خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے تمام فرقے قائل ہیں – ہر فرقے کے علماء کے خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں کہ وہی حق پر ہیں – اس طرح گمراہ فرقوں میں ہر ایک کو داد و تحسین مل جاتی ہے یہاں تک کہ دجال و مدعی نبوت بھی خواب میں رسول اللہ کو دیکھ کر دعوی کرتا ہے کہ اس کو بشارت ملی ہے – خواب میں بعض علماء نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درس صحیح البخاری بھی لیتے ہیں اور محدثین بتاتے ہیں جن احادیث کی صحت پر شک ہو ان کی تصحیح کے حوالے سے بات چیت بھی ہوتی ہے – بعض علماء مثلا علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ خواب کے بعد اب وہ بیداری میں بھی رسول اللہ سے ملاقات کرتے ہیں – اس طرح رسول اللہ نہ صرف خواب بلکہ اس کے علاوہ بھی ظاہر ہو جاتے ہیں
راقم کہتا ہے یہ سب فراڈ ہے اور ابلیس کا دھوکہ ہے جس میں یہ مبتلا ہوئے – آپ مت ہوں –
اس کتاب میں دیدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات جمع کی گئی ہیں جن کو دلیل مان کر دعوی کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا جا سکتا ہے – تحقیق سے اس کا عکس ثابت ہوتا ہے اور کوئی بھی صحیح السند روایت نہیں ملتی جن میں خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا ذکر ہو – اس کتاب میں اس موضوع پر بہت سی ضعیف روایات جمع کی گئی ہیں – بعض فرقوں کا دعوی ہے کہ روایت میں رانی (مجھے دیکھا ) کے الفاظ ہیں اور بیداری میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جا سکتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین میں کہیں بھی آ سکتے ہیں یہاں تک کہ مسلمانوں کی جنگوں میں بھی بعد وفات شرکت فرماتے ہیں – یہ تمام باطل اقوال و موقف ہیں
اسلامی تصوف اور متاثرہ فرقوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اولیاء اللہ کی ارواح موت کے بعد فرشتوں جیسے کام کرنے لگ جاتی ہیں یا ان کی جماعت میں ضم ہو جاتی ہیں – اس عقیدے کو المناوی اور شاہ ولی اللہ بیان کرتے تھے
شاہ ولی اللہ کتاب حجت اللہ البالغہ میں تو کہتے ہیں کہ ارواح فرشتوں کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں اور ان پر بھی اللہ کا حکم نازل ہونے لگتا ہے جس کو ارواح سر انجام دیتی ہیں
کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ) کے مطابق
قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.
اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر ، تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود دیکھتی ہیں یا بادشاہت الہی کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں
اس طرح کے اقوال سے روح کا کہیں بھی آنا ثابت کیا جاتا ہے جبکہ یہ اقوال بھی یہود کی کتب تصوف کا چربہ ہیں
Elaborating on cryptic passages found in the Bible (Gen. 5:24; 2 Kings 2:11), it is taught that exceptional mortals, such as Enoch, Elijah, and Serach bat Asher may be elevated to angelic status (I Enoch; Zohar I:100a, 129b; T.Z. Hakdamah 16b).
بائبل کے بعض اقتباسات سے یہ تعلیمات اخذ کی گئی ہیں کہ انسانوں میں انوخ ، الیاس اور سراخ بن عشر کو فرشتوں کا درجہ دیا جا چکا ہے
According to a medieval Midrash, nine people entered Paradise alive (and, by implication,
underwent transformation into Angels): Enoch, Elijah, the Messiah, Eliezer (the
servant of Abraham), Ebed Melech, Batya (the daughter of Pharaoh), Hiram
(who built Solomon’s Temple), Jaabez (son of R. Judah the Prince), and Serach
bat Asher (Derekh Eretz Zut 1)
یہودی کتاب مدرش کے مطابق نو افراد زندہ جنت میں گئے اور فرشتوں میں بدل گئے
روزانہ جسم سے روح نکلنا اور نیند میں اس کا آسمان میں جانا بھی یہودی تصوف کا کلام ہے
خبردار نفس انسانی اس سے (نیند میں ) نکلتا ہے اور بلند ہوتا ہے جب وہ اپنے بستر میں جاتا ہے – اور اگر تم سوال کرو کہ کیا سب آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں ؟ تو ایسا نہیں ہے کہ تمام الملک کا وجھہ (اللہ تعالی ) کو دیکھ سکیں (یعنی سارے نفس جسم چھوڑ کر عرش تک نہیں جا پاتے ) – نفس بلند ہوتا ہے اور اپنے پیچھے جسم انسانی (غف) میں ایک ذرہ سا چھوڑ جاتا ہے ، یہ کم از کم زندگی دل میں ہوتی ہے اور نفس جسم کو چھوڑتا ہے اور سرگرداں پھرتا ہے اور بلند ہونا چاہتا ہے اور بلندی تک کئی مدارج ہیں – نفس اگر دن میں نجاست سے (یعنی گناہ سے ) کثیف نہیں ہوا تو ہی بلند ہو پاتا ہے لیکن اگر نفس پاک ہے اگر دن میں کثیف نہ ہوا تھا تو یہ بلند ہو جاتا ہے – اگر نفس کثیف ہو چکا ہے تو وہ جسم سے ہی جڑا رہتا ہے اور پھر بلند نہیں ہوتا
Book of Zohar
یہود کو یہ تصور مصریوں سے ملا تھا کہ انسانی روح و نفس دو الگ چیزیں ہیں – اور ایک نفس جسم سے نکلتا ہے تو اس کا ایک حصہ جسم میں رہتا ہے – جو نفس نکلتا ہے وہ جو جو دیکھتا ہے وہ خواب ہوتا ہے – یہودی تصوف قبالہ میں اسی فلسفہ کی بنیاد پر شجر حیات
Tree of Life
کا زائچہ بنایا جاتا ہے جس کا ذکر جادو پر یہودی کتب میں موجود ہے
عراق کے مسلمان راویوں نے بھی یہ فلسفہ بیان کیا ہے جو بابل کے یہود کا اثر معلوم ہوتا ہے اور ان روایات پر تفصیلی کلام راقم کی کتاب ، کتاب الرویا میں ہے
دکتور فاضل صالح السامرائي جو قرآنی عربی اور عربی زبان کے ماہر ہیں ، عراقی اسکالر ہیں، لغوی ہیں ان کا کہنا ہے کہ لغت کے تحت توفی کا مطلب موت نہیں ہے اصلا معنی اخیتار و شعور کو واپس لینا ہے – اس ویڈیو میں ان کو سن سکتے ہیں – لفظ توفی پر یہ موقف راقم بھی رکھتا ہے
اس کتاب میں مختصرا زندگی کی ابتداء ، نیند ، بے ہوشی و موت پر آیات قرانی کی روشنی میں بات کی گئی ہے- کتاب کا مقصد قرانی آیا کو یکجا کرنا ہے – ہر انسان کو معلوم ہے زندگی کیا ہے ، نیند کیا ہے – ہم سے بعض کبھی بے ہوش بھی ہوئے ہوں گے لیکن قرآن میں ان سب پر توفی کا لفظ وارد ہوا ہے جس کا مطلب جکڑ لینا ، بھینچ لینا یا مٹھی میں لینا ہے عرف عام میں اس کو قبض کرنا کہا جاتا ہے –
اس کتاب میں روح اور الروح کے فرق کو واضح کیا گیا ہے
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ اللہ قبضے میں لے لیتا ہے نفس کو موت پر اور جو نہیں مرا اس کا نیند میں پس پکڑ کر رکھتا ہے نفس کو جس پر موت کا حکم کرتا ہے اور دوسرے نفس کو چھوڑ دیتا ہے اس میں نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں
سورہ الانعام آیت ٦٠ تا ٦١ میں ہے
وَهُوَ الَّـذِىْ يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُـمْ بِالنَّـهَارِ ثُـمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُـقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُـمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُـمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ اور وہ وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کر چکے ہو وہ جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ وہ وعدہ پورا ہو جو مقرر ہو چکا ہے، پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے پھر تمہیں خبر دے گا اس کی جو کچھ تم کرتے تھے۔ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ ۖ وَيُـرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ؕ حَتّــٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّـتْهُ رُسُلُـنَا وَهُـمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے، اور تم پر نگہبان (فرشتے ) بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے قبضہ میں لے لیتے اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے۔
اس میں نفس یا روح کا ذکر ہے کہ نیند میں بھی قبض ہو رہا ہے اور موت پر بھی قبض ہو رہا ہے – ایک ہی نفس ہے جس کو موت اور نیند پر قبض کیا جا رہا ہے – زمخشری تفسیر کشاف میں اس کا ذکر کرتے ہیں
والصحيح ما ذكرت أوّلا، لأنّ الله عز وعلا علق التوفي والموت والمنام جميعا بالأنفس أور صحیح وہ ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا کہ اللہ تعالی نے قبض ، موت، نیند سب کا اطلاق ایک ہی نفس پر کیا ہے
لیکن اشکال یہ ہے کہ قبض نفس نیند میں ہو جانے پر آدمی مردہ نہیں کہا جاتا اس کو زندہ ہی سمجھا جاتا ہے – سورہ الزمر میں ایک نفس کا ذکر ہے دو کا نہیں ہے – البتہ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے دو نفس بیان کیے ہیں – ایک کو نفس زیریں کہا ہے اور ایک کو نفس بالا کہا ہے
مفسر أبو إسحاق أحمد بن إبراهيم الثعلبي (المتوفى: 427 هـ) لکھتے ہیں قال مفسرون: إن أرواح الأحياء والأموات تلتقي في المنام فيتعارف ما شاء الله منها فإذا أراد جميعها الرجوع إلى أجسادها أمسك الله أرواح الأموات عنده وحبسها، وأرسل أرواح الأحياء حتى ترجع إلى أجسادها مفسرین کہتے ہیں زندوں اور مردوں کی روحیں نیند میں آپس میں ملاقات کرتی ہیں پس اس میں پہچان جاتی ہیں جو اللہ چاہے پس جب ان کو لوٹا نے ان کے جسموں میں اللہ ارادہ کرتا ہے تو مردوں کی روحوں کو روک لیتا ہے اور قید کر دیتا ہے اور زندہ کی ارواح کو ان کے اجساد میں لوٹا دیتا ہے
راقم کہتا ہے اس تفسیر کی وجوہات وہ روایات ہیں جن میں مردوں اور زندہ کی روحوں کے ملاقات کے قصے ہیں جو تمام ضعیف اسناد سے ہیں -تفصیل راقم کی کتاب الرویا میں ہے جو اس ویب سائٹ پر موجود ہے – ڈاکٹر عثمانی کے مخالف غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی نے کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں انہی روایت منکرہ و ضعیفہ کے تحت بیان کیا ہے کہ انسانی جسم میں دو روحیں یا نفس ہیں – ایک موت پر نکلتا ہے اور ایک نیند میں نکلتا ہے – یعنی ان علماء کے نزدیک قبض کا مطلب اخراج روح ہے جبکہ عربی میں قبض کا مطلب اخراج نہیں ہے اور نہ ہی آیات قرانی میں نیند میں اخراج روح کا ذکر ہے – قرآن میں قبض روح کا ذکر ہے کہ روح کو پکڑ لیا جاتا ہے – یہاں ہم کو معلوم ہے کہ روح کو نیند میں پکڑنے کے بعد بھی انسان خواب دیکھتا ہے – انسان کی بے ہوشی بھی گہری نیند ہے جس میں ڈاکٹر اس کا جسم کاٹ بھی دیتا ہے تو انسان کو احساس نہیں ہوتا – بسا اوقات انسان نیند میں ہوتا ہے لیکن اس کی نیند کچی ہوتی ہے اس کو اس پاس جو ایا یا بات ہو اس کی آواز بھی آ جاتی ہے – یہ سب ہمارے مشاہدہ میں ہے جس کا انکار کوئی نہیں کر سکتا
ان آیات میں انسان کے فہم، شعور، ادراک اور اختیار کا کوئی ذکر نہیں ہے – بلکہ یہ سب مشاہدات سے علم میں آتا ہے – جو کفار روح کے وجود کے قائل نہیں ان تک کو معلوم ہے کہ نیند اور بے ہوشی انسان کا شعور کس طرح محدود کرتے ہیں – قرآن میں نیند کے عمل کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ قبض روح یا
seize
ہو جانے کی وجہ سے نیند میں تعقل کم ہو جاتا ہے اور موت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ نہ صرف قبض ہوتا ہے بلکہ فرشتے بھی استعمال ہوتے ہیں جو روح کو مکمل جسم سے الگ کر دیتے ہیں
وہ علماء جو عود روح کے قائل ہیں انہوں نے سورہ الزمر کی آیت میں تفسیر میں التباس پیدا کر دیا اور نیند میں قبض کو اخراج روح بنا دیا اور پھر کہا کہ موت کے بعد اگر روح واپس جسم میں آ بھی جائے تو یہ میت ہی ہے – ابن رجب تفسیر میں کہتے ہیں فلا ينافي ذلكَ أن يكونَ النائمُ حيًّا، وكذلك اتصالُ روح الميتِ ببدنه وانفصالها عنه لا يوجبُ أن يصيرَ للميتِ حياةً مطلقةً. اس آیت سورہ الزمر سے نفی نہیں ہوتی کہ سونے والا زندہ ہے ، اسی طرح روح میت کے بدن سے جڑ جائے الگ ہو جائے تو یہ واجب نہیں ہو گا کہ مطلق زندگی ، میت کی ہو گئی
یعنی جس طرح نیند میں قبض نفس ہونے پر مردہ نہیں کہا جاتا اسی طرح قبر میں عود روح ہو جانے کے بعد زندہ نہیں کہا جا سکتا – گویا کہ نہ زندگی واضح ہے نہ موت واضح ہے – جو ان لوگوں کے نزدیک واضح ہے وہ صرف یہ کہ قبض نفس ہو رہا ہے
راقم کہتا ہے ان لوگوں نے آیات پر غور نہیں کیا ہے – قبض کا مطلب اخراج نہیں ہے اور سورہ الزمر میں صرف قبض کرنا بیان ہوا ہے اخراج کا ذکر نہیں ہے اور سورہ انعام میں موت پر اضافی اخراج کا ذکر بھی ہے جو فرشتوں سے کر وایا جا رہا ہے
قرآن میں موت کا لفظ اس دور پر بھی بولا گیا ہے جب جسم و روح اپس میں ملے بھی نہیں تھے
سورہ البقرہ آیت ٢٨ میں ہے
كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّـٰهِ وَكُنْتُـمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۖ ثُـمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُـمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُـمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ تم اللہ کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم (اموات) بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔
یہ تخلیق آدم کے اس دور کا ذکر ہے جب آدم علیہ السلام مٹی میں خمیر میں خلق ہو رہے تھے- ان کی روح بن چکی تھی لیکن ان کے جسم میں نہیں تھی – جسم اور روح جب الگ ہوں تو ان پر موت کا اطلاق کیا گیا ہے
اشاعرہ علماء ایک دور میں موت کی تعریف یوں ہی کرتے تھے – راغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں لکھتے ہیں کہ وقوله: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] فعبارة عن زوال القوّة الحيوانيَّة وإبانة الرُّوح عن الجسد اور (الله تعالیٰ کا ) قول : : كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] پس یہ عبارت ہے قوت حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے
روح کا جسم سے الگ ہونا ایک دور تھا جب موت سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں لوگوں نے اس تعریف کو بدلا اور آیات کو ایسے پیش کیا کہ گویا ان آیات میں ابہام ہے جسم میں روح انے جانے کا نام موت نہیں ہے – ان لوگوں کو یہ اشکال بعض روایات سے پیدا ہوا ہے مثلا صحیح بخاری کتاب الدعوات حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الحمد للّٰہ الذی احیانا بعد ما اماتنا و الیہ النشور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
یہاں نیند کو مجازا موت کہا گیا ہے – البتہ فرقوں نے اس کو حقیقت سمجھ لیا کیونکہ وہ عود روح کی روایت قبول کر چکے تھے – نیند میں بھی ان کے نزدیک روح جسم سے نکل جاتی ہے اور اگر مرنے کے بعد واپس آ بھی جائے تو اس کو زندگی نہیں کہا جائے گا- راقم کہتا ہے یہاں حدیث میں مجازا نیند کو موت بولا گیا ہے اور اس طرح بولنا زبان و ادب میں عام ہے لیکن اس کو حقیقت نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ قرآن میں نیند کو موت نہیں کہا گیا
صحیح البخاری بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ ذَهَابِ الوَقْتِ میں أَبِي قَتَادَةَ رضی الله عنہ سے مروی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نیند کے حوالے سے فرمایا إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ، وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ بے شک الله تعالی تمہاری روحوں کو قبض کرتا ہے جب چاہتا ہے اور لوٹاتا ہے جب چاہتا ہے
اس حدیث میں قبض روح سے مراد روح کا جسم سے نکلنا نہیں ہے بلکہ روح کا جسم میں ہی قبض مراد ہے – لیکن فرقوں نے اس قبض کو جسم سے اخراج نفس سمجھا اور اس سے یہ مطلب کشید کیا کہ سونے والے کو بھی مردہ کہا جاتا ہے
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی تم میں سے اپنے بستر پر سے اٹھ جائے پھر لوٹ کر اس پر (لیٹنے، بیٹھنے) آئے تو اسے چاہیئے کہ اپنے ازار (تہبند، لنگی) کے (پلو) کونے اور کنارے سے تین بار بستر کو جھاڑ دے، اس لیے کہ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کے اٹھ کر جانے کے بعد وہاں کون سی چیز آ کر بیٹھی یا چھپی ہے، پھر جب لیٹے تو کہے باسمك ربي وضعت جنبي وبك أرفعه فإن أمسكت نفسي فارحمها وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين اے میرے رب میں تیرا نام لے کر (اپنے بستر پر) اپنے پہلو کو ڈال رہا ہوں یعنی سونے جا رہا ہوں، اور تیرا ہی نام لے کر میں اسے اٹھاؤں گا بھی، پھر اگر تو میری جان کو (سونے ہی کی حالت میں) روک لیتا ہے (یعنی مجھے موت دے دیتا ہے) تو میری جان پر رحم فرما، اور اگر تو سونے دیتا ہے تو اس کی ویسی ہی حفاظت فرما جیسی کہ تو اپنے نیک و صالح بندوں کی حفاظت کرتا ہے پھر نیند سے بیدار ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ کہے الحمد لله الذي عافاني في جسدي ورد علي روحي وأذن لي بذكره تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے بدن کو صحت مند رکھا، اور میری روح مجھ پر لوٹا دی اور مجھے اپنی یاد کی اجازت (اور توفیق) دی
اس کی سند میں ضعف ہے – سند میں محمد بن عجلان ہے جو مدلس ہے اور اس روایات کی تمام اسناد میں اس کا عنعنہ ہے
صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے لیکن الفاظ رد روحی اس میں نہیں ہیں
وہ علماء جو موت اور نیند کو ملاتے ہیں وہ صعق یا بے ہوشی کو بھول جاتے ہیں کہ بے ہوش شخص مردہ نہیں ہوتا اور نہ نیند میں ہوتا ہے بلکہ بے ہوشی میں فہم احساس شعور و ادراک معطل ہونا ہے جبکہ کچی نیند میں انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اس پاس کیا ہو رہا ہے یعنی شعور موجود ہوتا ہے
قرآن و حدیث میں انبیاء کے قبل نبوت سچے خوابوں کا ذکر موجود ہے – ان خوابوں کے بارے میں جو رہمنائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ خواب سچے تھے لیکن یہ الوحی کی مد میں سے نہیں تھے
قبل نبوت – نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب
صحیح بخاری کی آغاز الوحی والی روایت میں ذکر ہے کہ نبی پر اس امر نبوت کا آغاز سچے خوابوں سے ہوا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دیکھتے دوسرے دن پورا ہو جاتا – اس کیفیت نے آپ کو دنیا سے بے رغبت کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے التحنث پہاڑ پر جا کر کرنا شروع کر دیا-
عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو نیند میں سچے خواب دیکھے
ان تمام سندوں اور مختصر متن سے ظاہر ہے کہ کوئی راوی الوحی کے لفظ کو خود کم کر دیتا ہے یا بڑھا دیتا ہے
یہ ایک ہی سند ہے اصلا تو امام زہری کی روایت ہے – صحیح میں پانچ مقام پر اسی سند سے ہے اور متن میں ایک لفظ بدل رہا ہے- الفاظ میں الوحی کا اضافہ ہو جاتا ہے-
الوحی کا لفظ اس میں اضافہ ہے جو دیگر مقام پر انہی اسناد سے نہیں آ رہا – لہذا جو بات صحیح ہے وہ یہ کہ ام المومنین نے کہا کہ شروع میں نبی نے صرف سچے خواب دیکھے – انہوں نے الوحی کا ذکر کیا یہ راویوں کا اپنا اضافہ ہے
کتاب عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل والسير میں اس واقعہ کی دوسرے صحابی سے بھی تفصیل ہے وہ بھی اس کو الوحی کا آغاز نہیں کہتے
جس وقت سچے خواب آ رہے تھے اس وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس سے لا علم تھے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے-
متن کی تاویل
ہم ان روایات کی تاویل کریں گے کہ راوی کا الوحی کا اضافہ کرنے سے مراد النُّبُوَّة یعنی خبر ملنا ہے- ابھی اس النبوه کی کیفیت وہی ہے جو ایک عام مومن کی ہوتی ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے
حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري حدثني سعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لم يبق من النبوة إلا المبشرات قالوا وما المبشرات قال الرؤيا الصالحة
صحیح بخاری ٦٥٨٩
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا النبوه میں کچھ باقی نہیں سوائے مبشرات کے جو اچھے خواب ہیں
امام زہری نے کہا عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا النبوہ میں رسول اللہ پر سب سے پہلے جب اللہ تعالی نے ان پر رحم و کرامت کا ارادہ کیا تو سچے خوابوں سے کیا
یہ آغاز الوحی والی روایت ہی ہے فرق ہے تو الوحی کو النبوه سے بدلا گیا ہے اور النبوہ سے مراد صرف سچی خبر ہے
متن میں مدرج جملے
فتح الباری میں ابن حجر نے اس پر لکھا ہے کہ اس روایت شروع میں التحنث کا ذکر راوی کا ادراج ہے
راقم کے نزدیک شروع کے جملوں میں الفاظ مدرج ہیں – زہری نے عروہ سے جو سنا اس میں اپنا فہم ملا دیا ہے
ایسا مرویات زہری میں مسئلہ رہا ہے کہ اصل متن کیا تھا معلوم نہیں ہو پاتا
الوحی کا آغاز
الوحی کا آغاز اقراء سے ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے رب کا حکم آنے لگا- اس کے بعد تمام خواب الوحی ہیں – اس سے قبل جو خواب تھے وہ الوحی نہیں تھے کیونکہ اس میں صرف جو دیکھا وہ پورا ہو رہا تھا کسی تبلیغ کا حکم نہیں تھا نہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ وہ نبی بننے والے ہیں
قرآن میں سورہ شوری آیت ٥٣ میں ہے
وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب ولا الإيمان
اور اسی طرح ہم نے تم پر اپنے حکم سے الوحی کیا – تم نہیں جانتے تھے کتاب کیا ہے- ایمان کیا ہے
جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھ رہے تھے یہ ہی وہ وقت تھا جب آپ کو نہ کتاب کا معلوم تھا نہ ایمان کا معلوم تھا لہذا اس وقت آپ نبی نہیں تھے- اگر جانتے ہوتے تو جبریل کی آمد کے منتظر ہوتے- ان کو دیکھ کر گھبراتے نہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کتاب اللہ کا علم تھا نہ ایمان کا ، الوحی کے آنے سے پہلے اور یہ باتیں انبیاء کو فرشتے بناتے ہیں- کیا خواب میں ایمان کامل کا معلوم ہو سکتا ہے ؟ خواب اس وقت الوحی بنتا ہے جب انبیاء – انبیاء بن چکے ہوتے ہیں
اگر ہم مان لیں کہ رسول اللہ پر خوابی الوحی سب سے پہلے آئی تو اس کا دور کب شروع ہوا ؟ اس کی کوئی حد نہیں ہے – بعض علماء نے اسی متن سے دلیل لی ہے کہ رسول اللہ پیدائشی نبی تھے- ہم کو معلوم ہے کہ الوحی تین طرح اتی ہے
ترجمه: اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ اس سے بات کرے ۔ سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام لانے والا ( فرشتہ ) بھیج دے ، اور وہ اس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کا پیغام پہنچا دے ۔ یقینا وہ بہت اونچی شان والا بڑی حکمت کا مالک ہے ۔
اور سچا خواب مومن بھی دیکھتا ہے اور نبی بھی لیکن چونکہ نبی بننے کے بعد انبیاء کا دل نہیں سوتا ان کا خواب الوحی کی قسم میں سے ہے جبکہ ایک عام شخص کا خواب سچا تو ہو سکتا ہے لیکن الوحی ہرگز نہیں –
کیا التحنث سنت ہے ؟
اگر آمد جبریل سے قبل خواب میں رسول اللہ پر الوحی آ رہی تھی تو یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ ایمان کے مندرجات (مثلا فرشتوں پر غیب پر ایمان )کو جانتے تھے (لیکن اس کی تبلیغ نہیں کرتے تھے) تو پھر فرشتہ دیکھ کر گھبرائے کیوں ؟ – اگر آمد جبریل سے قبل کے خوابوں کو الوحی مان لیں تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ جبریل کی آمد سے قبل ہی رسول اللہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ ایمان کیا ہے اور کتاب کیا ہے- سوال ہے تو پھر وہ التحنث کیوں کر رہے تھے ؟ کیا دین میں اس عبادت کی کوئی دلیل موجود ہے کہ رہبان کی طرح پہاڑ پر جا کر بیٹھ جاؤ ؟ اسلام میں تو گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانے کا حکم نہیں ہے – اللہ نے رہبانیت کو نصرانی بدعت قرار دیا ہے – عرب کے حنفاء کو یہ چیز انہی سے ملی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئی اور آپ نے بھی مراقبہ غار میں کیا- پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا وہاں مراقبہ یا التحنث کرنا، یہ عمل نبی بننے سے پہلے کا تھا اسی لیے ہمارے لئے دلیل نہیں ہے – اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آمد جبریل سے قبل سے نبی سمجھیں گے تو التحنث سنت ہوا – گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا دلیل ہوا
یوسف علیہ السلام کا خواب
سوره یوسف میں بیان ہوا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا
اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں
یعقوب علیہ السلام نے اس خواب کو سننے کے بعد یہ نہیں کہا کہ ہماری شریعت میں سجدہ جائز ہے یہ کوئی خاص چیز نہیں بلکہ آپ علیہ السلام نے اندازہ لگا لیا کہ الله کی طرف سے یوسف کی توقیر ہونے والی ہے. یعقوب علیہ السلام نے خواب چھپانے کا حکم دیا
کہا اے بیٹے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے خلاف سازش کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے
پھر یوسف کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں پھینکا وہاں سے الله نے مصر پہنچایا اور الله نے عزیز مصر کا وزیر بنوایا پھر قحط پڑنے کی وجہ سے بھائیوں کو مصر آنا پڑا اور بلاخر ایک وقت آیا کہ خواب سچ ہوا
اور احترام سے بٹھایا اس نے اپنے والدین کو تخت پر اور جھک گئے سب اس کے لئے سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا: ابّا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچّا
اس خواب کی بابت بعض لوگوں نے بلا دلیل موقف اختیار کر لیا ہے کہ یہ خواب دیکھنا ہی یوسف کی نبوت کا آغاز تھا- یہ موقف اس لئے اپنایا گیا کہ کسی طرح اس سجدہ کو حکم الہی قرار دیا جائے جو سورت میں بیان ہوا کہ اولاد یعقوب سے یوسف کے حوالے سے ہوا – بعض نے اس سجدے کو اللہ تعالی کو سجدہ قرار دیا جبکہ آیت میں ضمیر الہا یوسف کی طرف ہے نہ کہ اللہ تعالی کی طرف – راقم کا موقف ہے کہ یہ سجدہ انحنا تھا یعنی صرف شرمندہ ہو کر جھکنا تھا نہ کہ معروف نماز کا اصطلاحی سجدہ- یاد رہے کہ سجد کا لفظ قریش کی عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب زمین کی طرف لپکنا ہے – جب ان کے بھائی مصر کے دربار میں پہنچے تو یوسف کے بھائی شرم و ندامت سے جھک گئے اور اس طرح وہ خواب حق ہو گیا جو دیکھا تھا – یہ سجدہ تعظیمی نہ تھا یہ صرف زمین کی طرف جھکنا تھا جس کو الانحناء بھی کہا جاتا ہے- یوسف علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو فرمایا
اے رسول پھیلا دو جو تمہارے رب نے تم پر نازل کیا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کو نہیں ادا کیا اور بے شک اللہ لوگوں سے بچائے گا
سورہ المائدہ ٦٧ میں
جس کو علم کی بات معلوم ہو اور اس کو چھپا دے اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا حدیث
ان فرمودات کی روشنی میں واضح ہے کہ یعقوب نے اس کو اپنے غیر نبی بیٹے یوسف کا سچا خواب سمجھا جس کو ابھی نبوت نہیں ملی لیکن عنقریب اس پر نعمت تمام ہو گی اور وہ نبی بن جائے گا- یوسف علیہ السلام کا یہ خواب اسی طرح سچی خبر تھا جس طرح ایک عام مومن بندے کو سچا خواب اتا ہے جو پورا ہوتا ہے- یعقوب اس وقت نبی تھے انہوں نے جو کہا اس میں اس کا کہیں اثبات نہیں ہے کہ تم اے یوسف نبی بن چکے ہو بلکہ ان کے نزدیک ابھی یوسف پر اتمام نعمت نہیں ہوا تھا – نبی بننا ہی سب سے بڑی نعمت ہے جو یوسف کو اس وقت نہیں ملی تھی
کوئی بھی خواب دیکھ کر عام مومن نہیں کہہ سکتا ایسا ہو گا لیکن اگر وہ عام مومن اپنا خواب نبی پر پیش کرے تو وہ نبی اس کی تاویل کر سکتا ہے – یوسف (علیہ السلام ) جب غیر نبی تھے تو انہوں نے اپنا خواب نبی یعقوب (علیہ السلام ) پر پیش کیا – یعقوب علیہ السلام نے تاویل کی- یعقوب کو بھی اس خواب کی مکمل تفصیل الوحی سے نہیں پتا چلی تھی کہ یوسف بچھڑ جائیں گے اور یہ سب مصر میں ہو گا – انبیاء جب تاویل کرتے ہیں تو وہ ان کو اشارات پر کرتے ہیں اس پر الوحی نہیں اتی کیونکہ تاویل ایک علم ہے جو سکھا دیا جاتا ہے اس کا استعمال کر کے انبیاء خواب کی تعبیر کرتے ہیں – دوسری طرف الوحی ہے جو کب آئے کی خود انبیاء کو بھی علم نہیں ہوتا-
یوسف علیہ السلام کے تمثیلی خواب کو اگر ہم وحی مان لیں تو ثابت ہو جائے گا کہ انبیاء نے جو تمثیلی خواب دیکھے ان کو اس کا مطلب خود بھی نہیں پتا تھا جو ممکن نہیں کہ ایک نبی کو خواب دکھایا جائے لیکن وہ اس خواب کی تاویل کو سمجھ ہی نہ پائے – لہذا ثابت یہی ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام اس خواب کے آنے کے وقت نبی نہیں عام بشر تھے – یوسف علیہ السلام کے خواب پر یعقوب علیہ السلام نے پیغمبرانہ تبصرہ کیا اور تبصرہ بھی انبیاء کر سکتے ہیں اور دعا بھی دے سکتے ہیں- یعقوب علیہ السلام کے تبصرے میں الفاظ محض دعا جیسے کلمات ہیں –
یعقوب علیہ السلام اصل میں اس وعدہ الہی کی بنیاد پر تبصرہ کر رہے ہیں جو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا
جب تمھارے رب نے ابراھیم کی آزمائش کلمات (احکام) سے کی، تو اس نے ان کو پورا کیا – کہا میں نے تجھ کو انسانوں پر امام کیا بولا اور میری اولاد ؟ کہا میرا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں
یوسف علیہ السلام کا خواب سن کر یعقوب علیہ السلام کی بات اسی وعدہ کی عملی شکل کا ذکر ہے کہ اب ابراہیم کے بعد اللہ تعالی یوسف کو امام بنا رہا ہے- فرمایا
(سورہ یوسف، آیت6)
اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا، اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا اور تم پر اور یعقوب کی اولاد پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسے اس نے اس سے پہلے تمہارے ماں باپ پر اور ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی۔ یقینا تمہارا پروردگار علم والا اور حکمت والا ہے۔
اس مختصر کتاب میں خواب سے متعلقہ مباحث کا ذکر ہے- جن میں ان روایات پر تحقیق کی گئی ہے جو تعبیر خواب کے نام پر دھندہ کرنے والے پیش کر کے عوام کا مال بتوڑتے ہیں – کتاب میں خواب میں الله تعالی کو دیکھنے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا دیدار کرنے سے متعلق بھی روایات پیش کی گئی ہیں اور ان کی اسناد پر تحقیق کی گئی ہے- آخری ابواب میں فرقوں کے متضاد خواب جمع کیے گئے ہیں اور ان کی تلبسات باطلہ کا رد کیا گیا ہے – اس کتاب میں انبیاء کے وہ خواب جو انہوں نے نبی بننے سے قبل دیکھے ان پر نظر ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہ خواب محض سچے خواب تھے نہ کہ الوحی-
بخاری کی حدیث میں یہ بات خاص دور نبوت کے لئے بتائی گئی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا تھا
بخاری میں دو حدیثیں ہیں
من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی
جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم
دوسری حدیث ہے
من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته
جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا
حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري کتاب الرؤيا میں لکھتے ہیں
المازري کہتے ہیں
احتمل أن يكون أراد أهل عصره ممن يهاجر إليه فإنه إذا رآه في المنام جعل ذلك علامة على أنه سيراه بعد ذلك في اليقظة
اغلبا اس سے مراد ان (نبی صلی الله علیہ وسلم) کے ہم عصر ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور ان کو خواب میں دیکھا اور یہ (خواب کا مشاہدہ) ان کے لئے علامت ہوئی اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کو بیداری میں بھی دیکھا
امام بخاری نے بھی باب میں امام محمد آبن سیرین کا یہ قول لکھا ہے کہ
یہ اس صورت میں ہے جب رسول صلى اللہ عليہ وسلم کو آپ ہی کی صورت میں دیکھا جائے
یعنی شیطان تو کسی بھی صورت میں آ کر بہکا سکتا ہے ہم کو کیا پتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کیسے تھے؟ صرف شمائل پڑھ لینے سے وہی صورت نہیں بن سکتی . اگر آج کسی نے دیکھا بھی تو آج اس کی تصدیق کس صحابی سے کرائیں گے؟
لیکن جن دلوں میں بیماری ہے وہ اس حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو آج بھی خواب میں دیکھنا ممکن ہے اور خواب پیش کرتے ہیں
ابن سعد نے کہا ہم کو مسلم بن ابراہیم نے خبر دی انہوں نے کہا ان پر الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الذَّارِعُ نے حدیث بیان کی کہا میں نے انس بن مالک کو کہتے سنا کہ کوئی ایسی رات نہیں کہ جس میں میں اپنے حبیب کو نہ دیکھ لوں پھر رو دیے
تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از أَبِي يَعْلَى البغدادي، الحنبلي (المتوفى: 580هـ) کے مطابق اس نام کے دو راوی ہیں دونوں بصری ہیں
المثنى بن سعيد، اثنان بصريان
أحدهما:1 – أبو غفار الطائي. حدث عن: أبي عثمان النهدي، وأبي قلابة الجرمي، وأبي تميمة الهجيمي، وأبي الشعثاء، مولى ابن معمر.روى عنه: حماد بن زيد، وعيسى بن يونس، وأبو خالد الأحمر، ويحيى بن سعيد القطان، وسهل بن يوسف.قال الخطيب: أنا محمد بن عبد الواحد الأكبر: أنا محمد بن العباس: ثنا ابن مرابا: ثنا عباس بن محمد، قال: سمعت يحيى بن معين يقول: أبو غِفَار الطَّائي بصري اسمه المثنى بن سعيد، يحدث عنه يحيى، وقال يحيى: المثنى بن سعيد ثقة.
والآخر: أبو سعيد الضَّبِّي القَسَّام.رأى أنس بن مالك، وأبا مجلز، وسمع قتادة، وأبا سفيان طلحة بن نافع.
انس رضی الله عنہ سے اس قول کو منسوب کرنے والا أبو سعيد المثنى بن سعيد الضَّبِّي القَسَّام ہے جس نے ان کو صرف دیکھا ہے
تاریخ الاسلام میں الذھبی نے اس راوی پر لکھا ہے رأى أنسا کہ اس نے انس کو دیکھا تھا
ابن حبان نے اس کے لئے ثقات میں کہا ہے يخطىء غلطیاں کرتا ہے
المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کی تحقیق کے مطابق بھی اس نے انس رضی الله عنہ کو دیکھا ہے سنا نہیں ہے
أبو سعيد، المثنى بن سعيد، الضُبَعِيّ – بضم المعجمة، وفتح الموحدة – البصري، القسام، الذارع، القصير، كان نازلا في بني ضبيعة، ولم يكن منهم ويقال: إنه أخو ريحان بن سعيد، وروح بن سعيد، والمغيرة بن سعيد، رأى أنس بن مالك
توضيح المشتبه في ضبط أسماء الرواة وأنسابهم وألقابهم وكناهم کے مؤلف: محمد بن عبد الله (أبي بكر) ابن ناصر الدين (المتوفى: 842هـ) کا کہنا ہے کہ رأى أنس بن مَالك اس نے انس بن مالک کو دیکھا
طبقات ابن سعد میں ہی یہ راوی قتادہ کے واسطے سے انس رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے
حدَّثنا مسلمُ بن إبراهيم، حدَّثنا المثنى بن سعيد، حدَّثنا قتادةُ عن أنس بن مالك: أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم – كان يزورُ أم سُلَيمٍ، فتُدركُه الصلاةُ أحياناً، فيُصلي على بِساطٍ لنا، وهو حَصيرٌ تَنضَحُه بالماء
معلوم ہوا کہ اس راوی کا سماع انس رضی الله عنہ سے نہیں ہے جو بھی اس نے لیا وہ قتادہ کی سند سے ہے اور اس کا طبقات کی سند میں سمعت (میں نے سنا) کہنا غلطی ہے
افسوس کفایت الله سنابلی اس روایت کو صحیح کہہ رہے ہیں
بلال رضی الله تعالی عنہ کا خواب
ابن عساکر تاریخ الدمشق میں إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال کے ترجمے میں لکھتے ہیں
إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ابن أبي الدرداء الأنصاري صاحب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أبو إسحاق روى عن أبيه روى عنه محمد بن الفيض أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال
لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنزل داريا في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي (صلى الله عليه وسلم) وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي (صلى الله عليه وسلم) فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم قال أبو الحسن محمد بن الفيض توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين
أبي الدرداء فرماتے ہیں کہ
جب عمر الجابیہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے بلال سے کہا کہ شام آ جائیں پس بلال شام منتقل ہو گئے … پھر بلال نے خواب میں نبی کودیکھا کہ فرمایا اے بلال یہ کیا بے رخی ہے؟ کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا .. پس بلال قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر گئے اور روئے اور چہرے کو قبر پر رکھا … اس کے بعد حسن و حسین کی فرمائش پر آپ نے اذان بھی دی
بلال بن رباح الحبشي رضی الله تعالی عنہ کی وفات سن ٢٠ ہجری میں ہوئی اور ایک قول تاریخ الاسلام از ذھبی میں ہے
قَالَ يحيى بْن بكير: تُوُفيّ بلال بدمشق في الطاعون سنة ثماني عشرة.
بلال کی دمشق میں طاعون سے سن ١٨ ہجری میں وفات ہوئی
الذھبی اپنی کتاب سیر الاعلام ج ١ ص ٣٥٨ میں اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہتےہیں
إِسْنَادُهُ لَيِّنٌ، وَهُوَ مُنْكَرٌ.
اس کی اسناد کمزور ہیں اور یہ منکر ہے
ابن حجر لسان المیزان میں اور الذھبی میزان میں اس راوی پر لکھتے ہیں
فيه جهالة
اس کا حال مجھول ہے
ذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں اس راوی پر لکھتے ہیں
مجهول، لم يروِ عنه غير محمد بْن الفيض الغسَّانيّ
مجھول ہے سوائے محمد بْن الفيض الغسَّانيّ کے کوئی اس سے روایت نہیں کرتا
سلمی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے . کا سر اور ریش مبارک گرد آلود تھی.میں نے عرض کی ، یارسول ،آپ کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ رسول الله نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسین کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے
ترمذی اور مستدرک الحاکم میں یہ روایت نقل ہوئی ہے
اس کی سند میں سَلْمَى الْبَكْرِيَّةِ ہیں
تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں مبارکپوری لکھتے ہیں
امام حاکم نے روایت کیا ہے … ایک شخص نے عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے حسن بن علی رضی االله عنہ کی شکل کے ایک شخص کو دیکھا ہے اس پر انہوں نے کہا تم نے نبی کو دیکھا ہے
ابن حجر نے کہا اس کی سند جید ہے
حالانکہ حیرت ہے عبد الله بن عباس اور ابن زبیر میں اپس میں اختلاف ہوا اور ابن عباس طائف جا کر قیام پذیر ہوئے لیکن اس اختلاف کو ختم کرنے نبی صلی الله علیہ وسلم نہ ابن عباس رضی الله عنہ کے خواب میں آئے نہ ابن زبیر رضی الله عنہ کے
مستدرک الحاکم کی اس روایت کو اگرچہ الذھبی نے صحیح کہا ہے لیکن اسکی سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر يحيى القطان نے کلام کیا ہے
وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً
صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا
مسلمان بادشاہوں کے سیاسی خواب
نور الدین زنگی کا خواب
علي بن عبد الله بن أحمد الحسني الشافعي، نور الدين أبو الحسن السمهودي المتوفى٩١١ھ کتاب وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى میں سن ٥٥٧ ھ پر لکھتے ہیں
الملك العادل نور الدين الشهيد نے ایک ہی رات میں تین دفعہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ ہر دفعہ فرما رہے ہیں
أن السلطان محمودا المذكور رأى النبي صلّى الله عليه وسلّم ثلاث مرات في ليلة واحدة وهو يقول في كل واحدة: يا محمود أنقذني من هذين الشخصين الأشقرين تجاهه
اے قابل تعریف! مجھ کو ان دو شخصوں سے بچا
یہ دو اشخاص عیسائی تھے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد مطہر حاصل کرنا چاہتے تھے
مثل مشھور ہے الناس علی دین ملوکھم کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں اسی طرح یہ قصہ اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ گویا اس کی سچائی قرآن و حدیث جیسی ہو
مقررین حضرات یہ قصہ سنا کر بتاتے ہیں کہ یہودی سازش کر رہے تھے لیکن ریکارڈ کے مطابق یہ نصرانی سازش تھی
وقد دعتهم أنفسهم- يعني النصارى- في سلطنة الملك العادل نور الدين الشهيد إلى أمر عظيم
اور نصرانیوں نے ایک امر عظیم کا ارادہ کیا بادشاہ عادل نور الدین الشہید کے دور ہیں
اس کے بعد یہ خواب کا واقعہ بیان کرتے ہیں اور بعد میں پکڑے جانے والے عیسائی تھے
أهل الأندلس نازلان في الناحية التي قبلة حجرة النبي صلّى الله عليه وسلّم من خارج المسجد عند دار آل عمر بن الخطاب
اہل اندلس سے دو افراد دار ال عمر بن خطاب ،حجرے کی جانب مسجد سے باہر ٹھہرے ہوۓ ہیں
اس قصے میں عجیب و غریب عقائد ہیں. اول نبی صلی الله علیہ وسلم کو علم غیب تھا کہ دو نصرانی سازش کر رہے ہیں دوئم انہوں نے الله کو نہیں پکارا بلکہ نور الدین کے خواب میں تین دفعہ ایک ہی رات میں ظاہر ہوئے . سوم نبی صلی الله علیہ وسلم نے نورالدین زنگی کو صلیبی جنگوں میں عیسائی تدبریوں کے بارے میں نہیں بتایا جن سے ساری امت مسلمہ نبرد آزما تھی بلکہ صرف اپنے جسد مطہر کی بات کی
الله کا عذاب نازل ہو اس جھوٹ کو گھڑنے والوں پر. ظالموں الله سے ڈرو اس کی پکڑ سخت ہے .الله کے نبی تو سب سے بہادر تھے
دراصل یہ سارا قصہ نور الدین زنگی کی بزرگی کے لئے بیان کیا جاتا ہے جو صلیبی جنگوں میں مصروف تھے اور ان کے عیسائیوں سے معرکے چل رہے تھے
شاہ عراق فیصل بن حسین المعروف فیصل اول کا خواب
فیصل بن حسین ١٩٢١ ع سے ١٩٣٣ ع تک عراق کے بادشاہ تھے اور شریف المکّہ کے تیسرے بیٹے. شریف المکہ عثمانی خلافت میں ان کی جانب سے حجاز کے امیر تھے. فیصل اول نے خلافت عثمانیہ ختم کرنے میں انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیا. بر صغیر کے مشھور شاعر علامہ اقبال نے ان پر تنقید کی کہ
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا
لیکن روحانیت میں شاہ فیصل کا کچھ اور ہی مقام تھا انگریز بھی خوش اور الله والے بھی خوش
جو لوگ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں انے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ سن ١٩٣٢ عیسوی میں عراق میں جابر بن عبدللہ اور حذیفہ بن یمان رضوان الله علیھم شاہ عراق کے خواب میں آئے اور انہوں نی اس سے کہا کہ ان کو بچائے کیونکہ نہر دجلہ کا پانی ان کی قبروں تک رس رہا ہے
حیرت کی بات ہے کہ شیعہ حضرات بھی اس خواب کو لہک لہک کر بیان کرتے ہیں لیکن اس سے تو فیصل اول کی الله کی نگاہ میں قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے اور فیصل شیعہ عقیدے پر نہیں تھے
ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں اتے ہیں اب کہا جا رہا ہے کہ صحابی بھی اتے ہیں گویا جو نبی کی خصوصیت تھی وہ اب غیر انبیاء کی بھی ہو گئی
ہمارے قبر پرست بادشاہوں کو خوابوں میں انبیاء اور صحابہ نظر آ رہے ہیں اور وہ بھی صرف اپنے جسمکو بچانے کے لئے
لیکن اب خواب نہیں آیا
حال ہی میں شام میں حکومت مخالف باغیوں نے ایک قبر کشائی کی جو صحابی رسول حجر بن عدی المتوفی 51 ہجری کی طرف منسوب ہے لیکن حیرت ہے اس دفعہ ان صحابی کو خیال نہیں آیا کہ دوسرے صحابہ تو اپنی قبروں کو بچانے کے لئے خوابوں میں آ جاتے ہیں مجھے بھی یہی کرنا چاہئے یہ صحابی نہ سنیوں کے خواب میں آئے نہ شیعوں کے خواب میں. جب قبر پر پہلا کلہاڑا پڑا اسی وقت خواب میں آ جاتے
حجر بن عدی رضی اللہ تعالی علیہ سے منسوب قبر ، قبر کی بے حرمتی کے بعد
دوسری طرف یہی قبر پرست ایک سانس میں کہتے ہیں کہ صحابہ کے جسد محفوظ تھے اور دوسری سانس میں روایت بیان کرتے ہیں الله نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے تو بھلا بتاؤ کیا مانیں اگر غیر نبی کا جسد بھی محفوظ ہے تو یہ انبیاء کی خصوصیت کیسے رہی
الغرض نبی صلی الله علیہ وسلم نے دنیا کی رفاقت چھوڑ کر جنت کو منتخب کیا اور آج امت سے ان کا کوئی رابطہ نہیں اور نہ ان کو امت کے حال کا پتا ہے ،ورنہ جنگ جمل نہ ہوتی نہ جنگ صفین، نہ حسین شہید ہوتے، بلکہ ہر لمحہ آپ امت کی اصلاح کرتے
انبیاء صحابہ اور اولیاء کا خواب میں انے کا عقیدہ سراسر غلط اور خود ساختہ ہے اور عقل سلیم سے بعید تر قبروں سے فیض حاصل کرنے کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم ان قبروں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ان سے دعائیں کروانے جاتے ہیں الله ان کی سنتا ہے لیکن اگر الله ان کی سنتا ہے تو جب ان کی قبر پر پانی اتا ہے یا کوئی دوسرے دین کا شریر شخص شرارت کرنا چاہتا ہے تو اس وقت بادشاہ لوگ کے خواب میں ان کو آنا پڑتا ہے سوچوں یہ کیا عقیدہ ہے تمہاری عقل پر افسوس ! الله شرک سے نکلنے کی توفیق دے
نبی صلی الله علیہ وسلم اور امام ترمذی سے ناراضگی
ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں بیان کرتے ہیں کہ امام ترمذی اس عقیدے کے خلاف تھے کہ روز محشر نبی صلی الله علیہ وسلم کو نعوذباللہ عرش پر الله تعالی اپنے ساتھ بٹھائے گا. ابو بکر الخلال ، نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا نقل کرتے ہیں
عبدللہ بن اسمعیل کہتے ہیں کہ میرے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم آئے اور کہا یہ ترمذی! میں اس کے لئے بیٹھا ہوں اور یہ میری فضلیت کا انکاری ہے
ابو بکر الخلال نے واضح نہیں کیا کہ اس خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا کہنا کہ میں بیٹھا ہوں، تو اصل میں وہ کہاں بیٹھے ہیں . مبہم انداز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا گیا ہے تاکہ امام ترمذی پر جرح ہو سکے
مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ نے کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور ابو بکر و عمر رحمہ الله تعالی ان کےساتھ تھے ابو بکر دائیں طرف اور عمر بائیں طرف بیٹھے تھے پس میں عمر کی دائیں طرف آیا اور عرض کیا : یا رسول الله میں چاہتا ہوں اپ پر ایک چیز پیش کرتا – رسول الله نے فرمایا بولو- میں نے کہا یہ ترمذی کہتا حیا کہ اپ الله عزوجل اپ کے ساتھ عرش پر نہیں بیٹھے گا تو اپ کیا کہتے ہیں اس پر یا رسول الله ! پس میں نے دیکھا کہ رسول الله ناراض ہوئے اور انہوں نے سیدھے ہاتھ سے اشارہ کیا … اور کہہ رہے تھے بالکل الله کی قسم ، بالکل الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا ، الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا پھر خبردار کیا
استغفر الله ! اس طرح کے عقائد کو محدثین کا ایک گروہ حق مانتا آیا ہے
الله کا شکر ہے کہ بدعتی عقائد پر کوئی نہ کوئی محدث اڑ جاتا ہے اور آج ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حق کیا ہے ,مثلا یہ عقیدہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا اور انبیاء کے اجسام سلامت رہنےکا بدعتی عقیدہ جس کو امام بخاری اور ابی حاتم رد کرتے ہیں
حدیث میں اتا ہے کہ
میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لئے اپنے اہل و مال سب کچھ صَرف کردیں
اس سے ظاہر ہے کہ نبی کو خواب میں دیکھنا ممکن نہیں بلکہ اگر کوئی نبی کو دیکھنا چاہتا ہے تو کیا صرف سوتا رہے کہ ہو سکتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں آ جائیں حدیث میں ہے کہ وہ اہل و مال تک صرف کرنا چاہیں گے کیونکہ وہ دیکھ نہیں پائیں گے
کہا جاتا ہے کہ علمائے اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ اگر خواب میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم کسی کو کوئی ایسی بات بتائیں یا کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہے تو اس پر عمل جائز نہ ہوگا لیکن یہ احتیاط کیوں اگر حلیہ شمائل کے مطابق ہو اور اپ کا عقیدہ ہے کہ شیطان، نبی صلی الله علیہ وسلم کی شکل بھی نہیں بنا سکتا تو اس خوابی حکم یا حدیث کو رد کرنے کی کیا دلیل ہے. دوم یہ اجماع کب منعقد ہوا کون کون شریک تھا کبھی نہیں بتایا جاتا
کہا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا ان کی خصوصیت ہے اس کا مطلب ہوا کہ جو لوگ یہ دعوی کریں کہ کوئی ولی یا صحابی خواب میں آیا وہ کذاب ہیں کیونکہ اگر یہ بھی خواب میں آ جاتے ہوں تو نبی کی خصوصیت کیسے رہی؟
خواب کے ذریعہ احادیث کی تصحیح
صحیح بخاری میں ابن مسعود سے مروی ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”
تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل ‘اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ….”(صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)
اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے
طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی
راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے
اس حدیث پر لوگوں کو شک ہوا لہذا کتاب جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم از ابن رجب میں ہے وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الَّذِي حَدَّثَ عَنْكَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ حَدَّثْتُهُ بِهِ أَنَا ” يَقُولُهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ غَفَرَ اللَّهُ لِلْأَعْمَشِ كَمَا حَدَّثَ بِهِ، وَغَفَرَ اللَّهُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ نے روایت کیا کہ میں نے خواب میں نبی کو دیکھا کہا اے رسول الله حدیث ابن مسعود جو انہوں نے اپ سے روایت کی ہے کہا سچوں کے سچے نے کہا ؟ فرمایا وہ جس کے سوا کوئی الہ نہیں میں نے ہی اس کو ان سے روایت کیا تھا تین بار کہا پھر کہا الله نے اعمش کی مغفرت کی کہ اس نے اس کو روایت کیا
یعنی لوگوں نے اس حدیث کو خواب میں رسول الله سے ثابت کرایا تاکہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث کو صحیح سمجھا جائے
مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ) میں ہے
ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں
امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو نقل کیا ہے
ابان بن ابی عیاش کو محدثین منکر الحدیث ، متروک ، کذاب کہتے ہیں اور امام ابو داود سنن میں روایت لیتے ہیں
ابان سے متعلق قول کا دارومدار سوید بن سعيد الحَدَثاني پر ہے جو امام بخاری کے نزدیک منكر الحديث ہے اور يحيى بن معين کہتے حلال الدم اس کا خون حلال ہے
یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خواب اور اس میں جرح کا قول خود ضعیف ہے جو امام مسلم نے پیش کیا ہے
سوید بن سعيد اختلاط کا شکآر ہوئے اور اغلبا یہ روایت بھی اسی وقت کی ہے
لہذا خواب میں سن کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات بیان کرنا حدیث نہیں اور یہ قول بھی جرح کے لئے نا قابل قبول ہے -لیکن ظاہر ہے محدثین کا ایک گروہ جرح و تعدیل میں خواب سے دلیل لے رہا تھا جبکہ اس کی ضرورت نہ تھی
حَمَّادٌ نے أَبِي عَيَّاشٍ سے انہوں نے رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سے روایت کیا کہ جس نے صبح کے وقت کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تو اس کے لئے ایسا ہو گا کہ اس نے إِسْمَاعِيلَ کی اولاد میں سے ایک گردن کو آزاد کیا اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور دس گناہ مٹ جائیں گے اس کے دس درجات بلند ہوں گے یہ الفاظ شام تک شیطان سے حفاظت کریں گے .. حماد بن سلمة نے کہا پھر ایک شخص نے رسول الله کو خواب میں دیکھا کہا یا رسول الله ابی عیاش نے ایسا ایسا روایت کیا ہے – اپ نے فرمایا سچ کہا أَبُو عَيَّاشٍ نے
اس روایت کو البانی نے صحیح کہہ دیا ہے جبکہ المنذري (المتوفى: 656 هـ) نے مختصر سنن أبي داود میں خبر دی تھی کہ
ذكره أبو أحمد الكرابيسي في كتاب الكنى، وقال: له صحبة من النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-، وليس حديثه من وجه صحيح، وذكر له هذا الحديث.
أبو عياش الزُّرقي الأنصاري جس کا نام زيد بن الصامت ہے اس کا ذکر الکنی میں أبو أحمد الكرابيسي نے کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا صحابی ہونے کا شرف پایا ہے لیکن یہ حدیث اس طرق سے صحیح نہیں ہے اور خاص اس روایت کا ذکر کیا
قال أبو زرعة الدمشقي، عن أحمد بن حنبل: أبو عياش الزرقي، زيد بن النعمان. «تاريخه» (1245)
وقال أبو محمد ابن حزم في «المحلى»: زيد أبو عياش لا يدري من هو
بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ شخص صحابی نہیں بلکہ کوئی مجہول ہے
حماد بن سلمہ نے خبر دی کہ ایک شخص نے دیکھا یہ شخص کون تھا معلوم نہیں – خیال رہے حماد خود مختلط بھی ہو گئے تھے
بیداری میں بھی دیکھنا ممکن ہے
فیض الباری میں انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں
ويمكن عندي رؤيته صلى الله عليه وسلّم يقظةً (1) لمن رزقه الله سبحانه كما نقل عن السيوطي رحمه الله تعالى – وكان زاهدًا متشددًا في الكلام على بعض معاصريه ممن له شأن – أنه رآه صلى الله عليه وسلّم اثنين وعشرين مرة وسأله عن أحاديث ثم صححها بعد تصحيحه صلى الله عليه وسلّم
میرے نزدیک بیداری میں بھی رسول الله کو دیکھنا ممکن ہے جس کو الله عطا کرے جیسا سیوطی سے نقل کیا گیا ہے جو ایک سخت زاہد تھے … انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ٢٨ مرتبہ دیکھا اور ان سے احادیث کی تصحیح کے بعد ان کو صحیح قرار دیا
انور شاہ نے مزید لکھا
والشعراني رحمه الله تعالى أيضًا كتب أنه رآه صلى الله عليه وسلّم وقرأ عليه البخاري في ثمانية رفقة معه
الشعراني نے رسول اللہ کو دیکھا اور ان کے سامنے صحیح بخاری اپنے ٨ رفقاء کے ساتھ پڑھی
جلال الدین سیوطی الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ٣١٣ میں بہت سے علماء و صوفیا کے اقوال نقل کیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی روح اقدس کو ملکوت ارض و سما میں تصرف وسیع عطا کر دیا ہے، دن ہو یا رات، عالم خواب ہو یا عالم بیداری، جس وقت اور جب بھی چاہیں کسی بھی غلام کو اپنے دیدار اور زیارت سے نواز سکتے ہیں، جسے چاہیں چادر مبارک عطا کر جائیں اور جسے چاہیں موئے مبارک دیں۔
الألوسي (المتوفى: 1270هـ) سورہ الاحزاب کی تفسیر میں روح المعاني میں لکھتے ہیں
وأيد بحديث أبي يعلى «والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري وقال يا محمد لأجيبنه» . وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسّلام روحانية ولا بدع في ذلك فقد وقعت رؤيته صلّى الله عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة
اور اس کی تائید ہوتی ہے حدیث ابی یعلی سے جس میں ہے کہ وہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور عیسیٰ نازل ہوں گے پھر جب میری قبر پر آئیں گے اور کہیں گے یا محمد میں جواب دوں گا اور جائز ہے کہ یہ اجتماع انبیاء کا روحانی ہو اور یہ بعید بھی نہیں کیونکہ اس امت کے ایک سے زائد کاملین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بعد وفات بیداری میں دیکھا ہے
راقم اس سے متفق نہیں ہے ابی یعلی کی روایت کو منکر سمجھتا ہے
اسی تفسیر میں سورہ یس کے تحت الوسی لکھتے ہیں
والأنفس الناطقة الإنسانية إذا كانت قدسية قد تنسلخ عن الأبدان وتذهب متمثلة ظاهرة بصور أبدانها أو بصور أخرى كما يتمثل جبريل عليه السلام ويظهر بصورة دحية أو بصورة بعض الأعراب كما جاء في صحيح الأخبار حيث يشاء الله عز وجل مع بقاء نوع تعلق لها بالأبدان الأصلية يتأتى معه صدور الأفعال منها كما يحكى عن بعض الأولياء قدست أسرارهم أنهم يرون في وقت واحد في عدة مواضع وما ذاك إلا لقوة تجرد أنفسهم وغاية تقدسها فتمثل وتظهر في موضع وبدنها الأصلي في موضع آخر
نفس ناطقہ انسانی جب پاک ہو جاتا ہے تو اپنے بدن سے جدا ہو کر مماثل ظاہری ابدان سے یا کسی اور صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جیسے کہ جبریل کی شکل میں یا دحیہ کلبی کی صورت یا بدو کی صورت جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے جیسا الله چاہے اس بدن کی بقاء کے ساتھ جو اصلی بدن سے بھی جڑا ہو ایک ہی وقت میں لیکن کئی مقام پر ہو اس طرح حکایت کیا گیا ہے اولیاء سے جن کے پاک راز ہیں کہ ان کو ایک ہی وقت میں الگ الگ جگہوں پر دیکھا گیا
اس طرح الوسی نے یہ ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک ہی وقت میں کئی مقام پر ظاہر ہو سکتے ہیں
آج یہ عقیدہ بریلویوں کا ہے – راقم اس فلسفے کو رد کرتا ہے
فرقوں میں متضاد خواب
وہابی عالم صالح المغامسي کا کہنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھنا ممکن ہے یہ مبشرات میں سے ہے یہاں تک کہ امہات المومنین کو بھی دیکھا جا سکتا ہے
زبیر علی زئی اپنے مضمون محمد اسحاق صاحب جہال والا : اپنے خطبات کی روشنی میں میں لکھتے ہیں
علامہ رشید رضامصری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مفتی محمد عبدہ (رحمہ اللہ) نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور انہوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! اگر احد کے دن اللہ تعالیٰ جنگ کے نتیجہ کے بارے میں آپ کو اختیار دیتا تو آپ فتح پسند فرماتے یا شکست پسند فرماتے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ شکست کو پسند کرتا حالانکہ ساری دنیا فتح کو پسند کرتی ہے ۔(تفسیر نمونہ بحوالہ تفسیر المنار ۹۲/۳)” (خطباتِ اسحاق ج ۲ ص ۱۹۳، ۱۹۴) تبصرہ : اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ محمد عبدہ (مصری، منکرِ حدیث بدعتی) نے خوا ب میں ضرور بالضرور رسول اللہ ﷺ کو ہی دیکھا تھا ۔ کیا وہ آپﷺ کی صورت مبارک پہنچانتا تھا ؟ کیا اس نے خواب بیان کرنے میں جھوٹ نہیں بولا؟
اہل حدیث علماء نبی کا خواب میں انا مانتے ہیں ایک منکر حدیث دیکھے تو ان کو قبول نہیں – نبی صلی الله علیہ وسلم کی صورت کس اہل حدیث نے دیکھی ہے یہ زبیر علی نہیں بتایا
غیر مقلدین کا ایک اشتہار نظر سے گزرا
نبی صلی الله علیہ وسلم منکرین حدیث کے خواب میں آ رہے ہیں اہل حدیث کے خواب میں ا رہے ہیں صوفیاء کے خواب میں آ رہے ہیں عقل سلیم رکھنے والے سوچیں کیا یہ مولویوں کا جال نہیں کہ اپنا معتقد بنانے کہ لئے ایسے انچھر استعمال کرتے ہیں
مولویوں کا تماشہ یہ ہے کہ جو بھی کہتا ہے کہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اس سے حلیہ مبارک پوچھتے ہیں – اور اگر شمائل میں جو ذکر ہے اس سے الگ حلیہ ہو تو اس خواب کو رد کر دیتے ہیں –
عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، نے یزید سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس کے دور میں نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا …(حلیہ جو خواب میں دیکھا بیان کیا گیا ) ابن عباس نے کہا اگر تم بیداری میں دیکھ لیتے تو اس سے الگ نہ ہوتا
شعيب الأرنؤوط – کہتے ہیں
إسناده ضعيف، يزيد الفارسي في عداد المجهولين
قال البخاري في ” التاريخ الكبير ” 8 / 367 وفي ” الضعفاء ” ص 122: قال لي علي – يعني ابن المديني -:
قال عبد الرحمن – يعني ابن مهدي -: يزيد الفارسي هو ابن هرمز، قال: فذكرته ليحيى فلم يعرفه
امام بخاری نے اس کا ذکر تاریخ الکبیر میں کیا ہے اور الضعفاء میں کیا ہے کہا مجھ سے امام علی نے کہا کہ عبد الرحمان المہدی نے کہا یزید الفارسی یہ ابن ہرمز ہے اس کا ذکر امام یحیی القطان سے کیا تو انہوں نے اس کو نہ پہچانا
ابن ابی حاتم کے بقول یحیی القطان نے اس کا بھی رد کیا کہ یہ الفارسی تھا
وأنكر يحيى بن سعيد القطان أن يكونا واحداً،
شعيب الأرنؤوط نے اس کا شمار مجہولین میں کیا ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں صحابہ کو خواب میں نظر آئے ہوں گے اور پھر صحابہ نے ان کو بیداری میں بھی دیکھا ہو گا لیکن آج ہم میں سے کون اس شرط کو پورا کر سکتا ہے ؟ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا ان کی زندگی تک ہی تھا وہ بھی ان لوگوں کے لئے جو اسلام قبول کر رہے تھے اور انہوں نے نبی کو دیکھا نہیں تھا. نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحیح حدیث میں ان کا خواب میں آنا بیان نہیں ہوا . ہم تو صحابہ کا پاسنگ بھی نہیں!
اخباری خبروں کے مطابق جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہاں کے حاکم ملا عمر کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دیدار خواب میں ہوا اور حکم دیا گیا کہ کابل چھوڑ دیا جائے الله جلد فتح مبین عنایت کرنے والا ہے – لہذا اپنی عوام کو چھوڑ ملا عمر ایک موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے اور پیچھے جہاد کے آرزو مند جوانوں کو خاب و خاسر کر گئے
امت کا یہ حال ہوا کہ فقہی اختلاف یا حدیث رسول ہو یا جنگ و جدل ہو یا یہود و نصرانی سازش ہو سب کی خبر رسول الله کو ہے اور وہ خواب میں آ کر رہنمائی کر رہے ہیں
راقم کہتا ہے یہ علم الغیب میں نقب کی خبر ہے جو الله کا حق ہے – اس پر ڈاکہ اس امت نے ڈالا ہے تو اس کی سزا کے طور پر ذلت و مسکنت چھا گئی ہے
حدیث میں ہے ایک شخص خواب بیان کر رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا اور کہا
لَا تُخْبِرْ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِكَ فِي الْمَنَامِ
اس کی خبر مت دو کہ شیطان نے تیرے ساتھ نیند میں کیا کھیلا
ظاہر ہے یہ کوئی صحابی تھے جن کو منع کیا گیا کہ جو بھی خواب میں دیکھو اس کو حقیقت سمجھ کر مت بیان کرو
سر میں لگی آنکھوں سے الله تعالی کا دیدار کرنا ممکن نہیں لیکن آخرت میں چونکہ انسانی جسم کی تشکیل نو ہو گی اس کو تبدیل کیا جائے گا اور اس وقت محشر میں اہل ایمان اپنے رب کو دیکھ لیں گے
صحیح بخاری و مسلم میں معراج سے متعلق کسی حدیث میں نہیں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے ہوں اور الله تعالی کو دیکھا ہو البتہ بعض ضعیف اور غیر مظبوط روایات میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا بغیر داڑھی مونچھ جس پر سبز لباس تھا – قاضی ابو یعلی کے مطابق یہ معراج پر ہوا اور ابن تیمیہ کے مطابق یہ قلب پر آشکار ہوا – محدثین کی ایک جماعت نے اس طرح کی روایات کو رد کیا اور ایک نے قبول کر کے دلیل لی – اسی طرح ایک دوسری روایت بھی ہے جس میں رب تعالی کا نبی صلی الله علیہ وسلم کو چھونے تک کا ذکر ہے
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایت
کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں البانی کہتے ہیں
– إسناد حسن رجاله ثقات رجال الشيخين غير سماك بن حرب فهو من رجال مسلم
إبراهيم ابن طَهْمَانَ نے سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ سے اس نے جَابِرِ بْنِ سَمُرَة رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله تعالی نے میرے لئے تجلی کی حسین صورت میں پھر پوچھا کہ یہ ملا الاعلی کیوں جھگڑتے رہتے ہیں پھر اپنا ہاتھ میرے شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک محسوس کی
اس کی اسناد حسن ہیں اس کے رجال ثقات ہیں سوائے سماك بن حرب کے جو صحیح مسلم کا راوی ہے
اس کے برعکس مسند احمد کی تحقیق میں شعيب الأرنؤوط اس کو إبراهيم ابن طَهْمَانَ کی وجہ سے ضعیف قرار دیتے ہیں
نبی اکرم نے فرمایا کہ میں نے رب کو اچھی صورت میں دیکھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آسمانوں میں کس بات پر لڑائی ہے؟ میں نے کہا کہ اے رب! آپ زیادہ علم رکھتے ہیں۔ نبی اکرم فرماتے ہیں کہ پھر اللہ نے اپن ہاتھ میرے چھاتی کے درمیان رکھا حتی کہ مجھے اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے، مجھے اس کا علم ہو گیا۔ پھر نبی اکرم نے اس ایت کی تلاوت کی کہ اس طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھائی تاکہ وہ یقین والوں میں ہو
کتاب کے محقق، حسین سلیم اسد نے سند کو صحیح قرار دیا جبکہ سلف اس کو رد کر چکے تھے
عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے جبکہ یہ صحابی نہیں ہے
وقال أبو حاتم الرازي هو تابعي وأخطأ من قال له صحبة وقال أبو زرعة الرازي ليس بمعروف
ابو حاتم نے کہا یہ تابعی ہے اور اس نے غلطی کی جس نے اس کو صحابی کہا اور ابو زرعہ نے کہا غیر معروف ہے
جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں باب: سورہ ص سے بعض آیات کی تفسیر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: میرا رب بہترین صورت میں آیا اور اس نے مجھ سے کہا: محمد- میں نے کہا : میرے رب میں تیری خدمت میں حاضر وموجود ہوں، کہا: اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: رب میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت وعزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، اور مجھے مشرق ومغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہوگیا، (پھر) کہا: محمد میں نے عرض کیا: رب میں حاضر ہوں، اور تیرے حضور میری موجود گی میں – میں نے کہا: انسان کا درجہ ومرتبہ بڑھانے والی اور گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں تکرار کررہے ہیں، جماعتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والے قدموں کے بارے میں اور طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل وضو کرنے کے بارے میں۔ اور ایک صلاۃ پڑھ کر دوسری صلاۃ کا انتظار کرنے کے بارے میں، جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا، اور خیر (بھلائی) ہی کے ساتھ مرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک وصاف ہوجائے گا جس دن کہ ان کی ماں نے جنا تھا، اور وہ گناہوں سے پاک وصاف تھا”۔ امام ترمذی کہتے ہیں: – یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے
البانی کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں یہ بھی کہتے ہیں
قد روى معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس مرفوعا بلفظ: “رأيت ربي عز وجل فقال: يا محمد فيم يختصم الملأ الأعلى..” الحديث. أخرجه الآجري ص 496 وأحمد كما تقدم 388 فالظاهر أن حديث حماد بن سلمة مختصر من هذا وهي رؤيا منامية
اس کو معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس کی سند سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا اس نے پوچھا الملأ الأعلى کیوں لڑ رہے ہیں ؟ اس کی تخریج کی ہے الآجري اور احمد نے جیسا کہ گزرا ہے پس ظاہر ہے کہ حماد بن سملہ کی حدیث مختصر ہے اور یہ دیکھنا نیند میں ہے
اس کے بر عکس شعيب الأرنؤوط مسند احمد میں اس پر حکم لگاتے ہیں
إسناده ضعيف، أبو قلابة- واسمه عبد الله بن زيد الجرمي- لم يسمع من ابن عباس، ثم إن فيه اضطراباً
اس کی اسناد ضعیف ہیں – أبو قلابة- جس کا نام عبد الله بن زيد الجرمي ہے اس کا سماع ابن عباس سے نہیں ہے پھر اس روایت میں اضطراب بہت ہے
راقم کہتا ہے جامع الترمذی کی روایت بھی صحیح نہیں ہے : کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق خالد کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے ان سے مرسل روایت کرتا ہے
خالد بن اللجلاج العامري ذكره الصغاني فيمن اختلف في صحبته وهو تابعي يروي عن أبيه وله صحبة وفي التهذيب لشيخنا أنه يروي عن عمر وابن عباس مرسلا ولم يدركهما
الذھبی تاریخ الاسلام میں اس کے لئے کہتے ہیں
وَقَدْ أَرْسَلَ عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
عمر اور ابن عباس سے یہ ارسال کرتا ہے
اسی طرح اس میں قتادہ مدلس ہے جو عن سے روایت کر رہا ہے
ان علتوں کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے
معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں رات کو اٹھا، میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی جتنی میرے مقدر میں تھی پھر مجھے نماز میں اونگھ آ گئی۔ اچانک میں نے اپنے رب کو سب سے اچھی صورت میں دیکھا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی
البانی نے اس کو صحیح کہہ دیا ہے
جبکہ دارقطنی علل ج ٦ ص ٥٤ میں اس روایت پر کہتے ہیں
وسئل عن حديث مالك بن يخامر عن معاذ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال رأيت ربي في أحسن صورة فقال لي يا محمد فيم يختصم الملا الاعلى الحديث بطوله فقال ……… قال ليس فيها صحيح وكلها مضطربة
اس کی کوئی سند صحیح نہیں تمام مضطرب ہیں
شعيب الأرنؤوط مسند احمد میں اس روایت پر کہتے ہیں
ضعيف لاضطرابه
اضطراب کی بنا پر ضعیف ہے
ابن حجر کتاب “النكت الظراف 4/38 میں کہتے ہیں
هذا حديث اضطرب الرواةُ في إسناده، وليس يثبت عن أهل المعرفة.
اس حدیث کی اسناد میں اضطراب ہے اور یہ اہل معرفت کے ہاں ثابت نہیں ہیں
کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کہتے ہیں
وقوله: ” فيم يختصم الملأ الأعلى ” وقد تكلمنا عَلَى هَذَا السؤال فِي أول الكتاب فِي قوله: ” رأيت ربي ” فإن قِيلَ: هَذَا الخبر كان رؤيا منام، والشيء يرى فِي المنام عَلَى خلاف مَا يكون
اور قول کس پر الملأ الأعلى جھگڑا کر رہے ہیں ؟ اور اس سوال پر ہم نے اس کتاب کے شروع میں کلام کیا ہے کہ اگر کہیں کہ یہ خبر نیند کا خواب ہے اور یا چیز جو نیند میں دیکھی تو یہ اس کے خلاف ہے جو کہا گیا
القاضي أبو يعلى کے مطابق یہ سب معراج پر ہوا نہ کہ نیند میں
اس کے برعکس ابن تیمیہ نے منہاج السنہ میں موقف لیا کہ یہ نیند میں ہوا
اور یہ دیکھنا نیند میں تھا جو مدینہ کی احادیث ہیں جیسے معاذ بن جبل کی حدیث کل میرا رب اچھی صورت میرے پاس آیا آخر تک تو یہ نیند میں دیکھا تھا مدینہ میں اور اسی طرح روایات ہیں جو مدینہ میں نیند میں ہیں
یعنی ٥٠٠ صدی ہجری کے بعد حنابلہ کا ان روایات پر اختلاف ہوا کہ یہ نیند میں دیکھا تھا یا معراج پر پس ان مخصوص روایات کو ابن تیمیہ نے خواب قرار دیا
ابن تیمیہ کے ہم عصر امام الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں اس قسم کی ایک روایت (رأيت ربي جعدا أمرد عليه حلة خضراء میں نے اپنے رب کو بغیر داڑھی مونچھ مرد کی صورت سبز لباس میں دیکھا ) پر لکھتے ہیں
بیہقی نے کتاب الصفات میں روایت کیا …. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا .. اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے اور یہ خبر منکر ہے – ہم الله سے اس پر سلامتی چاہتے ہیں پس نہ تو یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر ہے اور اگر یہ سب غیر الزام زدہ ہوں بھی تو یہ خطاء و نسیان سے کہاں معصوم ہیں ؟ اب جو پہلی خبر ہے اس میں ہے کہ رسول الله نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا – اس میں نیند کی کوئی قید نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو معراج کی رات دیکھا اس حدیث کے ظاہر سے دلیل لیتے ہوئے – پر رویت نہیں ہے اس کا امکان ہے جو اس دلیل میں ہے – پس ہم جانتے ہیں کہ اس مسئلہ میں کہ اسلام کا حسن ہے کہ آدمی اس کو چھوڑ دے جس کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس رویت باری کا اثبات یا نفی مشکل ہے اور اس میں توقف میں سلامتی ہے و الله اعلم اور اگر ایک چیز ثابت ہو تو ہم اس کا کہیں گے اور نہ ہی ہم برا کہیں گے جو ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے اس کا اثبات کرے کہ انہوں نے دیکھا اس دنیا میں نہ اس کا انکار کریں گے بلکہ کہیں گے الله اور اسکا رسول جانتے ہیں بلا شبہ ہم برا کہیں گے اور رد کریں گے جو اس کا انکار کرے کہ یہ رویت آخرت میں بھی نہیں ہے کیونکہ الله کو آخرت میں دیکھنا نصوص موجودہ سے ثابت ہے
الذھبی کے بعد انے والے ابن کثیر سوره النجم کی تفسیر میں لکھتے ہیں
پس جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جو امام احمد نے روایت کی ہے حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ کو دیکھا تو اس کی اسناد الصحیح کی شرط پر ہیں لیکن اس کو مختصرا روایت کیا ہے نیند کی حدیث میں جیسا امام احمد نے کیا ہے
الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ) کتاب تشنيف المسامع بجمع الجوامع لتاج الدين السبكي میں لکھتے ہیں
هل يجوز أن يرى في المنام؟ اختلف فيه فجوزه معظم المثبتة للرؤية من غير كيفية وجهة مقابلة وخيال، وحكي عن كثير من السلف أنهم رأوه كذلك ولأن ما جاز رؤيته لا تختلف بين النوم واليقظة وصارت طائفة إلى أنه مستحيل لأن ما يرى في النوم خيال ومثال وهما على القديم محال، والخلاف في هذه المسألة عزيز قل من ذكره وقد ظفرت به في كلام الصابوني من الحنفية في عقيدته والقاضي أبي يعلى من الحنابلة في كتابه (المعتمد الكبير)، ونقل عن أحمد أنه قال: رأيت رب (94/ك) العزة في النوم فقلت: يا رب، ما أفضل ما يتقرب به المتقربون إليك؟ قال: كلامي يا أحمد قلت: يا رب، بفهم أو بغير فهم، قال: بفهم وبغير فهم قال: وهذا يدل من مذهب أحمد على الجواز، قال: ويدل له حديث: ((رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة)) وما كان من النبوة لا يكون إلا حقا ولأن من صنف في تعبير الرؤيا ذكر فيه رؤية الله تعالى وتكلم عليه، قال ابن سيرين: إذا رأى الله عز وجل أو رأى أنه يكلمه فإنه يدخل الجنة وينجو من هم كان فيه إن شاء الله تعالى. واحتج المانع بأنه لو كان رؤيته في المنام جائزة لجازت في اليقظة في دار الدنيا. والجواب: أن الشرع منع من رؤيته في الدنيا ولم يمنعه في المنام
کیا یہ جائز ہے کہ الله تعالی کو نیند میں دیکھا جائے ؟ اس میں اختلاف ہے … اور بہت سے سلف سے حکایت کیا گیا ہے انہوں نے دیکھا … اور ایک طائفہ گیا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ نیند میں جو دیکھا جاتا ہے وہ خیال و مثال ہوتا ہے …. اور اسکے خلاف احناف میں الصابونی کا عقیدہ میں کلام ہے اور حنابلہ میں قاضی ابو یعلی کا کتاب المعتمد میں … اور امام احمد کا مذھب جواز کا ہے … اور اس کا جواب ہے ہے کہ شرع میں دنیا میں دیکھنا منع ہے لیکن نیند میں منع نہیں ہے
ابن حجر فتح الباری ج ١٢ ص ٣٨٧ میں قاضی عیاض کا قول نقل کرتے ہیں
ابْنِ سِيرِينَ نے کہا جس نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا وہ جنت میں داخل ہوا
اس کی سند میں یوسف الصَّبَّاغِ ہے جو سخت ضعیف ہے لیکن صوفی منش ابو نعیم نے حلیہ الاولیاء میں اس کو نقل کر دیا
مسند دارمی کے محقق حسين سليم أسد الداراني اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں
یعنی بعض نے اس طرح کی روایات کو رد کیا- بعض نے اس کو معراج کا واقعہ کہا جو نیند نہیں تھا اور بعض نے اس کو خواب قرار دیا – بعض نے تقسیم کی مثلا ابن تیمیہ کے نزدیک ابن عباس کی رویت باری سے متعلق روایات صحیح ہیں لیکن شانوں پر ہاتھ رکھنے والی روایت مدینہ کا خواب ہے اور گھنگھریالے بالوں والی روایت قلبی رویت ہے اور دونوں صحیح ہیں – الذھبی کے نزدیک دونوں لائق التفات نہیں ہیں
الغرض الله تعالی کو خواب میں دیکھنا سلف میں اختلافی مسئلہ رہا ہے جس میں راقم کی رائے میں یہ روایات ضعیف ہیں
من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی
جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم
دوسری حدیث ہے
من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته
جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا
ہماری اسلامی کتب میں سن ١٣٠ ہجری اور اس کے بعد سے آج تک عالم مادی اور عالم روحانی اس طرح خلط ملط ملتے ہیں کہ غیب میں گویا نقب لگی ہو مسلسل عالم بالا سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم محدثین کے خوابوں میں آ رہے تھے یہاں ہم صرف ایک کتاب سیر الاعلام النبلاء از امام الذھبی کو دیکھتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور یہاں تک کہ الله تعالی کس کس کے خواب میں آ رہے تھے
بصری سلیمان بن طرخان المتوفی ١٤٣ ھ کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں
جَرِيْرُ بنُ عَبْدِ الحَمِيْدِ روایت کرتے ہیں رَقَبَةَ بنِ مَصْقَلَةَ، سے کہ میں نے رب العزت کو نیند میں دیکھا مجھ سے کہا سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ جیسوں کا اکرام کرو میرے لئے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھتا تھا عشاء کے وضو سے
الله تعالی عالم الغیب ہیں اور قادر ہیں لیکن الله تعالی کسی صحابی کے خواب میں نہیں آئے تابعی کے خواب میں نہیں آئے لیکن تبع تابعین کا دور ختم ہوتے ہی لوگ بیان کرنے لگ جاتے ہیں کہ الله تعالی اور رسول الله ان کو غیب کی خبریں دیتے ہیں
بصری عبد الله بن عون المتوفی ١٣٢ ھ کے ترجمہ میں الذہبی لکھتے ہیں
حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ فَضَاءٍ کہا میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا خواب میں فرمایا ابن عون کی زیارت کرو کیونکہ یہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے یا کہ الله اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہے
الحَكَمُ بنُ مُوْسَى کہتے ہیں کہ ولید بن مسلم دمشقی المتوفي ١٩٥ ھ نے کہا مجھے الأَوْزَاعِيِّ سے سماع کا کوئی شوق نہیں تھا یہاں تک کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور الأَوْزَاعِيِّ ان کے پہلو میں تھے میں نے پوچھا کس سے علم لوں یا رسول الله ؟ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اور الأَوْزَاعِيِّ کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے – میں الذھبی کہتا ہوں الأَوْزَاعِيِّ کی بڑی شان ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا اس لئے بیان کیا جاتا تھا تاکہ لوگوں پر رعب جمایا جا سکے الولید کو پروپگینڈا کرنا پڑ رہا ہے کہ اس کا سماع الأوزاعي سے ٹھیک ہے
إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق
وقال أبو داود: الوليد أفسد حديث الأوزاعي
ابوداود کہتے ہیں الولید بن مسلم نے الأوزاعي کی حدیث میں فساد کر دیا ہے
بغداد کے هُشَيْمُ بنُ بَشِيْرِ بنِ أَبِي خَازِمٍ أَبُو مُعَاوِيَةَ السَّلَمِيُّ المتوفی ١٨٣ ھ کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں
يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ العَابِدُ نے کہا میں نے نصر بن بسام سے اور ہمارے بہت سے اصحاب سے سنا کہ معروف الکرخی نے کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور وہ کہہ هُشَيْمُ بنُ بَشِيْرِ کے لئے رہے تھے کے لئے جَزَاكَ اللهُ عَنْ أُمَّتِي خَيْراً
زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي کہتے ہیں میں نے أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ کو سنا کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اپ مسجد النبی میں تھے پس میں ان تک پہنچا اور سلام کیا اور کہا اے رسول الله کیا مالک کی رائے لکھوں؟ فرمایا نہیں – میں نے پوچھا کیا ابو حنیفہ کی رائے لکھوں ؟ فرمایا نہیں – پوچھا کیا شافعی کی رائے لکھوں ؟ باتھ کو اس طرح کیا کہ گویا منع کر رہے ہوں اور کہا تو شافعی کی رائے کا کہتا ہے وہ میری رائے نہیں ہے بلکہ میری سنت کی مخالف ہے
یعنی رسول الله نے خواب میں امام شافعی کا قول نا پسند کیا
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ کہتے ہیں مکہ والے أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نے روایت کیا اس خط میں جو لکھا کہ مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيُّ نے کہا میں نے خواب میں رسول الله سے پوچھا اے رسول الله اپ مالک شافعی اور ابو حنیفہ کی رائے پر کیا کہتے ہیں ؟ فرمایا ان کا قول وہ نہیں جو میرا ہے اور شافعی کا قول اہل بدعت کی ضد ہے
یعنی رسول الله نے خواب میں امام شافعی کا قول پسند کیا
یہ متضاد اقوال خواب میں لوگ سن رہے تھے اور جمع کر رہے تھے
عصر حاضر کے محقق شعيب الأرناؤوط اس پر تعلیق میں جھنجھلا کر رہ گئے لکھتے ہیں
ومتى كان المنام حجة عند أهل العلم؟ ! فمالك وأبو حنيفة وغيرهما من الأئمة العدول الثقات اجتهدوا، فأصاب كل واحد منهم في كثير مما انتهى إليه اجتهاده فيه، وأخطأ في بعضه، وكل واحد منهم يؤخذ من قوله ويرد، فكان ماذا؟
اور کب سے خواب اہل علم کے ہاں حجت ہو گئے؟ پس مالک اور ابو حنیفہ اور دوسرے ائمہ عدول ہیں ثقات ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا ہے پس ان سب میں بہت سا ہے جو ان کے اجتہاد پر ہے اور اس میں بعض کی خطا بھی ہے اور ان سب کا قول لیا جاتا ہے اور رد بھی ہوتا ہے تو یہ کیا ہے ؟
یعنی جب خوابوں سے ائمہ پر سوال اٹھتا ہے تو فورا اس کو غیر حجت کہا جاتا ہے اگر یہ سب غیر حجت ہے تو ان کو جمع کرنے اور لوگوں کا ان کو بیان کرنا کتنا معیوب ہو گا ؟ جس دور میں ان کو بیان کیا گیا اس دور میں یقینا یہ معیوب نہ ہو گا بہت سے ان خوابوں کو جمع کر رہے تھے
اس کے برعکس الموسوعة الفقهية الكويتية جو ٤٥ جلدوں میں فتووں کا مجموعہ ہے اور وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية – الكويت نے چھاپا ہے اس میں وہابی علماء کا فتوی ج ٢٢ ص ١٠ پر ہے
اور یہ احادیث (جو اوپر پیش کی گئی ہیں) دلیل ہیں نیند میں رسول الله کو دیکھنے کے جواز پر اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور النووی نے شرح المسلم میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں جو اس معنی پر ہیں قول نبوی ہے جس نے نیند میں مجھے دیکھا پس اس نے جاگنے میں دیکھا اور مقصود ان میں صحیح ہے کہ دیکھنا ہر حال میں باطل نہیں اور نہ پریشان خوابی ہے بلکہ یہ فی نفسہ حق ہے اور اگر اس صورت پر دیکھے جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم زندگی میں نہیں تھے تو اس صورت کا تصور شیطان کی طرف سے نہیں بلکہ یہ الله کی طرف سے ہے اور کہا یہ قول ہے قاضی ابو بکر بن الطیب اور دوسروں کا اور اس کی تائید اس قول سے ہوتی ہے پس اس نے حق دیکھا
پانچویں صدی کے حنابلہ کے امام ابن الزغوانی کہتے ہیں کہ ان کے سامنے أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی سند پر قرات ہوئی اور الذہبی لکھتے ہیں
ابن زغوانی نے کہا کہ … میں نے خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور اپ نے مجھ پر قرآن اول سے آخر تک پڑھا اس قرات پر … اور اس میں (صلی الله علیہ وسلم نے) فرمایا سوره یس وہ سوره ہے جو پڑھے اس کو فقر سے امن ہو گا
کہا جاتا ہے خواب محدثین نے بیان تو کیے لیکن علماء نے ان سے دلیل نہیں لی جبکہ الزغوانی نے سوره یس کی فضیلت نقل کی – امام مسلم خواب سے مقدمہ میں دلیل لیتے ہیں
مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ) میں ہے
ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں
امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو بلا جرح نقل کیا ہے گویا یہ ان کے نزدیک دلیل تھا جبکہ اس کی سند ضعیف ہے
القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ از شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) کے مطابق
وعن سليمان ابن سحيم قال رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في النوم فقلت يا رسول الله هؤلاء الذين يأتونك فيسلمون عليك اتفقه سلامهم قال نعم وأرد عليهم رواه ابن أبي الدنيا والبيهقي في حياة الأنبياء والشعب كلاهما له ومن طريقه ابن بشكوال وقال إبراهيم بن شيبان حججت فجئت المدينة فتقدمت إلى القبر الشريف فيلمت على رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فيمعته من داخل الحجرة يقول وعليك السلام
سليمان بن سحيم نے کہا میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ان سے کہا یا رسول الله یہ جو اپ تک اتے ہیں اور سلام کہتے ہیں کیا اپ ن کا سلام پہچانتے ہیں ؟ فرمایا ہاں میں جواب دیتا ہوں
اس کو ابن ابی الدنیا نے اور البیہقی نے روایت کیا ہے حیات الانبیاء میں اور شعب الایمان میں اور ان دونوں نے اس کو ابن بشکوال کے طرق سے روایت کیا ہے اور کہا ابراہیم بن شیبان نے حج کیا اور مدینہ پہنچے تو قبر النبوی پر حاضر ہوئے پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سلام کہا حجرہ میں داخل ہو کر اور وہاں جواب آیا تم پر بھی سلام ہو
امام السخاوی نے اس کو بیان کیا ہے اور اس طرح رد الله علی روحی والی روایت کی تصحیح کی گئی ہے
خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا آنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اس پر تفصیل یہاں ہے
⇓ کیا اج نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا حدیث سے ثابت ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/کتاب-الرویا/
اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے
بعض علماء اس عقیدہ کے قائل ہیں کہ انسانی جسم میں دو روحیں ہوتی ہیں – ان میں سے ایک کو نفس بالا یا روح بالا کہتے ہیں جو حالت نیند میں انسانی جسم چھوڑ کر عالم بالا جاتی ہے وہاں اس کی ملاقات فوت شدہ لوگوں کی ارواح سے ہوتی ہے ، دوسری روح یا نفس، نفس زیریں ہے یا معروف روح ہے جو جسد میں رہتی ہے- اس تمام فلسفہ کو ضعیف روایات سے کشید کیا گیا ہے اور اس کی ضرورت اس طرح پیش آئی کہ خوابوں کی دنیا میں تعبیر رویا کی صنف میں عرب مسلمانوں کو مسائل در پیش تھے – اگرچہ قرآن میں تعبیر رویا کو خاص ایک وہبی علم کہا گیا ہے جو انبیاء کو ملتا ہے اور اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس صنف میں کوئی طبع آزمائی نہیں کی- حدیث کے مطابق ایک موقعہ پر امت کے سب سے بڑے ولی ابو بکر رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ ایک خواب کی تعبیر کی کوشش کریں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوا تھا لیکن وہ بھی اس کی صحیح تعبیر نہ کر سکے – اس کے علاوہ کسی صحیح حدیث میں خبر نہیں ملتی کہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم یا امہات المومننین بھی خواب کی تعبیر کرتے ہوں –
تعبیر رویا کی تفصیل کہ اس میں مرنے والوں اور زندہ کی روحوں کا لقا ہوتا ہے اور وہ ملتی ہے اشارات دیتی ہیں نہ صرف فراعنہ مصر کا عقیدہ تھا بلکہ ان سے یونانیوں نے لیا اور ان سے یہود سے ہوتا ہم تک پہنچا ہے
عنطیفون پہلا یونانی فلسفی نے جس نے عیسیٰ سے پانچ صدیوں قبل تعبیر خواب پر کتاب لکھی
Antiphon the Athenian (480 BC-411 BC)
اس نے دعوی کیا کہ زندہ کی روحیں مرنے والوں سے ملتی ہیں
A History of dream Interpretation in western society, J. Donald Hughes, Dreaming 10(1):7-18 · March 2000
یہ بات یہود کی کتاب مدرش ربه میں بھی موجود تھی کہ زندوں کی ارواح اپنے اجسام سے نکل کر عالم بالا میں مرنے والوں کی ارواح سے ملتی ہیں مثلا
…when they sleep their souls ascend to Him… in the morning He restores one’s soul to everyone.
Midrash Rabba, Deuteronomy 5:15
جب یہ سوتے ہیں تو ان کی ارواح بلند ہوتی ہیں رب تک جاتی ہیں مدرش ربه
کتاب تعبير الرؤيا از أبو طاهر الحراني المقدسي النميري الحنبلي المُعَبِّر (المتوفى: نحو 779هـ) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں یہ دانیال کا قول ہے
دانیال علیہ السلام کہتے ہیں ارواح بلند ہوتی ہیں سات آسمان تک جاتی ہیں یہاں تک کہ رب العزت کے سامنے رکتی ہیں ان کو سجدوں کی اجازت ملتی ہے اگر طاہر ہوں تو وہ عرش کے نیچے سجدہ کرتی ہیں اور ان کو نیند میں بشارت ملتی ہے
دانیال یہود کے مطابق ایک ولی الله تھے نبی نہیں تھے اور ان سے منسوب ایک کتاب دانیال ہے جس میں ایک خواب لکھآ ہے کہ انہوں نے عالم بالا کا منظر خواب میں دیکھا رب العالمین کو عرش پر دیکھا اور ملائکہ اس کے سامنے کتب کھولے بیٹھے تھے سجدے ہو رہے تھے احکام لے رہے تھے – یہ کتاب عجیب و غریب عقائد کا مجموعہ ہے جس میں یہ تک لکھا ہے کہ جبریل علیہ السلام ایک مہینہ تک بابل والوں کے قیدی رہے ان کا معلق وجود رہا یہاں تک کہ اسرافیل علیہ السلام نے آزاد کرایا وغیرہ- یہ کتاب یہودی تصوف کی صنف میں سے ہے – اگرچہ مسلمانوں نے دانیال کو ایک نبی بنا دیا ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے نہ قرآن میں ذکر ہے نہ صحیح حدیث میں
دانیال کے خواب کی بنیاد پر یہودی علماء کہتے ہیں کہ وہ بھی خواب بتا سکتے ہیں کیونکہ دانیال نبی نہیں ولی تھے اسی طرح خواب میں مردوں کی روحوں سے ملاقات ممکن ہے- لیکن مسمانوں کو اس پر دلیل چاہیے تھی کیونکہ ان کے نزدیک دانیال نبی تھے اور ایک غیر نبی کے لئے خواب کی تعبیر کرنے کی کیا دلیل ہے لہذا روایات بنائی گئیں کہ یہ تو عالم بالا میں ارواح سے ملاقات ہے
واضح رہے کہ خود نبی صلی الله علیہ وسلم کو معراج ہوئی جو جسمانی تھی اس کے بر عکس کسی حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں بیان کیا کہ وہ خواب میں عرش تک گئے- اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں تابعین میں بعض افراد نے تعبیر رویا کو ایک ایسا علم قرار دینے کی کوشش کی جو محنت سے حاصل ہو سکتا ہے – اس میں بصرہ کے تابعی ابن سیرین سے منسوب ایک کتاب بھی ہے لیکن اس کی سند ثابت نہیں ہے- یہ ایک جھوٹی کتاب ہے جو ابن سیرین سے منسوب کی گئی ہے – بہت سے بہت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس رجحان کا بعض لوگوں میں اضافہ ہو رہا تھا کہ تعبیر رویا ایک علم ہے جو کسب سے حاصل ہو سکتا ہے – اس صنف کے پروآن چڑھنے کی وجہ مال تھا کیونکہ اکثر بادشاہوں کو اپنی مملکت کے ختم ہونے کا خطرہ رہتا تھا- شاہ مصر نے خواب دیکھا اس کی تعبیر یوسف علیہ السلام نے کی- قیصر نے خواب دیکھا کہ مختون لوگ اس کی سلطنت تباہ کر رہے ہیں جس سے اس نے مراد یہودی لیے – دانیال نے شاہ بنی نبوکد نصر کے خواب کی تعبیر کی – وغیرہ لہذا خلفاء و حکمران جو خواب دیکھیں اس کی تعبیر بتانے والا کوئی تو ہو – اس سے منسلک مال حاصل کرنے کے لئے کتاب تعبیر الرویا لکھی گئیں اور لوگوں نے اس فن میں طاق ہونے کے دعوی کرنے شروع کیے
اس معاملے میں ابہام پیدا کرنے کے لئے قرآن کی آیات کا استمعال کیا جاتا ہے – قبض یا توفی کا مطلب ہے کسی چیز کو پورا پکڑنا- نکالنا یا اخراج یا کھینچنا اس کا مطلب نہیں ہے لیکن مترجمین اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت اس کا خیال نہیں رکھتے- قرآن میں الله تعالی عیسیٰ علیہ السلام سے کہتے ہیں انی متوفیک میں تم کو قبض کروں گا یعنی پورا پورا تھام لوں گا – اس کا مطلب یہ نہیں کہ موت دوں گا
الله پورا قبضے میں لیتا ہے نفس کو موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نفس نیند کے وقت، پس پکڑ کے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کا حکم لگاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو اک وقت مقرر تک کے لئے
حالت نیند میں اور موت میں قبض نفس ہوتا ہے- نیند میں قبض جسم میں ہی ہوتا ہے اور نفس کا اخراج نہیں ہوتا جبکہ موت میں امساک کا لفظ اشارہ کر رہا ہے کہ روح کو جسم سے نکال لیا گیا ہے
اور وہی تو ہے جو رات میں تم کو قبض کرتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ معین مدت پوری کردی جائے پھر تم کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے وہ تم کو تمہارے عمل جو کرتے ہو بتائے گا – اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے
بے ہوشی یا نیند میں نفس جسد میں ہی ہوتا ہے لیکن اس پر قبض ہوا ہوتا ہے انسان کو احتلام ہو رہا ہوتا ہے پسینہ آ رہا ہوتا ہے سانس چل رہی ہوتی ہے نبض رکی نہیں ہوتی اور دماغ بھی کام کر رہا ہوتا ہے دل دھڑک رہا ہوتا ہے معدہ غذا ہضم کر رہا ہوتا ہے انسان پر زندگی کے تمام آثار غالب اور نمایاں ہوتے ہیں اور موت پر یہی مفقود ہو جاتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی تبدیلی جسم پر اتی ہے اور وہ ہے روح کا جسد سے نکال لیا جانا
بحر الحال تعبیر رویا کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور یہاں تک کہ آٹھویں صدی کے امام ابن تیمیہ اپنے فتوی اور کتاب شرح حديث النزول میں لکھتےہیں کہ حالت نیند میں زندہ لوگوں کی روح، مردوں سے ملاقات کرتی ہیں . ابن تیمیہ لکھتے ہیں
ففي هذه الأحاديث من صعود الروح إلى السماء، وعودها إلى البدن، ما بين أن صعودها نوع آخر، ليس مثل صعود البدن
ونزوله.
پس ان احادیث میں ہے کہ روح آسمان تک جاتی ہے اور بدن میں عود کرتی ہے اور یہ روح کا اٹھنا دوسری نوع کا ہے اور بدن اور اس کے نزول جیسا نہیں
اس کے بعد ابن تیمیہ لکھتے ہیں
وروينا عن الحافظ أبي عبد الله محمد بن منده في كتاب [الروح والنفس] : حدثنا أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا عبد الله بن الحسن الحراني، ثنا أحمد بن شعيب، ثنا موسى بن أيمن، عن مطرف، عن جعفر بن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما ـ في تفسير هذه الآية: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42] . قال: تلتقي أرواح الأحياء في المنام بأرواح الموتى ويتساءلون بينهم، فيمسك الله أرواح الموتى، ويرسل
أرواح الأحياء إلى أجسادها.
اور الحافظ أبي عبد الله محمد بن منده في كتاب الروح والنفس میں روایت کیا ہے حدثنا أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا عبد الله بن الحسن الحراني، ثنا أحمد بن شعيب، ثنا موسى بن أيمن، عن مطرف، عن جعفر بن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما اس آیت کی تفسیر میں : {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42] کہا: زندوں کی روحیں نیند میں مردوں کی روحوں سے ملتی ہیں اور باہم سوال کرتی ہیں، پس الله مردوں
کی روحوں کو روک لیتا ہے اور زندوں کی روحیں چھوڑ دیتا ہے
یہ روایت ہی کمزور ہے اسکی سند میں جعفربن أبي المغيرة الخزاعي ہیں . تہذیب التہذیب کے مطابق جعفر بن أبي المغيرة الخزاعي کے لئے ابن مندہ کہتے ہیں
وقال بن مندة ليس بالقوي في سعيد بن جبير
اور ابن مندہ کہتے ہیں سعيد بن جبير سے روایت کرنے میں قوی نہیں
ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں
وروى الحافظ أبو محمد بن أبي حاتم في [تفسيره] : حدثنا عبد الله بن سليمان، ثنا الحسن، ثنا عامر، عن الفُرَات، ثنا أسباط عن السدى: {وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} قال: يتوفاها في منامها. قال: فتلتقي روح الحي وروح الميت فيتذاكران ويتعارفان. قال: فترجع روح الحي إلى جسده في الدنيا إلى بقية أجله في الدنيا. قال: وتريد روح الميت أن ترجع إلى جسده فتحبس.
اور الحافظ أبو محمد بن أبي حاتم اپنی تفسیر میں روایت کرتے ہیں حدثنا عبد الله بن سليمان، ثنا الحسن، ثنا عامر، عن الفُرَات، ثنا أسباط عن السدى: {وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} کہا> نیند میں قبض کیا. کہا پس میت اور زندہ کی روح ملتی ہے پس گفت و شنید کرتی ہیں اور پہچانتی ہیں. کہا پس زندہ کی روح جسد میں پلٹی ہے دنیا میں تاکہ اپنی دنیا کی زندگی پوری کرے. کہا: اور میت کی روح جسد میں لوٹائی جاتی ہے تاکہ قید ہو
اس روایت کی سند بھی کمزور ہے اس کی سند میں السدی ہے جو شدید ضعیف راوی ہے
اس کے بعد ابن تیمیہ نے کئی سندوں سے ایک واقعہ پیش کیا جس کے الفاظ میں بھی فرق ہے کہ عمر رضی الله تعالی عنہ نے علی رضی الله تعالی عنہ سے سوال کیا کہ انسان کا خواب کھبی سچا اور کبھی جھوٹا کیوں ہوتا ہے ؟ جس پر علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا کہ روحیں آسمان پر جاتی ہیں
وقال ابن أبي حاتم: ثنا أبي، ثنا عمر بن عثمان، ثنا بَقيَّة؛ ثنا صفوان بن عمرو، حدثني سليم بن عامر الحضرمي؛ أن عمر بن الخطاب ـ رضي الله عنه ـ قال لعلي بن أبي طالب ـ رضي الله عنه: أعجب من رؤيا الرجل أنه يبيت فيرى الشيء لم يخطر له على بال! فتكون رؤياه كأخذ باليد، ويرى الرجل الشيء؛ فلا تكون رؤياه شيئًا، فقال على بن أبي طالب: أفلا أخبرك بذلك يا أمير المؤمنين؟ إن الله يقول: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} [الزمر: 42] ، فالله يتوفي الأنفس كلها، فما رأت ـ وهي عنده في السماء ـ فهو الرؤيا الصادقة. وما رأت ـ إذا أرسلت إلى أجسادها ـ تلقتها الشياطين في الهواء فكذبتها، فأخبرتها بالأباطيل وكذبت فيها، فعجب عمر من قوله. وذكر هذا أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن منده في كتاب [الروح والنفس] وقال: هذا خبر مشهور عن صفوان بن عمرو وغيره، ولفظه: قال على بن أبي طالب: يا أمير المؤمنين، يقول الله تعالى: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} والأرواح يعرج بها في منامها، فما رأت وهي في السماء فهو الحق، فإذا ردت إلى أجسادها تلقتها الشياطين في الهواء فكذبتها، فما رأت من ذلك فهو الباطل.
اور ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں … کہ سلیم بن عامر نے روایت کیا کہ عمر بن الخطاب رضی الله عنہ نے علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے کہا مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی خواب دیکھتا ہے جس میں اس کا شائبہ تک اس کے دل پر نہیں گزرا ہوتا …. علی نے کہا امیر المومنین کیا میں اپ کو اس کی خبر دوں؟ الله تعالی نے فرمایا
{اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} [الزمر: 42] ، پس الله نے نفس کو قبضہ میں لیا موت پر اور جو نہیں مرا اس کا نیند میں پس اس کو روکا جس پر موت کا حکم کیا اور دوسری کو چھوڑ دیا ایک مدت تک – تو الله نے نفس کو مکمل قبضہ کیا تو یہ اس کے پاس آسمان پر ہے جو سچا خواب ہے اور جو جسد میں واپس آیا اس پر شیطان نے القا کیا … عمر کو اس قول پر حیرت ہوئی
اور اس کا ذکر ابن مندہ نے کتاب الروح و النفس میں کیا ہے اور کہا ہے یہ خبر مشھور ہے
اس روایت کے راوی سليم بن عامر کا عمر رضی الله تعالی عنہ سے سماع ثابت نہیں ہو سکا.
اپنے عقیدہ کے اثبات کے لئے ابن تیمیہ نے ابن لَهِيعَة تک کی سند پیش کی. جب کہ ان کی روایت بھی ضعیف ہوتی ہے
قال الإمام أبو عبد الله بن منده: وروى عن أبي الدرداء قال: روى ابن لَهِيعَة عن عثمان بن نعيم الرُّعَيْني، عن أبي عثمان الأصْبَحِي، عن أبي الدرداء قال: إذا نام الإنسان عرج بروحه حتى يؤتى بها العَرْش قال: فإن كان طاهرًا أذن لها بالسجود، وإن كان جُنُبًا لم يؤذن لها بالسجود. رواه زيد بن الحباب وغيره.
ابن تیمیہ نے یہ واقعہ ابن مندہ کے حوالے سے ایک ضعیف راوی کی سند سے بھی پیش کیا
وروى ابن منده حديث على وعمر ـ رضي الله عنهما ـ مرفوعًا، حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد، ثنا محمد بن شعيب، ثنا ابن عياش بن أبي إسماعيل، وأنا الحسن بن علي، أنا عبد الرحمن بن محمد، ثنا قتيبة والرازي، ثنا محمد بن حميد، ثنا أبو زهير عبد الرحمن بن مغراء الدوسي، ثنا الأزهر بن عبد الله الأزدي، عن محمد بن عجلان، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه قال: لقي عمر بن الخطاب على بن أبي طالب فقال: يا أبا الحسن … قال عمر: اثنتان. قال: والرجل يرى الرؤيا: فمنها ما يصدق، ومنها ما يكذب. فقال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” ما من عبد ينام فيمتلئ نومًا إلا عُرِج بروحه إلى العرش، فالذي لا يستيقظ دون العرش فتلك الرؤيا التي تصدق، والذي يستيقظ دون العرش فهي الرؤيا التي تكذب
یہ روایت معرفة الصحابة از أبو نعيم میں بھی حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الطَّلْحِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَبِيبٍ الطَّرَائِفِيُّ الرَّقِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، ثنا الْأَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَوْدِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِيهِ کی سند سے بیان ہوئی ہے لیکن راوی الْأَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ ضعیف ہے
ابن حجر لسان المیزان میں اس پر بحث کرتے ہیں کہ
أزهر بن عبد الله خراساني. عنِ ابن عجلان.
تُكلم فيه.
قال العقيلي: حديثه غير محفوظ، رواه عنه عبد الرحمن بن مغراء، انتهى.
والمتن من رواية ابن عجلان، عن سالم، عَن أبيه، عَن عَلِيّ رفعه: الأرواح جنود مجندة … الحديث.
وذكر العقيلي فيه اختلافا على إسرائيل، عَن أبي إسحاق عن الحارث، عَن عَلِيّ في رفعه ووقفه ورجح وقفه من هذا الوجه.
قلت: وهذه طريق أخرى تزحزح طريق أزهر عن رتبة النكارة.
وأخرج الحاكم في كتاب التعبير من المستدرك من طريق عبد الرحمن بن مغراء، حَدَّثَنَا أزهر بن عبد الله الأزدي بهذا السند إلى ابن عمر قال: لقي عمر عَلِيًّا فقال: يا أبا الحسن الرجل يرى الرؤيا فمنها ما يصدق ومنها ما يكذب قال: نعم، سمعت رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: ما من عبد، وَلا أمة ينام فيمتلىء نوما إلا عرج بروحه إلى العرش فالذي لا يستيقظ دون العرش ذلك الرؤيا التي تصدق والذي يستيقظ دون العرش فذلك الرؤيا التي تكذب.
قال الذهبي في تلخيصه: هذا حديث منكر، لم يتكلم عليه المصنف وكأن الآفة فيه من أزهر.
أزهر بن عبد الله خراساني. ابن عجلان سے (روایت کرتے ہیں)
انکے بارے میں کلام ہے
عقیلی کہتے ہیں: ان کی حدیث غیر محفوظ ہے اس سے عبد الرحمن بن مغراء روایت کرتے ہیں انتھی
اور اس روایت کا متن ابن عجلان، عن سالم، عَن أبيه، عَن عَلِيّ سے مرفوعا روایت کیا ہے …
میں (ابن حجر) کہتا ہوں: اور اس کا دوسرا طرق أزهر کی وجہ سے ہٹ کر نکارت کے رتبے پر جاتا ہے
اور حاکم نے مستدرک میں کتاب التعبیر میں اس کی عبد الرحمن بن مغراء، حَدَّثَنَا أزهر بن عبد الله الأزدي کی ابن عمر سے روایت بیان کی ہے کہ عمر کی علی سے ملاقات ہوئی پس کہا اے ابو حسن ایک آدمی خواب میں دیکھتا ہے جس میں سے کوئی سچا ہوتا ہے اور کوئی جھوٹا پس علی نے کہا ہاں میں نے رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے سنا ہے کہ کوئی بندہ نہیں ، اور بندی نہیں جس کو نیند آئے الا یہ کہ اپنی روح کے ساتھ عرش تک اوپر جائے پس جو نہ سوئے عرش کے بغیر وہ خواب سچا ہے اور جو سوئے عرش کے بغیر اس کا خواب جھوٹا ہے
الذهبي تلخیص میں کہتے ہیں یہ حدیث منکر ہے مصنف نے اس پر کلام نہیں کیا اور اس میں آفت أزهر کیوجہ سے ہے
کتاب : الفتح الرباني من فتاوى الإمام الشوكاني میں شوکانی اس کی بہت سی سندیں دیتے ہیں ان کو رد کرتے ہیں پھر لکھتے ہیں
والحاصل: أن رؤية الأحياء للأموات في المنام كائنة في جميع الأزمنة منذ عصر الصحابة إلى الآن. وقد ذكر من ذلك الكثير الطيب القرطبي في تذكرته، وابن القيم في كثير من مؤلفاته، والسيوطي في شرح الصدور بشرح أحوال الموتى في القبور.
الوجه الثامن: من وجوه الأدلة المقتضية لالتقاء أرواح الأحياء والأموات، وهو دليل عقلي لا يمكن الإنكار له، ولا القدح في دلالته، ولا التشكيك عليه، وذلك أنه قد وقع في عصرنا فضلا عن العصور المتقدمة أخبار كثيرة من الأحياء أفم رأوا في منامهم أمواتا فأخبروهم بأخبار هي راجعة إلى دار الدنيا
اور حاصل یہ ہے کہ زندوں کا مردوں کو نیند میں دیکھنا چلا آ رہا ہے عصر صحابہ سے ہمارے دور تک- اور اس کا ذکر کیا ہے قرطبی نے تذکرہ میں اور ابن قیم نے اپنی بہت سی مولفات میں اور السيوطي نے شرح الصدور بشرح أحوال الموتى في القبور میں
اور دوسری وجہ : اور وہ دلائل جو ضرورت کرتے ہیں کہ زندوں کی روحیں مرنے والوں سے ملتی ہیں وہ عقلی ہیں جن پر کوئی قدح نہیں نہ ان پر شک ہے اور ہمارے زمانے کے بہت سے فضلا کو خبریں ملی ہیں ان مردوں کو جو اس دار سے جا چکے ہیں
غیر مقلدین کی ایک معتبر شخصیت عبد الرحمن کیلانی کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں لکھتے ہیں
اس فلسفہ کا خمیر انہی ضعیف روایات پر اٹھا ہے جس سے معبروں (خواب کی تعبیر کرنے والوں) کی دکان چل رہی تھی
ظاہر ہے اس فلسفہ کی قرآن و حدیث میں جڑیں نہیں لہذا اس پر سوال پیدا ہوتے ہیں جو کرتے ہی زبان بند ی کرا دی جاتی ہے
صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق اچھا خواب الله کی طرف سے ہے اور برا شیطان کی طرف سے نہ کہ اس میں روحیں نکل کر عالم بالا جاتی ہیں
حدیث میں ہے ایک شخص خواب بیان کر رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا اور کہا
لَا تُخْبِرْ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِكَ فِي الْمَنَامِ
اس کی خبر مت دو کہ شیطان نے تیرے ساتھ نیند میں کیا کھیلا
حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ بصری روایت کرتے ہیں ابی زبیر سے وہ جابر رضی الله عنہ سے کہ
طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (مکہ میں ہجرت سے پہلے) اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ ایک مضبوط قلعہ اور لشکر چاہتے ہیں؟ (اس قلعہ کے لیے کہا جو کہ جاہلیت کے زمانہ میں دوس کا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے قبول نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے حصے میں یہ بات لکھ دی تھی ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ان کی حمایت اور حفاظت میں رہیں گے) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی (اور ان کے پیٹ میں عارضہ پیدا ہوا) تو وہ شخص جو سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا تھا، بیمار ہو گیا اور تکلیف کے مارے اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہوگیا، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا اور ا س کی حالت اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا :’’مجھے اس لیے بخش دیا کہ میں نے اس کے پیغمبرکی طرف ہجرت کی تھی۔‘‘ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے ہے؟ وہ بولا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ ہم اس کو نہیں سنواریں گے جس کو تو نے خود بخود بگاڑا ہے۔ پھر یہ خواب سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر کرم کیا ہے۔ (یعنی اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی درست کر دے)۔ ‘‘
اس روایت کے مطابق طفیل رضی الله عنہ نے اس شخص کو خواب میں دیکھا اور اس نے بتایا کہ اس کی بخشش ہو گئی
اس کی سند میں ابی زبیر ہے جو جابر رضی الله عنہ سے روایت کر رہا ہے
محدثین کہتے ہیں ابو زبیر کی وہی روایت لینی چاہیے جو لیث بن سعد کی سند سے ہوں امام مسلم نے اس اصول کو قبول نہیں کیا
اور روایت کو صحیح سمجھا ہے جبکہ دیگر محدثین اس سے الگ کہتے ہیں ان کے مطابق یہ روایت صحیح نہیں بنتی
كتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مشهور بالتدليس قال سعيد بن أبي مريم ثنا الليث بن سعد قال جئت أبا الزبير فدفع لي كتابين فانقلبت بهما ثم قلت في نفسي لو أني عاودته فسألته اسمع هذا كله من جابر قال سألته فقال منه ما سمعت ومنه ما حدثت عنه فقلت له اعلم لي على ما سمعت منه فاعلم لي على هذا الذي عندي ولهذا توقف جماعة من الأئمة عن الاحتجاج بما لم يروه الليث عن أبي الزبير عن جابر وفي صحيح مسلم عدة أحاديث مما قال فيه أبو الزبير عن جابر وليست من طريق الليث وكأن مسلما رحمه الله اطلع على أنها مما رواه الليث عنه وإن لم يروها من طريقه والله أعلم
محمد بن مسلم أبو الزبير المكي تدلیس کے لئے مشھور ہیں – سعيد بن أبي مريم نے لیث بن سعد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں ابو الزبیر کے پاس گیا اس نے دو کتابیں دیں ان کو لے لر واپس آیا – پھر میں نے دل میں کہا جب اس کے پاس جاؤں گا تو اس سے پوچھوں گا کہ کیا یہ سب اس نے جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سے سنا بھی ہے ؟ لیث نے ابو الزبیر سے (واپس جا کر) سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا: اس میں ہے جو ان سے سنا اور وہ بھی جو میں نے ان سے روایت کر دیا ہے- میں (لیث) نے اس سے کہا: مجھے اس کا علم دو جو تم نے سنا ہو- پس اس نے صرف وہ بتایا اور یہ اب میرے پاس ہے-اس وجہ سے ائمہ (حدیث) کی جماعت نے اس (ابو الزبیر) سے دلیل نہیں لی سوائے اس کے کہ جو لیث کی سند سے ہو – اور صحیح مسلم میں اس کی چند روایات ہیں جس میں ابو الزبیر عن جابر کہا ہے جو لیث کی سند سے نہیں اور امام مسلم اس بات سے واقف تھے کہ اس کی لیث کی سند والی روایات کون سی ہیں ، انہوں نے اس کو اس طرق سے روایت نہیں کیا الله آعلم
ابن سیرین سے منسوب کتاب تفسیر الاحلام یا کتاب الرویا غیر ثابت ہیں لیکن یہ کتاب صوفیوں کی گھڑی ہوئی ہے
عرب عالم مشھور بن حسن ال سلمان اپنی كتاب كتب حذر منها العلماء (وہ کتب جن سے علماء نے احتیاط برتی) میں اس پر بحث کرتے ہیں
لب لباب یہ ہے کہ یہ کتاب ابن سیرین سے ثابت نہیں ہے اس کا تین قرون میں تذکرہ نہیں ملتا ابن سیرین ایک محتاط محدث تھے اور تعبیر کے لئے ممکن نہیں کہ انہوں نے قوانین بنائے ہوں
لیکن افسوس بر صغیر کے علماء نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور غیر مقلدین علماء تک اس کو فتووں میں استمعال کر رہے ہیں