Category Archives: اسماء و صفات – Divine Names and Throne

القرآن کلام اللہ غیر مخلوق

قران   اللہ کا کلام  ہے  اور  متعدد   بار  قرآن  میں   آیات کو کلام اللہ کہا گیا  ہے – کلام اللہ تعالی   کرتا ہے  تو کسی بھی زبان میں  کر سکتا ہے –  مثلا  موسی علیہ السلام سے  کلام  کیا  تو  یا تو وہ  ال فرعون کی زبان تھی یا بنی اسرائیل کی زبان تھی  کیونکہ دونوں سے ہی موسی علیہ السلام  واقف  تھے

معتزلہ  نے یہ  موقف  لیا کہ اللہ تعالی کلام نہیں  کرتا کیونکہ  کلام  کرنا  ان کے  نزدیک انسانوں  کا یا مخلوق کا کام ہے اور   اسی طرح  حواس خمسہ والی کوئی  صفت نہیں رکھتا  یعنی  نہ وہ سنتا ہے نہ وہ دیکھتا ہے بس وہ علم رکھتا ہے  اس بنا پر انہوں نے السمیع  و البصیر  والی  آیات  کو بھی بدلنا شروع کر دیا تھا

اسی سے ملتا جلتا  موقف   آجکل  بعض  لوگوں نے باطل موقف  اپنا لیا ہے کہ  قرآن   الوحی  ہے مخلوق  ہے

اس  پر ان لوگوں  کا رد کیا  گیا  تو انہوں نے یہ شوشہ  گھڑا  کہ امام  بخاری  کا عقیدہ  یہ تھا کہ قرآن  مخلوق ہے – یہ صریح  کذب ہے اور تاریخ کو  اپنے مقصد کے  لئے  مسخ کرنا ہے اور ساتھ ہی ظاہر  کرتا ہے کہ ان لوگوں  کو اس کا علم  نہیں کہ  یہ انکشاف کسی  شارح حدیث کو بھی نہیں ہوا کہ  امام  بخاری  کا عقیدہ   قرآن کو مخلوق  کہنے  کا ہے

 – –  صدیوں  سے یہ  معروف چلا آ رہا ہے کہ امام بخاری  قرآن کو غیر مخلوق کہتے  تھے

اس بات کو تنظیم  سے چھپنے والے لٹریچر میں بھی بیان کیا گیا ہے دیکھئے واتقوا اللہ

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/09/WattaqullahQist06-part2.pdf

 

صفحہ 24 دیکھیں

اس  بات سے  کہ امام الذھلی کے نام  پر تدلیس  کی گئی ہے تو یہ ظاہر  کرتا ہے کہ صحیح  بخاری امام بخاری کی آخری  تصنیف  ہے

اور وہ بات  جس پر نیشاپور  جھگڑا ہوا  وہ  یہی تھا کہ امام بخاری کے نزدیک  قرآن  اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور  اس کی تلاوت  مخلوق ہے

امام   بخاری  نے کہیں  نہیں لکھا کہ انہوں نے اپنی پچھلی  کتب سے رجوع کر لیا ہے-  ساتھ  ہی ڈاکٹر عثمانی  کی کوئی ایسی  تحریر  و تقریر نہیں جس میں  ہو  کہ ان کی تحقیق کے مطابق  امام  بخاری  نے  اپنی  تمام کتب سے رجوع  کر لیا تھا سوائے صحیح البخاری کے – اگر ایسا  ڈاکٹر  صاحب  کا موقف  ہوتا تو  ان کے جائز نہ تھا کہ اپنی کتاب ایمان خالص دوم  میں  تاریخ الکبیر از  امام  بخاری  کے حوالے دیتے جو صحیح   البخاری سے  پہلے کی کتاب ہے

فرق  صرف اتنا ہے کہ صحیح  میں وہ روایات جو  امام بخاری کے نزدیک صحیح السند ہیں  جبکہ دیگر  کتب میں ضعیف و صحیح دونوں طرح کی ہیں –  حبل اللہ شمارہ سات میں ڈاکٹر  شفیق  کو جواب دیتے  عثمانی نے لکھا

اس  کی وضاحت ڈاکٹر صاحب  نے اس طرح کی کہ اگر امام بخاری  نے  کوئی ضعیف روایت کسی کتاب میں لکھ دی ہے  البتہ  اس پر ان کا عقیدہ ثابت   نہیں ہے تو محض سندا  روایت  بیان کرنے کی وجہ سے ان کا رد و کفر  نہیں ہو گا فتوی نہیں لگے گا – البتہ  کتاب خلق الافعال  العباد  میں   امام بخاری نے  متعدد بار  کہا ہے قرآن غیر مخلوق ہے

امام  ابو عبداللہ  البخاری  نے کہا :  قرآن کی حرکات ، اس کی آواز قرات اور اس کو حاصل کرنا اور اس کو لکھنا یہ مخلوق ہے – پس جہاں تک قرآن  متلو مبین جو مصحف میں ہے  لکھا ہوا اور مکتوب ہے اور دلوں میں ہے وہ کلام اللہ ہے خلق شدہ نہیں ہے  – اللہ تعالی نے کہا : بلکہ یہ آیات واضح ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن کو علم دیا گیا ہے

اپنی کتاب  خلق افعال  میں امام بخاری نت باب قائم کیا اور لکھا

بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ يَسْتَعِيذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ لَا بِكَلَامِ غَيْرِهِ وَقَالَ نُعَيْمٌ: «لَا يُسْتعَاذُ بِالْمَخْلُوقِ، وَلَا بِكَلَامِ الْعِبَادِ وَالْجِنِّ وَالْإِنْسِ، وَالْمَلَائِكَةِ وَفِي هَذَا دَلِيلٌ أَنَّ كَلَامَ اللَّهِ غَيْرُ مَخْلُوقٍ، وَأَنَّ سِوَاهُ مَخْلُوقٌ»

باب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے کلمات سے  پناہ مانگی  ہے  نہ کہ کسی  اور کلام سے اور نعیم  نے  کہا  مخلوق  پر نہیں ہے کہ بندوں یا جنات یا انس یا فرشتوں کے  کلام سے  پناہ طلب کرے اور یہ دلیل  ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ہے  اور اس کے سوا مخلوق ہے

اسی طرح  امام بخاری نے مزید لکھا

اور بے شک اللہ تعالی  پکارتا ہے آواز سے جس  کو دور والا بھی سنتا ہے جیسا  قریب والا سنتا ہے  اور کسی غیر اللہ کے کلام میں ایسا نہیں ہے  – امام  ابو عبد اللہ بخاری نے کہا :  اور یہ دلیل  ہے کہ اللہ کی آواز مخلوق جیسی نہیں اور فرشتے اس کی اوز سے غش  کھا  کر گر جاتے ہیں مخلوق کی آواز  ایسی نہیں

 امام بخاری  نے  کہا: اگر تیرا دعوی ہے کہ تو اللہ کا کلام لوگوں کو اس طرح سناتا ہے جیسا اللہ نے اپنا کلام موسی کو سنایا (اللہ تعالیٰ نے موسی سے کہا کہ بے شک میں تیرا رب ہوں) تو یہ رب ہونے کا دعوی ہے جبکہ تو فرق نہ کرے اپنی قرأت اور اللہ کے کلام کے درمیان

امام   بخاری  تاریخ  الکبیر  میں  لکھتے  ہیں

سَمِعَ سُفْيَانَ بْن عُيَينة، قَالَ: أدركتُ مشيختنا، منذ سبعين سنة، منهم عَمرو بْن دينار، يَقُولُون: القرآن كلام اللَّه، وَلَيْسَ بمخلوقٍ.

سَمِعَ مُعاوية بْن عَمّار، عَنْ جَعفر بْن مُحَمد، قَالَ: القرآن كلام اللهِ، لَيْسَ بمخلوقٍ

اب کسی کے نزدیک امام  بخاری  کے تمام جملے  کفر ہیں تو اس کو امام بخاری  پر فتوی دینا  ہو  گا کیونکہ الفاظ  قرآن غیر مخلوق سے رجوع   کے الفاظ امام بخاری سے منقول نہیں ہیں

راقم  کہتا ہے کہ امام  بخاری کا عقیدہ خلق قرآن کے حوالے سے  درست  منہج پر ہے اور اسی کو اہل سنت نے قبول کیا ہے – باقی اس کے مخالف  اہل سنت میں نہ کوئی گروہ رہا ہے نہ عالم گزرا ہے لہذا یہ   کہنا کہ قرآن کے منزل میں اللہ الفاظ اور الوحی  جو جبریل لائے  وہ مخلوق کا کلام ہے  جھمیہ و معتزلہ   کا مذھب  ہے

جھمی  جاہل  سعید  اور اس کے چیلے اصف  خان کو کوئی روایت  ملی ہے تو یہ  ہے

صحیح بخاری میں حدیث ہے

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ  پیروی کرنے والے میرے ہوں گے

اس روایت میں کہاں ہے کہ  قرآن  مخلوق ہے؟؟؟؟؟؟؟

پھر دوبارہ نگاہ کر تیری طرف نگاہ ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔

اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ نہیں ہے کہ منزل  من اللہ  کتاب کو مخلوق کہا جائے – پھر مزید یہ کہ  ان لوگوں کے نزدیک   خبر واحد صحیح سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا

قَالَ حُذَيْفَةُ: مَنْ احْتَجَّ بِالقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ

حُذَيْفَةُ رضی اللہ عنہ  نے کہا جس نے قرآن سے دلیل لی وہ فلاح پا گیا

راقم کہتا ہے قرآن سے دلیل پیش کی جائے  کہ قرآن  مخلوق ہے  و أمر صعب

امام أبي موسى الأشعري (المتوفى: 324هـ) کتاب الإبانة عن أصول الديانة میں کہتے ہیں

ومن قال: إن القرآن غير مخلوق، وإن من قال بخلقه كافر من العلماء، وحملة الآثار، ونقلة الأخبار، وهم لا يحصون كثرة، ومنهم: حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد
بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون، وغيرهم

اور وہ جنہوں نےکہا قرآن غیر مخلوق ہے اور اس کومخلوق  کہنے والا کافر ہے ان میں علماء ہیں جو آثار بیان کرتے ہیں اور خبریں اور ان علماء کی تعداد بے شمار ہے اور ان میں ہیں حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون اور دیگر

نہ صرف یہ کہ  امام   بخاری   کا مذھب  قرآن کو غیر  مخلوق  کہنے  کا ہے  بلکہ یہی  مذھب امام ابو حنیفہ  اور امام مالک کا بھی ہے

حنفی فقہ کی کتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق جس کا حوالہ ڈاکٹر عثمانی نے بھی دیا ہے جس کے مؤلف: زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) وہ لکھتے ہیں

الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ تَعَالَى غَيْرُ مَخْلُوقٍ وَلَا مُحْدَثٍ     قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے نہ بنایا گیا ہے

جوابا  جھمی  نے کہا

جھمی جلد ( ننگے  جمہی )    نے   یہ  اگلا  کہ  امام   بخاری  کا عقیدہ غلط  بتایا  جا رہا ہے  انہوں  نے قرآن کو نشانی  کہا ہے

جبکہ اس  جھمی جاہل کو  یہ تک معلوم نہیں کہ قرآن  کا ایک ایک جملہ  اللہ تعالی نے خود  آیت  یعنی نشانی  کہا ہے اور اس کو کلام  اللہ بھی کہا ہے اور اس کو  عربی میں  اپنا کلام  بھی کہا ہے

یقینا قرآن  ایک   معجزہ  ہے اور  اللہ کی نشانی  ہے اس کا کلام ہے –  لیکن قرآن   مخلوق ہے؟   ایسا اللہ تعالی یا اس کے رسول نے   کہیں نہیں  کہا    یہی وجہ ہے  کہ جمہی اور  معتزلی  عقائد  دنیا سے معدوم  ہوئے  کیونکہ   ان کے پاس قرآن سے کوئی دلیل نہیں   تھی  جس سے ثابت  کر سکیں  کہ    آسمان سے نازل  ہونے  والا اللہ کا کلام  مخلوق ہے

قرآن کی تو یہ صفت  ہے کہ اگر  پہاڑ  پر نازل  ہو  جاتا تو  وہ اللہ کے خوف  سے  لرز جاتا – کیا  کسی  مخلوق کا ایسا اثر  ہے پہاڑ   پر ؟  ہرگز  نہیں  یہ اللہ  تعالی کے کلام کی ہی صفت  ہے    کسی  مخلوق کی یہ صفت  نہیں

جمہی نے  کہا

سورہ الاسراء میں ارشاد  باری ہے

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْـــَٔلْ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اِذْ جَاۤءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا

اس میں کہاں  لکھا  ہے کہ یہ نشانیاں موسی  کا کمال  تھا ؟  جو بات ہی اللہ کے حکم سے ہو رہی ہو  اس کو مخلوق  کا عمل  کیسے کہا جا سکتا ہے ؟ کیا موسی علیہ السلام کے علم میں تھا کہ وہ جب چاہے نشانی لا سکتے ہیں ؟ ایسا تو خود موسی کے علم میں نہیں   جو یہ جھمی کا دعوی ہے

معجزہ  وہ نشانی  ہے جو کافر کو دکھائی  جاتی ہے  جس طرح آفاق و انفس کو بھی نشانی کہا جاتا ہے  اسی طرح یہ بھی ایک اللہ کے وجود کی نشانی ہے – بعض  جاہل جہمیوں  نے  عطائی  عقیدہ اختیار  کر لیا ہے  کہ اللہ نے اپنی  معجزہ  کرنے کی صفت یعنی  القادر میں سے کچھ حصہ  انبیاء کو دے دیا ہے – لفظ   نشانی سے جھمی  نے  یہ اخذ  کر لیا ہے کہ  انبیاء کا عمل ہے ان کا ذاتی کرشمہ ہے جو صریح جھل و افتری ہے

جاہل  جھمی  نے  نہ صرف دیدہ  دلیری سے  امام  بخاری کو  ہم عقیدہ قرار دیا اورتو اور ڈاکٹر عثمانی  پر بھی  جھوٹا الزام  لگا دیا کہ ان کا عقیدہ صحیح احادیث پر منبی نہیں تھا  – جھمی  نے کہا

در حالنکہ   ڈاکٹر  عثمانی  نے  لکھا

ڈاکٹر صاحب  نے نہ صرف  اخبار  احاد  یعنی صحیح  روایات سے دلیل لی بلکہ اس سے  برزخی جسم  کے عقیدے  کا  پرچار  بھی کیا اور اس پر صحیح مسلم کی حدیث بھی پیش کی –  قابل غور ہے کہ  جھمی نے برزخی جسم کے عقیدے  پر کافی تکرار کی تھی اور اس کوعقیدہ  ماننے سے انکار  کر دیا تھا

عقیدہ وہی ہے جس کا انسان  پرچار کرتا ہے -افسوس اس شخص نے  گمراہی  پھیلائی اور  عثمانی صاحب کو حدیث رسول کا مخالف بنا پر پیش کیا – کتنی ہی صحیح احادیث ہیں جو  سنن سعید بن منصور میں ہیں ، مسند ابو یعلی  میں ہیں لیکن اس  جھمی کے بقول  عثمانی صاحب نے ان صحیح احادیث پر اپنا عقیدہ استوار نہ کیا تھا – یہ کذب صریح ہے اور آنکھوں میں دھول جھوکنے  کے مترادف  ہے

عثمانی صاحب اگر صحیح احادیث پر عقیدہ نہیں رکھتے تھے وہ یہ نہ کہتے

کیا  خبر واحد  کا انکار کرنے والا  کافر ہے  ؟   صحیح احادیث جو  ڈاکٹر عثمانی نے اپنی کتاب میں پیش کی ہیں وہ  اخبار  احاد ہیں   – اگر ان کا انکار جائز ہے تو ان کا انکار  کرنے والے   لوگ  کافر کیسے  ہوئے ؟

اس سے قبل جھمی  نے اپنے  متعدد عقائد  کا اظہار کیا  مزید  دیکھئے

قدمونی قدمونی پر ایک نظر

عرش عظیم اور بعض محدثین کا غلو

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا

ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب  آپ کو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم  الله  سے دعا کریں  گے جو ان کی نبی کی حیثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا

ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه

محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم

اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے

معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا !   افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں-

ابن أبي يعلى کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل  وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء

ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں

القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں

ونظر أَبُو عبد اللَّه فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها

اور  ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا  اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا

کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں

وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث“.

ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ

قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ

ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو  در کر آیا ہے

سعودی مفتی  ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم بھی  کہتے ہیں کہ  مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد  نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں

قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة

فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ

جلد2 ، ص136

دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں   کہ  امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا یہ قول فضائل کی وجہ سے ہے[1]

لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول  رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے

الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے

العلو 2/1081، رقم/422

میزان الاعتدال میں الذھبی،  مجاهد بن جبر  المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات  کے ترجمے میں  کہتے ہیں

ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله  : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش

تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا

الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں  مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں

فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اللَّهَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ

پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے

مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے-

ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول  کو پسند کرتے تھے اور لوگ  ترمذی پر جرح کرتے تھے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ

هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے  انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے  انہوں نے  لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ   التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور  (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے  دور رہو اور بچو حتی کہ حق پرآجائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے

ابو بکر  الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ

اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ  کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ  ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے وہ آپ سے استدلال کرتا ہے (یعنی دلیل لیتا ہے) پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں  پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ  اپنے باتھ سے لکھیں   حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» اس سے متعلق مجاہد کہتے ہیں کہ انھیں  (نبی کو)عرش پر بٹھایا جائیگا . اس کو میں نے اپنے باپ  احمد  سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ محمّد بن فضیل ایسا ہی بیان کرتے ہیں لیکن میں یہ ان سے براہ راست نہیں سن سکا . ہارون نے کہا کہ میں نے ان یعنی عبدالله سے کہا کہ مجھے تمہارے باپ احمد سے متعلق خبر دی گئی ہے کہ انھوں نے عن رجل کے واسطے سے ابن فضیل سے لکھا ہے. عبدالله نے جواب دیا ہاں اس معامله کو لوگ ان سے ایسا  ہی بیان کرتے ہیں   

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، ثَنَا أَبُو الْهُذَيْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ يُنْكِرُهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا فِي وَقْتٍ مَا سَمِعْنَاهُ مِنَ الْمَشَايِخِ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا تُنْكِرُهُ الْجَهْمِيَّةُ، وَأَنَا مُنْكَرٌ عَلَى كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابو مَعْمَرٍ نے  أَبُو الْهُذَيْلِ سے انہوں نے محمّد بن فُضَيْلٍ سے انہوں نے لیث سے انہوں نے مجاہد سے کہا  عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا [الإسراء: 79] کہا ان کو عرش پر بٹھائے گا. عبد اللہ  (بن احمد) نے کہا میں نے اس حدیث کو ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے محدثین میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو اس کو رد کرتا ہو اور ہم اپنے الْمَشَايِخِ  سے سنتے رہے ہیں کہ اس کو سوائے الْجَهْمِيَّةُ کے کوئی رد نہیں کرتا اور میں ہر اس شخص کا منکر ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

 وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي تَرُدُّهَا الْجَهْمِيَّةُ فِي الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ، فَصَحَّحَهَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ: ” قَدْ تَلَقَّتْهَا الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُولِ، نُسَلِّمُ الْأَخْبَارَ كَمَا جَاءَتْ

اور بے شک أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ نے روایت کیا انہوں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ ان احادیث پر جن  کو الْجَهْمِيَّةُ  رد کرتے ہیں یعنی الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ  الْعَرْشِ،  وغیرہ کی پس ابو عبد اللہ نے کہا  ہم ان کو صحیح قرار دیا اور کہا علماء نے ان کو قبول کیا ہے کو تسلیم کرتے ہیں جیسی آئی ہیں

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتو فى:458ھ) کے مطابق

الْمَرُّوذِيُّ  نے اس پر باقاعدہ ایک کتاب بنام كتاب الرد عَلَى من رد حديث مجاهد  مرتب کی تھی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ مُجَاهِدٌ: «عَرَضْتُ الْقُرْآنَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَلَّالُ: قَرَأْتُ كِتَابَ السُّنَّةِ بِطَرَسُوسَ مَرَّاتٍ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ وَغَيْرِهِ سِنِينَ، فَلَمَّا كَانَ فِي سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَتِسْعِينَ قَرَأْتُهُ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، وَقَرَأْتُ فِيهِ ذِكْرَ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، فَبَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا مِمَّنْ طُرِدَ إِلَى طَرَسُوسَ مِنْ أَصْحَابِ التِّرْمِذِيِّ الْمُبْتَدِعِ أَنْكَرُوهُ، وَرَدُّوا فَضِيلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرُوا رَدَّهُ فَشَهِدَ عَلَيْهِمُ الثِّقَاتُ بِذَلِكَ فَهَجَرْنَاهُمْ، وَبَيَّنَا أَمْرَهُمْ، وَكَتَبْتُ إِلَى شُيُوخِنَا بِبَغْدَادَ، فَكَتَبُوا إِلَيْنَا هَذَا الْكِتَابَ، فَقَرَأْتُهُ بِطَرَسُوسَ عَلَى أَصْحَابِنَا مَرَّاتٍ، وَنَسَخَهُ النَّاسُ، وَسَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَهْلَ السُّنَّةِ، وَزَادَهُمْ سُرُورًا عَلَى مَا عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّتِهِ وَقَبُولِهِمْ

اور ابو بکر المروزی نے خبر دی انہوں نے امام احمد سے سنا کہ مجاہد نے کہا میں نے قرآن کو ابن عباس پر تین دفعہ پیش کیا ابن بکر الخلال کہتے ہیں میں نے کتاب السنہ کو مسجد الجامع میں طَرَسُوسَ میں پڑھا پس جب سن ٢٩٢ ھ آیا اور مقام محمود کے بارے میں پڑھا پتا چلا کہ طَرَسُوسَ میں ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں  اور رسول الله کی فضیلت کے انکاری ہیں  اور وہاں ان کا رد کرنا  ظاہر ہوا .  اس پر ثقات نے شہادت دی لہذا ان کو برا  کہا اور ان کا معاملہ (عوام پر)  واضح کیا گیا اور اپنے شیوخ کو(بھی) بغداد (خط) لکھ بھیجا پس انہوں نے جواب بھیجا جس کو طَرَسُوسَ میں اپنے اصحاب پر کئی دفعہ پڑھا  اور لوگوں نے اس کو نقل (لکھا) کیا اور الله تعالی نے اہل السنت کو بلند کیا اور ان کا سرور بڑھایا اس سے جو ان کے پاس ہے اس کی صحت و قبولیت(عامہ) پر

معلوم ہوا کہ ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس عقیدے کے انکاری تھے اور علماء بغداد اس کے اقراری

ابو بکر الخلال نے کتاب السنہ میں ترمذی کو کبھی  الْعَجَمِيُّ التِّرْمِذِيُّ     کہا   اور کبھی  الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ کہا

ترمذی کون ہے؟

ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں  اس سے مراد الجھم بن صفوان المتوفی ١٢٨ ھ ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں کیونکہ  کتاب السنہ از ابو بکر الخلال کے مطابق یہ امام احمد اور ان کے بیٹے کا ہم عصر ہے

کتاب  السنة از ابو بکر الخلال جو  دکتور عطية الزهراني  کی تحقیق کے ساتھ  دار الراية – الرياض  سے سن ١٩٨٩ میں شائع ہوئی ہے اس کے محقق کے مطابق یہ جھم نہیں

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب الزاهد أبو عبدالله محمد بن علي ابن الحسن بن بشر الحكيم الترمذي المتوفی ٣٢٠ ھ  ہیں  لیکن یہ صوفی تھے اور اس عقیدے پر تو یہ ضررور خوش ہوتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا

حکیم الترمذی کتاب نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم میں لکھتے ہیں

حَتَّى بشر بالْمقَام الْمَحْمُود قَالَ مُجَاهِد {عَسى أَن يَبْعَثك رَبك مقَاما مَحْمُودًا} قَالَ يجلسه على عَرْشه

یہاں تک کہ مقام محمود کی بشارت دی جائے گی مجاہد کہتے ہیں ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا

لہذا یہ حکیم ترمذی بھی نہیں

کتاب  السنہ از الخلال میں ہے

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو  کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا

معلوم ہوا کہ  الترمذی،  الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ )  کا ہم عصر ہے

  االْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کا   یہ    قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا؟ اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو  عجیب بات ہے کہ  اس عقیدے کے رد میں   اس زمانے  کا  کوئی محدث  بھی نہیں ملتا-

الذہبی کتاب العرش میں بلا دلیل  اپنا خیال پیش کرتے  ہیں

الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه

یہ الترمذي ،  أبو عيسى  نہیں جو  صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے  ہے  لیکن مشہور  نہیں

ہماری رائے میں یہ  اغلبا امام ترمذی محدث   ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے

 امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79]  پر  فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے

امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

اس کے آخر میں ہے

وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے  …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے

امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا  کہ ابی نضرہ  سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے

لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے  لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ: وَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْجُهَّالِ دَفْعُ الْحَدِيثِ بَقِلَّةِ مَعْرِفَتِهِ فِي رَدِّهِ مِمَّا أَجَازَهُ الْعُلَمَاءُ مِمَّنْ قَبْلَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِمَّنْ ذَكَرْتُ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، إِلَّا وَقَدْ سَلَّمَ الْحَدِيثَ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ الْخَبَرُ، وَكَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ وَسُنَّةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ الْجُهَّالِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ هُوَ الشَّفَاعَةُ لَا مَقَامَ غَيْرُهُ.

محمد بن عثمان نے کہا اور مجھ تک پہنچا کہ بعض جھلا اس (مجاہد والی) حدیث کو قلت معرفت کی بنا پر رد کرتے ہیں … اور دعوی کرتے ہیں کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام ترمذی نے كتاب التفسير اور كتاب التاريخ بھی لکھی تھیں جو اب مفقود ہیں اور ممکن ہے مجاہد کے قول پر تفسیر کی کتاب میں  جرح  بھی کی ہو

مخالفین کو اعتراض ہے کہ اس آیت کی شرح میں یہ کیوں کہا جا  رہا ہے کہ اس سے مراد صرف شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام احمد کی اقتدہ  

علی بن داود کہتے ہیں

أَمَّا بَعْدُ: فَعَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِهَدْيِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَطَعْنٌ لِمَنْ خَالَفَهُ، وَأَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي طَعَنَ عَلَى مُجَاهِدٍ بِرَدِّهِ فَضِيلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْتَدَعٌ، وَلَا يَرُدُّ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ «إِلَّا جَهْمِيُّ يُهْجَرُ، وَلَا يُكَلَّمُ وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، وَعَنْ كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذِهِ الْفَضِيلَةَ وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى هَذَا التِّرْمِذِيِّ أَنَّهُ جَهْمِيُّ خَبِيثٌ

اما بعد تمھارے لئے امام احمد بن حنبل  کی ہدایت ہے جو امام المتقین ہیں بعد والوں کے لئے اور اس پر  طعن کرو  جو ان کی مخالفت کرے اور بے شک یہ ترمذی جو مجاہد پر طعن کرتا ہے اس فضیلت والی حدیث پر….. وہ مبتد عی ہے  اور اس روایت  کو سوائے الجہمی کے کوئی رد نہیں کرتا اس کو برا کہو اس سے کلام نہ کرو اس  سے دور رہو اور میں گواہی دیتا ہوں یہ ترمذی جھمی خبیث ہے

امام احمد اس عرش پر بٹھائے جانےکے  بدعتی عقیدے  والوں کے امام تھے ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ میں ہے کہ محمد بن یونس البصری کہتے ہیں

فَمَنْ رَدَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا فَلَا يُكَلَّمُ، وَإِنْ مَاتَ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، وَقَدْ صَحَّ عِنْدَنَا أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا أَهْلُ السُّنَّةِ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَيَّنَ أَمْرُهُ، فَعَلَيْكُمْ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ، وَمَذْهَبِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ الْإِمَامُ يُقْتَدَى بِهِ

پس جو اس حدیث کو رد کرے اور اس طعن کرے اس سے کلام نہ کرو اور اگر مر جائے تو جنازہ نہ پڑھو اور یہ ہمارے نزدیک صحیح ہے کہ یہ ترمذی اس پر کلام کرتا ہے جس سے اہل سنت احتجاج کرتے ہیں اور اس شخص  کا معاملہ  واضح ہے . پس تمھارے لئے سنت اور اسکا اتباع ہے اور ابو عبدللہ امام احمد بن حنبل کا مذبب ہے جو امام ہیں جن کا اقتدہ کیا جاتا ہے 

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) کے مطابق

وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش …….ہ 

اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ  أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد  نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ  بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا 

یہ قسم اٹھانے کا اس وقت کا انداز تھا کہ اس عقیدے پر اتنا ایمان تھا کہ تین طلاق تک کی قسم کھائی جا رہی ہے

 مشہور  امام أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَأَمَّا حَدِيثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَفْسِيرُهُ لِهَذِهِ الْآيَةِ: أَنَّهُ يُقْعِدُهُ [ص:1613] عَلَى الْعَرْشِ , فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ , وَقَبِلُوهَا بِأَحْسَنِ قَبُولٍ , وَلَمْ يُنْكِرُوهَا , وَأَنْكَرُوا عَلَى مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ إِنْكَارًا شَدِيدًا وَقَالُوا: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوءٍ قُلْتُ: فَمَذْهَبُنَا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ قَبُولُ مَا رَسَمْنَاهُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ , وَقَبُولُ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ , وَتَرْكُ الْمُعَارَضَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ فِي رَدِّهِ , وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ لِكُلِّ رَشَادٍ وَالْمُعِينُ عَلَيْهِ , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ جَمَاعَةٌ

الآجُرِّيُّ کہتے ہیں جہاں تک مجاہد کی نبی صلی الله علیہ وسلم کی تفضیل سے متعلق روایت ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ بے شک ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس کو اہل علم اور حدیث کو نقل کرنے والے لوگوں (یعنی محدثین) کے شیوخ نے قبول کیا ہے بہت بہترین انداز سے اور حسن قبولیت دیا ہے اور انکار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا انکار کیا ہے جو مجاہد کی حدیث کو رد کریں شدت کے ساتھ اور کہا ہے کہ جو مجاہد کی حدیث قبول نہ کرے وہ برا آدمی ہے میں کہتا ہوں پس ہمارا مذھب یہی ہے الحمدللہ …..جو ایک جماعت نے روایت کیا ہے 

الآجُرِّيُّ  کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب ابن تیمیہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے انکے من پسند اہل علم مجاہد کے اس قول کو قبولیت کا درجہ دے چکے تھے

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي، سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود کے بیٹے أبوبكر بن أبي داود عبدالله بن سليمان بن الأشعث السجستاني (ت316هـ)  کے شاگرد ہیں

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا  لیکن الذھبی نے یہ مانا کہ امام ابو داود اس کو تسلیم کرتے تھے دوسری طرف ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ سے واضخ ہے امام ابوداود اور ان کے  استاد امام احمد دونوں اس  قول کو مانتے تھے

الذہبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں لکھتے ہیں

فَمِمَّنْ قَالَ أَن خبر مُجَاهِد يسلم لَهُ وَلَا يُعَارض عَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري الْحَافِظ وَيحيى بن أبي طَالب الْمُحدث وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل السّلمِيّ التِّرْمِذِيّ الْحَافِظ وَأَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عبد الْملك الدقيقي وَأَبُو دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث السجسْتانِي صَاحب السّنَن وَإِمَام وقته إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق الْحَرْبِيّ والحافظ أَبُو قلَابَة عبد الْملك بن مُحَمَّد الرقاشِي وحمدان بن عَليّ الْوراق الْحَافِظ وَخلق سواهُم من عُلَمَاء السّنة مِمَّن أعرفهم وَمِمَّنْ لَا أعرفهم وَلَكِن ثَبت فِي الصِّحَاح أَن الْمقَام الْمَحْمُود هُوَ الشَّفَاعَة الْعَامَّة الْخَاصَّة بنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

 الكتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از المؤلف: عبد العزيز بن فيصل الراجحي
الناشر: مطابع الحميضي – الرياض الطبعة: الأولى، 1424 هـ

میں مولف ، الذہبی کی یہی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں

وأثبتها أيضا أئمة كثير، غير من سمى الذهبي هنا، منهم:. محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد.
. والإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) ، إمام أهل السنة قاطبة.
. وعبد الله بن أحمد بن حنبل الحافظ (ت 290 هـ) .
اور اس کو مانا ہے ائمہ کثیر نے جن کا نام الذہبی نے نہیں لیا ان میں ہیں محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد  اور  لإمام  الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ)  اور عبدللہ بن احمد بن حنبل

 صالح بن فوزان  ، عبد العزیز بن فیصل  کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک  عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا  بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے  

ابن قیم کتاب  بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور کے اشعار  لکھتے ہیں

قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.

ابن قیم  امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں  اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں

وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه

حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده

معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کو الْجَهْمِيَّةُ  کہتے تھے

ہمارے نزدیک یہ عقیدہ  کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے-

افسوس الذھبی کے بعد بھی اس عقیدے کو محدثین نے قبول کیا مثلا

شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ  کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں

 وعن رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من قال اللهم صل على محمد وأنزله المقعد المقرب عندك يوم القيامه وجبت له شفاعتي

رواه البزار وابن أبي عاصم وأحمد بن حنبل وإسماعيل القاضي والطبراني في معجميه الكبير والأوسط وابن بشكوال في القربة وابن أبي الدنيا وبعض أسانيدهم حسن قاله المنذري

 اور رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو کہے اے الله محمّد پر رحمت نازل کر اور روز محشر ان کو پاس بیٹھنے والا مقرب بنا، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی

اس کو   البزار اورابن أبي عاصم اورأحمد بن حنبل اورإسماعيل القاضي اورالطبراني نے معجم الكبير اورالأوسط میں اور ابن بشكوال نے القربة میں اور ابن أبي الدنيا نے روایت کیا ہے اور المنذري کہتے ہیں  اس کی بعض اسناد حسن ہیں

 اس کے بعد السخاوي تشریح کرتے ہیں

والمقعد المقرب يحتمل أن يراد به الوسيلة أو المقام المحمود وجلوسه على العرش أو المنزل العالي والقدر الرفيع والله أعلم

اور قریب بیٹھنے والا ہو سکتا ہے اس سے مراد الوسيلة ہو یا المقام المحمود یا عرش پر بٹھایا جانا ….

السخاوي اگر ان الفاظ کی تشریح نہیں کرتے تو ہم سمجھتے کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہ ہو -لیکن جس طرح انہوں نے اس کی تشریح کی ہے اس سے ظاہر ہے ان کا عقیدہ بھی اس پر تھا

ابن کثیر کتاب النهاية في الفتن والملاحم  میں لکھتے ہیں

وَقَدْ رَوَى لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، وَأَبُو يَحْيَى الْقَتَّاتُ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَ فِي تَفْسِيرِ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ: إِنَّهُ يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَرُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن سلام، وجمع فيه أبو بكر المروزي جزءاً كبيراً، وحكاه هو وغيره وغير وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ كَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ وَخَلْقٍ وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَهَذَا شَيْءٌ لَا يُنْكِرُهُ مُثْبِتٌ وَلَا نَافٍ، وَقَدْ نظمه الحافظ أبو الحسن الدارقطني في صيدة لَهُ.
قُلْتُ: وَمِثْلُ هَذَا لَا يَنْبَغِي قَبُولُهُ إلا عن معصوم، ولم يثبت فيه حَدِيثٌ يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وَلَا يُصَارُ بِسَبَبِهِ إِلَيْهِ، وقول مجاهد في هذا المقام ليس بحجة بمفرده، وَلَكِنْ قَدْ تَلَقَّاهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ بالقبول

ابن کثیر کہتے ہیں میں کہتا ہوں مجاہد کا منفرد قول حجت نہیں لیکن اس کو اہل حدیث نے قبول کیا ہے

عصر حاضر میں  مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں

وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته  وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه

اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی  صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

 الله ہم سب کو غلو  سے بچائے

مخالفین کا جواب 

راقم کی اس تحریر کا جواب لوگوں نے دینے کی کوشش کی ہے جس میں اس فرقے کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کہ عرش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کو بٹھایا جائے گا لیکن یہ بات حق ہے کہ اس غلط عقیدے کو  محدثین نے  قرن دوم و سوم میں  قبول کر لیا تھا – قرن دوم میں اس عقیدے کو رد کرنے والے صرف  جھمی  تھے  – قرن دوم میں کوئی محدث نہیں تھا جو  اس عقیدے کو رد   کرتا ہو

راقم کا جوابا کہنا ہے کہ اگر کوئی محدث اس عقیدے کو رد نہیں کرتا تھا تو اس کو  آٹھویں صدی میں جا کر ابن تیمیہ  کی جانب سے  رد کیوں  کیا گیا ؟ الذھبی  نے بھی رد کیا –  البانی نے بھی رد کیا – لیکن سعودی عرب کے بعض چوٹی کے مفتیان کا عقیدہ ابھی تک اسی عقیدے پر ہے –  مزید یہ کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ   ترمذی جو اس عقیدے کو رد کر رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں محدث امام ترمذی ہی   تھے جن کوقرن دوم میں  جھمی کہا جا رہا تھا – اغلبا یہی وجہ رہی کہ امام ابن حزم کے نزدیک امام ترمذی ایک مجہول تھے

—————————————

[1] http://islamqa.info/ur/154636

نوٹ

ابن تیمیہ کے نزدیک امام ترمذی کے اقوال جھمیوں جیسے ہیں

امام ترمذی سنن میں ایک حدیث بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الحَدِيدِ میں لکھتے ہیں

وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ. عِلْمُ اللهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى العَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.

بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کی ہے کہ وہ کہتے ہیں اللہ کا علم نیچے اتا ہے اور اس کی قدرت و سلطان اس کا علم قدرت و حکومت ہر مقام پر ہے اور وہ عرش پر ہے جیسا اس کی صفت کتاب میں ہے

ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں کہ ترمذی نے کہا

فَحَكَى التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَعْنَى يَهْبِطُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ، وَمُرَادُهُ عَلَى مَعْلُومِ اللَّهِ وَمَقْدُورِهِ وَمُلْكِهِ، أَيِ انْتَهَى عِلْمُهُ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ إِلَى مَا تَحْتَ التَّحْتِ، فَلَا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ.

 ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا تَأْوِيلُ التِّرْمِذِيِّ وَغَيْرِهِ بِالْعِلْمِ فَقَالَ شَيْخُنَا: هُوَ ظَاهِرُ الْفَسَادِ مِنْ جِنْسِ تَأْوِيلَاتِ الْجَهْمِيَّةِ

اور جہاں تک ترمذی اور دوسروں کی تاویل کا تعلق ہے تو شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں وہ ظاہر فساد ہےاور جھمیہ کی
تاویلات کی جنس میں سے ہے

میں نے نور دیکھا یا وہ نور ہے کیسے دیکھتا

یہ مضمون کتاب لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ سے لیا گیا ہے

[wpdm_package id=’8843′]

==========================================================

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا

اَللّهُ نُـوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ مَثَلُ نُـوْرِهٖ كَمِشْكَاةٍ فِيْـهَا مِصْبَاحٌ ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِىْ زُجَاجَةٍ ۖ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّـهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُـوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَكَادُ زَيْتُـهَا يُضِيٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّوْرٌ عَلٰى نُـوْرٍ ۗ يَـهْدِى اللّـٰهُ لِنُـوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللّـٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ (35)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے، قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو، روشنی پر روشنی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

اس آیت   کے  ابتدائی حصے کو لے کر اور اس  کے آگے کے متن کو صرف نظر کر کے دعوی کیا جاتا ہے کہ الله تعالی  نور ہے  – نور اس کی صفت ہے –

آیت میں الله تعالی کو نور  ، نور ہدایت کے معنوں میں کہا گیا ہے نہ کہ ان معنوں میں کہ وہ نور ہے –   اگر الله نور ہے تو النور  الله کا نام بن جائے گا  یہ بات مسئلہ الصفات میں بالکل  واضح قبول کی جاتی ہے – الله تعالی  کے  نام  ننانوے  ہیں  جس کی خبر حدیث میں ہے اور یہ قرآن و حدیث سے لئے جاتے ہیں – ان میں النور کو الله کا نام  نہیں کہا  جا سکتا  کیونکہ  الله تعالی نے خبر دی کہ نور اس کی مخلوق ہے-   سورہ الانعام میں ہے

اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُـمَاتِ وَالنُّوْرَ ۖ ثُـمَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّـهِـمْ يَعْدِلُوْنَ (1)

سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اور اجالا بنایا، پھر بھی یہ کافر اوروں کو اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ نور  تو اللہ  تعالی کی مخلوق ہے اسی کو ہم  دیکھ رہے ہیں –  اگ جلتی ہے تو نور نکلتا ہے – نور سورج سے چاند سے نکلتا ہے  لہذا اس کی کیفیت معلوم ہے مجہول نہیں ہے – سورہ نور کی آیت میں سمجھا کر بتایا گیا ہے کہ الله کا نور      ایسا ہے جیسا زیتون کا خالص  تیل  ہو جو     جب   بطور ایندھن        جلتا  ہے تو اس میں سے (رات)  میں کرنیں  پھوٹتی ہیں تو ماجول   منور ہو جاتا ہے، اسی طرح کفر کے ظلمات  میں ایمان کا نور  جگمگاتا ہے  اور اس کا رسول  سراجا منیرا ہے   یعنی ایک  چمکتا چراغ-

آیت میں الله نے اپنے نور کی مثال زیتون کے جلتے تیل سے دی ہے-  یہ مثال الله کی ذات کے لئے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود فرما دیا

لیس کمثلہ شی
اس کی مثال کوئی چیز نہیں

لہذا زیتون  کا  جلتا تیل الله   تعالی کے  نور ذات کو بیان نہیں کر رہا     اس کے نور ہدایت کو بیان کر رہا ہے-  اس کو   اردو اور عربی میں تشبیہ دینا کہا جاتا ہے-

الله مسلسل ہدایت دے رہا ہے اور اسی کو نور کہا گیا ہے کہ مومن کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے آتا ہے- الله تعالی کے  ننانوے  نام ہیں ان کو اسماء الحسنی کہا جاتا ہے اور یہی حدیث میں ہے –  اور قرآن میں بھی اسماء الحسنی سے مانگنے کا ذکر ہے-  لہذا اسماء الحسنی   ننانوے  سے اوپر نہیں ہیں-   جو بھی الله کا نام ہے وہ الله کے لئے خاص ہے اور کسی اور کا نہیں ہو سکتا-    البانی کا   کہنا ہے کہ اس   پر کوئی صحیح حدیث نہیں کہ النور الله کا اسم ہو [1]

لا أعلم أن (النور) من أسماء الله عز وجل في حديث صحيح[2]

میں نہیں جانتا کہ کسی صحیح حدیث میں النور کو الله   تعالی  کا   اسماء  الحسنی  میں  ذکر کیا گیا ہو

صحیح مسلم ،  ابن ماجہ، مسند احمد  میں ہے

حِجَابُهُ النُّورُ، لَوْ كَشَفَهَا لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ كُلَّ شَيْءٍ أَدْرَكَهُ بَصَرُهُ

النور اس کا حجاب ہے اگر وہ اس  النور کو اٹھادے تو اس کے    وَجْهِهِ   کا        (جمال   یا )  جلال و عظمت[3]  اس سب کو جلا دیں گی جہاں تک الله تعالی کی نگاہ جائے

 یعنی تمام مخلوق بھسم ہو جائے گی-معلوم ہوا کہ النور نام نہیں کیونکہ یہ حجاب عظمت کا نام ہے-

صحیح مسلم میں ہے کہ نور اللہ کا حجاب ہے تو ظاہر ہے الله کا نور اور اس کا حجاب ایک نہیں ہیں-

صحیح مسلم کی ایک مضطرب المتن روایت کا ذکر 

صحیح مسلم کی ایک اور حدیث ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»

ابو ذر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ رسول الله نے فرمایا میں نے ایک نور دیکھا

سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف حجاب کو دیکھا البتہ    اس روایت کی دو سندیں ہیں ایک میں عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِيُّ ضعیف الحَدِيث ہے –   ابن عدی الکامل میں روایت پیش کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا مُحَمد بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنا عُمَر بن حبيب، حَدَّثَنا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَن أَبِي ذَرٍّ، قالَ: قُلتُ يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ قَالَ كَيْفَ أَرَاهُ، وَهو نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ.

وَهَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ خَالِدٍ الحذاء غير محفوظ.

کہتے ہیں یہ روایت خَالِدٍ الحذاء کی سند سے غیر محفوظ ہے-  اس روایت کے دوسرے طرق میں يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي ہے اور اس طرق سے امام مسلم نے صحیح میں اس کو نقل کیا ہے-  کتاب ذخيرة الحفاظ از ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کے مطابق

حَدِيث: نور أَنى أرَاهُ. رَوَاهُ يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي: عَن قَتَادَة، عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: قلت لأبي ذَر: لَو رَأَيْت رَسُول الله لسألته، قَالَ لي: عَمَّا كنت تسأله؟ قَالَ: كنت أسأله: هَل رأى ربه عز وَجل؟ فَقَالَ: قد سَأَلته، فَقَالَ: نور أريه مرَّتَيْنِ أَو ثَلَاثًا. وَهَذَا لم بروه عَن قَتَادَة غير يزِيد هَذَا، وَلَا عَن يزِيد غير مُعْتَمر بن سُلَيْمَان، وَكِلَاهُمَا ثقتان، وَحكي عَن يحيى بن معِين أَنه قَالَ: يزِيد فِي قَتَادَة لَيْسَ بذلك وَأنكر عَلَيْهِ رِوَايَته: عَن قَتَادَة عَن أنس.

حدیث میں نے نور دیکھا اس کو يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي نے قتادہ سے انہوں نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا ہے کہا ہے میں نے ابو ذر سے پوچھا کہ اگر رسول الله کو دیکھتا تو پوچھتا ؟ انہوں نے کہا کیا پوچھتے ؟ میں نے کہا پوچھتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ؟ ابو ذر نے کہا میں نے پوچھا تھا پس کہا میں نے دو یا تین بار نور دیکھا اور اس کو روایت نہیں کیا قتادہ سے مگر یزید نے اور یزید سے کسی نے روایت نہیں کیا سوائے معتمر بن سلیمان کے اور یہ دونوں ثقہ ہیں اور یحیی بن معین سے حکایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا یزید قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا اچھا نہیں ہے اور اس کی روایات کا انکار کیا جو قتادہ عن انس سے ہوں

ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں الذھبی کہتے ہیں     قال القطان ليس بذاك

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں  وَقَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: هُوَ فِي قَتَادَةَ لَيْسَ بِذَاكَ   ابن معین کہتے ہیں قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا (اچھا) نہیں ہے

ميزان الاعتدال في نقد الرجال میں الذھبی اس نور والی روایت کا يزيد بن إبراهيم کے ترجمہ میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں اس کا اور معتمر کا تفرد ہے

محمد بن وزير الواسطي، حدثنا معتمر بن سليمان، عن يزيد بن إبراهيم، عن قتادة، عن عبد الله بن شقيق، قال: قلت لأبي ذر: لو رأيت النبي صلى الله عليه  وسلم لسألته: هل رأى ربه؟ فقال: قد سألته فقال لي: نور إني أراه مرتين أو ثلاثا تفرد به عن قتادة وما رواه عنه سوى معتمر

صحیح مسلم کی جیسی سند سے اس روایت کی تخریج  ابن خزیمہ نے اپنی کتاب التوحید میں بھی کی ہے وہاں اس کو ذکر کیا

حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: ثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، قَالَ: عَمَّا كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُهُ، قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»  قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي الْقَلْبِ مِنْ صِحَّةِ سَنَدِ هَذَا الْخَبَرِ شَيْءٌ، لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِنَا مِنْ عُلَمَاءِ أَهْلِ الْآثَارِ فَطِنَ لِعِلَّةٍ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْخَبَرِ، فَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَقِيقٍ، كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُثْبِتُ أَبَا ذَرٍّ، وَلَا يَعْرِفُهُ بِعَيْنِهِ وَاسْمِهِ وَنَسَبِهِ  لِأَنَّ أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى ثَنَا قَالَ: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى غَرَائِرَ سُودٍ، يَقُولُ: «لِيَبْشِرْ أَصْحَابُ الْكُنُوزِ بُكْرَةً فِي الْحَيَاةِ وَالْمَوْتِ» فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، صَاحِبُ رَسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ يَذْكُرُ بَعْدَ مَوْتِ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَقُولُ هَذِهِ الْمَقَالَةَ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى غَرَائِرَ سُودٍ، خُبِّرَ أَنَّهُ أَبُو ذَرٍّ، كَأَنَّهُ لَا يُثْبِتُهُ وَلَا يَعْلَمُ أَنَّهُ أَبُو ذَرٍّ –  وَقَوْلُهُ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» ، يَحْتَمِلُ مَعْنَيَيْنِ: أَحَدُهُمَا نَفْيٌ، أَيْ: كَيْفَ أَرَاهُ، وَهُوَ نُورٌ، وَالْمَعْنَى الثَّانِي أَيْ: كَيْفَ رَأَيْتَهُ، وَأَيْنَ رَأَيْتَهُ، وَهُوَ نُورٌ، لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ إِدْرَاكَ مَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ، كَمَا قَالَ عِكْرِمَةُ: «إِنَّ اللَّهَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ لَا يُدْرِكُهُ شَيْءٌ» وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ الثَّانِي: أَنَّ إِمَامَ أَهْلِ زَمَانِهِ فِي الْعِلْمِ وَالْأَخْبَارِ: مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ ثَنَا بِهَذَا الْخَبَرِ قَالَ

حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ،: قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ،….  فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ نُورًا»

 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى، وَقَالَ: «نُورًا أَنَّى أَرَاهُ»

 حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، أَيْضًا، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: ثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ….: «نُورًا أَنَّى أَرَاهُ

كَذَا قَالَ لَنَا بُنْدَارٌ» أَنَّى أَرَاهُ “، لَا كَمَا قَالَ أَبُو مُوسَى، فَإِنَّ أَبَا مُوسَى قَالَ: «أَنَّى أَرَاهُ

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ نے کہا ایک شخص نے ابو ذر رضی الله عنہ سے    کہا   کہ  اگر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کو دیکھتا تو ان سے سوال کرتا- ابو ذر نے پوچھا کیا سوال کرتے ؟  کہا  میں سوال کرتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟  ابو ذر نے کہا میں نے یہ سوال کیا تھا  تو انہوں نے کہا    نور میں نے دیکھا  (نور ،  میں کیسے دیکھتا )-    أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة   (المتوفى: 311هـ) نے کہا  دل میں اس سند کی صحت  پر کوئی چیز  (کھٹکتی ) ہے-     اہل اثار    یا محدثین  علماء  میں سے   جو ہمارے اصحاب میں سے ہیں کسی کو نہ دیکھا    جو  اس   خبر کی سند کی علت  پر  جانتے ہوں   کیونکہ    عبد الله بن شقیق   کی روایت ابو ذر  سے مضبوط نہیں ہے   اور نہ یہ     آنکھ سے دیکھا گیا ہے   نہ نام و نسب سے جانا جاتا ہے  – کیونکہ أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى ثَنَا قَالَ: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ  نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا کہ   میں مدینہ پہنچا تو  ایک شخص   کالے خیمہ میں  کھڑا    کہہ رہا تھا     خزانوں   کے اصحاب کو بشارت دو   کہ   زندگی کی صبح   ہے اور موت ہے – پس  (لوگوں  نے ) کہا یہ ابو ذر  ہیں  صاحب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  –   ابن خزیمہ نے کہا پس عبد الله بن شقیق نے   ابو ذر کی موت   کے بعد    کا ذکر کیا   کہ اس نے ایک شخص  کو     کالے خیمہ   میں   کچھ کہتے سنا     ،  خبر دی یہ ابو ذر  تھے   ،  گویا یہ اس کو    بات   ثابت نہیں کہتے  اور   نہ   یہ  جانتے تھے کہ ابو ذر کون ہیں-   پھر اس کا یہ قول   بھی ذو معنی  ہے  ایک   میں نفی ہے   یعنی  اس کو کیسے دیکھتا   وہ نور ہے  اور دوسرا معنی  ہے   اس کو   کیسے کہاں دیکھ پاتا   وہ نور ہے  – …. دوم :   امام اہل زمانہ   علم و اخبار امام بندار نے     اس حدیث پر کہا

    مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ   نے روایت کیا ہے   ….     میں نے   نور دیکھا

اور يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ   نے  أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى     کی طرح روایت کیا ہے ….. میں نے نور دیکھا

اور عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ  نے روایت کیا ہے  …..   نور ہے میں کیسے دیکھتا

اسی طرح بندار نے کہا  اور وہ نہیں کہا جو  أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى       نے روایت کیا ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَبَهْزٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ بَهْزٌ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: لَوْ أَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهُ. قَالَ: عَنْ أَيِّ شَيْءٍ؟ قُلْتُ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» يَعْنِي عَلَى طَرِيقِ الْإِيجَاب. (حم)

21392

فرمایا   نور ہے، کیسے دیکھتا !  یعنی  قبول و ایجاب کے انداز میں کہا

 اس  روایت کا متن مضطرب تو ہے ہی  عبد الله بن شقیق کا ابوذر  رضی الله عنہ سے ملنا بھی مشکوک ہے  کیونکہ یہ دور عمر  رضی الله عنہ کا وقوعہ  بیان کیا گیا ہے

مسند البزار میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: نَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى غَرَايِرَ سُودٍ يَقُولُ: ” أَلَا أُبَشِّرُ أَصْحَابَ الْكُنُوزِ بِكَيٍّ فِي الْجِبَاهِ وَالْجُنُوبِ، فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيق   نے کہا  میں مدینہ  پہنچا   تو  ایک شخص   کالے خیمہ میں  کھڑا    کہہ رہا تھا   خبر دار   میں    خزانوں   کے اصحاب کو بشارت   نہ دوں     وہ   اپنے آگے   اور پہلو پر روئیں  گے  – پس  (لوگوں  نے ) کہا یہ ابو ذر  ہیں  صاحب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  –

سنن الکبری البیہقی میں ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُؤَمَّلِ، ثنا أَبُو عُثْمَانَ عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَصْرِيُّ , ثنا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ أنبأ يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَجُلٌ طَوِيلٌ أَسْوَدُ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ عَلَى أِيِّ حَالٍ هُوَ الْيَوْمَ , قَالَ: قُلْتُ: أَصَائِمٌ أَنْتَ؟ قَالَ: ” نَعَمْ ” وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ الْإِذْنَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَدَخَلُوا فَأُتِينَا بِقِصَاعٍ فَأَكَلَ فَحَرَّكْتُهُ أُذَكِّرُهُ بِيَدِي فَقَالَ: ” إِنِّي لَمْ أَنْسَ مَا قُلْتُ لَكَ أَخْبَرْتُكَ أَنِّي صَائِمٌ إِنِّي أَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَأَنَا أَبَدًا صَائِمٌ “

عبد الله بن شقیق نے کہا  میں مدینہ پہنچا وہاں ایک بہت لمبا آدمی دیکھا جو کالا  تھا  میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟  کہا  گیا ابو ذر  میں نے اس سے کہا  میں دیکھ رہا ہوں کہ آج تم  (ابو ذر ) کس حال میں ہو –  کہا  میں نے کہا  : کیا روزے سے ہو ؟   ابو ذر  نے کہا  ہاں   اور وہ عمر  رضی الله عنہ کی آواز    کا انتظار کر رہے تھے پس ایک  کھانا آیا  اس کو کھایا … پھر کہا   میں تم کو نہیں جانتا  میں نے تم کو جو کہا اس کی خبر دیتا ہوں میں روزے سے تھا میں ہر مہینہ کے   تین دن روزہ رکھتا ہوں پس میں ہمیشہ روزے سے ہوں

طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے

كُنَّا جُلُوسًا بِبَابِ عُمَرَ وَمَعَنَا أَبُو ذَرٍّ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ أَذِنَ عُمَرُ، فَأُتِيَ بِالْعَشَاءِ، فَأَكَلَ

ہم سب مل کر عمر  کے گھر کے باب پر پہنچے اور ابو ذ ر ساتھ تھے – انہوں نے کہا میں روزے سے ہوں  پھر عمر  نے ان کو اجازت دی    تو رات کا کھانا  کھایا –

اس کلام میں کس قدر اضطراب ہے کہ عمر  رضی الله عنہ جن کے دور میں اصحاب رسول فارغ البال  تھے مدینہ میں غلاموں کی کثرت تھی اس دور میں ابو ذر  کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا ؟  یا للعجب

پھر  جندب بن جنادة    ابو ذر غفاری  رضی الله عنہ  سے عبد الله بن شقیق  دور عمر میں مدینہ میں ملے تو ان کا سماع کثیر اصحاب رسول سے کیوں نہیں ہے ؟   تاریخ الکبیر از امام بخاری میں ہے

قال عَبّاس بن الوَلِيد: حدَّثنا عَبد الأَعلى  ، حدَّثنا الجُرَيرِيّ، عَنْ عَبد اللهِ بْنِ شَقِيق، قَالَ: جاورتُ أبا هُرَيرةَ سَنَةً.

عبد الله بن شقیق نے کہا میں نے ابو ہریرہ کے ساتھ ایک سال گزارا

جب  عبد الله بن شقیق نے دور   عمر  پا لیا تو   خود عمر  رضی الله عنہ سے ان کی روایت کی تعداد اتنی کم کیوں ہے جبکہ انہوں نے مدینہ میں ایک سال  گزارا ہے  جو کوئی کم مدت نہیں ہے –  عبد الله  بن  شقیق  نے نہ تو عثمان      رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے نہ علی       رضی الله عنہ   سے نہ ابو سعید الخدری       رضی الله عنہ  سے نہ جابر بن  عبد الله     رضی الله عنہ سے

 محدثین میں   بعض کی رائے عبد الله بن شقیق پر منفی ہے –

العقيلي نے  عبد الله بن شقیق کا شمار  الضعفاء  میں کیا ہے   اور  خبر دی کہ

  كَانَ التَّيْمِيُّ سَيِّءَ الرَّأْيِ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ

 سُلَيْمَانُ   بن طرخان    التّيميّ   کی    عبد الله بن شقیق پر    بری  رائے تھی

اس بحث سے معلوم ہوا کہ صحیح مسلم کی اس حدیث میں محدثین نے کلام کیا تھا    اور اس روایت کے متن میں اضطراب ہے یہاں تک کہ عبد اللہ بن شقیق کی ابو ذر سے ملاقات ہوئی بھی یا نہیں اس پر بھی  شک  ہے

لہذا    اول تو یہ روایت صحیح   نہیں ہے پھر دوسری    حدیث   جو  صحیح ہے اس میں حجاب کو نور کہا گیا ہے

النور اسماء الحسنی میں  مانا جائے ورنہ  اللہ تعالی کی صفات محدود ہو جائیں گی ؟ 

کہا  جاتا ہے کہ اگر ہم کہیں کہ نام صرف ننانوے ہیں  یا  اسماء الحسنی محدود ہیں جو ہمارے علم میں ہیں یا آپ کے علم میں ہیں تو اس سے صفات بھی محدود ہو  جائیں گی  اور ایسا ہونے سے خدا ، خدا کیسے رہے   گا ؟ اس  پر    راقم  کہتا ہے وہ تمام صفات جو کسی ذات کو معبود و اله و رب قرار دیتی ہوں وہ   ان ننانوے ناموں میں سمٹ  کر بیان ہو چکی ہیں – اس سے  الله کی    تعریف  محدود   نہیں  ہوئی بلکہ  ان ناموں کی شرح  مزید کی جا سکتی ہے      – صفت سے مراد لغوی طور پر تعریف ہے لیکن یہ اصلا  فلسفہ کی اصطلاح ہے  جس کی مراد ہے کہ   وہ چزیں جو   کسی  ذات یا جسم کو  دیگر سے ممتاز کر دیں-    جب ہم کسی چیز کو الله کی صفت کہیں گے اور وہ کسی اور میں بھی ہو تو پھر وہ صفت الله کا نام نہیں ہے-

کہا  جاتا ہے کہ  اگر نور  الله  تعالی  کا نام نہیں  تو   بھی یہ صفت تو ممکن ہے –  راقم کہتا ہے  یہ ممکن  نہیں کیونکہ مسلئہ  صفات  میں یہ  بات معروف ہے کہ جو بھی چیز الله کی صفت ہے وہ اس کا نام بن   جاتی ہے    –  لہذا   الله نور سماوات میں نور ہدایت ہی ہے یہ صفت نہیں ہے کیونکہ نور مخلوق ہے

سوال ہو سکتا ہے کہ یہ خوبی  مخلوق میں بھی تو ہو سکتی ہے ؟  تو اس کا جواب ہے کہ   اللہ  کی صفت  اللہ کے لئے خاص ہے کیونکہ یہ اس   نوعیت کی صفت  ہے کہ   اس کے سوا  کسی اور میں ممکن نہیں ہے-  مثلا  بندے کو صرف رحیم کہا جاتا ہے    الرحیم  نہیں کہا  جا سکتا  کیونکہ الرحیم  صرف   الله کا نام ہے- مخلوق اس درجہ  کو نہیں پہنچ سکتی-  الله تعالی رحم کرتا ہے اس کے جیسا کوئی رحم  نہیں کر سکتا اس لئے الرحیم ہے-

انسان کو الله نے حواس خمسہ دیے ہیں اور اس کے لئے کہا

فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً
ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنا دیا

لیکن البصیر نہیں کہا بصیر کہا لہذا البصیر الله ہے

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں
قَالَ الله تبَارك وَتَعَالَى {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم إِنَّه سميع بَصِير لَا كشيء من البصراء وَلَا السامعين مِمَّا فِي الْعَالم وكل سميع وبصير فِي الْعَالم فَهُوَ ذُو سمع وبصر فَالله تَعَالَى بِخِلَاف ذَلِك بِنَصّ الْقُرْآن فَهُوَ سميع كَمَا قَالَ لَا يسمع كالسامعين وبصير كَمَا قَالَ لَا يبصر كالمبصرين لَا يُسَمِّي رَبنَا تَعَالَى إِلَّا بِمَا سمى بِهِ نَفسه وَلَا يخبر عَنهُ إِلَّا بِمَا أخبر بِهِ عَن نَفسه فَقَط كَمَا قَالَ الله تَعَالَى {هُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم هُوَ السَّمِيع الْبَصِير وَلم يقل تَعَالَى إِن لَهُ سمعا وبصرا فَلَا يحل لأحد أَن يَقُول إِن لَهُ سمعا وبصراً فَيكون قَائِلا على الله تَعَالَى بِلَا علم وَهَذَا لَا يحل وَبِاللَّهِ تَعَالَى

الله تعالی کہتا ہے لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے لیکن کسی بینا کی طرح نہیں اور کسی سننے والے کی طرح نہیں جو اس عالم میں ہیں ، اور ہر سننے والا اور دیکھنے والا جو اس عالم میں ہے تو وہ سمع و بصر والا ہے- لیکن الله تعالی کے لئے اس کے خلاف قرآن میں نص ہے پس وہ سننے والا ہے جیسا اس نے کہا ، نہ کہ وہ سنتا ہے ایسے جسے کوئی (انسان یا جانور) سنّتا ہے، اور دیکھتا ہے جیسا اس نے کہا، مگر ایسے نہیں جسے کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے – ہمارے رب تعالی نے کوئی نام نہ رکھا سوائے وہ جو اس نے خود رکھا اور کسی دوسرے نام کی خبر نہیں دی سوائے ان کے جن کی اس نے خبر دی- الله نے کہا کہ هُوَ السَّمِيع الْبَصِير پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے اور الله نے اپنے لئے (قوت) سمع اور بصر نہیں کہا سو یہ حلال نہیں کسی کے لئے بھی کہ وہ الله کے لئے سمع و بصر کہے کیونکہ وہ الله پر وہ بات بولے گا جس کا علم نہیں اور یہ حلال نہیں ہے

  الله تعالی نے رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کو     رحيم  قرار ديا

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

بے شک تمہارے پاس   تم میں سے رسول آ گیا ہے اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے تمہاری بھلائی پر، وہ حریص (فکرمند) ہے مومنوں پر، نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔

أور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو    رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ       قرار دیا

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

اور ہم نے اپ کو  تمام جہانوں کے  لئے  رحمت بنا کر بھیجا ہے

   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعریف کی گئی کہ وہ رحم کرتے ہیں یہ الله کا حکم ہے جس پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے عمل کیا لہذا مالک نے خوش ہو کر اس کا ذکر کیا – لیکن رحم رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ   اور   لوگ  بھی  کر سکتے ہیں- وہ لوگ بھی رحیم ہو سکتے ہیں  قرآن میں ہے

إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ

بیشک ابراہیم  بردبار، نرم دل والا والا بہت رجوع  کرنے والا ہے۔

یہ تمام خوبیاں ابراہیم  علیہ السلام کو بھی رحیم بنا دیتی ہیں

 الله کا نام الرحیم ہے اس کے جیسا کوئی نہیں- العلی الله کا نام ہے اس کے سوا کوئی نہیں-  ایک انسان دوسرے انسان پر رحم کرتا ہے تو رحیم ہوا     –   انسان  کی عزت کی جاتی ہے اس لئے علی ہوا-  یہ  اللہ تعالی   کا  پرتو یا عکس  یا تجلی   نہیں بلکہ الله کے امر   و حکم پر  مخلوق کا عمل  ہے – رسول الله لوگوں پر رحیم تھے کیونکہ یہ الله کا حکم ہے چونکہ وہ  شفقت سے پیش آتے مالک   نے اس  کا خاص ذکر   نبی علیہ السلام کے لئے   کیا ہے- آ پ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو بد دعا بھی نہیں دی اس کے برعکس بعض  انبیاء   نے اپنی   قوموں کو   بد دعا دی  جس کے نتیجے میں وہ عذاب عام سے ہلاک ہوئیں-  اس وجہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں یعنی  اب آنے والے دور کے لئے ایک نمونہ  –

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ  کائنات کی سب چیزیں حق تعالی کے اسماء وصفات کا مظہر ہیں اور تمام مخلوقات میں سے انسان  مظہرِ کامل ہے اور انسانوں میں کے مظہرِ کامل و مکمل و اتّم حضور    (ص)ہیں۔    راقم   کہتا ہے  ہمارا رحم کرنا یقینا الله کی طرف سے عطا کردہ ہے  لیکن اگر کوئی قہر کرے اور کہے کہ یہ میرے رب کی طرف سے ہے وہ القہار ہے مجھ میں اس کی صفت منعکس ہو رہی ہے تو        ہم      کیا اس کو اسماء و صفات  کا مظہر قرار دیں  گے  ؟    لہذا ہم اس کو مظہر نہیں کہتے ہم اس کو حکم الله پر عمل کہتے ہیں- رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی الله کے حکم پر عمل کیا   اور  اپنی قوم پر رحم کیا ان کو فتح مکہ کے دن معاف کر دیا –

غور طلب ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم   رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ  کب سے ہیں ؟  کیا  بطن آمنہ سے پیدا ہونے سے قبل سے تمام زمین پر رحمت فرما رہے تھے ؟  ظاہر ہے ایسا نہیں ہے – اللہ تعالی نے  رحمت للعالمین قرار دیا تو اس کا مطلب  بعثت  کے  بعد کا  دور ہے قبل ولادت کا دور   ممکن نہیں ہے- اسی طرح  خاتم النبیین اور رحمت للعالمین کا اصل مدعا ہدایت کا پہنچانا ہے-  یعنی آخری نبی   کے آنے کے بعد سے قیامت تک کا دور مراد ہے-    اللہ تعالی کہتا ہے

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ
کہو میں رسولوں میں کوئی نیا  (یا انوکھا) نہیں ہوں

خود رسول الله   صلی الله علیہ وسلم   کا فرمان ہے     جس نے کہا میں یونس بن متی   (علیہ السلام)سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے

 الله تعالی نے رسول الله   صلی الله علیہ وسلم  کو رحمت للعالمین کہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم زمین پر آدم علیہ السلام کے ساتھ تھے- رحمت کا مطلب  بعثت  کے بعد آنے  والا  دور کے بارے میں ہے نہ کہ ماضی کے بارے میں-   مثلا   قرآن میں ہے ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو نشاني بنایا   وَجَعَلْنَا ٱبْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُۥٓ ءَايَةً    یعنی بعد والوں کے لئے-   بني اسرائیل کو تمام جہانوں میں فضیلت دی   وأني فضلتكم على العالمين یعنی ماضی میں-

   سورہ مائدہ   میں ہے

اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور آ گیا ہے اور ایک روشن کتاب

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نور کہا ہے ان میں امام طبری بھی ہیں –اور طبری وضاحت کرتے ہیں کہ  ان کی مراد رسول الله کو الله کی طرف سے ہدایت کا نور کہنا ہے طبری نے   تفسیر میں لکھا ہے

يعني بالنور، محمدًا صلى الله عليه وسلم الذي أنار الله به الحقَّ، وأظهر به الإسلام
نور یعنی محمد جن سے الله نے حق کو روشن کیا اور اسلام کو غالب

ان مفسرین نے حدیث جابر کی بنیاد پر ایسا نہیں کہا نہ اس کا ذکر کیا ہے

اس حوالے سے کہ  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نوری ہیں  ایک دعا کا حوالہ  بھی  دیا جاتا ہے  جو صحیح مسلم میں ہے اور اس کو تہجد کی نماز میں پڑھا جاتا ہے – الفاظ ہیں

وَکَانَ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي بَصَرِي نُورًا وَفِي سَمْعِي نُورًا وَعَنْ يَمِينِي نُورًا وَعَنْ يَسَارِي نُورًا وَفَوْقِي نُورًا وَتَحْتِي نُورًا وَأَمَامِي نُورًا وَخَلْفِي نُورًا وَعَظِّمْ لِي نُورًا

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی اے اللہ میرا دل روشن فرما اور میری آنکھیں روشن فرما اور میرے کانوں میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے   نور   کر  اور میرے لئے نور کو   بڑھا دے

 رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے  لئے  اس دعا میں نور طلب کیا  تو اس حوالے سے  درست  بات یہ ہے  ہے کہ یہ بطور اضافہ ہے – ساتھ ہی آپ نے یہ دعا مومنوں کو بھی سکھا دی –  اب  نور مومن بھی مانگ رہا ہے –  سوال یہ ہے کہ   ١٤ صدیوں  سے  کیا کوئی مومن مستجاب الدعوات اس امت میں نہیں گذرا جس کی نور والی دعا پوری ہوئی  ہو  اور وہ سراپا نور بن گیا ہو؟ اگر    اس نور سے مراد  نوری ہو جانا ہے  اور    اگر  کسی کی دعا   پوری ہوئی  ہے تو پھر  نوری ہونا  رسول الله   صلی الله علیہ وسلم   کی خصوصیت نہیں رہتی-  امت کے بہت سے لوگوں کا نوری ہونا قبول کرنا ہو گا- ظاہر ہے یہ نور بطور عنصر تخلیق   مراد و منشا  نہیں ہو سکتا کیونکہ انسان بشر ہے نوری نہیں-

اگر منشا یہ تھی کہ انسانی جسم نوری بن جائے لگے تو بشری لیکن اندر نوری ہو تو  اصحاب رسول اور انبیاء  اور اولیاء  تمام پر نور کا اثبات کرنا ہو گا –   یہ عجیب و غریب   بات ہے  اور   باقی مخلوق  سے عظیم تبدیلی ہے،  جس سے باقی انبیاء بے خبر رہے ہیں اور کسی صحیح مستند روایت میں بھی   اس کا ذکر نہیں  ہے  – اس عظیم الشان تغیر کا ذکر اصحاب کبار – مہاجرین و انصار میں سے کسی نے نہیں کیا یہ کیسے ممکن ہے؟

صحیح مسلم کی ایک  حدیث   جس    میں ہے کہ میرے جسم میں نور کر دے اس کی مثال ہے کہ دن کی  نماز کی دعائے استفتاح  میں ہے

اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج و البرد
میرے گناہ پانی سے، برف سے، سردی سے دھو دے

جبکہ گناہ معاف کرنا اللہ کا فعل ہے موسموں  اور بارش  سے گناہ معاف نہیں ہوتے – اب اس  قول  کی تاویل ہی کی جائے گی-

ضمنی بحث 

آدم  جب کیچڑ کو مٹی کے درمیان تھے اس وقت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  موجود تھے  ؟ 

کہا  جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا تھا  کہ

میں     اپنے پروردگار کے ہاں خاتم النبیین ہو چکا تھا اور آدم ابھی پانی اور کیچڑ کے درمیان تھے

اگر اس  حدیث کو     تقدیری امر     پر ملحوظ   کیا   جائے   یا     حق تعالی کے علم کے لحاظ سے  قرار دیا  جائے    تو پھر یہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم       کی کوئی خصوصیت قرار نہیں پاتی کیونکہ تقدیر میں تو ہر چیز   موجود ہے اور حق تعالی کے علم میں بھی ہر چیز ہے پھر اس کو بیان کرنے کا مقصد و منشا کیا ہے؟

راقم  کہتا ہےاول   سندا  یہ مضبوط  روایت  نہیں ہے –  اس  روایت کو عبد الله بن شقیق  نے روایت کیا ہے  جس کا ذکر اسی مضمون میں پیچھے  گذر چکا ہے –     راقم کو     اس روایت  کے کسی متن میں  خاتم  النبیین  کے الفاظ نہیں ملے

عبد الباقي بن قانع   نے  کتاب جملة الصحابة میں ذکر کیا

 ثنا موسى بن زكريا التستري ثنا طرخان بن العلاء ثنا يزيد بن زريع، ثنا خالد بن الحذاء عن عبد الله بن شقيق العقيلي عن أبيه قال: قام أبي فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم متى كنت نبيا؟ فقال الناس: مه. فقال: «دعوه كنت نبيا وآدم بين الروح والجسد

عبد الله بن شقيق العقيلي نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ  میرے باپ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا  یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آپ کب سے نبی تھے ؟ پس لوگوں نے کہا  مہ (یعنی اس سوال کو برا جانا )  پس نبی نے فرمایا میں  نبی تھا اور آدم جسد و روح کے بیچ تھے

یہاں بھی  روایت کے الفاظ میں اضطراب  مل رہا ہے  بعض اوقات  عبد اللہ  بن شقیق نے کہا ہے میرے باپ نے کھڑے ہو کر سوال کیا گویا کہ دیکھ رہا ہو   پھر بعض اوقات اس کو مَيْسَرَةَ الْفَجْر رضی الله عنہ کی حدیث کہا ہے-  مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

بعض اوقات اس کو  کسی بدو کا سوال کہا ہے  –   کتاب القدر از فریابی  اور الإبانة الكبرى لابن بطة   میں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  : مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ لَهُ النَّاسُ: مَهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعُوهُ، كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

بعض  اوقات اس کو    غیر معروف صحابی    ابْنِ الْجَدْعَاءِ  کی حدیث قرار دیا ہے – کتاب  الأحاديث المختارة  از ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ نَصْرٍ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَتْهُمْ أبنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أبنا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الطَّبَرَانِيُّ ثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِيُّ ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ ثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنِ ابْنِ الْجَدْعَاءِ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

بعض اوقات اس   نے   نام     ابْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ     لیا ہے –  کتاب   الرد على الجهمية از  أبو سعيد عثمان بن سعيد    الدارمي السجستاني (المتوفى: 280هـ) میں ہے

 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَ هُشَيْمُ، عَنْ خَالِدٍ وَهُوَ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

 امام مسلم نے    کتاب  المنفردات و  الواحدان  میں   عبد الله بن أبي الجدعاء   اور عبد الله بن  ابن أبي الحمساء کو الگ الگ افراد قرار دیا ہے –   عبد الله بن أبي الجدعاء   اور عبد الله بن  ابن أبي الحمساء   دو اصحاب رسول بقول  عبد الله بن شقیق ہیں اور ان سے روایت کرنے میں عبد الله بن شقیق کا تفرد ہے

 یہ    روایت معجم طبرانی میں  ابن عباس رضی الله عنہ  سے بھی منسوب ہے

 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْعَبَّاسِ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ صُبَيْحٍ، ثنا نَصْرُ بْنُ مُزَاحِمٍ، ثنا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهُ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

یہاں سند میں   قيس بن الربيع الأسدي أبو محمد الكوفي   ضعیف ہے

ایک دوسرے طرق سے بھی یہ قول  معجم طبرانی میں آ تا ہے

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا زَيْدُ بْنُ الْحَرِيشِ، ثنا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ جُوَيْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ , مَتَى أُخِذَ مِيثَاقُكَ؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

اس طرق  میں جویبر ضعیف ہے

اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے بھی منسوب کیا گیا ہے

مستدرک الحاکم   اور سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ الْبَعْلَبَكِّيُّ، ثنا   الْوَلِيدِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: «بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ وَنَفْخِ الرُّوحِ فِيهِ

سند میں  يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ  مدلس   کا عنعنہ  ہے   اور الولید بن مسلم بھی مدلس ہے  اس کا سماع  الاوزاعی  سے نہیں ہے

اگر ان روایات   کو قبول بھی کر لیں  تو   راقم  کہتا ہے  یہ تقدیر سے ہی متعلق قول ہے اور اس میں سب ایک ہیں- اس کی وجہ ہے کہ بعض اوقات تکرار کے لئے بھی چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے – سب کو معلوم ہے الله نے تقدیر لکھی ہے اور اس میں انبیاء کا کوئی استثنی نہیں ان کی تقدیر بھی لکھی گئی-  جہاں تک رہی تقدیر    اور علم   کی بات تو اس کی مثال اس طرح ہے کہ   الله تعالی نے ہی سب انسانوں کو خلیفہ مقرر کیا ہے لیکن فرشتوں کے سوال پر پیش صرف آدم علیہ السلام کو کیا تھا تمام انسانوں کو نہیں-

قرآن میں   سوره الأعراف    میں ہے

 وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ

اور بے شک ہم نے تم سب کو خلق کیا پھر تم سب کی  صورت بنائی پھر فرشتوں کو ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (پس کیا سب نے ) سوائے ابلیس کے – جو سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا

اس آیت  میں ہے کہ تمام انسان خلق ہوئے ان کی شکل و صورت بھی  آدم کو سجدے کرنے سے پہلے  بن چکی تھی –  اس سے ظاہر ہے کہ تمام مخلوق کی ارواح کو خلق کیا گیا – ان کی شکل و صورت کو لوح میں    جمع کر دیا گیا اور اس میں انبیاء و رسل بلکہ تمام مخلوق شامل ہے-  لہذا جب آدم   علیہ السلام  کا جسم وجود لے رہا تھا   تو ارواح  بن چکی تھیں   اور یہی مفہوم اس حدیث میں بیان ہوا کہ میں خاتم النبین  ہو چکا تھا جب آدم مٹی میں بن رہے تھے

==================================================

حواشی

[1]

ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں لکھا اور اس کو بلا جزم کہا

فالنور وإن كان اسمًا لله، فقد يقع اسم النور على بعض المخلوقين، فليس معنى النور الذي هو اسم لله في المعنى مثل النور الذي هو خلق الله

اور النور اگر الله کا نام  ہو تو پھر اس اسم نور کا اطلاق مخلوق پر بھی کیا گیا  ہے لہذا نور کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ الله  کا وہ  اسم ہے جو ان معنوں میں  ہے کہ وہ مخلوق جیسا ہو گا

[2] https://www.youtube.com/watch?v=IPlrzAU1_90&feature=youtu.be

[3]

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار  از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ)  کے مطابق  سبحات” وجهه، هي جلاله وعظمته، وأصلها جمع سبحة

: كتاب العين از  الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) نے اس کی شرح  ہے کہ

وقال سعد بن مسمع:  ذا سُبْحَةٍ لو كان حلو المعجم  أي: ذا جمال. وهذا من سُبُحات الوجه، وهو محاسنه

سعد بن مسمع نے کہا … یعنی جمال  اور یہ سُبُحات الوجه ہے یعنی محاسن

الأسماء والصفات للبيهقي از  البيهقي (المتوفى: 458هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ , أنا أَبُو الْحَسَنِ الْكَارِزِيُّ , أنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ: يُقَالُ فِي السُّبْحَةِ: إِنَّهَا جَلَالُ وَجْهِ اللَّهِ , وَمِنْهَا قِيلَ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّمَا هُوَ تَعْظِيمٌ لَهُ وَتَنْزِيهٌ

الأسماء والصفات للبيهقي میں ہے

 إِنَّ سُبُحَاتٍ مِنَ التَّسْبِيحِ الَّذِي هُوَ التَّعْظِيمُ

بے شک یہ سُبُحَاتٍ  اس تسبیح میں سے  ہے جو اس  کی تعظیم ہے

===============

قال العثمانی رحمہ اللہ تعالی

part 1

part 2

اللہ تعالی کی تجسیم

یہود میں الله کے لئے تجسیم کا عقیدہ ہے کیونکہ موجودہ توریت میں الله کو ایک مرد کی صورت بیان کیا گیا ہے جس کے آعضآ بھی ہیں – یہودی تصوف کی ایک قدیم کتاب جو بعثت نبوی سے قبل کی ہے اس کا نام کتاب شر قومہ ہے جس میں الله تعالی کے آعضآ کی پمائش بھی بیان کی گئی ہے – موجود توریت میں ہے

Then God said, “Let us make man in our image, after our likeness.

پھر الله نے کہا ہم انسان کو اپنے عکس צֶ֫לֶם پر بنائیں گے –اپنی דְּמוּת مشابہت کے مطابق

Genesis 1:26

لفظ דְּמוּת کا ترجمہ مشابہت کے علاوہ یہود کے مطابق شکل اور تناسب بھی ہو سکتا ہے

لفظ צֶלֶם کا ترجمہ عکس کے علاوہ غیر مرئی چیز بھی کیا جاتا ہے

اس کے برعکس قرآن میں ہے

(فِیْ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَ (الانفطار:8/82
جس صورت میں چاہا اس نے تجھے بنایا۔

صحیح بخاری کی حدیث منکر ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ، النَّفَرِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَزَادُوهُ: وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآنَ

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہاہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے ، ان سے ہمام نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی ۔

جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایاکہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں ، سلام کر واور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہار ااور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام نے کہا السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ ، انہوںنے آدم کے سلام پر ” ورحمۃ اللہ “ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا حضرت آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا ۔ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد وقامت کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔

http://maktaba.pk/hadith/bukhari/6227/

 

قرن دوم میں اللہ کی تجسیم سے متعلق ایک روایت چل رہی جو امام مالک کے کانوں تک بھی پہنچی – کتاب الضعفاء الكبير از امام العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں

فقہ مالکیہ کی معتمد کتاب المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة  از  ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق

وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا. 
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے

الغرض امام مالک   مطلقا اس خلق آدم علی صورتہ کو  قبول نہیں کرتے تھے اور وہ اس کو سنتے ہی رد کرتے تھے – امام احمد، امام اسحٰق ، امام بخاری امام مسلم  اس کو صحیح سمجھتے تھے

كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق  ایک  روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے بھی رد کی اور البانی سمجھتے ہیں  زیر بحث روایت ہو گی

ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.

البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں

ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون   جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی  شخص   ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ   محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے

البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں  کہتے ہیں

يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.

یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی  حدیث  مراد تھی جس  کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ  ٨٦٠ میں کی ہے

صحیح بخاری  حدیث نمبر:

6227

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، 

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ 

  امام بخاری نے عرش عظیم کے ڈگمگانے والی روایت نقل کی ، اور اللہ تعالی’ کا دیوتا کی صورت اختیار کرنے کو بھی نقل کیا- افسوس کہ معلوم نہ ہو سکا کہ  یہ تحقیق میں امام بخاری سے غلطی ہوئی یا ان کو ائمہ حدیث کو حکم نہیں پہنچا کہ  امام بخاری نے ان  مردود روایات کو نقل کیا اور جامع الصحیح کی زینت بنا دیا – اس سے اس قسم کی متروک روایات عوام میں پھیل گئیں

روز محشر الله تعالی محسم ہو کر کسی ایسی صورت میں بھی آئیں گے جس کو مومن پہچانتے ہوں؟
صحیح بخاری کی حدیث ہے
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا کیا جب بادل نہ ہوں تو تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور فرمائے گا کہ تم میں جو کوئی جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے لگ جائے۔ چنانچہ جو سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے ہو جائے گا، جو چاند کی پوجا کرتا تھا وہ چاند کے پیچھے ہو جائے گا اور جو بتوں کی پوجا کرتا تھا وہ بتوں کے پیچھے لگ جائے گا

 

پھر یہ امت باقی رہ جائے گی اس میں بڑے درجہ کے شفاعت کرنے والے بھی ہوں گے یا منافق بھی ہوں گے ابراہیم کو ان لفظوں میں شک تھا۔ پھر اللہ ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ جواب دیں گے کہ ہم یہیں رہیں گے۔ یہاں تک کہ ہمارا رب آ جائے، جب ہمارا رب آ جائے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ اقرار کریں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔

 

چنانچہ وہ اس کے پیچھے ہو جائیں گے اور دوزخ کی پیٹھ پر پل صراط نصب کر دیا جائے گا اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کرنے والے ہوں گے اور اس دن صرف انبیاء بات کر سکیں گے اور انبیاء کی زبان پر یہ ہو گا۔ اے اللہ! مجھ کو محفوظ رکھ، مجھ کو محفوظ رکھ۔ اور دوزخ میں درخت سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سعدان کے کانٹوں ہی کی طرح ہوں گے البتہ وہ اتنے بڑے ہوں گے کہ اس کا طول و عرض اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہ ہو گا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے بدلے میں اچک لیں گے تو ان میں سے کچھ وہ ہوں گے جو تباہ ہونے والے ہوں گے اور اپنے عمل بد کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر جائیں گے یا اپنے عمل کے ساتھ بندھے ہوں گے اور ان میں بعض ٹکڑے کر دئیے جائیں گے یا بدلہ دئیے جائیں گے یا اسی جیسے الفاظ بیان کئے۔ پھر اللہ تعالیٰ تجلی فرمائے گا اور جب بندوں کے درمیان فیصلہ کر کے فارغ ہو گا اور دوزخیوں میں سے جسے اپنی رحمت سے باہر نکالنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے انہیں دوزخ سے باہر نکالیں، یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرنا چاہے گا۔ ان میں سے جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کیا تھا۔ چنانچہ فرشتے انہیں سجدوں کے نشان سے دوزخ میں پہچانیں گے۔ دوزخ ابن آدم کا ہر عضو جلا کر بھسم کر دے گی سوا سجدہ کے نشان کے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو جلائے (یا اللہ! ہم گنہگاروں کو دوزخ سے محفوظ رکھیو ہم کو تیری رحمت سے یہی امید ہے) چنانچہ یہ لوگ دوزخ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ یہ جل بھن چکے ہوں گے۔ پھر ان پر آب حیات ڈالا جائے گا اور یہ اس کے نیچے سے اس طرح اگ کر نکلیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ اگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ سے فارغ ہو گا۔ ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ دوزخ کی طرف ہو گا، وہ ان دوزخیوں میں سب سے آخری انسان ہو گا جسے جنت میں داخل ہونا ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! میرا منہ دوزخ سے پھیر دے کیونکہ مجھے اس کی گرم ہوا نے پریشان کر رکھا ہے اور اس کی تیزی نے جھلسا ڈالا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے وہ اس وقت تک دعا کرتا رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں گا تو تو مجھ سے کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگوں گا اور وہ شخص اللہ رب العزت سے بڑے عہد و پیمان کرے گا۔ چنانچہ اللہ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھے گا تو اتنی دیر خاموش رہے گا جتنی دیر اللہ تعالیٰ اسے خاموش رہنے دینا چاہے گا۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! مجھے صرف جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے دیا ہے اس کے سوا اور کچھ کبھی تو نہیں مانگے گا؟ افسوس ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! اور اللہ سے دعا کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو اس کے سوا کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا اور جتنے اللہ چاہے گا وہ شخص وعدہ کرے گا۔ چنانچہ اسے جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ پھر جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا تو جنت اسے سامنے نظر آئے گی اور دیکھے گا کہ اس کے اندر کس قدر خیریت اور مسرت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جتنی دیر چاہے گا وہ شخص خاموش رہے گا۔ پھر کہے گا: اے رب! مجھے جنت میں پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے تجھے دے دیا ہے اس کے سوا تو اور کچھ نہیں مانگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا افسوس! ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے بڑھ کر بدبخت نہ بنا۔ چنانچہ وہ مسلسل دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں پر ہنس دے گا، جب ہنس دے گا تو اس کے متعلق کہے گا کہ اسے جنت میں داخل کر دو۔ جنت میں اسے داخل کر دے گا تو اس سے فرمائے گا کہ اپنی آرزوئیں بیان کر، وہ اپنی تمام آرزوئیں بیان کر دے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا۔ وہ کہے گا کہ فلاں چیز، فلاں چیز، یہاں تک کہ اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ آرزوئیں اور انہی جیسی تمہیں ملیں گی

اس روایت میں الفاظ ایسے ہیں جو رب العالمین کی تجسیم کی طرف مائل ہیں
الله تعالی روز محشر اپنے عرش پر ہوں گے جیسا قرآن میں ہے اور اس کا اس عرش کو چھوڑ کر مجسم ہو کر انسانوں کے پاس آنا کیسے ہو گا ؟ جبکہ تمام انسانیت اس وقت الله کے آگے سر جھکانے کھڑی ہو گی اور کوئی آواز نہ ہو گی سوائے رب العالمین کے کلام کے
یہ روایت صحیح بخاری  میں اسی  طرق سے اتی ہے جس میں غالی اہل سنت ہیں

إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ کی سند
إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف المتوفی ١٨٤ ھ یا ١٨٥ ھ
امام المحدثین يحيى بن سعيد القطان اس راوی کے سخت خلاف ہیں
امام احمد کے بیٹے العلل میں بتاتے ہیں کہ
قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: ذكرنا عند يحيى بن سعيد حديثا من حديث عقيل. فقال لي يحيى: يا أبا عبد الله، عقيل وإبراهيم بن سعد!! عقيل وإبراهيم بن سعد!! كأنه يضعفهما. قال أبي: وأي شيء ينفعه من ذا، هؤلاء ثقات، لم يخبرهما يحي. «العلل» (282 و2475 و3422) .
میرے باپ نے ذکر کیا کہ یحیی کے سامنے عقیل کی حدیث کا ہم نے ذکر کیا انہوں نے کہا اے ابو عبد الله عقیل اور ابراہیم بن سعد، عقیل اور ابراہیم بن سعد جیسا کہ وہ تضعیف کر رہے ہوں
کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مطابق
كَانَ وَكِيْعٌ كَفَّ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنْهُ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْهُ.
وَكِيْعٌ اس کی روایت سے رکے رہے پھر روایت کرنا شروع کر دیا
اس کے برعکس امام عقیلی کہتے ہیں بحوالہ إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي
ذكره العقيلي في كتاب ” الجرح والتعديل ” قال: قال عبد الله بن أحمد بن حنبل قال أبي: حدثنا وكيع مرة عن إبراهيم بن سعد، ثم قال: أجيزوا عليه وتركه بأخرة.
عقیلی نے اس کا ذکر کتاب الجرح والتعديل میں کیا اور کہا کہ عبد الله نے کہا کہ امام احمد نے کہا وكيع نے ایک بار ابراہیم سے روایت کیا پھر کہا اور … آخر میں بالکل ترک کر دیا
قَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ: سَمَاعُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ لَيْسَ بِذَاكَ، لأَنَّهُ كَانَ صَغِيْراً.
صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ نے کہا اس کا سماع امام الزہری ویسا (اچھا نہیں) ہے کیونکہ یہ چھوٹا تھا
تاریخ الاسلام میں الذھبی نے جزرہ کا قول پیش کیا کہ كَانَ صغيرا حين سمع من الزهري انہوں نے بچپنے میں الزہری سے سنا
کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق أبي عبد الرحمن السلمي نے کہا
قدم إبراهيم العراق سنة أربع وثمانين ومائة، فأكرمه الرشيد وأظهر بره، وتوفي في هذه السنة، وله خمس وسبعون سنة.
ابراہیم عراق سن ١٨٤ ھ میں پہنچے ان کی الرشید نے عزت افزائی کی اور اسی سال انتقال ہوا اور یہ ٧٥ سال کے تھے
اس دور میں عراقیوں نے ان سے روایات لیں جن پر امام یحیی بن سعید القطان اور امام وکیع کو اعتراض تھا اور انہوں نے ان کو ترک کیا لیکن امام احمد امام ابن معین نے ان کی روایات لے لیں اور اسی طرح امام بخاری و مسلم کے شیوخ نے بھی لے لیں

عرش کے گرد سانپ کی کنڈلی

اہل کتاب نے اپنے ایک نبی یسعیاہ کے نام پر ایک کتاب گھڑی جس کو

Book of Isaiah

کہا جاتا ہے

اس کتاب کے باب ٦ کی آیات ہیں

سرافیم سے مراد سانپ ہیں

Hebrew Strong Dictionary

کے مطابق

  1. שָׂרָף saraph, saw-rawf´; from 8313; burning, i.e. (figuratively) poisonous (serpent); specifically, a saraph or symbolical creature (from their copper color):—fiery (serpent), seraph.

https://www.blueletterbible.org/lang/lexicon/lexicon.cfm?Strongs=H8314&t=KJV

یہود کی ایک قدیم کتاب

Book of Enoch

میں  باب ٢٠ بھی اس کا ذکر ہے

 Hence they took Enoch into the seventh heaven 

1 And those two men lifted me up thence on to the seventh heaven, and I saw there a very great light, and fiery troops of great archangels (2), incorporeal forces, and dominions, orders and governments, cherubim and seraphim, thrones and many-eyed ones, nine regiments, the Ioanit stations of light, and I became afraid, and began to tremble with great terror, and those men took me, and led me after them, and said to me: 

 2Have courage, Enoch, do not fear, and showed me the Lord from afar, sitting on His very high throne. For what is there on the tenth heaven, since the Lord dwells there? 

پس وہ انوخ (ادریس علیہ السلام) کو لے گئے ساتویں آسمان پر اور ان دو آدمیوں نے مجھ (انوخ) کو اٹھایا اور وہاں میں نے ایک عظیم نور دیکھا اور اور ملائکہ ملا الاعلی کی آتشی افواج،  روحانی قوتیں ، احکام و حکم ، کروبیں اور سرافیم، تخت  اور بہت آنکھوں والے … اور میں خوف زدہ ہوا اور لڑکھڑا گیا دہشت سے اور وہ مجھ کو لے گئے اور کہا ہمت کرو انوخ ، ڈرو مت اور الله تعالی کو دور سے دکھایا اپنے عظیم عرش پر تھا- (انوخ نے سوال کیا) یہ دسویں آسمان پر کیا ہے کہ الله وہاں ہوتا ہے ؟

کتاب انوخ کا متن حبشی زبان میں ملا ہے جہاں سرافیم کے مقام پر لکھا

 Ikisat (Ethiopic: አክይስት — “serpents”, “dragons

اکسات حبشی میں سانپ ہے

https://en.wikipedia.org/wiki/Seraph

توریت کے مطابق بنی اسرئیل کی دشت میں سر کشی کی بنا پر ایک وقت الله تعالی نے سانپ ان پر چھوڑ دیے

Num. 21:6 Then the LORD sent fiery serpents among the people, and they bit the people, so that many people of Israel died.

اور الله نے ان پر آتشی سانپ چھوڑ دیے

عبرانی میں سرافیم کو سانپ اور  فرشتہ کہا جاتا  ہے  چونکہ اہل کتاب ابلیس کو ایک فرشتہ یا

Fallen Angel

کہتے ہیں

لہذا مسلمانوں میں ابلیس کو سانپ سے ملانے یا جنات کو سانپ قرار دینے کا نظریہ ا گیا

ہندو مت میں عرش کے گرد سانپ

ہندو مت کے مطابق ان کے تین بڑے اصنام میں سے ایک آسمان میں ہے جس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے گرد سانپ لپٹا ہوا ہے جس کو انانتا شیشا یا ادی شیشا کہتے ہیں

Ananta Shesha,  Adishesha “first Shesha”.

یعنی کسی دور قدیم میں عرش رحمن کے گرد سانپوں کا تصور موجود تھا جس کو اہل کتاب اور ہندو دونوں بیان کرتے تھے

اسلام میں عرش کے گرد سانپ

اس قسم کی روایات اسلام میں بھی ہیں  جن کو محدثین روایت کرتے ہیں  – اس روایت کو عبد الله بن أحمد   “السنة” (1081) میں باپ امام احمد سے روایت کرتے ہیں  الدينوري  کتاب “المجالسة” (2578)  میں علي بن المديني سے اور أبو الشيخ کتاب “العظمة” (197) میں روایت کرتے ہیں

طبرانی کتاب المُعْجَمُ الكَبِير میں روایت کرتے ہیں

حدثنا محمَّد بن إسحاق بن راهُوْيَه، ثنا أبي ، أبنا معاذ ابن هشام، حدثني أبي (هشام الدستوائي) عن قَتادة، عن كَثير بن أبي كَثير البصری  ، عن أبي عِياض (عمرو بن الأسود العنسي)  ، عن عبد الله بن عَمرو، قال: إن العَرْشَ لَيُطَوَّق بحَيَّةٍ، وإن الوَحْيَ ليُنَزَّلُ

في السَّلاسِل

 أبي عِياض نے کہا کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے کہا: عرش کے گرد ایک سانپ کنڈلی مارے ہوئے ہے اور  الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے

کتاب السنہ میں ہے

حَدَّثَنِي أَبِي، نا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، بِمَكَّةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ لَمُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَإِنَّ الْوَحْيَ لِيَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ

کتاب العظمة از أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ)  میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ مُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ»

کتاب مختصر العلو  میں البانی کہتے ہیں

قلت: إسناده صحيح، أخرجه أبو الشيخ في “العظمة” “33/ 1-2″ حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود ثم رأيته في السنة” “ص150”: حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.

میں البانی کہتا ہوں اس کی اسناد صحیح ہیں اس کی تخریج ابو شیخ نے کتاب العظمة” “33/ 1-2” حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود میں کی ہے پھر میں نے اس کو دیکھا السنہ میں ص ١٥٠ پر بھی کہ حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.

مجمع الزوائد  (8/135) میں   الهيثمى اس روایت پر کہتے ہیں

رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح غير كثير بن أبي كثير ، وهو ثقة   

اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں سوائے کثیر بن ابی کثیر کے جو ثقہ ہیں

بعض علماء نے غلو میں یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ صحیح بخاری و مسلم کے تمام راوی ثقہ ہیں ان پر جرح مردود ہے – الهيثمى  اسی گروہ کے ہیں جو روایت پر کہہ دیتے ہیں کہ راوی صحیح والے ہیں- اس طرح یہ غلو چلا آ رہا ہے

 أبو الشيخ   العظمة  (4/1298) میں روایت کرتے ہیں

 حدثنا محمد بن أبي زرعة ثنا هشام بن عمار ثنا عبد الله بن يزيد ثنا شعيب بن أبي حمزة عن عبد الأعلى بن أبي عمرة عن عبادة بن نسي عن عبد الرحمن بن غنم عن معاذ بن جبل عن النبي صلى الله عليه وسلم قال :   المجرة التي في السماء عرق الحية التي تحت العرش   .

معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے

الهيثمى   مجمع الزوائد  (8/135)  میں کہتے ہیں

  وفيه عبد الأعلى بن أبي عمرة ولم أعرفه ، وبقية رجاله ثقات

اس میں عبد الأعلى بن أبي عمرة ہے جس کو میں نہیں جانتا اور باقی تمام ثقہ ہیں

امام  العقيلى  کتاب الضعفاء الكبير  (3/60)  میں اس روایت کو بیان کرتے ہیں کہ یمن بھیجتے وقت رسول الله نے معاذ بن جبل کو کہا کہ اہل کتاب سانپ پر سوال کریں تو یہ کہنا سند ہے

  حدثنا حجاج بن عمران ثنا سليمان بن داود الشاذكونى ثنا هشام بن يوسف ثنا أبو بكر بن عبد الله بن أبي سبرة عن عمرو بن أبى عمرو عن الوليد بن أبي الوليد عن عبد الأعلى بن حكيم عن معاذ بن جبل قال : لما بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فذكره مثله .
اس روایت کو امام عقیلی نے غیر محفوظ قرار دیا ہے

کتاب المنار المنیف میں ابن قیم کہتے ہیں

أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ بَاطِلا فِي نَفْسِهِ فَيَدُلُ بُطْلانِهِ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَلامِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  كَحَدِيثِ “الْمَجَرَّةُ الَّتِي فِي السَّمَاءِ مِنْ عِرْقِ الأَفْعَى الَّتِي تَحْتَ العرش

اور بعض احادیث ایسی باطل ہوتی ہیں کہ ان کا بطلان دلیل ہوتا ہے کہ کلام نبوی ہو ہی نہیں سکتا جیسے حدیث کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے

صرف روایت کو رد کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا وقتی دب جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد یہ بات عوام پھر بیان کرنے لگ جاتے ہیں – اس روایت کو تو رد کر دیا گیا کہ کہکشاں کسی سانپ کی رال ہے لیکن یہ قول کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے آج تک علماء مانتے چلے ا رہے ہیں اور اسقول کو موقوف صحابی پر صحیح مانتے ہیں اور چونکہ اصحاب رسول عدول ہیں اس روایت کی اس غیبی خبر کی کوئی اور تاویل نہیں رہتی، سوائے اس کے کہ اس کو قول نبوی قرار دیا جائے

راقم البتہ اس کا سرے سے ہی انکار کرتا ہے کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے ایسا کوئی کلام کیا ہو گا

  عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب اس قول کی سند میں  كَثِير بن أَبي كَثِير البَصْرِيّ   مولى عَبْد الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَة الْقُرَشِيّ ہے- اس راوی پر امام عقیلی نے کلام کیا ہے اور نسائی نے سنن النسائي 6/147 اس کی ایک روایت کو منکر قرار دیا ہے اور بیہقی نے  السنن الكبرى 7/349   میں کہا ہے

وكثير هذا لم يثبت من معرفته ما يوجب قبول روايته

اور یہ کثیر معرفت حدیث میں مظبوط نہیں کہ اس کی روایت کو قبول کیا جائے

یہاں تک کہ ابن حزم نے اس کو مجھول قرار دیا ہے

غیر مقلد عالم البانی اس موقوف قول کو صحیح السند کہتے ہیں اور عبد الله بن عمرو پر الإسرائيليات روایت کرنے کا الزام لگاتے ہیں

کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني  میں البانی کے سوالات پر جوابات کا مجموعہ ہے

السائل: السؤال قد سألتك إياه في التلفون، الذي هو قلت لك حديث: (العرش مطوق بحية، والوحي ينزل بالسلاسل) ذكرت لي أني أرجع أرى هل

هو حديث …. في «مختصر العلو» أنت قلت: حديث عبد الله بن عمرو أو قال حديث عبد الله بن عمر، وعلقت عليه فقلت: وإسناده صحيح عن عبد الله بن عمرو، وقلت: إسناده صحيح، فهل هو في حكم المرفوع إلى رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم –

بهذا الإسناد؟

الشيخ: ما عندي جواب غير ما سمعته، إن كان مصرحاً برفعه فهو كذلك، وإن كان غير مصرح فهو موقوف.

مداخلة: لا ما هو مصرح فهل يعني إذا كان موقوفاً كيف النظر إلى الحديث، هل نقول: أن العرش مطوق بحية؟

الشيخ: لا، ما نقول، وأظن أجبتكم يوم كان الجواب، يعني: لك، هو كان جواباً متكرراً لغيرك؛ أقوال الصحابة إذا صحت عنهم لِتكون في منزلة الأحاديث المرفوعة إلى الرسول عليه السلام يجب أن تكون أولاً: مما لا يقال بالرأي وبالاجتهاد، هذه النقطة بالذات هناك مجال للاختلاف بين العلماء والفقهاء في بعض ما يتفرع من هذا الشرط، وهو أن يكون قول الصحابي أو الحديث الموقوف على الصحابي مما لا يقال بالرأي، ممكن يصير فيه اختلاف، مثلاً: إذا جاء حديثٌ ما فيه النهي عن شيء، هل هذا في حكم المرفوع أم لا، فمن يظن أن النهي عن الشيء لا يمكن أن يكون بالاجتهاد يقول: حكمه حكم المرفوع، ومن يظن مثلي أنا أنه يمكن للصحابي ولمن جاء من بعدهم من الأئمة أن يجتهد وينهى عن شيء ويكون في اجتهاده مخطئاً فيجب إذاً: أن يكون الحديث الموقوف على الصحابي الذي يراد أن نقول: إنه في حكم المرفوع يجب أنه لا يحيط به أي شك في أنه في حكم المرفوع، ومتى يكون ذلك؟ حين لا مجال أن يقال بمجرد الرأي والاجتهاد، هذا الشرط الأول.

والشرط الثاني، أو قبل ما أقول الشرط الثاني: الشرط الأول يعود في الحقيقة إلى أمر غيبي، وهو من معانيه التحريم والتحليل، لكن هذا الأمر الغيبي ينقسم قسمين: قسم يتعلق بالشريعة الإسلامية، وقسم يتعلق بما قبل الشريعة من الشرائع المنسوخة، فلكي يكون الحديث الموقوف في حكم المرفوع ينبغي أن يكون متعلقاً بالشريعة الإسلامية وليس متعلقاً بما قبلها، لماذا؟

هنا بيت القصيد، لأنه يمكن أن يكون من الإسرائيليات، والتاريخ الذي يتعلق بما قبل الرسول عليه السلام … معناه من بدء الخلق إلى ما قبل الرسول عليه السلام وبعثته هو من هذا القبيل.

فإذا جاءنا حديث يتحدث عما في السماوات من عجائب ومخلوقات، وهو لا يمكن أن يقال جزماً بالرأي والاجتهاد فيتبادر إلى الذهن إذاً هذا في حكم المرفوع، لكن لا، ممكن أن يكون هذا من الإسرائيليات التي تلقاها هذا الصحابي من بعض الذين أسلموا من اليهود والنصارى، ولذلك فينبغي أن يكون الحديث الموقوف والذي يراد أن نجعله في حكم المرفوع ما يوحي بأنه ليس له علاقة بالشرائع السابقة.

فهذا الحديث عن عبد الله بن عمرو يمكن أن يكون من الأمور الإسرائيلية التي تتحدث عما في السماء من العجائب، ومن خلق الملائكة، لكن الذي ثابت … الآن عكس ذاك تماماً، يشعر الإنسان فوراً أن هذا لا يمكن أن يكون من الإسرائيليات، فهو إذاً موقوف في حكم المرفوع ولا مناص، ما هو؟

الحديث المعروف والمروي عن ابن عباس بالسند الصحيح، قال رضي الله عنه: نزل القرآن إلى بيت العزة في السماء الدنيا جملة واحدة، ثم نزل أنجماً حسب الحوادث، فهو إذاً: يتحدث عن القرآن وليس عن التوراة والإنجيل، فلو كان حديثه هذا الموقوف عن التوراة والإنجيل ورد الاحتمال السابق، فيقال: لا نستطيع أن نقول هو في حكم المرفوع، لكن ما دام يتعلق بالقرآن وأحكام القرآن وكل ما يتعلق به لا يمكن أن يتحدث عنه بشيء غيبي إلا ويكون الراوي قد تلقاه من الرسول عليه السلام، لأنه كون القرآن نزل جملة هذا غيب من أين يعرف ابن عباس تلقاه من بعض الإسرائيليات هذا مستحيل، ونزل إلى بيت العزة في السماء الدنيا تفصيل دقيق [لا يمكن] للعقل البشري أن يصل إليه، لذلك هذا الحديث يتعامل العلماء معه كما لو كان قد صرح ابن عباس فيه برفعه إلى النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -.

باختصار: إن الأحاديث الموقوفة ليس من السهل أبداً أن يحكم عليها بحكم المرفوع إلا بدراسة دقيقة ودقيقة جداً، وذلك لا يستطيعه إلا كبار أهل العلم.

سؤال: جزاك الله خير يا شيخنا.

الشيخ: وإياك بارك الله فيك.

مداخلة: هذه فائدة فريدة عضوا عليها بالنواجذ والأضراس والثنايا.

الشيخ: جزاك الله خيراً.

“الهدى والنور” (255/ 56: 07: 00).

سائل : یہ سوال ہے جو ٹیلی فون پر اپ سے کیا تھا حدیث جو میں نے اپ سے ذکر تھا  کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے اور الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے اپ نے  ذکر کیا کہ میں پھر سوال کروں تو  کیا یہ حدیث صحیح ہے  جو مختصر العلو میں ہے حدیث عبداللہ بن عمرو جس پر تعلیق میں کہا اس کی اسناد صحیح ہیں اور  ( وہاں اپ نے کہا) میں (البانی) کہتا ہوں  اسناد صحیح ہیں – تو کیا یہ مرفوع قول نبی صلی الله علیہ وسلم کے حکم میں اتا ہے  اس اسناد سے ؟

البانی : میرا جواب اس سے الگ ہے جو اپ نے سنا اگر رفع کی صراحت ہے تو ایسا ہے ورنہ یہ موقوف ہے

مداخلة:  نہیں یہ صراحت نہیں ہے تو اگر یہ موقوف ہے تو   ہم حدیث کو کیسا دیکھیں؟ کیا ہم کہیں کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے؟

البانی : نہیں ، ہم یہ نہیں بول سکتے اور میرا گمان ہے کہ اس روز جو میں نے جواب دیا تھا وہ  اپ کے لئے تھا ،  یہ جواب مکرر ہے دوسروں کے لئے – ایسے اقوال جو اصحاب رسول کے ہوں اور ان کی صحت معلوم ہو تو  ان کا مقام حدیث مرفوع جو نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتی ہو جیسا ہے اگر اول: جو انہوں نے کہا وہ رائے نہ ہو اجتہاد نہ ہو – اس بات پر علماء و فقہاء کا اختلاف  ہوتا ہے کہ اس کے مشتقات میں یہ شرط ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے قول صحابی یا حدیث موقوف ، رائے سے نہ کہی گئی بات ہو – اس امکان کی بنا پر اس میں اختلاف ہوتا ہے  مثلا جب حدیث میں کسی چیز کی  ممانعت کا ذکر ہو ، تو کیا یہ حکم مرفوع ہے یا نہیں ؟ پس جو (علماء) گمان کرتے ہیں کہ یہ نہی ہے وہ اس کو اجتہاد نہیں لیتے اور کہتے ہیں یہ حکم مرفوع حکم ہے اور بعض میرے جیسے (علماء ) یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صحابی کا قول ہو اور جو ان  کا جو کے بعد  ائمہ آئے ہیں کہ وہ اجتہاد کریں کسی چیز سے منع کریں یا اجتہاد میں غلطی کریں ….. پس یہ پہلی شرط ہے – اور شرط اول (کے تحت حدیث) حقیقت سے امر غیبی تک جاتی ہے اور اپنے معنی میں حلال و حرام پر ہو گی – لیکن اس امر غیبی میں دو قسمیں ہیں- ایک کا تعلق شریعت سے ہے اور ایک کا منسوخ شریعتوں سے-  پس میرے نزدیک حدیث موقوف جو ہے وہ حدیث مرفوع کے حکم پر ہے تو اس میں شریعت اسلامی کا ذکر ہونا چاہیے اور اس سے قبل کی باتوں (اہل کتاب کی شریعت) پر نہیں – کیوں ؟ کیونکہ یہ نکتہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو اور اس تاریخ سے متعلق جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے گذری .. اس معنوں میں ہے مخلوق کا شروع ہونا سے لے کر بعثت نبوی تک کا دور- پس جب کوئی حدیث ہو جس میں آسمانوں کے عجائب و مخلوقات کا ذکر ہو اور یہ امکان نہ رہے کہ یہ بات اجتہاد یا رائے کی ہے تو ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ حکم مرفوع میں سے ہے  لیکن نہیں ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جو ان اصحاب رسول نے بیان کیے جو یہود و نصاری میں سے ایمان لائے اس وجہ سے یہ حدیث موقوف ہونی چاہیے اور اس کا تعلق سابقہ شریعت سے  نہیں ہونا چاہیے

پس یہ حدیث جو عبد الله بن عمرو سے ہے ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جس میں آسمان کے عجائبات کا ذکر ہے اور ملائکہ کی تخلیق لیکن جو ثابت ہے … ابھی وہ اس سے مکمل الٹ ہے –  انسان فورا  جان جاتا  ہے  کہ یہ الإسرائيليات میں سے نہیں ہو سکتی- پس حدیث موقوف، مرفوع  کے حکم میں ہو اور قابل رد نہ ہو ، تو پھر کیا ہے ؟

ایک معروف حدیث ابن عباس سے صحیح سند سے ہے اپ رضی الله عنہ نے فرمایا قرآن بیت العزہ سے آسمان دنیا پر ایک بار نازل ہوا پھر حسب حوادث تھوڑا تھوڑا نازل ہوا پس جب یہ قرآن کے بارے میں ہے  التوراة والإنجيل کے بارے میں  نہیں ہے تو یہ حدیث موقوف ہے  التوراة والإنجيل کے لئے اور اس پر وہی احتمال اتا ہے پس کہا جاتا ہے ہم اس کو حکم مرفوع نہیں کہیں گے لیکن جب تک یہ قرآن سے متعلق ہو اور احکام قرآن سے متعلق ہو اس وقت تک … قصہ مختصر احادیث موقوف میں یہ کبھی بھی آسان نہ ہو گا کہ ان پر حکم مرفوع لگایا جائے سوائے ان کی تحقیق دقیق کے اور بہت دقیق تحقیق کے اور اس پر  سوائے کبار علماء کے کوئی قادر نہیں ہیں

اس تمام بحث کے چیدہ نکات ہیں کہ البانی کے نزدیک عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کی حدیث موقوف صحیح ہے –  اپ غور کریں یہ روایت  عرش  کی خبر ہے  اوراس کا سابقہ شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے  – یہ غیبی خبر ہے جس میں رائے کا دخل نہیں ہے لیکن البانی کے گلے میں اٹک گئی ہے کیونکہ وہ اس کو صحیح کہہ چکے تھے اب  یہ بھی نہیں کہتے کہ  لوگ بولیں کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے کیونکہ ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو

اصل میں غیر مقلدین علماء کافی دنوں سے  عبد الله بن  عمرو رضی الله عنہ کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ  الإسرائيليات روایت کرتے تھے ؟ ابن کثیر نے اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر عبد الله بن عمرو کی روایت بیان کی اور مذاق اڑانے والے انداز میں کہا

 لَعَلَّهُ مِنَ الزَّامِلَتَيْنِ اللَّتَيْنِ أَصَابَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَ الْيَرْمُوكِ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَكَانَ يُحَدِّثُ مِنْهُمَا أَشْيَاءَ غَرَائِبَ.

لگتا ہے ان اونٹنیوں والی کتب جو  اہل کتاب میں سے تھیں جو ان کے ہاتھ لگیں یوم یرموک میں  پس اس سے غریب چیزیں روایت کرتے تھے

اس طرح سات بار اس قول کا اعادہ کیا اور افسوس ایک بار بھی سند میں مجہولین اور ضعیف راویوں پر روایت کا بار نہ ڈالا

بھول جانے والے، غلطی کرنے والے  یا اختلاط کا شکار راویوں  کی بنیاد پر ہم یہ مان رہے ہیں کہ اصحاب رسول روایت کرنے میں  اور اجتہاد میں غلطیاں کرتے تھے مثلا حواب کے  کتوں والی روایت جو ایک مختلط قیس بن ابی حازم کی روایت کردہ ہے اس کی بنیاد پر ام المومنین رضی الله عنہا  کی اجتہادی خطا کا ذکر ہوتا رہتا ہے – یعنی ہم یہ مان گئے کہ راوی غلطی نہیں کر سکتا اصحاب رسول کر سکتے ہیں – یہ کہاں کا انصاف ہے

جھمیوں کے رد میں محدثین پر ایک جنوں سوار تھا کہ کسی طرح عرش کو ایک ٹھوس چیز ثابت کریں لہذا وہ جوش میں اس قسم کی روایات جمع کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ یہ روایت امام احمد کے بیٹے کی کتاب السنہ میں بھی ملتی ہے اور عرش سے متعلق محدثین کی کتابوں میں بھی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ الإسرائيليات میں سے ہیں اور اس طرح انہوں نے اپنا مقدمہ خود کمزور کیا اور معتزلہ کو عوامی پذیرائی ملی

الأسماء و الصفات

ينزل ربنا عزوجل كل ليلة الى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر فيقول:من يدعونى فاستجيب له من يسألنى فأعطيه،من يستغفرنى فأغفر له.

ہمارا رب ہر رات کو آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے یہاں تک کہ آخری تہائی رات رہتی ہے  اور کہتا ہے کون ہے جو دعا کرے میں جواب دوں کون ہے جو سوال کرے میں عطا کروں کون ہے جو معافی مانگے دو میں بخش دوں
پلیز اس روایت کا کچھ وضاحت کردے
جزاک الله خيرا

جواب

یہ روایت صحیح ہے لیکن متشابھات میں سے ہے

امام بخاری نے اس روایت کو صحیح میں لکھا ہے الله مغفرت کرتا ہے لیکن اس پر کوئی رائے پیش نہیں کی

بعض محدثین کا عقیدہ تھا کہ الله تعالی نزول کرتے ہیں یعنی سات آسمان کے اوپر سے آسمان دنیا تک- اس میں ان کا اپس میں اختلاف تھا کہ اس عمل نزول  میں عرش کیا خالی ہوتا ہے یا وہ بھی نزول کرتا ہے- اس بحث کا آغاز جھم بن صفوان کے رد سے ہوتا ہے – جھم بن صفوان ایک جاہل فلسفی تھا وہ بنو امیہ کے آخری دور میں عقیدہ رکھتا تھا کہ الله ایک انرجی نما شی ہے جو تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے اس کا عقیدہ ہندو دھرم شکتی کے مماثل تھا –  علماء نے اس کا رد کیا لیکن اس میں اس روایت کو پیش کیا کہ الله عرش پر ہے اور نزول کرتا ہے یعنی بائن من خلقه اپنی مخلوق سے جدا ہے اس میں سرایت کیے ہوئے نہیں ہے –  لیکن اس بحث میں اس روایت کی تفسیر میں سلف کا اختلاف بھی ہو گیا

شعیب الارنوط ابن ماجہ کی شرح میں قول پیش کرتے ہیں
قال الحافظ ابن حجر في “الفتح” 3/ 30 وهو ينقل اختلاف أقوال الناس في معنى النزول: ومنهم من أَجْراه على ما ورد مؤمنًا به على طريق الإجمال منزها الله تعالى عن الكيفية والتشبيه، وهم جمهور السلف، ونقله البيهقي وغيره عن الأئمة الأربعة والسُّفيانَين والحمَّادَين والأوزاعي والليث وغيرهم … ثم قال: قال البيهقي: وأسلمها الإيمان بلا كيف والسكوت عن المراد إلا أن يَرِدَ ذلك عن الصادق فيُصار إليه، ومن الدليل على ذلك اتفاقهم على أن التأويل المعيَّن غير واجبِ فحينئذِ التفويضُ أسلمُ. اهـ. وقال السندي: حقيقة النزول تُفوض إلى علم الله تعالى، نَعَم القَدْر المقصود بالإفهام يعرفه كل واحدٍ، وهو أن ذلك الوقت قُرب الرحمة إلى العباد فلا ينبغي لهم إضاعتُه بالغفلة.
ابن حجر نے فتح الباری میں اس روایت پر لوگوں کا اختلاف نقل کیا ہے کہ اس میں نزول کا کیا مطلب ہے تو ان میں سے بعض نے اس پر اجرا کیا ہے کہ ایمان ہے نزول کی کیفیت و تشبہ پر جو جمہور سلف ہیں اور اس کو بیہقی نے چار ائمہ سے نقل کیا ہے سفیان ثوری ، ابن عیننہ، حماد بن سلمہ اور ابن زید سے اور اوزاعی اور لیث سے پھر بیہقی نے کہا اس کی …. تاویل کو تفویض کرتے ہیں

البیہقی نے اسماء و صفات میں اور کتاب : الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث میں اشاعرہ والا عقیدہ لیا ہے کہ اس میں صفات کو ظاہر پر نہیں لیا جائے گا ان کو متشابھات کہا جائے گا تاویل نہیں کی جائے گی کیونکہ بیہقی قاضی ابن الباقلانی سے متاثر تھے اور صفات میں اشاعرہ کا عقیدہ رکھتے تھے

سلف میں سے بعض کہتے ہیں وہ واقعی نزول کرتا ہے حتی کہ اس کا عرش خالی ہو جاتا ہے اس کو يخلو العرش عند النزول کا مسئلہ کہا جاتا ہے

محدث عثمان بن سعید الدارمی السجستاني (المتوفى: 280هـ) (یہ سنن والے امام دارمی نہیں ہیں) الرد على الجهمية اس پر کہتے ہیں
فَالَّذِي يَقْدِرُ عَلَى النُّزُولِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ السَّمَوَاتِ كُلِّهَا لِيَفْصِلَ بَيْنَ عِبَادِهِ قَادِرٌ أَنْ يَنْزِلَ كُلَّ لَيْلَةٍ مِنْ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ
پس الله تعالی قادر ہیں کہ روز مجشر تمام آسمانوں میں سے نزول کریں کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں وہ قادر ہیں کہ ہر رات ایک آسمان سے دوسرے آسمان نزول کریں

دارمی کی شرح میں کیفیت ا گئی ہے جس سے امام مالک اور ابو حنیفہ منع کرتے تھے حشر کے وقت سات آسمان بدل چکے ہوں گے

دارمی نے دلیل میں آیت پیش کی سوره بقرہ میں ہے
هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ
کیا یہ دیکھنا چاہتے ہیں سوائے اس کے کہ الله بادلوں کے سائے میں سے آئے اور فرشتے

اس متشابہ آیت سے الدارمی نے جھم کا رد کیا کہ الله تعالی ایک آسمان سے دوسرے آسمان میں نزول کرتا ہے یعنی تاویل و تفسیر کی جس سے منع کیا گیا تھا

الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة میں کہتے ہیں
وَلَا يَسَعُ الْمُسْلِمُ الْعَاقِلُ أَنْ يَقُولَ: كَيْفَ يَنْزِلُ؟ وَلَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا الْمُعْتَزِلَةُ وَأَمَّا أَهْلُ الْحَقِّ فَيَقُولُونَ: الْإِيمَانُ بِهِ وَاجِبٌ بِلَا كَيْفٍ
اور میں نے کسی مسلم سے نہیں سنا کہ کہے الله کیسے نزول کرتا ہے ؟ اور اس نزول کا کوئی رد نہیں کرتا سوائے الْمُعْتَزِلَةُ کے اور اہل حق کہتے ہیں اس پر ایمان واجب ہے بغیر کیفیت کے

نزول پر الله کا عرش خالی نہیں ہوتا اس قول کو امام احمد سے منسوب کیا گیا ہے اس کو ابن تیمیہ نے فتاوی میں قبول کیا ہے
القاضي أبو يعلى ، إبطال التأويلات (1/261): “وقد قال أحمد في رسالته إلى مسدد: إن الله عز وجل ينزل في كل ليلة إلى السماء الدنيا ولا يخلو من العرش. فقد صرح أحمد بالقول إن العرش لا يخلو منه

امام الذھبی نے اس پر کتاب العرش لکھی- اس کے محقق محمد بن خليفة بن علي التميمي نے لکھا ہے
هل يخلو العرش منه حال نزوله لأهل السنة في المسألة ثلاثة أقوال: القول الأول: ينزل ويخلو منه العرش . وهو قول طائفة من أهل الحديث . القول الثاني: ينزل ولا يخلو منه العرش3. وهو قول جمهور أهل الحديث4 ومنهم الإمام أحمد، وإسحاق بن راهويه، وحماد بن زيد، وعثمان ابن سعيد الدارمي وغيرهم . القول الثالث: نثبت نزولاً، ولا نعقل معناه هل هو بزوال أو بغير زوال.
وهذا قول ابن بطة والحافظ عبد الغني المقدسي وغيرهما
نزول پر عرش خالی ہونے پر اہل سنت کے تین قول ہیں پہلا قول ہے یہ خالی ہو جاتا ہے یہ اہل حدیث کے ایک گروہ کا قول ہے دوسرا ہے نہیں ہوتا یہ جمہور اہل حدیث ہیں جن میں احمد اسحاق حماد اور عثمان دارمی ہیں تیسرا قول ہے نزول کا اثبات ہے لیکن یا زوال ہے یا نہیں اس کا تعقل نہیں یہ ابن بطہ اور المقدسی اور دوسروں کا قول ہے

المقدسی کی کتاب الاقتصاد في الاعتقاد میں لکھا ہے کہ امام إسحاق بن راهويه نے کہا
ومن قال يخلو العرش عند النزول أو لا يخلو فقد أتى بقول مبتدع ورأى مخترع
جس نے کہا عرش خالی ہو گیا یا کہا نہیں ہوا وہ بدعتی کی اور اختراع کرنے والے کی رائے پر آیا

إسحاق بن راهويه کے بقول جو یہ کہے عرش خالی نہیں ہوا وہ بھی بدعتی ہے

یہ امام احمد اور امام إسحاق بن راهويه کا اختلاف ہے

الغرض یہ روایت متشابہ ہے ان کی تاویل و تفسیر منع ہے- لہذا اس کو دلیل میں نہیں پیش کیا جانا چاہیے تھا لیکن محدثین نے اس کو پیش کیا پھر کہا اس میں کیفیت کا علم نہیں -جب اپ کو اس روایت کا صحیح علم نہیں تو اس پر بحث و مباحثہ کی ضرورت کیا تھی – یہ الگ بحث ہے جھم کا عقیدہ صحیح نہیں تھا

ابن مندہ کی رائے

یہ قول کہ عرش خالی ہو جاتا ہے أبن منده کا ہے اور ابن تیمیہ نے اس کی نسبت کا انکار کیا ہے لیکن انہوں نے ابن مندہ کی کتب کو صحیح طرح دیکھا نہیں طبقات حنابلہ کی ایک روایت پر جرح کر کے اس قول کی نسبت ابن مندہ سے رد کی ہے

أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن محمد بن يحيى بن مَنْدَه العبدي (المتوفى: 395هـ) عرش خالی ہونے کا عقیدہ اپنی کتاب الرد على الجهمية میں ایک روایت سے پیش کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سَهْلٍ الدَّبَّاسُ، بِمَكَّةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْخِرَقِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا مَحْفُوظٌ، عَنْ أَبِي تَوْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ يَنْزِلُ إلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، وَلَهُ فِي كُلِّ سَمَاءٍ كُرْسِيٌّ، فَإِذَا نَزَلَ إلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا جَلَسَ عَلَى كُرْسِيِّهِ، ثُمَّ مَدَّ سَاعِدَيْهِ» ، فَيَقُولُ: «مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ غَيْرَ عَادِمٍ وَلَا ظَلُومٍ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَتُوبُ فَأتُوبَ عَلَيْهِ» . فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الصُّبُحِ ارْتَفَعَ فَجَلَسَ عَلَى كُرْسِيِّهِ هَكَذَا [ص:43] رَوَاهُ الْخِرَقِيُّ، عَنْ مَحْفُوظٍ، عَنْ أَبِي تَوْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَلَهُ أصْلٌ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ مُرْسَلٌ
ابن مسیب نے ابو ہریرہ سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ الله تعالی آسمان دنیا پر نزول کرتے ہیں اور ان کے لئے ہر آسمان پر کرسی ہے یہاں تک کہ جب آسمان دنیا پر اتے ہیں اپنی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں … اس کو الخرقی نے محفوظ سے … روایت کیا ہے اور اس کا اصل ہے یہ سعید بن المسیب سے مرسل ہے

اپ نے دیکھا روایت کا اصل ہے ؟ ابن مندہ نے روایت کا رد نہیں کیا اور الله تعالی کو کرسی پر بٹھا دیا ہے کیونکہ عرش تو ایک ہی ہے کرسی ہر آسمان پر ہے اب اگر وہ کرسی پر ا گیا تو تقینا عرش خالی ہو گیا

راقم کے نزدیک یہ وہ قول ہے جس کی بنا پر محدث ابن مندہ پر لوگوں نے جرح کی ہے اور ابن تیمیہ سے تسامح ہوا انہوں نے بنیادی ماخذ نہیں دیکھا

کتاب فتح الباری از ابن حجر میں ہے

وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي مَعْنَى النُّزُولِ عَلَى أَقْوَالٍ فَمِنْهُمْ مَنْ حَمَلَهُ عَلَى ظَاهِرِهِ وَحَقِيقَتِهِ وَهُمُ الْمُشَبِّهَةُ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ قَوْلِهِمْ

اور نزول کے معنی میں اختلاف ہے پس اس میں بعض نے اس کو ظاہر پر لیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حقیقی نزول ہے اور یہ اس قول میں الْمُشَبِّهَةُ  پر ہیں

وہابی  عالم ابن العثيمين  شرح العقيدة الواسطية ج ٢ ص ١٣  میں کہتے ہیں

قوله: “ينزل ربنا إلى السماء الدنيا”: نزوله تعالى حقيقي …. أن كل شيء كان الضَّمير يعود فيه إلى الله؛ فهو ينسب إليه حقيقة

حدیث میں قول ہمارا رب نازل ہوتا ہے تو یہ نزول حقیقی ہے …. ہر وہ چیز جس میں ضمیر اللہ کی طرف پلٹ رہی ہو اس کو حقیقیت لیا جائے گا

عبد الکبیر محسن کتاب توفیق الباری شرح صحیح البخاری جلد دوم میں لکھتے ہیں

%d9%86%d8%b2%d9%88%d9%84-%d9%a1

%d9%86%d8%b2%d9%88%d9%84-%d9%a2

کتاب سیر الاعلام النبلاء از امام الذھبی کے مطابق السَّمْعَانِيُّ أَبُو سَعْدٍ نے کہا

وَكَانَ كُوتَاهُ يَقُوْلُ: النُّزُولُ بِالذَّاتِ، فَأَنْكَرَ إِسْمَاعِيْلُ هَذَا، وَأَمرَهُ بِالرُّجُوْعِ عَنْهُ، فَمَا فَعلَ

مُحَدِّثُ أَصْبَهَانَ كُوْتَاه عَبْدُ الجَلِيْلِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ الوَاحِدِ  کہتے کہ الله تعالی بذات نزول کرتا ہے اس کا إِسْمَاعِيْلَ بنِ مُحَمَّدٍ الحَافِظِ  نے انکار کیا اور كُوْتَاه  کواس سے رجوع کا حکم کیا لیکن كُوْتَاه عَبْدُ الجَلِيْلِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ الوَاحِدِ  نے یہ نہ کیا

اس کے بعد الذہبی کہتے ہیں

وَمَسْأَلَةُ النُّزَولِ فَالإِيْمَانُ بِهِ وَاجِبٌ، وَتَرْكُ الخوضِ فِي لوازِمِهِ أَوْلَى، وَهُوَ سَبِيْلُ السَّلَفِ، فَمَا قَالَ هَذَا: نُزُولُهُ بِذَاتِهِ، إِلاَّ إِرغَاماً لِمَنْ تَأَوَّلَهُ، وَقَالَ: نُزولُهُ إِلَى السَّمَاءِ بِالعِلْمِ فَقَطْ، نَعُوذُ بِاللهِ مِنَ المِرَاءِ فِي الدِّينِ.
وَكَذَا قَوْلُهُ: {وَجَاءَ رَبُّكَ} [الفجرُ: 22] ، وَنَحْوُهُ، فَنَقُوْلُ: جَاءَ، وَيَنْزِلُ وَننَهَى عَنِ القَوْلِ: يَنْزِلُ بِذَاتِهِ، كَمَا لاَ نَقُوْلُ: يَنْزِلُ بِعِلْمِهِ، بَلْ نَسكتُ، وَلاَ نَتفَاصَحُ عَلَى الرَّسُولِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بِعبَارَاتٍ مُبْتَدَعَةٍ – وَاللهُ أَعْلَم

اور نزول کا مسئلہ پر ایمان واجب ہے اور اس کو ترک کرنا بنیادی لوازم میں جھگڑا ہے اور یہ سلف کا رستہ ہے اور اس کا کہنا نزول بذاتہ ہے تو یہ سوائے تاویل کے کچھ نہیں ہے اور کہا آسمان میں اپنے علم سے نزول کرتا ہے فقط   تو (اس پر بھی) ہم الله سے پناہ مانگتے ہیں کہ دین میں  جھگڑے کریں اور اسی طرح الله کا قول ہے {وَجَاءَ رَبُّكَ} [الفجرُ: 22] کہ تمہارا رب آئے گا اور اسی طرح کی آیات وہ آئے گا نازل ہو گا اور اس قول سے منع کیا گیا  کہ (کہو) يَنْزِلُ بِذَاتِهِ  بذات نزول کرتا ہے اسی طرح ہم نہیں کہیں گے کہ اپنے علم سے نزول کرے گا بلکہ چپ رہیں گے

یعنی امام الذھبی نے نزول  کو متشابہ مانا ہے نزول بذات یا نزول بعلم دونوں اقوال سے منع کیا ہے

زمین پر ہر وقت کسی نہ کسی مقام پر رات کا آخری تیسرا پہر ہوتا ہے لہذا ایک رائے  یہ ہے کہ ادبی انداز ہے کہ الله کی رحمت ہر وقت ہے  لہذا اس روایت کا  مطلب ظاہر پر نہیں ہے یہ مجاز ہے-  اغلبا محدثین یہ سمجھتے تھے کہ اگر رات ہوئی تو اس وقت تمام عالم پر رات ہے کہیں دن نہیں ہے  وہ اس سے بے خبر تھے کہ زمین گول ہونے کی وجہ سے اس پر ہر وقت کہیں رات ہوتی ہے اس لا علمی کی وجہ سے عصر حاضر کے بہت سے علماء اس کے انکاری ہیں کہ زمین گول ہے

اگر یہ مان لیا جائے کہ الله تعالی حقیقی نزول کرتے ہیں اور اس میں عرش خالی بھی نہیں ہوتا تو یہ ماننا بھی لازم ہو گا کہ عرش سے لے کر سات آسمان تک تمام ذات الباری تعالی میں حلول کر جاتے ہیں

وہابی  عالم ابن العثيمين  کہتے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس وقت کو محدود کیا ہے جب آسمان دنیا پر الله کا نزول ہوتا ہے بوقت خاص پس جب یہ وقت ہو گا اس کا نزول ہو گا اور جب ختم ہو گا نزول ختم ہو گا اور اس میں کوئی اشکال نہیں

شاید اس کو سن کر بعض لوگ مطمئن ہو جائیں راقم کو یہ خوب زمیں کی ہیت سے انکار معلوم ہوتا ہے کہ زمیں گول نہیں ہے! جبکہ قرآن کہتا ہے زمیں گول ہے اور آسمان اس کے گرد ہے

اسی کتاب میں وہابی  عالم ابن العثيمين  کہتے ہیں

اور یہ نصوص جو اثبات فعل اور انے اور استواء اور نزول  آسمان دنیا پر ہیں ،  لازم کرتے ہیں کہ الله حرکت کرتے ہیں پس ان کے لئے حرکت حق ہے،  ثابت ہے جو متقاضی ہے ان نصوص کی وجہ سے اور اس کو لازم کرتے ہیں اور  ہم اس حرکت کی  کیفیت کو عقل میں نہیں لاتے

 الشيخ ابن عثيمين کتاب  شرح الواسطية ” ( 2 / 437 ) میں لکھتے ہیں

قالوا : كيف ينزل في ثلث الليل ، وثلث الليل إذا انتقل عن المملكة العربية السعودية ذهب إلى أوروبا وما قاربها ؟ فنقول : أنتم الآن قستم صفات الله بصفات المخلوقين ، أنت أو من أول بأن الله ينزل في وقت معين وإذا آمنت ليس عليك شيء وراء ذلك ، لا تقل كيف وكيف ؟ .

فقل : إذا كان ثلث الليل في السعودية فإن الله نازل وإذا كان في أمريكا ثلث الليل يكون نزول الله أيضاً . 

کہتے ہیں کیسے الله تعالی رات کے تیسرے پہر نازل ہو سکتے ہیں – جب سعودی عرب کا تیسرا پہر منتقل ہو کر یورپ کی طرف جاتا ہے اور اس کے قریب میں ؟ تو ہم کہتے ہیں تم اس وقت الله کی صفات کو ملخوق کی صفات سے ملا رہے ہو … پس کہو : جب سعودی عرب کا تیسرا پہر ہو گا تو الله تعالی وہاں نازل ہو گا اور جب امریکا میں ہو گا تو وہاں نازل ہو گا

راقم کہتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ وہابی اور اہل حدیث علماء کا عقیدہ ہے کہ الله تعالی چاند کی طرح زمین کے گرد مدار میں گھومتا رہتا ہے کیونکہ رات کا تیسرا پہر تو مسلسل اس زمین پر گھومتا ہے جب زمین گھومتی ہے اور روشنی اس زمین پر چلتی ہے

یہ نزول حقیقی نہیں اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ معراج کی رات نبی صلی الله علیہ وسلم نے پہلے آسمان پر الله تعالی کو نہیں دیکھا

[توریت میں ہے کہ الله آسمان کو اٹھا لے گا؟]

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ}) صحیح بخاری: کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں (باب: آیت (( وماقدروااللہ حق قدرہ )) کی تفسیرمیں)
4811 . حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ حَبْرٌ مِنْ الْأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّا نَجِدُ أَنَّ اللَّهَ يَجْعَلُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ وَسَائِرَ الْخَلَائِقِ عَلَى إِصْبَعٍ فَيَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ الْحَبْرِ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ

حکم : صحیح

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمان نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابراہیم نخعی نے ، ان سے عبیدہ سلما نی نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ علماءیہود میں سے ایک شخص رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد ! ہم تورات میں پاتے ہیںکہ اللہ تعا لیٰ آسمانوںکو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھرفرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں ۔ آنحضرت اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے ۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ ” اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی اور حال یہ کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے ۔ وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے ۔ “

جواب

اس روایت میں بہت اہم اور قابل غور باتیں ہیں

اول : الله تعالی روز محشر آسمانوں کو لپٹ کر دکھائے گا ہمارا اس پر ایمان ہے لیکن کیفیت کا علم نہیں اور نہ ہم اعضا کا اثبات کرتے ہیں لیکن ٢٠٠ ہجری میں یہ بات بعض محدثین میں مشھور ہو چلی تھی کہ الله کے لئے اعضا ہیں وہ اس آیت سے سیدھا ہاتھ ثابت کرتے تھے اور انگلیاں وغیرہ

دوم : توریت کے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے کے نسخہ بھی ہیں جن میں
Dead Sea Scrolls
بھی ہیں
پوری توریت میں ایسا کوئی کلام نہیں کہ الله تعالی آسمانوںکو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھرفرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں

لہذا کسی نے یہود جو تجسیم کے قائل ہیں ان کے کندھے کو استعمال کیا ہے
تاکہ اس الزام سے بچا جا سکے کہ تجسیم یہود کا قول ہے

سوم : تجسیمی تفسیر مقاتل بن سُلَيْمَانَ البَلْخِيُّ أَبُو الحَسَنِ سے مسلمانوں میں آئی
وقال أبو بكر الأثرم: سمعت أبا عبد الله، هو أحمد بن حنبل، يسأل عن مقاتل بن سليمان، فقال: كانت له كتب ينظر فيها، إلا أني أرى أنه كان له علم بالقرآن. «تاريخ بغداد» 13/161.
أبو بكر الأثرم: نے کہا میں نے امام احمد کو سنا ان سے مقاتل بن سلیمان پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا اس کی کتابیں تھیں میں ان کو دیکھتا تھا بلاشبہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کو قرآن کا علم ہے
بعض محدثین کو اس کا کلام پسند آیا جن میں امام احمد بھی ہیں

چہارم : راقم کہتا ہے کہ توریت کے اس عالم میں کسی نسخہ میں یہ آیات دکھا دی جائیں ورنہ یہ اپ خود سوچیں جب مستشرقیں نے یہ سب پڑھا ہے تو وہ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے ؟ ایک چیز ١١٠٠ سال سے مسلمان کہے جا رہے ہیں اور وہ سرے سے موجود ہی نہیں
یاد رہے کہ دنیا میں اب صرف یہود و نصرانی ہی نہیں ملحدین بھی ہیں جو توریت و انجیل کے عالم ہیں اور مغربی یونیورسٹیوں میں محقق ہیں اور یہ لوگ تعصب سے بری بھی ہوتے ہیں ایسا نہیں کہ ہر وقت اسلام دشمنی کی حالت میں رہیں سچ بھی کہہ رہے ہیں کہ اینجیل و توریت میں غلطیاں ہیں

پنجم : توریت کی جس خود ساختہ آیات کا اس میں ذکر ہے وہ قرآن کے متن میں ہے بھی نہیں تو تصدیق بھی نہیں ہے

ششم : روایت میں ثقات ہیں اس لئے اس کو قبول کیا گیا ہے لیکن یہ حقیقت کے خلاف ہے کہ توریت میں اس طرح کی آیات ہیں
لھذا راقم کے نزدیک یہ ثقہ کو غلطی ہوئی ہے
اس کو شبہ بھی ہوتا ہے
امام یحیی ابن معین کا نعیم بن حماد پر مشہور قول ہے کہ ان سے محمد بن علي بن حمزة المروزي نے سوال کیا
كيف يحدث ثقة بباطل؟ قال: شبه له.
ثقہ باطل حدیث کیسے روایت کرتا ہے ؟ ابن معین نے کہا اس کو شبہ ہوتا ہے
میزان الاعتدال از الذھبی

[/EXPAND]

[خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ کیا صحیح روایت ہے ؟أسماء وصفات کے باب میں سلف صالحین کا منہج کیا تھا ؟]

جواب

کتاب الضعفاء الكبير از امام العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں

فقہ مالکیہ کی معتمد کتاب المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة از ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق

وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا.
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے

الغرض امام بخاری نے اس کو صحیح میں روایت کر کے غلطی کی ہے یہ استاذ المحدثین امام مالک کے نزدیک سخت مجروح روایت ہے

امام مالک کے خلاف امام  احمد اور امام إسحاق بن راهويه اس کو ایک صحیح  روایت کہتے

مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه از  إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) کے مطابق

احمد نے کہا

ولا تقبحوا الوجه فإن الله عز وجل خلق آدم على صورته” يعني صورة رب العالمين،….قال الإمام أحمد: كل هذا صحيح.

اور إسحاق بن راهويه نے کہا

قال إسحاق: كل هذا صحيح، ولا يدعه إلا مبتدع أو ضعيف الرأي

یہ سب صحیح ہے اس کو صرف بدعتی اور ضعیف رائے والا رد کرتا ہے

اس طرح ان کا فتوی امام مالک پر لگا

[/EXPAND]

[حدیث قدسی ہے میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا – کیا یہ  صحیح ہے؟]

اسلام علیکم

میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پس اپنے شناخت کے لئے میں نے موجودات خلق کیے
اس قدسی روایت کا عربی متن اور حوالہ مجھے پتہ نہیں ہے. کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جزاکم الله خیرا

جواب

یہ روایت بے اصل ہے

کتاب التخريج الصغير والتحبير الكبير از ابن المبرد کے مطابق
كُنْتُ كَنْزًا لا أُعْرَفُ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ، فَخَلَقْتُ خَلْقًا، فَعَرَّفْتُهُمْ بِي، فَعَرَفُونِي” لا أصل له
میں ایک خزانہ تھا جس کو کوئی جانتا نہ تھا پس میں نے پسند کیا کہ جانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو خلق کیا پس ان سے جانا گیا اور انہوں نے مجھے متعارف کرایا- اس کا اصل نہیں ہے

سخاوی کتاب المقاصد الحسنة میں کہتے ہیں ابن تیمیہ نے کہا
إنه ليس من كلام النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولا يعرف له سند صحيح ولا ضعيف، وتبعه الزركشي وشيخنا
یہ رسول الله کا کلام نہیں ہے اور نہ یہ صحیح سند سے معلوم ہے نہ ضعیف سند سے اور الزرکشی اور ہمارے شیخ (ابن حجر) نے یہی کہا ہے

کتاب أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب از محمد بن محمد درويش، أبو عبد الرحمن الحوت الشافعي (المتوفى: 1277هـ) کے مطابق
وَهَذَا يذكرهُ المتصوفة فِي الْأَحَادِيث القدسية تساهلا مِنْهُم
اس کا ذکر صوفیوں نے احادیث قدسیہ میں کیا ہے جو ان کا تساہل ہے

الآلوسي تفسير (27/22) میں کہتے ہیں
ومن يرويه من الصوفية معترف بعدم ثبوته نقلاً؛ لكن يقول: إنه ثابت كشفاً، وقد نص على ذلك الشيخ الأكبر في الباب
المائة والثمانية والتسعين من “الفتوحات “، والتصحيح الكشفي شنشنة لهم
اور جو صوفیاء اس کو بیان کرتے ہیں وہ اس کے معترف ہیں کہ نقلا اس کا ثبوت نہیں ہے لیکن کہتے ہیں یہ کشف سے ثابت ہوا اور اس پر نص شیخ اکبر کی فتوحات کے باب میں ہے اور کشفی تصحیح ان کی کمزوری ہے

روایت میں ہے کہ الله ایک پوشیدہ شی تھا جب کوئی مخلوق نہیں تھی یہ الفاظ عقل پر نہیں اترتے اگر کوئی مخلوق نہیں تھی تو الله پوشیدہ کیسے تھا ؟
صوفيا کہتے ہیں الله پوشیدہ تھا اس نے مخلوق کو پیدا کیا کہ جانا جائے اور مخلوق سے کہا جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا تو گویا الله اور ہم ایک ہی وحدت میں ہیں کثرت مخلوق میں وحدت ہے
اصلا یہ فلسفہ غناسطی
gnosticism
ہے

[/EXPAND]

[کیا صفات باری تعالی بولنا الحاد ہے ]

جواب

لفظ صفت عربی میں فلسفہ یونان سے آیا ہے یہ لفظ قرآن میں نہیں ہے اور الله کے نام ہیں جن کو صفت نہیں کہا گیا ہے

یہ طریقہ استدلال فلسفہ کی وجہ سے رائج ہوا کیونکہ معتزلہ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے تھے – یہ طریقہ فلسفہ یونان کے امہات میں سے ہے کہ اشیاء اپنی صفت اور ضد سے پہچانی جاتی ہیں- ابن حزم کے نزدیک الله کے نام کو صفت کہنا بدعت اور اس کے ناموں میں الحاد ہے- الله کو ضد اور صفت کی بجائے اس طرح سمجھا جائے گا جیسا اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے بس نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں

 فَلَا يجوز القَوْل بِلَفْظ الصِّفَات وَلَا اعْتِقَاده بل هِيَ بِدعَة مُنكرَة

 پس یہ صفات کا لفظ بولنا اور اس پر اعتقاد جائز نہیں بلکہ یہ بدعت منکر ہے

محدثین کی رائے اس مسئلہ میں الگ ہے- محدثین  یونانی فلسفہ سے متاثر نہیں تھے لیکن معتزلہ کے رد میں وہ فلسفیانہ اصطلا حات کو استمعال کرتے رہے ہیں

فلسفہ کی پہلی شق ہے کہ ہر چیز اپنی صفت سے جانی جائے گی

لهذا سب سے پہلے الله کو ایک شی بنایا گیا اس پر دلائل پیش کیے گئے اس کے لئے سوره الانعام کی آیت سے استخراج کیا گیا
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ
کہو کس چیز کی شہادت سب سے بڑی ہے ؟ کہو الله کی جو گواہ ہے ہمارے اور تمہارے بیچ

اور قرآن میں ہے
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ
ہر چیز ہلاک ہو جائے گی سوائے الله کے وجھہ کے

اس سے محدثین نے استخراج کیا کہ الله ایک چیز ہے لیکن وہ یہ بھول  گئے کہ فلسفہ کی یہ شق عام چیزوں کے لئے ہے کیونکہ اصول عام پر ہوتا ہے استثنیٰ پر نہیں ہوتا الله نے اپنے لئے اگرچہ شی یعنی چیز کا لفظ بولا ہے لیکن اپنے اپ کو ان سے الگ بھی کیا ہے

ليس كمثله شيء

إس کی مثل کوئی شی نہیں ہے

بہرالحال اشیاء اپنی صفت سے جانی جاتی ہیں لیکن کیا صفت کا لفظ الله کے لئے بولا جا سکتا ہے ؟ ایک روایت سے ان کو دلیل بھی ملی مثلا امام بخاری ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں جس میں صفة الرحمن کا لفظ ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنِ ابْنِ أَبِي هِلاَلٍ، أَنَّ أَبَا الرِّجَالِ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَهُ عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَكَانَتْ فِي حَجْرِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا عَلَى سَرِيَّةٍ، وَكَانَ يَقْرَأُ لِأَصْحَابِهِ فِي صَلاَتِهِمْ فَيَخْتِمُ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، فَلَمَّا رَجَعُوا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «سَلُوهُ لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذَلِكَ؟»، فَسَأَلُوهُ، فَقَالَ: لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ، وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْبِرُوهُ أَنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُ»

سعید بن ابی ھلال روایت کرتے ہیں کہ ابا الرجال نے روایت کیا کہ ان کی ماں عمرہ نے روایت کیا اور وہ حجرہ عائشہ میں تھیں کہ عائشہ رضی الله عنہا نے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کو سریہ پر بھیجا اور وہ نماز میں کو سوره الخلاص پر ختم کرتے واپس انے پر اس کا ذکر رسول الله سے ہوا آپ نے فرمایا کہ اس سے پوچھو ایسا کیوں کرتے تھے پس ان صاحب سے پوچھا تو انہوں کے کہا کہ اس میں صفت الرحمن کا ذکر ہے اور مجھ کو یہ پسند ہے لہذا اس کو پڑھتا تھا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کو خبر دو کہ الله بھی اس کو پسند کرتا ہے

ابن حزم اس روایت میں راوی سعید بن ابی ھلال پر تنقید کرتے ہیں

 إِن هَذِه اللَّفْظَة انْفَرد بهَا سعيد بن أبي هِلَال وَلَيْسَ بِالْقَوِيّ قد ذكره بالتخطيط يحيى وَأحمد بن حَنْبَل

 3اور یہ لفظ بیان کرنے میں سعيد بن أبي هِلَال ( المتوفی ١٤٩ ھ ) کا تفرد ہے جو قوی نہیں اور اس کے اختلاط کا ذکر یحیی اور احمد نے کیا ہے

 محدث الساجي نے بھی اس راوی کو الضعفاء میں ذکر کیا ہے امام احمد کے الفاظ کتاب سؤالات أبي بكر أحمد بن محمد بن هانئ الأثرم میں موجود ہیں

 البانی اس صفت والی روایت کو صحیح کہتے ہیں لیکن کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها

 میں ایک دوسری روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں

 وفوق هذا كله؛ فإن أصل الإسناد- عند سائر المخرجين فيه سعيد بن أبي هلال، وهو مختلط

 اور ان سب میں بڑھ کر اس کی اسناد میں سارے طرق میں سعيد بن أبي هلال جو مختلط ہے

 کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں ایک دوسری روایت پر کہتے ہیں

 الثانية: سعيد بن أبي هلال؛ فإنه كان اختلط؛ كما قال الإمام أحمد

 دوسری علت سعيد بن أبي هلال بے شک مختلط ہے جیسا کہ امام احمد نے کہا

ایک اور روایت پر کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة لکھتے ہیں

 وفي إسناده سعيد بن أبي هلال؛ وهو وإن كان ثقة؛ فقد كان اختلط

 اور اس کی اسناد میں سعيد بن أبي هلال ہے اگر وہ ثقہ بھی ہو تو ان کو اختلاط تھا

 صفة الرحمن کے الفاظ کو بولنے میں سعيد بن أبي هلال راوی کا تفرد ہے لہذا ابن حزم کی رائے اس روایت پر درست معلوم ہوتی ہے ویسے بھی تاریخ کے مطابق یہ فلسفیانہ اصطلا حات بنو امیہ کے آخری دور میں اسلامی لیٹرچر اور بحثوں میں داخل ہوئیں

اللہ تعالی فلسفہ اور اس کی اصطلاحات سے بلند و بالا ہے لہذا اس کو شی اور صفت سے سمجھنا صحیح نہیں ہے اس نے  اپنے بارے میں کتاب الله میں جو بتا دیا ہے وہ انسانوں کے لئے کافی ہے

[/EXPAND]

[اہل حدیث مفوضہ کون ہیں اور المؤولة کون ہیں]

جواب

الأشاعرة کے علماء کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات کی تفصیل معلوم نہیں ان پر ایمان لایا جائے گا اور ان کو اسی طرح نہیں قبول کیا جائے گا جس سے جسم ثابت ہو جو اعضا والا ہے مثلا الله کا ہاتھ ،پیر، اس کا سینہ ،انگلی، بازو ،سر ،سر کے بال
سلف میں المروزی کے مطابق امام احمد الله کے لئے صورت یا چہرے کے قائل تھے اور اسی قول کو ابی یعلی مصنف طبقات حنابلہ نے لیا ہے لیکن ابن عقیل اور ابن جوزی جو حنبلی ہیں انہوں نے اس کو المشبہہ کا قول کہہ کر اسکا انکار کیا ہے – ابن تیمیہ نے ابی یعلی کا قول لیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ تین قرون تک لوگ صفت صورت کو مانتے تھے جبکہ یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے
شوافع میں ابن المقلن بھی المشبھہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ روز محشر الله تعالی اپنی پنڈلی کو ظاہر کریں گے جس سے محشر روشن ہو جائے گا (ان لوگوں کی دلیل ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ایک ضعیف حدیث ہے )- لیکن آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ کے دمشق کے ہم عصر ، محدث الذھبی اس کے سخت انکاری تھے اور اس طرح ابن تیمیہ اور الذھبی دونوں صفات میں ایک دوسرے کے مخالف تھے – اگلی صدیوں میں ابن حجر نے صفات میں المشبھہ کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ الله کے اعضا نہ بولے جائیں – وہابیوں نے المشبھہ کی رائے اختیار کی اور ان کے نزدیک ابن تیمیہ کا عقیدہ ابن جوزی سے جدا اور صحیح ہے- اس طرح وہابیہ نے حنابلہ کے اس گروہ کا حصہ بننا پسند کیا جو المشبھہ میں سے ہے –
احناف میں اشاعرہ کا صفات پر عقیدہ ہے جو عصر حاضر میں شعیب الارنوط کا بھی ہے کہ صفت پر ایمان لایا جائے گا اس سے الله تعالی کے اعضا یا بالوں کا اثبات نہیں کیا جائے گا- فوض کہتے ہیں سوپنے کو کہ ہم صفات میں علم اللہ کو سونپتے ہیں ہم اس میں اعضا والی رائے نہیں رکھیں گے – ان کی دلیل ہے کہ یہ متشابہات ہیں – ابن تیمیہ اور وہابی اس کے خلاف ہیں ان کے نزدیک ان کا مفھوم ظاہر پر لیا جائے گا -اس کو محدثین کا عقیدہ بتاتے ہیں جبکہ یہ تمام محدثین کا عقیدہ نہیں تھا صرف چند کا تھا جو روایت پسند تھے کہ اگر روایت میں الله کے اعضا کا ذکر ہے تو وہ وہی ہیں جو انسان کے حوالے سے ہم کو پتا ہیں
گویا اللہ نے ہاتھ کہا ہے تو اس کا ہاتھ ہے اور روایات کو اس کے ظاہر پر لیتے ہوئے یہ لوگ اس مقام تک گئے کہ رب العالمین کے لئے سلفیوں نے اس عقیدہ کو بھی لیا کہ وہ کھنگریا لے بالوں والا ہے

البانی الرد على المفوضة مين کہتے ہیں
أن عقيدة السلف تحمل آيات على ظاهرها دون تأويل ودون تشبيه، سلفی عقیدہ ہے کہ آیات کو ظاہر پر ہی لیا جائے گا بغیر تاویل و تشبہ کے

البانی  ایک سوال کے جواب میں مفوضہ پر کہتے ہیں
وكما جاء في بعض كتب الأشاعرة كالحافظ ابن حجر العسقلاني، وهو من حيث الأصول والعقيدة أشعري اور ایسا بعض الأشاعرة کی کتب میں ہے جیسے ابن حجر عسقلانی کی کتب اور وہ اصول میں أشعري عقیدہ پر ہیں

نووی بھی عقیدے میں اشاعرہ والا عقیدہ رکھتے ہیں لهذا وہابی عالم عالم مشهور حسن سلمان نے کتاب لکھی
الردود والتعقبات على ما وقع للإمام النووي في شرح صحيح مسلم من التأويل في الصفات وغيرها من المسائل المهمات
جس میں ان کے مطابق امام نووی بھی صفات میں صحیح عقیدہ نہیں رکھتے تھے – اسی طرح ان کے مطابق ابن حجر بھی كان متذبذباً في عقيدته صفات پر عقیدے میں متذبذب تھے
یہ کتاب یہاں سے حاصل کر سکتے ہیں
http://ia601408.us.archive.org/20/items/rudud_nawawi2/rudud_nawawi2.PDF

جب الله نے موسی سے کہا
فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا [الطور: 48] کہ بے شک تم ہماری انکھوں میں تھے
تو اس کا مطلب ہے اس کی حقیقی طور سے دو آنکھیں ہیں یہ ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے جس کو سلف میں امام احمد سے منسوب کیا گیا ہے – مؤول کا مطلب تفسیر ہے یعنی الْعَيْنُ مُؤَوَّلَةٌ بِالْبَصَرِ أَوِ الْإِدْرَاكِ آنکھ کی تفسیر نگاہ یا ادرک ہے کہ الله دیکھ رہا ہے اس کو پتا ہے – یہ اشاعرہ کے علماء کے ایک گروہ کا کہنا ہے
یعنی المفوضہ اور المؤولہ (المفوضة مؤولة ) ، اشاعرہ میں دو گروہ ہیں
عصر حاضر میں شعیب الارنوط المفوضہ میں سے ہیں کہ صفات کی تاویل نہیں کی جائے گی نہ ظاہر پر لیا جائے گا

سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی خود پھنس جاتے ہیں جب یہ قول لکھتے ہیں
ابْنُ سَعْدٍ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عطَاءِ بنِ السَّائِبِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:
اهْتَزَّ العَرْشُ لِحُبِّ لِقَاءِ اللهِ سَعْداً.
قَالَ: إِنَّمَا يَعْنِي: السَّرِيْرَ.
مجاہد نے ابن عمر سے روایت کیا کہ سعد سے ملاقات پر الله کا عرش ڈگمگا گیا- کہا: اس کا تخت
الذھبی کہتے ہیں
قُلْتُ: تَفْسِيْرُهُ بِالسَّرِيْرِ مَا أَدْرِي أَهُوَ مِنْ قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ، أَوْ مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ؟ وَهَذَا تَأْوِيْلٌ لاَ يُفِيْدُ، فَقَدْ جَاءَ ثَابِتاً عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَعَرْشُ اللهِ، وَالعَرْشُ خَلْقٌ لِلِّهِ مُسَخَّرٌ، إِذَا شَاءَ أَنْ يَهْتَزَّ اهْتَزَّ بِمَشِيْئَةِ اللهِ، وَجَعَلَ فِيْهِ شُعُوْراً لِحُبِّ سَعْدٍ، كَمَا جَعَلَ -تَعَالَى- شُعُوْراً فِي جَبَلِ أُحُدٍ بِحُبِّهِ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.
میں کہتا ہوں: اس کی تفسیر تخت سے کرنا مجھے نہیں پتا کہ مجاہد کا قول ہے یا ابن عمر کا ؟ اور اس تاویل کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ عرش رحمان ثابت ہے … اور اگر الله چاہے تو اپنی مشیت سے عرش میں شعور پیدا کر سکتا ہے سعد کی محبت کے لئے جیسا جبل احد میں کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے
امام مالک اس کے برعکس اس روایت کے خلاف ہیں نہ وہ تاویل کرتے ہیں نہ اس کو تفویض کرتے ہیں اس کی روایت سے ہی منع کرتے ہیں

كتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں الذھبی کہتے ہیں
وَقد بَينا دين الْأَئِمَّة وَأهل السّنة أَن هَذِه الصِّفَات تمر كَمَا جَاءَت بِغَيْر تكييف وَلَا تَحْدِيد وَلَا تجنيس وَلَا تَصْوِير كَمَا رُوِيَ عَن الزُّهْرِيّ وَعَن مَالك فِي الاسْتوَاء فَمن تجَاوز هَذَا فقد تعدى وابتدع وضل
اور ہم نے واضح کیا ہے ائمہ کا دین اور اہل سنت کا کہ صفات جیسی ائی ہیں بغیر کیفیت اور حدود اور چھونے اور تصویر کے جیسا امام الزہری سے اور امام مالک سے روایت کیا گیا ہے استواء پر اس سے اگر کسی نے تجاوز کیا تو اس نے بدعت و گمراہی کی
رحمان کے عرش کا ہلنا اس کا ڈگمگانا اور پھر اس کو جبل احد سے سمجھانا کیا کیفیت نہیں ہیں – راقم کے نزدیک جس کام سے امام الذھبی منع کر رہے ہیں اسی کو کر رہے ہیں اور امام مالک کا قول اس روایت پر کیا ہے ؟ کم از کم اسی کو دیکھ لیں
شَيْخُ الحنَابِلَةِ قاضی ابویعلی جن کی کتب پر ابن تیمیہ اور وہابیوں نے اپنا عقیدہ صفات رکھا ہے ان کے بارے میں الذھبی سیر الاعلام میں کہتے ہیں
وَجَمَعَ كِتَاب (إِبطَال تَأْويل الصِّفَات) فَقَامُوا عَلَيْهِ لمَا فِيْهِ مِنَ الوَاهِي وَالمَوْضُوْع،
اور انہوں نے کتاب (إِبطَال تَأْويل الصِّفَات) کو جمع کیا اور اس میں واہی (احادیث) اور موضوعات کو بیان کیا

سلف کے وہ محدثین اور علماء جو صفات کا علم الله کو سونپتے ہیں ان کو اہل حدیث المفوضہ کہا جاتا ہے جن میں امام الزہری ، امام مالک، ابن قتیبہ ، امام الاشعری، ابن جوزی ، ، ابن عقیل، ابن حجر ، امام النووی وغیرہ ہیں
وہ محدثین اور علماء جو صفات کو ظاہر پر لیتے ہیں ان میں سرفہرست امام احمد، ابن تیمیہ، غیر مقلدین اور وہابی فرقہ کے لوگ ہیں

[/EXPAND]

[حدیث اگر تم ایک رسی زمین کے نیچے ڈالو تو وہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جائے گی۔ صحیح ہے؟]

یہ روایت سنن ترمذی میں ہے سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، وَالمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَ الحَسَنُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
اس میں شیبان بن عبد الرحمان کے لئے ابی حاتم کہتے ہیں اس کی روایت سے دلیل مت لو
اور حسن بصری مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں ان کا سماع ابو ہریرہ سے نہیں ہے

اس روایت کو سوره الحدید کی شرح میں پیش کیا گیا ہے
هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہ الله اول و آخر ہے ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر شی کی خبر رکھتا ہے

آیات متشابہ ہے اس کی تاویل نہیں معلوم اس پر ایمان ہے اور بحث ممکن نہیں ہے

ترمذی اس کو بیان کرنے کے بعد خود کہتے ہیں
لَمْ يَسْمَعِ الحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
حسن کا سماع ابوہریرہ سے نہیں ہے

انقطاع سماع کی وجہ سے روایت ضعیف ہے
یہی البانی کی رائے ہے

ایک رسی زمین میں ڈالو تو یہ اس سے گزر کر آسمان میں داخل ہو جائے گی جس میں جا کر نہ سمت رہے گی نہ جہت اور پھر سات آسمان کی بات سے قرآن کا اشارہ ہے کہ یہ سب انسانی علم سے بعید بات ہے

کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها   میں امام الذھبی اس کو ایک منکر روایت قرار دیتے ہیں

ذكر الْحَافِظ أَبُو عِيسَى فِي جَامعه لما روى حَدِيث أبي هُرَيْرَة وَهُوَ خبر مُنكر لَو أَنكُمْ دليتم بِحَبل إِلَى الأَرْض السُّفْلى لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ

اور ابو عیسیٰ نے اپنی جامع الترمذی میں جب حدیث ابو ہریرہ روایت کی جو ایک منکر خبر ہے کہ اگر تم ایک رسی زمین میں ڈالو تو یہ اس میں سے ہو کر الله تک جائے گی

امام ترمذی اس روایت کی تاویل کرتے ہیں کہتے ہیں

قَالَ أَبُو عِيسَى قِرَاءَة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْآيَة تدل على أَنه أَرَادَ لهبط على علم الله وَقدرته وسلطانه فِي كل مَكَان وَهُوَ على الْعَرْش كَمَا وصف نَفسه فِي كِتَابه

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا آیت کا قرات کرنا اس کی  دلیل ہے کہ یہ الله کا علم و قدرت ہے جو ہر جگہ ہے اور وہ العرش پر ہے جیسا اس نے کتاب اللہ میں تعریف کی ہے

إمام ابن تیمیہ اس پر امام ترمذی کو جھمی قرار دیا لہذا الرسالة العرشية  اور  مجموع الفتاوى جلد ٦ ص ٥٧٤ میں کہتے ہیں

وكذلك تأويله بالعلم تأويل ظاهر الفساد، من جنس تأويلات الجهمية

اور اسی طرح اس کی تاویل علم سے کرنا ظاہر فساد ہے جو جھمیوں کی تاویلات جیسا ہے

چونکہ ابن تیمیہ کا خود ساختہ نظریہ ہے کہ اویل یا تاویل نہیں کی جائے گی یہ سلف سے منقول نہیں اس کے بر عکس امام ترمذی جو امام بخاری کے شاگرد ہیں اویل کر رہے ہیں

کتاب العلو للعلي الغفار میں الذھبی کہتے ہیں  مُحَمَّد بن عُثْمَان بن مُحَمَّد بن أبي شيبَة  نے

 فَقَالَ ذكرُوا أَن الْجَهْمِية يَقُولُونَ لَيْسَ بَين الله وَبَين خلقه حجاب وأنكروا الْعَرْش وَأَن يكون الله فَوْقه وَقَالُوا إِنَّه فِي كل مَكَان ففسرت الْعلمَاء {وَهُوَ مَعكُمْ} يَعْنِي علمه

ذکر کیا کہ جھمی کہتے ہیں کہ الله اور اسکی مخلوق کے بیچ کوئی حجاب نہیں ہے اور عرش کا انکار کرتے ہیں اور اس کا کہ وہ عرش کے اوپر ہے اور کہتے ہیں وہ ہر مکان میں ہے پس علماء نے تفسیر کی کہ {وَهُوَ مَعكُمْ}  اور وہ تمہارے ساتھ ہے  سے مراد علم ہے

امام الذھبی اس کو تفسیر کہتے ہیں اور اس عقیدے کو غلط کہتے ہیں جو آج دیوبندیوں کا ہے  (کہ الله ہر جگہ ہے) اور سلفی عقیدے  (الله کی تجسیم) کو بھی غلط کہتے ہیں

[/EXPAND]

[مقاتل بن سلیمان نے المشبه کی رائے اختیار کی ؟ اس پر محدثین کی کیا آراء ہیں]

سیر الاعلام النبلاء میں مُقَاتِلُ بنُ سُلَيْمَانَ البَلْخِيُّ أَبُو الحَسَنِ کے ترجمہ میں امام الذھبی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے کہا

وَعَنْ أَبِي حَنِيْفَةَ، قَالَ: أَتَانَا مِنَ المَشْرِقِ رَأْيَان خَبِيْثَانِ: جَهْمٌ مُعَطِّلٌ، وَمُقَاتِلٌ مُشَبِّهِ

مشرق سے دو خبیث آراء آئیں ایک جھم معطل اور مقاتل مشبه

میزان الاعتدال میں الذھبی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفه نے کہا

قال أبو حنيفة: أفرط جهم في نفى التشبيه، حتى قال: إنه تعالى ليس بشئ.  وأفرط مقاتل – يعنى في الاثبات  – حتى جعله مثل خلقه

جھم نے افراط کیا تشبیہ کی نفی میں یہاں تک کہ کہا الله تعالی کوئی چیز نہیں اور مقاتل نے اثبات میں افراط کیا یہاں تک کہ اس کو مخلوق کے مثل کر دیا

امام بخاری تاریخ الکبیر میں کہتے ہیں لا شيء البتة کوئی چیز نہیں ہے

ابن حبان کہتے ہیں کہ مقاتل وكان يشبه الرب بالمخلوقات یہ  رب کو مخلوق سے تشبیہ دیتا

وكيع  اس کو کذاب کہتے

جبکہ تاریخ بغداد کے مطابق امام احمد مقاتل کی روایت پر  کہتے مَا يعجبني أن أروي عَنْهُ شيئًا مجھے پسند نہیں کہ اس سے روایت کروں لیکن اس کی تفسیر پر کہتے

وقال أبو بكر الأثرم: سمعت أبا عبد الله، هو أحمد بن حنبل، يسأل عن مقاتل بن سليمان، فقال: كانت له كتب ينظر فيها، إلا أني أرى أنه كان له علم بالقرآن. «تاريخ بغداد» 13/161.

أبو بكر الأثرم: نے کہا میں نے امام احمد کو سنا ان سے مقاتل بن سلیمان پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا اس کی کتابیں تھیں میں ان کو دیکھتا تھا بلاشبہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کو قرآن کا علم ہے

ابن حجر کہتے ہیں

 ونقل أبو الفتح الأزدي أن ابن معين ضعفه، قال: وكان أحمد بن حنبل لا يعبأ بمقاتل بن سليمان، ولا بمقاتل بن حيان. «تهذيب التهذيب» 10/ (500)

 أبو الفتح الأزدي کہتے ہیں امام ابن معین اس کی تضعیف کرتے اور کہا امام احمد مقاتل کو کوئی عیب نہ دیتے

امام احمد کا مقاتل بن سلیمان المشبه سے متاثر ہونا  معنی خیز ہے

مقاتل کی تفسیر تجسیم کی طرف جاتی ہے مثلا الله تعالی نے بتایا کہ اس نے توریت کو موسی علیہ السلام کے لئے لکھا مقاتل اپنی تفسیر میں سوره الاعراف  میں کہتا ہے

 وكتبه اللَّه- عَزَّ وَجَلّ- بيده  فكتب فيها: إني أَنَا اللَّه الَّذِي لا إله إِلَّا أَنَا الرحمن الرحيم

اللَّه- عَزَّ وَجَلّ نے اپنے ہاتھ سے اس میں لکھا میں بے شک الله ہوں کوئی اله نہیں سوائے میرے الرحمان الرحیم

اسی طرح قرآن میں استوی پر پر کہا

ثُمَّ استوى على العرش: يعني استقر على العرش

یعنی عرش پر رکا

اس پر جرح ہوئی کہ استقر کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ اس سے قبل الله متحرک تھا پھر عرش پر ٹہرا

سلف میں امام مالک اس رائے کے خلاف تھے

امام الذھبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں مقاتل کی اس تفسیر پر کہتے ہیں

 قلت لَا يُعجبنِي قَوْله اسْتَقر بل أَقُول كَمَا قَالَ مَالك الإِمَام الاسْتوَاء مَعْلُوم

میں کہتا ہوں مجھے استقر کا قول پسند نہیں بلکہ جیسا امام مالک نے کہا الاسْتوَاء معلوم ہے

بیہقی اسماء و صفات میں کہتے ہیں

استوى: بمعنى أقبل صحيح، لأن الإقبال هو القصد إلى خلق السماء والقصد هو الإرادة، وذلك هو جائز في صفات الله تعالى ولفظ ثم تعلق بالخلق لا بالإرادة

اس کے برعکس محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421 هـ)  کتاب شرح العقيدة الواسطية  میں کہتے ہیں

قوله تعالى: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} [طه: 5]: ظاهر اللفظ أن الله تعالى استوى على العرش: استقر عليه

ظاہر لفظ ہے الله تعالی نے استوی کیا عرش پر اس پر رکا

[/EXPAND]

[ وہابیوں نے ابن حجر اور امام النووی پر اسماء و صفات کے عقیدے میں جرح کیوں کی ہے؟]

علماء اللجنة الدائمة للإفتاء :
ما هو موقفنا من العلماء الذين أوَّلوا في الصفات ، مثل ابن حجر ، والنووي ، وابن الجوزي ، وغيرهم ، هل نعتبرهم من أئمة أهل السنَّة والجماعة أم ماذا ؟ وهل نقول : إنهم أخطأوا في تأويلاتهم ، أم كانوا ضالين في ذلك ؟
فأجابوا :
” موقفنا من أبي بكر الباقلاني ، والبيهقي ، وأبي الفرج بن الجوزي ، وأبي زكريا النووي ، وابن حجر ، وأمثالهم ممن تأول بعض صفات الله تعالى ، أو فوَّضوا في أصل معناها : أنهم في نظرنا من كبار علماء المسلمين الذين نفع الله الأمة بعلمهم ، فرحمهم الله رحمة واسعة ، وجزاهم عنا خير الجزاء ، وأنهم من أهل السنة فيما وافقوا فيه الصحابة رضي الله عنهم وأئمة السلف في القرون الثلاثة التي شهد لها النبي صلى الله عليه وسلم بالخير ، وأنهم أخطأوا فيما تأولوه من نصوص الصفات وخالفوا فيه سلف الأمة وأئمة السنة رحمهم الله ، سواء تأولوا الصفات الذاتية ، وصفات الأفعال ، أم بعض ذلك .
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم ” انتهى .
الشيخ عبد العزيز بن باز. الشيخ عبد الرزاق عفيفي . الشيخ عبد الله بن قعود
“فتاوى اللجنة الدائمة” (3/241) .

دائمی کیمٹی نے ابن حجر اور نووی پر جرح کیوں کی ہے ؟
اپ کی کیا رائے ہے؟

جواب

سعودی کی دائمی کمیٹی کہتی ہے کہ ہمارا موقف ابی بکر الباقلانی اور بیہقی اور ابن جوزی اور نووی ور ابن حجر اور ان کے جیسوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اللہ تعالی کی بعض صفات کی تاویل کو اصلی معنی سے پھیر دیا … کہ انہوں نے غلطی کی ہے صفات کے نصوص کی تاویل کرکے اور امت کے اسلاف اور آئمہ سنت کی مخالفت کی سوائے انہوں نے صفات ذات کی تاویل کی یا صفات افعال یا بعض دیگر کی ہے۔
http://www.alifta.net/fatawa/fatawaDetails.aspx?BookID=3&View=Page&PageNo=2&PageID=880

دائمی کمیٹی کا موقف صحیح نہیں ہے

ابن حجر یا نووی یا ابن جوزی نے کہاں تاویل کی ہے ؟ بلکہ یہ علماء تو تاویل کے خلاف ہیں یہ معنی کی تفویض کرتے ہیں
اشاعرہ کا ایک گروہ ہے جو الموولہ ہیں وہ تاویل کرتے ہیں تاکہ تجسیم نہ ہو یہ تمام علماء الله کو ایک جسم نہیں کہتے جبکہ سلف کے ابن تیمیہ اور امام احمد المجسمیہ اور المشبہ میں سے ہیں اسی طرح یہ گروہ سلف رب العالمین کے لئے بال تک مانتے ہیں
لہذا تاویل کہنا آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے

نووی ہوں یا ابن حجر یا ابن جوزی یا امام مالک (یا بعض حنابلہ معدوم کے نزدیک امام احمد) یہ اہل حدیث مفوضہ میں سے ہیں یہ لوگ صفات کی تاویل نہیں کرتے ان کو تفویض کرتے ہیں
جبکہ امام احمد اور ان کے ہم قبیل المجسمیہ اور المشبہ میں سے ہیں یہ لوگ صفات کو ظاہر پر لیتے ہیں اور الله کے اعضاء وجوارح کو مانتے ہیں

اپ غور کریں امام احمد کا نام دونوں گروہوں میں شامل ہے اس کی وجہ حنبلیوں کا اپس کا اختلاف ہے
ابن جوزی حنبلی ہیں لیکن المشبہ کے خلاف ہیں اور ان کے مطابق یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا وہ المفوضہ تھے حنابلہ کا یہ گروہ اب معدوم ہے

اس کے برعکس ابن تیمیہ کہتا تھا کہ امام احمد الله کے بالوں کے قائل تھے جیسا اس کی کتاب جو جھمیوں کے رد میں ہے اس میں موجود ہے
اسی المشبہ کے عقیدے کو حنبلی مقلدین وہابی اور موجودہ فرقہ اہل حدیث نے اپنا لیا ہے
——–

بن باز کہتے ہیں امام احمد اہل حدیث المفوضہ کے خلاف تھے فرماتے ہیں
ج٣ ص ٥٥ پر
دائمی کمیٹی کے فتوے

اور پھر امام احمد رحمه الله اور دیگر أئمہ سلف نے تو اہل تفويض کی مذمت کی ہے، اور انہیں بدعتی قرار دیا ہے، کیونکہ اس مذہب کا تقاضہ یہ ہے کہ الله سبحانه و تعالی نے اپنے بندوں کے ساتھ ایسا کلام فرمایا ہے جسے وہ نہیں سمجھ سکتے ہیں، اور اس کے معنی کے ادراک سے قاصر ہیں
http://www.alifta.net/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=158&searchScope=4&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=216181217129216167216170#firstKeyWordFound

دائمی کمیٹی کے مطابق احادیث میں تجسیم پر اشارہ ہے کہتے ہیں

اور ان کی سنت مطہرہ تو ایسی عبارتوں سے بھری پڑی ہیں، جن کے بارے میں مخالف یہ خیال رکھتا ہے کہ اس کا ظاہر موجب تشبیہ و تجسیم ہے، اور یہ کہ اس کے ظاہر کا عقیدہ رکھنا سراسر گمراہی ہے، اور پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان نہ فرمائیں، اور اس کی وضاحت نہ کریں، اور پھر یہ کیسے جائز ہے کہ سلف یہ کہتے نظر آئیں کہ انہیں اسی طرح گذار دو جس طرح يہ وارد ہيں، جبکہ اس کا مجازی معنی ہی مراد ہو، اور یہ عرب کو ہی سمجھ میں نہ آئے

http://www.alifta.net/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=167&searchScope=4&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=216181217129216167216170#firstKeyWordFound
—–

سلفیوں کی غلطی یہ ہے کہ متشابھات کے مفھوم پر بحث کر رہے ہیں جبکہ ان کی تاویل صرف الله کو پتا ہے اسی سے تفویض کا حکم کرنا نکلتا ہے کہ ہم اسماء و صفات میں مفھوم الله کو سپرد کرتے ہیں

واللہ اعلم

[/EXPAND]

[کیا امام ابن تیمیہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ معراج کی رات نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا]

کیا امام ابن تیمیہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ معراج کی رات نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا اور جو دیکھا اس کی تفصیل ان کے نزدیک کیا ہے
میں نے  صالح المنجد کی ویب سائٹ پر دیکھا ہے کہ وہ اس کا انکار کرتے ہیں کہ الله کو مرد کی صورت دیکھا
پلیز وضاحت کر دیں

 جواب

امام ابن تیمیہ کے بارے میں لوگوں نے مختلف اقوال منسوب کر دیے ہیں مثلا یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اس مرد کی صورت والی روایت کو خواب کہتے تھے اس طرح آج کل اس بات کو رخ موڑ کر اس کو چھپا دیا جاتا ہے

ابن تیمیہ اپنی کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية کی جلد اول میں یعنی کتاب کے شروع میں بیان کرتے ہیں کہ عام لوگوں نے خواب میں رویت الباری کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے دیکھا تو جو انہوں نے خواب میں دیکھا اس سے الله تعالی کی صورت ثابت نہیں ہوئی
ولكن لا بد أن تكون الصورة التي رآه فيها مناسبة ومشابهة لاعتقاده في ربه فإن كان إيمانه واعتقاده مطابقا أتي من الصور وسمع من الكلام ما يناسب ذلك .
اور اس میں شک نہیں کہ جو صورت ان لوگوں نے دیکھی وہ اس مناسبت اور مشابہت پر تھی جو ان کا اپنے رب پر اعتقاد ہے

لیکن جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا رویت الباری والی روایت پر جلد ٧ میں بحث کی تو اس کو خواب نہیں کہا بلکہ کہا

 أن أحاديث ابن عباس عنده في اليقظة لكن لم يقل بعينيه فاحتجاج المحتج بهذه الآية وجوابه بقوله ألست ترى السماء قال بلى قال فكلها ترى دليل على أنه أثبت رؤية العين وقد يقال بل أثبت رؤية القلب ورؤية النبي بقلبه كرؤية العين

ابن عباس کی احادیث ان کے نزدیک جاگنے میں ہیں لیکن اس میں یہ نہیں کہا کہ آنکھ … پس اس میں دلیل ہے کہ یہ رویت آنکھ سے ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ قلبی رویت ہے اور نبی کی قلبی رویت،  آنکھ سے دیکھنے کی طرح ہے

ابن تیمیہ اپنی کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ج ٧ ص ٢٩٤ میں کہتے ہیں

فأما خبر قتادة والحكم بن أبان عن عكرمة عن ابن عباس وخبر عبد الله بن أبي سلمة عن ابن عباس فبين واضح أن ابن عباس رضي الله عنهما كان يثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه وهذا من كلامه يقتضي أنه اعتمد هذه الطرق وأنها تفيد رؤية العين لله
پس جہاں تک قتادہ اور حکم بن ابان کی عکرمہ سے ان کی ابن عباس سے خبر ہے اور وہ خبر جو عبدالله بن ابی سلمہ کی ابن عباس سے ہے وہ واضح کرتی ہے کہ ابن عباس اثبات کرتے تھے
کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور یہ کلام تقاضی کرتا ہے کہ اس طرق پر اعتماد کرتے تھے اور یہ فائدہ دیتا ہے کہ یہ الله کو دیکھنا آنکھ سے ہے

اس کتاب میں ابن تیمیہ روایات پیش کرتے ہیں

قال الخلال أبنا الحسن بن ناصح قال حدثنا الأسود بن عامر شاذان ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه جعدًا قططا أمرد في حلة حمراء والصواب حلة خضراء

ورواه أبو الحافظ أبوالحسن الدارقطني فقال حدثنا عبد الله بن جعفر بن خشيش حدثنا محمد بن منصور الطوسي ثنا أسود ابن عامر قال حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رأى ربه عز وجل شابًّا أمرد جعدًا قططا في حلة خضراء

ورواه القطيعي والطبراني قالا حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثني أبي حدثنا الأسود بن عامر قال حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله
صلى اله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء

ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ج ٧ ص ٢٢٥ پر ان روایات کو پیش کرتے ہیں اور امام احمد کا قول نقل کرتے ہیں کہ
قال حدثنا عبد الله بن الإمام أحمد حدثني أبي قال حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء قال وأبلغت أن الطبراني قال حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس في الرؤية صحيح وقال من زعم أني رجعت عن هذا الحديث بعدما حدثت به فقد كذب وقال هذا حديث رواه جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم وجماعة من التابعين عن ابن عباس وجماعة من تابعي التابعين عن عكرمة وجماعة من الثقات عن حماد بن سلمة قال وقال أبي رحمه الله روى هذا الحديث جماعة من الأئمة الثقات عن حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم وذكر أسماءهم بطولها وأخبرنا محمد بن عبيد الله الأنصاري سمعت أبا الحسن عبيد الله بن محمد بن معدان يقول سمعت سليمان بن أحمد يقول سمعت ابن صدقة الحافظ يقول من لم يؤمن بحديث عكرمة فهو زنديق وأخبرنا محمد بن سليمان قال سمعت بندار بن أبي إسحاق يقول سمعت علي بن محمد بن أبان يقول سمعت البراذعي يقول سمعت أبا زرعة الرازي يقول من أنكر حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عيه وسلم رأيت ربي عز وجل فهو معتزلي

عبد الله کہتے ہیں کہ امام احمد نے کہا حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا میں نے اپنے رب کو ایک مرد کی صورت دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے اور مجھ تک پہنچا کہ طبرانی نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے جو یہ کہے کہ اس کو روایت کرنے کے بعد میں نے اس سے رجوع کیا جھوٹا ہے اور امام احمد نے کہا اس کو صحابہ کی ایک جماعت رسول الله سے روایت کرتی ہے …. اور ابو زرعہ نے کہا جو اس کا انکار کرے وہ معتزلی ہے

یعنی امام ابن تیمیہ ان روایات کو صحیح کہتے تھے اور ان کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو قلب سے  دیکھا حنابلہ میں بہت سے  لوگ مانتے ہیں کہ معراج حقیقی تھی جسم کے ساتھ تھی نہ کہ خواب اور وہ ان روایات کو معراج پر مانتے ہیں ابن تیمیہ ان کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن قلبی رویت مانتے ہیں

صالح المنجد یہ اقرار کرتے ہیں کہ اس حدیث کو ائمہ نے صحیح کہا ہے
=================
ورد حديث يفيد رؤية النبي صلى الله عليه وسلم ربه مناما على صورة شاب أمرد ، وهو حديث مختلف في صحته ، صححه بعض الأئمة ، وضعفه آخرون
https://islamqa.info/ar/152835
————-
اور ان کے مطابق صحیح کہتے والے ہیں
===============
وممن صحح الحديث من الأئمة : أحمد بن حنبل ، وأبو يعلى الحنبلي ، وأبو زرعة الرازي .
==================
یہ وہ ائمہ ہیں جن میں حنابلہ کے سرخیل امام احمد اور قاضی ابویعلی ہیں اور ابن تیمیہ بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص مانتے ہیں

===============
صالح المنجد کہتے ہیں
وممن ضعفه : يحيى بن معين ، والنسائي ، وابن حبان ، وابن حجر ، والسيوطي .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية في “بيان تلبيس الجهمية”: (7/ 229): ” وكلها [يعني روايات الحديث] فيها ما يبين أن ذلك كان في المنام وأنه كان بالمدينة إلا حديث عكرمة عن ابن عباس وقد جعل أحمد أصلهما واحداً وكذلك قال العلماء”.
وقال أيضا (7/ 194): ” وهذا الحديث الذي أمر أحمد بتحديثه قد صرح فيه بأنه رأى ذلك في المنام ” انتهى .
=============

یہ علمی خیانت ہے ابن تیمیہ نے معاذ بن جبل کی روایت کو خواب والی قرار دیا ہے نہ کہ ابن عباس سے منسوب روایات کو

اسی سوال سے منسلک ایک تحقیق میں محقق لکھتے ہیں کہ یہ مرد کی صورت والی روایت کو صحیح کہتے تھے
http://www.dorar.net/art/483
((رأيت ربي في صورة شاب أمرد جعد عليه حلة خضراء))
وهذا الحديث من هذا الطريق صححه جمعٌ من أهل العلم، منهم:
الإمام أحمد (المنتخب من علل الخلال: ص282، وإبطال التأويلات لأبي يعلى 1/139)
وأبو زرعة الرازي (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/144)
والطبراني (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/143)
وأبو الحسن بن بشار (إبطال التأويلات 1/ 142، 143، 222)
وأبو يعلى في (إبطال التأويلات 1/ 141، 142، 143)
وابن صدقة (إبطال التأويلات 1/144) (تلبيس الجهمية 7 /225 )
وابن تيمية في (بيان تلبيس الجهمية 7/290، 356) (طبعة مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف- 1426هـ)

اس لسٹ میں ابن تیمیہ بھی شامل ہیں

کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ج ٧ ص  ٢٩٤ پر

 

 

منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية

ج ٥ ص ٣٨٤ پر  / ج ٧ ص ٤٣٢

فأما خبر قتادة والحكم بن أبان عن عكرمة عن ابن عباس وخبر عبد الله بن أبي سلمة عن ابن عباس فبين واضح أن ابن عباس رضي الله عنهما كان يثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه وهذا من كلامه يقتضي أنه اعتمد هذه الطرق وأنها تفيد رؤية العين لله التي ينزل عليها
پس جہاں تک قتادہ اور حکم بن ابان کی عکرمہ سے ان کی ابن عباس سے خبر ہے اور وہ خبر جو عبدالله بن ابی سلمہ کی ابن عباس سے ہے وہ واضح کرتی ہے کہ ابن عباس اثبات کرتے تھے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور یہ کلام تقاضی کرتا ہے کہ اس طرق پر اعتماد کرتے تھے اور یہ فائدہ دیتا ہے کہ یہ الله کو دیکھنا آنکھ سے ہےاسی کتاب میں ابن تیمیہ لکھتے ہیںوهذه مسألة وقعت في عصر الصحابة فكان ابن عباس وأنس وغيرهما يثبتون رؤيته في ليلة المعراج وكانت عائشة تنكر رؤيته بعينه في تلك الليلةاور یہ  مسئلہ واقع ہوا دور صحابہ میں کہ ابن عباس اور انس اور دیگر اصحاب اثبات کرتے کہ معراج کی رات دیکھا اور عائشہ انکار کرتیں کہ اس رات آنکھ سے دیکھاابن تیمیہ ابن عباس کی گھنگھریالے بالوں والے رب کی روایات پر کہتے ہیں
أن أحاديث ابن عباس عنده في اليقظة لكن لم يقل بعينيه فاحتجاج المحتج بهذه الآية وجوابه بقوله ألست ترى السماء قال بلى قال فكلها ترى دليل على أنه أثبت رؤية العين وقد يقال بل أثبت رؤية القلب ورؤية النبي بقلبه كرؤية العينابن عباس کی احادیث ان کے نزدیک جاگنے میں ہیں لیکن اس میں یہ نہیں کہا کہ آنکھ … پس اس میں دلیل ہے کہ یہ رویت آنکھ سے ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ قلبی رویت ہے اور نبی کی قلبی رویت،  آنکھ سے دیکھنے کی طرح ہےیعنی ابن تیمیہ کے نزدیک رسول الله نے قلب کی آنکھ سے الله کو دیکھا جو حقیقی آنکھ سے دیکھنے کے مترادف  تھا کیونکہ انبیاء  کی آنکھ سوتی ہے قلب نہیں
وَأَمَّا لَيْلَةُ الْمِعْرَاجِ فَلَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْأَحَادِيثِ الْمَعْرُوفَةِ أَنَّهُ رَآهُ لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ

اور جہاں تک معراج کی رات کا تعلق ہے تو اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے کہ اس رات دیکھا

 

اور کہا

وَأَحَادِيثُ الْمِعْرَاجِ الَّتِي فِي الصِّحَاحِ لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ أَحَادِيثِ ذِكْرِ الرُّؤْيَةِ

اور جو معراج کی احادیث صحیحین میں ہیں ان میں رویت پر کوئی چیز نہیں ہے

الغرض ابن تیمیہ کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو قلبی آنکھ سے دیکھا جو حقیقی آنکھ سے دیکھنے کے مترادف ہے لیکن یہ معراج پر نہیں ہوا

[/EXPAND]

[   روز محشر الله تعالی اپنی پنڈلی کا کشف کرے گا؟]

جواب

 صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَيَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا»

سعید بن ابی ہلال روایت کرتا ہے زید بن اسلم سے وہ عطا سے وہ ابی سعید سے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سنا انہوں نے فرمایا ہمارا رب اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا

قرآن میں آیت يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [القلم: 42]  جس روز پنڈلی کھل جائے گی –  عربی زبان کے علماء کے مطابق یہ الفاظ شدت وقوعہ میں بولے جاتے ہیں کہ محشر میں سختی ہو گی-  مصطفی البغاء تعلیق صحیح بخاری میں لکھتے ہیں

هذا الكلام عبارة عن شدة الأمر يوم القيامة للحساب والجزاء والعرب تقول لمن وقع في أمر يحتاج إلى اجتهاد ومعاناة شمر عن ساقه وتقول للحرب إذا اشتدت كشفت عن ساقها

یہ کلام عبارت ہے روز محشر کی شدت سے حساب اور جزا  کی وجہ سے اور عرب ایسا کہتے ہیں اس کام کے لئے جس میں اجتہاد ہو…  اور جنگ کے لئے کہتے ہیں جب یہ شدت اختیار کرے گی تو  پنڈلی کھل جائے گی

لیکن بعض علماء نے اس روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے پنڈلی کو الله کی صفت ذات بنا دیا

ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) نے کتاب  التوضيح لشرح الجامع الصحيح میں لکھا

هذا يدل -والله أعلم- أن الله تعالى عرف المؤمنين على ألسنة الرسل يوم القيامة أو على ألسنة الملائكة المتلقين لهم بالبشرى، أن الله تعالى قد جعل لكم علامة تجليه لكم الساق

اور یہ دلیل ہے کہ و الله اعلم … کہ الله تعالی   تمہارے لئے ایک علامت کرے گا کہ تجلی  کرے گا پنڈلی کی

ابن جوزی اپنی کتاب دفع  شبه ألتشبھة  میں لکھتے ہیں کہ قاضی ابو یعلی نے اس قسم کی روایات سے یہ نکالا کہ الله کی پنڈلی اس کی صفت ذات ہے

ابن جوزی -ساق

اور قاضی ابویعلی نے مذھب لیا ہے کہ الساق یعنی پنڈلی الله کی صفت ذات ہے اور کہا اسی طرح وہ رب اپنا قدم جہنم پر رکھے گا اور ابن مسعود سے حکایت کیا گیا ہے کہا وہ سیدھی پنڈلی کو کھولے گا جس سے نور نکلے اور اور زمین روشن ہو جائے گی

یہاں تک کہ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَوَقَعَ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ وَهُوَ مِنْ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَأَخْرَجَهَا الْإِسْمَاعِيلِيُّ كَذَلِكَ ثُمَّ قَالَ فِي قَوْلِهِ عَنْ سَاقِهِ نَكِرَةٌ ثُمَّ أَخْرَجَهُ مِنْ طَرِيقِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ بِلَفْظ يكْشف عَن سَاق قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيُّ هَذِهِ أَصَحُّ لِمُوَافَقَتِهَا لَفْظَ الْقُرْآنِ فِي الْجُمْلَةِ لَا يُظَنُّ أَنَّ اللَّهَ ذُو أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ مُشَابَهَةِ الْمَخْلُوقِينَ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء

اور صحیح بخاری میں اس مقام پر ہے يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ کہ ہمارا رب اپنی پنڈلی کو کھولے گا اور یہ روایت ہے سعید بن ابی ہلال کی عن زید بن اسلم کی سند سے پس اس کی تخریج کی ہے الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے اسی طرح پھر کہا ہے اپنی پنڈلی پر یہ نَكِرَةٌ ہے پھر اس کی تخریج کی حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ  کے طرق سے  اور الفاظ ہیں يكْشف عَن سَاق اور الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے کہا یہ زیادہ صحیح ہے جو قرآن کی موافقت میں ہے فی جملہ – نا گمان کرو کہ الله   أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ  والا ہے  کیونکہ یہ مخلوق سے مشابہت کا قول ہے الله تعالی اس سے بلند ہے  اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے

یعنی صحیح بخاری کی اس روایت کا متن صحیح نقل نہیں ہوا اس متن میں سعید بن ابی ہلال نے غلطی کی

العینی صحیح بخاری کی شرح میں اس باب   باب يوم يكشف عن ساق میں کہتے ہیں

 وهذا من باب الاستعارة، تقول العرب للرجل إذا وقع في أمر عظيم يحتاج فيه إلى اجتهاد ومعاناة ومقاساة للشدة

اور یہ  کا باب الاستعارة پر ہے عرب اس شخص پر کہتے ہیں جب ایک امر عظیم واقعہ ہو کہ اس کے لئے اس امر میں اجتہاد و دکھ اور  صبر کی شدت ہو گی

کتاب إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة میں ابن حجر العسقلاني سوال پر  کہتے ہیں

أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [سورة: القلم، آية 42] قَالَ: يَوْمُ كَرْبٍ وَشِدَّةٍ … الْحَدِيثُ مَوْقُوفٌ. كم فِي التَّفْسِيرِ: أنا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَبَّانِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الأُمَوِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أنا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْهُ، بِهِ. وَفِيهِ قَوْلُهُ:[ص:577] إِذَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ، فَابْتَغُوهُ فِي الشِّعْرِ، فَإِنَّهُ دِيوَانُ الْعَرَبِ.

ان سے سوال کیا الله تعالی کے قول   يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [سورة: القلم، آية 42] (جب پنڈلی کھل جائے گی) ابن حجر نے کہا یہ دن شدت و کرب کا ہے  … حدیث موقوف ہے تفسیر میں ہے قول کہ  أنا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَبَّانِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الأُمَوِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أنا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْهُ، بِهِ. وَفِيهِ قَوْلُهُ: ..جب تم پر قرآن میں کوئی چیز مخفی ہو تو اس کو شعر میں دیکھو کیونکہ وہ عربوں کا دیوان ہے

یعنی الفاظ کا مفھوم لغت عرب میں دیکھنا سلف کا حکم تھا جو امام احمد اور المشبہ سے بھی پہلے کے ہیں

کتاب جامع الأصول في أحاديث الرسول میں ابن اثیر کہتے ہیں

يكشف عن ساقه) الساق في اللغة: الأمر الشديد، و (كشف الساق) مثل في شدة الأمر

پنڈلی کا کھلنا  پنڈلی لغت میں امر شدید کے لئے ہے اور پنڈلی کا کھلنا مثال ہے امر کی سختی کا

افسوس امام مالک کی نصیحت بھلا دی گئی

فقہ مالکیہ کی معتمد  کتاب  المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي    السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

[/EXPAND]

[کیا اسماء الہی متشابھات میں سے ہیں اور اسی طرح متعلقات؟]

جواب

الله تعالی کے اسماء کا مفھوم معلوم ہے مثلا وہ  الرحمان ہے العلی ہے الغفور ہے یا اسی طرح کے ٩٩ نام اور قرآن میں بیان کردہ اس کی تعریف یہ سب نام عربی میں اپنے مفھوم میں معلوم ہیں- لیکن الله تعالی  کا عرش اور اس پر اس کا استوی معلوم نہیں ہے نہ ہی عرش کی نوعیت پتا ہے لہذا استوی   پر ایمان ہے اس کی کیفیت  معلوم نہیں ہے اس بنا پر ان کو متشابھات کہا جاتا ہے جس کی تاویل منع ہے -جب بھی الله کے لئے کوئی  کیفیت آئے گی اس کا احاطہ انسانی ذہن سے باہر ہو گا مثلا اس کا نزول اور استوی اس بنا پر اہل تفویض کہتے ہیں ہم ان کا معنی الله  کے سپرد کرتے ہیں ہم ایمان لاتے ہیں-قرآن میں ہے  {وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ} (آل عمران:7) ان کی تاویل صرف الله کو پتا ہے

ناموں اور کیفیت کے علاوہ ایک تیسری نوع لوگوں نے اس میں ایجاد کی ہے کہ وہ تمام آیات اور احادیث جن میں چہرہ ہاتھ پیر آنکھ پنڈلی  بالوں کا ذکر ہے ان کو صفت ذات کہا ہے اس طرح یہ لوگ تجسم کے مرتکب ہوتے ہیں – یہ وہ گروہ تاویل کے لفظ کو بھی بدلتا ہے اور صفات میں تاویل کرنے کو جائز کہتا ہے مثلا  اپنی کتابوں میں بعض حضرات جگہ جگہ اویل کا لفظ لکھتے ہیں جو تاویل کی تحریف ہے کیونکہ متشبھات کی تاویل منع ہے تو اس سے بچنے کے لئے انہوں نے  تاویل کے لفظ کے مادہ سے اویل کا لفظ ایجاد کیا ہے  جبکہ یہ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ہے

التعطيل  کا قول ہے کہ جوبھی صفت ذات سمجھی گئی ہے اس کا مفھوم بھی  تفویض کر دیا جائے

یہ مسئلہ اہل سنت میں چلا آ رہا ہے بعض تجسیم تک جا چکے ہیں اور بعض التعطيل میں بہت آگے چلے گئے ہیں

[/EXPAND]

[الله شہہ رگ کے پاس ہے یا عرش پر ہے ؟ دوسرا وہ کیا کن کہتا ہے ]

اپ کا سوال اس طرح ہے کہ الله عرش پر ہے یا مخلوق کے ساتھ انکی شہہ رگ کے پاس ہے
دوسرا سوال ہے کہ اللہ کن فیکون کہتا ہے تو اسکو فرشتوں کی ضرورت کیوں ہے

جواب الله عرش پر ہے مخلوق کے پاس نہیں ہے اس کی ذات کو یہ زمین اٹھا نہیں سکتی ایسا اس نے خود بتایا ہے کہ موسی نے درخواست کی کہ وہ الله کو دیکھنا چاہتے ہیں الله نے اپنا ظہور پہاڑ پر کرنا شروع کیا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا
وَلَمَّا جَاء مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
الأعراف

عربي لغت لسان عرب کے مطابق وَقَالَ الزَّجَّاجُ: تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ أَي ظَهَرَ وبانَ، قَالَ: وَهَذَا قَوْلُ أَهل السُّنة وَالْجَمَاعَةِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: تَجَلَّى بَدَا لِلْجَبَلِ نُور العَرْش
زجاج کہتے ہیں تجلی کی رب نے پہاڑ پر یعنی ظاہر ہو اور نظر آئے اور یہ قول اہل سنت کا ہے اور حسن کہتے ہیں تجلی شروع کی پہاڑ پر عرش کے نور کی

یعنی الله تعالی کو یہ زمین اٹھا نہیں سکتی وہ عرش پر مستوی ہے اور اپنے علم کی وجہ سے ہر انسان کی شہہ رگ کے قریب ہے

الله خلق کرتا اور امر کرتا ہے یا حکم کرتا ہے
فرشتے اس نے خلق کیے جو وہ کام کرتے ہیں جو الله تعالی ان کو حکم کرتے ہیں
یہ عالم بالا کا عموم ہے

لیکن جب الله کسی چیز کا ارادہ کر لے تو اس کو ان فرشتوں کی حاجت نہیں وہ کن کہتا ہے اور چیز ہو جاتی ہے
یہ الله کی قوت، قدرت اور اس کے جبروت کا منظر ہے یہ خصوص ہے

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
زمین و آسمانوں کی ابتداء کرنے والا اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُون
عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم جیسی ہے جس کو مٹی سے خلق کیا پھر کہا ہو جا اور ہو گیا

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
بلا شبہ ہمارا حکم یہ ہے کہ جب ہم ارادہ کریں کسی چیز کا تو اس سے کہیں ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے

قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
مریم نے کہا اے رب مجھے لڑکا کیسے ہو گا جبکہ کسی مرد نے چھوا تک نہیں کہا یہ الله ہے جو جو چاہتا ہے خلق کر دیتا ہے جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا حق کے ساتھ اور جس روز وہ کہے ہو جا وہ ہو جاتا ہے اس کا قول حق ہے اور اسی کے لئے بادشاہی ہے

هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ فَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
اور وہی ہے جو زندہ و مردہ کرتا ہے پس جب کسی امر کا فیصلہ کرے تو کہتا ہے ہو جا پس ہو جاتا ہے

ان تمام آیات سے واضح ہے کہ کن فیکون الله کا وہ حکم ہوتا ہے جو نیا ہو جس میں کوئی نیا بڑا کام ہونے جا رہا ہو جیسے اس کا ذکر تخلیق زمین و آسمان تخلیق آدم تخلیق عیسیٰ کے سلسلے میں بیان ہوا ہے

[/EXPAND]

[کیا الله تعالی کسی آسمان میں ہے ؟ ]

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَوْنٍ، عَنْ أَخِيهِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَارِيَةٍ سَوْدَاءَ أَعْجَمِيَّةٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ عَلَيَّ عِتْقَ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ. فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ: ” أَيْنَ اللهُ؟ ” فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ بِإِصْبَعِهَا السَّبَّابَةِ، فَقَالَ لَهَا: ” مَنْ أَنَا؟ ” فَأَشَارَتْ بِإِصْبَعِهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ وَإِلَى السَّمَاءِ، أَيْ: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، فَقَالَ: ” أَعْتِقْهَا

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عجمی کالی لونڈی کے ساتھ آیا اور کہا اے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میرے اوپر ہے کہ ایک  مومن کی گردن آزاد کروں – اپ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ الله کہاں ہے ؟ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اپنی شہادت کی انگلی سے پھر پوچھا میں کون ہوں؟  اس نے اپ کی طرف اور آسمان کی طرف اشارہ کیا یعنی کہ الله کے رسول پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا اس کو آزاد کر دو مومن ہے

جواب

لونڈی کی روایت یا  این الله والی روایت مضطرب المتن ہے

    الْمَسْعُودِيُّ  (عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة) کے اختلاط کی وجہ سے روایت ضعیف ہے – مندرجہ ذیل کتب میں المسعودی کی سند سے ہی روایت ہے

ابن خزيمة  “التوحيد” 1/284-285 عن محمد بن رافع، أبو داود (3284) ، البيهقي 7/388   ، وابن عبد البر  “التمهيد” 9/115

ابو داود میں اسی سند کو البانی ضعیف کہتے ہیں

طبرانی   المعجم الأوسط میں کہتے ہیں لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَوْنٍ إِلَّا الْمَسْعُودِيُّ اس کو صرف المسعودی روایت کرتا ہے

موطا میں بھی ہے لیکن وہاں یہ لونڈی بول رہی ہے اور آسمان کی طرف اشارہ نہیں کرتی

 أن رجلاً من الأنصار جاء إلى رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بجارية له سوداء، فقال: يا رسول الله، إن عليَّ رقبةً مؤمنةً، فإن كنت تراها مؤمنة أُعتِقُها. فقال لها رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أتشهدين أن لا إِله إلا الله؟ ” قالت: نعم. قال: “أتشهدين أن محمداً رسولُ الله؟ ” قالت: نعم. قال: “أتوقنين بالبعث بعد الموتِ؟ ” قالت: نعم. فقال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أعتِقْها

روایت ظاہر ہے صحیح متن سے المسعودی نے بیان نہیں کی

المسعودی المتوفی ١٦٠ ہجری کا اختلاط سن ١٥٤ ھ میں شروع ہو چکا تھا

کتاب سير أعلام النبلاء  از  الذھبی کے مطابق

قَالَ مُعَاذُ بنُ مُعَاذٍ: رَأَيتُ المَسْعُوْدِيَّ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَخَمْسِيْنَ وَمائَةٍ يُطَالِعُ الكِتَابَ -يَعْنِي: أَنَّهُ قَدْ تَغَيَّرَ حِفْظُهُ-

 أَبُو قُتَيْبَةَ: كَتَبتُ عَنْهُ سَنَةَ ثَلاَثٍ وَخَمْسِيْنَ وَهُوَ صَحِيْحٌ

ابو قتیبہ نے کہا کہ میں نے ١٥٣ ھ تک ان سے لکھا جو صحیح تھا

امام احمد اس کے برعکس وقت کا تعین نہیں کرتے اور کہتے ہیں جس نے ان سے کوفہ و بصرہ  میں سنا وہ جید  ہے اور جس نے بغداد میں سنا وہ غلط سلط ہے

کتاب العلل میں امام احمد کہتے ہیں

وأما يزيد بن هارون، وحجاج، ومن سمع منه ببغداد فهو في الاختلاط

اور جہاں تک امام یزید بن ہارون ہیں حجاج ہیں اور وہ جنہوں نے بغداد میں سنا تو وہ اختلاط میں ہے

اس لونڈی والی روایت کو المسعودی سے یزید بن ہارون ہی روایت کرتے ہیں

لہذا اس  طرق سے یہ ضعیف ہے

یہ روایت صحیح مسلم  (٥٣٧) میں بھی ہے لیکن وہاں اس کی سند میں يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے البتہ مسند احمد  23767 میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ السُّلَمِيِّ

لہذا تدلیس کا مسئلہ باقی نہیں رہتا

مسند احمد صحیح مسلم کی روایت کے مطابق لونڈی کہتی ہے

 فَقَالَ: «أَيْنَ اللَّهُ؟» قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا الله کہاں ہے لونڈی نے کہا آسمان میں

لونڈی کا یہ کہنا عرف عام ہے کہ الله تعالی آسمان والا ہے اور  ظاہر کرتا ہے کہ وہ الله کو عرش پر ہی  مانتی تھی کیونکہ اگر وہ کہتی وہ  ہرجگہ ہے تو عرش کا مفھوم غیر واضح ہو جاتا اور اگر کہتی زمین میں ہے تو یہ مخلوق سے ملانے کی بات ہوتی

متنا روایت مضطرب ہے کیونکہ  موطا میں لونڈی عربی بول رہی ہے اور اگر اپ غور کریں لونڈی عربی میں نعم یعنی ہاں تک تو کہہ نہیں سکتی لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سوال سمجھ رہی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ صحیح روایت وہ ہے جو امام مالک نے موطا میں روایت کی اور اس میں این الله کے الفاظ نہیں ہیں

موطا میں بھی ہے لیکن وہاں یہ لونڈی بول رہی ہے اور آسمان کی طرف اشارہ نہیں کرتی

 أن رجلاً من الأنصار جاء إلى رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بجارية له سوداء، فقال: يا رسول الله، إن عليَّ رقبةً مؤمنةً، فإن كنت تراها مؤمنة أُعتِقُها. فقال لها رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أتشهدين أن لا إِله إلا الله؟ ” قالت: نعم. قال: “أتشهدين أن محمداً رسولُ الله؟ ” قالت: نعم. قال: “أتوقنين بالبعث بعد الموتِ؟ ” قالت: نعم. فقال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أعتِقْها

انصار میں سے ایک شخص ایک کالی لونڈی کے ساتھ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے رسول الله میرے  اوپر ہے کہ میں ایک مومن لونڈی کو آزاد کروں اپ اس کو دیکھیں اگر مومن ہے تو میں اس کو آزاد کر دوں پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کو کہا کیا تو شہادت دیتی ہے کہ الله کے سوا کوئی اله نہیں ہے ؟ لونڈی بول جی ہاں پھر اس سے پوچھا کیا تو شہادت دیتی ہے محمد رسول الله ہے ؟ لونڈی بولی جی ہاں پھر پوچھا کیا تو مرنے کے بعد جی اٹھنے پر یقین رکھتی ہے ؟ بولی جی ہاں پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کو آزاد کر دو

قرانی آیات

سوره الزخرف میں ہے

وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَهٌ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ

اور وہی ہے جو آسمان میں اله ہے اور زمین میں اله ہے اور وہ حکمت والا جاننے والا ہے

سوره الملک میں ہے

أأمنتم من في السماء أن يخسف بكم الأرض فإذا هي تمور

کیا تم بے خوف ہو اس سے کہ جو آسمان میں ہے کہ وہ زمین کو خسف کر دے اور یہ ہچکولے کھا رہی ہو

ان آیات میں ادبی انداز میں الله کو آسمان والا کہا گیا ہے کیونکہ یہ مخلوق کا انداز ہے کہ وہ دعا کرتی ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ کرتی ہے یا آسمان کی طرف دیکھتی ہے  ان آیات  کا مطلب ہے کہ زمین و آسمان پر الله کی ہی بادشاہی ہے اس کی تمکنت ہے نہ کہ وہ زمین میں  یا کسی آسمان میں ہے بلکہ وہ عرش پر ہے جو جنت الفردوس کے اوپر ہے اور آخری حد وہ بیری کا درخت ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا جہاں تمام چیزیں ا کر رک جاتی ہیں اور اس سے آگے رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی نہیں گئے

 الأسماء والصفات للبيهقي (2/309) کے مطابق اس آیت  أأمنتم من في السماء کا مطلب ہے

 أي: فوق السماء یعنی آسمان سے اوپر

اس کے بعد البیہقی دلیل میں حدیث پیش کرتے ہیں کہ بنو قریظہ کا فیصلہ  پر سعد رضی الله عنہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا

لقد حكمت فيهم بحكم الله الذي حكم به من فوق سبع سموات

تم بے شک فیصلہ دیا الله کے حکم کے مطابق جو سات آسمان سے اوپر سے حکم کرتا ہے

اسی طرح  حدیث میں ہے  ام المومنین زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کے لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

إن الله أنكحني من فوق سبع سموات

بے شک الله نے میرا نکاح کیا جو سات آسمان سے اوپر ہے

زینب رضی الله عنہا صحیح بخاری کی حدیث 7420  کے مطابق کہتیں

 وَزَوَّجَنِي اللَّهُ تَعَالَى مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ

میرا نکاح الله تعالی نے سات آسمان کے اوپر سے کیا

مسند احمد 3262  کے مطابق عائشہ رضی الله عنہا کہتیں

 وأنزل الله عز وجَل براءَتَك من فوق سبع سموات

اور الله   عز وجَل نے میری برات  سات آسمان کے اوپر سے نازل کی

لہذا امہات المومنین کا عقیدہ تھا  کہ الله عرش پر سات آسمان اوپر ہے

[/EXPAND]

[رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک دعا پر سوال ہے ؟]

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ، فَقَالَ: اللهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ (2) عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ،  نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ
اے الله میں تجھ سے تیرے ہر نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو تو اپنے نفس کے رکھے یا اپنی کتاب میں نازل کیے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھائے یا وہ جو تیرے علم غیب میں جمع ہیں

جواب

دارقطنی العلل میں اس کو ضعیف کہتے ہیں اس کی سند میں أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ جو مجھول ہے

سند کا دوسرا راوی  فضيل بن مرزوق بھی مجھول ہے مسند احمد کی تعلیق میں شعیب اس کو ضعیف روایت کہتے ہیں اور  فضيل بن مرزوق پر لکھتے ہیں

 فقال المنذري في “الترغيب والترهيب” 4/581: قال بعض مشايخنا: لا ندري من هو، وقال الذهبي في “الميزان” 4/533، والحسيني في “الإكمال” ص 517: لا يدرى من هو، وتابعهما الحافظ في “تعجيل المنفعة”

حسين سليم أسد الدّاراني – عبده علي الكوشك کتاب  موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان میں اس کی تعلیق میں أبو سلمة الجهني پر کہتے ہیں

والحق أنه مجهول الحال، وابن حبان يذكر أمثاله في الثقات، ويحتج به في الصحيح إذا كان ما رواه ليسَ بمنكر”. وانظر أيضاً “تعجيل المنفعة” ص. (490 – 491).

حق یہ ہے کہ یہ مجھول الحال ہے اور ابن حبان نے ان جیسوں کو الثقات میں ذکر کر دیا ہے اور صحیح میں اس سے دلیل لی ہے

اس روایت کی بعض اسناد میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ بھی ہے جو ضعیف ہے

لہذا روایت ضعیف اور مجھول لوگوں کی روایت کردہ ہے

 جب الله کو پکارا  جاتا ہے تو اس کو رحمت  مانگتے وقت یا القہار نہیں کہا جاتا جبکہ یہ بھی الله کا نام ہے –  مسند احمد کی روایت کے  مطابق الله کو پکارتے وقت اس کے تمام ناموں کو پکارا گیا ہے جو سنت کا عمل نہیں

صحیح حدیث کے مطابق الله تعالی کے ٩٩ نام ہیں لیکن  اس مسند احمد کی ضعیف روایت کے مطابق بے شمار ہیں

لہذا بعض کہتے ہیں أسماء الله تعالى غير محصورة بعدد معين  الله تعالی کے اسماء ایک مخصوص عدد (یعنی صرف ٩٩)  نہیں ہیں

امام بخاری اس کے برعکس صحیح میں باب إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ اسْمٍ إِلَّا وَاحِدًا  (الله کے سو میں ایک کم نام ہیں) میں حدیث پیش کرتے ہیں

إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا، مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ

بے شک الله کے ٩٩ نام ہیں سو میں ایک کم جس نے ان کو یاد کیا جنت میں داخل ہو گا

یہاں واضح ہے کہ وہ روایت جس میں بے شمار ناموں کا ذکر ہو منکر ہے

[/EXPAND]

[کیا  متشابھات کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو ہے ؟]

الله تعالی نے کتاب الله میں واضح کر دیا ہے کہ اس نے جو کتاب نازل کی ہے اس میں سب باتوں کا علم انسان کو نہیں دیا لہذا  متشابھات کی تاویل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بھی نہیں  دی گئی

سوره ال عمران میں ہے

وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ

اور ان کی تاویل کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور علم میں راسخ کہتے ہیں ہم ایمان لاتے ہیں

الله تعالی سے متعلق بہت سی آیات متشابھات میں سے ہیں ان پر ایمان لایا جاتا ہے مثلا استوی وغیرہ

کتاب  القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى از  محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ) کے مطابق ابن تیمیہ کہتے ہیں

قال شيخ الإسلام ابن تيميه في كتابه المعروف ب”العقل والنقل” (ص 116، ج 1) المطبوع على هامش “منهاج السنة”: “وأما التفويض فمن المعلوم أن الله أمرنا بتدبر القرآن، وحضنا على عقله وفهمه، فكيف يجوز مع ذلك أن يراد منا الإعراض عن فهمه ومعرفته وعقله) إلى أن قال (ص 118) : (وحينئذ فيكون ما وصف الله به نفسه في القرآن، أو كثير مما وصف الله به نفسه لا يعلم الأنبياء معناه، بل يقولون كلاما لا يعقلون معناه” قال: “ومعلوم أن هذا قدح في القرآن والأنبياء، إذ كان الله أنزل القرآن وأخبر أنه جعله هدى وبيانا للناس، وأمر الرسول صلى الله عليه وسلم أن يبلغ البلاغ المبين، وأن يبين للناس ما نُزِّل إليهم، وأمر بتدبر القرآن وعقله، ومع هذا فأشرف ما فيه وهو ما أخبر به الرب عن صفاته.. لا يعلم أحد معناه، فلا يعقل، ولا يتدبر، ولا يكون الرسول بَيَّنَ للناس ما نُزِّل إليهم، ولا بَلَّغ البلاغ المبين، وعلى هذا التقدير فيقول كل ملحد ومبتدع: الحق في نفس الأمر ما علمته برأيي وعقلي، وليس في النصوص ما يناقض ذلك، لأن تلك النصوص مشكلة متشابهة، ولا يعلم أحد معناها، وما لا يعلم أحد معناه لا يجوز أن يُسْتَدَل به، فيبقى هذا الكلام سدًا لباب الهدى والبيان من جهة الأنبياء، وفتحا لباب من يعارضهم، ويقول: إن الهدى والبيان في طريقنا لا في طريق الأنبياء، لأننا نحن نعلم ما نقول ونبينه بالأدلة العقلية، والأنبياء لم يعلموا ما يقولون فضلاً عن أن يبينوا مرادهم.

%d8%b9%d9%82%d9%84-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%aa%db%8c%d9%85%db%8c%db%81-%d9%a1

%d8%b9%d9%82%d9%84-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%aa%db%8c%d9%85%db%8c%db%81-%d9%a2

%d8%b9%d9%82%d9%84-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%aa%db%8c%d9%85%db%8c%db%81-%d9%a3

یہ بات کس قدر سطحی ہے اپ دیکھ سکتے ہیں   اس اقتباس کی بنیاد پر کوئی بھی شخص متاشابھات کا انکار کر سکتا ہے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہیں بھی صفات میں کیفیت بیان نہیں کی ہیں کیونکہ وہ متشابھات میں سے ہیں اور جب تک کیفیت کا علم نہ ہو حقیقی اور مکمل علم حاصل نہیں ہوتا

اب چونکہ کیفیت اسی وقت پتا چلتی ہے جب دیکھا جائے لہذا اصلا ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے کہ الله تعالی کو  سونے کے فرش پر کرسی پر  اصلی آنکھ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا

کتاب  بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں کتاب کے آخر میں  ابن تیمیہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی انکھوں سے الله تعالی کو دیکھا

 وفي هذا الخبر من رواية ابن أبي داود أنه سُئل ابن عباس هل رأى محمد ربه قال نعم قال وكيف رآه قال في صورة شاب دونه ستر من لؤلؤ كأن قدميه في خضرة فقلت أنا لابن عباس أليس في قوله لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (103) [الأنعام 103] قال لا أم لك ذاك نوره الذي هو نوره إذا تجلى بنوره لا يدركه شيء وهذا يدل على أنه رآه وأخبر أنه رآه في صورة شاب دونه ستر وقدميه في خضرة وأن هذه الرؤية هي المعارضة بالآية والمجاب عنها بما تقدم فيقتضي أنها رؤية عين كما في الحديث الصحيح المرفوع عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء الوجه الرابع أن في حديث عبد الله بن أبي سلمة أن عبد الله بن عمر أرسل إلى عبد الله بن عباس يسأله هل رأى محمد ربه فأرسل إليه عبد الله بن عباس أي نعم فرد عليه عبد الله بن عمر رسوله أن كيف رآه فأرسل إليه رآه في روضة خضراء دونه فراش من ذهب على كرسي من ذهب تحمله أربعة من الملائكة كما تقدم وكون حملة العرش على هذه الصورة أربعة هو كذلك الوجه الخامس أنه ذكر أن الله اصطفى محمدًا بالرؤية كما اصطفى موسى بالتكليم ومن المعلوم أن رؤية القلب مشتركة لا تختص بـ محمد كما أن الإيحاء لا يختص بـ موسى ولا بد أن يثبت لمحمد من الرؤية على حديث ابن عباس مالم يثبت لغيره كما ثبت لموسى من التكليم كذلك وعلى الروايات الثلاث اعتمد ابن خزيمة في تثبيت الرؤية

إس خبر کے حوالے سے ابن ابی داود کی روایت ہے کہ ابن عباس سے سوال کیا کہ کیا محمد صلی الله علیہ وسلم نے رب کو دیکھا ؟ ابن عباس نے کہا ہاں دیکھا پوچھا کیسے دیکھا ؟ کہا الله کو ایک جوان مرد کی صورت دیکھا جس پر موتی کا ستر اور قدم پر سبزہ تھا میں نے ابن عباس سے کہا تو الله کا قول ہے نگاہیں اس تک نہیں جاتیں اور وہ نگاہ وہ پاتا ہے اور وہ جاننے والا باریک بین ہے ابن عباس نے  کہا نہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب نور ہو تو اس کے سوا  کچھ نظر نہیں اتا تو یہ دلالت کرتا ہے انہوں نے دیکھا – اور خبر دی کہ انہوں نے ایک جوان کی صورت دیکھا جس  کے قدم پر سبزہ تھا اور یہ دیکھنا آیت سے متعارض ہے اور اس کا جواب ہے  جو گزرا جو  تقاضہ کرتا ہے یہ آنکھ سے دیکھا جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے جو مرفوع ہے قتادہ عن عکرمہ عن ابن عبّاس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو ایک بغیر داڑھی مونچھ جوان کی صورت دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے جو سبز باغ میں تھا  چوتھا طرق ہے کہ حدیث عبد الله بن ابی سلمہ ہے عبد الله بن عمر نے ابن عباس کے پاس کسی کو بھیجا اور سوال کیا کہ کیا رسول الله نے اپنے رب کو دیکھا ؟ پس ابن عباس  نے جواب بھیجا کہ جی دیکھا پس ابن عمر نے واپس بھیجا کہ کیسے دیکھا ؟ ابن عباس نے کہلا بھیجا کہ سبز باغ میں جس میں سونے کی کرسی تھی جس کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے تھے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اور یہ چار شکلوں والے عرش کو اٹھائے ہوئے تھے اسی طرح پانچواں طرق ہے کہ انہوں نے ذکر کیا کہ الله نے رسول الله کو چن لیا اپنی رویت کے لئے جیسے موسی کو …. اور یہ وہ تین روایات ہیں جن پر ابن خزیمہ نے اثبات رویت کے لئے اعتماد کیا ہے

اس کے برعکس ابن تیمیہ کے ہم عصر الذھبی اس کا رد کرتے ہیں

شاذان بن اسود کے ترجمہ میں سیر الاعلام النبلاء میں  الذھبی لکھتے ہیں

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:  قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ  .  وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَ  السَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:  قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.

یہ رویت باری والی خبر منکر ہے

راقم کہتا ہے ابن تیمیہ کی پیش کردہ تمام روایات ضعیف ہیں ابن تیمیہ سے دو سو سال پہلے علم حدیث کے ماہر ابن جوزی کتاب دفع شبھة ألتشبية میں اس قسم کی تمام روایات کو رد کر چکے تھے

وفي رواية عن ابن عباس ” رآه كأن قدميه على خضرة دونه ستر من لؤلؤ ” . قلت : وهذا يرويه إبراهيم بن الحكم بن ابان وقد ضعفه يحيى بن معين وغيره وفي رواية ابن عباس – رضي الله عنه – عن رسول الله صلى الله عليه وسلم – قال : ” رأيت ربي أجعد أمرد عليه حلة خضراء ” قلت : وهذا يروى من طريق حماد بن سلمة وكان ابن أبي العوجاء الزنديق ربيب حماد يدس في كتبه هذه الاحاديث ، على أن هذا كان مناما والمنام خيال . ومثل هذه الاحاديث لا ثبوت لها ، ولا يحسن أن يحتج بمثلها في الوضوء ، وقد أثبت بها القاضي أبو يعلى (المجسم) لله تعالى صفات فقال : قوله : شاب ، وأمرد ، وجعد ، وقطط ، والفراش والنعلان والتاج

أور ابن عباس كي رواية کہ الله کو دیکھا جس کے قدم پر سبزہ تھا اور موتی کا ستر تھا تو میں ابن جوزی کہتا ہوں اس کو ابراہیم بن الحکم بن ابان نے روایت کیا ہے جس کی تضعیف امام ابن معین نے کی اور دیگر نے کی ہے اور ابن عبّاس کی روایت کہ میں نے ایک بغیر داڑھی مونچھ جوان کی صورت دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے اور سبز لباس تھا … میں کہتا ہوں اس کو حماد بن سلمہ کے طرق سے ابن ابی العوجا زندیق نے روایت کیا ہے …. اور اسی طرح کی احادیث جن کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور  … اور ابو یعلی  جو الله کی صفات میں تجسیم کرتا تھا نے کہا  جوان تھا مرد تھا گھنگھر والے بالوں والا تھا اس پر فرش اور جوتیاں بھی تھی تاج بھی تھا

السبکی طبقات الشافعية الكبرى میں کہتے ہیں

وَحَدِيث فى صُورَة شَاب أَمْرَد مَوْضُوع مَكْذُوب على رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

اور حدیث بغیر داڑھی مونچھ مرد کی شکل والی صورت والی حدیث موضوع ہے جھوٹ ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر

راقم کہتا ہے یہ تمام روایت صفات میں الحاد ہیں لیکن افسوس اس کو لوگ روایت کرتے رہے

شَيْخُ الحنَابِلَةِ قاضی ابویعلی جن کی کتب پر ابن تیمیہ اور وہابیوں نے اپنا عقیدہ صفات رکھا ہے ان کے بارے میں الذھبی سیر الاعلام میں کہتے ہیں
وَجَمَعَ كِتَاب (إِبطَال تَأْويل الصِّفَات) فَقَامُوا عَلَيْهِ لمَا فِيْهِ مِنَ الوَاهِي وَالمَوْضُوْع،
اور انہوں نے کتاب (إِبطَال تَأْويل الصِّفَات) کو جمع کیا اور اس میں واہی (احادیث) اور موضوعات کو بیان کیا

لیکن یہی لوگ سب کچھ روایت کرنے کے بعد اپنا پلو کیسے جھٹکتے ہیں

محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ) کتاب  القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى میں لکھتے ہیں

%d9%82%d8%a7%d8%b6%d9%8a-%d8%a3%d8%a8%d9%88%d9%8a%d8%a7%d9%84%d9%8a-%d8%a7%d9%84%d9%85%d8%ac%d8%b3%d9%85

یہ لوگ اس کے قائل ہیں کہ جن روایات میں ہاتھ قدم بال چہرہ الہی کا ذکر ہے ان کو ظاہر پر ہی لیا جائے گا پس یہ کہا جائے گا کہ  یہ مخلوق سے الگ ہیں

[/EXPAND]

[آیا قرآن مخلوق ہے یا نہیں۔ اگر مخلوق نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟  ]

جواب

محدثین اس بحث میں الجھے جب انہوں نے فلسفہ یونان کی اصطلاحات اپنی بحثوں میں استمعال کیں
فلسفہ کی پہلی شق ہے کہ ہر چیز اپنی صفت سے جانی جائے گی

لهذا سب سے پہلے الله کو ایک شی بنایا گیا اس پر دلائل پیش کیے گئے اس کے لئے سوره الانعام کی آیت سے استخراج کیا گیا
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ
کہو کس چیز کی شہادت سب سے بڑی ہے ؟ کہو الله کی جو گواہ ہے ہمارے اور تمہارے بیچ

اور قرآن میں ہے
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ
ہر چیز ہلاک ہو جائے گی سوائے الله کے وجھہ کے

اس سے محدثین نے استخراج کیا کہ الله ایک چیز ہے

اب یونانی فلسفہ کے استدلالات الله پر لگا کر اس کو سمجھا جائے گا چونکہ الله ایک چیز ہے اور ہر چیز کی صفت ہوتی ہے اور کسی بھی چیز کی صفت اسی چیز کے لئے خاص ہوتیں ہیں
لہذا الله کی تمام صفات خود الله ہی ہوئیں لیکن الله کے لئے صفت بولنا صحیح ہے یا نہیں ؟ اس پر ایک روایت ملی اور محدثین کو اس پر خانہ پوری کے لئے دلیل مل گئی کہ لفظ صفت بولنا الله کے لئے جائز ہے

راقم کہتا ہے یہ سب غلط ہے نہ وہ صفت والی روایت صحیح ہے نہ الله کو چیز کہنا صحیح ہے کیونکہ الله نے خود ہی کہہ دیا لیس کمثلہ شی اس کے مثل کوئی چیز نہیں
یعنی اپنی ذات کو اشیاء سے الگ کیا
اللہ تعالی نے قرآن کو کلام کہا ہے اور الله خود کسی شئی کے مثل نہیں ہے
لہذا الله اور اسکی مخلوق میں بعد ہے جب وہ کلام کرتا ہے تو اس کے الفاظ فرشتوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک پہنچائے

معتزلہ کا موقف تھا کہ قرآن کلام الله ہے جو مخلوق ہے
محدثین کہتے قرآن غیر مخلوق ہے
امام بخاری کہتے تھے کہ جو کلام مصحف میں ہم نے لکھا یا اس کی تلاوت کی تو وہ مخلوق کا عمل ہے لہذا تلاوت مخلوق ہے
امام احمد اس میں رائے رکھنے کے خلاف تھے اور امام بخاری کو بدعتی کہتے تھے

الله تبارک و تعالی نے موسی سے کلام کیا اس کے الفاظ وادی طوی میں موسی نے سنے لیکن یہ الفاظ معدوم ہو گئے ایسا نہیں ہے جو بھی اس علاقے سے گزرے اس کو آج تک سنائی دیتے ہوں
اسی طرح الله تعالی نے مختلف زبانوں میں کلام نازل کیا وہ الفاظ متروک ہوئے اب ان زبانوں میں بولے نہیں جاتے اور زبان کلام کے نزول سے پہلے تخلیق کی گئیں
لہذا یہ سب ایک غیر ضروری بحث اور مسئلہ تھا جس میں سب الجھ گئے

کتاب سیر الاعلام النبلاء میں هِشَامَ بنَ عَمَّارٍ کے ترجمہ میں الذھبی وہی بات کہتے ہیں جو امام بخاری کہتے

وَلاَ رَيْبَ أَنَّ تَلَفُّظَنَا بِالقُرْآنِ مِنْ كَسْبِنَا، وَالقُرْآنُ المَلْفُوْظُ المَتْلُوُّ كَلاَمُ اللهِ -تَعَالَى- غَيْرُ مَخْلُوْقٍ، وَالتِّلاَوَةُ وَالتَّلَفُّظُ وَالكِتَابَةُ وَالصَّوتُ بِهِ مِنْ أَفْعَالِنَا، وَهِيَ مَخْلُوْقَةٌ – وَاللهُ أَعْلَمُ

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ہمارا تلفظ ہمارا کسب (کام) ہے اور قرآن الفاظ والا پڑھا جانے والا کلام الله ہے غیر مخلوق ہے اوراس کی  تلاوت اور تلفظ اور کتابت اور آواز ہمارے افعال ہیں اور یہ مخلوق ہیں واللہ اعلم

الذھبی کے مطابق لفظی بالقرآن کا مسئلہ الکرابیسی نے پیش کیا الذھبی ، الكَرَابِيْسِيُّ أَبُو عَلِيٍّ الحُسَيْنُ بنُ عَلِيِّ بنِ يَزِيْدَ  کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَلاَ رَيْبَ أَنَّ مَا ابْتَدَعَهُ الكَرَابِيْسِيُّ، وَحَرَّرَهُ فِي مَسْأَلَةِ التَّلَفُّظِ، وَأَنَّهُ مَخْلُوْقٌ هُوَ حَقٌّ

اور اس میں شک نہیں کہ الکرابیسی نے جو بات شروع کی اور مسئلہ تلفظ کی تدوین کی کہ یہ مخلوق ہے یہ حق تھا

الذھبی سیر الاعلام النبلا میں احمد بن صالح کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَإِنْ قَالَ: لَفْظِي، وَقَصَدَ بِهِ تَلَفُّظِي وَصَوتِي وَفِعْلِي أَنَّهُ مَخْلُوْقٌ، فَهَذَا مُصِيبٌ، فَاللهُ -تَعَالَى- خَالِقُنَا وَخَالِقُ أَفْعَالِنَا وَأَدَوَاتِنَا، وَلَكِنَّ الكَفَّ عَنْ هَذَا هُوَ السُّنَّةُ، وَيَكفِي المَرْءَ أَنْ يُؤمِنَ بِأَنَّ القُرْآنَ العَظِيْمَ كَلاَمُ اللهِ وَوَحْيُهُ وَتَنْزِيْلُهُ عَلَى قَلْبِ نَبِيِّهِ، وَأَنَّهُ غَيْرُ مَخْلُوْقٍ

اور اگر یہ کہے کہ لفظی ہے اور مقصد قرآن کا تلفظ اسکی آواز اور اس پر فعل ہو  کہ یہ مخلوق ہے  – تو یہ بات ٹھیک ہے – پس کیونکہ الله تعالی ہمارا خالق ہے اور ہمارے افعال کا بھی اور لکھنے کے ادوات کا بھی لیکن اس سے روکنا سنت ہے اور آدمی کے لئے کافی ہے قرآن عظیم پر ایمان لائے کلام اللہ کے طور پر اس کی الوحی پر اور قلب نبی پر نازل ہونے پر اور یہ بے شک غیر مخلوق ہے

کتاب تذکرہ الحفاظ میں   ابن الأخرم الحافظ الإمام أبو جعفر محمد بن العباس بن أيوب الأصبهاني کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں ابن آخرم کہا کرتے

من زعم أن لفظه بالقرآن مخلوق فهو كافر فالظاهر أنه أراد بلفظ الملفوظ وهو القرآن المجيد المتلو المقروء المكتوب المسموع المحفوظ في الصدور ولم يرد اللفظ الذي هو تلفظ القارئ؛ فإن التلفظ بالقرآن من كسب التالي والتلفظ والتلاوة والكتابة والحفظ أمور من صفات العبد وفعله وأفعال العباد مخلوقة

جس نے یہ دعوی کیا کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں وہ کافر ہے پس ظاہر ہے ان کا مقصد ہے کہ جو ملفوظ الفاظ قرآن کے ہیں جس کو پڑھا جاتا ہے جو کتاب سنی جاتی ہے اور محفوظ  ہے سینوں میں — اور ان کا مقصد تلفظ نہیں ہے جو قاری کرتا ہے کیونکہ قرآن کا تلفظ کرنا کام ہے اور اس کا تلفظ اور کتابت اور حفظ اور امور یہ بندے کی صفات ہیں اس کے افعال ہیں اور بندوں کے افعال مخلوق ہیں

امام احمد لفظی بالقرآن کا مسئلہ سنتے ہی جھمی جھمی کہنا شروع کر دیتے

الكَرَابِيْسِيُّ أَبُو عَلِيٍّ الحُسَيْنُ بنُ عَلِيِّ بنِ يَزِيْدَ  کے ترجمہ میں کتاب سیر الاعلام البنلا از الذھبی کے مطابق امام یحیی بن معین کو امام احمد کی الکرابیسی کے بارے میں  رائے پہنچی

وَلَمَّا بَلَغَ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ أَنَّهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَحْمَدَ، قَالَ: مَا أَحْوَجَهُ إِلَى أَنْ يُضْرَبَ، وَشَتَمَهُ

اور جب امام ابن معین تک پہنچا کہ امام احمد الکرابیسی کے بارے میں کلام کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں کہ میں اس کو ماروں یا گالی دوں

امام الذھبی بھی کہہ رہے ہیں امام الکرابیسی صحیح کہتے تھے –

امام بخاری کے لئے الذھبی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں علی بن حجر بن آیاس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا البُخَارِيُّ، فَكَانَ مِنْ كِبَارِ الأَئِمَّةِ الأَذْكِيَاءِ، فَقَالَ: مَا قُلْتُ: أَلفَاظُنَا بِالقُرْآنِ مَخْلُوْقَةٌ، وَإِنَّمَا حَرَكَاتُهُم، وَأَصْوَاتُهُم وَأَفْعَالُهُم مَخْلُوْقَةٌ، وَالقُرْآنُ المَسْمُوْعُ المَتْلُوُّ المَلْفُوْظُ المَكْتُوْبُ فِي المَصَاحِفِ كَلاَمُ اللهِ، غَيْرُ مَخْلُوْقٍ

اور جہاں تک امام بخاری کا تعلق ہے تو وہ تو کبار ائمہ میں دانشمند تھے پس انہوں نے کہا میں نہیں کہتا ہے قرآن  میں ہمارے الفاظ مخلوق ہیں بلکہ ان الفاظ کی حرکات اور آواز اور افعال مخلوق ہیں اور قرآن جو سنا جاتا پڑھا جاتا الفاظ والا لکھا ہوا ہے مصاحف میں وہ کلام الله ہے غیر مخلوق ہے

ایک متعصب غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا

جبکہ محدثین میں ایسا الذھبی نے واضح کیا امام بخاری کے نزدیک جو قرآن کے الفاظ ہم ادا کرتے ہیں وہ مخلوق کا عمل ہے

مزید دیکھیں

https://www.islamic-belief.net/history/

[/EXPAND]

[حدیث جب تم نماز میں ہوتے ہو تو الله سامنے ہوتا ہے کا کیا مطلب ہے ؟]

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ : رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ وَهُوَ يُصَلِّي بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ ، فَحَتَّهَا ، ثُمَّ قَالَ حِينَ انْصَرَفَ : ” إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا كَانَ فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ أَحَدٌ قِبَلَ وَجْهِهِ فِي الصَّلَاةِ ” ، رَوَاهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، وَابْنُ أَبِي رَوَّادٍ ، عَنْ نَافِعٍ .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب هَلْ يَلْتَفِتُ لِأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ أَوْ يَرَى … رقم الحديث: 714(753)] ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مسجد کے قبلہ(کی جانب) میں کچھ تھوک دیکھا اس وقت آپ ﷺ لوگوں کے آگے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کو صاف کر دیا ۔اس کے بعد جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب کوئی شخص نماز میں ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے‘ لہذا کوئی شخص نماز میں اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے۔

جواب

کتاب التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ   از  محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني ثم الصنعاني، أبو إبراهيم، عز الدين، المعروف كأسلافه بالأمير (المتوفى: 1182هـ) کے مطابق

فإن الله قبل وجهه إذا صلى) أي ملائكته ورحمته تعالى مقابلة له أو أن قبلة الله أي بيته الكريم أو لأنه [1/ 221] يناجى ربه كما في حديث أبي هريرة: “إذا قام أحدكم إلى الصلاة فلا يبزق أمامه فإنما يناجي الله” الحديث (1) والمناجي يكون تلقاء وجه من يناجيه فأمر بصيانة الجهة كما لو كان يناجي مخلوق (مالك ق ن عن ابن عمر)

پس جب تم نماز میں ہوتے ہو الله سامنے ہوتا ہے یعنی فرشتے اور رحمت سامنے ہے یا قبلہ یا بیت الله سامنے ہے یا یہ کہ وہ اپنے رب سے کلام کرتا ہے

کتاب   مطالع الأنوار على صحاح الآثار  از ابن قرقول (المتوفى: 569هـ) کے مطابق

قوله: “فَإِنَّ الله قِبَلَ وَجْهِهِ” أي: قبلة الله المعظمة.

قول کہ الله سامنے ہوتا ہے یعنی  قبلہ الله عظمت والا

معالم السنن شرح سنن أبي داود میں الخطابي (المتوفى: 388هـ) کہتے ہیں

وقوله فإن الله قبل وجهه تأويله أن القبلة التي أمره الله عزو جل

اور قول کہ الله تعالی سامنے ہوتا ہے اس کی تاویل ہے کہ قبلہ ہے جس کا حکم الله عزو جل نے کیا ہے

نووی شرح مسلم میں کہتے ہیں

 فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ أَيِ الْجِهَةِ الَّتِي عَظَّمَهَا وَقِيلَ فَإِنَّ قِبْلَةَ اللَّهِ وَقِيلَ ثَوَابُهُ وَنَحْوُ هَذَا

کہ وہ الله سامنے ہے یعنی وہ جہت جس کو عظمت دی اور کہا جاتا ہے یعنی قبلہ اور کہا جاتا ہے ثواب اور اسی طرح

ابن عبد البر  (المتوفى: 463هـ)  کتاب  الاستذكار میں کہتے ہیں

وَأَمَّا قَوْلُهُ فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ إِذَا صَلَّى فَكَلَامٌ خَرَجَ عَلَى شَأْنِ تَعْظِيمِ الْقِبْلَةِ وَإِكْرَامِهَا

کہ الله سامنے ہوتا ہے جب نماز پڑھتا ہے تو یہ کلام تعظیم  قبلہ اور اس کے اکرام کی شان میں ادا ہوا ہے

محمد بن الحسن بن فورك الأنصاري الأصبهاني، أبو بكر (المتوفى: 406هـ) کتاب مشكل الحديث وبيانه میں کہتے ہیں

فَإِن الله قبل وَجهه إِذا صلى أَي ثَوَابه وكرامته

کہ الله سامنے ہوتا ہے کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے یعنی اس کا ثواب اور کرامت

[/EXPAND]

[کیا الله تعالی ہر جگہ موجود ہے؟]

تفسیر طبری میں قتادہ بصری کا قول ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: ثنا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: الْتَقَى أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ قَالَ أَحَدُهُمْ: أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، وَتَرَكْتُهُ؛ ثُمَّ قَالَ الْآخَرُ: أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ الْأَرْضِ السَّابِعَةِ وَتَرَكْتُهُ؛ ثُمَّ قَالَ الْآخَرُ: أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ الْمَشْرِقِ وَتَرَكْتُهُ؛ ثُمَّ قَالَ الْآخَرُ: أَرْسَلَنِي رَبِّي مِنَ الْمَغْرِبِ وَتَرَكْتُهُ ثَمَّ

آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ  تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں۔

جواب

اس قول میں ایک بد عقیدہ پیش کیا گیا ہے کہ الله تعالی ہر جہت میں اور زمین میں اور آسمان میں ہے

قتادہ  نے ظاہر ہے اس کو کسی سے سنا ہے لیکن نام نہیں لیا اس بنا پر یہ قابل التفات نہیں ہے

[/EXPAND]

[لفظ بِذَاتِه  پر امام الذھبی کی کیا رائے ہے ؟ ]

جواب

کتاب العرش میں الذھبی کہتے ہیں

وفيما كتبنا من الآيات دلالة على إبطال [قول]  من زعم من الجهمية أن الله بذاته في كل مكان. وقوله {وَهُوَ مَعَكُم أَيْنَمَا كُنْتُم} إنما أراد [به]  بعلمه لا بذاته

اور جو ہم نے جھمیہ کے دعوی کے بطلان پر لکھا کہ بے شک الله بذات ہر مکان میں ہے اور الله کا قول  وَهُوَ مَعَكُم أَيْنَمَا كُنْتُم  (اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو)  تو اس میں مقصد ہے کہ وہ اپنے علم کے ساتھ ہے نہ کہ بذات  ہے

کتاب العرش میں الذھبی کہتے ہیں

 وقال الإمام أبو محمد بن أبي زيد المالكي المغربي في رسالته في مذهب مالك ، أولها: “وأنه فوق عرشه المجيد بذاته ، وأنه في كل مكان بعلمه” وقد تقدم هذا القول، عن محمد بن عثمان بن أبي شيبة، إمام أهل الكوفة في وقته ومحدثها – وممن قال إن الله على عرشه بذاته، يحيى بن عمار ، شيخ أبي إسماعيل الأنصاري  شيخ الإسلام، قال ذلك في رسالته – وكذلك الإمام أبو نصر السجزي الحافظ، في كتاب “الإبانة” له، فإنه قال: “وأئمتنا الثوري، ومالك، وابن عيينة، وحماد بن سلمة، وحماد بن زيد، وابن المبارك، وفضيل بن عياض ، وأحمد، وإسحاق، متفقون  على أن الله فوق عرشه بذاته، وأن علمه بكل مكان”  وكذلك قال شيخ الإسلام أبو إسماعيل الأنصاري، فإنه قال: “في أخبار شتى إن الله في السماء السابعة، على العرش بنفسه

اوپر یہ تمام لوگ بذاتہ کا لفظ استمعال کرتے ہیں

لیکن کتاب سیر الاعلام النبلاء ج ١٩ ص ٦٠٦ میں الذھبی ، ابْنُ الزَّاغونِيِّ کے لئے لکھتے ہیں

قَالَ ابْنُ الزَّاغونِيِّ فِي قَصِيدَةٍ لَهُ:
إِنِّيْ سَأَذْكُرُ عَقْدَ دِيْنِي صَادِقاً … نَهْجَ ابْنِ حَنْبَلٍ الإِمَامِ الأَوْحَدِ
منهَا:
عَالٍ عَلَى العَرْشِ الرَّفِيْعِ بِذَاتِهِ … سُبْحَانَهُ عَنْ قَوْلِ غَاوٍ مُلْحِدِ

جو بلند ہے عرش پر رفیع بذات

قد ذكرنَا أَن لفظَة (بِذَاته) لاَ حَاجَةَ إِلَيْهَا، وَهِيَ تَشْغَبُ النُّفُوْسَ، وَتركُهَا أَوْلَى – وَاللهُ أَعْلَمُ –

بے  شک ہم نے ذکر کیا کہ لفظ بذاتہ کی حاجت نہیں ہے یہ نفوس کو فساد  کراتا ہے اس کو چھوڑنا اولی ہے

امام الذھبی کا یہی عقیدہ ہے کہ الله تعالی سات آسمان اوپر عرش پر ہے نہ کہ جھمیوں والا عقیدہ  لیکن چونکہ بذاتہ کا لفظ قرآن و حدیث میں نہیں آیا اس بنا پر ان کے نزدیک اس کو ترک کرنا بہتر ہے کیونکہ نصوص میں واضح ہے کہ الله تعالی مخلوق سے الگ ہے

محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى : 1421هـ) اپنے فتوی میں کہتے ہیں

 لم يتكلم الصحابة فيما أعلم بلفظ الذات في الاستواء والنزول، أي لم يقولوا: استوى على العرش بذاته، أو ينزل إلى السماء الدنيا بذاته؛ لأن ذلك مفهوم من اللفظ، فإن الفعل أضيف إلى الله تعالى، إما إلى الاسم الظاهر، أو الضمير، فإذا أضيف إليه كان الأصل أن يراد به ذات الله عز وجل لكن لما حدث تحريف معنى الاستواء والنزول احتاجوا إلى توكيد الحقيقة بذكر الذات

اصحاب ابن تیمیہ  ، جو ہمیں پتا ہے ، میں سے کسی نے لفظ ذات کو الاستواء  اور نزول کے لئے  نہیں بولا  یعنی وہ نہیں کہتے کہ الله بذات عرش پر مستوی ہے یا نہیں کہتے کہ وہ بذات آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے کیونکہ یہ مفہوم لفظ سے ہے کیونکہ یہ فعل الله کی طرف مضاف کیا گیا ہے اب  چاہے اسم ظاہر ہو یا ضمیر ہو  جب مضاف الیہ  سے اصلا مراد ذات الہی ہو تو یہ الله کے لئے ہی ہے لیکن جب الاستواء  اور  نزول کے معنی میں تحریف ہوئی تو اس کی ضرورت محسوس کی  گئی کہ اس حقیقت کی تاکید (لفظ) بذات سے ذکر کی جائے

اس کے برعکس الذھبی کہتے ہیں کہ بذات کا لفظ متقدمین بھی بولتے تھے اگرچہ الذھبی خود اس لفظ کا استمعال پسند نہیں کرتے

[/EXPAND]

[صحیح مسلم کی روایت کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایک نور دیکھا پر سوال ہے]

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»

ابو ذر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ رسول الله نے فرمایا میں نے نور دیکھا

جواب

اس روایت کی دو سندیں ہیں ایک میں عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِيُّ ضعیف الحَدِيث ہے

ابن عدی الکامل میں روایت پیش کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا مُحَمد بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنا عُمَر بن حبيب، حَدَّثَنا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَن أَبِي ذَرٍّ، قالَ: قُلتُ يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ قَالَ كَيْفَ أَرَاهُ، وَهو نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ.
وَهَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ خَالِدٍ الحذاء غير محفوظ.

کہتے ہیں یہ روایت عمر بن حبیب کی سند سے غیر محفوظ ہے

 اس روایت کے  دوسرے  طرق میں يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي ہے اور اس طرق سے امام مسلم نے صحیح میں اس کو نقل کیا ہے

کتاب ذخيرة الحفاظ از ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کے مطابق

 حَدِيث: نور أَنى أرَاهُ. رَوَاهُ يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي: عَن قَتَادَة، عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: قلت لأبي ذَر: لَو رَأَيْت رَسُول الله لسألته، قَالَ لي: عَمَّا كنت تسأله؟ قَالَ: كنت أسأله: هَل رأى ربه عز وَجل؟ فَقَالَ: قد سَأَلته، فَقَالَ: نور أريه مرَّتَيْنِ أَو ثَلَاثًا. وَهَذَا لم بروه عَن قَتَادَة غير يزِيد هَذَا، وَلَا عَن يزِيد غير مُعْتَمر بن سُلَيْمَان، وَكِلَاهُمَا ثقتان، وَحكي عَن يحيى بن معِين أَنه قَالَ: يزِيد فِي قَتَادَة لَيْسَ بذلك وَأنكر عَلَيْهِ رِوَايَته: عَن قَتَادَة عَن أنس.

حدیث میں نے نور دیکھا اس کو يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي نے قتادہ سے انہوں نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا ہے کہا ہے میں نے ابو ذر سے پوچھا کہ اگر رسول الله کو دیکھتا تو پوچھتا ؟ انہوں نے کہا کیا پوچھتے ؟ میں نے کہا پوچھتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ؟ ابو ذر نے کہا میں نے پوچھا تھا پس کہا میں نے دو یا تین بار نور دیکھا اور اس کو روایت نہیں کیا قتادہ سے مگر یزید نے اور یزید سے کسی نے روایت نہیں کیا سوائے معتمر بن سلیمان کے اور یہ دونوں ثقہ ہیں اور یحیی بن معین سے حکایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا یزید قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا اچھا نہیں ہے اور اس کی روایات کا انکار کیا جو قتادہ عن انس سے ہوں

ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں الذھبی کہتے ہیں

قال القطان ليس بذاك

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں

وَقَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: هُوَ فِي قَتَادَةَ لَيْسَ بِذَاكَ

ابن معین کہتے ہیں قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا (اچھا) نہیں ہے

ميزان الاعتدال في نقد الرجال میں الذھبی اس نور والی روایت کا يزيد بن إبراهيم کے ترجمہ میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں اس کا اور معتمر کا تفرد ہے

محمد بن وزير الواسطي، حدثنا معتمر بن سليمان، عن يزيد بن إبراهيم، عن قتادة، عن عبد الله بن شقيق، قال: قلت لأبي ذر: لو رأيت النبي صلى الله عليه
وسلم لسألته: هل رأى ربه؟ فقال: قد سألته فقال لي: نور إني أراه مرتين أو ثلاثا.
تفرد به عن قتادة.
وما رواه عنه سوى معتمر.

الغرض یہ روایت صحیح نہیں ہے

[/EXPAND]

[کیا نبی  (ص) نے الله کو دیکھا؟]

جمہور صحابہ کی رائے میں نہیں دیکھا لیکن بعض علماء کا عقیدہ تھا کہ دیکھا ہے اس کی تفصیل یہ ہے

معجم الکبیر  طبرانی ج ١٢ میں روایت ہے کہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا جُمْهُورُ بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُجَالِدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: ” رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَرَّتَيْنِ: مَرَّةً بِبَصَرِهِ، وَمَرَّةً بِفُؤَادِهِ “

ابن عبّاس کہتے ہیں کہ محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا ایک مرتبہ آنکھ سے  ایک مرتبہ دل سے

اس کی سند میں مجالد بن سعید ہے جو مجروح راوی ہے

ذھبی سیر میں اس کے لئے لکھتے ہی

قَالَ البُخَارِيُّ: كَانَ يَحْيَى بنُ سَعِيْدٍ يُضَعِّفُه.

بخاری کہتے ہیں يَحْيَى بنُ سَعِيْدٍ اس کی تضیف کرتے ہیں

كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مَهْدِيٍّ لاَ يَرْوِيَ لَهُ شَيْئاً.

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مَهْدِيٍّ اس سے کچھ روایت نہیں کرتے

وَكَانَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ لاَ يَرَاهُ شَيْئاً، يَقُوْلُ: لَيْسَ بِشَيْءٍ.

أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ اس سے روایت نہیں کرتے کہتے ہیں کوئی چیز نہیں

ترمذی روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا

حدثنا محمد بن عمرو بن نبهان بن صفوان البصري الثقفي حدثنا يحيى بن كثير العنبري أبو غسان حدثنا سلم بن جعفر عن الحكم بن أبان عن عكرمة عن ابن عباس قال رأى محمد ربه قلت أليس الله يقول (لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار) قال ويحك ذاك إذا تجلى بنوره الذي هو نوره وقال أريه مرتين قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.

لیکن اس کی سند میں الحكم بن أبان ہے جن کو ثقہ سے لے کر صدوق کہا گیا ہے  لیکن خود ترمذی کے نزدیک یہ حدیث حسن درجے پر ہے اور غریب  ہے یعنی ایک ہی سند سے ہے. البانی نے ظلال الجنة (190 / 437) میں اس کو ضعیف قرار دیا ہے

البانی کتاب  ظلال الجنة في تخريج السنة  میں الحکم بن ابان کی روایت پر لکھتے ہیں

– حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي صَفْوَانَ ثنا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيِّ ثنا سَلْمُ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:
رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ قَالَ: قُلْتُ: أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: {لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ} قَالَ: “وَيْحَكَ ذَاكَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ الَّذِي هُوَ نُورُهُ” قال: وقال: رأى محمد رَبَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَرَّتَيْنِ. وَفِيهِ كلام.
437- إسناده ضعيف ورجاله ثقات لكن الحكم بن أبان فيه ضعف من قبل حفظه. وسلم هو ابن جعفر. ومحمد بن أبي صفوان هو ابن عثمان بن أبي صفوان نسب الى جده وهو ثقة توفي سنة 250.
والحديث أخرجه الترمذي 2/223 وابن خزيمة في “التوحيد” ص 130 من طرق عن الحكم بن أبان به. وقال الترمذي: حديث حسن غريب. وخالفه المصنف فقال عقب الحديث كما ترى: وفيه كلام. ووجهه ما أشرت إليه من ضعف حفظ الحكم بن أبان

مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي صَفْوَانَ، يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيِّ وہ سَلْمُ سے وہ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ سے وہ  عِكْرِمَةَ سے وہ  ابْنِ عَبَّاسٍ سے روایت کرتے ہیں کہ محمّد نے اپنے رب کو دیکھا عکرمہ کہتے ہیں میں نے کہا کیا الله نے نہیں کہا کہ نگاہیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نگاہوں  کا ادرک کرتا ہے کہا  بربادی ہو تیری، جب وہ اپنے نور سے تجلی کرے تو نور ہے اور یہ کہا محمد نے اپنے رب تبارک و تعالی  کو دو بار دیکھا .  اس میں کلام ہے

اس کی سند ضعیف ہے اور رجال ثقہ ہیں لیکن الحكم بن أبان میں کمزوری ہے اس کے حافظے کی وجہ سے اور سلم،  سلم بن جعفر ہے اور محمد بن أبي صفوان، ومحمد بن عثمان بن ابی صفوان ہے جو دادا کی طرف منسوب ہے  ثقہ ہے اور سن ٢٥٠ میں فوت ہوا

اس حدیث کی تخریج الترمذی نے کی ہے اور ابن خزیمہ نے التوحید میں ص ١٣٠ پر الحکم بن ابان کے طرق سے اور الترمذی کہتے ہیں حدیث حسن غریب ہے اور المصنف نے مخالفت کی ہے اور حدیث کے آخر میں کہا ہے جیسا کہ دیکھا اس میں کلام ہے اور اس طرق میں  الحکم کے حافظے میں کمزوری  ہے

اس روایت کی ایک سند قتادہ سے بھی ہے اس پر البانی کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں کہتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ ثنا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ثنا حماد ابن سلمة عن قتادة الأصل فتدنى

عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ
“رَأَيْتُ رَبِّي عَزَّ وجل” ثم ذكر كلاما.
440- حديث صحيح ورجاله ثقات رجال الصحيح ولكنه مختصر من حديث الرؤيا كما بيناه فيما تقدم 433 وعلى ذلك حمله البيهقي فقال في “الأسماء” ص 447: ما روي عن ابن عباس رضي الله عنهما هو حكاية عن رؤيا رآها في المنام

حماد بن سلمہ قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عبّاس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پھر ایک کلام ذکرکیا

حدیث صحیح ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں اور صحیح کے رجال ہیں لیکن یہ حدیث حدیث الرویا کا اختصار ہے جیسا کہ ٤٣٣ میں واضح کیا ہے. البیہقی نے (کتاب) الأسماء میں ص ٤٤٧ پر لیا ہے اور کہا ہے جو ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے وہ حکایت نیند میں دیکھنے کی ہے

البانی قتادہ کی روایت کو صحیح کہتے ہیں لیکن  روایت کو پورا نقل  نہیں کرتے صرف اتنا لکھتے ہیں کہ ایک کلام کا ذکر کیا. النانی کے بقول الله کو  دیکھنا خواب میں  تھا. البانی،  البیہقی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جس میں قتادہ عن عکرمہ عن ابن عباس کی روایت آئی ہے .

کتاب الأسماء والصفات میں البيهقي  روایت لکھتے ہیں قتادہ کی رویت باری کی حدیث حماد بن سلمہ کی سند سے جانی جاتی ہے جو یہ ہے

قُلْتُ: وَهَذَا الْحَدِيثُ إِنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ

 كَمَا أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي سُوَيْدٍ الذِّرَاعُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح. وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظَ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ثنا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي جَعْدًا أَمْرَدَ [ص:364] عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . قَالَ: وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، ثنا ابْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَوْصِلِيُّ وَابْنُ شَهْرَيَارَ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى، ثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ. فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ جَعْدٍ» . قَالَ: وَزَادَ عَلِيُّ بْنُ شَهْرَيَارَ: «عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . وَرَوَاهُ النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ.

حماد بن سلمہ،  قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا میں نے اپنے رب کو ایک مرد کی صورت دیکھا اس پر سبز لباس تھا

قارئین اپ دیکھ سکتے ہیں اس میں کہیں نہیں کہ یہ دیکھنا خواب میں تھا یہ البانی صاحب کی اختراع ہے

دوم وہ کلام جو انہوں نے حذف کر دیا تھا وہ  یہ تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرد کی صورت الله کو دیکھا جس نے لباس پہنا ہوا تھا نعوذ باللہ من تلک الخرفات

 البیہقی، صحیح مسلم کے راوی حماد بن سلمہ پر برستے ہیں اور لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ، نا ابْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، قَالَ: «كَانَ حَمَّادُ بْنُ [ص:366] سَلَمَةَ لَا يُعْرَفُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ حَتَّى خَرَجَ خَرْجَةً إِلَى عَبَادَانَ، فَجَاءَ وَهُوَ يَرْوِيهَا، فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا شَيْطَانًا خَرَجَ إِلَيْهِ فِي الْبَحْرِ فَأَلْقَاهَا إِلَيْهِ» . قَالَ أَبُو عَبْدِالله الثَّلْجِيُّ: فَسَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ صُهَيْبٍ يَقُولُ: إِنَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ كَانَ لَا يَحْفَظُ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّهَا دُسَّتْ فِي كُتُبِهِ،

عبد الرحمان  بن مہدی کہتے ہیں کہ ان قسم کی احادیث سے حماد بن سلمہ نہیں پہچانا جاتا تھا حتی کہ عَبَادَانَ پہنچا پس وہ وہاں آیا اور ان کو روایت کیا  پس میں (عبد الرحمان بن مہدی) سمجھتا ہوں اس پر شیطان آیا جو سمندر میں سے نکلا اور اس نے حماد پر یہ القاء کیا.  ابو بکر الثلجی کہتے ہیں میں نے عباد بن صہیب کو سنا کہا بے شک حماد بن سلمہ حافظ نہیں ہے اور محدثین کہتے ہیں اس نے اپنی کتابیں دفن کیں

البانی صاحب کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے حالانکہ عبد الرحمان بن مہدی اس کو رد کرتے ہیں

حماد بن سلمہ کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ اس اوپر والے قول کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ  ہے جس پر جھوٹ کا الزام ہے

میزان الاعتدل میں الذہبی ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قال ابن عدي: كان يضع الحديث في التشبيه ينسبها إلى أصحاب الحديث يسابهم   ذلك.

قلت: جاء من غير وجه أنه كان ينال من أحمد وأصحابه، ويقول: إيش قام به أحمد! قال المروزي: أتيته ولمته

ابن عدي کہتے ہیں تشبیہ کے لئے حدیث گھڑتا تھا جن کو اصحاب حدیث کی طرف نسبت دیتا ان کو بے عزت کرنے کے لئے

الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں ایک سے زائد رخ سے پتا ہے کہ یہ امام احمد اور ان کے اصحاب کی طرف مائل تھے اور کہتے کہ احمد کہاں رکے ہیں المروزی نے کہا ان کے پاس اتے

یہاں تو مسئلہ ہی الٹا ہے حماد بن سلمہ،  نعوذ باللہ ،  الله کو مرد کی شکل کا کہہ رہے ہیں جو تشبیہ و تجسیم کا عقیدہ ہے    اس  روایت کو البانی صحیح کہہ رہے  ہیں

حنابلہ کا افراط

کتاب طبقات الحنابلة ج ١ ص ٢٤٢  از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک یہ اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں اور یہ عقیدہ ایمان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا

والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما روى عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الأحاديث الصحاح وأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قد رأى ربه فإنه مأثور عَنْ رَسُولِ  الله  صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صحيح قد رواه قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ والحديث عندنا عَلَى ظاهره كما جاء عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – والكلام فيه بدعة ولكن نؤمن به كما جاء عَلَى ظاهره ولا نناظر فيه أحدًا

اور ایمان لاؤ روز قیامت الله کو دیکھنے پر جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم کی روایت میں آیا ہے .. اور صحیح احادیث میں  کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے

یہی ضعیف روایات  ہزار سال پہلے  حنبلیوں کے نزدیک عقیدے کی مظبوط روایات تھیں اور ان کے نزدیک ان کو اس کے ظاہر پر لینا حق تھا اور چونکہ اس میں یہ نہیں کہ یہ واقعہ خواب کا ہے لہذا ان  کی تاویل کی ضرورت نہیں  تھی

طبقات الحنابلہ کے مولف کے نزدیک  حنبلیوں اور ان کے امام احمد کا عقیدہ اہم ہے ان کے نزدیک البیہقی جو شافعی فقہ پر تھے ان کی بات کوئی اہمیت  نہیں رکھتی لہذا یہی وجہ کہ چھٹی صدی تک کے حنابلہ کے مستند عقائد کتاب الطبقات میں ملتے ہیں لیکن دو صدیوں بعد ایک غیر مقلد بنام ابن تیمیہ ان عقائد کا رد کرتے ہیں

قاضی ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ اپنی دوسری کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں کہ معراج کے موقعہ پر

ورأى ربه، وأدناه، وقربه، وكلمه، وشرّفه، وشاهد الكرامات والدلالات، حتى دنا من ربه فتدلى، فكان قاب قوسين أو أدنى. وأن الله وضع يده بين كتفيه فوجد بردها بين ثدييه فعلم علم الأولين والآخرين وقال عز وجل: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60] . وهي رؤيا يقظة (1) لا منام. ثم رجع في ليلته بجسده إلى مكة

اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا وہ قریب آیا ہم کلام ہوا شرف دیا اور کرامات دکھائی یہاں تک کہ قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔   اور بے شک الله تعالی نے اپنا باتھ شانے کی ہڈیوں کے درمیان رکھا اور اسکی ٹھنڈک نبی صلی الله علیہ وسلم نے پائی اور علم اولین ا آخرین دیا اور الله عز و جل نے کہا {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60]  اور یہ دیکھنا جاگنے میں ہوا نہ کہ نیند میں. پھر اس کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسد کے ساتھ واپس مکہ آئے

حنبلیوں کا یہ عقیدہ قاضی ابو یعلی مولف طبقات الحنابلہ پیش کر رہے ہیں جو ان کے مستند امام ہیں

حنبلی عالم عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ)  کتاب الاقتصاد في الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وأنه صلى الله عليه وسلم رأى ربه عز وجل كما قال عز وجل: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى}  قال الإمام أحمد في ما روينا عنه: وأن النبي صلى الله عليه وسلم رأى عز وجل، فإنه مأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم، صحيح رواه قتادة عكرمة عن ابن عباس. [ورواه الحكم بن إبان عن عكرمة عن ابن عباس] ، ورواه علي بن زيد عن يوسف بن مهران عن ابن عباس. والحديث على ظاهره كما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم، والكلام فيه بدعة، ولكن نؤمن به كما جاء على ظاهره، ولا نناظر فيه أحداً

وروى عن عكرمة عن ابن عباس قال: ” إن الله عز وجل اصطفى إبراهيم بالخلة واصطفى موسى بالكلام، واصطفى محمدً صلى الله عليه وسلم بالرؤية ” ـ وروى عطاء عن ابن عباس قال: ” رأى محمد صلى الله عليه وسلم ربه مرتين ” وروي عن أحمد ـ رحمه الله ـ أنه قيل له: بم تجيب عن قول عائشة رضي الله عنها: ” من زعم أن محمداً قد رأى ربه عز وجل …” الحديث؟ قال: بقول النبي صلى الله عليه وسلم: ” رأيت ربي عز وجل

بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا جیسا کہ اللہ تعالی نے کہا وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى امام احمد کہتے ہیں جیسا ہم سے روایت کیا گیا ہے کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا  پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے اور عکرمہ ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک الله تعالی نے نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے چنا اور  موسٰی کو دولت کلام کے لئے چنا اور محمد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے دیدار کے لئے چنا  اور عطا ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا اور احمد سے روایت کیا جاتا ہے الله رحم کرے کہ وہ ان سے پوچھا گیا ہم عائشہ رضی الله عنہا کا قول کا کیا جواب دیں کہ جس نے یہ دعوی کیا کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا … الحدیث ؟ امام احمد نے فرمایا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول سے (ہی کرو) کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے  اپنے رب عز وجل  کودیکھا

ہمارے نزدیک ابان عن عکرمہ والی روایت اور قتادہ عن عکرمہ والی رویت باری تعالی لی روایات  صحیح نہیں ہیں

ایک تیسری روایت بھی ہے جس میں ابن عبّاس سے ایک الگ قول منسوب ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے

کتاب الاایمان ابن مندہ میں روایت ہے کہ

أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ يُوسُفَ الشَّيْبَانِيُّ، ثَنَا أَبِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} [النجم: 11] ، قَالَ: «رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ بِقَلْبِهِ مَرَّتَيْنِ» . رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ نُمَيْرٍ

 ابن عبّاس کہتے ہیں الله کا قول : {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} [النجم: 11]  اس کے دل نے جھوٹ نہیں ملایا جو اس نے دیکھا کے لئے کہا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ قلب سے دیکھا ایسا ہی ثوری اور ابن نمیر روایت کرتے ہیں

قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ سے تین مختلف اقوال منسوب ہیں اس میں سب سے مناسب بات یہی لگتی ہے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے دل سے دیکھا

اس کی وضاحت عائشہ رضی الله تعالی عنہا کی بخاری کی صحیح روایت سے ہو جاتی ہے کہ

عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ – رضى الله عنها -: يَا أُمَّتَاهْ! هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ – صلى الله عليه وسلم – رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِى مِمَّا قُلْتَ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ}، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} , وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى غَدٍ؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166)، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ [شَيئاً مِمَا أنْزِلَ إِليهِ 5/ 188} [مِنَ الوَحْي 8/ 210]؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} الآية. [قالَ: قلت: فإنَّ قَوْلَهُ: {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى}. قالَتْ:] ولكنَّهُ [قَدْ 4/ 83] رَأَى جِبْرِيلَ – عَلَيْهِ السَّلاَمُ – (وفى روايةٍ: ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِى صُورَةِ الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ الْمَرَّةَ) فِى صُورَتِهِ [الَّتِى هِىَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الأُفُقَ]؛ مَرَّتَيْنِ

عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مسروق رحمہ الله علیہ نے پوچھا کہ اے اماں کیا  محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ تمہاری اس بات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دے تم سے جو کوئی تین باتیں کہے اس نے جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ محمّد نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے قرات کی {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} نگاہیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نگاہوں تک پہنچ جاتا ہے اور وہ باریک بین اور جاننے والا ہے ، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ الله اس سے کلام کرے سوائے وحی سے یا پردے کے پیچھے سے   آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ  جو یہ کہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جانتے تھے کہ کل کیا ہو گا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے تلاوت کی {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166) اور ایک روایت کے مطابق کوئی نہیں جانتا غیب کو سوائے الله کے . اور اس نے بھی جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ آپ نے وحی میں سے کچھ چھپایا  پھر آپ نے تلاوت کی ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} اے رسول جو الله نے آپ پر نازل کیا ہے اس کو لوگوں تک پہنچے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہ کیا . مسروق کہتے  ہیں میں نے عرض کی کہ الله تعالی کا قول ہے {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} پھر قریب آیا اور معلق ہوا اور دو کمانوں اور اس اس سے کم فاصلہ رہ گیا. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا اور ایکروایت میں ہے کہ وہ جبریل تھے وہ آدمی کی شکل میں اتے تھے اور اس دفعہ وہ اپنی اصلی شکل میں آئے یہ وہی صورت تھی جو افق پر دیکھی تھی دو دفعہ

عمدہ القاری  ج ١٩ ص ١٩٩ میں عینی کہتے ہیں

قلت: وَيحمل نَفيهَا على رُؤْيَة الْبَصَر وإثباته على رُؤْيَة الْقلب

میں کہتا ہوں اور اس نفی کو آنکھ سے دیکھنے پر لیا جے اور دل سے دیکھتے پر ثابت کیا جائے

 معلوم ہوا کہ سوره نجم کی معراج سے مطلق آیات کا تعلّق جبریل علیہ السلام کی اصلی صورت  سے ہے لہذا قاب قوسین کوایک مقام قرار دے کر لفاظی  کر کے  یہ  باور کرنے کی کوشش کرنا  کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا تھا صحیح سند سے ثابت نہیں ہے

  قاضی عیاض  کتاب  الشفاء بتعريف حقوق المصطفی میں لکھتے ہیں  کہ چونکہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا اور  عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی ہے، لہذا اس معاملے میں ان کی خبر معتبر نہیں ہے
لیکن یہ نکتہ سنجی کی انتہا ہے کیونکہ ابن عبّاس تو عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے بھی چھوٹے ہونگے

عبدللہ ابن عبّاس کی ولادت  ہجرت سے تین سال پہلے  ہوئی اور سن ٨ ہجری میں آپ  عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ مدینہ پھنچے یعنی آپ بہت کم سن تھے اور معراج کا واقعہ کے وقت تو آپ شاید ایک سال کے ہوں

کتاب  کنزالعمال میں جابر رضی الله عنہ سے مروی روایت ہے

إنّ اللَّهَ أعْطَى مُوسَى الكلامَ وأعْطانِي الرُّؤْيَةَ وفَضَّلَنِي بالمَقامِ المَحْمُودِ والحَوْضِ المَوْرُودِ

بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔

اس پر ابن عساکر کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن ابن عساکر کی کتب میں اس متن کے ساتھ روایت نہیں ملی

ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں ہے

 أخبرنا أبو الفتح محمد بن الحسن بن محمد الأسدآباذي بصور أنبأ أبو عبد الله الحسين بن محمد بن أحمد المعروف نا أبو عبد الله أحمد بن عطاء الروذباري إملاء بصور نا أبو الحسن علي بن محمد بن عبيد الحافظ نا جعفر بن أبي عثمان نا يحيى بن معين نا أبو عبيدة نا سليمان بن عبيد السليمي نا

الضحاك بن مزاحم عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) قال لي ربي عز وجل نحلت إبراهيم خلتي وكلمت موسى تكليما وأعطيتك يا محمد كفاحا

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمد! کہ بے پردہ وحجاب تم نے دیکھا

اس میں الضحاك بن مزاحم  ہیں جن کے لئے شعبہ کہتے ہیں  قال شعبة : كان عندنا ضعيفا ہمارے نزدیک ضعیف ہیں یہی بات یحیی بن سعید القَطَّانُ بھی کہتے ہیں

عکرمہ کی ابن عباس سے رویت باری والی ضعیف روایات کو امام ابن خریمہ صحیح مانتے تھے

محدث ابن خزیمہ کا افراط

صحیح ابن خزیمہ کے مولف أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة المتوفی ٣١١ ھ كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل  کہتے ہیں

فَأَمَّا خَبَرُ قَتَادَةَ، وَالْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہ عَنْهُمَا، وَخَبَرُ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهعَنْهُمَا فَبَيِّنٌ وَاضِحٌ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُثْبِتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى رَبَّهُ

پس جو خبر قتادہ اور الحکم بن ابان سے عکرمہ سے اور ابن عباس سے آئی ہے اور خبر جو عبد الله بن ابی سلمہ سے وہ ابن عباس سے آئی ہے اس میں بین اور واضح ہے کہ ابن عباس سے ثابت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا

ابن خزیمہ  اسی کتاب میں لکھتے ہیں

وَأَنَّهُ جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخْصُوصًا بِرُؤْيَةِ خَالِقِهِ، وَهُوَ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، لَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ وَهُوَ فِي الدُّنْيَا،

اور بے شک یہ جائز ہے کہ اپنے خالق کو دیکھنا نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہو اور وہ ساتویں آسمان پر تھے اور دینا میں نہیں تھے جب انہوں نے الله تعالی کو دیکھا تھا

لیکن البانی اور البیہقی نزدیک ابن عباس سے منسوب یہ روایات صحیح نہیں ہیں

الله کا قانون اور آخرت

اس دنیا کا الله کا قانون ہے کہ اس کو کوئی دیکھ نہیں سکتا اس بات کو سوره الاعراف میں بیان کیا گیا جب موسی علیہ السلام نے دیکھنے کی درخوست کی لیکن الله تعالی نے کہا کہ پہاڑ اگر اپنے مقام پر رہ گیا تو اے موسی تم دیکھ سکوں گے پس جب رب العزت نے تجلی کی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا اور موسی علیہ السلام غش کھا کر گر پڑے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ روز محشر الله تعالی کا مومن دیدار کر سکیں گے

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودہویں کے چاند کی رات ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا

انکم سترون ربکم يوم القيامة کما ترون القمر هذا

تم اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھتے ہو۔

 صحيح البخاری، 2 : 1106، کتاب التوحيد

سوره النجم  53 : 8 – 9 کی آیات ہیں

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى

پھر وہ  قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا  اس سے بھی کم 

بخاری اور مسلم کی روایت میں ان آیت کی تشریح میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا

صحیح بخاری کتاب التوحید کی روایت میں انس رضی الله عنہ سے مروی روایت ہے

ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا الله،‏‏‏‏ حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى،‏‏‏‏ وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ،‏‏‏‏ فَتَدَلَّى،‏‏‏‏ حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى،‏‏‏‏ فَأَوْحَى الله فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ

 پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی 

اس میں وہی سوره النجم کی آیات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی دو کمانوں سے بھی قریب ہوئے

اس روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سو رہے تھے کہ انہوں نے یہ نیند میں دیکھا لہذا یہ خواب کا واقعہ ہے اور نزاع قیامت سے قبل آنکھ سے دیکھنے پر ہے. دوم ایسی روایت جو دوسرے ثقہ راویوں کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہوں ان کو شاذ کہا جاتا ہے. اس مخصوص روایت میں جو بیان ہوا ہے وہ اس روایت کو شاذ کے درجے پر لے جاتی ہے کیونکہ معراج جاگنے کی حالت میں ہوئی اور اس کا مشاہدہ اس سے پہلے خواب میں نہیں کرایا گیا

الله کوقیامت سے قبل  نہیں دیکھا جا سکتا جو  قانون ہے. ایک حدیث  جو سنن ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے اس میں میں اتا ہے کہ جابربن عبدللہ رضی الله عنہ سے الله تعالی نے بلا حجاب کلام  کیا (مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ) لیکن اس کی سند مظبوط نہیں ایک طرق میں موسى بْن إبراهيم بْن كثير الأنصاريُّ الحَرَاميُّ المَدَنيُّ المتوفی ٢٠٠ ھ ہے. ابن حجر ان کو  صدوق يخطىء کا درجہ دتیے ہیں  اور دوسری میں عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ہیں جو مظبوط راوی نہیں ترمذی اس روایت کو جسن غریب کہتے ہیں یہ خبر واحد کے درجے میں ہے اور حسن ہونے کی وجہ سے اس پر عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا

ابن تیمیہ اپنے فتاوی ، مجموع الفتاوى ج ٥ ص ٢٥١ میں اولیاء کے کشف کے حق میں کہتے ہیں

وَ ” الْمُشَاهَدَاتُ ” الَّتِي قَدْ تَحْصُلُ لِبَعْضِ الْعَارِفِينَ فِي الْيَقَظَةِ كَقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ لَمَّا خَطَبَ إلَيْهِ ابْنَتَهُ فِي الطَّوَافِ: أَتُحَدِّثُنِي فِي النِّسَاءِ وَنَحْنُ نَتَرَاءَى الله عَزَّ وَجَلَّ فِي طَوَافِنَا وَأَمْثَالُ ذَلِكَ إنَّمَا يَتَعَلَّقُ بِالْمِثَالِ الْعِلْمِيِّ الْمَشْهُودِ لَكِنَّ رُؤْيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَبِّهِ فِيهَا كَلَامٌ لَيْسَ هَذَا مَوْضِعَهُ

وه مشاهدات جو بعض عارفین کو بیداری کی حالت میں حاصل ہوتے ہیں ، جیسے ابن عمر رضی الله عنہ سے جب ابن زبیر رضی الله عنہ نے طواف کے دوران اپنی بیٹی کی منگنی کی بات کی تو ابن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ تم مجھ سے عورتوں کے بارے بات کرتے ہو اور ہم تو اپنے طواف میں الله تعالی كى زیارت کرتے ہیں ،
یہ علمى مشهود مثال کے ساتھ متعلق هے ، لیکن جہاں تک نبى صلی الله علیہ وسلم کی بات ہے کہ آپ نے الله تعالی زیارت کی ہے ، تواس میں کلام ہے لیکن یہ جگہ اس پرکلام کرنے کا نہیں هے

ہمارے نزدیک غیر نبی کو کوئی کشف ممکن نہیں لہذا ابن تیمیہ کی یہ بات قلت معرفت پر مبنی ہے اورصوفیاء کی تقلید ہے

الله ہم سب کو اس کی شان کے لائق توحید کا علم دے اور غلو سے بچائے

[/EXPAND]

[کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کو روز محشر عرش عظیم پر بٹھایا جائے گا ؟]

جواب

یہ انتہائی غالی عقیدہ ہے الله شرک سے بچائے

افسوس کہ ٢٥٠ ھ کے قریب بعض محدثین نے اس کو بطور عقیدہ کے اختیار کیا اور کا انکار کرنے پر متشدد رویہ اختیار کیا یہاں تک کہ آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ نے اس کو رد کیا لیکن یہ عقیدہ ابھی بھی باقی ہے اور بہت سے حنبلی اور  وہابیوں کا عقیدہ ہے

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا

ہو سکتا ہے کہ اپ کا رب اپکو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم  الله  سے دعا کریں  گے جو ان کی نبی کی حثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں  اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا

ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه

محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا

 نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم

اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے

معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا .افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں

الله تعالی نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا نعوذباللہ

ابن أبي يعلى کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل  وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء

ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں

القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں

ونظر أَبُو عبد اللہ فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها

اور  ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا  اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا

کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں

وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث”.

ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ

قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ

ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو

در کر آیا ہے

سعودی مفتی  ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد  نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں

قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة

فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ

 جلد2 ، ص136

دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں

http://islamqa.info/ur/154636

لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول  رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے

الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے

العلو 2/1081، رقم/422

میزان الاعتدال میں الذھبی،  مجاهد بن جبر  المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات  کے ترجمے میں  کہتے ہیں

ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله  : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش

تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا

الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں  مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں

فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ الله يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ

پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے

مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے

ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول  کو پسند کرتے تھے اور لوگ  ترمذی پر جرح کرتے تھے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللہ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ

هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے  انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے  انہوں نے  لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ   التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور  (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے  دور رہو اور بچو حتی کہ حق پر ا جائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے

ابو بکر  الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ الله اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللہ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ

اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ  کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ  ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے وہ اپ سے استدلال کرتا ہے (یعنی دلیل لیتا ہے) پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں  پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ  اپنے باتھ سے لکھیں   حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» اس سے متعلق مجاہد کہتے ہیں کہ انھیں عرش پر بٹھایا جائیگا . اس کو میں نے اپنے باپ  احمد  سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ محمّد بن فضیل ایسا ہی بیان کرتے ہیں لیکن میں یہ ان سے براہ راست نہیں سن سکا . ہارون نے کہا کہ میں نے ان یعنی عبدالله سے کہا کہ مجھے تمہارے باپ احمد سے متعلق خبر دی گئی ہے کہ انھوں نے عن رجل کے واسطے سے ابن فضیل سے لکھا ہے. عبدالله نے جواب دیا ہاں اس معامله کو لوگ ان سے ایسا  ہی بیان کرتے ہیں   

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، ثَنَا أَبُو الْهُذَيْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، قَالَ عَبْدُ الله: سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ يُنْكِرُهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا فِي وَقْتٍ مَا سَمِعْنَاهُ مِنَ الْمَشَايِخِ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا تُنْكِرُهُ الْجَهْمِيَّةُ، وَأَنَا مُنْكَرٌ عَلَى كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابو مَعْمَرٍ نے  أَبُو الْهُذَيْلِ سے انہوں نے محمّد بن فُضَيْلٍ سے انہوں نے لیث سے انہوں نے مجاہد سے کہا  عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] کہا ان کو عرش پر بٹھائے گا. عبد اللہ  (بن احمد) نے کہا میں نے اس حدیث کو ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے محدثین میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو اس کو رد کرتا ہو اور ہم اپنے الْمَشَايِخِ  سے سنتے رہے ہیں کہ اس کو سوائے الْجَهْمِيَّةُ کے کوئی رد نہیں کرتا اور میں ہر اس شخص کا منکر ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

 وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، رَحِمَهُ اللہ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله عَنِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي تَرُدُّهَا الْجَهْمِيَّةُ فِي الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ، فَصَحَّحَهَا أَبُو عَبْدِ الله، وَقَالَ: ” قَدْ تَلَقَّتْهَا الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُولِ، نُسَلِّمُ الْأَخْبَارَ كَمَا جَاءَتْ

اور بے شک أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ نے روایت کیا انہوں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ ان احادیث پر جن  کو الْجَهْمِيَّةُ  رد کرتے ہیں یعنی الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ،  وغیرہ کی پس ابو عبد اللہ نے ان کو صحیح قرار دیا اور کہا علماء نے ان کو قبول کیا ہے ہم ان کو تسلیم کرتے ہیں جیسی آئی ہیں

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى:458هـ) کے مطابق الْمَرُّوذِيُّ نے اس پر باقاعدہ ایک کتاب بنام كتاب الرد عَلَى من رد حديث مجاهد  مرتب کی تھی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ مُجَاهِدٌ: «عَرَضْتُ الْقُرْآنَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ» [ص:224]. قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَلَّالُ: قَرَأْتُ كِتَابَ السُّنَّةِ بِطَرَسُوسَ مَرَّاتٍ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ وَغَيْرِهِ سِنِينَ، فَلَمَّا كَانَ فِي سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَتِسْعِينَ قَرَأْتُهُ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، وَقَرَأْتُ فِيهِ ذِكْرَ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، فَبَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا مِمَّنْ طُرِدَ إِلَى طَرَسُوسَ مِنْ أَصْحَابِ التِّرْمِذِيِّ الْمُبْتَدِعِ أَنْكَرُوهُ، وَرَدُّوا فَضِيلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرُوا رَدَّهُ فَشَهِدَ عَلَيْهِمُ الثِّقَاتُ بِذَلِكَ فَهَجَرْنَاهُمْ، وَبَيَّنَا أَمْرَهُمْ، وَكَتَبْتُ إِلَى شُيُوخِنَا بِبَغْدَادَ، فَكَتَبُوا إِلَيْنَا هَذَا الْكِتَابَ، فَقَرَأْتُهُ بِطَرَسُوسَ عَلَى أَصْحَابِنَا مَرَّاتٍ، وَنَسَخَهُ النَّاسُ، وَسَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَهْلَ السُّنَّةِ، وَزَادَهُمْ سُرُورًا عَلَى مَا عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّتِهِ وَقَبُولِهِمْ

اور ابو بکر المروزی نے خبر دی انہوں نے امام احمد سے سنا کہ مجاہد نے کہا میں نے قرآن کو ابن عباس پر تین دفعہ پیش کیا ابن بکر الخلال کہتے ہیں میں نے کتاب السنہ کو مسجد الجامع میں طَرَسُوسَ میں پڑھا پس جب سن ٢٩٢ ھ آیا اور مقام محمود کے بارے میں پڑھا پتا چلا کہ طَرَسُوسَ میں ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں  اور رسول الله کی فضیلت کے انکاری ہیں  اور وہاں ان کا رد کرنا  ظاہر ہوا .  اس پر ثقات نے شہادت دی لہذا ان کو برا  کہا اور ان کا معاملہ (عوام پر)  واضح کیا گیا اور اپنے شیوخ کو(بھی) بغداد (خط) لکھ بھیجا پس انہوں نے جواب بھیجا جس کو طَرَسُوسَ میں اپنے اصحاب پر کئی دفعہ پڑھا  اور لوگوں نے اس کو نقل (لکھا) کیا اور الله تعالی نے اہل السنت کو بلند کیا اور ان کا سرور بڑھایا اس سے جو ان کے پاس ہے اس کی صحت و قبولیت(عامہ) پر

معلوم ہوا کہ ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس عقیدے کے انکاری تھے اور علماء بغداد اس کے اقراری

ابو بکر الخلال نے کتاب السنہ میں ترمذی کو کبھی الْعَجَمِيُّ التِّرْمِذِيُّ   کہا اور کبھی الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ بھی کہا اور کہتے ہیں

ترمذی کون ہے؟

ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں  اس سے مراد الجھم بن صفوان المتوفی ١٢٨ ھ ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں کیونکہ  کتاب السنہ از ابو بکر الخلال کے مطابق یہ امام احمد اور ان کے بیٹے کا ہم عصر ہے

کتاب  السنة از ابو بکر الخلال جو  دکتور عطية الزهراني  کی تحقیق کے ساتھ  دار الراية – الرياض  سے سن ١٩٨٩ میں شائع ہوئی ہے اس کے محقق کے مطابق یہ جھم نہیں

ترمذی الجہمی

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب الزاهد أبو عبدالله محمد بن علي ابن الحسن بن بشر الحكيم الترمذي المتوفی ٣٢٠ ھ  ہیں  لیکن یہ صوفی تھے اور اس عقیدے پر تو یہ ضررور خوش ہوتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا

حکیم الترمذی کتاب نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم میں لکھتے ہیں

حَتَّى بشر بالْمقَام الْمَحْمُود قَالَ مُجَاهِد {عَسى أَن يَبْعَثك رَبك مقَاما مَحْمُودًا} قَالَ يجلسه على عَرْشه

یہاں تک کہ مقام محمود کی بشارت دی جائے گی مجاہد کہتے ہیں ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا

لہذا یہ حکیم ترمذی نہیں

کتاب  السنہ از الخلال میں ہے

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو  کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا

معلوم ہوا کہ  الترمذی،  الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ )  کا ہم عصر ہے

  االْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کآ  یہ قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا؟ اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو  عجیب بات ہے کہ  اس عقیدے کے رد میں کوئی محدث نہیں ملتا

الذہبی کتاب العرش میں اپنا خیال پیش کرتے  ہیں

الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه

یہ الترمذي ،  أبو عيسى  نہیں جو  صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے  لیکن مشھور نہیں

ہماری رائے میں یہ  اغلبا امام ترمذی  ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے

 امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79]  پر  فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے

امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

اس کے آخر میں ہے

وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے  …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے

امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا  کہ ابی نضرہ  سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے

لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے  لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ: وَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْجُهَّالِ دَفْعُ الْحَدِيثِ بَقِلَّةِ مَعْرِفَتِهِ فِي رَدِّهِ مِمَّا أَجَازَهُ الْعُلَمَاءُ مِمَّنْ قَبْلَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِمَّنْ ذَكَرْتُ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، إِلَّا وَقَدْ سَلَّمَ الْحَدِيثَ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ الْخَبَرُ، وَكَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ وَسُنَّةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ الْجُهَّالِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ هُوَ الشَّفَاعَةُ لَا مَقَامَ غَيْرُهُ.

محمد بن عثمان نے کہا اور مجھ تک پہنچا کہ بعض جھلا اس (مجاہد والی) حدیث کو قلت معرفت کی بنا پر رد کرتے ہیں … اور دعوی کرتے ہیں کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام ترمذی نے كتاب التفسير اور كتاب التاريخ بھی لکھی تھیں جو اب مفقود ہیں اور ممکن ہے مجاہد کے قول پر تفسیر کی کتاب میں  جرح  بھی کی ہو

مخالفین کو اعتراض ہے کہ اس آیت کی شرح میں یہ کیوں کہا جا  رہا ہے کہ اس سے مراد صرف شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام احمد کی اقتدہ  

علی بن داود کہتے ہیں

أَمَّا بَعْدُ: فَعَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِهَدْيِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَطَعْنٌ لِمَنْ خَالَفَهُ، وَأَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي طَعَنَ عَلَى مُجَاهِدٍ بِرَدِّهِ فَضِيلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْتَدَعٌ، وَلَا يَرُدُّ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ «إِلَّا جَهْمِيُّ يُهْجَرُ، وَلَا يُكَلَّمُ وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، وَعَنْ كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذِهِ الْفَضِيلَةَ وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى هَذَا التِّرْمِذِيِّ أَنَّهُ جَهْمِيُّ خَبِيثٌ

اما بعد تمھارے لئے امام احمد بن حنبل  کی ہدایت ہے جو امام المتقین ہیں بعد والوں کے لئے اور اس پر  طعن کرو  جو ان کی مخالفت کرے اور بے شک یہ ترمذی جو مجاہد پر طعن کرتا ہے اس فضیلت والی حدیث پر….. وہ مبتد عی ہے  اور اس روایت  کو سوائے الجہمی کے کوئی رد نہیں کرتا اس کو برا کہو اس سے کلام نہ کرو اس  سے دور رہو اور میں گواہی دیتا ہوں یہ ترمذی جھمی خبیث ہے

امام احمد اس عرش پر بٹھائے جانےکے  بدعتی عقیدے  والوں کے امام تھے ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ میں ہے کہ محمد بن یونس البصری کہتے ہیں

فَمَنْ رَدَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا فَلَا يُكَلَّمُ، وَإِنْ مَاتَ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، وَقَدْ صَحَّ عِنْدَنَا أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا أَهْلُ السُّنَّةِ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَيَّنَ أَمْرُهُ، فَعَلَيْكُمْ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ، وَمَذْهَبِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ الْإِمَامُ يُقْتَدَى بِهِ

پس جو اس حدیث کو رد کرے اور اس طعن کرے اس سے کلام نہ کرو اور اگر مر جائے تو جنازہ نہ پڑھو اور یہ ہمارے نزدیک صحیح ہے کہ یہ ترمذی اس پر کلام کرتا ہے جس سے اہل سنت احتجاج کرتے ہیں اور اس شخص  کا معاملہ  واضح ہے . پس تمھارے لئے سنت اور اسکا اتباع ہے اور ابو عبدللہ امام احمد بن حنبل کا مذبب ہے جو امام ہیں جن کا اقتدہ کیا جاتا ہے 

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) کے مطابق

وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش …….ہ 

اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ  أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد  نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ  بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا 

یہ قسم اٹھانے کا اس وقت کا انداز تھا کہ اس عقیدے پر اتنا ایمان تھا کہ تین طلاق تک کی قسم کھائی جا رہی ہے

 مشھور امام أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَأَمَّا حَدِيثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَفْسِيرُهُ لِهَذِهِ الْآيَةِ: أَنَّهُ يُقْعِدُهُ [ص:1613] عَلَى الْعَرْشِ , فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ , وَقَبِلُوهَا بِأَحْسَنِ قَبُولٍ , وَلَمْ يُنْكِرُوهَا , وَأَنْكَرُوا عَلَى مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ إِنْكَارًا شَدِيدًا وَقَالُوا: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوءٍ قُلْتُ: فَمَذْهَبُنَا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ قَبُولُ مَا رَسَمْنَاهُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ , وَقَبُولُ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ , وَتَرْكُ الْمُعَارَضَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ فِي رَدِّهِ , وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ لِكُلِّ رَشَادٍ وَالْمُعِينُ عَلَيْهِ , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ جَمَاعَةٌ

الآجُرِّيُّ کہتے ہیں جہاں تک مجاہد کی نبی صلی الله علیہ وسلم کی تفضیل سے متعلق روایت ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ بے شک ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس کو اہل علم اور حدیث کو نقل کرنے والے لوگوں (یعنی محدثین) کے شیوخ نے قبول کیا ہے بہت بہترین انداز سے اور حسن قبولیت دیا ہے اور انکار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا انکار کیا ہے جو مجاہد کی حدیث کو رد کریں شدت کے ساتھ اور کہا ہے کہ جو مجاہد کی حدیث قبول نہ کرے وہ برا آدمی ہے میں کہتا ہوں پس ہمارا مذھب یہی ہے الحمدللہ …..جو ایک جماعت نے روایت کیا ہے 

الآجُرِّيُّ  کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب ابن تیمیہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے انکے من پسند اہل علم مجاہد کے اس قول کو قبولیت کا درجہ دے چکے تھے

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي، سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود کے بیٹے أبوبكر بن أبي داود عبدالله بن سليمان بن الأشعث السجستاني (ت316هـ)  کے شاگرد ہیں

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا  لیکن الذھبی نے یہ مانا کہ امام ابو داود اس کو تسلیم کرتے تھے دوسری طرف ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ سے واضخ ہے امام ابوداود اور ان کے  استاد امام احمد دونوں اس  قول کو مانتے تھے

الذہبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں لکھتے ہیں

فَمِمَّنْ قَالَ أَن خبر مُجَاهِد يسلم لَهُ وَلَا يُعَارض عَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري الْحَافِظ وَيحيى بن أبي طَالب الْمُحدث وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل السّلمِيّ التِّرْمِذِيّ الْحَافِظ وَأَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عبد الْملك الدقيقي وَأَبُو دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث السجسْتانِي صَاحب السّنَن وَإِمَام وقته إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق الْحَرْبِيّ والحافظ أَبُو قلَابَة عبد الْملك بن مُحَمَّد الرقاشِي وحمدان بن عَليّ الْوراق الْحَافِظ وَخلق سواهُم من عُلَمَاء السّنة مِمَّن أعرفهم وَمِمَّنْ لَا أعرفهم وَلَكِن ثَبت فِي الصِّحَاح أَن الْمقَام الْمَحْمُود هُوَ الشَّفَاعَة الْعَامَّة الْخَاصَّة بنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

 الكتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از المؤلف: عبد العزيز بن فيصل الراجحي
الناشر: مطابع الحميضي – الرياض الطبعة: الأولى، 1424 هـ

میں مولف ، الذہبی کی یہی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں

وأثبتها أيضا أئمة كثير، غير من سمى الذهبي هنا، منهم:. محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد.
. والإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) ، إمام أهل السنة قاطبة.
. وعبد الله بن أحمد بن حنبل الحافظ (ت 290 هـ) .
اور اس کو مانا ہے ائمہ کثیر نے جن کا نام الذہبی نے نہیں لیا ان میں ہیں محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد  اور  لإمام  الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ)  اور عبدللہ بن احمد بن حنبل

سکین پسند حضرات بھی دیکھیں

عرش کا عقیدہ١

عرش کا عقیدہ١١

آگے لکھتے ہیں

عرش کا عقیدہ٢

عرش کا عقیدہ ٣عرش کا عقیدہ ٤عرش کا عقیدہ ٥شیخ صالح بن فوزان  ، عبد العزیز بن فیصل  کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک  عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا  بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے  

ابن قیم کتاب  بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور کے اشعار  لکھتے ہیں

قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.

ابن قیم  امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں  اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں

وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه

حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده

معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کوالْجَهْمِيَّةُ کہتے تھے

ہمارے نزدیک یہ عقیدہ  کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے

افسوس الذھبی کے بعد بھی اس عقیدے کو محدثین نے قبول کیا مثلا

شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ  کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں

 وعن رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من قال اللهم صل على محمد وأنزله المقعد المقرب عندك يوم القيامه وجبت له شفاعتي

رواه البزار وابن أبي عاصم وأحمد بن حنبل وإسماعيل القاضي والطبراني في معجميه الكبير والأوسط وابن بشكوال في القربة وابن أبي الدنيا وبعض أسانيدهم حسن قاله المنذري

 اور رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو کہے اے الله محمّد پر رحمت نازل کر اور روز محشر ان کو پاس بیٹھنے والا مقرب بنا، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی

اس کو   البزار اورابن أبي عاصم اورأحمد بن حنبل اورإسماعيل القاضي اورالطبراني نے معجم الكبير اورالأوسط میں اور ابن بشكوال نے القربة میں اور ابن أبي الدنيا نے روایت کیا ہے اور المنذري کہتے ہیں  اس کی بعض اسناد حسن ہیں

 اس کے بعد السخاوي تشریح کرتے ہیں

والمقعد المقرب يحتمل أن يراد به الوسيلة أو المقام المحمود وجلوسه على العرش أو المنزل العالي والقدر الرفيع والله أعلم

اور قریب بیٹھنے والا ہو سکتا ہے اس سے مراد الوسيلة ہو یا المقام المحمود یا عرش پر بٹھایا جانا ….ہ

السخاوي اگر ان الفاظ کی تشریح نہیں کرتے تو ہم سمجھتے کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہ ہو لیکن اس طرح انہوں نے اس کی تشریح کی ہے اس سے ظاہر ہے ان کا عقیدہ بھی اس پر تھا

ابن کثیر کتاب النهاية في الفتن والملاحم  میں لکھتے ہیں

وَقَدْ رَوَى لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، وَأَبُو يَحْيَى الْقَتَّاتُ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَ فِي تَفْسِيرِ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ: إِنَّهُ يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَرُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن سلام، وجمع فيه أبو بكر المروزي جزءاً كبيراً، وحكاه هو وغيره وغير وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ كَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ وَخَلْقٍ وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَهَذَا شَيْءٌ لَا يُنْكِرُهُ مُثْبِتٌ وَلَا نَافٍ، وَقَدْ نظمه الحافظ أبو الحسن الدارقطني في صيدة لَهُ.
قُلْتُ: وَمِثْلُ هَذَا لَا يَنْبَغِي قَبُولُهُ إلا عن معصوم، ولم يثبت فيه حَدِيثٌ يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وَلَا يُصَارُ بِسَبَبِهِ إِلَيْهِ، وقول مجاهد في هذا المقام ليس بحجة بمفرده، وَلَكِنْ قَدْ تَلَقَّاهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ بالقبول

ابن کثیر کہتے ہیں میں کہتا ہوں مجاہد کا منفرد قول حجت نہیں لیکن اس کو اہل حدیث نے قبول کیا ہے

عصر حاضر میں  مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں

وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه

اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی  صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

الذھبی کتاب  تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں سن ٣١٦ ھ کے واقعات پر لکھتے ہیں

 وهاجت ببغداد فتنة كبرى بسبب قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ، فقالت الحنابلة: معناه يُقْعدهُ اللَّه عَلَى عرشه كما فسره مجاهد.
وقال غيرهم من العلماء: بل هِيَ الشّفاعة العُظْمى كما صحَّ في الحديث. ودام الخصام والشَّتْم واقتتلوا، حتّى قُتِل جماعة كبيرة. نقله الملك المؤيدّ، رحمه الله

اور بغداد میں ایک بڑے فتنہ پر جھگڑا ہوا الله تعالی کے قول کہ ہو سکتا ہے آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر بھیجے کے سبب-  حنابلہ نے کہا اس کا مطلب عرش پر بیٹھانا ہے جیسا مجاہد نے کہا اور دوسرے علماء نے کہا نہیں یہ شفاعت ہے جس کا ذکر صحیح حدیث میں ہے اور اس میں لڑائی رہی اور گالیاں چلیں اور ایک بڑی جماعت قتل ہوئی- اس کو نقل کیا الملك المؤيدّ  نے 

اس مسئلہ  میں بحث سے یہ بھی واضح ہوا کہ خبر واحد عقیدے میں دلیل نہیں ہے عرش پر بٹھائے جانے کا عقیدہ بعض محدثین نے قبول کیا جو روایت پسندی میں بہت آگے چلے گئے حتی کہ  اس عقیدے کا باطل ہونا واضح ہوا

 الله ہم سب کو غلو  سے بچائے

[/EXPAND]

[کیا حسن بصری اس عقیدہ کے قائل تھے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا تھا؟]

ابن خزیمہ کتاب التوحید میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنِي عَمِّي إِسْمَاعِيلُ بْنُ خُزَيْمَةَ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، قَالَ: «كَانَ الْحَسَنُ يَحْلِفُ بِاللَّهِ لَقَدْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ»

مبارک بن فضالہ نے کہا کہ حسن قسم کھاتے کہ بے شک رسول الله نے اپنے رب کو دیکھا

جواب

یہ قول ضعیف ہے محدثین کہتے ہیں کہ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ بہت تدلیس کرتا ہے

میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

قال النسائي وغيره: ضعيف.

البتہ امام احمد کہتے

قال المروزي، عن أحمد: ما روى عن الحسن فيحتج به

کہ حسن سے جو بھی روایت کرے قابل دلیل ہے

امام احمد خود بھی رویت الباری کے قائل تھے

[/EXPAND]

[امام الذھبی صفات میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ ]

جواب

کتاب سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی  أَبُو ذَرٍّ الهَرَوِيُّ عَبْدُ بنُ أَحْمَدَ بنِ مُحَمَّدٍ  کے ترجمہ میں قاضی ابن الباقلانی  کا ذکر کرتے ہیں

وَقَدْ أَلَّفَ كِتَاباً سَمَّاهُ: (الإِبَانَة) ، يَقُوْلُ فِيْهِ: فَإِن قِيْلَ: فَمَا الدَّلِيْلُ عَلَى أَنَّ للهِ وَجهاً وَيداً؟
قَالَ قَوْله: {وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ} [الرَّحْمَن:27] وَقوله: {مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ} [ص:75] فَأَثبت تَعَالَى لِنَفْسِهِ وَجهاً وَيداً.
إِلَى أَنْ قَالَ: فَإِن قِيْلَ: فَهَلْ تقولُوْنَ: إِنَّهُ فِي كُلِّ مَكَان؟
قِيْلَ: مَعَاذَ اللهِ بَلْ هُوَ مُسْتَوٍ عَلَى عَرْشِهِ كَمَا أَخْبَرَ فِي كِتَابِهِ.
إِلَى أَنْ قَالَ: وَصِفَاتُ ذَاتِهِ الَّتِي لَمْ يَزَلْ وَلاَ يزَالُ مَوْصُوَفاً بِهَا: الحَيَاةُ وَالعِلْمُ وَالقُدرَةُ وَالسَّمْعُ وَالبَصَرُ وَالكَلاَمُ وَالإِرَادَةُ وَالوَجْهُ وَاليدَانِ وَالعينَانِ وَالغضبُ وَالرِّضَى، فَهَذَا نَصُّ كَلاَمه.
وَقَالَ نحوَهُ فِي كِتَاب (التَّمهيد) لَهُ، وَفِي كِتَاب (الذَّبِّ عَنِ الأَشْعَرِيِّ) .وَقَالَ: قَدْ بَيِّناً دينَ الأُمَّة وَأَهْلِ السُّنَّة أَنَّ هَذِهِ الصِّفَات تُمَرُّ كَمَا جَاءت بِغَيْر تكييفٍ وَلاَ تحَدِيْدٍ وَلاَ تجنيسٍ وَلاَ تصويرٍ.
قُلْتُ: فَهَذَا المنهجُ هُوَ طريقَةُ السَّلَف، وَهُوَ الَّذِي أَوضحه أَبُو الحَسَنِ وَأَصْحَابُه، وَهُوَ التَسْلِيمُ لنُصُوص الكِتَاب وَالسُّنَّة، وَبِهِ قَالَ ابْنُ البَاقِلاَّنِيّ، وَابْنُ فُوْرَك، وَالكِبَارُ إِلَى زَمَن أَبِي المعَالِي، ثُمَّ زَمَنِ الشَّيْخ أَبِي حَامِدٍ، فَوَقَعَ اختلاَفٌ وَأَلْوَانٌ، نَسْأَلُ اللهَ العَفْوَ.

انہوں نے کتاب تالیف کی جس کا نام رکھا الإِبَانَة اس میں کہا پس اگر کوئی کہے اس کی کیا دلیل ہے کہ الله کا چہرہ اور ہاتھ ہے ؟ انہوں نے کہا الله کا قول ہے وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ} اور قول ہے ما مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ} پس لله تعالی نے اپنے لئے ہاتھ اور چھرہ کا اثبات کیا ہے یہاں تک کہ الباقلانی نے کہا کہ اگر کوئی کہے کیا کہتے ہو کہ وہ ہر مکان میں ہے ؟ تو کہا الله کی پناہ بلکہ وہ تو اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا اس نے کتاب الله میں خبر دی .. یہاں تک کہ کہا صفات ذاتی جن کو زوال نہیں ہے نہ ان کو اس سے متصف کرنا زائل ہو گا وہ ہیں حیات اور علم اور قدرت اور سمع اور بصر (دیکھنا) اور کلام (بولنا) اور ارادہ اور چہرہ اور دو ہاتھ اور غصہ اور خوشی پس یہ نص ہے ان کے کلام پر
اور اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب التمہید میں کہا اور کتاب الذَّبِّ عَنِ الأَشْعَرِيِّ اور کہا ہم نے امت کا دین اور اہل سنت کا دین واضح کر دیا ہے بے شک یہ وہ صفات ہیں جو آئی ہیں جیسی یہ ہیں بلا کیفیت بلا حدود بلا جنس بلا تصویر

میں الذھبی کہتا ہوں یہ ہی منہج ہے جو سلف کا طریقہ ہے جس کو ابو الحسن الاشعری نے واضح کیا ہے اور ان کے اصحاب نے اور یہ کتاب و سنت کے نصوص کو تسلیم کرنا ہے اور ایسا ہی ابن الباقلانی ابن فورک اور کبار نے أَبِي المعَالِي کے زمانے تک اور شیخ ابی حامد کے زمانے تک کہا ہے پھر اس میں اختلاف واقع ہوا جس سے ہم الله کی پناہ مانگتے ہیں

کتاب سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی ، الخَطِيْبُ أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ عَلِيِّ بنِ ثَابِتٍ کے ترجمہ میں کہتے ہیں

وَلاَ نَقُوْل: إِنَّ مَعْنَى اليَد القدرَة، وَلاَ إِنَّ مَعْنَى السَّمْع وَالبصر: العِلْم، وَلاَ نَقُوْل: إِنَّهَا جَوَارح.
وَلاَ نُشَبِّهُهَا بِالأَيدي وَالأَسْمَاع وَالأَبْصَار الَّتِي هِيَ جَوَارح وَأَدوَاتٌ لِلفعل، وَنَقُوْلُ: إِنَّمَا وَجب إِثبَاتُهَا لأَنَّ التَّوقيف وَردَ بِهَا، وَوجب نَفِيُ التَّشبيه عَنْهَا لِقَوْلِهِ: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} [الشُّوْرَى:11] {وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَد (2) } [الإِخلاَص:4]

اور ہم نہیں کہتے کہ  ہاتھ کا مطلب قدرت ہے اور نہ یہ کہتے ہیں کہ سمع و بصر کا مطلب علم ہے اور نہ یہ کہتے ہیں یہ اعضا ہیں اور نہ ہاتھ اور الأَسْمَاع وَالأَبْصَار کو تشبیہ دیتے ہیں کہ یہ اعضا اور فعل کے اوزار ہیں اور ہم کہتے ہیں ان کا  اثبات واجب ہے کیونکہ توقف سے تشبیہ کی نفی ہوتی ہے – جیسا الله نے کہا لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ  اس کے مثل کوئی نہیں ہے اور وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَد  اس کا جيسا کوئی نہیں ہے

الذھبی نے معطلہ کا رد کیا اور المشبه کا بھی رد کیا جنہوں نے کہا کہ ان کا رب اعضا والا ہے

یعنی الذھبی نے صفات میں علماۓ اشاعرہ کی رائے کو صحیح عقیدہ قرار دیا واضح رہے کہ الذھبی کے ہم عصر ابن تیمیہ کا عقیدہ اس سے الگ  ہے

[/EXPAND]

[روایت بندے کا دل رحمان کی انگلیوں کے درمیان ہے پر سلف کیا کہتے تھے ]

جواب

امام الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں ج ٨ ص ٤٦٧  پر سُفْيَانَ بنَ عُيَيْنَةَ  کے ترجمہ میں بتاتے ہیں

 َقَالَ أَحْمَدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ الدَّوْرَقِيُّ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بنُ نَصْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ، وَجَعَلتُ أُلِحُّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: دَعْنِي أَتَنَفَّسُ.

فَقُلْتُ: كَيْفَ حَدِيْثُ عَبْدِ اللهِ عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (إِنَّ اللهَ يَحْمِلُ السَّمَاوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ)   ؟

وَحَدِيْثُ: (إِنَّ قُلُوْبَ العِبَادِ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابعِ الرَّحْمَنِ  ) .

وَحَدِيْثُ: (إِنَّ اللهَ يَعْجَبُ – أَوْ يَضْحَكُ – مِمَّنْ يَذْكُرُهُ فِي الأَسْوَاقِ  ) .

فَقَالَ سُفْيَانُ: هِيَ كَمَا جَاءتْ، نُقِرُّ بِهَا، وَنُحَدِّثُ بِهَا بِلاَ كَيْفٍ

أَحْمَدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ الدَّوْرَقِيُّ کہتے ہیں مجھ سے نے روایت کیا کہ انہوں نے سفیان سے سوال کیا  … میں نے کہا یہ عبد الله کی حدیث کیسی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا الله تعالی آسمانوں کو انگلی پر اٹھا لے گا ؟ اور حدیث کہ بندوں کے دل رحمان کی انگلیوں میں سے دو کے بیچ ہیں ؟ اور حدیث بلا شبہ الله تعجب کرتا  یا ہنستا ہے .. جو بازاروں سے متعلق روایت ہے ؟ سفیان نے کہا یہ جیسی آئی ہیں ویسی ہی ہم ان کا اقرار کرتے ہیں اور ان کو بلا کیفیت روایت کرتے ہیں

امام الذھبی کتاب سیر میں أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بنُ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيُّ  کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قَالَ ابْنُ جَرِيْرٍ فِي كِتَاب (التبصير فِي معَالِم الدِّيْنِ) …. قال عَلَيْهِ السَّلاَمُ: (مَا مِنْ قَلْبٍ إِلاَّ وَهُوَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَن  .

إِلَى أَنْ قَالَ: فَإِنَّ هَذِهِ المَعَانِي الَّتِي وُصفت وَنظَائِرهَا مِمَّا وَصَفَ اللهُ نَفْسهُ وَرَسُوْلُه مَا لاَ يَثْبُتُ حَقِيْقَةُ عِلْمِهِ بِالفِكر وَالرَّويَّة، لاَ نُكَفِّرُ بِالجَهْل بِهَا أَحَداً إِلاَّ بَعْد انتهَائِهَا إِلَيْهِ.

امام طبری نے کتاب التبصير فِي معَالِم الدِّيْنِ میں کہا  … نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول کوئی دل نہیں ہے جو رحمان کی دو انگلیوں کے بیچ میں نہ ہو  … یہاں تک کہ طبری نے کہا پس ان معانی اور مثالوں سے الله  نے اپنے اپ کو  اور اس کے رسول نے متصف کیا ہے  جس سے علم کی حقیقت کا اثبات نہیں ہوتا  …ہم   جھل  (لا علمی ) کی بنا پر ان کا کفر نہیں کریں گے سوائے اس میں انتہا پسندی پر

یعنی سلف کا مذھب تھا کہ ان روایات کی نہ تاویل کرو نہ ان کا حقیقی معنی لیا جائے بس روایت کیا جائے اور کیفیت کی کھوج نہ کی جائے

کتاب السنہ از عبد الله کے مطابق

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: ” نُسَلِّمُ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ كَمَا جَاءَتْ وَلَا نَقُولُ كَيْفَ كَذَا وَلَا لِمَ كَذَا، يَعْنِي مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَحْمِلُ السَّمَاوَاتِ عَلَى أُصْبُعٍ، وَالْجِبَالَ عَلَى أُصْبُعٍ، وَحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قَلْبُ ابْنِ آدَمَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ» وَنَحْوِهَا مِنَ الْأَحَادِيثِ ”
وکیع بن جراح نےان احادیث پر کہا : ہم ان احادیث کو ویسے ہی قبول کرتے ہیں جیسے وہ حدیثیں آئیں ہیں ،اور ہم کبھی نہیں کہتے ہیں کی یہ کیسے ہے؟ اور یہ کیوں ہے؟ یعنی حدیث ابن مسعود رضی الله عنہ کہ الله تعالی آسمانوں کو اپنی انگلی پر اٹھا لیں گے اور پہاڑوں کو اور حدیث نبی صلی الله علیہ وسلم کہ ابن آدم کا قلب رحمن کی انگلیوں کے درمیان ہے اور اس طرح کی احادیث

یعنی حدیث میں کیفیت اور معنی کی کھوج نہیں کی جائے گی-  أسماء صفات کی کیفیت کے متعلق غور و خوض سے پرہیز کرنا چاہیے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے {وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا} [طه:110] ترجمہ “مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہو “،مزید اللہ کا ارشاد ہے {وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ} [البقرة:255]ترجمہ “اور مخلوق اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتی مگر جتنا اللہ چاہے”۔

لیکن بعض حنابلہ اور اہل حدیث نے اس سے ظاہر مطلب لیا  یہاں تک کہ دعوی کیا کہ الله تعالی کی انگلیاں ہیں

ابن عثمیین کتاب القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى میں کہتے ہیں

%d8%a7%d9%86%da%af%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba

[/EXPAND]

[وَجاءَ رَبُّكَ کی تفسیر پر ابن قیم اور وہابیوں کا اختلاف ہے ؟]

ابن کثیر اپنی البدایہ و النہایہ میں ایک حوالہ ل دیتے ہیں کہ

وروى البيهقي عن الحاكم عن أبي عمرو بن السماك عن حنبل أن أحمد بن حنبل تأول قول الله تعالى: (وجاء ربك) [الفجر: 22] أنه جاء ثوابه. ثم قال البيهقي: وهذا إسناد لا غبار عليه.

لنک

http://islamport.com/w/tkh/Web/927/3983.htm

جواب

قرآن کی سوره الفجر کی آیات ہے

وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا
اور تمہارا رب آئے گا اور اس کے فرشتے صف در صف

روایت میں کہا گیا اس کا ثواب آئے گا یعنی لوگوں کو ان کا ثواب ملے گا

یعنی الله تعالی آئے گا سے بعض لوگوں نے اس طرح مراد لیا ہے کہ گویا وہ مخلوق کی طرح ہو گا اور آنا اور جانا تو مخلوق کا عمل ہے
یہ المشبہ ہیں
ابن کثیر نے امام احمد کا قول نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ المشبہ نہیں تھے

اہل سنت میں اسی وجہ سے یہ تفسیر مشھور ہوئی ورنہ اس میں گروہوں کا جھگڑا ہے

تفسیر میں ابن کثیر نے کہا
وَجاءَ رَبُّكَ يَعْنِي لِفَصْلِ الْقَضَاءِ بَيْنَ خَلْقِهِ
اور رب آئے گا کہ مخلوق میں فیصلہ کرے

اس کے برعکس ابن قیم وغیرہ کے نزدیک یہ صِفَاتِ أَفْعَالِهِ ہیں
کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں کہتے ہیں

فَأَصْبَحَ رَبُّكَ يَطُوفُ فِي الْأَرْضِ ” هُوَ مِنْ صِفَاتِ فِعْلِهِ كَقَوْلِهِ {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ} [الفجر: 22] پس رب زمین کا طواف کرے گا جو اس کی فعلی صفت ہے اس قول کے مطابق اور تمہارا رب آئے گا اور اس کے فرشتے

لیکن کتاب اجتماع الجيوش الإسلامية میں ابن قیم کہتے ہیں
وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا} [الفجر: 22] وَلَيْسَ مَجِيئُهُ حَرَكَةً وَلَا زَوَالًا وَلَا انْتِقَالًا لِأَنَّ ذَلِكَ إِنَّمَا يَكُونُ إِذَا كَانَ الْجَائِيُ جِسْمًا أَوْ جَوْهَرًا فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّهُ لَيْسَ بِجِسْمٍ وَلَا جَوْهَرٍ وَلَا عَرَضٍ لَمْ يَجِبْ أَنْ يَكُونَ مَجِيئُهُ حَرَكَةً وَلَا نَقْلَةً،
اس کا آنا حرکت یا زوال یا انتقال نہیں … ہم یہ واجب نہیں کریں گے کہ یہ آنا حرکت یا انتقال ہے

کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں ابن قیم کہتے ہیں

كَقَوْلِهِ: {وَجَاءَ رَبُّكَ} [الفجر: 22] أَيْ أَمْرُهُ
الله آئے گا یعنی اس کا حکم

ابن قیم کبھی خالص المشبہ بن جاتے ہیں کبھی اہل تعطیل – قلابازی شاید سامنے والے کو دیکھ کر کھاتے ہیں

————————————————–
البتہ وہابی علماء (المشبہ) اس سے الگ کہتے ہیں مثلا تفسیر جز عم میں کہتے ہیں

تفسير جزء عم
المؤلف: محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)

{وجاء ربك} هذا المجيء هو مجيئه ـ عز وجل ـ لأن الفعل أسند إلى الله، وكل فعل يسند إلى الله فهو قائم به لا بغيره، هذه القاعدة في اللغة العربية، والقاعدة في أسماء الله وصفاته كل ما أسنده الله إلى نفسه فهو له نفسه لا لغيره، وعلى هذا فالذي يأتي هو الله عز وجل، وليس كما حرفه أهل التعطيل حيث قالوا إنه جاء أمر الله، فإن هذا إخراج للكلام عن ظاهره بلا دليل
أور رب آئے گا – یہ آنا ہے اور وہ انے والا ہے عزوجل کیونکہ فعل کو الله کیطرف کیا گیا ہے اور ہر وہ فعل جو الله کی طرف ہو تو وہ الله اس پر قائم ہے کوئی اور نہیں اور یہ عربی لغت کا قاعدہ ہے اور اسماء و صفات کا قاعدہ ہے کہ ہر وہ چیز جو الله کی طرف سند کی جائے اس کی طرف سے تو وہ اسی کے لئے ہے کسی اور کے لئے نہیں ہے اور اس پر جو آئے گا وہ الله ہے اور ایسا نہیں ہے جیسا اہل تعطیل نے تحریف کی ہے کہ کہتے ہیں وہ آئے گا یعنی اس کا حکم کیونکہ یہ کلام سے خارج ہے ظاہری طور پر کوئی دلیل نہیں ہے
———-
یہ آیات راقم کے نزدیک متشابھات میں سے ہیں

[/EXPAND]

[کیا الله ہر جگہ حاضر  و ناظر ہے ؟  کیا جهمی کہتے کہ آسمان میں کوئی رب نہیں ہے ؟]

إمام الذهبي كتاب سير الأعلام النبلاء میں  محدث حماد بن زید کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ الحَافِظُ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بنُ حَرْبٍ:  سَمِعْتُ حَمَّادَ بنَ زَيْدٍ يَقُوْلُ:  إِنَّمَا يَدُورُوْنَ عَلَى أَنْ يَقُوْلُوا: لَيْسَ فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ –

يَعْنِي: الجَهْمِيَّةَ

سُلَيْمَانُ بنُ حَرْبٍ کہتے ہیں میں نے حماد بن زید کو کہتے سنا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آسمان میں کوئی الہ نہیں ہے یعنی الجہمیہ

اسی طرح دوسری روایت  مالک بن انس کے ترجمہ میں دیتے ہیں

وَرَوَى: عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ فِي كِتَابِ (الرَّدِّ عَلَى الجَهْمِيَّةِ  ) لَهُ، قَالَ:

حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بنُ النُّعْمَانِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ نَافِعٍ، قَالَ:

قَالَ مَالِكٌ: اللهُ فِي السَّمَاءِ، وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ لاَ يَخْلُو مِنْهُ شَيْءٌ.

عبد الله بن احمد نے … امام مالک سے روایت کیا کہ الله آسمان میں ہے اور اس کا علم ہر مکان پر ہے جس سے کوئی

چیز خالی نہیں ہے

عبد الله بن مبارک کے ترجمہ میں الذھبی کہتے ہیں

قُلْتُ: الجَهْمِيَّةُ يَقُوْلُوْنَ: إِنَّ البَارِي -تَعَالَى- فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَالسَّلَفُ يَقُوْلُوْنَ: إِنَّ عِلْمَ البَارِي فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَيَحْتَجُّونَ بِقَوْلِهِ -تَعَالَى-: {وَهُوَ مَعَكُم أَيْنَمَا كُنْتُمْ} [الحَدِيْدُ: 4] يَعْنِي: بِالعِلْمِ، وَيَقُوْلُوْنَ: إِنَّهُ عَلَى عَرْشِهِ اسْتَوَى، كَمَا نَطَقَ بِهِ القُرْآنُ وَالسُّنَّةُ.

میں کہتا ہوں جہمیہ کہتے تھے کہ الله ہر مکان میں ہے اور سلف کہتے کہ الله کا علم ہر مکان میں ہے اور وہ دلیل لیتے اس آیت سے کہ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو حدید یعنی کہ اپنے علم سے اور سلف کہتے کہ الله عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن و سنت میں کہا گیا ہے

آج بعض لوگوں نے جھمیہ کا عقیدہ لیا ہے کہ الله اسی زمیں میں ہے بس اس میں اضافہ کر دیا ہے کہ تمام کائنات میں ہے چاہے آسمان ہو یا زمین ہو لہذا وہ کہتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ جہمیوں سے الگ ہے ہم الله کو نہ صرف آسمان ہر جگہ مانتے ہیں

لیکن جن اصول و افہام پر جہمیہ نے اپنا عقیدہ اختیار کیا تھا انہی تاویلات پر ان لوگوں نے بھی اپنا عقیدہ لیا ہے

الذہبی ابو معمر الھذلی  إِسْمَاعِيْلُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ بنِ مَعْمَرِ بنِ الحَسَنِ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا

عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ القَطِيْعِيِّ، قَالَ: آخِرُ كَلاَمِ الجَهْمِيَّةِ: أَنَّهُ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ

جھمیہ کا آخری کلام ہوتا کہ آسمان میں کوئی اله نہیں ہے

الذھبی اس پر کہتے ہیں

قُلْتُ: بَلْ قَوْلُهُم: إِنَّهُ -عَزَّ وَجَلَّ- فِي السَّمَاءِ وَفِي الأَرْضِ، لاَ امْتِيَازَ لِلسَّمَاءِ.

وَقَوْلُ عُمُومِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: إِنَّ اللهَ فِي السَّمَاءِ، يُطلِقُوْنَ ذَلِكَ وِفقَ مَا جَاءتِ النُّصُوْصُ بإِطْلاَقِهِ، وَلاَ يَخُوضُونَ فِي تَأْوِيْلاَتِ المُتَكَلِّمِيْنَ، مَعَ جَزْمِ الكُلِّ بَأَنَّهُ -تَعَالَى-: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} [الشُّوْرَى: 11] .

میں کہتا ہوں بلکہ جہمیہ کا قول ہے کہ الله تعالی آسمان میں ہے زمین میں ہے اس میں آسمان کا کوئی امتیاز نہیں ہے اور امت محمد کا عمومی قول ہے کہ بے شک الله تعالی آسمان میں ہے یہ نصوص میں جو آیا ہے اس کے اطلاق پر ہے اور وہ متکلمین کی تاویلات پر نہیں جھگرتے بلکہ سب  جزم سے کہتے ہیں الله کے مثل کوئی نہیں

اسی  جھمی عقیدے سے وحدت الوجود کا مسئلہ بھی جڑا ہے کہ اگر الله تمام کائنات میں ہے تو وہ ہر جگہ ہوا اور اس کو عرف عام میں الله کا حاضر و ناظر ہونا کہا جاتا ہے

صحیح عقیدہ ہے کہ الله البصیر ہے جو سات آسمان اوپر عرش سے مخلوق کو دیکھ رہا ہے اور وہ اپنی مخلوق سے جدا ہے

[/EXPAND]

[صحیح مسلم کی ایک روایت پر سوال ہے]

 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ، فَلَمْ تَسْقِنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي

محمد بن حاتم، بن میمون بہز حماد بن سلمہ،  ثابت، ابی رافع،  حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی وہ کہے گا اے پروردگار میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے تو اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا تھا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا وہ کہے گا اے پروردگار میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اس کو پانی نہیں پلایا تھا اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا۔

جواب

یہ روایت ایک ہی سند سے کتابوں میں ہے

نفيع ، أبو رافع الصائغ المدنى ، مولى ابنة عمر بن الخطاب اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں – نفیع سے بصرہ میں اس کو ثابت البنانی نقل کرتے ہیں اور پھر مختلط حماد بن سملہ اس کو بیان کرتے ہیں البتہ کتاب مسند  أبو عَوانة میں اس کو حماد ابن زيدً بھی ثابت سے نقل کرتے ہیں

مسند احمد میں اس کی ایک اور سند ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَنَّهُ قَالَ: مَرِضْتُ فَلَمْ يَعُدْنِي ابْنُ آدَمَ، وَظَمِئْتُ فَلَمْ يَسْقِنِي ابْنُ آدَمَ، فَقُلْتُ: أَتَمْرَضُ يَا رَبِّ؟ قَالَ: يَمْرَضُ الْعَبْدُ مِنْ عِبَادِي مِمَّنْ فِي الْأَرْضِ، فَلَا يُعَادُ، فَلَوْ عَادَهُ، كَانَ مَا يَعُودُهُ لِي، وَيَظْمَأُ فِي الْأَرْضِ، فَلَا يُسْقَى، فَلَوْ سُقِيَ كَانَ مَا سَقَاهُ لِي

لیکن اس میں ابْنُ لَهِيعَةَ ہے جو ضعیف ہے

یہ بات  انجیل متی میں بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے تمثیلی انداز میں بتایا کہ جب ابن آدم آئے گا تو  انسانوں کو تقسیم کر دے گا اور ایک سے کہے گا

Mathew 25:42 – 45

For I was hungry and you gave me no food, I was thirsty and you gave me no drink,
I was a stranger and you did not welcome me, naked and you did not clothe me, sick and in prison and you did not visit me.’
Then they also will answer, saying, ‘Lord, when did we see you hungry or thirsty or a stranger or naked or sick or in prison, and did not minister to you?’
Then he will answer them, saying, ‘Truly, I say to you, as you did not do it to one of the least of these, you did not do it to me.’

میں بھوکا تھا تم نے کھانا نہ دیا میں پیاسا تھا تم نے پانی نہ دیا میں اجنبی تھا تم نے خوش آمدید نہ کہا   میں برہنہ تھا تم نے لباس نہ دیا میں بیمار تھا قیدی تھا تم نے ملاقات نہ کی  اس پر وہ کہیں گے  آے آقا ہم نے اپ کو کب بھوکا اور پیاسا اور اجنبی اور قیدی بیمار پایا؟ ابن آدم کہے گا سچ کہتا ہوں تم نے اس میں سے کوئی بھی بات کم نہ کی اور نہ تم نے اس کو میرے ساتھ کیا

ابو ہریرہ رضی الله عنہ ایک سابقہ عیسائی تھے اغلبا انہوں نے یہ انجیل کے حوالے سے بات کی ہو گی جو ابو رافع سمجھ نہ سکے

روایت سے صوفیوں نے دلیل لی ہے کہ الله تعالی انسانوں کے ساتھ ہی ہے یعنی وحدت الوجود کے نظریہ کے تحت الله تعالی مخلوق میں ہی موجود ہے

انجیل میں یہ حدیث قدسی نہیں ہے بلکہ یہ   قول ابن آدم کا ہے جو اصلا عیسیٰ علیہ السلام کا اس میں استعارہ ہے

اسلامی صوفیت اور عیسائی رہبانیت کے ڈانڈے اس روایت پر مل جاتے ہیں

ہماری مذھبی کتب میں ایک روایت ہے

الْخَلْقُ عِيَالُ اللَّهِ

مخلوق خدا کا کنبہ ہے

مسند ابو یعلی اور مسند بیہقی شعب ایمان

سندا روایت میں  يُوسُفُ بْنُ عَطِيَّةَ الصَّفَّارُ متروك الحديث کی وجہ سے ضعیف ہے  اس کے ایک دوسرے طرق میں موسى بن عمير ہے وہ  بھی متروک ہے سنن سعید بن منصور میں عيال الله کا لفظ ہے لیکن وہاں سند منقطع ہے کیونکہ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے

صوفی منش  أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) نے اس کو حلية الأولياء وطبقات الأصفياء میں بیان کیا اور یہ روایت صوفیوں میں پھیل گئی

شعب الإيمان کے مطابق عباسی خلیفہ مامون کے دربار میں اس کو بیان کیا گیا کہ ایک شخص نے دہائی دی

قَالُوا: نا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَوْصِلِيُّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ الْمَأْمُونِ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْخَلْقُ عِيَالُ اللهِ، وَأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ أَنْفَعُهُمْ لِعِيَالِهِ ” قَالَ: فَصَاحَ بِهِ الْمَأْمُونُ: اسْكُتْ، أَنَا أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْكَ

عیسائیوں میں یہ سینٹ پاول کا مقولہ ہے

You are members of God’s family.

Ephesians 2:19

شام و عراق میں نصرانی راہبین جب اسلام میں داخل ہوئے تو اپنے اکابرین کے فرمودات کو بھی ساتھ لے آئے

اور یہی ملغوبہ اسلام میں تصوف کہلایا

حیرت ہے کہ مخلوق خدا کا کنبہ ہے کا جملہ ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
البحر المديد في تفسير القرآن المجيد از أبو العباس أحمد بن محمد بن المهدي (المتوفى: 1224هـ) اس کو تفسیر میں بیان کرتے ہیں
تذكرة الأريب في تفسير الغريب میں ابن جوزی تک اس کو بیان کرتے ہیں جبکہ ان کے نزدیک یہ موضوع روایت ہے
{أن يطعمون} أي أن يطعموا أحدا من خلقي وأضاف الإطعام إليه لأن الخلق عيال الله ومن أطعم عيال الله فقد أطعمه

بغوی تفسیر میں کہتے ہیں
وَإِنَّمَا أَسْنَدَ الْإِطْعَامَ إِلَى نَفْسِهِ، لِأَنَّ الْخَلْقَ عِيَالُ اللَّهِ وَمَنْ أَطْعَمَ عِيَالَ أَحَدٍ فَقَدْ أَطْعَمَهُ

شوکانی فتح القدیر میں کہتے ہیں
وَإِنَّمَا أَسْنَدَ الْإِطْعَامَ إِلَى نَفْسِهِ لِأَنَّ الْخَلْقَ عِيَالُ اللَّهِ

اس طرح صحیح مسلم کی اس روایت کو ایک موضوع روایت سے ملا کر قبول کر لیا جاتا ہے
صوفیوں نے نزدیک یہ دلیل بنتی ہے وحدت الوجود کی اور جھمیوں کے نزدیک رب کی مخلوق کے ساتھ موجودگی کی

[/EXPAND]

[استوی علی العرش پر امام مالک کا قول کیا ہے]

جواب

کتاب  العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها از الذھبی میں روایت ہے

وروى يحيى بن يحيى التَّمِيمِي وجعفر بن عبد الله وَطَائِفَة قَالُوا جَاءَ رجل إِلَى مَالك فَقَالَ يَا أَبَا عبد الله {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} كَيفَ اسْتَوَى قَالَ فَمَا رَأَيْت مَالِكًا وجد من شَيْء كموجدته من مقَالَته وعلاه الرحضاء يَعْنِي الْعرق وأطرق الْقَوْم فَسرِّي عَن مَالك وَقَالَ الكيف غير مَعْقُول والاستواء مِنْهُ غير مَجْهُول وَالْإِيمَان بِهِ وَاجِب وَالسُّؤَال عَنهُ بِدعَة وَإِنِّي أَخَاف أَن تكون ضَالًّا
وَأمر بِهِ فَأخْرج // هَذَا ثَابت عَن مَالك وَتقدم نَحوه عَن ربيعَة شيخ مَالك وَهُوَ قَول أهل السّنة قاطبة أَن كَيْفيَّة الاسْتوَاء لَا نعقلها
بل نجهلها وَأَن استواءه مَعْلُوم كَمَا أخبر فِي كِتَابه وَأَنه كَمَا يَلِيق بِهِ لَا نعمق وَلَا نتحذلق وَلَا نَخُوض فِي لَوَازِم ذَلِك نفيا وَلَا إِثْبَاتًا بل نسكت ونقف كَمَا وقف السّلف

اور  يحيى بن يحيى التَّمِيمِي وجعفر بن عبد الله اور ایک گروہ نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص آیا اور امام مالک سے کہا اے ابو عبد الله الرحمان علی العرش استوی تو استوی کیسا ہے ؟ تو امام مالک کو ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی مقالہ پر اس کا ایسا حال ہو کہ پسینہ آ گیا .. اور کہا کیفیت عقل میں نہیں اتی اور اس  الاستواء پر لا علم نہیں ہیں اور اس پر ایمان واجب ہے اور  اس پر سوال بدعت ہے اور میں سمجھتا ہوں تو گمراہ ہے پس حکم کیا اور وہ چلا گیا

امام الذھبی کہتے ہیں یہ امام مالک سے ثابت ہے اور ایسا ہی قول  ربيعَة ( بن عبد الرحمن ) شيخ مَالك کا گزرا ہے جو أهل السّنة قاطبة  کا قول ہے کہ  الاسْتوَاء کی کیفیت ہماری عقل میں نہیں بلکہ اس پرہمیں جاہل رکھا  (علم نہیں دیا ) گیا  اور الاسْتوَاء معلوم ہے جیسا کہ کتاب الله میں خبر ہے … اس پر ہم خاموش رہیں گے جیسے سلف خاموش رہے

اسی کتاب میں امام الذھبی لکھتے ہیں کہ سلف نے کہا

وَإِنَّمَا جهلوا كَيْفيَّة الاسْتوَاء فَإِنَّهُ لَا يعلم حَقِيقَة كيفيته قَالَ مَالك الإِمَام الاسْتوَاء مَعْلُوم يَعْنِي فِي اللُّغَة والكيف مَجْهُول وَالسُّؤَال عَنهُ بِدعَة

سلف نے الاسْتوَاء کی کیفیت پر لا علمی   کا اظہار کیا کیونکہ وہ اس کی کیفیت کی حقیقت نہیں جانتے امام مالک نے کہا الاسْتوَاء معلوم ہے یعنی لغت سے اور کیفیت مجھول ہے اور سوال اس پر بدعت ہے

اس کے برعکس الوسی تفسیر  روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54 لکھتے ہیں

لاحتمال أن يكون المراد من قوله: غير مجهول أنه ثابت معلوم الثبوت لا أن معناه وهو الاستقرار غير مجهول

 احتمال ہے امام مالک کی مراد قول   الاستواء غیر مجہول سے یہ ہے کہ  الله تعالیٰ کی صفت استوا ثابت معلوم ہے ثبوت سے  نہ کہ  یہ مطلب ہے کہ اس کا معنی ومراد استقرار معلوم ہے جو غیر مجھول ہے

افسوس بعض لوگ مثلا مقاتل بن سلیمان نے  اس کو استقر کہا جس کو آج تک بیان کیا جاتا ہے لہذا المشبہ کا قول ہے کہ الاستواء  غیر مجھول کا مطلب امام مالک کے نزدیک وہی ہے جو عربی لغت میں ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ صفات میں  جو آیا ہے اس کو ظاہر پر لیا جائے گا

یہ مسئلہ اس قدر ہے سن ٢٠٠٠ میں  عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر نے کتاب   الأثر المشهور عن الإمام مالك رحمه الله في صفة الاستواء دراسة تحليلية لکھی جس میں ٦٩ صفحات پر مشتمل کتاب میں صرف اس امام مالک کے قول پر بحث کی

 عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر نے کتاب   الأثر المشهور عن الإمام مالك رحمه الله في صفة الاستواء دراسة تحليلية
میں ص ١٧ پر لکھا

 أنَّ مراد الإمام مالك رحمه الله بقوله: “الاستواء غير مجهول” أي غير مجهول المعنى

امام مالک رحمہ الله کی مراد قول  الاستواء غير مجهول سے یہ ہے کہ معنی میں نہ سمجھنے والا نہیں ہے

یعنی معنا الاستواء معلوم ہے

اسی طرح ص ٢٤ پر کہا

قال هذا رحمه الله، مع أنَّ لفظ الأثر عنده “الاستواء غير مجهول” أي غير مجهول المعنى وهو العلو والارتفاع

ایسا  امام مالک رحمه الله نے کہا ان سے جو اثر ہے اس میں الفاظ  الاستواء غير مجهول ہیں یعنی معنی غیر مجھول ہے  اور معنی ہیں بلند و ارتفاع ہوا

اسی طرح س ١٣ پر عبد الرزاق بن عبد المحسن البدرکہا

مراد الإمام مالك رحمه الله بقوله: “الاستواء غير مجهول” ظاهرٌ بيِّنٌ، حيث قصد رحمه الله أنَّ الاستواء معلوم في لغة العرب

امام مالک رحمه الله کی مراد اس قول الاستواء غير مجهول سے ہے ظاہر واضح ہے جب انہوں نے ارادہ کیا  کہ بے شک  الاستواء معلوم ہے لغت عرب میں

یعنی سلفیوں وہابیوں کے نزدیک امام مالک نے الاستواء کو عربی لغت سے جانا اور اشاعرہ کے علماء کے نزدیک انہوں نے صرف اس کا اقرار کیا کہ اس پر نص ہے معنی کی وضاحت نہ کی کیونکہ معنی کیفیت ہے

التمھید میں ابن عبد البر نے امام مالک کے الفاظ تبدیل کر دیے ہیں ج ٧  ص ١٣٨ پر بلا سند لکھتے ہیں

 فَقَالَ مالك رَحِمَهُ اللَّهُ اسْتِوَاؤُهُ مَعْقُولٌ وَكَيْفِيَّتُهُ مَجْهُولَةٌ وَسُؤَالُكَ عَنْ هَذَا بِدْعَةٌ

پس امام مالک رحمہ الله نے کہا استوی  عقل میں  ہے اور اس کی کیفیت  لا علم ہے اور اس پر سوال بدعت ہے

حالانکہ یہ امام مالک کا قول نہیں جو باقی لوگ بیان کرتے ہیں امام مالک کا قول ہے

 استواء منه غير مجهول

الله کا (عرش پر) استوی پر جاہل (لا علم) نہیں ہیں

امام مالک کا یہ کہنا اس لئے ہے کہ یہ قرآن میں ہے لہذا اس کا علم ہے لیکن کیا یہ انسانی عقل میں ہے ؟ نہیں – لہذا ابن عبد البر کا فہم  اس قول پر صحیح نہیں ہے بلکہ نعمان الوسی کا قول صحیح ہے

راقم کے نزدیک استوی  کا مطلب متشابہ ہے اس کا مطلب علو یا ارتفاع ( بلند ہونا) یا  استولی (سوار ہونا) یا  استقر (رکنا ) نہ کیا جائے بس یہ کہا جائے کہ الله عرش پر مستوی ہے مخلوق سے الگ ہے

[/EXPAND]

[روز محشر الله تعالی محسم ہو کر کسی ایسی صورت میں بھی آئیں گے جس کو مومن پہچانتے ہوں؟]

صحیح بخاری کی حدیث ہے

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا کیا جب بادل نہ ہوں تو تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور فرمائے گا کہ تم میں جو کوئی جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے لگ جائے۔ چنانچہ جو سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے ہو جائے گا، جو چاند کی پوجا کرتا تھا وہ چاند کے پیچھے ہو جائے گا اور جو بتوں کی پوجا کرتا تھا وہ بتوں کے پیچھے لگ جائے گا   پھر یہ امت باقی رہ جائے گی اس میں بڑے درجہ کے شفاعت کرنے والے بھی ہوں گے یا منافق بھی ہوں گے ابراہیم کو ان لفظوں میں شک تھا۔ پھر اللہ ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ جواب دیں گے کہ ہم یہیں رہیں گے۔ یہاں تک کہ ہمارا رب آ جائے، جب ہمارا رب آ جائے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ اقرار کریں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔ چنانچہ وہ اس کے پیچھے ہو جائیں گے اور دوزخ کی پیٹھ پر پل صراط نصب کر دیا جائے گا اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کرنے والے ہوں گے اور اس دن صرف انبیاء بات کر سکیں گے اور انبیاء کی زبان پر یہ ہو گا۔ اے اللہ! مجھ کو محفوظ رکھ، مجھ کو محفوظ رکھ۔ اور دوزخ میں درخت سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سعدان کے کانٹوں ہی کی طرح ہوں گے البتہ وہ اتنے بڑے ہوں گے کہ اس کا طول و عرض اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہ ہو گا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے بدلے میں اچک لیں گے تو ان میں سے کچھ وہ ہوں گے جو تباہ ہونے والے ہوں گے اور اپنے عمل بد کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر جائیں گے یا اپنے عمل کے ساتھ بندھے ہوں گے اور ان میں بعض ٹکڑے کر دئیے جائیں گے یا بدلہ دئیے جائیں گے یا اسی جیسے الفاظ بیان کئے۔ پھر اللہ تعالیٰ تجلی فرمائے گا اور جب بندوں کے درمیان فیصلہ کر کے فارغ ہو گا اور دوزخیوں میں سے جسے اپنی رحمت سے باہر نکالنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے انہیں دوزخ سے باہر نکالیں، یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرنا چاہے گا۔ ان میں سے جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کیا تھا۔ چنانچہ فرشتے انہیں سجدوں کے نشان سے دوزخ میں پہچانیں گے۔ دوزخ ابن آدم کا ہر عضو جلا کر بھسم کر دے گی سوا سجدہ کے نشان کے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو جلائے (یا اللہ! ہم گنہگاروں کو دوزخ سے محفوظ رکھیو ہم کو تیری رحمت سے یہی امید ہے) چنانچہ یہ لوگ دوزخ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ یہ جل بھن چکے ہوں گے۔ پھر ان پر آب حیات ڈالا جائے گا اور یہ اس کے نیچے سے اس طرح اگ کر نکلیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ اگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ سے فارغ ہو گا۔ ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ دوزخ کی طرف ہو گا، وہ ان دوزخیوں میں سب سے آخری انسان ہو گا جسے جنت میں داخل ہونا ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! میرا منہ دوزخ سے پھیر دے کیونکہ مجھے اس کی گرم ہوا نے پریشان کر رکھا ہے اور اس کی تیزی نے جھلسا ڈالا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے وہ اس وقت تک دعا کرتا رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں گا تو تو مجھ سے کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگوں گا اور وہ شخص اللہ رب العزت سے بڑے عہد و پیمان کرے گا۔ چنانچہ اللہ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھے گا تو اتنی دیر خاموش رہے گا جتنی دیر اللہ تعالیٰ اسے خاموش رہنے دینا چاہے گا۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! مجھے صرف جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے دیا ہے اس کے سوا اور کچھ کبھی تو نہیں مانگے گا؟ افسوس ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! اور اللہ سے دعا کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو اس کے سوا کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا اور جتنے اللہ چاہے گا وہ شخص وعدہ کرے گا۔ چنانچہ اسے جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ پھر جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا تو جنت اسے سامنے نظر آئے گی اور دیکھے گا کہ اس کے اندر کس قدر خیریت اور مسرت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جتنی دیر چاہے گا وہ شخص خاموش رہے گا۔  پھر کہے گا: اے رب! مجھے جنت میں پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے تجھے دے دیا ہے اس کے سوا تو اور کچھ نہیں مانگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا افسوس! ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے بڑھ کر بدبخت نہ بنا۔ چنانچہ وہ مسلسل دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں پر ہنس دے گا، جب ہنس دے گا تو اس کے متعلق کہے گا کہ اسے جنت میں داخل کر دو۔ جنت میں اسے داخل کر دے گا تو اس سے فرمائے گا کہ اپنی آرزوئیں بیان کر، وہ اپنی تمام آرزوئیں بیان کر دے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا۔ وہ کہے گا کہ فلاں چیز، فلاں چیز، یہاں تک کہ اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ آرزوئیں اور انہی جیسی تمہیں ملیں گی

جواب

اس روایت میں الفاظ ایسے ہیں جو رب العالمین کی تجسیم کی طرف مائل ہیں

الله تعالی روز محشر اپنے عرش پر ہوں گے جیسا قرآن میں ہے اور اس کا اس عرش کو چھوڑ کر مجسم ہو کر انسانوں کے پاس آنا  کیسے ہو گا ؟ جبکہ تمام انسانیت اس وقت الله کے آگے سر جھکانے کھڑی ہو گی اور کوئی آواز نہ ہو گی سوائے رب العالمین کے کلام کے

یہ روایت دو طرق سے اتی ہے

إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ کی سند

إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف المتوفی ١٨٤ ھ یا  ١٨٥ ھ

امام المحدثین يحيى بن سعيد القطان اس راوی کے سخت خلاف ہیں

امام احمد کے بیٹے العلل میں بتاتے ہیں کہ

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: ذكرنا عند يحيى بن سعيد حديثا من حديث عقيل. فقال لي يحيى: يا أبا عبد الله، عقيل وإبراهيم بن سعد!! عقيل وإبراهيم بن سعد!! كأنه يضعفهما. قال أبي: وأي شيء ينفعه من ذا، هؤلاء ثقات، لم يخبرهما يحي. «العلل» (282 و2475 و3422) .

میرے باپ نے ذکر کیا کہ یحیی کے سامنے عقیل کی  حدیث کا ہم نے ذکر کیا انہوں نے کہا اے ابو عبد الله عقیل اور ابراہیم بن سعد، عقیل اور ابراہیم بن سعد  جیسا کہ وہ تضعیف کر رہے ہوں

کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مطابق

كَانَ وَكِيْعٌ كَفَّ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنْهُ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْهُ.

وَكِيْعٌ اس کی روایت سے رکے رہے پھر روایت کرنا شروع کر دیا

اس کے برعکس امام عقیلی کہتے ہیں بحوالہ إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي

ذكره العقيلي في كتاب ” الجرح والتعديل ” قال: قال عبد الله بن أحمد بن حنبل قال أبي: حدثنا وكيع مرة عن إبراهيم بن سعد، ثم قال: أجيزوا عليه وتركه بأخرة.

عقیلی نے اس کا ذکر کتاب الجرح والتعديل میں کیا اور کہا کہ عبد الله نے کہا کہ امام احمد نے کہا وكيع نے ایک بار ابراہیم سے روایت کیا پھر کہا اور  … آخر میں بالکل ترک کر دیا

قَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ: سَمَاعُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ لَيْسَ بِذَاكَ، لأَنَّهُ كَانَ صَغِيْراً.

صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ نے کہا اس کا سماع امام الزہری ویسا (اچھا نہیں) ہے  کیونکہ یہ چھوٹا تھا

تاریخ الاسلام میں الذھبی نے جزرہ کا قول پیش کیا کہ كَانَ صغيرا حين سمع من الزهري انہوں نے بچپنے میں الزہری سے سنا

  کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال  از  مغلطاي  کے مطابق  أبي عبد الرحمن السلمي نے کہا

قدم إبراهيم العراق سنة أربع وثمانين ومائة، فأكرمه الرشيد وأظهر بره، وتوفي في هذه السنة، وله خمس وسبعون سنة.

ابراہیم عراق سن ١٨٤ ھ میں پہنچے ان کی الرشید نے عزت افزائی کی اور اسی سال انتقال ہوا اور یہ ٧٥ سال کے تھے

اس دور میں عراقیوں نے ان سے روایات لیں جن پر امام یحیی بن سعید القطان اور امام  وکیع کو اعتراض تھا اور انہوں نے ان کو ترک کیا لیکن امام احمد امام ابن معین نے ان کی روایات لے لیں اور اسی طرح امام بخاری و مسلم کے شیوخ نے بھی لے لیں

صحیح بخاری : حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ:

 نوٹ  شيخ البخاري ضعفه أبو داود  ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق

یہ روایت ابو داود کے نزدیک ضعیف ہے کیونکہ اس میں امام بخاری کے شیخ عبد العزيز بن عبد الله الأويسي کی انہوں نے تضعیف کی ہے تاریخ الاسلام میں الذھبی نے کہا ہے کہ ابو داود نے ان کو ثقہ کہا ہے لیکن میزان میں اس قول کو پیش کر کے لکھتے ہیں

وثقه أبو داود، وروى عن رجل عنه، ثم وجدت أنى أخرجته في المغنى وقلت: قال أبو داود: ضعيف، ثم وجدت في سؤالات أبي عبيد الله الآجرى لأبي داود: عبد العزيز الاويسى ضعيف.

ان کو ابو داود نے ثقہ قرار دیا اور ایک شخص سے ان سے روایت لی پھر میں نے پایا کہ میں نے تو ان کا ذکر المغنی (ضعیف راویوں پر کتاب) میں کیا ہے اور کہا ہے ابو داود نے کہا ضعیف ہے پھر میں نے سوالات ابی عبید میں پایا کہ ابوداود نے  عبد العزيز الاويسى کو ضعیف قرار دیا

یعنی الذھبی کے نزدیک ابو داود کی تضعیف والا قول صحیح ہے

صحیح مسلم : حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ

مسند احمد : حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَبُو كَامِل (مظفر بن مدرك الخراساني)ٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، الْمَعْنَى

ان تینوں کتابوں میں سند میں ابراہیم بن سعد ہے

أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ کی سند

کتب حدیث میں اس روایت کا دوسرا طرق بھی ہے  جس کی سند میں أبو اليمان الحكم بن نافع البهرانى الحمصى   جو شُعَيْبِ بنِ أَبِي حَمْزَةَ  سے روایت کر رہے ہیں  جن کے لئے الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ: عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، قَالَ: لَمْ يَسْمَعْ أَبُو اليَمَانِ مِنْ شُعَيْبٍ إِلاَّ حَدِيْثاً وَاحِداً، وَالبَاقِي إِجَازَةً

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ نے أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ سے روایت کیا انہوں نے کہا ابو اليَمَانِ نے شُعَيْبٍ سے صرف ایک ہی حدیث روایت کی اور باقی اجازہ ہے

   تهذيب الكمال کے مطابق احمد کہتے ہیں

فَكَانَ وَلَدُ شُعَيْبٍ يَقُوْلُ: إِنَّ أَبَا اليَمَانِ جَاءنِي، فَأَخَذَ كُتُبَ شُعَيْبٍ مِنِّي بَعْدُ، وَهُوَ يَقُوْلُ: أَخْبَرَنَا.  فَكَأَنَّهُ اسْتَحَلَّ ذَلِكَ، بِأَنْ سَمِعَ شُعَيْباً يَقُوْلُ لِقَوْمٍ: ارْوُوْهُ عَنِّي.

قَالَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ: سَمِعْتُ أَبَا اليَمَانِ يَقُوْلُ: قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: كَيْفَ سَمِعْتَ الكُتُبَ مِنْ شُعَيْبٍ؟ قُلْتُ: قَرَأْتُ عَلَيْهِ بَعْضَهُ، وَبَعْضُهُ قَرَأَهُ عَلَيَّ، وَبَعْضُهُ أَجَازَ لِي، وَبَعْضُهُ مُنَاوَلَةً. قَالَ: فَقَالَ فِي كُلِّهِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ

شُعَيْبٍ کے بیٹے کہتے تھے کہ أَبَا اليَمَانِ میرے پاس آیا اور مجھ سے والد کی کتب لیں اور کہنے لگا اخبرنا!  پس اس نے اس کو جائز سمجھا اور میرے والد ایک قوم سے کہتے یہ مجھ سے روایت (کیسے)  کرتا ہے

إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ نے کہا میں نے أَبَا اليَمَانِ کو کہتے سنا وہ کہتے مجھ سے امام احمد نے کہا تم شُعَيْبٍ سے کتاب کیسے سنتے ہو ؟ میں نے کہا بعض میں اس پر پڑھتا ہوں اور بعض وہ مجھ کو سناتا ہے اور بعض کی اس نے اجازت دی اور بعض کا مناولہ کہا میں نے  اس سب پر کہا اخبرنا شُعَيْبٌ

یعنی أَبَا اليَمَانِ الحكم بن نافع اس کا کھلم کھلا اقرار کرتے تھے کہ ہر بات جس پر وہ اخبرنا شُعَيْبٌ کہتے ہیں اس میں سے ہر حدیث ان کی سنی ہوئی نہیں ہے

الإيمان لابن منده : أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ يُوسُفَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ أَبُو بَكْرٍ الصَّاغَانِيُّ، ح وَأَنْبَأَ أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ أَيُّوبَ بْنِ حَذْلَمٍ، ثَنَا أَبُو زُرْعَةَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرِو بْنِ صَفْوَانَ، قَالَا: ثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، ثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ

كتاب التوحيد ا بن خزيمة: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

مسند الشاميين الطبراني : حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عِيسَى بْنِ الْمُنْذِرِ، وَأَبُو زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَا: ثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ،

ان تین کتابوں میں سند میں  أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ہے

اسطرح یہ دونوں طرق ضعیف اور نا قابل دلیل ہیں متن خود ایک معمہ ہے

[/EXPAND]

[کیا الله تعالی کو نور کہہ سکتے ہیں  کیا نور صفت ہے ؟]

جواب

الله کو نور کہنا گمراہی ہے
سوره الانعام کی پہلی آیت ہے کہ نور اور ظلمات کو خلق کیا

اور سوره النور میں ہی
الله زمین و آسمانوں کا نور ہے اس نور کی مثال ہے … پھر ایک تفصیل ہے کہ یہ نور زیتون کے پاک تیل سے جل رہا ہے جو تیل نہ شرقی ہے نہ غربی پھر کہا یہ نور ان گھروں میں موجود ہے جہاں الله کا ذکر ہوتا ہے

اسطرح مثال سے سمجھایا گیا کہ الله کا نور اس آیت میں نور ہدایت ہے

قرآن میں ہے

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا

زمین تمھارے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی

یہاں پر اس کو الله سے نسبت دی گئی ہے جس طرح آیات نفخت فیہ میں روحی میں روح کی نسبت الله کی طرف  ہے

المشبه اس کے بر خلاف الله کو ایک نور قرار دیتے ہیں

ابن باز  سے “نور الدائم ” نام رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:

“نورالدائم” سے مراد اگر اللہ ہے ؛ کیونکہ ہمیشہ صرف اللہ ہی ہے ،تو ایسا نام تبدیل کر دینا چاہیے تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ اس سے وہ نور مراد ہے جو اللہ کی صفت ہے ؛کیونکہ نور کی دو قسمیں ہیں:

1- وہ نور جو اللہ تعالی کی صفت ہے ،تو یہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے ۔

2- نور سے مراد روشنیاں ہیں جو مخلوق ہیں جیسے سورج ،چاند وغیرہ یہ روشنی (کے ذرائع) مخلوق ہیں ۔اور اسلام کا نور بھی مخلوق نور میں شامل ہے۔
چنانچہ اسے چاہیے کہ ایسا نام تبدیل کر دے تاکہ (اللہ کی صفت کا)وہم نہ ہو ” انتہی

راقم کہتا ہے  ایسا نام جو الله نے نہ رکھا ہو اس کو الله کا نام کہنا الحاد ہے

[/EXPAND]

[الله کے ٩٩ نام کس طرح بنتے ہیں ؟]

جواب

جو ٩٩ اسماء ہیں إن مين ٨٢ قرآن سے لئے گئے ہیں باقی بھی قرآن سے ہیں لیکن استخراجی ہیں
مثلا
الباسط قرآن میں نہیں ہے قرآن میں ہے
أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

اس سے الباسط کا استخراج کیا گیا ہے

الشافی قرآن میں نہیں لیکن قرآن کے مطابق الله شفا دیتا ہے لہذا اس کو الله کا نام کہا گیا ہے

القابض الله کا استخراجی نام ہے اس کا ذکر قرآن میں ہے
وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ
زمین تمام اس کے قبضہ میں ہو گی
اسی طرح جب مالک الملک تمام آسمانوں کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ کر دکھائے گا کہ وہی قدرت والا ہے

الله احسان کرتا ہے لہذا المحسن ہے لیکن یہ نام قرآن میں نہیں ہے اس پر ایک ضعیف حدیث ہے لہذا یہ بھی استخراجی نام ہے
اسی طرح المنان یعنی احسان کرنے والا نام رکھا گیا ہے

الرفیق حدیث میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا آخری کلام تھا اے الله تو رفیق الاعلی ہے

اور بھی کچھ نام ہیں جو حدیث میں ہیں اسطرح ٩٩ نام بنتے ہیں

[/EXPAND]

[روایت پر عَادَى لِي وَلِيًّا سوال ہے کہ کیا یہ کسی محدث کے نزدیک ضعیف ہے ؟]

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ:‏‏‏‏ “مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ“.

مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔

جواب

الذھبی خالد بن مخلد کے ترجمہ میں میزان میں کہتے ہیں

هذا حديث غريب جداً لولا هيبة الجامع الصحيح لعدوه في منكرات خالد بن مخلد وذلك لغرابة لفظه، ولأنه مما ينفرد به شريك، وليس بالحافظ، ولم يرو هذا المتن إلا بهذا الإسناد

یہ حدیث بہت غریب ہے اور اگر جامع الصحیح کی ہیبت نہ ہوتی تو اس روایت کو خالد بن مخلد کی منکرات میں شمار کیا جاتا اور اس روایت  میں الفاظ کی غرابت ہے اور یہ کہ اس میں شریک کا تفرد ہے اور وہ حافظ نہیں ہے اور اس متن کو اس سند سے کوئی اور روایت نہیں کرتا

[/EXPAND]

[هَرْوَلَةً کیا صفت باری تعالی ہے ؟]

صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله تعالی کہتا ہے میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں بھی اس کو یاد کرتا ہوں جب وہ مجمع میں میرا ذکر کرتا ہے میں اس سے بہتر مجمع میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ برابر قریب اتا ہے میں بھی اس سے بازو کے پھیلاو برابر قریب اتا ہوں اور اگر وہ چلتا آئے تو میں ڈگ بھرتا اتا ہوں

جواب

یہ مجاز ہے – زبان و ادب میں قربت کے لئے ان کا استمعال کیا جاتا ہے

نووی کہتے ہیں

 أتيته هرولة، أي: صببت عليه الرحمة وسبقته بها ولم أحوجه إلى المشي الكثير في الوصول إلى المقصود

میں ڈگ بھرتا اتا ہوں یعنی اس پر رحمت ڈالتا ہوں اور اس میں سبقت کرتا ہوں اور اس میں بہت چلنے کی ضرورت نہیں مقصود کو وصول کرنے کے لئے

یعنی الله تعالی تو قادر ہیں عرش پر ہی سے فیصلہ کر دیں گے

کتاب   الأسماء والصفات ل میں البیہقی لکھتے ہیں

إِنَّ قُرْبَ الْبَارِي مِنْ خَلْقِهِ بِقُرْبِهِمْ إِلَيْهِ بِالْخُرُوجِ فِيمَا أَوْجَبَهُ عَلَيْهِمْ، وَهَكَذَا الْقَوْلُ فِي الْهَرْوَلَةِ، إِنَّمَا يُخْبِرُ عَنْ سُرْعَةِ الْقَبُولِ وَحَقِيقَةِ الْإِقْبَالِ وَدَرَجَةِ الْوُصُولِ

الْهَرْوَلَةِ ایسا ہی قول ہے کہ قبولیت کی سرعت ہے اور حقیقیت اقبال ہے اور وصول کا درجہ ہے

یعنی بیہقی نے بھی اس کو مجاز مانا ہے

لیکن بہت سے لوگوں نے اس سے صفت فعلی مراد لی ہے جو صحیح نہیں ہے

محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى : 1421هـ) سے سوال ہوا کہ سئل فضيلة الشيخ: عن صفة الهرولة؟  کیا الله کی صفت  یعنی تیز چلنا ہے؟

جواب دیا

صفة الهرولة ثابتة لله تعالى كما في الحديث الصحيح الذي رواه البخاري ومسلم عن أبي هريرة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: «يقول: الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي» فذكر الحديث، وفيه: «وإن أتاني يمشي أتيته هرولة» ، وهذه الهرولة صفة من صفات أفعاله التي يجب علينا الإيمان بها من غير تكييف ولا تمثيل

تیز چلنا الله کی صفت ثابت ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے جس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله نے کہا میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں پس حدیث ذکر کی جس میں ہے اور وہ میرے پاس چلتا ہوا اتا ہے تو میں ڈگ بھر کر اتا ہوں اور یہ ڈگ بھرنا صفات میں سے ایک فعلی صفت ہے جس پر ہمیں بغیر کیفیت اور تمثیل کے ایمان رکھنا چاہیے

کتاب بحر الفوائد المشهور بمعاني الأخبار میں أبو بكر محمد بن أبي إسحاق بن إبراهيم بن يعقوب الكلاباذي البخاري الحنفي (المتوفى: 380هـ) وضاحت کرتے ہیں

وَالَّذِي اقْتَرَبَ مِنِّي ذِرَاعًا بِالْإِخْلَاصِ هُوَ الَّذِي أقْتَرِبُ مِنْهُ بَاعًا بِالْجَذْبِ، وَمَنْ أَتَانِي مُشَاهِدًا لِي هُوَ الَّذِي هَرْوَلْتُ إِلَيْهِ بِرَفْعِ أَسْتَارِ الْغُيُوبِ بَيْنِي وَبَيْنَهُ

اور جو میری قربت ایک بازو کے پھیلاو برابر لیتا ہے اخلاص سے …. جو تو اس کی طرف ھرولہ کرتا ہوں کہ اپنے اور اس کے درمیان سے غیوب کو ہٹا دیتا ہوں

یعنی محدث کلابازی نے اس کی تاویل کی اور مجاز کہا نہ کہ ظاہر مفھوم لیا

[/EXPAND]

[ابن بطوطہ کا امام ابن تیمیہ کے متعلق قول ہے کہ وہ الله کی  تجسیم کے قائل تھے ؟]

ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتاہے

جب میں دمشق کی جا مع مسجد میں تھا تو ابن تیمہ نے منبر پہ کہا

ان اللہ ینزل الی السماء الدنیا کنزولی ھذا
خداعالم دنیا کی طرف ایسے ہی اتر تا ہے جیسے میں اتر رہا ہو ں اور پھر منبر سے ایک زینہ نیچے اترا ۔
مالکی فقیہ ابن الزہراء نے اس پر اعتراض کیا اور اس کے عقائد کو ملک ناصر تک پہنچایا ۔اس نے اسے زندان میں ڈالنے کا حکم صادر کیا اور وہ زندان میں ہی مرگیا ۔

کیا اس میں حقیقت ہے

جواب

کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ابن بطوطہ کا جھوٹ ہے کیونکہ جس دور میں وہ دمشق پہنچا اس دور میں ابن تیمیہ وہاں نہیں تھا
لیکن یہ بات درست ہے کہ نزول والی حدیث کو ابن تیمیہ ظاہر مانتے تھے اور اللہ کو ایک جسم سمجھتے
تھے جس کے ہاتھ پیر سر بال وغیرہ ہیں یہاں تک کہ سر پر تاج اور منہ بغیر داڑھی مونچھ کہتے تھے اس پر بہت تفصیل سے ہم نے لکھا ہے

پہلے یہ غور سے پڑھیں
https://www.islamic-belief.net/4969-2/

اس کے بعد
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/

اس کے بعد اپ پر آشکار ہو جائے گا کہ نزول کو ابن تیمیہ گروپ حقیقی مانتا ہے

کتاب الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة از ابن حجر کے مطابق

وَأطلق ابْن تَيْمِية إِلَى الشَّام وافترق النَّاس فِيهِ شيعًا فَمنهمْ من نسبه إِلَى التجسيم لما ذكر فِي العقيدة الحموية والواسطية وَغَيرهمَا من ذَلِك كَقَوْلِه أَن الْيَد والقدم والساق وَالْوَجْه صِفَات حَقِيقِيَّة لله وَأَنه مستوٍ على الْعَرْش بِذَاتِهِ فَقيل لَهُ يلْزم من ذَلِك التحيز والانقسام فَقَالَ أَنا لَا أسلم أَن التحيز والانقسام من خَواص الْأَجْسَام فألزم بِأَنَّهُ يَقُول بتحيز فِي ذَات الله

ابن تیمیہ شام کے لئے نکلے اور لوگ ان کے بارے میں بٹ گئے ایک گروہ نے ان کی نسبت تجسیم والوں سے کی جب العقيدة الحموية والواسطية وغیرہ کا ذکر ہوا جس میں ابن تیمیہ کا قول (الله تعالی کے حوالے سے) ہاتھ اور قدم اور پنڈلی اور چہرے پر ہے کہ یہ حقیقی صفات ہیں الله کی اور وہ بذات عرش پر مستوی ہے پس ان سے کہا گیا اس سے (ذات الہی کا) التحيز والانقسام (مخلوق جیسا ہونا) لازم اتا ہے تو ابن تیمیہ نے کہا میں التحيز والانقسام کو اجسام کی خصوصیت نہیں مانتا، پس الزام لگا کہ وہ تحيز کہتے ہیں الله کی ذات کے لئے

یعنی ابن تیمیہ تجسیم کے قائل تھے یہ ان کے دور میں اہل شام میں مشھور ہو چکا تھا جس کے وہ انکاری بھی نہیں تھے بلکہ اس کو انہوں نے اپنی کتابوں میں کھل کر لکھا ہے

ابن تیمیہ مخالف کا رد کرتے کرتے بے تکی ہانکنے لگ جاتے تھے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں ایسے الفاظ لکھتے ہیں جو الله تعالی کے عالی شان و مرتبہ کے سخت خلاف ہے لکھتے ہیں

ولو قد شاء لاستقر على ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات والأرض
اور اگر الله چاہے تو وہ مچھر کے اوپر سوار ہو جائے اپنی قدرت سے اور ربوبیت کی لطف سے تو کیسے وہ نہ ہو عرش عظیم پر جو آسمانوں اور زمین سے بھی بڑا ہے

استقل کہتے ہیں سوار ہونے کو
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-en/استقل/

[/EXPAND]

[کیا عرش و کرسی کے مقابلے پر سات آسمان و زمین صحراء میں انگوٹھی کی مانند ہیں ؟]

جواب

اس طرح کا ایک قول مجاہد کا ہے

حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «مَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ فِي الْكُرْسِيِّ، إِلَّا بِمَنْزِلَةِ حَلْقَةٍ مُلْقَاةٍ فِي أَرْضٍ فَلَاةٍ»
الکرسی کے مقابلے پر ، سات آسمان و زمین ایک حلقہ کی مانند ہیں جو ایک صحراء میں پڑا ہو

کتاب اسماء و صفات بیہقی میں ہے
أَنْبَأَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، إِجَازَةً، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أنا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ بْنِ عَامِرٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هِشَامِ بْنِ يَحْيَى بْنِ يَحْيَى الْغَسَّانِيُّ، ثنا أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّمَا أُنْزِلَ عَلَيْكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «آيَةُ الْكُرْسِيِّ» ، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا السَّمَاوَاتُ [ص:301] السَّبْعُ مَعَ الْكُرْسِيِّ إِلَّا كَحَلْقَةٍ مُلْقَاةٍ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، وَفَضَلُ الْعَرْشِ عَلَى الْكُرْسِيِّ كَفَضْلِ الْفَلَاةِ عَلَى الْحَلْقَةِ»

ابو ذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آیت الکرسی پھر کہا اے ابو ذر سات آسمان کرسی کے ساتھ ایک حلقہ کی طرح ہے جو صحراء میں ہو اور عرش کی فضیلت کرسی پر ایسی ہے جیسے صحراء کی فضیلت حلقہ پر

اس روایت میں عرش کو اس قدر وسیع قرار دیا گیا ہے کہ گویا سات آسمان اس کے مقابلے پر کچھ بھی نہیں یہ جھمیوں کا عقیدہ تھا

اس کی سند میں إبراهيم بن هشام بن يحيى بن يحيى الغساني ہے جس کو کذاب کہا گیا ہے اور اس روایت کو یہ ابو ذر رضی الله عنہ سے بیان کرتا ہے
میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے
قال أبو حاتم: فأظنه لم يطلب العلم.
وهو كذاب.
قال عبد الرحمن بن أبي حاتم: فذكرت بعض هذا لعلي بن الحسين بن الجنيد، فقال: صدق أبو حاتم، ينبغي ألا يحدث عنه.
وقال ابن الجوزي: قال أبو زرعة: كذاب.

کتاب العظمة از ابی شیخ اور بیہقی نے اس کی ایک اور سند دی ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْفَضْلِ السَّامِرِيُّ بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ الْعَبْدِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ السَّعْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، ثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. قَالَ فِيهِ: قُلْتُ: فَأَيُّ آيَةٍ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ: «آيَةُ الْكُرْسِيِّ» ثُمَّ قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ «يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا السَّمَاوَاتُ [ص:300] السَّبْعُ فِي الْكُرْسِيِّ إِلَّا كَحَلْقَةٍ مُلْقَاةٍ فِي أَرْضِ فَلَاةٍ، وَفَضَلُ الْعَرْشِ عَلَى الْكُرْسِيِّ كَفَضْلِ الْفَلَاةِ عَلَى تِلْكَ الْحَلْقَةِ» . تَفَرَّدَ بِهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ السَّعْدِيُّ وَلَهُ شَاهِدٌ بِإِسْنَادٍ أَصَحَّ

اس سند میں يحيى بن سعيد القرشي العبشمى السعدي ہے
میزان از الذہبی کے مطابق
عن ابن جريج، عن عطاء، عن عبيد بن عمير، عن أبي ذر بحديثه الطويل.
قال العقيلي: لا يتابع علية.
وقال ابن حبان: يروي المقلوبات والملزقات.
لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد.
یہ راوی بھی سخت ضعیف ہے

بیہقی نے کہا ہے کہ اس کا ایک شاہد صحیح ہے
وَلَهُ شَاهِدٌ بِإِسْنَادٍ أَصَحَّ
لیکن یہ وہ سند ہے جس میں إِبْرَاهِيمُ بْنُ هِشَامِ بْنِ يَحْيَى بْنِ يَحْيَى الْغَسَّانِيُّ کذاب ہے

نامعلوم بیہقی نے اس کو صحیح کیسے کہہ دیا -اسی طرح البانی نے صححه الألباني في تَخْرِيجِ الطَّحَاوِيَّة اور الصحیحہ ١٠٩ میں اس کو صحیح قرار دے دیا ہے
البانی نے تفسیر طبری کی ایک سند کو کہا ہے کہ اس میں ثقات ہیں
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد في قوله:”وسع كرسيه السموات والأرض” قال ابن زيد: فحدثني أبي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:”ما السموات السبع في الكرسي إلا كدراهم سبعة ألقيت في ترس= قال: وقال أبو ذر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما الكرسي في العرش إلا كحلقة من حديد ألقيت بين ظهري فلاة من الأرض (

البانی صحیحہ میں کہتے ہیں
قلت وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات. لكني أظن أنه منقطع، فإن ابن زيد هو عمر
ابن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر بن الخطاب وهو ثقة من رجال الشيخين يروي
عنه ابن وهب وغيره. وأبوه محمد بن زيد ثقة مثله، روى عن العبادلة الأربعة
جده عبد الله وابن عمرو وابن عباس وابن الزبير وسعيد بن زيد بن عمرو، فإن
هؤلاء ماتوا بعد الخمسين، وأما أبو ذر ففي سنة اثنتين وثلاثين فما أظنه سمع
منه.
میں کہتا ہوں اس کی سند میں ثقات ہیں لیکن میرا گمان ہے یہ منقطع ہے

حیرت یہ ہے کہ ایک طرف تو البانی کو کوئی صحیح سند ملی نہیں ایک جو ثقات سے ملی اس کو انہوں نے خود منقطع قرار دیا اور پھر بھی اس روایت کو صحیحہ میں شامل کیا
یہ کون سا علم حدیث کا اصول ہے کہ منقطع السند روایت کو صحیح سمجھا جائے جبکہ کسی صحیح سند سے یہ متن معلوم تک نہ ہو ؟ یہ البانی صاحب کا حال ہے
راقم کہتا ہے البانی کا قول بے سروپا ہے سند منقطع ہے تو روایت ثابت نہیں ہو سکتی

الغرض مسند روایت موضوع یا ضعیف ہے- سند مقطوع مجاہد پر صحیح ہے

راقم کہتا ہے مجاہد کے تفسیری اقوال ضروری نہیں کہ صحیح ہوں لہذا اس قول سے دلیل نہ لی جائے

[/EXPAND]

[امام دارمی کہتے تھے کہ الله چاہے تو مچھر پر سوار ہو جائے؟]

امام دارمی ( المتوفی 255ھ ) جن کی سنن دارمی بہت مہشور ہے- وہ اپنی کتاب نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي العنيد فيما افترى على الله عز وجل من التوحيد میں یوں فرماتے

ہیںوَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّهُمْ حِينَ حَمَلُوا الْعَرْشَ وَفَوْقَهُ الْجَبَّارُ فِي عِزَّتِهِ، وَبَهَائِهِ ضَعُفُوا عَنْ حَمْلِهِ وَاسْتَكَانُوا، وَجَثَوْا عَلَى رُكَبِهِمْ، حَتَّى لُقِّنُوا “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ”1 فَاسْتَقَلُّوا بِهِ بِقُدْرَةِ اللَّهِ وَإِرَادَتِهِ. لَوْلَا ذَلِكَ مَا اسْتَقَلَّ بِهِ الْعَرْشُ، وَلَا الْحَمَلَةُ، وَلَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ2 وَلَا مَنْ فِيهِنَّ. وَلَوْ قَدْ شَاءَ لَاسْتَقَرَّ عَلَى ظَهْرِ بَعُوضَةٍ فَاسْتَقَلَّتْ بِهِ بِقُدْرَتِهِ وَلُطْفِ رُبُوبِيَّتِهِ، فَكَيْفَ عَلَى عَرْشٍ عَظِيمٍ أَكْبَرَ مِنَ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَالْأَرَضِينَ السَّبْعِ

جواب

دارمی نام کے دو شخص ہیں

الكتاب: نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي العنيد فيما افترى على الله عز وجل من التوحيد
المؤلف: أبو سعيد عثمان بن سعيد بن خالد بن سعيد الدارمي السجستاني (المتوفى: 280هـ)

مسند الدارمي المعروف بـ (سنن الدارمي)
المؤلف: أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن بن الفضل بن بَهرام بن عبد الصمد الدارمي، التميمي السمرقندي (المتوفى: 255هـ)

لہذا سنن والے الگ ہیں

اقتباس کا ترجمہ ہے
ہم تک یہ پہنچا ہے کہ فرشتوں نے عرش کو اٹھایا جب الله تعالی اس پر تھے اپنے جلال کے ساتھ تو وہ اٹھانے میں کمزور پڑ گئے اور فرشتوں نے آرام کیا (رک گئے) اور اپنے گھٹنوں پر مڑ گئے یہاں تک کہ کہا کوئی قوت نہیں سوائے الله کے تو انہوں نے اس عرش کو اٹھایا الله کی قوت سے اور اس کی مرضی سے اور اگر الله کی مرضی نہ ہوتی تو فرشتوں کے لئے یہ ممکن نہ تھا نہ آسمان کے لئے نہ زمین کے لئے ان وہ جو ان دونوں میں ہیں ان کے لئے کہ وہ عرش کو اٹھا پاتے- اور الله اگر چاہے تو وہ مچھر کے اوپر سوار ہو جائے اور وہ الله تعالی کو اٹھا کر جہاں چاہتا جاتا اس کے حکم سے- تو پھر اب عرش عظیم کا کیا کہنا جو سات آسمان سے بھی بڑا ہے

عثمان بن سعید نے وہ کام کیا جس کے وہ اہل نہیں تھے اور جھمیوں کے رد میں کتاب لکھی جس میں آوٹ پٹانگ باتیں کی ہیں جن میں سے یہ بھی ہیں اور جا بجا ضعیف و منکر روایات سے استدلال قائم کیا ہے جن کو پڑھ کر افسوس ہوتا ہے کہ آج اس شخص کو سلفیوں نے اس مکتب کا امام بنا دیا ہے جبکہ اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اس مسئلہ میں کلام کر سکے

[/EXPAND]

[رب تعالی کی تین مٹھیوں میں ستر ہزار امتی والی روایت کیسی ہے ؟]

جواب
اغلبا اپ کی مراد ابن ماجہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «وَعَدَنِي رَبِّي سُبْحَانَهُ أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا، لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ، وَلَا عَذَابَ، مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا، وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ»

ابو امامہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میرے رب پاک نے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار جنت میں داخل کرے گا نہ حساب ہو گا نہ عذاب ، میرے رب کی تین مٹھیاں

اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں

اس کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ ہے جو ثقہ ہیں لیکن اس روایت کو هشام بن عَمَّار المقري نے بیان کیا ہے جو اختلاط کا شکار ہوئے یہاں تک کہ ابو داود کہتے ہیں ٤٠٠ احادیث بیان کیں جن کا اصل نہیں ہے
قال أبو داود وحدث بأرجح من أربعمائة حديث لا أصل لها

لہذا اس سند کو صحیح نہیں کہا جا سکتا

 هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ المتوفی ٢٤٥ ھ  امام بخاری کے شیخ ہیں اور بخاری نے صحیح میں ان سے دومقام پر روایت لی ہے اور دو مقام پر تحدیث کے الفاظ نقل نہیں کیے صرف کہا ہے قال ہشام اور پھر روایت بیان کی

ترمذی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الأَلْهَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِهِ”: “هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

یہ طرق امام ترمذی کے مطابق حسن ہے اور حسن روایت پر عقیدہ نہیں رکھا جا سکتا

الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ بغداد کے ہیں اور ابن ابی شیبہ کوفہ عراق کے ہیں

محدثین کے نزدیک إسماعيل بن عياش اہل شام سے روایت بیان کریں تو لی جائے گی کیونکہ یہ بھی اختلاط کا شکار ہوئے

کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط از ابن العجمي کے مطابق

إسماعيل بن عياش لما  كبر تغير حفظه وكثر الخطأ في حديثه
إسماعيل بن عياش جب بوڑھے ہوئے تو ان کے حافظہ میں تغیر آیا اور اپنی حدیث میں کثرت سے غلطیاں کیں

کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط کے محقق علاء الدين علي رضا، کہتے ہیں
ولكن حديثه عن غير الشاميين من العراقيين والحجازيين فقد وقع له اختلاط فيها
ان کی احادیث جو غیر شامیوں سے ہیں عراقییوں سے اور حجازیوں سے ان میں اختلاط ہے

لہذا یہ سند قابل قبول نہیں ہے

واضح رہے کہ ابن ماجہ کی سند میں إسماعيل بن عياش  نے ہشام سے روایت کیا ہے جو شام کے ہیں  لہذا بعض محققین کو اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس طرح اس سند کو صحیح سمجھا ہے جبکہ یہ سند صحیح نہیں کیونکہ یہاں دونوں  إسماعيل بن عياش  اور ہشام بن عمار مختلط ہیں

اس کے علاوہ جن دیگر طرق سے یہ متن اتا ہے وہ مضبوط اسناد نہیں ہیں

مسند احمد کی حدیث ہے جس کا ترجمہ یہ ہے
حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ الْخَبَائِرِيِّ، وَأَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ وَعَدَنِي أَنْ يُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِي الْجَنَّةَ سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ» . فَقَالَ يَزِيدُ بْنُ الْأَخْنَسِ السُّلَمِيُّ وَاللَّهِ مَا أُولَئِكَ فِي أُمَّتِكَ إِلَّا كَالذُّبَابِ الْأَصْهَبِ فِي الذِّبَّانِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِنَّ رَبِّي قَدْ وَعَدَنِي سَبْعِينَ أَلْفًا مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَزَادَنِي ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ» . قَالَ: فَمَا سِعَةُ حَوْضِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ: «كَمَا بَيْنَ عَدَنَ إِلَى عُمَانَ وَأَوْسَعَ وَأَوْسَعَ» . يُشِيرُ بِيَدِهِ. قَالَ: «فِيهِ مَثْعَبَانِ مِنْ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ» . قَالَ: فَمَا حَوْضُكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَاءٌ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مَذَاقَةً مِنَ الْعَسَلِ وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا، وَلَمْ يَسْوَدَّ وَجْهُهُ أَبَدًا»
مسند حدیث نمبر (22156 )
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت کے ستر ہزار آدمیوں کو بلاحساب کتاب جنت میں داخل فرمائے گا، یزید بن اخنس (رض) یہ سن کر کہنے لگے واللہ! یہ تو آپ کی امت میں سے صرف اتنے ہی لوگ ہوں گے جیسے مکھیوں میں سرخ مکھی ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے رب نے مجھ سے ستر ہزار کا وعدہ اس طرح کیا ہے کہ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور اس پر میرے لئے تین لپوں کا مزید اضافہ ہوگا،
یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! آپ کے حوض کی وسعت کتنی ہوگی ؟
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جتنی عدن اور عمان کے درمیان ہے اس سے بھی دوگنی جس میں سونے چاندی کے دو پرنالوں سے پانی گرتا ہوگا، انہوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! آپ کے حوض کا پانی کیسا ہوگا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ شیرین اور مشک سے زیادہ مہکتا ہوا جو شخص ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور اس کے چہرے کا رنگ کبھی سیاہ نہ ہوگا

مسند احمد جو جناب احمد شاکر کی تحقیق کے ساتھ ہے اس میں اس روایت کے تحت عبد الله بن امام احمد نے لکھا ہے

وبهذا الإسناد، قال عبد الله: وجدت هذا الحديث في كتاب أبي بخطه وقد ضرب عليه، فظننت أنه قد ضرب عليه لأنه خطأ، إنما هو عن زيد عن أبي سلام عن أبي أمامة.
اور ان اسناد پر عبد الله بن احمد نے کہا میں نے یہ حدیث اپنے باپ کی تحریر میں پائی اور انہوں نے اس کو رد کیا ہوا تھا پس گمان ہے کہ انہوں نے اس میں غلطی دیکھی یہ تو زيد عن أبي سلام عن أبي أمامة کی سند سے ہے

شعيب الأرنؤوط اس بات کو سمجھ نہ سکے اور مسند احمد میں اس قول کو اگلی حدیث کے ساتھ لکھ دیا جبکہ مسند احمد میں عبد الله کا یہ انداز رہا ہے کہ روایت کرنے کے بعد متن کے نیچے تبصرہ کرتے ہیں نہ کہ روایت بیان کرنے سے پہلے اس کی مثال موجود ہے

عصر حاضر کے بعض محدثین نے اس کو صحیح سمجھ لیا ہے جبکہ یہ صحیح روایت نہیں ہے – كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) میں موجود ہے جس پر البانی کہتے ہیں

ثنا دُحَيْمٌ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ثنا صَفْوَانُ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ يزيد بْنَ الأَخْنَسِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا سَعَةُ حَوْضِكَ؟ قَالَ: “كَمَا بَيْنَ عَدَنٍ إِلَى عُمَانَ وَأَوْسَعُ وَأَوْسَعُ يُشِيرُ بِيَدِهِ فِيهِ مِثْعَبَانِ مِنْ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ” قَالَ فَمَا حَوْضُكَ؟ قَالَ: “أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهُ أَبَدًا وَلَمْ يَسْوَدَّ وَجْهُهُ أَبَدًا”.
،
یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! آپ کے حوض کی وسعت کتنی ہوگی ؟
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جتنی عدن اور عمان کے درمیان ہے اس سے بھی دوگنی جس میں سونے چاندی کے دو پرنالوں سے پانی گرتا ہوگا، انہوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! آپ کے حوض کا پانی کیسا ہوگا ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ شیرین اور مشک سے زیادہ مہکتا ہوا جو شخص ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور اس کے چہرے کا رنگ کبھی سیاہ نہ ہوگا

729-
إسناده مضطرب رجاله ثقات غير أبي اليمان الهوزني واسمه عامر بن عبد الله بن لحي الحمصي لم يوثقه غير ابن حبان وقال ابن القطان: لا يعرف له حال وأشار إلى ذلك الذهبي بقوله: ما علمت له راويا سوى صفوان بن عمرو.
والحديث أخرجه ابن حبان من طريق محمد بن حرب حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنِ سليم بن عامر وأبي اليمان عن أبي اليمان الهوزني به.
كذا الأصل: وأبي اليمان عن أبي اليمان!
وأخرجه أحمد 5/250-251.
ثنا عصام بن خالد حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سليم بن عامر الجنائري وأبي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وقال عبد الله بن أحمد عقبه:
وجدت هذا الحديث في كتاب أبي بخط يده وقد ضرب عليه فظننت أنه قد ضرب عليه لأنه خطأ إنما هو عن زيد عَنْ أَبِي سَلامٍ عَنْ أَبِي أمامة
وأقول: وأنا أظن أن الإمام أحمد إنما ضرب عليه لهذا الاضطراب الذي بينته وادعاء أن إسناده خطأ مما لا وجه له إذا علمنا أن رجاله ثقات ومجيئه من رواية أَبِي سَلامٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ لا ينافي أن يكون له إسناد آخر له كما هو الشأن في كثير من الأحاديث منها حديث الحوض هذا فإنه قد تقدم من حديث أنس وثوبان من طرق عنها فلا مانع أن يكون لحديث أبي أمامة أيضا طريقان أو أكثر على أني لم أقف الآن على رواية أبي سلام عنه

اس کی اسناد مضطرب ہیں البتہ رجال ثقہ ہیں سوائے ابی الیمان کے جس کا نام عامر بن عبد الله ہے اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے اور ابن القطان نے کہا ہے اس کے حال کا اتا پتا نہیں اور اس کی طرف الذھبی نے اشارہ کیا ہے کہا ہے میں نے جانتا کہ اس سے سوائے صفوان بن عمرو کے کسی نے روایت کیا ہو اور اس حدیث کی تخریج ابن حبان نے بھی کی ہے محمد بن حرب حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنِ سليم بن عامر وأبي اليمان عن أبي اليمان الهوزني کی سند سے اور اصل میں کہا ہے وأبي اليمان عن أبي اليمان اور جب احمد نے تخریج کی تو کہا
ثنا عصام بن خالد حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سليم بن عامر الجنائري وأبي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ
اور عبد الله بن احمد نے اس کے عقب میں کہا ہے کہ میں نے یہ حدیث اپنے باپ کی تحریر میں پائی انہوں نے اس کو رد کیا پس گمان ہے کہ اس میں خطا ہے یہ روایت عن زيد عَنْ أَبِي سَلامٍ عَنْ أَبِي أمامة کی سند سے ہے
میں البانی کہتا ہوں اور میں گمان کرتا ہوں کہ امام احمد نے اس روایت کو اضطراب کی بنا پر رد کیا جس کی وضاحت کی اور اسناد میں غلطی ہے جس کا اور کوئی وجہ نہیں جو ہمارے علم میں ہو کہ اس کے رجال ثقہ ہیں اور یہ روایت ابوسلام عن ابو امامہ کی سند سے ہے یہ منافی نہیں ہے کہ اس کی کوئی اور سند نہ ہو جیسا کہ بہت سی احادیث میں ہے جن میں حدیث حوض بھی ہے پس یہ حوض والی حدیث انس اور ثوبان کے طرق سے ہے پس اس میں کچھ مانع نہیں ہے کہ ابو امامہ کی حدیث کے بھی دو طرق ہوں یا اس سے زیادہ -اس وقت مجھ کو نہیں پتا کہ ابو سلام والی سند کون سی ہے

راقم کہتا ہے

اس روایت کی سند میں اضطراب ہے کتاب كتاب السنة از ابو بکر بن ابی عاصم کے مطابق سند ہے
ثنا دُحَيْمٌ ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ثنا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ
عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
“إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى وَعَدَنِي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ”.

یہاں صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ ہے یعنی صفوان نے اس کو سلیم سے سنا انہوں نے ابو الیمان سے

یہی سند ابن حبان میں ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “إِنَّ اللَّهَ وعدني أَنْ يُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِي الْجَنَّةَ سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ”، فَقَالَ يَزِيدُ بْنُ الْأَخْنَسِ السُّلَمِيُّ: وَاللَّهِ مَا أُولَئِكَ فِي أُمَّتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا كَالذُّبَابِ الْأَصْهَبِ فِي الذِّبَّان, فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ رَبِّي قَدْ وَعَدَنِي سَبْعِينَ أَلْفًا مَعَ كل ألف سبعين ألفا وزادني حثيات”

ابن حبان میں ایک دوسری سند بھی ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سلم حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْب حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامر وَأبي الْيَمَان عَن أبي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِي عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ أَنَّ يزِيد بن الْأَخْنَس قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا سَعَةُ حَوْضِكَ قَالَ: “مَا بَيْنَ عَدْنٍ إِِلَى عَمَّانَ وَأَنَّ فِيهِ مَثْعَبَيْنِ من ذهب وَفِضة” قَالَ فَمَا مَاء حَوْضُكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ: “أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مَذَاقَةً مِنَ الْعَسَلِ وَأَطْيَبُ رَائِحَة من الْمسك من شرب مِنْهُ لَا يظمأ أبدا وَلم يسود وَجهه أبدا”.

یہاں صفوان نے سلیم سے روایت کیا انہوں نے ابی الیمان سے اور انہوں نے ابی الیمان الھوزنی سے

یہ تو اسناد کا اضطراب ہوا جس کی بنا پر اغلبا امام احمد اس کو رد کرتے تھے

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ابو الیمان الھوزنی مجھول الحال ہے

أبو الحسن بن القطان: “لا يعرف له حال
ابن أبي حاتم في “الجرح والتعديل” 6/ 326 وما رأيت فيه جرحاً،

یعنی اس راوی پر کوئی جرح نہیں کرتا

اس بنا پر ابن حبان اور عجلی بہت سوں کو ثقہ قرار دے دیتے ہیں جس پر ان دونوں کی توثیق مانی نہیں جاتی

البانی اور شعيب الأرنؤوط نے ابو سلام والی سند کی تحقیق نہیں کی جس کی طرف عبدالله بن احمد نے اشارہ کیا تھا – راقم کو یہ متن زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ کی سند سے مسند الشاميين میں ملا ہے أَبِي سَلَّامٍ کی سند سے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خُلَيْدٍ، ثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، ثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ، أَنَّ قَيْسًا الْكِنْدِيَّ، حَدَّثَ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيَّ [الْأَنْمَارِيَّ] ، حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ رَبِّي وَعَدَنِي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ، يَشْفَعُ كُلُّ أَلْفٍ لِسَبْعِينَ أَلْفًا، ثُمَّ يَحْثِي رَبِّي ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ بِكَفَّيْهِ» قَالَ قَيْسٌ: فَقُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ بِأُذُنَايَ [بِأُذُنِيَّ] وَوَعَاهُ قَلْبِي قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَلِكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْتَوْعِبَ مُهَاجِرِي أُمَّتِي وَيُوفِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَعْرَابِنَا»

اس روایت کی سند پر البانی نے کتاب السنہ میں بحث کی ہے اور حکم لگایا ہے
هذا الاختلاف يتوقف في الجزم بصحة هذا السند.
یہ سندوں کا اختلاف روکتا ہے کہ جزم کے ساتھ اس سند کی تصحیح کی جائے

الغرض مسند احمد کی سند میں اضطراب ہے اور راوی مجھول الحال ہے لہذا اس کو صحیح نہیں کہا جا سکتا

[/EXPAND]

[وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا پر کیا اقوال ہیں؟]

جواب

قرآن کی سوره الفجر کی آیات ہے

وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا
اور تمہارا رب آئے گا اور اس کے فرشتے صف در صف

روایت میں کہا گیا اس کا ثواب آئے گا یعنی لوگوں کو ان کا ثواب ملے گا

یعنی الله تعالی آئے گا سے بعض لوگوں نے اس طرح مراد لیا ہے کہ گویا وہ مخلوق کی طرح ہو گا اور آنا اور جانا تو مخلوق کا عمل ہے
یہ المشبہ ہیں
ابن کثیر نے امام احمد کا قول نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ المشبہ نہیں تھے

اہل سنت میں اسی وجہ سے یہ تفسیر مشھور ہوئی ورنہ اس میں گروہوں کا جھگڑا ہے

تفسیر میں ابن کثیر نے کہا
وَجاءَ رَبُّكَ يَعْنِي لِفَصْلِ الْقَضَاءِ بَيْنَ خَلْقِهِ
اور رب آئے گا کہ مخلوق میں فیصلہ کرے

اس کے برعکس ابن قیم وغیرہ کے نزدیک یہ صِفَاتِ أَفْعَالِهِ ہیں
کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں کہتے ہیں

فَأَصْبَحَ رَبُّكَ يَطُوفُ فِي الْأَرْضِ ” هُوَ مِنْ صِفَاتِ فِعْلِهِ كَقَوْلِهِ {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ} [الفجر: 22] پس رب زمین کا طواف کرے گا جو اس کی فعلی صفت ہے اس قول کے مطابق اور تمہارا رب آئے گا اور اس کے فرشتے

لیکن کتاب اجتماع الجيوش الإسلامية میں ابن قیم کہتے ہیں
وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا} [الفجر: 22] وَلَيْسَ مَجِيئُهُ حَرَكَةً وَلَا زَوَالًا وَلَا انْتِقَالًا لِأَنَّ ذَلِكَ إِنَّمَا يَكُونُ إِذَا كَانَ الْجَائِيُ جِسْمًا أَوْ جَوْهَرًا فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّهُ لَيْسَ بِجِسْمٍ وَلَا جَوْهَرٍ وَلَا عَرَضٍ لَمْ يَجِبْ أَنْ يَكُونَ مَجِيئُهُ حَرَكَةً وَلَا نَقْلَةً،
اس کا آنا حرکت یا زوال یا انتقال نہیں … ہم یہ واجب نہیں کریں گے کہ یہ آنا حرکت یا انتقال ہے

کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں ابن قیم کہتے ہیں

كَقَوْلِهِ: {وَجَاءَ رَبُّكَ} [الفجر: 22] أَيْ أَمْرُهُ
الله آئے گا یعنی اس کا حکم

ابن قیم کبھی خالص المشبہ بن جاتے ہیں کبھی اہل تعطیل – قلابازی شاید سامنے والے کو دیکھ کر کھاتے ہیں

————————————————–
البتہ وہابی علماء (المشبہ) اس سے الگ کہتے ہیں مثلا تفسیر جز عم میں کہتے ہیں

تفسير جزء عم
المؤلف: محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)

{وجاء ربك} هذا المجيء هو مجيئه ـ عز وجل ـ لأن الفعل أسند إلى الله، وكل فعل يسند إلى الله فهو قائم به لا بغيره، هذه القاعدة في اللغة العربية، والقاعدة في أسماء الله وصفاته كل ما أسنده الله إلى نفسه فهو له نفسه لا لغيره، وعلى هذا فالذي يأتي هو الله عز وجل، وليس كما حرفه أهل التعطيل حيث قالوا إنه جاء أمر الله، فإن هذا إخراج للكلام عن ظاهره بلا دليل
أور رب آئے گا – یہ آنا ہے اور وہ انے والا ہے عزوجل کیونکہ فعل کو الله کیطرف کیا گیا ہے اور ہر وہ فعل جو الله کی طرف ہو تو وہ الله اس پر قائم ہے کوئی اور نہیں اور یہ عربی لغت کا قاعدہ ہے اور اسماء و صفات کا قاعدہ ہے کہ ہر وہ چیز جو الله کی طرف سند کی جائے اس کی طرف سے تو وہ اسی کے لئے ہے کسی اور کے لئے نہیں ہے اور اس پر جو آئے گا وہ الله ہے اور ایسا نہیں ہے جیسا اہل تعطیل نے تحریف کی ہے کہ کہتے ہیں وہ آئے گا یعنی اس کا حکم کیونکہ یہ کلام سے خارج ہے ظاہری طور پر کوئی دلیل نہیں ہے
———-
یہ آیات راقم کے نزدیک متشابھات میں سے ہیں

[/EXPAND]

[کون سا معنی درست ہے استواء بمعنی ارتفاع یا استواء بمعنی استقرار؟]

جواب

استقرار مطلب رکنا

اور ارتفاع مطلب اونچا ہونا

صعد مطلب چڑھنا

یہ سب باتیں الله تعالی کے حوالے سے کہنا متشابھات پر بحث کرنا ہے

اس لفظ پر بحث کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کا کیا فائدہ ہے؟

قَالَ وَتَقُولُ الْعَرَبُ اسْتَوَيْتُ فَوْقَ الدَّابَّةِ وَاسْتَوَيْتُ فَوْقَ الْبَيْتِ وَقَالَ غَيْرُهُ اسْتَوَى أَيِ انْتَهَى شَبَابُهُ وَاسْتَقَرَّ فَلَمْ يَكُنْ فِي شَبَابِهِ مَزِيدٌ –
ابو عبیدہ نے کہا اور عرب کہتے ہیں جانور پر سوار ہوا یا گھر کے اوپر اور دیگر نے کہا استوی یعنی اس کی جوانی انتھی پر آئی اور رکا یعنی اب جوانی میں مزید نہ ہو گا

یہ ان الفاظ کا مطلب ہے کہ الله تعالی عرش پر سوار ہوا اس پر چڑھا اور رکا نعوذ باللہ

ان کلمات کو علماء اردو میں سلیس ترجمہ نہیں کرتے مشکل مشکل بنا کر عربی لکھتے رہتے ہیں ورنہ رب العالمین کے لئے اس قسم کی باتیں کرنا کیا مناسب ہے؟

رک جاؤ ظالموں اپنی زبانوں کو لگام دو الله تو عرش پر مستوی ہے جب تک اس کو محشر میں دیکھو نہیں سمجھ نہ سکو گے کہ استوی کا مطلب کیا ہے

[/EXPAND]

[وجاء ربك کی تفسیر میں امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ]

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آسمان دنیا پر نزول کے بارے میں کہ اس سے مراد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا “امر “ہے.
(تمہید جلد:7، صفحہ:143)
اس قول کی سند کیا صحیح ہے یا نہیں؟ اگر صحیح ہے تو کیا صفات میں تاویل جائز ہے؟

جواب

وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَبَلِيُّ وَكَانَ مِنْ ثِقَاتِ الْمُسْلِمِينَ بِالْقَيْرَوَانِ قَالَ حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ سَوَادَةَ بِمِصْرَ قَالَ حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْحَدِيثِ إِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِي اللَّيْلِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَقَالَ مَالِكٌ يَتَنَزَّلُ أَمْرُهُ وَقَدْ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ كَمَا قَالَ مَالِكٌ رَحِمَهُ اللَّهُ

اس میں جامع بن سوادة پر محدثین جرح کرتے ہیں

ابن عبد البر نے البتہ اس قول کو قبول کیا ہے

[/EXPAND]

[تجسیمی تفسیر اسلام میں کہاں سے آئی؟]

جواب

بائبل کتاب خروج کے مطابق

And he gave unto Moses, when he had made an end of communing with him upon mount Sinai, two tables of testimony, tables of stone, written with the finger of God.
اللہ نے موسی کو کوہ سینا پر دو پتھر کی الواح شہادت دیں جس پر آیات اس نے رب نے اپنی انگلی سے لکھیں

یہی بات کتاب استثنا کے باب ٩ میں ہے

———

اس قول کو اسلام میں مقاتل بن سلیمان نے اپنی تفسیر میں لکھا

مقاتل کی تفسیر تجسیم کی طرف جاتی ہے مثلا الله تعالی نے بتایا کہ اس نے توریت کو موسی علیہ السلام کے لئے لکھا مقاتل اپنی تفسیر میں سوره الاعراف میں کہتا ہے
وكتبه اللَّه- عَزَّ وَجَلّ- بيده فكتب فيها: إني أَنَا اللَّه الَّذِي لا إله إِلَّا أَنَا الرحمن الرحيم
اللَّه- عَزَّ وَجَلّ نے اپنے ہاتھ سے اس میں لکھا میں بے شک الله ہوں کوئی اله نہیں سوائے میرے الرحمان الرحیم

جبکہ قرآن میں صریحا نہیں بتایا گیا کہ یہ تحریر الله نے کس طرح لکھی
سوره الأعراف
وكتبنا له في الالواح من كل شيء موعظة
اور ہم نے ہر نصحت کی چیز الواح میں لکھی

———–

لہذا یہ قول بلخ کے مقاتل کا تھا کہ الله نے ہاتھ سے لکھا اس کو یہود بھی بیان کرتے تھے – مسلمانوں میں جب بعض یہ مان گئے کہ الله اور آدم کی صورت پر ہے تو پھر انسانی جسم کو الله کے جسم سے ملانے کی راہ کھل گئی – احادیث میں ہاتھ ، انگلی ، بال ، پنڈلی یہ سب روایات مل گئیں اور الله ایک انسانی جسم کی صورت بنتا چلا گیا اور بس یہ کہا گیا وہ الگ ہے انسان الگ ہے لیکن یہ بات لفظوں کا کھیل ہے – جب انسانی آعضا کی چیزیں الله کے لیے بولیں گے تو پھر بات یہی ہو جاتی ہے کہ وہ انسانی جسم جیسا ہی ہے پس بڑا ہے

اس حدیث میں یہودی کا قول ہے کہ الله تمام زمین کو اٹھا لے گا اور قرآن میں ہے سات آسمان کو اپنے سیدھے ہاتھ پر لپیٹ دے گا
ہم اس کو متشابھات کہیں گے اس پر ایمان لائیں گے کیفیت کی اور معنوں کی بحث نہیں کریں گے

[/EXPAND]

[ہمارا رب جہنم پر اپنا قدم رکھے گا یہاں تک وہ کہے گی بس بس]

جواب

ہمارا رب جہنم پر اپنا قدم رکھے گا یہاں تک وہ کہے گی بس بس

يَضَعَ قَدَمَهُ فِيهَا
یا
حَتَّى يَضَعَ رِجْلَهُ فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ
حَتَّى يَأْتِيَهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَيَضَعَ قَدَمَهُ عَلَيْهَا فَتُزْوَى، فَتَقُولُ: قَدِي قَدِي
حَتَّى يَأْتِيَهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَيَضَعُ قَدَمَهُ عَلَيْهَا فَتُزْوَى، فَتَقُولُ: قَدْنِي قَدْنِي،

والی روایت ابو ہریرہ اور أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ (حم) 11099 اور انس رضی الله عنہما سے مروی ہے کئی سندوں سے ہے – یہ سندا صحیح ہے- اگر یہ قول نبی ہے تو اس کی تاویل الله کو معلوم ہے

صحیح بخاری میں ہے
و قَالَ لِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ وَعَنْ مُعْتَمِرٍ سَمِعْتُ أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَزَالُ يُلْقَی فِيهَا وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ حَتَّی يَضَعَ فِيهَا رَبُّ الْعَالَمِينَ قَدَمَهُ فَيَنْزَوِي بَعْضُهَا إِلَی بَعْضٍ ثُمَّ تَقُولُ قَدْ قَدْ بِعِزَّتِکَ وَکَرَمِکَ وَلَا تَزَالُ الْجَنَّةُ تَفْضُلُ حَتَّی يُنْشِئَ اللَّهُ لَهَا خَلْقًا فَيُسْکِنَهُمْ فَضْلَ الْجَنَّةِ

خلیفہ، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، حضرت انس (تیسری سند) معتمر، معتمر کے والد (سلیمان) قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ لوگ جہنم میں ڈالے جا رہے ہوں گے، اور جہنم کہتی جائے گی کہ اور کچھ باقی ہے؟ یہاں تک کہ رب العالمین اس میں اپنا پاؤں رکھ دیں گے تو اس کے بعض بعض سے مل کر سمٹ جائیں، پھر وہ کہے گی کہ بس بس، تیری عزت اور تیری بزرگی کی قسم، اور جنت میں جگہ باقی بچ جائے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوسری مخلوق پیدا کرے گا اور ان کو جنت کی بچی ہوئی جگہ میں ٹھہرائے گا۔
======================================
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِي التَّفْسِيْرِ (239/ 2)، وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ فِي السُّنَّةِ (485)، وَصَحَّحَهُ الأَلْبَانِيُّ فِي الظِّلَالِ (485). وَأَيْضًا صَحَّحَهُ الحَافِظُ ابْنُ رَجَبٍ الحَنْبَلِيُّ فِي كِتَابِهِ (فَتْحُ البَارِي) (232/ 7).
تفسیر عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ 2960 – عَنْ مَعْمَرٍ , عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: حَدَّثَهُ رَجُلٌ , حَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ , هذا فَقَامَ رَجُلٌ فَانْتَفَضَ , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «مَا فَرَّقَ بَيْنَ هَؤُلَاءِ يُجِيدُونَ عِنْدَ مُحْكَمِهِ , وَيَهْلِكُونَ عِنْدَ مُتَشَابِهِهِ»
طاؤس نے ابن عباس سے روایت کیا کہ ایک شخص نے حدیث ابو ہریرہ پر سوال کیا تو ایک اور شخص کھڑا ہوا ابن عباس نے کہا یہ تفرقہ میں کیوں پڑ گئے ان کو محکمات مل گئی ہیں اور یہ متشابھات سے ہلاک ہوئے

تفسیر ابن رجب میں ہے
فروى عبدُ الرزاقِ في “كتابِهِ ” عن معمر، عن ابنِ طاووسَ، عن أبيه.
قال: سمعتُ رجلاً يحدِّثُ ابنَ عباسٍ بحديثِ أبي هريرة: “تحاجَّتِ الجنةُ
والنارُ”، وفيه: “فلا تمتلئُ حتَى يضع رِجْله ” – أو قال: “قدمَهَ فيها”
قال: فقامَ رجلٌ فانتفضَ، فقال ابنُ عباسٍ: ما فرقُ هؤلاءِ، يجدونَ رقةً عند محكمِهِ، ويهلكُون عند متشابهه.
وخرَّجه إسحاقُ بنُ راهويه في “مسندِهِ ” عن عبدِ الرزاق.
طاؤس نے کہا میں نے ایک رجل کو ابن عباس سے سوال کرتے سنا کہ ابو ہریرہ کی حدیث کہ جنت و جہنم کا جھگڑا ہوا اور اس میں ہے یہ نہ بھرے گی یہاں تک کہ الله اس پر قدم رکھے تو ایک اور شخص کھڑا ہوا – ابن عباس نے کہا یہ کیونکہ اختلاف کرنے لگے ان کو محکمات لکھی ہو ملی ہیں اور یہ متشابھات پر لڑ رہے ہیں

راقم کو اس متن سے یہ روایت مسند اسحٰق میں نہیں ملی اور تفسیر عبد الرزاق میں واضح نہیں کون سی روایت تھی
البانی کی رائے میں یہ روایت آدم کو اللہ کی صورت خلق کرنے والی تھی جس پر ابن عباس نے جرح کی کیونکہ یہی وہ روایت ہے جو صرف ابو ہریرہ نے روایت کی ہے جبکہ قدم والی انس اور أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ سے بھی مروی ہے
بہر حال دونوں امکان موجود ہیں ان میں سے کوئی سی ایک ہو سکتی ہے

امام مالک اس قسم کی روایات کے خلاف تھے پنڈلی والی رویات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے

راقم کہتا ہے روایت متشابھات کے قبیل کی ہے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کوئی صفت کا عقیدہ اس پر نہ لیا جائے کہ ہم اپنے رب کو اعضا والا کہنے لگیں
—–

البرهان في تبرئة أبو هريرة من البهتان از عبد الله بن عبد العزيز بن علي الناص کے مطابق شیعوں نے بھی اس روایت کو تفسیر میں بیان کیا ہے
فإن هذا الحديث احتج به مشايخ الشيعة عند تفسيرهم لقوله تعالى: { يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ} [ق /30 ] من دون إنكار أو تكذيب لراوي هذا الحديث سواء كان راويه أبو هريرة
اس حدیث سے شیعہ کے مشایخ نے اپنی تفسیروں میں دلیل لی ہے کہ آیت کے تحت اس کو بیان کیا ہے بغیر انکار کیے اور راوی کی تکذیب کیے اس حدیث میں

راقم کہتا ہے اس کا بعض حصہ تفسیر قمی میں ہے
وقوله (يوم نقول لجهنم هل امتلات وتقول هل من مزيد) قال هو استفهام لان الله وعد النار أن يملاها فتمتلي النار فيقول لها هل امتلات؟ وتقول هل من مزيد؟ على حد الاستفهام أي ليس في مزيد، قال فتقول الجنة يا رب وعدت النار ان تملاها ووعدتني ان تملاني فلم لم تملاني وقد ملات النار، قال فيخلق الله خلقا يومئذ يملا بهم الجنة
جنت کہے گی اے رب میں بھری نہیں اور جہنم بھر گئی ہے تو الله ایک مخلوق بنا کر جنت کو بھرے گا
اس قسم کی کوئی روایت اہل تشیع کے مصادر میں نہیں ہے لیکن انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایت کے ایک حصہ سے دلیل لی ہے

——–
روایت میں ہے
فأما النار فلا تمتلئ حتى يضع رجله قط قط
جہنم نہ بھر پائے گی حتی کہ ہمارا رب اس پر قدم رکھے گا تو یہ کہے گی بس بس

قرآن میں ہے
قال فالحقّ والحق أقول لأملأن جهنم منك وممن تبعك منهم أجمعين
الله نے کہا : پس حق ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں میں جہنم کو تجھ سے اور جو تیری اتباع کریں گے ان سے بھر دوں گا

الله ہم کو اس جہنم سے بچا لے آمین یا رب العالمین

[/EXPAND]

[کیا الدھر الله کا نام ہے ؟]

Sahih Bukhari Hadees # 4826

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “”قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ””.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں۔
اس حدیث کی روشنی میں ہمیں کیا بولنا چاہیے زمانے کی جگہ؟؟

جواب

مختصرا روایت متشابھات میں سے ہے اس کا مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہوا اس کی سند صحیح سمجھی گئی ہے لیکن صرف ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کوئی اور صحابی اس مفہوم کی روایت بیان نہیں کرتا

تفصیل ہے

عرب کہتے تھے کہ ہم کو زمانہ ہلاک کرتا ہے وہ سمجھتے تھے کہ الله روح قبض نہیں کرتا وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ روح پرندہ بن جاتی ہے
یعنی معاد کا انکار کرتے تھے
جب کوئی مرتا تو کہتے زمانے نے مارا
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَى وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ
ہندو مت میں زمانہ کو کال کہا جاتا ہے مایا کہا جاتا ہے مقصد یہی ہوتا ہے کہ زمانہ الله تعالی سے الگ نہیں الله ہی ہے ہم کو جو نظر آ رہا ہے وہ حقیقت نہیں اصل میں الله ہے
ہندو نظریہ وحدت الوجود ہے لیکن مفسرین کے مطابق عرب کے اہل جاہلیت الله کو رب کہتے تھے وہ وحدت الوجودی نہیں تھے لیکن دوبارہ زندگی کے قائل نہیں تھے اس بنا پر ایسا کہتے تھے
صحیح ابن حبان میں ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: «كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ: إِنَّمَا يُهْلِكُنَا اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ، هُوَ الَّذِي يُهْلِكُنَا، وَيُمِيتُنَا، وَيُحْيِينَا، قَالَ اللَّهُ: {مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا} الْآيَةَ» [الجاثية: 24] سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ نے کہا اہل جاہلیت کہتے ہم کو دن و رات مار رہے ہیں یہی ہم کو مارتے اور موت دیتے اور زندہ کرتے ہیں اور الله نے کہا یہ کہتے ہیں زندگی صرف دنیا کی ہی ہے
ابن تیمیہ نے لکھا
وَكَثِيرًا مَا جَرَى مِنْ كَلَامِ الشُّعَرَاءِ وَأَمْثَالِهِمْ نَحْوُ هَذَا كَقَوْلِهِمْ : يَا دَهْرُ فَعَلْت كَذَا
عرب اکثر شاعری میں کہتے
اے دھر تو نے ایسا کیا

اس تناظر میں اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے تو اسلام میں یہ صحیح نہیں لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ الله ہی مارتا اور زندہ کرتا ہے پھر صحیح ہے
مسلم شخص زمانے کے برے حالات کو اصل میں برا کہہ رہا ہوتا ہے
مصیبت پر کہتا ہے
انا للہ و انا الیہ راجعون

روایت میں الفاظ ہیں وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ
الله تعالی نے کہا میں زمانہ ہوں سب میرے ہاتھ میں ہے دن و رات کو پلٹ رہا ہوں

یہ روایت سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ اور أَبِي سَلَمَةَ کی سند سے اتی ہے

بیہقی الآداب للبيهقي میں کہتے ہیں
يَعْنِي وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ هُوَ الَّذِي يَفْعَلُ بِهِ مَا يَنْزِلُ بِهِ مِنَ الْمَصَائِبِ، فَالْأَمْرُ بِيَدِهِ، يُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ كَيْفَ شَاءَ، وَإِذَا سَبَّ فَاعِلَهَا كَانَ قَدْ سَبَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى
یعنی و الله اعلم الله تعالی ہی ہے جو مصائب کو نازل کرتا ہے پس اپنے ہاتھ سے حکم کرتا ہے دن و رات کو پلٹتا ہے جیسا چاہتا ہے اور جب ( اس زمانے کو ایسا) کرنے والے کو گالی دی جائے تو گویا اس نے الله کو گالی دی

اشکال لا ینحل
اس روایت کے مطابق الله تعالی نے اپنا نام الدھر رکھا ہے
صحیح مسلم میں ہے
فَإِن الله هُوَ الدَّهْر
الله ہی الدھر ہے

لیکن اسماء و صفات میں بحث میں قاضی ابی یعلی نے إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھا ہے
وَقَدْ ذَكَرَ شيخنا أَبُو عبد اللَّه رحمه اللَّه هَذَا الحديث فِي كتابه وَقَالَ: لا يجوز أن يسمى اللَّه دهرا
امام ابن حامد نے اس روایت کو اپنی کتاب میں لکھا ہے لیکن کہا کسی کے لئے جائز نہیں کہ الله کو دھر قرار دے

ابن تیمیہ نے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں لکھا
وقال حنبل: سمعت هارون الحمال يقول لأبي عبد الله: كنا عند سفيان بن عيينة بمكة، فحدثنا أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تسبوا الدهر» فقام فتح بن سهل فقال: يا أبا محمد نقول: يا دهر ارزقنا: فسمعت سفيان يقول: خذوه فإنه جهمي. وهرب، فقال أبو عبد الله: القوم يردون الآثار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نؤمن بها، ولا نرد على رسول الله صلى الله عليه وسلم قوله» قال القاضي: «وظاهر هذا أنه أخذ بظاهر الحديث، ويحتمل أن يكون قوله: ونحن نؤمن بها راجع إلى أخبار الصفات في الجملة، ولم يرجع إلى هذا الحديث خاصة» .

امام احمد نے کہا ہم ابن عيينة کے پاس مکہ میں تھے پس رسول الله کی حدیث روایت ہوئی الدھر کو گالی مت دو- پس فتح بن سهل کھڑا ہوا بولا اے ابو محمد ہم کہیں اے الدھر ہم کو رزق دے ؟ پس سفیان نے کہا اس کو پکڑو یہ جمہی ہے اور وہ بھاگا پس امام احمد نے کہا ایک قوم ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرتی ہے اور ہم ان پر ایمان لاتے ہیں اور ہم رد نہیں کریں گے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا ہو – قاضی ابو یعلی نے کہا پس انہوں نے اس حدیث کو اس کے ظاہر پر لیا

ابن تیمیہ نے مزید کہا
فبين أن الدهر، الذي هو الليل والنهار، خلق له وبيده، وأنه يجدده ويبليه، فامتنع أن يكون اسمًا له
پس واضح ہوا کہ الدھر یہ دن و رات ہیں .. پس یہ اسماء میں سے نہیں

بعض محدثین اور صوفیاء کے نزدیک الدھر الله کا نام ہے البتہ ابن تیمیہ اور محمد صالح العثيمين کے نزدیک یہ اسماء الحسنی میں سے نہیں ہے

اس اختلاف کی ایک وجہ ابن مندہ کی کتاب التوحید ہے جس میں ایک روایت میں ہے
والله هُوَ الدَّهرُ
اور الله کی قسم الله ہی الدھر ہے

یہ روایت خلق افعال العباد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى، ثنا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَحْكِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: «اسْتَقَرَضْتُ مِنَ ابْنِ آدَمَ فَلَمْ يُقْرِضْنِي وَشَتَمَنِي، يَقُولُ وَادَهْرَاهْ، وَاللَّهُ هُوَ الدَّهْرُ، وَكُلُّ شَيْءٍ مِنِ ابْنِ آدَمَ يأَكُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجَبُ ذَنَبِهِ فَإِنَّهُ يُخْلَقُ عَلَيْهِ حَتَّى يُبْعَثَ مِنْهُ»

اس روایت کی بنیاد پر الله تعالی کا ایک نام الدَّائِمُ کہا جاتا ہے جو الدھر کی روایت سے نکالا گیا ہے یعنی الدھر کو نام قرار دینے کی بجائے اسی روایت سے الدائم کا استنباط کیا گیا ہے
معتقد أهل السنة والجماعة في أسماء الله الحسنى
المؤلف: محمد بن خليفة بن علي التميمي
الناشر: أضواء السلف، الرياض، المملكة العربية السعودية

ابن تیمیہ نے لکھا
: قَوْلُ نُعَيْمِ بْنِ حَمَّادٍ وَطَائِفَةٍ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَالصُّوفِيَّةِ : إنَّ الدَّهْرَ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى وَمَعْنَاهُ الْقَدِيمُ الْأَزَلِيُّ وَرَوَوْا فِي بَعْضِ الْأَدْعِيَةِ : يَا دَهْرُ يَا ديهور يَا ديهار وَهَذَا الْمَعْنَى صَحِيحٌ ؛ لِأَنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ هُوَ الْأَوَّلُ لَيْسَ قَبْلَهُ شَيْءٌ وَهُوَ الْآخِرُ لَيْسَ بَعْدَهُ شَيْءٌ
نعیم بن حماد اور اہل حدیث اور صوفیاء کا ایک گروہ کہتے ہیں کہ دھر الله کے اسماء میں سے ہے اور اس کا معنی قدیم و ازلی ہے – اور بعض دعاؤں میں ہے اے دھر یا اے يَا ديهور يَا ديهار اور یہ معنی صحیح ہیں کیونکہ الله ہی ہے جو اول ہے اس سے قبل کچھ چیز نہیں اور وہی ہے جو بعد میں ہے اس کے بعد کچھ نہیں

وہابی عالم أبو عبد الرحمن محمود بن محمد الملاح نے کتاب الأحاديث الضعيفة والموضوعة التي حكم عليها الحافظ ابن كثير في تفسيره میں لکھا کہ
وقد غلط ابن حزم ومن نحا نحوه من الظاهرية في عدهم الدهر من الأسماء الحسنى،
اور ابن حزم اور ان کے جیسے ظاہریہ نے غلط کیا کہ اسماء الحسنی میں سے الدھر کو بھی گنا

المحلى بالآثار میں ابن حزم نے کہا کہ الله کے نام جو صحیح احادیث میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے ذکر کیے گئے ہیں ان میں ہیں
وَمِمَّا صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ -، وَقَدْ بَلَغَ إحْصَاؤُنَا مِنْهَا إلَى مَا نَذْكُرُ -: وَهِيَ -: اللَّهُ، الرَّحْمَنُ، الرَّحِيمُ، الْعَلِيمُ، الْحَكِيمُ، الْكَرِيمُ، الْعَظِيمُ، الْحَلِيمُ، الْقَيُّومُ، الْأَكْرَمُ، السَّلَامُ، التَّوَّابُ، الرَّبُّ، الْوَهَّابُ، الْإِلَهُ، الْقَرِيبُ، السَّمِيعُ، الْمُجِيبُ، الْوَاسِعُ، الْعَزِيزُ، الشَّاكِرُ، الْقَاهِرُ، الْآخِرُ، الظَّاهِرُ، الْكَبِيرُ، الْخَبِيرُ، الْقَدِيرُ، الْبَصِيرُ، الْغَفُورُ، الشَّكُورُ، الْغَفَّارُ، الْقَهَّارُ، الْجَبَّارُ، الْمُتَكَبِّرُ، الْمُصَوِّرُ، الْبَرُّ، مُقْتَدِرٌ، الْبَارِي، الْعَلِيُّ، الْغَنِيُّ، الْوَلِيُّ، الْقَوِيُّ، الْحَيُّ، الْحَمِيدُ، الْمَجِيدُ، الْوَدُودُ، الصَّمَدُ، الْأَحَدُ، الْوَاحِدُ، الْأَوَّلُ، الْأَعْلَى، الْمُتَعَالِ، الْخَالِقُ، الْخَلَّاقُ، الرَّزَّاقُ، الْحَقُّ، اللَّطِيفُ، رَءُوف، عَفُوٌّ، الْفَتَّاحُ، الْمَتِينُ، الْمُبِينُ، الْمُؤْمِنُ، الْمُهَيْمِنُ، الْبَاطِنُ، الْقُدُّوسُ، الْمَلِكُ، مَلِيكٌ، الْأَكْبَرُ، الْأَعَزُّ، السَّيِّدُ، سُبُّوحٌ، وِتْرٌ، مِحْسَانٌ، جَمِيلٌ، رَفِيقٌ، الْمُسَعِّرُ، الْقَابِضُ، الْبَاسِطُ، الشَّافِي، الْمُعْطِي، الْمُقَدِّمُ، الْمُؤَخِّرُ، الدَّهْرُ

اس میں آخر میں الدھر بھی ہے

البانی نے صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب میں لکھا کہ
وكان ابن داود (2) ينكر رواية أهل الحديث: “وأنا الدهر” بضم الراء ويقول: لو كان كذلك كان (الدهر) اسماً من أسماء الله عز وجل،
أبو بكر محمد بن داود الظاهري نے محدثین کی روایت کا را کی زبر کے ساتھ انکار کیا اور کہا جاتا ہے اگر ایسا ہو تو الدھر بھی اسماء الہی میں سے ہو جاتا ہے

البوصيري نے إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة میں لکھا
وَكَانَ ابْنُ دَاوُدَ يُنْكِرُ رِوَايَةَ أَهْلِ الْحَدِيثِ”وَأَنَا الدهرُ” بِضَمِّ الرَّاءِ
اور أبو بكر محمد بن داود نے محدثین کی اس روایت کا را کی زبر سے (آنا الدھر کا) انکار کیا

یعنی نعیم بن حماد بعض محدثین ابن حزم اور ابو بکر داود نے الدھر کو اسماء الحسنی میں شمار کیا
ابن عربی نے بھی اس کو اسم قرار دیا
کتاب فيض الباري على صحيح البخاري از انور شاہ کشمیری کے مطابق
وقال الشيخُ الأكبرُ: إنَّه من الأسماء الحُسْنَى. وفي «تفسير الرازي»: أنه تلقَّى وظيفةً من أحد مشايخه: يا دهر، يا ديهار، يا ديهور.
ابن عربی نے کہا یہ اسماء الحسنی میں سے ہے

تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان از نظام الدين الحسن بن محمد بن حسين القمي النيسابوري (المتوفى: 850هـ) کے مطابق
ومن جملة الأذكار الشريفة: يا هو يا من لا هو إلا هو، يا أزل يا أبد يا دهر يا ديهور يا من هو الحي الذي لا يموت. ولقد لقنني بعض المشايخ من الذكر: يا هو يا من هو هو يا من لا هو إلا هو يا من لا هو بلا هو إلا هو. فالأول فناء عما سوى الله، والثاني فناء في الله، والثالث فناء عما سوى الذات، والرابع فناء عن الفناء عما سوى الذات.
ازکار شریفہ ہیں جن میں سے ہے اے وہ اے وہ جس کے سوا کوئی نہیں اے ازل اے ابد اے دھر اے دیھور اے وہ جو زندہ ہے جو نہ مرے گا اور میں بعض مشایخ سے ملا جنہوں نے ذکر کیا اے وہ اے وہ جو وہ ہے جس کے سوا کوئی نہیں …

تفسیر الرزائ میں ایک بحث کو ختم کرتے ہوئے فخر الدين الرازي نے لکھا
وَلْنَخْتِمْ هَذَا الْفَصْلَ بِذِكْرٍ شَرِيفٍ رَأَيْتُهُ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ: يَا هُوَ، يَا مَنْ لَا هُوَ إِلَّا هُوَ، يَا مَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، يَا أَزَلُ، يَا أَبَدُ، يَا دَهْرُ، يَا دَيْهَارُ، يَا دَيْهُورُ، يَا مَنْ هُوَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ

اس طرح الله تعالی کے چار نام دَهْرُ، دَيْهَارُ، دَيْهُورُ اور الدائم اسی الدھر کی روایت سے نکالے گئے ہیں

راقم کو لگتا ہے کہ الله ھو- الله ھو کے مشہور ورد کے پیچھے بھی اسی الدھر کا فلسفہ ہے

راقم کہتا ہے الله تعالی نے قرآن میں کہا
هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا
كيا انسان پر دھر میں کوئی مدت گزری جب وہ قابل ذکر چیز نہیں تھا

یہاں دھر کو مدت سے ملایا گیا ہے لہذا یہ اسماء میں سے نہیں کیونکہ الله کا نام بدل نہیں سکتا وہ مدت نہیں کہ جو بدلتی رہے
زمانہ بدلتا ہے جبکہ اسماء کی حقیقت نہیں بدل سکتی لہذا اس روایت کو متشابہ سمجھا جائے گا

مشکل یہ ہے کہ ایک طرف تو اہل حدیث کا اور سلفیوں کا اصول ہے کہ حدیث قدسی یا صحیح اور صحیح حدیث میں اگر ضمیر الله کی طرف ہو تو اس کو ظاہر و حقیقی لیں گے یعنی اگر حدیث میں الله کے لئے کہا جائے وہ نزول کرتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں یہ حقیقی نزول ہے عربی کا ادبی انداز نہیں ہے لیکن جب حدیث میں قسما کہا جائے کہ الله الدہر ہے تو یہ اس کو اس کے ظاہر پر نہیں لیتے تاویل کرتے ہیں

[/EXPAND]

گھنگھریالے بالوں والا رب؟

https://www.islamic-belief.net/كتاب-التوحيد-و-ألأسماء-الحسني/
اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے

خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

کتاب  الصفات از  الدارقطني (المتوفى: 385هـ) کے مطابق اس کی اسناد ابو ہریرہ اور ابن عمر سے ہیں اب ہم ان اسناد پر بحث کرتے  ہیں

ابو ہریرہ کی مرویات

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ الْفَضْلِ الْكَاتِبُ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

دوسری سند ہے

حَدَّثَنَا عَلَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَطَّانُ، وَثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ نَهْشَلُ بْنُ دَارِمٍ التَّمِيمِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ، قَالَا: ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ “

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

جب تم میں سے کوئی کسی کو مارے تو چہرہ پر مارنے سے بچے اور یہ نہ کہے کہ الله تیرا چہرہ بگاڑ دے کیونکہ اس کا چہرہ اسی کے جیسا ہے کیونکہ الله نے آدم کو تخلیق کیا اپنی صورت پر 

محمد بن عجلان نے اس کو سعید بن ابی سعید سے انہوں نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے

کتاب  الضعفاء الكبير از امام  العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے   حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ  اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا  (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک  کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں

فقہ مالکیہ کی معتمد  کتاب  المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي    السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

دارقطنی کے مطابق محمد بن عجلان کے علاوہ المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ  نے بھی اس کو ابی الزناد سے روایت کیا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو شَيْبَةَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ بَكْرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى أَبُو مُوسَى، ثنا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، ثنا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا»

سیر الآعلام البنلاء از الذھبی کے مطابق  المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ  کے لئے امام یحیی بن معین کہتے   : لَيْسَ حَدِيْثُهُ بِشَيْءٍ اس کی حدیث کوئی چیز نہیں ہے-  ابن حبان  کتاب مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں کہتے ہیں  وكان يهم في الشئ بعد الشئ اس کو  چیز چیز پر وہم ہوتا ہے

امام مالک کی بات کا رد کرتے ہوئے کتاب  سير أعلام النبلاء میں  الذهبي (المتوفى : 748هـ) کہتے ہیں

قُلْتُ: الخَبَرُ لَمْ يَنْفَرِدْ بِهِ ابْنُ عَجْلاَنَ، بَلْ وَلاَ أَبُو الزِّنَادِ، فَقَدْ رَوَاهُ:

 شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ.

وَرَوَاهُ: قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَرَوَاهُ: ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَرَوَاهُ: مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَصحَّ أَيْضاً مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عُمَرَ.

میں (الذھبی) کہتا ہوں : اس خبر میں ابن عجلان  منفرد نہیں ہے اور نہ ابو الزناد منفرد ہے  اس کو روایت کیا ہے

شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ. نے

اور روایت کیا ہے  قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ سے .

اور روایت کیا ہے  ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. 

اور روایت کیا ہے  مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. سے

  راقم کہتا ہے قتادہ مدلس نے یہ روایت عن سے روایت کی ہے امام مسلم نے قتادہ کے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے – الذھبی کی پیش کردہ دوسری سند میں  ابْنُ لَهِيْعَةَ سخت ضعیف ہے –  شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ    کی روایت مسند الشامیین از طبرانی کی ہے لیکن یہ بھی ضعیف ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مَيْمُونٍ أَيُّوبُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ الصُّورِيُّ، ثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَذَّاءُ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سَبْعُونَ ذِرَاعًا

اس کی سند میں محمد بن حمير الحمصي ہے جو محدثین مثلا ابن ابی حاتم کے مطابق نا قابل احتجاج ہے اور الفسوی اس کو قوی نہیں کہتے ہیں اس راوی کو الذہبی نے خود ديوان الضعفاء میں ضعیف راویوں میں  شمار کیا ہے

کتاب السنہ از ابن ابی عاصم کی روایت ہے

ثنا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثنا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ثنا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي يُونُسَ سُلَيْمُ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ قَاتَلَ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ فَإِنَّ صُورَةَ وَجْهِ الإِنْسَانِ عَلَى صُورَةِ وَجْهِ الرَّحْمَنِ”.

ابو یونس ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو لڑے وہ چہرہ سے بچے کیونکہ انسان کے چہرے کی صورت الرحمن کے چہرے کی صورت ہے

یہ ہے وہ روایت جو الذہبی نے دلیل میں پیش کی ہے جس کے متن  میں نکارت ہے اور سند میں ابن لَهِيعَةَ ہے جس پر خراب حافظہ آختلاط اور ضعف کا حکم ہے

اب صرف مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. کی سند ہے جو قابل بحث ہے – امام بخاری نے اس کو اسی سند سے روایت کیا ہے  إس میں معمر بن راشد ہیں جو مدلس ہیں  لیکن محدثین کی ایک جماعت ان کی ہمام بن منبہ والی روایات قبول کرتی ہے – ہمام بن منبہ  یمن سے مدینہ پہنچے اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ١٤٠ روایات لیں ان میں اپنی باتیں بھی شامل کر دیں اور ان کا نسخہ بقول امام احمد اسی وجہ سے معدوم ہوا کہ لوگ یہ تمیز ہی نہیں کر پائے  کیا قول نبی اور کیا ان کا اپنا قول ہے – ہمام سوڈان گئے وہاں معمر بن راشد ملے اور ان کو روایت سنائیں اس کے بعد حجاز میں ابن زبیر رضی الله عنہ کی فوج نے ہمام کو  پکڑا اور یہ عباسیوں کے خروج تک زندہ تھے سن ١٣٢  هجري میں فوت ہوئے –   الذھبی کے مطابق ممکن ہے سو سال انکی زندگی ہو لیکن اس دوران انہوں نے  بہت کم لوگوں کو روایات سنائی ہیں  ان سے صرف  ان کے  بھائی وھب بن منبہ   صَاحِبُ القَصَصِ ، ان کے بھتیجے عَقِيْلُ بنُ مَعْقِلٍ  اور معمر بن راشد  اور ایک یمنی عَلِيُّ بنُ الحَسَنِ بنِ أَنَسٍ الصَّنْعَانِيُّ  روایت کرتے ہیں – الذھبی  سیر الآعلام النبلاء میں کہتے ہیں وَمَا رَأَينَا مَنْ رَوَى الصَّحِيْفَةَ عَنْ هَمَّامٍ إِلاَّ مَعْمَرٌ اور ہم نہیں دیکھتے کہ اس الصَّحِيْفَةَ کو ہمام سے کوئی روایت کرتا ہو سوائے معمر کے- امام احمد کے مطابق معمر نے یہ صحیفہ سوڈان میں سنا- معمر خود کوفی ہیں وہاں سے یمن گئے اور پھر سوڈان  – سوڈان علم  حدیث کے لئے کوئی مشھور مقام نہ تھا –   خود معمر روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہ سختی سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی کوئی ایک  روایت کو رد کرتے

كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق

ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.

البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں

ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون   جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی  شخص   ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ   محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے

البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں  کہتے ہیں

يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.

یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی  حدیث  مراد تھی جس  کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ  ٨٦٠ میں کی ہے

ہمام ایک سابقہ یہودی تھے – یہود میں الله کے لئے تجسیم کا عقیدہ ہے کیونکہ موجودہ توریت میں الله کو  ایک مرد کی صورت بیان کیا  گیا ہے جس کے آعضآ بھی ہیں –  یہودی تصوف کی ایک قدیم کتاب جو بعثت نبوی سے قبل کی ہے اس کا نام  کتاب شر قومہ ہے جس  میں الله  تعالی کے آعضآ کی پمائش بھی بیان کی گئی  ہے – موجود توریت میں ہے

Then God said,  “Let us make man in our image,  after our likeness.

پھر الله نے کہا ہم انسان کو اپنے عکس  צֶ֫לֶם  پر بنائیں گے –اپنی דְּמוּת  مشابہت  کے مطابق

Genesis 1:26

لفظ דְּמוּת کا ترجمہ مشابہت کے علاوہ  یہود کے مطابق شکل اور تناسب بھی ہو سکتا ہے

لفظ צֶלֶם کا ترجمہ عکس کے علاوہ غیر مرئی چیز  بھی کیا جاتا ہے

اس کے برعکس قرآن میں ہے

(فِیْ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَ (الانفطار:8/82
جس صورت میں چاہا اس نے تجھے بنایا۔

اسی متن کی ایک روایت ابن عمر سے بھی مروی ہے  جس کے مطابق چہرے کو برا نہ کرو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا

ابن عمر کی مرویات

العلل دارقطنی کی سند ہے

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ الزَّيَّاتُ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ [ص:36]: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ»

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الطُّوسِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ إِشْكَابَ، ثنا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ [ص:37]، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ»

ابن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرہ کو مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو الرحمن کی شکل پر پیدا کیا ہے

اس کی سند میں مدلس حبيب بن أبي ثابت ہیں جو عن سے اس کو عطاء بْن أَبي رباح  سے روایت کر رہے ہیں –  کتاب  المدلسين  از  ابن العراقی کے مطابق

ابن حبان کہتے ہیں

: كان مدلساً وروى أبو بكر بن عياش عن الأعمش قال لي حبيب بن أبي ثابت: لو أن رجلاً حدثني عنك ما باليت أن أرويه عنك.

یہ مدلس تھے  – الأعمش کہتے ہیں حبيب بن أبي ثابت نے مجھ سے کہا اگر کوئی آدمی تم سے میری  روایت بیان  کرے تو میں اس سے بے پرواہ ہوں جو وہ روایت کرے

عطاء بْن أَبي رباح کی سند سے اس روایت کو بیان کرنے میں حبيب بن أبي ثابت منفرد ہیں چونکہ یہ مدلس ہیں اور عن سے روایت ہے لہذا یہ مظبوط نہیں

ابن خزیمہ کتاب التوحید میں اس روایت پر تبصرہ کرتے ہیں اور  ابن عمر کی روایت کو رد کرتے ہیں

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: تَوَهَّمَ بَعْضُ مَنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ أَنَّ قَوْلَهُ: «عَلَى صُورَتِهِ» يُرِيدُ صُورَةَ الرَّحْمَنِ عَزَّ رَبُّنَا وَجَلَّ عَنْ أَنْ يَكُونَ هَذَا مَعْنَى الْخَبَرِ، بَلْ مَعْنَى قَوْلِهِ: «خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، الْهَاءُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ كِنَايَةٌ عَنِ اسْمِ الْمَضْرُوبِ، وَالْمَشْتُومِ، أَرَادَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ هَذَا الْمَضْرُوبِ، الَّذِي أَمَرَ الضَّارِبَ بِاجْتِنَابِ وَجْهِهِ بِالضَّرْبِ، وَالَّذِي قَبَّحَ وَجْهَهَ، فَزَجَرَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ: «وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ» ، لِأَنَّ وَجْهَ آدَمَ شَبِيهُ وُجُوهِ بَنِيهِ، فَإِذَا قَالَ الشَّاتِمُ لِبَعْضِ بَنِي آدَمَ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ، كَانَ مُقَبِّحًا وَجْهَ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ [ص:85] عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ، الَّذِي وُجُوهُ بَنِيهِ شَبِيهَةٌ بِوَجْهِ أَبِيهِمْ، فَتَفَهَّمُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ مَعْنَى الْخَبَرِ، لَا تَغْلَطُوا وَلَا تَغَالَطُوا فَتَضِلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَتَحْمِلُوا عَلَى الْقَوْلِ بِالتَّشْبِيهِ الَّذِي هُوَ ضَلَالٌ

بعض لوگ جن کو علم نہیں پہنچا ان کو اس میں وہم ہوا کہ قول اسکی صورت پر سے انہوں نے صورت رحمان مراد لی گویا کہ یہ کوئی خبر ہو بلکہ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اس کا معنی ہے  کہ اس میں ھآ یہاں کنایہ کے طور پر ہے جس کو مارا جا رہا ہے اس کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم  کا مقصد ہے کہ الله نے آدم کو خلق کیا اسی مارنے والے کی صورت پہ جس نے مارنے کا حکم دیا چہرہ پر اور چہرہ کو برآ کیا پس اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ڈانٹا کہ کہہ کر اس کا چہرہ بھی تمہارے چہرہ جیسا ہے ….. پس ان لوگوں کو وہم ہوا کہ الله نے خبر دی پس دین میں غلو نہ کرو نہ کراو ورنہ گمراہ ہو گے سیدھی راہ سے اور اس پر التَّشْبِيهِ  کاقول مت لو یہ گمراہی ہے

ابن خزیمہ  سفیان ثوری  کے طرق عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ،  پر کہتے ہیں

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَقَدِ افْتُتِنَ بِهَذِهِ اللَّفْظَةِ الَّتِي فِي خَبَرِ عَطَاءٍ عَالِمٌ مِمَّنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ، وَتَوَهَّمُوا أَنَّ إِضَافَةَ الصُّورَةِ إِلَى الرَّحْمَنِ فِي هَذَا الْخَبَرِ مِنْ إِضَافَةِ صِفَاتِ الذَّاتِ، فَغَلَطُوا فِي هَذَا غَلَطًا بَيِّنًا، وَقَالُوا مَقَالَةً شَنِيعَةً مُضَاهِيَةً لِقَوْلِ الْمُشَبِّهَةِ، أَعَاذَنَا اللَّهُ وَكُلُّ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَوْلِهِمْ وَالَّذِي عِنْدِي فِي تَأْوِيلِ هَذَا الْخَبَرِ إِنْ صَحَّ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ مَوْصُولًا: فَإِنَّ فِي الْخَبَرِ عِلَلًا ثَلَاثًا , إِحْدَاهُنَّ: أَنَّ الثَّوْرِيَّ قَدْ خَالَفَ الْأَعْمَشَ فِي إِسْنَادِهِ، فَأَرْسَلَ الثَّوْرِيُّ وَلَمْ يَقُلْ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَالثَّانِيَةُ: أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، لَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ وَالثَّالِثَةُ: أَنَّ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ: أَيْضًا مُدَلِّسٌ، لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ عَطَاءٍ

اور اس لفظ صورت الرحمن سے فتنہ ہوا وہ خبر جو عطا بن ابی رباح سے ملی ایک عالم تھے جنہوں نے علم میں جانچ پڑتال نہیں کی اور اس اضافت صورت الرحمن سے وہم ہوا یہ اضافہ ذات باری کی صفات پر ہے پس انہوں نے غلطی کھائی جس کو ہم نے واضح کیا اور قول برا قول ہے الْمُشَبِّهَةِ کی گمراہی جیسا الله اس سے بچائے  تمام مسلمانوں کو اس قول سے اور ہمارے نزدیک اس کی تاویل ہے کہ یہ خبر اگر نقلی لحاظ سے درست ہو تو یہ موصول ہے کیونکہ اس خبر میں تین علتیں ہیں ایک ثوری نے کی مخالفت کی ثوری نے ارسال کیا اور یہ نہیں کہا عن ابن عمر اور دوسری الْأَعْمَشَ مدلس ہے اور اس نے ذکر نہیں کیا کہ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ سے  اس کا سماع  ہے اور تیسری حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ  بھی مدلس ہے اس کا سماع عطا بن ابی رباح سے ہے بھی پتا نہیں

صورت رحمان پر تخلیق کہنا  توریت کی اس آیت کی تائید ہے – ابن عباس رضی الله عنہ اور امام مالک نے اس کا متن سنتے ہی اس کو رد کر دیا – اس کے بعد سن ٢٠٠ ہجری میں اس روایت کا پھر سے دور دورہ ہوا اور جھمیہ کی مخالفت میں اس کو محدثین صحیح کہنے لگے کیونکہ اس میں الله کے چہرے کا ذکر تھا اور جھمیہ  اللہ کو   انرجی نما کوئی چیز سمجھتے تھے جو تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے –  چونکہ قرآن میں بھی وجھہ الله  کے الفاظ ہے   محدثین اس روایت کو جھمیہ کی مخالفت میں پیش کرنے لگے

کتاب  الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کے مطابق ابن خزیمہ کی بات کا امام احمد رد کرتے تھے

وَحَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيُّ , حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ حَنْبَلٍ: يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ , حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَخِيرِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا , أَلَيْسَ تَقُولُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ؟ وَيَرَاهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَعْنِي رَبَّهُمْ عَزَّ وَجَلَّ؟ وَلَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى وَضَعَ فِيهَا قَدَمَهُ , وَإِنَّ مُوسَى لَطَمَ مَلَكَ الْمَوْتِ قَالَ [ص:1128] أَحْمَدُ: «كُلُّ هَذَا صَحِيحٌ» , قَالَ إِسْحَاقُ: «هَذَا صَحِيحٌ , وَلَا يَدْفَعُهُ إِلَّا مُبْتَدِعٌ أَوْ ضَعِيفُ الرَّأْيِ»

إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ کہتے ہیں میں نے امام احمد سے کہا کیا الله تعالی ہر رات آسمان دنیا پر  نزول کرتے ہیں جب رات کا آخری تین تہائی رہ جائے کیا بولتے ہیں آپ ان احادیث پر ؟ اور اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ اور چہرہ مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا  اور جہنم کی اگ نے اپنے رب سے شکایت کی یہاں تک کہ الله نے اس پر قدم رکھا – اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی؟ احمد نے کہا : یہ سب صحیح ہیں اور اسحاق نے کہا یہ سب صحیح ہیں اور ان کو رد  نہیں کرتا لیکن بدعتی اور کمزور رائے والا

وہابی محقق  محمد حسن عبد الغفار کتاب  شرح كتاب التوحيد لابن خزيمة  میں ابن خزیمہ کے قول کو ضعیف کہتے ہیں اور تبصرہ کرتے ہیں

 وهل ابن خزيمة في مسألة الصورة يثبت لله صفة الصورة أم لا؟! نقول: هناك تأويلان: أولاً: الهاء في الحديث عائدة على المضروب، وليست عائدة على الله، فأخبره أن هذا المضروب خلق على صورة أبيه آدم عليه السلام، وهذا التأويل فيه ضعف؛ والحديث في الرواية الأخرى جاء بنص: (خلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعاً)، إذاً: الهاء عائدة على آدم عليه السلام، فطوله ستون ذراعاً وسبعة أذرع عرضاً، وجاء بإسناد صحيح عند الطبراني وغيره: (أن الله خلق آدم على صورة الرحمن) فإذا قلنا: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن فكيف نفهم هذا المعنى؟ نقول: أولاً: لله صورة، وهي صفة من صفات الله، وهل الصورة تشبه صورة الإنسان؟ حاشا لله! فمعنى: (خلق آدم على صورة الرحمن) أن آدم متكلم كما أن الله متكلم، وأن آدم سميع كما أن الله سميع، وإن آدم بصير كما أن الله بصير….وابن خزيمة يقول: الصورة إضافتها إضافة مخلوق إلى خالقه.
ونحن نخالفه في هذا

اور کیا ابن خزیمہ نے مسئلہ صورت میں الله کی طرف صفت صورت کا اثبات کیا یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں اس میں دو تاویلات ہیں ایک یہ کہ یہ مارنے والے کی طرف ھآ کی ضمیر ہے … اور یہ تاویل ضعیف ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ الله نے آدم کو ٦٠ ہاتھ  لمبا اور ٧ ہاتھ چوڑا خلق کیا … تو اس کا کیا مطلب ہے ؟ ہم کہتے ہیں اول الله کی صورت ہے اور یہ اس کی صفت ہے اور کیا یہ صورت انسان سے ملتی ہے ؟ حاشا للہ ! پس اس کا معنی ہے خلق آدم علی صورت الرحمن کا کہ آدم اسی طرح بولتا ہے جس طرح الله بولتا ہے اور سنتا ہے جس طرح الله سنتا ہے اور دیکھتا ہے جس طرح الله دیکھتا ہے .. … اور ابن خزیمہ نے کہا کہ صورة  کی اضافت مخلوق کی  خالق کی طرف ہے اور ہم اس قول کے انکاری ہیں

روایت سندا صحیح نہیں ہے  یہ کہنے کی بجائے اس کو صحیح بھی کہہ رہے ہیں اور خالق کو مخلوق سے بھی ملا رہے ہیں

چوتھی صدی ہجری میں ابن حبان  نے  اس کو صحیح قرار دیا جو ابن خزیمہ کے ہم عصر تھے لیکن صحیح ابن حبان میں اس پر تبصرہ میں کہا

، وَالْهَاءُ رَاجِعَةٌ إِلَى آدَمَ، وَالْفَائِدَةُ مِنْ رُجُوعِ الْهَاءِ إِلَى آدَمَ دُونَ إِضَافَتِهَا إِلَى الْبَارِئِ جَلَّ وَعَلَا – جَلَّ رَبُّنَا وَتَعَالَى عَنْ أَنْ يُشَبَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ – أَنَّهُ جَلَّ وَعَلَا جَعَلَ سَبَبَ الْخَلْقِ الَّذِي هُوَ الْمُتَحَرِّكُ النَّامِي بِذَاتِهِ اجْتِمَاعَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، ثُمَّ زَوَالَ الْمَاءِ عَنْ قَرَارِ الذَّكَرِ إِلَى رَحِمِ الْأُنْثَى، ثُمَّ تَغَيُّرَ ذَلِكَ إِلَى

اور اس میں الْهَاءُ راجع ہے آدم کی طرف اور اس میں فائدہ ہے کہ یہ وَالْهَاءُ آدم کی طرف ہو نہ کہ الله کی طرف جو بلند و بالا ہے کہ اس سے کسی چیز کو تشہیہ دی جائے اس کی مخلوق میں سے وہ بلند ہے اس نے خلق کیا ہے وہ سونے والے کو متحرک کرتا مرد و عورت کو ملاتا پھر اس کا پانی ٹہراتا  ہے پھر اس کو بدلتا ہے

یعنی ابن خزیمہ نے ابن عمر کی روایت کو ضعیف کہا لیکن ابن حبان نے صحیح کر دیا لیکن دونوں الھا کی ضمیر کو مارنے والے کی طرف لے جاتے ہیں اس کے برعکس حنبلی علماء اس کو الله کی طرف لے جاتے ہیں

کتاب  تأويل مختلف الحديث میں  أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ)  نے اس روایت پر لکھا

قَدِ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِي تَأْوِيلِ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّهُ خَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى صُورَتِهِ “.
فَقَالَ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ الْكَلَامِ: أَرَادَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، لَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، وَلَوْ كَانَ الْمُرَادُ هَذَا، مَا كَانَ فِي الْكَلَامِ فَائِدَةٌ.

وَمَنْ يَشُكُّ فِي أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَى صُورَتِهِ، وَالسِّبَاعَ عَلَى صُوَرِهَا، وَالْأَنْعَامَ عَلَى صُوَرِهَا

وَقَالَ قَوْمٌ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةٍ عِنْدَهُ.

وَهَذَا لَا يَجُوزُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَخْلُقُ شَيْئًا مِنْ خَلْقِهِ عَلَى مِثَالٍ.

وَقَالَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: “لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صورته

يُرِيد أَنَّ اللَّهَ -جَلَّ وَعَزَّ- خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الْوَجْهِ.

وَهَذَا أَيْضًا بِمَنْزِلَةِ التَّأْوِيلِ الْأَوَّلِ، لَا فَائِدَةَ فِيهِ.

وَالنَّاسُ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقَ آدَمَ، عَلَى خَلْقِ وَلَدِهِ، وَوَجْهَهُ عَلَى وُجُوهِهِمْ.

وَزَادَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: إِنَّهُ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- مَرَّ بِرَجُلٍ يَضْرِبُ وَجْهَ رَجُلٍ آخَرَ، فَقَالَ: “لَا تَضْرِبْهُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، خَلَقَ آدَمَ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- عَلَى صُورَتِهِ”، أَيْ صُورَةِ الْمَضْرُوبِ.

وَفِي هَذَا الْقَوْلِ مِنَ الْخَلَلِ، مَا فِي الْأَوَّلِ.

وَلَمَّا وَقَعَتْ هَذِهِ التَّأْوِيلَاتُ الْمُسْتَكْرَهَةُ، وَكَثُرَ التَّنَازُعُ فِيهَا، حَمَلَ قَوْمًا اللَّجَاجُ عَلَى أَنْ زَادُوا فِي الْحَدِيثِ، فَقَالُوا: رَوَى بن عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا1: “إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.

يُرِيدُونَ أَنْ تَكُونَ الْهَاءُ2 فِي “صُورَتِهِ” لِلَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، وَإِنَّ ذَلِكَ يَتَبَيَّنُ بِأَنْ يَجْعَلُوا الرَّحْمَنَ مَكَانَ الْهَاءِ كَمَا تَقُولُ: “إِنَّ الرَّحْمَنَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”، فَرَكِبُوا قَبِيحًا مِنَ الْخَطَأِ.

وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ نَقُولَ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ السَّمَاءَ بِمَشِيئَةِ الرَّحْمَنِ” وَلَا على إِرَادَة الرَّحْمَن

بلا شنہ لوگوں کا اس روایت کی  تاویل میں اضطراب ہوا جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس ایک اصحاب الکلام کی قوم  نے کہا اس میں مقصد ہے کہ آدم کو آدم کی صورت ہی پیدا کیا گیا اس سے زیادہ نہیں اور اگر اس سے یہ مراد ہے تو ایسے کلام کا فائدہ کیا ہے ؟ اور جس کو شک ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر کیا تو پھر گدھ کی اور چوپایوں کی صورتیں کس پر ہیں ؟ ایک دوسری قوم نے کہا الله نے آدم کو  اس صورت پر پیدا کیا جو اس کے پاس ہے تو یہ ایسا کلام جائز نہیں ہے کیونکہ الله عزوجل نے کسی کو بھی خلق میں سے اپنے مثل نہیں بنایا –   اور ایک قوم نے حدیث پر کہا چہرہ مت بگاڑو  کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا مراد ہے الله نے اپنی ہی چہرہ پر  بنایا –  تو یہ بھی ویسی ہی تاویل ہے جیسی پہلی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے – اور لوگ جانتے ہیں کہ الله تبارک و تعالی نے آدم کو خلق کیا ان کی اولاد کے مطابق اور انکا چہرہ انکی اولاد کا ہے اور ایک قوم نے حدیث میں اضافہ کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ایک شخص پر سے گزر ہوا جو دوسرے کے چہرہ پر مار رہا تھا آپ نے فرمایا اس کے چہرہ پر مت مارو کیونکہ الله نے آدم کو اس کی صورت پیدا کیا یعنی مارنے والے کی ہی صورت پر اور اس قول میں خلل ہے جو پہلے میں نہیں ہے – تو جب اس قسم کی تاویلات منکرات واقع ہوئیں اور جھگڑا بڑھا تو ایک قوم نے بےہودگی اٹھائی اور اس حدیث میں الفاظ کا اضافہ کر دیا اور کہا کہ ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے الله تعالی نے آدم کو صورت  رحمان پر خلق کیا – ان کا مقصد تھا کہ الھا کی ضمیر کو صورتہ کی طرف لے جائیں یعنی الله تعالی کے لئے اور اس میں واضح ہے کہ انہوں الرحمن کا لفظ کر دیا جہاں الھا تھا جیسا کہ کہا بے شک الرحمن نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا پس وہ ایک قبیح غلطی پر چلے اور ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ میں کہیں بے شک الله نے آسمان کو مشیت الرحمن کے مطابق خلق کیا نہ ہی رحمان کا ارادہ کہیں – 

ابن قتیبہ نے جو تیسری صدی کے محدث ہیں اور امام احمد کے ہم عصر ہیں ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں ہے اس کا متن منکر ہے

ان کے مقابلے پر امام احمد  اور اسحاق بن راہویہ تھے جو اس کو صحیح کہتے

کتاب : مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه  از  إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) کے مطابق امام احمد اس میں الھا کی ضمیر کو الله کی طرف لے جانا قبول کیا

أليس تقول بهذه الأحاديث. و “يرى أهل الجنة ربهم عز وجل” “ولا تقبحوا الوجه فإن الله عز وجل خلق آدم على صورته” يعني صورة رب العالمين، و “اشتكت النار إلى ربها عز وجل حتى يضع الله فيها قدمه” و “إن موسى عليه السلام لطم ملك الموت عليه السلام”؟
قال الإمام أحمد: كل هذا صحيح.
قال إسحاق: كل هذا صحيح، ولا يدعه1 إلا مبتدع أو ضعيف الرأي

کیا کہتے ہیں اس حدیث پر کہ اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے اور حدیث چہرہ مت بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یعنی رب العالمین کی صورت پر اور اگ نے اپنے رب سے شکایت کی حتی کہ اس نے اس پر قدم رکھا اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی ؟ امام احمد نے کہا یہ تمام صحیح ہیں اور امام اسحاق نے کہا یہ تمام صحیح ہیں  اور ان کا انکار  کوئی نہیں کرتا سوائے بدعتی اور کمزور رائے والا

البيان والتحصيل والشرح والتوجيه والتعليل لمسائل المستخرجة  از  أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ)

والحديث في قوله: «إن الله خلق آدم على صورته» يروى على وجهين؛ أحدهما: «إن الله خلق آدم على صورته» . والثاني: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن، فأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورته» فلا خلاف بين أهل النقل في صحتها؛ لاشتهار نقلها، وانتشاره من غير منكر لها، ولا طاعن فيها، وأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورة الرحمن» فمن مصحح لها، ومن طاعن عليها، وأكثر أهل النقل على إنكار ذلك، وعلى أنه غلط وقع من طريق التأويل لبعض النقلة توهم أن الهاء ترجع إلى الله عز وجل، فنقل الحديث على ما توهم من معناه، فيحتمل أن يكون مالك أشار في هذه الرواية بقوله وضعفه إلى هذه الرواية، ويحتمل أن يكون إنما ضعف بعض ما تؤول عليه الحديث من التأويلات، وهي كثيرة.

اور حدیث جس میں قول ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یہ دو طرح  سے روایت ہوئی  ہے ایک میں ہے الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دوسری میں آدم کو الرحمن کی صورت خلق کیا – جہاں تک تعلق ہے کہ اپنی صورت پر خلق کیا تو اس کی صحت پر  اہل نقل کا اختلاف نہیں ہے  لیکن جو دوسری ہے کہ آدم کو رحمن کی صورت خلق کیا تو اس کو صحیح کہنے والے ہیں اور اس پر طعن کرنے والے ہیں اور اکثر اہل نقل اس کا انکار کرتے ہیں اور بعض اہل تاویل کہتے ہیں کہ اس میں  ھ کی ضمیر غلطی سے الله کی طرف ہے  تو حدیث نقل کرنے والوں کو وہم ہوا اس کے معنی پر اور احتمال ہے کہ امام مالک نے اسی کی طرف اشارہ کیا اس کو ضعیف کہہ کر اور احتمال ہے کہ انہوں نے اس کی تاویلات کی وجہ سے ضعیف کہا اور یہ بہت ہیں

کتاب  المنتخب من علل الخلال میں  ابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) کہتے ہیں

أخبرني حرب، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ يَقُولُ: قَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) أَنَّهُ قَالَ: “إِنَّ آدَمَ خُلِقَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ: ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عن عطاء، عن ابن أبي عُمَرَ، عَنْ رَسُولَ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) قَالَ: “لا تُقبِحوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.قَالَ إِسْحَاقُ: وَإِنَّمَا عَلَيْهِ أَنْ يَنْطِقَ بِمَا صحَّ عَنْ رسول الله أَنَّهُ نَطَقَ بِهِ.وَأَخْبَرَنَا الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: كَيْفَ تَقُولُ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ): “خُلِقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”؟

قَالَ: الأَعْمَشُ يَقُولُ: عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: “أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرحمن”. فأما الثوري فأوفقه -يَعْنِي: حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ.وَأَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى الله عليه وسلم) “على صورته فنقول كَمَا فِي الْحَدِيثِ.

حرب نے خبر دی انہوں نے إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ سے سنا کہ بلاشبہ صحیح ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور ہم سے اسحاق نے روایت کیا  ان سے جریر نے بیان کیا ان سے حبیب بن ابی ثابت نے ان سے عطا نے ان سے ابن عمر نے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرے کو مٹ بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو   صورت رحمان  پر خلق کیا – اسحاق نے کہا  ہم پر ہے کہ ہم وہی بولیں جو رسول الله نے بولا ہو – اور المروزی نے خبر دی کہ انہوں امام احمد سے پوچھا کیا کہتے ہیں آپ اس حدیث پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ انہوں نے کہا : الأَعْمَشُ کہتے ہے حبیب بن ابی ثابت نے روایت کیا  اس نے عطا سے اس نے ابن عمر سے … پس ہم وہی کہتے ہیں جو حدیث میں ہے

أبي بطين  فتوی میں کہتے ہیں

رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين (مطبوع ضمن مجموعة الرسائل والمسائل النجدية، الجزء الثاني

وقال في رواية أبي طالب: من قال: إن الله خلق آدم على صورة آدم، فهو جهمي، وأي صورة كانت لآدم قبل أن يخلقه؟ وعن عبد الله بن الإمام أحمد قال: قال رجل لأبي: إن فلانا يقول في حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إن الله خلق آدم على صورته” 1 فقال: على صورة الرجل، فقال أبي: كذب، هذا قول الجهمية، وأي فائدة في هذا؟  وقال أحمد في رواية أخرى: فأين الذي يروي: “إن الله خلق آدم على صورة الرحمن”؟ وقيل لأحمد عن رجل: إنه يقول: على صورة الطين، فقال: هذا جهمي، وهذا كلام الجهمية، واللفظ الذي فيه على صورة الرحمن رواه الدارقطني، والطبراني، وغيرهما بإسناد رجاله ثقات.

اور ابی طالب کی روایت میں ہے کہ امام احمد نے کہا کہ جو یہ کہے کہ  الله نے آدم کو آدم کی صورت پر پیدا کیا تو وہ جھمی ہے اور آدم تخلیق سے پہلے کس صورت پر تھے؟ اور عبد الله کی روایت میں ہے کہ امام احمد سے ایک آدمی نے کہا کہ فلاں کہتا ہے حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا تو  کہا آدمی کی صورت اس پر امام احمد نے کہا جھوٹ یہ جھمیہ کا قول ہے اور اس کا فائدہ ؟ اور ایک دوسری روایت کے مطابق تو وہ کہاں ہے جس میں ہے کہ بے شک الله نے آدم کو الرحمن کی صورت پیدا کیا؟ اور امام احمد سے  کہا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے ان کو مٹی کی صورت پیدا کیا احمد نے کہا یہ جھمی ہے اور یہ باتیں جہمیہ کی ہیں اور الفاظ ہیں رحمان کی صورت پیدا کیا اس کو دارقطنی طبرانی  اور دوسروں نے ان اسناد سے روایت کیا ہے جن میں ثقہ ہیں

امام احمد صریحا اس کے انکاری تھے کہ الھا کی ضمیر کو انسانوں یا مٹی کی طرف لے جایا جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کو جھمی کہتے –  امام احمد کا فتوی امام ابن خزیمہ اور ابن حبان پر لگا کہ یہ دونوں جھمی ہوئے ان کے نزدیک جو الھا کی ضمیر کو انسان کی طرف لے جاتے – واضح رہے کہ جھمیہ کا موقف غلط تھا وہ الله کے سماع و کلام کے انکاری تھے لیکن بعض علماء نے  جھمیہ کی مخالفت میں   روایات کی بنیاد  صورت کو بھی الله کی صفت مناتے ہوئے  ایک طرح یہ بھی مان لیا کہ آدم اور اس کے رب کی صورت ایک جیسی ہے

امام احمد کو اس مسئلہ سے بچانے کے لئے الذھبی نے میزان الآعتدال میں  حمدان بن الهيثم کے ترجمہ میں لکھا

حمدان بن الهيثم. عن أبي مسعود أحمد بن الفرات.  وعنه أبو الشيخ ووثقه.  لكنه أتى بشيء منكر عن أحمد عن أحمد بن حنبل في معنى قوله عليه السلام إن الله خلق آدم على صورته.  زعم أنه قال صور الله صورة آدم قبل خلقه ثم خلقه على تلك الصورة فأما أن يكون خلق الله آدم على صورته فلا فقد قال تعالى {ليس كمثله شيء

حمدان بن الهيثم ، ابی مسعود احمد بن الفرات سے اور ان سے ابو شیخ اور یہ ثقہ ہیں لیکن ایک منکر چیز امام احمد بن حنبل کے لئے لائے  اس  قول النبی پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دعوی کیا کہ وہ کہتے تھے کہ تخلیق سے پہلے الله  نے  آدم کی صورت گری کی تو وہ الله کی  صورت تھی جس پر وہ بنے  – (الذہبی تبصرہ کرتے ہیں) تو اگر یہی  صورت تھی تو یہ نہیں تھی کیونکہ الله نے کہا اس کے مثل کوئی نہیں

لیکن المروزی نے جن مسائل میں امام احمد سے اس روایت کے متعلق پوچھا تھا اس میں صریح الفاظ میں صورة رب العالمين لکھا ہے  دوم ابابطین کے مطابق یہ قول امام احمد کے بیٹے سے بھی منسوب ہے لہذا اس میں حمدان بن الهيثم  کا تفرد نہیں ہے

حنبلی علماء میں حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: 1413هـ)  نے اپنی کتاب عقیدہ  أهل الإيمان في خلق آدم على صورة الرحمن  میں لکھا کہ امام احمد سے یہ قول ثابت ہے کہ الھا کی ضمیر الله کی طرف ہے اور جو اس کے خلاف کہے وہ جھمی ہے

والقول بأن الضمير يعود على آدم وأن الله تعالى خلق آدم على صورته، أي على صورة آدم مروي عن أبي ثور إبراهيم بن خالد الكلبي. وبه يقول بعض أكابر العلماء بعد القرون الثلاثة المفضلة، وهو معدود من زلاتهم،

اور یہ قول کہ ضمیر جاتی ہے آدم کی طرف اور بے شک الله تعالی نے ان کو انکی صورت پر بنایا یعنی آدم کی صورت پر جو مروی ہے ابو ثور ابراہیم بن خالد اور الکلبی سے اور اسی طرح بعض اکابر علماء نے کہا ہے قرن تین کے بعد اور وہ چند ہیں اپنی  غلطیوں کے ساتھ

اس کتاب میں تعلیق میں  حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري دعوی کرتے ہیں

وأنه لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله.

اور بے شک سلف کے درمیان تین قرون میں اس پر کوئی نزاع نہ تھا کہ  (صورته ميں الهاء) ضمیر الله کی طرف جاتی ہے 

حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري نے ابن حبان، ابن خزیمہ، امام مالک، امام ابن قتیبہ ، سب کو ایک  غلط قرار دے کر خود جمہور میں  امام احمد کو قرار دیا یہاں تک کہ ابن حجر اور الذھبی کی رائے کو بھی غلط قرار دے دیا

ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں لکھتے ہیں

لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله فإنه مستفيض من طرق متعددة عن عدد من الصحابة وسياق الأحاديث كلها يدل  على ذلك وهو أيضاً مذكور فيما عند أهل الكتابين من الكتب كالتوراة وغيرها

قرون ثلاثہ میں سلف میں  کوئی نزاع نہ تھا کہ یہ ضمیر الله کی طرف جاتی ہے کیونکہ  اس پر بہت سے طرق سے اصحاب رسول سے روایات ہیں اور ان سب احادیث کا سیاق دلالت کرتا ہے اسی پر اور یہ اہل کتاب کی کتب میں بھی مذکور ہے جیسے توریت اور دیگر

وہابی   عالم  محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421 هـ) کتاب   شرح العقيدة الواسطية میں لکھتے ہیں

أن الإضافة هنا من باب إضافة المخلوق إلى خالقه، فقوله: “على صورته”، مثل قوله عزوجل في آدم: {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72]، ولا يمكن أن الله عز وجل أعطى آدم جزءاً من روحه، بل المراد الروح التي خلقها الله عز وجل، لكن إضافتها إلى الله بخصوصها من باب التشريف، كما نقول: عباد الله، يشمل الكافر والمسلم والمؤمن والشهيد والصديق والنبي لكننا لو قلنا: محمد عبد الله، هذه إضافة خاصة ليست كالعبودية السابقة

یہاں پر (الھا) کی اضافت، مخلوق کی خالق کی طرف اضافت ہے قول ہے علی صورته الله تعالی کے قول {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72] کی مثل ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ الله تعالی نے آدم کو اپنی روح کا جز دیا ہو بلکہ مراد ہے وہ روح جو اللہ نے تخلیق کی لیکن اس کی اضافت الله کی طرف کی ہے اس کی خصوصیت کی بنا پر شرف کی وجہ سے جیسے ہم کہیں الله کے بندے جن میں کافر اور مسلم اور مومن اور شہید اور صدیق اور نبی سب ہیں لیکن اگر ہم کہیں محمد الله کے بندے تو یہ اضافت خاص ہے ویسی نہیں جیسے دوسرے بندوں کے لئے تھی

یعنی  وہابیوں میں اس اضافت پر اختلاف ہوا جس میں متاخرین نے امام احمد کے قول کی اتباع کی اور اضافت کو بقول ابن العثيمين ، المماثلة کی طرح الله کی طرف کر دیا

محدثین کے اس اختلاف میں  الجهمية ، المعتزلة ،  الأشاعرة اور الماتريدية نے صورت کی بطور صفت الہی  نفی کی اور

دوسرے گروہ نے اس کا اثبات کیا (جن میں امام احمد، ابن تیمیہ وغیرہ ہیں) لیکن بعد میں ان میں بھی اختلاف ہوا جیسے حنابلہ میں

کتاب أبكار الأفكار في أصول الدين از سيف الدين الآمدي (المتوفى: 631هـ) کے مطابق

وقد روى عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال:  إنّ اللّه خلق آدم على صورته

فذهبت المشبهة: إلى أن هاء الضمير في الصورة عائدة إلى الله- تعالى-، وأن الله  تعالى- مصور بصورة مثل صورة آدم؛ وهو محال

اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا بے شک الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس المشبهة اس طرف گئے ہیں کہ صورته میں هاء کی ضمیر الله کی طرف جاتی ہے اور الله تعالی ، آدم کی شکل والا کوئی  صورت گر ہے اور يه محال ہے

الآمدي کے مطابق وہ تمام لوگ ( بشمول محدثین) جو الھا کی ضمیر الله کی طرف لے کر گئے ہیں المشبهة ہیں

اہل تشیع میں بھی یہ روایت مقبول رہی جہاں ابا جعفر اس کو بیان کرتے ہیں

 الكافي – الشيخ الكليني – ج 1 – ص  134کی روایت ہے

عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد بن خالد ، عن أبيه ، عن عبد الله بن بحر ، عن أبي أيوب الخزاز ، عن محمد بن مسلم قال : سألت أبا جعفر عليه السلام عما يروون أن الله خلق آدم على صورته ، فقال هي : صورة ، محدثة ، مخلوقة واصطفاها الله واختارها على سائر الصور المختلفة ، فأضافها إلى نفسه ، كما أضاف الكعبة إلى نفسه ، والروح إلى نفسه ، فقال : ” بيتي ” ، ” ونفخت فيه من روحي

محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ابا جعفر علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا وہ  یہ دیکھتے ہیں کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پیدا کیا تو انہوں نے کہآ یہ صورت ایک نئی تھی مخلوق تھی اور الله نے اس کو دیگر تمام مختلف صورتوں میں سے چنا اور لیا پھر اس کی اضافت اپنی طرف کی جیسے کعبه الله کی اضافت اپنی طرف کی اور روح اضافت اپنی طرف کی جیسے کہا بیتی میرا گھر یا ونفخت فيه من روحي میں اس میں اپنی روح پھونک دوں گا

یہ تشریح مناسب ہے اور اس حدیث سے تجسیم کا عقیدہ نہ نکلے اس کی یہ تاویل  ہی صحیح ہے

لیکن اہل سنت میں بعض لوگوں نے  الله کو ایک مرد کی صورت دے دی   اور الله تعالی کا چہرہ  ، مرد کا چہرہ بنا دیا گیا  کتاب اسماء و الصفات از البیہقی کی روایت ہے

 أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي سُوَيْدٍ الذِّرَاعُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح. وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظَ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ثنا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي جَعْدًا أَمْرَدَ [ص:364] عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . قَالَ: وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، ثنا ابْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَوْصِلِيُّ وَابْنُ شَهْرَيَارَ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى، ثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ. فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ جَعْدٍ» . قَالَ: وَزَادَ عَلِيُّ بْنُ شَهْرَيَارَ: «عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . وَرَوَاهُ النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ.

حماد بن سلمہ،  قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا – ….ایک مرد کی صورت دیکھا اس پر سبز لباس تھا

 البیہقی، صحیح مسلم کے راوی حماد بن سلمہ پر برستے ہیں اور لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ، نا ابْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، قَالَ: «كَانَ حَمَّادُ بْنُ [ص:366] سَلَمَةَ لَا يُعْرَفُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ حَتَّى خَرَجَ خَرْجَةً إِلَى عَبَادَانَ، فَجَاءَ وَهُوَ يَرْوِيهَا، فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا شَيْطَانًا خَرَجَ إِلَيْهِ فِي الْبَحْرِ فَأَلْقَاهَا إِلَيْهِ» . قَالَ أَبُو عَبْدِالله الثَّلْجِيُّ: فَسَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ صُهَيْبٍ يَقُولُ: إِنَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ كَانَ لَا يَحْفَظُ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّهَا دُسَّتْ فِي كُتُبِهِ،

عبد الرحمان  بن مہدی کہتے ہیں کہ ان قسم کی احادیث سے حماد بن سلمہ نہیں پہچانا جاتا تھا حتی کہ عَبَادَانَ پہنچا پس وہ وہاں آیا اور ان کو روایت کیا  پس میں (عبد الرحمان بن مہدی) سمجھتا ہوں اس پر شیطان آیا جو سمندر میں سے نکلا اور اس نے حماد پر یہ القاء کیا.  ابو بکر الثلجی کہتے ہیں میں نے عباد بن صہیب کو سنا کہا بے شک حماد بن سلمہ حافظ نہیں ہے اور محدثین کہتے ہیں اس نے اپنی کتابیں دفن کیں

حماد بن سلمہ کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ اس اوپر والے قول کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ  ہے جس پر جھوٹ کا الزام ہے   میزان الاعتدل میں الذہبی ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قال ابن عدي: كان يضع الحديث في التشبيه ينسبها إلى أصحاب الحديث يسابهم   ذلك.

قلت: جاء من غير وجه أنه كان ينال من أحمد وأصحابه، ويقول: إيش قام به أحمد! قال المروزي: أتيته ولمته

ابن عدي کہتے ہیں تشبیہ کے لئے حدیث گھڑتا تھا جن کو اصحاب حدیث کی طرف نسبت دیتا ان کو بے عزت کرنے کے لئے

الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں ایک سے زائد رخ سے پتا ہے کہ یہ امام احمد اور ان کے اصحاب کی طرف مائل تھے اور کہتے کہ احمد کہاں رکے ہیں المروزی نے کہا یہ اتے اور ملتے

یہاں تو مسئلہ ہی الٹا ہے حماد بن سلمہ،  نعوذ باللہ ،  الله کو مرد کی شکل کا کہہ رہے ہیں جو تشبیہ و تجسیم کا عقیدہ  ہے  اس  روایت کو البانی صحیح کہہ رہے  ہیں

مالکیہ کے بر خلاف حنابلہ نے یہ عقیدہ اختیار کیا  کہ الله تعالی  کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے دیکھا – اس میں ان کے نزدیک  ایک مضبوط روایت یہ ہی تھی  جس کی سند کو انہوں نے صحیح کہنا شروع کیا

کتاب طبقات الحنابلة ج ١ ص ٢٤٢  از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک یہ اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں اور یہ عقیدہ ایمان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا

والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما روى عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الأحاديث الصحاح وأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قد رأى ربه فإنه مأثور عَنْ رَسُولِ  الله  صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صحيح قد رواه قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ والحديث عندنا عَلَى ظاهره كما جاء عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – والكلام فيه بدعة ولكن نؤمن به كما جاء عَلَى ظاهره ولا نناظر فيه أحدًا

اور ایمان لاؤ روز قیامت الله کو دیکھنے پر جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم کی روایت میں آیا ہے .. اور صحیح احادیث میں  کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے

البانی   کے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت صحیح ہے  اور إبطال التأويلات لأخبار الصفات از  القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) میں بہت سی روایات ہیں جن میں الله تعالی کو ایک مرد نوجوان گھنگھریالے بالوں والا کہا گیا ہے وہاں ان تمام روایات کو پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہےکہ الله تعالی کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا اس کو متقدمین حنابلہ نے قبول کیا

کتاب  غاية المرام في علم الكلام  از الآمدي (المتوفى: 631هـ)  کے مطابق کرامیہ نے بھی یہ عقیدہ اختیار کیاکہ الله  ایک گھنگھریالے بال والا  نوجوان کی صورت ہے – السفاريني کے مطابق بعض غالی شیعوں نے بھی اس عقیدہ کو اختیار کیا –

 اہل تشیع کے تمام فرقے اس کے قائل نہیں تھے بعض میں  میں الله کی تجسیم کا انکار تھا  کتاب  التوحيد – از الصدوق – ص 103 – 104 کی روایت ہے

 حدثني محمد بن موسى بن المتوكل رحمه الله ، قال : حدثنا عبد الله بن جعفر الحميري ، عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسن بن محبوب ، عن يعقوب السراج ، قال : قلت لأبي عبد الله عليه السلام : إن بعض أصحابنا يزعم أن لله صورة مثل صورة الإنسان ، وقال آخر : إنه في صورة أمرد جعد قطط ، فخر أبو عبد الله ساجدا ، ثم رفع رأسه ، فقال : سبحان الله الذي ليس كمثله شئ ، ولا تدركه ‹ صفحة 104 › الأبصار ، ولا يحيط به علم ، لم يلد لأن الولد يشبه أباه ، ولم يولد فيشبه من كان قبله ، ولم يكن له من خلقه كفوا أحد ، تعالى عن صفة من سواه علوا كبيرا .

یعقوب سراج نے کہا کہ میں ابی عبد الله علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے بعض اصحاب (شیعہ) دعوی کرتے ہیں کہ الله کی صورت ایک انسان کی صورت جیسی ہے اور دوسرا کہتا ہے وہ ایک  گھنگھریالے بالوں والا مرد ہے – پس امام ابو عبد الله  سجدے میں گر گئے پھر سر اٹھایا اور کہا الله پاک ہے اس کے مثل کوئی شی نہیں ہے نگاہیں اس کا ادرک نہیں کر سکتیں اور اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا اور وہ نہ پیدا ہوا  کیونکہ لڑکا اپنے باپ کی شکل ہوتا ہے اور نہ اس نے کسی کو جنا اس سے پہلے اور نہ مخلوق میں کوئی اس کا کفو ہے وہ بلند ہے

ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس میں حنابلہ کا رد کیا جو تجسیم کی طرف چلے گئے

ابن جوزی صورہ

اور بے شک قاضی ابویعلی نے صفت الله کا اثبات کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ (الله) ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد تھا جس  نے لباس اور جوتیاں پہن رکھیں تھیں اور تاج تھا اس نے اس کا اثبات کیا لیکن اس کے معنوں پر عقل نہیں دوڑائی .. اور ہم جانتے ہیں جوان اور امرد کا کیا مطلب ہے … ابن عقیل کہتے ہیں یہ حدیث ہم جزم سے کہتے ہیں جھوٹ ہے پھر راوی کی ثقاہت کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر متن میں ممکنات نہ ہوں  

افسوس ابن جوزی حنبلی کے ڈیڑھ سو سال  بعد  انے والے ایک امام ، امام ابن تیمیہ نے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية  میں الله تعالی کو جوان اور گھنگھریالے بالوں والا جوان والی روایت پر لکھا کہ امام احمد کے نزدیک یہ صحیح ہیں

حدثني عبد الصمد بن يحيى الدهقان سمعت شاذان يقول أرسلت إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل أستأذنه في أن أحدث بحديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال رأيت ربي قال حدث به فقد حدث به العلماء قال الخلال أبنا الحسن بن ناصح قال حدثنا الأسود بن عامر شاذان ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه جعدًا قططا أمرد في حلة حمراء والصواب حلة خضراء

شاذان کہتے ہیں میں نے بھیجا امام احمد کی طرف اور پوچھا کہ وہ اس حدیث پر کیا حکم کرتے ہیں جو قتادہ عن عکرمہ عن ابن عباس کی سند سے روایت کرتا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا – امام احمد نے کھا اس کی روایت کرو کیونکہ اس کو علما نے روایت کیا ہے …. ابن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا  گھونگھر والے بالوں والا, بغیر داڑھی مونچھ والا جوان جس پر سرخ یا سبز لباس تھا

اسی کتاب میں   رویہ الباری  تعالی پر ابن تیمیہ  کہتے ہیں

وأخبر أنه رآه في صورة شاب دونه ستر وقدميه في خضرة وأن هذه الرؤية هي المعارضة بالآية والمجاب عنها بما تقدم فيقتضي أنها رؤية عين كما في الحديث الصحيح المرفوع عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء

اور رسول الله نے خبر دی  کہ انہوں نے الله کو ایک مرد کی صورت دیکھا درمیان پردہ تھا اور اس کے قدموں پر سبزہ تھا اور اس خواب  کی مخالفت آیات سے ہوتی ہے اور اس کا جواب دیا گیا ہے جو گزرا کہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے آنکھ سے دیکھا جیسا کہ صحیح مرفوع حدیث میں ہے عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس کی سند سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد کی صورت ، بہت گھونگھر والے بالوں والا سبز باغ میں دیکھا  

دوسری طرف ابن تیمیہ کے ہم عصر الذھبی دمشق ہی میں اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں  شَاذَانُ أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ الشَّامِيُّ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ (2) .
وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَالسَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:
قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.حماد بن سلمہ روایت کرتا ہے قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا یعنی نیند میں اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے جو  خبر منکر ہے ہم الله سے اس پر سلامتی کا سوال کرتے ہیں دین میں نہ یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر اور اگر اس کے راوی غیر متہم ہوں تو بھی وہ نسیان خطا سے پاک نہیں اور پہلی خبر میں نے رب کو دیکھا جس میں نیند کی قید ہے اور بعض روایات میں ہے نبی نے کہا میں نے معراج پر رب کو دیکھا اس میں ظاہر حدیث سے اجتجاج کیا گیا ہے

الذھبی اسی کتاب میں امام لیث بن سعد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: مَا أَدْركنَا أَحَداً يُفَسِّرُ هَذِهِ الأَحَادِيْثَ، وَنَحْنُ لاَ نُفَسِّرُهَا.

قُلْتُ: قَدْ صَنَّفَ أَبُو عُبَيْدٍ (1) كِتَابَ (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ) ، وَمَا تَعرَّضَ لأَخْبَارِ الصِّفَاتِ الإِلَهِيَّةِ بِتَأْوِيلٍ أَبَداً، وَلاَ فَسَّرَ مِنْهَا شَيْئاً.

اور ابو عبید نے کہا  ہمیں کوئی نہیں ملا جو ان (صفات والی) احادیث کی تفسیر کرے اور ہم بھی نہیں کریں گے

میں الذھبی کہتا ہوں اس پر ابو عبید نے کتاب (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ)  تصنیف کی ہے انہوں نے اس میں صفات الہیہ کی کبھی بھی تاویل نہیں کی نہ ان  میں کسی چیز کی تفسیر کی

اسی کتاب میں الذھبی محدث ابن خزیمہ کے لئے لکھتے ہیں

وَكِتَابُه فِي (التَّوحيدِ) مُجَلَّدٌ كَبِيْرٌ، وَقَدْ تَأَوَّلَ فِي ذَلِكَ حَدِيْثَ الصُّورَةِ

فَلْيَعْذُر مَنْ تَأَوَّلَ بَعْضَ الصِّفَاتِ، وَأَمَّا السَّلَفُ، فَمَا خَاضُوا فِي التَّأْوِيْلِ، بَلْ آمَنُوا وَكَفُّوا، وَفَوَّضُوا عِلمَ ذَلِكَ إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِه

اور ان کی کتاب توحید ہے مجلد کبیر اور اس میں حدیث صورت کی تاویل ہے پس ان کو معاف کریں صفات کی تاویل کرنے پر اور جہاں تک سلف ہیں تو وہ تاویل میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ ان پر ایمان لائے اور رکے اور علم کو الله اور اس کے رسول سے منسوب کیا

الذھبی نے اس قسم کے اقوال کو بالکل قبول کرنے سے انکار کیا کہ سلف صفات الہیہ پر ایسا نہیں کہہ سکتے لیکن ابن تیمیہ نے بھر پور انداز میں جھمیہ پر کتاب میں ان تمام اقوال کو قبول کیا

کتاب سیر الاعلام النبلا میں ابن عقیل کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

قُلْتُ: قَدْ صَارَ الظَّاهِرُ اليَوْم ظَاهِرَيْنِ: أَحَدُهُمَا حقّ، وَالثَّانِي بَاطِل، فَالحَقّ أَنْ يَقُوْلَ: إِنَّهُ سمِيْع بَصِيْر، مُرِيْدٌ متكلّم، حَيٌّ عَلِيْم، كُلّ شَيْء هَالك إِلاَّ وَجهَهُ، خلق آدَمَ بِيَدِهِ، وَكلَّم مُوْسَى تَكليماً، وَاتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلاً، وَأَمثَال ذَلِكَ، فَنُمِرُّه عَلَى مَا جَاءَ، وَنَفهَمُ مِنْهُ دلاَلَةَ الخِطَابِ كَمَا يَليق بِهِ تَعَالَى، وَلاَ نَقُوْلُ: لَهُ تَأْويلٌ يُخَالِفُ ذَلِكَ. وَالظَّاهِرُ الآخر وَهُوَ البَاطِل، وَالضَّلاَل: أَنْ تَعتَقِدَ قيَاس الغَائِب عَلَى الشَّاهد، وَتُمَثِّلَ البَارِئ بِخلقه، تَعَالَى الله عَنْ ذَلِكَ، بَلْ صفَاتُهُ كَذَاته، فَلاَ عِدْلَ لَهُ، وَلاَ ضِدَّ لَهُ، وَلاَ نَظيرَ لَهُ، وَلاَ مِثْل لَهُ، وَلاَ شبيهَ لَهُ، وَلَيْسَ كَمثله شَيْء، لاَ فِي ذَاته، وَلاَ فِي صفَاته، وَهَذَا أَمرٌ يَسْتَوِي فِيْهِ الفَقِيْهُ وَالعَامِيُّ – وَاللهُ أَعْلَمُ -.

میں کہتا ہوں: آج ہمارے ہاں ظاہر ہوئے ہیں  ایک وہ ہیں جو حق ہیں اور دوسرے وہ جو باطل ہیں پس جو حق پر ہیں وہ کہتے ہیں کہ الله سننے والا دیکھنے والا ہے اور کلام کرنے والا ہے زندہ جاننے والا ہے ہر چیز ہلاک ہو گی سوائے اس کے وجھہ کے اس نے آدم کو ہاتھ سے خلق کیا اور موسی سے کلام کیا اور ابراہیم کو دوست کیا اور اس طرح کی مثالیں پس ہم ان پر چلتے ہیں جو آئیں ہیں اور ان کا وہی مفھوم لیتے ہیں جو اللہ سے متعلق خطاب میں دلالت کرتا ہے

اور ظاہر ہوئے ہیں دوسرے جو باطل ہیں اور گمراہ ہیں جو اعتقاد رکھتے ہیں غائب کو شاہد پر قیاس کرتے ہیں اور الباری تعالی کو مخلوق سے تمثیل دیتے ہیں بلکہ اس کی صفات اسکی ذات ہیں پس اس کی ضد نہیں اس کی نظیر نہیں اس کے مثل نہیں اس کی شبیہ نہیں اس کے جیسی کوئی چیز نہیں نہ اس کی ذات جیسی نہ صفات جیسی اور یہ وہ امر ہے جو برابر ہے فقیہ اور عامی کے لئے والله اعلم

یہودیوں کی کتاب سلیمان کا گیت میں الفاظ ہیں

His head is purest gold; his locks are wavy and black as a raven.

اس کا سر خالص سونا ھے اور  بالوں کا گھونگھر لہر دار  ہے اور کالے ہیں کوے کی طرح 

Song  of Solomon

اس کتاب کو علماء یہود کتب مقدس کی سب سے اہم کتاب کہتے ہیں جو تصوف و سریت پر مبنی ہے اور عشق مجازی  کے طرز پر لکھی گئی  ہے

یاد رہے اس امت میں دجال ایک گھنگھریالے بالوں والا جوان ہو گا جو رب ہونے اور مومن ہونے کا دعوی کرے گا

اور کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ دجال کے نکلنے پر اس کی اتباع صرف یہودی ہی کریں گے بلکہ امام ابن عقیل حنبلی کتاب الفنون میں اپنے دور کے دجالوں کا ذکر کرتے ہیں  اور ان کے متبع مسلمانوں کا

ibn-aqeel-dajjal

لوگ چل دیے انہی المشبه کی طرح جنھیں وہم ہوا اور جنہوں نے اپنے دلوں میں یہ بات بٹھائی کہ ان کا رب ایک آدمی کی صورت ہے پس انہوں نے ( صفت) صورہ کا انکار نہ کیا اور ان (دجالوں) کے ہاتھوں ظاہر ہوئے وہ افعال الہی جن میں مردوں کا زندہ کرنا ہے اور بادل کو اٹھانا ہے اور اسی طرح کے فتنے پس یہاں تک کہ کوئی نہ تھا جو ان کا انکار کرتا
ان میں سے ایک (ان دجالوں کی اتباع کرنے والے) نے کہا اور وہ جو اسکے دل میں تھا اس کو چھپایا اور پٹنے سے گھبرا کر بولا کہ وہ (اصل الدجال اکبر تو) کانا ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تمہارا رب کانا نہیں ہے

اس سے حنبلی (ابن عقیل) نے کہا: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شیخ (اس دجال کا ساتھی) اگر دجال (اکبر) کو صحیح آنکھوں سے پائے تو اس کے پاس جائے گا اور اسکی عبادت کرے گا کہ اس کی صورت کامل ہے – پس تیرے دل میں جو تھا وہ نکل آیا ہے تو عبادت سے نہیں رکے گا الا یہ کہ وہ کانا ہو-اور الله سبحانہ و تعالی نے مسیح اور انکی ماں کی الوہیت کا انکار کیا یہ کہہ کر کہ وہ کھانا کھاتے تھے- اور اگر یہی تیری معذرت ہے تو تیرے لئے واجب ہے کہ عیسیٰ کی عبادت کر کیونکہ وہ مردے کو زندہ کرتا تھا اور کانآ نہیں تھا

ابن عقیل کے شاگرد ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس کے مقدمہ میں اعتراف کیا کہ حنابلہ نے گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے کف افسوس ملتے ہوئے مقدمہ میں لکھتے ہیں

ibn-jozi-afsos

میں نے اپنے اصحاب (حنابلہ) کو دیکھا جو اصول میں ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو صحیح نہیں ہیں

أور إس میں تین تصانیف ہیں ابو عبد الله بن حامد کی اور ان کے صاحب قاضی ابو یعلی کی اور ابن الزغوانی کی پس انہوں نے ان کو اپنے مذھب کے مطابق تصنیف کیا اور میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مرتبے سے گر کر عوام کی سطح پر آ گئے اور انہوں نے صفات باری تعالی کو اس محسوسات تک کا متقاضی کر دیا پس انہوں نے الله تعالی کو نام دیا کہ اس نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر خلق کیا پس الله کے لئے صورت کا اثبات کیا

اور (ہمارے مخالفین نے کہا کہ الله) كا چہره ذات بر اضافہ ہے اور دو انکھیں ہیں اور منہ … اور اس کے چہرہ کا نور کرنیں ہیں اور اس کے دو ہاتھ ہیں اور انگلیاں اور ہتھیلی اور چھنگلیا اور انگوٹھے اور سینہ اور ران اور پنڈلی اور دو پیر ہیں اور کہا انہوں نے کہ ہم نے اس کے سر کا نہیں سنا اور کہا یہ جائز ہے کہ اس کو چھوا جائے أور وه بذات اپنے بندے کے پاس آئے اور ان میں سے بعض نے کہا وہ سانس لے پھر عوام ان کے اس اس قول سے راضی ہوئی نہ کہ عقل سے

اور انہوں نے اسماء و الصفات کو اس کے ظاہر پر لیا پس ان کو صفات کا نام دیا بدعتوں کی طرح ان کے پاس کوئی عقلی و نقل سے پہنچی دلیل نہیں تھی نہ انہوں نے نصوص کی طرف التفات کیا جن کا معانی الله کے لئے واجب ہے

.
.
.
.
أور يه كلام صريح ألتشبيه كا ہے جس میں خلق نے انکی اتباع کی … جبکہ تہمارے سب سے بڑے امام احمد بن حنبل الله رحم کرے کہا کرتے تم کیسے کہہ دیتے ہو جو میں نے نہیں کہا پس خبردار ایسا کوئی مذھب نہ ایجاد کرو جو ان سے نہ ہو

اب اگلی صدیوں میں ابن تیمیہ ، امام ابن الجوزی کے کہے  کو میٹ دیں گے اور الله  کی صفات میں اس قدر الحاد کریں کریں گے کہ اس کو رجل امرد تک کہہ دیں گے

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة  از  ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق

وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا.
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے

الغرض امام مالک   مطلقا اس خلق آدم علی صورتہ کو  قبول نہیں کرتے تھے اور وہ اس کو سنتے ہی رد کرتے تھے – امام احمد، امام اسحٰق ، امام بخاری امام مسلم  اس کو صحیح سمجھتے تھے- بعض گمراہ لوگ اس سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا استخراج کرتے اور شوافع اس کو کذب کہتے اور حنابلہ اس سے ساتھ ایک دوسری روایت سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا عقیدہ رکھتے  –   آٹھویں صدی تک جا کراہل سنت میں (مثلا الذھبی)  خلق آدم علی صورتہ  والی روایت کی تاویل سے منع کر دیا گیا اور الله کے لئے کسی بھی تجسیم کا عقیدہ غلط قرار دیا جانے لگا

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے

الأسماء و الصفات

Light upon Light

anam-1

Light upon Light

بسم الله الرحمن الرحيم

Some deviated sects among Muslims, claim with no evidence that Allah is based on  Noor (light). He is energy who is moving this static Universe[1]. On the contrary Allah said in Quran, surah Shura 11:

[note color=”#BEF781″]

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

There is nothing like unto Him, and He is the All-Hearer, the All-Seer.

[/note]

Allah has created the Light and Darkness. In surah Al-Anam, verse 1, Allah said:

 

[note color=”#BEF781″]

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ 

All praises and thanks be to Allah, Who (Alone) created the heavens and the earth, and originated the darkness and the light, yet those who disbelieve hold others as equal with their Lord.

[/note]

Allah is the Creator of all seen and unseen including the darkness and light. In hadith it is further explained in

Sahih Muslim, chapter باب في قوله عليه السلام نور أني أراه وفي قوله رأيت نورا

[note color=”#CEECF5″]

 حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا وكيع عن يزيد بن إبراهيم عن قتادة عن عبدالله بن شقيق عن أبي ذر قال: سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم هل رأيت ربك ؟ قال نور أنى أراه

Abdullah bin Shaqeeq narrated from Abi Dharr that he said: I asked Messenger of Allah peace be upon him, whether he has seen his Lord? He said: Light, I saw!

 حدثنا محمد بن بشار حدثنا معاذ بن هشام حدثنا أبي ح وحدثني حجاج بن الشاعر حدثنا عفان بن مسلم حدثنا همام كلاهما عن قتادة عن عبدالله بن شقيق قال قلت لأبي ذر : لو رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم لسألته فقال عن أي شيء كنت تسأله ؟ قال كنت أسأله هل رأيت ربك ؟ قال أبو ذر د سألت فقال رأيت نورا

Abdullah bin Shaqeeq said to Abi Dharr, Have  I seen Messenger of Allah peace be upon him I would have asked something? He said: What you would like to inquire about?  Said. I would have asked whether he has seen his Lord? Abu Dharr said I asked this and he (Prophet) said  I saw light.

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية حدثنا الأعمش عن عمرو بن مرة عن أبي عبيدة عن أبي موسى قال  : قام فينا رسول الله صلى الله عليه و سلم بخمس كلمات فقال إن الله عز و جل لا ينام ولا ينبغي له أن ينام يخفض القسط ويرفعه يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل حجابه النور ( وفي رواية أبي بكر النار ) لو كشفه لأحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه

Abi Musa said:  (On one occasion) Stood among us Messenger of Allah peace be upon him (i.e. addressed us) and said five things. He said: Indeed Allah does not sleep and it is not for him to sleep, (He) lowers and elevate the Balance; ascend towards him the deeds of nights before the deeds of  afternoon, and deeds of afternoon before the deeds of night, His veil is Light (and in narration of Abi Bakr bin Abi Sheeba) if it (veil) is removed, Splendor from His Countenance would scorch His Creation till His eyesight! (i.e. all His Creation)

[/note]

From these narrations it is clear that Messenger of Allah peace be upon him saw the veil which lies between Allah and His Creation and it is made up of light.

Deviated people also twist the meaning of following verse of  surah An-Noor, verse 35.

[note color=”#BEF781″]

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

Allah is the Light of the heavens and the earth. The parable of His Light is as (if there were) a niche and within it a lamp, the lamp is in glass, the glass as it were a brilliant star, lit from a blessed tree, an olive, neither of the east (i.e. neither it gets sun-rays only in the morning) nor of the west (i.e. nor it gets sun-rays only in the afternoon, but it is exposed to the sun all day long), whose oil would almost glow forth (of itself), though no fire touched it. Light upon Light! Allah guides to His Light whom He wills. And Allah sets forth parables for mankind, and Allah is All-Knower of everything.

[/note]

In this verse of surah An-Noor it is informed allegorically that it Allah who is guiding the Humanity. His Guidance is self illuminating and His Guidance does not require any other source for its elaboration. We know that His Guidance is Quran. All the earliest statements from Sahabah and Tabaeen on this verse said similar to what is stated here[2].

It is further explained in the very next verse that this Noor (light) is present in many houses, in which His Guidance is followed.

[note color=”#BEF781″]

فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآَصَالِ (36) رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (37) لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (38

In houses (mosques), which Allah has ordered to be raised (to be cleaned, and to be honoured), in them His Name is glorified in the mornings and in the afternoons or the evenings, Men whom neither trade nor sale diverts them from the Remembrance of Allah (with heart and tongue), nor from performing As-Salat (Iqamat-as-Salat), nor from giving the Zakat. They fear a Day when hearts and eyes will be overturned (from the horror of the torment of the Day of Resurrection). That Allah may reward them according to the best of their deeds, and add even more for them out of His Grace. And Allah provides without measure to whom He wills.

[/note]

So the Noor is Quran, as Allah said that O prophet, We sent you like a lamp for people. Prophet said his companions are like stars. So all such allegories are made to compare Truth (light) with Falsehood (Darkness). Allah said in surah al-Ahzab 41-43:

[note color=”#BEF781″]

 O you who believe! Remember Allah with much remembrance. And glorify His Praises morning and afternoon. He it is Who sends Salat (His blessings) on you, and His angels too (ask Allah to bless and forgive you), that He may bring you out from darkness into light. And He is Ever Most Merciful to the believers.

[/note]

Allah said in surah Al-Shura:

[note color=”#BEF781″]

And thus We have revealed to you an inspiration of Our command. You did not know what is the Book or [what is] faith, but We have made it a light by which We guide whom We will of Our servants. And indeed, [O Muhammad], you guide to a straight path

[/note]

Hence Allah is Noor in the sense that He is the source of  real Guidance, which  only comes through Him. Allah has sent us His Guidance  in form of Quran.  Allah is not a light energy or any other energy as He is the creator of all physical and metaphysical energies.  If we utter that Allah is energy then this  is Kufr, as we have made Him equivalent to  Creation

Another deviated approach of some Muslims is than to declare origin-wise Prophet as Noor.   When we call Allah and his Prophet coming out of same substance than this is basically the Gnostic[3] faith of Homoousios[4] that Allah and Jesus in substance are same.  In Sahih Muslim a hadith is reported that:

[note color=”#CEECF5″]

 Prophet peace be upon him said that angels are created from Noor (light).

[/note]

Allah commanded the Angels (beings created from Light) to prostrate to  Adam (Being created from dust), which reflects the importance of humans in Allah’s creation. Allah also exhibited to all Angels that Adam knows more names than what Angels know.

[note color=”#BEF781″]

He said, “O Adam, inform them of their names.” And when he had informed them of their names, He said, “Did I not tell you that I know the unseen [aspects] of the heavens and the earth? And I know what you reveal and what you have concealed.”

[/note]

Therefore a Human has more importance over beings created from Noor. Then is it not degradation when one claims Noor as substance of creation for Prophet?

First Council of Nicea 325 AD

Christians had fabricated the belief of Trinity in year 325 AD. It starts with words:

“We believe in one God, the Father Almighty, Maker of all things visible and invisible. And in one Lord Jesus Christ, the Son of God, begotten of the Father, Light of Light, very God of very God, begotten, not made, being of one substance with the Father (Homoousios);  By whom all things were made, Who for us men, and for our salvation, came down and was incarnate and was made man; He suffered, and the third day he rose again, ascended into heaven; From thence he shall come to judge the quick and the dead. And in the Holy Ghost. …”

My dear reader,  Jesus as Light was the Christian concept, crept into Muslims as well.

Strangely those who believe that Allah is Noor also claimed that Prophet and Saints can see Allah in a form like a human. However it is explained in Quran that it is not possible.  Why in their vision or dreams Allah is not in Noor,?

Allah said is surah Al-Anam, verse 103:

[note color=”#BEF781″]

 لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

No vision can grasp Him, but His Grasp is over all vision. He is the Most Subtle and Courteous, Well-Acquainted with all things.

[/note]

Prophets cannot see Allah

Moses insisted on seeing Allah when he was at Mount Tur. Allah informed us in surah Al-Araf, verse 143:

[note color=”#BEF781″]

وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ

And when Musa (Moses) came at the time and place appointed by Us, and his Lord spoke to him, he said: “O my Lord! Show me (Yourself), that I may look upon You.” Allah said: “You cannot see Me, but look upon the mountain if it stands still in its place then you shall see Me.” So when his Lord appeared to the mountain , He made it collapse to dust, and Musa (Moses) fell down unconscious. Then when he recovered his senses he said: “Glory be to You, I turn to You in repentance and I am the first of the believers.”

[/note]

Therefore Musa was unable to see Allah Almighty.  As the condition of vision was not fulfilled. The mountain becomes dust when Allah did his Tajali on it and Musa fainted before that when he saw the mountain turning into dust.

It is reported in Bukhari that Mother of Believers Aisha, may Allah be pleased with her totally denied the concept that Prophet saw Allah.

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الشَّعْبِىِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ – رضى الله عنها – قَالَتْ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ وَهْوَ يَقُولُ ( لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ ) وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ الْغَيْبَ فَقَدْ كَذَبَ ، وَهْوَ يَقُولُ لاَ يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلاَّ اللَّهُ

 Narrated Masrooq from Aisha may Allah be pleased with her  that she said who said that Muhammad peace be upon him saw his Lord, has lied. And she said Eyes cannot reach Him and who said that he knew Ilm-ul-Ghyab has also lied and she said No one knows Ghayb except Allah

 حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِى خَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَةَ – رضى الله عنها – يَا أُمَّتَاهْ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ – صلى الله عليه وسلم – رَبَّهُ فَقَالَتْ لَقَدْ قَفَّ شَعَرِى مِمَّا قُلْتَ ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ . ثُمَّ قَرَأَتْ ( لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ) . ( وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ) وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ ( وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ) وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ ( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ) الآيَةَ ، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ – عَلَيْهِ السَّلاَمُ – فِى صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ

Masrooq narrated that she said to Aisha may Allah be pleased with her, O Mother:  Has Muhammad peace be upon him, saw his Lord? She said: indeed my hairs are raised on what you said!  One who utters these three things to you is a liar- one who say to you that Muhammad peace be upon him saw his Lord, that one has lied. Then she recited Vision can not grasp Him, but His Grasp is over all vision,  and a Human is not that  worthy that Allah talk to him except through revelation or behind the veil- and one who said to you that he (Prophet) knew what would happen tomorrow that (person) has lied then she recited and No Nafs knows what it would do tomorrow and one who said to you that he (Prophet) hid (something from Truth) that one has lied  then she recited O Prophet  give to others what has been sent down to you from your Lord, He (Prophet) saw (angel) Gabriel may Allah’s blessings be  on him- in his form twice.

[/note]

 

It is reported that

Hadith of Ibn-Abbas:

It is reported in Tirmidhi hadith that:

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِى أَبِى عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِى قِلاَبَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاَجِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « أَتَانِى رَبِّى فِى أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّى وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى قُلْتُ رَبِّى لاَ أَدْرِى فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَىَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَىَّ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قَالَ يَا مُحَمَّدُ. فَقُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى قُلْتُ فِى الدَّرَجَاتِ وَالْكَفَّارَاتِ وَفِى نَقْلِ الأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ فِى الْمَكْرُوهَاتِ وَانْتِظَارِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الصَّلاَةِ وَمَنْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ». قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ وَفِى الْبَابِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم

Narrated Ibn Abbas that Messeneger of Allah peace be upon him said: Allah came to me in a beautiful form and said to me O Muhammad, I said  At Thy service, my Lord. He said: What these highest angels contend about? I said: I do not know. He repeated it thrice. He said: Then I saw Him put his palms between my shoulder blades till I felt the coldness of his fingers between the two sides of my chest….. (Tirmidhi said) this hadith is Hasan Gharib with this chain. (Also) Said: there is another narration in this context narrated by Muadh bin Jabal and Abdurrehaman bin Ayyish from Messenger of Allah peace be upon him.


[/note]

Also narrated in Musnad Ahmed with chain:

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرزاق أنا معمر عن أيوب عن أبي قلابة عن بن عباس ان النبي صلى الله عليه و سلم قال : أتاني ربي عز و جل الليلة في أحسن صورة أحسبه يعني في النوم

 

Ibn Abi Hatim wrote in his book Illal ul hadith (علل الحديث)

 وسألتُ أبِي عَن حدِيثٍ ؛ رواهُ معاذ بن هِشامٍ ، عن أبِيهِ ، عن قتادة ، عن أبِي قِلابة ، عن خالِدِ بنِ اللجلاج ، عنِ ابنِ عبّاس ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم : رأيتُ ربِّي عزّ وجلّ وذكر الحدِيث فِي إسباغ الوضوء ونحوه.

قال أبِي : هذا رواهُ الولِيدُ بن مُسلِم وصدقة ، عنِ ابنِ جابِر ، قال : كُنّا مع مكحولٍ فمرّ بِهِ خالِد بن اللجلاج ، فقال مكحول : يا أبا إِبراهِيم ، حدّثنا ، فقال حدّثنِي ابن عائش الحضرمي ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.

قال أبِي : وهذا أشبهُ ، وقتادة يُقال : لم يسمع من أبِي قِلابة إِلاَّ أحرفًا ، فإنه وقع إِليهِ كتابٌ من كتبِ أبِي قِلابة ، فلم يميزوا بين عَبد الرّحمنِ بن عايش ، وبين ابن عبّاس.

قال أبِي : وروى هذا الحديث جهضمُ بن عَبدِ اللهِ اليمامي ، وموسى بن خلف العمي ، عن يحيى بنِ أبِي كثِيرٍ ، عن زيدِ بنِ سلام ، عن جدِّهِ : ممطور ، عن أبِي عَبدِ الرّحمنِ السكسكي ، عن مالِكِ بنِ يخامر ، عن معاذ بن جبل ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.

قال أبِي : وهذا أشبهُ من حدِيث ابن جابِر

And I asked my father about the hadith: narrated by Muad bin Hashsham from his father from Qattadah from Abi Qallabah from Khalid bin Al-Lajjaj from Ibn Abbas from Messenger of Allah peace be upon him: I saw my Lord  and talked about the hadith on the Ablution and simililar.

My father said: This is narrated by Al-Waleed bin Muslim and Saddaqah from Ibn Jabir said: We are with Makhool and Khalid bin Al-Lajjaj passed by us, So Makhool said: O Abu-Ibrahim (Khalid bin Al-Lajjaj) narrate to us, so he (Khalid) narrated that  Ibn-Ayish Al-Hadrami  from Messenger of Allah peace be upon him.

May father said: and I liked  and  Qattadah  said:  (Khalid) has not heard a single word from Abi Qallabah, he got a book from books of Abi Qallbah and has not differentiated between Abdurrehman bin Ayish and Ibn-Abbas.

And my father said. And narrated this hadith  Jahdhum bin Abdullah Al-Yamami and Musa bin Khalf Al-Ammi from Yahyah bin Abi Katheer from Zayd bin Salam from his grandfather Mamtoor from Abi Abdurrehman Al-Saksaki from Malik bin Yukhamar from Muadh bin Jabal from Messenger of Allah. My father said  liked this one than hadith of Jabir

 

Thus Imam Ibn Abi Hatim rejected the narration of Tirmidhi narrated by Khalid bin Al-Lajjaj. He preferred hadith of Muadh.

 

Hadith of Abdurrehamn bin Aayish

Narrations from AbdurRehman bin Ayish from Prophet are not correct.

وقال أبو حاتم الرازي هو تابعي وأخطأ من قال له صحبة وقال أبو زرعة الرازي ليس بمعروف

And Abu Hatim Al-Razi said: He is Tabeyee and it’s a mistake to call him companion of Prophet and Abu Zarra Al-Razi d´said he is not well known

 

Both Ibn Abbas’s and Aburrehman bin Aayish’s narrations are weak.

 

Hadith of Muad bin Jabal

The narration from Muadh is reported in Musnad Ahmed as:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا أبو سعيد مولى بنى هاشم ثنا جهضم يعنى اليمامي ثنا يحيى يعنى بن أبي كثير ثنا زيد يعنى بن أبي سلام عن أبي سلام وهو زيد بن سلام بن أبي سلام نسبه إلى جده أنه حدثه عبد الرحمن بن عياش الحضرمي عن مالك بن يخامر أن معاذ بن جبل قال : احتبس علينا رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات غداة عن صلاة الصبح حتى كدنا نتراءى قرن الشمس فخرج رسول الله صلى الله عليه و سلم سريعا فثوب بالصلاة وصلى وتجوز في صلاته فلما سلم قال كما أنتم على مصافكم ثم أقبل إلينا فقال انى سأحدثكم ما حبسني عنكم الغداة انى قمت من الليل فصليت ما قدر لي فنعست في صلاتي حتى استيقظت فإذا انا بربى عز و جل في أحسن صورة فقال يا محمد أتدري فيم يختصم الملأ الأعلى قلت لا أدري يا رب قال يا محمد فيم يختصم الملأ الأعلى قلت لا أدري رب فرأيته وضع كفه بين كتفي حتى وجدت برد أنامله بين صدري فتجلى لي كل شيء وعرفت فقال يا محمد فيم يختصم الملا الأعلى قلت في الكفارات قال وما الكفارات قلت نقل الاقدام إلى الجمعات وجلوس في المساجد بعد الصلاة وإسباغ الوضوء عند الكريهات قال وما الدرجات قلت إطعام الطعام ولين الكلام والصلاة والناس نيام قال سل قلت اللهم انى أسألك فعل الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وأن تغفر لي وترحمني وإذا أردت فتنة في قوم فتوفني غير مفتون وأسألك حبك وحب من يحبك وحب عمل يقربنى إلى حبك وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم انها حق فادرسوها وتعلموها

Narrated Mu’adh ibn Jabal: Allah’s Messenger (peace be upon him) was detained one morning from observing the dawn prayer (in congregation) along with us till the sun had almost appeared on the horizon. He then came out hurriedly and Iqamah for prayer was observed and he conducted it (prayer) in brief form. When he had concluded the prayer by saying As-salamu alaykum wa Rahmatullah, he called out to us saying: Remain in your places as you were. Then turning to us he said: I am going to tell you what detained me from you (on account of which I could not join you in the prayer) in the morning. I got up in the night and performed ablution and observed the prayer as had been ordained for me. I dozed in my prayer till I was overcome by (sleep) and lo and lo, I found myself in the presence of my Lord, the Blessed and the Glorious, in the best form. He said: Muhammad! I said: At Thy service, my Lord. He said: What these highest angels contend about? I said: I do not know. He repeated it thrice. He said: Then I saw Him put his palms between my shoulder blades till I felt the coldness of his fingers between the two sides of my chest. Then everything was illuminated for me and I recognized everything. He said: Muhammad! I said: At Thy service, my Lord. He said: What do these high angels contend about? I said: In regard to expiations. He said: What are these? I said: Going on foot to join congregational prayers, sitting in the mosques after the prayers, performing ablution well despite difficulties. He again said: Then what do they contend? I said: In regard to the ranks. He said: What are these? I said: Providing of food, speaking gently, observing the prayer when the people are asleep. He again said to me: Beg (Your Lord) and say: O Allah, I beg of Thee (power) to do good deeds, and abandon abominable deeds, to love the poor, that Thou forgive me and show mercy to me and when Thou intendst to put people to trial Thou causes me to die unblemished and I beg of Thee Thy love and the love of one who loves Thee and the love for the deed which brings me near to Thy love. Allah’s Messenger (peace be upon him) said: It is a truth, so learn it and teach it [Sunnan Tirimdhi Volume 5 Hadis No 3235 and Ahmed as well]

 [/note]

 

Imam Darqutini wrote about hadith of Muadh in his work Illal ul hadith. علل الدارقطني- juz 6,pg54:

وسئل عن حديث مالك بن يخامر عن معاذ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال رأيت ربي في أحسن صورة فقال لي يا محمد فيم يختصم الملا الاعلى الحديث بطوله فقال ……… قال ليس فيها صحيح وكلها مضطربة

And I asked (Imam Darqutini) about the hadith of  Malik bin Yukhamir from Muadh from Messenger of Allah peace be upon him that I saw my Lord … long narration, said   [after a lengthy discussion of different chains of this narration including Muad bin Jabal narration, Daqutini said ]  none of them is Sahih and all are Mudhtarib !

 

 

Thus the narration of seeing Allah in dream is not authentic. All chains are unclear and Mudhtarib.