ثقہ نہیں بلکہ بعض مجھول بھی ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ ثَعْلَبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنِ التَّعْوِيذِ يُعَلَّقُ عَلَى الصِّبْيَانِ، «فَرَخَّصَ فِيهِ»

يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ نے کہا میں نے ابو جعفر سے بچوں پر تعویذ کا پوچھا تو انہوں نے اجازت دی

تبصرہ : سند میں يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ ضعیف ہے

فرقوں کی دلیل عطا کا تعویذ کرنا

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، فِي الْحَائِضِ يَكُونُ عَلَيْهَا التَّعْوِيذُ، قَالَ: «إِنْ كَانَ فِي أَدِيمٍ فَلْتَنْزِعْهُ، وَإِنْ كَانَ فِي قَصَبَةِ فِضَّةٍ فَإِنْ شَاءَتْ وَضَعَتْهُ وَإِنْ شَاءَتْ لَمْ تَضَعْهُ»

عطا سے پوچھا گیا کہ ایک حائضہ ہے جس پر تعویذ ہے – انہوں نے کہا اگر وہ چمڑے میں ہے تو اتار دے اگر چاندی میں ہے تو چاہے تو اتار رکھے اور چاہے تو نہ اتارے

تبصرہ : اگر اس سند میں عَبْدِ الْمَلِك سے مراد عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ہے تو اغلبا یہ عطاء بن السائب ہے نہ کہ عطا بن ابی رباح – و الله اعلم

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: ….. قَالَ حَجَّاجٌ: وَسَأَلْتُ عَطَاءً، فَقَالَ: «مَا سَمِعْنَا بِكَرَاهِيَةٍ إِلَّا مِنْ قِبَلِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ»

حجاج نے کہا میں نے عطا بن ابی رباح سے تعویذ کے بارے میں پوچھا کہا ہم نے اس کی کراہت کے بارے میں اہل عراق سے قبل کسی کو نہیں سنا
تبصرہ : هُشيم ابن بشير، السلمي الواسطي نے جس حجاج سے روایت کیا وہ اصل میں حجاج بن أرطأة ہے جو مختلف فیہ اور مدلس بھی ہے -امام ابن معین کہتے ہیں یہ ضعیف ہے اور نسائی کہتے ہیں قوی نہیں ہے- لہذا سند ضعیف ہے

فرقوں کی دلیل ابن سیرین کا تعویذ کرنا

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ: «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا بِالشَّيْءِ مِنَ الْقُرْآنِ»
ابن سیرین سے مروی ہے کہ وہ قرآن میں سے کسی چیز(کو بھی لٹکانے ) میں برائی نہیں دیکھتے تھے

تبصرہ : کتاب المتفق والمفترق کے مطابق
أخبرنا البرقاني قال قال لي أبو الحسن الدارقطني إسماعيل بن مسلم المكي وأصله بصري يروي عن الحسن وابن سيرين وقتادة متروك
امام دارقطنی کہتے ہیں إسماعيل بن مسلم المكي اور اصلا بصري ہیں الحسن سے ابن سيرين سے اور قتادہ سے روایت کرتے ہیں متروک ہیں

تعویذ پر تساہل علماء

تعویذ کو عبد الوہاب النجدی نے اپنی کتاب التوحید میں شرک قرار دیا لیکن اسی دور میں بر صغیر کے اہل حدیث علماء اس کے جواز کے فتوے دیتے تھے-خود غیر مقلد علماء میں سے داؤد غزنوی، سید ابو بکر غزنوی ، نواب صدیق حسن خان ، مفتی ابوالبرکات احمد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، عبدالرحمان مبارکپوری، حکیم صادق سیالکوٹی، ، میاں نذیر حسین دہلوی سمیت غزنوی ، لکھوی ، گیلانی ، قلعوی اور روپڑی خاندان کے نامی گرامی حضرات تعویزات و عملیات کے نہ صرف جواز کے قائل تھے بلکہ خود بھی بڑے عامل تھے۔ چنانچہ سید نذیر حسین دہلوی سے سوال ہوا کہ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب میں لکھا :تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد۔ مگر اشہر و اصح جواز است۔
فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 298 پر

لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے کوئی حرج کی بات نہیں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جائز ہے۔

اس فتویٰ کی تائید غیر مقلدین کے محدث عبدالرحمان مبارکپوی نے بھی کی اور لکھا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بالغ لڑکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے کلمات یاد کراتے تھے اور نابالغ لڑکوں کے لیے ان کلمات کو ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔ )ابوداود ترمذی(مزید لکھتے ہیں کہ شراح حدیث اس روایت کے تحت لکھتے ہیں کہ جس تعویذ میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو یا قرآن کی کوئی آیت یا کوئی دعا ماثورہ لکھی ہوئی ہو ایسے تعویذ کا کا بالغ لڑکوں کے گلے میں لٹکانا درست ہے۔
فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص 299 پر

زاد المعاد میں ابن قیم نے اپنے شیخ ابن تیمیہ کا ذکر کیا
كِتَابٌ للرّعاف: كَانَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ ابْنُ تَيْمِيَّةَ رَحِمَهُ اللَّهُ يكتب على جبهته:
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ «2» .
وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: كَتَبْتُهَا لِغَيْرِ وَاحِدٍ فَبَرَأَ،

نکسیر پھوٹنے پر لکھنا- شیخ اسلام ابن تیمیہ … پیشانی پر لکھا کرتے
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ
اور میں نے ان کو کہتے سنا کہ ایک سے زائد کے لئے لکھا وہ اس سے صحت یاب ہوئے۔

آیات کو جسم پر ٹیٹو کی طرح لکھنا، آیات کو زعفران سے لکھ کر دھون پینا، یا آیات کپڑے پر لکھ کر حاملہ پر لٹکانا یا اس کو کھلانا کس سنت سے معلوم ہے؟

ابن تیمیہ و ابن قیم سے سلفیوں کو دلیل ملی کہ جسم پر قرانی آیات کو ٹیٹو  بنا سکتے ہیں اور عرب نوجوان ایسا کر بھی رہے ہیں

روایت عود روح کی نکارت

قرآن کی آیت

 ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين

وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی

 پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام انسانوں  کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں – اہل تشیع کے مطابق یہ آیت خاص ہے  اس میں ان  دشمنان اہل بیت  کا ذکر ہے  جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ  کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا

تفسیر نور ثقلین  از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى  المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق

وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة

علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے

اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کے لشکر کے لشکر زندہ کرے گا-  قرن اول میں  کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں   شیعہ  زاذان  بھی تھا جو فارسی النسل تھا (اغلبا  فارس کا یہودی) اور اصحاب علی  میں سے تھا   وہ روایت کرتا ہے کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان  سے پہلے،  نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے

عقیدہ رجعت کا اصل مقصد اصل میں عدل کا قیام ہے کیونکہ دشمنان اہل بیت جو ظلم کرتے رہے وہ بغیر سزا پائے مر گئے ضروری ہے کہ وہ اس دنیا سے فرار نہ ہوں اور ان کی روحوں کو ان کے جسموں میں قیدکر دیا جائے لہذا زاذان نے روایت میں متن ڈالا کہ جب   خبیث روح آسمان کی طرف جاتی ہے اس کو زمین کی طرف پھنبک دیا جاتا ہے

مسند احمد کی روایت کے متن میں ہے

قَالَ: ” وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ، فَيَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللهِ وَغَضَبٍ “. قَالَ: ” فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ، فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هَذَا الرُّوحُ الْخَبِيثُ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانَ يُسَمَّى بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ “، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ” اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا “. ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] ” فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ،

 اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے ” اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال ” سجین ” میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔   پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے

یہ بات اس طرح بیان کی گئی ہے کہ گویا یہ غلطی بار بار ملک الموت  ہر خبیث روح کے ساتھ کرتے ہیں کہ  اس کو آسمان کی طرف لاتے ہیں تو پہلے آسمان کے فرشتے روح خبیثہ کو   زمین کی طرف پھینک دیتے ہیں- کیا  ملک الموت یہ غلطی روز کرتے ہیں؟  روایت میں ملک الموت کا اس غلطی سے رجوع درج نہیں ہے لہذا اگر زاذان کی روایت کا  متن   قبول کریں تو معلوم ہوا کہ ملک الموت غلطی بھی کرتا ہے-  غور کریں یہ روایت آخری نبی و رسول سے منسوب ہے جبکہ خبیث روحیں تو اولاد آدم میں سب سے پہلی قابیل کی ہوئی –تب سے لے کر آج تک ملک الموت یہ غلطی کرتا ہے کہ خبیث روح کو آسمان کی طرف لے کر جاتا ہے اور وہاں سے واپس اس کو زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے-

روایت کے مطابق اب خبیث روح جسد میں ہی رہے گی – لہذا فرقوں میں اس روح کے نکلنے یا نہ نکلنے پر اختلاف ہے

  ابن عبد البر کا قول ہے کہ روح  قبرستانوں میں رہتی ہے

اہل حدیث رفیق طاہر مدرس جامعہ دار الحدیث محمدیہ ملتان​  کا موقف ہے کہ  قیامت تک  روح قبر میں ہی رہتی ہے بحوالہ مناظرہ موضوع (اعادہ روح, عذاب قبر)  ملتان  کیونکہ زاذان کی روایت میں اس کو جسم سے نکالنے کا ذکر نہیں ہے

دوسری طرف اہل حدیث میں ابو جابر دامانوی اور ارشد کمال اس عقیدے کے پرچارک ہیں کہ روح کو جسم سے نکال لیا جاتا ہے جس کی دلیل دونوں نے کبھی بھی نہیں دی –   ان کے بقول یہ روح زاذان کی روایت کے بر خلاف جہنم میں پہنچا دی جاتی ہے- اس طرح یہ دونوں اس روایت کے مکمل متن کو بیان  نہیں کرتے نہ اس پر غور کرتے ہیں

زبیر علی زئی  اس سوال سے بھاگتا تھا اور اس کا جواب نہیں دیتا تھا

 

اب ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ خبیث  روح اگر جسم سے نکال لی گئی اور اس کو جہنم   میں   داخل کر دیا گیا تو کہاں یہ سب ہوا ؟ کیونکہ زاذان کی روایت  میں وہ کہتا ہے کہ روح کو پہلے آسمان سے اوپر ہی نہیں جانے دیا جائے گا – اب ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ زاذان کے نزدیک جہنم بھی زمین میں ہے – یہ بات یمنی یہود کے قول کے عین مطابق ہے کہ یمن میں موجود برہوت کا سوراخ اصل میں جہنم تک جانے کا رستہ ہے

اس طرح بعض  لوگوں نے بغیر غور کرے یہ عقیدہ اپنا لیا ہے کہ جہنم اسی زمین کے اندر ہے

سمندر ہی جہنم ہے؟

رفیق طاہر ایک سوال کے  جواب میں کہتے ہیں

عثمانیوں کے اس اعتراض کی بنیاد جہنم کا آسمان پر ہونا ہے۔ جبکہ یہ بنیاد ہی باطل ہے! انہیں کہیں کہ پہلے جہنم کا آسمان پر ہونا ثابت کریں, پھر آگے بات کریں! جنت آسمانوں میں ہے اس لیے جنت میں داخلہ کے لیے آسمانوں کے دروازوں کا کھلنا اور جنت کے دروازوں کا کھولنا ضروری ہے ۔ جبکہ جہنم زمین میں ہے۔

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ · دروازہ آسمان دنیا کا نہیں کھولا جاتا اور یہی آیت سے مراد ہے۔ · اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کافر کا اندراج سجین میں کیا جاتا ہے کہ اسے نچلی زمین میں رکھا جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم آسمانوں پر نہیں بلکہ نچلی زمین میں ہے۔ · اور اللہ تعالى کے فرمان “انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے” سے بھی جہنم کا آسمانوں پر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔

 مستدرک حاکم : 8698 اوریہ روایت حکما مرفوع ہے۔

مصدر

 http://www.rafiqtahir.com/ur/play-swal-731.html

راقم کہتا ہے یہ فتوی ان احادیث سے متصادم ہے جن میں جہنم کی وسعت کا ذکر ہے

صحیح مسلم  ٢٨٤٤ میں ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ اچانک دھماکے کی آواز آئ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہیں معلوم ہے یہ کیسی آواز ہے ؟
صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہے بہتر جانتے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
یہ ایک پتھر تھا جو آج سے ستر سال پہلے جہنم مین پھینکا گیا تھا اور آگ میں گرتا چلا جا رہا تھا اور اب وہ جہنم کی تہ تک پہنچا ہے –

زمین اتنی گہری نہیں کہ اس میں ستر سال تک  چیز گرتی رہے

– جہاں تک عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے قول کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی سند سے صحیح نہیں ملا – اس کی تفصیل راقم کی کتاب اثبات عذاب قبر میں دیکھی جا سکتی ہے اور بلاگ

https://www.islamic-belief.net/وَمَا-أَدْرَاكَ-مَا-عِلِّيُّونَ/

میں ان روایات  کا ذکر ہے

وہابی عالم ابن عثيمين سے سوال ہوا کہ : أين توجد الجنة والنار؟  جنت و جہنم  کہاں ہیں ؟

جواب دیا

مكان النار في الأرض ، ولكن قال بعضُ أهل العِلْم : إنَّها البحار ، وقال آخرون: بل هي في باطن الأرض ، والذي يظهر: أنَّها في الأرض ، ولكن لا ندري أين هي مِن الأرض على وَجْهِ التعيين.

جہنم کا مکان  زمین میں ہے  لیکن بعض علماء کہتے ہیں سمندروں میں کہیں ہے اور دوسرے کہتے ہیں یہ زمین میں چھپی ہے لیکن ہم تعيين  کے ساتھ نہیں جانتے کہ زمین میں کہاں

https://islamqa.info/ar/answers/215011/اين-توجد-الجنة-واين-توجد-النار

اس کا رد قرآن میں موجود ہے –  قرآن میں سوره الذاریات میں ہے

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا توعَدُونَ

اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے

الله تعالی نے انسانوں سے جنت و جہنم کا وعدہ کیا ہے کہ اہل ایمان کو جنت اور کفار کو جہنم میں ڈالے گا

 اس قول کو علی رضی اللہ عنہ سے   منسوب کیا گیا  ہے کہ جہنم زمین میں ہے  – تفسیر طبری میں ہے

حدثني يعقوب، قال: ثنا ابن علية، عن داود، عن سعيد بن المسيب، قال: قال عليّ رضي الله عنه لرجل من اليهود: أين جهنم؟ فقال: البحر، فقال: ما أراه إلا صادقا، (وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ) (وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ) مخففة.

سعید بن مسیب نے کہا علی نے ایک یہودی سے پوچھا جہنم کہاں ہے ؟ بولا سمندر میں – علی نے کہا میں اس کو سچا سمجھتا ہوں اور آیات پڑھیں   وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ   اور بھڑکتا سمندر اور (وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ) اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے

راقم کہتا ہے  علی سے منسوب یہ قول شاذ ہے کیونکہ خود علی رضی اللہ عنہ نے سمندری غذا کو کھایا ہے

تفسیروں میں ایک قول عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب کیا گیا ہے کہ

لا يتوضأ بماءِ البحر لأنه طبقُ جهنَّمَ

سمندر کے پانی سے وضو مت کرو کینوکہ یہ جہنم کا طبق ہے

سنن ترمذی میں حدیث کے تحت ترمذی نے لکھا ہے

وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوُضُوءَ بِمَاءِ البَحْرِ، مِنْهُمْ: ابْنُ عُمَرَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: هُوَ نَارٌ “

اور بعض اصحاب رسول نے سمندری پانی سے وضو پر کراہت کی ہے جن میں ابن عمر اور عبد اللہ بن عمرو ہیں اور ابن عمرو کا کہنا ہے وہ اگ ہے

سنن ابو داود میں ہے

حدَّثنا سعيدُ بن منصور، حدَّثنا إسماعيلُ بن زكريا، عن مُطرِّفٍ، عن بشرٍ أبي عبد الله، عن بَشيرِ بن مُسلم عن عبد الله بن عَمرو قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “لا يركبُ البحرَ إلا حاجٌّ أو معتمرٌ أو غازٍ في سبيل الله، فإن تحتَ البحرِ ناراً، وتحت النارِ بحراً

عبد الله بن عَمرو نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سمندر کا سفر نہ کرے سوائے اس کے جو حاجی ہو یا عمرہ کرنے والا یا جہاد کرنے والا کیونکہ  سمندر کے نیچے اگ ہے اور اگ کے نیچے سمندر

شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں اس میں سند میں مجہول راوی ہے اور متن شدید منکر ہے

دوسری طرف قرآن میں ہے کہ سمندر کی غذا حلال ہے اور حدیث میں سمندر کے پانی کو پاک قرار دیا گیا ہے اور حدیث ابو ہریرہ میں سمندر کے پانی کو پاک قرار دیا گیا ہے اور اس سے وضو کی اجازت دی گئی ہے

مستدرک حاکم میں ہے

أَخْبَرَنِي أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ تَمِيمٍ الْقَنْطَرِيُّ، ثَنَا أَبُو قِلَابَةَ، ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى، أَنَّ يَعْلَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْبَحْرَ هُوَ جَهَنَّمَ» فَقَالُوا لِيَعْلَى: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا} [الكهف: 29] فَقَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَدْخُلُهَا أَبَدًا حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ وَلَا تُصِيبُنِي مِنْهَا قَطْرَةٌ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ  

رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا سمندر  ہی جہنم   ہے

حاکم نے اس کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے  اور الذھبی بھی موافقت کر بیٹھے ہیں جبکہ سند  میں مجہول راوی ہے اور اس کا ذکر بیہقی نے کتاب  البعث والنشور للبيهقي میں کیا ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، أَنْبَأَ أَبُو عَمْرِو بْنُ نُجَيْدٍ، أَنْبَأَ أَبُو مُسْلِمٍ، ثنا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْبَحْرُ هُوَ جَهَنَّمُ»

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ نے کہا ایک شخص نے بیان کیا اس نے ْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى سے روایت کیا

معلوم ہوا کہ اس حدیث کی سند میں مجہول راوی ہے

الغرض سمندر ہی جہنم ہے یا جہنم سمندر میں ہے اقوال و احادیث ثابت نہیں ہیں

معلوم ہوا کہ فرقہ پرستوں کا کائنات کا  جغرافیہ ہی درست نہیں- ان کے نزدیک جہنم زمین کے اندر ہے

اللہ ان فرقوں کی  گمراہیوں سے بچائے جو سمندر  ہی کی طرح گہری ہیں

اَوْ كَظُلُمَاتٍ فِىْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشَاهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ۖ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَهٝ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّـٰهُ لَـهٝ نُـوْرًا فَمَا لَـهٝ مِنْ نُّوْرٍ (40)

یا جیسے گہرے سمندر  میں اندھیرے ہوں اس پر ایک لہر چڑھ آتی ہے اس پر ایک اور لہر ہے اس کے اوپر بادل ہے، اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہیں، جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے کچھ بھی دیکھ نہ سکے، اور جسے اللہ ہی نے نور نہ دیا ہو اس کے لیے کہیں نور نہیں ہے۔

ایک کوشش اور

[wpdm_package id=’8837′]

قرآن سے متصادم ایک منکر روایت جس میں مردے میں روح کے انے کا ذکر ہے اس کا دفاع فرقہ پرستوں کے پلیٹ فارم سے ہوتا رہتا ہے اگرچہ وہ اس روایت کو صحیح کہتے اس کے راویوں کا دفاع کرتے ہیں لیکن اس روایت کے متن کو پیش کر کے اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے کہ اس میں کیا کیا منکرات بیان ہوئی ہیں – اس روایت کا متن نکارت رکھتا ہے اس کا اقرار خود فرقوں کے امام امام الذھبی نے کیا ہے

پہلے ہم دفاع شیعہ راویان کی چند جدید کوششوں پر نظر ڈالتے ہیں

اہل حدیث عالم نورپوی مضمون حدیث عود روح، ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ میں لکھتے ہیں
لنک

مختلف ادوار کے ایک درجن سے زائد محدثین اور اہل علم کی طرف سے اس حدیث کی صحت کی توثیق ہو چکی ہے۔ کسی ایک بھی اہل فن محدث نے اسے ضعیف قرار نہیں دیا۔ اہل سنت و الجماعت کا ہر دور میں اتفاقی طور پر یہی عقیدہ رہا ہے، لیکن موجودہ دور میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے اس کے دو راویوں منہال بن عمرو اور زاذان ابوعمر کے بارے میں جرح ذکر کی ہے

راقم کہتا ہے دوسری طرف محدثین میں امام شعبہ نے المنھال کو متروک قرار دیا اس کی حدیث لینا چھوڑ دیا تھا

۔ امام الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں لکھا ہے
اس میں غرایب باتیں اور منکر باتیں ہیں
حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ

قبر کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے۔

ابن حبان کہتے ہیں عود روح والی روایت کی سند میں انقطاع ہے۔

خبر الأعمش عن المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سمعه الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو
الأعمش کی خبر ، المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سے اصل میں الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو سے ہے۔

ابن حبان کے نزدیک حدیث عود روح کی سند میں تدلیس کی گئی ہے۔

نور پوری صاحب نے المنھال بن عمرو کے دفاع کی بھی بھر پور کوشش کی ہے، چناچہ وہ عینی کی معاني الاخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جوزجانی نے اس کو سنی المذہب (سنی مذھب والا) قرار دیا ہے-

اس کو صریح تحریف کہتے ہیں- نورپوری نے کرم خوردہ ، ناقص نسخوں سے استفادہ کیا – سيء المذهب (بد مذھب) کے الفاظ ابن حجر نے فتح الباری اور تہذیب التہذیب وغیرہمیں نقل کیے ہیں جو عینی کے ہم عصر ہیں
جوزجانی نے المنھال کو سيء المذهب (بد مذھب) قرار ديا ہے- جوزجانی یہ الفاظ شیعہ راویوں کے لئے بولتے ہیں- جوزجاني كي كتاب أحوال الرجال حديث اكادمي – فيصل آباد سے چھپ چکی ہے اس میں کو سنی المذہب (سنی مذھب والا) کے الفاظ موجود نہیں- سيء المذهب (بد مذھب) جوزجاني کی جرح کے یہ مخصوص الفاظ ہیں جو انہوں نے اور راویوں کے لئے بھی استمعال کیے ہیں

اگرچہ متاخرین میں ابن حجر نے جوزجانی کی جرح کو بلا دلیل رد کیا ہے لیکن العلامة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني کتاب التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل میں لکھتے ہیں
وقد تتبعت كثيراً من كلام الجوزجاني في المتشيعين فلم أجده متجاوزاً الحد ، وإنما الرجل لما فيه من النصب يرى التشيع مذهباً سيئاً وبدعة ضلالة وزيغاً عن الحق وخذلانا ، فيطلق على المتشيعين ما يقضيه اعتقاده كقوله زائغ عن القصد – سيء المذهب ونحو ذلك
اور بہت سوں نے الجوزجاني کا شیعہ راویوں کے بارے میں کلام کو بغور دیکھا ہے لیکن ان کو حد سے متجاوز نہیں پایا- اور ان صاحب (الجوزجاني) میں اگرچہ نصب تھا اور شیعت کو ایک بد مذھب اور بدعت اور ضلالت اور حق سے ہٹی ہوئی بات سمجھتے تھے ، لیکن انہوں نے المتشيعين کے اعتقاد کے مطابق الفاظ کا اطلاق کیا ہے جیسے راہ سے ہٹا ہوا، سيء المذهب اور اس طرح کے اور الفاظ

علامہ الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني صاحب تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں

المنھال ایک متعصبی شیعہ ہے – ابن ماجہ کے مطابق المنھال بن عمرو نے روایت بیان کی کہ علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا
أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ
میں عبد الله ہوں اور رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور میں سب سے بڑا صدیق ہوں، اس کا دعوی میرے بعد کوئی نہیں کرے گا سوائے كَذَّابٌ کے

اس پر تعلیق لکھنے والے محمد فؤاد عبد الباقي، دار إحياء الكتب العربية لکھتے ہیں
في الزوائد هذا الإسناد صحيح- رجاله ثقات- رواه الحاكم في المستدرك عن المنهال
وقال صحيح على شرط الشيخين-
اس کے راوی ثقه ہیں، حاکم نے اسکو المستدرك میں المنهال بن عمرو سے روایت کیا ہے اور کہا ہے الشيخين کی شرط پر صحیح ہے

اس روایت سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مرتبہ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے

افسوس إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة میں ابن حجر نے اس کو صحیح کہا ہے

حَدِيثٌ (كم) : أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ … . الْحَدِيثَ.
كم فِي الْمَنَاقِبِ: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ. ح وَثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَارِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَبْسِيُّ، قَالا: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْهُ، بِهِ. وَقَالَ:
[ص:466] صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا.

الذھبی نے تلخیص میں حاکم  پر جرح کرتے ہوئے کہا

قلت: كذا قال! وما هو على شرط واحد منهما، بل ولا هو صحيح، بل هو حديث باطل، فَتَدَبَّرْه،

میں کہتا ہوں ایسا حاکم نے کہا ہے کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے بلکہ یہ تو صحیح تک نہیں بلکہ باطل ہے اس پر غور کرو

لوگوں نے اس روایت پر  عباد بن عبد الله الأسدي کو مہتمم کیا ہے جس کو ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے اور  العجلي کہتے ہیں  كوفيٌّ تابعيٌّ ثقةٌ   ہے – اس سے سنننے والا المنھال ہے

نورپوری کا جوابا کہنا ہے کہ ادب المفرد میں المنھال نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین کہا ہے اور رضی اللہ عنہا کی دعا بھی دی ہے

راقم کہتا ہے کہ حدیث لٹریچر میں غالی سے غالی راوی بھی یہ الفاظ نقل کرتا ہے آور شیعہ کتب میں بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین بھی لکھا جاتا ہے کیونکہ ازواج النبی کے لئے قرآن میں ہے کہ امت کی مائیں ہیں لہذا اس ٹائٹل کو وہ رد نہیں کرتے – اس کی مثال ہے اہل سنت  کی کتب میں وارد ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث پر شیعوں نے  تنقید کی ہے – کتاب کے  عنوان   میں ہی ام المومنین لکھا ہے

کتاب أحاديث أم المؤمنين عائشة   از السيد مرتضى العسكري

ملا باقر مجلسی نے بھی ام المومنین لکھا ہے ملاحظہ کریں

بحار الانوار /جزء 32 / صفحة [226]

بحار الانوار /جزء 33 / صفحة [245]

بحار الانوار /جزء 33 / صفحة [332]

بحار الانوار / جزء 42 / صفحة [141]

 

دوم دعا رضی اللہ عنہ وغیرہ کے کلمات پبلشر آجکل حدیث کا جو نسخہ چھپتا ہے اس میں خود ہی لگا دیتے ہیں – اس کی مثال ہے کہ جرح و تعدیل کی کتب میں رضی اللہ عنہ لکھا ہوا نہیں ملتا لیکن احادیث کی کتب چونکہ عام لوگوں کے لئے ہیں ان میں اس لاحقہ کا اضافہ کر دیا گیا ہے
سوم شیعہ کا تقیہ کرنا معلوم ہے تو اس سے مطلق ثابت نہیں ہوتا کہ المنھال ایک بدعتی نہیں تھا جبکہ اہل شہر کا اس پر قول ہے یہ بد مذھب تھا

اسی ادب المفرد کی روایت کی ایک سند ہے
عَنْ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ
یہاں زاذان نے ابن عمر کے ساتھ رضی اللہ عنہ کا لاحقہ کیوں نہیں لگایا ؟
اسی ادب المفرد میں ہے
عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ زَاذَانَ أَبِي عُمَرَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَدَعَا بِغُلَامٍ لَهُ كَانَ ضَرَبَهُ
زاذان نے کہا ہم ابن عمر کے ساتھ تھے انہوں نے لڑکے کو بلا کر اس کو مارا

اس قسم کے حوالہ جات سے کچھ ثابت نہیں ہوتا
نور پوری نے اقرار کیا کہ بعض سندوں میں
زاذان نے سیدنا علی کے بارے میں ”امیر المؤمنین“ یا ”رضی اللہ عنہ“ کا لفظ نہیں بولا

اس سے نور پوری نے سمجھا کہ زاذان علی کو دعا نہیں دیتا تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ کو دیتا تھا جس سے ثابت ہوا وہ شیعہ نہیں تھا

راقم کہتا ہے کہ شیعہ کے نزدیک علی تو امام زمانہ ہیں اور باقی کو دعا کی ضرورت ہے اس لئے تقیہ اختیار کیا
بہر حال یہ مثالیں جو نور پوری لے کر آئے ہیں ان کو اگر تمام غالی راویوں پر لگایا جائے تو کوئی بھی غالی نہ رہے گا سب علی کے خاص احباب بن جائیں گے کیونکہ آجکل پبلشر نے ہر روایت ، میں اپنی طرف سے رضی اللہ عنہ و رضی اللہ عنہما لکھ دیا ہے

نورپوری نے عثمانی صاحب پر جرح کی کہ انہوں نے تعویذ پر کتاب میں شیعہ یحییٰ بن جزار سے روایت کیوں لی جبکہ غالی قسم کا شیعہ تھا

راقم کہتا ہے ہم اگر نوری پوری تحقیق کا انداز یہاں اپپلائی کرتے ہیں – کتاب المعجم
أبو يعلى میں سند ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ النِّيلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا، وَأَدَّى فِيهِ الْأَمَانَةَ يَعْنِي: سَتَرَ مَا يَكُونُ عِنْدَ ذَلِكَ كَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ “. قَالَتْ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِيَلِهِ أَقْرَبُكُمْ مِنْهُ إِنْ كَانَ يَعْلَمُ، فَإِنْ كَانَ لَا يَعْلَمُ فَرَجُلٌ مِمَّنْ تَرَوْنَ أَنَّ عِنْدَهُ وَرَعًا وَأَمَانَةً»

سند میں يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ خود عَائِشَةَ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا کہہ رہے ہیں تو نور پوری کے اصول پر یہ غالی نہیں ہو سکتے

شرح معاني الآثار میں سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو أَيُّوبَ يَعْنِي ابْنَ خَلَفٍ الطَّبَرَانِيَّ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، قَالَ: ثنا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهَا عَنِ النَّبِيِّ

یہاں بھی دعا کی گئی ہے

معلوم ہوا کہ نور پوری اصولوں پر یحیی بن جزار غالی نہیں تھا
راقم کا مدعا نور پوری تحقیق کی بے بضاعتی کو ظاہر کرنا ہے کہ کھوکلے ستونوں پر کھڑی ہے

راقم کہتا ہے اہل حدیث مولوی جب جی  چاہتا ہے خود راوی کی شیعیت کو جرح بنا کر پیش کر دیتے ہیں مثلا امام  بخاری کے استاد محدث علی بن الجعد کا ذکر زبیر علی زئی نے تراویح  سے متعلق ایک روایت پر  قیام رمضان نامی مضمون میں  اس طرح کیا

نور پوری کا کہنا ہے کہ
جرح و تعدیل اور صحت و سقم حدیث کی معرفت ابن حزم رحمہ اللہ کا میدان نہیں تھا۔

راقم کہتا ہے ابن تیمیہ و ابن قیم بھی محض ناقل ہیں اور رہی بات امام حاکم کی تو ان کے محدثین نے سخت اعتراضات کیے ہیں مثلا وسیلہ کی شرکیہ روایات کو صحیح قرار دینے پر – خود ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا ہے کہ مستدرک لکھتے وقت ان کی دماغی حالت صحیح نہیں تھی

نورپوری صاحب نے المنھال کے دفاع کا حق ادا کر دیا ہے اور مضمون میں لکھتے ہیں کہ المنھال قرآن کی تلاوت کر رہے تھے جس کو سن کر شعبہ نے المنھال کو ترک کیا
دکتور بشار عواد معروف کتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں لکھتے ہیں وَقَال علي بْن المديني ، عَن يحيى بْن سَعِيد أتى شعبة المنهال بْن عَمْرو فسمع صوتا فتركه، يعني الغناء

اس کے بعد حاشیہ میں دکتور بشار عواد معروف اس پر لکھتے ہیں
هذا الخبر أصح، والله أعلم- من خبر تركه بسبب سماعه قراءة القرآن بالتطريب، فهذا غير ذاك-
یہ خبر زیادہ صحیح ہے، واللہ اعلم- اس (قول) سے جس میں خبر دی گئی تھی کہ ان کے ترک کرنے کی وجہ قرآن کی سر کے ساتھ قرات تھی – پس ایسا نہیں تھا

فرقہ پرست بار بار ذکر کرتے ہیں کہ ابن حزم کے نزدیک موسیقی حرام نہیں تو المنھال پر شعبہ کی جرح مردود ہے
جبکہ ان کو اتنا معلوم نہیں کہ گانا گانا اور صرف موسیقی سننا دو الگ چیزیں ہیں

نور پوری لکھتے ہیں
زاذان کی روایات کو چھوڑنے والے امام حکم بن عتیبہ شیعہ تھے۔ زاذان کا شیعہ ہونا تو ثابت نہیں ہوا، البتہ امام حکم کا شیعہ ہونا ثابت ہے، جیسا کہ
امام، ابوالحسن، احمد بن عبداللہ، عجلی رحمہ اللہ (م 261ھ) فرماتے ہیں
وكان فيه تشيع، إلا أنّ ذلك لم يظهر منه إلا بعد مؤته .
ان میں شیعیت تھی، البتہ اس کا علم ان کی وفات کے بعد ہی ہو سکا۔
[تاريخ الثقات، ص : 125، ت : 315، طبعة دار الباز]
ذرا سوچیں کہ بھلا کوئی شیعہ اپنے مذہب کا پرچار کرنے والے کسی شیعہ پر کیوں جرح کرے گا ؟ اور فیصلہ کریں کہ ڈاکٹر عثمانی نے کتنے فیصد انصاف سے کام لیا ہے

راقم کہتا ہے نور پوری کو علم نہیں کہ خود عجلی بھی شیعہ کہے گئے ہیں اور وہ اگر شیعہ تھے تو وہ الحکم پر جرح نہیں ان کی تعریف کر رہے ہیں
شیعہ تو عام لفظ ہے جو لشکر علی پر بولا جاتا تھا جس میں غالی ابن سبا بھی تھا اور زاذان بھی اور اصحاب رسول بھی – یہ سب شیعان علی تھے
ظاہر ہے جب محدث شیعہ کہتا ہے تو اس کے پیچھے شواہد ہوتے ہیں اور زاذان کو شیعہ خود ابن حجر نے قرار دیا ہے

البتہ نور پوری کا قول ہے
حقیقت وہی ہے جو ہم نے ابن حجر کے بقول بیان کر دی ہے کہ راوی اگر سچا ہو تو اس کا شیعہ ہونا اس کی روایت کو نقصان نہیں دیتا۔ لہٰذا زاذان کا شیعہ ہونا اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس سے اس کی حدیث میں کوئی خرابی نہیں آتی

راقم کہتا ہے خود متقدمین شیعہ کے لئے ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں غالی کا اطلاق کیا ہے
مثلا
عدي بن ثَابت الْأنْصَارِيّ الْكُوفِي التَّابِعِيّ الْمَشْهُور پر الدَّارَقُطْنِيّ نے کہا كَانَ يغلو فِي التَّشَيُّع
تشیع میں غلو کرتا تھا
اس حوالے کو ابن حجر نے بھی فتح الباری میں تہذیب التھذیب میں لکھا ہے
عَبْدِ الله بن الْكواء، جو علی کے اصحاب میں سے ہے اس پر ابن حجر نے فتح الباری ج ص ٨٧ پر لکھا ہے
وَإِنَّمَا كَانَ يَغْلُو فِي الرَّفْضِ
بے شک یہ رفض میں غلو کرتا

دوسری طرف ابن حجر نے تشیع کی تعریف اس طرح کی

تہذیب التہذیب از ابن حجر ترجمہ ابان بن تغلب

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليه آله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة

پس تشیع (شیعیت) کا مطلب متقدمین کے نزدیک علی کی عثمان پر فضیلت کا اعتقاد رکھنا ہے، اور یہ کہ بے شک علی اپنی جنگوں میں حق پر تھے اور انکے مخالف غلطی پر، ساتھ ہی شیخین (ابو بکر اور عمر) کی فضیلت کا اعتقاد رکھنا، اور ان میں سے بعض کا کبھی یہ اعتقاد رکھنا کہ علی، نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد افضل مخلوق ہیں اور اگر یہ عقیدہ ھو اور وہ شیعہ راوی مجتہد، دین میں صادق ھو تو اس وجہ سے اس کی روایت رد نہیں کی جائے گی، خاص طور سے اگر داعی نہ ھو، اور تشیع متاخرین کے نزدیک محض رفض ہے پس اس رافضی ، غالی کی نہ روایت لی جائے اور نہ کوئی عزت کی جائے

اس سے نتیجہ نکلا کہ جو علی سے محبت کرے وہ شیعہ ہے اورغالی شیعہ یا رافضی وہ ہے جو ابو بکر اور عمر پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے

اس پیراگراف پر فرقہ پرستوں کا فہم ہے کہ تابعین میں رافضی نہیں تھے جبکہ حوالہ جات دے دیے گئے ہیں خود ابن حجر نے اصحاب علی میں رافضی کے وجود کا اقرار کیا ہے

نورپوری ابن حبان کے خلاف ایک مصنوعی ماحول پیدا کر کے لکھتے ہیں
تیسری بات یہ کہ اگر امام ابن حبان رحمہ اللہ کبار ائمہ دین کی موافقت میں منہال بن عمرو کی حدیث کو صحیح قرار دیں تو ڈاکٹر عثمانی اس کا ذکر تک نہ کریں اور جب وہ ان سب کی مخالفت میں زاذان پر جرح کریں تو ڈاکٹر عثمانی جھٹ سے اسے قبول کر لیں، حالانکہ وہ خود اسے ثقہ بھی قرار دے چکے ہوں اور اس کی حدیث کو صحیح بھی کہہ چکے ہوں، کیا اسے انصاف کہتے ہیں ؟

راقم کہتا ہے ابن حبان نے تو عود روح کی روایت کو منقطع قرار دیا ہے
صحیح ابن حبان میں ابن حبان لکھتے ہیں

وزاذان لم يسمعه من البراء
اور زاذان نے البراء سے نہیں سنا

ڈاکٹر عثمانی نے ابو احمد الحاکم کے قول پر کہا ہے کہ محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں
مُحَمَّدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ بنِ إِسْحَاقَ النَّيْسَابُوْرِيُّ ، أبو أحمد الحاكم المتوفی ٣٧٨ ھ ہیں الذھبی کہتے ہیں وَكَانَ مِنْ بُحورِ العِلْمِ علم کا سمندر تھے (سیر الاعلام النبلاء ج ١٢ ص ٣٦٦ دار الحدیث)- لیکن جدید محدث نورپوری ان کی علمی حیثیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں

یہ بات ابو احمد الحاکم کی علمی لغزش ہے۔ وہ اہل علم کون ہیں جنہوں نے زاذان کو کمزور کہا ہو

ظاہر ہے سن ٣٧٨ ھ سے پہلے زاذان محدثین کے نزدیک مضبوط راوی نہیں تھا
خاص کر نیشا پور میں اس پر تنقید کی جاتی ہے یہ اور بات ہے بغداد کے ابن معین یا احمد نے اس کو ثقہ کہا
یہ اختلاف محدثین میں اس دور میں حدیث زاذان پر موجود تھا اور اس کو متاخرین کی ثقاہت سے رد نہیں کیا جا سکتا
ابو احمد الحاکم کے ہم عصر ابن حبان نے بھی زاذان کو وہمی اور بہت غلطیاں کرنے والا قرار دیا ہے

نور پوری کہتے ہیں
اگر زاذان شیعہ ہیں بھی تو اس سے مراد فقہ جعفریہ کے ماننے والے شیعہ نہیں۔

راقم کہتا ہے یہ قول محض گمان ہے کیونکہ روافض خود زاذان کو اپنے جیسوں میں شمار کرتے ہیں
کیا عقیدہ رجعت شیعوں کا عقیدہ نہیں ہے ؟ اور حدیث عود روح میں اسی روح کے واپس آنے کا قبر میں قیامت تک رہنے کا ذکر ہے

صحیحین کے راوی

نور پوری  نے ابن حجر کی بات کو صحیح طرح سمجھا بھی نہیں اور بیان کر دیا لکھتے ہیں

ابن حجر رحمہ اللہ (م :852 ھ) فرماتے ہیں :
ينبغي لكل منصف ان يعلم ان تخريج صاحب الصحيح لاي راو، كان مقتض لعدالته عنده، وصحة ضبطه، وعدم غفلته، ولا سيما ما انضاف إلى ذلك من إطباق جمهور الأئمة على تسمية الكتابين بالصحيحين، وهذا معنى لم يحصل لغير من خرج عنه فى الصحيح، فهو بمثابة اطباق الجمهور على تعديل من ذكر فيها 
’’ ہر منصف شخص کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امام بخاری و مسلم کے کسی راوی سے حدیث نقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی ان کے نزدیک کردار کا سچا اور حافظے کا پکا ہے، نیز وہ حدیث کے معاملے میں غفلت کا شکار بھی نہیں۔ خصوصاً جب کہ جمہور ائمہ کرام متفقہ طور پر بخاری و مسلم کی کتابوں کو ”صحیح“ کا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ مقام اس راوی کو حاصل نہیں ہو سکتا جس کی روایت صحیح (بخاری و مسلم ) میں موجود نہیں۔ گویا جس راوی کا صحیح بخاری و مسلم میں ذکر ہے، وہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتماد راوی ہے۔“ [فتح الباري شرح صحيح البخاري : 384/1، طبعة دار المعرفة، بيروت]

↰ معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک منصف شخص وہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم کے راویوں کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر جمہور ائمہ حدیث کی توثیق کی بنا پر ثقہ اور قابل اعتماد سمجھے۔ اب ڈاکٹر عثمانی کی طرح کا جو شخص صحیح بخاری کے راویوں کو ’’ ضعیف، مجروح اور متروک“ کہتا ہے، وہ بقول ابن حجر، منصف نہیں، بلکہ خائن ہے۔

نور پوری کے نزدیک جو بھی المنھال کو ضعیف کہے وہ خائن  ہے – دوسری طرف  ابن حجر النکت میں   اس  بات کی وضاحت کرتے   ہیں

قلت : ولا يلزم في كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحاً ، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة

میں کہتا ہوں اور کسی روایت کی اسناد میں اگر صحیح کا راوی ہو تو اس سے وہ حدیث صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ اس میں شذوذ یا علت ہو

مبارک پوری اہل حدیث ہیں ، ترمذی کی شرح تحفہ الاحوذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ  میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا قَوْلُ الْهَيْثَمِيِّ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ فَلَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّتِهِ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مُدَلِّسٌ وَرَوَاهُ بِالْعَنْعَنَةِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مُخْتَلِطٌ وَرَوَاهُ عَنْهُ صَاحِبُهُ بَعْدَ اِخْتِلَاطِهِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ لَمْ يُدْرِكْ مَنْ رَوَاهُ عَنْهُ أَوْ يَكُونَ فِيهِ عِلَّةٌ أَوْ شُذُوذٌ ، قَالَ الْحَافِظُ الزَّيْلَعِيُّ فِي نَصْبِ الرَّايَةِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ الْجَهْرِ بِالْبَسْمَلَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ ثِقَةِ الرِّجَالِ صِحَّةُ الْحَدِيثِ حَتَّى يَنْتَفِيَ مِنْهُ الشُّذُوذُ وَالْعِلَّةُ ، وَقَالَ الْحَافِظُ اِبْنُ حَجَرٍ فِي التَّلْخِيصِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ حَدِيثِ بَيْعِ الْعِينَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِ الْحَدِيثِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا اِنْتَهَى

اور   الْهَيْثَمِيِّ کا یہ کہنا کہ رجال ثقہ ہیں دلیل نہیں بنتا کہ یہ روایت صحیح ہے کیونکہ اسمیں شذوذ یا علّت ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے اس میں مدلس ہو جو عن سے روایت کرے – الزَّيْلَعِيُّ کہتے ہیں… کسی حدیث میں ثقہ راوی ہونے سے وہ صحیح نہیں ہو جاتی

معلوم ہوا کہ صحیحین کے راویوں کی وہ روایات جو صحیحین سے باہر ہیں ضعیف ہو سکتی ہیں اس کی مثال ہے کہ کفایت اللہ سنابلی جو اہل حدیث میں نور پوری کے استاد کی طرح ہیں ن کے نزدیک المنھال کی روایت صحیح نہیں ہے اس کا شمار ضعیف راویوں میں کیا گیا ہے

کتاب  التلخيص الحبير میں ابن حجر لکھتے ہیں

لا يلزم من كون رجاله ثقات أن يكون صحيحا؛ لأن الأعمش مدلِّس ولم يذكرسماعه من عطاء

ثقہ رجال ہونے سے روایت صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس میں اعمش ہے جس نے عطا سے سماع کا ذکر نہیں کیا

قارئین نوٹ کریں کہ اعمش صحیحین کے راوی ہیں لیکن ابن حجر روایت رد کر رہے ہیں

فتح الباری کے مقدمہ انیس الساری کا حاشیہ لکھنے والے  نبيل بن مَنصور بن يَعقوب البصارة
ابن حجر کا قول پیش کرتے ہیں

لا يلزم من كون الإسناد محتجا برواته في الصحيح أن يكون الحديث الذي يُروى به صحيحا لما يطرأ عليه من العلل

اگر سند میں صحیح کے راوی سے احتجاج کیا گیا ہو تو اس کی حدیث صحیح نہیں ہو جاتی اگر اس کو معلول گردانا گیا ہو

  أحمد بن محمد بن الصدِّيق بن أحمد کتاب  المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي میں کہتے ہیں

قلت: لا يلزم من كون السند رجاله رجال الصحيح أن يكون الحديث صحيحا بل قد يكون ضعيفا

ایک دوسری حدیث پر کہتے ہیں

قلت: لا يلزم من كون الرجال رجال الصحيح أن يكون الحديث صحيحًا، إذ قد يكون مع ذلك منقطعًا أو معلولًا بشذوذ واضطراب

کتاب المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ کے محقق سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري
لکھتے ہیں

لا يلزم من كون الرجل أخرج له أصحاب الصحيح، صحة الإسناد،

ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ یہ کوئی عثمانی فکر نہیں کہ صحیحین کے راوی کی روایت ضعیف ہو سکتی ہے بلکہ اس بات کو ابن حجر نے بھی اور دیگر محققین نے بھی بیان کیا ہے

حدیث عود روح کو رد کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا ذکر اگلے بلاگ میں ہو گا

 

 

زبیر علی زئی تحقیقات کی روشنی میں ٢

ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی عذاب قبر سے متعلق کچھ متضاد روایات پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ایک سنن ابن ماجہ، مسند احمد  میں بیان ہوئی ہے

زبیر علی زئی  توضح الاحکام میں اس کوعود روح کی دلیل پر پیش کرتے ہیں

tozeh-555

مسند احمد  کی روایت  ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ” إِنَّ الْمَيِّتَ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ  الطَّيِّبَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، اخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ “، قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيَقُولُونَ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، ادْخُلِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ ” قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، اخْرُجِي ذَمِيمَةً، وأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ، وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٍ، فَلَا تَزَالُ تَخْرُجُ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، ارْجِعِي ذَمِيمَةً، فَإِنَّهُ لَا يُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَاءِ، ثُمَّ تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَيُقَالُ لَهُ: مِثْلُ مَا قِيلَ لَهُ فِي الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السَّوْءُ

اس روایت کا بقیہ حصہ ابن مآجہ بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى  میں بیان ہوا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ

إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ، غَيْرَ فَزِعٍ، وَلَا مَشْعُوفٍ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ، فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ؟ فَيَقُولُ: مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ، فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا، وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، وَيُقَالُ لَهُ: عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ، فَزِعًا مَشْعُوفًا، فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا، فَقُلْتُهُ، فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا، يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى

اس کا ترجمہ ارشد کمال المسند فی عذاب القبر میں کرتے ہیں

arshad-taseer-ila-qbr

یہ  دو روایات ہیں اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، کی سند سے آ رہی ہے

 مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ الْقُرَشِيّ العامري اور ابن أبي ذئب ثقه  ہیں لیکن  ابن أبي ذئب یعنی محمَّد ابن عبد الرحمن بن المغيرة بن الحارث کے لئے احمد کہتے ہیں ( سوالات ابی داود، تہذیب الکمال ج ٢٥ ص ٦٣٠

 إلا أن مالكًا أشد تنقية للرجال منه، ابن أبي ذئب لا يبالي عمن يحدث

بے شک امام مالک ان سے زیادہ رجال کو پرکھتے تھے جبکہ  ابن أبي ذئب اس کا خیال نہیں رکھتے کہ کس سے روایت کر رہے ہیں

  اس ر وایت کا متن  مبہم اور منکر ہے

اس روایت میں ہے کہ مومن کی

حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.

روح اوپر لے جائی جاتی ہے حتی کہ اس آسمان پر جا پہنچتی ہے جس پر الله عَزَّ وَجَلَّ ہے

قرآن کہتا ہے کہ الله عرش پر ہے اور راوی کہہ رہے ہیں کہ اللّہ تعالی کسی آسمان پر ہے

 زبان و ادب میں  اللہ کو آسمان والا کہا جاتا ہے

  صحیح مسلم کی روایت ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈى سے پوچھا تھا كہ : اللہ کہاں ہے ؟ تو اس نے کہا : آسمان میں ، پھر آپ نے فرمایا : میں کون ہوں ؟ تو اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا : اسے آزاد کردو ، یہ ایمان والی ہے

قرآن کہتا ہے

الرحمن علی العرش الستوی   طٰہٰ :۵

رحمن عرش پر مستوی ہوا۔

سوره الحدید میں ہے
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‌پیدا کیا ، پھر عرش  پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں‌داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں‌ چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے سورہ الحدید

بخاری میں ہے کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(( اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا… فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ )) [بخاری،کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : { بل ھو قرآن مجید ¡ فی لوح محفوظ} (۷۵۵۴)]

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے … جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔

لیکن اس روایت  زیر بحث میں روح کو خاص اس آسمان پر لے جایا جا رہا ہے جس پر الله ہے  جو ایک غلط عقیدہ ہے

اہل حدیث زبیر علی زئی نے   اس روایت کو  اپنے مضمون عذاب قبر حق ہے شمارہ الحدیث میں پیش کیا اور جو نتائج اخذ کیے ان پر نظر ڈالتے ہیں

غور کریں کے نتائج میں نتیجہ نمبر ٦ میں   زبیر علی نے لکھا ہے

اللہ تعالی ساتویں آسمان سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے

جبکہ ابن ماجہ کی روایت میں یہ  سرے سے موجود ہے ہی نہیں  اور اسی سند سے مسند احمد  میں جو متن آیا ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالی کسی آسمان پر ہیں- راوی  نے واضح نہیں کیا کہ پہلا ، دوسرا ، تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ، چھٹا یا ساتواں

راقم کہتا ہے   آنکھوں میں دھول جھوکنے میں اہل حدیث کو ملکہ حاصل ہے

اللہ کا شکر جس نے اس جھمی   عقیدے کی  روایت سے   ہم  کو  نجات دی – و للہ الحمد

اشاعرہ میں ملا علی القاری نے ان الفاظ کی تاویل کی ہے

إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ) أَيْ: أَمْرُهُ وَحُكْمُهُ أَيْ: ظُهُورُ مُلْكِهِ وَهُوَ الْعَرْشُ، وَقَالَ الطِّيبِيُّ: أَيْ: رَحْمتُهُ بِمَعْنَى الْجَنَّةِ

اس آسمان پر لے جاتے ہیں جس میں اللہ تعالی ہیں یعنی اس کا حکم یعنی اس کی مملکت کا ظہور جو عرش ہے اور طیبی نے کہا یعنی رحمت جو جنت ہے

البتہ سلفی اصول کہتا ہے کہ قرآن و حدیث میں جب بھی اللہ تعالی کا ذکر ہو تو اس کی  تاویل نہیں کی جائے گی اور متن کو اس کے ظاہر پر لیا جائے گا

اس حساب سے یہ تاویل سلفی و وہابی فرقے کے موقف کے خلاف ہے

زاذان کی روایت میں ہے کہ روح کو سات آسمان پر لے جایا جاتا ہے

 حتى ينتهي بها إلى السماء السابعة

یہاں تک کہ وہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتی ہے

ان دونوں احادیث  سے ثابت ہوا کہ  اللہ تعالی عرش پر نہیں ساتویں آسمان پر ہے

چونکہ یہ بات قرآن کے خلاف ہے یہ روایات صحیح ممکن نہیں ہیں افسوس ان کو قبول کر کے ان پر عقیدہ رکھا گیا ہے

اضطراب سند 

کتاب اخبار الدجال از عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ)  سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی سند میں مجہول راوی ہے

قال محمد بن عمرو فحدثني سعيد بن معاذ عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل الصالح قالوا اخرجي أيتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب واخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ولا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح له فيقال من هذا فيقال فلان فيقال مرحبا بالنفس الطيبة كانت في الجسد الطيب ادخلي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السماء التي فيها الله عز وجل وتعالى فإذا كان الرجل السوء قالوا اخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث اخرجي منه ذميمة وأبشري بحميم وغساق وآخر من شكله أزواج فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح لها فيقال من هذا فيقال فلان فيقال لا [ص:84] مرحبا بالنفس الخبيثة التي كانت في الجسد الخبيث ارجعي ذميمة فإنه لا تفتح لك أبواب السماء فيرسل من السماء ثم يصير إلى القبر فيجلس الرجل الصالح

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس کو کسی سعید بن معاذ سے سنا تھا نہ کہ سعید بن یسار سے

سعید بن معاذ ایک مجہول راوی ہے

کتاب جمع الجوامع المعروف بـ «الجامع الكبير» از سیوطی کے مطابق یہ سعید بن مینا ہے نہ کہ سعید بن یسار

ابن ماجه في الزهد عن أَبى بكر بن أَبِى شيبة عن شبابة عن ابن أَبى ذئب عن محمد بن عمرو بن عطاء عن سعيد بن ميناءَ عن أَبى هريرة مرفوعًا) (1).

العلل دارقطنی میں ہے

فَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، فَقَالَ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَوَهِمَ فِي ذَلِكَ

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس متن کو سعید بن مسیب سے بھی  روایت  کیا ہے

دارقطنی کا خیال ہے کہ یہ غلطی ابراہیم بن عبد السلام نے کی ہے – جبکہ راقم کی تحقیق سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ نام بدلنا ایک سند میں نہیں   بہت سی سندوں میں ہے

اغلبا مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ کو یاد نہیں رہا کہ اس نے کس سعید سے سنااور اس نے چار  الگ الگ نام روایات میں بیان کر دیے

ان شبھات کی موجودگی  میں اس سند کو صحیح نہیں سمجھا جا سکتا

عائشہ (رض) اور بنیادی عقائد

فرقوں کا دعوی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں اس سلسلے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں قلیب بدر کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے لا علم تھیں کہ مردے سنتے ہیں

وہابی عالم الشِّنقيطي سوال (هَل يسمع الْمَوْتَى؟) کیا مردے سنتے ہیں کے جواب میں کہتے ہیں

وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.

أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی جنہوں نے ان کی اتبآع کی ہے

الشِّنقيطي سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں

إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة

عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ضرورت کے تحت دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے

وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ

دوسری طرف فرقے دعوی کرتے ہیں کہ قبرستان میں جو دعا کی جاتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور یہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں – افسوس اس سے یہ لوگ  ثابت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ اللہ کی قدرت پر بھی صحیح نہیں تھا ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالی وہ سب جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں – ان کی دلیل صحیح مسلم کی ایک منکر روایت ہے

حديث 2249
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَی ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَی قَالَ قَالَتْ لَمَّا کَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَائَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَی فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی جَائَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَکِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْئَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْکِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْکِ وَلَمْ يَکُنْ يَدْخُلُ عَلَيْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَکِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ کَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ
ترجمہ ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر بن مطلب، محمد بن قیس، حضرت محمد بن قیس (رض) بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں ہم نے گمان کیا کہ وہ ماں سے اپنی جننے والی ماں مراد لے رہے ہیں ہم نے کہا کیوں نہیں فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنی ہی دیر ٹھہرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو آہستہ سے بند کردیا میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوڑے تو میں بھی دوڑی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچے تو میں بھی پہنچی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے میں نے کہا کچھ نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بتا دو رونہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی فرمایا میں اپنے آگے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینے پر مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق داب لے گا فرماتی ہیں: (کیا ) جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں –فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی جبرائیل نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کیسے کہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ) کہو سلام ہے ایماندار گھر والوں پر اور مسلمانوں پر اللہ ہم سے آگے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔

تبصرہ
فرقه پرست یہ دعوی کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا

قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔

اس منکر روایت سے ان کے نزدیک ثابت ہوتا ہے کہ فقہائے مدینہ کی استاذ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا یہ بات تک نہیں جانتی تھیں کہ اللہ تعالی ہر اس چیز کو جانتا ھے جو لوگ چھپاتے ہیں ۔ قابل غور ہے یہ ایمان کی بنیادی بات ہے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تو خود قرآن کو شادی سے پہلے یاد کر رہی تھیں اور قرآن ان کے گھر سے متصل مسجد النبی میں دن و رات پڑھا جاتا تھا۔

یہ روایت آخری دور کی بتائی جاتی ہے جبکہ اس کا متن منکر ہے اس سے یہ تک نکلتا ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے نبی کی جاسوسی کی ان کا پیچھا رات کے اندھیرے میں کیا

سند میں عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة مجہول ہے اس کو امام مسلم نے قبول کیا ہے لہذا ابن حجر نے اس کومقبول کہا ہے۔

الذھبی نے میزان میں کہا
فعبد الله بن كثير السهمى لا يعرف إلا من رواية ابن جريج عنه، وما رأيت أحدا وثقه ففيه جهالة.
عبد الله نہیں جانا جاتا اس سے صرف ابن جریج نے روایت کیا ہے اور کسی اور ثقہ نے میرے خیال میں روایت نہیں کیا ہے اور اس میں جہالت ہے یعنی مجہول ہے۔

اور تاریخ اسلام میں کہا
، وهو فلا يكاد يُعْرَف إلا فِي حديثٍ واحد سَنَدُهُ مضطَّرب، وهو حديث عَائِشَةَ فِي استغفاره لأهل البَقيع
اس کی کوئی حدیث معلوم نہیں سوائے ایک مضطرب روایت کے جس میں عائشہ رضی الله عنہا سے اہل بقیع پر استغفار کا ذکر ہے۔

فرقے کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی شاہد حدیث سنن نسائی ٢٠٢٣٩ ہے

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ
پھر روایت دی جس کا ترجمہ ہے

محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ(عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی، اور گھر میں داخل ہو گئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہو گئے، آپ نے پوچھا “عائشہ! تجھے کیا ہو گیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں؟” میں نے کہا کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا “تو مجھے بتا دے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتا دے گی”، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتا دی تو آپ نے فرمایا “وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی”، میں نے عرض کیا جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا “کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ظلم کریں گے”، میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتا دے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں”، میں نے پوچھا اللہ کے رسول! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» “سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے(دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں”

تبصرہ

سندا یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سند کو شعیب نے ضعیف کہا ہے

سنن نسائی جیسی سند سے یہ روایت مسند احمد 25855 موجود ہے
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي، وَعَنْ أُمِّي؟ – فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ – قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ

شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے إسناد ضعيف- اس کی اسناد ضعیف ہیں۔

شعیب کی تحقیق کے مطابق سنن نسائی کی سند میں عبد الله بن أبي مليكة کا نام غلطی ہے – صحیح ابن حبان ٧١١٠ میں اسی سند سے ہے
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى بْنِ مُجَاشِعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَصَّارُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَثِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ

اور یہ اصلا عبد الله بن كثير ہی ہے جو ایک مجہول ہے۔

نسائی نے اس سند کو اس طرح بھی لکھا ہے
اخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ
اور اپنی دوسری کتاب سنن الکبری میں کہا
خَالَفَهُ حَجَّاجٌ فَقَالَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ

حجاج نے ان کی مخالفت کی اور کہا بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ

یعنی نسائی کے نزدیک یہ غلطی حَجَّاجَ کی وجہ سے آئی ہے۔ – حجاج ثقہ ہیں لیکن عبد اللہ سند میں دیکھ کر ان کو مغالطہ ہوا کہ یہ عبد اللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ہیں جبکہ وہ عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة تھا

سنن نسائی کی اس روایت میں الٹا لکھا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا
‏‏‏‏‏‏قُلْتُ ‏‏‏‏ مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ
میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام صحیح مسلم کی روایت کے تحت لگایا گیا ہے اس روایت میں اس کا رد ہے۔ یہاں عائشہ اپنے صحیح عقیدے کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ صحیح مسلم میں وہ صحیح عقیدے سے ناواقف ہیں اور سوال کر رہی ہیں۔

قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔

اس طرح یہ حدیث صحیح مسلم سے الگ ہے۔

سنن نسائی میں اس کے بعد کچھ اور روایات بھی ہیں مثلا

حدیث نمبر: 2040أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، ‏‏‏‏‏‏قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ:‏‏‏‏ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَلَبِسَ ثِيَابَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي بَرِيرَةَ تَتْبَعُهُ فَتَبِعَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَوَقَفَ فِي أَدْنَاهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقِفَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفَ فَسَبَقَتْهُ بَرِيرَةُ فَأَخْبَرَتْنِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَذْكُرْ لَهُ شَيْئًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أَهْلِ الْبَقِيعِ لِأُصَلِّيَ عَلَيْهِمْ”.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنا کپڑا پہنا پھر (باہر) نکل گئے، تو میں نے اپنی لونڈی بریرہ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے پیچھے جائے، چنانچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئی یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع پہنچے، تو اس کے قریب کھڑے رہے جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے کھڑا رکھنا چاہا، پھر آپ پلٹے تو بریرہ آپ سے پہلے پلٹ کر آ گئی، اور اس نے مجھے بتایا، لیکن میں نے آپ سے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ صبح کیا، تو میں نے آپ کو ساری باتیں بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے اہل بقیع کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ میں ان کے حق میں دعا کروں”۔

تبصرہ
یہ متنا شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رات کے وقت بھی لونڈی ام المومنین کے پاس تھی جبکہ یہ ممکن نہیں کہ آمد النبی کے بعد کوئی حجرہ عائشہ میں رہ جائے
یہ متن بھی صحیح مسلم کی حدیث کے خلاف ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاسوسی ایک لونڈی کر رہی ہے جس کو اپنی مالکہ کا خوف ہے لیکن اللہ کا خوف نہیں ہے

سنن نسائی کی ایک تیسری روایت میں ہے

حدیث نمبر: 2041أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَتْ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَخْرُجُ فِي آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا وَإِيَّاكُمْ مُتَوَاعِدُونَ غَدًا أَوْ مُوَاكِلُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ”
.ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد» “اے مومن گھر (قبرستان) والو! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے والے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما”۔

تبصرہ
یہ متن بھی غلط و شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ جب بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری اتی تو اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع جاتے
ہر رات قبرستان جانا دیگر روایات سے معلوم ہے کہ نہیں تھا

لب لباب یہ ہوا کہ صحیح مسلم کی روایت منکر ہے اور اسی روایت کو شب برات میں قبرستان جانے کی دلیل پر پیش کیا جاتا ہے

محشر میں بعض علماء کی سخت پکڑ ہو گی  – ام المومنین رضی اللہ عنہا   پر الزام مہنگا پڑے گا

اللہ کا حکم یاد رہے

اِذْ تَلَقَّوْنَهٝ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّّتَحْسَبُوْنَهٝ هَيِّنًاۖ وَهُوَ عِنْدَ اللّـٰهِ عَظِيْـمٌ (15 

جب تم اسے اپنی زبانوں سے نکالنے لگے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہنی شروع کردی جس کا تمہیں علم بھی نہ تھا اور تم نے اسے ہلکی بات سمجھ لیا تھا، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے۔

وہابی عالم لکھتے ہیں

یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور اس لا علمی پر یہ کافر نہیں ہوئیں شیخ اسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں اس حدیث پر یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ؟ پس اس کا سوال انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا ہاں اور یہ دلیل ہے ہے کہ وہ عائشہ اسکو نہیں جانتی تھیں اور ان کو معرفت نہیں تھی کہ اللہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اس لئے کافر نہیں تھیں

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٤١٢ پر بحث کی ہے اور سنن نسائی کی روایت کے الفاظ نقل کیے ہیں

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»

اور یہ سند وہی ہے جو صحیح مسلم میں ہے

البتہ صحیح مسلم میں متن میں نعم کے لفظ کو ام المومنین کے الفاظ کے ساتھ مربوط رکھا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نعم کا لفظ ام المومنین کے جملے کا حصہ ہے – لیکن راوی کا مدعا اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کہنا ہے جیسا کہ مختلف کتب احادیث میں متن میں دیکھ کر جانا جا سکتا ہے مثلا سنن نسائی ، سنن الکبری ، مسند احمد وغیرہ

کتاب تاریخ مدینہ از ابن شبہ میں ہے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ [ص:88] بْنَ قَيْسٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ قَالَ: «نَعَمْ

یعنی اس جملے کو سوالیہ انداز میں کئی راویوں نے بیان کیا ہے 

راوی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ کا سیاسی مدعا

راوی  کا مدعا یہ ہے کہ آخری دور نبوی تک ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو شک تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور رات کے اندھیرے میں  ماریہ قبطیہ سے ملنے گئے ہوں گے اور اس نے سورہ التحریم کی آیت کو ملا کر ایک قصہ گھڑا ہے

سورہ التحریم میں موجود ہے دو امہات المومنین (حدیث کے مطابق عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا) نے مل کر ایک  فیصلہ کیا ( حدیث کے مطابق ماریہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے جب بھی نبی آئین  آئیں تو بولیں گی کہ شہد کی بو  آ رہی ہے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جانا چھوڑ دیں گے) البتہ اس کی خبر نبی کو اللہ نے دے دی تو کوئی ایک ام المومنین بولیں کس نے خبر دی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِيْثًاۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَاَظْهَرَهُ اللّـٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٝ وَاَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَكَ هٰذَا ۖ قَالَ نَبَّاَنِىَ الْعَلِـيْمُ الْخَبِيْـرُ (3)

اور جب نبی نے چھپا کر اپنی کسی بیوی سے ایک بات کہہ دی، اور پھر جب اس بیوی نے وہ بات بتا دی اور اللہ نے اس کو نبی پر ظاہر کر دیا تو نبی نے اس میں سے کچھ بات جتلا دی اور کچھ ٹال دی، پس جب پیغمبر نے اس کو وہ بات جتلا دی تو بولی آپ کو کس نے یہ بات بتا دی، آپ نے فرمایا مجھے خدائے علیم و خبیر نے یہ بات بتلائی۔

راوی نے اس آیت کا استعمال کر کے قصہ گھڑا کہ باوجود اس کے کہ نبی کو الله خبر کر دیتا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا  پھر بھی   جاسوسی کرتی ہیں کہ ممکن ہے نبی ان کی باری کے دن ماریہ کے ہاں گئے ہوں اور پھر لا علمی کا اظہار کیا  کہ جو لوگ چھپاتے ہیں کیا اس کو اللہ جانتا ہے ؟ اس طرح یہ روایت  تنقیص عائشہ سے محمول ہے 

ماریہ والا واقعہ کب ہوا معلوم نہیں ہے جس میں شہد رسول اللہ نے اپنے اوپر حرام کیا  البتہ شہدائے احد کے لئے بقیع جانا بالکل آخری دور کی بات  ہے  – اس طرح راوی کا مقصد یہ ہے کہ بیان کیا جائے کہ آخری ایام تک ام المومنین عائشہ  اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے  شک و شبہ کا شکار رہیں

 

اللہ تعالی کی تجسیم

یہود میں الله کے لئے تجسیم کا عقیدہ ہے کیونکہ موجودہ توریت میں الله کو ایک مرد کی صورت بیان کیا گیا ہے جس کے آعضآ بھی ہیں – یہودی تصوف کی ایک قدیم کتاب جو بعثت نبوی سے قبل کی ہے اس کا نام کتاب شر قومہ ہے جس میں الله تعالی کے آعضآ کی پمائش بھی بیان کی گئی ہے – موجود توریت میں ہے

Then God said, “Let us make man in our image, after our likeness.

پھر الله نے کہا ہم انسان کو اپنے عکس צֶ֫לֶם پر بنائیں گے –اپنی דְּמוּת مشابہت کے مطابق

Genesis 1:26

لفظ דְּמוּת کا ترجمہ مشابہت کے علاوہ یہود کے مطابق شکل اور تناسب بھی ہو سکتا ہے

لفظ צֶלֶם کا ترجمہ عکس کے علاوہ غیر مرئی چیز بھی کیا جاتا ہے

اس کے برعکس قرآن میں ہے

(فِیْ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَ (الانفطار:8/82
جس صورت میں چاہا اس نے تجھے بنایا۔

صحیح بخاری کی حدیث منکر ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ، النَّفَرِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَزَادُوهُ: وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآنَ

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہاہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے ، ان سے ہمام نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی ۔

جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایاکہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں ، سلام کر واور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہار ااور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام نے کہا السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ ، انہوںنے آدم کے سلام پر ” ورحمۃ اللہ “ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا حضرت آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا ۔ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد وقامت کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔

http://maktaba.pk/hadith/bukhari/6227/

 

قرن دوم میں اللہ کی تجسیم سے متعلق ایک روایت چل رہی جو امام مالک کے کانوں تک بھی پہنچی – کتاب الضعفاء الكبير از امام العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں

فقہ مالکیہ کی معتمد کتاب المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة  از  ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق

وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا. 
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے

الغرض امام مالک   مطلقا اس خلق آدم علی صورتہ کو  قبول نہیں کرتے تھے اور وہ اس کو سنتے ہی رد کرتے تھے – امام احمد، امام اسحٰق ، امام بخاری امام مسلم  اس کو صحیح سمجھتے تھے

كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق  ایک  روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے بھی رد کی اور البانی سمجھتے ہیں  زیر بحث روایت ہو گی

ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.

البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں

ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون   جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی  شخص   ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ   محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے

البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں  کہتے ہیں

يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.

یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی  حدیث  مراد تھی جس  کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ  ٨٦٠ میں کی ہے

صحیح بخاری  حدیث نمبر:

6227

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، 

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ 

  امام بخاری نے عرش عظیم کے ڈگمگانے والی روایت نقل کی ، اور اللہ تعالی’ کا دیوتا کی صورت اختیار کرنے کو بھی نقل کیا- افسوس کہ معلوم نہ ہو سکا کہ  یہ تحقیق میں امام بخاری سے غلطی ہوئی یا ان کو ائمہ حدیث کو حکم نہیں پہنچا کہ  امام بخاری نے ان  مردود روایات کو نقل کیا اور جامع الصحیح کی زینت بنا دیا – اس سے اس قسم کی متروک روایات عوام میں پھیل گئیں

روز محشر الله تعالی محسم ہو کر کسی ایسی صورت میں بھی آئیں گے جس کو مومن پہچانتے ہوں؟
صحیح بخاری کی حدیث ہے
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا کیا جب بادل نہ ہوں تو تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور فرمائے گا کہ تم میں جو کوئی جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے لگ جائے۔ چنانچہ جو سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے ہو جائے گا، جو چاند کی پوجا کرتا تھا وہ چاند کے پیچھے ہو جائے گا اور جو بتوں کی پوجا کرتا تھا وہ بتوں کے پیچھے لگ جائے گا

 

پھر یہ امت باقی رہ جائے گی اس میں بڑے درجہ کے شفاعت کرنے والے بھی ہوں گے یا منافق بھی ہوں گے ابراہیم کو ان لفظوں میں شک تھا۔ پھر اللہ ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ جواب دیں گے کہ ہم یہیں رہیں گے۔ یہاں تک کہ ہمارا رب آ جائے، جب ہمارا رب آ جائے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ اقرار کریں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔

 

چنانچہ وہ اس کے پیچھے ہو جائیں گے اور دوزخ کی پیٹھ پر پل صراط نصب کر دیا جائے گا اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کرنے والے ہوں گے اور اس دن صرف انبیاء بات کر سکیں گے اور انبیاء کی زبان پر یہ ہو گا۔ اے اللہ! مجھ کو محفوظ رکھ، مجھ کو محفوظ رکھ۔ اور دوزخ میں درخت سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سعدان کے کانٹوں ہی کی طرح ہوں گے البتہ وہ اتنے بڑے ہوں گے کہ اس کا طول و عرض اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہ ہو گا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے بدلے میں اچک لیں گے تو ان میں سے کچھ وہ ہوں گے جو تباہ ہونے والے ہوں گے اور اپنے عمل بد کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر جائیں گے یا اپنے عمل کے ساتھ بندھے ہوں گے اور ان میں بعض ٹکڑے کر دئیے جائیں گے یا بدلہ دئیے جائیں گے یا اسی جیسے الفاظ بیان کئے۔ پھر اللہ تعالیٰ تجلی فرمائے گا اور جب بندوں کے درمیان فیصلہ کر کے فارغ ہو گا اور دوزخیوں میں سے جسے اپنی رحمت سے باہر نکالنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے انہیں دوزخ سے باہر نکالیں، یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرنا چاہے گا۔ ان میں سے جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کیا تھا۔ چنانچہ فرشتے انہیں سجدوں کے نشان سے دوزخ میں پہچانیں گے۔ دوزخ ابن آدم کا ہر عضو جلا کر بھسم کر دے گی سوا سجدہ کے نشان کے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو جلائے (یا اللہ! ہم گنہگاروں کو دوزخ سے محفوظ رکھیو ہم کو تیری رحمت سے یہی امید ہے) چنانچہ یہ لوگ دوزخ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ یہ جل بھن چکے ہوں گے۔ پھر ان پر آب حیات ڈالا جائے گا اور یہ اس کے نیچے سے اس طرح اگ کر نکلیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ اگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ سے فارغ ہو گا۔ ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ دوزخ کی طرف ہو گا، وہ ان دوزخیوں میں سب سے آخری انسان ہو گا جسے جنت میں داخل ہونا ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! میرا منہ دوزخ سے پھیر دے کیونکہ مجھے اس کی گرم ہوا نے پریشان کر رکھا ہے اور اس کی تیزی نے جھلسا ڈالا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے وہ اس وقت تک دعا کرتا رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں گا تو تو مجھ سے کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگوں گا اور وہ شخص اللہ رب العزت سے بڑے عہد و پیمان کرے گا۔ چنانچہ اللہ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھے گا تو اتنی دیر خاموش رہے گا جتنی دیر اللہ تعالیٰ اسے خاموش رہنے دینا چاہے گا۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! مجھے صرف جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے دیا ہے اس کے سوا اور کچھ کبھی تو نہیں مانگے گا؟ افسوس ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! اور اللہ سے دعا کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو اس کے سوا کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا اور جتنے اللہ چاہے گا وہ شخص وعدہ کرے گا۔ چنانچہ اسے جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ پھر جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا تو جنت اسے سامنے نظر آئے گی اور دیکھے گا کہ اس کے اندر کس قدر خیریت اور مسرت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جتنی دیر چاہے گا وہ شخص خاموش رہے گا۔ پھر کہے گا: اے رب! مجھے جنت میں پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے تجھے دے دیا ہے اس کے سوا تو اور کچھ نہیں مانگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا افسوس! ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے بڑھ کر بدبخت نہ بنا۔ چنانچہ وہ مسلسل دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں پر ہنس دے گا، جب ہنس دے گا تو اس کے متعلق کہے گا کہ اسے جنت میں داخل کر دو۔ جنت میں اسے داخل کر دے گا تو اس سے فرمائے گا کہ اپنی آرزوئیں بیان کر، وہ اپنی تمام آرزوئیں بیان کر دے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا۔ وہ کہے گا کہ فلاں چیز، فلاں چیز، یہاں تک کہ اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ آرزوئیں اور انہی جیسی تمہیں ملیں گی

اس روایت میں الفاظ ایسے ہیں جو رب العالمین کی تجسیم کی طرف مائل ہیں
الله تعالی روز محشر اپنے عرش پر ہوں گے جیسا قرآن میں ہے اور اس کا اس عرش کو چھوڑ کر مجسم ہو کر انسانوں کے پاس آنا کیسے ہو گا ؟ جبکہ تمام انسانیت اس وقت الله کے آگے سر جھکانے کھڑی ہو گی اور کوئی آواز نہ ہو گی سوائے رب العالمین کے کلام کے
یہ روایت صحیح بخاری  میں اسی  طرق سے اتی ہے جس میں غالی اہل سنت ہیں

إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ کی سند
إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف المتوفی ١٨٤ ھ یا ١٨٥ ھ
امام المحدثین يحيى بن سعيد القطان اس راوی کے سخت خلاف ہیں
امام احمد کے بیٹے العلل میں بتاتے ہیں کہ
قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: ذكرنا عند يحيى بن سعيد حديثا من حديث عقيل. فقال لي يحيى: يا أبا عبد الله، عقيل وإبراهيم بن سعد!! عقيل وإبراهيم بن سعد!! كأنه يضعفهما. قال أبي: وأي شيء ينفعه من ذا، هؤلاء ثقات، لم يخبرهما يحي. «العلل» (282 و2475 و3422) .
میرے باپ نے ذکر کیا کہ یحیی کے سامنے عقیل کی حدیث کا ہم نے ذکر کیا انہوں نے کہا اے ابو عبد الله عقیل اور ابراہیم بن سعد، عقیل اور ابراہیم بن سعد جیسا کہ وہ تضعیف کر رہے ہوں
کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مطابق
كَانَ وَكِيْعٌ كَفَّ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنْهُ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْهُ.
وَكِيْعٌ اس کی روایت سے رکے رہے پھر روایت کرنا شروع کر دیا
اس کے برعکس امام عقیلی کہتے ہیں بحوالہ إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي
ذكره العقيلي في كتاب ” الجرح والتعديل ” قال: قال عبد الله بن أحمد بن حنبل قال أبي: حدثنا وكيع مرة عن إبراهيم بن سعد، ثم قال: أجيزوا عليه وتركه بأخرة.
عقیلی نے اس کا ذکر کتاب الجرح والتعديل میں کیا اور کہا کہ عبد الله نے کہا کہ امام احمد نے کہا وكيع نے ایک بار ابراہیم سے روایت کیا پھر کہا اور … آخر میں بالکل ترک کر دیا
قَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ: سَمَاعُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ لَيْسَ بِذَاكَ، لأَنَّهُ كَانَ صَغِيْراً.
صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ نے کہا اس کا سماع امام الزہری ویسا (اچھا نہیں) ہے کیونکہ یہ چھوٹا تھا
تاریخ الاسلام میں الذھبی نے جزرہ کا قول پیش کیا کہ كَانَ صغيرا حين سمع من الزهري انہوں نے بچپنے میں الزہری سے سنا
کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق أبي عبد الرحمن السلمي نے کہا
قدم إبراهيم العراق سنة أربع وثمانين ومائة، فأكرمه الرشيد وأظهر بره، وتوفي في هذه السنة، وله خمس وسبعون سنة.
ابراہیم عراق سن ١٨٤ ھ میں پہنچے ان کی الرشید نے عزت افزائی کی اور اسی سال انتقال ہوا اور یہ ٧٥ سال کے تھے
اس دور میں عراقیوں نے ان سے روایات لیں جن پر امام یحیی بن سعید القطان اور امام وکیع کو اعتراض تھا اور انہوں نے ان کو ترک کیا لیکن امام احمد امام ابن معین نے ان کی روایات لے لیں اور اسی طرح امام بخاری و مسلم کے شیوخ نے بھی لے لیں

خبر واحد کی عقائد میں حجیت

وہ احادیث جو متواتر نہ ہوں ان کو اخبار احاد یا خبر واحد کہا جاتا ہے – اس طرح ٩٩% احادیث خبر واحد کے درجے میں ہیں – خبر واحد سے سنت النبی اور سنت اصحاب رسول کو جانا جاتا ہے اور اصلا یہی واحد مصدر ہے – البتہ اس پر  عقیدہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں اس میں  اختلاف چلا آ رہا ہے- بعض علمائے احناف کے نزدیک خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا البتہ حنابلہ اور مالکیہ میں ثابت ہوتا ہے –
اصول کی کتب میں دلالة قطعية یا قطعية الثبوت کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں جن سے مراد دین کی یقینی دلیلں ہیں اور ان میں ظاہر ہے قرآن سب سے اول ہے پھر حدیث متواتر پھربعض کے نزدیک  اخبار احاد– جہاں تک متواتر احادیث ہیں تو ذخیرہ احادیث میں ان کا شمار بہت کم ہے اندازا صرف ایک فی صد ہیں – باقی ٩٩ فی صد اخبار احاد ہیں
ایک فاتر العقل شخص نے جس کی ملاقات تک ڈاکٹر صاحب سے نہیں ہے اس نے راقم سے کچھ سوالات کے جوابات طلب کیے- جواب ملنے پر اس نے اپنے جھل مرکب کا اظہار شروع کیا جس کا اندازہ آپ کو پڑھتے ہوئے ہو جائے گا – ان سوال و جواب کو افادہ عامہ کی غرض سے یہاں لگایا جا رہا ہے

اس نام نہاد مقلد ڈاکٹر عثمانی معترض نے کہا کہ عثمانی نے ایمان خالص ص ٢٤ پر لکھا ہے
اصحاب حدیث کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں
لہذا میرے نزدیک برزخی جسم کی خبر خبر واحد ہونے کی بنا پر عقیدہ کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ نظریہ کا درجہ رکھتی ہے
اس پر راقم نے کہا : یہ قول لکھنا مسعود الدین عثمانی کی خطا ہے کیونکہ اصحاب حدیث کا اس پر اتفاق ثابت نہیں بلکہ یہ قول احناف متاخرین، بعض شوافع (ابن حجر و النووی وغیرہم ) اور متکلمین  کا ہے – امام ابو حنیفہ سے منسوب چند اقوال ہیں کہ چند اصحاب رسول غیر فقیہ ہیں ان کی روایات یا اخبار احاد کو نہیں لیا جائے گا – یہ قول تمام اصحاب رسول کے لئے نہ تھا – فقہ حنفی کی بنیاد فقہائے عراق کا مذھب ہے جو علقمہ سے ابراہیم النخعی سے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیا ہے- کیا فقہ میں احکام نہیں ہیں ؟ احکام تو کتاب اللہ سے خبر واحد سے لئے جاتے ہیں – چور کا ہاتھ کاٹ دو قرآن میں ہے لیکن کتنا یہ خبر واحد سے ہے – اللہ کے حکم پر عمل انسان کے عقیدے کا حصہ ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا جو میرا حکم نافذ نہ کرے کافر ہے- اگر ہم ہاتھ کاٹنے کی مقدار میں اضافہ کریں تو یہ ظلم ہوا اگر کم کریں تو حکم مکمل نافذ نہ ہوا –دونوں صورتوں ہم نے ظلم کیا-
اصحاب حدیث میں امام مالک کی موطا میں خبر واحد جمع کی گئی ہیں جو حدیث کی کتاب ہے اور ان احادیث میں عقائد بھی بیان ہوئے ہیں جن میں خروج دجال کی بھی خبر ہے – احناف میں امام طحاوی نے عقیدہ طحاویہ میں ان مسائل کا ذکر کیا ہے جن کی بنیاد ہی خبر واحد ہے – یعنی مطلقا خبر واحد کو عقیدہ میں نہ احناف نے رد کیا ہے نہ ڈاکٹر عثمانی نے-
یہ اصول کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا اصل میں مکمل بات نہیں ہے – فقہ حنفی میں جو بات کہی گئی تھی وہ یہ تھی کہ امام ابوحنیفہ کا کہنا تھا کہ غیر فقیہ اصحاب رسول کی حدیث سے دلیل نہ لی جائے – ایک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اور تیسری جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی – اس کی انہوں نے الگ الگ وجوہات گنوائیں

قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ)
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب
اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال:
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد
ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے

یہی انداز ابراھیم النخعي کا تھا احمد العلل میں کہتے ہیں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .
احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے روایت کیا – اعمش نے کہا : ابراھیم النخعي، ابوہریرہ کی احادیث میں چیزوں کو ترک کر دیتے
ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ
الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار
ابراھیم النخعي نے کہا ہم ابو ہریرہ کی احادیث کو نہیں لیتے سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو
بہر حال ان احتیاطوں کا مقصد مطلق خبر واحد کا انکار نہیں تھا بلکہ صرف چند اصحاب رسول تک اس کو محدود رکھا گیا تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ امام محمد اور امام ابو یوسف نے فقہ میں اخبار احاد کو لیا ہے اور بعض اوقات کہتے ہیں یہ ہمارا موقف ہے یا یہ امام ابو حنیفہ کا موقف ہے – جب وہ موقف کہتے ہیں اور حدیث میں عقیدہ کا بیان بھی ہو تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اس حدیث کو صحیح سمجھ کر اس میں بیان کردہ عقیدہ کو بھی قبول کر رہے ہیں
لیکن بعض متاخرین احناف نے بیان کیا کہ خبر واحد کو عقیدے میں نہ لیا جائے جو اصلا غلطی ہے کیونکہ یہ امام ابو حنیفہ کا مقصد نہیں تھا – بعد میں احناف نے اس کو خود محسوس کیا کیونکہ مسئلہ یہ آتا کہ متواتر احادیث کی تعداد تو اٹے میں نمک کے برابر ہے تو انہوں نے امداد زما نہ کے ساتھ اس اصول کو خود عملا خیر باد کہہ دیا – لہذا یہ اصول صرف اس وقت بیان ہوتا ہے جب کسی عقیدے کو رد کرنا ہو اور سرسری انداز میں لکھ دیا جاتا ہے – ڈاکٹر عثمانی کا لکھنا بھی ایسا ہی ہے
احناف میں بہت سے گروہ ہیں – کوئی ایک قسم کے احناف نہیں ہیں – تصوف کے دلداہ احناف بھی ہیں – اس کو ناپسند کرنے والے بھی ہیں – ان سب میں فقہ کے اصول بھی بدل رہے ہیں اور خبر احاد پر موقف بھی بدل جاتا ہے – ہند و پاک کے حنفی تو اصلا صوفی ہیںجو کشف تک سے خبریں ثابت کرتے ہیں
اپنی کتب میں جا بجا اخبار احاد کو ڈاکٹر عثمانی نے عقیدہ پر پیش کیا ہے مثلا تعویذ پر کتاب میں صرف حسن روایات سے تعویذ کو رد کیا ہے اور راقم کہتا ہے کہ ڈاکٹر عثمانی کی کتب میں جو احادیث متواتر بیان ہوئیں ہیں وہ جو چاہے جمع کر کے دیکھ لے بمشکل تمام پانچ چھ ہوں گی –
فرقہ اہل حدیث اور حنابلہ میں خبر واحد سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے نہ صرف صحیح سے بلکہ البانی کہتے ہیں حسن تک سے – البانی ڈاکٹر عثمانی کے ہم عصر تھے – یہ ڈاکٹر صاحب کی علم کی کمی ہوئی اگر انہوں نے یہ سب کے لئے لکھا – میں اس کا قائل نہیں کہ ان میں علم کی کمی تھی – میرے نزدیک عثمانی صاحب نے اس کو چلتے چلتے ہی فرقوں کے لئے لکھا ہے کہ دیکھو تمہارا اپنا اصول کہتا ہے کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا
میں اس میں آپ پر افسوس ہی کر سکتا ہوں کہ (عثمانی صاحب کے چند جملوں پر اپنی غلط سمجھ بوجھ کی وجہ سے ) آپ اپنی جان نا حق ان باتوں میں صرف کر رہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں

مقلد معترض نے کہا کہ خبر واحد سے عقائد نہیں صرف نظریات ثابت ہوتے ہیں
اس کی دلیل ہے کہ نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر میں أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) نے کہا
في أَخْبارِ الآحادِ المُنْقَسِمَة إِلى مَشْهورٍ وعَزيزٍ وغَريبٍ؛ مَا يُفيدُ العِلْمَ النَّظريَّ بالقَرائِنِ؛ عَلى المُختارِ؛ خِلافاً لِمَنْ أَبى ذلك.والخِلافُ في التَّحْقيقِ لَفْظيٌّ؛ لأنَّ مَنْ جَوَّزَ إِطلاقَ العِلْمِ قَيَّدَهُ بِكونِهِ نَظَريّاً، وهُو الحاصِلُ عن الاسْتِدلالِ، ومَنْ أَبى الإِطلاقَ؛ خَصَّ لَفْظ العِلْمِ بالمُتواتِرِ، وما عَداهُ عِنْدَهُ [كُلُّهُ] ظَنِّيٌّ، لكنَّهُ لا يَنْفِي أَنَّ ما احْتفَّ «منه» بالقرائِنِ أَرْجَحُ ممَّا خَلا عَنها.
یعنی خبر واحد محض ناظریات ہیں

راقم نے جوابا کہا
یہاں عربی لفظ نَظَريّاً کا مطلب اردو کا نظریہ نہیں ہے بلکہ علم نظری مراد ہے یعنی خبر واحد اعتبار کرنے کے لئے ظنية الثُّبُوت کے درجے پر ہیں یعنی پہلا قرآن پھر متواتر پھر اخبار احاد
ابن حجر نے اصل میں یہ کہا ہے
اخبار احاد کی تقسیم مشہور اور عزیز اور غریب میں کی گئی ہے جس سے (مذھب ) مختار (اختیار کردہ) کو علم نظری میں قرائن کے ساتھ فائدہ ہوتا ہے بر خلاف اس کے جو اس کا انکار کرے اور یہ اختلاف لفظی ہے کیونکہ جس نے خبر واحد پر علم کے جواز کا اطلاق کیا اس نے خبر واحد کو مقید کیا کہ یہ (علم ) نظری ہے اور یہ (ان کے ) استدلال کا حاصل ہے اور وہ جو خبر واحد (پر لفظ علم کے) اطلاق کا انکار کرے (یعنی خبر واحد کا علم میں مفید ہونے کا ) تو وہ علم کے لئے لفظ متواتر کو خاص کرتے ہیں اور اس کے سوا سب روایات کو ظنی کے طور پر شمار کرتے ہیں لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ جو خبر قرائن پر اتر رہی ہو وہ راجح ہے

راقم کے ترجمہ کی تائید اس ترجمہ سے ہوتی ہے

تأويل مختلف الحديث میں أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) لکھتے ہیں
وانقسمت الأحادیث بِاعْتِبَار رواتها إِلَى قَطْعِيَّة الثُّبُوت وظنية الثُّبُوت
اور اعتبار کرنے کے لئے احادیث کو قَطْعِيَّة الثُّبُوت اور ظنی ثبوت میں تقسیم کیا گیا ہے
عقائد میں اپنے اپنے نظریات یا تھیوری پیش نہیں کی جاتیں جو خبروں میں آیا ہے ان کو سامنے رکھ کر کچھ ثابت کیا جاتا ہے- اور ڈاکٹر عثمانی نے سبز پرندوں والی حدیث، ابراہیم کو دودھ پلانے والی حدیث سے جسم ثابت کیا ہے ان کے الفاظ ہیں

یعنی عثمانی صاحب نے خبر واحد سے ثابت کیا ہے اور ثابت شدہ نصوص ہوتے ہیں نظریات تو تھیوریز ہیں جن میں بات بدلتی رہتی ہے –

خبر واحد کے حوالے سے نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر (مطبوع ملحقا بكتاب سبل السلام) میں أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کی وضاحت موجود ہے

الخبر إما أن يكون له: * طرق بلا عدد معين. * أو مع حصر بما فوق الاثنتين. * أو بهما. * أو بواحد.
فالأول: المتواتر المفيد للعلم اليقيني بشروطه [وهي عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذاب رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء وكان مستند انتهائم الحسن وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه] .والثاني: المشهور وهو المستفيض على رأي. [ويطلق المشهور على ما اشتهر على الألسنة]
والثالث: العزيز، وليس شرطاً للصحيح خلافاً لمن زعمه.
والرابع: الغريب.
وكلها – سوى الأول – آحاد.
وفيها المقبول [وهو ما يجب العمل به عند الجمهور] والمردود لتوقف الاستدلال بها على البحث عن أحوال رواتها دون الأول، وقد يقع فيها ما يفيد العلم النظري بالقرائن على المختار [كأن يخرج الخبر الشيخان في صحيحهما أو يكون مشهورا وله طرق متباينة سالمة من ضعف الرواة والعلل أو يكون مسلسلا بالأئمة الحفاظ المتقنين حيث لا يكون غريبا] .

خبر ہو سکتی ہے ایک طرق سے جس میں عدد معین نہ ہو (یعنی راوی کثیر تعداد ہو) یا دو سے زائد راوی ہوں یا ایک ہو – پس پہلی ہے متواتر … دوسری المشہور … تیسری العزیز … چو تھی الغریب اور سوائے متواتر کے یہ سب خبر واحد ہیں- اور ان میں مقبول بھی ہے جس پر جمہور کے نزدیک عمل واجب ہے اور مردود وہ ہے جس پر راویوں کے احوال کی وجہ سے استدلال لینے میں توقف کیا جاتا ہے – اور خبر واحد میں واقع ہوئی ہیں وہ احادیث جو علم نظری میں مفید ہیں قرائن (مذھب ) مختار کو دیکھتے ہوئے (مثلا) وہ جن کی شیخین (بخاری و مسلم ) نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے یا وہ مشہور ہیں اور ان کے طرق ضعیف راویوں ، علل سے الگ ہیں اور یہ تسلسل کے ساتھ احتیاط کرنے والے حفاظ نے روایت کی ہیں اور غریب نہیں ہیں

مزید یہ کہ علم حدیث کی کتب کی شرح اور لوگوں نے بھی کی ہے – النكت على مقدمة ابن الصلاح میں الزركشي (المتوفى: 794هـ) کا کہنا ہے
وَذَلِكَ يُفِيد الْعلم النظري َهُوَ فِي إِفَادَة الْعلم كالمتواتر إِلَّا أَن الْمُتَوَاتر يُفِيد الْعلم الضَّرُورِيّ وتلقي الْأمة بِالْقبُولِ يُفِيد الْعلم النظري
اخبار احاد مفید علم نظری میں فائدہ کرتی ہے اور یہ افادہ علم میں متواتر ہی کی طرح ہے سوائے اس کے کہ متواتر سے مفید علم ضروری حاصل ہوتا ہے اور امت نے مفید علم نظری کو تلقیہا بالقبول کا درجہ دیا ہے
مزید لکھا ہے

وَنَقله بَعضهم عَن السَّرخسِيّ من الْحَنَفِيَّة وَجَمَاعَة من الْحَنَابِلَة كَأبي يعلى وَأبي الْخطاب وَابْن حَامِد وَابْن الزَّاغُونِيّ وَأكْثر أهل الْكَلَام من الأشعرية وَغَيرهم وَأهل الحَدِيث قاطبة وَمذهب السّلف عَامَّة وَقد تبين مُوَافقَة ابْن الصّلاح لِلْجُمْهُورِ وَهُوَ لَازم للمتأخرين فَإِنَّهُم صححوا أَن خبر الْوَاحِد إِذا احتفت بِهِ الْقَرَائِن أَفَادَ الْقطع
اور بعض احناف نے السَّرخسِيّ سے نقل کیا ہے اور حنابلہ کی ایک جماعت جسے ابو یعلی اور ابو الخطاب اور ابن حامد اور ابْن الزَّاغُونِيّ اور اہل کلام میں الأشعرية اور دوسروں نے اور اہل حدیث قاطبة نے اور مذھب سلف عام نے اور اس پر ابن صلاح نے جمہور کی موافقت واضح کی ہے اور یہ متاخرین کے لئے لازم کیا ہے کہ اگر خبر واحد پر قرائن ہوں تو یہ قطعی (علم ) میں فائدہ مند ہیں
البحر المحيط في أصول الفقه میں الزركشي (المتوفى: 794هـ) لکھتے ہیں
سَبَقَ مَنْعُ بَعْضِ الْمُتَكَلِّمِينَ مِنْ التَّمَسُّكِ بِأَخْبَارِ الْآحَادِ فِيمَا طَرِيقُهُ الْقَطْعُ مِنْ الْعَقَائِدِ؛ لِأَنَّهُ لَا يُفِيدُ إلَّا الظَّنَّ، وَالْعَقِيدَةُ قَطْعِيَّةٌ، وَالْحَقُّ الْجَوَازُ، وَالِاحْتِجَاجُ إنَّمَا هُوَ بِالْمَجْمُوعِ مِنْهَا وربما بلغ مبلغ القطع، ولهذا أثبتنا المعجزات المروية بالآحاد
یہ گزرا ہے کہ بعض متکلمین نے عقائد میں اخبار احاد سے قطعی (علم ) کے طور پر تمسک کرنے سے روکا ہے کہ ان سے ظن میں فائدہ ہوتا ہے اور عقیدہ قطعی ہوتا ہے اور حق ہے جواز پر اور ان دونوں کے مجموع سے دلیل لینے پر اور بعض اوقات (خبر) پہنچانے والا قطعی خبر لاتا ہے اور اس بنا پر ہم ان معجزات کا اثبات کرتے ہیں جو اخبار احاد میں آئے ہیں

ابن حزم کتاب الإحكام في أصول الأحكام میں کہتے ہیں
قال أبو سليمان والحسين عن أبي علي الكرابيسي والحارث بن أسد المحاسبي وغيرهم أن خبر الواحد العدل عن مثله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوجب العلم والعمل معا وبهذا نقول وقد ذكر هذا القول أحمد بن إسحاق المعروف بابن خويز منداد عن مالك بن أنس وقال الحنفيون والشافعيون وجمهور المالكيين وجميع المعتزلة والخوارج إن خبر الواحد لا يوجب العلم
ابن حزم نے کہا ابو سلیمان اور حسین نے امام کرابیسی سے روایت کیا اور حارث محاسبی اور دیگر سے کہ خبر واحد جو رسول اللہ سے ملے تو یہ علم اور عمل میں واجب ہے اور یہی ہمارا قول ہے اور اس قول کا ذکر أحمد بن إسحاق المعروف ابن خويز منداد نے امام مالک کے لئے کیا ہے – اور احناف اور شوافع اور جمہور مالکیہ اور تمام المعتزلة والخوارج کہتے ہیں کہ خبر واحد سے علم واجب نہیں ہے

فتح الباری میں ابن رجب نے کہا

أن خبر الواحد يفيد العلم إذا احتفت به القرائن

بے شک خبر واحد علم  میں فائدہ دیتی ہے جب قرائن سے مل جائے 

متکلمین میں اشاعرہ   اس کے قائل ہیں کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا- وہابی علماء کے مطابق نووی اور ابن حجر دونوں عقیدے میں اشعری ہیں

لہذا عثمانی صاحب کو لکھنا چاہیے تھا

اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں

اس طرح یہ جملہ صرف دیو بندی اور بریلوی فرقے سے کہا گیا ہے – اہل حدیث فرقہ اور حنبلی وہابی  خبر واحد پر عقیدہ لینے  کے قائل ہیں

راقم کہتا ہے کہ یہ جملہ بھی صرف ان مسائل میں چلتا ہے جن کا تعلق اسماء و صفات سے ہے

مقلد عثمانی معترض نے کہا کہ آپ کا کہنے کا مقصد ہوا کہ  ڈاکٹر عثمانی نے اصول سمجھا نہیں اور فرقوں پر لگا دیا

راقم نے جواب میں کہا

عثمانی بشر تھے اور غلطی بھی کرتے تھے اور اپنی کتب  میں تصحیح و تبدیلی  بھی کرتے رہے ہیں  اپنے موقف کی وضاحت میں انہوں نے خبر واحد کو دلیل بنایا ہے اور اگر وہ ان کو عقائد میں دلیل نہیں سمجھتے تو لکھتے نہیں

یہاں انہوں نے اصحاب حدیث کا جو اتفاق نقل کیا ہے یہ صرف ان محدثین کا اتفاق ہے جو مذھب میں اشاعرہ کے منہج پر ہیں یعنی ابن حجر یا النووی وغیرہ –  اغلبا ان کو یہ مغالطہ اسی بنا پر ہوا کہ انہوں نے ابن حجر کا حوالہ دیا ہے جو عقیدے میں اشاعرہ کے منہج پر ہیں لیکن محدث بھی مشہور ہیں  – اس کے بر خلاف   حنابلہ  محدثین  خبر واحد کو عقیدے میں لیتے  ہیں

وہابی مفتی  عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) فتوی میں کہتا ہے

وأن خبر الآحاد إذا استقام سنده حجة يجب العمل به عند جميع أهل العلم في العقائد وغيرها

اور خبر واحد اگر اس کی سند قائم ہو – حجت ہے – اس پر تمام اہل علم کے ہاں اس پر  عمل واجب ہے عقائد میں اور دوسرں میں 

وہابی دائمی کمیٹی کا فتوی ہے

والآحاد يحتج به في الفروع بإجماع، ويحتج به في العقائد على الصحيح من قولي العلماء الإمام ابن عبد البر والخطيب البغدادي إجماعا في العقيدة والفروع، ومن رأى أن لا يحتج به في العقائد قد خالف فعله رأيه فاحتج به في العقائد والأصول، بل احتج بالضعيف منه في ذلك.

فروع میں اخبار احاد سے  دلیل لینے پر  اجماع ہے اور ان میں جو صحیح ہوں ان سے عقائد میں  بقول علماء کےدلیل لی جائے جن میں ہیں امام ابن عبد البر اور خطیب بغدادی کہ اجماع ہے اخبار احاد سے عقائد اور فروع میں دلیل لینے پر اور جس نے یہ رائے رکھی کہ ان سے عقیدہ میں دلیل نہیں لی جائے گی اس نے مخالفت کی اپنی ہی رائے کی کہ اس نے  رائے سے عقائد میں اور اصول میں دلیل لی بلکہ اس سے جو اس سے بھی ضعیف ہے

ابن عبد البر نے کہا

كلهم يدين بخبر الواحد العدل في الاعتقادات، ويعادي ويوالي عليها، ويجعلها شرعاً وديناً في معتقده، على ذلك جميع أهل السنة). (التمهيد لابن عبد البر1/8). 

 

یہ فتوی سلفی عقائد رکھنے والے حنابلہ کے منہج کے عین مطابق ہے

مقلد عثمانی معترض نے کہا کہ اگر میں خروج دجال، شفاعت، محشر میں رویت باری تعالی ، حوض کوثر وغیرہ کی احادیث کا خبر واحد کا انکار کروں تو کیا میں کافر ہوں؟
راقم نے جوابا کہا تواتر کا شمار ادلہ قطعیہ میں کیا گیا ہے اس کا منکر کافر ہے جب ان اجزاء کو عقائد میں بیان کیا جاتا ہے تو اہلسنت کی جانب سے ان کو تواتر قرار دیا جاتا ہے اور اس بنا پر اہل سنت کا ان کا عقائد میں شامل ہونے پر اجماع ہے
مسئلہ عذاب قبر ، خروج دجال، شفاعت، محشر میں رویت باری تعالی ، حوض کوثر وغیرہ متواتر احادیث سے معلوم ہے

عثمانی مقلد معترض نے کہا ابن حزم برزخی جسم کے قائل نہیں کیا ڈاکٹرصاحب رح نے اس بات پر ابن حزم کی تکفیر کی
راقم کہتا ہے
قرآن و احادیث کے تفسیری اختلاف پر کفر کا فتوی نہیں دیا جاتا الا یہ کہ ادلہ قطعیہ کا رد ہو رہا ہو – مثلا بعض مسائل میں اصحاب رسول تک کی اختلافی و تفسیری آراء ملتی ہیں لیکن ان سے قرآن کا یا تواتر کا رد نہیں ہوتا – برزخی جسم کا منکر کافر نہیں لیکن اس شخص سے سوال کیا جائے گا کہ مجرد روح نعمت و راحت کیسے حاصل کرتی ہے ؟ جس کا یہ شخص جواب نہ دے سکے گا کیونکہ اس کو جو علم پہنچا اس نے اس کو جھٹلا دیا

عثمانی مقلد معترض نے کہا عقیدے میں ایک صحیح اور ایک کفر ہوتا ہے – بدعقیدہ شخص کو صرف گمراہ، بدعتی، فاسق و فاجر ہی نہیں کہا جاتا بلکہ اسکی واضح طور پر تکفیر کی جاتی ہے
راقم نے جوابا کہا
اگر ادلہ قطعیہ یعنی قرآن و متواتر حدیث کا انکار ہو تو بدعقیدہ شخص کی تکفیر کی جاتی ہے بصورت دیگر اس کو مضل یا گمراہ یا زایغ قرار دے کر اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے
مقلد عثمانی معترض نے کہا : امام بخاری رح نے روایت کیا ہے کہ عذاب قبر مویشی سنتے ہیں تو کیا وہ کافر ہیں؟ کیا خود بخاری کی اس حدیث سے ہی برزخ میں جانوروں کا ہونا ثابت نہیں ہوتا؟ کیونکہ جنت میں بیل ،بکری، اونٹنی کا ذکر توصحیح مسلم میں ہے
راقم نے جوابا کہا
صحیح بخاری کی یہ خبر واحد منکر ہے
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔
یہ روایت واقعہ کسوف کی باقی روایات سے متصادم ہے اس وجہ سے قابل رد ہے – قرائن اس کے خلاف ہیں اس بنا پر یہ متن منکر ہے – ہم اس کو اور باقی کسوف کی روایات کو ایک ساتھ صحیح نہیں کہہ سکتے – امام بخاری سے یہاں تصحیح میں غلطی ہوئی ہے – زیادہ توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ اگر صحیح حدیث میں علت موجود ہے تو اس کو رد کریں نہ کہ معلول حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے رہیں – اللہ تعالی نے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم کیا ہے کسی عثمانی یا بخاری کی اتباع کا حکم نہیں کیا –
اس حدیث کو اگر صحیح تصور کریں تو اس میں مویشی کہاں کے ہیں ؟ یہ ہم کو معلوم نہیں ہے
کیونکہ جہنم میں مویشی کی خبر نہیں ہے – جب جہنم میں مویشی ہیں ہی نہیں اور عذاب برزخ وہاں ہو رہا ہے تو میت کی یہ چیخ سات آسمانوں میں زمیں میں سب میں گونج نہیں سکتی ؟ ایسی بات حماقت سے کم نہیں ہے کیونکہ اس سے میت مزید پاور فل ہو گئی کہ اس کی آواز زمین و آسمانوں میں سب جگہ ہے
اب ایک امکان ہی رہ جاتا ہے کہ ممکن ہے امام بخاری نے اس کو جہنم میں مویشی سمجھا ہو اگر وہ ہمارا جیسا عقیدہ رکھتے تھے – اور ممکن ہے انہوں نے اس عذاب کو زمین پر ہی سمجھا ہو اگر وہ فرقوں جیسا عقیدہ رکھتے تھے – امام بخاری کا عقیدہ اس حوالے سے کیا ہے راقم کو علم نہیں ہے اور اس میں اشکال رہا ہے ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ امام بخاری نے واضح نہیں لکھا کہ عذاب روح کو ہے یا جسم کو ہے – یعنی فرقوں کو بھی اعتراف ہے کہ صرف الصحیح میں احادیث نقل کرنے سے عذاب قبر کے حوالے سے امام بخاری کا کیا عقیدہ تھا واضح نہیں ہوتا – اس بنا پر میں کہتا ہوں مجھ کو عذاب قبر کے باب میں بخاری کے عقیدہ کا صحیح علم نہیں ہےاور اس بنا پر ان پر فتوی نہیں لگا سکتا
یہ اصرار کیوں ہے کہ اس خبر واحد کو مان لیا جائے تاویل کی جائے جبکہ آپ کا قول ہے خبر واحد کو عقیدہ میں نہ لو – اب جب ہم کو علم آ گیا ہے کہ کسوف کی باقی روایات سے یہ متصادم ہے اور متن میں غلطی ہے پھر بھی اس حدیث کی تاویل کی بات کرنا مسلک پرستی کی نشانی ہے
امام بخاری نے کیا سمجھا یا ڈاکٹر عثمانی نے کیا کہا اس سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ دیکھا جائے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ایسا عقیدہ بیان کیا یا راوی بھول گیا یا غلطی کر گیا یا مختلط ہوا یا وہم کا شکار ہوا

عثمانی مقلد معترض نے کہا کیا ڈاکٹر عثمانی صاحب زمین پر چوپایوں کے سننے کے قائل تھے؟
راقم نے جوابا کہا
ڈاکٹر عثمانی صاحب چوپایوں کے سننے کے قائل نہیں کیونکہ انہوں نے مسلم کی ایک حدیث پر تبصرہ کر کے اپنا موقف وہاں واضح کر دیا ہے – ڈاکٹر عثمانی کا طریقہ متکلم اہل رائے جیسا یا اشاعرہ جیسا ہے وہ حدیث پر رائے زنی کرتے ہیں ، تاویل کرتے ہیں – لیکن تاویل میں کوئی اصول نہیں ہوتا کوئی کوئی بھی تاویل کر سکتا ہے جو روایت کی تطبیق قرآن سے کر دے – اچھی تاویل کر دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تاویل بالکل وہی ہے جو امام بخاری نے بھی کی ہو گی – امام بخاری نصوص کی تاویل کرتے تھے –
امام بخاری کے مقابلے پر وہ محدثین تھے جو قرن ثلاثہ میں عقائد میں خبر مرسل تک کو لیتے تھے مثلا امام احمد سے لے کر دارقطنی تک ، تابعی مجاہد کے مرسل قول پر اس عقیدہ کے حامل تھے کہ عرش پر روز محشر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھا دیا جائے گا- اس کی مخالفت کرنے والے کو وہ جھمی کہتے تھے اور آج تک یہ عقیدہ وہابیوں میں موجود ہے – لہذا بعض محدثین کے نزدیک خبر واحد مرسل بھی یقینی ہوتی تھی اور اس پر عقیدہ استوار بالکل کیا جا سکتا تھا – اس مثال سے واضح ہو جاتا ہے کہ عقائد میں ہمارا یا ڈاکٹر عثمانی کا منہج ان محدثین جیسا بالکل نہیں ہے- دوسری طرف امام بخاری اور امام ترمذی اور بہت سے اور محدثین تھے جو حدیث کی تاویل بھی کرتے تھے- اس کی دلیل ہے کہ مسئلہ اسماء و صفات میں امام بخاری اور امام ترمذی دونوں نے اپنی کتب میں احادیث یا آیات صفات کی بعض مقام پر تاویل کی ہے

عثمانی مقلد معترض نے کہا

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ المَدِينَةِ، فَقَالَتَا لِي: إِنَّ أَهْلَ القُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا، وَلَمْ أُنْعِمْ أَنْ [ص:79] أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ، وَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: «صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ البَهَائِمُ كُلُّهَا» فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ فِي صَلاَةٍ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

صحیح بخاری کی إس حدیث میں مویشی عذاب سن رہے ہیں جس طرح مرغ فرشتے کو دیکھ سکتا ہے
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام مویشی سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔

راقم نے کہا

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اس حدیث میں البَهَائِمُ کا لفظ ہے جس کا مطلب وہ چوپائے ہیں جو مویشی ہیں جن کو پالا جاتا ہے یہ خچر یا گھوڑا نہیں ہیں بلکہ یہاں روایت میں مویشی مراد ہیں
برزخ میرے نزدیک بھینسوں کا باڑا نہیں ہے مجھے نہیں معلوم امام بخاری کیا تاویل کرتے تھے

قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ مرغا فرشتے کو دیکھتا ہے یا مویشی عذاب قبر سنتا ہے

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَالحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا»
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نے فرمایا بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مرغ کو چختے یا بانگ دیتے سنو تو اللہ سے رزق طلب کرو کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ سے شیطان کی پناہ طلب کرو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے

راقم کہتا ہے یہ روایت تو امام بخاری سے بڑے محدث ابن معین نے ہی رد کی ہوئی ہے

وفي «كتاب» الساجي: قال يحيى بن معين: جعفر بن ربيعة ليس بشيء ضعيف.

دوسری سنن ابی داود میں ہے

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِذَا سَمِعْتُمْ نُبَاحَ الْكِلَابِ، وَنَهِيقَ الْحُمُرِ بِاللَّيْلِ، فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ فَإِنَّهُنَّ يَرَيْنَ مَا لَا تَرَوْنَ” ,
جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب کتے کا بھوکنا سنو اور گدھے کی آواز رات میں تو اللہ سے پناہ طلب کرو کیونکہ وہ وہ دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھتے

راقم کہتا ہے اس کی سند تو خود عثمانی صاحب کے اصول پر صحیح نہیں کیونکہ اس میں ابن اسحاق ہے جس کو انہوں نے دجال قرار دیا ہے مزید یہ کہ امام احمد نے اس کے راوی محمد بن إبراهيم التيمي کو رد کیا ہے

قال أحمد في حديثه شيء روى مناكير

لہذا یہ دونوں سندیں ضعیف ہیں

کتا بلی مرغا گدھا خچر فرشتوں کو جنات کو نہیں دیکھتے نہ سنتے ہیں ؟ سوال عثمانی صاحب کی تاویلات کا نہیں ہے – سوال حقائق کا ہے کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ جانور غیب میں دیکھتا ہے ؟ معلوم ہوا اس کی بودی دلیلیں ہیں اور بقول آپ کے خبر واحد پر عقیدہ بھی نہیں بنتا پھر اس دلیل کو آپ کیسے پیش کر رہے ہیں

عثمانی مقلد معترض نے کہا

مرغ والی حدیث بخاری میں دوسری سند سے بھی ہے جس سے امام بخاری رح نے احتجاج کیا ہے حدیث کی سند یہ ہے (حدثنا محمد بن سلام: اخبرنا مخلد بن یزید: اخبرنا ابن جریج: قال ابن شهاب: اخبرني يحي بن عروة: انه سمع عروة يقول: قالت عائشة:۔۔۔۔)۔
نبی علیہ السلام نے جنات کے فرشتوں سے لی گئی بات کو کاھن کے کان میں ڈالنے کو مرغ کے آواز کی طرح ڈالنے سے تشبیہ کیوں دی

راقم کہتا ہے

حدیث جس کا آپ نے ذکر کیا وہ یہ ہے
حدیث نمبر: 6213
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ شِهَابٍ :‏‏‏‏ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ :‏‏‏‏ سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكُهَّانِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “لَيْسُوا بِشَيْءٍ”، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا بِالشَّيْءِ يَكُونُ حَقًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ”.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ کو یحییٰ بن عروہ نے خبر دی، انہوں نے عروہ سے سنا، کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان کی (پیشین گوئیوں کی) کوئی حیثیت نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لیکن وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بات، سچی بات ہوتی ہے جسے جِن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے اور پھر اسے اپنے ولی (کاہن) کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے۔ اس کے بعد کاہن اس (ایک سچی بات میں) سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔

اس میں کہاں لکھا ہے کہ مرغ نے فرشتے کو یا جن کو دیکھا؟ جس طرح مرغ بانگ دیتا ہے جن اسی طرح کاہن کے دماغ میں اس کو ڈالتا ہے-  مرغ کی بانگ تو سب سنتے ہیں اس میں دیکھنا کہاں ثابت ہوا  کہ مرغے نے جن کو یا فرشتے کو دیکھا  – آپ جس حدیث کو لائے ہیں اس میں آپ کے مدعا کا ذکر نہیں ہے

اب جب یہ ثابت ہی نہیں ہوا کہ جانور غیب میں جھانک سکتے ہیں تو ان روایات سے ہم دلیل نہیں لیں گے

عثمانی مقلد معترض نے کہا : امام بخاری رحمهما الله کے متعلق یہ کہنا کہ یہ خبر واحد صحیح پر عقیدہ بنانے کے قائل تھے ان پر کھلا بہتان ہے
راقم نے جوابا کہا : اگر ہم صحیح بخاری کھول کر دیکھیں تو امام بخاری کا جامع الصحیح کا مقصد ظاہر ہو جاتا ہے – اس کا مقصد صحیح حدیث دینا ہے جس سے دین میں دلیل لی جا سکتی ہو –
لیکن آپ کے بقول وہ جن احادیث کو صحیح کہتے تھے ان پر خود ایمان نہیں رکھتے تھے جو ظاہر ہے کھلا جھوٹ ہے
راقم بعض روایات کی تصحیح پر امام بخاری سے اختلاف کرتا ہے کیونکہ روایت کو صحیح کہنا محدث کا اجتہاد ہے جو صحیح یا غلط ہو سکتا ہے – افسوس آپ کا مطمح نظر ہے کہ ہر وقت امام صاحب کا دفاع کیا جائے – لیکن امام بخاری کا دفاع کرنا میرا مذھب نہیں ہے – میرا مقصد صحیح حدیث کو جاننا ہے – امام بخاری نے ان روایات تک کو صحیح کہا ہے جن کو امام مالک نے رد کرنے کا حکم دیا- لیکن امام بخاری نے ان کو صحیح میں لکھا ہے لہذا ان پر اور انکی لائی گئی روایات پر محققین تنقید کرتے رہے ہیں – امام اابن بی حاتم نے باقاعدہ بيان خطأ البخاري کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں تاریخ الکبیر و تاریخ الاوسط میں امام بخاری کی راویوں پر غلطیاں جمع کی ہیں اور اس میں ٧٦٦ غلطیاں اندارج کی ہیں

عثمانی مقلد معترض نے کہا : آپ کا امام بخاری رح پر اعتراض ہے کہ وہ خبر واحد سے بھی عقیدہ لیتے ہیں یقینا یہ قول تنقیص پر محمول ہے

راقم نے جوابا کہا
امام بخاری اہل رائے میں سے نہیں ہیں -بلا شبہ امام بخاری نے خبر واحد کو عقیدہ میں لیا ہے اور اس پر دال ان کی مسئلہ خلق قرآن پر تالیف خلق افعال العباد ہے جس میں جا بجا خبر واحد سے عقیدہ کا اثبات کیا گیا ہے، پھر مزید یہ کہ جامع الصحیح کی ٣٠٠٠ ہزار سے اوپر روایات ہیں – کوئی یہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتا کہ امام بخاری نے خبر واحد پر عقیدہ نہیں لیا بلکہ اس کا الٹ ثابت ہوتا ہے
امام بخاری خبر واحد پر عقیدہ لیتے تھے ان کی کتابیں پکار رہی ہیں – امام بخاری محدث ہیں کوئی حنفی فقیہ نہیں جو خبر واحد سے عقیدہ نہ لو کی بات کرتے

خبر واحد پر وضاحت

راقم وضاحتا کہتا ہے کہ قرآن میں دلائل موجود ہیں کہ خبر واحد علم یقینی کا درجہ رکھتی ہے
نبا الیقین
خبر واحد کو قرآن میں نبا الیقین یعنی یقینی خبر کہا گیا ہے- مثلا ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کو آ کر مملکت سبا پر خبر واحد دی – سلیمان نے خط لکھ کر اس کی تصدیق کی یعنی قرائن دیکھ کر اس خبر کو قبول کیا- ہدہد نے خبر کو یقینی خبر کہا اور قرآن میں اس کا رد نہیں بلکہ اثبات ہے وہ خبر واحد سچی تھی اور تمام مومن بنی اسرائیل نے اس خبر واحد کو قبول کیا – اس وقت قرآن اور انجیل نازل نہیں ہوئے تھے اور توریت زبور نازل ہو چکی تھیں – قرآن میں ہے کہ ملکہ سبا کی خبر کی صداقت کو راوی یعنی ہدہد کی عدالت کے علاوہ زمینی قرائن سے جانچا گیا نہ کہ وحی الہی کا انتظار کیا گیا- اس طرح ہمیں علم دیا گیا کہ اگر قرائن و شواھد مل جائیں تو خبر واحد سے علم ظنی نہیں خبر یقین مل جاتی ہے اور ظاہر ہے خبر یقینی ، عقائد میں لی جائے گی-

اہل ذکر سے دلیل لینا

حنبلی عالم ابن عقیل خبر واحد پر کتاب الفنون ص ٦٦٣ اور ٦٣٨ میں کہتے ہیں

حنبلی (یعنی ابن عقیل) نے استدلال کیا کہ خبر واحد سے علم واجب ہے اور اعتقادات کا اثبات ہوتا ہے اس پر تین آیات ہیں
قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ سوره ألرعد
کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی شہادت کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے
اور اللہ کا قول ہے
سوره الشعراء أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ
کیا ان کے لئے نشانی نہیں ہے کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ سورہ یونس
تو اگر ان کو شک ہے جو نازل ہوا ہے تمہاری طرف تو ان سے سوال کرو جن پر تم سے پہلے کتاب نازل ہوئی
اور مراد ہے اور اشارہ ہے ان کی طرف جو اسلام لائے اور تصدیق کی اور ان میں ہیں کعب احبار اور وھب بن منبہ اور عبد اللہ بن سلام اور جو اسلام لائے اور یہ تمام احاد ہیں احاد سے اوپر نہیں جا سکتے

رجم کا حکم

قرآن میں ہے جو ایسا حکم کرے جو اللہ نے نہ دیا ہو تو کافر ہے ۔ رجم کرنا یا تو اللہ کا حکم ہے یا نہیں ہے – امت نے اس

کو خبر واحد کی بنیاد پر لیا ہے اور کسی سے منقول نہیں کہ امام ابو حنیفہ نے اس کا انکار کیا ہو-

ابن عقیل نے مزید وضاحت کی

ان دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ خبر واحد ( صحیح المتن و سند جو نکارت و شذوذ سے پاک ہو، چاہے بنی اسرائیل کی روایت ہو ) اس سے مفید علم یقینی حاصل ہو سکتا ہے

واضح رہے کہ جب قرائن ساتھ نہ دیں تو خبر واحد کو رد بھی کیا جاتا ہے جس کی تفصیل راقم کی علم حدیث کی کتاب میں ہے

دوم متواتر میں بھی سند میں ضعیف راوی ہوتے ہیں -مثلا کہنے والے کہہ تو دیتے ہیں قرآن تواتر سے ملا ہے لیکن ان کو یہ علم نہیں کہ اس کی سند ہوتی ہے جس عاصم بن ابی النجود سے آ رہی ہے اور عاصم ضعیف ہیں

اور قرآن کی قرات ہیں جو دس متواتر کہی جاتی ہیں لیکن ان میں قرات میں الفاظ بدل بھی جاتے ہیں اگرچہ مفہوم نہیں بدلتا

تفصیل اس بلاگ میں ہے

قرآن اور قرات عشرہ

عقيدة الرازيين

امام ابو زرعہ الرازی اور امام ابو حاتم الرازی  نیشاپور  فارس کے  دو ممتاز محدثین تھے جن کے نزدیک ان کے دور کے  دیگر محدثین نے بھی علم حدیث اور علم جرح و تعدیل میں غلطیاں کی تھیں –  ان ائمہ نے باقاعدہ امام بخاری کی علم جرح و تعدیل میں غلطیوں پر کتاب لکھی اور ان کے نزدیک کتاب صحیح مسلم نہیں لکھی جانی چاہیے تھی کیونکہ اس میں غیر صحیح روایات آ گئی ہیں

 حنبلییوں  یا سلفیوں  نے ان  ائمہ کو   اپنا ہم عقیدہ قرار دینے کے لئے ان کے حوالے سے ایک اقتباس گھڑا ہے جس کا ذکر پانچویں صدی ہجری سے ہونا شروع ہوا

اس اقتباس کی تین اسناد  ملی ہیں

پہلی سند

کتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از عبد العزيز بن فيصل الراجحي میں دعوی کیا گیا ہے کہ الحافظ أبو العلاء الهمذاني  نے اپنی کتاب اپنی کتاب میں امام ابی حاتم کا عقیدہ پیش کیا ہے

قال الحافظ أبو العلاء الهمذاني (ت 569 هـ) قي ” فتواه في ذكر الاعتقاد وذم الاختلاف ” (ص 90 – 91) : (فصل في ذكر الاعتقاد الذي أجمع عليه علماء البلاد) .ثم روى بسنده الصحيح إلى الإمام الحافظ أبي محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم (ت 327 هـ) قال: (سألت أبي وأبا زرعة – رضي الله عنهما -: عن مذاهب أهل السنة، وما أدركا عليه العلماء في جميع الأمصار: حجازا، وعراقا، ومصر، وشاما، ويمنا؟ فكان من مذهبهم:

* أن الإيمان قول، وعمل، يزيد، وينقص.

* والقرآن كلام الله غير مخلوق بجميع جهاته) .

ثم ذكر بقية معتقدهما، إلى أن قالا (ص 93) :

* (وأن الجهمية كفار.

* والرافضة رفضوا الإسلام.

* والخوارج مراق.

* ومن زعم أن القرآن مخلوق: فهو كافر كفرا ينقل عن الملة.

* ومن شك في كفره ممن يفهم: فهو كافر.

* ومن شك في كلام الله، فوقف فيه شاكا يقول: لا أدري مخلون أو غير مخلوق: فهو جهمي.

* ومن وقف في القرآن جاهلا: علم، وبدع، ولم يكفر

ومن قال: لفظي بالقرآن مخلوق، أو القرآن بلفظي مخلوق: فهو جهمي) اهـ.

وممن كفر القائلين بخلق القرآن، جماعات – ذكر كثيرا منهم:

عبد العزيز بن فيصل الراجحي نے دعوی کیا کہ اس کی سند صحیح ہے-

أخبرنا الشيخ الجليل الزاهد الثقة أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار بن أحمد بن القاسم قال: أخبرنا الشيخ أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي، وأبو بكر محمد بن عبد الملك بن بشران، قالا: حدثنا أبو الحسن علي بن عبد العزيز بن مردك بن أحمد البرذعي قال: أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم – أسعده الله ورضي عنه – قال:

یہ سند نامکمل ہے –

دوسری سند

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از  أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ الْمُقْرِئُ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ  مُحَمَّدِ بْنِ حَبَشٍ الْمُقْرِئُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ أَبِي وَأَبَا زُرْعَةَ عَنْ مَذَاهِبِ أَهْلِ السُّنَّةِ فِي أُصُولِ الدِّينِ , وَمَا أَدْرَكَا عَلَيْهِ الْعُلَمَاءَ فِي جَمِيعِ الْأَمْصَارِ , وَمَا يَعْتَقِدَانِ مِنْ ذَلِكَ , فَقَالَا

اس سند میں  الْحُسَيْنُ بْنُ  مُحَمَّدِ بْنِ حَبَشٍ الْمُقْرِئُ  مجہول الحال ہے

تیسری سند

كتاب أصل السنة واعتقاد الدين از أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي المتوفي: 445 هـ میں ہے

 سند ہے

قال أخبرنا أبو زيد … (1) قراءة عليه، قال: أخبرنا الشيخ أبو طالب عبد القادر بن محمد بن عبد القادر بن محمد بن يوسف، قراءة عليه وهو يسمع وأنا أسمع، فأقر به، قال: أخبرنا الشيخ أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي، رحمه الله، قال: حدثنا أبو الحسن علي بن عبد العزيز بن مردك بن أحمد البرذعي، قال: أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم، أسعده الله ورضي عنه، قال

 سألت أبی   و أبا زرعۃ   رضی اللّٰہ عنہما عن مذاھب أھل[السنۃ] فی أصول الدین ، وما أدر کا علیہ العلماء فی جمیع الأمصار ، وما یعتقدان من ذلک ، فقالا : أدرکنا العلماء فی جمیع الأ مصار حجازًا وعراقًا ومصرًا وشامًا ویمنًا ، فکان من مذھبھم :

  أبو زید   مجہول ہے جس    کا نام تک معلوم نہیں اور نہ حفظ کا پتا ہے نہ ضبط کا

متن

البتہ متن ہے

امام ابو محمد عبدالرحمٰن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا : میں نے اپنے والد(ابو حاتم الرازی) اور ابوزرعہ (الرازی) رحمہما اللہ سے اصول دین میں مذاہبِ اہل سنت کے بارے میں پوچھا اور (یہ کہ )انھوں نے تمام شہروں کے علماء کو کس(عقیدے) پر پایا ہے اور آپ دونوں کا کیا عقیدہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا : ہم نے حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن کے تمام شہروں میں علماء کو اس (درج ذیل) مذہب پر پایا:

(۱)۔ إن الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص۔

بے شک ایمان قول و عمل(کا نام) ہے (اور یہ) زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔

(۲)۔ والقرآن كلام الله غير مخلوق بجميع جهاته۔

قرآن الکریم ہر لحاظ سے اللہ سبحانہ وتعالٰی کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔

(۳)۔ والقدر خيره وشره من الله [عز وجل]۔

اچھی اور بری تقدیر، اللہ سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے ہے۔

(۴)۔ وخير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر الصديق، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان، ثم علي بن ابی طالب رضي الله عنهم

وهم الخلفاء الراشدون المهديون۔

نبی اکرم ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر صدیق ہیں پھر عمر بن الخطاب، پھر عثمان بن عفان، پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم اور یہی خلفاء راشدین مہدیین ہیں۔

(۵)۔ وأن العشرة الذين سماهم رسول الله ﷺ وشهد لهم بالجنة على ما شهد بہ، وقوله الحق۔

عشرہ (مبشرہ) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے (ہمارے نزدیک) وہ جنتی ہیں اور آپ ﷺ کی بات حق ہے۔

(۶)۔ والترحم على جميع أصحاب محمد ﷺ ، والكف عما شجر بينهم۔

محمد ﷺ کے تمام صحابہ کے بارے میں رحمت(اور رضی اللہ عنھم) کی دعا مانگنی چاہئے اور ان کے درمیان جو اختلافات تھے ان کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے۔

(۷)۔ وأن الله عزوجل علٰى عرشه بائن من خلقه، كما وصف نفسه في كتابه على لسان رسوله [ﷺ] ، بلا كيف ، أحاط بكل شيء علما.

ليس كمثله شيء وهو السميع البصير۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی اپنے عرش پر بغیر(سوال) کیفیت(مستوی) ہے، اپنی مخلوق سے(بلحاظِ ذات) جدا ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب(قرآن الکریم) میں اور رسول اللہ ﷺ کی زبان(مبارک پر) بیان فرمایا ہے۔ اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

(۸)۔ والله تبارك وتعالى يُرى في الآخرة، ويراه أهل الجنة بأبصارهم ويسمعون كلامه كيف شاء وكما شاء۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی آخرت میں نظر ائے گا، جنتی لوگ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے(اسی کا) کام ہے جیسے چاہے اور جب چاہے۔

(۹)۔ والجنة[ حق]، والنار حق، وهما مخلوقتان [لا يفنيان أبدًا] : فالجنة ثواب لأوليائه، والنار عقاب لأهل معصيته، إلا من رحم۔

جنت حق ہے، جہنم حق ہے، اور یہ دونوں مخلوق ہیں کبھی فنانہ ہوں گی، اللہ سبحانہ وتعالٰی کے دوستوں کے لئے جنت کا بدلہ ہے، اور ان کے نافرمانوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے سوائے ان کے جن پر وہ(اللہ سبحانہ وتعالٰی) رحم رفرمائے۔

(۱۰)۔ والصراط حق۔

(پل) صراط حق ہے۔

(۱۱)۔ والميزان [الذي] له كفتان يوزن فيه أعمال العباد حسنها وسيئها حق ۔

میزان(ترازو) کے دو پلڑے ہیں جن میں بندوں کے اچھے اور بُرے اعمال تولے چائیں گے۔

(۱۲)۔ والحوض المكرم به نبينا ﷺحق والشفاعة حق۔

نبی اکرمﷺ کا حوض کوثر حق ہے، اور شفاعت حق ہے۔

(۱۳)۔ وأن ناسًا من أهل التوحيد يخرجون من النار بالشفاعة حق۔

اہل توحید(مسلمانوں) میں سے (بعض) لوگوں کا (آپﷺ کی) شفاعت کے زریعے سے (جہنم کی) آگ سے نکلنا حق ہے۔

(۱۴)۔وعذاب القبر حق ۔

عذابِ قبر حق ہے۔

(۱۵)۔ ومنكر ونكير [حق]۔

منکر و نکیر (قبر میں سوال و جواب والے فرشتے) حق ہیں۔

(۱۶)۔ والكرام الكاتبون حق۔

کرامًا کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتے) حق ہے۔

(۱۷)۔ والبعث بعد الموت حق۔

موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔

(۱۸)۔ وأهل الكبائر في مشيئة الله عز وجل ، لا نكَّفر أهل القبلة بذنوبهم ، ونكل سرائرهم إلى الله عز وجل۔

کبیرہ گناہ کرنے والوں کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کی مشیت(اور ارادے) پر ہے (چاہے تو عذاب دے، چاہے تو بخش دے) ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے گناہوں کی وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کرتے، ہم ان کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے سپرد کرتے ہیں۔

(۱۹)۔ ونقيم فرض الجهاد والحج مع أئمة المسلمين في كل دهر وزمان۔

ہر زمانے(اور علاقے) میں ہم مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور حج کی فرضیت پر عمل پیرا ہیں۔

(۲۰)۔ ولا نرى الخروج على الأئمة ولا القتال في الفتنة۔

ہم  حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے قائل نہیں ہیں اور نہ فتنے(کے دور) میں (ایک دوسرے سے) قتال کے قائل ہیں۔

(۲۱)۔ ونسمع ونطيع لمن ولاه [الله أمرنا] ولا ننزع يدًا من طاعة۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی نے جسے ہمارا حاکم بنایا ہے، ہم اس کی سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں اور اطاعت سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے۔

(۲۲)۔ ونتبع السنة والجماعة ونتجنب الشذوذ والخلاف والفرقة۔

ہم (اہل) سنت والجماعت (کے اجماع) کی پیروی کرتے ہیں اور شزوذ، اختلاف اور فرقہ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔

(۲۳)۔ وأن الجهاد ماضٍ منذ بعث الله [عز وجل] نبيه ﷺ إلى قيام الساعة مع أولي الأمر من أئمة المسلمين، لايبطله شيء۔

جب سے اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنی نبی اکرمﷺ کو (نبی و رسول بناکر) مبعوث فرمایا ہے، مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر(کافروں کے خلاف) جہاد جاری رہے گا۔ اسے کوئی چیز باطل نہیں کرے گی(یعنی جہاد ہمیشہ جاری رہے گا)

(۲۴)۔ والحج كذلك۔

اور یہی معاملہ حج کا(بھی) ہے۔

(۲۵)۔ ودفع الصدقات من السوائم إلى أولي الأمر من [أئمة] المسلمين۔

مسلمان حکمرانوں کے پاس جانوروں(اور دیگر اموال) کے صدقات(زکوۃ، عشر) جمع کرائے جائیں گے۔

(۲۶)۔ والناس مؤمنون في أحكامهم ومواريثهم، ولا يُدرى ما هم عند الله [عز وجل] فمن قال : إنہ مؤمن حقًا فھو مبتدع ومن قال : ھو مؤمن عنداللّٰہ فھو من الکاذبین ومن قال : إنی مؤمن باللّٰہ فھو مصیب۔

لوگ اپنے احکام اور وراثت میں مومن ہیں، اور اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں ان کا کیا مقام ہے معلوم نہیں، جو شخص اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ یقیناً مومن ہے تو وہ شخص بدعتی ہے، اور جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں(بھی) مومن ہے تو ایسا شخص جھوٹوں میں سے ہے۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ میں اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ساتھ مومن (یعنی اللہ سبحانہ وتعالٰی پر ایمان رکھتا) ہوں تو یہ شخص (صحیح) مصیب ہے۔

(۲۷)۔ والمرجئة مبتدعة ۔

مرجئہ بدعتی گمراہ ہیں۔

(۲۸)۔ والقدرية مبتدعة ضلال، ومن أنكر منهم أن الله [عز وجل] يعلم ما يكون قبل أن يكون فهو كافر۔

قدریہ (تقدیر کا انکار کرنے والے) بدعتی گمراہ ہیں اور ان میں سے جو شخص یہ دعوی کرے کہ اللہ سبحانہ وتعالٰی، کسی کام کے ہونے سے پہلے اس کا علم نہیں رکھتا تو ایسا شخص کافر ہے۔

(۲۹)۔ وأن الجهمية كفار۔

جہمیہ کفار ہیں۔

(۳۰)۔ و[أن] الرافضة رفضوا الإسلام۔

رافضیوں نے اسلام چھوڑ دیا ہے۔

(۳۱)۔ والخوارج مُرّاق۔

خوارج (دین سے) نکلے ہوئے ہیں۔

(۳۲)۔ ومن زعم أن القرآن مخلوق فهو كافر [بالله العظيم] – كفرًا ينقل من الملة ومن شك في كفره ممن يفهم فهو كافر۔

جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن الکریم مخلوق ہے تو وہ کافر ہے، ملت (اسلامیہ) سے خارج ہے۔ اور جو شخص سوجھ بوجھ (اور اقامت حجت) کے باوجود اس شخص کے کفر میں شک کرے تو وہ(بھی) کافر ہے۔

(۳۳)۔ ومن شك في كلام الله [عز وجل-] فوقف شاكًا فيه يقول : لا أدري مخلوق أو غير مخلوق فهو جهمي۔

جو شخص اللہ سبحانہ وتعالٰی کے کلام کے بارے میں شک کرتے ہوئے توقف کرے اور کہے کہ مجھے پتا نہیں کہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق تو ایسا شخص جہمی ہے۔

(۳۴)۔ ومن وقف في القرآن جاهلا عُلِّمَ وبُدِّع ولم يُكفَّر۔

جو جاہل شخص قرآن الکریم کے بارے میں توقف کرے تو اسے سمجھایا جائے گا، اُسے بدعتی سمجھا جائے گا اور اُس کی تکفیر نہیں کی جائی گی۔

(۳۵)۔ ومن قال لفظي بالقرآن مخلوق ، أو القرآن بلفظي مخلوق فهو جهمي۔

جو شخص لفظی بالقرآن(میرے الفاظ جن سے میں قرآن مجید پڑھتا ہوں) یا القرآن بلفظی مخلوق(قرآن الکریم میرے الفاظ کے

ساتھ مخلوق) کہے تو وہ جہمی(گمراہ) ہے۔

تبصرہ

یقینا یہ تمام متن گھڑا ہوا ہے اس کی متعدد وجوہات  میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رافضی کا جنازہ امام ابو زرعہ پڑھتے تھے

كتاب الضعفاء: لأبي زرعة الرازي یا   أجوبة أبي زرعة على أسئلة البرذعي

وقال لي أبو زرعة: “لما مات عبد المؤمن بن علي حضرت جنازته وكنت أؤدب (8) لعلي ابنه، فكنت (9) لا ألتفت إلا وورائي إما رافضي، أو مبتدع، وإما بلية (10) فما زلت حتى صليت عليه وانصرفت”.

البرذعي کہتے ہیں  أبو زرعة  نے کہا  … میں التفات نہیں کرتا ہوں لیکن پیچھے ان کے (مرنے کے کہ ) اگر رافضی ہو بدعتی ہو یا فتنہ پرداز ہو پس ان پر جنازہ پڑھتا ہوں اور چلا اتا ہوں

یعنی البرذعي نے خود بیان کہ   أبو زرعة کے نزدیک رافضی مسلمان ہے وہ اس کا جنازہ پڑھتے تھے –

اس میں الخلفاء الراشدون المهديون میں صرف چار کو شمار کیا گیا ہے حسن اور معاویہ کو اس سے خارج کر دیا گیا ہے جو بہت بعد کا اہل سنت کا موقف بنا تھا

اس میں لفظي بالقرآن مخلوق ، أو القرآن بلفظي مخلوق کو صریح جہمی لکھا گیا ہے جبکہ یہ امام کرابیسی کا امام بخاری کا اور امام الذھبی کا مذھب ہے

اس کے علاوہ عشرہ مبشرہ کی منکر روایت کو بھی اس متن میں صحیح بنا کر پیش کیا گیا ہے جبکہ یہ روایت صحیح سند سے معلوم نہیں-عشرہ مبشرہ والی روایت کی سند  منقطع ہے – علل دارقطنی میں ہے

وَقَدْ بَيَّنَ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ هِلَالٍ أَنَّهُ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنَ ابْنِ ظَالِمٍ، وَأَنَّ بَيْنَهُمَا رَجُلًا

اس سے واضح ہے کہ ھلال بن نے اس کو ابن ظالم سے نہیں سنا ان کے درمیان کوئی شخص ہے

کتاب العلل لابن أبي حاتم میں ہے

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ عبد العزيز الدَّراوَرْدي   ، عن عبد الرحمن بن حُمَيد بن عبد الرحمن بْنِ عَوْف، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ جدِّه (2) عبد الرحمن بن عَوْف، عن النبيِّ (ص) قَالَ: عَشَرَةٌ فِي الجَنَّةِ.  وَرَوَاهُ مُوسَى بْن يعقوب الزَّمْعي   ، عَنِ عمر بن سعيد بن شُرَيح  ، عن عبد الرحمن ابن حُمَيد، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بن زيد، عن النبيِّ (ص) .

قلتُ لأَبِي: أيُّهما أشبهُ؟

قَالَ: حديثُ مُوسَى أشبهُ؛ لأنَّ الحديثَ يُروى عَنْ سَعِيدٍ (2) مِنْ طُرُقٍ شَتَّى، ولا يُعرَف عن عبد الرحمن بن عَوْف، عن النبيِّ (ص) ، في هذا – شيء

میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ حدیث جو عبد العزيز الدَّراوَرْدي نے عن عبد الرحمن بن حُمَيد بن عبد الرحمن بْنِ عَوْف، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ جدِّه  عبد الرحمن بن عَوْف، عن النبيِّ کی سند سے روایت کی ہے کہ فرمایا دس جنت میں ہیں-  اس کو مُوسَى بْن يعقوب الزَّمْعي  نے    عمر بن سعيد بن شُرَيح  ، عن عبد الرحمن ابن حُمَيد، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بن زيد، عن النبيِّ (ص)  کی سند سے بھی روایت  کیا ہے – میں نے پوچھا کون سی اچھی ہے ؟

میرے باپ نے کہا موسی کی حدیث اچھی ہے کیونکہ یہ حدیث سعید سے مختلف طرق سے آئی ہے اور عبد الرحمن بن عَوْف کا نبی سے کچھ روایت کرنا میں نہیں جانتا 

ابی حاتم کے نزدیک اس کی سند عبد الرحمن بن حُمَيد بن عبد الرحمن بْنِ عَوْف، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ سَعِيدِ بن زيد، عن النبيِّ والی اچھی ہے – راقم کہتا ہے اس کی سند  میں عمر بن سعيد بن شُرَيح ہے جس کو  خود ابی حاتم  نے ضعیف کہا  ہے

   مضطرب الحديث، ليس بقوي

یعنی سند کو اچھا کہنا اس بنا پر ہے کہ سعید نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں ضعیف راوی ہے اور یہ روایت صحیح سند سے ابی حاتم کے پاس نہیں ہے

لہذا راقم کو شک ہے کہ جو عقیدہ امام حاتم سے منسوب کیا گیا وہ گھڑا ہوا ہے کیونکہ اس  میں ہے

(۵)۔ وأن العشرة الذين سماهم رسول الله ﷺ وشهد لهم بالجنة على ما شهد بہ، وقوله الحق۔

عشرہ (مبشرہ) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے (ہمارے نزدیک) وہ جنتی ہیں اور آپ ﷺ کی بات حق ہے۔

جب کہ اس کی کوئی صحیح سند امام ابو حاتم کے پاس نہیں ہے

مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی

امام مسلم صحيح المسلم بَابُ الْأَمْرِ بِتَسْوِيَةِ الْقَبْرِ  میں روایت بیان کرتے ہیں کہ

عن أبي الهياج الأسدي قال

قَالَ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ»

أبي الهياج الأسدي کہتے ہیں کہ مجھ سے عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ  نے کہا: کیا میں تم کو اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کے لئے    رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے مجھے  بھیجا؟ کوئی تصویر نہ چھوڑوں جس کو مٹا دوں اور کوئی قبر جس کو برابر نہ کر دوں

امت میں اسی شرک کے خوف کی وجہ سے عائشہ رضی  الله تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی تدفین حجرہ میں کی گئی (صحیح البخاری

شیعوں کی کتاب   کی روایت ہے کہ صفحہ 528 الكافي از الكليني – ج 6

عدة من أصحابنا ، عن سهل بن زياد ، عن جعفر بن محمد الأشعري ، عن ابن القداح

عن أبي عبد الله عليه السلام قال : قال أمير المؤمنين عليه السلام بعثني رسول الله صلى الله عليه وآله في هدم القبور وكسر الصور

أبي عبد الله عليه السلام بیان کرتے ہیں کہ  أمير المؤمنين (علی) عليه السلام  کہتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وآله نے مجھے بھیجا کہ قبروں کو منہدم کر دوں اور تصویریں توڑ دوں

یہی بات وسائل الشيعة (الإسلامية) از الحر العاملي ج ٢ میں اور جامع أحاديث الشيعة لسيد البروجردي ج ٣  بیان ہوئی ہے

گنبد الخضراء کو ایک اسلامی سمبل سمجھا جانے لگا ہے حالانکہ اس کا دین میں کوئی مقام نہیں

ڈاکٹر عثمانی نے مزار یا میلے میں لکھا تھا

مکمل اقتباس وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى از علي بن عبد الله بن أحمد الحسني الشافعي، نور الدين أبو الحسن السمهودي (المتوفى: 911هـ) میں ہے
القبة الزرقاء
أما القبة المذكورة فاعلم أنه لم يكن قبل حريق المسجد الشريف الأول وما بعده على الحجرة الشريفة قبة، بل كان حول ما يوازي حجرة النبي صلّى الله عليه وسلّم في سطح المسجد حظير مقدار نصف قامة مبنيا بالآجر تمييزا للحجرة الشريفة عن بقية سطح المسجد، كما ذكره ابن النجار وغيره، واتمر ذلك إلى سنة ثمان وسبعين وستمائة في أيام الملك المنصور قلاوون الصالحى، فعملت تلك القبة، وهي مربعة من أسفلها مثمنة من أعلاها بأخشاب أقيمت على رؤوس
السواري، وسمر عليها ألواح من خشب، ومن فوقها ألواح الرصاص، وفيها طاقة إذا أبصر الشخص منها رأى سقف المسجد الأسفل الذي فيه الطابق، وعليه المشمع المتقدم ذكره، وحول هذه القبة على سقف المسجد ألواح رصاص مفروشة فيما قرب منها، ويحيط به وبالقبة درابزين من الخشب جعل مكان الحظير الآجر، وتحته أيضا بين السقفين شباك خشب يحكيه محيط بالسقف الذي فيه الطابق، وعليه المشمع المتقدم ذكره، ولم أر في كلام مؤرخي المدينة تعرض لمن تولى عمل هذه القبة.
ورأيت في «الطالع السعيد الجامع أسماء الفضلاء والرواة بأعلى الصعيد» في ترجمة الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي الربعي ناظر قوص أنه بنى على الضريح النبوي هذه القبة المذكورة، قال: وقصد خيرا وتحصيل ثواب، وقال بعضهم: أساء الأدب بعلو النجارين ودق الحطب، قال: وفي تلك السنة وقع بينه وبين بعض الولاة كلام، فوصل مرسوم بضرب الكمال، فضرب، فكان من يقول إنه أساء الأدب [يقول:] إن هذا مجازاة له، وصادره الأمير علم الدين الشجاعي، وخرب داره، وأخذ رخامها وخزائنها، ويقال: إنهم بالمدرسة المنصورية اه.
قبه الزرقاء نیلا گنبد – جہاں تک اس گنبد کا تعلق ہے تو جان لو کہ مسجد شریف میں آگ لگنے سے پہلے یہ نہ تھا اور اس کے بعد بھی حجرہ شریفہ پر کوئی گنبد نہ تھا ، بلکہ حجرہ النبی کو باقی مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے ادھے قد کی مقدار ایک منڈھیر بنی ہوئی تھی سطح مسجد پر جیسا ابن النجار اور دیگر نے ذکر کیا ہے اور یہ منڈھیر الملك المنصور قلاوون الصالحى کے ایام سن ٦٧٨ ھ تک باقی رہی -پس الملك المنصور قلاوون الصالحى نے اس گنبد کو بنایا اور یہ نیچے سے چوکور تھا اوپر سے آٹھ پرتوں میں تھا، اصلا لکڑی کا تھا اور اس پر لیڈ کی دھات کی پرتین لگی ہوئی تھیں اور اس میں (کھڑکی یا ) طاق تھا اس میں سے کوئی جھانکتا تو نیچے مسجد کی چھت پر نظر پڑتی اور اس گنبد کے گرد مسجد کی چھت پر بھی لیڈ کی پرت تھی اور یہ پرتین اس پر پھیلی ہوئی تھی
اور گنبد کے گرد اس مقام پر جہاں مٹی کی انٹین تھیں، لکڑی کا ہتھا (ہنڈریل) بھی تھا اور ان سب کے نیچے دو چھتوں کے درمیان (یعنی مسجد النبی کی چھت اور حجرہ مطہرہ کی چھت) ایک کھڑکی ہے لکڑی کی … اور مجھ کو مدینہ کے کسی مورخ کے کلام میں نہیں ملا کہ اس نے متولییوں کے تعمیر کردہ اس گنبد پر کسی اور کے تعرض کا ذکر کیا ہو – میں نے الطالع السعيد الجامع أسماء الفضلاء والرواة بأعلى الصعيد میں الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي الربعي ناظر قوص کے ترجمہ میں دیکھا کہ اس نے الضريح (یعنی حجرہ کے گرد جالی ) پر اس قبہ کو بنایا اور کہا کہ یہ بھلائی کا قصد و ارادہ ہے اور ثواب حاصل کرنا ہے – اس پر بعض نے کہا اس تعمیر میں بے ادبی ہے کہ بڑھئی کا کام کرنے والوں کو حجرہ سے اوپر کیا جائے اور ان کے ہتھوڑے کی آواز بے ادبی ہے -کہا اسی سال الكمال أحمد بن البرهان اور لوگوں کا اس پر کلام (بحث و مباحثہ) ہوا اور پھر (مملوک امراء کی طرف سے ) حکم ملا کہ الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي کو کوڑے لگائے جائیں – الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي کو کوڑے لگے- پس اس پر بعض کہتے یہ اس بے ادبی کی وجہ سے سب ہوا یا کہتے یہ اس کے عمل کی جزا ہے اور یہ حکم الأمير علم الدين الشجاعي نے صادر کیا اور انہوں نے الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي کا گھر برباد کیا اورگھر پر لگے سنگ مرمر کو اکھاڑ دیا اور اس کے خزانے کو لیا اور کہتے ہیں اب یہ سب مدرسہ المنصوریہ میں ہے

لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس قبہ کی تعمیر سے مسجد النبی میں شور ہو گا اور بڑھئی حجرہ کے اوپر چلے جائیں گے  یہ بے ادبی ہے ، لیکن الکمال احمد نے نہیں سنا اور پھر بھی تعمیر کی- بعد میں عوامی بحث کو ختم کرنے مملوک حاکم نے اس امیر کو معزول کر دیا اور سزا الگ دی جبکہ یہ سارا عمل ان کے علم  میں تھا اور انہوں نے ہونے دیا –  افسوس  آج  لوگ اس گنبد کو سبز رنگ  کرنے اس پر چڑھتے  ہیں پھر کئی سال تک  سال سعودی توسیعی پلان و  تعمیرات کی وجہ سے مسجد النبی کی زمین   لرزتی رہی ہے

فصول من تاريخ المدينة المنورة  جو علي حافظ کی کتاب ہے

اور  شركة المدينة للطباعة والنشر نے اس کو سن  ١٤١٧ ھ  میں چھاپا ہے اسکے مطابق

لم تكن على الحجرة المطهرة قبة، وكان في سطح المسجد على ما يوازي الحجرة حظير من الآجر بمقدار نصف قامة تمييزاً للحجرة عن بقية سطح المسجد.  والسلطان قلاوون الصالحي هو أول من أحدث على الحجرة الشريفة قبة، فقد عملها سنَة 678 هـ، مربَّعة من أسفلها، مثمنة من أعلاها بأخشاب، أقيمت على رؤوس السواري المحيطة بالحجرة، وسمَّر عليها ألواحاً من الخشب، وصفَّحها بألواح الرصاص، وجعل محل حظير الآجر حظيراً من خشب.  وجددت القبة زمن الناصر حسن بن محمد قلاوون، ثم اختلت ألواح الرصاص عن موضعها، وجددت، وأحكمت أيام الأشرف شعبان بن حسين بن محمد سنة 765 هـ، وحصل بها خلل، وأصلحت زمن السلطان قايتباي سنة 881هـ.  وقد احترقت المقصورة والقبة في حريق المسجد النبوي الثاني سنة 886 هـ، وفي عهد السلطان قايتباي سنة 887هـ جددت القبة، وأسست لها دعائم عظيمة في أرض المسجد النبوي، وبنيت بالآجر بارتفاع متناه،….بعد ما تم بناء القبة بالصورة الموضحة: تشققت من أعاليها، ولما لم يُجدِ الترميم فيها: أمر السلطان قايتباي بهدم أعاليها، وأعيدت محكمة البناء بالجبس الأبيض، فتمت محكمةً، متقنةً سنة 892 هـ.  وفي سنة 1253هـ صدر أمر السلطان عبد الحميد العثماني بصبغ القبة المذكورة باللون الأخضر، وهو أول من صبغ القبة بالأخضر، ثم لم يزل يجدد صبغها بالأخضر كلما احتاجت لذلك إلى يومنا هذا.  وسميت بالقبة الخضراء بعد صبغها بالأخضر، وكانت تعرف بالبيضاء، والفيحاء، والزرقاء” انتهى.

حجرہ مطهرہ پر کوئی گنبد نہ تھا، اور حجرہ مطهرہ  کو باقی مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے سطح مسجد سے آدھے قد کی مقدار تک ایک منڈھیر بنی ہوئی تھی. اور سلطان قلاوون الصالحي وہ پہلا شخص ہے جس نے حجرہ مطهرہ پر  سن 678 هـ (بمطابق 1279ء میں آج سے ٧٣٤ سال پہلے)،  میں گنبد بنایا، جو نیچے سے چکور تھا ، اوپر سے آٹھ حصوں میں تھا جو لکڑی کےتھے. … پھر اس کی الناصر حسن بن محمد قلاوون کے زمانے میں تجدید ہوئی. .. پھر سن 765 هـ،  میں الأشرف شعبان بن حسين بن محمد کے زمانے میں  پھر اس میں خرابی ہوئی اور السلطان قايتباي  کے دور میں سن  881هـ میں اس کی اصلاح ہوئی.   پھر سن 886 هـ میں اور السلطان قايتباي  کے دور میں مسجد النبی میں آگ میں گنبد جل گیا. اور سن 887هـ  میں اور السلطان قايتباي ہی  کے دور میں اس کو دوبارہ بنایا گیا…. سن 892 ھ میں اس کو سفید رنگ کیا گیا …  سن 1253هـ  میں  السلطان عبد الحميد العثماني نے حکم دیا اور اس کو موجودہ شکل میں  سبز رنگ دیا گیا. … اور یہ گنبد البيضاء (سفید)، الفيحاء ، والزرقاء (نیلا) کے ناموں سے بھی مشھور رہا

سعودی عرب کے مفتی عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) اپنے  فتویٰ میں  کہتے ہیں جو کتاب فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى میں چھپاہے  اور اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء نے چھاپا ہے

لأن بناء أولئك الناس القبة على قبره صلى الله عليه وسلم حرام يأثم فاعله

ان لوگوں کا قبر نبی صلى الله عليه وسلم پر گنبد بنانا حرام کام تھا اس کا گناہ اس کے بنانے والوں کے سرہے

محمد صالح المنجد  کتاب   القسم العربي من موقع (الإسلام، سؤال وجواب) میں کہتے ہیں کہ

وقد أنكر أهل العلم المحققين – قديماً وحديثاً – بناء تلك القبة، وتلوينها، وكل ذلك لما يعلمونه من سد الشريعة لأبواب كثيرة خشية الوقوع في الشرك.

قدیم محققین اہل علم نے شرک کے دروازون کو روکنے کے لیے اس گنبد  کے بنانے کا رد کیا ہے

بيان الحكم في القبة الخضراء على قبره عليه الصلاة والسلام : نبی صلی الله علیہ وسلم  کی قبر پر گنبد الخضراء کا حکم میں  سعودی عرب کے مفتی  عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ)   اپنے فتویٰ جو کتاب فتاوى نور على الدرب ج ٢ ص ٣٣٢  میں چھپا ہے  میں کہتے ہیں کہ

لا شك أنه غلط منه، وجهل منه، ولم يكن هذا في عهد النبي – صلى الله عليه وسلم – ولا في عهد أصحابه ولا في عهد القرون المفضلة، وإنما حدث في القرون المتأخرة التي كثر فيها الجهل، وقل فيها العلم وكثرت فيها البدع، فلا ينبغي أن يغتر بذلك

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غلطی ہے اور جھل ہے، اور یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں نہ تھا، نہ ہی صحابہ کے دور میں تھا ، نہ ہی قرون اولی میں تھا، اور بے شک اس کو بعد میں آنے والے زمانے میں بنایا گیا جس میں جھل کی کثرت تھی اور علم کی کمی تھی اور بدعت کی کثرت تھی پس یہ جائز نہیں کہ اس سے دھوکہ کھایا جائے

ج٢ ص ٣٣٩ مزید کہتے ہیں

وأما هذه القبة فهي موضوعة متأخرة من جهل بعض الأمراء، فإذا أزيلت فلا بأس بذلك، بل هذا حق لكن قد لا يتحمل هذا بعض الجهلة، وقد يظنون بمن أزالها بأنه يس على حق، وأنه مبغض للنبي عليه الصلاة والسلام،

اور یہ جو گنبد ہے تو یہ بعد میں انے والوں بعض امراء کے جھل کی وجہ سے بنا، اگر اس کو گرایا جائے تو کوئی برائی نہیں، بلکہ یہی حق ہے لیکن  کچھ جاہل لوگ ایسا نہیں لیتے، اور گمان کرتے ہیں کہ اس کے ہٹانے کو حق نہیں سمجھتے  اور اس کو النبي عليه الصلاة والسلام سے نفرت کا اظھار سمجھتے ہیں

مزید کہتے ہیں

وإنما تركت من أجل خوف القالة والفتنة

اور بےشک اس کو (جھلاء کی) بکواس اور فتنہ کے خوف سے چھوڑ دیا گیاہے

سوال یہ ہے کہ  اس گنبد کو رنگ کیوں کیا جاتا ہے

FullSizeRender

ان پر تو یہ صادق آتا ہے

لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (63

آخر ان کے احبار اور ربی کیوں ان کو گناہ کی بات سے نہیں روکتے اور حرام کھاتے ہیں بہت برا ہے جو یہ کرتے ہیں

غیر مقلدین کی محبوب شخصیت ابن تیمیہ (المتوفى: 728هـ)  کی ، سلطان قلاوون الصالحي کے دور کے بعد وفات ہوئی لیکن جہاں موصوف نے اور قبوں (گںبدوں) کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور قبر رسول کی زیارت کے غرض سے کیے جانے والے سفر کو بدعت کہا وہاں اس گنبد پر ایک لفظ نہ کہا

ان کے ہونہار شاگرد  ابن قیّم  (المتوفى: 751هـ ) نے بھی کچھ نہ کہا اور یہی پالیسی اب تک چلی آ رہی ہے

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

کہا جاتا ہے شروع میں وہابی علماء  اس گنبد کو گرانا چاہیتے تھے کہ برصغیر کے علماء کا ایک وفد عرب گیا وہاں بحث میں اس حدیث کو دلیل بنایا گیا

صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحيح بخاري: کتاب: حج کے مسائل کا بيان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کي بناءکا بيان)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبي نے بيان کيا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے بيان کيا، ان سے ابن شہاب نے بيان کيا، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن محمد بن ابي بکر نے انہيں خبردي، انہيں عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے خبردي اور انہيں نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي پاک بيوي حضرت عائشہ صديقہ رضي اللہ عنہا نے کہ آنحضور صلي اللہ نے ان سے فرمايا کہ تجھے معلوم ہے جب تيري قوم نے کعبہ کي تعمير کي تو بنياد ابراہيم کو چھوڑ ديا تھا ميں نے عرض کيا يارسول اللہ ! پھر آپ بنياد ابراہيم پر اس کو کيوں نہيں بنا ديتے؟ آپ نے فرمايا کہ اگر تمہاري قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزديک نہ ہوتا تو ميں بے شک ايسا کرديتا عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے کہا کہ اگر عائشہ صديقہ رضي اللہ عنہا نے يہ بات رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے سني ہے ( اور يقينا حضرت عائشہ رضي اللہ عنہ سچي ہيں ) تو ميں سمجھتا ہو ں يہي وجہ تھي جو نبي صلي اللہ عليہ وسلم حطيم سے متصل جو ديواروں کے کونے ہيں ان کو نہيں چومتے تھے کيونکہ خانہ کعبہ ابراہيمي بنيادوں پر پورا نہ ہواتھا

صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مَخْرَمَةَ ح وَحَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِى بَكْرِ بْنِ أَبِى قُحَافَةَ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ – أَوْ قَالَ بِكُفْرٍ – لأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالأَرْضِ وَلأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ
عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ اگر تمہاری قوم عہد جاہلیت کے قریب نہ ہوتی یا کہا کفر کے تو میں کعبہ کا خزانہ الله کی راہ میں صدقه کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین کے پاس کرتا کہ اس میں جانے کے لئے کوئی پتھر (بطور سیڑھی کے) استعمال نہیں کرتا

سند ميں عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ( المتوفی ٦٣ ھ واقعہ حرہ) مجہول ہے- صحيح بخاري کي ايک روايت ميں سند ميں عبد الله بن محمد بن أبي بكر الصديق ہے جن کي متقدمين ميں کوئي توثيق نہيں کرتا صرف ابن حبان نے ثقہ قرار ديا ہے – راقم کے علم ميں ان کي صرف تعمير کعبہ پر ايک روايت ذخيرہ کتب ميں ہے- اس راوي کو مجہول الحال کے درجہ پر رکھنا چاہيے

يہ کيسے ممکن ہے کہ رسول الله نے دين ميں کچھ عام اصحاب مہاجرین و انصار سے چھپا ديا ہو – پھر خود عائشہ رضي الله عنہا کا قول ہے کہ جس نے يہ کہا کہ اپ صلي الله عليہ وسلم نے دين کي کوئي بات چھپا دي اس نے جھوٹ باندھا

وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ شَيئاً مِمَا أنْزِلَ إِليهِ مِنَ الوَحْي فَقَدْ كَذَبَ
اور جس نے يہ کہا کہ جو اپ صلي الله عليہ وسلم پر نازل ہوا الوحي ميں سے اس کو چھپا ديا اس نے کذب کہا 

راقم تعمیر کعبہ والی  روايت کومبہم قرار دیتا ہے کہ يہ روايت سننے سمجھنے ميں راويوں کو کوئي غلطي ہوئي ہے خود عائشہ رضي الله عنہا کا قول اس کے خلاف کہ نبي صلي الله عليہ وسلم نے کچھ نہيں چھپايا جبکہ روايت کہہ رہي ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس تعمیر کی بات امت پر چھپا دی

وہابی علماء کا موقف گنبد پربدلتا رہتا ہے اب وہ اس گنبد کو بچانا چاہتے ہیں

فرحت ہاشمی وہابی عالمہ کا کہنا ہے کہ گنبد خضراء  مسجد النبی کا حصہ ہے جبکہ یہ دعوی غلط  ہے  – گنبد خضراء قبر النبی کا گنبد ہے نہ کہ مسجد النبی کا اور قبر النبی حجرہ عائشہ میں ہے جو کبھی بھی مسجد النبی کا حصہ نہیں رہی

تاریخ سے معلوم ہے کہ مسجد النبی میں اگ لگی اور اس کی چھت جل گئی یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم جن کے جسد اطہر میں فرقوں کے مطابق ہر وقت روح مطہر موجود ہوتی ہے ان کے اوپر موجود چھت جل رہی تھی  لیکن انہوں نے روکا نہیں- کیا یہ ان فرقوں کے عقائد کا تضاد نہیں  !راقم کہتا ہے  اس  اگ کو الله کی جانب سے بھیجا گیا لیکن امت اس اشارہ غیبی کو نہ سمجھ سکی

وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى از السمهودي (المتوفى: 911هـ) میں ہے

قال المؤرخون: احترق المسجد النبوي ليلة الجمعة أول شهر رمضان من سنة أربع وخمسين وستمائة في أول الليل،

مورخ کہتے ہیں کہ مسجد النبی میں جمعہ کی رات رمضان کی پہلی رات اگ لگی سن ٦٥٤ ھ میں

قال المؤرخون: ثم دبت النار في السقف بسرعة آخذة قبله، وأعجلت الناس عن إطفائها بعد أن نزل أمير المدينة فاجتمع معه غالب أهل المدينة فلم يقدروا على قطعها، وما كان إلا أقل من القليل حتى استولى الحريق على جميع سقف المسجد الشريف واحترق جميعه حتى لم تبق خشبة واحدة.

،مورخین کہتے ہیں اگ مسجد کی چھت پر پھیل گئی اور اس نے قبلہ کو بھی پکڑ لیا اور لوگوں نے اس کو بجھانے کی جلدی کی …. لیکن اس پر قادر نہ  ہوئے سوائے تھوڑے کے اور تمام مسجد کی چھت اس اگ کی لپیٹ میں آ گئی – سب جل گیا حتی کہ ایک لکڑی بھی نہ بچی

غور کریں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے جھوٹوں نے خبر دی کہ وہ اپنے  جسد کو بچانے کے لئے – بادشاہ کے خواب میں آئے لیکن اس لگنے والی اگ کی خبر اب انہوں نے کسی کو پیشگی نہ دی-  یہ واقعہ سن ٥٥٧ ھ کا ہے یہ اصلا نور الدین زنگی المتوفي ٥٦٩ ھ کا خود ساختہ خوف تھا کہ عیسائی جسد اطہر کو چرا لیں گے جبکہ جب وہ سرنگ سے وہاں پہنچتے تو تین اجسام پاتے اس میں سے کون سا نبی کا ہے اور کون سا عمر و ابو بکر کا ہے وہ معلوم نہیں کر سکتے تھے- نور الدین کو سیاسی محاذ پر سلطان ایوبی سے خطرہ تھا – نور الدین اور صلاح الدین میں اختلافات ہو گئے تھے اور ایوبی نے صلیبی جنگوں میں شرکت بھی چھوڑ دی تھی یہاں تک کہ نور الدین کی وفات کے بعد صلاح الدین نے اس کی بیوہ سے شادی کر لی اور نورالدین کے بیٹے کا صلاح الدین نے تختہ الٹ دیا

علی حافظ نے ذکر کیا کہ مسجد میں دوسری بار بھی اگ لگی

 وقد احترقت المقصورة والقبة في حريق المسجد النبوي الثاني سنة 886 هـ،

جس میں مقصورہ اور گنبد بھی جل گیا

مسجد النبی میں اگ ٦٥٤  اور ھ٨٨٦  میں لگی یعنی نور الدین والے واقعہ کے سالوں بعد

 پہلی اگ میں صرف چھت جلی لیکن دوسری میں گنبد تک جل گیا افسوس اس کو پھر بھی نہ سمجھا گیا اور اس پر ایک نیا گنبد بنا دیا گیا

فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى؟

قرآن کہتا ہے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بهَا من سُلْطَان

کیا تم نے اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ کو دیکھا؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو صرف چند نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں، الله کی طرف سے ان پر کوئی سند نہیں اتری

اللات طائف میں، العُزَّى مکہ میں اور مَنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں

الكلبي (المتوفى: 204هـ) کی کتاب الاصنام میں ہے

عرب طواف میں پکارتے

وَاللاتِ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الأُخْرَى … فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شفاعتهن لَتُرْتَجَى

اور اللاتِ اور الْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ

یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے

کتاب غریب الحدیث از ابن الجوزی کے مطابق

تِلْكَ الغرانيق الْعلَا قَالَ ابْن الْأَعرَابِي الغرانيق الذُّكُور من الطير
وَاحِدهَا غرنوق وغرنيق وَكَانُوا يدعونَ أَن الْأَصْنَام تشفع لَهُم فشبهت بالطيور الَّتِي ترْتَفع إِلَى السَّمَاء وَيجوز أَن تكون الغرانيق جمع الغرانق وَهُوَ الْحسن

یہ تو بلند غرانیق ہیں – ابن الاعرابی کہتے ہیں غرانیق سے مراد نر پرندے ہیں جن کا واحد غرنوق ہے اور غرنيق ہے یہ مشرکین ان ( دیویوں) کو اس نام سے اس لئے پکارتے تھے کیونکہ یہ بت ان کے لئے شفاعت کرتے اور(نر) پرندے بن کر جاتے جو آسمان میں بلند ہوتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حسن ہو

تاج العروس اور غریب الحدیث از ابن قتیبہ میں کہا گیا ہے کہ غرانیق سے مراد

طيور الماء طويلة العنق

پانی کے پرندے ہیں جن کی طویل گردن ہوتی ہے

اردو میں ان کو بگلا کہتے ہیں مشرکین نے فرشتوں کو بگلے بنا دیا اور پھر ان کو دیوی کہا

تفسیر بغوی میں سوره الحج کی تفسیر میں لکھا ہے
[سورة الحج (22) : الآيات 52 الى 53] وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آياتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ (53)
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ، الْآيَةَ.
«1467» قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْمُفَسِّرِينَ: لَمَّا رَأَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَلِّي قَوْمِهِ عَنْهُ وَشَقَّ عَلَيْهِ مَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ عَمَّا جَاءَهُمْ بِهِ مِنَ اللَّهِ تَمَنَّى فِي نَفْسِهِ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنَ اللَّهِ مَا يُقَارِبُ بَيْنَهُ
وَبَيْنَ قَوْمِهِ لِحِرْصِهِ عَلَى إِيمَانِهِمْ، فكان يوما في مجلس لقريش فأنزل الله تعالى سورة والنجم فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ: أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَناةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى (20) [النجم: 19- 20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ بِمَا كَانَ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ وَيَتَمَنَّاهُ: تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى، فَلَمَّا سَمِعَتْ قُرَيْشٌ ذَلِكَ فَرِحُوا بِهِ وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِرَاءَتِهِ، فَقَرَأَ السُّورَةَ كُلَّهَا وَسَجَدَ فِي آخِرِ السُّورَةِ فَسَجَدَ الْمُسْلِمُونَ بِسُجُودِهِ وَسَجَدَ جَمِيعُ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَلَمْ يَبْقَ فِي الْمَسْجِدِ مُؤْمِنٌ وَلَا كَافِرٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَأَبُو أُحَيْحَةَ سَعِيدُ بْنُ العاصِ فَإِنَّهُمَا أَخَذَا حَفْنَةً مِنَ الْبَطْحَاءِ وَرَفَعَاهَا إِلَى جَبْهَتَيْهِمَا وَسَجَدَا عَلَيْهَا لِأَنَّهُمَا كَانَا شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَلَمْ يَسْتَطِيعَا السُّجُودَ، وَتَفَرَّقَتْ قُرَيْشٌ وَقَدْ سَرَّهُمْ مَا سَمِعُوا مِنْ ذِكْرِ آلِهَتِهِمْ وَيَقُولُونَ قَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدٌ آلِهَتَنَا بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ، وَقَالُوا قَدْ عَرَفْنَا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَيَخْلُقُ وَيَرْزُقُ وَلَكِنَّ آلِهَتَنَا هذه تشفع لنا عنده، فإن جعل لها محمد نَصِيبًا فَنَحْنُ مَعَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَاذَا صَنَعْتَ لَقَدْ تَلَوْتَ عَلَى النَّاسِ مَا لَمْ آتِكَ بِهِ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَحَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزْنًا شَدِيدًا وَخَافَ من الله خوفا كبيرا [1] فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ يُعَزِّيهِ وَكَانَ بِهِ رَحِيمًا، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَنْ كَانَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَلَغَهُمْ سُجُودُ قُرَيْشٍ. وَقِيلَ: [قد] [2] أَسْلَمَتْ قُرَيْشٌ وَأَهْلُ مَكَّةَ فَرَجَعَ أَكْثَرُهُمْ إِلَى عَشَائِرِهِمْ، وَقَالُوا: هُمْ أَحَبُّ إِلَيْنَا حَتَّى إِذَا دَنَوْا مِنْ مَكَّةَ بَلَغَهُمْ أَنَّ الَّذِي كَانُوا تُحَدَّثُوا بِهِ [3] مِنْ إِسْلَامِ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ بَاطِلًا فَلَمْ يَدْخُلْ أَحَدٌ إِلَّا بِجِوَارٍ أَوْ مُسْتَخْفِيًا فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَالَتْ قُرَيْشٌ: نَدِمَ مُحَمَّدٌ عَلَى مَا ذَكَرَ مِنْ مَنْزِلَةِ آلِهَتِنَا عِنْدَ اللَّهِ فَغَيَّرَ ذَلِكَ وَكَانَ الْحَرْفَانِ اللَّذَانِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَا فِي فَمِ كُلِّ مُشْرِكٍ فَازْدَادُوا شَرًّا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ، وَشِدَّةً عَلَى مَنْ أَسْلَمَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَهُوَ الَّذِي يَأْتِيهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ عَيَانًا، وَلَا نَبِيٍّ، وَهُوَ الَّذِي تَكُونُ نُبُوَّتُهُ إِلْهَامًا أو مناما، فكل رَسُولٍ نَبِيٌّ، وَلَيْسَ كُلُّ نَبِيٍّ رَسُولًا. إِلَّا إِذَا تَمَنَّى، قَالَ بَعْضُهُمْ: أَيْ: أَحَبَّ شَيْئًا وَاشْتَهَاهُ وحدّث به نفسه مما لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ في أمنيته يعني مُرَادِهِ. وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِذَا حَدَّثَ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي حديثه ما وجد إِلَيْهِ سَبِيلًا، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا تَمَنَّى أَنْ يُؤْمِنَ بِهِ قومه ولم يتمنى ذَلِكَ نَبِيٌّ إِلَّا أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ مَا يَرْضَى بِهِ قَوْمُهُ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ.
عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ چاہت تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے افراٴیتم اللات و العزیٰ و مناة الثالثة الاخریٰ تو شیطان نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی ﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو آپ صلی الله علیہ وسلم بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو رحم آیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾
لنک
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=51&surano=22&ayano=52

یہ واقعہ اپنے اضطراب کے ساتھ کئی اور تفاسیر میں بھی بیان ہوا ہے مثلا
تفسير مقاتل بن سليمان المتوفی ١٥٠ ھ
تفسير يحيى بن سلام المتوفی ٢٠٠ ھ
تفسیر الطبری ٣١٠ ھ
تفسیر ابن أبي زَمَنِين المتوفی ٣٩٩ ھ
تفسیر الثعلبي، أبو إسحاق المتوفى ٤٢٧ھ
تفسیر بغوی المتوفی ٥١٦ ھ

ان آیات کے الفاظ عربوں میں مشهور تھے اور یہ دیویوں کا بھجن تھے
فَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى وَإِنَّهَا لِمَنَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى
یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے
لہذا یہ کوئی ایسی آیات نہ تھی جو مشرکین نہ سنتے ہوں

کیا واقعہ غرانیق ہوا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے غلط الفاظ ادا ہوئے

ابن كثير الدمشقي نے اور الألوسي اس واقعہ کا انکار کیا اور ابن حجر المصري نے اس کا استقرار کیا ہے کہ یہ ہوا ہے اور

ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی اصل تھا جس پر البانی نے ابن حجر عسقلانی پر جرح کی ہے

ابن تیمیہ نے اس کی تاویل کی ہے اپنے فتاوی ج ١٠ ص ٢٩١ میں کہتے ہیں
قَالَ هَذَا أَلْقَاهُ الشَّيْطَانُ فِي مَسَامِعِهِمْ وَلَمْ يَلْفِظْ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ شیطان کا القا تھا مشرکین کے کانوں پر اور یہ رسول الله کے الفاظ نہ تھے

الذھبی نے سير أعلام النبلاء ج 1 ص 149 پر اس کا ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی ہے

الزمخشري معتزلی نے الکشاف میں اس کو بیان کیا ہے کوئی جرح نہیں کی

دكتور عمر عبد السلام التدمري تاريخ ألإسلام از الذھبی پر اپنی تعلیق میں لکھتے ہیں
وقال الحافظ البيهقي في دلائل النبوّة 2/ 62: هذه القصة غير ثابتة من جهة النقل. وبيّن جرح رواتها وطعن حملة العلم فيهم. وفي «البحر» أنّ هذه القصة سئل عنها محمد بن إسحاق صاحب «السيرة» فقال: هذا من وضع الزنادقة. وقال أبو منصور الماتريديّ: الصّواب أنّ قوله «تلك الغرانيق إلخ» من جملة إيحاء الشيطان إلى أوليائه من الزّنادقة، والرسالة بريئة من هذه الرواية.
وقال القاضي عياض في الشفاء 2/ 28: يكفيك أنّ هذا الحديث لم يخرجه أحد من أهل الصّحة، ولا رواه ثقة بسند سليم متصل، مع ضعف نقلته، واضطراب رواياته، وانقطاع إسناده، واختلاف كلماته.
وقد فصّل القاضي عياض عدم صحّة هذه الرواية من عدّة وجوه يحسن مراجعتها. في كتابه الشفاء 2/ 116- 123، وانظر تفسير القرطبي 12/ 82، والنويري في نهاية الأرب 16/ 235- 241.
بیہقی نے دلائل النبوه میں کہا ہے یہ قصہ غیر ثابت ہے نقلی لحاظ سے اور البحر از أبو حيان میں ہے کہ ابن اسحاق سے اس قصہ پر سوال ہوا تو کہا یہ زنادقه کا گھڑا ہوا ہے اور ابو منصور ماتریدی کہتے ہیں ٹھیک یہ قول ہے کہ تلک الغرانیق کا قول شیطان کی اپنے اولیاء پر وحی ہے اور قاضی عیاض کہتے ہیں یہی کافی ہے کہ اہل صحت میں سے کسی نے اس کی تخریج نہیں کی نہ اس کے راوی متصل سند ہیں ثقاہت کے ساتھ پھر انکا نقل میں کمزور ہونا ہے اور روایات کا اضطراب ہے اور اسناد میں انقطاع ہے اور کلمات کا اختلاف ہے انتھی

اس پورے قصے کو محمد بن قيس بن مخرمة اور محمد بن کعب سے محمد بن السائب بن بشر الکلبی المتوفی ١٤٦ ھ منسوب کرتا ہے اسی طرح أبي العالية البصرى المتوفی ٩٣ ھ، السدی کوفی مَولَى قَيس بْن مَخرَمَة المتوفی ١٢٧ ھ ، قتادہ بصری المتوفی ١١٨ ھ نے بھی اس پر تبصرے کیے ہیں اس کے علاوہ اس کو عثمان بن الأسود مکی المتوفی ١٥٠ھ ، عن سعيد بن جبير المتوفی ٩٥ ھ ، عن ابن عباس کی سند سے بھی بیان کیا گیا ہے مثلا اسباب النزول الواحدی میں اور ابن مردويه میں
اسی طرح أبي بشر جعفر بن إياس بصری المتوفی ١٢٦ ھ کی سند سے یہ سعید بن جبیر کا مرسل قول ہے
لہذا سب سے پہلے اس واقعہ کا ذکر بصریوں مثلا رفيع بْن مهران بصري المعروف بأبي العالية الرياحي المتوفی ٩٠ یا ٩٣ ھ نے مرسل روایت کیا ہے اور قتادہ البصری المتوفی ١١٨ھ نے روایت کیا ہے – قتادہ خود بھی أَبُو الْعَالِيَةِ البصری کے شاگرد ہیں دونوں مدلس ہیں -ایک طرف تو بصرہ میں اس کو قتادہ بیان کرتے ہیں دوسری طرف مکہ میں سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ بھی ابن عباس سے اس کو روایت کرتے ہیں- یعنی لگ بھگ سن ٨٠ ھ کے بعد اس قصہ کا دور شروع ہوا اور اس کا گڑھ بصرہ تھا وہاں سے یہ مکہ پہنچا اور اس کو ابن عباس رضی الله سے منسوب کیا گیا ہے

کتاب المعرفۃ والتاریخ: 2/148 از الفسوی کے مطابق شعبہ نے کہا
لم يسمع قتادة من أبي العالية إلا ثلاثة أشياء. قلت ليحيى عدها، قال قول على رضي الله عنه القضاه ثلاثة، وحديث: لا صلاه بعد العصر، وحديث يونس بن متى.
قتادہ نے ابی العالیہ سے صرف تین چیزیں سنیں میں نے یحیی سے کہا ان کو گن دیجیے کہا علی رضی الله عنہ کا قول فیصلوں کے بارے میں اور حدیث کہ عصر کے بعد نماز نہیں اور حدیث یونس بن متی
یعنی بصرہ میں اس روایت کا منبع قتادہ ہوئے جو اس کا ذکر کرتے ہیں یہ سخت مدلس تھے اور روایت جس سے سن لیں اس کا نام بعض اوقات نہیں لیتے
امام یحیی بن معین نے فرمایا: “لم يلق سَعِيد بن جبير، ولا مجاهدا ولا سُلَيْمان بن يسار” قتادہ نے سعید بن جبیر، مجاہد، اور سلیمان بن یسار میں سے کسی کو نہیں پایا۔ سوالات ابن الجنید: ص

یعنی سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ کو یہ روایت قتادہ سے نہیں ملی

اس کی دو سندیں ہیں
أَبِي بِشْرٍ بصری ( جعفر بن إياس، وهو ابن أبي وَحْشِيَّة المتوفی ١٢٤ ھ )، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
المعجم الكبير از طبرانی اور مسند البزار
اور
عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ المکی المتوفی ١٤٧ ھ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
یعنی ایک بصری اور ایک مکی نے اس روایت کو سعید بن جبیر سے منسوب کیا ہے اس میں جعفر بن ایاس کو محدثین ثقہ کہتے ہیں اور عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ کو بھی ثقہ کہتے ہیں
یعنی محدثین کے مطابق اس روایت کا بار سعید بن جبیر نے اٹھا لیا کیونکہ اس کی سند میں ثقات ہیں ابن عباس رضی الله عنہ کے شاگردوں میں اس کو صرف سعید بن جبیر ہی روایت کرتے ہیں
حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو قتل کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید یہ روایت ہے

روایت پسندی صحیح نہیں ہے سنن دارمی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا يُخَالِفُ هَذَا، قَالَ: «لَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَرِّضُ فِيهِ بِكِتَابِ اللَّهِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مِنْكَ»
سعید بن جبیر نے ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہہ دیا : قرآن میں اس کےخلاف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا : میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو اس کے خلاف اللہ کی کتاب پیش کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر جانتے تھے۔

آج علماء یہی کہہ رہے ہیں کہ غرانیق والی روایت باوجود یہ کہ سعید بن جبیر سے ثقات نے روایت کی ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس کے خلاف موجود ہے کہ رسول الله سے غلطی نہیں ہو سکتی لہٰذا راقم کہتا ہے اس قسم کی روایات کا بار راویوں پر ہے
– علماء جو اس روایت کے خلاف ہیں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قتادہ یا سعید بن جبیر نے اس قسم کی فضول روایت کیوں بیان کیں- سوره حج کی آیات مدنی ہیں اور سوره النجم مکی سوره ہے ظاہر ہے اتنے طویل عرصے کے بعد اس پر تبصرہ کوئی معنی نہیں رکھتا

وہابی اور غیر مقلد  علماء کی بدلتی آراء

البانی کی رائے

البانی نے نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق میں اس کی اسناد کو جمع کیا اور کہا ہے کہ تمام ضعیف ہیں بلکہ موضوع ہیں

محمد بن عبد الوہاب النجدی کی رائے
مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم میں مؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) لکھتے ہیں
قصته صلى الله عليه وسلم معهم – لما قرأ سورة النجم بحضرتهم – فلما وصل إلى قوله: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم: 19 – 20] (1) ألقى الشيطان في تلاوته: تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى.
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے سورہ النجم کی قرات قریش کی موجودگی میں کی جب اس آیت پر آئے
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے تلاوت میں القا کیا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى

محمد بن عبد الوھاب النجدی نے اس واقعہ کو درجہ قبولیت دیا

زهير الشاويش کی رائے

تيسير العزيز الحميد في شرح كتاب التوحيد الذى هو حق الله على العبيد از سليمان بن عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب (المتوفى: 1233هـ) مع تحقیق زهير الشاويش میں بھی اس کا ذکر کیا
فلما أنزل الله سورة النجم قال: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم] ألقى الشيطان عندها كلمات حين ذكر الطواغيت فقال: تلك الغرانيق العلا، وإن
شفاعتهن لترتجى ….. وهي قصة مشهورة صحيحة رويت عن ابن عباس من طرق بعضها صحيح. ورويت عن جماعة من التابعين بأسانيد صحيحة منهم عروة وسعيد بن جبير وأبو العالية وأبو بكر بن عبد الرحمن وعكرمة، والضحاك وقتادة، ومحمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي وغيرهم. وذكرها أيضًا أهل السير وغيرها وأصلها في “الصحيحين”.

پس جب اللہ تعالی نے سورہ نجم نازل کی فرمایا

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے کلمات تلاوت میں القا کیے جن میں طاغوتوں کا ذکر تھا کہا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى
اور یہ قصہ صحیح و مشہور ہے ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے جن میں سے بعض صحیح ہیں اور تابعین کی ایک جماعت نے صحیح اسناد کے ساتھ اس کو عروہ بن زبیر اور سعید بن جبیر اور ابو العالیہ اور ابو بکر بن عبد الرحمان اور عکرمہ اور ضحاک اور قتادہ سے محمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي سے روایت کیا ہے اور دیگر اہل سیرت نے بھی روایت کا ہے اس کی اصل صحیحین میں موجود ہے

أسامة بن عطايا العتيبي کی رائے

عصر حاضر کے ایک وہابی عالم أسامة بن عطايا العتيبي نے عبد الوہاب نجدی کا دفاع کیا اور کتاب تيسير العزيز الحميد میں مقدمة التحقيق میں الحاشية ص 30 پر لکھا

انْتَقَدَ بَعْضُ العُلَمَاءِ إِيْرَادَ شَيْخِ الإسْلامِ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِالوَهَّابِ لِقِصَّةِ الغَرَانِيقِ فِي مُخْتَصَرِهِ لِلسِّيْرَةِ، وَهَذَا فِي حَقِيْقَتِهِ انْتِقَادٌ غَيْرُ صَحِيْحٍ، فَقِصَّةُ الغَرَانِيقِ ثَابِتَةٌ، تَلَقَّتْهَا الأُمَّةُ بِالقَبُولِ، وَقَدْ صَحَّحَهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ مِنْهُمُ: الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) وَغَيْرُهُمْ كَثِيْرٌ جِدًّا

بعض علماء نے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب پر مختصر سیرہ میں قصہ غرانیق کا ذکر کرنے پر تنقید کی ہے اور حقیقت میں یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ قصہ غرانیق ثابت ہے اس کو امت نے تلقیہا بالقبول کا درجہ دیا ہے اور ایک جماعت نے اس کو صحیح کہا ہے جن میں ہیں
الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) اور دیگر بہت سے

مفتی بن باز کی رائے

مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز ج 8 ص 301  پر ایک سوال کے جواب میں فتوی میں عبد العزيز بن باز کہتے ہیں کہ قصہ غرانیق پر مرسل احادیث ہیں لیکن

إلقاء الشيطان في قراءته صلى الله عليه وسلم في آيات النجم وهي قوله: {أفرأيتم اللات والعزى} الآيات، شيء ثابت بنص الآية في سورة الحج

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سورہ نجم کی  قرات  میں  شیطان کا القا ہونا یہ سورہ حج کی آیت سے ثابت ہے

معلوم ہوا کہ  روایت پسند واپس اس قصہ کو صحیح کہہ رہے ہیں

شیعہ علماء کی آراء

تفسير مجمع البيان میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

روي عن ابن عباس و غيره أن النبي (صلى الله عليهوآلهوسلّم) لما تلا سورة و النجم و بلغ إلى قوله أ فرأيتم اللات و العزى و منات الثالثة الأخرى ألقى الشيطان في تلاوته تلك الغرانيق العلى و إن شفاعتهن لترجى فسر بذلك المشركون فلما انتهى إلى السجدة سجد المسلمون و سجد أيضا المشركون لما سمعوا من ذكر آلهتهم بما أعجبهم فهذا الخبر أن صح محمول على أنه كان يتلو القرآن فلما بلغ إلى هذا الموضع و ذكر أسماء آلهتهم و قد علموا من عادته (صلى الله عليه وآله وسلّم) أنه كان يعيبها قال بعض الحاضرين من الكافرين تلك الغرانيق العلى و ألقى ذلك في تلاوته توهم أن ذلك من القرآن فأضافه الله سبحانه إلى الشيطان لأنه إنما حصل بإغوائه و وسوسته و هذا أورده المرتضى قدس الله روحه في كتاب التنزيه و هو قول الناصر للحق من أئمة الزيدية و هو وجه حسن في تأويله

اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ محمول ہے کہ اس مقام پر آ کر رسول اللہ  صلى الله عليه وآله وسلّم  حاضرین کفار میں سے بعض کو عیب دیا اور اس کو تلاوت میں بولا تو (لوگوں کو ) وہم ہو گیا کہ یہ قرآن میں اضافہ ہے

اسی بات کو تفسير نور الثقلين میں بیان کیا گیا ہے

مجلسی کی رائے

مجلسی نے بحار الأنوار میں  لکھا

كذب الله تعالى في الحال، و ذلك لا يقول به مسلم

یہ روایت  اس حال میں اللہ پر جھوٹ ہے اور ایسا مسلم نہیں کہہ سکتا

=====================================================

راقم کہتا ہے اس روایت کو شیعہ راوی الکلبی نے بھی روایت کیا ہے

تفسیر یحیی بن سلام میں ہے

وَفِي تَفْسِيرِ الْكَلْبِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلامُ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَالْمُشْرِكُونَ جُلُوسٌ فَقَرَأَ: {وَالنَّجْمِ} [النجم: 1] ، فَحَدَّثَ نَفْسَهُ حَتَّى إِذَا بَلَغَ: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى {20} } [النجم: 19-20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ: فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

تفسیر کلبی میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں نماز پڑھتے تھے اور مشرک پیٹھے ہوئے تھے پس قرات کی و النجم انہوں نے اپنے آپ سے کہا جب یہاں پر پہنچے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى

شیطان نے القا کر دیا ان کی زبان پر

فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

معلوم ہوا کہ روافض شروع سے اس قصہ کو قبول کر رہے تھے  طبرسی کے دور یعنی چھٹی صدی  تک اس کی تاویل کرتے چلے آ رہے تھے

کائنات کا منظر

عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ایک شخص بنام عبدللہ بن سبا اسلام میں ظاہر ہوا اس نے دین میں شیعہ عقیدے کی بنیاد ڈالی اور نئی تشریحات کو فروغ دیا

الشھرستانی  اپنی کتاب الملل و النحل ص ٥٠ پر لکھتے ہیں

 السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.

السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ:  تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو  مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا ۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی ( اللہ ان سے راضی ہو) ۔ اور وہ (ابن سبا)  ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی  کی امامت کے لئے بات پھیلآئی ۔ اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے اور انتقال نہیں کر گئے ۔ اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی ۔ اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ  زمین ظلم سے بھری ہے۔ اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا۔ اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے ۔ اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں

ابن اثیر الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٨ پر لکھتے ہیں

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم

 عبداللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا  پھربصرة پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ھو سکا.  اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس ائے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے. اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا. پھر اس نے کہا : ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمّد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا. اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے  لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو

 ابن سبا کو اسلام میں موت و حیات کے عقیدے کا پتا تھا  جس کے مطابق زندگی دو دفعہ ہے اور موت بھی دو دفعہ. اس کی بنیاد  قرآن کی آیات ہیں

سورہ غافر میں ہے

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ

وہ (کافر) کہیں  گےاے رب تو نے دو زندگیاں دیں اور دو موتیں دیں ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پس یہاں (جہنم ) سے نکلنے کا کوئی رستہ ہے

ابن سبا نے اس عقیدے پر حملہ کیا اور ان آیات کو رجعت کی طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں جب خلفاء کے خلاف خروج ہو گا تو ہم مر بھی گئے تو دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمارے دشمن دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونگے. اس آیت کا شیعہ تفاسیر میں یہی مفھوم لکھا ہے اور اہل سنت جو مفھوم بیان کرتے ہیں وہ شیعہ کے نزدیک اہل سنت کی  عربی کی   غلط سمجھ بوجھ ہے

رجعت کے عقیدہ کو اہل سنت میں استوار کرنے کے لئے دو زندگیوں اور دو موتوں والی آیات کو ذھن سے نکالنا ضروری تھا. اس کے لئے عود روح کی روایت بنائی گئیں کہ ایک دفعہ مردے میں موت کا مفھوم ختم ہو جائے تو پھر میدان صاف ہے. آہستہ آہستہ اہل سنت مردے کے سننے اور مستقبل میں کسی مبارزت طلبی پر قبر سے باہر نکلنے کا عقیدہ اختیار کر ہی لیں گے

 لہذا عود روح  کی روایات شیعہ راویوں  زاذان، المنھال بن عمرو، عدی بن ثابت، عمرو بن ثابت نے اصحاب رسول کی طرف منسوب کیں اور بالاخر یہ راوی کم از کم اس بات میں کامیاب ہوئے کہ دو موتوں اور دو  زندگیوں کا اصول ذہن سے محو ہو گیا

ابن سبا کے فلسفے کی بنیاد اس کے اپنے ذاتی خیالات نہیں تھے بلکہ یہ تمام انبیاء سابقہ سے منسوب اہل کتاب کی کتب میں موجود ہیں- البتہ اہل سنت کے شیعیی راویوں نے اس فلسفے کو روایات میں پررو کر ہم تک مکمل صحت کے ساتھ پہنچا دیا ہے – دوسری طرف الله تعالی کا فیصلہ ہے کہ

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

الله مومنو کو قول ثابت پر دنیا میں اور آخرت میں مضبوط کرے گا اور ظالموں کو گمراہ کرے گا – وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

لہذا الله کا حکم ہوا کہ لوگ گمراہ ہوں اور ابن سبا کے عقیدے کے  پر چارک بن جائیں – زاذان اور المنھال بن عمرو اسی طبقے کے دو راوی ہیں جنہوں نے رجعت کے عقیدے کو استوار کرنے کے لئے مردے میں عذاب قبر کے بہانے سے روح کے پلٹ انے کا ذکر کیا ہے – یعنی ان کے مطابق مومن کی روح اور کافر کی روح دونوں قبر میں آ جاتی ہیں

ابن سبا یمن کا ایک صوفی یہودی تھا وہاں اس کو برھوت کی خبر تھی جو  یہود کے نزدیک جہنم تک جانے کا رستہ ہے اور اس کی تہہ میں سمندر میں ابلیس بیٹھا ہے – برھوت کی خبر سنی سمجھے جانے والے  راویوں نے بھی دی جو لا علم علماء نے قبول کی- اس قسم کے اقوال کعب احبار بھی پھیلا رہا تھا – تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص بن حميد، عن شمر، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار، فقال له ابن عباس: حدِّثني عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ … ) الآية، قال كعب: إن روح الفاجر يصعد بها إلى السماء، فتأبى السماء أن تقبلها، ويُهبط بها إلى الأرض فتأبى الأرض أن تقبلها، فتهبط فتدخل تحت 
سبع أرضين، حتى ينتهي بها إلى سجين، وهو حدّ إبليس، فيخرج لها من سجين من تحت حدّ إبليس، رَقّ فيرقم ويختم ويوضع تحت حدّ إبليس بمعرفتها
شمر نے کہا ابن عباس کعب الاحبار کے پاس پہنچے اس سے کہا الله کے قول پر بیان کرو- کعب نے کہا فاجر کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان اس کو قبول کرنے میں کراہت کرتا ہے اس کو زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے تو زمین کراہت کرتی ہے تو اس کو ساتویں زمین میں داخل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سجین میں جا پہنچتی ہے جو ابلیس کی حد ہے .. وہاں ایک ورقه نکلتا ہے جس میں رقم کیا جاتا ہے اور مہر لگائی جاتی ہے اور رکھا جاتا ہے ابلیس کے قید کے نیچے جاننے کے لئے

اسی سند سے تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص، عن شمر بن عطية، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فسأله، فقال: حدثْنِي عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الأبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ … ) الآية، فقال كعب: إن الروح المؤمنة إذا قُبِضت، صُعد بها، فَفُتحت لها أبواب السماء، وتلقَّتها الملائكة بالبُشرَى، ثم عَرَجُوا معها حتى ينتهوا إلى العرش، 
فيخرج لها من عند العرش فيُرقَم رَقّ، ثم يختم بمعرفتها النجاة بحساب يوم القيامة، وتشهد الملائكة المقرّبون.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے عِلِّيِّينَ سے متعلق پوچھا تو کعب نے کہا مومنوں کی روحیں جب قبض ہوتی ہیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے بشارت دیتے ہیں پھر بلند ہوتی ہیں یھاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں پس عرش کے پاس ایک ورقه ہے جس میں رقم کرتے ہیں پھر مہر لگتی ہے معرفت کے لئے کہ قیامت میں حساب سے نجات ہو گی اور مقرب فرشتے گواہ بنتے ہیں

دونوں کی سند ایک ہے ضعیف ہے
میزان کے مطابق حفص بن حميد، أبو عبيد القمى کو ابن المديني: مجهول کہتے ہیں
دوسرے راوی يعقوب بن عبد الله القمي کو الدارقطني ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا ابن نمير، قال: ثنا الأعمش، قال: ثنا المنهال بن عمرو، عن زاذان أبي عمرو، عن البراء، قال: (سِجِّينٍ) الأرض السفلى.
منہال بن عمرو نے زاذان سے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا سجین نچلی زمین ہے

 ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں

 والصحيح أن سجِّيناً مأخوذ من السجن، وهو الضيق ….. والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة

اور صحیح بات ہے کہ سجین ماخوذ ہے سجن قید خانہ سے اور یہ تنگ ہے … اور اس کا مقام ساتویں زمین کا وسط کا مرکز ہے

یعنی سجین ارض کا پیندا ہے

معلوم ہوا کہ سجین تک جانے کا راستہ برھوت سے ہے

چلیں آج برھوت کی سیر کریں

ہوائی جہاز سے برھوت کی تصویر

 برھوت کی خبر یمنی  لوگوں نے دی اور   یہ سجین کا رستہ ہے-

برھوت (سرخ نشان) اور  جابیہ (سبز نشان) میں فاصلہ

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

أنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: أنا مُحَمَّدُ بْنُ   هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، قَالَ: نا الرَّبِيعُ، قَالَ: نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: ” تَخْرُجُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، فَتَعْرُجُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهُ فَتَلْقَاهُ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا هَذَا الَّذِي جِئْتُمْ بِهِ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: تَوِّجُوهُ، هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ كَانَ يَعْمَلُ كَيْتَ وَكَيْتَ لِأَحْسَنِ عَمَلٍ لَهُ , قَالَ: فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ، وَحَيَّا مَا جِئْتُمْ بِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ الَّذِي يَصْعَدُ فِيهِ قَوْلُهُ وَعَمَلُهُ، فَيُصْعَدُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ حَتَّى يَأْتِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَهُ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، وَرُوحُ الْكَافِرِ أَنْتَنُ يَعْنِي: مِنَ الْجِيفَةِ وَهُوَ بِوَادِي حَضْرَ مَوْتَ، ثُمَّ أَسْفَلَ الثَّرَى مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ “

ابو موسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو اس میں سےمشک کی سی خوشبو اتی ہے پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تم کیا لے کر آئے ہو ؟ پس فرشتے کہتے ہیں ادھر دیکھو یہ فلاں بن فلاں ہے اس نے ایسا ایسا عمل کیا ہے اچھا – پس فرشتے کہتے ہیں الله تم پر سلامتی کرے اور جو تم لائے ہو اس پر پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں یہاں تک کہ رب تعالی کے پاس جاتے ہیں اور ان کے لئے سورج کی طرح یہ ثبوت ہوتا  ہے   اور کافر کی روح سڑتی ہے یعنی سڑی ہوئی جو حضر الموت کی وادی میں ہے الثری کی تہہ ہیں سات زمین نیچے

اس میں حضر الموت میں وادی کا ذکر ہے جس میں برھوت کا کنواں  ہے لیکن یھاں روایت برھوت کا لفظ نہیں ہے

قارئیں یہ سب پڑھ کر اپ کو اب تک سمجھ آ چکا ہو گا کہ برھوت کو سجین قرار دیا گیا جو یمن میں ایک کنواں ہے جو زمین کی تہہ تک جانے کا رستہ ہے – اب سنن نسائی کی ایک روایت دیکھتے ہیں جس کا ذکر ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے اور اسی روایت کو ابن حبان کہتے کہ برھوت کی خبر ہے

 أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ

صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

یہاں روایت میں خاص باب الارض کا ذکر ہے کہ کفار کی روحیں زمین کے دروازے پر لائی جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو  کفار کی روحوں تک لے جایا جاتا ہے

یہ روایت محدث ابن حبان کے مطابق  برھوت کی ہی خبر ہے

اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور تبصرہ میں وضاحت کی کہ یہ روایت اصل میں برھوت کی خبر ہے  اس کے علاوہ اسی  راوی نے زمین کے دروازے کو بعض اوقات سجین بھی بولا ہے

تہذیب الکمال از المزی میں قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ کے ترجمہ میں اس روایت کے متن میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبُخَارِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الصَّيْدَلانِيُّ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحداد، قال: أَخْبَرَنَا أبو نعيم الْحَافِظُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ أَحْمَدَ: قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ النُّعْمَانِ الشَّيْبَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْقَاسِم بْن الفضل الحداني، عن قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَن أَبِي هُرَيْرة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِحَرِيرَةٍ فِيهَا مَسْكٌ ومِنْ صَنَابِرَ الرَّيْحَانِ وتَسَلُّ رُوحَهُ كما تَسَلُّ الشَّعْرَةَ مِنَ الْعَجِينِ، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً مَرْضِيًّا عَنْكِ، وطُوِيَتْ عَلَيْهِ الْحَرِيرَةُ، ثُمَّ يُبْعَثُ بِهَا إِلَى عِلِّيِّينَ، وإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِمِسْبَحٍ فِيهِ جَمْرٌ فَتَنْزِعُ رُوحَهُ انْتِزَاعًا شَدِيدًا، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى هَوَانٍ وعَذَابٍ، فَإِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وضِعَت عَلَى تِلْكَ الْجَمْرةِ، فَإِنَّ لَهَا نَشِيشًا فَيُطْوَى عَلَيْهَا الْمِسْبَحُ ويُذْهَبُ بِهَا إِلَى سِجِّينَ

فرشتے روح کو لے کر سجین جاتے ہیں

سلفی علماء میں ابن رجب اپنی کتاب  أهوال القبور  میں حنابلہ کے لئے لکھتے ہیں

ورجحت طائفة من العلماء أن أرواح الكفار في بئر برهوت منهم القاضي أبو يعلى من أصحابنا في كتابه المعتمد وهو مخالف لنص أحمد: أن أرواح الكفار في النار.
ولعل لبئر برهوت اتصالا في جهنم في قعرها كما روي في البحر أن تحته جهنم والله أعلم ويشهد لذلك ما سبق من قول أبي موسى الأشعري: روح الكافر بوادي حضرموت في أسفل الثرى من سبع أرضين.

اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کفار کی روحیں برھوت میں کنواں میں ہیں جن میں قاضی ابو یعلی ہیں ہمارے اصحاب میں سے اپنی کتاب المعتمد  میں اور یہ مخالف ہے نص احمد پر کہ کفار کی روحیں اگ میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ برھوت جہنم سے تہہ میں ملا ہو جیسا کہ روایت ہے کہ سمندر کے لئے کہ اس کے نیچے جہنم ہے و الله اعلم اور اس پر گواہی ہے ابو موسی رضی الله عنہ کے قول کی کہ کافر کی روح حضر الموت کی ایک وادی میں ہے تحت الثری کے پیندے میں ساتویں زمین میں

دامانوی صاحب دین الخالص قسط اول میں لکھتے ہیں

سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں

شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ) کتاب المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري میں لکھتے ہیں کہ

قال شيخ الإسلام ابن حجر وغيره: إن أرواح المؤمنين في عليين، وهو مكان في السماء السابعة تحت العرش وأرواح الكفار في سجين وهو مكان تحت الأرض السابعة، وهو محل إبليس وجنوده.

شیخ الاسلام ابن حجر اور دیگر کہتے ہیں: بے شک مومنین کی ارواح عليين میں ہیں، اور وہ ساتوے آسمان پر عرش کے نیچے ہے اور کفار کی ارواح سجين میں ہیں اور وہ جگہ ساتویں زمین کے نیچے ہے جو ابلیس اور اسکے لشکروں کا مقام ہے

فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں  ہے کہ سجین جہنم کا پتھر ہے

سجیں

ابن تیمیہ : مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢١ میں لکھتے ہیں

 وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرْتَعُ فِي الْجَنَّةِ وَتَأْوِي فِي فِنَاءِ الْعَرْشِ. وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ فِي برهوت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں جنت میں بلند ہوتی ہیں اور عرش تک جاتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

فتوی میں کہتے ہیں

وَإِنَّمَا فِي أَسْفَلِ سَافِلِينَ مَنْ يَكُونُ فِي سِجِّينٍ لَا فِي عِلِّيِّينَ كَمَا قَالَ تَعَالَى {إنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ}

اور اسفل سافلین میں وہ ہے جو سجین میں ہے نہ کہ علیین میں جیسا الله کا قول ہے کہ منافقین اگ کے اسفل میں ہیں

یعنی ابن تیمیہ نے سجین کو مقام قرار دیا

کبری و صغری ملا لیں سجین ابن تیمیہ کے نزدیک برھوت ہوا

عبد الوہاب النجدی اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا

اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

برھوت یمن میں ہے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

یعنی عبد الوھاب النجدی کے مطابق روحیں دنیا میں اتی ہیں کفار کی یمن میں برھوت میں اور مومنوں کی جابیہ شام میں

ان معلومات سے پتا چلا کہ   برھوت ایک  سرنگ ہے جو زمین کی تہہ میں جا رہی ہے بعض  علماء کہتے ہیں وہاں شیطان بیٹھا ہے اور اسی کو سجین کہتے ہیں – علییین ان کے نزدیک آسمان پر ہے ساتوین آسمان پر جہاں اس سے اوپر الله تعالی ہیں- کائنات کا یہ منظر کچھ اس طرح ہے

یہ پہلے آسمان سے سات آسمان تک کا منظر ہے اور نیچے

 

یہ زمین سے اس کی تہہ تک کا منظر ہے

ان کو ایک دوسرے پر رکھیں تو ملتا ہے

 

یہ کائنات کا مکمل منظر ہوا جو علمائے سلف  کی تفاسیر روایات اور فتاوی سے اخذ کیا گیا ہے

راقم کہتا ہے چیزیں اپنی اصل کی طرف پلٹ اتی ہیں

آخر گِل اپني، صرفِ درِ ميکدہ ہوئي
پہنچی وہیں پہ  خاک، جہاں کا خميرتھا ‘

ابن سبا   کوئی  ایک شخصیت نہیں، ایک فکر ہے، ایک فلسفہ ہے، ایک سوچ ہے جو راویوں کے  اذہان میں  سرایت کیے ہوئے ہے – روایات پڑھتے ہوئے  اس کو جاننا ضروری ہے تاکہ اسی قول پر رہ سکیں جو قول ثابت ہے یعنی کلمہ حق یعنی قرآن عظیم

پھر قبر ميں دفن کرايا

سورہ عبس
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ( 17 ) عبس – الآية 17
انسان ہلاک ہو جائے کيسا ناشکرا ہے
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ( 18 ) عبس – الآية 18
اُسے (اللہ نے) کس چيز سے بنايا؟
مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ( 19 ) عبس – الآية 19
نطفے سے بنايا پھر اس کا اندازہ مقرر کيا
ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ( 20 ) عبس – الآية 20
پھر اس کے ليے رستہ آسان کر ديا
ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ( 21 ) عبس – الآية 21
پھر اس کو موت دي پھر قبر ميں دفن کرايا
ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ ( 22 ) عبس – الآية 22
پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا

 

ان آيات کا مطلب ہے کہ انسان کو ہدايت الله نے دي اور موت دي، قبر دي، پھر زندہ کرے گا

قبر دينا الله کا عمل کہا گيا ہے- اس آیت کي عربي کا يہي مطلب ہے – لہذا عربي لغات و قواعد کي کتب ميں اس آیت  کا ذکر ہے کہ الله نے  قبر دي

إصلاح المنطق المؤلف: ابن السكيت، أبو يوسف يعقوب بن إسحاق (المتوفى: 244هـ) ميں ہے

قال الله جل ثناؤه: {ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُِ} [عبس: الآية:21] , قال أبو عبيدة:.. وقد أَقْبَرْتُهُ، إذا دفنته
أبو عبيدة: نے کہا اس کو قبر دي جب اس کو دفن کيا

كتاب العين المؤلف: أبو عبد الرحمن الخليل الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ)ميں ہے
قال الله تعالى: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ أي جعله بحال يقبر
يعني اس کو اس حال ميں کيا کہ قبر ميں ہے

لسان العرب المؤلف: ابن منظور الأنصاري الرويفعى الإفريقى (المتوفى: 711هـ) ميں ہے

الْفَرَّاءُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ
، أَي جَعَلَهُ مَقْبُورًا مِمَّنْ يُقْبَرُ وَلَمْ يَجْعَلْهُ مِمَّنْ يُلْقَى لِلطَّيْرِ وَالسِّبَاعِ وَلَا مِمَّنْ يُلْقَى فِي النَّوَاوِيسِ
الْفَرَّاءُ نے کہا الله نے اس کو قبر ميں کيا اور اس کو ايسا نہيں کيا کہ پرندوں يا درندوں کے آگے پھينکا گيا ہو

ليکن ہم کو معلوم ہے کہ الله نے سب  انسانوں کو قبر نہيں دي – دنيا ميں مسلمان آج کل مشرکوں سے کم ہيں اور مشرک اپنے مردوں کو تمام دفناتے بھي نہيں يہاں تک کہ بعض نصراني اہل کتاب کے فرقے بھي اپنے مردے جلا ديتے ہيں تو الله نے تو سب کو قبر نہيں دي

ڈاکٹر عثماني کا موقف ہے کہ فرشتوں کے ذريعہ قبر عالم البرزخ ميں دي جو روح کا مقام ہے اور يہ قول ابن حزم کا بھي ہے کہ عالم البزرخ ميں روح کا مقام قبر ہے – ياد رہے کہ ابن حزم ايک عرب تھے اندلس ميں عالم تھے

الفواتح الإلهية والمفاتح الغيبية الموضحة للكلم القرآنية والحكم الفرقانية از نعمة الله بن محمود النخجواني، ويعرف بالشيخ علوان (المتوفى: 920هـ) کي تفسير ميں ہے

ثُمَّ أَماتَهُ عن نشأة الابتلاء والاختبار تخليصا وتقريبا الى ربه فَأَقْبَرَهُ في البرزخ
الله نے اس کو البرزخ ميں قبر دي

سورہ قمر کي تفسير ميں انہوں نے لکھا
يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ اى قبورهم التي هم مدفونون فيها في عالم البرزخ ويتحركون على الأرض كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ
يہ اپني الْأَجْداثِ سے نکليں گے يعني وہ قبور جن ميں يہ عالم برزخ ميں دفن ہيں اور پھر يہ ٹدديوں کي طرح زمين پر منتشر ہوں گے

قرآن کي آيت النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا کي شرح ميں شيخ علوان (المتوفى: 920هـ) نے اسي تفسير ميں لکھا
النَّارُ المعدة لتعذيب اصحاب الشقاوة الازلية الابدية ولهذا يُعْرَضُونَ عَلَيْها يعنى فرعون وآله على النار حال كونهم في برزخ القبر ايضا
النار مدت عذاب ہے اصحاب شقي کے لئے ازلي و ابدي ہے اور اس لئے ان کو اس پر پيش کيا جاتا ہے يعني فرعون اور اس کي آل کو اس حال ميں کہ ان کے لئے برزخ ميں بھي قبر ہے

ڈاکٹر عثماني سے قريب 500 سال پہلے لکھي جانے والي تفسير ميں يہ سب موجود ہے کہ برزخ ميں قبر ہے جو الله نے دي اسي ميں ال فرعون کو عذاب ہو رہا ہے

آج لوگ کہتے ہیں کہ  برزخ تو کیفیت ہے نہ کہ مقام جبکہ بعض مفسرین کا ٥٠٠ سال پہلے سے یہ کہنا تھا کہ قبر عالم برزخ میں بھی ہے  اور اسی کی مناسبت سے حدیث میں عذاب قبر کا لفظ ہے

بعض کا کہنا تھا کہ قبر تو صرف نسبت ہے کہ وہ عذاب جو مرنے کے بعد دیا  جائے چاہے دفن ہو یا نہ ہو

عذاب قبرکی حقیقت کتاب

 اثبات عذاب قبر A5

سماع الموتی کے دلائل

[wpdm_package id=’8839′]

شرح  صحیح   البخاري     میں  ابو الحسن   علی بن محمد بن المنصور  بن ابی قاسم  زين الدّين على بن الْمُنِير أَخُو الْعَلامَة نَاصِر الدّين  المعروف  زین بن المنیر  المتوفی ٦٩٥ ھ  نے  لکھا  کہ         اس حدیث میں  میت  انسانوں کے جوتوں کی چاپ نہیں  فرشتوں  کے جوتوں کی چاپ سنتی ہے-  ابن حجر  نے اس  کا ذکر    فتح الباری میں کیا ہے

قَالَ الزَّيْنُ بْنُ الْمُنِيرِ جَرَّدَ الْمُصَنِّفُ مَا ضَمَّنَهُ هَذِهِ التَّرْجَمَةَ لِيَجْعَلَهُ أَوَّلَ آدَابِ الدَّفْنِ مِنَ إِلْزَامِ الْوَقَارِ وَاجْتِنَابِ اللَّغَطِ وَقَرْعِ الْأَرْضِ بِشِدَّةِ الْوَطْءِ عَلَيْهَا كَمَا يَلْزَمُ ذَلِكَ مَعَ الْحَيِّ النَّائِمِ وَكَأَنَّهُ اقْتَطَعَ مَا هُوَ مِنْ سَمَاعِ الْآدَمِيِّينَ مِنْ سَمَاعِ مَا هُوَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ

مصنف نے یہاں وقار کا ادب میں ذکر کیا ہے اور … چاپ کا کہ شدت سے زمین پر (قدم ) نہ مارا جائے  جیسا لازم آتا ہے زندہ سونے والے کے ساتھ  جیسا کہ (مصنف بخاری  یہاں )  قطع (الگ)  کر رہے ہوں  آدمیوں (کی چاپ ) کا سننا اس سننے سے جو فرشتوں کی وجہ سے ہو

امام بخاری نے باب باندھا ہے بَابُ الْمَيِّتُ يَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ  باب میت خفق نعال کو سنتی ہے جبکہ یہ الفاظ متن حدیث میں نہیں ہیں – اس پر زين الدّين على بن الْمُنِير  کا خیال ہے کہ    باب باندھنے  والے نے خفق نعال  سے  خفق کو انسانوں کے قدموں کی چاپ لیا ہے اور قرع کو فرشتوں کی چاپ  لیا ہے-   یعنی    آدمی کے قدم سے خفق  نکلتا ہے اور فرشتے کے قدم سے قرع

خفق  سے مرد  دھڑک یا دھمک  ہے-  قرع  کا مطلب   گونج  کے ساتھ   مارنا  ہے – یعنی انسانوں کے قدموں سے صرف دھمک  (خفق  )  ہو گی   لیکن  فرشتوں کے قدم  سے   زمین  پر زور  دار  گونج پیدا ہو گی  اس کو عربی میں دق  بھی  کہتے ہیں- عربی میں  قرع  کا لفظ  ہتھوڑی  سے ضرب لگانے پر بھی آتا  ہے

https://www.almaany.com/en/dict/ar-en/قَرْعَ/

اب ظاہر ہے یہ     الفاظ   کے  مفہوم  کی  تبدیلی ظاہر  کرتی ہے کہ یہ قدموں کی گونج  پیدا ہوتی ہے جو میت سنتی ہے    چونکہ  یہ اس دینا کا معاملہ نہیں ہو سکتا اس کی ایک ہی تاویل ممکن ہے کہ  دق و  ضرب     یا   زور کی آواز      عالم البرزخ میں   فرشتوں  کے اقدام  سے   بلند ہوتی ہو – میت کے دل  میں خوف پیدا ہو اور ہونے والے سوالات کے حوالے سے دہشت  طاری ہو

یہ اس عالم کا معاملہ پھر نہیں رہتا  اس کو عالم بالا  یہ عالم برزخ کی طرف  موڑا جائے گا-

       زين الدّين على بن الْمُنِير     اس طرح  صحیح بخاری و مسلم میں تطبیق  کرتے ہیں

  صحیح مسلم میں ہے

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا»،

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   میت کو جب  قبر میں رکھا جاتا ہے  وہ سنتی ہے  ان کے  خفق کو  جب  وہ  اس  سے دور ہوتے ہیں

اس میں اگرچہ  فرشتوں کا ذکر نہیں ہے  اس میں خفق  کا ذکر  ہے  یعنی  اب قرع    (زور کی آواز )نہیں بلکہ  دھمک پیدا ہوتی ہے –  اس کا مفہوم ہے کہ  اب سوال جواب کے بعد  جب فرشتے واپس جاتے ہیں تو اب  خفق  پیدا  ہوتی ہے

صحیح مسلم کی روایت کے  متن میں دفن کرنے والوں کا ذکر نہیں ہے   صرف  جانے  والوں  کے   قدموں کی دھمک کا ذکر ہے  -اس طرح ان روایات میں تطبیق  ہو جاتی ہے

=========
فهرست

محکم  آیات   قرآنی. 15

فہم  سلف  یا  بطل  پرستی.. 21

فہم سلف   کی مثال. 31

احساس  میت  کے دلائل.. 35

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ   کی وصیت.. 35

عمرو   رضی اللہ عنہ  کی وصیت  پر ایک اور نظر. 46

دیوبندی غلام رسول سعیدی کا ترجمہ اور شرح.. 51

اہل حدیث وحید الزمان کا ترجمہ… 52

اہل حدیث خواجہ محمد قاسم کا ترجمہ… 53

اہل حدیث صادق سیالکوٹی کا ترجمہ… 53

اہل حدیث ابو سعید سلفی کا ترجمہ… 54

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وصیت پر تیسری نظر. 58

سیاقتہ الموت یا  سیاق الموت.. 58

تنحر یا ینحر. 59

سماع     کے دلائل.. 62

عیسیٰ علیہ السلام کی قبر پر پکار. 62

قبر پر ایک بدو کی آمد 67

میت  کا چاپ  سننا-  حدیث قرع النعال پر ایک نظر. 71

روایت  میں عربی کی غلطی پر محققین کی آراء. 77

رواة پر محدثین کی آراء. 82

روایت پر علماء کا عمل… 85

الکلام المیت   کے دلائل.. 95

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے… 98

اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟. 101

روایت کی شرح میں اختلاف.. 106

ابو  ہریرہ  رضی عنہ  کا عقیدہ 111

زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ کا قصہ. 113

دور عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ. 120

كلام قليب البدر – معجزه يا آیت.. 126

عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف… 136

السلام علیک یا اہل القبور 143

جب کوئی  اپنے جاننے والے کی قبر پر گزرتا ہے تو. 144

نور محمدی کا ذکر ٢

نو دریافت مصنف عبد الرزاق کے جز مفقود کی حدیث جابر ہے

یہ مکمل روایت نہیں ہے البتہ اس کا ترجمہ ہے

عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے ابن منکدر سے انہوں نے جابر سے روایت کیا کہ جابر نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا
چیز سب سے اول خلق ہوئی؟ رسول الله نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا
اور اس کے بعد ہر چیز کو خلق کیا اور جب اس کو خلق کر رہا تھا تو یہ نور مقام قرب میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا
پھر اس نور کی چار قسمیں کیں- پس عرش خلق ہوا اور کرسی اس کی ایک تقسیم سے
اور عرش کو اٹھانے والے اور کرسی کے رکھوالے اس کی ایک قسم سے

اور چوتھا جز مقام محبت میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا- پھر چار جز اور کیے اس میں ایک سے قلم دوسرے سے لوح تسرے سے جنت اور چوتھا جز
مقام خوف میں ١٢ ہزار سال رہا – اس سے فرشتے اور دوسرے جز سے سورج اور تسرے سے چاند اور چوتھے سے تارے بنے
اور چوتھا جز مقام امید میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا

پھر چار جز اور کیے اس میں ایک سے عقل دوسرے سے علم و حکمت تسرے سے عصمت اور توفیق بنے
اور چوتھا جز مقام شرم میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا
پھر الله نے اس کو دیکھا تو اس نور میں سے پسینہ نکلا جو ایک لاکھ اور چار (اور ٢٠ لاکھ اور ٤ ہزار) قطرے نور کے تھے – ہر قطرہ سے ایک نبی بنا یا رسول کی روح پھر اس روح نے سانس لیا
اور اس سانس سے اولیاء کے نفوس بنے اور شہداء کے اور سعادت مندوں کے اور اطاعت کرنے والوں کے جوقیامت تک ہوں گے-
پس عرش و کرسی میرے نور سے ہیں
اور کروبیوں میرے نور سے ہیں
اور روحانییوں اور فرشتے میرے نور سے ہیں
اور سات آسمانوں کے فرشتے میرے نور سے ہیں
اورسورج چاند تارے میرے نور سے ہیں
اور عقل اور توفیق میرے نور سے ہیں
اور انبیاء و رسل کی ارواح میرے نور سے ہیں
اور سعادت مندوں کے اور اطاعت کرنے والوں اور صالحین کی ارواح میرے نور سے ہیں

پھر الله نے ١٢ ہزار پردے خلق کیے پس میرے نور کو اللہ نے کھڑا کیا اور وہ چوتھا جز تھا
ہر حجاب کے درمیان ایک ہزار سال فاصلہ ہے اور یہ مقام عبدیت ہے اور سکینہ ہے اور صبر ہے اور صدق ہے اور یقین ہے

===============================================

قارئین کی آسانی کے لئے اس کو درخت کی صورت بنایا گیا ہے

متن پر تبصرہ

یہ روایت منکر ہے

اس میں فرشتوں  کی تخلیق کا کئی بار ذکر ہے اور عرش کے فرشتوں کو حملة العرش کہا گیا ہے اور بعد میں کروبین کہا گیا ہے

کروبین یا کروبیون کا لفظ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نہیں بولتے تھے

کروبیں کا لفظ اصل میں توریت کی کتاب الخروج کے باب ٢٥   کی آیت ١٨ میں موجود  ہے اس کو عبرانی میں  כְּ֝רוּבִ֗ים  لکھا جاتا ہے اور انگریزی میں   شروبیم (٢) کہا جاتا ہے

(٢) cherubim

جدید لغت تكملة المعاجم العربية  از رينهارت بيتر آن دُوزِي (المتوفى: 1300هـ)   جو ایک مستشرق کی مرتب کی ہوئی ہے اس کے مطابق

كروب وكروبيّ والجمع كروبيون: ملاك مقرَّب

 كروب وكروبيّ  اس کا  جمع كروبيون  ہے :   مقرَّب فرشتے

کسی  صحیح حدیث میں اس  لفظ سے فرشتوں کا تدکرہ  نہیں ملا  البتہ یہ لفظ اہل کتاب میں مستعمل ہے

بلکہ عربی میں کرب کا لفظ غم و حزن کے مفہوم میں مستعمل ہے یہی مسلمانوں کی  لغات میں لکھا ہے


روایت میں بار بار ١٢٠٠٠ سال کا ذکر ہے جو مختلف مقام قرار دیے گئے ہیں

مقام قرب

مقام خوف

مقام رجا یا امید

مقام حیا

یعنی ٤٨٠٠٠ سال کے وقفوں کے بعد تخلیق ہوئی

جہنم اس میں خلق نہیں کی گئی

روایت میں دکھایا گیا ہے کہ ہر چیز اس نور سے خلق ہوئی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تھا

یہی سب انجیل یوحنا میں عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بیان ہوا ہے

آیت ٢ میں کہا گیا کہ مخلوقات کی کوئی بھی چیز اس نور کے بغیر پیدا نہیں ہوئی

روایت میں اگرچہ الله تعالی ہی خلق کر رہا ہے لیکن نور کو پسینہ بہت بعد میں جا کر آیا اس سے روح بنی اور روحوں نے سانس لیا یا للعجب

اس روایت کا متن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کسی حدیث جیسا نہیں

دم و تعویذ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

اس کتاب کا اجراء سن  ٢٠١٧ میں ہوا تھا – اس کے بعد سے اب تک اس میں اضافہ ہوا ہے

تعویذ کی ممانعت سے متعلق  احادیث  حسن   اور صحیح لغیرہ درجہ کی ہیں-  یہ ممانعت قولی احادیث میں ہے یعنی بزبان نبوی اس سے منع کیا گیا ہے – تعویذ  کے جواز سے متعلق بیشتر روایات میں اہل مکہ کا تفرد ہے اور ممانعت کی روایت فقہائے عراق سے نقل لی گئی ہے – اس بنا پر تعویذ  چاہے قرانی ہو یا غیر قرانی اس کو استعمال نہ کیا جائے   کیونکہ قولی حدیث میں اس کی ممانعت مل گئی ہے-

دم کی اسلام میں اجازت ہے لیکن یہ دم اگر شرکیہ ہوں تو مطلقا حرام ہیں – اس کتاب میں   دم اور تعویذ سے متعلق مباحث ہیں

وفات النبی پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

مبحث الاول :  واقعات و کلام

مرض وفات  النبی

واقعہ قرطاس

دوا  پلانے والا واقعہ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب وصیتیں

وفات اور آخری کلام

مبحث الثانی:  وفات   النبی پر  اجماع ، جنازہ ، تدفین

ابوبکر رضی الله عنہ کی تقریر اور اجماع صحابہ

نماز جنازہ؟

تدفین اور چادر کا ڈالا جانا

کیا  انبیاء وہاں دفن ہوتے ہیں جہاں وفات ہوتی ہے ؟

اہل تشیع  کی متفرق آراء

چادر کا ڈالا جانا

حجرہ عائشہ رضی الله عنہا میں تین چاند والی ضعیف روایت

عائشہ رضی الله عنہا کا ماتم کرنا اور قرآن کی آیات کا بکری کا کھا جانا

تبرکات سے نفع لینا

مبحث الثالث: حیات الانبیاء  فی القبر کا مسئلہ

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم   کی قبر  مطہر  جنت کا باغ ہے؟

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم    کی روح کا قبر میں واپس آنا یا   حیات النبی فی القبر کا  عقیدہ

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم      پر امت کا عمل پیش ہونے کا عقیدہ

انبیاء کے اجسام کا باقی رہنے کا عقیدہ

تمام  انبیاء علیھم  السلام  کا اپنی  قبروں  میں نماز پڑھنا

الله کا نبی زندہ ہے اس کو رزق دیا جاتا ہے

موسی علیہ السلام  کے لئے قبر میں نماز پڑھتے رہنے کا عقیدہ

بعد وفات انبیاء کا    حج کرنا   اور بیداری میں امتیوں سے ملاقات کرنا

عیسیٰ علیہ السلام کی قبر النبی پر آمد اور شریعت کی تعلیم حاصل کرنا

رسول الله صلی الله علیہ وسلم  پر ازواج مطہرات پیش ہونے کا عقیدہ

عائشہ رضی الله عنہا کا عقیدہ

واقعہ حرہ میں قبر النبی سے اذان کی آواز آنا

علماء کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم   کے جسد مطہر کا عرش عظیم سے   تقابل کرنا

حیات برزخی کی ایجاد

مبحث الرابع: قبر نبوی پر تعمیرات کا شرعی پہلو

اے الله میری قبر کو بت نہ   بننے  دیجئے گا

 گنبد کی تعمیر اور اس کا مقصد اور اس پر اختلاف امت

حجرہ عائشہ( رضی الله عنہا ) کو مزار کہنے کا رواج

قبور انبیاء پر مسجدوں کی تعمیر

زیارت قبور پر روایات

قبر نبوی کے حوالے سے غلط عقائد و اعمال

خاتمہ

پیش لفظ

قرآن ایک مسلمان کے لئے عقائد کی اساس ہے – کتاب الله  میں وہ تمام عقائد موجود ہیں جو اخروی فلاح کے لئے ضروری ہیں-  الله تعالی نے خبر دی ہے کہ صرف اس   كي  ذات ابدی ہے ،   جو الاول ہے اور الحیی القیوم   ہے –  انبیاء  علیہم السلام اس دنیا میں پیدا ہوئے ان کو الله نے اپنی دعوت کے لئے منتخب کیا    اور جب وہ اس    كام کو پورا کر گئے تو وہ بھی  موت سے ہمکنار ہوئے –

یہ کتاب مختلف  مباحث  پر مشتمل ہے چونکہ تمام کا تعلق حیات الانبیاء فی القبر سے ہے اس لئے اس کتاب کا نام وفات النبی رکھا گیا ہے جس میں مرض وفات کے  واقعات کا بھی    تذکرہ ہے اور تدفین نبوی صلی الله علیہ وسلم کا بھی-

فرقے سمجھتے ہیں  کہ  الله تعالی  نے جب فرمایا کہ شہید زندہ ہیں ان کو مردہ مت کہو تو اس سے مراد ان کی قبر میں زندگی ہے جبکہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس  نہیں – ایسا ممکن نہیں کیونکہ     حدیث  نبوی  میں ہے کہ  شہید  چاہتا ہے کہ اس کو واپس   دنیا میں  بھیجا  جائے تاکہ وہ پھر جہاد کرے   لیکن  الله اپنی سنت کو نہیں بدلتا ،ان کو اس دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا –  فرقے پہلے شہید کو زندہ کرتے ہیں پھر   کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا درجہ  شہید سے بلند ہے لہذا وہ  بھی زندہ   ہیں – یہ ان کی قیاسی  دلیل ہے جس کا رد ابو بکر رضی الله عنہ نے اپنی تقریر میں یہ کہہ کر کر دیا کہ محمد کو موت آ چکی-   فرقوں کے نزدیک انبیاء کے لئے موت کا لفظ ادا کرنا ان کی توہین ہے –  ان کا یہ فتوی سب سے پہلے   ابو بکر رضی الله عنہ پر  لگتا ہے-

   اسلامی فرقوں کا  عقیدہ ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی آپ کو دفن کیا گیا اور آپ کی قبر مدینہ منورہ میں ہے ۔ لیکن  ان کا آپس کا جزوی اختلاف اس پر ہے کہ  بعد از وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا جسم قبر میں  میت یا مردہ نہیں ہے  بلکہ اللہ نے آپ کو حیات عطا فرما دی ہے ۔    اس کی صریح دلیل ان کے نزدیک    اعادہ روح  النبی والی روایت    ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب کوئی سلام کہتا ہے تو روح النبی   جسم میں لوٹ آتی ہے یہاں تک کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں  – یہ   روایت  دور عباسی میں مشہور ہوئی ہے   اور  یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا روح واپس آنے کا ذکر ہے

 دیو بندی کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی روح  جسم میں سے نہیں نکلی بلکہ قلب  میں سمٹ گئی –   رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں   اور نماز پڑھتے ہیں – نماز وہی قبول ہوتی ہے جس میں اذان ہو لہذا یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  قبر میں ہی اذان دیتے ہیں پھر نماز پڑھتے ہیں –   خیال رہے کہ ان کے نزدیک  نماز پڑھنے کا مطلب ہے کہ قیام  و رکوع  و سجدہ و قعدہ    یعنی مکمل نماز جو  ایک صحت یاب مسلم پڑھتا ہے

بریلوی  کہتے ہیں   کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں  ان کی ازواج   بھی زندہ ہیں اور ان سب کی قبر میں ملاقات ہوتی ہے –   اور قبر میں    آپ   صلی الله علیہ وسلم  کو رزق دیا جاتا ہے- آپ   صلی الله علیہ وسلم قبر میں نماز بھی پڑھتے ہیں

اہل حدیث کہتے ہیں   رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں   – اپ سلام کا جواب دیتے ہیں – ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آپ سنتے ہیں  مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم – بعض کہتے ہیں کہ  سنتے نہیں صرف جواب دیتے ہیں مثلا البانی –  بعض  اس حوالے سے مجہول الکیفیت کا قول کہتے ہیں کہ الله کو پتا ہے  لیکن نبی قبر میں ہی زندہ ہیں  اس کیفیت کا نام انہوں نے حیات برزخی رکھا ہوا ہے –

وہابی کہتے ہیں روح جنت میں ہے لیکن  قبر میں اس کا تعلق ہوتا ہے  مثلا   بن باز  وغیرہ-  اور  بعض کہتے ہیں   روح جسم میں آتی ہے جیسے صالح المنجد  اور بعض  کہتے ہیں انبیاء آج تک حج کر رہے ہیں جیسے    المشھور حسن سلمان-

اس طرح بریلوی اور دیو بندی کہتے ہیں  کہ قبر میں  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی دنیا جیسی زندگی ہے اور اہل حدیث اور سلفی فرقے کہتے ہیں یہ زندگی معلوم نہیں کیسی ہے  لیکن  ان کو اس میں شک نہیں کہ روح النبی قبر میں جب چاہے  آ سکتی ہے –  اہل سنت کے ان فرقوں کے نزدیک حیات النبی فی القبر ایک اتفاقی و  اجماعی  عقیدہ  ہے    ان میں   اختلاف اعادہ روح  النبی کا ہے –

راقم کہتا ہے یہ عقیدہ ابو بکر رضی الله عنہ کا نہیں  تھا  جو آج ان فرقوں کا ہے  اور اصحاب رسول کا اجماع  وفات اور موت النبی پر ہے-

  اس کتاب میں ان فرقوں کے  علماء  اقوال جمع کیے گئے ہیں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کس کا موقف قرآن کے قریب ہے- اللہ ہم کو حق کی طرف ہدایت دے بے شک انسان کو اندھیرے سے اجالنے میں لانا صرف اسی کے بس میں ہے

ابو شہریار

٢٠١٨

رد عقیدہ عرض درود

سن ٢٠١٧ میں اس کتاب عقیدہ عرض اعمال  کو ویب سائٹ پر ڈالا گیا تھا

اس حوالے سے قارئین نے سوالات کیے تھے اور چند مزید روایات پر  بحث کی گئی ہے

لہذا ضرورت محسوس کی  گئی کہ اس کتاب  میں اضافہ کیا جائے

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

عقیدہ آسیب چڑھنا

 

[wpdm_package id=’8852′]

معاشرے میں پھیلے ہوئے توہمات کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد اس مقام تک آ چکے ہیں کہ اپنے جرائم  کو جنات کے زیر اثر قرار دے رہے ہیں –   افسوس کہ بعض   علماء اس میں ان  مجرمین کے ہمنوا بن گئے کہ ہاں واقعی جن چڑھتا ہے  جرائم کراتا ہے اور  یہ شریعت میں  ممکن ہے- واضح رہے کہ شیطان کا ورغلانا تو قرآن میں بیان ہوا ہے لیکن اس کا جسم میں داخل ہو نا یہاں تک کہ عدالت میں   مجرم کو قابل  سزا  نہ گردانا جائے   بلکہ جن کو سزا وار قرار دیا جائے  یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے  –  ان علماء کی تفسیری موشگافیوں کی وجہ سے قرآن کی واضح آیات میں التباس پیدا ہو جاتا ہے جس کی طرف اس مضمون میں نشاندہی کی  گئی ہے – زیر نظر مضمون انہی توہمات کے خاتمہ کی طرف ایک ادنی سی کوشش ہے جس میں عقیدہ آسیب یا جن چڑھنا پر بحث کی گئی ہے –

شرعی تعویذات کا فراڈ

عام مسلمان جن کے گلے میں تعویذ ہو جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اپ تعویذ کیوں لٹکاتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن کلام الله ہے اس میں قوت و طاقت ہے اس کی وجہ سے جنات بھاگ جاتے ہیں شیاطین قریب نہیں اتے اور بیماری نہیں ہوتی کیونکہ اس میں شفا ہے

قرآن  سوره الاسراء  ٨٢ میں  ہے

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

أور هم نے اس قرآن میں نازل کیا  ہے وہ جس میں  شفاء اور  رحمت  ہے اور ظالموں کے لئے سوائے خسارے کے یہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا

یہاں  شفا سے مراد قرانی اصطلاح فی قلوبھم مرض کی طرف اشارہ ہے کہ آیات سے ان کو شفا مل سکتی ہے – ظاہر ہے جب ہم قرآن میں فی قلوبھم مرض پڑھتے ہیں تو ہم اس کا مطلب یہ نہیں لیتے کہ کفار عنید کو دل کا آپریشن یا ٹرانسپلانٹ درکار ہے بلکہ ان الفاظ کی تاویل کی جاتی ہے – فرقوں کی جانب سے  آیت کا مفہوم ایک طرف تو اس کے ظاہر پر لیا جاتا ہے کہ  مومن کو شفا ملتی ہے لیکن یہ نہیں کہتے کہ  ظالم  (یا مشرک ) کو قرآن سے  شفا نہیں ملتی –   دوسری طرف فرقہ پرستوں کی جانب سے حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں ایک  مشرک سردار  کو شفا ملنے کا ذکر ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ واقعہ خاص تھا عام نہیں تھا

امام بخاری الصحيح  میں ابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الغَنَمِ روایت کرتے ہیں کہ

ابن عباس اور ابو سعید الخدری رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی الله علیہ وسلم کے کچھ اصحاب سفر میں تھے – دوران سفر انہوں نے اک قبیلے کے پاس پڑاؤ کیا – صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے ان کو مہمان تسلیم کریں  لیکن قبیلہ والوں نے صاف انکار کر دیا – ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا – قبیلہ والوں نے اصحاب رسول سے  ہی علاج کے لئے مدد طلب کی جس پر ایک صحابی نے سوره الفتاحہ پڑھ کر سردار کو دم کیا اور وہ اچھا بھی ہو گیا -اس کے بدلے میں انہوں نے تیس بکریاں بھی لے لیں – صحابہ نے اس پر کراہت کا اظہا ر کیا اور مدینہ پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے قصہ سننے کے بعد کہا  

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

بے شک تم حق رکھتے تھے اس اجر  پر جو تم نے کتاب الله سے حاصل کیا

اس حدیث کی غلط تاویل  کر کے  تعویذ لکھنے پر علماء کی طرف سے اجرت طلب کی جاتی ہے یا با الفاظ دیگر تعویذ بیچا جاتا ہے –  اس طرح قرآن اور حدیث سے اس پر اپنی  پسند کی نص لانے کے بعد سلف کا عمل بھی دلیل میں پیش ہوتا ہے -فرقہ پرستوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں تعویذ جائز ہے اور اس کے لئے دلیل سلف کا عمل ہے مثلا    امام احمد کے صلبی  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی   جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

 میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والوں اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

شریعت کا یہ حکم  کوئی بتائے جس میں ہو کہ  سرعت ولادت کے لئے  باریک کپڑے پر تعویذ لکھنا جائزہے اور یہ بھی جائز ہے کہ اس تعویذ کو  گھول کر پیا جائے یا جسم پر باندھا جائے –  اسی طرح کے سلف کے فتووں کی وجہ سے   بعض علماء نے  قرآن لکھ کر عورت کے جسم پر باندھنے کا بھی فتوی دیا ہے مثلا   اشرف علی تھانوی  اعمال قرآن حصہ اول صفحہ ۲۴,۲۵ میں اسی طرح لکھتے ہیں

 سہولت ولادت
إِذَا السَّمَاء انشَقَّتْ (1) وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (2) وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (3) وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ (4)
ان آیتوں کو لکھ کر ولادت کی آسانی کے لیے بائیں ران میں باندھ دے ان شاء اللہ تعالى بہت آسانی سے ولادت ہوگی , مگر بعد ولادت تعویذ کو فورا کھول دینا چاہیے اور اسی عورت کے سر کے بالوں کی دھونی مقام خاص پر دینا مفید ولادت ہے

نہ صرف سرعت ولادت بلکہ عام حالات میں تعویذ کے جواز کا فتوی سلف سے منقول  ہے – كتاب الفروع  از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں امام احمد کے فتووں میں ارتقاء کا ذکر  ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی  صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا  الخلال کہتے ہیں اور امام احمد  تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

المروزی کی وفات ٢٥١ ھ میں ہوئی اور ان کے مطابق امام احمد قرانی تعویذ نہیں کرتے تھے- أبو داود   المتوفی ٢٧٥ ھ  کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا- یعنی مرزوی کے انتقال کے بعد احمد کا نقطہ نظر تعویذ پر بدل  گیا تھا – مزید  سوال ہے کہ تمیمہ تھا تو کس نوعیت کا تھا؟

ایک اہل  حدیث عالم   تمیمہ کی وضاحت اس طرح  کرتے ہیں

مشہور و معروف لغت دان مجد الدین فیرزآبادی القاموس المحیط میں لکھتے ہیں

والتمیم التام الخلق ، والشدید ، وجمع تمیمة کا لتمائم لخرزة رقطاء تنظم فی السیر ، ثم یعقد فی العنق

تمیمہ کا لفظ دھاری دار کرزہ ومنکہ جو چمڑے کی تندی میں پرولیا جاتا، پھر گردن میں باندھ دیا جاتا ہے پر بولا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس قسم کے خرزات و منکوں ، کوڈوں اور گھک منکوں کے لٹکانے کو شرک قرار دے رہے ہیں نہ کہ کاغذوں یا چمڑوں میں لکھے ہوئے کتاب و سنت کے کلمات لٹکانے کو۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

ابن قیم نے کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں واضح اقرار کیا ہے کہ امام احمد تعویذ کرتے تھے
قَالَ حرب: وَلَمْ يُشَدِّدْ فِيهِ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ أحمد: وَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَكْرَهُهُ كَرَاهَةً شَدِيدَةً جِدًّا. وَقَالَ أحمد وَقَدْ سُئِلَ عَنِ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ؟ قَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ.

حرب کرمانی نے کہا امام احمد تعویذ میں شدت نہیں کرتے تھے اور احمد نے کہا ابن مسعود کو اس سے سخت کراہت تھی اور کہا احمد سے تمائم پر سوال ہوا کہ آفت کے بعد لٹکایا جائے تو فرمایا امید ہے اس میں برائی نہیں ہے

امام احمد سے متاثر ابن تیمیہ  کا بھی تاریخ میں ذکر ہے –   البدایہ و النہایہ میں ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ کی موت پر جو ازدہام ہوا اس کے ذکر میں ابن کثیر  (المتوفى: 774هـ) نے یہ   نقل کیا ہے

 وَشَرِبَ جَمَاعَةٌ الْمَاءَ الَّذِي فَضَلَ مِنْ غُسْلِهِ، وَاقْتَسَمَ جَمَاعَةٌ بَقِيَّةَ السِّدْرِ الّذي غسل به، ودفع في الْخَيْطَ الَّذِي كَانَ فِيهِ الزِّئْبَقُ الَّذِي كَانَ في عنقه بسبب القمل مائة وخمسون درهما
ایک جماعت نے اس پانی کو پیا جو ان کے غسل (میت) میں زائد تھا اور جو بیری غسل کے بعد بچی اس کو بانٹ دیا گا اور ان کے گلے میں جوؤں کے سبب جو مرکری کا دھاگہ تھا اس کو ١٥٠ درہم میں دور کیا گیا

https://www.youtube.com/watch?v=Pa7Q2_j7VLE

 

اس کے برعکس مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي [ص:652] شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا أُبَالِي مَا أَتَيْتُ أَوْ مَا رَكِبْتُ، إِذَا أَنَا شَرِبْتُ تِرْيَاقًا، أَوْ تَعَلَّقْتُ تَمِيمَةً، أَوْ قُلْتُ الشِّعْرَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي»
عبد الله رضی الله عنہ  نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں بے پرواہ ہوا اس سے جو مجھے ملا .. کہ اگر میں تریاق پی لوں یا تعویذ لٹکا لوں یا اشعار کہوں

حیرت ہے کہ ابن تیمیہ فتوی میں اس روایت کا متن  تک تبدیل کرتے  ہیں
مَا رُوِيَ أَيْضًا فِي سُنَنِهِ: «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – نَهَى عَنْ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ» وَهُوَ نَصٌّ جَامِعٌ مَانِعٌ، وَهُوَ صُورَةُ الْفَتْوَى فِي الْمَسْأَلَةِ. الْوَجْهُ السَّادِسُ: الْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ: «مَا أُبَالِي مَا أُتِيت أَوْ مَا رَكِبْت – إذَا شَرِبْت تِرْيَاقًا، أَوْ نَطَقْت تَمِيمَةً، أَوْ قُلْت الشِّعْرَ مِنْ نَفْسِي

اس میں  ابن تیمیہ نے تعویذ لٹکانے کو  نَطَقْت تَمِيمَةً یعنی تَمِيمَةً بولوں کر دیا ہے  – یہ الفاظ مجموعہ کتب احادیث میں نہیں ہیں

دوم کتب ابن تیمیہ میں تعویذ کی ممانعت والی احادیث   نہیں ملیں  اسی طرح  ممکن ہے یہ دم شدہ دھاگہ ہو جس میں مرکری پر دم کیا گیا ہو – مرکری ایک زہریلا مادہ ہے ممکن ہے ابن تیمیہ کی ہلاکت اسی دھاگہ کے سبب ہوئی ہو کیونکہ ابن تیمیہ سائنس  سے نا بلد تھے

جن اتارنے کا علاج بتاتے ہوئے ابن تیمیہ نے فتوی لکھا ہے جب سوال ہوا کہ شرع میں جن اتارنے کا علاج تمیمہ سے کیا جائے؟

هَلْ الشَّرْعُ الْمُطَهَّرُ يُنْكِرُ مَا تَفْعَلُهُ الشَّيَاطِينُ الجانة مِنْ مَسِّهَا وتخبيطها وَجَوَلَانِ بَوَارِقِهَا عَلَى بَنِي آدَمَ وَاعْتِرَاضِهَا؟ فَهَلْ لِذَلِكَ مُعَالَجَةٌ بِالْمُخَرَّقَاتِ وَالْأَحْرَازِ وَالْعَزَائِمِ وَالْأَقْسَامِ وَالرُّقَى وَالتَّعَوُّذَاتِ وَالتَّمَائِمِ؟

جواب دیا
وَأَمَّا مُعَالَجَةُ الْمَصْرُوعِ بِالرُّقَى، وَالتَّعَوُّذَاتِ. فَهَذَا عَلَى وَجْهَيْنِ: فَإِنْ كَانَتْ الرُّقَى وَالتَّعَاوِيذُ مِمَّا يُعْرَفُ مَعْنَاهَا، وَمِمَّا يَجُوزُ فِي دِينِ الْإِسْلَامِ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهَا الرَّجُلُ، دَاعِيًا لِلَّهِ، ذَاكِرًا لَهُ، وَمُخَاطِبًا لِخَلْقِهِ، وَنَحْوُ ذَلِكَ، فَإِنَّهُ يَجُوزُ أَنْ يُرْقَى بِهَا الْمَصْرُوعُ، وَيُعَوَّذَ
اور جس پر جن چڑھا ہو اس کا علاج دم سے یا تعویذ سے کرنا اس میں دو رخ ہیں کہ اگر ان کا مطلب معروف ہے اور دین اسلام میں جائز ہو تو الله کو پکارا گیا ہو اس کا ذکر ہو اور … تو اس سے دم جائز ہے اس سے پناہ لی جا سکتی ہے

 اپ دیکھ سکتے ہیں ابن تیمیہ نے تعویذ پر سوال ہوا لیکن اس کا رد نہیں کیا کہ اس کو لٹکانا شرک ہے بلکہ دم و تعویذ کو ملا کر ان کو جائز کہا ہے – جبکہ اگر کوئی سائل شرک پر سوال کرے تو لازم اتا ہے کہ سب سے پہلے اس شرک کا رد کیا جائے

زاد المعاد میں ابن قیم نے اپنے شیخ ابن تیمیہ کا ذکر کیا
كِتَابٌ للرّعاف: كَانَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ ابْنُ تَيْمِيَّةَ رَحِمَهُ اللَّهُ يكتب على جبهته:
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ «2» .
وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: كَتَبْتُهَا لِغَيْرِ وَاحِدٍ فَبَرَأَ،

نکسیر پھوٹنے پر لکھنا- شیخ اسلام ابن تیمیہ … پیشانی پر لکھا کرتے
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ
اور میں نے ان کو کہتے سنا کہ ایک سے زائد کے لئے لکھا وہ اس سے صحت یاب ہوئے

آیات کو جسم پر ٹیٹو کی طرح لکھنا کس سنت سے معلوم ہے ؟   ابن تیمیہ  نے آیات سے تجربات کر کے یہ جانا کہ کون سی آیات کس مرض میں افاقہ دے سکتی ہیں ان کو جسم پر مقام مرض کے پاس لکھا جائے – اس طرح قرآن عظیم پر ان کے تجربات جاری تھے کہ موصوف کا انتقال اس حال میں  ہوا کہ گلے میں مرکری میں آلودہ  تار پڑا تھا

کلام المیت علی الجنازة

ایک مشھور روایت ہے کہ مردہ کو جب کھاٹ پر رکھا جاتا ہے وہ کلام کرتا ہے – اس بلاگ میں اس کی اسناد پر بحث کی گئی ہے

صحیح بخاری -> کتاب الجنائز –  باب کلام المیت علی الجنازۃ
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا

حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق”.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے اگر انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

الطبقات الكبرى از  المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اور مسند احمد میں ہے کہ یہ قول ابو ہریرہ کا تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، وَأَسْرِعُوا بِي إِسْرَاعًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي. وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَتِي أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي “

ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، نے المقبری سے روایت کیا انہوں نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو بستر پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو بستر پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے کہ ابو ہریرہ کا قول تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ بِأَبِي هُرَيْرَةَ الْمَوْتُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَى قَبْرِي فُسْطَاطًا , وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، فَإِذَا حَمَلْتُمُونِي , فَأَسْرِعُوا , فَإِنْ أَكُنْ صَالِحًا تَأْتُونَ بِيِ إِلَى رَبِّي، وَإِنْ أَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ , فَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ تَطْرَحُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

ابو معشر نے کہا سعید المقبری نے کہا جب ابو ہریرہ کی وفات کا وقت آیا کہا میری قبر پر خیمہ نہ لگانا نہ میرے  پیچھے اگ لے کر جانا پس جب مجھے اٹھانا جلدی کرنا کیونکہ اگر میں نیک ہوں تو تم مجھے میرے رب کی طرف لے جا رہے ہو اور اگر اس کے علاوہ ہوں تو تم ایک چیز اپنے کندھوں سے پھینک رہے ہو

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِي بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَهُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي؟ “

المقبری نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً [ص:466] قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصُعِقَ ” قَالَ حَجَّاجٌ: لَصُعِقَ

سعید المقبری نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو سعید الخدری سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ کورکھتے  ہیں اور مرد  اس کو گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر یہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو اس آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

سعید بن ابی سعید ( أَبُو سَعْدٍ بنُ كَيْسَانَ) ایک ہی روایت تین  سندوں سے بیان کر رہا ہے

 ایک سعید المقبری  عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

دوسری  سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

تیسری سعید المقبری  عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، کی سند سے

سعید المقبری سے تین لوگوں نے اس روایت کو لیا أبي معشر الْمَدِينِيّ ، دوسرے لَيْثٌ بن سعد ، تیسرے ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني کا تفرد ہے

ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق

سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث

ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے

ابی معشر کے مطابق یہ الفاظ ابو ہریرہ کے ہیں اس کو حدیث نبوی نہیں کہا ہے  یعنی موقوف عن ابو ہریرہ ہے

یہ بات کہ میت کے اس قول کو انسان کے سوا سب سنتے ہیں یہ صرف ابو سعید الخدری  کی سند سے ہیں

لہذا محدثین اس کو صرف دو سندوں سے قبول کرتے ہیں جو لیث اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ کی اسناد ہیں

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے

المختلطين از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني:

 قال شعبة: ساء بعد ما كبر.

وقال محمد بن سعد: ثقة إلا أنه اختلط قبل موته بأربع سنين.

شعبہ کہتے ہیں یہ بوڑھے ہوئے تو خراب ہوئے

ابن سعد نے کہا یہ ثقہ ہیں لیکن یہ مرنے سے ٤ سال قبل اختلاط کا شکار ہوئے

قال الواقدى: كبُر واختلط قبل موته بأربع سنين – واقدی نے کہا بوڑھے ہوئے اور مرنے سے ٤ سال قبل مختلط ہوئے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ)  کے مطابق ١٢٥ ھ میں وفات ہوئی

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق

وفي كتاب الباجي عن ابن المديني: قال ابن عجلان: كانت عنده أحاديث سندها عن رجال عن أبي هريرة فاختلطت عليه فجعلها كلها عن أبي هريرة.

اور الباجی کی کتاب میں ابن المدینی سے روایت ہے کہ ابن عجلان نے کہا ان کے پاس احادیث تھیں جو عن رجال عن ابو ہریرہ سے تھیں ان کو جب اختلاط ہوا تو انہوں نے تمام کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

شعبہ نے بھی احتیاط کی ہے اور کہا ہے کہ سعید  بوڑھے ہو چکے تھے

وَقَال يَعْقُوب بْن شَيْبَة: قد كَانَ تغير وكبر واختلط قبل موته، يقال: بأربع سنين، حَتَّى استثنى بعض المحدثين عنه ما كتب عنه فِي كبره مما كتب قبله، فَكَانَ شعبة يَقُول: حَدَّثَنَا سَعِيد الْمَقْبُرِيّ بعدما كبر.

يَعْقُوب بْن شَيْبَة نے کہا کہ یہ بدل گئے اور بوڑھے ہوئے اور مرنے سے پہلے مختلط ہو چکے تھے کہا جاتا ہے ٤ سال یہاں تک کہ بعض محدثین نے اس کو الگ کیا ہے جو ان کے بڑھاپے سے پہلے لکھا یہاں تک کہ شعبہ کہتے کہ سعید المقبری نے روایت کیا بوڑھا ہونے کے بعد

قال يحيى القطان: “سمعتُ محمد بن عجلان يقولُ: كان سعيدٌ المقبري يُحَدِّث عن أبيه عن أبي هريرة، وعن رجل عن أبي هريرة، فاختلط عليَّ فجعلتها كلها عن أبي هريرة   الميزان: (3/645)

یحیی القطان کہتے ہیں میں نے ابن عجلان کو سنا کہ سعید المقبری اپنے باپ سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے اور سعید ایک آدمی سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتا لیکن جب سعید کو اختلاط ہوا تو سعید المقبری نے ان تمام روایات کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيدا المقبري سمع من أبي هريرة ومن أبيه عن أبي هريرة وأنه اختلف عليه في أحاديث وقالوا أنه اختلط قبل موته وأثبت الناس فيه الليث بن سعد يميز ما روى عن أبي هريرة مما روى عن أبيه عنه وتقدم أن ما كان من حديثه مرسلا عن أبي  هريرة فإنه لا يضر لأن أباه الواسطة

سعید المقبری نے ابو ہریرہ سے سنا اور اپنے باپ سے انہوں نے ابو ہریرہ سے اور ان کی احادیث پر اختلاف ہوا اور کہا کہ یہ مرنے سے قبل مختلط ہوئے اور لوگوں میں سب سے ثابت ان سے روایت کرنے میں اللیث ہیں جو اس کی  تمیز کر سکتے ہیں کہ یہ ابو ہریرہ سے کیا روایت کرتے ہیں اور کیا اپنے باپ سے کرتے ہیں اور جیسا کہ گزرا ان کا ابو ہریرہ سے روایت کرنا مرسل ہے اگرچہ اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے سنا ہے

سعید المقبری کو اختلاط تھا الذھبی نے اس کا انکار کیا اس پر ابن الكيال (المتوفى: 929هـ) نے کتاب  الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات میں لکھا

 والعجب من الذهبي انكار اختلاطه وقد أقر باختلاطه الواقدي وابن سعد ويعقوب بن شيبة وابن حبان

اور الذھبی کی عجیب بات ہے کہ اس کا انکار کیا اور اس اختلاط کا ذکر کیا ہے واقدی نے  ابن سعد نے یعقوب نے اور ابن حبان نے 

اگرچہ ابن معین نے کہا تھا کہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت سب سے مناسب ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین اس کو بھی منکر کہتے ہیں –  العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)  کے مطابق ایک روایت اس کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  روایت کرتے ہیں

عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ  ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص)   : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.

قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ

ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے

ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے

یعنی  سعید المقبری  کی باپ سے ان کی ابو ہریرہ سے روایت منکر بھی کہی گئی ہے

امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں ایک اور روایت کا حوالہ دیا

وَقال ابْنُ طَهمان،  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُريّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم؛ مَا سَمِعتُم عَنِّي مِن حَدِيثٍ تَعرِفُونَهُ فَصَدِّقُوهُ.  وَقال يَحيى: عَنْ أَبي هُرَيرةَ، وَهُوَ وهمٌ، لَيْسَ فِيهِ أَبو هُرَيرةَ.

ابْنِ أَبي ذِئب نے سعید المقبری سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میری جو حدیث سنو اس کو پہچانو تصدیق کرو اور یحیی نے کہا یہ عن ابو ہریرہ ہے –   لیکن یہ وہم ہے اس میں ابو ہریرہ نہیں ہے

یعنی امام بخاری کے نزدیک   ابْنِ أَبي ذِئب کی روایت میں سعید المقبری نے براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب نے دور اختلاط میں سنا ہے

یاد رہے کہ ابن أبي ذئب مدلس بھی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ رجال کے حوالے سے احتیاط سے بھی کام نہیں لیتے تھے

اس سند میں عبد الرحمن بن مهران بھی  ہے – جس کے بارے میں محدثین کی معلومات کم ہیں

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

البرقانی کہتے ہیں میں دارقطنی سے کے بارے میں پوچھا  کہا  مدنی بوڑھا اعتبار کیا جاتا ہے

یہاں اعتبار محدثین کی اصطلاح ہے  کہ روایت لکھ لی جائے حتی کہ شاہد ملے

ابن حجر نے صرف مقبول من الثالثة  تسرے درجے کا مقبول کہا ہے – اس کی وضاحت خود تقریب میں اس طرح کی

من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ ” مقبول ” حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.

جس کی احادیث بہت کم ہوں اور اس پر کوئی بات ثابت نہیں کہ اس کی حدیث ترک کی جائے تو اس کے لئے مقبول کا لفظ سے اشارہ کیا ہے  جب متابعت ہو ورنہ یہ لین الحدیث ہو گا

یعنی ایسا راوی جس پر کوئی جرح کا خاص کلمہ نہ ہو اس کی احادیث بھی کم ہوں تو اس کی روایت لکھی جائے گی جسکی  روایت کی متابعت ملنے پر یہ مقبول کہلائے گا وگرنہ لین الحدیث  (کمزور ) ہے

ان وجوہات کی بنا پر اس طرق کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا

اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟

وقال الساجي: حدثني أحمد بن محمد قال: قلت ليحيى بن معين: من أثبت الناس في سعيد المقبري؟ قال: ابن أبي ذئب

ابن معین نے کہا اس سے روایت کرنے میں اثبت ابن أبي ذئب ہے

ابن حراش: جليل، أثبت الناس فيه الليث بْن سَعْد –  ابن خراش نے کہا اثبت لیث ہے

دارقطنی کہتے ہیں

لأنَّ الليث بن سعد ضبط عن المقبري ما رواه عن أبي هريرة، وما رواه عن أبيه عن أبي هريرة

لیث بن سعد یاد رکھتے تھے المقبری کی روایت جو انہوں  نے ابو ہریرہ سے روایت کی اور جو انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے  ابو ہریرہ سے روایت کی

  وقال عبد الله: سَمِعتُهُ يقول (يعني أَباه) : أصح الناس حديثًا عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ليث بن سعد، يفصل ما روى عن أبي هريرة، وما (روى) عن أبيه، عن أبي هريرة، هو ثبت في حديثه جدًا. «العلل» (659) .

عبد الله نے کہا میں نے باپ سے سنا کہ سعید المقبری سے روایت کرنے میں سب سے صحیح ليث بن سعد ہے جو واضح کرتے ہیں جو یہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے روایت کر دیتے ہیں اور جو یہ صرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں

محدثین میں بعض نے لیث کی سند پسند کی اور بعض نے ابن أبي ذئب کی سند – لیکن جیسا واضح کیا اس میں ابن أبي ذئب بھی قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ محدثین کی اس طرق سے روایت کردہ متن کو رد کرتے ہیں- لیث کو اس لیے پسند کیا جاتا تھا کہ وہ تمیز کر لیتے تھے کہ سعید المقبری نے  اختلاط میں جو روایات اپنے باپ سے اور ابو ہریرہ سے روایت کی ہیں ان میں کون سی صحیح ہیں گویا یہ ایک طرح کا لیث کا اندازہ ہے جس کی بنیاد پر سعید المقبری کے اختلاط والی روایات کو لیا گیا ہے

 الليث بن سعد بن عبد الرحمن بن عقبة مصری ہیں سن ٩٤ میں پیدا ہوئے اور سن ١١٣ میں حج کیا  اور ١٧٥ میں وفات ہوئی

قال ابن بكير  سَمِعْتُ اللَّيْثَ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَمائَةٍ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِيْنَ سَنَةً

ابن بکیر نے کہا میں نے اللَّيْثَ سے سنا کہ انہوں نے امام الزہری سے مکہ میں سن ١١٣ میں سنا

  سعید المقبری سن ١١٩ ھ سے ١٢٣ ھ تک مختلط تھے- محدثین کا یہ کہنا کہ لیث کے اندر صلاحیت تھی کہ وہ سعید المقبری کی سند میں علت کو جان لیتے تھے ظاہر کرتا ہے کہ سعید المقبری میں اختلاط کی کیفیت شروع ہی ہوئی تھی کہ لیث نے ان سے سنا

عجیب بات یہ ہے کہ لیث کو جب سعید یہ روایت سناتے ہیں تو اس کو سعید الخدری رضی الله عنہ کی حدیث کہتے ہیں اور جب ابن ابِي ذئبٍ کو یہ سناتے ہیں تو اس کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث قرار دیتے ہیں

اس اشکال کو اپ مندرجہ ذیل جدول میں دیکھ سکتے ہیں

ابن ابِي ذئبٍ کی سند

 

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

لیث کی سند کتاب
حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند أبي يعلى

 

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ سنن نسائی
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ مسند احمد
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند احمد
حَدَّثَنا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: صحیح بخاری
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صحیح بخاری
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أبو داود الطيالسي
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، مسند أحمد
حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَحَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أحمد
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ سنن نسائی
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،

 

صحیح ابن حبان

المزی تہذیب الکمال میں  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة  کے ترجمہ میں یہ روایت لکھ کر کہتے ہیں

هكذا رواه ابن أَبي ذئب، وخالفه الليث بْن سعد (س)  فرواه عَنْ سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ

ایسا ابن أَبي ذئب نے روایت کیا ہے (یعنی  ابن أَبي ذئب عَن سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة ) اور ان کی مخالفت کی ہے الليث بْن سعد نے انہوں نے اس کو  سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ کی سند سے روایت کیا ہے

راقم کے خیال میں یہ روایت دور اختلاط کی ہے جس کی بنا پر اسناد میں یہ گھپلا پیدا ہو رہا ہے اور چونکہ لیث کا حجاز پہنچنا بھی اسی دور کے پاس کا ہے جس میں لیث کو مختلط کہا گیا ہے گمان غالب ہے کہ اسناد میں  یہ تضاد اس کیفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ سفیان بن عُيَيْنَة،   سعید المقبری کے پاس  پہنچے لیکن

فإن ابن عُيَيْنَة أتاه فرأى لعابه يسيل فلم يحمل عنه، وحدث عنه مالك والليث

اس کا لعاب اس کے منہ سے بہہ رہا تھا لہذا نہیں لکھا

سفيان بن عيينة بن أبي عمران ميمون سن ١٠٧ میں پیدا ہوئے

کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق

سمع في سنة تسع عشرة ومائة ، وسنة عشرين ، وبعد ذلك

سفيان بن عيينة نے سن ١١٩ اور ١٢٠ اور اس کے بعد سنا ہے

سفيان بن عيينة کوفہ میں پیدا ہوئے اس کے بعد حجاز کا سفر کیا جہاں ١١٩ کے بعد لوگوں سے سنا اس دور میں انہوں نے سعید المقبری کو دیکھا جن کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا

تہذیب الکمال کے مطابق

وَقَال نوح بْن حبيب القومسي: سَعِيد بْن أَبي سَعِيد، وابن أَبي مليكة، وقيس بْن سَعْد، ماتوا سنة سبع عشرة ومئة.

نوح بْن حبيب نے کہا کہ سعید بن ابی سعید کی موت سن ١١٧ میں ہوئی

 خليفة بْن خياط کے بقول ١٢٦ میں ہوئی

أَبُو بَكْر بْن أَبي خَيْثَمَة اور ابن سعد کے مطابق ١٢٣ میں ہوئی

وَقَال الواقدي، ويعقوب بْن شَيْبَة، وغير واحد: مات فِي أول خلافة هشام بن عبد الملك.

الواقدي اور يعقوب بْن شَيْبَة  اور ایک سے زائد محدثین کہتے ہیں  هشام بن عبد الملك (١٠٥ سے ١٢٥ تک خلیفہ) کی خلافت کے شروع میں ہوئی

اس طرح دیکھا جائے تو  زیادہ ترمحدثین  سعید المقبری کی موت کو ١١٧ ہجری کے پاس لے اتے ہیں جس میں اللیث نے مکہ جا کر حج کیا  گویا اللیث نے سعید المقبری کو عالم اختلاط میں پایا ہے یہ قول کہ وفات ١٢٠ کے بعد ہوئی یہ ہشام بن عبد الملک کی خلافت کا آخری دور بن جاتا ہے لہذا یہ صحیح نہیں ہے- ہشام نے ٢٠ سال حکومت کی ہے تو تاریخ وفات میں  یہ کوئی معمولی فرق نہیں رہتا

اختلاط کا دورانیہ ٤ سال کا تھا لیکن تاریخ وفات میں اختلاف کی بنا پر واضح نہیں رہا کہ یہ کب شروع ہوا

اگر ١١٧ وفات لی جائے تو اس کا مطلب ہے اختلاط سن ١١٣ میں شروع ہوا

قال الْبُخَارِيّ : مات بعد نَافِع.

نافع کی موت ١١٩ یا ١٢٠ میں ہوئی ہے بحوالہ سیر الاعلام النبلاء

امام بخاری نے  تاريخ الصغير یا  التاريخ الأوسط میں  صرف یہ لکھا ہے کہ سعید المقبری کی وفات نافع کے بعد ہوئی کوئی سال بیان نہیں کیا جبکہ اختلاط کا علم ہونا ضروری ہے- امام بخاری نے یھاں سعید المقبری کے حوالے سے اللیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے

امام مالک نے بھی سعید المقبری سے روایت لی ہے لیکن یہ نہیں لکھی بلکہ روایت بیان کی

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني کی سند ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ، فَقَالَ: ” أَنَا لَعَمْرِ اللَّهِ أُخْبِرُكَ، أَتْبَعُهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَإِذَا وُضِعَتْ كَبَّرْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَصَلَّيْتُ عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ “، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قِرَاءَةَ عَلَى الْجِنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ

امام مالک نے سعید المقبری سے انہوں نے  اپنے باپ سے روایت کیا  انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ جنازہ پر نماز کیسے پڑھیں؟ ابو ہریرہ نے  کہا لعمر الله میں اس کی خبر دیتا ہوں میت کے اہل کے ساتھ ہوں گے پس جب رکھیں تو الله کی تکبیر و حمد کہیں اور نبی پر درود پھر کہیں

اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ

امام محمد نے کہا یہ قول ہم لیتے ہیں کہ جنازہ پر قرات نہیں ہے اور یہی قول ابو حنیفہ رَحِمَهُ اللَّهُ کا ہے 

قابل غور ہے  کہ امام مالک تو مدینہ کے ہی تھے انہوں نے یہ  قدمونی والی روایت  نہ لکھی جبکہ اللیث جو ١١٧ میں مصر سے آئے ان کو اختلاط کی کیفیت میں سعید المقبری ملے اور انہوں نے اس کو روایت کیا

الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے
قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين

امام حاکم نے کہا – امام مالک حکم ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر

مستدرک میں حاکم کہتے ہیں

مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ الْحَكَمُ فِي حَدِيثِ الْمَدَنِيِّينَ….. وَاحْتَجَّ بِهِ فِي الْمُوَطَّأِ

اہل مدینہ کی احادیث پر امام مالک فیصلہ کرنے والے ہیں   یہ وہ حدیث ہے جس  سے امام مالک نے موطا میں دلیل لی ہے

لہذا سعید المقبری کی روایت جو امام مالک نے نہ  لکھی ہو  اس کی کوئی نہ کوئی تو وجہ ضرور ہے جس میں یہ کلام المیت والی روایت بھی ہے

بعد وفات انبیاء کا حج کرنا

وہابی اور اھل حدیث اور ڈاکٹر عثمانی کی تنظیم کے موحد علماء کا کہنا ہے کہ نبی علیہ السلام بعد وفات بریلویاں کے گھر انڈیا پاکستان میں نہیں اتے – راقم اس قول سے متفق ہے اور اتنے دن سے رو رہا ہے کہ انبیاء کے حوالے سے جو بیان کیا جاتا ہے کہ  قبروں  میں  نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے – یہاں تک کہ اعصاب شکن ہوئے جب وہابی عالم مشہور حسن سلمان وہابی عالم کا فتوی دیکھا کہ  انبیاء نہ صرف  قبروں میں زندہ ہیں بلکہ  یہاں تک کہ آج کل بھی  حج  کرتے ہیں

https://ar.islamway.net/fatwa/31129/هل-يصلي-الأنبياء-في-قبورهم-وكيف-يكون-ذلك
السؤال 256: قرأت في كتاب “أحكام الجنائز” لشيخنا رحمه الله، حديثاً عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم عن سؤال الملكين للمؤمن في قبره: ((…. فيقال له اجلس وقد دنت له الشمس وقد آذنت للغروب، فيقال له: أرأيت في هذا الذي كان فيكم ما تقول فيه؟ ماذا تشهد عليه؟ فيقول: دعوني حتى أصلي، فيقولان إنك ستفعل)) فقال الشيخ الألباني معلقاً على هذا الحديث: صريح في أن المؤمن يصلي في قبره، وذكر حديثاً {أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون}، ما صفة هذه الصلاة، هل هي كصلاتنا أم ما هي صفتها؟
الجواب: الله أكبر، المؤمن في قبره لما يأتيه الملكان عقله وقلبه متعلق بالصلاة، فيقول للملائكة: دعوني حتى أصلي، ثم اسألوني، وهكذا شأن المؤمن.
والكلام على دار البرزخ، ودار البرزخ قوانينها ليست كقوانين الدنيا، ولها قوانين خاصة، والروح والبرزخ أشياء لا تدرك بالعقل ولا يجوز أن تخضع للمألوف، فعالم البرزخ العقل يبحث فيه عن صحة النقل فقط، فإن كان صحيح نقول يصلي، وكيف يصلي؟ لا ندري، والأنبياء لهم حياة في قبورهم، وكيف هذه الحياة، لا نعرفها، فهذا خبر في عالم الغيب، ليس للعقل إلا أن يتلقى ويبحث عن الصحة، فإن صح الخبر نقول: سمعنا وأطعنا.
وبهذا نرد على المفوضة وعلى الذين ينكرون صفات الله فإذا كان الإنسان نفسه عندما ينتقل من دار لدار العقل يتوقف، فكيف نعطل صفات ربنا عز وجل بحجة أنها تشبه صفات الخلق؟ فنحن نثبت صلاة للأنبياء وللمؤمن في القبور، بل نثيت حجاً وعمرة للأنبياء، كما جاء في صحيح مسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى يحج في المنام ورؤيا الأنبياء حق، فنثبت ما ورد فيه النص ونسكت ونعرف قدر أنفسنا ولا نزيد على ذلك، ولا يوجد أحد ذهب لعالم البرزخ فجاء فأخبرنا وفصل لنا والعقل لا يدرك والنص قاضٍ على العقل، والله أعلم…

حسن مشہور سلمان نے جواب دیا : … دار البرزخ کے قوانین الگ ہیں  … انبیاء کی حیات قبر کی ہے لیکن کیسی ہے پتا نہیں ہے  ہم نہیں جانتے یہ عالم الغیب کی خبر ہے … اور المفوضہ انکار کرتے ہیں  ہم  (وہابی) اس کا اثبات کرتے ہیں کہ انبیاء (بعد وفات)  اور مومن قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ہم اس کا بھی اثبات کرتے ہیں کہ انبیاء (بعد وفات) حج  و عمرہ کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے نیند میں موسی کو دیکھا کہ وہ حج کر رہے ہیں اور انبیاء کا خواب  حق ہے  پس ہم اثبات کرتے ہیں جو نص میں آیا

راقم کہتا ہے حدیث میں موسی یا یونس علیہما السلام کا حج کرنے کا جو ذکر ہے وہ ان کی زندگی کی خبر ہے لیکن وہابیوں نے اس حدیث کو بعد وفات کی طرف موڑ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انبیاء قبروں سے نکل کر  میقات کی حدود میں داخل ہوتے ہیں – یہ قول باطل ہے

صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِوَادِي الْأَزْرَقِ، فَقَالَ: «أَيُّ وَادٍ هَذَا؟» فَقَالُوا: هَذَا وَادِي الْأَزْرَقِ، قَالَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ هَابِطًا مِنَ الثَّنِيَّةِ، وَلَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللهِ بِالتَّلْبِيَةِ»، ثُمَّ أَتَى عَلَى ثَنِيَّةِ هَرْشَى، فَقَالَ: «أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ؟» قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى، قَالَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ جَعْدَةٍ عَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ، خِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ وَهُوَ يُلَبِّي

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   وادی ازرق سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا یہ کونسی وادی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یہ  وادی ازرق  ہے آپ نے فرمایا : گویا میں موسی علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں وہ پہاڑ سے اتر رہے ہیں تلبیہ کی وجہ سے ان کا ایک اللہ کے ہاں ایک مقام قرب ہے- پھر آپ ایک پہاڑ پر پہنچے فرمایا یہ کونسا پہاڑ ہے؟ عرض کی   ہرشی   پہاڑ ہے  آپ نے فرمایا گویا کہ میں یونس بن متی علیہ السلام کو نحیف سرخ اونٹنی پر دیکھ رہا ہوں ان پر اون کا جبہ ہے، اونٹنی کی نکیل خشک کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ہے اور آپ علیہ السلام تلبیہ کہہ رہے ہیں

اس روایت میں نیند کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو جاگنے کی حالت میں اپ صلی الله علیہ وسلم کو غیبی کشف کیا گیا کہ گویا موسی اور یونس علیہما السلام  نے جب حج کیا تو ایسے لگ رہے تھے

وہابی عالم صالح المنجد کا فتوی ہے

وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : ( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون ) رواه البزار وصححه الألباني في صحيح الجامع ( 2790 ) وهذه الصلاة مما يتمتعون بها كما يتنعم أهل الجنة بالتسبيح .

https://islamqa.info/ar/26117

اور بے شک صحیح ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انبیاء زندہ ہیں قبروں میں نماز  پڑھتے ہیں اس کو البزار نے روایت کیا ہے اور البانی نے نے صحیح کیا ہے اور یہ وہ نماز ہے جس سے یہ  فائدہ لیتے ہیں  جیسی کہ اہل جنت  تسبیح سے لیتے ہیں 

راقم کہتا ہے سلفی عالم اسمعیل سلفی کے بقول کہ اس روایت سے عقیدے ثابت نہیں کر سکتے

 

خواب میں نبی اکرم کا دیدار

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

بخاری کی حدیث میں یہ بات خاص دور نبوت کے لئے بتائی گئی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا تھا

بخاری میں دو حدیثیں ہیں

من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی

          جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل  نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم

دوسری حدیث ہے

من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته

جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے  کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے

 ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے  فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے  دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا

حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري کتاب الرؤيا میں لکھتے ہیں

المازري کہتے ہیں

احتمل أن يكون أراد أهل عصره ممن يهاجر إليه فإنه إذا رآه في المنام جعل ذلك علامة على أنه سيراه بعد ذلك في اليقظة

اغلبا اس سے مراد ان (نبی صلی الله علیہ وسلم) کے ہم عصر ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور ان کو خواب میں دیکھا اور یہ (خواب کا مشاہدہ) ان کے لئے علامت ہوئی اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کو بیداری میں بھی دیکھا

امام بخاری  نے بھی باب میں امام محمد آبن سیرین کا یہ قول لکھا ہے کہ

  یہ اس صورت میں ہے جب رسول صلى اللہ عليہ وسلم کو آپ ہی کی صورت میں دیکھا جائے

 یعنی شیطان تو کسی بھی صورت میں آ کر بہکا سکتا ہے ہم کو کیا پتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کیسے تھے؟ صرف شمائل پڑھ لینے سے وہی صورت نہیں بن سکتی . اگر  آج کسی  نے دیکھا بھی تو آج اس کی تصدیق کس صحابی سے کرائیں گے؟

 لیکن جن دلوں میں بیماری ہے وہ اس حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کو آج بھی خواب میں دیکھنا ممکن ہے اور خواب پیش کرتے ہیں

انس رضی الله عنہ کا خواب

طبقات ابن سعد میں ایک روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الذَّارِعُ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: مَا مِنْ لَيْلَةٍ إِلا وَأَنَا أَرَى فِيهَا حَبِيبِي. ثُمَّ يَبْكِي.

ابن سعد نے کہا ہم کو مسلم بن ابراہیم نے خبر دی انہوں نے کہا ان پر  الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الذَّارِعُ نے حدیث بیان کی  کہا میں نے انس بن مالک کو کہتے سنا کہ کوئی ایسی رات نہیں کہ جس میں میں اپنے حبیب کو نہ دیکھ لوں پھر رو دیے

تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از أَبِي يَعْلَى البغدادي، الحنبلي (المتوفى: 580هـ) کے مطابق اس نام کے دو راوی ہیں دونوں بصری ہیں

المثنى بن سعيد، اثنان    بصريان

أحدهما:1 – أبو غفار الطائي. حدث عن: أبي عثمان النهدي، وأبي قلابة الجرمي، وأبي تميمة الهجيمي، وأبي الشعثاء، مولى ابن معمر.روى عنه: حماد بن زيد، وعيسى بن يونس، وأبو خالد الأحمر، ويحيى بن سعيد القطان، وسهل بن يوسف.قال الخطيب: أنا محمد بن عبد الواحد الأكبر: أنا محمد بن العباس: ثنا ابن مرابا: ثنا عباس بن محمد، قال: سمعت يحيى بن معين يقول: أبو غِفَار الطَّائي بصري اسمه المثنى بن سعيد، يحدث عنه يحيى، وقال يحيى: المثنى بن سعيد ثقة.

والآخر:  أبو سعيد الضَّبِّي القَسَّام.رأى أنس بن مالك، وأبا مجلز، وسمع قتادة، وأبا سفيان طلحة بن نافع.

انس رضی الله عنہ سے اس قول کو منسوب کرنے والا  أبو سعيد المثنى بن سعيد  الضَّبِّي القَسَّام ہے جس نے ان کو صرف  دیکھا ہے

تاریخ الاسلام میں الذھبی نے اس راوی پر لکھا ہے رأى أنسا کہ اس نے انس کو دیکھا تھا

ابن حبان نے اس کے لئے ثقات میں کہا ہے  يخطىء غلطیاں کرتا ہے

المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از  أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کی تحقیق کے مطابق بھی اس نے انس رضی الله عنہ کو دیکھا ہے سنا نہیں ہے

أبو سعيد، المثنى بن سعيد، الضُبَعِيّ – بضم المعجمة، وفتح الموحدة – البصري، القسام، الذارع، القصير، كان نازلا في بني ضبيعة، ولم يكن منهم ويقال: إنه أخو ريحان بن سعيد، وروح بن سعيد، والمغيرة بن سعيد، رأى أنس بن مالك

توضيح المشتبه في ضبط أسماء الرواة وأنسابهم وألقابهم وكناهم کے مؤلف: محمد بن عبد الله (أبي بكر) ابن ناصر الدين (المتوفى: 842هـ) کا کہنا ہے کہ رأى أنس بن مَالك اس نے انس بن مالک کو دیکھا

طبقات ابن سعد میں ہی یہ راوی قتادہ کے واسطے سے انس رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ. حَدَّثَنَا قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَزُورُ أُمَّ سُلَيْمٍ أَحْيَانًا فَتُدْرِكُهُ الصَّلاةُ فَيُصَلِّي عَلَى بِسَاطٍ لَنَا وَهُوَ حَصِيرٌ يَنْضَحُهُ بِالْمَاءِ.

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمْ يَخْضِبْ قَطُّ. إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ فِي الْعَنْفَقَةِ قَلِيلا وَفِي الرَّأْسِ نَبْذٌ يَسِيرٌ لا يَكَادُ يُرَى.

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَتَّابٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ: ” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخْضِبْ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ، وَفِي الْعَنْفَقَةِ قَلِيلًا، وَفِي الرَّأْسِ نَبْذٌ يَسِيرٌ، لَا يَكَادُ يُرَى “، وَقَالَ الْمُثَنَّى: ” وَالصُّدْغَيْنِ

سنن ابو داود کی روایت ہے

حدَّثنا مسلمُ بن إبراهيم، حدَّثنا المثنى بن سعيد، حدَّثنا قتادةُ عن أنس بن مالك: أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم – كان يزورُ أم سُلَيمٍ، فتُدركُه الصلاةُ أحياناً، فيُصلي على بِساطٍ لنا، وهو حَصيرٌ تَنضَحُه بالماء

سنن الکبری نسائی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ الْقَاسِمِ الْمَكِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا قَالَ: «اللهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي، وَنَصِيرِي، وَبِكَ أُقَاتِلُ»

معلوم ہوا کہ اس راوی کا سماع انس رضی الله عنہ سے نہیں ہے جو بھی اس نے لیا وہ قتادہ کی سند سے ہے اور اس کا طبقات کی سند میں سمعت (میں نے سنا) کہنا غلطی ہے

افسوس کفایت الله سنابلی اس روایت کو صحیح کہہ رہے ہیں

بلال رضی الله تعالی عنہ کا خواب

ابن عساکر تاریخ الدمشق میں إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال کے ترجمے میں لکھتے ہیں

إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ابن أبي الدرداء الأنصاري صاحب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أبو إسحاق روى عن أبيه روى عنه محمد بن الفيض أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال

  لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم  الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنزل  داريا في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين  وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي (صلى الله عليه وسلم) وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي (صلى الله عليه وسلم) فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها  فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم قال أبو الحسن محمد بن الفيض توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين

 أبي الدرداء فرماتے ہیں کہ

جب عمر الجابیہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے بلال سے کہا کہ شام آ جائیں پس بلال شام منتقل ہو گئے … پھر بلال نے خواب میں نبی کودیکھا کہ فرمایا اے بلال یہ کیا بے رخی ہے؟ کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا .. پس بلال قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر گئے اور روئے اور چہرے کو قبر پر رکھا … اس کے بعد حسن و حسین کی فرمائش پر آپ نے اذان بھی دی

 بلال بن رباح الحبشي رضی الله تعالی عنہ کی وفات سن ٢٠ ہجری میں ہوئی  اور ایک قول تاریخ الاسلام از ذھبی میں ہے

قَالَ يحيى بْن بكير: تُوُفيّ بلال بدمشق في الطاعون سنة ثماني عشرة.

بلال کی دمشق میں طاعون  سے سن ١٨ ہجری میں وفات ہوئی

 الذھبی اپنی کتاب سیر الاعلام  ج ١ ص ٣٥٨ میں اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہتےہیں

إِسْنَادُهُ لَيِّنٌ، وَهُوَ مُنْكَرٌ.

اس کی اسناد کمزور ہیں اور یہ منکر ہے

 ابن حجر لسان المیزان میں اور الذھبی میزان  میں اس راوی پر لکھتے ہیں

فيه جهالة

اس کا حال مجھول ہے

 ذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں اس راوی پر لکھتے ہیں

مجهول، لم يروِ عنه غير محمد بْن الفيض الغسَّانيّ

مجھول ہے سوائے محمد بْن الفيض الغسَّانيّ کے کوئی اس سے روایت نہیں کرتا

 ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کا خواب

 ترمذی روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَزِينٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعْنِي فِي المَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ الله، قَالَ: “شَهِدْتُ قَتْلَ الحُسَيْنِ آنِفًا” هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

 سلمی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ  رضی الله تعالی عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے؟  آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے . کا سر اور ریش مبارک گرد آلود تھی.میں نے عرض کی ، یارسول ،آپ کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ رسول الله نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسین کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

 ترمذی اور مستدرک الحاکم میں یہ روایت نقل ہوئی ہے

 اس کی سند میں سَلْمَى الْبَكْرِيَّةِ ہیں

 تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں مبارکپوری لکھتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ لِجَهَالَةِ سَلْمَى

سَلْمَى کے مجھول ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے

 کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق

 وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ

اور ام سلمہ کی وفات ٥٩ ھ میں ہوئی

 تاریخ کے مطابق حسین کی شہادت سن ٦١ ہجری میں ہوئی

 لہذا یہ ایک جھوٹی روایت ہے

ابن عباس کا خواب کی تعبیر کرنا 

ابن حجر فتح الباری  ص ۳۸۴ میں بتاتے ہیں کہ حاکم روایت کرتے ہیں کہ

فَأَخْرَجَ الْحَاكِمُ مِنْ طَرِيقِ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ قَالَ صِفْهُ لِي قَالَ ذَكَرْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ فَشَبَّهْتُهُ بِهِ قَالَ قَدْ رَأَيْتُهُ وَسَنَدُهُ جَيِّدٌ

امام حاکم نے روایت کیا ہے … ایک شخص نے عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے حسن بن علی رضی   االله  عنہ کی شکل کے ایک شخص کو دیکھا ہے اس پر انہوں نے کہا تم نے نبی کو دیکھا ہے

ابن حجر نے کہا اس کی سند جید ہے

حالانکہ حیرت ہے  عبد الله بن عباس اور ابن زبیر میں اپس میں اختلاف ہوا اور  ابن عباس طائف جا کر قیام پذیر ہوئے لیکن اس اختلاف کو ختم کرنے نبی صلی الله علیہ وسلم نہ ابن عباس  رضی الله عنہ کے خواب میں آئے نہ ابن زبیر رضی الله عنہ کے

مستدرک الحاکم کی اس روایت  کو اگرچہ الذھبی نے صحیح کہا ہے لیکن اسکی  سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ  ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر  يحيى القطان نے کلام کیا ہے

وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً

صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم  جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا

مسلمان بادشاہوں کے سیاسی خواب

 نور الدین زنگی کا خواب

  علي بن عبد الله بن أحمد الحسني الشافعي، نور الدين أبو الحسن السمهودي المتوفى٩١١ھ  کتاب  وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى  میں سن ٥٥٧ ھ پر لکھتے ہیں

 الملك العادل نور الدين الشهيد نے ایک ہی رات میں تین دفعہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ ہر دفعہ فرما رہے ہیں

 أن السلطان محمودا المذكور رأى النبي صلّى الله عليه وسلّم ثلاث مرات في ليلة واحدة وهو يقول في كل واحدة: يا محمود أنقذني من هذين الشخصين الأشقرين تجاهه

اے  قابل تعریف! مجھ کو ان دو شخصوں سے بچا

 یہ دو اشخاص عیسائی تھے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد مطہر حاصل کرنا چاہتے تھے

مثل مشھور ہے الناس علی دین ملوکھم کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں اسی طرح یہ قصہ اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ گویا اس کی سچائی قرآن و حدیث جیسی ہو

 مقررین حضرات یہ قصہ سنا کر بتاتے ہیں کہ یہودی سازش کر رہے تھے لیکن ریکارڈ کے مطابق یہ نصرانی سازش تھی

 وقد دعتهم أنفسهم- يعني النصارى- في سلطنة الملك العادل نور الدين الشهيد إلى أمر عظيم

اور نصرانیوں نے ایک امر عظیم کا ارادہ کیا بادشاہ عادل نور الدین الشہید کے دور ہیں

 اس کے بعد یہ خواب کا واقعہ بیان کرتے ہیں اور بعد میں پکڑے جانے والے عیسائی تھے

أهل الأندلس نازلان في الناحية التي قبلة حجرة النبي صلّى الله عليه وسلّم من خارج المسجد عند دار آل عمر بن الخطاب

اہل اندلس سے دو افراد دار ال عمر بن خطاب ،حجرے کی جانب مسجد سے باہر ٹھہرے ہوۓ ہیں

  اس قصے میں عجیب و غریب عقائد ہیں.  اول نبی صلی الله علیہ وسلم کو علم غیب تھا کہ دو نصرانی سازش کر رہے ہیں  دوئم انہوں نے الله کو نہیں پکارا بلکہ نور الدین کے خواب میں تین دفعہ ایک ہی رات میں ظاہر ہوئے . سوم نبی صلی الله علیہ وسلم نے نورالدین زنگی کو صلیبی جنگوں میں عیسائی تدبریوں کے بارے میں نہیں بتایا جن سے ساری امت مسلمہ نبرد آزما تھی بلکہ صرف اپنے جسد مطہر کی بات کی

  الله کا عذاب نازل ہو اس جھوٹ کو گھڑنے والوں پر. ظالموں الله سے ڈرو اس کی پکڑ سخت ہے .الله کے نبی تو سب سے بہادر تھے

 دراصل یہ سارا قصہ نور الدین زنگی  کی بزرگی کے لئے بیان کیا جاتا ہے جو صلیبی جنگوں میں مصروف تھے اور ان کے عیسائیوں سے  معرکے چل رہے تھے

شاہ عراق فیصل بن حسین المعروف فیصل اول کا خواب

فیصل بن حسین ١٩٢١ ع سے ١٩٣٣ ع تک عراق کے بادشاہ تھے اور شریف المکّہ کے تیسرے بیٹے. شریف المکہ عثمانی خلافت میں ان کی جانب سے حجاز کے امیر تھے. فیصل اول نے خلافت عثمانیہ ختم کرنے میں انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیا.   بر صغیر کے مشھور شاعر علامہ اقبال نے ان پر تنقید کی کہ

کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا

لیکن روحانیت میں شاہ فیصل کا کچھ اور ہی مقام تھا انگریز بھی خوش اور الله والے بھی خوش

جو لوگ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں انے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ سن ١٩٣٢ عیسوی میں عراق میں جابر بن عبدللہ اور حذیفہ بن یمان رضوان الله علیھم شاہ عراق کے خواب میں آئے اور انہوں نی اس سے کہا کہ ان کو بچائے کیونکہ نہر دجلہ کا پانی ان کی قبروں تک رس رہا ہے

قبر ١قبر ٢

حیرت کی بات ہے کہ شیعہ حضرات بھی اس خواب کو لہک لہک کر بیان کرتے ہیں لیکن اس سے تو فیصل اول کی الله کی نگاہ میں قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے اور فیصل شیعہ عقیدے پر نہیں تھے

ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں اتے ہیں اب کہا جا رہا ہے کہ صحابی بھی اتے ہیں گویا جو نبی کی خصوصیت تھی وہ اب غیر انبیاء کی بھی ہو گئی

ہمارے قبر پرست بادشاہوں کو  خوابوں میں انبیاء اور صحابہ نظر آ رہے ہیں اور وہ بھی صرف اپنے جسمکو  بچانے کے لئے

لیکن اب خواب نہیں آیا

حال ہی میں شام میں حکومت مخالف باغیوں نے ایک   قبر کشائی کی  جو صحابی رسول حجر بن عدی  المتوفی 51 ہجری کی طرف منسوب ہے لیکن حیرت ہے اس دفعہ ان  صحابی کو خیال نہیں آیا کہ دوسرے صحابہ تو اپنی قبروں کو بچانے کے لئے خوابوں میں آ جاتے ہیں مجھے بھی یہی کرنا چاہئے یہ صحابی نہ سنیوں کے خواب میں آئے نہ شیعوں کے خواب میں. جب قبر پر پہلا کلہاڑا پڑا اسی وقت خواب میں آ جاتے

قبر ٣

حجر بن عدی رضی اللہ تعالی علیہ سے منسوب قبر ، قبر کی بے حرمتی کے بعد

دوسری طرف یہی قبر پرست  ایک سانس میں کہتے ہیں کہ صحابہ کے جسد محفوظ تھے اور دوسری سانس میں روایت بیان کرتے ہیں الله نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے تو بھلا بتاؤ کیا  مانیں اگر غیر نبی کا جسد بھی محفوظ ہے تو یہ انبیاء کی خصوصیت کیسے رہی

 الغرض  نبی صلی  الله علیہ وسلم نے دنیا کی رفاقت چھوڑ کر جنت کو منتخب کیا اور آج امت سے ان کا کوئی  رابطہ نہیں اور نہ ان کو امت کے حال کا پتا ہے ،ورنہ جنگ جمل نہ ہوتی نہ جنگ صفین، نہ حسین شہید ہوتے، بلکہ ہر لمحہ آپ امت کی اصلاح کرتے

انبیاء صحابہ اور اولیاء کا خواب میں انے کا عقیدہ سراسر غلط اور خود ساختہ ہے اور عقل سلیم سے بعید تر قبروں سے فیض حاصل کرنے کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم ان قبروں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ان سے دعائیں کروانے جاتے ہیں الله ان کی سنتا ہے لیکن اگر الله ان کی سنتا ہے تو جب ان کی قبر پر پانی اتا ہے یا کوئی دوسرے دین کا شریر شخص شرارت کرنا چاہتا ہے تو اس وقت  بادشاہ لوگ کے خواب میں ان کو آنا پڑتا ہے سوچوں یہ کیا عقیدہ ہے  تمہاری عقل پر افسوس ! الله شرک سے نکلنے کی توفیق دے

نبی صلی الله علیہ وسلم اور امام ترمذی سے ناراضگی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں بیان کرتے ہیں کہ امام ترمذی اس عقیدے کے خلاف تھے کہ روز محشر نبی صلی الله علیہ وسلم کو نعوذباللہ عرش پر الله تعالی اپنے ساتھ بٹھائے گا. ابو بکر الخلال ، نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا نقل کرتے ہیں

وَسَمِعْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ صَدَقَةَ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ الْجَبَلِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ صَاحِبِ النَّرْسِيِّ قَالَ: ثُمَّ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَحَدَّثَنِي، قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ لِي: هَذَا التِّرْمِذِيُّ، أَنَا جَالِسٌ لَهُ، يُنْكِرُ فَضِيلَتِي “

عبدللہ بن اسمعیل کہتے ہیں کہ میرے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم آئے اور کہا  یہ ترمذی!  میں اس کے لئے  بیٹھا ہوں اور یہ میری فضلیت کا انکاری ہے

ابو بکر الخلال نے واضح نہیں کیا کہ اس خواب میں  نبی صلی الله علیہ وسلم کا کہنا کہ میں بیٹھا ہوں، تو اصل میں وہ کہاں بیٹھے  ہیں . مبہم انداز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا گیا ہے تاکہ امام ترمذی پر جرح ہو سکے

ایک دوسرا خواب بھی پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ الْعَطَّارُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ، قَالَ: ” رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ عَنْ يَمِينِهِ، وَعُمَرُ عَنْ يَسَارِهِ، رَحْمَةُ الله عَلَيْهِمَا وَرِضْوَانُهُ، فَتَقَدَّمْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ الله، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَقُولَ شَيْئًا فَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: قُلْ، فَقُلْتُ: إِنَّ التِّرْمِذِيَّ يَقُولُ: إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لَا يُقْعِدُكَ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، فَكَيْفَ تَقُولُ يَا رَسُولَ الله، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ شِبْهَ الْمُغْضَبِ وَهُوَ يُشِيرُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى عَاقِدًا بِهَا أَرْبَعِينَ، وَهُوَ يَقُولُ: «بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، ثُمَّ انْتَبَهْتُ

مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ نے کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور ابو بکر و عمر رحمہ الله تعالی ان کےساتھ تھے ابو بکر دائیں طرف اور عمر بائیں طرف بیٹھے تھے پس میں عمر کی دائیں طرف آیا اور عرض کیا : یا رسول الله میں چاہتا ہوں اپ پر ایک چیز پیش کرتا – رسول الله نے فرمایا بولو- میں نے کہا یہ ترمذی کہتا حیا کہ اپ الله عزوجل اپ کے ساتھ عرش پر نہیں بیٹھے گا تو اپ کیا کہتے ہیں اس پر یا رسول الله ! پس میں نے دیکھا کہ رسول الله ناراض ہوئے اور انہوں نے سیدھے ہاتھ سے اشارہ کیا … اور کہہ رہے تھے بالکل الله کی قسم ، بالکل الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا ، الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا پھر خبردار کیا 

استغفر الله ! اس طرح کے عقائد کو محدثین کا ایک گروہ حق مانتا آیا ہے

الله کا شکر ہے کہ  بدعتی عقائد پر کوئی نہ کوئی محدث اڑ جاتا ہے اور آج ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حق کیا ہے ,مثلا یہ عقیدہ  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا اور انبیاء کے اجسام سلامت رہنےکا بدعتی عقیدہ جس کو امام بخاری اور ابی حاتم  رد کرتے ہیں

حدیث میں اتا ہے کہ

میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لئے اپنے اہل و مال سب کچھ صَرف کردیں 

اس سے ظاہر ہے کہ نبی کو خواب میں دیکھنا ممکن نہیں بلکہ اگر کوئی نبی کو دیکھنا چاہتا ہے تو کیا صرف  سوتا رہے  کہ ہو سکتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں آ جائیں حدیث میں ہے کہ وہ اہل و مال تک صرف کرنا چاہیں گے کیونکہ وہ دیکھ نہیں پائیں گے

کہا جاتا ہے کہ  علمائے اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ اگر خواب میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم کسی کو کوئی ایسی بات بتائیں یا کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہے تو اس پر عمل جائز نہ ہوگا  لیکن یہ احتیاط کیوں اگر حلیہ شمائل کے مطابق ہو اور اپ کا عقیدہ ہے کہ شیطان،  نبی صلی الله علیہ وسلم کی شکل بھی نہیں بنا سکتا تو اس خوابی حکم یا حدیث کو رد کرنے کی کیا دلیل ہے. دوم یہ اجماع کب منعقد ہوا کون کون شریک تھا کبھی نہیں بتایا جاتا

کہا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا ان کی خصوصیت ہے اس کا مطلب ہوا کہ جو لوگ یہ دعوی کریں کہ کوئی ولی یا صحابی خواب میں آیا وہ کذاب ہیں کیونکہ اگر یہ بھی خواب میں آ جاتے ہوں تو نبی کی خصوصیت کیسے رہی؟

خواب کے ذریعہ احادیث کی تصحیح

 صحیح بخاری میں ابن مسعود سے مروی ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل ‘اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ….”(صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس حدیث پر لوگوں کو شک ہوا لہذا کتاب جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم از ابن رجب میں ہے
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الَّذِي حَدَّثَ عَنْكَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ حَدَّثْتُهُ بِهِ أَنَا ” يَقُولُهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ غَفَرَ اللَّهُ لِلْأَعْمَشِ كَمَا حَدَّثَ بِهِ، وَغَفَرَ اللَّهُ
مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ نے روایت کیا کہ میں نے خواب میں نبی کو دیکھا کہا اے رسول الله حدیث ابن مسعود جو انہوں نے اپ سے روایت کی ہے کہا سچوں کے سچے نے کہا ؟ فرمایا وہ جس کے سوا کوئی الہ نہیں میں نے ہی اس کو ان سے روایت کیا تھا تین بار کہا پھر کہا الله نے اعمش کی مغفرت کی کہ اس نے اس کو روایت کیا

یعنی لوگوں نے اس حدیث کو خواب میں رسول الله سے ثابت کرایا تاکہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث کو صحیح سمجھا جائے

مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ)   میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ خَمْسَ مِائَةِ حَدِيثٍ، أَوْ ذَكَرَ أَكْثَرَ، فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا الْيَسِيرَ خَمْسَةَ أَوْ سِتَّةَ أَحَادِيثَ، فَتَرَكْتُ الْحَدِيثَ عَنْهُ»

ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں

امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو نقل کیا ہے

ابان بن ابی عیاش کو محدثین  منکر الحدیث ، متروک ، کذاب کہتے ہیں اور امام ابو داود سنن میں روایت لیتے ہیں

ابان سے متعلق قول کا دارومدار سوید بن سعيد الحَدَثاني پر ہے جو امام بخاری کے نزدیک   منكر الحديث ہے اور يحيى بن معين کہتے حلال الدم اس کا خون حلال ہے

یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خواب اور اس میں جرح کا  قول خود ضعیف ہے جو امام مسلم نے پیش کیا ہے

سوید بن سعيد اختلاط کا شکآر ہوئے اور اغلبا یہ روایت بھی اسی وقت کی ہے

لہذا خواب میں سن کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات بیان کرنا حدیث نہیں اور یہ قول بھی جرح کے لئے نا قابل قبول ہے -لیکن ظاہر ہے محدثین کا ایک گروہ  جرح و تعدیل میں خواب سے دلیل لے رہا تھا  جبکہ اس کی ضرورت نہ تھی

سنن ابو داود کی روایت ٥٠٧٧ ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، وَوُهَيْبٌ، نَحْوَهُ عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَائِشٍ، وَقَالَ حَمَّادٌ: عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” مَنْ قَالَ إِذَا أَصْبَحَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَانَ لَهُ عِدْلَ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَكُتِبَ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَحُطَّ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَكَانَ فِي حِرْزٍ مِنَ الشَّيْطَانِ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ قَالَهَا إِذَا أَمْسَى كَانَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ حَتَّى يُصْبِحَ ” قَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ: فَرَأَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا عَيَّاشٍ يُحَدِّثُ عَنْكَ بِكَذَا وَكَذَا، قَالَ: “صَدَقَ أَبُو عَيَّاشٍ”

حَمَّادٌ نے أَبِي عَيَّاشٍ سے انہوں نے رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سے روایت کیا کہ جس نے صبح کے وقت کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تو اس کے لئے ایسا ہو گا کہ اس نے إِسْمَاعِيلَ کی اولاد میں سے  ایک گردن کو آزاد کیا اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور دس گناہ مٹ جائیں گے اس کے دس درجات بلند ہوں گے یہ الفاظ  شام تک شیطان سے حفاظت کریں گے .. حماد بن سلمة نے کہا پھر ایک شخص نے رسول الله کو خواب میں دیکھا کہا یا رسول الله ابی عیاش نے ایسا ایسا روایت کیا ہے – اپ نے فرمایا سچ کہا أَبُو عَيَّاشٍ نے 

اس روایت کو البانی نے صحیح کہہ دیا ہے جبکہ   المنذري (المتوفى: 656 هـ) نے  مختصر سنن أبي داود میں خبر دی تھی کہ

ذكره أبو أحمد الكرابيسي في كتاب الكنى، وقال: له صحبة من النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-، وليس حديثه من وجه صحيح، وذكر له هذا الحديث.

أبو عياش الزُّرقي الأنصاري جس کا نام زيد بن الصامت ہے اس کا ذکر الکنی میں  أبو أحمد الكرابيسي نے کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا صحابی  ہونے کا شرف پایا ہے لیکن یہ حدیث اس طرق سے صحیح نہیں ہے اور خاص اس روایت کا ذکر کیا

قال أبو زرعة الدمشقي، عن أحمد بن حنبل: أبو عياش الزرقي، زيد بن النعمان. «تاريخه» (1245)

وقال أبو محمد ابن حزم في «المحلى»: زيد أبو عياش لا يدري من هو

بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ شخص صحابی نہیں بلکہ کوئی مجہول ہے

حماد بن سلمہ نے  خبر دی کہ ایک شخص نے دیکھا یہ شخص کون تھا معلوم  نہیں – خیال رہے حماد خود مختلط بھی ہو گئے تھے

بیداری میں بھی دیکھنا ممکن ہے 

فیض الباری میں انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں

ويمكن عندي رؤيته صلى الله عليه وسلّم يقظةً (1) لمن رزقه الله سبحانه كما نقل عن السيوطي رحمه الله تعالى – وكان زاهدًا متشددًا في الكلام على بعض معاصريه ممن له شأن – أنه رآه صلى الله عليه وسلّم اثنين وعشرين مرة وسأله عن أحاديث ثم صححها بعد تصحيحه صلى الله عليه وسلّم

میرے نزدیک بیداری میں بھی رسول الله کو دیکھنا ممکن ہے جس کو الله عطا کرے جیسا سیوطی سے نقل کیا گیا ہے جو ایک سخت زاہد تھے … انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ٢٨ مرتبہ دیکھا اور ان سے احادیث کی تصحیح  کے بعد ان کو صحیح قرار دیا

انور شاہ نے مزید لکھا

والشعراني رحمه الله تعالى أيضًا كتب أنه رآه صلى الله عليه وسلّم وقرأ عليه البخاري في ثمانية رفقة معه

الشعراني نے رسول اللہ کو دیکھا اور ان کے سامنے صحیح بخاری اپنے ٨ رفقاء کے ساتھ پڑھی

جلال الدین سیوطی  الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ٣١٣ میں بہت سے علماء و صوفیا کے اقوال نقل کیے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے   نبی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی روح اقدس کو ملکوت ارض و سما میں تصرف وسیع عطا کر دیا ہے، دن ہو یا رات، عالم خواب ہو یا عالم بیداری، جس وقت اور جب بھی  چاہیں کسی بھی غلام کو اپنے دیدار اور زیارت سے نواز سکتے ہیں، جسے چاہیں چادر مبارک عطا کر جائیں اور جسے چاہیں موئے مبارک دیں۔

الألوسي (المتوفى: 1270هـ)  سورہ الاحزاب کی تفسیر میں روح المعاني میں لکھتے ہیں

وأيد  بحديث أبي يعلى «والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري وقال يا محمد لأجيبنه» . وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسّلام روحانية ولا بدع في ذلك فقد وقعت رؤيته صلّى الله عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة

اور اس کی تائید ہوتی ہے حدیث ابی یعلی سے جس میں ہے کہ وہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور عیسیٰ نازل ہوں گے پھر جب میری قبر پر آئیں گے اور کہیں گے یا محمد میں جواب دوں گا اور جائز ہے کہ یہ اجتماع انبیاء کا روحانی ہو اور یہ بعید بھی نہیں کیونکہ اس امت کے ایک سے زائد کاملین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو بعد وفات بیداری میں دیکھا ہے

راقم اس سے متفق نہیں ہے ابی یعلی کی روایت کو منکر سمجھتا ہے

اسی تفسیر میں سورہ یس کے تحت الوسی لکھتے ہیں

والأنفس الناطقة الإنسانية إذا كانت قدسية قد تنسلخ عن الأبدان وتذهب متمثلة ظاهرة بصور أبدانها أو بصور أخرى كما يتمثل جبريل عليه السلام ويظهر بصورة دحية أو بصورة بعض الأعراب كما جاء في صحيح الأخبار حيث يشاء الله عز وجل مع بقاء نوع تعلق لها بالأبدان الأصلية يتأتى معه صدور الأفعال منها كما يحكى عن بعض الأولياء قدست أسرارهم أنهم يرون في وقت واحد في عدة مواضع وما ذاك إلا لقوة تجرد أنفسهم وغاية تقدسها فتمثل وتظهر في موضع وبدنها الأصلي في موضع آخر

نفس ناطقہ انسانی جب پاک ہو جاتا ہے تو اپنے بدن سے جدا ہو کر مماثل ظاہری ابدان سے یا کسی اور صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جیسے کہ جبریل کی  شکل میں یا دحیہ کلبی کی صورت یا بدو کی صورت جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے جیسا الله چاہے اس بدن کی بقاء کے ساتھ جو اصلی بدن سے بھی جڑا ہو ایک ہی وقت میں لیکن کئی مقام پر ہو اس طرح حکایت کیا گیا ہے اولیاء سے جن کے پاک راز ہیں کہ ان کو ایک ہی وقت میں الگ الگ جگہوں پر دیکھا گیا

اس طرح الوسی نے یہ ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک ہی وقت میں کئی مقام پر ظاہر ہو سکتے ہیں

آج یہ عقیدہ بریلویوں کا ہے – راقم اس فلسفے کو رد کرتا ہے

فرقوں میں متضاد خواب 

وہابی عالم صالح المغامسي کا کہنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھنا ممکن ہے یہ مبشرات میں سے ہے یہاں تک کہ امہات المومنین کو بھی دیکھا جا سکتا ہے

زبیر علی زئی اپنے مضمون محمد اسحاق صاحب جہال والا : اپنے خطبات کی روشنی میں میں لکھتے ہیں

علامہ رشید رضامصری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مفتی محمد عبدہ (رحمہ اللہ) نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور انہوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! اگر احد کے دن اللہ تعالیٰ جنگ کے نتیجہ کے بارے میں آپ کو اختیار دیتا تو آپ فتح پسند فرماتے یا شکست پسند فرماتے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ شکست کو پسند کرتا حالانکہ ساری دنیا فتح کو پسند کرتی ہے ۔(تفسیر نمونہ بحوالہ تفسیر المنار ۹۲/۳)” (خطباتِ اسحاق ج ۲ ص ۱۹۳، ۱۹۴)
تبصرہ : اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ محمد عبدہ (مصری، منکرِ حدیث بدعتی) نے خوا ب میں ضرور بالضرور رسول اللہ ﷺ کو ہی دیکھا تھا ۔ کیا وہ آپﷺ کی صورت مبارک پہنچانتا تھا ؟ کیا اس نے خواب بیان کرنے میں جھوٹ نہیں بولا؟

 اہل حدیث علماء نبی کا خواب میں انا مانتے ہیں ایک منکر حدیث دیکھے تو ان کو قبول نہیں – نبی صلی الله علیہ وسلم کی صورت کس اہل حدیث نے دیکھی ہے یہ زبیر علی نہیں بتایا

غیر مقلدین کا ایک اشتہار نظر سے  گزرا

khwab-ahl-hadith

نبی صلی الله علیہ وسلم منکرین حدیث کے خواب میں آ رہے ہیں اہل حدیث کے خواب میں ا رہے ہیں صوفیاء کے خواب میں آ رہے ہیں عقل سلیم رکھنے والے سوچیں کیا یہ مولویوں کا جال نہیں کہ اپنا معتقد بنانے کہ لئے ایسے انچھر استعمال کرتے ہیں

مولویوں کا تماشہ یہ ہے کہ جو بھی کہتا ہے کہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اس سے حلیہ مبارک پوچھتے ہیں – اور اگر شمائل میں جو ذکر ہے اس سے الگ حلیہ ہو تو   اس خواب کو رد کر دیتے ہیں –

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ زَمَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَكَانَ يَزِيدُ يَكْتُبُ الْمَصَاحِفَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: ” إِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَشَبَّهَ بِي، فَمَنْ رَآنِي فِي النَّوْمِ، فَقَدْ رَآنِي ” فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي رَأَيْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، ” رَأَيْتُ رَجُلًا بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، جِسْمُهُ وَلَحْمُهُ، أَسْمَرُ إِلَى الْبَيَاضِ، حَسَنُ الْمَضْحَكِ، أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ، جَمِيلُ دَوَائِرِ الْوَجْهِ، قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ، حَتَّى كَادَتْ تَمْلَأُ نَحْرَهُ ” – قَالَ: عَوْفٌ لَا أَدْرِي مَا كَانَ مَعَ هَذَا مِنَ النَّعْتِ – قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَوْ رَأَيْتَهُ فِي الْيَقَظَةِ مَا اسْتَطَعْتَ أَنْ تَنْعَتَهُ فَوْقَ هَذَا

عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، نے یزید سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس کے دور میں نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا …(حلیہ جو خواب میں  دیکھا  بیان کیا گیا )  ابن عباس نے کہا اگر تم بیداری میں دیکھ لیتے تو اس سے الگ نہ ہوتا

شعيب الأرنؤوط – کہتے ہیں
إسناده ضعيف، يزيد الفارسي في عداد المجهولين

قال البخاري في ” التاريخ الكبير ” 8 / 367 وفي ” الضعفاء ” ص 122: قال لي علي – يعني ابن المديني -:
قال عبد الرحمن – يعني ابن مهدي -: يزيد الفارسي هو ابن هرمز، قال: فذكرته ليحيى فلم يعرفه
امام بخاری نے اس کا ذکر تاریخ الکبیر میں کیا ہے اور الضعفاء میں کیا ہے کہا مجھ سے امام علی نے کہا کہ عبد الرحمان المہدی نے کہا یزید الفارسی یہ ابن ہرمز ہے اس کا ذکر امام یحیی القطان سے کیا تو انہوں نے اس کو نہ پہچانا

ابن ابی حاتم کے بقول یحیی القطان نے اس کا بھی رد کیا کہ یہ الفارسی تھا
وأنكر يحيى بن سعيد القطان أن يكونا واحداً،

شعيب الأرنؤوط نے اس کا شمار مجہولین میں کیا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں صحابہ کو خواب میں نظر آئے  ہوں گے اور پھر صحابہ نے ان کو بیداری میں بھی دیکھا ہو گا لیکن آج ہم میں سے کون اس شرط کو پورا کر سکتا ہے ؟ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا ان کی زندگی تک ہی تھا وہ بھی ان لوگوں کے لئے جو اسلام قبول کر رہے تھے اور انہوں نے نبی کو دیکھا نہیں تھا. نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحیح حدیث میں ان کا خواب میں آنا بیان نہیں ہوا . ہم تو صحابہ کا پاسنگ  بھی نہیں!

اخباری خبروں کے مطابق جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہاں کے حاکم ملا عمر کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دیدار خواب میں ہوا اور حکم دیا گیا کہ کابل چھوڑ دیا جائے الله جلد فتح مبین عنایت کرنے والا ہے – لہذا اپنی عوام کو چھوڑ ملا عمر ایک موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے اور پیچھے  جہاد کے آرزو مند جوانوں کو خاب و خاسر کر گئے

امت کا یہ حال ہوا کہ فقہی اختلاف یا حدیث رسول ہو یا جنگ و جدل ہو یا یہود و نصرانی سازش ہو سب کی خبر رسول الله کو ہے اور وہ خواب میں آ کر رہنمائی کر رہے ہیں

راقم کہتا ہے یہ علم الغیب میں نقب کی خبر ہے جو الله کا حق ہے – اس پر ڈاکہ اس امت نے ڈالا ہے تو اس کی سزا کے طور پر ذلت و مسکنت چھا گئی ہے

حدیث میں ہے ایک شخص خواب بیان کر رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا اور کہا
لَا تُخْبِرْ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِكَ فِي الْمَنَامِ
اس کی خبر مت دو کہ شیطان نے تیرے ساتھ نیند میں کیا کھیلا

ظاہر ہے یہ کوئی صحابی تھے جن کو منع کیا گیا کہ جو بھی خواب میں دیکھو اس کو حقیقت سمجھ کر مت بیان کرو

الله ہم سب کو ہدایت دے

==========

مزید معلومات کے لئے پڑھیں

 کتاب الرویا کا بھید

خواب میں رویت باری تعالی

محدثین  اور خوابوں کی دنیا

نور محمدی کا ذکر

محدثین اور صوفیاء کی کتب میں ایک روایت بیان ہوئی ہے جس کا متن ہے

 يا جابر إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره ، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله تعالى ، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ولا سماء ولا أرض ولا شمس ولا قمر ولا جني ولا إنسي ، فلما أراد الله تعالى أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول القلم ، ومن الثاني اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول حملة العرش ومن الثاني الكرسي ومن الثالث باقي الملائكة ، ثم قسم الجزء الرابع إلى أربعة أجزاء فخلق من الأول نور أبصار المؤمنين ومن الثاني نور قلوبهم وهي المعرفة بالله ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله ثم نظر إليه فترشح النور عرقاً  فتقطرت منه مائة ألف قطرة

رسول الله نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا اور یہ الله کی قدرت سے جہاں الله چاہتا جاتا اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم نہ جنت نہ جہنم نہ فرشتے نہ آسمان نہ زمین نہ سورج نہ چاند نہ جن و انس- پس جب الله نے ارادہ کیا خلق  کرنے کا تو اس نور کے چار ٹکرے کیے- ایک جز سے قلم بنا دوسرے سے لوح،  تیسرے سے عرش،  پھر چوتھے کے بھی چار جز اور کیے ان میں سے ایک سے عرش کو اٹھانے والے، دوسرے سے کرسی ، تیسرے سے باقی فرشتے –  پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے  مومنوں کی آنکھوں کا نور بنا،  دوسرے سے دلوں کا نور جو الله کی   معرفت ہے ،  تیسرے سے ان کے نفسوں کا نور جو توحید ہے لا إله إلا الله محمد رسول الله –  پھر اس (کلمہ) پر نظر کی تو اس  نور سے پسینہ  نکلا  جس سے ایک لاکھ قطرے اور نکلے

یہ مکمل روایت نہیں ہے اس کا متن بہت طویل ہے اور  متن عجیب و غریب ہے – عرش و کرسی  موجود تک نہ تھے جب قلم بنا اور لوح بنی اور فرشتے بنے-  طاہر القادری نے اس وجہ سے اس روایت کامکمل ترجمہ تک اپنی کتاب نور محمدی میں نہیں کیا کیونکہ آگے جو پسینہ کا ذکر ہے وہ کیا ہے اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہو گا

اہل تشیع عالم  ملا باقر مجلسی نے بھی اس کو بحار الأنوار میں بیان کیا ہے – رياض الجنان از فضل الله بن محمود الفارسي میں ہے

في البحار، عن رياض الجنان لفضل الله بن محمود الفارسي: عن جابر بن عبد الله قال: قلت لرسول الله (صلى الله عليه وآله): أول شئ خلق الله تعالى ما هو ؟ فقال: نور نبيك يا جابر، خلقه ثم خلق منه كل خير

فضل الله بن محمود الفارسي نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ میں نے رسول الله (صلى الله عليه وآله) سے پوچھا کہ کیا چیز الله تعالی نے سب سے پہلے خلق کی؟ فرمایا تیرے نبی کا نور اے جابر ! اس نور کو تخلیق کیا اور پھر اس سے ساری اشیاء کو خلق کیا

 اہل سنت میں السيوطيُّ نے الخصائص الكبرى میں  اس طرق کا ذکر کیا ہے –  القسطلاني اور ابن عربي الصوفي نے اپنی کتب میں اس طرق کا ذکر کیا ہے-  برصغیر میں  أحمد رضا بريلوي نے کہا ہے کہ یہ مصنف عبد الرزاق کی روایت تھی –   محدثین میں  العجلوني نے كشف الخفاء  میں بھی ذکر ہے کہ یہ روایت مصنف عبد الرزاق میں تھی لکھا

أول ما خلق اللهُ نورُ نبِيكِ يا جابر – الحديث  رواه عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله بلفظ قال قلت: يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، أخبرني عن أول شئ خلقه الله قبل الأشياء

الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة میں المؤلف: محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ) نے ذکر کیا ہے کہ مصنف عبد الرزاق میں ایک روایت جابر رضی الله عنہ سے مروی تھی جس میں ہے کہ سب سے پہلے نور محمدی کو خلق کیا گیا

وَمِنْهَا: مَا يَذْكُرُونَهُ فِي ذِكْرِ الْمَوْلِدِ النَّبَوِيّ أَن نور مُحَمَّد خُلِقَ مِنْ نُورِ اللَّهِ بِمَعْنَى أَنَّ ذَاتَهُ الْمُقَدَّسَةَ صَارَتْ مَادَّةً لِذَاتِهِ الْمُنَوَّرَةِ وَأَنَّهُ تَعَالَى أَخَذَ قَبْضَة من نوره فخلق من نُورَهُ، وَهَذَا سَفْسَطَةٌ مِنَ الْقَوْلِ، فَإِنَّ ذَاتَ رَبِّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْ أَنْ تَكُونَ مَادَةً لِغَيْرَةٍ وَأَخْذُ قَبْضَةٍ مِنْ نُورِهِ لَيْسَ مَعْنَاهُ أَنَّهُ قُطِعَ مِنْهُ جُزْءٌ فَجَعَلَهُ نُورَ نَبِيِّهِ فَإِنَّهُ مُسْتَلْزِمٌ لِلْتَجَزِي وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يَتْبَعَهُ فِي ذَاتِهِ تَعَالَى اللَّهُ عَنْهُ.
وَالَّذِي أَوْقَعَهُمْ فِي هَذِهِ الْوَرْطَةِ الظَّلْمَاءِ هُوَ ظَاهِرُ رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ فِي مُصَنَّفَةٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ اللَّهُ قَبْلَ الأَشْيَاءِ، فَقَالَ: يَا جَابِرُ! إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ قَبْلَ الأَشْيَاءِ نُورُ نَبِيِّكَ مِنْ نُورِهِ ….. وَقَدْ أخطأوا فِي فَهْمِ الْمُرَادِ النَّبَوِيِّ وَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ الإِضَافَةَ فِي قَوْلِهِ مِنْ نُورِهِ كَالإِضَافَةِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى فِي قِصَّةِ خَلْقِ آدَمَ ونفخت فِيهِ من روحي وَكَقَوْلِهِ تَعَالَى مِنْ قِصَّةِ سَيِّدِنَا عِيسَى وَرَوْحٌ مِنْهُ، وَكَقَوْلِهِمْ بَيْتُ اللَّهِ الْكَعْبَةُ وَالْمَسَاجِدُ وَقَوْلِهِمْ رَوْحُ اللَّهِ لِعِيسَى وَغَيْرِ ذَلِكَ.

اور ان میں ہیں جو ولادت نبوی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ نور محمدی کو نور رب تعالی سے خلق کیا گیا ان معنی میں کہ ذات مقدس سے نور نکلا …رب تبارک و تعالیٰ نے اپنے نور میں سے کچھ نور نکال کر اسے اپنے نبی کا نور بنایا، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے کوئی جزء کاٹ کر علیحدہ کیا اور اس سے اپنے نبی کا نور بنایا، ورنہ اس سے تو اللہ تعالیٰ کا اجزاء میں جانا لازم ہو گا۔۔۔جن قصاص و مذکرین نے عبدالرزاق کی اس روایت کے ظاہر کو اپنایا ہے وہ ورطہ ظلمات کا شکار ہوئے ہیں (پھر حدیث نقل کرتے ہیں) …. ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سمجھنے میں خطا کی ہے۔ وہ لوگ نہیں جانتے کہ اس حدیث میں  (من نوره)  سے اضافت مراد ہے۔ بالکل اس اضافت کی طرح جیسی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اس میں اپنی روح پھونکنے کے قصہ میں بیان کی ہے، یا جیسے اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے قصہ میں  (روح منه)  کہا۔ یا کعبہ و مساجد کو بیت اللہ اور حضرت عیسی علیہ السلام کو (روح الله)  وغیرہ کہا۔
 

حال ہی میں ایک نئی تحقیق بریلووی علماء کی طرف سے کی گی ہے اور دعوی کیا گیا ہے کہ نور محمدی والی روایت مصنف عبد الرزاق میں تھی لیکن طباعت کے دوران یہ جزمفقود ہو گیا  تھا اس کی وجہ سے یہ روایات مطبوعہ نسخے میں سے غائب ہو گئی
https://archive.org/details/MusanafAbdulRazzaqByAbuBakrAbdulRazzaqBinHammam
یہ جز اب پاکستان سے چھپا ہے

اس روایت کی سند اس کتاب کے ص ٦٢ پر ہے  عبد الرزاق عن معمر عن ابن المنکدر عن جابر

یہ سند بظاہر صحیح ہے- البتہ راقم  کے نزدیک یہ روایت  عبد الرزاق کے دور اختلاط کی معلوم ہوتی ہے

قابل غور ہے کہ القسطلاني شارح صحيح البخاري نے المواهب اللدنية میں اس روایت کا ذکر کیا ہے ، أبن عربي الصوفي نے تلقيح الأذهان ومفتاح معرفة الإنسان میں اس کا ذکر کیا ہے – محدثین میں إسماعيل العجلوني نے كشف الخفا اور الأربعين میں إس روایت  كا ذكر كيا ہے – حسين بن محمد بن الحسن الديار بكري نے تاريخ الخميس في أحوال أنفس نفيس میں اس کا ذکر کیا ہے – أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي السعدي الأنصاري، شهاب الدين شيخ الإسلام، أبو العباس (المتوفى: 974هـ) نے فتوی میں اس کا ذکر کیا ہے کہ یہ مصنف عبد الرزاق میں تھی-   محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ)   نے بھی اس کو مصنف عبد الرزاق کی روایت قرار دیا ہے – اس روایت کے مصدر کو بیان کرنے  میں احمد رضا بریلوی  یا ابن عربی یا سیوطی کا تفرد نہیں ہے – اس کو غیر صوفی عجلونی نے بھی ذکر کیا ہے – اب کیا یہ ممکن ہے کہ یہ روایت موجود نہ ہو لیکن اس کا ذکر کیا جاتا ہو وہ بھی متن کے ساتھ ! اگر یہ روایت مصنف عبد الرزاق کی نہیں تھی تو پھر کہاں سے آئی؟ اس کا جواب کون دے گا – کیا ان لوگوں نے اس کو گھڑا ؟ کسی نے اس بنا پر  القسطلاني اور العجلوني کو کذاب قرار نہیں   دیا ہے

نوٹ: احناف بھی اس روایت کو رد کرتے ہیں
إرشاد العاثر لوضع حديث أول ما خلق الله نور نبيك يا جابر از حسن السقاف
مرشد الحائر لبيان وضع حديث جابر از عبد الله بن الصديق الغماري

سیوطی نے اس روایت کا دفاع نہیں کیا ہے بلکہ ان سے سوال ہوا اس روایت پر
وَهَلِ الْوَارِدُ فِي الْحَدِيثِ: أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ نُورَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَزَّأَهُ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ
تو کہا
وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ فِي السُّؤَالِ لَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ،
یہ مذکورہ حدیث جس پر سوال ہے اس کی اسناد پر اعتماد نہیں ہے
الحاوي للفتاوي

دور جدید میں لوگ اس جز مفقود کو غیر ثابت کہہ رہے ہیں- لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ اینے سارے لوگ جن میں بعض خود علم حدیث کے جاننے والے ہیں وہ اس روایت کا ذکر مصنف عبد الرزاق کے حوالے سے کر گئے ہیں – بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ “ممکن” ہے ان سب لوگوں نے حوالے کو مواھب الدنیہ از قسطلانی سے نقل کیا ہو یعنی ان سب نے تحقیق نہیں کی بلکہ مکھی پر مکھی ماری اور مصنف عبد الرزاق کا حوالہ دیتے رہے – یہ قول وہابیوں میں مشہور ہے اس روایت کے جواب کے طور پر
سليمان بن سحمان النجدي (المتوفى: 1349هـ) نے کتاب الصواعق المرسلة الشهابية على الشبه الداحضة الشامية میں لکھا
هذا حديث موضوع مكذوب على رسول الله صلى الله عليه وسلم مخالف لصريح الكتاب والسنة، وهذا الحديث لا يوجد في شيء من الكتب المعتمدة
یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے رسول الله پر جھوٹ ہے کتاب و سنت کی مخالف ہے اور کتب معتمد میں نہیں ہے

یعنی ٧٨ سال پہلے اس کو گھڑی ہوئی کہا جاتا تھا – اس وقت کسی نے اس مصنف عبد الرزاق جز مفقود کا ذکر نہیں کیا کہ اس کی سند ثابت نہیں ہے

راقم کا  نقطہ نظر ہے کہ ممکن ہے کہ  یہ روایت عبد الرزاق نے روایت کی لیکن یہ ان کے دور اختلاط کی ہے

تقریب التہذیب از ابن حجر میں ہے

عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع من التاسعة مات سنة إحدى عشرة وله خمس وثمانون

عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري .. ثقہ حافظ تھے مصنف   ہیں … آخری عمر میں تغیر کا شکار تھے اور ان میں تشیع تھی

محدث  ابن صلاح کا قول ہے عبد الرزاق ابن همام  مختلط تھے – اس پر  حافظ عراقی نے لکھا ہے
لم يذكر المصنف أحدا ممن سمع من عبد الرزاق بعد تغيره إلا إسحق بن إبراهيم الدبرى فقط وممن سمع منه بعد ما عمى أحمد بن محمد بن شبوية قاله أحمد بن حنبل وسمع منه أيضا بعد التغير محمد بن حماد الطهرانى والظاهر أن الذين سمع منهم الطبرانى فى رحلته إلى صنعاء من أصحاب عبد الرزاق كلهم سمع منه بعد التغير وهم أربعة أحدهم الدبرى الذى ذكره المصنف وكان سماعه من عبد الرزاق سنة عشر ومائتين

مصنف ( ابن الصلاح) نے ذکر نہیں کیا کہ عبد الرزاق سے کس نے تغیر کے بعد سنا صرف اسحاق بن ابراہیم کے اور جس نے سنا ان کے نابینا ہونے کے بعد ان میں ہیں احمد بن محمد یہ امام احمد نے کہا اور ان سے اس حالت میں سنا محمد بن حماد نے اور ان سے سنا طبرانی نے جب صنعاء کا سفر کیا – ان سب نے بعد میں سنا اور یہ چار ہوئے جن میں الدبری ایک ہیں ان سب نے ١٢٠  ھ میں سنا

  عالم اختلاط میں   عبد الرزاق  نے معمر عن ابن المنکدر کی سند سے بھی روایات بیان کی ہیں اور غیر عالم اختلاط میں بھی کی ہیں   مثلا

شعب الإيمان از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، قَالَ: أَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّنْعَانِيُّ، قَالَ: نَا إِسْحَاقُ الدَّبَرِيُّ، قَالَ: نَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: ” ثَلَاثَةٌ هُنَّ فَوَاقِدُ: جَارُ سَوْءٍ فِي دَارِ مَقَامِهِ، وَزَوْجَةُ سَوْءٍ إِنْ دَخَلْتَ عَلَيْهَا آذَتْكَ، وَإِنْ غِبْتَ عَنْهَا لَمْ تَأْمَنْهَا، وَسُلْطَانٌ إِنْ أَحْسَنْتَ لَمْ يَقْبَلْ مِنْكَ وَإِنْ أَسَأْتَ لَمْ يُقِلْكَ “

سنن الکبری بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّغَانِيُّ , ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أنبأ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ” إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الْفَيْءِ فَقَلَصَ عَنْهُ , فَلْيَقُمْ؛ فَإِنَّهُ مَجْلِسُ الشَّيْطَانِ “

سوالات ابن هاني؛ 228/5 کے مطابق احمد نے  عبد الرزاق کے حوالے سے کہا
لا يعبأ بحديث من سمع منه وقد ذهب بصره، كان يلقن أحاديث باطلة
جس نے عبد الرزاق  کے نابینا ہونے کے بعد اس سے احادیث سنی ہیں، ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ وہ باطل حدیثوں کی تلقین قبول کر لیتے  تھے۔

نور محمد کا عقیدہ اہل تشیع کا عقیدہ ہے –  اور  عبد الرزاق کو شیعہ بھی کہا گیا ہے

تقریب التہذیب از ابن حجر میں یہ الفاظ ہیں

عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع من التاسعة مات سنة إحدى عشرة وله خمس وثمانون

اس میں عبد الرزاق کو شیعہ لکھا گیا ہے

قال الذهبي: عبد الرزاق بن همام ابن نافع، الحافظ الكبير، عالم اليمن، أبو بكر الحميري الصنعاني الثقة الشيعي
امام الذھبی نے ان کو شیعی کہا ہے

رجال الطوسي جو شیعوں کی کتاب ہے اس میں عبد الرزاق کا شمار شیعوں میں کیا گیا ہے
اور امام جعفر کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے

کتاب نقد الرجال از السيد مصطفى بن الحسين الحسيني التفرشي کے مطابق
عبد الرزاق بن همام اليماني: من أصحاب الباقر والصادق عليهما السلام، رجال الشيخ

امام احمد نے کہا
العلل ومعرفة الرجال: 2 / 59 الرقم 1545
قال عبد الله بن أحمد بن حنبل: سألت أبي، قلت له: عبد الرزاق كان يتشيع ويفرط في التشيع ؟ فقال: أما أنا فلم أسمع منه في هذا شيئا، ولكن كان رجلا تعجبه أخبار الناس – أو الأخبار
عبد الله نے احمد سے سوال کیا : کیا شیعہ تھے اور مفرط تھے ؟ احمد نے کہا جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے ان سے ایسا کچھ نہیں سنا لیکن یہ ایک آدمی تھے جن کی خبروں پر لوگوں کو تعجب ہوتا

ابن عدی نے کہا
وقد روى أحاديث في الفضائل مما لا يوافقه عليها أحد من الثقات
یہ فضائل علی میں وہ روایت کرتے جن کی ثقات موافقت نہیں کرتے

یعنی اہل تشیع کے پاس یہ شیعہ تھے اور امام جعفر سے اور امام صادق سے روایت کرتے تھے

 جامع الترمذي ،  أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (بَابٌ فِي فَضْلِ النَّبِيِّ ﷺ​) جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں  باب: نبی صلی الله علیہ وسلم  کی فضیلت کا بیان حدیث ٣٦٠٩ ہے​

حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِي الْبَاب عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ
 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا:’ جب آدم روح اورجسم کے درمیان تھے

 امام ترمذی کہتے ہیں:   ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں  اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔

  مسند احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: ” وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ
عبد الله بن أبي الجذعاء مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ رضی الله عنہ  نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا اپ کب نبی ہوئے؟ فرمایا جب آدم جسد و روح کے درمیان تھے

اس کو شعیب نے صحیح کہا ہے- یہ روایت قابل غور ہے اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ آدم علیہ السلام اس وقت نبی نہیں تھے کیونکہ تخیلق سے پہلے تقدیر لکھی گئی اس میں تمام انبیاء جو صلب آدم سے ہیں ان کو نبی مقرر کیا گیا ان کی ارواح کو خلق کیا گیا اور آدم جب جسد و روح کے درمیان تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقدر لکھا گیا کہ یہ آخری نبی ہوں گے

طحاوی مشکل الاثار میں کہتے ہیں
وَأَمَّا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ “، فَإِنَّهُ، وَإِنْ كَانَ حِينَئِذٍ نَبِيًّا، فَقَدْ كَانَ اللهُ تَعَالَى كَتَبَهُ فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ نَبِيًّا
اس حدیث میں ہے کہ وہ اس وقت نبی تھے   پس الله نے ان کا نبی ہونا لوح محفوط میں لکھا- یعنی بنی آدم کی تقدیر لکھی گئی جب آدم علیہ السلام  جسد اور روح کے درمیان کی حالت میں تھے

 مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَلْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى بْنِ هِلَالٍ السُّلَمِيِّ، عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنِّي عَبْدُ اللهِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمُنْجَدِلٌ   فِي طِينَتِهِ

عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میں الله کا غلام  ، نبیوں پر مہر ہوا اور ہے شک آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے

اس کی سند میں سعيد ابن سويد الكلبي ہے اور امام بخاري کہتے ہیں : لم يصح حديثه اس کی حدیث صحیح نہیں

اور ابن حجر نے کتاب تعجيل المنفعة بزوائد رجال الأئمة الأربعة میں اس کا ذکر کیا

قال البُخَارِيّ لم يَصح حَدِيثه يَعْنِي الَّذِي رَوَاهُ مُعَاوِيَة عَنهُ مَرْفُوعا إِنِّي عبد الله وَخَاتم النَّبِيين فِي أم الْكتاب وآدَم منجدل فِي طينته

امام بخاري کہتے ہیں اس کی حدیث صحیح نہیں یعنی حدیث جو مُعَاوِيَةُ بْنَ صَالِحٍ  نے سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَلْبِيِّ سے  موفوع روایت کیا ہے کہ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میں الله کا غلام  ، نبیوں پر مہر ہوا اور ہے شک آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے

کتاب الموضوعات  از ابن جوزی میں ہے

وَقد رَوَى جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ بَيَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ الطَّائِيِّ عَنْ أَبِيهِ سُفْيَانَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْد عَن الْوَلِيد بن عبد الرحمن عَنْ نُمَيْرٍ الْحَضَرِيِّ عَنْ أَبِي ذَر قَالَ قَالَ رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” خُلِقْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ مِنْ نُورٍ وَكُنَّا عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ آدَمَ بِأَلْفَيْ عَامٍ ثُمَّ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ فَانْقَلَبْنَا فِي أقلاب الرِّجَالِ ثُمَّ جَلَلْنَا فِي صُلْبِ عبد المطلب، ثُمَّ شَقَّ اسْمَانَا مِنِ اسْمِهِ فَاللَّهُ مَحْمُودٌ وَأَنَا مُحَمَّدٌ، وَاللَّهُ الاعلى وعَلى عليا “.

هَذَا وَضعه جَعْفَر بن أَحْمَدَ وَكَانَ رَافِضِيًّا يضع الحَدِيث.

أَبِي ذَر نے کہا رسول الله نے فرمایا میں اور علی کو نور سے خلق کیا گیا اور ہم تخلیق آدم سے ہزار سال پہلے سے  عرش کے دائیں طرف  تھے  پھر الله تعالی نے آدم کو خلق کیا پھر ہم کو رجال کے دلوں میں سے گزارا پھر صلب عبد المطلب میں رکھا پھر ہمارے ناموں کو الله کے نام کے ساتھ شق کیا گیا کہ میں محمد ہوں  اور الله محمود ہے اور الله الاعلى ہے اور علی علیا ہے

ابن جوزی نے کہا اس کو رافضی جَعْفَر بن أَحْمَدَ (بن علي بن بيان المتوفی ٣٠٤ ھ )  نے گھڑا ہے

فضائل الصحابة از أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) کی روایت ہے
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قثنا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ قثنا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ قثنا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ حَبِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «كُنَّا أَنَا وَعَلِيٌّ نُورًا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَامٍ، فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ قَسَمَ ذَلِكَ النُّورَ جُزْءَيْنِ، فَجُزْءٌ أَنَا، وَجُزْءٌ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ»
سلمان نے روایت کیا کہ میں نے اپنے حبیب رسول الله سے سنا کہ میں اور علی الله تعالی کے سآمنے ١٤٠٠٠ سال تک ایک نور کی طرح تھے قبل اس کے کہ آدم خلق ہوتے پس جب الله نے آدم کو خلق کیا اس نور کو تقسیم کیا ایک جز سے میں بنا ایک سے علی

اس کی سند میں الحسن بن على ہے- تاریخ دمشق میں اس کی سند ہے
أخيرنا أبو غالب بن البنا أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو علي محمد بن أحمد بن يحيى العطشي نا أبو سعيد العدوي الحسن بن علي أنا أحمد بن المقدام العجلي أبو الأشعث (2) أنا الفضيل بن عياض عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن زاذان عن سلمان قال سمعت حبي رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول كنت أنا وعلي نورا بين يدي الله مطيعا يسبح الله ذلك النور ويقدسه قبل أن يخلق ادم بأربعة عشر ألف عام فلما خلق الله ادم ركز ذلك النور في صلبه فلم نزل (3) في شئ واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب فجزء أنا وجزء علي

اس سند سے معلوم ہوتا ہے کہ سند میں أبو سعيد العدوي الحسن بن علي ہے جو اصل میں
أبو سعيد العدوي الحسن بن على بن زكريا بن صالح ، اللؤلؤى، البَصْري، الذئب ہے اور متروک ہے – یہ روایت أبو بكر بن مالك القطيعي کا اضافہ ہے کیونکہ أبو سعيد العدوي الحسن بن على کی پیدائش ٢١٠ ہجری کی ہے اور امام احمد کی وفات  کے وقت یہ بچہ ہو گا

شیعوں کی کتاب الخصال از صدوق أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى
المتوفى 381 ھ ، منشورات  جماعة المدرسين في الحوزة العلمية قم المقدسة میں روایت ہے

روى الصدوق في الخصال: 481 ـ 482؛ وفي معاني الأخبار: 306 ـ 308، حدثنا أحمد بن محمد بن عبد الرحمن بن عبد الله بن الحسين بن إبراهيم
ابن يحيى بن عجلان المروزي المقرئ قال : حدثنا أبوبكر محمد بن إبراهيم الجرجاني
قال : حدثنا أبوبكر عبد الصمد بن يحيى الواسطي قال : حدثنا الحسن بن علي المدني، عن عبد الله بن المبارك، عن سفيان الثوري، عن جعفر بن محمد الصادق، عن أبيه، عن جدّه، عن عليّ بن أبي طالب(عم) قال: «إنّ الله تبارك وتعالى خلق نور محمد(ص) قبل أن خلق السماوات والأرض والعرش والكرسيّ واللوح والقلم والجنّة والنار، وقبل أن خلق آدم ونوحاً…، ثمّ أظهر عزَّ وجلَّ اسمَه على اللوح، وكان على اللوح منوِّراً أربعة آلاف سنة، ثم أظهره على العرش، فكان على ساق العرش مثبَتاً سبعة آلاف سنة، إلى أن وضعه اللهُ عزَّ وجلَّ في صلب آدم…».

اس کتاب کے محقق على اكبر الغفارى کا کہنا ہے کہ سند میں مجہولین ہیں

 على بن الحسن بن شقيق أبو عبد الرحمن المروزى ، وجميع رجال السند إلى هنا مجهول ولم أظفر بهم

بھر حال شیعہ آجکل اس کا رد کر رہے ہیں کہ نور محمد کو سب سے پہلے خلق کیا گیا

http://hobbollah.com/motabeat/قراءةٌ-في-العدد-المزدوج-40ـ41-من-مجلة-الاج/?download_file=true&type_download=word

عرض عمل نہیں ہوتا سلف کا قول

 امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) سے طلاق کے حوالے سے سوال کیا گیا جو  ان کے فتووں میں موجود ہے جس کو  فَتَّاوَى الإِمامِ النَّوَوَيِ  یا المَسَائِل المنْثورَةِ  کہا جاتا

مسألة: رجل حلف “بالله” أو بالطلاق، أن ابن صياد هو الدجال، وأن النبي – صلى الله عليه وسلم – يسمع الصلاة عليه، من غير مبلغ هل يحنث

الجواب: لا يحكم بالحنث للشك في ذلك والورع أن يلزم الحنث.

مسئلہ : ایک شخص نے الله کی قسم کھائی یا (بیوی کو) طلاق کی قسم لی کہ ابن صیاد ہی الدجال ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم  اپنے اپ پر درود سنتے ہیں ، (ان کو) پہنچتا نہیں ہے ، تو کیا قسم ٹوٹ گئی؟

جواب: اس قسم کا حکم ٹوٹنے کا نہیں ہے  کیونکہ اس میں شک ہے اور احتیاطا    لازم ہے کہ قسم ٹوٹ جائے گی

قریب ٣٠٠ سال بعد امام شمس محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902 هـ) سے امام النووی کے اس فتوے پر سوال ہوا جس کا ذکر الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية  میں ہے

 مسألة ما قولكم في قول صاحب العلم المنشور في فضل الأيام والشهور: أولعت فسقة القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، ثم أبطل ما احتجوا به وفي حديث: “ما من أحد يسلم علي … ” إلى آخره وهل تعم الصلاة أم لا؟ وهل هو في الحاضر عند الحرجة الشريفة أو يعم وإن بعدت المسافة أم لا؟ وقول بعض الخطباء في الثانية: فإنه في هذا اليوم يسمع بأذنيه صلاة من يصلي عليه، ومعنى “لتعرض”في حديث أنس “وتبلغني” في غيره، وهل هذا الكتاب مشهور، أو عليه العمل أم لا؟

وفي مسألة في فتاوى النووي، وهي: رجل حلف بالطلاق الثلاث، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة عليه وفي الجواب لا يحكم بالحنث للشك في ذلك والورع أن يلتزم الحنث بينوا لنا ذلك مبسوطًا؟

نعم، قد جاء أنه صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة والسلام ممن يصلي ويسلم عليه عند قبره الشريف خاصة. ومن كان بعيدًا عنه يبلغه، ومما ورد في ذلك ما رواه أبو الشيخ الحافظ في كتاب “الثواب” له بسند جيد كما قال شيخنا …. وإذا تقرر هذا، فما نقله السائل عن صاحب “العلم المنشور في فضل الأيام والشهور” أنه قال: أولعت فسقه القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، فيشبه أن يكون إنكارًا منه لمن يقول بسماعه له بلاد واسطة عن بعد، وإذا كان كذلك فهو إنكار صحيح، وأما مطلقًا بحيث يتناول القريب فلا، والعلم المنشور وإن كان مشهورًا ففي مصنفع وهو الإمام أبو الخطاب ابن دحية مع كونه موصوًا بالمعرفة، وسعة العلم مقال وفي وإذا تقرر هذا، فما نقله السائل عن صاحب “العلم المنشور في فضل الأيام والشهور” أنه قال: أولعت فسقه القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، فيشبه أن يكون إنكارًا منه لمن يقول بسماعه له بلاد واسطة عن بعد، وإذا كان كذلك فهو إنكار صحيح، وأما مطلقًا بحيث يتناول القريب فلا، والعلم المنشور وإن كان مشهورًا ففي مصنفع وهو الإمام أبو الخطاب ابن دحية مع كونه موصوًا بالمعرفة، وسعة العلم مقال وفي تواليفه أشياء تنقم عليه من تصحيح وتضعيف عفا الله عنا وعنه….. والفرع المنقول عن فتاوي النووي رحمه الله في عدم الحكم باحلنث فيمن حلف بالطلاق الثلاث أنه صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة عليك للشك في ذلك صحيح، ولكن الورع كما قال: أن يلتزم الحنث. وقد صرح النووي في مقدمه شرح مسلم أنه لو حلف في غير أحاديث الصحيحين بالطلاق أنها من قول النبي صلى الله عليه وسلم أنا لا نحنثه، لكن تستحب له الرجعة احتياطًا لاحتمال الحنث وهو احتمال ظاهر، فهذا يوافق ما في الفتاوي بخلاف ما لو حلف في أحاديث الصحيحين، لأن احتمال الحنث فيهما هو في غاية من الضعف، ولذلك لا يستحب له المراجعة، لضعف احتمال موجبها، والهل الموفق.

مسئلہ:  کیا کہنا ہے اپ  کا ایک صاحب کتاب  العلم المنشور في فضل الأيام والشهور  دنوں اور مہینوں کی افضلیت کے حوالے سے قول پر : قصہ گوؤں نے بکواس کی کہ اپ صلی الله علیہ وسلم  سننتے ہیں جب درود ان پر پڑھا جاتا ہے پھر اس  کی دلیل کو رد کیا اور  حدیث میں ہے کوئی نہیں جو مجھ پر  سلام  کہے  (اور الله میری روح کو نہ لوٹا دے ) آخر تک تو کیا اپ نبی علیہ السلام پر (درود) ہمیشہ (پیش) ہوتا ہے یا نہیں ؟ اور کیا وہ اپنے حجرہ شریفہ میں حاضر ہیں وہاں ہوتے ہیں اور اگر (درود پڑھنے والے میں اور  حجرہ شریفہ میں بھی) مسافت   دور ہو  ؟ اور بعض خطیبوں کا  دوسرے قول پر کہنا کہ یہی دن ہے کہ اپ صلی الله علیہ وسلم  درود اپنے  کانوں سے سنتے ہیں جو ان پر درود کہے اور حدیث میں عرض (درود ) کا کیا مطلب ہے اور حدیث انس میں تبلغني (پہنچتا  ہے ) کا کیا مفہوم ہے ؟ اور کیا یہ کتاب مشہور ہے اس پر عمل ہے یا نہیں؟

اسی طرح فتاوی نووی میں ہے ایک شخص نے الله کی قسم کھائی یا (بیوی کو) طلاق کی قسم لی کہ ابن صیاد ہی الدجال ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم  اپنے اپ پر درود سنتے ہیں ، (ان کو) پہنچتا نہیں ہے ، تو کیا قسم ٹوٹ گئی؟ نووی نے کہا  اس قسم کا حکم ٹوٹنے کا نہیں ہے  کیونکہ اس میں شک ہے اور احتیاطا    لازم ہے کہ قسم ٹوٹ جائے گی  تو اس حوالے سے ہمارے لئے تفصیل سے وضاحت کر دیں

 سخاوی نے جواب دیا: ہاں یہ آیا ہے کہ اپ صلى الله عليه وسلم بے شک درود و سلام سنتے ہیں جب کوئی نبی صلى الله عليه وسلم پر درود و سلام قبر شریف پر  خاص کہے  اور جو دور ہے اس کا پہنچتا ہے اور اس حوالے سے کتاب الثواب از ابو الشیخ میں حدیث اتی ہے سند جید کے ساتھ جیسا ہمارے شیخ  (ابن حجر ) کا کہنا ہے ….. تو اس سب کے اقرار کے بعد جو سائل نے کتاب العلم المنشور في فضل الأيام والشهور کے حوالے سے سوال کیا ہے قصہ گوؤں نے بکواس کی کہ  رسول الله صلى الله عليه وسلم اپنے اوپر  پڑھے جانے والا درود  سنتے ہیں  تو اس پر شبہ ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ انکار کر رہے ہیں جو یہ بلا واسطہ سننے کا کہے اور اگر ایسا ہے تو یہ انکار صحیح ہے اور اگر وہ مطلقا انکار کر رہے ہیں کہ قریب کو بھی ملا رہے ہیں تو ایسا نہیں ہے اور یہ کتاب العلم المنشور جو مشہور ہے یہ تصنیف ہے امام أبو الخطاب ابن دحية (أبو الخطاب عمر بن الحسن بن علي   الكلبي المتوفی ٦٣٣ ھ) کی جو موصوف ہیں معرفت و وسعت علم سے اور ان کی توالیف میں چیزیں ہیں جن میں صحیح و ضعیف ہے الله کی مغفرت کرے … اور جو امام نووی سے منقول ہے کہ تین طلاق کی قسم نہ ٹوٹے گی کہ اگر شک ہو کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں یا نہیں تو یہ صحیح ہے لیکن احتیاط یہ ہے جیسا کہ نووی نے کہا کہ یہ ٹوٹ جائے گی اور نووی نے مقدمہ صحیح مسلم میں صراحت کی ہے کہ کہ اگر صحیین سے باہر کی احادیث پر  قسم لی کہ یہ قول نبی نہیں ہیں تو قسم نہ ٹوٹے گی لیکن مستحب ہے کہ کہ احتیاط ہے کہ یہ ٹوٹ جائے گی جو ظاہر احتمال ہے تو یہ موافق ہے اس فتوی سے کہ اگر صحیحین کی احادیث ہوں تو قسم ٹوٹ جائے گی کیونکہ وہ ضعیف ہو سکتی ہیں

اس بحث سے معلوم ہوا کہ

أبو الخطاب عمر بن الحسن بن علي  الأندلسي السبتي  الكلبي المتوفی ٦٣٣ ھ   نے اپنی کتابوں میں نبی صلی الله علیہ وسلم پر عرض عمل یا درود پیش ہونے کو رد کیا تھا

امام النووی کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات میں شک موجود تھا

لیکن افسوس متاخرین نے ان اقوال کو رد کر دیا اور واپس انہی احادیث کو صحیح کہہ دیا جن میں عرض عمل کا شرکیہ عقیدہ موجود تھا

اہل بیت کی خفیہ تحریریں

کیا قرن اول میں شیعأن علي کوئی خفیہ سوسائٹی تھی؟ جس کے گرینڈ ماسٹر علی رضی الله عنہ تھے ؟ راقم إس قول کو رد کرتا ہے لیکن قابل غور ہے کہ علی کے حوالے سے اس خفیہ علم کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو بقول اہل تصوف اور اہل تشیع صرف خواص کے لئے تھا عوام کے لئے نہ تھا- اہل تشیع کے بعض جہلاء کی جانب سے یہ پروپیگنڈا بھی سننے کو ملتا رہتا ہے کہ علی رضی الله عنہ کے پاس کوئی خفیہ قرآن تھا جس کو وہ چھپا کر رکھتے تھے اور کہتے تھے اس کو قیامت تک کوئی نہ دیکھ سکے گا – کہا جاتا ہے اس وقت یہ قرآن سر من رأى – سامراء العراق میں کسی غار
میں امام المھدی کے پاس ہے جو وقت انے پر ظاہر کیا جائے گا – اس خفیہ قرآن کی خبر اہل سنت کی کتب میں بھی در کر آئی ہیں جس کا ذکر امام الحاکم کرتے ہیں

مستدرک حاکم ميں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُصْلِحٍ الْفَقِيهُ بِالرِّي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ السَّعْدِيُّ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، رَضِيَ
اللَّهُ عَنْه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللهِ، وَأَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
زيد بن ارقم رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ميں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں کتاب الله  اور ميرے اہل بيت اور يہ دونوں جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ يہ ميرے حوض پر مجھ سے مليں گے
امام حاکم کہتے ہيں کہ يہ حديث صحيح الاسناد ہے بخاري و مسلم کي شرط پر ہے

سند ميں الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ نامعلوم و مجہول ہے

مستدرک حاکم کي ایک اور روايت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَفِيدُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ طَلْحَةَ الْقَنَّادُ، الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي ثَابِتٍ، مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجَمَلِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ عَائِشَةَ وَاقِفَةً دَخَلَنِي بَعْضُ مَا يَدْخُلُ النَّاسَ، فَكَشَفَ اللَّهُ عَنِّي ذَلِكَ عِنْدَ صَلَاةِ الظُّهْرِ، فَقَاتَلْتُ مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا فَرَغَ ذَهَبْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَأَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ فَقُلْتُ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا جِئْتُ أَسْأَلُ طَعَامًا وَلَا شَرَابًا وَلَكِنِّي مَوْلًى لِأَبِي ذَرٍّ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا فَقَصَصْتُ عَلَيْهَا قِصَّتِي، فَقَالَتْ: أَيْنَ كُنْتَ حِينَ طَارَتِ الْقُلُوبُ مَطَائِرَهَا؟ قُلْتُ: إِلَى حَيْثُ كَشَفَ اللَّهُ ذَلِكَ عَنِّي عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ، قَالَ:
أَحْسَنْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَأَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ هُوَ عُقَيْصَاءُ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

ابو ثابت مولي ابو ذر نے کہا ميں جمل ميں علي کے ساتھ تھا ليکن جب ميں نے عائشہ کو ديکھا اور ان کو پہچان گيا …. پس الله نے ميرا دل نماز ظہر پر کھول ديا اور ميں نے علي کے ساتھ قتال کيا پس جب فارغ ہوا ميں مدينہ ام سلمہ کے پاس پہنچا انہوں نے مرحبا کہا اور ميں نے قصہ ذکر کيا … ميں نے تذکرہ کيا کہ الله نے مجھ پر زوال کے وقت (حق کو) کشف کيا – پس ام سلمہ نے کہا اچھا کيا ميں نے رسول الله سے سنا ہے کہ علي قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علي کے ساتھ ہے يہ الگ نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض پر مليں گے
امام حاکم نے کہا يہ حديث صحيح الاسناد ہے

سند ميں علي بن هاشم بن البريد ہے جس کو شيعي غال کہا گيا ہے

الکامل از ابن عدي ميں ہے
وَعلي بْن هاشم هُوَ من الشيعة المعروفين بالكوفة ويروي فِي فضائل علي أشياء لا يرويها غيره بأسانيد مختلفة وقد حدث عنه جماعة من الأئمة، وَهو إن شاء الله صدوق في روايته
علي بْن هاشم کوفہ کے معروف شيعوں ميں سے ہے جو فضائل علي ميں وہ چيزيں روايت کرتا ہے جو کوئي اور نہيں کرتا مختلف اسناد سے اور اس سے ائمہ کي جماعت نے روايت کيا ہے اور يہ
صدوق ہے

ابن حبان نے کہا
كان غاليا في التشيع وروى المناكير عن المشاهير
يہ غالي شيعہ ہے

سؤالات الحاكم ” للدارقطني: هاشم بن البريد ثقة مأمون وابنه علي كذاب
دارقطني کہتے ہيں علي بن هاشم بن البريد کذاب ہے

یہ روایات غالی شیعوں کی بیان کردہ ہیں لیکن امام حاکم نے اپنی حالت اختلاط میں منکر و موضوع روایات تک کو صحیح قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے مستدرک عجیب و غریب روایات کا
مجموعہ بن گئی اور اہل سنت میں شیعیت کو فروغ ملا –

اب ہم اہل تشیع کے معتبر ذرائع کو دیکھتے ہیں کہ علی کے پاس کیا کیا علوم تھے – الکافي از کليني باب النوادر کي حديث 23 ہے

محمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، عن عبدالرحمن بن أبي هاشم، عن سالم بن سلمة قال: قرأ رجل على أبي عبدالله عليه السلام وأنا أستمع حروفا من القرآن ليس على ما يقرؤها الناس، فقال أبوعبدالله عليه السلام: كف عن هذه القراء ة اقرأ كما يقرأ الناس حتى يقوم القائم فإذا قام القائم عليه السلام قرأ كتاب الله عزو جل على حده وأخرج المصحف الذي كتبه علي عليه السلام وقال: أخرجه علي عليه السلام إلى الناس حين فرغ منه وكتبه فقال لهم: هذا كتاب الله عزوجل كما أنزله [الله] على محمد صلى الله عليه وآله وقد جمعته من اللوحين فقالوا: هو ذا عندنا مصحف جامع فيه القرآن لا حاجة لنا فيه، فقال أما والله ما ترونه بعد يومكم هذا أبدا، إنما كان علي أن اخبركم حين جمعته لتقرؤوه.

سالم بن سلمة نے کہا امام ابو عبد الله کے سامنے کسي شخص نے قرات کي اور ميں سن رہا تھا قرآن کے وہ حروف تھے جو لوگ قرات نہيں کرتے پس امام ابو عبد الله نے فرمايا اس قرات سے رک جاو ايسا ہي پڑھو جيسا لوگ پڑھتے ہيں يہاں تک کہ القائم کھڑے ہوں گے تو کتاب الله کي قرات اس کي حد تک کريں گے اور وہ مصحف نکاليں گے جو علي نے لکھا تھا اور کہا جب علي نے مصحف لکھ کر مکمل کيا اس سے فارغ ہوئے اس کو لوگوں کے پاس لائے اور کہا يہ کتاب الله ہے جو اس نے محمد پر نازل کي اور اس کو انہوں نے الواح ميں جمع کيا تو لوگوں نے کہا وہ جو مصحف ہمارے پاس ہے وہ جامع ہے ہميں اس کي ضرورت نہيں پس علي نے کہا الله کي قسم آج کے بعد اس کو کبھي نہ ديکھو گے يہ ميرے پاس تھا اب جب تم جمع کر رہے ہو تو ميں نے خبر دي کہ اس کو پڑھو

اس روايت کا راوي سالم شيعہ محققين کے نزديک مجہول ہے – الخوئي کتاب معجم رجال الحديث ميں کہتے ہيں

سالم بن سلمة :
روى عن أبي عبدالله عليه السلام ، وروى عنه عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 23 .
ـ 22 ـ
أقول كذا في الوافي والطبعة المعربة من الكافي ايضا ولكن في الطبعة
القديمة والمرآة : سليم بن سلمة ، ولا يبعد وقوع التحريف في الكل والصحيح
سالم أبوسلمة بقرينة الراوي والمروي عنه .

سالم بن سلمة يہ ابو عبد الله سے روايت کرتا ہے اور اس سے عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 22 اور 23 ميں

ميں کہتا ہوں ايسا ہي الوافي ميں اور الکافي کي الطبعة المعربة ميں ہے ليکن جو قديم طباعت ہے اس ميں ہے سليم بن سلمة اور يہ بعيد نہيں کہ يہ تحريف ہو الکل ميں اور صحيح ہے کہ سالم ابو سلمہ ہے راوي اور مروي عنہ کے قرينہ سے

الخوئي نے اس راوي کو سالم بن سلمة، أبو خديجة الرواجنى سے الگ کيا ہے جو طوسي کے نزديک ثقہ ہے ليکن الخوئي کے نزديک مجہول ہے

معلوم ہوا کہ تحريف قرآن سے متعلق يہ روايت ہي ضعيف ہے

سالم بن سلمة نام کے شخص کي يہ الکافي ميں واحد روايت ہے جس کا ترجمہ ہي کتب رجال شيعہ ميں نہيں ہے

الکافي کي روايت ہے

محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن عبدالله بن فرقد والمعلى بن خنيس قالا: كنا عند أبي عبدالله عليه السلام ومعنا ربيعة الرأي فذكرنا فضل القرآن فقال أبوعبدالله عليه السلام: إن كان ابن مسعود لا يقرأ على قراء تنا فهو ضال، فقال ربيعة: ضال؟ فقال: نعم ضال، ثم قال أبوعبدالله عليه السلام: أما نحن فنقرأ على قراء ة أبي
ابو عبد الله نے کہا ان کے ساتھ (امام مالک کے استاد اہل سنت کے امام ) ربيعة الرأي تھے پس قرآن کي فضيلت کا ذکر ہوا تو ابو عبد الله نے کہا اگر ابن مسعود نے بھي وہ قرات نہيں کي جو ہم نے کي تو وہ گمراہ ہيں – ربيعة الرأي نے کہا گمراہ ؟ امام نے کہا جہاں تک ہم ہيں تو ہم ابي بن کعب کي قرات کرتے ہيں

حاشيہ ميں محقق کہتے ہيں
يدل على أن قراء ة ابى بن كعب أصح القراء ات عندهم عليهم السلام
يہ دليل ہوئي کہ ابي بن کعب کي قرات امام ابو عبد الله کے نزديک سب سے صحيح قرات تھي

اس کي سند ميں معلى بن خنيس ہے نجاشي نے اس کا ذکر کيا ہے
قال النجاشي : ” معلى بن خنيس ، أبوعبدالله : مولى ( الصادق ) جعفر بن
محمد عليه السلام ، ومن قبله كان مولى بني أسد ، كوفي ، بزاز ، ضعيف جدا ،
لا يعول عليه ، له كتاب يرويه جماعة

دوسرا شخص عبدالله بن فرقد ہے اس پر بھي شيعہ کتب رجال ميں کوئي معلومات نہيں ہيں

کتاب الکافی میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عبدالله بن الحجال، عن أحمد بن عمر الحلبي، عن أبي بصير قال: دخلت على أبي عبدالله عليه السلام فقلت له: جعلت فداك إني أسألك عن مسألة، ههنا أحد يسمع كلامي(1)؟ قال: فرفع أبوعبد عليه السلام سترا بينه وبين بيت آخر فأطلع فيه ثم قال: يا أبا محمد سل عما بدا لك، قال: قلت: جعلت فداك إن شيعتك يتحدثون أن رسول الله صلى الله عليه وآله علم عليا عليه السلام بابا يفتح له منه ألف باب؟ قال: فقال: يا أبا محمد علم رسول الله صلى الله عليه وآله عليا عليه السلام ألف باب يفتح من كل باب ألف باب قال: قلت: هذا والله العلم قال: فنكت ساعة في الارض ثم قال: إنه
لعلم وما هو بذاك.قال: ثم قال: يا أبا محمد وإن عندنا الجامعة وما يدريهم ما الجامعة؟ قال: قلت: جعلت فداك وما الجامعة؟ قال: صحيفة طولها سبعون ذراعا بذراع رسول الله صلى الله عليه وآله وإملائه(2) من فلق فيه وخط علي
بيمينه، فيها كل حلال وحرام وكل شئ يحتاج الناس إليه حتى الارش في الخدش وضرب بيده إلي فقال: تأذن لي(3) يا أبا محمد؟ قال: قلت: جعلت فداك إنما أنا لك فاصنع ما شئت، قال: فغمزني بيده وقال: حتى
أرش هذا – كأنه مغضب – قال: قلت: هذا والله العلم(4) قال إنه لعلم وليس بذاك.
ثم سكت ساعة، ثم قال: وإن عندنا الجفر وما يدريهم ما الجفر؟ قال قلت: وما الجفر؟ قال: وعاء من أدم فيه علم النبيين والوصيين، وعلم العلماء الذين مضوا من بني إسرائيل، قال قلت: إن هذا هو العلم، قال: إنه
لعلم وليس بذاك.ثم سكت ساعة ثم قال: وإن عندنا لمصحف فاطمة عليها السلام وما يدريهم ما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: قلت: وما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: مصحف فيه مثل قرآنكم هذا ثلاث مرات، والله ما فيه
من قرآنكم حرف واحد، قال: قلت: هذا والله العلم قال: إنه لعلم وما هو بذاك.

ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عر ض کی : میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیا یہا ں کوئی اور شخص تو موجود نہیں ہے جو میری بات سن رہا ہو ؟ امام جعفر صادق نے اپنے کمرے اور دوسرے کمرے میں پڑے ہو ئے پر دہ کو اٹھا کر دیکھا اور پھر فرمایا ابو محمد تمہیں جو کچھ پو چھنا ہو پو چھو ؛میں نے عر ض کی میں آپ پر قربان جاوُں شیعہ ایک حد یث بیان کر تے ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضر ت علی کو ایک علم کے باب کی تعلیم دی جس سے علم کے ہزار باب کھل گئے تھے پھر میں نے کہا خدا کی قسم کیا یه کامل اور
حقیقی علم ہے ،امام صادق کچھ دیر سو چتے رہے اور پھر فرمایا ! وہ علم ہے لیکن پھر بھی وہ کامل علم نہیں ہے

پھر آپ نے فرمایا . ابو محمد ہما رے پاس جامعہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ جامعہ کیا ہے ؟جواب میں آپ نے کہا : وہ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا طو ل( ہاتھ کی لمبائی ) پیغمبر(ص) کے مطابق ستر ہاتھ لمبا ہے رسول خدا نے اسے املا کیا ا ور حضر ت علی نے اسے لکھا، اس میں تمام حلال و حرام اور لوگوں کی جملہ دینی ضروریات حتیٰ کہ خراش لگانے کے جرمانہ تک کا ذکر ہے ، پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے بدن پر مار کر فرمایا : ابو محمد کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو ؟

میں نے کہا ؛ میں آپ ہی کا جزو ہوں آپ جو چاہیں انجام دیں آپ کو اس کا اختیار حاصل ہے ، پھر آپ نے میرے جسم پر چٹکی کاٹی اور فرمایا کہ اس چٹکی کاٹنے کی دیت اور جرمانہ بھی جامعہ میں موجود ہے . آپ نے یہ الفاظ کہے اور آپ اس وقت غصے میں دکھائی دے رہے تھے ، میں نے کہا خدا کی قسم ! یہ کامل علم ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن پھر بھی یہ کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : ہمارے پاس جفر ہے لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے ؟میں نے کہا کہ جفر کیا ہے ؟

آپ نے فرمایا : وہ چمڑے کا ایک مخزن ہے جس میں سابقہ انبیاء و اوصیاء اور علمائے بنی اسرائیل کا علم ہے میں نے عرض کیا:یہ علم کامل ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن یہ بھی کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : و ان عندنا لمصحف فاطمہ علیہا السلام ؛

ہما رے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ مصحفِ فاطمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک ایسا مصحف ہے جو تمہارے ہاتھوں میں مو جود قرآن مجید سے تین گنا بڑ ا ہے خدا کی قسم اس میں تمہا رے قرآن مجید کا ایک بھی حرف نہیں ہے ؛

میں نے عرض کیا ؛ کیا یه کامل علم ہے ؟آپ نے فر مایا ؛ یه بھی علم ہے لیکن کامل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا ہما رے پاس گزشتہ اور قیا مت کے دن تک آنے والے حالات کا علم موجود ہے میں نے عرض کیا:یہ کامل علم ہے ؟ آ پ نے فرمایا ؛ یہ بھی علم ہے لیکن کا مل علم نہیں ہے میں نے پو چھا کہ کامل علم کیا ہے؟ آپ نے فر مایا: علم کامل وہ علم ہے جو روزانہ دن رات میں ایک عنوان کے بعد دوسر ے عنوان اور ایک چیز کے بعد دوسری  چیز کے بارے میں سامنے آتا رہتا ہے اور جو قیا مت تک ظاہر ہوتا رہے گا

اس کی سند میں عبدالله بن الحجال ہے جو مجہول ہے

الکافی کی روایت ہے
عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن الحسين ابن أبي العلاء قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: إن عندي الجفر الابيض، قال: قلت: فأي شئ فيه؟ قال: زبور داود، وتوراة موسى،
وإنجيل عيسى، وصحف ابراهيم عليهم السلام والحلال والحرام، ومصحف فاطمة، ما أزعم أن فيه قرآنا، وفيه ما يحتاج الناس إلينا ولا نحتاج إلى أحد حتى فيه الجلدة، ونصف الجلدة، وربع الجلدة وأرش الخدش.
وعندي الجفر الاحمر، قال: قلت: وأي شئ في الجفر الاحمر؟ قال: السلاح وذلك إنما يفتح للدم يفتحه صاحب السيف للقتل، فقال له عبدالله ابن أبي يعفور: أصلحك الله أيعرف هذا بنو الحسن؟ فقال: إي والله كما
يعرفون الليل أنه ليل والنهار أنه نهار ولكنهم يحملهم الحسد وطلب الدنيا على الجحود والانكار، ولو طلبوا الحق بالحق لكان خيرا لهم.

الحسين ابن أبي العلاء نے کہا میں نے امام جعفر سے سنا وہ کہہ رہے تھے میرے پاس سفید جفر ہے – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا داود کی زبور اور موسی کی توریت اور عیسیٰ کی انجیل اور ابراہیم کا مصحف ہے اور حلال و حرام ہے اور مصحف فاطمہ ہے میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ اس میں قرآن ہے لیکن اس میں ہے وہ ہے جس کو لوگوں کو حاجت ہے اور ہمیں اس کی بنا پر کسی کی حاجت نہیں … اور میرے پاس جفر سرخ ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا : اسلحہ ہے جس سے خون کھولا جاتا ہے اور تلوار والا قتل کرتا ہے اس پر عبدالله ابن أبي يعفور نے امام
جعفر سے کہا الله اصلاح کرے اپ کو بنو الحسن کی حرکت کا علم ہے ؟ فرمایا ہاں الله کی قسم جیسے تم رات کو جانتے ہو کہ رات ہے اور دن کو کہ دن ہے لیکن انہوں نے حسد کو اور طلب دنیا
کو لیا ہے اگر حق کو حق سے طلب کرتے تو اچھا ہوتا

اس کی سند میں الحسين ابن أبى العلاء الخفاف أبو على الاعور یا الخصاف أبو على الاعور ہے – اس کا ایک نام أبو العلاء الحسين ابن أبي العلاء خالد بن طهمان العامري بھی بیان کیا جاتا ہے اس کا ایک
نام الزندجي أبو علي بھی بیان کیا گیا ہے
راقم کہتا ہے یہ شخص مجہول ہے – التحرير الطاووسى کے مولف حسن صاحب المعالم شیعہ عالم کا کہنا ہے
فيه نظر عندي لتهافت الاقوال فيه
اس راوی پر نظر ہے اس کے بارے میں بے شمار (متخالف ) اقوال کی وجہ سے

یعنی اہل تشیع اس راوی کا تعین نہیں کر سکے ہیں اور تین نام کے مختلف قبائل کے لوگوں کو ملا کر ان کے علماء کا دعوی ہے کہ ایک شخص ہے – حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی یقینی
قول نہیں کہ کون ہے

الکافی کی ایک اور روایت ہے

علي بن إبرإهيم، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عمن ذكره، عن سليمان بن خالد قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: إن في الجفر الذي يذكرونه(1) لما يسوؤهم، لانهم لا يقولون الحق(2) والحق فيه، فليخرجوا
قضايا علي وفرائضه إن كانوا صادقين، وسلوهم عن الخالات والعمات(3)، وليخرجوا مصحف فاطمة عليها السلام، فإن فيه وصية فاطمة عليها السلام، ومعه(4) سلاح رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله
عزوجل يقول: ” فأتوا بكتاب من قبل هذا أو أثارة من علم إن كنت صادقين

سليمان بن خالد نے کہا امام جعفر نے مصحف فاطمہ نکالا جس میں فاطمہ کی وصیت تھی اور ان کے پاس رسول الله صلی الله علیہ و اله کا اسلحہ تھا

اس کی سند میں عمن ذكره، لوگ مجہول ہیں

الکافی کی ایک اور روایت ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عمر بن عبدالعزيز، عن حماد بن عثمان قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: تظهر الزنادقة في سنة ثمان وعشرين ومائة وذلك أني نظرت في مصحف فاطمة
عليها السلام، قال: قلت: وما مصحف فاطمة؟ قال: إن الله تعالى لما قبض نبيه صلى الله عليه وآله دخل على فاطمة عليها السلام من وفاته من الحزن ما لا يعلمه إلا الله عزوجل فأرسل الله إليها ملكا يسلي غمها
ويحدثها، فشكت ذلك(1) إلى أمير المؤمنين عليه السلام فقال: إذا أحسست بذلك وسمعت الصوت قولي لي فأعلمته بذلك فجعل أمير المؤمنين عليه السلام يكتب كلما سمع حتى أثبت من ذلك مصحفا قال: ثم قال: أما
إنه ليس فيه شئ من الحلال والحرام ولكن فيه علم ما يكون.

حماد بن عثمان نے کہا میں نے امام جعفر المتوفی ١٤٥ ھ کو کہتے سنا الزنادقة سن ١٢٨ میں ظاہر ہوئے اور اس وقت میں مصحف فاطمہ دیکھ رہا تھا – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا جب الله تعالی نے اپنے نبی کی روح قبض کی وہ فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور وہاں رہے جس کو علم صرف اللہ کو ہے اس وقت اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا جو ان کے غم کو دور کرے (علی کو اس پر خبر دیر سے ہوئی) اس پر علی نے شکوہ کیا اور کہا اگر مجھے احساس ہوتا اور (فرشتے کی) آواز سن لی ہوتی تو میں اس علم کو جان جاتا- پس علی نے وہ لکھا جو سنا (یعنی جو فرشتہ نے علم دیا
س کا آدھا پونا لکھا) اس کو مصحف میں ثبت کیا – امام جعفر نے کہا اس میں نہ صرف حلال و حرام ہے بلکہ اس کا علم بھی ہے جو ہو گا

کہا جاتا ہے کہ سند میں حماد بن عثمان بن عمرو بن خالد الفزاري ہے – اس کا سماع امام جعفر سے نہیں ہے کیونکہ بصائر الدرجات کے مطابق یہ حماد بن عثمان اصل میں عمر بن يزيد کی سند سے
امام جعفر سے روایت کرتا ہے دوم سند میں عمر بن عبدالعزيز أبوحفص بن أبي بشار المعروف بزحل ہے قال النجاشي انه مختلط
الفضل بن شاذان کا کہنا ہے أبو حفص يروى المناكير
معلوم ہوا سند ضعیف ہے انقطاع بھی ہے

الغرض علی رضی الله عنہ کےپاس کوئی الگ  علم خواص نہ تھا جو اور اصحاب رسول کو معلوم نہ ہو اور نہ ہی کوئی الگ قرآن تھا بلکہ اس کی تمام خبریں غالیوں کی بیان کردہ ہیں جو  مجہول و غیر معروف یا مختلط یا ضعیف  راوی ہیں

فرشتوں کو پکارنا

الله تعالی نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ صرف اسی کو پکارا جائے- انبیاء کی خبریں دیں کی انہوں نے مصیبت و پریشانی میں صرف الہ واحد کو پکارا

مشرکین مکہ اس کے برعکس فرشتوں کو پکارتے ان کو عورت کی شکل میں رکھتے یعنی لات عزی اور منات

قرآن کہتا ہے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بهَا من سُلْطَان

کیا تم نے اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور ایک اور  تیسری  مَنَاةَ کو دیکھا؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو صرف چند نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں، الله کی طرف سے ان پر  کوئی سند نہیں اتری

اللات  طائف میں، العُزَّى مکہ میں اور مَنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں

الكلبي (المتوفى: 204هـ) کی کتاب الاصنام میں ہے

عرب طواف میں پکارتے

 وَاللاتِ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الأُخْرَى … فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شفاعتهن لَتُرْتَجَى

اور اللاتِ اور الْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ

یہ تو بلند  پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے

کتاب غریب الحدیث از ابن الجوزی کے مطابق

تِلْكَ الغرانيق الْعلَا قَالَ ابْن الْأَعرَابِي الغرانيق الذُّكُور من الطير
وَاحِدهَا غرنوق وغرنيق وَكَانُوا يدعونَ أَن الْأَصْنَام تشفع لَهُم فشبهت بالطيور الَّتِي ترْتَفع إِلَى السَّمَاء وَيجوز أَن تكون الغرانيق جمع الغرانق وَهُوَ الْحسن

یہ تو بلند غرانیق ہیں – ابن الاعرابی کہتے ہیں غرانیق سے مراد نر پرندے ہیں جن کا واحد  غرنوق ہے اور غرنيق  ہے یہ مشرکین ان ( دیویوں) کو اس نام سے اس لئے پکارتے تھے کیونکہ یہ بت ان کے لئے شفاعت کرتے اور(نر) پرندے بن کر جاتے جو آسمان میں بلند ہوتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حسن ہو

تاج العروس اور غریب الحدیث از ابن قتیبہ  میں  کہا گیا ہے  کہ غرانیق سے مراد

طيور الماء طويلة العنق

پانی کے پرندے ہیں جن کی طویل گردن ہوتی ہے

 اردو میں ان کو بگلا کہتے ہیں مشرکین نے فرشتوں کو بگلے بنا دیا اور پھر ان کو دیوی کہا

 قرآن میں ایک مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے  

  وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ 

(فاطر 13 – 14)

 اور جن لوگوں کو یہ مشرکین اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کھجور کی گٹھلی کے باریک غلاف کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے اور قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے لاعلمی کا اظہار کریں گے اور آپ کو (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا

اس کے برعکس ایک روایت کو امت میں صحیح قرار دے کر فرشتوں کو پکارنے کا جواز پیدا کیا گیا ہے

یہ روایت مسند البزار بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا أَصَابَهُ شَيْءٌ بِأَرْضٍ فَلاةٍ 3128 میں بیان ہوئی ہے

– حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْحَاقَ، ثنا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ، ثنا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبَانِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِنَّ للَّهِ مَلائِكَةً فِي الأَرْضِ، سِوَى الْحَفَظَةِ، يَكْتُبُونَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدُكُمْ عَرْجَةً، بِأَرْضٍ فَلاةٍ، فَلْيُنَادِ: أَعِينُوا، عِبَادَ اللَّهِ “.

قَالَ الْبَزَّارُ: لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا اللَّفْظِ إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إن لله ملائكة في الأرض سوی الحفظة، يكتبون ا سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة، فليناد : أعينوا عبادالله.
زمین میں حفاظت والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہوتے ہیں جو درختوں کے گرنے والے پتوں کو لکھتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویرانے میں چلتے ہوئے پاؤں میں موچ آ جائے تو وہ کہے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔

الْبَزَّارُ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ اس کو نبی علیہ السلام سے کسی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہو سوائے اس سند سے

راقم کہتا ہے یہ سند ضعیف ہے

أبان بن صالح بن عمير القرشي نے مجاہد سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کیا ہے – سند میں حاتم بن إسماعيل   المدني بھی ہے جس کو  ثقة مشهور صدوق بھی کہا گیا ہے اور نسائی کی جانب سے ليس بالقوى  قوی نہیں بھی کہا گیا ہے – إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از  مغلطاي میں ہے

ذكره ابن خلفون في «الثقات» قال: قال أبو جعفر البغدادي: سألت أبا عبد الله عن حاتم بن إسماعيل فقال: ضعيف.

ابن خلفؤن نے اس کا ذکر ثقات میں کیا ہے اور أبو جعفر البغدادي نے کہا میں نے امام ابو عبد الله (یعنی امام احمد)  سے اس کے بارے میں پوچھا تو کہا ضعیف ہے

سوال ہے کہ کیا فرشتوں کو مدد کے لئے پکارا جا سکتا ہے ؟ یہ تو مشرکین مکہ کا عمل تھا وہ دیویوں کو فرشتے

سمجھ کر ان کو پکارتے تھے

فرشتوں سے مدد مانگنا کیا الله سے مدد مانگنے کے مترادف ہے ؟ میرے علم میں یہ تو  شرک ہے

افسوس ایک اہل حدیث عالم غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری اس کے برعکس اس حدیث سے فرشتوں کی پکار کو ثابت کرتے ہیں

http://www.tohed.com/وسیلے-کی-ممنوع-اقسام-کےدلائل-کا-تحقیقی-2/

البتہ اگر ان میں مذکور ’’عباداللہ“ سے مراد فرشتے لیے جائیں تو صحیح حدیث سے ان کی تائید ہو جائے گی، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
إن لله ملائكة في الأرض سوی الحفظة، يكتبون ا سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة، فليناد : أعينوا عبادالله. 
’’زمین میں حفاظت والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہوتے ہیں جو درختوں کے گرنے والے پتوں کو لکھتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویرانے میں چلتے ہوئے پاؤں میں موچ آ جائے تو وہ کہے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔“ (كشف الأستار عن زوائد البزار:3128/1، وسنده حسن) 

 حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
رجاله ثقات. ’’اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔“ (مجمع الزوائد:32/10) 

 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ھذا حديث حسن الإسناد، غريب جدا . 
’’اس کی سند حسن ہے لیکن یہ انوکھی روایت ہے۔“ (مختصر زوائد البزار:120/2، شرح ابن علان علي الأذكار:15/5) 

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
إنما هم الملائكة، فلا يجوز أن يلحق بهم المسلمون من الجن أو الإنس ممن يسمونهم برجال الغيب من الأولياء والصالحين، سواء كانوا أحياء أو أمواتا، فإن الاستغاثة بهم وطلب العون منهم شرك بين لأنهم لا يسمعون الدعاء، ولوسمعوا لما استطاعوا الاستجابة وتحقيق الرغبة، وهذا صريح في آيات كثيرة، منها قوله تبارك وتعالى : ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ.﴾ (فاطر 13 – 14) 
’’اس حدیث میں اللہ کے بندوں سے مراد صرف فرشتے ہیں۔ ان کے ساتھ مسلمان جنوں اور ان اولیاء اور صالحین کو ملانا جنہیں غیبی لوگ کہا جاتا ہے، جائز نہیں، خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہو گئے ہوں۔ ان جنوں اور انسانوں سے مدد طلب کرنا واضح شرک ہے کیونکہ وہ پکارنے والے کی پکار کو سن نہیں سکتے۔ اگر وہ سن بھی لیں تو اس کا جواب دینے یا حاجت روائی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں۔ ایک مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾ (فاطر 13 – 14) ”اور جن لوگوں کو یہ مشرکین اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کھجور کی گٹھلی کے باریک غلاف کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے اور قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے لاعلمی کا اظہار کریں گے اور آپ کو (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔“ (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرھا السيء في الأمة:111/2، ح:655) 

http://shamela.ws/browse.php/book-12762/page-986

 یعنی اس حدیث میں ماتحت الاسباب مدد مانگنے کا بیان ہے، کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے وہاں ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نیک بندوں کی اعانت پر مامور کر رکھا ہے۔

راقم کہتا ہے البانی کا قول کہ اس سے مراد فرشتے ہیں اس کی حماقت ہے – یہ حدیث ضعیف و منکر ہے

اپنی اس غلط بات کو کہ فرشتوں سے مدد لی جا سکتی ہے غلام مصطفی  نے امام احمد سے بھی دلیل لی ہے

کتاب مسائل الإمام أحمد لابنه عبدالله میں ہے امام احمد کے بیٹے عبد الله نے بیان کیا کہ ان کے باپ احمد بن حنبل نے کہا

حَدثنَا قَالَ سَمِعت ابي يَقُول حججْت خمس حجج مِنْهَا ثِنْتَيْنِ رَاكِبًا وَثَلَاثَة مَاشِيا اَوْ ثِنْتَيْنِ مَاشِيا وَثَلَاثَة رَاكِبًا فضللت الطَّرِيق فِي حجَّة وَكنت مَاشِيا فَجعلت اقول يَا عباد الله دلونا على الطَّرِيق فَلم ازل اقول ذَلِك حَتَّى وَقعت الطَّرِيق اَوْ كَمَا قَالَ ابي

میرے باپ نے کہا میں نے پانچ حج کیے جن میں دو سواری پر اور تین چل کر کیے  یا کہا تین سواری پر  اور دو پیدل – تو مجھ پر حج کا  راستہ کھو گیا اور میں پیدل چل رہا تھا تو میں نے کہنا شروع کر دیا

اللہ کے بندو ! مجھے راستہ بتاؤ۔ میں مسلسل کہتا رہا حتی کہ صحیح راستے پر آ گیا – ایسا میرے باپ نے کہا

اس کو البانی نے بھی بیان کیا

أن حديث ابن عباس الذي حسنه الحافظ كان الإمام أحمد يقويه، لأنه قد عمل به 

حدیث ابن عباس جس کو حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے اس کو امام احمد نے قوی کیا ہے کیونکہ وہ اس پر عمل کرتے تھے

مزید براں البانی نے بھی اس کو منکر نہیں بلکہ حسن کہا

قلت: وهذا إسناد حسن كما قالوا

میں البانی کہتا ہیں یہ اسناد حسن ہیں جیسا انہوں نے کہا 

http://shamela.ws/browse.php/book-12762/page-986

راقم کہتا ہے مدد و پکار صرف الله کا حق ہے – مصیبت میں الله ہی کو پکارا جائے  

افسوس امام احمد کے نزدیک راوی  حاتم بن إسماعيل ضعیف تھا لیکن وہ اس ضعیف حدیث پر عمل کرتے تھے کیونکہ ان کا خود کا قول تھا کہ ضعیف سے دلیل لو

عبد اللہ بن احمد اپنے باپ  احمد سے  کتاب السنہ میں  نقل کرتے  ہیں

http://shamela.ws/browse.php/book-323/page-199

سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ الله عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ [ص:181] قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ

میں نے اپنے باپ سے اس آدمی کے بارے میں  پوچھا جو دین کے کسی کام پر جس سے ایمان برباد نہ ہو جسے طلاق یا دیگر پر اصحاب رائے کے پاس جائے یا ان اصحاب حدیث کے پاس جائے جو حدیث کو صحیح طرح یاد نہیں رکھتے اور قوی الاسناد کو ضعیف الاسناد سے جدا نہیں کر پاتے  تو ان دونوں میں سے کس سے سوال کرے اصحاب رائے سے یا قلت معرفت والے اصحاب حدیث سے   امام احمد نے کہا  اصحاب حدیث سے سوال کرے اور اصحاب رائے سے نہیں ایک ضعیف حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے

اس قسم کی ایک روایت  عتبَة بن غَزوَان  سے بھی مروی ہے جو المعجم الكبير از طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الصُّوفِيُّ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا أَضَلَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُكُمْ عَوْنًا وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ، فَلْيَقُلْ: يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، فَإِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ ” وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِكَ

زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ نے کہا عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ نے نبی علیہ السلام سے روایت کیا کہ فرمایا جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز کھو جائے یا کوئی مدد طلب کرے جو ایسی زمین میں ہے جہاں کوئی دوست نہ ہو تو پس کہے اے الله کے بندوں مدد کرو اے عباد الله مدد کرو کیونکہ عباد الله نظر نہیں آتے- اورمیں (طبرانی) نے بھی اس کو آزمایا  ہے

افسوس امام  سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360هـ) نے بھی اس بد عقیدگی کو پھیلایا

اس کا ذکر الشوکانی نے  تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين من كلام سيد المرسلين  میں کیا ہے

حَدِيث عتبَة بن غَزوَان عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ إِذا ضل على أحدكُم شَيْء وَأَرَادَ أحدكُم عونا وَهُوَ بِأَرْض فلاة لَيْسَ بهَا أحد فَلْيقل يَا عباد الله أعينوا يَا عباد الله أعينوا يَا عباد الله أعينوا فَإِن لله عباد لَا يراهم قَالَ فِي مجمع الزَّوَائِد وَرِجَاله وثقوا على ضعف فِي بَعضهم إِلَّا أَن زيد بن عَليّ لم يدْرك عتبَة

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد أز  أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي (المتوفى: 807هـ) میں لکھتے ہیں

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ وُثِّقُوا عَلَى ضَعْفٍ فِي بَعْضِهِمْ، إِلَّا أَنَّ زَيْدَ بْنَ عَلِيٍّ لَمْ يُدْرِكْ عُتْبَةَ.

اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال ثقہ ہیں جن میں بعض میں کمزوری ہے الا یہ کہ زید بن علی  نے

عُتْبَة کو نہیں پایا

افسوس شوکانی نے اس کے باوجود لکھا

وَفِي الحَدِيث دَلِيل على جَوَاز الِاسْتِعَانَة بِمن لَا يراهم الْإِنْسَان من عباد الله من الْمَلَائِكَة وصالحي الْجِنّ وَلَيْسَ فِي ذَلِك بَأْس كَمَا يجوز للْإنْسَان أَن يَسْتَعِين ببني آدم إِذا عثرت دَابَّته أَو انفلتت

اس حدیث سے دلیل ہے ان سے مدد کے جواز کی جو الله کے بندے نظر نہ آتے ہوں  فرشتوں میں سے یا صالح جنوں میں سے اس میں کوئی برائی نہیں ہے جیسا یہ جائز ہے کہ انسان بنی آدم سے مدد لے جب اس کا جانور مر جائے یا کھو جائے

غیر مقلد شوکانی نے قریب  ٢٠٠ سال پہلے  یہ بھی لکھا

قلت وَحكى لي بعض شُيُوخنَا الْكِبَار فِي الْعلم أَنَّهَا انفلتت دَابَّته أظنها بغلة وَكَانَ يعرف هَذَا الحَدِيث فقاله فحبسها الله عَلَيْهِ فِي الْحَال وَكنت أَنا مرّة مَعَ جمَاعَة فانفلتت مَعنا بَهِيمَة فعجزوا عَنْهَا فقلته فوقفت فِي الْحَال بِغَيْر سَبَب

میں کہتا ہوں مجھ سے حکایت کیا ہمارے علم کے اکابر شیوخ نے کہ اگر جانور کھو جائےیہ حدیث معلوم ہو تو ان (الفاظ کو) کہے پس الله کافی ہو گا  اور ایک بار میں ایک جماعت میں تھے ہمارا جانور کھو گیا ہم عاجز ہو گئے پس ہم نے یہ کہا تو مل گیا بلا سبب کے

اصل میں یہ الفاظ امام النووی  (المتوفى: 676هـ) کے ہیں جو انہوں نے الاذکار میں لکھے ہیں

روينا في كتاب ابن السني، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “إذَا انْفَلَتَتْ دابَّةُ أحَدِكُمْ بأرْضِ فَلاةٍ فَلْيُنادِ: يا عِبادَ الله! احْبِسُوا، يا عِبادَ اللَّهِ! احْبِسُوا، فإنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ في الأرْضِ حاصِرًا سَيَحْبِسُهُ”. قلت: حكى لي بعض شيوخنا الكبار في العلم أنه افلتت له دابّة أظنُّها بغلة، وكان يَعرفُ هذا الحديث، فقاله؛ فحبسَها الله عليهم في الحال. وكنتُ أنا مرّةً مع جماعة، فانفلتت منها بهيمةٌ وعجزوا عنها، فقلته، فوقفت في الحال بغيرِ سببٍ سوى هذا الكلام.

کتاب ذم الكلام وأهله از  أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي الأنصاري الهروي (المتوفى: 481هـ) میں ہے کہ عبد الله بن مبارک  نے اس روایت کی سند سفر میں دیکھی

وَضَلَّ ابْنُ الْمُبَارَكِ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فِي طَرِيقٍ وَكَانَ قَدْ بَلَغَهُ أَنَّ مَنِ اضْطُرَّ فِي مَفَازَةٍ فَنَادَى عِبَادَ اللَّهِ أَعِينُونِي أُعِينَ قَالَ

فَجَعَلْتُ أَطْلُبُ الْجُزْءَ أَنْظُرُ إِسْنَادَهُ

. قال الهروي: فلم يستجز أن يدعو بدعاء لا يرى إسناده

اور ابن مبارک پر رستہ کھو گیا ان کے سفروں میں سے ایک میں اور ان کو پہنچا ہوا تھا کہ جو مصیبت میں ہو وہ پکارے اے الله کے بندوں میری مدد کرو اس کی مدد ہو گی کہا انہوں نے جز طلب کیا کہ اس کی سند دیکھیں 

   الهروي نے کہا : پس انہوں نے دعا نہ کی جس کی سند انہوں نے نہ دیکھی ہو  

وہابی عالم محمد صالح المنجد کہتے ہیں

 لأنهما صريحان بأن المقصود بـ ” عباد الله ” فيهما خلقٌ من غير البشر بدليل قوله في الحديث الأول : (فإن لله في الأرض حاضراً سيحبسه عليهم) ، و قوله في هذا الحديث : (فإن لله عبادا لا نراهم) . وهذا الوصف إنما ينطبق على الملائكة أو الجن ؛ لأنهم الذين لا نراهم عادة … فلا يجوز أن يُلحَق بهم المسلمون من الجن أو الإنس ممن يسمونهم برجال الغيب من الأولياء والصالحين ، سواء كانوا أحياء أو أمواتا ، فإن الاستغاثة بهم وطلب العون منهم شرك بيِّن ؛ لأنهم لا يسمعون الدعاء ، ولو سمعوا لما استطاعوا الاستجابة وتحقيق الرغبة .

https://islamqa.info/ar/132642

اس میں صریحا ہے کہ عباد الله سے مقصود اس میں وہ مخلوق ہے جو غیر بشری ہے قول حدیث اول ہے کہ الله کے لئے زمین میں  حاضر رہتے ہیں جو حساب کرتے ہیں اور قول حدیث میں ہے کہ عباد الله کو نہیں دیکھا جا سکتا اور یہ وصف صرف فرشتوں اور جنات پر ہی  منطبق کیا جا سکتا ہے کہ ان کو عادت (جاری) میں نہیں دیکھا جا سکتا … پس یہ جائز نہیں کہ اس میں جن و انس کے  مسلمانوں ، اولیاء و الصالحین میں سے ، برابر ہے کہ زندہ ہوں یا مردہ کو بھی فرشتوں سے  ملا دیا جائے  جن کو رجال الغیب کا نام دیا گیا ہے  ، کیونکہ اس سے مدد طلب کرنا  واضح شرک ہے کیونکہ یہ پکار نہیں سنتے اگر سن لیں تو جواب نہیں دے سکتے 

دور جدید کے غیر مقلد   البانی سلسلة الأحاديث الضعيفة : 108/2، 109، ح655 میں کہتے ہیں

العبادات لا تؤخذ من التجارب، سيما ما كان منھا في أر غيي كھذا الحديث، فلا يجوز الميل الي تصحيحه، كيف وقد تمسك به بعضھم في جواز الاستغاثه بالموتي عند الشدائد، وھو شرك خالص، والله المستعان ! 
 عبادات تجربوں سے اخذ نہیں کی جا سکتیں، خصوصاً ایسی عبادات جو کسی غیبی  امر کے بارے میں ہوں، جیسا کہ یہ حدیث ہے، لہٰذا تجربے کی بنیاد پر  اس کو صحیح قرار دینے کی طرف میلان  کرنا جائز نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے، جب کہ بعض لوگوں نے اس سے مصیبتوں پر مرنے والوں سے مدد مانگنے پر بھی استدلال کیا ہے۔ یہ خالص شرک ہے، اللہ محفوظ فرمائے   

راقم کہتا ہے البانی کی یہ بات صحیح ہے البتہ اہل حدیث کا دین میں عقائد میں ارتقاء جاری ہے

عیسیٰ کی قبر نبوی پر آمد

احادیث میں اتا ہے عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد جب مدینہ پہنچیں گے تو قبر نبوی پر  آئیں گے

امام حاکم اور امام الذھبی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں – مستدرک الحاکم کی  سند ہے

أَخْبَرَنِي أَبُو الطَّيِّبِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْحِيرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ثنا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَهْبِطَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، وَإِمَامًا مُقْسِطًا وَلَيَسْلُكَنَّ فَجًّا حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيِّتِهِمَا وَلَيَأْتِيَنَّ قَبْرِي حَتَّى يُسَلِّمَ وَلَأَرُدَّنَ عَلَيْهِ» يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: ” أَيْ بَنِي أَخِي إِنْ رَأَيْتُمُوهُ فَقُولُوا: أَبُو هُرَيْرَةَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ»

ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم حاکم و عادل ہو کر ہبوط کریں گے ایک عدل والے امام ہوں گے اور فج (فَجّ الرَّوْحَاء ) میں جا رکیں گے وہاں سے حج و عمرہ کریں گے یا اس کے درمیان سے اور پھر میری قبر تک آئیں گے جب سلام کہیں گے میں جواب دوں گا- ابو ہریرہ نے کہا اے بھتیجے جب ان کو دیکھو کہو ابوہریرہ اپ کو سلام کہتے ہیں – حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح سند سے ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی اس متن سے

یہ روایت ایک دوسرے طرق سے مسند ابی یعلی میں  بھی ہے

قَالَ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ: ثنأ احمد بْنُ عِيسَى ثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عن أبي صخر أن سعيداً المقبري أخبره أنه سمع أباهريرة يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: ” وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ لينزلن عيسى ابن مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلًا فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وليقتلن الخنزير وليصلحن ذات البين ولتذهبن الشحناء وليعرضن عليه المال فلا يقبله ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي فَقَالَ: يَا محمد لأُجِيبنَّه

ابو ہریرہ نے کہا میں نے رسول الله سے سنا کہ وہ جس کے ہاتھ میں ابو قاسم کا نفس  ہے عیسیٰ ضرور نازل ہوں گے امام عادل حاکم بن کر، صلیب توڑ دیں گے، سور کو قتل کریں گے اور اپس کی کدورت ختم کریں گے اور ان پر مال پیش ہو گا نہ قبول کریں گے پھر جب میری قبر پر کھڑے ہوں گے  کہیں گے اے محمد – میں جواب دوں گا

الهيثمي مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.

اس کے رجال صحیح کے ہیں

 مسند ابو یعلی کے محقق حسين سليم أسد کہتے ہیں إسناده صحيح

کتاب أشراط الساعة وذهاب الأخيار وبقاء الأشرار  از عبد الملك بن حَبِيب بن حبيب بن سليمان بن هارون السلمي الإلبيري القرطبي، أبو مروان (المتوفى: 238هـ)   میں اس کا  تیسرا  طرق ہے

قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: وَحَدَّثَنِي ابْنُ الْمَاجِشُونِ وَغَيْرُهُ عَنِ الدَّرَاوَرْدِيِّ عَنِ الْمُغِيرَةِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَمُرَّنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ, حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا بِالْمَدِينَةِ وَلَيَقِفَنَّ عَلَى قَبْرِي وَلَيَقُولَنَّ يَا مُحَمَّدُ، فَأُجِيبُهُ   وَلَيُسَلِّمَنَّ عَلَيَّ فَأَرُدُّ عَلَيْهِ السَّلامَ.

وَحَدَّثَنِيهِ أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي صَخْرٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ, عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

المغيرة بن حَكيم الصَّنْعانيُّ الأبناويُّ نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم حج و عمرہ پر نکلیں گے مدینہ سے وہ میری قبر پر رکیں گے اور بولیں گے اے محمد ، پس میں جواب دوں گا اور وہ سلام کہیں گے تو میں جوابا ان کو سلام کہوں گا

اور اس کو َاصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي صَخْرٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے بھی روایت کیا گیا ہے

کتاب المعرفة والتاريخ  از يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ وَابْنُ بُكَيْرٍ ومُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ عَنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ أبا هريرة يقول: قال رسول الله صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ليسهلنّ ابن مريم بِفَجِّ [1] الرَّوْحَاءِ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ لَيُثَنِّيهِمَا

حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ نے خبر دی کہ ابو ہریرہ سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے ابن مریم فَجِّ  الرَّوْحَاءِ سے حج و عمرہ  کریں گے

یہ صحیح مسلم میں بھی ہے یہ اور بات ہے کہ راوی خود کہتا ہے اس کو معلوم نہیں یہ کلام حدیث نبوی ہے یا ابو ہریرہ کا اپنا کلام ہے – تاریخ دمشق اور مسند احمد میں ہے

فزعم حنظلة أن أبا هريرة قال يؤمن به قبل موت عيسى فلا أدري هذا كله في حديث النبي (صلى الله عليه وسلم) أو شئ قاله أبو هريرة

حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ نے دعوی کیا کہ ابو ہریرہ نے کہا یہ سب عیسیٰ کی موت سے قبل ایمان لائیں گے پس مجھے معلوم نہیں یہ سب حدیث النبی صلی الله علیہ وسلم تھی یا ابو ہریرہ نے خود کوئی چیز کہی

البانی نے اس روایت کو قبری کے الفاظ کے ساتھ رد کیا ہے لیکن جو علتین بیان کی ہیں وہ ہر طرق میں نہیں-  اوپر جو طرق ہیں ان سے معلوم ہوا کہ روایت میں عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ  کا تفرد نہیں ہے  جس کو مجہول کہا جاتا ہے – اس میں ابو صخر حمید بن زیاد کا تفرد بھی نہیں جس کو ضعیف کہا جاتا ہے اور سعید بن ابی سعید المقبری کا بھی تفرد نہیں جس کو آخری عمر میں  مختلط  کہا گیا ہے اور ابن اسحٰق کا تفرد بھی نہیں جس کو مدلس کہا گیا ہے –  اس میں ایک راوی کا تفرد ہی نہیں چار طرق ہیں جن میں لوگ الگ الگ ہیں – سوال ہے کہ اس روایت کا مقصد کیا ہے ؟   راقم کے نزدیک روایت کا  مقصد یہ ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کا معجزہ دکھایا گیا ہے چونکہ مردوں کو زندہ کرتے تھے وہ قبر النبی پر آ کر کہیں گے اے محمد تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم زندہ ہو جائیں گے جواب دیں گے – اغلبا یہ کعب احبار کا  کلام ہے جو ابو ہریرہ نے بیان کیا اور لوگ حدیث سمجھے

کتاب التمييز( ص /175 ) کے مطابق امام مسلم نے بسر بن سعيد کا قول بیان کیا
حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حدیث میں حفاظت کرو – الله کی قسم ! ہم دیکھتے ابو ہریرہ کی مجالس میں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے اور وہ (باتیں) کعب ( کی ہوتیں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روایت کرتے جو حدیثیں رسول الله سے ہوتیں

احمد العلل میں کہتے ہیں

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .

احمد  نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي  حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے  کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے روایت کیا – اعمش نے  کہا : ابراھیم  النخعي،   ابوہریرہ کی احادیث  میں چیزوں کو ترک کر دیتے

ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ

 الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار

 ابراھیم النخعي نے کہا  ہم ابو ہریرہ  کی احادیث کو نہیں لیتے  سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو

ابن قتیبہ المعارف میں ذکر کرتے ہیں

وَأَمَّا قَوْلُهُ: قَالَ خَلِيلِي، وَسَمِعْتُ خَلِيلِي”. يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَأَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لَهُ: “مَتَى كَانَ خَلِيلَكَ”؟ “. …. وَقَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا

ابو ہریرہ کا قول میرے دوست نے کہا یا میں نے اپنے دوست سے سنا یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم سے – تو بے شک علی نے ابو ہریرہ سے کہا تم کب سے رسول اللہ کے دوست بن گئے؟

اور رسول الله کا تو قول ہے کہ میں کسی کو اس امت میں خلیل کرتا تو ابو بکر کو کرتا

بہر حال سابقوں اولون کو ابو ہریرہ کا بہت روایت کرنا پسند نہ تھا

نعمان الوسی  میں لکھتے ہیں

لا يبعد أن يكون عليه السّلام قد علم في السماء بعضا ووكل إلى الاجتهاد والأخذ من الكتاب والسنّة في بعض آخر، وقيل: إنه عليه السّلام يأخذ الأحكام من نبينا صلّى الله عليه وسلم شفاها بعد نزوله وهو في قبره الشريف عليه الصلاة والسّلام، وأيد
بحديث أبي يعلى «والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري وقال يا محمد لأجيبنه» .
وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسّلام روحانية ولا بدع في ذلك فقد وقعت رؤيته صلّى الله عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة،

اور یہ بعید نہیں جھ عیسیٰ علیہ السلام کو اسمان میں شریعت محمدی کا کچھ علم دیا جائے  … اور کہا جاتا ہے کہ وہ احکام اخذ کریں گے جب وہ قبر النبی پر آئیں گے سلام کہنے جیسا ابو یعلی میں حدیث ہے … اور یہ جائز ہے کہ ان  کا روجانی  اجتماع ہو جیسا اس امت کے بہت سے کاملین نے جاگتے میں رسول الله کو دیکھا ہے

يا سارية الجبل روایت

 أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  میں روایت کیا گیا ہے کہ

أنا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: نا أَبُو عَمْرٍو الْحَارِثُ بْنُ  مِسْكِينٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: أنا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ “، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ جَيْشًا أَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ. قَالَ: فَبَيْنَا عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ: فَجَعَلَ يَصِيحُ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» . قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ” يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقِينَا عَدُوَّنَا فَهَزَمْنَاهُمْ، فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» ، فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا بِالْجَبَلِ، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ “. فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: «إِنَّكَ كُنْتَ تَصِيحُ بِذَلِكَ» قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ

يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ نے محمد بن عجلان سے روایت کیا  کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا سالار ایک مرد ساریہ کو بنایا۔ ایک دن  خطبہ کے دوران عمر  نے یکایک یہ پکارنا شروع کر دیا  اے ساریہ پہاڑ- پہاڑ- اس طرح تین مرتبہ کہا۔ پھر اس لشکر کا خبری  مدینہ آیا۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنیین ہم لوگ شکست کھا گئے اور اس شکست کی حالت میں تھے کہ ہم نے یکایک ایک آواز سنی جس نے تین بار کہا کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف رخ کرو۔ ہم نے پشت پہاڑ سے لگا دی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دشمن کو شکست دیدی۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ ہی تو تھے جو اس طرح چیخے تھے۔ ابن عجلان نے کہا ایسا ہی إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی بیان کیا

تخریج روایت :   دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر 2655  میں ، جامع الأحاديث للسيوطي،حرف الياء   فسم الافعال،مسند عمر بن الخطاب، حديث نمبر 28657  میں ،   الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف ،   ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم   في الدلائل واللالكائي في السنة ، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن

 

محدثین متاخرین کی رائے

فتح الباری کے مولف ابن حجر نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے

زرکشی لکھتے  ہیں
وَقد افرد الْحَافِظ قطب الدّين عبد الْكَرِيم الْحلَبِي لهَذَا الحَدِيث جُزْءا ووثق رجال هَذِه الطَّرِيق
حافظ قطب الدین حلبی نے اس اثر پر مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے ، جس میں اس واقعہ کے سارے طرق جمع کیے ہیں ، اور اس طریق کے تمام رجال کو ثقہ قرار دیا ہے ۔
التذكرة في الأحاديث المشتهرة = اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة   میں  سیوطی کہتے  ہیں
وألف القطب الحلبي في صحته جزءاً.
قطب الحلبی نے مستقل رسالے میں اس کی صحت کو ثابت کیا ہے ۔

صوفیاء کی رائے

  یہ روایت پھیلی اور محدثین نے اس کو قبول کیا اور سند کو حسن جید سب کہہ ڈالا –  دوسری طرف اہل طریقت  جن کو  اہل معرفت بھی کہا جاتا ہے ان  متصوفین کے نزدیک  روحانی تصرف   ہر کسی کے   بس کی بات نہیں جب اللہ چاہتا تو اسباب پیدا فرماتا ہے –  جیسا کہ اس اثر سے وضاحت ہوتی ہے  – مزید براں اس اثر سے صوفیاء کے ہاں  ثابت ہوتا ہے  کہ بذریعہ کشف غائب سے رہنمائی مل  سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب کشف اپنے کشف سے اجتماعی طور پر دوسروں کی رہبری کر سکتا ہے

ابن تیمیہ کی رائے

اولیاء الله کو کشف ممکن ہے – آٹھویں صدی کے نام نہاد سلفی محقق ابن تیمیہ کتاب  مجموعة الرسائل والمسائل میں لکھتے ہیں

وأما المعجزات التي لغير الأنبياء من باب الكشف والعلم فمثل قول عمر في قصة سارية، وأخبار أبي بكر بأن ببطن زوجته أنثى، وأخبار عمر بمن يخرج من ولده فيكون عادلاً. وقصة صاحب موسى في علمه بحال الغلام، والقدرة مثل قصة الذي عنده علم من الكتاب. وقصة أهل الكهف، وقصة مريم، وقصة خالد بن الوليد وسفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي مسلم الخولاني، وأشياء يطول شرحها. فإن تعداد هذا مثل المطر. وإنما الغرض التمثيل بالشيء الذي سمعه أكثر الناس. وأما القدرة التي لم تتعلق بفعله فمثل نصر الله لمن ينصره وإهلاكه لمن يشتمه.

اور جہاں تک معجزات غیر انبیاء کے علم و کشف کے باب میں ہے تو اس کی مثال ساریہ کا عمر والا قصہ ہے  — ان قصوں کی تعداد اس قدر ہے جیسے بارش

اپنی دوسری کتابوں النبوات، قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق، الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية   میں ابن تیمیہ نے اس کا کئی بار اس قصہ کا  ذکر کشف کی دلیل کے طور پر   کیا

بلکہ دقائق التفسير الجامع لتفسير ابن تيمية میں وضاحت کرتے ہیں

وَعمر رَضِي لما نَادَى يَا سَارِيَة الْجَبَل قَالَ إِن لله جُنُودا يبلغون صوتي وجنود الله هم من الْمَلَائِكَة وَمن صالحي الْجِنّ فجنود الله بلغُوا صَوت عمر إِلَى سَارِيَة وَهُوَ أَنهم نادوه بِمثل صَوت عمر

اور عمر نے جب ساریہ کو پہاڑ کی ندا کی تو کہا الله کے  لشکر ہیں جو میری آواز لے کر جاتے ہیں اور الله کے لشکر فرشتے ہیں اور نیک جنات پس الله کے لشکروں نے عمر کی آواز ساریہ تک پہنچائی اور وہ ان کو آواز دیتے تھے عمر کی آواز کی طرح

ابن قیم کی رائے

ابن قیم کتاب میں مدارج السالکین میں لکھتے ہیں

 والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن

اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہیوں نے یا ساریـۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے۔

البانی کی رائے

محمد بن عجلان نے   یہ  روایت  یاس بن معاویہ بن قرۃ سے بھی سماعت کی ہے ۔  لالکائی کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة میں ایک مقام پر ہے قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ – ابن عجلان نے کہا اس اثر کو إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی ایسا ہی روایت کیا – اس بنا پر اس کو ابن عجلان کے طرق سے البانی نے صحیح قرار دیا –  البانی  نے  تحقيق الآيات البينات في عدم سماع الأموات (ص: 112) میں اس اثر کی سند کو جید حسن کہا  اور  سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3/ 101۔104)     میں اس پر طویل گفتگو کی ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ واقعہ صرف ابن عجلان کی سند سے صحیح ہے
 قلت: …. فتبين مما تقدم أنه لا يصح شيء من هذه الطرق إلا طريق ابن عجلان وليس فيه إلامناداة عمر ” يا سارية الجبل ” وسماع الجيش لندائه وانتصاره بسببه.ومما لا شك فيه أن النداء المذكور إنما كان إلهاما من الله تعالى لعمر وليس ذلك بغريب عنه، فأنه ” محدث ” كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ولكن ليس فيه أن عمر كشف له حال الجيش، وأنه رآهم رأي العين

میں البانی کہتا ہوں : پس کے واضح ہوا کہ اس سلسلے میں ایک ہی طرق صحیح ہے جو ابن عجلان کی سند سے ہے اور اس میں عمر کی پکار کا ذکر ہے کہ يا سارية الجبل اور لشکر کا اس آواز کو سننا اور اس کے سبب مدد پانا تو اس میں شک نہیں کہ یہ الہام میں سے ہے جو الله تعالی نے عمر کو کیا اور اس میں کوئی عجیب بات بھی نہیں کیونکہ وہ محدث ہیں جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس میں یہ نہیں ہے کہ  عمر پر لشکر کا حال کشف ہوا اور انہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا

ڈاکٹر عثمانی کی رائے

سن ١٩٨٠کی  دہائی میں رجل مومن ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے ایک ضعیف روایت یا ساریہ کا  کتاب مزار یا میلے میں رد کیا-

زبیر علی زئی کی رائے

سن ١٩٩٠ کی دہائی میں اہل حدیث عالم زبیر علی زئی میں بھی ہمت پیدا ہوئی کہ اس اثر کا رد کر سکیں

وہابیوں کی رائے

تقریبا تمام  معروف  وہابی علماء اس اثر کو صحیح قرار دیتے ہیں

محمد بن صالح العثيمين  اس اثر کو مشھور قرار ہے اور اولیاء الله کی کرامت قرار دیا

https://www.youtube.com/watch?v=N6k1EtknPE0

 السؤال: ما حكم الشرع فيما يروى أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه رأى سارية , وهو يخطب على المنبر في المعركة في موقف حرج مع الأعداء, فقال له: يا سارية الجبل! هل هذه القصة حقيقة حدثت, أم من الخيال؟ الجواب: هذه القصة مشهورة عن أمير المؤمنين عمر رضي الله عنه أنه كان يخطب الناس يوم الجمعة على منبر النبي صلى الله عليه وسلم, وكان سارية بن زنيم رضي الله تعالى عنه قائداً لإحدى السرايا في العراق, فحصر الرجل, فأطلع الله تعالى أمير المؤمنين عمر على ما أصابه, فخاطبه عمر من المنبر, وقال له: يا سارية ! الجبل, يعني: اصعد الجبل أو لذ بالجبل أو ما أشبه ذلك من التقديرات, فسمعه سارية فاعتصم بالجبل فسلم, ومثل هذه الحادثة تعد من كرامات الأولياء, فإن للأولياء كرامات يجريها الله تعالى على أيديهم تثبيتاً لهم ونصرة للحق, وهي موجودة فيما سلف من الأمم وفي هذه الأمة, ولا تزال باقية إلى يوم القيامة, وهي أمر خارق للعادة يظهره الله تعالى على يد الولي تثبيتاً له وتأييداً للحق, ولكن يجب علينا الحذر من أن يلتبس علينا ذلك بالأحوال الشيطانية من السحر والشعوذة وما أشبهها؛ لأن هذه الكرامات لا تكون إلا على يد أولياء الله, وأولياء الله عز وجل هم المؤمنون المتقون؛ قال الله عز وجل: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [يونس:62] قال شيخ الإسلام رحمه الله أخذاً من هذه الآية: من كان مؤمناً تقياً كان لله ولياً, وليست الولاية بتطويل المسبحة, وتوسيع الكم, وتكبير العمامة, والنمنمة, والهمهمة, وإنما الولاية بالإيمان والتقوى, فيقاس المرء بإيمانه وتقواه لا بهمهمته ودعواه. بل إني أقول: إن من ادعى الولاية فقد خالف الولاية؛ لأن دعوى الولاية معناه تزكية النفس, وتزكية النفس معصية لله عز وجل, والمعصية تنافي التقوى؛ قال الله تعالى: هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى [النجم:32]، ولا نعلم أحداً من أولياء الله المؤمنين المتقين قال للناس: إني أنا ولي, فاجتمعوا إلي, وخذوا من بركاتي ودعواتي وما أشبه ذلك, لا نعلم هذا إلا عن الدجالين الكذابين الذين يموهون على عباد الله ويستخدمون شياطين الجن للوصول إلى مآربهم. وإن نصيحتي لأمثال هؤلاء أن يتقوا الله عز وجل في أنفسهم وفي عباد الله, ونصيحتي لعباد الله أن لا يغتروا بهؤلاء وأمثالهم.

دائمی کمیٹی کا فتوی

سعودی دائمی کیمٹی کے پانچ علماء کا متفقہ فتوی ہے

فتاوى اللجنة الدائمة  الجزء رقم : 26، الصفحة رقم  41 پر

تصفح برقم المجلد > المجموعة الأولى > المجلد السادس والعشرون (كتاب الجامع 3) > السيرة > قول عمر رضي الله عنه يا سارية الجبل
الفتوى رقم ( 17021 )س: جاء محاضر إلى مدرستنا، وكانت المحاضرة عن كرامات الأولياء والصالحين ، وقال في محاضرته: كان عمر بن الخطاب يخطب على المنبر، فنادى السارية التي أرسلها للحرب، فقال: (يا سارية الجبل) فسمعت السارية كلامه فانزاحت إلى الجبل. علمًا بأن   بينهما مسافة بعيدة، هل هذه الرواية صحيحة أم خطأ، وهل هي من الكرامات؟
ج : هذا الأثر صحيح عن عمر رضي الله عنه، ولفظه: أن عمر رضي الله عنه، بعث سرية فاستعمل عليهم رجلاً يدعى سارية ، قال: فبينا عمر يخطب الناس يومًا قال: فجعل يصيح وهو على المنبر: يا سارية الجبل، يا سارية الجبل، قال فقدم رسول الجيش، فسأله فقال: يا أمير المؤمنين لقينا عدونا فهزمنا، فإذا بصائح يصيح: يا سارية الجبل، فأسندنا ظهورنا بالجبل فهزمهم الله.
رواه أحمد في (فضائل الصحابة)،  وأبو نعيم في (دلائل النبوة)  والضياء في (المنتقى من مسموعاته) وابن عساكر في (تاريخه) والبيهقي في (دلائل النبوة) وابن حجر في (الإصابة) وحسن إسناده،  ومن قبله ابن كـثير في (تاريخه) قال: إسناد جيد حسن، والهيثمي في (الصواعق المحرقـة) حسن إسناده أيضًا –  وهذا إلهام من الله سبحانه، وكرامة لعمر رضي الله عنه، وهـو المحدث الملهم، كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في الأثر أنه رضي الله عنه كشف له عن الجيش وأنه رآه رأي العيـن إلى غير ذلك من الروايات الضعيفة التي يتعلق بها غلاة المتصوفة في الكشف، واطلاع المخلوقين على الغيب، وهذا باطل؛ لأن الاطلاع على الغيب من صفات الله سبحانه وتعالى، وما ذكر في السؤال أعلاه مـن أن عمر رضي الله عنه نادى السارية التي أرسلها للحرب فسمعت السـارية كلامه فانزاحت للجبل، فهذا جهل في معنى الحديث.وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء​

 عضوالرئيس : بكر أبو زيد –  عبد العزيز آل الشيخ –  صالح الفوزان –  عبد الله بن غديان –  عبد العزيز بن عبد الله بن باز

سوال: ہمارے مدرسے میں کرامت اولیاء پر تقریر ہوئی اس میں مقرر نے اثر بیان کیا کہ  عمر رضی الله عنہ کا قول یا ساریہ پہاڑ  جنگ کے دوران … اور عمر اور ساریہ میں مسافت بہت دور تھی تو کیا یہ روایت صحیح ہے یا غلطی ہوئی یا یہ کرامت ہے ؟

جواب : یہ اثر صحیح ہے عمر رضی الله عنہ کے حوالے سے  اور اس کے الفاظ ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے ایک سریہ بھیجا اس پر سالار ایک مرد کو کیا جس کا نام ساریہ تھا- اور عمر اس دوران کہ وہ خطبہ دے رہے تھے ایک دن وہ چیخے اور وہ منبر پر تھے اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ – پس جب لشکر کا خبری آیا اس سے سوال ہوا – اس نے کہا امیر المومنین ہمارے دشمن نے ہم کو شکست دی یہاں تک کہ ہم نے ایک چیخ سنی کہ اے ساریہ پہاڑ پس ہم نے اپنی پیٹھ اس کے ساتھ کر دی اور الله نے دشمن کو شکست دی – اس کو احمد نے ، ابو نعیم نے الضیاء نے ابن عساکر نے بیہقی نے ابن حجر نے روایت کیا ہے –ابن حجر نے اس کو حسن قرار دیا ہے اور ان سے قبل ابن کثیر نے تاریخ میں اسکو اسناد جید حسن کہا ہے اور ہیثمی نے بھی اسناد حسن کہا ہے اور یہ الله تعالی کا الہام تھا اور عمر کی کرامت تھی اور وہ   الہام پانے  والوں میں  تھے  جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے – اور اس اثر میں یہ نہیں ہے کہ لشکر کا کشف ان پر اس طرح ہوا کہ وہ آنکھ سے  دیکھ رہے  تھے جو ضعیف روایات میں ہے جو کشف کے سلسلے میں غالی صوفیوں نے اس میں متعلق کر دی ہیں- اور مخلوق کی خبر غیب میں سے ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ غیب کی خبر پانا اللہ کی صفات میں سے ہے اور جو سوال میں ذکر ہوا کہ عمر نے ساریہ کو پکارا جس کو جنگ میں بھیجا تھا اور ساریہ نے اس کو سنا تو یہ حدیث کے معنوں میں جھل ہے  .وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم

وہابی عالم صالح المنجد بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں

https://islamqa.info/ur/12778

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ ثابت اور صحیح ہے ، نافع بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لشکر پر ساریہ نامی شخص کو امیر بنایا ، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما خطبہ جعمہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک کہنے لگے ” اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ ” تو انہوں نے ایسا پایا کہ جمعہ کے دن اسی وقت ساریہ نے پہاڑ کی جانب حملہ کیا تھا حالانکہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما اور ساریہ کے درمیان ایک مہینہ کی مسافت تھی ۔مسند احمد فضائل صحابہ ( 1/ 269 ) اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے سلسلہ الصحیحہ میں صحیح کہا ہے ( 1110 )

تویہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما کی کرامت ہے یا تو الہام اور آواز کا پہنچنا – یہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی راۓ ہے – یا پھر کشف نفسانی اور آواز کا پہنچنا – اس پر شیخ البانی رحمہ اللہ کی کلام آگے آۓ گی – تو دونوں حالتوں میں بلا شک وشبہ یہ کرامت ہے ۔

اہل حدیث کی جدید رائے

عصر حاضر کے اہل حدیث   عالم  غلام مصطفی ظہیر اس روایت  کو صحیح قرار دیتے ہیں

https://www.facebook.com/muhammed.kashif.796/videos/794954507276957/

 فتاویٰ الدین الخالص، امین پشاوری (ج1ص212) میں ہے

راقم کہتا ہے ابن عجلان جس کے طرق سے اس روایت کو پیش و قبول کیا گیا ہے اس کے بارے میں امام مالک نے کہا تھا کہ  اس کو حدیث کا کوئی علم نہیں – کتاب  الضعفاء الكبير از امام  العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، 

 امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے

راقم اس سلسلے میں امام مالک  کی رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ یہ اثر قابل قبول نہیں ہے

یہ بھی معلوم ہوا کہ غالی شیعوں کی طرح غالی اہل سنت کا ایک طبقہ موجود تھا جس کا ذکر کھل کر نہیں کیا گیا

اہل بیت کی انگوٹھیاں

انگوٹھی پر آیات یا اسماء الحسنی کندہ کروانا

صحیح احادیث کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک انگوٹھی تھی جس پر محمد رسول الله کندہ تھا -اس کو اپ صلی الله علیہ وسلم  بطور مہر استعمال کرتے تھے- لیکن بعد میں یہ انگوٹھی   عثمان رضی الله عنہ سے مدینہ میں  اریس نامی ایک کنواں میں گر گئی اور ملی نہیں

کتب اہل سنت

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلابِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ قَالَ: قَرَأْتُ نَقْشَ خَاتَمِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي صُلْحِ أَهْلِ الشَّامِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ.

ابی اسحٰق الشیبانی نے کہا میں نے علی کی انگوٹھی پر نقش اہل شام سے صلح کے وقت دیکھا اس پر لکھا تھا محمد رسول الله

سند میں أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ  الكوفي ہے جس کو سُلَيْمَانُ بْنُ فَيْرُوزَ یا  سُلَيْمَانُ ابْنُ خَاقَانَ یا سلَيْمَان بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ بھی کہا جاتا ہے  – اس نے علی کو نہیں پایا اور  اس طرح کی انگوٹھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تھی جو معدوم ہوئی- کتاب  إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع از  المقريزي (المتوفى: 845هـ) کے محقق   محمد عبد الحميد النميسي کہتے ہیں

 قال أحمد بن يحى بن جابر: نسبت إلى أريس رجل من المدينة من اليهود، عليها مال لعثمان بن عفان رضى اللَّه عنه، وفيها سقط خاتم النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم من يد عثمان، في السنة السادسة من خلافته، واجتهد في استخراجه بكل ما وجد إليه سبيلا، فلم يوجد إلى هذه الغاية، فاستدلوا بعد به على حادث في الإسلام عظيم

احمد بن یحیی بن جابر نے کہا : اس کنواں کی نسبت اریس کی طرف ہے جو مدینہ کا ایک یہودی تھا اور اس پر عثمان کا مال لگا اور کنواں میں رسول الله صلّى اللَّه عليه وسلّم  کی مہر عثمان کے ہاتھ سے گری ان کی خلافت کے چھٹے سال اور انہوں نے اس کو نکلالنے کا اجتہاد کیا لیکن کوئی سبیل نہ پائی اس میں کامیاب نہ ہوئے اور اس پر استدلال کیا گیا کہ یہ  اسلام کا ایک عظیم حادثہ ہے

یعنی محمد رسول الله کے الفاظ سے کندہ کرائی انگوٹھی کھو گئی تھی- رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے یہ جائز  نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی انگوٹھی اپنے لئے  بناتا

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، “أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، فَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ”، ثُمَّ قَالَ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَى قَوْلِهِ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”، نَهَى أَنْ يَنْقُشَ أَحَدٌ عَلَى خَاتَمِهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ

رسول الله نے حکم دیا اس نقش (محمد رسول الله) کو  کوئی اور کندہ نہ کروائے

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبَانُ بْنُ قَطَنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى: أَنَّ

عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ تَخَتَّمَ فِي يَسَارِهِ

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى  نے کہا علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

اس کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جس کو امام احمد نے  مضطرب الحديث قرار دیا ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ عَنْ جعفر بن محمد عَنْ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عَلِيًّا تَخَتَّمَ فِي الْيَسَارِ.

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

معجم ابن الأعرابي از أبو سعيد بن الأعرابي أحمد بن محمد بن زياد بن بشر بن درهم البصري الصوفي (340هـ) کی روایت ہے

نا مُحَمَّدٌ الْغَلَابِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى بْنِ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي الْحُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ «الْمُلْكُ لِلَّهِ، عَلِيٌّ عَبْدُهُ»

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی   انگوٹھی پہنتے تھے جس پر نقش تھا الله  کے لئے بادشاہت ہے علی اس کا بندہ ہے

سند میں امام جعفر ہیں جو   روایت حدیث میں مضطرب ہیں

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

[قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الأَشْيَبُ وَعَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الْمِصْرِيُّ قَالا: أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] . [قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] .

جابر جعفی نے  ابن حنفیہ سے روایت کیا کہ علی کی انگوٹھی پر لکھا تھا الله الملک

اس کی سند میں جابر جعفی سخت ضعیف ہے

کتب اہل تشیع

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

عن الصّادق، عن أبيه(عليهما السلام): إنّ خاتم رسول الله(صلى الله عليه وآله) كان من فضّة ونقشه «محمّد رسول الله». قال: وكان نقش خاتم عليّ(عليه السلام): الله الملك. وكان نقش خاتم والدي رضي الله عنه: العزّة لله

امام جعفر صادق  نے باپ سے روایت کیا کہ رسول الله صلى الله عليه وآله کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس پر نقش تھا محمد رسول الله اور علی کی انگوٹھی پر نقش تھا الله الملک اور  امام جعفر کے باپ کی انگوٹھی پر نقش تھا عزت الله کی ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

الكافي: عن أبي عبدالله(عليه السلام) قال: في خاتم الحسن والحسين الحمدلله(3).

وعن الرّضا(عليه السلام): كان نقش خاتم الحسن: العزّةلله، وخاتم الحسين: إنّ الله بالغ أمره(4).

الکافی از کلینی میں ہے ابو عبد الله سے روایت ہے کہ امام حسن و حسین کی انگوٹھی پر کندہ تھا الحمد للہ اور امام رضا سے روایت ہے حسن کی انگوٹھی پر لکھا تھا العزّةلله، اور حسین کی انگوٹھی پر لکھا تھا إنّ الله بالغ أمره

قرآن کی آیت إنّ الله بالغ أمره سورہ طلاق میں ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

أمالي الصدوق: عن الباقر(عليه السلام): كان للحسين بن عليّ(عليه السلام) خاتمان نقش أحدهما: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله، ونقش الآخر: إنّ الله بالغ أمره. وكان نقش خاتم عليّ بن الحسين(عليه السلام): خزي وشقي قاتل الحسين بن عليّ(عليه السلام)(5). في أنّ الحسين(عليه السلام) أوصى إلى ابنه عليّ بن الحسين(عليه السلام) وجعل خاتمه في إصبعه وفوّض أمره إليه، ثمّ صار الخاتم إلى محمّد بن عليّ، ثمّ إلى جعفر بن محمّد وكان يلبسه كلّ جمعة ويصلّي فيه، فرآه محمّد بن مسلم في إصبعه وكان نقشه: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله(6).

أمالي  از  الصدوق میں امام   الباقر(عليه السلام) سے روایت ہے کہ حسین بن علی علیہ السلام کی انگوٹھیاں تھیں- ان میں سے  ایک پر لکھا تھا لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله اور دوسری پر لکھا تھا  إنّ الله بالغ أمره اور علی بن حسین علیہ السلام کی انگوٹھی پر کندہ تھا  ذلیل و رسوا ہوں حسین بن علی کے قاتل کیونکہ حسین نے اپنے بیٹے علی بن حسین کو امر سونپ دیا تھا پھر یہ انگوٹھی گئی محمد بن علی کے پاس وہ اس کو ہر جمعہ پہنتے اور اسی میں نماز پڑھتے  اس کو محمد بن مسلم نے ان کی انگلی میں  دیکھا کہ اس پر کندہ تھا   لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

عن سعد: عن ابن عيسى، عن ابن فضال، عن ابن بكير، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه  السلام قال: إن لرسول الله صلى الله عليه واله عشرة أسماء: خمسة منها في القرآن،  وخمسة ليست في القرآن، فأما التي في القرآن: فمحمد، وأحمد، وعبد الله، ويس، ون، وأما التي ليست في القرآن: فالفاتح، والخاتم، والكاف، والمقفي، والحاشر

محمد بن مسلم نے أبي جعفر عليه  السلام سے روایت کیا کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پانچ نام قرآن میں ہیں اور پانچ اس میں نہیں ہیں – جو پانچ قرآن میں ہیں وہ ہیں محمد ، احمد ، عبد الله ، یس، ن اور جو نہیں ہیں وہ ہیں فاتح ،  خاتم، کاف اور مقفی اور حاشر

یہ نام بھی تعویذات میں لکھے جاتے ہیں

انگوٹھیوں پر  اسماء الحسنی اور آیات قرانی کندہ کروانا دونوں  اہل سنت  اور اہل تشیع نے اہل بیت النبی سے منسوب کیا ہے – اس کا مقصد کیا تھا مہر تھی یا تعویذ یہ واضح نہیں ہوا

انگوٹھیوں میں پتھر پہنا

کتب اہل سنت

صحیح مسلم  اور مسند ابو یعلی  میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ، وَكَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا»

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ کَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ وَکَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا

ترجمہ :  یحیی بن ایوب، عبداللہ بن وہب، مصری یونس بن یزید ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبش کا تھا۔

حديث:990

و حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبَّادُ بْنُ مُوسَی قَالَا حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَی وَهُوَ الْأَنْصَارِيُّ ثُمَّ الزُّرَقِيُّ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ خَاتَمَ فِضَّةٍ فِي يَمِينِهِ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ کَانَ يَجْعَلُ فَصَّهُ مِمَّا يَلِي کَفَّهُ

عثمان بن ابی شیبہ، عباد بن موسی، طلحہ بن یحیی، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کی انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی تھی جس میں حبشہ کا نگینہ تھا انگوٹھی پہنتے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا نگینہ اپنی ہتھیلی کی رخ کی طرف کرلیتے تھے۔

محمد فؤاد عبد الباقي شرح میں لکھتے ہوں

  (حبشيا) قال العلماء يعني حجرا حبشيا أي فصا من جزع أو عقيق فإن معدنهما بالحبشة واليمن وقيل لونه حبشي أي أسود

علماء کہتے  ہیں حبشی پتھر تھا یعنی نگ سنگ مرمر کا یا عقیق کا تھا اور کہا جاتا ہے کالا تھا جیسے حبشی ہوتے ہیں

بیہقی شعب الایمان میں اس روایت پر کہتے ہیں

وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ كَانَ خَاتَمَانِ أَحَدُهُمَا فَصُّهُ حَبَشِيًّا،

یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ رسول الله کے پاس انگوٹھیاں تھیں جن میں ایک میں حبشہ کا نگ لگا تھا

صحیح مسلم کی اس روایت میں يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري  کا تفرد ہے- یہ مختلف فیہ ہے ابن سعد نے کہا   ليس بحجة  حجت نہیں ہے اور امام وكيع نے کہا  سيئ الحفظ  اس کا حافظہ خراب ہے اور امام احمد نے اس کی بعض احادیث کو منکر قرار دیا

  وقال الاثرم: ضعف أحمد أمر يونس.

الاثرم نے کہا احمد نے يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري کے کام کو ضعیف کہا

علمائے اہل سنت میں سے بعض مثلا اہل حدیث اور وہابیوں کے نزدیک یہ پتھر بطور زینت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے  پہنا

یہ قول قابل غور ہے کہ ائمہ شیعہ عقیق نماز کے وقت پہنتے  کیونکہ قرآن میں ہے

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ

اے بنی آدم  ہر سجدے پر اپنی زینت  لو

کتب اہل تشیع

کتاب بشارة المصطفى ( صلى الله عليه وآله ) لشيعة المرتضى ( عليه السلام ) کے مطابق

حدثنا عبد الرزاق ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة : قالت :« دخلت على رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) وفي يده خاتم فضة عقيق فقلت : يارسول الله ما هذا الفص ؟ فقال لي : من جبل أقر لله بالربوبية ولعلي بالولاية ولولده بالامامة ولشيعته بالجنة

عائشہ سے روایت ہے کہ میں رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) کے پاس داخل ہوئی دیکھا ان کے ہاتھ میں عقیق کی چاندی کی انگوٹھی ہے پوچھا یہ نگ کس لئے؟ فرمایا : یہ پہاڑ ہے جو الله کی ربوبیت کا اقراری ہے اور علی کی ولایت کا اور ان کی اولاد کی امامت جا اور ان کے شیعوں کے لئے جنت کا

یہ روایت عبد الرزاق سے صحیح سند سے ہے لیکن کتب اہل سنت میں نہیں ملی

مسند امام الرضا میں ہے

عنه عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن على بن معبد، عن الحسين بن خالد عن الرضا عليه السلام، قال: كان أبو عبد الله عليه السلام يقول: من اتخذ خاتما فصه عقيق لم يفتقر ولم يقض له إلا بالتى هي أحسن

الحسين بن خالد نے امام الرضا سے روایت کیا کہ أبو عبد الله عليه السلام نے کہا جس نے عقیق کو انگوٹھی چاندی کے ساتھ لی وہ فقیر نہ ہو گا  اس کا کوئی کام پورا نہ ہو گا لیکن احسن انداز سے

اہل تشیع کی بعض روایات میں ہے عقيق أصفر پہنو یا عقيق احمر پہنو

الکافی از کلینی میں ہے

عنه، عن بعض أصحابه، عن صالح بن عقبة، عن فضيل بن عثمان، عن ربيعة الرأي قال: رأيت في يدعلي بن الحسين عليه السلام فص عقيق فقلت: ماهذا الفص؟ فقال: عقيق رومي، وقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من تختم بالعقيق قضيت حوائجه.

(12631 5) عنه، عن بعض أصحابه رفعه قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: العقيق أمان في السفر.

ربيعة الرأي نے کہا میں نے علی بن حسین کے ہاتھ میں عقیق کا نگ دیکھا پوچھا یہ کیسا نگ ہے ؟ کہا یہ رومی عقیق ہے اور رسول الله صلى الله عليه وآله نے فرمایا  جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اس کی حاجات پوری ہوئیں- اور … ابو عبد اللہ سے روایت ہے عقیق سے سفر میں امان ملتی  ہے

فیروزہ پہنے پر روایات

وسائل الشيعة   باب استحباب لبس الداعي خاتم فيروزج وخاتم عقيق

أحمد بن فهد في ( عدة الداعي ) عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : قال الله عز وجل : إني لأستحيي من عبدي يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

الصادق عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه واله: قال الله سبحانه:

إني لاستحيي من عبد يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة.

حدیث قدسی ہے کہ میں اس سے حیا کرتا ہوں کہ بندہ ہاتھ دعا کے لئے بلند کرے اور اس میں فیروزہ ہو اور میں اس کو قبول نہ کروں

ابن سبا کا فلسفہ

یہود کے مطابق عقیق اور فیروزہ ان دو پتھروں کا تعلق  یہود کے ١٢ میں سے دو قبیلوں سے تھا جن کے نام دان اور نفتالی ہیں – یہ یہود کے کھو جانے والے قبائل ہیں –

ہیکل سلیمانی کے امام کے گلے کے ہار میں ١٢ نگ ہونے چاہیے ہیں جو ١٢ قبائل سے منسوب ہیں  – توریت کتاب خروج میں ہے

Exodus 28:18 the second row shall be turquoise, lapis lazuli and emerald;
Exodus 28:19 the third row shall be jacinth, agate and amethyst;

دوسری رو میں فیروزہ  … ہو گا

تیسری میں … عقیق ہو گا

یہود کی کتاب ترجم میں ہے

Targum, Jewish Magic and Superstition, by Joshua Trachtenberg, 1939

Shebo [agate] is the stone of Naphtali
Turquoise is the stone of Dan

شیبو یا عقیق یہ نفتالی کا پتھر ہے

فیروزہ یہ دان کا نگ ہے

یہودی محقق ٹیوڈر پارفٹ لکھتے ہیں

The Road to Redemption: The Jews of the Yemen, 1900 – 1950 by Tudor Parfitt, 1996, Brill  Publisher, Netherland

In the nineteenth century even the Jewish world knew relatively little of  the Jews of South Arabia. In 1831 Rabbi Yisrael of Shklov sent an emissary to Yemen … emissaries who had visited Yemen some years before and who had claimed to have met members of the tribe of Dan in the deserts of  Yemen..

انیسویں صدی میں دنیائے یہود کو جزیرہ العرب کے جنوب میں یہود کے بارے میں  بہت کم معلومات تھیں – سن ١٨٣١ میں ربی اسرائیل جو شخلو کے تھے انہوں نے ایک سفارتی وفد یمن بھیجا جہاں ان کی ملاقات یہودی قبیلہ دان کے لوگوں سے ہوئی جو یمن کے صحراء میں ٹہرے

 

The conviction that the lost tribes were to be found in the more remote areas of the Yemen was one which was shared by the Yemenite Jews themselves. Over the centuries they had elaborated numerous legends about the tribes, and particularly about the supposed valour of the Tribe of Dan

یہ یقین کہ کھوئے ہوئے قبیلے یمن کے دور افتادہ علاقوں میں ملیں گے یہ یقین یمنی یہودیوں کو بھی ہے – صدیوں سے ان کے قبائل کے  بارے میں بہت سی حکایتیں جمع ہیں جن میں قبیلہ دان کی بہادری کے تزکرے ہیں

 راقم کہتا ہے ابن سبا بہت ممکن ہے دان یا نفتالی قبیلہ کا تھا جو یمن میں آباد تھے اور لشکر علی میں شامل ہو کر کوفہ پہنچے اور شیعوں میں مل گئے لیکن قبائلی عصبیت باقی رہی اور اپنے قبیلوں سے منسوب نگوں کو اہل بیت کی انگوٹھیوں میں لگوا دیا یعنی ان سے منسوب کیا

دان نفتالی ابن سبا اور آصف بن برخیاہ پر مزید دیکھیں

اصف بن بر خیا کا راز

دعا میں وسیلہ کرنا – شرک یا توحید؟

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

=======================================================

فہرست

———— التوسل بذوات الصالحین———–

زندگی میں   ولی  یا نبی سے دعا کروانا= التوسل بالدعا

یعقوب علیہ السلام کا دعا کرنا

عمر رضی الله عنہ کا عباس رضی الله عنہ سے دعا کروانا

فوت شدہ اولیاء سے وسیلہ لینا

قوم نوح اور  ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر

————– التوسل بالنبی ————-

ولادت النبی سے قبل التوسل بالنبی کے دلائل

آدم علیہ السلام کا   نبی صلی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے  دعا کرنا

خیبر کے یہود کا     جنگ میں فتح کے   لئے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا وسیلہ لینا

حیات النبی میں  التوسل بالنبی کے دلائل

عبد المطلب  کا   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے بارش طلب کرنا

منافقین  کے لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دعا کرنا

بعد وفات النبی  ، التوسل بالنبی کے دلائل

ایک بدو کا واقعہ

ایک نابینا کا واقعہ

قبر النبی  اور آسمان سے  بارش برسنا

مالک الدار والی روایت

ابو ایوب انصاری رضی الله عنہ کا قبر النبی سے وسیلہ لینا

———— التوسل بالاستغاثہ کے دلائل ———

جنگ یمامہ میں اصحاب رسول کا یامحمداہ کی پکار لگانا

اعینوا یا عباد الله؟

یا عباد الله : احسبوا علی؟

———— التوسل پر علماء کی متضاد آراء ———

=======================================

پیش لفظ

قرآن میں ہے کہ قوم نوح   نے کہا  ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر  کو مت چھوڑو

وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آَلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا 23

اور انہوں نے  کہا تم اپنے الہ  کو مت چھوڑنا   د، سواع، یغوث، یعوق اور نسر  کو

صحیح بخاری میں ابن عباس سے مروی ہے کہ أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِينَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ    یہ لوگ قوم نوح کے صالح لوگ تھے –

اور پھر  یہ لوگ عربوں میں بھی پوجے گئے

صَارَتِ الأَوْثَانُ الَّتِى كَانَتْ فِى قَوْمِ نُوحٍ فِى الْعَرَبِ

عرب میں قوم نوح کے بت پھیل گئے

یعنی عربوں میں توسل اور وسیلہ لینا معروف تھا – لیکن انہوں نے ان شخصیات کو بت کی شکل دی لیکن مقصد توسل ہی تھا  لہذا مشرک کہتے   یہ اولیاء الله ہیں جن کے بت ہیں ان کی اس پوجا کا مقصد تقرب الی الله ہے – سوره الزمر میں ہے


أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ

خبردار دین خالص الله کے لئے ہو، اور وہ جنہوں نے اس کے علاوہ دیگر ولی اختیار  کیے ہیں – (وہ کہہ رہے ہیں) ہم عبادت نہیں کرتے سوائے اس کے کہ  الله کا قرب ملے –  الله ان کا فیصلہ کرے گا جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں – الله جھوٹے  کفار کو ہدایت نہیں کرتا

مشرکین  کے اولیاء الله سے وسیلہ لینے پر جرح کی گئی  اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے ایمان والوں الله سے ڈرو اور اس کی طرف الوسیلہ تلاش کرے اور اس کی راہ میں کوشش کرو تاکہ فلاح پاؤ

ظاہر ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ  انبیاء اور اولیاء کی وفات کے بعد ان کا وسیلہ مسلمان لے سکتے ہیں لیکن یہی کام مشرک کریں تو صحیح نہیں – آیت میں وسیلہ سے مراد الله کا قرب حاصل کرنا ہے جو نیکی  میں سبقت سے حاصل ہوتا ہے  اگر ایمان صحیح ہو – قرآن میں ہے

لَّيْسَ الْبِـرَّ اَنْ تُـوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِـرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلَآئِكَـةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّيْنَۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَالسَّآئِلِيْنَ وَفِى الرِّقَابِۚ وَاَقَامَ الصَّلَاةَ وَاٰتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِـمْ اِذَا عَاهَدُوْا ۖ وَالصَّابِـرِيْنَ فِى الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۗ اُولٰٓئِكَ الَّـذِيْنَ صَدَقُوْا ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُتَّقُوْنَ (177)

یہی نیکی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی تو یہ ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر، اور اس کی محبت میں رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں مال دے، اور نماز پڑھے اور زکوٰۃ دے، اور جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کرلیں، اورتنگدستی میں اور بیماری میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ  هم  جو أولياء کا  ان کی وفات کے بعد دعا میں وسیلہ لیتے ہیں یا اللہ کو واسطہ دیتے ہیں یا بحق   محمد یا بجاہ محمد   کہتے ہیں تو  یہ شرک نہیں ہے کیونکہ   نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ امت شرک نہ کرے گی اور بخاری کی روایت پیش کرتے ہیں

وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي

اور الله کی قسم مجھے اس کا خوف نہیں کہ تم شرک کرو گے

یہ روایت صحیح ہے لیکن اس کو اس کے سیاق و سباق میں ہی سمجھا جا سکتا ہے

بخاری میں یہ حدیث عقبہ بن عامر رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ  وسلم ایک روز  پہلے اصحاب کے ساتھ مقام احد گئے اورشہداء کے لئے دعا  کی پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور  یہ  الفاظ فرمائے- یہ الفاظ صحابہ کے لئے مخصوص ہیں نہ کہ ساری امت کے  لئے . اگر نبی صلی الله علیہ وسلم امت کے حوالیے سے بالکل مطمین ہوتے تو وہ یہ نہ کہتے کہ قرآن حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ یہ نہ کہتے کہ ایمان اجنبی ہو جائے گا وہ یہ نہ کہتے کہ بہتر فرقے جہنم کی نذر ہوں گے-

الله تعالی پر مخلوق کا حق نہیں ہے – مخلوق پر الله کا حق ہے- اسی وجہ سے الله کی عبادت خالص ہونی چاہئیے –

  قرآن میں ہے  الله تعالی سب کی سنتا ہے اور انسان کے شہ رگ سے بھی قریب ہے تو پھر سوال ہے کہ آیت میں وسیلہ سے کیا مراد ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

امام طبری تفسیر میں لکھتے ہیں

وابتغوا إليه الوسيلة”، يقول: واطلبوا القربة إليه بالعمل بما يرضيه

اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو  کہا اس کی قربت طلب کرو اس عمل سے جس سے وہ خوش ہو

عبد الله بن كثير، مجاہد، حسن بصری ، قتادہ سب نے اس کو تقرب الی الله قرار دیا ہے جو نیکی کرنے سے حاصل ہوتا ہے

یعنی وسیلہ تلاش کرو سے مراد کسی بزرگ کو تلاش کرنا نہیں ہے جس سے دعا کرا سکیں اس سے مراد ہے الله کا تقرب حاصل کرو اور شرح کی کہ اس کی راہ میں جہاد سے یہ حاصل ہو گا یا نیک عمل سے

سوره بنی اسرائیل یا  الإسراء: 57 میں ہے

أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا

وہ   (مشرک و اہل کتاب) جن کو پکار رہے  ہیں وہ   (خود)الله  کا وسیلہ چاہتے ہیں جو ان کو الله کا   قرب دے اور وہ اللہ  سے رحمت کی امید رکھتے  ہیں اور اس کے  عذاب سے ڈرتے ہیں کہ ان کے  رب کا عذاب ایسا ہے جس سے ڈرا جائے

یعنی فرشتے اور انبیاء جن کو مشرک اور اہل کتاب پکارتے  ہیں وہ فرشتے اور انبیاء خود  الله کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں

تفسیر یحیی بن سلام میں ہے

سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: نَزَلَتْ فِي نَفَرٍ مِنَ الْعَرَبِ كَانُوا يَعْبُدُونَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ، فَأَسْلَمَ الْجِنِّيُّونَ، وَلَمْ يَعْلَمْ بِذَلِكَ النَّفَرُ مِنَ الْعَرَبِ.

[أخرج عبد الرَّزَّاق وَالْفِرْيَابِي وَسَعِيد بن مَنْصُور وَابْن أبي شيبَة وَالْبُخَارِيّ وَالنَّسَائِيّ وَابْن جرير وَابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم وَالطَّبَرَانِيّ وَالْحَاكِم وَابْن مرْدَوَيْه وَأَبُو نعيم فِي الدَّلَائِل عَن ابْن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ]

ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت عربوں کے ایک ٹولے کے لئے نازل ہوئی جو جنوں کی عبادت کرتا اور جنات ایمان لائے اور ان کے ایمان کی خبر پجاریوں کو نہیں ہوئی

قرون ثلاثہ کے اندر مفسرین وسیلہ سے مراد نیک عمل ہی لیتے تھے اس سے مراد ولی الله سے دعا کروانا بھی نہیں تھا بلکہ اس کا وسیلہ سے تعلق بھی نہیں ہے – کیونکہ دعا ایک دوسرے کے لئے کرنا معلوم ہے

یہ قول کہ آیت   (اتقوا الله وابتغوا اليه الوسيلة) میں وسیلہ سے مراد شخصی وسیلہ  ہے یہ  اہل تشیع نے بیان کیا اور تفسیر قمی میں ہے

فقال تقربوا اليه بالامام

امام کے ذریعہ قربت حاصل کرو

اس کے برعکس علی رضی الله عنہ سے منسوب الکافی کی روایت ہے جس کو خطبہ الوسیلہ کہا جاتا ہے اس میں صریحا لکھا ہے کہ علی نے کہا

أيها الناس إن الله تعالى وعد نبيه محمدا صلى الله عليه وآله الوسيلة ووعده الحق ولن يخلف الله وعده، ألا وإن الوسيلة على درج الجنة

اے لوگوں الله  تعالی نے اپنے نبی محمد صلی الله علیہ و الہ سے الوسیلہ کا وعدہ کیا ہے اس کا وعدہ سچا ہے خبردار وسیلہ جنت کا درجہ ہے

کتاب نہج البلاغہ میں علی سے منسوب خطبہ ہے

إِنَّ أفضلَ ما توسلَ بِهِ المتوسلون إِلى الله سبحانه وتعالى، الإِيمان بِهِ وَبِرَسُولِهِ، والجهادُ في سبيله، وأقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وَصومُ شهرِ رمضان، وَحج البيت واعتمارُه، وَصلة الرحم، وصدقة السّر، وصدقة العلانية

سب سے افصل توسل الی الله  یہ ہے اس کے رسول پر ایمان لایا جائے اور اس کی راہ میں جہاد کیا جائے اور نماز قائم کی جائے اور زكاة   دی جائے اور رمضان کے روزے رکھے جائیں اور حج بیت الله کیا جائے  اور اس کا  اعتمارُ کیا جائے (یعنی نظم و نسق) اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی جائے اور چھپ کر صدقه کیا جائے اور اعلانیہ بھی

اس میں وہ تمام نیکیاں آ گئیں جو معروف ہیں – علی نے اپنی ذات کے وسیلہ کا حکم نہیں کیا-

لیکن  بعض  شیعہ اور اہل سنت  نے وسیلہ کو جائز قرار دے دیا ہے کہ  الإِمام یا نبی کی ذات کا وسیلہ لیا جا سکتا ہے

الله تعالی  نے قرآن میں بیان کیا کہ ابناء یعقوب کے لئے یعقوب علیہ السلام نے مغفرت کی دعا کی – معلوم ہوا نیک لوگوں سے ان کی زندگی میں دعا کی درخواست کی جا سکتی ہے- راقم اس کو وسیلہ قرار نہیں دیتا  – قرانی لفظ الوسیلہ سے مراد  علی  رضی الله عنہ کے نزدیک نیکیاں کرنا ہے  – راقم اسی کا قائل ہے کہ کسی سے دعا کروانا  ایک مسلمان کا دوسرے کے حق میں دعا کرنا ہے وسیلہ نہیں ہے-

بعد وفات الانبیاء و صلحاء و اولیاء ان کے ناموں  کو دعا میں استعمال کرنا کہ الله پر ان کا حق جتلانا بلا ثبوت ہے – اس عمل کے وجوب  پر نہ کوئی قرانی آیت ہے نہ حدیث معلوم ہے  بلکہ شرک  ہے اور عمل مشرکین مکہ  سے مماثلت رکھتا ہے  جو اولیاء قوم نوح کو پکارتے تھے

اس کتاب میں ان روایات پر تبصرہ ہے جو دعا میں انبیاء و اولیاء کے  وسیلہ لینے  کے حق میں پیش کی جاتی ہیں

ابو شہر یار

٢٠١٧

 

موت و نیند پر اضطراب


فرقہ پرستوں کا عقیدہ   جمہور صحیح عقیدہ
نیند میں روح کو جسم سے نکال لیا جاتا ہے –   زندہ کی روح  عالم بالا جاتی ہے  جہاں روح کی  ملاقات  مردوں کو روح سے ہوتی ہے (ابن قیم    فی کتاب الروح ،  ابن تیمیہ فی الفتاوی)

اس  قول  سے خواب کی تعبیر کا عقیدہ    ان فرقوں نے گھڑا   ہے

روح یا نفس جسد میں ہی  قید رہتا ہے  اس کو توفی یا قبض   کرنا کہا   گیا ہے  یعنی پکڑنا یا قبضہ میں لینا   اور نفس کے  ارسال سے مراد نفس کو ( واپس جسد میں ہی ) چھوڑنا ہے

نیند میں روح  نہ تو عالم بالا میں جاتی ہے نہ ہی  زندہ  کی روح کی مردوں کی روح سے ملا قات ہوتی ہے      – اس سے متعلق تمام روایات  ضعیف ہیں

نیند
سلفی  و غیر مقلد علماء:

بد کاروں کی روحیں  برھوت  یمن میں ہیں   (وہابی  علماء، ابن تیمیہ )   نیکوکاروں  کی  روحیں  شام میں جابیہ میں ہیں   (عبد الوہاب النجدی) – روح  کا جسم سے  شعاع جیسا تعلق رہتا ہے اور جسد میں آتی جاتی رہتی ہے   – (ابن قیم    فی کتاب الروح ،  ابن تیمیہ فی الفتاوی   اور وہابی و اہل حدیث علماء   قبل تقسیم ہند)

روح جسد میں   ایک دفعہ سوال جواب کے وقت آتی ہے اس کے بعد   جنت و جہنم میں جاتی ہے  (اہل حدیث پاکستان کا عقیدہ جدید    سن ٢٠٠٠  ع کے بعد سے)

عود روح ہونے پر مردہ زندہ  ہو جاتا ہے

(قاضی ابو یعلی،    شیخ الکل  نذیر  حسین، بدیع الدین  راشدی )

عود  روح ہونے پر مردہ ، مردہ ہی ہے  (ابن عبد الھادی،   اہل حدیث  فرقہ پاکستان)-

اس    خود ساختہ قول    سے حیات برزخی  کا   تصور  نکالا گیا ہے

 

تقلیدی  علماء:

روح جسم میں عجب الذنب میں سمٹ جاتی ہے   (  ملا علی القاری   فی مرقاة    شرح مشكاة )

عام  لوگوں کی روحیں  زمیں و آسمان کے درمیان ہیں  (النسفی     فی  شرح العقائد)

ارواح  قبرستا نوں میں (یعنی جسد  میں)  ہی رہتی ہیں (التمہید از ابن عبد البر   اور   بیشتر دیو بندی و بریلوی   علماء )

ان     فرقوں کے نزدیک   عود  روح ہوتا ہے  اور  مردہ   دفنانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتا ہے سوائے معدودے چند کے یہ ان کا متفقہ  جمہور کا عقیدہ ہے

روح      کا  توفی یا  قبض  ( یعنی پکڑا اور قبضہ میں ) کیا جاتا ہے  لیکن روح یا نفس  کو جسم سے نکال  بھی  لیا جاتا ہے-  قرآن میں   توفی کے ساتھ ساتھ اخراج بھی کہا گیا ہے –  روح  جسم سے مکمل الگ ہو جاتی ہے    –  قرآن میں امساک روح کا ذکر ہے کہ جس پر  موت حکم لگتا ہے وہ مر جاتا ہے اور اس کی روح کو   روک  لیا جاتا ہے  یعنی  اخراج کے بعد  واپس جسد میں نہیں ڈالا جاتا

 

روح   دنیا میں واپس  کسی صورت نہیں آتیں الا یہ کہ الله کا کوئی معجزہ ہو جن کا صدور    ہو چکا   اور قرآن میں اسکی خبر  دے دی گئی

 

روح اب روز محشر ہی اس دنیا میں یا زمین میں جسد میں ڈالی جائے گی

 

موت

نوٹ:  فرقوں کا دعوی ہے کہ یہ امت گمرآہی ور جمع نہ ہو گی لہذا     ان کا عقیدہ کا اضطراب  صواب ہے – واضح رہے کہ یہ قول کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی کسی صحیح سند سے نہیں بلکہ ضعیف و متروک راویوں کا بیان کردہ ہے

عمرو بن العاص کی وصیت پر تیسری نظر

فرقہ اہل حدیث جن  کا دعوی ہے کہ وہ  کتب  احادیث کو جانتے ہیں – ان کی علمی سطحیت کا عالم یہ ہوا ہے کہ عصر حاضر کے ان کے چند   محققین کی جانب سے  ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے خلاف باطل پروپیگنڈا  جاری ہے کہ  ڈاکٹر مرحوم نے  صحیح مسلم کی روایت میں مطلب براری کے لئے اس کا متن تبدیل کیا اور روایت  کے وہ الفاظ نقل کیے جو درحقیقت اس کے نہیں – اس سلسلے میں ان کو جو ” ناریل”  ہاتھ لگا ہے وہ یہ ہے کہ عثمانی صاحب نے  عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وہ روایت جس میں ان کی جان کنی کے عالم کا ذکر ہے – اس میں الفاظ کو تبدیل کیا لہذا کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے  سیاقتہ الموت کو سیاق الموت  اور تنحر کو ینحر کر دیا تاکہ اپنا مدعا ثابت کر سکیں

سیاقتہ الموت یا  سیاق الموت

یہ الفاظ کتاب مشكاة المصابيح از محمد بن عبد الله الخطيب العمري، أبو عبد الله، ولي الدين، التبريزي (المتوفى: 741هـ) میں ہیں

وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ لِابْنِهِ وَهُوَ فِي سِيَاقِ الْمَوْتِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي. رَوَاهُ مُسلم

احادیث کی تخریج کی کتاب جامع الأصول في أحاديث الرسول از مجد الدين أبو السعادات المبارك بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الكريم الشيباني الجزري ابن الأثير (المتوفى : 606هـ) میں ہے کہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں
–عبد الرحمن بن شماسة المهدي – رحمه الله -: قال: «حضرنا عمرو بن العاص [وهو] في سِياقِ الموت، فبكى طويلاً، وحول وجهه إلى الجدار
ابن اثیر کے مطابق بھی صحیح مسلم میں الفاظ ہیں سیاق الموت

کتاب جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد از محمد بن محمد بن سليمان بن الفاسي بن طاهر السوسي الردواني المغربي المالكي (المتوفى: 1094هـ) کے مطابق صحیح مسلم کی اس حدیث کے الفاظ ہیں
عبد الله بن شماسة المهري: حضرنا عمرو بن العاص وهو في سياق الموت فبكى طويلًا وحوَّل وجهه إلى الجدار فجعل ابنه يقول: ما يبكيك يا أبتاه؟ أما بشرك

معلوم ہوا کہ ہے قدیم نسخوں سیاقه الموت کی بجائے سیاق الموت بھی لکھا تھا

سیاق الموت یا سیاقه الموت میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے

شرح صحیح مسلم از النووی میں ہے
وَأَمَّا أَلْفَاظُ مَتْنِهِ فَقَوْلُهُ (فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ) هُوَ بِكَسْرِ السين أى حال حضور الموت
اور متن کے الفاظ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ … یعنی موت کے حاضر ہونے کے حال پر تھے

مبارکپوری اہل حدیث کتاب مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں
يقال: ساق المريض نفسه وسيق إذا شرع في نزع الروح.
یہ نزع الروح کا وقت ہے

یہی مفہوم عربی لغت میں لکھا ہے جس کا ذکر الدكتور موسى شاهين لاشين کتاب فتح المنعم شرح صحيح مسلم میں کرتے ہیں
وفي القاموس: ساق المريض شرع في نزع الروح.

محمد الأمين بن عبد الله الأُرَمي العَلَوي الهَرَري الشافعي کتاب الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم میں کہتے ہیں
أن عمرًا (في سياقة الموت) أي في سكرة الموت وحضور مقدماته
عمرو سیاق الموت میں تھے یعنی سکرات الموت میں تھے اس کے مقدمات کی حاضری پر

اس حال میں زبان صحابی سے جو کلام ادا ہوا اس کو علماء نے بدعت قرار دیا ہے جس میں محمد بن صالح العثيمين بھی ہیں
خواجہ محمد قاسم کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں عمرو بن العاص کا خیال صحیح نہیں تھا

تنحر یا ینحر

شرح السنة   از  البغوي الشافعي (المتوفى: 516هـ)  میں اس روایت میں ہے

وَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ، وَهُوَ يَبْكِي: أَنَا مِتُّ فَلا يَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي، فَسُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ سَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي

یہاں بھی  يُنْحَرُ ہے

ایمان ابن  مندہ المتوفي ٣٩٥ ھ میں ہے

أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى الزُّجَاجُ، ح، وَأَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، ثَنَا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ، قَالَ: حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ فَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْحَائِطِ يَبْكِي طَوِيلًا وَابْنُهُ يَقُول….. فَإِذَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ، وَلَا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، فَإِذَا فَرَغْتُمْ مِنْ دَفْنِي، فَامْكُثُوا حَوْلِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا فَإِنِّي آنَسُ بِكُمْ حَتَّى أَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي

ابن مندہ کے مطابق متن میں یہاں    يُنْحَرُ ہے

التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبيراز أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) میں ہے

وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ لَهُمْ فِي حَدِيثٍ عِنْدَ مَوْتِهِ “إذَا دَفَنْتُمُونِي أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٍ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ رُسُلَ رَبِّي”

اور صحیح مسلم میں ہے کہ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے اپنی موت کے وقت ان سے کہا … “إذَا دَفَنْتُمُونِي أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٍ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ رُسُلَ رَبِّي”

یہاں بھی  يُنْحَرُ ہے

البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير از  ابن الملقن   الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) کے مطابق

وَمِنْهَا: حَدِيث عَمْرو بن الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه أَنه قَالَ: «إِذا دفنتموني فسنوا عَلّي التُّرَاب سنّا، ثمَّ أقِيمُوا حول قَبْرِي قدر مَا ينْحَر جزور وَيقسم لَحمهَا؛ حَتَّى أستأنس بكم، وَأعلم مَاذَا أراجع رسل رَبِّي» . رَوَاهُ مُسلم فِي «صَحِيحه» فِي كتاب الْإِيمَان، وَهُوَ بعض من حَدِيث طَوِيل.

حَدِيث عَمْرو بن الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه  میں ينْحَر ہے  جس کو امام مسلم نے صحیح میں روایت کیا ہے

ڈاکٹر عثمانی سے پہلے بھی لوگ اس روایت میں  سیاق الموت اور ینحر  کے الفاظ نقل کرتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں یہ صحیح مسلم کے ہیں

 معلوم ہوا فرقہ پرستوں کا پروپیگنڈا   بالکل باطل ہے کہ ڈاکٹر صاحب  نے الفاظ اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے تبدیل کیے

روایات کے الفاظ مختلف نسخوں میں الگ الگ ہوئے اس وجہ سے یہ اختلاف پیدا ہوا چونکہ صحیح مسلم کا وہ نسخہ جو برصغیر میں ہے  اس میں وہ الفاظ نہیں تھے جو اوپر دیے گئے ہیں  طاغوت پرستوں  نے عوام کے لئے شوشہ چھوڑا کہ یہ ڈاکٹر  نے اپنے مقصد حاصل کرنے کے لئے تبدیل کیے ہیں جبکہ  ان درس حدیث  دینے والوں کو تو خوب معلوم ہو گا کہ یہ تبدیلی کیوں اور کیسے ہوتی ہے – یہ حال ہوا ہے امت کے علماء کا

یاد رہے کہ الله کا حکم ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو  اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو  عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو

قرآن کی قسم ؟

صحيح بخاري ميں ہے

مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ
جو شخص قسم کھانا چاہے، اسے چاہيے کہ وہ اللہ کي قسم کھائے يا خاموش رہے

الله کے نبي صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ہے کہ

خبردار الله کے سوا کسي کي قسم نہ کھاؤ – (بخاري : کتاب مناقب الانصار ، باب:ايام الجاہليہ

جس نے الله کے سوا کسي اور کي قسم کھائي اس نے شرک کيا 

(ابو داؤد : کتاب ايمان و النذور ، باب:في کراہيتہ الحلف بالاباء)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب غیر ثابت اقوال

مصنف عبد الرزاق ح 15948 اور مصنف ابن ابی شیبہ ح 12228 میں اس کو مجاہد تابعی نے حدیث نبوی کہا ہے لیکن یہ ارسال قابل قبول نہیں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينُ صَبْرٍ، فَمَنْ شَاءَ بَرَّهُ، وَمَنْ شَاءَ فَجَرَهُ»

مجاہد نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت کی قسم کھائی اس پر اس کی ہر آیت کے بدلے قسم ہوئی

مجاہد صحابی نہیں ہیں لہذا یہاں سند میں انقطاع ہے

سنن الکبری البیہقی میں اس کو حسن بصری نے حدیث نبوی قرار دیا ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَرَدَسْتَانِيُّ، أنبأ أَبُو نَصْرٍ الْعِرَاقِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْوَلِيدِ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينُ صَبْرٍ، مَنْ شَاءَ بَرَّ، وَمَنْ شَاءَ فَجَرَ “

الإبانة الكبرى لابن بطة میں بھی حسن بصری کا قول ہے کہ یہ حدیث نبوی ہے
حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، وَعَوْنٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَبِكُلِّ آيَةٍ مِنْهَا يَمِينٌ»
حسن بصری نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت کی قسم کھائی تو اس کی ہر آیت پر قسم کھا لی

یہ روایت منقطع ہے – حسن بصری صحابی نہیں ہیں

یعنی مجاہد اور حسن بصری نے اس کو مرسل روایت کیا ہے جو قابل قبول نہیں ہے

مجاہد اور حسن بصری مدلسین بھی ہیں ان کی روایت میں اس کا خطرہ بھی ہوتا ہے یہاں تو صحابی کا نام ہی سرے سے نہیں لیا گیا

ابن مسعود رضی الله عنہ سے منسوب اقوال

مصنف عبد الرازق 15946 ميں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «مَنْ كَفَرَ بِحَرْفٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَقَدْ كَفَرَ بِهِ أَجْمَعَ، وَمَنْ حَلَفَ بِالْقُرْآنِ فَعَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ مِنْهُ يَمِينٌ»

ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا جس نے قرآن کے ایک حرف کا بھی کفر کیا اس نے تمام قرآن کا کفر کیا اور جس نے قرآن کی قسم کھائی اس پر اس کی ہر آیت کے بدلے قسم ہوئی

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
سند ميں إبراهيم النخعي ہيں جن کا کسي صحابي سے سماع نہيں ہے
وقال علي بن المديني إبراهيم النخعي لم يلق أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
امام علی نے کہا إبراهيم النخعي کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے

المحلی میں ہے
وَرُوِّينَا مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ: أَتَيْت مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ السُّوقَ فَسَمِعَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: أَمَا إنَّ عَلَيْهِ بِكُلِّ آيَةٍ يَمِينًا.
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ نے کہا میں ابن مسعود رضی الله عنہ کے ساتھ بازار میں نکلا پس ایک شخص کو سنا جس نے سورہ بقرہ کی قسم کھائی- پس ابن مسعود نے کہا اس پر اس کی ہر آیت کی قسم ہو گئی

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
ابْنُ فُضَيْلٍ، وَوَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ حَلَفَ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ لَقِيَ اللَّهَ بِعَدَدِ آيَاتِهَا خَطَايَا»

دونوں کی سند میں سعيد بن سنان البرجمي، أبو سنان الشيباني ہے
وقال أبو طالب: قال أحمد بن حنبل: أبو سنان، سعيد بن سنان، كان رجلاً صالحاً، ولم يكن يقيم الحديث. «الجرح والتعديل»
وقال ابن إبراهيم بن هانىء: سَمِعتُهُ يقول (يعني أحمد بن حنبل) : سعيد بن سنان، ليس حديثه بشيء. «بحر الدم»
امام احمد کے نزدیک حدیث میں کوئی چیز نہیں ہے

کتاب التفسير من سنن سعيد بن منصور میں یہی ابن مسعود کا قول کہا گیا ہے
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ (عَبْدِ اللَّهِ) بْنِ مُرَّة ، عَنْ أَبِي كَنِف ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ فِي سُوقِ الرَّقيق، إِذْ سَمِعَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِنَّ عَلَيْهِ لِكُلِّ آية منها يمينًا
اس کی سند میں أبو كَنِف العَبْدي، مجهول الحال ہے اس سے الشعبي اور عبد الله بن مرة نے روایت کیا ہے

یعنی ابن مسعود رضی الله عنہ سے یہ قول ثابت نہیں ہے البتہ جو اس کو ثابت سمجھتے ہیں ان کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس کا مطلب ہے کہ ہر آیت کے بدلے کفارہ دینا ہو گا – یہ قول ابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) کا کتاب حكاية المناظرة في القرآن مع بعض أهل البدعة میں ہے
وَقَالَ عبد الله بن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ من حلف بِالْقُرْآنِ فَعَلَيهِ بِكُل حرف كَفَّارَة

اور عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا جس نے قرآن کی قسم کھائی اس پر اس کے ہر حرف کے بدلے کفارہ ہے 

ابن المنذر کی رائے

کتاب الإشراف على مذاهب العلماء از أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) میں ہے

وقال أحمد: ما أعلم شيئاً يدفعه.
وقال أبو عبيد: يكون يميناً واحدة.
وقال النعمان: لا كفارة عليه.

احمد نے کہا میں نہیں جانتا کہ یہ قسم کیسے رد ہو گی
ابی عبید نے کہا یہ قسم ہو گی
ابو حنیفہ نے کہا اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے

احناف کی آراء

احناف متقدمین قرآن پر قسم کھانے کو غیر شرعی کہتے تھے –

کتاب المبسوط از محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ) میں ہے
وَكَانَ بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ يَقُولُ فِي قَوْلِهِ وَالرَّحْمَنِ: إنْ أَرَادَ بِهِ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ يَمِينٌ، وَإِنْ أَرَادَ بِهِ سُورَةَ الرَّحْمَنِ لَا يَكُونُ يَمِينًا؛ لِأَنَّهُ حَلِفٌ بِالْقُرْآنِ.
بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ نے کہا اپنے ایک قول میں الرحمان کی قسم کھائی – پس اگر اس سے اس کا ارادہ الله کے نام پر قسم کھانا تھا تو قسم واقع ہو گئی لیکن اگر ارادہ سوره الرحمان پر قسم کھانا تھا تو نہیں ہوئی کیونکہ یہ قرآن کی قسم ہوئی

یہی بات علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) نے کتاب بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں بیان کی ہے
وَحُكِيَ عَنْ بِشْرٍ الْمَرِيسِيِّ فِيمَنْ قَالَ وَالرَّحْمَنِ أَنَّهُ إنْ قَصَدَ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى فَهُوَ حَالِفٌ وَإِنْ أَرَادَ بِهِ سُورَةَ الرَّحْمَنِ فَلَيْسَ بِحَالِفٍ فَكَأَنَّهُ حَلَفَ بِالْقُرْآنِ

احناف کی فقہ کی کتاب الهداية في شرح بداية المبتدي از المرغيناني (المتوفى: 593هـ) کے مطابق

ومن حلف بغير الله لم يكن حالفا كالنبي والكعبة ” لقوله عليه الصلاة والسلام: ” من كان منكم حالفا فليحلف بالله أو ليذر ” وكذا إذا حلف بالقرآن لأنه غير متعارف قال رضي الله عنه معناه أن يقول والنبي والقرآن أما لو قال أنا بريء منهما يكون يمينا لأن التبري منهما كفر.
جس نے غیر الله کی قسم لی جیسے نبی کی یا کعبہ کی تو یہ قسم نہ ہو گی جیسا کہ قول نبوی ہے کہ جو قسم لے وہ الله کی قسم لے .. اور اسی طرح قرآن کی قسم (شریعت میں ) متعارف نہیں ہے کہنے کا مقصد ہے کہ اگر کہے نبی کی قسم یا قرآن کی قسم (تو قسم نہ ہو گی لیکن) اگر کہے میں تم دونوں سے بريء ہوں تو قسم واقعہ ہو گی کیونکہ ان دونوں (قرآن اور نبی) سے برات کرنا کفر ہے

شرح صحیح البخاری میں ابن بطال نے لکھا
وقال أبو حنيفة: من حلف بالقرآن فلا كفارة عليه. وهو قول عطاء، وروى عن على ابن زياد عن مالك نحوه
ابو حنیفہ نے کہا جس نے قرآن کی قسم کھا لی اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے اوریہی قول عطا بن ابی رباح کا ہے اور ایسا ہی قول امام مالک سے على ابن زياد نے روایت کیا ہے

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں عینی نے لکھا

وَقَالَ أَبُو يُوسُف: من حلف بالرحمن فَحنث إِن أَرَادَ بالرحمن الله فَعَلَيهِ كَفَّارَة يَمِين، وَإِن أَرَادَ سُورَة الرَّحْمَن فَلَا كَفَّارَة
امام ابو یوسف نے کہا جس نے رحمان کی قسم لی اور پھر قسم ٹوٹی اور اس کا ارادہ رحمان سے الله تعالی تھا تو کفارہ ہے اور اگر مراد سوره الرحمان تھی تو کفارہ نہیں ہے

احناف متاخرین میں اس قول کو چھوڑ دیا گیا – صدر الدين عليّ بن عليّ ابن أبي العز الحنفي (المتوفى 792 هـ) نے کتاب التنبيه على مشكلات الهداية میں لکھا
قوله: (وكذا إذا حلف بالقرآن لأنه غير متعارف). ينبغي أن يكون الحلف بالقرآن يمينًا لأنه قد صار متعارفًا في هذا الزمان، كما هو مذهب الأئمة الثلاثة وغيرهم، ولا يلتفت إلى من علل كونه ليس يمينًا بأنه غير الله على طريقة المعتزلة وقولهم بخلقه

المرغيناني کا قول کہ کہ قرآن کی قسم غیر متعارف ہے- اب ہونا چاہیے کہ قرآن پر بھی قسم کھا لی جائے کہ یہ اب واقع ہو گی اس دور میں کیونکہ یہ اس زمانے میں متعارف ہو چکی ہے جیسا کہ تین ائمہ اور دیگر کا مذھب ہے اور اس کی علت کے قول کی طرف التفات مت کرو کہ یہ قسم نہ ہو گی کہ یہ طريقة المعتزلة ہے ان کے خلق قرآن کے قول پر

کتاب رد المحتار على الدر المختار میں ابن عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) لکھتے ہیں

وَكَذَا يُفِيدُ أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ قَسَمٍ الْحَلِفُ بِغَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى بَلْ هُوَ مِنْ قَسَمِ الصِّفَاتِ وَلِذَا عَلَّلَهُ بِأَنَّهُ غَيْرُ مُتَعَارَفٍ
یہ فائدہ دیتا ہے کہ قرآن کی قسم ان میں سے نہیں جو غیر الله کی قسم کھانا ہے بلکہ یہ قسم صفات پر ہے اور اس وجہ سے اس پر علت ہے کہ یہ غیر متعارف ہے

محمد ثناء الله کی تفسیر المظہری میں ہے
لو حلف بالقران يكون يمينا عند الائمة الثلاثة وعند ابى حنيفة لا يكون يمينا لعدم العرف
اگر قرآن کی قسم کھا لی تو ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ہو گئی اور ابو حنیفہ کے نزدیک نہیں ہوئی کہ یہ جانی نہیں جاتی

ملا قاری کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں
قَالَ صَاحِبُ الْهِدَايَةِ: وَكَذَا إِذَا حَلَفَ بِالْقُرْآنِ لِأَنَّهُ غَيْرُ مُتَعَارَفٍ يَعْنِي: وَمِنَ الْمُقَرَّرِ أَنَّ صِفَةَ اللَّهِ لَا تَكُونُ يَمِينًا إِذَا كَانَ الْحَلِفُ بِهَا مُتَعَارَفًا
صَاحِبُ الْهِدَايَةِ نے کہا کہ اگر قرآن کی قسم لی تو یہ غیر متعارف ہے یعنی مقرر یہ ہے کہ صفات الله کی
قسم نہیں لی جا تی کیونکہ قسم لینا (سب جانتے ہیں) مُتَعَارَفً ہے

ابو حنیفہ کے الفاظ کا مطلب ہے کہ قسم عربوں میں الله کی ذات کی ہی لی جاتی ہے وہی شریعت نے بتائی ہے – لہذا کلامی بحث سے اس میں غیر متعارف قسم شامل نہیں کی جا سکتی -خیال رہے کہ خلق قرآن کی بات کا آغاز معتزلہ نے کیا تھا

مالکی فقہاء کی رائے

مالکی فقہ میں امام مالک سے دو متخالف قول منسوب ہیں

کتاب التبصرہ از علي بن محمد الربعي، أبو الحسن، المعروف باللخمي (المتوفى: 478 هـ) کے مطابق
وقيل لابن القاسم فيمن حلف بالقرآن أو بالكتاب، أو بما أنزل الله تعالى: أترى ذلك كله (5) يمينًا؟ قال: أحسنُ ذلك والذي تكلمنا فيه: أن كل ما سمى من ذلك يمين؛ يريد: أنه اختلف فيه، وروى علي بن زياد، عن مالك إذا قال: لا والقرآن، لا والمصحف؛ ليس بيمين، ولا كفارة على من حلف به فحنث
اور ابن قاسم سے کہا گیا کہ کسی نے قرآن پر قسم کھائی یا جو الله نے نازل کیا اس پر – اپ اس کو کیسا دیکھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے اور ایسا ہم کہتے ہیں اس میں جو بھی ہے وہ قسم واقع ہوئی- اور علی بن زیاد کی روایت ہے کہ امام مالک نے کہا نہ قرآن کی قسم ہے نہ مصحف کی اس کی قسم نہیں ہے اور نہ اس پر کفارہ ہے اگر ٹوٹ جائے

کتاب التوضيح في شرح المختصر الفرعي لابن الحاجب از خليل بن إسحاق بن موسى، ضياء الدين الجندي المالكي المصري (المتوفى: 776هـ) کے مطابق

ولا فرق بني أني حلف بالقرآن، أو بسورة منه أو آية، رواه ابن حبيب، وفي العتبية عن ابن حبيب لزوم الكفارة في الحالف بالتوراة والإنجيل
اس میں کوئی فرق نہیں کہ قرآن کی قسم کھائی جائے یا کسی سورت کی یا آیت کی – ابن حبیب نے اس کو روایت کیا – اور العتبية میں ہے ابن حبیب سے ہے کہ اس پر کفارہ لازم ہے اگر کوئی توریت و انجیل کی قسم کھائے

متاخرین مالکیہ میں یہ قول مشہور ہے کہ کتاب اللہ کی قسم ہو جاتی ہے

(المسالِك في شرح مُوَطَّأ مالك از القاضي محمد بن عبد الله أبو بكر بن العربي المعافري الاشبيلي المالكي (المتوفى: 543هـ
میں ہے
ورَوَى ابنُ زيادٍ عن مالك في “العُتْبِيَّة”  فيمن حَلَفَ بالمُصْحَفِ أنّه لا كفَّارةَ عليه. قال ابنُ أبي زَيدٍ   “هي روايةٌ مُنْكَرَةٌ، والمعروفُ عن مالك غير هذا” وإن صحَّتْ فإنّها محمولةٌ على أنّه أرادَ الحالِفَ بذلك جِسْم المصحف دون المكتوب فيه
اور ابن زیاد نے امام مالک سے میں روایت کیا ہے کہ جس نے مصحف کی قسم لی اس پر کفارہ نہیں ہے- ابن ابی زید نے کہا یہ روایت منکر ہے اور معروف امام مالک سے ہے اس سے الگ ہے اور اگر اس کی صحت ہو تو اس کو محمول کیا جائے گا کہ جب حلف لینے والی کی اس سے مراد مصحف کا جسم ہو نہ کہ وہ جو اس میں لکھا ہے

شوافع کی رائے

کتاب البيان في مذهب الإمام الشافعي از أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي (المتوفى: 558هـ) کے مطابق

وقال أبو حنيفة وأصحابه: (إذا حلف بالعلم.. لم يكن يمينا، وإذا حلف بكلام الله أو بالقرآن.. لم يكن يمينا) . فمنهم من قال: لأن أبا حنيفة كان يقول: (القرآن مخلوق) .ومنهم من قال: لم يكن يقول: القرآن مخلوق، وإنما لم تجر العادة بالحلف به.
دليلنا: ما روى ابن عمر – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا -: أن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: «القرآن كلام الله، وليس بمخلوق» . وإذا كان غير مخلوق.. كان صفة من صفات الذات، كعظمة الله، وجلاله.
ولو حلف بالقرآن.. كان يمينا، سواء نوى اليمين، أو لم ينو أو أطلق، فكذلك هذا مثله. والأول أصح. هذا مذهبنا. وقال أبو حنيفة: (لا يكون يمينا؛ لأن حقوق الله تعالى طاعته، وذلك محدث) .

ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ اگر الله کے علم کی قسم لی تو قسم نہیں ہو گی اور اگر کلام الله اور قرآن کی قسم لی تو بھی قسم نہیں ہو گی- پھر ان احناف میں سے کچھ نے کہا ابو حنیفہ کا کہنا تھا قرآن مخلوق ہے اور ان میں سے کچھ نے کہا : ابو حنیفہ نے نہیں کہا کہ قرآن مخلوق ہے بلکہ یہ قسم عموما نہیں لی جاتی-  ہم شوافع کی دلیل ہے جو ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے قرآن الله کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے اور جب کہا مخلوق نہیں ہے یہ  الله کی صفت میں سے ایک ہوا جیسے اس کی عظمت اور جلال –  اگر قرآن کی قسم کھا لی .. تو قسم ہو گئی … اور ابو حنیفہ کا کہنا ہے قسم نہیں ہوئی کیونکہ الله کے حقوق اس کی اطاعت ہے جو محدث ہے

راقم کہتا ہے یعنی امام ابو حنیفہ کا کہنا تھا کہ قسم کھانا مخلوق کا عمل ہے جو الله نے تخلیق کیا ہے  ایسا عمل محدث ہے    – مزید کہتا ہے الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ وَلَيْسَ بِمَخْلُوقٍ کے الفاظ سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے

وہابیوں کی رائے

سعودي دائمي کميٹي اللجنة الدائمة کا فتوى رقم ‏(‏4950‏)‏‏ ہے
يجوز الحلف بآيات الله إذا كان قصد الحالف الحلف بالقرآن ؛ لأنه من كلام الله وكلامه سبحانه صفة من صفاته ، وأما إن أراد بآيات الله غير القرآن ، فإنه لا يجوز .
يہ جائز ہے کہ الله کي آيات کي قسم کھائي جائے اگر مقصد قرآن سے قسم لينا ہو کيونکہ يہ کلام الله ہے اور کلام الله کي صفات ميں سے ہے اور اگر مراد وہ نشانيياں ہيں جو آيات الله نہيں ہيں تو جائز نہيں ہے

يعني قرآن کي آيات کي قسم کھانا وہابييوں کے نزديک صحيح ہے کيونکہ يہ مسئلہ صفات سے ان کے نزديک جائز ہے

وہابي محمد بن صالح العثيمين فتوي ميں کہتے ہيں
وأما الحلف بالقرآن الكريم فإنه لا بأس به، لأن القرآن الكريم كلام الله – سبحانه وتعالى – تكلم الله به حقيقة بلفظه مريدًا لمعناه وهو – سبحانه وتعالى – موصوف بالكلام ، فعليه يكون الحلف بالقرآن الكريم حلفًا بصفة من صفات الله – سبحانه وتعالى – وذلك جائز.
قرآن کي قسم کھانا جائز ہے

امام بخاری کا موقف

امام بخاري نے صحيح ميں باب قائم کيا ہے بَابُ الحَلِفِ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَصِفَاتِهِ وَكَلِمَاتِهِ باب قسم کھانا الله کي عزت کي اس کی صفات کی  اس کے کلام کی –  اس باب ميں بخاري نے حديث ذکر کي کہ جہنم ميں جب الله قدم رکھے گا تو وہ بولے گي قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ بس بس تيري عزت کي قسم –  ليکن اس باب ميں کلام اللہ پر قسم کھانے کي کوئي حديث بخاري کو نہيں ملي ہے

عزت کی قسم کھانا عربوں میں معروف ہے- یہ فعلی صفت نہیں جیسا کہ کلام یا سماع یا بصر ہے – عزت شخصيت سے متعلق ہی ہے جیسے جلال و اکرام- بحث اس میں ہے کہ کلام الله کی قسم لی جا سکتی ہے یا نہیں

قرآن میں سورة الشعراء مين ہے ساحروں نے فرعون کی عزت کی قسم لی

قالوا بعزة فرعون إنا لنحن الغالبون

ایسا اکثر ہوتا ہے کہ صحیح میں باب ہے لیکن اس سے متعلق حدیث نہیں ملی اور اس کے تحت کچھ بیان نہیں ہوا- لہذا یہاں اس باب سے مطلقا یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ امام بخاری کی بھی یہی رائے تھی

ابن حزم کی رائے

کتاب المحلی میں ہے
فَهِيَ يَمِينٌ وَعَلَيْهِ كَفَّارَةٌ إنْ حَنِثَ؛ لِأَنَّ كَلَامَ اللَّهِ تَعَالَى هُوَ عِلْمُهُ
قرآن کی قسم ہے اس پر کفارہ ہے اگر ٹوٹ جائے کیونکہ یہ الله کا کلام ہے جو اس کا علم ہے

======================================================

شیعہ امامیہ کی رائے

کتاب الشيعة في الميزان از محمد جواد مغنية کے مطابق

 قال الشيعة الإمامية : لا يتحقق معنى اليمين إِلا إذا كان القسم باللّه وأسمائه الحسنى وصفاته الدالة عليه صراحة، فمن حلف بالقرآن والنبي والكعبة، وما إلى ذلك لا يكون القسم شرعياً، ولا يترتب على مخالفته إِثم ولا كفارة، ولا تُفصل به الدعاوى في المحاكمات، ووافقهم على ذلك أبو حنيفة. قال الشافعي ومالك وابن حنبل تنعقد اليمين إذا كان الحلف بالمصحف، وتفرد ابن حنبل عن الجميع بأنها تنعقد بالحلف بالنبي

شیعہ امامیہ کہتے ہیں : قسم حق نہیں ہو گی الا یہ کہ اگر قسم الله کی  یا اسماء الحسنی کی یا صفات جن پر صریح دلائل ہوں ان کی لی جائے- پس جس نے قرآن کی یا نبی کی یا کعبہ کی یا اسی طرح  کی قسم لی تو یہ شرعی قسم نہیں ہے اور نہ اس قسم کی مخالفت پر گناہ ہے یا کفارہ ہے … اور اس میں ان کی موافقت کی ہے ابو حنیفہ نے – شافعی ، مالک اور احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ قسم ہو جائے گی اگر مصحف کی قسم لی اور احمد بن حنبل کا تفرد ہے ان سب پر جن کا کہنا ہے کہ اگر نبی کی قسم لی تو ہو جائے گی

 


راقم کہتا ہے ایسی قسم کھانا جس کا حدیث میں حکم نہ ہو بدعت ہے  – یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کو الله کا ذکر کرنا معلوم ہے لیکن اس طرح جس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی  کسی اور طرح نہیں – اسی طرح ابو حنیفہ کا قول صواب ہے  کہ قرآن کی قسم کا حکم نہیں دیا گیا ہے یہ شریعت میں معلوم نہیں ہے

کتاب سرگزشت سحر

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

باب ١ : سحر اوربابل کی غلامی  کا دور

باب ٢: ھاروت و ماروت   کون؟

باب٣ :بابل کی غلامی کے بعد شیطان کے تصور   میں تبدیلی

باب ٤ :  سانپ مقرب بارگاہ الہی؟

باب ٥ : صوفیاء کا یہود سے اکتساب

باب٦ :سحر سے متعلق چند سوال و جواب

======================================================

پیش لفظ

کتاب   هذا      میں سحر سے متعلق مختلف مباحث  کو جمع  کیا گیا  ہے –  سحر قرآن سے ثابت ہے کہ اس میں موسی علیہ السلام کو لاٹھیاں اور چھڑیاں   اڑتی ہوئی محسوس ہوئیں – نہ صرف موسی علیہ السلام بلکہ تمام مجمع  مسحور ہو گیا- البتہ   جادو گروں  نے جب اس کو ختم  ہوتے دیکھا تو اقرار کیا کہ انہوں نے مجبورتاً اس کو کیا-  معلوم ہوا جادو   فعل قبیح ہی  تھا لیکن  فرعون کے حکم کی وجہ سے انھوں نے کیا –

 الله تعالی   نہ صرف  خالق خیر بلکہ خالق شر  بھی ہے –   قرآن میں ہے پناہ مانگو

من شر ما خلق

اس شر سے جو الله نے خلق کیا

عبد الله بن امام احمد  العلل  میں روایت کرتے ہیں   ابن عون نے کہا

  إن قومًا يزعمون أن الله لم يخلق الشر. فقال: أستعيذ بالسميع العليم-قل أعوذ برب الفلق من شر ما خلق-. «العلل» (4860)

 ابن عون نے کہا ایک قوم ہے جو دعوی کرتی ہے کہ الله نے شر کو خلق نہیں کیا- پس کہا السمیع  العلیم سے پناہ مانگو؟  کہو میں پناہ مانگتا ہوں  پھاڑنے والے رب کی جس نے شر کو خلق کیا

 کتاب إعراب القرآن للأصبهاني  از   إسماعيل بن محمد بن الفضل الأصبهاني (المتوفى: 535هـ)  کے مطابق    المعتزلة    میں

قرأ عمرو بن عبيد (مِنْ شَرٍّ مَا خَلَقَ) بالتنوين؛ لأنّه كان [ … ] أنّ الله لم يخلق الشَّرَّ

عمرو بن عبيد[1]  آیت کی قرات تنوین سے کرتا مِنْ شَرٍّ مَا خَلَقَ .. کہ الله نے شر خلق نہیں کیا

یعنی  شر کو اسم کر دیا جو   اس کے نزدیک مخلوق کا عمل ہے یا ان کی تخلیق ہے-  المعتزلة کہتے  تھے کہ   ان کے پانچ اصول ہیں جن میں ایک عدل ہے اس سے ان کی  مراد تھی   أن الله لم يخلق الشر  وأن كل عبد يخلق أفعاله  الله تعالی نے شر کو خلق نہیں کیا اور   ہر بندہ اپنا عمل خود خلق کر رہا ہے- اسی طرح  قدری کہتے

حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَبْدُ الصَّمَدِ، نا عِكْرِمَةُ، قَالَ: سَأَلْنَا يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ عَنِ الْقَدَرِيَّةِ، فَقَالَ: «هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يُقَدِّرِ الشَّرَّ»

يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ نے قدریوں سے متعلق کہا:  یہ کہتے ہیں کہ الله نے شر کو تقدیر میں نہیں لکھا

سحر مصر میں ہوتا تھا اور اسی طرح بابل میں بھی کیا جاتا تھا- اس کتاب میں قرانی آیات کو سمجھنے کے لئے چند مباحث کی تفصیل ہے- الله ہم کو حق کی طرف ہدایت دے

ابو شہر یار

٢٠١٧

[1]

عمرو بن عبيد بن كيسان بن باب، أبو عثمان البصري المعتزلي مولى بني تميم، كان أصله من فارس سكن البصرة، مات في طريق مكة سنة 144 هـ، قال ابن حبان في المجروحين ج2/68: “كان من العباد الخشن وأهل الورع الدقيق ممن جالس الحسن سنين كثيرة ثم أحدث ما أحدث من البدع واعتزل مجلس الحسن وجماعة معه فسموا بالمعتزلة، وكان عمرو بن عبيد داعية إلى الاعتزال يشتم أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ويكذب مع ذلك في الحديث توهما لا تعمداً” والذي أزاله عن مذهب أهل السنة هو واصل بن عطاء. قال أحمد بن محمد الحضرمي سألت ابن معين، عن عمرو بن عبيد فقال: “لا يكتب حديثه. فقلت له: كان يكذب. فقال: كان داعية إلى دينه. فقلت له: فلم وثقت قتادة وابن أبي عروبة وسلام بن مسكين؟ فقال: كانوا يصدقون في حديثهم، ولم يكونوا يدعون إلى بدعة”. انظر: ترجمته في ميزان الاعتدال ج3/273-280؛ تاريخ بغداد ج12/166-188.

 

کتاب رد عقیدہ عرض اعمال

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

عقیدہ عرض اعمال  قرآن میں

عقیدہ عرض اعمال اہل تشیع  کے مطابق

عقیدہ عرض اعمال اہل سنت کے مطابق

حرف آخر


سلام اسلامی معاشرت کا شعار ہے. مسلم کی حدیث ہے کہ

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرةَ  رَضِی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حتّٰی تُوٴْمِنُوْا وَلَا تُوٴْمِنُوْا حتّٰی تَحَابُّوا، اَولَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شيءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ․ (روا ہ مسلم

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں  کہ جب تک تم ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو‘کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ

معلوم ہوا کہ سلام کا تعلق ادب سے ہے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیہ کلمات ہیں.  ہم براہ راست الله سے دوسرے شخص کے لئے دعا کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں دوسرے شخص کو ہمارے خلوص کا پتا نہیں چلے گا لہذا معاشرت میں خلوص کی وجہ سے  اس کی تلقین کی گئی  ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں . ہم خط لکھ کر دوسرے شخص کو بھیجتے ہیں اس میں بھی یہی خلوص مقصد ہوتا ہے . لیکن جب کوئی شخص انتقال کر جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور دعائیہ کلمات میت کو سنانا مقصد نہیں ہوتا، نہ ہی اس میت سے واپس جواب کی امید کی جاتی ہے. میت کو تو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کس نے اس کی تعریف کی اور کس نے برائی ، کس نے نماز جنازہ پڑھی اور کس نے نہیں، کس نے غسل دیا اور کس نے کفن دیا-  اسلامی معاشرت کے تحت نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو سلام کیا اور صحابہ نے آپ کو. پھر نبی کے لئے درود یعنی رحمت کی دعا کرنے کا الله نے حکم دیا

اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (56)

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اس پر رحمت اور سلام بھیجو۔

جب ہم الله کے نبی پر درود پڑھتے ہیں تو ہمارا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں ہوتا بلکہ الله  کی بارگاہ میں نبی کے لئے دعائے رحمت مقصود ہوتی ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں درود جھر (بلند آواز) سے پڑھنے کا حکم نہیں دیا ورنہ کسی کا خیال ہو سکتا تھا کہ صحابہ ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو درود سناتے تھے-    اگر درود پیش ہونا ہی حقیقت ہوتا تو نماز کا درود جھر سے پڑھا جاتا تاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم سن سکیں کہ کون امتی درود پڑھ رہا ہے اور کون منافق ہے-  صحیح مسلم کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے کہ اس دن اعمال الله کے پاس پیش ہوتے ہیں

عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ

ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال میرے سامنے لائے گئے تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا میں نے اچھے اعمال میں پایا اور برے اعمال میں میں نے وہ تھوک اور بلغم دیکھا جو مسجد سے صاف نہ کیا گیا ہو

نبی صلی الله علیہ وسلم کو امت کے ان اعمال کی خبر زندگی میں ہی دی گئی تاکہ نیک اور برے اعمال سے امت کو باخبر کر سکیں لیکن وفات کے بعد اعمال پیش ہونے کا فائدہ کیا ہے کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوا-   بئر معونہ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کفّار نے اصحاب رسول کو گھیر لیا اور قتل کرنا شروع کیا صحابہ نے اللہ سے دعا کی کہ ہمارے قتل کی خبر نبی کو دے دے اگر درود پیش ہونے کا عقیدہ ہوتا تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی. ایک ہی روز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو پتا چل جاتا کہ درود پیش نہیں ہو رہا. اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی -اب تو امت میں درود تاج، درود تنجینا جسے درود بھی ہیں یہ بھی نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوتے ہونگے تو پھرقیامت کے دن الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم  سے ان کی  امت کے گمراہ لوگوں کے  لئے کیسے کہا جائے گا

مَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَتْ بَعْدَكَ

آپ کونہیں پتا کہ انہوں نے آپ کےبعد کیا باتیں نکالیں

درود سلام الله تک جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم تک اس کو پہنچانا اصل میں علم غیب کا دعوی کرنا ہے اپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کی زندگی ہی میں معلوم تھا کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے جبکہ قرآن میں ہے  تم ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں-

ایک اہل حدیث عالم اسی تفریق کو نہ سمجھتے ہوئے نبی صلی الله علیہ وسلم پر امت کے درود و سلام کا عقیدہ اختیار کئی ہوئے ہیں اور اس کا دفاع اس انداز میں کرتے ہیں

میت کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں نمازِ جنازہ میں بھی اور نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی وقتا فوقتا فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ دعائیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کو پہنچتی ہیں۔ پھر ہم بذریعہ خط و کتابت یا بذریعہ دوست و احباب دوسروں کو سلام دعاء پہنچاتے رہتے ہیں تو یہ سلام دعاء بھی ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھئے آپ اپنا یہ مکتوب جس میں آپ کا میری طرف سلام بھی درج ہے، مجھ پر پیش کیا تو وہ مجھ پر پیش ہوگیا ہے تو آپ غور فرمائیں اگر کوئی فرمائے: ’’ بقول آپ کے کسی بھائی یا دوست کو بھیجے ہوئے سلام دعاء اس پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کو پہنچ جاتے ہیں۔ دعاء و سلام ایک عبادت ، دعائیہ عمل ہے سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ دعاو سلام کسی کو بھیجتے وقت بھی ہم دعاء اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے فلاں بھائی یا دوست پر سلامتی نازل فرما تو سننے والے اس دعاء کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے ہمارے فلاں دوست یا بھائی کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے دعائیہ کلمات سلام ودعاء سننے والے ہمارے بھائی دعاء سلام دوسروں تک پہنچانے والے عربی، اُردو، انگریزی وغیرہ سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال ہمارے دوستوں اور بھائیوں کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟

 ان عالم کا قول سراسر غلط ہے –  میت کے لئے ہم دعا کرتے ہیں تو اگر دعا قبول ہوئی تو ان کے نتیجے میں الله تعالی میت پر رحمت کرتے ہیں – یہ عقیدہ کہ میت کو خبر دی جاتی ہے کہ کس رشتہ دار نے اس کے لئے دعا کی گمراہی ہے-  سلام کا مقصد  سنانا نہیں  ایک دوسرے  کے حق میں الله سے رحمت  طلب کرنا ہے  اب چاہے یہ خط میں لکھا جائے یا نہ لکھا جائے –  دنیا میں ایک دوسرے کو خط و کتابت سے یا پھر ای میل سے جو دعا بھیجی جائے ان سب کا مقصد الله سے  دعا  کرنا ہے

ہمارے تمام اعمال  کی تفصیل فرشتے لکھتے ہیں اور الله تک پہنچاتے ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن دنیا میں جو بھی کام ہوتے ہیں کیا وہ الله تک نہیں جاتے اس میں تعمق فرماتے ہوئے عالم لکھتے ہیں

پھر سورۂ الشوریٰ کی محولہ بالا آیت کریمہ کے الفاظ: ﴿أَلَا إِلَى اللَّـهِ تَصِيرُ‌ الْأُمُورُ‌ (٥٣)﴾اس کا ترجمہ و مطلب آپ نے لکھا ہے: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ جبکہ قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ کی ہم معنی و مطلب دیگر آیات کے الفاظ ہیں: ﴿وَإِلَى اللَّـهِ تُرْ‌جَعُ الْأُمُورُ‌ (١٠٩)﴾’’ اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ ﴿ وَإِلَيْهِ يُرْ‌جَعُ الْأَمْرُ‌ كُلُّهُ ﴾آپ ذرا مزید غور فرمالیں- پھر ان آیات کریمہ میں اعمال کی کوئی تخصیص نہیں۔ آخرت کی بھی کوئی تخصیص نہیں تو اگر کوئی صاحب ان آیات کریمہ کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے فرمادیں کہ جج صاحبان کے ہاں جو کاغذات پیش کیے جاتے ہیں یا دوسرے محکموں میں کاغذات وغیرہ کی جو پیشیاں ہوتی ہیں یہ سب سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر ۵۳ کہ: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ کے منافی و مخالف ہیں تو کیا خیال ہے آپ کی تحقیق کی رو سے ان کی یہ بات درست ہوگی؟

آیت اپنے مفہوم  میں بالکل واضح ہے. دینا کیا چیز ہے، اس کے جج، حاکم، شہنشاہ سب کے اعمال الله کے حضور پیش ہو رہے ہیں- موصوف کہنا  چاہتے ہیں کہ    جس طرح جج و  احکام  کے سامنے کاغذات پیش ہو سکتے  ہیں اسی طرح  الله تعالی کے حضور بھی پیش ہوتے ہیں –     دنیا میں جب    دستاویزات  پیش کی جاتی ہیں تو ان کا مقصد   عرض اعمال نہیں بلکہ   متعدد  وجوہات ہو سکتی ہیں-   دستاویزات جعلی بھی ہوتے ہیں  انسان ان کو بھی قبول کر لیتے ہیں لیکن مالک الملک کے سامنے جب عمل اتا ہے تو وہ اس کو جانتا ہے کہ کون خلوص سے کر رہا ہے اس بظاہر  انسان کے عمل کے پیچھے کیا کارفرما ہے اس کو سب خبر ہے

اس کتاب میں    اسی عرض اعمال کے گمراہ کن عقیدہ یعنی  نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات   اور رشتہ داروں پر عمل پیش ہونے والی روایات  کا جائزہ پیش کیا گیا  ہے  تاکہ اپ اس عقیدہ  سے متعلق روایات میں ضعیف راویوں کی حثیت کو جان سکیں – یاد رہے کہ جو الله کا حق ہے وہ اسی کا ہے جو اس کو چھیننے کی کوشش کرے گا وہ جواب دہ ہو گا

ابو شہر یار

٢٠١٧

کتاب اثبات عذاب القبر

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

پیش لفظ

مبحث اول:  کليات و اصول

علماء اور موت کی تعریف

العموم و الخصوص

ايک جاہل کي وصيت

مبحث دوم:  ارواح کا مقام  اور ان  کے قالب

روح  کا پرندہ  بننا؟

 روح کے بدلتے قالب

برزخي جسم کيا ہے

مبحث سوم:  البرزخ

سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی روایت

فرقہ پرستوں کی  تاویلات باطلہ

سجین  و  برھوت  یا  جہنم

مبحث چہارم:  عقیدہ رجعت روح یا عود روح

عقیدہ عود روح کی اساسی  روایت

ابو ہريرہ سے منسوب روايات

مبحث پنجم:  مردے کي قوت ادراک و سماع و حس پر بحث

کيا مردہ قبر سے باہر والے کو سنتا ہے ؟

كلام قليب البدر – معجزه يا آيت

عائشہ (رض) اور سماع الموتي پر موقف

حديث قرع النعال پر ايک نظر

حديث قرع النعال پر ايک اور  نظر

کيا مردہ قبر سے باہر دفنانے والوں سے مانوس ہو سکتا  ہے ؟

عمرو بن العاص کي وصيت

عمرو بن العاص کي وصيت 2

کيا مردہ قوت احساس رکھتا ہے ؟

بريدہ اسلمي کي وصيت

بغوي کي رائے

کیا میت دیکھتی، بولتی  ہے ؟

صحیح مسلم کی روایت

حديث قدموني قدموني پر ايک نظر

موت کے بعد کوئي ہے  جو بول اٹھا؟

کيا ميت زائر کو پہچانتي ہے؟

عائشہ رضی الله عنہ وفات شدہ لوگوں سے پردہ کرتی تھیں؟

مبحث ششم:  قبر کا وسيع و تنگ ہونا

سعد بن معاذ رضي الله عنہ اور قبر کا ان کو دبوچنا

مبحث ہفتم: عالم غیب میں نقب

کیا  عذاب قبر  فرقہ پرستوں کے ہاں  غیب   کا معاملہ ہے ؟

کیا چوپائے عذاب قبر  سنتے ہيں؟

تم دفنانا چھوڑ دو گے اگر عذاب سن لو؟

مبحث ہشتم: بقائے جسد کا نظریہ

  کيا مردہ کفار کا گوشت سانپ کھا جاتا ہے

مبحث  نہم: عذاب قبر کا انکار و اقرار

الْمُعْتَزلَة غير مقلدين اور عذاب قبر

خوارج کا عذاب قبر کا انکار

تصوف کی جڑ حیات فی القبر

مبحث دھم: روحوں سے متعلق مزید غلط عقائد

کتاب الرویا کا بھید

تلاقی الارواح کا عقیدہ

==========================================================

 رزم حق و باطل چلا آ رہا ہے –  افسوس حق میں باطل کی تلبس کرنا حامل کتاب الہی قوموں کا شغف بھی رہا ہے – اس کی خبر ہم کو کتاب الله سے مل چکی ہے کہ الفاظ کو اس کے مقام سے ہٹانا ،  مدعا ثابت کرنے کے لئے  اسباط (ثقات کی فہرست)  کو پیش کرنا اور پھر قول موسی و احبار کی بنیاد پر  کلام الہی کی الٹی تاویل کرنا یہود کا شیوہ تھا-  اس میں     شریعت کو بدلا   گیا تھا کہ یعقوب علیہ السلام کی منت کا قول لے کر اونٹ کو مطلقا  حرام قرار دیا گیا تھا –   کیا اپ نے غور کیا  یہ سب کرنا  کیسے ممکن ہوا کہ حاملین توریت نے   ایک حلال کو حرام کر دیا ؟ یہ اقوال رجال کی وجہ سے ہی ممکن ہوا –یہ  اقوال رجال   و اتباع سلف سے ممکن ہوا  ورنہ توریت کی  آیات کی یہ تاویل ممکن نہیں تھی-  کسی حبر یا  یہودی مولوی نے  آیات کی غلط تاویل کی اور وہ  ان میں رواج پا گئی – اس کے خلاف اگر کہا بھی گیا تو سنی ان سنی کر دی گئی-

کچھ اسی انداز میں اس امت میں بھی عقائد میں تبدیلی آتی گئی ہے – زہد کی وجہ سے لوگ   قبروں پر گئے جن پر معتکف  ہونے سے منع کیا گیا تھا – اہل کتاب کے علماء کی طرح ہمارے علماء نے بھی قبر  سے فیض لینے کو سند جواز دیا اور اس  کی وجہ یہ سمجھنا تھا کہ صاحب قبر اب مقرب بارگاہ الہی ہے اس کی روح   قبر  سے عرش تک  آتی جاتی رہتی ہے اور یہ روشنی یا سورج کی شعاع جیسی کوئی چیز ہے – افسوس روح کو شعاع کی مانند متحرک کہنا   ، اس کا عالم بالا کی   سیر کرتے رہنا ، انہوں نے بھی بیان کیا ہے جو بظاہر قبر وں سے فیض لینے کے انکاری تھے  یعنی   یہ قول ابن تیمیہ اور ابن قیم کا بھی ہے-    قبروں سے فیض  کے  منکروں کے لئے یہ بات  اب  ایک  امر صعب  بن کے رہ  گئی ہے   کہ  ایک طرف تو  اس فعل  سے منع کرتے ہیں اور دوسری طرف   ارواح    کو غیر مقید ماننے،  ان کے عالم بالا میں پھرتے رہنے کے قائل علماء  کے لئے رطب اللسان رہتے ہیں – اس دو رخی کی وجہ سے توحید کی خالص دعوت   ایک مذاق بن جاتی ہے  کیونکہ تحقیق کرنے والا چند دنوں میں ہی جان جاتا ہے کہ یہ سب مایا   جال ہے –  ہیں کواکب کچھ نظر اتے ہیں کچھ

اس بات کو سمجھتے ہوئے ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے   توحید کی دعوت دی اس کو فرقہ پرستی  اور   اکابر پرستی کی بیڑیوں سے آزاد کیا-      ڈاکٹر  صاحب نے ١٢ سے ١٥ صفحات پر مشتمل عوام کے لئے چند  کتب  لکھیں  تاکہ وہ حق کو جان سکیں- لیکن عالم سفلی کے طواغییت جمع ہونے لگے اور  ان چند اوراق کے جواب میں ٢٠٠ سے ٣٠٠   قرطاس میں رد لکھے جانے لگے-    ان  کے ذہنی خلفشار کو رد کرنے کے لئے     ویب سائٹ کا اجراء ٢٠١٣میں ہوا- وقت کے ساتھ اس پر کافی مواد جمع ہوا جس کو   آج کتاب کی صورت یہاں رکھا جا رہا ہے – کہتے ہیں شریف آدمیوں کے سینے رازوں کے دفینے ہوتے ہیں –راقم کو بھی   ان رازوں کو طشت از بام کرنا پڑا  ہے

   محدثین   نے  عود روح کی روایت کو رد کیا   تھا لیکن کچھ کے تساہل کی وجہ سے یہ روایت عقیدہ کی کلید بنی اور رد کتاب الله کا وجہ بن رہی ہے -کفار پر جہنم  میں  یا البرزخ میں عذاب کی خبر مکی زندگی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دی گئی جب ال فرعون اور قوم نوح پر عذابات سے مطلع کیا گیا – یہ دونوں  غرق اب ہوئے اور  ان کا معاملہ ایک عموم سمجھا گیا ہے  کہ جہنم میں عذاب قبل محشر بھی ہو گا ال فرعون پر عذاب  کے حوالے سے  تفسيرابن كثيرسوره غافر میں ابن کثیر لکھتے ہیں

أنَّ الْآيَةَ دَلَّتْ عَلَى عَرْضِ الْأَرْوَاحِ إِلَى النَّارِ غُدُوًّا وَعَشِيًّا فِي الْبَرْزَخِ، وَلَيْسَ فِيهَا دَلَالَةٌ عَلَى اتِّصَالِ تَأَلُّمِهَا بِأَجْسَادِهَا فِي الْقُبُورِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ ذَلِكَ مُخْتَصًّا بِالرُّوحِ، فَأَمَّا حُصُولُ ذَلِكَ لِلْجَسَدِ وَتَأَلُّمُهُ بِسَبَبِهِ، فَلَمْ يَدُلَّ عَلَيْهِ إِلَّا السُّنَّةُ فِي الْأَحَادِيثِ

بے شک یہ آیت دلالت کرتی ہے ارواح کی آگ پر پیشی پر صبح و شام کو البرزخ میں،  اور اس میں یہ دلیل نہیں کہ یہ عذاب ان کے اجساد سے جو قبروں میں ہیں متصل ھو جاتا ہے، پس اس (عذاب) کا جسد کو پہنچنا اور اس کے عذاب میں ہونے پر احادیث دلالت کرتی ہیں

ابن کثیر اسی آیت کی تفسیر میں یہ بھی لکھتے ہیں

وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور

اور یہ آیت قبروں میں عذاب البرزخ پر اہل سنت کے استدلال میں سب سے بڑی ہے

ابن کثیر   نے صحیح کہا مومن پر عذاب کی خبر احادیث سے ملی ہے   اور آیت میں یہ نہیں ہے کہ یہ عذاب جسد کو بھی ہوتا ہے –  مکی زندگی میں مومنوں پر  عذاب  جہنم کی خبر نہیں تھی –  مومنوں پر عذاب  کا علم ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز سے منسلک خطبہ  میں  دیا گیا   جس روز  مارية القبطية  رضی الله تعالی عنہ اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم انتقال کر گئے (  ذیقعدہ    سن  ١٠ ہجری   از   امام ابن حزم    )- جب ہم کسوف کی روایات اور خطبہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں جو عذاب ہیں وہ   جہنم کے مناظر ہیں جو    مسجد النبی میں براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم کو دکھائے گئے یہاں تک کہ روایت کے مطابق جہنم کی تپش تک مسجد النبی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے محسوس کی اور نماز میں پیچھے ہٹے-  اس کے بعد خطبہ میں اپ نے  ایک عورت کا ذکر کیا جس نے بلی کو باندھے رکھا وہ مر گئی –  حاجیوں کا سامان چوری کرنے والے کا ذکر کیا – بتوں کے نام پر جانور چھوڑنے والے کا ذکر کیا – ان سب پر جہنم میں عذاب کی خبر دی اور کہا تم کو بھی قبر میں آزمایا جائے  گا –

یعنی  مومنوں پر عذاب قبر کی تمام روایات اس سے بعد کی ہیں جو ایک نہایت مختصر مدت  تقریبا ایک سال ہے    یا اس سے بھی کم  ہے  (نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ١٢ ربیع الاول 11 ہجری کی ہے ) اس کے برعکس اگر اس مسئلہ پر تمام صحیح (و ضعیف) روایات اکٹھی کی جائیں   تو اس سے گمان ہوتا ہے کہ ساری مدنی زندگی میں صرف اسی مسئلہ پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے گفتگو  کی-   یعنی چند  ماہ میں ہر وقت عذاب قبر کا مسئلہ کی بیان ہوا کہ اس قدر روایات جمع ہوئیں یا یہ کسی اور وجہ سے اس قدر زیادہ ہیں ؟   یہاں تک کہ سعد بن معاذ  رضی الله عنہ جنگ کی شہادت  شروع میں ہوئی ان کے لئے بھی راویوں  نے بیان کر دیا ہے کہ ان کی قبر  نے ان کو دبوچہ!       لہذا  عذاب  قبر  کی روایات کی تحقیق ضروری ہے کہ اس کو  جانا جائے کہ اس سلسلے  میں کیا  صحیح اور کیا غلط ہے-  بخاری میں ایک دوسری  روایت ہے کہ بنو نجارہی کے ایک مقام پر اپ نے مشرکین کی قبریں اکھڑ وا دیں اور وہاں اب مسجد النبی ہے اس تاریخی پس منظر میں یہ واضح ہے کہ عذاب اگر ارضی قبر میں ہوتا تو اس مقام پر نہ ہی مسجد النبی ہوتی نہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کو کھدواتے اور کسی اور مقام پر جا کر مسجد النبی کی تعمیر کرتے.خوب یاد رکھیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو مشرکین پر عذاب قبر کی خبر  مکّہ میں ہو چکی ہے لیکن پھر بھی قبرین کھدواتے ہیں

ہمارے لئے حبل الله کتاب الله ہے اور صحیح سند سے  قول نبوی ہے –    کتاب الله کا حکم ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم مانو –  یہ بات دور نبوی کے لئے ہے اور بعد والوں کے لئے بھی ہے –  لیکن    امداد زمنہ  کی وجہ سے  ہم تک قول نبوی لوگوں کی سند سے پہنچا ہے – لوگ ثقہ بھی ہوں تو بھول جاتے ہیں  ، روایت  کو معنوی انداز میں بیان کر دیتے ہیں  جو الفاظ نبوی نہیں ہوتے –  لوگ  اختلاط کا شکار بھی ہوتے ہیں جو ایک بشری کمزوری ہے –   یہاں تک کہ اگر روایت کو صحیح بھی سمجھا جائے  تو  لوگوں کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ صحیح قول نبوی  کا کیا   مفہوم  ہے ؟ کیا اس کی تاویل ہے ؟  مثلا جن اقوال نبوی کی بنیاد پر   لوگ صاحب  قبر  کو سننےوالا اور سمجھنے  کہتے ہیں قرآن کی آیات کا ظاہر اسی  مفہوم اس کا رد کرتا ہے – اس اختلاف کی بنا پر عقیدہ میں صحیح  منہج کو بر قرار رکھنا ضروری ہے   –   جس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن سے پہلے صحیح عقیدہ سمجھا جائے اور پھر حدیث نبوی کو دیکھا جائے – ہم کو معلوم ہے کہ ثقہ بیمار بھی ہوتا ہے اس کو اختلاط بھی ہو سکتا ہے وہ بھول بھی سکتا ہے – ظاہر ہے جو   کسی بیماری کی وجہ سے بھولا یا روایت سننے سمجھنے کی غلطی کر گیا اس کو شاید معافی مل جائے لیکن جو سب جان کر قرآن کا رد کرے اس کو کون بچائے گا ؟

الله تعالی نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ اس کی کتاب کی اتباع کی جائے اور اس کے رسول کا حکم چلے گا کسی اور  کی اتباع کی قرآن میں کوئی سند نہیں ہے     لہذا ہر مسلم پر فرض ہے کہ کتاب الله پر اپنا عقیدہ جانچ لے یہ قرآن کا حکم ہے

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى الله والرسول إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بالله واليوم الآخر ذلك خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً     سورة النساء آية  59

پس کسی بات میں تمہارا تنازع ہو جائے تو اس کو الله اور اس کے رسول کی طرف پلٹ دو اگر تم الله روز آخرت پر ایمان والے ہو یہ خیر ہے اور اچھی تاویل ہے

اور کہا
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فحكمه إلى الله
اور جس چیز میں بھی اختلاف کرو تو حکم الله ہی کا ہے

اور کہا
بَلْ كَذَّبُواْ بِمَا لَمْ يُحِيطُواْ بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ
بلکہ انہوں نے انکار کیا اس کا احاطہ ان کا علم نہ کر سکا اور اس کی تاویل ان تک نہ پہنچی

اور کہا
مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ
ہم سے کتاب میں (وضاحت پر) کوئی چیز نہیں رہ گئی

اور کہا
تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ
ہر چیز کی اس میں وضاحت ہے

  حیات فی قبر   عقیدہ کا ایک اہم مسئلہ ہے لہذا اس کو کتاب الله پر پیش کریں کہیں بھی حیات فی القبر کی دلیل نہیں ملتی
لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں شہداء کی حیات کا ذکر ہے کہ ان کو مردہ مت کہو لیکن وہ ان آیات کا سیاق و سباق نہیں دیکھتے صرف ایک آیت لی اور اس کو اپنی مرضی کامعنی پہنا دیا –    یہ آیت منافقین کے اس قول کے رد میں نازل ہوئی تھی کہ بے چارے مسلمان اپنے نبی کے چکر میں جنگوں میں ہلاک ہو گئے ہمارے ساتھ مدینہ میں ہی رهتے تو بچ گئے ہوتے-  یہ بات قرآن کہتا ہے انہوں نے بولی اور الله نے کہا نہیں اگر ان    کی موت کا وقت ہوتا تو کہیں بھی ہوتے ہلاک ہوتے اور جو میدان میں شہید ہوئے وہ معدوم نہیں ہوے وہ زندہ ہیں الله کے پاس رزق پا رہے ہیں-  مسلمانوں کا تو پہلے سے یہ عقیدہ تھا کہ مریں گے تو جنت میں جائیں گے یہ منافقین کی حماقت تھی جو ایسا کہہ رہے تھے کیونکہ وہ الله کے رسول اور آخرت کے انکاری تھے-  ان پر حجت تمام کی گئی کہ جو مرے ہیں وہ الله کے پاس رزق پا رہے ہیں-  صحیح مسلم کی مسروق کی حدیث میں اسکی وضاحت ا گئی کہ یہ شہداء اپنی قبروں میں نہیں انکی ارواح الله کے عرش کے نیچے ہیں-  اس کے علاوہ ایک عام مومن کے لئے بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر ہے کہ اس کی روح جنت کے درخت پر معلق ہے-  لہذا قرآن میں مکمل وضاحت ہے کہ یہ ارواح جنت میں ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف جہنم میں ہیں

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (13) وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ   سورة الانفطار
بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہیں اور فاجر جہنم میں قیامت کے روز اس میں جلیں گے

اسی طرح موسی علیہ السلام کے مخالف جہنم میں ہیں پورا ال فرعون کا لشکر جہنم میں اگ پر پیش ہو رہا ہے جو ڈوب کر مرا

الله تعالی نے خبر دی کہ نوح علیہ السلام نے پوری دنیا کو بد دعا دے دی کہ ایک کافر بچ نہ پائے

الله کا غضب بھڑک گیا اس نے پوری زمین کو پھاڑ ڈالا اور آسمان سے پانی گرنا شروع ہوا

فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ

هم نے آسمان کے دروازے کھول دیے نہروں جیسے پانی کے ساتھ

آسمان کے دروازے کھلے ہیں کفار مر رہے ہیں اور روحیں جلدی جلدی جہنم میں ڈالی جا رہی ہیں

زمین پر اس وقت پانی ہی پانی ہے

وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا

اور ہم نے زمیں کو پھآڑ کر چشموں میں بدل دیا

یعنی قبریں ختم کسی کی بھی قبر نہ رہی نہ آدم علیہ السلام نہ ود کی نہ سواع کی نہ یغوث کی نہ نسر کی جو صالح تھے اور نہ کفار کی سب کی لاشیں پانی میں زندہ بھی مر رہے ہیں اور مردہ بھی تیر رہے ہیں-  آدم کیا قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ؟ نہیں وہ تو جنت میں تھے ان کا جسم مٹی ہو چکا ہو گا یا اگر جسد تھا بھی تو وہ بھی اسی پانی میں تھا جس سے پوری زمین کو بھرا جا رہا تھا-   ان صاف ظاہر بصیرت کے بعد مردے میں عود روح کا عقیدہ رکھنا ایک باطل عقیدہ ہے اس کی دلیل نہ قرآن میں ہے نہ صحیح احادیث میں  –

لہذا الله کے بندوں کتاب الله پر عقیدہ بنا لو -راویوں کی غلطیاں ان کی غلطیاں ہیں ان کو اپنے سر مت لیں الله ان کو معاف کر دے گا کیونکہ جو بیماری میں بھول گیا اس کی خطا نہیں لیکن جو پورے ہوش میں جان کر کتاب الله کو چھوڑ گیا اس کے پاس کیا جواب ہو گا؟

واضح رہے کہ راقم یہ نہیں کہہ رہا کہ حدیث کو مطلقا رد کرو –   راقم کہتا ہے یہ قول خوارج کا تھا کہ حدیث کو قرآن پر پیش کر دو    تاکہ  ناسخ و منسوخ کو رد کیا جائے [1]–     بلکہ راقم کہتا ہے قرآن و حدیث کا جمع و تقابل عقائد میں کیا جاتا ہے- محدثین نے بہت سی  خلاف عقل   اور خلاف قرآن  روایات کو رد کیا ہے
علوم الحديث ومصطلحه – عرضٌ ودراسة  از مؤلفدکتور صبحي إبراهيم الصالح (المتوفى: 1407هـ)   کے مطابق ایسی حدیث جو خلاف عقل ہوں رد کی گئی ہیں

أن يكون المروي مخالفًا للعقل أو الحس والمشاهدة، غير قابل للتأويل (2). قِيلَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ: حَدَّثَكَ أَبُوكَ عَنْ جَدِّكَ أَن رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ سَفِينَةَ نُوحٍ طَافَتْ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَصَلَّتْ خَلْفَ المَقَامِ رَكْعَتَيْنِ؟ قَالَ: نَعَمْ. (3). وواضع هذا الخبر، عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، مشهور بكذبه وافترائه، ففي ” التهذيب ” نقلاً عن
الإمام الشافعي: «ذَكَرَ رَجُلٌ لِمَالِكٍ حَدِيثًا، مُنْقَطِعًا، فَقَالَ: اذْهَبْ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ يُحَدِّثْكَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نُوحٍ!

اگر حدیث خلاف عقل ہو تو رد ہو گی اس کی مثال ہے کہ عبد الرحمان بن زید نے اپنے باپ سے پھر دادا سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ نوح کی کشتی نے کعبہ کا طواف کیا

کتاب الموضوعات کے مقدمہ میں ابن جوزی نے کہا
أَلا ترى أَنه لَو اجْتمع خلق من الثِّقَات فَأخْبرُوا أَن الْجمل قد دخل فِي سم الْخياط لما نفعننا ثقتهم وَلَا أثرت فِي خبرهم، لأَنهم أخبروا بمستحيل، فَكل حَدِيث رَأَيْته يُخَالف الْمَعْقُول، أَو يُنَاقض الْأُصُول، فَاعْلَم أَنه مَوْضُوع فَلَا تتكلف اعْتِبَاره.
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اگر مخلوق کے تمام ثقات جمع ہوں اور خبر دیں کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر گیا تو ان کی ثقاہت کا کوئی فائدہ ہم کو اس خبر سے نہیں کیونکہ انہوں نے وہ خبر دی جو ممکن نہیں – پس ہر وہ حدیث جو عقل والے کی مخالفت کرے اور اصول (عقائد) سے متصادم ہو تو جان لو وہ گھڑی ہوئی ہے پس اس کے اعتبار کی تکلیف نہ کرو
ابن جوزی نے مزید کہا
وَاعْلَم أَنه قد يجِئ فِي كتَابنَا هَذَا من الْأَحَادِيث مَا لَا يشك فِي وَضعه، غير أَنه لَا يتَعَيَّن لنا الْوَاضِع من الروَاة، وَقد يتَّفق رجال الحَدِيث كلهم ثقاة والْحَدِيث مَوْضُوع أَو مقلوب أَو مُدَلّس، وَهَذَا أشكل الْأُمُور، وَقد تكلمنا فِي هَذَا فِي الْبَاب الْمُتَقَدّم.

اور جان لو کہ اس کتاب میں آئیں گی روایات جن پر کوئی شک نہیں کہ وہ گھڑی ہوئی ہیں لیکن اس میں یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ کس راوی نے گھڑی ہے اور اس میں اتفاق بھی ہو گا کہ تمام رجال ثقہ ہیں جبکہ یہ حدیث یا تو گھڑی ہوئی ہے یا مقلوب ہے یا تدلیس ہے اور یہ مشکل کاموں میں ہے

اسی کتاب میں ابن جوزی نے کہا
وَاعْلَم أَن حَدِيث الْمُنكر يقشعر لَهُ جلد طَالب الْعلم مِنْهُ
اور جان لو کہ حدیث منکر سنتے ہی طالب علم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں

گویا علم حدیث کا دارومدار صرف سند اور رجال ہی نہیں اس کا متن بھی ہے

گمراہ فرقوں کی جانب سے  آج  کہا جا   رہا ہے  کہ  عقل معیار نہیں بن سکتی [2]    –  دوسری طرف ہم جس مذھب کو مانتے ہیں   یعنی اسلام  اس کو تو  کو دین فطرت کہا جاتا ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ما مِنْ موْلودٍ إلا يولَدُ على الفِطرةِ

ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے

فطرت انسان میں  جبلی قوت دی گئی ہیں ان میں حواس خمسہ رکھے گئے ہیں – جس میں قرآن میں بار بار سمع و الابصار کا ذکر ہے کہ مشرک اس کو استعمال نہیں کرتے اور اس کی وجہ قرآن کہتا ہے کہ یہ اندھے نہیں ان کے دل اندھے ہیں- یعنی جو لوگ الله کی دی ہوئی نعمتوں کو حق کی تلاش کے لئے استعمال  نہیں کرتے ان کے قلوب پر زنگ آ جاتا ہے وہ اگرچہ آنکھوں سے بینا ہیں لیکن ان میں عقل و سمجھ مفقود ہے لہذا قرآن میں الله تبارک و تعالی کہتے ہیں

فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ   النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ

یہ الله کی (دی ہوئی) فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو خلق کیا ہے ، الله کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں

یعنی ہر انسان اس فطرت پر پیدا ہو رہا ہے جس میں تعقل و فکر کر کے وہ الله کو پا سکتا ہے

هود عليه السلام نے اپنی قوم سے کہا جب انکی قوم نے گمراہی پر اصرار کیا

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ

 بلا شبہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے رجس و غضب واقع ہو چکا ہے

سوره الانعام میں کہا

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

پس الله جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اور جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو گھٹتا ہوا تنگ کرتا ہے  گویا کہ وہ آسمان کی طرف جا رہا ہو – اس طرح الله گندگی ڈالتا ہے ان پر جو ایمان نہیں لاتے

سوره یونس میں کہا

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (100)

اور نفس کے لئے نہیں ہے کہ ایمان لائے سوائے الله کے اذن سے اور وہ گندگی ڈالتا ہے ان پر جو عقل سے کام نہیں لیتے

یعنی عقل استعمال نہ کرنے کی وجہ سے جب و فطرت سے ہٹے تو الله نے ان پر رجس یا گندگی ڈال دی جس نے ان کو قبر پرستی اصنام پرستی،   اکابر پرستی کی لعنت میں مبتلا کیا اور وہ اس کے جواز کے فتوے دینے لگے –   اس میں کتاب الله اور حکمت    اور حدیث موسی  کا درس دینے والے بھی تھے لیکن الله نے اہل کتاب کے علماء کے لئے کہا کہ ان پر گدھوں کی طرح کتابیں لدھی ہیں ان کو پڑھتے ہیں لیکن رجس سے نہیں نکل پا رہے –  عقل و فراست ہی تفقہ فی الدین ہے کہ روایت کو آگے کرنے حدثنا و اخبرنا کہنے والے تو بہت ہیں لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس  میں تفقہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے

مسند احمد میں  ایک روایت بیان ہوئی ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَرِيزٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ الْجُرَشِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ يَنْثَنِي شَبْعَانًا  عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ، وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، أَلَا وَلَا لُقَطَةٌ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ، فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُمْ  ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُمْ، فَلَهُمْ أَنْ يُعْقِبُوهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُمْ

الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا   خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے    ممکن ہے کہ کوئی مال و دولت کے نشہ سے سرشار اپنے تخت پر بیٹھ کر یہ کہے کہ تمہارے پاس قرآن ہے  اس میں تم جو چیز حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو حرام پاؤ اسے حرام قرار دو۔ سُن لو! پالتو گدھے تمہارے لئے حلال نہیں (اسی طرح) درندوں میں سے کچلی والے بھی (حلال نہیں) اور معاہد (ذمی) کی گری پڑی چیز بھی حلال نہیں الا یہ کہ اس کا یہ مالک اس سے بے نیاز ہوجائے اور جو شخص کسی قوم کے ہاں مہمان ٹھہرے تو اس کی ضیافت و اکرام ان پر فرض ہے اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو وہ اپنی مہمان نوازی کے بقدر ان سے لے سکتا ہے۔

اس پر دکتور شعيب الأرنؤوط اس روایت کے تحت  کہتے ہیں

قلت: كأنه أراد به العرض لقصد رد الحديث بمجرد أنه ذُكر فيه ما ليس في الكتاب، وإلا فالعرض لقصد الفهم والجمع والتثبت لازم

میں کہتا ہوں  کہ گویا اس ( حدیث) کو (قرآن پر)  پیش کرنے کا مقصد مجرد حدیث کو رد کرنا ہے کہ اس میں اس چیز کا ذکر ہے جو کتاب الله میں نہیں (تو یہ صحیح نہیں) لیکن اگر پیش کرنا  فہم اور جمع اور اثبات کے لئے ہو تو یہ لازم ہے

 -حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول و فعل ہے- اس میں احکام نبوی، وحی کی نوع کے ہیں کیونکہ قرآن  کی تعبیر و تشریح  کرنا الله کا کام ہے- رسول شریعت نہیں بناتے وہ الله کی جانب سے انے والے احکام کی تشریح کرتے ہیں جو الله کی طرف سے  رسول الله کو سمجھائی گئی-   لہذا جب ایک بات رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کی ہو تو اس کا انکار بھی کفر ہے

ہم جب قرآن کو دیکھتے ہیں تو اس میں صرف دو زندگیاں اور دو موتوں کا اصول پاتے ہیں – قرآن میں   جس پر موت طاری ہو رہی ہے اس کے لئے  امساک روح  کا ذکر ہے کہ اس کو روک لیا جاتا ہے- لہذا ہم عود روح کی روایت کو باطل و منکر قرار دیتے ہیں – ہم کہتے ہیں مردہ  لا شعور ، بے جان اور بے حس ہے- جس کو عذاب قبر کہا جاتا ہے وہ عذاب جہنم کی شکل ہے جس کو کتاب الله میں النار کہا گیا ہے  –      یہ   عقیدہ      کہ   عذاب و راحت  اور  سوال  الملکین   سب   روح  سے ہوتا ہے     اہل  سنت کا ہی عقیدہ ہے-   امام الأشعري   (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور

اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ  المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو  جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا

 گمراہ فرقوں کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ عود روح حدیث میں آیا ہے لہذا اس کی روایت کو قرآن پر پیش نہیں کرنا چاہیئے اور قبول کرنا چاہیے لیکن یہ بات درست نہیں قرآن میں واضح طور پر امسک روح کا ذکر ہے کہ روح کو روک لیا جاتا ہے لہذا اس کو واپس جسد میں ڈالنے والی روایت صحیح نہیں – محدث  ابن حبان کے مطابق عود روح والی روایت کی سند میں ہی گھپلا ہے ذھبی اس کو نکارت و غرابت سے بھر پور قرار دیتے ہیں-  پھر محدثین میں أبو بسطام شعبة بن الحجاج بن الورد المتوفي ١٦٠ هجري کے نزدیک المنھال بن عمرو متروک تھا لہذا یہ عود روح کا عقیدہ اس دور میں  محدثین رد کر چکے تھے –  محدث خراسان محمد بن محمد بن أحمد بن إسحاق النيسابوري الكرابيسي ، الحاكم الكبير المتوفی ٣٧٨ھ   ، مؤلف كتاب  الكنى کہتے تھے کہ زاذان کی روایت اہل علم کے نزدیک مظبوط نہیں ہے –  ظاہر  یہ اہل علم ، حدیث رسول کے مخالف  نہیں تھے  جو انہوں نے عود روح کی روایت کے راویوں کو ہی رد کر دیا؟       راقم کہتا ہے یہ  محدثین کا  منہج   ہے کہ وہ    ان راویوں کی روایت  کو عقائد میں قبول نہیں کرتے-

ایک  طرف تو محدثین تھے جو عود روح کی روایت رد کر رہے تھے اور دوسری طرف ایک  صوفی  محمد بن كرام  تھا جو   سجستان میں پلا بڑھا اور  بيت المقدس  میں  256ھ میں وفات ہوئی یعنی یہ  امام بخاری کا ہم عصر تھا –  ابن حزم الملل و النحل میں لکھتے ہیں کرامیہ وہ ہیں جو

أصحاب أبي عبد الله محمد بن كرام ، وإنما عددناه من الصفاتية لأنه كان ممن يثبت الصفات إلا أنه ينتهي فيها إلى التجسيم والتشبيه

اصحاب ابی عبد الله محمد بن کرام ہیں اور ہم نے ان کو الصفاتیہ میں شمار کیا ہے کیونکہ یہ وہ ہیں جو صفات کا اثبات کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اس کو تجسیم و تشبیه پر ختم کرتے ہیں

ابن حزم مزید کہتے ہیں

نص أبو عبد الله على أن معبوده على العرش استقرارا، وعلى أنه بجهة فوق ذاتا، وأطلق عليه اسم الجوهر. فقال في كتابه المسمى “عذاب القبر” إنه أحدى الذات، أحدى الجوهر، وإنه مماس للعرش من الصفح العليا، وجوز الانتقال، والتحول، والنزول، ومنهم من قال إنه على بعض أجزاء العرش. وقال بعضهم: امتلأ العرش به، وصار المتأخرون منهم إلى أنه تعالى بجهة فوق، وأنه محاذ للعرش.

اور ابو عبدالله نے نص کیا کہ اس کا معبود عرش پر استقرار کیے ہوئے ہے اور نص کیا کہ وہ ذات عرش کے اوپر ہے اور اس ذات پر اسم الجوہر کا اطلاق کیا پس اپنی کتاب بنام عذاب القبر میں کہا وہ ایک ذات ہے ایک جوہر ہے اور وہ ذات عرش کو اوپر سے چھو رہی ہے اور اس کا منتقل ہونا جائز ہے اور بدل جانا اور نزول اور ان میں سے بعض نے کہا وہ عرش کے بعض اجزاء پر ہے اور بعض نے کہا عرش کو بھرا ہوا ہے اور ان کے متاخرین اس طرف گئے کہ وہ اوپر سے اس کو چھو رہا ہے اور وہ عرش کے پاس ہے

محمد بن کرام    المشبہ کا عقیدہ   الله تعالی کے حوالے سے تجسیم کا تھا اور اس عقیدہ کا ذکر اس نے اپنی کتاب عذاب قبر میں کیا  اور کہا کہ مردہ پر عذاب ہوتا ہے بلا روح-   ماضی میں مردہ  جسد کو عذاب و راحت کا عقیدہ  اہل سنت کا   نہیں تھا یا تو صرف  روح پر عذاب کے  قائلین تھے  یا پھر   روح و جسم    دونوں پر عود روح کے بعد عذاب کے قائلین تھے- الشوکانی   کتاب   الفتح الرباني من فتاوى الإمام الشوكاني، مكتبة الجيل الجديد، صنعاء – اليمن   میں فتوی دیتے  ہیں

أنه قد ثبت بالأحاديث المتواترة عذاب القبر لمن يستحقه، ومعلوم  أنه لا يعذب إلا وروحه معه، وإدراكه، ولو لم يكن كذلك لكان العذاب الواقع على مجرد الجسم بلا روح ولا إحساس ليس بعذاب، لأن إدراك الألم واللذة مشروط بوجود ما به الإدراك- وإلا فلا إدراك لمن ليس له حياة ولا إحساس لمن لا روح له-

اور بے  شک متواتر احادیث سے  عذاب القبر ثابت ہے اس کے لئے جو اس کا مستحق ہو اور یہ معلوم ہے کہ  عذاب نہیں ہوتا الا یہ کہ روح ساتھ ہو اور ادرک ہو اور اگر ایسا نہ ہو کہ روح نہ ہو تو یہ عذاب  صرف جسم   پر بلا روح    اور بغیر احساس کے واقع ہوا،   جو  عذاب نہیں ،  کیونکہ الم اور لذت    کا  ادرک   مشروط  ہے     اس  وجود سے جس   کو ادرک بھی ہو – اور اگر ایسا نہ ہو (کہ روح نہ ہو تو)  پس  ادرک نہیں ہے مگر    اس میں جس میں زندگی ہو،  اور  جس میں روح نہ ہو اس میں  احساس نہیں    ہے-

النووی ، شرح  المسلم میں لکھتے ہیں

الْمُعَذَّبُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ الْجَسَدُ بِعَيْنِهِ أَوْ بَعْضُهُ بَعْدَ إِعَادَةِ الرُّوحِ إِلَيْهِ أَوْ إِلَى جُزْءٍ مِنْهُ وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إِعَادَةُ الرُّوحِ قَالَ أَصْحَابُنَا هَذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ الْأَلَمَ وَالْإِحْسَاسَ إِنَّمَا يَكُونُ فِي الْحَيِّ

معذب ، اہل السنت کے نزدیک جسد بعینہ ہے یا اس کے بعض حصے اس میں إِعَادَةِ الرُّوحِ ہونے کے بعد اور اس کی مخالفت کی ہے محمّد بن جریر اور عبدللہ بن کرام اور ایک گروہ نے اور کہا کہ إِعَادَةِ الرُّوحِ عذاب کی شرط نہیں- ہمارے اصحاب کہتے ہیں یہ فاسد قول ہے بے شک الم و احساس زندہ کے لئے ہے

معلوم    ہوا     صرف  روح  پر  عذاب  کے  قائلین     ابن  حزم  سے  پہلے   بھی تھے  لہذا  بعض کا یہ  دعوی کہ  عود روح کا انکار  سب سے پہلے ابن حزم نے کیا باطل ہے-

ابن الجوزی   المتوفی  ٥٩٧ ھ   اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں  کہ

فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار

پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ  سے تعريفا  (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف  (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش  میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف  میں

محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ) کتاب  العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں لکھتے ہیں

ثم لأهل السنة قولان؛ قيل: إن العذاب للروح فقط، وقيل: للروح والجسد والمشهور الثاني

پھر اہل السنہ ہے دو قول ہیں: کہتے ہیں کہ عذاب صرف روح کو ہے اور کہتے ہیں روح و جسد کو ہے اور دوسرا قول مشھور ہے

 کسی قول کا مشہور ہونا اس کی دلیل نہیں کہ وہ صحیح عقیدہ ہے- چودہ سو سال کی شہادت آپ کے سامنے ہے ہر دور میں صرف روح پر عذاب کے قائل رہے ہیں

اس کتاب میں ان مباحث کو  تفصیلا پیش کیا گیا ہے تاکہ دیکھا جائے کیا قول صواب  ہے

ابو شہر یار

٢٠١٧

عذاب القبر

 

محدثین سجین اور برھوت

قرآن میں ہے

وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (20) يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ
 اورتم کیا جانو عِلِّيُّونَ کیا ہے- کتاب ہے رقم کی ہوئی- جس کی نگہبانی مقرب کرتے ہیں

فرمایا

وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَرْقُومٌ
 اور تم کیا جانو سجین کیا ہے-  کتاب ہے رقم کی ہوئی

لیکن افسوس اقوال رجال کی بنیاد پر قرآن کی ان آیات کا مفہوم تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ عقائد باطلہ کا اثبات کیا جا سکے اور یہ کوئی آج کل کی بات نہیں صدیوں سے چلی آئی روایت ہے کہ معنی و مفاہیم قرآن کو اپنے فرقوں کے سانچوں میں ڈھالا جائے

تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم کے مطابق سجین کے لئے

عَنِ السُّدِّيِّ وَمَا تَحْتَ الثَّرَى قَالَ: هي الصخرة التي تحت الأَرْض السابعة، وهي خضراء وهو سجين الّذِي فيه كتاب الكفار
السدي نے کہا یہ تحت الثری میں ہے یہ چٹان ہے ساتویں زمین کے نیچے جو سبز ہے اور یہ سجین ہے جس میں کفار کی کتاب ہے

یہ سند ضعیف ہے السدی مجروح راوی ہے

تفسیر طبری کی روایت ہے
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني جرير بن حازم، عن سليمان الأعمش، عن شمر بن عطية، عن هلال بن يساف، قال: كنا جلوسا إلى كعب أنا وربيع بن خيثم وخالد بن عُرْعرة، ورهط من أصحابنا، فأقبل ابن عباس، فجلس إلى جنب كعب، فقال: يا كعب أخبرني عن سِجِّين، فقال كعب: أما سجِّين: فإنها الأرض السابعة السفلى، وفيها أرواح الكفار تحت حدّ إبليس.

هلال بن يساف نے کہا میں اور ربيع بن خيثم اور خالد بن عُرْعرة کعب کے پاس بیٹھے تھے اور ہمارے اصحاب کا ایک ٹولہ پس ابن عباس آئے اور کعب کے برابر بیٹھ گئے اور کہا اے کعب ہم کو سجین کی خبر دو پس کعب الاحبار نے کہا سجین یہ تو ساتویں زمین ہے نیچے جس میں کفار کی روحیں ہیں ابلیس کے قید خانہ کے نیچے

تفسیر طبری میں اسی سند سے ہے

حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني جرير بن حازم، عن الأعمش، عن شمر بن عطية، عن هلال بن يساف، قال: سأل ابن عباس كعبًا وأنا حاضر عن العليين، فقال كعب: هي السماء السابعة، وفيها أرواح المؤمنين
ابن عباس نے العليين پر سوال کیا کعب نے کہا ساتواں آسمان جس میں مومنوں کی روحیں ہیں

دونوں کی سند منقطع ہے کتاب الاکمال کے مطابق
وفي كتاب «سؤالات حرب الكرماني» قال أبو عبد الله: الأعمش لم يسمع منه شمر بن عطية
اعمش کا سماع شمر بن عطية سے نہیں ہے

بعض جہلا نے اس کعب الاحبار کو کعب بن مالک رضی الله عنہ بنا دیا ہے یا کعب الاحبار کو صحابی سمجھا ہے جبکہ کعب الاحبار صحابی نہیں ہے

یہود کا قول ہے کہ جہنم زمین میں ہے اور اس کا ایک دروازہ ارض مقدس میں ہے

The statement that Gehenna is situated in the valley of Hinnom near Jerusalem, in the “accursed valley” (Enoch, xxvii. 1 et seq.), means simply that it has a gate there. It was in Zion, and had a gate in Jerusalem (Isa. xxxi. 9). It had three gates, one in the wilderness, one in the sea, and one in Jerusalem (‘Er. 19a).

Jewish Encyclopedia, GEHENNA
http://www.jewishencyclopedia.com/articles/6558-gehenna

یہ عبارت کہ جہنم ہنوم کی وادی میں یروشلم کے پاس ہے ، پھٹکار کی وادی میں (انوخ ٢٧ ، ١ ) کا سادہ مطلب ہے کہ وہاں اس (جہنم) کا دروازہ ہے- یہ (جہنم) صیہون (بیت المقدس کا ایک پہاڑ) میں تھی اور دروازہ یروشلم میں تھا (یسیاہ باب ٣١: 9 ). اس کے تین دروازے (کھلتے) تھے ایک صحرآ میں، ایک سمندر میں، ایک یروشلم میں

لہذا کعب الاحبار نے جو بھی بیان کیا یا جو اس سے منسوب کیا گیا وہ اسرائیلات میں سے ہے قول نبوی نہیں ہے

تفسیر طبری کی دوسری روایت ہے
حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس، في قوله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) يقول: أعمالهم في كتاب في الأرض السفلى.

عطیہ عوفی نے ابن عباس سے روایت کیا کہ قول الله تعالی (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) کہا یہ کتاب ہے جس میں ان کے اعمال ہیں جو زمین سفلی میں ہے

محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية العوفى شیخ طبری ہیں – کتاب المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کے مطابق
سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد، العوفي، البغدادي، والد محمد بن سعد، شيخ الطبري ہے

عطية بن سعد، العوفي، سخت مجروح راوی ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص بن حميد، عن شمر، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار، فقال له ابن عباس: حدِّثني عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ … ) الآية، قال كعب: إن روح الفاجر يصعد بها إلى السماء، فتأبى السماء أن تقبلها، ويُهبط بها إلى الأرض فتأبى الأرض أن تقبلها، فتهبط فتدخل تحت
سبع أرضين، حتى ينتهي بها إلى سجين، وهو حدّ إبليس، فيخرج لها من سجين من تحت حدّ إبليس، رَقّ فيرقم ويختم ويوضع تحت حدّ إبليس بمعرفتها
شمر نے کہا ابن عباس کعب الاحبار کے پاس پہنچے اس سے کہا الله کے قول پر بیان کرو- کعب نے کہا فاجر کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان اس کو قبول کرنے میں کراہت کرتا ہے اس کو زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے تو زمین کراہت کرتی ہے تو اس کو ساتویں زمین میں داخل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سجین میں جا پہنچتی ہے جو ابلیس کی حد ہے .. وہاں ایک ورقه نکلتا ہے جس میں رقم کیا جاتا ہے اور مہر لگائی جاتی ہے اور رکھا جاتا ہے ابلیس کے قید کے نیچے جاننے کے لئے

اسی سند سے تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص، عن شمر بن عطية، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فسأله، فقال: حدثْنِي عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الأبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ … ) الآية، فقال كعب: إن الروح المؤمنة إذا قُبِضت، صُعد بها، فَفُتحت لها أبواب السماء، وتلقَّتها الملائكة بالبُشرَى، ثم عَرَجُوا معها حتى ينتهوا إلى العرش،
فيخرج لها من عند العرش فيُرقَم رَقّ، ثم يختم بمعرفتها النجاة بحساب يوم القيامة، وتشهد الملائكة المقرّبون.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے عِلِّيِّينَ سے متعلق پوچھا تو کعب نے کہا مومنوں کی روحیں جب قبض ہوتی ہیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے بشارت دیتے ہیں پھر بلند ہوتی ہیں یھاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں پس عرش کے پاس ایک ورقه ہے جس میں رقم کرتے ہیں پھر مہر لگتی ہے معرفت کے لئے کہ قیامت میں حساب سے نجات ہو گی اور مقرب فرشتے گواہ بنتے ہیں

دونوں کی سند ایک ہے ضعیف ہے
میزان کے مطابق حفص بن حميد، أبو عبيد القمى کو ابن المديني: مجهول کہتے ہیں
دوسرے راوی يعقوب بن عبد الله القمي کو الدارقطني ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا ابن نمير، قال: ثنا الأعمش، قال: ثنا المنهال بن عمرو، عن زاذان أبي عمرو، عن البراء، قال: (سِجِّينٍ) الأرض السفلى.
منہال بن عمرو نے زاذان سے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا سجین نچلی زمین ہے

دوسری سند ہے
حدثنا أبو كُرَيب، قال: ثنا أبو بكر، عن الأعمش، عن المنهال، عن زاذان، عن البراء، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وذكر نفس الفاجر، وأنَّهُ يُصعَدُ بها إلى السَّماء، قال: ” فَيَصْعَدُون بها فَلا يمُرُّونَ بِها عَلى مَلإ مِنَ المَلائِكَة إلا قالُوا: ما هَذَا الرُّوحُ الخَبِيثُ؟ قال: فَيَقُولُونَ: فُلانٌ بأقْبَحِ أسمَائِهِ التي كان يُسَمَّى بها في الدنيا
حتى يَنْتَهوا بِهَا إلى السَّماء الدُّنْيا، فيَسْتَفْتِحُونَ لَهُ. فَلا يُفْتَحُ لَهُ، ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” (لا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ) فَيَقُولُ اللهُ: اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي أسْفَلِ الأرْضِ فِي سجِّينٍ فِي الأرْضِ السُّفْلَى”.

زاذان نے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا … اس کی کتاب کو زمین میں نیچے سجین میں لکھو جو الأرْضِ السُّفْلَى ( زمین کا نچلا حصہ) ہے

زاذان اہل علم کے نزدیک مضبوط راوی نہیں اور غلطیاں کرتا ہے

البتہ اس کو صحیح کہنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ سجین ایک مقام کہا جا رہا ہے جبکہ قرآن میں صریح اس کو کتاب کہا گیا ہے

مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ میں ہے

3539 – عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: عِلِّيِّينَ قَالَ: «فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ عِنْدَ قَائِمَةِ الْعَرْشِ الْيُمْنَى»
معمر نے قتادہ بصری سے روایت کیا کہ عِلِّيِّينَ ساتویں آسمان پر ہے عرش کے داہنا پایہ کے پاس

راقم کہتا ہے عرش کو تو مسلسل فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے

محدثین کہتے ہیں
قَالَ أَبُو حَاتِم مَا حدث معمر بن رَاشد بِالْبَصْرَةِ فَفِيهِ أغاليط
ابو حاتم نے کہا معمر نے جو بصرہ میں روایت کیا اس میں غلطیاں ہیں

پھر معمر مدلس اور قتادہ بھی مدلس – یہ قول قابل رد ہے

کتاب صفة النار از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: ” كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَإِنَّ جَهَنَّمَ فِي الْأَرَضِينَ السَّبْعِ

عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ کہتے ہیں ان کو ابو ہلال نے خبر دی انہوں نے قتادہ سے روایت کیا کہ کہا کہ وہ کہتے جنت ساتویں آسمان پر اور جہنم ساتویں زمین پر ہے

قتادہ نے واضح نہیں کیا کہ وہ کہتے ہیں میں کون مراد ہے – ایسے مجہول لوگوں کے اقوال بیان بھی نہیں کرنے چاہییں

 ایک شاذ قول عبد اللہ بن سلام رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا ہے

وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ

اور بے شک جنت آسمان میں اور جہنم زمین میں ہے

اس قول کی ایک سند کتاب صفة الجنة از ابی نعیم  میں ہے

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ أَبِي نَصْرٍ الطُّوسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرَّقِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْقُرْدُوَانِيُّ، ثنا خَضِرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ، الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ

سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْقُرْدُوَانِيُّ ہے جس کے لئے الذھبی کہتے ہیں

قال ابن عروبة: … ولم يكن يعرف الحديث

ابن عروبة نے کہا  یہ حدیث نہیں جانتا

اور میزان میں کہا

قال أبو أحمد الحاكم: ليس بالمتين عندهم.

أبو أحمد الحاكم نے کہا مضبوط نہیں ہے

دوسری سند مسند الحارث میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبَانَ , ثنا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ , عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ يَقُولُ: إِنَّ ” أَكْرَمَ خَلِيقَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارَ فِي الْأَرْضِ , فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بَعَثَ اللَّهُ الْخَلِيقَةَ أُمَّةً أُمَّةً وَنَبِيًّا نَبِيًّا , حَتَّى يَكُونَ أَحْمَدُ وَأَمَّتُهُ آخِرَ الْأُمَمِ مَرْكَزًا , ثُمَّ يُوضَعُ جِسْرٌ عَلَى جَهَنَّمَ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ: أَيْنَ أَحْمَدُ وَأُمَّتُهُ , فَيَقُومُ وَتَتْبَعُهُ أُمَّتُهُ بَرُّهَا وَفَاجِرُهَا “

یھاں سند میں عبد العزيز بن أبان ہے جو متروک مشہور ہے

تیسری سند کتاب الکنی از الدولابی میں ہے

حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ:، ثَنَا الْخَضِرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شُجَاعٍ قَالَ:، ثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ [ص:7]، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ»

یہاں هلال بن العلاء بن هلال مضبوط نہیں ہے جو منکرات بیان کرتا ہے

چوتھی سند مستدرک الحاکم کی ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ، ثَنَا عَفَّانُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَا: ثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ
یہاں سند میں محمد بن غالب بن حرب الضبي، تمتام ہے جس کے لئے ہے کہ دارقطنی نے کہا
وكان وهم في أحاديث
ان کی احادیث میں وہم ہے
اس کی ایک روایت شَيَّبَتْنِي هُودٌ کو موسى بن هَارُون کی طرف سے موضوع بھی کہا گیا ہے

مجاہد جو ابن عباس کے شاگرد ہیں  ان کے لئے اعمش نے کہا – سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی، مجاہد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ الحَافِظُ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَبْدِ القُدُّوْسِ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: كَانَ مُجَاهِدٌ لاَ يَسْمَعُ بِأُعْجُوْبَةٍ، إِلاَّ ذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ذَهَبَ إِلَى بِئْرِ بَرَهُوْتَ   بِحَضْرَمَوْتَ

اعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں  سنتے تھے الا یہ کہ وہاں جا کر اس کو دیکھتے لہذا برھوت حضر الموت گئے کہ اس کو جا کر دیکھیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا مهران، عن سفيان، عن منصور، عن مجاهد، عن مغيث بن سميّ، قال: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) قال: الأرض السفلى، قال: إبليس مُوثَق بالحديد والسلاسل في الأرض السفلى.

مجاہد نے مغیث سے روایت کیا کہ  آیت میں سجین سفلی زمین ہے کہا اس میں ابلیس ہے جو لوہے کی زنجیر سے جکڑا ہوا ہے  نچلی زمین میں

معلوم هوا کہ مفسرین میں مجاہد  یہ بھی روایت کرتے تھے کہ ابلیس زمین میں قید ہے جبکہ قرآن کہتا ہے کہ ابلیس کو محشر تک چھوٹ دی گئی ہے

اسی طرح الجامع لتفسير الإمام ابن رجب الحنبلي کے مطابق

وخرج ابن مندة ، من حديث أبي يحيى القتات عن مجاهد ، قال: قلت لابن عباس: أين الجنة ؟ قال : فوق سبع سموات ، قلت : فأين النار؟ قال: تحت سبعة أبحر مطبقة .

ابن مندہ ایک روایت بیان کی ہے کہ أبي يحيى القتات نے مجاہد سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہ سے پوچھا کہ جنت کہاں ہے بولے سات آسمانوں سے اوپر .- پوچھا اور جہنم؟ بولے سات سمندر کے اندر

اس کی سند میں أبو يحيى القتات المتوفی 130 ھ ہے ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وفيه ضعف اس میں ضعف ہے – الكامل في ضعفاء الرجال از ا بن عدي کے مطابق نسائی کہتے ہیں ليس بالقوي – الذھبی نے ديوان الضعفاء میں ذکر کیا ہے

لہذا یہ ایک ضعیف روایت ہے

ان اقوال کی بنیاد پر ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں

 والصحيح أن سجِّيناً مأخوذ من السجن، وهو الضيق ….. والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة

اور صحیح بات ہے کہ سجین ماخوذ ہے سجن قید خانہ سے اور یہ تنگ ہے … اور اس کا مقام ساتویں زمین کا وسط کا مرکز ہے

یعنی سجین ارض کا

CORE

ہے  جہاں زمین کا مرکز ووسط ہے

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

أنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: أنا مُحَمَّدُ بْنُ   هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، قَالَ: نا الرَّبِيعُ، قَالَ: نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: ” تَخْرُجُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، فَتَعْرُجُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهُ فَتَلْقَاهُ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا هَذَا الَّذِي جِئْتُمْ بِهِ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: تَوِّجُوهُ، هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ كَانَ يَعْمَلُ كَيْتَ وَكَيْتَ لِأَحْسَنِ عَمَلٍ لَهُ , قَالَ: فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ، وَحَيَّا مَا جِئْتُمْ بِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ الَّذِي يَصْعَدُ فِيهِ قَوْلُهُ وَعَمَلُهُ، فَيُصْعَدُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ حَتَّى يَأْتِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَهُ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، وَرُوحُ الْكَافِرِ أَنْتَنُ يَعْنِي: مِنَ الْجِيفَةِ وَهُوَ بِوَادِي حَضْرَ مَوْتَ، ثُمَّ أَسْفَلَ الثَّرَى مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ “

ابو موسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو اس میں سےمشک کی سی خوشبو اتی ہے پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تم کیا لے کر آئے ہو ؟ پس فرشتے کہتے ہیں ادھر دیکھو یہ فلاں بن فلاں ہے اس نے ایسا ایسا عمل کیا ہے اچھا – پس فرشتے کہتے ہیں الله تم پر سلامتی کرے اور جو تم لائے ہو اس پر پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں یہاں تک کہ رب تعالی کے پاس جاتے ہیں اور ان کے لئے سورج کی طرح یہ ثبوت ہوتا  ہے   اور کافر کی روح سڑتی ہے یعنی سڑی ہوئی جو حضر الموت کی وادی میں ہے الثری کی تہہ ہیں سات زمین نیچے

اس میں حضر الموت میں وادی کا ذکر ہے جس میں برھوت ہے لیکن یھاں روایت برھوت کا ذکر نہیں ہے

اس سند کی علت یہ ہے کہ اس میں الربیع مجہول ہے – یہ الرویانی نے روایت کی ہے اور اس نام کا ان کا کوئی شیخ نہیں ہے اور یہ روایت مسند الرویانی میں بھی نہیں ہے

یہ منکر متن رکھتی ہے

ابو موسی ألاشعري رضي الله تعالى عنه سے منسوب ایک اور روایت میں ان الفاظ کی تشریح ہے کہ الله تعالی  نعوذ باللہ سورج کی طرح چمک رہا ہوتا ہے

یہی بات رب العالمین کے لئے أبو موسى ألاشعري رضي الله تعالى عنه کے حوالے سے ارشد کمال نے المسند فی عذاب القبر میں لکھی ہے

arshad-48

کیا رب العالمین کے چہرے کی چمک ، سورج کی چمک کے برابر ہے. کیا الله تعالی نے یہ نہیں کہ  ليس كمثله شئ کہ اس کی مثل کوئی شی نہیں

لھذا یہ روایات منکر ہیں

مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: «تَخْرُجُ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنَ الْمِسْكِ»، قَالَ: ” فَيَصْعَدُ بِهَا الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهَا فَتَلَقَّاهُمْ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا مَعَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ وَيَذْكُرُونَهُ بِأَحْسَنِ عَمَلِهِ، فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ وَحَيَّا مَنْ مَعَكُمْ “، قَالَ: «فَتُفْتَحُ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ»، قَالَ: «فَيُشْرِقُ وَجْهُهُ فَيَأْتِي الرَّبَّ وَلِوَجْهِهِ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ»، قَالَ: ” وَأَمَّا الْآخَرُ فَتَخْرُجُ نَفْسُهُ وَهِيَ أَنْتَنُ مِنَ الْجِيفَةِ، فَيَصْعَدُ بِهَا الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهَا فَتَلَقَّاهُمْ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا مَعَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ وَيَذْكُرُونَهُ بِأَسْوَأِ عَمَلِهِ “، قَالَ: ” فَيَقُولُونَ: رُدُّوهُ فَمَا ظَلَمَهُ اللَّهُ شَيْئًا “، قَالَ: وَقَرَأَ أَبُو مُوسَى: ” {وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40]

اس کی سند میں عاصم بن بھدلہ کا تفرد ہے جو آخری عمر میں اختلاط کا شکار  ہوئے اور رب تعالی کو سورج کے مثال قرار دینا اسی کی وجہ لگتا ہے

اس میں متن صحیح مسلم کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایت کے خلاف ہے

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا

عبد الله بن شقیق نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ  … جب کافر کی روح نکلتی ہے … اہل آسمان کہتے ہیں خبیث روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے کہا پھر وہ کہتے ہیں اس کو آخری اجل تک کے لئے لے جاؤ

محدثین : زمیں کے وسط میں مچھلی ہے 

دوسری طرف محدثین کہتے ہیں کہ زمین کے مرکز میں ایک مچھلی ہے

مستدرک الحاکم کی روایت ہے جس کو امام حاکم صحیح کہتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الْأَرَضِينَ بَيْنَ كُلِّ أَرْضٍ إِلَى الَّتِي تَلِيهَا مَسِيرَةُ خَمْسُمِائَةِ سَنَةٍ فَالْعُلْيَا مِنْهَا عَلَى ظَهْرِ حُوتٍ قَدِ التَّقَى طَرَفَاهُمَا فِي سَمَاءٍ، وَالْحُوتُ عَلَى ظَهْرِهِ عَلَى صَخْرَةٍ، وَالصَّخْرَةُ بِيَدِ مَلَكٍ، وَالثَّانِيَةُ مُسَخَّرُ الرِّيحِ، فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُهْلِكَ عَادًا أَمَرَ خَازِنَ الرِّيحِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْهِمْ رِيحًا تُهْلِكُ عَادًا، قَالَ: يَا رَبِّ أُرْسِلُ عَلَيْهِمُ الرِّيحَ قَدْرَ مِنْخَرِ الثَّوْرِ، فَقَالَ لَهُ الْجَبَّارُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِذًا تَكْفِي الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا، وَلَكِنْ أَرْسِلْ عَلَيْهِمْ بِقَدْرِ خَاتَمٍ، وَهِيَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ الْعَزِيزِ: {مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ} [الذاريات: 42] ، وَالثَّالِثَةُ فِيهَا حِجَارَةُ جَهَنَّمَ، وَالرَّابِعَةُ فِيهَا كِبْرِيتُ جَهَنَّمَ ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِلنَّارِ كِبْرِيتٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ فِيهَا لَأَوْدِيَةٌ مِنْ كِبْرِيتٍ لَوْ أُرْسِلَ فِيهَا الْجِبَالُ الرُّوَاسِي لَمَاعَتْ، وَالْخَامِسَةُ فِيهَا حَيَّاتُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَفْوَاهَهَا كَالْأَوْدِيَةِ تَلْسَعُ الْكَافِرَ اللَّسْعَةَ فَلَا يَبْقَى مِنْهُ لَحْمٌ عَلَى عَظْمٍ، وَالسَّادِسَةُ فِيهَا عَقَارِبُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَدْنَى عَقْرَبَةٍ مِنْهَا كَالْبِغَالِ الْمُؤَكَّفَةِ تَضْرِبُ الْكَافِرَ ضَرْبَةً تُنْسِيهِ ضَرْبَتُهَا حَرَّ جَهَنَّمَ، وَالسَّابِعَةُ سَقَرُ وَفِيهَا إِبْلِيسُ مُصَفَّدٌ بِالْحَدِيدِ يَدٌ أَمَامَهُ وَيَدٌ خَلْفَهُ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُطْلِقَهُ لِمَا يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَطْلَقَهُ» هَذَا حَدِيثٌ تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو السَّمْحِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ وَقَدْ ذَكَرْتُ فِيمَا تَقَدَّمَ عَدَالَتَهُ بِنَصِّ الْإِمَامِ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

عبد الله بن عمرو نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : زمینیں ایک مچھلی کی پیٹھ پر ہیں

تفسیر ابن کثیر میں ہے

حدیث میں ہے ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں، یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے، وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں، چوتھی میں جہنم کی گندھک ہے، پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں، چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں۔ ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے، جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے

حاکم اپنی وضاحت دیتے ہیں

” وقالَ: تفرد به أبو السمح، وقد ذكرتْ عدالتُه بنصِ الإمامِ يحيى بنِ معين، والحديثُ صحيحٌ ولم يخرِّجاه

اس میں ابو السمح کا تفرد ہے جس کی عدالت پر ابن معین کی نص ہے اور حدیث صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو بیان نہیں کیا

ابن کثیر کہتے ہیں

وهذا حَدِيثٌ غَرِيبٌ جِدًّا، وَرَفْعُهُ فِيهِ نَظَرٌ.

یہ منفرد بہت سے اس کے مرفوع ہونے پر نظر ہے

لیکن ابن کثیر نے اس کو ضعیف یا موضوع یا منکر قرار نہیں دیا

تفسیر طبری کی روایت ہے

حدثني أبو السائب، قال: ثنا ابن إدريس، عن الأعمش، عن المنهال، عن عبد الله بن الحارث، قال: الصخرة خضراء على ظهر حوت.

المنھال بن عمرو نے عبد الله بن الحارث رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ چٹان سبز ہے جس کی پیٹھ پر مچھلی ہے

یعنی زمیں کے اندر تین چیزیں ہوئیں

ایک سجین یا جہنم

دوسری مچھلی

تیسرا ابلیس جو قید میں ہے

فرقہ پرست آج کل مچھلی والی حدیث ہے ابلیس کا قید خانہ والا کعب کا قول چھپا دیتے ہیں لیکن جب کعب الاحبار سجین کا ذکر کرتا ہے تو بہت ادب کے ساتھ کعب الاحبار کو کعب رضی الله عنہ لکھ کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں

اب قرآن دیکھتے ہیں

قرآن:  جس کا وعدہ ہے وہ آسمان میں ہے 

قرآن میں سوره الذاریات میں ہے

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا توعَدُونَ

اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے

الله تعالی نے انسانوں سے جنت و جہنم کا وعدہ کیا ہے کہ اہل ایمان کو جنت اور کفار کو جہنم میں ڈالے گا

سوره التین میں ہے

ثم رَدَدْنَاہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ
پھر ہم نے اسے  نیچوں کا نیچ کر دیا، ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال والے ہیں

بعض کے نزدیک یہ استعارہ نہیں بلکہ حقیقی مطلب ہے کہ جہنمی کو زمین کے اندر کر دیا جو الثری یا السفلی ہے

جبکہ یہ نرا گمان ہے

فرقہ پرست : سجین  کتاب ہے نہیں روحوں کا مسکن ہے  

رفیق طاہر لکھتے ہیں

علیین اور سجین کسی جگہ کا نام نہیں بلکہ “کتاب مرقوم” ہے جن میں نیک وبد کا اندراج کیا جاتا ہے

دامانوی صاحب دین الخالص قسط اول میں لکھتے ہیں

سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں

شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ) کتاب المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري میں لکھتے ہیں کہ

قال شيخ الإسلام ابن حجر وغيره: إن أرواح المؤمنين في عليين، وهو مكان في السماء السابعة تحت العرش وأرواح الكفار في سجين وهو مكان تحت الأرض السابعة، وهو محل إبليس وجنوده.

شیخ الاسلام ابن حجر اور دیگر کہتے ہیں: بے شک مومنین کی ارواح عليين میں ہیں، اور وہ ساتوے آسمان پر عرش کے نیچے ہے اور کفار کی ارواح سجين میں ہیں اور وہ جگہ ساتویں زمین کے نیچے ہے جو ابلیس اور اسکے لشکروں کا مقام ہے

فتاوی علمائے حدیث میں ہے

روح کہاں ہے

اسی کتاب میں ج  ١٠ میں ہے

روح کا مسکن

فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں یہ بھی ہے کہ سجین جہنم کا پتھر ہے

سجیں

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں

tozeh-563

ایک ہی فرقہ کے لوگ اس قدر متضاد عقائد رکھتے ہیں اور سب اپنے اپ کو سلف کا متبع بھی کہتے  ہیں

ابن قیم کا عقیدہ سجین اور علیین ارواح کا مقام ہے 

ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

فصل وَأما قَول من قَالَ إِن أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين فِي السَّمَاء السَّابِعَة وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين فِي الأَرْض السَّابِعَة فَهَذَا قَول قد قَالَه جمَاعَة من السّلف وَالْخلف وَيدل عَلَيْهِ قَول النَّبِي اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى وَقد تقدم حَدِيث أَبى هُرَيْرَة أَن الْمَيِّت إِذا خرجت روحه عر ج بهَا إِلَى السَّمَاء حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل وَتقدم قَول أَبى مُوسَى أَنَّهَا تصعد حَتَّى تَنْتَهِي إِلَى الْعَرْش وَقَول حُذَيْفَة أَنَّهَا مَوْقُوفَة عِنْد الرَّحْمَن وَقَول عبد الله بن عمر إِن هَذِه الْأَرْوَاح عِنْد الله وَتقدم قَول النَّبِي أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء تأوي إِلَى قناديل تَحت الْعَرْش وَتقدم حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَنَّهَا تصعد من سَمَاء إِلَى سَمَاء ويشيعها من كل سَمَاء مقربوها حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة وَفِي لفظ إِلَى السَّمَاء الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل

وَلَكِن هَذَا لَا يدل على استقرارها هُنَاكَ بل يصعد بهَا إِلَى هُنَاكَ للعرض على رَبهَا فَيقْضى فِيهَا أمره وَيكْتب كِتَابه من أهل عليين أَو من أهل سِجِّين ثمَّ تعود إِلَى الْقَبْر للمسألة ثمَّ ترجع إِلَى مقرها الَّتِي أودعت فِيهِ فأرواح الْمُؤمنِينَ فِي عليين بِحَسب مَنَازِلهمْ وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين بِحَسب مَنَازِلهمْ

بیان کہ کہنے والے کا قول بے شک  ارواح المومنین عليين  میں ساتویں آسمان پر ہیں اور کفّار کی اورح سجین میں ساتویں زمین میں ہیں پس یہ قول ہے جو سلف و خلف نے کہا ہے اور اس پر دلالت کرتا ہے نبی کا قول کہ اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى اور پیش کی ہے ابو ھریرہ کی حدیث کہ جب میت کی روح نکلتی ہے تو وہ آسمان  پر چڑھتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی ہے جس پر الله عز وَجل ہے اور پیش کرتے ہیں ابو موسیٰ کا قول کہ وہ اوپر جاتی ہے یہاں تک کہ عرش تک اور حذیفہ کا قول کہ وہ رحمان کے پاس رکی ہوئی ہے اور عبد الله ابن عمر کا قول کہ بے شک یہ ارواح الله کے پاس ہیں اور نبی کا قول ہے کہ شہداء کی ارواح قندیلوں میں عرش رحمان کے نیچے ہیں اور الْبَراء بن عَازِب کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ یہ ارواح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک جاتی ہیں .. یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچتی ہیں جس پر الله عز وَجل ہے

لیکن یہ اس پر دلالت نہیں کرتیں کہ ارواح وہاں روکتی بھی ہیں بلکہ وہ تو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے چڑھتی ہیں پس ان کا فیصلہ ہوتا ہے  اور ان کی کتاب اہل عليين یا اہل سجیں میں لکھی  جاتی ہے پھر قبر میں لوٹایا جاتا ہے سوال کے لئے پھر لوٹایا جاتا ہے اور انکی جگہ جمع کیا جاتا ہے  ، پس ارواح المومنین عليين میں حسب منازل ہوتی ہیں اور کفار کی ارواح سجین میں حسب منازل ہوتی ہیں

ابن قیم کے بقول روح تو اب جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

ابن تیمیہ : کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

ابن تیمیہ : مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢١ میں لکھتے ہیں

 وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرْتَعُ فِي الْجَنَّةِ وَتَأْوِي فِي فِنَاءِ الْعَرْشِ. وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ فِي برهوت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں جنت میں بلند ہوتی ہیں اور عرش تک جاتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

فتوی میں کہتے ہیں

وَإِنَّمَا فِي أَسْفَلِ سَافِلِينَ مَنْ يَكُونُ فِي سِجِّينٍ لَا فِي عِلِّيِّينَ كَمَا قَالَ تَعَالَى {إنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ}

اور اسفل سافلین میں وہ ہے جو سجین میں ہے نہ کہ علیین میں جیسا الله کا قول ہے کہ منافقین اگ کے اسفل میں ہیں

یعنی ابن تیمیہ نے سجین کو مقام قرار دیا

کبری و صغری ملا لیں سجین ابن تیمیہ کے نزدیک برھوت ہوا

کتاب الجامع الصحيح للسنن والمسانيد  کے مطابق

 وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهما – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -: ” خَيْرُ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ , مَاءُ زَمْزَمَ , فِيهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ , وَشِفَاءٌ مِنَ السُّقْمِ، وَشَرُّ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ , مَاءٌ بِوَادِي بَرَهوتٍ , بِقُبَّةِ حَضْرَمَوْتَ , كَرِجْلِ الْجَرَادِ مِنَ الْهوامِّ , تُصْبِحُ تَدَفَّقُ , وَتُمْسِي لَا بَلالَ بِهَا 

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا زمین کے اوپر سب سے اچھا پانی زمزم کا ہے اس میں غذائیت ہے اور بیماری سے شفا ہے اور سب سے برا پانی وادی برھوت کا ہے حضر الموت میں ایک قبہ 

البانی  صَحِيح الْجَامِع: 3322 والصحيحة: 1056 میں اس کو صحیح کہتے ہیں

مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ، کی روایت 9118  ہے
عبد الرزاق  عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: ” خَيْرُ وَادِيَيْنِ فِي النَّاسِ ذِي مَكَّةُ، وَوَادٍ فِي الْهِنْدِ هَبَطَ بِهِ آدَمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ هَذَا الطِّيبُ الَّذِي تَطَّيَّبُونَ بِهِ، وَشَرُّ وَادِيَيْنِ فِي النَّاسِ وَادِي الْأَحْقَافِ، وَوَادٍ بِحَضْرَمَوْتَ يُقَالُ لَهُ: بَرَهَوْتُ، وَخَيْرُ بِئْرٍ فِي النَّاسِ زَمْزَمُ، وَشَرُّ بِئْرٍ فِي النَّاسِ بَلَهَوْتُ، وَهِيَ بِئْرٌ فِي بَرَهَوْتَ تَجْتَمِعُ فِيهِ أَرْوَاحُ الْكُفَّارِ “

علی رضی الله عنہ نے فرمایا  … شری وادیوں میں سے ہے وادی جو حضر الموت میں ہے جس کو برھوت کہا جاتا ہے … اور یہ کنواں ہے جس میں کفار کی روحیں جمع ہوتی ہیں

مسلک پرستوں کے اصول پر اس کی سند صحیح ہے اور یہ قول علی پر موقوف ہے لہذا اس کو  ان کے اصول پر حدیث رسول سمجھا جائے گا

صحیح ابن حبان میں ہے

قَالَ قَتَادَةَ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ تُجْمَعُ بِالْجَابِيَتِيْنِ وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ تُجْمَعُ بِبُرْهُوتَ سَبِخَةٌ بِحَضْرَمَوْتَ   قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ الله تعالى عَنْهُ: هَذَا الْخَبَرُ رَوَاهُ مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوَهُ مَرْفُوعًا  الْجَابِيَتَانِ باليمن وبرهوت: من ناحية اليمن.

قتادہ نے ایک رجل سے روایت کیا اس نے ابن مسیب سے کہ ابن عمرو رضی الله عنہ نے کہا مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت حضر الموت میں جو وہاں ایک چٹیالی گھڑا ہے- ابن حبان نے کہا اس خبر کو  مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے مرفو عا روایت کیا گیا ہے -الْجَابِيَتَانِ یمن میں ہے اور برھوت اس کے قرب میں

یعنی ابن حبان کے نزدیک برھوت ارواح کا مقام ہوا یہ مرفوع قول نبوی ہے

اوپر والی روایت کے بعد ابن حبان میں صحیح میں قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے  روایت بیان کی

أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بن أخزم حَدثنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا قُبِضَ أَتَتْهُ مَلائِكَةُ الرَّحْمَةِ بحريرة بَيْضَاء فَيَقُولُونَ اخْرُجِي إِلَى رَوْحِ اللَّهِ فَتَخْرُجُ كَأَطْيَبِ رِيحِ الْمسك حَتَّى إِنَّه ليناوله بَعضهم بَعْضًا فيشمونه حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ مَا هَذِهِ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ الَّتِي جَاءَتْ مِنَ الأَرْضِ وَلا يَأْتُونَ سَمَاءً إِلا قَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى يَأْتُوا بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَهْلِ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ فَيَقُولُونَ مَا فَعَلَ فُلانٌ فَيَقُولُونَ دَعُوهُ حَتَّى يَسْتَرِيحَ فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا فَيَقُولُ قَدْ مَاتَ أَمَا أَتَاكُم فَيَقُولُونَ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ وَأَمَّا الْكَافِر فَتَأْتِيه مَلائِكَةُ الْعَذَابِ بِمُسْحٍ فَيَقُولُونَ اخْرُجِي إِلَى غَضِبِ الله فَتخرج كأنتن ريح جيفة فَيذْهب بِهِ إِلَى بَاب الأَرْض

اس میں باب الارض کا ذکر ہے اور محدث  ابن حبان کے مطابق یہ برھوت کی خبر ہے

کتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء  از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَنَانٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَتَقْصِدَنَّكُمْ نَارٌ هِيَ الْيَوْمَ خَامِدَةٌ فِي وَادٍ يُقَالُ: لَهُ بَرْهُوتُ، يَغْشَى النَّاسَ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ،

حُذَيْفَةَ بْنِ الْيمَانِ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں تصدیق کرتا ہوں اس اگ کی جو … وادی برھوت میں ہے اس میں لوگ بے ہوش عذاب الیم میں ہیں

اس کی سند میں  يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ الدِّمَشْقِيُّ جس کو ثقہ و ضعیف کہا گیا  ہے لیکن اغلبا اسی کی بنیاد پر ابن تیمیہ نے فتوی میں برھوت کو ارواح کفار کا مقام کہا ہے

ماتریدی عقیدہ : روحیں زمیں و آسمان کے بیچ ہیں؟

بحر الکلام نامی کتاب أبو المعين ميمون بن محمد ﺍﻟﻨﺴﻔﻲ ﺍﻟﺤﻨﻔﻲ المتوفی ٥٠٨ ھ کی تصنیف ہے جس میں ماتریدی مسلک

کے مطابق عقائد کی شرح ہے اس کتاب میں مستقر ارواح پر لکھا ہے

مومن گناہ گاروں کی روحیں آسمان و زمین کے درمیان ہوا میں ہیں
کفار کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹ میں سجین میں ہیں اور سجین ساتویں زمین کے نیچے ہے اور یہاں سے روحیں جسموں سے کنکشن میں ہیں جس میں روحیں عذاب میں ہیں تو جسم کو الم ہوتا ہے جیسے سورج آسمان میں ہے اور اس کا نور زمین پر
اور جہاں تک مومنوں کی روحوں کا تعلق ہے تو وہ علیین میں ہیں اور ان کا نور ان کے جسم سے کنکشن میں ہے اور ایسا

جائز ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ سورج آسمان میں ہے اور اس کا نور زمین پر ہے

أبو المعين النسفي کے قول کہ روحیں آسمان و زمین کے درمیان میں ہے پر کوئی نص نہیں ہے – دوم سورج پر قیاس کر کے روح کو ایک انرجی تصور کیا گیا ہے جو جسد سے ملی ہوئی ہے لیکن دونوں میں میلوں کا فاصلہ ہے

عبد الوھاب النجدی : ارواح برھوت یا جابیہ میں ہیں

عبد الوہاب النجدی اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا

اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

برھوت یمن میں ہے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

یعنی عبد الوھاب النجدی کے مطابق روحیں دنیا میں اتی ہیں کفار کی یمن میں برھوت میں اور مومنوں کی جابیہ شام میں

راقم کہتا ہے یہ روایت مستدرک الحاکم میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّيْدَلَانِيُّ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قُتَيْبَةَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنِ الْأَخْنَسِ بْنِ خَلِيفَةَ الضَّبِّيِّ، قَالَ: رَأَى كَعْبُ الْأَحْبَارِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يُفْتِي النَّاسَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ قَالَ: قُلْ لَهُ: يَا عَبْدِ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، لَا تَفْتَرِ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكَ بِعَذَابٍ، وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى. قَالَ: فَأَتَاهُ الرَّجُلُ فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَصَدَّقَ كَعْبٌ، قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى وَلَمْ يَغْضَبْ. قَالَ: فَأَعَادَ عَلَيْهِ كَعْبٌ الرَّجُلَ، فَقَالَ: سَلْهُ عَنِ الْحَشْرِ مَا هُوَ؟ وَعَنْ أَرْوَاحِ الْمُسْلِمِينَ أَيْنَ تَجْتَمِعُ؟ وَأَرْوَاحُ أَهْلِ الشِّرْكِ أَيْنَ تَجْتَمِعُ؟ فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: «أَمَّا أَرْوَاحُ الْمُسْلِمِينَ فَتَجْتَمِعُ بِأَرِيحَاءَ، وَأَمَّا أَرْوَاحُ أَهْلِ الشِّرْكِ فَتَجْتَمِعُ بِصَنْعَاءَ، وَأَمَّا أَوَّلُ الْحَشْرِ، فَإِنَّهَا نَارٌ تَسُوقُ النَّاسَ يَرَوْنَهَا لَيْلًا، وَلَا يَرَوْنَهَا نَهَارًا» ، فَرَجَعَ رَسُولُ كَعْبٍ إِلَيْهِ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَ: فَقَالَ: صَدَقَ هَذَا عَالِمٌ فَسَلُوهُ

الْأَخْنَسِ بْنِ خَلِيفَةَ الضَّبِّيِّ کہتا ہے کہ کعب الاحبار نے عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کو فتوی دیتے دیکھا – پوچھا یہ کون ہے ؟ پس کہا یہ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ہیں- کعب الاحبار نے اپنے اصحاب میں سے لوگ ان کی طرف بھیجے اور کہا ان سے کہو اے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ الله پر جھوٹ نہ بولو وہ تم کو عذاب دے گا اور برباد ہوا جس نے جھوٹ کہا – کہا پس ایک آدمی گیا اس نے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سے یہ کہا – عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے کہا سچ کہا کعب الاحبار نے برباد ہوا جس نے جھوٹ گھڑا اور ان کو غصہ نہیں آیا – پس کعب الاحبار نے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ کی طرف آیا ایک اور شخص کو بھیجا  اور کہا ان سے حشر پر سوال کرنا کہ یہ کیا ہے ؟ مسلمانوں کی روحیں کہاں جمع ہیں اور اہل شرک کی کہاں جمع ہیں ؟ پس وہ گیا اور  سوال کیا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے کہا مومنوں کی روحیں یہ أَرِيحَاءَ میں جمع ہوتی ہیں اور اہل شرک کی روحیں یہ صَنْعَاءَ میں اور حشر تو ایک اگ ہے جو لوگوں کو دن اور رات میں ہانکے گی پس کعب کا سفیر واپس آیا اور خبر کی اس پر کعب بولا سچ کہا یہ عالم ہے اس سے سوال کرو

یہ حال ہے امام حاکم کا – یہ ان کا استدراک ہے ! کہاں ہیں وہ جو کہتے ہیں مومنوں کی روحیں علیین میں آسمان میں ہیں ؟ یہاں تو کہا گیا ہے کہ  ارواح آسمان میں نہیں ہیں وہ تو زمین میں ہی ہیں

اب یہ ایک یہودی طے کرے گا کہ اصحاب رسول  میں کون سچا ہے ؟

معلوم ہوا کہ سلف کا عقیدہ تھا کہ روحیں  صنعا اور اریحا میں  جمع ہوتی ہیں

اہل حدیث کا  عقیدہ ارتقاء: روحیں قیدی ہیں

صادق سیالکوٹی کتاب مسلمان کا سفر آخرت میں لکھتے ہیں

سیالکوٹی کے بقول روحیں قید ہیں ؟

جبکہ ابن تیمیہ و ابن قیم کے بقول یہ تو سورج کی روشنی کی طرح ہیں آنا فانا یھاں سے عالم بالا اور وہاں سے زمین

ابن قیم کتاب الروح میں خواب مين ارواح کی ملاقات والی روایات پر کہتے ہیں

فَفِي هَذَا الحَدِيث بَيَان سرعَة انْتِقَال أَرْوَاحهم من الْعَرْش إِلَى الثرى ثمَّ انتقالها من الثرى إِلَى مَكَانهَا وَلِهَذَا قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت

ان احادیث میں ارواح کا عرش سے الثرى  تک  جانے میں سرعت کا ذکر ہے پھر الثرى سے اس روح کے مکان تک جانے کا ذکر ہے اور اسی وجہ سے امام  مالک اور دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ چھوڑی جانے والے روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

خوارج : ارواح برھوت یا جابیہ میں ہیں

کتاب  مشارق أنوار العقول از نور الدين أبو محمد عبد الله بن حميد السالمي کے مطابق خارجی عالم الباجوري نے کہا

قال الباجوري: وأما بعد الموت فأرواح السعداء بأفنية القبور على الصحيح وقيل عند آدم عليه السلام في سماء الدنيا، لكن لا دائما فلا ينافي إنها تسرح حيث شاءت وأما أرواح الكفار ففي سجين في الأرض السابعة السفلى محبوسة، وقيل أرواح السعداء بالجابية في الشام، وقيل ببئر زمزم، وأرواح الكفار ببئر برهوت في حضرموت التي هي مدينة في اليمن

الباجوري نے کہا اور موت کے بعد نیک لوگوں ک روحیں قبرستان کے میدان میں ہیں صحیح ہے – اور کہا گیا ہے آدم علیہ السلام کے پاس ہیں آسمان دنیا پر لیکن وہاں مستقل نہیں ہیں اور اس میں نفی نہیں ہے کہ وہاں جہاں جانا چاہیں جا سکیں – اور کفار کی روحیں یہ سجین میں ساتویں زمین میں قید ہیں اور نیکو کاروں کی جابیہ میں شام میں ہیں اور کہا جاتا ہے زمزم کے کنواں میں اور کفار کی روحیں یہ یمن میں حضرموت میں برھوت کے کنواں میں ہیں

یہ عقیدہ خوارج میں بھی چل رہا ہے

شیعہ روحیں سجین یعنی برھوت میں ہیں

تفسیر :التبيان في تفسير القرآن المؤلف :شيخ الطائفة أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسی کے مطابق

وقال أبوجعفر (ع) أما المؤمنون فترفع أعمالهم وأرواحهم إلى السماء، فتفتح لهم أبوابها. وأما الكافر، فيصعد بعمله وروحه حتى اذا بلغ السماء نادى مناد: اهبطوا بعمله إلى سجين، وهوواد بحضر موت يقال له: برهوت.

اور امام ابو جعفر الباقر ع نے کہا جہاں تک مومن ہیں تو ان کے اعمال اور ارواح آسمان تک بلند ہوتے ہیں پس دروازے کھل جاتے ہیں اور جہاں تک کافر ہیں تو ان کا عمل بلند ہوتا اور روح یہاں تک آسمان پر پہنچتے ہیں تو سدا اتی ہے اس کو اس کے عمل کے ساتھ سجین کی طرف لے جاؤ جو حضرالموت میں ایک وادی ہے اس کو برھوت کہا جاتا ہے

معلوم ہوا کہ سجین تک جانے کا راستہ برھوت سے ہے

چلیں آج برھوت کی سیر کریں

ہوائی جہاز سے برھوت کی تصویر

برھوت (سرخ نشان) اور  جابیہ (سبز نشان) میں فاصلہ

 برھوت کی خبر یمنی  لوگوں نے دی اور اہل تشیع کے مطابق یہ سجین کا رستہ ہے-

یہود کے مطابق جہنم کا ایک دروازہ سمندر میں ہے – اغلبا یمنی یہود مثلا کعب الاحبار کے  نزدیک یہ دلیل تھا کہ جہنم تک رستہ یہاں سے ہے جو زمین کے وسط میں ہے جہاں شیطان قید ہے اس قول کو قبولیت عامہ ملی یہاں تک کہ عبد الوہاب النجدی اور خوارج اور شیعہ کے مطابق یہ مستقر ارواح ہے – غور طلب ہے کہ  وہ فرقے جو عرب سے نکلے ان کے نزدیک برھوت اور سجین ایک ہیں لیکن وہ فرقے جو برصغیر کے ہیں وہ برھوت کا ذکر نہیں کرتے صرف سجین کہتے ہیں

قارئیں یہ سب پڑھ کر اپ کو اب تک سمجھ آ چکا ہو گا کہ برھوت کو سجین قرار دیا گیا جو یمن میں ایک کنواں ہے جو زمین کی تہہ تک جانے کا رستہ ہے – اب سنن نسائی کی ایک روایت دیکھتے ہیں جس کا ذکر ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے اور اسی روایت کو ابن حبان کہتے کہ برھوت کی خبر ہے

 أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

یہاں روایت میں خاص باب الارض کا ذکر ہے کہ کفار کی روحیں زمین کے دروازے پر لائی جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو  کفار کی روحوں تک لے جایا جاتا ہے

یہ روایت ابن حبان کے مطابق  برھوت کی ہی خبر ہے کیونکہ یہ زمین میں کنواں ہے جس سے اندر جا سکتے ہیں

تہذیب الکمال از المزی میں قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ کے ترجمہ میں اس روایت کے متن میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبُخَارِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الصَّيْدَلانِيُّ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحداد، قال: أَخْبَرَنَا أبو نعيم الْحَافِظُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ أَحْمَدَ: قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ النُّعْمَانِ الشَّيْبَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْقَاسِم بْن الفضل الحداني، عن قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَن أَبِي هُرَيْرة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِحَرِيرَةٍ فِيهَا مَسْكٌ ومِنْ صَنَابِرَ الرَّيْحَانِ وتَسَلُّ رُوحَهُ كما تَسَلُّ الشَّعْرَةَ مِنَ الْعَجِينِ، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً مَرْضِيًّا عَنْكِ، وطُوِيَتْ عَلَيْهِ الْحَرِيرَةُ، ثُمَّ يُبْعَثُ بِهَا إِلَى عِلِّيِّينَ، وإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِمِسْبَحٍ فِيهِ جَمْرٌ فَتَنْزِعُ رُوحَهُ انْتِزَاعًا شَدِيدًا، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى هَوَانٍ وعَذَابٍ، فَإِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وضِعَت عَلَى تِلْكَ الْجَمْرةِ، فَإِنَّ لَهَا نَشِيشًا فَيُطْوَى عَلَيْهَا الْمِسْبَحُ ويُذْهَبُ بِهَا إِلَى سِجِّينَ

فرشتے روح کو لے کر سجین جاتے ہیں

ابن رجب اپنی کتاب  أهوال القبور  میں حنابلہ کے لئے لکھتے ہیں

ورجحت طائفة من العلماء أن أرواح الكفار في بئر برهوت منهم القاضي أبو يعلى من أصحابنا في كتابه المعتمد وهو مخالف لنص أحمد: أن أرواح الكفار في النار.
ولعل لبئر برهوت اتصالا في جهنم في قعرها كما روي في البحر أن تحته جهنم والله أعلم ويشهد لذلك ما سبق من قول أبي موسى الأشعري: روح الكافر بوادي حضرموت في أسفل الثرى من سبع أرضين.

اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کفار کی روحیں برھوت میں کنواں میں ہیں جن میں قاضی ابو یعلی ہیں ہمارے اصحاب میں سے اپنی کتاب المعتمد  میں اور یہ مخالف ہے نص احمد پر کہ کفار کی روحیں اگ میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ برھوت جہنم سے تہہ میں ملا ہو جیسا کہ روایت ہے کہ سمندر کے لئے کہ اس کے نیچے جہنم ہے و الله اعلم اور اس پر گواہی ہے ابو موسی رضی الله عنہ کے قول کی کہ کافر کی روح حضر الموت کی ایک وادی میں ہے تحت الثری کے پیندے میں ساتویں زمین میں

اخبار مکہ کی روایت ہے جو ضعیف ہے لیکن دلچسپ ہے

وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ، [ص:44] عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ قَالَ: ” أَمْسَى عَلَيَّ اللَّيْلُ وَأَنَا بِبَرَهُوتَ، فَسَمِعْتُ فِيهِ أَصْوَاتَ أَهْلِ الدُّنْيَا، وَسَمِعْتُ قَائِلًا يَقُولُ: يَا دُومَةُ، يَا دُومَةُ، قَالَ: فَسَأَلْتُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي سَمِعْتُ، فَقَالَ: إِنَّ الْمَلَكَ الَّذِي عَلَى أَرْوَاحِ الْكُفَّارِ يُقَالُ لَهُ دُومَةُ “

أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ نے کہا مجھ کو یمن کے ایک رجل نے خبر دی کہا میں نے ایک رات برھوت کے پاس گزاری تو میں نے وہاں آوازیں سنیں اہل دنیا کی اور ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے دومہ اے دومہ پس میں نے اہل کتاب میں سے کسی سے پوچھا اور اس کو خبر کی جو سنا تھا اس نے کہا یہ فرشتہ ہے جو کفار کی روحوں پر مقرر ہے جس کو دومہ کہا جاتا ہے

اب تلمود دیکھتے ہیں

موت  کے مراحل کا ذکر تلمود میں اسطرح کیا گیا ہے کہ جب آدمی اس جہان کو چھوڑ رہا ہوتا ہے تو ملک الموت اتا ہے جو روح یا نسمہ کو نکالتا ہے – نسمہ ایک خون سے بھری رگ جیسا ہوتا ہے جو تمام بدن میں بکھری ہے ملک الموت اس کا اوپر پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے  نیک کے جسم سے اس کو آہستگی سے جیسے دودھ میں بال ہو لیکن بدکار کے بدن میں ایسے کھینچتا ہے جیسے روئی کے گالے کو کانٹوں پر گھسیٹا جائے جس سے وہ ٹوٹ جائے- جیسی ہی نسمہ نکلتا ہے آدمی مر جاتا ہے اور روح ناک میں ا جاتی ہے  جب یہ ہوتا ہے تو وہ روتی اور چیختی ہے کہ اے مالک اے رب العالمین مجھ کو کہاں لے جایا جا رہا ہے ؟ فورا ہی دومہ فرشتہ  اس کو لیتا ہے اور روحوں کے مقام پر لے جاتا ہے 

زاذان کی عود روح کی روایت میں یہ بیان ہوا ہے

 ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَغَضَبٍ “. قَالَ: ” فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ  فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ [ص:502] عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ

پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے

الغرض  برھوت  کو سجین قرار دیا گیا اور وہاں جا کر آواز سنی گئی اس کو باب الارض سمجھا گیا یہاں تک کہ فرشتہ کا  عمل بھی تلمود سے لے کر حدیث رسول کے طور پر بیان کیا گیا

جہنم کے طبقات میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان یا مشرقین کے درمیان اقبال کیلانی کی کتاب جہنم کا بیان میں ہے

اب اگر یہ عالم ہے تو جہنم برھوت میں یا  زمین کے اندر نہیں ہو سکتی

والله بكل شيء عليم

 

حیات بعد الموت ٢

[عام انسانوں کیلیے اموات غیر احیاء اور شہید کیلیے بل احیا کیوں کہا گیا ؟ شہدا کی کیا خصوصیت رہی پھر؟]

سوال یہ ہے کہ شہدا کو بھی برزخی زندگی ملتی ہے اور عام انسانوں کو بھی – عام انسانوں کیلیے اموات غیر احیاء اور شہید کیلیے بل احیا کیوں کہا گیا ؟ شہدا کی کیا خصوصیت رہی پھر؟ جب دونوں برزخی زندگی میں ہیں جبکہ شہدا کے بارے میں کہا گیا کہ انکو مردہ نہ کہو.

پلیز.وضاحت کر.دیجیے شکریہ

جواب

اس سوال کا جواب طبری نے اپنی تفسیر میں دیا ہے
وإذا كانت الأخبار بذلك متظاهرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما الذي خُصَّ به القتيل في سبيل الله، مما لم يعم به سائر البشر غيره من الحياة، وسائرُ الكفار والمؤمنين غيرُه أحياءٌ في البرزخ، أما الكفار فمعذبون فيه بالمعيشة الضنك، وأما المؤمنون فمنعَّمون بالروح والريحان ونَسيم الجنان؟
قيل: إنّ الذي خَصّ الله به الشهداء في ذلك، وأفادَ المؤمنين بخبره عنهم تعالى ذكره، إعلامه إياهم أنهم مرزوقون من مآكل الجنة ومطاعمها في بَرْزَخِهم قَبل بعثهم، ومنعَّمون بالذي ينعم به داخلوها بعد البعث من سائر البشر، من لذيذ مطاعمها الذي لم يُطعمها الله أحدًا غيرَهم في برزخه قبل بعثه. فذلك هو الفضيلة التي فضَّلهم بها وخصهم بها من غيرهم، والفائدة التي أفادَ المؤمنين بالخبر عنهم
اور روایات میں ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ جو سبیل الله میں قتل ہوئے ان کی خصوصیت (کس طرح) ہے….. کہ تمام کفار و مومن البرزخ میں ہی زندہ ہیں- جو کفار ہیں وہ تنگ زندگی میں عذاب میں ہیں اور جو مومن ہیں وہ رحمت و نعمت میں اور جنت کی ہواووں میں ہیں ؟

کہا جاتا ہے : جو الله نے سبیل الله میں مرنے والوں کے لئے خاص کیا وہ مومنوں کو اس خبر کا فائدہ دیا تو ان کو جنت میں اس کی نعمت اور کھانے انکی برزخ میں قیامت سے پہلے مل گئے ہیں جبکہ باقی بشر کو یہ قیامت کے بعد ملین گے پس یہ شہداء کی فضیلت ہے یہ انکی وہ خصوصیت ہے جس کی خبر سے مومنوں کو فائدہ ہوا
———-

شہید جنت میں کھا پی رہے ہیں جبکہ عام مومن وہاں صرف سونے جیسی کیفیت میں ہیں
اسی طرح بڑے کفار اگ کا عذاب دیکھ رہے ہیں اس کی تپش محسوس کر رہے ہیں

[/EXPAND]

[کیا فرقہ پرستوں کے نزدیک عذاب قبر غیب کا معاملہ ہے ؟]

جواب

کہا جاتا ہے کہ مردہ قبر میں عالم البرزخ میں ہوتا ہے اس کے اور ہمارے درمیان آڑ ہے ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن

فتاوی علمائے حدیث   میں ہے

روحوں کی آمد-١

روحوں کی آمد٢١

غیر مقلد عالم نے تصوف  کے کشف قبور کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا ہے

کتاب مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين  کے مطابق سعودی عالم العثيمين سے سوال ہوتا ہے جس کے جواب میں وہابی  عالم  محمد بن صالح العثيمين نے ابن تیمیہ کی بات پیش کی کہ عذاب میت کوبھی ہوتا ہے

قال شيخ الإسلام ابن تيمية: إن الروح قد تتصل بالبدن فيعذب أو ينعم معها، وأن لأهل السنة قولاً آخر بأن العذاب أو النعيم يكون للبدن دون الروح واعتمدوا في ذلك على أن هذا قد رئي حسّاً في القبر فقد فتحت بعض القبور ورئي أثر العذاب على الجسم، وفتحت بعض القبور ورئي أثر النعيم على الجسم، وقد حدثني بعض الناس أنهم في هذا البلد هنا في عنيزة كانوا يحفرون لسور البلد الخارجي، فمروا على قبر فانفتح اللحد فوجد فيه ميت أكلت كفنه الأرض وبقي جسمه يابساً لكن لم تأكل منه شيئاً حتى إنهم قالوا: إنهم رأوا لحيته وفيها الحنا وفاح عليهم رائحة كأطيب ما يكون من المسك.

ابن تیمیہ کہتے ہیں

بے شک روح بدن سے متصل ہوتی ہے پس بدن عذاب پاتا ہے یا راحت،

 اور اہل السنہ کے ہاں ایک اور قول ہے کہ عذاب صرف بدن کو روح کے بغیر ہوتا ہے اور اس پر اعتماد کیا گیا ہے کہ بے شک اس کا قبر میں ہونے کا احساس دیکھا گیا ہے پس بعض قبروں کو کھولا گیا اور جسم  پر عذاب کا اثر دیکھا گیا اور بعض قبروں کو کھولا گیا اور جسم  پر راحت کا اثر دیکھا گیا اس عنيزة کے شہر والوں نے مجھے بتایا کہ وہ شہر کے باہر پھر رہے تھے پس قبر پر گزرے اور اسکو کھولا جس میں میت پائی جس کا کفن (زمین نے) کھا لیا تھا اور تازہ جسم باقی تھا جس میں سے کچھ کھایا نہ گیا تھا پس یہاں تک انہوں نے کہا انہوں نے دیکھا کہ جسم کی داڑھی پر مہندی ہے اوراس میں سے اچھی خوشبو ا رہی ہے لیکن مشک نہ تھی

ارشد کمال المسند فی عذاب القبر ص ١٣٥ پر لکھتے ہیں

arshad-135

اقبال کیلانی کتاب عذاب قبر کا بیان میں واقعہ لکھتے ہیں

اسی کتاب میں ص ٧١ تا ٧٣ پر سکھ مذھب کے ثقات کی خبر پر اسلامی عقیدہ کا بیان کیا گیا

بہر حال غیب میں جھانکنا  ان لوگوں  کے حساب سے ممکن ہے  جس کی امثال یہاں دی گئی ہیں

[/EXPAND]

[کیا میت زیارت قبر کرنے والے کو جانتی ہے]

جواب

ابن قیم نے کتاب الروح میں کہا
والسّلف مجمعون على هذا، وقد تواترت الآثار بأنّ الميّت يعرف زيارة الحيّ له ويستبشر به
سلف کا اس پر اجماع ہے کہ اور متواتر احادیث سے معلوم ہے کہ میت جانتی ہے ان زندوں کو جو اس کی زیارت کریں اور اس پر خوش ہوتی ہے

ظاہر ہے میت جب جانے گی تو اس کو معلوم ہو گا کہ انے والا مرد ہے یا عورت ہے
———

وہابی کہتے ہیں میت جانتی ہے جو قبر پر آئے
صالح المنجد کا فتوی ہے
https://islamqa.info/ar/111939
—-
جبکہ وہابی مفتی بن باز کہتے ہیں مردہ زائر کو پہچانتا ہے معلوم نہیں ہے
http://www.binbaz.org.sa/fatawa/4813
وأما كونه يشعر أو لا يشرع هذا يحتاج إلى دليل واضح – والله أعلم سبحانه وتعالى
جہاں تک یہ ہے کہ مردہ کو شعور ہے زائر کا تو یہ اس پر واضح دلیل نہیں ہے و الله اعلم
——-

اہل حدیث میں سے ایک مولوی سوال (کیا مردے، زندہ زائرین کو دیکھتے ہیں ؟ ) پر کہتا ہے

یہ صرف سلام کے ساتھ مخصوص ہے
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/11447/753/44

———–
سلف کے ائمہ میں ابن قیم ، ان تیمیہ ، العزّ بن عبد السّلام، ابن عبد البر ، سیوطی وغیرہ یہ سب قائل ہیں کہ مردہ زائر کو پہچانتا ہے اسی بنا پر سلام کا جواب دیتا ہے

ان قائلین عود روح میں سے کسی نے کہا پرندہ بھی پہچان لیتا ہے سر دست یاد نہیں کس کا قول ہے
البتہ ابن قیم کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں کہتے ہیں

الْحَادِيَةُ وَالثَّلَاثُونَ: إِنَّ الْمَوْتَى تَدْنُو أَرْوَاحُهُمْ مِنْ قُبُورِهِمْ، وَتُوَافِيهَا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَيَعْرِفُونَ زُوَّارَهُمْ وَمَنْ يَمُرُّ بِهِمْ، وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِمْ، وَيَلْقَاهُمْ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ مَعْرِفَتِهِمْ بِهِمْ فِي غَيْرِهِ مِنَ الْأَيَّامِ، فَهُوَ يَوْمٌ تَلْتَقِي فِيهِ الْأَحْيَاءُ وَالْأَمْوَاتُ، فَإِذَا قَامَتْ فِيهِ السَّاعَةُ الْتَقَى الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ، وَأَهْلُ الْأَرْضِ وَأَهْلُ السَّمَاءِ، وَالرَّبُّ وَالْعَبْدُ، وَالْعَامِلُ وَعَمَلُهُ، وَالْمَظْلُومُ وَظَالِمُهُ، وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، وَلَمْ تَلْتَقِيَا قَبْلَ ذَلِكَ قَطُّ، وَهُوَ يَوْمُ الْجَمْعِ وَاللِّقَاءِ، وَلِهَذَا يَلْتَقِي النَّاسُ فِيهِ فِي الدُّنْيَا أَكْثَرَ مِنِ الْتِقَائِهِمْ فِي غَيْرِهِ، فَهُوَ يَوْمُ التَّلَاقِ. قَالَ أبو التياح يزيد بن حميد: كَانَ مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللِّهِ يُبَادِرُ فَيَدْخُلُ كُلَّ جُمُعَةٍ، فَأَدْلَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الْمَقَابِرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: فَرَأَيْتُ صَاحِبَ كُلِّ قَبْرٍ جَالِسًا عَلَى قَبْرِهِ، فَقَالُوا: هَذَا مطرف يَأْتِي الْجُمُعَةَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ، وَتَعْلَمُونَ عِنْدَكُمُ الْجُمُعَةَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، وَنَعْلَمُ مَا تَقُولُ فِيهِ الطَّيْرُ، قُلْتُ: وَمَا تَقُولُ فِيهِ الطَّيْرُ؟ قَالُوا: تَقُولُ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ يَوْمٌ صَالِحٌ.

جمعہ کے دن مردوں کی روحیں قبروں کے قریب آتی ہیں اور اپنے زائرین کو پہچانتی ہیں اور جو ان پر گزریں ان کو بھی اور دیگر ایام کی بنسبت اس دن میں ان کی معرفت زیادہ ہوتی ہے ‘اس دن میں زندہ لوگ مردوں سے ملاقات کرتے ہیں پھر کہا کہ ابو لتیاح لاحق بن حمید نے کہا کہ مطرف بن عبداللہ بدر میں تھے جب جمعہ آتا تو اندھیرے میں نکل پڑتے یہاں تک جمعہ کے دن چڑھے قبرستان پہنچ جاتے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر قبر والے کو اپنی قبر پر بیٹھے دیکھا لوگ (یعنی مردے ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ یہ مطرف ہے جو جمعہ کو آتا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا تم جمعہ کو جانتے ہو انہوں نے کہا ہاں اور ہم (مردے یہ بھی) جانتے ہیں اس دن پرندے کیا کہتے ہیں میں نے کہا پرندے اس دن کیا کہتے ہیں تو انہوں نے (یعنی مردوں نے ) کہا پرندے کہتے ہیں :یہ اچھا دن ہے یا اللہ بچا یا اللہ بچا

==================

ڈاکٹر عثمانی نے برزخی جسم کا عقیدہ بیان کیا ہے – اہل حدیث نے افواہ پھیلائی کہ یہ عقیدہ سلف میں کسی کا نہیں تھا اور اس کو مرزا قادیانی نے پہلی بار پیش کیا
اس کا جواب یہاں ہے

⇓ برزخی جسم کیا ہے کہا جاتا ہے ١٤٠٠ سو سال میں ایسا کسی عالم نے نہیں کہا بلکہ یہ غلام احمد قادیانی دجال کا دعوی تھا حقیقت کیا ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/

مزید دیکھیں
https://www.islamic-belief.net/روح-کے-بدلتے-قالب/

[/EXPAND]

[حدیث میں الفاظ أَرْوَاحُهُمْ كَطَيْرٍ خُضْرٍ بھی اتے ہیں  مراد ہے کہ روحیں سبز پرندوں کی طرح اڑتی ہیں ]

جواب

یہ الفاظ أَرْوَاحُهُمْ كَطَيْرٍ خُضْرٍ – ارواح سبز پرندوں کی طرح صرف اعمش کی سند سے ہیں
لیکن ایمان ابن مندہ میں ہے
أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَحْيَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: ثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ، أَنْبَأَ أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا الْأَعْمَشُ، ح، وَأَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ مَنْصُورٍ الْهَرَوِيُّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَأَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا [ص:401] بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} [آل عمران: 169] ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: ” أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ: هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟، فَقَالُوا: أَيُّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا؟ فَفَعَلَ بِهِمْ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يَشَاءُوا شَيْئًا، قَالُوا: يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، وَجَرِيرٌ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ
یہاں الفاظ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں جو اعمش کی ہی سند سے ہیں
معلوم ہوتا ہے یہ الفاظ کی تبدیلی اعمش کرتے ہیں
صحیح مسلم میں بھی اعمش کی سند سے ہی ہے

اعمش کی ہی سند سے بعض احادیث میں متن میں فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں کے الفاظ ہیں

بعض روایت میں فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں میں کے الفاظ ہیں
یہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عمر کا قول ہے
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: الْجَنَّةُ مَطْوِيَّةٌ مُعَلَّقَةٌ بِقُرُونِ الشَّمْسِ , تُنْشَرُ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً وَأَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ , كَالزَّرَازِيرِ , يَتَعَارَفُونَ وَيُرْزَقُونَ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ.

فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں میں کے الفاظ ابن عباس سے مروی ایک مرفوع روایت میں بھی ہیں

[/EXPAND]

[تخلیق انسان اور روح کب اتی ہے  پر سوال ہے]

انسان کیا زمیں سے اگا ہے ؟

سورہ نوح کی آیات نمبر 17-18.اور اللہ نے تمھیں سبزے کی طرح زمین سے اُگایا ۔۔اور پھر اسی میں تم کو لوٹایا جا ئے گا ۔۔۔۔ بھائی اس کی تفسیر کیا ہوگی انسان کی تخلیق کا عمل بیان کیا گیا ہے؟

بچے کی زندگی رحم مادر میں زندہ خلیوں کی ذریعے سے پہلے دن سے ہی شروع ہو جاتی ہے کروڑوں حیاتی خلیات میں سے چند رحم مادر میں پہنچتے ہیں اور باقی راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں اور ان سے ہی زندگی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔جبکہ سورہ نوح کی آیت نمبر 17کی تاویل اس طرح کی جاتی ہے کہ ہم نے تم کو سبزے کی طرح اگایا ۔۔۔ یعنی انسان کو زمین سے اگایا بُت بنا کر روح پھونکنے کا ذکر نہیں

جواب

الله تعالی نے کہا
{واللّهُ أنْبتكُمْ مِن الْأرْضِ نباتا (17) ثُمّ يُعِيدُكُمْ فِيها ويُخْرِجُكُمْ إِخْراجا (18)}.
اور الله نے تم کو زمین میں سے اگایا – پھر تم کو اسی میں لوٹا دے گا اور نکالے گا

یہ جسد آدم کی بات ہے اور جب بھی آدم کا ذکر ہوتا ہے تمام بنی آدم پر وہ منطبق ہوتا ہے اس وجہ سے جمع کا صیغہ اتا ہے

قرآن میں ہے
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ
اور بے شک ہم نے تم کو سب کو خلق کیا پھر صورت گری کی پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو

یعنی بنی آدم کی تمام ارواح خلق کیں اور تقدیر میں تمام کی صورت لکھی اور پھر آدم کے لئے سجدہ کا حکم کیا

قرآن میں بلاغت کا انداز ہے

انسان کی تخلیق میں منی کے جرثومہ میں زندگی ہوتی ہے اور جب انسان مرتا ہے تو جسم کے جراثیم بھی بھی زندہ رہتے ہیں ان کو مرنے میں مدت لگتی ہے اور درحقیقیت یہی تغیر و تبدل کے عمل میں ہوتا ہے کہ عناصر بدلتے ہیں جسم گوشت سے مٹی کی حالت پر اتا ہے ظاہر ہے اس میں بھی کیمیاآئی عمل ہوتا ہے
اگر انسان کو جلا دیا جائے تو اس کا جسم ایندھن کی طرح جلتا ہے بال کھال – سائنس کہتی ہے کہ ایندھن جب جلتا ہے تو پانی اور کاربنڈائی آکسائڈ بن جاتا ہے گویا انسان کا کچھ وجود گیس کی حالت میں تبدیل ہو کر کرہ ارضی کے گرد حالت گیس میں بکھر جاتا ہے
یہ سب سائنس میں ہے کیونکہ اس میں روح نہیں ہے وہ روح کے وجود کو نہیں مانتی کیونکہ نہ تو روح کی پیمائش ممکن ہے نہ حجم ہے نہ وزن ہے جب اپ کسی چیز کو ناپ نہ سکیں اس کے وجود کا کوئی اشارہ ہی نہ ہو تو اسی چیز کو سائنس نہیں مانتی
————–

مذھب میں روح کا ہی ذکر ہے اسی سے زندگی بنتی ہے ختم ہوتی ہے
انسان کو درخت سے تشبیہ دی گئی ہے کہ انسان اس طرح نشو نما پاتا ہے کہ گویا ایک درخت ہو
اور آخرت میں جب آسمان سے بارش ہو گی تو تمام خلقت پودوں کی طرح دوبارہ پیدا ہو گی
جیسا حدیث میں ہے
——
اپ دونوں کو ملا دین گے تو کچھ نتیجہ نہ نکال سکیں گے
یہ بات کہ انسان زمیں سے اگا یہ یونانی فلسفیوں کی رائے ہے
Thales the Milesian (639-544 B.C.)
کے مطابق انسانی زندگی پانی پر شروع ہوئی
باطنی شیعوں کا بھی یہی قول تھا کہ آسمان سے بارش ہوئی اس سے زمین پر تالاب بن گئے اس میں زندگی شروع ہوئی
بعد میں اخوان الصفا نے اس کو بیان کیا اور اندلس کے مسلمان فلسفیوں نے بھی
لیکن یہ قرآن کی آیات سے متصادم قول ہے جس کے مطابق زندگی آدم سے شروع ہوئی جنت میں
———
اس میں تطبیق اس طرح دینے کی کوشش کی گئی کہ مودودی نے کہا کہ وہ جنت زمیں کا ہی ایک ٹکڑا تھی دلیل یہ ہے کہ آدم نے کسی باغ کا بھل کھایا اگر جنت کا کھایا ہوتا تو مرتے نہیں
اس قسم کی بات مودودی نے رسائل و مسائل میں کہیں کہی ہے
تفہیم میں کہا
وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اِسی زمین پر بنائی گئی ہو۔
http://www.urduquran.net/?surah=20&rukuh=7
پرویز نے بھی اسی طرح کا کوئی قول کہا ہے
لیکن یہ تمام باتیں بے ربط ہیں
—————
آدم عبرانی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہی سرخ مٹی ہے

—–

رحم مادر میں ٦ ہفتوں میں (٤٢ دن بعد) منی کی آمد کے بعد دل دھڑکنا شروع ہوتا ہے
اس کو ٨وں ہفتے سے سنا جا سکتا ہے

حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جب نطفے پر ٤٢ راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتاہے ‘ جو اس کی صورت ‘کان ‘آنکھ ‘کھال’ گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے ‘پھر عرض کر تاہے اے پروردگار، یہ مرد ہے یا عورت ‘پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ فرماتاہے ‘فرشتہ لکھ دیتاہے ‘پھر عرض کرتاہے ‘ اے پروردگار اس کی عمر کیاہے ‘چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتاہے حکم فرماتا ہے اورفرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتاہے کہ اے پروردگار اس کی روزی کیا ہے ‘چنانچہ پروردگار جو چاہتاہے وہ حکم فرمادیتاہے اورفرشتہ لکھ دیتاہے اور پھر وہ فرشتہ وہ کتاب اپنے ہا تھ میں لے کر باہر نکلتاہے جس میں کسی بات کی کمی ہوتی ہے اورنہ زیادتی ” (صحیح مسلم باب القدر)

انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ یہ عرض کرتا رہتا ہے اے میرے (رب ابھی تک) یہ نطفہ (کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب)یہ علقہ (یعنی جمے ہوئے خون کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب) یہ مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کے مرحلے میں) ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ اس کی خلقت کو پورا کرنے کا ارادہ (ظاہر) کرتے ہیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب (اس کے متعلق کیا حکم ہے) یہ مردہو گا یا عورت، بدبخت ہوگا یا نیک بخت، اس کا رزق کتنا ہوگا اور اس کی عمر کتنی ہوگی۔ تو ماں کے پیٹ میں ہی وہ فرشتہ یہ سب باتیں ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ جیسا اسے حکم دیا جاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق اور عمر لیکر پیدا ہو تا ہے ۔

مضغہ کی حالت (لغوی مفہوم چبایا ہوا مادہ) کے بعد ہی بچہ دانی میں دل دھڑکتا ہے
گویا یہ اب ایک بت بن چکا ہوتا ہے جس میں روح اتی ہے

بیالیس دن بعد فرشتہ کا آنا اور اسی پر دل کی دھڑکن کا سنا جانا ایک بات ہے اس طرح حدیث اور سائنس ایک ہی بات کہتے ہیں
=======

اب ایک متضاد روایت جو صحیح بخاری میں ابن مسعود سے مروی ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل ‘اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ….”(صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

لیکن طحاوی نے کہا یہ بات ابن مسعود کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتائی ہو گی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس حدیث پر لوگوں کو شک ہوا لہذا کتاب جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم از ابن رجب میں ہے
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الَّذِي حَدَّثَ عَنْكَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ حَدَّثْتُهُ بِهِ أَنَا ” يَقُولُهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ غَفَرَ اللَّهُ لِلْأَعْمَشِ كَمَا حَدَّثَ بِهِ، وَغَفَرَ اللَّهُ
مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ نے روایت کیا کہ میں نے خواب میں نبی کو دیکھا کہا اے رسول الله حدیث ابن مسعود جو انہوں نے اپ سے روایت کی ہے کہا سچوں کے سچے نے کہا ؟ فرمایا وہ جس کے سوا کوئی الہ نہیں میں نے ہی اس کو ان سے روایت کیا تھا تین بار کہا پھر کہا الله نے اعمش کی مغفرت کی کہ اس نے اس کو روایت کیا

یہ انداز تھا تصحیح احادیث کے لیے ائمہ کا

[/EXPAND]

[دو زندگیاں دو موت میں پہلی موت سے کیا مراد ہے ؟]

جواب

اس میں لوگوں کے اقوال ہیں یا تفسیری آراء ہیں
مثلا بعض کہتے ہیں جب انسان نہیں تھا یعنی جب اپ پیدا نہیں ہوئے تھے وہ وقت موت تھا جس کو حالت عدم بھی کہتے ہیں
بعض کے نزدیک یہ جنین کی حالت ہے جس میں روح نہیں ہے
طبری کے نزدیک دونوں قول صحیح ہیں
———–
تفسیر ابی حاتم میں ابن عباس کا قول ہے
حَدَّثَنَا أَبِي ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَنْبَأَ هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: كُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ فِي أَصْلابِ آبَائِكُمْ لَمْ تَكُونُوا شَيْئًا حَتَّى خَلَقَكُمْ، ثُمَّ يُمِيتُكُمْ مَوْتَةَ الْحَقِّ، ثُمَّ يُحْيِيِكُمْ حِينَ يَبْعَثُكُمْ «3» . قَالَ: وَهِيَ مِثْلُ قَوْلِهِ:
أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ. وَرُوِيَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ وَالْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَأَبِي صَالِحٍ وَالسُّدِّيِّ وَقَتَادَةَ نَحْوُ ذَلِكَ.
تم مردہ تھے پھر تم کو تمھارے باپوں کے اندر زندگی دی گئی تم کوئی چیز نہ تھے یہاں تک کہ خلق ہوئے پھر مرو گے موت جو حق ہے پھر دوبارہ زندہ ہو گے
ایسا ہی أَبِي الْعَالِيَةِ وَالْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَأَبِي صَالِحٍ وَالسُّدِّيِّ وَقَتَادَةَ نے کہا
اس کی سند صحیح ہے
یعنی ان کے نزدیک حالت عدم موت تھی

——–

تفسیر طبری میں ابن عباس سے منسوب دوسرا قول ہے
حُدثت عن المنجاب، قال: حدثنا بشر بن عمارة، عن أبي روق، عن الضحاك، عن ابن عباس، في قوله:”أمتَّنا اثنتين وأحييتنا اثنتين”، قال: كنتم تُرابًا قبل أن يخلقكم، فهذه ميتة، ثم أحياكم فخلقكم، فهذه إحياءة. ثم يميتكم فترجعون إلى القبور، فهذه ميتة أخرى. ثم يبعثكم يوم القيامة، فهذه إحياءة. فهما ميتتان وحياتان، فهو قوله:”كيف تكفرون بالله وكنتم أمواتًا فأحياكم ثم يميتكم ثم يحييكم، ثم إليه ترجعون”.
الضحاك نے کہا ابن عباس نے کہا … تم مٹی تھے خلق ہونے سے پہلے پس یہ مردہ ہے پھر زندہ ہوئے تخلیق پر یہ زندگی ہے
سند منقطع ہے
الضحاك بن مزاحم الهلالي صاحب التفسير كان شعبة ينكر أن يكون لقي بن عباس
شعبہ نے راوی کے سماع کا انکار کیا ہے

طبری نے کہا
وأما وجه تأويل قول قتادة ذلك: أنهم كانوا أمواتًا في أصلاب آبائهم. فإنه عنى بذلك أنهم كانوا نطفًا لا أرواح فيها، فكانت بمعنى سائر الأشياء الموات التي لا أرواح فيها. وإحياؤه إياها تعالى ذكره، نفخُه الأرواح فيها، وإماتتُه إياهم بعد ذلك، قبضُه أرواحهم. وإحياؤه إياهم بعد ذلك، نفخُ الأرواح في أجسامهم يوم يُنفخ في الصّور، ويبْعثُ الخلق للموعود.
اور قتادہ کے قول کا جہاں تک تعلق ہے کہ تم مردہ تھے اپنے باپوں کے صلب میں تو معنی ہے کہ تم نطفہ تھے جس میں روح نہیں تھی تو ان معنوں میں تمام اشیاء حالت موت میں ہیں جن میں روح نہیں ہے

یہاں تم مردہ تھے مراد راقم سمجھتا ہے حالت عدم ہے یعنی جب ہم نہیں تھے تو گویا ہم مردہ تھے

[/EXPAND]

[سبز پرندوں والی روایت موقوف ہے ؟]

جواب

سند صحابی پر جا کر رک جائے تو حدیث موقوف ہے
اس کی سند میں ایسا ہے لیکن متن میں الفاظ ہیں
قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ , فَأُخْبِرْنَا
ہم نے بھی اس پر سوال کیا تھا پس ہم کو خبر دی گئی

ابن مسعود کو یہ خبر یقینا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملی کیونکہ کوئی اور غیب کی یہ خبر نہیں دے سکتا

بیہقی نے کتاب إثبات عذاب القبر وسؤال الملكين کی حدیث کے بعد ابن عباس کی روایت بھی دی ہے اس کے بعد کہا
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَاضِي، بِمَرْوَ، ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِي أُسَامَةَ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ فُضَيْلٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ مَحْمُودَ بْنِ لُبَيْدٍ الأَنْصَارِىُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الشُّهَدَاءُ عَلَى بَارِقِ – نَهْرٍ بِبَابِ الْجَنَّةِ – فِي قُبَّةٍ خَضْرَاءَ يَخْرُجُ عَلَيْهِمْ رِزَقُهُمْ بُكْرَةً وَعَشِيًّا»

قَالَ الشَّيْخُ : الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ مِنْ هَذَا، وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ بیہقی نے کہا پہلی ابن مسعود والی حدیث ابن عباس کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اور ابن عباس نے اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہی روایت کیا ہے جیسا کہ حدیث ابن مسعود میں ہے

اس روایت کو مرفوع ہی لیا گیا ہے
https://www.islamic-belief.net/روح-کے-بدلتے-قالب/

الألباني في ” السلسلة الصحيحة ” 6 / 279 :
أخرجه مسلم ( 6 / 38 – 39 ) و الترمذي ( 3014 ) و الدارمي ( 2 / 206 ) و ابن
ماجه ( 2 / 185 ) و البيهقي في ” الشعب ” ( 4 / 19 – 20 ) و الطيالسي ( 38 /
294 ) و ابن أبي شيبة ( 5 / 308 ) و هناد في ” الزهد ” ( 154 ) و الطبري ( 8206
) من طرق عن الأعمش عن عبد الله بن مرة عن مسروق قال : سألنا عبد الله [ بن
مسعود ] عن هذه الآية *( و لا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل
أحياء عند ربهم يرزقون )* ؟ قال : أما إنا قد سألنا عن ذلك ؟ فقال : … فذكره
. و السياق لمسلم ، و الزيادة للترمذي ، و قال : ” حديث حسن صحيح ” . قلت : هو
مرفوع في صورة موقوف ، فإن النبي صلى الله عليه وسلم لم يذكر فيه صراحة ، لكنه
في حكم المرفوع قطعا ، و ذلك لأمرين : الأول : أن قوله : ” سألنا عن ذلك ؟ فقال
: ” لا يمكن أن يكون المسؤول و القائل إلا الرسول صلى الله عليه وسلم ، لأنه هو
مرجعهم في بيان ما أشكل أو غمض عليهم و الآخر : أن ما في الحديث من فضل الشهداء
عند الله ، و مخاطبته تعالى إياهم و جوابهم و طلبهم منه أن ترد أرواحهم إلى
أجسامهم ، كل ذلك مما لا يمكن أن يقال بالرأي . و لذلك قال النووي في ” شرح
مسلم ” : ” و هذا الحديث مرفوع لقوله : ” إنا قد سألنا عن ذلك ، فقال ، يعني
النبي صلى الله عليه وسلم ” . و أمر ثالث : أنه قد جاء طرف منه مرفوعا من حديث
ابن عباس رضي الله عنه عند أحمد

البانی نے کہا میں کہتا ہوں یہ مرفوع ہے صورت میں موقوف لگ رہی ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا اس میں صراحت سے ذکر نہیں ہے لیکن یہ مرفوع قطعی ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں اول اس میں قول ہے کہ ہم نے اس پر سوال کیا تھا پس یہ ممکن نہیں کہ سوال جس سے کیا گیا اور جس نے جواب دیا وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے سوا کوئی اور ہو کیونکہ ان سے ہی اشکال پر سوال کیا جاتا تھا یا جس میں اغمض ہو دوم اس میں شہداء کی فضیلت کا ذکر ہے … اور اس کا جواب رائے سے نہیں دیا جا سکتا اور ایسا ہی نووی نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ یہ حدیث مرفوع ہے

ملا علی قاری کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں کہتے ہیں
قُلْتُ: أَيْضًا: جَلَالَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَأْبَيْ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ ذَلِكَ غَيْرَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
میں بھی نووی کی طرح یہی کہتا ہوں کہ ابن مسعود کی جلالت شان کے خلاف ہے کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے سوا کسی سے سوال کرتے

الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم میں محمد الأمين بن عبد الله الأُرَمي العَلَوي الهَرَري الشافعي یہی کہتے ہیں کہ یہ مرفوع ہے
ما حرف استفتاح وتنبيه أي انتبهوا واستمعوا ما أقول لكم أيها المخاطبون إنا معاشر الصحابة سألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم (عن ذلك) أي عن معنى هذه الآية وتأويلها فيكون الحديث مرفوعًا يدل على ذلك قرينة الحال فإن ظاهر حال الصحابي أن يكون سؤاله من النبي صلى الله عليه وسلم لا سيما في تأويل آية كهذه اهـ من المرقاة وعبارة القرطبي قوله (أما إنا سألنا عن ذلك فقال) رسول الله صلى الله عليه وسلم في جواب سؤالنا كذا صحت الرواية ولم يذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكن هو المراد منها قطعًا ألا ترى قوله (فقال) وأسند الفعل إلى ضميره وإنما سكت عنه للعلم به فهو مرفوع وليس هذا المعنى الذي في هذا الحديث مما يتوصل إليه بعقل ولا قياس وإنما يتوصل إليه بالوحي فلا يقال هو موقوف على عبد الله بن مسعود اهـ من المفهم.

———
یاد رہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ کسی کو قرآن سیکھنا ہو تو ابن مسعود سے سیکھے

[/EXPAND]

[آج کے دور کے اہل حدیثوں کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے]

تم میں سے جب کوئی سلام کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری طرف میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میںً اسکے سلام کا جواب دیتا ہوں
اور یہ روایت پہلے کے اہل حدیث کے کونسے علماء نےصحیح روایت سمجھ کر جو اوپر بیان کی ہے مسند احمد کی روایت پر عقیدہ بنایا تھا اس شخصیت کا نام کے ساتھ حوالہ چاہیے بہت شکریہ جزاک اللہ

جواب

خواجہ محمد قاسم نے کتاب کراچی کا عثمانی مذہب میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے
زبیر علی زئی نے سوالات میں کہا ہے
زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں ضعیف کہا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=s5rsyFMYpg0
اسی ویڈیو میں ٥٤:٣٤ منٹ پر قبر میں روح لوٹائے جانے والی روایت پر سوال ہوا

اس کتاب میں اس کی تفصیل ہے

https://www.islamic-belief.net/وفات-النبی-پر-کتاب/

مختصرا یہ کتاب اکابر پرستی و صراط مستقیم میں مضمون مصطفی سراپا رحمت پہ لاکھوں سلام کے نام سے بھی ہے

[/EXPAND]

قدمونی قدمونی پر ایک نظر

ایک مشھور روایت ہے کہ مردہ کو جب کھاٹ پر رکھا جاتا ہے وہ کلام کرتا ہے – اس بلاگ میں اس کی اسناد پر بحث کی گئی ہے

صحیح بخاری -> کتاب الجنائز –  باب کلام المیت علی الجنازۃ
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا

حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق”.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے اگر انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

الطبقات الكبرى از  المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اور مسند احمد میں ہے کہ یہ قول ابو ہریرہ کا تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، وَأَسْرِعُوا بِي إِسْرَاعًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي. وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَتِي أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي “

ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، نے المقبری سے روایت کیا انہوں نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو بستر پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو بستر پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے کہ ابو ہریرہ کا قول تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ بِأَبِي هُرَيْرَةَ الْمَوْتُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَى قَبْرِي فُسْطَاطًا , وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، فَإِذَا حَمَلْتُمُونِي , فَأَسْرِعُوا , فَإِنْ أَكُنْ صَالِحًا تَأْتُونَ بِيِ إِلَى رَبِّي، وَإِنْ أَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ , فَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ تَطْرَحُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

ابو معشر نے کہا سعید المقبری نے کہا جب ابو ہریرہ کی وفات کا وقت آیا کہا میری قبر پر خیمہ نہ لگانا نہ میرے  پیچھے اگ لے کر جانا پس جب مجھے اٹھانا جلدی کرنا کیونکہ اگر میں نیک ہوں تو تم مجھے میرے رب کی طرف لے جا رہے ہو اور اگر اس کے علاوہ ہوں تو تم ایک چیز اپنے کندھوں سے پھینک رہے ہو

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِي بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَهُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي؟ “

المقبری نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً [ص:466] قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصُعِقَ ” قَالَ حَجَّاجٌ: لَصُعِقَ

سعید المقبری نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو سعید الخدری سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ کورکھتے  ہیں اور مرد  اس کو گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر یہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو اس آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

سعید بن ابی سعید ( أَبُو سَعْدٍ بنُ كَيْسَانَ) ایک ہی روایت تین  سندوں سے بیان کر رہا ہے

 ایک سعید المقبری  عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

دوسری  سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

تیسری سعید المقبری  عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، کی سند سے

سعید المقبری سے تین لوگوں نے اس روایت کو لیا أبي معشر الْمَدِينِيّ ، دوسرے لَيْثٌ بن سعد ، تیسرے ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني کا تفرد ہے

ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق

سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث

ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے

ابی معشر کے مطابق یہ الفاظ ابو ہریرہ کے ہیں اس کو حدیث نبوی نہیں کہا ہے  یعنی موقوف عن ابو ہریرہ ہے

یہ بات کہ میت کے اس قول کو انسان کے سوا سب سنتے ہیں یہ صرف ابو سعید الخدری  کی سند سے ہیں

لہذا محدثین اس کو صرف دو سندوں سے قبول کرتے ہیں جو لیث اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ کی اسناد ہیں

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے

المختلطين از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني:

 قال شعبة: ساء بعد ما كبر.

وقال محمد بن سعد: ثقة إلا أنه اختلط قبل موته بأربع سنين.

شعبہ کہتے ہیں یہ بوڑھے ہوئے تو خراب ہوئے

ابن سعد نے کہا یہ ثقہ ہیں لیکن یہ مرنے سے ٤ سال قبل اختلاط کا شکار ہوئے

قال الواقدى: كبُر واختلط قبل موته بأربع سنين – واقدی نے کہا بوڑھے ہوئے اور مرنے سے ٤ سال قبل مختلط ہوئے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ)  کے مطابق ١٢٥ ھ میں وفات ہوئی

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق

وفي كتاب الباجي عن ابن المديني: قال ابن عجلان: كانت عنده أحاديث سندها عن رجال عن أبي هريرة فاختلطت عليه فجعلها كلها عن أبي هريرة.

اور الباجی کی کتاب میں ابن المدینی سے روایت ہے کہ ابن عجلان نے کہا ان کے پاس احادیث تھیں جو عن رجال عن ابو ہریرہ سے تھیں ان کو جب اختلاط ہوا تو انہوں نے تمام کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

شعبہ نے بھی احتیاط کی ہے اور کہا ہے کہ سعید  بوڑھے ہو چکے تھے

وَقَال يَعْقُوب بْن شَيْبَة: قد كَانَ تغير وكبر واختلط قبل موته، يقال: بأربع سنين، حَتَّى استثنى بعض المحدثين عنه ما كتب عنه فِي كبره مما كتب قبله، فَكَانَ شعبة يَقُول: حَدَّثَنَا سَعِيد الْمَقْبُرِيّ بعدما كبر.

يَعْقُوب بْن شَيْبَة نے کہا کہ یہ بدل گئے اور بوڑھے ہوئے اور مرنے سے پہلے مختلط ہو چکے تھے کہا جاتا ہے ٤ سال یہاں تک کہ بعض محدثین نے اس کو الگ کیا ہے جو ان کے بڑھاپے سے پہلے لکھا یہاں تک کہ شعبہ کہتے کہ سعید المقبری نے روایت کیا بوڑھا ہونے کے بعد

قال يحيى القطان: “سمعتُ محمد بن عجلان يقولُ: كان سعيدٌ المقبري يُحَدِّث عن أبيه عن أبي هريرة، وعن رجل عن أبي هريرة، فاختلط عليَّ فجعلتها كلها عن أبي هريرة   الميزان: (3/645)

یحیی القطان کہتے ہیں میں نے ابن عجلان کو سنا کہ سعید المقبری اپنے باپ سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے اور سعید ایک آدمی سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتا لیکن جب سعید کو اختلاط ہوا تو سعید المقبری نے ان تمام روایات کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيدا المقبري سمع من أبي هريرة ومن أبيه عن أبي هريرة وأنه اختلف عليه في أحاديث وقالوا أنه اختلط قبل موته وأثبت الناس فيه الليث بن سعد يميز ما روى عن أبي هريرة مما روى عن أبيه عنه وتقدم أن ما كان من حديثه مرسلا عن أبي  هريرة فإنه لا يضر لأن أباه الواسطة

سعید المقبری نے ابو ہریرہ سے سنا اور اپنے باپ سے انہوں نے ابو ہریرہ سے اور ان کی احادیث پر اختلاف ہوا اور کہا کہ یہ مرنے سے قبل مختلط ہوئے اور لوگوں میں سب سے ثابت ان سے روایت کرنے میں اللیث ہیں جو اس کی  تمیز کر سکتے ہیں کہ یہ ابو ہریرہ سے کیا روایت کرتے ہیں اور کیا اپنے باپ سے کرتے ہیں اور جیسا کہ گزرا ان کا ابو ہریرہ سے روایت کرنا مرسل ہے اگرچہ اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے سنا ہے

سعید المقبری کو اختلاط تھا الذھبی نے اس کا انکار کیا اس پر ابن الكيال (المتوفى: 929هـ) نے کتاب  الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات میں لکھا

 والعجب من الذهبي انكار اختلاطه وقد أقر باختلاطه الواقدي وابن سعد ويعقوب بن شيبة وابن حبان

اور الذھبی کی عجیب بات ہے کہ اس کا انکار کیا اور اس اختلاط کا ذکر کیا ہے واقدی نے  ابن سعد نے یعقوب نے اور ابن حبان نے 

اگرچہ ابن معین نے کہا تھا کہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت سب سے مناسب ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین اس کو بھی منکر کہتے ہیں –  العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)  کے مطابق ایک روایت اس کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  روایت کرتے ہیں

عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ  ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص)   : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.

قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ

ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے

ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے

یعنی  سعید المقبری  کی باپ سے ان کی ابو ہریرہ سے روایت منکر بھی کہی گئی ہے

امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں ایک اور روایت کا حوالہ دیا

وَقال ابْنُ طَهمان،  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُريّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم؛ مَا سَمِعتُم عَنِّي مِن حَدِيثٍ تَعرِفُونَهُ فَصَدِّقُوهُ.  وَقال يَحيى: عَنْ أَبي هُرَيرةَ، وَهُوَ وهمٌ، لَيْسَ فِيهِ أَبو هُرَيرةَ.

ابْنِ أَبي ذِئب نے سعید المقبری سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میری جو حدیث سنو اس کو پہچانو تصدیق کرو اور یحیی نے کہا یہ عن ابو ہریرہ ہے –   لیکن یہ وہم ہے اس میں ابو ہریرہ نہیں ہے

یعنی امام بخاری کے نزدیک   ابْنِ أَبي ذِئب کی روایت میں سعید المقبری نے براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب نے دور اختلاط میں سنا ہے

یاد رہے کہ ابن أبي ذئب مدلس بھی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ رجال کے حوالے سے احتیاط سے بھی کام نہیں لیتے تھے

اس سند میں عبد الرحمن بن مهران بھی  ہے – جس کے بارے میں محدثین کی معلومات کم ہیں

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

البرقانی کہتے ہیں میں دارقطنی سے کے بارے میں پوچھا  کہا  مدنی بوڑھا اعتبار کیا جاتا ہے

یہاں اعتبار محدثین کی اصطلاح ہے  کہ روایت لکھ لی جائے حتی کہ شاہد ملے

ابن حجر نے صرف مقبول من الثالثة  تسرے درجے کا مقبول کہا ہے – اس کی وضاحت خود تقریب میں اس طرح کی

من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ ” مقبول ” حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.

جس کی احادیث بہت کم ہوں اور اس پر کوئی بات ثابت نہیں کہ اس کی حدیث ترک کی جائے تو اس کے لئے مقبول کا لفظ سے اشارہ کیا ہے  جب متابعت ہو ورنہ یہ لین الحدیث ہو گا

یعنی ایسا راوی جس پر کوئی جرح کا خاص کلمہ نہ ہو اس کی احادیث بھی کم ہوں تو اس کی روایت لکھی جائے گی جسکی  روایت کی متابعت ملنے پر یہ مقبول کہلائے گا وگرنہ لین الحدیث  (کمزور ) ہے

ان وجوہات کی بنا پر اس طرق کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا

اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟

وقال الساجي: حدثني أحمد بن محمد قال: قلت ليحيى بن معين: من أثبت الناس في سعيد المقبري؟ قال: ابن أبي ذئب

ابن معین نے کہا اس سے روایت کرنے میں اثبت ابن أبي ذئب ہے

ابن حراش: جليل، أثبت الناس فيه الليث بْن سَعْد –  ابن خراش نے کہا اثبت لیث ہے

دارقطنی کہتے ہیں

لأنَّ الليث بن سعد ضبط عن المقبري ما رواه عن أبي هريرة، وما رواه عن أبيه عن أبي هريرة

لیث بن سعد یاد رکھتے تھے المقبری کی روایت جو انہوں  نے ابو ہریرہ سے روایت کی اور جو انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے  ابو ہریرہ سے روایت کی

  وقال عبد الله: سَمِعتُهُ يقول (يعني أَباه) : أصح الناس حديثًا عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ليث بن سعد، يفصل ما روى عن أبي هريرة، وما (روى) عن أبيه، عن أبي هريرة، هو ثبت في حديثه جدًا. «العلل» (659) .

عبد الله نے کہا میں نے باپ سے سنا کہ سعید المقبری سے روایت کرنے میں سب سے صحیح ليث بن سعد ہے جو واضح کرتے ہیں جو یہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے روایت کر دیتے ہیں اور جو یہ صرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں

محدثین میں بعض نے لیث کی سند پسند کی اور بعض نے ابن أبي ذئب کی سند – لیکن جیسا واضح کیا اس میں ابن أبي ذئب بھی قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ محدثین کی اس طرق سے روایت کردہ متن کو رد کرتے ہیں- لیث کو اس لیے پسند کیا جاتا تھا کہ وہ تمیز کر لیتے تھے کہ سعید المقبری نے  اختلاط میں جو روایات اپنے باپ سے اور ابو ہریرہ سے روایت کی ہیں ان میں کون سی صحیح ہیں گویا یہ ایک طرح کا لیث کا اندازہ ہے جس کی بنیاد پر سعید المقبری کے اختلاط والی روایات کو لیا گیا ہے

 الليث بن سعد بن عبد الرحمن بن عقبة مصری ہیں سن ٩٤ میں پیدا ہوئے اور سن ١١٣ میں حج کیا  اور ١٧٥ میں وفات ہوئی

قال ابن بكير  سَمِعْتُ اللَّيْثَ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَمائَةٍ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِيْنَ سَنَةً

ابن بکیر نے کہا میں نے اللَّيْثَ سے سنا کہ انہوں نے امام الزہری سے مکہ میں سن ١١٣ میں سنا

  سعید المقبری سن ١١٩ ھ سے ١٢٣ ھ تک مختلط تھے- محدثین کا یہ کہنا کہ لیث کے اندر صلاحیت تھی کہ وہ سعید المقبری کی سند میں علت کو جان لیتے تھے ظاہر کرتا ہے کہ سعید المقبری میں اختلاط کی کیفیت شروع ہی ہوئی تھی کہ لیث نے ان سے سنا

عجیب بات یہ ہے کہ لیث کو جب سعید یہ روایت سناتے ہیں تو اس کو سعید الخدری رضی الله عنہ کی حدیث کہتے ہیں اور جب ابن ابِي ذئبٍ کو یہ سناتے ہیں تو اس کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث قرار دیتے ہیں

اس اشکال کو اپ مندرجہ ذیل جدول میں دیکھ سکتے ہیں

ابن ابِي ذئبٍ کی سند

 

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

لیث کی سند کتاب
حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند أبي يعلى

 

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ سنن نسائی
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ مسند احمد
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند احمد
حَدَّثَنا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: صحیح بخاری
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صحیح بخاری
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أبو داود الطيالسي
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، مسند أحمد
حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَحَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أحمد
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ سنن نسائی
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،

 

صحیح ابن حبان

المزی تہذیب الکمال میں  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة  کے ترجمہ میں یہ روایت لکھ کر کہتے ہیں

هكذا رواه ابن أَبي ذئب، وخالفه الليث بْن سعد (س)  فرواه عَنْ سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ

ایسا ابن أَبي ذئب نے روایت کیا ہے (یعنی  ابن أَبي ذئب عَن سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة ) اور ان کی مخالفت کی ہے الليث بْن سعد نے انہوں نے اس کو  سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ کی سند سے روایت کیا ہے

راقم کے خیال میں یہ روایت دور اختلاط کی ہے جس کی بنا پر اسناد میں یہ گھپلا پیدا ہو رہا ہے اور چونکہ لیث کا حجاز پہنچنا بھی اسی دور کے پاس کا ہے جس میں لیث کو مختلط کہا گیا ہے گمان غالب ہے کہ اسناد میں  یہ تضاد اس کیفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ سفیان بن عُيَيْنَة،   سعید المقبری کے پاس  پہنچے لیکن

فإن ابن عُيَيْنَة أتاه فرأى لعابه يسيل فلم يحمل عنه، وحدث عنه مالك والليث

اس کا لعاب اس کے منہ سے بہہ رہا تھا لہذا نہیں لکھا

سفيان بن عيينة بن أبي عمران ميمون سن ١٠٧ میں پیدا ہوئے

کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق

سمع في سنة تسع عشرة ومائة ، وسنة عشرين ، وبعد ذلك

سفيان بن عيينة نے سن ١١٩ اور ١٢٠ اور اس کے بعد سنا ہے

سفيان بن عيينة کوفہ میں پیدا ہوئے اس کے بعد حجاز کا سفر کیا جہاں ١١٩ کے بعد لوگوں سے سنا اس دور میں انہوں نے سعید المقبری کو دیکھا جن کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا

تہذیب الکمال کے مطابق

وَقَال نوح بْن حبيب القومسي: سَعِيد بْن أَبي سَعِيد، وابن أَبي مليكة، وقيس بْن سَعْد، ماتوا سنة سبع عشرة ومئة.

نوح بْن حبيب نے کہا کہ سعید بن ابی سعید کی موت سن ١١٧ میں ہوئی

 خليفة بْن خياط کے بقول ١٢٦ میں ہوئی

أَبُو بَكْر بْن أَبي خَيْثَمَة اور ابن سعد کے مطابق ١٢٣ میں ہوئی

وَقَال الواقدي، ويعقوب بْن شَيْبَة، وغير واحد: مات فِي أول خلافة هشام بن عبد الملك.

الواقدي اور يعقوب بْن شَيْبَة  اور ایک سے زائد محدثین کہتے ہیں  هشام بن عبد الملك (١٠٥ سے ١٢٥ تک خلیفہ) کی خلافت کے شروع میں ہوئی

اس طرح دیکھا جائے تو  زیادہ ترمحدثین  سعید المقبری کی موت کو ١١٧ ہجری کے پاس لے اتے ہیں جس میں اللیث نے مکہ جا کر حج کیا  گویا اللیث نے سعید المقبری کو عالم اختلاط میں پایا ہے یہ قول کہ وفات ١٢٠ کے بعد ہوئی یہ ہشام بن عبد الملک کی خلافت کا آخری دور بن جاتا ہے لہذا یہ صحیح نہیں ہے- ہشام نے ٢٠ سال حکومت کی ہے تو تاریخ وفات میں  یہ کوئی معمولی فرق نہیں رہتا

اختلاط کا دورانیہ ٤ سال کا تھا لیکن تاریخ وفات میں اختلاف کی بنا پر واضح نہیں رہا کہ یہ کب شروع ہوا

اگر ١١٧ وفات لی جائے تو اس کا مطلب ہے اختلاط سن ١١٣ میں شروع ہوا

قال الْبُخَارِيّ : مات بعد نَافِع.

نافع کی موت ١١٩ یا ١٢٠ میں ہوئی ہے بحوالہ سیر الاعلام النبلاء

امام بخاری نے  تاريخ الصغير یا  التاريخ الأوسط میں  صرف یہ لکھا ہے کہ سعید المقبری کی وفات نافع کے بعد ہوئی کوئی سال بیان نہیں کیا جبکہ اختلاط کا علم ہونا ضروری ہے- امام بخاری نے یھاں سعید المقبری کے حوالے سے اللیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے

امام مالک نے بھی سعید المقبری سے روایت لی ہے لیکن یہ نہیں لکھی بلکہ روایت بیان کی

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني کی سند ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ، فَقَالَ: ” أَنَا لَعَمْرِ اللَّهِ أُخْبِرُكَ، أَتْبَعُهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَإِذَا وُضِعَتْ كَبَّرْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَصَلَّيْتُ عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ “، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قِرَاءَةَ عَلَى الْجِنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ

امام مالک نے سعید المقبری سے انہوں نے  اپنے باپ سے روایت کیا  انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ جنازہ پر نماز کیسے پڑھیں؟ ابو ہریرہ نے  کہا لعمر الله میں اس کی خبر دیتا ہوں میت کے اہل کے ساتھ ہوں گے پس جب رکھیں تو الله کی تکبیر و حمد کہیں اور نبی پر درود پھر کہیں

اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ

امام محمد نے کہا یہ قول ہم لیتے ہیں کہ جنازہ پر قرات نہیں ہے اور یہی قول ابو حنیفہ رَحِمَهُ اللَّهُ کا ہے 

قابل غور ہے  کہ امام مالک تو مدینہ کے ہی تھے انہوں نے یہ  قدمونی والی روایت  نہ لکھی جبکہ اللیث جو ١١٧ میں مصر سے آئے ان کو اختلاط کی کیفیت میں سعید المقبری ملے اور انہوں نے اس کو روایت کیا

الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے
قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين

امام حاکم نے کہا – امام مالک حکم ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر

مستدرک میں حاکم کہتے ہیں

مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ الْحَكَمُ فِي حَدِيثِ الْمَدَنِيِّينَ….. وَاحْتَجَّ بِهِ فِي الْمُوَطَّأِ

اہل مدینہ کی احادیث پر امام مالک فیصلہ کرنے والے ہیں   یہ وہ حدیث ہے جس  سے امام مالک نے موطا میں دلیل لی ہے

لہذا سعید المقبری کی روایت جو امام مالک نے نہ  لکھی ہو  اس کی کوئی نہ کوئی تو وجہ ضرور ہے جس میں یہ کلام المیت والی روایت بھی ہے

یا النبی سلام علیک

نبی صلی الله علیہ وسلم  کے لئے  سلامتی  کی دعا یا درود کا حکم الله تعالی کا ہے-  درود پڑھنے کا ثواب ہے لیکن اس کا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں یا ان تک پہنچانا نہیں  ہے بلکہ قرآن کے مطابق تمام اعمال آسمان میں جاتے ہیں اور صحیح حدیث کے مطابق یہ سدرہ المنتہی پر آ کر رک جاتے ہیں –

فرشتے کیا الله تک پہنچا رہے ہیں اس کا ذکر صحیح بخاری کی روایت میں  ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:87]: “ إِنَّ لِلَّهِ مَلاَئِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ ” قَالَ: «فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا» قَالَ: ” فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ، وَهُوَ أَعْلَمُ مِنْهُمْ، مَا يَقُولُ عِبَادِي؟ قَالُوا: يَقُولُونَ: يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ ” قَالَ: ” فَيَقُولُ: هَلْ رَأَوْنِي؟ ” قَالَ: ” فَيَقُولُونَ: لاَ وَاللَّهِ مَا رَأَوْكَ؟ ” قَالَ: ” فَيَقُولُ: وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً، وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا وَتَحْمِيدًا، وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا ” قَالَ: ” يَقُولُ: فَمَا يَسْأَلُونِي؟ ” قَالَ: «يَسْأَلُونَكَ الجَنَّةَ» قَالَ: ” يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا ” قَالَ: ” يَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا، وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا، وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً، قَالَ: فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: مِنَ النَّارِ ” قَالَ: ” يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا ” قَالَ: ” يَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا، وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً ” قَالَ: ” فَيَقُولُ: فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ ” قَالَ: ” يَقُولُ مَلَكٌ مِنَ المَلاَئِكَةِ: فِيهِمْ فُلاَنٌ لَيْسَ مِنْهُمْ، إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ. قَالَ: هُمُ الجُلَسَاءُ لاَ يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ ” رَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَرَوَاهُ سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پھر جہاں وہ کچھ ایسے لوگوں کو پا لیتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا۔ پھر وہ پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر امنڈتے رہتے ہیں۔ پھر ختم پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے …. حالانکہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے …. کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے، تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ کہا کہ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا جب وہ مجھے دیکھے ہوئے ہوتے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کر لیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی سب سے زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح سب سے زیادہ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ اے رب! انہوں نے تیری جنت نہیں دیکھی۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ خواہشمند ہوتے، سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں، دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے جہنم دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ، انہوں نے جہنم کو دیکھا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ  بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ(ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا لیکن اس کو مرفوع نہیں کیا۔ اور سہیل نے بھی اس کو اپنے والدین ابوصالح سے روایت کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے

ابن مسعود  رضی الله عنہ سے منسوب روایات 

ایک راوی زاذان نے ان الفاظ کو تبدیل کیا اور مسند البزار کی روایت ہے

حَدَّثَنَاهُ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا جَرِيرٌ، عَنْ حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، قَالَ حُسَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي  الطُّرُقِ يُبَلِّغُونَ، عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ

حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيّ نے روایت کیا کہ عبد الله بن السَّائِبِ نے زاذان سے روایت کیا اس نے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ .. اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک لاتے ہیں

معجم الشیوخ از امام الذہبی کے مطابق زاذان کبھی بھی ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ملا لہذا یہ روایت انقطاع کے سبب ضعیف ہے- تلخیص الموضوعات میں بھی الذھبی نے کہا ہے زاذان کی ملاقات ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ہے –الذھبی حیرت ہے  کہ تلخیص مستدرک میں اس روایت کو  صحیح کہہ گئے ہیں

زاذان اہل تشیع کے مطابق کٹر شیعہ ہیں اور  ابو بکر و عمر کی تنقیص کرتے ہیں اس کا ذکر بشار عواد المعروف نے تہذیب الکمال کے حاشیہ میں بھی کیا ہے

شیعہ عالم ابن داوود الحلي  کتاب رجال ابن داود میں کہتے ہیں

 أبو عمرو الفارسى زاذان، بالزاي والذال المعجمتين ى (جخ) خاص به

زاذان، علی کے خاص اصحاب میں سے ہے

رجال البرقي کے مطابق بھی زاذان خاص تھے

کہا جاتا ہے یہ قبیلہ مضر کا تھا

شیعہ عالم کتاب الكنى والالقاب ج1 از  عباس القمي   لکھتے ہیں

نقل الاغا رضا القزويني في ضيافة الاخوان عن القاضي ابى محمد ابن ابي زرعة الفقيه القزويني ان زاذان كان من اصحاب امير المؤمنين ” ع ” وقتل تحت رايته ثم انتقل اولاده إلى قزوين.  قال الرافعي زاذانية قبيلة في قزوين فيهم أئمة كبار من المتقدمين والمتأخرين انتهى

آغا رضا القزويني نے ضيافة الاخوان میں القاضي ابى محمد ابن ابي زرعة الفقيه القزويني سے روایت کیا ہے کہ زاذان امیر المومنین علی کے اصحاب میں تھا اور ان کے جھنڈے تلے قتل ہوا پھر اس کی اولاد قزوین منتقل ہوئی اور  الرافعي نے کہا کہ  زاذانية  قبیلہ ہے قزوين میں  جس سے بہت متقدمین اور متاخرین میں بہت سے (شیعہ) علماء آئے ہیں

اہل سنت میں ابن حجر نے بھی اس کو متشیع قرار دیا ہے –  اسی طرح اندلس کے مشہور محدث  امام أحمد بن سعيد بن حزم الصدفي المنتجالي    نے زاذان کو اصحاب علی میں شمار کیا ہے – الکمال از مغلطاي  میں ہے

وفي «كتاب المنتجالي»: زاذان أبو عمر كان صاحب علي

یاد رہے کہ امام أحمد بن سعيد بن حزم الصدفي المنتجالي ، امام ابن حزم  (علي بن أحمد بن سعيد بن حزم بن غالب) کے والد ہیں جو ایک عظیم محدث ہیں – اندلس  کے محدثین زاذان کی روایت کردہ  عود روح والی روایت کو رد کرتے تھے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے اس بات کا ذکر کتابچہ ایمان خالص میں کیا تھا

دراصل قبر میں مردے کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت ِجعفریہ کی روایت ہے جو اس روایت کے راوی زاذان (شیعہ) نے وہاں سے لے کر براء بن عازب سے منسوب کر دی ہے۔

( ایمانِ خالص ، دوسری قسط،ص : 18)

اس پر مولویوں نے ایک واویلا مچا دیا کہ زاذان کو اہل سنت میں سے کسی نے شیعہ نہیں کہا لہذا ڈاکٹر صاحب نے دلیل دی کہ اس کو ابن حجر  نے تقریب التہذیب میں شیعہ قرار دیا ہے- ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا ہے

فیه شیعیة

اس میں شیعیت ہے

اس پر زاذان کے   کرم فرماؤں نے مزید خامہ فرسائی کی اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے

ایک غیر مقلد مولوی صاحب نے لکھا

فیہ شیعیة  ( اس میں شیعیت ہے۔) تو اب کے شیعیت کو شیعہ بنانے والوں کو کچھ نہ کچھ تو ضرور حاصل ہوگا، کیونکہ یہ بھی تو ایک کارنامہ ہی ہے نا

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/4888/156/

دوسری غیر مقلد مولوی رفیق طاہر صاحب لکھتے ہیں

احمد بن حجر جنہوں نے زازان پر شیعہ ہونے کی تہمت لگائی ہےاور یہ بھی نہیں کہا کہ وہ شیعہ ہے بلکہ یہ کہا ہے : ’فیہ تشیع قلیل‘ اس کے اندر تھوڑا سا تشیع ہے ، تھوڑی سی شیعیت ہے

http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=18614
http://forum.mohaddis.com/threads/منکرین-برزخ-کا-عقیدہ-اور-اس-کا-رد.3280/

اپ دیکھیں کس قدر دھوکہ ہے کہ ابن حجر کے الفاظ تک تبدیل کر دے ہیں کہ فیه شیعیة  کو فیہ تشیع قلیل بنا دیا اور یہ حوالہ بھی نہیں دیا کہ کس کتاب سے اس کو اخذ کیا

رفیق طاہر کی تقریر (٢٣ منٹ پر ) یہاں سن سکتے ہیں جہاں وہ زاذان کو فیه تشیع قلیل کہہ رہے ہیں

رفیق طاہر کے التباس کا رد اسی سے ہو جاتا ہے کہ

تاریخ ابن خلدون ج ٢ ص ٢٩٩ کے مطابق رفض کا لفظ زید بن علی (المتوفی ١٢٢ ھ) نے سب سے پہلے شیعوں کے لئے استعمال کیا.  شیعوں نے زید بن علی سے پوچھا کہ آپ کی ابو بکر اور عمر کے بارے میں کیا رائے ہے. انہوں نے کہا کہ ہم ان سے زیادہ امارت کے حقدار تھے لیکن انہوں  نے یہ حق ہم سے چھین لیا لیکن یہ کام کفر تک نہیں پہنچتا. اس پر شیعوں نے ان کو برا بھلا کہا اور جانے لگے. زید نے کہا

 رفضونی  تم نے مجھے چھوڑ دیا

اسی وقت سے شیعہ رافضیہ کے نام سے موصوف ہوۓ

 زید بن علی سے پہلے شیعہ چاہے سبائی ھو یا غالی یا غیر غالی سب کو شیعہ ہی بولا جاتا رہا اور یہ انداز جرح و تعدیل کے ائمہ کا ہے اس کی متعدد مثالیں ہیں

تفصیل کے لئے دیکھیں

⇑ ائمہ جرح و تعدیل جب کسی راوی کو شیعہ کہتے ہیں اس سے کیا ان کی مراد علی کا خاص ساتھی ہوتی ہے ؟

https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/

مولانا نیاز احمد جن کا ڈاکٹر عثمانی کی تنظیم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے وہ فیه شیعیة کا ترجمہ کرتے ہیں

ابو جابر دامانوی کتاب دین الخالص میں اثر پیش کرتے ہیں

اس پر محدثین کا کہنا ہے کہ اس میں عطاء بن السائب الثقفي الكوفي ہے جس سے خالد بن عبد الله نے روایت کیا ہے کتاب المختلطين  از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

من سمع منه بأخرة فهو مضطرب الحديث. منهم: هشيم، وخالد بن عبد الله.

جس نے عطاء بن السائب الثقفي الكوفي  سے آخر میں سنا ہے تو وہ مضطرب الحدیث ہے اور ان سننے والوں  میں ہیں  هشيم اور خالد بن عبد الله.

لہذا یہ اثر قابل رد ہے کیونکہ یہ دور  اختلاط کا  ہے

میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے کہ عطاء بن السائب کو بصرہ میں  وہم ہوتا تھا محدثین میں ابن علیہ نے کہا

ابن علیہ :  قدم علينا عطاء بن السائب البصرة، فكنا نسأله، فكان يتوهم فنقول له: من؟ فيقول: أشياخنا ميسرة، وزاذان، وفلان.

عطاء بن السائب ہمارے پاس بصرہ پہنچا تو ہم نے اس سے سوال کیے پس یہ وہم کا شکار ہوتا ہم اس سے کہتے کس نے کہا ؟ تو کہتا  ہمارے شیوخ ميسرة،  اور زاذان  اور فلاں نے

محدثین میں مشھور ہوا کہ جب بھی تین نام ایک ساتھ بیان کرے تو یہ اس کا  اختلاط ہے

دامانوی صاحب اثر پیش کرتے ہیں کہ

لیکن جیسا واضح کیا یہ مشکوک اثر ہے کیونکہ اس  میں نے تین نام لئے ہیں

طبقات ابن سعد میں ہے ابن علیہ نے کہا

  وسألت عنه شعبة فقال: إذا حدثك عن رجل واحد فهو ثقة. وإذا جمع فقال زاذان وميسرة وأبو البختري فاتقه .

میں نے امام شعبہ سے اس کے متعلق پوچھا: کہا جب یہ ایک شخص سے روایت کرے تو صحیح ہے لیکن جب یہ زاذان اور ميسرة اور أبو البختري کو ایک ساتھ جمع کرے تو بچو 

اسی طرح تاریخ الاسلام از الذھبی میں ہے

قال ابن المديني: قُلْتُ لِيَحْيَى الْقَطَّانِ: مَا حَدَّثَ سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ صَحِيحٌ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ إِلا حَدِيثَيْنِ كَانَ شُعْبَةُ يَقُولُ: سَمِعْتُهُمَا بِأَخَرَةٍ عَنْ زَاذَانَ

ابن المدینی نے کہا میں نے یحیی سے پوچھا کہ جو شعبہ اور سفیان نے عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ سے روایت کیا کیا صحیح ہے ؟ کہا ہاں سوائے دو حدیثوں کے جو شعبہ کہتے عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ نے آخر میں زاذان سے سنی تھیں

یعنی محدثین کو عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ  کی زاذان سے روایت تک پر اعتبار نہ تھا

دوسری طرف  عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ کی بنیاد پر زاذان کو پابند تراویح ثابت کیا جا رہا ہے

حبل الله کیایک اشاعت میں کتاب  إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از کے حوالے سے ابو بشر دولابی کا قول لکھا گیا تھا

 كان فارسيا من شيعة علي، ومات سلطان عبد الملك

زاذان شیعہ تھا عبد الملک بن مروان کے دور میں مرا

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے الدولابی کو  زاذان کو بچانے کے لئے ضعیف قرار دے دیا ہے لہذا کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا

جبکہ کتاب وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان  از  ابن خلكان میں ابو بشر الدولابی کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے

أبو بشر محمد بن أحمد بن حماد بن سعد، الأنصاري بالولاء، الوراق الرازي الدولابي؛ كان عالما بالحديث والأخبار والتواريخ

أبو بشر محمد بن أحمد بن حماد بن سعد، الأنصاري … حدیث کے عالم اور تاریخ کے عالم ہیں

لسان المیزان کے مطابق  الدولابی کے حوالے سے اس قول کو نعیم بن حماد نے کہا ہے

قال ابن عَدِي: ابن حماد متهم فيما قاله في نعيم بن حماد لصلابته في أهل الرأي.
ابن عدی نے کہا نعیم نے کہا اہل رائے کی اولاد میں سے ہے متہم ہے

یہ جرح غیر مفسر ہے کیونکہ کسی کا اہل رائے میں سے ہونا قابل جرح نہیں ہے- صحیح بخاری کی کتاب کی سند میں بہت سے اہل رائے کے لوگ ہیں

دارقطنی، الدولابی کے بارے میں  کہتے ہیں
تكلموا فيه، لما تبين من أمرة الأخير
ان پر کلام کیا جاتا ہے میں ان کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتا

امام دولابی کا تذکرہ  ارشاد الحق اثری نے مقالات  اثری میں تفصیل سے ذکر کیا ہے

دامانوی نے الدولابی پر خوب بھڑاس نکالنے کے بعد رخ محدث  مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) کی طرف کیا اور کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا

اور ” کنجری” قرار دیا ؟

اس کتاب کی اشاعت سال ١٩٩٥  میں ہوئی تب سے اب تک وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ لفظ   مغلطاي بن قليج کے لئے کیوں زبیر علی زئی نے استمعال کیا

خطوط میں زبیر علی محدثین کو گالیاں لکھ کر ابو جابر دامانوی کو پوسٹ کرتے رہے اور وہ بھی بلا تحقیق بیان کرتے رہے

ممکن ہے یہ ٹائپ کی غلطی ہو لیکن کیا یہ علماء کے لئے مناسب ہے کہ نظر ثانی کیے بغیر مسودے کی تشہیر کرتے ہیں

اس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اغلاط سے پر ہے جس میں تحقیق کم اور مخالف پر بھڑاس زیادہ ہے

چند سال پہلے ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں اسی قسم کی حماقتوں کا مظاہرہ کیا

دوسری طرف  یہ حیرت انگیز ہے کہ ابن حجر نے ٢٠٠ سے زائد مرتبہ تہذیب التہذیب  میں واقدی کا حوالہ دیا ہے اور خبر کو لیا ہے

الکنی میں محدث دولابی نے ٣٥ مرتبہ اسی سند سے رجال پر کلام کیا ہے

ارشد کمال نے تاریخ بغداد کے حوالے سے محمد بن ابراہیم کو غیر ثقہ قرار دیا ہے جبکہ اس کتاب میں ان پر کوئی جرح منقول نہیں ہے

ابن تیمیہ نے فتووں میں واقدی کو جرح کو رد کیا ہے مثلا راس حسین میں کہا

ومعلوم أن الواقدي نفسه خير عند الناس

اور معلوم ہے کہ بے شک واقدی نفسا لوگوں کے نزدیک خیر والا ہے

ابن ہمام   نے کہا: وهذا تقوم به الحجة عندنا إذا وثقنا الواقدي إلخ [فتح القدير ج 1ص 69 

محدثین نے رجال کے حالات اور پیدائش و وفات میں واقدی کے اقوال پر بھروسہ کیا ہے  اور یھاں بھی ایسا ہی ہے کہ واقدی نے خبر دی کہ زاذان شیعان میں سے تھا واقدی نے یہ خبر دی ہے جرح نہیں کی

مزید علتیں

اس سند میں  عَبد اللهِ بْنُ السائب  پر محدثین کی آراء ہیں

الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم میں ہے

حدثنا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد بن حنبل نا علي – يعني ابن المديني – قال سمعت يحيى – يعني ابن سعيد – قال: أنكر سفيان في حديث عبد الله بن السائب عن زاذان (والأمانة في كل شئ في الوضوء وفي الركوع) قال سفيان: أنا ذهبت بالأعمش إلى عبد الله بن السائب

یحیی بن سعید نے سفیان کی روایت کا انکار کیا حدیث (والأمانة في كل شئ في الوضوء وفي الركوع)  جو عبد  الله بن السائب عن زاذان سے ہے- سفیان نے کہا میں اعمش کے ساتھ  عبد الله بن السائب کے پاس گیا تھا 

یعنی عبد  الله بن السائب عن زاذان  کی سند سے   روایات کو  امام یحیی بن سعید نے رد کیا

خود عبد  الله بن السائب  پر امام احمد کا کوئی قول نہیں ہے نہ جرح ہے نہ تعدیل ملتی ہے

  عبدللہ کی کتاب   العلل ومعرفة الرجال میں الثوري  کی تدلیس پر ہے 

سَمِعت أبي يَقُول قَالَ يحيى بن سعيد مَا كتبت عَن سُفْيَان شَيْئا إِلَّا مَا قَالَ حَدثنِي أَو حَدثنَا إِلَّا حديثين ثمَّ قَالَ أبي حَدثنَا يحيى بن سعيد عَن سُفْيَان عَن سماك عَن عِكْرِمَة ومغيرة عَن إِبْرَاهِيم فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ قَالَا هُوَ الرجل يسلم فِي دَار الْحَرْب فَيقْتل فَلَيْسَ فِيهِ دِيَة فِيهِ كَفَّارَة قَالَ أبي هذَيْن الْحَدِيثين الَّذِي زعم يحيى أَنه لم يسمع سُفْيَان يَقُول فيهمَا حَدثنَا أَو حَدثنِي

عبدللہ کہتے ہیں کہ میرے باپ احمد نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا میں نے سفیان سے کچھ نہ لکھا سوائے اس کے جس میں انہوں نے حدثنی یا حدثنا بولا      –    اور دو حدیثین ہیں (جن میں انہوں نے   تحدیث نہیں کی )-       قَالَ أبي حَدثنَا يحيى بن سعيد عَن سُفْيَان عَن سماك عَن عِكْرِمَة ومغيرة عَن إِبْرَاهِيم فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ قَالَا هُوَ الرجل يسلم فِي دَار الْحَرْب فَيقْتل فَلَيْسَ فِيهِ دِيَة فِيهِ كَفَّارَة  عبد الله نے کہا میرے باپ نے کہا یہ دو حدیثین ہیں جن پر یحیی کا دعوی ہے ان کو سفیان نے نہیں سنا اور ان میں حدثنا اور حدثنی کہا ہے  

دوسری طرف  احمد کا قول تہذیب الکمال میں ہے جس کے مطابق عبد الله بن السائب الكندي، الشيباني، الكوفي سے الثوري  نے صرف تین روایات سنی ہیں

وقال: أحمد بن حنبل: سمع منه الثوري ثلاثة أحاديث. «تهذيب الكمال» 14/ (3289

اب یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ امام سفیان باوجود اس کے کہ انہوں نے حدیث سنی نہیں ہوتی تھی اس پر بھی حدثنی کہہ دیتے تھے – اس علم کے بعد سفیان پر کذب کا فتوی جاری کیوں نہیں ہوا؟ یہ محدثین نے وضاحت نہیں کی کیونکہ اگر راوی نے سنا نہ ہو اور وہ حدثنی کہے تو یہ سراسر جھوٹ ہے

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ہی منسوب دیگر روایات ہیں

مسند احمد میں ہے

 حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سريج قال ثنا عبد الله بن نافع عن بن أبي ذئب عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تتخذوا قبري عيدا ولا تجعلوا بيوتكم قبورا وحيثما كنتم فصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني

معجم الاوسط طبرانی میں ہے

 حدثنا موسى بن هارون ، نا مسلم بن عمرو الحذاء المديني ، نا عبد الله بن نافع ، عن ابن أبي ذئب ، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ، عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « لا تجعلوا بيوتكم قبورا ، ولا تجعلوا قبري عيدا ، وصلوا علي ، فإن صلاتكم تبلغني حيث ما كنتم » «

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر کو میلہ کے لئے اختیار مت کرو اور نہ اپنے گھروں کو قبر بناؤ اور جہاں کہیں بھی تم ہو مجھ پر درود کہو کہ یہ مجھ تک پہنچتا ہے

طبرانی کہتے ہیں

لم يصل هذا الحديث عن ابن أبي ذئب إلا عبد الله بن نافع

صرف عبد الله بن نافع نے اس  روایت کو ابن ابی ذئب سے ملایا ہے

 الہیثمی  مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

  رواه أبو يعلى وفيه عبد الله بن نافع وهو ضعيف

اس کو أبو يعلى نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں  عبد الله بن نافع ہے جو ضعیف ہے

اپ اوپر دونوں سندوں کو دیکھ سکتے ہیں اس میں عبد الله بن نافع  ہے جو ضعیف ہے

اسی سند سے سنن ابوداود میں یہ روایت ہے

 علی  رضی الله عنہ سے منسوب روایات

مسند ابویعلی میں اس قسم کی ایک روایت علی رضی الله عنہ سے بھی منسوب کی گئی ہے

حدثنا موسى بن محمد بن حيان ، حدثنا أبو بكر الحنفي ، حدثنا عبد الله بن نافع ، أخبرني العلاء بن عبد الرحمن قال : سمعت الحسن بن علي بن أبي طالب قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « صلوا في بيوتكم ، لا تتخذوها قبورا ، ولا تتخذوا بيتي عيدا ، صلوا علي وسلموا ، فإن صلاتكم  وسلامكم يبلغني أينما كنتم »

علی نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : گھروں میں نماز پڑھو – ان کو قبر مت کرو – میرے گھر پر میلہ  نہ لگاو – اور مجھ پر سلام کہو اور درود کیونکہ تمہارا درود و سلام مجھ تک اتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو

یہاں بھی عبد الله بن نافع الصائغ  (پیدائش ١٢٠ کے اس پاس – وفات  ٢٠٦ ہجری ) کا تفرد ہے

الکامل از ابن عدی میں ہے امام احمد نے کہا

لم يكن صاحب حديث كان ضيقا فيه

یہ صاحب حدیث نہیں بلکہ اس سے تو اس کا سینہ تنگ ہوتا ہے

امام احمد کے بقول یہ ٤٠ سال امام مالک کے ساتھ رہا لیکن کچھ روایت نہیں کیا جبکہ ابن عدی کہتے ہیں

وعبد الله بن نافع قد روى عن مالك غرائب یہ امام مالک سے عجیب و غریب باتیں روایت کرتا ہے

شیعہ عالم کی کتاب أصحاب الامام الصادق (ع)از  عبد الحسين الشبستري کے مطابق عبد الله بن نافع الصائغ اصحاب محمد بن عبد الله المہدی میں سے ہے  جو اس امت کے المہدی تھے اور ان سے متعلق روایات گھڑی گئیں ہیں جن کا ذکر راقم نے اپنی کتاب میں کیا ہے

ہیثمی کی کتاب  كشف الأستار عن زوائد البزار میں ایک اور سند ہے

حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ اللَّيْثِ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، ثنا عِيسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الطَّالِبِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَصَلُّوا عَلَيَّ وَسَلِّمُوا، فَإِنَّ صَلاتَكُمْ تَبْلُغُنِي» .
قَالَ الْبَزَّارُ: لا نَعْلَمُهُ عَنْ عَلِيٍّ إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَقَدْ رَوَى بِهِ أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ، وَفِيهَا أَحَادِيثُ صَالِحَةٌ، وَهَذَا غَيْرُ مُنْكَرٍ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: «لا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا» .

البزار نے کہا علی سے منسوب ہم اس روایت کو اسی سند سے جانتے ہیں اور اس نے منکر روایات بیان کی ہیں اور اس کی احادیث صالح بھی ہیں اور یہ روایت کئی طرق سے ہے قبر کو میلہ مت کرو اور نہ گھروں کو قبر

سند میں عِيسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مجھول ہے اور علي بن عمر  کو ابن حجر نے مستور قرار دیا ہے

حسن رضی الله عنہ سے منسوب روایات

معجم الکبیر طبرانی کی روایت ہے

 حدثنا أحمد بن رشدين المصري ثنا سعيد بن أبي مريم ثنا محمد بن جعفر أخبرني حميد بن أبي زينب : عن حسن بن حسن بن علي بن أبي طالب عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : حيث ما كنتم فصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني

حسن بن حسن بن علی  نے حسن رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم جہاں بھی ہو درود کہو کیونکہ یہ مجھ تک پہچ رہا ہے

 ہیثمی مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

رواه الطبراني في الكبير والأوسط وفيه حميد بن أبي زينب ولم أعرفه، وبقية رجاله رجال الصحيح.

اس کو طبرانی نے روایت کیا الکبیر میں اور الاوسط میں اس میں حميد بن أبي زينب  ہے جس کو میں نہیں جانتا اور باقی رجال صحیح کے ہیں

حیرت ہے کہ سخاوی کتاب القول البديع ص 153  میں اس سند کو حسن کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں

إنّ فيه من لم يعرف

اس میں راوی ہے جس کو میں نہیں جانتا

کتاب سير أعلام النبلاء از الذھبی میں حسن رضی الله عنہ کے ترجمہ میں ہے

ابْنُ عَجْلاَنَ: عَنْ سُهَيْلٍ، وَسَعِيْدٍ مَوْلَى المُهْرِيِّ، عَنْ حَسَنِ بنِ حَسَنِ بنِ عَلِيٍّ:
أَنَّهُ رَأَى رَجُلاً وَقَفَ عَلَى البَيْتِ الَّذِي فِيْهِ قَبْرُ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَدْعُو لَهُ، وَيُصَلِّي عَلَيْهِ، فَقَالَ لِلرَّجُلِ (1) : لاَ تَفْعَلْ، فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: (لاَ تَتَّخِذُوا بَيْتِيَ عِيْداً، وَلاَ تَجْعَلُوا بُيُوْتَكُم قُبُوْراً، وَصَلُّوا عَلَيَّ حَيْثُ مَا كُنْتُم، فَإِنَّ صَلاَتَكُم تَبْلُغُنِي) (2) .
هَذَا مُرْسَلٌ، وَمَا اسْتَدَلَّ حَسَنٌ فِي فَتْوَاهُ بِطَائِلٍ مِنَ الدَّلاَلَةِ، فَمَنْ وَقَفَ عِنْدَ الحُجْرَةِ المُقَدَّسَةِ ذَلِيْلاً، مُسْلِماً، مُصَلِيّاً عَلَى نَبِيِّهِ، فَيَا طُوْبَى لَهُ، فَقَدْ أَحْسَنَ الزِّيَارَةَ، وَأَجْمَلَ فِي التَّذَلُّلِ وَالحُبِّ، وَقَدْ أَتَى بِعِبَادَةٍ زَائِدَةٍ عَلَى مَنْ صَلَّى عَلَيْهِ فِي أَرْضِهِ، أَوْ فِي صَلاَتِهِ، إِذِ الزَّائِرُ لَهُ أَجْرُ الزِّيَارَةِ، وَأَجْرُ الصَّلاَةِ عَلَيْهِ، وَالمُصَلِّي عَلَيْهِ فِي سَائِرِ البِلاَدِ لَهُ أَجْرُ الصَّلاَةِ فَقَطْ، فَمَنْ صَلَّى عَلَيْهِ وَاحِدَةً، صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْراً، وَلَكِنْ مَنْ زَارَهُ – صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ – وَأَسَاءَ أَدَبَ الزِّيَارَةِ، أَوْ سَجَدَ لِلْقَبْرِ، أَوْ فَعَلَ مَا لاَ يُشْرَعُ، فَهَذَا فَعَلَ حَسَناً وَسَيِّئاً، فَيُعَلَّمُ بِرفْقٍ، وَاللهُ غَفُوْرٌ رَحِيْمٌ.
فَوَاللهِ مَا يَحْصَلُ الانْزِعَاجُ لِمُسْلِمٍ، وَالصِّيَاحُ وَتَقْبِيْلُ الجُدْرَانِ، وَكَثْرَةِ البُكَاءِ، إِلاَّ وَهُوَ مُحِبٌّ للهِ وَلِرَسُوْلِهِ، فَحُبُّهُ المِعْيَارُ وَالفَارِقُ بَيْنَ أَهْلِ الجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ، فَزِيَارَةُ قَبْرِهِ مِنْ أَفَضْلِ القُرَبِ، وَشَدُّ الرِّحَالِ إِلَى قُبُوْرِ الأَنْبِيَاءِ وَالأَوْلِيَاءِ، لَئِنْ سَلَّمْنَا أَنَّهُ غَيْرُ مَأْذُوْنٍ فِيْهِ لِعُمُوْمِ قَوْلِهِ – صَلَوَاتُ اللهُ عَلَيْهِ -: (لاَ تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلاَّ إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ) (3) .
فَشَدُّ الرِّحَالِ إِلَى نَبِيِّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-مُسْتَلْزِمٌ لِشَدِّ الرَّحْلِ إِلَى مَسْجِدِهِ، وَذَلِكَ مَشْرُوْعٌ بِلاَ نِزَاعٍ، إِذْ لاَ وُصُوْلَ إِلَى حُجْرَتِهِ إِلاَّ بَعْدَ الدُّخُوْلِ إِلَى مَسْجِدِهِ، فَلْيَبْدَأْ بِتَحِيَّةِ المَسْجِدِ، ثُمَّ بِتَحِيَّةِ صَاحِبِ المَسْجِدِ – رَزَقَنَا اللهُ وَإِيَّاكُمْ ذَلِكَ آمِيْنَ

ابْنُ عَجْلاَنَ: عَنْ سُهَيْلٍ، وَسَعِيْدٍ مَوْلَى المُهْرِيِّ، عَنْ حَسَنِ بنِ حَسَنِ بنِ عَلِيٍّ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو اس گھر میں رکا جس میں قبر النبی ہے اس سے دعا کر رہا تھا درود کہہ رہا تھا پس ایک رجل نے کہا یہ مت کر کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے میرے گھر کو میلہ مت کرو اور نہ اپنے گھروں کو قبر بنا دو اور مجھ پر درود کہو جہاں بھی تم ہو کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے -یہ مرسل ہے پر اس فتوے میں جو اچھا ہے اس پر اور دلائل سے نشاندھی ہوتی ہے  –  پس جو حجرہ مقدس کے پاس اپنے اپ کو تذلل میں رکھتے ہوئے مسلم بنا   اور درود نبی پر کہتے ہوئے رکا تو اس کے لئے بشارت ہے تو پس یہ بہترین زیارت ہے اور تذلل میں سب سے اجمل ہے اور محبت میں اور جو زائر نبی صلی الله علیہ وسلم پر ان کی زمین پر درود کہے تو یہ عبادت میں زائد ہے تو اس پر اجر بھی زائد ہے اور درود کہنے کا اجر ہے اور تمام شہروں میں جو درود کہیں ان کے تو فقط اجر ہے اور جس نے ایک بار کہا اس پر دس بار سلامتی ہے لیکن جس نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی اور ادب زیارت میں خرابی کی یا قبر کو سجدہ کیا یا کوئی غیر شرعی کام کیا تو یہ کام اچھا و برا ہے پس فرق کو جانو اور الله تو غفور و رحیم ہے – الله کی قسم مسلمان کو جو مشکل ملتی ہے  اور جو وہ روتا ہے اور دیواروں کو چومتا ہے اور بہت روتا ہے تو یہ کچھ نہیں صرف الله اور اس کے رسول سے محبت ہے تو اس محبت کا معیار ہے اور یہ اہل جنت و جہنم کو الگ کرنے والی ہے پس قبر نبی کی زیارت قرب میں افضل ہے اور سواری کسنا انبیاء اور اولیاء کی قبور کے لئے ہے اور اس میں قول نبوی سے ممانعت نہیں ہے کہ اپ نے فرمایا سواری نہ کسی جائے صرف تین مسجدوں کے لئے پس ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے سواری کسنا تو لازم ہے کہ ان کی مسجد کا سفر ہو اور یہ مشروع ہے اس میں نزاع نہیں ہے کیونکہ حجرہ نہیں ملے گا جب تک مسجد میں داخل نہ ہو لیں پس تَحِيَّةِ المَسْجِدِ سے شروعات کرو پھر تَحِيَّةِ صاحب المَسْجِدِ سے شروع کرو الله تم کو اور ہم کو یہ دے امین

الذھبی نے چند جملوں سے ابن تیمیہ کی کتاب کا رد کر دیا

حسین رضی الله عنہ سے منسوب روایات

 مسند ابی یعلی، مصنف ابن ابی شیبہ  میں حسین رضی الله عنہ سے منسوب ایک روایت ہے

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا جعفر بن إبراهيم ، من ولد ذي الجناحين ، قال : حدثنا علي بن عمر ، عن أبيه ، عن علي بن حسين ، أنه رأى رجلا يجيء إلى فرجة كانت عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فيدخل فيها فيدعو ، فنهاه ، فقال : ألا أحدثكم حديثا سمعته من أبي ، عن جدي ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : « لا تتخذوا قبري عيدا ، ولا بيوتكم قبورا ، فإن تسليمكم يبلغني أينما كنتم »

علی بن حسین نے ایک آدمی کو دیکھا جو اس سوراخ تک آیا جو قبر النبی میں ہے اس میں سے قبر میں داخل ہوا اور وہاں دعا کی – پس انہوں نے منع کیا اور کہا میں تم سے حدیث بیان کرتا ہو جو میں نے حسین سے سنی انہوں نے علی سے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کہ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : میری قبر کو میلہ کا مقام مت کرو –اور نہ اپنے گھروں کو قبر کرو  کیونکہ  تمہارا درود مجھ تک پہنچ رہا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو

ہیثمی  مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

رواه أبو يعلى وفيه جعفر بن إبراهيم الجعفري ذكره ابن أبي حاتم ولم يذكر فيه جرحاً وبقية رجاله ثقات

اس کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس میں جعفر بن إبراهيم الجعفري ہے جس کا ذکر ابن ابی حاتم نے کیا ہے اور اس پر کوئی جرح ذکر نہیں کی اور باقی سب ثقات ہیں

ابن حجر لسان المیزان میں کہتے ہیں

فلعل إبراهيم نسبه إلى جده الأعلى جعفر إن كان الخبر لجعفر

اگر یہ خبر جعفر ہی کی ہے تو ممکن ہے کہ جعفر کو اس کے جد اعلی ابراہیم کی طرف نسبت دی گئی ہے

 ساتھ ہی ابن حجر کہتے ہیں

وذكره ابن أبي طي في رجال الشيعة

اور ابن أبي طي نے  جعفر بن إبراهيم کا ذکر رجال شیعہ میں ذکر کیا ہے

اس سند میں زيد بن الحباب بھی ہے جس کو کثیر الخطا  امام احمد نے قرار دیا ہے

سب سے بڑھ کر قبر نبوی میں ایک سوراخ بھی تھا ؟ جس میں سے انسان گزر کر قبر میں داخل ہو جاتا تھا ایسا کسی بھی صحابی نے بیان نہیں کیا- اس سوراخ کو بند کیوں نہیں کیا گیا- یہ روایت منکر ہے

حسن بن حسن بن علی کی روایت

مصنف عبد الرزاق [ص:577]  6726  ٤٨٣٩  اور مصنف ابن ابی شیبہ ٧٥٤٣ کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ: سُهَيْلٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: رَأَى قَوْمًا عِنْدَ الْقَبْرِ فَنَهَاهُمْ وَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَتَّخِذُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَصَلُّوا عَلِيَّ حَيْثُمَا كُنْتُمْ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي»

ابن عجلان نے کہا کہ ایک شخص جس کو سہیل کہا جاتا تھا اس نے حسن بن حسن بن علی سے روایت کیا کہ  حسن بن حسن بن علی نے ایک بار ایک قوم کو دیکھا کہ وہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں  پس انہوں نے منع کیا اور کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے  کہ لوگوں میرے گھر پر میلا نہ لگاو اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بناو ،البتہ جہاں کہیں بھی رہومیرے اوپر درود بھیجتے رہو، اسلئے کہ تمھارا درود مجھ تک یقینا پہنچے گا

روایت مقطوع ہے اس میں  صحابی کا نام نہیں جس سے یہ روایت سنی

ابن تیمیہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم 1/ 298 – 299 و 2/ 656  میں سنن سعید بن منصور کے حوالے سے سند دیتے ہیں

عن عبد العزيز بن محمد الدراوردي أني سهيل بن أبي سهيل قال: رآني الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب عند القبر فناداني وهو في بيت فاطمة يتعشى، فقال: هلم إلى العشاء، فقلت: لا أريده، فقال: ما لي رأيتك عند القبر؟ قلت: سلمت على النبي – صلى الله عليه وسلم -، فقال: إذا دخلت المسجد فسلم. ثم قال: إنّ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال “لا تتخذوا قبري عيدا، ولا تتخذوا بيوتكم مقابر، لعن الله اليهود اتخذوا قبور أنبياءهم مساجد، وصلوا عليّ، فإنّ صلاتكم تبلغني حيث ما كنتم” ما أنتم ومن بالأندلس إلا سواء.

سهيل بن أبي سهيل نے کہا مجھ کو حسن بن حسن نے دیکھا میں قبر کے پاس تھا پس انہوں نے مجھے پکارا اور وہ فاطمہ کے گھر میں رات کا کھانا کھا رہے تھے انہوں نے کہا کھا لو – میں نے کہا مجھے ضرورت نہیں- پوچھا کہ میں نے تم کو قبر کے پاس کیوں دیکھا ؟ میں نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم پر سلام کہہ رہا تھا – انہوں نے کہا جب مسجد میں داخل ہو سلام کہو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر کو میلہ مت بناؤ اور نہ گھروں کو قبریں – الله کی لعنت ہو یہود پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا – مجھ پر درود کہو کیونکہ تم جہاں بھی ہو یہ مجھ تک اتا ہے اور یہ برابر ہے تم میں اور اندلس والوں میں

امام بخاری تاریخ الکبیر میں کہتے ہیں سہیل کا سماع حسن سے نہیں ہے

سهيل عن حسن بن حسن روى عنه محمد بن عجلان منقطع

سہیل جس سے حسن بن حسن نے روایت کیا اور اس سے ابن عجلان نے – منقطع ہے

ابو مسعود الانصاری رضی الله عنہ سے منسوب روایات

  الحاكم  کتاب   المستدرك على الصحيحين میں روایت پیش کرتے ہیں

حدثنا الشيخ أبو بكر بن إسحاق الفقيه ، أنبأ أحمد بن علي الأبار ، ثنا أحمد بن عبد الرحمن بن بكار الدمشقي ، ثنا الوليد بن مسلم ، حدثني أبو رافع ، عن سعيد المقبري ، عن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « أكثروا علي الصلاة في يوم الجمعة ، فإنه ليس أحد يصلي علي يوم الجمعة إلا عرضت علي صلاته »

أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه  سے مروی ہے کہ  نبي صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم کثرت سے جمعہ کے دن درود کہو کتونکہ ایسا کوئی نہیں جو درود  جمعہ کے دن اور وہ فرشتے مجھ تک نہ پہنچا دیں

اس کی سند میں أبو رافع إسماعيل بن رافع  ہے جس کو امام ابن معین نے ضعیف کوئی چیز نہیں کہا ہے اور احمد نے منکر الحدیث قرار دیا ہے –  نسائی نے متروک قرار دیا ہے

انس رضی الله عنہ سے منسوب روایات

حدثنا أحمد قال : نا إسحاق قال : نا محمد بن سليمان بن أبي داود قال : نا أبو جعفر الرازي ، عن الربيع بن أنس ، عن أنس بن مالك ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « من ذكر الله ففاضت عيناه من خشية الله حتى تصيب الأرض دموعه لم يعذبه الله يوم القيامة » وقال النبي صلى الله عليه وسلم : « من صلى علي بلغتني صلاته ، وصليت عليه ، وكتبت له سوى ذلك عشر حسنات » « لم يرو هذين الحديثين عن أبي جعفر إلا محمد بن سليمان

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو الله کا ذکر کرے اور اس کے خوف سے اس کی آنکھ نم ہو جائے حتی کہ آنسو زمیں تک آ جائے تو  اس کو روز محشر عذاب نہ ہو گا  .. اور جس نے مجھ پر درود کہا وہ مجھ تک آ گیا اور میں نے اس کے لئے دعا کی اور اس کے لئے دس نیکییاں لکھ دی گئیں

اس کی سند میں أبو جعفر الرازي  عيسى بن ماهان ہے جس کو عقیلی نے  ليس بالقوي في الحديث قرار دیا ہے – احمد نے بھی کمزور اور مضطرب الحدیث کہا ہے

 قارئیں اپ دیکھ سکتے ہیں تمام اسناد ضعیف ہیں

کتاب ذہن پرستی از مسعود احمد بی ایس سی میں اوپر والی تمام روایات کی تصحیح و تحسین کی گئی ہے دیکھتے ہیں امیر جماعت المسلمین کیا لکھ گئے ہیں

اپ ہماری تحقیق  کو  غیر مقلدین کی تحقیق سے ملا کر دیکھ سکتے ہیں کہ حق کیا ہے

یاد رہے کہ جو الله کا حق ہے وہ اسی کا ہے جو اس کو چھیننے کی کوشش کرے گا وہ جواب دہ ہو گا

سلف کے متعدد  لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں درود و سلام سنتے ہیں یہاں تک کہ  بعض کے نزدیک اگر قبر نبوی کے قریب سلام کہا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور دور سے کہا جائے، تو خود نہیں سنتے، بلکہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ درود و سلام پہنچاتے ہیں۔ اس عقیدے کے قائل بڑے بڑے نام ہیں مثلا ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، النووی وغیرہ – اسی عقیدے کے قائل وہابی علماء ہیں اور آج بھی روضہ رسول کے اوپر سوره الحجرات کی آیت لگی ہے کہ اپنی آواز کو رسول کی آواز سے پست رکھو – اس کا مقصد یہ ہے کہ قبر نبوی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم،  سلام کا جواب دے رہے ہیں جو دھیمی آواز کی وجہ سے سنا  نہیں جا رہا لہذا جو یہاں مجمع لگائے ہوئے ہیں وہ بھی اسی قدر انداز  میں درود و سلام کہیں- اس کے بر عکس نبی   صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں قریب یا دور سے سلام سننا قطعاً ثابت نہیں۔ جو لوگ ایسے عقائد  رکھتے ہیں ان کی اساس بعض ضعیف روایات ہیں-

کتاب الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي میں  شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ) کہتے ہیں

فأخبر أنه يسمع الصلاة من القريب وأنه يبلغ ذلك من البعيد

پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کہ اپ قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور کا پہنچا دیا جاتا ہے

ابن تيمية  ، مجموع الفتاوى ( 27 / 384 ) میں کہتے ہیں

 أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

بے شک اپ صلی الله علیہ وسلم قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں

کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں امام السخاوی کہتے ہیں

 وعنه أيضاً – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي من بعيد أعلمته أخرجه أبو الشيخ في الثواب له من طريق أبي معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عنه ومن طريقه الديلمي وقال ابن القيم أنه غريب قلت: وسنده جيد كما أفاده شيخنا

اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر کے پاس درود پڑھا  گیا تو یہ میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا تو یہ مجھ تک پہنچتا ہے اس کی تخریج ابو الشیخ نے کی ہے أبي معاوية عن الأعمش عن أبي صالح کے طرق سے اور الديلمي کے طرق سے اور ابن قیم نے کہا یہ منفرد ہے میں السخاوی کہتا ہوں اس کی سند جید ہے جیسا فائدہ ہمارے شیخ ابن حجر نے دیا ہے

 جو یہ مانتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم درود نہیں سنتے وہ یہ عقیدہ اختیار کر گئے ہیں کہ درود فرشتے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر پیش کر رہے ہیں – فرقہ پرستوں کے مطابق جب بھی کوئی درود کہتا ہے تو روح نبوی جسد نبوی میں واپس ڈالی جاتی ہے اور پھر امت کا عمل درود و دعا  پیش ہوتا ہے-

کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں امام السخاوی، قبر نبوی میں روح کی واپسی والی روایت پر  کہتے ہیں

وقال شيخنا رواته ثقات، قلت لكن أفرد به يزيد عبد الله بن قسيط براوية له عن أبي هريرة وهو يمنع من الجزم بصحته لأن فيه مقالاً وتوقف مالك فقال في حديث خارج الموطأ ليس بذاك وذكر التقي بن تيمية ما معناه أن رواية أبي داود فيها يزيد بن عبد الله وكأنه لم يدرك

ہمارے شیخ ابن حجر کہتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن میں کہتا ہوں اس میں یزید بن عبد الله بن قسیط کا تفرد ہے جو ابو ہریرہ سے روایت پر ہے اور جزم کے ساتھ اس کی روایت کی صحت کا کہنے پر منع ہے کیونکہ اس پر کلام ہے اور امام مالک کا توقف ہے  اور ایک حدیث جو موطا  میں نہیں ہے اس پر ان کا کہنا ہے کہ یہ لیس بذاک ہے اور ابن تیمیہ نے ذکر کیا اس کی روایت کا جو سنن ابو داود میں اس معنوں میں کہ گویا عبدالله نے ابوہریرہ کو نہیں پایا

یعنی مسلک پرستوں کی ممدوح شخصیت خود کہہ رہی ہیں کہ رد الله علی روحی والی روایت مشکوک ہے

راقم کہتا ہے سخاوی کا قول صحیح ہے لیکن ابن تیمیہ کے حوالے سے جو انہوں نے سمجھا ہے وہ صحیح نہیں کہ وہ اس روایت کو رد کرتے ہیں

سردست یہاں نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات کا جائزہ پیش کیا گیا  ہے  تاکہ اپ اس عقیدہ  سے متعلق روایات میں ضعیف راویوں کی حثیت کو جان سکیں

درود سلام الله تک جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم تک اس کو پہنچانا اصل میں علم غیب کا دعوی کرنا ہے اپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کی زندگی ہی میں معلوم تھا کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے جبکہ قرآن میں ہے  تم ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں- شیعہ راویوں یا شیعہ نواز راویوں  نے اس عقیدہ کو گھڑا تاکہ اس کو پہلے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے قبول کروایا جائے پھر ائمہ کے لیے بھی اس کا دعوی کیا جائے-

اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ امت کا عمل ائمہ پر پیش ہوتا ہے

کتاب الأمالي للطوسي کی روایت ہے

 أخبرنا محمد بن محمد، قال أخبرنا أبو الحسن علي بن بلال المهلبي، قال حدثنا علي بن سليمان، قال حدثنا أحمد بن القاسم الهمداني، قال حدثنا أحمد بن محمد السياري، قال حدثنا محمد بن خالد البرقي، قال حدثنا سعيد بن مسلم، عن داود بن كثير الرقي، قال كنت جالسا عند أبي عبد الله )عليه السلام( إذ قال مبتدئا من قبل نفسه يا داود، لقد عرضت علي أعمالكم يوم الخميس

 داود بن كثير الرقى (مجھول الحال ہے نسائی نے خصائص علی میں روایت لی ہے) نے کہا امام ابو عبد الله نے کہا .. تمہارے اعمال  مجھ پر جمعرات کو پیش ہوتے ہیں 

الکافی میں باب عرض الاعمال على النبي صلى الله عليه وآله والائمة عليهم السلام دیکھا جا سکتا ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن النضر بن سويد، عن يحيى الحلبي، عن عبدالحميد الطائي، عن يعقوب بن شعيب قال: سألت أبا عبدالله عليه السلام عن قول الله عزوجل: ” اعملوا فسيرى الله عملكم ورسوله والمؤمنون ” قال: هم الائمة.

يعقوب بن شعيب نے کہا میں نے امام ابو عبد الله سے قول الله  اعملوا فسيرى الله عملكم ورسوله والمؤمنون  پر سوال کیا- فرمایا اس سے مراد ائمہ ہیں

تفسیر القمی میں ہے

وعن محمد بن الحسن الصفار عن ابي عبدالله عليه السلام قال ان اعمال العباد تعرض على رسول الله صلى الله عليه وآله كل صباح ابرارها وفجارها فاحذروا فليستحيي احدكم ان يعرض على نبيه العمل القبيح، وعنه صلوات الله عليه وآله قال ما من مؤمن يموت او كافر يوضع في قبره حتى يعرض عمله على رسول الله صلى الله عليه وآله وعلى امير المؤمنين عليه السلام

اور  محمد بن الحسن الصفار سے روایت ہے کہ امام ابو عبد الله علیہ السلام نے کہا بے شک  بندوں کا عمل رسول الله صلی الله علیہ و الہ پر پیش ہوتا ہے ہر صبح کو نیکو کاروں اور گناہ گاروں کا پس حیا کرو کہ تمہارا عمل قبیح نبی پر پیش ہو اور اپ صلوات الله عليه وآله نے فرمایا ہے کوئی مرنے والا مومن یا کافر نہیں جو قبر میں ہو  حتی کہ اس کا عمل رسول الله صلی الله علیہ و الہ اور امیر المومننیں علیہ السلام پر پیش نہ ہو

عقیدہ عرض اعمال کا سیاسی پہلو

شیعہ راویوں یا شیعہ نواز رویوں نے اغلبا عرض اعمال کا عقیدہ اس لئے  گھڑا کہ بنو ہاشم نے دور بنو امیہ میں کئی بار خروج کیا اس دوران یہ ثابت کرنے کے لئے کہ مخالف اصل میں مسلمان نہیں بلکہ منافق ہیں اس عقیدہ کا اجراء ہوا کہ یہ کہا جائے کہ امت میں منافق ختم نہیں  ہوئے بلکہ اقتدار نشیں ہو گئے ہیں ان کے خلاف خروج کرنا ہو گا اور یہ بات کہ مخالف منافق ہیں اس کی خبر درود سے مل رہی ہے کہ ان منافقوں کا درود نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش نہیں ہوتا اور ائمہ پر بھی پیش نہیں ہوتا

عرض اعمال کی روایات پر مزید تحقیق یہاں ہے

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2015/11/مصطفی-سراپا-رحمت-پہ-لاکھوں-سلام.pdf

تصوف کی جڑ – حیات فی القبر

ابراہیمی ادیان میں تصوف کی جڑ حیات فی القبر ہے – قبر سے فیض لینا  پریکٹیکل تصوف ہے  اور یہ تبھی ممکن ہے جب صاحب سلوک اس کی منازل طے کرے اور نیکوکار ہو لہذا تصوف کے بنیادی عقائد میں سے ہیں

اول ارواح عالم ارض و سما میں سفر کرتی ہیں

دوم مردے سنتے ہیں

سوم  مردے کلام بھی کر سکتے ہیں

چہارم مردوں سے فیض لیا جا سکتا ہے یعنی ان کو وسیلہ بنا سکتے ہیں چونکہ ان کی ارواح عرش تک جاتی ہیں

تصوف  کے شجر کی جڑیں اصلا ارواح سے متعلق عجیب و غریب عقیدہ میں تھیں کہ حالت نیند میں روح کہیں بھی جا سکتی ہے –  چھٹی صدی اسلامی ہجری کے اختتام تک یہ عقائد پھیل چکے تھے  اور آٹھویں صدی تک ان عقائد کو قبولیت عام مل چکی تھی اگرچہ  بعض احناف متقدمین سماع الموتی کے یکسر خلاف تھے کیونکہ یہ نہ قرآن میں ہے نہ رائےسے اس عقیدہ تک پہنچا جا سکتا ہے – دوسری طرف اہل رائے کے مخالف جو روایت پسند تھے انہوں نے فقہ کے بعد فضائل میں اور عقائد میں بھی ضعیف روایات کو داخل کر دیا تھا

انسانی روح کہیں بھی جا سکتی ہے؟

إس قول کو سب سے پہلے مصنف ابن ابی شیبہ میں عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا

غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ، فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ يُخْلَى بِهِ يَسْرَحُ حَيْثُ شَاءَ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ»

دنیا مومن  کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مومن  مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے

اس کی سند میں يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ کو ابن حبان اور عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے

کتاب كشف الخفاء ومزيل الإلباس از إسماعيل بن محمد بن عبد الهادي الجراحي العجلوني الدمشقي، أبو الفداء (المتوفى: 1162هـ)  میں روایت “الدنيا سجن المؤمن، وجنة الكافر کی بحث میں  العجلوني  لکھتے ہیں حدیث میں ہے

فإذا مات المؤمن تخلى سربه يسرح حيث شاء
”جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔

انہی الفاظ کا ذکر فتاوی رضویہ میں ہے

وھذا لفظ امام ابن المبارك قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض ویتفسح فیھا١[1]۔ولفظ ابی بکر ھکذا الدنیا سجن المومن وجنۃ لکافر فاذا مات المومن یخلی سربہ یسرح حیث شاء

اور یہ روایت امام ابن مبارك کے الفاظ ہیں۔ ت) بیشك دنیا کافر کی جنت اور مسلمان کی زندان ہے، اور ایمان والے کی جب جان نکلتی ہے توا س کی کہاوت ایسی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اب اس سے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتاا ور بافراغت چلتا پھرتا ہے۔(اور روایت ابوبکر کے الفاظ یہ ہیں۔ ت) دنیا مسلمان کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مسلمان مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔

http://www.dawateislami.net/bookslibrary/1454/page/722

مسلک پرست  غیر مقلدین کے اصول پر موقوف صحابی بھی قابل قبول ہے اور اس سے دلیل بنتی ہے مومن کی روح عالم میں اڑتی پھرتی ہیں  لہذا ابن قیم کتاب الروح میں خواب مين ارواح کی ملاقات والی روایات پر کہتے ہیں

فَفِي هَذَا الحَدِيث بَيَان سرعَة انْتِقَال أَرْوَاحهم من الْعَرْش إِلَى الثرى ثمَّ انتقالها من الثرى إِلَى مَكَانهَا وَلِهَذَا قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت

ان احادیث میں ارواح کا عرش سے الثرى  تک  جانے میں سرعت کا ذکر ہے پھر الثرى سے اس روح کے مکان تک جانے کا ذکر ہے اور اسی وجہ سے امام  مالک اور دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ چھوڑی جانے والے روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

ارواح قدسیہ عالم بالا سے مل جاتی ہیں اور تمام عالم شہود ہوتا ہے؟

کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير  از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ)  کے مطابق

قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.

اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور  عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود  دیکھتی ہیں یا بادشاہت کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں

اب کچھ شبھات کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں التباس غیر مقلدین پیدا کرتے ہیں

شبہ نمبر١ : سلف کہتے تھے  قبور انبیاء  سے فیض نہیں لیا جا سکتا

قبور انبیاء سے فیض لینے کے عقیدہ کو امام ابن کثیر نے بھی اپنی کتب میں بیان کیا ہے    اس حوالے سے تفسیر ابن کثیر کا ایک متن پیش کیا جاتا ہے

وقد شرع النبي صلى الله عليه وسلم لأمته : إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه، فيقول المسلم: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل، ولولا ذلك لكان هذا الخطاب منزلة خطاب المعدوم والجماد، والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب وہ قبروں والوں کو سلام کہیں تو انہیں اسی طرح سلام کہیں جس طرح اپنے مخاطبین کو سلام کہتے ہیں۔ چنانچہ سلام کہنے والا یہ کہے : اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِينَ”اے مومنوں کے گھروں (قبروں) میں رہنے والو ! تم پر سلامتی ہو۔“ سلام کا یہ انداز ان لوگوں سے اختیار کیا جاتا ہے جو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سلام مخاطب کو کہا جانے والا سلام نہ ہوتا تو پھر مردوں کو سلام کہنا معدوم اور جمادات کو سلام کہنے جیسا ہوتا۔ سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے۔ ان سے متواتر آثار مروی ہیں کہ میت، قبر پر آنے والے زندہ لوگوں کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔

 [ تفسير ابن كثير : 325/6، بتحقيق سامي بن محمد سلامة، طبع دار طيبة للنشر والتوزيع]

غیر مقلد عالم  ابو یحیی نور پوری کے بقول یہ عبارت الحاقی ہے- مضمون مردے سنتے ہیں لیکن،  میں  لکھتے ہیں

تفسیر ابن کشیر کی یہ عبارت الحاقی ہے جو کہ کسی ایسے ناقص نسخے سے لی گئی ہے جس کا ناسخ نامعلوم ہے، لہذا اس کا کوئی اعتبار ہیں۔ اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں، لہٰذا یہ عبارت ناقابل استدال والتفات ہے۔
◈ ڈاکٹر اسماعیل عبدالعال تفسیر ابن کثیر کے نسخوں کے بارے میں کہتے ہیں :
وأرى من الواجب على من یتصدى لتحقيق تفسير ابن كثير تحقيقا علميا دقيقا، سيما من المآخذ، أن لا يعتمد على نسخة واحدة، بل عليه أن يجمع كل النسخ المخطوطة والمطبوعة، ويوازن بينها مع إثبات الزيادة والنقص، والتحريف والتصحيف.
’’ جو شخص تفسیر ابن کثیر کی دقیق اور علمی تحقیق کرنا چاہے، خصوصاً مختلف مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے، تو میرے خیال میں اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ایک نسخے پر اعتماد نہ کر بیٹھے، بلکہ وہ تمام مخطوط اور مطبوع نسخوں کو جمع کرے، پھر زیادت و نقص اور تحریف و تصحیف کو سامنے رکھتے ہوئے سب نسخوں کا موازنہ کرے۔“ [ابن کثیر و منهجه فی التفسیر، ص : 128]
٭پھر تفسیر ابن کثیر جو سامی بن محمد سلامہ کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، جس کا حوالہ بھی اوپر مذکور ہے، اس میں محقق نے پندرہ نسخوں کو مدنظر رکھا ہے۔ مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد محقق لکھتے ہیں : زيادة منْ ت، أیعنی یہ عبارت نسخہ المحمدیۃ جو ترکی میں ہے، میں مذکور ہے۔ اس نسخے کا ناسخ (لکھنے والا) نامعلوم ہے۔ نیز یہ عبارت نسخہ ولي الله بن جار اللہ میں موجود ہے۔ اس کا ناسخ علی بن یعقوب جو کہ ابن المخلص کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ یوں یہ دونوں نسخے قابل اعتماد نہ ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر جو پانچ محققین کی تحقیق کے ساتھ پندرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے، اس کی پہلی طبع نسخہ أزھریۃ اور نسخہ دارالكتب کے تقابل کے ساتھ چھپی ہے۔ اس میں یہ عبارت نہیں ہے۔ یہ بات بھی اس عبارت کے مشکوک ہونے کی واضح دلیل ہے۔

راقم کہتا ہے کاش ایسا ہی ہوتا لیکن اب مزید دیکھیں کہ ابن کثیر  نے نہ صرف تفسیر لکھی بلکہ دیگر کتب بھی لکھی ہیں

ابن کثیر اپنی کتاب : البداية والنهاية ج ٧ ص ٩١ اور ٩٢  میں روایت نقل کرتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ اللَّهَ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنام فقال: ايت عمر فأقره منى السلام وأخبرهم أنهم مسقون، وقل له عليك بالكيس الْكَيْسَ. فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَ عُمَرَ فَقَالَ: يَا رب ما آلوا إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.

ابن-کثیر

إس كي سند ضعیف ہے اعمش مدلس عن سے روایت کر رہا ہے جبکہ امام مالک سے عمر رضی الله عنہ تک سند نہیں ہے ابو صالح غیر واضح ہے افسوس ابن کثیر اتنی علتوں کے باوجود اس کو صحیح کہتے ہیں جبکہ قبر پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سننا ثابت نہیں

لہذا ابن کثیر کی بد عقیدگی کی نشانی ہے

شبہ نمبر ٢ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں بولتے

مردے نہیں بولتے پر ابو یحیی نور پوری  مضمون مردے سنتے ہیں لیکن میں  لکھتے ہیں

عہد فاروقی میں ایک نوجوان تھا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے بہت خوش تھے۔ دن بھر مسجد میں رہتا، بعد عشاء باپ کے پاس جاتا۔ راہ میں ایک عورت کا مکان تھا۔ وہ اس پر عاشق ہو گئی۔ ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی مگر جوان نہیں دیکھتا تھا۔ ایک رات قدم نے لغزش کی، ساتھ ہو لیا۔ دروازے تک گیا۔ جب اندر جانا چاہا، اللہ تعالیٰ یاد آیا اور بے ساختہ یہ آیت کریمہ زبان سے نکلی : ﴿إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ﴾ آیت پڑھتے ہی غش کھا کر گرا۔ عورت نے اپنی کنیر کے ساتھ اٹھا کر اس کے دروازے پر پھینک دیا۔ باپ منتظر تھا۔ آنے میں دیر ہوئی۔ دیکھنے نکلا۔ دروازے پر بے ہوش پڑا پایا۔ گھر والوں کو بلا کر اندر اٹھوایا۔ رات گئے ہوش آئی۔ باپ نے حال پوچھا: کہا: خیریت ہے۔ کہا: بتا دے۔ ناچار قصہ بیان کیا۔ باپ بولا: جان پدر ! وہ آیت کون سی ہے ؟ جوان نے پھر پڑھی۔ پڑھتے ہی غش آیا۔ حرکت دی، مردہ حالت میں پایا۔ رات ہی نہلا کر کفنا کر دفن کر دیا۔ صبح کو امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خبر پائی۔ باپ سے تعزیت کی اور خبر نہ دے کی شکایت فرمائی۔ عرض کی : اے امیر المؤمنین ! رات تھی۔ پھر امیر المؤمنین ساتھیوں کو لے کر قبر پر گئے۔ فقال عمر : يا فلان ! ولمن خاف مقام ربه جنتان . فأجابه الفتي من داخل القبر : يا عمر قد أعطانيهما ربى يا عمر ! ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے فلاں ! جو شخص اپنے رب کے سامنے جوابدہی سے ڈر جائے، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا : اے عمر ! اللہ تعالیٰ نے وہ دونوں جنتیں مجھے عنایت فرما دی ہیں۔ [ ذم الهوي لابن الجوزي : 252-253، تاريخ دمشق لابن عساكر : 450/45 ]
تبصرہ : 
٭اس واقعہ کی سند باطل ہے، کیونکہ :
اس میں یحییٰ بن ایوب غافقی مصری (م : 168ھ) کہتے ہیں :
سمعت من يذكر انهٔ كان فى زمن عمر . . . 
”میں نے ایک بیان کرنے والے کو سنا کہ عہد فاروقی میں۔۔۔“
یوں یہ سند سخت ”معضل“ ہے۔ نہ جانے وہ قصہ گو کون تھا اور اس نے کہاں سے یہ حکایات سنی تھی ؟
٭ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ایک قول کی سند بیان کرتے ہوئے کہا:
سمعت بعض أصحاب عبد الله (ابن المبارك ) . . . 
”میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا۔۔۔“ [ مقدمة صحيح مسلم : 19 ]
٭ تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے :
٭ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) کہتے ہیں :
سمعت بعض أصحاب عبد الله، هذا مجهول، ولا يصح الاحتجاج به .
”امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک کے ایک شاگرد کو سنا ہے۔ یہ شاگرد مجہول ہے اور اس سند سے دلیل لینا صحیح نہیں۔“ [ شرح صحيح مسلم : 19 ]
مبہم اور نامعلوم لوگوں کی روایات پر اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد رکھنا جائز نہیں۔

راقم کہتا ہے نور پوری کی بات صحیح ہے – افسوس عبد الوہاب النجدی کے نزدیک نورپوری ایک جاہل ہیں

عبد الوہاب النجدی نہ صرف سماع الموتی کے قائل تھے وہ مردوں کے کلام کے بھی قائل تھے اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں لکھتے ہیں اور ترجمہ بریلوی عالم کرتے ہیں

تاریخ دمشق میں ابن عساکر نے عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد بن حرب أبو الحسن الكوفي  کے ترجمہ میں اس روایت کو پیش کیا ہے

سند میں  يحيى بن أيوب الخزاعي مجھول ہے جو عمر رضی الله عنہ کا دور کسی مجھول سے نقل کر رہا ہے جس کا اس نے نام تک نہیں لیا

حیرت ہے کہ اس قسم کی  بے سر و پا روایات النجدی لکھتے ہیں اور دو دو عالم تحقیق میں شامل ہونے کے باوجود ایک بار بھی نہیں کہتے کہ یہ منقطع  روایت ہے مجہولوں کی روایت کردہ ہے

شبہ نمبر ٣ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں سنتے

ابن تیمیہ فتاوی الکبریٰ ج ٣ ص ٤١٢ میں لکھتے ہیں

فَهَذِهِ النُّصُوصُ وَأَمْثَالُهَا تُبَيِّنُ أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ فِي الْجُمْلَةِ كَلَامَ الْحَيِّ وَلَا يَجِبُ أَنْ يَكُونَ السَّمْعُ لَهُ دَائِمًا ، بَلْ قَدْ يَسْمَعُ فِي حَالٍ دُونَ حَالٍ كَمَا قَدْ يُعْرَضُ لِلْحَيِّ فَإِنَّهُ قَدْ يَسْمَعُ أَحْيَانًا خِطَابَ مَنْ يُخَاطِبُهُ ، وَقَدْ لَا يَسْمَعُ لِعَارِضٍ يَعْرِضُ لَهُ ، وَهَذَا السَّمْعُ سَمْعُ إدْرَاكٍ ، لَيْسَ يَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ جَزَاءٌ ، وَلَا هُوَ السَّمْعُ الْمَنْفِيُّ بِقَوْلِهِ : { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى } فَإِنَّ الْمُرَادَ بِذَلِكَ سَمْعُ الْقُبُورِ وَالِامْتِثَالِ 

پس یہ نصوص اور اس طرح کی امثال واضح کرتی ہیں کہ بے شک میّت زندہ کا کلام سنتی ہے اور یہ واجب نہیں آتا کہ یہ سننا دائمی ہو بلکہ یہ سنتی ہے حسب حال جیسے  زندہ سے پیش اتا ہے پس بے شک کبھی کھبی یہ سنتی ہے مخاطب کرنے والے کا خطا ب، .. اور یہ سنا ادرک کے ساتھ ہے  اور یہ سننا الله کے قول  { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى}  کے منافی نہیں جس سے مراد قبروں اور الِامْتِثَالِ  (تمثیلوں) کاسننا ہے

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى  ج ٤ ص ٢٧٣ پر لکھتے ہیں

أَمَّا سُؤَالُ السَّائِلِ هَلْ يَتَكَلَّمُ الْمَيِّتُ فِي قَبْرِهِ فَجَوَابُهُ أَنَّهُ يَتَكَلَّمُ وَقَدْ يَسْمَعُ أَيْضًا مَنْ كَلَّمَهُ؛ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إنَّهُمْ يَسْمَعُونَ قَرْعَ نِعَالِهِمْ

اور سائل کا سوال کہ کیا میت   قبر میں کلام کرتی ہے؟ پس اس کا جواب ہے بے شک وہ بولتی ہے اور سنتی ہے جو اس سے کلام کرے ، جیسا صحیح میں نبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے مروی ہے کہ بے شک وہ جوتوں کی چآپ سنتی ہے

ابن تیمیہ ج ١ ص ٣٤٩ پر لکھتے ہیں

وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَذَا مُوَافِقٌ لِهَذَا فَكَيْفَ يَدْفَعُ ذَلِكَ ؟ وَمِنْ الْعُلَمَاءِ مَنْ قَالَ : إنَّ الْمَيِّتَ فِي قَبْرِهِ لَا يَسْمَعُ مَا دَامَ مَيِّتًا كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ

اور بے شک صحیحین سے یہ ثابت ہے اور دیگر کتب سے بے شک میت جوتوں کی چاپ سنتی ہے جب دفنانے والے پلٹتے ہیں پس یہ موافق ہے اس (سننے ) سے لہذا اس کو کیسے رد کریں؟ اور ایسے علماء بھی ہیں جو کہتے ہیں : بے شک میت قبر میں نہیں سنتی جب تک کہ وہ مردہ ہے جیسے کہ عائشہ  (رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا

 

البانی الایات البینات از نعمان الالوسی میں تعلیق میں لکھتے ہیں

وأما حديث ” من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته ” فهو موضوع كما قال شيخ الإسلام ابن تيمية في ” مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 ) وقد خرجته في ” الضعيفة ” ( 203 ) . ولم أجد دليلا على سماعه صلى الله عليه وسلم سلام من سلم عند قبره وحديث أبي داود ليس صريحا في ذلك فلا أدري من أين أخذ ابن تيمية قوله ( 27 / 384 ) : أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

اور جہاں تک حدیث جس نے میری قبر پر درود پڑھا اس کو میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے کا تعلق ہے تو پس وہ  گھڑی ہوئی ہے  جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 )  میں کہا اور اس کی تخریج میں نے الضعيفة ” ( 203 ) میں کی اور مجھے اس کی دلیل نہیں ملی کہ نبی صلى الله عليه وسلم قبر کے پاس پڑھے جانے والا درود و سلام سنتے ہیں اور ابو داود کی حدیث اس میں واضح نہیں اور نہیں معلوم کہ ابن تیمیہ نے کہاں سے پکڑ لیا قول ( 27 / 384 )  کہ نبی صلى الله عليه وسلم قریب سے پڑھے جانے والا سلام سنتے ہیں

 

عصر حاضر میں جب ان عقائد پر ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے تیشہ چلایا تو نصرت ائمہ کی خاطر علماء کی وہ جماعت جو فکری انتشار کا شکار ہیں انہوں نے انہی شخصیات کا دفاع کرنے کی ٹھانی  لیکن چلتے چلتے  اس کا اقرار کیا کہ امام ابن تیمیہ اور ابن قیم اور شاہ ولی الله کے قلم سے تصوف کے شجر کی آبیاری ہوتی رہی ہے

غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں لکھتے ہیں

دوسری طرف علماء کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے التباس پیدا کرنے کی راہ اپنائی چانچہ  زبیر علی زئی لکھتے ہیں

http://www.tohed.com/2014/09/blog-post_80.html

میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کی کتابوں میں شرک اکابر کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، تاہم ابن القیم کی ثابت شدہ “کتاب الروح” اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔ یہ دونوں حضرات مردوں سے مدد مانگنے کے قائل نہیں تھے ، رہا مسئلہ سماع موتیٰ کا تو یہ سلف صالحین کے درمیان مختلف فیہا مسئلہ ہے ،اسے کفر و شرک سمجھنا غلط ہے

سوال یہ ہے کہ  اگر یہ مسئلہ کفر و شرک کا نہیں تو اس پھر علمی ذوق کی تسکین کے لئے کیا مردے سنتے ہیں کیوں لکھی گئی – اس مسئلہ پر تو  پر بحث ہی  بےکار ہے- اسی قبیل کے ایک دوسرے عالم   خواجہ محمد قاسم کی بھی یہی رائے ہے کہ  سماع الموتی کا مسئلہ شرک کا چور دروازہ نہیں وہ کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں

مسعود احمد ذہن پرستی میں لکھتے ہیں

سماع الموتی کے قائلین علماء کا دفاع کرتے ہوئے ایک اہل حدیث عالم لکھتے ہیں

صرف اتنی بات ہے: ﴿إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰ﴾اور ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ﴾ جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کے اسماع موتی (مردوں کو سنانے ) کی نفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ درج بالا آیات سے ایک آیت کریمہ میں آیا ہے: ﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء ﴾ کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ، سنادیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اسماع موتی کا اثبات ہے ، جن مردوں کو اللہ تعالیٰ چاہے سنا دے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہ سنیں تو اللہ تعالیٰ کا سنانا چہ معنی دارد؟ تو جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بعض موتی بعض اوقات بعض چیزیں اللہ تعالیٰ کے سنانے سے سن لیتے ہیں، جیسے خفق نعال اور قلیب بدر والی احادیث میں مذکور ہوا تو ایسے لوگ نہ قرآنِ مجید کی کسی آیت کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی حدیث کا۔ البتہ جو لوگ یہ نظریہ اپنائے ہوئے ہیں کہ کوئی مردہ کسی وقت بھی کوئی چیز نہیں سنتا، حتی کہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہیں سنتا تو انہیں غور فرمانا چاہیے کہیں آیت:﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء﴾اور احادیث خفق نعال اور احادیث قلیب بدر کا انکار تو نہیں کر رہے؟

مسئلہ الله کی قدرت کا نہیں اس کے قانون کا ہے  ان اہل حدیث عالم کی بات جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے بریلوی مکتب فکر کی بات شروع ہوتی ہے

مردے سنتے ہیں ! یہی تو تصوف کی طرف پہلا قدم ہے- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا نے اس بات کا صریح انکار کیا کہ مردے سنتے ہیں اور ابن عمر رضی الله عنہ نے بھی   جب ابن زبیر رضی الله عنہ کی لاش پر اسماء رضی الله عنہا کو  روتے دیکھا تو کہا ارواح اللہ کے پاس ہیں

سننے کے لئے عود روح ضروری سمجھا جاتا ہے لہذا اس سے متعلق البراء بن عازب رضی الله عنہ سے منسوب کردہ شیعہ زاذان کی منکر روایت کا دفاع کیا جاتا ہے

 

شبہ نمبر ٤ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں دیکھتے

غیر مقلد عالم ابو یحیی نور پوری  سوال کا جواب دیتے ہیں کہ مردے نہیں دیکھتے

https://www.youtube.com/watch?v=mCeQVoz26Q0

اگر ان کا بولنا دیکھنا دنیا سے تعلق رکھتا ہے تو ان کے پاس رشتہ دار نئے نئے کپڑے پہن کر جائیں …. عقیدہ صرف سننے کا رکھا جاتا ہے

ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ

اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے

كتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم للإمام ابن تيميه ج ٢ ص ٢٦٢  دار عالم الكتب، بيروت، لبنان میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

فأما استماع الميت للأصوات، من القراءة أو غيرها – فحق.

پس میت کا آوازوں کو،  جیسے قرات اور دیگر کا سننا  حق ہے.

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ٢٨ ص ١٤٧ میں کہتے ہیں

وَقَالَ: {أَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ. فَقَالُوا: كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْك؟ وَقَدْ أَرِمْت أَيْ بَلِيتَ. قَالَ إنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ} فَأَخْبَرَ أَنَّهُ يَسْمَعُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَأَنَّهُ يَبْلُغُهُ ذَلِكَ مِنْ الْبَعِيدِ.

رسول الله نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے دن درود  کہو اور جمعہ کی رات  کیونکہ تمہارا درود مجھ  پر پیش ہوتا ہے – اصحاب نے کہا اپ پر کیسے پیش ہوتا ہے ؟ جبکہ اپ تو مٹی ہو جائیں گے ؟ فرمایا الله نے زمیں پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کہ اس قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا پہنچا دیا جاتا ہے 

كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت  کے مطابق امام احمد کہتے تھے

كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس

وہ  (امام احمد)کہا کرتے تھے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے

عائشہ رضی الله عنہا کے مسلسل پردہ والی روایت  سے دلیل لیتے ہوئے تھذیب الکال کے مولف  امام المزی کہا کرتے تھے

قال شيخنا الحافظ عماد الدين بن كثير ووجه هذا ما قاله شيخنا الإمام أبو الحجاج المزي أن الشهداء كالأحياء في قبورهم و هذه أرفع درجة فيهم

حافظ ابن کثیر کہتے ہیں اسی وجہ  سے ہمارے شیخ المزی کہتے ہیں کہ شہداء  اپنی قبروں میں زندوں کی طرح ہیں اور یہ ان کا بلند درجہ ہے

الإجابة فيما استدركته عائشة على الصحابة للإمام الزركشي 

منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى (المتوفى: 1051هـ)  اپنی کتاب كشاف القناع عن متن الإقناع  میں لکھتے ہیں

قَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ: وَاسْتَفَاضَتْ الْآثَارُ بِمَعْرِفَةِ الْمَيِّتِ بِأَحْوَالِ أَهْلِهِ وَأَصْحَابِهِ فِي الدُّنْيَا وَأَنَّ ذَلِكَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ وَجَاءَتْ الْآثَارُ بِأَنَّهُ يَرَى أَيْضًا وَبِأَنَّهُ يَدْرِي بِمَا فُعِلَ عِنْدَهُ وَيُسَرُّ بِمَا كَانَ حَسَنًا وَيَتَأَلَّمُ بِمَا كَانَ قَبِيحًا وَكَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُولُ ” اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِك أَنْ أَعْمَلَ عَمَلًا أُجْزَى بِهِ عِنْدَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَوَاحَةَ وَكَانَ ابْنَ عَمِّهِ وَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ عِنْدَ عَائِشَةَ كَانَتْ تَسْتَتِرُ مِنْهُ، وَتَقُولُ ” إنَّمَا كَانَ أَبِي وَزَوْجِي فَأَمَّا عُمَرُ فَأَجْنَبِيٌّ ” وَيَعْرِفُ الْمَيِّتُ زَائِرَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَهُ أَحْمَدُ.

ابن تیمیہ کہتے ہیں اور جو اثار ہیں ان سے معلوم ہوتا ہےکہ میت اپنے احوال سے اور دنیا میں اصحاب سے با خبر ہوتی ہے اور اس پر (زندوں کا عمل) پیش ہوتا ہے اور وہ دیکھتی اور جانتی ہے جو کام اس کے پاس ہو اور اس میں سے جو اچھا ہے اس پر خوش ہوتی اور اس میں سے جو برا ہو اس پر الم محسوس کرتی ہے اور ابو الدرداء کہتے تھے اے الله میں پناہ مانگتا ہوں اس عمل سے جس سے میں عبد الرحمان بن رَوَاحَةَ  کے آگے شرمندہ ہوں اور وہ ان کے چچا زاد تھے اور جب عمر دفن ہوئے تو عائشہ ان سے پردہ کرتیں اور کہتیں کہ یہ تو میرے باپ اور شوہر تھے لیکن عمر تو اجنبی ہیں اور امام احمد کہتے ہیں کہ میت زائر کو جمعہ کے دن طلوع سورج سے پہلے پہچانتی ہے

البهوتى حنابلہ کے مشھور امام ہیں

الغرض ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ  کی  بات صحیح ہے کہ سلف امت کے عقائد میں  نصوص کی مخالفت تھی اور ان عقائد کو اپنایا گیا جو تھے ہی غلط اور مقصد ان کا حیات فی القبر کا اثبات تھا

حیرت اس امر پر ہے کہ جب غیر مقلدین کے نزدیک بھی یہ عقائد درست نہیں تو پھر ان  پر بطل پرستی کیوں طاری ہے ؟

دوغلا پن

ایک اسلامی غیر مقلد فورم والوں کا کہنا ہے کہ سلام پر روح لوٹائے جانے والی روایت حسن ہے لنک اور راوی صحیح مسلم کا ہے لنک

اسی فورم پر یہی عالم کہتے ہیں کہ روایت ضعیف ہے لنک

پہلے کہا گیا تھا کہ ویسے یاد رہے صحیح مسلم کے راوی کو ۔۔ضعیف ۔۔قرار دینا کوئی مذاق نہیں لیکن بعد میں یہ مذاق زبیر علی زئی سے منسوب کیا گیا ہے

اذکار و تعویذ

عن عایشه ما جلس رسول الله مجلسا قط ولا تلا قرانا ولا صلی صلاة الا ختم ذالک بکلمات
فقلت یا رسول الله اراک ما تجلس مجلسا و لا تتلو قرانا و لا لصلی صلاة الا حتمتت بهولاءالکلمات؟
قال نعم من قال خیرا ختم له طابع علی ذالک الخیر و من قال شرا له کفارة
سبحانک الللهم و بحمدک اشهد ان لا اله إلا انت و اسغفروک و اتوب الیک
النسایی فی السنن الکبرا و قال ابن حجر و البانی اسناده صحیح
کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

کتاب عمل میں نسائی نے اس کو روایت کیا ہے
أخبرنَا مُحَمَّد بن سهل بن عَسْكَر قَالَ حَدثنَا ابْن أبي مَرْيَم قَالَ أخبرنَا خَلاد بن سُلَيْمَان أَبُو سُلَيْمَان قَالَ حَدثنِي خَالِد بن أبي عمرَان عَن عُرْوَة بن الزبير عَن عَائِشَة قَالَت
مَا جلس رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مَجْلِسا قطّ وَلَا تلى قُرْآنًا وَلَا صلى صَلَاة إلاّ ختم ذَلِك بِكَلِمَات قَالَت فَقلت يَا رَسُول الله أَرَاك مَا تجْلِس (مَجْلِسا) آح وَلَا تتلو قُرْآنًا وَلَا تصلى صَلَاة إلاّ ختمت بهؤلاء الْكَلِمَات قَالَ
نعم من قَالَ خيرا ختم لَهُ طَابع على ذَلِك الْخَيْر وَمن قَالَ شرا كنَّ لَهُ كَفَّارَة سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِك لَا إِلَه إِلَّا أَنْت أستغفرك وَأَتُوب إِلَيْك

اس روایت کو البانی نے حسن کہا ہے

خالد بن ابی عمران کی عروہ بن زبیر سے یہ واحد روایت ہے
جو ایک عجیب بات ہے کہ عروہ بن زبیر جن کے پاس کثیر معلومات تھیں انہوں نے ان کو عروہ سے نہیں لیا اور یہ دعا ملی جس کو صرف یہ روایت کرتے ہیں
کوئی اور روایت نہیں کرتا

پھر یہ دعا روایت کے مطابق ہر مجلس میں رسول الله پڑھتے تھے تو کوئی صحابی اس کو روایت نہیں کرتا

راقم کہتا ہے یہ شواہد ثابت کرتے ہیں کہ یہ روایت مظبوط نہیں ہے

جواب

صدق اللہ العظیم کہنا بدعت ہے کیونکہ یہ کسی روایت میں نہیں ملا صرف ایک روایت میں قرآن ایک صحابی کے پڑھنے پر نبی صلی الله علیہ وسلم کا (حسبک ) کافی ہے کہنا ملتا ہے

ہاتھ پر تسبیح پڑھنے والی روایت صلوت کے بعد حدیث کی کس بک.میں یے اور وہ روایت جس سے تسبیح یا دانوں پت ہڑھنے کی دلیل دیتے ہیں وہ بھی پلیز بیان کر دیجیے

جواب

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عُبيدُ الله بنُ عمر بن ميسرة ومحمد بن قُدامة في آخرين، قالوا: حدَّثنا عثَّامٌ، عن الأعمش، عن عطاء بن السائب، عن أبيه
عن عبد الله بن عمرو، قال: رأيتُ رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – يعقِدُ التسبيحَ. قال ابنُ قدامة: بيمينه
ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے تسبیح گنی اور ابن قدامہ نے کہا سیدھے ہاتھ پر

ابن قدامہ کی تشریح ان کی ذاتی رائے ہے کیونکہ اس کے باقی طرق میں ایسا کہیں نہیں کہ یہ تسبیح کس طرح گنی گئی
ابن قدامہ نسائی اور ابو داود کے شیخ ہیں

ہاتھ پر تسبیح کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے

البتہ مروجہ تسبیح جو دانوں کی مالا پر ہوتی ہے یہ ایک نصرانی روایت ہے لہذا اس کو استمعال نہ کرنا بہتر ہے

سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمٌ وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ، مَوْلَى صَفِيَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ صَفِيَّةَ، تَقُولُ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيَّ أَرْبَعَةُ آلَافِ نَوَاةٍ أُسَبِّحُ بِهَا، قَالَ: «لَقَدْ سَبَّحْتِ بِهَذِهِ، أَلَا أُعَلِّمُكِ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَبَّحْتِ؟» فَقُلْتُ: بَلَى عَلِّمْنِي. فَقَالَ: ” قُولِي: سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ خَلْقِهِ “: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ صَفِيَّةَ [ص:556] إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هَاشِمِ بْنِ سَعِيدٍ الكُوفِيِّ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمَعْرُوفٍ وَفِي البَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

ام المؤمنین صفیہ بنت حییؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ، میرے پاس چار ہزار کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر میں تسبیح پڑھا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حیی کی بیٹی! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: ان گٹھلیوں پر میں تسبیح پڑھ رہی ہوں۔
البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی میں ہے
– حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الفَرَجِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الحَارِثِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوَاةٌ، أَوْ قَالَ: حَصَاةٌ تُسَبِّحُ بِهَا، فَقَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا [ص:563] أَوْ أَفْضَلُ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ».
سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک صحابیہ کے پاس گیا جن کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی ہوئی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں

البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے یعنی ان کے دور میں اس سے دلیل لی گئی

وہ روایات جن میں عمر رضی اللہ عنہ کا سر درد میں بسم اللہ. … کا تعویز ٹوپی میں رکھنے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا دریائے نیل میں تعویز ڈالنے عائشہ رضی اللہ عنھا کا تعویز کو جائز سمجھنے والی روایت پلیز حوالے کے ساتھ تحقیق چاہیے

جواب

فخر الدین رازی (المتوفى: 606هـ) نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب ایک واقعہ لکھا

كتب قيصر إلى عمر رضي الله عنه أن بي صداعا لا يسكن فابعث لي دواء، فبعث إليه عمر قلنسوة فكان إذا وضعها على رأسه يسكن صداعه، وإذا رفعها عن رأسه عاوده الصداع، فعجب منه ففتش القلنسوة فإذا فيها كاغد مكتوب فيه: بسم الله الرحمن الرحيم.
کہ روم کے بادشاہ قیصر نے جناب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ،میرے سر میں درد رہتا ہے ،اس کیلئے کوئی دوا بھیجئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ٹوپی اس کو بھیجی قیصر جب وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھتا ،اس کے سر کا درد ٹھیک ہو جاتا ،،جب ٹوپی اتارتا درد پھر شروع ہوجاتا ،،اس کو بڑا تعجب ہوا ،اس نے ٹوپی کو کھنگالا ،تو اس میں ایک کاغذ ملا جس پر ۔۔بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔ لکھی تھی ۔

اس کا ذکر روح البيان المؤلف: إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي , المولى أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ) میں بھی ہے
وكتب قيصر ملك الروم الى عمر رضى الله عنه ان بي صداعا لا يسكن فابعث الى دواء ان كان عندك فان الأطباء عجزوا عن المعالجة فبعث عمر رضى الله عنه قلنسوة فكان إذا وضعها على رأسه سكن صداعه وإذا رفعها عن رأسه عاد صداعه فتعجب منه ففتش في القلنسوة فاذا فيها كاغد مكتوب عليه بسم الله الرّحمن الرّحيم

اللباب في علوم الكتاب المؤلف: أبو حفص سراج الدين عمر بن علي بن عادل الحنبلي الدمشقي النعماني (المتوفى: 775هـ) میں بھی ہے
كتب قَيْصر إِلَى عمر – رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ – أَن بِي صداعا لَا يسكن، فَابْعَثْ لي دَوَاء، فَبعث إِلَيْهِ عمر قلنسوة، فَكَانَ إِذا وَضعهَا على رَأسه سكن صداعه، وَإِذا رَفعهَا عَن رَأسه عَاد الصداع، فتعجب مِنْهُ ففتش القلنسوة، فَإِذا فِيهَا مَكْتُوب ” بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم ” [قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام: ” من تَوَضَّأ وَلم يذكر اسْم الله تَعَالَى كَانَ طهُورا لتِلْك الْأَعْضَاء، وَمن تَوَضَّأ وَذكر اسْم الله تَعَالَى كَانَ طهُورا لجَمِيع بدنه

اس کی سند نہیں ہے
————-

نیل میں عمر رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے پرزہ یا بطاقہ ڈالنے کا واقعہ کتاب العظمة از أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ) مذکور ہے کہ مصریوں نے عمرو بن العاص سے کہا کہ آج ٢١ کی رات ہے شہر خالی ہو گا ایک کنواری کو نیل کی بھینٹ چڑھا یا جائے گا عمرو نے عمر کو لکھ بھیجا جواب آیا ہے قرہ نیل میں ڈال دو

حَدَّثَنَا أَبُو الطَّيِّبِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ أُتِيَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ حِينَ دَخَلَ يَوْمٌ مِنْ أَشْهُرِ الْعَجَمِ فَقَالُوا: أَيُّهَا الْأَمِيرُ، إِنَّ لِنِيلِنَا هَذَا سُنَّةٌ لَا يَجْرِي إِلَّا بِهَا، فَقَالَ [ص:1425] لَهُمْ: «وَمَا ذَاكَ؟» قَالُوا: إِذَا كَانَ إِحْدَى عَشْرَةَ لَيْلَةً تَخْلُو مِنْ هَذَا الشَّهْرِ، عَمَدْنَا إِلَى جَارِيَةٍ بِكْرٍ بَيْنَ أَبَوَيْهَا، فَأَرْضَينَا أَبَوَيْهَا، وَجَعَلْنَا عَلَيْهَا مِنَ الثِّيَابِ أَفْضَلَ مَا يَكُونُ، ثُمَّ أَلْقَيْنَاهَا فِي هَذَا النِّيلِ. فَقَالَ لَهُ عَمْرُو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” إِنَّ هَذَا لَا يَكُونُ أَبَدًا فِي الْإِسْلَامِ، وَإِنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ، فَأَقَامُوا يَوْمَهُمْ، وَالنِّيلُ لَا يَجْرِي قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، حَتَّى هَمُّوا بِالْجِلَاءِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَمْرٌو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِذَلِكَ، فَكَتَبَ أَنْ قَدْ أَصَبْتَ بِالَّذِي فَعَلْتَ، وَإِنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ، وَبَعَثَ بِطَاقَةً فِي دَاخِلِ كِتَابِهِ، وَكَتَبَ إِلَى عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «إِنِّي قَدْ بَعَثْتُ إِلَيْكَ بِطَاقَةً فِي دَاخِلِ كِتَابِي إِلَيْكَ، فَأَلْقِهَا فِي النِّيلِ» ، فَلَمَّا قَدِمَ كِتَابُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخَذَ الْبِطَاقَةَ فَفَتَحَهَا، فَإِذَا فِيهَا: مِنْ عَبْدِ اللَّهِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، إِلَى نِيلِ أَهْلِ مِصْرَ، أَمَّا بَعْدُ، ” فَإِنْ كُنْتَ تَجْرِي مِنْ قِبَلِكَ فَلَا تَجْرِ، وَإِنْ كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُجْرِيكَ، فَأَسْأَلُ اللَّهَ الْوَاحِدَ الْقَهَّارَ أَنْ يُجْرِيَكَ، قَالَ: فَأَلْقَى الْبِطَاقَةَ فِي النِّيلِ قَبْلَ الصَّلِيبِ بِيَوْمٍ، وَقَدْ تَهَيَّأَ أَهْلُ مِصْرَ لِلْجَلَاءِ مِنْهَا، لِأَنَّهُ لَا تَقُومُ مَصْلَحَتُهُمْ فِيهَا إِلَّا بِالنِّيلِ، فَلَمَّا أَلْقَى الْبِطَاقَةَ أَصْبَحُوا يَوْمَ الصَّلِيبِ، وَقَدْ أَجْرَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ سِتَّةَ عَشَرَ ذِرَاعًا فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَطَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تِلْكَ السُّنَّةَ السُّوءَ عَنْ أَهْلِ مِصْرَ إِلَى الْيَوْمِ

اس کی سند میں عَبْدُ اللهِ بنُ صَالِحِ بنِ مُحَمَّدِ بنِ مُسْلِمٍ الجُهَنِيُّ ہے جس کا الذہبی نے دفاع کیا ہے اور ان کے شیخ ابن لھیعہ سے بھی محدثین نے روایت لی ہے
وَبِكُلِّ حَالٍ، فَكَانَ صَدُوْقاً فِي نَفْسِهِ، مِنْ أَوْعِيَةِ العِلْمِ، أَصَابَهُ دَاءُ شَيْخِهِ ابْنِ لَهِيْعَةَ، وَتَهَاوَنَ بِنَفْسِهِ حَتَّى ضَعُفَ حَدِيْثُهُ، وَلَمْ يُتْرَكْ بِحَمْدِ اللهِ، وَالأَحَادِيْثُ الَّتِي نَقَمُوهَا عَلَيْهِ مَعْدُوْدَةٌ فِي سَعَةِ مَا رَوَى
امام احمد نے کہا عبد الله بن صالح فسد بأخرة، وليس هو بشيء آخری عمر میں اس کی عقل میں فساد ہوا کوئی چیز نہیں
سند میں ایک مجہول عَمَّنْ حَدَّثَهُ ہے
لہذا سند ضعیف ہے

اس کی ایک اور سند کتاب الطيوريات صدر الدين، أبو طاهر السِّلَفي أحمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن إبراهيم سِلَفَه الأصبهاني (المتوفى: 576هـ) میں ہے
أخبرنا محمد، أخبرنا أبو محمد (1) ، أخبرنا أبو العباس محمد بن جعفر بن محمد ابن كامل الحضرمي، سنة ثمان وثلاثين وثلاثمائة، حدثنا خير بن عرفة الأنصاري، حدثنا هانِئُ بن المتوكِّل الإسكندراني (2) ، حدثنا ابنُ لَهِيعَة، عن قيس بن الحجَّاج (3) ، قال: ((لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ، أَتَى أهلُهَا إلَى عَمْرُو بن العاص حِينَ دَخَلَ بُؤْنَة (4) مِنْ أَشْهُرِ الْعَجَمِ، فقالُوا لَهُ: أَيُّها اْلأَمِيرُ، إِنَّ لِنِيلِنَا هَذَا سُنَّةً لاَ يجْرِي إِلاَّ بِهَا، فقالَ لَهُمْ: وَما ذَلِكَ؟، فقالُوا: إِذَا كانَ ثِنْتَيْ عَشرةَ لَيْلَةً تَخْلُوا مِنْ هذَا الشَّهْرِ عَمَدْنَا إِلىَ جَارِيَةٍ بِكْرٍ بَيْنَ أَبَوَيْهَا (5) ، فَأَرْضَيْنَا أبوَيْهَا وَحَمَلْنَا عَلَيْهَا مِنَ الْحُلِيِّ وَالثِّيَابِ أَفْضَلَ ما يَكُونُ، ثُمَّ أَلْقَيْنَاهَا في النِّيلِ، فقال لَهُمْ (6)
عمرُو: إنَّ هَذَا لاَ يَكُونُ في [ل 214/ب] الإِسْلاَمِ، وَإِنَّ الإِسْلاَمَ يَهْدِمُ مَا كانَ قَبْلَهُ، فأَقَامُوا بُؤْنَة

لیکن وہ منقطع ہے
وفيه انقطاع أيضا لأن قيسا لم يسمع عن عمرو بن العاص.

—————-

عائشہ رضی الله عنہا سے منسوب ایک روایت ہے لیکن اس میں متن میں اضطراب ہے

بیہقی سنن الکبریٰ میں عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:

لَيْسَتْ التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ قَبْلَ الْبَلَاءِ إنَّمَا التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ بَعْدَ الْبَلَاءِ لِتَدْفَعَ بِهِ الْمَقَادِيرَ
تعویذ وہ نہیں جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت کے بعد دفع کے لئے لٹکایا جائے

اس کے برعکس حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں

وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «لَيْسَتِ التَّمِيمَةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ بَعْدَ الْبَلَاءِ، إِنَّمَا التَّمِيمةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ قَبْلَ الْبَلَاءِ
عائشہ رضی الله روایت کرتی ہیں کہ تعویذ نہیں جو آفت کے بعد لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے

مضطرب المتن روایت بھی قابل رد ہوتی ہے کیونکہ یہ واضح نہیں رہا کہ کیا کہا گیا تھا

مسنون دعائیں صحیحن میں جو بھی میں ہیں وہ دعائیں نماز والے سجدوں میں عربی میں مانگ سکتے ہیں یا نہیں؟؟

رسول صلی.اللہ علیہ.وسلم نے دو مینڈھےلیکر ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے یہ حدیث کونسی حدیث کی بک میں ہے؟؟ اور اس حدیث سے ایصال ثواب کا جواز نکالا جاتا ہے
اور ایصال ثواب کے حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں پلیز وہ بھی بیان کر دیجیے؟ ؟

جواب

جی نماز کے علاوہ اگر سجدہ کر رہے ہیں تو اردو میں دعا مانگ سکتے ہیں
——-
صحیحین کی دعائیں نماز کے سجدوں میں مانگ سکتے ہوں
——–
حدَّثنا عثمانُ بن أبي شَيبةَ، حدَّثنا شَريك، عن أبي الحَسناء عن الحَكَم، عن حَنَش، قال:
رأيت علياً يضحِّي بكبشَين، فقلتُ له: ما هذا؟ فقال: إن رسولَ اللهِ -صلَّى الله عليه وسلم- أوصاني أن أُضحِّي عنه، فأنا أُضحِّي عنه

حنش نے روایت کیا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربان کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا : یہ کیا ہے؟ (آپ دو مینڈھے کیوں قربان کر رہے ہیں) انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کرو ں پس میں ان کی طرف سے ایک قربانی کرتا ہوں۔

(سنن ابی داوُد، جلد دوم ،کتاب قربانی کے مسائل(2790
شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں کہ اس میں أبي الحسناء مجھول راوی ہے لہذا سند ضعیف ہے
دوم شريك النخعي کا حافظہ خراب ہے
سوم اس میں وحنش بن المعتمر الكوفي ہے جس پر ایک سے زائد کی جرح ہے

میت نے اگر کوئی قربانی کی منت مانی ہو تو اس کے ورثا کے لئے ہے کہ وہ میت کی جانب سے قربانی کر سکتے ہیں

کیا چھ اذکار غم ،پریشانی ، دکھ ، تکلیف ، بیماریوں اور گناہوں کے خلاف ایک بہترین اور کارگر ہتھیار ہیں؟؟

جواب

ذکر الله کی عبادت ہے اور کسی بھی الفاظ میں کیا جا سکتا ہے

راقم اللہ کی عبادت سے نہیں روک سکتا
لیکن ان  اذکار کا مقصد دنیا کا فائدہ نہیں ہے نہ انبیاء نے ان کو اس مقصد کے تحت کیا ہے

السلام علیکم
اگر قرآن صرف دل کی بیماریوں یعنی شرک منافقت بغض حسد کیلیے شفا ہے جیسا کا مالک کا فرمان ہے

یایھا الناس قد جاءتکم موعظة من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی و رحمة للمومنین
لیکن نبی ص.ع نے ہمیں بخار کیلیے موذتین پڑھنے کا کہا تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن جسمانی بیماریوں کیلے بھی شفا ہے ؟؟
اور مسلم.کی حدیث میں ہے کہ.جس گھر میں سورت البقرہ پڑھی جاتی ہے وہاں شیطان نہیں آتا اس بات کو وضاحت سے سمجھا دیجیے جزاک اللہ

جواب

جو قرآن کو جسمانی بیماریوں کے لئے شفا قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی ایک ایک آیت سے فلاں فلان بیماری میں شفا لی جا سکتی ہے – وہ اس سے تعویذ بناتے ہیں جو شرک ہے – وہ اس کو برتن پر لکھ کر پیتے ہیں جو بدعت ہے
————-
دم کرنا حدیث سے ثابت ہے اور یہ دعا ہے
‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ ﷺ وَوَفَاتِهِ)
4439.
حَدَّثَنِي حِبَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى نَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ طَفِقْتُ أَنْفِثُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ…
صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں (باب: نبی کریم کی بیماری اور آپ کی وفات)
4439.
مجھ سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا ، کہاہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں یونس نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین ( سورۃ فلق اور سورۃ الناس ) پڑھ کردم کر لیا کرتے تھے ا وراپنے جسم پراپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے ، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معو ذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرا کر تی تھی ۔…

قرآن کی متعدد آیات میں سے صرف انہی سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے دم کیا ہے –
معوذتین میں الله سے پناہ مانگی گئی ہے جس میں بعض چیزیں جسم پر اثر کرتی ہیں مثلا نظر بد – اور جادو اور حسد اور وسوسہ اندازی سے ڈپریشن ہوتا ہے
لہذا ہم بھی ان سے دم کریں گے لیکن بس انہی سے کسی اور سورت سے نہیں
——-

سوره بقرہ سے شیطان کا بھاگنا اس کے دلائل ہیں کہ ان کی وجہ سے شیطانی شبھات کا خاتمہ ہوتا ہے – سوره بقرہ میں یہود و نصرانی کے خلاف دلائل دیے گئے ہیں اور پھر احکام کی فہرست ہے پھر بنی اسرائیل کے قصے اور پھر آخر میں آیت الکرسی ہے پھر احکام ہیں پھر آخر میں الله کی حمد ہے
اس میں جسم کا کوئی ذکر نہیں ہے

معوذتین کی خبر کا ملنا ایک بات ہے اور پھر اس میں
OVER-STRETCHING
کر کے اس سے اپنا مطلب کشید کرنا صحیح نہیں

یعنی ہمیں جنتا علم ہوا ہم اتنا ہی کریں گے اس عمل کو خاص معوذتین کے لیے مانتے ہوئے

اصل میں وظیفہ کہتے کس کو ہیں؟

دَم ، دعا ، ذکروازکار کا ورد اور وظائف کے ورد مین کیا فرق ہے

اک عام انسان کس اصول کے تحت کس کسوٹی پر پَرکھے کہ صحیح وظائف کون سے ہیں اور کون سے درست نہیں ہیں؟ یہ فیصلہ کون کرے گا؟

مثلاََ علماء نے جو مختلف بیماریوں اور مشکلات و مصائیب کے حل کے لیئے جو وظائف بتائے ہیں کہ ان کا ورد کرنا اگر صحیح نہیں ہے تو کیوں کس دلیل کی بنا پر ان کو جھٹلا دیا جائے ؟؟

صحیح وظائف اور غلط وظائف میں کیسے فرق کیا جائے؟

کیا ان وظائف کا تعلق بھی عملیات اور جنات وغیرہ سے ہے ؟

جواب

اصل میں وظیفہ کہتے کس کو ہیں؟
وظیفہ یعنی کسی عبارت کو بار بار پڑھنا – مخصوص تعداد ، یا اوقات میں پڑھنا
————-
دَم ، دعا ، ذکروازکار کا ورد اور وظائف کے ورد مین کیا فرق ہے ،
حدیث میں دم کا ذکر ہے جس میں دعا پڑھ کر ہاتھوں کو جسم پر پھیرا جاتا ہے
دعا اپ کو معلوم ہے
ذکر کرنا جس میں الله کی تسبیح ہو یہ بھی حدیث میں اتا ہے مثلا سبحان الله یا الحمدللہ کہنا وغیرہ
اس کے بعد لوگوں نے خود وظائف ایجاد کیے ہیں کہ فلاں وقت اس کو پڑھا جائے اس ساعت میں ایسا کیا جائے یہ بدعات ہیں

کیا ذکر و ازکار اور دم اور وظئف اک ہی چیز کے مختلف نام ہین؟
نہیں ایک نہیں جیسا وضاحت کی الگ ہیں
—————-

اک عام انسان کس اصول کے تحت کس کسوٹی پر پَرکھے کہ صحیح وظائف کون سے ہیں اور کون سے درست نہیں ہیں؟ یہ فیصلہ کون کرے گا؟
ایک عام آدمی کو چاہیے کہ صحیح بخاری و مسلم میں دیکھے کہ کیا احادیث ہیں ان پر عمل کرے
————
مثلاََ علماء نے جو مختلف بیماریوں اور مشکلات و مصائیب کے حل کے لیئے جو وظائف بتائے ہیں کہ ان کا ورد کرنا اگر صحیح نہیں ہے تو کیوں کس دلیل کی بنا پر ان کو جھٹلا دیا جائے ؟؟
علماء کے پاس خود کوئی دلیل نہیں کہ یہ واقعی ان بیماریوں کا علاج ہیں کیونکہ یہ ان کی اپنی ایجادات ہیں- اس میں وہ تجربہ کرتے ہیں کہ فلاں کو یہ بتایا تھا اس نے پڑھا افاقہ ہوا
———–
صحیح وظائف اور غلط وظائف میں کیسے فرق کیا جائے؟
صحیح احادیث کو دیکھا جائے – کسی بیماری پر کوئی وظیفہ پڑھنے کا کسی حدیث میں ذکر نہیں
———–
کیا ان وظائف کا تعلق بھی عملیات اور جنات وغیرہ سے ہے ؟
بعض کا ہے – اس میں تعویذ سر فہرست ہیں جن کو بنانے کا ایک خاص عمل ہے
اس پر کتابیں موجود ہیں جو جادو پر مبنی ہیں

وظائف کی کیا حقیقت ہے کیا دلیل ہے کیا بیک گراؤنڈ ہے یہ کہاں سے آئے اور کیسے آئے اس امت میں ان کی کیا تاریخ ہے

جواب

احادیث میں مختلف دعائیں ہیں جو عبادت سے تعلق رکھتی ہیں ان میں الله تعالی کی تعریف ہے اور اسماء کو پکارا جاتا ہے
حدیث میں اتا ہے کہ مرض وفات میں عائشہ رضی الله عنہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہی ان پر دم کر رہی تھیں

یہ بات کہ فلاں صورت سے یہ فائدہ ہو گا بعض روایات میں ہے مثلا سوره کہف پڑھنا کہ یہ دجال کے فتنہ سے بچائے گی لیکن راقم اس کو کعب الاحبار کا قول کہتا ہے

اسی طرح سوره الملک پڑھنا کہ یہ عذاب قبر سے بچائے گی یہ روایت میں ہے جو ضعیف ہے

اسی طرح ضعیف روایت میں ہے سوره یسں مرتے لوگوں پر پڑھو

اس طرح کی تمام روایات شامی اور بصریوں کی روایت کردہ ہیں جو قرن اول میں اسلام کے تصوف کے مراکز تھے بصرہ کے پاس ایک شہر عبدان تھا جہاں یہود رہتے تھے اور شام میں نصرانییوں کا زور تھا – یہود کے نزدیک اسماء الحسنی میں قوت بذات خود ہے

مثلا کلام الله پر عراق میں کہا جاتا تھا کہ اس کو اگ میں ڈالو تو جلے گا نہیں اور قرآن کو تعویذ بنا کر استعمال کرنا محدثین نے شروع کر دیا وہ زعفران سے قرآن کی آیات پرتن کے اندر کناروں پر لکھتے اور پھر اس کو پیتے تھے
اس کو آج
Bowl Spell
کہا جاتا ہے

Aramaic Bowl Spells: Jewish Babylonian Aramaic Bowls Volume One
Book by James Nathan Ford, S Bhayro, and Shaul Shaked

اور اس پر امام احمد کا عمل تھا

⇑ کیا زعفران سے برتن پر قرانی آیات لکھ کر پینا صحیح ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/دم-اور-تعویذ/

امام احمد کے بیٹے کے مطابق
خاندان والوں اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے امام احمد ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی کوئی روایت لکھتے تھے

اس طرح محدثین اور متصوفین دونوں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے اور اسلام میں بدعات ایجاد کر رہے تھے

دم کرنا دعا ہے لیکن اس کو برتن پر پھونکنا اس کو لکھ کر دھو کر پینا کسی حدیث میں نہیں ملتا

اس کے بعد فضائل کے نام پر اس قسم کی روایات لکھی گئیں جن میں سورتوں کی فضیلت کا ذکر ہوتا تھا اس طرح قرآن کو فضیلت اور غیر فضیلت میں بانٹ دیا گیا – جو چیز عرش سے آئی ہو اس میں سے بعض کو فضیلت والا کہنا کیا ثابت کرتا ہے ؟ اپ خود سوچیں کہ اس کا انجام کیا ہے کہ الله تعالی کے بعض کلام میں کوئی فضیلت نہیں اور بعض میں ہے ؟ راقم کہتا ہے یہ سوچ ہی غلط ہے –

پھر ان آیات کو جسمانی بیماریوں کے لئے استمعال کرنے پر دلائل لائے جاتے ہیں کہ
ایک روایت میں ہے کہ صحابہ ایک سفر میں تھے اور انہوں نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور قبیلہ والوں سے کھانے پینے کو مانگا جس کا انہوں نے انکار کر دیا اتفاق سے ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا اور وہ علاج یا ٹوٹکا پوچھنے صحابہ کے پاس بھی آئے جس پر ایک صحابی نے (اپنی طرف سے) سوره الفاتحہ سے دم کر دیا اور وہ سردار ٹھیک کو گیا واپس آ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سب بتایا گیا تو آپ نے کہا تم کو کیسے پتا کہ سوره الفاتحہ دم ہے؟

یعنی اپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا یہ تو میرا حکم نہیں ہے کہ فاتحہ سے دم کرو تم کو کس نے یہ کہا ؟ اور اس وجہ سے کہیں نہیں ملتا کہ سوره فاتحہ سے دم کیا جاتا ہو یا اصحاب رسول نے کیا ہو صرف یہ ایک روایت ہے جو خاص واقعہ ہے اس کا تعلق حق ضیافت لینے سے ہے

لیکن اپ کو معلوم ہے نصوص کو مسخ کر کے اپنا مدعا نکالنا مولویوں کو اتا ہے لہذا انہوں نے دم درود پر لوگوں کو لگا دیا ہے ان کے ذریعہ اپنی دکان چمکا رہے ہیں، کوئی تعویذ لکھ رہا ہے تو کوئی جن نکال رہا ہے اور
وترى كثيرا منهم يسارعون في الإثم والعدوان وأكلهم السحت لبئس ما كانوا يعملون لولا ينهاهم الربانيون والأحبار عن قولهم الإثم وأكلهم السحت لبئس ما كانوا يصنعون
سوره المائده

لہذا اہل حدیث مولوی ہو وہابی ہو یا بریلوی دیوبندی شیعہ یہ سب جن نکالتے ہیں – جنات سے لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لوگوں کو سکھاتے ہیں کہ جن انسان میں حلول کر جاتے ہیں اور پھر غریب لوگوں پر تشدد کرتے ہیں
مثلا امام ابن تیمیہ خود جن نکالنے میں تشدد کرتے تھے

⇑ امام ابن تیمیہ اور جنات کی دنیا
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/

پھر علماء دینا میں بد روحوں کے بھی قائل ہیں اس مکروہ عقیدے کو کتابوں سے پھیلاتے ہیں مثلا
عبد الرحمان کیلانی صاحب روح عذاب قبر اور سماع موتی میں اس کو بیان کرتے ہیں

اب یہ تو حال ہے قرآن و حدیث پڑھنے والوں کا – وہ جو تصوف والے ہیں ان کا کیا ذکر کریں وہ تو نا معلوم کیا کیا کر رہے ہیں
مثلا اعمال قرانی اشرف علی تھانوی کی کتاب یا بہشتی زیور جیسی کتابوں میں علماء نے ہی عجیب عجیب باتوں کے لئے آیات کا استعمال بیان کیا ہے

جواب

وظيفة عربی کا لفظ ہے اس کا مطلب
assignment
function
http://www.almaany.com/en/dict/ar-en/وظيفة/

ہے

یعنی اس کو پڑھنے سے کوئی کام ممکن ہو – اس میں وہ مسائل ہیں جیسے اولاد نہ ہو رہی ہو تو پڑھنا وغیرہ

محدثین نے صرف اذکار کا لفظ استمعال کیا ہے – وظیفہ کا لفظ صوفیاء کا ہے
یہ الگ الگ مقصد ہے
ذکر تو عبادت ہے
اور وظیفہ کا مقصد کوئی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے مثلا شادی ، محبوب، اولاد

جواب

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عُبيدُ الله بنُ عمر بن ميسرة ومحمد بن قُدامة في آخرين، قالوا: حدَّثنا عثَّامٌ، عن الأعمش، عن عطاء بن السائب، عن أبيه
عن عبد الله بن عمرو، قال: رأيتُ رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – يعقِدُ التسبيحَ. قال ابنُ قدامة: بيمينه
ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے تسبیح گنی اور ابن قدامہ نے کہا سیدھے ہاتھ پر

ابن قدامہ کی تشریح ان کی ذاتی رائے ہے کیونکہ اس کے باقی طرق میں ایسا کہیں نہیں کہ یہ تسبیح کس طرح گنی گئی
ابن قدامہ نسائی اور ابو داود کے شیخ ہیں

ہاتھ پر تسبیح کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے

البتہ مروجہ تسبیح جو دانوں کی مالا پر ہوتی ہے یہ ایک نصرانی روایت ہے لہذا اس کو استمعال نہ کرنا بہتر ہے

سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمٌ وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ، مَوْلَى صَفِيَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ صَفِيَّةَ، تَقُولُ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيَّ أَرْبَعَةُ آلَافِ نَوَاةٍ أُسَبِّحُ بِهَا، قَالَ: «لَقَدْ سَبَّحْتِ بِهَذِهِ، أَلَا أُعَلِّمُكِ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَبَّحْتِ؟» فَقُلْتُ: بَلَى عَلِّمْنِي. فَقَالَ: ” قُولِي: سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ خَلْقِهِ “: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ صَفِيَّةَ [ص:556] إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هَاشِمِ بْنِ سَعِيدٍ الكُوفِيِّ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمَعْرُوفٍ وَفِي البَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

ام المؤمنین صفیہ بنت حییؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ، میرے پاس چار ہزار کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر میں تسبیح پڑھا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حیی کی بیٹی! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: ان گٹھلیوں پر میں تسبیح پڑھ رہی ہوں۔
البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی میں ہے
– حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الفَرَجِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الحَارِثِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوَاةٌ، أَوْ قَالَ: حَصَاةٌ تُسَبِّحُ بِهَا، فَقَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا [ص:563] أَوْ أَفْضَلُ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ».
سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک صحابیہ کے پاس گیا جن کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی ہوئی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں

البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے یعنی ان کے دور میں اس سے دلیل لی گئی

جواب

إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، لا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

یہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے منسوب قول ہے حدیث نبوی نہیں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ البَلْخِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ الأَسَدِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، قَالَ: إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لاَ يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ نے اس کو عمر کا قول کہا ہے

سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ کا کسی بدری صحابی سے سماع نہیں ہے سند منقطع ہے

صحیح مسلم میں ہے

فَوَاللهِ مَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، وَلَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، إِلَّا عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ»
الله کی قسم نہ حسن (بصری) نے (کبھی) کسی بدری سے بلاواسطہ حدیث ہمیں سنائی نہ سعید بن مسیب نے ایک سعد بن مالک کے سوا کسی اور بدری سے براہ راست سنی ہوئی کوئی حدیث سنائی

حدیث نہ سنانا ثابت کرتا ہے سعید کا سماع عمر سے نہیں ہے

جامع التحصيل في أحكام المراسيل
المؤلف: صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ)

قال يحيى القطان سعيد بن المسيب عن عمر رضي الله عنه مرسل
سعید کی عمر سے روایت مرسل ہے

جواب
مستدرک الحاکم میں دو روایات ہیں
حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَانِيُّ، ثنا مَسْعُودُ بْنُ زَكَرِيَّا التُّسْتَرِيُّ، ثنا كَامِلُ بْنُ طَلْحَةَ، ثنا فَضَالُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ لِلَّهِ مَلَكًا مُوَكَّلًا بِمَنْ يَقُولُ: يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، فَمَنْ قَالَهَا ثَلَاثًا قَالَ الْمَلَكُ: إِنَّ أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ قَدْ أَقْبَلَ عَلَيْكَ فَاسْأَلْ ”أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نے کہا کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا الله کا ایک موکل فرشتہ ہے جو بھی يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ کہتا ہے تو یہ فرشتہ اس پر کہتا ہے أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ نے تجھ کو قبول کیا اب سوال کر
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَّارُ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الدُّنْيَا، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنْبَأَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي أُسَيْدٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَقُولُ: يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَلْ فَقَدْ نَظَرَ اللَّهُ إِلَيْكَ» الْفَضْلُ بْنُ عِيسَى هُوَ الرَّقَاشِيُّ، وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ عَمُّهُ يَزِيدَ بْنَ أَبَانَ إِلَّا أَنِّي قَدْ وَجَدْتُ لَهُ شَاهِدًا مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ ”
حاکم نے کہا خدشہ ہے اس میں يزيد بن أبان الرقاشي ہے لیکن یہ انس رضی الله عنہ کی روایت أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضی الله عنہ کی روایت پر شاہد ہے
========
الذھبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہےلیکن میزان میں فضال بن جبير کا ذکر کر کے اس کو ضعیف قرار دیا ہے
المعلمي نے النكت الجياد میں کہافضّال بن جبير أبو المهند الغداني:“الفوائد” (ص 302): “تالف زعم أنه سمع أبا أمامة وروى عنه ما ليس من حديثه”.فضّال بن جبير بے کار ہے اس کا دعوی ہے اس نے ابو امامہ سے سنا جبکہ وہ ان کی احادیث نہیں ہیں
شاہد حدیث میں يزيد بن أبان الرقاشي جو ضعیف ہے

بریدہ اسلمی کی وصیت

صحیح بخاری   کی روایت ہے

حدیث نمبر: 218  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ  عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَمَّا أَحَدُهُمَا  فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لِمَ فَعَلْتَ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا”، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا مِثْلَهُ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ.

ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے مجاہد کے واسطے سے روایت کیا، وہ طاؤس سے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے

صحیح بخاری میں ایک معلق روایت بھی اتی ہے –  امام بخاری نے صحیح میں باب میں روایت نقل کی ہے کہ بريدة بن الحصيب الصحابي رضي الله عنه  نے وصیت کی أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ  کہ بریدہ رضی الله عنہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر پر ٹہنیاں لگائی جائیں

وَأَوْصَى بُرَيْدَةُ الأَسْلَمِيُّ: «أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ

امام بخاری جب ابواب میں اس طرح کی روایات نقل کرتے ہیں تو اس کا مقصد اس مسئلہ پر کچھ اقوال  نقل کرنا ہوتا ہے جن کی وہ  سند  نہیں دیتے انہوں نے اس قول کو نقل کرنے کے بعد ابن عمر کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک قبر پر خیمہ دیکھا تو کہا کہ صاحب قبر کا عمل اس پر سایہ کرے گا -شارحین کی رائے ہے کہ امام بخاری نے بریدہ رضی الله عنہ کے قول کو ابن عمر رضی الله عنہ  کے قول کے ساتھ پیش کیا کیونکہ ان کے نزدیک  ٹہنی لگانا نبی کے لئے خاص تھا

تغليق التعليق على صحيح البخاري از  أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) میں اس کی سند ہے

أما أثر بُرَيْدَة فَقَالَ ابْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ ثَنَا حَمَّادُ ابْن سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ قَالَ أَوْصَى بُرَيْدَةُ أَنْ يُوضَعَ عَلَى قَبْرِهِ جَرِيدَتَانِ وَمَاتَ بِأَدْنَى خُرَاسَانَ

وَقد وَقع لي من طَرِيق أُخْرَى لأبي بَرزَة الْأَسْلَمِيّ أَيْضا وفيهَا حَدِيث مَرْفُوع من حَدِيثه قَرَأت عَلَى أَحْمد بن عمر اللؤْلُؤِي عَن الْحَافِظ ز 116 ب أبي الْحجَّاج الْمزي أَن يُوسُف بن يَعْقُوب [بن المجاور] أخبرهُ أَنا أَبُو الْيمن الْكِنْدِيّ أَنا أَبُو مَنْصُور الْقَزاز أَنا أَبُو بَكْرٍ الْخَطِيبُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَخْلَدٍ ثَنَا أَبُو سَعِيدٍ النَّسَوِيُّ سَمِعت أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ بِسْطَامٍ يَقُولُ سَمِعت أَحْمد ابْن سَيَّارٍ يَقُولُ ثَنَا الشَّاهُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَني أَبُو صَالِحٍ سُلَيْمَانُ بْنُ صَالِحٍ [اللَّيْثِيُّ] ثَنَا النَّضْرُ بْنُ الْمُنْذِرِ بْنِ ثَعْلَبَة [الْعَبْدِيُّ] عَن حَمَّاد بن سَلمَة عَن قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا بَرْزَةَ الأَسْلَمِيَّ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى قَبْرٍ وَصَاحِبُهُ يُعَذَّبُ فَأَخَذَ جَرِيدَةً فَغَرَسَهَا فِي الْقَبْرِ وَقَالَ عَسَى أَنْ يُرَفِّهَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً))وَكَانَ أَبُو بَرزَة يُوصي إِذا مت فضعوا فِي (قَبْرِي) معي جريدتين قَالَ فَمَاتَ فِي مفازة بَين كرمان وقومس فَقَالُوا كَانَ يوصينا أَن نضع فِي قَبره جريدتين وَهَذَا مَوضِع لَا نصيب فِيهِ فَبَيْنَمَا هم كَذَلِك إِذْ طلع عَلَيْهِم ركب من قبل سجستان فَأَصَابُوا مَعَهم سَعَفًا فَأخذُوا مِنْهُم جريدتين فوضعوهما مَعَه فِي قَبره

اور جہاں تک بریدہ کے اثر کا تعلق ہے تو ابن سعد نے (طبقات میں) کہا أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ ثَنَا حَمَّادُ ابْن سَلَمَةَ ، انہوں نے عَاصِمٍ الأَحْوَلِ سے انہوں نے مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ سے روایت کیا کہا بریدہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں لگا دی جائیں اور وہ ادنی خراسان میں مرے

اور مجھے (ابن حجر) ایک اور طرق ملا ابی برزہ اسلمی سے جو حدیث مرفوع ہے .. قتادہ نے کہا أَبَا بَرْزَةَ الأَسْلَمِيَّ نے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک قبر پر سے گزرے جس کے صاحب کو عذاب ہو رہا تھا پس ایک ٹہنی لی اس کو قبر پر گاڑھا اور فرمایا ہو سکتا ہے یہ عذاب اٹھ جائے جب تک یہ تر رہے

مورق المتوفی ١٠٥ ھ کا سماع بریدہ رضی الله عنہ المتوفی ٦٢ ھ  سے ثابت  نہیں ہو سکا

مورق کی وفات ابن سعد کے مطابق  توفّي فِي ولَايَة عمر بن هُبَيْرَة عمر بن ہبیرہ کے دور میں ہوئی

تاریخ الدمشق کے مطابق عمر بن ہبیرہ كان أمير العراقين من قبل يزيد بن عبد الملك- خلیفہ یزید بن عبد الملک کے دور( ١٠١ سے َ٠٥ ہجری ) میں عراق کے امیر تھے- بریدہ رضی الله عنہ کی وفات سن ٦٢ ھ میں خراسان میں ہوئی

ذخیرہ احادیث میں مورق کی یہ بریدہ رضی الله عنہ سے واحد روایت ہے- مورق، صحابی رسول ابی ذر رضی الله عنہ سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں – مورق کے  بریدہ سے سماع کا متقدمین محدثین میں سے کسی   نے ذکر بھی نہیں کیا

کتاب  كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري   از   الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق

قال الطُرْطُوشيّ: لأن ذلك خاص ببركة يده

الطُرْطُوشيّ کہتے ہیں : یہ تو نبی کے ہاتھ کی خاص برکت تھی

یعنی کسی غیر نبی کے ہاتھ سے ٹہنی لگنے سے وہ عذاب میں تخفیف کا باعث نہیں ہو سکتیں

الشنقيطي کہتے ہیں

قلت: وعلى كل حال، فعل بُريدة فيه استئناس لما تفعله الناس اليوم من وضع الجريد ونحوه على القبر، فإن الصحابي أدرى بمقاصد الحديث من غيره، خلافًا لما مرَّ عن الخَطّابي

میں کہتا ہوں:  ہر صورت میں بریدہ کے فعل سے متاثر ہو کر ہی لوگ آج ٹہنی قبر پر لگاتے ہیں، کیونکہ صحابی  حدیث کے مقصد کو جانتے ہیں اور یہ اس کے خلاف ہے جس طرف الخطابی گئے ہیں

فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں

قَالَ بن رَشِيدٍ وَيَظْهَرُ مِنْ تَصَرُّفِ الْبُخَارِيِّ أَنَّ ذَلِكَ خَاص بهما  

ابن رشید نے کہا اور بخاری کے تصرف سے ظاہر ہے کہ (یہ ٹہنی لگانا ) ان کے نزدیک یہ خاص ان (دو معذبین) کے لئے تھا

عبد الرحمن مبارک پوری  جناب بریدۃ الاسلمی رضی الله عنہ کے  اس اجتہاد کو قبول کرتے ہیں
’’ میں کہتا ہوں جیسا کہ حضرت بریدہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی اور قبر میں کھجور کی شاخ کو رکھنا جائز سمجھا اسی طرح اب بھی اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع کرے اور قبر میں کھجور کی شاخ گاڑے تو اس میں کچھ حرج نہیں معلوم ہوتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم اوربہت سے لوگ جو بیر کی شاخ یا انار کی شاخ قبر میں گاڑتے ہیں ‘ سو اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے ‘(کتاب الجنائز ص۷۳)

 ابن الحسن محمدی اپنے مضمون قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا کیسا ہے؟  میں لکھتے ہیں

قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا کیسا ہے؟

الحلل الإبريزية من التعليقات البازية على صحيح البخاري  میں وہابی عالم   عبد العزيز بن عبد الله بن باز کہتے ہیں

وهو الذي جعل بريدة يوصي بذلك، والعلماء على خلاف ذلك، والنبي – صلى الله عليه وسلم – لم فعله في غيرهما، وهذا خاص بهما، ولم يفعله بأصحابه، ولا ببناته، وبريدة ظن أنه مشروع.

اور ایسا بریدہ نے وصیت کی اور علماء اس کے خلاف ہیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کسی اور کے لئے نہیں کیا اور یہ ان دو کے لئے خاص تھا اور نہ ان کے اصحاب نے کیا اور نہ  ان کی بیٹیوں نے اور بریدہ نے گمان کیا کہ یہ مشروع ہے

الغرض بریدہ اسلمی رضی الله عنہ کی وصیت ان کا اجتہاد تھا لیکن یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم  نہیں کیونکہ جو نبی صلی الله علیہ وسلم نے کیا وہ ان کے لئے خاص تھا – یہ بیشترعلماء کی رائے ہے راقم کے نزدیک روایت ضعیف ہے مورق کا سماع بریدہ رضی الله عنہ سے ثابت نہیں

اس وصیت کا مختصرا تذکرہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے کتاب عذاب البرزخ میں کیا

اسی طرح بعض انتہائی ہوشیار بریدۃ الاسلمیؓ کی وصیت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قبر میں کھجور کی دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت کی تھی۔ بخاری باب ’’ الجرید علی القبر‘‘ لا کر بتلاتے ہیں کہ یہ ان کی بات وصیت کے وقت کی ہے ورنہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جب عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ کی قبر پر خیمہ دیکھا تو حکم دیا ’’یا غلام انزعہ فانما یظلہ عملہ‘‘ اے لڑکے خیمہ ہٹا دے ‘ان کے اوپر تو صرف ان کا عمل سایہ کرے گا ’ خیمہ یا شاخ نہیں‘۔(بخاری عربی ص۱۸۱ جلد ۱۔ عذاب قبر ص۱۸)

کتاب عذاب قبر الناشر​مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی​ میں ابو جابر دامانوی اپنی علمی استعداد کے مطابق ڈاکٹر عثمانی کے لکھے پر کہتے ہیں

آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ جناب بریدۃ الاسلمیؓ نے جو وصیت کی تھی موصوف کے نزدیک ان کی یہ بات وصیت کے وقت کی تھی گویا موصوف کے نزدیک جو شخص بھی مرض الموت میں مبتلا ہوا وہ ضرور اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گا۔اور ضرور بحرانی کیفیت میں مبتلا ہو۔ غور فرمائیے کہ یہ نقطہ نگاہ کس قدر غلط اور خطرناک ہے جو بات بھی موصوف کے نظریات کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے جھٹلا دیتے ہیں۔

افسوس دوسروں کا چبایا کھا کھا کرقرطاس کالا کرنے کی سعی میں  موصوف نے دھیان ہی نہیں دیا کہ وہابی اور علم مسلک غیر مقلدین کیا کہتے ہیں

 کتاب بدعات کا انسائیکلوپیڈیا میں البانی کا قول بیان ہوا ہے

البانی کہتے ہیں کہ بریدہ رضی الله عنہ کی رائے کی کوئی دلیل نہیں ہے – البانی کے نزدیک ایسا کرنا بدعت ہے

ان علماء کے نزدیک  حدیث نبوی  کا منشا یہ نہیں ہے کہ  جو  بریدہ سے منسوب روایت میں بیان کیا گیا ہے

عرش کے گرد سانپ کی کنڈلی

اہل کتاب نے اپنے ایک نبی یسعیاہ کے نام پر ایک کتاب گھڑی جس کو

Book of Isaiah

کہا جاتا ہے

اس کتاب کے باب ٦ کی آیات ہیں

سرافیم سے مراد سانپ ہیں

Hebrew Strong Dictionary

کے مطابق

  1. שָׂרָף saraph, saw-rawf´; from 8313; burning, i.e. (figuratively) poisonous (serpent); specifically, a saraph or symbolical creature (from their copper color):—fiery (serpent), seraph.

https://www.blueletterbible.org/lang/lexicon/lexicon.cfm?Strongs=H8314&t=KJV

یہود کی ایک قدیم کتاب

Book of Enoch

میں  باب ٢٠ بھی اس کا ذکر ہے

 Hence they took Enoch into the seventh heaven 

1 And those two men lifted me up thence on to the seventh heaven, and I saw there a very great light, and fiery troops of great archangels (2), incorporeal forces, and dominions, orders and governments, cherubim and seraphim, thrones and many-eyed ones, nine regiments, the Ioanit stations of light, and I became afraid, and began to tremble with great terror, and those men took me, and led me after them, and said to me: 

 2Have courage, Enoch, do not fear, and showed me the Lord from afar, sitting on His very high throne. For what is there on the tenth heaven, since the Lord dwells there? 

پس وہ انوخ (ادریس علیہ السلام) کو لے گئے ساتویں آسمان پر اور ان دو آدمیوں نے مجھ (انوخ) کو اٹھایا اور وہاں میں نے ایک عظیم نور دیکھا اور اور ملائکہ ملا الاعلی کی آتشی افواج،  روحانی قوتیں ، احکام و حکم ، کروبیں اور سرافیم، تخت  اور بہت آنکھوں والے … اور میں خوف زدہ ہوا اور لڑکھڑا گیا دہشت سے اور وہ مجھ کو لے گئے اور کہا ہمت کرو انوخ ، ڈرو مت اور الله تعالی کو دور سے دکھایا اپنے عظیم عرش پر تھا- (انوخ نے سوال کیا) یہ دسویں آسمان پر کیا ہے کہ الله وہاں ہوتا ہے ؟

کتاب انوخ کا متن حبشی زبان میں ملا ہے جہاں سرافیم کے مقام پر لکھا

 Ikisat (Ethiopic: አክይስት — “serpents”, “dragons

اکسات حبشی میں سانپ ہے

https://en.wikipedia.org/wiki/Seraph

توریت کے مطابق بنی اسرئیل کی دشت میں سر کشی کی بنا پر ایک وقت الله تعالی نے سانپ ان پر چھوڑ دیے

Num. 21:6 Then the LORD sent fiery serpents among the people, and they bit the people, so that many people of Israel died.

اور الله نے ان پر آتشی سانپ چھوڑ دیے

عبرانی میں سرافیم کو سانپ اور  فرشتہ کہا جاتا  ہے  چونکہ اہل کتاب ابلیس کو ایک فرشتہ یا

Fallen Angel

کہتے ہیں

لہذا مسلمانوں میں ابلیس کو سانپ سے ملانے یا جنات کو سانپ قرار دینے کا نظریہ ا گیا

ہندو مت میں عرش کے گرد سانپ

ہندو مت کے مطابق ان کے تین بڑے اصنام میں سے ایک آسمان میں ہے جس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے گرد سانپ لپٹا ہوا ہے جس کو انانتا شیشا یا ادی شیشا کہتے ہیں

Ananta Shesha,  Adishesha “first Shesha”.

یعنی کسی دور قدیم میں عرش رحمن کے گرد سانپوں کا تصور موجود تھا جس کو اہل کتاب اور ہندو دونوں بیان کرتے تھے

اسلام میں عرش کے گرد سانپ

اس قسم کی روایات اسلام میں بھی ہیں  جن کو محدثین روایت کرتے ہیں  – اس روایت کو عبد الله بن أحمد   “السنة” (1081) میں باپ امام احمد سے روایت کرتے ہیں  الدينوري  کتاب “المجالسة” (2578)  میں علي بن المديني سے اور أبو الشيخ کتاب “العظمة” (197) میں روایت کرتے ہیں

طبرانی کتاب المُعْجَمُ الكَبِير میں روایت کرتے ہیں

حدثنا محمَّد بن إسحاق بن راهُوْيَه، ثنا أبي ، أبنا معاذ ابن هشام، حدثني أبي (هشام الدستوائي) عن قَتادة، عن كَثير بن أبي كَثير البصری  ، عن أبي عِياض (عمرو بن الأسود العنسي)  ، عن عبد الله بن عَمرو، قال: إن العَرْشَ لَيُطَوَّق بحَيَّةٍ، وإن الوَحْيَ ليُنَزَّلُ

في السَّلاسِل

 أبي عِياض نے کہا کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے کہا: عرش کے گرد ایک سانپ کنڈلی مارے ہوئے ہے اور  الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے

کتاب السنہ میں ہے

حَدَّثَنِي أَبِي، نا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، بِمَكَّةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ لَمُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَإِنَّ الْوَحْيَ لِيَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ

کتاب العظمة از أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ)  میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ مُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ»

کتاب مختصر العلو  میں البانی کہتے ہیں

قلت: إسناده صحيح، أخرجه أبو الشيخ في “العظمة” “33/ 1-2″ حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود ثم رأيته في السنة” “ص150”: حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.

میں البانی کہتا ہوں اس کی اسناد صحیح ہیں اس کی تخریج ابو شیخ نے کتاب العظمة” “33/ 1-2” حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود میں کی ہے پھر میں نے اس کو دیکھا السنہ میں ص ١٥٠ پر بھی کہ حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.

مجمع الزوائد  (8/135) میں   الهيثمى اس روایت پر کہتے ہیں

رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح غير كثير بن أبي كثير ، وهو ثقة   

اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں سوائے کثیر بن ابی کثیر کے جو ثقہ ہیں

بعض علماء نے غلو میں یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ صحیح بخاری و مسلم کے تمام راوی ثقہ ہیں ان پر جرح مردود ہے – الهيثمى  اسی گروہ کے ہیں جو روایت پر کہہ دیتے ہیں کہ راوی صحیح والے ہیں- اس طرح یہ غلو چلا آ رہا ہے

 أبو الشيخ   العظمة  (4/1298) میں روایت کرتے ہیں

 حدثنا محمد بن أبي زرعة ثنا هشام بن عمار ثنا عبد الله بن يزيد ثنا شعيب بن أبي حمزة عن عبد الأعلى بن أبي عمرة عن عبادة بن نسي عن عبد الرحمن بن غنم عن معاذ بن جبل عن النبي صلى الله عليه وسلم قال :   المجرة التي في السماء عرق الحية التي تحت العرش   .

معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے

الهيثمى   مجمع الزوائد  (8/135)  میں کہتے ہیں

  وفيه عبد الأعلى بن أبي عمرة ولم أعرفه ، وبقية رجاله ثقات

اس میں عبد الأعلى بن أبي عمرة ہے جس کو میں نہیں جانتا اور باقی تمام ثقہ ہیں

امام  العقيلى  کتاب الضعفاء الكبير  (3/60)  میں اس روایت کو بیان کرتے ہیں کہ یمن بھیجتے وقت رسول الله نے معاذ بن جبل کو کہا کہ اہل کتاب سانپ پر سوال کریں تو یہ کہنا سند ہے

  حدثنا حجاج بن عمران ثنا سليمان بن داود الشاذكونى ثنا هشام بن يوسف ثنا أبو بكر بن عبد الله بن أبي سبرة عن عمرو بن أبى عمرو عن الوليد بن أبي الوليد عن عبد الأعلى بن حكيم عن معاذ بن جبل قال : لما بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فذكره مثله .
اس روایت کو امام عقیلی نے غیر محفوظ قرار دیا ہے

کتاب المنار المنیف میں ابن قیم کہتے ہیں

أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ بَاطِلا فِي نَفْسِهِ فَيَدُلُ بُطْلانِهِ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَلامِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  كَحَدِيثِ “الْمَجَرَّةُ الَّتِي فِي السَّمَاءِ مِنْ عِرْقِ الأَفْعَى الَّتِي تَحْتَ العرش

اور بعض احادیث ایسی باطل ہوتی ہیں کہ ان کا بطلان دلیل ہوتا ہے کہ کلام نبوی ہو ہی نہیں سکتا جیسے حدیث کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے

صرف روایت کو رد کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا وقتی دب جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد یہ بات عوام پھر بیان کرنے لگ جاتے ہیں – اس روایت کو تو رد کر دیا گیا کہ کہکشاں کسی سانپ کی رال ہے لیکن یہ قول کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے آج تک علماء مانتے چلے ا رہے ہیں اور اسقول کو موقوف صحابی پر صحیح مانتے ہیں اور چونکہ اصحاب رسول عدول ہیں اس روایت کی اس غیبی خبر کی کوئی اور تاویل نہیں رہتی، سوائے اس کے کہ اس کو قول نبوی قرار دیا جائے

راقم البتہ اس کا سرے سے ہی انکار کرتا ہے کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے ایسا کوئی کلام کیا ہو گا

  عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب اس قول کی سند میں  كَثِير بن أَبي كَثِير البَصْرِيّ   مولى عَبْد الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَة الْقُرَشِيّ ہے- اس راوی پر امام عقیلی نے کلام کیا ہے اور نسائی نے سنن النسائي 6/147 اس کی ایک روایت کو منکر قرار دیا ہے اور بیہقی نے  السنن الكبرى 7/349   میں کہا ہے

وكثير هذا لم يثبت من معرفته ما يوجب قبول روايته

اور یہ کثیر معرفت حدیث میں مظبوط نہیں کہ اس کی روایت کو قبول کیا جائے

یہاں تک کہ ابن حزم نے اس کو مجھول قرار دیا ہے

غیر مقلد عالم البانی اس موقوف قول کو صحیح السند کہتے ہیں اور عبد الله بن عمرو پر الإسرائيليات روایت کرنے کا الزام لگاتے ہیں

کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني  میں البانی کے سوالات پر جوابات کا مجموعہ ہے

السائل: السؤال قد سألتك إياه في التلفون، الذي هو قلت لك حديث: (العرش مطوق بحية، والوحي ينزل بالسلاسل) ذكرت لي أني أرجع أرى هل

هو حديث …. في «مختصر العلو» أنت قلت: حديث عبد الله بن عمرو أو قال حديث عبد الله بن عمر، وعلقت عليه فقلت: وإسناده صحيح عن عبد الله بن عمرو، وقلت: إسناده صحيح، فهل هو في حكم المرفوع إلى رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم –

بهذا الإسناد؟

الشيخ: ما عندي جواب غير ما سمعته، إن كان مصرحاً برفعه فهو كذلك، وإن كان غير مصرح فهو موقوف.

مداخلة: لا ما هو مصرح فهل يعني إذا كان موقوفاً كيف النظر إلى الحديث، هل نقول: أن العرش مطوق بحية؟

الشيخ: لا، ما نقول، وأظن أجبتكم يوم كان الجواب، يعني: لك، هو كان جواباً متكرراً لغيرك؛ أقوال الصحابة إذا صحت عنهم لِتكون في منزلة الأحاديث المرفوعة إلى الرسول عليه السلام يجب أن تكون أولاً: مما لا يقال بالرأي وبالاجتهاد، هذه النقطة بالذات هناك مجال للاختلاف بين العلماء والفقهاء في بعض ما يتفرع من هذا الشرط، وهو أن يكون قول الصحابي أو الحديث الموقوف على الصحابي مما لا يقال بالرأي، ممكن يصير فيه اختلاف، مثلاً: إذا جاء حديثٌ ما فيه النهي عن شيء، هل هذا في حكم المرفوع أم لا، فمن يظن أن النهي عن الشيء لا يمكن أن يكون بالاجتهاد يقول: حكمه حكم المرفوع، ومن يظن مثلي أنا أنه يمكن للصحابي ولمن جاء من بعدهم من الأئمة أن يجتهد وينهى عن شيء ويكون في اجتهاده مخطئاً فيجب إذاً: أن يكون الحديث الموقوف على الصحابي الذي يراد أن نقول: إنه في حكم المرفوع يجب أنه لا يحيط به أي شك في أنه في حكم المرفوع، ومتى يكون ذلك؟ حين لا مجال أن يقال بمجرد الرأي والاجتهاد، هذا الشرط الأول.

والشرط الثاني، أو قبل ما أقول الشرط الثاني: الشرط الأول يعود في الحقيقة إلى أمر غيبي، وهو من معانيه التحريم والتحليل، لكن هذا الأمر الغيبي ينقسم قسمين: قسم يتعلق بالشريعة الإسلامية، وقسم يتعلق بما قبل الشريعة من الشرائع المنسوخة، فلكي يكون الحديث الموقوف في حكم المرفوع ينبغي أن يكون متعلقاً بالشريعة الإسلامية وليس متعلقاً بما قبلها، لماذا؟

هنا بيت القصيد، لأنه يمكن أن يكون من الإسرائيليات، والتاريخ الذي يتعلق بما قبل الرسول عليه السلام … معناه من بدء الخلق إلى ما قبل الرسول عليه السلام وبعثته هو من هذا القبيل.

فإذا جاءنا حديث يتحدث عما في السماوات من عجائب ومخلوقات، وهو لا يمكن أن يقال جزماً بالرأي والاجتهاد فيتبادر إلى الذهن إذاً هذا في حكم المرفوع، لكن لا، ممكن أن يكون هذا من الإسرائيليات التي تلقاها هذا الصحابي من بعض الذين أسلموا من اليهود والنصارى، ولذلك فينبغي أن يكون الحديث الموقوف والذي يراد أن نجعله في حكم المرفوع ما يوحي بأنه ليس له علاقة بالشرائع السابقة.

فهذا الحديث عن عبد الله بن عمرو يمكن أن يكون من الأمور الإسرائيلية التي تتحدث عما في السماء من العجائب، ومن خلق الملائكة، لكن الذي ثابت … الآن عكس ذاك تماماً، يشعر الإنسان فوراً أن هذا لا يمكن أن يكون من الإسرائيليات، فهو إذاً موقوف في حكم المرفوع ولا مناص، ما هو؟

الحديث المعروف والمروي عن ابن عباس بالسند الصحيح، قال رضي الله عنه: نزل القرآن إلى بيت العزة في السماء الدنيا جملة واحدة، ثم نزل أنجماً حسب الحوادث، فهو إذاً: يتحدث عن القرآن وليس عن التوراة والإنجيل، فلو كان حديثه هذا الموقوف عن التوراة والإنجيل ورد الاحتمال السابق، فيقال: لا نستطيع أن نقول هو في حكم المرفوع، لكن ما دام يتعلق بالقرآن وأحكام القرآن وكل ما يتعلق به لا يمكن أن يتحدث عنه بشيء غيبي إلا ويكون الراوي قد تلقاه من الرسول عليه السلام، لأنه كون القرآن نزل جملة هذا غيب من أين يعرف ابن عباس تلقاه من بعض الإسرائيليات هذا مستحيل، ونزل إلى بيت العزة في السماء الدنيا تفصيل دقيق [لا يمكن] للعقل البشري أن يصل إليه، لذلك هذا الحديث يتعامل العلماء معه كما لو كان قد صرح ابن عباس فيه برفعه إلى النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -.

باختصار: إن الأحاديث الموقوفة ليس من السهل أبداً أن يحكم عليها بحكم المرفوع إلا بدراسة دقيقة ودقيقة جداً، وذلك لا يستطيعه إلا كبار أهل العلم.

سؤال: جزاك الله خير يا شيخنا.

الشيخ: وإياك بارك الله فيك.

مداخلة: هذه فائدة فريدة عضوا عليها بالنواجذ والأضراس والثنايا.

الشيخ: جزاك الله خيراً.

“الهدى والنور” (255/ 56: 07: 00).

سائل : یہ سوال ہے جو ٹیلی فون پر اپ سے کیا تھا حدیث جو میں نے اپ سے ذکر تھا  کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے اور الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے اپ نے  ذکر کیا کہ میں پھر سوال کروں تو  کیا یہ حدیث صحیح ہے  جو مختصر العلو میں ہے حدیث عبداللہ بن عمرو جس پر تعلیق میں کہا اس کی اسناد صحیح ہیں اور  ( وہاں اپ نے کہا) میں (البانی) کہتا ہوں  اسناد صحیح ہیں – تو کیا یہ مرفوع قول نبی صلی الله علیہ وسلم کے حکم میں اتا ہے  اس اسناد سے ؟

البانی : میرا جواب اس سے الگ ہے جو اپ نے سنا اگر رفع کی صراحت ہے تو ایسا ہے ورنہ یہ موقوف ہے

مداخلة:  نہیں یہ صراحت نہیں ہے تو اگر یہ موقوف ہے تو   ہم حدیث کو کیسا دیکھیں؟ کیا ہم کہیں کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے؟

البانی : نہیں ، ہم یہ نہیں بول سکتے اور میرا گمان ہے کہ اس روز جو میں نے جواب دیا تھا وہ  اپ کے لئے تھا ،  یہ جواب مکرر ہے دوسروں کے لئے – ایسے اقوال جو اصحاب رسول کے ہوں اور ان کی صحت معلوم ہو تو  ان کا مقام حدیث مرفوع جو نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتی ہو جیسا ہے اگر اول: جو انہوں نے کہا وہ رائے نہ ہو اجتہاد نہ ہو – اس بات پر علماء و فقہاء کا اختلاف  ہوتا ہے کہ اس کے مشتقات میں یہ شرط ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے قول صحابی یا حدیث موقوف ، رائے سے نہ کہی گئی بات ہو – اس امکان کی بنا پر اس میں اختلاف ہوتا ہے  مثلا جب حدیث میں کسی چیز کی  ممانعت کا ذکر ہو ، تو کیا یہ حکم مرفوع ہے یا نہیں ؟ پس جو (علماء) گمان کرتے ہیں کہ یہ نہی ہے وہ اس کو اجتہاد نہیں لیتے اور کہتے ہیں یہ حکم مرفوع حکم ہے اور بعض میرے جیسے (علماء ) یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صحابی کا قول ہو اور جو ان  کا جو کے بعد  ائمہ آئے ہیں کہ وہ اجتہاد کریں کسی چیز سے منع کریں یا اجتہاد میں غلطی کریں ….. پس یہ پہلی شرط ہے – اور شرط اول (کے تحت حدیث) حقیقت سے امر غیبی تک جاتی ہے اور اپنے معنی میں حلال و حرام پر ہو گی – لیکن اس امر غیبی میں دو قسمیں ہیں- ایک کا تعلق شریعت سے ہے اور ایک کا منسوخ شریعتوں سے-  پس میرے نزدیک حدیث موقوف جو ہے وہ حدیث مرفوع کے حکم پر ہے تو اس میں شریعت اسلامی کا ذکر ہونا چاہیے اور اس سے قبل کی باتوں (اہل کتاب کی شریعت) پر نہیں – کیوں ؟ کیونکہ یہ نکتہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو اور اس تاریخ سے متعلق جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے گذری .. اس معنوں میں ہے مخلوق کا شروع ہونا سے لے کر بعثت نبوی تک کا دور- پس جب کوئی حدیث ہو جس میں آسمانوں کے عجائب و مخلوقات کا ذکر ہو اور یہ امکان نہ رہے کہ یہ بات اجتہاد یا رائے کی ہے تو ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ حکم مرفوع میں سے ہے  لیکن نہیں ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جو ان اصحاب رسول نے بیان کیے جو یہود و نصاری میں سے ایمان لائے اس وجہ سے یہ حدیث موقوف ہونی چاہیے اور اس کا تعلق سابقہ شریعت سے  نہیں ہونا چاہیے

پس یہ حدیث جو عبد الله بن عمرو سے ہے ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جس میں آسمان کے عجائبات کا ذکر ہے اور ملائکہ کی تخلیق لیکن جو ثابت ہے … ابھی وہ اس سے مکمل الٹ ہے –  انسان فورا  جان جاتا  ہے  کہ یہ الإسرائيليات میں سے نہیں ہو سکتی- پس حدیث موقوف، مرفوع  کے حکم میں ہو اور قابل رد نہ ہو ، تو پھر کیا ہے ؟

ایک معروف حدیث ابن عباس سے صحیح سند سے ہے اپ رضی الله عنہ نے فرمایا قرآن بیت العزہ سے آسمان دنیا پر ایک بار نازل ہوا پھر حسب حوادث تھوڑا تھوڑا نازل ہوا پس جب یہ قرآن کے بارے میں ہے  التوراة والإنجيل کے بارے میں  نہیں ہے تو یہ حدیث موقوف ہے  التوراة والإنجيل کے لئے اور اس پر وہی احتمال اتا ہے پس کہا جاتا ہے ہم اس کو حکم مرفوع نہیں کہیں گے لیکن جب تک یہ قرآن سے متعلق ہو اور احکام قرآن سے متعلق ہو اس وقت تک … قصہ مختصر احادیث موقوف میں یہ کبھی بھی آسان نہ ہو گا کہ ان پر حکم مرفوع لگایا جائے سوائے ان کی تحقیق دقیق کے اور بہت دقیق تحقیق کے اور اس پر  سوائے کبار علماء کے کوئی قادر نہیں ہیں

اس تمام بحث کے چیدہ نکات ہیں کہ البانی کے نزدیک عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کی حدیث موقوف صحیح ہے –  اپ غور کریں یہ روایت  عرش  کی خبر ہے  اوراس کا سابقہ شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے  – یہ غیبی خبر ہے جس میں رائے کا دخل نہیں ہے لیکن البانی کے گلے میں اٹک گئی ہے کیونکہ وہ اس کو صحیح کہہ چکے تھے اب  یہ بھی نہیں کہتے کہ  لوگ بولیں کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے کیونکہ ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو

اصل میں غیر مقلدین علماء کافی دنوں سے  عبد الله بن  عمرو رضی الله عنہ کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ  الإسرائيليات روایت کرتے تھے ؟ ابن کثیر نے اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر عبد الله بن عمرو کی روایت بیان کی اور مذاق اڑانے والے انداز میں کہا

 لَعَلَّهُ مِنَ الزَّامِلَتَيْنِ اللَّتَيْنِ أَصَابَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَ الْيَرْمُوكِ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَكَانَ يُحَدِّثُ مِنْهُمَا أَشْيَاءَ غَرَائِبَ.

لگتا ہے ان اونٹنیوں والی کتب جو  اہل کتاب میں سے تھیں جو ان کے ہاتھ لگیں یوم یرموک میں  پس اس سے غریب چیزیں روایت کرتے تھے

اس طرح سات بار اس قول کا اعادہ کیا اور افسوس ایک بار بھی سند میں مجہولین اور ضعیف راویوں پر روایت کا بار نہ ڈالا

بھول جانے والے، غلطی کرنے والے  یا اختلاط کا شکار راویوں  کی بنیاد پر ہم یہ مان رہے ہیں کہ اصحاب رسول روایت کرنے میں  اور اجتہاد میں غلطیاں کرتے تھے مثلا حواب کے  کتوں والی روایت جو ایک مختلط قیس بن ابی حازم کی روایت کردہ ہے اس کی بنیاد پر ام المومنین رضی الله عنہا  کی اجتہادی خطا کا ذکر ہوتا رہتا ہے – یعنی ہم یہ مان گئے کہ راوی غلطی نہیں کر سکتا اصحاب رسول کر سکتے ہیں – یہ کہاں کا انصاف ہے

جھمیوں کے رد میں محدثین پر ایک جنوں سوار تھا کہ کسی طرح عرش کو ایک ٹھوس چیز ثابت کریں لہذا وہ جوش میں اس قسم کی روایات جمع کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ یہ روایت امام احمد کے بیٹے کی کتاب السنہ میں بھی ملتی ہے اور عرش سے متعلق محدثین کی کتابوں میں بھی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ الإسرائيليات میں سے ہیں اور اس طرح انہوں نے اپنا مقدمہ خود کمزور کیا اور معتزلہ کو عوامی پذیرائی ملی

  قرآن یقینا محفوظ ہے

الله تعالی کتاب الله میں کہتے ہیں

﴿ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221) تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (222) يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ

کیا ہم تم کو خبر دیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں ؟ نازل ہوتے ہیں ہر گناہ گار جھوٹے پر جو سنتے ہیں اس میں بات ملاتے اور اکثر جھوٹے ہیں

کچھ افاک اثیم اس امت میں ایسے گزرے جو  شوم نصیبی کے چکر  میں ایسے الجھے کہ  کتاب الله کو پڑھتے تھے لیکن دل میں سے سلاخ کی طرح گزرتی تھی – ان کا دل مانتا نہ تھا کہ عرب کے بدوؤں پر رحمت الہی متوجہ ہوئی اور کوئی چیز عرش سے یہاں لق و دق صحرا میں  اتری بھی –  لھذا ان خالی خولوں میں ایک شاطر شیخ (ابلیس)  کا کنڑول ہوا اور نوک قلم  سے ان  بیمار اذہان کا غبار  صفحہ قرطاس پر منتقل ہوا- مدعآ یہ تھا کہ قرآن اصلی حالت میں نہیں لہذا بس روایات دیکھیں اور فرما دیا کہ قرآن بدل گیا لیکن اس میں جو تبدیلی بتائی اس سے نہ معنوں میں کوئی قرق پڑا نہ اس کی حکت بالغہ میں کوئی کمی آئی

قارئین کے لئے ان کے اس قسم کے التباس ذہنی کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں –

اب  یہاں ہم  اختلاف قرات کی روایات پر تبصرہ کریں گے

البراء بن عآزب رضی الله عنہ کی قرات کا اختلاف

 فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ غَيْرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ

بخاری کی روایت ہے

بخاری ٤٩٩٠ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي} [النساء: 95] القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95]، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْعُ لِي زَيْدًا وَلْيَجِئْ بِاللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ وَالكَتِفِ – أَوِ الكَتِفِ وَالدَّوَاةِ -» ثُمَّ قَالَ: ” اكْتُبْ {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ} [النساء: 95] ” وَخَلْفَ ظَهْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَأْمُرُنِي، فَإِنِّي رَجُلٌ ضَرِيرُ البَصَرِ؟ فَنَزَلَتْ مَكَانَهَا: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ} [النساء: 95] {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95] {غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} [النساء: 95]

اسرائیل ، ابی اسحاق سے وہ البراء سے روایت کرتے ہیں کہ جب نازل ہوئی {لاَ يَسْتَوِي} [النساء: 95] القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ {وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [النساء: 95]

اس میں اصل آیت سوره النساء کی ہے

 لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ 

لیکن اوپر روایت میں یہ آگے پیچھے ہے- اس سے بعض کو بہانہ ہاتھ آ گیا کہ قرآن میں آیات صحیح طور رقم نہیں ہوئیں

اس کا جواب ہے کہ بخاری ہی کی دوسری روایت میں ہے

بخاری ٢٨٣١ حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ} [النساء: 95] مِنَ المُؤْمِنِينَ ” دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا، فَجَاءَ بِكَتِفٍ فَكَتَبَهَا، وَشَكَا ابْنُ أُمِّ [ص:25] مَكْتُومٍ ضَرَارَتَهُ، فَنَزَلَتْ: {لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} [النساء: 95] “

شعبہ ، ابی اسحاق سے وہ البراء سے روایت کرتے ہیں کہ جب نازل ہوئی لاَ يَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ

یہاں روایت میں آیت اسی طرح ہے جیسی ہم تلاوت کرتے ہیں –اس کا مطلب ہے کہ آیت میں تقدم و تاخیر اصل میں راوی إسرائيل بن يونس بن أبى إسحاق السبيعى سے ہوئی ہے شعبہ کی سند میں نہیں ہے

ابو سعید الخدری، ابو ہریرہ  کی قرات میں الله الواحد الصمد؟

راویان حدیث جب روایت لکھتے تو اس میں بعض اوقات الفاظ اپنی پسند کے بھی لکھ دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اضطراب بھی بعض اوقات ہو جاتا ہے اس بات سے لا علم بعض شیعوں اور انکے ہم نوا ملحدین  نے  مسئلہ اختلاف قرات سے جوڑنے کی کوشش کی

ابو سعید الخدری کی قرات

بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، وَالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ ثُلُثَ القُرْآنِ فِي لَيْلَةٍ؟» فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ وَقَالُوا: أَيُّنَا يُطِيقُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «اللَّهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ ثُلُثُ القُرْآنِ»

الأَعْمَشُ کہتے ہیں ہم سے روایت کیا إِبْرَاهِيمُ اور َالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ نے وہ ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا کیا تم میں سے کسی کو ہمت ہے کہ ہر رات ایک تہائی قرآن کی قرات کر  لے؟ پس یہ صحابہ پر سخت گذرا اور انہوں نے کہا اے رسول الله ہم میں کون ایسا کر سکتا ہے آپ نے فرمایا  الله الواحد الصمد ایک تہائی قرآن ہے

مسند ابو یعلی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي سَمِينَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الضَّحَّاكِ الْمَشْرِقِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ»

الأَعْمَشُ کہتے ہیں ہم سے روایت کیا  َالضَّحَّاكُ المَشْرِقِيُّ نے وہ ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں ابو سعید الخدری سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہو قل ھو الله احد یہ ایک تہائی قرآن ہے

یعنی ایک ہی سند ہے لیکن الأَعْمَشُ سے اوپر راوی نے اس کو الگ الگ طرح روایت کیا جس کی وجہ سے بعض کو ابہام ہوا کہ آیات کسی اور طرح نازل ہوئی تھیں

واضح رہے کہ الأَعْمَشُ  خود بھی کوفہ کے شیعہ ہیں

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کی قرات میں قل ھو الله احد ہی تھا اس کی مثال موطا امام مالک کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ” أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلا مِنَ اللَّيْلِ يَقْرَأُ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يُرَدِّدُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّ الرَّجُلَ يُقَلِّلُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدَهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ “

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کہتے ہیں انہوں نے ایک شخص کو سنا جو رات کو قرات کرتا قل ھو الله احد …. رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک تہائی قرآن ہے

ان دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ ابو سعید الخدری کی قرات وہی تھی جو آج ہم کرتے ہیں

ابو ہریرہ کی قرات

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَزَالُونَ يَسْأَلُونَ حَتَّى يُقَالُ: هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؟ ” قَالَ: فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: ” فَوَاللَّهِ، إِنِّي لَجَالِسٌ يَوْمًا إِذْ قَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ: هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَجَعَلْتُ أُصْبُعَيَّ فِي أُذُنَيَّ، ثُمَّ صِحْتُ، فَقُلْتُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ …. اہل عراق میں سے ایک شخص آیا اور کہنے لگا یہ الله ہے جس نے ہم کو خلق کیا ہے تو اسکو کس نے خلق کیا ؟ ابو ہریرہ نے کہا ….میں نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سچ کہا الله الواحد الصمد لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

اس کی سند میں عمر بن أبي سلمة بن عبد الرحمن الزهري  ہے جس کو ليس بالقوي قوی نہیں النسائي نے کہا اور ابن معين نے تضعیف کی ہے

اس کے مقابلے پر  موطا کی روایت ہے

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، مَوْلَى آلِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. «فَسَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَجَبَتْ»، فَسَأَلْتُهُ: مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «الْجَنَّةُ»

ابو ہریرہ کہتے ہیں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ایک شخص کو سنا جو قل ھو الله احد قرات کر رہا تھا رسول اللہ نے کہا واجب ہو گئی میں نے کہا کیا؟ فرمایا جنت

مسند ابی یعلی صحیح السند روایت جو ابو ہریرہ سے مروی ہے اس میں بھی قل ھو الله احد ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْشِدُوا فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ»، فَحَشَدُوا فَقَرَأَ عَلَيْنَا {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} [الإخلاص: 1]، حَتَّى خَتَمَهَا، ثُمَّ دَخَلَ فَقَالَ بَعْضُنَا: قَدْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ» وَلَمْ يَقْرَأْ مَا هَذَا إِلَّا لِخَبَرٍ جَاءَهُ مِنَ السَّمَاءِ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا فَقَالَ: «إِنَّهَا ثُلُثُ الْقُرْآنِ»

الغرض قل ھو الله احد کو عام بول چال میں الله الواحد الصمد کہا جا رہا تھا جیسے آج ہم کہتے ہیں قل پڑھنا یا فاتحہ پڑھنا محدثین کے  دور میں چونکہ سورتوں کے نام نہیں تھے لہذا سورت کو چھوٹا کر کے بیان کر دیا جاتا تھا

ابی بن کعب اور عمر کا قرآن پر اختلاف تھا؟

بعض لوگوں نے عمر اور ابی بن کعب رضی الله عنہ کا اختلاف قرات  کے حوالے سے تذکرہ کیا اور اس میں اپنی طرف سے الفاظ بڑھا کر بات کو  اپنے مدعآ میں پیش کیا

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الفَضْلِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: أُبَيٌّ أَقْرَؤُنَا، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ لَحَنِ أُبَيٍّ، وَأُبَيٌّ يَقُولُ: «أَخَذْتُهُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلاَ أَتْرُكُهُ لِشَيْءٍ»، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا} [البقرة: 106]

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں حبیب بن ابی ثابت نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے   ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ   عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، ابی بن کعب ہمارے  قاری ہیں اور بے شک ہم لحن ابی (تلفظ) پر جاتے ہیں اور ابی کہتے ہیں کہ میں نے تو اس قرات کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے لیا  ہے، میں اس میں سے کوئی چیز چھوڑنے والا نہیں اور (جبکہ) اللہ نے خود فرمایا ہے کہ ماننسخ من آیۃ اوننسھا الآیۃ یعنی ہم جب کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں پھر یا تو اسے بھلا دیتے ہیں یا اس سے بہتر لاتے ہیں۔

اس روایت کا غلط ترجمہ آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں

http://www.urdumajlis.net/threads/صحیح-بخاری.26533/page-90

 جس میں ہے کہ

  لیکن ابی جہاں غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں (وہ بعض منسوخ التلاوۃ آیتوں کو بھی پڑھتے ہیں) اور کہتے ہیں

حالانکہ روایت میں یہ الفاظ  ” ابی جہاں غلطی کرتے ہیں ” سرے سے  ہیں ہی نہیں –

عربی لغت مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) کے مطابق الفاظ

لندع من “لحن” أبي، هو الطريق واللغة، وأراد روايته وقراءته

لندع من “لحن” أبي (بن کعب) یہ طریقه ہے اور لغت ہے اور مقصد ہے انکی روایت اور قرات کے مطابق

دوسری روایت ہے

بخاری حدیث ٤٤٨١ حَدَّثَنا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ، وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ قَوْلِ أُبَيٍّ، وَذَاكَ أَنَّ أُبَيًّا يَقُولُ: لاَ أَدَعُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “. وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا}

ابن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں عمر رضی الله عنہ نے کہا ابی بن کعب ہمارے لئے قرات کرتے ہیں اور علی ہمارے قاضی کے فیصلے کرتے ہیں اور ہم بلا شبہ ان ابی بن کعب  کے  قول (لحن)  پر جاتے ہیں  اور یہ ابی بن کعب کہتے ہیں میں کسی چیز کو نہیں چھوڑ سکتا جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو ، جبکہ الله نے کہا ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی یا اسے بھلایا تو پھر اس سے اچھی آیت لائے۔

یعنی باوجود اس کے کہ ابی بن کعب منسوخ قرات بھی کرتے ہیں ہم انہی کی قرات لیتے ہیں اور اسکی دلیل ہے  کہ

عمر رضی الله عنہ نے رمضان میں نماز الترآویح کے لئے  مسلمانوں کو مسجد النبی میں ابی بن کعب رضی الله عنہ  کی قرات پر جمع کیا بخاری ہی کی حدیث ہے فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ان سب پر  ابی بن کعب  کو (امام)  کیا

اس پر مزید یہ کہ عثمان رضی الله عنہ کے دور میں بھی جمع القرآن  کی کمیٹی میں  ابی بن کعب شامل تھے اس کا مطلب ہے کہ وہ منسوخ آیات بھی ہم قرات کرتے ہیں جن کے لئے عمر رضی الله عنہ کی رائے تھی کہ انکو چھوڑ سکتے ہیں

عبد الله ابن  مسعود کا اختلاف

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ خُمَيْرِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أُمِرَ بِالْمَصَاحِفِ أَنْ تُغَيَّرَ قَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَغُلَّ مُصْحَفَهُ فَلْيَغُلَّهُ فَإِنَّ مَنْ غَلَّ شَيْئًا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ ثُمَّ قَالَ قَرَأْتُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ سُورَةً أَفَأَتْرُكُ مَا أَخَذْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

خمير بن مالک کہتے ہيں کہ حکم ہوا کہ مصاحف قرآني کو بدل ديا جائے – ابن مسعود رضي اللہ عنہ نے کہا  تم ميں سے جو شخص اپنا نسخہ چھپا سکتا ہو، چھپالے، کيونکہ جو شخص جو چيز چھپائے گا، قيامت کے دن اس کے ساتھ ہي آئے گا، پھر فرمايا کہ ميں نے نبي (صلي اللہ عليہ وسلم) کے دہن مبارک سے ستر سورتيں پڑھي ہيں ، کيا ميں ان چيزوں کو چھوڑ دوں، جو ميں نے رسول الله (صلي اللہ عليہ وسلم)  سے حاصل کي ہيں

مسند ابو داود طیالسی میں ہے عبد الله ابن مسعود نے یہ بھی کہا

وَإِنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَصَبِيُّ مِنَ الصِّبْيَانِ

اور زید بن ثابت تو بچوں میں ایک بچہ تھا

گویا کہ جمع القران زید بن ثابت نے کیا حالانکہ اس میں ابی بن کعب بھی موجود ہیں

مسند احمد میں ہے ابن مسعود نے کہا

وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ لَهُ ذُؤَابَةٌ فِي الْكُتَّابِ

اور زید بن ثابت اس کے لئے  الکتاب گچھا  ہے

یعنی زید کے پس کا روگ نہیں ہے

ان تمام کی سند میں خمير بن مالك کا تفرد ہے ابن أبي حاتم کی کتاب الجرح والتعديل 3/391، کے مطابق یہ کوفی ہے حمصی نہیں ہے –

اس  خمير بن مالك  نام کے دو راوی ہیں ایک کوفی ہے اور ایک شامی ہے- کوفی سے صرف ابی اسحاق روایت کرتا ہے اور ابن مسعود بھی کوفہ میں تھے دوسرا شامی ہے جس سے صرف عَبد اللهِ بْن عِيسَى  روایت کرتا ہے بعض لوگوں کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس کو شامی سمجھ کر روایت کو صحیح سمجھا- اصلا یہ خمير بن مالك کوفی ہے

اس کی وضاحت کتاب تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از القاضي أَبِي يَعْلَى البغدادي، الحنبلي (المتوفى: 580هـ) میں موجود ہے

خمير بن مالك کوفی مجھول ہے جس کا اتا پتا نہیں کون ہے لہذا روایت ضعیف ہے

مسند احمد میں ہے

حدثنا عفان حدثنا عبد الواحد حدثنا سليمان الأعمش عن شَقِيق بن سَلَمة قال: خطَبَنَا عبدُ الله بن مسعود فقال: لقد أخذتُ من في رسول الله – صلى الله عليه وسلم – بضعاً وسبعين سورة، وزيد بن ثابت غلام له ذؤابتان، يلعبُ مع الغِلْمان

شَقِيق بن سَلَمة کہتے ہیں عبد الله ابن مسعود نے خطبہ دیا بلاشبہ میں نے رسول الله سے ستر کے قریب سوره لیں اور زید بن ثابت تو لڑکا تھا جس کے (سر پر) دو (بالوں کے) لچھے تھے لڑکوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا

یعنی زید بن ثابت کے سر کے بال تک صحیح طرح نہیں نکلے تھے جب ابن مسعود مدینہ میں انکو دیکھتے تھے

 اسکی  سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ  ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر  يحيى القطان نے کلام کیا ہے

وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً

صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم  جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا

زید بن ثابت انصاری رضی الله عنہ ہجرت سے ١٢ سال قبل پیدا ہوے – ابن مسعود رضی الله عنہ حبشہ ہجرت کر گئے اور وہاں سے جنگ بدر سے پہلے  مدینہ پہنچے تو اس وقت تک زید بن ثابت ١٣ یا ١٤ سال کے تھے جو اسلام میں  لڑکوں کی بلوغت  کی  عمر   ہے  ظاہر ١٣ یا ١٤ سال کے لڑکے کے سر پر بالوں کے دو لچھے نہیں ہوتے نہ وہ بچہ سمجھا جاتا ہے

ترمذی ح ٣١٠٤  میں ہے

قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، كَرِهَ لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَسْخَ المَصَاحِفِ … وَاللَّهِ لَقَدْ أَسْلَمْتُ  وَإِنَّهُ لَفِي صُلْبِ رَجُلٍ كَافِرٍ يُرِيدُ زيد بن ثَابت

امام زہری نے کہا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ نے کہا کہ عبد الله ابن مسعود زید بن ثابت سے کراہت کرتے کہ مصاحف مٹا دیے گئے … اور الله کی قسم میں ایمان لایا جب یہ زید تو ایک کافر کے صلب میں تھا

لیکن مصاحف تلف کرنا عثمان رضی الله عنہ خلیفہ وقت کا حکم تھا نہ کہ زید رضی الله عنہ کا- سندا یہ بات منقطع ہے

عبيد الله بن عبد الله بن عتبة کا سماع عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ہے

بخاری حدیث ٥٠٠٠ میں ہے

حدثنا عمر بن حفص،‏‏‏‏ حدثنا أبي،‏‏‏‏ حدثنا الأعمش،‏‏‏‏ حدثنا شقيق بن سلمة،‏‏‏‏ قال خطبنا عبد الله فقال والله لقد أخذت من في رسول الله صلى الله عليه وسلم بضعا وسبعين سورة،‏‏‏‏ والله لقد علم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أني من أعلمهم بكتاب الله وما أنا بخيرهم‏.‏ قال شقيق فجلست في الحلق أسمع ما يقولون فما سمعت رادا يقول غير ذلك‏.

ہم سے عمرو بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے کچھ اوپر ستر سورتیں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر حاصل کی ہیں۔ اللہ کی قسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن مجید کا جاننے والا ہوں حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ شقیق نے بیان کیا کہ پھر میں مجلس میں بیٹھا تاکہ صحابہ کی رائے سن سکوں کہ وہ کیا کہتے ہیں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔

یہ روایت صحیح کی ہے اس میں وہ طنزیہ جملے نہیں جو زید بن ثابت رضی الله عنہ کے لئے راویوں نے نقل کیے ہیں نہ اس میں قرآن کے مصاحف چھپانے کا ذکر ہے

سوره اللیل کی قرات

سوره اللیل میں  وَ الذَّكَرِ وَالْأُنثَىٰ ہے یا  وَ ما خلق الذَّكَرِ وَالْأُنثَىٰ ہے؟

بعض احادیث میں بیان ہوا ہے کہ علقمہ شام گئے وہاں ابو الدرداء رضی الله عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ ابن مسعود کی قرات سناو  پھر کہا سوره و اللیل سناو

كَيْفَ كَانَ يَقْرَأُ: {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] ؟» ، قُلْتُ     وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى

انہوں نے اس طرح پڑھا تو  ابو الدرداء نے کہا واللہ میں نے بھی ایسا ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا تھا

مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ  کی سند سے مسند احمد ،صحیح بخاری ، میں ہے

  الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ کی سند سے مسند احمد ، ترمذی، صحیح بخاری  میں ہے

إس میں إبراهيم بن يزيد النخعي کآ تفرد ہے – إبراهيم بن يزيد النخعي كا سماع محدثين  کے نزدیک اصحاب عبد الله سے ہے لیکن بعض اوقات یہ تدلیس بھی کرتے ہیں جن میں وہ روایات بھی بیان کرتے ہیں جو اصحاب عبد الله سے نہیں سنی ہوتیں

کتاب موسوعة المعلمي اليماني وأثره في علم الحديث المسماة از عبد الرحمن بن يحي المعلمي اليماني کے مطابق

وإبراهيم أيضًا يُدخل بينه وبين أصحاب عبد الله مثل: هُني بن نُويرة، وسهم بن منجاب، وخزامة الطائي، وربما دلّس عنهم

إبراهيم بن يزيد النخعي اپنے اور اصحاب عبد الله کے درمیان راوی  مثلا هُني بن نُويرة، وسهم بن منجاب، وخزامة الطائي  ڈالتے ہیں اور یہ تدلیس بھی کرتے تھے

کتاب خلاصة تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال از أحمد بن عبد الله بن أبي الخير بن عبد العليم الخزرجي الأنصاري الساعدي اليمني، صفي الدين (المتوفى: بعد 923هـ) کے مطابق

إِبْرَاهِيم بن يزِيد بن قيس بن الْأسود النَّخعِيّ أَبُو عمرَان الْكُوفِي الْفَقِيه يُرْسل كثيرا عَن عَلْقَمَة

راقم کے خیال میں شیخین سے یہاں تسامح ہوا اور یہ روایت صحیحین میں لکھ دی جبکہ یہ منقطع تھی

یہ بات داود بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ کی سند سے مسند احمد، صحیح مسلم  میں ہے

أبو بكر ابن الأنباري (تفسیر قرطبی) أبو بكر ابن العربي (أحكام القرآن)، أبو حيان (البحر)  میں اس قرات کو شاذ کہا گیا ہے

اس روایت پر سوال اٹھتا ہے کہ

هشام بن عمار اور ابن ذکوان کی سند سے جو قرات ملی ہے جس کی سند ابو الدرداء تک جاتی ہے نہ اس میں یہ قرات ہے نہ ابن مسعود کی کسی قرات میں یہ ہے تو یہ بات کیسے ثابت کہی جا سکتی ہے

https://audio.islamweb.net/audio/index.php?page=souraview&qid=776&rid=26

https://audio.islamweb.net/audio/index.php?page=audioinfo&audioid=91047

اہل تشیع کی رائے

  تفسير نور الثقلين – الشيخ الحويزي – ج 5 – ص 589کے مطابق

في جوامع الجامع وفي قراءة النبي صلى الله عليه وآله وعلي عليه السلام وابن عباس ” والذكر والأنثى ” . 7 – في مجمع البيان في الشواذ قراءة النبي صلى الله عليه وآله وقراءة علي بن أبي طالب عليه السلام ” والنهار إذا تجلى وخلق الذكر والأنثى ” بغير ” ما ” روى ذلك عن أبي عبد الله عليه السلام . 8 – في كتاب المناقب لابن شهرآشوب الباقر عليه السلام في قوله : ” وما خلق الذكر والأنثى ” فالذكر أمير المؤمنين والأنثى فاطمة عليهما السلام ان سعيكم لشتى لمختلف فأما من اعطى واتقى وصدق بالحسنى بقوته وصام حتى وفى بنذره وتصدق بخاتمه وهو راكع ، وآثر المقداد بالدينار على نفسه ، قال : ” وصدق بالحسنى ” وهي الجنة والثواب من الله بنفسه فسنيسره لذلك بأن جعله إماما في القبر وقدوة بالأئمة يسره الله لليسرى .

اور جوامع الجامع  میں ہے اور نبی صلی الله علیہ و الہ اور علی علیہ السلام اور ابن عباس کی قرات میں ہے والذكر والأنثى – اور مجمع البيان في الشواذ قراءة النبي صلى الله عليه وآله وقراءة علي بن أبي طالب عليه السلام میں ہے والنهار إذا تجلى وخلق الذكر والأنثى ، لفظ ما کے بغیر یہ امام ابی عبد الله سے روایت کیا گیا ہے اور کتاب المناقب لابن شهرآشوب میں امام باقر کا قول ہے وما خلق الذكر والأنثى پس اس میں الذکر (مرد) امیر المومنین  ہیں اور  والأنثى  فاطمہ عليهما السلام ہیں  

یعنی اہل تشیع کی روایات کے مطابق قرات میں وخلق الذكر والأنثى تھا دوسری روایت کے مطابق والذكر والأنثى  تھا اور تیسری کے مطابق وما خلق الذكر والأنثى  تھا

صحابہ کی تشریحات

دور صحابہ میں تفسیر کی کتب اور مصاحف الگ الگ نہیں تھے بلکہ تشریحی و تفسیری آراء کو مصحف میں ہی لکھا جا رہا تھا اور اس میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے – اسی طرح کی کچھ روایات ہیں جن سے بعض کو اشتباہ ہوا کہ گویا یہ اضافی تشریحی الفاظ قرات کا حصہ ہیں مثلا

في مواسم الحج

صحيح بخاري ميں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ” كَانَتْ عُكَاظٌ، وَمَجَنَّةُ، وَذُو المَجَازِ، أَسْوَاقًا فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الإِسْلاَمُ، فَكَأَنَّهُمْ تَأَثَّمُوا فِيهِ، فَنَزَلَتْ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ} [البقرة: 198] فِي مَوَاسِمِ الحَجِّ ” قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ

ابن عباس رضی الله عنہ نے قرآن کی آیت لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ پڑھی تو اس کے بعد فی مواسم الحج بھی پڑھا

سنن ابو داود میں راوی عُبيد بن عُمَيرٍ  کہتا ہے یہ قرات تھی –

 قال: فحدَّثني عُبيد بن عُمَيرٍ أنه كان يقرؤها في المصحف

عُبيد بن عُمَيرٍ نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس اس کو مصحف میں قرات کرتے تھے

  شعَيب الأرنؤوط  سنن ابو داود کی روایت کے الفاظ  پر تعلیق میں  لکھتے ہیں

وهذا إسناد ضعيف. عبيد بن عمير: هو مولى ابن عباس فيما قاله أحمد بن صالح المصري الحافظ، وأيده المزي في ترجمة عبيد بن عمير مولى ابن عباس من “تهذيب الكمال” 19/ 226 – 227، لأن ابن أبي ذئب – وهو محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة العامري – يقول في آخر الحديث: “فحدثني عبيد بن عمير”، ولم يدرك ابن أبي ذئب عبيدَ بن عمير الليثي الثقة. وعبيد بن عمير مولى ابن عباس مجهول

اس کی اسناد ضعیف ہیں عبيد بن عمير … مجھول ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

عبيد بن عمير [د] .  عن ابن عباس.  لا يعرف.  تفرد عنه ابن أبي ذئب

عبيد بن عمير ، ابن عباس سے روایت کرتا ہے میں نہیں جانتا اس سے روایت کرنے میں ابن أبي ذئب کا تفرد ہے

کتاب   تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از القاضي أَبِي يَعْلَى البغدادي (المتوفى: 580هـ) کہتے ہیں

قال عبد الله بن سليمان: ليس هذا عبيد بن عمير الليثي، هذا عبيد بن عمير مولى أم الفضل، ويقال: مولى ابن عباس

عبد الله بن سلیمان نے کہا یہ عبيد بن عمير الليثي نہیں ہے یہ عبيد بن عمير أم الفضل اور کہا جاتا ہے  مولى ابن عباس ہے

وَرَاءَهُمْ یا أَمَامَهُمْ

اسی طرح کے تشریحی الفاظ سوره الکھف کے لئے بھی ہیں

{وَكَانَ وَرَاءَهُمْ} [الكهف: 79] وَكَانَ أَمَامَهُمْ – قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ: أَمَامَهُمْ مَلِكٌ

اور ان کے پیچھے – اور انکے آگے اس کو قرات  کیا ابن عباس نے

وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا

اور ان کے پیچھے بادشاہ تھا جو ہر سفینہ کو غصب کر لیتا

راوی کو اشتباہ ہوا یہ قرات ہے جبکہ یہ شرح ہے – موسی و خضر کشتی میں تھے کشتی آگے جا رہی تھی لیکن الفاظ ہیں وَرَاءَهُمْ  یعنی ان کے پیچھے-  وَرَاءَهُمْ   قریش کی عربی ہے  جس میں قرآن نازل ہوا

مثلا قرآن میں ہے

مِّن وَرَآئِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَى مِن مَّآءٍ صَدِيدٍ

 الأخفش کتاب معانى القرآن ل میں لکھتے ہیں

وقال {مِّن وَرَآئِهِ} اي: من أمامه.

اور ان کے پیچھے جہنم  ہے … اور کہا مِّن وَرَآئِهِ یعنی ان کے آگے

یعنی قریش کی زبان میں وَرَاءَهُمْ    کا مفھوم أَمَامَهُمْ تھا

الصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ

یہی معاملہ

238. حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی اور الله کے لیے ادب سے کھڑے رہا کرو

میں بھی ہے کہ ام المومنین رضی الله عنہا نے اس میں تشریحی اضافہ کیا کیونکہ تفسیر الگ نہیں تھیں اور مصحف لوگوں کا ذاتی نسخہ ہوتا تھا عام پڑھنے کے لئے نہیں تھا

769- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ لَحْن الْقُرْآنِ: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، وَ (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3) ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي، هَذَا عَمَلُ الكُتَّاب، أخطأوا في الكِتَاب (4)

عربی کی غلطیاں؟

عروہ کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی الله عنہا  سے ان آیات کے بارے میں پوچھا

{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، اوَر (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3)

تو انہوں نے جواب دیا اے میری بہن کے بیٹے! یہی تو کاتبین کرتے ہیں کہ لکھتے ہوئے خطا کر دیتے ہیں

راقم کہتا ہے یہ روایت صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ عربی صحیح ہے تو اس پر کوئی اعتراض کیسا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ آخری عمر میں عراق گئے اور وہاں ان پر بعض محدثین کے مطابق اختلاط کا اثر تھا

شیعہ عالم کتاب مراجعات قرآنية أسئلة شبهات.. وردود تأليف السيد رياض الحكيم کہتے ہیں
س 504 ـ لماذا لم ينصب اسم (إِنْ) فيقول: إنّ هذين لساحران، وليس: ((إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ))؟
ج ـ أولاً: ان هذا ليس غلطاً، بل قد يكون جرياً على لغة (كنانة) الذين يثبتون ألف المثنى في كل الأحوال فيقولون إنّ الرجلان نائمان قال بعض شعرائهم:

السيد رياض الحكيم نے اس بات کو رد کیا کہ اس آیت میں عربی کی کوئی غلطی ہے

شیعہ عالم علي الكوراني کتاب تدوين القرآن میں اسی روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں
ما وردت روايات اخرى تدعي ان الكتاب عندما جمعوا القرآن اشتبهوا في الكتابة ودخلت اغلاطهم في نسخة القرآن عروة , عن ابيه قال : سالت عائشة رضي اللّه عنها عن لحن القرآن ان هذان لساحران وقوله ان الذين آمنوا والذين هادوا والصابئون والنصارى والمقيمين الصلاة والمؤتون الزكاة واشباه ذلك ؟ فقالت : اي بني ان الكتاب يخطئون ) وهي روايات مرفوضة
یہ روایات مسترد شدہ ہیں

یعنی یہ روایت اہل تشیع کے علماء خود قبول نہیں کرتے

الحمد للہ اہل تشیع خود کہتے ہیں کہ وہ قرآن کو کامل مانتے ہیں لیکن ان کےبعض جہلاء ابھی تک ٥٠٠ ہجری میں زندہ ہیں

بلاگ طویل ہوا لیکن سرے  دست یہ کافی ہے

الله ہم سب کو  کتاب الله پر ایمان پر قائم رکھے

 

عمرو بن العاص کی وصیت ٢

مصر میں بعض عمل جنازہ کے بعد کیے جاتے تھے جو حجاز میں اہل اسلام سے نہیں ملے تھے اس کا ذکر امام الشافعی نے کیا  – کتاب الام میں امام الشافعی لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ قَالَ (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَقَدْ بَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ مَنْ مَضَى أَنَّهُ أَمَرَ أَنْ يُقْعَدَ عِنْدَ قَبْرِهِ إذَا دُفِنَ بِقَدْرِ مَا تُجْزَرُ جَزُورٌ (قَالَ) : وَهَذَا أَحْسَنُ، وَلَمْ أَرَ النَّاسَ عِنْدَنَا يَصْنَعُونَهُ 

الرَّبِيعُ نے خبر دی کہ امام الشافعی نے کہا مجھ تک پہنچا کہ جو لوگ گزرے ہیں ان میں سے بعض اس کا حکم کرتے تھے کہ  تدفین کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر بیٹھا جائے کہ اس میں اونٹ ذبح ہو جائے امام الشافعی نے کہا یہ احسن ہے اور ہمارے پاس جو لوگ ہیں ہم نے نہیں دیکھا کہ  لوگ ایسا کرتے ہوں

عصر حاضر کے وہابی علماء اور ہمارے نزدیک یہ عمل بدعت ہے اور حق کا تقاضہ ہے کہ کوئی امام کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کی تقلید نہ کی جائے –  یہ عمل مصریوں کی ایک بدعت تھا اور اس کو سند جواز بھی انہوں نے ہی دیا لہذا مصریوں نے روایت بیان کی کہ اس قسم کی وصیت صحابی رسول عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے کی

صحیح مسلم کی روایت ہے جس کا ترجمہ ابو جابر دامانوی نے کتاب عذاب قبر میں پیش کیا ہے

http://forum.mohaddis.com/threads/عذاب-قبر.25558/page-4

جناب ابن شماسہ المہری ؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب عمرو بن العاص ؓ کے پاس اس وقت گئے جب کہ ان کی وفات کا وقت قریب تھا وہ بہت دیر تک روتے رہے او ردیوار کی طرف منہ پھیر لیا۔بیٹے نے کہا ابا جان کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں بشارت نہیں دی؟ پھر آپ اس قدر کیوں روتے ہیں ؟ تب انہوں نے اپنا منہ ہمارے طرف کیا اور فرمایا ہمارے لئے بہترین توشہ تو اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں (پھر فرمایا) میں تین ادوار سے گزرا ہوں۔ایک دور تو وہ تھا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی سے بغض نہ تھا اور کوئی چیز میری نظر میں اتنی محبوب نہ تھی جتنی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قدرت حاصل ہو جائے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالوں (معاذ اللہ)پھر دوسرا دور وہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کا خیال میرے دل میں پیدا کیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہاتھ پھیلائیے تا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا تو میں نے اپناہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا میں شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ شرط یہ ہے کہ میرے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں۔ فرمایا عمروؓ کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام تمام سابقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت تمام پہلے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے اور حج تمام گناہوںکو مٹا دیتا ہے (چنانچہ میں نے بیعت کر لی) اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھے کسی سے محبت نہ تھی اور نہ میری آنکھوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی صاحب جلال تھا۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و جلال کے باعث آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکتا تھا اور چونکہ پورے طور پر چہرہ مبارک نہ دیکھ سکتا تھا اس لئے مجھ سے ان کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں بیان نہیں کر سکتا۔ اگر میں اسی حالت میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا۔اس کے بعد ہم بہت سی باتوں کے ذمہ دار بنائے گئے۔ معلوم نہیں میرا ان میں کیا حال رہے گا۔جب میں مر جائوں تو کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ جائے اور نہ آگ ساتھ لے جائی جائے اور جب مجھے دفن کرنا تو اچھی طرح مٹی ڈال دینا پھر میری قبر کے چاروں طرف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے تا کہ میں تم سے انس حاصل کر سکوں اور دیکھوں کہ اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( صحیح مسلم جلد ۱ص۷۶ مسند احمد جلد ۴ ص۱۹۹)

عصر حاضر کے ایک مشھور و معروف  وہابی عالم شیخ   محمد بن صالح العثيمين اپنے فتوی میں کہتے ہیں جو  مجموعة أسئلة تهم الأسرة المسلمة  ج ٢١٩ ص ٣٥ میں چھپا ہے کہ

هذا أوصى به عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه ـ فقال: «أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها»، لكن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرشد إليه الأمة، ولم يفعله الصحابة ـ رضي الله عنهم ـ فيما نعلم

 یہ عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه نے وصیت کی پس کہا میری قبر کے اطراف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے .. لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہ ہی اسکی نصیحت امت کو کی، نہ صحابہ رضی الله تعالی عنہم نے ایسا کیا  جیسا ہمیں پتا ہے

کتاب  شرح رياض الصالحين  میں وہابی عالم  محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)   مزید وضاحت کرتے ہیں

 أما ما ذكره رحمه الله عن عمرو بن العاص رضي الله عنه أنه أمر أهله أن يقيموا عنده إذا دفنوه قدر ما تنحر جزور قال لعلي أستأنس بكم وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي يعني الملائكة فهذا اجتهاد منه رضي الله عنه لكنه اجتهاد لا نوافقه عليه لأن هدي النبي صلى الله عليه وسلم أكمل من هدي غيره ولم يكن النبي صلى الله عليه وسلم يقف أو يجلس عند القبر بعد الدفن قدر ما تنحر الجزور ويقسم لحمها ولم يأمر أصحابه بذلك 

اور جہاں تک وہ ہے جو امام نووی .. نے عمرو بن العاص رضی الله عنہ کے لئے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اہل کو حکم کیا کہ وہ دفنانے کے بعد قبر کے گرد کھڑے ہوں اور اونٹ کو ذبح کرنے کی مدت کھڑے ہوں اور کہا کہ ہو سکتا ہے کہ میں مانوس ہو جائیں اور دیکھوں کہ کیا جواب دوں اپنے رب کے فرشتوں کو پس یہ ان کا اجتہاد تھا رضی الله عنہ لیکن یہ اجتہاد اس پر نہیں ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت اکمل ہدایت ہے کسی غیر سے اور نبی صلی الله علیہ وسلم تو نہ قبر پر رکے نہ بیٹھے قبر میں دفنانے کے بعد اونٹ نحر کرنے اور گوشت باٹنے کی مدت اور نہ اس کا حکم اصحاب رسول کو کیا اس کام کے لئے 

اسی طرح فتاوى نور على الدرب میں عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ)   کہتے ہیں

 أما كونهم يجلسون قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها فهذا من اجتهاد عمرو وليس عليه دليل

ان کے لئے قبر کے گرد اس قدر پیٹھنا کہ اس میں اونٹ نحر ہو اور اس کا گوشت تقسیم ہو تو یہ عمرو کا اجتہاد ہے اس اس پر کوئی دلیل نہیں 

وہ علماء جنہوں نے عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے منسوب  اس وصیت کے آخری الفاظ پر جرح کی ہے ان کے متعلق ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں کہ یہ روافض جیسے ہیں

http://forum.mohaddis.com/threads/عذاب-قبر.25558/page-4

شیعہ (روافض) توویسے ہی عمرو بن العاصؓ سے خا ر کھائے بیٹھے ہیں اوروہ ان سے سخت بغض و عداوت رکھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ موصوف نے بھی روپ بدل کر اور تقیہ کالباس اوڑھ کر یہ سلسلہ شروع کر دیا ہو اور عمرو ؓ دشمنی کو توحید کا نام دے دیا ہو

مزید کہتے ہیں

عمرو بن العاص ؓ نے جو کچھ فرمایا اس کا ایک ایک لفظ احادیث سے ثابت ہے

دامانوی وہ الفاظ جو نزاع کا باعث ہیں ان کو چھوڑ کر ان روایات کو پیش کرتے ہیں جن پر ہمیں اور وہابی علماء کو  اعتراض نہیں بلکہ روایت کے آخری حصہ کو وہابی علماء بدعت قرار دیا ہے  – لیکن ابو جابر کہتے ہیں

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمرو بن العاصؓ کی وصیت بالکل صحیح تھی۔

دامانوی مزید کہتے ہیں

اگر عمرو بن العاصؓ نے سکرات موت میں غلط وصیت کی تھی تو ان کے صاحبزادے جناب عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ (جو خود ایک جلیل القدر اور عابد و زاہد صحابی ؓ ہیں ) کو ضرور اس غلط بات کی تردید کرنا چاہئے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا

افسوس اس جھل صریح پر کیا لب کشائی کریں ضروری نہیں کہ روایات میں ہر چیز ہو – کیا ان کے بیٹوں نے اس پر عمل کیا؟ اس کی روایت ہے کسی کے پاس ؟

اس روایت کو کتاب الزهد والرقائق لابن المبارك ، مسند امام احمد، مستدرک الحاکم  میں بیان کیا گیا ہے بعض میں متن ہے

 وَلَا تَجْعَلَنَّ فِي قَبْرِي خَشَبَةً وَلَا حَجَرًا، فَإِذَا وَارَيْتُمُونِي فَاقْعُدُوا عِنْدِي قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِيعِهَا، أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ

سند ہے

أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ، وَأَبُو بَكْرٍ الْوَرَّاقُ قَالَا: أَخْبَرَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ،

یہاں سند میں ابْنُ لَهِيعَةَ سخت ضعیف ہے اور یہ روایت عبادلہ  سے نہیں ہے یہ بھی مصری ہیں اور يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ اور عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ بھی مصری ہیں

 ابن سعد 4/258-259، ومسلم (121) (192) ، وابن أبي عاصم في “الآحاد والمثاني” (801) ، وابن خزيمة (2515) ، وأبو عوانة 1/70، وابن منده في “الإيمان” (270) ، والبيهقي 9/98، وابن عساكر 3/ورقة 534 من طريق حيوة بن شريح، عن يزيد بن أبي حبیب

امام مسلم نے اس کی سند دی ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ، وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، كُلُّهُمْ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ يَعْنِي أَبَا عَاصِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ

اس میں ابو عاصم النبیل  سے لے کر ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ تک سب مصری ہیں اس میں ابو عاصم النبیل خود امام احمد کے نزدیک یثبج الحدیث (یعنی حدیث کو مضطرب کرنے والا) ہے

یہ اس روایت کی علت ہے کہ اس کو اہل مصر روایت کرتے ہیں تدفین کے بعد اس عمل کا کوئی اور شہر ذکر نہیں کرتا جبکہ اونٹ سب جگہ ہیں- نہ اس پر کوئی اور صحابی عمل کرتا ہے لہذا اس منفرد عمل پر شک ہوتا ہے کہ ایسا مصریوں نے کیوں روایت کیا کہ چار چار گھنٹے تک قبر کے گرد ہی بیٹھا جائے

اب  اس روایت میں الفاظ پر غور کرتے ہیں اور اردو ترجمے  دیکھتے ہیں

دیوبندی غلام رسول سعیدی کا ترجمہ اور شرح

اہل حدیث وحید الزمان کا ترجمہ

اہل حدیث خواجہ محمد قاسم کا ترجمہ

اہل حدیث صادق سیالکوٹی کا ترجمہ

آج کل اہل حدیث کہتے ہیں مردہ صرف جوتوں کی چاپ سنتا ہے جبکہ پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ مردہ اذکار و استغفار سنتا ہے

اہل حدیث ابو سعید سلفی کا ترجمہ

قارئیں اپ ان ترجموں کا تضاد دیکھ سکتے ہیں

الفاظ

وخشت سے بچ جاؤں

تنہائی میں گھبرا جاؤں

سرے سے متن میں ہیں ہی نہیں

اس روایت سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مردہ اتنا پاور فل ہوتا ہے قبر کے باہر لوگوں سے انس حاصل کر سکتا ہے اور ان کو دیکھ کر جواب بھی دیتا ہے؟ یقینا یہ روایت صحیح نقل نہیں ہوئی

مسند احمد میں ہے فَاقْعُدُوا عِنْدِي قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِيعِهَا، أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ کہ میری قبر یا میرے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ جانا اس قدر تک کہ اس میں اونٹ ذبح ہو اور  کٹے اور بٹے یہاں تک کہ میں انسیت حاصل کروں

اونٹ ذبح ہو اور  کٹے اور بٹے اس میں تین چار گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے گویا فرشتوں کے  مختصر سوالات

تمہارا رب کون ہے؟

تمہاری اس شخص (نبی صلی الله علیہ وسلم) پر کیا رائے ہے ؟

پر بیرونی دنیا سے اہل قبور کا انسیت حاصل کرنا فائدہ مند نہیں ہو سکتا جبکہ الله تو سریع الحساب ہے

عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے الفاظ کا ترجمہ کیا جاتا ہے

حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ))یعنی میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا تاکہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو اور میں فرشتوں کو صحیح جواب دے سکوں ۔۔

حالانکہ أستأنس  کا یہ ترجمہ صحیح نہیں أستأنس کا مطلب مانوس ہونا ہی  ہے  أستأنس کا ترجمہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو کرنا غلط ہے

بخاری کی عبدللہ بن سلام سے متعلق حدیث ہے

 قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فِي نَاسٍ، فِيهِمْ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فِي وَجْهِهِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزُ فِيهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ فَاتَّبَعْتُهُ، فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، وَدَخَلْتُ، فَتَحَدَّثْنَا، فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ قُلْتُ لَهُ

قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں لوگوں کے ساتھ تھا بعض ان میں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم بھی تھے پس ایک شخص آیا جس کے چہرے پر خشوع تھا لوگوں نے کہا یہ اہل جنت میں سے ہے …. (اس کے بعد قیس عبدللہ بن سلام سے ملے) حتی کہ وہ (أستأنس)  مانوس ہوئے

صحیح رائے یہی ہے کہ عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وصیت کی روایت شاذ ہے اس میں اہل مصر کا تفرد ہے اور اس کا متن  نصوص سے متصادم ہے

طبقات ابن سعد اور سیر الاعلام النبلاء  میں عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وفات کا ذکر موجود ہے

إِسْرَائِيْلُ: عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ المُخْتَارِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بنِ قُرَّةَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَرْبٍ بنُ أَبِي الأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْرٍو:
أَنَّ أَبَاهُ أَوْصَاهُ: إِذَا مِتُّ، فَاغْسِلْنِي غَسْلَةً بِالمَاءِ، ثُمَّ جَفِّفْنِي فِي ثَوْبٍ، ثُمَّ اغْسِلْنِي الثَّانِيَةَ بِمَاءٍ قَرَاحٍ، ثُمَّ جَفِّفْنِي، ثُمَّ اغْسِلْنِي الثَّالِثَةَ بِمَاءٍ فِيْهِ كَافُوْرٌ، ثُمَّ جَفِّفْنِي، وَأَلْبِسْنِي الثِّيَابَ، وَزِرَّ عَلَيَّ، فَإِنِّي مُخَاصَمٌ.
ثُمَّ إِذَا أَنْتَ حَمَلْتَنِي عَلَى السَّرِيْرِ، فَامْشِ بِي مَشْياً بَيْنَ المِشْيَتَيْنِ، وَكُنْ خَلْفَ الجَنَازَةِ، فَإِنَّ مُقَدَّمَهَا لِلْمَلاَئِكَةِ، وَخَلْفَهَا لِبَنِي آدَمَ، فَإِذَا أَنْتَ وَضَعْتَنِي فِي القَبْرِ، فَسُنَّ عَلَيَّ التُّرَابَ سَنّاً.
ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ أَمَرْتَنَا فَأَضَعْنَا، وَنَهَيْتَنَا فَرَكِبْنَا، فَلاَ بَرِيْءٌ فَأَعْتَذِرَ، وَلاَعَزِيْزٌ فَأَنْتَصِرَ، وَلَكِنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ.
وَمَا زَالَ يَقُوْلُهَا حَتَّى مَاتَ

 شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں اس کی  سند قوی ہے

 إسناده قوي، وهو في ” طبقات ابن سعد ” 4 / 260، و” ابن عساكر ” 13 / 269 / آ.

عبد الله بن عمرو کہتے ہیں میرے باپ نے وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے پانی سے غسل دینا پھر .. پھر جب مجھ کو کھاٹ پر لے کر چلو … میرے جنازے کے پیچھے رہنا اس اس اگلا فرشتوں کے لئے ہے اور پچھلا بنی آدم کے لئے ہے پس جب قبر میں رکھو تو مجھ پر مٹی ڈالنا پھر کہا اے الله تو نے حکم کیا ہم کمزور ہوئے تو نے منع کیا ہم اس کی طرف گئے میں بے قصور نہیں کہ معذرت کر سکوں میں طاقت والا نہیں کہ نصرت والا ہوں لیکن اے الله تیرے سوا کوئی اله نہیں ہے اور وہ یہ کہتے رہے یہاں تک کہ مر گئے

اس روایت میں وہ اختلافی و بدعتی  الفاظ سرے سے نہیں جو صحیح مسلم کی روایت میں ہیں

تفصیل کے لئے دیکھئے

⇓ عمرو بن العاص کی وصیت  کو وہابی عالم  ابن العثيمين  نے بدعت کہا ہے ایسا کیوں؟

حیات بعد الموت

خواب میں رویت باری تعالی

سر  میں لگی آنکھوں سے الله تعالی کا دیدار کرنا ممکن نہیں  لیکن آخرت میں چونکہ انسانی جسم کی تشکیل نو ہو گی اس کو تبدیل کیا جائے گا اور اس وقت محشر میں اہل ایمان اپنے رب کو دیکھ لیں گے

صحیح بخاری و مسلم میں معراج سے متعلق کسی حدیث میں نہیں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے ہوں اور الله تعالی کو دیکھا ہو البتہ بعض ضعیف اور غیر مظبوط روایات میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  میں نے اپنے رب کو دیکھا بغیر داڑھی مونچھ جس پر سبز لباس تھا – قاضی ابو یعلی کے مطابق یہ معراج پر ہوا اور ابن تیمیہ کے مطابق یہ قلب پر آشکار ہوا – محدثین کی ایک جماعت نے اس طرح کی روایات کو رد کیا اور ایک نے قبول کر کے دلیل لی – اسی طرح ایک دوسری روایت بھی ہے جس میں رب تعالی کا نبی صلی الله علیہ وسلم کو  چھونے تک  کا ذکر ہے

جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایت

کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں البانی  کہتے ہیں

ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ثنا يَحْيَى بْنُ أبي بكير ثنا إبراهيم ابن طَهْمَانَ ثنا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَلَّى لِي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَسَأَلَنِي فِيمَا يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: رَبِّي لا أَعْلَمُ بِهِ, قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثديي أو وضعهما بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ كَتِفَيَّ فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شيء إلا علمته”.

– إسناد حسن رجاله ثقات رجال الشيخين غير سماك بن حرب فهو من رجال مسلم

إبراهيم ابن طَهْمَانَ  نے  سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ  سے اس نے  جَابِرِ بْنِ سَمُرَة رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله تعالی نے میرے لئے تجلی کی حسین صورت میں پھر پوچھا کہ یہ ملا الاعلی کیوں جھگڑتے رہتے ہیں  پھر اپنا ہاتھ میرے شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک محسوس کی

اس کی اسناد حسن ہیں اس کے رجال ثقات ہیں سوائے سماك بن حرب کے جو صحیح مسلم کا راوی ہے

اس کے برعکس مسند احمد کی تحقیق میں شعيب الأرنؤوط  اس کو إبراهيم ابن طَهْمَانَ کی وجہ سے  ضعیف قرار دیتے ہیں

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ کی روایت

سنن دارمی، ج 5، ص 1365 پر ایک روایت درج ہے

2195 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، وَسَأَلَهُ، مَكْحُولٌ أَنْ يُحَدِّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:1366] يَقُولُ: «رَأَيْتُ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ فَقُلْتُ: «أَنْتَ أَعْلَمُ يَا رَبِّ» ، قَالَ: ” فَوَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، [ص:1367] فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَتَلَا {وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ}

نبی اکرم نے فرمایا کہ میں نے رب کو اچھی صورت میں دیکھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آسمانوں میں کس بات پر لڑائی ہے؟ میں نے کہا کہ اے رب! آپ زیادہ علم رکھتے ہیں۔ نبی اکرم فرماتے ہیں کہ پھر اللہ نے اپن ہاتھ میرے چھاتی کے درمیان رکھا حتی کہ مجھے اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے، مجھے اس کا علم ہو گیا۔ پھر نبی اکرم نے اس ایت کی تلاوت کی کہ اس طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھائی تاکہ وہ یقین والوں میں ہو

کتاب کے محقق، حسین سلیم اسد نے سند کو صحیح قرار دیا جبکہ سلف اس کو رد کر چکے تھے

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے جبکہ یہ صحابی نہیں ہے

وقال أبو حاتم الرازي هو تابعي وأخطأ من قال له صحبة وقال أبو زرعة الرازي ليس بمعروف
ابو حاتم نے کہا یہ تابعی ہے اور اس نے غلطی کی جس نے اس کو صحابی کہا اور ابو زرعہ نے کہا غیر معروف ہے

ابن عبّاس رضی الله عنہ  سے منسوب  روایت

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَتَانِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ اللَّيْلَةَ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ – أَحْسِبُهُ يَعْنِي فِي النَّوْمِ – فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا ” قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ – أَوْ قَالَ: نَحْرِي – فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، يَخْتَصِمُونَ فِي الْكَفَّارَاتِ وَالدَّرَجَاتِ، قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ وَالدَّرَجَاتُ؟ قَالَ: الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَى الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِبْلَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَقُلْ يَا مُحَمَّدُ إِذَا صَلَّيْتَ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً، أَنْ تَقْبِضَنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ، قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ: بَذْلُ الطَّعَامِ، وَإِفْشَاءُ السَّلَامِ، وَالصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ “

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ترمذی ح ٣٢٣٤  میں سند میں ابو قلابہ اور ابن عباس کے درمیان ْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ   ہے

. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ رَبِّ لَا أَدْرِي فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ فَقُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى  قُلْتُ فِي الدَّرَجَاتِ وَالْكَفَّارَاتِ وَفِي نَقْلِ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ فِي الْمَكْرُوهَاتِ وَانْتِظَارِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَمَنْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں  باب: سورہ  ص  سے بعض آیات کی تفسیر

 عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم  نے فرمایا: میرا رب بہترین صورت میں   آیا اور اس نے مجھ سے کہا: محمد-  میں نے کہا : میرے رب  میں تیری خدمت میں حاضر وموجود ہوں، کہا: اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: رب  میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت وعزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان  محسوس کی، اور مجھے مشرق ومغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہوگیا، (پھر) کہا: محمد  میں نے عرض کیا: رب  میں حاضر ہوں، اور تیرے حضور میری موجود گی میں  – میں نے کہا: انسان کا درجہ ومرتبہ بڑھانے والی اور گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں تکرار کررہے ہیں، جماعتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والے قدموں کے بارے میں اور طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل وضو کرنے کے بارے میں۔ اور ایک صلاۃ پڑھ کر دوسری صلاۃ کا انتظار کرنے کے بارے میں، جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا، اور خیر (بھلائی) ہی کے ساتھ مرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک وصاف ہوجائے گا جس دن کہ ان کی ماں نے جنا تھا، اور وہ گناہوں سے پاک وصاف تھا”۔ امام ترمذی کہتے ہیں: – یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے

البانی  کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں یہ بھی کہتے ہیں

قد روى معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس مرفوعا بلفظ: “رأيت ربي عز وجل فقال: يا محمد فيم يختصم الملأ الأعلى..” الحديث. أخرجه الآجري ص 496 وأحمد كما تقدم 388 فالظاهر أن حديث حماد بن سلمة مختصر من هذا وهي رؤيا منامية

اس کو معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس کی سند سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا اس نے پوچھا الملأ الأعلى کیوں لڑ رہے ہیں ؟ اس کی تخریج کی ہے الآجري اور احمد نے جیسا کہ گزرا ہے پس ظاہر ہے کہ حماد بن سملہ کی حدیث مختصر ہے اور یہ دیکھنا نیند میں ہے

اس کے بر عکس  شعيب الأرنؤوط  مسند احمد میں اس پر حکم لگاتے ہیں

إسناده ضعيف، أبو قلابة- واسمه عبد الله بن زيد الجرمي- لم يسمع من ابن عباس، ثم إن فيه اضطراباً

اس کی اسناد ضعیف ہیں – أبو قلابة-  جس کا نام عبد الله بن زيد الجرمي ہے اس کا سماع ابن عباس سے نہیں ہے پھر اس روایت میں اضطراب بہت ہے

راقم کہتا ہے جامع الترمذی کی روایت بھی صحیح نہیں ہے  :  کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق خالد کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے ان سے مرسل روایت کرتا ہے
خالد بن اللجلاج العامري ذكره الصغاني فيمن اختلف في صحبته وهو تابعي يروي عن أبيه وله صحبة وفي التهذيب لشيخنا أنه يروي عن عمر وابن عباس مرسلا ولم يدركهما
الذھبی تاریخ الاسلام میں اس کے لئے کہتے ہیں
وَقَدْ أَرْسَلَ عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
عمر اور ابن عباس سے یہ ارسال کرتا ہے

اسی طرح اس میں قتادہ مدلس ہے جو عن سے روایت کر رہا ہے
ان علتوں کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے

معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے منسوب  روایت

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا جَهْضَمٌ يَعْنِي الْيَمَامِيَّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ وَهُوَ زَيْدُ بْنُ سَلَّامِ بْنِ أَبِي سَلَّامٍ نَسَبُهُ إِلَى جَدِّهِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَ: احْتَبَسَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى كِدْنَا نَتَرَاءَى قَرْنَ الشَّمْسِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيعًا، فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ وَصَلَّى وَتَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ. قَالَ: ” كَمَا أَنْتُمْ عَلَى مَصَافِّكُمْ كَمَا أَنْتُمْ (2) “. ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَيْنَا. فَقَالَ: ” إِنِّي سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْكُمُ الْغَدَاةَ إِنِّي قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ، فَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَتَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي يَا رَبِّ. قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي رَبِّ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي يا رَبِّ   ، فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ صَدْرِي فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: فِي الْكَفَّارَاتِ. قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ؟ قُلْتُ: نَقْلُ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجُمُعَاتِ، وَجُلُوسٌ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَواتِ،   وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عِنْدَ الْكَرِيهَاتِ. قَالَ: وَمَا الدَّرَجَاتُ؟ قُلْتُ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَلِينُ الْكَلَامِ، وَالصَّلَاةُ وَالنَّاسُ نِيَامٌ. قَالَ: سَلْ. قُلْتُ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِي قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ، وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ “. وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا وَتَعَلَّمُوهَا

معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں رات کو اٹھا، میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی جتنی میرے مقدر میں تھی پھر مجھے نماز میں اونگھ آ گئی۔ اچانک میں نے اپنے رب کو سب سے اچھی صورت میں دیکھا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی

البانی نے اس کو صحیح کہہ دیا ہے

جبکہ دارقطنی علل ج ٦ ص ٥٤ میں اس روایت پر کہتے ہیں
وسئل عن حديث مالك بن يخامر عن معاذ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال رأيت ربي في أحسن صورة فقال لي يا محمد فيم يختصم الملا الاعلى الحديث بطوله فقال ……… قال ليس فيها صحيح وكلها مضطربة

اس کی کوئی سند صحیح نہیں تمام مضطرب ہیں

شعيب الأرنؤوط مسند احمد میں اس روایت پر کہتے ہیں
ضعيف لاضطرابه
اضطراب کی بنا پر ضعیف ہے

ابن حجر کتاب “النكت الظراف  4/38 میں کہتے ہیں

هذا حديث اضطرب الرواةُ في إسناده، وليس يثبت عن أهل المعرفة.

اس حدیث کی اسناد میں اضطراب ہے اور یہ اہل معرفت کے ہاں ثابت نہیں ہیں

 کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات   میں  القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ)  کہتے ہیں

وقوله: ” فيم يختصم الملأ الأعلى ” وقد تكلمنا عَلَى هَذَا السؤال فِي أول الكتاب فِي قوله: ” رأيت ربي ” فإن قِيلَ: هَذَا الخبر كان رؤيا منام، والشيء يرى فِي المنام عَلَى خلاف مَا يكون

اور قول  کس پر الملأ الأعلى جھگڑا کر رہے ہیں ؟ اور اس سوال پر ہم نے اس کتاب کے شروع میں کلام کیا ہے کہ اگر کہیں کہ یہ خبر نیند کا خواب ہے اور یا چیز جو نیند میں دیکھی تو یہ اس کے خلاف ہے جو کہا گیا

القاضي أبو يعلى کے مطابق یہ سب معراج پر ہوا نہ کہ نیند میں

اس کے برعکس ابن تیمیہ نے منہاج السنہ میں موقف لیا کہ یہ نیند میں ہوا

وَإِنَّمَا الرُّؤْيَةُ فِي أَحَادِيثَ مَدَنِيَّةٍ كَانَتْ فِي الْمَنَامِ كَحَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: ” «أَتَانِي الْبَارِحَةَ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» ” إِلَى آخِرِهِ، فَهَذَا مَنَامٌ رَآهُ   فِي الْمَدِينَةِ، * وَكَذَلِكَ مَا شَابَهَهُ كُلُّهَا كَانَتْ فِي الْمَدِينَةِ فِي الْمَنَامِ

اور یہ دیکھنا نیند میں تھا جو مدینہ کی احادیث ہیں جیسے معاذ بن جبل کی حدیث  کل   میرا رب اچھی صورت میرے پاس آیا آخر تک تو یہ نیند میں دیکھا تھا مدینہ میں اور اسی طرح روایات ہیں جو مدینہ میں نیند میں ہیں

یعنی ٥٠٠ صدی ہجری کے بعد حنابلہ کا ان روایات پر اختلاف ہوا کہ یہ نیند میں دیکھا تھا یا معراج پر پس ان مخصوص روایات کو ابن تیمیہ نے  خواب  قرار دیا

ابن تیمیہ کے ہم عصر امام الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں اس قسم کی ایک روایت (رأيت ربي جعدا أمرد عليه حلة خضراء  میں نے اپنے رب کو بغیر داڑھی مونچھ مرد کی صورت سبز لباس میں دیکھا ) پر لکھتے ہیں

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:  قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ .  وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَ السَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:  قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.  وَالَّذِي دَلَّ عَلَيْهِ الدَّلِيْلُ عَدَمُ الرُّؤْيَةِ مَعَ إِمْكَانِهَا   ، فَنَقِفُ عَنْ هَذِهِ المَسْأَلَةِ، فَإِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ المَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيْهِ، فَإِثْبَاتُ ذَلِكَ أَوْ نَفْيُهُ صَعْبٌ، وَالوُقُوْفُ سَبِيْلُ السَّلاَمَةِ – وَاللهُ أَعْلَمُ -. وَإِذَا ثَبَتَ شَيْءٌ، قُلْنَا بِهِ، وَلاَ نُعَنِّفُ مَنْ أَثْبَتَ الرُّؤْيَةَ لِنَبِيِّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي الدُّنْيَا، وَلاَ مَنْ نَفَاهَا، بَلْ نَقُوْلُ: اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، بَلَى نُعَنِّفُ وَنُبَدِّعُ مَنْ أَنْكَرَ الرُّؤْيَةَ فِي الآخِرَةِ، إِذْ رُؤْيَةُ اللهِ فِي الآخِرَةِ ثَبَتَ بِنُصُوْصٍ مُتَوَافِرَةٍ.

بیہقی نے کتاب الصفات میں روایت کیا …. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے  فرمایا  میں نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا .. اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے اور یہ خبر منکر ہے – ہم الله سے اس پر سلامتی چاہتے ہیں پس نہ تو یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر ہے اور اگر یہ سب غیر الزام زدہ ہوں بھی تو یہ خطاء و نسیان سے کہاں معصوم ہیں ؟  اب جو پہلی خبر ہے اس میں ہے کہ رسول الله نے فرمایا  میں نے اپنے رب کو دیکھا – اس میں نیند کی کوئی قید نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو معراج کی رات دیکھا اس حدیث کے ظاہر سے دلیل لیتے ہوئے –  پر رویت نہیں ہے اس کا امکان ہے جو اس دلیل میں ہے – پس ہم جانتے ہیں کہ اس مسئلہ میں کہ اسلام کا حسن ہے کہ آدمی اس کو چھوڑ دے جس کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس رویت باری کا اثبات یا نفی مشکل ہے اور اس میں توقف میں سلامتی ہے و الله اعلم اور اگر ایک چیز ثابت ہو تو ہم اس کا کہیں گے   اور نہ ہی ہم برا کہیں گے جو ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے اس کا اثبات کرے کہ انہوں نے دیکھا اس دنیا میں نہ اس کا انکار کریں گے بلکہ کہیں گے الله اور اسکا رسول جانتے ہیں بلا شبہ ہم برا کہیں گے اور رد کریں گے جو اس کا انکار کرے کہ یہ رویت آخرت میں بھی نہیں ہے کیونکہ الله کو آخرت میں دیکھنا نصوص  موجودہ سے ثابت ہے

الذھبی کے بعد انے والے ابن کثیر سوره النجم کی تفسیر میں لکھتے ہیں

فَأَمَّا الْحَدِيثُ الَّذِي رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ   : حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ» فَإِنَّهُ حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ عَلَى شَرْطِ الصَّحِيحِ، لَكِنَّهُ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثِ الْمَنَامِ كَمَا رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ

پس جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جو امام احمد نے روایت کی ہے حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ کو دیکھا تو اس کی اسناد الصحیح کی شرط پر ہیں لیکن اس کو مختصرا روایت کیا ہے نیند کی حدیث میں جیسا امام احمد نے کیا ہے

الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ)  کتاب تشنيف المسامع بجمع الجوامع لتاج الدين السبكي میں لکھتے ہیں

هل يجوز أن يرى في المنام؟ اختلف فيه فجوزه معظم المثبتة للرؤية من غير كيفية وجهة مقابلة وخيال، وحكي عن كثير من السلف أنهم رأوه كذلك ولأن ما جاز رؤيته لا تختلف بين النوم واليقظة وصارت طائفة إلى أنه مستحيل لأن ما يرى في النوم خيال ومثال وهما على القديم محال، والخلاف في هذه المسألة عزيز قل من ذكره وقد ظفرت به في كلام الصابوني من الحنفية في عقيدته والقاضي أبي يعلى من الحنابلة في كتابه (المعتمد الكبير)، ونقل عن أحمد أنه قال: رأيت رب (94/ك) العزة في النوم فقلت: يا رب، ما أفضل ما يتقرب به المتقربون إليك؟ قال: كلامي يا أحمد قلت: يا رب، بفهم أو بغير فهم، قال: بفهم وبغير فهم قال: وهذا يدل من مذهب أحمد على الجواز، قال: ويدل له حديث: ((رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة)) وما كان من النبوة لا يكون إلا حقا ولأن من صنف في تعبير الرؤيا ذكر فيه رؤية الله تعالى وتكلم عليه، قال ابن سيرين: إذا رأى الله عز وجل أو رأى أنه يكلمه فإنه يدخل الجنة وينجو من هم كان فيه إن شاء الله تعالى. واحتج المانع بأنه لو كان رؤيته في المنام جائزة لجازت في اليقظة في دار الدنيا. والجواب: أن الشرع منع من رؤيته في الدنيا ولم يمنعه في المنام

کیا یہ جائز ہے کہ الله تعالی کو نیند میں دیکھا جائے ؟ اس میں اختلاف ہے … اور بہت سے سلف سے حکایت کیا گیا ہے انہوں نے دیکھا  … اور ایک طائفہ گیا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ نیند میں جو دیکھا جاتا ہے وہ خیال و مثال ہوتا ہے  …. اور اسکے خلاف  احناف میں الصابونی کا عقیدہ میں کلام ہے اور حنابلہ میں قاضی ابو یعلی کا  کتاب المعتمد میں … اور امام احمد کا مذھب جواز کا ہے  … اور اس کا جواب ہے ہے کہ شرع میں دنیا میں دیکھنا منع ہے لیکن نیند میں منع نہیں ہے

ابن حجر فتح الباری ج ١٢ ص ٣٨٧ میں قاضی عیاض کا قول نقل کرتے ہیں

وَلَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَازِ رُؤْيَةِ اللَّهِ تَعَالَى فِي الْمَنَامِ

اور  الله تعالی کو نیند میں دیکھنے پر علماء میں کوئی اختلاف نہیں ہے

تابعین اور اصحاب رسول کا الله تعالی کو خواب میں دیکھنا

ابو بکر رضی الله عنہ کا قول

کتاب ظلال الجنه کے مطابق

ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرَ عَنِ ابْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:  أَفْضَلُ مَا يَرَى أَحَدُكُمْ فِي مَنَامِهِ أَنْ يرى ربه أو نَبِيَّهُ أَوْ يَرَى وَالِدَيْهِ مَاتَا على الإسلام.

ابو بکر نے کہا سب سے افضل جو تم نیند میں دیکھتے ہو وہ یہ ہے کہ اپنے رب کو دیکھو یا اپنے نبی کو یا اپنے والدین کو جن کی موت اسلام پر ہوئی

البانی اس اثر کے تحت لکھتے ہیں

إسناده ضعيف ورجاله ثقات غير العباس بن ميمون فلم أعرفه

اس کی اسناد ضعیف ہیں اور رجال ثقات ہیں سوائے عباس بن میمون کے جس کو میں نہیں جانتا

ابن سیرین کا قول

مسند  الدارمی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ   قُطْبَةَ، عَنْ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: «مَنْ رَأَى رَبَّهُ فِي الْمَنَامِ دَخَلَ الْجَنَّةَ

ابْنِ سِيرِينَ نے کہا جس نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا وہ جنت  میں داخل ہوا

اس کی سند میں یوسف الصَّبَّاغِ ہے جو سخت ضعیف ہے لیکن صوفی منش ابو نعیم نے حلیہ الاولیاء میں اس کو نقل کر دیا

مسند دارمی کے محقق حسين سليم أسد الداراني اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں

یعنی بعض نے اس طرح کی  روایات کو رد کیا- بعض نے اس کو معراج کا واقعہ کہا جو نیند  نہیں تھا اور بعض نے اس کو خواب قرار دیا – بعض نے تقسیم کی مثلا ابن تیمیہ کے نزدیک ابن عباس کی رویت باری سے متعلق روایات صحیح ہیں لیکن شانوں پر ہاتھ رکھنے والی روایت مدینہ کا خواب ہے اور گھنگھریالے بالوں والی روایت قلبی رویت ہے اور دونوں صحیح ہیں – الذھبی کے نزدیک دونوں لائق التفات نہیں ہیں

الغرض الله تعالی کو خواب میں دیکھنا سلف میں اختلافی مسئلہ رہا ہے جس  میں راقم کی رائے   میں یہ روایات ضعیف ہیں

 

محدثین  اور خوابوں کی دنیا

بخاری میں دو حدیثیں ہیں

من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی

          جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل  نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم

دوسری حدیث ہے

من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته

جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے  کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے

 ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے  فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے  دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا

ہماری اسلامی کتب میں سن ١٣٠  ہجری  اور اس کے بعد سے آج تک  عالم مادی اور عالم روحانی اس طرح خلط ملط ملتے ہیں کہ  غیب میں گویا نقب لگی ہو مسلسل عالم بالا سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم   محدثین کے خوابوں میں آ رہے تھے   یہاں ہم صرف ایک کتاب سیر الاعلام  النبلاء از امام الذھبی  کو دیکھتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  اور یہاں تک کہ الله تعالی کس کس کے خواب میں آ رہے تھے

بصری سلیمان بن طرخان المتوفی ١٤٣ ھ   کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

جَرِيْرُ بنُ عَبْدِ الحَمِيْدِ: عَنْ رَقَبَةَ بنِ مَصْقَلَةَ، قَالَ:رَأَيْتُ رَبَّ العِزَّةِ فِي المَنَامِ، فَقَالَ: لأُكْرِمَنَّ مَثْوَى سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، صَلَّى لِيَ الفَجْرَ بِوُضُوْءِ العِشَاءِ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً.

جَرِيْرُ بنُ عَبْدِ الحَمِيْدِ روایت کرتے ہیں رَقَبَةَ بنِ مَصْقَلَةَ، سے کہ میں نے رب العزت کو نیند میں دیکھا مجھ سے کہا سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ جیسوں کا اکرام کرو میرے لئے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھتا  تھا عشاء کے وضو سے

الله تعالی عالم الغیب ہیں اور قادر ہیں لیکن الله تعالی کسی صحابی کے خواب میں نہیں آئے تابعی کے خواب میں نہیں آئے لیکن تبع تابعین کا دور ختم ہوتے ہی لوگ  بیان کرنے لگ جاتے ہیں کہ الله تعالی اور رسول الله ان کو غیب کی خبریں دیتے ہیں

بصری عبد الله بن عون المتوفی ١٣٢ ھ  کے ترجمہ میں الذہبی لکھتے ہیں

حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ فَضَاءٍ  قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي المَنَامِ، فَقَالَ: (زُوْرُوا ابْنَ عَوْنٍ، فَإِنَّهُ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ، أَوْ أَنَّ اللهَ يُحِبُّه وَرَسُوْلَه)

حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ فَضَاءٍ کہا میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا خواب میں فرمایا ابن عون کی زیارت کرو کیونکہ یہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے یا کہ الله اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہے

عباد بن کثیر کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

الحَكَمُ بنُ مُوْسَى: حَدَّثَنَا الوَلِيْدُ بنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: مَا كُنْتُ أَحْرِصُ عَلَى السَّمَاعِ مِنَ الأَوْزَاعِيِّ، حَتَّى رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي المَنَامِ، وَالأَوْزَاعِيُّ إِلَى جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! عَمَّنْ أَحْمِلُ العِلْمَ؟قَالَ: (عَنْ هَذَا) ، وَأَشَارَ إِلَى الأَوْزَاعِيِّ.قُلْتُ: كَانَ الأَوْزَاعِيُّ كَبِيْرَ الشَّأْنِ.

الحَكَمُ بنُ مُوْسَى کہتے ہیں کہ ولید بن مسلم دمشقی المتوفي ١٩٥ ھ  نے کہا  مجھے الأَوْزَاعِيِّ سے سماع کا کوئی شوق نہیں تھا یہاں تک کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور الأَوْزَاعِيِّ  ان کے پہلو میں تھے  میں نے پوچھا کس سے علم لوں یا رسول الله ؟ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اور الأَوْزَاعِيِّ کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے – میں الذھبی کہتا ہوں الأَوْزَاعِيِّ کی بڑی شان ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا اس لئے بیان کیا جاتا تھا تاکہ لوگوں پر رعب جمایا جا سکے الولید کو پروپگینڈا کرنا پڑ رہا ہے کہ اس کا سماع الأوزاعي سے ٹھیک  ہے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق

 وقال أبو داود: الوليد أفسد حديث الأوزاعي

ابوداود کہتے ہیں الولید بن مسلم نے  الأوزاعي کی حدیث میں فساد کر دیا ہے

بغداد کے هُشَيْمُ بنُ بَشِيْرِ بنِ أَبِي خَازِمٍ أَبُو مُعَاوِيَةَ السَّلَمِيُّ  المتوفی ١٨٣ ھ کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

قَالَ يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ العَابِدُ: سَمِعْتُ نَصْرَ بنَ بسَّامٍ وَغَيْرَهُ مِنْ أَصْحَابِنَا، قَالُوا: أَتَيْنَا مَعْرُوْفاً الكَرْخِيَّ فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي المَنَامِ، وَهُوَ يَقُوْلُ

لهُشَيْمٍ: (جَزَاكَ اللهُ عَنْ أُمَّتِي خَيْراً) .

يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ العَابِدُ نے کہا میں نے نصر بن بسام سے اور ہمارے بہت سے اصحاب سے سنا کہ معروف الکرخی نے کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور وہ کہہ  هُشَيْمُ بنُ بَشِيْرِ  کے لئے رہے تھے  کے لئے جَزَاكَ اللهُ عَنْ أُمَّتِي خَيْراً

امام الشافعی کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ يَقُوْلُ: رَأَيْتُ فِي المَنَامِ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي مَسْجِدِه بِالمَدِيْنَةِ، فَكَأَنِّيْ جِئْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَكْتُبُ رَأْيَ مَالِكٍ؟ قَالَ: (لاَ) .  قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ أَبِي حَنِيْفَةَ؟  قَالَ: (لاَ) .  قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ؟  فَقَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا، كَأَنَّهُ انْتَهَرَنِي، وَقَالَ: (تَقُوْلُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ! إِنَّهُ لَيْسَ بِرَأْيٍ، وَلَكِنَّهُ رَدٌّ عَلَى مَنْ خَالَفَ سُنَّتِي) .

زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي کہتے ہیں میں نے أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ کو سنا کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اپ مسجد النبی میں تھے پس میں ان تک پہنچا اور سلام کیا اور کہا اے رسول الله کیا  مالک کی رائے لکھوں؟ فرمایا نہیں – میں نے پوچھا کیا ابو حنیفہ کی رائے لکھوں ؟ فرمایا نہیں – پوچھا کیا شافعی کی رائے لکھوں ؟  باتھ کو اس طرح کیا کہ گویا منع کر رہے ہوں اور کہا تو شافعی کی رائے کا کہتا ہے وہ میری رائے نہیں ہے بلکہ میری سنت کی مخالف ہے

یعنی رسول الله نے خواب میں امام شافعی کا قول نا پسند کیا

اسی طرح ایک قول ہے

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نَزِيْلُ مَكَّةَ – فِيْمَا كَتَبَ إِلَيَّ – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيُّ، قَالَ: قُلْتُ فِي المَنَامِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا تَقُوْلُ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَالشَّافِعِيَّ، وَمَالِكٍ؟  فَقَالَ: (لاَ قَوْلَ إِلاَّ قَوْلِي، لَكِنَّ قَوْلَ الشَّافِعِيِّ ضِدُّ قَوْلِ أَهْلِ البِدَعِ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ کہتے ہیں مکہ والے أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نے روایت کیا اس خط میں جو لکھا کہ مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيُّ نے کہا میں نے خواب میں رسول الله سے پوچھا اے رسول الله  اپ   مالک شافعی اور ابو حنیفہ کی رائے پر کیا کہتے ہیں ؟ فرمایا ان کا قول وہ نہیں  جو میرا ہے اور شافعی کا قول اہل بدعت کی ضد ہے

یعنی رسول الله نے خواب میں امام شافعی کا قول پسند کیا

یہ متضاد اقوال خواب میں لوگ سن رہے تھے اور جمع کر رہے تھے

عصر حاضر کے محقق شعيب الأرناؤوط  اس پر تعلیق میں جھنجھلا کر رہ گئے لکھتے ہیں

ومتى كان المنام حجة عند أهل العلم؟ ! فمالك وأبو حنيفة وغيرهما من الأئمة العدول الثقات اجتهدوا، فأصاب كل واحد منهم في كثير مما انتهى إليه اجتهاده فيه، وأخطأ في بعضه، وكل واحد منهم يؤخذ من قوله ويرد، فكان ماذا؟

اور کب سے خواب اہل علم کے ہاں حجت ہو گئے؟ پس مالک اور ابو حنیفہ اور دوسرے ائمہ عدول ہیں ثقات ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا ہے پس ان سب میں بہت سا ہے جو ان کے اجتہاد پر ہے اور اس میں بعض کی خطا بھی ہے اور ان سب کا قول لیا جاتا ہے اور رد بھی ہوتا ہے تو یہ کیا ہے ؟

یعنی جب خوابوں سے ائمہ پر سوال اٹھتا ہے تو فورا اس کو غیر حجت کہا جاتا ہے اگر یہ سب غیر حجت ہے تو ان کو جمع کرنے اور لوگوں کا ان کو بیان کرنا کتنا معیوب ہو گا ؟ جس دور میں ان کو بیان کیا گیا اس دور میں یقینا یہ معیوب نہ ہو گا بہت سے  ان خوابوں کو جمع کر رہے تھے

اس کے برعکس الموسوعة الفقهية الكويتية جو ٤٥ جلدوں میں فتووں کا مجموعہ ہے اور وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية – الكويت نے چھاپا ہے  اس میں وہابی علماء کا فتوی ج ٢٢ ص ١٠ پر ہے

وَهَذِهِ الأْحَادِيثُ تَدُل عَلَى جَوَازِ رُؤْيَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، وَقَدْ ذَكَرَ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ، وَالنَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ مُسْلِمٍ أَقْوَالاً مُخْتَلِفَةً فِي مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَسَيَرَانِي فِي الْيَقَظَةِ. وَالصَّحِيحُ مِنْهَا أَنَّ مَقْصُودَهُ أَنَّ رُؤْيَتَهُ فِي كُل حَالَةٍ لَيْسَتْ بَاطِلَةً وَلاَ أَضْغَاثًا، بَل هِيَ حَقٌّ فِي نَفْسِهَا، وَلَوْ رُئِيَ عَلَى غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي حَيَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَصَوُّرُ تِلْكَ الصُّورَةِ لَيْسَ مِنَ الشَّيْطَانِ بَل هُوَ مِنْ قِبَل اللَّهِ، وَقَال: وَهَذَا قَوْل الْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ وَغَيْرِهِ، وَيُؤَيِّدُهُ قَوْلُهُ: فَقَدْ رَأَى الْحَقَّ

اور یہ احادیث (جو اوپر پیش کی گئی ہیں) دلیل ہیں نیند میں رسول الله کو دیکھنے کے جواز پر اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور النووی نے شرح المسلم میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں جو اس معنی پر ہیں قول نبوی ہے جس  نے نیند میں مجھے دیکھا پس اس نے جاگنے میں دیکھا اور  مقصود ان میں صحیح  ہے کہ دیکھنا ہر حال میں باطل نہیں اور نہ پریشان خوابی ہے بلکہ یہ  فی نفسہ حق ہے اور اگر اس صورت پر دیکھے جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم زندگی میں نہیں تھے تو اس صورت کا تصور شیطان کی طرف سے نہیں بلکہ یہ الله کی طرف سے ہے اور کہا یہ قول ہے قاضی ابو بکر بن الطیب اور دوسروں کا اور اس کی تائید اس قول سے ہوتی ہے پس اس نے حق دیکھا  

پانچویں صدی کے حنابلہ کے امام ابن الزغوانی کہتے ہیں کہ ان کے سامنے أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی سند پر قرات ہوئی اور الذہبی لکھتے ہیں

أَملَى عليَّ القَاضِي عَبْدُ الرَّحِيْمِ بن الزَّرِيْرَانِي  أَنَّهُ قرَأَ بِخَطِّ أَبِي الحَسَنِ بنِ الزَّاغونِي: قرَأَ أَبُو مُحَمَّدٍ الضّرِير عليَّ القُرْآن لأَبِي عَمْرٍو، وَرَأَيْتُ فِي المَنَامِ رَسُوْلَ اللهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَقَرَأْتُ عَلَيْهِ القُرْآن مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ بِهَذِهِ القِرَاءة، وَهُوَ يَسْمَع، وَلَمَّا بلغت فِي الحَجّ إِلَى قَوْلِهِ: {إِنَّ اللهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} [الحَجّ:14] الآيَة، أَشَارَ بِيَدِهِ، أَي: اسْمَعْ، ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ الآيَة مَنْ قرَأَهَا، غُفِرَ لَهُ، ثُمَّ أَشَارَ أَن اقرَأْ، فَلَمَّا بلغتُ أَوّل يَس، قَالَ لِي: هَذِهِ السُّورَة مَنْ قرَأَهَا، أَمِنَ مِنَ الفَقْر، وَذَكَرَ بَقِيَّةَ المَنَام.

ابن زغوانی نے کہا کہ … میں نے خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور اپ نے مجھ پر قرآن اول سے آخر تک پڑھا اس قرات پر … اور اس میں (صلی الله علیہ وسلم نے) فرمایا سوره یس وہ سوره ہے جو  پڑھے اس کو فقر سے امن ہو گا

کہا جاتا ہے خواب محدثین نے بیان تو کیے لیکن علماء نے  ان سے دلیل نہیں لی جبکہ الزغوانی نے سوره یس کی فضیلت نقل کی –  امام مسلم خواب سے مقدمہ میں دلیل لیتے ہیں

مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ)   میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ خَمْسَ مِائَةِ حَدِيثٍ، أَوْ ذَكَرَ أَكْثَرَ، فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا الْيَسِيرَ خَمْسَةَ أَوْ سِتَّةَ أَحَادِيثَ، فَتَرَكْتُ الْحَدِيثَ عَنْهُ»

ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں

امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو بلا جرح  نقل کیا ہے گویا یہ ان کے نزدیک دلیل تھا جبکہ اس کی سند ضعیف ہے

  القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ از  شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) کے مطابق

وعن سليمان ابن سحيم قال رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في النوم فقلت يا رسول الله هؤلاء الذين يأتونك فيسلمون عليك اتفقه سلامهم قال نعم وأرد عليهم رواه ابن أبي الدنيا والبيهقي في حياة الأنبياء والشعب كلاهما له ومن طريقه ابن بشكوال وقال إبراهيم بن شيبان حججت فجئت المدينة فتقدمت إلى القبر الشريف فيلمت على رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فيمعته من داخل الحجرة يقول وعليك السلام

 سليمان بن سحيم نے کہا میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ان سے کہا یا رسول الله یہ جو اپ تک اتے ہیں اور سلام کہتے ہیں کیا اپ ن کا سلام پہچانتے ہیں ؟ فرمایا ہاں میں جواب دیتا ہوں

اس کو ابن ابی الدنیا نے اور البیہقی نے روایت کیا ہے حیات الانبیاء میں اور شعب الایمان میں اور ان دونوں نے اس کو ابن بشکوال کے طرق سے روایت کیا ہے اور کہا ابراہیم بن شیبان نے حج کیا اور مدینہ پہنچے تو قبر النبوی پر حاضر ہوئے پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سلام کہا حجرہ میں داخل ہو کر اور وہاں جواب آیا تم پر بھی سلام ہو

امام السخاوی نے اس کو بیان کیا ہے اور اس طرح رد الله علی روحی والی روایت کی تصحیح کی گئی ہے

  خواب میں   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا آنا صحیح حدیث سے  ثابت نہیں ہے اس پر تفصیل یہاں ہے

⇓  کیا  اج نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا حدیث سے ثابت  ہے ؟

اہم مباحث

الأسماء و الصفات

ينزل ربنا عزوجل كل ليلة الى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر فيقول:من يدعونى فاستجيب له من يسألنى فأعطيه،من يستغفرنى فأغفر له.

ہمارا رب ہر رات کو آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے یہاں تک کہ آخری تہائی رات رہتی ہے  اور کہتا ہے کون ہے جو دعا کرے میں جواب دوں کون ہے جو سوال کرے میں عطا کروں کون ہے جو معافی مانگے دو میں بخش دوں
پلیز اس روایت کا کچھ وضاحت کردے
جزاک الله خيرا

جواب

یہ روایت صحیح ہے لیکن متشابھات میں سے ہے

امام بخاری نے اس روایت کو صحیح میں لکھا ہے الله مغفرت کرتا ہے لیکن اس پر کوئی رائے پیش نہیں کی

بعض محدثین کا عقیدہ تھا کہ الله تعالی نزول کرتے ہیں یعنی سات آسمان کے اوپر سے آسمان دنیا تک- اس میں ان کا اپس میں اختلاف تھا کہ اس عمل نزول  میں عرش کیا خالی ہوتا ہے یا وہ بھی نزول کرتا ہے- اس بحث کا آغاز جھم بن صفوان کے رد سے ہوتا ہے – جھم بن صفوان ایک جاہل فلسفی تھا وہ بنو امیہ کے آخری دور میں عقیدہ رکھتا تھا کہ الله ایک انرجی نما شی ہے جو تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے اس کا عقیدہ ہندو دھرم شکتی کے مماثل تھا –  علماء نے اس کا رد کیا لیکن اس میں اس روایت کو پیش کیا کہ الله عرش پر ہے اور نزول کرتا ہے یعنی بائن من خلقه اپنی مخلوق سے جدا ہے اس میں سرایت کیے ہوئے نہیں ہے –  لیکن اس بحث میں اس روایت کی تفسیر میں سلف کا اختلاف بھی ہو گیا

شعیب الارنوط ابن ماجہ کی شرح میں قول پیش کرتے ہیں
قال الحافظ ابن حجر في “الفتح” 3/ 30 وهو ينقل اختلاف أقوال الناس في معنى النزول: ومنهم من أَجْراه على ما ورد مؤمنًا به على طريق الإجمال منزها الله تعالى عن الكيفية والتشبيه، وهم جمهور السلف، ونقله البيهقي وغيره عن الأئمة الأربعة والسُّفيانَين والحمَّادَين والأوزاعي والليث وغيرهم … ثم قال: قال البيهقي: وأسلمها الإيمان بلا كيف والسكوت عن المراد إلا أن يَرِدَ ذلك عن الصادق فيُصار إليه، ومن الدليل على ذلك اتفاقهم على أن التأويل المعيَّن غير واجبِ فحينئذِ التفويضُ أسلمُ. اهـ. وقال السندي: حقيقة النزول تُفوض إلى علم الله تعالى، نَعَم القَدْر المقصود بالإفهام يعرفه كل واحدٍ، وهو أن ذلك الوقت قُرب الرحمة إلى العباد فلا ينبغي لهم إضاعتُه بالغفلة.
ابن حجر نے فتح الباری میں اس روایت پر لوگوں کا اختلاف نقل کیا ہے کہ اس میں نزول کا کیا مطلب ہے تو ان میں سے بعض نے اس پر اجرا کیا ہے کہ ایمان ہے نزول کی کیفیت و تشبہ پر جو جمہور سلف ہیں اور اس کو بیہقی نے چار ائمہ سے نقل کیا ہے سفیان ثوری ، ابن عیننہ، حماد بن سلمہ اور ابن زید سے اور اوزاعی اور لیث سے پھر بیہقی نے کہا اس کی …. تاویل کو تفویض کرتے ہیں

البیہقی نے اسماء و صفات میں اور کتاب : الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث میں اشاعرہ والا عقیدہ لیا ہے کہ اس میں صفات کو ظاہر پر نہیں لیا جائے گا ان کو متشابھات کہا جائے گا تاویل نہیں کی جائے گی کیونکہ بیہقی قاضی ابن الباقلانی سے متاثر تھے اور صفات میں اشاعرہ کا عقیدہ رکھتے تھے

سلف میں سے بعض کہتے ہیں وہ واقعی نزول کرتا ہے حتی کہ اس کا عرش خالی ہو جاتا ہے اس کو يخلو العرش عند النزول کا مسئلہ کہا جاتا ہے

محدث عثمان بن سعید الدارمی السجستاني (المتوفى: 280هـ) (یہ سنن والے امام دارمی نہیں ہیں) الرد على الجهمية اس پر کہتے ہیں
فَالَّذِي يَقْدِرُ عَلَى النُّزُولِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ السَّمَوَاتِ كُلِّهَا لِيَفْصِلَ بَيْنَ عِبَادِهِ قَادِرٌ أَنْ يَنْزِلَ كُلَّ لَيْلَةٍ مِنْ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ
پس الله تعالی قادر ہیں کہ روز مجشر تمام آسمانوں میں سے نزول کریں کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں وہ قادر ہیں کہ ہر رات ایک آسمان سے دوسرے آسمان نزول کریں

دارمی کی شرح میں کیفیت ا گئی ہے جس سے امام مالک اور ابو حنیفہ منع کرتے تھے حشر کے وقت سات آسمان بدل چکے ہوں گے

دارمی نے دلیل میں آیت پیش کی سوره بقرہ میں ہے
هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ
کیا یہ دیکھنا چاہتے ہیں سوائے اس کے کہ الله بادلوں کے سائے میں سے آئے اور فرشتے

اس متشابہ آیت سے الدارمی نے جھم کا رد کیا کہ الله تعالی ایک آسمان سے دوسرے آسمان میں نزول کرتا ہے یعنی تاویل و تفسیر کی جس سے منع کیا گیا تھا

الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة میں کہتے ہیں
وَلَا يَسَعُ الْمُسْلِمُ الْعَاقِلُ أَنْ يَقُولَ: كَيْفَ يَنْزِلُ؟ وَلَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا الْمُعْتَزِلَةُ وَأَمَّا أَهْلُ الْحَقِّ فَيَقُولُونَ: الْإِيمَانُ بِهِ وَاجِبٌ بِلَا كَيْفٍ
اور میں نے کسی مسلم سے نہیں سنا کہ کہے الله کیسے نزول کرتا ہے ؟ اور اس نزول کا کوئی رد نہیں کرتا سوائے الْمُعْتَزِلَةُ کے اور اہل حق کہتے ہیں اس پر ایمان واجب ہے بغیر کیفیت کے

نزول پر الله کا عرش خالی نہیں ہوتا اس قول کو امام احمد سے منسوب کیا گیا ہے اس کو ابن تیمیہ نے فتاوی میں قبول کیا ہے
القاضي أبو يعلى ، إبطال التأويلات (1/261): “وقد قال أحمد في رسالته إلى مسدد: إن الله عز وجل ينزل في كل ليلة إلى السماء الدنيا ولا يخلو من العرش. فقد صرح أحمد بالقول إن العرش لا يخلو منه

امام الذھبی نے اس پر کتاب العرش لکھی- اس کے محقق محمد بن خليفة بن علي التميمي نے لکھا ہے
هل يخلو العرش منه حال نزوله لأهل السنة في المسألة ثلاثة أقوال: القول الأول: ينزل ويخلو منه العرش . وهو قول طائفة من أهل الحديث . القول الثاني: ينزل ولا يخلو منه العرش3. وهو قول جمهور أهل الحديث4 ومنهم الإمام أحمد، وإسحاق بن راهويه، وحماد بن زيد، وعثمان ابن سعيد الدارمي وغيرهم . القول الثالث: نثبت نزولاً، ولا نعقل معناه هل هو بزوال أو بغير زوال.
وهذا قول ابن بطة والحافظ عبد الغني المقدسي وغيرهما
نزول پر عرش خالی ہونے پر اہل سنت کے تین قول ہیں پہلا قول ہے یہ خالی ہو جاتا ہے یہ اہل حدیث کے ایک گروہ کا قول ہے دوسرا ہے نہیں ہوتا یہ جمہور اہل حدیث ہیں جن میں احمد اسحاق حماد اور عثمان دارمی ہیں تیسرا قول ہے نزول کا اثبات ہے لیکن یا زوال ہے یا نہیں اس کا تعقل نہیں یہ ابن بطہ اور المقدسی اور دوسروں کا قول ہے

المقدسی کی کتاب الاقتصاد في الاعتقاد میں لکھا ہے کہ امام إسحاق بن راهويه نے کہا
ومن قال يخلو العرش عند النزول أو لا يخلو فقد أتى بقول مبتدع ورأى مخترع
جس نے کہا عرش خالی ہو گیا یا کہا نہیں ہوا وہ بدعتی کی اور اختراع کرنے والے کی رائے پر آیا

إسحاق بن راهويه کے بقول جو یہ کہے عرش خالی نہیں ہوا وہ بھی بدعتی ہے

یہ امام احمد اور امام إسحاق بن راهويه کا اختلاف ہے

الغرض یہ روایت متشابہ ہے ان کی تاویل و تفسیر منع ہے- لہذا اس کو دلیل میں نہیں پیش کیا جانا چاہیے تھا لیکن محدثین نے اس کو پیش کیا پھر کہا اس میں کیفیت کا علم نہیں -جب اپ کو اس روایت کا صحیح علم نہیں تو اس پر بحث و مباحثہ کی ضرورت کیا تھی – یہ الگ بحث ہے جھم کا عقیدہ صحیح نہیں تھا

ابن مندہ کی رائے

یہ قول کہ عرش خالی ہو جاتا ہے أبن منده کا ہے اور ابن تیمیہ نے اس کی نسبت کا انکار کیا ہے لیکن انہوں نے ابن مندہ کی کتب کو صحیح طرح دیکھا نہیں طبقات حنابلہ کی ایک روایت پر جرح کر کے اس قول کی نسبت ابن مندہ سے رد کی ہے

أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن محمد بن يحيى بن مَنْدَه العبدي (المتوفى: 395هـ) عرش خالی ہونے کا عقیدہ اپنی کتاب الرد على الجهمية میں ایک روایت سے پیش کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سَهْلٍ الدَّبَّاسُ، بِمَكَّةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْخِرَقِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا مَحْفُوظٌ، عَنْ أَبِي تَوْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ يَنْزِلُ إلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، وَلَهُ فِي كُلِّ سَمَاءٍ كُرْسِيٌّ، فَإِذَا نَزَلَ إلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا جَلَسَ عَلَى كُرْسِيِّهِ، ثُمَّ مَدَّ سَاعِدَيْهِ» ، فَيَقُولُ: «مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ غَيْرَ عَادِمٍ وَلَا ظَلُومٍ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَتُوبُ فَأتُوبَ عَلَيْهِ» . فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الصُّبُحِ ارْتَفَعَ فَجَلَسَ عَلَى كُرْسِيِّهِ هَكَذَا [ص:43] رَوَاهُ الْخِرَقِيُّ، عَنْ مَحْفُوظٍ، عَنْ أَبِي تَوْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَلَهُ أصْلٌ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ مُرْسَلٌ
ابن مسیب نے ابو ہریرہ سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ الله تعالی آسمان دنیا پر نزول کرتے ہیں اور ان کے لئے ہر آسمان پر کرسی ہے یہاں تک کہ جب آسمان دنیا پر اتے ہیں اپنی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں … اس کو الخرقی نے محفوظ سے … روایت کیا ہے اور اس کا اصل ہے یہ سعید بن المسیب سے مرسل ہے

اپ نے دیکھا روایت کا اصل ہے ؟ ابن مندہ نے روایت کا رد نہیں کیا اور الله تعالی کو کرسی پر بٹھا دیا ہے کیونکہ عرش تو ایک ہی ہے کرسی ہر آسمان پر ہے اب اگر وہ کرسی پر ا گیا تو تقینا عرش خالی ہو گیا

راقم کے نزدیک یہ وہ قول ہے جس کی بنا پر محدث ابن مندہ پر لوگوں نے جرح کی ہے اور ابن تیمیہ سے تسامح ہوا انہوں نے بنیادی ماخذ نہیں دیکھا

کتاب فتح الباری از ابن حجر میں ہے

وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي مَعْنَى النُّزُولِ عَلَى أَقْوَالٍ فَمِنْهُمْ مَنْ حَمَلَهُ عَلَى ظَاهِرِهِ وَحَقِيقَتِهِ وَهُمُ الْمُشَبِّهَةُ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ قَوْلِهِمْ

اور نزول کے معنی میں اختلاف ہے پس اس میں بعض نے اس کو ظاہر پر لیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حقیقی نزول ہے اور یہ اس قول میں الْمُشَبِّهَةُ  پر ہیں

وہابی  عالم ابن العثيمين  شرح العقيدة الواسطية ج ٢ ص ١٣  میں کہتے ہیں

قوله: “ينزل ربنا إلى السماء الدنيا”: نزوله تعالى حقيقي …. أن كل شيء كان الضَّمير يعود فيه إلى الله؛ فهو ينسب إليه حقيقة

حدیث میں قول ہمارا رب نازل ہوتا ہے تو یہ نزول حقیقی ہے …. ہر وہ چیز جس میں ضمیر اللہ کی طرف پلٹ رہی ہو اس کو حقیقیت لیا جائے گا

عبد الکبیر محسن کتاب توفیق الباری شرح صحیح البخاری جلد دوم میں لکھتے ہیں

%d9%86%d8%b2%d9%88%d9%84-%d9%a1

%d9%86%d8%b2%d9%88%d9%84-%d9%a2

کتاب سیر الاعلام النبلاء از امام الذھبی کے مطابق السَّمْعَانِيُّ أَبُو سَعْدٍ نے کہا

وَكَانَ كُوتَاهُ يَقُوْلُ: النُّزُولُ بِالذَّاتِ، فَأَنْكَرَ إِسْمَاعِيْلُ هَذَا، وَأَمرَهُ بِالرُّجُوْعِ عَنْهُ، فَمَا فَعلَ

مُحَدِّثُ أَصْبَهَانَ كُوْتَاه عَبْدُ الجَلِيْلِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ الوَاحِدِ  کہتے کہ الله تعالی بذات نزول کرتا ہے اس کا إِسْمَاعِيْلَ بنِ مُحَمَّدٍ الحَافِظِ  نے انکار کیا اور كُوْتَاه  کواس سے رجوع کا حکم کیا لیکن كُوْتَاه عَبْدُ الجَلِيْلِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ الوَاحِدِ  نے یہ نہ کیا

اس کے بعد الذہبی کہتے ہیں

وَمَسْأَلَةُ النُّزَولِ فَالإِيْمَانُ بِهِ وَاجِبٌ، وَتَرْكُ الخوضِ فِي لوازِمِهِ أَوْلَى، وَهُوَ سَبِيْلُ السَّلَفِ، فَمَا قَالَ هَذَا: نُزُولُهُ بِذَاتِهِ، إِلاَّ إِرغَاماً لِمَنْ تَأَوَّلَهُ، وَقَالَ: نُزولُهُ إِلَى السَّمَاءِ بِالعِلْمِ فَقَطْ، نَعُوذُ بِاللهِ مِنَ المِرَاءِ فِي الدِّينِ.
وَكَذَا قَوْلُهُ: {وَجَاءَ رَبُّكَ} [الفجرُ: 22] ، وَنَحْوُهُ، فَنَقُوْلُ: جَاءَ، وَيَنْزِلُ وَننَهَى عَنِ القَوْلِ: يَنْزِلُ بِذَاتِهِ، كَمَا لاَ نَقُوْلُ: يَنْزِلُ بِعِلْمِهِ، بَلْ نَسكتُ، وَلاَ نَتفَاصَحُ عَلَى الرَّسُولِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بِعبَارَاتٍ مُبْتَدَعَةٍ – وَاللهُ أَعْلَم

اور نزول کا مسئلہ پر ایمان واجب ہے اور اس کو ترک کرنا بنیادی لوازم میں جھگڑا ہے اور یہ سلف کا رستہ ہے اور اس کا کہنا نزول بذاتہ ہے تو یہ سوائے تاویل کے کچھ نہیں ہے اور کہا آسمان میں اپنے علم سے نزول کرتا ہے فقط   تو (اس پر بھی) ہم الله سے پناہ مانگتے ہیں کہ دین میں  جھگڑے کریں اور اسی طرح الله کا قول ہے {وَجَاءَ رَبُّكَ} [الفجرُ: 22] کہ تمہارا رب آئے گا اور اسی طرح کی آیات وہ آئے گا نازل ہو گا اور اس قول سے منع کیا گیا  کہ (کہو) يَنْزِلُ بِذَاتِهِ  بذات نزول کرتا ہے اسی طرح ہم نہیں کہیں گے کہ اپنے علم سے نزول کرے گا بلکہ چپ رہیں گے

یعنی امام الذھبی نے نزول  کو متشابہ مانا ہے نزول بذات یا نزول بعلم دونوں اقوال سے منع کیا ہے

زمین پر ہر وقت کسی نہ کسی مقام پر رات کا آخری تیسرا پہر ہوتا ہے لہذا ایک رائے  یہ ہے کہ ادبی انداز ہے کہ الله کی رحمت ہر وقت ہے  لہذا اس روایت کا  مطلب ظاہر پر نہیں ہے یہ مجاز ہے-  اغلبا محدثین یہ سمجھتے تھے کہ اگر رات ہوئی تو اس وقت تمام عالم پر رات ہے کہیں دن نہیں ہے  وہ اس سے بے خبر تھے کہ زمین گول ہونے کی وجہ سے اس پر ہر وقت کہیں رات ہوتی ہے اس لا علمی کی وجہ سے عصر حاضر کے بہت سے علماء اس کے انکاری ہیں کہ زمین گول ہے

اگر یہ مان لیا جائے کہ الله تعالی حقیقی نزول کرتے ہیں اور اس میں عرش خالی بھی نہیں ہوتا تو یہ ماننا بھی لازم ہو گا کہ عرش سے لے کر سات آسمان تک تمام ذات الباری تعالی میں حلول کر جاتے ہیں

وہابی  عالم ابن العثيمين  کہتے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس وقت کو محدود کیا ہے جب آسمان دنیا پر الله کا نزول ہوتا ہے بوقت خاص پس جب یہ وقت ہو گا اس کا نزول ہو گا اور جب ختم ہو گا نزول ختم ہو گا اور اس میں کوئی اشکال نہیں

شاید اس کو سن کر بعض لوگ مطمئن ہو جائیں راقم کو یہ خوب زمیں کی ہیت سے انکار معلوم ہوتا ہے کہ زمیں گول نہیں ہے! جبکہ قرآن کہتا ہے زمیں گول ہے اور آسمان اس کے گرد ہے

اسی کتاب میں وہابی  عالم ابن العثيمين  کہتے ہیں

اور یہ نصوص جو اثبات فعل اور انے اور استواء اور نزول  آسمان دنیا پر ہیں ،  لازم کرتے ہیں کہ الله حرکت کرتے ہیں پس ان کے لئے حرکت حق ہے،  ثابت ہے جو متقاضی ہے ان نصوص کی وجہ سے اور اس کو لازم کرتے ہیں اور  ہم اس حرکت کی  کیفیت کو عقل میں نہیں لاتے

 الشيخ ابن عثيمين کتاب  شرح الواسطية ” ( 2 / 437 ) میں لکھتے ہیں

قالوا : كيف ينزل في ثلث الليل ، وثلث الليل إذا انتقل عن المملكة العربية السعودية ذهب إلى أوروبا وما قاربها ؟ فنقول : أنتم الآن قستم صفات الله بصفات المخلوقين ، أنت أو من أول بأن الله ينزل في وقت معين وإذا آمنت ليس عليك شيء وراء ذلك ، لا تقل كيف وكيف ؟ .

فقل : إذا كان ثلث الليل في السعودية فإن الله نازل وإذا كان في أمريكا ثلث الليل يكون نزول الله أيضاً . 

کہتے ہیں کیسے الله تعالی رات کے تیسرے پہر نازل ہو سکتے ہیں – جب سعودی عرب کا تیسرا پہر منتقل ہو کر یورپ کی طرف جاتا ہے اور اس کے قریب میں ؟ تو ہم کہتے ہیں تم اس وقت الله کی صفات کو ملخوق کی صفات سے ملا رہے ہو … پس کہو : جب سعودی عرب کا تیسرا پہر ہو گا تو الله تعالی وہاں نازل ہو گا اور جب امریکا میں ہو گا تو وہاں نازل ہو گا

راقم کہتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ وہابی اور اہل حدیث علماء کا عقیدہ ہے کہ الله تعالی چاند کی طرح زمین کے گرد مدار میں گھومتا رہتا ہے کیونکہ رات کا تیسرا پہر تو مسلسل اس زمین پر گھومتا ہے جب زمین گھومتی ہے اور روشنی اس زمین پر چلتی ہے

یہ نزول حقیقی نہیں اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ معراج کی رات نبی صلی الله علیہ وسلم نے پہلے آسمان پر الله تعالی کو نہیں دیکھا

[توریت میں ہے کہ الله آسمان کو اٹھا لے گا؟]

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ}) صحیح بخاری: کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں (باب: آیت (( وماقدروااللہ حق قدرہ )) کی تفسیرمیں)
4811 . حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ حَبْرٌ مِنْ الْأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّا نَجِدُ أَنَّ اللَّهَ يَجْعَلُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ وَسَائِرَ الْخَلَائِقِ عَلَى إِصْبَعٍ فَيَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ الْحَبْرِ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ

حکم : صحیح

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمان نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابراہیم نخعی نے ، ان سے عبیدہ سلما نی نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ علماءیہود میں سے ایک شخص رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد ! ہم تورات میں پاتے ہیںکہ اللہ تعا لیٰ آسمانوںکو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھرفرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں ۔ آنحضرت اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے ۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ ” اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی اور حال یہ کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے ۔ وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے ۔ “

جواب

اس روایت میں بہت اہم اور قابل غور باتیں ہیں

اول : الله تعالی روز محشر آسمانوں کو لپٹ کر دکھائے گا ہمارا اس پر ایمان ہے لیکن کیفیت کا علم نہیں اور نہ ہم اعضا کا اثبات کرتے ہیں لیکن ٢٠٠ ہجری میں یہ بات بعض محدثین میں مشھور ہو چلی تھی کہ الله کے لئے اعضا ہیں وہ اس آیت سے سیدھا ہاتھ ثابت کرتے تھے اور انگلیاں وغیرہ

دوم : توریت کے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے کے نسخہ بھی ہیں جن میں
Dead Sea Scrolls
بھی ہیں
پوری توریت میں ایسا کوئی کلام نہیں کہ الله تعالی آسمانوںکو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھرفرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں

لہذا کسی نے یہود جو تجسیم کے قائل ہیں ان کے کندھے کو استعمال کیا ہے
تاکہ اس الزام سے بچا جا سکے کہ تجسیم یہود کا قول ہے

سوم : تجسیمی تفسیر مقاتل بن سُلَيْمَانَ البَلْخِيُّ أَبُو الحَسَنِ سے مسلمانوں میں آئی
وقال أبو بكر الأثرم: سمعت أبا عبد الله، هو أحمد بن حنبل، يسأل عن مقاتل بن سليمان، فقال: كانت له كتب ينظر فيها، إلا أني أرى أنه كان له علم بالقرآن. «تاريخ بغداد» 13/161.
أبو بكر الأثرم: نے کہا میں نے امام احمد کو سنا ان سے مقاتل بن سلیمان پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا اس کی کتابیں تھیں میں ان کو دیکھتا تھا بلاشبہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کو قرآن کا علم ہے
بعض محدثین کو اس کا کلام پسند آیا جن میں امام احمد بھی ہیں

چہارم : راقم کہتا ہے کہ توریت کے اس عالم میں کسی نسخہ میں یہ آیات دکھا دی جائیں ورنہ یہ اپ خود سوچیں جب مستشرقیں نے یہ سب پڑھا ہے تو وہ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے ؟ ایک چیز ١١٠٠ سال سے مسلمان کہے جا رہے ہیں اور وہ سرے سے موجود ہی نہیں
یاد رہے کہ دنیا میں اب صرف یہود و نصرانی ہی نہیں ملحدین بھی ہیں جو توریت و انجیل کے عالم ہیں اور مغربی یونیورسٹیوں میں محقق ہیں اور یہ لوگ تعصب سے بری بھی ہوتے ہیں ایسا نہیں کہ ہر وقت اسلام دشمنی کی حالت میں رہیں سچ بھی کہہ رہے ہیں کہ اینجیل و توریت میں غلطیاں ہیں

پنجم : توریت کی جس خود ساختہ آیات کا اس میں ذکر ہے وہ قرآن کے متن میں ہے بھی نہیں تو تصدیق بھی نہیں ہے

ششم : روایت میں ثقات ہیں اس لئے اس کو قبول کیا گیا ہے لیکن یہ حقیقت کے خلاف ہے کہ توریت میں اس طرح کی آیات ہیں
لھذا راقم کے نزدیک یہ ثقہ کو غلطی ہوئی ہے
اس کو شبہ بھی ہوتا ہے
امام یحیی ابن معین کا نعیم بن حماد پر مشہور قول ہے کہ ان سے محمد بن علي بن حمزة المروزي نے سوال کیا
كيف يحدث ثقة بباطل؟ قال: شبه له.
ثقہ باطل حدیث کیسے روایت کرتا ہے ؟ ابن معین نے کہا اس کو شبہ ہوتا ہے
میزان الاعتدال از الذھبی

[/EXPAND]

[خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ کیا صحیح روایت ہے ؟أسماء وصفات کے باب میں سلف صالحین کا منہج کیا تھا ؟]

جواب

کتاب الضعفاء الكبير از امام العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں

فقہ مالکیہ کی معتمد کتاب المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة از ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق

وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا.
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے

الغرض امام بخاری نے اس کو صحیح میں روایت کر کے غلطی کی ہے یہ استاذ المحدثین امام مالک کے نزدیک سخت مجروح روایت ہے

امام مالک کے خلاف امام  احمد اور امام إسحاق بن راهويه اس کو ایک صحیح  روایت کہتے

مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه از  إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) کے مطابق

احمد نے کہا

ولا تقبحوا الوجه فإن الله عز وجل خلق آدم على صورته” يعني صورة رب العالمين،….قال الإمام أحمد: كل هذا صحيح.

اور إسحاق بن راهويه نے کہا

قال إسحاق: كل هذا صحيح، ولا يدعه إلا مبتدع أو ضعيف الرأي

یہ سب صحیح ہے اس کو صرف بدعتی اور ضعیف رائے والا رد کرتا ہے

اس طرح ان کا فتوی امام مالک پر لگا

[/EXPAND]

[حدیث قدسی ہے میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا – کیا یہ  صحیح ہے؟]

اسلام علیکم

میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پس اپنے شناخت کے لئے میں نے موجودات خلق کیے
اس قدسی روایت کا عربی متن اور حوالہ مجھے پتہ نہیں ہے. کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جزاکم الله خیرا

جواب

یہ روایت بے اصل ہے

کتاب التخريج الصغير والتحبير الكبير از ابن المبرد کے مطابق
كُنْتُ كَنْزًا لا أُعْرَفُ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ، فَخَلَقْتُ خَلْقًا، فَعَرَّفْتُهُمْ بِي، فَعَرَفُونِي” لا أصل له
میں ایک خزانہ تھا جس کو کوئی جانتا نہ تھا پس میں نے پسند کیا کہ جانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو خلق کیا پس ان سے جانا گیا اور انہوں نے مجھے متعارف کرایا- اس کا اصل نہیں ہے

سخاوی کتاب المقاصد الحسنة میں کہتے ہیں ابن تیمیہ نے کہا
إنه ليس من كلام النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولا يعرف له سند صحيح ولا ضعيف، وتبعه الزركشي وشيخنا
یہ رسول الله کا کلام نہیں ہے اور نہ یہ صحیح سند سے معلوم ہے نہ ضعیف سند سے اور الزرکشی اور ہمارے شیخ (ابن حجر) نے یہی کہا ہے

کتاب أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب از محمد بن محمد درويش، أبو عبد الرحمن الحوت الشافعي (المتوفى: 1277هـ) کے مطابق
وَهَذَا يذكرهُ المتصوفة فِي الْأَحَادِيث القدسية تساهلا مِنْهُم
اس کا ذکر صوفیوں نے احادیث قدسیہ میں کیا ہے جو ان کا تساہل ہے

الآلوسي تفسير (27/22) میں کہتے ہیں
ومن يرويه من الصوفية معترف بعدم ثبوته نقلاً؛ لكن يقول: إنه ثابت كشفاً، وقد نص على ذلك الشيخ الأكبر في الباب
المائة والثمانية والتسعين من “الفتوحات “، والتصحيح الكشفي شنشنة لهم
اور جو صوفیاء اس کو بیان کرتے ہیں وہ اس کے معترف ہیں کہ نقلا اس کا ثبوت نہیں ہے لیکن کہتے ہیں یہ کشف سے ثابت ہوا اور اس پر نص شیخ اکبر کی فتوحات کے باب میں ہے اور کشفی تصحیح ان کی کمزوری ہے

روایت میں ہے کہ الله ایک پوشیدہ شی تھا جب کوئی مخلوق نہیں تھی یہ الفاظ عقل پر نہیں اترتے اگر کوئی مخلوق نہیں تھی تو الله پوشیدہ کیسے تھا ؟
صوفيا کہتے ہیں الله پوشیدہ تھا اس نے مخلوق کو پیدا کیا کہ جانا جائے اور مخلوق سے کہا جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا تو گویا الله اور ہم ایک ہی وحدت میں ہیں کثرت مخلوق میں وحدت ہے
اصلا یہ فلسفہ غناسطی
gnosticism
ہے

[/EXPAND]

[کیا صفات باری تعالی بولنا الحاد ہے ]

جواب

لفظ صفت عربی میں فلسفہ یونان سے آیا ہے یہ لفظ قرآن میں نہیں ہے اور الله کے نام ہیں جن کو صفت نہیں کہا گیا ہے

یہ طریقہ استدلال فلسفہ کی وجہ سے رائج ہوا کیونکہ معتزلہ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے تھے – یہ طریقہ فلسفہ یونان کے امہات میں سے ہے کہ اشیاء اپنی صفت اور ضد سے پہچانی جاتی ہیں- ابن حزم کے نزدیک الله کے نام کو صفت کہنا بدعت اور اس کے ناموں میں الحاد ہے- الله کو ضد اور صفت کی بجائے اس طرح سمجھا جائے گا جیسا اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے بس نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں

 فَلَا يجوز القَوْل بِلَفْظ الصِّفَات وَلَا اعْتِقَاده بل هِيَ بِدعَة مُنكرَة

 پس یہ صفات کا لفظ بولنا اور اس پر اعتقاد جائز نہیں بلکہ یہ بدعت منکر ہے

محدثین کی رائے اس مسئلہ میں الگ ہے- محدثین  یونانی فلسفہ سے متاثر نہیں تھے لیکن معتزلہ کے رد میں وہ فلسفیانہ اصطلا حات کو استمعال کرتے رہے ہیں

فلسفہ کی پہلی شق ہے کہ ہر چیز اپنی صفت سے جانی جائے گی

لهذا سب سے پہلے الله کو ایک شی بنایا گیا اس پر دلائل پیش کیے گئے اس کے لئے سوره الانعام کی آیت سے استخراج کیا گیا
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ
کہو کس چیز کی شہادت سب سے بڑی ہے ؟ کہو الله کی جو گواہ ہے ہمارے اور تمہارے بیچ

اور قرآن میں ہے
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ
ہر چیز ہلاک ہو جائے گی سوائے الله کے وجھہ کے

اس سے محدثین نے استخراج کیا کہ الله ایک چیز ہے لیکن وہ یہ بھول  گئے کہ فلسفہ کی یہ شق عام چیزوں کے لئے ہے کیونکہ اصول عام پر ہوتا ہے استثنیٰ پر نہیں ہوتا الله نے اپنے لئے اگرچہ شی یعنی چیز کا لفظ بولا ہے لیکن اپنے اپ کو ان سے الگ بھی کیا ہے

ليس كمثله شيء

إس کی مثل کوئی شی نہیں ہے

بہرالحال اشیاء اپنی صفت سے جانی جاتی ہیں لیکن کیا صفت کا لفظ الله کے لئے بولا جا سکتا ہے ؟ ایک روایت سے ان کو دلیل بھی ملی مثلا امام بخاری ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں جس میں صفة الرحمن کا لفظ ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنِ ابْنِ أَبِي هِلاَلٍ، أَنَّ أَبَا الرِّجَالِ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَهُ عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَكَانَتْ فِي حَجْرِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا عَلَى سَرِيَّةٍ، وَكَانَ يَقْرَأُ لِأَصْحَابِهِ فِي صَلاَتِهِمْ فَيَخْتِمُ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، فَلَمَّا رَجَعُوا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «سَلُوهُ لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذَلِكَ؟»، فَسَأَلُوهُ، فَقَالَ: لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ، وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْبِرُوهُ أَنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُ»

سعید بن ابی ھلال روایت کرتے ہیں کہ ابا الرجال نے روایت کیا کہ ان کی ماں عمرہ نے روایت کیا اور وہ حجرہ عائشہ میں تھیں کہ عائشہ رضی الله عنہا نے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کو سریہ پر بھیجا اور وہ نماز میں کو سوره الخلاص پر ختم کرتے واپس انے پر اس کا ذکر رسول الله سے ہوا آپ نے فرمایا کہ اس سے پوچھو ایسا کیوں کرتے تھے پس ان صاحب سے پوچھا تو انہوں کے کہا کہ اس میں صفت الرحمن کا ذکر ہے اور مجھ کو یہ پسند ہے لہذا اس کو پڑھتا تھا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کو خبر دو کہ الله بھی اس کو پسند کرتا ہے

ابن حزم اس روایت میں راوی سعید بن ابی ھلال پر تنقید کرتے ہیں

 إِن هَذِه اللَّفْظَة انْفَرد بهَا سعيد بن أبي هِلَال وَلَيْسَ بِالْقَوِيّ قد ذكره بالتخطيط يحيى وَأحمد بن حَنْبَل

 3اور یہ لفظ بیان کرنے میں سعيد بن أبي هِلَال ( المتوفی ١٤٩ ھ ) کا تفرد ہے جو قوی نہیں اور اس کے اختلاط کا ذکر یحیی اور احمد نے کیا ہے

 محدث الساجي نے بھی اس راوی کو الضعفاء میں ذکر کیا ہے امام احمد کے الفاظ کتاب سؤالات أبي بكر أحمد بن محمد بن هانئ الأثرم میں موجود ہیں

 البانی اس صفت والی روایت کو صحیح کہتے ہیں لیکن کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها

 میں ایک دوسری روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں

 وفوق هذا كله؛ فإن أصل الإسناد- عند سائر المخرجين فيه سعيد بن أبي هلال، وهو مختلط

 اور ان سب میں بڑھ کر اس کی اسناد میں سارے طرق میں سعيد بن أبي هلال جو مختلط ہے

 کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں ایک دوسری روایت پر کہتے ہیں

 الثانية: سعيد بن أبي هلال؛ فإنه كان اختلط؛ كما قال الإمام أحمد

 دوسری علت سعيد بن أبي هلال بے شک مختلط ہے جیسا کہ امام احمد نے کہا

ایک اور روایت پر کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة لکھتے ہیں

 وفي إسناده سعيد بن أبي هلال؛ وهو وإن كان ثقة؛ فقد كان اختلط

 اور اس کی اسناد میں سعيد بن أبي هلال ہے اگر وہ ثقہ بھی ہو تو ان کو اختلاط تھا

 صفة الرحمن کے الفاظ کو بولنے میں سعيد بن أبي هلال راوی کا تفرد ہے لہذا ابن حزم کی رائے اس روایت پر درست معلوم ہوتی ہے ویسے بھی تاریخ کے مطابق یہ فلسفیانہ اصطلا حات بنو امیہ کے آخری دور میں اسلامی لیٹرچر اور بحثوں میں داخل ہوئیں

اللہ تعالی فلسفہ اور اس کی اصطلاحات سے بلند و بالا ہے لہذا اس کو شی اور صفت سے سمجھنا صحیح نہیں ہے اس نے  اپنے بارے میں کتاب الله میں جو بتا دیا ہے وہ انسانوں کے لئے کافی ہے

[/EXPAND]

[اہل حدیث مفوضہ کون ہیں اور المؤولة کون ہیں]

جواب

الأشاعرة کے علماء کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات کی تفصیل معلوم نہیں ان پر ایمان لایا جائے گا اور ان کو اسی طرح نہیں قبول کیا جائے گا جس سے جسم ثابت ہو جو اعضا والا ہے مثلا الله کا ہاتھ ،پیر، اس کا سینہ ،انگلی، بازو ،سر ،سر کے بال
سلف میں المروزی کے مطابق امام احمد الله کے لئے صورت یا چہرے کے قائل تھے اور اسی قول کو ابی یعلی مصنف طبقات حنابلہ نے لیا ہے لیکن ابن عقیل اور ابن جوزی جو حنبلی ہیں انہوں نے اس کو المشبہہ کا قول کہہ کر اسکا انکار کیا ہے – ابن تیمیہ نے ابی یعلی کا قول لیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ تین قرون تک لوگ صفت صورت کو مانتے تھے جبکہ یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے
شوافع میں ابن المقلن بھی المشبھہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ روز محشر الله تعالی اپنی پنڈلی کو ظاہر کریں گے جس سے محشر روشن ہو جائے گا (ان لوگوں کی دلیل ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ایک ضعیف حدیث ہے )- لیکن آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ کے دمشق کے ہم عصر ، محدث الذھبی اس کے سخت انکاری تھے اور اس طرح ابن تیمیہ اور الذھبی دونوں صفات میں ایک دوسرے کے مخالف تھے – اگلی صدیوں میں ابن حجر نے صفات میں المشبھہ کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ الله کے اعضا نہ بولے جائیں – وہابیوں نے المشبھہ کی رائے اختیار کی اور ان کے نزدیک ابن تیمیہ کا عقیدہ ابن جوزی سے جدا اور صحیح ہے- اس طرح وہابیہ نے حنابلہ کے اس گروہ کا حصہ بننا پسند کیا جو المشبھہ میں سے ہے –
احناف میں اشاعرہ کا صفات پر عقیدہ ہے جو عصر حاضر میں شعیب الارنوط کا بھی ہے کہ صفت پر ایمان لایا جائے گا اس سے الله تعالی کے اعضا یا بالوں کا اثبات نہیں کیا جائے گا- فوض کہتے ہیں سوپنے کو کہ ہم صفات میں علم اللہ کو سونپتے ہیں ہم اس میں اعضا والی رائے نہیں رکھیں گے – ان کی دلیل ہے کہ یہ متشابہات ہیں – ابن تیمیہ اور وہابی اس کے خلاف ہیں ان کے نزدیک ان کا مفھوم ظاہر پر لیا جائے گا -اس کو محدثین کا عقیدہ بتاتے ہیں جبکہ یہ تمام محدثین کا عقیدہ نہیں تھا صرف چند کا تھا جو روایت پسند تھے کہ اگر روایت میں الله کے اعضا کا ذکر ہے تو وہ وہی ہیں جو انسان کے حوالے سے ہم کو پتا ہیں
گویا اللہ نے ہاتھ کہا ہے تو اس کا ہاتھ ہے اور روایات کو اس کے ظاہر پر لیتے ہوئے یہ لوگ اس مقام تک گئے کہ رب العالمین کے لئے سلفیوں نے اس عقیدہ کو بھی لیا کہ وہ کھنگریا لے بالوں والا ہے

البانی الرد على المفوضة مين کہتے ہیں
أن عقيدة السلف تحمل آيات على ظاهرها دون تأويل ودون تشبيه، سلفی عقیدہ ہے کہ آیات کو ظاہر پر ہی لیا جائے گا بغیر تاویل و تشبہ کے

البانی  ایک سوال کے جواب میں مفوضہ پر کہتے ہیں
وكما جاء في بعض كتب الأشاعرة كالحافظ ابن حجر العسقلاني، وهو من حيث الأصول والعقيدة أشعري اور ایسا بعض الأشاعرة کی کتب میں ہے جیسے ابن حجر عسقلانی کی کتب اور وہ اصول میں أشعري عقیدہ پر ہیں

نووی بھی عقیدے میں اشاعرہ والا عقیدہ رکھتے ہیں لهذا وہابی عالم عالم مشهور حسن سلمان نے کتاب لکھی
الردود والتعقبات على ما وقع للإمام النووي في شرح صحيح مسلم من التأويل في الصفات وغيرها من المسائل المهمات
جس میں ان کے مطابق امام نووی بھی صفات میں صحیح عقیدہ نہیں رکھتے تھے – اسی طرح ان کے مطابق ابن حجر بھی كان متذبذباً في عقيدته صفات پر عقیدے میں متذبذب تھے
یہ کتاب یہاں سے حاصل کر سکتے ہیں
http://ia601408.us.archive.org/20/items/rudud_nawawi2/rudud_nawawi2.PDF

جب الله نے موسی سے کہا
فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا [الطور: 48] کہ بے شک تم ہماری انکھوں میں تھے
تو اس کا مطلب ہے اس کی حقیقی طور سے دو آنکھیں ہیں یہ ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے جس کو سلف میں امام احمد سے منسوب کیا گیا ہے – مؤول کا مطلب تفسیر ہے یعنی الْعَيْنُ مُؤَوَّلَةٌ بِالْبَصَرِ أَوِ الْإِدْرَاكِ آنکھ کی تفسیر نگاہ یا ادرک ہے کہ الله دیکھ رہا ہے اس کو پتا ہے – یہ اشاعرہ کے علماء کے ایک گروہ کا کہنا ہے
یعنی المفوضہ اور المؤولہ (المفوضة مؤولة ) ، اشاعرہ میں دو گروہ ہیں
عصر حاضر میں شعیب الارنوط المفوضہ میں سے ہیں کہ صفات کی تاویل نہیں کی جائے گی نہ ظاہر پر لیا جائے گا

سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی خود پھنس جاتے ہیں جب یہ قول لکھتے ہیں
ابْنُ سَعْدٍ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عطَاءِ بنِ السَّائِبِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:
اهْتَزَّ العَرْشُ لِحُبِّ لِقَاءِ اللهِ سَعْداً.
قَالَ: إِنَّمَا يَعْنِي: السَّرِيْرَ.
مجاہد نے ابن عمر سے روایت کیا کہ سعد سے ملاقات پر الله کا عرش ڈگمگا گیا- کہا: اس کا تخت
الذھبی کہتے ہیں
قُلْتُ: تَفْسِيْرُهُ بِالسَّرِيْرِ مَا أَدْرِي أَهُوَ مِنْ قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ، أَوْ مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ؟ وَهَذَا تَأْوِيْلٌ لاَ يُفِيْدُ، فَقَدْ جَاءَ ثَابِتاً عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَعَرْشُ اللهِ، وَالعَرْشُ خَلْقٌ لِلِّهِ مُسَخَّرٌ، إِذَا شَاءَ أَنْ يَهْتَزَّ اهْتَزَّ بِمَشِيْئَةِ اللهِ، وَجَعَلَ فِيْهِ شُعُوْراً لِحُبِّ سَعْدٍ، كَمَا جَعَلَ -تَعَالَى- شُعُوْراً فِي جَبَلِ أُحُدٍ بِحُبِّهِ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.
میں کہتا ہوں: اس کی تفسیر تخت سے کرنا مجھے نہیں پتا کہ مجاہد کا قول ہے یا ابن عمر کا ؟ اور اس تاویل کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ عرش رحمان ثابت ہے … اور اگر الله چاہے تو اپنی مشیت سے عرش میں شعور پیدا کر سکتا ہے سعد کی محبت کے لئے جیسا جبل احد میں کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے
امام مالک اس کے برعکس اس روایت کے خلاف ہیں نہ وہ تاویل کرتے ہیں نہ اس کو تفویض کرتے ہیں اس کی روایت سے ہی منع کرتے ہیں

كتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں الذھبی کہتے ہیں
وَقد بَينا دين الْأَئِمَّة وَأهل السّنة أَن هَذِه الصِّفَات تمر كَمَا جَاءَت بِغَيْر تكييف وَلَا تَحْدِيد وَلَا تجنيس وَلَا تَصْوِير كَمَا رُوِيَ عَن الزُّهْرِيّ وَعَن مَالك فِي الاسْتوَاء فَمن تجَاوز هَذَا فقد تعدى وابتدع وضل
اور ہم نے واضح کیا ہے ائمہ کا دین اور اہل سنت کا کہ صفات جیسی ائی ہیں بغیر کیفیت اور حدود اور چھونے اور تصویر کے جیسا امام الزہری سے اور امام مالک سے روایت کیا گیا ہے استواء پر اس سے اگر کسی نے تجاوز کیا تو اس نے بدعت و گمراہی کی
رحمان کے عرش کا ہلنا اس کا ڈگمگانا اور پھر اس کو جبل احد سے سمجھانا کیا کیفیت نہیں ہیں – راقم کے نزدیک جس کام سے امام الذھبی منع کر رہے ہیں اسی کو کر رہے ہیں اور امام مالک کا قول اس روایت پر کیا ہے ؟ کم از کم اسی کو دیکھ لیں
شَيْخُ الحنَابِلَةِ قاضی ابویعلی جن کی کتب پر ابن تیمیہ اور وہابیوں نے اپنا عقیدہ صفات رکھا ہے ان کے بارے میں الذھبی سیر الاعلام میں کہتے ہیں
وَجَمَعَ كِتَاب (إِبطَال تَأْويل الصِّفَات) فَقَامُوا عَلَيْهِ لمَا فِيْهِ مِنَ الوَاهِي وَالمَوْضُوْع،
اور انہوں نے کتاب (إِبطَال تَأْويل الصِّفَات) کو جمع کیا اور اس میں واہی (احادیث) اور موضوعات کو بیان کیا

سلف کے وہ محدثین اور علماء جو صفات کا علم الله کو سونپتے ہیں ان کو اہل حدیث المفوضہ کہا جاتا ہے جن میں امام الزہری ، امام مالک، ابن قتیبہ ، امام الاشعری، ابن جوزی ، ، ابن عقیل، ابن حجر ، امام النووی وغیرہ ہیں
وہ محدثین اور علماء جو صفات کو ظاہر پر لیتے ہیں ان میں سرفہرست امام احمد، ابن تیمیہ، غیر مقلدین اور وہابی فرقہ کے لوگ ہیں

[/EXPAND]

[حدیث اگر تم ایک رسی زمین کے نیچے ڈالو تو وہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جائے گی۔ صحیح ہے؟]

یہ روایت سنن ترمذی میں ہے سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، وَالمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَ الحَسَنُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
اس میں شیبان بن عبد الرحمان کے لئے ابی حاتم کہتے ہیں اس کی روایت سے دلیل مت لو
اور حسن بصری مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں ان کا سماع ابو ہریرہ سے نہیں ہے

اس روایت کو سوره الحدید کی شرح میں پیش کیا گیا ہے
هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہ الله اول و آخر ہے ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر شی کی خبر رکھتا ہے

آیات متشابہ ہے اس کی تاویل نہیں معلوم اس پر ایمان ہے اور بحث ممکن نہیں ہے

ترمذی اس کو بیان کرنے کے بعد خود کہتے ہیں
لَمْ يَسْمَعِ الحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
حسن کا سماع ابوہریرہ سے نہیں ہے

انقطاع سماع کی وجہ سے روایت ضعیف ہے
یہی البانی کی رائے ہے

ایک رسی زمین میں ڈالو تو یہ اس سے گزر کر آسمان میں داخل ہو جائے گی جس میں جا کر نہ سمت رہے گی نہ جہت اور پھر سات آسمان کی بات سے قرآن کا اشارہ ہے کہ یہ سب انسانی علم سے بعید بات ہے

کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها   میں امام الذھبی اس کو ایک منکر روایت قرار دیتے ہیں

ذكر الْحَافِظ أَبُو عِيسَى فِي جَامعه لما روى حَدِيث أبي هُرَيْرَة وَهُوَ خبر مُنكر لَو أَنكُمْ دليتم بِحَبل إِلَى الأَرْض السُّفْلى لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ

اور ابو عیسیٰ نے اپنی جامع الترمذی میں جب حدیث ابو ہریرہ روایت کی جو ایک منکر خبر ہے کہ اگر تم ایک رسی زمین میں ڈالو تو یہ اس میں سے ہو کر الله تک جائے گی

امام ترمذی اس روایت کی تاویل کرتے ہیں کہتے ہیں

قَالَ أَبُو عِيسَى قِرَاءَة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْآيَة تدل على أَنه أَرَادَ لهبط على علم الله وَقدرته وسلطانه فِي كل مَكَان وَهُوَ على الْعَرْش كَمَا وصف نَفسه فِي كِتَابه

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا آیت کا قرات کرنا اس کی  دلیل ہے کہ یہ الله کا علم و قدرت ہے جو ہر جگہ ہے اور وہ العرش پر ہے جیسا اس نے کتاب اللہ میں تعریف کی ہے

إمام ابن تیمیہ اس پر امام ترمذی کو جھمی قرار دیا لہذا الرسالة العرشية  اور  مجموع الفتاوى جلد ٦ ص ٥٧٤ میں کہتے ہیں

وكذلك تأويله بالعلم تأويل ظاهر الفساد، من جنس تأويلات الجهمية

اور اسی طرح اس کی تاویل علم سے کرنا ظاہر فساد ہے جو جھمیوں کی تاویلات جیسا ہے

چونکہ ابن تیمیہ کا خود ساختہ نظریہ ہے کہ اویل یا تاویل نہیں کی جائے گی یہ سلف سے منقول نہیں اس کے بر عکس امام ترمذی جو امام بخاری کے شاگرد ہیں اویل کر رہے ہیں

کتاب العلو للعلي الغفار میں الذھبی کہتے ہیں  مُحَمَّد بن عُثْمَان بن مُحَمَّد بن أبي شيبَة  نے

 فَقَالَ ذكرُوا أَن الْجَهْمِية يَقُولُونَ لَيْسَ بَين الله وَبَين خلقه حجاب وأنكروا الْعَرْش وَأَن يكون الله فَوْقه وَقَالُوا إِنَّه فِي كل مَكَان ففسرت الْعلمَاء {وَهُوَ مَعكُمْ} يَعْنِي علمه

ذکر کیا کہ جھمی کہتے ہیں کہ الله اور اسکی مخلوق کے بیچ کوئی حجاب نہیں ہے اور عرش کا انکار کرتے ہیں اور اس کا کہ وہ عرش کے اوپر ہے اور کہتے ہیں وہ ہر مکان میں ہے پس علماء نے تفسیر کی کہ {وَهُوَ مَعكُمْ}  اور وہ تمہارے ساتھ ہے  سے مراد علم ہے

امام الذھبی اس کو تفسیر کہتے ہیں اور اس عقیدے کو غلط کہتے ہیں جو آج دیوبندیوں کا ہے  (کہ الله ہر جگہ ہے) اور سلفی عقیدے  (الله کی تجسیم) کو بھی غلط کہتے ہیں

[/EXPAND]

[مقاتل بن سلیمان نے المشبه کی رائے اختیار کی ؟ اس پر محدثین کی کیا آراء ہیں]

سیر الاعلام النبلاء میں مُقَاتِلُ بنُ سُلَيْمَانَ البَلْخِيُّ أَبُو الحَسَنِ کے ترجمہ میں امام الذھبی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے کہا

وَعَنْ أَبِي حَنِيْفَةَ، قَالَ: أَتَانَا مِنَ المَشْرِقِ رَأْيَان خَبِيْثَانِ: جَهْمٌ مُعَطِّلٌ، وَمُقَاتِلٌ مُشَبِّهِ

مشرق سے دو خبیث آراء آئیں ایک جھم معطل اور مقاتل مشبه

میزان الاعتدال میں الذھبی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفه نے کہا

قال أبو حنيفة: أفرط جهم في نفى التشبيه، حتى قال: إنه تعالى ليس بشئ.  وأفرط مقاتل – يعنى في الاثبات  – حتى جعله مثل خلقه

جھم نے افراط کیا تشبیہ کی نفی میں یہاں تک کہ کہا الله تعالی کوئی چیز نہیں اور مقاتل نے اثبات میں افراط کیا یہاں تک کہ اس کو مخلوق کے مثل کر دیا

امام بخاری تاریخ الکبیر میں کہتے ہیں لا شيء البتة کوئی چیز نہیں ہے

ابن حبان کہتے ہیں کہ مقاتل وكان يشبه الرب بالمخلوقات یہ  رب کو مخلوق سے تشبیہ دیتا

وكيع  اس کو کذاب کہتے

جبکہ تاریخ بغداد کے مطابق امام احمد مقاتل کی روایت پر  کہتے مَا يعجبني أن أروي عَنْهُ شيئًا مجھے پسند نہیں کہ اس سے روایت کروں لیکن اس کی تفسیر پر کہتے

وقال أبو بكر الأثرم: سمعت أبا عبد الله، هو أحمد بن حنبل، يسأل عن مقاتل بن سليمان، فقال: كانت له كتب ينظر فيها، إلا أني أرى أنه كان له علم بالقرآن. «تاريخ بغداد» 13/161.

أبو بكر الأثرم: نے کہا میں نے امام احمد کو سنا ان سے مقاتل بن سلیمان پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا اس کی کتابیں تھیں میں ان کو دیکھتا تھا بلاشبہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کو قرآن کا علم ہے

ابن حجر کہتے ہیں

 ونقل أبو الفتح الأزدي أن ابن معين ضعفه، قال: وكان أحمد بن حنبل لا يعبأ بمقاتل بن سليمان، ولا بمقاتل بن حيان. «تهذيب التهذيب» 10/ (500)

 أبو الفتح الأزدي کہتے ہیں امام ابن معین اس کی تضعیف کرتے اور کہا امام احمد مقاتل کو کوئی عیب نہ دیتے

امام احمد کا مقاتل بن سلیمان المشبه سے متاثر ہونا  معنی خیز ہے

مقاتل کی تفسیر تجسیم کی طرف جاتی ہے مثلا الله تعالی نے بتایا کہ اس نے توریت کو موسی علیہ السلام کے لئے لکھا مقاتل اپنی تفسیر میں سوره الاعراف  میں کہتا ہے

 وكتبه اللَّه- عَزَّ وَجَلّ- بيده  فكتب فيها: إني أَنَا اللَّه الَّذِي لا إله إِلَّا أَنَا الرحمن الرحيم

اللَّه- عَزَّ وَجَلّ نے اپنے ہاتھ سے اس میں لکھا میں بے شک الله ہوں کوئی اله نہیں سوائے میرے الرحمان الرحیم

اسی طرح قرآن میں استوی پر پر کہا

ثُمَّ استوى على العرش: يعني استقر على العرش

یعنی عرش پر رکا

اس پر جرح ہوئی کہ استقر کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ اس سے قبل الله متحرک تھا پھر عرش پر ٹہرا

سلف میں امام مالک اس رائے کے خلاف تھے

امام الذھبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں مقاتل کی اس تفسیر پر کہتے ہیں

 قلت لَا يُعجبنِي قَوْله اسْتَقر بل أَقُول كَمَا قَالَ مَالك الإِمَام الاسْتوَاء مَعْلُوم

میں کہتا ہوں مجھے استقر کا قول پسند نہیں بلکہ جیسا امام مالک نے کہا الاسْتوَاء معلوم ہے

بیہقی اسماء و صفات میں کہتے ہیں

استوى: بمعنى أقبل صحيح، لأن الإقبال هو القصد إلى خلق السماء والقصد هو الإرادة، وذلك هو جائز في صفات الله تعالى ولفظ ثم تعلق بالخلق لا بالإرادة

اس کے برعکس محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421 هـ)  کتاب شرح العقيدة الواسطية  میں کہتے ہیں

قوله تعالى: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} [طه: 5]: ظاهر اللفظ أن الله تعالى استوى على العرش: استقر عليه

ظاہر لفظ ہے الله تعالی نے استوی کیا عرش پر اس پر رکا

[/EXPAND]

[ وہابیوں نے ابن حجر اور امام النووی پر اسماء و صفات کے عقیدے میں جرح کیوں کی ہے؟]

علماء اللجنة الدائمة للإفتاء :
ما هو موقفنا من العلماء الذين أوَّلوا في الصفات ، مثل ابن حجر ، والنووي ، وابن الجوزي ، وغيرهم ، هل نعتبرهم من أئمة أهل السنَّة والجماعة أم ماذا ؟ وهل نقول : إنهم أخطأوا في تأويلاتهم ، أم كانوا ضالين في ذلك ؟
فأجابوا :
” موقفنا من أبي بكر الباقلاني ، والبيهقي ، وأبي الفرج بن الجوزي ، وأبي زكريا النووي ، وابن حجر ، وأمثالهم ممن تأول بعض صفات الله تعالى ، أو فوَّضوا في أصل معناها : أنهم في نظرنا من كبار علماء المسلمين الذين نفع الله الأمة بعلمهم ، فرحمهم الله رحمة واسعة ، وجزاهم عنا خير الجزاء ، وأنهم من أهل السنة فيما وافقوا فيه الصحابة رضي الله عنهم وأئمة السلف في القرون الثلاثة التي شهد لها النبي صلى الله عليه وسلم بالخير ، وأنهم أخطأوا فيما تأولوه من نصوص الصفات وخالفوا فيه سلف الأمة وأئمة السنة رحمهم الله ، سواء تأولوا الصفات الذاتية ، وصفات الأفعال ، أم بعض ذلك .
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم ” انتهى .
الشيخ عبد العزيز بن باز. الشيخ عبد الرزاق عفيفي . الشيخ عبد الله بن قعود
“فتاوى اللجنة الدائمة” (3/241) .

دائمی کیمٹی نے ابن حجر اور نووی پر جرح کیوں کی ہے ؟
اپ کی کیا رائے ہے؟

جواب

سعودی کی دائمی کمیٹی کہتی ہے کہ ہمارا موقف ابی بکر الباقلانی اور بیہقی اور ابن جوزی اور نووی ور ابن حجر اور ان کے جیسوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اللہ تعالی کی بعض صفات کی تاویل کو اصلی معنی سے پھیر دیا … کہ انہوں نے غلطی کی ہے صفات کے نصوص کی تاویل کرکے اور امت کے اسلاف اور آئمہ سنت کی مخالفت کی سوائے انہوں نے صفات ذات کی تاویل کی یا صفات افعال یا بعض دیگر کی ہے۔
http://www.alifta.net/fatawa/fatawaDetails.aspx?BookID=3&View=Page&PageNo=2&PageID=880

دائمی کمیٹی کا موقف صحیح نہیں ہے

ابن حجر یا نووی یا ابن جوزی نے کہاں تاویل کی ہے ؟ بلکہ یہ علماء تو تاویل کے خلاف ہیں یہ معنی کی تفویض کرتے ہیں
اشاعرہ کا ایک گروہ ہے جو الموولہ ہیں وہ تاویل کرتے ہیں تاکہ تجسیم نہ ہو یہ تمام علماء الله کو ایک جسم نہیں کہتے جبکہ سلف کے ابن تیمیہ اور امام احمد المجسمیہ اور المشبہ میں سے ہیں اسی طرح یہ گروہ سلف رب العالمین کے لئے بال تک مانتے ہیں
لہذا تاویل کہنا آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے

نووی ہوں یا ابن حجر یا ابن جوزی یا امام مالک (یا بعض حنابلہ معدوم کے نزدیک امام احمد) یہ اہل حدیث مفوضہ میں سے ہیں یہ لوگ صفات کی تاویل نہیں کرتے ان کو تفویض کرتے ہیں
جبکہ امام احمد اور ان کے ہم قبیل المجسمیہ اور المشبہ میں سے ہیں یہ لوگ صفات کو ظاہر پر لیتے ہیں اور الله کے اعضاء وجوارح کو مانتے ہیں

اپ غور کریں امام احمد کا نام دونوں گروہوں میں شامل ہے اس کی وجہ حنبلیوں کا اپس کا اختلاف ہے
ابن جوزی حنبلی ہیں لیکن المشبہ کے خلاف ہیں اور ان کے مطابق یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا وہ المفوضہ تھے حنابلہ کا یہ گروہ اب معدوم ہے

اس کے برعکس ابن تیمیہ کہتا تھا کہ امام احمد الله کے بالوں کے قائل تھے جیسا اس کی کتاب جو جھمیوں کے رد میں ہے اس میں موجود ہے
اسی المشبہ کے عقیدے کو حنبلی مقلدین وہابی اور موجودہ فرقہ اہل حدیث نے اپنا لیا ہے
——–

بن باز کہتے ہیں امام احمد اہل حدیث المفوضہ کے خلاف تھے فرماتے ہیں
ج٣ ص ٥٥ پر
دائمی کمیٹی کے فتوے

اور پھر امام احمد رحمه الله اور دیگر أئمہ سلف نے تو اہل تفويض کی مذمت کی ہے، اور انہیں بدعتی قرار دیا ہے، کیونکہ اس مذہب کا تقاضہ یہ ہے کہ الله سبحانه و تعالی نے اپنے بندوں کے ساتھ ایسا کلام فرمایا ہے جسے وہ نہیں سمجھ سکتے ہیں، اور اس کے معنی کے ادراک سے قاصر ہیں
http://www.alifta.net/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=158&searchScope=4&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=216181217129216167216170#firstKeyWordFound

دائمی کمیٹی کے مطابق احادیث میں تجسیم پر اشارہ ہے کہتے ہیں

اور ان کی سنت مطہرہ تو ایسی عبارتوں سے بھری پڑی ہیں، جن کے بارے میں مخالف یہ خیال رکھتا ہے کہ اس کا ظاہر موجب تشبیہ و تجسیم ہے، اور یہ کہ اس کے ظاہر کا عقیدہ رکھنا سراسر گمراہی ہے، اور پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان نہ فرمائیں، اور اس کی وضاحت نہ کریں، اور پھر یہ کیسے جائز ہے کہ سلف یہ کہتے نظر آئیں کہ انہیں اسی طرح گذار دو جس طرح يہ وارد ہيں، جبکہ اس کا مجازی معنی ہی مراد ہو، اور یہ عرب کو ہی سمجھ میں نہ آئے

http://www.alifta.net/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=167&searchScope=4&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=216181217129216167216170#firstKeyWordFound
—–

سلفیوں کی غلطی یہ ہے کہ متشابھات کے مفھوم پر بحث کر رہے ہیں جبکہ ان کی تاویل صرف الله کو پتا ہے اسی سے تفویض کا حکم کرنا نکلتا ہے کہ ہم اسماء و صفات میں مفھوم الله کو سپرد کرتے ہیں

واللہ اعلم

[/EXPAND]

[کیا امام ابن تیمیہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ معراج کی رات نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا]

کیا امام ابن تیمیہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ معراج کی رات نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا اور جو دیکھا اس کی تفصیل ان کے نزدیک کیا ہے
میں نے  صالح المنجد کی ویب سائٹ پر دیکھا ہے کہ وہ اس کا انکار کرتے ہیں کہ الله کو مرد کی صورت دیکھا
پلیز وضاحت کر دیں

 جواب

امام ابن تیمیہ کے بارے میں لوگوں نے مختلف اقوال منسوب کر دیے ہیں مثلا یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اس مرد کی صورت والی روایت کو خواب کہتے تھے اس طرح آج کل اس بات کو رخ موڑ کر اس کو چھپا دیا جاتا ہے

ابن تیمیہ اپنی کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية کی جلد اول میں یعنی کتاب کے شروع میں بیان کرتے ہیں کہ عام لوگوں نے خواب میں رویت الباری کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے دیکھا تو جو انہوں نے خواب میں دیکھا اس سے الله تعالی کی صورت ثابت نہیں ہوئی
ولكن لا بد أن تكون الصورة التي رآه فيها مناسبة ومشابهة لاعتقاده في ربه فإن كان إيمانه واعتقاده مطابقا أتي من الصور وسمع من الكلام ما يناسب ذلك .
اور اس میں شک نہیں کہ جو صورت ان لوگوں نے دیکھی وہ اس مناسبت اور مشابہت پر تھی جو ان کا اپنے رب پر اعتقاد ہے

لیکن جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا رویت الباری والی روایت پر جلد ٧ میں بحث کی تو اس کو خواب نہیں کہا بلکہ کہا

 أن أحاديث ابن عباس عنده في اليقظة لكن لم يقل بعينيه فاحتجاج المحتج بهذه الآية وجوابه بقوله ألست ترى السماء قال بلى قال فكلها ترى دليل على أنه أثبت رؤية العين وقد يقال بل أثبت رؤية القلب ورؤية النبي بقلبه كرؤية العين

ابن عباس کی احادیث ان کے نزدیک جاگنے میں ہیں لیکن اس میں یہ نہیں کہا کہ آنکھ … پس اس میں دلیل ہے کہ یہ رویت آنکھ سے ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ قلبی رویت ہے اور نبی کی قلبی رویت،  آنکھ سے دیکھنے کی طرح ہے

ابن تیمیہ اپنی کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ج ٧ ص ٢٩٤ میں کہتے ہیں

فأما خبر قتادة والحكم بن أبان عن عكرمة عن ابن عباس وخبر عبد الله بن أبي سلمة عن ابن عباس فبين واضح أن ابن عباس رضي الله عنهما كان يثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه وهذا من كلامه يقتضي أنه اعتمد هذه الطرق وأنها تفيد رؤية العين لله
پس جہاں تک قتادہ اور حکم بن ابان کی عکرمہ سے ان کی ابن عباس سے خبر ہے اور وہ خبر جو عبدالله بن ابی سلمہ کی ابن عباس سے ہے وہ واضح کرتی ہے کہ ابن عباس اثبات کرتے تھے
کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور یہ کلام تقاضی کرتا ہے کہ اس طرق پر اعتماد کرتے تھے اور یہ فائدہ دیتا ہے کہ یہ الله کو دیکھنا آنکھ سے ہے

اس کتاب میں ابن تیمیہ روایات پیش کرتے ہیں

قال الخلال أبنا الحسن بن ناصح قال حدثنا الأسود بن عامر شاذان ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه جعدًا قططا أمرد في حلة حمراء والصواب حلة خضراء

ورواه أبو الحافظ أبوالحسن الدارقطني فقال حدثنا عبد الله بن جعفر بن خشيش حدثنا محمد بن منصور الطوسي ثنا أسود ابن عامر قال حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رأى ربه عز وجل شابًّا أمرد جعدًا قططا في حلة خضراء

ورواه القطيعي والطبراني قالا حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثني أبي حدثنا الأسود بن عامر قال حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله
صلى اله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء

ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ج ٧ ص ٢٢٥ پر ان روایات کو پیش کرتے ہیں اور امام احمد کا قول نقل کرتے ہیں کہ
قال حدثنا عبد الله بن الإمام أحمد حدثني أبي قال حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء قال وأبلغت أن الطبراني قال حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس في الرؤية صحيح وقال من زعم أني رجعت عن هذا الحديث بعدما حدثت به فقد كذب وقال هذا حديث رواه جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم وجماعة من التابعين عن ابن عباس وجماعة من تابعي التابعين عن عكرمة وجماعة من الثقات عن حماد بن سلمة قال وقال أبي رحمه الله روى هذا الحديث جماعة من الأئمة الثقات عن حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم وذكر أسماءهم بطولها وأخبرنا محمد بن عبيد الله الأنصاري سمعت أبا الحسن عبيد الله بن محمد بن معدان يقول سمعت سليمان بن أحمد يقول سمعت ابن صدقة الحافظ يقول من لم يؤمن بحديث عكرمة فهو زنديق وأخبرنا محمد بن سليمان قال سمعت بندار بن أبي إسحاق يقول سمعت علي بن محمد بن أبان يقول سمعت البراذعي يقول سمعت أبا زرعة الرازي يقول من أنكر حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عيه وسلم رأيت ربي عز وجل فهو معتزلي

عبد الله کہتے ہیں کہ امام احمد نے کہا حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا میں نے اپنے رب کو ایک مرد کی صورت دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے اور مجھ تک پہنچا کہ طبرانی نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے جو یہ کہے کہ اس کو روایت کرنے کے بعد میں نے اس سے رجوع کیا جھوٹا ہے اور امام احمد نے کہا اس کو صحابہ کی ایک جماعت رسول الله سے روایت کرتی ہے …. اور ابو زرعہ نے کہا جو اس کا انکار کرے وہ معتزلی ہے

یعنی امام ابن تیمیہ ان روایات کو صحیح کہتے تھے اور ان کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو قلب سے  دیکھا حنابلہ میں بہت سے  لوگ مانتے ہیں کہ معراج حقیقی تھی جسم کے ساتھ تھی نہ کہ خواب اور وہ ان روایات کو معراج پر مانتے ہیں ابن تیمیہ ان کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن قلبی رویت مانتے ہیں

صالح المنجد یہ اقرار کرتے ہیں کہ اس حدیث کو ائمہ نے صحیح کہا ہے
=================
ورد حديث يفيد رؤية النبي صلى الله عليه وسلم ربه مناما على صورة شاب أمرد ، وهو حديث مختلف في صحته ، صححه بعض الأئمة ، وضعفه آخرون
https://islamqa.info/ar/152835
————-
اور ان کے مطابق صحیح کہتے والے ہیں
===============
وممن صحح الحديث من الأئمة : أحمد بن حنبل ، وأبو يعلى الحنبلي ، وأبو زرعة الرازي .
==================
یہ وہ ائمہ ہیں جن میں حنابلہ کے سرخیل امام احمد اور قاضی ابویعلی ہیں اور ابن تیمیہ بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص مانتے ہیں

===============
صالح المنجد کہتے ہیں
وممن ضعفه : يحيى بن معين ، والنسائي ، وابن حبان ، وابن حجر ، والسيوطي .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية في “بيان تلبيس الجهمية”: (7/ 229): ” وكلها [يعني روايات الحديث] فيها ما يبين أن ذلك كان في المنام وأنه كان بالمدينة إلا حديث عكرمة عن ابن عباس وقد جعل أحمد أصلهما واحداً وكذلك قال العلماء”.
وقال أيضا (7/ 194): ” وهذا الحديث الذي أمر أحمد بتحديثه قد صرح فيه بأنه رأى ذلك في المنام ” انتهى .
=============

یہ علمی خیانت ہے ابن تیمیہ نے معاذ بن جبل کی روایت کو خواب والی قرار دیا ہے نہ کہ ابن عباس سے منسوب روایات کو

اسی سوال سے منسلک ایک تحقیق میں محقق لکھتے ہیں کہ یہ مرد کی صورت والی روایت کو صحیح کہتے تھے
http://www.dorar.net/art/483
((رأيت ربي في صورة شاب أمرد جعد عليه حلة خضراء))
وهذا الحديث من هذا الطريق صححه جمعٌ من أهل العلم، منهم:
الإمام أحمد (المنتخب من علل الخلال: ص282، وإبطال التأويلات لأبي يعلى 1/139)
وأبو زرعة الرازي (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/144)
والطبراني (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/143)
وأبو الحسن بن بشار (إبطال التأويلات 1/ 142، 143، 222)
وأبو يعلى في (إبطال التأويلات 1/ 141، 142، 143)
وابن صدقة (إبطال التأويلات 1/144) (تلبيس الجهمية 7 /225 )
وابن تيمية في (بيان تلبيس الجهمية 7/290، 356) (طبعة مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف- 1426هـ)

اس لسٹ میں ابن تیمیہ بھی شامل ہیں

کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ج ٧ ص  ٢٩٤ پر

 

 

منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية

ج ٥ ص ٣٨٤ پر  / ج ٧ ص ٤٣٢

فأما خبر قتادة والحكم بن أبان عن عكرمة عن ابن عباس وخبر عبد الله بن أبي سلمة عن ابن عباس فبين واضح أن ابن عباس رضي الله عنهما كان يثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه وهذا من كلامه يقتضي أنه اعتمد هذه الطرق وأنها تفيد رؤية العين لله التي ينزل عليها
پس جہاں تک قتادہ اور حکم بن ابان کی عکرمہ سے ان کی ابن عباس سے خبر ہے اور وہ خبر جو عبدالله بن ابی سلمہ کی ابن عباس سے ہے وہ واضح کرتی ہے کہ ابن عباس اثبات کرتے تھے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور یہ کلام تقاضی کرتا ہے کہ اس طرق پر اعتماد کرتے تھے اور یہ فائدہ دیتا ہے کہ یہ الله کو دیکھنا آنکھ سے ہےاسی کتاب میں ابن تیمیہ لکھتے ہیںوهذه مسألة وقعت في عصر الصحابة فكان ابن عباس وأنس وغيرهما يثبتون رؤيته في ليلة المعراج وكانت عائشة تنكر رؤيته بعينه في تلك الليلةاور یہ  مسئلہ واقع ہوا دور صحابہ میں کہ ابن عباس اور انس اور دیگر اصحاب اثبات کرتے کہ معراج کی رات دیکھا اور عائشہ انکار کرتیں کہ اس رات آنکھ سے دیکھاابن تیمیہ ابن عباس کی گھنگھریالے بالوں والے رب کی روایات پر کہتے ہیں
أن أحاديث ابن عباس عنده في اليقظة لكن لم يقل بعينيه فاحتجاج المحتج بهذه الآية وجوابه بقوله ألست ترى السماء قال بلى قال فكلها ترى دليل على أنه أثبت رؤية العين وقد يقال بل أثبت رؤية القلب ورؤية النبي بقلبه كرؤية العينابن عباس کی احادیث ان کے نزدیک جاگنے میں ہیں لیکن اس میں یہ نہیں کہا کہ آنکھ … پس اس میں دلیل ہے کہ یہ رویت آنکھ سے ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ قلبی رویت ہے اور نبی کی قلبی رویت،  آنکھ سے دیکھنے کی طرح ہےیعنی ابن تیمیہ کے نزدیک رسول الله نے قلب کی آنکھ سے الله کو دیکھا جو حقیقی آنکھ سے دیکھنے کے مترادف  تھا کیونکہ انبیاء  کی آنکھ سوتی ہے قلب نہیں
وَأَمَّا لَيْلَةُ الْمِعْرَاجِ فَلَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْأَحَادِيثِ الْمَعْرُوفَةِ أَنَّهُ رَآهُ لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ

اور جہاں تک معراج کی رات کا تعلق ہے تو اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے کہ اس رات دیکھا

 

اور کہا

وَأَحَادِيثُ الْمِعْرَاجِ الَّتِي فِي الصِّحَاحِ لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ أَحَادِيثِ ذِكْرِ الرُّؤْيَةِ

اور جو معراج کی احادیث صحیحین میں ہیں ان میں رویت پر کوئی چیز نہیں ہے

الغرض ابن تیمیہ کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو قلبی آنکھ سے دیکھا جو حقیقی آنکھ سے دیکھنے کے مترادف ہے لیکن یہ معراج پر نہیں ہوا

[/EXPAND]

[   روز محشر الله تعالی اپنی پنڈلی کا کشف کرے گا؟]

جواب

 صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَيَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا»

سعید بن ابی ہلال روایت کرتا ہے زید بن اسلم سے وہ عطا سے وہ ابی سعید سے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سنا انہوں نے فرمایا ہمارا رب اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا

قرآن میں آیت يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [القلم: 42]  جس روز پنڈلی کھل جائے گی –  عربی زبان کے علماء کے مطابق یہ الفاظ شدت وقوعہ میں بولے جاتے ہیں کہ محشر میں سختی ہو گی-  مصطفی البغاء تعلیق صحیح بخاری میں لکھتے ہیں

هذا الكلام عبارة عن شدة الأمر يوم القيامة للحساب والجزاء والعرب تقول لمن وقع في أمر يحتاج إلى اجتهاد ومعاناة شمر عن ساقه وتقول للحرب إذا اشتدت كشفت عن ساقها

یہ کلام عبارت ہے روز محشر کی شدت سے حساب اور جزا  کی وجہ سے اور عرب ایسا کہتے ہیں اس کام کے لئے جس میں اجتہاد ہو…  اور جنگ کے لئے کہتے ہیں جب یہ شدت اختیار کرے گی تو  پنڈلی کھل جائے گی

لیکن بعض علماء نے اس روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے پنڈلی کو الله کی صفت ذات بنا دیا

ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) نے کتاب  التوضيح لشرح الجامع الصحيح میں لکھا

هذا يدل -والله أعلم- أن الله تعالى عرف المؤمنين على ألسنة الرسل يوم القيامة أو على ألسنة الملائكة المتلقين لهم بالبشرى، أن الله تعالى قد جعل لكم علامة تجليه لكم الساق

اور یہ دلیل ہے کہ و الله اعلم … کہ الله تعالی   تمہارے لئے ایک علامت کرے گا کہ تجلی  کرے گا پنڈلی کی

ابن جوزی اپنی کتاب دفع  شبه ألتشبھة  میں لکھتے ہیں کہ قاضی ابو یعلی نے اس قسم کی روایات سے یہ نکالا کہ الله کی پنڈلی اس کی صفت ذات ہے

ابن جوزی -ساق

اور قاضی ابویعلی نے مذھب لیا ہے کہ الساق یعنی پنڈلی الله کی صفت ذات ہے اور کہا اسی طرح وہ رب اپنا قدم جہنم پر رکھے گا اور ابن مسعود سے حکایت کیا گیا ہے کہا وہ سیدھی پنڈلی کو کھولے گا جس سے نور نکلے اور اور زمین روشن ہو جائے گی

یہاں تک کہ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَوَقَعَ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ وَهُوَ مِنْ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَأَخْرَجَهَا الْإِسْمَاعِيلِيُّ كَذَلِكَ ثُمَّ قَالَ فِي قَوْلِهِ عَنْ سَاقِهِ نَكِرَةٌ ثُمَّ أَخْرَجَهُ مِنْ طَرِيقِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ بِلَفْظ يكْشف عَن سَاق قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيُّ هَذِهِ أَصَحُّ لِمُوَافَقَتِهَا لَفْظَ الْقُرْآنِ فِي الْجُمْلَةِ لَا يُظَنُّ أَنَّ اللَّهَ ذُو أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ مُشَابَهَةِ الْمَخْلُوقِينَ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء

اور صحیح بخاری میں اس مقام پر ہے يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ کہ ہمارا رب اپنی پنڈلی کو کھولے گا اور یہ روایت ہے سعید بن ابی ہلال کی عن زید بن اسلم کی سند سے پس اس کی تخریج کی ہے الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے اسی طرح پھر کہا ہے اپنی پنڈلی پر یہ نَكِرَةٌ ہے پھر اس کی تخریج کی حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ  کے طرق سے  اور الفاظ ہیں يكْشف عَن سَاق اور الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے کہا یہ زیادہ صحیح ہے جو قرآن کی موافقت میں ہے فی جملہ – نا گمان کرو کہ الله   أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ  والا ہے  کیونکہ یہ مخلوق سے مشابہت کا قول ہے الله تعالی اس سے بلند ہے  اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے

یعنی صحیح بخاری کی اس روایت کا متن صحیح نقل نہیں ہوا اس متن میں سعید بن ابی ہلال نے غلطی کی

العینی صحیح بخاری کی شرح میں اس باب   باب يوم يكشف عن ساق میں کہتے ہیں

 وهذا من باب الاستعارة، تقول العرب للرجل إذا وقع في أمر عظيم يحتاج فيه إلى اجتهاد ومعاناة ومقاساة للشدة

اور یہ  کا باب الاستعارة پر ہے عرب اس شخص پر کہتے ہیں جب ایک امر عظیم واقعہ ہو کہ اس کے لئے اس امر میں اجتہاد و دکھ اور  صبر کی شدت ہو گی

کتاب إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة میں ابن حجر العسقلاني سوال پر  کہتے ہیں

أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [سورة: القلم، آية 42] قَالَ: يَوْمُ كَرْبٍ وَشِدَّةٍ … الْحَدِيثُ مَوْقُوفٌ. كم فِي التَّفْسِيرِ: أنا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَبَّانِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الأُمَوِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أنا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْهُ، بِهِ. وَفِيهِ قَوْلُهُ:[ص:577] إِذَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ، فَابْتَغُوهُ فِي الشِّعْرِ، فَإِنَّهُ دِيوَانُ الْعَرَبِ.

ان سے سوال کیا الله تعالی کے قول   يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [سورة: القلم، آية 42] (جب پنڈلی کھل جائے گی) ابن حجر نے کہا یہ دن شدت و کرب کا ہے  … حدیث موقوف ہے تفسیر میں ہے قول کہ  أنا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَبَّانِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الأُمَوِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أنا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْهُ، بِهِ. وَفِيهِ قَوْلُهُ: ..جب تم پر قرآن میں کوئی چیز مخفی ہو تو اس کو شعر میں دیکھو کیونکہ وہ عربوں کا دیوان ہے

یعنی الفاظ کا مفھوم لغت عرب میں دیکھنا سلف کا حکم تھا جو امام احمد اور المشبہ سے بھی پہلے کے ہیں

کتاب جامع الأصول في أحاديث الرسول میں ابن اثیر کہتے ہیں

يكشف عن ساقه) الساق في اللغة: الأمر الشديد، و (كشف الساق) مثل في شدة الأمر

پنڈلی کا کھلنا  پنڈلی لغت میں امر شدید کے لئے ہے اور پنڈلی کا کھلنا مثال ہے امر کی سختی کا

افسوس امام مالک کی نصیحت بھلا دی گئی

فقہ مالکیہ کی معتمد  کتاب  المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي    السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

[/EXPAND]

[کیا اسماء الہی متشابھات میں سے ہیں اور اسی طرح متعلقات؟]

جواب

الله تعالی کے اسماء کا مفھوم معلوم ہے مثلا وہ  الرحمان ہے العلی ہے الغفور ہے یا اسی طرح کے ٩٩ نام اور قرآن میں بیان کردہ اس کی تعریف یہ سب نام عربی میں اپنے مفھوم میں معلوم ہیں- لیکن الله تعالی  کا عرش اور اس پر اس کا استوی معلوم نہیں ہے نہ ہی عرش کی نوعیت پتا ہے لہذا استوی   پر ایمان ہے اس کی کیفیت  معلوم نہیں ہے اس بنا پر ان کو متشابھات کہا جاتا ہے جس کی تاویل منع ہے -جب بھی الله کے لئے کوئی  کیفیت آئے گی اس کا احاطہ انسانی ذہن سے باہر ہو گا مثلا اس کا نزول اور استوی اس بنا پر اہل تفویض کہتے ہیں ہم ان کا معنی الله  کے سپرد کرتے ہیں ہم ایمان لاتے ہیں-قرآن میں ہے  {وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ} (آل عمران:7) ان کی تاویل صرف الله کو پتا ہے

ناموں اور کیفیت کے علاوہ ایک تیسری نوع لوگوں نے اس میں ایجاد کی ہے کہ وہ تمام آیات اور احادیث جن میں چہرہ ہاتھ پیر آنکھ پنڈلی  بالوں کا ذکر ہے ان کو صفت ذات کہا ہے اس طرح یہ لوگ تجسم کے مرتکب ہوتے ہیں – یہ وہ گروہ تاویل کے لفظ کو بھی بدلتا ہے اور صفات میں تاویل کرنے کو جائز کہتا ہے مثلا  اپنی کتابوں میں بعض حضرات جگہ جگہ اویل کا لفظ لکھتے ہیں جو تاویل کی تحریف ہے کیونکہ متشبھات کی تاویل منع ہے تو اس سے بچنے کے لئے انہوں نے  تاویل کے لفظ کے مادہ سے اویل کا لفظ ایجاد کیا ہے  جبکہ یہ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ہے

التعطيل  کا قول ہے کہ جوبھی صفت ذات سمجھی گئی ہے اس کا مفھوم بھی  تفویض کر دیا جائے

یہ مسئلہ اہل سنت میں چلا آ رہا ہے بعض تجسیم تک جا چکے ہیں اور بعض التعطيل میں بہت آگے چلے گئے ہیں

[/EXPAND]

[الله شہہ رگ کے پاس ہے یا عرش پر ہے ؟ دوسرا وہ کیا کن کہتا ہے ]

اپ کا سوال اس طرح ہے کہ الله عرش پر ہے یا مخلوق کے ساتھ انکی شہہ رگ کے پاس ہے
دوسرا سوال ہے کہ اللہ کن فیکون کہتا ہے تو اسکو فرشتوں کی ضرورت کیوں ہے

جواب الله عرش پر ہے مخلوق کے پاس نہیں ہے اس کی ذات کو یہ زمین اٹھا نہیں سکتی ایسا اس نے خود بتایا ہے کہ موسی نے درخواست کی کہ وہ الله کو دیکھنا چاہتے ہیں الله نے اپنا ظہور پہاڑ پر کرنا شروع کیا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا
وَلَمَّا جَاء مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
الأعراف

عربي لغت لسان عرب کے مطابق وَقَالَ الزَّجَّاجُ: تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ أَي ظَهَرَ وبانَ، قَالَ: وَهَذَا قَوْلُ أَهل السُّنة وَالْجَمَاعَةِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: تَجَلَّى بَدَا لِلْجَبَلِ نُور العَرْش
زجاج کہتے ہیں تجلی کی رب نے پہاڑ پر یعنی ظاہر ہو اور نظر آئے اور یہ قول اہل سنت کا ہے اور حسن کہتے ہیں تجلی شروع کی پہاڑ پر عرش کے نور کی

یعنی الله تعالی کو یہ زمین اٹھا نہیں سکتی وہ عرش پر مستوی ہے اور اپنے علم کی وجہ سے ہر انسان کی شہہ رگ کے قریب ہے

الله خلق کرتا اور امر کرتا ہے یا حکم کرتا ہے
فرشتے اس نے خلق کیے جو وہ کام کرتے ہیں جو الله تعالی ان کو حکم کرتے ہیں
یہ عالم بالا کا عموم ہے

لیکن جب الله کسی چیز کا ارادہ کر لے تو اس کو ان فرشتوں کی حاجت نہیں وہ کن کہتا ہے اور چیز ہو جاتی ہے
یہ الله کی قوت، قدرت اور اس کے جبروت کا منظر ہے یہ خصوص ہے

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
زمین و آسمانوں کی ابتداء کرنے والا اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُون
عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم جیسی ہے جس کو مٹی سے خلق کیا پھر کہا ہو جا اور ہو گیا

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
بلا شبہ ہمارا حکم یہ ہے کہ جب ہم ارادہ کریں کسی چیز کا تو اس سے کہیں ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے

قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
مریم نے کہا اے رب مجھے لڑکا کیسے ہو گا جبکہ کسی مرد نے چھوا تک نہیں کہا یہ الله ہے جو جو چاہتا ہے خلق کر دیتا ہے جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا حق کے ساتھ اور جس روز وہ کہے ہو جا وہ ہو جاتا ہے اس کا قول حق ہے اور اسی کے لئے بادشاہی ہے

هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ فَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
اور وہی ہے جو زندہ و مردہ کرتا ہے پس جب کسی امر کا فیصلہ کرے تو کہتا ہے ہو جا پس ہو جاتا ہے

ان تمام آیات سے واضح ہے کہ کن فیکون الله کا وہ حکم ہوتا ہے جو نیا ہو جس میں کوئی نیا بڑا کام ہونے جا رہا ہو جیسے اس کا ذکر تخلیق زمین و آسمان تخلیق آدم تخلیق عیسیٰ کے سلسلے میں بیان ہوا ہے

[/EXPAND]

[کیا الله تعالی کسی آسمان میں ہے ؟ ]

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَوْنٍ، عَنْ أَخِيهِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَارِيَةٍ سَوْدَاءَ أَعْجَمِيَّةٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ عَلَيَّ عِتْقَ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ. فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ: ” أَيْنَ اللهُ؟ ” فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ بِإِصْبَعِهَا السَّبَّابَةِ، فَقَالَ لَهَا: ” مَنْ أَنَا؟ ” فَأَشَارَتْ بِإِصْبَعِهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ وَإِلَى السَّمَاءِ، أَيْ: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، فَقَالَ: ” أَعْتِقْهَا

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عجمی کالی لونڈی کے ساتھ آیا اور کہا اے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میرے اوپر ہے کہ ایک  مومن کی گردن آزاد کروں – اپ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ الله کہاں ہے ؟ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اپنی شہادت کی انگلی سے پھر پوچھا میں کون ہوں؟  اس نے اپ کی طرف اور آسمان کی طرف اشارہ کیا یعنی کہ الله کے رسول پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا اس کو آزاد کر دو مومن ہے

جواب

لونڈی کی روایت یا  این الله والی روایت مضطرب المتن ہے

    الْمَسْعُودِيُّ  (عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة) کے اختلاط کی وجہ سے روایت ضعیف ہے – مندرجہ ذیل کتب میں المسعودی کی سند سے ہی روایت ہے

ابن خزيمة  “التوحيد” 1/284-285 عن محمد بن رافع، أبو داود (3284) ، البيهقي 7/388   ، وابن عبد البر  “التمهيد” 9/115

ابو داود میں اسی سند کو البانی ضعیف کہتے ہیں

طبرانی   المعجم الأوسط میں کہتے ہیں لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَوْنٍ إِلَّا الْمَسْعُودِيُّ اس کو صرف المسعودی روایت کرتا ہے

موطا میں بھی ہے لیکن وہاں یہ لونڈی بول رہی ہے اور آسمان کی طرف اشارہ نہیں کرتی

 أن رجلاً من الأنصار جاء إلى رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بجارية له سوداء، فقال: يا رسول الله، إن عليَّ رقبةً مؤمنةً، فإن كنت تراها مؤمنة أُعتِقُها. فقال لها رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أتشهدين أن لا إِله إلا الله؟ ” قالت: نعم. قال: “أتشهدين أن محمداً رسولُ الله؟ ” قالت: نعم. قال: “أتوقنين بالبعث بعد الموتِ؟ ” قالت: نعم. فقال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أعتِقْها

روایت ظاہر ہے صحیح متن سے المسعودی نے بیان نہیں کی

المسعودی المتوفی ١٦٠ ہجری کا اختلاط سن ١٥٤ ھ میں شروع ہو چکا تھا

کتاب سير أعلام النبلاء  از  الذھبی کے مطابق

قَالَ مُعَاذُ بنُ مُعَاذٍ: رَأَيتُ المَسْعُوْدِيَّ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَخَمْسِيْنَ وَمائَةٍ يُطَالِعُ الكِتَابَ -يَعْنِي: أَنَّهُ قَدْ تَغَيَّرَ حِفْظُهُ-

 أَبُو قُتَيْبَةَ: كَتَبتُ عَنْهُ سَنَةَ ثَلاَثٍ وَخَمْسِيْنَ وَهُوَ صَحِيْحٌ

ابو قتیبہ نے کہا کہ میں نے ١٥٣ ھ تک ان سے لکھا جو صحیح تھا

امام احمد اس کے برعکس وقت کا تعین نہیں کرتے اور کہتے ہیں جس نے ان سے کوفہ و بصرہ  میں سنا وہ جید  ہے اور جس نے بغداد میں سنا وہ غلط سلط ہے

کتاب العلل میں امام احمد کہتے ہیں

وأما يزيد بن هارون، وحجاج، ومن سمع منه ببغداد فهو في الاختلاط

اور جہاں تک امام یزید بن ہارون ہیں حجاج ہیں اور وہ جنہوں نے بغداد میں سنا تو وہ اختلاط میں ہے

اس لونڈی والی روایت کو المسعودی سے یزید بن ہارون ہی روایت کرتے ہیں

لہذا اس  طرق سے یہ ضعیف ہے

یہ روایت صحیح مسلم  (٥٣٧) میں بھی ہے لیکن وہاں اس کی سند میں يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے البتہ مسند احمد  23767 میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ السُّلَمِيِّ

لہذا تدلیس کا مسئلہ باقی نہیں رہتا

مسند احمد صحیح مسلم کی روایت کے مطابق لونڈی کہتی ہے

 فَقَالَ: «أَيْنَ اللَّهُ؟» قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا الله کہاں ہے لونڈی نے کہا آسمان میں

لونڈی کا یہ کہنا عرف عام ہے کہ الله تعالی آسمان والا ہے اور  ظاہر کرتا ہے کہ وہ الله کو عرش پر ہی  مانتی تھی کیونکہ اگر وہ کہتی وہ  ہرجگہ ہے تو عرش کا مفھوم غیر واضح ہو جاتا اور اگر کہتی زمین میں ہے تو یہ مخلوق سے ملانے کی بات ہوتی

متنا روایت مضطرب ہے کیونکہ  موطا میں لونڈی عربی بول رہی ہے اور اگر اپ غور کریں لونڈی عربی میں نعم یعنی ہاں تک تو کہہ نہیں سکتی لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سوال سمجھ رہی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ صحیح روایت وہ ہے جو امام مالک نے موطا میں روایت کی اور اس میں این الله کے الفاظ نہیں ہیں

موطا میں بھی ہے لیکن وہاں یہ لونڈی بول رہی ہے اور آسمان کی طرف اشارہ نہیں کرتی

 أن رجلاً من الأنصار جاء إلى رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بجارية له سوداء، فقال: يا رسول الله، إن عليَّ رقبةً مؤمنةً، فإن كنت تراها مؤمنة أُعتِقُها. فقال لها رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أتشهدين أن لا إِله إلا الله؟ ” قالت: نعم. قال: “أتشهدين أن محمداً رسولُ الله؟ ” قالت: نعم. قال: “أتوقنين بالبعث بعد الموتِ؟ ” قالت: نعم. فقال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أعتِقْها

انصار میں سے ایک شخص ایک کالی لونڈی کے ساتھ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے رسول الله میرے  اوپر ہے کہ میں ایک مومن لونڈی کو آزاد کروں اپ اس کو دیکھیں اگر مومن ہے تو میں اس کو آزاد کر دوں پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کو کہا کیا تو شہادت دیتی ہے کہ الله کے سوا کوئی اله نہیں ہے ؟ لونڈی بول جی ہاں پھر اس سے پوچھا کیا تو شہادت دیتی ہے محمد رسول الله ہے ؟ لونڈی بولی جی ہاں پھر پوچھا کیا تو مرنے کے بعد جی اٹھنے پر یقین رکھتی ہے ؟ بولی جی ہاں پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کو آزاد کر دو

قرانی آیات

سوره الزخرف میں ہے

وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَهٌ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ

اور وہی ہے جو آسمان میں اله ہے اور زمین میں اله ہے اور وہ حکمت والا جاننے والا ہے

سوره الملک میں ہے

أأمنتم من في السماء أن يخسف بكم الأرض فإذا هي تمور

کیا تم بے خوف ہو اس سے کہ جو آسمان میں ہے کہ وہ زمین کو خسف کر دے اور یہ ہچکولے کھا رہی ہو

ان آیات میں ادبی انداز میں الله کو آسمان والا کہا گیا ہے کیونکہ یہ مخلوق کا انداز ہے کہ وہ دعا کرتی ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ کرتی ہے یا آسمان کی طرف دیکھتی ہے  ان آیات  کا مطلب ہے کہ زمین و آسمان پر الله کی ہی بادشاہی ہے اس کی تمکنت ہے نہ کہ وہ زمین میں  یا کسی آسمان میں ہے بلکہ وہ عرش پر ہے جو جنت الفردوس کے اوپر ہے اور آخری حد وہ بیری کا درخت ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا جہاں تمام چیزیں ا کر رک جاتی ہیں اور اس سے آگے رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی نہیں گئے

 الأسماء والصفات للبيهقي (2/309) کے مطابق اس آیت  أأمنتم من في السماء کا مطلب ہے

 أي: فوق السماء یعنی آسمان سے اوپر

اس کے بعد البیہقی دلیل میں حدیث پیش کرتے ہیں کہ بنو قریظہ کا فیصلہ  پر سعد رضی الله عنہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا

لقد حكمت فيهم بحكم الله الذي حكم به من فوق سبع سموات

تم بے شک فیصلہ دیا الله کے حکم کے مطابق جو سات آسمان سے اوپر سے حکم کرتا ہے

اسی طرح  حدیث میں ہے  ام المومنین زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کے لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

إن الله أنكحني من فوق سبع سموات

بے شک الله نے میرا نکاح کیا جو سات آسمان سے اوپر ہے

زینب رضی الله عنہا صحیح بخاری کی حدیث 7420  کے مطابق کہتیں

 وَزَوَّجَنِي اللَّهُ تَعَالَى مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ

میرا نکاح الله تعالی نے سات آسمان کے اوپر سے کیا

مسند احمد 3262  کے مطابق عائشہ رضی الله عنہا کہتیں

 وأنزل الله عز وجَل براءَتَك من فوق سبع سموات

اور الله   عز وجَل نے میری برات  سات آسمان کے اوپر سے نازل کی

لہذا امہات المومنین کا عقیدہ تھا  کہ الله عرش پر سات آسمان اوپر ہے

[/EXPAND]

[رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک دعا پر سوال ہے ؟]

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ، فَقَالَ: اللهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ (2) عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ،  نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ
اے الله میں تجھ سے تیرے ہر نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو تو اپنے نفس کے رکھے یا اپنی کتاب میں نازل کیے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھائے یا وہ جو تیرے علم غیب میں جمع ہیں

جواب

دارقطنی العلل میں اس کو ضعیف کہتے ہیں اس کی سند میں أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ جو مجھول ہے

سند کا دوسرا راوی  فضيل بن مرزوق بھی مجھول ہے مسند احمد کی تعلیق میں شعیب اس کو ضعیف روایت کہتے ہیں اور  فضيل بن مرزوق پر لکھتے ہیں

 فقال المنذري في “الترغيب والترهيب” 4/581: قال بعض مشايخنا: لا ندري من هو، وقال الذهبي في “الميزان” 4/533، والحسيني في “الإكمال” ص 517: لا يدرى من هو، وتابعهما الحافظ في “تعجيل المنفعة”

حسين سليم أسد الدّاراني – عبده علي الكوشك کتاب  موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان میں اس کی تعلیق میں أبو سلمة الجهني پر کہتے ہیں

والحق أنه مجهول الحال، وابن حبان يذكر أمثاله في الثقات، ويحتج به في الصحيح إذا كان ما رواه ليسَ بمنكر”. وانظر أيضاً “تعجيل المنفعة” ص. (490 – 491).

حق یہ ہے کہ یہ مجھول الحال ہے اور ابن حبان نے ان جیسوں کو الثقات میں ذکر کر دیا ہے اور صحیح میں اس سے دلیل لی ہے

اس روایت کی بعض اسناد میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ بھی ہے جو ضعیف ہے

لہذا روایت ضعیف اور مجھول لوگوں کی روایت کردہ ہے

 جب الله کو پکارا  جاتا ہے تو اس کو رحمت  مانگتے وقت یا القہار نہیں کہا جاتا جبکہ یہ بھی الله کا نام ہے –  مسند احمد کی روایت کے  مطابق الله کو پکارتے وقت اس کے تمام ناموں کو پکارا گیا ہے جو سنت کا عمل نہیں

صحیح حدیث کے مطابق الله تعالی کے ٩٩ نام ہیں لیکن  اس مسند احمد کی ضعیف روایت کے مطابق بے شمار ہیں

لہذا بعض کہتے ہیں أسماء الله تعالى غير محصورة بعدد معين  الله تعالی کے اسماء ایک مخصوص عدد (یعنی صرف ٩٩)  نہیں ہیں

امام بخاری اس کے برعکس صحیح میں باب إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ اسْمٍ إِلَّا وَاحِدًا  (الله کے سو میں ایک کم نام ہیں) میں حدیث پیش کرتے ہیں

إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا، مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ

بے شک الله کے ٩٩ نام ہیں سو میں ایک کم جس نے ان کو یاد کیا جنت میں داخل ہو گا

یہاں واضح ہے کہ وہ روایت جس میں بے شمار ناموں کا ذکر ہو منکر ہے

[/EXPAND]

[کیا  متشابھات کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو ہے ؟]

الله تعالی نے کتاب الله میں واضح کر دیا ہے کہ اس نے جو کتاب نازل کی ہے اس میں سب باتوں کا علم انسان کو نہیں دیا لہذا  متشابھات کی تاویل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بھی نہیں  دی گئی

سوره ال عمران میں ہے

وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ

اور ان کی تاویل کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور علم میں راسخ کہتے ہیں ہم ایمان لاتے ہیں

الله تعالی سے متعلق بہت سی آیات متشابھات میں سے ہیں ان پر ایمان لایا جاتا ہے مثلا استوی وغیرہ

کتاب  القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى از  محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ) کے مطابق ابن تیمیہ کہتے ہیں

قال شيخ الإسلام ابن تيميه في كتابه المعروف ب”العقل والنقل” (ص 116، ج 1) المطبوع على هامش “منهاج السنة”: “وأما التفويض فمن المعلوم أن الله أمرنا بتدبر القرآن، وحضنا على عقله وفهمه، فكيف يجوز مع ذلك أن يراد منا الإعراض عن فهمه ومعرفته وعقله) إلى أن قال (ص 118) : (وحينئذ فيكون ما وصف الله به نفسه في القرآن، أو كثير مما وصف الله به نفسه لا يعلم الأنبياء معناه، بل يقولون كلاما لا يعقلون معناه” قال: “ومعلوم أن هذا قدح في القرآن والأنبياء، إذ كان الله أنزل القرآن وأخبر أنه جعله هدى وبيانا للناس، وأمر الرسول صلى الله عليه وسلم أن يبلغ البلاغ المبين، وأن يبين للناس ما نُزِّل إليهم، وأمر بتدبر القرآن وعقله، ومع هذا فأشرف ما فيه وهو ما أخبر به الرب عن صفاته.. لا يعلم أحد معناه، فلا يعقل، ولا يتدبر، ولا يكون الرسول بَيَّنَ للناس ما نُزِّل إليهم، ولا بَلَّغ البلاغ المبين، وعلى هذا التقدير فيقول كل ملحد ومبتدع: الحق في نفس الأمر ما علمته برأيي وعقلي، وليس في النصوص ما يناقض ذلك، لأن تلك النصوص مشكلة متشابهة، ولا يعلم أحد معناها، وما لا يعلم أحد معناه لا يجوز أن يُسْتَدَل به، فيبقى هذا الكلام سدًا لباب الهدى والبيان من جهة الأنبياء، وفتحا لباب من يعارضهم، ويقول: إن الهدى والبيان في طريقنا لا في طريق الأنبياء، لأننا نحن نعلم ما نقول ونبينه بالأدلة العقلية، والأنبياء لم يعلموا ما يقولون فضلاً عن أن يبينوا مرادهم.

%d8%b9%d9%82%d9%84-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%aa%db%8c%d9%85%db%8c%db%81-%d9%a1

%d8%b9%d9%82%d9%84-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%aa%db%8c%d9%85%db%8c%db%81-%d9%a2

%d8%b9%d9%82%d9%84-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%aa%db%8c%d9%85%db%8c%db%81-%d9%a3

یہ بات کس قدر سطحی ہے اپ دیکھ سکتے ہیں   اس اقتباس کی بنیاد پر کوئی بھی شخص متاشابھات کا انکار کر سکتا ہے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہیں بھی صفات میں کیفیت بیان نہیں کی ہیں کیونکہ وہ متشابھات میں سے ہیں اور جب تک کیفیت کا علم نہ ہو حقیقی اور مکمل علم حاصل نہیں ہوتا

اب چونکہ کیفیت اسی وقت پتا چلتی ہے جب دیکھا جائے لہذا اصلا ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے کہ الله تعالی کو  سونے کے فرش پر کرسی پر  اصلی آنکھ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا

کتاب  بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں کتاب کے آخر میں  ابن تیمیہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی انکھوں سے الله تعالی کو دیکھا

 وفي هذا الخبر من رواية ابن أبي داود أنه سُئل ابن عباس هل رأى محمد ربه قال نعم قال وكيف رآه قال في صورة شاب دونه ستر من لؤلؤ كأن قدميه في خضرة فقلت أنا لابن عباس أليس في قوله لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (103) [الأنعام 103] قال لا أم لك ذاك نوره الذي هو نوره إذا تجلى بنوره لا يدركه شيء وهذا يدل على أنه رآه وأخبر أنه رآه في صورة شاب دونه ستر وقدميه في خضرة وأن هذه الرؤية هي المعارضة بالآية والمجاب عنها بما تقدم فيقتضي أنها رؤية عين كما في الحديث الصحيح المرفوع عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء الوجه الرابع أن في حديث عبد الله بن أبي سلمة أن عبد الله بن عمر أرسل إلى عبد الله بن عباس يسأله هل رأى محمد ربه فأرسل إليه عبد الله بن عباس أي نعم فرد عليه عبد الله بن عمر رسوله أن كيف رآه فأرسل إليه رآه في روضة خضراء دونه فراش من ذهب على كرسي من ذهب تحمله أربعة من الملائكة كما تقدم وكون حملة العرش على هذه الصورة أربعة هو كذلك الوجه الخامس أنه ذكر أن الله اصطفى محمدًا بالرؤية كما اصطفى موسى بالتكليم ومن المعلوم أن رؤية القلب مشتركة لا تختص بـ محمد كما أن الإيحاء لا يختص بـ موسى ولا بد أن يثبت لمحمد من الرؤية على حديث ابن عباس مالم يثبت لغيره كما ثبت لموسى من التكليم كذلك وعلى الروايات الثلاث اعتمد ابن خزيمة في تثبيت الرؤية

إس خبر کے حوالے سے ابن ابی داود کی روایت ہے کہ ابن عباس سے سوال کیا کہ کیا محمد صلی الله علیہ وسلم نے رب کو دیکھا ؟ ابن عباس نے کہا ہاں دیکھا پوچھا کیسے دیکھا ؟ کہا الله کو ایک جوان مرد کی صورت دیکھا جس پر موتی کا ستر اور قدم پر سبزہ تھا میں نے ابن عباس سے کہا تو الله کا قول ہے نگاہیں اس تک نہیں جاتیں اور وہ نگاہ وہ پاتا ہے اور وہ جاننے والا باریک بین ہے ابن عباس نے  کہا نہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب نور ہو تو اس کے سوا  کچھ نظر نہیں اتا تو یہ دلالت کرتا ہے انہوں نے دیکھا – اور خبر دی کہ انہوں نے ایک جوان کی صورت دیکھا جس  کے قدم پر سبزہ تھا اور یہ دیکھنا آیت سے متعارض ہے اور اس کا جواب ہے  جو گزرا جو  تقاضہ کرتا ہے یہ آنکھ سے دیکھا جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے جو مرفوع ہے قتادہ عن عکرمہ عن ابن عبّاس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو ایک بغیر داڑھی مونچھ جوان کی صورت دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے جو سبز باغ میں تھا  چوتھا طرق ہے کہ حدیث عبد الله بن ابی سلمہ ہے عبد الله بن عمر نے ابن عباس کے پاس کسی کو بھیجا اور سوال کیا کہ کیا رسول الله نے اپنے رب کو دیکھا ؟ پس ابن عباس  نے جواب بھیجا کہ جی دیکھا پس ابن عمر نے واپس بھیجا کہ کیسے دیکھا ؟ ابن عباس نے کہلا بھیجا کہ سبز باغ میں جس میں سونے کی کرسی تھی جس کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے تھے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اور یہ چار شکلوں والے عرش کو اٹھائے ہوئے تھے اسی طرح پانچواں طرق ہے کہ انہوں نے ذکر کیا کہ الله نے رسول الله کو چن لیا اپنی رویت کے لئے جیسے موسی کو …. اور یہ وہ تین روایات ہیں جن پر ابن خزیمہ نے اثبات رویت کے لئے اعتماد کیا ہے

اس کے برعکس ابن تیمیہ کے ہم عصر الذھبی اس کا رد کرتے ہیں

شاذان بن اسود کے ترجمہ میں سیر الاعلام النبلاء میں  الذھبی لکھتے ہیں

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:  قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ  .  وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَ  السَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:  قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.

یہ رویت باری والی خبر منکر ہے

راقم کہتا ہے ابن تیمیہ کی پیش کردہ تمام روایات ضعیف ہیں ابن تیمیہ سے دو سو سال پہلے علم حدیث کے ماہر ابن جوزی کتاب دفع شبھة ألتشبية میں اس قسم کی تمام روایات کو رد کر چکے تھے

وفي رواية عن ابن عباس ” رآه كأن قدميه على خضرة دونه ستر من لؤلؤ ” . قلت : وهذا يرويه إبراهيم بن الحكم بن ابان وقد ضعفه يحيى بن معين وغيره وفي رواية ابن عباس – رضي الله عنه – عن رسول الله صلى الله عليه وسلم – قال : ” رأيت ربي أجعد أمرد عليه حلة خضراء ” قلت : وهذا يروى من طريق حماد بن سلمة وكان ابن أبي العوجاء الزنديق ربيب حماد يدس في كتبه هذه الاحاديث ، على أن هذا كان مناما والمنام خيال . ومثل هذه الاحاديث لا ثبوت لها ، ولا يحسن أن يحتج بمثلها في الوضوء ، وقد أثبت بها القاضي أبو يعلى (المجسم) لله تعالى صفات فقال : قوله : شاب ، وأمرد ، وجعد ، وقطط ، والفراش والنعلان والتاج

أور ابن عباس كي رواية کہ الله کو دیکھا جس کے قدم پر سبزہ تھا اور موتی کا ستر تھا تو میں ابن جوزی کہتا ہوں اس کو ابراہیم بن الحکم بن ابان نے روایت کیا ہے جس کی تضعیف امام ابن معین نے کی اور دیگر نے کی ہے اور ابن عبّاس کی روایت کہ میں نے ایک بغیر داڑھی مونچھ جوان کی صورت دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے اور سبز لباس تھا … میں کہتا ہوں اس کو حماد بن سلمہ کے طرق سے ابن ابی العوجا زندیق نے روایت کیا ہے …. اور اسی طرح کی احادیث جن کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور  … اور ابو یعلی  جو الله کی صفات میں تجسیم کرتا تھا نے کہا  جوان تھا مرد تھا گھنگھر والے بالوں والا تھا اس پر فرش اور جوتیاں بھی تھی تاج بھی تھا

السبکی طبقات الشافعية الكبرى میں کہتے ہیں

وَحَدِيث فى صُورَة شَاب أَمْرَد مَوْضُوع مَكْذُوب على رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

اور حدیث بغیر داڑھی مونچھ مرد کی شکل والی صورت والی حدیث موضوع ہے جھوٹ ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر

راقم کہتا ہے یہ تمام روایت صفات میں الحاد ہیں لیکن افسوس اس کو لوگ روایت کرتے رہے

شَيْخُ الحنَابِلَةِ قاضی ابویعلی جن کی کتب پر ابن تیمیہ اور وہابیوں نے اپنا عقیدہ صفات رکھا ہے ان کے بارے میں الذھبی سیر الاعلام میں کہتے ہیں
وَجَمَعَ كِتَاب (إِبطَال تَأْويل الصِّفَات) فَقَامُوا عَلَيْهِ لمَا فِيْهِ مِنَ الوَاهِي وَالمَوْضُوْع،
اور انہوں نے کتاب (إِبطَال تَأْويل الصِّفَات) کو جمع کیا اور اس میں واہی (احادیث) اور موضوعات کو بیان کیا

لیکن یہی لوگ سب کچھ روایت کرنے کے بعد اپنا پلو کیسے جھٹکتے ہیں

محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ) کتاب  القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى میں لکھتے ہیں

%d9%82%d8%a7%d8%b6%d9%8a-%d8%a3%d8%a8%d9%88%d9%8a%d8%a7%d9%84%d9%8a-%d8%a7%d9%84%d9%85%d8%ac%d8%b3%d9%85

یہ لوگ اس کے قائل ہیں کہ جن روایات میں ہاتھ قدم بال چہرہ الہی کا ذکر ہے ان کو ظاہر پر ہی لیا جائے گا پس یہ کہا جائے گا کہ  یہ مخلوق سے الگ ہیں

[/EXPAND]

[آیا قرآن مخلوق ہے یا نہیں۔ اگر مخلوق نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟  ]

جواب

محدثین اس بحث میں الجھے جب انہوں نے فلسفہ یونان کی اصطلاحات اپنی بحثوں میں استمعال کیں
فلسفہ کی پہلی شق ہے کہ ہر چیز اپنی صفت سے جانی جائے گی

لهذا سب سے پہلے الله کو ایک شی بنایا گیا اس پر دلائل پیش کیے گئے اس کے لئے سوره الانعام کی آیت سے استخراج کیا گیا
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ
کہو کس چیز کی شہادت سب سے بڑی ہے ؟ کہو الله کی جو گواہ ہے ہمارے اور تمہارے بیچ

اور قرآن میں ہے
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ
ہر چیز ہلاک ہو جائے گی سوائے الله کے وجھہ کے

اس سے محدثین نے استخراج کیا کہ الله ایک چیز ہے

اب یونانی فلسفہ کے استدلالات الله پر لگا کر اس کو سمجھا جائے گا چونکہ الله ایک چیز ہے اور ہر چیز کی صفت ہوتی ہے اور کسی بھی چیز کی صفت اسی چیز کے لئے خاص ہوتیں ہیں
لہذا الله کی تمام صفات خود الله ہی ہوئیں لیکن الله کے لئے صفت بولنا صحیح ہے یا نہیں ؟ اس پر ایک روایت ملی اور محدثین کو اس پر خانہ پوری کے لئے دلیل مل گئی کہ لفظ صفت بولنا الله کے لئے جائز ہے

راقم کہتا ہے یہ سب غلط ہے نہ وہ صفت والی روایت صحیح ہے نہ الله کو چیز کہنا صحیح ہے کیونکہ الله نے خود ہی کہہ دیا لیس کمثلہ شی اس کے مثل کوئی چیز نہیں
یعنی اپنی ذات کو اشیاء سے الگ کیا
اللہ تعالی نے قرآن کو کلام کہا ہے اور الله خود کسی شئی کے مثل نہیں ہے
لہذا الله اور اسکی مخلوق میں بعد ہے جب وہ کلام کرتا ہے تو اس کے الفاظ فرشتوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک پہنچائے

معتزلہ کا موقف تھا کہ قرآن کلام الله ہے جو مخلوق ہے
محدثین کہتے قرآن غیر مخلوق ہے
امام بخاری کہتے تھے کہ جو کلام مصحف میں ہم نے لکھا یا اس کی تلاوت کی تو وہ مخلوق کا عمل ہے لہذا تلاوت مخلوق ہے
امام احمد اس میں رائے رکھنے کے خلاف تھے اور امام بخاری کو بدعتی کہتے تھے

الله تبارک و تعالی نے موسی سے کلام کیا اس کے الفاظ وادی طوی میں موسی نے سنے لیکن یہ الفاظ معدوم ہو گئے ایسا نہیں ہے جو بھی اس علاقے سے گزرے اس کو آج تک سنائی دیتے ہوں
اسی طرح الله تعالی نے مختلف زبانوں میں کلام نازل کیا وہ الفاظ متروک ہوئے اب ان زبانوں میں بولے نہیں جاتے اور زبان کلام کے نزول سے پہلے تخلیق کی گئیں
لہذا یہ سب ایک غیر ضروری بحث اور مسئلہ تھا جس میں سب الجھ گئے

کتاب سیر الاعلام النبلاء میں هِشَامَ بنَ عَمَّارٍ کے ترجمہ میں الذھبی وہی بات کہتے ہیں جو امام بخاری کہتے

وَلاَ رَيْبَ أَنَّ تَلَفُّظَنَا بِالقُرْآنِ مِنْ كَسْبِنَا، وَالقُرْآنُ المَلْفُوْظُ المَتْلُوُّ كَلاَمُ اللهِ -تَعَالَى- غَيْرُ مَخْلُوْقٍ، وَالتِّلاَوَةُ وَالتَّلَفُّظُ وَالكِتَابَةُ وَالصَّوتُ بِهِ مِنْ أَفْعَالِنَا، وَهِيَ مَخْلُوْقَةٌ – وَاللهُ أَعْلَمُ

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ہمارا تلفظ ہمارا کسب (کام) ہے اور قرآن الفاظ والا پڑھا جانے والا کلام الله ہے غیر مخلوق ہے اوراس کی  تلاوت اور تلفظ اور کتابت اور آواز ہمارے افعال ہیں اور یہ مخلوق ہیں واللہ اعلم

الذھبی کے مطابق لفظی بالقرآن کا مسئلہ الکرابیسی نے پیش کیا الذھبی ، الكَرَابِيْسِيُّ أَبُو عَلِيٍّ الحُسَيْنُ بنُ عَلِيِّ بنِ يَزِيْدَ  کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَلاَ رَيْبَ أَنَّ مَا ابْتَدَعَهُ الكَرَابِيْسِيُّ، وَحَرَّرَهُ فِي مَسْأَلَةِ التَّلَفُّظِ، وَأَنَّهُ مَخْلُوْقٌ هُوَ حَقٌّ

اور اس میں شک نہیں کہ الکرابیسی نے جو بات شروع کی اور مسئلہ تلفظ کی تدوین کی کہ یہ مخلوق ہے یہ حق تھا

الذھبی سیر الاعلام النبلا میں احمد بن صالح کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَإِنْ قَالَ: لَفْظِي، وَقَصَدَ بِهِ تَلَفُّظِي وَصَوتِي وَفِعْلِي أَنَّهُ مَخْلُوْقٌ، فَهَذَا مُصِيبٌ، فَاللهُ -تَعَالَى- خَالِقُنَا وَخَالِقُ أَفْعَالِنَا وَأَدَوَاتِنَا، وَلَكِنَّ الكَفَّ عَنْ هَذَا هُوَ السُّنَّةُ، وَيَكفِي المَرْءَ أَنْ يُؤمِنَ بِأَنَّ القُرْآنَ العَظِيْمَ كَلاَمُ اللهِ وَوَحْيُهُ وَتَنْزِيْلُهُ عَلَى قَلْبِ نَبِيِّهِ، وَأَنَّهُ غَيْرُ مَخْلُوْقٍ

اور اگر یہ کہے کہ لفظی ہے اور مقصد قرآن کا تلفظ اسکی آواز اور اس پر فعل ہو  کہ یہ مخلوق ہے  – تو یہ بات ٹھیک ہے – پس کیونکہ الله تعالی ہمارا خالق ہے اور ہمارے افعال کا بھی اور لکھنے کے ادوات کا بھی لیکن اس سے روکنا سنت ہے اور آدمی کے لئے کافی ہے قرآن عظیم پر ایمان لائے کلام اللہ کے طور پر اس کی الوحی پر اور قلب نبی پر نازل ہونے پر اور یہ بے شک غیر مخلوق ہے

کتاب تذکرہ الحفاظ میں   ابن الأخرم الحافظ الإمام أبو جعفر محمد بن العباس بن أيوب الأصبهاني کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں ابن آخرم کہا کرتے

من زعم أن لفظه بالقرآن مخلوق فهو كافر فالظاهر أنه أراد بلفظ الملفوظ وهو القرآن المجيد المتلو المقروء المكتوب المسموع المحفوظ في الصدور ولم يرد اللفظ الذي هو تلفظ القارئ؛ فإن التلفظ بالقرآن من كسب التالي والتلفظ والتلاوة والكتابة والحفظ أمور من صفات العبد وفعله وأفعال العباد مخلوقة

جس نے یہ دعوی کیا کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں وہ کافر ہے پس ظاہر ہے ان کا مقصد ہے کہ جو ملفوظ الفاظ قرآن کے ہیں جس کو پڑھا جاتا ہے جو کتاب سنی جاتی ہے اور محفوظ  ہے سینوں میں — اور ان کا مقصد تلفظ نہیں ہے جو قاری کرتا ہے کیونکہ قرآن کا تلفظ کرنا کام ہے اور اس کا تلفظ اور کتابت اور حفظ اور امور یہ بندے کی صفات ہیں اس کے افعال ہیں اور بندوں کے افعال مخلوق ہیں

امام احمد لفظی بالقرآن کا مسئلہ سنتے ہی جھمی جھمی کہنا شروع کر دیتے

الكَرَابِيْسِيُّ أَبُو عَلِيٍّ الحُسَيْنُ بنُ عَلِيِّ بنِ يَزِيْدَ  کے ترجمہ میں کتاب سیر الاعلام البنلا از الذھبی کے مطابق امام یحیی بن معین کو امام احمد کی الکرابیسی کے بارے میں  رائے پہنچی

وَلَمَّا بَلَغَ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ أَنَّهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَحْمَدَ، قَالَ: مَا أَحْوَجَهُ إِلَى أَنْ يُضْرَبَ، وَشَتَمَهُ

اور جب امام ابن معین تک پہنچا کہ امام احمد الکرابیسی کے بارے میں کلام کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں کہ میں اس کو ماروں یا گالی دوں

امام الذھبی بھی کہہ رہے ہیں امام الکرابیسی صحیح کہتے تھے –

امام بخاری کے لئے الذھبی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں علی بن حجر بن آیاس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا البُخَارِيُّ، فَكَانَ مِنْ كِبَارِ الأَئِمَّةِ الأَذْكِيَاءِ، فَقَالَ: مَا قُلْتُ: أَلفَاظُنَا بِالقُرْآنِ مَخْلُوْقَةٌ، وَإِنَّمَا حَرَكَاتُهُم، وَأَصْوَاتُهُم وَأَفْعَالُهُم مَخْلُوْقَةٌ، وَالقُرْآنُ المَسْمُوْعُ المَتْلُوُّ المَلْفُوْظُ المَكْتُوْبُ فِي المَصَاحِفِ كَلاَمُ اللهِ، غَيْرُ مَخْلُوْقٍ

اور جہاں تک امام بخاری کا تعلق ہے تو وہ تو کبار ائمہ میں دانشمند تھے پس انہوں نے کہا میں نہیں کہتا ہے قرآن  میں ہمارے الفاظ مخلوق ہیں بلکہ ان الفاظ کی حرکات اور آواز اور افعال مخلوق ہیں اور قرآن جو سنا جاتا پڑھا جاتا الفاظ والا لکھا ہوا ہے مصاحف میں وہ کلام الله ہے غیر مخلوق ہے

ایک متعصب غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا

جبکہ محدثین میں ایسا الذھبی نے واضح کیا امام بخاری کے نزدیک جو قرآن کے الفاظ ہم ادا کرتے ہیں وہ مخلوق کا عمل ہے

مزید دیکھیں

https://www.islamic-belief.net/history/

[/EXPAND]

[حدیث جب تم نماز میں ہوتے ہو تو الله سامنے ہوتا ہے کا کیا مطلب ہے ؟]

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ : رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ وَهُوَ يُصَلِّي بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ ، فَحَتَّهَا ، ثُمَّ قَالَ حِينَ انْصَرَفَ : ” إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا كَانَ فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ أَحَدٌ قِبَلَ وَجْهِهِ فِي الصَّلَاةِ ” ، رَوَاهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، وَابْنُ أَبِي رَوَّادٍ ، عَنْ نَافِعٍ .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب هَلْ يَلْتَفِتُ لِأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ أَوْ يَرَى … رقم الحديث: 714(753)]
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مسجد کے قبلہ(کی جانب) میں کچھ تھوک دیکھا اس وقت آپ ﷺ لوگوں کے آگے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کو صاف کر دیا ۔اس کے بعد جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب کوئی شخص نماز میں ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے‘ لہذا کوئی شخص نماز میں اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے۔

جواب

کتاب التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ   از  محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني ثم الصنعاني، أبو إبراهيم، عز الدين، المعروف كأسلافه بالأمير (المتوفى: 1182هـ) کے مطابق

فإن الله قبل وجهه إذا صلى) أي ملائكته ورحمته تعالى مقابلة له أو أن قبلة الله أي بيته الكريم أو لأنه [1/ 221] يناجى ربه كما في حديث أبي هريرة: “إذا قام أحدكم إلى الصلاة فلا يبزق أمامه فإنما يناجي الله” الحديث (1) والمناجي يكون تلقاء وجه من يناجيه فأمر بصيانة الجهة كما لو كان يناجي مخلوق (مالك ق ن عن ابن عمر)

پس جب تم نماز میں ہوتے ہو الله سامنے ہوتا ہے یعنی فرشتے اور رحمت سامنے ہے یا قبلہ یا بیت الله سامنے ہے یا یہ کہ وہ اپنے رب سے کلام کرتا ہے

کتاب   مطالع الأنوار على صحاح الآثار  از ابن قرقول (المتوفى: 569هـ) کے مطابق

قوله: “فَإِنَّ الله قِبَلَ وَجْهِهِ” أي: قبلة الله المعظمة.

قول کہ الله سامنے ہوتا ہے یعنی  قبلہ الله عظمت والا

معالم السنن شرح سنن أبي داود میں الخطابي (المتوفى: 388هـ) کہتے ہیں

وقوله فإن الله قبل وجهه تأويله أن القبلة التي أمره الله عزو جل

اور قول کہ الله تعالی سامنے ہوتا ہے اس کی تاویل ہے کہ قبلہ ہے جس کا حکم الله عزو جل نے کیا ہے

نووی شرح مسلم میں کہتے ہیں

 فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ أَيِ الْجِهَةِ الَّتِي عَظَّمَهَا وَقِيلَ فَإِنَّ قِبْلَةَ اللَّهِ وَقِيلَ ثَوَابُهُ وَنَحْوُ هَذَا

کہ وہ الله سامنے ہے یعنی وہ جہت جس کو عظمت دی اور کہا جاتا ہے یعنی قبلہ اور کہا جاتا ہے ثواب اور اسی طرح

ابن عبد البر  (المتوفى: 463هـ)  کتاب  الاستذكار میں کہتے ہیں

وَأَمَّا قَوْلُهُ فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ إِذَا صَلَّى فَكَلَامٌ خَرَجَ عَلَى شَأْنِ تَعْظِيمِ الْقِبْلَةِ وَإِكْرَامِهَا

کہ الله سامنے ہوتا ہے جب نماز پڑھتا ہے تو یہ کلام تعظیم  قبلہ اور اس کے اکرام کی شان میں ادا ہوا ہے

محمد بن الحسن بن فورك الأنصاري الأصبهاني، أبو بكر (المتوفى: 406هـ) کتاب مشكل الحديث وبيانه میں کہتے ہیں

فَإِن الله قبل وَجهه إِذا صلى أَي ثَوَابه وكرامته

کہ الله سامنے ہوتا ہے کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے یعنی اس کا ثواب اور کرامت

[/EXPAND]

[کیا الله تعالی ہر جگہ موجود ہے؟]

تفسیر طبری میں قتادہ بصری کا قول ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: ثنا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: الْتَقَى أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ قَالَ أَحَدُهُمْ: أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، وَتَرَكْتُهُ؛ ثُمَّ قَالَ الْآخَرُ: أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ الْأَرْضِ السَّابِعَةِ وَتَرَكْتُهُ؛ ثُمَّ قَالَ الْآخَرُ: أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ الْمَشْرِقِ وَتَرَكْتُهُ؛ ثُمَّ قَالَ الْآخَرُ: أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ الْمَغْرِبِ وَتَرَكْتُهُ ثَمَّ

آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ  تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں۔

جواب

اس قول میں ایک بد عقیدہ پیش کیا گیا ہے کہ الله تعالی ہر جہت میں اور زمین میں اور آسمان میں ہے

قتادہ  نے ظاہر ہے اس کو کسی سے سنا ہے لیکن نام نہیں لیا اس بنا پر یہ قابل التفات نہیں ہے

[/EXPAND]

[لفظ بِذَاتِه  پر امام الذھبی کی کیا رائے ہے ؟ ]

جواب

کتاب العرش میں الذھبی کہتے ہیں

وفيما كتبنا من الآيات دلالة على إبطال [قول]  من زعم من الجهمية أن الله بذاته في كل مكان. وقوله {وَهُوَ مَعَكُم أَيْنَمَا كُنْتُم} إنما أراد [به]  بعلمه لا بذاته

اور جو ہم نے جھمیہ کے دعوی کے بطلان پر لکھا کہ بے شک الله بذات ہر مکان میں ہے اور الله کا قول  وَهُوَ مَعَكُم أَيْنَمَا كُنْتُم  (اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو)  تو اس میں مقصد ہے کہ وہ اپنے علم کے ساتھ ہے نہ کہ بذات  ہے

کتاب العرش میں الذھبی کہتے ہیں

 وقال الإمام أبو محمد بن أبي زيد المالكي المغربي في رسالته في مذهب مالك ، أولها: “وأنه فوق عرشه المجيد بذاته ، وأنه في كل مكان بعلمه” وقد تقدم هذا القول، عن محمد بن عثمان بن أبي شيبة، إمام أهل الكوفة في وقته ومحدثها – وممن قال إن الله على عرشه بذاته، يحيى بن عمار ، شيخ أبي إسماعيل الأنصاري  شيخ الإسلام، قال ذلك في رسالته – وكذلك الإمام أبو نصر السجزي الحافظ، في كتاب “الإبانة” له، فإنه قال: “وأئمتنا الثوري، ومالك، وابن عيينة، وحماد بن سلمة، وحماد بن زيد، وابن المبارك، وفضيل بن عياض ، وأحمد، وإسحاق، متفقون  على أن الله فوق عرشه بذاته، وأن علمه بكل مكان”  وكذلك قال شيخ الإسلام أبو إسماعيل الأنصاري، فإنه قال: “في أخبار شتى إن الله في السماء السابعة، على العرش بنفسه

اوپر یہ تمام لوگ بذاتہ کا لفظ استمعال کرتے ہیں

لیکن کتاب سیر الاعلام النبلاء ج ١٩ ص ٦٠٦ میں الذھبی ، ابْنُ الزَّاغونِيِّ کے لئے لکھتے ہیں

قَالَ ابْنُ الزَّاغونِيِّ فِي قَصِيدَةٍ لَهُ:
إِنِّيْ سَأَذْكُرُ عَقْدَ دِيْنِي صَادِقاً … نَهْجَ ابْنِ حَنْبَلٍ الإِمَامِ الأَوْحَدِ
منهَا:
عَالٍ عَلَى العَرْشِ الرَّفِيْعِ بِذَاتِهِ … سُبْحَانَهُ عَنْ قَوْلِ غَاوٍ مُلْحِدِ

جو بلند ہے عرش پر رفیع بذات

قد ذكرنَا أَن لفظَة (بِذَاته) لاَ حَاجَةَ إِلَيْهَا، وَهِيَ تَشْغَبُ النُّفُوْسَ، وَتركُهَا أَوْلَى – وَاللهُ أَعْلَمُ –

بے  شک ہم نے ذکر کیا کہ لفظ بذاتہ کی حاجت نہیں ہے یہ نفوس کو فساد  کراتا ہے اس کو چھوڑنا اولی ہے

امام الذھبی کا یہی عقیدہ ہے کہ الله تعالی سات آسمان اوپر عرش پر ہے نہ کہ جھمیوں والا عقیدہ  لیکن چونکہ بذاتہ کا لفظ قرآن و حدیث میں نہیں آیا اس بنا پر ان کے نزدیک اس کو ترک کرنا بہتر ہے کیونکہ نصوص میں واضح ہے کہ الله تعالی مخلوق سے الگ ہے

محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى : 1421هـ) اپنے فتوی میں کہتے ہیں

 لم يتكلم الصحابة فيما أعلم بلفظ الذات في الاستواء والنزول، أي لم يقولوا: استوى على العرش بذاته، أو ينزل إلى السماء الدنيا بذاته؛ لأن ذلك مفهوم من اللفظ، فإن الفعل أضيف إلى الله تعالى، إما إلى الاسم الظاهر، أو الضمير، فإذا أضيف إليه كان الأصل أن يراد به ذات الله عز وجل لكن لما حدث تحريف معنى الاستواء والنزول احتاجوا إلى توكيد الحقيقة بذكر الذات

اصحاب ابن تیمیہ  ، جو ہمیں پتا ہے ، میں سے کسی نے لفظ ذات کو الاستواء  اور نزول کے لئے  نہیں بولا  یعنی وہ نہیں کہتے کہ الله بذات عرش پر مستوی ہے یا نہیں کہتے کہ وہ بذات آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے کیونکہ یہ مفہوم لفظ سے ہے کیونکہ یہ فعل الله کی طرف مضاف کیا گیا ہے اب  چاہے اسم ظاہر ہو یا ضمیر ہو  جب مضاف الیہ  سے اصلا مراد ذات الہی ہو تو یہ الله کے لئے ہی ہے لیکن جب الاستواء  اور  نزول کے معنی میں تحریف ہوئی تو اس کی ضرورت محسوس کی  گئی کہ اس حقیقت کی تاکید (لفظ) بذات سے ذکر کی جائے

اس کے برعکس الذھبی کہتے ہیں کہ بذات کا لفظ متقدمین بھی بولتے تھے اگرچہ الذھبی خود اس لفظ کا استمعال پسند نہیں کرتے

[/EXPAND]

[صحیح مسلم کی روایت کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایک نور دیکھا پر سوال ہے]

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»

ابو ذر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ رسول الله نے فرمایا میں نے نور دیکھا

جواب

اس روایت کی دو سندیں ہیں ایک میں عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِيُّ ضعیف الحَدِيث ہے

ابن عدی الکامل میں روایت پیش کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا مُحَمد بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنا عُمَر بن حبيب، حَدَّثَنا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَن أَبِي ذَرٍّ، قالَ: قُلتُ يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ قَالَ كَيْفَ أَرَاهُ، وَهو نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ.
وَهَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ خَالِدٍ الحذاء غير محفوظ.

کہتے ہیں یہ روایت عمر بن حبیب کی سند سے غیر محفوظ ہے

 اس روایت کے  دوسرے  طرق میں يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي ہے اور اس طرق سے امام مسلم نے صحیح میں اس کو نقل کیا ہے

کتاب ذخيرة الحفاظ از ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کے مطابق

 حَدِيث: نور أَنى أرَاهُ. رَوَاهُ يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي: عَن قَتَادَة، عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: قلت لأبي ذَر: لَو رَأَيْت رَسُول الله لسألته، قَالَ لي: عَمَّا كنت تسأله؟ قَالَ: كنت أسأله: هَل رأى ربه عز وَجل؟ فَقَالَ: قد سَأَلته، فَقَالَ: نور أريه مرَّتَيْنِ أَو ثَلَاثًا. وَهَذَا لم بروه عَن قَتَادَة غير يزِيد هَذَا، وَلَا عَن يزِيد غير مُعْتَمر بن سُلَيْمَان، وَكِلَاهُمَا ثقتان، وَحكي عَن يحيى بن معِين أَنه قَالَ: يزِيد فِي قَتَادَة لَيْسَ بذلك وَأنكر عَلَيْهِ رِوَايَته: عَن قَتَادَة عَن أنس.

حدیث میں نے نور دیکھا اس کو يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي نے قتادہ سے انہوں نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا ہے کہا ہے میں نے ابو ذر سے پوچھا کہ اگر رسول الله کو دیکھتا تو پوچھتا ؟ انہوں نے کہا کیا پوچھتے ؟ میں نے کہا پوچھتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ؟ ابو ذر نے کہا میں نے پوچھا تھا پس کہا میں نے دو یا تین بار نور دیکھا اور اس کو روایت نہیں کیا قتادہ سے مگر یزید نے اور یزید سے کسی نے روایت نہیں کیا سوائے معتمر بن سلیمان کے اور یہ دونوں ثقہ ہیں اور یحیی بن معین سے حکایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا یزید قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا اچھا نہیں ہے اور اس کی روایات کا انکار کیا جو قتادہ عن انس سے ہوں

ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں الذھبی کہتے ہیں

قال القطان ليس بذاك

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں

وَقَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: هُوَ فِي قَتَادَةَ لَيْسَ بِذَاكَ

ابن معین کہتے ہیں قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا (اچھا) نہیں ہے

ميزان الاعتدال في نقد الرجال میں الذھبی اس نور والی روایت کا يزيد بن إبراهيم کے ترجمہ میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں اس کا اور معتمر کا تفرد ہے

محمد بن وزير الواسطي، حدثنا معتمر بن سليمان، عن يزيد بن إبراهيم، عن قتادة، عن عبد الله بن شقيق، قال: قلت لأبي ذر: لو رأيت النبي صلى الله عليه
وسلم لسألته: هل رأى ربه؟ فقال: قد سألته فقال لي: نور إني أراه مرتين أو ثلاثا.
تفرد به عن قتادة.
وما رواه عنه سوى معتمر.

الغرض یہ روایت صحیح نہیں ہے

[/EXPAND]

[کیا نبی  (ص) نے الله کو دیکھا؟]

جمہور صحابہ کی رائے میں نہیں دیکھا لیکن بعض علماء کا عقیدہ تھا کہ دیکھا ہے اس کی تفصیل یہ ہے

معجم الکبیر  طبرانی ج ١٢ میں روایت ہے کہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا جُمْهُورُ بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُجَالِدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: ” رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَرَّتَيْنِ: مَرَّةً بِبَصَرِهِ، وَمَرَّةً بِفُؤَادِهِ “

ابن عبّاس کہتے ہیں کہ محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا ایک مرتبہ آنکھ سے  ایک مرتبہ دل سے

اس کی سند میں مجالد بن سعید ہے جو مجروح راوی ہے

ذھبی سیر میں اس کے لئے لکھتے ہی

قَالَ البُخَارِيُّ: كَانَ يَحْيَى بنُ سَعِيْدٍ يُضَعِّفُه.

بخاری کہتے ہیں يَحْيَى بنُ سَعِيْدٍ اس کی تضیف کرتے ہیں

كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مَهْدِيٍّ لاَ يَرْوِيَ لَهُ شَيْئاً.

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مَهْدِيٍّ اس سے کچھ روایت نہیں کرتے

وَكَانَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ لاَ يَرَاهُ شَيْئاً، يَقُوْلُ: لَيْسَ بِشَيْءٍ.

أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ اس سے روایت نہیں کرتے کہتے ہیں کوئی چیز نہیں

ترمذی روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا

حدثنا محمد بن عمرو بن نبهان بن صفوان البصري الثقفي حدثنا يحيى بن كثير العنبري أبو غسان حدثنا سلم بن جعفر عن الحكم بن أبان عن عكرمة عن ابن عباس قال رأى محمد ربه قلت أليس الله يقول (لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار) قال ويحك ذاك إذا تجلى بنوره الذي هو نوره وقال أريه مرتين قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.

لیکن اس کی سند میں الحكم بن أبان ہے جن کو ثقہ سے لے کر صدوق کہا گیا ہے  لیکن خود ترمذی کے نزدیک یہ حدیث حسن درجے پر ہے اور غریب  ہے یعنی ایک ہی سند سے ہے. البانی نے ظلال الجنة (190 / 437) میں اس کو ضعیف قرار دیا ہے

البانی کتاب  ظلال الجنة في تخريج السنة  میں الحکم بن ابان کی روایت پر لکھتے ہیں

– حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي صَفْوَانَ ثنا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيِّ ثنا سَلْمُ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:
رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ قَالَ: قُلْتُ: أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: {لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ} قَالَ: “وَيْحَكَ ذَاكَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ الَّذِي هُوَ نُورُهُ” قال: وقال: رأى محمد رَبَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَرَّتَيْنِ. وَفِيهِ كلام.
437- إسناده ضعيف ورجاله ثقات لكن الحكم بن أبان فيه ضعف من قبل حفظه. وسلم هو ابن جعفر. ومحمد بن أبي صفوان هو ابن عثمان بن أبي صفوان نسب الى جده وهو ثقة توفي سنة 250.
والحديث أخرجه الترمذي 2/223 وابن خزيمة في “التوحيد” ص 130 من طرق عن الحكم بن أبان به. وقال الترمذي: حديث حسن غريب. وخالفه المصنف فقال عقب الحديث كما ترى: وفيه كلام. ووجهه ما أشرت إليه من ضعف حفظ الحكم بن أبان

مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي صَفْوَانَ، يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيِّ وہ سَلْمُ سے وہ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ سے وہ  عِكْرِمَةَ سے وہ  ابْنِ عَبَّاسٍ سے روایت کرتے ہیں کہ محمّد نے اپنے رب کو دیکھا عکرمہ کہتے ہیں میں نے کہا کیا الله نے نہیں کہا کہ نگاہیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نگاہوں  کا ادرک کرتا ہے کہا  بربادی ہو تیری، جب وہ اپنے نور سے تجلی کرے تو نور ہے اور یہ کہا محمد نے اپنے رب تبارک و تعالی  کو دو بار دیکھا .  اس میں کلام ہے

اس کی سند ضعیف ہے اور رجال ثقہ ہیں لیکن الحكم بن أبان میں کمزوری ہے اس کے حافظے کی وجہ سے اور سلم،  سلم بن جعفر ہے اور محمد بن أبي صفوان، ومحمد بن عثمان بن ابی صفوان ہے جو دادا کی طرف منسوب ہے  ثقہ ہے اور سن ٢٥٠ میں فوت ہوا

اس حدیث کی تخریج الترمذی نے کی ہے اور ابن خزیمہ نے التوحید میں ص ١٣٠ پر الحکم بن ابان کے طرق سے اور الترمذی کہتے ہیں حدیث حسن غریب ہے اور المصنف نے مخالفت کی ہے اور حدیث کے آخر میں کہا ہے جیسا کہ دیکھا اس میں کلام ہے اور اس طرق میں  الحکم کے حافظے میں کمزوری  ہے

اس روایت کی ایک سند قتادہ سے بھی ہے اس پر البانی کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں کہتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ ثنا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ثنا حماد ابن سلمة عن قتادة الأصل فتدنى

عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ
“رَأَيْتُ رَبِّي عَزَّ وجل” ثم ذكر كلاما.
440- حديث صحيح ورجاله ثقات رجال الصحيح ولكنه مختصر من حديث الرؤيا كما بيناه فيما تقدم 433 وعلى ذلك حمله البيهقي فقال في “الأسماء” ص 447: ما روي عن ابن عباس رضي الله عنهما هو حكاية عن رؤيا رآها في المنام

حماد بن سلمہ قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عبّاس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پھر ایک کلام ذکرکیا

حدیث صحیح ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں اور صحیح کے رجال ہیں لیکن یہ حدیث حدیث الرویا کا اختصار ہے جیسا کہ ٤٣٣ میں واضح کیا ہے. البیہقی نے (کتاب) الأسماء میں ص ٤٤٧ پر لیا ہے اور کہا ہے جو ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے وہ حکایت نیند میں دیکھنے کی ہے

البانی قتادہ کی روایت کو صحیح کہتے ہیں لیکن  روایت کو پورا نقل  نہیں کرتے صرف اتنا لکھتے ہیں کہ ایک کلام کا ذکر کیا. النانی کے بقول الله کو  دیکھنا خواب میں  تھا. البانی،  البیہقی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جس میں قتادہ عن عکرمہ عن ابن عباس کی روایت آئی ہے .

کتاب الأسماء والصفات میں البيهقي  روایت لکھتے ہیں قتادہ کی رویت باری کی حدیث حماد بن سلمہ کی سند سے جانی جاتی ہے جو یہ ہے

قُلْتُ: وَهَذَا الْحَدِيثُ إِنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ

 كَمَا أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي سُوَيْدٍ الذِّرَاعُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح. وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظَ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ثنا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي جَعْدًا أَمْرَدَ [ص:364] عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . قَالَ: وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، ثنا ابْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَوْصِلِيُّ وَابْنُ شَهْرَيَارَ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى، ثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ. فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ جَعْدٍ» . قَالَ: وَزَادَ عَلِيُّ بْنُ شَهْرَيَارَ: «عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . وَرَوَاهُ النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ.

حماد بن سلمہ،  قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا میں نے اپنے رب کو ایک مرد کی صورت دیکھا اس پر سبز لباس تھا

قارئین اپ دیکھ سکتے ہیں اس میں کہیں نہیں کہ یہ دیکھنا خواب میں تھا یہ البانی صاحب کی اختراع ہے

دوم وہ کلام جو انہوں نے حذف کر دیا تھا وہ  یہ تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرد کی صورت الله کو دیکھا جس نے لباس پہنا ہوا تھا نعوذ باللہ من تلک الخرفات

 البیہقی، صحیح مسلم کے راوی حماد بن سلمہ پر برستے ہیں اور لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ، نا ابْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، قَالَ: «كَانَ حَمَّادُ بْنُ [ص:366] سَلَمَةَ لَا يُعْرَفُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ حَتَّى خَرَجَ خَرْجَةً إِلَى عَبَادَانَ، فَجَاءَ وَهُوَ يَرْوِيهَا، فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا شَيْطَانًا خَرَجَ إِلَيْهِ فِي الْبَحْرِ فَأَلْقَاهَا إِلَيْهِ» . قَالَ أَبُو عَبْدِالله الثَّلْجِيُّ: فَسَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ صُهَيْبٍ يَقُولُ: إِنَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ كَانَ لَا يَحْفَظُ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّهَا دُسَّتْ فِي كُتُبِهِ،

عبد الرحمان  بن مہدی کہتے ہیں کہ ان قسم کی احادیث سے حماد بن سلمہ نہیں پہچانا جاتا تھا حتی کہ عَبَادَانَ پہنچا پس وہ وہاں آیا اور ان کو روایت کیا  پس میں (عبد الرحمان بن مہدی) سمجھتا ہوں اس پر شیطان آیا جو سمندر میں سے نکلا اور اس نے حماد پر یہ القاء کیا.  ابو بکر الثلجی کہتے ہیں میں نے عباد بن صہیب کو سنا کہا بے شک حماد بن سلمہ حافظ نہیں ہے اور محدثین کہتے ہیں اس نے اپنی کتابیں دفن کیں

البانی صاحب کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے حالانکہ عبد الرحمان بن مہدی اس کو رد کرتے ہیں

حماد بن سلمہ کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ اس اوپر والے قول کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ  ہے جس پر جھوٹ کا الزام ہے

میزان الاعتدل میں الذہبی ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قال ابن عدي: كان يضع الحديث في التشبيه ينسبها إلى أصحاب الحديث يسابهم   ذلك.

قلت: جاء من غير وجه أنه كان ينال من أحمد وأصحابه، ويقول: إيش قام به أحمد! قال المروزي: أتيته ولمته

ابن عدي کہتے ہیں تشبیہ کے لئے حدیث گھڑتا تھا جن کو اصحاب حدیث کی طرف نسبت دیتا ان کو بے عزت کرنے کے لئے

الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں ایک سے زائد رخ سے پتا ہے کہ یہ امام احمد اور ان کے اصحاب کی طرف مائل تھے اور کہتے کہ احمد کہاں رکے ہیں المروزی نے کہا ان کے پاس اتے

یہاں تو مسئلہ ہی الٹا ہے حماد بن سلمہ،  نعوذ باللہ ،  الله کو مرد کی شکل کا کہہ رہے ہیں جو تشبیہ و تجسیم کا عقیدہ ہے    اس  روایت کو البانی صحیح کہہ رہے  ہیں

حنابلہ کا افراط

کتاب طبقات الحنابلة ج ١ ص ٢٤٢  از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک یہ اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں اور یہ عقیدہ ایمان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا

والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما روى عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الأحاديث الصحاح وأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قد رأى ربه فإنه مأثور عَنْ رَسُولِ  الله  صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صحيح قد رواه قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ والحديث عندنا عَلَى ظاهره كما جاء عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – والكلام فيه بدعة ولكن نؤمن به كما جاء عَلَى ظاهره ولا نناظر فيه أحدًا

اور ایمان لاؤ روز قیامت الله کو دیکھنے پر جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم کی روایت میں آیا ہے .. اور صحیح احادیث میں  کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے

یہی ضعیف روایات  ہزار سال پہلے  حنبلیوں کے نزدیک عقیدے کی مظبوط روایات تھیں اور ان کے نزدیک ان کو اس کے ظاہر پر لینا حق تھا اور چونکہ اس میں یہ نہیں کہ یہ واقعہ خواب کا ہے لہذا ان  کی تاویل کی ضرورت نہیں  تھی

طبقات الحنابلہ کے مولف کے نزدیک  حنبلیوں اور ان کے امام احمد کا عقیدہ اہم ہے ان کے نزدیک البیہقی جو شافعی فقہ پر تھے ان کی بات کوئی اہمیت  نہیں رکھتی لہذا یہی وجہ کہ چھٹی صدی تک کے حنابلہ کے مستند عقائد کتاب الطبقات میں ملتے ہیں لیکن دو صدیوں بعد ایک غیر مقلد بنام ابن تیمیہ ان عقائد کا رد کرتے ہیں

قاضی ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ اپنی دوسری کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں کہ معراج کے موقعہ پر

ورأى ربه، وأدناه، وقربه، وكلمه، وشرّفه، وشاهد الكرامات والدلالات، حتى دنا من ربه فتدلى، فكان قاب قوسين أو أدنى. وأن الله وضع يده بين كتفيه فوجد بردها بين ثدييه فعلم علم الأولين والآخرين وقال عز وجل: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60] . وهي رؤيا يقظة (1) لا منام. ثم رجع في ليلته بجسده إلى مكة

اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا وہ قریب آیا ہم کلام ہوا شرف دیا اور کرامات دکھائی یہاں تک کہ قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔   اور بے شک الله تعالی نے اپنا باتھ شانے کی ہڈیوں کے درمیان رکھا اور اسکی ٹھنڈک نبی صلی الله علیہ وسلم نے پائی اور علم اولین ا آخرین دیا اور الله عز و جل نے کہا {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60]  اور یہ دیکھنا جاگنے میں ہوا نہ کہ نیند میں. پھر اس کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسد کے ساتھ واپس مکہ آئے

حنبلیوں کا یہ عقیدہ قاضی ابو یعلی مولف طبقات الحنابلہ پیش کر رہے ہیں جو ان کے مستند امام ہیں

حنبلی عالم عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ)  کتاب الاقتصاد في الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وأنه صلى الله عليه وسلم رأى ربه عز وجل كما قال عز وجل: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى}  قال الإمام أحمد في ما روينا عنه: وأن النبي صلى الله عليه وسلم رأى عز وجل، فإنه مأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم، صحيح رواه قتادة عكرمة عن ابن عباس. [ورواه الحكم بن إبان عن عكرمة عن ابن عباس] ، ورواه علي بن زيد عن يوسف بن مهران عن ابن عباس. والحديث على ظاهره كما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم، والكلام فيه بدعة، ولكن نؤمن به كما جاء على ظاهره، ولا نناظر فيه أحداً

وروى عن عكرمة عن ابن عباس قال: ” إن الله عز وجل اصطفى إبراهيم بالخلة واصطفى موسى بالكلام، واصطفى محمدً صلى الله عليه وسلم بالرؤية ” ـ وروى عطاء عن ابن عباس قال: ” رأى محمد صلى الله عليه وسلم ربه مرتين ” وروي عن أحمد ـ رحمه الله ـ أنه قيل له: بم تجيب عن قول عائشة رضي الله عنها: ” من زعم أن محمداً قد رأى ربه عز وجل …” الحديث؟ قال: بقول النبي صلى الله عليه وسلم: ” رأيت ربي عز وجل

بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا جیسا کہ اللہ تعالی نے کہا وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى امام احمد کہتے ہیں جیسا ہم سے روایت کیا گیا ہے کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا  پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے اور عکرمہ ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک الله تعالی نے نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے چنا اور  موسٰی کو دولت کلام کے لئے چنا اور محمد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے دیدار کے لئے چنا  اور عطا ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا اور احمد سے روایت کیا جاتا ہے الله رحم کرے کہ وہ ان سے پوچھا گیا ہم عائشہ رضی الله عنہا کا قول کا کیا جواب دیں کہ جس نے یہ دعوی کیا کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا … الحدیث ؟ امام احمد نے فرمایا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول سے (ہی کرو) کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے  اپنے رب عز وجل  کودیکھا

ہمارے نزدیک ابان عن عکرمہ والی روایت اور قتادہ عن عکرمہ والی رویت باری تعالی لی روایات  صحیح نہیں ہیں

ایک تیسری روایت بھی ہے جس میں ابن عبّاس سے ایک الگ قول منسوب ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے

کتاب الاایمان ابن مندہ میں روایت ہے کہ

أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ يُوسُفَ الشَّيْبَانِيُّ، ثَنَا أَبِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} [النجم: 11] ، قَالَ: «رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ بِقَلْبِهِ مَرَّتَيْنِ» . رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ نُمَيْرٍ

 ابن عبّاس کہتے ہیں الله کا قول : {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} [النجم: 11]  اس کے دل نے جھوٹ نہیں ملایا جو اس نے دیکھا کے لئے کہا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ قلب سے دیکھا ایسا ہی ثوری اور ابن نمیر روایت کرتے ہیں

قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ سے تین مختلف اقوال منسوب ہیں اس میں سب سے مناسب بات یہی لگتی ہے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے دل سے دیکھا

اس کی وضاحت عائشہ رضی الله تعالی عنہا کی بخاری کی صحیح روایت سے ہو جاتی ہے کہ

عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ – رضى الله عنها -: يَا أُمَّتَاهْ! هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ – صلى الله عليه وسلم – رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِى مِمَّا قُلْتَ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ}، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} , وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى غَدٍ؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166)، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ [شَيئاً مِمَا أنْزِلَ إِليهِ 5/ 188} [مِنَ الوَحْي 8/ 210]؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} الآية. [قالَ: قلت: فإنَّ قَوْلَهُ: {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى}. قالَتْ:] ولكنَّهُ [قَدْ 4/ 83] رَأَى جِبْرِيلَ – عَلَيْهِ السَّلاَمُ – (وفى روايةٍ: ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِى صُورَةِ الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ الْمَرَّةَ) فِى صُورَتِهِ [الَّتِى هِىَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الأُفُقَ]؛ مَرَّتَيْنِ

عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مسروق رحمہ الله علیہ نے پوچھا کہ اے اماں کیا  محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ تمہاری اس بات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دے تم سے جو کوئی تین باتیں کہے اس نے جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ محمّد نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے قرات کی {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} نگاہیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نگاہوں تک پہنچ جاتا ہے اور وہ باریک بین اور جاننے والا ہے ، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ الله اس سے کلام کرے سوائے وحی سے یا پردے کے پیچھے سے   آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ  جو یہ کہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جانتے تھے کہ کل کیا ہو گا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے تلاوت کی {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166) اور ایک روایت کے مطابق کوئی نہیں جانتا غیب کو سوائے الله کے . اور اس نے بھی جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ آپ نے وحی میں سے کچھ چھپایا  پھر آپ نے تلاوت کی ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} اے رسول جو الله نے آپ پر نازل کیا ہے اس کو لوگوں تک پہنچے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہ کیا . مسروق کہتے  ہیں میں نے عرض کی کہ الله تعالی کا قول ہے {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} پھر قریب آیا اور معلق ہوا اور دو کمانوں اور اس اس سے کم فاصلہ رہ گیا. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا اور ایکروایت میں ہے کہ وہ جبریل تھے وہ آدمی کی شکل میں اتے تھے اور اس دفعہ وہ اپنی اصلی شکل میں آئے یہ وہی صورت تھی جو افق پر دیکھی تھی دو دفعہ

عمدہ القاری  ج ١٩ ص ١٩٩ میں عینی کہتے ہیں

قلت: وَيحمل نَفيهَا على رُؤْيَة الْبَصَر وإثباته على رُؤْيَة الْقلب

میں کہتا ہوں اور اس نفی کو آنکھ سے دیکھنے پر لیا جے اور دل سے دیکھتے پر ثابت کیا جائے

 معلوم ہوا کہ سوره نجم کی معراج سے مطلق آیات کا تعلّق جبریل علیہ السلام کی اصلی صورت  سے ہے لہذا قاب قوسین کوایک مقام قرار دے کر لفاظی  کر کے  یہ  باور کرنے کی کوشش کرنا  کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا تھا صحیح سند سے ثابت نہیں ہے

  قاضی عیاض  کتاب  الشفاء بتعريف حقوق المصطفی میں لکھتے ہیں  کہ چونکہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا اور  عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی ہے، لہذا اس معاملے میں ان کی خبر معتبر نہیں ہے
لیکن یہ نکتہ سنجی کی انتہا ہے کیونکہ ابن عبّاس تو عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے بھی چھوٹے ہونگے

عبدللہ ابن عبّاس کی ولادت  ہجرت سے تین سال پہلے  ہوئی اور سن ٨ ہجری میں آپ  عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ مدینہ پھنچے یعنی آپ بہت کم سن تھے اور معراج کا واقعہ کے وقت تو آپ شاید ایک سال کے ہوں

کتاب  کنزالعمال میں جابر رضی الله عنہ سے مروی روایت ہے

إنّ اللَّهَ أعْطَى مُوسَى الكلامَ وأعْطانِي الرُّؤْيَةَ وفَضَّلَنِي بالمَقامِ المَحْمُودِ والحَوْضِ المَوْرُودِ

بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔

اس پر ابن عساکر کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن ابن عساکر کی کتب میں اس متن کے ساتھ روایت نہیں ملی

ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں ہے

 أخبرنا أبو الفتح محمد بن الحسن بن محمد الأسدآباذي بصور أنبأ أبو عبد الله الحسين بن محمد بن أحمد المعروف نا أبو عبد الله أحمد بن عطاء الروذباري إملاء بصور نا أبو الحسن علي بن محمد بن عبيد الحافظ نا جعفر بن أبي عثمان نا يحيى بن معين نا أبو عبيدة نا سليمان بن عبيد السليمي نا

الضحاك بن مزاحم عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) قال لي ربي عز وجل نحلت إبراهيم خلتي وكلمت موسى تكليما وأعطيتك يا محمد كفاحا

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمد! کہ بے پردہ وحجاب تم نے دیکھا

اس میں الضحاك بن مزاحم  ہیں جن کے لئے شعبہ کہتے ہیں  قال شعبة : كان عندنا ضعيفا ہمارے نزدیک ضعیف ہیں یہی بات یحیی بن سعید القَطَّانُ بھی کہتے ہیں

عکرمہ کی ابن عباس سے رویت باری والی ضعیف روایات کو امام ابن خریمہ صحیح مانتے تھے

محدث ابن خزیمہ کا افراط

صحیح ابن خزیمہ کے مولف أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة المتوفی ٣١١ ھ كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل  کہتے ہیں

فَأَمَّا خَبَرُ قَتَادَةَ، وَالْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہ عَنْهُمَا، وَخَبَرُ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهعَنْهُمَا فَبَيِّنٌ وَاضِحٌ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُثْبِتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى رَبَّهُ

پس جو خبر قتادہ اور الحکم بن ابان سے عکرمہ سے اور ابن عباس سے آئی ہے اور خبر جو عبد الله بن ابی سلمہ سے وہ ابن عباس سے آئی ہے اس میں بین اور واضح ہے کہ ابن عباس سے ثابت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا

ابن خزیمہ  اسی کتاب میں لکھتے ہیں

وَأَنَّهُ جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخْصُوصًا بِرُؤْيَةِ خَالِقِهِ، وَهُوَ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، لَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ وَهُوَ فِي الدُّنْيَا،

اور بے شک یہ جائز ہے کہ اپنے خالق کو دیکھنا نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہو اور وہ ساتویں آسمان پر تھے اور دینا میں نہیں تھے جب انہوں نے الله تعالی کو دیکھا تھا

لیکن البانی اور البیہقی نزدیک ابن عباس سے منسوب یہ روایات صحیح نہیں ہیں

الله کا قانون اور آخرت

اس دنیا کا الله کا قانون ہے کہ اس کو کوئی دیکھ نہیں سکتا اس بات کو سوره الاعراف میں بیان کیا گیا جب موسی علیہ السلام نے دیکھنے کی درخوست کی لیکن الله تعالی نے کہا کہ پہاڑ اگر اپنے مقام پر رہ گیا تو اے موسی تم دیکھ سکوں گے پس جب رب العزت نے تجلی کی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا اور موسی علیہ السلام غش کھا کر گر پڑے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ روز محشر الله تعالی کا مومن دیدار کر سکیں گے

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودہویں کے چاند کی رات ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا

انکم سترون ربکم يوم القيامة کما ترون القمر هذا

تم اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھتے ہو۔

 صحيح البخاری، 2 : 1106، کتاب التوحيد

سوره النجم  53 : 8 – 9 کی آیات ہیں

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى

پھر وہ  قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا  اس سے بھی کم 

بخاری اور مسلم کی روایت میں ان آیت کی تشریح میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا

صحیح بخاری کتاب التوحید کی روایت میں انس رضی الله عنہ سے مروی روایت ہے

ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا الله،‏‏‏‏ حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى،‏‏‏‏ وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ،‏‏‏‏ فَتَدَلَّى،‏‏‏‏ حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى،‏‏‏‏ فَأَوْحَى الله فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ

 پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی 

اس میں وہی سوره النجم کی آیات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی دو کمانوں سے بھی قریب ہوئے

اس روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سو رہے تھے کہ انہوں نے یہ نیند میں دیکھا لہذا یہ خواب کا واقعہ ہے اور نزاع قیامت سے قبل آنکھ سے دیکھنے پر ہے. دوم ایسی روایت جو دوسرے ثقہ راویوں کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہوں ان کو شاذ کہا جاتا ہے. اس مخصوص روایت میں جو بیان ہوا ہے وہ اس روایت کو شاذ کے درجے پر لے جاتی ہے کیونکہ معراج جاگنے کی حالت میں ہوئی اور اس کا مشاہدہ اس سے پہلے خواب میں نہیں کرایا گیا

الله کوقیامت سے قبل  نہیں دیکھا جا سکتا جو  قانون ہے. ایک حدیث  جو سنن ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے اس میں میں اتا ہے کہ جابربن عبدللہ رضی الله عنہ سے الله تعالی نے بلا حجاب کلام  کیا (مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ) لیکن اس کی سند مظبوط نہیں ایک طرق میں موسى بْن إبراهيم بْن كثير الأنصاريُّ الحَرَاميُّ المَدَنيُّ المتوفی ٢٠٠ ھ ہے. ابن حجر ان کو  صدوق يخطىء کا درجہ دتیے ہیں  اور دوسری میں عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ہیں جو مظبوط راوی نہیں ترمذی اس روایت کو جسن غریب کہتے ہیں یہ خبر واحد کے درجے میں ہے اور حسن ہونے کی وجہ سے اس پر عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا

ابن تیمیہ اپنے فتاوی ، مجموع الفتاوى ج ٥ ص ٢٥١ میں اولیاء کے کشف کے حق میں کہتے ہیں

وَ ” الْمُشَاهَدَاتُ ” الَّتِي قَدْ تَحْصُلُ لِبَعْضِ الْعَارِفِينَ فِي الْيَقَظَةِ كَقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ لَمَّا خَطَبَ إلَيْهِ ابْنَتَهُ فِي الطَّوَافِ: أَتُحَدِّثُنِي فِي النِّسَاءِ وَنَحْنُ نَتَرَاءَى الله عَزَّ وَجَلَّ فِي طَوَافِنَا وَأَمْثَالُ ذَلِكَ إنَّمَا يَتَعَلَّقُ بِالْمِثَالِ الْعِلْمِيِّ الْمَشْهُودِ لَكِنَّ رُؤْيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَبِّهِ فِيهَا كَلَامٌ لَيْسَ هَذَا مَوْضِعَهُ

وه مشاهدات جو بعض عارفین کو بیداری کی حالت میں حاصل ہوتے ہیں ، جیسے ابن عمر رضی الله عنہ سے جب ابن زبیر رضی الله عنہ نے طواف کے دوران اپنی بیٹی کی منگنی کی بات کی تو ابن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ تم مجھ سے عورتوں کے بارے بات کرتے ہو اور ہم تو اپنے طواف میں الله تعالی كى زیارت کرتے ہیں ،
یہ علمى مشهود مثال کے ساتھ متعلق هے ، لیکن جہاں تک نبى صلی الله علیہ وسلم کی بات ہے کہ آپ نے الله تعالی زیارت کی ہے ، تواس میں کلام ہے لیکن یہ جگہ اس پرکلام کرنے کا نہیں هے

ہمارے نزدیک غیر نبی کو کوئی کشف ممکن نہیں لہذا ابن تیمیہ کی یہ بات قلت معرفت پر مبنی ہے اورصوفیاء کی تقلید ہے

الله ہم سب کو اس کی شان کے لائق توحید کا علم دے اور غلو سے بچائے

[/EXPAND]

[کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کو روز محشر عرش عظیم پر بٹھایا جائے گا ؟]

جواب

یہ انتہائی غالی عقیدہ ہے الله شرک سے بچائے

افسوس کہ ٢٥٠ ھ کے قریب بعض محدثین نے اس کو بطور عقیدہ کے اختیار کیا اور کا انکار کرنے پر متشدد رویہ اختیار کیا یہاں تک کہ آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ نے اس کو رد کیا لیکن یہ عقیدہ ابھی بھی باقی ہے اور بہت سے حنبلی اور  وہابیوں کا عقیدہ ہے

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا

ہو سکتا ہے کہ اپ کا رب اپکو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم  الله  سے دعا کریں  گے جو ان کی نبی کی حثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں  اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا

ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه

محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا

 نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم

اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے

معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا .افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں

الله تعالی نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا نعوذباللہ

ابن أبي يعلى کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل  وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء

ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں

القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں

ونظر أَبُو عبد اللہ فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها

اور  ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا  اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا

کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں

وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث”.

ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ

قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ

ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو

در کر آیا ہے

سعودی مفتی  ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد  نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں

قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة

فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ

 جلد2 ، ص136

دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں

http://islamqa.info/ur/154636

لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول  رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے

الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے

العلو 2/1081، رقم/422

میزان الاعتدال میں الذھبی،  مجاهد بن جبر  المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات  کے ترجمے میں  کہتے ہیں

ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله  : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش

تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا

الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں  مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں

فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ الله يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ

پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے

مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے

ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول  کو پسند کرتے تھے اور لوگ  ترمذی پر جرح کرتے تھے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللہ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ

هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے  انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے  انہوں نے  لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ   التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور  (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے  دور رہو اور بچو حتی کہ حق پر ا جائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے

ابو بکر  الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ الله اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللہ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ

اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ  کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ  ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے وہ اپ سے استدلال کرتا ہے (یعنی دلیل لیتا ہے) پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں  پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ  اپنے باتھ سے لکھیں   حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» اس سے متعلق مجاہد کہتے ہیں کہ انھیں عرش پر بٹھایا جائیگا . اس کو میں نے اپنے باپ  احمد  سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ محمّد بن فضیل ایسا ہی بیان کرتے ہیں لیکن میں یہ ان سے براہ راست نہیں سن سکا . ہارون نے کہا کہ میں نے ان یعنی عبدالله سے کہا کہ مجھے تمہارے باپ احمد سے متعلق خبر دی گئی ہے کہ انھوں نے عن رجل کے واسطے سے ابن فضیل سے لکھا ہے. عبدالله نے جواب دیا ہاں اس معامله کو لوگ ان سے ایسا  ہی بیان کرتے ہیں   

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، ثَنَا أَبُو الْهُذَيْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، قَالَ عَبْدُ الله: سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ يُنْكِرُهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا فِي وَقْتٍ مَا سَمِعْنَاهُ مِنَ الْمَشَايِخِ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا تُنْكِرُهُ الْجَهْمِيَّةُ، وَأَنَا مُنْكَرٌ عَلَى كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابو مَعْمَرٍ نے  أَبُو الْهُذَيْلِ سے انہوں نے محمّد بن فُضَيْلٍ سے انہوں نے لیث سے انہوں نے مجاہد سے کہا  عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] کہا ان کو عرش پر بٹھائے گا. عبد اللہ  (بن احمد) نے کہا میں نے اس حدیث کو ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے محدثین میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو اس کو رد کرتا ہو اور ہم اپنے الْمَشَايِخِ  سے سنتے رہے ہیں کہ اس کو سوائے الْجَهْمِيَّةُ کے کوئی رد نہیں کرتا اور میں ہر اس شخص کا منکر ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

 وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، رَحِمَهُ اللہ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله عَنِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي تَرُدُّهَا الْجَهْمِيَّةُ فِي الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ، فَصَحَّحَهَا أَبُو عَبْدِ الله، وَقَالَ: ” قَدْ تَلَقَّتْهَا الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُولِ، نُسَلِّمُ الْأَخْبَارَ كَمَا جَاءَتْ

اور بے شک أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ نے روایت کیا انہوں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ ان احادیث پر جن  کو الْجَهْمِيَّةُ  رد کرتے ہیں یعنی الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ،  وغیرہ کی پس ابو عبد اللہ نے ان کو صحیح قرار دیا اور کہا علماء نے ان کو قبول کیا ہے ہم ان کو تسلیم کرتے ہیں جیسی آئی ہیں

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى:458هـ) کے مطابق الْمَرُّوذِيُّ نے اس پر باقاعدہ ایک کتاب بنام كتاب الرد عَلَى من رد حديث مجاهد  مرتب کی تھی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ مُجَاهِدٌ: «عَرَضْتُ الْقُرْآنَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ» [ص:224]. قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَلَّالُ: قَرَأْتُ كِتَابَ السُّنَّةِ بِطَرَسُوسَ مَرَّاتٍ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ وَغَيْرِهِ سِنِينَ، فَلَمَّا كَانَ فِي سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَتِسْعِينَ قَرَأْتُهُ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، وَقَرَأْتُ فِيهِ ذِكْرَ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، فَبَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا مِمَّنْ طُرِدَ إِلَى طَرَسُوسَ مِنْ أَصْحَابِ التِّرْمِذِيِّ الْمُبْتَدِعِ أَنْكَرُوهُ، وَرَدُّوا فَضِيلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرُوا رَدَّهُ فَشَهِدَ عَلَيْهِمُ الثِّقَاتُ بِذَلِكَ فَهَجَرْنَاهُمْ، وَبَيَّنَا أَمْرَهُمْ، وَكَتَبْتُ إِلَى شُيُوخِنَا بِبَغْدَادَ، فَكَتَبُوا إِلَيْنَا هَذَا الْكِتَابَ، فَقَرَأْتُهُ بِطَرَسُوسَ عَلَى أَصْحَابِنَا مَرَّاتٍ، وَنَسَخَهُ النَّاسُ، وَسَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَهْلَ السُّنَّةِ، وَزَادَهُمْ سُرُورًا عَلَى مَا عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّتِهِ وَقَبُولِهِمْ

اور ابو بکر المروزی نے خبر دی انہوں نے امام احمد سے سنا کہ مجاہد نے کہا میں نے قرآن کو ابن عباس پر تین دفعہ پیش کیا ابن بکر الخلال کہتے ہیں میں نے کتاب السنہ کو مسجد الجامع میں طَرَسُوسَ میں پڑھا پس جب سن ٢٩٢ ھ آیا اور مقام محمود کے بارے میں پڑھا پتا چلا کہ طَرَسُوسَ میں ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں  اور رسول الله کی فضیلت کے انکاری ہیں  اور وہاں ان کا رد کرنا  ظاہر ہوا .  اس پر ثقات نے شہادت دی لہذا ان کو برا  کہا اور ان کا معاملہ (عوام پر)  واضح کیا گیا اور اپنے شیوخ کو(بھی) بغداد (خط) لکھ بھیجا پس انہوں نے جواب بھیجا جس کو طَرَسُوسَ میں اپنے اصحاب پر کئی دفعہ پڑھا  اور لوگوں نے اس کو نقل (لکھا) کیا اور الله تعالی نے اہل السنت کو بلند کیا اور ان کا سرور بڑھایا اس سے جو ان کے پاس ہے اس کی صحت و قبولیت(عامہ) پر

معلوم ہوا کہ ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس عقیدے کے انکاری تھے اور علماء بغداد اس کے اقراری

ابو بکر الخلال نے کتاب السنہ میں ترمذی کو کبھی الْعَجَمِيُّ التِّرْمِذِيُّ   کہا اور کبھی الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ بھی کہا اور کہتے ہیں

ترمذی کون ہے؟

ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں  اس سے مراد الجھم بن صفوان المتوفی ١٢٨ ھ ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں کیونکہ  کتاب السنہ از ابو بکر الخلال کے مطابق یہ امام احمد اور ان کے بیٹے کا ہم عصر ہے

کتاب  السنة از ابو بکر الخلال جو  دکتور عطية الزهراني  کی تحقیق کے ساتھ  دار الراية – الرياض  سے سن ١٩٨٩ میں شائع ہوئی ہے اس کے محقق کے مطابق یہ جھم نہیں

ترمذی الجہمی

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب الزاهد أبو عبدالله محمد بن علي ابن الحسن بن بشر الحكيم الترمذي المتوفی ٣٢٠ ھ  ہیں  لیکن یہ صوفی تھے اور اس عقیدے پر تو یہ ضررور خوش ہوتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا

حکیم الترمذی کتاب نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم میں لکھتے ہیں

حَتَّى بشر بالْمقَام الْمَحْمُود قَالَ مُجَاهِد {عَسى أَن يَبْعَثك رَبك مقَاما مَحْمُودًا} قَالَ يجلسه على عَرْشه

یہاں تک کہ مقام محمود کی بشارت دی جائے گی مجاہد کہتے ہیں ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا

لہذا یہ حکیم ترمذی نہیں

کتاب  السنہ از الخلال میں ہے

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو  کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا

معلوم ہوا کہ  الترمذی،  الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ )  کا ہم عصر ہے

  االْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کآ  یہ قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا؟ اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو  عجیب بات ہے کہ  اس عقیدے کے رد میں کوئی محدث نہیں ملتا

الذہبی کتاب العرش میں اپنا خیال پیش کرتے  ہیں

الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه

یہ الترمذي ،  أبو عيسى  نہیں جو  صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے  لیکن مشھور نہیں

ہماری رائے میں یہ  اغلبا امام ترمذی  ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے

 امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79]  پر  فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے

امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

اس کے آخر میں ہے

وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے  …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے

امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا  کہ ابی نضرہ  سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے

لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے  لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ: وَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْجُهَّالِ دَفْعُ الْحَدِيثِ بَقِلَّةِ مَعْرِفَتِهِ فِي رَدِّهِ مِمَّا أَجَازَهُ الْعُلَمَاءُ مِمَّنْ قَبْلَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِمَّنْ ذَكَرْتُ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، إِلَّا وَقَدْ سَلَّمَ الْحَدِيثَ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ الْخَبَرُ، وَكَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ وَسُنَّةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ الْجُهَّالِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ هُوَ الشَّفَاعَةُ لَا مَقَامَ غَيْرُهُ.

محمد بن عثمان نے کہا اور مجھ تک پہنچا کہ بعض جھلا اس (مجاہد والی) حدیث کو قلت معرفت کی بنا پر رد کرتے ہیں … اور دعوی کرتے ہیں کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام ترمذی نے كتاب التفسير اور كتاب التاريخ بھی لکھی تھیں جو اب مفقود ہیں اور ممکن ہے مجاہد کے قول پر تفسیر کی کتاب میں  جرح  بھی کی ہو

مخالفین کو اعتراض ہے کہ اس آیت کی شرح میں یہ کیوں کہا جا  رہا ہے کہ اس سے مراد صرف شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام احمد کی اقتدہ  

علی بن داود کہتے ہیں

أَمَّا بَعْدُ: فَعَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِهَدْيِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَطَعْنٌ لِمَنْ خَالَفَهُ، وَأَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي طَعَنَ عَلَى مُجَاهِدٍ بِرَدِّهِ فَضِيلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْتَدَعٌ، وَلَا يَرُدُّ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ «إِلَّا جَهْمِيُّ يُهْجَرُ، وَلَا يُكَلَّمُ وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، وَعَنْ كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذِهِ الْفَضِيلَةَ وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى هَذَا التِّرْمِذِيِّ أَنَّهُ جَهْمِيُّ خَبِيثٌ

اما بعد تمھارے لئے امام احمد بن حنبل  کی ہدایت ہے جو امام المتقین ہیں بعد والوں کے لئے اور اس پر  طعن کرو  جو ان کی مخالفت کرے اور بے شک یہ ترمذی جو مجاہد پر طعن کرتا ہے اس فضیلت والی حدیث پر….. وہ مبتد عی ہے  اور اس روایت  کو سوائے الجہمی کے کوئی رد نہیں کرتا اس کو برا کہو اس سے کلام نہ کرو اس  سے دور رہو اور میں گواہی دیتا ہوں یہ ترمذی جھمی خبیث ہے

امام احمد اس عرش پر بٹھائے جانےکے  بدعتی عقیدے  والوں کے امام تھے ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ میں ہے کہ محمد بن یونس البصری کہتے ہیں

فَمَنْ رَدَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا فَلَا يُكَلَّمُ، وَإِنْ مَاتَ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، وَقَدْ صَحَّ عِنْدَنَا أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا أَهْلُ السُّنَّةِ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَيَّنَ أَمْرُهُ، فَعَلَيْكُمْ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ، وَمَذْهَبِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ الْإِمَامُ يُقْتَدَى بِهِ

پس جو اس حدیث کو رد کرے اور اس طعن کرے اس سے کلام نہ کرو اور اگر مر جائے تو جنازہ نہ پڑھو اور یہ ہمارے نزدیک صحیح ہے کہ یہ ترمذی اس پر کلام کرتا ہے جس سے اہل سنت احتجاج کرتے ہیں اور اس شخص  کا معاملہ  واضح ہے . پس تمھارے لئے سنت اور اسکا اتباع ہے اور ابو عبدللہ امام احمد بن حنبل کا مذبب ہے جو امام ہیں جن کا اقتدہ کیا جاتا ہے 

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) کے مطابق

وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش …….ہ 

اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ  أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد  نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ  بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا 

یہ قسم اٹھانے کا اس وقت کا انداز تھا کہ اس عقیدے پر اتنا ایمان تھا کہ تین طلاق تک کی قسم کھائی جا رہی ہے

 مشھور امام أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَأَمَّا حَدِيثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَفْسِيرُهُ لِهَذِهِ الْآيَةِ: أَنَّهُ يُقْعِدُهُ [ص:1613] عَلَى الْعَرْشِ , فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ , وَقَبِلُوهَا بِأَحْسَنِ قَبُولٍ , وَلَمْ يُنْكِرُوهَا , وَأَنْكَرُوا عَلَى مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ إِنْكَارًا شَدِيدًا وَقَالُوا: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوءٍ قُلْتُ: فَمَذْهَبُنَا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ قَبُولُ مَا رَسَمْنَاهُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ , وَقَبُولُ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ , وَتَرْكُ الْمُعَارَضَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ فِي رَدِّهِ , وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ لِكُلِّ رَشَادٍ وَالْمُعِينُ عَلَيْهِ , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ جَمَاعَةٌ

الآجُرِّيُّ کہتے ہیں جہاں تک مجاہد کی نبی صلی الله علیہ وسلم کی تفضیل سے متعلق روایت ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ بے شک ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس کو اہل علم اور حدیث کو نقل کرنے والے لوگوں (یعنی محدثین) کے شیوخ نے قبول کیا ہے بہت بہترین انداز سے اور حسن قبولیت دیا ہے اور انکار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا انکار کیا ہے جو مجاہد کی حدیث کو رد کریں شدت کے ساتھ اور کہا ہے کہ جو مجاہد کی حدیث قبول نہ کرے وہ برا آدمی ہے میں کہتا ہوں پس ہمارا مذھب یہی ہے الحمدللہ …..جو ایک جماعت نے روایت کیا ہے 

الآجُرِّيُّ  کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب ابن تیمیہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے انکے من پسند اہل علم مجاہد کے اس قول کو قبولیت کا درجہ دے چکے تھے

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي، سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود کے بیٹے أبوبكر بن أبي داود عبدالله بن سليمان بن الأشعث السجستاني (ت316هـ)  کے شاگرد ہیں

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا  لیکن الذھبی نے یہ مانا کہ امام ابو داود اس کو تسلیم کرتے تھے دوسری طرف ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ سے واضخ ہے امام ابوداود اور ان کے  استاد امام احمد دونوں اس  قول کو مانتے تھے

الذہبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں لکھتے ہیں

فَمِمَّنْ قَالَ أَن خبر مُجَاهِد يسلم لَهُ وَلَا يُعَارض عَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري الْحَافِظ وَيحيى بن أبي طَالب الْمُحدث وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل السّلمِيّ التِّرْمِذِيّ الْحَافِظ وَأَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عبد الْملك الدقيقي وَأَبُو دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث السجسْتانِي صَاحب السّنَن وَإِمَام وقته إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق الْحَرْبِيّ والحافظ أَبُو قلَابَة عبد الْملك بن مُحَمَّد الرقاشِي وحمدان بن عَليّ الْوراق الْحَافِظ وَخلق سواهُم من عُلَمَاء السّنة مِمَّن أعرفهم وَمِمَّنْ لَا أعرفهم وَلَكِن ثَبت فِي الصِّحَاح أَن الْمقَام الْمَحْمُود هُوَ الشَّفَاعَة الْعَامَّة الْخَاصَّة بنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

 الكتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از المؤلف: عبد العزيز بن فيصل الراجحي
الناشر: مطابع الحميضي – الرياض الطبعة: الأولى، 1424 هـ

میں مولف ، الذہبی کی یہی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں

وأثبتها أيضا أئمة كثير، غير من سمى الذهبي هنا، منهم:. محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد.
. والإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) ، إمام أهل السنة قاطبة.
. وعبد الله بن أحمد بن حنبل الحافظ (ت 290 هـ) .
اور اس کو مانا ہے ائمہ کثیر نے جن کا نام الذہبی نے نہیں لیا ان میں ہیں محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد  اور  لإمام  الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ)  اور عبدللہ بن احمد بن حنبل

سکین پسند حضرات بھی دیکھیں

عرش کا عقیدہ١

عرش کا عقیدہ١١

آگے لکھتے ہیں

عرش کا عقیدہ٢

عرش کا عقیدہ ٣عرش کا عقیدہ ٤عرش کا عقیدہ ٥شیخ صالح بن فوزان  ، عبد العزیز بن فیصل  کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک  عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا  بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے  

ابن قیم کتاب  بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور کے اشعار  لکھتے ہیں

قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.

ابن قیم  امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں  اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں

وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه

حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده

معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کوالْجَهْمِيَّةُ کہتے تھے

ہمارے نزدیک یہ عقیدہ  کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے

افسوس الذھبی کے بعد بھی اس عقیدے کو محدثین نے قبول کیا مثلا

شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ  کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں

 وعن رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من قال اللهم صل على محمد وأنزله المقعد المقرب عندك يوم القيامه وجبت له شفاعتي

رواه البزار وابن أبي عاصم وأحمد بن حنبل وإسماعيل القاضي والطبراني في معجميه الكبير والأوسط وابن بشكوال في القربة وابن أبي الدنيا وبعض أسانيدهم حسن قاله المنذري

 اور رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو کہے اے الله محمّد پر رحمت نازل کر اور روز محشر ان کو پاس بیٹھنے والا مقرب بنا، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی

اس کو   البزار اورابن أبي عاصم اورأحمد بن حنبل اورإسماعيل القاضي اورالطبراني نے معجم الكبير اورالأوسط میں اور ابن بشكوال نے القربة میں اور ابن أبي الدنيا نے روایت کیا ہے اور المنذري کہتے ہیں  اس کی بعض اسناد حسن ہیں

 اس کے بعد السخاوي تشریح کرتے ہیں

والمقعد المقرب يحتمل أن يراد به الوسيلة أو المقام المحمود وجلوسه على العرش أو المنزل العالي والقدر الرفيع والله أعلم

اور قریب بیٹھنے والا ہو سکتا ہے اس سے مراد الوسيلة ہو یا المقام المحمود یا عرش پر بٹھایا جانا ….ہ

السخاوي اگر ان الفاظ کی تشریح نہیں کرتے تو ہم سمجھتے کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہ ہو لیکن اس طرح انہوں نے اس کی تشریح کی ہے اس سے ظاہر ہے ان کا عقیدہ بھی اس پر تھا

ابن کثیر کتاب النهاية في الفتن والملاحم  میں لکھتے ہیں

وَقَدْ رَوَى لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، وَأَبُو يَحْيَى الْقَتَّاتُ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَ فِي تَفْسِيرِ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ: إِنَّهُ يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَرُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن سلام، وجمع فيه أبو بكر المروزي جزءاً كبيراً، وحكاه هو وغيره وغير وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ كَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ وَخَلْقٍ وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَهَذَا شَيْءٌ لَا يُنْكِرُهُ مُثْبِتٌ وَلَا نَافٍ، وَقَدْ نظمه الحافظ أبو الحسن الدارقطني في صيدة لَهُ.
قُلْتُ: وَمِثْلُ هَذَا لَا يَنْبَغِي قَبُولُهُ إلا عن معصوم، ولم يثبت فيه حَدِيثٌ يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وَلَا يُصَارُ بِسَبَبِهِ إِلَيْهِ، وقول مجاهد في هذا المقام ليس بحجة بمفرده، وَلَكِنْ قَدْ تَلَقَّاهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ بالقبول

ابن کثیر کہتے ہیں میں کہتا ہوں مجاہد کا منفرد قول حجت نہیں لیکن اس کو اہل حدیث نے قبول کیا ہے

عصر حاضر میں  مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں

وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه

اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی  صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

الذھبی کتاب  تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں سن ٣١٦ ھ کے واقعات پر لکھتے ہیں

 وهاجت ببغداد فتنة كبرى بسبب قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ، فقالت الحنابلة: معناه يُقْعدهُ اللَّه عَلَى عرشه كما فسره مجاهد.
وقال غيرهم من العلماء: بل هِيَ الشّفاعة العُظْمى كما صحَّ في الحديث. ودام الخصام والشَّتْم واقتتلوا، حتّى قُتِل جماعة كبيرة. نقله الملك المؤيدّ، رحمه الله

اور بغداد میں ایک بڑے فتنہ پر جھگڑا ہوا الله تعالی کے قول کہ ہو سکتا ہے آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر بھیجے کے سبب-  حنابلہ نے کہا اس کا مطلب عرش پر بیٹھانا ہے جیسا مجاہد نے کہا اور دوسرے علماء نے کہا نہیں یہ شفاعت ہے جس کا ذکر صحیح حدیث میں ہے اور اس میں لڑائی رہی اور گالیاں چلیں اور ایک بڑی جماعت قتل ہوئی- اس کو نقل کیا الملك المؤيدّ  نے 

اس مسئلہ  میں بحث سے یہ بھی واضح ہوا کہ خبر واحد عقیدے میں دلیل نہیں ہے عرش پر بٹھائے جانے کا عقیدہ بعض محدثین نے قبول کیا جو روایت پسندی میں بہت آگے چلے گئے حتی کہ  اس عقیدے کا باطل ہونا واضح ہوا

 الله ہم سب کو غلو  سے بچائے

[/EXPAND]

[کیا حسن بصری اس عقیدہ کے قائل تھے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا تھا؟]

ابن خزیمہ کتاب التوحید میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنِي عَمِّي إِسْمَاعِيلُ بْنُ خُزَيْمَةَ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، قَالَ: «كَانَ الْحَسَنُ يَحْلِفُ بِاللَّهِ لَقَدْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ»

مبارک بن فضالہ نے کہا کہ حسن قسم کھاتے کہ بے شک رسول الله نے اپنے رب کو دیکھا

جواب

یہ قول ضعیف ہے محدثین کہتے ہیں کہ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ بہت تدلیس کرتا ہے

میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

قال النسائي وغيره: ضعيف.

البتہ امام احمد کہتے

قال المروزي، عن أحمد: ما روى عن الحسن فيحتج به

کہ حسن سے جو بھی روایت کرے قابل دلیل ہے

امام احمد خود بھی رویت الباری کے قائل تھے

[/EXPAND]

[امام الذھبی صفات میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ ]

جواب

کتاب سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی  أَبُو ذَرٍّ الهَرَوِيُّ عَبْدُ بنُ أَحْمَدَ بنِ مُحَمَّدٍ  کے ترجمہ میں قاضی ابن الباقلانی  کا ذکر کرتے ہیں

وَقَدْ أَلَّفَ كِتَاباً سَمَّاهُ: (الإِبَانَة) ، يَقُوْلُ فِيْهِ: فَإِن قِيْلَ: فَمَا الدَّلِيْلُ عَلَى أَنَّ للهِ وَجهاً وَيداً؟
قَالَ قَوْله: {وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ} [الرَّحْمَن:27] وَقوله: {مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ} [ص:75] فَأَثبت تَعَالَى لِنَفْسِهِ وَجهاً وَيداً.
إِلَى أَنْ قَالَ: فَإِن قِيْلَ: فَهَلْ تقولُوْنَ: إِنَّهُ فِي كُلِّ مَكَان؟
قِيْلَ: مَعَاذَ اللهِ بَلْ هُوَ مُسْتَوٍ عَلَى عَرْشِهِ كَمَا أَخْبَرَ فِي كِتَابِهِ.
إِلَى أَنْ قَالَ: وَصِفَاتُ ذَاتِهِ الَّتِي لَمْ يَزَلْ وَلاَ يزَالُ مَوْصُوَفاً بِهَا: الحَيَاةُ وَالعِلْمُ وَالقُدرَةُ وَالسَّمْعُ وَالبَصَرُ وَالكَلاَمُ وَالإِرَادَةُ وَالوَجْهُ وَاليدَانِ وَالعينَانِ وَالغضبُ وَالرِّضَى، فَهَذَا نَصُّ كَلاَمه.
وَقَالَ نحوَهُ فِي كِتَاب (التَّمهيد) لَهُ، وَفِي كِتَاب (الذَّبِّ عَنِ الأَشْعَرِيِّ) .وَقَالَ: قَدْ بَيِّناً دينَ الأُمَّة وَأَهْلِ السُّنَّة أَنَّ هَذِهِ الصِّفَات تُمَرُّ كَمَا جَاءت بِغَيْر تكييفٍ وَلاَ تحَدِيْدٍ وَلاَ تجنيسٍ وَلاَ تصويرٍ.
قُلْتُ: فَهَذَا المنهجُ هُوَ طريقَةُ السَّلَف، وَهُوَ الَّذِي أَوضحه أَبُو الحَسَنِ وَأَصْحَابُه، وَهُوَ التَسْلِيمُ لنُصُوص الكِتَاب وَالسُّنَّة، وَبِهِ قَالَ ابْنُ البَاقِلاَّنِيّ، وَابْنُ فُوْرَك، وَالكِبَارُ إِلَى زَمَن أَبِي المعَالِي، ثُمَّ زَمَنِ الشَّيْخ أَبِي حَامِدٍ، فَوَقَعَ اختلاَفٌ وَأَلْوَانٌ، نَسْأَلُ اللهَ العَفْوَ.

انہوں نے کتاب تالیف کی جس کا نام رکھا الإِبَانَة اس میں کہا پس اگر کوئی کہے اس کی کیا دلیل ہے کہ الله کا چہرہ اور ہاتھ ہے ؟ انہوں نے کہا الله کا قول ہے وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ} اور قول ہے ما مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ} پس لله تعالی نے اپنے لئے ہاتھ اور چھرہ کا اثبات کیا ہے یہاں تک کہ الباقلانی نے کہا کہ اگر کوئی کہے کیا کہتے ہو کہ وہ ہر مکان میں ہے ؟ تو کہا الله کی پناہ بلکہ وہ تو اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا اس نے کتاب الله میں خبر دی .. یہاں تک کہ کہا صفات ذاتی جن کو زوال نہیں ہے نہ ان کو اس سے متصف کرنا زائل ہو گا وہ ہیں حیات اور علم اور قدرت اور سمع اور بصر (دیکھنا) اور کلام (بولنا) اور ارادہ اور چہرہ اور دو ہاتھ اور غصہ اور خوشی پس یہ نص ہے ان کے کلام پر
اور اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب التمہید میں کہا اور کتاب الذَّبِّ عَنِ الأَشْعَرِيِّ اور کہا ہم نے امت کا دین اور اہل سنت کا دین واضح کر دیا ہے بے شک یہ وہ صفات ہیں جو آئی ہیں جیسی یہ ہیں بلا کیفیت بلا حدود بلا جنس بلا تصویر

میں الذھبی کہتا ہوں یہ ہی منہج ہے جو سلف کا طریقہ ہے جس کو ابو الحسن الاشعری نے واضح کیا ہے اور ان کے اصحاب نے اور یہ کتاب و سنت کے نصوص کو تسلیم کرنا ہے اور ایسا ہی ابن الباقلانی ابن فورک اور کبار نے أَبِي المعَالِي کے زمانے تک اور شیخ ابی حامد کے زمانے تک کہا ہے پھر اس میں اختلاف واقع ہوا جس سے ہم الله کی پناہ مانگتے ہیں

کتاب سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی ، الخَطِيْبُ أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ عَلِيِّ بنِ ثَابِتٍ کے ترجمہ میں کہتے ہیں

وَلاَ نَقُوْل: إِنَّ مَعْنَى اليَد القدرَة، وَلاَ إِنَّ مَعْنَى السَّمْع وَالبصر: العِلْم، وَلاَ نَقُوْل: إِنَّهَا جَوَارح.
وَلاَ نُشَبِّهُهَا بِالأَيدي وَالأَسْمَاع وَالأَبْصَار الَّتِي هِيَ جَوَارح وَأَدوَاتٌ لِلفعل، وَنَقُوْلُ: إِنَّمَا وَجب إِثبَاتُهَا لأَنَّ التَّوقيف وَردَ بِهَا، وَوجب نَفِيُ التَّشبيه عَنْهَا لِقَوْلِهِ: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} [الشُّوْرَى:11] {وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَد (2) } [الإِخلاَص:4]

اور ہم نہیں کہتے کہ  ہاتھ کا مطلب قدرت ہے اور نہ یہ کہتے ہیں کہ سمع و بصر کا مطلب علم ہے اور نہ یہ کہتے ہیں یہ اعضا ہیں اور نہ ہاتھ اور الأَسْمَاع وَالأَبْصَار کو تشبیہ دیتے ہیں کہ یہ اعضا اور فعل کے اوزار ہیں اور ہم کہتے ہیں ان کا  اثبات واجب ہے کیونکہ توقف سے تشبیہ کی نفی ہوتی ہے – جیسا الله نے کہا لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ  اس کے مثل کوئی نہیں ہے اور وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَد  اس کا جيسا کوئی نہیں ہے

الذھبی نے معطلہ کا رد کیا اور المشبه کا بھی رد کیا جنہوں نے کہا کہ ان کا رب اعضا والا ہے

یعنی الذھبی نے صفات میں علماۓ اشاعرہ کی رائے کو صحیح عقیدہ قرار دیا واضح رہے کہ الذھبی کے ہم عصر ابن تیمیہ کا عقیدہ اس سے الگ  ہے

[/EXPAND]

[روایت بندے کا دل رحمان کی انگلیوں کے درمیان ہے پر سلف کیا کہتے تھے ]

جواب

امام الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں ج ٨ ص ٤٦٧  پر سُفْيَانَ بنَ عُيَيْنَةَ  کے ترجمہ میں بتاتے ہیں

 َقَالَ أَحْمَدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ الدَّوْرَقِيُّ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بنُ نَصْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ، وَجَعَلتُ أُلِحُّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: دَعْنِي أَتَنَفَّسُ.

فَقُلْتُ: كَيْفَ حَدِيْثُ عَبْدِ اللهِ عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (إِنَّ اللهَ يَحْمِلُ السَّمَاوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ)   ؟

وَحَدِيْثُ: (إِنَّ قُلُوْبَ العِبَادِ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابعِ الرَّحْمَنِ  ) .

وَحَدِيْثُ: (إِنَّ اللهَ يَعْجَبُ – أَوْ يَضْحَكُ – مِمَّنْ يَذْكُرُهُ فِي الأَسْوَاقِ  ) .

فَقَالَ سُفْيَانُ: هِيَ كَمَا جَاءتْ، نُقِرُّ بِهَا، وَنُحَدِّثُ بِهَا بِلاَ كَيْفٍ

أَحْمَدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ الدَّوْرَقِيُّ کہتے ہیں مجھ سے نے روایت کیا کہ انہوں نے سفیان سے سوال کیا  … میں نے کہا یہ عبد الله کی حدیث کیسی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا الله تعالی آسمانوں کو انگلی پر اٹھا لے گا ؟ اور حدیث کہ بندوں کے دل رحمان کی انگلیوں میں سے دو کے بیچ ہیں ؟ اور حدیث بلا شبہ الله تعجب کرتا  یا ہنستا ہے .. جو بازاروں سے متعلق روایت ہے ؟ سفیان نے کہا یہ جیسی آئی ہیں ویسی ہی ہم ان کا اقرار کرتے ہیں اور ان کو بلا کیفیت روایت کرتے ہیں

امام الذھبی کتاب سیر میں أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بنُ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيُّ  کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قَالَ ابْنُ جَرِيْرٍ فِي كِتَاب (التبصير فِي معَالِم الدِّيْنِ) …. قال عَلَيْهِ السَّلاَمُ: (مَا مِنْ قَلْبٍ إِلاَّ وَهُوَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَن  .

إِلَى أَنْ قَالَ: فَإِنَّ هَذِهِ المَعَانِي الَّتِي وُصفت وَنظَائِرهَا مِمَّا وَصَفَ اللهُ نَفْسهُ وَرَسُوْلُه مَا لاَ يَثْبُتُ حَقِيْقَةُ عِلْمِهِ بِالفِكر وَالرَّويَّة، لاَ نُكَفِّرُ بِالجَهْل بِهَا أَحَداً إِلاَّ بَعْد انتهَائِهَا إِلَيْهِ.

امام طبری نے کتاب التبصير فِي معَالِم الدِّيْنِ میں کہا  … نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول کوئی دل نہیں ہے جو رحمان کی دو انگلیوں کے بیچ میں نہ ہو  … یہاں تک کہ طبری نے کہا پس ان معانی اور مثالوں سے الله  نے اپنے اپ کو  اور اس کے رسول نے متصف کیا ہے  جس سے علم کی حقیقت کا اثبات نہیں ہوتا  …ہم   جھل  (لا علمی ) کی بنا پر ان کا کفر نہیں کریں گے سوائے اس میں انتہا پسندی پر

یعنی سلف کا مذھب تھا کہ ان روایات کی نہ تاویل کرو نہ ان کا حقیقی معنی لیا جائے بس روایت کیا جائے اور کیفیت کی کھوج نہ کی جائے

کتاب السنہ از عبد الله کے مطابق

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: ” نُسَلِّمُ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ كَمَا جَاءَتْ وَلَا نَقُولُ كَيْفَ كَذَا وَلَا لِمَ كَذَا، يَعْنِي مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَحْمِلُ السَّمَاوَاتِ عَلَى أُصْبُعٍ، وَالْجِبَالَ عَلَى أُصْبُعٍ، وَحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قَلْبُ ابْنِ آدَمَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ» وَنَحْوِهَا مِنَ الْأَحَادِيثِ ”
وکیع بن جراح نےان احادیث پر کہا : ہم ان احادیث کو ویسے ہی قبول کرتے ہیں جیسے وہ حدیثیں آئیں ہیں ،اور ہم کبھی نہیں کہتے ہیں کی یہ کیسے ہے؟ اور یہ کیوں ہے؟ یعنی حدیث ابن مسعود رضی الله عنہ کہ الله تعالی آسمانوں کو اپنی انگلی پر اٹھا لیں گے اور پہاڑوں کو اور حدیث نبی صلی الله علیہ وسلم کہ ابن آدم کا قلب رحمن کی انگلیوں کے درمیان ہے اور اس طرح کی احادیث

یعنی حدیث میں کیفیت اور معنی کی کھوج نہیں کی جائے گی-  أسماء صفات کی کیفیت کے متعلق غور و خوض سے پرہیز کرنا چاہیے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے {وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا} [طه:110] ترجمہ “مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہو “،مزید اللہ کا ارشاد ہے {وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ} [البقرة:255]ترجمہ “اور مخلوق اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتی مگر جتنا اللہ چاہے”۔

لیکن بعض حنابلہ اور اہل حدیث نے اس سے ظاہر مطلب لیا  یہاں تک کہ دعوی کیا کہ الله تعالی کی انگلیاں ہیں

ابن عثمیین کتاب القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى میں کہتے ہیں

%d8%a7%d9%86%da%af%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba

[/EXPAND]

[وَجاءَ رَبُّكَ کی تفسیر پر ابن قیم اور وہابیوں کا اختلاف ہے ؟]

ابن کثیر اپنی البدایہ و النہایہ میں ایک حوالہ ل دیتے ہیں کہ

وروى البيهقي عن الحاكم عن أبي عمرو بن السماك عن حنبل أن أحمد بن حنبل تأول قول الله تعالى: (وجاء ربك) [الفجر: 22] أنه جاء ثوابه. ثم قال البيهقي: وهذا إسناد لا غبار عليه.

لنک

http://islamport.com/w/tkh/Web/927/3983.htm

جواب

قرآن کی سوره الفجر کی آیات ہے

وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا
اور تمہارا رب آئے گا اور اس کے فرشتے صف در صف

روایت میں کہا گیا اس کا ثواب آئے گا یعنی لوگوں کو ان کا ثواب ملے گا

یعنی الله تعالی آئے گا سے بعض لوگوں نے اس طرح مراد لیا ہے کہ گویا وہ مخلوق کی طرح ہو گا اور آنا اور جانا تو مخلوق کا عمل ہے
یہ المشبہ ہیں
ابن کثیر نے امام احمد کا قول نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ المشبہ نہیں تھے

اہل سنت میں اسی وجہ سے یہ تفسیر مشھور ہوئی ورنہ اس میں گروہوں کا جھگڑا ہے

تفسیر میں ابن کثیر نے کہا
وَجاءَ رَبُّكَ يَعْنِي لِفَصْلِ الْقَضَاءِ بَيْنَ خَلْقِهِ
اور رب آئے گا کہ مخلوق میں فیصلہ کرے

اس کے برعکس ابن قیم وغیرہ کے نزدیک یہ صِفَاتِ أَفْعَالِهِ ہیں
کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں کہتے ہیں

فَأَصْبَحَ رَبُّكَ يَطُوفُ فِي الْأَرْضِ ” هُوَ مِنْ صِفَاتِ فِعْلِهِ كَقَوْلِهِ {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ} [الفجر: 22]
پس رب زمین کا طواف کرے گا جو اس کی فعلی صفت ہے اس قول کے مطابق اور تمہارا رب آئے گا اور اس کے فرشتے

لیکن کتاب اجتماع الجيوش الإسلامية میں ابن قیم کہتے ہیں
وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا} [الفجر: 22] وَلَيْسَ مَجِيئُهُ حَرَكَةً وَلَا زَوَالًا وَلَا انْتِقَالًا لِأَنَّ ذَلِكَ إِنَّمَا يَكُونُ إِذَا كَانَ الْجَائِيُ جِسْمًا أَوْ جَوْهَرًا فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّهُ لَيْسَ بِجِسْمٍ وَلَا جَوْهَرٍ وَلَا عَرَضٍ لَمْ يَجِبْ أَنْ يَكُونَ مَجِيئُهُ حَرَكَةً وَلَا نَقْلَةً،
اس کا آنا حرکت یا زوال یا انتقال نہیں … ہم یہ واجب نہیں کریں گے کہ یہ آنا حرکت یا انتقال ہے

کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں ابن قیم کہتے ہیں

كَقَوْلِهِ: {وَجَاءَ رَبُّكَ} [الفجر: 22] أَيْ أَمْرُهُ
الله آئے گا یعنی اس کا حکم

ابن قیم کبھی خالص المشبہ بن جاتے ہیں کبھی اہل تعطیل – قلابازی شاید سامنے والے کو دیکھ کر کھاتے ہیں

————————————————–
البتہ وہابی علماء (المشبہ) اس سے الگ کہتے ہیں مثلا تفسیر جز عم میں کہتے ہیں

تفسير جزء عم
المؤلف: محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)

{وجاء ربك} هذا المجيء هو مجيئه ـ عز وجل ـ لأن الفعل أسند إلى الله، وكل فعل يسند إلى الله فهو قائم به لا بغيره، هذه القاعدة في اللغة العربية، والقاعدة في أسماء الله وصفاته كل ما أسنده الله إلى نفسه فهو له نفسه لا لغيره، وعلى هذا فالذي يأتي هو الله عز وجل، وليس كما حرفه أهل التعطيل حيث قالوا إنه جاء أمر الله، فإن هذا إخراج للكلام عن ظاهره بلا دليل
أور رب آئے گا – یہ آنا ہے اور وہ انے والا ہے عزوجل کیونکہ فعل کو الله کیطرف کیا گیا ہے اور ہر وہ فعل جو الله کی طرف ہو تو وہ الله اس پر قائم ہے کوئی اور نہیں اور یہ عربی لغت کا قاعدہ ہے اور اسماء و صفات کا قاعدہ ہے کہ ہر وہ چیز جو الله کی طرف سند کی جائے اس کی طرف سے تو وہ اسی کے لئے ہے کسی اور کے لئے نہیں ہے اور اس پر جو آئے گا وہ الله ہے اور ایسا نہیں ہے جیسا اہل تعطیل نے تحریف کی ہے کہ کہتے ہیں وہ آئے گا یعنی اس کا حکم کیونکہ یہ کلام سے خارج ہے ظاہری طور پر کوئی دلیل نہیں ہے
———-
یہ آیات راقم کے نزدیک متشابھات میں سے ہیں

[/EXPAND]

[کیا الله ہر جگہ حاضر  و ناظر ہے ؟  کیا جهمی کہتے کہ آسمان میں کوئی رب نہیں ہے ؟]

إمام الذهبي كتاب سير الأعلام النبلاء میں  محدث حماد بن زید کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ الحَافِظُ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بنُ حَرْبٍ:  سَمِعْتُ حَمَّادَ بنَ زَيْدٍ يَقُوْلُ:  إِنَّمَا يَدُورُوْنَ عَلَى أَنْ يَقُوْلُوا: لَيْسَ فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ –

يَعْنِي: الجَهْمِيَّةَ

سُلَيْمَانُ بنُ حَرْبٍ کہتے ہیں میں نے حماد بن زید کو کہتے سنا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آسمان میں کوئی الہ نہیں ہے یعنی الجہمیہ

اسی طرح دوسری روایت  مالک بن انس کے ترجمہ میں دیتے ہیں

وَرَوَى: عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ فِي كِتَابِ (الرَّدِّ عَلَى الجَهْمِيَّةِ  ) لَهُ، قَالَ:

حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بنُ النُّعْمَانِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ نَافِعٍ، قَالَ:

قَالَ مَالِكٌ: اللهُ فِي السَّمَاءِ، وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ لاَ يَخْلُو مِنْهُ شَيْءٌ.

عبد الله بن احمد نے … امام مالک سے روایت کیا کہ الله آسمان میں ہے اور اس کا علم ہر مکان پر ہے جس سے کوئی

چیز خالی نہیں ہے

عبد الله بن مبارک کے ترجمہ میں الذھبی کہتے ہیں

قُلْتُ: الجَهْمِيَّةُ يَقُوْلُوْنَ: إِنَّ البَارِي -تَعَالَى- فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَالسَّلَفُ يَقُوْلُوْنَ: إِنَّ عِلْمَ البَارِي فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَيَحْتَجُّونَ بِقَوْلِهِ -تَعَالَى-: {وَهُوَ مَعَكُم أَيْنَمَا كُنْتُمْ} [الحَدِيْدُ: 4] يَعْنِي: بِالعِلْمِ، وَيَقُوْلُوْنَ: إِنَّهُ عَلَى عَرْشِهِ اسْتَوَى، كَمَا نَطَقَ بِهِ القُرْآنُ وَالسُّنَّةُ.

میں کہتا ہوں جہمیہ کہتے تھے کہ الله ہر مکان میں ہے اور سلف کہتے کہ الله کا علم ہر مکان میں ہے اور وہ دلیل لیتے اس آیت سے کہ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو حدید یعنی کہ اپنے علم سے اور سلف کہتے کہ الله عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن و سنت میں کہا گیا ہے

آج بعض لوگوں نے جھمیہ کا عقیدہ لیا ہے کہ الله اسی زمیں میں ہے بس اس میں اضافہ کر دیا ہے کہ تمام کائنات میں ہے چاہے آسمان ہو یا زمین ہو لہذا وہ کہتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ جہمیوں سے الگ ہے ہم الله کو نہ صرف آسمان ہر جگہ مانتے ہیں

لیکن جن اصول و افہام پر جہمیہ نے اپنا عقیدہ اختیار کیا تھا انہی تاویلات پر ان لوگوں نے بھی اپنا عقیدہ لیا ہے

الذہبی ابو معمر الھذلی  إِسْمَاعِيْلُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ بنِ مَعْمَرِ بنِ الحَسَنِ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا

عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ القَطِيْعِيِّ، قَالَ: آخِرُ كَلاَمِ الجَهْمِيَّةِ: أَنَّهُ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ

جھمیہ کا آخری کلام ہوتا کہ آسمان میں کوئی اله نہیں ہے

الذھبی اس پر کہتے ہیں

قُلْتُ: بَلْ قَوْلُهُم: إِنَّهُ -عَزَّ وَجَلَّ- فِي السَّمَاءِ وَفِي الأَرْضِ، لاَ امْتِيَازَ لِلسَّمَاءِ.

وَقَوْلُ عُمُومِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: إِنَّ اللهَ فِي السَّمَاءِ، يُطلِقُوْنَ ذَلِكَ وِفقَ مَا جَاءتِ النُّصُوْصُ بإِطْلاَقِهِ، وَلاَ يَخُوضُونَ فِي تَأْوِيْلاَتِ المُتَكَلِّمِيْنَ، مَعَ جَزْمِ الكُلِّ بَأَنَّهُ -تَعَالَى-: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} [الشُّوْرَى: 11] .

میں کہتا ہوں بلکہ جہمیہ کا قول ہے کہ الله تعالی آسمان میں ہے زمین میں ہے اس میں آسمان کا کوئی امتیاز نہیں ہے اور امت محمد کا عمومی قول ہے کہ بے شک الله تعالی آسمان میں ہے یہ نصوص میں جو آیا ہے اس کے اطلاق پر ہے اور وہ متکلمین کی تاویلات پر نہیں جھگرتے بلکہ سب  جزم سے کہتے ہیں الله کے مثل کوئی نہیں

اسی  جھمی عقیدے سے وحدت الوجود کا مسئلہ بھی جڑا ہے کہ اگر الله تمام کائنات میں ہے تو وہ ہر جگہ ہوا اور اس کو عرف عام میں الله کا حاضر و ناظر ہونا کہا جاتا ہے

صحیح عقیدہ ہے کہ الله البصیر ہے جو سات آسمان اوپر عرش سے مخلوق کو دیکھ رہا ہے اور وہ اپنی مخلوق سے جدا ہے

[/EXPAND]

[صحیح مسلم کی ایک روایت پر سوال ہے]

 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ، فَلَمْ تَسْقِنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي

محمد بن حاتم، بن میمون بہز حماد بن سلمہ،  ثابت، ابی رافع،  حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی وہ کہے گا اے پروردگار میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے تو اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا تھا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اس کو پانی نہیں پلایا تھا اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا۔

جواب

یہ روایت ایک ہی سند سے کتابوں میں ہے

نفيع ، أبو رافع الصائغ المدنى ، مولى ابنة عمر بن الخطاب اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں – نفیع سے بصرہ میں اس کو ثابت البنانی نقل کرتے ہیں اور پھر مختلط حماد بن سملہ اس کو بیان کرتے ہیں البتہ کتاب مسند  أبو عَوانة میں اس کو حماد ابن زيدً بھی ثابت سے نقل کرتے ہیں

مسند احمد میں اس کی ایک اور سند ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَنَّهُ قَالَ: مَرِضْتُ فَلَمْ يَعُدْنِي ابْنُ آدَمَ، وَظَمِئْتُ فَلَمْ يَسْقِنِي ابْنُ آدَمَ، فَقُلْتُ: أَتَمْرَضُ يَا رَبِّ؟ قَالَ: يَمْرَضُ الْعَبْدُ مِنْ عِبَادِي مِمَّنْ فِي الْأَرْضِ، فَلَا يُعَادُ، فَلَوْ عَادَهُ، كَانَ مَا يَعُودُهُ لِي، وَيَظْمَأُ فِي الْأَرْضِ، فَلَا يُسْقَى، فَلَوْ سُقِيَ كَانَ مَا سَقَاهُ لِي

لیکن اس میں ابْنُ لَهِيعَةَ ہے جو ضعیف ہے

یہ بات  انجیل متی میں بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے تمثیلی انداز میں بتایا کہ جب ابن آدم آئے گا تو  انسانوں کو تقسیم کر دے گا اور ایک سے کہے گا

Mathew 25:42 – 45

For I was hungry and you gave me no food, I was thirsty and you gave me no drink,
I was a stranger and you did not welcome me, naked and you did not clothe me, sick and in prison and you did not visit me.’
Then they also will answer, saying, ‘Lord, when did we see you hungry or thirsty or a stranger or naked or sick or in prison, and did not minister to you?’
Then he will answer them, saying, ‘Truly, I say to you, as you did not do it to one of the least of these, you did not do it to me.’

میں بھوکا تھا تم نے کھانا نہ دیا میں پیاسا تھا تم نے پانی نہ دیا میں اجنبی تھا تم نے خوش آمدید نہ کہا   میں برہنہ تھا تم نے لباس نہ دیا میں بیمار تھا قیدی تھا تم نے ملاقات نہ کی  اس پر وہ کہیں گے  آے آقا ہم نے اپ کو کب بھوکا اور پیاسا اور اجنبی اور قیدی بیمار پایا؟ ابن آدم کہے گا سچ کہتا ہوں تم نے اس میں سے کوئی بھی بات کم نہ کی اور نہ تم نے اس کو میرے ساتھ کیا

ابو ہریرہ رضی الله عنہ ایک سابقہ عیسائی تھے اغلبا انہوں نے یہ انجیل کے حوالے سے بات کی ہو گی جو ابو رافع سمجھ نہ سکے

روایت سے صوفیوں نے دلیل لی ہے کہ الله تعالی انسانوں کے ساتھ ہی ہے یعنی وحدت الوجود کے نظریہ کے تحت الله تعالی مخلوق میں ہی موجود ہے

انجیل میں یہ حدیث قدسی نہیں ہے بلکہ یہ   قول ابن آدم کا ہے جو اصلا عیسیٰ علیہ السلام کا اس میں استعارہ ہے

اسلامی صوفیت اور عیسائی رہبانیت کے ڈانڈے اس روایت پر مل جاتے ہیں

ہماری مذھبی کتب میں ایک روایت ہے

الْخَلْقُ عِيَالُ اللَّهِ

مخلوق خدا کا کنبہ ہے

مسند ابو یعلی اور مسند بیہقی شعب ایمان

سندا روایت میں  يُوسُفُ بْنُ عَطِيَّةَ الصَّفَّارُ متروك الحديث کی وجہ سے ضعیف ہے  اس کے ایک دوسرے طرق میں موسى بن عمير ہے وہ  بھی متروک ہے سنن سعید بن منصور میں عيال الله کا لفظ ہے لیکن وہاں سند منقطع ہے کیونکہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے

صوفی منش  أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) نے اس کو حلية الأولياء وطبقات الأصفياء میں بیان کیا اور یہ روایت صوفیوں میں پھیل گئی

شعب الإيمان کے مطابق عباسی خلیفہ مامون کے دربار میں اس کو بیان کیا گیا کہ ایک شخص نے دہائی دی

قَالُوا: نا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَوْصِلِيُّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ الْمَأْمُونِ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْخَلْقُ عِيَالُ اللهِ، وَأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ أَنْفَعُهُمْ لِعِيَالِهِ ” قَالَ: فَصَاحَ بِهِ الْمَأْمُونُ: اسْكُتْ، أَنَا أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْكَ

عیسائیوں میں یہ سینٹ پاول کا مقولہ ہے

You are members of God’s family.

Ephesians 2:19

شام و عراق میں نصرانی راہبین جب اسلام میں داخل ہوئے تو اپنے اکابرین کے فرمودات کو بھی ساتھ لے آئے

اور یہی ملغوبہ اسلام میں تصوف کہلایا

حیرت ہے کہ مخلوق خدا کا کنبہ ہے کا جملہ ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
البحر المديد في تفسير القرآن المجيد از أبو العباس أحمد بن محمد بن المهدي (المتوفى: 1224هـ) اس کو تفسیر میں بیان کرتے ہیں
تذكرة الأريب في تفسير الغريب میں ابن جوزی تک اس کو بیان کرتے ہیں جبکہ ان کے نزدیک یہ موضوع روایت ہے
{أن يطعمون} أي أن يطعموا أحدا من خلقي وأضاف الإطعام إليه لأن الخلق عيال الله ومن أطعم عيال الله فقد أطعمه

بغوی تفسیر میں کہتے ہیں
وَإِنَّمَا أَسْنَدَ الْإِطْعَامَ إِلَى نَفْسِهِ، لِأَنَّ الْخَلْقَ عِيَالُ اللَّهِ وَمَنْ أَطْعَمَ عِيَالَ أَحَدٍ فَقَدْ أَطْعَمَهُ

شوکانی فتح القدیر میں کہتے ہیں
وَإِنَّمَا أَسْنَدَ الْإِطْعَامَ إِلَى نَفْسِهِ لِأَنَّ الْخَلْقَ عِيَالُ اللَّهِ

اس طرح صحیح مسلم کی اس روایت کو ایک موضوع روایت سے ملا کر قبول کر لیا جاتا ہے
صوفیوں نے نزدیک یہ دلیل بنتی ہے وحدت الوجود کی اور جھمیوں کے نزدیک رب کی مخلوق کے ساتھ موجودگی کی

[/EXPAND]

[استوی علی العرش پر امام مالک کا قول کیا ہے]

جواب

کتاب  العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها از الذھبی میں روایت ہے

وروى يحيى بن يحيى التَّمِيمِي وجعفر بن عبد الله وَطَائِفَة قَالُوا جَاءَ رجل إِلَى مَالك فَقَالَ يَا أَبَا عبد الله {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} كَيفَ اسْتَوَى قَالَ فَمَا رَأَيْت مَالِكًا وجد من شَيْء كموجدته من مقَالَته وعلاه الرحضاء يَعْنِي الْعرق وأطرق الْقَوْم فَسرِّي عَن مَالك وَقَالَ الكيف غير مَعْقُول والاستواء مِنْهُ غير مَجْهُول وَالْإِيمَان بِهِ وَاجِب وَالسُّؤَال عَنهُ بِدعَة وَإِنِّي أَخَاف أَن تكون ضَالًّا
وَأمر بِهِ فَأخْرج // هَذَا ثَابت عَن مَالك وَتقدم نَحوه عَن ربيعَة شيخ مَالك وَهُوَ قَول أهل السّنة قاطبة أَن كَيْفيَّة الاسْتوَاء لَا نعقلها
بل نجهلها وَأَن استواءه مَعْلُوم كَمَا أخبر فِي كِتَابه وَأَنه كَمَا يَلِيق بِهِ لَا نعمق وَلَا نتحذلق وَلَا نَخُوض فِي لَوَازِم ذَلِك نفيا وَلَا إِثْبَاتًا بل نسكت ونقف كَمَا وقف السّلف

اور  يحيى بن يحيى التَّمِيمِي وجعفر بن عبد الله اور ایک گروہ نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص آیا اور امام مالک سے کہا اے ابو عبد الله الرحمان علی العرش استوی تو استوی کیسا ہے ؟ تو امام مالک کو ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی مقالہ پر اس کا ایسا حال ہو کہ پسینہ آ گیا .. اور کہا کیفیت عقل میں نہیں اتی اور اس  الاستواء پر لا علم نہیں ہیں اور اس پر ایمان واجب ہے اور  اس پر سوال بدعت ہے اور میں سمجھتا ہوں تو گمراہ ہے پس حکم کیا اور وہ چلا گیا

امام الذھبی کہتے ہیں یہ امام مالک سے ثابت ہے اور ایسا ہی قول  ربيعَة ( بن عبد الرحمن ) شيخ مَالك کا گزرا ہے جو أهل السّنة قاطبة  کا قول ہے کہ  الاسْتوَاء کی کیفیت ہماری عقل میں نہیں بلکہ اس پرہمیں جاہل رکھا  (علم نہیں دیا ) گیا  اور الاسْتوَاء معلوم ہے جیسا کہ کتاب الله میں خبر ہے … اس پر ہم خاموش رہیں گے جیسے سلف خاموش رہے

اسی کتاب میں امام الذھبی لکھتے ہیں کہ سلف نے کہا

وَإِنَّمَا جهلوا كَيْفيَّة الاسْتوَاء فَإِنَّهُ لَا يعلم حَقِيقَة كيفيته قَالَ مَالك الإِمَام الاسْتوَاء مَعْلُوم يَعْنِي فِي اللُّغَة والكيف مَجْهُول وَالسُّؤَال عَنهُ بِدعَة

سلف نے الاسْتوَاء کی کیفیت پر لا علمی   کا اظہار کیا کیونکہ وہ اس کی کیفیت کی حقیقت نہیں جانتے امام مالک نے کہا الاسْتوَاء معلوم ہے یعنی لغت سے اور کیفیت مجھول ہے اور سوال اس پر بدعت ہے

اس کے برعکس الوسی تفسیر  روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54 لکھتے ہیں

لاحتمال أن يكون المراد من قوله: غير مجهول أنه ثابت معلوم الثبوت لا أن معناه وهو الاستقرار غير مجهول

 احتمال ہے امام مالک کی مراد قول   الاستواء غیر مجہول سے یہ ہے کہ  الله تعالیٰ کی صفت استوا ثابت معلوم ہے ثبوت سے  نہ کہ  یہ مطلب ہے کہ اس کا معنی ومراد استقرار معلوم ہے جو غیر مجھول ہے

افسوس بعض لوگ مثلا مقاتل بن سلیمان نے  اس کو استقر کہا جس کو آج تک بیان کیا جاتا ہے لہذا المشبہ کا قول ہے کہ الاستواء  غیر مجھول کا مطلب امام مالک کے نزدیک وہی ہے جو عربی لغت میں ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ صفات میں  جو آیا ہے اس کو ظاہر پر لیا جائے گا

یہ مسئلہ اس قدر ہے سن ٢٠٠٠ میں  عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر نے کتاب   الأثر المشهور عن الإمام مالك رحمه الله في صفة الاستواء دراسة تحليلية لکھی جس میں ٦٩ صفحات پر مشتمل کتاب میں صرف اس امام مالک کے قول پر بحث کی

 عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر نے کتاب   الأثر المشهور عن الإمام مالك رحمه الله في صفة الاستواء دراسة تحليلية
میں ص ١٧ پر لکھا

 أنَّ مراد الإمام مالك رحمه الله بقوله: “الاستواء غير مجهول” أي غير مجهول المعنى

امام مالک رحمہ الله کی مراد قول  الاستواء غير مجهول سے یہ ہے کہ معنی میں نہ سمجھنے والا نہیں ہے

یعنی معنا الاستواء معلوم ہے

اسی طرح ص ٢٤ پر کہا

قال هذا رحمه الله، مع أنَّ لفظ الأثر عنده “الاستواء غير مجهول” أي غير مجهول المعنى وهو العلو والارتفاع

ایسا  امام مالک رحمه الله نے کہا ان سے جو اثر ہے اس میں الفاظ  الاستواء غير مجهول ہیں یعنی معنی غیر مجھول ہے  اور معنی ہیں بلند و ارتفاع ہوا

اسی طرح س ١٣ پر عبد الرزاق بن عبد المحسن البدرکہا

مراد الإمام مالك رحمه الله بقوله: “الاستواء غير مجهول” ظاهرٌ بيِّنٌ، حيث قصد رحمه الله أنَّ الاستواء معلوم في لغة العرب

امام مالک رحمه الله کی مراد اس قول الاستواء غير مجهول سے ہے ظاہر واضح ہے جب انہوں نے ارادہ کیا  کہ بے شک  الاستواء معلوم ہے لغت عرب میں

یعنی سلفیوں وہابیوں کے نزدیک امام مالک نے الاستواء کو عربی لغت سے جانا اور اشاعرہ کے علماء کے نزدیک انہوں نے صرف اس کا اقرار کیا کہ اس پر نص ہے معنی کی وضاحت نہ کی کیونکہ معنی کیفیت ہے

التمھید میں ابن عبد البر نے امام مالک کے الفاظ تبدیل کر دیے ہیں ج ٧  ص ١٣٨ پر بلا سند لکھتے ہیں

 فَقَالَ مالك رَحِمَهُ اللَّهُ اسْتِوَاؤُهُ مَعْقُولٌ وَكَيْفِيَّتُهُ مَجْهُولَةٌ وَسُؤَالُكَ عَنْ هَذَا بِدْعَةٌ

پس امام مالک رحمہ الله نے کہا استوی  عقل میں  ہے اور اس کی کیفیت  لا علم ہے اور اس پر سوال بدعت ہے

حالانکہ یہ امام مالک کا قول نہیں جو باقی لوگ بیان کرتے ہیں امام مالک کا قول ہے

 استواء منه غير مجهول

الله کا (عرش پر) استوی پر جاہل (لا علم) نہیں ہیں

امام مالک کا یہ کہنا اس لئے ہے کہ یہ قرآن میں ہے لہذا اس کا علم ہے لیکن کیا یہ انسانی عقل میں ہے ؟ نہیں – لہذا ابن عبد البر کا فہم  اس قول پر صحیح نہیں ہے بلکہ نعمان الوسی کا قول صحیح ہے

راقم کے نزدیک استوی  کا مطلب متشابہ ہے اس کا مطلب علو یا ارتفاع ( بلند ہونا) یا  استولی (سوار ہونا) یا  استقر (رکنا ) نہ کیا جائے بس یہ کہا جائے کہ الله عرش پر مستوی ہے مخلوق سے الگ ہے

[/EXPAND]

[روز محشر الله تعالی محسم ہو کر کسی ایسی صورت میں بھی آئیں گے جس کو مومن پہچانتے ہوں؟]

صحیح بخاری کی حدیث ہے

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا کیا جب بادل نہ ہوں تو تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور فرمائے گا کہ تم میں جو کوئی جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے لگ جائے۔ چنانچہ جو سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے ہو جائے گا، جو چاند کی پوجا کرتا تھا وہ چاند کے پیچھے ہو جائے گا اور جو بتوں کی پوجا کرتا تھا وہ بتوں کے پیچھے لگ جائے گا   پھر یہ امت باقی رہ جائے گی اس میں بڑے درجہ کے شفاعت کرنے والے بھی ہوں گے یا منافق بھی ہوں گے ابراہیم کو ان لفظوں میں شک تھا۔ پھر اللہ ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ جواب دیں گے کہ ہم یہیں رہیں گے۔ یہاں تک کہ ہمارا رب آ جائے، جب ہمارا رب آ جائے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ اقرار کریں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔ چنانچہ وہ اس کے پیچھے ہو جائیں گے اور دوزخ کی پیٹھ پر پل صراط نصب کر دیا جائے گا اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کرنے والے ہوں گے اور اس دن صرف انبیاء بات کر سکیں گے اور انبیاء کی زبان پر یہ ہو گا۔ اے اللہ! مجھ کو محفوظ رکھ، مجھ کو محفوظ رکھ۔ اور دوزخ میں درخت سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سعدان کے کانٹوں ہی کی طرح ہوں گے البتہ وہ اتنے بڑے ہوں گے کہ اس کا طول و عرض اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہ ہو گا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے بدلے میں اچک لیں گے تو ان میں سے کچھ وہ ہوں گے جو تباہ ہونے والے ہوں گے اور اپنے عمل بد کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر جائیں گے یا اپنے عمل کے ساتھ بندھے ہوں گے اور ان میں بعض ٹکڑے کر دئیے جائیں گے یا بدلہ دئیے جائیں گے یا اسی جیسے الفاظ بیان کئے۔ پھر اللہ تعالیٰ تجلی فرمائے گا اور جب بندوں کے درمیان فیصلہ کر کے فارغ ہو گا اور دوزخیوں میں سے جسے اپنی رحمت سے باہر نکالنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے انہیں دوزخ سے باہر نکالیں، یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرنا چاہے گا۔ ان میں سے جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کیا تھا۔ چنانچہ فرشتے انہیں سجدوں کے نشان سے دوزخ میں پہچانیں گے۔ دوزخ ابن آدم کا ہر عضو جلا کر بھسم کر دے گی سوا سجدہ کے نشان کے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو جلائے (یا اللہ! ہم گنہگاروں کو دوزخ سے محفوظ رکھیو ہم کو تیری رحمت سے یہی امید ہے) چنانچہ یہ لوگ دوزخ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ یہ جل بھن چکے ہوں گے۔ پھر ان پر آب حیات ڈالا جائے گا اور یہ اس کے نیچے سے اس طرح اگ کر نکلیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ اگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ سے فارغ ہو گا۔ ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ دوزخ کی طرف ہو گا، وہ ان دوزخیوں میں سب سے آخری انسان ہو گا جسے جنت میں داخل ہونا ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! میرا منہ دوزخ سے پھیر دے کیونکہ مجھے اس کی گرم ہوا نے پریشان کر رکھا ہے اور اس کی تیزی نے جھلسا ڈالا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے وہ اس وقت تک دعا کرتا رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں گا تو تو مجھ سے کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگوں گا اور وہ شخص اللہ رب العزت سے بڑے عہد و پیمان کرے گا۔ چنانچہ اللہ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھے گا تو اتنی دیر خاموش رہے گا جتنی دیر اللہ تعالیٰ اسے خاموش رہنے دینا چاہے گا۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! مجھے صرف جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے دیا ہے اس کے سوا اور کچھ کبھی تو نہیں مانگے گا؟ افسوس ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! اور اللہ سے دعا کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو اس کے سوا کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا اور جتنے اللہ چاہے گا وہ شخص وعدہ کرے گا۔ چنانچہ اسے جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ پھر جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا تو جنت اسے سامنے نظر آئے گی اور دیکھے گا کہ اس کے اندر کس قدر خیریت اور مسرت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جتنی دیر چاہے گا وہ شخص خاموش رہے گا۔  پھر کہے گا: اے رب! مجھے جنت میں پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے تجھے دے دیا ہے اس کے سوا تو اور کچھ نہیں مانگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا افسوس! ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے بڑھ کر بدبخت نہ بنا۔ چنانچہ وہ مسلسل دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں پر ہنس دے گا، جب ہنس دے گا تو اس کے متعلق کہے گا کہ اسے جنت میں داخل کر دو۔ جنت میں اسے داخل کر دے گا تو اس سے فرمائے گا کہ اپنی آرزوئیں بیان کر، وہ اپنی تمام آرزوئیں بیان کر دے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا۔ وہ کہے گا کہ فلاں چیز، فلاں چیز، یہاں تک کہ اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ آرزوئیں اور انہی جیسی تمہیں ملیں گی

جواب

اس روایت میں الفاظ ایسے ہیں جو رب العالمین کی تجسیم کی طرف مائل ہیں

الله تعالی روز محشر اپنے عرش پر ہوں گے جیسا قرآن میں ہے اور اس کا اس عرش کو چھوڑ کر مجسم ہو کر انسانوں کے پاس آنا  کیسے ہو گا ؟ جبکہ تمام انسانیت اس وقت الله کے آگے سر جھکانے کھڑی ہو گی اور کوئی آواز نہ ہو گی سوائے رب العالمین کے کلام کے

یہ روایت دو طرق سے اتی ہے

إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ کی سند

إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف المتوفی ١٨٤ ھ یا  ١٨٥ ھ

امام المحدثین يحيى بن سعيد القطان اس راوی کے سخت خلاف ہیں

امام احمد کے بیٹے العلل میں بتاتے ہیں کہ

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: ذكرنا عند يحيى بن سعيد حديثا من حديث عقيل. فقال لي يحيى: يا أبا عبد الله، عقيل وإبراهيم بن سعد!! عقيل وإبراهيم بن سعد!! كأنه يضعفهما. قال أبي: وأي شيء ينفعه من ذا، هؤلاء ثقات، لم يخبرهما يحي. «العلل» (282 و2475 و3422) .

میرے باپ نے ذکر کیا کہ یحیی کے سامنے عقیل کی  حدیث کا ہم نے ذکر کیا انہوں نے کہا اے ابو عبد الله عقیل اور ابراہیم بن سعد، عقیل اور ابراہیم بن سعد  جیسا کہ وہ تضعیف کر رہے ہوں

کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مطابق

كَانَ وَكِيْعٌ كَفَّ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنْهُ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْهُ.

وَكِيْعٌ اس کی روایت سے رکے رہے پھر روایت کرنا شروع کر دیا

اس کے برعکس امام عقیلی کہتے ہیں بحوالہ إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي

ذكره العقيلي في كتاب ” الجرح والتعديل ” قال: قال عبد الله بن أحمد بن حنبل قال أبي: حدثنا وكيع مرة عن إبراهيم بن سعد، ثم قال: أجيزوا عليه وتركه بأخرة.

عقیلی نے اس کا ذکر کتاب الجرح والتعديل میں کیا اور کہا کہ عبد الله نے کہا کہ امام احمد نے کہا وكيع نے ایک بار ابراہیم سے روایت کیا پھر کہا اور  … آخر میں بالکل ترک کر دیا

قَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ: سَمَاعُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ لَيْسَ بِذَاكَ، لأَنَّهُ كَانَ صَغِيْراً.

صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ نے کہا اس کا سماع امام الزہری ویسا (اچھا نہیں) ہے  کیونکہ یہ چھوٹا تھا

تاریخ الاسلام میں الذھبی نے جزرہ کا قول پیش کیا کہ كَانَ صغيرا حين سمع من الزهري انہوں نے بچپنے میں الزہری سے سنا

  کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال  از  مغلطاي  کے مطابق  أبي عبد الرحمن السلمي نے کہا

قدم إبراهيم العراق سنة أربع وثمانين ومائة، فأكرمه الرشيد وأظهر بره، وتوفي في هذه السنة، وله خمس وسبعون سنة.

ابراہیم عراق سن ١٨٤ ھ میں پہنچے ان کی الرشید نے عزت افزائی کی اور اسی سال انتقال ہوا اور یہ ٧٥ سال کے تھے

اس دور میں عراقیوں نے ان سے روایات لیں جن پر امام یحیی بن سعید القطان اور امام  وکیع کو اعتراض تھا اور انہوں نے ان کو ترک کیا لیکن امام احمد امام ابن معین نے ان کی روایات لے لیں اور اسی طرح امام بخاری و مسلم کے شیوخ نے بھی لے لیں

صحیح بخاری : حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ:

 نوٹ  شيخ البخاري ضعفه أبو داود  ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق

یہ روایت ابو داود کے نزدیک ضعیف ہے کیونکہ اس میں امام بخاری کے شیخ عبد العزيز بن عبد الله الأويسي کی انہوں نے تضعیف کی ہے تاریخ الاسلام میں الذھبی نے کہا ہے کہ ابو داود نے ان کو ثقہ کہا ہے لیکن میزان میں اس قول کو پیش کر کے لکھتے ہیں

وثقه أبو داود، وروى عن رجل عنه، ثم وجدت أنى أخرجته في المغنى وقلت: قال أبو داود: ضعيف، ثم وجدت في سؤالات أبي عبيد الله الآجرى لأبي داود: عبد العزيز الاويسى ضعيف.

ان کو ابو داود نے ثقہ قرار دیا اور ایک شخص سے ان سے روایت لی پھر میں نے پایا کہ میں نے تو ان کا ذکر المغنی (ضعیف راویوں پر کتاب) میں کیا ہے اور کہا ہے ابو داود نے کہا ضعیف ہے پھر میں نے سوالات ابی عبید میں پایا کہ ابوداود نے  عبد العزيز الاويسى کو ضعیف قرار دیا

یعنی الذھبی کے نزدیک ابو داود کی تضعیف والا قول صحیح ہے

صحیح مسلم : حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ

مسند احمد : حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَبُو كَامِل (مظفر بن مدرك الخراساني)ٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، الْمَعْنَى

ان تینوں کتابوں میں سند میں ابراہیم بن سعد ہے

أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ کی سند

کتب حدیث میں اس روایت کا دوسرا طرق بھی ہے  جس کی سند میں أبو اليمان الحكم بن نافع البهرانى الحمصى   جو شُعَيْبِ بنِ أَبِي حَمْزَةَ  سے روایت کر رہے ہیں  جن کے لئے الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ: عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، قَالَ: لَمْ يَسْمَعْ أَبُو اليَمَانِ مِنْ شُعَيْبٍ إِلاَّ حَدِيْثاً وَاحِداً، وَالبَاقِي إِجَازَةً

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ نے أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ سے روایت کیا انہوں نے کہا ابو اليَمَانِ نے شُعَيْبٍ سے صرف ایک ہی حدیث روایت کی اور باقی اجازہ ہے

   تهذيب الكمال کے مطابق احمد کہتے ہیں

فَكَانَ وَلَدُ شُعَيْبٍ يَقُوْلُ: إِنَّ أَبَا اليَمَانِ جَاءنِي، فَأَخَذَ كُتُبَ شُعَيْبٍ مِنِّي بَعْدُ، وَهُوَ يَقُوْلُ: أَخْبَرَنَا.  فَكَأَنَّهُ اسْتَحَلَّ ذَلِكَ، بِأَنْ سَمِعَ شُعَيْباً يَقُوْلُ لِقَوْمٍ: ارْوُوْهُ عَنِّي.

قَالَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ: سَمِعْتُ أَبَا اليَمَانِ يَقُوْلُ: قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: كَيْفَ سَمِعْتَ الكُتُبَ مِنْ شُعَيْبٍ؟ قُلْتُ: قَرَأْتُ عَلَيْهِ بَعْضَهُ، وَبَعْضُهُ قَرَأَهُ عَلَيَّ، وَبَعْضُهُ أَجَازَ لِي، وَبَعْضُهُ مُنَاوَلَةً. قَالَ: فَقَالَ فِي كُلِّهِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ

شُعَيْبٍ کے بیٹے کہتے تھے کہ أَبَا اليَمَانِ میرے پاس آیا اور مجھ سے والد کی کتب لیں اور کہنے لگا اخبرنا!  پس اس نے اس کو جائز سمجھا اور میرے والد ایک قوم سے کہتے یہ مجھ سے روایت (کیسے)  کرتا ہے

إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ نے کہا میں نے أَبَا اليَمَانِ کو کہتے سنا وہ کہتے مجھ سے امام احمد نے کہا تم شُعَيْبٍ سے کتاب کیسے سنتے ہو ؟ میں نے کہا بعض میں اس پر پڑھتا ہوں اور بعض وہ مجھ کو سناتا ہے اور بعض کی اس نے اجازت دی اور بعض کا مناولہ کہا میں نے  اس سب پر کہا اخبرنا شُعَيْبٌ

یعنی أَبَا اليَمَانِ الحكم بن نافع اس کا کھلم کھلا اقرار کرتے تھے کہ ہر بات جس پر وہ اخبرنا شُعَيْبٌ کہتے ہیں اس میں سے ہر حدیث ان کی سنی ہوئی نہیں ہے

الإيمان لابن منده : أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ يُوسُفَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ أَبُو بَكْرٍ الصَّاغَانِيُّ، ح وَأَنْبَأَ أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ أَيُّوبَ بْنِ حَذْلَمٍ، ثَنَا أَبُو زُرْعَةَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرِو بْنِ صَفْوَانَ، قَالَا: ثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، ثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ

كتاب التوحيد ا بن خزيمة: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

مسند الشاميين الطبراني : حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عِيسَى بْنِ الْمُنْذِرِ، وَأَبُو زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَا: ثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ،

ان تین کتابوں میں سند میں  أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ہے

اسطرح یہ دونوں طرق ضعیف اور نا قابل دلیل ہیں متن خود ایک معمہ ہے

[/EXPAND]

[کیا الله تعالی کو نور کہہ سکتے ہیں  کیا نور صفت ہے ؟]

جواب

الله کو نور کہنا گمراہی ہے
سوره الانعام کی پہلی آیت ہے کہ نور اور ظلمات کو خلق کیا

اور سوره النور میں ہی
الله زمین و آسمانوں کا نور ہے اس نور کی مثال ہے … پھر ایک تفصیل ہے کہ یہ نور زیتون کے پاک تیل سے جل رہا ہے جو تیل نہ شرقی ہے نہ غربی پھر کہا یہ نور ان گھروں میں موجود ہے جہاں الله کا ذکر ہوتا ہے

اسطرح مثال سے سمجھایا گیا کہ الله کا نور اس آیت میں نور ہدایت ہے

قرآن میں ہے

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا

زمین تمھارے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی

یہاں پر اس کو الله سے نسبت دی گئی ہے جس طرح آیات نفخت فیہ میں روحی میں روح کی نسبت الله کی طرف  ہے

المشبه اس کے بر خلاف الله کو ایک نور قرار دیتے ہیں

ابن باز  سے “نور الدائم ” نام رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:

“نورالدائم” سے مراد اگر اللہ ہے ؛ کیونکہ ہمیشہ صرف اللہ ہی ہے ،تو ایسا نام تبدیل کر دینا چاہیے تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ اس سے وہ نور مراد ہے جو اللہ کی صفت ہے ؛کیونکہ نور کی دو قسمیں ہیں:

1- وہ نور جو اللہ تعالی کی صفت ہے ،تو یہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے ۔

2- نور سے مراد روشنیاں ہیں جو مخلوق ہیں جیسے سورج ،چاند وغیرہ یہ روشنی (کے ذرائع) مخلوق ہیں ۔اور اسلام کا نور بھی مخلوق نور میں شامل ہے۔
چنانچہ اسے چاہیے کہ ایسا نام تبدیل کر دے تاکہ (اللہ کی صفت کا)وہم نہ ہو ” انتہی

راقم کہتا ہے  ایسا نام جو الله نے نہ رکھا ہو اس کو الله کا نام کہنا الحاد ہے

[/EXPAND]

[الله کے ٩٩ نام کس طرح بنتے ہیں ؟]

جواب

جو ٩٩ اسماء ہیں إن مين ٨٢ قرآن سے لئے گئے ہیں باقی بھی قرآن سے ہیں لیکن استخراجی ہیں
مثلا
الباسط قرآن میں نہیں ہے قرآن میں ہے
أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

اس سے الباسط کا استخراج کیا گیا ہے

الشافی قرآن میں نہیں لیکن قرآن کے مطابق الله شفا دیتا ہے لہذا اس کو الله کا نام کہا گیا ہے

القابض الله کا استخراجی نام ہے اس کا ذکر قرآن میں ہے
وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ
زمین تمام اس کے قبضہ میں ہو گی
اسی طرح جب مالک الملک تمام آسمانوں کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ کر دکھائے گا کہ وہی قدرت والا ہے

الله احسان کرتا ہے لہذا المحسن ہے لیکن یہ نام قرآن میں نہیں ہے اس پر ایک ضعیف حدیث ہے لہذا یہ بھی استخراجی نام ہے
اسی طرح المنان یعنی احسان کرنے والا نام رکھا گیا ہے

الرفیق حدیث میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا آخری کلام تھا اے الله تو رفیق الاعلی ہے

اور بھی کچھ نام ہیں جو حدیث میں ہیں اسطرح ٩٩ نام بنتے ہیں

[/EXPAND]

[روایت پر عَادَى لِي وَلِيًّا سوال ہے کہ کیا یہ کسی محدث کے نزدیک ضعیف ہے ؟]

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ:‏‏‏‏ “مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ“.

مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔

جواب

الذھبی خالد بن مخلد کے ترجمہ میں میزان میں کہتے ہیں

هذا حديث غريب جداً لولا هيبة الجامع الصحيح لعدوه في منكرات خالد بن مخلد وذلك لغرابة لفظه، ولأنه مما ينفرد به شريك، وليس بالحافظ، ولم يرو هذا المتن إلا بهذا الإسناد

یہ حدیث بہت غریب ہے اور اگر جامع الصحیح کی ہیبت نہ ہوتی تو اس روایت کو خالد بن مخلد کی منکرات میں شمار کیا جاتا اور اس روایت  میں الفاظ کی غرابت ہے اور یہ کہ اس میں شریک کا تفرد ہے اور وہ حافظ نہیں ہے اور اس متن کو اس سند سے کوئی اور روایت نہیں کرتا

[/EXPAND]

[هَرْوَلَةً کیا صفت باری تعالی ہے ؟]

صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله تعالی کہتا ہے میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں بھی اس کو یاد کرتا ہوں جب وہ مجمع میں میرا ذکر کرتا ہے میں اس سے بہتر مجمع میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ برابر قریب اتا ہے میں بھی اس سے بازو کے پھیلاو برابر قریب اتا ہوں اور اگر وہ چلتا آئے تو میں ڈگ بھرتا اتا ہوں

جواب

یہ مجاز ہے – زبان و ادب میں قربت کے لئے ان کا استمعال کیا جاتا ہے

نووی کہتے ہیں

 أتيته هرولة، أي: صببت عليه الرحمة وسبقته بها ولم أحوجه إلى المشي الكثير في الوصول إلى المقصود

میں ڈگ بھرتا اتا ہوں یعنی اس پر رحمت ڈالتا ہوں اور اس میں سبقت کرتا ہوں اور اس میں بہت چلنے کی ضرورت نہیں مقصود کو وصول کرنے کے لئے

یعنی الله تعالی تو قادر ہیں عرش پر ہی سے فیصلہ کر دیں گے

کتاب   الأسماء والصفات ل میں البیہقی لکھتے ہیں

إِنَّ قُرْبَ الْبَارِي مِنْ خَلْقِهِ بِقُرْبِهِمْ إِلَيْهِ بِالْخُرُوجِ فِيمَا أَوْجَبَهُ عَلَيْهِمْ، وَهَكَذَا الْقَوْلُ فِي الْهَرْوَلَةِ، إِنَّمَا يُخْبِرُ عَنْ سُرْعَةِ الْقَبُولِ وَحَقِيقَةِ الْإِقْبَالِ وَدَرَجَةِ الْوُصُولِ

الْهَرْوَلَةِ ایسا ہی قول ہے کہ قبولیت کی سرعت ہے اور حقیقیت اقبال ہے اور وصول کا درجہ ہے

یعنی بیہقی نے بھی اس کو مجاز مانا ہے

لیکن بہت سے لوگوں نے اس سے صفت فعلی مراد لی ہے جو صحیح نہیں ہے

محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى : 1421هـ) سے سوال ہوا کہ سئل فضيلة الشيخ: عن صفة الهرولة؟  کیا الله کی صفت  یعنی تیز چلنا ہے؟

جواب دیا

صفة الهرولة ثابتة لله تعالى كما في الحديث الصحيح الذي رواه البخاري ومسلم عن أبي هريرة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: «يقول: الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي» فذكر الحديث، وفيه: «وإن أتاني يمشي أتيته هرولة» ، وهذه الهرولة صفة من صفات أفعاله التي يجب علينا الإيمان بها من غير تكييف ولا تمثيل

تیز چلنا الله کی صفت ثابت ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے جس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله نے کہا میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں پس حدیث ذکر کی جس میں ہے اور وہ میرے پاس چلتا ہوا اتا ہے تو میں ڈگ بھر کر اتا ہوں اور یہ ڈگ بھرنا صفات میں سے ایک فعلی صفت ہے جس پر ہمیں بغیر کیفیت اور تمثیل کے ایمان رکھنا چاہیے

کتاب بحر الفوائد المشهور بمعاني الأخبار میں أبو بكر محمد بن أبي إسحاق بن إبراهيم بن يعقوب الكلاباذي البخاري الحنفي (المتوفى: 380هـ) وضاحت کرتے ہیں

وَالَّذِي اقْتَرَبَ مِنِّي ذِرَاعًا بِالْإِخْلَاصِ هُوَ الَّذِي أقْتَرِبُ مِنْهُ بَاعًا بِالْجَذْبِ، وَمَنْ أَتَانِي مُشَاهِدًا لِي هُوَ الَّذِي هَرْوَلْتُ إِلَيْهِ بِرَفْعِ أَسْتَارِ الْغُيُوبِ بَيْنِي وَبَيْنَهُ

اور جو میری قربت ایک بازو کے پھیلاو برابر لیتا ہے اخلاص سے …. جو تو اس کی طرف ھرولہ کرتا ہوں کہ اپنے اور اس کے درمیان سے غیوب کو ہٹا دیتا ہوں

یعنی محدث کلابازی نے اس کی تاویل کی اور مجاز کہا نہ کہ ظاہر مفھوم لیا

[/EXPAND]

[ابن بطوطہ کا امام ابن تیمیہ کے متعلق قول ہے کہ وہ الله کی  تجسیم کے قائل تھے ؟]

ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتاہے

جب میں دمشق کی جا مع مسجد میں تھا تو ابن تیمہ نے منبر پہ کہا

ان اللہ ینزل الی السماء الدنیا کنزولی ھذا
خداعالم دنیا کی طرف ایسے ہی اتر تا ہے جیسے میں اتر رہا ہو ں اور پھر منبر سے ایک زینہ نیچے اترا ۔
مالکی فقیہ ابن الزہراء نے اس پر اعتراض کیا اور اس کے عقائد کو ملک ناصر تک پہنچایا ۔اس نے اسے زندان میں ڈالنے کا حکم صادر کیا اور وہ زندان میں ہی مرگیا ۔

کیا اس میں حقیقت ہے

جواب

کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ابن بطوطہ کا جھوٹ ہے کیونکہ جس دور میں وہ دمشق پہنچا اس دور میں ابن تیمیہ وہاں نہیں تھا
لیکن یہ بات درست ہے کہ نزول والی حدیث کو ابن تیمیہ ظاہر مانتے تھے اور اللہ کو ایک جسم سمجھتے
تھے جس کے ہاتھ پیر سر بال وغیرہ ہیں یہاں تک کہ سر پر تاج اور منہ بغیر داڑھی مونچھ کہتے تھے اس پر بہت تفصیل سے ہم نے لکھا ہے

پہلے یہ غور سے پڑھیں
https://www.islamic-belief.net/4969-2/

اس کے بعد
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/

اس کے بعد اپ پر آشکار ہو جائے گا کہ نزول کو ابن تیمیہ گروپ حقیقی مانتا ہے

کتاب الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة از ابن حجر کے مطابق

وَأطلق ابْن تَيْمِية إِلَى الشَّام وافترق النَّاس فِيهِ شيعًا فَمنهمْ من نسبه إِلَى التجسيم لما ذكر فِي العقيدة الحموية والواسطية وَغَيرهمَا من ذَلِك كَقَوْلِه أَن الْيَد والقدم والساق وَالْوَجْه صِفَات حَقِيقِيَّة لله وَأَنه مستوٍ على الْعَرْش بِذَاتِهِ فَقيل لَهُ يلْزم من ذَلِك التحيز والانقسام فَقَالَ أَنا لَا أسلم أَن التحيز والانقسام من خَواص الْأَجْسَام فألزم بِأَنَّهُ يَقُول بتحيز فِي ذَات الله

ابن تیمیہ شام کے لئے نکلے اور لوگ ان کے بارے میں بٹ گئے ایک گروہ نے ان کی نسبت تجسیم والوں سے کی جب العقيدة الحموية والواسطية وغیرہ کا ذکر ہوا جس میں ابن تیمیہ کا قول (الله تعالی کے حوالے سے) ہاتھ اور قدم اور پنڈلی اور چہرے پر ہے کہ یہ حقیقی صفات ہیں الله کی اور وہ بذات عرش پر مستوی ہے پس ان سے کہا گیا اس سے (ذات الہی کا) التحيز والانقسام (مخلوق جیسا ہونا) لازم اتا ہے تو ابن تیمیہ نے کہا میں التحيز والانقسام کو اجسام کی خصوصیت نہیں مانتا، پس الزام لگا کہ وہ تحيز کہتے ہیں الله کی ذات کے لئے

یعنی ابن تیمیہ تجسیم کے قائل تھے یہ ان کے دور میں اہل شام میں مشھور ہو چکا تھا جس کے وہ انکاری بھی نہیں تھے بلکہ اس کو انہوں نے اپنی کتابوں میں کھل کر لکھا ہے

ابن تیمیہ مخالف کا رد کرتے کرتے بے تکی ہانکنے لگ جاتے تھے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں ایسے الفاظ لکھتے ہیں جو الله تعالی کے عالی شان و مرتبہ کے سخت خلاف ہے لکھتے ہیں

ولو قد شاء لاستقر على ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات والأرض
اور اگر الله چاہے تو وہ مچھر کے اوپر سوار ہو جائے اپنی قدرت سے اور ربوبیت کی لطف سے تو کیسے وہ نہ ہو عرش عظیم پر جو آسمانوں اور زمین سے بھی بڑا ہے

استقل کہتے ہیں سوار ہونے کو
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-en/استقل/

[/EXPAND]

[کیا عرش و کرسی کے مقابلے پر سات آسمان و زمین صحراء میں انگوٹھی کی مانند ہیں ؟]

جواب

اس طرح کا ایک قول مجاہد کا ہے

حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «مَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ فِي الْكُرْسِيِّ، إِلَّا بِمَنْزِلَةِ حَلْقَةٍ مُلْقَاةٍ فِي أَرْضٍ فَلَاةٍ»
الکرسی کے مقابلے پر ، سات آسمان و زمین ایک حلقہ کی مانند ہیں جو ایک صحراء میں پڑا ہو

کتاب اسماء و صفات بیہقی میں ہے
أَنْبَأَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، إِجَازَةً، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أنا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ بْنِ عَامِرٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هِشَامِ بْنِ يَحْيَى بْنِ يَحْيَى الْغَسَّانِيُّ، ثنا أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّمَا أُنْزِلَ عَلَيْكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «آيَةُ الْكُرْسِيِّ» ، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا السَّمَاوَاتُ [ص:301] السَّبْعُ مَعَ الْكُرْسِيِّ إِلَّا كَحَلْقَةٍ مُلْقَاةٍ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، وَفَضَلُ الْعَرْشِ عَلَى الْكُرْسِيِّ كَفَضْلِ الْفَلَاةِ عَلَى الْحَلْقَةِ»

ابو ذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آیت الکرسی پھر کہا اے ابو ذر سات آسمان کرسی کے ساتھ ایک حلقہ کی طرح ہے جو صحراء میں ہو اور عرش کی فضیلت کرسی پر ایسی ہے جیسے صحراء کی فضیلت حلقہ پر

اس روایت میں عرش کو اس قدر وسیع قرار دیا گیا ہے کہ گویا سات آسمان اس کے مقابلے پر کچھ بھی نہیں یہ جھمیوں کا عقیدہ تھا

اس کی سند میں إبراهيم بن هشام بن يحيى بن يحيى الغساني ہے جس کو کذاب کہا گیا ہے اور اس روایت کو یہ ابو ذر رضی الله عنہ سے بیان کرتا ہے
میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے
قال أبو حاتم: فأظنه لم يطلب العلم.
وهو كذاب.
قال عبد الرحمن بن أبي حاتم: فذكرت بعض هذا لعلي بن الحسين بن الجنيد، فقال: صدق أبو حاتم، ينبغي ألا يحدث عنه.
وقال ابن الجوزي: قال أبو زرعة: كذاب.

کتاب العظمة از ابی شیخ اور بیہقی نے اس کی ایک اور سند دی ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْفَضْلِ السَّامِرِيُّ بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ الْعَبْدِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ السَّعْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، ثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. قَالَ فِيهِ: قُلْتُ: فَأَيُّ آيَةٍ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ: «آيَةُ الْكُرْسِيِّ» ثُمَّ قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ «يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا السَّمَاوَاتُ [ص:300] السَّبْعُ فِي الْكُرْسِيِّ إِلَّا كَحَلْقَةٍ مُلْقَاةٍ فِي أَرْضِ فَلَاةٍ، وَفَضَلُ الْعَرْشِ عَلَى الْكُرْسِيِّ كَفَضْلِ الْفَلَاةِ عَلَى تِلْكَ الْحَلْقَةِ» . تَفَرَّدَ بِهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ السَّعْدِيُّ وَلَهُ شَاهِدٌ بِإِسْنَادٍ أَصَحَّ

اس سند میں يحيى بن سعيد القرشي العبشمى السعدي ہے
میزان از الذہبی کے مطابق
عن ابن جريج، عن عطاء، عن عبيد بن عمير، عن أبي ذر بحديثه الطويل.
قال العقيلي: لا يتابع علية.
وقال ابن حبان: يروي المقلوبات والملزقات.
لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد.
یہ راوی بھی سخت ضعیف ہے

بیہقی نے کہا ہے کہ اس کا ایک شاہد صحیح ہے
وَلَهُ شَاهِدٌ بِإِسْنَادٍ أَصَحَّ
لیکن یہ وہ سند ہے جس میں إِبْرَاهِيمُ بْنُ هِشَامِ بْنِ يَحْيَى بْنِ يَحْيَى الْغَسَّانِيُّ کذاب ہے

نامعلوم بیہقی نے اس کو صحیح کیسے کہہ دیا -اسی طرح البانی نے صححه الألباني في تَخْرِيجِ الطَّحَاوِيَّة اور الصحیحہ ١٠٩ میں اس کو صحیح قرار دے دیا ہے
البانی نے تفسیر طبری کی ایک سند کو کہا ہے کہ اس میں ثقات ہیں
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد في قوله:”وسع كرسيه السموات والأرض” قال ابن زيد: فحدثني أبي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:”ما السموات السبع في الكرسي إلا كدراهم سبعة ألقيت في ترس= قال: وقال أبو ذر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما الكرسي في العرش إلا كحلقة من حديد ألقيت بين ظهري فلاة من الأرض (

البانی صحیحہ میں کہتے ہیں
قلت وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات. لكني أظن أنه منقطع، فإن ابن زيد هو عمر
ابن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر بن الخطاب وهو ثقة من رجال الشيخين يروي
عنه ابن وهب وغيره. وأبوه محمد بن زيد ثقة مثله، روى عن العبادلة الأربعة
جده عبد الله وابن عمرو وابن عباس وابن الزبير وسعيد بن زيد بن عمرو، فإن
هؤلاء ماتوا بعد الخمسين، وأما أبو ذر ففي سنة اثنتين وثلاثين فما أظنه سمع
منه.
میں کہتا ہوں اس کی سند میں ثقات ہیں لیکن میرا گمان ہے یہ منقطع ہے

حیرت یہ ہے کہ ایک طرف تو البانی کو کوئی صحیح سند ملی نہیں ایک جو ثقات سے ملی اس کو انہوں نے خود منقطع قرار دیا اور پھر بھی اس روایت کو صحیحہ میں شامل کیا
یہ کون سا علم حدیث کا اصول ہے کہ منقطع السند روایت کو صحیح سمجھا جائے جبکہ کسی صحیح سند سے یہ متن معلوم تک نہ ہو ؟ یہ البانی صاحب کا حال ہے
راقم کہتا ہے البانی کا قول بے سروپا ہے سند منقطع ہے تو روایت ثابت نہیں ہو سکتی

الغرض مسند روایت موضوع یا ضعیف ہے- سند مقطوع مجاہد پر صحیح ہے

راقم کہتا ہے مجاہد کے تفسیری اقوال ضروری نہیں کہ صحیح ہوں لہذا اس قول سے دلیل نہ لی جائے

[/EXPAND]

[امام دارمی کہتے تھے کہ الله چاہے تو مچھر پر سوار ہو جائے؟]

امام دارمی ( المتوفی 255ھ ) جن کی سنن دارمی بہت مہشور ہے- وہ اپنی کتاب نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي العنيد فيما افترى على الله عز وجل من التوحيد میں یوں فرماتے

ہیںوَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّهُمْ حِينَ حَمَلُوا الْعَرْشَ وَفَوْقَهُ الْجَبَّارُ فِي عِزَّتِهِ، وَبَهَائِهِ ضَعُفُوا عَنْ حَمْلِهِ وَاسْتَكَانُوا، وَجَثَوْا عَلَى رُكَبِهِمْ، حَتَّى لُقِّنُوا “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ”1 فَاسْتَقَلُّوا بِهِ بِقُدْرَةِ اللَّهِ وَإِرَادَتِهِ. لَوْلَا ذَلِكَ مَا اسْتَقَلَّ بِهِ الْعَرْشُ، وَلَا الْحَمَلَةُ، وَلَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ2 وَلَا مَنْ فِيهِنَّ. وَلَوْ قَدْ شَاءَ لَاسْتَقَرَّ عَلَى ظَهْرِ بَعُوضَةٍ فَاسْتَقَلَّتْ بِهِ بِقُدْرَتِهِ وَلُطْفِ رُبُوبِيَّتِهِ، فَكَيْفَ عَلَى عَرْشٍ عَظِيمٍ أَكْبَرَ مِنَ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَالْأَرَضِينَ السَّبْعِ

جواب

دارمی نام کے دو شخص ہیں

الكتاب: نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي العنيد فيما افترى على الله عز وجل من التوحيد
المؤلف: أبو سعيد عثمان بن سعيد بن خالد بن سعيد الدارمي السجستاني (المتوفى: 280هـ)

مسند الدارمي المعروف بـ (سنن الدارمي)
المؤلف: أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن بن الفضل بن بَهرام بن عبد الصمد الدارمي، التميمي السمرقندي (المتوفى: 255هـ)

لہذا سنن والے الگ ہیں

اقتباس کا ترجمہ ہے
ہم تک یہ پہنچا ہے کہ فرشتوں نے عرش کو اٹھایا جب الله تعالی اس پر تھے اپنے جلال کے ساتھ تو وہ اٹھانے میں کمزور پڑ گئے اور فرشتوں نے آرام کیا (رک گئے) اور اپنے گھٹنوں پر مڑ گئے یہاں تک کہ کہا کوئی قوت نہیں سوائے الله کے تو انہوں نے اس عرش کو اٹھایا الله کی قوت سے اور اس کی مرضی سے اور اگر الله کی مرضی نہ ہوتی تو فرشتوں کے لئے یہ ممکن نہ تھا نہ آسمان کے لئے نہ زمین کے لئے ان وہ جو ان دونوں میں ہیں ان کے لئے کہ وہ عرش کو اٹھا پاتے- اور الله اگر چاہے تو وہ مچھر کے اوپر سوار ہو جائے اور وہ الله تعالی کو اٹھا کر جہاں چاہتا جاتا اس کے حکم سے- تو پھر اب عرش عظیم کا کیا کہنا جو سات آسمان سے بھی بڑا ہے

عثمان بن سعید نے وہ کام کیا جس کے وہ اہل نہیں تھے اور جھمیوں کے رد میں کتاب لکھی جس میں آوٹ پٹانگ باتیں کی ہیں جن میں سے یہ بھی ہیں اور جا بجا ضعیف و منکر روایات سے استدلال قائم کیا ہے جن کو پڑھ کر افسوس ہوتا ہے کہ آج اس شخص کو سلفیوں نے اس مکتب کا امام بنا دیا ہے جبکہ اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اس مسئلہ میں کلام کر سکے

[/EXPAND]

[رب تعالی کی تین مٹھیوں میں ستر ہزار امتی والی روایت کیسی ہے ؟]

جواب
اغلبا اپ کی مراد ابن ماجہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «وَعَدَنِي رَبِّي سُبْحَانَهُ أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا، لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ، وَلَا عَذَابَ، مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا، وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ»

ابو امامہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میرے رب پاک نے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار جنت میں داخل کرے گا نہ حساب ہو گا نہ عذاب ، میرے رب کی تین مٹھیاں

اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں

اس کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ ہے جو ثقہ ہیں لیکن اس روایت کو هشام بن عَمَّار المقري نے بیان کیا ہے جو اختلاط کا شکار ہوئے یہاں تک کہ ابو داود کہتے ہیں ٤٠٠ احادیث بیان کیں جن کا اصل نہیں ہے
قال أبو داود وحدث بأرجح من أربعمائة حديث لا أصل لها

لہذا اس سند کو صحیح نہیں کہا جا سکتا

 هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ المتوفی ٢٤٥ ھ  امام بخاری کے شیخ ہیں اور بخاری نے صحیح میں ان سے دومقام پر روایت لی ہے اور دو مقام پر تحدیث کے الفاظ نقل نہیں کیے صرف کہا ہے قال ہشام اور پھر روایت بیان کی

ترمذی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الأَلْهَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِهِ”: “هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

یہ طرق امام ترمذی کے مطابق حسن ہے اور حسن روایت پر عقیدہ نہیں رکھا جا سکتا

الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ بغداد کے ہیں اور ابن ابی شیبہ کوفہ عراق کے ہیں

محدثین کے نزدیک إسماعيل بن عياش اہل شام سے روایت بیان کریں تو لی جائے گی کیونکہ یہ بھی اختلاط کا شکار ہوئے

کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط از ابن العجمي کے مطابق

إسماعيل بن عياش لما  كبر تغير حفظه وكثر الخطأ في حديثه
إسماعيل بن عياش جب بوڑھے ہوئے تو ان کے حافظہ میں تغیر آیا اور اپنی حدیث میں کثرت سے غلطیاں کیں

کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط کے محقق علاء الدين علي رضا، کہتے ہیں
ولكن حديثه عن غير الشاميين من العراقيين والحجازيين فقد وقع له اختلاط فيها
ان کی احادیث جو غیر شامیوں سے ہیں عراقییوں سے اور حجازیوں سے ان میں اختلاط ہے

لہذا یہ سند قابل قبول نہیں ہے

واضح رہے کہ ابن ماجہ کی سند میں إسماعيل بن عياش  نے ہشام سے روایت کیا ہے جو شام کے ہیں  لہذا بعض محققین کو اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس طرح اس سند کو صحیح سمجھا ہے جبکہ یہ سند صحیح نہیں کیونکہ یہاں دونوں  إسماعيل بن عياش  اور ہشام بن عمار مختلط ہیں

اس کے علاوہ جن دیگر طرق سے یہ متن اتا ہے وہ مضبوط اسناد نہیں ہیں

مسند احمد کی حدیث ہے جس کا ترجمہ یہ ہے
حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ الْخَبَائِرِيِّ، وَأَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ وَعَدَنِي أَنْ يُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِي الْجَنَّةَ سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ» . فَقَالَ يَزِيدُ بْنُ الْأَخْنَسِ السُّلَمِيُّ وَاللَّهِ مَا أُولَئِكَ فِي أُمَّتِكَ إِلَّا كَالذُّبَابِ الْأَصْهَبِ فِي الذِّبَّانِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِنَّ رَبِّي قَدْ وَعَدَنِي سَبْعِينَ أَلْفًا مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَزَادَنِي ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ» . قَالَ: فَمَا سِعَةُ حَوْضِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ: «كَمَا بَيْنَ عَدَنَ إِلَى عُمَانَ وَأَوْسَعَ وَأَوْسَعَ» . يُشِيرُ بِيَدِهِ. قَالَ: «فِيهِ مَثْعَبَانِ مِنْ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ» . قَالَ: فَمَا حَوْضُكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَاءٌ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مَذَاقَةً مِنَ الْعَسَلِ وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا، وَلَمْ يَسْوَدَّ وَجْهُهُ أَبَدًا»
مسند حدیث نمبر (22156 )
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت کے ستر ہزار آدمیوں کو بلاحساب کتاب جنت میں داخل فرمائے گا، یزید بن اخنس (رض) یہ سن کر کہنے لگے واللہ! یہ تو آپ کی امت میں سے صرف اتنے ہی لوگ ہوں گے جیسے مکھیوں میں سرخ مکھی ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے رب نے مجھ سے ستر ہزار کا وعدہ اس طرح کیا ہے کہ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور اس پر میرے لئے تین لپوں کا مزید اضافہ ہوگا،
یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! آپ کے حوض کی وسعت کتنی ہوگی ؟
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جتنی عدن اور عمان کے درمیان ہے اس سے بھی دوگنی جس میں سونے چاندی کے دو پرنالوں سے پانی گرتا ہوگا، انہوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! آپ کے حوض کا پانی کیسا ہوگا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ شیرین اور مشک سے زیادہ مہکتا ہوا جو شخص ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور اس کے چہرے کا رنگ کبھی سیاہ نہ ہوگا

مسند احمد جو جناب احمد شاکر کی تحقیق کے ساتھ ہے اس میں اس روایت کے تحت عبد الله بن امام احمد نے لکھا ہے

وبهذا الإسناد، قال عبد الله: وجدت هذا الحديث في كتاب أبي بخطه وقد ضرب عليه، فظننت أنه قد ضرب عليه لأنه خطأ، إنما هو عن زيد عن أبي سلام عن أبي أمامة.
اور ان اسناد پر عبد الله بن احمد نے کہا میں نے یہ حدیث اپنے باپ کی تحریر میں پائی اور انہوں نے اس کو رد کیا ہوا تھا پس گمان ہے کہ انہوں نے اس میں غلطی دیکھی یہ تو زيد عن أبي سلام عن أبي أمامة کی سند سے ہے

شعيب الأرنؤوط اس بات کو سمجھ نہ سکے اور مسند احمد میں اس قول کو اگلی حدیث کے ساتھ لکھ دیا جبکہ مسند احمد میں عبد الله کا یہ انداز رہا ہے کہ روایت کرنے کے بعد متن کے نیچے تبصرہ کرتے ہیں نہ کہ روایت بیان کرنے سے پہلے اس کی مثال موجود ہے

عصر حاضر کے بعض محدثین نے اس کو صحیح سمجھ لیا ہے جبکہ یہ صحیح روایت نہیں ہے – كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) میں موجود ہے جس پر البانی کہتے ہیں

ثنا دُحَيْمٌ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ثنا صَفْوَانُ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ يزيد بْنَ الأَخْنَسِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا سَعَةُ حَوْضِكَ؟ قَالَ: “كَمَا بَيْنَ عَدَنٍ إِلَى عُمَانَ وَأَوْسَعُ وَأَوْسَعُ يُشِيرُ بِيَدِهِ فِيهِ مِثْعَبَانِ مِنْ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ” قَالَ فَمَا حَوْضُكَ؟ قَالَ: “أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهُ أَبَدًا وَلَمْ يَسْوَدَّ وَجْهُهُ أَبَدًا”.
،
یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! آپ کے حوض کی وسعت کتنی ہوگی ؟
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جتنی عدن اور عمان کے درمیان ہے اس سے بھی دوگنی جس میں سونے چاندی کے دو پرنالوں سے پانی گرتا ہوگا، انہوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! آپ کے حوض کا پانی کیسا ہوگا ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ شیرین اور مشک سے زیادہ مہکتا ہوا جو شخص ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور اس کے چہرے کا رنگ کبھی سیاہ نہ ہوگا

729-
إسناده مضطرب رجاله ثقات غير أبي اليمان الهوزني واسمه عامر بن عبد الله بن لحي الحمصي لم يوثقه غير ابن حبان وقال ابن القطان: لا يعرف له حال وأشار إلى ذلك الذهبي بقوله: ما علمت له راويا سوى صفوان بن عمرو.
والحديث أخرجه ابن حبان من طريق محمد بن حرب حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنِ سليم بن عامر وأبي اليمان عن أبي اليمان الهوزني به.
كذا الأصل: وأبي اليمان عن أبي اليمان!
وأخرجه أحمد 5/250-251.
ثنا عصام بن خالد حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سليم بن عامر الجنائري وأبي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وقال عبد الله بن أحمد عقبه:
وجدت هذا الحديث في كتاب أبي بخط يده وقد ضرب عليه فظننت أنه قد ضرب عليه لأنه خطأ إنما هو عن زيد عَنْ أَبِي سَلامٍ عَنْ أَبِي أمامة
وأقول: وأنا أظن أن الإمام أحمد إنما ضرب عليه لهذا الاضطراب الذي بينته وادعاء أن إسناده خطأ مما لا وجه له إذا علمنا أن رجاله ثقات ومجيئه من رواية أَبِي سَلامٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ لا ينافي أن يكون له إسناد آخر له كما هو الشأن في كثير من الأحاديث منها حديث الحوض هذا فإنه قد تقدم من حديث أنس وثوبان من طرق عنها فلا مانع أن يكون لحديث أبي أمامة أيضا طريقان أو أكثر على أني لم أقف الآن على رواية أبي سلام عنه

اس کی اسناد مضطرب ہیں البتہ رجال ثقہ ہیں سوائے ابی الیمان کے جس کا نام عامر بن عبد الله ہے اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے اور ابن القطان نے کہا ہے اس کے حال کا اتا پتا نہیں اور اس کی طرف الذھبی نے اشارہ کیا ہے کہا ہے میں نے جانتا کہ اس سے سوائے صفوان بن عمرو کے کسی نے روایت کیا ہو اور اس حدیث کی تخریج ابن حبان نے بھی کی ہے محمد بن حرب حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنِ سليم بن عامر وأبي اليمان عن أبي اليمان الهوزني کی سند سے اور اصل میں کہا ہے وأبي اليمان عن أبي اليمان اور جب احمد نے تخریج کی تو کہا
ثنا عصام بن خالد حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سليم بن عامر الجنائري وأبي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ
اور عبد الله بن احمد نے اس کے عقب میں کہا ہے کہ میں نے یہ حدیث اپنے باپ کی تحریر میں پائی انہوں نے اس کو رد کیا پس گمان ہے کہ اس میں خطا ہے یہ روایت عن زيد عَنْ أَبِي سَلامٍ عَنْ أَبِي أمامة کی سند سے ہے
میں البانی کہتا ہوں اور میں گمان کرتا ہوں کہ امام احمد نے اس روایت کو اضطراب کی بنا پر رد کیا جس کی وضاحت کی اور اسناد میں غلطی ہے جس کا اور کوئی وجہ نہیں جو ہمارے علم میں ہو کہ اس کے رجال ثقہ ہیں اور یہ روایت ابوسلام عن ابو امامہ کی سند سے ہے یہ منافی نہیں ہے کہ اس کی کوئی اور سند نہ ہو جیسا کہ بہت سی احادیث میں ہے جن میں حدیث حوض بھی ہے پس یہ حوض والی حدیث انس اور ثوبان کے طرق سے ہے پس اس میں کچھ مانع نہیں ہے کہ ابو امامہ کی حدیث کے بھی دو طرق ہوں یا اس سے زیادہ -اس وقت مجھ کو نہیں پتا کہ ابو سلام والی سند کون سی ہے

راقم کہتا ہے

اس روایت کی سند میں اضطراب ہے کتاب كتاب السنة از ابو بکر بن ابی عاصم کے مطابق سند ہے
ثنا دُحَيْمٌ ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ثنا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ
عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
“إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى وَعَدَنِي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ”.

یہاں صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ ہے یعنی صفوان نے اس کو سلیم سے سنا انہوں نے ابو الیمان سے

یہی سند ابن حبان میں ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “إِنَّ اللَّهَ وعدني أَنْ يُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِي الْجَنَّةَ سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ”، فَقَالَ يَزِيدُ بْنُ الْأَخْنَسِ السُّلَمِيُّ: وَاللَّهِ مَا أُولَئِكَ فِي أُمَّتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا كَالذُّبَابِ الْأَصْهَبِ فِي الذِّبَّان, فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ رَبِّي قَدْ وَعَدَنِي سَبْعِينَ أَلْفًا مَعَ كل ألف سبعين ألفا وزادني حثيات”

ابن حبان میں ایک دوسری سند بھی ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سلم حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْب حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامر وَأبي الْيَمَان عَن أبي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِي عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ أَنَّ يزِيد بن الْأَخْنَس قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا سَعَةُ حَوْضِكَ قَالَ: “مَا بَيْنَ عَدْنٍ إِِلَى عَمَّانَ وَأَنَّ فِيهِ مَثْعَبَيْنِ من ذهب وَفِضة” قَالَ فَمَا مَاء حَوْضُكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ: “أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مَذَاقَةً مِنَ الْعَسَلِ وَأَطْيَبُ رَائِحَة من الْمسك من شرب مِنْهُ لَا يظمأ أبدا وَلم يسود وَجهه أبدا”.

یہاں صفوان نے سلیم سے روایت کیا انہوں نے ابی الیمان سے اور انہوں نے ابی الیمان الھوزنی سے

یہ تو اسناد کا اضطراب ہوا جس کی بنا پر اغلبا امام احمد اس کو رد کرتے تھے

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ابو الیمان الھوزنی مجھول الحال ہے

أبو الحسن بن القطان: “لا يعرف له حال
ابن أبي حاتم في “الجرح والتعديل” 6/ 326 وما رأيت فيه جرحاً،

یعنی اس راوی پر کوئی جرح نہیں کرتا

اس بنا پر ابن حبان اور عجلی بہت سوں کو ثقہ قرار دے دیتے ہیں جس پر ان دونوں کی توثیق مانی نہیں جاتی

البانی اور شعيب الأرنؤوط نے ابو سلام والی سند کی تحقیق نہیں کی جس کی طرف عبدالله بن احمد نے اشارہ کیا تھا – راقم کو یہ متن زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ کی سند سے مسند الشاميين میں ملا ہے أَبِي سَلَّامٍ کی سند سے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خُلَيْدٍ، ثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، ثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ، أَنَّ قَيْسًا الْكِنْدِيَّ، حَدَّثَ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيَّ [الْأَنْمَارِيَّ] ، حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ رَبِّي وَعَدَنِي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ، يَشْفَعُ كُلُّ أَلْفٍ لِسَبْعِينَ أَلْفًا، ثُمَّ يَحْثِي رَبِّي ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ بِكَفَّيْهِ» قَالَ قَيْسٌ: فَقُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ بِأُذُنَايَ [بِأُذُنِيَّ] وَوَعَاهُ قَلْبِي قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَلِكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْتَوْعِبَ مُهَاجِرِي أُمَّتِي وَيُوفِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَعْرَابِنَا»

اس روایت کی سند پر البانی نے کتاب السنہ میں بحث کی ہے اور حکم لگایا ہے
هذا الاختلاف يتوقف في الجزم بصحة هذا السند.
یہ سندوں کا اختلاف روکتا ہے کہ جزم کے ساتھ اس سند کی تصحیح کی جائے

الغرض مسند احمد کی سند میں اضطراب ہے اور راوی مجھول الحال ہے لہذا اس کو صحیح نہیں کہا جا سکتا

[/EXPAND]

[وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا پر کیا اقوال ہیں؟]

جواب

قرآن کی سوره الفجر کی آیات ہے

وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا
اور تمہارا رب آئے گا اور اس کے فرشتے صف در صف

روایت میں کہا گیا اس کا ثواب آئے گا یعنی لوگوں کو ان کا ثواب ملے گا

یعنی الله تعالی آئے گا سے بعض لوگوں نے اس طرح مراد لیا ہے کہ گویا وہ مخلوق کی طرح ہو گا اور آنا اور جانا تو مخلوق کا عمل ہے
یہ المشبہ ہیں
ابن کثیر نے امام احمد کا قول نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ المشبہ نہیں تھے

اہل سنت میں اسی وجہ سے یہ تفسیر مشھور ہوئی ورنہ اس میں گروہوں کا جھگڑا ہے

تفسیر میں ابن کثیر نے کہا
وَجاءَ رَبُّكَ يَعْنِي لِفَصْلِ الْقَضَاءِ بَيْنَ خَلْقِهِ
اور رب آئے گا کہ مخلوق میں فیصلہ کرے

اس کے برعکس ابن قیم وغیرہ کے نزدیک یہ صِفَاتِ أَفْعَالِهِ ہیں
کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں کہتے ہیں

فَأَصْبَحَ رَبُّكَ يَطُوفُ فِي الْأَرْضِ ” هُوَ مِنْ صِفَاتِ فِعْلِهِ كَقَوْلِهِ {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ} [الفجر: 22]
پس رب زمین کا طواف کرے گا جو اس کی فعلی صفت ہے اس قول کے مطابق اور تمہارا رب آئے گا اور اس کے فرشتے

لیکن کتاب اجتماع الجيوش الإسلامية میں ابن قیم کہتے ہیں
وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا} [الفجر: 22] وَلَيْسَ مَجِيئُهُ حَرَكَةً وَلَا زَوَالًا وَلَا انْتِقَالًا لِأَنَّ ذَلِكَ إِنَّمَا يَكُونُ إِذَا كَانَ الْجَائِيُ جِسْمًا أَوْ جَوْهَرًا فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّهُ لَيْسَ بِجِسْمٍ وَلَا جَوْهَرٍ وَلَا عَرَضٍ لَمْ يَجِبْ أَنْ يَكُونَ مَجِيئُهُ حَرَكَةً وَلَا نَقْلَةً،
اس کا آنا حرکت یا زوال یا انتقال نہیں … ہم یہ واجب نہیں کریں گے کہ یہ آنا حرکت یا انتقال ہے

کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں ابن قیم کہتے ہیں

كَقَوْلِهِ: {وَجَاءَ رَبُّكَ} [الفجر: 22] أَيْ أَمْرُهُ
الله آئے گا یعنی اس کا حکم

ابن قیم کبھی خالص المشبہ بن جاتے ہیں کبھی اہل تعطیل – قلابازی شاید سامنے والے کو دیکھ کر کھاتے ہیں

————————————————–
البتہ وہابی علماء (المشبہ) اس سے الگ کہتے ہیں مثلا تفسیر جز عم میں کہتے ہیں

تفسير جزء عم
المؤلف: محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)

{وجاء ربك} هذا المجيء هو مجيئه ـ عز وجل ـ لأن الفعل أسند إلى الله، وكل فعل يسند إلى الله فهو قائم به لا بغيره، هذه القاعدة في اللغة العربية، والقاعدة في أسماء الله وصفاته كل ما أسنده الله إلى نفسه فهو له نفسه لا لغيره، وعلى هذا فالذي يأتي هو الله عز وجل، وليس كما حرفه أهل التعطيل حيث قالوا إنه جاء أمر الله، فإن هذا إخراج للكلام عن ظاهره بلا دليل
أور رب آئے گا – یہ آنا ہے اور وہ انے والا ہے عزوجل کیونکہ فعل کو الله کیطرف کیا گیا ہے اور ہر وہ فعل جو الله کی طرف ہو تو وہ الله اس پر قائم ہے کوئی اور نہیں اور یہ عربی لغت کا قاعدہ ہے اور اسماء و صفات کا قاعدہ ہے کہ ہر وہ چیز جو الله کی طرف سند کی جائے اس کی طرف سے تو وہ اسی کے لئے ہے کسی اور کے لئے نہیں ہے اور اس پر جو آئے گا وہ الله ہے اور ایسا نہیں ہے جیسا اہل تعطیل نے تحریف کی ہے کہ کہتے ہیں وہ آئے گا یعنی اس کا حکم کیونکہ یہ کلام سے خارج ہے ظاہری طور پر کوئی دلیل نہیں ہے
———-
یہ آیات راقم کے نزدیک متشابھات میں سے ہیں

[/EXPAND]

[کون سا معنی درست ہے استواء بمعنی ارتفاع یا استواء بمعنی استقرار؟]

جواب

استقرار مطلب رکنا

اور ارتفاع مطلب اونچا ہونا

صعد مطلب چڑھنا

یہ سب باتیں الله تعالی کے حوالے سے کہنا متشابھات پر بحث کرنا ہے

اس لفظ پر بحث کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کا کیا فائدہ ہے؟

قَالَ وَتَقُولُ الْعَرَبُ اسْتَوَيْتُ فَوْقَ الدَّابَّةِ وَاسْتَوَيْتُ فَوْقَ الْبَيْتِ وَقَالَ غَيْرُهُ اسْتَوَى أَيِ انْتَهَى شَبَابُهُ وَاسْتَقَرَّ فَلَمْ يَكُنْ فِي شَبَابِهِ مَزِيدٌ –
ابو عبیدہ نے کہا اور عرب کہتے ہیں جانور پر سوار ہوا یا گھر کے اوپر اور دیگر نے کہا استوی یعنی اس کی جوانی انتھی پر آئی اور رکا یعنی اب جوانی میں مزید نہ ہو گا

یہ ان الفاظ کا مطلب ہے کہ الله تعالی عرش پر سوار ہوا اس پر چڑھا اور رکا نعوذ باللہ

ان کلمات کو علماء اردو میں سلیس ترجمہ نہیں کرتے مشکل مشکل بنا کر عربی لکھتے رہتے ہیں ورنہ رب العالمین کے لئے اس قسم کی باتیں کرنا کیا مناسب ہے؟

رک جاؤ ظالموں اپنی زبانوں کو لگام دو الله تو عرش پر مستوی ہے جب تک اس کو محشر میں دیکھو نہیں سمجھ نہ سکو گے کہ استوی کا مطلب کیا ہے

[/EXPAND]

[وجاء ربك کی تفسیر میں امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ]

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آسمان دنیا پر نزول کے بارے میں کہ اس سے مراد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا “امر “ہے.
(تمہید جلد:7، صفحہ:143)
اس قول کی سند کیا صحیح ہے یا نہیں؟ اگر صحیح ہے تو کیا صفات میں تاویل جائز ہے؟

جواب

وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَبَلِيُّ وَكَانَ مِنْ ثِقَاتِ الْمُسْلِمِينَ بِالْقَيْرَوَانِ قَالَ حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ سَوَادَةَ بِمِصْرَ قَالَ حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْحَدِيثِ إِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِي اللَّيْلِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَقَالَ مَالِكٌ يَتَنَزَّلُ أَمْرُهُ وَقَدْ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ كَمَا قَالَ مَالِكٌ رَحِمَهُ اللَّهُ

اس میں جامع بن سوادة پر محدثین جرح کرتے ہیں

ابن عبد البر نے البتہ اس قول کو قبول کیا ہے

[/EXPAND]

[تجسیمی تفسیر اسلام میں کہاں سے آئی؟]

جواب

بائبل کتاب خروج کے مطابق

And he gave unto Moses, when he had made an end of communing with him upon mount Sinai, two tables of testimony, tables of stone, written with the finger of God.
اللہ نے موسی کو کوہ سینا پر دو پتھر کی الواح شہادت دیں جس پر آیات اس نے رب نے اپنی انگلی سے لکھیں

یہی بات کتاب استثنا کے باب ٩ میں ہے

———

اس قول کو اسلام میں مقاتل بن سلیمان نے اپنی تفسیر میں لکھا

مقاتل کی تفسیر تجسیم کی طرف جاتی ہے مثلا الله تعالی نے بتایا کہ اس نے توریت کو موسی علیہ السلام کے لئے لکھا مقاتل اپنی تفسیر میں سوره الاعراف میں کہتا ہے
وكتبه اللَّه- عَزَّ وَجَلّ- بيده فكتب فيها: إني أَنَا اللَّه الَّذِي لا إله إِلَّا أَنَا الرحمن الرحيم
اللَّه- عَزَّ وَجَلّ نے اپنے ہاتھ سے اس میں لکھا میں بے شک الله ہوں کوئی اله نہیں سوائے میرے الرحمان الرحیم

جبکہ قرآن میں صریحا نہیں بتایا گیا کہ یہ تحریر الله نے کس طرح لکھی
سوره الأعراف
وكتبنا له في الالواح من كل شيء موعظة
اور ہم نے ہر نصحت کی چیز الواح میں لکھی

———–

لہذا یہ قول بلخ کے مقاتل کا تھا کہ الله نے ہاتھ سے لکھا اس کو یہود بھی بیان کرتے تھے – مسلمانوں میں جب بعض یہ مان گئے کہ الله اور آدم کی صورت پر ہے تو پھر انسانی جسم کو الله کے جسم سے ملانے کی راہ کھل گئی – احادیث میں ہاتھ ، انگلی ، بال ، پنڈلی یہ سب روایات مل گئیں اور الله ایک انسانی جسم کی صورت بنتا چلا گیا اور بس یہ کہا گیا وہ الگ ہے انسان الگ ہے لیکن یہ بات لفظوں کا کھیل ہے – جب انسانی آعضا کی چیزیں الله کے لیے بولیں گے تو پھر بات یہی ہو جاتی ہے کہ وہ انسانی جسم جیسا ہی ہے پس بڑا ہے

اس حدیث میں یہودی کا قول ہے کہ الله تمام زمین کو اٹھا لے گا اور قرآن میں ہے سات آسمان کو اپنے سیدھے ہاتھ پر لپیٹ دے گا
ہم اس کو متشابھات کہیں گے اس پر ایمان لائیں گے کیفیت کی اور معنوں کی بحث نہیں کریں گے

[/EXPAND]

[ہمارا رب جہنم پر اپنا قدم رکھے گا یہاں تک وہ کہے گی بس بس]

جواب

ہمارا رب جہنم پر اپنا قدم رکھے گا یہاں تک وہ کہے گی بس بس

يَضَعَ قَدَمَهُ فِيهَا
یا
حَتَّى يَضَعَ رِجْلَهُ فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ
حَتَّى يَأْتِيَهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَيَضَعَ قَدَمَهُ عَلَيْهَا فَتُزْوَى، فَتَقُولُ: قَدِي قَدِي
حَتَّى يَأْتِيَهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَيَضَعُ قَدَمَهُ عَلَيْهَا فَتُزْوَى، فَتَقُولُ: قَدْنِي قَدْنِي،

والی روایت ابو ہریرہ اور أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ (حم) 11099 اور انس رضی الله عنہما سے مروی ہے کئی سندوں سے ہے – یہ سندا صحیح ہے- اگر یہ قول نبی ہے تو اس کی تاویل الله کو معلوم ہے

صحیح بخاری میں ہے
و قَالَ لِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ وَعَنْ مُعْتَمِرٍ سَمِعْتُ أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَزَالُ يُلْقَی فِيهَا وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ حَتَّی يَضَعَ فِيهَا رَبُّ الْعَالَمِينَ قَدَمَهُ فَيَنْزَوِي بَعْضُهَا إِلَی بَعْضٍ ثُمَّ تَقُولُ قَدْ قَدْ بِعِزَّتِکَ وَکَرَمِکَ وَلَا تَزَالُ الْجَنَّةُ تَفْضُلُ حَتَّی يُنْشِئَ اللَّهُ لَهَا خَلْقًا فَيُسْکِنَهُمْ فَضْلَ الْجَنَّةِ

خلیفہ، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، حضرت انس (تیسری سند) معتمر، معتمر کے والد (سلیمان) قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ لوگ جہنم میں ڈالے جا رہے ہوں گے، اور جہنم کہتی جائے گی کہ اور کچھ باقی ہے؟ یہاں تک کہ رب العالمین اس میں اپنا پاؤں رکھ دیں گے تو اس کے بعض بعض سے مل کر سمٹ جائیں، پھر وہ کہے گی کہ بس بس، تیری عزت اور تیری بزرگی کی قسم، اور جنت میں جگہ باقی بچ جائے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوسری مخلوق پیدا کرے گا اور ان کو جنت کی بچی ہوئی جگہ میں ٹھہرائے گا۔
======================================
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِي التَّفْسِيْرِ (239/ 2)، وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ فِي السُّنَّةِ (485)، وَصَحَّحَهُ الأَلْبَانِيُّ فِي الظِّلَالِ (485). وَأَيْضًا صَحَّحَهُ الحَافِظُ ابْنُ رَجَبٍ الحَنْبَلِيُّ فِي كِتَابِهِ (فَتْحُ البَارِي) (232/ 7).
تفسیر عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ 2960 – عَنْ مَعْمَرٍ , عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: حَدَّثَهُ رَجُلٌ , حَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ , هذا فَقَامَ رَجُلٌ فَانْتَفَضَ , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «مَا فَرَّقَ بَيْنَ هَؤُلَاءِ يُجِيدُونَ عِنْدَ مُحْكَمِهِ , وَيَهْلِكُونَ عِنْدَ مُتَشَابِهِهِ»
طاؤس نے ابن عباس سے روایت کیا کہ ایک شخص نے حدیث ابو ہریرہ پر سوال کیا تو ایک اور شخص کھڑا ہوا ابن عباس نے کہا یہ تفرقہ میں کیوں پڑ گئے ان کو محکمات مل گئی ہیں اور یہ متشابھات سے ہلاک ہوئے

تفسیر ابن رجب میں ہے
فروى عبدُ الرزاقِ في “كتابِهِ ” عن معمر، عن ابنِ طاووسَ، عن أبيه.
قال: سمعتُ رجلاً يحدِّثُ ابنَ عباسٍ بحديثِ أبي هريرة: “تحاجَّتِ الجنةُ
والنارُ”، وفيه: “فلا تمتلئُ حتَى يضع رِجْله ” – أو قال: “قدمَهَ فيها”
قال: فقامَ رجلٌ فانتفضَ، فقال ابنُ عباسٍ: ما فرقُ هؤلاءِ، يجدونَ رقةً عند محكمِهِ، ويهلكُون عند متشابهه.
وخرَّجه إسحاقُ بنُ راهويه في “مسندِهِ ” عن عبدِ الرزاق.
طاؤس نے کہا میں نے ایک رجل کو ابن عباس سے سوال کرتے سنا کہ ابو ہریرہ کی حدیث کہ جنت و جہنم کا جھگڑا ہوا اور اس میں ہے یہ نہ بھرے گی یہاں تک کہ الله اس پر قدم رکھے تو ایک اور شخص کھڑا ہوا – ابن عباس نے کہا یہ کیونکہ اختلاف کرنے لگے ان کو محکمات لکھی ہو ملی ہیں اور یہ متشابھات پر لڑ رہے ہیں

راقم کو اس متن سے یہ روایت مسند اسحٰق میں نہیں ملی اور تفسیر عبد الرزاق میں واضح نہیں کون سی روایت تھی
البانی کی رائے میں یہ روایت آدم کو اللہ کی صورت خلق کرنے والی تھی جس پر ابن عباس نے جرح کی کیونکہ یہی وہ روایت ہے جو صرف ابو ہریرہ نے روایت کی ہے جبکہ قدم والی انس اور أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ سے بھی مروی ہے
بہر حال دونوں امکان موجود ہیں ان میں سے کوئی سی ایک ہو سکتی ہے

امام مالک اس قسم کی روایات کے خلاف تھے پنڈلی والی رویات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے

راقم کہتا ہے روایت متشابھات کے قبیل کی ہے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کوئی صفت کا عقیدہ اس پر نہ لیا جائے کہ ہم اپنے رب کو اعضا والا کہنے لگیں
—–

البرهان في تبرئة أبو هريرة من البهتان از عبد الله بن عبد العزيز بن علي الناص کے مطابق شیعوں نے بھی اس روایت کو تفسیر میں بیان کیا ہے
فإن هذا الحديث احتج به مشايخ الشيعة عند تفسيرهم لقوله تعالى: { يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ} [ق /30 ] من دون إنكار أو تكذيب لراوي هذا الحديث سواء كان راويه أبو هريرة
اس حدیث سے شیعہ کے مشایخ نے اپنی تفسیروں میں دلیل لی ہے کہ آیت کے تحت اس کو بیان کیا ہے بغیر انکار کیے اور راوی کی تکذیب کیے اس حدیث میں

راقم کہتا ہے اس کا بعض حصہ تفسیر قمی میں ہے
وقوله (يوم نقول لجهنم هل امتلات وتقول هل من مزيد) قال هو استفهام لان الله وعد النار أن يملاها فتمتلي النار فيقول لها هل امتلات؟ وتقول هل من مزيد؟ على حد الاستفهام أي ليس في مزيد، قال فتقول الجنة يا رب وعدت النار ان تملاها ووعدتني ان تملاني فلم لم تملاني وقد ملات النار، قال فيخلق الله خلقا يومئذ يملا بهم الجنة
جنت کہے گی اے رب میں بھری نہیں اور جہنم بھر گئی ہے تو الله ایک مخلوق بنا کر جنت کو بھرے گا
اس قسم کی کوئی روایت اہل تشیع کے مصادر میں نہیں ہے لیکن انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایت کے ایک حصہ سے دلیل لی ہے

——–
روایت میں ہے
فأما النار فلا تمتلئ حتى يضع رجله قط قط
جہنم نہ بھر پائے گی حتی کہ ہمارا رب اس پر قدم رکھے گا تو یہ کہے گی بس بس

قرآن میں ہے
قال فالحقّ والحق أقول لأملأن جهنم منك وممن تبعك منهم أجمعين
الله نے کہا : پس حق ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں میں جہنم کو تجھ سے اور جو تیری اتباع کریں گے ان سے بھر دوں گا

الله ہم کو اس جہنم سے بچا لے آمین یا رب العالمین

[/EXPAND]

[کیا الدھر الله کا نام ہے ؟]

Sahih Bukhari Hadees # 4826

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “”قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ””.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں۔
اس حدیث کی روشنی میں ہمیں کیا بولنا چاہیے زمانے کی جگہ؟؟

جواب

مختصرا روایت متشابھات میں سے ہے اس کا مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہوا اس کی سند صحیح سمجھی گئی ہے لیکن صرف ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کوئی اور صحابی اس مفہوم کی روایت بیان نہیں کرتا

تفصیل ہے

عرب کہتے تھے کہ ہم کو زمانہ ہلاک کرتا ہے وہ سمجھتے تھے کہ الله روح قبض نہیں کرتا وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ روح پرندہ بن جاتی ہے
یعنی معاد کا انکار کرتے تھے
جب کوئی مرتا تو کہتے زمانے نے مارا
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَى وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ
ہندو مت میں زمانہ کو کال کہا جاتا ہے مایا کہا جاتا ہے مقصد یہی ہوتا ہے کہ زمانہ الله تعالی سے الگ نہیں الله ہی ہے ہم کو جو نظر آ رہا ہے وہ حقیقت نہیں اصل میں الله ہے
ہندو نظریہ وحدت الوجود ہے لیکن مفسرین کے مطابق عرب کے اہل جاہلیت الله کو رب کہتے تھے وہ وحدت الوجودی نہیں تھے لیکن دوبارہ زندگی کے قائل نہیں تھے اس بنا پر ایسا کہتے تھے
صحیح ابن حبان میں ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: «كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ: إِنَّمَا يُهْلِكُنَا اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ، هُوَ الَّذِي يُهْلِكُنَا، وَيُمِيتُنَا، وَيُحْيِينَا، قَالَ اللَّهُ: {مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا} الْآيَةَ» [الجاثية: 24]
سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ نے کہا اہل جاہلیت کہتے ہم کو دن و رات مار رہے ہیں یہی ہم کو مارتے اور موت دیتے اور زندہ کرتے ہیں اور الله نے کہا یہ کہتے ہیں زندگی صرف دنیا کی ہی ہے
ابن تیمیہ نے لکھا
وَكَثِيرًا مَا جَرَى مِنْ كَلَامِ الشُّعَرَاءِ وَأَمْثَالِهِمْ نَحْوُ هَذَا كَقَوْلِهِمْ : يَا دَهْرُ فَعَلْت كَذَا
عرب اکثر شاعری میں کہتے
اے دھر تو نے ایسا کیا

اس تناظر میں اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے تو اسلام میں یہ صحیح نہیں لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ الله ہی مارتا اور زندہ کرتا ہے پھر صحیح ہے
مسلم شخص زمانے کے برے حالات کو اصل میں برا کہہ رہا ہوتا ہے
مصیبت پر کہتا ہے
انا للہ و انا الیہ راجعون

روایت میں الفاظ ہیں وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ
الله تعالی نے کہا میں زمانہ ہوں سب میرے ہاتھ میں ہے دن و رات کو پلٹ رہا ہوں

یہ روایت سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ اور أَبِي سَلَمَةَ کی سند سے اتی ہے

بیہقی الآداب للبيهقي میں کہتے ہیں
يَعْنِي وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ هُوَ الَّذِي يَفْعَلُ بِهِ مَا يَنْزِلُ بِهِ مِنَ الْمَصَائِبِ، فَالْأَمْرُ بِيَدِهِ، يُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ كَيْفَ شَاءَ، وَإِذَا سَبَّ فَاعِلَهَا كَانَ قَدْ سَبَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى
یعنی و الله اعلم الله تعالی ہی ہے جو مصائب کو نازل کرتا ہے پس اپنے ہاتھ سے حکم کرتا ہے دن و رات کو پلٹتا ہے جیسا چاہتا ہے اور جب ( اس زمانے کو ایسا) کرنے والے کو گالی دی جائے تو گویا اس نے الله کو گالی دی

اشکال لا ینحل
اس روایت کے مطابق الله تعالی نے اپنا نام الدھر رکھا ہے
صحیح مسلم میں ہے
فَإِن الله هُوَ الدَّهْر
الله ہی الدھر ہے

لیکن اسماء و صفات میں بحث میں قاضی ابی یعلی نے إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھا ہے
وَقَدْ ذَكَرَ شيخنا أَبُو عبد اللَّه رحمه اللَّه هَذَا الحديث فِي كتابه وَقَالَ: لا يجوز أن يسمى اللَّه دهرا
امام ابن حامد نے اس روایت کو اپنی کتاب میں لکھا ہے لیکن کہا کسی کے لئے جائز نہیں کہ الله کو دھر قرار دے

ابن تیمیہ نے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں لکھا
وقال حنبل: سمعت هارون الحمال يقول لأبي عبد الله: كنا عند سفيان بن عيينة بمكة، فحدثنا أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تسبوا الدهر» فقام فتح بن سهل فقال: يا أبا محمد نقول: يا دهر ارزقنا: فسمعت سفيان يقول: خذوه فإنه جهمي. وهرب، فقال أبو عبد الله: القوم يردون الآثار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نؤمن بها، ولا نرد على رسول الله صلى الله عليه وسلم قوله» قال القاضي: «وظاهر هذا أنه أخذ بظاهر الحديث، ويحتمل أن يكون قوله: ونحن نؤمن بها راجع إلى أخبار الصفات في الجملة، ولم يرجع إلى هذا الحديث خاصة» .

امام احمد نے کہا ہم ابن عيينة کے پاس مکہ میں تھے پس رسول الله کی حدیث روایت ہوئی الدھر کو گالی مت دو- پس فتح بن سهل کھڑا ہوا بولا اے ابو محمد ہم کہیں اے الدھر ہم کو رزق دے ؟ پس سفیان نے کہا اس کو پکڑو یہ جمہی ہے اور وہ بھاگا پس امام احمد نے کہا ایک قوم ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرتی ہے اور ہم ان پر ایمان لاتے ہیں اور ہم رد نہیں کریں گے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا ہو – قاضی ابو یعلی نے کہا پس انہوں نے اس حدیث کو اس کے ظاہر پر لیا

ابن تیمیہ نے مزید کہا
فبين أن الدهر، الذي هو الليل والنهار، خلق له وبيده، وأنه يجدده ويبليه، فامتنع أن يكون اسمًا له
پس واضح ہوا کہ الدھر یہ دن و رات ہیں .. پس یہ اسماء میں سے نہیں

بعض محدثین اور صوفیاء کے نزدیک الدھر الله کا نام ہے البتہ ابن تیمیہ اور محمد صالح العثيمين کے نزدیک یہ اسماء الحسنی میں سے نہیں ہے

اس اختلاف کی ایک وجہ ابن مندہ کی کتاب التوحید ہے جس میں ایک روایت میں ہے
والله هُوَ الدَّهرُ
اور الله کی قسم الله ہی الدھر ہے

یہ روایت خلق افعال العباد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى، ثنا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَحْكِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: «اسْتَقَرَضْتُ مِنَ ابْنِ آدَمَ فَلَمْ يُقْرِضْنِي وَشَتَمَنِي، يَقُولُ وَادَهْرَاهْ، وَاللَّهُ هُوَ الدَّهْرُ، وَكُلُّ شَيْءٍ مِنِ ابْنِ آدَمَ يأَكُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجَبُ ذَنَبِهِ فَإِنَّهُ يُخْلَقُ عَلَيْهِ حَتَّى يُبْعَثَ مِنْهُ»

اس روایت کی بنیاد پر الله تعالی کا ایک نام الدَّائِمُ کہا جاتا ہے جو الدھر کی روایت سے نکالا گیا ہے یعنی الدھر کو نام قرار دینے کی بجائے اسی روایت سے الدائم کا استنباط کیا گیا ہے
معتقد أهل السنة والجماعة في أسماء الله الحسنى
المؤلف: محمد بن خليفة بن علي التميمي
الناشر: أضواء السلف، الرياض، المملكة العربية السعودية

ابن تیمیہ نے لکھا
: قَوْلُ نُعَيْمِ بْنِ حَمَّادٍ وَطَائِفَةٍ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَالصُّوفِيَّةِ : إنَّ الدَّهْرَ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى وَمَعْنَاهُ الْقَدِيمُ الْأَزَلِيُّ وَرَوَوْا فِي بَعْضِ الْأَدْعِيَةِ : يَا دَهْرُ يَا ديهور يَا ديهار وَهَذَا الْمَعْنَى صَحِيحٌ ؛ لِأَنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ هُوَ الْأَوَّلُ لَيْسَ قَبْلَهُ شَيْءٌ وَهُوَ الْآخِرُ لَيْسَ بَعْدَهُ شَيْءٌ
نعیم بن حماد اور اہل حدیث اور صوفیاء کا ایک گروہ کہتے ہیں کہ دھر الله کے اسماء میں سے ہے اور اس کا معنی قدیم و ازلی ہے – اور بعض دعاؤں میں ہے اے دھر یا اے يَا ديهور يَا ديهار اور یہ معنی صحیح ہیں کیونکہ الله ہی ہے جو اول ہے اس سے قبل کچھ چیز نہیں اور وہی ہے جو بعد میں ہے اس کے بعد کچھ نہیں

وہابی عالم أبو عبد الرحمن محمود بن محمد الملاح نے کتاب الأحاديث الضعيفة والموضوعة التي حكم عليها الحافظ ابن كثير في تفسيره میں لکھا کہ
وقد غلط ابن حزم ومن نحا نحوه من الظاهرية في عدهم الدهر من الأسماء الحسنى،
اور ابن حزم اور ان کے جیسے ظاہریہ نے غلط کیا کہ اسماء الحسنی میں سے الدھر کو بھی گنا

المحلى بالآثار میں ابن حزم نے کہا کہ الله کے نام جو صحیح احادیث میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے ذکر کیے گئے ہیں ان میں ہیں
وَمِمَّا صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ -، وَقَدْ بَلَغَ إحْصَاؤُنَا مِنْهَا إلَى مَا نَذْكُرُ -: وَهِيَ -: اللَّهُ، الرَّحْمَنُ، الرَّحِيمُ، الْعَلِيمُ، الْحَكِيمُ، الْكَرِيمُ، الْعَظِيمُ، الْحَلِيمُ، الْقَيُّومُ، الْأَكْرَمُ، السَّلَامُ، التَّوَّابُ، الرَّبُّ، الْوَهَّابُ، الْإِلَهُ، الْقَرِيبُ، السَّمِيعُ، الْمُجِيبُ، الْوَاسِعُ، الْعَزِيزُ، الشَّاكِرُ، الْقَاهِرُ، الْآخِرُ، الظَّاهِرُ، الْكَبِيرُ، الْخَبِيرُ، الْقَدِيرُ، الْبَصِيرُ، الْغَفُورُ، الشَّكُورُ، الْغَفَّارُ، الْقَهَّارُ، الْجَبَّارُ، الْمُتَكَبِّرُ، الْمُصَوِّرُ، الْبَرُّ، مُقْتَدِرٌ، الْبَارِي، الْعَلِيُّ، الْغَنِيُّ، الْوَلِيُّ، الْقَوِيُّ، الْحَيُّ، الْحَمِيدُ، الْمَجِيدُ، الْوَدُودُ، الصَّمَدُ، الْأَحَدُ، الْوَاحِدُ، الْأَوَّلُ، الْأَعْلَى، الْمُتَعَالِ، الْخَالِقُ، الْخَلَّاقُ، الرَّزَّاقُ، الْحَقُّ، اللَّطِيفُ، رَءُوف، عَفُوٌّ، الْفَتَّاحُ، الْمَتِينُ، الْمُبِينُ، الْمُؤْمِنُ، الْمُهَيْمِنُ، الْبَاطِنُ، الْقُدُّوسُ، الْمَلِكُ، مَلِيكٌ، الْأَكْبَرُ، الْأَعَزُّ، السَّيِّدُ، سُبُّوحٌ، وِتْرٌ، مِحْسَانٌ، جَمِيلٌ، رَفِيقٌ، الْمُسَعِّرُ، الْقَابِضُ، الْبَاسِطُ، الشَّافِي، الْمُعْطِي، الْمُقَدِّمُ، الْمُؤَخِّرُ، الدَّهْرُ

اس میں آخر میں الدھر بھی ہے

البانی نے صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب میں لکھا کہ
وكان ابن داود (2) ينكر رواية أهل الحديث: “وأنا الدهر” بضم الراء ويقول: لو كان كذلك كان (الدهر) اسماً من أسماء الله عز وجل،
أبو بكر محمد بن داود الظاهري نے محدثین کی روایت کا را کی زبر کے ساتھ انکار کیا اور کہا جاتا ہے اگر ایسا ہو تو الدھر بھی اسماء الہی میں سے ہو جاتا ہے

البوصيري نے إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة میں لکھا
وَكَانَ ابْنُ دَاوُدَ يُنْكِرُ رِوَايَةَ أَهْلِ الْحَدِيثِ”وَأَنَا الدهرُ” بِضَمِّ الرَّاءِ
اور أبو بكر محمد بن داود نے محدثین کی اس روایت کا را کی زبر سے (آنا الدھر کا) انکار کیا

یعنی نعیم بن حماد بعض محدثین ابن حزم اور ابو بکر داود نے الدھر کو اسماء الحسنی میں شمار کیا
ابن عربی نے بھی اس کو اسم قرار دیا
کتاب فيض الباري على صحيح البخاري از انور شاہ کشمیری کے مطابق
وقال الشيخُ الأكبرُ: إنَّه من الأسماء الحُسْنَى. وفي «تفسير الرازي»: أنه تلقَّى وظيفةً من أحد مشايخه: يا دهر، يا ديهار، يا ديهور.
ابن عربی نے کہا یہ اسماء الحسنی میں سے ہے

تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان از نظام الدين الحسن بن محمد بن حسين القمي النيسابوري (المتوفى: 850هـ) کے مطابق
ومن جملة الأذكار الشريفة: يا هو يا من لا هو إلا هو، يا أزل يا أبد يا دهر يا ديهور يا من هو الحي الذي لا يموت. ولقد لقنني بعض المشايخ من الذكر: يا هو يا من هو هو يا من لا هو إلا هو يا من لا هو بلا هو إلا هو. فالأول فناء عما سوى الله، والثاني فناء في الله، والثالث فناء عما سوى الذات، والرابع فناء عن الفناء عما سوى الذات.
ازکار شریفہ ہیں جن میں سے ہے اے وہ اے وہ جس کے سوا کوئی نہیں اے ازل اے ابد اے دھر اے دیھور اے وہ جو زندہ ہے جو نہ مرے گا اور میں بعض مشایخ سے ملا جنہوں نے ذکر کیا اے وہ اے وہ جو وہ ہے جس کے سوا کوئی نہیں …

تفسیر الرزائ میں ایک بحث کو ختم کرتے ہوئے فخر الدين الرازي نے لکھا
وَلْنَخْتِمْ هَذَا الْفَصْلَ بِذِكْرٍ شَرِيفٍ رَأَيْتُهُ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ: يَا هُوَ، يَا مَنْ لَا هُوَ إِلَّا هُوَ، يَا مَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، يَا أَزَلُ، يَا أَبَدُ، يَا دَهْرُ، يَا دَيْهَارُ، يَا دَيْهُورُ، يَا مَنْ هُوَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ

اس طرح الله تعالی کے چار نام دَهْرُ، دَيْهَارُ، دَيْهُورُ اور الدائم اسی الدھر کی روایت سے نکالے گئے ہیں

راقم کو لگتا ہے کہ الله ھو- الله ھو کے مشہور ورد کے پیچھے بھی اسی الدھر کا فلسفہ ہے

راقم کہتا ہے الله تعالی نے قرآن میں کہا
هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا
كيا انسان پر دھر میں کوئی مدت گزری جب وہ قابل ذکر چیز نہیں تھا

یہاں دھر کو مدت سے ملایا گیا ہے لہذا یہ اسماء میں سے نہیں کیونکہ الله کا نام بدل نہیں سکتا وہ مدت نہیں کہ جو بدلتی رہے
زمانہ بدلتا ہے جبکہ اسماء کی حقیقت نہیں بدل سکتی لہذا اس روایت کو متشابہ سمجھا جائے گا

مشکل یہ ہے کہ ایک طرف تو اہل حدیث کا اور سلفیوں کا اصول ہے کہ حدیث قدسی یا صحیح اور صحیح حدیث میں اگر ضمیر الله کی طرف ہو تو اس کو ظاہر و حقیقی لیں گے یعنی اگر حدیث میں الله کے لئے کہا جائے وہ نزول کرتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں یہ حقیقی نزول ہے عربی کا ادبی انداز نہیں ہے لیکن جب حدیث میں قسما کہا جائے کہ الله الدہر ہے تو یہ اس کو اس کے ظاہر پر نہیں لیتے تاویل کرتے ہیں

[/EXPAND]

كلام قليب البدر – معجزه يا آیت

جنگ بدر کے اختتام پر اپ صلی الله علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی لاشیں ایک کنواں میں ڈلوا دیں اور تیسرے روز اپ اس قلیب یا کنواں کی منڈھیر پر آئے اور مشرکین مکہ کو نام بنام پکار کر کہا کہ

کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ سچا پایا؟

عمر رضی الله عنہ اور دیگر اصحاب نے کہا اپ گلے ہوئے جسموں سے خطاب کر رہے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس پر کہا یہ اس وقت سن رہے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی موقعہ پر ابن عمر رضی الله عنہ نے رائے پیش کی کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ تھا اس کی خبر عائشہ رضی الله عنہا کو ہوئی انہوں نے اس  کی تاویل کی کہ یہ علم ہونا تھا کہ کفار  نے حق جان لیا اور مردے نہیں سنتے

ابن رجب تفسیر میں لکھتے ہیں

قد وافقَ عائشةَ على نفي سماع الموتى كلامَ الأحياءِ طائفة من العلماءِ. ورجَّحَهُ القاضي أبو يعْلى من أصحابِنا، في كتابِ “الجامعِ الكبيرِ” له. واحتجّوا بما احتجتْ به عائشةُ – رضي الله عنها -، وأجابُوا عن حديثِ قليبِ بدرٍ بما أجابتْ به عائشة – رضي الله عنها – وبأنه يجوزُ أن يكونَ ذلك معجزةً مختصةً بالنبيِّ – صلى الله عليه وسلم –

علماء کا ایک گروہ عائشہ سے موافقت کرتا ہے مردوں کے سننے کی نفی پر جب زندہ ان سے کلام کریں – اور اسی کو راجح کیا ہے قاضی ابویعلی  ہمارے اصحاب (حنابلہ) میں سے کتاب جامع الکبیر میں اور دلیل لی ہے جس سے عائشہ رضی الله عنہا نے دلیل لی ہے اور اس سے جائز ہے کہ یہ معجزہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر خاص تھا

آیت فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (52)  کی تفسیر محاسن التأويل   میں   محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ)  لکھتے ہیں

وقال ابن الهمام: أكثر مشايخنا على أن الميت لا يسمع استدلالا بهذه الآية ونحوها. ولذا لم يقولوا: بتلقين القبر. وقالوا: لو حلف لا يكلم فلانا، فكلمه ميتا لا يحنث. وأورد عليهم  قوله صلّى الله عليه وسلّم في أهل القليب (ما أنتم بأسمع منهم)  وأجيب تارة بأنه روي عن عائشة رضي الله عنهما أنها أنكرته. وأخرى بأنه من خصوصياته صلّى الله عليه وسلّم معجزة له. أو أنه تمثيل

ابن الھمام نے کہا: ہمارے اکثر مشایخ اس آیت سے اور اسی طرح کی دیگر آیات سے استدلال کر کے اس موقف پر ہیں کہ میت نہیں سنتی – اس وجہ سے وہ نہیں کہتے قبر پر تلقین کے لئے- اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی قسم لے کہ فلاں سے کلام نہ کرو گا پھر اس کی موت کے بعد کلام کر لیا تو قسم نہیں ٹوٹے گی- اور اس پر آیا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول ” تم سماع میں ان سے بڑھ کر نہیں” –  اور جواب دیا جاتا ہے کہ روایت کیا گیا ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے اس سماع کا انکار کیا ہے اور دوسرا جواب ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے ان کے لئے معجزہ ہے یا ان کے لئے مثال ہے

کتاب  مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) لکھتے ہیں

ثُمَّ قَالَ وَتَارَةً بِأَنَّ تِلْكَ خُصُوصِيَّةٌ لَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مُعْجِزَةٌ وَزِيَادَةُ حَسْرَةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ

پھر کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص ہے معجزہ ہے اور کافرین پر حسرت کی زیادتی ہے

معلوم ہوا کہ قلب بدر کے واقعہ کو علماء معجزہ کہتے آئے ہیں اسی چیز کا اعادہ البانی نے بھی کیا ہے کہ یہ معجزہ تھا

لیکن بعض علماء نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ مردہ ہر وقت سنتا ہے جب بھی کوئی اسکو پکارے مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم – اور عصر حاضر کے حیات فی القبر کے اقراری غیر مقلدین  بھی  تدفین کے فورا بعد مردے کے سماع  کے قائل ہیں

معجزہ کی سادہ فہم تعریف لغت میں دیکھی جا سکتی ہے اس کے علاوہ اصول کی کتب میں بھی ہے – قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-

لیکن ایک صاحب جھنجھلا کر کہتے ہیں

معجزہ ۔۔ یا ۔۔ خرق عادۃ کی یہی تعریف کسی آیت ، یا حدیث شریف یا کسی صحابی سے ثابت کریں

بہت خوب یعنی مناظرہ بازی کے انچھر پھینکے جا رہے

دیکھتے ہیں معجزہ میں کیا اقوال ہیں ظاہر ہے یہ اصطلاح اصول و علم کلام کی ہے جو  قرآن میں نہیں ہے نہ حدیث میں تو پھر  ان لوگوں سے   عارفانہ کلام کیوں ادا ہو رہا ہے

مجموعة الرسائل والمسائل میں ابن   تيمية الحراني (المتوفى : 728هـ) لکھتے ہیں

وإن كان اسم المعجزة يعم كل خارق للعادة في اللغة وعرف الأئمة المتقدمين كالإمام أحمد بن حنبل وغيره – ويسمونها: الآيات – لكن كثير من المتأخرين يفرق في اللفظ بينهما، فيجعل المعجزة للنبي، والكرامة للولي. وجماعهما الأمر الخارق للعادة.

اور اگرچہ معجزہ کا اسم لغت میں  عام طور سے خارق عادت کے لئے  ہے اور ائمہ متقدمین جیسے امام احمد اور دیگر اس کو جانتے ہیں– اس کو نام دیا ہے آیات کا لیکن متاخرین میں سے اکثر نے ان الفاظ میں فرق کیا ہے تو معجزہ کو کیا نبی کے لئے اور کرامت کو کیا ولی کے لئے  اور ان سب کو امر خارق عادت کیا

النبوات از ابن تیمیہ الدمشقي (المتوفى: 728هـ) کے مطابق

ليس في الكتاب والسنة لفظ المعجزة وخرق العادة وليس في الكتاب والسنة تعليق الحكم بهذا الوصف، بل ولا ذكر خرق العادة، ولا لفظ المعجز، وإنّما فيه آيات وبراهين

کتاب و سنت میں معجزہ یا خارق عادت  کا لفظ ہی نہیں ہے نہ کتاب و سنت میں اس وصف پر کوئی حکم ہے نہ خرق عادت کا ذکر ہے نہ لفظ معجزہ کا بلکہ اس میں آیات و براہین ہیں

اس کے بعد ابن تیمیہ اپنی مختلف کتب میں معجزہ اور خارق عادت کے لفظ کے بجائے آیات اور براہین کے الفاظ بولنے پر زور دیتے ہیں اور اشاعرہ ، معتزلہ اور امام ابن حزم کے اقوال کا رد کرتے ہیں لب لباب یہ ہے

سلفي المعتزلة  وابن حزم و علماء ظاہر اشاعرہ
 

والشيخ رحمه الله يوضح أن خرق العادة وعدم المعارضة هذا من صفات المعجزة، ليس من حدودها.

 

فالآيات التي أعلم الله بها رسالة رسله، وصدّقهم، لا بُدّ أن تكون مختصةً بهم، مستلزمةً لصدقهم؛ فإنّ الإعلام والإخبار بأنّ هذا رسول، وتصديقه في قوله: إنّ الله أرسلني، لا يُتصوّر أن يوجد لغير رسول.

__________

 

الآيات التي جعلها الله علامات: هي إعلامٌ بالفعل الذي قد يكون أقوى من القول، فلا يُتصوّر أن تكون آيات الرسل إلا دالّة على صدقهم، ومدلولها أنّهم صادقون، لا يجوز أن توجد بدون صدق الرسل البتة.

 

ابن تیمیہ کے نزدیک کرامات غیر نبی بھی خرق عادت ہیں جن کا صدور ممکن ہے اور ان کو آیات نہیں  کہا گیا ہے  

 

اس طرح کو انبیاء کرتے ہیں وہ آیات ہیں اور جو شعبدہ باز ساحر کرتے ہیں وہ معجزہ ہے

لا يُثبتون النبوة إلا بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة.

انظر: شرح الأصول الخمسة للقاضي عبد الجبار المعتزلي ص 585-586. والمحلى لابن حزم 136. والدرة فيما يجب اعتقاده له أيضاً ص 194.

 

إن خرق العادة لا يكون إلا للأنبياء.

 

 

معتزلہ اور امام ابن حزم کے نزدیک جو خرق عادت بات انبیاء سے صدور ہو وو معجزہ ہے اور غیر نبی سے یہ ممکن نہیں لہذا کرامت کوئی چیز نہیں

المعجزات عند الأشاعرة هي ما تعجز قدرات العباد عنها

إنّه إذا لم يقدر على الفعل، فلا بُدّ أن يكون عاجزاً، أو قادراً على ضدّه.

 

أور

متأخروا الأشاعرة حذفوا القيد الذي وضعه المتقدمون

ولهذا لما رأى المتأخرون ضعف هذا الفرق؛ كأبي المعالي ، والرازي ، والآمدي ، وغيرهم حذفوا هذا القيد

 

أور

المعجزة عند الأشاعرة دعوى النبوة وعدم المعارضة وليست الآية بجنسها معجزة

النبوات أز ابن تيميه

 

فيُثبتون النبوة بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة، أو بطريق الضرورة، إلا أنّ طريق المعجزة عندهم هي أشهر الطرق.

انظر: المواقف للإيجي ص 349، 356، 357. والإرشاد للجويني ص 331. والإنصاف للباقلاني ص 93. والبيان له ص 37-38.

وجوزوا أن يأتي غير الأنبياء بمثل ما أتوا به ولو لم يدعوا النبوة، فسووا بين خوارق الأنبياء والأولياء والسحرة والكهان

 

 

متقدمین اشاعرہ کے نزدیک معجزہ وہ چیزیں ہیں جو صرف الله کی قدرت سے ممکن ہیں جو انسان نہ کر سکتا ہو

 

متاخرین کے نزدیک آیات معجزہ کی جنس سے نہیں ہیں  اور ان کا صدور نبی،  غیر نبی دونوں سے ممکن ہے جس میں غیر نبی نبوت کا دعوی نہیں کرتا

خوراق انبیاء اور خوارق اولیاء کا لفظ بولا گیا ہے

 

 

ابن تیمیہ کی اصطلاحی تعریف  کو قبول کرتے ہوئے عصر حاضر کے وہابی علماء نے کہا ہے

منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ) قرانی لفظ  الآية  پر

 لکھتے ہیں

لأن هذا التعبير القرآني والآية أبلغ من المعجزة لأن الآية معناها العلامة على صدق ما جاء به هذا الرسول، والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره، لكن التعبير بـ “الآية” أبلغ وأدق وهي التعبير القرآني فنسمي المعجزات بالآيات هذا هو الصواب.

یہ قرانی تعبیر ہے اور آیت کا لفظ معجزہ سے زیادہ مفھوم والا ہے کیونکہ آیت کا معنی علامت ہے اس  سچ پر جو یہ رسول لایا ہے اور معجزہ کسی شعبدہ باز یا انسان کے ہاتھ پر ہوتا ہے جس میں اس کو دوسروں سے بڑھ کر قوت ہوتی ہے کہ دوسرے عجز کا شکار ہوتے ہیں لیکن آیت کی تعبیر ابلغ اور دقیق ہے اور یہ قرانی تعبیر ہے پس ہم معجزات کو آیات کہیں گے جو ٹھیک ہے

شرح العقيدة السفارينية – میں  محمد بن صالح بن محمد العثيمين لکھتے ہیں

المعجزات: جمع معجزة، وهي في التعريف أمر خارق للعادة يظهره الله سبحانه وتعالى على يد الرسول شهادة بصدقه، فهو يشهد بصدقه بالفعل وهو إظهار هذه المعجزة.

معجزات: جو معجزہ کی جمع ہے یہ تعریف ہے خرق عادت کام پر جو اللہ تعالی کرتے ہیں رسول کے ہاتھ پر سچ پر بطور شہادت کہ وہ سچائی کو دیکھتا ہے بالفعل اور یہ معجزہ کا اظہار ہے

اصلا ابن تیمیہ اور غیر مقلدین اس گروہ صوفیا میں سے ہیں جو غیر نبی کے ہاتھ پر کرامت مانتے ہیں اور اسی چیز کو اپنی کتابوں میں ابن تیمیہ معجزہ کہتے ہیں – لہذا یہ کھل کر نہیں کہنا چاہتے کہ معجزہ  صرف الله کا  فعل ہے نبی کے ہاتھ پر

ابن تیمیہ سے منسلک لوگوں کے تضادات دیکھیں

ابن تیمیہ کے نزدیک نبی کے ہاتھ پر جو فعل خرق عادت ہوا وہ معجزہ نہیں ہے- جو غیر نبی کرے وہ معجزہ ہے

منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)کہتے ہیں

 والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره

اور معجزہ وہ ہے جو شعبدہ باز کے ہاتھ پر ہو

 اور اہل حدیث مولانا عبد المجید سوہدری    کہتے ہیں

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کرامات-اہل-حدیث.74916/

%da%a9%d8%b1%d8%a7%d9%85%d8%a7%d8%aa-%d8%a7%db%81%d9%84-%d8%ad%d8%af%db%8c%d8%ab

اہل حدیث
ترجمہ محمد جونا گڑھی

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور جب آپ کوئی معجزه ان کے سامنے ﻇاہر نہیں کرتے تو وه لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزه کیوں نہ ﻻئے؟ آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں
7:203

وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو پھر کوئیمعجزه لے آؤ تو کرو اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راه راست پر جمع کر دیتا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے
6:35

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَمُنُّ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَعلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزه تمہیں ﻻ دکھائیں اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے
14:11

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کیے اور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزه اللہ کی اجازت کے بغیر ﻻ سکے پھر جس وقت اللہ کا حکم آئےگا حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس جگہ اہل باطل خسارے میں ره جائیں گے
40:78

یھاں یہ اہل حدیث عالم آیات کا ترجمہ معجزہ کرتے ہیں لیکن کچھ اہل حدیث معجزہ لفظ سے ہی الرجک ہیں

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ قلیب بدر معجزہ تھا

لیکن یہی عالم بعد میں  کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین پر جوتوں کی چاپ سنتے ہیں تو قلیب بدر معجزہ کیسے ہوا ؟

لہذا معجزہ کی تعریف بدلتے رہتے ہیں

جو لوگ معجزہ کی تعریف ہی بدلتے رهتے ہوں ان سے اب کیا توقع کی جائے کہ وہ معجزہ کو معمول بنا دیں گے اور معمول کو معجزہ

بقول حسرت

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

علی علی علی علی

یمن کا ایک شخص عبد الله ابن سبا ، عثمان رضی الله عنہ کے دور میں ایمان لایا – یہ اس سے قبل ایک یہودی تھا اور قرآن و حدیث پر اس کا اپنا ہی  نقطۂ نظر تھا – یہود میں موسی و ہارون (علیھما السلام)  کے بعد  انبیاء کی اہمیت واجبی   ہے –  کوئی بھی نبی موسی (علیہ السلام) سے بڑھ کر نہیں ہے اور موسی  (علیہ السلام) نے الله سے براہ راست کلام کیا اللہ کو ایک جسم کی صورت دیکھا –  باقی انبیاء میں داود  (علیہ السلام) قابل اہم سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی اہمیت ایک موسیقار سے زیادہ یہود کے نزدیک نہیں ہے –  جنہوں نے آلات موسیقی کو ایجاد کیا اور ان  کے سازووں سے ہیکل سلیمانی گونجتا رہتا تھا – ان کے بعد اہمیت الیاس  (علیہ السلام) کی ہے جو شمال کی یہودی ریاست اسرئیل میں آئے اور ان کو زجر و توبیخ کی – آج جو یہودیت ہم کو ملی ہے وہ شمال مخالف یہودا کی ریاست کی ہے- اس ریاست میں یہودا اور بن یامین نام کے دو قبائل تھے جو یہود کے بقول ١٢ میں بچ گئے جبکہ باقی ١٠ منتشر ہو گئے جن کی اکثریت شمالی ریاست میں تھی-  راقم کی تحقیق کے مطابق ابن سبا  کے اجداد کا تعلق بھی شمالی یہود سے تھا –  الیاس  (علیہ السلام) کی اسی لئے اہمیت ہے کہ شمال سے تھے اور وہ ایک آسمانی بگولے میں اوپر چلے گئے

اب ابن سبا کا فلسفہ دیکھتے ہیں

علی الیاس ہیں اورآنے والا دابة الارض ہیں

سبائیوں  کو قرآن سے آیت ملی

 و رفعناه مکانا علیا

اور ہم نے اس کو ایک بلند مقام پر اٹھایا

اس  آیت میں علیا کا لفظ  ہے  یعنی الیاس کو اب بلند کر کے علی کر دیا گیا ہے

اپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیا عجیب بات ہے- تو حیران نہ ہوں یہ کتب شیعہ میں موجود ہے

مختصر بصائر الدرجات  از الحسن بن سليمان الحليي  المتوفی ٨٠٦ ھ روایت پیش کرتے ہیں

حدثنا الحسين بن أحمد قال حدثنا الحسين بن عيسى حدثنا يونس ابن عبد الرحمن عن سماعة بن مهران عن الفضل بن الزبير عن الاصبغ ابن نباتة قال: قال لي معاوية يا معشر الشيعة تزعمون ان عليا دابة الارض فقلت نحن نقول اليهود تقوله فارسل إلى رأس الجالوت فقال ويحك تجدون دابة الارض عندكم فقال نعم فقال ما هي فقال رجل فقال اتدري ما اسمه قال نعم اسمه اليا قال فالتفت الي فقال ويحك يا اصبغ ما اقرب اليا من عليا.

الاصبغ ابن نباتة کہتے ہیں کہ معاویہ نے کہا اے گروہ شیعہ تم گمان کرتے ہو علی دابة الارض ہے پس میں الاصبغ ابن نباتة نے معاویہ کو جواب دیا ہم وہی کہتے ہیں جو یہود کہتے ہیں  پس معاویہ نے یہود کے سردار جالوت کو بلوایا اور کہا تیری بربادی ہو کیا تم اپنے پاس دابة الارض کا ذکر پاتے ہو؟ جالوت نے کہا ہاں – معاویہ نے پوچھا کیا ہے اس میں ؟ جالوت نے کہا ایک شخص ہے – معاویہ نے پوچھا اس کا نام کیا ہے ؟ جالوت نے کہا اس کا نام الیا (الیاس) ہے – اس پر معاویہ میری طرف پلٹ کر بولا بردبادی اے الاصبغ یہ الیا ، علیا کے کتنا قریب ہے

الاصبغ ابن نباتة کا تعلق یمن سے تھا یہ علی کا محافظ تھا – یعنی الیاس اب علی ہیں

اسی کتاب میں دوسری روایت ہے

 حدثنا الحسين بن احمد قال حدثنا محمد بن عيسى حدثنا يونس عن بعض اصحابه عن ابى بصير قال: قال أبو جعفر (ع) اي شئ يقول الناس في هذه الآية (وإذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم) فقال هو أمير المؤمنين

ابى بصير  يحيى بن القاسم الاسدى ، امام جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ اس آیت  (وإذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم) پر کیا چیز بول رہے ہیں پس امام نے کہا یہ تو امیر المومنین ہیں

ابى بصير  يحيى بن القاسم الاسدى کے لئے  الطوسي کہتے ہیں  إنه واقفي یہ واقفی تھے اور الکشی کہتے ہیں مختلط تھے
 بحوالہ سماء المقال في علم الرجال – ابو الهدى الكلباسي
كليات في علم الرجال از جعفر السبحاني  کے مطابق  الواقفة سے مراد وہ لوگ ہیں
وهم الذين ساقوا الامامة إلى جعفر بن محمد، ثم زعموا أن الامام بعد جعفر كان ابنه موسى بن جعفر عليهما السلام، وزعموا أن موسى بن جعفر حي لم يمت، وأنه المهدي المنتظر، وقالوا إنه دخل دار الرشيد ولم يخرج منها وقد علمنا إمامته وشككنا في موته فلا نحكم في موته إلا بتعيين
جو کہتے ہیں امامت امام جعفر پر ختم ہوئی پھر انہوں نے دعوی کیا کہ ان کے بیٹے موسی  امام ہیں اور دعوی کیا کہ موسی مرے نہیں زندہ ہیں اور وہی امام المہدی ہیں اور کہا کہ وہ دار الرشید میں داخل ہوئے اور اس سے نہ نکلے اور ہم ان کو امام جانتے ہیں اور ان کی موت پر شک کرتے ہیں پس ہم ان کی موت کا حکم تعین کے ساتھ نہیں لگا سکتے

علی رضی الله عنہ ہی الیاس تھے- جو اب بادلوں میں ہیں – علی کی قبر قرن اول میں کسی کو پتا نہیں تھی – سبائیوں کے نزدیک یہ نشانی تھی کہ وہ مرے نہیں ہیں – البتہ قرن اول اور بعد کے شیعہ یہ عقیدہ آج تک رکھتے ہیں کہ علی مدت حیات میں بادل الصعب کی سواری کرتے تھے اور علی اب دابتہ الارض ہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے- اسی بنا پر روایات میں ہے کہ اس جانور کی داڑھی بھی ہو گی – یعنی یہ انسان ہے- عام اہل سنت کو مغالطہ ہے کہ یہ کوئی جانور ہے

مسند امام الرضا کے مطابق امام الرضا اور یہود کے سردار جالوت میں مکالمہ ہوا

 قال لرأس الجالوت: فاسمع الان السفر الفلاني من زبور داود عليه السلام. قال: هات بارك الله فيك وعليك وعلى من ولدك فتلى الرضا عليه السلام السفر الاول من الزبور، حتى انتهى إلى ذكر محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين فقال سألتك يا رأس الجالوت بحق الله أهذا في زبور داود عليه السلام ولك من الامان والذمة والعهد ما قد أعطيته الجاثليق فقال راس الجالوت نعم هذا بعينه في الزبور باسمائهم. فقال الرضا عليه السلام: فبحق العشر الآيات التي أنزلها الله تعالى على موسى بن عمران في التورية هل تجد صفة محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين في التوراية منسوبين إلى العدل والفضل، قال نعم ومن جحد هذا فهو كافر بربه وأنبيائه. فقال له الرضا عليه السلام: فخذ على في سفر كذا من التورية فاقبل الرضا عليه السلام يتلو التورية وأقبل رأس الجالوت يتعجب من تلاوته وبيانه وفصاحته ولسانه، حتى إذا بلغ ذكر محمد قال رأس الجالوت: نعم، هذا أحماد وبنت أحماد وإيليا وشبر و شبير تفسيره بالعربية محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين. فتلى الرضا عليه السلام إلى آخره

یہود کے سردار جالوت نے کہا میں نے زبور میں( اہل بیت کے بارے میں ) پڑھا ہے امام رضا نے شروع سے آخر تک زبور کو پڑھا یہاں تک کہ محمد اور علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین کا ذکر آیا پس کہا اے سردار جالوت الله کا واسطہ کیا یہ داود کی زبور ہے ؟  جالوت نے کہا جی ہاں … امام رضا نے کہا الله نے دس آیات موسی پر توریت میں نازل کی تھیں جس میں  محمد ، علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین کی صفت ہیں جو عدل و فضل سے منسوب ہیں جالوت بولا جی ہیں ان پر  حجت نہیں کرتا مگر وہ جو کافر ہو

علی ہارون ہیں

یہود کے مطابق اگرچہ موسی کو کتاب الله ملی لیکن موسی لوگوں پر امام نہیں تھے – امام ہارون تھے لہذا دشت میں خیمہ ربانی

Tabernacle

میں صرف بنی ہارون کو داخل ہونے کا حکم تھا

 “Then bring near to you Aaron your brother, and his sons with him, from among the people of Israel, to serve me as priests—Aaron and Aaron’s sons, Nadab and Abihu, Eleazar and Ithamar.”

Exodus. 28:1

تم بنی اسرائیل کے ہاں  سے صرف ہارون اور اس کے بیٹے  میرے قریب آئیں کیونکہ یہ امام بنیں گے – ہارون اور اس کے بیٹے ندب اور ابیہو، علییضر اور اثمار

اسی بنا پر جب یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جو حدیث منزلت کے نام سے مشھور ہے جس کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم نے علی سے کہا کہ تم کو وہی  منزلت حاصل ہے جو موسی کو ہارون سے تھی تو اس کا مفھوم سبائیوں اور اہل تشیع کے نزدیک وہ  نہیں جو اہل سنت کے ہاں مروج ہے بلکہ  جس طرح  ہارون کو امام اللہ تعالی نے مقرر کیا اسی طرح علی کا امام مقرر ہونا بھی من جانب الله ہونا چاہیے

ali-facets

علی صحابی سے ہارون بنے پھر خلیفہ پھر امام پھر الیاس اور پھر دابتہ الارض

جس طرح موسی کے بعد ان کے بھائی ہارون  اور ان کے بیٹے امام ہوئے اسی طرح محمد کے بعد ان کے چچا زاد  بھائی اور ان کے بیٹے امام ہوں گے یعنی ابن سبا توریت کو ہو بہو منطبق کر رہا تھا

حسن و حسین کو  بنی ہارون کے نام دینا

حسن اور حسین رضی الله عنہما کے دو نام شبر اور شبیر بھی بتائے جاتے ہیں – ان ناموں کا عربی میں کوئی مفھوم نہیں ہے نہ یہ عربی   میں قرن اول سے پہلے بولے جاتے تھے – آج لوگ اپنے بچوں کا نام شبیر اور شبر بھی رکھ رہے ہیں – یہ نام کہاں سے آئے ہیں ؟  ان پر غور کرتے ہیں

ان ناموں کی اصل سمجھنے کے لئے اپ کو سبائی فلسفہ سمجھنا ہو گا تاکہ اپ ان ناموں کی روح تک پہنچ سکیں

امام حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِيُّ بِمَرْوَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا وَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحَسَنَ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، قَالَ: «بَلْ هُوَ حَسَنٌ» فَلَمَّا وَلَدَتِ الْحُسَيْنَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، فَقَالَ: «بَلْ هُوَ حُسَيْنٌ» ثُمَّ لَمَّا وَلَدَتِ الثَّالِثَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، قَالَ: «بَلْ هُوَ مُحْسِنٌ» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّمَا سَمَّيْتُهُمْ بِاسْمِ وَلَدِ هَارُونَ شَبَرٌ وَشُبَيْرٌ وَمُشْبِرٌ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب فاطمه نے حسن کو جنا تو نبی صلی الله علیہ وسلم  آئے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ تو حسن ہے  – پھر جب فاطمہ نے حسین کو جنا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  بلکہ یہ تو حسین ہے  – پھر تیسری دفعہ فاطمہ نے بیٹا جنا تو  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ محسن ہے – پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ان کو ہارون کے بیٹوں کے نام دیے ہیں شبر ، شبیر اور مبشر

امام حاکم اور الذھبی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں
 سند میں هانئ بن هانئ الهمداني الكوفي  ہے  یعنی یمن کے قبیلہ ہمدان کے تھے پھر کوفہ منتقل ہوئے امام بخاری تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں علی سے سنا ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں
هانئ بن هانئ [د، ت، ق] .عن علي رضي الله عنه.
قال ابن المديني: مجهول.  وقال النسائي: ليس به بأس.
ابن المدینی کہتے ہیں یہ مجھول ہے اور نسائی کہتے ہیں اس میں برائی نہیں ہے
الذھبی نے نسائی کی رائے کو ترجیح دی ہے
ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وَكَانَ يَتَشَيَّعُ , وَكَانَ مُنْكَرَ الْحَدِيثِ یہ شیعہ تھے منکر الحدیث ہیں
ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذھبی نے اس کا شمار مجہولین میں کیا ہے یعنی الذھبی مختلف کتابوں میں رائے بدلتے رہے
محدث ابن حبان جو امام الرضا کی قبر سے فیض حاصل کرتے ہیں وہ اس روایت کو صحیح ابن حبان میں نقل کرتے ہیں

أمالي الصدوق: 116 / 3. (3 – 4) البحار: 43 / 239 / 4 وص 263 / 8. (5 – 6) كنز العمال: 37682، 37693. کی روایت ہے

 الإمام زين العابدين (عليه السلام): لما ولدت فاطمة الحسن (عليهما السلام) قالت لعلي (عليه السلام): سمه فقال: ما كنت لأسبق باسمه رسول الله، فجاء رسول الله (صلى الله عليه وآله)… ثم قال لعلي (عليه السلام): هل سميته ؟ فقال: ما كنت لأسبقك باسمه، فقال (صلى الله عليه وآله): وما كنت لأسبق باسمه ربي عزوجل. فأوحى الله تبارك وتعالى إلى جبرئيل أنه قد ولد لمحمد ابن فاهبط فأقرئه السلام وهنئه وقل له: إن عليا منك بمنزلة هارون من موسى فسمه باسم ابن هارون. فهبط جبرئيل (عليه السلام) فهنأه من الله عزوجل ثم قال: إن الله تبارك وتعالى يأمرك أن تسميه باسم ابن هارون. قال: وما كان اسمه ؟ قال: شبر، قال: لسان عربي، قال: سمه الحسن، فسماه الحسن. فلما ولد الحسين (عليه السلام)… هبط جبرئيل (عليه السلام) فهنأه من الله تبارك وتعالى ثم قال: إن عليا منك بمنزلة هارون من موسى فسمه باسم ابن هارون، قال: وما اسمه ؟ قال: شبير، قال: لساني عربي، قال: سمه الحسين، فسماه الحسين

 الإمام زين العابدين (عليه السلام) کہتے ہیں کہ جب فاطمہ نے حسن کو جنا تو علی نے کہا اس کا نام رکھو انہوں نے کہا میں  رسول الله سے پہلے نام نہ رکھو گی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آئے اور علی سے پوچھا نام رکھا ؟ علی نے کہا نام رکھنے میں اپ پر سبقت نہیں کر سکتا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمآیا میں نام رکھنے میں اپنے رب پر سبقت نہیں کر سکتا پس الله تعالی نے الوحی کی اور جبریل کو زمین کی طرف بھیجا کہ محمد کے ہاں بیٹا ہوا ہے پس ہبوط کرو ان کو سلام کہو اور تہنیت اور ان سے کہو کہ علی کی منزلت ایسی ہے جیسی ہارون کو موسی سے تھی پس اس کا نام ہارون کے بیٹے کے نام پر رکھو پس جبریل آئے …. اور کہا اس کا نام شبر رکھو نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا عربی زبان میں کیا ہے؟ کہا: اس کا نام الحسن ہے پس حسن رکھو پھر جب حسین پیدا ہوئے تو جبریل آئے (یہی حکم دہرایا گیا اور من جانب اللہ نام رکھا گیا) شبیر- رسول الله نے پوچھا عربی میں کیا ہے ؟ حکم ہوا حسین پس حسین رکھا گیا

تفسیر قرطبی سوره الاعراف کی آیت ١٥٥ میں کی تفسیر میں قرطبی المتوفي ٦٧١ ھ  روایت پیش کرتے ہیں

أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَبْدٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: انْطَلَقَ مُوسَى وَهَارُونُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَانْطَلَقَ شَبَّرُ وَشَبِّيرُ- هُمَا ابْنَا هَارُونَ- فَانْتَهَوْا إِلَى جَبَلٍ فِيهِ سَرِيرٌ، فَقَامَ عَلَيْهِ هَارُونُ فَقُبِضَ رُوحُهُ. فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالُوا: أَنْتَ قَتَلْتَهُ، حَسَدْتَنَا  عَلَى لِينِهِ وَعَلَى خُلُقِهِ، أَوْ كَلِمَةٍ نَحْوَهَا، الشَّكُّ مِنْ سُفْيَانَ، فَقَالَ: كَيْفَ أَقْتُلُهُ وَمَعِيَ ابْنَاهُ! قَالَ: فَاخْتَارُوا مَنْ شِئْتُمْ، فَاخْتَارُوا مِنْ كُلِّ سِبْطٍ عَشَرَةً. قَالَ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ:” وَاخْتارَ مُوسى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقاتِنا” فَانْتَهَوْا إِلَيْهِ، فَقَالُوا: مَنْ قتلك يا هارون؟ قال: ما قتلني حَدٌ وَلَكِنَّ اللَّهَ تَوَفَّانِي. قَالُوا: يَا مُوسَى، مَا تُعْصَى

عُمَارَةَ بْنِ عَبْدٍ، علی رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے کہ موسی اور ہارون چلے اور ان کے ساتھ شبر و شبیر چلے پس ایک پہاڑ پر پہنچے جس پر تخت تھا اس پر ہارون کھڑے ہوئے کہ ان کی جان قبض ہوئی پس موسی قوم کے پاس واپس لوٹے – قوم نے کہا تو نے اس کو قتل کر دیا ! تو حسد کرتا تھا  … موسی نے کہا میں نے اس کو کیسے قتل کیا جبکہ اس کے بیٹے شبیر اور شبر میرے ساتھ تھے پس تم جس کو چاہو چنو اور ہر سبط میں سے دس چنو کہا اسی پر قول ہے  وَاخْتارَ مُوسى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقاتِنا پس وہ سب ہارون کی لاش  تک آئے اور ان سے پوچھا : کس نے تم کو قتل کیا ہارون؟ ہارون نے کہا مجھے کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ الله نے وفات دی

یعنی قرطبی نے تفسیر میں اس قول کو قبول کیا کہ شبر و شبیر ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام تھے

روایت میں   عُمارة بْن عَبد، الكُوفيُّ ہے العلل میں احمد کہتے ہیں
قال عبد الله بن أحمد: سألته (يعني أَباه) : عن عمارة بن عبد السلولي، قال: روى عنه أبو إسحاق. «العلل» (4464) .
یہ کوفہ کے ہیں – لا يروي عنه غير أبي إسحاق. «الجرح والتعديل  صرف أبي إسحاق روایت کرتا ہے
امام بخاری کہتے ہیں اس نے علی سے سنا ہے جبکہ امام ابی حاتم کہتے ہیں مجهول لا يحتج به، قاله أبو حاتم. یہ مجھول ہے دلیل مت لو

اس قصہ کا ذکر اسی آیت کی تفسیر میں  شیعہ تفسیر  مجمع البيان از  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  میں بھی ہے

 و رووا عن علي بن أبي طالب (عليه السلام) أنه قال إنما أخذتهم الرجفة من أجل دعواهم على موسى قتل أخيه هارون و ذلك أن موسى و هارون و شبر و شبير ابني هارون انطلقوا إلى سفح جبل فنام هارون على سرير فتوفاه الله فلما مات دفنه موسى (عليه السلام) فلما رجع إلى بني إسرائيل قالوا له أين هارون قال توفاه الله فقالوا لا بل أنت قتلته حسدتنا على خلقه و لينه قال فاختاروا من شئتم فاختاروا منهم سبعين رجلا و ذهب بهم فلما انتهوا إلى القبر قال موسى يا هارون أ قتلت أم مت فقال هارون ما قتلني أحد و لكن توفاني الله

شیعہ عالم الموفق بن احمد بن محمد المكي الخوارزمي المتوفى سنة 568 کتاب المناقب میں ہے کہ ایک دن نبی صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا کہ

 الحسن والحسين ابناه سيدا شباب أهل الجنة من الاولين والآخرين وسماهما الله تعالى في التورأة على لسان موسى عليه السلام ” شبر ” و “شبير ” لكرامتها على الله عزوجل

علی کے بیٹے حسن و حسین اہل جنت کے پچھلوں اور بعد والوں کے جوانوں کے سردار ہیں  اور الله نے ان کو توریت میں نام دیا ہے شبر و شبیر- یہ الله کا علی پر کرم ہے

ابن شہر آشوب کتاب مناقب علی میں اسی قسم کی ایک روایت پیش کرتے ہیں – توریت میں شبر و شبیر کا کوئی ذکر نہیں ہے

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں

قلت: وقد جاء في التسمية سبب آخر، فقد روى أحمد 1/159، وأبو يعلى “498”، والطبراني “2780”، والبزار “1996” من طريقين عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن محمد بن علي وهو ابن الحنفية، عن أبيه علي بن أبي طالب أنه سمى ابنه الأكبر حمزة، وسمى حسينا بعمه جعفر، قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، فلما أتى قال: “غيرت اسم ابني هذي”، قلت: الله ورسوله أعلم، فسمى حسنا وحسينا. قال الهيثمي في “المجمع” 8/52 بعد أن نسبه غليهم جميعا: وفيه عبد الله بن محمد بن عقيل، حديثه حسن، وباقي رجاله رجال الصحيح.

میں کہتا ہوں اور ایک روایت میں ایک دوسری وجہ بیان ہوئی ہے پس کو احمد اور ابو یعلی نے طبرانی نے اور البزار نے دو طرق سے عبد الله بن محمد سے انہوں نے ابن حنفیہ سے انہوں نے اپنے باپ علی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بڑے بیٹے کا نام حمزہ رکھا تھا اور حسین کا جعفر پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی کو طلب کیا  اور کہا ان کے نام بدل کر حسن و حسین کر دو

شبر و شبیر کا بھیانک انجام

اہل سنت کی تفسير روح البيان أز  أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ)  کے مطابق

وكان القربان والسرج فى ابني هارون شبر وشبير فامرا ان لا يسرجا بنار الدنيا فاستعجلا يوما فاسرجا بنار الدنيا فوقعت النار فاكلت ابني هارون

اور قربانی اور دیا جلانا بنی ہارون میں شبر اور شبیر کے لئے تھا پس حکم تھا کہ کوئی دنیا کی اگ سے اس کو نہ جلائے لیکن ایک روز ان دونوں نے علجت کی اور اس کو دنیا کی اگ سے جلایا جس پر اگ ان دونوں کو کھا گئی

شیعہ عالم  الحسين بن حمدان الخصيبي  المتوفی ٣٥٨ ھ کتاب الهداية الكبرى میں بتاتے ہیں ایسا کیوں ہوا

وان شبر وشبير ابني هارون (عليه السلام) قربا قربانا ثم سقياه الخمر وشراباها ووقفا يقربان، فنزلت النار عليهما وأحرقتهما لأن الخمر في بطونهما فقتلا بذلك.

اور شبر اور شبیر بنی ہارون میں سے انہوں نے قربانی دی پھر شراب پی لی اور قربانی کو وقف کیا پس اگ آسمان سے نازل ہوئی اور اگ نے ان دونوں کو جلا ڈالا کیونکہ شراب ان کے پیٹوں میں تھی اس بنا پر یہ قتل ہوئے

اور توریت کے مطابق

Book of Leviticus, chapter 10:
Aarons sons Nadab and Abihu took their censers, put fire in  them and added incense; and they offered unauthorized fire before the Lord,  contrary to his command. So fire came out from the presence of the Lord  and consumed them, and they died before the Lord. Moses then said to  Aaron, This is what the Lord spoke of when he said: Among those who approach me I will be proved holy; in the sight of all the  people I will be honoured. Aaron remained silent.

ہارون کے بیٹے ندب اور ابیھو نے اپنے اپنے دیے لئے اس میں اگ جلائی اور اس ممنوعہ اگ کو رب پر پیش کیا اس کے حکم کے بر خلاف – لہذا اگ رب کے پاس سے نکلی اور ان کو کھا گئی اور وہ دونوں رب کے سامنے مر گئے – موسی نے ہارون سے کہا یہ وہ بات ہے جس کا ذکر الله نے کیا تھا کہ تمہارے درمیان جو میرے پاس آئے میری پاکی بیان کرے – لوگوں کی نگاہ میں میں محترم ہوں – ہارون  اس پر چپ رہے

واضح رہے کہ توریت کی کتاب لاوی کے مطابق ہارون کے بیٹوں کی یہ المناک وفات ہارون کی زندگی ہی میں ہوئی اور ان کا نام ندب اور ابہو ہے نہ کہ شبر و شبیر

یہود کے ایک مشہور حبر راشی

Rashi

کے بقول ندب اور ابیہو کا یہ بھیانک انجام شراب پینے کی بنا پر ہوا

AND THERE WENT OUT FIRE — Rabbi Eleizer said: the sons of Aaron died only because they gave decisions on religious matters in the presence of their teacher, Moses (Sifra; Eruvin 63a). Rabbi Ishmael said: they died because they entered the Sanctuary intoxicated by wine. You may know that this is so, because after their death he admonished those who survived that they should not enter when intoxicated by wine (vv. 8—9). A parable! It may be compared to a king who had a bosom friend, etc., as is to be found in Leviticus Rabbah (ch. 12; cf. Biur).

http://www.sefaria.org/Rashi_on_Leviticus.10.3?lang=en

 اس طرح شیعہ کتب اور بعض قدیم یہودی احبار کا اجماع ہے کہ   شبر اور شبیر کا اگ سے خاتمہ ہوا

 دور نبوی میں توریت ایک طومار کی صورت میں صرف علماء اہل کتاب کے پاس تھی -عام مسلمان تک اس کی رسائی  نہیں تھی -دوم اس کی زبان  بھی غیر عرب تھی اس لئے عرب مسلمان تو صرف یہ جانتے تھے کہ یہ ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام ہیں لیکن ان کے بھیانک انجام سے بے خبر تھے –   شبر و شبیر  کے نام حسن و حسین کو دینا جو عذاب الہی سے قتل ہوئے کی اور کیا وجہ ہوئی؟ شبر و شبیر ابن سبا کے ایجاد کردہ نام ہیں جس کو سبانیوں نے حسن و حسین سے منسوب کر دیا

اس سے یہ واضح ہے کہ سبائییوں کا ایجنڈا تھا کہ کسی نہ کسی موقعہ پر حسن و حسین کو شبر و شبیر   بنا ہی  دیا جائے گا یعنی قتل کیا جائے گا

کہتے ہیں  کوئی دیکھنے نہ دیکھے کم از کم  شبیر تو دیکھے گا


 

قرن اول میں ہی علی کے حوالے سے کئی آراء گردش میں آ چکی تھیں  ان کی تفصیل اس ویب سائٹ پر کتاب

Ali in Biblical Clouds

میں موجود ہے

حدیث قرع النعال پر ایک نظر ٢

قرع النعال والی روایت صحیحین میں  جن سندوں سے آئی ہے وہ یہ ہیں- اس روایت کو دنیا میں صرف ایک صحابی انس بن مالک رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں ان سے  دنیا میں صرف بصرہ ایک مشھور مدلس قتادہ روایت کرتے ہیں قتادہ بصری سے اس کو دو اور بصری روایت کرتے ہیں – جن میں ایک عبد الرحمان بن شیبان بصری ہیں اور دوسرے  سعید بن ابی عروبہ بصری  ہیں- امام مسلم صحیح میں اس کو شیبان کی سند سے لکھتے ہیں اور امام بخاری اس کو سعید بن ابی عروبہ  المتوفی ١٥٦ ھ کی سند سے لکھتے ہیں

روایت  میں عربی کی غلطی پر محققین کی آراء

قرع النعال کی روایت ان الفاظ سے نہیں آئی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بولے تھے یہ روایت بالمعنی ہے اور اس میں دلیل یہ ہے کہ عربی کی غلطی ہے

کتاب الميسر في شرح مصابيح السنة میں فضل الله بن حسن التُّورِبِشْتِي (المتوفى: 661 هـ) حدیث قرع النعال پر لکھتے ہیں
لما أشرنا إليه من دقيق المعنى وفصيح الكلام، وهو الأحق والأجدر ببلاغة الرسول – صلى الله عليه وسلم – ولعل الاختلاف وقع في اللفظين من بعض من روى الحديث بالمعنى، فظن أنهما ينزلان في هذا الموضع من المعنى بمنزلة واحدة.
ومن هذا الوجه أنكر كثير من السلف رواية الحديث بالمعنى خشية أن يزل في الألفاظ المشتركة، فيذهب عن المعنى المراد جانبا.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (لا دريت ولا تليت) هكذا يرويه المحدثون، والمحققون منهم على أنه غلط، والصواب مختلف فيه، فمنهم من قال: صوابه: لا أتليت- ساكنة التاء، دعا عليه بأن لا تتلى إبله. أي: لا يكون لها أولاد تتلوها، فهذا اللفظ على هذه الصيغة مستعمل في كلامهم، لا يكاد يخفى على الخبير باللغة العربية، فإن قيل: هذا الدعاء لا يناسب حال المقبور؛ قلنا: الوجه أن يصرف معناه إلى أنه مستعار في الدعاء عليه بأن لا يكون لعمله نماء وبركة. وقال بعضهم: أتلي: إذا أحال على غيره، وأتلى: إذا عقد الذمة والعهد لغيره. أي: ولا ضمنت وأحلت بحق على غيرك، لقوله: (سمعت الناس) ومنهم من قال: (لا ائتليت) على أنه افتعلت، من قولك: ما ألوت هذا، فكأنه يقول: لا استطعت، ومنهم من قال: (تليت) أصله: تلوت، فحول الواو ياء لتعاقب الياء في دريت.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (يسمعها من يليه غير الثقلين) إنما صار الثقلان/ 19 ب عن سماع ذلك بمعزل لقيام التكليف ومكان الابتلاء، ولو سمعوا ذلك

جب ہم معنی کی گہرائی اور کلام کی فصاحت دیکھتے ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بلاغت کلام کے لئے احق ہو – تو دو الفاظ میں بالمعنی روایت کی وجہ سے اختلاف ہو جاتا ہے پس گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں معنی میں اپنے مقام سے گر گئے اور اسی وجہ سے سلف میں سے بہت سوں نے روایت بالمعنی کا انکار کیا اس خوف سے کہ مشترک الفاظ معنی میں ایک ہو جائیں جن کا معنی الگ ہوں – رسول الله کا قول ہے (لا دريت ولا تليت) اور ایسا محدثین نے روایت کیا ہے اور جو (عربی زبان کے) محقق ہیں ان کے نزدیک یہ غلط ہیں ، ٹھیک یا صحیح ہے لا أتليت- ساكنة التاء، جو پکارتا ہے اس پر نہیں پڑھا گیا یعنی اس کی اولاد نہیں تھی جو اس پر پڑھتی پس یہ لفظ ہے جو اس صیغہ پر ہے جو کلام میں استمعال ہوتا ہے اور یہ عربی زبان جاننے والے سے مخفی نہیں ہے پس اگر کہے یہ پکار ہے جو قبر والے کے لئے مناسب نہیں ہے تو ہم کہیں گے اگر معنی پلٹ جائیں کہ وہ اس پر استعارہ ہیں پکار کے لئے کیونکہ اس کے لئے عمل نہیں ہے جس میں بڑھنا اور برکت ہو – اور بعض نے کہا أتلي جب اس کو کسی اور سے تبدیل کر دیا جائے اور أتلي جب ذمی سے عقد کرے اور عھد دوسرے سے کرے یعنی اس میں کسی اور کا حق حلال یا شامل نہ کرے … اور کہا لا ائتليت کہ اس نے کیا اس قول سے ما ألوت هذا یعنی میں نے نہیں کیا اور ان میں ہے تليت اس کی اصل تلوت ہے پس واو کو تبدیل کیا ی سے

کتاب غریب الحدیث میں خطابی (المتوفى: 388 هـ) کہتے ہیں
في حديث سؤال القبر: “لا دريت ولا تليت” . هكذا يقول المحدثون، والصواب: ولا ائْتَلَيت، تقديره: افتعلت، أي لا استطعت, من قولك: ما ألوت هذا الأمر, ولا استطعت.

بغوی شرح السنہ میں لکھتے ہیں

قَوْلُهُ: «وَلا تَلَيْتَ»، قَالَ أَبُو سُلَيْمَانَ الْخَطَّابِيُّ: هَكَذَا يَقُولُ الْمُحَدِّثُونَ، وَهُوَ غَلَطٌ

خطابی نے کہا محدثین نے کہا ہے وَلا تَلَيْتَ جو غلط ہے

اور قبر میں سوال والی حدیث میں ہے “لا دريت ولا تليت” ایسا محدثین نے کہا ہے اور ٹھیک ہے ولا ائْتَلَيت

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار میں جمال الدين الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) کہتے ہیں
ومنه حديث منكر ونكير: لا دريت ولا “ائتليت” أي ولا استطعت أن تدري يقال: ما ألوه أي ما استطيعه، وهو افتعلت منه، وعند المحدثين ولا تليت والصواب الأول

اور حدیث منکر نکیر میں ہے لا دريت ولا “ائتليت” … اور محدثین کے نزدیک ہے ولا تليت اور ٹھیک وہ ہے جو پہلا ہے

لسان العرب میں ابن منظور المتوفی ٧١١ کہتے ہیں
لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ
، وَالْمُحَدِّثُونَ يَرْوُونَهُ:
لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ
، وَالصَّوَابُ الأَول.

لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ اور یہ محدثین ہیں جو اس کو روایت کرتے ہیں لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ اور ٹھیک پہلا والا ہے

پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن  کتاب توفیق الباری جلد سوم میں لکھتے ہیں

tofeq

یعنی اس میں بصرہ کے محدثین نے غلطی کی اور روایت میں عربی کی فحش غلطی واقع ہوئی جو کلام نبوی کے لئے احق نہیں ہے کہ اس میں عربی کی غلطی ہو

عربی کی اس غلطی سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت اس متن سے نہیں ملی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہے

ڈاکٹر عثمانی کا کہنا تھا کہ اس میں یسمع مجھول کا صیغہ ہے اس پر امیر جماعت المسلمین مسعود احمد نے ذہن پرستی میں لکھا تھا

مسعود احمد کا یہ دعوی کہ یہ روایت تلفظا وہی ہے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا  ہوئے عربی نحویوں اور شارحین حدیث  کے موقف کے خلاف ہے کہ یہ روایت عربی کی غلطی رکھتی ہے

رواة پر محدثین کی آراء 

شَيبَان بن عبد الرحمن التَّمِيمِي بصره کے محدث ہیں – امام مسلم نے اس روایت کو ان کی سند سے نقل کیا ہے انکے لئے امام ابن ابی حاتم  کتاب الجرح و التعدیل میں کہتے ہیں میرے باپ نے کہا

يكتب حديثه ولا يحتج به

اس کی حدیث لکھ لو دلیل مت لینا

اسی کتاب میں ابی حاتم اپنے الفاظ لا یحتج بہ کا مفہوم واضح کرتے ہیں

کتاب الجرح و تعدیل میں لکھتے ہیں

قال عبد الرحمن بن أبي حاتم: قلت لأبي: ما معنى (لا يحتج به) ؟ قال:  كانوا قوما لا يحفظون، فيحدثون بما لا يحفظون، فيغلطون، ترى في أحاديثهم اضطرابا ما شئت “. انتهى.

فبين أبوحاتم في إجابته لابنه: السبب في أنه لا يحتج بحديثهم،  وهو ضعف حفظهم، واضطراب حديثهم.

عبد الرحمن بن أبي حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ  لا يحتج به  کیا مطلب ہے انہوں نے کہا  ایک قوم ہے رجال کی جو یاد نہیں رکھتے تھے اور حدیثیں بیان کرتے ہیں جو انکو یاد نہیں ہوتیں پس ان میں غلطیاں کرتے ہیں پس تم دیکھو گے کہ انکی حدیثوں میں اضطراب کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے

ابن ابی حاتم نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ  لا يحتج به کا کیا مطلب ہے

امام بخاری نے قرع النعال کو سعید بن ابی عروبہ کی سند سے لکھا ہے اور ان سے دو لوگ روایت کرتے ہیں

یزید بن زریع اور عبد الاعلی بن عبد الاعلی

مسئلہ یہ ہے کہ سعید بن ابی عروبہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے اور ان  کی اس کیفیت پر محدثین میں اختلاف ہے کہ یہ کب واقع ہوا

امام البزار کہتے ہیں ١٣٣ ہجری میں ہوا تہذیب التہذیب از ابن حجر

قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” میں

یحیی ابن معین کہتے ہیں ١٤٢ ھ میں ہوا

یحیی بن سعید کہتے ہیں ١٤٥ ھ میں ہوا

يزيد بن زريع

ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں

وقال ابن السكن كان يزيد بن زريع يقول اختلط سعيد في الطاعون يعني سنة 132 وكان القطان ينكر ذلك ويقول إنما اختلط قبل الهزيمة قلت والجمع بين القولين ما قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” ولم يستحكم ولم يطبق به وأستمر على ذلك ثم استحكم به أخيرا

اور ابن السکن کہتے ہیں یزید بن زریع نے کہا سعید بن ابی عروبہ کو اختلاط طاعون پر سن ١٣٢ میں ہوا اور القطان نے اس کا انکار کیا اور کہا ہزیمت پر ہوا اور ان اقوال میں اس طرح جمع ممکن ہے جو البزار نے کہا کہ ان  کے اختلاط کی ابتداء سن ١٣٣ میں ہوئی لیکن مستحکم نہ تھی اور اس میں استحکام ہوتا گیا یہاں تک کہ آخر میں مستحکم ہو گیا

ابن حجر کے مطابق سن ١٣٣ میں سعید کو اختلاط شروع ہو چکا تھا اور کلابازی کے مطابق سن ١٣٩ ھ میں ابن زریع نے سنا

الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از  أبو نصر البخاري الكلاباذي (المتوفى: 398هـ) کے مطابق

وَقَالَ الْغلابِي نَا ابْن حَنْبَل قَالَ نَا يزِيد قَالَ مر بِنَا سعيد بن أبي عرُوبَة قبل سنة 39 فسمعنا مِنْهُ

الْغلابِي کہتے ہیں ابن حنبل نے کہا ہم سے یزید نے بیان کیا کہ سعید ہمارے پاس ١٣٩ ھ سے پہلے گزرے جب ہم نے سنا

امام احمد کے مطابق سعید سے یزید کا سماع صحیح ہے کیونکہ انہوں نے ١٤٥ ھ میں اختلاط والی رائے کو ترجیح دی ہے

عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي

امام بخاری نے اس روایت کو عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي   کی سند سے بھی نقل کیا ہے اس میں بھی سماع پر محدثین کا اختلاف ہے

تهذيب التهذيب از ابن حجر کے مطابق

وقال ابن القطان حديث عبد الأعلى عنه مشتبه لا يدري هو قبل الاختلاط أو بعده

اور ابن القطان نے کہا عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي کی سعید بن ابی عروبہ سے روایت مشتبہ ہے – نہیں پتا کہ اختلاط سے قبل سنا یا بعد میں

عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي تمام محدثین کے نزدیک ثقہ بھی نہیں ہیں

وقال ابن سعد: “لم يكن بالقوي

ابن سعد کہتے ہیں یہ قوی نہیں تھے

سنن اربعہ اور مسند احمد میں یہ روایت عبد الوھاب بن عطا اور روح بن عبادہ کی سند سے ہے- یہ دونوں راوی بھی تمام محدثین کے نزدیک ثقہ نہیں مثلا عبد الوہاب ، امام بخاری کے نزدیک ضعیف ہیں  اور روح بن عبادہ،  امام  النسائی اور ابی حاتم کے نزدیک ضعیف ہیں

روایت پر علماء کا عمل

محدثین کا ایک گروہ اس روایت سے دلیل نہیں لیتا جن میں امام احمد ہیں

امام احمد باوجود  یہ کہ قر ع النعال والی روایت کو مسند میں روایت کرتے ہیں لیکن جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت پر  عمل نہیں کرتے اور قبرستان میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتارنے کا حکم کرتے تھے ظاہر ہے نہ جوتیاں ہوں گی نہ ان کی چاپ کا سوال اٹھے گا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله  کے مطابق

وَقَالَ أبي يخلع نَعْلَيْه فِي الْمَقَابِر

میرے باپ (احمد ) کہتے ہیں قبرستان میں نعل اتار دو

 وَكَانَ يَأْمر بخلع النِّعَال فِي الْمَقَابِر

امام احمد حکم دیتےتھے کہ قبرستان میں  نعل اتار دو

رَأَيْت ابي اذا اراد ان يدْخل الْمَقَابِر خلع نَعْلَيْه وَرُبمَا رَأَيْته يُرِيد ان يذهب الى الْجِنَازَة وَرُبمَا لبس خفيه اكثر ذَلِك وَينْزع نَعْلَيْه

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ جب قبرستان میں داخل ہوتے تو جوتے اتار دیتے

امام احمد کے بیٹے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں لکھتے ہیں

رَأَيْت أبي إِذا دخل الْمَقَابِر يخلع نَعْلَيْه فَقلت لَهُ إِلَى أَي شَيْء تذْهب فَقَالَ إِلَى حَدِيث بشير بن الخصاصية

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ قبرستان میں اتے تو جوتے اتارتے پس میں نے کہا کس بنا پر اس کو کیا؟ انہوں نے کہا حدیث بشیر بن الخصاصية  سے لیا

 ابی داود کتاب میں لکھتے ہیں

رَأَيْتُ أَحْمَدَ إِذَا تَبِعَ جِنَازَةً فَقَرِبَ مِنَ الْمَقَابِرِ خَلَعَ نَعْلَيْهِ

میں نے احمد کو دیکھا جب وہ جنازہ کے پیچھے قبرستان کے پاس پہنچتے تو جوتے اتار دیتے

کتاب  مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق امام احمد

فلما سلم خلع نعليه ودخل المقابر في طريق [عامية] 2 مشياً على القبور حتى بلغ القبر

پس جب (نماز جنازہ سے)  سلام پھرنے کے بعد جوتے اتارتے اور قبرستان میں داخل ہوتے  حتی کہ قبر تک پہنچتے

امام احمد کا عمل قرع النعال والی روایت پر نہیں بلکہ  بشیر بن الخصاصية   کی روایت پر تھا جو ابو داود نے بَابُ الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ میں  روایت کی ہے جس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ قرع النعال سے زیادہ صحیح روایت تھی ورنہ اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر عمل کیوں تھا

  ابن قدامة  المغني  ج 2 ص ٤٢١ میں کہتے ہیں
قال الإمام أحمد رحمه الله  إسناد حديث بشير بن الخصاصية جيد أَذْهَبُ إلَيْهِ، إلَّا مِنْ عِلَّةٍ

امام احمد کہتے ہیں بشير بن الخصاصية والی حدیث کی اسناد جید ہیں اسی پر مذھب ہے سوائے اس کے کہ کوئی علت ہو

اتنے سارے حوالے واضح کرتے ہیں کہ امام احمد نے سرے سے اس روایت پر عمل ہی نہیں کیا کہ جوتیاں پہن کر مردے کو دفناتے وقت چلے ہوں امام احمد جس قسم کے روایت پسند سخص تھے ان سے اس روایت پر عمل کرنا سرے سے بیان ہی نہیں ہوا کیوں ؟ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بشير بن الخصاصية رضی الله عنہ کی روایت پر مذھب ہے


الغرض قارئین اپنے ذھن میں رکھیں کہ اس حدیث پر اجماع خود امام بخاری کے دور میں نہیں ملتا  اس پر بعض محدثین خود عمل نہیں کرتے اس میں بعض محدثین کے نزدیک سماع فی اختلاط کا  مسئلہ ہے خود امام بخاری نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا- روایت پر باب باندھنا تبصرہ نہیں ہے جس کی مثال ہے کہ ادب المفرد میں بھی امام بخاری  باب باندھتے ہیں جبکہ اس کی تمام راویات صحیح نہیں ہیں

 اس روایت کی بنیاد پر ارضی قبر میں سوال و جواب کا عقیدہ بنانے والے  دیکھ سکتے ہیں اس میں کیا آراء ہیں

حدیث قرع النعال پر ایک نظر

صحیح بخاری کی حدیث ہے

عن أنس بن مالك رضي الله عنه، أنه حدثهم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه، وإنه  ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه، فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم، فأما المؤمن، فيقول: أشهد أنه عبد الله ورسوله، فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة، فيراهما جميعا – قال قتادة: وذكر لنا: أنه يفسح له في قبره، ثم رجع إلى حديث أنس – قال: وأما المنافق والكافر فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلي

بخاری ح1374کتاب الجنائز باب ماجاء عذاب القبر

۔  انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب بندہ  اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے اصحاب اس سے  پلٹ چکے  تو بلاشبہ وہ  جوتوں کی آوز سنتا  ہے کہ  اس کے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں: “تو اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟” اب اگر وہ ایماندار ہے تو کہتا ہے کہ “میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں” پھر اس سے کہا جاتا ہے “تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدل تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔” تو وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ قتادہ کہتے ہیں “اور ہم سے یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے” پھر انس کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا۔ اور اگر وہ منافق یا کافر ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا ہے؟” تو وہ کہتا ہے “میں نہیں جانتا۔ میں تو وہی کچھ کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔” پھر اس سے کہا جائے گا کہ “نہ تو تُو خود سمجھا اور نہ ہی خود پڑھا۔” اور لوہے کے ہنٹروں سے اسے ایسی مار پڑے گی کہ وہ بلبلا اٹھے گا۔ اور اس کی یہ چیخ جن و انسان کے سوا تمام آس پاس کی چیزیں سنتی ہیں۔”

اس روایت پر عثمانی صاحب کی رائے ہے کہ یہ قبر برزخی مقام ہے جہاں بندہ فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتا ہے اور یہی رائے امام ابن حزم کی بھی ہے

اس پر عبد الرحمن کیلانی نے کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں عثمانی صاحب کی تطبیق کو رد کرنے کو کوشش ناکام کی – عبد الرحمان کیلانی لکھتے ہیں

روایت میں نعالهم  ہے جس میں  “ھم” جمع کی ضمیر ہے۔ اگر اس سے مراد فرشتے ہیں  تو مخالفین کی طرف سے کہا گیا کہ  تثنیہ کی ضمیر “ھما”  آنا چاہئے تھی۔اس کا جواب عثمانی صاحب یہ دیتے ہیں کہ “عربی زبان میں دونون طریقے رائج ہیں۔ تثنیہ کے لیے جمع کا استعمال عام ہے۔ جیسے قرآن کی آیت ہے:(قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ ( سورۃ شعرا15 ))”فرمایا، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر۔ ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔””(فاذهبا)” میں تثنیہ کی ضمیر ہے اور “(معكم)” میں جمع کی۔اس طرح بخاری کی حدیثِ خضر میں یہ الفاظ ہیں:(فمرت بهما سفينة فكلموهم ان يحملو هما)”پس گزری ان دونوں (موسی علیہ السلام و خضر علیہ السلام) کے پاس سے ایک کشتی، پس انہوں نے (جمع کا صیغہ) کشتی  والوں سے بات کی کہ وہ ان دونوں کو کشتی میں سوار کر لیں۔” (بخاری عربی جلد 1 ص23، سطر 15،16)”(فكلموهم)” کے ساتھ ساتھ “(فكلماهم)” بھی بخاری کی روایت میں ہے مگر حاشیہ پر اور نسخہ کے طور پر تین میں “(كلموهم)” کو ہی ترجیح دی گئی ہے جو تثنیہ کے بجائے جمع کا صیغہ ہے۔”

عبد الرحمان کیلانی کا جواب :عربی زبان میں تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ عام نہیں۔ اگر عام ہوتا تو گرائمر کی کتابوں میں اس کا ضرور ذکر پایا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ تثنیہ کی صورت میں جمع کا استعمال شاذ ہے اور اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ مثلا:پہلی مثال میں “کم” کی ضمیر “مع” وجہ سے آتی ہے۔ گویا فرعون کی طرف جانے والے تو صرف دو تھے مگر سننے والوں میں اللہ بھی ساتھ شامل ہو گیا ور ضمیر جمع بدل گئی۔

دوسری مثال میں ایک مقام پر “(كلموهم)” اس لیے آیا ہے کہ موسی علیہ السلام کے ساتھ ان کا ایک ساتھی (یوشع بن نون) بھی تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ لیکن قابل ذکر چونکہ دو ہی ہستیاں تھیں یعنی موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام، اس لیے اکثر تثنیہ کا ضمیر آیا اور ایک جگہ اشتباہ کی وجہ سے جمع کا ضمیر بھی آیا۔ اگرچہ اس کی حاشیہ میں تصحیح کر دی گئی۔

جواب در جواب

 لیکن کہا گیا

تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ

 

 ہونا چاہیے تھا

عربی زبان میں تثنیہ کے لیے تثنیہ کا صیغہ

 

قرآن سے مثال

 

معكم معكما

ہونا چاہیے تھا

فاذهبا بآياتنا إنا معكمآ مستمعون

 

فاذهبا بآياتنا إنا معكم مستمعون

(الشعراء:15)،

پس تم دونوں جاؤ ہماری آیات کے ساتھ ہم تمہارے ساتھ سنیں گے

يختصمون فإذا هم فريقان يختصمان

 

فإذا هم فريقان يختصمون} (النمل:45)،

پس جب دو فریق لڑ پڑے

 

اقتتلوا وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلتا  

{وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا} (الحجرات:9)

اور جب مومنوں میں دو گروہ قتال کریں

 

تسوروا وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسورا المحراب

 

خصمان بغى بعضنا على بعض} (ص:22)

قرآن میں ان کو دو جھگڑنے والے کہا گیا لہذا یھاں تثنیہ کا صغیہ ہونا  چاہیے

{وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسوروا المحراب} (ص:21)

اور کیا تم کو خبر پہنچی جھگڑے گی جب وہ محراب میں چڑھ آئے

ابن  عاشور التحریر و التنویر   میں لکھتے ہیں

 وأكثر استعمال العرب وأفصحه في ذلك أن يعبروا بلفظ الجمع مضافاً إلى اسم المثنى لأن صيغة الجمع قد تطلق على الاثنين في الكلام فهما يتعاوران 

اور عرب اکثر  استمعال میں اور فصاحت کرتے ہوئے عبارت کرتے ہیں لفظ جمع سے جو مضاف ہوتا ہے اسم المثنی پر کیونکہ جمع کا صیغہ کا اطلاق تثنیہ پر کلام میں ہوتا ہے

مخالفین نے اعتراض کیا “ھم” کی ضمیر اگر “(ملكان)” فرشتوں  سے متعلق ہے تو یہ پہلے کیسے آ گئی؟ اس کا جواب عثمانی صاحب یوں دیتے ہیں کہ:”عربی ادب کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر بات بالکل صاف ہو اور سننے والے سے غلطی کرنے کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو پہلے اسم کا ذکر نہیں کیا جاتا جیسے قرآن میں ہے:إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً (35) فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا(سورة الواقعه:35تا36)”ہم نے ان کو (ان کی بیویوں کو) ایک خاص اٹھان سے اٹھایا ہے اور ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں۔”سورۃ یس میں:(وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ”اور ہم نے اس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) کو شعر کی تعلیم نہیں دی۔”

عبد الرحمان کیلانی کا  جواب نمبر 1: پہلی مثال اس لحاظ سے غلط ہے کہ “( إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً)” سے چند آیات پہلے “(وَحُورٌ عِينٌ (22) كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ(سورة الواقعه 22تا23)” کا ذکر آ چکا ہے۔ بعد میں جنت کی چند صفات بیان کر کے “( وَحُورٌ عِين أَنْشَأْنَاهُنَّ ٌ)” کی ضمیر “( وَحُورٌ عِينٌ کی طرف پھیری گئی ہے جو درست ہے۔ لیکن عثمانی صاحب اسے خواہ مخواہ “( أَبْكَارًا)” کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ لفظ بعد میں آیا ہے۔

جواب نمبر 2: مثال تو ایسی درکار تھی کہ ضمیر پہلے آئے اور اس کا مرجع اسم بعد میں ہو۔ پہلی مثال میں آپ نے بعد میں مرجع “( أَبْكَارًا)” جو بتلایا ہے وہ ویسے ہی غلط ہے اور دوسری مثال میں ضمیر کا مرجع اسم مذکور ہی نہیں۔تو ڈاکٹر صاحب کا جواب درست کیسے سمجھا جائے؟

جواب در جواب :  تفسیر ابن کثیر کے مطابق

قال الأخفش في قوله انا أنشأناهن إنشاء  أضمرهن ولم يذكرهن قبل ذلك

الأخفش نے کہا اس قول میں انا أنشأناهن إنشاء ضمیر بیان کی ہے اور ان کا ذکر اس سے قبل نہیں کیا

یعنی یہ وہی بات ہے جو ڈاکٹر عثمانی نے کی ہے – الأخفش عربی زبان کے مشھور نحوی ہیں

اس  بحث کو عود الضمير على متأخر کہا جاتا ہے

المقاصد النحوية في شرح شواهد شروح الألفية المشهور میں العيني (المتوفى 855 هـ)  پر تعلیق میں دکتور علي محمد فاخر، دکتور أحمد محمد توفيق السوداني،  دکتور عبد العزيز محمد فاخر   لکھتے ہیں

قال ابن الناظم: “فلو كان ملتبسًا بضمير المفعول وجب عند أكثر البصريين تأخيره عن المفعول؛ نحو: زان الشجر نوره، وقوله تعالى: {وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ} [البقرة: 124] لأنه لو تأخر المفعول عاد الضمير على متأخر لفظًا ورتبة.

ابن ناظم کہتے ہیں پس اگر مفعول کی ضمیر ملتبس ہو تو اکثر بصریوں کے نزدیک  مفعول  کی تاخیر واجب ہے  جیسے  زان الشجر نوره سج گیا درخت اس کی روشنی سے . اور الله تعالی کا قول ہے اور جب مبتلا کیا ابراہیم کو تمہارے رب نے پس بے شک اگر مفعول کو متاخر کیا جائے تو اس کی ضمیر اسی  لفظ اور مرتبہ کے ساتھ پلٹے گی

ایسا عربی میں کم ہوتا ہے لیکن یہ نا ممکنات میں سے نہیں المسوغأت (جو قاعدة میں ممکن ہوں اگرچہ کم ہوں) میں سے ہے  جیسا کہ قرآن میں اسکی مثال بھی ہے اور عربی بلاغت کی کتب میں اس پر بحث بھی موجود ہے

سورة طه    الآية 67 میں بھی اس کی مثال ہے

فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى 

پس محسوس کیا  اپنے نفس میں خوف موسی نے

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ – کہو وہ – الله احد ہے – ھو ضمیر ہے الله بعد میں ہے

فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

پس بے شک یہ آنکھیں اندھی نہیں لیکن دل اندھے ہیں – جو دلوں میں ہیں

فَإِنَّها کی ضمیر پہلے ہے اور یہ الْقُلُوبُ کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے

إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكَافِرُون

بے شک فلاح نہیں پاتے کفار

إِنَّهُ میں الھا کی ضمیر الْكَافِرُون کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے

یہ انداز قرآن میں ہے اور بصرہ کے نحویوں نے اس کو بیان کیا ہے واضح رہے کہ قرع النعال والی روایت میں بھی بصریوں کا تفرد ہے

کتاب عروس الأفراح في شرح تلخيص المفتاح از أحمد بن علي بن عبد الكافي، أبو حامد، بهاء الدين السبكي (المتوفى: 773 هـ) کے مطابق

وقوله: (هو أو هى زيد عالم) يريد ضمير الشأن مثل قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (3) أصله الشأن الله أحد وقوله: أو هى زيد عالم صحيح على رأى البصريين، أما الكوفيون فعندهم أن تذكير هذا الضمير لازم، ووافقهم ابن مالك واستثنى ما إذا وليه مؤنث أو مذكر شبه به مؤنث أو فعل بعلامة تأنيث فيرجح تأنيثه باعتبار القصة على تذكيره باعتبار الشأن، والمقصود من ذلك أن يتمكن من ذهن السامع ما يعقب الضمير لأنه بالضمير يتهيأ له ويتشوق، ويقال فى معنى ذلك: الحاصل بعد الطلب أعز من المنساق بلا تعب، وسيأتى مثله فى باب التشبيه.

قاعدہ یہ ہے کہ ضمیر سے پہلے اس کا  مفعول ہونا چاہیے لیکن قرآن میں ہی ضمیریں بعض اوقات  پہلے آ جاتی ہیں اور اسم کا ذکر ہی نہیں ہوتا جیسے

إنا أنزلناه في ليلة القدر – ہم نے اس کو نازل کیا القدر کی رات کو —  کس کو یھاں بیان ہی نہیں ہوا- آگے کا سیاق بتا رہا ہے قرآن کی بات ہے

عبس وتولى – منہ موڑا اور پلٹ گیا – کون ؟ بیان نہیں ہوا تفسیری روایات کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت کی گئی

المستشرقين  قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ عربی ادب نہیں ہے – اس کا جواب علماء نحوی دیتے رہے ہیں کہ یہ قرآن کا خلاف قاعدہ انداز بلاغت ہے

الغرض ڈاکٹر عثمانی کی بات عربی نحویوں نے بیان کی ہے اور اس میں بصریوں کا انداز رہا ہے کہ وہ ضمیر کو مفعول یا اسم سے پہلے بیان کر دیتے ہیں جیسا کہ قرع النعال والی روایت میں ہے

اس طرح اس روایت کی قرآن سے تطبیق ممکن ہے جو عربی قوائد کے اندر رہتے ہوئے کی گئی ہے

 کتاب الرویا کا بھید

https://www.islamic-belief.net/کتاب-الرویا/
اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے

بعض  علماء اس عقیدہ کے قائل ہیں کہ انسانی جسم میں دو روحیں ہوتی ہیں –  ان میں سے ایک کو نفس  بالا یا روح بالا  کہتے ہیں جو حالت نیند میں انسانی جسم چھوڑ کر عالم بالا جاتی  ہے وہاں اس کی ملاقات فوت شدہ لوگوں کی ارواح سے ہوتی ہے ، دوسری روح یا نفس، نفس زیریں ہے یا معروف  روح ہے  جو جسد میں رہتی ہے-   اس تمام فلسفہ کو ضعیف روایات سے کشید کیا گیا ہے اور اس کی ضرورت اس طرح پیش آئی کہ خوابوں کی دنیا میں تعبیر رویا کی صنف میں عرب مسلمانوں کو مسائل در پیش تھے – اگرچہ قرآن میں تعبیر رویا کو خاص ایک وہبی علم کہا گیا ہے جو انبیاء کو ملتا ہے اور اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس صنف میں کوئی طبع آزمائی نہیں کی- حدیث کے مطابق ایک موقعہ پر امت کے سب سے بڑے ولی ابو بکر رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ ایک خواب کی تعبیر کی کوشش کریں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوا تھا لیکن وہ بھی اس کی صحیح تعبیر نہ کر سکے – اس کے علاوہ کسی صحیح حدیث میں خبر نہیں ملتی کہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم یا امہات المومننین بھی خواب کی تعبیر کرتے ہوں –

تعبیر رویا کی تفصیل کہ اس میں مرنے والوں اور زندہ کی روحوں کا  لقا ہوتا ہے اور وہ ملتی ہے  اشارات دیتی ہیں نہ صرف فراعنہ مصر کا عقیدہ تھا بلکہ ان سے یونانیوں نے لیا اور ان سے یہود سے ہوتا ہم تک پہنچا ہے

عنطیفون پہلا یونانی فلسفی نے جس نے عیسیٰ سے پانچ صدیوں قبل   تعبیر خواب پر کتاب لکھی

Antiphon the Athenian (480 BC-411 BC)

اس نے دعوی کیا کہ زندہ کی روحیں مرنے والوں سے ملتی ہیں

dreams

A History of dream Interpretation in western society, J. Donald Hughes,  Dreaming 10(1):7-18 · March 2000

یہ بات یہود کی کتاب  مدرش ربه میں بھی موجود تھی کہ زندوں کی ارواح اپنے اجسام سے نکل کر عالم بالا میں مرنے والوں کی ارواح سے ملتی ہیں مثلا

when they sleep their souls ascend to Him… in the morning He restores one’s soul to everyone.

Midrash Rabba, Deuteronomy 5:15

جب یہ سوتے ہیں تو ان کی ارواح بلند ہوتی ہیں رب تک جاتی ہیں  مدرش ربه

کتاب  تعبير الرؤيا از  أبو طاهر الحراني المقدسي النميري الحنبلي المُعَبِّر (المتوفى: نحو 779هـ) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں یہ دانیال کا قول ہے

قَالَ دانيال عَلَيْهِ السَّلَام: الْأَرْوَاح يعرج بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة حَتَّى توقف بَين يَدي رب الْعِزَّة فَيُؤذن لَهَا بِالسُّجُود فَمَا كَانَ طَاهِرا مِنْهَا سجد تَحت الْعَرْش وَبشر فِي مَنَامه

دانیال علیہ السلام کہتے ہیں ارواح بلند ہوتی ہیں سات آسمان تک جاتی ہیں یہاں تک کہ رب العزت کے سامنے رکتی ہیں ان کو سجدوں کی اجازت ملتی ہے اگر طاہر ہوں تو وہ عرش کے نیچے سجدہ کرتی ہیں اور ان کو نیند میں بشارت ملتی ہے

دانیال یہود کے مطابق ایک ولی الله تھے نبی نہیں تھے اور ان سے منسوب ایک کتاب دانیال ہے  جس میں   ایک خواب لکھآ ہے  کہ انہوں نے عالم بالا کا منظر خواب میں دیکھا رب العالمین کو عرش پر دیکھا اور ملائکہ اس کے سامنے کتب کھولے بیٹھے تھے سجدے ہو رہے تھے احکام لے رہے تھے – یہ کتاب عجیب و غریب عقائد کا مجموعہ ہے جس میں یہ تک لکھا ہے کہ جبریل علیہ السلام ایک مہینہ تک بابل والوں کے قیدی رہے  ان کا معلق وجود رہا یہاں تک کہ اسرافیل علیہ السلام نے آزاد کرایا وغیرہ-  یہ کتاب یہودی تصوف کی صنف میں سے ہے – اگرچہ مسلمانوں نے دانیال کو ایک نبی بنا دیا ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے نہ قرآن میں ذکر ہے نہ صحیح  حدیث میں

دانیال کے خواب کی بنیاد پر یہودی علماء کہتے ہیں کہ وہ بھی خواب بتا سکتے ہیں کیونکہ دانیال نبی نہیں ولی تھے اسی طرح خواب  میں مردوں کی روحوں سے ملاقات ممکن ہے- لیکن مسمانوں کو اس پر دلیل چاہیے تھی کیونکہ ان کے نزدیک دانیال نبی تھے اور ایک غیر نبی کے لئے خواب کی تعبیر کرنے کی کیا دلیل ہے  لہذا روایات بنائی گئیں کہ یہ تو عالم بالا میں ارواح سے ملاقات ہے

واضح رہے کہ خود نبی صلی الله علیہ وسلم  کو معراج ہوئی جو جسمانی تھی اس  کے بر عکس کسی حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں بیان کیا کہ وہ خواب میں  عرش تک گئے- اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں تابعین میں بعض افراد نے تعبیر رویا کو ایک ایسا علم قرار دینے کی کوشش کی جو محنت سے حاصل ہو سکتا ہے – اس میں بصرہ کے تابعی ابن سیرین سے منسوب ایک کتاب بھی ہے لیکن اس کی سند ثابت نہیں ہے-  یہ ایک جھوٹی کتاب ہے جو ابن سیرین سے منسوب کی گئی ہے – بہت سے بہت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس  رجحان کا  بعض لوگوں میں اضافہ ہو رہا تھا کہ تعبیر رویا ایک علم ہے جو کسب سے حاصل ہو سکتا ہے  – اس صنف  کے پروآن چڑھنے کی وجہ مال تھا کیونکہ اکثر بادشاہوں کو اپنی مملکت  کے ختم ہونے کا خطرہ رہتا تھا-  شاہ مصر نے خواب دیکھا اس کی تعبیر یوسف علیہ السلام نے کی- قیصر  نے خواب دیکھا کہ مختون لوگ اس کی سلطنت تباہ کر رہے ہیں جس سے اس نے مراد یہودی لیے – دانیال نے شاہ بنی نبوکد نصر کے خواب کی تعبیر کی – وغیرہ لہذا خلفاء و حکمران جو خواب دیکھیں اس کی تعبیر بتانے والا کوئی تو ہو –  اس سے منسلک مال حاصل کرنے کے لئے کتاب تعبیر الرویا لکھی گئیں اور لوگوں نے اس فن میں طاق ہونے کے دعوی کرنے شروع کیے

اس معاملے میں ابہام پیدا کرنے کے لئے قرآن کی   آیات کا استمعال کیا جاتا ہے – قبض یا توفی کا مطلب ہے کسی چیز کو پورا پکڑنا- نکالنا یا اخراج یا  کھینچنا اس کا مطلب نہیں ہے لیکن مترجمین اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت اس کا خیال نہیں رکھتے- قرآن میں الله تعالی عیسیٰ علیہ السلام سے کہتے ہیں انی متوفیک میں تم کو قبض کروں گا یعنی پورا پورا  تھام لوں گا – اس کا مطلب یہ نہیں کہ موت دوں گا

سوره الزمر میں ہے

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى

الله پورا قبضے میں لیتا ہے نفس کو موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نفس  نیند کے وقت،  پس پکڑ  کے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کا حکم لگاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو اک وقت مقرر تک کے لئے

حالت نیند میں اور موت میں قبض نفس ہوتا ہے- نیند میں قبض جسم میں ہی ہوتا ہے اور نفس کا اخراج نہیں ہوتا جبکہ موت میں امساک کا لفظ  اشارہ کر رہا  ہے کہ روح کو جسم سے نکال لیا گیا ہے

سوره الانعام میں آیات ٦٠ تا ٦١ میں ہے

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ  ( )  وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ

 اور وہی تو ہے جو رات  میں تم کو قبض کرتا ہے  اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ  معین مدت پوری کردی جائے پھر تم  کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے   وہ تم کو تمہارے عمل جو کرتے ہو  بتائے گا – اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے  قبض کرلیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے

بے ہوشی یا نیند میں نفس جسد میں ہی ہوتا ہے لیکن اس پر قبض ہوا ہوتا ہے انسان کو احتلام ہو رہا ہوتا ہے پسینہ آ رہا ہوتا ہے سانس چل رہی ہوتی ہے نبض رکی نہیں ہوتی اور دماغ بھی کام کر رہا ہوتا ہے دل دھڑک رہا ہوتا ہے معدہ غذا ہضم کر رہا ہوتا ہے انسان پر زندگی کے تمام آثار غالب اور نمایاں ہوتے ہیں اور موت پر یہی مفقود ہو جاتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی تبدیلی جسم پر اتی ہے اور وہ ہے روح کا جسد سے نکال لیا جانا

بحر الحال تعبیر رویا کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور یہاں تک کہ  آٹھویں صدی کے امام  ابن تیمیہ اپنے فتوی اور کتاب  شرح حديث النزول میں لکھتےہیں کہ حالت نیند میں زندہ لوگوں کی روح، مردوں سے ملاقات کرتی ہیں . ابن تیمیہ لکھتے ہیں

 ففي هذه الأحاديث من صعود الروح إلى السماء، وعودها إلى البدن، ما بين أن صعودها نوع آخر، ليس مثل صعود البدن

ونزوله.

پس ان احادیث میں ہے کہ روح آسمان تک جاتی ہے اور بدن میں عود کرتی ہے اور یہ روح کا اٹھنا دوسری نوع کا ہے اور بدن اور اس کے نزول جیسا نہیں

 اس کے بعد ابن تیمیہ لکھتے ہیں

وروينا عن الحافظ أبي عبد الله محمد بن منده في كتاب [الروح والنفس] : حدثنا أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا عبد الله بن الحسن الحراني، ثنا أحمد بن شعيب، ثنا موسى بن أيمن، عن مطرف، عن جعفر بن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما ـ في تفسير هذه الآية: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42] . قال: تلتقي أرواح الأحياء في المنام بأرواح الموتى ويتساءلون بينهم، فيمسك الله أرواح الموتى، ويرسل

أرواح الأحياء إلى أجسادها.

اور الحافظ أبي عبد الله محمد بن منده في كتاب الروح والنفس میں روایت کیا ہے حدثنا أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا عبد الله بن الحسن الحراني، ثنا أحمد بن شعيب، ثنا موسى بن أيمن، عن مطرف، عن جعفر بن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما اس آیت کی تفسیر میں : {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42] کہا:  زندوں کی روحیں نیند میں مردوں کی روحوں سے ملتی ہیں اور باہم سوال کرتی ہیں، پس الله مردوں

کی روحوں کو روک لیتا ہے اور زندوں کی روحیں چھوڑ دیتا ہے

یہ روایت ہی کمزور ہے اسکی سند میں جعفربن أبي المغيرة الخزاعي ہیں . تہذیب التہذیب  کے مطابق جعفر بن أبي المغيرة الخزاعي کے لئے ابن مندہ کہتے ہیں

وقال بن مندة ليس بالقوي في سعيد بن جبير

اور ابن مندہ کہتے ہیں  سعيد بن جبير  سے روایت کرنے میں قوی نہیں

ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں

وروى الحافظ أبو محمد بن أبي حاتم في [تفسيره] : حدثنا عبد الله بن سليمان، ثنا الحسن، ثنا عامر، عن الفُرَات، ثنا أسباط عن السدى: {وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} قال: يتوفاها في منامها. قال: فتلتقي روح الحي وروح الميت فيتذاكران ويتعارفان. قال: فترجع روح الحي إلى جسده في الدنيا إلى بقية أجله في الدنيا. قال: وتريد روح الميت أن ترجع إلى جسده فتحبس.

اور الحافظ أبو محمد بن أبي حاتم اپنی تفسیر میں روایت کرتے ہیں حدثنا عبد الله بن سليمان، ثنا الحسن، ثنا عامر، عن الفُرَات، ثنا أسباط عن السدى: {وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} کہا> نیند میں قبض کیا. کہا پس میت اور زندہ کی روح ملتی ہے پس گفت و شنید کرتی ہیں اور پہچانتی ہیں. کہا پس زندہ کی روح جسد میں پلٹی ہے دنیا میں تاکہ اپنی دنیا کی زندگی پوری کرے. کہا:  اور میت کی روح جسد میں لوٹائی جاتی ہے تاکہ قید ہو

اس روایت کی سند بھی کمزور ہے اس کی سند میں السدی ہے جو شدید ضعیف راوی ہے

 اس کے بعد ابن تیمیہ نے کئی سندوں سے ایک واقعہ پیش کیا جس کے الفاظ میں بھی فرق ہے کہ عمر رضی الله تعالی عنہ نے علی رضی الله تعالی عنہ سے سوال کیا کہ انسان کا خواب کھبی سچا اور کبھی جھوٹا کیوں ہوتا ہے ؟ جس پر علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا کہ روحیں آسمان پر جاتی ہیں

 وقال ابن أبي حاتم: ثنا أبي، ثنا عمر بن عثمان، ثنا بَقيَّة؛ ثنا صفوان بن عمرو، حدثني سليم بن عامر الحضرمي؛ أن عمر بن الخطاب ـ رضي الله عنه ـ قال لعلي بن أبي طالب ـ رضي الله عنه: أعجب من رؤيا الرجل أنه يبيت فيرى الشيء لم يخطر له على بال! فتكون رؤياه كأخذ باليد، ويرى الرجل الشيء؛ فلا تكون رؤياه شيئًا، فقال على بن أبي طالب: أفلا أخبرك بذلك يا أمير المؤمنين؟ إن الله يقول: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} [الزمر: 42] ، فالله يتوفي الأنفس كلها، فما رأت ـ وهي عنده في السماء ـ فهو الرؤيا الصادقة. وما رأت ـ إذا أرسلت إلى أجسادها ـ تلقتها الشياطين في الهواء فكذبتها، فأخبرتها بالأباطيل وكذبت فيها، فعجب عمر من قوله.   وذكر هذا أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن منده في كتاب [الروح والنفس] وقال: هذا خبر مشهور عن صفوان بن عمرو وغيره، ولفظه: قال على بن أبي طالب: يا أمير المؤمنين، يقول الله تعالى: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} والأرواح يعرج بها في منامها، فما رأت  وهي في السماء فهو الحق، فإذا ردت إلى أجسادها تلقتها الشياطين في الهواء فكذبتها، فما رأت من ذلك فهو الباطل.

اور ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں … کہ سلیم بن عامر نے روایت کیا کہ عمر بن الخطاب رضی الله عنہ نے علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے کہا مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی خواب دیکھتا ہے جس میں اس کا شائبہ تک اس کے دل پر نہیں گزرا ہوتا …. علی نے کہا امیر المومنین کیا میں اپ کو اس کی خبر دوں؟ الله تعالی نے  فرمایا

{اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} [الزمر: 42] ، پس الله نے نفس کو قبضہ میں لیا موت پر اور جو نہیں مرا اس کا نیند میں پس اس کو روکا جس پر موت کا حکم کیا اور دوسری کو چھوڑ دیا ایک مدت تک – تو الله نے نفس کو مکمل قبضہ کیا  تو یہ اس کے پاس آسمان پر ہے جو سچا خواب ہے اور جو جسد میں واپس آیا اس پر شیطان نے القا کیا … عمر کو اس قول پر حیرت ہوئی

اور اس کا ذکر ابن مندہ نے کتاب الروح و النفس میں کیا ہے اور کہا ہے یہ خبر مشھور ہے

   اس روایت  کے راوی سليم بن عامر کا عمر رضی الله تعالی عنہ سے سماع ثابت نہیں ہو سکا.

 اپنے عقیدہ  کے اثبات کے لئے ابن تیمیہ نے ابن لَهِيعَة تک کی سند پیش کی. جب کہ ان کی روایت بھی ضعیف ہوتی ہے

 قال الإمام أبو عبد الله بن منده: وروى عن أبي الدرداء قال: روى ابن لَهِيعَة عن عثمان بن نعيم الرُّعَيْني، عن أبي عثمان الأصْبَحِي، عن أبي الدرداء قال: إذا نام الإنسان عرج بروحه حتى يؤتى بها العَرْش قال: فإن كان طاهرًا أذن لها بالسجود، وإن كان جُنُبًا لم يؤذن لها بالسجود. رواه زيد بن الحباب وغيره.

 ابن تیمیہ نے یہ واقعہ ابن مندہ کے حوالے سے    ایک ضعیف راوی کی سند سے بھی پیش  کیا

وروى ابن منده حديث على وعمر ـ رضي الله عنهما ـ مرفوعًا، حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد، ثنا محمد بن شعيب، ثنا ابن عياش بن أبي إسماعيل، وأنا الحسن بن علي، أنا عبد الرحمن بن محمد، ثنا قتيبة والرازي، ثنا محمد بن حميد، ثنا أبو زهير عبد الرحمن بن مغراء الدوسي، ثنا الأزهر بن عبد الله الأزدي، عن محمد بن عجلان، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه قال: لقي عمر بن الخطاب على بن أبي طالب فقال: يا أبا الحسن … قال عمر: اثنتان. قال: والرجل يرى الرؤيا: فمنها ما يصدق، ومنها ما يكذب. فقال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” ما من عبد ينام فيمتلئ نومًا إلا عُرِج بروحه إلى العرش، فالذي لا يستيقظ دون العرش فتلك الرؤيا التي تصدق، والذي يستيقظ دون العرش فهي الرؤيا التي تكذب

یہ روایت معرفة الصحابة  از أبو نعيم  میں بھی حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الطَّلْحِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَبِيبٍ الطَّرَائِفِيُّ الرَّقِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، ثنا الْأَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَوْدِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِيهِ کی سند سے بیان ہوئی ہے لیکن راوی الْأَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ  ضعیف ہے

ابن حجر لسان المیزان میں اس پر بحث کرتے ہیں کہ

أزهر بن عبد الله خراساني.  عنِ ابن عجلان.

تُكلم فيه.

قال العقيلي: حديثه غير محفوظ، رواه عنه عبد الرحمن بن مغراء، انتهى.

والمتن من رواية ابن عجلان، عن سالم، عَن أبيه، عَن عَلِيّ رفعه: الأرواح جنود مجندة … الحديث.

وذكر العقيلي فيه اختلافا على إسرائيل، عَن أبي إسحاق عن الحارث، عَن عَلِيّ في رفعه ووقفه ورجح وقفه من هذا الوجه.

قلت: وهذه طريق أخرى تزحزح طريق أزهر عن رتبة النكارة.

وأخرج الحاكم في كتاب التعبير من المستدرك من طريق عبد الرحمن بن مغراء، حَدَّثَنَا أزهر بن عبد الله الأزدي بهذا السند إلى ابن عمر قال: لقي عمر عَلِيًّا فقال: يا أبا الحسن الرجل يرى الرؤيا فمنها ما يصدق ومنها ما يكذب قال: نعم، سمعت رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: ما من عبد، وَلا أمة ينام فيمتلىء نوما إلا عرج بروحه إلى العرش فالذي لا يستيقظ دون العرش ذلك الرؤيا التي تصدق والذي يستيقظ دون العرش فذلك الرؤيا التي تكذب.

قال الذهبي في تلخيصه: هذا حديث منكر، لم يتكلم عليه المصنف وكأن الآفة فيه من أزهر.

 أزهر بن عبد الله خراساني.   ابن عجلان سے (روایت کرتے ہیں)

انکے بارے میں کلام ہے

عقیلی کہتے ہیں: ان کی حدیث غیر محفوظ ہے اس سے عبد الرحمن بن مغراء روایت کرتے ہیں انتھی

اور اس روایت کا متن ابن عجلان، عن سالم، عَن أبيه، عَن عَلِيّ سے مرفوعا روایت کیا ہے …

میں (ابن حجر) کہتا ہوں: اور اس کا دوسرا طرق أزهر کی وجہ سے ہٹ کر نکارت کے رتبے پر جاتا ہے

اور حاکم نے مستدرک میں کتاب التعبیر میں اس کی عبد الرحمن بن مغراء، حَدَّثَنَا أزهر بن عبد الله الأزدي کی ابن عمر سے روایت بیان کی ہے کہ عمر کی علی سے ملاقات ہوئی پس کہا اے ابو حسن  ایک آدمی خواب میں دیکھتا ہے جس میں سے کوئی سچا ہوتا ہے اور کوئی جھوٹا پس علی نے کہا ہاں میں نے رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے سنا ہے کہ  کوئی بندہ نہیں ، اور بندی نہیں جس کو نیند آئے  الا یہ کہ اپنی روح کے ساتھ عرش تک اوپر جائے پس جو نہ سوئے عرش کے بغیر وہ خواب سچا ہے اور جو سوئے عرش کے بغیر  اس کا خواب جھوٹا ہے

الذهبي تلخیص میں کہتے ہیں یہ حدیث منکر ہے  مصنف نے اس پر کلام نہیں کیا اور اس میں آفت أزهر کیوجہ سے ہے

کتاب : الفتح الرباني من فتاوى الإمام الشوكاني میں شوکانی اس کی بہت سی سندیں دیتے ہیں ان کو رد کرتے ہیں پھر لکھتے ہیں

والحاصل: أن رؤية الأحياء للأموات في المنام كائنة في جميع الأزمنة منذ عصر الصحابة إلى الآن. وقد ذكر من ذلك الكثير الطيب القرطبي في تذكرته، وابن القيم   في كثير من مؤلفاته، والسيوطي في شرح الصدور   بشرح أحوال الموتى في القبور.

الوجه الثامن: من وجوه الأدلة المقتضية لالتقاء أرواح الأحياء والأموات، وهو دليل عقلي لا يمكن الإنكار له، ولا القدح في دلالته، ولا التشكيك عليه، وذلك أنه قد وقع في عصرنا فضلا عن العصور المتقدمة أخبار كثيرة من الأحياء أفم رأوا في منامهم أمواتا فأخبروهم بأخبار هي راجعة إلى دار الدنيا

اور حاصل یہ ہے کہ زندوں کا مردوں کو نیند میں دیکھنا  چلا آ رہا ہے عصر صحابہ سے ہمارے دور تک- اور اس کا ذکر کیا ہے قرطبی نے تذکرہ میں اور ابن قیم نے اپنی بہت سی مولفات میں اور السيوطي نے شرح الصدور بشرح أحوال الموتى في القبور میں  

اور دوسری وجہ : اور وہ دلائل جو ضرورت کرتے ہیں کہ زندوں کی روحیں مرنے والوں سے ملتی ہیں وہ عقلی ہیں جن پر کوئی قدح نہیں نہ ان پر شک ہے اور ہمارے زمانے کے بہت سے فضلا کو خبریں ملی ہیں ان مردوں کو جو اس دار سے جا چکے ہیں

غیر مقلدین کی ایک معتبر شخصیت عبد الرحمن کیلانی کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں لکھتے ہیں

کیلانی خواب ١

اس فلسفہ کا خمیر انہی ضعیف روایات پر اٹھا ہے جس سے معبروں (خواب کی تعبیر کرنے والوں) کی دکان چل رہی تھی

 ظاہر ہے اس فلسفہ کی قرآن و حدیث میں جڑیں نہیں لہذا اس پر سوال پیدا ہوتے ہیں جو کرتے ہی زبان بند ی کرا دی جاتی ہے

kelani khwab

صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق اچھا خواب الله کی طرف سے ہے اور برا شیطان کی طرف سے  نہ کہ اس میں روحیں نکل کر عالم بالا جاتی ہیں

حدیث میں ہے ایک شخص خواب بیان کر رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا اور کہا
لَا تُخْبِرْ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِكَ فِي الْمَنَامِ
اس کی خبر مت دو کہ شیطان نے تیرے ساتھ نیند میں کیا کھیلا

صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، جَمِيعًا عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ عَمْرٍو الدَّوْسِيَّ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ لَكَ فِي حِصْنٍ حَصِينٍ وَمَنْعَةٍ؟ – قَالَ: حِصْنٌ كَانَ لِدَوْسٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ – فَأَبَى ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلَّذِي ذَخَرَ اللهُ لِلْأَنْصَارِ، فَلَمَّا هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ، هَاجَرَ إِلَيْهِ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو وَهَاجَرَ مَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَاجْتَوَوُا الْمَدِينَةَ، فَمَرِضَ، فَجَزِعَ، فَأَخَذَ مَشَاقِصَ لَهُ، فَقَطَعَ بِهَا بَرَاجِمَهُ، فَشَخَبَتْ يَدَاهُ حَتَّى مَاتَ، فَرَآهُ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فِي مَنَامِهِ، فَرَآهُ وَهَيْئَتُهُ حَسَنَةٌ، وَرَآهُ مُغَطِّيًا يَدَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: مَا صَنَعَ بِكَ رَبُّكَ؟ فَقَالَ: غَفَرَ لِي بِهِجْرَتِي إِلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكَ مُغَطِّيًا يَدَيْكَ؟ قَالَ: قِيلَ لِي: لَنْ نُصْلِحَ مِنْكَ مَا أَفْسَدْتَ، فَقَصَّهَا الطُّفَيْلُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ وَلِيَدَيْهِ فَاغْفِرْ»

حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ بصری روایت کرتے ہیں ابی زبیر سے وہ جابر رضی الله عنہ سے کہ
طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (مکہ میں ہجرت سے پہلے) اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ ایک مضبوط قلعہ اور لشکر چاہتے ہیں؟ (اس قلعہ کے لیے کہا جو کہ جاہلیت کے زمانہ میں دوس کا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے قبول نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے حصے میں یہ بات لکھ دی تھی ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ان کی حمایت اور حفاظت میں رہیں گے) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی (اور ان کے پیٹ میں عارضہ پیدا ہوا) تو وہ شخص جو سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا تھا، بیمار ہو گیا اور تکلیف کے مارے اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہوگیا، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا اور ا س کی حالت اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا :’’مجھے اس لیے بخش دیا کہ میں نے اس کے پیغمبرکی طرف ہجرت کی تھی۔‘‘ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے ہے؟ وہ بولا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ ہم اس کو نہیں سنواریں گے جس کو تو نے خود بخود بگاڑا ہے۔ پھر یہ خواب سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر کرم کیا ہے۔ (یعنی اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی درست کر دے)۔ ‘‘

اس روایت کے مطابق طفیل رضی الله عنہ نے اس شخص کو خواب میں دیکھا اور اس نے بتایا کہ اس کی بخشش ہو گئی

اس کی سند میں ابی زبیر ہے جو جابر رضی الله عنہ سے روایت کر رہا ہے
محدثین کہتے ہیں ابو زبیر کی وہی روایت لینی چاہیے جو لیث بن سعد کی سند سے ہوں امام مسلم نے اس اصول کو قبول نہیں کیا
اور روایت کو صحیح سمجھا ہے جبکہ دیگر محدثین اس سے الگ کہتے ہیں ان کے مطابق یہ روایت صحیح نہیں بنتی

كتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مشهور بالتدليس قال سعيد بن أبي مريم ثنا الليث بن سعد قال جئت أبا الزبير فدفع لي كتابين فانقلبت بهما ثم قلت في نفسي لو أني عاودته فسألته اسمع هذا كله من جابر قال سألته فقال منه ما سمعت ومنه ما حدثت عنه فقلت له اعلم لي على ما سمعت منه فاعلم لي على هذا الذي عندي ولهذا توقف جماعة من الأئمة عن الاحتجاج بما لم يروه الليث عن أبي الزبير عن جابر وفي صحيح مسلم عدة أحاديث مما قال فيه أبو الزبير عن جابر وليست من طريق الليث وكأن مسلما رحمه الله اطلع على أنها مما رواه الليث عنه وإن لم يروها من طريقه والله أعلم

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي تدلیس کے لئے مشھور ہیں – سعيد بن أبي مريم نے لیث بن سعد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں ابو الزبیر کے پاس گیا اس نے دو کتابیں دیں ان کو لے لر واپس آیا – پھر میں نے دل میں کہا جب اس کے پاس جاؤں گا تو اس سے پوچھوں گا کہ کیا یہ سب اس نے جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سے سنا بھی ہے ؟ لیث نے ابو الزبیر سے (واپس جا کر) سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا: اس میں ہے جو ان سے سنا اور وہ بھی جو میں نے ان سے روایت کر دیا ہے- میں (لیث) نے اس سے کہا: مجھے اس کا علم دو جو تم نے سنا ہو- پس اس نے صرف وہ بتایا اور یہ اب میرے پاس ہے-اس وجہ سے ائمہ (حدیث) کی جماعت نے اس (ابو الزبیر) سے دلیل نہیں لی سوائے اس کے کہ جو لیث کی سند سے ہو – اور صحیح مسلم میں اس کی چند روایات ہیں جس میں ابو الزبیر عن جابر کہا ہے جو لیث کی سند سے نہیں اور امام مسلم اس بات سے واقف تھے کہ اس کی لیث کی سند والی روایات کون سی ہیں ، انہوں نے اس کو اس طرق سے روایت نہیں کیا الله آعلم

ابن سیرین سے منسوب کتاب تفسیر الاحلام یا کتاب الرویا غیر ثابت ہیں لیکن یہ کتاب  صوفیوں کی گھڑی ہوئی ہے

عرب عالم مشھور بن  حسن ال سلمان اپنی  كتاب  كتب حذر منها العلماء  (وہ کتب جن سے علماء نے احتیاط برتی) میں اس پر بحث کرتے ہیں

ibn-seren-dreambook

لب لباب یہ ہے کہ یہ کتاب ابن سیرین سے ثابت نہیں ہے اس کا تین قرون میں تذکرہ نہیں ملتا ابن سیرین ایک محتاط محدث تھے اور تعبیر کے لئے ممکن نہیں کہ انہوں نے قوانین بنائے ہوں

لیکن افسوس بر صغیر کے علماء نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور غیر مقلدین علماء تک اس کو فتووں میں استمعال کر رہے ہیں

 

وقت کےساتھ بدلتی برزخ

غیر مقلدین جن کا عقائد میں ارتقاء جاری و ساری ہے ان کی کتب میں برزخ کے حوالے سے پچھلے چند سالوں میں اس قدر متضاد بیانات سامنے آئے ہیں کہ عقل سلیم سے بہرور لوگ مجبور ہیں کہ ان کے اس تضاد کو کشف از بام کریں

محب الراشدی اپنے فتوی میں لکھتے ہیں

Rasidia-207

اس فتوی میں ظاہر ہے کہ مرنے والوں کی روحیں نکال کر برزخ لے جائی گئیں جہاں ان کی ملاقات پہلے مر جائے والوں کی ارواح سے ہوا

برزخ کا یہ مفھوم کہ یہ عالم ارواح ہے یا عالم بالا ہے سب کے ذہن میں ہے اس سلسلے میں ایک منکر شیخ ارشد کمال ، کمال دکھاتے ہیں ایک طرف تو صریحا برزخ کا بطور عالم انکار کرتے ہیں اس پر کتاب عذاب قبر میں ایک فلسفہ جھاڑتے ہیں

arshad-57

لیکن پھر چونکہ ذہین میں ہے کہ برزخ  کے مفھوم میں گھپلا کیا ہے لہذا ان کا قلم چوک گیا اور الٹا المسند فی عذاب القبر میں لکھ گئے

arshad-95

جب اپ برزخ کو کوئی مقام مانتے ہی نہیں تو اس پر یہ عنوان قائم کرنا نری حماقت ہے

موصوف کے بقول جو بھی عالم برزخ میں ہے وہ غیب میں ہے اس کو ہم نہیں جان سکتے

arshad-135

قارئیں اپ دیکھ سکتے ہیں فرقہ غیر مقلدین کسی دور میں عقیدہ میں ایک بات لکھتے ہیں اور پھر مل کر اس عقیدہ کو بدل دیتے ہیں ایسا  تبھی ہوتا ہے جب عقیدہ بدلتی رتوں پر مبنی ہو نہ کہ قرآن  پر

وهو الله في السماوات وفي الأرض يعلم سركم وجهركم ويعلم ما تكسبون

دين میں عقل و فکر کی اہمیت

 کیا عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے ؟

اسلام کو دین فطرت کہا جاتا ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ما مِنْ موْلودٍ إلا يولَدُ على الفِطرةِ

ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے

فطرت انسان میں  جبلی قوت دی گئی ہیں ان میں حواس خمسہ رکھے گئے ہیں – جس میں قرآن میں بار بار سمع و الابصار کا ذکر ہے کہ مشرک اس کو استمعال نہیں کرتے اور اس کی وجہ قرآن کہتا ہے کہ یہ اندھے نہیں ان کے دل اندھے ہیں- یعنی جو لوگ الله کی دی ہوئی نعمتوں کو حق کی تلاش کے لئے استمعال نہیں کرتے ان کے قلوب پر زنگ آ جاتا ہے وہ اگرچہ آنکھوں سے بینا ہیں لیکن ان میں عقل و سمجھ مفقود ہے لہذا قرآن میں الله تبارک و تعالی کہتے ہیں

فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ   النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ

یہ الله کی (دی ہوئی) فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو خلق کیا ہے ، الله کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں

یعنی ہر انسان اس فطرت پر پیدا ہو رہا ہے جس میں تعقل و فکر کر کے وہ الله کو پا سکتا ہے

هود عليه السلام نے اپنی قوم سے کہا جب انکی قوم نے گمراہی پر اصرار کیا

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ

 بلا شبہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے رجس و غضب واقع ہو چکا ہے

سوره الانعام میں کہا

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

پس الله جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اور جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو گھٹتا ہوا تنگ کرتا ہے  گویا کہ وہ آسمان کی طرف جا رہا ہو – اس طرح الله گندگی ڈالتا ہے ان پر جو ایمان نہیں لاتے

سوره یونس میں کہا

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (100)

اور نفس کے لئے نہیں ہے کہ ایمان لائے سوائے الله کے اذن سے اور وہ گندگی ڈالتا ہے ان پر جو عقل سے کام نہیں لیتے

یعنی عقل استمعال نہ کرنے کی وجہ سے جب و فطرت سے ہٹے تو الله نے ان پر رجس یا گندگی ڈال دی جس نے ان کو قبر پرستی اصنام پرستی اکابر پرستی کی لعنت میں مبتلا کیا اور وہ اس کے جواز کے فتوے دینے لگے اس میں کتاب الله اور حدیث کا درس دینے والے بھی تھے لیکن الله نے اہل کتاب کے علماء کے لئے کہا کہ ان پر گدھوں کی طرح کتابیں لدھی ہیں ان کو پڑھتے ہیں لیکن رجس سے نہیں نکل پا رہے –  عقل و فراست ہی تفقہ فی الدین ہے کہ روایت کو آگے کرنے حدثنا و اخبرنا کہنے والے تو بہت ہیں لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس  میں تفقہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے

عقل کتنی بے کار شی ہے اس پر ارشد کمال کتاب عذاب قبر ص ١٨٢ میں لکھتے ہیں

aqel-baykar

یقینا  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فہم و فراست سب سے بلند ہے لیکن کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ  کی آراء یا سلمان فارسی کی آراء یا اذان  کے سلسلے میں اصحاب رسول کی آراء نہیں سنیں- پھر ایک حدیث ضعیف ہو یا موضوع  ہو اور اپ لوگ مسلسل اصرار کرتے رہیں کہ یہی فہم دین ہے تو یہ سب ہم ماننے سے رہے

صحیح بخاری تک کی احادیث پر محدثین اعتراض کرتے رہے ہیں مثلا کتاب التوحید صحیح بخاری کی معراج کی روایت ہے جس کا راوی شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ  ہے

الذھبی میزان میں کہتے ہیں

ووهاه ابن حزم لاجل حديثه في الاسراء

ابن حزم نے اسکو ضعیف قرار دیا  ہے اس کی حدیث معراج کی وجہ سے

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں

وَهُوَ رَاوِي حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ وَانْفَرَدَ فِيهِ بِأَلْفَاظٍ غَرِيبَةٍ

اور یہ راوی ہے حدیث معراج کا جس میں یہ منفرد ہے اور اس کے الفاظ عجیب و غریب ہیں

سیر الاعلام النبلاء  میں الذھبی  کہتے ہیں

وَفِي حَدِيْثِ الإِسْرَاءِ مِنْ طَرِيْقِه أَلْفَاظٌ، لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهَا، وَذَلِكَ فِي صَحِيْحِ البُخَارِيِّ

اور معراج والی حدیث میں جو الفاظ ہیں انکی متابعت کوئی نہیں کرتا اور یہ صحیح البخاری میں ہے

یعنی غرابت کی وجہ سے اس روایت کو علماء رد کر رہے ہیں

اسی طرح صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَيَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا»

سعید بن ابی ہلال روایت کرتا ہے زید بن اسلم سے وہ عطا سے وہ ابی سعید سے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سنا انہوں نے فرمایا ہمارا رب اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا

قرآن میں آیت يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [القلم: 42]  جس روز پنڈلی کھل جائے گی –  عربی زبان کے علماء کے مطابق یہ الفاظ شدت وقوعہ میں بولے جاتے ہیں کہ محشر میں سختی ہو گی-  مصطفی البغاء تعلیق صحیح بخاری میں لکھتے ہیں

هذا الكلام عبارة عن شدة الأمر يوم القيامة للحساب والجزاء والعرب تقول لمن وقع في أمر يحتاج إلى اجتهاد ومعاناة شمر عن ساقه وتقول للحرب إذا اشتدت كشفت عن ساقها

یہ کلام عبارت ہے روز محشر کی شدت سے حساب اور جزا  کی وجہ سے اور عرب ایسا کہتے ہیں اس کام کے لئے جس میں اجتہاد ہو…  اور جنگ کے لئے کہتے ہیں جب یہ شدت اختیار کرے گی تو  پنڈلی کھل جائے گی

لیکن بعض علماء نے اس روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے پنڈلی کو الله کی صفت ذات بنا دیا

ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) نے کتاب  التوضيح لشرح الجامع الصحيح میں لکھا

هذا يدل -والله أعلم- أن الله تعالى عرف المؤمنين على ألسنة الرسل يوم القيامة أو على ألسنة الملائكة المتلقين لهم بالبشرى، أن الله تعالى قد جعل لكم علامة تجليه لكم الساق

اور یہ دلیل ہے کہ و الله اعلم … کہ الله تعالی   تمہارے لئے ایک علامت کرے گا کہ تجلی  کرے گا پنڈلی کی

ابن جوزی اپنی کتاب دفع  شبه ألتشبھة  میں لکھتے ہیں کہ قاضی ابو یعلی نے اس قسم کی روایات سے یہ نکالا کہ الله کی پنڈلی اس کی صفت ذات ہے

ابن جوزی -ساق

یہاں تک کہ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَوَقَعَ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ وَهُوَ مِنْ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَأَخْرَجَهَا الْإِسْمَاعِيلِيُّ كَذَلِكَ ثُمَّ قَالَ فِي قَوْلِهِ عَنْ سَاقِهِ نَكِرَةٌ ثُمَّ أَخْرَجَهُ مِنْ طَرِيقِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ بِلَفْظ يكْشف عَن سَاق قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيُّ هَذِهِ أَصَحُّ لِمُوَافَقَتِهَا لَفْظَ الْقُرْآنِ فِي الْجُمْلَةِ لَا يُظَنُّ أَنَّ اللَّهَ ذُو أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ مُشَابَهَةِ الْمَخْلُوقِينَ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء

اور صحیح بخاری میں اس مقام پر ہے يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ کہ ہمارا رب اپنی پنڈلی کو کھولے گا اور یہ روایت ہے سعید بن ابی ہلال کی عن زید بن اسلم کی سند سے پس اس کی تخریج کی ہے الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے اسی طرح پھر کہا ہے اپنی پنڈلی پر یہ نَكِرَةٌ ہے پھر اس کی تخریج کی حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ  کے طرق سے  اور الفاظ ہیں يكْشف عَن سَاق اور الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے کہا یہ زیادہ صحیح ہے جو قرآن کی موافقت میں ہے فی جملہ – نا گمان کرو کہ الله   أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ  والا ہے  کیونکہ یہ مخلوق سے مشابہت کا قول ہے الله تعالی اس سے بلند ہے  اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے

یعنی صحیح بخاری کی اس روایت کا متن صحیح نقل نہیں ہوا اس متن میں سعید بن ابی ہلال نے غلطی کی

ارشد کمال کتاب عذاب القبر میں  لکھتے ہیں

ڈاکٹر عثمانی ارشد

ڈاکٹر عثمانی نے صحیح بخاری کی کسی روایت کو اپنی کتابوں میں ضعیف نہیں کہا بلکہ جہاں تک ممکن ہوا بظاہر متصادم روایات کی انہوں نے  تاویل کی ہے لیکن ان سے قبل انے والے علماء  اس مقام پر نہیں رکے بلکہ کھل کر صحیح کی روایت کو غلط بھی کہا جس کی سر دست دو مثالیں اوپر دی ہیں

امت میں قبر پرستی کو سند جواز دینے والے علماء نے آج یہ لکھنا شروع کر دیا ہے کہ دینی معاملات میں عقل کو معیار نہیں بنایا جا سکتا – تشابھت قلوبھم – ان کے اور اہل کتاب کے علماء کی تان یہیں آ کر ٹوٹی کہ اگر ہم غور و فکر کریں تو علمانے اسباط یا سلف  کے  اقوال غلط ہو جاتے ہیں – اسی فرقہ پرستی سے دین میں منع کیا گیا تھا کہ جب حق عقل و فکر کے میزان میں کتاب الله کی  تائید  میں آ جائے تو پھر اس کو قبول کر لینا چاہیئے

اس قبیل کے علمائے سوء کی جانب سے علی رضی الله کا ایک قول پیش کیا جاتا ہے

علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ دین کا دارومدار رائے (اور عقل) پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اوپر مسح کرنے سے اور بلاشبہ میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں کے اوپر مسح کیا کرتے تھے۔(رواہ ابو دائود‘والدارمی معناہ ‘ مشکوٰۃ ص ۵۴

ہم کہتے ہیں  کیا رائے ہمیشہ عقل سے نکلتی ہے ؟ رائے تو نصوص سے بھی اتی ہے اور عقل و فکر سے دانش سے فقہ سے سب سے اتی ہے – یہ قول سنن دارمی  اور ابی داود کا ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ، وَقَدْ «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ

رائے کا لفظ صحابہ کے دور میں مستعمل نہیں تھا لہذا یہ متن منکر ہے اس میں ابی اسحاق ہے جو مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے-  اس کی سند میں  الأعمش ہے جو مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے

العلل دارقطنی میں اس روایت کی اسناد و متن پر بحث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رائے کا لفظ الاعمش کی سند میں ہے
وَاخْتَلَفُوا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ فَقَالَ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ فِيهِ لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ.
وَقَالَ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ فِيهِ كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ أَعَلَاهُمَا
وَتَابَعَهُمَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ وَإِسْرَائِيلُ عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ.
وَالصَّحِيحُ مِنْ ذَلِكَ قَوْلُ مَنْ قَالَ: كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْخُفَّيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُمَا.

لہذا رائے (یا غیر مقلدین کے بقول عقل) کا لفظ جو اس روایت میں بیان ہوا ہے وہ دارقطنی کے بقولصحیح روایت نہیں ہے بلکہ صحیح وہ ہے جس میں رائے کا لفظ نہیں ہے

کتاب الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم کے مطابق

قال علي إنما ذكره يحيى على أن الأعمش كان مضطربا في حديث أبي إسحاق.

علی المدینی نے ذکر کیا کہ یحیی القطان کے حوالے سے کہ اعمش  مضطرب ہے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ، وَأَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، فَقَالُوا بِالرَّأْيِ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

عبد الله بن عمرو بن العآص رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا بنی اسرائیل کا امر معتدل رہا یہاں تک کہ ان میں الْمُوَلَّدُونَ پیدا کرنے والے بڑھے اور فاحشہ کی اولادیں  پس انہوں نے رائے سے کلام کیا گمراہ ہوئے اور  گمراہ کیا

ابن ماجه كي اس روایت کو شعيب الأرنؤوط ، محمد فؤاد عبد الباقي اور البانی  ضعیف کہتے ہیں

یہ روایت مسند البزار میں بھی ایک دوسری سند سے ہے

وَأَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى بَدَا فِيهِمْ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، فَأَفْتَوْا بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» . وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ: عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، إِلَّا قَيْسٌ، وَرَوَاهُ غَيْرُ قَيْسٍ مُرْسَلًا

اس میں قیس بن الربیع ہے جس پر محدثین کی جرح ہے یہ ایک جاہل تھا اور ائمہ اہل رائے  کی شان میں سب و شتم کرتا تھا وكِيع  اس کی تضعیف کرتے تھے اور جب اس کا ذکر ہوتا کہتے الله المستعان- امام احمد کہتے ہیں منکرات بیان کرتا تھا

مسند دارمی میں هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  اسکو ابن زبیر رضی الله عنہ کا قول کہا گیا ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ – هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ-، عَنْ هِشَامٍ- هُوَ ابْنُ عُرْوَةَ-، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: مَا زَالَ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلاً لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الأُمَمِ, أَبْنَاءُ النِّسَاءِ الَّتِي سَبَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ مِنْ غَيْرِهِمْ، فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَأَضَلُّوهُمْ.

مصنف ابن ابی شیبہ میں هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  اس کو عبد الله بن عمرو بن العآص کا قول کہا گیا ہے

وَكِيعٌ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمْ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ , فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

ان دونوں میں ہشام بن عروه کا تفرد ہے اور یہ روایات انہوں نے کوفہ میں بیان کی ہیں اور کبھی اسکو ابن زبیر کا قول کہا ہے کبھی اسکو عبد الله کا قول – محدثین نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ اچھا نہیں رہا تھا – رائے کا لفظ بولنے میں بھی  ان کا تفرد ہے

کتاب  السنن المأثورة للشافعي  از إسماعيل بن يحيى بن إسماعيل، أبو إبراهيم المزني (المتوفى: 264هـ) میں اس کو عمر بن عبد العزیز کا قول کہا گیا ہے

وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُؤَمَّلٍ الْمَخْزُومِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْصِنٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَنَّهُ قَالَ: ” لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسْتَقِيمًا حَتَّى حَدَّثَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

اسکی سند میں عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُؤَمَّلٍ الْمَخْزُومِيَّ خود ایک مجھول ہے

مسند ابی یعلی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْهُذَيْلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحِمَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعْمَلُ هَذِهِ الْأُمَّةُ بُرْهَةً بِكِتَابِ اللَّهِ، ثُمَّ تَعْمَلُ بُرْهَةً بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، ثُمَّ تَعْمَلُ بِالرَّأْيِ، فَإِذَا عَمِلُوا بِالرَّأْيِ فَقَدْ ضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

أَبِي هُرَيْرَةَ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت ایک دور تک کتاب الله پر عمل کرے گی پھر ایک دور سنت رسول پر پھر جب یہ رائے پر عمل کرے گی  تو گمراہ ہو گی اور کرے گی

اس کی سند میں عثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ ہے جو کذاب اور متروک ہے

کتاب  أمالي ابن بشران – الجزء الثاني از  أبو القاسم عبد الملك  البغدادي (المتوفى: 430هـ) کی روایت ہے

وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: ” ثَلاثَةٌ لا يُقْبَلُ مَعَهُنَّ عَمَلٌ: الشِّرْكُ , وَالْكُفْرُ , وَالرَّأْيُ “.  قَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا الرَّأْيُ؟ قَالَ: «تَدَعُ كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ وَتَعْمَلُ بِالرَّأْيِ

الأَعْمَشِ نے عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ سے روایت کیا اس نے زر سے اس نے علی رضی الله عنہ سے کہ تین  کے ساتھ عمل قبول نہیں ہوتا شرک اور کفر اور رائے ہم نے کہا اے امیر المومنین یہ رائے کیا ہے کہا تم کو کتاب الله اور سنت کی طرف بلایا جائے اور تم رائے پر عمل کرو

روایت کے الفاظ کہ لوگوں نے پوچھا یہ رائے کیا ہے ظاہر کرتا ہے کہ اس دور میں یہ لفظ مستعمل نہ تھا اور یہ ہی بات اس روایت کے رد کے لئے کافی ہے – اسنادی حیثیت میں اس میں الأَعْمَشِ کا عنعنہ ہے اور عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ خود مفرط شیعہ ہے

سنن دارقطنی کی روایت ہے

نا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , نا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ , نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَرِيكٍ , نا أَبِي , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , قَالَ:  «إِيَّاكُمْ وَأَصْحَابَ الرَّأْيِ فَإِنَّهُمْ أَعْدَاءَ السُّنَنِ أَعْيَتْهُمُ الْأَحَادِيثُ أَنْ يَحْفَظُوهَا فَقَالُوا بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

مُجَالِدٍ بن سعید، الشَّعْبِيِّ سے ، وہ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ سے وہ عمر رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب رائے سے بچو کیونکہ یہ سنت کے دشمن ہیں – احادیث میں ملوث  ہیں کہ انکو یاد کریں پھر رائے سے بولیں گمراہ ہوں اور کریں

اسکی سند میں مُجَالِدُ بنُ سَعِيْدِ بنِ عُمَيْرِ بنِ بِسْطَامَ الهَمْدَانِيُّ المتوفی ١٤٤ ھ  ہے

 أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں لاَ يُحْتَجُّ بِهِ اس سے دلیل نہ لی جائے

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں اس کی حدیث: لَهُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ أَحَادِيْثُ صَالِحَةٌ  صالح ہیں

أَبُو سَعِيْدٍ الأَشَجُّ اس کو  شِيْعِيٌّ یعنی شیعہ کہتے ہیں

الميموني کہتے ہیں ابو عبدللہ کہتے ہیں

 قال أبو عبد الله: مجالد عن الشعبي وغيره، ضعيف الحديث. «سؤالاته» احمد کہتے ہیں مجالد کی الشعبي سے روایت ضعیف ہے

ابن سعد کہتے ہیں  كان ضعيفا في الحديث، حدیث میں ضعیف ہے

المجروحین میں ابن حبان کہتے ہیں كان رديء الحفظ يقلب الأسانيد ويرفع، ردی حافظہ اور اسناد تبدیل کرنا اور انکو اونچا کرنا  کام تھا

ابن حبان نے صحیح میں اس سے کوئی روایت نہیں لی

ابن حبان المجروحین میں لکھتے ہیں کہ امام الشافعی نے کہا  وَالْحَدِيثُ عَنْ مُجَالِدٍ يُجَالِدُ الْحَدِيثَ

اور مجالد   يُجَالِدُ الْحَدِيثَ ہے یعنی اس سے روایت کرنا حدیث کو کوڑے مارنے کے مترادف ہے

صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ  : حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

امام مالک ، هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، سے وہ اپنے باپ سے وہ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ  سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله اس علم کو قبض یکایک نہیں کرے گا … بلکہ علماء کو قبض کرے گا یہاں تک کہ کوئی عالم نہ رہے گا لہذا لوگ جہلاء کو سردار بنا لیں گے ان سے سوال کریں گے وہ فتوی دیں گے بغیر علم کے، پس گمراہ ہوں گے اور کریں گے

یہ روایت ہشام بن عروہ نے مدینہ میں بیان کی ہے  – صحیح ابن حبان  اور مسند احمد کے مطابق  بصرہ اور کوفہ میں اس میں اضافہ کیا مثلا حماد بن زید اور وَكِيعٌ بنُ الجَرَّاحِ بنِ مَلِيْحِ  کہتے ہیں ہشام نے کہا:

وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعُلَمَاءَ بِعِلْمِهِمْ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ

لیکن الله علماء کو انکے علم کے ساتھ قبض کرے گا یہاں تک کہ ایک بھی عالم باقی نہ رہے گا

مسند احمد کے مطابق کوفہ میں یحیی کہتے ہیں اور طبرانی کے مطابق ابن عيينة کہتے ہیں  ہشام نے کہا حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا یہاں تک کہ کوئی عالم نہیں رہے گا

صحیح مسلم میں  جرير بن عبد الحميد الضبي کوفی عن هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ کی یہی روایت ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ اللهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

ہشام بْنِ عُرْوَةَ نے یہ روایت کوفہ میں بیان کی ہے یہاں پر رائے کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ بغیر علم فتوی دیں گے

صحیح بخاری میں بهز بن أسد العمى أبو الأسود البصرى کی روایت میں ہے کہ ہشام نے بصرہ میں بغیر علم کی بجائے  کہا فَيُفْتُونَ بِرَأْيِهِمْ وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے

محدثین کے مطابق ہشام بْنِ عُرْوَةَ نے عراق میں روایات آخری عمر میں بیان کیں جب ان کا حافظہ اتنا اچھا نہیں تھا اسی وجہ امام مالک ان کی عراق میں بیان کردہ روایات سے راضی نہیں تھے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

عبد الرحمن بن خراش: كان مالك لا يرضاه، نقم عليه حديثه لاهل العراق

بحر کیف رائے بغیر علم صحیح نہیں ہے جو ظاہر ہے نہایت منطقی بات ہے- جو اس کا ارتکاب کرے جاہل ہے لیکن رائے اگر منبی بر علم ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے لہذا اس روایت کو مطلقا اہل رائے کے خلاف پیش کرنا نری جہالت ہے

سنن نسائی میں ہے

باب: اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5399
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ “إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَسْنَا هُنَالِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ”. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہٰذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آ پڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب(قرآن) میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو ۱؎، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو، نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیئے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث بہت اچھی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۳۹۹) (صحیح الإسناد)

دوسری روایت ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحٍ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ يَسْأَلُهُ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ، «أَنْ اقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَقْضِ بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ شِئْتَ فَتَقَدَّمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَتَأَخَّرْ، وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ»

شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے انہیں ایک خط لکھا تو انہوں نے لکھا: فیصلہ کرو اس کے مطابق جو کتاب اللہ(قرآن) میں ہے، اور اگر وہ کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو سنت رسول (حدیث) کے مطابق، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول (حدیث)میں تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا تھا، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اور نہ ہی نیک لوگوں کا کوئی فیصلہ ہو تو اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (اور اپنی عقل سے کام لے کر فیصلہ کرو) اور اگر چاہو تو پیچھے رہو (فیصلہ نہ کرو) اور میں پیچھے رہنے ہی کو تمہارے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ والسلام علیکم۔

الألباني: صحيح الإسناد موقوف

واضح رہے ک انہی محدثین میں سے بہت سے اہل رائے کے امام ابو حنیفہ کی بات کو بغور سنتے

کتاب  سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين میں ابن جنید کہتے ہیں

 قلت ليحيى بن معين: ترى أن ينظر الرجل في شيء من الرأي؟ فقال: «أي رأي؟» ، قلت: رأي الشافعي وأبي حنيفة، فقال: «ما أرى لمسلم أن ينظر في رأي الشافعي، ينظر في رأي أبي حنيفة أحب إلي من أن ينظر في رأي الشافعي

میں نے ابن معین سے کہا اپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو رائے کے کو دیکھے؟ انہوں نے پوچھا کس کی رائے؟ کہا شافعی یا ابو حنیفہ! ابن معین نے کہا میرے مطابق مسلمان  کے لئے  شافعی کی رائے میں کچھ (برائی) نہیں اور ابو حنیفہ کی رائے جاننا میرے لئے شافعی کی رائے سے زیادہ محبوب ہے

اسی کتاب میں ابن معین یحیی بن سعید کی بات نقل کرتے ہیں

وسمعت يحيى يقول: «سمعت يحيى بن سعيد يقول: أنا لا أكذب الله، ربما بلغنا الشيء من قول أبي حنيفة، فنستحسنه فنأخذ به

یحیی کہتے ہیں بے شک میں جھوٹ نہیں کہتا بعض اوقات ہم کو ابو حنیفہ کی بات ملتی ہے اس کو پسند کرتے ہیں اور لیتے ہیں

معلوم ہوا کہ ابو حنیفہ  کی آراء کو محدثین  یحیی ابن معین اور  یحیی بن سعید القطان قبول کرتے تھے

امام  الشافعي بھی رائے اور قیاس لینے کے قائل تھے – کتاب الأم  میں امام  الشافعي (المتوفى: 204هـ) لکھتے ہیں

وَالْعِلْمُ مِنْ وَجْهَيْنِ اتِّبَاعٌ، أَوْ اسْتِنْبَاطٌ وَالِاتِّبَاعُ اتِّبَاعُ كِتَابٍ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَسُنَّةٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ فَقَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفِنَا لَا نَعْلَمُ لَهُ مُخَالِفًا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى قَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفٍ لَا مُخَالِفَ لَهُ وَلَا يَجُوزُ الْقَوْلُ إلَّا بِالْقِيَاسِ وَإِذَا قَاسَ مَنْ لَهُ الْقِيَاسُ فَاخْتَلَفُوا وَسِعَ كُلًّا أَنْ يَقُولَ بِمَبْلَغِ اجْتِهَادِهِ وَلَمْ يَسَعْهُ اتِّبَاعُ غَيْرِهِ فِيمَا أَدَّى إلَيْهِ اجْتِهَادُهُ بِخِلَافِهِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ

اور علم کے دو رخ ہیں اتباع ہے یا استنباط ہے- اتباع ،  کتاب الله کی اتباع ہے اور اگر اس میں نہ ہو تو پھر سنت اور اگر اس میں نہ ہو تو ہم وہ کہیں گے جو ہم سے پہلے گزرنے والوں نے  کہا اس میں ہم انکی مخالفت نہیں جانتے، پس اگر اس میں بھی نہ تو ہم پھر کتاب الله پر قیاس کریں گے ، اگر  کتاب الله  پر نہیں تو سنت رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  پر قیاس کریں گے – اوراگر سنت رسول  پر نہیں تو بیشتر سلف نے جو کہا ہو اس پر قیاس کریں گے اس میں انکی مخالفت نہیں کریں گے اور قول جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ قیاس ہو اور جب قیاس ہو تو  (اپس میں مسلمان) اختلاف بھی کریں گے  اس سب میں وسعت ہے کہ ہم ان کے اجتہاد  کی پہنچ اور اتباع کی کوشش پر بات  کریں کہ یہ پیروی نہ کر سکے  جو لے جاتا ہے اس کے خلاف  اجتہاد پر والله اعلم

امام الشافعی قیاس اور اجتہاد کو ایک ہی سمجھتے ہیں – اسی طرح کتاب الام میں لکھتے ہیں

  إنَّ مَنْ حَكَمَ أَوْ أَفْتَى بِخَيْرٍ لَازِمٍ أَوْ قِيَاسٍ عَلَيْهِ فَقَدْ أَدَّى مَا عَلَيْهِ وَحَكَمَ وَأَفْتَى مِنْ حَيْثُ أُمِرَ فَكَانَ فِي النَّصِّ مُؤَدَّيَا مَا أُمِرَ بِهِ نَصًّا وَفِي الْقِيَاسِ مُؤَدِّيًا مَا أُمِرَ بِهِ اجْتِهَادًا وَكَانَ مُطِيعًا لِلَّهِ فِي الْأَمْرَيْنِ.  ثُمَّ لِرَسُولِهِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَمَرَهُمْ بِطَاعَةِ اللَّهِ ثُمَّ رَسُولِهِ  ، ثُمَّ الِاجْتِهَادِ فَيُرْوَى «أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاذٍ بِمَ تَقْضِي؟ قَالَ بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ قَالَ أَجْتَهِدُ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -» وَقَالَ: «إذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ  – وَإِنْ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ» فَأَعْلَمَ أَنَّ لِلْحَاكِمِ الِاجْتِهَادَ وَالْمَقِيسَ فِي مَوْضِعِ الْحُكْمِ

امام الشافعی کہتے ہیں جو فیصلہ کرے یا فتوی دے خیر کو لازم کرے، یا اس پر قیاس کرے تو اس معاملہ میں بھی خیر کو لازم کرے۔اس طرح اس نے اس کو وہ پورا کیا جو اس پر لازم تھا کہ فیصلہ اور قیاس کرتا ہے جیسا کہ حکم ہے تو وہ نص جس پر قیاس کیا گیا ہے وہ نص مودیا ہے۔یا جس پر اجتہاد کیا ہے تو وہ قیاس مودیا ہے یہ ان معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی اطاعت اور پھر اسکے رسول کی اطاعت اور اس کے بعد اس پر اجتہاد کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ مروی ہے کہ آپ نے معاذ بن جبل سے فرمایا کس پر فیصلہ کرو گے تو انہوں نے جواب دیا اللہ کی کتاب پر۔آپ نے فرمایا اگر وہ اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو ؟ معاذ نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق۔اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر اس میں بھی نہ ملے تو کیا کرو گے۔انہوں نے جواب دیا اجتہاد کروں گا۔اس پر اللہ کے نبی نے کہا الحمد للہ ۔اور معاذ کی اس بات کی اللہ کے نبی نے موافقت فرمائی۔اور کہا جب کوئی حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ صحیح ہو تو اس کو دوھرا اجر ہے اور اگر اس میں غلطی ہوجائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر تو ہے ہی۔ جان لو کہ حاکم کے اجتہاد اور قیاس کا درجہ حکم کا ہے۔

امام الشافعی تو باقاعدہ وہی معاذ بن جبل والی روایت سے دلیل لے رہے ہیں جس کو منکر کہتے اہل حدیث نہیں تھکتے اور طرفہ تماشہ ہے کہ اپنے اپ کو سلف کا متبع کہتے ہیں امام الشافعی نے سنت رسول سے دلیل لی اور اس میں اہل رائے کی موافقت کی ہے

غیر مقلدین کے  شمارہ ١٩٤ محدث سن ١٩٩٣  میں مضمون  امام بخاری اور الجامع الصحیح چھپا اس میں محقق محمد عبدہ الفلاح  لکھتے ہیں

امام بخاری نے استخراج مسائل اور استنباط کے ذریعہ قوانین نقلیہ کو قواعد عقلیہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور دوسرے الفاظ میں ان کو معیار عقل پر پرکھا ہے جسے درایت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

عصر حاضر کے محقق بشارعواد معروف کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مقدمہ میں لکھتے ہیں

وقد وجدنا الذهبي بعد ذلك لا يقتصر على أسلوب واحد في النقد، بل يتوسل بكل ممكن يوصله إلى الحقيقة، فنقد السند والمتن، واستعمل عقله في رد كثير من الروايات.

اور ہم نے پایا ہے کہ الذھبی نے اس کے بعد  تنقید  میں ایک اسلوب ہی نہیں لیا بلکہ اس تنقید کو حقیقت سے ملایا ہے پس سند و متن پر تنقید کی ہے اور عقل کا استمعال کیا ہے کثیر روایات کے رد کے لئے

معلوم ہوا عقل سے احادیث کو پرکھنا بھی محدثین کا اصول ہے جس کا انکاری یہ غیر مقلدین کا ٹولہ ہے

الغرض دین میں عقل کی اہمیت ہے اس کو شجر ممنوعہ قرار نہیں دیا گیا – عقل کو رائے والی احادیث سے ملا کر دینی معاملات میں یہ کہنا کہ عقل معیار نہیں بن سکتی ،  نری جہالت ہے – حقیقت میں یہ قول خود  ایک رائے ہے

 الْمُعْتَزلَة غیر مقلدین اور عذاب قبر

غیر مقلدین جن کا عقائد میں ارتقاء جاری ہے ان کے ایک علم کلام کے ماہر ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

اس امت میں خوارج اور معتزلہ وغیرہ پیدا ہوئے جو عذاب قبر کا انکار کر چکے ہیں اور موجودہ دور میں ڈاکٹر عثمانی صاحب ان پرانے فرقوں کی بازگشت ہیں۔  عذاب القبر کے متعلق اہل اسلام کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ قبر کی راحت و آرام اور قبر کا عذاب حق ہے اور قبر میں دفن میت کے بعد دو فرشتوں منکر و نکیر کا آنا اور ان کا میت سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق سوال کرنا مومن کا راحت و آرام میں رہنا اور اس پر صبح و شام جنت کا پیش کیا جانا جب کہ کفار و مشرکین اور منافقین کا قبر میں عذاب میں مبتلا ہونا فرشتوں کا انہیں لوہے کے گرز سے مارنا میت کا چیخنا و چلانا اور ہیبت ناک آوازیں نکالنا۔غرض احادیث صحیحہ میں قبر کے حالات کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر ایمان لانا لازم اور ضروری ہے اور ایمانیات میں شامل ہے۔جبکہ عذاب قبر کا انکار کفر ہے اس کا انکاری ایمان و توحید سے خالی ہے چاہے وہ اپنے ایمان کو کتنا ہی خالص کیوں نہ کہے۔ 

ائمہ غیر مقلدین مثلا  نذیر حسین جن کو یہ شیخ الکل  کہتے ہیں اور بدیع الدین راشدی اور  قاضی شوکانی  یمنی کا عقیدہ تھا کہ مردہ میں روح واپس پلٹ اتی ہے اور  زندہ حالت میں ہی عذاب ہوتا ہے – امام ابن عبد البر کے مطابق روح قیامت تک افنیہ القبور میں ہی رہتی ہیں یعنی قبرستان  کے میدان میں اور شیخ ابن تیمیہ و ابن قیم کا عقیدہ تھا کہ روح سورج کی شعآع جیسی کوئی شی ہے جو قبر میں  آتی جاتی رہتی ہے   گویا انرجی ہے- عبد الوہاب النجدی  کا عقیدہ بھی ابن تیمیہ جیسا ہے جس میں روح نہ صرف عام آدمی میں انبیاء  میں بھی اتی ہے

غیر مقلدین کا  سن ٢٠٠٠ سے  عقیدہ ہے کہ مردے میں تدفین کے بعد روح کو واپس ڈالا جاتا ہے جس سے میت میں  قوت سماعت آ جاتی ہے وہ قدموں کی چاپ سننے لگتی ہے اور صحیح مسلم کی ایک روایت کی غلط تاویل کے بعد ان کے مطابق مردہ قبر پر موجود افراد سے مانوس ہوتا ہے اور اس دوران فرشتے سوال کرتے ہیں – اس کے بعد روح کو نکال لیا جاتا ہے وہ آسمان منتقل کر دی جاتی ہے  پھر میت پر بلا روح   عذاب ہوتا ہے جس میں پسلیاں ادھر ادھر ہوتی ہیں مردہ چیخیں مارتا ہے جس کو چوپائے سنتے ہیں – اس کے پیچھے  ضعیف و معلول روایات کا انبار ہے جن کو صحیح  روایات سے ملا کر ایک گنجلک عقیدہ بنا دیا گیا ہے  اور اس کو ایسے پیش کیا جاتا ہے گویا یہ سلف سے چلا آ رہا ہو

اس سلسلے میں باربار غیر مقلدین معتزلہ کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ عذاب قبر کے انکاری تھے – معتزلہ اور ان  کی تحاریر تو معدوم ہیں لیکن اہل سنت ان کا کیا عقیدہ عذاب قبر کے حوالے سے بتاتے ہیں اس کو دیکھتے ہیں

تمام  الْمُعْتَزلَة عذاب قبر کے انکاری نہیں تھے

فتح السلام شرح عمدة الأحكام، للحافظ ابن حجر العسقلاني مأخوذ من كتابه فتح الباري از أبو محمد عبد السلام بن محمد العامر کے مطابق

قوله: (من عذاب القبر) فيه ردّ على من أنكره مطلقاً من الخوارج وبعض المعتزلة كضرار بن عمرو وبشر المريسيّ ومن وافقهما.

وخالفهم في ذلك أكثر المعتزلة وجميع أهل السّنّة وغيرهم , وأكثروا من الاحتجاج له. وذهب بعض المعتزلة كالجيّانيّ: إلى أنّه يقع على الكفّار دون المؤمنين.

ابن حجر کا قول (من عذاب القبر) اس میں رد ہے خوارج کا اور بعض الْمُعْتَزلَة کا   جنہوں نے  مطلقا عذاب کا انکار  کیا ہے جیسے  ضرار بن عمرو اور بشر المريسيّ  اور وہ جنہوں نے انکی موافقت کی ہے

كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از   محمَّد الخَضِر بن سيد عبد الله بن أحمد الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق

وأنكرت المعتزلة عذاب القبر والخوارج وبعض المرجئة، لكن قال القاضي عبد الجبار رئيس المعتزلة: إن قيل: مذهبكم أدّاكم إلى إنكار عذاب القبر، وقد أطبقت عليه الأمة. قيل: هذا الأمر إنما أنكره ضِرار بن عمرو، ولما كان من أصحاب واصل ظنوا أن ذلك مما أنكرته المعتزلة، وليس الأمر كذلك، بل المعتزلة رجلان: أحدهما: يُجوِّز ذلك كما وردت به الأخبار، والثاني: يقطع بذلك، وأكثر شيوخنا يقطعون بذلك، وإنما يُنْكَر قول جماعة من الجهلة: إنهم يعذَّبون وهم موتى. ودليل العقل يمنع من ذلك.

اور المعتزلة نے عذاب قبر کا انکار کیا اور خوارج اورکچھ مرجیہ نے انکار کیا ہے لیکن قاضی عبد الجبار   المعتزلة  کے سردارکہتے ہیں  کہا جاتا ہے  تمہارا مذھب تم کو عذاب قبر کے انکار پر لے جاتا ہے اور بے شک اس میں امت کو طبقات میں کر دیتا ہے – کہا جاتا ہے کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس کا انکار ضِرار بن عمرو نے کیا جبکہ وہ  اصحاب واصل بن عطا  میں سے ہے – اس سے لوگوں نے یہ گمان کیا  المعتزلة اس کے انکاری ہیں جبکہ ایسا نہیں تھا بلکہ المعتزلة میں دو  (بڑے ) اشخاص تھے ایک اس  کے جواز کا قائل ہے  اور یہ بات روایات میں بیان ہوئی ہے  اور دوسرا اس سے الگ ہے  – اور ہمارے اکثر شیوخ اس سے الگ ہی ہیں اور انکی طرف سے ایک  جاہلوں کی اس  جماعت کا  انکار کیا گیا ہے  جو یہ کہتے ہیں کہ ان کو عذاب ہو گا اور یہ مردہ ہوں گے اور عقل کی دلیل اس سے مانع   ہے 

کتاب شرح سنن ابن ماجه – الإعلام بسنته عليه السلام از  مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) کے مطابق

إنّما أنكره أولًا ضرار بن عمرو، ولما كان من

أصحاب واصل ظنوا أن ذلك مما أنكرته المعتزلة، وليس الأمر كذلك بل

المعتزلة رجلان: أحدهما يجوز ذلك كما وردت به الأخبار، والثاني يقطع

بذلك، وأكثر شيوخنا يقطعون بذلك إنّما ينكرون قول طائفة من الجهلة أنّهم

يعذبون وهم موتى، ودليل العقل يمنع من ذلك، وبنحوه قاله أبو عبد الله

المرزباني في كتاب الطبقات أيضًا،

بے شک اس کا شروع شروع میں ضرار بن عمرو نے انکار کیا اور اصحاب واصل نے گمان کیا کہ اس کا انکار المعتزلة نے کیا ہے جبکہ  اصل بات یہ ہے کہ  المعتزلة میں دو اشخاص تھے ایک اس  کے جواز کا قائل ہے  اور یہ بات روایات میں بیان ہوئی ہے  اور دوسرا اس سے الگ ہے  – اور ہمارے اکثر شیوخ اس سے الگ ہی ہیں اور انکی طرف سے ایک  جاہلوں کی اس  جماعت کا  انکار کیا گیا ہے  جو یہ کہتے ہیں کہ ان کو عذاب ہو گا اور یہ مردہ ہوں گے اور عقل کی دلیل اس سے مانع   ہے  –  ابو عبد الله المرزباني کہتے ہیں کتاب الطبقات میں ایسا ہی ہے

معلوم ہوا کہ معتزلہ کے بعض  جہلاء نے وہی عقیدہ اختیار کیا جو آج غیر مقلدین کا ہے کہ مردہ میت کو بغیر روح عذاب ہوتا ہے اسکا رد کیا گیا

المعتزلةِ کی طرف انکار عذاب قبر ثابت نہیں ہے

کتاب   فيض الباري على صحيح البخاري میں  محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري   الديوبندي (المتوفى: 1353هـ) لکھتے ہیں

وما نُسِب إلى المعتزلةِ أنهم يُنْكِرون عذابَ القَبْر فلم يثبت عندي إلا عن بِشْر المَرِيسي وضِرار بنِ عمروِ. وبِشْرٌ كان يختلف إلى دَرْس أبي يوسف رحمه الله تعالى، فلما بلغه من شأَن بِشْر قال: إني لأَصْلِبنَّك – وكَان قاضيًا – فَفَرَّ المَرِيسي   خائفًا، ثُم رَجَعَ بعد وفاته. أما ضِرارًا فلا أَعْرف مَنْ هو.

اور جو المعتزلةِ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ عذاب قبر کا انکار کرتے ہیں تو یہ میرے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے سوائے  ضرار بن عمرو اور بشر المريسيّ کے لئے –   اور بشر المريسيّ امام ابو یوسف سے درس میں اختلاف کرتا تھا پس جب  انکو بشر کی حالت پتا چلی انہوں نے کہا میں تجھ کو صلیب دوں گا اور وہ قاضی تھے پس بشر المریسی فرار ہو گیا ڈر کر پھر پلٹا انکی وفات کے بعد – اور ضرار بن عمرو کو میں نہیں جانتا یہ کون ہے

امام بخاری اور عذاب قبر

  فتح الباري شرح صحيح البخاري از  أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي کے مطابق

لم يتعرض المصنف في الترجمة لكون عذاب القبر يقع على الروح فقط، أو عليها وعلى الجسد، وفيه خلاف شهير عند المتكلمين، وكأنه تركه لأن الأدلة التي يرضاها ليست قاطعة في أحد الأمرين، فلم يتقلد الحكم في ذلك، واكتفى بإثبات وجوده، خلافًا لمن نفاه مطلقًا من الخوارج، وبعض المعتزلة، كضرار بن عمرو وبِشر المريسيّ ومن وافقهما. وخالفهما في ذلك أكثر المعتزلة، وجميع أهل السُنَّة وغيرهم، وأكثروا من الاحتجاج له.وذهب بعض المعتزلة كالجبائيّ إلى أنه يقع على الكفار دون المؤمنين، وبعض الأحاديث الآتية عليهم أيضًا.

مصنف امام بخاری نے یہاں ترجمہ میں  اس پر  زور نہیں دیا (یا ظاہر نہیں کیا)  کہ عذاب قبر صرف روح کو ہوتا ہے یا روح پر اور جسم  (دونوں) پر ہوتا ہے اور اس کے خلاف متکمین میں بہت کچھ مشھور ہے اور گویا کہ (قصدا) انہوں نے ترک کیا کیونکہ دلائل جس سے راضی ہوں وہ قطعی نہیں تھے پس انہوں نے اس پر حکم نہیں باندھا اور صرف اثبات وجود (عذاب قبر) پرہی اکتفآ کیا ہے – یہ خلاف ہے اس نفی مطلق کے  جو خوارج اور بعض المعتزلة نے کی ہے  جیسے ضرار بن عمرو  اور بِشر المريسيّ  اور وہ جنہوں نے انکی دونوں کی موافقت کی اور اس کی (عذاب قبر کے انکار کی ) اکثر المعتزلة  اور اہل سنت نے مخالفت کی  اور  اس سے الاحتجاج   لینے والوں کی اکثریت  ہے اور بعض المعتزلة جیسے الجبائيّ کہتے ہیں یہ (صرف) کفار کو ہو گا مومنوں پر نہیں اور بعض احادیث سے اس پر اخذ کیا ہے 

یہ اقوال ثابت کرتے ہیں کہ تمام المعتزلة   عذاب قبر کے انکاری نہیں تھے بلکہ ایک دو ہی افراد تھے

الْمُعْتَزلَة کا عقیدہ :  الم و عذاب میت کو ہے

کتاب  المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج از  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) میں ہے

أَنَّ مَذْهَبَ أَهْلِ السُّنَّةِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ كَمَا ذَكَرْنَا خِلَافًا لِلْخَوَارِجِ وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَةِ وَبَعْضُ الْمُرْجِئَةِ نَفَوْا ذَلِكَ ثُمَّ الْمُعَذَّبُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ الْجَسَدُ بِعَيْنِهِ أَوْ بَعْضُهُ بَعْدَ إِعَادَةِ الرُّوحِ إِلَيْهِ أَوْ إِلَى جُزْءٍ مِنْهُ وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إِعَادَةُ الرُّوحِ قَالَ أَصْحَابُنَا هَذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ الْأَلَمَ  وَالْإِحْسَاسَ إِنَّمَا يَكُونُ فِي الْحَيِّ

بے شک اہل سنت کا مذھب اثبات عذاب قبر ہے جیسا ہم نے ذکر کیا بر خوارج اور الْمُعْتَزِلَةِ کے بڑوں اور بعض الْمُرْجِئَةِ  کے- یہ لوگ اس کا  انکار کرتے ہیں  – پھر عذاب پانے والا اہل سنت میں پورا جسد ہے   یا اس کا بعض حصہ آعآدہ روح کے  بعد جو  پورے جسد یا اس کے اجزاء میں ہوتا ہے  اور اس کی مخالفت کی ہے امام  ابن جریر طبری نے اور عبد الله بن کرام نے اور ایک گروہ نے اور کہا ہے عذاب کے لئے روح لوٹنا شرط نہیں ہے – ہمارے اصحاب ( اہل سنت جواب میں) کہتے ہیں یہ ( قول یا رائے)  فاسد ہے کیونکہ الم و احساس زندہ کے لئے ہے

وهابي عالم عاصم القریوتی نے  ٣٦ سال قبل لکھا تھا

qaryuti1

سن ١٩٨٤ میں شمارہ محدث میں مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی نے اپنا عقیدہ ان الفاظ میں بیان کیا

جب ہم خود اس بات کے قائل ہیں کہ عذاب و ثواب قبر کا بیشر انحصار روح یا روح کے جسم پر ہوتا ہے۔ البتہ اس کی شدت سے کبھی کبھار قبر میں پڑا ہوا جسدِ عنصری بھی متاثر ہو جاتا ہے

یعنی عذاب قبر اصلا روح کو ہے جس کا اثر کبھی کبھار جسد عنصری پر ہوتا ہے

حیرت ہے کہ آج غیر مقلدین نے قریوتی  اور کیلانی صاحب کا عقیدہ چھوڑ  دیا ہے

ابو جابر دامانوی کا عقیدہ ہے کہ عذاب قبر تدفین سے پہلے شروع ہو جاتا ہے  اعادہ روح سے بھی پہلے لہذا کتاب دین الخالص قسط اول و دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عذاب١

غیر مقلدین ٣٠ سال پہلے  عذاب قبر کی ابتداء حالت نزع سے بتاتے تھے یعنی اس کا آغاز قبر میں عود روح سے نہیں ہوتا

روح صرف چند سوالوں کے لئے اتی ہے دامانوی دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عقیدہ٢

یہ کس حدیث میں ہے کہ روح واپس جسم سے نکال لی جاتی ہے ؟ عود روح کی روایت جو شیعہ راویوں المنھال اور زاذان نے البراء بن عازب رضی الله عنہ سے منسوب کی ہے اس میں تو اس سے الٹ لکھا ہے اس کے مطابق  روح جب بھی آسمان کی طرف جائے گی اس کو واپس زمین کی طرف  پھینک دیا جائے گا

دامانوی کے مطابق روح پر عذاب قبر نہیں ہوتا اس پر عذاب جہنم ہوتا ہے دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عقید٣٢

یہ بھی قیاس ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے

اسی کتاب میں دامانوی لکھتے ہیں

دامانوی عقید٤

یعنی روح جہنم میں ہی رہے گی اور جسد بلا روح کو عذاب ہو گا

کہتے ہیں

سانپ نکل گیا لکیر پیٹا کرو

اہل سنت کا یہ عقیدہ نہیں ہے یہ کرامیہ کا عقیدہ ہے جو غیر مقلدین اختیار کر چکے ہیں

شَرْحُ صَحِيح مُسْلِمِ لِلقَاضِى عِيَاض المُسَمَّى إِكمَالُ المُعْلِمِ بفَوَائِدِ مُسْلِم از قاضی  عياض بن موسى  (المتوفى: 544هـ) کے مطابق

وأن مذهب أهل السنة تصحيح هذه الأحاديث وإمرارها على وجهها؛ لصحة طرقها، وقبول السلف لها. خلافًا لجميع الخوارج، ومعظم المعتزلة، وبعض المرجئة؛ إذ لا استحالة فيها ولا رد للعقل، ولكن المعذب الجسد بعينه بعد صرف الروح إليه أو إلى جزء منه، خلافاً لمحمد بن جرير (3) وعبد الله بن كرام (4) ومن قال بقولهما؛ من أنه لا يشترط الحياة؛ إذ لا يصح الحس والألم واللذة إلا من حى

اور اہل سنت کا مذھب ان احادیث کی تصحیح ہے اور اس کو ظاہر پر منظور کرتے ہیں اس سے صحیح طرق کی وجہ سے اور سلف کے قبول کی وجہ سے  اور خلاف ہے یہ تمام خوارج اور المعتزلة کے بڑوں اور المرجئة کے – کیونکہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں اور عقل کا رد نہیں ہے بلکہ جسد جیسا ہے اس کی طرف روح لانے پر یا اس کے اجزاء پر عذاب ہے اور یہ خلاف ہے امام طبری اور عبد الله بن کرام کے اور وہ جس نے اس جیسا قول کہا  کہ عذاب کی شرط زندگی نہیں ہے – کیونکہ اگر حس صحیح نہیں تو الم و لذت تو نہیں ہے سوائے زندہ کے لئے

کتاب  عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں العینی لکھتے ہیں

 وَقَالَ الصَّالِحِي من الْمُعْتَزلَة وَابْن جرير الطَّبَرِيّ وَطَائِفَة من الْمُتَكَلِّمين يجوز التعذيب على الْمَوْتَى من غير إحْيَاء وَهَذَا خُرُوج عَن الْمَعْقُول لِأَن الجماد لَا حس لَهُ فَكيف يتَصَوَّر تعذيبه

اور (ابو حسین  محمد بن مسلم) الصَّالِحِي  (مصنف كتاب الْإِدْرَاك)  نے الْمُعْتَزلَة میں سے  اور امام طبری نے اور متکمین کے ایک گروہ نے جائز کیا ہے کہ بغیر زندگی کے  مردوں  پر  عذاب ہو   اور یہ عقل سے عاری بات ہے کیونکہ جمادات میں حس نہیں ہوتی تو پھر عذاب کا  تصور کیسے کیا جا سکتا ہے

علامہ عینی کے قول سے ثابت ہے جسد بلا روح پر عذاب الْمُعْتَزلَة کا عقیدہ تھا جس کو غیر مقلدین اختیار کر چکے ہیں

کتاب التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة از  القرطبي (المتوفى: 671هـ) کے مطابق

وقال الأكثرون من المعتزلة: لا يجوز تسمية ملائكة الله تعالى بمنكر ونكير، وإنما المنكر ما يبدو من تلجلجله إذا سئل، وتقريع الملكين له هو النكير، وقال صالح: عذاب القبر جائز، وأنه يجري على الموتى من غير رد الأرواح إلى الأجساد، وأن الميت يجوز أن يألم ويحس ويعلم. وهذا مذهب جماعة من الكرامية.  وقال بعض المعتزلة: إن الله يعذب الموتى في قبورهم، ويحدث فيهم الآلآم وهم لا يشعرون، فإذا حشروا وجدوا تلك الآلام. وزعموا أن سبيل المعذبين من الموتى، كسبيل السكران أو المغشى عليه، لو ضربوا لم يجدوا الآلام، فإذا عاد إليهم العقل وجدوا تلك الآلام، وأما الباقون من المعتزلة.  مثل ضرار بن عمرو وبشر المريسي ويحيى بن كامل وغيرهم، فإنهم أنكروا عذاب القبر أصلاً، وقالوا: إن من مات فهو ميت في قبره إلى يوم البعث وهذه أقوال كلها فاسدة تردها الأخبار الثابتة وفي التنزيل: {النار يعرضون عليها غدواً وعشياً} . وسيأتي من الأخبار مزيد بيان، وبالله التوفيق والعصمة والله أعلم.

اور المعتزلة میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ الله کے فرشتوں کو منکر نکیر نہیں کہنا چاہیے اور  صالح نے کہا عذاب قبر جائز ہے اور یہ مردوں پر ہوتا ہے روحیں لوٹائے بغیر اور میت کے لئے  جائز ہے کہ وہ الم کا احساس کرے اور جانتی ہو اور یہ مذہب کرامیہ کی ایک جماعت کا ہے – اور بعض المعتزلة نے کہا الله مرودں کو قبروں میں عذاب کرتا ہے اور ان پر الم اتا ہے اور وہ اس کا شعور نہیں کرتے لیکن جب حشر ہو گا ان کو اس کا احساس ہو گا اور انہوں نے دعوی کیا کہ مردوں میں عذاب پانے والے ایک بے ہوش اور غشی والے شخص کی طرح ہیں اس پر ضرب لگاو تو اس کو احساس نہیں ہوتا لیکن جب عقل اتی ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے اور المعتزلة میں باقی کہتے ہیں مثلا ضرار اور بشر اور یحیی اور دیگر یہ وہ ہیں جنہوں نے اصلا عذاب کا انکار کیا ہے اور کہتے ہیں جو مرا وہ میت ہے اپنی قبر میں قیامت تک کے لئے اور یہ تمام اقوال فاسد ہیں جو رد ہوتے ہیں ثابت خبروں سے اور قرآن میں ہے ال فرعون اگ پر پیش کیے جاتے ہیں 

قرطبی کے بقول بعض المعتزلة اور کرامیہ کا عقیدہ ایک تھا کہ میت بلا روح عذاب سہتی ہے جو آج کل کے غیر مقلدین کا عقیدہ ہے

الإعلام بفوائد عمدة الأحكام ابن الملقن الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)کے مطابق

وقال بعضهم: عذاب القبر جائز وأنه يجري على [الموتى]   من غير رد أرواحهم إلى أجسادهم وأن الميت يجوز أن يألم ويحس وهذا مذهب جماعة من الكرامية. وقال بعض المعتزلة: إن الله يعذب [الموتى]   في قبورهم ويحدث فيهم الآلام وهم لا يشعرون فإذا حُشروا وجدو تلك الآلام، كالسكران والمغشي عليه، لو ضربوا لم يجدوا ألمًا   فإذا عاد عقلهم إليهم وجدوا تلك الآلام. وأما الباقون سنن المعتزلة مثل ضرار  بن [عمرو]   وبشر   المريسي ويحيى   بن أبي كامل وغيرهم: فإنهم أنكروا عذاب القبر أصلًا.  وهذه أقوال كلها فاسدة تردها الأحاديث الثابتة، والله الموفق.  وإلى الإِنكار أيضًا ذهبت الخوارج وبعض المرجئة. ثم المعذب عند أهل السنة: الجسد بعينه أو بعضه بعد إعادة الروح إليه [أو]  إلى جزء منه، وخالف في ذلك محمد بن [حزم]  وابن كرام   وطائفة، فقالوا: لا يشترط إعادة الروح، وهو فاسد توضحه الرواية السالفة (سمع صوت إنسانين يعذبان) فإن الصوت لا يكون [إلَّا]   من جسم حي  أجوف 

اور بعض کہتے ہیں عذاب قبر جائز ہے اور یہ مردوں کو ہوتا ہے روح لوٹائے بغیر اور یہ میت کے لئے جائز ہے کہ احساس الم کرے اور یہ کرامیہ کی جماعت کا مذھب ہے  اور بعض المعتزلة کہتے ہیں اللہ مردوں کو قبروں میں عذاب کرتا ہے اور ان پر الم ہوتا ہے لیکن انکو اسکا شعور نہیں ہے پس جب حشر ہو گا انکو یہ الم مل جائے گا – (مردوں کی کیفیت ایسی ہے ) جیسے غشی ہوتی ہے کہ انکو مارو تو انکو الم نہیں ملتا پس جب عقل واپس اتی ہے انکو الم ملتا ہے- اور باقی المعتزلة  مثلا  ضرار  بن [عمرو]   وبشر   المريسي ويحيى   بن أبي كامل وغيرهم تو یہ سب اصلا  عذاب کا انکار کرتے ہیں – اور یہ تمام اقوال فاسد ہیں جن کا رد ثابت حدیثوں سے ہوتا ہے اللہ توفیق دینے والا ہے اور اسی انکار کی طرف  خواراج اور بعض المرجئة کا مذھب ہے- پھر معذب اہل سنت کے نزدیک جسد اور اس کے جیسا ہے روح لوٹانے پر یا اجزاء پر اور اسکی مخالفت کی ہے ابن حزم نے ابن کرام نے اور ایک گروہ نے اور کہا کہ اعادہ روح اس کی شرط نہیں ہے اور یہ فاسد ہے انکی وضاحت ہوتی ہے پچھلی حدیثوں سے (دو انسانوں کی آواز سنی جن کو عذاب ہو رہا تھا)  کیونکہ آواز نہیں ہے الا جسم زندہ ہو (مٹی سے) خالی ہو

ابن ملقن کے بقول عذاب   اہل سنت میں حی یا زندہ کے لئے ہے جس کے جسم میں مٹی نہ ہو اور کرامیہ کا مذھب ہے کہ یہ لاش کو بلا روح ہوتا ہے

اہل سنت کی عقیدہ عذاب قبر میں دو آراء

العرف الشذي شرح سنن الترمذي از المؤلف: محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ)

ونسب إلى المعتزلة أنهم ينكرون عذاب القبر، ويرد عليه أن المعتزلة المختار عدم إكفارهم، وإذا كانوا أنكروا عذاب القبر فكيف يكونوا أهل القبلة؟ أقول: يقال أولاً: لعل التواتر نظري، وثانياً: أنه لم ينكر أحد منهم إلا ضرار بن عمرو وبشر المريسي، وإني في هذا أيضاً متردد ما لم ير عبارتهما. ثم لأهل السنة قولان؛ قيل: إن العذاب للروح فقط، وقيل: للروح والجسد والمشهور الثاني، اختاره أكثر شارحي الهداية وهو المختار

اور المعتزلة سے عذاب قبر کا انکار منسوب کیا جاتا ہے اور اس کا رد کیا جاتا ہے کہ  المعتزلة جو  مختار تھے کہ وہ عذاب قبر کا کفر  کرتے ہیں  اور اگر وہ عذاب قبر کے انکاری ہیں تو انکو اہل قبلہ کیسے لیں؟ میں کہتا ہوں پہلی بات تواتر نظری ہے اور دوسری اس کا انکار صرف ضرار بن عمرو وبشر المريسي نے کیا ہے اور میں خود متردد ہوں کیونکہ میں نے اس پر انکی  کوئی عبارت اس پر نہیں پائی- پھر خود اہل سنت میں عذاب قبر پر دو قول ہیں ایک یہ کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے دوسرا یہ کہ یہ جسم و روح کو ہوتا ہے اور دوسرا مشھور ہے اس کو الهداية کے اکثر شارحین نے  لیا ہے اور یہ مختار ہے

امام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور
اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا

کتاب  إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از المؤلف: أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) کے مطابق بھی بعض ٩٢٣ ھ میں کہہ رہے تھے کہ یہ صرف روح کا سننا ہے

إما بآذان رؤوسهم، كما هو قول الجمهور، أو بآذان الروح فقط، والمعتمد قول الجمهور، لأنه: لو كان العذاب على الروح فقط، لم يكن للقبر بذلك اختصاص، وقد قال قتادة، كما عند المؤلّف في غزوة بدر: أحياهم الله تعالى حتى أسمعهم توبيخًا أو نقمة.

اور سروں میں موجود کان ہیں وہ سنتے ہیں یہ جمہور کہتے ہیں یا پھر فقط روح کے کان ہیں اور معتمد جمہور کا قول ہے کیونکہ عذاب اگر صرف روح کو ہو تو قبر کی کوئی خصوصیت نہیں ہے اور قتادہ نے غزوہ بدر کے لئے کہا کہ ان مشرکین کو زندہ کیا توبیخ کے لئے

یعنی قسطلانی نے ایک معجزہ کو معمول سمجھ لیا  جبکہ امت میں صرف روح پر عذاب کی رائے بھی چلی آ رہی ہے

لہذا اس  مسئلہ میں دو قول ہیں ایک یہ ہے کہ عذاب صرف روح کو ہوتا ہے جس کا ذکر سلف کرتے ہیں لیکن یہ قول کہ یہ صرف جسد کو بلا روح ہوتا ہے عبد الله بن کرام کے فرقہ کرامیہ اور الْمُعْتَزلَة میں الصالحی کا تھا

خوارج اور غیر مقلدین

ابو جابر دامانوی نے خوارج کے انکار عذاب قبر کا حوالہ دیا ہے- اطلاعا عرض ہے کہ اس میں خوارج مختلف الخیال ہیں اکثر کی رائے میں عذاب کفار و منافق پر ہوتا ہے ایمان والوں کے لئے وہ اس کو جزم سے بیان نہیں کرتے

یہاں ہم ایک خارجی عالم  ناصر بن أبي نبهان  الأباضي المتوفی ١٢٦٣  کی رائے پیش کرتے ہیں

إن الله قادر أن يخلق له نوع حياة، يجوز بها ما يدرك الألم والتنعيم، من غير إعادة الروح إليه لئلا يحتاج إلى نزع حياة جديدة، ويجوز بإعادة الحياة دون إعادة الروح

اور بے شک الله تعالی قادر ہے کہ ایک نوع کی حیات (مردوں میں) پیدا کر دے جس سے ان کو الم و راحت کا ادرک ہو بغیر روح لوٹائے کیونکہ اس کو اس نئی حیات کی ضرورت ہے اور جائز ہے کہ حیات کا لوٹنا ہو بغیر إعادة روح کے

بحوالہ  آراء الشيخ ابن أبي نبهان في قاموس الشريعة

ان کا ترجمہ یہاں دیکھ سکتے ہیں

https://ar.wikipedia.org/wiki/ناصر_بن_جاعد_الخروصي#.D9.85.D8.A4.D9.84.D9.81.D8.A7.D8.AA.D9.87

یہ رائے آج سے ١٧٤ سال پہلے خوارج  کے ایک عالم پیش کر چکے تھے – سن ٢٠٠٠ ع سے اس کی تبلیغ فرقہ غیر مقلدین کر رہے  ہیں

گھنگھریالے بالوں والا رب؟

https://www.islamic-belief.net/كتاب-التوحيد-و-ألأسماء-الحسني/
اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے

خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

کتاب  الصفات از  الدارقطني (المتوفى: 385هـ) کے مطابق اس کی اسناد ابو ہریرہ اور ابن عمر سے ہیں اب ہم ان اسناد پر بحث کرتے  ہیں

ابو ہریرہ کی مرویات

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ الْفَضْلِ الْكَاتِبُ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

دوسری سند ہے

حَدَّثَنَا عَلَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَطَّانُ، وَثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ نَهْشَلُ بْنُ دَارِمٍ التَّمِيمِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ، قَالَا: ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ “

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

جب تم میں سے کوئی کسی کو مارے تو چہرہ پر مارنے سے بچے اور یہ نہ کہے کہ الله تیرا چہرہ بگاڑ دے کیونکہ اس کا چہرہ اسی کے جیسا ہے کیونکہ الله نے آدم کو تخلیق کیا اپنی صورت پر 

محمد بن عجلان نے اس کو سعید بن ابی سعید سے انہوں نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے

کتاب  الضعفاء الكبير از امام  العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے   حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ  اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا  (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک  کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں

فقہ مالکیہ کی معتمد  کتاب  المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي    السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

دارقطنی کے مطابق محمد بن عجلان کے علاوہ المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ  نے بھی اس کو ابی الزناد سے روایت کیا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو شَيْبَةَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ بَكْرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى أَبُو مُوسَى، ثنا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، ثنا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا»

سیر الآعلام البنلاء از الذھبی کے مطابق  المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ  کے لئے امام یحیی بن معین کہتے   : لَيْسَ حَدِيْثُهُ بِشَيْءٍ اس کی حدیث کوئی چیز نہیں ہے-  ابن حبان  کتاب مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں کہتے ہیں  وكان يهم في الشئ بعد الشئ اس کو  چیز چیز پر وہم ہوتا ہے

امام مالک کی بات کا رد کرتے ہوئے کتاب  سير أعلام النبلاء میں  الذهبي (المتوفى : 748هـ) کہتے ہیں

قُلْتُ: الخَبَرُ لَمْ يَنْفَرِدْ بِهِ ابْنُ عَجْلاَنَ، بَلْ وَلاَ أَبُو الزِّنَادِ، فَقَدْ رَوَاهُ:

 شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ.

وَرَوَاهُ: قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَرَوَاهُ: ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَرَوَاهُ: مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَصحَّ أَيْضاً مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عُمَرَ.

میں (الذھبی) کہتا ہوں : اس خبر میں ابن عجلان  منفرد نہیں ہے اور نہ ابو الزناد منفرد ہے  اس کو روایت کیا ہے

شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ. نے

اور روایت کیا ہے  قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ سے .

اور روایت کیا ہے  ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. 

اور روایت کیا ہے  مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. سے

  راقم کہتا ہے قتادہ مدلس نے یہ روایت عن سے روایت کی ہے امام مسلم نے قتادہ کے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے – الذھبی کی پیش کردہ دوسری سند میں  ابْنُ لَهِيْعَةَ سخت ضعیف ہے –  شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ    کی روایت مسند الشامیین از طبرانی کی ہے لیکن یہ بھی ضعیف ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مَيْمُونٍ أَيُّوبُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ الصُّورِيُّ، ثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَذَّاءُ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سَبْعُونَ ذِرَاعًا

اس کی سند میں محمد بن حمير الحمصي ہے جو محدثین مثلا ابن ابی حاتم کے مطابق نا قابل احتجاج ہے اور الفسوی اس کو قوی نہیں کہتے ہیں اس راوی کو الذہبی نے خود ديوان الضعفاء میں ضعیف راویوں میں  شمار کیا ہے

کتاب السنہ از ابن ابی عاصم کی روایت ہے

ثنا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثنا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ثنا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي يُونُسَ سُلَيْمُ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ قَاتَلَ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ فَإِنَّ صُورَةَ وَجْهِ الإِنْسَانِ عَلَى صُورَةِ وَجْهِ الرَّحْمَنِ”.

ابو یونس ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو لڑے وہ چہرہ سے بچے کیونکہ انسان کے چہرے کی صورت الرحمن کے چہرے کی صورت ہے

یہ ہے وہ روایت جو الذہبی نے دلیل میں پیش کی ہے جس کے متن  میں نکارت ہے اور سند میں ابن لَهِيعَةَ ہے جس پر خراب حافظہ آختلاط اور ضعف کا حکم ہے

اب صرف مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. کی سند ہے جو قابل بحث ہے – امام بخاری نے اس کو اسی سند سے روایت کیا ہے  إس میں معمر بن راشد ہیں جو مدلس ہیں  لیکن محدثین کی ایک جماعت ان کی ہمام بن منبہ والی روایات قبول کرتی ہے – ہمام بن منبہ  یمن سے مدینہ پہنچے اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ١٤٠ روایات لیں ان میں اپنی باتیں بھی شامل کر دیں اور ان کا نسخہ بقول امام احمد اسی وجہ سے معدوم ہوا کہ لوگ یہ تمیز ہی نہیں کر پائے  کیا قول نبی اور کیا ان کا اپنا قول ہے – ہمام سوڈان گئے وہاں معمر بن راشد ملے اور ان کو روایت سنائیں اس کے بعد حجاز میں ابن زبیر رضی الله عنہ کی فوج نے ہمام کو  پکڑا اور یہ عباسیوں کے خروج تک زندہ تھے سن ١٣٢  هجري میں فوت ہوئے –   الذھبی کے مطابق ممکن ہے سو سال انکی زندگی ہو لیکن اس دوران انہوں نے  بہت کم لوگوں کو روایات سنائی ہیں  ان سے صرف  ان کے  بھائی وھب بن منبہ   صَاحِبُ القَصَصِ ، ان کے بھتیجے عَقِيْلُ بنُ مَعْقِلٍ  اور معمر بن راشد  اور ایک یمنی عَلِيُّ بنُ الحَسَنِ بنِ أَنَسٍ الصَّنْعَانِيُّ  روایت کرتے ہیں – الذھبی  سیر الآعلام النبلاء میں کہتے ہیں وَمَا رَأَينَا مَنْ رَوَى الصَّحِيْفَةَ عَنْ هَمَّامٍ إِلاَّ مَعْمَرٌ اور ہم نہیں دیکھتے کہ اس الصَّحِيْفَةَ کو ہمام سے کوئی روایت کرتا ہو سوائے معمر کے- امام احمد کے مطابق معمر نے یہ صحیفہ سوڈان میں سنا- معمر خود کوفی ہیں وہاں سے یمن گئے اور پھر سوڈان  – سوڈان علم  حدیث کے لئے کوئی مشھور مقام نہ تھا –   خود معمر روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہ سختی سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی کوئی ایک  روایت کو رد کرتے

كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق

ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.

البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں

ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون   جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی  شخص   ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ   محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے

البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں  کہتے ہیں

يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.

یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی  حدیث  مراد تھی جس  کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ  ٨٦٠ میں کی ہے

ہمام ایک سابقہ یہودی تھے – یہود میں الله کے لئے تجسیم کا عقیدہ ہے کیونکہ موجودہ توریت میں الله کو  ایک مرد کی صورت بیان کیا  گیا ہے جس کے آعضآ بھی ہیں –  یہودی تصوف کی ایک قدیم کتاب جو بعثت نبوی سے قبل کی ہے اس کا نام  کتاب شر قومہ ہے جس  میں الله  تعالی کے آعضآ کی پمائش بھی بیان کی گئی  ہے – موجود توریت میں ہے

Then God said,  “Let us make man in our image,  after our likeness.

پھر الله نے کہا ہم انسان کو اپنے عکس  צֶ֫לֶם  پر بنائیں گے –اپنی דְּמוּת  مشابہت  کے مطابق

Genesis 1:26

لفظ דְּמוּת کا ترجمہ مشابہت کے علاوہ  یہود کے مطابق شکل اور تناسب بھی ہو سکتا ہے

لفظ צֶלֶם کا ترجمہ عکس کے علاوہ غیر مرئی چیز  بھی کیا جاتا ہے

اس کے برعکس قرآن میں ہے

(فِیْ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَ (الانفطار:8/82
جس صورت میں چاہا اس نے تجھے بنایا۔

اسی متن کی ایک روایت ابن عمر سے بھی مروی ہے  جس کے مطابق چہرے کو برا نہ کرو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا

ابن عمر کی مرویات

العلل دارقطنی کی سند ہے

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ الزَّيَّاتُ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ [ص:36]: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ»

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الطُّوسِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ إِشْكَابَ، ثنا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ [ص:37]، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ»

ابن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرہ کو مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو الرحمن کی شکل پر پیدا کیا ہے

اس کی سند میں مدلس حبيب بن أبي ثابت ہیں جو عن سے اس کو عطاء بْن أَبي رباح  سے روایت کر رہے ہیں –  کتاب  المدلسين  از  ابن العراقی کے مطابق

ابن حبان کہتے ہیں

: كان مدلساً وروى أبو بكر بن عياش عن الأعمش قال لي حبيب بن أبي ثابت: لو أن رجلاً حدثني عنك ما باليت أن أرويه عنك.

یہ مدلس تھے  – الأعمش کہتے ہیں حبيب بن أبي ثابت نے مجھ سے کہا اگر کوئی آدمی تم سے میری  روایت بیان  کرے تو میں اس سے بے پرواہ ہوں جو وہ روایت کرے

عطاء بْن أَبي رباح کی سند سے اس روایت کو بیان کرنے میں حبيب بن أبي ثابت منفرد ہیں چونکہ یہ مدلس ہیں اور عن سے روایت ہے لہذا یہ مظبوط نہیں

ابن خزیمہ کتاب التوحید میں اس روایت پر تبصرہ کرتے ہیں اور  ابن عمر کی روایت کو رد کرتے ہیں

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: تَوَهَّمَ بَعْضُ مَنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ أَنَّ قَوْلَهُ: «عَلَى صُورَتِهِ» يُرِيدُ صُورَةَ الرَّحْمَنِ عَزَّ رَبُّنَا وَجَلَّ عَنْ أَنْ يَكُونَ هَذَا مَعْنَى الْخَبَرِ، بَلْ مَعْنَى قَوْلِهِ: «خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، الْهَاءُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ كِنَايَةٌ عَنِ اسْمِ الْمَضْرُوبِ، وَالْمَشْتُومِ، أَرَادَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ هَذَا الْمَضْرُوبِ، الَّذِي أَمَرَ الضَّارِبَ بِاجْتِنَابِ وَجْهِهِ بِالضَّرْبِ، وَالَّذِي قَبَّحَ وَجْهَهَ، فَزَجَرَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ: «وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ» ، لِأَنَّ وَجْهَ آدَمَ شَبِيهُ وُجُوهِ بَنِيهِ، فَإِذَا قَالَ الشَّاتِمُ لِبَعْضِ بَنِي آدَمَ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ، كَانَ مُقَبِّحًا وَجْهَ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ [ص:85] عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ، الَّذِي وُجُوهُ بَنِيهِ شَبِيهَةٌ بِوَجْهِ أَبِيهِمْ، فَتَفَهَّمُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ مَعْنَى الْخَبَرِ، لَا تَغْلَطُوا وَلَا تَغَالَطُوا فَتَضِلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَتَحْمِلُوا عَلَى الْقَوْلِ بِالتَّشْبِيهِ الَّذِي هُوَ ضَلَالٌ

بعض لوگ جن کو علم نہیں پہنچا ان کو اس میں وہم ہوا کہ قول اسکی صورت پر سے انہوں نے صورت رحمان مراد لی گویا کہ یہ کوئی خبر ہو بلکہ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اس کا معنی ہے  کہ اس میں ھآ یہاں کنایہ کے طور پر ہے جس کو مارا جا رہا ہے اس کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم  کا مقصد ہے کہ الله نے آدم کو خلق کیا اسی مارنے والے کی صورت پہ جس نے مارنے کا حکم دیا چہرہ پر اور چہرہ کو برآ کیا پس اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ڈانٹا کہ کہہ کر اس کا چہرہ بھی تمہارے چہرہ جیسا ہے ….. پس ان لوگوں کو وہم ہوا کہ الله نے خبر دی پس دین میں غلو نہ کرو نہ کراو ورنہ گمراہ ہو گے سیدھی راہ سے اور اس پر التَّشْبِيهِ  کاقول مت لو یہ گمراہی ہے

ابن خزیمہ  سفیان ثوری  کے طرق عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ،  پر کہتے ہیں

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَقَدِ افْتُتِنَ بِهَذِهِ اللَّفْظَةِ الَّتِي فِي خَبَرِ عَطَاءٍ عَالِمٌ مِمَّنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ، وَتَوَهَّمُوا أَنَّ إِضَافَةَ الصُّورَةِ إِلَى الرَّحْمَنِ فِي هَذَا الْخَبَرِ مِنْ إِضَافَةِ صِفَاتِ الذَّاتِ، فَغَلَطُوا فِي هَذَا غَلَطًا بَيِّنًا، وَقَالُوا مَقَالَةً شَنِيعَةً مُضَاهِيَةً لِقَوْلِ الْمُشَبِّهَةِ، أَعَاذَنَا اللَّهُ وَكُلُّ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَوْلِهِمْ وَالَّذِي عِنْدِي فِي تَأْوِيلِ هَذَا الْخَبَرِ إِنْ صَحَّ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ مَوْصُولًا: فَإِنَّ فِي الْخَبَرِ عِلَلًا ثَلَاثًا , إِحْدَاهُنَّ: أَنَّ الثَّوْرِيَّ قَدْ خَالَفَ الْأَعْمَشَ فِي إِسْنَادِهِ، فَأَرْسَلَ الثَّوْرِيُّ وَلَمْ يَقُلْ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَالثَّانِيَةُ: أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، لَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ وَالثَّالِثَةُ: أَنَّ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ: أَيْضًا مُدَلِّسٌ، لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ عَطَاءٍ

اور اس لفظ صورت الرحمن سے فتنہ ہوا وہ خبر جو عطا بن ابی رباح سے ملی ایک عالم تھے جنہوں نے علم میں جانچ پڑتال نہیں کی اور اس اضافت صورت الرحمن سے وہم ہوا یہ اضافہ ذات باری کی صفات پر ہے پس انہوں نے غلطی کھائی جس کو ہم نے واضح کیا اور قول برا قول ہے الْمُشَبِّهَةِ کی گمراہی جیسا الله اس سے بچائے  تمام مسلمانوں کو اس قول سے اور ہمارے نزدیک اس کی تاویل ہے کہ یہ خبر اگر نقلی لحاظ سے درست ہو تو یہ موصول ہے کیونکہ اس خبر میں تین علتیں ہیں ایک ثوری نے کی مخالفت کی ثوری نے ارسال کیا اور یہ نہیں کہا عن ابن عمر اور دوسری الْأَعْمَشَ مدلس ہے اور اس نے ذکر نہیں کیا کہ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ سے  اس کا سماع  ہے اور تیسری حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ  بھی مدلس ہے اس کا سماع عطا بن ابی رباح سے ہے بھی پتا نہیں

صورت رحمان پر تخلیق کہنا  توریت کی اس آیت کی تائید ہے – ابن عباس رضی الله عنہ اور امام مالک نے اس کا متن سنتے ہی اس کو رد کر دیا – اس کے بعد سن ٢٠٠ ہجری میں اس روایت کا پھر سے دور دورہ ہوا اور جھمیہ کی مخالفت میں اس کو محدثین صحیح کہنے لگے کیونکہ اس میں الله کے چہرے کا ذکر تھا اور جھمیہ  اللہ کو   انرجی نما کوئی چیز سمجھتے تھے جو تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے –  چونکہ قرآن میں بھی وجھہ الله  کے الفاظ ہے   محدثین اس روایت کو جھمیہ کی مخالفت میں پیش کرنے لگے

کتاب  الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کے مطابق ابن خزیمہ کی بات کا امام احمد رد کرتے تھے

وَحَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيُّ , حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ حَنْبَلٍ: يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ , حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَخِيرِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا , أَلَيْسَ تَقُولُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ؟ وَيَرَاهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَعْنِي رَبَّهُمْ عَزَّ وَجَلَّ؟ وَلَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى وَضَعَ فِيهَا قَدَمَهُ , وَإِنَّ مُوسَى لَطَمَ مَلَكَ الْمَوْتِ قَالَ [ص:1128] أَحْمَدُ: «كُلُّ هَذَا صَحِيحٌ» , قَالَ إِسْحَاقُ: «هَذَا صَحِيحٌ , وَلَا يَدْفَعُهُ إِلَّا مُبْتَدِعٌ أَوْ ضَعِيفُ الرَّأْيِ»

إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ کہتے ہیں میں نے امام احمد سے کہا کیا الله تعالی ہر رات آسمان دنیا پر  نزول کرتے ہیں جب رات کا آخری تین تہائی رہ جائے کیا بولتے ہیں آپ ان احادیث پر ؟ اور اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ اور چہرہ مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا  اور جہنم کی اگ نے اپنے رب سے شکایت کی یہاں تک کہ الله نے اس پر قدم رکھا – اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی؟ احمد نے کہا : یہ سب صحیح ہیں اور اسحاق نے کہا یہ سب صحیح ہیں اور ان کو رد  نہیں کرتا لیکن بدعتی اور کمزور رائے والا

وہابی محقق  محمد حسن عبد الغفار کتاب  شرح كتاب التوحيد لابن خزيمة  میں ابن خزیمہ کے قول کو ضعیف کہتے ہیں اور تبصرہ کرتے ہیں

 وهل ابن خزيمة في مسألة الصورة يثبت لله صفة الصورة أم لا؟! نقول: هناك تأويلان: أولاً: الهاء في الحديث عائدة على المضروب، وليست عائدة على الله، فأخبره أن هذا المضروب خلق على صورة أبيه آدم عليه السلام، وهذا التأويل فيه ضعف؛ والحديث في الرواية الأخرى جاء بنص: (خلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعاً)، إذاً: الهاء عائدة على آدم عليه السلام، فطوله ستون ذراعاً وسبعة أذرع عرضاً، وجاء بإسناد صحيح عند الطبراني وغيره: (أن الله خلق آدم على صورة الرحمن) فإذا قلنا: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن فكيف نفهم هذا المعنى؟ نقول: أولاً: لله صورة، وهي صفة من صفات الله، وهل الصورة تشبه صورة الإنسان؟ حاشا لله! فمعنى: (خلق آدم على صورة الرحمن) أن آدم متكلم كما أن الله متكلم، وأن آدم سميع كما أن الله سميع، وإن آدم بصير كما أن الله بصير….وابن خزيمة يقول: الصورة إضافتها إضافة مخلوق إلى خالقه.
ونحن نخالفه في هذا

اور کیا ابن خزیمہ نے مسئلہ صورت میں الله کی طرف صفت صورت کا اثبات کیا یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں اس میں دو تاویلات ہیں ایک یہ کہ یہ مارنے والے کی طرف ھآ کی ضمیر ہے … اور یہ تاویل ضعیف ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ الله نے آدم کو ٦٠ ہاتھ  لمبا اور ٧ ہاتھ چوڑا خلق کیا … تو اس کا کیا مطلب ہے ؟ ہم کہتے ہیں اول الله کی صورت ہے اور یہ اس کی صفت ہے اور کیا یہ صورت انسان سے ملتی ہے ؟ حاشا للہ ! پس اس کا معنی ہے خلق آدم علی صورت الرحمن کا کہ آدم اسی طرح بولتا ہے جس طرح الله بولتا ہے اور سنتا ہے جس طرح الله سنتا ہے اور دیکھتا ہے جس طرح الله دیکھتا ہے .. … اور ابن خزیمہ نے کہا کہ صورة  کی اضافت مخلوق کی  خالق کی طرف ہے اور ہم اس قول کے انکاری ہیں

روایت سندا صحیح نہیں ہے  یہ کہنے کی بجائے اس کو صحیح بھی کہہ رہے ہیں اور خالق کو مخلوق سے بھی ملا رہے ہیں

چوتھی صدی ہجری میں ابن حبان  نے  اس کو صحیح قرار دیا جو ابن خزیمہ کے ہم عصر تھے لیکن صحیح ابن حبان میں اس پر تبصرہ میں کہا

، وَالْهَاءُ رَاجِعَةٌ إِلَى آدَمَ، وَالْفَائِدَةُ مِنْ رُجُوعِ الْهَاءِ إِلَى آدَمَ دُونَ إِضَافَتِهَا إِلَى الْبَارِئِ جَلَّ وَعَلَا – جَلَّ رَبُّنَا وَتَعَالَى عَنْ أَنْ يُشَبَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ – أَنَّهُ جَلَّ وَعَلَا جَعَلَ سَبَبَ الْخَلْقِ الَّذِي هُوَ الْمُتَحَرِّكُ النَّامِي بِذَاتِهِ اجْتِمَاعَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، ثُمَّ زَوَالَ الْمَاءِ عَنْ قَرَارِ الذَّكَرِ إِلَى رَحِمِ الْأُنْثَى، ثُمَّ تَغَيُّرَ ذَلِكَ إِلَى

اور اس میں الْهَاءُ راجع ہے آدم کی طرف اور اس میں فائدہ ہے کہ یہ وَالْهَاءُ آدم کی طرف ہو نہ کہ الله کی طرف جو بلند و بالا ہے کہ اس سے کسی چیز کو تشہیہ دی جائے اس کی مخلوق میں سے وہ بلند ہے اس نے خلق کیا ہے وہ سونے والے کو متحرک کرتا مرد و عورت کو ملاتا پھر اس کا پانی ٹہراتا  ہے پھر اس کو بدلتا ہے

یعنی ابن خزیمہ نے ابن عمر کی روایت کو ضعیف کہا لیکن ابن حبان نے صحیح کر دیا لیکن دونوں الھا کی ضمیر کو مارنے والے کی طرف لے جاتے ہیں اس کے برعکس حنبلی علماء اس کو الله کی طرف لے جاتے ہیں

کتاب  تأويل مختلف الحديث میں  أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ)  نے اس روایت پر لکھا

قَدِ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِي تَأْوِيلِ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّهُ خَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى صُورَتِهِ “.
فَقَالَ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ الْكَلَامِ: أَرَادَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، لَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، وَلَوْ كَانَ الْمُرَادُ هَذَا، مَا كَانَ فِي الْكَلَامِ فَائِدَةٌ.

وَمَنْ يَشُكُّ فِي أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَى صُورَتِهِ، وَالسِّبَاعَ عَلَى صُوَرِهَا، وَالْأَنْعَامَ عَلَى صُوَرِهَا

وَقَالَ قَوْمٌ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةٍ عِنْدَهُ.

وَهَذَا لَا يَجُوزُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَخْلُقُ شَيْئًا مِنْ خَلْقِهِ عَلَى مِثَالٍ.

وَقَالَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: “لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صورته

يُرِيد أَنَّ اللَّهَ -جَلَّ وَعَزَّ- خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الْوَجْهِ.

وَهَذَا أَيْضًا بِمَنْزِلَةِ التَّأْوِيلِ الْأَوَّلِ، لَا فَائِدَةَ فِيهِ.

وَالنَّاسُ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقَ آدَمَ، عَلَى خَلْقِ وَلَدِهِ، وَوَجْهَهُ عَلَى وُجُوهِهِمْ.

وَزَادَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: إِنَّهُ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- مَرَّ بِرَجُلٍ يَضْرِبُ وَجْهَ رَجُلٍ آخَرَ، فَقَالَ: “لَا تَضْرِبْهُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، خَلَقَ آدَمَ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- عَلَى صُورَتِهِ”، أَيْ صُورَةِ الْمَضْرُوبِ.

وَفِي هَذَا الْقَوْلِ مِنَ الْخَلَلِ، مَا فِي الْأَوَّلِ.

وَلَمَّا وَقَعَتْ هَذِهِ التَّأْوِيلَاتُ الْمُسْتَكْرَهَةُ، وَكَثُرَ التَّنَازُعُ فِيهَا، حَمَلَ قَوْمًا اللَّجَاجُ عَلَى أَنْ زَادُوا فِي الْحَدِيثِ، فَقَالُوا: رَوَى بن عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا1: “إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.

يُرِيدُونَ أَنْ تَكُونَ الْهَاءُ2 فِي “صُورَتِهِ” لِلَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، وَإِنَّ ذَلِكَ يَتَبَيَّنُ بِأَنْ يَجْعَلُوا الرَّحْمَنَ مَكَانَ الْهَاءِ كَمَا تَقُولُ: “إِنَّ الرَّحْمَنَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”، فَرَكِبُوا قَبِيحًا مِنَ الْخَطَأِ.

وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ نَقُولَ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ السَّمَاءَ بِمَشِيئَةِ الرَّحْمَنِ” وَلَا على إِرَادَة الرَّحْمَن

بلا شنہ لوگوں کا اس روایت کی  تاویل میں اضطراب ہوا جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس ایک اصحاب الکلام کی قوم  نے کہا اس میں مقصد ہے کہ آدم کو آدم کی صورت ہی پیدا کیا گیا اس سے زیادہ نہیں اور اگر اس سے یہ مراد ہے تو ایسے کلام کا فائدہ کیا ہے ؟ اور جس کو شک ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر کیا تو پھر گدھ کی اور چوپایوں کی صورتیں کس پر ہیں ؟ ایک دوسری قوم نے کہا الله نے آدم کو  اس صورت پر پیدا کیا جو اس کے پاس ہے تو یہ ایسا کلام جائز نہیں ہے کیونکہ الله عزوجل نے کسی کو بھی خلق میں سے اپنے مثل نہیں بنایا –   اور ایک قوم نے حدیث پر کہا چہرہ مت بگاڑو  کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا مراد ہے الله نے اپنی ہی چہرہ پر  بنایا –  تو یہ بھی ویسی ہی تاویل ہے جیسی پہلی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے – اور لوگ جانتے ہیں کہ الله تبارک و تعالی نے آدم کو خلق کیا ان کی اولاد کے مطابق اور انکا چہرہ انکی اولاد کا ہے اور ایک قوم نے حدیث میں اضافہ کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ایک شخص پر سے گزر ہوا جو دوسرے کے چہرہ پر مار رہا تھا آپ نے فرمایا اس کے چہرہ پر مت مارو کیونکہ الله نے آدم کو اس کی صورت پیدا کیا یعنی مارنے والے کی ہی صورت پر اور اس قول میں خلل ہے جو پہلے میں نہیں ہے – تو جب اس قسم کی تاویلات منکرات واقع ہوئیں اور جھگڑا بڑھا تو ایک قوم نے بےہودگی اٹھائی اور اس حدیث میں الفاظ کا اضافہ کر دیا اور کہا کہ ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے الله تعالی نے آدم کو صورت  رحمان پر خلق کیا – ان کا مقصد تھا کہ الھا کی ضمیر کو صورتہ کی طرف لے جائیں یعنی الله تعالی کے لئے اور اس میں واضح ہے کہ انہوں الرحمن کا لفظ کر دیا جہاں الھا تھا جیسا کہ کہا بے شک الرحمن نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا پس وہ ایک قبیح غلطی پر چلے اور ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ میں کہیں بے شک الله نے آسمان کو مشیت الرحمن کے مطابق خلق کیا نہ ہی رحمان کا ارادہ کہیں – 

ابن قتیبہ نے جو تیسری صدی کے محدث ہیں اور امام احمد کے ہم عصر ہیں ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں ہے اس کا متن منکر ہے

ان کے مقابلے پر امام احمد  اور اسحاق بن راہویہ تھے جو اس کو صحیح کہتے

کتاب : مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه  از  إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) کے مطابق امام احمد اس میں الھا کی ضمیر کو الله کی طرف لے جانا قبول کیا

أليس تقول بهذه الأحاديث. و “يرى أهل الجنة ربهم عز وجل” “ولا تقبحوا الوجه فإن الله عز وجل خلق آدم على صورته” يعني صورة رب العالمين، و “اشتكت النار إلى ربها عز وجل حتى يضع الله فيها قدمه” و “إن موسى عليه السلام لطم ملك الموت عليه السلام”؟
قال الإمام أحمد: كل هذا صحيح.
قال إسحاق: كل هذا صحيح، ولا يدعه1 إلا مبتدع أو ضعيف الرأي

کیا کہتے ہیں اس حدیث پر کہ اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے اور حدیث چہرہ مت بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یعنی رب العالمین کی صورت پر اور اگ نے اپنے رب سے شکایت کی حتی کہ اس نے اس پر قدم رکھا اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی ؟ امام احمد نے کہا یہ تمام صحیح ہیں اور امام اسحاق نے کہا یہ تمام صحیح ہیں  اور ان کا انکار  کوئی نہیں کرتا سوائے بدعتی اور کمزور رائے والا

البيان والتحصيل والشرح والتوجيه والتعليل لمسائل المستخرجة  از  أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ)

والحديث في قوله: «إن الله خلق آدم على صورته» يروى على وجهين؛ أحدهما: «إن الله خلق آدم على صورته» . والثاني: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن، فأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورته» فلا خلاف بين أهل النقل في صحتها؛ لاشتهار نقلها، وانتشاره من غير منكر لها، ولا طاعن فيها، وأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورة الرحمن» فمن مصحح لها، ومن طاعن عليها، وأكثر أهل النقل على إنكار ذلك، وعلى أنه غلط وقع من طريق التأويل لبعض النقلة توهم أن الهاء ترجع إلى الله عز وجل، فنقل الحديث على ما توهم من معناه، فيحتمل أن يكون مالك أشار في هذه الرواية بقوله وضعفه إلى هذه الرواية، ويحتمل أن يكون إنما ضعف بعض ما تؤول عليه الحديث من التأويلات، وهي كثيرة.

اور حدیث جس میں قول ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یہ دو طرح  سے روایت ہوئی  ہے ایک میں ہے الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دوسری میں آدم کو الرحمن کی صورت خلق کیا – جہاں تک تعلق ہے کہ اپنی صورت پر خلق کیا تو اس کی صحت پر  اہل نقل کا اختلاف نہیں ہے  لیکن جو دوسری ہے کہ آدم کو رحمن کی صورت خلق کیا تو اس کو صحیح کہنے والے ہیں اور اس پر طعن کرنے والے ہیں اور اکثر اہل نقل اس کا انکار کرتے ہیں اور بعض اہل تاویل کہتے ہیں کہ اس میں  ھ کی ضمیر غلطی سے الله کی طرف ہے  تو حدیث نقل کرنے والوں کو وہم ہوا اس کے معنی پر اور احتمال ہے کہ امام مالک نے اسی کی طرف اشارہ کیا اس کو ضعیف کہہ کر اور احتمال ہے کہ انہوں نے اس کی تاویلات کی وجہ سے ضعیف کہا اور یہ بہت ہیں

کتاب  المنتخب من علل الخلال میں  ابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) کہتے ہیں

أخبرني حرب، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ يَقُولُ: قَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) أَنَّهُ قَالَ: “إِنَّ آدَمَ خُلِقَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ: ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عن عطاء، عن ابن أبي عُمَرَ، عَنْ رَسُولَ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) قَالَ: “لا تُقبِحوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.قَالَ إِسْحَاقُ: وَإِنَّمَا عَلَيْهِ أَنْ يَنْطِقَ بِمَا صحَّ عَنْ رسول الله أَنَّهُ نَطَقَ بِهِ.وَأَخْبَرَنَا الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: كَيْفَ تَقُولُ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ): “خُلِقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”؟

قَالَ: الأَعْمَشُ يَقُولُ: عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: “أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرحمن”. فأما الثوري فأوفقه -يَعْنِي: حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ.وَأَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى الله عليه وسلم) “على صورته فنقول كَمَا فِي الْحَدِيثِ.

حرب نے خبر دی انہوں نے إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ سے سنا کہ بلاشبہ صحیح ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور ہم سے اسحاق نے روایت کیا  ان سے جریر نے بیان کیا ان سے حبیب بن ابی ثابت نے ان سے عطا نے ان سے ابن عمر نے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرے کو مٹ بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو   صورت رحمان  پر خلق کیا – اسحاق نے کہا  ہم پر ہے کہ ہم وہی بولیں جو رسول الله نے بولا ہو – اور المروزی نے خبر دی کہ انہوں امام احمد سے پوچھا کیا کہتے ہیں آپ اس حدیث پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ انہوں نے کہا : الأَعْمَشُ کہتے ہے حبیب بن ابی ثابت نے روایت کیا  اس نے عطا سے اس نے ابن عمر سے … پس ہم وہی کہتے ہیں جو حدیث میں ہے

أبي بطين  فتوی میں کہتے ہیں

رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين (مطبوع ضمن مجموعة الرسائل والمسائل النجدية، الجزء الثاني

وقال في رواية أبي طالب: من قال: إن الله خلق آدم على صورة آدم، فهو جهمي، وأي صورة كانت لآدم قبل أن يخلقه؟ وعن عبد الله بن الإمام أحمد قال: قال رجل لأبي: إن فلانا يقول في حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إن الله خلق آدم على صورته” 1 فقال: على صورة الرجل، فقال أبي: كذب، هذا قول الجهمية، وأي فائدة في هذا؟  وقال أحمد في رواية أخرى: فأين الذي يروي: “إن الله خلق آدم على صورة الرحمن”؟ وقيل لأحمد عن رجل: إنه يقول: على صورة الطين، فقال: هذا جهمي، وهذا كلام الجهمية، واللفظ الذي فيه على صورة الرحمن رواه الدارقطني، والطبراني، وغيرهما بإسناد رجاله ثقات.

اور ابی طالب کی روایت میں ہے کہ امام احمد نے کہا کہ جو یہ کہے کہ  الله نے آدم کو آدم کی صورت پر پیدا کیا تو وہ جھمی ہے اور آدم تخلیق سے پہلے کس صورت پر تھے؟ اور عبد الله کی روایت میں ہے کہ امام احمد سے ایک آدمی نے کہا کہ فلاں کہتا ہے حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا تو  کہا آدمی کی صورت اس پر امام احمد نے کہا جھوٹ یہ جھمیہ کا قول ہے اور اس کا فائدہ ؟ اور ایک دوسری روایت کے مطابق تو وہ کہاں ہے جس میں ہے کہ بے شک الله نے آدم کو الرحمن کی صورت پیدا کیا؟ اور امام احمد سے  کہا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے ان کو مٹی کی صورت پیدا کیا احمد نے کہا یہ جھمی ہے اور یہ باتیں جہمیہ کی ہیں اور الفاظ ہیں رحمان کی صورت پیدا کیا اس کو دارقطنی طبرانی  اور دوسروں نے ان اسناد سے روایت کیا ہے جن میں ثقہ ہیں

امام احمد صریحا اس کے انکاری تھے کہ الھا کی ضمیر کو انسانوں یا مٹی کی طرف لے جایا جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کو جھمی کہتے –  امام احمد کا فتوی امام ابن خزیمہ اور ابن حبان پر لگا کہ یہ دونوں جھمی ہوئے ان کے نزدیک جو الھا کی ضمیر کو انسان کی طرف لے جاتے – واضح رہے کہ جھمیہ کا موقف غلط تھا وہ الله کے سماع و کلام کے انکاری تھے لیکن بعض علماء نے  جھمیہ کی مخالفت میں   روایات کی بنیاد  صورت کو بھی الله کی صفت مناتے ہوئے  ایک طرح یہ بھی مان لیا کہ آدم اور اس کے رب کی صورت ایک جیسی ہے

امام احمد کو اس مسئلہ سے بچانے کے لئے الذھبی نے میزان الآعتدال میں  حمدان بن الهيثم کے ترجمہ میں لکھا

حمدان بن الهيثم. عن أبي مسعود أحمد بن الفرات.  وعنه أبو الشيخ ووثقه.  لكنه أتى بشيء منكر عن أحمد عن أحمد بن حنبل في معنى قوله عليه السلام إن الله خلق آدم على صورته.  زعم أنه قال صور الله صورة آدم قبل خلقه ثم خلقه على تلك الصورة فأما أن يكون خلق الله آدم على صورته فلا فقد قال تعالى {ليس كمثله شيء

حمدان بن الهيثم ، ابی مسعود احمد بن الفرات سے اور ان سے ابو شیخ اور یہ ثقہ ہیں لیکن ایک منکر چیز امام احمد بن حنبل کے لئے لائے  اس  قول النبی پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دعوی کیا کہ وہ کہتے تھے کہ تخلیق سے پہلے الله  نے  آدم کی صورت گری کی تو وہ الله کی  صورت تھی جس پر وہ بنے  – (الذہبی تبصرہ کرتے ہیں) تو اگر یہی  صورت تھی تو یہ نہیں تھی کیونکہ الله نے کہا اس کے مثل کوئی نہیں

لیکن المروزی نے جن مسائل میں امام احمد سے اس روایت کے متعلق پوچھا تھا اس میں صریح الفاظ میں صورة رب العالمين لکھا ہے  دوم ابابطین کے مطابق یہ قول امام احمد کے بیٹے سے بھی منسوب ہے لہذا اس میں حمدان بن الهيثم  کا تفرد نہیں ہے

حنبلی علماء میں حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: 1413هـ)  نے اپنی کتاب عقیدہ  أهل الإيمان في خلق آدم على صورة الرحمن  میں لکھا کہ امام احمد سے یہ قول ثابت ہے کہ الھا کی ضمیر الله کی طرف ہے اور جو اس کے خلاف کہے وہ جھمی ہے

والقول بأن الضمير يعود على آدم وأن الله تعالى خلق آدم على صورته، أي على صورة آدم مروي عن أبي ثور إبراهيم بن خالد الكلبي. وبه يقول بعض أكابر العلماء بعد القرون الثلاثة المفضلة، وهو معدود من زلاتهم،

اور یہ قول کہ ضمیر جاتی ہے آدم کی طرف اور بے شک الله تعالی نے ان کو انکی صورت پر بنایا یعنی آدم کی صورت پر جو مروی ہے ابو ثور ابراہیم بن خالد اور الکلبی سے اور اسی طرح بعض اکابر علماء نے کہا ہے قرن تین کے بعد اور وہ چند ہیں اپنی  غلطیوں کے ساتھ

اس کتاب میں تعلیق میں  حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري دعوی کرتے ہیں

وأنه لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله.

اور بے شک سلف کے درمیان تین قرون میں اس پر کوئی نزاع نہ تھا کہ  (صورته ميں الهاء) ضمیر الله کی طرف جاتی ہے 

حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري نے ابن حبان، ابن خزیمہ، امام مالک، امام ابن قتیبہ ، سب کو ایک  غلط قرار دے کر خود جمہور میں  امام احمد کو قرار دیا یہاں تک کہ ابن حجر اور الذھبی کی رائے کو بھی غلط قرار دے دیا

ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں لکھتے ہیں

لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله فإنه مستفيض من طرق متعددة عن عدد من الصحابة وسياق الأحاديث كلها يدل  على ذلك وهو أيضاً مذكور فيما عند أهل الكتابين من الكتب كالتوراة وغيرها

قرون ثلاثہ میں سلف میں  کوئی نزاع نہ تھا کہ یہ ضمیر الله کی طرف جاتی ہے کیونکہ  اس پر بہت سے طرق سے اصحاب رسول سے روایات ہیں اور ان سب احادیث کا سیاق دلالت کرتا ہے اسی پر اور یہ اہل کتاب کی کتب میں بھی مذکور ہے جیسے توریت اور دیگر

وہابی   عالم  محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421 هـ) کتاب   شرح العقيدة الواسطية میں لکھتے ہیں

أن الإضافة هنا من باب إضافة المخلوق إلى خالقه، فقوله: “على صورته”، مثل قوله عزوجل في آدم: {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72]، ولا يمكن أن الله عز وجل أعطى آدم جزءاً من روحه، بل المراد الروح التي خلقها الله عز وجل، لكن إضافتها إلى الله بخصوصها من باب التشريف، كما نقول: عباد الله، يشمل الكافر والمسلم والمؤمن والشهيد والصديق والنبي لكننا لو قلنا: محمد عبد الله، هذه إضافة خاصة ليست كالعبودية السابقة

یہاں پر (الھا) کی اضافت، مخلوق کی خالق کی طرف اضافت ہے قول ہے علی صورته الله تعالی کے قول {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72] کی مثل ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ الله تعالی نے آدم کو اپنی روح کا جز دیا ہو بلکہ مراد ہے وہ روح جو اللہ نے تخلیق کی لیکن اس کی اضافت الله کی طرف کی ہے اس کی خصوصیت کی بنا پر شرف کی وجہ سے جیسے ہم کہیں الله کے بندے جن میں کافر اور مسلم اور مومن اور شہید اور صدیق اور نبی سب ہیں لیکن اگر ہم کہیں محمد الله کے بندے تو یہ اضافت خاص ہے ویسی نہیں جیسے دوسرے بندوں کے لئے تھی

یعنی  وہابیوں میں اس اضافت پر اختلاف ہوا جس میں متاخرین نے امام احمد کے قول کی اتباع کی اور اضافت کو بقول ابن العثيمين ، المماثلة کی طرح الله کی طرف کر دیا

محدثین کے اس اختلاف میں  الجهمية ، المعتزلة ،  الأشاعرة اور الماتريدية نے صورت کی بطور صفت الہی  نفی کی اور

دوسرے گروہ نے اس کا اثبات کیا (جن میں امام احمد، ابن تیمیہ وغیرہ ہیں) لیکن بعد میں ان میں بھی اختلاف ہوا جیسے حنابلہ میں

کتاب أبكار الأفكار في أصول الدين از سيف الدين الآمدي (المتوفى: 631هـ) کے مطابق

وقد روى عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال:  إنّ اللّه خلق آدم على صورته

فذهبت المشبهة: إلى أن هاء الضمير في الصورة عائدة إلى الله- تعالى-، وأن الله  تعالى- مصور بصورة مثل صورة آدم؛ وهو محال

اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا بے شک الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس المشبهة اس طرف گئے ہیں کہ صورته میں هاء کی ضمیر الله کی طرف جاتی ہے اور الله تعالی ، آدم کی شکل والا کوئی  صورت گر ہے اور يه محال ہے

الآمدي کے مطابق وہ تمام لوگ ( بشمول محدثین) جو الھا کی ضمیر الله کی طرف لے کر گئے ہیں المشبهة ہیں

اہل تشیع میں بھی یہ روایت مقبول رہی جہاں ابا جعفر اس کو بیان کرتے ہیں

 الكافي – الشيخ الكليني – ج 1 – ص  134کی روایت ہے

عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد بن خالد ، عن أبيه ، عن عبد الله بن بحر ، عن أبي أيوب الخزاز ، عن محمد بن مسلم قال : سألت أبا جعفر عليه السلام عما يروون أن الله خلق آدم على صورته ، فقال هي : صورة ، محدثة ، مخلوقة واصطفاها الله واختارها على سائر الصور المختلفة ، فأضافها إلى نفسه ، كما أضاف الكعبة إلى نفسه ، والروح إلى نفسه ، فقال : ” بيتي ” ، ” ونفخت فيه من روحي

محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ابا جعفر علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا وہ  یہ دیکھتے ہیں کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پیدا کیا تو انہوں نے کہآ یہ صورت ایک نئی تھی مخلوق تھی اور الله نے اس کو دیگر تمام مختلف صورتوں میں سے چنا اور لیا پھر اس کی اضافت اپنی طرف کی جیسے کعبه الله کی اضافت اپنی طرف کی اور روح اضافت اپنی طرف کی جیسے کہا بیتی میرا گھر یا ونفخت فيه من روحي میں اس میں اپنی روح پھونک دوں گا

یہ تشریح مناسب ہے اور اس حدیث سے تجسیم کا عقیدہ نہ نکلے اس کی یہ تاویل  ہی صحیح ہے

لیکن اہل سنت میں بعض لوگوں نے  الله کو ایک مرد کی صورت دے دی   اور الله تعالی کا چہرہ  ، مرد کا چہرہ بنا دیا گیا  کتاب اسماء و الصفات از البیہقی کی روایت ہے

 أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي سُوَيْدٍ الذِّرَاعُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح. وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظَ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ثنا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي جَعْدًا أَمْرَدَ [ص:364] عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . قَالَ: وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، ثنا ابْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَوْصِلِيُّ وَابْنُ شَهْرَيَارَ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى، ثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ. فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ جَعْدٍ» . قَالَ: وَزَادَ عَلِيُّ بْنُ شَهْرَيَارَ: «عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . وَرَوَاهُ النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ.

حماد بن سلمہ،  قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا – ….ایک مرد کی صورت دیکھا اس پر سبز لباس تھا

 البیہقی، صحیح مسلم کے راوی حماد بن سلمہ پر برستے ہیں اور لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ، نا ابْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، قَالَ: «كَانَ حَمَّادُ بْنُ [ص:366] سَلَمَةَ لَا يُعْرَفُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ حَتَّى خَرَجَ خَرْجَةً إِلَى عَبَادَانَ، فَجَاءَ وَهُوَ يَرْوِيهَا، فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا شَيْطَانًا خَرَجَ إِلَيْهِ فِي الْبَحْرِ فَأَلْقَاهَا إِلَيْهِ» . قَالَ أَبُو عَبْدِالله الثَّلْجِيُّ: فَسَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ صُهَيْبٍ يَقُولُ: إِنَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ كَانَ لَا يَحْفَظُ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّهَا دُسَّتْ فِي كُتُبِهِ،

عبد الرحمان  بن مہدی کہتے ہیں کہ ان قسم کی احادیث سے حماد بن سلمہ نہیں پہچانا جاتا تھا حتی کہ عَبَادَانَ پہنچا پس وہ وہاں آیا اور ان کو روایت کیا  پس میں (عبد الرحمان بن مہدی) سمجھتا ہوں اس پر شیطان آیا جو سمندر میں سے نکلا اور اس نے حماد پر یہ القاء کیا.  ابو بکر الثلجی کہتے ہیں میں نے عباد بن صہیب کو سنا کہا بے شک حماد بن سلمہ حافظ نہیں ہے اور محدثین کہتے ہیں اس نے اپنی کتابیں دفن کیں

حماد بن سلمہ کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ اس اوپر والے قول کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ  ہے جس پر جھوٹ کا الزام ہے   میزان الاعتدل میں الذہبی ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قال ابن عدي: كان يضع الحديث في التشبيه ينسبها إلى أصحاب الحديث يسابهم   ذلك.

قلت: جاء من غير وجه أنه كان ينال من أحمد وأصحابه، ويقول: إيش قام به أحمد! قال المروزي: أتيته ولمته

ابن عدي کہتے ہیں تشبیہ کے لئے حدیث گھڑتا تھا جن کو اصحاب حدیث کی طرف نسبت دیتا ان کو بے عزت کرنے کے لئے

الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں ایک سے زائد رخ سے پتا ہے کہ یہ امام احمد اور ان کے اصحاب کی طرف مائل تھے اور کہتے کہ احمد کہاں رکے ہیں المروزی نے کہا یہ اتے اور ملتے

یہاں تو مسئلہ ہی الٹا ہے حماد بن سلمہ،  نعوذ باللہ ،  الله کو مرد کی شکل کا کہہ رہے ہیں جو تشبیہ و تجسیم کا عقیدہ  ہے  اس  روایت کو البانی صحیح کہہ رہے  ہیں

مالکیہ کے بر خلاف حنابلہ نے یہ عقیدہ اختیار کیا  کہ الله تعالی  کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے دیکھا – اس میں ان کے نزدیک  ایک مضبوط روایت یہ ہی تھی  جس کی سند کو انہوں نے صحیح کہنا شروع کیا

کتاب طبقات الحنابلة ج ١ ص ٢٤٢  از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک یہ اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں اور یہ عقیدہ ایمان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا

والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما روى عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الأحاديث الصحاح وأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قد رأى ربه فإنه مأثور عَنْ رَسُولِ  الله  صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صحيح قد رواه قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ والحديث عندنا عَلَى ظاهره كما جاء عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – والكلام فيه بدعة ولكن نؤمن به كما جاء عَلَى ظاهره ولا نناظر فيه أحدًا

اور ایمان لاؤ روز قیامت الله کو دیکھنے پر جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم کی روایت میں آیا ہے .. اور صحیح احادیث میں  کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے

البانی   کے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت صحیح ہے  اور إبطال التأويلات لأخبار الصفات از  القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) میں بہت سی روایات ہیں جن میں الله تعالی کو ایک مرد نوجوان گھنگھریالے بالوں والا کہا گیا ہے وہاں ان تمام روایات کو پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہےکہ الله تعالی کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا اس کو متقدمین حنابلہ نے قبول کیا

کتاب  غاية المرام في علم الكلام  از الآمدي (المتوفى: 631هـ)  کے مطابق کرامیہ نے بھی یہ عقیدہ اختیار کیاکہ الله  ایک گھنگھریالے بال والا  نوجوان کی صورت ہے – السفاريني کے مطابق بعض غالی شیعوں نے بھی اس عقیدہ کو اختیار کیا –

 اہل تشیع کے تمام فرقے اس کے قائل نہیں تھے بعض میں  میں الله کی تجسیم کا انکار تھا  کتاب  التوحيد – از الصدوق – ص 103 – 104 کی روایت ہے

 حدثني محمد بن موسى بن المتوكل رحمه الله ، قال : حدثنا عبد الله بن جعفر الحميري ، عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسن بن محبوب ، عن يعقوب السراج ، قال : قلت لأبي عبد الله عليه السلام : إن بعض أصحابنا يزعم أن لله صورة مثل صورة الإنسان ، وقال آخر : إنه في صورة أمرد جعد قطط ، فخر أبو عبد الله ساجدا ، ثم رفع رأسه ، فقال : سبحان الله الذي ليس كمثله شئ ، ولا تدركه ‹ صفحة 104 › الأبصار ، ولا يحيط به علم ، لم يلد لأن الولد يشبه أباه ، ولم يولد فيشبه من كان قبله ، ولم يكن له من خلقه كفوا أحد ، تعالى عن صفة من سواه علوا كبيرا .

یعقوب سراج نے کہا کہ میں ابی عبد الله علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے بعض اصحاب (شیعہ) دعوی کرتے ہیں کہ الله کی صورت ایک انسان کی صورت جیسی ہے اور دوسرا کہتا ہے وہ ایک  گھنگھریالے بالوں والا مرد ہے – پس امام ابو عبد الله  سجدے میں گر گئے پھر سر اٹھایا اور کہا الله پاک ہے اس کے مثل کوئی شی نہیں ہے نگاہیں اس کا ادرک نہیں کر سکتیں اور اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا اور وہ نہ پیدا ہوا  کیونکہ لڑکا اپنے باپ کی شکل ہوتا ہے اور نہ اس نے کسی کو جنا اس سے پہلے اور نہ مخلوق میں کوئی اس کا کفو ہے وہ بلند ہے

ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس میں حنابلہ کا رد کیا جو تجسیم کی طرف چلے گئے

ابن جوزی صورہ

اور بے شک قاضی ابویعلی نے صفت الله کا اثبات کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ (الله) ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد تھا جس  نے لباس اور جوتیاں پہن رکھیں تھیں اور تاج تھا اس نے اس کا اثبات کیا لیکن اس کے معنوں پر عقل نہیں دوڑائی .. اور ہم جانتے ہیں جوان اور امرد کا کیا مطلب ہے … ابن عقیل کہتے ہیں یہ حدیث ہم جزم سے کہتے ہیں جھوٹ ہے پھر راوی کی ثقاہت کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر متن میں ممکنات نہ ہوں  

افسوس ابن جوزی حنبلی کے ڈیڑھ سو سال  بعد  انے والے ایک امام ، امام ابن تیمیہ نے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية  میں الله تعالی کو جوان اور گھنگھریالے بالوں والا جوان والی روایت پر لکھا کہ امام احمد کے نزدیک یہ صحیح ہیں

حدثني عبد الصمد بن يحيى الدهقان سمعت شاذان يقول أرسلت إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل أستأذنه في أن أحدث بحديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال رأيت ربي قال حدث به فقد حدث به العلماء قال الخلال أبنا الحسن بن ناصح قال حدثنا الأسود بن عامر شاذان ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه جعدًا قططا أمرد في حلة حمراء والصواب حلة خضراء

شاذان کہتے ہیں میں نے بھیجا امام احمد کی طرف اور پوچھا کہ وہ اس حدیث پر کیا حکم کرتے ہیں جو قتادہ عن عکرمہ عن ابن عباس کی سند سے روایت کرتا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا – امام احمد نے کھا اس کی روایت کرو کیونکہ اس کو علما نے روایت کیا ہے …. ابن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا  گھونگھر والے بالوں والا, بغیر داڑھی مونچھ والا جوان جس پر سرخ یا سبز لباس تھا

اسی کتاب میں   رویہ الباری  تعالی پر ابن تیمیہ  کہتے ہیں

وأخبر أنه رآه في صورة شاب دونه ستر وقدميه في خضرة وأن هذه الرؤية هي المعارضة بالآية والمجاب عنها بما تقدم فيقتضي أنها رؤية عين كما في الحديث الصحيح المرفوع عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء

اور رسول الله نے خبر دی  کہ انہوں نے الله کو ایک مرد کی صورت دیکھا درمیان پردہ تھا اور اس کے قدموں پر سبزہ تھا اور اس خواب  کی مخالفت آیات سے ہوتی ہے اور اس کا جواب دیا گیا ہے جو گزرا کہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے آنکھ سے دیکھا جیسا کہ صحیح مرفوع حدیث میں ہے عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس کی سند سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد کی صورت ، بہت گھونگھر والے بالوں والا سبز باغ میں دیکھا  

دوسری طرف ابن تیمیہ کے ہم عصر الذھبی دمشق ہی میں اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں  شَاذَانُ أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ الشَّامِيُّ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ (2) .
وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَالسَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:
قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.حماد بن سلمہ روایت کرتا ہے قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا یعنی نیند میں اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے جو  خبر منکر ہے ہم الله سے اس پر سلامتی کا سوال کرتے ہیں دین میں نہ یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر اور اگر اس کے راوی غیر متہم ہوں تو بھی وہ نسیان خطا سے پاک نہیں اور پہلی خبر میں نے رب کو دیکھا جس میں نیند کی قید ہے اور بعض روایات میں ہے نبی نے کہا میں نے معراج پر رب کو دیکھا اس میں ظاہر حدیث سے اجتجاج کیا گیا ہے

الذھبی اسی کتاب میں امام لیث بن سعد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: مَا أَدْركنَا أَحَداً يُفَسِّرُ هَذِهِ الأَحَادِيْثَ، وَنَحْنُ لاَ نُفَسِّرُهَا.

قُلْتُ: قَدْ صَنَّفَ أَبُو عُبَيْدٍ (1) كِتَابَ (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ) ، وَمَا تَعرَّضَ لأَخْبَارِ الصِّفَاتِ الإِلَهِيَّةِ بِتَأْوِيلٍ أَبَداً، وَلاَ فَسَّرَ مِنْهَا شَيْئاً.

اور ابو عبید نے کہا  ہمیں کوئی نہیں ملا جو ان (صفات والی) احادیث کی تفسیر کرے اور ہم بھی نہیں کریں گے

میں الذھبی کہتا ہوں اس پر ابو عبید نے کتاب (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ)  تصنیف کی ہے انہوں نے اس میں صفات الہیہ کی کبھی بھی تاویل نہیں کی نہ ان  میں کسی چیز کی تفسیر کی

اسی کتاب میں الذھبی محدث ابن خزیمہ کے لئے لکھتے ہیں

وَكِتَابُه فِي (التَّوحيدِ) مُجَلَّدٌ كَبِيْرٌ، وَقَدْ تَأَوَّلَ فِي ذَلِكَ حَدِيْثَ الصُّورَةِ

فَلْيَعْذُر مَنْ تَأَوَّلَ بَعْضَ الصِّفَاتِ، وَأَمَّا السَّلَفُ، فَمَا خَاضُوا فِي التَّأْوِيْلِ، بَلْ آمَنُوا وَكَفُّوا، وَفَوَّضُوا عِلمَ ذَلِكَ إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِه

اور ان کی کتاب توحید ہے مجلد کبیر اور اس میں حدیث صورت کی تاویل ہے پس ان کو معاف کریں صفات کی تاویل کرنے پر اور جہاں تک سلف ہیں تو وہ تاویل میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ ان پر ایمان لائے اور رکے اور علم کو الله اور اس کے رسول سے منسوب کیا

الذھبی نے اس قسم کے اقوال کو بالکل قبول کرنے سے انکار کیا کہ سلف صفات الہیہ پر ایسا نہیں کہہ سکتے لیکن ابن تیمیہ نے بھر پور انداز میں جھمیہ پر کتاب میں ان تمام اقوال کو قبول کیا

کتاب سیر الاعلام النبلا میں ابن عقیل کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

قُلْتُ: قَدْ صَارَ الظَّاهِرُ اليَوْم ظَاهِرَيْنِ: أَحَدُهُمَا حقّ، وَالثَّانِي بَاطِل، فَالحَقّ أَنْ يَقُوْلَ: إِنَّهُ سمِيْع بَصِيْر، مُرِيْدٌ متكلّم، حَيٌّ عَلِيْم، كُلّ شَيْء هَالك إِلاَّ وَجهَهُ، خلق آدَمَ بِيَدِهِ، وَكلَّم مُوْسَى تَكليماً، وَاتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلاً، وَأَمثَال ذَلِكَ، فَنُمِرُّه عَلَى مَا جَاءَ، وَنَفهَمُ مِنْهُ دلاَلَةَ الخِطَابِ كَمَا يَليق بِهِ تَعَالَى، وَلاَ نَقُوْلُ: لَهُ تَأْويلٌ يُخَالِفُ ذَلِكَ. وَالظَّاهِرُ الآخر وَهُوَ البَاطِل، وَالضَّلاَل: أَنْ تَعتَقِدَ قيَاس الغَائِب عَلَى الشَّاهد، وَتُمَثِّلَ البَارِئ بِخلقه، تَعَالَى الله عَنْ ذَلِكَ، بَلْ صفَاتُهُ كَذَاته، فَلاَ عِدْلَ لَهُ، وَلاَ ضِدَّ لَهُ، وَلاَ نَظيرَ لَهُ، وَلاَ مِثْل لَهُ، وَلاَ شبيهَ لَهُ، وَلَيْسَ كَمثله شَيْء، لاَ فِي ذَاته، وَلاَ فِي صفَاته، وَهَذَا أَمرٌ يَسْتَوِي فِيْهِ الفَقِيْهُ وَالعَامِيُّ – وَاللهُ أَعْلَمُ -.

میں کہتا ہوں: آج ہمارے ہاں ظاہر ہوئے ہیں  ایک وہ ہیں جو حق ہیں اور دوسرے وہ جو باطل ہیں پس جو حق پر ہیں وہ کہتے ہیں کہ الله سننے والا دیکھنے والا ہے اور کلام کرنے والا ہے زندہ جاننے والا ہے ہر چیز ہلاک ہو گی سوائے اس کے وجھہ کے اس نے آدم کو ہاتھ سے خلق کیا اور موسی سے کلام کیا اور ابراہیم کو دوست کیا اور اس طرح کی مثالیں پس ہم ان پر چلتے ہیں جو آئیں ہیں اور ان کا وہی مفھوم لیتے ہیں جو اللہ سے متعلق خطاب میں دلالت کرتا ہے

اور ظاہر ہوئے ہیں دوسرے جو باطل ہیں اور گمراہ ہیں جو اعتقاد رکھتے ہیں غائب کو شاہد پر قیاس کرتے ہیں اور الباری تعالی کو مخلوق سے تمثیل دیتے ہیں بلکہ اس کی صفات اسکی ذات ہیں پس اس کی ضد نہیں اس کی نظیر نہیں اس کے مثل نہیں اس کی شبیہ نہیں اس کے جیسی کوئی چیز نہیں نہ اس کی ذات جیسی نہ صفات جیسی اور یہ وہ امر ہے جو برابر ہے فقیہ اور عامی کے لئے والله اعلم

یہودیوں کی کتاب سلیمان کا گیت میں الفاظ ہیں

His head is purest gold; his locks are wavy and black as a raven.

اس کا سر خالص سونا ھے اور  بالوں کا گھونگھر لہر دار  ہے اور کالے ہیں کوے کی طرح 

Song  of Solomon

اس کتاب کو علماء یہود کتب مقدس کی سب سے اہم کتاب کہتے ہیں جو تصوف و سریت پر مبنی ہے اور عشق مجازی  کے طرز پر لکھی گئی  ہے

یاد رہے اس امت میں دجال ایک گھنگھریالے بالوں والا جوان ہو گا جو رب ہونے اور مومن ہونے کا دعوی کرے گا

اور کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ دجال کے نکلنے پر اس کی اتباع صرف یہودی ہی کریں گے بلکہ امام ابن عقیل حنبلی کتاب الفنون میں اپنے دور کے دجالوں کا ذکر کرتے ہیں  اور ان کے متبع مسلمانوں کا

ibn-aqeel-dajjal

لوگ چل دیے انہی المشبه کی طرح جنھیں وہم ہوا اور جنہوں نے اپنے دلوں میں یہ بات بٹھائی کہ ان کا رب ایک آدمی کی صورت ہے پس انہوں نے ( صفت) صورہ کا انکار نہ کیا اور ان (دجالوں) کے ہاتھوں ظاہر ہوئے وہ افعال الہی جن میں مردوں کا زندہ کرنا ہے اور بادل کو اٹھانا ہے اور اسی طرح کے فتنے پس یہاں تک کہ کوئی نہ تھا جو ان کا انکار کرتا
ان میں سے ایک (ان دجالوں کی اتباع کرنے والے) نے کہا اور وہ جو اسکے دل میں تھا اس کو چھپایا اور پٹنے سے گھبرا کر بولا کہ وہ (اصل الدجال اکبر تو) کانا ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تمہارا رب کانا نہیں ہے

اس سے حنبلی (ابن عقیل) نے کہا: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شیخ (اس دجال کا ساتھی) اگر دجال (اکبر) کو صحیح آنکھوں سے پائے تو اس کے پاس جائے گا اور اسکی عبادت کرے گا کہ اس کی صورت کامل ہے – پس تیرے دل میں جو تھا وہ نکل آیا ہے تو عبادت سے نہیں رکے گا الا یہ کہ وہ کانا ہو-اور الله سبحانہ و تعالی نے مسیح اور انکی ماں کی الوہیت کا انکار کیا یہ کہہ کر کہ وہ کھانا کھاتے تھے- اور اگر یہی تیری معذرت ہے تو تیرے لئے واجب ہے کہ عیسیٰ کی عبادت کر کیونکہ وہ مردے کو زندہ کرتا تھا اور کانآ نہیں تھا

ابن عقیل کے شاگرد ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس کے مقدمہ میں اعتراف کیا کہ حنابلہ نے گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے کف افسوس ملتے ہوئے مقدمہ میں لکھتے ہیں

ibn-jozi-afsos

میں نے اپنے اصحاب (حنابلہ) کو دیکھا جو اصول میں ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو صحیح نہیں ہیں

أور إس میں تین تصانیف ہیں ابو عبد الله بن حامد کی اور ان کے صاحب قاضی ابو یعلی کی اور ابن الزغوانی کی پس انہوں نے ان کو اپنے مذھب کے مطابق تصنیف کیا اور میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مرتبے سے گر کر عوام کی سطح پر آ گئے اور انہوں نے صفات باری تعالی کو اس محسوسات تک کا متقاضی کر دیا پس انہوں نے الله تعالی کو نام دیا کہ اس نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر خلق کیا پس الله کے لئے صورت کا اثبات کیا

اور (ہمارے مخالفین نے کہا کہ الله) كا چہره ذات بر اضافہ ہے اور دو انکھیں ہیں اور منہ … اور اس کے چہرہ کا نور کرنیں ہیں اور اس کے دو ہاتھ ہیں اور انگلیاں اور ہتھیلی اور چھنگلیا اور انگوٹھے اور سینہ اور ران اور پنڈلی اور دو پیر ہیں اور کہا انہوں نے کہ ہم نے اس کے سر کا نہیں سنا اور کہا یہ جائز ہے کہ اس کو چھوا جائے أور وه بذات اپنے بندے کے پاس آئے اور ان میں سے بعض نے کہا وہ سانس لے پھر عوام ان کے اس اس قول سے راضی ہوئی نہ کہ عقل سے

اور انہوں نے اسماء و الصفات کو اس کے ظاہر پر لیا پس ان کو صفات کا نام دیا بدعتوں کی طرح ان کے پاس کوئی عقلی و نقل سے پہنچی دلیل نہیں تھی نہ انہوں نے نصوص کی طرف التفات کیا جن کا معانی الله کے لئے واجب ہے

.
.
.
.
أور يه كلام صريح ألتشبيه كا ہے جس میں خلق نے انکی اتباع کی … جبکہ تہمارے سب سے بڑے امام احمد بن حنبل الله رحم کرے کہا کرتے تم کیسے کہہ دیتے ہو جو میں نے نہیں کہا پس خبردار ایسا کوئی مذھب نہ ایجاد کرو جو ان سے نہ ہو

اب اگلی صدیوں میں ابن تیمیہ ، امام ابن الجوزی کے کہے  کو میٹ دیں گے اور الله  کی صفات میں اس قدر الحاد کریں کریں گے کہ اس کو رجل امرد تک کہہ دیں گے

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة  از  ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق

وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا.
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے

الغرض امام مالک   مطلقا اس خلق آدم علی صورتہ کو  قبول نہیں کرتے تھے اور وہ اس کو سنتے ہی رد کرتے تھے – امام احمد، امام اسحٰق ، امام بخاری امام مسلم  اس کو صحیح سمجھتے تھے- بعض گمراہ لوگ اس سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا استخراج کرتے اور شوافع اس کو کذب کہتے اور حنابلہ اس سے ساتھ ایک دوسری روایت سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا عقیدہ رکھتے  –   آٹھویں صدی تک جا کراہل سنت میں (مثلا الذھبی)  خلق آدم علی صورتہ  والی روایت کی تاویل سے منع کر دیا گیا اور الله کے لئے کسی بھی تجسیم کا عقیدہ غلط قرار دیا جانے لگا

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے

الأسماء و الصفات

ابن خزیمہ اور عذاب قبر کا عقیدہ

محمد بن إسحاق بن خزيمة بن المغيرة بن صالح بن بكر السلمي النيسابوري الشافعي  المتوفی ٣١١  ہجری   سن ٢٢٣ ہجری میں پیدا ہوئے –  سترہ سال کی عمر کے پاس انہوں نے قتیبہ بن سعید سے قرآن سیکھنے کے لئے سفر کیا

 کتاب طبقات الشافعية الكبرى از  تاج الدين عبد الوهاب بن تقي الدين السبكي (المتوفى: 771هـ) کے مطابق ابن خزیمہ سے بخاری و مسلم نے بھی روایت لی جو صحیحین سے باہر کی کتب میں ہیں لکھتے ہیں

روى عَنهُ خلق من الْكِبَار مِنْهُم البخارى وَمُسلم خَارج الصَّحِيح

ابن خزیمہ  سے کبار مثلا بخاری و مسلم نے صحیح سے باہر روایت لی

امام بخاری کی وفات ٢٥٦ ہجری میں ہوئی اس وقت ٣٣ سال کے ابن خزیمہ تھے –  صحیح بخاری امام بخاری کی آخری تصنیف ہے – ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بخاری ان سے سنی گئی روایات اس میں ذکر کرتے اس کے برعکس  دوسری طرف عجیب بات ہے صحیح ابن خزیمہ میں امام  بخاری سے کوئی روایت نہیں لی گئی – معلوم ہوتا ہے یار دوستوں نے ان کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے

اس کی مثال ہے کہ ابن خزیمہ سے ایک قول منسوب ہے کہا جاتا  ہے امام ابن خزیمہ  فرماتے ہیں

ما تحت أديم السماء أعلم بحديث رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ولا أحفظ من محمد بن إسماعيل البخاري

آسمان کی چھت کے نیچے حدیث رسول  صلی الله علیہ وسلم کا محمد بن اسماعیل البخاری سے بڑھ کر علم رکھنے والا اور حفظ کرنے والا کوئی نہیں ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس علم کی جھلک صحیح ابن خزیمہ میں ہوتی لیکن امام بخاری سے صحیح ابن خزیمہ میں ایک بھی روایت نہیں ہے

المليباري کتاب عُلوم الحديث في ضوء تطبيقات المحدثين النقاد میں لکھتے ہیں

ولا ابن خزيمة يروي عن البخاري ولا عن مسلم

أور ابن خزيمة نے نہ امام بخاری سے روایت لی نہ امام مسلم سے

بحر الحال ابن خزیمہ نے کتاب التوحید لکھی جس میں جنت و جہنم کا انکار کرنے والے جھمیوں کا رد کیا اور چلتے چلتے عذاب قبر کا بھی ذکر چھڑ گیا یہاں اس کا ترجمہ  پیش کیا جاتا ہے جو غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے دین الخا لص قسط دوم میں پیش کیا

ibn-khuzaimah-azab

اہل حدیث جو سلف کو اپنآ ہم عقائد بتاتے ہیں وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا عقیدہ کس حد تک ابن خزیمہ جیسا ہے

ابن خزیمہ کے بقول بغیر روح عذاب قبر نہیں ہوتا جبکہ اہل حدیث کا عقیدہ ہے  عود روح صرف ایک دفعہ ہوتا ہے پھر روح  کو جسد سے نکال لیا جاتا ہے

ابن خزیمہ کہتے ہیں قبر والا قبر میں زندہ ہوتا ہے جبکہ اہل حدیث کا عقیدہ ہے وہ میت ہے جو مردے کو کہتے ہیں

بحر الحال ہمارے نزدیک صحیح عقیدہ ہے کہ روح جسم سے نکلنے کے بعد اب قیامت کے دن ہی آئی گی اور جسد مٹی میں تبدیل ہو جائے گا عذاب کا مقام البرزخ ہے نہ کہ ارضی قبر

العموم و الخصوص

عقائد  کا قرآن و حدیث سے استخراج کرتے وقت خبر عام ہے یا خاص کا خیال رکھا جاتا ہے یہ اصول نہایت منطقی ہے جس سے قرآن کی بعض باہم مخالف آیات کی تشریح و تطبیق کی جاتی ہے

گمراہ عقائد کو کشید کرنے کے لئے قرآن کے نصوص کو رد کر کے ان میں باہم اختلاف کا ذکر کیا جاتا ہے مثلا قرآن کے مطابق روح  کے جسم سے خروج کے بعد اس کا امساک کیا جاتا ہے یعنی روک لیا جاتا ہے (سوره الزمر اور سوره الانعام)  اس کے برعکس حیات فی القبر کا عقیدہ اس امت کے گمراہ فرقوں نے اختیار کیا ہوا ہے جس میں مردہ میں  عود روح کروایا جاتا ہے اس کو استثنیٰ قرار دے کر ایک خاص بات کہا جاتا ہے پھر اس کو تمام مردوں پر عام کر دیا جاتا ہے

اسی طرح سماع الموتی کے مسئلہ میں بھی زبردستی ابن عمر  اور عائشہ رضی الله عنہا کی آراء کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ  گویا بعض کو صحیح عقیدہ پتا نہیں  تھا  اس طرح اصحاب رسول اور امہات المومنین کو مختلف العقائد بتایا جاتا ہے جبکہ اصول جو قرآن میں دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ  و ما یستوی الاحیاء و الاموات ان الله یسمع من یشاء  کہ مردہ زندہ برابر نہیں  الله جس کو چاہے سنوائے-  اس کے بعد تمام مردوں میں زبردستی ایک  عجیب حیات کا بزعم خود دعوی کیا جاتا  ہے جس میں وہ دفنانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتے ہیں  اور ان سے مانوس بھی  ہوتے ہیں

قرآن کے عموم و خصوص  میں التباس پیدا کر کے،  قبر پرستی پر سند جواز دینے کے بعد،  معصوم بن کر ان  لا علم لوگوں پر کفر کا فتوی لگایا جاتا ہے جو بعض محدثین کے منہج پر قبروں سے فیض جاصل کر رہے ہیں مثلا

محدث  ابن حبان طوس جاتے ہیں اور قبر سے فیض لیتے ہیں – ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل  تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

 ابن کثیر  سوره التوبہ کی تفسیر میں  فوت شدہ رشتہ داروں پر زندوں کا عمل پیش ہونا لکھتے ہیں جبکہ  قرآن میں کہیں یہ عقیدہ نہیں ابن کثیر  تفسیر میں  کہتے ہیں

قَدْ وَرَدَ: أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْيَاءِ تُعرَض عَلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَقْرِبَاءِ وَالْعَشَائِرِ فِي الْبَرْزَخِ

بے شک یہ آیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر البرزخ میں پیش ہوتے ہیں

ابن قیم کہتے ہیں سلف اس پر جمع ہیں کہ میت زائر سے خوش ہوتی ہے اور روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے  کتاب الروح

ابن تیمیہ عقیدہ رکھتے ہیں  قبر سے اذان سنی جا سکتی ہے اور میت  قرات سنتی ہے

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

افسوس علماء ہی نے ان عقائد کو پھیلایا جو تھے ہی غلط اور غیر ثابت – ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان پر توبہ کرتے لیکن اسلاف پرستی میں ان سند یافتہ علماء  نے  اپنی خو الگ ہی ڈالی اور لگے ان شخصیات اور ناموں کا دفاع کرنے اور اپنے تعلی و علمیت کا رعب بٹھانے

 عقائد میں  اضطراب کو دور کرنے کے لئے اصول و خاص کی بحث بہت اہم ہے جو اصول و فقہ کی کتب میں ہے – کتاب    منهج علماء الحديث والسنة في أصول الدين از  مصطفى محمد حلمي  الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت  الطبعة: الأولى – 1426 هـ قرآن کے عموم و خصوص پر لکھتے ہیں

فأنزل الله عز وجل القرآن على أربعة أخبار خاصة وعامة (1) .

فمنها: 1 – خبر مخرجه مخرج الخصوص ومعناه معنى الخصوص وهو قوله تعالى: (إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ) [ص، الآية: 71] وقوله: (إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ) [آل عمران، الآية: 59] ثم قال: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى) [الحجرات، الآية: 13] والناس اسم يجمع آدم وعيسى وما بينهما وما بعدهما فعقل المؤمنون عن الله عز وجل أنه لم يعن آدم وعيسى لأنه قدم خبر خلقهما.

پس اللہ عز و جل نے چار قسم کی خاص و عام  خبریں قرآن میں دیں جن میں ہیں

خبر جو خصوص سے نکلے اور اس کا معنی بھی مخصوص ہو اور یہ ہے الله تعالی کا قول  (إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ) [ص، الآية: 71] میں گیلی مٹی سے ایک بشر خلق کر رہا ہوں اور الله تعالی کا قول (إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ) [آل عمران، الآية: 59]  بے شک عیسی کی مثال الله کے نزدیک ایسی ہے جیسی آدم کی – پھر کہا   (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى) [الحجرات، الآية: 13] اے لوگوں ہم نے تم کو مرد و عورت سے پیدا کیا اور الناس میں آدم و عیسی جمع ہو گئے اور ان کے درمیان اور بعد والے انسان پس مومن تعقل کرتے ہیں کہ آدم و عیسی کو (مرد و عورت سے تخلیق میں) شمار نہیں کیا گیا کیونکہ انکی تخلیق کی خبر دی گئی

2 خبر مخرجه مخرج العموم ومعناه معنى الخصوص وهو قوله تعالى: (وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) [الأعراف، الآية: 156] فعقل عن الله أنه لم يعن إبليس فيمن تسعه الرحمة لما تقدم فيه من الخبر الخاص قبل ذلك وهو قوله: (لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ) [ص، الآية: 85] فصار معنى ذلك الخبر العام خاصًا لخروج إبليس ومن تبعه من سعة رحمة الله التي وسعت كل شيء.

خبر جو عموم سے نکلے اور اس کا معنی مخصوص ہو اور یہ الله تعالی کا قول ہے (وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) [الأعراف، الآية: 156]  میری رحمت ہر شی پر پھیلی ہے پس یہ الله کا مقصد ہے کہ اس میں ابلیس کو شمار نہیں کیا گیا جس کو رحمت سے الگ کیا ہے جیسا کہ اسکی خبر  خاص دی پہلے  (لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ) [ص، الآية: 85] بلاشبہ میں جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور جو تیری اتباع کریں گے ،سب کو!  پس یہ خبر معنا عام ہے خاص ابلیس کا خروج ہے اور جو اس کی اتبآع کریں انکو اس رحمت سے  الگ کیا جو چیز پر چھائی ہے

3 – خبر مخرجه مخرج الخصوص ومعناه معنى العموم وهو قوله: (وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى) [النجم، الآية: 49] ، فكان مخرجه خاصًا ومعناه عامًا.

خبر جو نکلی ہے خصوص سے اور اسکا معنی عموم ہے اور الله تعالی کا قول ہے (وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى) [النجم، الآية: 49] اور بے شک وہ الشِّعْرَى کا رب ہے  پس یہ خاص خبر ہے لیکن اس کا معنی عام ہے

4- خبر مخرجه العموم ومعناه العموم.

فهذه الأربعة الأخبار خص الله العرب بفهمها ومعرفة معانيها وألفاظها وخصوصها وعمومها والخطاب بها، ثم لم يدعها اشتباهاً على خلقه وفيها بيان ظاهر لا يخفى على من تدبره من غير العرب ممن يعرف الخاص والعام،

خبر جو عموم سے ملی اور معنی بھی عام ہے

پس ان چار خبروں سے الله تعالی نے عربوں کا فہم ، معنوں کی معرفت، الفاظ اور اس کا خصوص و عموم اور خطاب  خاص کیا پھر اس میں اشتباہ مخلوق کے لئے نہیں رہا اور اس کا بیان غیر عرب پر  ظاہر  ہے جو اس میں تدبر کرنے والوں پر مخفی نہیں جو خاص و عام کو جانتے ہیں  

الغرض تمام مردے نہیں سنتے الله جس کو چاہتا سنواتا ہے جیسا قلیب بدر میں ہوا اسی طرح عود روح صرف ان لوگوں کا ہوا جو موسی علیہ السلام کے ساتھ تھے اور عذاب کا شکار ہوئے یا جن کو عیسی علیہ السلام نے واپس زندہ کیا اس کے علاوہ کوئی اور خبر قرآن و احادیث صحیحہ میں نہیں ہے

عائشہ  (رض) اور  عذاب قبر کی روایات

کفار پر  عذاب قبر کی خبر مکی دور میں دی گئی جب ال فرعون اور قوم نوح کا قرآن میں ذکر ہوا لیکن مدینہ پہنچ کر بھی مومن پر عذاب قبر کا عقیدہ  نہیں تھا – نہ یہ اصحاب بدر کے علم میں تھا نہ اصحاب احد کے بلکہ آخری دور میں وفات سے چار ماہ پہلے مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی

 بخاری اور مسلم میں  عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مروی   روایات میں یہ آیا ہے کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کے گھر دو یہودی عورتیں آئیں، انہوں نے عذاب قبر کا تذکرہ کیا، نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی اور مسلم کی روایت کے مطابق کہا یہ  یہود کے لئے ہے پھر فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ کچھ راتوں بعد اپ نے فرمایا أَمَا شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ کیا تمہیں شعور ہوا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم کو قبروں میں ازمایا جائے گا

صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کا بیان ۔ حدیث 1314

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی قَالَ هَارُونُ حَدَّثَنَا وَقَالَ حَرْمَلَةُ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ مِنْ الْيَهُودِ وَهِيَ تَقُولُ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ فَارْتَاعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّمَا تُفْتَنُ يَهُودُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ يَسْتَعِيذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
ہارون بن سعید، حرملہ بن یحیی، ہارون، حرملہ، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ کیا تم جانتی ہو کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر کانپ اٹھے اور فرمایا کہ یہودی آزمائے جائیں گے -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چند راتیں ٹھہرے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتی ہو کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے رہے۔

—–

عمرۃ’ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ  عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عائذا باللّٰہ من ذٰلک ۔ میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر ایک دن آپ  صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر (اس دن) سورج کو گرہن لگ گیا۔ (آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
انی قد رایتکم تفتنون فی القبور کفتنۃ الدجال … اسمع رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بعد ذالک یتعوذ من عذاب النار و عذاب القبر
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح۔ … میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فقال ما شاء اللّٰہ ان یقول ثم امرھم ان یتعوذوا من عذاب القبر
پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا فرمایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قبرکے عذاب سے پناہ مانگیں۔

صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد۱صفحہ ۱۴۳عربی ح:۱۰۴۹۔ صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱صفحہ۲۹۷عربی ح:۲۰۹۸


ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے) ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔

حدیث نمبر: 1043

صحیح بخاری جلد 2

سوال یہ ہے کہ ابراہیم کی وفات کس دن ہوئی؟

ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں قول پیش کیا ہے

 وذكر الواقدي: أن إبراهيم ابن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مات يوم الثلاثاء لعشر ليالٍ خلون من شهر ربيع الأول سنة عشر ودفن بالبقيع،

اور واقدی نے ذکر کیا بے شک ابراہیم بن رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی پیر کے روز ربیع الاول میں دس رات کم دس ہجری میں وفات ہوئی

لیکن واقدی پر جھوٹ تک کا فتوی لگایا جاتا ہے

بغوی شرح السنہ میں لکھتے ہیں

وُلِدَ فِي ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَمَانٍ مِنَ الْهِجْرَةِ، وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا

ابراہیم پسر نبی ذِي الْحِجَّةِ  سن ٨ ہجری میں پیدا ہوئے اور ١٦ ماہ زندہ رہے

یعنی ربیع الاول سن ١٠ ہجری میں وفات ہوئی گویا نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل

مسند ابی یعلی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْفِنُوهُ بِالْبَقِيعِ، فَإِنَّ لَهُ مُرْضِعًا تُتِمُّ رَضَاعَهُ فِي الْجَنَّةِ»
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده صحيح

انساب  کے ماہر ابن حزم الأندلسي القرطبي   (المتوفى: 456هـ) کتاب جمهرة أنساب العرب میں لکھتے ہیں

ومات إبراهيم قبل موت النبي صلى الله عليه وسلم، بأربعة أشهر؛ ودفن بالبقيع

اور ابراہیم کی وفات نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے چار ماہ پہلے ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئے

یعنی ذیقعد میں ١٠ ہجری میں وفات ہوئی اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی

  صحیح مسلم میں ہے: عمرو نے کہا: جب ابراہیم کی وفات ہوئی تو  رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے کہا: بے شک ابراہیم میرا بیٹا ہے اور وہ دودھ پیتے بچے کی عمر میں مرا ہے اور بے شک اس کے لئے دودھ پلانے والی ہے جو جنت میں اس کی رضاعت پوری کرائے گی

یعنی مومن کے لئے عقیدہ یہ تھا کہ اسکو عذاب نہیں ہوتا اور روح فورا جنت میں جاتی ہے جہاں اس کو ایک ایسا جسم ملتا ہے جو دودھ پی سکتا ہے اس کے لئے عذاب کی کوئی خبر نہیں تھی

  بخاری و مسلم  کی ہی بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو ابراہیم کی وفات والے دن ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز کے دوران    مومن کے لئے  عذاب قبر  سے مطلع کیا گیا. مشرک عمرو  ابن لحیی الخزاعی  جو مر چکا تھا اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھاتے ہوئے  بیداری میں دیکھا جو دس ہجری کا واقعہ ہے نہ صرف عمرو (ابن لحیی الخزاعی) کو دیکھا بلکہ اپ جہنم کی تپش کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور ایک موقعہ پر جنت میں سے انگور کا خوشہ لینے کے لئے آگے بھی بڑھے  ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک عورت کو بھی دیکھا جس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور بھوک پیاس کی وجہ سے وہ بلی مر گئی.   اس کی تفصیل بخاری و مسلم میں کسوف کی روایات میں دیکھی جا سکتی ہیں

لہذا انہی ایام میں جبکہ یہودی عورتوں نے مومنوں پر عذاب قبر کا ذکر کیا ابراہیم پسر نبی کی بھی وفات ہوئی اور سورج گرہن کے دن مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی –

 اس کے بعد چار ماہ کی قلیل مدت ہے جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجه الوداع کیا اور غدیر خم کا واقعہ ہوا پھر آپ مدینہ پہنچے اور بالاخر صفر کے مہینے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہونا شروع ہوئی اور ربیع الاول میں وفات ہوئی-

عذاب قبر کی روایات تعداد میں اتنی زیادہ ہیں کہ چار ماہ کی قلیل مدت اس کے تمام مسائل  اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار-  اس میں تطبیق کی صورت نہیں ہے –

ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں

وقال الحافظ بن تَيْمِيَةَ فِي كِتَابِ التَّوَسُّلِ وَالْوَسِيلَةِ … وَأَنَّهُ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ

 ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے صرف ایک بار گرھن کی نماز پڑھی جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی

یہی بات مبارک پوری نے مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں دہرائی ہے ج ٥ ص١٢٨ پر

وأنه لم يصل الكسوف إلا مرة واحدة يوم مات إبراهيم

اور بلا شبہ گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ اس روز جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی

حاشية السندي على سنن النسائي  میں ابن کثیر کے حوالے سے لکھتے ہیں

فَإِن رَسُول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً بِالْمَدِينَةِ فِي الْمَسْجِدِ هَذَا

بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گرہن نہیں ملا سوائے ایک دفعہ مدینہ میں اس مسجد (النبی) میں

تيسير العلام شرح عمدة الأحكام میں البسام  لکھتے ہیں

أن الخسوف لم يقع إلا مرة واحدة في زمن النبي صلى الله عليه وسلم

بے شک گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں

محمد بن صالح بن محمد العثيمين شرح ریاض الصالحین میں لکھتے ہیں

إن الكسوف لم يقع في عهد النبي صلي الله عليه وسلم إلا مرة واحدة

بے شک گرہن واقع نہیں ہوا عہد نبوی میں سوائے ایک دفعہ

سلفی مقلد اہل حدیث عالم ابو جابر دامانوی  عذاب قبر الناشر مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی میں لکھتے ہیں

بخاری و مسلم کی تفصیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیہ کے عذاب قبر کے ذکر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذا ب قبر کی تفصیلات صلوۃ کسوف کے بعد بتائیں اور سورج کو گرہن ۱۰ ؁ھ میں لگا تھااور اسی دن آپ کے صاحبزادے جناب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات بھی ہوئی تھی ۔ گویا آپ کو بھی اسی سال عذاب قبر کا تفصیلی علم ہوا اور آپ نے اپنی امت کو اس اہم مسئلہ سے آگاہ فرمایا۔
مسند احمد کی حدیث جسے حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے جس میں ہے کہ شروع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا تھا حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
کَذَّبَتْ یَہُوْدُ وَھُمْ عَلَی اﷲِ عَزَّ وَ جَلَّ کَذِبٌ لَا عَذَابَ دَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
(مسند احمد ج ۶ ص ۸۱، فتح الباری ج ۳ ص ۲۳۶)
’’یہود نے جھوٹ کہا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹی بات کہی ہے کیونکہ قیامت سے قبل کوئی بھی عذاب نہیں ہے‘‘ ۔ لیکن کچھ دنوں بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے عذاب قبر کی حقیقت کا پتہ چلا تو آپ بے حد غمگین تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا: فَاِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌ ’’بے شک قبر کا عذاب حق ہے‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے: (اے عائشہ) کیا تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبروں میں آزمائش ہو گی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس دن سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز میں) عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب استحباب التعوذ من عذاب القبر (حدیث نمبر ۱۳۱۹) مسند احمد ج۶ ص ۸۹)۔

لہذا ایک طرف چار ماہ کی قلیل مدت اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار اب بس ایک ہی رستہ تھا کہ عائشہ رضی الله عنہا کو کہا جائے کہ وہ عقائد بھول جاتی تھیں

ایک عرب محقق عکاشہ عبد المنان کتاب المسند الصحیح فی عذاب القبر و نعیمہ میں لکھتے ہیں

ukasha-azab

اور جو ظاہر ہے یہودی بوڑھی عورتوں کے واقعہ اور عائشہ رضی الله عنہا کے انکار (عذاب قبر) سے کہ بے شک وہ بھول گئیں جو ان سے پہلے بیان ہوا تھا پس جب انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ بلند کیے اور عذاب سے پناہ مانگی – پس نبی صلی الله علیہ وسلم کا عائشہ رضی الله عنہا کو جواب دلالت کرتا ہے کہ وحی رسول الله کے دل میں تھی وہ نہیں بھولے تھے جیسا کہ الله نے خبر دی ہم تم پر پڑھیں گے تم نہیں بھول پاؤ کے  (سوره الآعلی) اور جہاں تک عائشہ کا تعلق ہے تو وہ بے شک بھول گئیں جیسے اور بشر اور یہ کوئی عیب نہیں ہے

اور دوسری وجہ ہے : وہ دور جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عذاب قبر کے وجود کی خبر دینے کے لئے  وحی نہیں آئی اس کے بعد آپ کو بتایا گیا یہودیوں کے کلام کا اور عائشہ رضی الله عنہآ کی خبر کا پس آپ نے جواب دیا  آوروں  کی بجائے  یہود کے اثبات میں    یہاں تک کہ  وحی آئی اور خبر دی گئی کہ یہ حق ہے ہر میت اسکی مستحق ہے پس اسکی خبر لوگوں کو باہر نکل کر دی جو وحی ہوئی تھی و الله آعلم

یہ تاویل سراسر لغو ہے اور ذہن سازی ہے – عائشہ رضی الله عنہا اگر عذاب قبر جیسے مسئلہ کو بھول  گئیں تو پتا نہیں دین کا کتنا حصہ بھول گئی ہوں؟  صحیح مسلم کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی لیکن   کئی راتوں کے بعد  عائشہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ عذاب ہوتا ہے –  یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مومن پر عذاب قبر کی خبر دس ہجری میں دی گئی اس سے قبل اس کا ذکر نہیں تھا

جادو برج فرشتے اور محدثین ٢

قرآن میں سوره البقرہ میں ہے  کہ بابل میں یہود سحر کا علم حاصل کرتے تھے جو ان کی آزمائش تھا آیات ہیں

واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون

اور  (یہود) لگے اس  (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان  نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر!  لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو-  اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں،  آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا

سحر کا علم ان کو فرشتوں هاروت وماروت  سے ملا  تھا لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ فتنہ ہے لیکن اپنی سابقہ حرکتوں کو توجیہ دینے کے لئے انہوں نے تمام علوم کا مخزن چاہے ( شرک و سحر ہی کیوں نہ ہو ) سانپ کو  قراردیا – یہود کے مطابق یہ سب اس شجر علم میں چھپا تھا جو جنت عدن کے بیچوں بیچ تھا –  واضح رہے کہ موجودہ  توریت کی  کتاب پیدائش میں سانپ سے مراد شیطان نہیں ہے بلکہ انسانوں کا ہمدرد ایک مخلوق ہے جو چھپ کر انسان کو علم دیتا ہے جبکہ الله تعالی کا ارادہ انسان کو کم علم رکھنے کا تھا – یہ سب کیوں لکھا گیا اس پر آپ تفصیل

https://www.islamic-belief.net/muslim-belief/satan/ابراہیمی-ادیان-میں-شیطان-کا-تصور/

میں پڑھ سکتے ہیں

سحر کا علم دنیا میں ہاروت و ماروت سے پہلے مصریوں کے پاس بھی تھا جس کا ذکر موسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن میں موجود ہے کہ جادو گرووں نے موسی علیہ السلام اور حاضرین  کا تخیل تبدیل کر دیا اور ایک عظیم سحر کے ساتھ ائے جس میں لاٹھیاں اور رسیاں چلتی ہوئی محسوس ہوئیں

یہاں سوره البقرہ میں بتایا گیا کہ بابل میں یہود کا ذوق شادی شدہ عورتوں کو حاصل کرنے کی طرف ہوا جس میں ان کو طلاق دلانے کے لئے سحر و جادو کیا جاتا – اگر سحر صرف نظر بندی ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا لہذا اس کو ایک شیطانی عمل  کہا جاتا ہے جس میں شریعت کی پابندی کو رد کیا جاتا ہے اور حسد انسان کو سحر کی طرف لے جاتا ہے

اس میں گرہ لگا کر پھونکا جاتا ہے سوره الفلق

تیسری صدی میں جب معتزلہ کا زور تھا انہوں نے مجوسیوں کی طرح الله کی طرف شر کو منسوب کرنے سے انکار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا حسن کی طرح قبیح و سحر و شر کی نسبت الله کی طرف درست ہے ؟ کیا الله خالق سحر و شر ہے ؟

علماء نے اس کا جواب دیا کہ قرآن سے ثابت ہے کہ الله ہی شیطان کا خالق ہے اور تمام گناہ اس نے لکھ دیے ہیں لہذا وہی شر کا خالق ہے – کسی بھی علم کا اثر انگیز ہونا بھی اسی حکم کے تحت ہے لہذا اگرچہ سحر شرک و ناپسندیدہ ہے اس کی تاثیر من جانب الله ہے

 ہاروت و ماروت الله کے دو فرشتے تھے جو سحر کا علم لے کر بابل میں اترے اور یہود کی آزمائش بنے- اگر ہاروت و ماروت نے جادو نہیں سکھایا تو وہ یہ کیوں کہتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں کفر مت کرو

دوسری صدی ہجری

سابقہ یمنی یہودی کعب الاحبار ایک قصہ سناتے

تفسیر عبد الرزاق  المتوفي ٢١١ هجري کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَال – نا الثَّوْرِيُّ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ سَالِمٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ كَعْبٍ , قَالَ: «ذَكَرَتِ الْمَلَائِكَةُ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ , وَمَا يَأْتُونَ مِنَ الذُّنُوبِ» فَقِيلَ لَهُمْ: «اخْتَارُوا مَلَكَيْنِ , فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ» قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا: «إِنِّي أُرْسِلُ رُسُلِي إِلَى النَّاسِ , وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمَا رَسُولٌ , انْزِلَا وَلَا تُشْرِكَا بِي شَيْئًا , وَلَا تَزْنِيَا , وَلَا تَسْرِقَا» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ كَعْبٌ: «فَمَا اسْتَكْمَلَا يَوْمَهُمَا الَّذِي أُنْزِلَا فِيهِ حَتَّى عَمِلَا مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا»

کعب نے کہا : ذکر کیا فرشتوں کا ان کا جو نبی آدم پر نگہبان تھے اور جو ان کے گناہوں کے بارے میں ہے پس ان فرشتوں سے کہا گیا کہ چن لو فرشتوں کو انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا اور ہاروت و ماروت سے کہا میں اپنے سفیر بنی آدم کی طرف بھیج رہا ہوں اور میرے اور تمھارے درمیان کوئی اور نہیں ہو گا بنی آدم  پر نازل ہو اور شرک نہ کرنا نہ زنا اور نہ چوری – ابن عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ کعب نے کہا انہوں نے وہ کام نہ کیا جس پر نازل کیا گیا تھا یہاں تک کہ حرام کام کیا

اسنادی حیثیت سے قطع نظر ان روایات میں یہود کی کتاب

Book of Enoch

Book of Jubilees

کا قصہ نقل کیا گیا ہے ہبوط شدہ فرشتے

Fallen Angels

یا

Watchers

اپنے ہی ہبوط شدہ فرشتوں میں سے دو کو انسانوں کو سحر سکھانے بھیجتے ہیں

یہود کے مطابق انوخ اصلا ادریس علیہ السلام  کا نام ہے

ایک روایت قتادہ بصری سے منسوب ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ نا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: «كَتَبَتِ الشَّيَاطِينُ كُتُبًا فِيهَا كُفْرٌ وَشِرْكٌ , ثُمَّ دَفَنَتْ تِلْكَ الْكُتُبَ تَحْتَ كُرْسِيِّ سُلَيْمَانَ , فَلَمَّا مَاتَ سُلَيْمَانُ اسْتَخْرَجَ النَّاسُ تِلْكَ الْكُتُبَ» فَقَالُوا: هَذَا عِلْمٌ كَتَمَنَاهُ سُلَيْمَانُ فَقَالَ اللَّهُ: {وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102]

شیاطین نے کتابیں لکھیں جس میں کفر و شرک تھا پھر ان کو سلیمان  کے تخت کے نیچے چھپا دیا پھر جب سلیمان کی وفات  ہوئی تو لوگوں نے ان کو نکالا اور کہا یہ وہ علم ہے جو سلیمان نے ہم سے چھپایا پس الله نے کہا{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة:

تذكرة الحفاظ از الذھبی کے مطابق مفسر مجاہد نے تحقیق کی

ذكر محمد بن حميد أخبرنا عبد الله بن عبد القدوس عن الأعمش قال: كان مجاهد لا يسمع بأعجوبة إلا ذهب لينظر إليها. ذهب الى حضرموت ليرى بئر برهوت وذهب الى بابل وعليه وال فقال له مجاهد: تعرض على هاروت وماروت فدعا رجلا من السحرة فقال: اذهب به فقال اليهودي بشرط ألا تدعو الله عندهما قال فذهب به الى قلعة فقطع منها حجرا ثم قال خذ برجلى فهوى به حتى انتهى الى جوبة فإذا هما معلقين منكسين كالجبلين فلما رأيتهما قلت سبحان الله خالقكما فاضطربا فكأن الجبال تدكدكت فغشي على وعلى اليهودي ثم أفاق قبلى فقال قد أهلكت نفسك وأهلكتنى.

الأعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں سنتے یہاں تک کہ اس کو دیکھتے وہ حضر الموت گئے تاکہ برهوت کا کنواں دیکھیں اور بابل گئےوہاں افسر تھا اس سے کہا مجھ پر ہاروت و ماروت کو پیش کرو پس  جادو گروں کو بلایا گیا ان سے کہا کہ وہاں تک لے چلو ایک یہودی نے کہا اس شرط پر کہ وہاں ہاروت و ماروت کے سامنے اللہ کو نہیں پکارو گے  – پس وہ وہاں گئے قلعہ تک اس کا پتھر نکالا گیا پھر یہودی نے پیر سے پکڑا اور لے گیا جہاں دو پہاڑوں کی طرح ہاروت و ماروت معلق تھے پس ان کو دیکھا  (تو بے ساختہ مجاہد بولے) سبحان الله جس نے ان کو خلق کیا – اس پر  وہ (فرشتے) ہل گئے اور مجاہد  اور یہودی غش کھا گئے پھرجب  افاقہ ہوا تو یہودی بولا:  تم نے تو اپنے آپ کو اور مجھے مروا ہی دیا تھا

تیسری صدی ہجری

امام احمد اس قصے  کو منکر کہتے تھے – الكتاب: أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از آبو حذيفة، نبيل بن منصور بن يعقوب بن سلطان البصارة الكويتي

وقال أحمد بن حنبل: هذا منكر، إنما يروى عن كعب” المنتخب لابن قدامة ص 296 ہ

امام احمد نے کہا یہ منکر ہے اس کو کعب نے روایت کیا ہے

چوتھی صدی ہجری

تفسیر ابن ابی حاتم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ- يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَيُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ مُجَاهِدٍ. قَالَ: كُنْتُ نَازِلا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَالَ لِغُلامِهِ. انْظُرْ طَلَعَتِ الْحَمْرَاءُ لَا مَرْحَبًا بِهَا وَلا أَهْلا وَلا حَيَّاهَا اللَّهُ هِيَ صَاحِبَةُ الْمَلَكَيْنِ- قَالَتِ الْمَلائِكَةُ: رَبِّ كَيْفَ تَدَعُ عُصَاةَ بَنِي آدَمَ وَهُمْ يَسْفِكُونَ الدَّمَ الْحَرَامَ، وَيَنْتَهِكُونَ مَحَارِمَكَ، وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ؟  قَالَ: إِنِّي قَدِ ابْتَلَيْتُهُمْ فَلَعَلِّي إِنِ ابْتَلَيْتُكُمُ بِمِثْلِ الَّذِي ابْتَلَيْتُهُمْ بِهِ فَعَلْتُمْ كَالذي يَفْعَلُونَ قَالُوا: لَا. قَالَ: فَاخْتَارُوا مِنْ خِيَارِكُمُ اثْنَيْنِ، فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ فَقَالَ لَهُمَا إِنِّي مُهْبِطُكُمَا إِلَى الأَرْضِ وَعَاهِدٌ إِلَيْكُمَا أَنْ لَا تُشْرِكَا وَلا تَزْنِيَا، وَلا تَخُونَا. فَأُهْبِطَا إِلَى الأَرْضِ، وَأَلْقَى عَلَيْهِمَا الشَّبَقَ وَأُهْبِطَتْ لَهُمَا الزُّهْرَةُ فِي أَحْسَنِ صُورَةِ امْرَأَةٍ فَتَعَرَّضَتْ

مجاہد کہتے ہیں ہم سفر  میں آبن عمر رضی الله عنہ کے ساتھ تھے  پس جب رات ہوئی انہوں نے لڑکے سے کہا دیکھو الْحَمْرَاءُ کا طلوع ہوا اس میں خوش آمدید نہیں ہے نہ اس کے اہل کے لئے … یہ ان فرشتوں کی ساتھی ہے – فرشتوں نے کہا اے رب ہم انسانوں کے گناہوں کو کیسے دور کریں وہ خون بہا رہے ہیں اور زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں؟ کہا : بے شک میں ان کی آزمائش کروں گا جس طرح میں نے تم کو آزمائش میں ڈالا اور دیکھوں گا کیسا عمل کرتے ہیں ؟ … پس اپنے فرشتوں میں سے چنوں دو کو – انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا ان سے کہا زمین پر ہبوط کرو اور تم پر عہد ہے نہ شرک کرنا نہ زنا اور نہ خیانت پس وہ زمین پر اترے اور ان پر شہوانیت القی کی گئی اور الزہرا کو بھی اترا یا ایک حسین عورت کی شکل میں اور ان کا دیکھنا ہوا

سياره الزهراء يا

Venus

کو الْحَمْرَاءُ کہا گیا ہے یعنی سرخی مائل اور اس کو ایک عورت کہا گیا ہے جو مجسم ہوئی اور فرشتوں ہاروت و ماروت کی آزمائش بنی  خبر دی گئی کہ فرشتے انسانوں سے جلتے تھے اس تاک میں رہتے کہ الله تعالی کے سامنے ثابت کر سکیں کہ ہم نے جو پہلے کہا تھا کہ یہ انسان فسادی ہے اس کو صحیح ثابت کر سکیں – اس پر الله نے کہا کہ تم فرشتوں سے خود دو کو چنوں اور پھر وہ فرشتے کیا آزمائش بنتے وہ خود الزہرا پر عاشق ہو گئے

کتاب العلل از ابن ابی حاتم میں ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے اس روایت پر سوال کیا

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ معاذ بن خالد العَسْقلاني عَنْ زُهَير (1) بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَير (2) ، عَنْ نَافِعٍ، عن عبد الله بْنِ عُمَرَ؛ أنَّه سَمِعَ النبيَّ (ص) يقول: إِنَّ آدَمَ [لَمَّا] (3) أَهْبَطَهُ (4) اللهُ إلَى الأَرْضِ، قَالَتِ المَلاَئِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (5) ، قَالُوا: رَبَّنَا، نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ … وذكَرَ الحديثَ: قِصَّةَ (6) هاروتَ وماروتَ؟

قَالَ أَبِي: هذا حديثٌ مُنكَرٌ

میرے باپ نے کہا یہ منکر ہے

ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج 10، ص 3241-3242 پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں

قَوْلُهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
18355 – وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَرَادَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ فَأَعْطَى الْجَرَادَةَ خَاتَمَهُ وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ، وَكَانَتْ أَحَبَّ نِسَائِهِ إِلَيْهِ فَجَاءَ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهَا: هَاتِي خَاتَمِي فَأَعْطَتْهُ فَلَمَّا لَبِسَهُ دَانَتْ لَهُ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَالشَّيَاطِينُ، فَلَمَّا خَرَجَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْخَلَاءِ قال لها: هَاتِي خَاتَمِي فَقَالَتْ: قَدْ أَعْطَيْتُهُ سُلَيْمَانَ قَالَ: أَنَا سُلَيْمَانُ قَالَتْ: كَذَبْتَ لَسْتَ سُلَيْمَانَ فَجَعَلَ لَا يَأْتِي أَحَدًا يَقُولُ: أَنَا سُلَيْمَانُ إِلا كَذَّبَهُ حَتَّى جَعَلَ الصِّبْيَانُ يَرْمُونَهُ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَامَ الشَّيْطَانُ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ.
فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدَّ عَلَى سليمان عليه السلام سلطانه ألْقَى فِي قُلُوبِ النَّاسِ إِنْكَارَ ذَلِكَ الشَّيْطَانِ فَأَرْسَلُوا إِلَى نِسَاءِ «1» سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَقَالُوا لهن أيكون من سليمان شيء؟ قلنا: نَعَمْ إِنَّهُ يَأْتِينَا وَنَحْنُ حُيَّضٌ، وَمَا كَانَ يَأْتِينَا قَبْلَ ذَلِكَ

قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام بیت الخلاء میں جاتے، اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے، جو کہ ان کی بیوی تھی، اور سب سے عزیز تھی۔ شیطان حضرت سلیمان کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے میری انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی، تو سب جن و انس و شیطان اس کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نکلے، تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیمان کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیمان ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم سلیمان نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیمان ہوں، اور ان کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا- جب اللہ نے اس بات کا ارادہ کیا کہ حضرت سلیمان کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیمان میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب وہ ہمارے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔

یہاں اس پر قوی سند لکھا ہوا ہے راقم کہتا ہے

تفسیر ابن حاتم ٩٠٠ صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355 ہے جس پر وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں تصرف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟

اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضًا ما قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن حسين، قال: حدثنا محمد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة وعلي بن محمد، قال: حدثنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الأعمش، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله – تعال ى-: {وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ}، قال: أراد سليمان -عليه الصلاة والسلام- أن يدخل الخلاء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها

اس کی سند میں المنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے

چوتھی صدی کے ہی  ابن حبان اس روایت کو صحیح ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ  میں نقل کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكير عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  (إِنَّ آدَمَ ـ لَمَّا أُهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ ـ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مِنْ يُفسد فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ونُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: 30] قَالُوا: رَبَّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلَانِ قَالُوا: رَبَّنَا هَارُوتُ وَمَارُوتُ قَالَ: فَاهْبِطَا إِلَى الْأَرْضِ قَالَ: فَمُثِّلَتْ لَهُمُ الزُّهْرةُ امْرَأَةً مِنْ أَحْسَنِ الْبَشَرِ فَجَاءَاهَا فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تكَلِّما بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ مِنَ الْإِشْرَاكِ قَالَا: وَاللَّهِ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ أَبَدًا فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بصبيٍّ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيَّ فَقَالَا: لَا وَاللَّهِ لَا نَقْتُلُهُ أَبَدًا فَذَهَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحٍ مِنْ خَمْرٍ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْرَ فَشَرِبَا فَسَكِرَا فَوَقَعَا عَلَيْهَا وَقَتَلَا الصَّبِيَّ فَلَمَّا أَفَاقَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ: وَاللَّهِ مَا تركتُما مِنْ شَيْءٍ أَثِيمًا إِلَّا فَعَلْتُمَاهُ حِينَ سَكِرْتُما فخُيِّرا ـ عِنْدَ ذَلِكَ ـ بَيْنَ عَذَابِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الآخرة فاختارا عذاب الدنيا)

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: الزُّهرة ـ هَذِهِ ـ: امْرَأَةٌ كَانَتْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ، لَا أَنَّهَا الزُّهرة الَّتِي هِيَ فِي السَّمَاءِ، الَّتِي هِيَ مِنَ الخُنَّسِ.

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا فرمایا: جب آدم کا زمین کی طرف ہبوط ہوا فرشتوں نے کہا اے رب کیا اس کو خلیفہ کیا ہے کہ اس میں فساد کرے اور خون بہائے اور ہم آپ کی تعریف کرتے ہیں اور تقدس کرتے ہیں ؟ فرمایا : میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے – فرشتوں نے کہا  ہمارے رب ہم انسانوں سے بڑھ کر آپ کے اطاعت گزار ہیں الله تعالی نے فرشتوں سے کہا : فرشتوں کو لو پس دیکھیں یہ کیا عمل کرتے ہیں- فرشتوں نے کہا : آے رب ہاروت و ماروت ہیں- حکم الہی ہوا : زمین کی طرف ہبوط کرو – وہاں الزہرا انسانوں میں سے ایک حسن عورت ان کو ورغلائے گی پس وہ ان فرشتوں کے پاس گئی اور نفس کے  بارے میں سوال کیا (یعنی زنا کی ہاروت و ماروت نے ترغیب دی) اور بولی : نہیں الله کی قسم میں نہیں کروں گی یہاں تک کہ تم شرکیہ کلمات ادا کرو – ہاروت و ماروت نے کہا و الله ہم یہ کلمات نہیں بولیں گے پس وہ لوٹ گئی ایک لڑکے کے ساتھ اور واپس انہوں نے  نفس کا سوال کیا  وہ بولی میں اس لڑکے کو مار ڈالوں گی فرشتوں نے کہا نہیں مارو وہ لوٹ گئی پھر آئی ایک قدح لے کر شراب کا اس پر سوال کیا فرشتوں نے کہا ہم نہیں پییں گے یہاں تک کہ وہ پی گئے پس وہ واقعہ ہوا (زنا) اور لڑکے کو قتل کیا – جب افاقہ ہوا عورت بولی الله کی قسم میں نے تم کو کہیں کا نہ چھوڑا گناہ میں کوئی چیز نہیں جو تم نہ کر بیٹھے ہو اور تم نے نہیں کیا جب تک شراب نہ پی لی  … تم نے دنیا و آخرت میں سے دنیا کا  عذاب چنا

ابو حاتم ابن حبان نے کہا الزہرہ یہ اس دور میں عورت تھی وہ وہ نہیں جو آسمان میں ہے جو الخنس ہے

ابن حبان نے اس روایت کو صحیح میں لکھا اس میں اختلاف صرف یہ کیا کہ الزہرہ کو ایک مسجم عورت کی بجائے ایک حقیقی عورت کہا

البدء والتاريخ  از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ)  قصة هاروت وماروت،  اختلفوا المسلمون [1] فيه اختلافا كثيرا

القدسی نے تاریخ میں لکھا کہ مسلمانوں کا اس پر اختلاف ہے

یعنی ابن ابی حاتم اس کو منکر کہتے ہیں اور ابن حبان صحیح

العلل دارقطنی از امام دارقطنی المتوفی ٣٨٥ ھ  میں ہے

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وسلم: أن آدم لما أهبطه الله إلى الأرض قالت الملائكة: أي رب: {أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء} ، قالوا: ربنا، نحن أطوع لك من بني آدم، قال الله للملائكة: هلموا ملكين … فذكر قصة هاروت وماروت.

فقال: اختلف فيه على نافع:

فرواه موسى بن جبير، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وَخَالَفَهُ مُوسَى بْنُ عقبة، فرواه عن نافع، عن ابن عمر، عن كعب الأحبار، من رواية الثوري، عن موسى بن عقبة.

وقال إبراهيم بن طهمان: عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه، عن كعب.

دارقطنی نے العلل میں اس کی اسناد نقل کیں لیکن رد نہیں کیا

پانچویں صدی ہجری

امام حاکم  المتوفی ٤٠٥ ھ مستدرک میں اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

آٹھویں صدی ہجری

الذھبی سیر میں لکھتے ہیں

قُلْتُ: وَلِمُجَاهِدٍ أَقْوَالٌ وَغَرَائِبُ فِي العِلْمِ وَالتَّفْسِيْرِ تُسْتَنْكَرُ، وَبَلَغَنَا: أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَابِلَ، وَطَلَبَ مِنْ مُتَوَلِّيْهَا أَنْ يُوْقِفَهُ عَلَى هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ.

میں کہتا ہوں : مجاہد کے اقوال اور علم و تفسیر میں غریب باتیں ہیں جن کا انکار کیا جاتا ہے اور ہم تک پہنچا ہے کہ یہ بابل گئے اور وہاں کے متولی سے کہا کہ ہاروت و ماروت سے ملاو

لیکن  الذھبی مستدرک حاکم کی تلخیص میں ہاروت و ماروت کے  اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، أَنْبَأَ إِسْحَاقُ، أَنْبَأَ حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ وَكَانَ ثِقَةً، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102] الْآيَةُ. قَالَ: ” إِنَّ النَّاسَ بَعْدَ آدَمَ وَقَعُوا فِي الشِّرْكِ اتَّخَذُوا هَذِهِ الْأَصْنَامَ، وَعَبَدُوا غَيْرَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَتِ الْمَلَائِكَةُ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ وَيَقُولُونَ: رَبَّنَا خَلَقْتَ عِبَادَكَ فَأَحْسَنْتَ خَلْقَهُمْ، وَرَزَقْتَهُمْ فَأَحْسَنْتَ رِزْقَهُمْ، فَعَصَوْكَ وَعَبَدُوا غَيْرَكَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُمْ فِي غَيْبٍ فَجَعَلُوا لَا يَعْذُرُونَهُمْ ” فَقَالَ: اخْتَارُوا مِنْكُمُ اثْنَيْنِ أُهْبِطُهُمَا إِلَى الْأَرْضِ، فَآمُرُهُمَا وَأَنْهَاهُمَا ” فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ – قَالَ: وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِيهِمَا – وَقَالَ فِيهِ: فَلَمَّا شَرِبَا الْخَمْرَ وَانْتَشَيَا وَقَعَا بِالْمَرْأَةِ وَقَتَلَا النَّفْسَ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَظَرُوا إِلَيْهِمَا وَمَا يَعْمَلَانِ فَفِي ذَلِكَ أُنْزِلَتْ {وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ، وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ} [الشورى: 5] الْآيَةُ. قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ الْمَلَائِكَةُ يَعْذُرُونَ أَهْلَ الْأَرْضِ وَيَدْعُونَ لَهُمْ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]  3655 – صحيح

نویں صدی ہجری

هیثمی  المتوفی ٨٠٧ ہجری کتاب مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: اسْمُ الْمَلَكَيْنِ اللَّذَيْنِ يَأْتِيَانِ فِي الْقَبْرِ مُنْكَرٌ وَنَكِيرٌ، وَكَانَ اسْمُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ – وَهُمَا فِي السَّمَاءِ – عَزَرًا وَعَزِيزًا ..  رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

اس کی اسناد حسن ہیں

ابن حجر المتوفي ٨٥٢ هجري  فتح الباری میں کہتے ہیں

قال الحافظ: وقصة هاروت وماروت جاءت بسند حسن من حديث ابن عمر في مسند أحمد

اور ہاروت و ماروت کا قصہ حسن سند سے مسند احمد میں ہے ابن عمر کی سند سے

دسویں صدی ہجری

التخريج الصغير والتحبير الكبير  ابن المِبْرَد الحنبلي (المتوفى: 909 هـ)

حديث: “هَارُوتَ وَمَارُوتَ” الإمام أحمد، وابن حبان، بسند صحيح.

ابن المِبْرَد  کے مطابق مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں اس کی سند صحیح ہے

الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)

قصة هاروت وماروت.  وفي مسند أحمد، وصحح ابن حبان من حديث ابن عمر بسند صحيح.

قلت: لها طرق عديدة استوعبتها في التفسير المسند، وفي تخريج أحاديث الشفاء، انتهى.

قصہ ہاروت و ماروت کا یہ مسند احمد صحیح ابن حبان میں ہے صحیح سند سے ابن عمر رضی الله عنہ کی

میں السيوطي کہتا ہوں اس کے بہت سے طرق مسند احمد کی تفسیر میں ہے اور احادیث کتاب الشفاء کی تخریج میں

کتاب  تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة  المؤلف: نور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (المتوفى: 963هـ)

” وَمن طَرِيقه (خطّ) من حَدِيث ابْن عمر، وَفِيه قصَّة لنافع مَعَ ابْن عمر وَلَا يَصح، فِيهِ الْفرج بن فضَالة، وسنيد ضعفه أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ (تعقبه) الْحَافِظ ابْن حجر فِي القَوْل المسدد فَقَالَ: أخرجه أَحْمد فِي مُسْنده وَابْن حبَان فِي صَحِيحه من وَجه آخر، وَله طرق كَثِيرَة جمعتها فِي جُزْء مُفْرد يكَاد الْوَاقِف عَلَيْهَا لكثرتها وَقُوَّة مخارج أَكْثَرهَا يقطع بِوُقُوع هَذِه الْقِصَّة، انْتهى قَالَ السُّيُوطِيّ: وجمعت أَنا طرقها فِي التَّفْسِير الْمسند وَفِي التَّفْسِير الْمَأْثُور فَجَاءَت نيفا وَعشْرين طَرِيقا مَا بَين مَرْفُوع وَمَوْقُوف، وَلِحَدِيث ابْن عمر بِخُصُوصِهِ طرق مُتعَدِّدَة.

اور جو طرق حدیث ابن عمر کا ہے اور اس میں نافع کا ابن عمر کے ساتھ کا قصہ ہے صحیح نہیں ہے اس میں فرج بن فضالہ ہے اور سنید ہے جس کی تضعیف کی ہے ابو داود نے اور نسائی نے اس کا تعقب کیا ہے ابن حجر نے کتاب القول لمسدد میں اور کہا ہے اس کی تخریج کی ہے احمد نے مسند میں ابن حبان نے صحیح میں  دوسرے طرق سے اور اس کے کثیر طرق ہیں جو سب مل کر ایک جز بن جاتے ہیں اور واقف جان جاتا ہے اس کثرت پر اور مخارج کی قوت پر … السُّيُوطِيّ نے کہا اور میں نے جمع کر دیا ہے اس کے طرق تفسیر میں اور … خاص کر ابن عمر کی حدیث کے تو بہت طرق ہیں

تذكرة الموضوعات میں محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ) لکھتے ہیں

قِصَّةُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ مَعَ الزَّهْرَةِ وَهُبُوطِهِ إِلَى الأَرْضِ امْرَأَةً حَسَنَةً حِينَ طَغَتِ الْمَلائِكَةُ وَشُرْبِهِمَا الْخَمْرَ وقتلهما النَّفس وزناهما» عَن ابْن عمر رَفعه وَفِيه مُوسَى ابْن جُبَير مُخْتَلف فِيهِ وَلَكِن قد توبع، وَلأبي نعيم عَن عَليّ قَالَ «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّهْرَةَ وَقَالَ إِنَّهَا فتنت الْملكَيْنِ» وَقيل الصَّحِيح وَقفه على كَعْب وَكَذَا قَالَ الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز قصتهما فِي الْفرج بن فضَالة: ضَعِيف قلت قَالَ ابْن حجر لَهَا طرق كَثِيرَة يقطع بوقوعها لقُوَّة مخارجها.

قصہ ہاروت و ماروت کا الزہرا کے ساتھ اور ان کا زمین پر ہبوط کرنا ایک حسین عورت کے ساتھ اور فرشتوں کا بغاوت کرنا اور شراب پینا اور قتل نفس کرنا اور زنا کرنا جو ابن عمر سے مروی ہے ان تک جاتا ہے اور اس میں موسی بن جبیر ہے مختلف فیہ ہے لیکن اس کی متابعت کی ہے ابو نعیم نے علی کی روایت سے کہ الله کی لعنت ہو الزہرا پر اور کہا اس نے فرشتوں کو آزمائش میں ڈالا اور کہا ہے صحیح ہے کعب پر موقوف ہے اور اسی طرح کہا ہے البیہقی نے اور فرج کےقصہ پر کہا ضعیف ہے میں کہتا ہوں ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے طرق بہت سے ہیں

ابن کثیر نے تفسیر میں لکھا

ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر، ج 7، ص 59-60 میں درج کیا ہے۔ سند کے بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ

إسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما قَوِيٌّ، وَلَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَلَقَّاهُ ابْنُ عباس رضي الله عنهما إِنْ صَحَّ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ طائفة لا يعتقدون نبوة سليمان عليه الصلاة والسلام فَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا كَانَ فِي هذا السِّيَاقِ مُنْكَرَاتٌ مِنْ أَشَدِّهَا ذِكْرُ النِّسَاءِ فَإِنَّ المشهور عن مجاهد وغير واحد من أئمة السلف أَنَّ ذَلِكَ الْجِنِّيَّ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَى نِسَاءِ سليمان بل عصمهن الله عز وجل منه تشريفا وتكريما لنبيه عليه السلام. وَقَدْ رُوِيَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ مُطَوَّلَةً عَنْ جَمَاعَةٍ من السلف رضي الله عنهم كَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَجَمَاعَةٍ آخَرِينَ وَكُلُّهَا مُتَلَقَّاةٌ مِنْ قَصَصِ أَهْلِ الْكِتَابِ، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.

اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حضرت سلیمان کی نبوت کا منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر ائمہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور شرف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ سلف میں ایک جماعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت، زید بن اسلم، اور بعد کی ایک جماعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے ملا

راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے یہ کام ابن عباس رضی الله عنہ کا نہیں کہ اہل کتاب سے روایت کریں بلکہ اس میں جرح منہال بن عمرو پر ہے

چودھویں صدی ہجری

کتاب التحرير والتنوير از محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) کے مطابق

وَلِأَهْلِ الْقِصَصِ هُنَا قِصَّةٌ خُرَافِيَّةٌ مِنْ مَوْضُوعَاتِ الْيَهُودِ فِي خُرَافَاتِهِمُ الْحَدِيثَةِ اعْتَادَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ ذِكْرَهَا مِنْهُمُ ابْنُ عَطِيَّةَ وَالْبَيْضَاوِيُّ وَأَشَارَ الْمُحَقِّقُونَ مِثْلُ الْبَيْضَاوِيِّ وَالْفَخْرِ وَابْنِ كَثِيرٍ وَالْقُرْطُبِيِّ وَابْنِ عَرَفَةَ إِلَى كَذِبِهَا وَأَنَّهَا مِنْ مَرْوِيَّاتِ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَقَدْ وَهِمَ فِيهَا بَعْضُ الْمُتَسَاهِلِينَ فِي الْحَدِيثِ فَنَسَبُوا رِوَايَتَهَا عَنِ النَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ عَنْ بَعْضِ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ وَاهِيَةٍ وَالْعَجَبُ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى كَيْفَ أَخْرَجَهَا مُسْنَدَةً لِلنَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَعَلَّهَا مَدْسُوسَةٌ عَلَى الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَوْ أَنَّهُ غَرَّهُ فِيهَا ظَاهِرُ حَالِ رُوَاتِهَا مَعَ أَنَّ فِيهِمْ مُوسَى بْنَ جُبَيْرٍ وَهُوَ مُتَكَلَّمٌ فِيهِ

اور اہل قصص کے لئے اس میں بہت سے یہودیوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں جس سے مفسرین دھوکہ کھا گئے ان میں ابن عطیہ اور بیضاوی ہیں اور محققین مثلا بیضاوی اور فخر الرازی اورابن کثیر اور قرطبی اور ابن عرفہ نے ان کے کذب کی طرف اشارہ کیا ہے  جو  بے شک کعب الاحبار کی مرویات ہیں اور اس میں وہم ہے بعض متساهلین کا حدیث کے لئے تو انہوں نے ان قصوں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے  یا بعض اصحاب رسول کی طرف واہیات اسناد کے ساتھ اور عجیب بات ہے کہ امام احمد بن حنبل الله رحم کرے نے ان کو کیسے مسند میں لکھا اور ہو سکتا ہے وہ بہک گئے ہوں اس کے ظاہر حال پر اس میں موسی بن جبیر ہے اور متکلم فیہ ہے

یہ بھی لکھتے ہیں

وَ (هَارُوتَ وَمَارُوتَ) بَدَلٌ مِنَ (الْمَلَكَيْنِ) وَهُمَا اسْمَانِ كَلْدَانِيَّانِ دَخَلَهُمَا تَغْيِيرُ التَّعْرِيفِ لِإِجْرَائِهِمَا عَلَى خِفَّةِ الْأَوْزَانِ الْعَرَبِيَّةِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَارُوتَ مُعَرَّبُ (هَارُوكَا) وَهُوَ اسْمُ الْقَمَرِ عِنْدَ الْكَلْدَانِيِّينَ وَأَنَّ مَارُوتَ مُعَرَّبُ (مَا رُودَاخَ) وَهُوَ اسْمُ الْمُشْتَرِي عِنْدَهُمْ وَكَانُوا يَعُدُّونَ الْكَوَاكِبَ السَّيَّارَةَ مِنَ الْمَعْبُودَاتِ الْمُقَدَّسَةِ الَّتِي هِيَ دُونَ الْآلِهَةِ لَا سِيَّمَا الْقَمَرِ فَإِنَّهُ أَشَدُّ الْكَوَاكِبِ تَأْثِيرًا عِنْدَهُمْ فِي هَذَا الْعَالَمِ وَهُوَ رَمْزُ الْأُنْثَى، وَكَذَلِكَ الْمُشْتَرِي فَهُوَ أَشْرَفُ الْكَوَاكِبِ السَّبْعَةِ عِنْدَهُمْ وَلَعَلَّهُ كَانَ رَمْزَ الذَّكَرِ عِنْدَهُمْ كَمَا كَانَ بَعْلٌ عِنْدَ الْكَنْعَانِيِّينَ الْفِنِيقِيِّينَ.

اور ہاروت و ماروت فرشتوں کا بدل ہیں اور یہ نام کلدانی کے ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے تبدیل کر کے عربیوزن پر اور ظاہر ہے ہاروت معرب ہے ہاروکا کا جو چاند کا نام ہے کلدانیوں کے نزدیک اور ماروت معرب ہے ماروداخ کا جو مشتری کا نام ہے ان کے ہاں – اور یہ کواکب کو مقدس معبودات میں شمار کرتے تھے  خاص طور پر چاند کو کیونکہ یہ کواکب میں سب سے بڑھ کر تاثیر رکھتا ہے ان کے نزدیک تمام عالم میں اور یہ رمز ہے مونث پر اور اسی طرح مشتری سات کواکب میں سب سے با عزت ہے جو اشارہ ہے مذکر پر ان کے نزدیک جیسا کہ بعل تھا فونشیوں  اور کنعآنیوں کے نزدیک

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں  شعيب الأرنؤوط   لکھتے ہیں

قلت: وقول الحافظ ابن حجر في “القول المسدد” 40-41 بأن: للحديث طرقاً كثيرة جمعتها في جزء مفرد يكاد الواقف عليه أن يقطع بوقوع هذه القصة لكثرة الطرق الواردة فيها وقوَّة مخارج أكثرها، خطأ مبين منه -رحمه الله- ردَّه عليه العلامة أحمد شاكر -رحمه الله- في تعليقه على “المسند” (6178) فقال: أمَّا هذا الذي جزم به الحافظ بصحة وقوع هذه القصة صحة قريبة من القطع لكثرة طرقها وقوة مخارج أكثرها، فلا، فإنها كلها طرق معلولة أو واهية إلى مخالفتها الواضحة للعقل، لا من جهة عصمة الملائكة القطعية فقط، بل من ناحية أن الكوكب الذي نراه صغيراً في عين الناظر قد يكون حجمه أضعاف حجم الكرة الأرضية بالآلاف المؤلفة من الأضعاف، فأنَّى يكون جسم المرأة الصغير إلى هذه الأجرام الفلكية الهائلة!

  شعيب الأرنؤوط نے ابن حجر کی تصحیح کو ایک غلطی قرار دیا اور احمد شاکر نے بھی ابن حجر کی رائے کو رد کیا

بابل کا مذھب

بابل میں مردوک

Marduk

 کی پوجا ہوتی تھی – بابلی زبان میں مردوک کو

Marutuk

ماروتک

بولا جاتا تھا

 Frymer-Kensky, Tikva (2005). Jones, Lindsay, ed. Marduk. Encyclopedia of religion 8 (2 ed.). New York. pp. 5702–5703. ISBN 0-02-865741-1.

https://en.wikipedia.org/wiki/Marduk

بعض مغربی محققین اس بات تک پہنچے ہیں کہ یہ بابلی دیوتا اصلا فرشتے تھے تصاویر میں بھی اس کو پروں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے

جادوگروں نے اس قصے میں  سیارہ الزہرا یعنی وینس ، چاند اور مشتری کا  اثر  تمثیلی انداز میں سکھایا  ہے کہ یہ چاند اور مشتری کا جادو الزہرا کی موجودگی میں بڑھ جاتا ہے – چاند کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس کی ٢٧ منزلیں  ہیں جن میں چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے اور عبرانی کے بھی ٢٧ حروف ہیں لہذا کلمات شرکیہ کو ان سے ملا کر اخذ کیا جاتا  تھا

In general, though not always, the zodiac is divided into 27 or 28 segments relative to fixed stars – one for each day of the lunar month, which is 27.3 days long

https://en.wikipedia.org/wiki/Lunar_mansion

بابل کی اسیری سے پہلے بنی اسرائیل جو عبرانی استمال کرتے تھے اس کو

Palaeo-Hebrew alphabet

کہا جاتا ہے جس میں ٢٢ حروف تھے جو ابجد حروف کہلاتے ہیں

یہود کے مطابق بابل کی اسیری میں کسی موقع پر ان  کی زبان تبدیل ہوئی جس میں اشوری اور بابلی زبان سے حروف لئے گئے

بائیس حروف کو ٢٧ میں بدلنے کے پیچھے کیا چاند کی ٢٧ منازل تھیں ؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب ہمارے اسلامی جادو یا سحر کی کتب میں ہے جس پر کسی اور بلاگ میں بحث ہو گی

موت کے بعد جو بول اٹھا

کتب رجال و اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم میں ایک صحابی کے لئے اتا ہے

من تکلم بعد الموت

موت کے بعد جو بول اٹھا

یہ زید بن خارجہ رضی الله عنہ ہیں جو بدری صحابی ہیں اور عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی

تہذیب الکمال از المزی کے مطابق

أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقُرَشِيُّ، قال: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ الْفَاخِر الْقُرَشِيّ فِي جماعة، قَالُوا: أَخْبَرَتْنا فَاطِمَةُ بِنْتُ عَبد اللَّهِ، قَالَتْ: أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبد اللَّهِ الضَّبِّيُّ، قال: أخبرنا سُلَيْمان بْن أَحْمَد (2) ، قال: حَدَّثَنَا عِيسَى بْن مُحَمَّد السمسار الواسطي، قال: حَدَّثَنَا عبد الحميد بْن بيان، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاق الأزرق، عَنْ شَرِيك، عَنْ إِبْرَاهِيم بْن مهاجر، عَنْ حَبِيب بْن سالم، عن النعمان بْن بشير، قال: لما توفي زَيْد بْن خَارِجَة انتظر بِهِ خروج عُثْمَان، فقلت (3) : أصلي ركعتين، فكشف الثوب عَنْ وجهه، فَقَالَ: السلام عليكم، السلام عليكم. قال: وأهل البيت يتكلمون، فقلت وأنا فِي الصلاة: سبحان الله، سبحان الله! فَقَالَ: انصتوا، انصتوا، مُحَمَّد رَسُول اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق أَبُو بَكْر الصديق، ضعيف فِي جسده قوي فِي أمر اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق عُمَر بْن الخطاب، قوي فِي جسده، قوي فِي أمر الله، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول، صدق، صدق، صدق عُثْمَان بْن عَفَّان، مضت اثنتان وبقي أربع، وأبيحت الأحماء بئر أريس وما بئر أريس، السلام عليك عَبد اللَّهِ بْن رواحة، هل أحسست لي (1) خَارِجَة وسعدا؟ قال شَرِيك: هما أبوه وأخوه. وقد رويت هذه القصة من وجوه كثيرة، عَنِ النعمان بْن بشير وغيره.

حبیب بن سالم روایت کرتا ہے النعمان بْن بشير رضی الله عنہ سے کہ جب زید بن خارجہ کی وفات ہوئی ہم عثمان کے نکلنے کا انتظار کر رہے  تھے- پس ان سے کہا : دو رکعت پڑھ لیں پس زید کے چہرے پر سے کپڑا ہٹایا کہا السلام علیکم السلام علیکم  کہا : اور گھر والے بات کرنے لگ گئے اور میں نماز میں تھامیں  نے کہا سبحان الله سبحان الله (یعنی گھر والوں کو روکنے کی کوشش کی اور نماز میں سبحان الله پکارآ ک وہ چپ رہیں اسی اثنا میں)  زید بن خارجہ   نے کہا (یعنی میت بولی)چپ رہو چپ رہو، محمد رسول الله ہیں ایسا کتاب اول میں تھا- سچ سچ سچا ہے ابو بکر الصدیق، جسم میں کمزور ہے قوی الله کے کام میں ایسا ہی کتاب اول میں تھا، سچا سچ سچا عمر بن الخطاب ہے جسم میں قوی ہے اور الله کے کام میں بھی ایسا ہی کتاب اول میں تھا – سچا سچا سچا عثمان ہے دو سال گزرے اور چار باقی ہیں – گرم ہوا بئر أريس (کا پانی) اور کیا ہے بئر أريس؟، السلام ہو آپ پر عبد الله بن رواحة، کیا  آپ نے میرے لئے محسوس کیا اور سعد کے لئے ؟ شریک نے کہا یہ دونوں باپ بیٹا تھے اور اس قصے کو روایت کیا ہے کئی طرح النعمان بْن بشير اور دیگر سے

اس واقعہ کو بیان کرنے والآ حبیب بن سالم ہے جو مختلف فیہ ہے- امام بخاری نے اس سے صحیح میں روایت نہیں لی ہے-

ابن مندہ نے کتاب میں روایت نقل کی ہے

أخبرنا خيثمة بن سليمان، ومحمد بن يعقوب بن يوسف، قالا: حدثنا العباس بن الوليد بن مزيد، قال: أخبرني أبي، قال: حدثني ابن جابر، ح: وحدثنا عبد الرحمن بن يحيى، قال: حدثنا أبو مسعود، قال: حدثنا هشام بن إسماعيل، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، عن ابن جابر، قال: سمعت عمير بن هاني، يحدث عن النعمان بن بشير، قال: توفي رجل منا يقال له خارجة بن زيد، فسجينا عليه ثوبًا وقمت أصلي، فسمعت ضوضأة، فانصرفت فإذا به يتحرك، وظننت أن حية دخلت بينه وبين الثياب، فلما وقفت عليه قال: أجلد القوم وأوسطهم عبد الله عمر أمير المؤمنين، الذي لا تأخذه في الله لومة لائم كان في الكتاب الأول صدق صدق عبد الله بن أبو بكر أمير المؤمنين، الضعيف في جسمه القوي في أمر الله، وفي الكتاب الأول صدق صدق عبد الله عثمان أمير المؤمنين الضعيف العفيف المتعفف، الذي يعفو عن ذنوب كثيرة، خلت ليلتان وبقيت أربع، اختلف الناس ولا نظام، وأييحت الأحماء، أيها الناس، اقبلوا على إمامكم واسمعوا له وأطيعوا، فمن تولى فلا يعهدن دمًا، كان أمر الله قدرًا مقدورًا ثلاثًا، هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، سلام عليك يا رسول الله، هذا عبد الله بن رواحة ما فعل خارجة بن زيد، ثم رفع صوته، فقال: يقول: {كَلَّا إِنَّهَا لَظَى} [المعارج: 15] أخذت بئر أريس ظلمًا، ثم خفت الصوت فرفعت الثوب، فإذا هو على حاله ميت.

عمير بن هاني کہتا ہے اس نے نعمان بن بشیر سے سنا: ہم میں سے ایک شخص جس کو خارجہ بن زید کہا جاتا تھا کی وفات ہوئی- پس اس پر کپڑا ڈالا اور نماز پڑھی پس خارجہ بن زید میں ایک گرگڑآہت سنی پس ہم اس میت  تک ایے کیونکہ وہ ہلی – اور گمان کیا کہ سانپ کپڑے اور خارجہ بن زید کے درمیان داخل ہو گیا ہے – پس جب ان پر رکے خارجہ نے کہا کوڑے مارنے والی قوم اور ان کا درمیان الله کا بندہ  عمر امیر المومنین جس نے الله کے لئے کوئی لومة لائم نہیں رکھا یہ کتاب اول میں ہے اور سچا سچا الله کا بندہ  ابو بکر امیر المومنین ہے جسم میں ضعیف ہے الله کے امر میں قوی ہے اور کتاب اول میں ہے سچا سچا الله کا بندہ عثمان امیر المومنین ہے کمزور و نا توا و نرم ہے جو اکثر گناہوں کو معاف کرتا ہے دو راتیں باقی ہیں چار گزری ہیں –  قبول کرو اپنے اماموں کو انکی سمع و اطاعت کرو پس جس نے منہ موڑا اس کے خون کا عہد نہیں ہے – لوگوں کا اختلاف ہوا کوئی نظام نا رہا اور الله اپنے کام کو کروانے والا ہے تین دفعہ، یہ رسول الله ہیں صلی الله علیہ وسلم ، سلام ہو آپ پر یا رسول الله یہ عبد الله بن رواحة ہیں ، خارجہ بن زید نے جو کیا پھر آواز اٹھ گئی پس کہا ہرگز نہیں یہ (اگ) تو چاٹ جائے گی – ظلم سے اریس کا کنواں لیا گیا پھر آواز مدھم ہوئی اور کپڑا اٹھا تو وہ تو حال میت تھے

اس روایت کے مطابق میت پر کپڑا ہی تھا کہ اندر سے یہ ہولناک آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور برزخ کی خبریں جاری تھیں – میت ابھی دفن بھی نہیں تھی

طبرانی الکبیر کی روایت کے مطابق ایسا واقعہ خارجہ بن زید کے ساتھ بھی ہوا جو زید کے بیٹے تھے یا روایت میں راویوں نے غلطی سے باپ بیٹا کا نام ڈال دیا

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُعَلَّى الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِي، أَنَّ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنَّا يُقَالُ لَهُ خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ فَسَجَّيْنَاهُ بِثَوْبٍ، وَقُمْتُ أُصَلِّي إِذْ سَمِعْتُ ضَوْضَاءَةً وَانْصَرَفْتُ، فَإِذَا أَنَا بِهِ يَتَحَرَّكُ، فَقَالَ: ” أَجَلْدُ الْقَوْمِ أَوْسَطُهُمْ عَبْدُ اللهِ، عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ الْقَوِيُّ فِي جِسْمِهِ الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ الْعَفِيفُ الْمُتَعَفِّفُ الَّذِي يَعْفُو عَنْ ذُنُوبِ كَثِيرَةٍ حَلَّتْ لَيْلَتَانِ، وَبَقِيَتْ أَرْبَعٌ، وَاخْتَلَفَ النَّاسُ وَلَا نِظَامَ لَهُمْ، يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَقْبِلُوا عَلَى إِمَامِكُمْ وَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنُ رَوَاحَةَ، ثُمَّ قَالَ: مَا فَعَلَ زَيْدُ بْنُ خَارِجَةَ – يَعْنِي أَبَاهُ -، ثُمَّ قَالَ: أَخَذْتُ سَرَارِيسَ ظُلْمًا ثُمَّ خَفُتَ الصَّوْتُ

ولید بن مسلم ، عبد الرحمن بن یزید بن جابر سے روایت کرتے ہیں وہ عُمَيْرِ بْنِ هَانِی سے وہ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ سے بولے: ہم میں سے ایک شخص مرا جس کو خارجہ بن زید کہا جاتا تھا اس کو ہم نے کپڑے سے ڈھانک دیا، اور نماز جنازہ پڑھی  پس میں نے شور سنا اور گیا پس جب ان پر آیا تو وہ ہلے اور بولے : کوڑا مارنے والی قوم کے درمیان الله کا بندہ  عمر امیر المومنین ہیں جسم میں قوی ہیں اور الله کے کام میں، عثمان امیر المومنین ہیں کمزور و نا توآ ہیں جو اکثر گناہوں کو معاف کرتے ہیں دو راتیں گزرین چار باقی ہیں اور لوگوں کا اختلاف ہوا اور کوئی نظام باقی نہ رہا اے لوگوں اپنے اماموں کو قبول کرو اور ان کی سمع و اطاعت کرو- یہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں اور ابن رَوَاحَةَ- پھر کہا زید بن خارجہ نے کیا کیا یعنی ان کے باپ نے پھر کہا ارِيسَ کا راز ظلم سے لیا گیا پھر آواز مدھم ہو گئی

اس کی سند میں ولید بن مسلم ہیں جو تدلیس التسویہ کرتے ہیں یعنی استاد کے استاد کو ہڑپ کرتے ہیں جب حدثنا بولیں تو بھی شک کیا جاتا ہے – سند میں جان بوجھ کر انہوں نے عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِر کہا ہے جبکہ امام بخاری اور ابن ابی حاتم کے مطابق یہاں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے

اس قسم کی مبہم روایات کو محدثین نے بلا تنقید نقل بھی کیا- قصہ گھڑنے والوں نے نام میں بھی مخلط ملط کر دیا ہے اس پر ابن حجر کو اسد الغابہ میں کہنا پڑا

قلت: قال أَبُو نعيم أول الترجمة: إنه الذي تكلم بعد الموت، وقال: أراه الأول، وهذا من غريب القول، بينا نجعل الأول قتل بأحد، ونجعل هذا توفي في خلافة عثمان رضي اللَّه عنه، وأنه الذي تكلم بعد الموت، ثم يقول: أراه الأول، فكيف يكون الأول وذلك قتل بأحد، وهذا توفي في خلافة عثمان، كذا قال أَبُو نعيم في هذه الترجمة.  وأما ابن منده فذكر الأول وأنه شهد بدرًا، وذكر فيه الاختلاف أَنَّهُ الذي تكلم بعد الموت، ولم يذكر أَنَّهُ قتل بأحد، فلم يتناقض قوله.  وأما أَبُو عمر فذكر الأول، وجعل ابنه زيدًا هو الذي تكلم بعد الموت، فلو صح أن المتكلم خارجة بْن زيد لكان غير الأول، لا شبهة فيه، لأن الأول قتل بأحد، والمتكلم توفي في خلافة عثمان فيكون غيره.  والصحيح أن المتكلم زيد بْن خارجة. والله أعلم

میں ابن حجر کہتا ہوں : ابو نعیم نے ترجمہ کے شروع میں کہا کہ بے شک یہ وہ ہیں جنہوں نے مرنے کے بعد کلام کیا – اور کہا میں دیکھتا ہوں شروع میں اور یہ قول عجیب ہے اول سے مراد ہے ان کا قتل احد میں ہوا اور پھر کر دیا ان کی وفات عثمان مئی دور میں ہوئی اور انہوں نے مرنے کے بعد کلام کیا – پھر کہا میں دیکھتا ہوں دور اول میں پس کیسے ممکن ہے کہ یہ دور اول میں ہوئی اور احد میں قتل ہوں اور یہاں ہے دور عثمان میں ایسا ابو نعیم نے اس ترجمہ میں کہا ہے اور جہاں تک ابن مندہ کا تعلق ہے تو انہوں نے ان کا ذکر اول دور میں کیا جنہوں نے جنگ بدر دیکھی اور اختلاف کا ذکر کیا کہ انہوں نے موت کے بعد کلام کیا اور یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کا قتل احد میں ہوا پس وہاں تناقص نہیں ہے اور جہاں تک ابو عمر  کا تعلق ہے تو اس نے ذکر کیا دور اول میں اور ان کے بیٹے زید کے لئے کہا کہ اس نے مرنے کے بعد کلام کیا ہے پس اگر یہ صحیح ہے کہ بولنے والا خارجہ بن زید تھا تو وہ شروع میں نہیں ہو سکتا اس میں شبہ نہیں ہے کہ وہ احد میں قتل ہوئے اور وہ جس نے کلام کیا وہ عثمان کے دور میں ہوا جو زید بن خارجہ تھے الله کو پتا ہے

کتاب  الاستيعاب في معرفة الأصحاب از ابن عبد البر کے مطابق

زيد بن خارجة بن زيد بن أبي زهير بن مالك، من بني الحارث بن الخزرج. روى عن النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة عليه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وهو الذي تكلم بعد الموت، لا يختلفون  في ذَلِكَ، وذلك أنه غشي عليه قبل موته، وأسري بروحه، فسجى عليه بثوبه، ثم راجعته نفسه، فتكلم بكلام حفظ عنه في أبي بكر، وعمر، وعثمان، ثم مات في حينه. روى حديثه هذا ثقات الشاميين عن النعمان بن بشير، ورواه ثقات الكوفيين، عن يزيد بن النعمان بن بشير، عَنْ أَبِيهِ. ورواه يَحْيَى بن سعيد الأنصاري، عن سعيد بن المسيب.

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بن محمد، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ابن مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بلال، عن يحيى، عن سعيد ابن الْمُسَيِّبِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَارِجَةَ الأَنْصَارِيَّ، ثُمَّ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ. تُوُفِّيَ زَمَنَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَسُجِّيَ بِثَوْبٍ، ثُمَّ إِنَّهُمْ سَمِعُوا جَلْجَلَةً فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ تَكَلَّمَ فَقَالَ: أحمد أحمد في الكتاب [الأول [1]] . صدق صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، الضَّعِيفُ فِي نَفْسِهِ، الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللَّهِ، كَانَ ذَلِكَ فِي الكتاب الأول. صدق صَدَقَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْقَوِيُّ الأَمِينُ فِي الكتاب الأول. صدق صَدَقَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَلَى مِنْهَاجِهِمْ، مَضَتْ أَرْبَعُ سِنِينَ وَبَقِيَتِ اثْنَتَانِ [2] ، أَتَتِ الْفِتَنُ، وَأَكَلَ الشديد الضعيف، وقامت الساعة، وسيأتيكم خبر بئر أريس وما بئر أَرِيسٍ [3] .  قَالَ يَحْيَى بن سعيد: قَالَ سعيد بن المسيب: ثم هلك رجل من بني خطمة فسجى بثوب فسمعوا جلجلة في صدره، ثم تكلم فَقَالَ: إن أخا بني الحارث بن الخزرج صدق صدق.

زيد بن خارجة بن زيد بن أبي زهير بن مالك، بنی حارث بن الخزرج میں سے تھے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا درود کے بارے میں اور یہ وہ ہیں جنہوں نے موت کے بعد کلام کیا اس میں اختلاف نہیں ہے اور یہ ہوا کہ ان کو غشی آئی موت سے قبل، ان کی روح اوپر گئی اور ان پر کپڑا ڈال دیا گیا  پھر ان کا نفس پلٹ آیا پس کلام کیا ابو بکر عمر اور عثمان کے بارے میں جو انھیں یاد رہا پھر اس وقت ان کی وفات ہوئی اس حدیث کو شام کے ثقات نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے اور کوفہ کے ثقات نے روایت کیا ہے يزيد بن النعمان بن بشير، عَنْ أَبِيهِ سے اور اسکو َحْيَى بن سعيد الأنصاري، عن سعيد بن المسيب سے روایت کیا ہے-  ہم کو خبر دی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ ان سے حدیث بیان کی إِسْمَاعِيلُ بن محمد نے ان سے إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ نے کہا ہم سے بیان کیا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ نے ہم سے بیان کیا عَبْدُ اللَّهِ ابن مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ نے ان سے سُلَيْمَانُ بْنُ بلال نے ان سے  يحيى نے ان سے سعيد ابن الْمُسَيِّبِ نے کہ زید بن خارجہ انصاری جو بنی حارث بن الخزرج میں سے تھے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی ان کو کپڑے سے ڈھک دیا گیا پھر ان کے سینے میں ایک کڑک ہوئی پھر یہ بولے احمد احمد جو پہلی کتاب میں ہے ، سچا سچا ابو بکر الصدیق ہے جسم میں کمزور ہے اور الله کے کام میں قوی ہے اور یہ پہلی کتاب میں ہے سچا سچا عمر ہے جو قوی ہے امین ہے پہلی کتاب میں اور سچا سچا عثمان ہے اپنے کاموں میں چار سال گزر گئے اور دو باقی ہیں فتنہ آیا اور شدت سے کھا گیا  اور قیامت قائم ہوئی ، اور تم کو بئر أريس (کا کنواں) کی خبر پہنچے گی اور بئر أريس کیا ہے ؟  – یحیی بن سعید نے کہا کہ سعید بن المسیب نے کا پھر بني خطمة میں سے ایک شخص ہلاک ہوا اس پر بھی کپڑا ڈالا گیا اس کے سینے میں کڑک ہوئی پھر بولا میرے بھائی جو بنی حارث بن ال خزرج میں سے تھا سچ کہا سچ کہا

سندا روایت مظبوط نہیں ہے کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيد بن المسيب ……ولد لسنتين مضتا من خلافة عمر رضي الله عنه

سعيد بن المسيب ،….خلافة عمر رضي الله عنه کے ختم ہونے کے دو سال پہلے پیدا ہوئے

یعنی  سعيد بن المسيب ٢١ ہجری میں پیدا ہوئے اور زید بن خارجہ المتوفی 30 ہجری کی وفات  کے وقت  سعيد بن المسيب نو سال کے تھے- روایت میں واضح نہیں کہ ان کا سماع زید بن خارجہ رضی الله عنہ سے ہوا یا نہیں

کتاب معرفة الصحابة از أبو نعيم الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) کے مطابق اس قصے کو

وَرَوَاهُ الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ وَلَمْ يُسَمِّهِ

الزُّبَيْدِيُّ نے اس کو روایت کیا ہے الزہری سے انھوں نے سعید بن المسیب سے انہوں نے انصار میں سے ایک شخص سے جس کا نام نہیں لیا

یعنی یہ منقطع روایت ہے یا مجھول شخص سے ہے

تاریخ مدینہ از ابن شبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَارِجَةَ الْأَنْصَارِيَّ، ثُمَّ مِنْ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ تُوُفِّيَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَسُجِّيَ بِثَوْبِهِ، ثُمَّ إِنَّهُمْ سَمِعُوا [ص:1106] جَلْجَلَةً فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ تَكَلَّمَ فَقَالَ: «أَحْمَدُ أَحْمَدُ فِي الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، صَدَقَ صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ الضَّعِيفُ فِي نَفْسِهِ الْقَوِيُّ فِي أَمْرِ اللَّهِ فِي الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، صَدَقَ صَدَقَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ فِي الْكِتَابِ الْأَوَّلِ، صَدَقَ صَدَقَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَلَى مِنْهَاجِهِمْ، مَضَتْ أَرْبَعٌ وَبَقِيَتْ سَنَتَانِ، أَتَتِ الْفِتَنُ وَأَكَلَ الشَّدِيدُ الضَّعِيفَ، وَقَامَتِ السَّاعَةُ، وَسَيَأْتِيكُمْ عَنْ جَيْشِكُمْ خَبَرٌ بِبِئْرِ أَرِيسَ، وَمَا بِئْرُ أَرِيسَ»

سعید بن المسیب نے کہا کہ زید بن خارجہ کی عثمان رضی الله عنہ کے دور میں وفات ہوئی پس کپڑے سے ڈھانک دیا گیا پھر ان سے سینے میں کڑک ہوئی پھر بولے احمد احمد کتاب اول میں سچ سچ ابو بکر صدیق جسم میں کمزور الله کے امر میں قوی کتاب الله میں، سچ سچ عمر قوی امین کتاب اول میں سچ سچ عثمان اپنے کاموں میں چار گزرے دو سال باقی ہیں فتنہ آیا اور کمزور کو کھا گیا اور قیامت برپا ہوئی اور عنقریب تم تک پہنچے کی خبر  اپنے لشکر کی طرف سے اریس کے کنواں کی – اریس کا کنوآں کیا ہے

روایت  کے مطابق زید بن خارجہ کو عثمان رضی الله عنہ سے مطابق فتنہ کا علم  تھا – یہ تفصیل تو کوئی ایسا ہی شخص بیان کر سکتا ہے جس نے یہ سب دیکھا ہو – تمام کتب کے مطابق زید بن خارجہ کی وفات دور عثمانی میں ہوئی

کتاب الوافي بالوفيات از صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ) کے مطابق

وتوفّي فِي حُدُود الثَّلَاثِينَ لِلْهِجْرَةِ

زید بن خارجہ کی وفات سن 30 ہجری کی حدود میں ہوئی

عثمان رضی الله عنہ کی وفات ٣٥ ہجری میں ہوئی

کیا یہ ممکن ہے کہ سن 30 ہجری میں چند ساعتوں میں غشی کے دوران زید بن خارجہ کو مستقبل میں ہونے والے اہم  حادثات کی خبر ہو گئی؟ بلا شبہ یہ کوئی گھپلا ہے-

بئر أريس  کا کیا چکر ہے؟  کچھ مبہم بات راوی نے زید بن خارجہ سے منسوب کی ہے – اس کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے – جو لوگ اس قصے کو اصلی سمجھتے ہیں ان کو اس پر غور کرنا چاہے- بئر أريس مسجد قبا کے پاس باغ میں ایک کنواں تھا اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مہر عثمان رضی الله عنہ کے ہاتھ سے گر پڑی اس کنواں کا سارا پانی نکال دیا گیا لیکن انگوٹھی نہ نکلی اس پر محمد رسول الله لکھا ہوا تھا راوی کو شاید قلق ہے کہ اس کنواں کو کیوں خشک کیا گیا

کتاب  إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع از  المقريزي (المتوفى: 845هـ) کے محقق   محمد عبد الحميد النميسي کہتے ہیں

 قال أحمد بن يحى بن جابر: نسبت إلى أريس رجل من المدينة من اليهود، عليها مال لعثمان بن عفان رضى اللَّه عنه، وفيها سقط خاتم النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم من يد عثمان، في السنة السادسة من خلافته، واجتهد في استخراجه بكل ما وجد إليه سبيلا، فلم يوجد إلى هذه الغاية، فاستدلوا بعد به على حادث في الإسلام عظيم

احمد بن یحیی بن جابر نے کہا : اس کنواں کی نسبت اریس کی طرف ہے جو مدینہ کا ایک یہودی تھا اور اس پر عثمان کا مال لگا اور کنواں میں رسول الله کی مہر عثمان کے ہاتھ سے گری ان کی خلافت کے چھٹے سال اور انہوں نے اس کو نکلالنے کا اجتہاد کیا لیکن کوئی سبیل نہ پائی اس میں کامیاب نہ ہوئے اور اس پر استدلال کیا گیا کہ یہ  اسلام کا ایک عظیم حادثہ ہے

معلوم ہوا کہ انگوٹھی زید بن خارجہ یا خارجہ بن زید کی وفات سے قبل گر چکی تھی جس  کو راوی نے ظلم سے ہتھیایا گیا کنواں قرار دیا ہے

بیہقی دلائل  النبوہ میں اس روایت پر  کہتے ہیں

فعند ذلك تغيرت عماله، وظهرت الفتن كما قيل على لسان زيد بن خارجة

پس اس انگوٹھی گرنے کے بعد سے ان کے گورنر وں میں تغیر آیا اور فتنہ ظاہر ہوا جیسا کہ زید بن خارجہ کی زبان پر ظاہر ہوا

لیکن یہ درست نہیں فتنہ تو سن ٣٥  ہجری ذی الحجہ میں ہوا اس سے قبل اس کے آثار نہ تھے اور زید 30 ہجری میں مرے

بہت سے علماء ان روایات کو میت کے شعور کی دلیل پر پیش کرتے ہیں کہ میت ابھی دفن بھی نہیں ہوتی کہ زندوں سے کلام کرتی ہے اگر ایسا ہے تو ایسا روز کیوں نہیں ہوتا ؟

اسی طرح کا ایک اور واقعہ دلائل النبوة للبیهقی میں ہے

أخبرنا أبو الحسین بن الفضل القطان ببغداد أخبرنا إسماعیل بن محمد الصفار حدثنا محمد بن علی الوراق حدثنا عبد الله بن موسى حدثنا إسماعیل بن أبی خالد عن عبد الملک بن عمیر عن ربعی بن حراش قال أتیت فقیل لی إن إخاک قد مات فجئت فوجدت أخی مسجى علیه ثوب فأنا عند رأسه استغفر له وأترحم علیه إذ کشف الثوب عن وجهه فقال السلام علیک فقلت وعلیک فقلنا سبحان الله أبعد الموت قال بعد الموت إنی قدمت على الله عز عدکما فتلقیت بروح وریحان ورب غیر غضبان وکسانی ثیابا خضرا من سندس واستبرق ووجدت الأمر أیسر مما تظنون ولا تتکلوا إنی استأذنت ربی عز وجل أن أخبرکم وأبشرکم فاحملونی إلى رسول الله فقد عهد إلی أن لا أبرح حتى ألقاه ثم طفی کما هو.

 ربعی بن حراش نے کہا میں پہنچا تو کہا گیا اپ کا بھائی مر گیا پس میں بھائی کے پاس گیا اس پر کپڑا پڑا تھا اس کے سرھاننے میں نے استغفار و رحم کی دعا کی کپڑا چہرے پر سے ہٹایا تو بھائی بولا السلام علیک میں نے بھی کہا السلام علیک بلکہ سب نے کہا سبحان الله اپ سے موت دور ہوئی – میت نے کہا موت کے بعد مجھ کو الله تعالی کے پاس لے جایا گیا وہ رحمت سے ملا – غضب ناک نہ ہوا اور مجھ و ریشم و مخمل کا لباس دیا اور میں نے اس امر کو آسان پایا جیسا تم لوگ گمان کرتے ہو … میں نے اپنے رب سے اجازت لی ہے کہ تم کو جا کر اس کی خبر کروں اور بشارت دوں
(میت فرشتوں سے مخاطب ہوئی)
پس اب مجھ کو رسول اللہ کے پاس لے چلو میں نے ان کو عہد دیا ہے کہ میں عہد نہ ٹوروں گا یہاں تک کہ تم لوگوں سے ملوں گا پھر وہ بجھ گئے جیسے تھے

طبقات ابن سعد میں  ہے

ربعى بن حراش بن جحش بن عمرو المتوفی قریب ١٠٠ ہجری ہے
ایام جاہلیت میں تھے نہ صحابی ہیں نہ رسول الله کو دیکھا

مَسْعُودُ بْنُ حِرَاشٍ أَخُو رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے

ایک بھائی کا نام  ربیع بن حراش بھی لیا جاتا ہے جو  عجلی کے مطابق كوفي تابعي   ہے

مرنے کے بعد کلام کے بہت سے قصے آج بھی سننے کو ملتے ہیں – اہل مغرب میں یہ عام ہے مثلا کوئی ایلین مخلوق کو دیکھتا ہے کوئی عیسیٰ علیہ السلام سے مل کر واپس اتا ہے  کوئی بتاتا ہے کہ وہ ایک سرنگ میں سے جا رہا تھا کہ عود روح ہوا اس کو

Near death experience

کہا جاتا ہے

 اگر آپ زید بن خارجہ والے واقعہ کو بظاہر قبول کر لیں اور الفاظ پر پر غور کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی وفات نہیں ہوئی تھی نہ ہی روح جسد سے نکلی تھی بلکہ لوگوں کو اشتباہ ہوا کہ انکی وفات ہوئی ہے

 

قرآن یقینا محفوظ ہے ٢

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں کس کس نے  جمع القرآن کیا ؟ کیا  جمع کرتے وقت کچھ آیات مفقود ہوئیں ؟

جواب

المحبر از  محمد بن حبيب بن أمية بن عمرو الهاشمي، بالولاء، أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ) کے مطابق ٦ لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن جمع کیا

سعد  بن عبيد بن النعمان بن قيس

 أبو الدرداء  عويمر بن زيد بن قيس

 ابى بن كعب بن قيس بن عبيد

 زيد  بن ثابت بن الضحاك

 معاذ  بن جبل بن عمرو

 أبو زيد  ثابت بن زيد بن النعمان ابن مالك

صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ جَمَعَ القُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: ” أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ

انس رضی الله عنہ سے قتادہ نے پوچھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں قرآن کس کس نے جمع کیا ؟ انھوں نے جواب دیا چار نے جو سب انصار میں سے تھے : أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ

جمع القرآن  تمام صحابہ کا عمل نہیں تھا کیونکہ  ہزاروں صحابہ کو قرآن یاد تھا اور سب اس کی تلاوت کرتے تھے لیکن چونکہ تمام قریشی نہیں تھے اس لئے عرب میں ہی میں تلفظ کی معمولی تبدیلی تھی مثلا جیسے اردو ہندوستان پاکستان میں بولی جاتی ہے لیکن لکھنو  میں بولی جانے والی اردو وہ نہیں جو حیدر آباد ہندوستان میں بولی جاتی ہے یا پاکستان میں یا دلی میں بولی جاتی ہے بعض تلفظ کی تبدیلی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ہو جاتی ہے لیکن اس سے مفھوم میں کوئی تبدیلی نہیں اتی – زبان میں اس لچک کی  وجہ سے قرآن کو سات حروف  پر نازل کیا گیا اور اس وجہ سے بظاہر دو قراتین الگ الگ محسوس ہوتیں لیکن ایک ہی تھیں

منسوخ القرات یا مفقود آیات؟

واضح رہے آیات کا منسوخ ہونا اور ان کا مصحف میں نہ لکھا جانا دو الگ باتیں ہیں قرآن کی بہت کی آیات منسوخ القرات ہیں لیکن حکم باقی ہے اسی طرح بہت سی منسوخ ہیں جن کی قرات کی جاتی ہے لیکن حکم باقی نہیں ہے

لیکن یہاں بحث اس پر ہے کہ کیا کچھ ایسا بھی تھا جو قرآن میں نہ لکھا جا سکا- بعض سطحی قسم کے لوگوں نے منسوخ القرات کی بات کو آیات کے مفقود ہونے سے ملا دیا جو صحیح نہیں ہے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ” لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ قَدْ أَخَذْتُ الْقُرْآنَ كُلَّهُ وَمَا يُدْرِيهِ مَا كُلَّهُ؟ قَدْ ذَهَبَ مِنْهُ قُرْآنٌ كَثِيرٌ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: قَدْ أَخَذْتُ مِنْهُ مَا ظَهْرَ مِنْهُ “

ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب اور انہوں نے نافع اور انہوں نے ابنِ عمر سے کہ انہوں نے کہا: کوئی یہ نہ کہے کہ اس نے تمام  قرآن پا لیا ہے، اور اسے کیا پتہ کہ اس کا تمام  کیا ہے، اس میں سے بہت سآ  قرآن چلا گیا ، بلکہ اسے کہنا چاہیے: میں نے اس سے (قرآن سے) وہی کچھ لیا ہے جو اس میں ظاہر ہوا ہے

اس روایت کو  إسماعيل بن إبراهيم بن مقسم الأسدي  المعروف بابن عُلَيَّة ،  أيوب بن أبى تميمة   كيسان السختياني پیدائش ٦٨ ھ –  المتوفی ١٣١ ھ –   کے واسطے سے  بیان  کر رہے ہیں – ایوب مدلس ہیں اور  اس مخصوص روایت کی تمام اسناد میں ان کا تفرد ہے اور ہر سند عن سے ہے- ظاہر ہے یہ محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں

شارحین کے مطابق  اس سے مراد قرآن کی  منسوخ القرات آیات کا ذکر ہے جن کی تعداد کا علم نہیں کیونکہ وقتا فوقتا قرآن میں سے کچھ آیات واپس لی گئیں اور ان کی قرات منسوخ کر دی گئی اور الفاظ اٹھ گئے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ لِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ: يَا زِرُّ، كَأَيِّنْ تَعُدُّ؟ أَوْ قَالَ: كَأَيِّنْ تَقْرَأُ سُورَةَ الْأَحْزَابِ؟ قُلْتُ: اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ آيَةً، أَوْ ثَلَاثًا وَسَبْعِينَ آيَةً. فَقَالَ: «إِنْ [ص:321] كَانَتْ لَتَعْدِلُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَإِنْ كُنَّا لَنَقْرَأُ فِيهَا آيَةَ الرَّجْمِ» . قُلْتُ: وَمَا آيَةُ الرَّجْمِ؟ قَالَ: (إِذَا زِنًا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ. وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ) “

زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ  کہتے ہیں  اُبی بن کعب نے مجھ سے کہا: اے زِر تم نے سورۃ الاحزاب میں کتنی آیات شمار کیں اور پڑھیں؟ میں نے کہا: بہتر یا تہتر، اس نے کہا: یہ طوالت میں سورۃ بقرۃ جتنی تھی اور ہم اس میں رجم کی آیت بھی پڑھا کرتے تھے، تو میں نے ان سے کہا: رجم کی آیت کیا ہے؟ ابی  نے کہا: (إِذَا زِنًا الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ. وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)

یعنی رجم کی آیت جس کی تلاوت منسوخ ہوئی وہ سوره الاحزاب میں تھی

الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ  کا خلیفہ المہدی کے دور میں انتقال ہوا یہ بھی مدلس تھے اور ابو داود کہتے ہیں جب صرف حدثنا کہیں اسی وقت قبول کرتے یہاں ان کا عنعنہ ہے لہذا ضعیف سند ہے-  ان کے دادا أبو أمية مولى عمر بن الخطاب تھے یعنی عمر کے آزاد کردہ غلام تھے

الألوسي کہتے ہیں وكل خبر ظاهره ضياع شيء من القرآن إما موضوع أو مؤوّل

ہر وہ خبر جس میں  قرآن میں کسی چیز کے ضائع ہونے کی بات ہے وہ گھڑی ہوئی یا  بڑھ ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کی قرآن کے حوالے سے  تین عجیب روایات

عَبد اللهِ بْن لَهِيعَة عباسی خلفاء کے منظور نظر تھے اور یہ پہلے قاضی ہیں جن پر اسلام میں رشوت لینے کا الزام ہے

سن ١٥٥ ہجری میں السفاح کے دور میں ان کو خلیفہ بنا دیا گیا یہ ایک حدیث پیش کرتے جو  كتاب الفتن از ابو نعیم میں ہے

 حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ يَدُومَ الْحِمْيَرِيُّ، سَمِعَ تُبَيْعَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: «يَعِيشُ السَّفَّاحُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، اسْمُهُ فِي التَّوْرَاةِ طَائِرُ السَّمَاءِ»

السفاح چالیس سال زندہ رہیں گے ان کا نام توریت میں آسمانی پرندہ ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ  مدلس ہے اور عن سے روایت نا قابل قبول ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کو آخری عمر میں اختلاط ہوا اس لئے اس کی روایات مطلقآ قبول نہیں کی جاتیں

ابْنِ لَهِيعَةَ نے اپنی  کتب سے روایات بیان کیں لیکن جب لوگوں کو شک ہوا تو سن ١٧٠ ہجری میں مرنے سے چار سال قبل  اس کی کتب جل گئیں

ابْنِ لَهِيعَةَ نے قرآن کے حوالے سے تین عجیب روایات بیان کیں

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ بَجَالَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، مَرَّ بِرَجُلٍ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ (النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ، وَهُوَ أَبُوهُمْ) فَقَالَ عُمَرُ: «لَا تُفَارِقْنِي حَتَّى نَأْتِيَ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ» . فَأَتَيَا أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقَالَ: «يَا أُبَيُّ، أَلَا تَسْمَعُ كَيْفَ يَقْرَأُ هَذَا هَذِهِ الْآيَةَ؟» فَقَالَ أُبَيُّ: «كَانَتْ فِيمَا أُسْقِطَ» . قَالَ عُمَرُ: ” فَأَيْنَ كُنْتَ عَنْهَا؟ فَقَالَ: شَغَلَنِي عَنْهَا مَا لَمْ يَشْغَلْكَ

عبد الغفار بن داود نے ابْنِ لَهِيعَةَ سے اور اس نے علی بن دینار سے روایت کیا اس نے بَجَالَةَ  سے روایت کیا  کہ عمر بن الخطاب ایک آدمی کے پاس سے گزرے  جو   مصحف میں پڑھ رہا تھا، النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ، وَهُوَ أَبُوهُمْ  (سورۃ احزاب آیت 6)، تو عمر نے اس سے کہا: جب تک اُبی بن کعب نہ جائیں تم مجھے چھوڑ کر مت جانا ، اور جب اُبی بن کعب آ گئے تو عمر نے ابی سے کہا: اے اُبی تم نے سنا یہ کیسے تلاوت کرتا ہے ؟ ابی نے کہا گویا کہ یہ  اس (قرآن) میں (لکھنے)  سے رہ گئی عمر نے اس شخص کو کہا تم کو یہ کہاں سے ملی؟ اس نے کہا میں اس میں مشغول رہا اور آپ اس اس میں مشغول نہیں رہے

  بَجَالَةُ بْنُ عَبَدَةَ التَّمِيمِيُّ الْبَصْرِيُّ کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے کتاب  المعرفة از بیہقی کے مطابق امام الشافعی کہتے ہیں یہ مجھول ہے

روایت آوٹ پٹانگ ہے  –  ابی بن کعب رضی الله عنہ  نے جب عثمان  رضی الله عنہ کے دور میں قرآن جمع کیا تو پھر بھی نہیں لکھا

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ الْكَلَاعِيِّ، أَنَّ مَسْلَمَةَ بْنَ مُخَلَّدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ لَهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ: أَخْبِرُونِي بِآيَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ لَمْ تُكْتَبَا فِي الْمُصْحَفِ، فَلَمْ يُخْبِرُوهُ، وَعِنْدَهُمْ أَبُو الْكَنُودِ سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، فَقَالَ مَسْلَمَةُ: (إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)

ابو عبید نے کہا کہ ہمیں ابن ابی مریم نے ابْنِ لَهِيعَةَ سے اور انہوں نے یزید بن عمرو المغافری سے اور انہوں نے ابی سفیان الکلاعی سے روایت کیا کہ مسلمۃ بن مخلد الانصاری نے انہیں ایک دن کہا: مجھے قرآن کی ایسی دو آیتیں بتاؤ جو مصحف میں نہیں لکھی گئیں تو انہوں نے اسے نہیں بتایا، ان کے ہاں ابو الکنود سعد بن مالک موجود تھا تو ابو مسلمۃ نے کہا: “(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ابی سفیان الکلاعی مجھول ہے

ابْنِ لَهِيعَةَ کہنا چاہتا ہے کہ ١٢٠ سال پہلے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں جو قرآن جمع ہوا اس میں تمام آیات نہیں لکھی گئیں خاص طور پر سوره الاحزاب پر اس کی خاص نظر ہے- اس کے مطابق اس میں ٢٠٠ کے قریب آیات تھیں اور اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو باپ کہا گیا تھا- افسوس اسی قرآن میں ہے

ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شئی علیما

اور محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے لیکن الله کا رسول ہے اور الله ہر چیز سے باخبر ہے

عَبد اللهِ بْن لَهِيعَة نے روایت میں  بتایا کہ قرآن میں اس میں تھا جو  نفس سوره سے  ہی متصادم ہے

آیت  جوروایت میں مفقود بتائی گئی ہے

(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا أَنْتُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَالَّذِينَ آوُوهُمْ وَنَصَرُوهُمْ وَجَادَلُوا عَنْهُمُ الْقَوْمَ الَّذِينَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أُولَئِكَ مَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

اس متن کی قرآن میں آیات ہیں اور ان کو ہی ملا کراس روایت میں ایک نئی آیت بنا دی گئی ہے لہذا اس روایت کا مقصد صرف موجودہ قرآن پر شک پھیلانا ہے

کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سلام از  أبو عُبيد القاسم بن سلاّم (المتوفى: 224هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ” كَانَتْ سُورَةُ الْأَحْزَابِ تُقْرَأُ فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَتَيْ آيَةٍ، فَلَمَّا كَتَبَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ لَمْ يَقْدِرْ مِنْهَا إِلَّا عَلَى مَا هُوَ الْآنَ

 ہمیں ابن ابی مریم نے ابْنِ لَهِيعَةَ  سے اور انہوں نے ابی الاسود (مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الأَسَدِيُّ الْمَدِينِيُّ) سے اور انہوں نے عروۃ بن الزبیر سے اور انہوں نے عائشہ سے کہ انہوں  نے کہا: رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  کے دنوں میں سورۃ الاحزاب پڑھی جاتی تھی اور اس میں دو سو آیتیں ہوتی تھیں مگر جب عثمان نے قرآن جمع کیا تو اس میں اتنی پر ہی قادر ہو سکے جو  اس میں اب ہیں

الانتصار للقرآن میں  أبو بكر الباقلاني المالكي (المتوفى: 403هـ) کہتے ہیں

فجوابُنا عن كل ما يردُ من هذا الجنس أنه مما كان قرآناً رُفع ونُسخت تلاوتُه، وذلك ما لا ينكره ولا يُدفعُ في الجملة أن يكون الله سبحانَه قد أنزلَ  قرآناً كثيراً ثم نسخَ تلاوتَه وإن كنَّا لا نتيقن صحة كل خبر من هذه الأخبار.

پس ہمارا جواب اس قسم کی تمام روایات پر یہ ہے ہے قرآن میں تھا جو اٹھ گیا اور اس کی تلاوت منسوخ ہوئی اور یہ ایسی بات ہے جس کا انکار نہیں ہے اور نہ ہی اس کا رد کرتے ہیں کہ الله سبحانہ نے قرآن میں بہت کچھ نازل کیا پھر اس کی تلاوت منسوخ کی  اگرچہ  ہم اس قسم کی تمام خبروں کی صحت پر یقین نہیں کرتے

اہل تشیع کے علماء میں أبو جعفر الطوسي  کتاب التبيان: 1/ 394  کہتے ہیں

قد جاءت أخبار متضافرة بأنه كانت أشياء في القرآن نسخت تلاوتها وعددها، وذكر منها أن سورة الأحزاب كانت تعادل سورة البقرة في الطول

بلا شبہ  روایات آئی ہیں کہ قرآن میں ایسی  چیزیں تھیں جن کی تلاوت منسوخ ہوئی اور ان کو گنا گیا اور ذکر کیا گیا ہے کہ سوره الاحزاب میں آیات سوره بقرہ برابر تھیں

یعنی یہ بات کہ سوره الاحزاب میں منسوخ آیات تھیں اہل تشیع کے ہاں بھی قبول کی جاتی ہے

  الخلع والحفد کی حقیقت

بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ اس نام کی سورتیں تھیں ان کا متن کیا تھا ؟ اس پر روایات میں ہے

مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يَقْنُتُ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ فِي الْفَجْرِ، غَيْرَ أَنَّهُ يُقَدِّمُ الْآخِرَةَ وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخ‍َيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ

عبد الرزاق ، حسن بن عمارہ سے وہ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ سے وہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ سے وہ علی سے روایت کرتے ہیں کہ علی نماز فجر میں ان دو سورتوں سے قنوت کرتے اور کہتے

اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخ‍َيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ

یہ دعائے قنوت ہے نہ کہ سورتیں – لیکن بعض میں اس کو دو سورتیں کہا گیا ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا قَنَتَ فِي الْفَجْرِ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ، وَلَا نَكْفُرُ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»

یہاں سند میں  عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَاهِلِيِّ کہا گیا ہے جبکہ مصنف عبد الرزاق میں سند میں  نام عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ  ہے دونوں مقام پر اس کو سورتیں کہا گیا ہے –  عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سُوَيْدٍ  مجہول ہے لگتا ہے یہ  حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ کی غلطی سے ہوا ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کو قرات کہا گیا ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، فِي قِرَاءَةِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»

مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ نے کہا  ابی بن کعب کی قرات میں تھا

سند میں جعفر بن برقان الكلابي ضعیف ہے

مصنف ابن ابی شبیہ میں ہے کہ ابن مسعود رضی الله عنہ نے دعا قنوت سکھائی

حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: عَلَّمَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ أَنْ نَقُولَ فِي الْقُنُوتِ يَعْنِي فِي الْوِتْرِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكُ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي، وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ»

طبرانی الکبیر کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ، ثنا أَبِي، ثنا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: «أَمَّنَا أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ بِخُرَاسَانَ فَقَرَأَ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ

عِيْسَى بنُ يُوْنُسَ بنِ أَبِي إِسْحَاقَ عَمْرِو بنِ عَبْدِ اللهِ الهَمْدَانِيُّ کہتے ہیں میرے باپ نے میرے دادا ابو اسحاق سے روایت کیا کہ خراسان میں أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ   المتوفی ٨٧ ھ  کی بدولت ہم ایمان لائے اور وہ وہاں دو سورتیں إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ پڑھتے تھے

واضح رہے کہ أُمَيَّةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ ایک اموی تھے جن کو خراسان پر گورنر خلیفہ عَبْدِ المَلِكِ بنِ مَرْوَانَ  مقرر کیا تھا جو شیعہ نہ تھے لیکن  اس روایت کو بیان کرنے والے ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ  شیعہ مشھور ہیں

ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ جو خود ایک کٹر شیعہ تھے ان کے مطابق ابو امیہ کے دور تک ان سورتوں کی تلاوت ہو رہی تھی – اغلبا ابو اسحاق ابو اسحاق السَّبِيْعِيُّ کو مغالطہ ہوا کہ یہ سورتیں ہیں جبکہ یہ دعا قنوت تھی جو آج تک کی جاتی ہے اور مصحف کا حصہ نہیں ہیں

مصنف عبد الرزاق  اور ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَأْثِرُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي الْقُنُوتِ … بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللَّهُمَّ إِنَّا، نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ

ابن جریج   کہتے ہیں عَطَاءٌ   کے واسطے سے وہ کہتے ہیں   عبيد بن عمير بن قتادة بن سعد أبو عاصم الليثي  کو سنا انہوں نے بیان کیا عمر نے نماز میں قنوت کیا اور . بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، پڑھ کر اللَّهُمَّ إِنَّا، نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ پڑھی – بعض کا اس پر گمان گیا کہ اگربسم الله پڑھی گئی ہے تو گویا یہ سورت ہے

بسم الله پڑھنے سے یہ قطعی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قرآن ہے یا نہیں کیونکہ بسم الله کو قرآن میں آیت سمجھ کر نہیں لکھا گیا بلکہ سنت کا طریقہ ہے تلاوت سے پہلے اس کو پڑھا جاتا تھا اس پر علماء  کا اختلاف ہے کہ کیا بسم الله سوره الفاتحہ کا حصہ ہے اور یہ اختلاف بھی صرف سوره الفاتحہ پر ہے – جمہور علماء کی رائے میں بسم الله قرآن کا حصہ نہیں ہے

روایت کو علماء صحیح کہتے ہیں لیکن وہ اس سے دلیل نہیں لیتے کہ یہ سورتیں ہیں مثلا کتاب إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل  میں البانی اس روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں

قلت: قد ثبت القنوت قبل الركوع عن عمر من عدة طرق صحيحة عنه

میں کہتا ہوں یہ ثابت ہے کہ عمر رکوع سے قبل قنوت کرتے تھے جو بہت سے صحیح طرق سے مروی ہے

سورةِ الخلْعِ کے الفاظ کہے جاتے ہیں

اللهمَّ إِنّا نَستعينُك ونَستغفرُك، ونُثْني عليكَ ولا نَكْفُرُك، ونَخلعُ ونَتركُ مَنْ يَفجرُك

سورةِ الحَفْدِ کے الفاظ کہے جاتے ہیں

اللهمَّ إِيّاك نَعْبُد، ولك نُصَلّي  ونَسجد، وإِليكَ نَسْعى ونَحْفِد، نَرجو رحمتَك ونَخشى عَذابَك، إِنَّ عذابَك  بالكفارِ مُلْحِق

کتاب البرهان في علوم القرآن از الزركشي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق

وَأَنَّهُ ذَكَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَقْرَأَهُ إِيَّاهُمَا وَتُسَمَّى سُورَتَيِ الْخَلْعِ وَالْحَفْدِ

اور ذکر کیا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم ان کی قرات کرتے تھے اور اس  کو الْخَلْعِ وَالْحَفْدِ   سوره کہا گیا ہے

اسی طرح کہا جاتا ہے ابی بن کعب کے قرآن میں ایک سو سولہ سورتیں تھیں یعنی موجودہ قرآن کے علاوہ دعائے قنوت بھی اس کے آخر میں لکھی ہوئی تھی

البرهان للزركشي

اب کوئی یہ بتائے کہ کیا یہ دعائے قنوت کوئی ایسا کلام ہے جس سے ایمانیات میں کوئی کمی اتی ہو یہ تو دعآ کے کلمات ہیں اور امت کی ایک کثیر تعداد ان الفاظ کو قنوت میں پڑھتی ہے الرزقانی  کتاب مناهل العرفان في علوم القرآن میں کہتے ہیں

وهذا الدعاء هو القنوت الذي أخذ به السادة الحنفية

اور یہ دعا ہے جو قنوت میں ہے جس کو سادات حنفیہ نے لیا ہے

 لہذا الخلع والحفد  مفقود ہیں  ایک شوشہ ضرور ہے لیکن اس شوشے میں جان نہیں ہے

ابن جوزی اپنی کتاب فنون الأفنان في عيون علوم القرآن میں لکھتے ہیں کہ

وجملة سوره على ما ذكر عن أُبي بن كعب رضي اللَّه عنه مائة  وست عشرة سورة. وكان ابن مسعود رضي اللَّه عنه يُسقط
المعوذتين، فنقصت جملته سورتين عن جملة زيد. وكان أُبي بن  كعب يُلحقهما ويزيد إليهما سورتين، وهما الحَفدة والخَلع.
إحداهما،: “اللهم إِنا نستعينك ونستغفرك … “، وهي سورة  والْأُخرى: (اللهم إياك نعبد … ) ، وهي سورة الحفد.  فزادت جملته على جملة زيد سورتين، وعلى جملة  ابن مسعود أربع سور. وكل أدى ما سمع، ومصحفنا أولى بنا أن نتبع.

اور وہ جملہ سورتیں جو ابی بن کعب کے حوالے سے ذکر کی گئی ہیں ان کی تعداد ١١٦ ہے اور ابن مسعود نے المعوذتين  کو مصحف  میں سے گرا دیا اس سے دو سورتیں کم ہوئیں جو زید بن ثابت کے پاس تھیں- اور ابی بن کعب اس میں دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور وہ ہیں : الخَلع ایک ہے  “اللهم إِنا نستعينك ونستغفرك … “ اور دوسری ہے اللهم إياك نعبد …  جو سورہ الحفد ہے پس ان پر دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور ابن مسعود اس طرح چار سورتوں کا انکار کرتے یعنی  ( المعوذتين  اور الحَفدة والخَلع کا ) … اور ہمارے لئے جو مصحف ہے ہمارے لئے اولی ہے کہ اس کی اتباع کریں

ابن قتیبة بھی اپنی کتاب تأویل مشکل القرآن میں ذکر کرتے ہیں کہ

وأما نقصان مصحف عبد الله بحذفه (أمّ الکتاب) و (المعوّذتین) ، وزیادة أبیّ بسورتی القنوت- فإنا لا نقول: إن عبد الله وو أبیّا أصابا وأخطأ المهاجرون والأنصار، ولکنّ (عبد الله) ذهب فیما یرى أهل النظر إلى أن (المعوذتین) کانتا کالعوذة والرّقیة وغیرها، وکان یرى رسول الله، صلّى الله علیه وآله وسلّم، یعوّذ بهما الحسن والحسین وغیرهما ، کما کان یعوّذ بأعوذ بکلمات الله التّامة ، وغیر ذلک، فظنّ أنهما لیستا من القرآن

ابن مسعود کے مصحف میں   کمی تھی کہ سورہ الفاتحہ محذوف تھی اور المعوّذتین اور – اور ابی بن کعب کے مصحف میں  قنوت پر دو سورتیں تھیں  تو اس پر ہم یہ نہیں کہتے کہ ابن مسعود یا ابی بن کعب  ٹھیک تھے اور باقی مہاجرین و انصار نے خطا کی لیکن ابن مسعود نے اس کو اہل نظر کی طرح دیکھا کہ سورہ فلق و الناس سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے تعوذ کیا اور دم کیا اور اسی طرح دیگر سے اور دیکھا کہ رسول الله نے حسن و حسین کو اس سے تعوذ کیا اور دیگر کو جیسے وہ أعوذ بکلمات الله التّامة سے تعوذ کرتے تھے  پس انہوں نے گمان کیا کہ قرآن سے نہیں ہیں

پھر آگے لکھتے ہیں کہ

وإلى نحو هذا ذهب أبیّ فی (دعاء القنوت) ، لأنه رأى رسول الله، صلّى الله علیه وآله وسلّم، یدعو به فی الصلاة دعاء دائما، فظن أنه من القرآن، وأقام على ظنه، ومخالفة الصحابة

اور اسی  طرح ابی بن کعب گئے اس طرف کہ دیکھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں دعا قنوت نماز میں دائمی پڑھتے تو وہ سمجھے یہ قرآن میں سے ہے اور ان کا یہ ظن برقرار رہا اور صحابہ نے اس ظن کی مخالفت کی

طرفہ تماشہ ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عثمان رضی الله عنہ نے قرآن میں سے ان سورتوں کو نکال دیا دوسری طرف بنو امیہ کے خلیفہ عبد الملک کے دور تک کہا جاتا ہے کہ ان کو پڑھا جا رہا تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مغالطہ نو مسلموں کوہوا جن کو جمع القران کی جزیات تک کا علم نہ تھا

الله ہم کو ایمان پر قائم رکھے امین