Category Archives: بعد الموت – Afterlife

ڈاکٹر عثمانی اور ایک خبر منکر

ڈاکٹر عثمانی سے قبل پتا نہیں کتنی صدیوں تک عوام میں یہ خبر پھیلائی جاتی رہی کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ، قرآن کا ترجمہ نہ کیا گیا ، اس کو چھت کے قریب  طاق پر رکھ دیا گیا ، لوگ قبروں پر معتکف رہے لیکن جان نہ پائے  کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں محدثین کے نزدیک ایک خبر منکر ہے
اس منکر روایت کے دفاع میں فرقوں کی جانب سے ہر سال نیا مواد شائع ہوتا رہتا ہے – مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار از أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق بن خلاد بن عبيد الله العتكي المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) میں ہے
حَدَّثنا رزق الله بن موسى، حَدَّثنا الحسن بن قتيبة، حَدَّثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَن الحَجَّاج، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس؛ أَن رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ.
أَنَس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں ، نماز پڑھتے ہیں

– اس روایت کو امام الذھبی نے منکر قرار دیا ہے جنہوں نے جرح و تعدیل پر کتب لکھی ہیں – البتہ فرقوں میں اس بات کو چھپایا جاتا ہے – ميزان الاعتدال في نقد الرجال
شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) لکھتے ہیں
حجاج بن الأسود.
عن ثابت البناني.
نكرة.
ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد، فأتى بخبر منكر، عنه، عن أنس في أن الانبياء أحياء في قبورهم يصلون.
حجاج بن الأسود یہ ثابت سے روایت کرتا ہے ، منکر روایتیں اور جو روایت کیا  اس سے صرف مستلم بن سعيد  نے کہ  پس ایک منکر خبر لایا ہے جو انس سے مروی ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں ، نماز پڑھتے ہیں

خالد الملیزی نام کے ایک صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے لکھا
اپ نے ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب کی کتاب یہ مزار یہ میلے ص 24 سے 25 کی جو عبارت پیش کی ہے جس میں انہوں نے مستلم بن سعید کو ضعیف کہا ہے اس بارے میں عرض ہے
الجواب: مستلم بن سعید صدوق و حسن الحدیث تھے اور ان کو ضعیف الحدیث گرداننا جھوٹ یا جھل ہے
جہاں تک مستلم سے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی بات ہے تو ان کی آدھی گواہی پیش کرنا اور آدھی چھپالینا یقینا خیانت اور کتمان ہے
ابن حجر عسقلانی نے مستلم بن سعید کے بارے میں فرمایا ہے
صدوق عابد ربما وھم (تقریب التھذیب ص 934،تھذیب التھذیب 56/4)
صدوق،عابد تھے اور کھبی کھبی وھم کرتے تھے
یہاں پر حافظ ابن حجر عسقلانی نے توثیق کی ہے جبکہ ربما وھم کوئی جرح نہیں ہے
لیکن ابن حجر کے الفاظ ربما وھم کا اظہار کرنا اور صدوق عابد چھپالینا فریب ہے
المزید: مستلم بن سعید کے بارے میں
امام الجرح والتعدیل یحی ابن معین نے فرمایا ہے صویلح (تاریخ ابن معین بروایة الدوری 161/4)
یاد رہے صویلح دراصل تعدیل برائے احساس جرح ہے عند بعض الناس اسلئے اس کو صرف جرح پر محمول کرنا درست نہیں ہے
احمد ابن حنبل نے فرمایا شیخ ثقة من اھل واسط قلیل الحدیث (سوالات ابی داود ص 321)
امام ابوداود نے خود ثقہ کہا ہے(سوالات ابی داود ص 321)
امام نسائی نے فرمایا لیس به بأس (الجرح والتعدیل 438/8)
امام حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے(الثقات لابن حبان 520/7) جبکہ ربما خالف کوئی چیز نہیں ہے
امام ذھبی نے صدوق کہا ہے(الکاشف 255/2)
معلوم ہوا کہ مستلم بن سعید صدوق و حسن الحدیث تھے اور ان کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی رائے میں صدوق عابد کے مقابلے میں ربما وھم کا ہونا اور نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا جبکہ صدوق عابد کو چھپا کر ربما وھم کے تحت فتوی دینا کتمان مبین ہے

راقم اس سب پر کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ مستلم بن سعید کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن ثقہ کہہ کر محدث یہ نہیں کہتا کہ جو بھی  اس کی سند سے آئے اس کو قبول کر لیا جائے بلکہ متعدد ثقات کی منکر روایات کا علل کی کتب میں ذکر ہے

تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں ہے
قال عبّاس: وسمعت يزيد بن هارون يقول: كان مستلم عندنا ها هنا بواسط، وكان لا يشرب إلا في كلّ جمعة
يزيد بن هارون کہتے تھے یہ مستلم واسط میں ہمارے ساتھ تھا اور صرف جمعہ کے دن پانی پیتا تھا

وقال الحسن بن عليّ، عن يزيد بن هارون: مكث المستلم أربعين سنة لا يضع جنبه على الأرض
يزيد بن هارون نے کہا : چالیس سال تک اس نے پہلو زمین سے نہ لگایا
تالي تلخيص المتشابه از أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
الْحسن بن الْخلال حَدثنَا يزِيد بن هَارُون قَالَ مكث المستلم بن سعيد أَرْبَعِينَ سنة لَا يضع جنبه إِلَى الأَرْض قَالَ وسمعته يَقُول لم أشْرب المَاء مُنْذُ خَمْسَة وَأَرْبَعين يَوْمًا
يزِيد بن هَارُون کہتے ہیں میں نے المستلم بن سعيد کو کہتے سنا کہ میں نے ٤٥دن سے پانی نہیں پیا

اب جب یہ حال ہو تو اس کی روایت جائز نہیں ہے کیونکہ یہ سنت النبی پر عمل نہ کرتا تھا – انبیاء نے زمین پر آرام کیا ہے اور پانی پیا ہے
ایسا نہیں کہ صرف جمعہ کے دن پانی پیتے ہوں یا چالیس سال تک لیٹے نہ ہوں
اس قسم کے بدعتی اور حواس باختہ راویوں کا دفاع فرقوں کی جانب سے کیا جانا آنکھوں دیکھی مکھی کھانے کے ساتھ ساتھ اس مکھی کو لذیذ قرار دینے کے بھی مترادف ہے

مستلم کی اس حالت کو دیکھ کر سلیم الفطرت مسلمانوں کے ذہن میں جو مستلم کی شکل بنتی ہے وہ ایک ہندو سادھو والی ہے نہ کہ متقن راوی کی

امام شعبہ ، المستلم کے بارے میں کہتے تھے
ما كنت أظن ذاك يحفظ حديثين
یہ اس قابل بھی نہیں کہ دو حدیثین یاد رکھ سکے

امام ابن معین نے مستلم کوصویلح  قرار دیا ہے

تاريخ ابن معين (رواية عثمان الدارمي) ، المحقق: د. أحمد محمد نور سيف ، الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق میں ہے
امام ابن معین کے شاگرد عثمان الدارمي راوی محمد بن أبي حَفْصَة پر سوال کرتے ہیں تو امام ابن معین کہتے ہیں
قَالَ صُوَيْلِح لَيْسَ بِالْقَوِيّ
صُوَيْلِح ہے قوی نہیں ہے
اس سے معلوم ہوا کہ ابن معین کے نزدیک صُوَيْلِح وہ راوی ہے جو قوی نہیں ہے – اور ظاہر ہے غیر قوی راوی سے دلیل نہیں لی جا سکتی

سير أعلام النبلاء میں المُسْتَلِم بن سَعِيْدٍ کی ایک اور روایت کو بھی الذھبی نے منکر کہا ہے
قَرَأْنَا عَلَى عِيْسَى بنِ يَحْيَى، أَخبركُم مَنْصُوْرُ بنُ سَنَد، أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ السِّلَفِيُّ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ الحَافِظ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بنُ عَبْدِ اللهِ بن عُمَرَ الوَاعِظ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ العَسَّال، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ رُسْتَه، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ المُسْتَلِم بن سَعِيْدٍ، عَنِ الحَكَمِ بنِ أَبَانٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:
أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: (مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ يَنْظُرُ إِلَى وَالِدِهِ نَظْرَةَ رَحْمَةٍ إِلاَّ كَانَتْ لَهُ بِكُلِّ رَحْمَةٍ حَجَّةٌ مَبْرُوْرَةٌ) ، قِيْلَ: وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ مائَةُ رَحمَةٍ (1) ؟ قَالَ: (نَعَمْ، إِنَّ اللهَ أَطْيَبُ وَأَكْثَرُ (2)) .
هَذَا مُنْكَرٌ.

امام الذھبی اس کی منکر روایات کا مسلسل ذکر رہے ہیں – ان کا مدعا یہ رہا ہے کہ محض راوی کو ثقہ کہہ دینے سے اس کی تمام روایات قابل قبول نہیں ہیں اور جیسا ہم نے دیکھا کہ اس نے پانی تک نہیں پیا – اب جو پانی نہ پئے اس کی دماغی حالت کیا ہو گی – اس قسم کے جوگی کی روایت سن کر وجد میں آ جانے والے ملا قبروں پر دھمال ڈال رہے ہیں ، ہو ھا کی ضربیں لگا رہے ہیں لیکن ہم ان کے اس رقص قبور میں شامل نہ ہوں گے

کیا انسانی عدالتوں میں اس شخص کی گواہی معتبر ہے جس نے چالیس دن پانی نہ پیا ہو ، ہوش و حواس میں نہ ہو ؟ ظاہر ہے نہیں – جب ہم انسانی جھگڑوں کا فیصلہ اس قسم کے گواہ سے نہیں لیں گے تو پھر ایک مجذوب کے قول کو کیوں حدیث نبوی سمجھیں جس نے پانی کو چھ دن حرام کر لیا ہو اور ٤٠ سال لیٹ کر سویا   نہ ہو ؟

برزخی جسم کی خبر

قصہ مختصر
برزخی جسم کا ذکر سن ٨٠ کی دہائی میں ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب عذاب البرزخ میں کیا – اس سے قبل بر صغیر میں تقسیم ہند سے قبل برزخی جسم کا ذکر سلفی عالم ثناء اللہ امرتسری نے بھی کیا تھا – تقسیم ہند کے بعد سلفی عالم اسمعیل سلفی نے کتاب حیات النبی میں باقاعدہ برزخی جسم کا ذکر کیا کہ متقدمین میں علامہ الوسی نے اس کا ذکر کیا
سن ٩٠ کی دہائی میں غیر مقلدوں کے وہ علماء جن کو صرف اپنے ہاتھ کی کتب پڑھنے کا شوق تھا  اور کمزور مطالعہ تھا انہوں نے دعوی داغ دیا کہ برزخی جسم کا ذکر دجال غلام احمد قادیانی نے کیا – اس طرح اپنے معتقدؤن کو احمق بنا کر داد و تحسین لی – افسوس حق کو چھپانے والے ان کے علماء میں سے بعض یقینا جانتے ہوں گے کہ اسمعیل سلفی نے ایک نہیں کئی بار بررخی جسم کا ذکر اپنی کتاب میں ڈاکٹر عثمانی سے قبل کیا ہے اور اس کا رد نہیں کیا – راقم نے حق کو چھپانے والے ان علماء کا تعقب کیا اور ان کے منہ پر متقدمین  علماء کے حوالہ جات مارے ہیں جن کو اب اس کتاب میں یکجا   کیا گیا ہے   

الله تعالی نے قرآن میں بتایا ہے وہ انسانی جسم کو واپس روزمحشر تخلیق کرے گا اس میں انسان کا جسم واپس بنا دیا جائے گا – احادیث کے مطابق اس تخلیق نو میں انسانی جسم میں تبدیلی بھی ہو گی اس کی جسامت دنیا سے الگ ہو گی –   جہنمیوں کے جسم اس قدر بڑے ہوں گے کہ ان کے شانوں کے درمیان کی مسافت تین دن کی ہو گی اور کھال احد پہاڑ جتنی موٹی ہو گی (صحیح مسلم)

کافر کا جہنمی جسم دیکھئے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی ( یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے)۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔

ان احادیث سے پتا چلا کہ  جہنمیوں کے اجسام اس دنیا جیسے نہیں بلکہ بہت بڑے ہونگے

دوسری طرف یہ جہنمی اجسام مسلسل تبدیل ہونگے اور ان پر نئی کھال آئے گی ینی عذاب ان جسموں کو ہوگا جنہوں نے گناہ نہ کیا ہو گا – گناہ تو ٥ سے ٧ فٹ کے جسم  نی کیے لیکن عذاب اس جسم کو ہے جو عظیم حجم کا ہے

یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ  روح اس جسد عنصری کو چھوڑ کر روز محشر ایک نئے جسم میں جائے گی جو اس جسد عنصری سے الگ  ہے ،  بڑا ہے – روح اس بڑے جسم میں بھی سما جائے گی اور اس جسم کو اپنا لے گی

اسی طرح احادیث  میں آیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے عذاب قبر حق ہے اور  اس کی مثال میں آپ  صلی الله علیہ  وسلم نے   نماز کسوف گرہن  کے بعد جو خطبہ دیا اس میں ذکر کیا

ایک عورت  کا جس کو بلی ابھی بھی  نوچ رہی ہے   (صحیح ابن حبان)

ایک مشرک  شخص    (عمرو  بن لحیی)   کا جو اپنی آنتوں کو گھسیٹ  رہا ہے     (صحیح بخاری )

ایک  شخص کا جو  لاٹھی  پر ٹیک  لگائے  عذاب  جھیل رہا ہے   (صحیح ابن    خزیمہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ  تمام عذابات  براہ  راست  دیکھے  جب پر   نماز کسوف  پڑھا رہے تھے  اور  اس نماز کے بعد خطبہ میں مومن پر عذاب قبر کی خبر پہلی بار سن ١٠ ہجری میں  دی گئی

اتفاق سے اسی دن پسر نبی  ابراہیم  کی بھی وفات ہوئی  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ   اس کے لئے جنت میں اس وقت ایک دائی  ہے جو دودھ پلا رہی ہے

اس طرح ایک ہی دن میں مشرک  اور  مومن   پر عذاب قبر اور مومن پر راحت کا ذکر فرمایا  –  ان سب عذابات  کا مقام اس بنا پر زمین پر  نہیں رہتا کیونکہ  مثالیں دے دے کر سمجھایا  گیا کہ کس طرح روح ایک نئے  جسم میں  عالم بالا  میں جاتی ہے ، عذاب و راحت پاتی ہے

یہ چیز  فقہاء و شارحین  حدیث و متکلمین بیان  کرتے رہے تھے  لیکن افسوس جب آٹھویں صدی  اور اس کے بعد  جمہور  نے روح پر عذاب کا انکار کرنا شروع کیا تو ان احادیث کو چھپایا  جانے لگا کیونکہ ایک بار روح کے لئے نیا عالم بالا میں جسم کا عقیدہ  لوگوں پر واضح  ہو جاتا تو روح پھر اس طرح سات آسمانوں  میں بھٹکتی نہ  پھرتیں جس کے قائل   بہت سے علماء ہو چلے تھے – عقائد میں برزخی  جسم کی خبر کو چھپایا  جانا آٹھویں صدی سے چلا آ رہا ہے

البتہ کتب شرح میں  وہی گروہ جو روح کے سات آسمان میں بھٹکنے کا قائل ہے انہوں نے ہی  شروحات حدیث میں ذکر کیا ہے کہ متقدمین  روح کے جسم کا ذکر ان احادیث  کی وجہ سے کرتے تھے – عثمانی صاحب نے اس حقیقت کو واپس واضح کیا اور مسلک پرستوں نے اس  پر دعوی کیا کہ  ١٤٠٠ سو سال میں  ایسا کسی نے نہیں کہا – راقم کہتا ہے فرقے  جھوٹ بول رہے ہیں – قارئین اس کتاب میں درج حوالہ جات کو دیکھ سکتے ہیں – افادہ عامہ کے تحت ان حوالوں کو جمع کیا گیا ہے –

صحیح  بخاری  میں حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ  میں تفصیل سے مومن پر عذابات کا ذکر وارد ہوا ہے البتہ اس کا ذکر اس کتاب میں نہیں ہے ، راقم کی دوسری کتاب بنام اثبات عذاب قبر میں اس حدیث کی شرح  پر کلام ہے

ابو شہر یار

٢٠٢١

209 Downloads

زندگی، نیند ، بے ہوشی،موت

دکتور فاضل صالح السامرائي  جو قرآنی عربی  اور عربی زبان کے ماہر ہیں ، عراقی اسکالر ہیں، لغوی  ہیں ان کا کہنا ہے کہ  لغت کے  تحت توفی  کا مطلب موت نہیں ہے  اصلا  معنی  اخیتار و   شعور کو واپس لینا ہے – اس ویڈیو میں ان کو سن سکتے ہیں – لفظ توفی پر  یہ موقف راقم بھی رکھتا ہے

اس کتاب میں مختصرا زندگی کی ابتداء ، نیند ، بے ہوشی و موت پر آیات قرانی کی روشنی میں بات کی گئی ہے- کتاب کا مقصد قرانی آیا کو یکجا کرنا ہے – ہر انسان کو معلوم ہے زندگی کیا ہے ، نیند کیا ہے – ہم سے بعض کبھی بے ہوش بھی ہوئے ہوں گے لیکن قرآن میں ان سب پر توفی کا لفظ وارد ہوا ہے جس کا مطلب جکڑ لینا ، بھینچ لینا یا مٹھی میں لینا ہے عرف عام میں اس کو قبض کرنا کہا جاتا ہے –

اس  کتاب  میں  روح  اور الروح  کے فرق  کو واضح  کیا گیا  ہے

روح القدس   یعنی  جبریل  کا  ذکر  ہے

توفی  کے  مختلف    مدارج  پر بات کی گئی  ہے

عذاب قبر اب غیب نہیں ہے

یہ اصول و کلیہ ہے کہ غیبی معاملات تک کسی صحابی یا امتی کی رسائی نہیں ہے – حیات النبی میں اس کی کوئی دلیل نہیں کہ صحابی رسول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح غیب کی کسی بات کو دیکھا ہو بلکہ تمام صحیح احادیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غیبی باتوں کا مشاہدہ کیا اور اصحاب رسول نے صرف سنا اور ایمان  لائے

عذاب قبر کے حوالے سے قرآن سے معلوم ہے کہ یہ عذاب جہنم النار کی شکل ہے – ال فرعون وہاں برزخ میں جہنم کی آگ پر پیش ہوتے ہیں – یہ اس دنیا کا معاملہ نہیں ہے کہ زمین کے سانپ بچھو اس عذاب قبر کو بر سر انجام دیں جیسا کہ بعض روایات منکرہ میں بیان ہوا ہے

اس حوالے سے اہل حدیث صحیح کے علاوہ حسن یعنی ضعیف روایات پر بھی عقیدہ استوار کیے ہوئے ہیں – البانی کہتے کہ کہ حسن سے عقائد لئے جا سکتے ہیں

عذاب قبر کے حوالے سے بیہقی کی پیش کردہ ایک روایت کا ترجمہ اہل حدیث عالم زبیر علی کرتے ہیں

قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “

زبیر کی موت اس عقیدے پر   نہ ہوئی  جو  آجکل  جمہور  اہل حدیث کا ہے کہ عود روح استثنائی ہے  بلکہ ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں – اس روایت کی بنیاد پر زبیر علی  منکر عقیدے کا پرچار کرتا رہا کہ قبر میں روح انے کے بعد نکلتی یا نہیں نکلتی معلوم ہی نہیں

حال  میں  ان کے ایک  شاگرد نے اس واقعہ کی تحسین کی اور اس کو خاص واقعہ قرار دیا کہ صحابی ابن عمر پر پردہ غیب چاک ہو گیا اور عذاب قبر کو دیکھا

بقول نورپوری یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی – اس کو ولی اللہ کی کرامت کا درجہ دے دیا ہے

راقم کہتا ہے اس کي سند ميں جويرية بن أسماء ہيں جن کا ذکر تدليس کي ايک کتاب ميں ہے
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق
جويرية بن أسماء مكثر عن نافع وقد تقدم قول بن عمار الحافظ في حديثه عنه وافقت ربي في ثلاث وإن بينهما فيه رجلا غير مسمى
جويرية بن أسماء يہ نافع سے بہت روايت کرتے ہيں اور ابن عمار کا قول ان کي حديث کہ ميرے رب نے تين ميں … کہ جويرية بن أسماء اور نافع کے درميان کوئي اور شخص ہے جس کا نام نہيں ليا گيا
يعني جويرية بن أسماء نے نافع سے روايات ميں تدليس بھي کي ہے
اور يہاں سند ميں عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ أَسْمَاءٍ، عَنْ نَافِعٍ، ہي ہے
عباءة بن كليب الليثى کو کمزور قرار ديا ہے
يہ اصل ميں جويرية کا پوتا ہے اس کا نام ہے عباءة بن كليب بن جويرية بن أسماء – ميزان ميں الذھبي نے ذکر کيا ہے
عن جويرية بن أسماء، صدوق، له ما ينكر، وغيره أوثق منه.
حدث عنه أبو كريب، وأخرجه البخاري في كتاب الضعفاء.
فقال أبو حاتم: يحول
يہ صدوق ہے اور اس کي روايت منکر بھي ہے اور ديگر اس سے زيادہ ثقہ ہيں … امام بخاري نے اس کو كتاب الضعفاء ميں شامل کيا ہے
الغرض يہ سند ضعيف ہے اس ميں تدليس کا امکان ہے اور عباءة بن كليب اتنا مضبوط نہيں کہ عقيدہ ليا جا سکے

کسوف کی خبر

امریکی خلائی ادارہ ناسا کی تحقیق  کے مطابق وہ گرہن جو دور نبوی میں ہوا  اور مدینہ میں دس ہجری میں دیکھا گیا وہ سن ٦٣٢ ع میں ٢٧ جنوری کو ہوا تھا

https://eclipse.gsfc.nasa.gov/SEcat5/SE0601-0700.html

اس گرہن کو 06270 کا نمبر دیا گیا ہے

یہ گرہن زمین سے عرب میں مکمل دیکھا گیا اور اسی روز روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی اور لوگوں نے کہا کہ ان کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے

 

٢٧ جنوری ٦٣٢ عیسوی کو جب ہجری کنلڈر میں تبدیل کریں تو تاریخ ٢٨ شوال سن ١٠ ہجری  بنتی ہے

https://www.islamicity.org/Hijri-Gregorian-Converter/?AspxAutoDetectCookieSupport=1#

امام ابن حزم  کا قول ہے کہ ابراہیم  پسر نبی کی وفات  ، وفات النبی (سن ١١ ہجری ربیع الاول ) سے چار ماہ قبل ہوئی – اس طرح ابن حزم کی تحقیق کے مطابق ابراہیم کی  وفات ذیقعدہ میں ہوئی  اور جدید  حساب فلکیات قمر کے مطابق یہ  ٢٨ شوال کو وفات  ہوئی  اور دونوں تواریخ  بہت قریب ہیں

اس سے معلوم ہوا کہ  کسوف میں جو مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی وہ صرف وفات النبی سے چار ماہ قبل کی تھی اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات  کا انبار ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ان روایات کو گھڑا گیا – مثلا  سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جن کی شہادت جنگ خندق کے فورا بعد ہوئی ان تک پر عذاب قبر کی خبر راویوں نے دے دی ہے

 

موت و نیند پر التباس

قرآن سورة الزمر آیت 42 میں ارشاد ہے

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ قبضے میں لے لیتا ہے نفس کو موت پر اور جو نہیں مرا اس کا نیند میں
پس پکڑ کر رکھتا ہے نفس کو جس پر موت کا حکم کرتا ہے اور دوسرے نفس کو چھوڑ دیتا ہے
اس میں نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں

سورہ الانعام آیت ٦٠ تا ٦١ میں ہے

وَهُوَ الَّـذِىْ يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُـمْ بِالنَّـهَارِ ثُـمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُـقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُـمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُـمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ
اور وہ وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کر چکے ہو وہ جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ وہ وعدہ پورا ہو جو مقرر ہو چکا ہے، پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے پھر تمہیں خبر دے گا اس کی جو کچھ تم کرتے تھے۔
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ ۖ وَيُـرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ؕ حَتّــٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّـتْهُ رُسُلُـنَا وَهُـمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے، اور تم پر نگہبان (فرشتے ) بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے قبضہ میں لے لیتے اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے۔

اس میں نفس یا روح کا ذکر ہے کہ نیند میں بھی قبض ہو رہا ہے اور موت پر بھی قبض ہو رہا ہے – ایک ہی نفس ہے جس کو موت اور نیند پر قبض کیا جا رہا ہے – زمخشری تفسیر کشاف میں اس کا ذکر کرتے ہیں

والصحيح ما ذكرت أوّلا، لأنّ الله عز وعلا علق التوفي والموت والمنام جميعا بالأنفس
أور صحیح وہ ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا کہ اللہ تعالی نے قبض ، موت، نیند سب کا اطلاق ایک ہی نفس پر کیا ہے

لیکن اشکال یہ ہے کہ قبض نفس نیند میں ہو جانے پر آدمی مردہ نہیں کہا جاتا اس کو زندہ ہی سمجھا جاتا ہے – سورہ الزمر میں ایک نفس کا ذکر ہے دو کا نہیں ہے – البتہ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے دو نفس بیان کیے ہیں – ایک کو نفس زیریں کہا ہے اور ایک کو نفس بالا کہا ہے

مفسر أبو إسحاق أحمد بن إبراهيم الثعلبي (المتوفى: 427 هـ) لکھتے ہیں
قال مفسرون: إن أرواح الأحياء والأموات تلتقي في المنام فيتعارف ما شاء الله منها فإذا أراد جميعها الرجوع إلى أجسادها أمسك الله أرواح الأموات عنده وحبسها، وأرسل أرواح الأحياء حتى ترجع إلى أجسادها
مفسرین کہتے ہیں زندوں اور مردوں کی روحیں نیند میں آپس میں ملاقات کرتی ہیں پس اس میں پہچان جاتی ہیں جو اللہ چاہے پس جب ان کو لوٹا نے ان کے جسموں میں اللہ ارادہ کرتا ہے تو مردوں کی روحوں کو روک لیتا ہے اور قید کر دیتا ہے اور زندہ کی ارواح کو ان کے اجساد میں لوٹا دیتا ہے

راقم کہتا ہے اس تفسیر کی وجوہات وہ روایات ہیں جن میں مردوں اور زندہ کی روحوں کے ملاقات کے قصے ہیں جو تمام ضعیف اسناد سے ہیں -تفصیل راقم کی کتاب الرویا میں ہے جو اس ویب سائٹ پر موجود ہے – ڈاکٹر عثمانی کے مخالف غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی نے کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں انہی روایت منکرہ و ضعیفہ کے تحت بیان کیا ہے کہ انسانی جسم میں دو روحیں یا نفس ہیں – ایک موت پر نکلتا ہے اور ایک نیند میں نکلتا ہے – یعنی ان علماء کے نزدیک قبض کا مطلب اخراج روح ہے جبکہ عربی میں قبض کا مطلب اخراج نہیں ہے اور نہ ہی آیات قرانی میں نیند میں اخراج روح کا ذکر ہے – قرآن میں قبض روح کا ذکر ہے کہ روح کو پکڑ لیا جاتا ہے – یہاں ہم کو معلوم ہے کہ روح کو نیند میں پکڑنے کے بعد بھی انسان خواب دیکھتا ہے – انسان کی بے ہوشی بھی گہری نیند ہے جس میں ڈاکٹر اس کا جسم کاٹ بھی دیتا ہے تو انسان کو احساس نہیں ہوتا – بسا اوقات انسان نیند میں ہوتا ہے لیکن اس کی نیند کچی ہوتی ہے اس کو اس پاس جو ایا یا بات ہو اس کی آواز بھی آ جاتی ہے – یہ سب ہمارے مشاہدہ میں ہے جس کا انکار کوئی نہیں کر سکتا
ان آیات میں انسان کے فہم، شعور، ادراک اور اختیار کا کوئی ذکر نہیں ہے – بلکہ یہ سب مشاہدات سے علم میں آتا  ہے – جو کفار روح کے وجود کے قائل نہیں ان تک کو معلوم ہے کہ نیند اور بے ہوشی انسان کا شعور کس طرح محدود کرتے ہیں – قرآن میں نیند کے عمل کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ قبض روح یا
seize
ہو جانے کی وجہ سے نیند میں تعقل کم ہو جاتا ہے اور موت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ نہ صرف قبض ہوتا ہے بلکہ فرشتے بھی استعمال ہوتے ہیں جو روح کو مکمل جسم سے الگ کر دیتے ہیں
وہ علماء جو عود روح کے قائل ہیں انہوں نے سورہ الزمر کی آیت میں تفسیر میں التباس پیدا کر دیا اور نیند میں قبض کو اخراج روح بنا دیا اور پھر کہا کہ موت کے بعد اگر روح واپس جسم میں آ بھی جائے تو یہ   میت  ہی  ہے – ابن رجب تفسیر میں کہتے ہیں
فلا ينافي ذلكَ أن يكونَ النائمُ حيًّا، وكذلك اتصالُ روح الميتِ ببدنه وانفصالها عنه لا يوجبُ أن يصيرَ للميتِ حياةً مطلقةً.
اس آیت سورہ الزمر سے نفی نہیں ہوتی کہ سونے والا زندہ ہے ، اسی طرح روح میت کے بدن سے جڑ جائے الگ ہو جائے تو یہ واجب نہیں ہو گا کہ مطلق زندگی ، میت کی ہو گئی

یعنی جس طرح نیند میں قبض نفس ہونے پر مردہ نہیں کہا جاتا اسی طرح قبر میں عود روح ہو جانے کے بعد زندہ نہیں کہا جا سکتا – گویا کہ نہ زندگی واضح ہے نہ موت واضح ہے – جو ان لوگوں کے نزدیک واضح ہے وہ صرف یہ کہ قبض نفس ہو رہا ہے

راقم کہتا ہے ان لوگوں نے آیات پر غور نہیں کیا ہے – قبض کا مطلب اخراج نہیں ہے اور سورہ الزمر میں صرف قبض کرنا بیان ہوا ہے اخراج کا ذکر نہیں ہے اور سورہ انعام میں موت پر اضافی اخراج کا ذکر بھی ہے جو فرشتوں سے کر وایا جا رہا ہے

قرآن میں موت کا لفظ اس دور پر بھی بولا گیا ہے جب جسم و روح اپس میں ملے بھی نہیں تھے
سورہ البقرہ آیت ٢٨ میں ہے

كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّـٰهِ وَكُنْتُـمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۖ ثُـمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُـمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُـمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ
تم اللہ کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم (اموات) بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔

یہ تخلیق آدم کے اس دور کا ذکر ہے جب آدم علیہ السلام مٹی میں خمیر میں خلق ہو رہے تھے- ان کی روح بن چکی تھی لیکن ان کے جسم میں نہیں تھی – جسم اور روح جب الگ ہوں تو ان پر موت کا اطلاق کیا گیا ہے

اشاعرہ علماء ایک دور میں موت کی تعریف یوں ہی  کرتے تھے – راغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں لکھتے ہیں کہ
وقوله: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] فعبارة عن زوال القوّة الحيوانيَّة وإبانة الرُّوح عن الجسد
اور (الله تعالیٰ کا ) قول : : كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] پس یہ عبارت ہے قوت حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے

روح کا جسم سے الگ ہونا ایک دور تھا جب موت سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں لوگوں نے اس تعریف کو بدلا اور آیات کو ایسے پیش کیا کہ گویا ان آیات میں ابہام ہے جسم میں روح انے جانے کا نام موت نہیں ہے – ان لوگوں کو یہ اشکال بعض روایات سے پیدا ہوا ہے مثلا صحیح بخاری کتاب الدعوات حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
الحمد للّٰہ الذی احیانا بعد ما اماتنا و الیہ النشور
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

یہاں نیند کو مجازا موت کہا گیا ہے – البتہ فرقوں نے اس کو حقیقت سمجھ لیا کیونکہ وہ عود روح کی روایت قبول کر چکے تھے – نیند میں بھی ان کے نزدیک روح جسم سے نکل جاتی ہے اور اگر مرنے کے بعد واپس آ بھی جائے تو اس کو زندگی نہیں کہا جائے گا- راقم کہتا ہے یہاں حدیث میں مجازا نیند کو موت بولا گیا ہے اور اس طرح بولنا زبان و ادب میں عام ہے لیکن اس کو حقیقت نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ قرآن میں نیند کو موت نہیں کہا گیا

صحیح البخاری بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ ذَهَابِ الوَقْتِ میں أَبِي قَتَادَةَ رضی الله عنہ سے مروی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نیند کے حوالے سے فرمایا
إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ، وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ
بے شک الله تعالی تمہاری روحوں کو قبض کرتا ہے جب چاہتا ہے اور لوٹاتا ہے جب چاہتا ہے

اس حدیث میں قبض روح سے مراد روح کا جسم سے نکلنا نہیں ہے بلکہ روح کا جسم میں ہی قبض مراد ہے – لیکن فرقوں نے اس قبض کو جسم سے اخراج نفس سمجھا اور اس سے یہ مطلب کشید کیا کہ سونے والے کو بھی مردہ کہا جاتا ہے

سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ عَنْ فِرَاشِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَلْيَنْفُضْهُ بِصَنِفَةِ [ص:473] إِزَارِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي مَا خَلَفَهُ عَلَيْهِ بَعْدُ، فَإِذَا اضْطَجَعَ فَلْيَقُلْ: بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِكَ أَرْفَعُهُ، فَإِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ، فَإِذَا اسْتَيْقَظَ فَلْيَقُلْ: الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي فِي جَسَدِي، وَرَدَّ عَلَيَّ رُوحِي وَأَذِنَ لِي بِذِكْرِهِ ” وَفِي البَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَعَائِشَةَ،: ” وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ وَقَالَ: فَلْيَنْفُضْهُ بِدَاخِلَةِ إِزَارِهِ

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی تم میں سے اپنے بستر پر سے اٹھ جائے پھر لوٹ کر اس پر (لیٹنے، بیٹھنے) آئے تو اسے چاہیئے کہ اپنے ازار (تہبند، لنگی) کے (پلو) کونے اور کنارے سے تین بار بستر کو جھاڑ دے، اس لیے کہ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کے اٹھ کر جانے کے بعد وہاں کون سی چیز آ کر بیٹھی یا چھپی ہے، پھر جب لیٹے تو کہے باسمك ربي وضعت جنبي وبك أرفعه فإن أمسكت نفسي فارحمها وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين اے میرے رب میں تیرا نام لے کر (اپنے بستر پر) اپنے پہلو کو ڈال رہا ہوں
یعنی سونے جا رہا ہوں، اور تیرا ہی نام لے کر میں اسے اٹھاؤں گا بھی، پھر اگر تو میری جان کو (سونے ہی کی حالت میں) روک لیتا ہے (یعنی مجھے موت دے دیتا ہے) تو میری جان پر رحم فرما، اور اگر تو سونے دیتا ہے تو اس کی ویسی ہی حفاظت فرما جیسی کہ تو اپنے نیک و صالح بندوں کی حفاظت کرتا ہے پھر نیند سے بیدار ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ کہے الحمد لله الذي عافاني في جسدي ورد علي روحي وأذن لي بذكره تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے بدن کو صحت مند رکھا، اور میری روح مجھ پر لوٹا دی اور مجھے اپنی یاد کی اجازت (اور توفیق) دی

اس کی سند میں ضعف ہے – سند میں محمد بن عجلان ہے جو مدلس ہے اور اس روایات کی تمام اسناد میں اس کا عنعنہ ہے

صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے لیکن الفاظ رد روحی اس میں نہیں ہیں

حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ فِرَاشَهُ فَلْيَنْفُضْهُ بِصَنِفَةِ ثَوْبِهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، وَلْيَقُلْ: «بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَاغْفِرْ لَهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ»

وہ علماء جو موت اور نیند کو ملاتے ہیں وہ صعق یا بے ہوشی کو بھول جاتے ہیں کہ بے ہوش شخص مردہ نہیں ہوتا اور نہ نیند میں ہوتا ہے  بلکہ  بے ہوشی میں فہم احساس شعور و ادراک  معطل ہونا ہے جبکہ کچی نیند میں انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اس پاس کیا ہو رہا ہے یعنی شعور موجود ہوتا ہے

 

مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ [ص:139] مِنْ ثَلَاثٍ: الكَنْزِ، وَالغُلُولِ، وَالدَّيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ ” هَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ: الكَنْزُ، وَقَالَ أَبُو
عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ: الكِبْرُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَعْدَانَ وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی اور وہ تین چیزوں سے  بَرِيءٌ تھا خزانہ ، غنیمت میں خیانت، اور قرض سے تو وہ جنت میں داخل ہوا – ترمذی نے کہا سعید نے روایت میں خزانہ بولا ہے اور … سعید  کی سند سے روایت اصح ہے

الدر المنثور از السیوطی میں ہے

وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ إِنَّمَا هُوَ الْكَنْز بالنُّون وَالزَّاي

دارقطنی کہتے ہیں یہ حدیث کنز (خزانہ ) کے لفظ سے ہے

فارق سے ہی اردو میں فراق کا لفظ نکلا ہے یعنی جدائی ہونا- اس کو اردو شاعری میں بہت استعمال کیا جاتا ہے

یہ روایت محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک صحیح ہے البتہ فرقوں کی جانب سے موت کے مفہوم پر اشکالات آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ روح کی جسم سے مکمل فراق کے قائل نہیں ہیں – بعض کے نزدکک روح کا جسم سے تعلق باقی رہتا ہے جس کی تشریح ان کے نزدیک یہ ہے کہ روح جسم میں آتی جاتی رہتی ہے – بعض کہتے ہیں روح دفنانے کے بعد آ جاتی ہے – بعض اس کے قائل ہیں کہ روح چالیس دن میت کے پاس آتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے غسل و تکفین تک کا مشاہدہ کرتی ہے – بعض اس کے قائل ہیں کہ روح جنازہ قبرستان لے جائے جانے کے وقت جسم میں آ جاتی ہے – یہاں تک کہ امام ابن عبد البر کا قول ہے کہ ارواح قبرستان میں ہی رہتی ہیں

قرآن اس کے خلاف ہے جس میں صریحا امساک روح کا ذکر ہے یعنی روح کو روک لیا جاتا ہے – قرآن میں موجود ہے کہ جس پر موت کا حکم لگتا ہے اس کا امساک کیا جاتا ہے

الوسيط في تفسير القرآن المجيد از الواحدی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْفَضْلِ، أنا عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ خَلَفٍ، أنا أُبَيُّ بْنُ خَلَفِ بْنِ طُفَيْلٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي طُفَيْلُ بْنُ زَيْدٍ، نا أَبُو عُمَيْرٍ، نا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَعَّابُ، نا نُعَيْمُ بْنُ عَمْرٍو، نا سُلَيْمَانُ بْنُ رَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّ الرُّوحَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الإِنْسَانِ؛ مَاتَ الْجَسَدُ، وَصَارَ الرُّوحُ صُورَةً أُخْرَى، فَلا يُطِيقُ الْكَلامَ؛ لأَنَّ الْجَسَدَ جِرْمٌ، وَالرُّوحُ يُصَوِّتُ مِنْ جَوْفِهِ وَيَتَكَلَّمُ، فَإِذَا فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ؛ صَارَ الْجَسَدُ صُفْرًا، وَصَارَ الرُّوحُ صُورَةً أُخْرَى، يَنْظُرُ إِلَى النَّاسِ، يَبْكُونَهُ، وَيُغَسِّلُونَهُ وَيَدْفِنُونَهُ، وَلا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَكَلَّمَ، كَمَا أَنَّ الرِّيحَ إِذَا دَخَلَ فِي مَكَانٍ ضَيِّقٍ سَمِعْتَ لَهُ دَوِيًّا، فَإِذَا خَرَجَ مِنْهُ لَمْ تَسْمَعْ لَهُ صَوْتًا، وَكَذَلِكَ الْمَزَامِيرُ، فَأَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ يَنْظُرُونَ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَجِدُونَ

ابن عباس نے کہا جب روح جسم سے نکلتی ہے تو جسد مر جاتا ہے اور روح ایک دوسری صورت لے لیتی ہے پس یہ کلام نہیں کرتی کیونکہ جسم تو ایک مرکب سفینہ ہے اور روح اس کے پیٹ میں آواز پیدا کرتی ہے اور کلام کرتی ہے – پس جب یہ جسم سے الگ ہوتی ہے تو جسد پیلا پڑ جاتا ہے اور روح ایک دوسری صورت لے لیتی ہے ، لوگوں کو دیکھتی ہے کہ اس پر رو رہے ہیں ، اس کو غسل دے رہے ہیں ، اس کو دفن کر رہے ہیں ، روح سب دیکھ کر بول نہیں پاتی جیسے ہوا ہو کہ جب تنگ مکان میں جاتی ہے تو اس کی آواز آتی ہے لیکن جب نکل جاتی ہے تو آواز بھی ختم ہو جاتی ہے – اسی طرح بانسری ہے – پس ارواح مومنین جنت کو دیکھتی ہیں

اس کی سند میں مجھول راوی ہیں

مشرب تصوف والے قصے بیان کرتے ہیں کہ ان کے ہاں مردہ غسل دینے والے کی انگلی پکڑ لیتا ہے

آج بھی تصوف کے مخالفین اس قسم کے قصوں کو مقلدوں کی گھڑنت کہتے ہیں اور ان قصوں کو مریدان کا اضافہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے

چند سال پہلے قندوز میں ایک بمباری میں مسلمان بچے شہید ہوئے – دوران تدفین ایک مقتول نے اپنے باپ کی انکلی پکڑ لی – یہ ویڈیو یو ٹیوب پر وائرل ہو گئی

ملاحظہ کریں

https://www.youtube.com/watch?v=QIK9SAwAcH0

راقم کہتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن بھی ہے – اس کو مغرب والے بھی جانتے ہیں اور انہوں نے اس کو لذارس ایفیکٹ
Lazarus effect
کا نام دیا ہے – انجیل کے مطابق لذارس ایک بنی اسرائیلی تھا جس کو قم باذللہ کہہ کر عیسیٰ علیہ السلام نے معجزہ دکھانے میں زندہ کیا تھا بعد میں جب مردوں میں حرکت کو سائنسدانوں نے نوٹ کیا تو اس کو لذارس ایفیکٹ کا نام دیا اور اس کی وجہ سے  پٹھوں میں حرکت ہے جو انسانی  جسم میں عناصر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے – مثلا ذبح کردہ جانور کا جسم آدھے گھنٹے تک گرم ہوتا ہے اور بعض اوقات جسم میں معمولی جنبش  بھی پیدا ہو جاتی ہے – اسی نوع کی یہ چیز ہے

وہ مسلمان علماء جو سائنس سے نابلد ہیں ، وہ جب لذارس ایفیکٹ کو مردوں میں دیکھتے ہیں تو اس کی کوئی علمی توجیہ ان کے پاس نہیں ہوتی  سوائے اس کے کہ اس کو من جانب اللہ آیا کوئی معجزہ قراردیں – دوسری طرف  انکار کرنے والے اس کو سفید جھوٹ کہتے آئے ہیں

غیر نبی کے جسد کی خبریں

  ہم تک خبریں پہنچی ہیں کہ اللہ تعالی نے بعض اصحاب رسول کے اجسام کو باقی رکھا- ولید بن عبد الملک نے حجرہ عائشہ پر قابض خبیب بن عبد اللہ   بن زبیر کو بے دخل کیا اور اپنے گورنر  عمر بن عبد العزیز کو حکم دیا کہ  خبیب کو بے دخل کرو  – اس کے بعد تعمیراتی  پروجیکٹ کا آغاز کیا کہ حجرہ کی چار دیواروں کو گرا کر پانچ کیا جائے – اس تعمیر  میں ایک    دیوار گر گئی جس کا ذکر صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ التَّمَّارِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  مُسَنَّمًا”. حَدَّثَنَا فَرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ “لَمَّا سَقَطَ عَلَيْهِمُ الْحَائِطُ فِي زَمَانِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَخَذُوا فِي بِنَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ  فَفَزِعُوا،‏‏‏‏ وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ”

ہم سے محمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی) دیوار گری اور لوگ اسے (زیادہ اونچی) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں اللہ گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے

 شیعہ روایات میں ہے کہ ایک مزدور نے امام  جعفر سے اس کام پر اجازت طلب کی – عثمانی صاحب نے ایمان خالص قسط دوم  میں الکافی کی  روایت ذکر کی

راقم  کہتا ہے ایسا  کبھی نہیں ہوا کہ  حجرہ عائشہ کی چھت گر گئی ہو

الکافی کے شیعہ  محقق نے خود  تعلیق میں اس روایت پر اقرار کیا ہے

هذا الحديث مجهول وكأن في السند سقطا او ارسالا فان جعفر بن المثنى من اصحاب الرضا عليه السلام ولم يدرك زمان الصادق عليه السلام

یہ حدیث مجہول کی سند سے ہے اور سند گری ہوئی ہے اور اس میں ارسال ہے کیونکہ جعفر بن المثنی یہ اصحاب امام رضا میں سے ہے اس نے امام جعفر کا دور نہیں پایا ہے 

معلوم ہوا کہ یہ روایت متاخرین کی ایجاد ہے

ایک روایت میں بیان ہوا ہے وہاں قبر النبی پر بھی سجدے بھی  ہو رہے تھے

الشريعة از أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے
وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ بْنِ زَكَرِيَّا أَبُو حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ إِلَى الْقَبْرِ , فَأَمَرَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ اللَّهُ فَرُفِعَ حَتَّى لَا يُصَلِّيَ فِيهِ النَّاسُ , فَلَمَّا هُدِمَ بَدَتْ قَدَمٌ بِسَاقٍ وَرَقَبَةٍ؛ قَالَ: فَفَزِعَ مِنْ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَأَتَاهُ عُرْوَةُ فَقَالَ: هَذَا سَاقُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَرُكْبَتُهُ , فَسُرِّيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ
شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ نے هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ سے روایت کیا کہ میرے باپ عُرْوَةَ المتوفی ٩٤ ھ  نے بیان کیا کہ لوگ قبر کی طرف نماز پڑھتے تھے – پس عمر بن عبد العزیز  المتوفی ١٠١ ھ  نے اس کو بلند کیا کہ لوگ اس میں نماز نہ پڑھیں پس جب اس کو منہدم کیا تو ایک قدم پنڈلی … کے ساتھ دیکھا- کہا پس عمر بن عبد العزیز اس پر گھبرا گئے اور عروه آئے اور کہا یہ عمر کی پنڈلی ہے اور گھٹنا ہے -پس اس سے عمر بن عبد العزیز خوش ہوئے

نوٹ : عُروة بن الزُبير  کی وفات عمر بن عبد العزيز بن مروان بن الحكم الأموي  کی وفات  سے سات سال پہلے ہوئی ہے

الولید بن عبد الملک کے حکم پر گورنر  عمر بن عبد العزیز المتوفی ١٠١ ھ  نے حجرہ عائشہ کی چار دیواروں کو پانچ کیوں کیا ؟ اس کی  تاویلات لوگوں نے کی ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے ایسا اس وجہ سے کیا کہ کعبہ سے مطابقت نہ رہے – جبکہ یہ نہایت عجیب قول ہے کیونکہ دیگر انبیاء سے منسوب قبروں کو بھی اسی طرح ٹیڑھی دیواروں کا بنا دیا جانا چاہیے تھا – تاریخ سے معلوم ہے کہ ایسا صرف اس لئے کیا گیا کہ حجرہ میں خبیب بن عبد اللہ بن زبیر نے قیام اختیار کیا ہوا تھا اور الولید کا مقصد حجرات کو مسمار کرنا تھا تاکہ ان میں کوئی رہائش نہ کرے- حجرہ عائشہ کو مسمار نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا اس میں دیوار کواس انداز پر بنایا گیا کوئی پیر پھیلا کر لیٹ نہ سکے کہ وہاں سو سکے یا رہائش کرے

البداية والنهاية از ابن کثیر (المتوفى: 774هـ) میں ہے

قُلْتُ: كَانَ الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ حِينَ وَلِيَ الْإِمَارَةَ فِي سَنَةِ سِتٍّ وَثَمَانِينَ قَدْ شَرَعَ فِي بِنَاءِ جَامِعِ دِمَشْقَ وَكَتَبَ إِلَى نَائِبِهِ بِالْمَدِينَةِ ابْنِ عَمِّهِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَنْ يُوَسِّعَ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ فَوَسَّعَهُ حَتَّى مِنْ نَاحِيَةِ الشَّرْقِ [1] فَدَخَلَتِ الْحُجْرَةُ النَّبَوِيَّةُ فِيهِ. وَقَدْ رَوَى الْحَافِظُ ابْنُ عَسَاكِرَ بِسَنَدِهِ عَنْ زَاذَانَ مَوْلَى الْفُرَافِصَةِ، وَهُوَ الَّذِي بَنَى الْمَسْجِدَ النَّبَوِيَّ أَيَّامَ [وِلَايَةِ] عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَذَكَرَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَ مَا ذَكَرَهُ الْبُخَارِيُّ، وَحَكَى صِفَةَ الْقُبُورِ كَمَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ.

میں ابن کثیر کہتا ہوں : جب سن ٨٦ ہجری میں الولید کو امارت ملی اس نے جامع دمشق بنانے کا آغاز کیا اور اپنے نائب مدینہ اپنے چچا زاد عمر بن عبد العزیز کو حکم لکھ بھیجا کہ مسجد المدینہ کی توسیع کرے پس حجرہ شریفہ کو اس میں داخل کیا گیا اور حافظ ابن عَسَاكِرَ نے اپنی سند سے زَاذَانَ مَوْلَى الْفُرَافِصَةِ سے روایات کیا ہے جنہوں نے مسجد النبی کی عمر بن عبد العزیز کے دور گورنری میں تعمیر کی – پس سالم سے روایت کیا جیسا امام بخاری نے روایت کیا ہے اور جیسا ابو داود میں ایسا صفت قبور پر بیان کیا

تاریخ مكة المشرفة والمسجد الحرام والمدينة الشريفة والقبر الشريف از محمد بن أحمد بن الضياء محمد القرشي العمري المكي الحنفي، بهاء الدين أبو البقاء، المعروف بابن الضياء (المتوفى: 854هـ) میں ہے

وَأدْخل عمر بن عبد الْعَزِيز …. فَصَارَ لَهَا ركن خَامِس، لِئَلَّا تكون الْحُجْرَة الشَّرِيفَة مربعة كالكعبة، فتتصور جهال الْعَامَّة أَن الصَّلَاة إِلَيْهَا كَالصَّلَاةِ إِلَى الْكَعْبَة

عمر بن عبد العزیز نے اس میں پانچویں دیوار بنا دی کہ حجرہ شریفہ کعبه کی طرف مربع نہ ہو پس بعض عام جاہلوں کا تصور ہے کہ اس کی طرف نماز ایسی ہی ہے جیسی کعبہ کی طرف ہے

 

شہدائے احد کے اجسام کی خبر 

بعض چیزیں من جانب اللہ نشانی تھیں ان سے عموم نہیں لیا جا سکتا مثلا شہدائے بدر احد کا رتبہ سب سے بلند ہے اب کوئی شہید بھی ہو تو بھی ان کے رتبے تک نہیں جا سکتا  اس کو بطور نشانی الله تعالی نے باقی رکھا کہ ان شہداء کے جسم لوگون نے دیکھے کوئی تغیر نہیں آیا تھا

المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخلص از المؤلف: محمد بن عبد الرحمن بن العباس بن عبد الرحمن بن زكريا البغدادي المخَلِّص (المتوفى 393هـ) میں ہے

حدثنا عبدُاللهِ قالَ: حدثنا أبويحيى / عبدُالأعلى بنُ حمادٍ قالَ: حدثنا عبدُالجبارِ بنُ الوردِ قالَ: سمعتُ أبا الزبيرِ محمدَ بنَ مسلمٍ يقولُ: سمعتُ جابرَ بنَ عبدِاللهِ يقولُ: كتبَ معاويةُ إلى عامِلِه بالمدينةِ أَن يُجريَ عَيناً إلى أُحُدٍ، فكتبَ إليه عامِلُه أنَّها لا تَجري إلا عَلى قبورِ الشهداءِ، قالَ: فكتبَإِليه أَن أَنفِذْها، قالَ: فسمعتُ جابراً يقولُ: فرأيتُهم يُخْرَجُون على رقابِ الرجالِ كأنَّهم رجالٌ نُوَّمٌ، حتى أَصابتْ المِسْحاةُ قدمَ حمزةَ عليه السلامُ فانبعثَتْ دماً

أبا الزبيرِ محمدَ بنَ مسلمٍ نے کہا میں نے جابر بن عبد الله سے سنا بولے معاویہ نے اپنے گورنر مدینہ کو لکھا کہ احد میں سے (سیلاب کی) نہر گذارو تو اس نے جواب دیا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ احد میں شہداء کی قبور ہیں – معاویہ نے کہا ان کو نکال لو پس میں نے جابر سے سنا کہ میں نے دیکھا وہ (کھودتے ہوئے ) شہداء کی گردنوں تک آ گئے اور ایسا تھا کہ گویا سو رہے ہوں یہاں تک کہ کھدال حمزہ علیہ السلام کے قدم کو لگی تو اس میں سے خون جاری ہو گیا

تاریخ مدینہ ابن شبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، وَقَالَ: لَيْسَ هَذَا مِمَّا فِي الْكِتَابِ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ” صُرِخَ بِنَا إِلَى قَتْلَانَا يَوْمَ أُحُدٍ حِينَ أَجْرَى مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَيْنَ، فَأَتَيْنَاهُمْ فَأَخْرَجْنَاهُمْ رِطَابًا تَتَثَنَّى أَجْسَادُهُمْ. قَالَ سَعِيدٌ: وَبَيْنَ الْوَقْتَيْنِ أَرْبَعُونَ سَنَةً

ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ اہل احد کے مقتولین کو نکالا جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے چشمہ جاری کرنا چاہا ہم احد میں گئے ان کے جسموں کو تازہ نکالا گیا – سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ نے کہا اس وقت تک ٤٠ سال گزر چکے تھے

اسی کتاب میں ہے

حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، وَأَبُو غَسَّانَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ [ص:128] عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْجَمُوحِ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ الْأَنْصَارِيَّيْنِ، ثُمَّ السُّلَمِيَّيْنِ، كَانَا فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، وَكَانَا مِمَّنِ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَكَانَ قَبْرُهُمَا مِمَّا يَلِي السَّيْلَ، فَحُفِرَ عَنْهُمَا لِيُغَيَّرَا مِنْ مَكَانِهِمَا، فَوُجِدَا لَمْ يَتَغَيَّرَا كَأَنَّمَا مَاتَا بِالْأَمْسِ، وَكَانَ أَحَدُهُمَا قَدْ جُرِحَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جُرْحِهِ، فَدُفِنَ وَهُوَ كَذَلِكَ، فَأُمِيطَتْ يَدُهُ عَنْ جُرْحِهِ ثُمَّ أُرْسِلَتْ، فَرَجَعَتْ كَمَا كَانَتْ. وَكَانَ بَيْنَ يَوْمِ أُحُدٍ وَيَوْمَ حُفِرَ عَنْهُمَا سِتٌّ وَأَرْبَعُونَ سَنَةً ”

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ نے کہا کہ ان تک پہنچا کہ عَمْرَو بْنَ الْجَمُوحِ اور عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ انصاریوں میں سے تھے پھر ساتھ مسلمان ہوئے اور ان کی قبر ایک ہے اور ان دونوں نے احد کا دن دیکھا اور ان کی قبروں میں سیلاب کا پانی آیا تو ان کو الگ مقام پر دفنانے کے لئے نکالا گیا تو ان کے جسموں میں کوئی تغیر نہیں آیا تھا جیسے کہ کل مرے ہوں اور ایک کے ہاتھ پر رخم ہوا پس اسی حال میں دفن کیا گیا اور وہ اسی طرح رہے کہ رخم سے خون رستا رہا پھر (اس نئے مقام سے ) نکال کر واپس وہیں دفن کیا جہاں تھے تو خون پھر جاری ہو گیا جیسا پہلے بہہ رہا تھا اور یوں احد سے اس دن تک جب نکالا ٤٦ برس بیت چکے تھے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا 36758 – عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ رِجَالٍ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ قَالُوا: «لَمَّا صَرَفَ مُعَاوِيَةُ عَيْنَهُ الَّتِي تَمُرُّ عَلَى قُبُورِ الشُّهَدَاءِ جَرَتْ عَلَيْهِمَا فَبَرَزَ قَبْرُهُمَا , فَاسْتُصْرِخَ عَلَيْهِمَا فَأَخْرَجْنَاهُمَا يَتَثَنَّيَانِ تَثَنِّيًا كَأَنَّمَا مَاتَا بِالْأَمْسِ , عَلَيْهِمَا بُرْدَتَانِ قَدْ غُطُّوا بِهِمَا عَلَى وُجُوهِهِمَا وَعَلَى أَرْجُلِهِمَا مِنْ نَبَاتِ الْإِذْخِرِ»

بنی سلمہ کے مردوں نے خبر دی کہ جب معاویہ نے وہ نہر جاری کی جو شہدائے احد کی قبروں پر سے گزری تو ان کی قبریں کھودی گئیں پس کھودا تو .. ایسے تھے کہ کل شہید ہوئے ہوں ان پر برد (ایک قسم کی ) چادریں تھیں جس سے ان کے چہروں کو ڈھانپا ہوا تھا اور قدموں پر الْإِذْخِرِ کھانس تھی

 یہ الله کی آیت و نشانی تھی  کہ تابعین اور اصحاب رسول میں سے چند نے ٤٦ سال بعد بھی ان جسموں کو اصلی صورت میں دیکھا -کلی اصول ہے کہ ہر چیز کو فنا ہے لہذا یہ اصول سب پر لگے گا کیونکہ حشر میں پہاڑ چلیں گے کیا انبیاء کے جسم اس وقت ختم ہوں گے ؟ بعض اجسام اللہ تعالی نے ایک مدت باقی رکھے ان کو ظاہر کیا تاکہ لوگوں کا ایمان تازہ ہو – شہداء بدر و احد زندہ نہیں مردہ تھے ان کے جسموں سے ان کی روحوں کا کوئی تعلق نہیں تھا صرف ان کے جسد سالم نکلے ان میں خون  جما  ہوا نہیں تھا -اس کوان شہداء کا  خصوص کہا جائے گا – یہ شہداء احد کی خصوصیت تھی جو ممکن ہے کچھ عرصہ رہی ہو

واضح رہے ہر مقتول و شہید  کا جسم باقی نہیں رہتا-  یہ صرف ان شہدائے اصحاب رسول کی خبر ہے جو سچ کے گواہ بن  کر  شہید ہوئے

و الله اعلم

ایک فلسفی کے مغالطے

ایک فلسفی کے سوالات

قرآن  و حدیث میں انسان کی موت، اس کی روح، جنت و جہنم یا برزخ میں روح  کا جانا سب بیان ہوا ہے اور اس پر دال قرآن کی آیت اور متعدد احادیث  ہیں –  اس حوالہ سے  مختلف فرقوں کی جانب سے  ہر روز نئی تشریحات سامنے اتی رہتی ہیں  – اس سلسلے میں ایک فلسفی  نے  ایک مومن  سے  کچھ  سوالات کیے  جن کے جواب راقم نے  بھیجے اور اب ان کو یہاں آپ سب  کی نظر کے لئے کتابی صورت لگایا گیا ہے

اللہ ہم سب کو  صحیح عقیدے پر قائم رکھے

امین

روح کے بدلتے پیکر

 الله تعالی نے قرآن میں بتایا ہے وہ انسانی جسم کو واپس روزمحشر تخلیق کرے گا اس میں انسان کا جسم واپس بنا دیا جائے گا – احادیث کے مطابق اس تخلیق نو میں انسانی جسم میں تبدیلی بھی ہو گی اس کی جسامت دنیا سے الگ ہو گی – جنتیوں کے قد ساٹھ ہاتھ تک ہوں گے (صحیح بخاری) – جبکہ جہنمیوں کے جسم اس قدر بڑے ہوں گے کہ ان کے شانوں کے درمیان کی مسافت تین دن کی ہو گی اور کھال احد پہاڑ جتنی موٹی ہو گی (صحیح مسلم) – یعنی جھنمی ، جنتیوں سے قد کاٹھ میں بڑے ہوں گے

یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ  روح اس جسد عنصری کو چھوڑ کر روز محشر ایک نئے جسم میں جائے گی جو اس جسد عنصری سے بڑا ہے – روح اس بڑے جسم میں بھی سما جائے گی اور اس جسم کو اپنا لے گی

اشاعرہ کے امام فخر الدین رازی کتاب نہایہ العقول میں لکھتے ہیں

نهايه العقول ١٤٤ ج٤

                                                                                                                                       اور جان لو کہ تمام مسلمان …. اثبات کرتے ہیں نفس ناطقہ (روح) کا اور دعوی کرتے ہیں کہ یہی حقیقی انسان ہے جو مکلف ہے اطاعت گزار ہے گناہ گار ہے اور رجوع کرنے والا اور انجام پر پہنچنے والا ہے اور بدن اس کے لئے ایک آلہ کے طور چلتا ہے اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ نفس ناطقہ باقی رہتا ہے بدن کے خراب ہو جائے پر بھی پس جب الله کا ارادہ مخلوق  کا حشر کرنے کا ہو گا وہ ان  سب  ارواح کے لئے ایک بدن بنائے گا اور ان میں ان کو لوٹائے گا

اور یہ مذھب ہے جمہور نصاری کا اور تناسخ والوں کا اور کثیر علمائے اسلام کا مثلا ابی حسین حلیمی اور امام غزالی اور ابی قاسم الراغب اور ابی زید الدبوسی اور قدماء متکلمین کا اور ابن الھیصم کا اور کرامیہ کا اور کثیر صوفیاء کا اور روافض کے جمہور کا

خبر دار اہل اسلام اور تناسخیہ کے قول میں فرق ہے دو طرح سے

اول  : بے شک مسلمان کہتے ہیں کہ الله تعالی  ارواح کو ابدان میں لوٹائے گا جو اس عالم (عنصری) کے نہیں بلکہ دار آخرت کے ہیں اور تناسخ والے کہتے ہیں کہ الله تعالی ان ارواح کو اسی عالم کے اجسام میں لوٹائے گا اور وہ دار آخرت کے منکر ہیں اور جنت اور جہنم  کا بھی انکار کرتے ہیں

دوم : بے شک مسلمان ان ارواح  کے لئے حدوث کا اثبات کرتے ہیں اور تناسخ والے ان کی قدامت کا اثبات کرتے ہیں

اور بے شک ہم نے اس فرق کو واضح کر دیا ہے

امام فخر الدین رازی واضح کہہ رہے ہیں کہ حشر پر جو اجسام ہوں گے وہ اس عالم عنصری سے الگ ہوں گے اور یہ بات احادیث کے مطابق ہے

اس سب میں الجھاؤ فرقہ غیر مقلدین کرتے ہیں ایک طرف تو احادیث کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں دوسری طرف ان کے انکار پر منبی فلسفے ایسے پیش کرتے ہیں کہ گویا اس میں کوئی اور رائے ہے ہی نہیں

  احادیث کے مطابق روح جسد عنصری کو چھوڑنے کے بعد بھی روز محشر تک ایک نئے جسم میں رہتی ہے جو عالم بالا یا برزخ ہے اس میں شہداء کو پرندوں جیسے اجسام ملتے ہیں جن کے پیٹوں میں ان کی روحیں رہتی ہیں – غیر مقلدین نے عقیدہ اختیار کیا ہے کہ شہداء کی روحیں ان  پرندوں کو بطور جہاز استمعال کرتی ہیں ان پیٹوں سے نکلتی ہیں اور جب بھی کہیں جانا ہو اس پرندوں کو بطور سواری استمعال کرتی ہیں – اس کے برعکس احادیث میں روحوں کا ان جسموں کو چھوڑنا بیان ہی نہیں ہوا بلکہ روحیں جنت کے پھلوں کی لذت اسی جسم سے حاصل کرتی ہیں

ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

arshad-14

مزید لکھتے ہیں

arshad-59

ارشد کمال نے ترجمہ میں ڈنڈی ماری ہے

ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَمَعْلُوم أَنَّهَا إِذا كَانَت فِي جَوف طير صدق عَلَيْهَا أَنَّهَا طير

اور معلوم ہے جب یہ (روح) پرندے کے پیٹ میں ہے تو اس پر سچ ہوا کہ یہ پرندہ ہی ہے

ابن قیم کتاب الروح میں کہتے ہیں سبز پرندے میں روح کا جانا تناسخ نہیں ہے

 أَن تَسْمِيَة مَا دلّت عَلَيْهِ الصَّرِيحَة من جعل أَرْوَاح الشُّهَدَاء فِي أَجْوَاف طير خضر تناسخا لَا يبطل هَذَا الْمَعْنى وَإِنَّمَا التناسخ الْبَاطِل مَا تَقوله أَعدَاء الرُّسُل من الْمَلَاحِدَة وَغَيرهم الَّذين يُنكرُونَ الْمعَاد أَن الْأَرْوَاح تصير بعد مُفَارقَة الْأَبدَان إِلَى أَجنَاس الْحَيَوَان والحشرات والطيور الَّتِي تناسبها وتشاكلها فَإِذا فَارَقت هَذِه الْأَبدَان انْتَقَلت إِلَى أبدان تِلْكَ الْحَيَوَانَات فتنعم فِيهَا أَو تعذب ثمَّ تفارقها وَتحل فِي أبدان أخر تناسب أَعمالهَا وأخلاقها وَهَكَذَا أبدا فَهَذَا معادها عِنْدهم وَنَعِيمهَا وعذابها لَا معاد لَهَا عِنْدهم غير ذَلِك فَهَذَا هُوَ التناسخ الْبَاطِل الْمُخَالف لما اتّفقت عَلَيْهِ الرُّسُل والأنبياء من أَوَّلهمْ إِلَى آخِرهم وَهُوَ كفر بِاللَّه وَالْيَوْم الآخر

اور یہ جو(طیر) نام دیا گیا ہے یہ صاف دلالت کرتا ہے کہ شہداء کی ارواح کا سبز پرندوں کے پیٹوں میں تناسخ ہوا اس سے مفھوم باطل نہیں ہوتا – اور باطل تناسخ تو وہ ہے جو رسولوں کے دشمنوں اور ملحدوں اور دوسرے معاد کے انکآریوں نے بولا ہے کہ روحیں چلی جاتی ہیں بدن سے الگ ہونے پر حیوانات میں حشرات میں پرندوں میں اپنے تناسب کے مطابق اور شکلوں کے موافق پس جب وہ بدن سے نکلتی ہیں تو ان جانوروں کے جسم میں نعمت پاتی ہیں اور  یہ باطل تناسخ ہے

ابن قیم نے اس کا اقرار کیا ہے کہ سبز پرندے میں شہید کی روح کا جانا تناسخ نہیں ہے

ابن القیم الجوزیہ کا یہ شعر بڑا برموقع ہے  
العلم قال الله، قال رسوله‘ قال الصحابة، ليس بالتمويه
علم وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور صحابہ کرام کا فرمان ہو، ملمہ سازی علم نہیں

ایک اہل حدیث عالم  حافظ محمد یونس اثری صاحب، ماہنامہ دعوت اہل حدیث حیدر آباد، مارچ ٢٠١٦ میں  لکھتے ہیں

sbz-parinday

حافظ صاحب کا ترجمہ بالکل صحیح ہے روحیں سنز پرندوں کے اندر ہیں نہ کہ ان پر سوار ہیں  –

عالم آخرت – ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العریفی – دارالسلام کی کتاب میں بھی ترجمہ دیکھتے ہیں

محب الله شاہ رشدی فتاویٰ راشدیہ میں جواب دیتے ہیں

شہیدوں کو سبز پرندوں کی صورت جنت میں رکھا گیا ہے

اقبال کیلانی کتاب قبر کا بیان میں اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہیں

ان کے برعکس

ارشد کمال یہ  لکھتے ہیں

arshad-96-a

عبد الرحمان  عاجز غیر مقلد الم   کتاب  عالم  البرزخ میں  لکھتے ہیں

صحیح عقیدہ یہی ہے کہ نہ صرف قبض موت کے بعد بلکہ محشر کے بعد بھی جنت و جہنم میں برزخ  میں انسانی جسم ان اجزاء پر مشتمل نہیں ہو گا جو صرف جسد عنصری ہے

یاد رہے کہ

کتاب  القائد إلى تصحيح العقائد میں عالم   عبد الرحمن بن يحيى بن علي بن محمد المعلمي العتمي اليماني (المتوفى: 1386هـ) لکھتے ہیں

alqaid-moalimi

بلاشبہ بہت سے نصوص ميں آيا ہے جو دلالت کرتا ہے کہ اہل جنت و جہنم کے جسم کے بعض حصے يا تمام   ان پر مشتمل نہيں ہوں گے جس پر وہ دنيا ميں تھے پس الصحيحين ميں قصہ ہے ان کا جن کو جہنم سے نکالا جائے گا پس وہ نکليں گے کہ  جل بھن گئے ہوں گے ان  کو نہر حيات ميں انڈيلا جائے گا پس يہ اگيں گے جيسے ايک بيج اگتا ہے  اور بہت سي احاديث ميں آيا ہے کہ اہل جنت کے قد 60 ہاتھ ہوں گے صورت آدم پر  … اور الله تبارک و تعالي کہتے ہيں اہل النار کے لئے جب بھي ان کي کھاليں جليں گي ہم ان کو دوسري سے بدلتے رہيں گے کہ عذاب کا مزہ ليں اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا کافر کے شانوں کے درميان تين دن کي مسافت ہو گي جہنم ميں – اور الله تعالي نے فرمايا جو الله کي راہ ميں قتل ہوئے ہيں ان کو مردہ گمان مت کرو بلکہ وہ زندہ ہيں اپنے رب کے پاس زرق پاتے ہيں ال عمران اور صحيح مسلم ميں ابن مسعود کي حديث ہے کہ ان سے اس آيت  پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا ہم نے بھي رسول الله صلي الله عليہ وسلم سے اس پر سوال کيا تھا پس اپ صلي الله عليہ نے فرمايا انکي روحيں سبز پرندوں کے پيٹ ميں ہيں ان کے لئے قنديليں ہيں جو عرش رحمان سے لٹک رہي ہيں جنت ميں جہاں کي سير چاھتے ہيں کرتے ہيں پھر واپس انہي قنديلوں ميں اتے ہيں پس ان کے رب نے ان سے پوچھا … اس کو ايک جماعت نے اعمش سے روايت کيا ہے انہوں نے عبد الله بن مرہ سے انہوں نے مسروق سے انہوں نے ابن مسعود سے اور اس کي تخريج کي ہے ابن جرير نے تفسير ميں ج 4 ص 106- 107 پر شعبہ کے طرق سے …. کہ انہوں نے ابن مسعود سے پوچھا تو انہوں نے کہا شہداء کي ارواح   پس اعمش کا سماع ثابت ہے اس حديث پر عبد الله بن مرہ سے کيونکہ شعبہ  نہيں روايت کرتے اعمش سے سوائے اسکے کہ سماع ہو  … اس پر اہل مصطلح کي نص ہے اور ديگر کي اور اسي طرح اس حديث کي دارمي نے تخريج کي ہے … اور مسند احمد ميں ج 1 ص 265 پر  … ابن عبّاس کي روايت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ جب تمہارے بھائیوں کو احد میں شہادت ملی تو الله نے انکی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں کر دیا جس سے وہ جنت کی نہروں تک جاتے اور پھلوں میں سے کھاتے ہیں  …. اور حاکم نے اس کي تخريج مستدرک ميں کي ہے … اور حاکم نے اس کو صحيح کہا ہے مسلم کي شرط پر اور الذھبي نے اقرار کيا ہے اور الله تعالي فرماتے ہيں اور  ال فرعون کو برے عذاب نے گھير ليا  اگ ہے جو ان پر صبح و شام پيش ہوتي ہے اور بروز قيامت – داخل کرو ال فرعون کو شديد عذاب ميں سوره المومن 

أور ابن جرير نے تفسير ميں تخريج کي ہے روايت ثقات سے صحيح سند کے ساتھ  ، عن هزيل بن شرحبيل  تابعين ميں سے ايک سے کہ ال فر عون کي ارواح کالے پرندوں ميں ہيں اگ پر سے  اڑتے ہيں اور يہ ان پر پيش ہونا ہے

البانی کہتے ہیں

البانی جسم

مولف نے یہاں اصرار کیا ہے قول پر کہ تمام اجزاء کا جمع ہونا  ایک بدن میں یا پھر بہت سے ابدان میں   اور اس پر جو گواہی ہے کہ ایک بدن ہے یا بہت سے بدن ہیں اس میں مولف کی عمیق نظری ہے جس کو مولف نے کثرت سے بیان کیا ہے اور ذکر کیا ہے ان مفاسد و شبھات کا جو متکلمین کو قرآن و سنت کی تصدیق سے دور لے گئے … اور سب سے اچھا  مولف کا قول ہے جو گزرا کہ بدن تو صرف ایک آلہ ہے روح کا جس سے یہ اشکال حل ہو جاتا ہے اور غور کی پھر حآجت نہیں رہتی اور میں البانی کہتا ہوں بدن انسانی شخصیت  کا مطیع ہوتا ہے اور اس کا لباس ہوتا ہے چاہے  انسان کوئی اور  لباس نیا یا پرانا پہنے  … و الله اعلم

اپ دیکھ سکتے ہیں المعلمی کے مطابق نہ صرف  محشر کے بعد بلکہ قیامت سے پہلے بھی روح کے جسم ہیں جن میں قالب بدل رہے ہیں ال فرعون اس دنیا میں جسد عنصری میں تھے البرزخ میں کالے پرندوں میں ہیں اور روز محشر بطور کافر ان کا جسم اتنا بڑا ہو گا کہ کھال ہی احد پہاڑ برابر حدیث میں بیان کی گئی ہے اور یہ تناسخ نہیں ہے

نعمان الوسی   (المتوفى: 1270هـ) تفسیر ج ١١ ص ٨٣ آیت وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ کی تفسیر میں لکھتے ہیں

وذكر الشيخ إبراهيم الكوراني في بعض رسائله أن الأرواح بعد مفارقتها أبدانها المخصوصة تتعلق بأبدان أخر مثالية حسبما يليق بها وإلى ذلك الإشارة بالطير الخضر في حديث الشهداء

اور شیخ ابراہیم الکورانی ( الملا برهان الدين إبراهيم بن حسن بن شهاب الدين الكردي الشهرزوري الشهراني الكوراني (ت1101هـ)) نے اپنے بعض رسائل میں ذکر کیا ہے کہ ارواح اپنے  مخصوص جسموں (جسد عنصری) کو چھوڑنے کے بعد ایک دوسرے اسی جیسے بدن سے تعلق اختیار کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ ہے پرندوں والی حدیث میں جو شہداء سے متعلق ہے

 کتاب  الأعلام از الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) میں الکورانی کا ترجمہ ہے

الكُوراني  (1025 – 1101 هـ = 1616 – 1690 م)  إبراهيم بن حسن بن شهاب الدين الشهراني الشهرزوريّ الكوراني، برهان الدين: مجتهد، من فقهاء الشافعية. عالم بالحديث. قيل إن كتبه تنيف عن ثمانين

 تفسير ابن أبي العز از  صدر الدين محمد بن علاء الدين عليّ بن محمد ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) میں آیت وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتاً   کی تفسیر میں ہے

 فإنهم لما بذلوا أبدانهم لله عز وجل حتى أتلفها أعداؤه فيه، أعاضهم منها في البرزخ أبداناً خيراً منها، تكون فيها إلى يوم القيامة، ويكون تنعمها بواسطة تلك الأبدان، أكمل من تنعم الأرواح المجردة عنها. 

کہ ان شہداء نے جب اپنے بدن الله کے لئے لگا دیا جس کو ان کے دشمنوں نے تباہ کیا تو ان شہداء کو دوسرے بدن دیے گئے جو اس بدن (عنصری) سے بہتر ہیں اور یہ نعمتیں ان بدنوں کے واسطے سے پاتے ہیں جو صرف روحوں کے نعمت پانے سے زیادہ اکمل ہے

یعنی صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ شہداء کی روحیں ان نئے بدنوں میں ہیں

المنهاج في شعب الإيمان از  الحسين بن الحسن بن محمد بن حليم البخاري الجرجاني، أبو عبد الله الحَلِيمي (المتوفى: 403 هـ) کے مطابق

 فأما الشهداء فإنه لا يفرق بين أرواحهم وأنفسهم، ولكنها تنقل إلى أجواف طير خضر، كما ورد به الحديث الذي هو أولى ما يقال به، ويستسلم له. وتعلق تلك الطير من ثمر الجنة، فتستمد روحه من غذاء بدن الطائر كما كان يستمد في بدن الشهيد من غذائه،

 پس جہاں تک شہداء کا تعلق ہے تو ان کے نفوس اور ارواح میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ان کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے جیسا حدیث میں آیا ہے جو اولی ہے کہ اس میں جو کہا گیا ہے اس کو تسلیم کریں اور ان پرندوں کو جنت کے پھلوں سے ملا دیا جاتا ہے  پس روح پاتی ہے غذا پرندے کے پیٹ سے جیسا شہید کا بدن غذا پاتا تھا  

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے

حیات بعد الموت

 

کتاب الرویا

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

اس مختصر  کتاب میں  خواب   سے متعلقہ  مباحث    کا ذکر ہے-  جن     میں    ان  روایات  پر تحقیق کی گئی ہے  جو  تعبیر  خواب کے  نام   پر دھندہ  کرنے والے  پیش کر  کے عوام   کا  مال بتوڑتے  ہیں –  کتاب  میں  خواب میں الله تعالی  کو دیکھنے  اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کا دیدار  کرنے سے متعلق  بھی روایات  پیش کی گئی ہیں   اور  ان کی اسناد  پر تحقیق کی گئی ہے- آخری ابواب میں  فرقوں کے متضاد  خواب    جمع  کیے   گئے ہیں   اور  ان کی تلبسات  باطلہ کا  رد  کیا گیا ہے –   اس کتاب میں انبیاء کے وہ خواب جو انہوں نے نبی بننے سے قبل  دیکھے ان پر  نظر ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہ خواب محض سچے خواب تھے نہ کہ الوحی-

حدیث سمرہ (رض) پر نگارشات

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کی حدیث سمرہ بن جندب کو الوحی تسلیم کیا ہے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب ہے اور انبیاء کا خواب الوحی کی قسم میں سے ہے – اس کے بر عکس  فرقوں  نے اس  خواب کو  الوحی ماننے سے انکار کیا اور اس حدیث کو عذاب قبر کی کتب میں نکال دیا ہے – اگرچہ سن ٨٠ کی دہائی سے قبل وہ بھی اس  حدیث کو عذاب جہنم  یا عذاب البرزخ کے طور پر اپنے فتووں میں لکھتے رہے ہیں

حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ    جو صحیح البخاری میں موجود ہے وہ یہ  ہے

اس  کے شروع میں برزخی اجسام پر عذاب کا ذکر ہے جو جہنم میں ہو رہا ہے اور اس کو ارض مقدس کہا گیا ہے پھر اسی ارض مقدس میں انبیاء و شہداء کا ذکر ہے ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے اور اسی ارض مقدس میں بادل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے  برزخی مقام کا ذکر ہے

لیکن اس حدیث  کے شروع کے حصے کا سب اہل حدیث انکار کرتے ہیں کہ

ارض مقدس ملک  شام ہے آسمان نہیں

ارض مقدس میں عذاب ممکن نہیں

ارض مقدس میں عذاب خواب میں دیکھا یہ خواب تمثیلی تھا وغیرہ وغیرہ

لیکن جب اس کے آخری حصے پر اتے ہیں تو بعض  اسی ارض مقدس کو آسمان میں نبی کا گھر قرار دیتے ہیں مثلا زبیر علی زئی نے توضح الاحکام میں لکھا ہے

یعنی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں  انبیاء و شہداء کے حوالے سے ارض مقدس سے مراد عالم برزخ و عالم الارواح ہے  یعنی جنت  کا دور

جنت فرقوں کے نزدیک بھی آسمان میں ہے  جس سے ثابت ہوا کہ ارض مقدس  سے مراد عالم بالا ہے لیکن اہل حدیث مولوی  دامانوی   کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

مگر اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ آپ کو الارض المقدس میں لے جایا گیا جہاں مختلف مناظر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا اور یہ تمام واقعات آپ نے زمین ہی ملاحظہ فرماتے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ قبر کا عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے

اہل حدیث مولوی    رفیق طاہر تقریر  اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں کہتے  ہیں

یہ واقعہ خواب کا ہے اور کیا ہے کہ دو بندے آپ کے پاس آئے۔ ”فاخرجاني الی الارض المقدسة“ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ اب کوئی پوچھے کہ ارض کا معنی آسمانوں والا گھر کرنا ، یہ دین کی خدمت ہے؟ یہ کون سی فقاہت ہے؟ نبی فرمارہے ہیں کہ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ واقعہ بھی خواب کا ہے ، اور لے کر کہاں جارہے ہیں؟ ”الى الارض المقدسة“ ارض مقدسہ کی طرف۔ اور وہاں پر نبی نے اوپر اپنا گھر دیکھا اور کہا گیا کہ یہ آپ کا گھر ہے۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ آسمانوں والے گھر میں ہیں۔ یا للعجب! بڑی عجیب اور حیرانی کی بات ہے۔یہ اعتراض بھی ان کا حدیث کے شروع والے الفاظ پڑھتے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اور ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔

راقم کہتا ہے کہ ایک اہل حدیث اسی حدیث کو عالم بالا پر  لگا رہا ہے تو دوسرا  اسی کا مذاق اڑا رہا ہے کہ یہ کون سی دینی خدمت ہے

 رفیق طاہر صاحب، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

اور پھر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے کہا “إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوْ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ” یقینا آپکی کچھ عمر باقی ہے اگرآپ وہ پوری کر لیں گے تو آپ اپنے گھر میں آ جائیں گے۔ مرنے کے بعد ہی اخروی گھر جنت یا جہنم میں انسان جاتا ہے ۔ لیکن فورا بعد یا کچھ دیر بعد ‘ اسکا کوئی تذکرہ اس حدیث میں موجود ہی نہیں ہے ۔

اس کے برعکس ابو جابر دامانوی کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

جناب سمرہ بن ـجذب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خواب بیان فرماتے ہیں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں اپنا گھر دکھایا جاتا ہے آگے کے الفاظ یہ ہیں (جناب جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ :۔

 ذرا اپنا سر اوپر اٹھائیے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنا سر اٹھایا تو میں نے اپنے سر کے اوپر ایک بادل سا دیکھا ۔ان دونوں نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے گھر میں داخل ہو جائوں ۔ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا نہیں کیا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پورا کر لین تو اپنے اس گھر میں آ جائیں گے ۔ (صحیح و بخاری ‘عذاب قبر ص

 ان احادیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں کا جنت میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔

معلوم ہوا کہ اہل حدیث میں سے بعض  اس حدیث کے شروع  کے  متن کا انکار کر کے اس کے آخری کلمات کو قبول کر رہے ہیں اور ان  میں سے بعض سرے سے ہی اس خواب کو الوحی ماننے کے لئے تیار ہی نہیں

نوٹ

اس حدیث سے متعلق آشکالات کا کافی و شافی جواب یہاں موجود ہے

⇑  سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی روایت کی فرقہ پرستوں کی طرف سے تاویلیں کی جاتی ہیں ان کا کیسے رد کیا جائے

حیات بعد الموت

روایت عود روح کی نکارت

قرآن کی آیت

 ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين

وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی

 پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام انسانوں  کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں – اہل تشیع کے مطابق یہ آیت خاص ہے  اس میں ان  دشمنان اہل بیت  کا ذکر ہے  جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ  کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا

تفسیر نور ثقلین  از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى  المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق

وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة

علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے

اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کے لشکر کے لشکر زندہ کرے گا-  قرن اول میں  کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں   شیعہ  زاذان  بھی تھا جو فارسی النسل تھا (اغلبا  فارس کا یہودی) اور اصحاب علی  میں سے تھا   وہ روایت کرتا ہے کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان  سے پہلے،  نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے

عقیدہ رجعت کا اصل مقصد اصل میں عدل کا قیام ہے کیونکہ دشمنان اہل بیت جو ظلم کرتے رہے وہ بغیر سزا پائے مر گئے ضروری ہے کہ وہ اس دنیا سے فرار نہ ہوں اور ان کی روحوں کو ان کے جسموں میں قیدکر دیا جائے لہذا زاذان نے روایت میں متن ڈالا کہ جب   خبیث روح آسمان کی طرف جاتی ہے اس کو زمین کی طرف پھنبک دیا جاتا ہے

مسند احمد کی روایت کے متن میں ہے

قَالَ: ” وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ، فَيَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللهِ وَغَضَبٍ “. قَالَ: ” فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ، فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هَذَا الرُّوحُ الْخَبِيثُ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانَ يُسَمَّى بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ “، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ” اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا “. ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] ” فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ،

 اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے ” اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال ” سجین ” میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔   پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے

یہ بات اس طرح بیان کی گئی ہے کہ گویا یہ غلطی بار بار ملک الموت  ہر خبیث روح کے ساتھ کرتے ہیں کہ  اس کو آسمان کی طرف لاتے ہیں تو پہلے آسمان کے فرشتے روح خبیثہ کو   زمین کی طرف پھینک دیتے ہیں- کیا  ملک الموت یہ غلطی روز کرتے ہیں؟  روایت میں ملک الموت کا اس غلطی سے رجوع درج نہیں ہے لہذا اگر زاذان کی روایت کا  متن   قبول کریں تو معلوم ہوا کہ ملک الموت غلطی بھی کرتا ہے-  غور کریں یہ روایت آخری نبی و رسول سے منسوب ہے جبکہ خبیث روحیں تو اولاد آدم میں سب سے پہلی قابیل کی ہوئی –تب سے لے کر آج تک ملک الموت یہ غلطی کرتا ہے کہ خبیث روح کو آسمان کی طرف لے کر جاتا ہے اور وہاں سے واپس اس کو زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے-

روایت کے مطابق اب خبیث روح جسد میں ہی رہے گی – لہذا فرقوں میں اس روح کے نکلنے یا نہ نکلنے پر اختلاف ہے

  ابن عبد البر کا قول ہے کہ روح  قبرستانوں میں رہتی ہے

اہل حدیث رفیق طاہر مدرس جامعہ دار الحدیث محمدیہ ملتان​  کا موقف ہے کہ  قیامت تک  روح قبر میں ہی رہتی ہے بحوالہ مناظرہ موضوع (اعادہ روح, عذاب قبر)  ملتان  کیونکہ زاذان کی روایت میں اس کو جسم سے نکالنے کا ذکر نہیں ہے

دوسری طرف اہل حدیث میں ابو جابر دامانوی اور ارشد کمال اس عقیدے کے پرچارک ہیں کہ روح کو جسم سے نکال لیا جاتا ہے جس کی دلیل دونوں نے کبھی بھی نہیں دی –   ان کے بقول یہ روح زاذان کی روایت کے بر خلاف جہنم میں پہنچا دی جاتی ہے- اس طرح یہ دونوں اس روایت کے مکمل متن کو بیان  نہیں کرتے نہ اس پر غور کرتے ہیں

زبیر علی زئی  اس سوال سے بھاگتا تھا اور اس کا جواب نہیں دیتا تھا

 

اب ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ خبیث  روح اگر جسم سے نکال لی گئی اور اس کو جہنم   میں   داخل کر دیا گیا تو کہاں یہ سب ہوا ؟ کیونکہ زاذان کی روایت  میں وہ کہتا ہے کہ روح کو پہلے آسمان سے اوپر ہی نہیں جانے دیا جائے گا – اب ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ زاذان کے نزدیک جہنم بھی زمین میں ہے – یہ بات یمنی یہود کے قول کے عین مطابق ہے کہ یمن میں موجود برہوت کا سوراخ اصل میں جہنم تک جانے کا رستہ ہے

اس طرح بعض  لوگوں نے بغیر غور کرے یہ عقیدہ اپنا لیا ہے کہ جہنم اسی زمین کے اندر ہے

سمندر ہی جہنم ہے؟

رفیق طاہر ایک سوال کے  جواب میں کہتے ہیں

عثمانیوں کے اس اعتراض کی بنیاد جہنم کا آسمان پر ہونا ہے۔ جبکہ یہ بنیاد ہی باطل ہے! انہیں کہیں کہ پہلے جہنم کا آسمان پر ہونا ثابت کریں, پھر آگے بات کریں! جنت آسمانوں میں ہے اس لیے جنت میں داخلہ کے لیے آسمانوں کے دروازوں کا کھلنا اور جنت کے دروازوں کا کھولنا ضروری ہے ۔ جبکہ جہنم زمین میں ہے۔

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ · دروازہ آسمان دنیا کا نہیں کھولا جاتا اور یہی آیت سے مراد ہے۔ · اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کافر کا اندراج سجین میں کیا جاتا ہے کہ اسے نچلی زمین میں رکھا جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم آسمانوں پر نہیں بلکہ نچلی زمین میں ہے۔ · اور اللہ تعالى کے فرمان “انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے” سے بھی جہنم کا آسمانوں پر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔

 مستدرک حاکم : 8698 اوریہ روایت حکما مرفوع ہے۔

مصدر

 http://www.rafiqtahir.com/ur/play-swal-731.html

راقم کہتا ہے یہ فتوی ان احادیث سے متصادم ہے جن میں جہنم کی وسعت کا ذکر ہے

صحیح مسلم  ٢٨٤٤ میں ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ اچانک دھماکے کی آواز آئ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہیں معلوم ہے یہ کیسی آواز ہے ؟
صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہے بہتر جانتے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
یہ ایک پتھر تھا جو آج سے ستر سال پہلے جہنم مین پھینکا گیا تھا اور آگ میں گرتا چلا جا رہا تھا اور اب وہ جہنم کی تہ تک پہنچا ہے –

زمین اتنی گہری نہیں کہ اس میں ستر سال تک  چیز گرتی رہے

– جہاں تک عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے قول کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی سند سے صحیح نہیں ملا – اس کی تفصیل راقم کی کتاب اثبات عذاب قبر میں دیکھی جا سکتی ہے اور بلاگ

https://www.islamic-belief.net/وَمَا-أَدْرَاكَ-مَا-عِلِّيُّونَ/

میں ان روایات  کا ذکر ہے

وہابی عالم ابن عثيمين سے سوال ہوا کہ : أين توجد الجنة والنار؟  جنت و جہنم  کہاں ہیں ؟

جواب دیا

مكان النار في الأرض ، ولكن قال بعضُ أهل العِلْم : إنَّها البحار ، وقال آخرون: بل هي في باطن الأرض ، والذي يظهر: أنَّها في الأرض ، ولكن لا ندري أين هي مِن الأرض على وَجْهِ التعيين.

جہنم کا مکان  زمین میں ہے  لیکن بعض علماء کہتے ہیں سمندروں میں کہیں ہے اور دوسرے کہتے ہیں یہ زمین میں چھپی ہے لیکن ہم تعيين  کے ساتھ نہیں جانتے کہ زمین میں کہاں

https://islamqa.info/ar/answers/215011/اين-توجد-الجنة-واين-توجد-النار

اس کا رد قرآن میں موجود ہے –  قرآن میں سوره الذاریات میں ہے

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا توعَدُونَ

اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے

الله تعالی نے انسانوں سے جنت و جہنم کا وعدہ کیا ہے کہ اہل ایمان کو جنت اور کفار کو جہنم میں ڈالے گا

 اس قول کو علی رضی اللہ عنہ سے   منسوب کیا گیا  ہے کہ جہنم زمین میں ہے  – تفسیر طبری میں ہے

حدثني يعقوب، قال: ثنا ابن علية، عن داود، عن سعيد بن المسيب، قال: قال عليّ رضي الله عنه لرجل من اليهود: أين جهنم؟ فقال: البحر، فقال: ما أراه إلا صادقا، (وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ) (وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ) مخففة.

سعید بن مسیب نے کہا علی نے ایک یہودی سے پوچھا جہنم کہاں ہے ؟ بولا سمندر میں – علی نے کہا میں اس کو سچا سمجھتا ہوں اور آیات پڑھیں   وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ   اور بھڑکتا سمندر اور (وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ) اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے

راقم کہتا ہے  علی سے منسوب یہ قول شاذ ہے کیونکہ خود علی رضی اللہ عنہ نے سمندری غذا کو کھایا ہے

تفسیروں میں ایک قول عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب کیا گیا ہے کہ

لا يتوضأ بماءِ البحر لأنه طبقُ جهنَّمَ

سمندر کے پانی سے وضو مت کرو کینوکہ یہ جہنم کا طبق ہے

سنن ترمذی میں حدیث کے تحت ترمذی نے لکھا ہے

وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوُضُوءَ بِمَاءِ البَحْرِ، مِنْهُمْ: ابْنُ عُمَرَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: هُوَ نَارٌ “

اور بعض اصحاب رسول نے سمندری پانی سے وضو پر کراہت کی ہے جن میں ابن عمر اور عبد اللہ بن عمرو ہیں اور ابن عمرو کا کہنا ہے وہ اگ ہے

سنن ابو داود میں ہے

حدَّثنا سعيدُ بن منصور، حدَّثنا إسماعيلُ بن زكريا، عن مُطرِّفٍ، عن بشرٍ أبي عبد الله، عن بَشيرِ بن مُسلم عن عبد الله بن عَمرو قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “لا يركبُ البحرَ إلا حاجٌّ أو معتمرٌ أو غازٍ في سبيل الله، فإن تحتَ البحرِ ناراً، وتحت النارِ بحراً

عبد الله بن عَمرو نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سمندر کا سفر نہ کرے سوائے اس کے جو حاجی ہو یا عمرہ کرنے والا یا جہاد کرنے والا کیونکہ  سمندر کے نیچے اگ ہے اور اگ کے نیچے سمندر

شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں اس میں سند میں مجہول راوی ہے اور متن شدید منکر ہے

دوسری طرف قرآن میں ہے کہ سمندر کی غذا حلال ہے اور حدیث میں سمندر کے پانی کو پاک قرار دیا گیا ہے اور حدیث ابو ہریرہ میں سمندر کے پانی کو پاک قرار دیا گیا ہے اور اس سے وضو کی اجازت دی گئی ہے

مستدرک حاکم میں ہے

أَخْبَرَنِي أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ تَمِيمٍ الْقَنْطَرِيُّ، ثَنَا أَبُو قِلَابَةَ، ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى، أَنَّ يَعْلَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْبَحْرَ هُوَ جَهَنَّمَ» فَقَالُوا لِيَعْلَى: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا} [الكهف: 29] فَقَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَدْخُلُهَا أَبَدًا حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ وَلَا تُصِيبُنِي مِنْهَا قَطْرَةٌ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ  

رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا سمندر  ہی جہنم   ہے

حاکم نے اس کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے  اور الذھبی بھی موافقت کر بیٹھے ہیں جبکہ سند  میں مجہول راوی ہے اور اس کا ذکر بیہقی نے کتاب  البعث والنشور للبيهقي میں کیا ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، أَنْبَأَ أَبُو عَمْرِو بْنُ نُجَيْدٍ، أَنْبَأَ أَبُو مُسْلِمٍ، ثنا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْبَحْرُ هُوَ جَهَنَّمُ»

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ نے کہا ایک شخص نے بیان کیا اس نے ْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى سے روایت کیا

معلوم ہوا کہ اس حدیث کی سند میں مجہول راوی ہے

الغرض سمندر ہی جہنم ہے یا جہنم سمندر میں ہے اقوال و احادیث ثابت نہیں ہیں

معلوم ہوا کہ فرقہ پرستوں کا کائنات کا  جغرافیہ ہی درست نہیں- ان کے نزدیک جہنم زمین کے اندر ہے

اللہ ان فرقوں کی  گمراہیوں سے بچائے جو سمندر  ہی کی طرح گہری ہیں

اَوْ كَظُلُمَاتٍ فِىْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشَاهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ۖ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَهٝ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّـٰهُ لَـهٝ نُـوْرًا فَمَا لَـهٝ مِنْ نُّوْرٍ (40)

یا جیسے گہرے سمندر  میں اندھیرے ہوں اس پر ایک لہر چڑھ آتی ہے اس پر ایک اور لہر ہے اس کے اوپر بادل ہے، اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہیں، جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے کچھ بھی دیکھ نہ سکے، اور جسے اللہ ہی نے نور نہ دیا ہو اس کے لیے کہیں نور نہیں ہے۔

ایک کوشش اور

[wpdm_package id=’8837′]

قرآن سے متصادم ایک منکر روایت جس میں مردے میں روح کے انے کا ذکر ہے اس کا دفاع فرقہ پرستوں کے پلیٹ فارم سے ہوتا رہتا ہے اگرچہ وہ اس روایت کو صحیح کہتے اس کے راویوں کا دفاع کرتے ہیں لیکن اس روایت کے متن کو پیش کر کے اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے کہ اس میں کیا کیا منکرات بیان ہوئی ہیں – اس روایت کا متن نکارت رکھتا ہے اس کا اقرار خود فرقوں کے امام امام الذھبی نے کیا ہے

پہلے ہم دفاع شیعہ راویان کی چند جدید کوششوں پر نظر ڈالتے ہیں

اہل حدیث عالم نورپوی مضمون حدیث عود روح، ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ میں لکھتے ہیں
لنک

مختلف ادوار کے ایک درجن سے زائد محدثین اور اہل علم کی طرف سے اس حدیث کی صحت کی توثیق ہو چکی ہے۔ کسی ایک بھی اہل فن محدث نے اسے ضعیف قرار نہیں دیا۔ اہل سنت و الجماعت کا ہر دور میں اتفاقی طور پر یہی عقیدہ رہا ہے، لیکن موجودہ دور میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے اس کے دو راویوں منہال بن عمرو اور زاذان ابوعمر کے بارے میں جرح ذکر کی ہے

راقم کہتا ہے دوسری طرف محدثین میں امام شعبہ نے المنھال کو متروک قرار دیا اس کی حدیث لینا چھوڑ دیا تھا

۔ امام الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں لکھا ہے
اس میں غرایب باتیں اور منکر باتیں ہیں
حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ

قبر کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے۔

ابن حبان کہتے ہیں عود روح والی روایت کی سند میں انقطاع ہے۔

خبر الأعمش عن المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سمعه الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو
الأعمش کی خبر ، المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سے اصل میں الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو سے ہے۔

ابن حبان کے نزدیک حدیث عود روح کی سند میں تدلیس کی گئی ہے۔

نور پوری صاحب نے المنھال بن عمرو کے دفاع کی بھی بھر پور کوشش کی ہے، چناچہ وہ عینی کی معاني الاخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جوزجانی نے اس کو سنی المذہب (سنی مذھب والا) قرار دیا ہے-

اس کو صریح تحریف کہتے ہیں- نورپوری نے کرم خوردہ ، ناقص نسخوں سے استفادہ کیا – سيء المذهب (بد مذھب) کے الفاظ ابن حجر نے فتح الباری اور تہذیب التہذیب وغیرہمیں نقل کیے ہیں جو عینی کے ہم عصر ہیں
جوزجانی نے المنھال کو سيء المذهب (بد مذھب) قرار ديا ہے- جوزجانی یہ الفاظ شیعہ راویوں کے لئے بولتے ہیں- جوزجاني كي كتاب أحوال الرجال حديث اكادمي – فيصل آباد سے چھپ چکی ہے اس میں کو سنی المذہب (سنی مذھب والا) کے الفاظ موجود نہیں- سيء المذهب (بد مذھب) جوزجاني کی جرح کے یہ مخصوص الفاظ ہیں جو انہوں نے اور راویوں کے لئے بھی استمعال کیے ہیں

اگرچہ متاخرین میں ابن حجر نے جوزجانی کی جرح کو بلا دلیل رد کیا ہے لیکن العلامة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني کتاب التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل میں لکھتے ہیں
وقد تتبعت كثيراً من كلام الجوزجاني في المتشيعين فلم أجده متجاوزاً الحد ، وإنما الرجل لما فيه من النصب يرى التشيع مذهباً سيئاً وبدعة ضلالة وزيغاً عن الحق وخذلانا ، فيطلق على المتشيعين ما يقضيه اعتقاده كقوله زائغ عن القصد – سيء المذهب ونحو ذلك
اور بہت سوں نے الجوزجاني کا شیعہ راویوں کے بارے میں کلام کو بغور دیکھا ہے لیکن ان کو حد سے متجاوز نہیں پایا- اور ان صاحب (الجوزجاني) میں اگرچہ نصب تھا اور شیعت کو ایک بد مذھب اور بدعت اور ضلالت اور حق سے ہٹی ہوئی بات سمجھتے تھے ، لیکن انہوں نے المتشيعين کے اعتقاد کے مطابق الفاظ کا اطلاق کیا ہے جیسے راہ سے ہٹا ہوا، سيء المذهب اور اس طرح کے اور الفاظ

علامہ الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني صاحب تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں

المنھال ایک متعصبی شیعہ ہے – ابن ماجہ کے مطابق المنھال بن عمرو نے روایت بیان کی کہ علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا
أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ
میں عبد الله ہوں اور رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور میں سب سے بڑا صدیق ہوں، اس کا دعوی میرے بعد کوئی نہیں کرے گا سوائے كَذَّابٌ کے

اس پر تعلیق لکھنے والے محمد فؤاد عبد الباقي، دار إحياء الكتب العربية لکھتے ہیں
في الزوائد هذا الإسناد صحيح- رجاله ثقات- رواه الحاكم في المستدرك عن المنهال
وقال صحيح على شرط الشيخين-
اس کے راوی ثقه ہیں، حاکم نے اسکو المستدرك میں المنهال بن عمرو سے روایت کیا ہے اور کہا ہے الشيخين کی شرط پر صحیح ہے

اس روایت سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مرتبہ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے

افسوس إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة میں ابن حجر نے اس کو صحیح کہا ہے

حَدِيثٌ (كم) : أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ … . الْحَدِيثَ.
كم فِي الْمَنَاقِبِ: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ. ح وَثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَارِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَبْسِيُّ، قَالا: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْهُ، بِهِ. وَقَالَ:
[ص:466] صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا.

الذھبی نے تلخیص میں حاکم  پر جرح کرتے ہوئے کہا

قلت: كذا قال! وما هو على شرط واحد منهما، بل ولا هو صحيح، بل هو حديث باطل، فَتَدَبَّرْه،

میں کہتا ہوں ایسا حاکم نے کہا ہے کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے بلکہ یہ تو صحیح تک نہیں بلکہ باطل ہے اس پر غور کرو

لوگوں نے اس روایت پر  عباد بن عبد الله الأسدي کو مہتمم کیا ہے جس کو ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے اور  العجلي کہتے ہیں  كوفيٌّ تابعيٌّ ثقةٌ   ہے – اس سے سنننے والا المنھال ہے

نورپوری کا جوابا کہنا ہے کہ ادب المفرد میں المنھال نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین کہا ہے اور رضی اللہ عنہا کی دعا بھی دی ہے

راقم کہتا ہے کہ حدیث لٹریچر میں غالی سے غالی راوی بھی یہ الفاظ نقل کرتا ہے آور شیعہ کتب میں بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین بھی لکھا جاتا ہے کیونکہ ازواج النبی کے لئے قرآن میں ہے کہ امت کی مائیں ہیں لہذا اس ٹائٹل کو وہ رد نہیں کرتے – اس کی مثال ہے اہل سنت  کی کتب میں وارد ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث پر شیعوں نے  تنقید کی ہے – کتاب کے  عنوان   میں ہی ام المومنین لکھا ہے

کتاب أحاديث أم المؤمنين عائشة   از السيد مرتضى العسكري

ملا باقر مجلسی نے بھی ام المومنین لکھا ہے ملاحظہ کریں

بحار الانوار /جزء 32 / صفحة [226]

بحار الانوار /جزء 33 / صفحة [245]

بحار الانوار /جزء 33 / صفحة [332]

بحار الانوار / جزء 42 / صفحة [141]

 

دوم دعا رضی اللہ عنہ وغیرہ کے کلمات پبلشر آجکل حدیث کا جو نسخہ چھپتا ہے اس میں خود ہی لگا دیتے ہیں – اس کی مثال ہے کہ جرح و تعدیل کی کتب میں رضی اللہ عنہ لکھا ہوا نہیں ملتا لیکن احادیث کی کتب چونکہ عام لوگوں کے لئے ہیں ان میں اس لاحقہ کا اضافہ کر دیا گیا ہے
سوم شیعہ کا تقیہ کرنا معلوم ہے تو اس سے مطلق ثابت نہیں ہوتا کہ المنھال ایک بدعتی نہیں تھا جبکہ اہل شہر کا اس پر قول ہے یہ بد مذھب تھا

اسی ادب المفرد کی روایت کی ایک سند ہے
عَنْ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ
یہاں زاذان نے ابن عمر کے ساتھ رضی اللہ عنہ کا لاحقہ کیوں نہیں لگایا ؟
اسی ادب المفرد میں ہے
عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ زَاذَانَ أَبِي عُمَرَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَدَعَا بِغُلَامٍ لَهُ كَانَ ضَرَبَهُ
زاذان نے کہا ہم ابن عمر کے ساتھ تھے انہوں نے لڑکے کو بلا کر اس کو مارا

اس قسم کے حوالہ جات سے کچھ ثابت نہیں ہوتا
نور پوری نے اقرار کیا کہ بعض سندوں میں
زاذان نے سیدنا علی کے بارے میں ”امیر المؤمنین“ یا ”رضی اللہ عنہ“ کا لفظ نہیں بولا

اس سے نور پوری نے سمجھا کہ زاذان علی کو دعا نہیں دیتا تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ کو دیتا تھا جس سے ثابت ہوا وہ شیعہ نہیں تھا

راقم کہتا ہے کہ شیعہ کے نزدیک علی تو امام زمانہ ہیں اور باقی کو دعا کی ضرورت ہے اس لئے تقیہ اختیار کیا
بہر حال یہ مثالیں جو نور پوری لے کر آئے ہیں ان کو اگر تمام غالی راویوں پر لگایا جائے تو کوئی بھی غالی نہ رہے گا سب علی کے خاص احباب بن جائیں گے کیونکہ آجکل پبلشر نے ہر روایت ، میں اپنی طرف سے رضی اللہ عنہ و رضی اللہ عنہما لکھ دیا ہے

نورپوری نے عثمانی صاحب پر جرح کی کہ انہوں نے تعویذ پر کتاب میں شیعہ یحییٰ بن جزار سے روایت کیوں لی جبکہ غالی قسم کا شیعہ تھا

راقم کہتا ہے ہم اگر نوری پوری تحقیق کا انداز یہاں اپپلائی کرتے ہیں – کتاب المعجم
أبو يعلى میں سند ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ النِّيلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا، وَأَدَّى فِيهِ الْأَمَانَةَ يَعْنِي: سَتَرَ مَا يَكُونُ عِنْدَ ذَلِكَ كَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ “. قَالَتْ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِيَلِهِ أَقْرَبُكُمْ مِنْهُ إِنْ كَانَ يَعْلَمُ، فَإِنْ كَانَ لَا يَعْلَمُ فَرَجُلٌ مِمَّنْ تَرَوْنَ أَنَّ عِنْدَهُ وَرَعًا وَأَمَانَةً»

سند میں يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ خود عَائِشَةَ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا کہہ رہے ہیں تو نور پوری کے اصول پر یہ غالی نہیں ہو سکتے

شرح معاني الآثار میں سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو أَيُّوبَ يَعْنِي ابْنَ خَلَفٍ الطَّبَرَانِيَّ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، قَالَ: ثنا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهَا عَنِ النَّبِيِّ

یہاں بھی دعا کی گئی ہے

معلوم ہوا کہ نور پوری اصولوں پر یحیی بن جزار غالی نہیں تھا
راقم کا مدعا نور پوری تحقیق کی بے بضاعتی کو ظاہر کرنا ہے کہ کھوکلے ستونوں پر کھڑی ہے

راقم کہتا ہے اہل حدیث مولوی جب جی  چاہتا ہے خود راوی کی شیعیت کو جرح بنا کر پیش کر دیتے ہیں مثلا امام  بخاری کے استاد محدث علی بن الجعد کا ذکر زبیر علی زئی نے تراویح  سے متعلق ایک روایت پر  قیام رمضان نامی مضمون میں  اس طرح کیا

نور پوری کا کہنا ہے کہ
جرح و تعدیل اور صحت و سقم حدیث کی معرفت ابن حزم رحمہ اللہ کا میدان نہیں تھا۔

راقم کہتا ہے ابن تیمیہ و ابن قیم بھی محض ناقل ہیں اور رہی بات امام حاکم کی تو ان کے محدثین نے سخت اعتراضات کیے ہیں مثلا وسیلہ کی شرکیہ روایات کو صحیح قرار دینے پر – خود ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا ہے کہ مستدرک لکھتے وقت ان کی دماغی حالت صحیح نہیں تھی

نورپوری صاحب نے المنھال کے دفاع کا حق ادا کر دیا ہے اور مضمون میں لکھتے ہیں کہ المنھال قرآن کی تلاوت کر رہے تھے جس کو سن کر شعبہ نے المنھال کو ترک کیا
دکتور بشار عواد معروف کتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں لکھتے ہیں وَقَال علي بْن المديني ، عَن يحيى بْن سَعِيد أتى شعبة المنهال بْن عَمْرو فسمع صوتا فتركه، يعني الغناء

اس کے بعد حاشیہ میں دکتور بشار عواد معروف اس پر لکھتے ہیں
هذا الخبر أصح، والله أعلم- من خبر تركه بسبب سماعه قراءة القرآن بالتطريب، فهذا غير ذاك-
یہ خبر زیادہ صحیح ہے، واللہ اعلم- اس (قول) سے جس میں خبر دی گئی تھی کہ ان کے ترک کرنے کی وجہ قرآن کی سر کے ساتھ قرات تھی – پس ایسا نہیں تھا

فرقہ پرست بار بار ذکر کرتے ہیں کہ ابن حزم کے نزدیک موسیقی حرام نہیں تو المنھال پر شعبہ کی جرح مردود ہے
جبکہ ان کو اتنا معلوم نہیں کہ گانا گانا اور صرف موسیقی سننا دو الگ چیزیں ہیں

نور پوری لکھتے ہیں
زاذان کی روایات کو چھوڑنے والے امام حکم بن عتیبہ شیعہ تھے۔ زاذان کا شیعہ ہونا تو ثابت نہیں ہوا، البتہ امام حکم کا شیعہ ہونا ثابت ہے، جیسا کہ
امام، ابوالحسن، احمد بن عبداللہ، عجلی رحمہ اللہ (م 261ھ) فرماتے ہیں
وكان فيه تشيع، إلا أنّ ذلك لم يظهر منه إلا بعد مؤته .
ان میں شیعیت تھی، البتہ اس کا علم ان کی وفات کے بعد ہی ہو سکا۔
[تاريخ الثقات، ص : 125، ت : 315، طبعة دار الباز]
ذرا سوچیں کہ بھلا کوئی شیعہ اپنے مذہب کا پرچار کرنے والے کسی شیعہ پر کیوں جرح کرے گا ؟ اور فیصلہ کریں کہ ڈاکٹر عثمانی نے کتنے فیصد انصاف سے کام لیا ہے

راقم کہتا ہے نور پوری کو علم نہیں کہ خود عجلی بھی شیعہ کہے گئے ہیں اور وہ اگر شیعہ تھے تو وہ الحکم پر جرح نہیں ان کی تعریف کر رہے ہیں
شیعہ تو عام لفظ ہے جو لشکر علی پر بولا جاتا تھا جس میں غالی ابن سبا بھی تھا اور زاذان بھی اور اصحاب رسول بھی – یہ سب شیعان علی تھے
ظاہر ہے جب محدث شیعہ کہتا ہے تو اس کے پیچھے شواہد ہوتے ہیں اور زاذان کو شیعہ خود ابن حجر نے قرار دیا ہے

البتہ نور پوری کا قول ہے
حقیقت وہی ہے جو ہم نے ابن حجر کے بقول بیان کر دی ہے کہ راوی اگر سچا ہو تو اس کا شیعہ ہونا اس کی روایت کو نقصان نہیں دیتا۔ لہٰذا زاذان کا شیعہ ہونا اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس سے اس کی حدیث میں کوئی خرابی نہیں آتی

راقم کہتا ہے خود متقدمین شیعہ کے لئے ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں غالی کا اطلاق کیا ہے
مثلا
عدي بن ثَابت الْأنْصَارِيّ الْكُوفِي التَّابِعِيّ الْمَشْهُور پر الدَّارَقُطْنِيّ نے کہا كَانَ يغلو فِي التَّشَيُّع
تشیع میں غلو کرتا تھا
اس حوالے کو ابن حجر نے بھی فتح الباری میں تہذیب التھذیب میں لکھا ہے
عَبْدِ الله بن الْكواء، جو علی کے اصحاب میں سے ہے اس پر ابن حجر نے فتح الباری ج ص ٨٧ پر لکھا ہے
وَإِنَّمَا كَانَ يَغْلُو فِي الرَّفْضِ
بے شک یہ رفض میں غلو کرتا

دوسری طرف ابن حجر نے تشیع کی تعریف اس طرح کی

تہذیب التہذیب از ابن حجر ترجمہ ابان بن تغلب

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليه آله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة

پس تشیع (شیعیت) کا مطلب متقدمین کے نزدیک علی کی عثمان پر فضیلت کا اعتقاد رکھنا ہے، اور یہ کہ بے شک علی اپنی جنگوں میں حق پر تھے اور انکے مخالف غلطی پر، ساتھ ہی شیخین (ابو بکر اور عمر) کی فضیلت کا اعتقاد رکھنا، اور ان میں سے بعض کا کبھی یہ اعتقاد رکھنا کہ علی، نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد افضل مخلوق ہیں اور اگر یہ عقیدہ ھو اور وہ شیعہ راوی مجتہد، دین میں صادق ھو تو اس وجہ سے اس کی روایت رد نہیں کی جائے گی، خاص طور سے اگر داعی نہ ھو، اور تشیع متاخرین کے نزدیک محض رفض ہے پس اس رافضی ، غالی کی نہ روایت لی جائے اور نہ کوئی عزت کی جائے

اس سے نتیجہ نکلا کہ جو علی سے محبت کرے وہ شیعہ ہے اورغالی شیعہ یا رافضی وہ ہے جو ابو بکر اور عمر پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے

اس پیراگراف پر فرقہ پرستوں کا فہم ہے کہ تابعین میں رافضی نہیں تھے جبکہ حوالہ جات دے دیے گئے ہیں خود ابن حجر نے اصحاب علی میں رافضی کے وجود کا اقرار کیا ہے

نورپوری ابن حبان کے خلاف ایک مصنوعی ماحول پیدا کر کے لکھتے ہیں
تیسری بات یہ کہ اگر امام ابن حبان رحمہ اللہ کبار ائمہ دین کی موافقت میں منہال بن عمرو کی حدیث کو صحیح قرار دیں تو ڈاکٹر عثمانی اس کا ذکر تک نہ کریں اور جب وہ ان سب کی مخالفت میں زاذان پر جرح کریں تو ڈاکٹر عثمانی جھٹ سے اسے قبول کر لیں، حالانکہ وہ خود اسے ثقہ بھی قرار دے چکے ہوں اور اس کی حدیث کو صحیح بھی کہہ چکے ہوں، کیا اسے انصاف کہتے ہیں ؟

راقم کہتا ہے ابن حبان نے تو عود روح کی روایت کو منقطع قرار دیا ہے
صحیح ابن حبان میں ابن حبان لکھتے ہیں

وزاذان لم يسمعه من البراء
اور زاذان نے البراء سے نہیں سنا

ڈاکٹر عثمانی نے ابو احمد الحاکم کے قول پر کہا ہے کہ محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں
مُحَمَّدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ بنِ إِسْحَاقَ النَّيْسَابُوْرِيُّ ، أبو أحمد الحاكم المتوفی ٣٧٨ ھ ہیں الذھبی کہتے ہیں وَكَانَ مِنْ بُحورِ العِلْمِ علم کا سمندر تھے (سیر الاعلام النبلاء ج ١٢ ص ٣٦٦ دار الحدیث)- لیکن جدید محدث نورپوری ان کی علمی حیثیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں

یہ بات ابو احمد الحاکم کی علمی لغزش ہے۔ وہ اہل علم کون ہیں جنہوں نے زاذان کو کمزور کہا ہو

ظاہر ہے سن ٣٧٨ ھ سے پہلے زاذان محدثین کے نزدیک مضبوط راوی نہیں تھا
خاص کر نیشا پور میں اس پر تنقید کی جاتی ہے یہ اور بات ہے بغداد کے ابن معین یا احمد نے اس کو ثقہ کہا
یہ اختلاف محدثین میں اس دور میں حدیث زاذان پر موجود تھا اور اس کو متاخرین کی ثقاہت سے رد نہیں کیا جا سکتا
ابو احمد الحاکم کے ہم عصر ابن حبان نے بھی زاذان کو وہمی اور بہت غلطیاں کرنے والا قرار دیا ہے

نور پوری کہتے ہیں
اگر زاذان شیعہ ہیں بھی تو اس سے مراد فقہ جعفریہ کے ماننے والے شیعہ نہیں۔

راقم کہتا ہے یہ قول محض گمان ہے کیونکہ روافض خود زاذان کو اپنے جیسوں میں شمار کرتے ہیں
کیا عقیدہ رجعت شیعوں کا عقیدہ نہیں ہے ؟ اور حدیث عود روح میں اسی روح کے واپس آنے کا قبر میں قیامت تک رہنے کا ذکر ہے

صحیحین کے راوی

نور پوری  نے ابن حجر کی بات کو صحیح طرح سمجھا بھی نہیں اور بیان کر دیا لکھتے ہیں

ابن حجر رحمہ اللہ (م :852 ھ) فرماتے ہیں :
ينبغي لكل منصف ان يعلم ان تخريج صاحب الصحيح لاي راو، كان مقتض لعدالته عنده، وصحة ضبطه، وعدم غفلته، ولا سيما ما انضاف إلى ذلك من إطباق جمهور الأئمة على تسمية الكتابين بالصحيحين، وهذا معنى لم يحصل لغير من خرج عنه فى الصحيح، فهو بمثابة اطباق الجمهور على تعديل من ذكر فيها 
’’ ہر منصف شخص کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امام بخاری و مسلم کے کسی راوی سے حدیث نقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی ان کے نزدیک کردار کا سچا اور حافظے کا پکا ہے، نیز وہ حدیث کے معاملے میں غفلت کا شکار بھی نہیں۔ خصوصاً جب کہ جمہور ائمہ کرام متفقہ طور پر بخاری و مسلم کی کتابوں کو ”صحیح“ کا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ مقام اس راوی کو حاصل نہیں ہو سکتا جس کی روایت صحیح (بخاری و مسلم ) میں موجود نہیں۔ گویا جس راوی کا صحیح بخاری و مسلم میں ذکر ہے، وہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتماد راوی ہے۔“ [فتح الباري شرح صحيح البخاري : 384/1، طبعة دار المعرفة، بيروت]

↰ معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک منصف شخص وہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم کے راویوں کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر جمہور ائمہ حدیث کی توثیق کی بنا پر ثقہ اور قابل اعتماد سمجھے۔ اب ڈاکٹر عثمانی کی طرح کا جو شخص صحیح بخاری کے راویوں کو ’’ ضعیف، مجروح اور متروک“ کہتا ہے، وہ بقول ابن حجر، منصف نہیں، بلکہ خائن ہے۔

نور پوری کے نزدیک جو بھی المنھال کو ضعیف کہے وہ خائن  ہے – دوسری طرف  ابن حجر النکت میں   اس  بات کی وضاحت کرتے   ہیں

قلت : ولا يلزم في كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحاً ، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة

میں کہتا ہوں اور کسی روایت کی اسناد میں اگر صحیح کا راوی ہو تو اس سے وہ حدیث صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ اس میں شذوذ یا علت ہو

مبارک پوری اہل حدیث ہیں ، ترمذی کی شرح تحفہ الاحوذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ  میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا قَوْلُ الْهَيْثَمِيِّ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ فَلَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّتِهِ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مُدَلِّسٌ وَرَوَاهُ بِالْعَنْعَنَةِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مُخْتَلِطٌ وَرَوَاهُ عَنْهُ صَاحِبُهُ بَعْدَ اِخْتِلَاطِهِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ لَمْ يُدْرِكْ مَنْ رَوَاهُ عَنْهُ أَوْ يَكُونَ فِيهِ عِلَّةٌ أَوْ شُذُوذٌ ، قَالَ الْحَافِظُ الزَّيْلَعِيُّ فِي نَصْبِ الرَّايَةِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ الْجَهْرِ بِالْبَسْمَلَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ ثِقَةِ الرِّجَالِ صِحَّةُ الْحَدِيثِ حَتَّى يَنْتَفِيَ مِنْهُ الشُّذُوذُ وَالْعِلَّةُ ، وَقَالَ الْحَافِظُ اِبْنُ حَجَرٍ فِي التَّلْخِيصِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ حَدِيثِ بَيْعِ الْعِينَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِ الْحَدِيثِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا اِنْتَهَى

اور   الْهَيْثَمِيِّ کا یہ کہنا کہ رجال ثقہ ہیں دلیل نہیں بنتا کہ یہ روایت صحیح ہے کیونکہ اسمیں شذوذ یا علّت ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے اس میں مدلس ہو جو عن سے روایت کرے – الزَّيْلَعِيُّ کہتے ہیں… کسی حدیث میں ثقہ راوی ہونے سے وہ صحیح نہیں ہو جاتی

معلوم ہوا کہ صحیحین کے راویوں کی وہ روایات جو صحیحین سے باہر ہیں ضعیف ہو سکتی ہیں اس کی مثال ہے کہ کفایت اللہ سنابلی جو اہل حدیث میں نور پوری کے استاد کی طرح ہیں ن کے نزدیک المنھال کی روایت صحیح نہیں ہے اس کا شمار ضعیف راویوں میں کیا گیا ہے

کتاب  التلخيص الحبير میں ابن حجر لکھتے ہیں

لا يلزم من كون رجاله ثقات أن يكون صحيحا؛ لأن الأعمش مدلِّس ولم يذكرسماعه من عطاء

ثقہ رجال ہونے سے روایت صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس میں اعمش ہے جس نے عطا سے سماع کا ذکر نہیں کیا

قارئین نوٹ کریں کہ اعمش صحیحین کے راوی ہیں لیکن ابن حجر روایت رد کر رہے ہیں

فتح الباری کے مقدمہ انیس الساری کا حاشیہ لکھنے والے  نبيل بن مَنصور بن يَعقوب البصارة
ابن حجر کا قول پیش کرتے ہیں

لا يلزم من كون الإسناد محتجا برواته في الصحيح أن يكون الحديث الذي يُروى به صحيحا لما يطرأ عليه من العلل

اگر سند میں صحیح کے راوی سے احتجاج کیا گیا ہو تو اس کی حدیث صحیح نہیں ہو جاتی اگر اس کو معلول گردانا گیا ہو

  أحمد بن محمد بن الصدِّيق بن أحمد کتاب  المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي میں کہتے ہیں

قلت: لا يلزم من كون السند رجاله رجال الصحيح أن يكون الحديث صحيحا بل قد يكون ضعيفا

ایک دوسری حدیث پر کہتے ہیں

قلت: لا يلزم من كون الرجال رجال الصحيح أن يكون الحديث صحيحًا، إذ قد يكون مع ذلك منقطعًا أو معلولًا بشذوذ واضطراب

کتاب المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ کے محقق سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري
لکھتے ہیں

لا يلزم من كون الرجل أخرج له أصحاب الصحيح، صحة الإسناد،

ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ یہ کوئی عثمانی فکر نہیں کہ صحیحین کے راوی کی روایت ضعیف ہو سکتی ہے بلکہ اس بات کو ابن حجر نے بھی اور دیگر محققین نے بھی بیان کیا ہے

حدیث عود روح کو رد کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا ذکر اگلے بلاگ میں ہو گا

 

 

زبیر علی زئی تحقیقات کی روشنی میں ٢

ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی عذاب قبر سے متعلق کچھ متضاد روایات پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ایک سنن ابن ماجہ، مسند احمد  میں بیان ہوئی ہے

زبیر علی زئی  توضح الاحکام میں اس کوعود روح کی دلیل پر پیش کرتے ہیں

tozeh-555

مسند احمد  کی روایت  ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ” إِنَّ الْمَيِّتَ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ  الطَّيِّبَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، اخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ “، قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيَقُولُونَ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، ادْخُلِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ ” قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، اخْرُجِي ذَمِيمَةً، وأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ، وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٍ، فَلَا تَزَالُ تَخْرُجُ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، ارْجِعِي ذَمِيمَةً، فَإِنَّهُ لَا يُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَاءِ، ثُمَّ تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَيُقَالُ لَهُ: مِثْلُ مَا قِيلَ لَهُ فِي الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السَّوْءُ

اس روایت کا بقیہ حصہ ابن مآجہ بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى  میں بیان ہوا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ

إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ، غَيْرَ فَزِعٍ، وَلَا مَشْعُوفٍ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ، فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ؟ فَيَقُولُ: مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ، فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا، وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، وَيُقَالُ لَهُ: عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ، فَزِعًا مَشْعُوفًا، فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا، فَقُلْتُهُ، فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا، يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى

اس کا ترجمہ ارشد کمال المسند فی عذاب القبر میں کرتے ہیں

arshad-taseer-ila-qbr

یہ  دو روایات ہیں اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، کی سند سے آ رہی ہے

 مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ الْقُرَشِيّ العامري اور ابن أبي ذئب ثقه  ہیں لیکن  ابن أبي ذئب یعنی محمَّد ابن عبد الرحمن بن المغيرة بن الحارث کے لئے احمد کہتے ہیں ( سوالات ابی داود، تہذیب الکمال ج ٢٥ ص ٦٣٠

 إلا أن مالكًا أشد تنقية للرجال منه، ابن أبي ذئب لا يبالي عمن يحدث

بے شک امام مالک ان سے زیادہ رجال کو پرکھتے تھے جبکہ  ابن أبي ذئب اس کا خیال نہیں رکھتے کہ کس سے روایت کر رہے ہیں

  اس ر وایت کا متن  مبہم اور منکر ہے

اس روایت میں ہے کہ مومن کی

حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.

روح اوپر لے جائی جاتی ہے حتی کہ اس آسمان پر جا پہنچتی ہے جس پر الله عَزَّ وَجَلَّ ہے

قرآن کہتا ہے کہ الله عرش پر ہے اور راوی کہہ رہے ہیں کہ اللّہ تعالی کسی آسمان پر ہے

 زبان و ادب میں  اللہ کو آسمان والا کہا جاتا ہے

  صحیح مسلم کی روایت ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈى سے پوچھا تھا كہ : اللہ کہاں ہے ؟ تو اس نے کہا : آسمان میں ، پھر آپ نے فرمایا : میں کون ہوں ؟ تو اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا : اسے آزاد کردو ، یہ ایمان والی ہے

قرآن کہتا ہے

الرحمن علی العرش الستوی   طٰہٰ :۵

رحمن عرش پر مستوی ہوا۔

سوره الحدید میں ہے
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‌پیدا کیا ، پھر عرش  پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں‌داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں‌ چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے سورہ الحدید

بخاری میں ہے کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(( اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا… فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ )) [بخاری،کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : { بل ھو قرآن مجید ¡ فی لوح محفوظ} (۷۵۵۴)]

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے … جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔

لیکن اس روایت  زیر بحث میں روح کو خاص اس آسمان پر لے جایا جا رہا ہے جس پر الله ہے  جو ایک غلط عقیدہ ہے

اہل حدیث زبیر علی زئی نے   اس روایت کو  اپنے مضمون عذاب قبر حق ہے شمارہ الحدیث میں پیش کیا اور جو نتائج اخذ کیے ان پر نظر ڈالتے ہیں

غور کریں کے نتائج میں نتیجہ نمبر ٦ میں   زبیر علی نے لکھا ہے

اللہ تعالی ساتویں آسمان سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے

جبکہ ابن ماجہ کی روایت میں یہ  سرے سے موجود ہے ہی نہیں  اور اسی سند سے مسند احمد  میں جو متن آیا ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالی کسی آسمان پر ہیں- راوی  نے واضح نہیں کیا کہ پہلا ، دوسرا ، تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ، چھٹا یا ساتواں

راقم کہتا ہے   آنکھوں میں دھول جھوکنے میں اہل حدیث کو ملکہ حاصل ہے

اللہ کا شکر جس نے اس جھمی   عقیدے کی  روایت سے   ہم  کو  نجات دی – و للہ الحمد

اشاعرہ میں ملا علی القاری نے ان الفاظ کی تاویل کی ہے

إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ) أَيْ: أَمْرُهُ وَحُكْمُهُ أَيْ: ظُهُورُ مُلْكِهِ وَهُوَ الْعَرْشُ، وَقَالَ الطِّيبِيُّ: أَيْ: رَحْمتُهُ بِمَعْنَى الْجَنَّةِ

اس آسمان پر لے جاتے ہیں جس میں اللہ تعالی ہیں یعنی اس کا حکم یعنی اس کی مملکت کا ظہور جو عرش ہے اور طیبی نے کہا یعنی رحمت جو جنت ہے

البتہ سلفی اصول کہتا ہے کہ قرآن و حدیث میں جب بھی اللہ تعالی کا ذکر ہو تو اس کی  تاویل نہیں کی جائے گی اور متن کو اس کے ظاہر پر لیا جائے گا

اس حساب سے یہ تاویل سلفی و وہابی فرقے کے موقف کے خلاف ہے

زاذان کی روایت میں ہے کہ روح کو سات آسمان پر لے جایا جاتا ہے

 حتى ينتهي بها إلى السماء السابعة

یہاں تک کہ وہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتی ہے

ان دونوں احادیث  سے ثابت ہوا کہ  اللہ تعالی عرش پر نہیں ساتویں آسمان پر ہے

چونکہ یہ بات قرآن کے خلاف ہے یہ روایات صحیح ممکن نہیں ہیں افسوس ان کو قبول کر کے ان پر عقیدہ رکھا گیا ہے

اضطراب سند 

کتاب اخبار الدجال از عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ)  سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی سند میں مجہول راوی ہے

قال محمد بن عمرو فحدثني سعيد بن معاذ عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل الصالح قالوا اخرجي أيتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب واخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ولا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح له فيقال من هذا فيقال فلان فيقال مرحبا بالنفس الطيبة كانت في الجسد الطيب ادخلي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السماء التي فيها الله عز وجل وتعالى فإذا كان الرجل السوء قالوا اخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث اخرجي منه ذميمة وأبشري بحميم وغساق وآخر من شكله أزواج فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح لها فيقال من هذا فيقال فلان فيقال لا [ص:84] مرحبا بالنفس الخبيثة التي كانت في الجسد الخبيث ارجعي ذميمة فإنه لا تفتح لك أبواب السماء فيرسل من السماء ثم يصير إلى القبر فيجلس الرجل الصالح

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس کو کسی سعید بن معاذ سے سنا تھا نہ کہ سعید بن یسار سے

سعید بن معاذ ایک مجہول راوی ہے

کتاب جمع الجوامع المعروف بـ «الجامع الكبير» از سیوطی کے مطابق یہ سعید بن مینا ہے نہ کہ سعید بن یسار

ابن ماجه في الزهد عن أَبى بكر بن أَبِى شيبة عن شبابة عن ابن أَبى ذئب عن محمد بن عمرو بن عطاء عن سعيد بن ميناءَ عن أَبى هريرة مرفوعًا) (1).

العلل دارقطنی میں ہے

فَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، فَقَالَ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَوَهِمَ فِي ذَلِكَ

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس متن کو سعید بن مسیب سے بھی  روایت  کیا ہے

دارقطنی کا خیال ہے کہ یہ غلطی ابراہیم بن عبد السلام نے کی ہے – جبکہ راقم کی تحقیق سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ نام بدلنا ایک سند میں نہیں   بہت سی سندوں میں ہے

اغلبا مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ کو یاد نہیں رہا کہ اس نے کس سعید سے سنااور اس نے چار  الگ الگ نام روایات میں بیان کر دیے

ان شبھات کی موجودگی  میں اس سند کو صحیح نہیں سمجھا جا سکتا

عائشہ (رض) اور بنیادی عقائد

فرقوں کا دعوی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں اس سلسلے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں قلیب بدر کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے لا علم تھیں کہ مردے سنتے ہیں

وہابی عالم الشِّنقيطي سوال (هَل يسمع الْمَوْتَى؟) کیا مردے سنتے ہیں کے جواب میں کہتے ہیں

وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.

أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی جنہوں نے ان کی اتبآع کی ہے

الشِّنقيطي سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں

إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة

عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ضرورت کے تحت دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے

وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ

دوسری طرف فرقے دعوی کرتے ہیں کہ قبرستان میں جو دعا کی جاتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور یہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں – افسوس اس سے یہ لوگ  ثابت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ اللہ کی قدرت پر بھی صحیح نہیں تھا ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالی وہ سب جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں – ان کی دلیل صحیح مسلم کی ایک منکر روایت ہے

حديث 2249
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَی ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَی قَالَ قَالَتْ لَمَّا کَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَائَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَی فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی جَائَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَکِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْئَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْکِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْکِ وَلَمْ يَکُنْ يَدْخُلُ عَلَيْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَکِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ کَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ
ترجمہ ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر بن مطلب، محمد بن قیس، حضرت محمد بن قیس (رض) بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں ہم نے گمان کیا کہ وہ ماں سے اپنی جننے والی ماں مراد لے رہے ہیں ہم نے کہا کیوں نہیں فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنی ہی دیر ٹھہرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو آہستہ سے بند کردیا میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوڑے تو میں بھی دوڑی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچے تو میں بھی پہنچی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے میں نے کہا کچھ نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بتا دو رونہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی فرمایا میں اپنے آگے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینے پر مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق داب لے گا فرماتی ہیں: (کیا ) جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں –فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی جبرائیل نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کیسے کہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ) کہو سلام ہے ایماندار گھر والوں پر اور مسلمانوں پر اللہ ہم سے آگے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔

تبصرہ
فرقه پرست یہ دعوی کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا

قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔

اس منکر روایت سے ان کے نزدیک ثابت ہوتا ہے کہ فقہائے مدینہ کی استاذ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا یہ بات تک نہیں جانتی تھیں کہ اللہ تعالی ہر اس چیز کو جانتا ھے جو لوگ چھپاتے ہیں ۔ قابل غور ہے یہ ایمان کی بنیادی بات ہے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تو خود قرآن کو شادی سے پہلے یاد کر رہی تھیں اور قرآن ان کے گھر سے متصل مسجد النبی میں دن و رات پڑھا جاتا تھا۔

یہ روایت آخری دور کی بتائی جاتی ہے جبکہ اس کا متن منکر ہے اس سے یہ تک نکلتا ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے نبی کی جاسوسی کی ان کا پیچھا رات کے اندھیرے میں کیا

سند میں عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة مجہول ہے اس کو امام مسلم نے قبول کیا ہے لہذا ابن حجر نے اس کومقبول کہا ہے۔

الذھبی نے میزان میں کہا
فعبد الله بن كثير السهمى لا يعرف إلا من رواية ابن جريج عنه، وما رأيت أحدا وثقه ففيه جهالة.
عبد الله نہیں جانا جاتا اس سے صرف ابن جریج نے روایت کیا ہے اور کسی اور ثقہ نے میرے خیال میں روایت نہیں کیا ہے اور اس میں جہالت ہے یعنی مجہول ہے۔

اور تاریخ اسلام میں کہا
، وهو فلا يكاد يُعْرَف إلا فِي حديثٍ واحد سَنَدُهُ مضطَّرب، وهو حديث عَائِشَةَ فِي استغفاره لأهل البَقيع
اس کی کوئی حدیث معلوم نہیں سوائے ایک مضطرب روایت کے جس میں عائشہ رضی الله عنہا سے اہل بقیع پر استغفار کا ذکر ہے۔

فرقے کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی شاہد حدیث سنن نسائی ٢٠٢٣٩ ہے

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ
پھر روایت دی جس کا ترجمہ ہے

محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ(عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی، اور گھر میں داخل ہو گئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہو گئے، آپ نے پوچھا “عائشہ! تجھے کیا ہو گیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں؟” میں نے کہا کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا “تو مجھے بتا دے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتا دے گی”، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتا دی تو آپ نے فرمایا “وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی”، میں نے عرض کیا جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا “کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ظلم کریں گے”، میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتا دے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں”، میں نے پوچھا اللہ کے رسول! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» “سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے(دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں”

تبصرہ

سندا یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سند کو شعیب نے ضعیف کہا ہے

سنن نسائی جیسی سند سے یہ روایت مسند احمد 25855 موجود ہے
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي، وَعَنْ أُمِّي؟ – فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ – قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ

شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے إسناد ضعيف- اس کی اسناد ضعیف ہیں۔

شعیب کی تحقیق کے مطابق سنن نسائی کی سند میں عبد الله بن أبي مليكة کا نام غلطی ہے – صحیح ابن حبان ٧١١٠ میں اسی سند سے ہے
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى بْنِ مُجَاشِعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَصَّارُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَثِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ

اور یہ اصلا عبد الله بن كثير ہی ہے جو ایک مجہول ہے۔

نسائی نے اس سند کو اس طرح بھی لکھا ہے
اخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ
اور اپنی دوسری کتاب سنن الکبری میں کہا
خَالَفَهُ حَجَّاجٌ فَقَالَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ

حجاج نے ان کی مخالفت کی اور کہا بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ

یعنی نسائی کے نزدیک یہ غلطی حَجَّاجَ کی وجہ سے آئی ہے۔ – حجاج ثقہ ہیں لیکن عبد اللہ سند میں دیکھ کر ان کو مغالطہ ہوا کہ یہ عبد اللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ہیں جبکہ وہ عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة تھا

سنن نسائی کی اس روایت میں الٹا لکھا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا
‏‏‏‏‏‏قُلْتُ ‏‏‏‏ مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ
میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام صحیح مسلم کی روایت کے تحت لگایا گیا ہے اس روایت میں اس کا رد ہے۔ یہاں عائشہ اپنے صحیح عقیدے کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ صحیح مسلم میں وہ صحیح عقیدے سے ناواقف ہیں اور سوال کر رہی ہیں۔

قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔

اس طرح یہ حدیث صحیح مسلم سے الگ ہے۔

سنن نسائی میں اس کے بعد کچھ اور روایات بھی ہیں مثلا

حدیث نمبر: 2040أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، ‏‏‏‏‏‏قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ:‏‏‏‏ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَلَبِسَ ثِيَابَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي بَرِيرَةَ تَتْبَعُهُ فَتَبِعَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَوَقَفَ فِي أَدْنَاهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقِفَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفَ فَسَبَقَتْهُ بَرِيرَةُ فَأَخْبَرَتْنِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَذْكُرْ لَهُ شَيْئًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أَهْلِ الْبَقِيعِ لِأُصَلِّيَ عَلَيْهِمْ”.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنا کپڑا پہنا پھر (باہر) نکل گئے، تو میں نے اپنی لونڈی بریرہ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے پیچھے جائے، چنانچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئی یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع پہنچے، تو اس کے قریب کھڑے رہے جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے کھڑا رکھنا چاہا، پھر آپ پلٹے تو بریرہ آپ سے پہلے پلٹ کر آ گئی، اور اس نے مجھے بتایا، لیکن میں نے آپ سے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ صبح کیا، تو میں نے آپ کو ساری باتیں بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے اہل بقیع کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ میں ان کے حق میں دعا کروں”۔

تبصرہ
یہ متنا شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رات کے وقت بھی لونڈی ام المومنین کے پاس تھی جبکہ یہ ممکن نہیں کہ آمد النبی کے بعد کوئی حجرہ عائشہ میں رہ جائے
یہ متن بھی صحیح مسلم کی حدیث کے خلاف ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاسوسی ایک لونڈی کر رہی ہے جس کو اپنی مالکہ کا خوف ہے لیکن اللہ کا خوف نہیں ہے

سنن نسائی کی ایک تیسری روایت میں ہے

حدیث نمبر: 2041أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَتْ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَخْرُجُ فِي آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا وَإِيَّاكُمْ مُتَوَاعِدُونَ غَدًا أَوْ مُوَاكِلُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ”
.ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد» “اے مومن گھر (قبرستان) والو! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے والے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما”۔

تبصرہ
یہ متن بھی غلط و شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ جب بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری اتی تو اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع جاتے
ہر رات قبرستان جانا دیگر روایات سے معلوم ہے کہ نہیں تھا

لب لباب یہ ہوا کہ صحیح مسلم کی روایت منکر ہے اور اسی روایت کو شب برات میں قبرستان جانے کی دلیل پر پیش کیا جاتا ہے

محشر میں بعض علماء کی سخت پکڑ ہو گی  – ام المومنین رضی اللہ عنہا   پر الزام مہنگا پڑے گا

اللہ کا حکم یاد رہے

اِذْ تَلَقَّوْنَهٝ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّّتَحْسَبُوْنَهٝ هَيِّنًاۖ وَهُوَ عِنْدَ اللّـٰهِ عَظِيْـمٌ (15 

جب تم اسے اپنی زبانوں سے نکالنے لگے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہنی شروع کردی جس کا تمہیں علم بھی نہ تھا اور تم نے اسے ہلکی بات سمجھ لیا تھا، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے۔

وہابی عالم لکھتے ہیں

یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور اس لا علمی پر یہ کافر نہیں ہوئیں شیخ اسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں اس حدیث پر یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ؟ پس اس کا سوال انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا ہاں اور یہ دلیل ہے ہے کہ وہ عائشہ اسکو نہیں جانتی تھیں اور ان کو معرفت نہیں تھی کہ اللہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اس لئے کافر نہیں تھیں

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٤١٢ پر بحث کی ہے اور سنن نسائی کی روایت کے الفاظ نقل کیے ہیں

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»

اور یہ سند وہی ہے جو صحیح مسلم میں ہے

البتہ صحیح مسلم میں متن میں نعم کے لفظ کو ام المومنین کے الفاظ کے ساتھ مربوط رکھا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نعم کا لفظ ام المومنین کے جملے کا حصہ ہے – لیکن راوی کا مدعا اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کہنا ہے جیسا کہ مختلف کتب احادیث میں متن میں دیکھ کر جانا جا سکتا ہے مثلا سنن نسائی ، سنن الکبری ، مسند احمد وغیرہ

کتاب تاریخ مدینہ از ابن شبہ میں ہے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ [ص:88] بْنَ قَيْسٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ قَالَ: «نَعَمْ

یعنی اس جملے کو سوالیہ انداز میں کئی راویوں نے بیان کیا ہے 

راوی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ کا سیاسی مدعا

راوی  کا مدعا یہ ہے کہ آخری دور نبوی تک ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو شک تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور رات کے اندھیرے میں  ماریہ قبطیہ سے ملنے گئے ہوں گے اور اس نے سورہ التحریم کی آیت کو ملا کر ایک قصہ گھڑا ہے

سورہ التحریم میں موجود ہے دو امہات المومنین (حدیث کے مطابق عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا) نے مل کر ایک  فیصلہ کیا ( حدیث کے مطابق ماریہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے جب بھی نبی آئین  آئیں تو بولیں گی کہ شہد کی بو  آ رہی ہے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جانا چھوڑ دیں گے) البتہ اس کی خبر نبی کو اللہ نے دے دی تو کوئی ایک ام المومنین بولیں کس نے خبر دی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِيْثًاۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَاَظْهَرَهُ اللّـٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٝ وَاَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَكَ هٰذَا ۖ قَالَ نَبَّاَنِىَ الْعَلِـيْمُ الْخَبِيْـرُ (3)

اور جب نبی نے چھپا کر اپنی کسی بیوی سے ایک بات کہہ دی، اور پھر جب اس بیوی نے وہ بات بتا دی اور اللہ نے اس کو نبی پر ظاہر کر دیا تو نبی نے اس میں سے کچھ بات جتلا دی اور کچھ ٹال دی، پس جب پیغمبر نے اس کو وہ بات جتلا دی تو بولی آپ کو کس نے یہ بات بتا دی، آپ نے فرمایا مجھے خدائے علیم و خبیر نے یہ بات بتلائی۔

راوی نے اس آیت کا استعمال کر کے قصہ گھڑا کہ باوجود اس کے کہ نبی کو الله خبر کر دیتا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا  پھر بھی   جاسوسی کرتی ہیں کہ ممکن ہے نبی ان کی باری کے دن ماریہ کے ہاں گئے ہوں اور پھر لا علمی کا اظہار کیا  کہ جو لوگ چھپاتے ہیں کیا اس کو اللہ جانتا ہے ؟ اس طرح یہ روایت  تنقیص عائشہ سے محمول ہے 

ماریہ والا واقعہ کب ہوا معلوم نہیں ہے جس میں شہد رسول اللہ نے اپنے اوپر حرام کیا  البتہ شہدائے احد کے لئے بقیع جانا بالکل آخری دور کی بات  ہے  – اس طرح راوی کا مقصد یہ ہے کہ بیان کیا جائے کہ آخری ایام تک ام المومنین عائشہ  اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے  شک و شبہ کا شکار رہیں

 

کائنات کا منظر

عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ایک شخص بنام عبدللہ بن سبا اسلام میں ظاہر ہوا اس نے دین میں شیعہ عقیدے کی بنیاد ڈالی اور نئی تشریحات کو فروغ دیا

الشھرستانی  اپنی کتاب الملل و النحل ص ٥٠ پر لکھتے ہیں

 السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.

السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ:  تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو  مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا ۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی ( اللہ ان سے راضی ہو) ۔ اور وہ (ابن سبا)  ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی  کی امامت کے لئے بات پھیلآئی ۔ اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے اور انتقال نہیں کر گئے ۔ اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی ۔ اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ  زمین ظلم سے بھری ہے۔ اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا۔ اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے ۔ اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں

ابن اثیر الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٨ پر لکھتے ہیں

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم

 عبداللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا  پھربصرة پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ھو سکا.  اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس ائے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے. اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا. پھر اس نے کہا : ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمّد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا. اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے  لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو

 ابن سبا کو اسلام میں موت و حیات کے عقیدے کا پتا تھا  جس کے مطابق زندگی دو دفعہ ہے اور موت بھی دو دفعہ. اس کی بنیاد  قرآن کی آیات ہیں

سورہ غافر میں ہے

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ

وہ (کافر) کہیں  گےاے رب تو نے دو زندگیاں دیں اور دو موتیں دیں ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پس یہاں (جہنم ) سے نکلنے کا کوئی رستہ ہے

ابن سبا نے اس عقیدے پر حملہ کیا اور ان آیات کو رجعت کی طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں جب خلفاء کے خلاف خروج ہو گا تو ہم مر بھی گئے تو دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمارے دشمن دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونگے. اس آیت کا شیعہ تفاسیر میں یہی مفھوم لکھا ہے اور اہل سنت جو مفھوم بیان کرتے ہیں وہ شیعہ کے نزدیک اہل سنت کی  عربی کی   غلط سمجھ بوجھ ہے

رجعت کے عقیدہ کو اہل سنت میں استوار کرنے کے لئے دو زندگیوں اور دو موتوں والی آیات کو ذھن سے نکالنا ضروری تھا. اس کے لئے عود روح کی روایت بنائی گئیں کہ ایک دفعہ مردے میں موت کا مفھوم ختم ہو جائے تو پھر میدان صاف ہے. آہستہ آہستہ اہل سنت مردے کے سننے اور مستقبل میں کسی مبارزت طلبی پر قبر سے باہر نکلنے کا عقیدہ اختیار کر ہی لیں گے

 لہذا عود روح  کی روایات شیعہ راویوں  زاذان، المنھال بن عمرو، عدی بن ثابت، عمرو بن ثابت نے اصحاب رسول کی طرف منسوب کیں اور بالاخر یہ راوی کم از کم اس بات میں کامیاب ہوئے کہ دو موتوں اور دو  زندگیوں کا اصول ذہن سے محو ہو گیا

ابن سبا کے فلسفے کی بنیاد اس کے اپنے ذاتی خیالات نہیں تھے بلکہ یہ تمام انبیاء سابقہ سے منسوب اہل کتاب کی کتب میں موجود ہیں- البتہ اہل سنت کے شیعیی راویوں نے اس فلسفے کو روایات میں پررو کر ہم تک مکمل صحت کے ساتھ پہنچا دیا ہے – دوسری طرف الله تعالی کا فیصلہ ہے کہ

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

الله مومنو کو قول ثابت پر دنیا میں اور آخرت میں مضبوط کرے گا اور ظالموں کو گمراہ کرے گا – وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

لہذا الله کا حکم ہوا کہ لوگ گمراہ ہوں اور ابن سبا کے عقیدے کے  پر چارک بن جائیں – زاذان اور المنھال بن عمرو اسی طبقے کے دو راوی ہیں جنہوں نے رجعت کے عقیدے کو استوار کرنے کے لئے مردے میں عذاب قبر کے بہانے سے روح کے پلٹ انے کا ذکر کیا ہے – یعنی ان کے مطابق مومن کی روح اور کافر کی روح دونوں قبر میں آ جاتی ہیں

ابن سبا یمن کا ایک صوفی یہودی تھا وہاں اس کو برھوت کی خبر تھی جو  یہود کے نزدیک جہنم تک جانے کا رستہ ہے اور اس کی تہہ میں سمندر میں ابلیس بیٹھا ہے – برھوت کی خبر سنی سمجھے جانے والے  راویوں نے بھی دی جو لا علم علماء نے قبول کی- اس قسم کے اقوال کعب احبار بھی پھیلا رہا تھا – تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص بن حميد، عن شمر، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار، فقال له ابن عباس: حدِّثني عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ … ) الآية، قال كعب: إن روح الفاجر يصعد بها إلى السماء، فتأبى السماء أن تقبلها، ويُهبط بها إلى الأرض فتأبى الأرض أن تقبلها، فتهبط فتدخل تحت 
سبع أرضين، حتى ينتهي بها إلى سجين، وهو حدّ إبليس، فيخرج لها من سجين من تحت حدّ إبليس، رَقّ فيرقم ويختم ويوضع تحت حدّ إبليس بمعرفتها
شمر نے کہا ابن عباس کعب الاحبار کے پاس پہنچے اس سے کہا الله کے قول پر بیان کرو- کعب نے کہا فاجر کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان اس کو قبول کرنے میں کراہت کرتا ہے اس کو زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے تو زمین کراہت کرتی ہے تو اس کو ساتویں زمین میں داخل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سجین میں جا پہنچتی ہے جو ابلیس کی حد ہے .. وہاں ایک ورقه نکلتا ہے جس میں رقم کیا جاتا ہے اور مہر لگائی جاتی ہے اور رکھا جاتا ہے ابلیس کے قید کے نیچے جاننے کے لئے

اسی سند سے تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص، عن شمر بن عطية، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فسأله، فقال: حدثْنِي عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الأبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ … ) الآية، فقال كعب: إن الروح المؤمنة إذا قُبِضت، صُعد بها، فَفُتحت لها أبواب السماء، وتلقَّتها الملائكة بالبُشرَى، ثم عَرَجُوا معها حتى ينتهوا إلى العرش، 
فيخرج لها من عند العرش فيُرقَم رَقّ، ثم يختم بمعرفتها النجاة بحساب يوم القيامة، وتشهد الملائكة المقرّبون.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے عِلِّيِّينَ سے متعلق پوچھا تو کعب نے کہا مومنوں کی روحیں جب قبض ہوتی ہیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے بشارت دیتے ہیں پھر بلند ہوتی ہیں یھاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں پس عرش کے پاس ایک ورقه ہے جس میں رقم کرتے ہیں پھر مہر لگتی ہے معرفت کے لئے کہ قیامت میں حساب سے نجات ہو گی اور مقرب فرشتے گواہ بنتے ہیں

دونوں کی سند ایک ہے ضعیف ہے
میزان کے مطابق حفص بن حميد، أبو عبيد القمى کو ابن المديني: مجهول کہتے ہیں
دوسرے راوی يعقوب بن عبد الله القمي کو الدارقطني ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا ابن نمير، قال: ثنا الأعمش، قال: ثنا المنهال بن عمرو، عن زاذان أبي عمرو، عن البراء، قال: (سِجِّينٍ) الأرض السفلى.
منہال بن عمرو نے زاذان سے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا سجین نچلی زمین ہے

 ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں

 والصحيح أن سجِّيناً مأخوذ من السجن، وهو الضيق ….. والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة

اور صحیح بات ہے کہ سجین ماخوذ ہے سجن قید خانہ سے اور یہ تنگ ہے … اور اس کا مقام ساتویں زمین کا وسط کا مرکز ہے

یعنی سجین ارض کا پیندا ہے

معلوم ہوا کہ سجین تک جانے کا راستہ برھوت سے ہے

چلیں آج برھوت کی سیر کریں

ہوائی جہاز سے برھوت کی تصویر

 برھوت کی خبر یمنی  لوگوں نے دی اور   یہ سجین کا رستہ ہے-

برھوت (سرخ نشان) اور  جابیہ (سبز نشان) میں فاصلہ

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

أنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: أنا مُحَمَّدُ بْنُ   هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، قَالَ: نا الرَّبِيعُ، قَالَ: نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: ” تَخْرُجُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، فَتَعْرُجُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهُ فَتَلْقَاهُ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا هَذَا الَّذِي جِئْتُمْ بِهِ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: تَوِّجُوهُ، هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ كَانَ يَعْمَلُ كَيْتَ وَكَيْتَ لِأَحْسَنِ عَمَلٍ لَهُ , قَالَ: فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ، وَحَيَّا مَا جِئْتُمْ بِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ الَّذِي يَصْعَدُ فِيهِ قَوْلُهُ وَعَمَلُهُ، فَيُصْعَدُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ حَتَّى يَأْتِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَهُ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، وَرُوحُ الْكَافِرِ أَنْتَنُ يَعْنِي: مِنَ الْجِيفَةِ وَهُوَ بِوَادِي حَضْرَ مَوْتَ، ثُمَّ أَسْفَلَ الثَّرَى مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ “

ابو موسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو اس میں سےمشک کی سی خوشبو اتی ہے پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تم کیا لے کر آئے ہو ؟ پس فرشتے کہتے ہیں ادھر دیکھو یہ فلاں بن فلاں ہے اس نے ایسا ایسا عمل کیا ہے اچھا – پس فرشتے کہتے ہیں الله تم پر سلامتی کرے اور جو تم لائے ہو اس پر پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں یہاں تک کہ رب تعالی کے پاس جاتے ہیں اور ان کے لئے سورج کی طرح یہ ثبوت ہوتا  ہے   اور کافر کی روح سڑتی ہے یعنی سڑی ہوئی جو حضر الموت کی وادی میں ہے الثری کی تہہ ہیں سات زمین نیچے

اس میں حضر الموت میں وادی کا ذکر ہے جس میں برھوت کا کنواں  ہے لیکن یھاں روایت برھوت کا لفظ نہیں ہے

قارئیں یہ سب پڑھ کر اپ کو اب تک سمجھ آ چکا ہو گا کہ برھوت کو سجین قرار دیا گیا جو یمن میں ایک کنواں ہے جو زمین کی تہہ تک جانے کا رستہ ہے – اب سنن نسائی کی ایک روایت دیکھتے ہیں جس کا ذکر ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے اور اسی روایت کو ابن حبان کہتے کہ برھوت کی خبر ہے

 أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ

صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

یہاں روایت میں خاص باب الارض کا ذکر ہے کہ کفار کی روحیں زمین کے دروازے پر لائی جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو  کفار کی روحوں تک لے جایا جاتا ہے

یہ روایت محدث ابن حبان کے مطابق  برھوت کی ہی خبر ہے

اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور تبصرہ میں وضاحت کی کہ یہ روایت اصل میں برھوت کی خبر ہے  اس کے علاوہ اسی  راوی نے زمین کے دروازے کو بعض اوقات سجین بھی بولا ہے

تہذیب الکمال از المزی میں قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ کے ترجمہ میں اس روایت کے متن میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبُخَارِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الصَّيْدَلانِيُّ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحداد، قال: أَخْبَرَنَا أبو نعيم الْحَافِظُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ أَحْمَدَ: قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ النُّعْمَانِ الشَّيْبَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْقَاسِم بْن الفضل الحداني، عن قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَن أَبِي هُرَيْرة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِحَرِيرَةٍ فِيهَا مَسْكٌ ومِنْ صَنَابِرَ الرَّيْحَانِ وتَسَلُّ رُوحَهُ كما تَسَلُّ الشَّعْرَةَ مِنَ الْعَجِينِ، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً مَرْضِيًّا عَنْكِ، وطُوِيَتْ عَلَيْهِ الْحَرِيرَةُ، ثُمَّ يُبْعَثُ بِهَا إِلَى عِلِّيِّينَ، وإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِمِسْبَحٍ فِيهِ جَمْرٌ فَتَنْزِعُ رُوحَهُ انْتِزَاعًا شَدِيدًا، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى هَوَانٍ وعَذَابٍ، فَإِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وضِعَت عَلَى تِلْكَ الْجَمْرةِ، فَإِنَّ لَهَا نَشِيشًا فَيُطْوَى عَلَيْهَا الْمِسْبَحُ ويُذْهَبُ بِهَا إِلَى سِجِّينَ

فرشتے روح کو لے کر سجین جاتے ہیں

سلفی علماء میں ابن رجب اپنی کتاب  أهوال القبور  میں حنابلہ کے لئے لکھتے ہیں

ورجحت طائفة من العلماء أن أرواح الكفار في بئر برهوت منهم القاضي أبو يعلى من أصحابنا في كتابه المعتمد وهو مخالف لنص أحمد: أن أرواح الكفار في النار.
ولعل لبئر برهوت اتصالا في جهنم في قعرها كما روي في البحر أن تحته جهنم والله أعلم ويشهد لذلك ما سبق من قول أبي موسى الأشعري: روح الكافر بوادي حضرموت في أسفل الثرى من سبع أرضين.

اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کفار کی روحیں برھوت میں کنواں میں ہیں جن میں قاضی ابو یعلی ہیں ہمارے اصحاب میں سے اپنی کتاب المعتمد  میں اور یہ مخالف ہے نص احمد پر کہ کفار کی روحیں اگ میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ برھوت جہنم سے تہہ میں ملا ہو جیسا کہ روایت ہے کہ سمندر کے لئے کہ اس کے نیچے جہنم ہے و الله اعلم اور اس پر گواہی ہے ابو موسی رضی الله عنہ کے قول کی کہ کافر کی روح حضر الموت کی ایک وادی میں ہے تحت الثری کے پیندے میں ساتویں زمین میں

دامانوی صاحب دین الخالص قسط اول میں لکھتے ہیں

سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں

شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ) کتاب المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري میں لکھتے ہیں کہ

قال شيخ الإسلام ابن حجر وغيره: إن أرواح المؤمنين في عليين، وهو مكان في السماء السابعة تحت العرش وأرواح الكفار في سجين وهو مكان تحت الأرض السابعة، وهو محل إبليس وجنوده.

شیخ الاسلام ابن حجر اور دیگر کہتے ہیں: بے شک مومنین کی ارواح عليين میں ہیں، اور وہ ساتوے آسمان پر عرش کے نیچے ہے اور کفار کی ارواح سجين میں ہیں اور وہ جگہ ساتویں زمین کے نیچے ہے جو ابلیس اور اسکے لشکروں کا مقام ہے

فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں  ہے کہ سجین جہنم کا پتھر ہے

سجیں

ابن تیمیہ : مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢١ میں لکھتے ہیں

 وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرْتَعُ فِي الْجَنَّةِ وَتَأْوِي فِي فِنَاءِ الْعَرْشِ. وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ فِي برهوت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں جنت میں بلند ہوتی ہیں اور عرش تک جاتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

فتوی میں کہتے ہیں

وَإِنَّمَا فِي أَسْفَلِ سَافِلِينَ مَنْ يَكُونُ فِي سِجِّينٍ لَا فِي عِلِّيِّينَ كَمَا قَالَ تَعَالَى {إنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ}

اور اسفل سافلین میں وہ ہے جو سجین میں ہے نہ کہ علیین میں جیسا الله کا قول ہے کہ منافقین اگ کے اسفل میں ہیں

یعنی ابن تیمیہ نے سجین کو مقام قرار دیا

کبری و صغری ملا لیں سجین ابن تیمیہ کے نزدیک برھوت ہوا

عبد الوہاب النجدی اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا

اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

برھوت یمن میں ہے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

یعنی عبد الوھاب النجدی کے مطابق روحیں دنیا میں اتی ہیں کفار کی یمن میں برھوت میں اور مومنوں کی جابیہ شام میں

ان معلومات سے پتا چلا کہ   برھوت ایک  سرنگ ہے جو زمین کی تہہ میں جا رہی ہے بعض  علماء کہتے ہیں وہاں شیطان بیٹھا ہے اور اسی کو سجین کہتے ہیں – علییین ان کے نزدیک آسمان پر ہے ساتوین آسمان پر جہاں اس سے اوپر الله تعالی ہیں- کائنات کا یہ منظر کچھ اس طرح ہے

یہ پہلے آسمان سے سات آسمان تک کا منظر ہے اور نیچے

 

یہ زمین سے اس کی تہہ تک کا منظر ہے

ان کو ایک دوسرے پر رکھیں تو ملتا ہے

 

یہ کائنات کا مکمل منظر ہوا جو علمائے سلف  کی تفاسیر روایات اور فتاوی سے اخذ کیا گیا ہے

راقم کہتا ہے چیزیں اپنی اصل کی طرف پلٹ اتی ہیں

آخر گِل اپني، صرفِ درِ ميکدہ ہوئي
پہنچی وہیں پہ  خاک، جہاں کا خميرتھا ‘

ابن سبا   کوئی  ایک شخصیت نہیں، ایک فکر ہے، ایک فلسفہ ہے، ایک سوچ ہے جو راویوں کے  اذہان میں  سرایت کیے ہوئے ہے – روایات پڑھتے ہوئے  اس کو جاننا ضروری ہے تاکہ اسی قول پر رہ سکیں جو قول ثابت ہے یعنی کلمہ حق یعنی قرآن عظیم

پھر قبر ميں دفن کرايا

سورہ عبس
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ( 17 ) عبس – الآية 17
انسان ہلاک ہو جائے کيسا ناشکرا ہے
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ( 18 ) عبس – الآية 18
اُسے (اللہ نے) کس چيز سے بنايا؟
مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ( 19 ) عبس – الآية 19
نطفے سے بنايا پھر اس کا اندازہ مقرر کيا
ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ( 20 ) عبس – الآية 20
پھر اس کے ليے رستہ آسان کر ديا
ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ( 21 ) عبس – الآية 21
پھر اس کو موت دي پھر قبر ميں دفن کرايا
ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ ( 22 ) عبس – الآية 22
پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا

 

ان آيات کا مطلب ہے کہ انسان کو ہدايت الله نے دي اور موت دي، قبر دي، پھر زندہ کرے گا

قبر دينا الله کا عمل کہا گيا ہے- اس آیت کي عربي کا يہي مطلب ہے – لہذا عربي لغات و قواعد کي کتب ميں اس آیت  کا ذکر ہے کہ الله نے  قبر دي

إصلاح المنطق المؤلف: ابن السكيت، أبو يوسف يعقوب بن إسحاق (المتوفى: 244هـ) ميں ہے

قال الله جل ثناؤه: {ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُِ} [عبس: الآية:21] , قال أبو عبيدة:.. وقد أَقْبَرْتُهُ، إذا دفنته
أبو عبيدة: نے کہا اس کو قبر دي جب اس کو دفن کيا

كتاب العين المؤلف: أبو عبد الرحمن الخليل الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ)ميں ہے
قال الله تعالى: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ أي جعله بحال يقبر
يعني اس کو اس حال ميں کيا کہ قبر ميں ہے

لسان العرب المؤلف: ابن منظور الأنصاري الرويفعى الإفريقى (المتوفى: 711هـ) ميں ہے

الْفَرَّاءُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ
، أَي جَعَلَهُ مَقْبُورًا مِمَّنْ يُقْبَرُ وَلَمْ يَجْعَلْهُ مِمَّنْ يُلْقَى لِلطَّيْرِ وَالسِّبَاعِ وَلَا مِمَّنْ يُلْقَى فِي النَّوَاوِيسِ
الْفَرَّاءُ نے کہا الله نے اس کو قبر ميں کيا اور اس کو ايسا نہيں کيا کہ پرندوں يا درندوں کے آگے پھينکا گيا ہو

ليکن ہم کو معلوم ہے کہ الله نے سب  انسانوں کو قبر نہيں دي – دنيا ميں مسلمان آج کل مشرکوں سے کم ہيں اور مشرک اپنے مردوں کو تمام دفناتے بھي نہيں يہاں تک کہ بعض نصراني اہل کتاب کے فرقے بھي اپنے مردے جلا ديتے ہيں تو الله نے تو سب کو قبر نہيں دي

ڈاکٹر عثماني کا موقف ہے کہ فرشتوں کے ذريعہ قبر عالم البرزخ ميں دي جو روح کا مقام ہے اور يہ قول ابن حزم کا بھي ہے کہ عالم البزرخ ميں روح کا مقام قبر ہے – ياد رہے کہ ابن حزم ايک عرب تھے اندلس ميں عالم تھے

الفواتح الإلهية والمفاتح الغيبية الموضحة للكلم القرآنية والحكم الفرقانية از نعمة الله بن محمود النخجواني، ويعرف بالشيخ علوان (المتوفى: 920هـ) کي تفسير ميں ہے

ثُمَّ أَماتَهُ عن نشأة الابتلاء والاختبار تخليصا وتقريبا الى ربه فَأَقْبَرَهُ في البرزخ
الله نے اس کو البرزخ ميں قبر دي

سورہ قمر کي تفسير ميں انہوں نے لکھا
يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ اى قبورهم التي هم مدفونون فيها في عالم البرزخ ويتحركون على الأرض كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ
يہ اپني الْأَجْداثِ سے نکليں گے يعني وہ قبور جن ميں يہ عالم برزخ ميں دفن ہيں اور پھر يہ ٹدديوں کي طرح زمين پر منتشر ہوں گے

قرآن کي آيت النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا کي شرح ميں شيخ علوان (المتوفى: 920هـ) نے اسي تفسير ميں لکھا
النَّارُ المعدة لتعذيب اصحاب الشقاوة الازلية الابدية ولهذا يُعْرَضُونَ عَلَيْها يعنى فرعون وآله على النار حال كونهم في برزخ القبر ايضا
النار مدت عذاب ہے اصحاب شقي کے لئے ازلي و ابدي ہے اور اس لئے ان کو اس پر پيش کيا جاتا ہے يعني فرعون اور اس کي آل کو اس حال ميں کہ ان کے لئے برزخ ميں بھي قبر ہے

ڈاکٹر عثماني سے قريب 500 سال پہلے لکھي جانے والي تفسير ميں يہ سب موجود ہے کہ برزخ ميں قبر ہے جو الله نے دي اسي ميں ال فرعون کو عذاب ہو رہا ہے

آج لوگ کہتے ہیں کہ  برزخ تو کیفیت ہے نہ کہ مقام جبکہ بعض مفسرین کا ٥٠٠ سال پہلے سے یہ کہنا تھا کہ قبر عالم برزخ میں بھی ہے  اور اسی کی مناسبت سے حدیث میں عذاب قبر کا لفظ ہے

بعض کا کہنا تھا کہ قبر تو صرف نسبت ہے کہ وہ عذاب جو مرنے کے بعد دیا  جائے چاہے دفن ہو یا نہ ہو

عذاب قبرکی حقیقت کتاب

 اثبات عذاب قبر A5

سماع الموتی کے دلائل

[wpdm_package id=’8839′]

شرح  صحیح   البخاري     میں  ابو الحسن   علی بن محمد بن المنصور  بن ابی قاسم  زين الدّين على بن الْمُنِير أَخُو الْعَلامَة نَاصِر الدّين  المعروف  زین بن المنیر  المتوفی ٦٩٥ ھ  نے  لکھا  کہ         اس حدیث میں  میت  انسانوں کے جوتوں کی چاپ نہیں  فرشتوں  کے جوتوں کی چاپ سنتی ہے-  ابن حجر  نے اس  کا ذکر    فتح الباری میں کیا ہے

قَالَ الزَّيْنُ بْنُ الْمُنِيرِ جَرَّدَ الْمُصَنِّفُ مَا ضَمَّنَهُ هَذِهِ التَّرْجَمَةَ لِيَجْعَلَهُ أَوَّلَ آدَابِ الدَّفْنِ مِنَ إِلْزَامِ الْوَقَارِ وَاجْتِنَابِ اللَّغَطِ وَقَرْعِ الْأَرْضِ بِشِدَّةِ الْوَطْءِ عَلَيْهَا كَمَا يَلْزَمُ ذَلِكَ مَعَ الْحَيِّ النَّائِمِ وَكَأَنَّهُ اقْتَطَعَ مَا هُوَ مِنْ سَمَاعِ الْآدَمِيِّينَ مِنْ سَمَاعِ مَا هُوَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ

مصنف نے یہاں وقار کا ادب میں ذکر کیا ہے اور … چاپ کا کہ شدت سے زمین پر (قدم ) نہ مارا جائے  جیسا لازم آتا ہے زندہ سونے والے کے ساتھ  جیسا کہ (مصنف بخاری  یہاں )  قطع (الگ)  کر رہے ہوں  آدمیوں (کی چاپ ) کا سننا اس سننے سے جو فرشتوں کی وجہ سے ہو

امام بخاری نے باب باندھا ہے بَابُ الْمَيِّتُ يَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ  باب میت خفق نعال کو سنتی ہے جبکہ یہ الفاظ متن حدیث میں نہیں ہیں – اس پر زين الدّين على بن الْمُنِير  کا خیال ہے کہ    باب باندھنے  والے نے خفق نعال  سے  خفق کو انسانوں کے قدموں کی چاپ لیا ہے اور قرع کو فرشتوں کی چاپ  لیا ہے-   یعنی    آدمی کے قدم سے خفق  نکلتا ہے اور فرشتے کے قدم سے قرع

خفق  سے مرد  دھڑک یا دھمک  ہے-  قرع  کا مطلب   گونج  کے ساتھ   مارنا  ہے – یعنی انسانوں کے قدموں سے صرف دھمک  (خفق  )  ہو گی   لیکن  فرشتوں کے قدم  سے   زمین  پر زور  دار  گونج پیدا ہو گی  اس کو عربی میں دق  بھی  کہتے ہیں- عربی میں  قرع  کا لفظ  ہتھوڑی  سے ضرب لگانے پر بھی آتا  ہے

https://www.almaany.com/en/dict/ar-en/قَرْعَ/

اب ظاہر ہے یہ     الفاظ   کے  مفہوم  کی  تبدیلی ظاہر  کرتی ہے کہ یہ قدموں کی گونج  پیدا ہوتی ہے جو میت سنتی ہے    چونکہ  یہ اس دینا کا معاملہ نہیں ہو سکتا اس کی ایک ہی تاویل ممکن ہے کہ  دق و  ضرب     یا   زور کی آواز      عالم البرزخ میں   فرشتوں  کے اقدام  سے   بلند ہوتی ہو – میت کے دل  میں خوف پیدا ہو اور ہونے والے سوالات کے حوالے سے دہشت  طاری ہو

یہ اس عالم کا معاملہ پھر نہیں رہتا  اس کو عالم بالا  یہ عالم برزخ کی طرف  موڑا جائے گا-

       زين الدّين على بن الْمُنِير     اس طرح  صحیح بخاری و مسلم میں تطبیق  کرتے ہیں

  صحیح مسلم میں ہے

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا»،

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   میت کو جب  قبر میں رکھا جاتا ہے  وہ سنتی ہے  ان کے  خفق کو  جب  وہ  اس  سے دور ہوتے ہیں

اس میں اگرچہ  فرشتوں کا ذکر نہیں ہے  اس میں خفق  کا ذکر  ہے  یعنی  اب قرع    (زور کی آواز )نہیں بلکہ  دھمک پیدا ہوتی ہے –  اس کا مفہوم ہے کہ  اب سوال جواب کے بعد  جب فرشتے واپس جاتے ہیں تو اب  خفق  پیدا  ہوتی ہے

صحیح مسلم کی روایت کے  متن میں دفن کرنے والوں کا ذکر نہیں ہے   صرف  جانے  والوں  کے   قدموں کی دھمک کا ذکر ہے  -اس طرح ان روایات میں تطبیق  ہو جاتی ہے

=========
فهرست

محکم  آیات   قرآنی. 15

فہم  سلف  یا  بطل  پرستی.. 21

فہم سلف   کی مثال. 31

احساس  میت  کے دلائل.. 35

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ   کی وصیت.. 35

عمرو   رضی اللہ عنہ  کی وصیت  پر ایک اور نظر. 46

دیوبندی غلام رسول سعیدی کا ترجمہ اور شرح.. 51

اہل حدیث وحید الزمان کا ترجمہ… 52

اہل حدیث خواجہ محمد قاسم کا ترجمہ… 53

اہل حدیث صادق سیالکوٹی کا ترجمہ… 53

اہل حدیث ابو سعید سلفی کا ترجمہ… 54

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وصیت پر تیسری نظر. 58

سیاقتہ الموت یا  سیاق الموت.. 58

تنحر یا ینحر. 59

سماع     کے دلائل.. 62

عیسیٰ علیہ السلام کی قبر پر پکار. 62

قبر پر ایک بدو کی آمد 67

میت  کا چاپ  سننا-  حدیث قرع النعال پر ایک نظر. 71

روایت  میں عربی کی غلطی پر محققین کی آراء. 77

رواة پر محدثین کی آراء. 82

روایت پر علماء کا عمل… 85

الکلام المیت   کے دلائل.. 95

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے… 98

اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟. 101

روایت کی شرح میں اختلاف.. 106

ابو  ہریرہ  رضی عنہ  کا عقیدہ 111

زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ کا قصہ. 113

دور عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ. 120

كلام قليب البدر – معجزه يا آیت.. 126

عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف… 136

السلام علیک یا اہل القبور 143

جب کوئی  اپنے جاننے والے کی قبر پر گزرتا ہے تو. 144

وفات النبی پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

مبحث الاول :  واقعات و کلام

مرض وفات  النبی

واقعہ قرطاس

دوا  پلانے والا واقعہ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب وصیتیں

وفات اور آخری کلام

مبحث الثانی:  وفات   النبی پر  اجماع ، جنازہ ، تدفین

ابوبکر رضی الله عنہ کی تقریر اور اجماع صحابہ

نماز جنازہ؟

تدفین اور چادر کا ڈالا جانا

کیا  انبیاء وہاں دفن ہوتے ہیں جہاں وفات ہوتی ہے ؟

اہل تشیع  کی متفرق آراء

چادر کا ڈالا جانا

حجرہ عائشہ رضی الله عنہا میں تین چاند والی ضعیف روایت

عائشہ رضی الله عنہا کا ماتم کرنا اور قرآن کی آیات کا بکری کا کھا جانا

تبرکات سے نفع لینا

مبحث الثالث: حیات الانبیاء  فی القبر کا مسئلہ

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم   کی قبر  مطہر  جنت کا باغ ہے؟

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم    کی روح کا قبر میں واپس آنا یا   حیات النبی فی القبر کا  عقیدہ

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم      پر امت کا عمل پیش ہونے کا عقیدہ

انبیاء کے اجسام کا باقی رہنے کا عقیدہ

تمام  انبیاء علیھم  السلام  کا اپنی  قبروں  میں نماز پڑھنا

الله کا نبی زندہ ہے اس کو رزق دیا جاتا ہے

موسی علیہ السلام  کے لئے قبر میں نماز پڑھتے رہنے کا عقیدہ

بعد وفات انبیاء کا    حج کرنا   اور بیداری میں امتیوں سے ملاقات کرنا

عیسیٰ علیہ السلام کی قبر النبی پر آمد اور شریعت کی تعلیم حاصل کرنا

رسول الله صلی الله علیہ وسلم  پر ازواج مطہرات پیش ہونے کا عقیدہ

عائشہ رضی الله عنہا کا عقیدہ

واقعہ حرہ میں قبر النبی سے اذان کی آواز آنا

علماء کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم   کے جسد مطہر کا عرش عظیم سے   تقابل کرنا

حیات برزخی کی ایجاد

مبحث الرابع: قبر نبوی پر تعمیرات کا شرعی پہلو

اے الله میری قبر کو بت نہ   بننے  دیجئے گا

 گنبد کی تعمیر اور اس کا مقصد اور اس پر اختلاف امت

حجرہ عائشہ( رضی الله عنہا ) کو مزار کہنے کا رواج

قبور انبیاء پر مسجدوں کی تعمیر

زیارت قبور پر روایات

قبر نبوی کے حوالے سے غلط عقائد و اعمال

خاتمہ

پیش لفظ

قرآن ایک مسلمان کے لئے عقائد کی اساس ہے – کتاب الله  میں وہ تمام عقائد موجود ہیں جو اخروی فلاح کے لئے ضروری ہیں-  الله تعالی نے خبر دی ہے کہ صرف اس   كي  ذات ابدی ہے ،   جو الاول ہے اور الحیی القیوم   ہے –  انبیاء  علیہم السلام اس دنیا میں پیدا ہوئے ان کو الله نے اپنی دعوت کے لئے منتخب کیا    اور جب وہ اس    كام کو پورا کر گئے تو وہ بھی  موت سے ہمکنار ہوئے –

یہ کتاب مختلف  مباحث  پر مشتمل ہے چونکہ تمام کا تعلق حیات الانبیاء فی القبر سے ہے اس لئے اس کتاب کا نام وفات النبی رکھا گیا ہے جس میں مرض وفات کے  واقعات کا بھی    تذکرہ ہے اور تدفین نبوی صلی الله علیہ وسلم کا بھی-

فرقے سمجھتے ہیں  کہ  الله تعالی  نے جب فرمایا کہ شہید زندہ ہیں ان کو مردہ مت کہو تو اس سے مراد ان کی قبر میں زندگی ہے جبکہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس  نہیں – ایسا ممکن نہیں کیونکہ     حدیث  نبوی  میں ہے کہ  شہید  چاہتا ہے کہ اس کو واپس   دنیا میں  بھیجا  جائے تاکہ وہ پھر جہاد کرے   لیکن  الله اپنی سنت کو نہیں بدلتا ،ان کو اس دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا –  فرقے پہلے شہید کو زندہ کرتے ہیں پھر   کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا درجہ  شہید سے بلند ہے لہذا وہ  بھی زندہ   ہیں – یہ ان کی قیاسی  دلیل ہے جس کا رد ابو بکر رضی الله عنہ نے اپنی تقریر میں یہ کہہ کر کر دیا کہ محمد کو موت آ چکی-   فرقوں کے نزدیک انبیاء کے لئے موت کا لفظ ادا کرنا ان کی توہین ہے –  ان کا یہ فتوی سب سے پہلے   ابو بکر رضی الله عنہ پر  لگتا ہے-

   اسلامی فرقوں کا  عقیدہ ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی آپ کو دفن کیا گیا اور آپ کی قبر مدینہ منورہ میں ہے ۔ لیکن  ان کا آپس کا جزوی اختلاف اس پر ہے کہ  بعد از وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا جسم قبر میں  میت یا مردہ نہیں ہے  بلکہ اللہ نے آپ کو حیات عطا فرما دی ہے ۔    اس کی صریح دلیل ان کے نزدیک    اعادہ روح  النبی والی روایت    ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب کوئی سلام کہتا ہے تو روح النبی   جسم میں لوٹ آتی ہے یہاں تک کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں  – یہ   روایت  دور عباسی میں مشہور ہوئی ہے   اور  یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا روح واپس آنے کا ذکر ہے

 دیو بندی کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی روح  جسم میں سے نہیں نکلی بلکہ قلب  میں سمٹ گئی –   رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں   اور نماز پڑھتے ہیں – نماز وہی قبول ہوتی ہے جس میں اذان ہو لہذا یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  قبر میں ہی اذان دیتے ہیں پھر نماز پڑھتے ہیں –   خیال رہے کہ ان کے نزدیک  نماز پڑھنے کا مطلب ہے کہ قیام  و رکوع  و سجدہ و قعدہ    یعنی مکمل نماز جو  ایک صحت یاب مسلم پڑھتا ہے

بریلوی  کہتے ہیں   کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں  ان کی ازواج   بھی زندہ ہیں اور ان سب کی قبر میں ملاقات ہوتی ہے –   اور قبر میں    آپ   صلی الله علیہ وسلم  کو رزق دیا جاتا ہے- آپ   صلی الله علیہ وسلم قبر میں نماز بھی پڑھتے ہیں

اہل حدیث کہتے ہیں   رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں   – اپ سلام کا جواب دیتے ہیں – ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آپ سنتے ہیں  مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم – بعض کہتے ہیں کہ  سنتے نہیں صرف جواب دیتے ہیں مثلا البانی –  بعض  اس حوالے سے مجہول الکیفیت کا قول کہتے ہیں کہ الله کو پتا ہے  لیکن نبی قبر میں ہی زندہ ہیں  اس کیفیت کا نام انہوں نے حیات برزخی رکھا ہوا ہے –

وہابی کہتے ہیں روح جنت میں ہے لیکن  قبر میں اس کا تعلق ہوتا ہے  مثلا   بن باز  وغیرہ-  اور  بعض کہتے ہیں   روح جسم میں آتی ہے جیسے صالح المنجد  اور بعض  کہتے ہیں انبیاء آج تک حج کر رہے ہیں جیسے    المشھور حسن سلمان-

اس طرح بریلوی اور دیو بندی کہتے ہیں  کہ قبر میں  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی دنیا جیسی زندگی ہے اور اہل حدیث اور سلفی فرقے کہتے ہیں یہ زندگی معلوم نہیں کیسی ہے  لیکن  ان کو اس میں شک نہیں کہ روح النبی قبر میں جب چاہے  آ سکتی ہے –  اہل سنت کے ان فرقوں کے نزدیک حیات النبی فی القبر ایک اتفاقی و  اجماعی  عقیدہ  ہے    ان میں   اختلاف اعادہ روح  النبی کا ہے –

راقم کہتا ہے یہ عقیدہ ابو بکر رضی الله عنہ کا نہیں  تھا  جو آج ان فرقوں کا ہے  اور اصحاب رسول کا اجماع  وفات اور موت النبی پر ہے-

  اس کتاب میں ان فرقوں کے  علماء  اقوال جمع کیے گئے ہیں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کس کا موقف قرآن کے قریب ہے- اللہ ہم کو حق کی طرف ہدایت دے بے شک انسان کو اندھیرے سے اجالنے میں لانا صرف اسی کے بس میں ہے

ابو شہریار

٢٠١٨

عیسیٰ کی قبر نبوی پر آمد

احادیث میں اتا ہے عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد جب مدینہ پہنچیں گے تو قبر نبوی پر  آئیں گے

امام حاکم اور امام الذھبی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں – مستدرک الحاکم کی  سند ہے

أَخْبَرَنِي أَبُو الطَّيِّبِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْحِيرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ثنا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَهْبِطَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، وَإِمَامًا مُقْسِطًا وَلَيَسْلُكَنَّ فَجًّا حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيِّتِهِمَا وَلَيَأْتِيَنَّ قَبْرِي حَتَّى يُسَلِّمَ وَلَأَرُدَّنَ عَلَيْهِ» يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: ” أَيْ بَنِي أَخِي إِنْ رَأَيْتُمُوهُ فَقُولُوا: أَبُو هُرَيْرَةَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ»

ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم حاکم و عادل ہو کر ہبوط کریں گے ایک عدل والے امام ہوں گے اور فج (فَجّ الرَّوْحَاء ) میں جا رکیں گے وہاں سے حج و عمرہ کریں گے یا اس کے درمیان سے اور پھر میری قبر تک آئیں گے جب سلام کہیں گے میں جواب دوں گا- ابو ہریرہ نے کہا اے بھتیجے جب ان کو دیکھو کہو ابوہریرہ اپ کو سلام کہتے ہیں – حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح سند سے ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی اس متن سے

یہ روایت ایک دوسرے طرق سے مسند ابی یعلی میں  بھی ہے

قَالَ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ: ثنأ احمد بْنُ عِيسَى ثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عن أبي صخر أن سعيداً المقبري أخبره أنه سمع أباهريرة يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: ” وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ لينزلن عيسى ابن مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلًا فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وليقتلن الخنزير وليصلحن ذات البين ولتذهبن الشحناء وليعرضن عليه المال فلا يقبله ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي فَقَالَ: يَا محمد لأُجِيبنَّه

ابو ہریرہ نے کہا میں نے رسول الله سے سنا کہ وہ جس کے ہاتھ میں ابو قاسم کا نفس  ہے عیسیٰ ضرور نازل ہوں گے امام عادل حاکم بن کر، صلیب توڑ دیں گے، سور کو قتل کریں گے اور اپس کی کدورت ختم کریں گے اور ان پر مال پیش ہو گا نہ قبول کریں گے پھر جب میری قبر پر کھڑے ہوں گے  کہیں گے اے محمد – میں جواب دوں گا

الهيثمي مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.

اس کے رجال صحیح کے ہیں

 مسند ابو یعلی کے محقق حسين سليم أسد کہتے ہیں إسناده صحيح

کتاب أشراط الساعة وذهاب الأخيار وبقاء الأشرار  از عبد الملك بن حَبِيب بن حبيب بن سليمان بن هارون السلمي الإلبيري القرطبي، أبو مروان (المتوفى: 238هـ)   میں اس کا  تیسرا  طرق ہے

قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: وَحَدَّثَنِي ابْنُ الْمَاجِشُونِ وَغَيْرُهُ عَنِ الدَّرَاوَرْدِيِّ عَنِ الْمُغِيرَةِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَمُرَّنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ, حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا بِالْمَدِينَةِ وَلَيَقِفَنَّ عَلَى قَبْرِي وَلَيَقُولَنَّ يَا مُحَمَّدُ، فَأُجِيبُهُ   وَلَيُسَلِّمَنَّ عَلَيَّ فَأَرُدُّ عَلَيْهِ السَّلامَ.

وَحَدَّثَنِيهِ أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي صَخْرٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ, عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

المغيرة بن حَكيم الصَّنْعانيُّ الأبناويُّ نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم حج و عمرہ پر نکلیں گے مدینہ سے وہ میری قبر پر رکیں گے اور بولیں گے اے محمد ، پس میں جواب دوں گا اور وہ سلام کہیں گے تو میں جوابا ان کو سلام کہوں گا

اور اس کو َاصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي صَخْرٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے بھی روایت کیا گیا ہے

کتاب المعرفة والتاريخ  از يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ وَابْنُ بُكَيْرٍ ومُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ عَنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ أبا هريرة يقول: قال رسول الله صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ليسهلنّ ابن مريم بِفَجِّ [1] الرَّوْحَاءِ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ لَيُثَنِّيهِمَا

حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ نے خبر دی کہ ابو ہریرہ سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے ابن مریم فَجِّ  الرَّوْحَاءِ سے حج و عمرہ  کریں گے

یہ صحیح مسلم میں بھی ہے یہ اور بات ہے کہ راوی خود کہتا ہے اس کو معلوم نہیں یہ کلام حدیث نبوی ہے یا ابو ہریرہ کا اپنا کلام ہے – تاریخ دمشق اور مسند احمد میں ہے

فزعم حنظلة أن أبا هريرة قال يؤمن به قبل موت عيسى فلا أدري هذا كله في حديث النبي (صلى الله عليه وسلم) أو شئ قاله أبو هريرة

حَنْظَلَةَ بْنَ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيَّ نے دعوی کیا کہ ابو ہریرہ نے کہا یہ سب عیسیٰ کی موت سے قبل ایمان لائیں گے پس مجھے معلوم نہیں یہ سب حدیث النبی صلی الله علیہ وسلم تھی یا ابو ہریرہ نے خود کوئی چیز کہی

البانی نے اس روایت کو قبری کے الفاظ کے ساتھ رد کیا ہے لیکن جو علتین بیان کی ہیں وہ ہر طرق میں نہیں-  اوپر جو طرق ہیں ان سے معلوم ہوا کہ روایت میں عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ  کا تفرد نہیں ہے  جس کو مجہول کہا جاتا ہے – اس میں ابو صخر حمید بن زیاد کا تفرد بھی نہیں جس کو ضعیف کہا جاتا ہے اور سعید بن ابی سعید المقبری کا بھی تفرد نہیں جس کو آخری عمر میں  مختلط  کہا گیا ہے اور ابن اسحٰق کا تفرد بھی نہیں جس کو مدلس کہا گیا ہے –  اس میں ایک راوی کا تفرد ہی نہیں چار طرق ہیں جن میں لوگ الگ الگ ہیں – سوال ہے کہ اس روایت کا مقصد کیا ہے ؟   راقم کے نزدیک روایت کا  مقصد یہ ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کا معجزہ دکھایا گیا ہے چونکہ مردوں کو زندہ کرتے تھے وہ قبر النبی پر آ کر کہیں گے اے محمد تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم زندہ ہو جائیں گے جواب دیں گے – اغلبا یہ کعب احبار کا  کلام ہے جو ابو ہریرہ نے بیان کیا اور لوگ حدیث سمجھے

کتاب التمييز( ص /175 ) کے مطابق امام مسلم نے بسر بن سعيد کا قول بیان کیا
حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حدیث میں حفاظت کرو – الله کی قسم ! ہم دیکھتے ابو ہریرہ کی مجالس میں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے اور وہ (باتیں) کعب ( کی ہوتیں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روایت کرتے جو حدیثیں رسول الله سے ہوتیں

احمد العلل میں کہتے ہیں

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .

احمد  نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي  حدیث کے بدلے حدیث لیتے – وہ حدیث لاتے – اعمش نے  کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے روایت کیا – اعمش نے  کہا : ابراھیم  النخعي،   ابوہریرہ کی احادیث  میں چیزوں کو ترک کر دیتے

ابن عساکر نے تاریخ الدمشق میں روایت دی کہ

 الثوري، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ما كانوا يأخذون من حديث أبي هريرة إلا ما كان حديث جنة أو نار

 ابراھیم النخعي نے کہا  ہم ابو ہریرہ  کی احادیث کو نہیں لیتے  سوائے اس کے جس میں جنت جہنم کا ذکر ہو

ابن قتیبہ المعارف میں ذکر کرتے ہیں

وَأَمَّا قَوْلُهُ: قَالَ خَلِيلِي، وَسَمِعْتُ خَلِيلِي”. يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَأَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لَهُ: “مَتَى كَانَ خَلِيلَكَ”؟ “. …. وَقَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا

ابو ہریرہ کا قول میرے دوست نے کہا یا میں نے اپنے دوست سے سنا یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم سے – تو بے شک علی نے ابو ہریرہ سے کہا تم کب سے رسول اللہ کے دوست بن گئے؟

اور رسول الله کا تو قول ہے کہ میں کسی کو اس امت میں خلیل کرتا تو ابو بکر کو کرتا

بہر حال سابقوں اولون کو ابو ہریرہ کا بہت روایت کرنا پسند نہ تھا

نعمان الوسی  میں لکھتے ہیں

لا يبعد أن يكون عليه السّلام قد علم في السماء بعضا ووكل إلى الاجتهاد والأخذ من الكتاب والسنّة في بعض آخر، وقيل: إنه عليه السّلام يأخذ الأحكام من نبينا صلّى الله عليه وسلم شفاها بعد نزوله وهو في قبره الشريف عليه الصلاة والسّلام، وأيد
بحديث أبي يعلى «والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري وقال يا محمد لأجيبنه» .
وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسّلام روحانية ولا بدع في ذلك فقد وقعت رؤيته صلّى الله عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة،

اور یہ بعید نہیں جھ عیسیٰ علیہ السلام کو اسمان میں شریعت محمدی کا کچھ علم دیا جائے  … اور کہا جاتا ہے کہ وہ احکام اخذ کریں گے جب وہ قبر النبی پر آئیں گے سلام کہنے جیسا ابو یعلی میں حدیث ہے … اور یہ جائز ہے کہ ان  کا روجانی  اجتماع ہو جیسا اس امت کے بہت سے کاملین نے جاگتے میں رسول الله کو دیکھا ہے

موت و نیند پر اضطراب


فرقہ پرستوں کا عقیدہ   جمہور صحیح عقیدہ
نیند میں روح کو جسم سے نکال لیا جاتا ہے –   زندہ کی روح  عالم بالا جاتی ہے  جہاں روح کی  ملاقات  مردوں کو روح سے ہوتی ہے (ابن قیم    فی کتاب الروح ،  ابن تیمیہ فی الفتاوی)

اس  قول  سے خواب کی تعبیر کا عقیدہ    ان فرقوں نے گھڑا   ہے

روح یا نفس جسد میں ہی  قید رہتا ہے  اس کو توفی یا قبض   کرنا کہا   گیا ہے  یعنی پکڑنا یا قبضہ میں لینا   اور نفس کے  ارسال سے مراد نفس کو ( واپس جسد میں ہی ) چھوڑنا ہے

نیند میں روح  نہ تو عالم بالا میں جاتی ہے نہ ہی  زندہ  کی روح کی مردوں کی روح سے ملا قات ہوتی ہے      – اس سے متعلق تمام روایات  ضعیف ہیں

نیند
سلفی  و غیر مقلد علماء:

بد کاروں کی روحیں  برھوت  یمن میں ہیں   (وہابی  علماء، ابن تیمیہ )   نیکوکاروں  کی  روحیں  شام میں جابیہ میں ہیں   (عبد الوہاب النجدی) – روح  کا جسم سے  شعاع جیسا تعلق رہتا ہے اور جسد میں آتی جاتی رہتی ہے   – (ابن قیم    فی کتاب الروح ،  ابن تیمیہ فی الفتاوی   اور وہابی و اہل حدیث علماء   قبل تقسیم ہند)

روح جسد میں   ایک دفعہ سوال جواب کے وقت آتی ہے اس کے بعد   جنت و جہنم میں جاتی ہے  (اہل حدیث پاکستان کا عقیدہ جدید    سن ٢٠٠٠  ع کے بعد سے)

عود روح ہونے پر مردہ زندہ  ہو جاتا ہے

(قاضی ابو یعلی،    شیخ الکل  نذیر  حسین، بدیع الدین  راشدی )

عود  روح ہونے پر مردہ ، مردہ ہی ہے  (ابن عبد الھادی،   اہل حدیث  فرقہ پاکستان)-

اس    خود ساختہ قول    سے حیات برزخی  کا   تصور  نکالا گیا ہے

 

تقلیدی  علماء:

روح جسم میں عجب الذنب میں سمٹ جاتی ہے   (  ملا علی القاری   فی مرقاة    شرح مشكاة )

عام  لوگوں کی روحیں  زمیں و آسمان کے درمیان ہیں  (النسفی     فی  شرح العقائد)

ارواح  قبرستا نوں میں (یعنی جسد  میں)  ہی رہتی ہیں (التمہید از ابن عبد البر   اور   بیشتر دیو بندی و بریلوی   علماء )

ان     فرقوں کے نزدیک   عود  روح ہوتا ہے  اور  مردہ   دفنانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتا ہے سوائے معدودے چند کے یہ ان کا متفقہ  جمہور کا عقیدہ ہے

روح      کا  توفی یا  قبض  ( یعنی پکڑا اور قبضہ میں ) کیا جاتا ہے  لیکن روح یا نفس  کو جسم سے نکال  بھی  لیا جاتا ہے-  قرآن میں   توفی کے ساتھ ساتھ اخراج بھی کہا گیا ہے –  روح  جسم سے مکمل الگ ہو جاتی ہے    –  قرآن میں امساک روح کا ذکر ہے کہ جس پر  موت حکم لگتا ہے وہ مر جاتا ہے اور اس کی روح کو   روک  لیا جاتا ہے  یعنی  اخراج کے بعد  واپس جسد میں نہیں ڈالا جاتا

 

روح   دنیا میں واپس  کسی صورت نہیں آتیں الا یہ کہ الله کا کوئی معجزہ ہو جن کا صدور    ہو چکا   اور قرآن میں اسکی خبر  دے دی گئی

 

روح اب روز محشر ہی اس دنیا میں یا زمین میں جسد میں ڈالی جائے گی

 

موت

نوٹ:  فرقوں کا دعوی ہے کہ یہ امت گمرآہی ور جمع نہ ہو گی لہذا     ان کا عقیدہ کا اضطراب  صواب ہے – واضح رہے کہ یہ قول کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی کسی صحیح سند سے نہیں بلکہ ضعیف و متروک راویوں کا بیان کردہ ہے

عمرو بن العاص کی وصیت پر تیسری نظر

فرقہ اہل حدیث جن  کا دعوی ہے کہ وہ  کتب  احادیث کو جانتے ہیں – ان کی علمی سطحیت کا عالم یہ ہوا ہے کہ عصر حاضر کے ان کے چند   محققین کی جانب سے  ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے خلاف باطل پروپیگنڈا  جاری ہے کہ  ڈاکٹر مرحوم نے  صحیح مسلم کی روایت میں مطلب براری کے لئے اس کا متن تبدیل کیا اور روایت  کے وہ الفاظ نقل کیے جو درحقیقت اس کے نہیں – اس سلسلے میں ان کو جو ” ناریل”  ہاتھ لگا ہے وہ یہ ہے کہ عثمانی صاحب نے  عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وہ روایت جس میں ان کی جان کنی کے عالم کا ذکر ہے – اس میں الفاظ کو تبدیل کیا لہذا کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے  سیاقتہ الموت کو سیاق الموت  اور تنحر کو ینحر کر دیا تاکہ اپنا مدعا ثابت کر سکیں

سیاقتہ الموت یا  سیاق الموت

یہ الفاظ کتاب مشكاة المصابيح از محمد بن عبد الله الخطيب العمري، أبو عبد الله، ولي الدين، التبريزي (المتوفى: 741هـ) میں ہیں

وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ لِابْنِهِ وَهُوَ فِي سِيَاقِ الْمَوْتِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي. رَوَاهُ مُسلم

احادیث کی تخریج کی کتاب جامع الأصول في أحاديث الرسول از مجد الدين أبو السعادات المبارك بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الكريم الشيباني الجزري ابن الأثير (المتوفى : 606هـ) میں ہے کہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں
–عبد الرحمن بن شماسة المهدي – رحمه الله -: قال: «حضرنا عمرو بن العاص [وهو] في سِياقِ الموت، فبكى طويلاً، وحول وجهه إلى الجدار
ابن اثیر کے مطابق بھی صحیح مسلم میں الفاظ ہیں سیاق الموت

کتاب جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد از محمد بن محمد بن سليمان بن الفاسي بن طاهر السوسي الردواني المغربي المالكي (المتوفى: 1094هـ) کے مطابق صحیح مسلم کی اس حدیث کے الفاظ ہیں
عبد الله بن شماسة المهري: حضرنا عمرو بن العاص وهو في سياق الموت فبكى طويلًا وحوَّل وجهه إلى الجدار فجعل ابنه يقول: ما يبكيك يا أبتاه؟ أما بشرك

معلوم ہوا کہ ہے قدیم نسخوں سیاقه الموت کی بجائے سیاق الموت بھی لکھا تھا

سیاق الموت یا سیاقه الموت میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے

شرح صحیح مسلم از النووی میں ہے
وَأَمَّا أَلْفَاظُ مَتْنِهِ فَقَوْلُهُ (فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ) هُوَ بِكَسْرِ السين أى حال حضور الموت
اور متن کے الفاظ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ … یعنی موت کے حاضر ہونے کے حال پر تھے

مبارکپوری اہل حدیث کتاب مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں
يقال: ساق المريض نفسه وسيق إذا شرع في نزع الروح.
یہ نزع الروح کا وقت ہے

یہی مفہوم عربی لغت میں لکھا ہے جس کا ذکر الدكتور موسى شاهين لاشين کتاب فتح المنعم شرح صحيح مسلم میں کرتے ہیں
وفي القاموس: ساق المريض شرع في نزع الروح.

محمد الأمين بن عبد الله الأُرَمي العَلَوي الهَرَري الشافعي کتاب الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم میں کہتے ہیں
أن عمرًا (في سياقة الموت) أي في سكرة الموت وحضور مقدماته
عمرو سیاق الموت میں تھے یعنی سکرات الموت میں تھے اس کے مقدمات کی حاضری پر

اس حال میں زبان صحابی سے جو کلام ادا ہوا اس کو علماء نے بدعت قرار دیا ہے جس میں محمد بن صالح العثيمين بھی ہیں
خواجہ محمد قاسم کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں عمرو بن العاص کا خیال صحیح نہیں تھا

تنحر یا ینحر

شرح السنة   از  البغوي الشافعي (المتوفى: 516هـ)  میں اس روایت میں ہے

وَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ، وَهُوَ يَبْكِي: أَنَا مِتُّ فَلا يَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي، فَسُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ سَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي

یہاں بھی  يُنْحَرُ ہے

ایمان ابن  مندہ المتوفي ٣٩٥ ھ میں ہے

أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى الزُّجَاجُ، ح، وَأَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، ثَنَا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ، قَالَ: حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ فَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْحَائِطِ يَبْكِي طَوِيلًا وَابْنُهُ يَقُول….. فَإِذَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ، وَلَا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، فَإِذَا فَرَغْتُمْ مِنْ دَفْنِي، فَامْكُثُوا حَوْلِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٌ، وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا فَإِنِّي آنَسُ بِكُمْ حَتَّى أَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي

ابن مندہ کے مطابق متن میں یہاں    يُنْحَرُ ہے

التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبيراز أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) میں ہے

وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ لَهُمْ فِي حَدِيثٍ عِنْدَ مَوْتِهِ “إذَا دَفَنْتُمُونِي أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٍ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ رُسُلَ رَبِّي”

اور صحیح مسلم میں ہے کہ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے اپنی موت کے وقت ان سے کہا … “إذَا دَفَنْتُمُونِي أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا يُنْحَرُ جَزُورٍ وَيُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَعْلَمَ مَاذَا أُرَاجِعُ رُسُلَ رَبِّي”

یہاں بھی  يُنْحَرُ ہے

البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير از  ابن الملقن   الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) کے مطابق

وَمِنْهَا: حَدِيث عَمْرو بن الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه أَنه قَالَ: «إِذا دفنتموني فسنوا عَلّي التُّرَاب سنّا، ثمَّ أقِيمُوا حول قَبْرِي قدر مَا ينْحَر جزور وَيقسم لَحمهَا؛ حَتَّى أستأنس بكم، وَأعلم مَاذَا أراجع رسل رَبِّي» . رَوَاهُ مُسلم فِي «صَحِيحه» فِي كتاب الْإِيمَان، وَهُوَ بعض من حَدِيث طَوِيل.

حَدِيث عَمْرو بن الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه  میں ينْحَر ہے  جس کو امام مسلم نے صحیح میں روایت کیا ہے

ڈاکٹر عثمانی سے پہلے بھی لوگ اس روایت میں  سیاق الموت اور ینحر  کے الفاظ نقل کرتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں یہ صحیح مسلم کے ہیں

 معلوم ہوا فرقہ پرستوں کا پروپیگنڈا   بالکل باطل ہے کہ ڈاکٹر صاحب  نے الفاظ اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے تبدیل کیے

روایات کے الفاظ مختلف نسخوں میں الگ الگ ہوئے اس وجہ سے یہ اختلاف پیدا ہوا چونکہ صحیح مسلم کا وہ نسخہ جو برصغیر میں ہے  اس میں وہ الفاظ نہیں تھے جو اوپر دیے گئے ہیں  طاغوت پرستوں  نے عوام کے لئے شوشہ چھوڑا کہ یہ ڈاکٹر  نے اپنے مقصد حاصل کرنے کے لئے تبدیل کیے ہیں جبکہ  ان درس حدیث  دینے والوں کو تو خوب معلوم ہو گا کہ یہ تبدیلی کیوں اور کیسے ہوتی ہے – یہ حال ہوا ہے امت کے علماء کا

یاد رہے کہ الله کا حکم ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو  اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو  عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو

محدثین سجین اور برھوت

قرآن میں ہے

وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (20) يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ
 اورتم کیا جانو عِلِّيُّونَ کیا ہے- کتاب ہے رقم کی ہوئی- جس کی نگہبانی مقرب کرتے ہیں

فرمایا

وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَرْقُومٌ
 اور تم کیا جانو سجین کیا ہے-  کتاب ہے رقم کی ہوئی

لیکن افسوس اقوال رجال کی بنیاد پر قرآن کی ان آیات کا مفہوم تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ عقائد باطلہ کا اثبات کیا جا سکے اور یہ کوئی آج کل کی بات نہیں صدیوں سے چلی آئی روایت ہے کہ معنی و مفاہیم قرآن کو اپنے فرقوں کے سانچوں میں ڈھالا جائے

تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم کے مطابق سجین کے لئے

عَنِ السُّدِّيِّ وَمَا تَحْتَ الثَّرَى قَالَ: هي الصخرة التي تحت الأَرْض السابعة، وهي خضراء وهو سجين الّذِي فيه كتاب الكفار
السدي نے کہا یہ تحت الثری میں ہے یہ چٹان ہے ساتویں زمین کے نیچے جو سبز ہے اور یہ سجین ہے جس میں کفار کی کتاب ہے

یہ سند ضعیف ہے السدی مجروح راوی ہے

تفسیر طبری کی روایت ہے
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني جرير بن حازم، عن سليمان الأعمش، عن شمر بن عطية، عن هلال بن يساف، قال: كنا جلوسا إلى كعب أنا وربيع بن خيثم وخالد بن عُرْعرة، ورهط من أصحابنا، فأقبل ابن عباس، فجلس إلى جنب كعب، فقال: يا كعب أخبرني عن سِجِّين، فقال كعب: أما سجِّين: فإنها الأرض السابعة السفلى، وفيها أرواح الكفار تحت حدّ إبليس.

هلال بن يساف نے کہا میں اور ربيع بن خيثم اور خالد بن عُرْعرة کعب کے پاس بیٹھے تھے اور ہمارے اصحاب کا ایک ٹولہ پس ابن عباس آئے اور کعب کے برابر بیٹھ گئے اور کہا اے کعب ہم کو سجین کی خبر دو پس کعب الاحبار نے کہا سجین یہ تو ساتویں زمین ہے نیچے جس میں کفار کی روحیں ہیں ابلیس کے قید خانہ کے نیچے

تفسیر طبری میں اسی سند سے ہے

حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني جرير بن حازم، عن الأعمش، عن شمر بن عطية، عن هلال بن يساف، قال: سأل ابن عباس كعبًا وأنا حاضر عن العليين، فقال كعب: هي السماء السابعة، وفيها أرواح المؤمنين
ابن عباس نے العليين پر سوال کیا کعب نے کہا ساتواں آسمان جس میں مومنوں کی روحیں ہیں

دونوں کی سند منقطع ہے کتاب الاکمال کے مطابق
وفي كتاب «سؤالات حرب الكرماني» قال أبو عبد الله: الأعمش لم يسمع منه شمر بن عطية
اعمش کا سماع شمر بن عطية سے نہیں ہے

بعض جہلا نے اس کعب الاحبار کو کعب بن مالک رضی الله عنہ بنا دیا ہے یا کعب الاحبار کو صحابی سمجھا ہے جبکہ کعب الاحبار صحابی نہیں ہے

یہود کا قول ہے کہ جہنم زمین میں ہے اور اس کا ایک دروازہ ارض مقدس میں ہے

The statement that Gehenna is situated in the valley of Hinnom near Jerusalem, in the “accursed valley” (Enoch, xxvii. 1 et seq.), means simply that it has a gate there. It was in Zion, and had a gate in Jerusalem (Isa. xxxi. 9). It had three gates, one in the wilderness, one in the sea, and one in Jerusalem (‘Er. 19a).

Jewish Encyclopedia, GEHENNA
http://www.jewishencyclopedia.com/articles/6558-gehenna

یہ عبارت کہ جہنم ہنوم کی وادی میں یروشلم کے پاس ہے ، پھٹکار کی وادی میں (انوخ ٢٧ ، ١ ) کا سادہ مطلب ہے کہ وہاں اس (جہنم) کا دروازہ ہے- یہ (جہنم) صیہون (بیت المقدس کا ایک پہاڑ) میں تھی اور دروازہ یروشلم میں تھا (یسیاہ باب ٣١: 9 ). اس کے تین دروازے (کھلتے) تھے ایک صحرآ میں، ایک سمندر میں، ایک یروشلم میں

لہذا کعب الاحبار نے جو بھی بیان کیا یا جو اس سے منسوب کیا گیا وہ اسرائیلات میں سے ہے قول نبوی نہیں ہے

تفسیر طبری کی دوسری روایت ہے
حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس، في قوله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) يقول: أعمالهم في كتاب في الأرض السفلى.

عطیہ عوفی نے ابن عباس سے روایت کیا کہ قول الله تعالی (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) کہا یہ کتاب ہے جس میں ان کے اعمال ہیں جو زمین سفلی میں ہے

محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية العوفى شیخ طبری ہیں – کتاب المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کے مطابق
سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد، العوفي، البغدادي، والد محمد بن سعد، شيخ الطبري ہے

عطية بن سعد، العوفي، سخت مجروح راوی ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص بن حميد، عن شمر، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار، فقال له ابن عباس: حدِّثني عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ … ) الآية، قال كعب: إن روح الفاجر يصعد بها إلى السماء، فتأبى السماء أن تقبلها، ويُهبط بها إلى الأرض فتأبى الأرض أن تقبلها، فتهبط فتدخل تحت
سبع أرضين، حتى ينتهي بها إلى سجين، وهو حدّ إبليس، فيخرج لها من سجين من تحت حدّ إبليس، رَقّ فيرقم ويختم ويوضع تحت حدّ إبليس بمعرفتها
شمر نے کہا ابن عباس کعب الاحبار کے پاس پہنچے اس سے کہا الله کے قول پر بیان کرو- کعب نے کہا فاجر کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان اس کو قبول کرنے میں کراہت کرتا ہے اس کو زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے تو زمین کراہت کرتی ہے تو اس کو ساتویں زمین میں داخل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سجین میں جا پہنچتی ہے جو ابلیس کی حد ہے .. وہاں ایک ورقه نکلتا ہے جس میں رقم کیا جاتا ہے اور مہر لگائی جاتی ہے اور رکھا جاتا ہے ابلیس کے قید کے نیچے جاننے کے لئے

اسی سند سے تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص، عن شمر بن عطية، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فسأله، فقال: حدثْنِي عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الأبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ … ) الآية، فقال كعب: إن الروح المؤمنة إذا قُبِضت، صُعد بها، فَفُتحت لها أبواب السماء، وتلقَّتها الملائكة بالبُشرَى، ثم عَرَجُوا معها حتى ينتهوا إلى العرش،
فيخرج لها من عند العرش فيُرقَم رَقّ، ثم يختم بمعرفتها النجاة بحساب يوم القيامة، وتشهد الملائكة المقرّبون.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے عِلِّيِّينَ سے متعلق پوچھا تو کعب نے کہا مومنوں کی روحیں جب قبض ہوتی ہیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے بشارت دیتے ہیں پھر بلند ہوتی ہیں یھاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں پس عرش کے پاس ایک ورقه ہے جس میں رقم کرتے ہیں پھر مہر لگتی ہے معرفت کے لئے کہ قیامت میں حساب سے نجات ہو گی اور مقرب فرشتے گواہ بنتے ہیں

دونوں کی سند ایک ہے ضعیف ہے
میزان کے مطابق حفص بن حميد، أبو عبيد القمى کو ابن المديني: مجهول کہتے ہیں
دوسرے راوی يعقوب بن عبد الله القمي کو الدارقطني ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا ابن نمير، قال: ثنا الأعمش، قال: ثنا المنهال بن عمرو، عن زاذان أبي عمرو، عن البراء، قال: (سِجِّينٍ) الأرض السفلى.
منہال بن عمرو نے زاذان سے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا سجین نچلی زمین ہے

دوسری سند ہے
حدثنا أبو كُرَيب، قال: ثنا أبو بكر، عن الأعمش، عن المنهال، عن زاذان، عن البراء، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وذكر نفس الفاجر، وأنَّهُ يُصعَدُ بها إلى السَّماء، قال: ” فَيَصْعَدُون بها فَلا يمُرُّونَ بِها عَلى مَلإ مِنَ المَلائِكَة إلا قالُوا: ما هَذَا الرُّوحُ الخَبِيثُ؟ قال: فَيَقُولُونَ: فُلانٌ بأقْبَحِ أسمَائِهِ التي كان يُسَمَّى بها في الدنيا
حتى يَنْتَهوا بِهَا إلى السَّماء الدُّنْيا، فيَسْتَفْتِحُونَ لَهُ. فَلا يُفْتَحُ لَهُ، ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” (لا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ) فَيَقُولُ اللهُ: اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي أسْفَلِ الأرْضِ فِي سجِّينٍ فِي الأرْضِ السُّفْلَى”.

زاذان نے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا … اس کی کتاب کو زمین میں نیچے سجین میں لکھو جو الأرْضِ السُّفْلَى ( زمین کا نچلا حصہ) ہے

زاذان اہل علم کے نزدیک مضبوط راوی نہیں اور غلطیاں کرتا ہے

البتہ اس کو صحیح کہنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ سجین ایک مقام کہا جا رہا ہے جبکہ قرآن میں صریح اس کو کتاب کہا گیا ہے

مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ میں ہے

3539 – عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: عِلِّيِّينَ قَالَ: «فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ عِنْدَ قَائِمَةِ الْعَرْشِ الْيُمْنَى»
معمر نے قتادہ بصری سے روایت کیا کہ عِلِّيِّينَ ساتویں آسمان پر ہے عرش کے داہنا پایہ کے پاس

راقم کہتا ہے عرش کو تو مسلسل فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے

محدثین کہتے ہیں
قَالَ أَبُو حَاتِم مَا حدث معمر بن رَاشد بِالْبَصْرَةِ فَفِيهِ أغاليط
ابو حاتم نے کہا معمر نے جو بصرہ میں روایت کیا اس میں غلطیاں ہیں

پھر معمر مدلس اور قتادہ بھی مدلس – یہ قول قابل رد ہے

کتاب صفة النار از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: ” كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَإِنَّ جَهَنَّمَ فِي الْأَرَضِينَ السَّبْعِ

عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ کہتے ہیں ان کو ابو ہلال نے خبر دی انہوں نے قتادہ سے روایت کیا کہ کہا کہ وہ کہتے جنت ساتویں آسمان پر اور جہنم ساتویں زمین پر ہے

قتادہ نے واضح نہیں کیا کہ وہ کہتے ہیں میں کون مراد ہے – ایسے مجہول لوگوں کے اقوال بیان بھی نہیں کرنے چاہییں

 ایک شاذ قول عبد اللہ بن سلام رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا ہے

وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ

اور بے شک جنت آسمان میں اور جہنم زمین میں ہے

اس قول کی ایک سند کتاب صفة الجنة از ابی نعیم  میں ہے

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ أَبِي نَصْرٍ الطُّوسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرَّقِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْقُرْدُوَانِيُّ، ثنا خَضِرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ، الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ

سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْقُرْدُوَانِيُّ ہے جس کے لئے الذھبی کہتے ہیں

قال ابن عروبة: … ولم يكن يعرف الحديث

ابن عروبة نے کہا  یہ حدیث نہیں جانتا

اور میزان میں کہا

قال أبو أحمد الحاكم: ليس بالمتين عندهم.

أبو أحمد الحاكم نے کہا مضبوط نہیں ہے

دوسری سند مسند الحارث میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبَانَ , ثنا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ , عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ يَقُولُ: إِنَّ ” أَكْرَمَ خَلِيقَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارَ فِي الْأَرْضِ , فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بَعَثَ اللَّهُ الْخَلِيقَةَ أُمَّةً أُمَّةً وَنَبِيًّا نَبِيًّا , حَتَّى يَكُونَ أَحْمَدُ وَأَمَّتُهُ آخِرَ الْأُمَمِ مَرْكَزًا , ثُمَّ يُوضَعُ جِسْرٌ عَلَى جَهَنَّمَ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ: أَيْنَ أَحْمَدُ وَأُمَّتُهُ , فَيَقُومُ وَتَتْبَعُهُ أُمَّتُهُ بَرُّهَا وَفَاجِرُهَا “

یھاں سند میں عبد العزيز بن أبان ہے جو متروک مشہور ہے

تیسری سند کتاب الکنی از الدولابی میں ہے

حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ:، ثَنَا الْخَضِرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شُجَاعٍ قَالَ:، ثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ [ص:7]، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ»

یہاں هلال بن العلاء بن هلال مضبوط نہیں ہے جو منکرات بیان کرتا ہے

چوتھی سند مستدرک الحاکم کی ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ، ثَنَا عَفَّانُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَا: ثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ
یہاں سند میں محمد بن غالب بن حرب الضبي، تمتام ہے جس کے لئے ہے کہ دارقطنی نے کہا
وكان وهم في أحاديث
ان کی احادیث میں وہم ہے
اس کی ایک روایت شَيَّبَتْنِي هُودٌ کو موسى بن هَارُون کی طرف سے موضوع بھی کہا گیا ہے

مجاہد جو ابن عباس کے شاگرد ہیں  ان کے لئے اعمش نے کہا – سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی، مجاہد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ الحَافِظُ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَبْدِ القُدُّوْسِ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: كَانَ مُجَاهِدٌ لاَ يَسْمَعُ بِأُعْجُوْبَةٍ، إِلاَّ ذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ذَهَبَ إِلَى بِئْرِ بَرَهُوْتَ   بِحَضْرَمَوْتَ

اعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں  سنتے تھے الا یہ کہ وہاں جا کر اس کو دیکھتے لہذا برھوت حضر الموت گئے کہ اس کو جا کر دیکھیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا مهران، عن سفيان، عن منصور، عن مجاهد، عن مغيث بن سميّ، قال: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) قال: الأرض السفلى، قال: إبليس مُوثَق بالحديد والسلاسل في الأرض السفلى.

مجاہد نے مغیث سے روایت کیا کہ  آیت میں سجین سفلی زمین ہے کہا اس میں ابلیس ہے جو لوہے کی زنجیر سے جکڑا ہوا ہے  نچلی زمین میں

معلوم هوا کہ مفسرین میں مجاہد  یہ بھی روایت کرتے تھے کہ ابلیس زمین میں قید ہے جبکہ قرآن کہتا ہے کہ ابلیس کو محشر تک چھوٹ دی گئی ہے

اسی طرح الجامع لتفسير الإمام ابن رجب الحنبلي کے مطابق

وخرج ابن مندة ، من حديث أبي يحيى القتات عن مجاهد ، قال: قلت لابن عباس: أين الجنة ؟ قال : فوق سبع سموات ، قلت : فأين النار؟ قال: تحت سبعة أبحر مطبقة .

ابن مندہ ایک روایت بیان کی ہے کہ أبي يحيى القتات نے مجاہد سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہ سے پوچھا کہ جنت کہاں ہے بولے سات آسمانوں سے اوپر .- پوچھا اور جہنم؟ بولے سات سمندر کے اندر

اس کی سند میں أبو يحيى القتات المتوفی 130 ھ ہے ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وفيه ضعف اس میں ضعف ہے – الكامل في ضعفاء الرجال از ا بن عدي کے مطابق نسائی کہتے ہیں ليس بالقوي – الذھبی نے ديوان الضعفاء میں ذکر کیا ہے

لہذا یہ ایک ضعیف روایت ہے

ان اقوال کی بنیاد پر ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں

 والصحيح أن سجِّيناً مأخوذ من السجن، وهو الضيق ….. والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة

اور صحیح بات ہے کہ سجین ماخوذ ہے سجن قید خانہ سے اور یہ تنگ ہے … اور اس کا مقام ساتویں زمین کا وسط کا مرکز ہے

یعنی سجین ارض کا

CORE

ہے  جہاں زمین کا مرکز ووسط ہے

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

أنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: أنا مُحَمَّدُ بْنُ   هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، قَالَ: نا الرَّبِيعُ، قَالَ: نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: ” تَخْرُجُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، فَتَعْرُجُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهُ فَتَلْقَاهُ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا هَذَا الَّذِي جِئْتُمْ بِهِ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: تَوِّجُوهُ، هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ كَانَ يَعْمَلُ كَيْتَ وَكَيْتَ لِأَحْسَنِ عَمَلٍ لَهُ , قَالَ: فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ، وَحَيَّا مَا جِئْتُمْ بِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ الَّذِي يَصْعَدُ فِيهِ قَوْلُهُ وَعَمَلُهُ، فَيُصْعَدُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ حَتَّى يَأْتِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَهُ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، وَرُوحُ الْكَافِرِ أَنْتَنُ يَعْنِي: مِنَ الْجِيفَةِ وَهُوَ بِوَادِي حَضْرَ مَوْتَ، ثُمَّ أَسْفَلَ الثَّرَى مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ “

ابو موسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو اس میں سےمشک کی سی خوشبو اتی ہے پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تم کیا لے کر آئے ہو ؟ پس فرشتے کہتے ہیں ادھر دیکھو یہ فلاں بن فلاں ہے اس نے ایسا ایسا عمل کیا ہے اچھا – پس فرشتے کہتے ہیں الله تم پر سلامتی کرے اور جو تم لائے ہو اس پر پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں یہاں تک کہ رب تعالی کے پاس جاتے ہیں اور ان کے لئے سورج کی طرح یہ ثبوت ہوتا  ہے   اور کافر کی روح سڑتی ہے یعنی سڑی ہوئی جو حضر الموت کی وادی میں ہے الثری کی تہہ ہیں سات زمین نیچے

اس میں حضر الموت میں وادی کا ذکر ہے جس میں برھوت ہے لیکن یھاں روایت برھوت کا ذکر نہیں ہے

اس سند کی علت یہ ہے کہ اس میں الربیع مجہول ہے – یہ الرویانی نے روایت کی ہے اور اس نام کا ان کا کوئی شیخ نہیں ہے اور یہ روایت مسند الرویانی میں بھی نہیں ہے

یہ منکر متن رکھتی ہے

ابو موسی ألاشعري رضي الله تعالى عنه سے منسوب ایک اور روایت میں ان الفاظ کی تشریح ہے کہ الله تعالی  نعوذ باللہ سورج کی طرح چمک رہا ہوتا ہے

یہی بات رب العالمین کے لئے أبو موسى ألاشعري رضي الله تعالى عنه کے حوالے سے ارشد کمال نے المسند فی عذاب القبر میں لکھی ہے

arshad-48

کیا رب العالمین کے چہرے کی چمک ، سورج کی چمک کے برابر ہے. کیا الله تعالی نے یہ نہیں کہ  ليس كمثله شئ کہ اس کی مثل کوئی شی نہیں

لھذا یہ روایات منکر ہیں

مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: «تَخْرُجُ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنَ الْمِسْكِ»، قَالَ: ” فَيَصْعَدُ بِهَا الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهَا فَتَلَقَّاهُمْ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا مَعَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ وَيَذْكُرُونَهُ بِأَحْسَنِ عَمَلِهِ، فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ وَحَيَّا مَنْ مَعَكُمْ “، قَالَ: «فَتُفْتَحُ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ»، قَالَ: «فَيُشْرِقُ وَجْهُهُ فَيَأْتِي الرَّبَّ وَلِوَجْهِهِ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ»، قَالَ: ” وَأَمَّا الْآخَرُ فَتَخْرُجُ نَفْسُهُ وَهِيَ أَنْتَنُ مِنَ الْجِيفَةِ، فَيَصْعَدُ بِهَا الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهَا فَتَلَقَّاهُمْ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا مَعَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ وَيَذْكُرُونَهُ بِأَسْوَأِ عَمَلِهِ “، قَالَ: ” فَيَقُولُونَ: رُدُّوهُ فَمَا ظَلَمَهُ اللَّهُ شَيْئًا “، قَالَ: وَقَرَأَ أَبُو مُوسَى: ” {وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40]

اس کی سند میں عاصم بن بھدلہ کا تفرد ہے جو آخری عمر میں اختلاط کا شکار  ہوئے اور رب تعالی کو سورج کے مثال قرار دینا اسی کی وجہ لگتا ہے

اس میں متن صحیح مسلم کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایت کے خلاف ہے

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا

عبد الله بن شقیق نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ  … جب کافر کی روح نکلتی ہے … اہل آسمان کہتے ہیں خبیث روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے کہا پھر وہ کہتے ہیں اس کو آخری اجل تک کے لئے لے جاؤ

محدثین : زمیں کے وسط میں مچھلی ہے 

دوسری طرف محدثین کہتے ہیں کہ زمین کے مرکز میں ایک مچھلی ہے

مستدرک الحاکم کی روایت ہے جس کو امام حاکم صحیح کہتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الْأَرَضِينَ بَيْنَ كُلِّ أَرْضٍ إِلَى الَّتِي تَلِيهَا مَسِيرَةُ خَمْسُمِائَةِ سَنَةٍ فَالْعُلْيَا مِنْهَا عَلَى ظَهْرِ حُوتٍ قَدِ التَّقَى طَرَفَاهُمَا فِي سَمَاءٍ، وَالْحُوتُ عَلَى ظَهْرِهِ عَلَى صَخْرَةٍ، وَالصَّخْرَةُ بِيَدِ مَلَكٍ، وَالثَّانِيَةُ مُسَخَّرُ الرِّيحِ، فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُهْلِكَ عَادًا أَمَرَ خَازِنَ الرِّيحِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْهِمْ رِيحًا تُهْلِكُ عَادًا، قَالَ: يَا رَبِّ أُرْسِلُ عَلَيْهِمُ الرِّيحَ قَدْرَ مِنْخَرِ الثَّوْرِ، فَقَالَ لَهُ الْجَبَّارُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِذًا تَكْفِي الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا، وَلَكِنْ أَرْسِلْ عَلَيْهِمْ بِقَدْرِ خَاتَمٍ، وَهِيَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ الْعَزِيزِ: {مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ} [الذاريات: 42] ، وَالثَّالِثَةُ فِيهَا حِجَارَةُ جَهَنَّمَ، وَالرَّابِعَةُ فِيهَا كِبْرِيتُ جَهَنَّمَ ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِلنَّارِ كِبْرِيتٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ فِيهَا لَأَوْدِيَةٌ مِنْ كِبْرِيتٍ لَوْ أُرْسِلَ فِيهَا الْجِبَالُ الرُّوَاسِي لَمَاعَتْ، وَالْخَامِسَةُ فِيهَا حَيَّاتُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَفْوَاهَهَا كَالْأَوْدِيَةِ تَلْسَعُ الْكَافِرَ اللَّسْعَةَ فَلَا يَبْقَى مِنْهُ لَحْمٌ عَلَى عَظْمٍ، وَالسَّادِسَةُ فِيهَا عَقَارِبُ جَهَنَّمَ إِنَّ أَدْنَى عَقْرَبَةٍ مِنْهَا كَالْبِغَالِ الْمُؤَكَّفَةِ تَضْرِبُ الْكَافِرَ ضَرْبَةً تُنْسِيهِ ضَرْبَتُهَا حَرَّ جَهَنَّمَ، وَالسَّابِعَةُ سَقَرُ وَفِيهَا إِبْلِيسُ مُصَفَّدٌ بِالْحَدِيدِ يَدٌ أَمَامَهُ وَيَدٌ خَلْفَهُ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يُطْلِقَهُ لِمَا يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَطْلَقَهُ» هَذَا حَدِيثٌ تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو السَّمْحِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ وَقَدْ ذَكَرْتُ فِيمَا تَقَدَّمَ عَدَالَتَهُ بِنَصِّ الْإِمَامِ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

عبد الله بن عمرو نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : زمینیں ایک مچھلی کی پیٹھ پر ہیں

تفسیر ابن کثیر میں ہے

حدیث میں ہے ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں، یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے، وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں، چوتھی میں جہنم کی گندھک ہے، پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں، چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں۔ ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے، جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے

حاکم اپنی وضاحت دیتے ہیں

” وقالَ: تفرد به أبو السمح، وقد ذكرتْ عدالتُه بنصِ الإمامِ يحيى بنِ معين، والحديثُ صحيحٌ ولم يخرِّجاه

اس میں ابو السمح کا تفرد ہے جس کی عدالت پر ابن معین کی نص ہے اور حدیث صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو بیان نہیں کیا

ابن کثیر کہتے ہیں

وهذا حَدِيثٌ غَرِيبٌ جِدًّا، وَرَفْعُهُ فِيهِ نَظَرٌ.

یہ منفرد بہت سے اس کے مرفوع ہونے پر نظر ہے

لیکن ابن کثیر نے اس کو ضعیف یا موضوع یا منکر قرار نہیں دیا

تفسیر طبری کی روایت ہے

حدثني أبو السائب، قال: ثنا ابن إدريس، عن الأعمش، عن المنهال، عن عبد الله بن الحارث، قال: الصخرة خضراء على ظهر حوت.

المنھال بن عمرو نے عبد الله بن الحارث رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ چٹان سبز ہے جس کی پیٹھ پر مچھلی ہے

یعنی زمیں کے اندر تین چیزیں ہوئیں

ایک سجین یا جہنم

دوسری مچھلی

تیسرا ابلیس جو قید میں ہے

فرقہ پرست آج کل مچھلی والی حدیث ہے ابلیس کا قید خانہ والا کعب کا قول چھپا دیتے ہیں لیکن جب کعب الاحبار سجین کا ذکر کرتا ہے تو بہت ادب کے ساتھ کعب الاحبار کو کعب رضی الله عنہ لکھ کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں

اب قرآن دیکھتے ہیں

قرآن:  جس کا وعدہ ہے وہ آسمان میں ہے 

قرآن میں سوره الذاریات میں ہے

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا توعَدُونَ

اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے

الله تعالی نے انسانوں سے جنت و جہنم کا وعدہ کیا ہے کہ اہل ایمان کو جنت اور کفار کو جہنم میں ڈالے گا

سوره التین میں ہے

ثم رَدَدْنَاہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ
پھر ہم نے اسے  نیچوں کا نیچ کر دیا، ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال والے ہیں

بعض کے نزدیک یہ استعارہ نہیں بلکہ حقیقی مطلب ہے کہ جہنمی کو زمین کے اندر کر دیا جو الثری یا السفلی ہے

جبکہ یہ نرا گمان ہے

فرقہ پرست : سجین  کتاب ہے نہیں روحوں کا مسکن ہے  

رفیق طاہر لکھتے ہیں

علیین اور سجین کسی جگہ کا نام نہیں بلکہ “کتاب مرقوم” ہے جن میں نیک وبد کا اندراج کیا جاتا ہے

دامانوی صاحب دین الخالص قسط اول میں لکھتے ہیں

سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں

شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ) کتاب المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري میں لکھتے ہیں کہ

قال شيخ الإسلام ابن حجر وغيره: إن أرواح المؤمنين في عليين، وهو مكان في السماء السابعة تحت العرش وأرواح الكفار في سجين وهو مكان تحت الأرض السابعة، وهو محل إبليس وجنوده.

شیخ الاسلام ابن حجر اور دیگر کہتے ہیں: بے شک مومنین کی ارواح عليين میں ہیں، اور وہ ساتوے آسمان پر عرش کے نیچے ہے اور کفار کی ارواح سجين میں ہیں اور وہ جگہ ساتویں زمین کے نیچے ہے جو ابلیس اور اسکے لشکروں کا مقام ہے

فتاوی علمائے حدیث میں ہے

روح کہاں ہے

اسی کتاب میں ج  ١٠ میں ہے

روح کا مسکن

فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں یہ بھی ہے کہ سجین جہنم کا پتھر ہے

سجیں

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں

tozeh-563

ایک ہی فرقہ کے لوگ اس قدر متضاد عقائد رکھتے ہیں اور سب اپنے اپ کو سلف کا متبع بھی کہتے  ہیں

ابن قیم کا عقیدہ سجین اور علیین ارواح کا مقام ہے 

ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

فصل وَأما قَول من قَالَ إِن أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين فِي السَّمَاء السَّابِعَة وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين فِي الأَرْض السَّابِعَة فَهَذَا قَول قد قَالَه جمَاعَة من السّلف وَالْخلف وَيدل عَلَيْهِ قَول النَّبِي اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى وَقد تقدم حَدِيث أَبى هُرَيْرَة أَن الْمَيِّت إِذا خرجت روحه عر ج بهَا إِلَى السَّمَاء حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل وَتقدم قَول أَبى مُوسَى أَنَّهَا تصعد حَتَّى تَنْتَهِي إِلَى الْعَرْش وَقَول حُذَيْفَة أَنَّهَا مَوْقُوفَة عِنْد الرَّحْمَن وَقَول عبد الله بن عمر إِن هَذِه الْأَرْوَاح عِنْد الله وَتقدم قَول النَّبِي أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء تأوي إِلَى قناديل تَحت الْعَرْش وَتقدم حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَنَّهَا تصعد من سَمَاء إِلَى سَمَاء ويشيعها من كل سَمَاء مقربوها حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة وَفِي لفظ إِلَى السَّمَاء الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل

وَلَكِن هَذَا لَا يدل على استقرارها هُنَاكَ بل يصعد بهَا إِلَى هُنَاكَ للعرض على رَبهَا فَيقْضى فِيهَا أمره وَيكْتب كِتَابه من أهل عليين أَو من أهل سِجِّين ثمَّ تعود إِلَى الْقَبْر للمسألة ثمَّ ترجع إِلَى مقرها الَّتِي أودعت فِيهِ فأرواح الْمُؤمنِينَ فِي عليين بِحَسب مَنَازِلهمْ وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين بِحَسب مَنَازِلهمْ

بیان کہ کہنے والے کا قول بے شک  ارواح المومنین عليين  میں ساتویں آسمان پر ہیں اور کفّار کی اورح سجین میں ساتویں زمین میں ہیں پس یہ قول ہے جو سلف و خلف نے کہا ہے اور اس پر دلالت کرتا ہے نبی کا قول کہ اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى اور پیش کی ہے ابو ھریرہ کی حدیث کہ جب میت کی روح نکلتی ہے تو وہ آسمان  پر چڑھتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی ہے جس پر الله عز وَجل ہے اور پیش کرتے ہیں ابو موسیٰ کا قول کہ وہ اوپر جاتی ہے یہاں تک کہ عرش تک اور حذیفہ کا قول کہ وہ رحمان کے پاس رکی ہوئی ہے اور عبد الله ابن عمر کا قول کہ بے شک یہ ارواح الله کے پاس ہیں اور نبی کا قول ہے کہ شہداء کی ارواح قندیلوں میں عرش رحمان کے نیچے ہیں اور الْبَراء بن عَازِب کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ یہ ارواح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک جاتی ہیں .. یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچتی ہیں جس پر الله عز وَجل ہے

لیکن یہ اس پر دلالت نہیں کرتیں کہ ارواح وہاں روکتی بھی ہیں بلکہ وہ تو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے چڑھتی ہیں پس ان کا فیصلہ ہوتا ہے  اور ان کی کتاب اہل عليين یا اہل سجیں میں لکھی  جاتی ہے پھر قبر میں لوٹایا جاتا ہے سوال کے لئے پھر لوٹایا جاتا ہے اور انکی جگہ جمع کیا جاتا ہے  ، پس ارواح المومنین عليين میں حسب منازل ہوتی ہیں اور کفار کی ارواح سجین میں حسب منازل ہوتی ہیں

ابن قیم کے بقول روح تو اب جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

ابن تیمیہ : کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

ابن تیمیہ : مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢١ میں لکھتے ہیں

 وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرْتَعُ فِي الْجَنَّةِ وَتَأْوِي فِي فِنَاءِ الْعَرْشِ. وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ فِي برهوت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں جنت میں بلند ہوتی ہیں اور عرش تک جاتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

فتوی میں کہتے ہیں

وَإِنَّمَا فِي أَسْفَلِ سَافِلِينَ مَنْ يَكُونُ فِي سِجِّينٍ لَا فِي عِلِّيِّينَ كَمَا قَالَ تَعَالَى {إنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ}

اور اسفل سافلین میں وہ ہے جو سجین میں ہے نہ کہ علیین میں جیسا الله کا قول ہے کہ منافقین اگ کے اسفل میں ہیں

یعنی ابن تیمیہ نے سجین کو مقام قرار دیا

کبری و صغری ملا لیں سجین ابن تیمیہ کے نزدیک برھوت ہوا

کتاب الجامع الصحيح للسنن والمسانيد  کے مطابق

 وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهما – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -: ” خَيْرُ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ , مَاءُ زَمْزَمَ , فِيهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ , وَشِفَاءٌ مِنَ السُّقْمِ، وَشَرُّ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ , مَاءٌ بِوَادِي بَرَهوتٍ , بِقُبَّةِ حَضْرَمَوْتَ , كَرِجْلِ الْجَرَادِ مِنَ الْهوامِّ , تُصْبِحُ تَدَفَّقُ , وَتُمْسِي لَا بَلالَ بِهَا 

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا زمین کے اوپر سب سے اچھا پانی زمزم کا ہے اس میں غذائیت ہے اور بیماری سے شفا ہے اور سب سے برا پانی وادی برھوت کا ہے حضر الموت میں ایک قبہ 

البانی  صَحِيح الْجَامِع: 3322 والصحيحة: 1056 میں اس کو صحیح کہتے ہیں

مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ، کی روایت 9118  ہے
عبد الرزاق  عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: ” خَيْرُ وَادِيَيْنِ فِي النَّاسِ ذِي مَكَّةُ، وَوَادٍ فِي الْهِنْدِ هَبَطَ بِهِ آدَمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ هَذَا الطِّيبُ الَّذِي تَطَّيَّبُونَ بِهِ، وَشَرُّ وَادِيَيْنِ فِي النَّاسِ وَادِي الْأَحْقَافِ، وَوَادٍ بِحَضْرَمَوْتَ يُقَالُ لَهُ: بَرَهَوْتُ، وَخَيْرُ بِئْرٍ فِي النَّاسِ زَمْزَمُ، وَشَرُّ بِئْرٍ فِي النَّاسِ بَلَهَوْتُ، وَهِيَ بِئْرٌ فِي بَرَهَوْتَ تَجْتَمِعُ فِيهِ أَرْوَاحُ الْكُفَّارِ “

علی رضی الله عنہ نے فرمایا  … شری وادیوں میں سے ہے وادی جو حضر الموت میں ہے جس کو برھوت کہا جاتا ہے … اور یہ کنواں ہے جس میں کفار کی روحیں جمع ہوتی ہیں

مسلک پرستوں کے اصول پر اس کی سند صحیح ہے اور یہ قول علی پر موقوف ہے لہذا اس کو  ان کے اصول پر حدیث رسول سمجھا جائے گا

صحیح ابن حبان میں ہے

قَالَ قَتَادَةَ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ تُجْمَعُ بِالْجَابِيَتِيْنِ وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ تُجْمَعُ بِبُرْهُوتَ سَبِخَةٌ بِحَضْرَمَوْتَ   قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ الله تعالى عَنْهُ: هَذَا الْخَبَرُ رَوَاهُ مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوَهُ مَرْفُوعًا  الْجَابِيَتَانِ باليمن وبرهوت: من ناحية اليمن.

قتادہ نے ایک رجل سے روایت کیا اس نے ابن مسیب سے کہ ابن عمرو رضی الله عنہ نے کہا مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت حضر الموت میں جو وہاں ایک چٹیالی گھڑا ہے- ابن حبان نے کہا اس خبر کو  مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے مرفو عا روایت کیا گیا ہے -الْجَابِيَتَانِ یمن میں ہے اور برھوت اس کے قرب میں

یعنی ابن حبان کے نزدیک برھوت ارواح کا مقام ہوا یہ مرفوع قول نبوی ہے

اوپر والی روایت کے بعد ابن حبان میں صحیح میں قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے  روایت بیان کی

أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بن أخزم حَدثنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا قُبِضَ أَتَتْهُ مَلائِكَةُ الرَّحْمَةِ بحريرة بَيْضَاء فَيَقُولُونَ اخْرُجِي إِلَى رَوْحِ اللَّهِ فَتَخْرُجُ كَأَطْيَبِ رِيحِ الْمسك حَتَّى إِنَّه ليناوله بَعضهم بَعْضًا فيشمونه حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ مَا هَذِهِ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ الَّتِي جَاءَتْ مِنَ الأَرْضِ وَلا يَأْتُونَ سَمَاءً إِلا قَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى يَأْتُوا بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَهْلِ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ فَيَقُولُونَ مَا فَعَلَ فُلانٌ فَيَقُولُونَ دَعُوهُ حَتَّى يَسْتَرِيحَ فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا فَيَقُولُ قَدْ مَاتَ أَمَا أَتَاكُم فَيَقُولُونَ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ وَأَمَّا الْكَافِر فَتَأْتِيه مَلائِكَةُ الْعَذَابِ بِمُسْحٍ فَيَقُولُونَ اخْرُجِي إِلَى غَضِبِ الله فَتخرج كأنتن ريح جيفة فَيذْهب بِهِ إِلَى بَاب الأَرْض

اس میں باب الارض کا ذکر ہے اور محدث  ابن حبان کے مطابق یہ برھوت کی خبر ہے

کتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء  از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَنَانٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَتَقْصِدَنَّكُمْ نَارٌ هِيَ الْيَوْمَ خَامِدَةٌ فِي وَادٍ يُقَالُ: لَهُ بَرْهُوتُ، يَغْشَى النَّاسَ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ،

حُذَيْفَةَ بْنِ الْيمَانِ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں تصدیق کرتا ہوں اس اگ کی جو … وادی برھوت میں ہے اس میں لوگ بے ہوش عذاب الیم میں ہیں

اس کی سند میں  يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّارُ الدِّمَشْقِيُّ جس کو ثقہ و ضعیف کہا گیا  ہے لیکن اغلبا اسی کی بنیاد پر ابن تیمیہ نے فتوی میں برھوت کو ارواح کفار کا مقام کہا ہے

ماتریدی عقیدہ : روحیں زمیں و آسمان کے بیچ ہیں؟

بحر الکلام نامی کتاب أبو المعين ميمون بن محمد ﺍﻟﻨﺴﻔﻲ ﺍﻟﺤﻨﻔﻲ المتوفی ٥٠٨ ھ کی تصنیف ہے جس میں ماتریدی مسلک

کے مطابق عقائد کی شرح ہے اس کتاب میں مستقر ارواح پر لکھا ہے

مومن گناہ گاروں کی روحیں آسمان و زمین کے درمیان ہوا میں ہیں
کفار کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹ میں سجین میں ہیں اور سجین ساتویں زمین کے نیچے ہے اور یہاں سے روحیں جسموں سے کنکشن میں ہیں جس میں روحیں عذاب میں ہیں تو جسم کو الم ہوتا ہے جیسے سورج آسمان میں ہے اور اس کا نور زمین پر
اور جہاں تک مومنوں کی روحوں کا تعلق ہے تو وہ علیین میں ہیں اور ان کا نور ان کے جسم سے کنکشن میں ہے اور ایسا

جائز ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ سورج آسمان میں ہے اور اس کا نور زمین پر ہے

أبو المعين النسفي کے قول کہ روحیں آسمان و زمین کے درمیان میں ہے پر کوئی نص نہیں ہے – دوم سورج پر قیاس کر کے روح کو ایک انرجی تصور کیا گیا ہے جو جسد سے ملی ہوئی ہے لیکن دونوں میں میلوں کا فاصلہ ہے

عبد الوھاب النجدی : ارواح برھوت یا جابیہ میں ہیں

عبد الوہاب النجدی اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا

اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

برھوت یمن میں ہے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

یعنی عبد الوھاب النجدی کے مطابق روحیں دنیا میں اتی ہیں کفار کی یمن میں برھوت میں اور مومنوں کی جابیہ شام میں

راقم کہتا ہے یہ روایت مستدرک الحاکم میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّيْدَلَانِيُّ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قُتَيْبَةَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنِ الْأَخْنَسِ بْنِ خَلِيفَةَ الضَّبِّيِّ، قَالَ: رَأَى كَعْبُ الْأَحْبَارِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يُفْتِي النَّاسَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ قَالَ: قُلْ لَهُ: يَا عَبْدِ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، لَا تَفْتَرِ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكَ بِعَذَابٍ، وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى. قَالَ: فَأَتَاهُ الرَّجُلُ فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَصَدَّقَ كَعْبٌ، قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى وَلَمْ يَغْضَبْ. قَالَ: فَأَعَادَ عَلَيْهِ كَعْبٌ الرَّجُلَ، فَقَالَ: سَلْهُ عَنِ الْحَشْرِ مَا هُوَ؟ وَعَنْ أَرْوَاحِ الْمُسْلِمِينَ أَيْنَ تَجْتَمِعُ؟ وَأَرْوَاحُ أَهْلِ الشِّرْكِ أَيْنَ تَجْتَمِعُ؟ فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: «أَمَّا أَرْوَاحُ الْمُسْلِمِينَ فَتَجْتَمِعُ بِأَرِيحَاءَ، وَأَمَّا أَرْوَاحُ أَهْلِ الشِّرْكِ فَتَجْتَمِعُ بِصَنْعَاءَ، وَأَمَّا أَوَّلُ الْحَشْرِ، فَإِنَّهَا نَارٌ تَسُوقُ النَّاسَ يَرَوْنَهَا لَيْلًا، وَلَا يَرَوْنَهَا نَهَارًا» ، فَرَجَعَ رَسُولُ كَعْبٍ إِلَيْهِ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَ: فَقَالَ: صَدَقَ هَذَا عَالِمٌ فَسَلُوهُ

الْأَخْنَسِ بْنِ خَلِيفَةَ الضَّبِّيِّ کہتا ہے کہ کعب الاحبار نے عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کو فتوی دیتے دیکھا – پوچھا یہ کون ہے ؟ پس کہا یہ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ہیں- کعب الاحبار نے اپنے اصحاب میں سے لوگ ان کی طرف بھیجے اور کہا ان سے کہو اے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ الله پر جھوٹ نہ بولو وہ تم کو عذاب دے گا اور برباد ہوا جس نے جھوٹ کہا – کہا پس ایک آدمی گیا اس نے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سے یہ کہا – عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے کہا سچ کہا کعب الاحبار نے برباد ہوا جس نے جھوٹ گھڑا اور ان کو غصہ نہیں آیا – پس کعب الاحبار نے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ کی طرف آیا ایک اور شخص کو بھیجا  اور کہا ان سے حشر پر سوال کرنا کہ یہ کیا ہے ؟ مسلمانوں کی روحیں کہاں جمع ہیں اور اہل شرک کی کہاں جمع ہیں ؟ پس وہ گیا اور  سوال کیا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ نے کہا مومنوں کی روحیں یہ أَرِيحَاءَ میں جمع ہوتی ہیں اور اہل شرک کی روحیں یہ صَنْعَاءَ میں اور حشر تو ایک اگ ہے جو لوگوں کو دن اور رات میں ہانکے گی پس کعب کا سفیر واپس آیا اور خبر کی اس پر کعب بولا سچ کہا یہ عالم ہے اس سے سوال کرو

یہ حال ہے امام حاکم کا – یہ ان کا استدراک ہے ! کہاں ہیں وہ جو کہتے ہیں مومنوں کی روحیں علیین میں آسمان میں ہیں ؟ یہاں تو کہا گیا ہے کہ  ارواح آسمان میں نہیں ہیں وہ تو زمین میں ہی ہیں

اب یہ ایک یہودی طے کرے گا کہ اصحاب رسول  میں کون سچا ہے ؟

معلوم ہوا کہ سلف کا عقیدہ تھا کہ روحیں  صنعا اور اریحا میں  جمع ہوتی ہیں

اہل حدیث کا  عقیدہ ارتقاء: روحیں قیدی ہیں

صادق سیالکوٹی کتاب مسلمان کا سفر آخرت میں لکھتے ہیں

سیالکوٹی کے بقول روحیں قید ہیں ؟

جبکہ ابن تیمیہ و ابن قیم کے بقول یہ تو سورج کی روشنی کی طرح ہیں آنا فانا یھاں سے عالم بالا اور وہاں سے زمین

ابن قیم کتاب الروح میں خواب مين ارواح کی ملاقات والی روایات پر کہتے ہیں

فَفِي هَذَا الحَدِيث بَيَان سرعَة انْتِقَال أَرْوَاحهم من الْعَرْش إِلَى الثرى ثمَّ انتقالها من الثرى إِلَى مَكَانهَا وَلِهَذَا قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت

ان احادیث میں ارواح کا عرش سے الثرى  تک  جانے میں سرعت کا ذکر ہے پھر الثرى سے اس روح کے مکان تک جانے کا ذکر ہے اور اسی وجہ سے امام  مالک اور دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ چھوڑی جانے والے روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

خوارج : ارواح برھوت یا جابیہ میں ہیں

کتاب  مشارق أنوار العقول از نور الدين أبو محمد عبد الله بن حميد السالمي کے مطابق خارجی عالم الباجوري نے کہا

قال الباجوري: وأما بعد الموت فأرواح السعداء بأفنية القبور على الصحيح وقيل عند آدم عليه السلام في سماء الدنيا، لكن لا دائما فلا ينافي إنها تسرح حيث شاءت وأما أرواح الكفار ففي سجين في الأرض السابعة السفلى محبوسة، وقيل أرواح السعداء بالجابية في الشام، وقيل ببئر زمزم، وأرواح الكفار ببئر برهوت في حضرموت التي هي مدينة في اليمن

الباجوري نے کہا اور موت کے بعد نیک لوگوں ک روحیں قبرستان کے میدان میں ہیں صحیح ہے – اور کہا گیا ہے آدم علیہ السلام کے پاس ہیں آسمان دنیا پر لیکن وہاں مستقل نہیں ہیں اور اس میں نفی نہیں ہے کہ وہاں جہاں جانا چاہیں جا سکیں – اور کفار کی روحیں یہ سجین میں ساتویں زمین میں قید ہیں اور نیکو کاروں کی جابیہ میں شام میں ہیں اور کہا جاتا ہے زمزم کے کنواں میں اور کفار کی روحیں یہ یمن میں حضرموت میں برھوت کے کنواں میں ہیں

یہ عقیدہ خوارج میں بھی چل رہا ہے

شیعہ روحیں سجین یعنی برھوت میں ہیں

تفسیر :التبيان في تفسير القرآن المؤلف :شيخ الطائفة أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسی کے مطابق

وقال أبوجعفر (ع) أما المؤمنون فترفع أعمالهم وأرواحهم إلى السماء، فتفتح لهم أبوابها. وأما الكافر، فيصعد بعمله وروحه حتى اذا بلغ السماء نادى مناد: اهبطوا بعمله إلى سجين، وهوواد بحضر موت يقال له: برهوت.

اور امام ابو جعفر الباقر ع نے کہا جہاں تک مومن ہیں تو ان کے اعمال اور ارواح آسمان تک بلند ہوتے ہیں پس دروازے کھل جاتے ہیں اور جہاں تک کافر ہیں تو ان کا عمل بلند ہوتا اور روح یہاں تک آسمان پر پہنچتے ہیں تو سدا اتی ہے اس کو اس کے عمل کے ساتھ سجین کی طرف لے جاؤ جو حضرالموت میں ایک وادی ہے اس کو برھوت کہا جاتا ہے

معلوم ہوا کہ سجین تک جانے کا راستہ برھوت سے ہے

چلیں آج برھوت کی سیر کریں

ہوائی جہاز سے برھوت کی تصویر

برھوت (سرخ نشان) اور  جابیہ (سبز نشان) میں فاصلہ

 برھوت کی خبر یمنی  لوگوں نے دی اور اہل تشیع کے مطابق یہ سجین کا رستہ ہے-

یہود کے مطابق جہنم کا ایک دروازہ سمندر میں ہے – اغلبا یمنی یہود مثلا کعب الاحبار کے  نزدیک یہ دلیل تھا کہ جہنم تک رستہ یہاں سے ہے جو زمین کے وسط میں ہے جہاں شیطان قید ہے اس قول کو قبولیت عامہ ملی یہاں تک کہ عبد الوہاب النجدی اور خوارج اور شیعہ کے مطابق یہ مستقر ارواح ہے – غور طلب ہے کہ  وہ فرقے جو عرب سے نکلے ان کے نزدیک برھوت اور سجین ایک ہیں لیکن وہ فرقے جو برصغیر کے ہیں وہ برھوت کا ذکر نہیں کرتے صرف سجین کہتے ہیں

قارئیں یہ سب پڑھ کر اپ کو اب تک سمجھ آ چکا ہو گا کہ برھوت کو سجین قرار دیا گیا جو یمن میں ایک کنواں ہے جو زمین کی تہہ تک جانے کا رستہ ہے – اب سنن نسائی کی ایک روایت دیکھتے ہیں جس کا ذکر ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے اور اسی روایت کو ابن حبان کہتے کہ برھوت کی خبر ہے

 أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

یہاں روایت میں خاص باب الارض کا ذکر ہے کہ کفار کی روحیں زمین کے دروازے پر لائی جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو  کفار کی روحوں تک لے جایا جاتا ہے

یہ روایت ابن حبان کے مطابق  برھوت کی ہی خبر ہے کیونکہ یہ زمین میں کنواں ہے جس سے اندر جا سکتے ہیں

تہذیب الکمال از المزی میں قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ کے ترجمہ میں اس روایت کے متن میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبُخَارِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الصَّيْدَلانِيُّ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحداد، قال: أَخْبَرَنَا أبو نعيم الْحَافِظُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ أَحْمَدَ: قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ النُّعْمَانِ الشَّيْبَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْقَاسِم بْن الفضل الحداني، عن قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَن أَبِي هُرَيْرة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِحَرِيرَةٍ فِيهَا مَسْكٌ ومِنْ صَنَابِرَ الرَّيْحَانِ وتَسَلُّ رُوحَهُ كما تَسَلُّ الشَّعْرَةَ مِنَ الْعَجِينِ، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً مَرْضِيًّا عَنْكِ، وطُوِيَتْ عَلَيْهِ الْحَرِيرَةُ، ثُمَّ يُبْعَثُ بِهَا إِلَى عِلِّيِّينَ، وإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِمِسْبَحٍ فِيهِ جَمْرٌ فَتَنْزِعُ رُوحَهُ انْتِزَاعًا شَدِيدًا، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى هَوَانٍ وعَذَابٍ، فَإِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وضِعَت عَلَى تِلْكَ الْجَمْرةِ، فَإِنَّ لَهَا نَشِيشًا فَيُطْوَى عَلَيْهَا الْمِسْبَحُ ويُذْهَبُ بِهَا إِلَى سِجِّينَ

فرشتے روح کو لے کر سجین جاتے ہیں

ابن رجب اپنی کتاب  أهوال القبور  میں حنابلہ کے لئے لکھتے ہیں

ورجحت طائفة من العلماء أن أرواح الكفار في بئر برهوت منهم القاضي أبو يعلى من أصحابنا في كتابه المعتمد وهو مخالف لنص أحمد: أن أرواح الكفار في النار.
ولعل لبئر برهوت اتصالا في جهنم في قعرها كما روي في البحر أن تحته جهنم والله أعلم ويشهد لذلك ما سبق من قول أبي موسى الأشعري: روح الكافر بوادي حضرموت في أسفل الثرى من سبع أرضين.

اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کفار کی روحیں برھوت میں کنواں میں ہیں جن میں قاضی ابو یعلی ہیں ہمارے اصحاب میں سے اپنی کتاب المعتمد  میں اور یہ مخالف ہے نص احمد پر کہ کفار کی روحیں اگ میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ برھوت جہنم سے تہہ میں ملا ہو جیسا کہ روایت ہے کہ سمندر کے لئے کہ اس کے نیچے جہنم ہے و الله اعلم اور اس پر گواہی ہے ابو موسی رضی الله عنہ کے قول کی کہ کافر کی روح حضر الموت کی ایک وادی میں ہے تحت الثری کے پیندے میں ساتویں زمین میں

اخبار مکہ کی روایت ہے جو ضعیف ہے لیکن دلچسپ ہے

وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ، [ص:44] عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ قَالَ: ” أَمْسَى عَلَيَّ اللَّيْلُ وَأَنَا بِبَرَهُوتَ، فَسَمِعْتُ فِيهِ أَصْوَاتَ أَهْلِ الدُّنْيَا، وَسَمِعْتُ قَائِلًا يَقُولُ: يَا دُومَةُ، يَا دُومَةُ، قَالَ: فَسَأَلْتُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي سَمِعْتُ، فَقَالَ: إِنَّ الْمَلَكَ الَّذِي عَلَى أَرْوَاحِ الْكُفَّارِ يُقَالُ لَهُ دُومَةُ “

أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ نے کہا مجھ کو یمن کے ایک رجل نے خبر دی کہا میں نے ایک رات برھوت کے پاس گزاری تو میں نے وہاں آوازیں سنیں اہل دنیا کی اور ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے دومہ اے دومہ پس میں نے اہل کتاب میں سے کسی سے پوچھا اور اس کو خبر کی جو سنا تھا اس نے کہا یہ فرشتہ ہے جو کفار کی روحوں پر مقرر ہے جس کو دومہ کہا جاتا ہے

اب تلمود دیکھتے ہیں

موت  کے مراحل کا ذکر تلمود میں اسطرح کیا گیا ہے کہ جب آدمی اس جہان کو چھوڑ رہا ہوتا ہے تو ملک الموت اتا ہے جو روح یا نسمہ کو نکالتا ہے – نسمہ ایک خون سے بھری رگ جیسا ہوتا ہے جو تمام بدن میں بکھری ہے ملک الموت اس کا اوپر پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے  نیک کے جسم سے اس کو آہستگی سے جیسے دودھ میں بال ہو لیکن بدکار کے بدن میں ایسے کھینچتا ہے جیسے روئی کے گالے کو کانٹوں پر گھسیٹا جائے جس سے وہ ٹوٹ جائے- جیسی ہی نسمہ نکلتا ہے آدمی مر جاتا ہے اور روح ناک میں ا جاتی ہے  جب یہ ہوتا ہے تو وہ روتی اور چیختی ہے کہ اے مالک اے رب العالمین مجھ کو کہاں لے جایا جا رہا ہے ؟ فورا ہی دومہ فرشتہ  اس کو لیتا ہے اور روحوں کے مقام پر لے جاتا ہے 

زاذان کی عود روح کی روایت میں یہ بیان ہوا ہے

 ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَغَضَبٍ “. قَالَ: ” فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ  فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ [ص:502] عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ

پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے

الغرض  برھوت  کو سجین قرار دیا گیا اور وہاں جا کر آواز سنی گئی اس کو باب الارض سمجھا گیا یہاں تک کہ فرشتہ کا  عمل بھی تلمود سے لے کر حدیث رسول کے طور پر بیان کیا گیا

جہنم کے طبقات میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان یا مشرقین کے درمیان اقبال کیلانی کی کتاب جہنم کا بیان میں ہے

اب اگر یہ عالم ہے تو جہنم برھوت میں یا  زمین کے اندر نہیں ہو سکتی

والله بكل شيء عليم

 

حیات بعد الموت ٢

[عام انسانوں کیلیے اموات غیر احیاء اور شہید کیلیے بل احیا کیوں کہا گیا ؟ شہدا کی کیا خصوصیت رہی پھر؟]

سوال یہ ہے کہ شہدا کو بھی برزخی زندگی ملتی ہے اور عام انسانوں کو بھی – عام انسانوں کیلیے اموات غیر احیاء اور شہید کیلیے بل احیا کیوں کہا گیا ؟ شہدا کی کیا خصوصیت رہی پھر؟ جب دونوں برزخی زندگی میں ہیں جبکہ شہدا کے بارے میں کہا گیا کہ انکو مردہ نہ کہو.

پلیز.وضاحت کر.دیجیے شکریہ

جواب

اس سوال کا جواب طبری نے اپنی تفسیر میں دیا ہے
وإذا كانت الأخبار بذلك متظاهرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما الذي خُصَّ به القتيل في سبيل الله، مما لم يعم به سائر البشر غيره من الحياة، وسائرُ الكفار والمؤمنين غيرُه أحياءٌ في البرزخ، أما الكفار فمعذبون فيه بالمعيشة الضنك، وأما المؤمنون فمنعَّمون بالروح والريحان ونَسيم الجنان؟
قيل: إنّ الذي خَصّ الله به الشهداء في ذلك، وأفادَ المؤمنين بخبره عنهم تعالى ذكره، إعلامه إياهم أنهم مرزوقون من مآكل الجنة ومطاعمها في بَرْزَخِهم قَبل بعثهم، ومنعَّمون بالذي ينعم به داخلوها بعد البعث من سائر البشر، من لذيذ مطاعمها الذي لم يُطعمها الله أحدًا غيرَهم في برزخه قبل بعثه. فذلك هو الفضيلة التي فضَّلهم بها وخصهم بها من غيرهم، والفائدة التي أفادَ المؤمنين بالخبر عنهم
اور روایات میں ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ جو سبیل الله میں قتل ہوئے ان کی خصوصیت (کس طرح) ہے….. کہ تمام کفار و مومن البرزخ میں ہی زندہ ہیں- جو کفار ہیں وہ تنگ زندگی میں عذاب میں ہیں اور جو مومن ہیں وہ رحمت و نعمت میں اور جنت کی ہواووں میں ہیں ؟

کہا جاتا ہے : جو الله نے سبیل الله میں مرنے والوں کے لئے خاص کیا وہ مومنوں کو اس خبر کا فائدہ دیا تو ان کو جنت میں اس کی نعمت اور کھانے انکی برزخ میں قیامت سے پہلے مل گئے ہیں جبکہ باقی بشر کو یہ قیامت کے بعد ملین گے پس یہ شہداء کی فضیلت ہے یہ انکی وہ خصوصیت ہے جس کی خبر سے مومنوں کو فائدہ ہوا
———-

شہید جنت میں کھا پی رہے ہیں جبکہ عام مومن وہاں صرف سونے جیسی کیفیت میں ہیں
اسی طرح بڑے کفار اگ کا عذاب دیکھ رہے ہیں اس کی تپش محسوس کر رہے ہیں

[/EXPAND]

[کیا فرقہ پرستوں کے نزدیک عذاب قبر غیب کا معاملہ ہے ؟]

جواب

کہا جاتا ہے کہ مردہ قبر میں عالم البرزخ میں ہوتا ہے اس کے اور ہمارے درمیان آڑ ہے ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن

فتاوی علمائے حدیث   میں ہے

روحوں کی آمد-١

روحوں کی آمد٢١

غیر مقلد عالم نے تصوف  کے کشف قبور کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا ہے

کتاب مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين  کے مطابق سعودی عالم العثيمين سے سوال ہوتا ہے جس کے جواب میں وہابی  عالم  محمد بن صالح العثيمين نے ابن تیمیہ کی بات پیش کی کہ عذاب میت کوبھی ہوتا ہے

قال شيخ الإسلام ابن تيمية: إن الروح قد تتصل بالبدن فيعذب أو ينعم معها، وأن لأهل السنة قولاً آخر بأن العذاب أو النعيم يكون للبدن دون الروح واعتمدوا في ذلك على أن هذا قد رئي حسّاً في القبر فقد فتحت بعض القبور ورئي أثر العذاب على الجسم، وفتحت بعض القبور ورئي أثر النعيم على الجسم، وقد حدثني بعض الناس أنهم في هذا البلد هنا في عنيزة كانوا يحفرون لسور البلد الخارجي، فمروا على قبر فانفتح اللحد فوجد فيه ميت أكلت كفنه الأرض وبقي جسمه يابساً لكن لم تأكل منه شيئاً حتى إنهم قالوا: إنهم رأوا لحيته وفيها الحنا وفاح عليهم رائحة كأطيب ما يكون من المسك.

ابن تیمیہ کہتے ہیں

بے شک روح بدن سے متصل ہوتی ہے پس بدن عذاب پاتا ہے یا راحت،

 اور اہل السنہ کے ہاں ایک اور قول ہے کہ عذاب صرف بدن کو روح کے بغیر ہوتا ہے اور اس پر اعتماد کیا گیا ہے کہ بے شک اس کا قبر میں ہونے کا احساس دیکھا گیا ہے پس بعض قبروں کو کھولا گیا اور جسم  پر عذاب کا اثر دیکھا گیا اور بعض قبروں کو کھولا گیا اور جسم  پر راحت کا اثر دیکھا گیا اس عنيزة کے شہر والوں نے مجھے بتایا کہ وہ شہر کے باہر پھر رہے تھے پس قبر پر گزرے اور اسکو کھولا جس میں میت پائی جس کا کفن (زمین نے) کھا لیا تھا اور تازہ جسم باقی تھا جس میں سے کچھ کھایا نہ گیا تھا پس یہاں تک انہوں نے کہا انہوں نے دیکھا کہ جسم کی داڑھی پر مہندی ہے اوراس میں سے اچھی خوشبو ا رہی ہے لیکن مشک نہ تھی

ارشد کمال المسند فی عذاب القبر ص ١٣٥ پر لکھتے ہیں

arshad-135

اقبال کیلانی کتاب عذاب قبر کا بیان میں واقعہ لکھتے ہیں

اسی کتاب میں ص ٧١ تا ٧٣ پر سکھ مذھب کے ثقات کی خبر پر اسلامی عقیدہ کا بیان کیا گیا

بہر حال غیب میں جھانکنا  ان لوگوں  کے حساب سے ممکن ہے  جس کی امثال یہاں دی گئی ہیں

[/EXPAND]

[کیا میت زیارت قبر کرنے والے کو جانتی ہے]

جواب

ابن قیم نے کتاب الروح میں کہا
والسّلف مجمعون على هذا، وقد تواترت الآثار بأنّ الميّت يعرف زيارة الحيّ له ويستبشر به
سلف کا اس پر اجماع ہے کہ اور متواتر احادیث سے معلوم ہے کہ میت جانتی ہے ان زندوں کو جو اس کی زیارت کریں اور اس پر خوش ہوتی ہے

ظاہر ہے میت جب جانے گی تو اس کو معلوم ہو گا کہ انے والا مرد ہے یا عورت ہے
———

وہابی کہتے ہیں میت جانتی ہے جو قبر پر آئے
صالح المنجد کا فتوی ہے
https://islamqa.info/ar/111939
—-
جبکہ وہابی مفتی بن باز کہتے ہیں مردہ زائر کو پہچانتا ہے معلوم نہیں ہے
http://www.binbaz.org.sa/fatawa/4813
وأما كونه يشعر أو لا يشرع هذا يحتاج إلى دليل واضح – والله أعلم سبحانه وتعالى
جہاں تک یہ ہے کہ مردہ کو شعور ہے زائر کا تو یہ اس پر واضح دلیل نہیں ہے و الله اعلم
——-

اہل حدیث میں سے ایک مولوی سوال (کیا مردے، زندہ زائرین کو دیکھتے ہیں ؟ ) پر کہتا ہے

یہ صرف سلام کے ساتھ مخصوص ہے
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/11447/753/44

———–
سلف کے ائمہ میں ابن قیم ، ان تیمیہ ، العزّ بن عبد السّلام، ابن عبد البر ، سیوطی وغیرہ یہ سب قائل ہیں کہ مردہ زائر کو پہچانتا ہے اسی بنا پر سلام کا جواب دیتا ہے

ان قائلین عود روح میں سے کسی نے کہا پرندہ بھی پہچان لیتا ہے سر دست یاد نہیں کس کا قول ہے
البتہ ابن قیم کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں کہتے ہیں

الْحَادِيَةُ وَالثَّلَاثُونَ: إِنَّ الْمَوْتَى تَدْنُو أَرْوَاحُهُمْ مِنْ قُبُورِهِمْ، وَتُوَافِيهَا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَيَعْرِفُونَ زُوَّارَهُمْ وَمَنْ يَمُرُّ بِهِمْ، وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِمْ، وَيَلْقَاهُمْ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ مَعْرِفَتِهِمْ بِهِمْ فِي غَيْرِهِ مِنَ الْأَيَّامِ، فَهُوَ يَوْمٌ تَلْتَقِي فِيهِ الْأَحْيَاءُ وَالْأَمْوَاتُ، فَإِذَا قَامَتْ فِيهِ السَّاعَةُ الْتَقَى الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ، وَأَهْلُ الْأَرْضِ وَأَهْلُ السَّمَاءِ، وَالرَّبُّ وَالْعَبْدُ، وَالْعَامِلُ وَعَمَلُهُ، وَالْمَظْلُومُ وَظَالِمُهُ، وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، وَلَمْ تَلْتَقِيَا قَبْلَ ذَلِكَ قَطُّ، وَهُوَ يَوْمُ الْجَمْعِ وَاللِّقَاءِ، وَلِهَذَا يَلْتَقِي النَّاسُ فِيهِ فِي الدُّنْيَا أَكْثَرَ مِنِ الْتِقَائِهِمْ فِي غَيْرِهِ، فَهُوَ يَوْمُ التَّلَاقِ. قَالَ أبو التياح يزيد بن حميد: كَانَ مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللِّهِ يُبَادِرُ فَيَدْخُلُ كُلَّ جُمُعَةٍ، فَأَدْلَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الْمَقَابِرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: فَرَأَيْتُ صَاحِبَ كُلِّ قَبْرٍ جَالِسًا عَلَى قَبْرِهِ، فَقَالُوا: هَذَا مطرف يَأْتِي الْجُمُعَةَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ، وَتَعْلَمُونَ عِنْدَكُمُ الْجُمُعَةَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، وَنَعْلَمُ مَا تَقُولُ فِيهِ الطَّيْرُ، قُلْتُ: وَمَا تَقُولُ فِيهِ الطَّيْرُ؟ قَالُوا: تَقُولُ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ يَوْمٌ صَالِحٌ.

جمعہ کے دن مردوں کی روحیں قبروں کے قریب آتی ہیں اور اپنے زائرین کو پہچانتی ہیں اور جو ان پر گزریں ان کو بھی اور دیگر ایام کی بنسبت اس دن میں ان کی معرفت زیادہ ہوتی ہے ‘اس دن میں زندہ لوگ مردوں سے ملاقات کرتے ہیں پھر کہا کہ ابو لتیاح لاحق بن حمید نے کہا کہ مطرف بن عبداللہ بدر میں تھے جب جمعہ آتا تو اندھیرے میں نکل پڑتے یہاں تک جمعہ کے دن چڑھے قبرستان پہنچ جاتے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر قبر والے کو اپنی قبر پر بیٹھے دیکھا لوگ (یعنی مردے ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ یہ مطرف ہے جو جمعہ کو آتا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا تم جمعہ کو جانتے ہو انہوں نے کہا ہاں اور ہم (مردے یہ بھی) جانتے ہیں اس دن پرندے کیا کہتے ہیں میں نے کہا پرندے اس دن کیا کہتے ہیں تو انہوں نے (یعنی مردوں نے ) کہا پرندے کہتے ہیں :یہ اچھا دن ہے یا اللہ بچا یا اللہ بچا

==================

ڈاکٹر عثمانی نے برزخی جسم کا عقیدہ بیان کیا ہے – اہل حدیث نے افواہ پھیلائی کہ یہ عقیدہ سلف میں کسی کا نہیں تھا اور اس کو مرزا قادیانی نے پہلی بار پیش کیا
اس کا جواب یہاں ہے

⇓ برزخی جسم کیا ہے کہا جاتا ہے ١٤٠٠ سو سال میں ایسا کسی عالم نے نہیں کہا بلکہ یہ غلام احمد قادیانی دجال کا دعوی تھا حقیقت کیا ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/

مزید دیکھیں
https://www.islamic-belief.net/روح-کے-بدلتے-قالب/

[/EXPAND]

[حدیث میں الفاظ أَرْوَاحُهُمْ كَطَيْرٍ خُضْرٍ بھی اتے ہیں  مراد ہے کہ روحیں سبز پرندوں کی طرح اڑتی ہیں ]

جواب

یہ الفاظ أَرْوَاحُهُمْ كَطَيْرٍ خُضْرٍ – ارواح سبز پرندوں کی طرح صرف اعمش کی سند سے ہیں
لیکن ایمان ابن مندہ میں ہے
أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَحْيَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: ثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ، أَنْبَأَ أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا الْأَعْمَشُ، ح، وَأَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ مَنْصُورٍ الْهَرَوِيُّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَأَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا [ص:401] بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} [آل عمران: 169] ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: ” أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ: هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟، فَقَالُوا: أَيُّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا؟ فَفَعَلَ بِهِمْ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يَشَاءُوا شَيْئًا، قَالُوا: يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، وَجَرِيرٌ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ
یہاں الفاظ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں جو اعمش کی ہی سند سے ہیں
معلوم ہوتا ہے یہ الفاظ کی تبدیلی اعمش کرتے ہیں
صحیح مسلم میں بھی اعمش کی سند سے ہی ہے

اعمش کی ہی سند سے بعض احادیث میں متن میں فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں کے الفاظ ہیں

بعض روایت میں فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں میں کے الفاظ ہیں
یہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عمر کا قول ہے
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: الْجَنَّةُ مَطْوِيَّةٌ مُعَلَّقَةٌ بِقُرُونِ الشَّمْسِ , تُنْشَرُ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً وَأَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ , كَالزَّرَازِيرِ , يَتَعَارَفُونَ وَيُرْزَقُونَ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ.

فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں میں کے الفاظ ابن عباس سے مروی ایک مرفوع روایت میں بھی ہیں

[/EXPAND]

[تخلیق انسان اور روح کب اتی ہے  پر سوال ہے]

انسان کیا زمیں سے اگا ہے ؟

سورہ نوح کی آیات نمبر 17-18.اور اللہ نے تمھیں سبزے کی طرح زمین سے اُگایا ۔۔اور پھر اسی میں تم کو لوٹایا جا ئے گا ۔۔۔۔ بھائی اس کی تفسیر کیا ہوگی انسان کی تخلیق کا عمل بیان کیا گیا ہے؟

بچے کی زندگی رحم مادر میں زندہ خلیوں کی ذریعے سے پہلے دن سے ہی شروع ہو جاتی ہے کروڑوں حیاتی خلیات میں سے چند رحم مادر میں پہنچتے ہیں اور باقی راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں اور ان سے ہی زندگی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔جبکہ سورہ نوح کی آیت نمبر 17کی تاویل اس طرح کی جاتی ہے کہ ہم نے تم کو سبزے کی طرح اگایا ۔۔۔ یعنی انسان کو زمین سے اگایا بُت بنا کر روح پھونکنے کا ذکر نہیں

جواب

الله تعالی نے کہا
{واللّهُ أنْبتكُمْ مِن الْأرْضِ نباتا (17) ثُمّ يُعِيدُكُمْ فِيها ويُخْرِجُكُمْ إِخْراجا (18)}.
اور الله نے تم کو زمین میں سے اگایا – پھر تم کو اسی میں لوٹا دے گا اور نکالے گا

یہ جسد آدم کی بات ہے اور جب بھی آدم کا ذکر ہوتا ہے تمام بنی آدم پر وہ منطبق ہوتا ہے اس وجہ سے جمع کا صیغہ اتا ہے

قرآن میں ہے
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ
اور بے شک ہم نے تم کو سب کو خلق کیا پھر صورت گری کی پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو

یعنی بنی آدم کی تمام ارواح خلق کیں اور تقدیر میں تمام کی صورت لکھی اور پھر آدم کے لئے سجدہ کا حکم کیا

قرآن میں بلاغت کا انداز ہے

انسان کی تخلیق میں منی کے جرثومہ میں زندگی ہوتی ہے اور جب انسان مرتا ہے تو جسم کے جراثیم بھی بھی زندہ رہتے ہیں ان کو مرنے میں مدت لگتی ہے اور درحقیقیت یہی تغیر و تبدل کے عمل میں ہوتا ہے کہ عناصر بدلتے ہیں جسم گوشت سے مٹی کی حالت پر اتا ہے ظاہر ہے اس میں بھی کیمیاآئی عمل ہوتا ہے
اگر انسان کو جلا دیا جائے تو اس کا جسم ایندھن کی طرح جلتا ہے بال کھال – سائنس کہتی ہے کہ ایندھن جب جلتا ہے تو پانی اور کاربنڈائی آکسائڈ بن جاتا ہے گویا انسان کا کچھ وجود گیس کی حالت میں تبدیل ہو کر کرہ ارضی کے گرد حالت گیس میں بکھر جاتا ہے
یہ سب سائنس میں ہے کیونکہ اس میں روح نہیں ہے وہ روح کے وجود کو نہیں مانتی کیونکہ نہ تو روح کی پیمائش ممکن ہے نہ حجم ہے نہ وزن ہے جب اپ کسی چیز کو ناپ نہ سکیں اس کے وجود کا کوئی اشارہ ہی نہ ہو تو اسی چیز کو سائنس نہیں مانتی
————–

مذھب میں روح کا ہی ذکر ہے اسی سے زندگی بنتی ہے ختم ہوتی ہے
انسان کو درخت سے تشبیہ دی گئی ہے کہ انسان اس طرح نشو نما پاتا ہے کہ گویا ایک درخت ہو
اور آخرت میں جب آسمان سے بارش ہو گی تو تمام خلقت پودوں کی طرح دوبارہ پیدا ہو گی
جیسا حدیث میں ہے
——
اپ دونوں کو ملا دین گے تو کچھ نتیجہ نہ نکال سکیں گے
یہ بات کہ انسان زمیں سے اگا یہ یونانی فلسفیوں کی رائے ہے
Thales the Milesian (639-544 B.C.)
کے مطابق انسانی زندگی پانی پر شروع ہوئی
باطنی شیعوں کا بھی یہی قول تھا کہ آسمان سے بارش ہوئی اس سے زمین پر تالاب بن گئے اس میں زندگی شروع ہوئی
بعد میں اخوان الصفا نے اس کو بیان کیا اور اندلس کے مسلمان فلسفیوں نے بھی
لیکن یہ قرآن کی آیات سے متصادم قول ہے جس کے مطابق زندگی آدم سے شروع ہوئی جنت میں
———
اس میں تطبیق اس طرح دینے کی کوشش کی گئی کہ مودودی نے کہا کہ وہ جنت زمیں کا ہی ایک ٹکڑا تھی دلیل یہ ہے کہ آدم نے کسی باغ کا بھل کھایا اگر جنت کا کھایا ہوتا تو مرتے نہیں
اس قسم کی بات مودودی نے رسائل و مسائل میں کہیں کہی ہے
تفہیم میں کہا
وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اِسی زمین پر بنائی گئی ہو۔
http://www.urduquran.net/?surah=20&rukuh=7
پرویز نے بھی اسی طرح کا کوئی قول کہا ہے
لیکن یہ تمام باتیں بے ربط ہیں
—————
آدم عبرانی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہی سرخ مٹی ہے

—–

رحم مادر میں ٦ ہفتوں میں (٤٢ دن بعد) منی کی آمد کے بعد دل دھڑکنا شروع ہوتا ہے
اس کو ٨وں ہفتے سے سنا جا سکتا ہے

حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جب نطفے پر ٤٢ راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتاہے ‘ جو اس کی صورت ‘کان ‘آنکھ ‘کھال’ گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے ‘پھر عرض کر تاہے اے پروردگار، یہ مرد ہے یا عورت ‘پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ فرماتاہے ‘فرشتہ لکھ دیتاہے ‘پھر عرض کرتاہے ‘ اے پروردگار اس کی عمر کیاہے ‘چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتاہے حکم فرماتا ہے اورفرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتاہے کہ اے پروردگار اس کی روزی کیا ہے ‘چنانچہ پروردگار جو چاہتاہے وہ حکم فرمادیتاہے اورفرشتہ لکھ دیتاہے اور پھر وہ فرشتہ وہ کتاب اپنے ہا تھ میں لے کر باہر نکلتاہے جس میں کسی بات کی کمی ہوتی ہے اورنہ زیادتی ” (صحیح مسلم باب القدر)

انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ یہ عرض کرتا رہتا ہے اے میرے (رب ابھی تک) یہ نطفہ (کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب)یہ علقہ (یعنی جمے ہوئے خون کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب) یہ مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کے مرحلے میں) ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ اس کی خلقت کو پورا کرنے کا ارادہ (ظاہر) کرتے ہیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب (اس کے متعلق کیا حکم ہے) یہ مردہو گا یا عورت، بدبخت ہوگا یا نیک بخت، اس کا رزق کتنا ہوگا اور اس کی عمر کتنی ہوگی۔ تو ماں کے پیٹ میں ہی وہ فرشتہ یہ سب باتیں ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ جیسا اسے حکم دیا جاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق اور عمر لیکر پیدا ہو تا ہے ۔

مضغہ کی حالت (لغوی مفہوم چبایا ہوا مادہ) کے بعد ہی بچہ دانی میں دل دھڑکتا ہے
گویا یہ اب ایک بت بن چکا ہوتا ہے جس میں روح اتی ہے

بیالیس دن بعد فرشتہ کا آنا اور اسی پر دل کی دھڑکن کا سنا جانا ایک بات ہے اس طرح حدیث اور سائنس ایک ہی بات کہتے ہیں
=======

اب ایک متضاد روایت جو صحیح بخاری میں ابن مسعود سے مروی ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل ‘اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ….”(صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

لیکن طحاوی نے کہا یہ بات ابن مسعود کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتائی ہو گی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس حدیث پر لوگوں کو شک ہوا لہذا کتاب جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم از ابن رجب میں ہے
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الَّذِي حَدَّثَ عَنْكَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ حَدَّثْتُهُ بِهِ أَنَا ” يَقُولُهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ غَفَرَ اللَّهُ لِلْأَعْمَشِ كَمَا حَدَّثَ بِهِ، وَغَفَرَ اللَّهُ
مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ نے روایت کیا کہ میں نے خواب میں نبی کو دیکھا کہا اے رسول الله حدیث ابن مسعود جو انہوں نے اپ سے روایت کی ہے کہا سچوں کے سچے نے کہا ؟ فرمایا وہ جس کے سوا کوئی الہ نہیں میں نے ہی اس کو ان سے روایت کیا تھا تین بار کہا پھر کہا الله نے اعمش کی مغفرت کی کہ اس نے اس کو روایت کیا

یہ انداز تھا تصحیح احادیث کے لیے ائمہ کا

[/EXPAND]

[دو زندگیاں دو موت میں پہلی موت سے کیا مراد ہے ؟]

جواب

اس میں لوگوں کے اقوال ہیں یا تفسیری آراء ہیں
مثلا بعض کہتے ہیں جب انسان نہیں تھا یعنی جب اپ پیدا نہیں ہوئے تھے وہ وقت موت تھا جس کو حالت عدم بھی کہتے ہیں
بعض کے نزدیک یہ جنین کی حالت ہے جس میں روح نہیں ہے
طبری کے نزدیک دونوں قول صحیح ہیں
———–
تفسیر ابی حاتم میں ابن عباس کا قول ہے
حَدَّثَنَا أَبِي ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَنْبَأَ هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: كُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ فِي أَصْلابِ آبَائِكُمْ لَمْ تَكُونُوا شَيْئًا حَتَّى خَلَقَكُمْ، ثُمَّ يُمِيتُكُمْ مَوْتَةَ الْحَقِّ، ثُمَّ يُحْيِيِكُمْ حِينَ يَبْعَثُكُمْ «3» . قَالَ: وَهِيَ مِثْلُ قَوْلِهِ:
أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ. وَرُوِيَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ وَالْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَأَبِي صَالِحٍ وَالسُّدِّيِّ وَقَتَادَةَ نَحْوُ ذَلِكَ.
تم مردہ تھے پھر تم کو تمھارے باپوں کے اندر زندگی دی گئی تم کوئی چیز نہ تھے یہاں تک کہ خلق ہوئے پھر مرو گے موت جو حق ہے پھر دوبارہ زندہ ہو گے
ایسا ہی أَبِي الْعَالِيَةِ وَالْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَأَبِي صَالِحٍ وَالسُّدِّيِّ وَقَتَادَةَ نے کہا
اس کی سند صحیح ہے
یعنی ان کے نزدیک حالت عدم موت تھی

——–

تفسیر طبری میں ابن عباس سے منسوب دوسرا قول ہے
حُدثت عن المنجاب، قال: حدثنا بشر بن عمارة، عن أبي روق، عن الضحاك، عن ابن عباس، في قوله:”أمتَّنا اثنتين وأحييتنا اثنتين”، قال: كنتم تُرابًا قبل أن يخلقكم، فهذه ميتة، ثم أحياكم فخلقكم، فهذه إحياءة. ثم يميتكم فترجعون إلى القبور، فهذه ميتة أخرى. ثم يبعثكم يوم القيامة، فهذه إحياءة. فهما ميتتان وحياتان، فهو قوله:”كيف تكفرون بالله وكنتم أمواتًا فأحياكم ثم يميتكم ثم يحييكم، ثم إليه ترجعون”.
الضحاك نے کہا ابن عباس نے کہا … تم مٹی تھے خلق ہونے سے پہلے پس یہ مردہ ہے پھر زندہ ہوئے تخلیق پر یہ زندگی ہے
سند منقطع ہے
الضحاك بن مزاحم الهلالي صاحب التفسير كان شعبة ينكر أن يكون لقي بن عباس
شعبہ نے راوی کے سماع کا انکار کیا ہے

طبری نے کہا
وأما وجه تأويل قول قتادة ذلك: أنهم كانوا أمواتًا في أصلاب آبائهم. فإنه عنى بذلك أنهم كانوا نطفًا لا أرواح فيها، فكانت بمعنى سائر الأشياء الموات التي لا أرواح فيها. وإحياؤه إياها تعالى ذكره، نفخُه الأرواح فيها، وإماتتُه إياهم بعد ذلك، قبضُه أرواحهم. وإحياؤه إياهم بعد ذلك، نفخُ الأرواح في أجسامهم يوم يُنفخ في الصّور، ويبْعثُ الخلق للموعود.
اور قتادہ کے قول کا جہاں تک تعلق ہے کہ تم مردہ تھے اپنے باپوں کے صلب میں تو معنی ہے کہ تم نطفہ تھے جس میں روح نہیں تھی تو ان معنوں میں تمام اشیاء حالت موت میں ہیں جن میں روح نہیں ہے

یہاں تم مردہ تھے مراد راقم سمجھتا ہے حالت عدم ہے یعنی جب ہم نہیں تھے تو گویا ہم مردہ تھے

[/EXPAND]

[سبز پرندوں والی روایت موقوف ہے ؟]

جواب

سند صحابی پر جا کر رک جائے تو حدیث موقوف ہے
اس کی سند میں ایسا ہے لیکن متن میں الفاظ ہیں
قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ , فَأُخْبِرْنَا
ہم نے بھی اس پر سوال کیا تھا پس ہم کو خبر دی گئی

ابن مسعود کو یہ خبر یقینا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملی کیونکہ کوئی اور غیب کی یہ خبر نہیں دے سکتا

بیہقی نے کتاب إثبات عذاب القبر وسؤال الملكين کی حدیث کے بعد ابن عباس کی روایت بھی دی ہے اس کے بعد کہا
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَاضِي، بِمَرْوَ، ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِي أُسَامَةَ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ فُضَيْلٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ مَحْمُودَ بْنِ لُبَيْدٍ الأَنْصَارِىُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الشُّهَدَاءُ عَلَى بَارِقِ – نَهْرٍ بِبَابِ الْجَنَّةِ – فِي قُبَّةٍ خَضْرَاءَ يَخْرُجُ عَلَيْهِمْ رِزَقُهُمْ بُكْرَةً وَعَشِيًّا»

قَالَ الشَّيْخُ : الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ مِنْ هَذَا، وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ بیہقی نے کہا پہلی ابن مسعود والی حدیث ابن عباس کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اور ابن عباس نے اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہی روایت کیا ہے جیسا کہ حدیث ابن مسعود میں ہے

اس روایت کو مرفوع ہی لیا گیا ہے
https://www.islamic-belief.net/روح-کے-بدلتے-قالب/

الألباني في ” السلسلة الصحيحة ” 6 / 279 :
أخرجه مسلم ( 6 / 38 – 39 ) و الترمذي ( 3014 ) و الدارمي ( 2 / 206 ) و ابن
ماجه ( 2 / 185 ) و البيهقي في ” الشعب ” ( 4 / 19 – 20 ) و الطيالسي ( 38 /
294 ) و ابن أبي شيبة ( 5 / 308 ) و هناد في ” الزهد ” ( 154 ) و الطبري ( 8206
) من طرق عن الأعمش عن عبد الله بن مرة عن مسروق قال : سألنا عبد الله [ بن
مسعود ] عن هذه الآية *( و لا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل
أحياء عند ربهم يرزقون )* ؟ قال : أما إنا قد سألنا عن ذلك ؟ فقال : … فذكره
. و السياق لمسلم ، و الزيادة للترمذي ، و قال : ” حديث حسن صحيح ” . قلت : هو
مرفوع في صورة موقوف ، فإن النبي صلى الله عليه وسلم لم يذكر فيه صراحة ، لكنه
في حكم المرفوع قطعا ، و ذلك لأمرين : الأول : أن قوله : ” سألنا عن ذلك ؟ فقال
: ” لا يمكن أن يكون المسؤول و القائل إلا الرسول صلى الله عليه وسلم ، لأنه هو
مرجعهم في بيان ما أشكل أو غمض عليهم و الآخر : أن ما في الحديث من فضل الشهداء
عند الله ، و مخاطبته تعالى إياهم و جوابهم و طلبهم منه أن ترد أرواحهم إلى
أجسامهم ، كل ذلك مما لا يمكن أن يقال بالرأي . و لذلك قال النووي في ” شرح
مسلم ” : ” و هذا الحديث مرفوع لقوله : ” إنا قد سألنا عن ذلك ، فقال ، يعني
النبي صلى الله عليه وسلم ” . و أمر ثالث : أنه قد جاء طرف منه مرفوعا من حديث
ابن عباس رضي الله عنه عند أحمد

البانی نے کہا میں کہتا ہوں یہ مرفوع ہے صورت میں موقوف لگ رہی ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا اس میں صراحت سے ذکر نہیں ہے لیکن یہ مرفوع قطعی ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں اول اس میں قول ہے کہ ہم نے اس پر سوال کیا تھا پس یہ ممکن نہیں کہ سوال جس سے کیا گیا اور جس نے جواب دیا وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے سوا کوئی اور ہو کیونکہ ان سے ہی اشکال پر سوال کیا جاتا تھا یا جس میں اغمض ہو دوم اس میں شہداء کی فضیلت کا ذکر ہے … اور اس کا جواب رائے سے نہیں دیا جا سکتا اور ایسا ہی نووی نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ یہ حدیث مرفوع ہے

ملا علی قاری کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں کہتے ہیں
قُلْتُ: أَيْضًا: جَلَالَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَأْبَيْ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ ذَلِكَ غَيْرَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
میں بھی نووی کی طرح یہی کہتا ہوں کہ ابن مسعود کی جلالت شان کے خلاف ہے کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے سوا کسی سے سوال کرتے

الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم میں محمد الأمين بن عبد الله الأُرَمي العَلَوي الهَرَري الشافعي یہی کہتے ہیں کہ یہ مرفوع ہے
ما حرف استفتاح وتنبيه أي انتبهوا واستمعوا ما أقول لكم أيها المخاطبون إنا معاشر الصحابة سألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم (عن ذلك) أي عن معنى هذه الآية وتأويلها فيكون الحديث مرفوعًا يدل على ذلك قرينة الحال فإن ظاهر حال الصحابي أن يكون سؤاله من النبي صلى الله عليه وسلم لا سيما في تأويل آية كهذه اهـ من المرقاة وعبارة القرطبي قوله (أما إنا سألنا عن ذلك فقال) رسول الله صلى الله عليه وسلم في جواب سؤالنا كذا صحت الرواية ولم يذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكن هو المراد منها قطعًا ألا ترى قوله (فقال) وأسند الفعل إلى ضميره وإنما سكت عنه للعلم به فهو مرفوع وليس هذا المعنى الذي في هذا الحديث مما يتوصل إليه بعقل ولا قياس وإنما يتوصل إليه بالوحي فلا يقال هو موقوف على عبد الله بن مسعود اهـ من المفهم.

———
یاد رہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ کسی کو قرآن سیکھنا ہو تو ابن مسعود سے سیکھے

[/EXPAND]

[آج کے دور کے اہل حدیثوں کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے]

تم میں سے جب کوئی سلام کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری طرف میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میںً اسکے سلام کا جواب دیتا ہوں
اور یہ روایت پہلے کے اہل حدیث کے کونسے علماء نےصحیح روایت سمجھ کر جو اوپر بیان کی ہے مسند احمد کی روایت پر عقیدہ بنایا تھا اس شخصیت کا نام کے ساتھ حوالہ چاہیے بہت شکریہ جزاک اللہ

جواب

خواجہ محمد قاسم نے کتاب کراچی کا عثمانی مذہب میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے
زبیر علی زئی نے سوالات میں کہا ہے
زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں ضعیف کہا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=s5rsyFMYpg0
اسی ویڈیو میں ٥٤:٣٤ منٹ پر قبر میں روح لوٹائے جانے والی روایت پر سوال ہوا

اس کتاب میں اس کی تفصیل ہے

https://www.islamic-belief.net/وفات-النبی-پر-کتاب/

مختصرا یہ کتاب اکابر پرستی و صراط مستقیم میں مضمون مصطفی سراپا رحمت پہ لاکھوں سلام کے نام سے بھی ہے

[/EXPAND]

بریدہ اسلمی کی وصیت

صحیح بخاری   کی روایت ہے

حدیث نمبر: 218  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ  عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَمَّا أَحَدُهُمَا  فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لِمَ فَعَلْتَ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا”، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا مِثْلَهُ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ.

ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے مجاہد کے واسطے سے روایت کیا، وہ طاؤس سے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے

صحیح بخاری میں ایک معلق روایت بھی اتی ہے –  امام بخاری نے صحیح میں باب میں روایت نقل کی ہے کہ بريدة بن الحصيب الصحابي رضي الله عنه  نے وصیت کی أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ  کہ بریدہ رضی الله عنہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر پر ٹہنیاں لگائی جائیں

وَأَوْصَى بُرَيْدَةُ الأَسْلَمِيُّ: «أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ

امام بخاری جب ابواب میں اس طرح کی روایات نقل کرتے ہیں تو اس کا مقصد اس مسئلہ پر کچھ اقوال  نقل کرنا ہوتا ہے جن کی وہ  سند  نہیں دیتے انہوں نے اس قول کو نقل کرنے کے بعد ابن عمر کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک قبر پر خیمہ دیکھا تو کہا کہ صاحب قبر کا عمل اس پر سایہ کرے گا -شارحین کی رائے ہے کہ امام بخاری نے بریدہ رضی الله عنہ کے قول کو ابن عمر رضی الله عنہ  کے قول کے ساتھ پیش کیا کیونکہ ان کے نزدیک  ٹہنی لگانا نبی کے لئے خاص تھا

تغليق التعليق على صحيح البخاري از  أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) میں اس کی سند ہے

أما أثر بُرَيْدَة فَقَالَ ابْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ ثَنَا حَمَّادُ ابْن سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ قَالَ أَوْصَى بُرَيْدَةُ أَنْ يُوضَعَ عَلَى قَبْرِهِ جَرِيدَتَانِ وَمَاتَ بِأَدْنَى خُرَاسَانَ

وَقد وَقع لي من طَرِيق أُخْرَى لأبي بَرزَة الْأَسْلَمِيّ أَيْضا وفيهَا حَدِيث مَرْفُوع من حَدِيثه قَرَأت عَلَى أَحْمد بن عمر اللؤْلُؤِي عَن الْحَافِظ ز 116 ب أبي الْحجَّاج الْمزي أَن يُوسُف بن يَعْقُوب [بن المجاور] أخبرهُ أَنا أَبُو الْيمن الْكِنْدِيّ أَنا أَبُو مَنْصُور الْقَزاز أَنا أَبُو بَكْرٍ الْخَطِيبُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَخْلَدٍ ثَنَا أَبُو سَعِيدٍ النَّسَوِيُّ سَمِعت أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ بِسْطَامٍ يَقُولُ سَمِعت أَحْمد ابْن سَيَّارٍ يَقُولُ ثَنَا الشَّاهُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَني أَبُو صَالِحٍ سُلَيْمَانُ بْنُ صَالِحٍ [اللَّيْثِيُّ] ثَنَا النَّضْرُ بْنُ الْمُنْذِرِ بْنِ ثَعْلَبَة [الْعَبْدِيُّ] عَن حَمَّاد بن سَلمَة عَن قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا بَرْزَةَ الأَسْلَمِيَّ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى قَبْرٍ وَصَاحِبُهُ يُعَذَّبُ فَأَخَذَ جَرِيدَةً فَغَرَسَهَا فِي الْقَبْرِ وَقَالَ عَسَى أَنْ يُرَفِّهَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً))وَكَانَ أَبُو بَرزَة يُوصي إِذا مت فضعوا فِي (قَبْرِي) معي جريدتين قَالَ فَمَاتَ فِي مفازة بَين كرمان وقومس فَقَالُوا كَانَ يوصينا أَن نضع فِي قَبره جريدتين وَهَذَا مَوضِع لَا نصيب فِيهِ فَبَيْنَمَا هم كَذَلِك إِذْ طلع عَلَيْهِم ركب من قبل سجستان فَأَصَابُوا مَعَهم سَعَفًا فَأخذُوا مِنْهُم جريدتين فوضعوهما مَعَه فِي قَبره

اور جہاں تک بریدہ کے اثر کا تعلق ہے تو ابن سعد نے (طبقات میں) کہا أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ ثَنَا حَمَّادُ ابْن سَلَمَةَ ، انہوں نے عَاصِمٍ الأَحْوَلِ سے انہوں نے مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ سے روایت کیا کہا بریدہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں لگا دی جائیں اور وہ ادنی خراسان میں مرے

اور مجھے (ابن حجر) ایک اور طرق ملا ابی برزہ اسلمی سے جو حدیث مرفوع ہے .. قتادہ نے کہا أَبَا بَرْزَةَ الأَسْلَمِيَّ نے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک قبر پر سے گزرے جس کے صاحب کو عذاب ہو رہا تھا پس ایک ٹہنی لی اس کو قبر پر گاڑھا اور فرمایا ہو سکتا ہے یہ عذاب اٹھ جائے جب تک یہ تر رہے

مورق المتوفی ١٠٥ ھ کا سماع بریدہ رضی الله عنہ المتوفی ٦٢ ھ  سے ثابت  نہیں ہو سکا

مورق کی وفات ابن سعد کے مطابق  توفّي فِي ولَايَة عمر بن هُبَيْرَة عمر بن ہبیرہ کے دور میں ہوئی

تاریخ الدمشق کے مطابق عمر بن ہبیرہ كان أمير العراقين من قبل يزيد بن عبد الملك- خلیفہ یزید بن عبد الملک کے دور( ١٠١ سے َ٠٥ ہجری ) میں عراق کے امیر تھے- بریدہ رضی الله عنہ کی وفات سن ٦٢ ھ میں خراسان میں ہوئی

ذخیرہ احادیث میں مورق کی یہ بریدہ رضی الله عنہ سے واحد روایت ہے- مورق، صحابی رسول ابی ذر رضی الله عنہ سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں – مورق کے  بریدہ سے سماع کا متقدمین محدثین میں سے کسی   نے ذکر بھی نہیں کیا

کتاب  كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري   از   الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق

قال الطُرْطُوشيّ: لأن ذلك خاص ببركة يده

الطُرْطُوشيّ کہتے ہیں : یہ تو نبی کے ہاتھ کی خاص برکت تھی

یعنی کسی غیر نبی کے ہاتھ سے ٹہنی لگنے سے وہ عذاب میں تخفیف کا باعث نہیں ہو سکتیں

الشنقيطي کہتے ہیں

قلت: وعلى كل حال، فعل بُريدة فيه استئناس لما تفعله الناس اليوم من وضع الجريد ونحوه على القبر، فإن الصحابي أدرى بمقاصد الحديث من غيره، خلافًا لما مرَّ عن الخَطّابي

میں کہتا ہوں:  ہر صورت میں بریدہ کے فعل سے متاثر ہو کر ہی لوگ آج ٹہنی قبر پر لگاتے ہیں، کیونکہ صحابی  حدیث کے مقصد کو جانتے ہیں اور یہ اس کے خلاف ہے جس طرف الخطابی گئے ہیں

فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں

قَالَ بن رَشِيدٍ وَيَظْهَرُ مِنْ تَصَرُّفِ الْبُخَارِيِّ أَنَّ ذَلِكَ خَاص بهما  

ابن رشید نے کہا اور بخاری کے تصرف سے ظاہر ہے کہ (یہ ٹہنی لگانا ) ان کے نزدیک یہ خاص ان (دو معذبین) کے لئے تھا

عبد الرحمن مبارک پوری  جناب بریدۃ الاسلمی رضی الله عنہ کے  اس اجتہاد کو قبول کرتے ہیں
’’ میں کہتا ہوں جیسا کہ حضرت بریدہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی اور قبر میں کھجور کی شاخ کو رکھنا جائز سمجھا اسی طرح اب بھی اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع کرے اور قبر میں کھجور کی شاخ گاڑے تو اس میں کچھ حرج نہیں معلوم ہوتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم اوربہت سے لوگ جو بیر کی شاخ یا انار کی شاخ قبر میں گاڑتے ہیں ‘ سو اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے ‘(کتاب الجنائز ص۷۳)

 ابن الحسن محمدی اپنے مضمون قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا کیسا ہے؟  میں لکھتے ہیں

قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا کیسا ہے؟

الحلل الإبريزية من التعليقات البازية على صحيح البخاري  میں وہابی عالم   عبد العزيز بن عبد الله بن باز کہتے ہیں

وهو الذي جعل بريدة يوصي بذلك، والعلماء على خلاف ذلك، والنبي – صلى الله عليه وسلم – لم فعله في غيرهما، وهذا خاص بهما، ولم يفعله بأصحابه، ولا ببناته، وبريدة ظن أنه مشروع.

اور ایسا بریدہ نے وصیت کی اور علماء اس کے خلاف ہیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کسی اور کے لئے نہیں کیا اور یہ ان دو کے لئے خاص تھا اور نہ ان کے اصحاب نے کیا اور نہ  ان کی بیٹیوں نے اور بریدہ نے گمان کیا کہ یہ مشروع ہے

الغرض بریدہ اسلمی رضی الله عنہ کی وصیت ان کا اجتہاد تھا لیکن یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم  نہیں کیونکہ جو نبی صلی الله علیہ وسلم نے کیا وہ ان کے لئے خاص تھا – یہ بیشترعلماء کی رائے ہے راقم کے نزدیک روایت ضعیف ہے مورق کا سماع بریدہ رضی الله عنہ سے ثابت نہیں

اس وصیت کا مختصرا تذکرہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے کتاب عذاب البرزخ میں کیا

اسی طرح بعض انتہائی ہوشیار بریدۃ الاسلمیؓ کی وصیت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قبر میں کھجور کی دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت کی تھی۔ بخاری باب ’’ الجرید علی القبر‘‘ لا کر بتلاتے ہیں کہ یہ ان کی بات وصیت کے وقت کی ہے ورنہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جب عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ کی قبر پر خیمہ دیکھا تو حکم دیا ’’یا غلام انزعہ فانما یظلہ عملہ‘‘ اے لڑکے خیمہ ہٹا دے ‘ان کے اوپر تو صرف ان کا عمل سایہ کرے گا ’ خیمہ یا شاخ نہیں‘۔(بخاری عربی ص۱۸۱ جلد ۱۔ عذاب قبر ص۱۸)

کتاب عذاب قبر الناشر​مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی​ میں ابو جابر دامانوی اپنی علمی استعداد کے مطابق ڈاکٹر عثمانی کے لکھے پر کہتے ہیں

آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ جناب بریدۃ الاسلمیؓ نے جو وصیت کی تھی موصوف کے نزدیک ان کی یہ بات وصیت کے وقت کی تھی گویا موصوف کے نزدیک جو شخص بھی مرض الموت میں مبتلا ہوا وہ ضرور اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گا۔اور ضرور بحرانی کیفیت میں مبتلا ہو۔ غور فرمائیے کہ یہ نقطہ نگاہ کس قدر غلط اور خطرناک ہے جو بات بھی موصوف کے نظریات کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے جھٹلا دیتے ہیں۔

افسوس دوسروں کا چبایا کھا کھا کرقرطاس کالا کرنے کی سعی میں  موصوف نے دھیان ہی نہیں دیا کہ وہابی اور علم مسلک غیر مقلدین کیا کہتے ہیں

 کتاب بدعات کا انسائیکلوپیڈیا میں البانی کا قول بیان ہوا ہے

البانی کہتے ہیں کہ بریدہ رضی الله عنہ کی رائے کی کوئی دلیل نہیں ہے – البانی کے نزدیک ایسا کرنا بدعت ہے

ان علماء کے نزدیک  حدیث نبوی  کا منشا یہ نہیں ہے کہ  جو  بریدہ سے منسوب روایت میں بیان کیا گیا ہے

عمرو بن العاص کی وصیت ٢

مصر میں بعض عمل جنازہ کے بعد کیے جاتے تھے جو حجاز میں اہل اسلام سے نہیں ملے تھے اس کا ذکر امام الشافعی نے کیا  – کتاب الام میں امام الشافعی لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ قَالَ (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَقَدْ بَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ مَنْ مَضَى أَنَّهُ أَمَرَ أَنْ يُقْعَدَ عِنْدَ قَبْرِهِ إذَا دُفِنَ بِقَدْرِ مَا تُجْزَرُ جَزُورٌ (قَالَ) : وَهَذَا أَحْسَنُ، وَلَمْ أَرَ النَّاسَ عِنْدَنَا يَصْنَعُونَهُ 

الرَّبِيعُ نے خبر دی کہ امام الشافعی نے کہا مجھ تک پہنچا کہ جو لوگ گزرے ہیں ان میں سے بعض اس کا حکم کرتے تھے کہ  تدفین کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر بیٹھا جائے کہ اس میں اونٹ ذبح ہو جائے امام الشافعی نے کہا یہ احسن ہے اور ہمارے پاس جو لوگ ہیں ہم نے نہیں دیکھا کہ  لوگ ایسا کرتے ہوں

عصر حاضر کے وہابی علماء اور ہمارے نزدیک یہ عمل بدعت ہے اور حق کا تقاضہ ہے کہ کوئی امام کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کی تقلید نہ کی جائے –  یہ عمل مصریوں کی ایک بدعت تھا اور اس کو سند جواز بھی انہوں نے ہی دیا لہذا مصریوں نے روایت بیان کی کہ اس قسم کی وصیت صحابی رسول عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے کی

صحیح مسلم کی روایت ہے جس کا ترجمہ ابو جابر دامانوی نے کتاب عذاب قبر میں پیش کیا ہے

http://forum.mohaddis.com/threads/عذاب-قبر.25558/page-4

جناب ابن شماسہ المہری ؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب عمرو بن العاص ؓ کے پاس اس وقت گئے جب کہ ان کی وفات کا وقت قریب تھا وہ بہت دیر تک روتے رہے او ردیوار کی طرف منہ پھیر لیا۔بیٹے نے کہا ابا جان کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں بشارت نہیں دی؟ پھر آپ اس قدر کیوں روتے ہیں ؟ تب انہوں نے اپنا منہ ہمارے طرف کیا اور فرمایا ہمارے لئے بہترین توشہ تو اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں (پھر فرمایا) میں تین ادوار سے گزرا ہوں۔ایک دور تو وہ تھا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی سے بغض نہ تھا اور کوئی چیز میری نظر میں اتنی محبوب نہ تھی جتنی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قدرت حاصل ہو جائے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالوں (معاذ اللہ)پھر دوسرا دور وہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کا خیال میرے دل میں پیدا کیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہاتھ پھیلائیے تا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا تو میں نے اپناہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا میں شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ شرط یہ ہے کہ میرے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں۔ فرمایا عمروؓ کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام تمام سابقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت تمام پہلے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے اور حج تمام گناہوںکو مٹا دیتا ہے (چنانچہ میں نے بیعت کر لی) اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھے کسی سے محبت نہ تھی اور نہ میری آنکھوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی صاحب جلال تھا۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و جلال کے باعث آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکتا تھا اور چونکہ پورے طور پر چہرہ مبارک نہ دیکھ سکتا تھا اس لئے مجھ سے ان کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں بیان نہیں کر سکتا۔ اگر میں اسی حالت میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا۔اس کے بعد ہم بہت سی باتوں کے ذمہ دار بنائے گئے۔ معلوم نہیں میرا ان میں کیا حال رہے گا۔جب میں مر جائوں تو کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ جائے اور نہ آگ ساتھ لے جائی جائے اور جب مجھے دفن کرنا تو اچھی طرح مٹی ڈال دینا پھر میری قبر کے چاروں طرف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے تا کہ میں تم سے انس حاصل کر سکوں اور دیکھوں کہ اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( صحیح مسلم جلد ۱ص۷۶ مسند احمد جلد ۴ ص۱۹۹)

عصر حاضر کے ایک مشھور و معروف  وہابی عالم شیخ   محمد بن صالح العثيمين اپنے فتوی میں کہتے ہیں جو  مجموعة أسئلة تهم الأسرة المسلمة  ج ٢١٩ ص ٣٥ میں چھپا ہے کہ

هذا أوصى به عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه ـ فقال: «أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها»، لكن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرشد إليه الأمة، ولم يفعله الصحابة ـ رضي الله عنهم ـ فيما نعلم

 یہ عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه نے وصیت کی پس کہا میری قبر کے اطراف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے .. لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہ ہی اسکی نصیحت امت کو کی، نہ صحابہ رضی الله تعالی عنہم نے ایسا کیا  جیسا ہمیں پتا ہے

کتاب  شرح رياض الصالحين  میں وہابی عالم  محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)   مزید وضاحت کرتے ہیں

 أما ما ذكره رحمه الله عن عمرو بن العاص رضي الله عنه أنه أمر أهله أن يقيموا عنده إذا دفنوه قدر ما تنحر جزور قال لعلي أستأنس بكم وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي يعني الملائكة فهذا اجتهاد منه رضي الله عنه لكنه اجتهاد لا نوافقه عليه لأن هدي النبي صلى الله عليه وسلم أكمل من هدي غيره ولم يكن النبي صلى الله عليه وسلم يقف أو يجلس عند القبر بعد الدفن قدر ما تنحر الجزور ويقسم لحمها ولم يأمر أصحابه بذلك 

اور جہاں تک وہ ہے جو امام نووی .. نے عمرو بن العاص رضی الله عنہ کے لئے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اہل کو حکم کیا کہ وہ دفنانے کے بعد قبر کے گرد کھڑے ہوں اور اونٹ کو ذبح کرنے کی مدت کھڑے ہوں اور کہا کہ ہو سکتا ہے کہ میں مانوس ہو جائیں اور دیکھوں کہ کیا جواب دوں اپنے رب کے فرشتوں کو پس یہ ان کا اجتہاد تھا رضی الله عنہ لیکن یہ اجتہاد اس پر نہیں ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت اکمل ہدایت ہے کسی غیر سے اور نبی صلی الله علیہ وسلم تو نہ قبر پر رکے نہ بیٹھے قبر میں دفنانے کے بعد اونٹ نحر کرنے اور گوشت باٹنے کی مدت اور نہ اس کا حکم اصحاب رسول کو کیا اس کام کے لئے 

اسی طرح فتاوى نور على الدرب میں عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ)   کہتے ہیں

 أما كونهم يجلسون قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها فهذا من اجتهاد عمرو وليس عليه دليل

ان کے لئے قبر کے گرد اس قدر پیٹھنا کہ اس میں اونٹ نحر ہو اور اس کا گوشت تقسیم ہو تو یہ عمرو کا اجتہاد ہے اس اس پر کوئی دلیل نہیں 

وہ علماء جنہوں نے عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے منسوب  اس وصیت کے آخری الفاظ پر جرح کی ہے ان کے متعلق ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں کہ یہ روافض جیسے ہیں

http://forum.mohaddis.com/threads/عذاب-قبر.25558/page-4

شیعہ (روافض) توویسے ہی عمرو بن العاصؓ سے خا ر کھائے بیٹھے ہیں اوروہ ان سے سخت بغض و عداوت رکھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ موصوف نے بھی روپ بدل کر اور تقیہ کالباس اوڑھ کر یہ سلسلہ شروع کر دیا ہو اور عمرو ؓ دشمنی کو توحید کا نام دے دیا ہو

مزید کہتے ہیں

عمرو بن العاص ؓ نے جو کچھ فرمایا اس کا ایک ایک لفظ احادیث سے ثابت ہے

دامانوی وہ الفاظ جو نزاع کا باعث ہیں ان کو چھوڑ کر ان روایات کو پیش کرتے ہیں جن پر ہمیں اور وہابی علماء کو  اعتراض نہیں بلکہ روایت کے آخری حصہ کو وہابی علماء بدعت قرار دیا ہے  – لیکن ابو جابر کہتے ہیں

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمرو بن العاصؓ کی وصیت بالکل صحیح تھی۔

دامانوی مزید کہتے ہیں

اگر عمرو بن العاصؓ نے سکرات موت میں غلط وصیت کی تھی تو ان کے صاحبزادے جناب عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ (جو خود ایک جلیل القدر اور عابد و زاہد صحابی ؓ ہیں ) کو ضرور اس غلط بات کی تردید کرنا چاہئے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا

افسوس اس جھل صریح پر کیا لب کشائی کریں ضروری نہیں کہ روایات میں ہر چیز ہو – کیا ان کے بیٹوں نے اس پر عمل کیا؟ اس کی روایت ہے کسی کے پاس ؟

اس روایت کو کتاب الزهد والرقائق لابن المبارك ، مسند امام احمد، مستدرک الحاکم  میں بیان کیا گیا ہے بعض میں متن ہے

 وَلَا تَجْعَلَنَّ فِي قَبْرِي خَشَبَةً وَلَا حَجَرًا، فَإِذَا وَارَيْتُمُونِي فَاقْعُدُوا عِنْدِي قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِيعِهَا، أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ

سند ہے

أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ، وَأَبُو بَكْرٍ الْوَرَّاقُ قَالَا: أَخْبَرَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ،

یہاں سند میں ابْنُ لَهِيعَةَ سخت ضعیف ہے اور یہ روایت عبادلہ  سے نہیں ہے یہ بھی مصری ہیں اور يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ اور عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ بھی مصری ہیں

 ابن سعد 4/258-259، ومسلم (121) (192) ، وابن أبي عاصم في “الآحاد والمثاني” (801) ، وابن خزيمة (2515) ، وأبو عوانة 1/70، وابن منده في “الإيمان” (270) ، والبيهقي 9/98، وابن عساكر 3/ورقة 534 من طريق حيوة بن شريح، عن يزيد بن أبي حبیب

امام مسلم نے اس کی سند دی ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ، وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، كُلُّهُمْ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ يَعْنِي أَبَا عَاصِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ

اس میں ابو عاصم النبیل  سے لے کر ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ تک سب مصری ہیں اس میں ابو عاصم النبیل خود امام احمد کے نزدیک یثبج الحدیث (یعنی حدیث کو مضطرب کرنے والا) ہے

یہ اس روایت کی علت ہے کہ اس کو اہل مصر روایت کرتے ہیں تدفین کے بعد اس عمل کا کوئی اور شہر ذکر نہیں کرتا جبکہ اونٹ سب جگہ ہیں- نہ اس پر کوئی اور صحابی عمل کرتا ہے لہذا اس منفرد عمل پر شک ہوتا ہے کہ ایسا مصریوں نے کیوں روایت کیا کہ چار چار گھنٹے تک قبر کے گرد ہی بیٹھا جائے

اب  اس روایت میں الفاظ پر غور کرتے ہیں اور اردو ترجمے  دیکھتے ہیں

دیوبندی غلام رسول سعیدی کا ترجمہ اور شرح

اہل حدیث وحید الزمان کا ترجمہ

اہل حدیث خواجہ محمد قاسم کا ترجمہ

اہل حدیث صادق سیالکوٹی کا ترجمہ

آج کل اہل حدیث کہتے ہیں مردہ صرف جوتوں کی چاپ سنتا ہے جبکہ پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ مردہ اذکار و استغفار سنتا ہے

اہل حدیث ابو سعید سلفی کا ترجمہ

قارئیں اپ ان ترجموں کا تضاد دیکھ سکتے ہیں

الفاظ

وخشت سے بچ جاؤں

تنہائی میں گھبرا جاؤں

سرے سے متن میں ہیں ہی نہیں

اس روایت سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مردہ اتنا پاور فل ہوتا ہے قبر کے باہر لوگوں سے انس حاصل کر سکتا ہے اور ان کو دیکھ کر جواب بھی دیتا ہے؟ یقینا یہ روایت صحیح نقل نہیں ہوئی

مسند احمد میں ہے فَاقْعُدُوا عِنْدِي قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِيعِهَا، أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ کہ میری قبر یا میرے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ جانا اس قدر تک کہ اس میں اونٹ ذبح ہو اور  کٹے اور بٹے یہاں تک کہ میں انسیت حاصل کروں

اونٹ ذبح ہو اور  کٹے اور بٹے اس میں تین چار گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے گویا فرشتوں کے  مختصر سوالات

تمہارا رب کون ہے؟

تمہاری اس شخص (نبی صلی الله علیہ وسلم) پر کیا رائے ہے ؟

پر بیرونی دنیا سے اہل قبور کا انسیت حاصل کرنا فائدہ مند نہیں ہو سکتا جبکہ الله تو سریع الحساب ہے

عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے الفاظ کا ترجمہ کیا جاتا ہے

حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ))یعنی میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا تاکہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو اور میں فرشتوں کو صحیح جواب دے سکوں ۔۔

حالانکہ أستأنس  کا یہ ترجمہ صحیح نہیں أستأنس کا مطلب مانوس ہونا ہی  ہے  أستأنس کا ترجمہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو کرنا غلط ہے

بخاری کی عبدللہ بن سلام سے متعلق حدیث ہے

 قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فِي نَاسٍ، فِيهِمْ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فِي وَجْهِهِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزُ فِيهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ فَاتَّبَعْتُهُ، فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، وَدَخَلْتُ، فَتَحَدَّثْنَا، فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ قُلْتُ لَهُ

قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں لوگوں کے ساتھ تھا بعض ان میں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم بھی تھے پس ایک شخص آیا جس کے چہرے پر خشوع تھا لوگوں نے کہا یہ اہل جنت میں سے ہے …. (اس کے بعد قیس عبدللہ بن سلام سے ملے) حتی کہ وہ (أستأنس)  مانوس ہوئے

صحیح رائے یہی ہے کہ عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وصیت کی روایت شاذ ہے اس میں اہل مصر کا تفرد ہے اور اس کا متن  نصوص سے متصادم ہے

طبقات ابن سعد اور سیر الاعلام النبلاء  میں عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وفات کا ذکر موجود ہے

إِسْرَائِيْلُ: عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ المُخْتَارِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بنِ قُرَّةَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَرْبٍ بنُ أَبِي الأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْرٍو:
أَنَّ أَبَاهُ أَوْصَاهُ: إِذَا مِتُّ، فَاغْسِلْنِي غَسْلَةً بِالمَاءِ، ثُمَّ جَفِّفْنِي فِي ثَوْبٍ، ثُمَّ اغْسِلْنِي الثَّانِيَةَ بِمَاءٍ قَرَاحٍ، ثُمَّ جَفِّفْنِي، ثُمَّ اغْسِلْنِي الثَّالِثَةَ بِمَاءٍ فِيْهِ كَافُوْرٌ، ثُمَّ جَفِّفْنِي، وَأَلْبِسْنِي الثِّيَابَ، وَزِرَّ عَلَيَّ، فَإِنِّي مُخَاصَمٌ.
ثُمَّ إِذَا أَنْتَ حَمَلْتَنِي عَلَى السَّرِيْرِ، فَامْشِ بِي مَشْياً بَيْنَ المِشْيَتَيْنِ، وَكُنْ خَلْفَ الجَنَازَةِ، فَإِنَّ مُقَدَّمَهَا لِلْمَلاَئِكَةِ، وَخَلْفَهَا لِبَنِي آدَمَ، فَإِذَا أَنْتَ وَضَعْتَنِي فِي القَبْرِ، فَسُنَّ عَلَيَّ التُّرَابَ سَنّاً.
ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ أَمَرْتَنَا فَأَضَعْنَا، وَنَهَيْتَنَا فَرَكِبْنَا، فَلاَ بَرِيْءٌ فَأَعْتَذِرَ، وَلاَعَزِيْزٌ فَأَنْتَصِرَ، وَلَكِنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ.
وَمَا زَالَ يَقُوْلُهَا حَتَّى مَاتَ

 شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں اس کی  سند قوی ہے

 إسناده قوي، وهو في ” طبقات ابن سعد ” 4 / 260، و” ابن عساكر ” 13 / 269 / آ.

عبد الله بن عمرو کہتے ہیں میرے باپ نے وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے پانی سے غسل دینا پھر .. پھر جب مجھ کو کھاٹ پر لے کر چلو … میرے جنازے کے پیچھے رہنا اس اس اگلا فرشتوں کے لئے ہے اور پچھلا بنی آدم کے لئے ہے پس جب قبر میں رکھو تو مجھ پر مٹی ڈالنا پھر کہا اے الله تو نے حکم کیا ہم کمزور ہوئے تو نے منع کیا ہم اس کی طرف گئے میں بے قصور نہیں کہ معذرت کر سکوں میں طاقت والا نہیں کہ نصرت والا ہوں لیکن اے الله تیرے سوا کوئی اله نہیں ہے اور وہ یہ کہتے رہے یہاں تک کہ مر گئے

اس روایت میں وہ اختلافی و بدعتی  الفاظ سرے سے نہیں جو صحیح مسلم کی روایت میں ہیں

تفصیل کے لئے دیکھئے

⇓ عمرو بن العاص کی وصیت  کو وہابی عالم  ابن العثيمين  نے بدعت کہا ہے ایسا کیوں؟

حیات بعد الموت

كلام قليب البدر – معجزه يا آیت

جنگ بدر کے اختتام پر اپ صلی الله علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی لاشیں ایک کنواں میں ڈلوا دیں اور تیسرے روز اپ اس قلیب یا کنواں کی منڈھیر پر آئے اور مشرکین مکہ کو نام بنام پکار کر کہا کہ

کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ سچا پایا؟

عمر رضی الله عنہ اور دیگر اصحاب نے کہا اپ گلے ہوئے جسموں سے خطاب کر رہے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس پر کہا یہ اس وقت سن رہے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی موقعہ پر ابن عمر رضی الله عنہ نے رائے پیش کی کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ تھا اس کی خبر عائشہ رضی الله عنہا کو ہوئی انہوں نے اس  کی تاویل کی کہ یہ علم ہونا تھا کہ کفار  نے حق جان لیا اور مردے نہیں سنتے

ابن رجب تفسیر میں لکھتے ہیں

قد وافقَ عائشةَ على نفي سماع الموتى كلامَ الأحياءِ طائفة من العلماءِ. ورجَّحَهُ القاضي أبو يعْلى من أصحابِنا، في كتابِ “الجامعِ الكبيرِ” له. واحتجّوا بما احتجتْ به عائشةُ – رضي الله عنها -، وأجابُوا عن حديثِ قليبِ بدرٍ بما أجابتْ به عائشة – رضي الله عنها – وبأنه يجوزُ أن يكونَ ذلك معجزةً مختصةً بالنبيِّ – صلى الله عليه وسلم –

علماء کا ایک گروہ عائشہ سے موافقت کرتا ہے مردوں کے سننے کی نفی پر جب زندہ ان سے کلام کریں – اور اسی کو راجح کیا ہے قاضی ابویعلی  ہمارے اصحاب (حنابلہ) میں سے کتاب جامع الکبیر میں اور دلیل لی ہے جس سے عائشہ رضی الله عنہا نے دلیل لی ہے اور اس سے جائز ہے کہ یہ معجزہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر خاص تھا

آیت فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (52)  کی تفسیر محاسن التأويل   میں   محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ)  لکھتے ہیں

وقال ابن الهمام: أكثر مشايخنا على أن الميت لا يسمع استدلالا بهذه الآية ونحوها. ولذا لم يقولوا: بتلقين القبر. وقالوا: لو حلف لا يكلم فلانا، فكلمه ميتا لا يحنث. وأورد عليهم  قوله صلّى الله عليه وسلّم في أهل القليب (ما أنتم بأسمع منهم)  وأجيب تارة بأنه روي عن عائشة رضي الله عنهما أنها أنكرته. وأخرى بأنه من خصوصياته صلّى الله عليه وسلّم معجزة له. أو أنه تمثيل

ابن الھمام نے کہا: ہمارے اکثر مشایخ اس آیت سے اور اسی طرح کی دیگر آیات سے استدلال کر کے اس موقف پر ہیں کہ میت نہیں سنتی – اس وجہ سے وہ نہیں کہتے قبر پر تلقین کے لئے- اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی قسم لے کہ فلاں سے کلام نہ کرو گا پھر اس کی موت کے بعد کلام کر لیا تو قسم نہیں ٹوٹے گی- اور اس پر آیا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول ” تم سماع میں ان سے بڑھ کر نہیں” –  اور جواب دیا جاتا ہے کہ روایت کیا گیا ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے اس سماع کا انکار کیا ہے اور دوسرا جواب ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے ان کے لئے معجزہ ہے یا ان کے لئے مثال ہے

کتاب  مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) لکھتے ہیں

ثُمَّ قَالَ وَتَارَةً بِأَنَّ تِلْكَ خُصُوصِيَّةٌ لَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مُعْجِزَةٌ وَزِيَادَةُ حَسْرَةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ

پھر کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص ہے معجزہ ہے اور کافرین پر حسرت کی زیادتی ہے

معلوم ہوا کہ قلب بدر کے واقعہ کو علماء معجزہ کہتے آئے ہیں اسی چیز کا اعادہ البانی نے بھی کیا ہے کہ یہ معجزہ تھا

لیکن بعض علماء نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ مردہ ہر وقت سنتا ہے جب بھی کوئی اسکو پکارے مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم – اور عصر حاضر کے حیات فی القبر کے اقراری غیر مقلدین  بھی  تدفین کے فورا بعد مردے کے سماع  کے قائل ہیں

معجزہ کی سادہ فہم تعریف لغت میں دیکھی جا سکتی ہے اس کے علاوہ اصول کی کتب میں بھی ہے – قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-

لیکن ایک صاحب جھنجھلا کر کہتے ہیں

معجزہ ۔۔ یا ۔۔ خرق عادۃ کی یہی تعریف کسی آیت ، یا حدیث شریف یا کسی صحابی سے ثابت کریں

بہت خوب یعنی مناظرہ بازی کے انچھر پھینکے جا رہے

دیکھتے ہیں معجزہ میں کیا اقوال ہیں ظاہر ہے یہ اصطلاح اصول و علم کلام کی ہے جو  قرآن میں نہیں ہے نہ حدیث میں تو پھر  ان لوگوں سے   عارفانہ کلام کیوں ادا ہو رہا ہے

مجموعة الرسائل والمسائل میں ابن   تيمية الحراني (المتوفى : 728هـ) لکھتے ہیں

وإن كان اسم المعجزة يعم كل خارق للعادة في اللغة وعرف الأئمة المتقدمين كالإمام أحمد بن حنبل وغيره – ويسمونها: الآيات – لكن كثير من المتأخرين يفرق في اللفظ بينهما، فيجعل المعجزة للنبي، والكرامة للولي. وجماعهما الأمر الخارق للعادة.

اور اگرچہ معجزہ کا اسم لغت میں  عام طور سے خارق عادت کے لئے  ہے اور ائمہ متقدمین جیسے امام احمد اور دیگر اس کو جانتے ہیں– اس کو نام دیا ہے آیات کا لیکن متاخرین میں سے اکثر نے ان الفاظ میں فرق کیا ہے تو معجزہ کو کیا نبی کے لئے اور کرامت کو کیا ولی کے لئے  اور ان سب کو امر خارق عادت کیا

النبوات از ابن تیمیہ الدمشقي (المتوفى: 728هـ) کے مطابق

ليس في الكتاب والسنة لفظ المعجزة وخرق العادة وليس في الكتاب والسنة تعليق الحكم بهذا الوصف، بل ولا ذكر خرق العادة، ولا لفظ المعجز، وإنّما فيه آيات وبراهين

کتاب و سنت میں معجزہ یا خارق عادت  کا لفظ ہی نہیں ہے نہ کتاب و سنت میں اس وصف پر کوئی حکم ہے نہ خرق عادت کا ذکر ہے نہ لفظ معجزہ کا بلکہ اس میں آیات و براہین ہیں

اس کے بعد ابن تیمیہ اپنی مختلف کتب میں معجزہ اور خارق عادت کے لفظ کے بجائے آیات اور براہین کے الفاظ بولنے پر زور دیتے ہیں اور اشاعرہ ، معتزلہ اور امام ابن حزم کے اقوال کا رد کرتے ہیں لب لباب یہ ہے

سلفي المعتزلة  وابن حزم و علماء ظاہر اشاعرہ
 

والشيخ رحمه الله يوضح أن خرق العادة وعدم المعارضة هذا من صفات المعجزة، ليس من حدودها.

 

فالآيات التي أعلم الله بها رسالة رسله، وصدّقهم، لا بُدّ أن تكون مختصةً بهم، مستلزمةً لصدقهم؛ فإنّ الإعلام والإخبار بأنّ هذا رسول، وتصديقه في قوله: إنّ الله أرسلني، لا يُتصوّر أن يوجد لغير رسول.

__________

 

الآيات التي جعلها الله علامات: هي إعلامٌ بالفعل الذي قد يكون أقوى من القول، فلا يُتصوّر أن تكون آيات الرسل إلا دالّة على صدقهم، ومدلولها أنّهم صادقون، لا يجوز أن توجد بدون صدق الرسل البتة.

 

ابن تیمیہ کے نزدیک کرامات غیر نبی بھی خرق عادت ہیں جن کا صدور ممکن ہے اور ان کو آیات نہیں  کہا گیا ہے  

 

اس طرح کو انبیاء کرتے ہیں وہ آیات ہیں اور جو شعبدہ باز ساحر کرتے ہیں وہ معجزہ ہے

لا يُثبتون النبوة إلا بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة.

انظر: شرح الأصول الخمسة للقاضي عبد الجبار المعتزلي ص 585-586. والمحلى لابن حزم 136. والدرة فيما يجب اعتقاده له أيضاً ص 194.

 

إن خرق العادة لا يكون إلا للأنبياء.

 

 

معتزلہ اور امام ابن حزم کے نزدیک جو خرق عادت بات انبیاء سے صدور ہو وو معجزہ ہے اور غیر نبی سے یہ ممکن نہیں لہذا کرامت کوئی چیز نہیں

المعجزات عند الأشاعرة هي ما تعجز قدرات العباد عنها

إنّه إذا لم يقدر على الفعل، فلا بُدّ أن يكون عاجزاً، أو قادراً على ضدّه.

 

أور

متأخروا الأشاعرة حذفوا القيد الذي وضعه المتقدمون

ولهذا لما رأى المتأخرون ضعف هذا الفرق؛ كأبي المعالي ، والرازي ، والآمدي ، وغيرهم حذفوا هذا القيد

 

أور

المعجزة عند الأشاعرة دعوى النبوة وعدم المعارضة وليست الآية بجنسها معجزة

النبوات أز ابن تيميه

 

فيُثبتون النبوة بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة، أو بطريق الضرورة، إلا أنّ طريق المعجزة عندهم هي أشهر الطرق.

انظر: المواقف للإيجي ص 349، 356، 357. والإرشاد للجويني ص 331. والإنصاف للباقلاني ص 93. والبيان له ص 37-38.

وجوزوا أن يأتي غير الأنبياء بمثل ما أتوا به ولو لم يدعوا النبوة، فسووا بين خوارق الأنبياء والأولياء والسحرة والكهان

 

 

متقدمین اشاعرہ کے نزدیک معجزہ وہ چیزیں ہیں جو صرف الله کی قدرت سے ممکن ہیں جو انسان نہ کر سکتا ہو

 

متاخرین کے نزدیک آیات معجزہ کی جنس سے نہیں ہیں  اور ان کا صدور نبی،  غیر نبی دونوں سے ممکن ہے جس میں غیر نبی نبوت کا دعوی نہیں کرتا

خوراق انبیاء اور خوارق اولیاء کا لفظ بولا گیا ہے

 

 

ابن تیمیہ کی اصطلاحی تعریف  کو قبول کرتے ہوئے عصر حاضر کے وہابی علماء نے کہا ہے

منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ) قرانی لفظ  الآية  پر

 لکھتے ہیں

لأن هذا التعبير القرآني والآية أبلغ من المعجزة لأن الآية معناها العلامة على صدق ما جاء به هذا الرسول، والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره، لكن التعبير بـ “الآية” أبلغ وأدق وهي التعبير القرآني فنسمي المعجزات بالآيات هذا هو الصواب.

یہ قرانی تعبیر ہے اور آیت کا لفظ معجزہ سے زیادہ مفھوم والا ہے کیونکہ آیت کا معنی علامت ہے اس  سچ پر جو یہ رسول لایا ہے اور معجزہ کسی شعبدہ باز یا انسان کے ہاتھ پر ہوتا ہے جس میں اس کو دوسروں سے بڑھ کر قوت ہوتی ہے کہ دوسرے عجز کا شکار ہوتے ہیں لیکن آیت کی تعبیر ابلغ اور دقیق ہے اور یہ قرانی تعبیر ہے پس ہم معجزات کو آیات کہیں گے جو ٹھیک ہے

شرح العقيدة السفارينية – میں  محمد بن صالح بن محمد العثيمين لکھتے ہیں

المعجزات: جمع معجزة، وهي في التعريف أمر خارق للعادة يظهره الله سبحانه وتعالى على يد الرسول شهادة بصدقه، فهو يشهد بصدقه بالفعل وهو إظهار هذه المعجزة.

معجزات: جو معجزہ کی جمع ہے یہ تعریف ہے خرق عادت کام پر جو اللہ تعالی کرتے ہیں رسول کے ہاتھ پر سچ پر بطور شہادت کہ وہ سچائی کو دیکھتا ہے بالفعل اور یہ معجزہ کا اظہار ہے

اصلا ابن تیمیہ اور غیر مقلدین اس گروہ صوفیا میں سے ہیں جو غیر نبی کے ہاتھ پر کرامت مانتے ہیں اور اسی چیز کو اپنی کتابوں میں ابن تیمیہ معجزہ کہتے ہیں – لہذا یہ کھل کر نہیں کہنا چاہتے کہ معجزہ  صرف الله کا  فعل ہے نبی کے ہاتھ پر

ابن تیمیہ سے منسلک لوگوں کے تضادات دیکھیں

ابن تیمیہ کے نزدیک نبی کے ہاتھ پر جو فعل خرق عادت ہوا وہ معجزہ نہیں ہے- جو غیر نبی کرے وہ معجزہ ہے

منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)کہتے ہیں

 والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره

اور معجزہ وہ ہے جو شعبدہ باز کے ہاتھ پر ہو

 اور اہل حدیث مولانا عبد المجید سوہدری    کہتے ہیں

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کرامات-اہل-حدیث.74916/

%da%a9%d8%b1%d8%a7%d9%85%d8%a7%d8%aa-%d8%a7%db%81%d9%84-%d8%ad%d8%af%db%8c%d8%ab

اہل حدیث
ترجمہ محمد جونا گڑھی

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور جب آپ کوئی معجزه ان کے سامنے ﻇاہر نہیں کرتے تو وه لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزه کیوں نہ ﻻئے؟ آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں
7:203

وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو پھر کوئیمعجزه لے آؤ تو کرو اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راه راست پر جمع کر دیتا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے
6:35

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَمُنُّ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَعلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزه تمہیں ﻻ دکھائیں اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے
14:11

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کیے اور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزه اللہ کی اجازت کے بغیر ﻻ سکے پھر جس وقت اللہ کا حکم آئےگا حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس جگہ اہل باطل خسارے میں ره جائیں گے
40:78

یھاں یہ اہل حدیث عالم آیات کا ترجمہ معجزہ کرتے ہیں لیکن کچھ اہل حدیث معجزہ لفظ سے ہی الرجک ہیں

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ قلیب بدر معجزہ تھا

لیکن یہی عالم بعد میں  کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین پر جوتوں کی چاپ سنتے ہیں تو قلیب بدر معجزہ کیسے ہوا ؟

لہذا معجزہ کی تعریف بدلتے رہتے ہیں

جو لوگ معجزہ کی تعریف ہی بدلتے رهتے ہوں ان سے اب کیا توقع کی جائے کہ وہ معجزہ کو معمول بنا دیں گے اور معمول کو معجزہ

بقول حسرت

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

حدیث قرع النعال پر ایک نظر ٢

قرع النعال والی روایت صحیحین میں  جن سندوں سے آئی ہے وہ یہ ہیں- اس روایت کو دنیا میں صرف ایک صحابی انس بن مالک رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں ان سے  دنیا میں صرف بصرہ ایک مشھور مدلس قتادہ روایت کرتے ہیں قتادہ بصری سے اس کو دو اور بصری روایت کرتے ہیں – جن میں ایک عبد الرحمان بن شیبان بصری ہیں اور دوسرے  سعید بن ابی عروبہ بصری  ہیں- امام مسلم صحیح میں اس کو شیبان کی سند سے لکھتے ہیں اور امام بخاری اس کو سعید بن ابی عروبہ  المتوفی ١٥٦ ھ کی سند سے لکھتے ہیں

روایت  میں عربی کی غلطی پر محققین کی آراء

قرع النعال کی روایت ان الفاظ سے نہیں آئی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بولے تھے یہ روایت بالمعنی ہے اور اس میں دلیل یہ ہے کہ عربی کی غلطی ہے

کتاب الميسر في شرح مصابيح السنة میں فضل الله بن حسن التُّورِبِشْتِي (المتوفى: 661 هـ) حدیث قرع النعال پر لکھتے ہیں
لما أشرنا إليه من دقيق المعنى وفصيح الكلام، وهو الأحق والأجدر ببلاغة الرسول – صلى الله عليه وسلم – ولعل الاختلاف وقع في اللفظين من بعض من روى الحديث بالمعنى، فظن أنهما ينزلان في هذا الموضع من المعنى بمنزلة واحدة.
ومن هذا الوجه أنكر كثير من السلف رواية الحديث بالمعنى خشية أن يزل في الألفاظ المشتركة، فيذهب عن المعنى المراد جانبا.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (لا دريت ولا تليت) هكذا يرويه المحدثون، والمحققون منهم على أنه غلط، والصواب مختلف فيه، فمنهم من قال: صوابه: لا أتليت- ساكنة التاء، دعا عليه بأن لا تتلى إبله. أي: لا يكون لها أولاد تتلوها، فهذا اللفظ على هذه الصيغة مستعمل في كلامهم، لا يكاد يخفى على الخبير باللغة العربية، فإن قيل: هذا الدعاء لا يناسب حال المقبور؛ قلنا: الوجه أن يصرف معناه إلى أنه مستعار في الدعاء عليه بأن لا يكون لعمله نماء وبركة. وقال بعضهم: أتلي: إذا أحال على غيره، وأتلى: إذا عقد الذمة والعهد لغيره. أي: ولا ضمنت وأحلت بحق على غيرك، لقوله: (سمعت الناس) ومنهم من قال: (لا ائتليت) على أنه افتعلت، من قولك: ما ألوت هذا، فكأنه يقول: لا استطعت، ومنهم من قال: (تليت) أصله: تلوت، فحول الواو ياء لتعاقب الياء في دريت.
قوله – صلى الله عليه وسلم – (يسمعها من يليه غير الثقلين) إنما صار الثقلان/ 19 ب عن سماع ذلك بمعزل لقيام التكليف ومكان الابتلاء، ولو سمعوا ذلك

جب ہم معنی کی گہرائی اور کلام کی فصاحت دیکھتے ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بلاغت کلام کے لئے احق ہو – تو دو الفاظ میں بالمعنی روایت کی وجہ سے اختلاف ہو جاتا ہے پس گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں معنی میں اپنے مقام سے گر گئے اور اسی وجہ سے سلف میں سے بہت سوں نے روایت بالمعنی کا انکار کیا اس خوف سے کہ مشترک الفاظ معنی میں ایک ہو جائیں جن کا معنی الگ ہوں – رسول الله کا قول ہے (لا دريت ولا تليت) اور ایسا محدثین نے روایت کیا ہے اور جو (عربی زبان کے) محقق ہیں ان کے نزدیک یہ غلط ہیں ، ٹھیک یا صحیح ہے لا أتليت- ساكنة التاء، جو پکارتا ہے اس پر نہیں پڑھا گیا یعنی اس کی اولاد نہیں تھی جو اس پر پڑھتی پس یہ لفظ ہے جو اس صیغہ پر ہے جو کلام میں استمعال ہوتا ہے اور یہ عربی زبان جاننے والے سے مخفی نہیں ہے پس اگر کہے یہ پکار ہے جو قبر والے کے لئے مناسب نہیں ہے تو ہم کہیں گے اگر معنی پلٹ جائیں کہ وہ اس پر استعارہ ہیں پکار کے لئے کیونکہ اس کے لئے عمل نہیں ہے جس میں بڑھنا اور برکت ہو – اور بعض نے کہا أتلي جب اس کو کسی اور سے تبدیل کر دیا جائے اور أتلي جب ذمی سے عقد کرے اور عھد دوسرے سے کرے یعنی اس میں کسی اور کا حق حلال یا شامل نہ کرے … اور کہا لا ائتليت کہ اس نے کیا اس قول سے ما ألوت هذا یعنی میں نے نہیں کیا اور ان میں ہے تليت اس کی اصل تلوت ہے پس واو کو تبدیل کیا ی سے

کتاب غریب الحدیث میں خطابی (المتوفى: 388 هـ) کہتے ہیں
في حديث سؤال القبر: “لا دريت ولا تليت” . هكذا يقول المحدثون، والصواب: ولا ائْتَلَيت، تقديره: افتعلت، أي لا استطعت, من قولك: ما ألوت هذا الأمر, ولا استطعت.

بغوی شرح السنہ میں لکھتے ہیں

قَوْلُهُ: «وَلا تَلَيْتَ»، قَالَ أَبُو سُلَيْمَانَ الْخَطَّابِيُّ: هَكَذَا يَقُولُ الْمُحَدِّثُونَ، وَهُوَ غَلَطٌ

خطابی نے کہا محدثین نے کہا ہے وَلا تَلَيْتَ جو غلط ہے

اور قبر میں سوال والی حدیث میں ہے “لا دريت ولا تليت” ایسا محدثین نے کہا ہے اور ٹھیک ہے ولا ائْتَلَيت

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار میں جمال الدين الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) کہتے ہیں
ومنه حديث منكر ونكير: لا دريت ولا “ائتليت” أي ولا استطعت أن تدري يقال: ما ألوه أي ما استطيعه، وهو افتعلت منه، وعند المحدثين ولا تليت والصواب الأول

اور حدیث منکر نکیر میں ہے لا دريت ولا “ائتليت” … اور محدثین کے نزدیک ہے ولا تليت اور ٹھیک وہ ہے جو پہلا ہے

لسان العرب میں ابن منظور المتوفی ٧١١ کہتے ہیں
لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ
، وَالْمُحَدِّثُونَ يَرْوُونَهُ:
لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ
، وَالصَّوَابُ الأَول.

لَا دَرَيْتَ وَلَا ائْتَلَيْتَ اور یہ محدثین ہیں جو اس کو روایت کرتے ہیں لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ اور ٹھیک پہلا والا ہے

پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن  کتاب توفیق الباری جلد سوم میں لکھتے ہیں

tofeq

یعنی اس میں بصرہ کے محدثین نے غلطی کی اور روایت میں عربی کی فحش غلطی واقع ہوئی جو کلام نبوی کے لئے احق نہیں ہے کہ اس میں عربی کی غلطی ہو

عربی کی اس غلطی سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت اس متن سے نہیں ملی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہے

ڈاکٹر عثمانی کا کہنا تھا کہ اس میں یسمع مجھول کا صیغہ ہے اس پر امیر جماعت المسلمین مسعود احمد نے ذہن پرستی میں لکھا تھا

مسعود احمد کا یہ دعوی کہ یہ روایت تلفظا وہی ہے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا  ہوئے عربی نحویوں اور شارحین حدیث  کے موقف کے خلاف ہے کہ یہ روایت عربی کی غلطی رکھتی ہے

رواة پر محدثین کی آراء 

شَيبَان بن عبد الرحمن التَّمِيمِي بصره کے محدث ہیں – امام مسلم نے اس روایت کو ان کی سند سے نقل کیا ہے انکے لئے امام ابن ابی حاتم  کتاب الجرح و التعدیل میں کہتے ہیں میرے باپ نے کہا

يكتب حديثه ولا يحتج به

اس کی حدیث لکھ لو دلیل مت لینا

اسی کتاب میں ابی حاتم اپنے الفاظ لا یحتج بہ کا مفہوم واضح کرتے ہیں

کتاب الجرح و تعدیل میں لکھتے ہیں

قال عبد الرحمن بن أبي حاتم: قلت لأبي: ما معنى (لا يحتج به) ؟ قال:  كانوا قوما لا يحفظون، فيحدثون بما لا يحفظون، فيغلطون، ترى في أحاديثهم اضطرابا ما شئت “. انتهى.

فبين أبوحاتم في إجابته لابنه: السبب في أنه لا يحتج بحديثهم،  وهو ضعف حفظهم، واضطراب حديثهم.

عبد الرحمن بن أبي حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ  لا يحتج به  کیا مطلب ہے انہوں نے کہا  ایک قوم ہے رجال کی جو یاد نہیں رکھتے تھے اور حدیثیں بیان کرتے ہیں جو انکو یاد نہیں ہوتیں پس ان میں غلطیاں کرتے ہیں پس تم دیکھو گے کہ انکی حدیثوں میں اضطراب کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے

ابن ابی حاتم نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ  لا يحتج به کا کیا مطلب ہے

امام بخاری نے قرع النعال کو سعید بن ابی عروبہ کی سند سے لکھا ہے اور ان سے دو لوگ روایت کرتے ہیں

یزید بن زریع اور عبد الاعلی بن عبد الاعلی

مسئلہ یہ ہے کہ سعید بن ابی عروبہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے اور ان  کی اس کیفیت پر محدثین میں اختلاف ہے کہ یہ کب واقع ہوا

امام البزار کہتے ہیں ١٣٣ ہجری میں ہوا تہذیب التہذیب از ابن حجر

قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” میں

یحیی ابن معین کہتے ہیں ١٤٢ ھ میں ہوا

یحیی بن سعید کہتے ہیں ١٤٥ ھ میں ہوا

يزيد بن زريع

ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں

وقال ابن السكن كان يزيد بن زريع يقول اختلط سعيد في الطاعون يعني سنة 132 وكان القطان ينكر ذلك ويقول إنما اختلط قبل الهزيمة قلت والجمع بين القولين ما قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” ولم يستحكم ولم يطبق به وأستمر على ذلك ثم استحكم به أخيرا

اور ابن السکن کہتے ہیں یزید بن زریع نے کہا سعید بن ابی عروبہ کو اختلاط طاعون پر سن ١٣٢ میں ہوا اور القطان نے اس کا انکار کیا اور کہا ہزیمت پر ہوا اور ان اقوال میں اس طرح جمع ممکن ہے جو البزار نے کہا کہ ان  کے اختلاط کی ابتداء سن ١٣٣ میں ہوئی لیکن مستحکم نہ تھی اور اس میں استحکام ہوتا گیا یہاں تک کہ آخر میں مستحکم ہو گیا

ابن حجر کے مطابق سن ١٣٣ میں سعید کو اختلاط شروع ہو چکا تھا اور کلابازی کے مطابق سن ١٣٩ ھ میں ابن زریع نے سنا

الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از  أبو نصر البخاري الكلاباذي (المتوفى: 398هـ) کے مطابق

وَقَالَ الْغلابِي نَا ابْن حَنْبَل قَالَ نَا يزِيد قَالَ مر بِنَا سعيد بن أبي عرُوبَة قبل سنة 39 فسمعنا مِنْهُ

الْغلابِي کہتے ہیں ابن حنبل نے کہا ہم سے یزید نے بیان کیا کہ سعید ہمارے پاس ١٣٩ ھ سے پہلے گزرے جب ہم نے سنا

امام احمد کے مطابق سعید سے یزید کا سماع صحیح ہے کیونکہ انہوں نے ١٤٥ ھ میں اختلاط والی رائے کو ترجیح دی ہے

عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي

امام بخاری نے اس روایت کو عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي   کی سند سے بھی نقل کیا ہے اس میں بھی سماع پر محدثین کا اختلاف ہے

تهذيب التهذيب از ابن حجر کے مطابق

وقال ابن القطان حديث عبد الأعلى عنه مشتبه لا يدري هو قبل الاختلاط أو بعده

اور ابن القطان نے کہا عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي کی سعید بن ابی عروبہ سے روایت مشتبہ ہے – نہیں پتا کہ اختلاط سے قبل سنا یا بعد میں

عبد الأعلى بن عبد الأعلى السامي تمام محدثین کے نزدیک ثقہ بھی نہیں ہیں

وقال ابن سعد: “لم يكن بالقوي

ابن سعد کہتے ہیں یہ قوی نہیں تھے

سنن اربعہ اور مسند احمد میں یہ روایت عبد الوھاب بن عطا اور روح بن عبادہ کی سند سے ہے- یہ دونوں راوی بھی تمام محدثین کے نزدیک ثقہ نہیں مثلا عبد الوہاب ، امام بخاری کے نزدیک ضعیف ہیں  اور روح بن عبادہ،  امام  النسائی اور ابی حاتم کے نزدیک ضعیف ہیں

روایت پر علماء کا عمل

محدثین کا ایک گروہ اس روایت سے دلیل نہیں لیتا جن میں امام احمد ہیں

امام احمد باوجود  یہ کہ قر ع النعال والی روایت کو مسند میں روایت کرتے ہیں لیکن جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت پر  عمل نہیں کرتے اور قبرستان میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتارنے کا حکم کرتے تھے ظاہر ہے نہ جوتیاں ہوں گی نہ ان کی چاپ کا سوال اٹھے گا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله  کے مطابق

وَقَالَ أبي يخلع نَعْلَيْه فِي الْمَقَابِر

میرے باپ (احمد ) کہتے ہیں قبرستان میں نعل اتار دو

 وَكَانَ يَأْمر بخلع النِّعَال فِي الْمَقَابِر

امام احمد حکم دیتےتھے کہ قبرستان میں  نعل اتار دو

رَأَيْت ابي اذا اراد ان يدْخل الْمَقَابِر خلع نَعْلَيْه وَرُبمَا رَأَيْته يُرِيد ان يذهب الى الْجِنَازَة وَرُبمَا لبس خفيه اكثر ذَلِك وَينْزع نَعْلَيْه

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ جب قبرستان میں داخل ہوتے تو جوتے اتار دیتے

امام احمد کے بیٹے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں لکھتے ہیں

رَأَيْت أبي إِذا دخل الْمَقَابِر يخلع نَعْلَيْه فَقلت لَهُ إِلَى أَي شَيْء تذْهب فَقَالَ إِلَى حَدِيث بشير بن الخصاصية

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ قبرستان میں اتے تو جوتے اتارتے پس میں نے کہا کس بنا پر اس کو کیا؟ انہوں نے کہا حدیث بشیر بن الخصاصية  سے لیا

 ابی داود کتاب میں لکھتے ہیں

رَأَيْتُ أَحْمَدَ إِذَا تَبِعَ جِنَازَةً فَقَرِبَ مِنَ الْمَقَابِرِ خَلَعَ نَعْلَيْهِ

میں نے احمد کو دیکھا جب وہ جنازہ کے پیچھے قبرستان کے پاس پہنچتے تو جوتے اتار دیتے

کتاب  مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق امام احمد

فلما سلم خلع نعليه ودخل المقابر في طريق [عامية] 2 مشياً على القبور حتى بلغ القبر

پس جب (نماز جنازہ سے)  سلام پھرنے کے بعد جوتے اتارتے اور قبرستان میں داخل ہوتے  حتی کہ قبر تک پہنچتے

امام احمد کا عمل قرع النعال والی روایت پر نہیں بلکہ  بشیر بن الخصاصية   کی روایت پر تھا جو ابو داود نے بَابُ الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ میں  روایت کی ہے جس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ قرع النعال سے زیادہ صحیح روایت تھی ورنہ اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر عمل کیوں تھا

  ابن قدامة  المغني  ج 2 ص ٤٢١ میں کہتے ہیں
قال الإمام أحمد رحمه الله  إسناد حديث بشير بن الخصاصية جيد أَذْهَبُ إلَيْهِ، إلَّا مِنْ عِلَّةٍ

امام احمد کہتے ہیں بشير بن الخصاصية والی حدیث کی اسناد جید ہیں اسی پر مذھب ہے سوائے اس کے کہ کوئی علت ہو

اتنے سارے حوالے واضح کرتے ہیں کہ امام احمد نے سرے سے اس روایت پر عمل ہی نہیں کیا کہ جوتیاں پہن کر مردے کو دفناتے وقت چلے ہوں امام احمد جس قسم کے روایت پسند سخص تھے ان سے اس روایت پر عمل کرنا سرے سے بیان ہی نہیں ہوا کیوں ؟ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بشير بن الخصاصية رضی الله عنہ کی روایت پر مذھب ہے


الغرض قارئین اپنے ذھن میں رکھیں کہ اس حدیث پر اجماع خود امام بخاری کے دور میں نہیں ملتا  اس پر بعض محدثین خود عمل نہیں کرتے اس میں بعض محدثین کے نزدیک سماع فی اختلاط کا  مسئلہ ہے خود امام بخاری نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا- روایت پر باب باندھنا تبصرہ نہیں ہے جس کی مثال ہے کہ ادب المفرد میں بھی امام بخاری  باب باندھتے ہیں جبکہ اس کی تمام راویات صحیح نہیں ہیں

 اس روایت کی بنیاد پر ارضی قبر میں سوال و جواب کا عقیدہ بنانے والے  دیکھ سکتے ہیں اس میں کیا آراء ہیں

حدیث قرع النعال پر ایک نظر

صحیح بخاری کی حدیث ہے

عن أنس بن مالك رضي الله عنه، أنه حدثهم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه، وإنه  ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه، فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم، فأما المؤمن، فيقول: أشهد أنه عبد الله ورسوله، فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة، فيراهما جميعا – قال قتادة: وذكر لنا: أنه يفسح له في قبره، ثم رجع إلى حديث أنس – قال: وأما المنافق والكافر فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلي

بخاری ح1374کتاب الجنائز باب ماجاء عذاب القبر

۔  انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب بندہ  اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے اصحاب اس سے  پلٹ چکے  تو بلاشبہ وہ  جوتوں کی آوز سنتا  ہے کہ  اس کے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں: “تو اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟” اب اگر وہ ایماندار ہے تو کہتا ہے کہ “میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں” پھر اس سے کہا جاتا ہے “تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدل تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔” تو وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ قتادہ کہتے ہیں “اور ہم سے یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے” پھر انس کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا۔ اور اگر وہ منافق یا کافر ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا ہے؟” تو وہ کہتا ہے “میں نہیں جانتا۔ میں تو وہی کچھ کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔” پھر اس سے کہا جائے گا کہ “نہ تو تُو خود سمجھا اور نہ ہی خود پڑھا۔” اور لوہے کے ہنٹروں سے اسے ایسی مار پڑے گی کہ وہ بلبلا اٹھے گا۔ اور اس کی یہ چیخ جن و انسان کے سوا تمام آس پاس کی چیزیں سنتی ہیں۔”

اس روایت پر عثمانی صاحب کی رائے ہے کہ یہ قبر برزخی مقام ہے جہاں بندہ فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتا ہے اور یہی رائے امام ابن حزم کی بھی ہے

اس پر عبد الرحمن کیلانی نے کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں عثمانی صاحب کی تطبیق کو رد کرنے کو کوشش ناکام کی – عبد الرحمان کیلانی لکھتے ہیں

روایت میں نعالهم  ہے جس میں  “ھم” جمع کی ضمیر ہے۔ اگر اس سے مراد فرشتے ہیں  تو مخالفین کی طرف سے کہا گیا کہ  تثنیہ کی ضمیر “ھما”  آنا چاہئے تھی۔اس کا جواب عثمانی صاحب یہ دیتے ہیں کہ “عربی زبان میں دونون طریقے رائج ہیں۔ تثنیہ کے لیے جمع کا استعمال عام ہے۔ جیسے قرآن کی آیت ہے:(قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ ( سورۃ شعرا15 ))”فرمایا، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر۔ ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔””(فاذهبا)” میں تثنیہ کی ضمیر ہے اور “(معكم)” میں جمع کی۔اس طرح بخاری کی حدیثِ خضر میں یہ الفاظ ہیں:(فمرت بهما سفينة فكلموهم ان يحملو هما)”پس گزری ان دونوں (موسی علیہ السلام و خضر علیہ السلام) کے پاس سے ایک کشتی، پس انہوں نے (جمع کا صیغہ) کشتی  والوں سے بات کی کہ وہ ان دونوں کو کشتی میں سوار کر لیں۔” (بخاری عربی جلد 1 ص23، سطر 15،16)”(فكلموهم)” کے ساتھ ساتھ “(فكلماهم)” بھی بخاری کی روایت میں ہے مگر حاشیہ پر اور نسخہ کے طور پر تین میں “(كلموهم)” کو ہی ترجیح دی گئی ہے جو تثنیہ کے بجائے جمع کا صیغہ ہے۔”

عبد الرحمان کیلانی کا جواب :عربی زبان میں تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ عام نہیں۔ اگر عام ہوتا تو گرائمر کی کتابوں میں اس کا ضرور ذکر پایا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ تثنیہ کی صورت میں جمع کا استعمال شاذ ہے اور اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ مثلا:پہلی مثال میں “کم” کی ضمیر “مع” وجہ سے آتی ہے۔ گویا فرعون کی طرف جانے والے تو صرف دو تھے مگر سننے والوں میں اللہ بھی ساتھ شامل ہو گیا ور ضمیر جمع بدل گئی۔

دوسری مثال میں ایک مقام پر “(كلموهم)” اس لیے آیا ہے کہ موسی علیہ السلام کے ساتھ ان کا ایک ساتھی (یوشع بن نون) بھی تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ لیکن قابل ذکر چونکہ دو ہی ہستیاں تھیں یعنی موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام، اس لیے اکثر تثنیہ کا ضمیر آیا اور ایک جگہ اشتباہ کی وجہ سے جمع کا ضمیر بھی آیا۔ اگرچہ اس کی حاشیہ میں تصحیح کر دی گئی۔

جواب در جواب

 لیکن کہا گیا

تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ

 

 ہونا چاہیے تھا

عربی زبان میں تثنیہ کے لیے تثنیہ کا صیغہ

 

قرآن سے مثال

 

معكم معكما

ہونا چاہیے تھا

فاذهبا بآياتنا إنا معكمآ مستمعون

 

فاذهبا بآياتنا إنا معكم مستمعون

(الشعراء:15)،

پس تم دونوں جاؤ ہماری آیات کے ساتھ ہم تمہارے ساتھ سنیں گے

يختصمون فإذا هم فريقان يختصمان

 

فإذا هم فريقان يختصمون} (النمل:45)،

پس جب دو فریق لڑ پڑے

 

اقتتلوا وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلتا  

{وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا} (الحجرات:9)

اور جب مومنوں میں دو گروہ قتال کریں

 

تسوروا وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسورا المحراب

 

خصمان بغى بعضنا على بعض} (ص:22)

قرآن میں ان کو دو جھگڑنے والے کہا گیا لہذا یھاں تثنیہ کا صغیہ ہونا  چاہیے

{وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسوروا المحراب} (ص:21)

اور کیا تم کو خبر پہنچی جھگڑے گی جب وہ محراب میں چڑھ آئے

ابن  عاشور التحریر و التنویر   میں لکھتے ہیں

 وأكثر استعمال العرب وأفصحه في ذلك أن يعبروا بلفظ الجمع مضافاً إلى اسم المثنى لأن صيغة الجمع قد تطلق على الاثنين في الكلام فهما يتعاوران 

اور عرب اکثر  استمعال میں اور فصاحت کرتے ہوئے عبارت کرتے ہیں لفظ جمع سے جو مضاف ہوتا ہے اسم المثنی پر کیونکہ جمع کا صیغہ کا اطلاق تثنیہ پر کلام میں ہوتا ہے

مخالفین نے اعتراض کیا “ھم” کی ضمیر اگر “(ملكان)” فرشتوں  سے متعلق ہے تو یہ پہلے کیسے آ گئی؟ اس کا جواب عثمانی صاحب یوں دیتے ہیں کہ:”عربی ادب کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر بات بالکل صاف ہو اور سننے والے سے غلطی کرنے کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو پہلے اسم کا ذکر نہیں کیا جاتا جیسے قرآن میں ہے:إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً (35) فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا(سورة الواقعه:35تا36)”ہم نے ان کو (ان کی بیویوں کو) ایک خاص اٹھان سے اٹھایا ہے اور ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں۔”سورۃ یس میں:(وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ”اور ہم نے اس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) کو شعر کی تعلیم نہیں دی۔”

عبد الرحمان کیلانی کا  جواب نمبر 1: پہلی مثال اس لحاظ سے غلط ہے کہ “( إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً)” سے چند آیات پہلے “(وَحُورٌ عِينٌ (22) كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ(سورة الواقعه 22تا23)” کا ذکر آ چکا ہے۔ بعد میں جنت کی چند صفات بیان کر کے “( وَحُورٌ عِين أَنْشَأْنَاهُنَّ ٌ)” کی ضمیر “( وَحُورٌ عِينٌ کی طرف پھیری گئی ہے جو درست ہے۔ لیکن عثمانی صاحب اسے خواہ مخواہ “( أَبْكَارًا)” کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ لفظ بعد میں آیا ہے۔

جواب نمبر 2: مثال تو ایسی درکار تھی کہ ضمیر پہلے آئے اور اس کا مرجع اسم بعد میں ہو۔ پہلی مثال میں آپ نے بعد میں مرجع “( أَبْكَارًا)” جو بتلایا ہے وہ ویسے ہی غلط ہے اور دوسری مثال میں ضمیر کا مرجع اسم مذکور ہی نہیں۔تو ڈاکٹر صاحب کا جواب درست کیسے سمجھا جائے؟

جواب در جواب :  تفسیر ابن کثیر کے مطابق

قال الأخفش في قوله انا أنشأناهن إنشاء  أضمرهن ولم يذكرهن قبل ذلك

الأخفش نے کہا اس قول میں انا أنشأناهن إنشاء ضمیر بیان کی ہے اور ان کا ذکر اس سے قبل نہیں کیا

یعنی یہ وہی بات ہے جو ڈاکٹر عثمانی نے کی ہے – الأخفش عربی زبان کے مشھور نحوی ہیں

اس  بحث کو عود الضمير على متأخر کہا جاتا ہے

المقاصد النحوية في شرح شواهد شروح الألفية المشهور میں العيني (المتوفى 855 هـ)  پر تعلیق میں دکتور علي محمد فاخر، دکتور أحمد محمد توفيق السوداني،  دکتور عبد العزيز محمد فاخر   لکھتے ہیں

قال ابن الناظم: “فلو كان ملتبسًا بضمير المفعول وجب عند أكثر البصريين تأخيره عن المفعول؛ نحو: زان الشجر نوره، وقوله تعالى: {وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ} [البقرة: 124] لأنه لو تأخر المفعول عاد الضمير على متأخر لفظًا ورتبة.

ابن ناظم کہتے ہیں پس اگر مفعول کی ضمیر ملتبس ہو تو اکثر بصریوں کے نزدیک  مفعول  کی تاخیر واجب ہے  جیسے  زان الشجر نوره سج گیا درخت اس کی روشنی سے . اور الله تعالی کا قول ہے اور جب مبتلا کیا ابراہیم کو تمہارے رب نے پس بے شک اگر مفعول کو متاخر کیا جائے تو اس کی ضمیر اسی  لفظ اور مرتبہ کے ساتھ پلٹے گی

ایسا عربی میں کم ہوتا ہے لیکن یہ نا ممکنات میں سے نہیں المسوغأت (جو قاعدة میں ممکن ہوں اگرچہ کم ہوں) میں سے ہے  جیسا کہ قرآن میں اسکی مثال بھی ہے اور عربی بلاغت کی کتب میں اس پر بحث بھی موجود ہے

سورة طه    الآية 67 میں بھی اس کی مثال ہے

فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى 

پس محسوس کیا  اپنے نفس میں خوف موسی نے

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ – کہو وہ – الله احد ہے – ھو ضمیر ہے الله بعد میں ہے

فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

پس بے شک یہ آنکھیں اندھی نہیں لیکن دل اندھے ہیں – جو دلوں میں ہیں

فَإِنَّها کی ضمیر پہلے ہے اور یہ الْقُلُوبُ کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے

إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكَافِرُون

بے شک فلاح نہیں پاتے کفار

إِنَّهُ میں الھا کی ضمیر الْكَافِرُون کی طرف ہے جو بعد میں آیا ہے

یہ انداز قرآن میں ہے اور بصرہ کے نحویوں نے اس کو بیان کیا ہے واضح رہے کہ قرع النعال والی روایت میں بھی بصریوں کا تفرد ہے

کتاب عروس الأفراح في شرح تلخيص المفتاح از أحمد بن علي بن عبد الكافي، أبو حامد، بهاء الدين السبكي (المتوفى: 773 هـ) کے مطابق

وقوله: (هو أو هى زيد عالم) يريد ضمير الشأن مثل قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (3) أصله الشأن الله أحد وقوله: أو هى زيد عالم صحيح على رأى البصريين، أما الكوفيون فعندهم أن تذكير هذا الضمير لازم، ووافقهم ابن مالك واستثنى ما إذا وليه مؤنث أو مذكر شبه به مؤنث أو فعل بعلامة تأنيث فيرجح تأنيثه باعتبار القصة على تذكيره باعتبار الشأن، والمقصود من ذلك أن يتمكن من ذهن السامع ما يعقب الضمير لأنه بالضمير يتهيأ له ويتشوق، ويقال فى معنى ذلك: الحاصل بعد الطلب أعز من المنساق بلا تعب، وسيأتى مثله فى باب التشبيه.

قاعدہ یہ ہے کہ ضمیر سے پہلے اس کا  مفعول ہونا چاہیے لیکن قرآن میں ہی ضمیریں بعض اوقات  پہلے آ جاتی ہیں اور اسم کا ذکر ہی نہیں ہوتا جیسے

إنا أنزلناه في ليلة القدر – ہم نے اس کو نازل کیا القدر کی رات کو —  کس کو یھاں بیان ہی نہیں ہوا- آگے کا سیاق بتا رہا ہے قرآن کی بات ہے

عبس وتولى – منہ موڑا اور پلٹ گیا – کون ؟ بیان نہیں ہوا تفسیری روایات کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت کی گئی

المستشرقين  قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ عربی ادب نہیں ہے – اس کا جواب علماء نحوی دیتے رہے ہیں کہ یہ قرآن کا خلاف قاعدہ انداز بلاغت ہے

الغرض ڈاکٹر عثمانی کی بات عربی نحویوں نے بیان کی ہے اور اس میں بصریوں کا انداز رہا ہے کہ وہ ضمیر کو مفعول یا اسم سے پہلے بیان کر دیتے ہیں جیسا کہ قرع النعال والی روایت میں ہے

اس طرح اس روایت کی قرآن سے تطبیق ممکن ہے جو عربی قوائد کے اندر رہتے ہوئے کی گئی ہے

وقت کےساتھ بدلتی برزخ

غیر مقلدین جن کا عقائد میں ارتقاء جاری و ساری ہے ان کی کتب میں برزخ کے حوالے سے پچھلے چند سالوں میں اس قدر متضاد بیانات سامنے آئے ہیں کہ عقل سلیم سے بہرور لوگ مجبور ہیں کہ ان کے اس تضاد کو کشف از بام کریں

محب الراشدی اپنے فتوی میں لکھتے ہیں

Rasidia-207

اس فتوی میں ظاہر ہے کہ مرنے والوں کی روحیں نکال کر برزخ لے جائی گئیں جہاں ان کی ملاقات پہلے مر جائے والوں کی ارواح سے ہوا

برزخ کا یہ مفھوم کہ یہ عالم ارواح ہے یا عالم بالا ہے سب کے ذہن میں ہے اس سلسلے میں ایک منکر شیخ ارشد کمال ، کمال دکھاتے ہیں ایک طرف تو صریحا برزخ کا بطور عالم انکار کرتے ہیں اس پر کتاب عذاب قبر میں ایک فلسفہ جھاڑتے ہیں

arshad-57

لیکن پھر چونکہ ذہین میں ہے کہ برزخ  کے مفھوم میں گھپلا کیا ہے لہذا ان کا قلم چوک گیا اور الٹا المسند فی عذاب القبر میں لکھ گئے

arshad-95

جب اپ برزخ کو کوئی مقام مانتے ہی نہیں تو اس پر یہ عنوان قائم کرنا نری حماقت ہے

موصوف کے بقول جو بھی عالم برزخ میں ہے وہ غیب میں ہے اس کو ہم نہیں جان سکتے

arshad-135

قارئیں اپ دیکھ سکتے ہیں فرقہ غیر مقلدین کسی دور میں عقیدہ میں ایک بات لکھتے ہیں اور پھر مل کر اس عقیدہ کو بدل دیتے ہیں ایسا  تبھی ہوتا ہے جب عقیدہ بدلتی رتوں پر مبنی ہو نہ کہ قرآن  پر

وهو الله في السماوات وفي الأرض يعلم سركم وجهركم ويعلم ما تكسبون

 الْمُعْتَزلَة غیر مقلدین اور عذاب قبر

غیر مقلدین جن کا عقائد میں ارتقاء جاری ہے ان کے ایک علم کلام کے ماہر ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

اس امت میں خوارج اور معتزلہ وغیرہ پیدا ہوئے جو عذاب قبر کا انکار کر چکے ہیں اور موجودہ دور میں ڈاکٹر عثمانی صاحب ان پرانے فرقوں کی بازگشت ہیں۔  عذاب القبر کے متعلق اہل اسلام کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ قبر کی راحت و آرام اور قبر کا عذاب حق ہے اور قبر میں دفن میت کے بعد دو فرشتوں منکر و نکیر کا آنا اور ان کا میت سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق سوال کرنا مومن کا راحت و آرام میں رہنا اور اس پر صبح و شام جنت کا پیش کیا جانا جب کہ کفار و مشرکین اور منافقین کا قبر میں عذاب میں مبتلا ہونا فرشتوں کا انہیں لوہے کے گرز سے مارنا میت کا چیخنا و چلانا اور ہیبت ناک آوازیں نکالنا۔غرض احادیث صحیحہ میں قبر کے حالات کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر ایمان لانا لازم اور ضروری ہے اور ایمانیات میں شامل ہے۔جبکہ عذاب قبر کا انکار کفر ہے اس کا انکاری ایمان و توحید سے خالی ہے چاہے وہ اپنے ایمان کو کتنا ہی خالص کیوں نہ کہے۔ 

ائمہ غیر مقلدین مثلا  نذیر حسین جن کو یہ شیخ الکل  کہتے ہیں اور بدیع الدین راشدی اور  قاضی شوکانی  یمنی کا عقیدہ تھا کہ مردہ میں روح واپس پلٹ اتی ہے اور  زندہ حالت میں ہی عذاب ہوتا ہے – امام ابن عبد البر کے مطابق روح قیامت تک افنیہ القبور میں ہی رہتی ہیں یعنی قبرستان  کے میدان میں اور شیخ ابن تیمیہ و ابن قیم کا عقیدہ تھا کہ روح سورج کی شعآع جیسی کوئی شی ہے جو قبر میں  آتی جاتی رہتی ہے   گویا انرجی ہے- عبد الوہاب النجدی  کا عقیدہ بھی ابن تیمیہ جیسا ہے جس میں روح نہ صرف عام آدمی میں انبیاء  میں بھی اتی ہے

غیر مقلدین کا  سن ٢٠٠٠ سے  عقیدہ ہے کہ مردے میں تدفین کے بعد روح کو واپس ڈالا جاتا ہے جس سے میت میں  قوت سماعت آ جاتی ہے وہ قدموں کی چاپ سننے لگتی ہے اور صحیح مسلم کی ایک روایت کی غلط تاویل کے بعد ان کے مطابق مردہ قبر پر موجود افراد سے مانوس ہوتا ہے اور اس دوران فرشتے سوال کرتے ہیں – اس کے بعد روح کو نکال لیا جاتا ہے وہ آسمان منتقل کر دی جاتی ہے  پھر میت پر بلا روح   عذاب ہوتا ہے جس میں پسلیاں ادھر ادھر ہوتی ہیں مردہ چیخیں مارتا ہے جس کو چوپائے سنتے ہیں – اس کے پیچھے  ضعیف و معلول روایات کا انبار ہے جن کو صحیح  روایات سے ملا کر ایک گنجلک عقیدہ بنا دیا گیا ہے  اور اس کو ایسے پیش کیا جاتا ہے گویا یہ سلف سے چلا آ رہا ہو

اس سلسلے میں باربار غیر مقلدین معتزلہ کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ عذاب قبر کے انکاری تھے – معتزلہ اور ان  کی تحاریر تو معدوم ہیں لیکن اہل سنت ان کا کیا عقیدہ عذاب قبر کے حوالے سے بتاتے ہیں اس کو دیکھتے ہیں

تمام  الْمُعْتَزلَة عذاب قبر کے انکاری نہیں تھے

فتح السلام شرح عمدة الأحكام، للحافظ ابن حجر العسقلاني مأخوذ من كتابه فتح الباري از أبو محمد عبد السلام بن محمد العامر کے مطابق

قوله: (من عذاب القبر) فيه ردّ على من أنكره مطلقاً من الخوارج وبعض المعتزلة كضرار بن عمرو وبشر المريسيّ ومن وافقهما.

وخالفهم في ذلك أكثر المعتزلة وجميع أهل السّنّة وغيرهم , وأكثروا من الاحتجاج له. وذهب بعض المعتزلة كالجيّانيّ: إلى أنّه يقع على الكفّار دون المؤمنين.

ابن حجر کا قول (من عذاب القبر) اس میں رد ہے خوارج کا اور بعض الْمُعْتَزلَة کا   جنہوں نے  مطلقا عذاب کا انکار  کیا ہے جیسے  ضرار بن عمرو اور بشر المريسيّ  اور وہ جنہوں نے انکی موافقت کی ہے

كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از   محمَّد الخَضِر بن سيد عبد الله بن أحمد الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق

وأنكرت المعتزلة عذاب القبر والخوارج وبعض المرجئة، لكن قال القاضي عبد الجبار رئيس المعتزلة: إن قيل: مذهبكم أدّاكم إلى إنكار عذاب القبر، وقد أطبقت عليه الأمة. قيل: هذا الأمر إنما أنكره ضِرار بن عمرو، ولما كان من أصحاب واصل ظنوا أن ذلك مما أنكرته المعتزلة، وليس الأمر كذلك، بل المعتزلة رجلان: أحدهما: يُجوِّز ذلك كما وردت به الأخبار، والثاني: يقطع بذلك، وأكثر شيوخنا يقطعون بذلك، وإنما يُنْكَر قول جماعة من الجهلة: إنهم يعذَّبون وهم موتى. ودليل العقل يمنع من ذلك.

اور المعتزلة نے عذاب قبر کا انکار کیا اور خوارج اورکچھ مرجیہ نے انکار کیا ہے لیکن قاضی عبد الجبار   المعتزلة  کے سردارکہتے ہیں  کہا جاتا ہے  تمہارا مذھب تم کو عذاب قبر کے انکار پر لے جاتا ہے اور بے شک اس میں امت کو طبقات میں کر دیتا ہے – کہا جاتا ہے کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس کا انکار ضِرار بن عمرو نے کیا جبکہ وہ  اصحاب واصل بن عطا  میں سے ہے – اس سے لوگوں نے یہ گمان کیا  المعتزلة اس کے انکاری ہیں جبکہ ایسا نہیں تھا بلکہ المعتزلة میں دو  (بڑے ) اشخاص تھے ایک اس  کے جواز کا قائل ہے  اور یہ بات روایات میں بیان ہوئی ہے  اور دوسرا اس سے الگ ہے  – اور ہمارے اکثر شیوخ اس سے الگ ہی ہیں اور انکی طرف سے ایک  جاہلوں کی اس  جماعت کا  انکار کیا گیا ہے  جو یہ کہتے ہیں کہ ان کو عذاب ہو گا اور یہ مردہ ہوں گے اور عقل کی دلیل اس سے مانع   ہے 

کتاب شرح سنن ابن ماجه – الإعلام بسنته عليه السلام از  مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) کے مطابق

إنّما أنكره أولًا ضرار بن عمرو، ولما كان من

أصحاب واصل ظنوا أن ذلك مما أنكرته المعتزلة، وليس الأمر كذلك بل

المعتزلة رجلان: أحدهما يجوز ذلك كما وردت به الأخبار، والثاني يقطع

بذلك، وأكثر شيوخنا يقطعون بذلك إنّما ينكرون قول طائفة من الجهلة أنّهم

يعذبون وهم موتى، ودليل العقل يمنع من ذلك، وبنحوه قاله أبو عبد الله

المرزباني في كتاب الطبقات أيضًا،

بے شک اس کا شروع شروع میں ضرار بن عمرو نے انکار کیا اور اصحاب واصل نے گمان کیا کہ اس کا انکار المعتزلة نے کیا ہے جبکہ  اصل بات یہ ہے کہ  المعتزلة میں دو اشخاص تھے ایک اس  کے جواز کا قائل ہے  اور یہ بات روایات میں بیان ہوئی ہے  اور دوسرا اس سے الگ ہے  – اور ہمارے اکثر شیوخ اس سے الگ ہی ہیں اور انکی طرف سے ایک  جاہلوں کی اس  جماعت کا  انکار کیا گیا ہے  جو یہ کہتے ہیں کہ ان کو عذاب ہو گا اور یہ مردہ ہوں گے اور عقل کی دلیل اس سے مانع   ہے  –  ابو عبد الله المرزباني کہتے ہیں کتاب الطبقات میں ایسا ہی ہے

معلوم ہوا کہ معتزلہ کے بعض  جہلاء نے وہی عقیدہ اختیار کیا جو آج غیر مقلدین کا ہے کہ مردہ میت کو بغیر روح عذاب ہوتا ہے اسکا رد کیا گیا

المعتزلةِ کی طرف انکار عذاب قبر ثابت نہیں ہے

کتاب   فيض الباري على صحيح البخاري میں  محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري   الديوبندي (المتوفى: 1353هـ) لکھتے ہیں

وما نُسِب إلى المعتزلةِ أنهم يُنْكِرون عذابَ القَبْر فلم يثبت عندي إلا عن بِشْر المَرِيسي وضِرار بنِ عمروِ. وبِشْرٌ كان يختلف إلى دَرْس أبي يوسف رحمه الله تعالى، فلما بلغه من شأَن بِشْر قال: إني لأَصْلِبنَّك – وكَان قاضيًا – فَفَرَّ المَرِيسي   خائفًا، ثُم رَجَعَ بعد وفاته. أما ضِرارًا فلا أَعْرف مَنْ هو.

اور جو المعتزلةِ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ عذاب قبر کا انکار کرتے ہیں تو یہ میرے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے سوائے  ضرار بن عمرو اور بشر المريسيّ کے لئے –   اور بشر المريسيّ امام ابو یوسف سے درس میں اختلاف کرتا تھا پس جب  انکو بشر کی حالت پتا چلی انہوں نے کہا میں تجھ کو صلیب دوں گا اور وہ قاضی تھے پس بشر المریسی فرار ہو گیا ڈر کر پھر پلٹا انکی وفات کے بعد – اور ضرار بن عمرو کو میں نہیں جانتا یہ کون ہے

امام بخاری اور عذاب قبر

  فتح الباري شرح صحيح البخاري از  أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي کے مطابق

لم يتعرض المصنف في الترجمة لكون عذاب القبر يقع على الروح فقط، أو عليها وعلى الجسد، وفيه خلاف شهير عند المتكلمين، وكأنه تركه لأن الأدلة التي يرضاها ليست قاطعة في أحد الأمرين، فلم يتقلد الحكم في ذلك، واكتفى بإثبات وجوده، خلافًا لمن نفاه مطلقًا من الخوارج، وبعض المعتزلة، كضرار بن عمرو وبِشر المريسيّ ومن وافقهما. وخالفهما في ذلك أكثر المعتزلة، وجميع أهل السُنَّة وغيرهم، وأكثروا من الاحتجاج له.وذهب بعض المعتزلة كالجبائيّ إلى أنه يقع على الكفار دون المؤمنين، وبعض الأحاديث الآتية عليهم أيضًا.

مصنف امام بخاری نے یہاں ترجمہ میں  اس پر  زور نہیں دیا (یا ظاہر نہیں کیا)  کہ عذاب قبر صرف روح کو ہوتا ہے یا روح پر اور جسم  (دونوں) پر ہوتا ہے اور اس کے خلاف متکمین میں بہت کچھ مشھور ہے اور گویا کہ (قصدا) انہوں نے ترک کیا کیونکہ دلائل جس سے راضی ہوں وہ قطعی نہیں تھے پس انہوں نے اس پر حکم نہیں باندھا اور صرف اثبات وجود (عذاب قبر) پرہی اکتفآ کیا ہے – یہ خلاف ہے اس نفی مطلق کے  جو خوارج اور بعض المعتزلة نے کی ہے  جیسے ضرار بن عمرو  اور بِشر المريسيّ  اور وہ جنہوں نے انکی دونوں کی موافقت کی اور اس کی (عذاب قبر کے انکار کی ) اکثر المعتزلة  اور اہل سنت نے مخالفت کی  اور  اس سے الاحتجاج   لینے والوں کی اکثریت  ہے اور بعض المعتزلة جیسے الجبائيّ کہتے ہیں یہ (صرف) کفار کو ہو گا مومنوں پر نہیں اور بعض احادیث سے اس پر اخذ کیا ہے 

یہ اقوال ثابت کرتے ہیں کہ تمام المعتزلة   عذاب قبر کے انکاری نہیں تھے بلکہ ایک دو ہی افراد تھے

الْمُعْتَزلَة کا عقیدہ :  الم و عذاب میت کو ہے

کتاب  المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج از  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) میں ہے

أَنَّ مَذْهَبَ أَهْلِ السُّنَّةِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ كَمَا ذَكَرْنَا خِلَافًا لِلْخَوَارِجِ وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَةِ وَبَعْضُ الْمُرْجِئَةِ نَفَوْا ذَلِكَ ثُمَّ الْمُعَذَّبُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ الْجَسَدُ بِعَيْنِهِ أَوْ بَعْضُهُ بَعْدَ إِعَادَةِ الرُّوحِ إِلَيْهِ أَوْ إِلَى جُزْءٍ مِنْهُ وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إِعَادَةُ الرُّوحِ قَالَ أَصْحَابُنَا هَذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ الْأَلَمَ  وَالْإِحْسَاسَ إِنَّمَا يَكُونُ فِي الْحَيِّ

بے شک اہل سنت کا مذھب اثبات عذاب قبر ہے جیسا ہم نے ذکر کیا بر خوارج اور الْمُعْتَزِلَةِ کے بڑوں اور بعض الْمُرْجِئَةِ  کے- یہ لوگ اس کا  انکار کرتے ہیں  – پھر عذاب پانے والا اہل سنت میں پورا جسد ہے   یا اس کا بعض حصہ آعآدہ روح کے  بعد جو  پورے جسد یا اس کے اجزاء میں ہوتا ہے  اور اس کی مخالفت کی ہے امام  ابن جریر طبری نے اور عبد الله بن کرام نے اور ایک گروہ نے اور کہا ہے عذاب کے لئے روح لوٹنا شرط نہیں ہے – ہمارے اصحاب ( اہل سنت جواب میں) کہتے ہیں یہ ( قول یا رائے)  فاسد ہے کیونکہ الم و احساس زندہ کے لئے ہے

وهابي عالم عاصم القریوتی نے  ٣٦ سال قبل لکھا تھا

qaryuti1

سن ١٩٨٤ میں شمارہ محدث میں مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی نے اپنا عقیدہ ان الفاظ میں بیان کیا

جب ہم خود اس بات کے قائل ہیں کہ عذاب و ثواب قبر کا بیشر انحصار روح یا روح کے جسم پر ہوتا ہے۔ البتہ اس کی شدت سے کبھی کبھار قبر میں پڑا ہوا جسدِ عنصری بھی متاثر ہو جاتا ہے

یعنی عذاب قبر اصلا روح کو ہے جس کا اثر کبھی کبھار جسد عنصری پر ہوتا ہے

حیرت ہے کہ آج غیر مقلدین نے قریوتی  اور کیلانی صاحب کا عقیدہ چھوڑ  دیا ہے

ابو جابر دامانوی کا عقیدہ ہے کہ عذاب قبر تدفین سے پہلے شروع ہو جاتا ہے  اعادہ روح سے بھی پہلے لہذا کتاب دین الخالص قسط اول و دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عذاب١

غیر مقلدین ٣٠ سال پہلے  عذاب قبر کی ابتداء حالت نزع سے بتاتے تھے یعنی اس کا آغاز قبر میں عود روح سے نہیں ہوتا

روح صرف چند سوالوں کے لئے اتی ہے دامانوی دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عقیدہ٢

یہ کس حدیث میں ہے کہ روح واپس جسم سے نکال لی جاتی ہے ؟ عود روح کی روایت جو شیعہ راویوں المنھال اور زاذان نے البراء بن عازب رضی الله عنہ سے منسوب کی ہے اس میں تو اس سے الٹ لکھا ہے اس کے مطابق  روح جب بھی آسمان کی طرف جائے گی اس کو واپس زمین کی طرف  پھینک دیا جائے گا

دامانوی کے مطابق روح پر عذاب قبر نہیں ہوتا اس پر عذاب جہنم ہوتا ہے دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عقید٣٢

یہ بھی قیاس ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے

اسی کتاب میں دامانوی لکھتے ہیں

دامانوی عقید٤

یعنی روح جہنم میں ہی رہے گی اور جسد بلا روح کو عذاب ہو گا

کہتے ہیں

سانپ نکل گیا لکیر پیٹا کرو

اہل سنت کا یہ عقیدہ نہیں ہے یہ کرامیہ کا عقیدہ ہے جو غیر مقلدین اختیار کر چکے ہیں

شَرْحُ صَحِيح مُسْلِمِ لِلقَاضِى عِيَاض المُسَمَّى إِكمَالُ المُعْلِمِ بفَوَائِدِ مُسْلِم از قاضی  عياض بن موسى  (المتوفى: 544هـ) کے مطابق

وأن مذهب أهل السنة تصحيح هذه الأحاديث وإمرارها على وجهها؛ لصحة طرقها، وقبول السلف لها. خلافًا لجميع الخوارج، ومعظم المعتزلة، وبعض المرجئة؛ إذ لا استحالة فيها ولا رد للعقل، ولكن المعذب الجسد بعينه بعد صرف الروح إليه أو إلى جزء منه، خلافاً لمحمد بن جرير (3) وعبد الله بن كرام (4) ومن قال بقولهما؛ من أنه لا يشترط الحياة؛ إذ لا يصح الحس والألم واللذة إلا من حى

اور اہل سنت کا مذھب ان احادیث کی تصحیح ہے اور اس کو ظاہر پر منظور کرتے ہیں اس سے صحیح طرق کی وجہ سے اور سلف کے قبول کی وجہ سے  اور خلاف ہے یہ تمام خوارج اور المعتزلة کے بڑوں اور المرجئة کے – کیونکہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں اور عقل کا رد نہیں ہے بلکہ جسد جیسا ہے اس کی طرف روح لانے پر یا اس کے اجزاء پر عذاب ہے اور یہ خلاف ہے امام طبری اور عبد الله بن کرام کے اور وہ جس نے اس جیسا قول کہا  کہ عذاب کی شرط زندگی نہیں ہے – کیونکہ اگر حس صحیح نہیں تو الم و لذت تو نہیں ہے سوائے زندہ کے لئے

کتاب  عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں العینی لکھتے ہیں

 وَقَالَ الصَّالِحِي من الْمُعْتَزلَة وَابْن جرير الطَّبَرِيّ وَطَائِفَة من الْمُتَكَلِّمين يجوز التعذيب على الْمَوْتَى من غير إحْيَاء وَهَذَا خُرُوج عَن الْمَعْقُول لِأَن الجماد لَا حس لَهُ فَكيف يتَصَوَّر تعذيبه

اور (ابو حسین  محمد بن مسلم) الصَّالِحِي  (مصنف كتاب الْإِدْرَاك)  نے الْمُعْتَزلَة میں سے  اور امام طبری نے اور متکمین کے ایک گروہ نے جائز کیا ہے کہ بغیر زندگی کے  مردوں  پر  عذاب ہو   اور یہ عقل سے عاری بات ہے کیونکہ جمادات میں حس نہیں ہوتی تو پھر عذاب کا  تصور کیسے کیا جا سکتا ہے

علامہ عینی کے قول سے ثابت ہے جسد بلا روح پر عذاب الْمُعْتَزلَة کا عقیدہ تھا جس کو غیر مقلدین اختیار کر چکے ہیں

کتاب التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة از  القرطبي (المتوفى: 671هـ) کے مطابق

وقال الأكثرون من المعتزلة: لا يجوز تسمية ملائكة الله تعالى بمنكر ونكير، وإنما المنكر ما يبدو من تلجلجله إذا سئل، وتقريع الملكين له هو النكير، وقال صالح: عذاب القبر جائز، وأنه يجري على الموتى من غير رد الأرواح إلى الأجساد، وأن الميت يجوز أن يألم ويحس ويعلم. وهذا مذهب جماعة من الكرامية.  وقال بعض المعتزلة: إن الله يعذب الموتى في قبورهم، ويحدث فيهم الآلآم وهم لا يشعرون، فإذا حشروا وجدوا تلك الآلام. وزعموا أن سبيل المعذبين من الموتى، كسبيل السكران أو المغشى عليه، لو ضربوا لم يجدوا الآلام، فإذا عاد إليهم العقل وجدوا تلك الآلام، وأما الباقون من المعتزلة.  مثل ضرار بن عمرو وبشر المريسي ويحيى بن كامل وغيرهم، فإنهم أنكروا عذاب القبر أصلاً، وقالوا: إن من مات فهو ميت في قبره إلى يوم البعث وهذه أقوال كلها فاسدة تردها الأخبار الثابتة وفي التنزيل: {النار يعرضون عليها غدواً وعشياً} . وسيأتي من الأخبار مزيد بيان، وبالله التوفيق والعصمة والله أعلم.

اور المعتزلة میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ الله کے فرشتوں کو منکر نکیر نہیں کہنا چاہیے اور  صالح نے کہا عذاب قبر جائز ہے اور یہ مردوں پر ہوتا ہے روحیں لوٹائے بغیر اور میت کے لئے  جائز ہے کہ وہ الم کا احساس کرے اور جانتی ہو اور یہ مذہب کرامیہ کی ایک جماعت کا ہے – اور بعض المعتزلة نے کہا الله مرودں کو قبروں میں عذاب کرتا ہے اور ان پر الم اتا ہے اور وہ اس کا شعور نہیں کرتے لیکن جب حشر ہو گا ان کو اس کا احساس ہو گا اور انہوں نے دعوی کیا کہ مردوں میں عذاب پانے والے ایک بے ہوش اور غشی والے شخص کی طرح ہیں اس پر ضرب لگاو تو اس کو احساس نہیں ہوتا لیکن جب عقل اتی ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے اور المعتزلة میں باقی کہتے ہیں مثلا ضرار اور بشر اور یحیی اور دیگر یہ وہ ہیں جنہوں نے اصلا عذاب کا انکار کیا ہے اور کہتے ہیں جو مرا وہ میت ہے اپنی قبر میں قیامت تک کے لئے اور یہ تمام اقوال فاسد ہیں جو رد ہوتے ہیں ثابت خبروں سے اور قرآن میں ہے ال فرعون اگ پر پیش کیے جاتے ہیں 

قرطبی کے بقول بعض المعتزلة اور کرامیہ کا عقیدہ ایک تھا کہ میت بلا روح عذاب سہتی ہے جو آج کل کے غیر مقلدین کا عقیدہ ہے

الإعلام بفوائد عمدة الأحكام ابن الملقن الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)کے مطابق

وقال بعضهم: عذاب القبر جائز وأنه يجري على [الموتى]   من غير رد أرواحهم إلى أجسادهم وأن الميت يجوز أن يألم ويحس وهذا مذهب جماعة من الكرامية. وقال بعض المعتزلة: إن الله يعذب [الموتى]   في قبورهم ويحدث فيهم الآلام وهم لا يشعرون فإذا حُشروا وجدو تلك الآلام، كالسكران والمغشي عليه، لو ضربوا لم يجدوا ألمًا   فإذا عاد عقلهم إليهم وجدوا تلك الآلام. وأما الباقون سنن المعتزلة مثل ضرار  بن [عمرو]   وبشر   المريسي ويحيى   بن أبي كامل وغيرهم: فإنهم أنكروا عذاب القبر أصلًا.  وهذه أقوال كلها فاسدة تردها الأحاديث الثابتة، والله الموفق.  وإلى الإِنكار أيضًا ذهبت الخوارج وبعض المرجئة. ثم المعذب عند أهل السنة: الجسد بعينه أو بعضه بعد إعادة الروح إليه [أو]  إلى جزء منه، وخالف في ذلك محمد بن [حزم]  وابن كرام   وطائفة، فقالوا: لا يشترط إعادة الروح، وهو فاسد توضحه الرواية السالفة (سمع صوت إنسانين يعذبان) فإن الصوت لا يكون [إلَّا]   من جسم حي  أجوف 

اور بعض کہتے ہیں عذاب قبر جائز ہے اور یہ مردوں کو ہوتا ہے روح لوٹائے بغیر اور یہ میت کے لئے جائز ہے کہ احساس الم کرے اور یہ کرامیہ کی جماعت کا مذھب ہے  اور بعض المعتزلة کہتے ہیں اللہ مردوں کو قبروں میں عذاب کرتا ہے اور ان پر الم ہوتا ہے لیکن انکو اسکا شعور نہیں ہے پس جب حشر ہو گا انکو یہ الم مل جائے گا – (مردوں کی کیفیت ایسی ہے ) جیسے غشی ہوتی ہے کہ انکو مارو تو انکو الم نہیں ملتا پس جب عقل واپس اتی ہے انکو الم ملتا ہے- اور باقی المعتزلة  مثلا  ضرار  بن [عمرو]   وبشر   المريسي ويحيى   بن أبي كامل وغيرهم تو یہ سب اصلا  عذاب کا انکار کرتے ہیں – اور یہ تمام اقوال فاسد ہیں جن کا رد ثابت حدیثوں سے ہوتا ہے اللہ توفیق دینے والا ہے اور اسی انکار کی طرف  خواراج اور بعض المرجئة کا مذھب ہے- پھر معذب اہل سنت کے نزدیک جسد اور اس کے جیسا ہے روح لوٹانے پر یا اجزاء پر اور اسکی مخالفت کی ہے ابن حزم نے ابن کرام نے اور ایک گروہ نے اور کہا کہ اعادہ روح اس کی شرط نہیں ہے اور یہ فاسد ہے انکی وضاحت ہوتی ہے پچھلی حدیثوں سے (دو انسانوں کی آواز سنی جن کو عذاب ہو رہا تھا)  کیونکہ آواز نہیں ہے الا جسم زندہ ہو (مٹی سے) خالی ہو

ابن ملقن کے بقول عذاب   اہل سنت میں حی یا زندہ کے لئے ہے جس کے جسم میں مٹی نہ ہو اور کرامیہ کا مذھب ہے کہ یہ لاش کو بلا روح ہوتا ہے

اہل سنت کی عقیدہ عذاب قبر میں دو آراء

العرف الشذي شرح سنن الترمذي از المؤلف: محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ)

ونسب إلى المعتزلة أنهم ينكرون عذاب القبر، ويرد عليه أن المعتزلة المختار عدم إكفارهم، وإذا كانوا أنكروا عذاب القبر فكيف يكونوا أهل القبلة؟ أقول: يقال أولاً: لعل التواتر نظري، وثانياً: أنه لم ينكر أحد منهم إلا ضرار بن عمرو وبشر المريسي، وإني في هذا أيضاً متردد ما لم ير عبارتهما. ثم لأهل السنة قولان؛ قيل: إن العذاب للروح فقط، وقيل: للروح والجسد والمشهور الثاني، اختاره أكثر شارحي الهداية وهو المختار

اور المعتزلة سے عذاب قبر کا انکار منسوب کیا جاتا ہے اور اس کا رد کیا جاتا ہے کہ  المعتزلة جو  مختار تھے کہ وہ عذاب قبر کا کفر  کرتے ہیں  اور اگر وہ عذاب قبر کے انکاری ہیں تو انکو اہل قبلہ کیسے لیں؟ میں کہتا ہوں پہلی بات تواتر نظری ہے اور دوسری اس کا انکار صرف ضرار بن عمرو وبشر المريسي نے کیا ہے اور میں خود متردد ہوں کیونکہ میں نے اس پر انکی  کوئی عبارت اس پر نہیں پائی- پھر خود اہل سنت میں عذاب قبر پر دو قول ہیں ایک یہ کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے دوسرا یہ کہ یہ جسم و روح کو ہوتا ہے اور دوسرا مشھور ہے اس کو الهداية کے اکثر شارحین نے  لیا ہے اور یہ مختار ہے

امام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور
اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا

کتاب  إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از المؤلف: أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) کے مطابق بھی بعض ٩٢٣ ھ میں کہہ رہے تھے کہ یہ صرف روح کا سننا ہے

إما بآذان رؤوسهم، كما هو قول الجمهور، أو بآذان الروح فقط، والمعتمد قول الجمهور، لأنه: لو كان العذاب على الروح فقط، لم يكن للقبر بذلك اختصاص، وقد قال قتادة، كما عند المؤلّف في غزوة بدر: أحياهم الله تعالى حتى أسمعهم توبيخًا أو نقمة.

اور سروں میں موجود کان ہیں وہ سنتے ہیں یہ جمہور کہتے ہیں یا پھر فقط روح کے کان ہیں اور معتمد جمہور کا قول ہے کیونکہ عذاب اگر صرف روح کو ہو تو قبر کی کوئی خصوصیت نہیں ہے اور قتادہ نے غزوہ بدر کے لئے کہا کہ ان مشرکین کو زندہ کیا توبیخ کے لئے

یعنی قسطلانی نے ایک معجزہ کو معمول سمجھ لیا  جبکہ امت میں صرف روح پر عذاب کی رائے بھی چلی آ رہی ہے

لہذا اس  مسئلہ میں دو قول ہیں ایک یہ ہے کہ عذاب صرف روح کو ہوتا ہے جس کا ذکر سلف کرتے ہیں لیکن یہ قول کہ یہ صرف جسد کو بلا روح ہوتا ہے عبد الله بن کرام کے فرقہ کرامیہ اور الْمُعْتَزلَة میں الصالحی کا تھا

خوارج اور غیر مقلدین

ابو جابر دامانوی نے خوارج کے انکار عذاب قبر کا حوالہ دیا ہے- اطلاعا عرض ہے کہ اس میں خوارج مختلف الخیال ہیں اکثر کی رائے میں عذاب کفار و منافق پر ہوتا ہے ایمان والوں کے لئے وہ اس کو جزم سے بیان نہیں کرتے

یہاں ہم ایک خارجی عالم  ناصر بن أبي نبهان  الأباضي المتوفی ١٢٦٣  کی رائے پیش کرتے ہیں

إن الله قادر أن يخلق له نوع حياة، يجوز بها ما يدرك الألم والتنعيم، من غير إعادة الروح إليه لئلا يحتاج إلى نزع حياة جديدة، ويجوز بإعادة الحياة دون إعادة الروح

اور بے شک الله تعالی قادر ہے کہ ایک نوع کی حیات (مردوں میں) پیدا کر دے جس سے ان کو الم و راحت کا ادرک ہو بغیر روح لوٹائے کیونکہ اس کو اس نئی حیات کی ضرورت ہے اور جائز ہے کہ حیات کا لوٹنا ہو بغیر إعادة روح کے

بحوالہ  آراء الشيخ ابن أبي نبهان في قاموس الشريعة

ان کا ترجمہ یہاں دیکھ سکتے ہیں

https://ar.wikipedia.org/wiki/ناصر_بن_جاعد_الخروصي#.D9.85.D8.A4.D9.84.D9.81.D8.A7.D8.AA.D9.87

یہ رائے آج سے ١٧٤ سال پہلے خوارج  کے ایک عالم پیش کر چکے تھے – سن ٢٠٠٠ ع سے اس کی تبلیغ فرقہ غیر مقلدین کر رہے  ہیں

ابن خزیمہ اور عذاب قبر کا عقیدہ

محمد بن إسحاق بن خزيمة بن المغيرة بن صالح بن بكر السلمي النيسابوري الشافعي  المتوفی ٣١١  ہجری   سن ٢٢٣ ہجری میں پیدا ہوئے –  سترہ سال کی عمر کے پاس انہوں نے قتیبہ بن سعید سے قرآن سیکھنے کے لئے سفر کیا

 کتاب طبقات الشافعية الكبرى از  تاج الدين عبد الوهاب بن تقي الدين السبكي (المتوفى: 771هـ) کے مطابق ابن خزیمہ سے بخاری و مسلم نے بھی روایت لی جو صحیحین سے باہر کی کتب میں ہیں لکھتے ہیں

روى عَنهُ خلق من الْكِبَار مِنْهُم البخارى وَمُسلم خَارج الصَّحِيح

ابن خزیمہ  سے کبار مثلا بخاری و مسلم نے صحیح سے باہر روایت لی

امام بخاری کی وفات ٢٥٦ ہجری میں ہوئی اس وقت ٣٣ سال کے ابن خزیمہ تھے –  صحیح بخاری امام بخاری کی آخری تصنیف ہے – ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بخاری ان سے سنی گئی روایات اس میں ذکر کرتے اس کے برعکس  دوسری طرف عجیب بات ہے صحیح ابن خزیمہ میں امام  بخاری سے کوئی روایت نہیں لی گئی – معلوم ہوتا ہے یار دوستوں نے ان کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے

اس کی مثال ہے کہ ابن خزیمہ سے ایک قول منسوب ہے کہا جاتا  ہے امام ابن خزیمہ  فرماتے ہیں

ما تحت أديم السماء أعلم بحديث رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ولا أحفظ من محمد بن إسماعيل البخاري

آسمان کی چھت کے نیچے حدیث رسول  صلی الله علیہ وسلم کا محمد بن اسماعیل البخاری سے بڑھ کر علم رکھنے والا اور حفظ کرنے والا کوئی نہیں ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس علم کی جھلک صحیح ابن خزیمہ میں ہوتی لیکن امام بخاری سے صحیح ابن خزیمہ میں ایک بھی روایت نہیں ہے

المليباري کتاب عُلوم الحديث في ضوء تطبيقات المحدثين النقاد میں لکھتے ہیں

ولا ابن خزيمة يروي عن البخاري ولا عن مسلم

أور ابن خزيمة نے نہ امام بخاری سے روایت لی نہ امام مسلم سے

بحر الحال ابن خزیمہ نے کتاب التوحید لکھی جس میں جنت و جہنم کا انکار کرنے والے جھمیوں کا رد کیا اور چلتے چلتے عذاب قبر کا بھی ذکر چھڑ گیا یہاں اس کا ترجمہ  پیش کیا جاتا ہے جو غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے دین الخا لص قسط دوم میں پیش کیا

ibn-khuzaimah-azab

اہل حدیث جو سلف کو اپنآ ہم عقائد بتاتے ہیں وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا عقیدہ کس حد تک ابن خزیمہ جیسا ہے

ابن خزیمہ کے بقول بغیر روح عذاب قبر نہیں ہوتا جبکہ اہل حدیث کا عقیدہ ہے  عود روح صرف ایک دفعہ ہوتا ہے پھر روح  کو جسد سے نکال لیا جاتا ہے

ابن خزیمہ کہتے ہیں قبر والا قبر میں زندہ ہوتا ہے جبکہ اہل حدیث کا عقیدہ ہے وہ میت ہے جو مردے کو کہتے ہیں

بحر الحال ہمارے نزدیک صحیح عقیدہ ہے کہ روح جسم سے نکلنے کے بعد اب قیامت کے دن ہی آئی گی اور جسد مٹی میں تبدیل ہو جائے گا عذاب کا مقام البرزخ ہے نہ کہ ارضی قبر

عائشہ  (رض) اور  عذاب قبر کی روایات

کفار پر  عذاب قبر کی خبر مکی دور میں دی گئی جب ال فرعون اور قوم نوح کا قرآن میں ذکر ہوا لیکن مدینہ پہنچ کر بھی مومن پر عذاب قبر کا عقیدہ  نہیں تھا – نہ یہ اصحاب بدر کے علم میں تھا نہ اصحاب احد کے بلکہ آخری دور میں وفات سے چار ماہ پہلے مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی

 بخاری اور مسلم میں  عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مروی   روایات میں یہ آیا ہے کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کے گھر دو یہودی عورتیں آئیں، انہوں نے عذاب قبر کا تذکرہ کیا، نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی اور مسلم کی روایت کے مطابق کہا یہ  یہود کے لئے ہے پھر فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ کچھ راتوں بعد اپ نے فرمایا أَمَا شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ کیا تمہیں شعور ہوا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم کو قبروں میں ازمایا جائے گا

صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کا بیان ۔ حدیث 1314

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی قَالَ هَارُونُ حَدَّثَنَا وَقَالَ حَرْمَلَةُ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ مِنْ الْيَهُودِ وَهِيَ تَقُولُ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ فَارْتَاعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّمَا تُفْتَنُ يَهُودُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ يَسْتَعِيذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
ہارون بن سعید، حرملہ بن یحیی، ہارون، حرملہ، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ کیا تم جانتی ہو کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر کانپ اٹھے اور فرمایا کہ یہودی آزمائے جائیں گے -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چند راتیں ٹھہرے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتی ہو کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے رہے۔

—–

عمرۃ’ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ  عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عائذا باللّٰہ من ذٰلک ۔ میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر ایک دن آپ  صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر (اس دن) سورج کو گرہن لگ گیا۔ (آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
انی قد رایتکم تفتنون فی القبور کفتنۃ الدجال … اسمع رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بعد ذالک یتعوذ من عذاب النار و عذاب القبر
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح۔ … میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فقال ما شاء اللّٰہ ان یقول ثم امرھم ان یتعوذوا من عذاب القبر
پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا فرمایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قبرکے عذاب سے پناہ مانگیں۔

صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد۱صفحہ ۱۴۳عربی ح:۱۰۴۹۔ صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱صفحہ۲۹۷عربی ح:۲۰۹۸


ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے) ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔

حدیث نمبر: 1043

صحیح بخاری جلد 2

سوال یہ ہے کہ ابراہیم کی وفات کس دن ہوئی؟

ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں قول پیش کیا ہے

 وذكر الواقدي: أن إبراهيم ابن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مات يوم الثلاثاء لعشر ليالٍ خلون من شهر ربيع الأول سنة عشر ودفن بالبقيع،

اور واقدی نے ذکر کیا بے شک ابراہیم بن رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی پیر کے روز ربیع الاول میں دس رات کم دس ہجری میں وفات ہوئی

لیکن واقدی پر جھوٹ تک کا فتوی لگایا جاتا ہے

بغوی شرح السنہ میں لکھتے ہیں

وُلِدَ فِي ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَمَانٍ مِنَ الْهِجْرَةِ، وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا

ابراہیم پسر نبی ذِي الْحِجَّةِ  سن ٨ ہجری میں پیدا ہوئے اور ١٦ ماہ زندہ رہے

یعنی ربیع الاول سن ١٠ ہجری میں وفات ہوئی گویا نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل

مسند ابی یعلی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْفِنُوهُ بِالْبَقِيعِ، فَإِنَّ لَهُ مُرْضِعًا تُتِمُّ رَضَاعَهُ فِي الْجَنَّةِ»
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده صحيح

انساب  کے ماہر ابن حزم الأندلسي القرطبي   (المتوفى: 456هـ) کتاب جمهرة أنساب العرب میں لکھتے ہیں

ومات إبراهيم قبل موت النبي صلى الله عليه وسلم، بأربعة أشهر؛ ودفن بالبقيع

اور ابراہیم کی وفات نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے چار ماہ پہلے ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئے

یعنی ذیقعد میں ١٠ ہجری میں وفات ہوئی اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی

  صحیح مسلم میں ہے: عمرو نے کہا: جب ابراہیم کی وفات ہوئی تو  رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے کہا: بے شک ابراہیم میرا بیٹا ہے اور وہ دودھ پیتے بچے کی عمر میں مرا ہے اور بے شک اس کے لئے دودھ پلانے والی ہے جو جنت میں اس کی رضاعت پوری کرائے گی

یعنی مومن کے لئے عقیدہ یہ تھا کہ اسکو عذاب نہیں ہوتا اور روح فورا جنت میں جاتی ہے جہاں اس کو ایک ایسا جسم ملتا ہے جو دودھ پی سکتا ہے اس کے لئے عذاب کی کوئی خبر نہیں تھی

  بخاری و مسلم  کی ہی بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو ابراہیم کی وفات والے دن ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز کے دوران    مومن کے لئے  عذاب قبر  سے مطلع کیا گیا. مشرک عمرو  ابن لحیی الخزاعی  جو مر چکا تھا اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھاتے ہوئے  بیداری میں دیکھا جو دس ہجری کا واقعہ ہے نہ صرف عمرو (ابن لحیی الخزاعی) کو دیکھا بلکہ اپ جہنم کی تپش کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور ایک موقعہ پر جنت میں سے انگور کا خوشہ لینے کے لئے آگے بھی بڑھے  ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک عورت کو بھی دیکھا جس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور بھوک پیاس کی وجہ سے وہ بلی مر گئی.   اس کی تفصیل بخاری و مسلم میں کسوف کی روایات میں دیکھی جا سکتی ہیں

لہذا انہی ایام میں جبکہ یہودی عورتوں نے مومنوں پر عذاب قبر کا ذکر کیا ابراہیم پسر نبی کی بھی وفات ہوئی اور سورج گرہن کے دن مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی –

 اس کے بعد چار ماہ کی قلیل مدت ہے جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجه الوداع کیا اور غدیر خم کا واقعہ ہوا پھر آپ مدینہ پہنچے اور بالاخر صفر کے مہینے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہونا شروع ہوئی اور ربیع الاول میں وفات ہوئی-

عذاب قبر کی روایات تعداد میں اتنی زیادہ ہیں کہ چار ماہ کی قلیل مدت اس کے تمام مسائل  اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار-  اس میں تطبیق کی صورت نہیں ہے –

ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں

وقال الحافظ بن تَيْمِيَةَ فِي كِتَابِ التَّوَسُّلِ وَالْوَسِيلَةِ … وَأَنَّهُ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ

 ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے صرف ایک بار گرھن کی نماز پڑھی جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی

یہی بات مبارک پوری نے مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں دہرائی ہے ج ٥ ص١٢٨ پر

وأنه لم يصل الكسوف إلا مرة واحدة يوم مات إبراهيم

اور بلا شبہ گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ اس روز جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی

حاشية السندي على سنن النسائي  میں ابن کثیر کے حوالے سے لکھتے ہیں

فَإِن رَسُول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً بِالْمَدِينَةِ فِي الْمَسْجِدِ هَذَا

بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گرہن نہیں ملا سوائے ایک دفعہ مدینہ میں اس مسجد (النبی) میں

تيسير العلام شرح عمدة الأحكام میں البسام  لکھتے ہیں

أن الخسوف لم يقع إلا مرة واحدة في زمن النبي صلى الله عليه وسلم

بے شک گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں

محمد بن صالح بن محمد العثيمين شرح ریاض الصالحین میں لکھتے ہیں

إن الكسوف لم يقع في عهد النبي صلي الله عليه وسلم إلا مرة واحدة

بے شک گرہن واقع نہیں ہوا عہد نبوی میں سوائے ایک دفعہ

سلفی مقلد اہل حدیث عالم ابو جابر دامانوی  عذاب قبر الناشر مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی میں لکھتے ہیں

بخاری و مسلم کی تفصیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیہ کے عذاب قبر کے ذکر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذا ب قبر کی تفصیلات صلوۃ کسوف کے بعد بتائیں اور سورج کو گرہن ۱۰ ؁ھ میں لگا تھااور اسی دن آپ کے صاحبزادے جناب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات بھی ہوئی تھی ۔ گویا آپ کو بھی اسی سال عذاب قبر کا تفصیلی علم ہوا اور آپ نے اپنی امت کو اس اہم مسئلہ سے آگاہ فرمایا۔
مسند احمد کی حدیث جسے حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے جس میں ہے کہ شروع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا تھا حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
کَذَّبَتْ یَہُوْدُ وَھُمْ عَلَی اﷲِ عَزَّ وَ جَلَّ کَذِبٌ لَا عَذَابَ دَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
(مسند احمد ج ۶ ص ۸۱، فتح الباری ج ۳ ص ۲۳۶)
’’یہود نے جھوٹ کہا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹی بات کہی ہے کیونکہ قیامت سے قبل کوئی بھی عذاب نہیں ہے‘‘ ۔ لیکن کچھ دنوں بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے عذاب قبر کی حقیقت کا پتہ چلا تو آپ بے حد غمگین تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا: فَاِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌ ’’بے شک قبر کا عذاب حق ہے‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے: (اے عائشہ) کیا تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبروں میں آزمائش ہو گی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس دن سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز میں) عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب استحباب التعوذ من عذاب القبر (حدیث نمبر ۱۳۱۹) مسند احمد ج۶ ص ۸۹)۔

لہذا ایک طرف چار ماہ کی قلیل مدت اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار اب بس ایک ہی رستہ تھا کہ عائشہ رضی الله عنہا کو کہا جائے کہ وہ عقائد بھول جاتی تھیں

ایک عرب محقق عکاشہ عبد المنان کتاب المسند الصحیح فی عذاب القبر و نعیمہ میں لکھتے ہیں

ukasha-azab

اور جو ظاہر ہے یہودی بوڑھی عورتوں کے واقعہ اور عائشہ رضی الله عنہا کے انکار (عذاب قبر) سے کہ بے شک وہ بھول گئیں جو ان سے پہلے بیان ہوا تھا پس جب انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ بلند کیے اور عذاب سے پناہ مانگی – پس نبی صلی الله علیہ وسلم کا عائشہ رضی الله عنہا کو جواب دلالت کرتا ہے کہ وحی رسول الله کے دل میں تھی وہ نہیں بھولے تھے جیسا کہ الله نے خبر دی ہم تم پر پڑھیں گے تم نہیں بھول پاؤ کے  (سوره الآعلی) اور جہاں تک عائشہ کا تعلق ہے تو وہ بے شک بھول گئیں جیسے اور بشر اور یہ کوئی عیب نہیں ہے

اور دوسری وجہ ہے : وہ دور جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عذاب قبر کے وجود کی خبر دینے کے لئے  وحی نہیں آئی اس کے بعد آپ کو بتایا گیا یہودیوں کے کلام کا اور عائشہ رضی الله عنہآ کی خبر کا پس آپ نے جواب دیا  آوروں  کی بجائے  یہود کے اثبات میں    یہاں تک کہ  وحی آئی اور خبر دی گئی کہ یہ حق ہے ہر میت اسکی مستحق ہے پس اسکی خبر لوگوں کو باہر نکل کر دی جو وحی ہوئی تھی و الله آعلم

یہ تاویل سراسر لغو ہے اور ذہن سازی ہے – عائشہ رضی الله عنہا اگر عذاب قبر جیسے مسئلہ کو بھول  گئیں تو پتا نہیں دین کا کتنا حصہ بھول گئی ہوں؟  صحیح مسلم کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی لیکن   کئی راتوں کے بعد  عائشہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ عذاب ہوتا ہے –  یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مومن پر عذاب قبر کی خبر دس ہجری میں دی گئی اس سے قبل اس کا ذکر نہیں تھا

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

السنہ شمارہ ٤٩ تا ٥٤ ذی الحجہ ١٤٣٣ جمادی اولی الموافق نومبر ٢٠١٢ تا اپریل ٢٠١٣ نظر سے گزرا اس کے مباحث کافی اہم  تھے – بظاہر  سلف کے صحیح عقیدہ پر بات کا  آغاز کیا گیا لیکن السنہ شمارہ میں مضمون “مردوں کا دیکھنا اور سلام سننا”  از ابو سعید سلفی میں غیر محسوس انداز میں ان عقائد پر جرح کی گئی جو سلف سے تسلیم شدہ ہیں مثلا مردوں کا زائر کو پہچاننے  اور سلام کا جواب دینے کا عقیدہ – اس مضمون میں انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ تمام روایات جو سلف اپنی کتب میں مردہ کے علم کے  اثبات پر پیش کرتے ہیں ان پر جرح کی گئی – ضروری ہے کہ دیکھیں کہ اس سلسلے میں  شیخ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کیا عقیدہ بیان کرتے تھے

مزید تفصیل کے لئے ڈاؤن لوڈ کریں

حیات بعد الموت

[آپ کی رائے میں عقیدہ عود روح شیعوں نے گھڑا اس کی وجہ کیا تھی ؟]

عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ایک شخص بنام عبدللہ بن سبا اسلام میں ظاہر ہوا اس نے دین میں شیعہ عقیدے کی بنیاد ڈالی اور نئی تشریحات کو فروغ دیا

الشھرستانی  اپنی کتاب الملل و النحل ص ٥٠ پر لکھتے ہیں

 السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.

السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ:  تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو  مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا ۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی ( اللہ ان سے راضی ہو) ۔ اور وہ (ابن سبا)  ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی  کی امامت کے لئے بات پھیلآئی ۔ اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے اور انتقال نہیں کر گئے ۔ اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی ۔ اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ  زمین ظلم سے بھری ہے۔ اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا۔ اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے ۔ اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں

ابن اثیر الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٨ پر لکھتے ہیں

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم…

 عبداللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا  پھربصرة پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ھو سکا.  اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس ائے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے. اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا. پھر اس نے کہا : ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمّد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا. اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے  لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو

رجعت کا عقیدہ شیعہ مذھب کی جڑ ہے اور اس کے بنا ساری خدائی بےکار ہے. ابن سبا کو اسلام میں موت و حیات کے عقیدے کا پتا تھا  جس کے مطابق زندگی دو دفعہ ہے اور موت بھی دو دفعہ. اس کی بنیاد  قرآن کی آیات ہیں

سورہ غافر میں ہے

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِي

وہ (کافر) کہیں  گےاے رب تو نے دو زندگیاں دیں اور دو موتیں دیں ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پس یہاں (جہنم ) سے نکلنے کا کوئی رستہ ہے

ابن سبا نے اس عقیدے پر حملہ کیا اور ان آیات کو رجعت کی طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں جب خلفاء کے خلاف خروج ہو گا تو ہم مر بھی گئے تو دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمارے دشمن دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونگے. اس آیت کا شیعہ تفاسیر میں یہی مفھوم لکھا ہے اور اہل سنت جو مفھوم بیان کرتے ہیں وہ شیعہ کے نزدیک اہل سنت کی  عربی کی  غلط سمجھ بوجھ ہے

رجعت کے عقیدہ کو اہل سنت میں استوار کرنے کے لئے دو زندگیوں اور دو موتوں والی آیات کو ذھن سے نکالنا ضروری تھا. اس کے لئے عود روح کی روایت بنائی گئیں کہ ایک دفعہ مردے میں موت کا مفھوم ختم ہو جائے تو پھر میدان صاف ہے. آہستہ آہستہ اہل سنت مردے کے سننے اور مستقبل میں کسی مبارزت طلبی پر قبر سے باہر نکلنے کا عقیدہ اختیار کر ہی لیں گے

 لہذا عود روح  کی روایات شیعہ راویوں  زاذان، المنھال بن عمرو، عدی بن ثابت، عمرو بن ثابت نے اصحاب رسول کی طرف منسوب کیں اور بالاخر یہ راوی کم از کم اس بات میں کامیاب ہوئے کہ دو موتوں اور دو  زندگیوں کا اصول ذہن سے محو ہو گیا

جب بھی دو موتوں اور دو  زندگیوں  والی آیات پر بات کی جاتی ہے تو خود سنی ہونے کے دعویدار کہتے ہیں  کیا کیجئے گا قرآن میں  تو خود تین زندگیوں والی آیات موجود ہیں  کہ الله نے قوم موسی کو زندہ کیا عیسی نے زندہ کیا وغیرہ ، گویا با الفاظ دیگر روایات نے ان آیات کو منسوخ کر دیا یا نعوذ باللہ، قرآن غیر ذی عوج میں صاف بات نہیں کہی گئی

 کبھی کہتے ہیں کہ موت نیند ہے انسان زندگی میں سینکڑوں دفعہ سوتا ہے  اور لا تعداد موتوں سے ہمکنار ہوتا ہے یعنی وہی سبائی سوچ کے تسلط میں قرآن میں تضاد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے. افسوس تمہاری سوچ پر اور افسوس تمہاری عقل پر

الغرض سبائی سوچ کامیاب ہوئی اور امام احمد اپنی ضخیم مسند میں موجود بدعتی روایات ضعیفہ  پر ایمان لائے اور فتوی دینے لگے کہ ایمانیات میں سے ہے کہ

والإيمان بمنكر ونكير وعذاب القبر والإيمان بملك الموت يقبض الأرواح ثم ترد في الأجساد في القبور فيسألون عن الإيمان والتوحيد

 ایمان  لاو منکر نکیر اور عذاب قبر پر اور موت کے فرشتے پر کہ وہ روحوں کو قبض کرتا ہے پھر جسموں میں لوٹاتا ہے قبروں میں  پس سوال کیا جاتا ہے ایمان اور توحید پر

بحوالہ طبقات الحنابلة كاملاً  لابي يعلى الحنبلي

وہ یہ بھی کہنے لگے

كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس

بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے

بحوالہ كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت

 امام احمد  جمعہ کی اس مخصوص ساعت میں یہ مانتے تھے کہ مردہ قبر سے باہر والے کو پہچانتا ہے

عود روح کے امام احمد کے عقیدے کو  بظاہر شیعہ مخالف دمشقی عالم ابن تیمیہ بھی  یہ مان گئے  اور فتوی میں کہا کہ امام احمد کے یہ الفاظ  امت کے نزدیک تلقاها بالقبول کے درجے میں ہیں یعنی قبولیت کے درجے پر ہیں

ابن تیمیہ نے لکھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں اور حسین و یزید کے معرکے میں خالی مسجد  النبی میں قبر سے  اذان دیتے رہے

وہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم میں لکھتے ہیں

وكان سعيد ين المسيب في أيام الحرة يسمع الأذان من قبر رسول الله صلى الله عليه و سلم في أوقات الصلوات وكان المسجد قد خلا فلم يبقى غيره

اور  سعيد ين المسيب ایام الحرہ میں اوقات نماز  قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم سے اذان کی آواز سن کر معلوم کرتے تھے اور مسجد (النبی) میں کوئی نہ تھا  اور وہ با لکل خالی تھی

!بس کسر ہی رہ گی ، نبی  صلی الله علیہ وسلم قبر سے نہ  نکلے .شاید  رجعت کا وقت نہیں آیا تھا

اب تو عقیدے کا بگاڑ سر چڑھ کر بولا. ارواح کا قبروں میں اترنا اور چڑھنا شروع ہوا . روحوں نے اپنی تدفین کا مشاہدہ کیا. زندوں کے اعمال مرودں کو دکھائے جانے لگے نبی کی قبر پر بنے گنبد پر لب سی لئے گئے اور کسی نے اس پر کلام کیا تو ان کی آواز کو فتووں کی گھن گرج سے پست کر دیا گیا

[/EXPAND]

[ڈاکٹر عثمانی صاحب نے البرزخ کو مقام بتایا ہے جبکہ اہل حدیث اس کو دنیا میں ہی مانتے ہیں اس میں کیا صحیح ہے ؟]

لغوی طور پر برزخ سے مراد آڑ ہے جیسا قرآن میں ہے کہ دو سمندر اپس میں نہیں ملتے کیونکہ ان کے درمیان برزخ ہے سوره الرحمان میں ہے

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ  بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِيَانِ

البرزخ سے مراد عالم ارواح ہے

اصطلاحا البرزخ سے مراد عالم ارواح ہے

قرآن کی سوره المومنون کی ٩٩ اور ١٠٠ آیات ہیں

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

یہاں تک کہ ان میں جب کسی کو موت اتی ہے تو کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دے تاکہ صالح اعمال کروں ہرگز نہیں یہ تو صرف ایک قول ہے جو کہہ رہا ہے اور اب ان کے درمیان (برزخ ) آڑ حائل ہے  یہاں تک کہ ان کو دوبارہ اٹھایا جائے

قرآن کی آیت ہے کہ جس ذی روح پر موت کا فیصلہ ہوتا ہے اس کی روح روک لی جاتی  ہے جس کو امساک روح کہا جاتا ہے

وہ مقام جہاں روح کو رکھا جاتا ہے اس کو  آڑ کی نسبت سے البرزخ کہا  گیا ہے

البرزخ کی اصطلاح  بہت قدیم ہے ، ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦،  ابن جریر الطبری ٣١٠ ھ،  ابن حزم المتوفی ٤٥٧ ھ، ابن الجوزی  المتوفی ٥٩٧ ھ   نے اس کو استعمال کیا ہے . اس کو اردو میں ہم عالم ارواح کہتے ہیں. اسی مفھوم میں ڈاکٹر عثمانی نے بھی اس کو استعمال کیا ہے.

ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦ ھ کتاب تأويل مختلف الحديث میں لکھتے ہیں

وَنَحْنُ نَقُولُ: إِنَّهُ إِذَا جَازَ فِي الْمَعْقُولِ، وَصَحَّ فِي النَّظَرِ، وَبِالْكِتَابِ وَالْخَبَرِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ، بَعْدَ أَنْ تَكُونَ الْأَجْسَادُ قَدْ بَلِيَتْ، وَالْعِظَامُ قَدْ رَمَّتْ1، جَازَ أَيْضًا فِي الْمَعْقُولِ، وَصَحَّ فِي النَّظَرِ، وَبِالْكِتَابِ وَالْخَبَرِ، أَنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ بَعْدَ الْمَمَاتِ فِي الْبَرْزَخِ.

ابو محمّد ابن قتیبہ نے کہا  اور ہم کہتے ہیں   بے شک  عقلی لحاظ سے اور صحیح النظر اور کتاب الله اور خبر (حدیث رسول ) سے پتا چلا ہے کہ بے شک الله تعالیٰ ان جسموں کو جو قبروں میں ہیں گلنے سڑنے اور ہڈیاں بننے کے بعد ان کو اٹھائے گا جب وہ مٹی ہو جائیں گے اور صحیح النظر اور کتاب الله اور خبر (حدیث رسول ) سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ان کو البرزخ میں عذاب دیا جائے گا

 ابن جریر الطبری المتوفی ٣١٠ ھ  سورہ بقرہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں اگر کوئی سوال کرے

وإذا كانت الأخبار بذلك متظاهرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما الذي خُصَّ به القتيل في سبيل الله، مما لم يعم به سائر البشر غيره من الحياة، وسائرُ الكفار والمؤمنين غيرُه أحياءٌ في البرزخ، أما الكفار فمعذبون فيه بالمعيشة الضنك، وأما المؤمنون فمنعَّمون بالروح والريحان ونَسيم الجنان؟

اور  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان کے لئے خاص  ہے جو الله کی راہ میں قتل ہوئے  تو کیا  سارے انسان  بشمول کفار اور مومنین  سب البرزخ میں زندہ ہیں

یعنی  سوال یہ ہے کہ شہداء برزخ میں ہیں  تو دیگر انسان وہاں کیسے  ہو سکتے ہیں

اس سوال کا جواب الطبری دیتے ہیں

أَنَّهُمْ مَرْزُوقُونَ مِنْ مَآكِلِ الْجَنَّةِ وَمَطَاعِمِهَا فِي بَرْزَخِهِمْ قَبْلَ بَعْثِهِمْ، وَمُنَعَّمُونَ بِالَّذِي يَنْعَمُ بِهِ دَاخِلُوها بَعْدِ الْبَعْثِ مِنْ سَائِرِ الْبَشَرِ مِنْ لَذِيذِ مَطَاعِمِهَا الَّذِي لَمْ يُطْعِمْهَا اللَّهُ أَحَدًا غَيْرَهُمْ فِي بَرْزَخِهِ قَبْلَ بَعْثِهِ

شہداء کو جنت کے کھانے  انکی برزخ ہی میں ملیں گے زندہ ہونے سے پہلے،  اور وہ نعمتوں سے مستفیض ہونگے دوسرے لوگوں سے پہلے اور لذیذ کھانوں سے،  جن کوالله  کسی بھی بشر کو نہ  چکھائے  گا برزخ میں ،  زندہ ہونے سے پہلے

الطبری کی تفصیل سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک سب ارواح البرزخ میں ہیں اگزچہ شہداء ان سے بہتر حالت اور نعمت پا رہے ہیں

 ابن حزم المتوفی ٤٥٦ ھ  قبر میں عود روح کے انکاری ہیں اور البرزخ کی اصطلاح عالم ارواح کے لئے استمعال کرتے ہیں.   اور عذاب کو صرف روح پر مانتے ہیں. ڈاکٹر عثمانی اس  بات میں ان سے متفق ہیں

 کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل  میں لکھتے ہیں

ثمَّ ينقلنا بِالْمَوْتِ الثَّانِي الَّذِي هُوَ فِرَاق الْأَنْفس للأجساد ثَانِيَة إِلَى البرزخ الَّذِي تقيم فِيهِ الْأَنْفس إِلَى يَوْم الْقِيَامَة وتعود أجسامنا تُرَابا

پس الله ہم کو دوسری موت کے بعد جو نفس کی جسم سے علیحدگی ہے ہم کو برزخ میں منتقل کر دے گا اور ہمارے جسم مٹی میں لوٹائے گا

 فيبلوهم الله عز وَجل فِي الدُّنْيَا كَمَا شَاءَ ثمَّ يتوفاها فترجع إِلَى البرزخ الَّذِي رَآهَا فِيهِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لَيْلَة أسرى بِهِ عِنْد سَمَاء الدُّنْيَا أَرْوَاح أهل السَّعَادَة عَن يَمِين آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وأرواح أهل الشقاوة وَعَن يسَاره عَلَيْهِ السَّلَام

پس الله ہم کو آزمائے گا دینا میں جیسا چاہے گا پھر موت دے گا اور برزخ میں لوٹائے گا جس کو اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دکھایا تھا معراج کی رات کہ نیک لوگوں کی ارواح آدم علیہ السلام کی دائیں طرف اور بد بختوں کی بائیں طرف تھیں

ابن حزم صاف لفظوں میں البرزخ کو ایک عالم کہتے ہیں

ابن کثیر  المتوفی ٧٧٤ ھ تفسیر ج ١ ص ١٤٢ میں لکھتے ہیں

وَقَوْلُهُ تَعَالَى: {وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ} يُخْبِرُ تَعَالَى أَنَّ الشُّهَدَاءَ فِي بَرْزَخِهِمْ أَحْيَاءٌ يُرْزَقُونَ كَمَا جَاءَ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ: ” إِنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طيور خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَاطَّلَعَ عليهم ربك اطلاعة فقال: ماذا تبغون؟ قالوا: يَا رَبَّنَا وَأَيُّ شَيْءٍ نَبْغِي وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ؟ ثُمَّ عاد عليهم بِمِثْلِ هَذَا فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَا يُتْرَكُونَ من أن يسألوا، قالو: نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّنَا إِلَى الدَّارِ الدُّنْيَا فَنُقَاتِلَ فِي سَبِيلِكَ حَتَّى نُقْتَلَ فِيكَ مَرَّةً أُخرى – لما يرون من ثواب الشاهدة – فَيَقُولُ الرَّبُّ جَلَّ جَلَالُهُ: إِنِّي كَتَبْتُ أَنَّهُمْ إليها لا يرجعون” وَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ تَعْلَقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهُ الله إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ» فَفِيهِ دَلَالَةٌ لِعُمُومِ الْمُؤْمِنِينَ أَيْضًا وَإِنْ كَانَ الشُّهَدَاءُ قَدْ خُصِّصُوا بِالذِّكْرِ فِي الْقُرْآنِ تَشْرِيفًا لَهُمْ وَتَكْرِيمًا وَتَعْظِيمًا.

 اور الله تعالی کا قول  (وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ) پس الله نے خبر دی کہ بے شک شہداء اپنی برزخ میں ہیں زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں آیا ہے بے شک شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ہیں جس میں وہ جنت کی سیر کرتے ہیں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں پھر واپس قندیل میں جو عرش سے لٹک رہے ہیں ان میں اتے ہیں

ابن کثیر البرزخ کو شہداء کی جنت کہتے ہیں

ابن کثیر تفسیر سوره بنی اسرائیل یا الاسراء آیت ١٥ تا ١٧ میں سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے حوالے سے لکھتے ہیں جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ  مشرکین کے کم عمری میں انتقال کرنے والے بچے جنت میں ہیں

وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ سَمُرَةَ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ رَأَى مع إبراهيم عليه السلام أَوْلَادَ الْمُسْلِمِينَ وَأَوْلَادَ الْمُشْرِكِينَ، وَبِمَا تَقَدَّمَ فِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ عَنْ حَسْنَاءَ عَنْ عَمِّهَا أَنَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:«وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ» وَهَذَا اسْتِدْلَالٌ صَحِيحٌ، وَلَكِنْ أَحَادِيثُ الِامْتِحَانِ أَخَصُّ مِنْهُ. فَمَنْ عَلِمَ الله مِنْهُ أَنَّهُ يُطِيعُ جَعَلَ رُوحَهُ فِي الْبَرْزَخِ مَعَ إِبْرَاهِيمَ وَأَوْلَادِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِينَ مَاتُوا عَلَى الْفِطْرَةِ

اور انہوں نے احتجاج کیا ہے حدیث سَمُرَةَ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا  مسلمانوں اور مشرکین کی اولادوں کو إبراهيم عليه السلام کے ساتھ اور …. پس الله نے علم دیا کہ ان کی روحوں کو برزخ میں ابرهیم اور مسلمانوں کی اولاد کے ساتھ کیا، جن کی موت فطرت پر ہوئی

الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء ج ٧ ص ٥٧٠ میں لکھتے ہیں

وَمِنْ ذَلِكَ اجْتِمَاعُ آدَمَ وَمُوْسَى لَمَّا احْتَجَّ عَلَيْهِ مُوْسَى، وَحَجَّهُ آدَمُ بِالعِلْمِ السَّابِقِ، كَانَ اجْتِمَاعُهُمَا حَقّاً، وَهُمَا فِي عَالِمِ البَرْزَخِ، وَكَذَلِكَ نَبِيُّنَا -صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَخبَرَ أَنَّهُ رَأَى فِي السَّمَاوَاتِ آدَمَ، وَمُوْسَى،وَإِبْرَاهِيْمَ، وَإِدْرِيْسَ، وَعِيْسَى، وَسَلَّمَ عَلَيْهِم، وَطَالَتْ مُحَاوَرَتُهُ مع مُوْسَى، هَذَا كُلُّه حَقٌّ، وَالَّذِي مِنْهُم لَمْ يَذُقِ المَوْتَ بَعْدُ، هُوَ عِيْسَى -عَلَيْهِ السَّلاَمُ- فَقَدْ تَبَرْهَنَ لَكَ أَنَّ نَبِيَّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اور اس میں آدم و موسی کا اجتماع ہوا جب موسی نے اس سے بحث کی لیکن آدم علم سابق کی وجہ سے کامیاب رہے اور ان کا یہ اجتماع حق ہے اور وہ عالم البرزخ میں تھے اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے آسمانوں پر آدم موسی ابراہیم ادریس عیسی وسلم علیھم کو دیکھا اور موسی کے ساتھ دور گزارا یہ سب حق ہے اور ان میں عیسی علیہ السلام بھی تھے جنہوں نے ابھی موت نہیں چکھی پس اس سب کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے واضح کیا

اس سب وضاحت سے الذہبی نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ البرزخ ایک عالم ہے

الذہبی شہداء کے لئے کہتے ہیں

وَهَؤُلاَءِ حَيَاتُهُم الآنَ الَّتِي فِي عَالِمِ البَرْزَخِ حَقٌّ

ان کی زندگی اس وقت عالم البرزخ میں حق ہے

نبی  صلی الله علیہ وسلم کے لئے کہتے ہیں

وَهُوَ حَيٌّ فِي لَحْدِهِ، حَيَاةَ مِثْلِهِ فِي البَرزَخِ

وہ اپنی قبر میں زندہ ہیں، زندگی جو البرزخ کی مثل ہے

الذھبی قبر میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے قائل ہیں   ان کے نزدیک سب انبیاء اور شہداء البرزخ میں ہیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم اسی نوعیت کی زندگی کے ساتھ قبر میں جو ایک غلط عقیدہ ہے البتہ ان کے نزدیک البرزخ ایک مقام ہے جو دنیا سے الگ ہے

ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ کتاب تفسير القرآن الكريم   میں ال فرعون پر عذاب پر  لکھتے ہیں

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَعَشِيًّا فهذا في البرزخ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ فهذا في القيامة الكبرى.

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَعَشِيًّا پس یہ  البرزخ میں ہے  وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ پس یہ قیامت میں ہوگا.

ابن قیّم اپنی کتاب  روضة المحبين ونزهة المشتاقين میں  سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت پر لکھتے ہیں کہ

  فأما سبيل الزنى فأسوأ سبيل ومقيل أهلها في الجحيم شر مقيل ومستقر أرواحهم في البرزخ في تنور من نار يأتيهم لهبها من تحتهم فإذا أتاهم اللهب ضجوا وارتفعوا ثم يعودون إلى موضعهم فهم هكذا إلى يوم القيامة كما رآهم النبي صلى الله عليه وسلم في منامه ورؤيا الأنبياء وحي لا شك فيها

پس زنا کا راستہ بہت برا راستہ ہے اور اس کے کرنے والے جہنم میں ہیں برا مقام ہے اور ان کی روحیں البرزخ میں تنور میں آگ میں ہیں جس کی لپٹیں ان کو نیچے سے آتی ہیں پھر وہ واپس اپنی جگہ آتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن تک ہو گا جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو نیند میں خواب میں دکھایا گیا جو وحی تھی جس میں کوئی شک نہیں

ابن قیم البرزخ میں عذاب اجتماعی بتاتے ہیں جو حدیث کے مطابق ہے

ابن قیم کتاب الروح میں الْمُعْتَزلَة کا موقف لکھتے ہیں

من يَقُول إِن البرزخ لَيْسَ فِيهِ نعيم وَلَا عَذَاب بل لَا يكون ذَلِك حَتَّى تَقول السَّاعَة الْكُبْرَى كَمَا يَقُول ذَلِك من يَقُوله من الْمُعْتَزلَة وَنَحْوهم مِمَّن يُنكر عَذَاب الْقَبْر ونعيمه بِنَاء على أَن الرّوح لَا تبقى بعد فِرَاق الْبدن

جو یہ کہے کہ البرزخ میں نہ راحت ہے نہ عذاب بلکہ یہ قیامت قائم ہونے تک نہیں ہو گا  ایسا جیسا الْمُعْتَزلَة اور انکے جیسے  کہتے ہیں جو عذاب القبر کا انکار کرتے ہیں اور روح کے جسم سے نکلنے کے بعد اسکی بقا کے انکاری ہیں

معلوم ہوا کہ اصل عذاب البرزخ کا ہے جو ایک علیحدہ مقام ہے

ابن تیمیہ فتوی میں کہتے ہیں

فِي سُورَة الْمُؤمن وَهُوَ قَوْله {وحاق بآل فِرْعَوْن سوء الْعَذَاب النَّار يعرضون عَلَيْهَا غدوا وعشيا وَيَوْم تقوم السَّاعَة أدخلُوا آل فِرْعَوْن أَشد الْعَذَاب} وَهَذَا إِخْبَار عَن فِرْعَوْن وَقَومه أَنه حاق بهم سوء الْعَذَاب فِي البرزخ وَأَنَّهُمْ فِي الْقِيَامَة يدْخلُونَ أَشد ا/bلْعَذَاب وَهَذِه الْآيَة أحد مَا اسْتدلَّ بِهِ الْعلمَاء على عَذَاب البرزخ

سوره المومن اور الله کا قول {وحاق بآل فِرْعَوْن سوء الْعَذَاب النَّار يعرضون عَلَيْهَا غدوا وعشيا وَيَوْم تقوم السَّاعَة أدخلُوا آل فِرْعَوْن أَشد الْعَذَاب}  اور فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں خبر ہے کہ ان کو بد ترین عذاب البرزخ میں دیا جا رہا ہے اور قیامت کے دن شدید عذاب میں داخل کیا جائے گا اور اس آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے عذاب البرزخ پر

ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) شرح العقيدة الطحاوية میں لکھتے ہیں

فَإِنَّهُمْ لَمَّا بَذَلُوا أَبْدَانَهَمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى أَتْلَفَهَا أَعْدَاؤُهُ فِيهِ، أَعَاضَهُمْ مِنْهَا فِي الْبَرْزَخِ أَبْدَانًا خَيْرًا مِنْهَا، تَكُونُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيَكُونُ تَنَعُّمُهَا بِوَاسِطَةِ تِلْكَ الْأَبْدَانِ، أَكْمَلَ مِنْ تَنَعُّمِ الْأَرْوَاحِ الْمُجَرَّدَةِ عَنْهَا

پس جب انہوں (شہداء) نے اپنے جسم الله کے لئے لگا دیے حتیٰ کہ ان کے دشمنوں نے ان پر زخم لگانے، ان کو البرزخ میں اس سے بہتر جسم دیے گئے جو قیامت تک ہونگے، اور وہ نعمتیں ان بدنوں  کے واسطے سے حاصل کریں گے، جو مجرد ارواح سے حاصل کرنے سے زیادہ کامل شکل ہے

ڈاکٹر عثمانی کے علاوہ یہ سب عالم ارواح کوالبرزخ کہتے ہیں جیسا کہ حوالے اوپر دیے گئے ہیں

 ابن أبي العز الحنفي کہہ رہے ہیں کہ شہداء کے نئے اجسام ہیں جن سے وہ نعمت حاصل کرتے ہیں جو صرف روحوں کے رزق حاصل کرنے سے بہتر ہے یہ فرقہ اہل سنت و اہل حدیث کے موجودہ عقیدے کے خلاف ہے دونوں فرقے کہتے ہیں کہ شہداء کے سبز پرندے ان کے ہوائی جہاز ہیں جن میں وہ جنت کی سیر کرتے ہیں دیکھئے تسکین الصدور از سرفراز صفدر اور ابو جابر دامانوی کی کتب

خیال رہے کہ ابن تیمیہ ابن قیم اور ابن کثیر کا عقیدہ فرقہ اہل حدیث کے موجودہ عقیدے سے الگ ہے

ابن تیمیہ  المتوفی ٧٢٨ ھ ،ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ، ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ اور ابن حجرالمتوفی ٨٥٢ ھ (سب ابن حزم کے بعد کے ہیں)، روح کا اصل مقام البرزخ مانتے ہیں جو عالم ارواح ہے . یہ سب روح پر عذاب، البرزخ میں مانتے ہیں اور اس کا اثر قبر میں بھی مانتے ہیں اس تمام عذاب کو جو البرزخ میں ہو یا روح کے تعلق و اتصال  سے  قبر میں ہو ، اس کو وہ عذاب القبر یا عذاب البرزخ کہتے ہیں .  روح کا جسد سے مسلسل تعلق مانتے ہیں جس میں آنا فانا روح قبر میں اتی ہے اور جاتی ہے اس کی مثال وہ سورج اور اسکی شعاوں سے دیتے ہیں. ان کے نزدیک عود روح استثنائی نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے دیکھئے کتاب الروح از ابن قیم المتوفی ٧٥١ ھ

یہ لوگ جب  البرزخ بولتے ہیں تو اس سے مراد عالم ارواح ہوتا ہے

تفسيرابن كثيرسوره غافر میں ابن کثیر لکھتے ہیں

أنَّ الْآيَةَ دَلَّتْ عَلَى عَرْضِ الْأَرْوَاحِ إِلَى النَّارِ غُدُوًّا وَعَشِيًّا فِي الْبَرْزَخِ، وَلَيْسَ فِيهَا دَلَالَةٌ عَلَى اتِّصَالِ تَأَلُّمِهَا بِأَجْسَادِهَا فِي الْقُبُورِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ ذَلِكَ مُخْتَصًّا بِالرُّوحِ، فَأَمَّا حُصُولُ ذَلِكَ لِلْجَسَدِ وَتَأَلُّمُهُ بِسَبَبِهِ، فَلَمْ يَدُلَّ عَلَيْهِ إِلَّا السُّنَّةُ فِي الْأَحَادِيثِ

بے شک یہ آیت دلالت کرتی ہے ارواح کی آگ پر پیشی پر صبح و شام کو البرزخ میں،  اور اس میں یہ دلیل نہیں کہ یہ عذاب ان کے اجساد سے جو قبروں میں ہیں متصل ھو جاتا ہے، پس اس (عذاب) کا جسد کو پہنچنا اور اس کے عذاب میں ہونے پر احادیث دلالت کرتی  ہیں 

ابن کثیر واضح کر رہے ہیں کہ قرآن میں عذاب البرزخ کا ذکر ہے اور اس کا تعلق قبر سے نہیں بتایا گیا البتہ یہ احادیث میں ہے ہمارے نزدیک یہ اس وجہ ہے کہ احادیث کا صحیح مدعا نہیں سمجھا گیا اور ان کا رخ دنیاوی قبر کی طرف موڑ دیا گیا. قرآن میں  کفار پر عذاب النار یا عذاب جہنم کا ذکر ہے جس کو عذاب البرزخ یا عذاب قبر کہا جاتا ہے.

مومنوں پر عذاب  کا علم ١٠ ہجری میں سورج گرہن میں  دیا گیا   جس روز ام المومنین مارية القبطية  رضی الله تعالی عنہ اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم انتقال کر گئے(١٦ ربیع الاول ١٠ ہجری بحوالہ اہل بیت کا مختصر تعارف از ابو ریحان علامہ ضیاء الرحمان فاروقی ).  لہذا مومنوں پر عذاب قبر کی تمام روایات اس سے بعد کی ہیں جو ایک نہایت مختصر مدت  تقریبا ایک سال ہے  (نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ١٢ ربیع الاول 11 ہجری کی ہے ) اس کے برعکس اگر اس مسئلہ پر تمام صحیح (و ضعیف) روایات اکٹھی کی جائیں جیسا کہ ارشد کمال نے المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے تو اس سے گمان ہوتا ہے کہ ساری مدنی زندگی میں صرف اسی مسئلہ پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے گفتگو  کی

برزخ کی  زندگی  سے مراد قبر ہے

 البرزخ کے مفہوم میں تبدیلی ابن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ)  نے کی. ان سے پہلے اس کو عالم ارواح کے لئے استعمال کیا جاتا تھا. انہوں نے البرزخ کے مفھوم میں  عالم ارواح اور دیناوی قبر دونوں کو شامل کر دیا گیا . ابن عبد الھادی  اپنی کتاب الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي میں ایک نئی اصطلاح متعارف کراتے ہیں

وليعلم أن رد الروح (إلى البدن)  وعودها إلى الجسد بعد الموت لا يقتضي استمرارها فيه، ولا يستلزم حياة أخرى قبل يوم النشور نظير الحياة المعهودة، بل إعادة الروح إلى الجسد في البرزخ إعادة برزخية، لا تزيل عن الميت اسم الموت

اور جان لو کہ جسم میں موت کے بعد عود روح  ہونے سے ضروری نہیں کہ تسلسل ہو – اور اس سے دوسری زندگی بھی لازم نہیں آتی …بلکہ یہ ایک برزخی زندگی ہے  جس سے میت پر موت کا نام زائل نہیں ہوتا

 یہ مفہوم نص قرآنی سے متصادم ہے

اس کے بعد اسلامی کتب میں قبر میں  حیات برزخی کی اصطلاح انبیاء اور شہداء سے لے کر عام مردوں تک کے لئے استعمال ہونے  لگی لہذا یہ ایک لچک دار  آصطلاح بنا دی گئی جس میں عالم ارواح اور قبر دونوں کا مفھوم تھا

 اہل حدیث فرقہ اور پرویز اور اب کرامیہ 

علامہ پرویز کی ایک صفت تھی کہ قرآن کی کسی بھی بات کو وہ اصطلاح نہیں مانتے تھے بلکہ ہر بات لغت سے دیکھتے تھے چاہے نماز ہو یا روزہ ، جن ہوں یا فرشتے ایک سے بڑھ کر ایک تاویل انہوں نے کی . کچھ اسی طرز پر آج کل اہل حدیث فرقہ کی جانب سے تحقیق ہو رہی ہے اور انہوں نے بھی لغت پڑھ کر البرزخ کو صرف ایک کیفیت ماننا شروع کر دیا ہے نہ کہ ایک مقام

ابو جابر دامانوی  کتاب عذاب قبرکی حقیقت  میں  لکھتے ہیں

برزخ کسی مقام کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک آڑ یا پردہ ہے۔ پردہ سے مراد یہاں دنیاوی پردہ نہیں ہے جیسا کہ بعض کوتاہ فہموں کو غلط فہمی ہوئی ہے بلکہ یہ ایک ایسا مضبوط پردہ اور آڑ ہے کہ جسے کراس کرنا انسانی بس سے باہر ہے البتہ یہ پردہ قیامت کے دن دور ہو جائے گا

مقام حیرت ہے کہ ابو جابر کے مدح سرا  اور ان کی عذاب قبر سے متعلق کتابوں پر پیش لفظ لکھنے والے زبیر علی زئی  حدیث  ہر چیز تقدیر سے ہے حتیٰ کہ عاجزی اور دانائی بھی تقدیر سے ہے  کی شرح میں  لکھتے ہیں

وعن أبي ھریرۃ، قال : قال رسول اللہ ﷺ
((احتج آدم و موسیٰ عند ربھما ، فحج آدم موسیٰ؛ قال موسیٰ: أنت آدم الذي خلقک اللہ بیدہ، ونفخ فیک من روحہ، و أسجد لک ملائکتہ، وأسکنک في جنتہ، ثم أھبطت الناس بخطیئتک إلی الأرض؟ قال آدم أنت موسی الذي اصطفاک اللہ برسالتہ و بکلامہ، و أعطاک الألواح فیھا تبیانُ کل شئ، وقربک نجیاً، فبکم و جدت اللہ کتب التوراۃ قبل أن أخلق؟ قال موسیٰ: بأربعین عاماً. قال آدم: فھل و جدت فیھا “وَعَصٰی آدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی”؟ قال: نعم، قال : أفتلو مُني علیٰ أن علمتُ عملاً کتبہ اللہ عليَّ أن أعملہ قبل أن یخلقني بأربعین سنۃ؟ قال رسول اللہ ﷺ فحجَّ آدمُ موسیٰ.)) رواہ مسلم
(سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے پاس (آسمانوں پر عالم ارواح میں) بحث و مباحثہ کیا تو آدم (علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام)پر غالب ہوئے ۔ موسیٰ(علیہ السلام) نے (آدم علیہ السلام سے ) کہا : آپ وہ آدم ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی (پیدا کردہ) روح پھونکی اور آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا پھر آپ نے اپنی غلطی کی وجہ سے لوگوں کو (جنت سے ) زمین پر اتار دیا ؟
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا: تم وہ موسیٰ ہو جسے اللہ نے اپنی رسالت اور کلام کے ساتھ چُنا اور تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے اور تمہیں سر گوشی کے لئے (اللہ نے) اپنے قریب کیا، پس تمہارے نزدیک میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے اللہ نے تورات لکھی؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا: چالیس سال پہلے۔
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا : کیا تم نے اس میں یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ “اور آدم نے اپنے رب کے حکم کو ٹالا تو وہ پھسل گئے “؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا : جی ہاں ، (آدم علیہ السلام نے )کہا : کیا تم مجھے اس عمل پر ملامت کرتے ہو جو میری پیدائش سے چالیس سال پہلے اللہ نے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پس آدم(علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام) پر غالب ہوئے۔ (صحیح مسلم: ۲۶۵۲/۱۵ ۶۷۴۴)

فقہ الحدیث:
آدم(علیہ السلام) اور موسیٰ(علیہ السلام) کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہواتھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی ۱۹۵؁ھ) نے اس مناظرے والی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم او رموسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی ؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشیدؒ سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کردیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ (دیکھئے کتاب المعرفۃ و التاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ۱۸۱/۲ ، ۱۸۲ و سندہ صحیح ، تاریخ بغداد ۲۴۳/۵ و سندہ صحیح)

قارئیں خط کشیدہ الفاظ کو دیکھیں عالم البرزخ اب آسمان میں واپس آ گیا ہے

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

برزخ کسی مقام یا جگہ کا نام ہے یا برزخ صرف آڑ (پردہ) کو کہتے ہیں؟ اگر برزخ آڑ کے علاوہ کسی جگہ یا مقام کا نام ہے تو اس کے دلائل پیش کئے جائیں۔ اور اگر برزخی عثمانی اپنے اس دعویٰ پر کوئی دلیل پیش نہ کر سکیں تو سمجھ لیں کہ وہ جھوٹے ہیں۔

لیکن ہم سے پہلے اپنے ممدوح زبیر علی سے پوچھ لیتے تو اچھا ہوتا ورنہ اوپر دلائل دے دینے گئے ہیں

رفیق طاہر صاحب، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

انہیں آیا ت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرنے کے بعد جہاں انسان کا جسد وروح رہتے ہیں اسی کا نام برزخ ہے ۔ اور روح چونکہ نظر نہیں آتی جبکہ جسم نظر آتا ہے , تو ہم مرنے والے کے جسم کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جس جگہ وہ موجود ہے وہی اسکے لیے برزخ ہے ۔ یعنی برزخ کوئی آسمان میں مقام نہیں بلکہ مرنے کے بعد انسان کا جسم جس جگہ بھی ہوتا ہے وہ اپنی روح سمیت ہوتا ہے اور وہی مقام اسکے لیے برزخ ہے ۔

ارشد کمال کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

arshad-57

ایک اہل حدیث عالم کہتا ہے برزخ مقام نہیں. دوسرا کہتا ہے  مقام ہے. تیسرا کہتا ہے کیفیت ہے یہاں تک کہ تدفین سے پہلے بھی وہ برزخ میں ہے

ارشد کمال  السيوطي کا حوالہ دے رہے ہیں دیکھئے  السيوطي کیا کہتے ہیں اس مسئلہ میں

 السيوطي کتاب  الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج میں ابن رجب کے حوالے سے لکھتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظ زين الدّين بن رَجَب فِي كتاب أهوال الْقُبُور الْفرق بَين حَيَاة الشُّهَدَاء وَغَيرهم من الْمُؤمنِينَ من وَجْهَيْن أَحدهمَا أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء يخلق لهاأجساد وَهِي الطير الَّتِي تكون فِي حواصلها ليكمل بذلك نعيمها وَيكون أكمل من نعيم الْأَرْوَاح الْمُجَرَّدَة عَن الأجساد فَإِن الشُّهَدَاء بذلوا أَجْسَادهم للْقَتْل فِي سَبِيل الله فعوضوا عَنْهَا بِهَذِهِ الأجساد فِي البرزخ

اور الْحَافِظ زين الدّين بن رَجَب كتاب أهوال الْقُبُور میں کہتے ہیں اور حیات شہداء اور عام مومنین کی زندگی میں فرق دو وجہ سے ہے کہ اول ارواح شہداء کے لئے جسم بنائے گئے ہیں اور وہ پرندے ہیں  جن کے پیٹوں میں وہ ہیں کہ وہ ان نعمتوں کی تکمیل  کرتے ہیں اور یہ مجرد ارواح کی نعمتوں سے اکمل ہے  کیونکہ شہداء نے اپنے جسموں پر زخم سہے الله کی راہ میں قتل ہوئے پس ان کو یہ جسم برزخ میں دے گئے

   البرزخ بطور مقام ہونے کا فرقہ اہل حدیث  آج کل انکاری بنا ہوا  ہے. روح پر عذاب کو عذاب الجھنم کہتا ہے اوربے روح لاش پر عذاب کو عذاب قبر کہتا ہے.لاش بلا روح پر عذاب کو متقدمین گمراہی کہتے ہیں دیکھئے شرح مسلم النووی المتوفی ٦٧٦ ھ

شاید انہوں نے سوچا ہے کہ

نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری

لہذا البرزخ کی ایسی تاویل کرو کہ سارے مسئلے سلجھ جائیں اس طرز پر انہوں نے جو عقیدہ اختیار کیا ہے وہ ایک بدعتی عقیدہ ہے جس کو سلف میں فرقہ کرامیہ نے اختیار کیا ہوا تھا

دیکھئے اپنے اپ کو سلف کے عقیدے پر کہنے والے کہاں تک سلفی ہیں بلکہ دین میں بدعتی عقیدے پھیلا رہے ہیں

 رفیق طاہر صاحب تحقیقی مقالہ بنام اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ  میں لکھتے ہیں

اشکال :
روحیں قیامت کے دن ہی اپنے جسموں سے ملیں گی , کیونکہ اللہ تعالى نے قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے ” وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ(التکویر: 7) ” اور جب روحیں (اپنے جسموں سے) ملا دی جائیں گی ۔
جواب :
مذکورہ بالا آیت میں بھی خاص تلبیس سے کام لیا گیا ہے ۔ کیونکہ آیت میں مذکور نفوس سے مراد روحیں نہیں بلکہ روح وجسد کے مجموعہ انسان ہیں , یعنی آیت کا معنى ہے جس دن انسانوں کو جمع کیا جائے گا ۔اور لفظ “نفس” کا حقیقی معنى “روح وجسد کا مجموعہ ” ہی ہے , اور صرف روح اسکا مجازی معنى ہے ۔ اور علم اصول میں یہ بات مسلم ہے کہ جب تک حقیقی معنى مراد لیا جا سکتا ہو اس وقت تک مجازی معنى مراد نہیں لیا جاسکتا ہے , یا دوسرے لفظوں میں ہر کلمہ کو اسکے حقیقی معنى پر ہی محمول کیا جائے گا الا کہ کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جو اسے حقیقت سے مجاز کی طرف لے جائے ۔ اور یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے جو اسکے مجازی معنى پر دلالت کرے ۔
ثانیا : اگر یہاں لفظ “نفوس” کا معنى “روح” کر لیا جائے تو پھر ترجمہ یہ بنے گا ” اور جب روحیں اکٹھی کی جائیں گی ” ۔ جبکہ یہ معنى اہل اسلام کے متفقہ عقائد کے خلاف ہے

پتا چلا کہ نفوس کا مطلب روح اہل اسلام کے متفقہ عقیدے کے خلاف ہے

موصوف کا ترجمہ کہ روحیں بھی غلط ہے  زوج کا مطلب جوڑنا ہے ہے یعنی روحیں جوڑی جائیں گی کوئی عام عرب کا بدو  بھی اس کو سنے گا تو سمجھ جائے گا کہ روحیں جسموں سے جوڑی جائیں گی

آج سے کچھ سال پہلے ١٩٧٦،  تک فرقہ اہل حدیث کا  متفقہ عقیدہ تھا

فتاوی علمائے حدیث ج ٩ میں ہے

موت کا مطلب

فتاویٰ علمائے حدیث جو  مسلک اہل حدیث کے کئی بڑے  علماء کے  فتوی کا مجموعہ ہے  اس میں نفوس کا مطلب روح ہے جو اہل اسلام کے متفقہ عقیدے کے خلاف  ہے رفیق طاہر ان دونوں باتوں کے انکاری ہیں بدن سے جان نکالنے کو وہ موت نہیں مانتے

 اب قارئین اپ کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ اگر اپ تعبیر یا اصطلاحات کا مطلب اس طرح بدل دیں تو سلف کی عبارات سے اپ جو نتائج نکالیں گے وہ صحیح کیسے ہو سکتے ہیں البرزخ کی اصطلاح ابن حزم بھی استعمال کرتے ہیں اور عقیدہ عود روح کے  دشمن ہیں

البرزخ کی کمزور آڑ

کہا جاتا ہے

برزخ ایسی آڑ ہے جس کو کراس کرنا نا ممکن ہے

 لیکن اس آڑ کو جراثیم، کیڑے  اور دیگر جانور پار کرتے ہیں میت کو کھا جاتے ہیں میت مٹی میں تبدیل ہو جاتی ہے یہ کوئی عقلی اعتراض نہیں بلکہ عام مشاہدہ ہے

صحیح عقیدہ

 البرزخ ،عالم ارواح ہے جس میں روحیں رکھی جاتی ہیں اور بدن جو دنیاوی  قبروں میں ہیں گل سڑ جاتے ہیں

[/EXPAND]

[کیا عائشہ (رض) مسلسل پردہ میں رہتیں]

امام احمد مسند میں روایت بیان کرتے ہیں

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حماد بن أسامة قال أنا هشام عن أبيه عن عائشة قالت : كنت أدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبي فاضع ثوبي فأقول إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر معهم فوالله ما دخلت إلا وأنا مشدودة على ثيابي حياء من عمر

حماد بن أسامة (ابو أسامة المتوفی ٢٠١ ھ ) بیان کرتے ہیں کہ ان سے هشام بن عروہ بیان کرتے ہیں ، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہآ نے فرمایا میں گھر میں داخل ہوتی تھی جس میں  نبی صلی الله علیہ وسلم اور میرے باپ  مدفون ہیں، پس میں (اپنے اپ سے) کہتی یہ تو میرے شوہر اور باپ ہیں پس کپڑا لیتی (بطور حجاب) لیکن جب سے عمرکی انکے ساتھ تدفین ہوئی ہے ،الله کی قسم! میں داخل نہیں ہوتی لیکن اپنے کپڑے سے چمٹی رہتی ہوں ،عمر سے شرم کی وجہ سے

امام احمد کے علاوہ اس کو حاکم المستدرک ٣ ص٦٣، ابن سعد، الطبقات ج٢ ص٢٩٤ ، ابن شبة، تاريخ المدينة ج٣ص ١٦٢ ، الخلال ، السنة ص 297 میں روایت کرتے ہیں  حماد بن أسامة کے تفرد کے ساتھ

اس روایت کا مفہوم ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ، عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی حجرے میں تدفین کے بعد ہر وقت اپنا حجاب لیتیں  کیونکہ انکو عمر سے شرم اتی تھی

اس روایت میں عمررضی الله تعالی عنہ کے تصرف کا ذکر ہے کہ وہ بعد وفات،  قبر کی مٹی کی  دبیزتہہ سے باہر بھی دیکھ لیتے تھے اس روایت کا مطلب ہے  کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ، نعوذباللہ، مردے کے قبر سے باہر دیکھنے کی قائل تھیں

اس روایت میں حماد بن اسامہ کا تفرد ہے

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال  کے مطابق

قال أبو داود: قال وكيع: نهيت أبا أسامة أن يستعير الكتب وكان دفن كتبه.

ابو داود کہتے ہیں وكيع نے کہا میں نے أبا أسامة کو (دوسروں کی حدیث کی) کتابیں مستعار لینے سے منع کیا اور اس نے  اپنی کتابیں دفن کر دیں تھیں

عموما راوی اپنی کتابیں دفن کرتے یا جلاتے کیونکہ ان کو یہ یاد نہیں رہتا تھا کہ انہوں نے کیا کیا غلط روایت کر دیا ہے پھر پشیمانی ہوتی تو ایسا کام کرتے مثلا ابو اسامہ اور ابن لھیعة وغیرہ

اسکی وجہ شاید تدلیس کا مرض ہو

کتاب   المدلسین از ابن العراقي (المتوفى: 826هـ)  کے مطابق

حماد بن أسامة أبو أسامة الكوفي الحافظ قال الأزدي: قال المعيطي: كان كثير التدليس ثم بعد تركه

حماد بن أسامة أبو أسامة الكوفي الحافظ ہیں الأزدي کہتے ہیں کہ  المعيطي کہتے ہیں یہ بہت تدلیس کرتے پھر اس کو ترک کر دیا

 کتاب تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس از ابن حجر کے مطابق

كان كثير التدليس ثم رجع عنه

بہت تدلیس کرتے پھر اس کو کرنا چھوڑ دیا

صحیحین میں  حماد بن أسامة  موجود ہیں  جن کے بارے میں ظاہر ہے کہ امام مسلم اور امام بخاری نے تحقیق کی ہے لیکن زیر بحث روایت صحیحین میں نہیں

محدثین کے مطابق روایت کے سارے راوی ثقہ بھی ہوں تو روایت شاذ ہو سکتی ہے

کہا جاتا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے

 امام حاکم اس کو مستدرک میں روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين

یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے

امام الذھبی نے اس پر سکوت کیا ہے

محدثین کے نزدیک ابو اسامہ کی ساری روایات صحیح نہیں ہیں

يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) کتاب المعرفة والتاريخ  میں لکھتے ہیں

قَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: كَانَ أَبُو أُسَامَةَ  ِذَا رَأَى عَائِشَةَ فِي الْكِتَابِ حَكَّهَا فَلَيْتَهُ لَا يَكُونُ إِفْرَاطٌ فِي الْوَجْهِ الْآخَرِ.

سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ يُوهِنُ أَبَا أُسَامَةَ، ثُمَّ قَالَ يُعْجَبُ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمَعْرِفَتِهِ بِأَبِي أُسَامَةَ ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ

عمر بن حفص بن غیاث المتوفی ٢٢٢ ھ  کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا  ابو اسامہ جب کتاب میں عائشہ لکھا دیکھتا تو اس کو مسخ کر دیتا یہاں تک کہ اس ( روایت) میں پھر کسی  دوسری جانب سے اتنا افراط نہیں آ پآتا  

يعقوب بن سفيان کہتے ہیں میں نے مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ کو سنا وہ ابو اسامہ کو کمزور قرار دیتے تھے  پھر کہا مجھے (مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ کو) ابی بکر بن ابی شیبہ پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس ابو اسامہ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے روایت لیتے ہیں

عمر بن حفص بن غياث المتوفی ٢٢٢ ھ ، ابو اسامہ کے ہم عصر ہیں. زیر بحث روایت  بھی اپنے  متن میں غیر واضح  اور افراط کے ساتھ ہے .  محدثین ایسی روایات کے لئے منکر المتن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں

ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي)  میں ایک روایت پر لکھتے ہیں

وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي.

اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو  ابْن عَيَّاش  سے سوائے سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي کے کوئی روایت نہیں کرتا

ہمارے نزدیک عائشہ رضی الله تعالی عنہا کی حجرے میں  مسلسل حالت حجاب میں رہنے والی روایت منکر المتن ہے جس کو حماد بن اسامہ کے سوا کوئی اور روایت نہیں کرتا

پہلی شرح

اس روایت کا مطلب، روایت پرست اس طرح سمجھاتے ہیں  کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی پنڈلی پر سے کپڑا ہٹا ہوا تھا ابو بکر اور عمر آئے لیکن اپ نے نہیں چھپایا لیکن جب عثمان آئے تو اپ نے چھپا لیا اور کہا میں اس سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں. یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب نبی صلی الله علیہ وسلم ، ابو بکر، عمر، عثمان رضی الله عنہم سب زندہ تھے. اس روایت کو عثمان رضی الله تعالی عنہ کی

منقبت میں تو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن زیر بحث روایت سے اسکا کوئی تعلق نہیں

دوسری شرح

ایک دوسری روایت بھی تفہیم میں  پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے امہات المومینن  رضی اللہ تعالی عنہا کو نابینا صحابی ابن مکتوم رضی الله تعالی عنہ  سے پردے کا حکم دیا احْتَجِبَا مِنْهُ ان سے حجاب کرو اس کو نسائی ابو داود نے روایت کیا ہے

نسائی کی سند ہے

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَبْهَانَ، مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ

نسائی کہتے ہیں

قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: مَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْ نَبْهَانَ غَيْرَ الزُّهْرِيِّ

ہم نہیں جانتے کہ نَبْهَانَ سے سوائے الزُّهْرِيِّ کے کسی نے روایت کیا ہو

کتاب ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين از الذھبی   کے مطابق

نبهان، كاتب أم سلمة: قال ابن حزم: مجهول: روى عنه الزهري.

نبهان، ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کے کاتب تھے ابن حزم کہتے ہیں مجھول ہے الزهري ان  سے روایت کرتے ہیں

ابن عبد البر  کہتے ہیں نبهان مجهول لا يُعرف إلا برواية الزهري عنه هذا الحديث، نبهان مجھول ہے اور صرف اسی روایت سے جانا جاتا ہے

کتاب المغني لابن قدامة  کے مطابق

فَأَمَّا حَدِيثُ نَبْهَانَ فَقَالَ أَحْمَدُ: نَبْهَانُ رَوَى حَدِيثَيْنِ عَجِيبَيْنِ. يَعْنِي هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَدِيثَ: «إذَا كَانَ لِإِحْدَاكُنَّ مُكَاتَبٌ، فَلْتَحْتَجِبْ مِنْهُ» وَكَأَنَّهُ أَشَارَ إلَى ضَعْفِ حَدِيثِهِ

پس جہاں تک نَبْهَانَ کی حدیث کا تعلق ہے تو احمد کہتے ہیں کہ نَبْهَانَ نے دو عجیب حدیثیں روایت کی ہیں یہ (ابن مکتوم سے پردہ) والی اور…پس انہوں نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا

البانی اور شعيب الأرناؤوط  اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں

لہذا یہ دونوں روایت اس زیر بحث روایت کی شرح میں پیش نہیں کی جا سکتیں

اس روایت پر حکم

یہ روایت منکر المتن ہے

اول زیر بحث روایت میں عائشہ رضی الله تعالی عنہ کا ایک مدفون میت سے حیا کرنے کا ذکر ہے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا  ایک فقیہہ تھیں اور ان کے مطابق میت نہیں سنتی تو وہ میت کے دیکھنے کی قائل کیسے ہو سکتی ہیں وہ بھی قبر میں مدفون میت

دوم یہ  انسانی بساط سے باہر ہے کہ مسلسل حجاب میں رہا جائے. یہ نا ممکنات میں سے ہے. خیال رہے کہ امہات المومنین چہرے کو بھی پردے میں رکھتی تھیں

 اہل شعور اس روایت کو اپنے اوپر منطبق کر کے سوچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چھوٹے سے حجرہ میں مسلسل چہرے کے پردے میں رہا جائے

سوم عائشہ رضی الله تعالی عنہآ کی وفات ٥٧ ھ میں ہوئی. عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت ٢٣ ھ میں ہوئی. اس پردے والی ابو اسامہ کی روایت کو درست مآنا جائے تو اسکا مطلب ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا  ٣٤ سال حجرے میں پردے میں  رہیں یعنی ٣٤ سال تک گھر کے اندر اور باہر پردہ میں رہیں

چہارم عائشہ رضی الله تعالی عنہا کو اس تکلیف میں دیکھ کر کسی نے ان کو دوسرے حجرے میں منتقل ہونے کا مشورہ بھی نہیں دیا. انسانی ضروریات کے تحت لباس تبدیل کرنا کیسے ہوتا ہو گا ؟ کسی حدیث میں نہیں اتا کہ وہ اس وجہ سے دوسری امہات المومنین کے حجرے میں جاتی ہوں کیونکہ تدفین تو حجرہ عائشہ میں تھی

بحر الحال یہ روایت غیر منطقی ہے اورایک ایسے عمل کا بتارہی ہے جو مسلسل دن و رات ٣٤ سال کیا گیا اور یہ انسانی بساط سے باہر کا اقدام ہے

کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال میں سماع الموتی پر خاور بٹ صاحب لکھتے ہیں

عجیب بات ہے کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک مردہ سن نہیں سکتا لیکن دیکھ سکتا ہے اور عائشہ رضی الله تعالی عنہ کے حوالے سے اس زیر بحث  ضعیف روایت کو صحیح کہنے والے بہت سے اہل حدیث علماء ہیں

الله ہم سب کو ہدایت دے

روایت کے مسلکی دفاع کا  ایک اور انداز

 مسلک پرست روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے سنن ابو داود کی روایت پیش کرتے ہیں

 حدَّثنا أحمدُ بن صالح، حدَّثنا ابنُ أبي فُدَيك، أخبرني عَمرو بن عثمانَ بن هانىء عن القاسمِ، قال: دخلتُ على عائشةَ، فقلتُ: يا أُمَّهْ، اكشفِي لي عن قبرِ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- وصاحبَيه، فكشفتْ لي عن ثلاثةِ قُبورٍ، لا مُشْرِفةِ ولا لاطِئةٍ، مَبْطوحةٍ بِبَطحاءِ العَرْصة الحمراء

قاسم کہتے ہیں میں عائشہ رضی الله عنہا کے پاس داخل ہوا ان سے کہا

اماں جان مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے دو صاحبوں کی قبریں دکھائیں، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے میرے لئے تین قبروں پر سے  پردہ ہٹایا

اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے کہ

 ان تین قبروں (کے حجرہ ) کا دروازہ کھولا

حالانکہ اس روایت میں کہیں نہیں کہ کوئی دروازہ بھی تھا. دوم البانی اس کو ضعیف کہتے ہیں کیونکہ اس کا راوی عَمرو بن عثمانَ بن هانىء مستور ہے

ایک ضعیف روایت کو بچانے کے لئے ایک دوسری ضعیف روایت سے استدلال باطل ہے کہتے ہیں

 مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

مسلک پرست عائشہ رضی الله عنہا کی مسلسل پردہ والی روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ مکان جس میں وہ رہتیں تھیں اور جس میں نماز پڑھتیں تھیں الگ الگ تھے اس سلسلے میں ان کی دلیل، الطبقات ابن سعد کی یہ روایت ہے

أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ يَقُولُ: قُسِمَ بَيْتُ عَائِشَةَ بِاثْنَيْنِ: قِسْمٌ كَانَ فِيهِ الْقَبْرُ. وَقِسْمٌ كَانَ تَكُونُ فِيهِ عَائِشَةُ. وَبَيْنَهُمَا حَائِطٌ. فَكَانَتْ عَائِشَةُ رُبَّمَا دَخَلَتْ حَيْثُ الْقَبْرُ فُضُلا. فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ لَمْ تَدْخُلْهُ إلا وهي جامعة عليها ثيابها

موسی بن داود کہتے ہیں امام مالک کہتے ہیں ام المومنین رضی اللہ عنہا کا گھر دو حصوں پر مشتمل تھا ایک میں قبر تھی اور ایک میں عائشہ رضی الله عنہ خود  (رہتیں) تھیں… پس جب عمر اس میں دفن ہوئے تو وہ دوسرے حصے میں نہیں جاتیں الا یہ کہ کپڑا لے کر

اس کی سند میں  مُوسى  بن داود الضَّبيُّ، أبو عبد الله الطَّرَسُوسيُّ المتوفی ٢١٧ ھ ہے جس کو کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی کے مطابق  أبو حاتم کہتے ہیں   في حديثه اضطراب. اس کی حدیث میں اضطراب ہوتا ہے. مسلم نے اس کی روایت کتاب الصلاه میں ایک جگہ لی ہے . اس سے عقیدے میں روایت نہیں لی گئی.

میزان الاعتدال کے مطابق  الكوفي ثم البغدادي یہ کوفی تھے پھر بغدادی اور کتاب تاریخ بغداد کے مطابق كوفي الأصل سكن بَغْدَاد  یہ اصلا کوفی تھے پھر بغداد منتقل ہوئے

الطبقات الکبری از ابن سعد کے مطابق

وَكَانَ قَدْ نَزَلَ بَغْدَادَ، ثُمَّ وَلِيَ قَضَاءَ طَرَسُوسَ، فَخَرَج إِلَى مَا هُنَاكَ، فَلَمْ يَزَلْ قَاضِيًا بِهَا إِلَى  أَنْ مَاتَ بِهَا

یہ بغداد پھنچے پھر طَرَسُوسَ کے قاضی ہوئے  پھر …..وہاں کے قاضی رہے اور وہیں وفات ہوئی

امام مالک  المتوفی ١٧٩ ھ سے مدینہ جا کر کب روایت سنی لہذا یہ روایت منقطع ہے

یہ امام مالک کا قول نقل کرتے ہیں  جو ان کی موطا تک میں موجود نہیں ہے اور یہ کسی صحابی کا قول بھی نہیں لہذا دلیل کیسے ہو گیا؟

مسلک پرستوں کی طرف سے مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت بھی پیش کی جاتی ہے

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِي مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ

محمد بن اسحاق ، فاطمه بنت محمد سے وہ عمرہ سے وہ عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ کے دفن کر دئے جانے کا علم بدھ کی رات کے آخر میں کھدائی کے آوزاروں کی آواز سے ہوا

اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ عائشہ  رضی اللہ عنہا اس کمرہ میں نہیں تھیں جس میں  نبی صلی الله علیہ وسلم کو دفن کیا گیا گویا ایک چھوٹے سے حجرے میں اب دو حجرے بنا دے گئے وہ بھی ایسے  کہ ایک  حجرے میں جو کچھ ہو رہا ہو وہ  دوسرے حجرے والے کو  علم نہ ہو سکے حتی کہ کھدال کی آواز آئے اگر اس روایت کو دلیل سمجھا جائے تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ  وفات النبی کے روز ہی دو حجرے  تھے جبکہ  دوسری روایت کے مطابق دو حجرے عمر رضی الله عنہ کی تدفین کے بعد ہوئے

افسوس اس کی سند بھی ضعیف ہے محمد بن اسحاق مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے فاطمہ بنت محمّد ہے جواصل میں فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدِ بْنِ عِمَارَةَ  ہے. کہا جاتا ہے کہ اس نام کی عبد الله بن ابی بکر کی بیوی تھی لیکن جو بھی ہو ان کا حال مجھول ہے

الطبقات الکبری از ابن سعد کی ایک روایت پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ الْمَدَنِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَغَيْرِهِمَا عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَنْصَارِيَّةِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا زِلْتُ أَضَعُ خِمَارِي وَأَتَفَضَّلُ فِي ثِيَابِي فِي بَيْتِي حَتَّى دُفِنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِيهِ. فَلَمْ أَزَلْ مُتَحَفِّظَةً فِي ثِيَابِي حَتَّى بَنَيْتُ بَيْنِي وَبَيْنِ الْقُبُورِ جِدَارًا فَتَفَضَّلْتُ بَعْدُ

اس کی سند میں عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ الْمَدَنِيُّ ہے جس کو احمد ضعیف الحدیث  (موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله) کہتے ہیں اس روایت کے مطابق عمر رضی الله عنہ کی وفات کے بعد حجرہ میں دیوار بنائی گئی

الطبقات الکبری کی ایک اور سند بھی پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ. أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ تَكْشِفُ قِنَاعَهَا حَيْثُ دفن أبوها مع رسول الله فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ تَقَنَّعَتْ فَلَمْ تَطْرَحِ الْقِنَاعَ

عثمان بن ابراہیم کہتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہ عمر کی تدفین کے بعد شدت کرتیں اور نقاب نہ ہٹاتیں

اس کی سند میں عبد الرحمن بن عُثْمَانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبِ الحاطبيُّ المدنيُّ  ہے جس کے لئے ابو حاتم کہتے ہیں

قال أبو حاتم: ضعيف الحديث يهولني كثرة ما يُسْند

ابو حاتم کہتے ہیں ضعیف الحدیث ہے

بحوالہ تاریخ الاسلام از الذہبی

 ایک اشکال پیدا کرتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہا اس حجرے میں کیسے رہ سکتی ہیں جس میں قبریں ہوں

 اور وہ نماز کہاں  پڑھتیں تھیں تو اس کا جواب ہے کہ صحیح بخاری کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک وقت تھا جب  حجرہ بہت چھوٹا تھا کہ  جب رات کو نبی صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھتے اور  سجدہ کرنے لگتے تو عائشہ رضی الله عنہا اپنے پیر سمیٹ لیتیں  لیکن مرض وفات کی روایات  قرطاس اور دوا پلانے والی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حجرہ کو وسیع کیا گیا تھا جس میں کافی  افراد آ سکتے تھے قبروں کو باقی حجرے سے الگ کرنے کے لئے یقینا کوئی دبیز پردہ یا چق یا  لکڑی کی دیوار  ہو گی

وہابی عالم  صالح بن عبد العزيز بن محمد بن إبراهيم آل الشيخ  درس میں کہتے ہیں بحوالہ التمهيد لشرح كتاب التوحيد

ولما دفن عمر – رضي الله عنه – تركت الحجرة رضي الله عنها، ثم أغلقت الحجرة، فلم يكن ثم باب فيها يدخل منه إليها وإنما كانت فيها نافذة صغيرة، ولم تكن الغرفة كما هو معلوم مبنية من حجر، ولا من بناء مجصص، وإنما كانت من البناء الذي كان في عهده عليه الصلاة والسلام؛ من خشب ونحو ذلك

پس جب عمر رضی الله عنہ دفن ہوئے تو اپ (عائشہ) رضی الله عنہا نے حجرہ چھوڑ دیا پھر اس حجرے کو بند کر دیا پس اس میں کوئی دروازہ نہیں تھا جس سے داخل ہوں بلکہ ایک چھوٹی سی کھڑکی (یا دریچہ) تھا. اور یہ حجرہ نہ پتھر کا تھا نہ چونے کا بلکہ یہ لکٹری کا تھا جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں ہوتا تھا

صالح بن عبد العزيز کے مطابق تو دو حجرے عمر رضی الله عنہ کی تدفین پر ہوئے اور ان کے درمیان دروازہ ہی نہیں تھا بلکہ کھڑکی تھی  لہذاوہ اس  سے دوسرے حجرے میں میں داخل کیسے ہوتیں ؟

 حجرہ اور قبر مطہرہ کے درمیان لکڑی کی دیوار تھی جس میں صرف ایک دریچہ تھا لہذا عائشہ رضی الله عنہا یا

کسی اور کا قبروں پر داخل ہونا ثابت نہیں ہوتا

عائشہ  رضی الله عنہا کے مسلسل پردہ والی روایت کے مطابق انہوں نے حجرہ نہیں چھوڑا تھا بلکہ جب

عمر رضی الله عنہ کی تدفین ہوئی تو  اس کو گھر ہی کہتیں ہیں اور وہ داخل پردہ میں ہوتیں  جبکہ اس کا دفاع کرنے والوں کے مطابق اب دو حجرے ہو چکے ہیں.  اگر دو حجرے تھے تو وہ تو داخل ہی اس حجرے میں ہوتی ہوں گی جس میں قبر سرے سے ہے ہی نہیں تو پردے کی ضرروت؟ یہ روایت کسی بھی زاویے سے  صحیح نہیں

اب یہ بھی دیکھئے

عائشہ رضی الله عنہا کے مسلسل پردہ والی روایت  سے دلیل لیتے ہوئے تھذیب الکال کے مولف  امام المزی کہا کرتے تھے

قال شيخنا الحافظ عماد الدين بن كثير ووجه هذا ما قاله شيخنا الإمام أبو الحجاج المزي أن الشهداء كالأحياء في قبورهم و هذه أرفع درجة فيهم

حافظ ابن کثیر کہتے ہیں اسی وجہ  سے ہمارے شیخ المزی کہتے ہیں کہ شہداء  اپنی قبروں میں زندوں کی طرح ہیں اور یہ ان کا بلند درجہ ہے

الإجابة فيما استدركته عائشة على الصحابة للإمام الزركشي 

منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى (المتوفى: 1051هـ)  اپنی کتاب كشاف القناع عن متن الإقناع  میں لکھتے ہیں

قَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ: وَاسْتَفَاضَتْ الْآثَارُ بِمَعْرِفَةِ الْمَيِّتِ بِأَحْوَالِ أَهْلِهِ وَأَصْحَابِهِ فِي الدُّنْيَا وَأَنَّ ذَلِكَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ وَجَاءَتْ الْآثَارُ بِأَنَّهُ يَرَى أَيْضًا وَبِأَنَّهُ يَدْرِي بِمَا فُعِلَ عِنْدَهُ وَيُسَرُّ بِمَا كَانَ حَسَنًا وَيَتَأَلَّمُ بِمَا كَانَ قَبِيحًا وَكَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُولُ ” اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِك أَنْ أَعْمَلَ عَمَلًا أُجْزَى بِهِ عِنْدَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَوَاحَةَ وَكَانَ ابْنَ عَمِّهِ وَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ عِنْدَ عَائِشَةَ كَانَتْ تَسْتَتِرُ مِنْهُ، وَتَقُولُ ” إنَّمَا كَانَ أَبِي وَزَوْجِي فَأَمَّا عُمَرُ فَأَجْنَبِيٌّ ” وَيَعْرِفُ الْمَيِّتُ زَائِرَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَهُ أَحْمَدُ.

ابن تیمیہ کہتے ہیں اور جو اثار ہیں ان سے معلوم ہوتا ہےکہ میت اپنے احوال سے اور دنیا میں اصحاب سے با خبر ہوتی ہے اور اس پر (زندوں کا عمل) پیش ہوتا ہے اور وہ دیکھتی اور جانتی ہے جو کام اس کے پاس ہو اور اس میں سے جو اچھا ہے اس پر خوش ہوتی اور اس میں سے جو برا ہو اس پر الم محسوس کرتی ہے اور ابو الدرداء کہتے تھے اے الله میں پناہ مانگتا ہوں اس عمل سے جس سے میں عبد الرحمان بن رَوَاحَةَ  کے آگے شرمندہ ہوں اور وہ ان کے چچا زاد تھے اور جب عمر دفن ہوئے تو عائشہ ان سے پردہ کرتیں اور کہتیں کہ یہ تو میرے باپ اور شوہر تھے لیکن عمر تو اجنبی ہیں اور امام احمد کہتے ہیں کہ میت زائر کو جمعہ کے دن طلوع سورج سے پہلے پہچانتی ہے

البهوتى حنابلہ کے مشھور امام ہیں

افسوس اس روایت سے قبر پرستی ہی پھیلی ہے

ضعیف روایات کو محدثین نے  اپنی کتابوں میں صحیح سمجھ کر نہیں لکھا بلکہ انہوں نے ایسا کہیں دعوی نہیں کیا جو بھی وہ روایت کریں سب صحیح سمجھا جائے اگر کسی کو پتا ہو تو پیش کرے

بہتر یہی ہے کہ محدثین جو کہہ گئے ہیں اس کو تسلیم کر لیا جائے

يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسی الفسوی ، ابو يوسف (المتوفى: 277هـ) کتاب المعرفة والتاريخ میں لکھتے ہیں کہ:

قَالَ : عُمَرُ : سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ : كَانَ أَبُو أُسَامَةَ إِذَا رَأَى عَائِشَةَ فِي الْكِتَابِ حَكَّهَا فَلَيْتَهُ لَا يَكُونُ إِفْرَاطٌ فِي الْوَجْهِ الْآخَرِ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ يُوهِنُ أَبَا أُسَامَةَ ، ثُمَّ قَالَ : يُعْجَبُ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمَعْرِفَتِهِ بِأَبِي أُسَامَةَ ، ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ

عمر بن حفص بن غیاث (المتوفی: ٢٢٢ ھ) کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا ابو اسامہ جب کتاب میں عائشہ لکھا دیکھتا تو اس کو مسخ کر دیتا یہاں تک کہ اس (روایت) میں پھر کسی دوسری جانب سے اتنا افراط نہیں آ پاتا يعقوب بن سفيان کہتے ہیں میں نے محمد بن عبد الله بن نمير کو سنا وہ ابو اسامہ کو کمزور قرار دیتے تھے پھر کہا مجھے (محمد بن عبد اللهِ بن نمير کو) ابی بکر بن ابی شیبہ پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس ابو اسامہ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے روایت لیتے ہیں –

 (المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان: مَا جَاءَ فِي الْكُوفَةِ)

جس کو یہ روایت پسند ہو وہ سن لے کہ ہماری ماں عائشہ رضی الله عنہا ایک مجتہد تھیں وہ صحابہ تک کے اقوال قرآن پر پرکھ کر رد و قبول کرتی تھیں لہذا وہ مردہ میت سے شرم کیسے کر سکتیں ہیں؟

[/EXPAND]

[کیا چوپائے عذاب قبرسنتے ہیں ]

بخاری و مسلم میں روایات سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو ابراہیم کی وفات والے دن ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز کے دوران، عذاب قبر سے مطلع کیا گیا. اس کی جو روایات بخاری اور مسلم میں ہیں ان میں ایک مشکل بھی ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مروی ان روایات میں یہ آیا ہے کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کے گھر دو یہودی عورتیں آئیں، انہوں نے عذاب قبر کا تذکرہ کیا، نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی اور مسلم کی روایت کے مطابق کہا یہ  یہود کے لئے ہے پھر فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ کچھ راتوں بعد اپ نے فرمایا أَمَا شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ کیا تمہیں شعور ہوا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم کو قبروں میں ارمایا جائے گا

اس کے برعکس ایک دوسری روایت جو مسروق سے مروی ہے اس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے یہودی عورتوں کی فورا تصدیق کی اور اس میں اضافہ بھی ہے کہ تمام چوپائے عذاب سنتے ہیں

مسروق کی حدیث ہے

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔

اس کے بر خلاف صحیحین کی دیگر روایات میں ہے

عمرۃ’ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ  عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عائذا باللّٰہ من ذٰلک ۔ میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر ایک دن آپ  صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر (اس دن) سورج کو گرہن لگ گیا۔ (آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
انی قد رایتکم تفتنون فی القبور کفتنۃ الدجال … اسمع رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بعد ذالک یتعوذ من عذاب النار و عذاب القبر
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح۔ … میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فقال ما شاء اللّٰہ ان یقول ثم امرھم ان یتعوذوا من عذاب القبر
پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا فرمایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قبرکے عذاب سے پناہ مانگیں۔

صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد۱صفحہ ۱۴۳عربی ح:۱۰۴۹۔ صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱صفحہ۲۹۷عربی ح:۲۰۹۸

یہ دونوں متضاد روایات ہیں .مسروق کی روایت  میں نبی صلی الله علیہ وسلم عذاب کی قورا تصدیق کرتے ہیں جبکہ دوسری میں کچھ دنوں بعد

 وہ روایات جو صحیح میں ہوں چاہے بخاری کی ہوں یا مسلم کی اور باہم متصادم ہوں ان پر متقدمین  محدثین حدیث مشکل کا حکم لگا کر بحث کر چکے ہیں .کتاب  شرح مشكل الآثار از أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوي (المتوفى: 321هـ)  بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَفْعِهِ: أَنَّ النَّاسَ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ لَمَّا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ بَعْدَ قَوْلِ الْيَهُودِيَّةِ لِعَائِشَةَ: ” أَعَاذَكِ اللهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ میں  الطحاوی لکھتے ہیں

وَكَمَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَنْصُورٍ الْبَالِسِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عَجَائِزِ يَهُودَ الْمَدِينَةِ،  فَقَالَتَا لِي: إِنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا، وَلَمْ أُصَدِّقْهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ دَخَلَتَا عَلَيَّ، فَزَعَمَتَا أَنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ، فَقَالَ: ” صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ لَيُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ كُلُّهَا ” فَقَالَتْ عَائِشَةُ: ” فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي صَلَاةٍ، إِلَّا يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

جیسا کہ روایت کیا ہے حسن بن عبدللہ بن منصور … عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ کہ انہوں نے فرمایا میرے پاس مدینہ کی دو بوڑھی یہودن آئیں  انہوں نے کہا بے شک اہل قبور کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے اس پر میں نے نہ ان کی تکذیب کی نہ تصدیق پس جب وہ دونوں نکلیں نبی صلی الله علیہ وسلم داخل ہوئے میں نے کہا اے رسول الله ان بوڑھی عورتوں نے جو آئیں تھیں نے  دعوی کیا ہے کہ  اہل قبور کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  سچ کہا بے شک انکو عذاب ہوتا ہے جس کو چوپائے سنتے ہیں پس عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے کہا اس کے بعد میں نے ہر نماز میں عذاب قبر سے پناہ مانگتے سنا 

اس کے بعد الطحاوي نے بخاری اور مسلم کی دوسری روایات پیش کی ہیں جن میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فورا یہودی عورتوں کی تصدیق نہیں کی. مسلم کی روایت میں تو باقاعدہ کچھ راتیں گزرنے کے بعد کے الفاظ ہیں

الطحاوي کہتے ہیں

أَنَّا قَدُ تَأَمَّلْنَا حَدِيثَ عَمْرَةَ الَّذِي بَدَأْنَا بِذِكْرِهِ فِي هَذَا الْبَابِ، عَنْ عَائِشَةَ، فَوَجَدْنَا غَيْرَ وَاحِدٍ مِنَ الرُّوَاةِ عَنْ عَائِشَةَ، قَدْ خَالَفُوهَا عَنْهَا، فَمِنْهُمْ مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ

جب ہم  عمرہ کی عائشہ رضی الله تعالی عنہا  حدیث جس سے ہم نے اس باب میں  بات شروع کی تھی اس پر تامل کرتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ ایک سے زائد راویوں نے اس کو عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے روایت کیا ہے جن کی مخالفت مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ  نے کی ہے

آخر میں الطحاوي  فیصلہ دیتے ہیں

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَكَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا قَدْ دَلَّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ دَفَعَ ذَلِكَ فِي الْبَدْءِ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ، ثُمَّ أُوحِيَ إِلَيْهِ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَرَجَعَ إِلَى التَّصْدِيقِ بِذَلِكَ، وَالِاسْتِعَاذَةِ مِنْهُ، وَفِي هَذَا مَا قَدْ دَلَّ عَلَى مُوَافَقَةِ عُرْوَةَ عَمْرَةَ عَلَى مَا رَوَتْ مِنْ ذَلِكَ عَنْ عَائِشَةَ، وَكَانَ هَذَا عِنْدَنَا وَاللهُ أَعْلَمُ أَوْلَى بِمَا رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ مِمَّا رَوَاهُ مَسْرُوقٌ، وَذَكْوَانُ عَنْهَا، لِأَنَّ فِي هَذَا تَقَدُّمَ دَفْعِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِثْبَاتَهُ إِيَّاهُ بَعْدَ ذَلِكَ فَكَانَ الَّذِي كَانَ عِنْدَ مَسْرُوقٍ، وَذَكْوَانَ فِي ذَلِكَ، هُوَ الْأَمْرُ الثَّانِي، وَكَانَ الَّذِي كَانَ عِنْدَ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، الْأَمْرَ الْأَوَّلَ وَالْأَمْرَ الثَّانِي، فَكَانَا بِذَلِكَ أَوْلَى، وَكَانَا بِمَا حَفِظَا مِنْ ذَلِكَ، قَدْ حَفِظَا مَا قَصَّرَ مَسْرُوقٌ، وَذَكْوَانُ عَنْ حِفْظِهِ، وَاللهَ نَسْأَلُهُ التَّوْفِيقَ

ابو جعفر نے کہا پس اس حدیث میں دلیل ہے کہ بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وحی انے سے پہلے  اس کا رد کیا کہ ان کو قبروں میں فتنہ میں مبتلا کیا جائے گا. پھر جب وحی  آئی کہ بے شک ان کو قبروں میں فتنہ میں مبتلا کیا جائے گا تو اپ نے اس کی تصدیق کی اور اس سے پناہ مانگی اور اس میں دلیل ہے کہ عروہ اور عمرہ نے عائشہ رضی الله عنہا سے جو پایا ( سنا) اس (بیان) میں اپس میں  موافقت ہے . یہ  ہمارے لئے زیادہ اولی بات ہے وَاللهُ أَعْلَمُ،  اس سے جو مسروق اور وَذَكْوَانُ  نے  ان سے روایت کیا ہے …. پس دیگر رآویوں نے یاد رکھا جو  مسروق نے مختصر کر دیا جو انہوں نے یاد کیا

اس تمام بحث سے معلوم ہوا مسروق نے اس کو غلط روایت کر دیا ہے .   الفاظ  إِنَّهُمْ لَيُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ كُلُّهَا  ان کو عذاب ہوتا ہے جس کو تمام چوپائے سنتے ہیں صرف مسروق  ہی بیان کرتے ہیں

 الطحاوي  کے مطابق مسروق اس روایت کو صحیح یاد نہ رکھ سکے  چونکہ ان کی روایت میں اور علتیں بھی ہیں لہذا عقیدے میں وہ کارگر نہیں اس بنیاد پر  چوپائے کے عذاب کے سنے کوایک عموم نہیں مانا جا سکتا

آجکل اس حوالے سے کافی الجھاؤ اہل حدیث حضرات نے پیدا کر دیا ہے جب ان سے اس مسئلہ میں بات ہوتی ہے وہ یہ باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عذاب ایک غیب کا معاملہ ہے لیکن پھر اس کو چوپایوں کو بھی سنواتے ہیں

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

بلی کی بصارت انسان کی نسبت بہت زیادہ ہے اور وہ اندھیرے میں دیکھ سکتی ہے۔ چوپایوں کے سونگھنے، سننے اور محسوس کرنے کی حس انسان سے کہیں زیادہ ہے۔ لہٰذا وہ عذاب قبر سن سکتے ہیں جیسا کہ آجکل موبائل فون کی ٹرانسمیشن انتہائی زیادہ ہے جو کہ انسانی سماعت سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ٹرانسمیشن انسانی کان تو نہیں سن سکتا لیکن موبائل فون اُس کو سن لیتا ہے اور پھر اُسی ٹرانسمیشن کو انسانی سماعت کے مطابق ڈھال کر ہمیں سنا دیتا ہے۔

موصوف سائنسی چوپائے پیش کر رہے ہیں اور غیب میں نقب لگا رہے ہیں

الله تعالی قرآن میں کہتا ہے غیب تو اسکو تو زمیں و آسمان میں کوئی نہیں جانتا سوائے الله کے

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا الله 

قرآن میں ہے کہ پہاڑ الله کی تسبیح کرتے ہیں اس تسبیح کو کرنے والا پہاڑ جانتا ہے یا الله.  اسی طرح درخت و پہاڑ وغیرہ سجدہ کرتے ہیں اس کی کیفیت کو کرنے والا پہاڑ جانتا ہے یا الله، لیکن اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا. عذاب قبر کے لئے  عود روح کے قائلین کہتے ہیں عذاب و چیخ کو معذب مردہ  جانتا ہے ، چوپائے بھی سنتے  ہیں، تو یہ غیب کیسے رہا ! لہذا یہ دلیل نہیں بنتی

ابو جابر دامانوی  کتاب عذاب قبر میں مفتی محمد شفیع صاحب  کے حوالے سے غیب کی تعریف کرتے ہیں

لفظ غیب لغت میں ایسی چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے جو نہ بدیہی طور پر انسان کو معلوم ہوں اور نہ انسان کے حواس خمسہ اس کا پتہ لگا سکیں۔یعنی نہ وہ آنکھ سے نظر آئیں نہ کان سے سنائی دیں نہ ناک سے سونگھ کر یا زبان سے چکھ کر ان کا علم ہو سکے اور نہ ہاتھ پھیر کر ان کو معلوم کیا جا سکے۔قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ان کا علم بداہت عقل اور حواس خمسہ کے ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات بھی آ جاتی ہیں۔تقدیری امور‘ جنت ودوزخ کے حالات ‘قیامت اور اس میں پیش آنے والے واقعات بھی‘ فرشتے ‘ تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقین بھی جس کی تفصیل اسی سورہ بقرہ کے ختم پر امن الرسول میں بیان کی گئی ہے گویا یہاں ایمان مجمل کا بیان ہو ا ہے۔اور آخری آیت میں ایمان مفصل کا۔ تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہو گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایات و تعلیمات لے کر آئے ہیں ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا‘ شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو۔جمہور اہل اسلام کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے (عقیدہ طحاوی ‘ عقائد نسفی وغیرہ

سوال ہے کہ کیا غیب صرف انسانوں کے لئے ہے چرند پرند ،چوپائیوں، درندوں کے لئے نہیں

اگر یہ معاملہ صرف الله اور تکوینی امور پر اس کی طرف سے مقرر کردہ فرشتوں تک محدود ہوتا تو یہ بات قبل غور ہوتی لیکن جب اس میں چوپائے بھی شامل ہو جائیں تو یہ اب عموم ہو گیا کیونکہ سب چوپائے سنیں گے اور یہ غیب نہیں رہا

 مشرکین پر عذاب کی خبر نبی صلی الله علیہ وسلم کو مکہ میں ہی دی گئی کیونکہ قرآن کی عذاب البزرخ کی آیت مکی ہیں لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس کی خبر تھی. مسلم کی ایک روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  بنو نجار کے ایک باغ میں قبروں کے پاس سے گزرے جہاں اپ کا خچر بدکا اور اپ صلی الله علیہ وسلم نے ان قبروں کے بارے میں پوچھا ، اپ کو بتایا گیا کہ یہ مشرک تھے. اپ صلی الله علیہ وسلم  نے خبر دی کہ  ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے. خچر بدکنے کا واقعہ عموم سے الگ ہے کیونکہ خچر قبرستان میں چرتے رہتے ہیں لیکن نہیں بدکتے .  بخاری میں ایک دوسری  روایت ہے کہ بنو نجارہی کے ایک مقام پر اپ نے مشرکین کی قبریں اکھڑ وا دیں اور وہاں اب مسجد النبی ہے اس تاریخی پس منظر میں یہ واضح ہے کہ عذاب اگر ارضی قبر میں ہوتا تو اس مقام پر نہ ہی مسجد النبی ہوتی نہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کو کھدواتے اور کسی اور مقام پر جا کر مسجد النبی کی تعمیر کرتے.خوب یاد رکھیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو مشرکین پر عذاب قبر کی خبر  مکّہ میں ہو چکی ہے لیکن پھر بھی قبرین کھدواتے ہیں

جہاں تک خچر بدکنے کا تعلق ہے تو وہ ایک خاص واقعہ ہے جو پھر کبھی پیش نہیں آیا . اپ صلی الله علیہ وسلم کو عذاب سنوایا گیا نہ کہ دکھایا گیا یہ ایسے ہی ہے ہم قاہرہ کے عجائب گھر جائیں اور کہیں کہ ان فرعونیوں پر  عذاب ہو رہا ہے  جس سے ظاہر ہے کوئی یہ نہیں سمجھے گا کہ یہیں عجائب گھر میں ہو رہا ہے

الطحآوی کی تحقیق اس سلسے میں صحیح ہے کہ  مسروق نے جو حدیث بیان کی ہے اس کو انہوں نے صحیح یاد نہیں رکھا

اس سلسلے میں قرع نعال یعنی جوتیوں کی چاپ والی روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ جب فرشتے مارتے ہیں تو

( فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَّسْمَعُھَا مَنْ یَّلِیْہِ غَیْرُ الثَّقَلَیْنِ (بخاری مسلم

پس وہ (کافر اس مار سے) چیختا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز انسانوں اور جنوں کےعلاوہ پاس والے  سنتے ہیں۔

بخاری کے شارح ابن بطال کہتے ہیں کہ الفاظ یَّسْمَعُھَا مَنْ یَّلِیْہِ غَیْرُ الثَّقَلَیْنِ سے مراد

هم الملائكة الذين يلون فتنته

فرشتے ہیں جو فتنہ (سوال) قبر کے لئے ہوتے ہیں وہی اس چیچ کو سنتے ہیں

دوم اگر یہ مان لیا جائے کہ چیخ کو جن و انس کے علاوہ سب سنتے ہیں تو اس میں چرند پرند حشرات ارض بلی کتے سب شامل ہو جائیں گے اور اس کو صرف چوپایوں تک محدود کرنے کی کوئی تخصیص نہیں رہے گی سوم یہ علم غیب کی بات بھی نہیں ہو گی

اگر عذاب اسی دنیا کی قبر میں ہوتا تو پرندے اپنے گھونسلے قبرستان میں نہیں بناتے ہوں گے کیونکہ وہ بہت حساس مخلوق ہے جبکہ عام مشاہدہ اس کا رد کرتا ہے

آجکل ایک نیا شوشہ قبر پرستوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ دو طرح کے چوپائے ہوتے ہیں ایک شہری جو ہارن کی آواز سے بھی نہیں ڈرتے، دوسرے دیہاتی جو فورا چونک جاتے ہیں لیکن کیا عذاب قبر جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی سن لے تو مردہ ہی نہ دفنائے اسقدر بے ضرر ہے کہ شہری چوپائے قبرستان میں چرتے ہیں اور عذاب الہی سے لا علم رہتے ہیں پرسکوں انداز میں گھانس چرتے رہتے  ہیں

کہا جاتا ہے کہ عذاب فرشتے دنیا کی قبر میں میت پر کرتے ہیں  جس کو چوپائے  سنتے ہیں لیکن قرآن کہتا ہے

َامْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا

کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وه تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیاده بھٹکے ہوئے

اللہ ہم سب کو ہدایت دے

[/EXPAND]

[کیا میت زائر کو پہچانتی ہے]

ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے  کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ ( میت) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے

 اس روایت کی تمام اسناد جمع کی گئی ہیں تاکہ قارئین دیکھ سکھیں کہ امت پر کیا ستم ڈھایا گیا ہے

أبي هريرة رضي الله عنه سے منسوب  روایت

اس روایت کو ابن حبان نے المجروحين (2/ 58) میں ،الرازی نے تمام الفوائد (1/ 63)، خطیب البغدادي نے  تاريخ بغداد (6/ 137) میں، ابن عساكر نے  تاريخ دمشق (10/ 380) ، (27/ 65) میں ، اور ابن الجوزي نے “العلل المتناهية” (2/ 911) میں بیان کیا ہے اور یہ سب اس کو ایک ہی  طريق الربيع بن سليمان المرادي، عن بشر بن بكر، عن عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة  سے روایت کرتے ہیں

الذهبی کتاب سير أعلام النبلاء  ج ١٢ ص ٥٩٠ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا الرَّبِيْعُ بنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ زَيْدِ بنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُرُّ عَلَى قَبْرِ رَجُلٍ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ، إِلاَّ عَرَفَهُ، وَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ) .

غَرِيْبٌ وَمَعَ ضَعْفِهِ فَفِيْهِ انقطَاعٌ، مَا عَلِمْنَا زَيْداً سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ

 ابی هُرَيْرَةَ رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے  کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ ( میت) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے  غریب روایت ہے اور ضعیف ہے کیونکہ اس میں انقطاع ہے ہم نہیں جانتے کہ زید نے أَبِي هُرَيْرَةَ سے سنا ھو

ابن جوزی  اپنی کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية   میں  جو انہوں نے واہیات احادیث پر لکھی ہے کہتے ہیں حديث لا يصلح وقد أجمعوا على تضعيف عَبْد الرحمن

حدیث صحیح نہیں ہے اور بے شک عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ زَيْدِ بنِ أَسْلَمَ کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے

 ابن القیم کتاب الروح کے مطابق  ابن ابی الدنیا کتاب القبور كتاب الْقُبُور بَاب معرفَة الْمَوْتَى بزيارة الْأَحْيَاء  میں اس کو ابی هُرَيْرَةَ کا قول کہتے ہیں

حدثنا محمد بن قدامة الجوهري، حدثنا معن بن عيسى القزاز، حدثنا هشام بن سعد، حدثنا زيد بن أسلم، عن أبي هريرة – رضي الله عنه – قال: “إذا مر الرجل بقبر أخيه يعرفه فسلم عليه ردَّ عليه السلام وعرفه، وإذا مرَّ بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام

اس کی سند میں هشام بن سعد ، ضعیف راوی ہے ابن عدي کہتے ہیں  مع ضعفه يكتب حديثه

ابن عدی کہتے ہیں ان کے  ضعف کے ساتھ روایت لکھ لی جائے  جبکہ ابن معين کہتے ہیں  كان يحيى القطان لا يحدث عنه  یحییٰ القطان اس سے حدیث روایت نہیں کرتے

عائشہ رضي الله عنها سے منسوب روایت

ابن القیم کتاب الروح کے مطابق  ابن ابی الدنیا کتاب القبور كتاب الْقُبُور بَاب معرفَة الْمَوْتَى بزيارة الْأَحْيَاء  میں عَائِشَة رضى الله تَعَالَى عَنْهَا سے مروی روایت پیش کرتے ہیں

حَدثنَا مُحَمَّد بن عون حَدثنَا يحيى بن يمَان عَن عبد الله بن سمْعَان عَن زيد بن أسلم عَن عَائِشَة رضى الله تَعَالَى عَنْهَا قَالَت قَالَ رَسُول الله مَا من رجل يزور قبر أَخِيه وَيجْلس عِنْده إِلَّا استأنس بِهِ ورد عَلَيْهِ حَتَّى يقوم

اس کی سند میں عبد الله بن سمعان راوی ہے

العراقی  المغني عن حمل الأسفار في الأسفار، في تخريج ما في الإحياء من الأخبار  میں اس روایت کو بیان کرنے کے بعد  اس راوی کے لئے  لکھتے ہیں  وَلم أَقف عَلَى حَاله میں اس کے حال سے واقف نہ ہو سکا

ابن حجر لسان المیزان میں عبد الله بن سمعان [احتمال أن يكون عبد الله بن زياد بن سمعان] کے ترجمے میں  لکھتے ہیں

كره شيخي العراقي في تخريج الإحياء في حديث عائشة: ما من رجل يزور قبر أخيه ويجلس عنده إلا استأنس به ورد عليه حتى يقوم.

أخرجه ابن أبي الدنيا في كتاب القبور وفي سنده عبد الله بن سمعان لا أعرف حاله.

قلت: يحرر لاحتمال أن يكون هو المخرج له في بعض الكتب وهو عبد الله بن زياد بن سمعان ينسب إلى جده كثيرا وهو أحد الضعفاء.

شیخ العراقی نے الإحياء کی تخریج میں عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے روایت کر کے اس روایت سے کراہت کی ہے اس کو ابن  أبي الدنيا نے كتاب القبور میں عبد الله بن سمعان کی سند سے روایت کیا ہے جس کا حال پتا نہیں

میں کہتا ہوں  اس کا احتمال ہے کہ  ان (ابن ابی الدنیا) کی بعض کتابوں میں یہ عبد اللہ بن زیاد بن سمان  اپنے دادا کی طرف منسوب ہے اور کمزورراویوں میں سے ہے ۔

ابن عبّاس رضي الله عنه  سے منسوب روایت

 ابن عبد البر اس کو کتاب  الاستذكار میں روایت کرتے ہیں

قال حدثنا بشر بن بكير عن الأوزاعي عن عطاء عن عبيد بن عمير عن بن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ما من أحد مر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام

ابن حجر تہذیب التہذیب میں سند کے ایک  راوی عبيد بن عمير مولى بن عباس  کو مجهول کہتے ہیں . علامہ الوسی روح المعانی میں لکھتے ہیں

 إلا أن الحافظ إبن رجب تعقبه وقال : إنه ضعيف بل منكر

بے شک حافظ ابن رجب نے اس کا تعقب کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ نہ صرف ضعیف بلکہ منکر روایت ہے

سب سے افسوس ناک ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ھ  کا عمل ہے جنہوں نے اس کو کتاب  اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم میں  ابن عبد البر کی بنیاد پر صحیح قرار دیا ہے

عصر حاضر کے وہابی عالم محمد صالح المنجد القسم العربي من موقع (الإسلام، سؤال وجواب) میں فتویٰ میں کہتے ہیں

مَا مِن مُسلِمٍ يَمُرُّ عَلَى قَبرِ أَخِيهِ كَانَ يَعرِفُهُ فِي الدُّنيَا، فَيُسَلِّمُ عَلَيهِ، إِلا رَدَّ اللَّهُ عَلَيهِ رُوحَهُ حَتَّى يَرُدَّ عَلَيهِ السَّلامَ

فقد بحث أهل العلم عن هذا الحديث المعلق فلم يجدوه مسندا في كتاب ، وكل من يذكره ينقله عن تعليق الحافظ ابن عبد البر ، فهو في الأصل حديث ضعيف

پس بے شک بعض اہل علم اس معلق حدیث پر بحث کی ہے اور یہ سندا کسی کتاب میں نہ مل سکی اور جس کسی نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے اس نے الحافظ ابن عبد البر کی  تعليق کا حوالہ دیا ہے جبکہ اصل میں حدیث ضعیف ہے

الغرض اس روایت کے تمام طرق ضعیف ہیں اور آج ہم ان کو ضعیف قرار نہیں دے رہے بلکہ یہ سب کتابوں میں ہزار سال پہلے سے موجود ہے لیکن اس روایت کو درست قرار دیا گیا اور بد عقیدگی کو پھیلایا گیا

امام احمد اور گمراہی

امام احمد کہتے تھے

كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس

بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے

بحوالہ كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت

کہا جاتا ہے کہ  ابن تیمیہ کہتے ہیں یہ کتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل ، المؤلفہ  عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي نے اپنے فہم پر لکھی ہے

ابن تیمیہ کتاب درء تعارض العقل والنقل میں بتاتے ہیں کہ امام البیہقی کتاب اعتقاد أحمد جو أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي کو درس میں استمعال کرتے تھے

ولما صنف أبو بكر البيهقي كتابه في مناقب الإمام أحمد – وأبو بكر البيهقي موافق لابن البقلاني في أصوله – ذكر أبو بكر اعتقاد أحمد الذي صفنه أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي، وهو مشابه لأصول القاضي أبي بكر، وقد حكى عنه: أنه كان إذا درس مسألة الكلام على أصول ابن كلاب والأشعري يقول: (هذا الذي ذكره أبوالحسن أشرحه لكم وأنا لم تتبين لي هذه المسألة) فكان يحكى عنه الوقف فيها، إذ له في عدة من المسائل

اور جب ابو بکر البیہقی نے کتاب مناقب امام احمد لکھی اور ابو بکر البیہقی اصول میں  ابن الباقلاني سے موافقت کرتے ہیں اسکا ذکر ابو بکر البیہقی نے ذکر کیا کتاب اعتقاد أحمد کا جو أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي کی تصنیف ہے اور اصولوں میں قاضی ابو بکر کے مشابہ ہے اور ان سے بات بیان کی  جاتی ہے کہ جب وہ مسئلہ کلام میں ابن کلاب اور الأشعري کے اصول پر درس دیتے، کہتے ایسا ذکر کیا ابو الحسن نے جس کی شرح میں نے تمہارے لئے کی

ابن تیمیہ فتوی ج ٤ ص ١٦٧  میں لکھتے ہیں

وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِ الْمَائِلِينَ إلَيْهِمْ التَّمِيمِيُّونَ: أَبُو الْحَسَنِ التَّمِيمِيُّ وَابْنُهُ وَابْنُ ابْنِهِ وَنَحْوُهُمْ؛ وَكَانَ بَيْنَ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ وَبَيْنَ الْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ بْنِ الْبَاقِلَانِي مِنْ الْمَوَدَّةِ وَالصُّحْبَةِ مَا هُوَ مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ. وَلِهَذَا اعْتَمَدَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ البيهقي فِي كِتَابِهِ الَّذِي صَنَّفَهُ فِي مَنَاقِبِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ – لَمَّا ذَكَرَ اعْتِقَادَهُ – اعْتَمَدَ عَلَى مَا نَقَلَهُ مِنْ كَلَامِ أَبِي الْفَضْلِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ. وَلَهُ فِي هَذَا الْبَابِ مُصَنَّفٌ ذَكَرَ فِيهِ مِنْ اعْتِقَادِ أَحْمَدَ مَا فَهِمَهُ؛ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَلْفَاظَهُ وَإِنَّمَا ذَكَرَ جُمَلَ الِاعْتِقَادِ بِلَفْظِ نَفْسِهِ وَجَعَلَ يَقُولُ: ” وَكَانَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ “. وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ يُصَنِّفُ

كِتَابًا فِي الْفِقْهِ عَلَى رَأْيِ بَعْضِ الْأَئِمَّةِ وَيَذْكُرُ مَذْهَبَهُ بِحَسَبِ مَا فَهِمَهُ وَرَآهُ وَإِنْ كَانَ غَيْرُهُ بِمَذْهَبِ ذَلِكَ الْإِمَامِ أَعْلَمَ مِنْهُ بِأَلْفَاظِهِ وَأَفْهَمَ لِمَقَاصِدِهِ

امام أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ کے عقائد کی طرف سب سے زیادہ تَّمِيمِيُّونَ میں سے أَبُو الْحَسَنِ التَّمِيمِيُّ اور ان کے بیٹے اور پوتے اور اسی طرح کے دیگر  ہوئے اور أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ  اور َ الْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ بْنِ الْبَاقِلَانِي میں بہت مودت اور اٹھنا بیٹھنا تھا اور اس کے لئے مشھور تھے اور اسی لئے امام البیہقی نے کتاب  جو مَنَاقِبِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ میں  لکھی تو انہوں نے أَبِي الْفَضْلِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ کی کتاب  پر اعتماد کیا ہے  جو انہوں نے امام احمد کے اعْتِقَادِ پر لکھی تھی  اور اس میں مصنف نے وہ اعْتِقَادِ ذکر کیے ہیں جو ان کے فہم کے مطابق امام احمد کے ہیں اور اس میں الفاظ نقل نہیں ہیں اور انہوں نے اجمالا الِاعْتِقَادِ لکھے ہیں اپنے الفاظ میں اور کہا ہے اور ابو عبداللہ .. اس کا مقام فقہ میں اماموں کی رائے نقل کرنے جیسا ہے اور مذبب  کا ذکر فہم پر مبنی ہے  اور اگر امام کا مذھب ہوتا تو الفاظ کے ساتھ لوگوں نے نقل کیا ہوتا اور اس کا مقصد سمجھا ہوتا

عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ المتوفی ٤١٠ ھ  اورابن الباقلانی  المتوفی ٤٠٢ ھ اشعری عقائد رکھتے تھے اور انکو امام احمد کا عقیدہ بھی بتاتے تھے ابن تیمیہ کو اعتراض اس پر ہے کہ اشعری عقائد امام احمد سے منسوب کیوں کیے جا رہے ہیں وہ صرف  اس کا رد کر رہے ہیں .  بیہقی  بھی ابن البا قلانی سے متاثر تھے . بیہقی نے امام احمد کے مناقب میں عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ کی کتاب الاعتقاد استمعال کی کیونکہ  وہ ابن الباقلانی سے متاثر  تھے

ابن تیمیہ کے مطابق عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ  نے اپنے فہم پر اس کتاب کو مرتب کیا ہے. ابن تیمیہ نے مطلقا اس کتاب کو رد نہیں کیا  دوئم یہ صرف ابن تیمیہ غیر مقلد کی رائے ہے جبکہ حنبلی مسلک میں کتاب معروف ہے لہذا ابن تیمیہ کی بات ناقابل قبول ہے

  جہاں تک مردہ کا زائر کو پہچاننے کا تعلق ہے اس کو ابن تیمیہ  بھی مانتے ہیں

امام ابن تیمیہ اور گمراہی

ابن تیمیہ فتوی الفتاوى الكبرى لابن تيمية ج ٣ ص ٤٢  میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا عِلْمُ الْمَيِّتِ بِالْحَيِّ إذَا زَارَهُ، وَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَفِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ، إلَّا عَرَفَهُ، وَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ» . قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: ثَبَتَ ذَلِكَ عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَصَحَّحَهُ عَبْدُ الْحَقِّ صَاحِبُ الْأَحْكَامِ

اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ میت زندہ کی زیارت سے کو جانتی ہے اور سلام کرتی ہے تو اس پر ابن عبّاس کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

 جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے  کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ ( میت) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے

 ابن مبارک کہتے ہیں یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس کو صحیح کہا ہے عبد الحق صاحب الاحکام نے

کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال میں مسئلہ سماع الموتی پر خاور بٹ صاحب لکھتے ہیں

افسوس اہل حدیث  شیخ ابن تیمیہ کی بد عقیدگی کا ذکر بھول جاتے ہیں اور غریب دیوبندیوں اور بریلویوں کا نام لے لے کر بد عقیدہ بتاتے ہیں .الله اس دو رخی سے بچاۓ

امام ابن قیم اور گمراہی

 ابن قیم کہتے ہیں اس پر اجماع ہے.  ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

 وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ

 اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے

ابن حجر عسقلانی اور گمراہی 

ابن حجر کتاب  الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع / ويليه أسئلة من خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں

 إِن الْمَيِّت يعرف من يزوره وَيسمع من يقْرَأ عِنْده إِذْ لَا مَانع من ذَلِك

بے شک میت زیارت کرنے والے کو جانتی ہے اور قرات سنتی ہے اس میں کوئی بات مانع نہیں ہے

قارئیں فیصلہ کیجئے کہ کیا اس دجل کا شکار ہوتے رہیں گے کہ نام نہاد اہل علم گمراہ نہیں تھے

[/EXPAND]

[برزخی جسم کیا ہے کہا جاتا ہے ١٤٠٠ سو سال میں ایسا کسی عالم نے نہیں کہا بلکہ یہ غلام احمد قادیانی دجال کا دعوی تھا حقیقت کیا ہے ؟]

جواب یہ بات ان نام نہاد سند یافتہ جہلا کی ہے جنہوں نے اس دین کو ایک پیشہ بنا دیا ہے

ایک اہل حدیث عالم لکھتے ہیں کہ حدیث میں اتا ہے کہ

صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۳۰۷/ حدیث مرفوع
۶۳۰۷۔ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهٗ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجٰی عَمَلٍ عَمِلْتَهٗ عِنْدَکَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْفَعَةً فَإِنِّي سَمِعْتُ اللَّيْلَةَ خَشْفَ نَعْلَيْکَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ قَالَ بِلَالٌ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا فِي الْإِسْلَامِ أَرْجٰی عِنْدِي مَنْفَعَةً مِنْ أَنِّي لَا أَتَطَهَّرُ طُهُورًا تَامًّا فِي سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذٰلِکَ الطُّهُورِ مَا کَتَبَ اللہُ لِي أَنْ أُصَلِّيَ۔

 عبید بن یعیش، محمد بن علاء ہمدانی، ابواسامہ، ابو حیان۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر بواسطہ اپنے والد، ابوحیان تیمی، یحیی بن سعید، ابو زرعہ،  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  بلال رضی اللہ عنہ سے صبح کی نماز کے وقت فرمایا: اے بلال !تو مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہو اور جس کے نفع کی تجھے زیادہ امید ہو؟ کیونکہ آج رات میں نے جنت میں اپنے سامنے تیرے قدموں کی آواز سنی ہے،  بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے اسلام میں کوئی ایسا عمل نہیں کیا کہ جس کے نفع کی مجھے زیادہ امید ہو ،سوائے اس کے کہ جب بھی میں رات یا دن کے وقت کامل طریقے سے وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے جس قدر اللہ نے میرے مقدر میں لکھا ہوتا ہے نماز پڑھ لیتا ہوں۔”

 اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  بلال رضی اللہ عنہ کہ قدم کی آواز آپ نے جنت میں سنی، اس عبارت سے یہ دلیل پکڑنا صحیح نہیں کہ اس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک نیا جسم عطا کر کہ جنت میں پہنچا دیا گیا تھا،
ایسے ہی اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ہے کہ
میں نے دیکھا کہ عمرو (ابن لحی الخزاعی) اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا۔ وہ پہلا شخص (عرب) ہے جس نےبتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی

لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ یہ دو علیحدہ روایات ہیں ایک خواب ہے اور ایک جہنم کا فی الحقیقت نظارہ ہے

  نبی صلی الله  علیہ وسلم نے خواب دیکھا اور اسمیں بلال رضی الله تعالی  عنہ کو دیکھا اور پھر صبح اس بارے میں انکو بتایا یہ بات ظاہر ہے کہ مستقبل کی بات ہے کیونکہ بلال زندہ تھے . اس کے بر عکس  عمرو  ابن لحی الخزاعی  جو مر چکا تھا اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھاتے ہوئے  بیداری میں دیکھا جو دس ہجری کا واقعہ ہے نہ صرف عمرو (ابن لحی الخزاعی) کو دیکھا بلکہ اپ جہنم کی تپش کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور ایک موقعہ پر جنت میں سے انگور کا خوشہ لینے کے لئے آگے بھی بڑھے  ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک عورت کو بھی دیکھا جس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور بھوک پیاس کی وجہ سے وہ بلی مر گئی.   اس کی تفصیل بخاری و مسلم میں کسوف کی روایات میں دیکھی جا سکتی ہیں

لہذا ایک خواب  ہے جس میں مستقبل کی خبر ہے اور دوسرا فی الحقیقت جہنم کا براہ راست منظر ہے اوردونوں میں فرق ہے

اب اگر یہ براہ راست منظر  تھا تو پھر ظاہر ہے کہ حدیث میں عمرو (ابن لحی الخزاعی) کا جسم بتایا گیا جس کی آنتیں تھیں اور روح کی آنتیں نہیں ہوتیں

اس حدیث سے جان چھڑانا مشکل ہے لہذا گول مول جواب دینا اب ایک عام بات ہے

توضیح الاحکام میں زبیر علی زئی کہتے ہیں

tozeh-547

اہل حدیث کا آجکل ٢٠١٤ میں موقف ہے کہ برزخ قبر میں ہی ہوتی ہے واضح رہے کہ یہ موقف پہلے نہیں تھا

عمرو بن لحی دنیا کی قبر میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہیں دیکھا . سائل نے سوال کچھ کیا جواب گول مول آیا

اہل حدیث حضرات حدیث کا واضح متن رد کرکے کہتے ہیں کہ برزخی جسم قیاسی ہیں

دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

موصوف کا خیال ہے کہ اس قبر میں کس طرح جنت اور جہنم پیش کی جا سکتی ہے چونکہ یہ بات ان کے ذہن سے ٹکراتی ہے اس لئے وہ اس کا انکار کر دیتے ہیں حالانکہ ہم نے بخاری و مسلم کے حوالے سے عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت بھی پیش کی ہے کہ میت پر صبح و شام جنت اور جہنم کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس روایت کو موصوف نے بھی توحید خالص دوسری قسط ص۳۳ پر پیش کیا ہے جیسا کہ صحیح احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ بلاشبہ میت پر اس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم پیش کیا جاتا ہے۔ ہم اس کی وضاحت ایک اور طرح سے کرتے ہیں۔ چنانچہ جناب عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ :۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہو گیا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں طویل قیام فرمایا۔ (اس حدیث میں یہ بھی ہے )صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کی حالت میں ) ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ کھڑے ہوئے کسی چیز کو پکڑنے کا ارادہ کررہے تھے پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ پیچھے کی جانب ہٹ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک میں نے جنت کو دیکھا اور اس کے ایک درخت سے انگور کا خوشہ توڑنے کا ارادہ کیا تھا۔ اگر میں اس خوشہ کو توڑ لیتا تو بلاشبہ تم جب تک دنیا میں رہتے اس میں سے کھاتے پھر میں نے دوزخ کو دیکھا اور آج کے دن کے برابر کوئی منظر ایسا خوفناک میری نظر سے نہیں گزرا اس (جہنم)میں میں نے عورتوں کو زیادہ پایا…‘‘۔
بخاری و مسلم کی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنت اور جہنم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز کی حالت میں پیش کیا گیا اور جنت تو اسقدر قریب آ گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسمیں سے انگور کا خوشہ توڑنے کا ارادہ بھی کر لیا تھا۔ جب جنت و جہنم مصلے پر پیش ہو سکتی ہیں (حالانکہ صحابہ کرام ؓ نے انہیں نہیں دیکھا تھا) تو قبر میں کیوں پیش نہیں ہو سکتی۔اصل بات ایمان کی ہے جو شخص غیب پر ایمان رکھے گا تو وہ لازماً ان حقیقتوں کو تسلیم کرے گا اور جو شخص بن دیکھے ایمان کا قائل ہی نہ ہو تو بہرحال آج نہیں تو کل وہ ضرور ان تمام حقائق پر ایمان لے آئے گا مگر اس وقت وہ ایمان اسے فائدہ نہیں دے گا۔مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں عُرِضَتْ عَلَی النَّارُ۔ یعنی مجھ پر جہنم پیش کی گئی (مشکوٰۃ ص۴۵۶) اس واقعہ کو عائشہ ؓ اور اسماء بنت ابی بکر بھی بیان کرتی ہیں اور جسمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد پہلی مرتبہ عذاب قبر کا تذکرہ فرمایا جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

جنت و جہنم اگر روز پیش کی جائے تو اس واقعہ کی کیا اہمیت ہاں دینا میں یہ ایک دفعہ ہوا جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی اسی لئے اس کی اہمیت ہے. دوسرے اس دن پہلی دفعہ عذاب قبر کا بتایا گیا تو ظاہر ہے اسی کا منظر البرزخ سے دکھایا گیا نہ کہ دنیا کی کی کسی قبرکا

دامانوی عذاب القبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

موصوف نے پانچویں دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی پیش کی ہے کہ ان کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے لیکن جیسا کہ واضح کیا گیا ہے کہ قیاس سے کوئی چیز ثابت نہیں کی جا سکتی بلکہ ایسا قیاس، قیاس مع الفارق ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔

معلوم ہوا برزخ مقام نہیں زمانہ ہے اور برزخی جسم قیاس ہے جس کا ذکر صرف ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے

دیکھتے ہیں سچ کیا ہے

اہل حدیث عالم اسمعیل سلفی المتوفی ١٩٦٨ ع نے بھی برزخی جسد کا کتاب  مسئلہ حیات النبی میں ذکر کیا

ismael-36

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت یونس علیہ السلام کو احرام باندھے شتر سوار تلبیہ کہتے سنا دجال کوبحالت احرام کے لیے جاتے دیکھا عمروبن لحئ کو جہنم میں دیکھا یہ برزخی اجسام ہیں اور کشفی رویت ہیں

یہ بھی لکھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے معراج پر انبیاء کی امامت کی اور انبیاء برزخی جسموں کے ساتھ تھے

دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی

hayat-nabi-slafi

مولانا اسمعیل سلفی  کتاب مسئلہ حیات النبی میں علامہ الوسی کا مسلک لکھتے ہیں

barzakh-tibri

دیکھئے  مسلک ہے کہ شہدا کا برزخ میں جسم ہے جو دنیا سے ملتا جلتا ہو گا

الوسی باقاعدہ برزخی جسم کا لفظ استمعال کرتے ہیں مولانا سلفی ترجمہ کرتے ہیں

alosi-2

ارواح کا تعلق برزخی جسم سے ہے جو بدن کثیف (یعنی مردہ جسد جو قبر میں ہے) سے الگ ہے

 ابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٠٩ میں واقعہ معراج پر لکھتے ہیں

وَأَمَّا الَّذِينَ صَلَّوْا مَعَهُ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَيَحْتَمِلُ الْأَرْوَاحَ خَاصَّةً وَيَحْتَمِلُ الْأَجْسَادَ بِأَرْوَاحِهَا

اور بیت المقدس میں وہ انبیاء جنہوں نے نماز ادا کی ان کے بارے میں احتمال ہے وہ ارواح تھیں اور احتمال ہے کہ جسم تھے انکی روحوں کے ساتھ

یہ کون سے علماء تھے جو ابن حجر سے پہلے گزرے ہیں اور ان کے مطابق انبیاء جنت سے اپنے برزخی اجسام کے ساتھ زمین پر اترے تھے کیا یہ علماء ڈاکٹر عثمانی کی تحریک سے تعلق رکھتے تھے

یا ہو سکتا ہے یہ قادیانی ہوں جیسا کہ اپ کا خیال ہے. ابن حجر نے بھی اس  کو رد نہیں کیا .کیا وہ بھی قادیانی تھے ؟

ابن رجب الحنبلی الجامع لتفسير الإمام ابن رجب الحنبلي میں لکھتے ہیں کہ

وممن رجَّح هذا القولَ – أعني السؤالَ والنعيمَ والعذابَ للروح خاصةً – من أصحابِنا ابنُ عقيلٍ وأبو الفرج ابن الجوزيِّ. في بعضِ تصانيفِهما. واستدلَّ ابنُ عقيلٍ بأنَّ أرواحَ المؤمنينَ تنعمُ في حواصلِ طيرٍ خضرٍ، وأرواح الكافرينَ تعذَّب في حواصلِ طيرٍ سودٍ، وهذه الأجسادُ تبْلَى فدلَّ ذلك على أنَّ الأرواحَ تعذبُ وتنعمُ في أجسادٍ أخرَ

اور جو اس قول کی طرف گئے ہیں یعنی کہ سوال و جواب راحت و عذاب صرف روح سے ہوتا ہے ان میں ہمارے اصحاب ابن عقیل اور أبو الفرج ابن الجوزيِّ. ہیں اپنی بعض تصنیف میں اور ابن عقیل نے استدلال کیا ہے کہ مومنین کی ارواح سبز پرندوں میں نعمتیں پاتی ہیں اور کافروں کی ارواح کو کالے پرندوں میں عذاب ہوتا ہے اور یہ اجساد (جو دنیاوی قبر میں ہیں ) تو گل سڑ جاتے ہیں پس یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے

ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) شرح العقيدة الطحاوية میں لکھتے ہیں

فَإِنَّهُمْ لَمَّا بَذَلُوا أَبْدَانَهَمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى أَتْلَفَهَا أَعْدَاؤُهُ فِيهِ، أَعَاضَهُمْ مِنْهَا فِي الْبَرْزَخِ أَبْدَانًا خَيْرًا مِنْهَا، تَكُونُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيَكُونُ تَنَعُّمُهَا بِوَاسِطَةِ تِلْكَ الْأَبْدَانِ، أَكْمَلَ مِنْ تَنَعُّمِ الْأَرْوَاحِ الْمُجَرَّدَةِ عَنْهَا

پس جب انہوں (شہداء) نے اپنے جسم الله کے لئے لگا دیے حتیٰ کہ ان کے دشمنوں نے ان پر زخم لگانے، ان کو البرزخ میں اس سے بہتر جسم دیے گئے جو قیامت تک ہونگے، اور وہ نعمتیں ان بدنوں سے حاصل کریں گے، جو مجرد ارواح سے حاصل کرنے سے زیادہ کامل شکل ہے

کیا یہ تناسخ ہے

دامانوی صاحب اس کو تناسخ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں کہ برزخی جسم آواگون ہے

سید قاسم محمود صاحب تناسخ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آواگون! جون بدلنا بقول مولانا اشرف علی تھانوی ایک بدن سے دوسرے بدن کی طرف نفس ناطقہ کا انتقال۔

ہندوستان میں اس اعتقاد کے لوگ عام ہیں۔ بقول البیرونی ’’جس طرح شہادت بہ کلمہ اخلاص مسلمانوں کے ایمان کا شعار ہے، تثلیث علامت نصرانیت ہے اور سبت منانا علامت یہودیت اسی طرح تناسخ ہندو مذہب کی نمایاں علامت ہے‘‘۔ موصوف مزید لکھتے ہیں: ’’عقیدہ تناسخ روح کے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کے معنی میں متعدد شیعی فرقوں میں بھی پایا جاتا ہے‘‘۔ موصوف آخر میں لکھتے ہیں: ’’تناسخ کا عقیدہ ہندومت اور مسلمانوں کے علاوہ بدھ مت، قدیم یونانیوں اور دنیا کے دیگر مذاہب و اقوام کے ہاں بھی پایا جاتاہے۔ اسلام کی صحیح تعلیمات اس عقیدے کی مخالف ہیں اور واضح طور پر اس کی تردید کرتی ہیں‘‘۔ (شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص۵۳۴)

برزخی قبر کی طرح تناسخ کا عقیدہ بھی ہندوؤں کے علاوہ متصوفین یا مسلمانوں کے بعض فرقوں شیعہ وغیرہ میں پایا جاتا ہے اور وہاں سے ڈاکٹر موصوف نے اس عقیدہ کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا
فاعتبروا یا اولی الابصار

۔

تناسخ  کا تعلق اسی دنیا میں ایک جسم چھوڑ کر دوسرے میں جانا ہے جب کہ احادیث میں یہ معاملہ عالم ارواح یا برزخ کا ہے لہذا  اس کا اس سے کیا تعلق. تناسخ دیگر ادیان میں اسی دنیا میں ہوتا ہے  دوئم ڈاکٹر عثمانی ١٤٠٠ سال میں پہلی شخصیت نہیں جو یہ کہہ رہی ہے ابن عقیل  او ابن جوزی کا بھی یہی نظریہ  ہے اوپر دے گئے حوالہ جات دیکھے جا سکتے ہیں.  ہماری طرح ، ابن جوزی بھی اسی دنیا میں تناسخ  ارواح کے سخت خلاف ہیں. اس کے لئے کتاب تلبیس ابلیس دیکھی جا سکتی ہے. لیکن جب ارواح کے لئے عالم البرزخ  میں نئے جسموں کی بات اتی ہے تو صيد الخاطر میں لکھتے ہیں

 وقوله: “فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ” دليل على أن النفوس لا تنال لذة إلا بواسطة، إن كانت تلك اللذة لذة مطعم أو مشرب، فأما لذات المعارف والعلوم، فيجوز أن تنالها بذاتها مع عدم الوسائط

اور قول کہ (شہداء کی ارواح) سبز پرندوں کے پیٹوں میں (ہیں) تو یہ دلیل ہے کہ بے شک ارواح لذّت نہیں لیتیں الا یہ کہ کوئی واسطہ ہو اگر یہ لذّت کھانے پینے کی ہو، لیکن اگر یہ معارف و معرفت کی لذتیں ہوں تو جائز ہے کہ یہ لذّتیں واسطے کے بغیر لی جائیں

نعمان الوسی المتوفی ١٢٧٠ ھ تفسیر روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني میں لکھتے ہیں

 وعندي أن الحياة في البرزخ ثابتة لكل من يموت من شهيد وغيره، وأن الأرواح- وإن كانت جواهر قائمة بأنفسها- مغايرة لما يحس به من البدن لكن لا مانع من تعلقها ببدن برزخي مغاير لهذا البدن الكثيف، وليس ذلك من التناسخ الذي ذهب إليه أهل الضلال

اور میرے نزدیک البرزخ میں زندگی ثابت ہے ہر ایک شہید کے لئے اور دوسروں کے لئے بھی اور اگرچہ روح ایک جوہر قائم ہے  جو اس محسوس دنیاوی بدن سے الگ ہے لیکن روح  کا ایک دوسرے برزخی بدن سے تعلق ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے جو بدن کثیف (مردہ لاش جو قبر میں ہے) سے الگ ہے اور یہ تناسخ نہیں جس کی طرف گمراہ لوگوں کا مذھب ہے 

ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) شرح العقيدة الطحاوية میں لکھتے ہیں

فَإِنَّهُمْ لَمَّا بَذَلُوا أَبْدَانَهَمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى أَتْلَفَهَا أَعْدَاؤُهُ فِيهِ، أَعَاضَهُمْ مِنْهَا فِي الْبَرْزَخِ أَبْدَانًا خَيْرًا مِنْهَا، تَكُونُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيَكُونُ تَنَعُّمُهَا بِوَاسِطَةِ تِلْكَ الْأَبْدَانِ، أَكْمَلَ مِنْ تَنَعُّمِ الْأَرْوَاحِ الْمُجَرَّدَةِ عَنْهَا

پس جب انہوں (شہداء) نے اپنے جسم الله کے لئے لگا دیے حتیٰ کہ ان کے دشمنوں نے ان پر زخم لگانے، ان کو البرزخ میں اس سے بہتر جسم دیے گئے جو قیامت تک ہونگے، اور وہ نعمتیں ان بدنوں سے حاصل کریں گے، جو مجرد ارواح سے حاصل کرنے سے زیادہ کامل شکل ہے

 اصل میں ارواح کے نئے اجسام  ابن تیمیہ اینڈ کمپنی کا نظریہ نہیں اسی وجہ سے دل کو نہیں بھا رہا کیونکہ  اب انہی کی کہی ہوئی باتوں کو صحیح ثابت کیا جاتا ہے . ابن جوزی المتوفی ٥٩٧ ھ ، ابن عقیل المتوفی ٥١٣ ھ    ابن تیمیہ سے پہلے گزرے ہیں

قابل غور ہے کہ ابن عقیل اور ابن جوزی حنبلی ہیں اور آج کل کے وہابی اور انکے خوشہ چین اہل حدیث برزخی جسم کے متقدمین کے عقیدے  کو چھپاتے  ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ گویا یہ چند سال پہلے گزرنے والے ڈاکٹر عثمانی کی ایجاد ہے . یہ پروپیگنڈا بھی کرتے ہیں کہ یہ قادیانی دجال کا عقیدہ  تھا لیکن اسی پنجاب میں عالم اسمعیل سلفی بھی گزرے ہیں ان کا عقیدہ بیان نہیں کرتے

مولانا ثناء الله امرتسری  فتاوی ثنائیہ صفحہ 292  میں جواب دیتے ہیں

ثناء جسم

روح جب اپنے مقام میں جاتی ہے تو اسکو اس کے لائق جسم مل جاتا ہے اس جسم کے ساتھ عذاب یا راحت بھوگتی ہے یہ کون کہہ رہا ہے ڈاکٹر عثمانی یا  مشھور اہل حدیث عالم

دامانوی صاحب ان اجسام کو قیاس کی بنیاد پر تمثیلی کہتے ہیں اور دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

تمثیلی جسم دامانوی

یہ کیسے پتا چلا کہ یہ اجسام تمثیلی تھے اس قیاس کی دلیل کیا ہے ؟

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

برزخی اجسام کا ثبوت؟ حدیث میں یہ وضاحت موجود ہو کہ قبض روح کے بعد ارواح کو برزخی اجسام میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ جس طرح کہ روح کے قبض ہونے کا ذکر واضح طور پر قرآن و حدیث میں موجود ہے، اسی طرح ارواح کے دوبارہ نئے برزخی اجسام میں ڈالے جانے کا ذکر بھی کسی حدیث سے واضح کیا جائے۔ اور اگر وہ ایسا ثبوت پیش نہ کر سکیں تو سمجھ لیں کہ وہ جھوٹے ہیں

اسی جسم کو بعض لوگ مثالی جسم بولتے ہیں مثلا مولانا ثناء الله فتوی میں کہتے ہیں

ثناء عالم مثال

اب یہ نہیں کہیے گا کہ مولانا ثناء الله امرتسری قادیانی تھے کیونکہ یہ سن ١٩٣٤ اور ١٩٣٢  میں جواب دے  گئے ہیں

 سن ١٩٧٢ میں اس فتوی کو احسنالہی ظہیر کی نگرانی میں شائع کیا گیا اس وقت تک ڈاکٹر عثمانی تحقیق کر رہے تھے اور ہماری طرف سے برزخی جسم کا عقیدہ پیش  نہیں کیا گیا تھا

غیر مقلدین کے شمارہ محدث سن ١٩٨٤ میں مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی مضمون میں عبد الرحمان کیلانی لکھتے ہیں

موت کے بعد شہداء اور عام انسانوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ شہداء کو جنت میں سبز پرندوں کا جسم عطا ہوتا ہے اور یہ جسم حقیقی اور مستقل ہوتا ہے 

ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں اوپر دے گئے تمام علماء پر بہ جنبش قلم کفر کا فتوی لگاتے ہیں

arshd-Baryakh

افسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ سے بغض نے ان کو کس مقام پر لا کھڑا کیا ہے

ہمارا مشورہ ہے کہ حضرت پہلے اپنی کتابیں تو ٹھیک طرح پڑھ لیں اس کے بعد مبارزت طلبی کیجئے گا

ابو جابر اپنے مضمون  دو زندگیاں اور دو موتیں میں لکھتے ہیں

موصوف کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد ہر انسان کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے جسے موصوف برزخی جسم قرار دیتے ہیں اور روح کو اس جسم میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس مکمل انسان کو قیامت تک راحت یا عذاب کے مراحل سے گزارا جاتا ہے ۔ عذاب کے نتیجے میں یہ جسم ریزہ ریزہ بھی ہوجاتا ہے اور پھر جب یہ جسم دوبارہ درست ہوجاتا ہے تو اس جسم میں دوبارہ روح کو ڈال دیاجاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ بار بار اعادۂ روح ہوتا رہتا ہے اور ثواب و عذاب کا یہ سلسلہ قیامت تک رہتا ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جسم چاہے نیا ہو یا پرانا ، برزخی ہو یا عنصری ، اگر روح اس میں ڈال دی جائے تو یہ ایک زندہ انسان ہوجائے گا اور مرنے والے کو ایک کامل و مکمل زندگی حاصل ہوجائے گی اور جب قیامت آئے گی تو پھر نیا جسم فوت ہوجائے گا اور پرانا جسم دوبارہ زندہ ہوجائے گا ۔ موصوف کی اس وضاحت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ موصوف میت (مردہ) کے عذاب کے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ کے عذاب کے قائل ہیں اور مرنے کے بعد ان کے بقول روح کو ایک نئے جسم کے ساتھ زندگی دی جاتی ہے ۔

قارئیں اپ نے دیکھا کہ کس طرح تلبیس کی گئی موصوف لکھتے ہیں جسم چاہے نیا ہو یا پرانا برزخی ہو یا عنصری اگر اس میں روح آئے تو ایک زندہ انسان ہے یہ سراسر دھوکہ و فریب ہے اور حق میں تلبیس ہے مولانا ثنا اللہ امرتسری کہہ رہے ہیں روح کو نیا جسم ملتا ہے  اسمعیل سلفی کہہ رہے ہیں روح کو نیا جسم ملتا ہے نعمان الوسی کہہ رہے ہیں نیا جسم ملتا ہے یہی ڈاکٹر عثمانی کہہ رہے ہیں اور یہ نیا جسم جسد عنصری نہیں جو گل سڑ جاتا ہے لہذا دو زندگی اور دو موتوں والا جسم الگ ہے اور برزخی جسم الگ ایک عالم ارواح میں ہے اور ایک عالم ارضی میں

ڈاکٹر عثمانی تو صاف لکھ رہے ہیں

ثابت ہوا کہ ان کو کوئی دوسرا قیامت تک باقی رہنے والا عذاب برداشت کرنے والا جسم دیا گیا ہے ۔ جسدِ عنصری وہ بہرحال نہیں ہے

ابو جابر اسی مضمون میں دوسرا اعتراض  لکھتے ہیں

 پھر حیرت اس بات پر ہے کہ جرائم جسم عنصری کرے اور عذاب نئے برزخی جسم کو دیا جائے !!! یہ کیا بوالعجبی ہے اور کیا جہالت ہے ؟؟

یہ بھی غلط اعتراض ہے  مسلم کی حدیث میں اتا ہے کہ روز محشر انسان کا جسم مختلف ہو گا

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ آپ کے قد کی لمبائی  ساٹھ ہاتھ تھی۔ آدم کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا، اس (فرشتوں کی) جماعت کو سلام کرو‘ اور سنو کیا جواب ملتا ہے ۔ جو جواب ملے وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا جواب ہوگا۔ وہاں فرشتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔آدم علیہ السلام اس جماعت کے پاس گئے اور انھیں مخاطب کر کے ” السلام علیکم “کہا ۔ فرشتوں نے جواب میں ”السلام علیک و رحمتہ اللہ“کہا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انھوں نے ”ورحمة اللہ “ کا اضافہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید کہا کہ جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی شکل پر ہوگا اور اس کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا لیکن آدم علیہ السلام کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی

ہمارا یا اپ کا قد ساٹھ ہاتھ نہیں لیکن اس دنیا کے نیک لوگ جنت میں ساٹھ ہاتھ قد کے ساتھ داخل ہونگے

اب کافر کا جہنمی جسم دیکھئے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی ( یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے)۔

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔

ان احادیث سے پتا چلا کہ جنتی اور جہنمیوں کے اجسام اس دنیا جیسے نہیں بلکہ بہت بڑے ہونگے

دوسری طرف یہ جہنمی اجسام مسلسل تبدیل ہونگے اور ان پر نئی کھال آئے گی

قرآن ہی میں ہے کہ جہنمیوں کو آگ کا عذاب ہو گا اور جب ان کی کھالیں جلیں گی تو نئی کھالیں آ جائیں گی – اس طرح تو ان نئی کھالوں نے کون سے گناہ کے جو ان کو جلایا جائے گا – جس طرح یہ نئی کھالیں عذاب چکھانے میں استعمال ہونگی اسی طرح برزخی جسم بھی البرزخ میں عذاب کے لئے استعمال ہو رہے ہیں

لہذا ابو جابر دامانوی کا یہ اعتراض کہ گناہ کسی جسم نے کیے اور عذاب دوسرے جسم کو ہو غلط ہے بالکل احمقانہ اور خلاف قرآن و حدیث ہے ان کو چاہیے حدیث جیسی آئی ہیں ویسی ہی مانیں نہ کہ ان پر نا عقلی والے اعتراضات کریں

ابو جابر دامانوی اسی مضمون میں لکھتے ہیں

اور قبر میں سوال و جوا ب کے وقت اعادۂ روح بھی ہوتا ہے (ابوداود : ۴۷۵۳، مسند احمد: ۱۸۵۳۴، وھو حدیث صحیح ) کیونکہ یہ انتہائی اہم سوالات ہوتے ہیں کہ جن پر میت کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے ، اس لئے اس اہم موقع پر روح کو بھی حاضر  کیاجا تا ہے لیکن روح کے اعادہ کے باوجود مرنے والا میت ہی ہوتا ہے ، اس لئے کہ دو زندگیاں یعنی دنیاوی زندگی اس کی ختم ہوچکی ہے او ر قیامت کے دن کی زندگی ابھی شروع نہیں ہوئی اور انسان اس وقت حالتِ موت میں ہوتا ہے یعنی میت ہوتاہے

یہ بھی دجل ہے کیونکہ سلف میں ابن تیمیہ ابن قیم ابن حجر عسقلانی سب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روح جسد میں اتی جاتی رہتی ہے بلکہ ابن قیم کے بقول پرندے کی طرح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے کتاب الروح میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی مردہ کو سلام کرے تو

وَلها اتِّصَال بِالْبدنِ بِحَيْثُ إِذا سلم الْمُسلم على الْمَيِّت رد الله عَلَيْهِ روحه فَيرد عَلَيْهِ السَّلَام

اور اس (روح) کا بدن سے اتصال بے اس طور سے کہ جب کوئی مسلم میت کو سلام کرے تو الله تعالی اس روح کو واپس (جسد میں) پلٹاتا ہے تاکہ سلام کا جواب دے

دامانوی صاحب اس عقیدے کو چھپاتے ہیں.  ان کے محبوب سلف کا عقیدہ ان کے موجودہ عقیدے سے الگ تھا

روح کا میت میں آنا استثنائی نہیں جو صرف ایک دفعہ ہو

باقی رہا کہ روح کو اہم سوالوں کی وجہ سے حاضر کیا جاتا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں عود روح کی روایت میں جسد سے روح نکالنے کی کوئی بات  نہیں یہی وجہ ہے کہ

ابن عبد البر  التمھید ج ١٤ ص ١٠٩ میں کہتے ہیں کہ البراء بن عازب کی روایت سے

وَقَدِ اسْتَدَلَّ بِهِ مَنْ ذَهَبَ إِلَى أَنَّ الْأَرْوَاحَ عَلَى أَفْنِيَةِ الْقُبُورِ

اور بے شک اس (زاذان والی روایت ) سے انہوں نے استدلال کیا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ ارواح قبروں کے میدانوں  (یعنی قبرستان) میں ہیں

ابن عبد البر  الاستذکار ج ٣ ص ٨٩ میں کہتے ہیں کہ

أَنَّهَا قَدْ تَكُونُ عَلَى أَفَنِيَّةِ قُبُورِهَا لَا عَلَى أَنَّهَا لَا تَرِيمُ وَلَا تُفَارِقُ أَفَنِيَّةَ الْقُبُورِ

بے شک ارواح قبرستانوں میں ہیں  اور یہ ان کو نہیں چھوڑتیں

تقسیم ہند سے پہلے اہل حدیث کا مذھب تھا کہ عود روح مسلسل ہوتا ہے ان کے نزدیک زاذان کی روایت میں ہے

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے  مطابق پہلا گرز مارنے پر جسم مٹی ہو جاتا ہے جس کو پھر بنایا جاتا ہے مبارکبوری لکھتے ہیں

فَيَصِيرُ تُرَابًا، ثُمَّ يُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ كَرَّرَ إِعَادَةَ الرُّوحِ فِي الْكَافِرِ بَيَانًا لِشِدَّةِ الْعَذَابِ

جسد مٹی ھو جاتا ہے پھر اعادہ روح ہوتا ہے تاکہ کافر پر عذاب کی شدت ھو

 اہل حدیث کے شیخ الکل قرع نعآل پر لکھتے ہیں

nazeer-murda-murda-nahi

لہذا یہ عقیدہ کہ عود روح کے بعد بھی مردہ مردہ ہوتا ہے اہل حدیث علماء کا نہیں  تھا بلکہ نو ایجاد ہے

موصوف کو چاہیے کہ ڈاکٹر عثمانی پر تنقید کی بجائے پہلے اپنے سلف کا عقیدہ تو عوام پر واضح کریں جن کے دفاع میں خم ٹھوک کر باہر نکلے ہیں

ہمارے نزدیک قرآن و صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عود روح نہیں ہوتا اور مردہ مردہ ہوتا ہے اس کا جسم گل سڑ جاتا ہے اصل عذاب روح کو دوسرے عالم میں ہوتا ہے اسی کو عذاب قبر کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن میں ال فرعون کے لئے آیا ہے

 

[/EXPAND]

[برزخ والے جسم سے روح نکال کر جب عجب الذنب میں ڈالی جائے گی تو برزخی جسم کا کیا ہو گا]

جواب

برزخی جسم کا مقصد ختم ہو جائے گا تو ممکن ہے ان کو معدوم کر دیا جائے اس کا کیا ہو گا کسی حدیث میں نہیں ہے لیکن اس کا موجود ہونا احادیث میں ہے
مسند احمد کی روایت ہے جس کو شعیب صحیح کہتے ہیں
وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، فَجَعَلْتُ أَنْفُخُ خَشْيَةَ أَنْ يَغْشَاكُمْ (2) حَرُّهَا، وَرَأَيْتُ فِيهَا سَارِقَ بَدَنَتَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَخَا بَنِي دَعْدَعٍ، سَارِقَ (3) الْحَجِيجِ، فَإِذَا فُطِنَ لَهُ قَالَ: هَذَا عَمَلُ الْمِحْجَنِ، وَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً طَوِيلَةً سَوْدَاءَ حِمْيَرِيَّةً، تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا (4) وَلَمْ تَسْقِهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، حَتَّى مَاتَتْ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر جہنم کو پیش کیا گیا … اس میں میں بَنِي دَعْدَعٍ کے بھائی کو دیکھا حاجیوں کا سامان چوری کرنے والا .. اور ایک لمبی عورت کو دیکھا جس نے بلی کو باندھ رکھا یہاں تک مر گئی
صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ یہ چوری کرنے والا کہتا ہے
وَيَقُولُ: إِنِّي لَا أَسْرِقُ، إِنَّمَا يَسْرِقُ الْمِحْجَنُ، فَرَأَيْتُهُ فِي النَّارِ مُتَّكِئًا عَلَى مِحْجَنِهِ”.
میں نے چوری نہیں کی … لیکن یہ اس لاٹھی سے ٹیک لگائے ہوئے ہے جس سے یہ چوری کرتا تھا

یہ شخص لاٹھی سامان میں اٹکا کر چوری کرتا تھا لہذا اسی لاٹھی سے جہنم میں اب بھی ٹیک لگائے ہوئے ہے

ظاہر ہے یہ جسم کی علامت ہے کہ اس کو لاٹھی پر روکا ہوا ہے

اسی طرح بلی ہے جو عورت پر جھنپٹی ہے اس کو نوچتی ہے
فَهيَ إذَا أقْبَلَتْ تَنْهَشُهَا، وَإذَا أدْبَرَتْ تَنْهَشُهَا
صحیح ابن حبان
یہ بھی برزخی جسم کی خبر ہے

اب یہ سوچنے کا مقام ہے بلی بے چاری مری تو مری جہنم میں بھی چلی گئی
مولوی کہتے ہیں برزخی جسم نہیں ہو سکتا ورنہ کرے کوئی بھرے کوئی ہو جائے گا
تو بھلا بتاو یہ بلی جہنم میں کیوں ہے ؟

http://jamiatsindh.org/ur/1514/ek-hadees-ki-tashreeh-azab-e-qabr/

[/EXPAND]

[حدیث میں اتا ہے کہ ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کو جلا دیا جائے لیکن الله نے اس کو زندہ کر دیا کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ہر شخص کو اس کی قبر میں زندہ کر دیا جاتا ہے؟]

دامانوی صاحب  خاکستر شدہ انسان کا معاملہ کے تحت لکھتے ہیں

 جناب ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص نے گناہوں کی وجہ سے اپنے نفس پر بڑی زیادتی کی تھی جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا۔

اِذَا اَنَا مِتُّ فَاحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اَطْحَنُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّوْنِیْ فِی الرِّیْحِ فَوَاﷲِ لَئِنْ قَدَرَ اﷲُ عَلَیَّ لَیُعَذِّبُنِیْ عَذَابًا مَّا عَذَّبَہٗ اَحَدًا۔

یعنی جب میں مر جائوں تو تم مجھے جلا کر میری راکھ کو پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ واللہ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر تنگی کی تو مجھے وہ ایسی سزا دے گا جو اور کسی کو اس نے نہیں دی۔ جب اس کی وفات ہوئی تو اس کے ساتھ یہی کاروائی کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس کے تمام ذرات کو جمع کر دے سو اس نے ایسا ہی کیا۔جب وہ جمع کر دیا گیا تو وہ آدمی تھا جو کھڑا کر دیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو نے یہ سب کاروائی کیوں کی؟ اس نے جواب دیا اے میرے رب تیرے ڈر کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔

(رواہ البخاری جلد ۱ ص۴۹۵ واللفظہ لہ ‘ مسلم ج۲ ص۳۵۶)

ایک روایت میں آتا ہے کہ اس نے کہا کہ میری راکھ کا آدھا حصہ خشکی میں اور آدھا دریا میں بکھیر دینا۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

(بخاری جلد ۲ ص۱۱۱۷‘مسلم جلد ۲ ص۳۵۶)

 اس حدیث سے ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ راکھ شدہ انسان کو دوبارہ بدن عنصری عطا فرماتا ہے اور پھر اس پر انعام یا عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہی معاملہ اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جسے مچھلی یا جانوروں نے کھا کر فضلہ بنا دیا ہو اس شخص کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد عذاب (قبر) اس کی میت (جسد عنصری) کو دیا جائے گا لہذا اگر اس کا جسم راکھ میں تبدیل ہو گیا اور ہوا اور پانی نے اس کے ذرات کو منتشر کر دیا تو شاید وہ عذاب سے بچ جائے گا مگر اس کا یہ خیال (کہ جسم کے راکھ میں تبدیل ہو کر منتشر ہو جانے پر وہ عذابِ قبر سے بچ جائے گا) غلط نکلا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام راکھ کو اکٹھا کر کے اسے دوبارہ انسان بنا دیا۔

 اس سے ثابت ہوا کہ جسم کے ساتھ دنیا میں کچھ ہو جائے مگرمرنے کے بعد اس کے جسم کو دوبارہ تخلیق کر کے اسے ثواب و عذاب سے دوچار کیا جاتا ہے البتہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے ہماری عقلیں اسے سمجھنے سے قاصر ہیں ہم تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں پر ایمان لاتے ہیں۔

 جواب

یہ بات  انتہائی سطحی ہے – اول ال فرعون کو جہنم میں عذاب دیا جا رہا ہے یہ قرآن سے ثابت ہے جو ارواح پر ہے –  پورا ال فرعون کا لشکر ڈوبا لیکن بچایا صرف فرعون کے جسد کو کیونکہ وہ ایک نشانی ہے – الله تعالی چاہتا تو اس شخص کی روح سے ہی کلام کر لیتا اس میں کیا قباحت ہے ؟ کیا معراج میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی انبیاء سے ملاقات نہیں ہوئی انہوں نے کلام بھی کیا – لہذا ارواح تو واپس عالم البرزخ میں جاتی  ہیں-

موصوف لکھتے ہیں

 یہ کوئی مخصوص واقعہ نہیں کہ اسے صرف اس شخص کے ساتھ خاص مانا جائے کیونکہ اس واقعہ کے خاص ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں اور نہ ہی ہم اسے اس شخص کی کرامت تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ وہ نیک انسان بھی نہیں تھا۔

خاص اور عموم کے لئے روایت میں لکھا نہیں ہوتا کہ یہ خاص واقعہ ہے اور  یہ عموم ہے یہ قرائن سے اندازہ لگایا جاتا

ہے

یہ مخصوص واقعہ ہی ہے الله کو تو ہر چیز کا علم ہے لیکن یہ اس کی رحمت ہے کہ مخلوق سے موت کے بعد کلام کرتا ہے ایک دوسری حدیث میں بھی ایک موحد کا ذکر ہے جس کی موت کے وقت عذاب اور راحت والے فرشتوں میں تکرار ہوتی ہے اور زمین کی پیمائش کرنے کا حکم دیا جاتا ہے – یہ گناہ کبیرہ کے مرتکب موحدین پر الله کی خاص رحمت کا ذکر ہے

کتاب  مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين میں ہے کہ ابن  العثيمين اس روایت پر کہتے ہیں

فهذا رجل شك في قدرة الله وفي إعادته إذا ذرى، بل اعتقد أنه لا يعاد وهذا كفر باتفاق المسلمين، لكن كان جاهلا لا يعلم ذلك، وكان مؤمنا يخاف الله أن يعاقبه فغفر له بذلك.

والمتأول من أهل الاجتهاد الحريص على متابعة الرسول، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أولى بالمغفرة من مثل هذا. ا. هـ.

وبهذا علم الفرق بين القول والقائل، وبين الفعل والفاعل، فليس كل قول أو فعل يكون فسقا أو كفرا يحكم على قائله أو فاعله بذلك، قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله ص165ج ـ35 من مجموع الفتاوى:وأصل ذلك أن المقالة التي هي كفر بالكتاب والسنة والإجماع

 پس اس شخص نے الله کی قدرت پر شک کیا اور… بلکہ اعتقاد کیا کہ اس کا معاد نہ ہو گا اور یہ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ کفر ہے لیکن یہ جاہل تھا اور اس کو اس کا پتا نہ تھا اور مومن تھا اللہ سے ڈرتا تھا  کہ اس کو پکڑ نہ لے پس اس پر اس کی مغفرت ہوئی … ابن تیمیہ  کہتے ہیں  ص165ج 35 من مجموع الفتاوى  یہ اس کا کہنا کتاب الله اور سنت اور اجماع کے مطابق کفر ہے

آپ کی اپنی ممدوح شخصیات اس کو ایک مخصوص واقعہ کہہ رہی ہیں کہ ایک  کفریہ عقیدہ رکھنے والے کو اللہ نے بخش دیا – کیا یہ عموم ہے ؟ آپ کی بات اگر درست مانی جائے تو اس طرح تو  سارے معاد کے انکاریوں کی بخشش ماننا پڑے گی-  لہذا یہ ایک مخصوص واقعہ ہی ہے اس سے زیادہ نہیں-

اب چونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ خصوص ہے تو دلیل نہیں بن سکتا اور اس سے یہ ثابت تو کہیں بھی نہیں ہوتا کہ تمام مرنے والوں کو واپس جسد عنصری  مرتے ہی دے دیا جاتا ہے

[/EXPAND]

[عمرو بن العاص کی وصیت  کو وہابی عالم  ابن العثيمين  نے بدعت کہا ہے ایسا کیوں؟]

جواب

ابن شماسہ المہری بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب عمرو بن العاص کے پاس اس وقت گئے جب کہ ان کی وفات کا وقت قریب تھا انہوں نے کہا……اور جب مجھے دفن کرنا تو اچھی طرح مٹی ڈال دینا پھر میری قبر کے چاروں طرف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے تا کہ میں تم سے انس حاصل کر سکوں اور دیکھوں کہ اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( صحیح مسلم جلد ۱ص۷۶ مسند احمد جلد ۴ ص۱۹۹)

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے اس روایت پر کتاب عذاب البرزخ میں لکھا تھا

 مسلم کی اس حدیث سے جس میں یہ ہے کہ عمرو بن العاص رضی الله عنہ پر جب سکرات موت کا عالم طاری تھا۔’’وَھُوَ فِیْ سِیَاقِ الْمُوْتِ‘‘ تو انہوں نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمرو رضی الله عنہ کو وصیت کی کہ مجھ پر مٹی دالنے اور دفنانے کے بعد کچھ دیر میری قبر کے پاس ٹھہرے رہنا تا کہ میں تمہاری موجودگی کی وجہ سے مانوس رہوں اور مجھے معلوم رہے کہ اپنے رب کے رسول (فرشتوں ) کو کیا جواب دوں۔الفاظ یہ ہیں۔’’ثُمَّ اَقِیْمُوْ احَوْلَ قَبْرِیْ قَدْرَ مَا یُنْحَرُ جُزُوْرٌ وَّیُقْسَمُ لَحْمُھَا حَتّٰی اَسْتَاْنِسَ بِکُمْ اَعْلَمُ مَاذَا اُرَاجِعُ بِہٖ رُسُلَ رَبِّیْ‘‘۔یہ سکرات الموت کے وقت کی بات ہے جیسا کہ اس حدیث کے الفاظ ہیں۔’’ وھوفی سیاق الموت‘‘ ایسے وقت کی بات جب آدمی اپنے آپے میں نہ ہو قرآن و حدیث کے نصوص کو کیسے جھٹلا سکتی ہے.. اور اس کے راوی ابو عاصم (النبیل ‘ضحاک بن مخلد) کو عقیلی اپنی کتاب الضغفاء میں لائے ہیں اور ثبوت میں یحیٰی بن سعید القطان کا قول پیش کیا ہے۔(الضعفاء للعقیلی ص۱۷۱ )میزان الاعتدال الجز الثانی ص۳۲۵۔ ۔

ڈاکٹرابوجابرعبداللہ دامانوی صاحب  اپنی تألیف  عذاب قبر میں عمرو بن العاص کی سیاق الموت والی روایت کے راوی  الضحاك بن مخلد کے لئے لکھتے ہیں

موصوف نے اپنے رسالہ حبل اللہ میں ابو عاصم النبیل کے متعلق ایک نئی تحقیق پیش کی اور میزان الاعتدال سے نقل کیا۔احد الاثبات تنا کر العضلی وذکر فی کتابہ … ابو عاصم اثبات ہی سے ایک ہے کہ عقیلی نے اسے منکر بتایا ہے اور اس کا ذکرکیا ہے اپنی کتاب (الضعفائ) میں…(حبل اللہ ص۱۰۹خاص نمبر مجلہ نمبر ۳) احد الاثبات یعنی ثبت راویوں میں سے ایک ہی اور ثبت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعلی درجہ ثقہ راوی ہیں۔ تنا کر العقیلی کا ترجمہ موصوف نے کیا کہ عقیلی نے اسے منکر بتایا ہے ۔یہ ان کی جہالت ہے اور اصول حدیث سے نا واقفی کی دلیل ہے۔ تناکرکا مطلب لم یعرف یعنی علامہ ذھبی رحمتہ اللہ علیہ بتارہے ہیں کہا ابو عاصم النبیل تو اعلی درجہ کے ثقہ ہیں لیکن امام عقیلی رحمتہ اللہ علیہ ‘انہیں نہیں پہچان سکے اور غلطی سے ان کا ذکر اپنی کتاب الضعفاء میں کر دیا ہے

اس سے قطع نظر کہ  الضحاك بن مخلد ثقہ ہے یا مجروح ہم موصوف پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ الذھبی کا تناكر العقيلي کہنے کا مقصد وہ نہیں جو دامانوی صاحب نے سمجھا ہے

الذھبی اپنی کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال ج ٢ ص٣٢٥ پر الضحاك بن مخلد کے لئے لکھتے ہیں

الضحاك بن مخلد ، أبو عاصم النبيل، أحد الاثبات تناكر العقيلي، وذكره في كتابه، ….

الضحاك بن مخلد ، أبو عاصم النبيل، اثبات میں سے ایک ہیں عقیلی نے انکار کیا اور انکا ذکر اپنی کتاب میں کیا

الذھبی کہنا چاہتے ہیں کہ الضحاك بن مخلد ثقہ ہیں لیکن عقیلی نے اسکا انکار کیا ہے

کچھ یہی انداز الذھبی نے  اپنی کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال ج ١ ص١٧٢ میں  أزهر بن سعد السمان کے ترجمے  میں اختیار کیا ہے وہاں راوی کے لئے لکھتے ہیں

ثقة مشهور.

 ثقه مشھور ہیں …

تناكر العقيلي بإيراده في كتاب الضعفاء

عقیلی نے (ثقاہت کا) انکار کیا ہے اپنی کتاب الضعفاء میں انکو شامل کر کے

دامانوی صاحب کے حساب سے ترجمہ ہونا چاہیے : عقیلی پہچان نہ سکے اپنی کتاب الضعفاء میں انکو شامل کر کے، بالکل لا یعنی جملہ ھو جاتا ہے. کتاب میں شامل کرنے کی وجہ سے پہچان نہ سکے آوٹ پٹانگ مفھوم بنتا ہے

اگر عقیلی پہچان نہ پاتے تو اس راوی کے ترجمے میں کسی اور راوی کا ذکر کرتے لیکن ایسا نہیں ہے جو باتیں عقیلی نے ان کے بارے میں لکھی ہیں وہی اور لوگوں نے بھی لکھی ہیں

لہذا درست بات یہی ہے کہ عقیلی نے انکی ثقاہت کا انکار کیا ہے جس کی طرف ڈاکٹر عثمانی نے اشارہ کیا تھا.

مزید براں تناکر کا لفظ امام شافعی نے بھی استعمال کیا ہے

معرفة السنن والآثار میں البیہقی نے امام الشافعی کا قول نقل کیا ہے کہ

وَلَا فِي الطَّلَاقِ، وَلَا الرَّجْعَةِ إِذَا تَنَاكَرَ الزَّوْجَانِ. میاں بیوی میں پہچانے کا مسئلہ تو ھو گا نہیں یہاں بھی تناکر کا مطلب پہچانا نہیں

بخاری کی حدیث میں آتا ہے

الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ

ارواح مجتمع لشکروں کی صورت میں رہتی ہیں پس جس سے التفات کرتی ہیں ان کو جانتی ہیں اور جس اختلاف کرتی ہیں اس سے متنفر ہوتی ہیں

اس کی شرح لکھنے والے مصطفى ديب البغا أستاذ الحديث وعلومه في كلية الشريعة – جامعة دمشق لکھتے ہیں

(تناكر) تنافرت في طبائعه

(تناكر) طبعا متنفر ہونا

تناکر کا مطلب یہاں بھی پہچنانا نہیں

عربی لغت معجم اللغة العربية المعاصرة میں تناکر  کا مفھوم لکھا ہے

  تناكر الزُّملاءُ: تعادَوا وتجاهل بعضُهم بعضًا

تناکر رفقائے کار:  ایک دوسرے سے دشمنی رکھنا اور ایک دوسرے کو نظر اندز کرنا

 اسی مفہوم پر تناکر علقیلی ہے کہ عقیلی نے ثقاہت کی بات کو نظر اندز کیا ہے

ثقہ ، غلطی نہیں کرتا؟

دامانوی صاحب کا ایک خود ساختہ اصول ہے کہ ثقه غلطی نہیں کرتا

حسين بن ذكوان العوذي البصري  کے لئے الذھبی سيرالاعلام میں لکھتے ہیں : وقد ذكره العقيلي في كتاب الضعفاء له بلا مستند وقال : مضطرب الحديث … قلت ( الذهبي ) : فكان ماذا؟ فليس من شرط الثقة أن لا يغلط أبدا

 عقیلی نے انکو الضعفاء میں بلاوجہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے : مضطرب الحديث میں (الذھبی) کہتا ہوں یہ کیا ہے؟ ثقہ

ہونے کی یہ شرط کہاں ہے کہ وہ کبھی غلط نہیں ھو سکتا …..

دامانوی صاحب کو تو الذھبی کی یہ بات سن کر چراغ پا ہونا چاہیے کہ یہ کیسے ھو سکتا ہے کہ راوی ثقہ ھو اور غلطی کرے. دامانوی کے خود ساختہ جرح و تعدیل کے اصول (کہ ثقہ ہر عیب  سے پاک ہے)  سے امام الذھبی نا واقف ہیں

 إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں الضحاك بن مخلد کے لئے لکھا ہے

وقال أبو زيد الأنصاري: كان أبو عاصم في حداثته ضعيف العقل

اور ابو زید انصاری کہتے ہیں ابو عاصم اپنی روایتوں میں ضعيف العقل ہیں

 یحییٰ بن سعید القطان بھی ان سے نا خوش تھے

دامانوی صاحب لکھتے ہیں

اگر عمرو بن العاصؓ نے سکرات موت میں غلط وصیت کی تھی تو ان کے صاحبزادے جناب عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ (جو خود ایک جلیل القدر اور عابد و زاہد صحابی ؓ ہیں ) کو ضرور اس غلط بات کی تردید کرنا چاہئے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا معلوم ہوا کہ ان کی وصیت کا ایک ایک لفظ بالکل صحیح اور درست تھا۔ اور یہ مشہور و معروف اصول ہے کہ ’’خاموشی رضامندی کی علامت ہوتی ہے‘‘ اور حدیث کی قسموں میں سے تقریری حدیث کا بھی یہی اصول ہے جبکہ موصوف کی جہالت ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کہتے ہیں ہاں اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ ان کے بیٹے اور دوسرے حضرات نے اس وصیت پر عمل بھی کیا۔ موصوف اس مشہور و معروف اصول سے ناواقف ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔

قاری خلیل الرحمان جاوید اپنی کتاب پہلا زینہ میں لکھتے ہیں

pehzee-190

یہ بات کس حدیث میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے یہ خلیل صاحب پر قرض ہے اور اس کا سوال روز محشر ان سے ہونا چاہیے

عصر حاضر کے ایک مشھور و معروف  وہابی عالم شیخ   محمد بن صالح العثيمين اپنے فتوی میں کہتے ہیں جو  مجموعة أسئلة تهم الأسرة المسلمة  ج ٢١٩ ص ٣٥ میں چھپا ہے کہ

هذا أوصى به عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه ـ فقال: «أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها»، لكن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرشد إليه الأمة، ولم يفعله الصحابة ـ رضي الله عنهم ـ فيما نعلم

 یہ عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه نے وصیت کی پس کہا میری قبر کے اطراف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے .. لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہ ہی اسکی نصیحت امت کو کی، نہ صحابہ رضی الله تعالی عنہم نے ایسا کیا  جیسا ہمیں پتا ہے

دامانوی صاحب نے لکھا تھا کہ

موصوف کی عادت ہے کہ وہ اپنے نظریات ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث کا سہارا لیتے ہیں اور قرآن و حدیث سے اپنا مطلب کشید کرتے ہیں حالانکہ یہ طرز استدلال باطل پرستوں کا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وَلَقَدْ قَالَ وَکِیْعٌ مَنْ طَلَبَ الْحَدِیْثَ کَمَا جَآئَ فَھُوَ صَاحِبُ سُنَّۃٍ وَمَنْ طَلَبَ الْحَدِیْثَ لِیُقَوِّیَ ھَوَاہُ فَھُوَ صَاحِبُ بِدْعَۃٍ امام وکیع فرماتے ہیں جو شخص حدیث کا مفہوم ایسا ہی لے جیسی کہ وہ ہے تو وہ اہل سنت میں سے ہے اور جو شخص اپنی خواہش نفسانی کی تقویت کے لئے حدیث کو طلب کرے (اور اپنی رائے کے مطابق اس حدیث کا مفہوم بیان کرے) تو وہ بدعتی ہے۔ (جز رفع الیدین لامام البخاری مع جلاء العینین للشیخ السید ابی محمد بدیع الدین الراشدی السندی (ص ۱۲۰)

   اب بتائے کون قرآن و حدیث سے غلط مطلب کشید کر رہا ہے؟ ان کے سلفی مسلک وہابی عالم محمد بن صالح العثيمين بھی وہی بات کہہ رہے ہیں جو ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله تعالی علیہ کہہ چکے ہیں

عبد الرحمان کیلانی کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں ص ١٣٩ اور ١٤٠ پر لکھتے ہیں

kelani-139

خواجہ محمّد قاسم کتاب تعویذ اور دم کتاب و سنت کی روشنی میں  عبدللہ بن عمرو رضی الله تعالی عنہ کے لئےلکھتے ہیں

qasim-10

خواجہ صاحب اپنی دوسری کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں کہتے ہیں

qaasim-umro2

خواجہ صاحب کا اس روایت پر عقیدہ نہیں تھا لیکن بعض اہل حدیث کو صحیح عقیدہ کہتے ہیں اس دو رنگی نے  عوام کو تو چھوڑئیے خود اہل حدیث علماء کے عقیدہ کو مضطرب کر دیا ہے

ایک نام نہاد اہل حدیث ارشد کمال کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

جب دفنانے والے کھڑے ہوں اس وقت میت نہیں سنتی

امت پر ظلم کی انتہاء ہے کہ بدعقیدگی کو پھیلایا جا رہا ہے لیکن کسی کی بھوں پر جو نہیں رینگ رہی کتنا کتمان حق ہے

مرض کی شدت میں عقل کا زوال ممکن ہے جو بشریت کا تقاضہ ہے

بخاری  باب صب النبي صلى الله عليه وسلم وضوءه على المغمى عليه کی روایت ہے

حدثنا أبو الوليد، قال: حدثنا شعبة، عن محمد بن المنكدر، قال: سمعت جابرا يقول جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، وأنا مريض لا أعقل

 محمد بن المنكدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی الله تعالی عنہ کو سنا  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم میری  عیادت کے لئے آئے اور میں مریض تھا عقل کے بغیر

جابر رضی الله تعالی عنہ خود کہہ رہے ہیں کہ وہ کوئی بات سمجھ نہیں سکتے تھے

 ڈاکٹر عثمانی کی جابر رضی الله تعالی عنہ یا عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کے سامنے کیا حثیت ہے  انسان کمزور پیدا کیا گیا  ہے لہذا یہ کہنا کہ شدت مرض میں مریض ایسی بات کہتا ہے جو صحیح نہیں ہوتی اس میں مقصد ان صحابی کی تنقیص نہیں بلکہ بشریت ہے

اس وصیت کے حوالے سے یہ حدیث پیش کی جاتی ہے

فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن العبد ليعمل، فيما يرى الناس، عمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار، ويعمل فيما يرى الناس، عمل أهل النار وهو من أهل الجنة، وإنما الأعمال بخواتيمها

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے

اس کے علاوہ قرآن میں ہے

فلا تموتن إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

  تمہیں موت نہ آئے مگر تم مسلم ہو 

اگر عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کی موت ان الفاظ پر ہوئی تو گویا بدعت پر ہوئی  تو یہ خلاف قرآن ہو جاتا ہے .حالانکہ یہ آعتراض سطحی   ہے

حدیث میں الفاظ اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے اتے ہیں  اس خاتمہ کی شرح نبی صلی الله علیہ وسلم نے خود کی ہے

   بخاری کی حدیث میں اتا ہے کہ

عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أحب لقاء الله أحب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه. فقلت: يا نبي الله أكراهية الموت؟ فكلنا نكره الموت. فقال: ليس كذلك، ولكن المؤمن إذا بشر برحمة الله ورضوانه وجنته أحب لقاء الله فأحب الله لقاءه، وإن الكافر إذا بشر بعذاب الله وسخطه كره لقاء الله وكره الله لقاءه.

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو الله سے ملاقات کو پسند کرتا ہے الله بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو الله سے ملنے سے کراہت کرتا ہے الله بھی اس سے ملاقات سے کراہت کرتا ہے پس عائشہ رضی الله تعالی  عنہا نے پوچھا اے رسول الله موت سے کراہت ہم سب موت سے کراہت کرتے ہیں پس کہا ایسا نہیں ہے لیکن جب مومن کو الله کی رحمت اس کی خوشنودی اور جنت  کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ الله سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور اللہ بھی اس کو پسند کرتا ہے اور بے شک کافر کو جب  الله کی ناراضگی اور عذاب کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ الله سے ملاقات پر کراہت کرتا ہے اور الله بھی کراہت کرتا ہے

   جن کے ایمان کی گواہی قرآن دیتا ہے ان کے بارے میں ہمارا ایمان  ہے کہ وہ جنتی ہیں . جہاں تک  حدیث النبی اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے کا تعلق ہے تو وہ تو ہم جیسوں کے لئے ہے نہ کہ صحابہ رضوان الله علیھم کے لئے

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کا اجتہاد تھا کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

عن عثمان بن عفان قال:‏‏‏‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم ” إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال:‏‏‏‏ استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال ” .
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح (تحفة الأشراف: ۸۹۴۰

یہ روایت صحیح نہیں منکر ہے سنن ابو داود میں اسکی سند ہے

حدَّثنا إبراهيمُ بن موسى الرازيُّ، حدَّثنا هشامٌ -يعني: ابن يوسف-، عن عبدِ الله بن بَحِير، عن هانىء مولى عثمانَ
عن عثمان بن عفان،

عثمان رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے اس راوی عبد الله بن بحیر  أبو وائل القاص  اليمانى الصنعانى کے لئے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

وقال ابن حبان: يروى العجائب التي كأنها معمولة، لا يحتج به

اور ابن حبان کہتے ہیں یہ عجائب روایت کرتا ہے  جو ان کا معمول تھا ، اس سے احتجاج نہ کیا جائے

الذھبی تاریخ الاسلام میں کہتے ہیں

فِيهِ ضَعْفٌ

ان میں کمزوریہے

یہ بھی کہتے ہیں

وله غرائب

غریب روایات بیان کرتے ہیں

الذھبی اپنی دوسری کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں ان کو منکر الحدیث بھی کہتے ہیں

الذھبی تاریخ الاسلام میں یہ رائے   رکھتے ہیں کہ یہ

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، الصَّنعائيّ، الْقَاصُّ -د. ت. ق- وَهِمَ مَنْ قَالَ: هُوَ ابْنُ بَحِيرِ بْنِ رَيْسَانَ

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، الصَّنعائيّ، الْقَاصُّ ہے  (جس سے ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت لی ہے ) اور وہم ہے جس   نے کہا کہ یہ  ابْنُ بَحِيرِ بْنِ رَيْسَان ہے

الذہبی یہ بھی کہتے  ہیں کہ ہمارے شیخ (کو وہم ہوآ) کہتے ہیں

قَالَ شَيْخُنَا فِي تَهْذِيبِهِ: وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرِ بْنِ رَيْسَانَ الْمُرَادِيُّ، أَبُو وَائِلٍ الصَّنعانيّ.

ہمارے شیخ  (المزی ) نے تہذیب  (الکمال) میں (ایسا)  کہا

ابن ماکولا کہتے ہیں

ابْنُ مَاكُولا  الکمال میں کہتے ہیں  : عبد اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ

عبد الله بن (عِيسَى بن ) بحير بن ريسان ہے ،اس کی نسبت  دادا  کی طرف ہے

یعنی وہ دادا کے نام سے مشھور ہے

الذھبی کے نزدیک محدثین (ابن حبان، المزی وغیرہ ) کو وہم ہوا اور انہوں نے اس کو دو الگ راوی سمجھ لیا

الذھبی اس کی وجہ کتاب المغني في الضعفاء میں ترجمہ عبد الله بن بحير الصَّنْعَانِيّ الْقَاص  میں لکھتے ہیں

وَلَيْسَ هُوَ ابْن بحير بن ريسان فان بحير بن ريسان غزا الْمغرب زمن مُعَاوِيَة وَسكن مصر وروى عَن عبَادَة بن الصَّامِت وَعمر دهرا حَتَّى لقِيه ابْن لَهِيعَة وَبكر بن مُضر وَقَالَ ابْن مَا كولا فِي شيخ عبد الرَّزَّاق أَنا أَحْسبهُ عبد الله بن عِيسَى بن بحير نسب إِلَى جده وكنيته أَبُو وَائِل قلت لَهُ مَنَاكِير

اور یہ ابن بحیر بن ريسان نہیں کیونکہ عبد الله  ابن بحیر بن ريسان نے مغرب میں جہاد کیا مُعَاوِيَة کے زمانے میں اور  عبَادَة بن الصَّامِت سے روایت کیا اور عمر کا ایک حصہ گزارا حتی کہ ابن لَهِيعَة سے ملاقات ہوئی اور بکر بن مُضر سے اور ….. (عبد الله بن بحير الصَّنْعَانِيّ الْقَاص) شيخ عبد الرَّزَّاق کے لئے میں  سمجھتا ہوں کہ یہ عبد الله بن عِيسَى بن بحير ہے جس کی نسبت دادا کی طرف ہے اور کنیت أَبُو وَائِل ہے میں کہتا ہوں ان کے پاس  منکر روایات ہیں

اس روایت کے دفاع میں کہا جاتا ہے  کہ  البانی صاحب نے کتاب احکام الجنائز میں  اس کو صحیح کہا ہے اور امام الحاکم اور الذھبی  نے بھی

albani-abdullah-bin-buhair

حالانکہ امام الحاکم کی تصحیح کون مانتا ہے ان پر محدثین کی شدید جرح ہے .وہ تو اس روایت تک کو صحیح کہتے ہیں جس میں آدم  علیہ السلام پر وسیلہ کے شرک کی تہمت لگائی گئی ہے

الذھبی نے اس روایت پر تلخیص مستدرک میں سکوت کیا ہے نہ کہ تصحیح اور الذھبی کی اس راوی کے بارے میں رائے اوپر دیکھ سکتے ہیں

البانی صاحب صرف یہ دیکھتے ہیں اس کو ابن حجر یآ کوئی اور، صحیح کہتا ہے یا نہیں ، پھر وہ اپنی کتابوں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ  الذھبی  غلط تھے یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں

عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے الفاظ کا ترجمہ کیا جاتا ہے

حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ))یعنی میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا تاکہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو اور میں فرشتوں کو صحیح جواب دے سکوں ۔۔

حالانکہ أستأنس  کا یہ ترجمہ صحیح نہیں أستأنس کا مطلب مانوس ہونا ہی  ہے  أستأنس کا ترجمہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو کرنا غلط ہے

بخاری کی عبدللہ بن سلام سے متعلق حدیث ہے

 قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فِي نَاسٍ، فِيهِمْ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فِي وَجْهِهِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزُ فِيهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ فَاتَّبَعْتُهُ، فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، وَدَخَلْتُ، فَتَحَدَّثْنَا، فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ قُلْتُ لَهُ

قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں لوگوں کے ساتھ تھا بعض ان میں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم بھی تھے پس ایک شخص آیا جس کے چہرے پر خشوع تھا لوگوں نے کہا یہ اہل جنت میں سے ہے …. (اس کے بعد قیس عبدللہ بن سلام سے ملے) حتی کہ وہ (أستأنس)  مانوس ہوئے

الله ہم کو ہدایت دے

 

[/EXPAND]

[قبر کی وسعت اور تنگی والی روایات پر ڈاکٹر عثمانی کی رائے میں عالم البرزخ ہے اس کی وضاحت کر دیں؟]

جواب

 ارشد کمال اپنی کتاب المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

arshad-182

ذوالجبادین رضی اللہ عنہ ، نبی صلی الله علیہ وسلم کے صحابی ہیں جو غزوہ تبوک میں شریک ہوئے لیکن جب  تبوک پہنچے تو بخار میں مبتلا ہو گئے اور اسی بخار میں ان کی وفات ہو گئی۔ . تبوک کا واقعہ ٨ ہجری میں ہوا تھا. مسند البزاز کے مطابق،  ذوالبجادین کی تدفین کے بعد نبی صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی

فَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَمْسَيْتُ عَنْهُ رَاضِيًا فَارْضَ عَنْهُ

یا اللہ! میں ذوالجبادین سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہوجا۔

دامانوی صاحب نے دین الخالص قسط اول میں اس روایت کو پیش کرتے تھے کہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ ذو البجا دینؓ کی قبر پر دیکھا  جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دفن سے

فارغ ہوئے تو قبلہ روہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی

اس کے بعد اپنی دوسری کتاب عذاب القبر میں اسکو پھر دہرایا

رَأیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ قَبْرِ عَبْدِاﷲِ ذِی الْبِجَادَیْنِ …… فَلَمَّا فَرَغَ عَنْ دَفْنِہٖ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ رَافِعًا یَّدَیْہِ (صحیح ابی عوانہ، فتح الباری ج ۱۱ ص ۱۲۲ بحوالہ الکلام الموزون ص ۱۳۳ مصنفہ سید لعل شاہ بخاری منہاج المسلمین ص ۴۵۷ مصنفہ مسعود احمد)

 ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ ذو البجا دینؓ کی قبر پر دیکھا (اس طویل حدیث میں یہ بھی ہے کہ ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ روہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی‘‘۔

 جناب عبد اللہ ذوالبجادین المزنی رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک کے دوران فوت ہوئے تھے اور ان کے دفن کا مفصل واقعہ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ج ۳ ص ۱۲۵ رقم ۱۷۱۰) لابن عبدالبر اور البدایۃ والنھایۃ (ج ۵ ص ۱۸) لابن کثیر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہی سے موجود ہے۔

دامانوی صاحب ایک زمانے تک اس کو دلیل کے طور پر پیش کرتے رہے کہ ارضی قبر ہی میں راحت و عذاب ہوتا ہے پھر  کئی سال گزرے دامانوی صاحب کی تحقیق  نے ایک نیا رخ لیا. انکشاف ھوا کہ ١٠ ہجری میں ابراہیم رضی الله تعالی عنہ کی وفات والے دن   نبی صلی الله علیہ وسلم کو مومن کے لئے  عذاب قبر کا علم دیا گیا

دامانوی صاحب لکھتے ہیں

ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دعا بھی اس سلسلہ میں آئی ہے ۔

 ام سلمہ رضی اللہ عنہ کہتیں کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں (موت کے وقت )پتھرا گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے ان کی آنکھیں بند کیں اور پھر فرمایا جب روح قبض کی جاتی ہے تو اس کی بینائی بھی روح کے ساتھ چلی جاتی ہے ۔ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے یہ سن کر سمجھ گئے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا اور وہ رونے چلانے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے نفسوں پر بھلائی کے سوا اور کوئی دعا نہ کرو اس لئے کہ اس وقت جو کچھ تمہاری زبان سے نکلتا ہے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 ’’ اے اللہ ! ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو بخش دے اور ان کا مرتبہ بلند فرما کر ان لوگوں میں ان کو شامل فرما دے جن کو راہ مستقیم دکھائی گئی ہے اور ان کے پسماندگان کی کارسازی فرما اور اے تمام جہانوں کے پروردگار ہم کو اور ان کو بخش دے اور ان کی قبر میں کشادگی فرما اور اس کو (انور سے) منورکر دے۔

 اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے لئے قبر کو کشادہ کرنے اور قبر کونور سے منور کر دینے کی دعا فرمائی ۔ثابت ہوا کہ مومن کی قبر کو اللہ تعالیٰ نور سے منور فرما دیتا ہے اور کافر یا مافق کی قبر ظلمت سے بھر دی جاتی ہے اور اسے تنگ کر دیا جاتا ہے مگر موصوف کو یہ بات تسلیم نہیں چنانچہ لکھتے ہیں۔

 ’’ اسی طرح ’’ قرع نعال‘‘ کی بخاری کی حدیث میں قتادہ کا یہ اضافہ کہ : وذکرلنا انہ یفسح لہ فی قبرہ۔(ہم سے ذکر کیا گیا کہ اس کی (مومن کی)قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے ‘سے یہی دنیاوی قبر مراد لینا صحیح نہیں ہے اس زمین کے حدود اربعہ میں تغیر کی گنجائش کہاں‘‘۔(عذاب قبر ص۱۸

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے درست کہا تھا.

ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات ٤ ہجری میں ہوئی. اس وقت تک مومن کے لئے کسی عذاب و راحت قبر کا کوئی تصور نہ تھا.  لہذا جس وسعت و تنگی قبر کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس وقت تک نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس کے بارے میں بتایا نہیں گیا تھا

چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں. قبر کی وسعت اسی وقت اہم ہے جب اس کی تنگی کا تصور پہلے سے موجود ھو.

اب یہ کون سی قبر ہے جو وسیع ھو گی ؟ یہ کوئی دنیاوی قبر تو نہیں

دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

قبر کی وسعت اور تنگی کے متعلق بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں یہ اور بات ہے کہ موصوف ان سب کو نہ ماننے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔موصوف چاہتے ہیں کہ قبر میں راحت یا عذاب کے جو مناظر پیش آتے ہیں وہ سب ان کو نظر آنے چاہئیں ورنہ وہ ان پر ایمان لانے کے ئے تیار نہیں۔تو ہم ان کو ضمانت دیتے ہیں کہ جب وہ قبر میں اتارے جائیں گے تو ان شاء اللہ تمام مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور انہیں عین الیقین حاصل ہو جائے گا ۔البتہ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے وہ ہم ابھی عرض کرتے ہیں مگر پہلے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعے کے متعلق کچھ عرض کریں گے۔موصوف نے جو مسنداحمد کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ منکر ہے تو بلاشبہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی محمود بن محمد بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموع ضعیف ہیں۔(مرعاۃ جلد ۱ ص۲۳۱) مگر جناب اس سلسلہ میں صحیح احادیث بھی موجود ہیں اور مسند احمد پر نکارت کا الزام لگا کہ دوسری صحیح احادیث سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ہے چنانچہ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:۔

 ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ) وہ شخص ہے جس کے لئے عرض نے حرکت کی اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ستر ہزار فرشتے (ان کے جنازے میں) حاضر ہوئے ۔ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی اور پھر کشادہ ہو گئی‘‘۔

 یہ حدیث صحیح ہے اور قبر کی وسعت اور تنگی سے متعلق نص صریح ہے ۔

’یہ بھی لکھا

جناب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے دفن کے دن ان کی قبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اگر کوئی شخص فتنہ قبر یا قبر کے معاملے سے نجات پا سکتا تو البتہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ضرور نجات پاتے اور ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی پھر ان پر کشادہ کر دی گئی‘‘۔(طبرانی ۔اس حدیث کے تام راوی ثقہ ہیں)(مجمع الزوائد ص۴۷)۔

غزوہ خندق ٥ ہجری میں ہوئی. اس وقت تک عذاب القبر کا بتایا نہیں گیا تھا. لہذا یہ فاش غلطی ہوئی. کون سی قبر دبوچ رہی ہے جبکہ عذاب کی خبر نہیں

ارشد کمال ، المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

arshad-190-saadbinmuad

دامانوی صاحب جس واقعہ کی تصحیح پر جان نثار کر رہے ہیں. ہونہار شاگرد اسی کو سراسر جھوٹی من گھڑت بات قرار دے رہا ہے.  ان قلابازیوں کے باوجود کوئی غیر مقلد پوچھنے والا نہیں کہ یہ سب کیا ہے

[/EXPAND]

[البرزخ پر متقدمین علماءکی کیا رائے تھی کیا ان کے نزدیک یہ کوئی عالم تھا یا کیفیت تھا؟]

جواب

لغوی طور پر برزخ سے مراد آڑ ہے جیسا قرآن میں ہے کہ دو سمندر اپس میں نہیں ملتے کیونکہ ان کے درمیان برزخ ہے سوره الرحمان میں ہے

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ  بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِيَانِ

البرزخ سے مراد عالم ارواح ہے

قرآن کی سوره المومنون کی ٩٩ اور ١٠٠ آیات ہیں

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

یہاں تک کہ ان میں جب کسی کو موت اتی ہے تو کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دے تاکہ صالح اعمال کروں ہرگز نہیں یہ تو صرف ایک قول ہے جو کہہ رہا ہے اور اب ان کے درمیان برزخ حائل ہے  یہاں تک کہ ان کو دوبارہ اٹھایا جائے

اصطلاحا اس سے مراد عالم ارواح ہے.  البرزخ کی اصطلاح  بہت قدیم ہے ، ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦،  ابن جریر الطبری ٣١٠ ھ،  ابن حزم المتوفی ٤٥٧ ھ، ابن الجوزی  المتوفی ٥٩٧ ھ ، ابن رجب الحنبلي المتوفی ٧٩٥ ھ ھ  نے اس کو استعمال کیا ہے . اس کو اردو میں ہم عالم ارواح کہتے ہیں. اسی مفھوم میں ڈاکٹر عثمانی نے بھی اس کو استعمال کیا ہے.

ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦ ھ کتاب تأويل مختلف الحديث میں لکھتے ہیں

وَنَحْنُ نَقُولُ: إِنَّهُ إِذَا جَازَ فِي الْمَعْقُولِ، وَصَحَّ فِي النَّظَرِ، وَبِالْكِتَابِ وَالْخَبَرِ أَنَّ الله تَعَالَى يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ، بَعْدَ أَنْ تَكُونَ الْأَجْسَادُ قَدْ بَلِيَتْ، وَالْعِظَامُ قَدْ رَمَّتْ1، جَازَ أَيْضًا فِي الْمَعْقُولِ، وَصَحَّ فِي النَّظَرِ، وَبِالْكِتَابِ وَالْخَبَرِ، أَنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ بَعْدَ الْمَمَاتِ فِي الْبَرْزَخِ.

ابو محمّد ابن قتیبہ نے کہا  اور ہم کہتے ہیں   بے شک  عقلی لحاظ سے اور صحیح النظر اور کتاب الله اور خبر (حدیث رسول ) سے پتا چلا ہے کہ بے شک الله تعالیٰ ان جسموں کو جو قبروں میں ہیں گلنے سڑنے اور ہڈیاں بننے کے بعد ان کو اٹھائے گا جب وہ مٹی ہو جائیں گے اور صحیح النظر اور کتاب الله اور خبر (حدیث رسول ) سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ان کو البرزخ میں عذاب دیا جائے گا

ابن جریر الطبری المتوفی ٣١٠ ھ  سورہ بقرہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں اگر کوئی سوال کرے کہ

وإذا كانت الأخبار بذلك متظاهرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما الذي خُصَّ به القتيل في سبيل الله، مما لم يعم به سائر البشر غيره من الحياة، وسائرُ الكفار والمؤمنين غيرُه أحياءٌ في البرزخ، أما الكفار فمعذبون فيه بالمعيشة الضنك، وأما المؤمنون فمنعَّمون بالروح والريحان ونَسيم الجنان؟

اور  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان کے لئے خاص  ہے جو الله کی راہ میں قتل ہوئے  ان کو سارے انسانوں  بشمول کفار اور مومنوں پر کہنا کہ وہ سب البرزخ میں زندہ ہیں مناسب  نہیں ہے

اس سوال کا جواب الطبری دیتے ہیں

أَنَّهُمْ مَرْزُوقُونَ مِنْ مَآكِلِ الْجَنَّةِ وَمَطَاعِمِهَا فِي بَرْزَخِهِمْ قَبْلَ بَعْثِهِمْ، وَمُنَعَّمُونَ بِالَّذِي يَنْعَمُ بِهِ دَاخِلُوها بَعْدِ الْبَعْثِ مِنْ سَائِرِ الْبَشَرِ مِنْ لَذِيذِ مَطَاعِمِهَا الَّذِي لَمْ يُطْعِمْهَا اللَّهُ أَحَدًا غَيْرَهُمْ فِي بَرْزَخِهِ قَبْلَ بَعْثِهِ

شہداء کو جنت کے کھانے  انکی برزخ ہی میں ملیں گے زندہ ہونے سے پہلے،  اور وہ نعمتوں سے مستفیض ہونگے دوسرے لوگوں سے پہلے اور لذیذ کھانوں سے،  جن کو کسی بھی بشر نے  چکھا نہ ہو گا برزخ میں ،  زندہ ہونے سے پہلے

ابن حزم المتوفی ٤٥٦ ھ  قبر میں عذاب کے انکاری ہیں اور البرزخ کی اصطلاح عالم ارواح کے لئے استمعال کرتے ہیں.   اور عذاب کو صرف روح پر مانتے ہیں. ڈاکٹر عثمانی اس  بات میں ان سے متفق ہیں

کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل  میں لکھتے ہیں

ثمَّ ينقلنا بِالْمَوْتِ الثَّانِي الَّذِي هُوَ فِرَاق الْأَنْفس للأجساد ثَانِيَة إِلَى البرزخ الَّذِي تقيم فِيهِ الْأَنْفس إِلَى يَوْم الْقِيَامَة وتعود أجسامنا تُرَابا

پس الله ہم کو دوسری موت کے بعد جو نفس کی جسم سے علیحدگی ہے ہم کو برزخ میں منتقل کر دے گا اور ہمارے جسم مٹی میں لوٹائے گا

فيبلوهم الله عز وَجل فِي الدُّنْيَا كَمَا شَاءَ ثمَّ يتوفاها فترجع إِلَى البرزخ الَّذِي رَآهَا فِيهِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لَيْلَة أسرى بِهِ عِنْد سَمَاء الدُّنْيَا أَرْوَاح أهل السَّعَادَة عَن يَمِين آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وأرواح أهل الشقاوة وَعَن يسَاره عَلَيْهِ السَّلَام

پس الله ہم کو آزمائے گا دینا میں جیسا چاہے گا پھر موت دے گا اور برزخ میں لوٹائے گا جس کو اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دکھایا تھا معراج کی رات کہ نیک لوگوں کی ارواح آدم علیہ السلام کی دائیں طرف اور بد بختوں کی بائیں طرف تھیں

ابن کثیر  المتوفی ٧٧٤ ھ تفسیر ج ١ ص ١٤٢ میں لکھتے ہیں

وَقَوْلُهُ تَعَالَى: {وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ الله أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ} يُخْبِرُ تَعَالَى أَنَّ الشُّهَدَاءَ فِي بَرْزَخِهِمْ أَحْيَاءٌ يُرْزَقُونَ كَمَا جَاءَ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ: ” إِنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طيور خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَاطَّلَعَ عليهم ربك اطلاعة فقال: ماذا تبغون؟ قالوا: يَا رَبَّنَا وَأَيُّ شَيْءٍ نَبْغِي وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ؟ ثُمَّ عاد عليهم بِمِثْلِ هَذَا فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَا يُتْرَكُونَ من أن يسألوا، قالو: نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّنَا إِلَى الدَّارِ الدُّنْيَا فَنُقَاتِلَ فِي سَبِيلِكَ حَتَّى نُقْتَلَ فِيكَ مَرَّةً أُخرى – لما يرون من ثواب الشاهدة – فَيَقُولُ الرَّبُّ جَلَّ جَلَالُهُ: إِنِّي كَتَبْتُ أَنَّهُمْ إليها لا يرجعون” وَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ تَعْلَقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهُ اللَّهُ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ» فَفِيهِ دَلَالَةٌ لِعُمُومِ الْمُؤْمِنِينَ أَيْضًا وَإِنْ كَانَ الشُّهَدَاءُ قَدْ خُصِّصُوا بِالذِّكْرِ فِي الْقُرْآنِ تَشْرِيفًا لَهُمْ وَتَكْرِيمًا وَتَعْظِيمًا.

 اور الله تعالی کا قول  پس الله نے خبر دی کہ بے شک شہداء اپنی برزخ میں ہیں زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں آیا ہے بے شک شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ہیں جس میں وہ جنت کی سیر کرتے ہیں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں پھر واپس قندیل میں جو عرش سے لٹک رہے ہیں ان میں اتے ہیں

محمد بن علي الصابوني زمانہ حال کے ایک عالم ہیں مکہ میں عالم تھے قرآن کی تفسیر  صفوة التفاسير میں لکھتے ہیں

الجمع للتعظيم {لعلي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ} أي لكي أعمل صالحاً فيما ضيَّعت من عمري {كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا} {كَلاَّ} كلمةُ ردع وزجر أي لا رجوع إِلى الدنيافليرتدع عن ذلك فإِن طلبه للرعة كلام لا فائدة فيه ولا جدوى منه وهو ذاهبٌ أدراج الرياح {وَمِن وَرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ} أي وأمامهم حاجزٌ يمنعهم عن الرجوع إِلى الدنيا – هو عالم البرزخ – الذي يحول بينهم وبين الرجعة يلبثون فيه إِلى يوم القيامة

سوره المومنون کی آیت میں بزرخ سے مراد عالم البرزخ ہے

ایک دوسرے وہابی  عالم فيصل بن عبد العزيز بن فيصل ابن حمد المبارك الحريملي النجدي (المتوفى: 1376هـ)  کتاب  توفيق الرحمن في دروس القرآن  میں  لکھتے ہیں

وقوله تعالى: {أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ} كما كلم موسى عليه الصلاة والسلام فإنه سأل الرؤية بعد التكليم فحجب عنها؛ وفي الصحيح أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال جابر بن عبد الله رضي الله عنهما: «ما كلم الله أحدًا إلا من وراء حجاب، وإنه كلم أباك كفاحًا» . كذا جاء في الحديث؛ وكان قد قتل يوم أحد، ولكن هذا في عالم البرزخ؛

الله تعالی کا قول کہ جس طرح موسی سے کلام کیا کہ انہوں نے دیکھنے کی خواہش کی کلام کے بعد پس اللہ حجاب میں رہے اور صحیح میں ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جابر رضی الله تعالی عنہ سے الله نے کلام کیا حجاب کے بغیر اور  ایسا حدیث میں ہے وہ احد کے دن قتل ہوئے لیکن یہ عالم البرزخ میں ہوا

ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ کتاب تفسير القرآن الكريم   میں ال فرعون پر عذاب پر  لکھتے ہیں

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَعَشِيًّا فهذا في البرزخ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ فهذا في القيامة الكبرى.

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَعَشِيًّا پس یہ  البرزخ میں ہے  وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ پس یہ قیامت میں ہوگا.

ابن قیّم اپنی کتاب  روضة المحبين ونزهة المشتاقين میں  سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت پر لکھتے ہیں کہ

 فأما سبيل الزنى فأسوأ سبيل ومقيل أهلها في الجحيم شر مقيل ومستقر أرواحهم في البرزخ في تنور من نار يأتيهم لهبها من تحتهم فإذا أتاهم اللهب ضجوا وارتفعوا ثم يعودون إلى موضعهم فهم هكذا إلى يوم القيامة كما رآهم النبي صلى الله عليه وسلم في منامه ورؤيا الأنبياء وحي لا شك فيها

پس زنا کا راستہ بہت برا راستہ ہے اور اس کے کرنے والے جہنم میں ہیں برا مقام ہے اور ان کی روحیں البرزخ میں تنور میں آگ میں ہیں جس کی لپٹیں ان کو نیچے سے آتی ہیں پھر وہ واپس اپنی جگہ آتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن تک ہو گا جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو نیند میں خواب میں دکھایا گیا جو وحی تھی جس میں کوئی شک نہیں

ڈاکٹر عثمانی کے علاوہ ابن حزم ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن حجر سب عالم ارواح کو البرزخ کہتے ہیں جیسا کہ حوالے اوپر دیے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ ابن قیم اور ابن کثیر کا عقیدہ فرقہ اہل حدیث کے موجودہ عقیدے سے الگ ہے

ابن تیمیہ  المتوفی ٧٢٨ ھ ،ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ، ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ اور ابن حجرالمتوفی ٨٥٢ ھ (سب ابن حزم کے بعد کے ہیں)، روح کا اصل مقام البرزخ مانتے ہیں جو عالم ارواح ہے . یہ سب روح پر عذاب البرزخ میں مانتے ہیں اور اس کا اثر قبر میں بھی مانتے ہیں اس تمام عذاب کو جو البرزخ میں ہو یا روح کے تعلق سے  قبر میں ہو ، اس کو وہ عذاب القبر کہتے ہیں .  روح کا جسد سے مسلسل تعلق مانتے ہیں جس میں آنا فانا روح قبر میں اتی ہے اور جاتی ہے اس کی مثال وہ سورج اور اسکی شعاوں سے دیتے ہیں دیکھئے کتاب الروح از ابن قیم المتوفی ٧٥١ ھ

برزخ کی  زندگی  سے مراد قبر ہے

البرزخ کے مفہوم میں تبدیلی ابن تیمیہ کے معاصریں نے کی. ابن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ)  نے کی ان سے پہلے اس کو عالم ارواح کے لئے استعمال کیا جاتا تھا. انہوں نے البرزخ کے مفھوم میں  عالم ارواح اور دیناوی قبر دونوں کو شامل کر دیا گیا . ابن عبد الھادی  اپنی کتاب الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي میں ایک نئی اصطلاح متعارف کراتے ہیں

وليعلم أن رد الروح (إلى البدن)  وعودها إلى الجسد بعد الموت لا يقتضي استمرارها فيه، ولا يستلزم حياة أخرى قبل يوم النشور نظير الحياة المعهودة، بل إعادة الروح إلى الجسد في البرزخ إعادة برزخية، لا تزيل عن الميت اسم الموت

اور جان لو کہ جسم میں موت کے بعد عود روح  ہونے سے ضروری نہیں کہ تسلسل ہو – اور اس سے دوسری زندگی بھی لازم نہیں آتی …بلکہ یہ ایک برزخی زندگی ہے  جس سے میت پر موت کا نام زائل نہیں ہوتا

 یہ مفہوم نص قرآنی سے متصادم ہے

اہل حدیث فرقہ اور پرویز

علامہ پرویز کی ایک صفت تھی کہ قرآن کی کسی بھی بات کو وہ اصطلاح نہیں مانتے تھے بلکہ ہر بات لغت سے دیکھتے تھے چاہے نماز ہو یا روزہ ، جن ہوں یا فرشتے ایک سے بڑھ کر ایک تاویل انہوں نے کی . کچھ اسی طرز پر آج کل اہل حدیث فرقہ کی جانب سے تحقیق ہو رہی ہے اور انہوں نے بھی لغت پڑھ کر البرزخ کو صرف ایک کیفیت ماننا شروع کر دیا ہے نہ کہ ایک مقام

موجودہ فرقہ اہل حدیث البرزخ کو بطور مقام ہونے   کا انکار کرتا ہے . برزخ کو قبر میں  ایک کیفیت بتاتا ہے اور عام مردوں کی بلا روح لاشوں پر عذاب بتاتا ہے. البرزخ بطور مقام ہونے کا فرقہ اہل حدیث  آج کل انکاری بنا ہوا  ہے. روح پر عذاب کو عذاب الجھنم کہتا ہے اوربے روح لاش پر عذاب کو عذاب قبر کہتا ہے.لاش بلا روح پر عذاب کو متقدمین گمراہی کہتے ہیں دیکھئے شرح مسلم النووی المتوفی ٦٧٦ ھ

شاید انہوں نے سوچا ہے کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری لہذا البرزخ کی ایسی تاویل کرو کہ سارے مسئلے سلجھ جائیں اس طرز پر انہوں نے جو عقیدہ اختیار کیا ہے وہ ایک بدعتی عقیدہ ہے جس کو سلف میں فرقہ کرامیہ نے اختیار کیا ہوا تھا

[/EXPAND]

[سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی روایت کی فرقہ پرستوں کی طرف سے تاویلیں کی جاتی ہیں ان کا کیسے رد کیا جائے]

جواب

samrah

اس روایت  کے واضح الفاظ کی باطل تاویلات کی جاتی ہیں

 اعتراض: ابو جابر دامانوی ، عذاب قبرکی حقیقت  میں لکھتے ہیں کہ ارض مقدس سے مراد بیت المقدس ہے . لکھتے ہیں

تیسری دلیل موصوف نے سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت کی پیش کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں ارض مقدس کی طرف لے جایا گیا۔ موصوف نے لکھا ہے: ’’اور مجھے باہر نکال کر ایک ارض مقدس کی طرف لے گئے‘‘۔ ارض مقدس سے مراد بیت المقدس ہے۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے:

یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ الله لَــکُمْ (المائدۃ:۲۱

 ’اے میری قوم تم ارض مقدسہ میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے‘‘۔

 صحیح بخاری میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی موت کے واقعہ میں ان کی دعا کے یہ الفاظ ہیں

 فسأل الله ان یدنیہ من الارض المقدسۃ رمیۃ بحجر

پس موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اسے ارض مقدسہ کے قریب کر دے ایک پتھر پھینکنے کے فاصلہ  تک (بخاری کتاب الجنائز باب(۶۸) حدیث:۱۳۳۹

 امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے

باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ او نحوھا

جو شخص ارض مقدسہ میں یا اس جیسی جگہ میں دفن ہونا پسند کرے۔

 قرآن و حدیث کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ ارض مقدسہ سے مراد بیت المقدس کا علاقہ ہے لیکن موصوف نے حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے ارض مقدس کو نکرہ بنا دیا اور ارض مقدس کا ترجمہ ’’ایک ارض مقدس‘‘ کیا۔ گویا موصوف کے نزدیک ارض مقدس اور بھی ہیں۔اور ممکن ہے کہ موصوف کے نزدیک ارض مقدس سے برزخی ارض مقدس مراد ہو۔

دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

مگر اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ آپ کو الارض المقدس میں لے جایا گیا جہاں مختلف مناظر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا اور یہ تمام واقعات آپ نے زمین ہی ملاحظہ فرماتے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ قبر کا عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے

رفیق طاہر، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

یہ واقعہ خواب کا ہے اور کیا ہے کہ دو بندے آپ کے پاس آئے۔ ”فاخرجاني الی الارض المقدسة“ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ اب کوئی پوچھے کہ ارض کا معنی آسمانوں والا گھر کرنا ، یہ دین کی خدمت ہے؟ یہ کون سی فقاہت ہے؟ نبی فرمارہے ہیں کہ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ واقعہ بھی خواب کا ہے ، اور لے کر کہاں جارہے ہیں؟ ”الى الارض المقدسة“ ارض مقدسہ کی طرف۔ اور وہاں پر نبی نے اوپر اپنا گھر دیکھا اور کہا گیا کہ یہ آپ کا گھر ہے۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ آسمانوں والے گھر میں ہیں۔ یا للعجب! بڑی عجیب اور حیرانی کی بات ہے۔یہ اعتراض بھی ان کا حدیث کے شروع والے الفاظ پڑھتے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اور ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔

جواب: قرآن ہی میں جنت کے لئے ارض کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے

{وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْض نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّة حَيْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ} [الزمر: 74].کہ جنّتی کہیں گے کہ الله کا شکر جس نے ارض کا وارث بنایا جنّت میں جہاں جانا چاہیں جا سکتے ہیں

یہ بھی ہے

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ

اور بے شک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد  لکھ دیا کہ بے شک ارض کے وارث صالح بندے ہونگے

معلوم ہوا کہ جنّت کو بھی ارض کہا گیا ہے اور جنّت سے زیادہ مقدس کیا ہے 

کتاب مشكاة المصابيح كتاب الرُّؤْيَا فصل الاول میں بھی سمرہ کی روایت موجود ہے اس میں الفاظ الارض المقدسہ ہیں اور عذاب کے لئے کہا گیا ہے

 فَيُصْنَعُ بِهِ مَا تَرَى إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ

ایسا روز قیامت تک ہو گا

فتاوی اہل  حدیث  ج ٥ ص ٤٢٩ جو مارچ ١٩٧٦ میں شائع ہوا تھا اس میں یہی حوالہ موجود ہے اور  ارض مقدس سے مراد  عالم بالا لیا گیا  ہے

سمرہ اہل حدیث فتوی

اعتراض: رفیق طاہر صاحب، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

اور پھر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے کہا “إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوْ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ” یقینا آپکی کچھ عمر باقی ہے اگرآپ وہ پوری کر لیں گے تو آپ اپنے گھر میں آ جائیں گے۔ مرنے کے بعد ہی اخروی گھر جنت یا جہنم میں انسان جاتا ہے ۔ لیکن فورا بعد یا کچھ دیر بعد ‘ اسکا کوئی تذکرہ اس حدیث میں موجود ہی نہیں ہے ۔

اس کے برعکس ابو جابر دامانوی کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

جناب سمرہ بن ـجذب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خواب بیان فرماتے ہیں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں اپنا گھر دکھایا جاتا ہے آگے کے الفاظ یہ ہیں (جناب جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ :۔

 ذرا اپنا سر اوپر اٹھائیے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنا سر اٹھایا تو میں نے اپنے سر کے اوپر ایک بادل سا دیکھا ۔ان دونوں نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے گھر میں داخل ہو جائوں ۔ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا نہیں کیا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پورا کر لین تو اپنے اس گھر میں آ جائیں گے ۔ (صحیح و بخاری ‘عذاب قبر ص

 ان احادیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں کا جنت میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔

 جواب: ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء سے تو کوئی سوال جواب قبر میں نہیں ہوتا لہذا کچھ دیر یا فورا بعد کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.

نبی صلی الله علیہ وسلم کو اسی ارض مقدس میں بادل جیسا ان کا اخروی مقام دکھایا گیا. کیا نبی صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں بادل میں ہیں ؟ اگر ارض مقدس سے مراد بیت المقدس ہے تو پھر اس بادل کو بھی اس دنیا میں مانیں

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں کسی بھی نبی کی روح نہیں بلکہ وہ سب جنّت میں ہیں

اہل حدیث کا مغالطہ دیکھیں کہ ایک ہی روایت ہے اور ایک ہی ارض مقدس ہے لیکن اس کو پلٹ پلٹ کر کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ. کبھی یہی مقام زمین پر ہوتا ہے اور کبھی یہی جنت بنتا ہے

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتا ہے

zubair-tozeeh-167

اعتراض: رفیق طاہر صاحب، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

اسی طرح وہ ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ جی دنیا کے سارے زانی مرد اور عورتیں نبیﷺ نے ان کو ایک تنور میں دیکھا کہ ان کو عذاب ہورہا تھا معراج کی رات ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث میں یہ لفظ ہیں ہی نہیں کہ پوری دنیا کے زانی اور زانیات ایک ہی تنور میں موجود تھے۔یہ الفاظ حدیث میں کہیں پر بھی نہیں آتے۔ وہ اشکال بنا کر پیش کرتے ہیں، اشکال کے الفاظ پر غور کریں۔ اشکال یہ پیش کرتے ہیں کہ پوری دنیا کے زناۃ اور زانیات ایک ہی تنور کے اند ر تھے اور ان کو عذاب ہورہا تھا تو یہ الفاظ حدیث کے اندر موجود نہیں ہیں۔ یہ بہتان ہےاللہ کےر سولﷺ پر۔

جواب: یہ کس نے کہہ دیا کہ یہ سب معراج کی رات ھو رہا تھا.  یہ بھی سمرہ بن جندب کی روایت کا ہی حصہ ہے جس میں خواب میں یہ سب دکھایا گیا. انبیا کا خواب وحی ہے

 ابن قیّم اپنی کتاب  روضة المحبين ونزهة المشتاقين میں لکھتے ہیں کہ

 فأما سبيل الزنى فأسوأ سبيل ومقيل أهلها في الجحيم شر مقيل ومستقر أرواحهم في البرزخ في تنور من نار يأتيهم لهبها من تحتهم فإذا أتاهم اللهب ضجوا وارتفعوا ثم يعودون إلى موضعهم فهم هكذا إلى يوم القيامة كما رآهم النبي صلى الله عليه وسلم في منامه ورؤيا الأنبياء وحي لا شك فيها

پس زنا کا راستہ بہت برا راستہ ہے اور اس کے کرنے والے جہنم میں ہیں برا مقام ہے اور ان کی روحیں البرزخ میں تنور میں آگ میں ہیں جس کی لپٹیں ان کو نیچے سے آتی ہیں پھر وہ واپس اپنی جگہ آتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن تک ہو گا جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو نیند میں خواب میں دکھایا گیا جو وحی تھی جس میں کوئی شک نہیں

سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے لئے کتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور میں السيوطي لکھتے ہیں

قَالَ الْعلمَاء هَذَا نَص صَرِيح فِي عَذَاب البرزخ فَإِن رُؤْيا الْأَنْبِيَاء وَحي مُطَابق فِي نفس الْأَمر وَقد قَالَ يفعل بِهِ إِلَى يَوْم الْقِيَامَة

علماء کہتے ہیں یہ نص صریح ہے عذاب البرزخ پر کیونکہ انبیاء کا خواب وحی ہے جو نفس امر کےمطابق ہے اور بے شک کہا کہ ایسا قیامت تک ھو گا

اعتراض: دامانوی صاحب ، عذاب قبرکی حقیقت  میں لکھتے ہیں

قرآن و حدیث کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ ارض مقدسہ سے مراد بیت المقدس کا علاقہ ہے لیکن موصوف نے حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے ارض مقدس کو نکرہ بنا دیا اور ارض مقدس کا ترجمہ ’’ایک ارض مقدس‘‘ کیا۔ گویا موصوف کے نزدیک ارض مقدس اور بھی ہیں۔اور ممکن ہے کہ موصوف کے نزدیک ارض مقدس سے برزخی ارض مقدس مراد ہو۔

 اس تفصیلی حدیث میں کچھ لوگوں کو عذاب میں مبتلا ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا اور عذاب کا یہ سلسلہ زمین سے شروع ہوا اور یہ ارواح کے عذاب کے مختلف مناظر تھے جس کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگ ان جرائم کا ارتکاب کرنے سے پرہیز کریں۔

دامانوی صاحب عذاب قبر کی حقیقت  میں یہ بھی لکھتے ہیں

اس حدیث میں دینی احکامات پر عمل نہ کرنے والے کے متعلق بتایا گیا ہے کہ یہ سزائیں انہیں قیامت تک ملتی رہیں گی۔ اس حدیث سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان اشخاص کی ارواح کو جہنم میں عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا

دامانوی صاحب  عذاب قبر کی حقیقت میں یہ بھی لکھتے ہیں

ان واقعات کا تعلق عام عذاب سے ہے خاص عذاب القبر سے نہیں عام عذاب کا مطلب یہ ہے کہ یہ ارواح کے عذاب کے مشاہدات تھے اور روح کے جہنم میں مبتلائے عذاب ہونے کے مشاہدات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائے گئے اور صلوٰۃ الکسوف کے دوران یہ مشاہدہ بھی کرایا گیا۔

دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

مگر اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ آپ کو الارض المقدس میں لے جایا گیا جہاں مختلف مناظر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا اور یہ تمام واقعات آپ نے زمین ہی ملاحظہ فرماتے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ قبر کا عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے

 جواب: دامانوی صاحب کتنے کنفیوژن کا شکار ہیں قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں. ان کا عقیدہ ہے کہ عذاب القبر جسد کو ہوتا ہے اور عذاب جہنم روح کو. لیکن سمرہ بن جندب کی روایت میں ارض کو بیت المقدس کہتے ہیں اور عذاب کو روح پر کہ رہے ہیں

پہلے کہا کہ سمرہ کی روایت عذاب قبر کی دلیل ہے پھر کچھ سال بعد دوسری کتاب لکھی اس میں کہا یہ عذاب الارواح کی دلیل ہے

جس زمانے میں دامانوی صاحب نے دین الخالص لکھی تھی اس وقت یہی روایت ان کے خیال میں غیر واضح تھی وہ کہتے تھے کہ حامل قرآن تو پیدا ہی نہیں ہوا اور یہ کہنا چاہتے تھے کہ روایت اپنے متن میں واضح نہیں

رفیق طاہر یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ روح پر عذاب ہو سکتا ہے یا اس روایت کی کوئی عملی شکل بھی ہے کیونکہ وہ اس کو خواب کہہ کر جان چھڑانا چاہتے ہیں

اعتراض: ابو جابر دامانوی عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

اس حدیث میں کسی مقام پر بھی برزخی اجسام اور برزخی قبروں کے الفاظ ذکر نہیں کئے گئے ہیں

جواب: اس روایت میں بیان ہونے والے عذابات کو عالم برزخ میں مانا گیا ہے

ابن حجر فتح الباری جد ٢٠ ص ٥٢ پر سمرہ بن جندب کی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں

. وَفِيهِ أَنَّ بَعْض الْعُصَاة يُعَذَّبُونَ فِي الْبَرْزَخ

اور اس (روایت) میں بعض گناہ گاروں کا ذکر ہے جنھیں  البرزخ میں عذاب دیا جا رہا تھا

 السيوطي کتاب  الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج میں لکھتے ہیں

عَن سَمُرَة بن جُنْدُب قَالَ كَانَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا صلى الصُّبْح أقبل عَلَيْهِم بِوَجْهِهِ فَقَالَ هَل رأى أحد مِنْك البارحة رُؤْيا هَذَا مُخْتَصر من حَدِيث طَوِيل وَبعده وَأَنه قَالَ لنا ذَات غَدَاة إِنَّه أَتَانِي اللَّيْلَة آتيان فَقَالَا لي انْطلق فَذكر حَدِيثا طَويلا فِيهِ جمل من أَحْوَال الْمَوْتَى فِي البرزخ وَقد أخرج البُخَارِيّ بِتَمَامِهِ

سَمُرَة بن جُنْدُب سے مروی ہے کہ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم جب صبح کی نماز پڑھتے تو ہماری طرف رخ کرتے  اور پوچھتے کہ کیا تم میں سے کل کسی نے خواب دیکھا ہے  یہ  ایک طویل حدیث کا اختصار ہے …جس میں احوال الموتی کا اجمال ہے البرزخ میں اور اس کو بخاری نے مکمل بیان کیا ہے

اعتراض: ابو جابر دامانوی صاحب  عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے

سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث بیان فرمائی جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باغ میں ایک بڑے درخت کے نیچے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا اور ان کے ساتھ اولاد الناس (لوگوں کی اولاد) بھی دیکھی۔ اور اس کی مزید وضاحت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التعبیر باب ۴۸ میں کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جو بچے تھے ان میں اولاد المشرکین بھی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! اُن کے ساتھ اولاد مشرکین بھی تھی۔ اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان فرما کر اولادِ مشرکین کا مسئلہ بھی حل فرما دیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو اس حدیث پر باب نہیں باندھا تو ممکن ہے کہ ان کا اِرادہ ہو کہ وہ اس پر کوئی باب قائم کریں گے مگر اس کا اُنہیں موقع نہ مل سکا۔ اب موصوف کو چاہیئے کہ وہ صحیح بخاری کی شرح کا کام شروع کر دیں اور اس حدیث پر ایک باب القبور فی البرزخ کا اضافہ کر دیں، کیونکہ فتح الباری تو موصوف کے نزدیک ایسی شرح ہے جسے اگر نہ لکھا جاتا تو مناسب تھا۔

جواب: مشرکین کی اولادیں اور ابراہیم علیہ السلام کیا بیت المقدس میں تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ جنّت کا کوئی حصہ تھا جس طرح نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کو معراج کی رات جنت میں دیکھا تھا. اس عالم ارواح کو متقدمین نے البرزخ کا نام دیا

ابن کثیر تفسیر سوره بنی اسرائیل یا الاسراء آیت ١٥ تا ١٧ میں لکھتے ہیں

وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ سَمُرَةَ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ رَأَى مع إبراهيم عليه السلام أَوْلَادَ الْمُسْلِمِينَ وَأَوْلَادَ الْمُشْرِكِينَ، وَبِمَا تَقَدَّمَ فِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ عَنْ حَسْنَاءَ عَنْ عَمِّهَا أَنَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:«وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ» وَهَذَا اسْتِدْلَالٌ صَحِيحٌ، وَلَكِنْ أَحَادِيثُ الِامْتِحَانِ أَخَصُّ مِنْهُ. فَمَنْ عَلِمَ الله مِنْهُ أَنَّهُ يُطِيعُ جَعَلَ رُوحَهُ فِي الْبَرْزَخِ مَعَ إِبْرَاهِيمَ وَأَوْلَادِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِينَ مَاتُوا عَلَى الْفِطْرَةِ

اور انہوں نے احتجاج کیا ہے حدیث سَمُرَةَ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا  مسلمانوں اور مشرکین کی اولادوں کو إبراهيم عليه السلام کے ساتھ اور …. پس الله نے علم دیا کہ ان کی روحوں کو برزخ میں ابرهیم اور مسلمانوں کی اولاد کے ساتھ کیا، جن کی موت فطرت پر ہوئی

اعتراض: عموما اہل حدیث حضرات، سمرہ بن جندب کی روایت اور واقعہ معراج کو ایک ساتھ بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ دو الگ واقعات ہیں.  اور جابر دامانوی عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

معراج کا واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں پیش آچکا تھا اور معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نافرمان انسانوں کو عذاب دیئے جانے کے کچھ مشاہدات بھی کرائے گئے تھے جیسا کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نافرمانوں کو مبتلائے عذاب دیکھا تھا

جواب: معراج ، مکہ میں ہوئی جبکہ سمرہ بن جندب والی روایت میں جو خواب بیان ہوا ہے وہ آخری دور کا ہے لہذا ان دونوں کو ملا کر کیوں بیان کیا جا رہا ہے؟ معراج جسمانی تھی نہ کہ خواب.

 کتاب تهذيب الأسماء واللغات از النووی کے مطابق سمرہ چھوٹے تھے کہ والد کا انتقال ہوا اور ان کی والدہ مدینہ لے آئیں. مزید یہ کہ مومنین پر عذاب کا علم دس ہجری میں دیا گیا لہذا یہ روایت دس ہجری کے بعد کی ہے

اعتراض اس روایت میں کہیں بھی البرزخ کا ذکر نہیں جس کو ڈاکٹر عثمانی نے بیان کیا ہے

جواب   البرزخ کی اصطلاح  بہت قدیم ہے ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦ ھ،  ابن حزم المتوفی ٤٥٧ ھ، ابن الجوزی  المتوفی ٥٩٧ ھ ، ابن رجب الحنبلي المتوفی ٧٩٥ ھ،   نے اس کو استعمال کیا ہے . اس کو اردو میں ہم عالم ارواح کہتے ہیں

اسی مفھوم میں ڈاکٹر عثمانی نے بھی اس کو استعمال کیا ہے.

ڈاکٹر عثمانی کے علاوہ ابن حزم ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن حجر سب عالم ارواح کو البرزخ کہتے ہیں جیسا کہ حوالے اوپر دیے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ ابن قیم اور ابن کثیر کا عقیدہ فرقہ اہل حدیث کے موجودہ عقیدے سے الگ ہے

نئے قارئین کے لئے ہم وضاحت کر دیں کہ

ابن حزم المتوفی ٤٥٦ ھ  قبر میں عود روح کے انکاری ہیں اور البرزخ  اور قبر کی اصطلاح عالم ارواح کے لئے استمعال کرتے ہیں اور وہیں عذاب قبر مانتے ہیں . ڈاکٹر عثمانی اس  بات میں ان سے متفق ہیں

 ابن تیمیہ  المتوفی ٧٢٨ ھ ،ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ، ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ھ اور ابن حجرالمتوفی ٨٥٢ ھ (سب ابن حزم کے بعد کے ہیں)، روح کا اصل مقام البرزخ مانتے ہیں جو عالم ارواح ہے . یہ سب روح پر عذاب البرزخ میں مانتے ہیں اور اس کا اثر قبر میں بھی مانتے ہیں اس تمام عذاب کو جو البرزخ میں ہو یا روح کے تعلق سے  قبر میں ہو ، اس کو وہ عذاب القبر کہتے ہیں .  روح کا جسد سے مسلسل تعلق مانتے ہیں جس میں آنا فانا روح قبر میں اتی ہے اور جاتی ہے اس کی مثال وہ سورج اور اسکی شعاوں سے دیتے ہیں دیکھئے کتاب الروح از ابن قیم المتوفی ٧٥١ ھ

موجودہ فرقہ اہل حدیث البرزخ کو بطور مقام ہونے   کا انکار کرتا ہے . برزخ کو قبر میں  ایک کیفیت بتاتا ہے اور عام مردوں کی بلا روح لاشوں پر عذاب بتاتا ہے. البرزخ بطور مقام ہونے کا فرقہ اہل حدیث  آج کل انکاری بنا ہوا  ہے. روح پر عذاب کو عذاب الجھنم کہتا ہے اوربے روح لاش پر عذاب کو عذاب قبر کہتا ہے.لاش بلا روح پر عذاب کو متقدمین گمراہی کہتے ہیں دیکھئے شرح مسلم النووی المتوفی ٦٧٦ ھ

باقی اہل سنت کے فرقے عذاب قبر میں زندہ بدن  پر مانتے ہیں جس میں روح مسلسل رہتی ہے دیکھئے الاستذکار از  ابن عبد البر المتوفی ٤٦٣ ھ

ابن حجر عسقلانی اپنے خط میں کہتے ہیں جو  کتاب الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع  کے ساتھ چھپا ہے  خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں

ما معرفَة الْمَيِّت بِمن يزروه وسماعه كَلَامه فَهُوَ مُفَرع عَن مَسْأَلَة مَشْهُورَة وَهِي أَيْن مُسْتَقر الْأَرْوَاح بعد الْمَوْت فجمهور أهل الحَدِيث عل أَن الْأَرْوَاح على أقنية قبورها نَقله ابْن عبد الْبر وَغَيره

جمہور اہل حدیث کا مذھب ہے کہ ارواح قبرستان میں ہیں جس کو ابن عبد البر اور دوسروں نے نقل کیا ہے

ابن حجر اپنی رائے دیتے ہیں

وَالَّذِي تَقْتَضِيه ظواهر الْأَحَادِيث الصَّحِيحَة أَن أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين وَلَكِن لكل مِنْهُمَا اتِّصَال بجسدها 

لیکن احادیث صحیحہ کا ظاہر جو تقاضہ کرتا ہے اس کے حساب سے مومنوں کی روحیں  عليين میں اور کافروں کی روحیں  سِجِّين میں ہیں لیکن ان سب کا جسد سے اتصال (کنکشن ) ہے

[/EXPAND]

[ایک کتاب المسند فی عذاب القبر میں دعوی کیا گیا ہے کہ السیوطی کے نزدیک برزخ ایک کفیت ہے کیا یہ بات درست ہے؟]

جواب

حال ہی میں عذاب القبر کے مسئلے پر ایک کتاب بنام المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال شائع ہوئی ہے. کتاب کے پہلے صفحے پر عرض المولف میں مولف لکھتے ہیں

عالم آخرت کے دو مرحلے ہیں ایک عالم برزخ یعنی موت سے لے کے حساب و کتاب کے لیے دوبارہ اٹھائے جانے تک اور دوسرا مرحلہ دوبارہ اٹھائے جانے یعنی عالم حشر سے شروع ھو گا. عالم برزخ میں ملنے والی سزا کو عذاب القبر کہا جاتا ہے اس لئے کہ ایک تو مردوں کا قبروں میں دفن ہونا  اغلب و اکثر ہے جیسا علامہ جلال الدین السیوطی فرماتے ہیں. علماء نے فرمایا کہ عذاب قبر عذاب برزخ ہی (کا نام) ہے اسے قبر کی طرف منسوب اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ (مردوں کا قبروں میں دفن ہونا) اغلب و اکثر ہے

ارشد کمال صاحب البرزخ سے کیا مراد لیتے ہیں یہ وہ اپنی کتاب عذاب القبر میں بیان کر چکے ہیں کہ

 

ارشد کمال صاحب نےالسيوطي  کی عذاب القبر کی تعریف ، شرح صدور کے حوالے سے لکھی ہے. لیکن مطلب براری کے لئے عالم برزخ کو ایک دورکی طرح پیش کیا ہے جبکہ السيوطي اس کو ایک مقام کے طور پر لیتے ہیں

السيوطي (المتوفى:٩١١ ھ) کتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور میں لکھتے ہیں کہ معتزلہ نے مرنے کے بعد روح کے باقی رہنے کا انکار کیا لیکن اہل علم نے اس کا رد کیا. السيوطي لکھتے ہیں

قَالَ سَحْنُون بن سعيد وَغَيره هَذَا قَول أهل الْبدع والنصوص الْكَثِيرَة الدَّالَّة على بَقَاء الْأَرْوَاح بعد مفارقتها للأبدان ترد ذَلِك وتبطله وَالْفرق بَين حَيَاة الشُّهَدَاء وَغَيرهم من الْمُؤمنِينَ الَّذين أَرْوَاحهم فِي الْجنَّة من وَجْهَيْن أَحدهمَا أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء تخلق لَهَا أجساد وَهِي الطير الَّتِي تكون فِي حواصلها ليكمل بذلك نعيمها وَيكون أكمل من نعيم الْأَرْوَاح الْمُجَرَّدَة عَن الأجساد فَإِن الشُّهَدَاء بذلوا أَجْسَادهم للْقَتْل فِي سَبِيل الله فعوضعوا عَنْهَا بِهَذِهِ الأجساد فِي البرزخ وَالثَّانِي أَنهم يرْزقُونَ من الْجنَّة وَغَيرهم لم يثبت فِي حَقه مثل ذَلِك

سَحْنُون بن سعيد اور دیگر کہتے ہیں کہ یہ اہل بدعت کا قول ہے اور بدن سے جدائی کے بعد، روح کی بقاء پر کثیر نصوص دلالت کرتے ہیں ، جو اس قول کو رد کرتے ہیں اور حیات شہداء اور عام مومنین کی زندگی میں جن کی روحیں جنت میں ہیں فرق دو وجہ سے ہے کہ اول ارواح شہداء کے لئے جسم بنائے گئے ہیں اور وہ پرندے ہیں  جن کے پیٹوں میں وہ ہیں کہ وہ ان نعمتوں کی تکمیل  کرتے ہیں اور یہ مجرد ارواح کی نعمتوں سے اکمل ہے  کیونکہ شہداء نے اپنے جسموں پر زخم سہے الله کی راہ میں قتل ہوئے پس ان کو یہ جسم برزخ میں دے گئے اور دوئم ان کو جنّت میں کھانا بھی ملتا ہے اور دوسروں پر یہ ثابت نہیں

 السيوطي کتاب  الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج میں ابن رجب کے حوالے سے لکھتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظ زين الدّين بن رَجَب فِي كتاب أهوال الْقُبُور الْفرق بَين حَيَاة الشُّهَدَاء وَغَيرهم من الْمُؤمنِينَ من وَجْهَيْن أَحدهمَا أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء يخلق لهاأجساد وَهِي الطير الَّتِي تكون فِي حواصلها ليكمل بذلك نعيمها وَيكون أكمل من نعيم الْأَرْوَاح الْمُجَرَّدَة عَن الأجساد فَإِن الشُّهَدَاء بذلوا أَجْسَادهم للْقَتْل فِي سَبِيل الله فعوضوا عَنْهَا بِهَذِهِ الأجساد فِي البرزخ

اور الْحَافِظ زين الدّين بن رَجَب كتاب أهوال الْقُبُور میں کہتے ہیں اور حیات شہداء اور عام مومنین کی زندگی میں فرق دو وجہ سے ہے کہ اول ارواح شہداء کے لئے جسم بنائے گئے ہیں اور وہ پرندے ہیں  جن کے پیٹوں میں وہ ہیں کہ وہ ان نعمتوں کی تکمیل  کرتے ہیں اور یہ مجرد ارواح کی نعمتوں سے اکمل ہے  کیونکہ شہداء نے اپنے جسموں پر زخم سہے الله کی راہ میں قتل ہوئے پس ان کو یہ جسم برزخ میں دے گئے

 شہداء کے لئے برزخی جسم پر واضح نصوص کو السيوطي بھی مانتے ہیں. ارشد کمال ان کا اس انداز میں مذاق اڑاتے ہیں

almasnad-96

دامانوی دین الخالص میں لکھتے ہیں

برزخی جسم دامانوی

احادیث کے واضح متن کو رد کرنے کے لئے قادیانی دجال کا حوالہ انہی کو مبارک ھو. ہمارا ایمان تواحادیث صحیحہ پر ہے

قادیانی دجال سن ١٩٠٨ ع میں جہنم رسید ہوا اس کے بعد اہل حدیث عالم اسمعیل سلفی  المتوفی ١٩٦٨ ع نے بھی برزخی جسد کا  کتاب حیات النبی میں ذکر کیا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت یونس علیہ السلام کو احرام باندھے شتر سوار تلبیہ کہتے سنا دجال کوبحالت احرام کے لیے جاتے دیکھا عمروبن لحئ کو جہنم میں دیکھا یہ برزخی اجسام ہیں اور کشفی رویت ہیں

یہ بھی لکھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے معراج پر انبیاء کی امامت کی اور انبیاء برزخی جسموں کے ساتھ تھے

دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی

 ان سے بھی پہلے ابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٠٩ میں  واقعہ معراج پر لکھتے ہیں

وَأَمَّا الَّذِينَ صَلَّوْا مَعَهُ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَيَحْتَمِلُ الْأَرْوَاحَ خَاصَّةً وَيَحْتَمِلُ الْأَجْسَادَ بِأَرْوَاحِهَا

اور بیت المقدس میں وہ انبیاء جنہوں نے نماز ادا کی ان کے بارے  میں احتمال ہے وہ ارواح تھیں اور احتمال ہے کہ جسم تھے انکی روحوں کے ساتھ

اگر کسی دجال نے کوئی صحیح حدیث نقل کی یا اس کی شرح کی تو کیا وہ بات غلط ہو جائے گی جوش  مخالفت میں آدمی کو اپنے آپے میں رہنا چاہئے

عجیب بات یہ ہے کہ موصوف خود روایت پیش کرتے ہیں کہ یہ پرندے جنت میں کھاتے بھی ہیں اور آیت وہ بتاتے ہیں جس میں شہید کے رزق کا ذکر ہے نہ کہ انکے ہوائی جہازوں کا. المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

بخاری میں سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت  میں تفصیل سے ارواح پر برزخی اجساد میں عذاب کا ذکر آیا ہے

سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے لئے کتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور میں السيوطي لکھتے ہیں

قَالَ الْعلمَاء هَذَا نَص صَرِيح فِي عَذَاب البرزخ فَإِن رُؤْيا الْأَنْبِيَاء وَحي مُطَابق فِي نفس الْأَمر وَقد قَالَ يفعل بِهِ إِلَى يَوْم الْقِيَامَة

علماء کہتے ہیں یہ نص صریح ہے عذاب البرزخ پر کیونکہ انبیاء کا خواب وحی ہے جو نفس امر کے مطابق ہے اور بے شک کہا کہ ایسا قیامت تک ھو گا

 السيوطي کتاب  الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج میں لکھتے ہیں

عَن سَمُرَة بن جُنْدُب قَالَ كَانَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا صلى الصُّبْح أقبل عَلَيْهِم بِوَجْهِهِ فَقَالَ هَل رأى أحد مِنْك البارحة رُؤْيا هَذَا مُخْتَصر من حَدِيث طَوِيل وَبعده وَأَنه قَالَ لنا ذَات غَدَاة إِنَّه أَتَانِي اللَّيْلَة آتيان فَقَالَا لي انْطلق فَذكر حَدِيثا طَويلا فِيهِ جمل من أَحْوَال الْمَوْتَى فِي البرزخ وَقد أخرج البُخَارِيّ بِتَمَامِهِ

سَمُرَة بن جُنْدُب سے مروی ہے کہ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم جب صبح کی نماز پڑھتے تو ہماری طرف رخ کرتے  اور پوچھتے کہ کیا تم میں سے کل کسی نے خواب دیکھا ہے  یہ  ایک طویل حدیث کا اختصار ہے …جس میں احوال الموتی کا اجمال ہے البرزخ میں اور اس کو بخاری نے مکمل بیان کیا ہے

 البرزخ پر سَمُرَة بن جُنْدُب رضی الله تعالی عنہ کی روایت کو ارشد کمال نے اپنی تالیف بنام المسند فی عذاب القبر میں سرے سے پیش ہی نہیں کیا

اب ہم واپس السيوطي کے اس قول کی طرف آتے ہیں جس کا حوالہ ارشد کمال نے دیا ہے

السيوطي کتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور میں لکھتے ہیں

قَالَ الْعلمَاء عَذَاب الْقَبْر هُوَ عَذَاب البرزخ أضيف إِلَى الْقَبْر لِأَنَّهُ الْغَالِب وَإِلَّا فَكل ميت وَإِذا أَرَادَ الله تَعَالَى تعذيبه ناله مَا أَرَادَ بِهِ قبر أَو لم يقبر وَلَو صلب أَو غرق فِي الْبَحْر أَو أَكلته الدَّوَابّ أَو حرق حَتَّى صَار رَمَادا أَو ذري فِي الرّيح وَمحله الرّوح وَالْبدن جَمِيعًا بِاتِّفَاق أهل السّنة وَكَذَا القَوْل فِي النَّعيم

علماء نے فرمایا کہ عذاب قبر عذاب برزخ ہی (کا نام) ہے اسے قبر کی طرف منسوب اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ (مردوں کا قبروں میں دفن ہونا) اغلب و اکثر ہے اور اگر الله ان کو عذاب دینا چاہے  تو اس کے لئے قبر نہیں چاہیے  اگر قبر نہ دی جائے ، اگر صلیب دی جائے یا سمندر میں غرق ھو یا جانور کھا جائیں یا آگ میں جلایا جائے حتیٰ کہ راکھ بن جائے یا  ہوا اڑا دے  تو بھی عذاب بدن و روح کو ھو گا یہ قول بِاتِّفَاق أهل السّنة ہے  اسی طرح راحت بھی

السيوطي کے اقوال سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک بھی برزخ مقام ہے نہ کہ صرف ایک کیفیت. افسوس کہ اس طرح کے خلط مبحث سے ارشد کمال کی کتابیں پر ہیں

ابن رجب اور السیوطی دونوں جسد اور روح پر عذاب کے قائلین میں سے ہیں لیکن البرزخ کو مقام مانتے ہیں اس وجہ سے ہم نے ان کو پیش کیا ہے ورنہ ہمارا عقیدہ ہے کہ عود روح کا عقیدہ باطل ہے اور جسد عذاب محسوس نہیں کرتا

ارشد کمال کتاب عذاب القبر کے صفحہ ١٠٦ اور ١٠٧ پر لکھتے ہیں

arshd-Baryakh

اگر شہداء کی ارواح سبز پرندوں میں ہوائی جہاز کی طرح سیر کرتی ہیں تو بھلا بتائے ال فرعون کیا جھنم کی سیر کرتے ہیں؟ واضح ہے کہ یہ نئے اجساد البرزخ میں ہیں نہ کہ قبر میں

سوال یہ ہے کہ جب ال فرعون کو ان کالے پرندوں  میں بیٹھا کر جہنم کی سیر کرائی جاتی ہے تو پھر کرے کوئی بھرے کوئی کا سوال کیوں پیدا نہیں ہوتا؟

[/EXPAND]

[کہا جاتا ہے انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس کی کوئی صحیح حدیث ہے ؟]

أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : انبیاءاپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں

البانی اپنی کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها  میں لکھتے ہیں

فقد أورده الذهبي في ” الميزان ” وقال: ” نكرة، ما روى عنه – فيما أعلم – سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه عن أنس في أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون. رواه البيهقي “. لكن تعقبه الحافظ في ” اللسان “، فقال عقبه: ” وإنما هو حجاج بن أبي زياد الأسود يعرف بزق العسل ” وهو بصري كان ينزل القسامل

پس بے شک  اس کو الذهبي  میزان میں لے کر آئے ہیں اور کہا ہے منکرہے جو روایت کیا ہے -یہ علم ہوا ہے کہ سوائے مستلم بن سعيد کے کوئی اور اس کو روایت نہیں کرتا ،پس ایک منکر خبر انس سے روایت کرتا ہے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں- اسکو البيهقي نے (بھی ) روایت کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں اس کا تعاقب کیا ہے پس اس روایت کے بعد کہا ہے بے شک یہ  حجاج بن أبي زياد الأسود ہے جوزق العسل سے معروف ہے اور بصری ہے

 البزاز المتوفى: ھ٢٩٢ کہتے ہیں

حَدَّثنا رزق الله بن موسى، حَدَّثنا الحسن بن قتيبة، حَدَّثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَن الحَجَّاج، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس؛ أَن رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ.

وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس إلاَّ الْحَجَّاجُ، ولاَ عَن الْحَجَّاجِ إلاَّ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، ولاَ نعلمُ رَوَى الْحَجَّاجُ، عَنْ ثابتٍ، إلاَّ هذا الحديث.

اور یہ حدیث اس کو ہم نہیں جانتے کہ روایت کیا ہو سوائے  الْحَجَّاجُ نے اور اس سے الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ نے

 معلوم ہوا کہ یہ راوی الحَجَّاج الصَّوَّافَ ہے نہ کہ حجاج بن أبي زياد الأسود

ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَأَخْرَجَهُ الْبَزَّارُ لَكِنْ وَقَعَ عِنْدَهُ عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ وَهُوَ وَهْمٌ وَالصَّوَابُ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ

اس کی تخریج الْبَزَّارُ نے کی ہے لیکن اس میں حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ہے جو وہم ہے اور مناسب ہے کہ یہ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ ہے

اگرچہ ابن حجر کے بعد لوگوں نے اس روایت کو حسن ، صحیح کہا ہے لیکن انہوں نے راوی کی وضاحت نہیں کی کہ کون سا ہے کبھی یہی راوی الْحجَّاج بن الْأسود  بن جاتا ہے جیسے طبقات الشافعية الكبرى ، البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبيراور لسان الميزان میں

اس روایت کے دفاع میں بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کی سند میں راوی ججاج بن الاسود کو حماد بن سلمہ حجاج الاسود بولتے تھے

ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ کتاب الثقات میں لکھتے ہیں

 حجاج بن أبي زِيَاد الْأسود من أهل الْبَصْرَة كَانَ ينزل القسامل بهَا يروي عَن أبي نَضرة وَجَابِر بن زيد روى عَنهُ عِيسَى بْن يُونُس وَجَرِير بن حَازِم وَهُوَ الَّذِي يحدث عَنهُ حَمَّاد بن سَلمَة وَيَقُول حَدثنَا حجاج الْأسود

حجاج بن أبي زِيَاد الْأسود أهل الْبَصْرَة میں سے ہیں .. ان سے حَمَّاد بن سَلمَة نے روایت کیا ہے اور کہا ہے حَدثنَا حجاج الْأسود

 ایک اور راوی حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف کے لئے ابن حبان لکھتے ہیں

حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف كنيته أَبُو الصَّلْت مولى التَّوْأَمَة بنت أُميَّة بن خلف وَاسم أبي عُثْمَان ميسرَة وَقد قيل إِن اسْم أبي عُثْمَان سَالم يروي عَن أبي الزبير وَيحيى بن أَبى كثير روى عَنهُ حَمَّاد بْن سَلمَة والبصريون مَاتَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةٍ وَكَانَ متقنا

حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف ان کی کنیت أَبُو الصَّلْت ہے . ان سے حَمَّاد بْن سَلمَة اور بصریوں نے روایت کیا ہے ، سن ١٤٣ ھ میں وفات ہوئی

اول روایت أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون حَمَّاد بن سَلمَة کی سند سے نقل نہیں ہوئی بلکہ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ نے حجاج سے سنی ہے

دوئم اس کی سند میں ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ہیں اور حَمَّاد بن سَلمَة کی ان سے بہت سی روایات مروی ہیں لیکن یہ والی نہیں

سوم ذھبی اس روایت کو منکر کہتے ہیں یعنی اس روایت کا متن کا صحیح حدیث کے خلاف ہے

اس بحث کا لب لباب ہے کہ ابن حجر کی تصحیح نہ صرف مشکوک ہے بلکہ راوی کی نامکمل تحقیق پر مبنی ہے ابن حجر نے بیہقی کی اس روایت کی تصحیح کا حوالہ بھی دیا ہے  لیکن بیہقی نے جس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اس کی سند میں الْحجَّاج بن الْأسود   ہے نہ کہ حجاج بن أبي زياد الأسود. دوم ابن حجر باربار اس موقف تبدیل کرتے ہیں لسان المیزان میں اس روایت کو منکر کہتے ہیں اور فتح الباری میں صحیح ! جو عجیب بات ہے

اس روایت کی تصحیح کرنے والے  حضرات راوی کو ایک دوسرے  کی تصحیح کی بنیاد پر صحیح قرار دیتے رہے لیکن افسوس راوی کے بارے میں کوئی ایک رائے نہیں. پہلے یہ تو ثابت ہو کہ یہ کون راوی ہے پھر اس کی صحت و سقم کا سوال ہو گا – لیکن چونکہ یہ واضح نہیں لہذا یہ روایت مجھول راوی کی وجہ سے ضعیف ہے – کیا ایسی عجوبہ سند والی روایت، جس کا راوی مبہم ہو اس سے عقیدے کا اثبات کیا جائے گا

محب راشدی فتاوی راشدیہ میں لکھتے ہیں

rashdi-anbiya-qabor

دوسری سند

بیہقی نے کتاب حياة الأنبياء في قبورهم میں اس کو ایک دوسری سند سے بھی پیش کیا ہے

أخبرناه أبو عثمان الإمام ، رحمه الله أنبأ زاهر بن أحمد ، ثنا أبو جعفر محمد بن معاذ الماليني ، ثنا الحسين بن الحسن ، ثنا مؤمل ، ثنا عبيد الله بن أبي حميد الهذلي ، عن أبي المليح ، عن أنس بن مالك، قال : « الأنبياء في قبورهم أحياء يصلون

 اس کے ایک راوی کے لئے عقیلی کہتے ہیں

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب عن أبي المليح قال يحيى هو كوفي ضعيف الحديث

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب ، أبي المليح سے  يحيى کہتے ہیں كوفي ہے ضعيف الحديث ہے

بخاری اس کو منکر الحدیث کہتے ہیں

ابو نعیم اصبہانی کتاب ضعفاء میں کہتے ہیں

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي يحدث عنه مكي بن إبراهيم يروي عن أبي المليح وعطاء بالمناكير لا شئ

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي اس ہے  مكي بن إبراهيم روایت کرتا ہے جو  أبي المليح  اورعطاء سے منکر روایات نقل کرتا ہے کوئی چیز نہیں

بیہقی کی سند میں یہی ضعیف راوی ہیں. ایسے منکر الحدیث راویوں سے اس اہم عقیدہ کا اثبات شرم انگیز ہے

افسوس بیہقی نے امت پر بہت ستم ڈھایا ہے

اہل حدیث علماء کا سابقہ  موقف

اسمعیل سلفی کتاب مسئلہ حیات النبی میں لکھتے ہیں

anbiya-qabor-ismaelsalafi

فتاوی اہل حدیث ج ٥ میں ہے

sanaiyah-murda

افسوس آجکل کے اہل حدیث فرقہ کے علماء اس سے سارے انبیاء کی دنیا کی قبر میں زندگی ثابت کرتے ہیں اسمعیل سلفی تو اس کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ کسی عقیدہ کی بنیاد اس پر رکھی جائے

معلوم ہوا کہ آجکل کے فرقہ اہل حدیث اور دیوبندیوں کے عقائد ایک  ہو گئے ہیں

فتاوی اہل حدیث ج  ٥ ص ٤٢٧  کے مطابق تمام مومن کی روحیں جنت میں ہیں

موسی قبر میں فتویٰ اہل حدیث

یہ کیا انصاف ہے انبیاء کو تو  دنیا کی قبروں میں  رکھا جائے اور ان کے متبعین جنت میں لطف اٹھائیں

موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا

طرفہ تماشہ ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی انبیاء کو قبروں میں زندہ کرنے لےلئے ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں معراج کی رات نماز پڑھتے دیکھا. حالانکہ معراج کی رات الله کی نشانی ہے ایک معجزہ ہے جو ایک عام واقعہ نہیں. اصول یہ ہے کہ معجزہ دلیل نہیں بن سکتا تو اس کو پیش کرنا چہ معنی

بخاری کی حدیث ہے کہ جب ملک الموت موسی علیہ السلام کی روح قبض کرنے آیا تو انہوں نے اس کو تھپڑ مار دیا اگر ان کو پتا ہوتا کہ میں اسی دینا کی قبر میں نماز پڑھتا رہوں گا تو وہ ایسا نہ کرتے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ موسی اور آدم علیھما السلام کا تقدیر کے بارے میں کلام ہوا متقدمین شآرحیں نے اس کو عالم البرزخ میں بتایا ہے اگر موسی قبر میں ہیں تو آدم کی ان سے کیسے ملاقات ہو گئی

اس روایت میں بیان ہو رہا ہے کہ انبیاء قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اس کے برعکس صحیح بخاری میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ

  اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا

اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ

اگر قبر میں نماز پڑھی جاتی ہے تو صحیح بخاری کی حدیث کا کیا مفہوم رہ جائے گا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول میں تضاد ممکن نہیں لہذا الذهبي کی بات درست ہے کہ روایت  انبیاءاپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے

[/EXPAND]

[کہا جاتا ہے الانبيأ احياء في قبورهم یصلون  انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس ضعیف روایت کو البانی صاحب كس دلیل سے صحيح کہا ہے؟ اور کیوں کہا ہے؟؟]

الانبيأ احياء في قبورهم یصلون
سلسله احادیث الصحیحه ج۲ص۱۸۷شماره۶۲۱

جواب

البانی اس پر وہی فلسفہ بھگارتے ہیں جو چلا ا رہا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اور بندہ ایجاد ہے
الصحیحہ (2/ 190،178) میں اس پر کہتے ہیں
اعلم أن الحياة التي أثبتها هذا الحديث للأنبياء عليهم الصلاة والسلام، إنما هي حياة برزخية، ليست من حياة الدنيا في شيء،
جان لو اس روایت میں انبیاء کی جس زندگی کا اثبات کیا گیا ہے یہ برزخی زندگی ہے جس میں دنیا کی زندگی کی کوئی چیز نہیں

الصحیحہ میں امام الذھبی کی اس روایت پر جرح پیش کرنے کے بعد البانی کہتے ہیں
قلت: ويتلخص منه أن حجاجا هذا ثقة بلا خلاف وأن الذهبي توهم أنه غيره فلم يعرفه ولذلك استنكر حديثه، ،
میں کہتا ہوں خلاصہ ہے کہ یہ حجاج ثقہ ہے اس میں اختلاف نہیں اور بے شک الذھبی کو وہم ہوا کہ یہ کوئی اور ہے پس اس کو نہ پہچانا اور اس وجہ سے اس روایت کو منکر قرار دیا

————

راقم کہتا ہے اس روایت کی تمام اسناد میں ایک راوی حجاج بلا ولدیت کے آیا ہے جس کے باپ کا نام یہ لوگ بدلتے رہتے ہیں ابن حجر اس کا نام فتح الباری میں الگ لیتے ہیں الذھبی میزان میں الگ اور سبکی شفاء السقام میں الگ- اس طرح کی روایت جس میں راوی مبہم ہو اس پر عقیدہ بنانا اندھیرے میں تیر چلانا ہے
حیات فی القبر کی بہت سی روایات بصریوں کی ایجاد ہیں جن میں یہ والی بھی ہے مثلا موسی کا قبر میں نماز پڑھنا بھی صرف بصری بیان کرتے ہیں اور اصحاب رسول میں سے انبیاء کا قبروں میں نماز پڑھنا اور موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا صرف انس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں جو بصرہ میں کچھ عرصہ رہے ان سے بصریوں نے سنا اور ان سے بہت سے ضعیف روایات منسوب کی گئیں

جب عقیدہ پر روایت میں خاص شہر کا تفرد ا جائے تو وہ مشکوک ہے کیونکہ عقیدہ کی بات سب کو بیان کرنی چاہیے
قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ)
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب

اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال:
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد

ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے
——-
اور اسی طرح کا قول ہے
قال: أقلد جميع الصحابة إلا ثلاثة منهم أنس بن مالك، وأبو هريرة، وسمرة بن جندب رضى الله عنهم. أما أنس فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، وكان يستفتي من علقمة، وإنما لا أقلد علقمة فكيف أقلد من يستفتي علقمة، وأما أبو هريرة فإنه لم يكن من أئمة الفتوى، بل كان من الرواة فيما كان يروى لا يتأمل في المعنى، وكان لا يعرف الناسخ والمنسوخ، ولأجل ذلك حجر عليه عمر رضي الله عنه، عن الفتوى في آخر عمره، وأما سمرة بن جندب فقد بلغني عنه أمر يتأبى، والذي بلغ عنه، إنه كان يتوسع في الأشربة المسكرة سوى الخمر، وكان يتدلك في الحمام بالخمر، فلم نقلدهم في فتواهم لهذا، أما فيما روي عن النبي عليه السلام أنه كان يأخذ بروايتهم، لأن كل واحد موثوق به فيما يروي.

المحيط البرهاني في الفقه النعماني فقه الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه
المؤلف: أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (المتوفى: 616هـ)

ابو حنیفہ نے کہا .. اصحاب رسول کی تقلید ہو گی سوائے انس اور ابو ہریرہ اور سمرہ کے کہ … انس آخری عمر میں مختلط تھے اور علقمہ سے پوچھتے تھے

مزید
https://archive.org/stream/fqh12/113#page/n199/mode/2up

———————

یہ احناف کی فقہ کی کتابیں ہیں جب عمل میں ان اصحاب کی منفرد روایت نہیں لی جا رہی تو عقیدہ میں منفرد روایت قبول کیسے کر لی جائے
لہذا انس رضی الله عنہ سے منسوب روایت جو صرف بصری روایت کریں مشکوک ہے
یہ جملہ معترضہ ہے

روایت کو انس رضی الله عنہ سے ثابت بن أسلم البنانى ، أبو محمد البصرى المتوفی ١٠٠ ہجری نے روایت کیا ہے راقم کہتا ہے اس میں انس رضی الله عنہ سے منکر روایت کرنے میں ثابت البنانی البصری کی غلطی کے علاوہ ان راویوں کی غلطی بھی ہے جنہوں نے مجھول سے روایت کیا ہے
اس قسم کی روایات عراق میں پھیلنے کی وجہ زہد تھا ان پر خوارج کے حملہ ہوتے تھے اور وہ دنیا سے بے زار ہو کر روحانیت کی تلاش میں قبروں کی طرف متوجہ ہو رہے تھے دیگر شہروں میں اس قنوطیت کا اثر نہ تھا

اب سند دیکھیں مسند ابو یعلی میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الْأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ

اس میں الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ہے جو مجھول حجاج سے روایت کرتا ہے البزار (المتوفى: 292هـ) کہتے ہیں اس میں اس کا تفرد ہے
وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس إلاَّ الْحَجَّاجُ، ولاَ عَن الْحَجَّاجِ إلاَّ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، ولاَ نعلمُ رَوَى الْحَجَّاجُ، عَنْ ثابتٍ، إلاَّ هذا الحديث.
الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ واسط کا ہے یہ جوگی بن چکا تھا

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال
المؤلف: مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ)
کے مطابق

وعن يزيد بن هارون ذكروا أنه لم يضع جنبه منذ أربعين عاما، فظننت أنه يعني بالليل، فقيل لي: ولا بالنهار. وعن أصبغ بن يزيد قال: قال لي مستلم: لي اليوم سبعون يوما لم أشرب ماء
یزید بن ہارون سے روایت ہے کہ مستلم نے چالیس سال تک پہلو نہیں لگایا پس گمان کیا کہ رات میں لیکن مجھ سے کہا گیا دن میں بھی اور اصبع سے روایت ہے کہ مجھ سے مستلم نے کہا ستر دن سے پانی نہیں پیا

—-
اب اپ فیصلہ کریں جو بدعتی شخص ستر دن پانی نہ پئے اس کی دماغی حالت ایسی ہو گی کہ اس کی بیان کردہ منفرد روایت پر عقیدہ رکھا جائے؟

[/EXPAND]

[کیا قبر آخرت کی پہلی منزل ہے؟]

جواب

عبد الله بن بحیر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ہانی مولی عثمان رضی الله تعالی عنہ سے سنا کہ بیان کرتے ہیں کہ

كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَيُقَالُ لَهُ قَدْ تَذْكُرُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ فَلَا تَبْكِي، وَتَبْكِي مِنْ هَذَا فَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ» وَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ»

عثمان رضی الله تعالی عنہ جب قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ھوجاتی … اور کہتے کہ بے شک الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے …

یہ روایت مسند احمد، مستدرک الحاکم میں بیان ہوئی ہے اس کے ایک راوی عبد الله بن بحیر کے لئے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

وقال ابن حبان: يروى العجائب التي كأنها معمولة، لا يحتج به،     اور ابن حبان کہتے ہیں یہ عجائب روایت کرتا ہے اس سے احتجاج نہ کیا جائے

الذھبی تاریخ الاسلام میں کہتے ہیں  فِيهِ ضَعْفٌ،  ان میں کمزوری ہے

یہ بھی کہتے ہیں  وله غرائب  غریب روایات بیان کرتے ہیں

الذھبی اپنی دوسری کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں ان کو منکر الحدیث بھی

کہتے ہیں

سندا تو روایت ہے ہی کمزور اس کا متن بھی درایت کے مطابق درست نہیں

عائشہ رضی الله تعالی عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے پہلے  انہوں نے مسواک چبا کر نبی صلی الله علیہوسلم کو دی .آپ کہتی ہیں کہ اس کے بعد آپ کی وفات ہوئی اور الله نے آخرت کے دن میرا اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا لعاب ایک جگہ جمع کر دیا

موطا کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی

تُوُفِّيَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ، وَدُفِنَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ

وفات پیر کے دن ہوئی اور تدفین منگل کو ہوئی

معلوم ہوا کہ آخرت کا پہلا دن خروج نفس کا ہے نہ کہ تدفین کا

لہذا قبر آخرت کی پہلی منزل کیسے ہوئی؟

[/EXPAND]

[کیا یہ روایت درست ہے ؟]

جواب

ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر صفحہ  ٥٦ سے ٥٨ پر محمد بن عمرو عن ابی سلمہ عن ابو ہریرہ کی سند سے آئی ہوئی ایک روایت پیش کرتے  ہیں

arshad-56

arshad-57

جوزجانی احوال الرجل میں کہتے ہیں

محمد بن عمرو بن علقمة ليس بقوي الحديث ويشتهى حديثه

محمد بن عمرو بن علقمة حدیث میں  قوی نہیں اور ان کی حدیث پسند کی جاتی ہے

ابن ابی  خیثمہ کتاب تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں کہ يَحْيَى بن معین کہتے ہیں

لم يزل الناس يتقون حديث مُحَمَّد بن عَمْرو [ق/142/ب] قيل له: وما علة ذلك؟ قَالَ: كان مُحَمَّد بن عَمْرو يحدث مرة عن أبي سلمة بالشيء رأيه، ثم يحدِّث به مرة أخرى عن أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ

لوگ مسلسل مُحَمَّد بن عَمْرو کی روایت سے بچتے رہے  .. پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے کہا مُحَمَّد بن عَمْرو کبھی روایت ابی سلمہ سے بیان کرتے اور کبھی ابی سلمہ عن ابی ھریرہ سے

علي بن الْمَدِيْنِيّ کہتے ہیں

سألت يَحْيَى بن سعيد، عن مُحَمَّد بن عمرو، وكيف هو؟ قَالَ: تريد العفو أو تشدد؟ قلت: بل أشدد، قَالَ: ليس هو ممن تُريد

يَحْيَى بن سعيد سے مُحَمَّد بن عمرو کے بارے میں سوال ہوا  کہ کیسا ہے بولے نرمی والی بات ہے یا سختی والی بولے نہیں سختی والی یہ وہ نہیں جو تم کو چاہیے

 ذھبی اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

قُلْتُ: صَدَقَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ لَيْسَ هو مثل يحيى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، وَحَدِيثُهُ صَالِحٌ.

ذھبی کہتے ہیں: يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ سچ کہتے ہیں اور یہ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الانصاری جیسا نہیں اس کی حدیث صالح ہے

ابن الجوزی کتاب الضعفاء والمتروكون میں لکھتے ہیں

وَقَالَ السَّعْدِيّ لَيْسَ بِقَوي

السَّعْدِيّ  کہتے ہیں لَيْسَ بِقَوي قوی نہیں

بخاری نے اصول میں کوئی بھی روایت محمد بن عمرو عن ابی سلمہ عن ابو ھریرہ کی سند سے بیان نہیں کیں بلکہ شاہد کے طور پر  صرف دو جگہ بَابُ جَهْرِ المَأْمُومِ بِالتَّأْمِينِ اور  بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا} [النساء: 125] میں صرف  سند دی ہے. امام مسلم نے بھی شاہد کے طور پر بَابُ اسْتِحْبَابِ تَحْسِينِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ میں ان کی سند پیش کی ہے نہ کہ مکمل روایت.  لہذا بخاری و مسلم کا اصول ہے کہ ان کی روایت شاہد کے طور پر غیر عقیدہ میں پیش کی جا سکتی ہے

اس کے باوجود کہ ائمہ حدیث نے اس راوی کے حوالے سے اتنی احتیاط برتی ہے لوگوں نے ان کی روایات کو عقیدے میں بھی لے لیا ہے جو کہ صریحا  ائمہ حدیث کے موقف کے خلاف ہے

ہیثمی اور البانی نے بھی روایت کو حسن قرار دیا ہے . کیا حسن روایت پر عقیدہ استوار کیا جا سکتا ہے؟

[/EXPAND]

[آعآدہ روح کے لئے  کعب بن مالک کی روایت اور ابن مسعود رضی الله عنہما کی روایت سے رد ہوتا ہے ؟ میت کو عذاب کا عقیدہ کب اختیار کیا گیا؟]

حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھے ک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا

حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرض کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388

جواب

ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی حدیث اور کعب رضی الله عنہ کا قول جو آپ نے پیش کیا وہ اس کی دلیل ہے کہ چاہے عام آدمی ہو یا خاص شخص ، اسکی روح واپس جسد میں نہیں اتی- ابن مسعودجلیل القدر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں جن کے لئے ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگر کسی کو قرآن سیکھنا ہے تو ان سے سیکھیے -تمام صحابہ کا نام نہیں لیا گیا جبکہ تمام رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سیکھتے تھے مثلا ایک استاد کہتا ہے کہ فلاں مضمون میں میرا وہ شاگرد اچھا ہے
اسی طرح جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ عود روح نہیں ہوتا تو پھر اس کو قبول کیا جانا چاہیے

قرآن میں عود روح کا ذکر نہیں ہے جو اس کے قائل ہیں وہ کتاب الله کے خلاف کہتے ہیں
جیسا آپ نے مانا ہے

عود روح کی حدیث جن لوگوں سے مروی ہے ان میں ہر سند میں شیعہ ہیں مثلازاذان ، المنھال بن عمرو عدی بن ثابت اور یونس بن خباب ان چار میں سے دو تو ضرور کسی ایک سند میں ہیں

الذھبی کہتے ہیں اس میں غرابت و نکارت ہے سیر الاعلام النبلاء
ابن حبان صحیح میں باقاعدہ اس کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ یہ روایت اس قابل نہیں کہ لکھی جائے
امام شعبہ اس کے راوی المنھال کو متروک سمجھتے تھے
ابن حزم اس کو ضعیف کہتے ہیں

لیکن ان علماء کے مخالف علماء اس کو صحیح قرار دے کر ایمان کا حصہ بناتے ہیں آپ خود اس کے متن کا قرآن سے تقابل کریں اور فیصلہ کریں یہ سب کس طرح صحیح ہے قرآن مخالف رجعت کے عقیدے کی روایت ہے جس کو شیعوں نے پھیلایا ہے
سب سے پہلی تصحیح اس کی امام الحاکم نے کی ہے جو ابن حزم کے ہم عصر ہیں یعنی ایک نیشاپور ایران میں اس کو صحیح کہتا تھا اور دوسرا اندلس میں اس کو پرلے درجے کی ضعیف روایت

ان علماء سے قبل ضعیف ہی کہا جاتا تھا مثلا چوتھی صدی کے ابن حبان- ان سے قبل اس کی تصحیح کسی سے پاس نہ ملی
آٹھویں صدی تک جا کر یہ عقیدے کی ایک اہم روایت بنی اور علماء نے اس کو تقریبا ہر عذاب قبر کی کتاب میں لکھا اور مردہ میں روح کو ڈالا کیونکہ ان کے نزدیک بے روح، بے جان، لا شعور تھا مثلا ساتویں صدی کے امام النووی تو کہتے تھے جو یہ مانے کہ بلا روح جسد پر عذاب ہوا وہ اہل سنت نہیں
دیکھئے شرح المسلم

وہ شخص جس نے بلا روح جسد کا عقیدہ پھیلایا وہ ایک بدعتی ابو عبدالله محمد بن کرام سجستانی نیشابوری تھا
اس کی کوکھ سے کرامیہ فرقہ نکلا اور آج عذاب قبر میں اہل حدیث اسی کے مقلد ہیں اس کی رائے میں بلا روح جسد کو عذاب ہوتا تھا اس سے قبل کسی کی یہ رائے نہیں
اب ان نام نہاد اہل حدیثوں کو روایت میں المیت کا لفظ مل گیا کہ میت کو عذاب ہوتا ہے یعنی وہی ابو عبدالله محمد بن کرام سجستانی نیشابوری کا عقیدہ انہوں نے پھیلایا اور اس کی تبلیغ شروع کی تقسیم ہند سے قبل ان کے علماء اس کے قائل نہ تھے دیکھئے فتاوی اہل حدیث

المیت جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ایک ذات ہوتی ہے کیونکہ موت انے پر انسان تقسیم ہو چکا ایک جسد دوسری روح
روح ہم نہیں دیکھتے لہذا زبان و ادب میں اس کا حوالہ نہیں دیا جاتا بلکہ جسد جو ٹھوس ہوتا ہے اسی کو میت کہا جاتا
لیکن اس یہ مطلب نہیں کہ اگر اس کی روح کے لئے کچھ کہنا ہو تو خاص روح کا لفظ بولا جائے گا

ہم اردو میں کہتے ہیں جب کوئی مرتا ہے :

وہ ہم کو چھوڑ کر چلے گئے

جبکہ میت سامنے ہوتی ہے تو سننے والا جانتا ہے کہ اس وقت روح کی بات ہو رہی ہے نہ کہ جسد کی

حدیث میں اتا ہے العبد کو عذاب ہوتا ہے اس کو کہا جاتا ہے تو نے نہ جانا نہ سنا
تو اس سے بھی مراد روح ہی ہے

کیا یہ قول زبان کے لہذا سے درست نہیں ؟ زبان و ادب میں جو گنجائش ہے اس کو سمجھتے ہوئے حدیث کی تطبیق قرآن سے ہو جاتی ہے

عود روح کے قائلین  مبہم بحثین کر کے ثابت کرتے ہیں کہ میت یعنی مردہ جسم کو عذاب ہوتا ہے
جو قرآن سے ثابت نہیں

پھر مردہ جو سنتا نہیں وہ چیخیں مارتا ہے وہ جو چیخ مارتا ہے کیا وہ خود اس کو سنتا ہے ؟
کہتے ہیں (صحیح بخاری کی ایک معلول حدیث دیکھئے مشکل الاثآر از امام الطحآوی) چیخ چوپائے سنتے ہیں یعنی چوپائے ہر وقت اس عذاب کو سن رہے ہیں کھانس کھا رہے ہیں فضا سے محظوظ ہو رہے ہیں بچے جن رہے ہیں دودھ دے رہے ہیں گویا یہ عذاب اور درد ناک چیخیں ان کو کوئی ضرر اور نفسیاتی اثر نہیں کرتیں-
ہر لحظہ اس زمین سے جس میں اربوں کھربوں جہنمی دفن ہیں ان کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں اور چوپایوں پر کوئی اثر نہیں؟
عذاب الہی ہے یا کیا ہے ؟

خود غور کریں کیا اصل ایمان ہے …. کیا دھرم ہے ؟

الله ہم کو اور ان کو ہدایت دے

[/EXPAND]

[کیا متقدمین مفسرین سماع الموتی کے قائل تھے اور متاخرین مثلا مودودی صاحب اور عبد الوہاب النجدی سماع الموتی کے انکاری ہیں ؟]

جواب

مودودی صاحب سماع کے انکاری نہیں اس کے لئے رسائل و مسائل دیکھئے- ان کے نزدیک مردہ کی روح ہو سکتا ہے قبر میں نہ ہو اور اس کو پکارا جا رہا ہو – لیکن یہ کہنے کا مقصد یہ نہی ہے کہ مردہ نہیں سن سکتا
http://www.rasailomasail.net/5128.html

محمد بن عبدالوہاب کے نزدیک مردے سنتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ امام ابن تیمیہ کا ہے اور دونوں علماء سماع الموتی کے قائل ہیں
https://books.google.com.bn/books?id=RNJLCwAAQBAJ&pg=PT363&lpg=PT363&dq=سماع+الموتى+عبدالوهاب&source=bl&ots=clZK71oZ-h&sig=jVy1sXU60XEJvdZIIxdw0UnUHbU&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwidvq-Ws4_LAhUDsJQKHVfyDyUQ6AEIGjAA#v=onepage&q=%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%B9%20%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D8%AA%D9%89%20%D8%B9%D8%A8%D8%AF%D8%A7%D9%84%D9%88%D9%87%D8%A7%D8%A8&f=false

صفحه ٣٦٤ پر النجدی کہتے ہیں کہ مردے کا سننا صورت حال پر مبنی ہے
مقید بحال دون حال لا فی جمیع حالاتہ

كتاب الآيات البينات في عدم سماع الأموات على مذهب الحنفية السادات أز الوسی كي مطابق
وَتبين أَيْضا مِنْهُ مُوَافقَة ابْن جرير الطَّبَرِيّ الْمُجْتَهد وَغَيره للحنفية فِي عدم السماع لِأَنَّهُ لما نفى الْحَيَاة فَمن الأولى أَن يَنْفِي السماع أَيْضا كَمَا لَا يخفى على كل ذِي فهم غير متصعب فَلَا تغفل

أور إس بحث سے واضح ہو جاتا ہے کہ ابن جریر الطبری اور احناف کا عدم سماع کا موقف سے مراد ہے کہ جب انہوں نے زندگی کی نفی کی تو سماع الموتی کی نفی بھی ہوئی جو مخفی نہیں کسی بھی ذی فہم اور تعصب سے عاری شخص پر

ابن جریر الطبری کس دور کے ہیں ؟ کیا یہ متاخرین میں سے ہیں – سارا مقدمہ یہیں فوت ہو جاتا ہے نعمان الوسی بھی مفسر قرآن ہیں یہ بھی سماع الموتی کے انکاری ہیں
ابن حزم بھی انکاری ہیں
حنابلہ میں القَاضِي أَبُو يعلى بھی انکاری ہیں
ابن الجوزی بھی انکاری ہیں
متعدد احناف متقدمین انکاری ہیں
سماع الموتی کی انکاری تو عائشہ رضی الله عنہا بھی ہیں امت کی سب سے بڑی فقیہ
جس کے قائل سماع الموتی کے قائل بھی ہیں
ابن تیمیہ فتوی ج ١ ص ٣٤٩ میں لکھتے ہیں

وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَذَا مُوَافِقٌ لِهَذَا فَكَيْفَ يَدْفَعُ ذَلِكَ ؟ وَمِنْ الْعُلَمَاءِ مَنْ قَالَ : إنَّ الْمَيِّتَ فِي قَبْرِهِ لَا يَسْمَعُ مَا دَامَ مَيِّتًا كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ

اور بے شک صحیحین سے یہ ثابت ہے اور دیگر کتب سے بے شک میت جوتوں کی چاپ سنتی ہے جب دفنانے والے پلٹتے ہیں پس یہ موافق ہے اس (سننے ) سے لہذا اس کو کیسے رد کریں؟ اور ایسے علماء بھی ہیں جو کہتے ہیں : بے شک میت قبر میں نہیں سنتی جب تک کہ وہ مردہ ہے جیسے کہ عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا

ابن رجب الحنبلی کتاب میں لکھتے ہیں
قال الحافظ ابن رجب: وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء
اور عائشہ رضی الله عنہآ سے انکار سماع میں موافقت بہت سے علماء نے کی ہے

عربی کی شد بد، عائشہ رضی الله عنہآ سے زیادہ کس کو ہو سکتی ہے؟ لہذا یہ بحث بھی بے وزن ہے

بلفرض یہ مان لیا جائے کہ مردے سنتے ہیں، تو اب اس کا فائدہ کیا ہے؟ لوگ اگر جا کر قبر پر مردوں کو بول بھی دیں تو آگے اس کا فائدہ
اس کی دلیل کہاں ہے کہ یہ مردے الله سے بھی کلام کرتے رہتے ہیں؟ لہذا یہ بحث اس طرح ختم نہیں ہوتی اس کے لئے ایک مصنوعی نظم کا عقیدہ اپنانا ہوتا ہے جس پر ١٠ سے ١٥ ضعیف روایات پر عقیدہ بنایا ہوتا ہے کہ

مردہ میں عود روح ہوا ،
مردہ نے سنا
مردہ کی روح واپس آسمان میں گئی
وہاں رب سے ہم کلام ہوئی
واپس آ کر جسد میں بھی گئی تاکہ یہ سلسلہ چلے
جبکہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں

[/EXPAND]

[اہل حدیث علماء کہتے ہیں مردہ عود روح کے بعد بھی مردہ ہے اور چاپ سننا استثنائی معاملہ ہے آپ کی کیا رائے ہے؟]

جواب

بعض جھل مرکب علماء نے یہ قول اختیار کیا ہے جو اصل میں ہمارے اعتراض کا جواب نہ بن پڑنے پر انہوں نے زمانہ حال میں اختیار کیا ہے کہ عود روح کے بعد بھی مردہ مردہ ہے زندہ نہیں اس میں ابو جابر دامانوی وغیرہم ہیں

لیکن حقیقت میں اہل حدیث غیر مقلد ہیں اور دین میں ان کا ارتقاء جاری ہے نہ صرف عمل میں بلکہ عقائد میں بھی

البانی کتاب آیات البینات از نعمآن الوسی پر تقریظ میں لکھتے ہیں

albani-qra-naal

مولوی نزیر حسین لکھتے ہیں

nazeer-murda-murda-nahi

سن ٢٠٠٠ کے لگ بھگ کافی سوچ بچار کر کے اہل حدیث علماء نے ایک نیا عقیدہ اختیار کیا اور اس کی تبلیغ شروع کی

اس میں ان کے سر خیل ابو جابر دامانوی ہیں انہوں نے بتایا کہ عود روح ہونے پر مردہ کو مردہ ہی کہو

گویا اپنے سلف سے کٹ کر انہوں نے ایک نیا موقف گھڑا اور آج کل اس کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے وہ متقدمین سے چلا آ رہا ہو

[/EXPAND]

[صحیح مسلم کی موسی علیہ السلام کی قبر میں نماز پڑھنے والی روایت کی کیا اسنادی حثیت ہے]

جواب

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات ایک سرخ ٹیلے کے پاس قبر میں دیکھا اور اس میں ہے وہ نماز پڑھ رہے تھے

جواب

صحیح بخاری میں  أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ موسی علیہ السلام کی قبر ارض مقدس کے رخ پر سرخ ٹیلے کے پاس ہے

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات ایک الكثيبِ الأَحمر  سرخ ٹیلے کے پاس قبر میں دیکھا اور اس میں ہے وہ نماز پڑھ رہے تھے

یہ روایت حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ البصری ، وَسُلَيْمَانَ سليمان بن طرخان التَّيْمِيِّ البصری ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ کی  سند سے آئی ہے- یعنی سليمان بن طرخان التيمى البصری اور ثابت البنانی البصری دونوں سے یہ منقول ہے

کتاب  المعجم الأوسط  از الطبراني  میں اس کی  ایک سند ابو سعید الخدری سے بھی ہے لیکن وہ ضعیف ہے

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ مُحَمَّدٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، نا صِلَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي مَرَرْتُ بِمُوسَى وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ»

لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَوْفٍ إِلَّا صِلَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، تَفَرَّدَ بِهِ: مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ

صِلَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ نے بیان کیا کہ عَوْفٌ الأَعْرَابِيُّ البصری نے عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ کی سند سے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات ایک الكثيبِ الأَحمر  سرخ ٹیلے کے پاس قبر میں دیکھا اور اس میں ہے وہ نماز پڑھ رہے تھے

امام بخاری تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں

صِلَة بْن سُليمان.  لَيْسَ بذلك القوي.

قَالَ أَبو الأَسود: حدَّثنا صِلَة بْن سُليمان، أَبو زَيد الواسِطِيّ، سَمِعَ عَوفًا، مُرسلٌ.

صِلَة بْن سُليمان قوی نہیں ابو الاسود نے کہا عوف سے سنا (پر) مرسل ہے

اس سلسلے کی صحیح سمجھے جانے والی روایت سليمان بن طرخان التيمى المتوفی ١٤٣ ھ اور  ثابت بن أسلم البنانى المتوفي ١٢٣ ھ یا ١٢٧ھ  کی سند سے ہے یہ دونوں بصرہ کے ہیں اور ایک طرح اس میں بصریوں  کا تفرد بنتا ہے کیونکہ اس کی کوئی اور صحیح سند نہیں ہے بلکہ ضعیف والی بھی  ایک بصری عوف الأَعْرَابِيُّ  سے ہے  یعنی یہ موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا صرف بصریوں نے روایت کیا ہے انس رضی الله عنہ کے دیگر شاگرد اور اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم اس کو بیان نہیں کرتے- کسی ایک ہی علاقہ میں روایت کا پروان چڑھنا عجیب بات ہے جبکہ یہ عقیدہ کی بات ہے

بحر الحال چونکہ یہ روایت ایک خاص معجزاتی رات کے حوالے سے ہے– امام مسلم نے اس کو فضائل موسی علیہ السلام میں سے سمجھا ہے اور فضائل کسی ذات پر مخصوص ہوتے ہیں اگر تمام پر مانا جائے تو خصوصیت ختم ہو جائے گی لہذا قرین قیاس ہے کہ امام مسلم اس کو صرف موسی علیہ السلام کا ایک خاص واقعہ کہنا چاہتے ہیں ورنہ اس کو فضائل انبیاء میں سب کے باب میں لکھا جانا چاہیے تھا- اب جب یہ خاص ہے تو دلیل نہ رہا کیونکہ یہ کوئی عموم نہیں

ابن حبان اس کے قائل تھے کہ یہ خاص ہے لیکن ان کے نزدیک موسی علیہ السلام کو زندہ کیا گیا  چناچہ ابن حبان صحیح میں تبصرہ میں  کہتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا قَادِرٌ عَلَى مَا يَشَاءُ، رُبَّمَا يَعِدُ الشَّيْءَ لِوَقْتٍ مَعْلُومٍ، ثُمَّ يَقْضِي كَوْنَ بَعْضِ ذَلِكَ الشَّيْءِ قَبْلَ مَجِيءِ ذَلِكَ الْوَقْتِ، كَوَعْدِهِ إِحْيَاءَ الْمَوْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَجَعْلِهِ مَحْدُودًا، ثُمَّ قَضَى كَوْنَ مِثْلِهِ فِي بَعْضِ الْأَحْوَالِ، مِثْلَ مَنْ ذَكَرَهُ اللَّهُ وَجَعَلَهُ اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا فِي كِتَابِهِ، حَيْثُ يَقُولُ: {أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ} إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَكَإِحْيَاءِ اللَّهِ جَلَّ وَعَلَا لِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ بَعْضَ الْأَمْوَاتِ، فَلَمَّا صَحَّ وجودُ كَوْنِ هَذِهِ الْحَالَةِ فِي الْبَشَرِ، إِذَا أَرَادَهُ اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَمْ يُنْكَرْ أَنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا أَحْيَا مُوسَى فِي قَبْرِهِ حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، وَذَاكَ أَنَّ قَبْرَ مُوسَى بِمُدَّيْنِ بَيْنَ الْمَدِينَةِ وَبَيْنَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَرَآهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو فِي قَبْرِهِ إِذِ الصَّلَاةُ دُعَاءٌ، فَلَمَّا دَخَلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ وَأُسْرِيَ بِهِ، أُسْرِيَ بِمُوسَى حَتَّى رَآهُ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ

ابو حاتم ابن حبان کہتے ہیں الله جل و علا جو چاہے کرنے پر قادر ہے ، کبھی وہ چیز کو گنتا ہے ایک مقررہ وقت کے لئے اور حکم کرتا ہے کسی چیز پر قبل از وقت جسے مردوں کو زندہ کرنے کا وعدہ قیامت کے دن اور اس کو محدود کرتا ہے پھر اسی طرح کا حکم کرتا ہے جیسا اس نے کتاب میں ذکر کیا ہے {أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ} اور اسی طرح الله کا عیسیٰ کے لئے مردوں کو زندہ کرنا پس جب بشر کی اس حالت کی خبر صحیح ہے اور الله نے اس کا ارادہ قیامت سے پہلے کیا تو اس کا انکار نہیں کریں گے کہ الله نے موسی کو قبر میں زندہ کیا معراج کی رات پر جب رسول الله ان پر گزرے اور یہ موسی کی قبر مدینہ اور بیت المقدس کے درمیان ہے پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہوں قبر میں دعائیں کرتے دیکھا پس جب بیت المقدس میں داخل ہوئے تو معراج ہوئی تو موسی کو بھی ہوئی اور ان کو چھٹے آسمان پر دیکھا

لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا  سوال پیدا ہوا کہ موسی علیہ السلام کس طرح قبر میں، بیت المقدس میں اور چھٹے آسمان پر تھے – بہت سے لوگوں نے مثلا السبکی اور  ابن تیمیہ نے اس سے یہ نکالا کہ روح سریع الحرکت ہوتی ہے لہذا موسی علیہ السلام،  براق کے بغیر یکایک ایک مقام سے دوسرے مقام تک چلے گئے-

امام بخاری اس کے برعکس اس موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنے والی روایت کو صحیح میں نہیں لکھتے اور روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا گھر کو قبریں نہ بناو ان میں نماز پڑھو یعنی قبر میں نماز نہیں ہے –

یہ روایت  حماد بن سلمہ کے علاوہ دیگر رآویوں سے اس طرح بھی آئی ہے

مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ

میں موسی پر گزرا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے

 قبر میں یعنی برزخ میں  ان کو ان کے مقام میں دیکھا

یہ رائے  ابن حزم کی ہے ابن حزم الملل و النحل میں  لکھتے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے شب معراج میں موسی علیہ السلام کو انکی قبر میں کھڑے نماز پڑھتے دیکھا آپ نے یہ بھی خبر دی کہ آپ نے انھیں چھٹے یا ساتویں آسمان میں دیکھا کوئی شک نہیں کہ آپ نے محض انکی روح دیکھی ان کا جسم بلا شبہ خاک میں پوشیدہ ہے لہذا اس بنا پر روح کا مقام قبر کہلاتا ہے وہیں اس پر عذاب ہوتا ہے اور وہیں  اس سے سوال ہوتا ہے جہاں وہ ہوتی ہے

موسی علیہ السلام صاحب شریعت و کتاب نبی تھے آج کی رات نماز کے بارے میں ان سے گفتگو بھی ہونی ہے لہذا ان کی نماز کا طریقہ دکھایا گیا جو برزخ میں دیکھا گیا

  الفاظ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ یا سرخ ٹیلہ صرف حماد بن سلمہ بن دينار کی سند سے آئے ہیں اور یہ الفاظ اشارہ کرتے ہیں کہ قبر زمین میں تھی اب یہ بات ہے تو ممکن ہے یہ حماد بن سلمہ البصری کی غلطی ہو کیونکہ آخری عمر میں حماد بن سلمہ  اختلاط کا شکار تھے- امام بخاری کو ان سے خطرہ تھا لہذا ان سے کوئی روایت نہیں لی –  ابن سعد کہتے ہیں ثقة كثير الحديث وربما حدث بالحديث المنكر، حماد ثقہ ہیں لیکن کبھی منکر روایت بھی بیان کرتے ہیں

الغرض روایت ایک خاص واقعہ کے بارے میں ہے- لہذا دلیل نہیں

دوم اس میں سرخ ٹیلے کے الفاظ میں حماد بن سلمہ البصری کا تفرد ہے جو اختلاط کا شکار تھے

سوم حماد بن سلمہ کی کوئی بھی روایت امام بخاری نے نہیں لکھی

طبقات ابن سعد کے مطابق اس روایت کے راوی ثابت البنانی دعا کرتے تھے

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ: إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا الصَّلاةَ فِي قَبْرِهِ فَأَعْطِنِي الصَّلاةَ فِي قَبْرِي

کہ اے الله اگر تو نے کسی کو قبر میں نماز کی اجازت دی تو مجھے بھی یہ دے

اگر موسی علیہ السلام قبر میں نماز پڑھتے ہوتے تو ثابت کہتے جس طرح موسی کو دی اسی طرح مجھے بھی دے لیکن وہ کہتے ہیں اگر کسی کو یہ چیز ملی

[/EXPAND]

[کیا مردہ کفار کا گوشت سانپ کھا جاتا ہے ؟]

جواب

یہ ایک معلول روایت میں بیان ہوا ہے

کتاب المسند فی عذاب القبر ص ١٨٩ پر ارشد کمال روایت پیش کرتے ہیں کہ

arshad-189

بیہقی کی اثبات عذاب القبر کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبُو سَعِيدٍ قَالَا: ثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ، نَا مُحَمَّدٌ، نَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «إِنَّ الْكَافِرَ يُسَلَّطُ عَلَيْهِ فِي قَبْرِهِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ، فَيَأْكُلُ لَحْمَهُ مِنْ رَأْسِهِ إِلَى رِجْلِهِ ثُمَّ يُكْسَى اللَّحْمُ فَيَأْكُلُ مِنْ رِجْلِهِ إِلَى رَأْسِهِ، فَهَذَا مَكْرٌ لَكَ

سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں یقیناً کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھا مسلط کر دیا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک اس کا گوشت کھاتا رہتا ہے – پھر اس پر دوبارہ گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جسے وہ دوبارہ پاؤں سے سر تک کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک) جاری رہے گا

یہ روایت  مصنف ابن ابی شیبہ اور عبدللہ بن احمد کی کتاب السنہ میں بھی  روایت کی گئی ہے

اس کی سند میں  جَرِيْرُ بنُ حَازِمِ بنِ زَيْدِ بنِ عَبْدِ اللهِ بنِ شُجَاعٍ الأَزْدِيُّ ہیں جو ثقہ ہیں لیکن اختلاط کا شکار ہو گئے تھے

یہ  عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ سے سنی ہوئی جَرِيْرُ بنُ حَازِمِ کی واحد روایت ہے

کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط کے مطابق

 فحجبه أولاده فلم يسمع منه أحد في حال اختلاطه وقال أبو حاتم تغير قبل موته بسنة.

جب اختلاط ہوا تو انکی اولاد نے چھپا دیا پس کسی نے ان سے نہیں سنا اور ابو حاتم کہتے ہیں موت سے ایک سال پہلے تغیر ہو گیا

اس کے باوجود کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق   کے مطابق

ابن معین کہتے ہیں ابن معين وهو في قتادة ضعيف ، قتادہ سے روایت کرنے میں ضعیف ہیں

سوالات المروذي  کے مطابق

وقال المروذي: سألته (يعني أبا عبد الله) عن جرير بن حازم. فقال: في بعض حديثه شيء وليس به بأس

میں نے امام احمد سے جرير بن حازم کے بارے میں پوچھا ، کہا اس کی احادیث میں کوئی چیز ہے اور ان میں بذات خود برائی نہیں

تهذيب التهذيب از ابن حجر کے مطابق

مهنى بن يحيى، عن أحمد: جرير، كثير الغلط

مهنى بن يحيى، احمد سے نقل کرتے ہیں کہ جریر کافی غلطیاں کرتے تھے

کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال  کے مطابق  بخاری کہتے ہیں

وقال البخاري: ربما يهم في الشئ.

ان کو کبھی کبھی وہم ہو جاتا

وقال الأثرم: قال أحمد: جرير بن حازم، حدث بالوهم بمصر ولم يكن يحفظ

الأثرم کہتے ہیں احمد کہتے ہیں کہ جریر کو مصر میں روایات میں وہم ہوا ہے  اور یہ یاد نہ رکھ سکے

الغرض جریر ثقه ہیں اور ان کی روایات جو بخاری و مسلم میں ہیں صحیح ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر کتب کی روایات بھی صحیح سمجھی جائیں

جریر کا عبدللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ سے سماع بھی مشکوک ہے کیونکہ

ابو داوود کی سند ہے

حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ،

الجامع أبو محمد عبد الله بن وهب بن مسلم المصري القرشي (المتوفى: 197هـ) کی سند ہے

جرير بن حازم والحارث ابن نبهان، عن أيوب السختياني، عن ابن أبي مليكة، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم؛

سنن دارقطنی کی سند ہے

نا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ

جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ اور عبدللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ کے درمیان أيوب ابن أبي تميمة السختياتي ہیں جو اس زیر بحث اژدھا والی روایت میں مفقود ہے

اغلبا جریر نے اختلاط کی حالت میں اس کو بیان کیا ہو گا کیونکہ انہوں نے عبدللہ بن ملیکہ سے براہ راست نہیں سنا لیکن یہ واحد رویت ہے جو وہ عبدللہ ابن ملیکہ سے نقل کر رہے ہیں

اس کی مثال بھی ہے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں  احمد کے بیٹے کہتے ہیں

حَدثنِي أبي قَالَ سَمِعت عَفَّان يَقُول اجْتمع جرير بن حَازِم وَحَمَّاد بن زيد فَجعل جرير بن حَازِم يَقُول سَمِعت مُحَمَّدًا سَمِعت شريحا فَجعل حَمَّاد يَقُول يَا أَبَا النَّضر عَن مُحَمَّد عَن شُرَيْح عَن مُحَمَّد عَن شُرَيْح

 میرے باپ نے بیان کیا کہ میں نے عفان کو سنا کہ جریر بن حازم اور حَمَّاد بن زيد جمع ہوئے تو  جرير بن حَازِم نے کہا سَمِعت مُحَمَّدًا سَمِعت شريحا  اس پر  حَمَّاد بن زيد نے کہا  اے أَبَا النَّضر عَن مُحَمَّد عَن شُرَيْح عَن مُحَمَّد عَن شُرَيْح 

یعنی جریر نے  تحدث کے الفاظ کا لحاظ نہ رکھا  انہوں نے سمعت بول دیا جس کی تصحیح حماد بن زید نےکی

اس روایت میں بھی جریر نے کہا ہے جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ

جو اوپر دے گئے حوالوں سے واضح ہے کہ غلطی ہے کیونکہ انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے نہیں سنا

بخاری و مسلم کے راوی خطاء سے پاک ہیں

غیر مقلدین کا ایک خود ساختہ اصول ہے کہ ثقه غلطی نہیں کرتا جس کی بنا پر علم حدیث میں انہوں نے ضعیف روایات تک کو حسن و  صحیح قرار دے دیا ہے

یہ لوگ اپنی سادگی میں پوچھتے ہیں کہ

آپ کے بقول بخاری کے راوی ضعیف وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو آپ پھر بھی اس کی روایات نقل کیوں کرتے ہیں ؟

اس کا جواب ابن حجر النکت میں دیتے ہیں

قلت : ولا يلزم في كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحاً ، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة

میں کہتا ہوں اور کسی روایت کی اسناد میں اگر صحیح کا راوی ہو تو اس سے وہ حدیث صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ اس میں شذوذ یا علت ہو

حسين بن ذكوان العوذي البصري  کے لئے الذھبی ، سيرالاعلام میں لکھتے ہیں

 وقد ذكره العقيلي في كتاب الضعفاء له بلا مستند وقال : مضطرب الحديث … قلت ( الذهبي ) : فكان ماذا؟ فليس من شرط الثقة أن لا يغلط أبدا

 عقیلی نے انکو الضعفاء میں بلاوجہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے : مضطرب الحديث میں (الذھبی) کہتا ہوں یہ کیا ہے؟ ثقہ ہونے کی یہ شرط کہاں ہے کہ وہ کبھی غلط نہیں ھو سکتا

الذھبی کتاب الموقظة في علم مصطلح الحديث میں لکھتے ہیں

وليس مِن حَدِّ الثقةِ أنَّهُ لا يَغلَطُ ولا يُخطِئ

اور ثقه کی حد میں یہ نہیں کہ غلطی نہ کرے اور خطاء نہ کرے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

ليس من شرط الثقة أن يكون معصوما من الخطايا والخطأ “الميزان 2/ 231

یہ روایت شاذ ہے

امام بخاری  کی صحیح کی اس روایت سے اسمیں شذوز کا اندازہ ہو جاتا ہے

صحیح  بخاری ، کتاب التفسیر ، باب : سورۃ عم یتسالون(نبأ) کی تفسیر کا بیان

بَاب : يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا زُمَرًا

 باب : اس دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم فوج در فوج چلے آؤ گے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ قَالَ ثُمَّ يُنْزِلُ اللہُ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُونَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

 ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان (کی مدت) چالیس ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ساتھیوں نے پوچھا کیا اس سے چالیس دن مراد ہیں؟ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا ، لوگوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہے؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر پوچھا کیا چالیس سال؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر کہا کہ اللہ آسمان سے بارش برسائے گا تو اس سے مردے جی اٹھیں گے جس طرح سبزہ (بارش) سے اگتا ہے ، انسانی جسم کے تمام حصے سڑجاتے ہیں مگر عجب الذنب کی ہڈی (باقی رہتی ہے) اور اسی سے قیامت کے دن اس (انسان) کی ترکیب ہوگی

 الله تعالی  سوره ق میں کہتا ہے  کہ

قد علمنا ما تنقص الأرض منهم وعندنا كتاب حفيظ

بے شک ہم جانتے ہیں جو زمین ان  (کے جسموں) میں سے کھاتی ہے اور ہمارے پاس کتاب حفیظ ہے

اب بتائیں کیا کریں اس واضح نصوص کو جھٹلا دیں کہ کسی راوی کی چند روایات امام بخاری اور امام مسلم نے لکھ لی ہیں جب کہ انہوں نے یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ یہ راوی معصوم عن الخطاء ہیں اوران بیان کردہ ہر

 روایت صحیح ہے

ایک طرف تو صحیح بخاری کی ابو ھریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی اوپر والی روایت ہے دوسری طرف ان سے منسوب یہ روایت بھی پیش کی جاتی ہے

 ابوہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وإن کان من أھل الشک قال: لا أدري سمعت الناس یقولون شیئا فقلتہ فیقال لہ: علی الشک حییتَ وعلیہ متَّ وعلیہ تُبعث۔ ثم یفتح لہ باب إلی النار وتسلط علیہ عقارب وتنانین لو نفخ أحدھم علی الدنیا ما أنبتت شیئا تنھشہ وتؤمر الأرض فتنضم علیہ حتی تختلف أضلاعہ

اور مردہ  شک کرنے والوں میں سے ہو تو وہ (فرشتوں کے سوالوں کے جواب میں ) کہتا ہے: میں نہیں جانتا۔ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تھا اور میں نے بھی وہی بات کہی۔ اسے کہا جاتا ہے کہ شک پرتوزندہ رہا، شک پر ہی تیری موت ہوئی اور شک پر ہی تو دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔پھر اس کی قبر کے لئے جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس پر اس قدر زہریلے بچھو اور اژدہا مسلط کردیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک زمین پرپھونک مار دے تو کوئی چیز پیدا نہ ہو۔ چنانچہ وہ بچھو اور اژدہے اسے کاٹتے رہتے ہیں ۔ زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس پر تنگ ہوجا، چنانچہ (زمین اس پراس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ) اسکی ایک طرف کی پسلیاں دوسری پسلیوں میں دھنس جاتی ہیں

المعجم الأوسط از طبرانی  کی اس روایت  کی سند میں  ابْنُ لَهِيعَةَ  ہے جو سخت ضعیف راوی ہے اور دوسرے اس میں موسى بن جبير الأنصارى ، المدنى ، الحذاء ہے جس کو ابن حجر مستور کہتے ہیں . ایسی مبہم روایت کہ اژدہا پھونک مار دے اور کچھ  نہ اگے نہ پنپ سکے  اس دنیا کا معاملہ تو نہیں ہو سکتا  یہاں  اس دنیا میں مغرب میں سینکڑوں قبرستان باغ  و چمن معلوم ہوتے ہیں . آپ کا عقیدہ اگر ایسی روایت پر ہے تو اس سے تو یہود و نصاری کا عذاب سے محفوظ ہونا ثابت ہوتا ہے

[/EXPAND]

[بعض علماء کے مطابق سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو بھی قبر نے دبوچہ تھا ؟ کیا اس کی اسناد صحیح ہیں؟]

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

ان صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ (جو بہت ہی بلند پایہ صحابی ہیں)پر دفن کے وقت قبر تنگ ہو گئی تھی مگر پھر ہمیشہ کے لئے کشادہ کر دی گئی اور ان پر قبر کی تنگی کی وجہ یہ تھی کہ پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط کے سلسلہ میں ان سے کوتاہی سرزدہو جایا کرتی تھی۔امام البہیقی رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ امیہ بن عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے بعض افراد سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد موجود ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس سلسلہ میں دریافت کیا توا نہوں نے ارشاد فرمایا کہ وہ پیشاب سے پاکیزگی کے سلسلہ میں کچھ کمی کیا کرتے تھے ۔ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ طبقات الکبریٰ میں بسند (اخبر شبابۃ بن سواداخبرنی ابو معتر عن سعید المقبری) روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دفن کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی قبر کی تنگی اور دبانے سے بچتا تو سعد رضی اللہ عنہ ضرور بچ جاتے۔حالانکہ انہیں پیشاب کے اثر کی وجہ سے (یعنی جو بے احتیاطی سے پیشاب کرنے میں چھینٹیں پڑ جاتی ہیں ان کی وجہ سے) اس طرح دبایا کہ ان کی ادھر کی پسلیاں ادھر ہو گئیں۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج۱ص۲۳۲۔اس واقعہ کی پوری تفصیل طبقات ابن سعد‘ مرعاۃ المفاتیح ‘کتاب الروح اور سنن البہیقی وغیرہ میں موجود ہے۔

روایات کے مطابق سعد رضی الله عنہ کو قبر کے دبوچنے کا واقعہ عین تدفین کے قورا بعد پیش آیا

مسند احمد کی جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کی روایت ہے

جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِينَ تُوُفِّيَ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ، سَبَّحَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَبَّحْنَا طَوِيلًا، ثُمَّ كَبَّرَ فَكَبَّرْنَا، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ الله، لِمَ سَبَّحْتَ؟ ثُمَّ كَبَّرْتَ؟ قَالَ: «لَقَدْ تَضَايَقَ عَلَى هَذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتَّى فَرَّجَهُ الله عَنْهُ

جابر کہتے ہیں ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جس دن سعد کی وفات ہوئی پس جب نبی نے ان کی نماز جنازہ پڑھ لی ان کو قبر میں رکھا اور اس کو ہموار کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله کی پاکی بیان کی بہت دیر تک پھر تکبیر کہی پس پوچھا گیا اے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپ نے تسبیح کیوں کی تھی کہا کہا بے شک تنگی ہوئی اس صالح بندے پر اس کی قبر میں پھر  الله نے اس کو فراخ کیا

معجم طبرانی کی ابن عباس رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ سعد رضی الله عنہ پر یہ عذاب تدفین پر ہوا

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مِقْلَاصٍ، ثنا أَبِي، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُما، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ دُفِنَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَى قَبْرِهِ قَالَ: «لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ لَنَجَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ رُخِّيَ عَنْهُ

سعد رضی الله عنہ پر عذاب کی یہ خبر سنن النسائی میں بھی ہے جس کو البانی صحیح کہتے ہیں اور الصحیحہ میں اس کے طرق نقل کر کے اس عذاب کی خبر کو صحیح کہتے ہیں

سعد بن معاذ رضی الله عنہ کی شہادت غزوہ خندق ٥ ہجری میں ہوئی. اس وقت تک مومن پر  عذاب القبر کا بتایا نہیں گیا. مومن پر عذاب قبر کی خبر سن ١٠ ہجری میں دی گئی جیسا کہ بخاری کتاب الکسوف میں بیان ہوا ہے لہذا یہ روایت صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے

سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ اہل جنت میں ہیں.  شہید تو الله کی بارگاہ میں سب سے مقرب ہوتے ہیں ان کے گناہ تو خوں کا پہلا قطرہ گرنے پر ہی معاف ہو جاتے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ایک  رومال نبی صلی الله علیہ وسلم کو تحفتا پیش کیا گیا . صحابہ کو حیرانگی ہوئی کہ کتنا اچھا رومال ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

والذي نفسي بيده لمناديل سعد بن معاذ في الجنة خير منها

اور وہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے سعد بن معاذ کا رومال جنت میں اس سے بہتر ہے

معلوم ہوا سعد بن معاذ رضی الله عنہ تو جنت میں ہیں اور ان پر نعوذ باللہ عذاب قبر کیوں ہو گا

ابن حجر کتاب فتح الباری ج ١ ص ٣٢٠ میں لکھتے ہیں

وَمَا حَكَاهُ الْقُرْطُبِيُّ فِي التَّذْكِرَةِ وَضَعَّفَهُ عَنْ بَعْضِهِمْ أَنَّ أَحَدَهُمَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَهُوَ قَوْلٌ بَاطِلٌ لَا يَنْبَغِي ذِكْرُهُ إِلَّا مَقْرُونًا بِبَيَانِهِ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى بُطْلَانِ الْحِكَايَةِ الْمَذْكُورَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَضَرَ دَفْنَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ كَمَا ثَبَتَ فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ وَأَمَّا قِصَّةُ الْمَقْبُورَيْنِ فَفِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ عِنْدَ أَحْمَدَ أَنَّهُ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُمْ مَنْ دَفَنْتُمُ الْيَوْم هَا هُنَا فَدَلَّ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَحْضُرْهُمَا وَإِنَّمَا ذَكَرْتُ هَذَا ذَبًّا عَنْ هَذَا السَّيِّدِ الَّذِي سَمَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيِّدًا وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ وَقَالَ إِنَّ حُكْمَهُ قد وَافق حُكْمَ الله وَقَالَ إِنَّ عَرْشَ الرَّحْمَنِ اهْتَزَّ لِمَوْتِهِ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنْ مَنَاقِبِهِ الْجَلِيلَةِ خَشْيَةَ أَنْ يَغْتَرَّ نَاقِصُ الْعِلْمِ بِمَا ذَكَرَهُ الْقُرْطُبِيُّ فَيَعْتَقِدَ صِحَّةَ ذَلِكَ وَهُوَ بَاطِلٌ

اور القرطبی نے کتاب التذکرہ میں جو حکایت کیا ہے اور اس میں سے بعض کو ضعیف کہا ہے جن میں سے ایک  سعد بن معاذ رضی للہ عنہ (کے بارے میں ہے) پس وہ سب باطل ہے اس کا ذکر نہیں کیا جانا چاہئے سوائے مقرؤنا اور جو چیز اس حکایت مذکورہ کے بطلان  پر بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کو سعد بن معاد کے دفن پر کہا جبکہ الْمَقْبُورَيْنِ والا قصہ جو  حدیث  ابو امامہ جو (مسند) احمد میں اس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ  آج تم نے ادھر کس کو دفن کیا؟ پس یہ دلیل ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کے ساتھ (سعد کی) تدفین پر نہیں تھے اور بے شک ان لوگوں (قرطبی وغیرہ) نے اس کو اس سید (سعد رضی اللہ عنہ) کی تنقیص میں ذکر کیا ہے جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے  سردار کہا اور اپنے صحابہ کو کہا کہ سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ اورکہا کہ انکا حکم الله کےحکم کے مطابق ہے اور کہا کہ بےشک رحمان کا عرش ان کی موت پر ہلا اور اسی طرح کے دیگر مناقب جلیلہ  ذکر کے پس ڈر ہے کہ کوئی ناقص علم غلطی پر ا جائے اور ان کو صحیح کہے اور یہ (روایت) باطل ہے 

سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو قبر نے دبوچا دو وجہ سے صحیح نہیں

اول یہ واقعہ سن ٥ ہجری میں پیش آیا جبکہ مومن پر عذاب قبر کا سن ١٠ ہجری میں بتایا گیا

دوم ابن حجر کے مطابق اس تدفین کے موقعہ پر اپ صلی الله علیہ وسلم موجود نہیں تھے جبکہ سعد پر عذاب کی روایت کے مطابق اپ صلی الله عالیہ وسلم نے ہی نماز جنازہ پڑھائی اور اسی تدفین کے موقعہ پر عذاب ہوا

الله کا شکر ہے کہ حال ہی میں ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں اس کو بالاخر رد کرتے ہیں

اللہ ہم سب کو ہدایت دے

[/EXPAND]

[حدیث میں ہے کہ میت کو اس کے اہل کے رونے پر عذاب  جبکہ آپ کہتے ہیں عذاب روح کو ہوتا ہے ؟]

صحیح مسلم کی روایت ہے

حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقالت: رحم الله أبا عبد الرحمن، سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: «أنتم تبكون، وإنه ليعذب»

حماد بن زيد کہتے ہیں ہم سے هشام بن عروة نے بیان کیا ان سے انکے باپ نے کہا عائشہ رضی الله تعالی عنہا کے سامنے ابن عمر رضی الله تعالی عنہ کی بات کا ذکر ہوا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، پس اس پر آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا الله رحم کرے ابو عبد الرحمان پر انہوں نے سنا لیکن یاد نہ رکھ سکے. بے شک الله کے نبی صلی الله علیہ  وسلم ایک یہودی کے جنازہ پر  گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے اپ نے فرمایا یہ اس پر روتے ہیں اور اس کو عذاب دیا جا رہا ہے

یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور بالکل واضح ہے کہ میت پر عذاب ہو رہا تھا  تدفین سے پہلے

صحیح مسلم کی اس روایت کو اہل حدیث حضرات سنن ابی داود، مسند احمد وغیرہ کی روایات سے رد کرتے ہیں.

ایک اہل حدیث عالم  ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

 ڈاکٹر موصوف ….لکھتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک یہودی (عورت) پر گذرے۔ بریکٹ میں لکھتے ہیں (قبر پر نہیں) یعنی حدیث لکھنے میں بھی جھوٹ بول رہے ہیں اور دھوکا دینا چاہتے ہیں اور شروع شروع میں موصوف نے اس حدیث پر اسٹیکر بھی شائع کیا تھا کہ عذاب ارضی قبر میں نہیں بلکہ برزخی قبر میں ہوتا ہے اور جب ان کی گرفت کی گئی تو سارے اسٹیکر غائب ہو گئے۔ اس حدیث کا سیاق کیا ہے اور ڈاکٹر موصوف اس سے کیا مسئلہ ثابت کرنے کے درپے ہے اور پھر یہ اصول ہے کہ ایک حدیث کی وضاحت دوسری حدیث کرتی ہے۔ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے جس پس منظر میں یہ بات بیان کی ہے اسے محدثین نے مختلف سندوں سے ذکر کیا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے جواب میں بیان کی تھی:

ان المیت لیعذب فی قبرہ ببکائِ اھلہ (علیہ) (بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل:۳۹۷۸۔ مسلم ۹۳۲

’بیشک البتہ میت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اس کے اہل کے اس پر رونے کے سبب سے۔

 اس حدیث میں میت اور قبر دونوں الفاظ موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کو اسکی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا انکار نہیں کیا بلکہ انکا موقف یہ تھا کہ نوحہ کی وجہ سے مومن کو عذاب نہیں ہوتا بلکہ کافر کے عذاب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ لَیَزِیْدُ الْکَافِرَ عَذَابًا بِبُکَائِ اَھْلِہٖ عَلَیْہِ

 اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب میں زیادتی کر دیتا ہے، اس کے گھر والوں کے اُس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے۔ (دیکھئے بخاری:۱۲۸۸) ۔

 اور دوسری روایت میں انہوں نے ذکر کیا کہ دراصل یہ بات نبی ﷺ نے یہودیہ کے متعلق فرمائی تھی۔ ایک اور روایت میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ الفاظ مروی ہیں:

انما مر النبی ﷺ علی قبر فقال ان صاحب ھذا لیعذب و اھلہ یبکون علیہ (مسند احمد ۲/۳۸، ابوداود مع عون المعبود ۳/۱۶۳، النسائی ۱/۲۶۲)

 ’’رسول اللہ ﷺ ایک قبر پر سے گذرے پس فرمایا کہ بے شک اس صاحب (قبر) کو عذاب دیا جارہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں‘‘۔

 

ایک دوسرے اہل حدیث عالم لکھتے ہیں

سنن ابی داود میں یہی حدیث مکمل تفصیل کے ساتھ بسند صحیح موجود ہے

حدثنا هناد بن السري، ‏‏‏‏عن عبدة، ‏‏‏‏وأبي، ‏‏‏‏معاوية – المعنى – عن هشام بن عروة، ‏‏‏‏عن أبيه، ‏‏‏‏عن ابن عمر، ‏‏‏‏قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم “‏إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه “‏‏.‏ فذكر ذلك لعائشة فقالت وهل – تعني ابن عمر – إنما مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبر فقال “‏إن صاحب هذا ليعذب وأهله يبكون عليه “‏‏.‏ ثم قرأت ‏‏‏‏{ولا تزر وازرة وزر أخرى ‏}‏ قال عن أبي معاوية على قبر يهودي ‏‏

 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“ یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کی گئی، تو انہوں نے کہا: (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھول گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تھے، تو فرمایا تھا ”بیشک یہ قبر والا عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت پڑھی «ولا تزر وازرة وزر أخرى»”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“ ہناد نے ابومعاویہ سے روایت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کی قبر کےپس سے گزرے تھے۔)

 لھذا یہ ایک ہی واقعہ ہے جسے راویوں کے اختصار نے آپ کےلئے معمہ بنادیا ،اور آپ اس اختصار پر خوابوں کامحل بنانے لگے

جواب

افسوس صحیحین کی روایات بھی اہل حدیث کے نزدیک مکمل نہیں

هشام بن عروة سے اس روایت کو سننے والے آٹھ راوی ہیں

١. عبدة بن سليمان  نسائي، مسند أحمد، أبي داود میں روایت ہے اور  قبر پر گزرنے کے الفاظ  ہیں

٢. أبو معاويه أبي داود میں روایت ہے  قبر پر گزرے کے الفاظ ہیں

٣. حماد بن سلمة   سے مسند أحمد میں روایت ہے  قبر پر گزرے  کے الفاظ ہیں

٤. حماد بن زيد صحيح مسلم ،  سنن الکبریٰ بیہقی ، مسند أبي یعلی میں روایت ہے   جنازے پر گزرنے کے الفاظ ہیں

٥. همام الأزدي يحيي بن دينار   مسند احمد میں روایت ہے ، قبر میں عذاب کے الفاظ ہیں

٦. وكيع بن جراح سے  صحيح مسلم میں روایت ہے الفاظ ہیں إنه ليعذب بذنبه و إن أهله ليبكون عليه الآن ، قبر یا جنازہ کے الفاظ نہیں

٧. أبو اسامة صحيح بخاري میں روایت ہے الفاظ ہیں  إنه ليعذب بذنبه و إن أهله ليبكون عليه الآن ، قبر یا جنازہ کے الفاظ نہیں

٨. عبدالله بن نمير مسند أحمد میں روایت ہے الفاظ ہیں قبر یا جنازہ کے الفاظ نہیں

تین راویوں عبدالله بن نمير، أبو اسامة، وكيع بن جراح  نے نہ قبر کا ذکر کیا، نہ جنازہ کا لہذا معاملہ بقیہ راویوں پر آ گیا

عبدة بن سليمان، أبو معاويه، حماد بن سلمة   نے قبر پر گزرنے کا ذکر کیا ہے اور ان کی مخالفت کی ہے حماد بن زيد نے

اب محدثین اس بارے میں کیا کہتے ہیں دیکھتے ہیں

أبي زرعة الرازي کے الفاظ کتاب أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية  نقل ہوئے ہیں

حماد بن زيد أثبت من حماد بن سلمة بكثير، أصح حديثاً وأتقن

حماد بن زيد ،حماد بن سلمة سے بہت زیادہ مظبوط راوی ہیں انکی حدیث زیادہ صحیح اور أتقان (قابل یقین) والی ہیں

سوالات الجنید میں ہے کہ یحییٰ ابن معین سے سوال ہوا

حماد بن سلمة أحب إليك أو حماد بن زيد؟ فقال يحيى: حماد بن زيد أحفظ

حماد بن سلمة  اپ کو پسند ہے یا حماد بن زيد پس یحییٰ نے کہا حماد بن زيد یاد رکھنے والے ہیں

 کتاب تہذیب التہذیب کے مطابق

وقال محمد بن المنهال الضرير سمعت يزيد بن زريع وسئل ما تقول في حماد بن زيد وحماد بن سلمة أيهما أثبت قال حماد بن زيد

محمد بن المنهال الضرير کہتے ہیں میں نے سنا يزيد بن زريع سے سوال ہوا کہ اپ کیا کہتے ہیں کون زیادہ ثبت ہے حماد بن زيد یا حماد بن سلمة کہا حماد بن زيد

 عبدة بن سليمان أبو محمد الكلابي الكوفي اور محمد بن خازم أبو معاوية الضرير  بھی ثقه ہیں لیکن حماد بن زيد بن درهم الأزدي  ان دونوں سے زیادہ ثقه  ہیں

وقال الخليلي ثقة متفق عليه رضيه الأئمة قال والمعتمد في حديث يرويه حماد ويخالفه غيره

الخليلي کہتے ہیں حماد بن زيد  بالاتفاق ثقه ہیں ائمہ ان سے راضی ہیں اور حدیث جس کو یہ روایت کریں اور دوسرے انکی مخالفت کریں تو اس  میں  حماد بن زيد قابل اعتماد ہیں

بخاری میں یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی ہے

حَدَّثَنا عَبْدُ الله بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا: سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ الله عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يَبْكِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا، فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا»

اس روایت کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم یہودیہ پر سے گزرے تھے (تدفین سے پہلے) جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے

لہذا مسلم کی روایت نسائی اور ابی داود کی روایت سے  زیادہ قابل اعتبار ہے   جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے جنازہ پر گزرنے کے الفاظ ہیں  اور اس کی تائید صحیح بخاری کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ میت کی تدفین نہیں ہوتی تھی لیکن عذاب قبر ہو رہا تھا . عذاب کا شروع ہونا تدفین کے لئے ضروری نہیں  کیونکہ روح فرشتے لے کر جا چکے

مسند ابی یعلی  اور ابی داود کی سند میں عبدہ بن سلیمان ہیں وہ روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ». فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ: وَهَلْ تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ فَقَالَ: «إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ لَيُعَذَّبُ وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ» ثُمَّ قَرَأَتْ هَذِهِ الْآيَةَ {وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام: 164]

نبی صلی الله علیہ وسلم قبر پر گزرے اور کہا إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ لَيُعَذَّبُ  اس قبر کے صاحب کو عذاب ہو رہا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ اسی قبر میں عذاب ہو رہا ہے

ابن جوزی کتاب تلبیس ابلیس میں عذاب قبر کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہیں

فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار

پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ  سے تعريفا   قبروں اور اجساد کی طرف  (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش  میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف  میں

 صاحب قبر کے الفاظ واضح کر رہے ہیں کہ عذاب دنیاوی قبر میں نہیں ہو رہا تھا

اللہ تعالی اس بات کا پابند نہیں کہ وہ اس وقت تک عذاب شروع نہ کرے جب تک ہم میت کی تدفین نہیں کرتے

صحیح مسلم  کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ کِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ يَحْيَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ إِنَّهُ أَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا مُتَقَلِّدِينَ بِسُيُوفِهِمْ قَالَ فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَکْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّی أَلْقَی بِفِنَائِ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ فَکَانَ رَسُولُ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ قَالَ فَأَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِکُمْ هَذَا قَالُوا لَا وَالله لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَی الله قَالَ أَنَسٌ فَکَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ کَانَ فِيهِ نَخْلٌ وَقُبُورُ الْمُشْرِکِينَ وَخِرَبٌ فَأَمَرَ رَسُولُ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّخْلِ فَقُطِعَ وَبِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ قَالَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةً وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً قَالَ فَکَانُوا يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُمْ يَقُولُونَ اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْفَانْصُرْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ

یحیی بن یحیی، شیبان بن فروخ، عبدالوارث، یحیی، عبدالوارث ابن سعید، ابی تیاح، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے اور شہر کے بالائی علاقہ کے ایک محلہ میں تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں چودہ راتیں قیام فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو نجار کو بلوایا وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے حاضر ہوئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور بنو نجار آپ کے ارد گرد تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوایوب کے گھر کے صحن میں اترے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں نماز کا وقت پاتے وہیں نماز پڑھ لیتے تھے یہاں تک کہ بکریوں کے باڑہ میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور بنو نجار کو بلوایا جب وہ آئے تو فرمایا تم اپنا باغ مجھے فروخت کر دو انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس باغ کی قیمت نہیں لیں گے ہم اس کا معاوضہ صرف اللہ تعالی سے چاہتے ہیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس باغ میں جو چیزیں تھیں انہیں میں بتاتا ہوں اس میں کچھ کھجوروں کے درخت، مشرکین کی قبریں اور کھنڈرات تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دئے گئے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں اور کھنڈرات ہموار کر دئیے گئے اور کہجور کی لکڑیاں قبلہ کی طرف گاڑھ دی گئیں اور اس کے دونوں طرف پتھر لگا دئیے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رجزیہ کلمات پڑھ رہے تھے۔ اے اللہ! بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کی قبریں اکھاڑ دیں اس پر کہا جاتا ہے کہ اس روایت میں یہ نہیں کہ

قبریں اکھاڑ کر پھینکنے کا مطلب یہ نہیں کہ 6 فٹ کھود کر مردہ نکال کر باہر پھینک دیا، بلکہ اس کا مقصد ان پر بنے قبے اکھاڑ کر ہموار کرنا ہے، تاکہ نماز ادا کی جا  سکے

کیا علمی نکتہ سنجی ہے گویا ابھی تک مسجد النبی میں مشرکوں کے جسم دفن ہیں. نبی صلی الله علیہ وسلم انکے اصحاب سب ان قبروں پر نماز پڑھتے رہے ؟  ایسی مسجد میں تو نماز ہی نہیں ہو سکتی جہاں قبر ہو

بخاری کی روایت میں الفاظ فأمر النبي صلى الله عليه و سلم بقبور المشركين فنشبت   ہیں

نبش کھود کر کسی چیز کو نکالنا ہی ہے نہ کہ پس اوپر سے سطح ہموار کرنا

ایک دوسری روایت  میں ہے کہ عروہ کہتے تھے کہ وہ بقیع میں دفن ہونا نہیں چاہتے  تھے کہ ان کی وجہ سے کسی اور کی قبر کھودی جائے کہتے تھے کہ

وَإِمَّا صَالِحٌ فَلَا أُحِبُّ أَنْ تُنْبَشَ لِي عِظَامُهُ

اور اگر وہ صالح ہے تو میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میرے لئے اس کی ہڈیاں کھودی جائیں

یہاں بھی نبش کا لفظ ہے

الله سمجھنے کی توفیق دے

[/EXPAND]

[قرع النعال والی روایت پر سوال ہے ]

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے کہ بخاری کی حدیث میں ہے

’اَلْعَبْدُ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَ تُوُلِّیَ وَ ذَھَبَ اَصْحَابُہٗ حَتّٰی اِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ فَاَقْعَدَاہُ‘‘جب بندہ قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر اُن کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے آجاتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں

جبکہ مسلم کی حدیث میں آتا ہے

 إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا

بے شک میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ جوتیوں کی چاپ سنتی ہے جب وہ پلٹتے ہیں

اس کی تطبیق کس طرح ممکن ہے؟

جواب

محدثين جب روايات بیان کرتے ہیں تو بعض دفعہ روایت میں الفاظ کم بھی کر دیتے ہیں اور بعض بڑھا بھی دیتے ہیں

اس کی بہت کی مثالیں ہیں مثلا کسوف کا واقعہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے  گرہن کی نماز پڑھانی-  اس میں رکعات کا اختلاف ہے کہ کتنی تھیں-  جمہور علماء کی رائے میں ایک ہی دفعہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھی ہے لیکن بخاری مسلم میں ہی اس کی مختلف روایات ہیں جن میں رکعات کی تعداد میں اختلاف ہے

ان مسائل میں تمام طرق اکھٹے کر کے دیکھا جاتا ہے کہ کس نے کیا کہا اور کس نے مکمل بیان کیا اور کس نے مختصر کیا- اصول یہ ہے کہ صحیح السند روایت جو مطول ہو اس سے استنباط کیا جاتا ہے

یہی اس قرع النعال والی روایت کا معاملہ ہے اس کے تمام طرق اکھٹے کیے جائیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ

مسلم کے استاد  مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِيرُ نے اس قرع النعال والی روایت کو کو مختصر کر دیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کو يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ سے سنا ہے – امام بخاری نے يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ کی سند سے اس کو مکمل بیان کیا ہے- اسی طرح نسائی نے بھی اس   کو يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ کی سند سے مختصرا بیان کیا ہے

عجلي  الثقات میں کہتے ہیں

قَالَ أَحْمَد العِجْلِيّ: بصْريٌّ ثقة، لَم يكن لَهُ كتاب. قلتُ لَهُ: لك كتاب؟ قَالَ: كتابي صدري

مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِير بصری ثقہ ہیں لیکن ان کے پاس کتاب نہ تھی (یعنی لکھتے نہ تھے) میں نے ان سے کہا کیا کتاب ہے ؟ بولے کتاب میرا سینہ ہے

ظاہر ہے یہ اختصار اسی وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اس کو اپنے حافظہ کی بنیاد پر روایت کیا نہ کہ کتاب سے

یہی روایت سنن ابی داود میں عَبْدُ الْوَهَّابِ ابْنَ عَطَاءٍ نے مختصر کر دی ہے جنہوں نے اس کو سعید بن ابی عروبہ سے روایت کیا ہے – امام بخاری،  امام  ابی داود کے استاد عَبْدُ الْوَهَّابِ ابْنَ عَطَاءٍ  کو  لَيْسَ بِالقَوِيِّ کہتے ہیں سیر الاعلا م النبلاء از الذھبی – امام مسلم اور امام احمد نے اس روایت  کو سعید بن ابی عروبہ کی سند سے ہی  مطول روایت کیا ہے جس میں فرشتوں کی چاپ کا ذکر ہے

لہذا مطول کو چھوڑ کر مختصر سے دلیل لینا صحیح نہیں – لیکن مطلب براری کے لئے لوگوں کو صحیح بات بتانے کے بجائے ان کو گمراہ کیا جاتا ہے

قرع النعال والی روایت میں ایک میں قبر کی وسعت کا بھی ذکر ہے

البانی،   المنذری کی مختصر صحيح مسلم پر تعلیق میں کہتے ہیں

قلت: الحديث دون الفسح في القبر من رواية قتادة عن أنس رضي الله عنه، وأما الفسح فهو من روايته مرسلا، وكذلك وقع في “البخاري” وأحمد (3/ 126) وعندهما زيادة بلفظ

میں کہتا ہوں حدیث میں قبر کو وسیع کرنا قتادہ کی انس رضی الله عنہ کی روایت میں ہے اور جہاں تک اس کا تعلق ہے یہ مرسل روایت کیا گیا ہے اور ایسا بخاری اور احمد میں ہے اور ان میں ان الفاظ کی زیادت ہے

اسی کتاب میں البانی نے متن میں کہا ہے کہ   زاد في رواية: إذا انصرفوا اس نے روایت میں ذیادت کی کہ جب وہ جاتے ہیں

معلوم ہوا کہ البانی اس کو جانتے ہیں کہ  الفاظ إذا انصرفوا  اور اسناد میں نہیں اور زیادت ہیں

اس کو اور رخ سے بھی دیکھیں امام احمد باوجود  یہ کہ قر ع النعال والی روایت کو مسند میں روایت کرتے ہیں لیکن جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت پر  عمل نہیں کرتے اور قبرستان میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتارنے کا حکم کرتے تھے ظاہر ہے نہ جوتیاں ہوں گی نہ ان کی چاپ کا سوال اٹھے گا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله  کے مطابق

وَقَالَ أبي يخلع نَعْلَيْه فِي الْمَقَابِر

میرے باپ (احمد ) کہتے ہیں قبرستان میں نعل اتار دو

 وَكَانَ يَأْمر بخلع النِّعَال فِي الْمَقَابِر

امام احمد حکم دیتےتھے کہ قبرستان میں  نعل اتار دو

رَأَيْت ابي اذا اراد ان يدْخل الْمَقَابِر خلع نَعْلَيْه وَرُبمَا رَأَيْته يُرِيد ان يذهب الى الْجِنَازَة وَرُبمَا لبس خفيه اكثر ذَلِك وَينْزع نَعْلَيْه

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ جب قبرستان میں داخل ہوتے تو جوتے اتار دیتے

امام احمد کے بیٹے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں لکھتے ہیں

رَأَيْت أبي إِذا دخل الْمَقَابِر يخلع نَعْلَيْه فَقلت لَهُ إِلَى أَي شَيْء تذْهب فَقَالَ إِلَى حَدِيث بشير بن الخصاصية

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ قبرستان میں اتے تو جوتے اتارتے پس میں نے کہا کس بنا پر اس کو کیا؟ انہوں نے کہا حدیث بشیر بن الخصاصية  سے لیا

 ابی داود کتاب میں لکھتے ہیں

رَأَيْتُ أَحْمَدَ إِذَا تَبِعَ جِنَازَةً فَقَرِبَ مِنَ الْمَقَابِرِ خَلَعَ نَعْلَيْهِ

میں نے احمد کو دیکھا جب وہ جنازہ کے پیچھے قبرستان کے پاس پہنچتے تو جوتے اتار دیتے

کتاب  مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق امام احمد

فلما سلم خلع نعليه ودخل المقابر في طريق [عامية] 2 مشياً على القبور حتى بلغ القبر

پس جب (نماز جنازہ سے)  سلام پھرنے کے بعد جوتے اتارتے اور قبرستان میں داخل ہوتے  حتی کہ قبر تک پہنچتے

امام احمد کا عمل قرع النعال والی روایت پر نہیں بلکہ  بشیر بن الخصاصية   کی روایت پر تھا جو ابو داود نے بَابُ الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ میں  روایت کی ہے جس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ قرع النعال سے زیادہ صحیح روایت تھی ورنہ اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر عمل کیوں تھا

  ابن قدامة  المغني  ج 2 ص ٤٢١ میں کہتے ہیں
قال الإمام أحمد رحمه الله  إسناد حديث بشير بن الخصاصية جيد أَذْهَبُ إلَيْهِ، إلَّا مِنْ عِلَّةٍ

امام احمد کہتے ہیں بشير بن الخصاصية والی حدیث کی اسناد جید ہیں اسی پر مذھب ہے سوائے اس کے کہ کوئی علت ہو

 [/EXPAND]

[حدیث میں ہے تم دفنانا چھوڑ دو اگر عذاب قبر سن لو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب ارضی قبرمیں ہے؟]

جواب

عربی زبان میں جملة الشرط کی ابتداء إنْ – إذا – لَو کے الفاظ سے ہوتی ہے.  لو کا لفظ جملہ الشرط میں استمعال ہوتا ہے جسے  کہ

لو كُنتُ غَنياً لساعَدتُ الكَثيرَ من الفُقَراء

اگر میں غنی ہوتا ، تو بہت سے غریبوں کی مدد کرتا

قرآن میں یونس علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ

فلولا أنه كان من المسبحين للبث في بطنه إلي يوم يُبْعَثُونَ

پس اگر بے شک یہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، تو اس (مچھلی) کے پیٹ میں ہی تا قیامت رہتے

حدیث میں اتا ہے

عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ قَالَ كَذَا كَانَ يَقُولُ الْجُرَيْرِيُّ فَقَالَ مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَائِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ  

صحیح مسلم کتاب الجنۃباب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار علیہ واثبات عذاب القبر والتعوذ منہ(حدیث نمبر ۷۲۱۳)مشکوۃ ص ۲۵
زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ (ایک بار) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اچانک خچر بد کا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا دے ناگہاں پانچ، چھ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان قبروں کے اندر جو لوگ ہیں کوئی ان کو جانتا ہے؟ ایک شخص نے کہا میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس حال میں مرے ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا شرک کی حالت میں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے
پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ تم دفن نہ کرو گے، میں الله سے دعا کرتا کہ تم کو عذاب القبر سنوا دے جو  میں اس میں سے سنتا ہوں

صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں

فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ

پس اگر ایسا (گمان )نہ ہوتا کہ تم دفن  کرنا چھوڑ دو  گے، میں الله سے دعا کرتا کہ تم کو عذاب القبر سنوا دے جو  میں اس میں سے سنتا ہوں

اس کا مفہوم  یہ ہے کہ اگر تم  اپنے مردوں کو دفن نہ کرو گے (اور ان کو جلانا وغیرہ شروع کر دو گے  )  تو میں الله سے دعا کرتا  کہ تم کو عذاب سنوا دے

ایک مفہوم  یہ بھی لیا جا سکتا ہے اگر میت  کی روح کو البرزخ میں ہونے والا عذاب سن لو   تو تم اتنے دہشت زدہ ھو جاؤ کہ میت کے جسد کے پاس بھی نہ پھٹکو یہاں تک کہ اس کو دفن بھی نہ کرو

 قائلین عود روح  اس کا ترجمہ اپنے مفہوم  پر کرتے ہیں

اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر سنا دے جسطرح کہ میں سنتا ہوں۔ 

مسلم  کی روایت کا مفہوم   قائلین عود روح کے نزدیک یہ ہے اگر عذاب اس ارضی قبر میں نہیں ہوتا تو ایسا نہیں کہا جاتا حالانکہ اس کا مطلب یہ بھی ھو جاتا ہے کہ اگر کوئی میت کو دفن نہ کرے تو میت عذاب سے بچ  جائے گی؟ چونکہ یہ مہمل بات ھو جاتی ہے لہذا یہ اس کا مفہوم  نہیں ھو سکتا-    عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا تو عذاب سنوانے کی بات نہ کی جاتی  بلکہ عذاب دکھانے کی بات کی جاتی کیونکہ قبریں سامنے تھیں

منافقین کے حوالے سے  مسند ابی یعلی کی روایت  کے الفاظ ہیں

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَزَالُ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ آمِنَيْنِ حَتَّى تَرُدُّوهُمْ، عَنْ دِينِهِمْ كِفَاءَ رَحِمِنَا» قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي الْجَنَّةِ أَنَا أَمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «فِي الْجَنَّةِ» ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ آخَرُ فَقَالَ: أَفِي الْجَنَّةِ أَمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «فِي النَّارِ» ثُمَّ قَالَ: «اسْكُتُوا عَنِّي مَا سَكَتُّ عَنْكُمْ  فلولا أن لا تدافنوا  لأخبرتكم بملئكم من أهل النار حتى تفرقوهم  عند الموت

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا … پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ تم دفن نہ کرو گے، تو میں تم کو خبر دیتا تم میں سے اہل النار کے بارے میں حتیٰ کہ تم ان سے موت پر  علیحدہ ھو

مسلم کی طرح اس روایت میں  بھی یہی ہے کہ تم دفن نہ کرو گے ، یعنی تم کو ان منافق لوگوں سے اتنی نفرت ھو گی کہ تم ان کو قبر ہی نہ دو گے

ان  دونوں روایتوں کے الفاظ پر غور کریں کہ عذاب کا تعلق تدفین سے نہیں  –  یعنی منافقین کا علم ہونے پر اصحاب رسول ان کو دفن ہی نہ کرتے- کیا اس  سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عذاب اس دنیا کی قبر میں نہیں ہوتا

اگر نبی صلی الله علیہ وسلم نے اصحاب رسول کو بتایا تھا کہ عذاب اسی ارضی قبر میں ہے اور پھر وہ منافق کا بھی بتا دیتے تو ان کو ڈر تھا کہ اصحاب رسول ان منافقوں کو دفن ہی نہ کرتے

اگر عذاب اسی ارضی قبر میں ہے تو اصحاب رسول ضرور منافق کو دفن کرتے اور کوئی خدشہ نہ رہتا کہ یہ دفن نہ کریں گے
اس پر غور کریں

چونکہ مسند ابی یعلی کی روایت سے قائلین عود روح کے عقیدے پر زک پڑتی ہے انہوں نے اسکو ضعیف کہا ہے

اسکی سند ہے

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ

ضعیف  ہونے   کی دلیل میں  کہا جاتا ہے اس کی سند  میں  لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ ہے  –  مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ کی لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ سے روایت کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے مثلا سنن ابن ماجہ ح ٢٣٠  –

کتاب الجرح و التعدیل از ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)  (4/48 رقم 207 کے مطابق سعید بن عامر میں بھی کوئی برائی نہیں ہے

سعيد بن عامر روى عن ابن عمر روى عنه ليث بن أبي سليم سمعت أبي يقول ذلك حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال: لا يعرف.
حدثنا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق [الهروي – 1] فيما كتب إلى نا عثمان بن سعيد قال: سألت يحيى بن معين قلت: سعيد ابن عامر الذي روى عن ابن عمر من هو؟ قال: ليس به باس.

سعید بن عامر جس نے ابن عمر سے روایت کیا ہے اور سعید سے لیث نے …… میں نے اپنے باپ سے سنا کہ میں اسکو نہیں جانتا  ……اور یحیی ابن معین سے اس پر سوال کا تو انہوں نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں

یعنی اگرچہ میرے باپ سعید  بن عامرکو پہچان نہ سکے لیکن  ابن معین کے نزدیک وہ مجھول نہ تھے بلکہ انکی روایت میں کوئی برائی نہیں

یعنی مسند ابی یعلی کی یہ روایت صحیح ہے اور اس پر جو اعتراض تھا وہ یحیی ابن معین کا قول پیش کر کے ابن ابی –

یعنی مسند ابی یعلی کی یہ روایت صحیح ہے اور اس پر جو اعتراض تھا وہ یحیی ابن معین کا قول پیش کر کے ابن ابی

 حاتم نے دور کر دیا

 پتا نہیں کس دل گردے کے مالک ہیں وہ لوگ جو عذاب اسی ارضی قبر میں مانتے ہیں اور پھر انہی قبروں  کے پاس گزرتے ہیں . قبرستان میں جہاں یہ پتا بھی  نہ ھو کہ کس قبر میں ابھی اس وقت عذاب کا دور گزر رہا ہے وہاں لوگ پاس جا کر کھڑے ھو جاتے ہیں

[/EXPAND]

آپ سے ایک سوال ہے کہ اگر قرآن واحایث کےبیان سے ہم صرف اور صر ف یہی زمینی گڑھا ( قبر) مراد لیں اور عقیدہ بنالیں کہ عذاب قبر اسی زمینی گڑ ھے میں ہوتا پے تو پھر بڑی بڑی سرکش اور نافرمان قومیں جسیے قوم نوح .قوم عاد .قوم ثمود .قوم شعیب. قوم لوط .وغیرہ کو زمینی گڑھوں میں دفن ہی نہیں کیا گیا. کیاوہ عذاب قبر سے محفوظ رہے?]

جواب

عذاب کی خبر قرآن کی مکی سورتوں میں دی گئی مثلا قوم نوح یا قوم فرعون اس وقت تک قبر میں کسی بھی عذاب کی روایت نہیں ملتی بلکہ مدینہ پہنچنے پر مسجد النبی کی جگہ پر موجود مشرکین کی قبریں کھود دی گئیں
اس کا تعلق عالم بالا سے لیا جاتا رہا اور قرآن میں بھی اس کو النار یعنی جہنم کی اگ پر پیش ہونا کہا گیا ہے جو ظاہر ہے اس دنیا کا حصہ نہیں ہے

جن قوموں کو تباہ کیا گیا ان کی قبریں نہیں ہیں سوائے ایک شخص ابو رغال کے جو عذاب کے وقت حدود حرم میں تھا لہذا بچ گیا لیکن جیسے ہی حرم کی حدود سے نکلا ایک آسمان سے پتھر گرا اور اس کو ہلاک کر دیا گیا – ایک حدیث کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم سفر میں تھے تو کہا یہاں ابو رغآل کی قبر ہے کھود کر سونا نکال لو! سو صحابہ نے کھودا اور عذاب قبر وہاں نہیں تھا بلکہ سونا تھا اس کو لیا

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ بُجَيْرِ بْنِ أَبِي بُجَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: “أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَمَرُّوا عَلَى قَبْرِ أَبِي رِغَالٍ وَهُوَ أَبُو ثَقِيفٍ وَهُوَ امْرُؤٌ مِنْ ثَمُودَ، مَنْزِلُهُ بِحَرَّاءَ، فَلَمَّا أَهْلَكَ اللَّهُ قَوْمَهُ بِمَا أَهْلَكَهُمْ بِهِ مَنَعَهُ لِمَكَانِهِ مِنَ الْحَرَمِ، وَأَنَّهُ خَرَجَ حَتَّى إِذَا بَلَغَ هَاهُنَا مَاتَ، فَدُفِنَ مَعَهُ غُصْنٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَابْتَدَرْنَا، فَاسْتَخْرَجْنَاهُ”

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قوم ثمود کے شخص ابو رغال کی قبر کھودنے کا حکم دیا اور اس ثمودی کی قبر سے سونا نکلا
امام المزی اس کو حديث حسن عزيز کہتے ہیں- البانی ضعیف کہتے ہیں ان کی بنیاد بُجَيْرِ بْنِ أَبي بُجَيْرٍ پر ہے کہ یہ مہجول ہے
ابن حبان بھی اسکو صحیح کہتے ہیں اور صحیح میں ذکر کرتے ہیں

طحاوی مشکل الاثار میں اس کو صحیح مانتے ہوئے اس پر تبصرہ کرتے ہیں اور امام النسانی کا قول پیش کرتے ہیں پھر کہتے ہیں
فَكَانَ جَوَابُنَا لَهُ فِي ذَلِكَ بِتَوْفِيقِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَوْنِهِ: أَنَّهُ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ مَسْكَنُهُ فِي الْحَرَمِ , وَكَانَ مَعَ ثَمُودَ فِي الْمَوَاضِعِ الَّتِي كَانَتْ فِيهِ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ مِنْ مَعَاصِي اللهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَالْخُرُوجِ عَنْ أَمْرِهِ , فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْوَعِيدُ مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَخَافَ أَنْ يَلْحَقَهُ ذَلِكَ بِالْمَكَانِ الَّذِي هُوَ بِهِ , لَجَأَ إِلَى مَسْكَنِهِ فِي الْحَرَمِ , فَدَخَلَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْحَرَمَ فَمَنَعَهُ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ , عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِصَّةِ [ص:374] أَبِي رِغَالٍ أَيْضًا مَا يُوَافِقُ مَا فِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي دَاوُدَ مِمَّا ذَكَرْنَا.
یعنی طحاوی اس کو صحیح مانتے ہیں ورنہ کہتے ضعیف ہے اور رد کرتے

چونکہ اس سے مسلک پرستوں کے عقیدہ کا رد ہوتا ہے انکی کوشش رہی کہ اس روایت کو رد کریں ابن کثیر میدان میں کودے اور تفسیر میں لکھا
قال ابنُ كثير في “تفسيره” 3/ 440، وقال: وعلى هذا يُخشى أن يكون وهم في رفع هذا الحديث، وإنما يكونُ من كلام عبد الله بن عمرو، مما أخذه من الزاملتين، ثم قال: قال شيخنا أبر الحجاج [يعني المزي]، بعد أن عرضتُ عليه ذلك: وهذا محتمل، والله أعلم.
اور خطرہ ہے کہ یہ حدیث رفع کی گئی ہے اور ہو سکتا ہے یہ عبد الله بن عمرو کا کلام ہو جس کو انہوں نے اونٹنیوں پی سے لیا پھر کہا ہمارے شیخ المزی پر یہ بات پیش کی گئی انہوں نے کہا ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو

افسوس ایک صحابی پر اہل کتاب کی کتب چوری کرنے کا الزام ابن کثیر نے متعدد بار لگایا
اور المزی جو خود تہذیب الکمال میں اس روایت کو ضعیف نہیں کہتے وہ کیسے اس رائے سے متفق ہو سکتے ہیں
لہذا یہ روایت ضعیف نہیں ہے

خود بخاری کی حدیث میں مشرکین کی قبریں کھودنے کا ذکر ہے جس میں عذاب نہیں نکلا
لہذا زمینی گھڑا تو میت کی ستر پوشی کے لئے ہے کہ اس کو گلتا سڑتا دیکھ کر انسان کو گھن ائے گی اور کوئی اس کا مقصد نہیں ہے

اہل حدیث اور بریلوی ایک ہی جیسی روایات مانتے ہیں صرف نتائج کا فرق ہے-دونوں فرقے

عود روح کے قائل ہیں
میت کو قدموں کی چاپ سنواتے ہیں
انبیاء کی قبروں کی حیات کے قائل ہیں

اس لئے ان کے نتائج میں فرق ممکن نہیں اصل مسئلہ یہ روایات خود ہیں جو ہیں ہی ضعیف

[/EXPAND]

[وہابیوں اور اہل حدیث کے عقائد میں روح کے حوالے سے کیا  اختلاف ہے ؟ ]

جواب

مفتی بن باز سے سوال ہوا کہ قبض روح کے بعد روح کہاں جاتی ہے ؟ بن باز کہتے ہیں

http://www.binbaz.org.sa/noor/1495

روح المؤمن ترفع إلى الجنة، ثم ترد إلى الله -سبحانه وتعالى-، ثم ترد إلى جسدها للسؤال، ثم بعد ذلك جاء الحديث أنها تكون في الجنة، طائر يعلق بشجر الجنة، روح المؤمن ويردها الله إلى جسدها إذا شاء -سبحانه وتعالى-، أما روح الكافر تغلق عنها أبواب السماء، وتطرح طرحاً إلى الأرض وترجع إلى جسدها للسؤال، وتعذب في قبرها مع الجسد، نسأل الله العافية، أما روح المؤمن فإنها تنعم في الجنة، وترجع إلى جسدها إذا شاء الله، وترجع إليه أول ما يوضع في القبر حتى يسأل، كما جاء في ذلك الأحاديث الصحيحة عن رسول الله -عليه الصلاة والسلام-: (والمؤمن إذا خرجت الروح منه يخرج منها كأطيب ريح، يحسه الملائكة ويقولون ما هذه الروح الطيبة؟، ثم تفتح لها أبواب السماء حتى تصل إلى الله، فيقول الله لها: ردوها إلى عبدي فإني منها خلقتهم، وفيها أعيدهم، فتعاد روحه إلى الجسد ويسأل)، ثم جاءت الأحاديث بأن هذه الروح تكون في الجنة بشبه طائر بشكل طائر تعلق في أسفل الجنة، وأرواح الشهداء في أجواف طير خضر؟ أما روح المؤمنين فهي نفسها تكون طائر، كما روى ذلك أحمد وغيره بإسناد صحيح عن كعب بن مالك -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-. جزاكم الله خيراً

مومن کی روح بلند ہوتی ہے جنت کی طرف پھر اس کو الله تعالی کی طرف لے جاتے ہیں پھر اس کو جسم میں سوال کے لئے لوٹاتے ہیں پھر اس کے بعد حدیث میں اتا ہے یہ جنت میں جاتی ہے ایک پرندے کی طرح جنت کے درخت پر لٹکتی ہے  الله ،مومن کی روح کو جسم میں لوٹاتا ہے جب وہ چاہتا ہے اور جہاں تک کافر کی روح کا تعلق ہے اس پر آسمان کے دروازے بند ہو  جاتے ہیں اور اس کو پھینکا جاتا ہے زمین کی طرف اور جسم کو لوٹایا جاتا ہے سوال کے لئے اور قبر میں عذاب کے لئے جیسا کہ حدیث  صحیحہ میں آیا ہے  اور مومن کی روح جب نکلتی ہے اس میں سے ایک خوشبو نکلتی ہے اس کو فرشتے محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کیسی عمدہ خوشبو ہے پھر آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں یہاں تک کہ الله سے ملتی ہے اس سے اللہ کہتا ہے لوٹا دو میرے بندے کو اس سے میں نے ان کو تخلیق کیا ہے اور اس میں ہی لوٹا دوں گا پس روح جسد میں لوٹا دی جاتی ہے پھر سوال ہوتا ہے پھر احادیث میں آیا ہے یہ روح جنت میں ایک پرندے کی شکل میں جنت کے نیچے لٹکتی ہے اور شہیدوں کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں؟ اور مومنین کی ارواح تو یہ فی نفس ایک پرندہ ہی ہے جیسا کہ احمد نے صحیح اسناد کے ساتھ کعب رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے الله بہترین جزا دے

بن باز کہہ رہے ہیں کہ مومن کی روح تو جب جب الله چاہتا ہے جنت سے قبر میں لوٹا دیتا ہے  جبکہ اہل حدیث اس کو ایک استثنا کہہ کر صرف ایک ہی بار کے لئے محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں

یہی عقیدہ وہابیوں کا رسول الله کے حوالے سے ہے کہ جسد نبوی میں ایک مرتبہ نہیں  بلکہ ان پچھلی  ١٤ صدیوں میں ہر روز دن میں کئی مرتبہ روح ڈالی اور نکالی جاتی ہے

وہابیوں کے مطابق نہ صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم بلکہ عام شخص بھی عود روح کے بعد قبر میں سنتے ہیں جبکہ اس عقیدہ پر اہل حدیث دیوبندیوں اور بریلویوں پر گمراہ ہونے کا فتوی دیتے ہیں

[/EXPAND]

[عذاب قبر سے متعلق چند سوالات ہیں؟ ]

(۱)یہ ٹھیک ہے کہ ان احادیث میں روح کا جسم سے علیحدہ اور جنت میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔مگر کیا جنت کے اس مقام کو نبی ﷺ نے قبر قرار دیا ہے؟
(۲)قرآن وحدیث میں جہاں بھی ’’میت‘‘کے الفاظ ہیں(اور میت ہم سب جانتے ہیں کہ مردے کو کہا جاتا ہے جس کی روح پرواز کر جاتی ہے،مگر جسم ہمارے سامنے ہی ہوتا ہے جسے ہم دفناتے یا کفناتے ہیں) ان میں سے اکثر کے ساتھ ’’قبر‘‘کے الفاظ بھی ہیں یا ’’قبر کے احکام‘‘بھی مووجود ہیں مثلا دفنانا ،ان پر بیٹھنے کی ممانعت،انکی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا،انہیں پکا نہ بنانا۔وغیرہ وغیرہ۔۔اب اگر آپ جنت کے اس روح والے مقام کو’’قبر ‘‘قرار دے لیں گے توپھر اس کے احکام بھی بتانے پڑیں گے!؟
(۳)بعض ارواح کا مسکن عرش کے نیچے قندیل اور بعض کا جنت کے درخت ہیں تو کیا آپ ’’درخت‘‘ اور ’’قندیل‘‘کو ’’قبر ‘‘سمجھتے ہیں؟
(۴)کیا آپ ایک بھی آیت یا حدیث دکھا سکتے ہیں جس میں اس مقام کو نبی ﷺ نے’’قبر‘‘کہا ہو یا تشبیہ دی ہو قبر سے؟
(۵)جو احادیث آپ نے پیسٹ کی ہیں ان میں ’’قبر ‘‘کے الفاظ کہاں ہیں؟

جواب

اصل میں یہ بحث دو باتوں پر ہے

اول زمینی قبر کا کیا مقصد ہے؟
دوم عذاب قبر کہاں ہوتا ہے؟

زمینی قبر جس کو عرف عام میں قبر کہا جاتا ہے یہ میت یا جسد کا مقام ہے جہاں اس کو رکھا جاتا ہے تاکہ جسد مٹی میں تبدیل ہو جائے
اس جسد میں سے جان کی رمق نہیں ہوتی اور ہڈی میں بھی جان نہیں ہوتی
الله تعالی قرآن میں کہتے ہیں کہ وہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا

رسول الله صلي الله عليہ وسلم کے قول کہ جو مرا  فقد قَامَت قِيَامَته اس پر اسکي قيامت قائم ہوئي پر بحث کرتے ہوئے ابن حزم  (المتوفى: 456هـ) کتاب  الفصل في الملل والأهواء والنحل  ميں لکھتے ہيں

قَالَ أَبُو مُحَمَّد وَإِنَّمَا عَنى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِهَذَا الْقيام الْمَوْت فَقَط بعد ذَلِك إِلَى يَوْم الْبَعْث كَمَا قَالَ عز وَجل {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} فنص تَعَالَى على أَن الْبَعْث يَوْم الْقِيَامَة بعد الْمَوْت بِلَفْظَة ثمَّ الَّتِي هِيَ للمهلة وَهَكَذَا أخبر عز وَجل عَن قَوْلهم يَوْم الْقِيَامَة {يا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} وَأَنه يَوْم مِقْدَاره خَمْسُونَ ألف سنة وَأَنه يحيي الْعِظَام وَيبْعَث من فِي الْقُبُور فِي مَوَاضِع كَثِيرَة من الْقُرْآن وبرهان ضَرُورِيّ وَهُوَ أَن الْجنَّة وَالنَّار موضعان ومكانان وكل مَوضِع وَمَكَان ومساحة متناهية بِحُدُودِهِ وبالبرهان الَّذِي قدمْنَاهُ على وجوب تناهي الإجسام وتناهى كل مَا لَهُ عدد وَيَقُول الله تَعَالَى {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} فَلَو لم يكن لتولد الْخلق نِهَايَة لكانوا أبدا يحدثُونَ بِلَا آخر وَقد علمنَا أَن مصيرهم الْجنَّة أَو النَّار ومحال مُمْتَنع غير مُمكن أَن يسع مَا لَا نِهَايَة لَهُ فيماله نِهَايَة من الماكن فَوَجَبَ ضَرُورَة أَن لِلْخلقِ نِهَايَة فَإِذا ذَلِك وَاجِب فقد وَجب تناهى عَالم الذَّر والتناسل ضَرُورَة وَإِنَّمَا كلامنا هَذَا مَعَ من يُؤمن بِالْقُرْآنِ وبنبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَادّعى الْإِسْلَام وَأما من أنكر الْإِسْلَام فكلامنا مَعَه على مَا رتبناه فِي ديواننا هَذَا من النَّقْض على أهل الْإِلْحَاد حَتَّى تثبت نبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَصِحَّة مَا جَاءَ بِهِ فنرجع إِلَيْهِ بعد التَّنَازُع وَبِاللَّهِ تَعَالَى التَّوْفِيق وَقد نَص الله تَعَالَى على أَن الْعِظَام يُعِيدهَا ويحيها كَمَا كَانَت أول مرّة وَأما اللَّحْم فَإِنَّمَا هُوَ كسْوَة كَمَا قَالَ {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين}

امام ابن حزم نے کہا کہ بے شک رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے خبر دي قيام سے مراد فقط موت ہے کيونکہ اب اس کو يوم بعث پر اٹھايا جائے گا جيسا الله تعالي نے کہا {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون}  پھر تم کو قيامت کے دن اٹھايا جائے گا پس نص کي الله تعالي نے ان الفاظ سے کہ زندہ ہونا ہو گا قيامت کے دن موت کے بعد يعني يہ ايک ڈيڈ لائن ہے اور اسي طرح الله نے خبر دي قيامت پر اپنے قول سے  {يَا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا}  ہائے بربادي کس نے ہميں اس نيند کي جگہ سے اٹھايا  اور اس دن کي مقدار پچاس ہزار سال کي ہے اور بے شک اس نے خبر دي قرآن ميں اور برہان ضروري سے کثير مقامات پر کہ وہ ہڈيوں کو زندہ کرے گا اور جو قبروں ميں ہيں انکو جي بخشے گا  –  جنت و جہنم دو جگہيں ہيں اور مکان ہيں اور ہر مکان کي ايک حدود اور انتھي ہوتي ہے اور وہ برہان جس کا ہم نے ذکر کيا واجب کرتا ہے کہ اس ميں اجسام لا متناہي نہ ہوں اور گنے جا سکتے ہوں اور الله کا قول ہے {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض}   وہ جنت جس کي چوڑائي آسمانوں اور زمين کے برابر ہے اور ….  پس ضروري ہے کہ مخلوق کي انتھي ہو  … اور بے شک اللہ تعالي نے نص دي کہ ہڈيوں کو واپس شروع کيا جائے گا اور انکو زندہ کيا جائے گا جيسا پہلي دفعہ تھا اور جو گوشت ہے تو وہ تو اس ہڈي پر غلاف ہے جيسا الله نے کہا   {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين} اور بے شک ہم نے انسان کو خلق کيا مٹي سے پھر اس کا نطفہ ايک ٹہرنے والي جگہ کيا

ابن حزم بار بار الله تعالي کے قول کي ياد دہاني کرا رہے ہيں کہ موت کے بعد اجسام ہڈيوں ميں بدل جائيں گے اور زندہ بھي ہڈي کو کيا جائے گا پھر اس پر گوشت کا غلاف آئے گا لہذا يہ ظاہر ہے کان يا آلات سماعت تو گوشت کے ھوتے ہيں جب وہ ہي معدوم ہو جائيں تو انسان کيسے سنے گا

اس لئے قبر کا مقصد صرف یہی ہے کہ جسم کو مٹی مٹی کیا جائے اور ستر پوشی ہو ورنہ اس جسم کو جانور کھا جائیں گے

دوم دوسرا سوال ہے کہ عذاب قبر کہاں ہوتا ہے تو اس پر اہل سنت شروع سے دو رائے رہے ہیں ایک یہ کہ یہ البرزخ میں ہوتا ہے جو عالم بالا میں ہے دوسرا گروہ کہتا ہے یہ اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے
ہمارا تعلق اس گروہ سے ہےجو یہ کہتا ہے کہ یہ اس دنیا میں نہیں ہوتا – اس پر علماء کہتے ہیں

ابن الجوزی اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں کہ
فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار
پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ سے تعريفا (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف میں
امام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور
اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا
ابن حزم الأندلسي القرطبي الظاهري (المتوفى: 456هـ) اپنی کتاب المحلى بالآثار میں لکھتے ہیں کہ
وَلَمْ يَرْوِ أَحَدٌ أَنَّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ رَدَّ الرُّوحِ إلَى الْجَسَدِ إلَّا الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو، وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ
اور کسی نے یہ روایت نہیں کیا کہ عذاب القبر میں روح جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے سوائے الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو کے اور وہ قوی نہیں
اپنی دوسری کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں لکھتے ہیں کہ
لِأَن فتْنَة الْقَبْر وعذابه وَالْمَسْأَلَة إِنَّمَا هِيَ للروح فَقَط بعد فِرَاقه للجسد إِثْر ذَلِك قبر أَو لم يقبر
بے شک فتنہ قبر اور عذاب اور سوال فقط روح سے ہوتا ہے جسم سے علیحدہ ہونے کے بعد چاہے اس کو قبر ملے یا نہ ملے
ابن الخراط (المتوفى: 581هـ) کتاب العاقبة في ذكر الموت میں لکھتے ہیں
وَقد ضرب بعض الْعلمَاء لتعذيب الرّوح مثلا بالنائم فَإِن روحه تتنعم أَو تتعذب والجسد لَا يحس بِشَيْء من ذَلِك
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ روح کو عذاب ہوتا ہے مثلا سونے والے کی طرح پس اس کی روح منعم یامعذب ہوتی ہے اور جسد کوئی شے محسوس نہیں کرتا اس میں سے

محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ) کتاب العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں لکھتے ہیں
ثم لأهل السنة قولان؛ قيل: إن العذاب للروح فقط، وقيل: للروح والجسد والمشهور الثاني
پھر اہل السنہ ہے دو قول ہیں: کہتے ہیں کہ عذاب صرف روح کو ہے اور کہتے ہیں روح و جسد کو ہے اور دوسرا قول مشھور ہے

(۱)یہ ٹھیک ہے کہ ان احادیث میں روح کا جسم سے علیحدہ اور جنت میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔مگر کیا جنت کے اس مقام کو نبی ﷺ نے قبر قرار دیا ہے؟

حدیث میں یہ لفظ اس طرح نہیں آیا لیکن قرآن میں سوره عبس میں انسان پر گزرنے والے ادوار کا ذکر ہے اس میں تمام انسانوں کے لئے قبر کا ذکر ہے

(۲)قرآن وحدیث میں جہاں بھی ’’میت‘‘کے الفاظ ہیں(اور میت ہم سب جانتے ہیں کہ مردے کو کہا جاتا ہے جس کی روح پرواز کر جاتی ہے،مگر جسم ہمارے سامنے ہی ہوتا ہے جسے ہم دفناتے یا کفناتے ہیں) ان میں سے اکثر کے ساتھ ’’قبر‘‘کے الفاظ بھی ہیں یا ’’قبر کے احکام‘‘بھی مووجود ہیں مثلا دفنانا ،ان پر بیٹھنے کی ممانعت،انکی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا،انہیں پکا نہ بنانا۔وغیرہ وغیرہ۔۔اب اگر آپ جنت کے اس روح والے مقام کو’’قبر ‘‘قرار دے لیں گے توپھر اس کے احکام بھی بتانے پڑیں گے!؟
جواب
قبر سے مراد زمین کا مقام ہے اگر جسد کی بات ہو اور اس سے مراد روح کا مقام ہے
احکام صرف اس دنیا پر لاگو ہوتے ہیں عالم بالا تک انسان جا ہی نہیں سکتے تو اس کے احکام کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لہذا حدیث میں جب احکام المیت کا ذکر ہے تو ص سے مراد دنیا کا مقام ہی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں لہذا یہ نزآع کا مقام نہیں

(۳)بعض ارواح کا مسکن عرش کے نیچے قندیل اور بعض کا جنت کے درخت ہیں تو کیا آپ ’’درخت‘‘ اور ’’قندیل‘‘کو ’’قبر ‘‘سمجھتے ہیں؟
جواب یہ تمام مقامات روح کے لئے اس کی قبر ہی ہیں

(۴)کیا آپ ایک بھی آیت یا حدیث دکھا سکتے ہیں جس میں اس مقام کو نبی ﷺ نے’’قبر‘‘کہا ہو یا تشبیہ دی ہو قبر سے؟
(۵)جو احادیث آپ نے پیسٹ کی ہیں ان میں ’’قبر ‘‘کے الفاظ کہاں ہیں؟
ہم اس کے لئے روایت پیش کرتے ہیں

صحیح مسلم کی روایت ہے

حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقالت: رحم الله أبا عبد الرحمن، سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: «أنتم تبكون، وإنه ليعذب»

حماد بن زيد کہتے ہیں ہم سے هشام بن عروة نے بیان کیا ان سے انکے باپ نے کہا عائشہ رضی الله تعالی عنہا کے سامنے ابن عمر رضی الله تعالی عنہ کی بات کا ذکر ہوا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، پس اس پر آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا الله رحم کرے ابو عبد الرحمان پر انہوں نے سنا لیکن یاد نہ رکھ سکے. بے شک الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم ایک یہودی کے جنازہ پر گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے اپ نے فرمایا یہ اس پر روتے ہیں اور اس کو عذاب دیا جا رہا ہے

بخاری میں یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی ہے

حَدَّثَنا عَبْدُ الله بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا: سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ الله عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يَبْكِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا، فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا»

اس روایت کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم یہودیہ پر سے گزرے تھے (تدفین سے پہلے) جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اسکو اسکی قبر میں عذاب ہو رہا ہے جبکہ وہ میت ابھی دفن بھی نہیں ہوئی تھی

[/EXPAND]

[روایت اکثر عذاب قبر پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے کیا صحیح ہے ؟ ]

جواب

ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں روایت پیش کرتے ہیں

ارشد-بول

یہ روایت کتب حدیث میں  الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے ہے

کتاب العلل از الترمذی کے مطابق

سَأَلْتُ مُحَمَّدًا ….. قُلْتُ لَهُ فَحَدِيثُ أَبِي عَوَانَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا، كَيْفَ هُوَ؟ قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ , وَهَذَا غَيْرُ ذَاكَ الْحَدِيثِ

امام بخاری سے سوال کیا کہ پیشاب کے بارے میں حدِيثُ أَبِي عَوَانَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کیسی ہے ؟ انہوں نے  کہا صحیح ہے

لیکن کتاب العلل از الترمذی  کی سند نہیں ہے اور یہ  کتاب ثابت نہیں ہے

اس کے برعکس  کتاب العلل از ابن ابی حاتم کے مطابق

قال ابن أبي حاتم: سالت أبي عن حديث رواه عفان، عن أبي عوانة، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وعلى آله وَسَلَّمَ قال: ((أكثر عذاب القبر في البول)) . قال أبي: هذا حديث باطل يعني رفعه

ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے حدیث جو عفان، عن أبي عوانة، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وعلى آله وَسَلَّمَ کی سند سے ہے کہ اکثر عذاب قبر پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کھا یہ حدیث باطل ہے یعنی رفع کی گئی ہے

[/EXPAND]

[ابن عباس رضی الله عنہ کی تدفین کے وقت ایک پرندہ ظاہر ہوا؟ ]

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی وفات سے متعلق ایک روایت کی تحقیق مطلوب ہے

کیا ان روایات کی سند صحیح ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فوت ہوئے تو ان کے کفن میں ایک سفید رنگ کا پرندہ گھس گیا اور پہر واپس نہیں آیا اور ان کی قبر میں سے ان آیات کی تلاوت کی آواز بھی سنی گئی { يا أيتها النفس المطمئنة } { ارجعي إلى ربك راضية مرضية } { فادخلي في عبادي } { و ادخلي جنتي }؟

جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات میں ذکر ہے:
و أخبرني محمد بن يعقوب ثنا محمد بن إسحاق ثنا الفضل بن إسحاق الدوري ثنا مروان بن شجاع عن سالم بن عجلان عن سعيد بن جبير قال : مات ابن عباس بالطائف فشهدت جنازته فجاء طير لم ير على خلقته و دخل في نعشه فنظرنا و تأملنا هل يخرج فلم ير أنه خرج من نعشه فلما دفن تليت هذه الآية على شفير القبر و لا يدري من تلاها { يا أيتها النفس المطمئنة } { ارجعي إلى ربك راضية مرضية } { فادخلي في عبادي } { و ادخلي جنتي } قال : و ذكر إسماعيل بن علي و عيسى بن علي أنه طير أبيض
حدثنا إسماعيل بن محمد الفضل ثنا جدي ثنا سنيد بن داود ثنا محمد بن فضيل حدثني أجلح بن عبد الله عن أبي الزبير قال شهدت جنازة عبد الله بن عباس رضى الله تعالى عنهما بالطائف فرأيت طيرا أبيض جاء حتى دخل تحت الثوب فلم يزحزح بعد

سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا:ابن عباس رضی اللہ عنہما طائف میں فوت ہوئے اور میں آپ کے جنازے میں موجود تھا،پھر ایک بے مثال اور اجنبی قسم کا پرندہ آکر آپ کی چارپائی یا تابوت میں داخل ہوکر غائب ہوگیا اور اسے کسی نے باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھا۔پھر جب آپ کو دفن کیا گیا تو قبر کے ایک کنارے پر یہ غیبی آواز سنی گئی:اے مطمئن روح!اپنے رب کی طرف راضی مرضی حالت میں واپس جاو،پھر میرے بندوں میں شامل ہوجاو اور جنت میں داخل ہوجاو۔/سورۃ الفجر٢٨-٢٩

(فضائل صحابہ للامام احمد:١٨٧٩،وسندہ حسن،المعجم الکبیر للطبرانی ٢٩٠/١٠ح١٠٥٨١،المستدرک للحاکم

٥٤٣/٣-٥٤٤ح٦٣١٢،دلائل النبوۃ للمستغفری ٦٣٤/٢ح٤٤٥)

کتاب الاربعین للشیخ الاسلام ابن تیمیہ بتحقیق حافظ زبیر علی زئی،صفحہ ١٢٥-١٢٦

جواب

اسکی سند میں مَرْوَانُ بنُ شُجَاعٍ الأُمَوِيُّ ہے جن کی حیثیت مختلف فیہ ہے
أَبُو حَاتِمٍ: کہتے ہیں حجت نہیں ہے
قال ابن حبان: يروي المقلوبات عن الثقات.
ابن حبان کہتے ہیں مقلوبات ثقات کے حوالے سے بیان کرتے ہیں

دوسری کی ایک سند میں فرات بن سائب ہے جس پر بھی جرح ہے
مصنف ابن ابی شیبہ کی سند میں شعيب بن يَسَار، مولى ابن عباس. ہے جس کا حال معلوم نہیں ہے

[/EXPAND]

[عود روح کی روایت اور غیر مقلدین کی جرح و تعدیل]

musnad ahmed ki riwayat rooh ko lotana

مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 479

براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصاری کے جنازے میں نکلے ہم قبر کے قریب پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے پھر سر اٹھا کر فرمایا اللہ سے عذاب قبر سے بچنے کے لئے پناہ مانگو، دو تین مرتبہ فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بندہ مؤمن جب دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے آس پاس سے روشن چہروں والے ہوتے ہیں آتے ہیں ان کے پاس جنت کا کفن اور جنت کی حنوط ہوتی ہے تاحد نگاہ وہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے نفس مطمئنہ ! اللہ کی مغفرت اور خوشنودی کی طرف نکل چل چنانچہ اس کی روح اس بہہ کر نکل جاتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہہ جاتا ہے ملک الموت اسے پکڑ لیتے ہیں اور دوسرے فرشتے پلک جھپکنے کی مقدار بھی اس کی روح کو ملک الموت کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ ان سے لے کر اسے اس کفن لپیٹ کر اس پر اپنی لائی ہوئی حنوط مل دیتے ہیں اور اس کے جسم سے ایسی خوشبو آتی ہے جیسے مشک کا ایک خوشگوار جھونکا جو زمین پر محسوس ہوسکے ۔ پھر فرشتے اس روح کو لے کر اوپر چڑھ جاتے ہیں اور فرشتوں کے جس گروہ پر بھی ان کا گذر ہوتا ہے وہ گروہ پوچھتا ہے کہ یہ پاکیزہ روح کون ہے؟ وہ جواب میں اس کا وہ بہترین نام بتاتے ہیں جس سے دنیا میں لوگ اسے پکارتے تھے حتی کہ وہ اسے لے کر آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں اور دروازے کھلواتے ہیں جب دروازہ کھلتا ہے تو ہر آسمان کے فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں اگلے آسمان تک اسے چھوڑ کر آتے ہیں اور اس طرح وہ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کانامہ اعمال ” علیین ” میں لکھ دو اور اسے واپس زمین کی طرف لے جاؤ کیونکہ میں نے اپنے بندوں کو زمین کی مٹی ہی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا۔چنانچہ اس کی روح جسم میں واپس لوٹادی جاتی ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا علم کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ، اس پر آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت کا بستر بچھادو اسے جنت کا لباس پہنادو اور اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ کھول دو چنانچہ اسے جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی رہتیں ہیں اور تاحدنگاہ اس کی قبر وسیع کردی جاتی ہے اور اس کے پاس ایک خوبصورت لباس اور انتہائی عمدہ خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تمہیں خوشخبری مبارک ہو یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ اس سے پوچھتاے کہ تم کون ہو؟ کہ تمہارا چہرہ ہی خیر کا پتہ دیتا ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں اس پر وہ کہتا ہے کہ پروردگار! قیامت ابھی قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور مال میں واپس لوٹ جاؤں ۔ اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت يآکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے ” اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال ” سجین ” میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔ ” پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہائے افسوس ! مجھے کچھ پتہ نہیں ، وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ وہ کون شخص تھا جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے اور آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول دو چنانچہ وہاں کی گرمی اور لو اسے پہنچنے لگتی ہے اور اس پر قبر تنگ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے پاس ایک بدصورت آدمی گندے کپڑے پہن کر آتا ہے جس سے بدبو آرہی ہوتی ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تجھے خوشخبری مبارک ہویہ وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ پوچھتا ہے کہ تو کون ہے ؟ کہ تیرے چہرے ہی سے شر کی خبر معلوم ہوتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیراگندہ عمل ہوں تو اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سست اور اس کی نافرمانی کے کاموں میں چست تھا لہٰذا اللہ نے تجھے برا بدلہ دیاہے پھر اس پرا ایک ایسے فرشتے کو مسلط کردیا جاتا ہے جواندھا، گونگا اور بہرا ہو اس کے ہاتھ میں اتنا بڑا گرز ہوتا ہے کہ اگر کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے اور وہ اس گرز سے اسے ایک ضرب لگاتا ہے اور وہ ریزہ ریزہ جاتا ہے پھر اللہ اسے پہلے والی حالت پر لوٹادیتا ہے پھر وہ اسے ایک اور ضرب لگاتا ہے جس سے وہ اتنی زور سے چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ساری مخلوق اسے سنتی ہے پھر اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور آگ کا فرش بچھادیا جاتاہے۔گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے –

اس کی سند میں المنھال بن عمرو کا تفرد ہے

qurbani-sanabli-2

غیر مقلدین : عقیدے میں بد احتیاطی اور عمل میں اتنی محنت!  المنھال کی روایت پر قربانی نہیں کر رہے لیکن اپنے ایمان کو قربان کر رہے ہیں

[/EXPAND]

[کیا قبر میں میت پر اس کا عمل مجسم ہوتا ہے]

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے بے شک وہ سنتی ہے ان کی جوتیوں کی چاپ جب وہ پلٹتے ہیں اس سے پس اگر مومن ہو تو نماز اس کے سر ہوتی ہے اور روزہ ہو تو دائیں اور زکات اس کے بائیں اور نیک کام جیسے صدقه صلہرحمی معروف اور احسان لوگوں پر اس کے پیروں پر ہوتے ہیں
پھر سر کی طرف سے نماز بولتی ہے مجھ سے (نامہ اعمال میں) کیا داخل کیا …(اسی طرح تمام اعمال بولتے ہیں)

اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرٍو يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ

ابن حبان کی اس روایت پر شعيب الأرنؤوط اور حسين سليم أسد الدّاراني حکم لگاتے ہیں
إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو
مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ کی وجہ سے اسناد حسن ہیں

حسن روایت پر عقیدہ نہیں بنایا جاتا ان کو فضائل میں پیش کیا جاتا ہے

قبر میں فتنہ سے متعلق بعض راویوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے بہت سی متضاد روایات منسوب کی ہیں
ان میں ہیں

⇑ ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے منسوب روایت
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/
اس کی سند ہے مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
اس راوی کے مطابق الله تعالی کسی آسمان پر ہے نعوذ باللہ جہاں روح کو پہنچا دیا جاتا ہے

سنن نسائی میں قتادہ مدلس کے عنعنہ کے ساتھ دوسری روایت ہے
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا حُضِرَ الْمُؤْمِنُ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ بِحَرِيرَةٍ بَيْضَاءَ فَيَقُولُونَ: اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيًّا عَنْكِ إِلَى رَوْحِ اللَّهِ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ، فَتَخْرُجُ كَأَطْيَبِ رِيحِ الْمِسْكِ، حَتَّى أَنَّهُ لَيُنَاوِلُهُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا أَطْيَبَ هَذِهِ الرِّيحَ الَّتِي جَاءَتْكُمْ مِنَ الْأَرْضِ، فَيَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِغَائِبِهِ يَقْدَمُ عَلَيْهِ، فَيَسْأَلُونَهُ: مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ فَيَقُولُونَ: دَعُوهُ فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا، فَإِذَا قَالَ: أَمَا أَتَاكُمْ؟ قَالُوا: ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا احْتُضِرَ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ بِمِسْحٍ فَيَقُولُونَ: اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَتَخْرُجُ كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ، حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ الْأَرْضِ، فَيَقُولُونَ: مَا أَنْتَنَ هَذِهِ الرِّيحَ حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْكُفَّارِ

اس میں ہے روح کو باب ارض پر لے کر جاتے ہیں جہاں کفار ہیں

اوپر والی تمام ضعیف روایات ہیں
———————
اس کے بر عکس صحیح مسلم کی روایت ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
: عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو – ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

اس کے مطابق روح کو واپس قبر میں نہیں ڈالا جا رہا جیسا کہ بعض راوی ابو ہریرہ سے منسوب کرتے ہیں اور یہ صحیح روایت ہے

صحیح مسلم کی اس روایت کا ترجمہ بھی تبدیل کیا جاتا ہے اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے
آخری وقت کے لئے سجین کی طرف لے چلو
جبکہ سجیین کا لفظ عربی متن میں نہیں ہے

[/EXPAND]

[مومن کی روح قیامت تک جنت میں رہے گی کی کیا دلیل ہے]

المنتخب من مسند عبد بن حميد میں ہے کہ کعب بن مالک أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، کہ جب ان کی وفات کا وقت تھا اور مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ مُبَشِّرٍ لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَهُوَ شَاكٍ: اقْرَأْ عَلَى ابْنِي السَّلَامَ، تَعْنِي مُبَشِّرًا، فَقَالَ: يَغْفِرُ اللهُ لَكِ يَا أُمَّ مُبَشِّرٍ، أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُسْلِمِ طَيْرٌ تَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ” قَالَتْ: صَدَقْتَ، فَأَسْتَغْفِرُ اللهَ
أم بشر بنت البراء بن معرور آئیں اور کعب سے کہا میرے (فوت شدہ) بیٹے کو سلام کہیے گا (یعنی جنت جب ملاقات ہو) اس پر کعب نے کہا الله تمہاری مغفرت کرے کیا تم نے سنا نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلم کی روح ، پرندہ ہے جنت کے درخت پر لٹکتی ہے یہاں تک کہ روز محشر الله اسکو اس کے جسد میں لوٹا دے ام مبشر نے کہا سچ کہا میں الله سے مغفرت طلب کرتی ہوں

اس کی سند صحیح ہے

[/EXPAND]

[کیا مردہ کھاٹ پر بولتا ہے چلو چلو یعنی وہ زندہ ہوتا ہے]

صحیح بخاری
كتاب الجنائز
باب: باب قول الميت وهو على الجنازة قدموني:
باب: نیک میت چارپائی پر کہتا ہے کہ مجھے آگے بڑھائے چلو (جلد دفناؤ)
حدیث نمبر: 1316
حدثنا عبد الله بن يوسف حدثنا الليث حدثنا سعيد عن ابيه انه سمع ابا سعيد الخدري رضي الله عنه ، قال:‏‏‏‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم ، يقول:‏‏‏‏ ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على اعناقهم فإن كانت صالحة قالت:‏‏‏‏ قدموني وإن كانت غير صالحة قالت لاهلها:‏‏‏‏ يا ويلها اين يذهبون بها ، يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان ولو سمع الإنسان لصعق “.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد (کیسان) نے اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سوا ہر اللہ کہ مخلوق سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بیہوش ہو جائے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1316)

جواب

روایت جس پر اپ نے سوال کیا ہے یہ قدمونی قدمونی والی روایت ہے

یہ روایت سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني کی سند سے ہے اور بخاری میں نامکمل ہے
قال شعبة: ساء بعد ما كبر.
شعبہ کہتے ہیں بوڑھے ہوئے تو خراب ہوئے
وقال محمد بن سعد: ثقة إلا أنه اختلط قبل موته بأربع سنين.
ابن سعد کہتے ہیں موت سے چار سال قبل اختلاط کا شکار تھے

سعید بن ابی سعید کے والد کا نام ابو سعید كيسان المقبری المتوفی ١٠٠ ھ ہے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق
وفي كتاب الباجي عن ابن المديني: قال ابن عجلان: كانت عنده أحاديث سندها عن رجال عن أبي هريرة فاختلطت عليه فجعلها كلها عن أبي هريرة.
الباجی کی کتاب میں ابن المدینی سے ہے کہ ابن عجلان نے کہا ان کے پاس احادیث تھیں جو رجال عن ابو ہریرہ سے تھیں پس جب اختلاط ہوا تو انہوں نے تمام کو عن ابوہریرہ کر دیا

قال يحيى القطان: “سمعتُ محمد بن عجلان يقولُ: كان سعيدٌ المقبري يُحَدِّث عن أبيه عن أبي هريرة، وعن رجل عن أبي هريرة، فاختلط عليَّ فجعلتها كلها عن أبي هريرة الميزان: (3/645)
یحیی القطان کہتے ہیں میں نے ابن عجلان کو سنا کہ سعید المقبری اپنے باپ سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے اور سعید ایک آدمی سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتا لیکن جب سعید کو اختلاط ہوا تو سعید المقبری نے ان تمام روایات کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

ان سے دو سندوں سے یہ روایت آئی ہے
ایک ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ کی سند سے اور الليث بن سعد کی سند سے

العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) کے مطابق ایک روایت ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے
اس کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے ہیں
عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص) : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ
ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے

یعنی سعید المقبری کی باپ سے ان کی ابو ہریرہ سے روایت منکر بھی کہی گئی ہے

الطبقات الكبرى از محمد بن سعد (المتوفى: 230هـ) میں اس کا متن ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، وَأَسْرِعُوا بِي إِسْرَاعًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي. وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَتِي أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي ”

ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، نے المقبری سے روایت کیا انہوں نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو بستر پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو بستر پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

یعنی یہ روایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی وفات کی ہے جس میں انہوں نے اپنے اوپر اس قول نبی کو ثبت کیا
اس کو روایت کرنے میں سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي کا تفرد ہے جو اختلاط کا شکار ہوئے
کبھی یہ اس کو مولی عبد الرحمان سے روایت کرتے ہیں کبھی اپنے باپ سے اور اس کی طرف محدثین نے اشارہ کیا کہ انہوں نے اختلاط میں بھول کر تمام کو اپنے باپ سے منسوب کر دیا
لہذا اس روایت میں اشتباہ آ گیا کہ کیا یہ واقعی ابو ہریرہ نے کہا بھی یا نہیں

لہذا راقم کو نہیں معلوم یہ واقعی قول نبی ہے یا نہیں کیونکہ محدثین میں سے بعض نے ان کی روایات کو رد کر دیا ہے جس کی مثال اوپر دی گئی ہے

ڈاکٹر عثمانی نے نزدیک اس کی یہ تاویل ممکن ہے کہ میت کو جنازے پر رکھا گیا اور میت ابھی دفن بھی نہیں ہوئی جبکہ حیات فی القبر کے لئے عود روح ضروری ہے جس کی منکر روایت میں قبر میں عود روح کا ذکر ہے لہذا یہ روایت نہ تو ہماری دلیل ہے نہ حیات فی القبر والوں کی

[/EXPAND]

[نبی صلی الله علیہ وسلم نے میت پر عذاب بتلایا ھے جبکہ ڈاکٹر عثمانی نے میت پر عذاب کا انکار کیا ھے]

جواب

اپ کا سوال بہت اہم ہے

الله تعالی نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ اس کی کتاب کی اتباع کی جائے اور اس کے رسول کا حکم چلے گا کسی عثمانی کی اتباع کی قرآن میں کوئی سند نہیں ہے
لہذا ہر مسلم پر فرض ہے کہ کتاب الله پر اپنا عقیدہ جانچ لے یہ قرآن کا حکم ہے

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى الله والرسول إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بالله واليوم الآخر ذلك خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً
پس کسی بات میں تمہارا تنازع ہو جائے تو اس کو الله اور اس کے رسول کی طرف پلٹ دو اگر تم الله روز آخرت پر ایمان والے ہو یہ خیر ہے اور اچھی تاویل ہے
سورة النساء آية [59

اور کہا
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فحكمه إلى الله
اور جس چیز میں بھی اختلاف کرو تو حکم الله ہی کا ہے

اور کہا
بَلْ كَذَّبُواْ بِمَا لَمْ يُحِيطُواْ بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ
بلکہ انہوں نے انکار کیا اس کا احاطہ ان کا علم نہ کر سکا اور اس کی تاویل ان تک نہ پہنچی

اور کہا
مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ
ہم سے کتاب میں (وضاحت پر) کوئی چیز نہیں رہ گئی

اور کہا
تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ
ہر چیز کی اس میں وضاحت ہے

اپ نے حیات فی قبر کے مسئلہ پر سوال کیا ہے جو عقیدہ کا ایک اہم مسئلہ ہے لہذا اس کو کتاب الله پر پیش کریں کہیں بھی حیات فی القبر کی دلیل نہیں ملتی
لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں شہداء کی حیات کا ذکر ہے کہ ان کو مردہ مت کہو لیکن وہ ان آیات کا سیاق و سباق نہیں دیکھتے صرف ایک آیت لی اور اس کو اپنی مرضی کامعنی پہنا دیا
یہ آیت منافقین کے اس قول کے رد میں نازل ہوئی تھی کہ بے چارے مسلمان اپنے نبی کے چکر میں جنگوں میں ہلاک ہو گئے ہمارے ساتھ مدینہ میں ہی رهتے تو بچ گئے ہوتے
یہ بات قرآن کہتا ہے انہوں نے بولی اور الله نے کہا نہیں اگر ان
کی موت کا وقت ہوتا تو کہیں بھی ہوتے ہلاک ہوتے اور جو میدان میں شہید ہوئے وہ معدوم نہیں ہوے وہ زندہ ہیں الله کے پاس رزق پا رہے ہیں
مسلمانوں کا تو پہلے سے یہ عقیدہ تھا کہ مریں گے تو جنت میں جائیں گے یہ منافقین کی حماقت تھی جو ایسا کہہ رہے تھے کیونکہ وہ الله کے رسول اور آخرت کے انکاری تھے
ان پر حجت تمام کی گئی کہ جو مرے ہیں وہ الله کے پاس رزق پا رہے ہیں

صحیح مسلم کی مسروق کی حدیث میں اسکی وضاحت ا گئی کہ یہ شہداء اپنی قبروں میں نہیں انکی ارواح الله کے عرش کے نیچے ہیں

اس کے علاوہ ایک عام مومن کے لئے بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر ہے کہ اس کی روح جنت کے درخت پر معلق ہے
لہذا قرآن میں مکمل وضاحت ہے کہ یہ ارواح جنت میں ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف جہنم میں ہیں

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (13) وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ
سورة الانفطار
بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہیں اور فاجر جہنم میں قیامت کے روز اس میں جلیں گے

اسی طرح موسی علیہ السلام کے مخالف جہنم میں ہیں پورا ال فرعون کا لشکر جہنم میں اگ پر پیش ہو رہا ہے جو ڈوب کر مرا

الله تعالی نے خبر دی کہ نوح علیہ السلام نے پوری دنیا کو بد دعا دے دی کہ ایک کافر بچ نہ پائے

الله کا غضب بھڑک گیا اس نے پوری زمین کو پھاڑ ڈالا اور آسمان سے پانی گرنا شروع ہوا
فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ

هم نے آسمان کے دروازے کھول دیے نہروں جیسے پانی کے ساتھ

آسمان کے دروازے کھلے ہیں کفار مر رہے ہیں اور روحیں جلدی جلدی جہنم میں ڈالی جا رہی ہیں

زمین پر اس وقت پانی ہی پانی ہے

وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا

اور ہم نے زمیں کو پھآڑ کر چشموں میں بدل دیا

یعنی قبریں ختم کسی کی بھی قبر نہ رہی نہ آدم علیہ السلام نہ ود کی نہ سواع کی نہ یغوث کی نہ نسر کی جو صالح تھے اور نہ کفار کی سب کی لاشیں پانی میں زندہ بھی مر رہے ہیں اور مردہ بھی تیر رہے ہیں

آدم کیا قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ؟ نہیں وہ تو جنت میں تھے ان کا جسم مٹی ہو چکا ہو گا یا اگر جسد تھا بھی تو وہ بھی اسی پانی میں تھا جس سے پوری زمین کو بھرا جا رہا تھا

ان صاف ظاہر بصیرت کے بعد مردے میں عود روح کا عقیدہ رکھنا ایک باطل عقیدہ ہے اس کی دلیل نہ قرآن میں ہے نہ صحیح احادیث میں

صاف کھلے الفاظ میں عود روح کا ذکر ہونا چاہیے کیونکہ یہی زندگی ہے یہ راویوں کو بھی پتا ہے اور حدیث لکھنے والوں کو بھی تبھی تو وہ عود روح کی بات کر رہے ہیں

یہ قبر کی زندگی ایک نئی زندگی ہے اس کو انسان محسوس نہی کر سکتا یہ سب فلسفہ ٤٠٠ ہجری کا ہے اس سے قبل کوئی اس قسم کی وہمی باتیں نہیں کرتا لیکن علماء نے اپنا عقیدہ لیا کن کتابوں سے ہم بتاتے ہیں
أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کتاب الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع / ويليه أسئلة من خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں
أما روح الْمَيِّت ففارقت جسده فراقا كليا لَكِن يبْقى لَهَا بِهِ اتِّصَال مَا بِهِ يَقع إِدْرَاك لبدن الْمُؤمن التَّنْعِيم وَإِدْرَاك الْكَافِر التعذيب لِأَن النَّعيم يَقع لروح هَذَا وَالْعَذَاب يَقع لروح هَذَا وَيدْرك ذَلِك الْبدن على مَا هُوَ الْمَذْهَب الْمُرَجح عِنْد أهل السّنة فَهُوَ أَن النَّعيم وَالْعَذَاب فِي البرزخ يَقع على الرّوح والجسد وَذهب فريق مِنْهُم على أَنه يَقع على الرّوح فَقَط فقد وَردت آثَار كتبت فِي منامات عديدة تبلغ التَّوَاتُر الْمَعْنَوِيّ فِي تَقْوِيَة الْمَذْهَب الرَّاجِح أورد مِنْهَا الْكثير أَبُو بكر بن أبي الدُّنْيَا فِي كتاب الْقُبُور وَأَبُو عَبْد اللَّهِ بْن مَنْدَه فِي كتاب الرّوح وَذكر الْكثير مِنْهَا ابْن عبد الْبر فِي الاستذكار وَعبد الْحق فِي الْعَاقِبَة وَغَيرهم وَهِي إِن كَانَت لَا تنهض للحجة لَكِنَّهَا مِمَّا تصلح أَن يرجح بِهِ وَإِذا تقرر ذَلِك فَمن قَالَ إِن النَّعيم أَو الْعَذَاب يَقع على الرّوح وَالْبدن مَعًا يَقُول إِن الْمَيِّت يعرف من يزوره وَيسمع من يقْرَأ عِنْده إِذْ لَا مَانع من ذَلِك وَمن قَالَ إِن النَّعيم أَو الْعَذَاب يَقع على الرّوح فَقَط وَلَا يمْنَع ذَلِك أَيْضا إِلَّا من زعم مِنْهُم أَن الْأَرْوَاح المعذبة مَشْغُولَة بِمَا فِيهِ والأرواح المنعمة مَشْغُولَة بِمَا فِيهِ فقد ذهب إِلَى ذَلِك طوائف من النَّاس وَالْمَشْهُور خِلَافه وَسَنذكر فِي السُّؤَال الرَّابِع أَشْيَاء تقَوِّي الْمَذْهَب الرَّاجِح وَالله الْمُوفق
پس جہاں تک میت کی روح کا تعلق ہے تو وہ کلی طور پر جسم سے الگ ہو جاتی ہے لیکن اس کا جسم سے کنکشن باقی رہ جاتا ہے جس سے اگر مومن ہو تو راحت کا احساس ہوتا ہے اور کافر کو عذاب کا ادرک ہوتا ہے کیونکہ بے شک راحت روح کو ہوتی ہے اور عذاب بھی روح کو ہوتا ہے اور بدن اس کا ادرک کرتا ہے جو مذھب راجح ہے اہل سنت کے ہاں کہ عذاب و راحت البرزخ میں روح کو اور جسد کو ہوتا ہے اور ایک فریق کا مذھب ہے کہ صرف روح کو ہوتا ہے لیکن مذھب راجح کو تقویت ملتی ہے ان اثار سے جو نیند کے حوالے سے تواتر کو پہنچے ہوئے ہیں اور کچھ روایات جن کو ابن ابی دنیا نے کتاب القبور میں اور ابو عبداللہ ابن مندہ نے کتاب الروح میں اور ان میں سے بہت سوں کو ابن عبد البر نے الاستذكار میں اور عبد الحق نے کتاب الْعَاقِبَة میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہیں کہ … بے شک عذاب و راحت روح اور اس کے ساتھ بدن کو ہوتا ہے کہا ہے کہ بے شک میت اپنے زائر کو جانتی ہے اور اپنے پاس قرات سنتی ہے اور اسمیں کچھ مانع نہیں ہے اور جس نے کہا یہ کہ صرف روح کو عذاب و راحت ہوتی ہے تو اس کو ماننے میں بھی کچھ مانع نہیں سوائے اس کے کہ ارواح عذاب میں ہیں اور یا راحت میں مشغول ہیں اور اس طرف ایک خلقت کا مذھب ہے اور مشھور اس کے خلاف ہے
راجح مذھب کس طرح کی کمزور روایات کے بل پر کھڑا کیا گیا ہے اپ دیکھ سکتے ہیں ابن ابی الدنیا اور کتاب الْعَاقِبَة الاستذکار وغیرہ . راجح مذھب اصل میں کمزور روایات کے بل پر گھڑا گیا ہے اور اسی عینک سے صحیح روایات کی غلط تعبیر کی گئی ہے

ابن ابی دنیا کی کتب یا الْعَاقِبَة یا الاستذکار میں ضعیف روایات ہیں اس پر عقیدہ بنا کر صحیح روایت کی قرآن سے تطبیق دینے کی بجائے اس کو ضعیف روایات سے سمجھا گیا

صحیح بخاری و مسلم کی کسی روایت میں عود روح کا ذکر نہیں ہے میت سے سوال و جواب کا ذکر ہے جو ڈاکٹر عثمانی کی رائے میں حدیث کا صحیح منشا نہ سمجھنے کی بنا پر ہے اس میں جس مقام پر سوال جواب ہو رہا ہے وہ دنیا کی قبر نہیں البرزخ ہے

یہ قول قرآن کے مطابق ہے

کیا صحیح بخاری کی یہ روایت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے ؟ علماء کہتے ہیں کہ احادیث ظن غالب ہیں قرآن کی طرح قطعی نہیں ہیں کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ راوی کا حافظہ خراب ہوتا ہے اس کو اختلاط ہو سکتا ہے اس کو وہم ہو سکتا ہے اس کی یادداشت پر فرق پڑ سکتا ہے
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایسا کوئی حکم نہیں کر سکتے جو قرآن کے خلاف ہو
لہذا اپ صلی الله علیہ وسلم جو کہا اس کو سمجھنا ضروری ہے – اس میں یاد رکھنا چاہیے عقیدے میں روایت وہی صحیح ہے جو قرآن کی آیات کے موافق ہو نہ کہ ان کو رد کرنے والی
ہاں عمل میں قرآن مکمل وضاحت نہیں کرتا صرف حکم کرتا ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم عمل کر کے سکھاتے تھے

——— جوتوں کی چاپ والی روایت—————–
ہمارے پاس شواہد آ چکے ہیں کہ قرع النعال تمام محدثین کی نگاہ میں صحیح روایت نہیں ہے مثلا امام احمد اس پر عمل نہیں کرتے اگرچہ وہ اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے اس روایت کے مطابق دفنانے والے قبر کے پاس جوتیاں پہن کر چل رہے ہیں جن پر دعوی کیا گیا ہے کہ وہ مردہ سنتا ہے جبکہ امام احمد کا حکم تھا کہ جوتیاں اتار دو
یعنی امام احمد باوجود یہ کہ قرع النعال والی روایت کو جانتے ہیں وہ ابوداود کی بشیر بن خصاصہ والی روایت پر عمل کرتے تھے

اب اگر یہ روایت بعض کے نزدیک صحیح تھی تو وہ کیا اس سے واقعی مردے کا سننا لیتے تھے ؟ اس کا جواب نہیں ہے کیونکہ روایت کی تاویل کی جاتی رہی ہے

تیسری صدی کے امام احمد اس روایت پر عمل نہیں کرتے

پانچویں صدی کے لوگ کہتے تھے کہ اس میں مردہ زندہ ہو کر سننے لگتا ہے
طبقات حنابلہ از قاضی ابی یعلی

پانچویں صدی کے حنبلی ابن جوزی کہتے ہیں میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے

چھٹی صدی میں امام البغوی (المتوفى: 516هـ) کتاب شرح السنہ میں لکھتے ہیں کہ میت چاپ کو محسوس کرتی ہے
إِنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ حِسَّ النِّعَالِ» فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْمَشْيِ فِي النِّعَالِ بِحَضْرَةِ الْقُبُورِ، وَبَيْنَ ظَهْرَانَيْهَا
بغوی کہتے ہیں کہ قول بے شک میت چاپ محسوس کرتی ہے اس میں دلیل ہے چپل پہن کر قبروں کے پاس چلنے کے جواز کی اور ان کے درمیان

١٩٨٠ تک غیر مقلدین کہتے تھے کہ مردہ روح لوٹانے پر زندہ ہو جاتا ہے

آج لوگ کہنے لگے ہیں کہ اس میں مردہ زندہ نہیں ہوتا
غیر مقلدین

یعنی اس روایت میں ابہام ہے تبھی تو اس کی تاویل میں بحث چل رہی ہے

ہم وہی کہتے ہیں امام ابن جوزی اور ابن حزم نے کہا میت نہ سنتی نہ محسوس کرتی ہے
اور امام ابو حنیفہ نے کہا میت فہم نہیں رکھتی جو فقہ میں طلاق کا معروف مسئلہ ہے کہ کوئی کسی سے قسم کھائے کہ تجھ سے کلام کروں تو میری بیوی کو طلاق اور اس سے مرنے کے بعد کلام کر بیٹھا تو طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ میت نہ سنتی ہے نہ سمجھتی ہے

——–اس میں تفرد ہے —–
قرع النعال والی روایت میں بصریوں کا تفرد ہے
أبو معاوية شيبان بن عبد الرحمن النحوى ، البصرى المتوفی 164 هـ نے اس کو روایت کیا ہے
قال أبو حاتم وحده يكتب حديثه ولا يحتج به
ابو حاتم کہتے ہیں اس کی حدیث لکھ لی جائے دلیل نہ لی جائے
امام مسلم اس کو اس سند سے لکھتے ہیں

اس کو سعيد بن أبي عروبة المتوفی ١٥٦ ھ نے بھی روایت کیا ہے اور اس سند سے امام بخاری لکھتے ہیں
قال يحيى بن معين: اختلط سعيد بعد هزيمة إبراهيم بن عبد الله سنة اثنين وأربعين ومائة ومات هو سنة ست وخمسين
ابن معین کہتے ہیں سعید بن ابی عروبہ ، ابراہیم بن عبد الله کی ہزیمت میں سن ١٤٢ میں مختلط ہو گئے اوروہ ٥٦ سال کی عمر میں فوت ہوئے

یعنی سعید ١٤ سال اختلاط کا شکار رہے لیکن یہ غلطی ہے خروج ١٤٥ میں ہوا لہذا ١١ سال اختلاط کا شکار رہے
ایک دوسرے قول کے مطابق سليمان بن طرخان التيمي المتوفی 143 ه کی تدفین میں ابن ابی عروبہ نے کہا یہ سليمان بن طرخان کون ہے؟ جس پر محدثین نے کہا سعید بن ابی عروبہ کا دماغ چل گیا ہے لہذا یہ ١٣ سال اختلاط کا شکار رہے

اس دوران ان سے بعض محدثین نے سنا جن میں وہ راوی ہیں جو قرع النعال والی روایت بھی بیان کرتے ہیں
یہ ایک فنی بات ہے جس پر شارحین بحث نہیں کرتے کیونکہ وہ بخاری کی حدیث پر جرح کرنا نہیں چاھتے

سوال ہے کہ عقیدہ کی اتنی اہم روایت میں بصریوں کا تفرد کیوں ہے؟ انس رضی اللہ عنہ سے اس کو صرف بصریوں نے کیوں سنا ؟ حالانکہ وہ مدینہ میں رہے شام میں اور عراق کے دوسرے شہروں میں بھی گئے؟

——–

ان شواہد کی روشی میں راقم اپنے اپ کو کوئی ایسی بات عقیدہ میں قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا جس میں راویوں نے گربڑ کی ہو یا اس میں کسی خاص شہر کا تفرد ہو یا جو قرآن کے خلاف ہو

یہ راقم کی رائے ہے ڈاکٹر عثمانی کی اس پر الگ ہے ان کے نزدیک روایت صحیح ہے اور اس کی تاویل کی ہے جو اپ کتاب عذاب البرزخ میں دیکھ سکتے ہیں

لہذا الله کے بندوں کتاب الله پر عقیدہ بنا لو قیامت میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کا سوال نہیں ہو گا کتاب الله کا سوال ہو گا
راویوں کی غلطیاں ان کی غلطیاں ہیں ان کو اپنے سر مت لیں الله ان کو معاف کر دے گا کیونکہ جو بیماری میں بھول گیا اس کی خطا نہیں لیکن جو پورے ہوش میں جان کر کتاب الله کو چھوڑ گیا اس کے پاس کیا جواب ہو گا؟

إس وقت جب هم جان لیں گے کہ
لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إلا من رحم
آج اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں سوائے اس کے جس پر وہ رحم کرے

الله برے حساب سے ہم سب کو بچا لے

[/EXPAND]

[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان زمینی قبروں پر تہنی کو گا ڑنا اس بات کی  دلیل ہے کہ انہیں اسی قبر میں عذا ب دیا جا تا تھا]

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مختلف انداز میں عذاب قبر سے متعارف کرایا گیا
قرآن میں کفار پر عذاب قبر کی خبر دی گئی جو مکی دور کی سورتیں ہیں مثلا سوره یونس سوره الفصلت وغیرہ

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ: «يَهُودُ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا» وَقَالَ النَّضْرُ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَوْنٌ، سَمِعْتُ أَبِي، سَمِعْتُ البَرَاءَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
نبي صلی الله علیہ وسلم نکلے اور سورج غروب ہو چکا تھا پس اپ نے ایک آواز سنی اپ نے کہا یہود کو قبروں میں عذاب ہو رہا ہے

اس روایت کے مطابق کوئی قبرستان نہیں ہے صرف اپ گھر سے نکلے ہیں کہ آواز سنا دی گئی
قبر پرست اس روایت میں اضافہ کرتے ہیں کہ اپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ سے نکلے حالانکہ جب بھی حدیث میں خرج النبی آئے اور مقام کا تعین نہ ہو تو اس سے مراد گھر ہی ہوتا ہے

الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري میں کرمانی کہتے ہیں
أن صوت الميت من العذاب يسمعها غير الثقلين فكيف سمع ذلك؟ قلت هو في الضجة المخصوصة وهذا غيرها أو سماع رسول الله صلى الله عليه وسلّم على سبيل المعجزة.
میت کی چیخ عذاب سے اس کا غیر ثقلین کیسے سن لیتے ہیں ؟ میں کرمانی کہتا ہوں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اور دیگر کا سننا معجزہ ہے

اس مخصوص روایت میں یہ ہے ہی نہیں کہ آواز دیگر نے بھی سنی اس میں صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سننا بیان ہوا ہے

طبرانی میں اس روایت پر ہے
خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَمَعِي كُوزٌ مِنْ مَاءٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ
کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رفع حاجت کے لئے گھر سے نکلے تھے

————-

مدینہ میں وفات سے چار ماہ قبل مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی ہے جس میں بہت سی روایات اس سے متعلق کتب میں ہیں
مثلا صحیح بخاری میں ہے

ایک موقعہ پر اپ صحابہ کے ساتھ تھے تو دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا اپ نے ان پر ایک ایک ٹہنی لگا دی
ظاہر ہے عالم بالا جا کر عذاب کم نہیں کرا سکتے تھے ٹہنی لگانا بھی بطور وعظ و نصیحت تھا
اپ کے بعد اکابر صحابہ میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا کہ قبرستان گیا ہو اور ٹہنی لگائی ہو
البتہ بریلوی فرقہ نے اسی روایت سے قبر پر پھولوں کی چادر کی دلیل لے لی ہے
——

عبد الله بن ابی کی قبر ہو یا کسی اور کی یہ تمام اسی عالم ارضی میں ہیں جس میں ان کی لاشیں گل سڑ رہی ہیں مٹی مٹی ہو رہی ہیں لیکن عالم بالا میں ان کی روحیں عذاب سے گزر رہی ہیں جو روح کا مقام ہے

ابن الجوزی اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں کہ
فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار
پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ سے تعريفا (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف میں ہے

یعنی عذاب قبر تو ایک تعریفی مرکب ہے جس میں قبر کی اضافت ہے یہ ابن جوزی کی رائے ہے

ہمارے لئے شہداء احد کی مثال ہے انہوں نے واپس جسموں میں عود کرنا اور جہاد کرنے کی دعا کی لیکن الله نے اس کو قبول نہیں کیا
ان کے اجسام ان کی قبروں میں ہیں لیکن روحیں عرش سے لٹکتی قندیلوں میں ہیں جہاں وہ راحت پاتے ہیں

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی روح ایک پرندے کی طرح جنت کے درخت سے لٹکتی رہے گی یہاں تک کہ الله اس کو اس کے جسد میں لوٹا دے

ابن حزم کہتے ہیں روح جس مقام پر ہے وہی اس کی قبر ہے – اسی رائے سے برزخی قبر کی ترکیب نکلتی ہے
اب اپ چاہیں تو ابن جوزی کی طرح عذاب قبر کو مرکب اضافی کہیں یا ابن حزم کی طرح ایک عالم بالا میں ہونے والا عذاب
راقم کے نزدیک دونوں قول صحیح ہیں اور یہ مذھب مختار ہے

غیر مقلدین اور دیوبندیوں بریلویوں کے ہاں عذاب قبر میں خود اپس میں بہت اختلافات ہیں وہ عذاب قبر کی دلیل قرآن سے لیتے ہیں لیکن قرآن میں جو وہ دلائل دیتے ہیں ان سے عذاب قبر ثابت نہیں ہوتا مثلا ال فرعون پر عذاب النار ہے جو جہنم میں ہے اس پر ارشد کمال المسند میں کالے پرندوں کی روایت دیتے ہیں لیکن کتاب عذاب قبر میں اس عذاب کو عذاب قبر ماننے سے انکار کرتے ہیں
ابن کثیر تفسیر میں ال فرعون پر عذاب کو میت سے اتصال ماننے سے انکار کرتے ہیں

تفسيرابن كثيرسوره غافر میں ابن کثیر لکھتے ہیں
أنَّ الْآيَةَ دَلَّتْ عَلَى عَرْضِ الْأَرْوَاحِ إِلَى النَّارِ غُدُوًّا وَعَشِيًّا فِي الْبَرْزَخِ، وَلَيْسَ فِيهَا دَلَالَةٌ عَلَى اتِّصَالِ تَأَلُّمِهَا بِأَجْسَادِهَا فِي الْقُبُورِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ ذَلِكَ مُخْتَصًّا بِالرُّوحِ، فَأَمَّا حُصُولُ ذَلِكَ لِلْجَسَدِ وَتَأَلُّمُهُ بِسَبَبِهِ، فَلَمْ يَدُلَّ عَلَيْهِ إِلَّا السُّنَّةُ فِي الْأَحَادِيثِ
بے شک یہ آیت دلالت کرتی ہے ارواح کی آگ پر پیشی پر صبح و شام کو البرزخ میں، اور اس میں یہ دلیل نہیں کہ یہ عذاب ان کے اجساد سے جو قبروں میں ہیں متصل ھو جاتا ہے، پس اس (عذاب) کا جسد کو پہنچنا اور اس کے عذاب میں ہونے پر احادیث دلالت کرتی ہیں

یعنی عذاب قبر میت کو ہوتا ہے قرآن میں کہیں بیان ہی نہیں ہوا
اپ اس کو غور سے پڑھیں یہ ایک نہایت اہم اقرار ہے جس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے

[/EXPAND]

[رو ح کےمتعلق مختلف تصوّرات پر سوال ہے  ]

:اس بار ے میں شئر کرنا چاہوں گا۔۔انسان کی پیدائش جس سپرم سے ہوتی ہے اس میں جسم بننے سے پہلے زندگی موجود ہوتی ہے ،لیکن رو ح انسان کے مکمل ہو جانے کے بعد اس میں ڈالی جاتی ہے۔اس لئےرو ح انسانی زندگی اور موت کا حصّہ نہیں ہے۔
۔اسی طر ح جب موت آتی ہے تو جسم سے رو ح کے الگ ہونے کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں۔جہاں کہیں نفس کو موت آنے کا ذکر آتا ہے،علماء کرام اُس کا معنٰے رو ح قبض کرنا یا ہونا کر دیتے ہیں۔حالانکہ رو ح الگ چیز ہے اور نفس الگ

کیا یہ صحیح ہے

جواب

اس سوال میں سائنس کو ملا دیا گیا ہے

مثال ایک جسم میں دو روحیں
ایک حاملہ عورت میں دو روحیں ہوتی ہے ایک اس کی جو اس کے پورے جسم میں سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے
اور دوسری وہ روح جو اس کے رحم میں بچے میں ہوتی ہے
یہ دونوں روحیں ایک کے اندر ایک کی طرح ہوتی ہیں ان کو جدا نہیں کر سکتے لیکن اگر عورت مر جائے تو بچہ پھر بھی زندہ ہوتا ہے اور پیٹ کاٹ کر نکالا جا سکتا ہے

مثال دوم
مرد کا جسم یا عورت کا جسم یا کسی بھی جاندار کا جسم کئی قسم کے جراثیم اور لئے ہوئے ہوتا ہے جو انسان کے مرنے کے بعد بھی اس میں ہوتے ہیں اور جسم کو گھلا دیتے ہیں انسان جسم معدوم ہو جاتا ہے اور یہ جراثیم مٹی میں کھاد میں چلے جاتے ہیں

مثال سوم
مرد کے جسم میں اسپرم ہوتا ہے جب وہ اس کے نطفہ کی صورت مرد سے علحدہ ہوا تو وہ مرد کی روح کے دائرۂ سے نکل کر عورت کی روح کے دائرۂ میں داخل ہو جاتا ہے
اسپرم خود ایک زندہ جرثومہ ہے اس کو بقا کے لئے غذا چاہیے جو اس کو مرد یا عورت کے جسم سے ملتی ہے
اگر یہ اسپرم جسم میں داخل نہ ہو اور باہر گر جائے تو یہ کسی روح کے دائرۂ کار میں نہیں رہتا لیکن پھر بھی ١٢ گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے
اس کو لیب میں اسٹور بھی کر لیا جاتا ہے

=============

اس تمام کا روح نفس سے کوئی تعلق نہیں ہے
عربی میں روح اور نفس متبادل الفاظ ہیں ہر متنفس میں روح ہے جو نفخت روحی کے وقت آدم میں آئی اور آدم کا جسد سانس لینے لگا اسی پر اس کو نفس کہا جاتا ہے
اصلا روح یا نفس عبرانی الفاظ ہیں اور ان کے ہاں بھی یہ متبادل الفاظ ہیں ان کا الگ کوئی مفھوم نہیں ہے

اپ نے لکھا سوره الانعام ٩٣ آیت

اسی طر ح جب موت آتی ہے تو جسم سے رو ح کے الگ ہونے کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں
جبکہ قرآن میں ہے
ولو ترى إذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطوا أيديهم أخرجوا أنفسكم اليوم تجزون عذاب الهون

فرشتے کہتے ہیں اپنا نفس نکالو

حدیث صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
: عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو – ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

======

موت اصلا روح کی جسد سے علیحدگی ہے

روایت میں آتا ہے کہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اسما رضی الله تعالیٰ عنہا سے کہا جب وہ مسجد الحرام کے صحن میں تھیں اور ابن زبیر رضی الله تعالیٰ عنہ کی لاش سولی پر تھی
إن هذه الجثث ليست بشيء وإنما الأرواح عند الله فاتقي الله وعليك بالصبر
بے شک یہ لاشہ کوئی شے نہیں اور بے شک ارواح الله کے پاس ہیں پس الله سے ڈریں اور اس پر صبر کریں

فتاوی علمائے حدیث ج ٩ میں سوره تکویر کی آیت کا ترجمہ ہے
جب جانیں بدنوں سے ملائی جائیں گی

یہی قول راغب الاصفہانی کا مفردات القرآن میں ہے

راغب الأصفهانى (المتوفى: 502ھ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں لکھتے ہیں کہ
وقوله: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] فعبارة عن زوال القوّة الحيوانيَّة وإبانة الرُّوح عن الجسد
اور (الله تعالیٰ کا ) قول : كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] پس یہ عبارت ہے قوت حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے

[/EXPAND]

[کیا(العبد)کا لفظ صرف روح کیلے استعمال ھوسکتاہے؟]

جواب

و علیکم السلام
العبد کا لفظ قرآن میں فرشتوں کے لئے استمعال ہوا ہے اور انسانوں کے لئے بھی
العبد کا مطلب غلامی کرنے والا
انسان روح سے پہلے بشر ہے اس میں روح اتی ہے اس کے بعد یا تو عبد کافر ہے یا عبد شکور ہے

قرآن میں الله تعالی کہتے ہیں
وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّکورُ
اور بہت کم میرے غلام (عبد) شکر کرنے والے ہیں

یعنی انسان جو ناشکرے ہیں وہ بھی عبد ہیں

بعض قبر پرست دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ قرآن میں جب معراج کا ذکر اتا ہے تو آیت ہے
سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى
پاک ہے وہ ہستی جو لے گئی اپنے عبد کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی

چونکہ معراج جسمانی تھی لہذا ان کے مطابق عبد کا لفظ کا مطلب ہے روح و جسم کا مجموعہ ہے یہ ان کی دلیل ہے لیکن یہ دلیل بودی ہے
یقینا معراج جسمانی تھی لیکن عبد کا مطلب صرف غلام ہے

أنبياء جن سے معراج کی رات ملاقات ہوئی ان سب کے چہرے نقش تک سے پتا چل رہا تھا کہ کس علاقے کے ہیں

صحیح بخاری کی روایت ہے
وَذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، فَقَالَ: ” مُوسَى آدَمُ، طُوَالٌ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَقَالَ: عِيسَى جَعْدٌ مَرْبُوعٌ ”
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے معراج کی رات موسی کو دیکھا لمبے قد کے تھے جیسے شَنُوءَةَ کے مرد ہوتے ہیں اور عیسیٰ متوسط (قد) گھنگھریالے (بالوں والے) تھے

ہم جانتے ہیں کہ انبیاء جنت میں اپنے حقیقی جسموں کے ساتھ نہیں ان کے اجسام قبرووں میں ہیں – انبیاء وہاں اپنے برزخی اجسام کے ساتھ تھے
روح کی شکل کا قرآن میں ذکر نہیں اس کو نفخ کیا جاتا ہے پھونکا جاتا ہے
الله نے آدم کے لئے کہا
نفخت فيه من روحي
پس جب میں اس میں اپنی روح پھونک دوں

روح کے لئے نسمہ کا لفظ بھی عربی میں بولا جاتا ہے جو احادیث میں بھی ہے اصلا نسمہ یا روح کے الفاظ عبرانی ہیں

احادیث میں جو صورت بتائی گئی ہے ان کے مطابق روح کو ایک دوسرے جسم میں ڈالا جاتا ہے جو انسانی جسم کے مماثل ہے لیکن یہ عذاب کو صورت میں تباہ نہیں ہوتا مسلسل بنتا بگڑتا رہتا ہے
عذاب قبر و جہنم سے الله کی پناہ

[/EXPAND]

[برھوت کیا ہے ؟ ]

جواب

یہ لفظ اہل تشیع کی کتب میں ملتا ہے جس میں اصبغ بن بناتہ نام کا ایک یمنی جو کوفہ میں اصحاب علی میں سے تھا وہ بیان کرتا ہے کہ علی نے کہا کہ کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

برھوت عربوں میں ایک معروف مقام تھا اور ہے یہ ایک سوراخ ہے جو یمن میں ہے دیکھنے میں کنواں نما ہے اغلبا یہ کسی شہاب ثاقب کی وجہ سے وہاں پیدا ہوا ہے کسی دور میں حضر الموت اور یمن میں شہاب ثاقب گرے جن سے وہاں اس قسم کے گھڑے موجود ہیں لیکن برھوت بہت بڑا اور گھیرا ہے

علی سے منسوب قول ہے

شر بئر في الأرض برهوت

برھوت سب سے شری کنواں زمین پر ہے

کتاب  المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام از  الدكتور جواد علي (المتوفى: 1408هـ) کے مطابق

“بئر برهوت”التي تقع في الوادي الرئيسي للسبعة الأودية

برھوت کا کنواں جو سات وادیوں میں سے سب سے بڑی  میں واقع ہے

کتاب غريب الحديث في بحار الانوار از    حسين الحسني البيرجندي کے مطابق علی نے کہا کفار کی روحیں

وادٍ باليمن يقال له : بَرَهُوت ، وهو من أودية جهنّم

ایک یمن میں ایک وادی میں ہیں جس کو برھوت کہا جاتا ہے جو جہنم کی وادیوں میں سے ہے

یہود کے مطابق جہنم زمین میں ہے اور اغلبا یہ یہود کی رائے ہو گی کہ برھوت جہنم کا منہ ہے یہ مقام سمندر کے پاس ہے اور تلمود کے مطابق جہنم کا ایک منہ سمندر میں گھلتا ہے  یمن سے یہ رائے کوفہ پہنچی اور علی سے اس کو منسوب کیا گیا

برھوت کا اثر عبد الوہاب النجدی پر بھی تھا اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

کتاب   حلية الأولياء وطبقات الأصفياء میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، ثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمَنْعِيِّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرْكَانِيُّ، ثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: لَقِيَ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ عَبْدَ اللهِ بْنَ سَلَّامٍ قَالَ: «إِنْ مُتَّ قَبْلِي فَأَخْبِرْنِي مَا تَلْقَى، وَإِنْ مُتُّ قَبْلَكَ أُخْبِرْكَ»، قَالَ: فَمَاتَ سَلْمَانُ فَرَآهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلَّامٍ فَقَالَ: كَيْفَ أَنْتَ يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ؟ قَالَ: «بِخَيْرٍ»، قَالَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ وَجَدْتَ أَفْضَلَ؟ قَالَ: «وَجَدْتُ التَّوَكُّلَ شَيْئًا عَجِيبًا

اس میں أَبُو مَعْشَرٍ ضعیف ہے

راقم کہتا ہے وہابیوں اور شیعوں کے ڈانڈے برھوت پر مل جاتے ہیں

معلوم ہوا کہ نجدیوں کا عقیدہ ہے کہ روحیں کوئی قید نہیں ہیں بلکہ دنیا میں اتی جاتی رہتی ہیں اگر نہیں آتیں تو برصغیر میں بریلویوں کے گھر

[/EXPAND]

[کیا روح جسم ہے حدیث میں اس کا ذکر ہے کہ میثاق ازل پر چیونٹی جیسا تھا ]

“روح” اللہ کو دیکھ چکی ہے۔ ہماری روح ازل میں اللہ کی آواز سن چکی ہے۔ ہماری روح نے فیصلہ کر کے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جی ہاں ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔ اب جب ہم انسان کی تخلیق کا تذکرہ کرتے ہیں یا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر دو باتیں ہوتی ہیں۔

۱۔ مادی جسم
۲۔ روحانی جسم

روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے اللہ کی آواز سن چکی ہے۔ اگر ہم مادی جسم سے آزاد ہو کر یا جسمانی پردے کے اندر داخل ہو کر روح کا تعارف حاصل کر لیں تو ازل میں داخل ہو سکتے ہیں۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔۔۔۔۔۔

جس نے اپنے نفس(روح) کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

جواب

اول جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا کوئی حدیث نبوی نہیں ہے یہ قول مشھور ہے
https://www.islamic-belief.net/innovations-in-islam/mysticism-in-muslims-belief/gnothi-seauton/

دوم روح کا جسم ہوتا ہے کی کوئی دلیل نہیں ہے قرآن اس کو نفخ پھونک کہتا ہے گویا یہ مانند ہوا ہے حدیث میں بھی اس کو جب فرشتہ لاتا ہے تو نفخ کرتا ہے

==========

روح کو جسم کہا گیا اور اس کو عربی میں عرض کہا جاتا تھا کہ اس کی
width
ہے یعنی یہ کوئی ٹھوس جسم ہے
اس رائے کو بعض متکلمین نے پیش کیا جبکہ اس کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں اس کے بعد اس کو ان علماء نے بیان کیا جو عذاب قبر میں جسم اور روح پر الگ الگ عذاب کے قائل تھے اور برزخی جسم کے انکاری تھے – یہ تھیوری بہت پھیلی اور علماء نے اس کو پسند کیا

راقم کہتا ہے یہ علماء خطاء کا شکار ہوئے کیونکہ اس کی دلیل نہیں ہے
==========

دلیل میں میثاق ازل کی مثال دی گئی کہ الله تعالی نے مخلوق کو چیونٹویوں کی مانند پھیلایا اور پھر میثاق لیا اس کی دلیل مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا هَيْثَمٌ – وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْهُ – قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” خَلَقَ اللهُ آدَمَ حِينَ خَلَقَهُ، فَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُمْنَى، فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً بَيْضَاءَ، كَأَنَّهُمُ الذَّرُّ، وَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُسْرَى، فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً سَوْدَاءَ كَأَنَّهُمُ الْحُمَمُ، فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَمِينِهِ: إِلَى الْجَنَّةِ، وَلَا أُبَالِي وَقَالَ: لِلَّذِي فِي كَفِّهِ (2) الْيُسْرَى: إِلَى النَّارِ وَلَا أُبَالِي ”

جبکہ شعيب الأرنؤوط اس کو ضعیف کہتے ہیں

میثاق ازل کی کیفیت پر راقم کے علم میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے
============

کتاب الروح میں ابن قیم نے اس فلسفہ کو پھیلایا کہ روح عرض ہے یعنی جسم کی طرح چوڑائی رکھتی ہے
اس کی دلیل میں ضعیف روایات سے استنباط کیا گیا

ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
قَالَ شَيخنَا وَلَيْسَ هَذَا مثلا مطابقا فَإِن نفس الشَّمْس لَا تنزل من السَّمَاء والشعاع الَّذِي على الأَرْض لَيْسَ هُوَ الشَّمْس وَلَا صفتهَا بل هُوَ عرض حصل بِسَبَب الشَّمْس والجرم الْمُقَابل لَهَا وَالروح نَفسهَا تصعد
ہمارے شیخ (ابن تیمیہ) کہتے ہیں …. بلکہ روح عرض ہے …. اور روح خود چڑھتی ہے

اسی کتاب میں اعتراف کرتے ہیں کہ روح کو عرض کہنا متکمین کا قول ہے
عرض من أَعْرَاض الْبدن وَهُوَ الْحَيَاة وَهَذَا قَول ابْن الباقلانى وَمن تبعه وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو الْهُذيْل العلاف النَّفس عرض من الْأَعْرَاض
روح عرضوں میں سے ایک عرض ہے -یہ قول ابن الباقلانی اور ان کی اتباع کرنے والوں کا ہے اور ایسا ہی ابو الھذیل العلاف المتوفی ٢٣٥ ھ (امام المعتزلہ) کا کہنا ہے

یعنی روح کو عرض کہنا سب سے پہلے معتزلہ نے شروع کیا -ایک دفعہ روح کو عرض مان لیا گیا تو پھر اس کو ایک جسم بھی کہا جانے لگا

ابن أبي العز کتاب شرح العقيدة الطحاوية میں کہتے ہیں
إِنَّ النَّفْسَ عَرَضٌ مِنْ أَعْرَاضِ الْبَدَنِ، كَحَيَاتِهِ وَإِدْرَاكِهِ! وَقَوْلُهُمْ مُخَالِفٌ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
نفس بدن کے عرضوں میں سے ایک عرض ہے اسی حیات و ادرک جیسا ! یہ قول کتاب و سنت کے مخالف ہے

حافظ بن أحمد بن علي الحكمي (المتوفى : 1377هـ) کتاب معارج القبول بشرح سلم الوصول إلى علم الأصول میں لکھتے ہیں
أَنَّ مَذْهَبَ الْجَهْمِ فِي الرُّوحِ هُوَ مَذْهَبُ الْفَلَاسِفَةِ الْحَائِرِينَ, أَنَّ الرُّوحَ لَيْسَتْ شَيْئًا يَقُومُ بِنَفْسِهِ بَلْ عَرَضٌ وَالْعَرَضُ فِي اصْطِلَاحِهِمْ هُوَ مَا لَا يَسْتَقِلُّ وَلَا يَسْتَقِرُّ, فَمَنْزِلَةُ الرُّوحِ عِنْدَهُمْ مِنَ الْجَسَدِ
جھم کا مذھب روح میں پریشان خیال الْفَلَاسِفَةِ کا ہے کہ روح اپنے اپ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ عرض ہے اور عرض ان کی اصطلاح میں وہ ہے جو رکا نہ رہے پس روح کا مقام ان کے نزدیک جسد جیسا ہے

روح کو عرض کیوں کہا اس کا جواب السفاريني الحنبلي (المتوفى: 1188هـ) کتاب لوامع الأنوار البهية میں کہتے ہیں
قَالَ الرُّوحُ عَرَضٌ كَسَائِرِ أَعْرَاضِ الْجِسْمِ، وَهَؤُلَاءِ عِنْدَهُمْ أَنَّ الْجِسْمَ إِذَا مَاتَ عُدِمَتْ رُوحُهُ فَلَا تُعَذَّبُ وَلَا تُنَعَّمُ وَإِنَّمَا يُعَذَّبُ وَيُنَعَّمُ الْجَسَدُ إِذَا شَاءَ اللَّهُ تَعْذِيبَهُ وَتَنْعِيمَهُ رَدَّ إِلَيْهِ الْحَيَاةَ فِي وَقْتٍ يُرِيدُ تَنْعِيمَهُ وَتَعْذِيبَهُ
کہا روح دوسرے جسموں کی طرح عرض ہے اور ان سب کے نزدیک جسم اگر مر جائے روح معدوم ہوتی ہے پس اس کو عذاب نہیں ہوتا نہ نعمت ملتی ہے بلکہ یہ سب جسد کو ہوتا ہے جب الله چاہتا ہے اس کو عذاب اور نعمت دیتا ہے اس کو زندگی لوٹا دیتا ہے جب اس کو عذاب و نعمت ہوتی ہے

لہذا السفاريني الحنبلي (المتوفى: 1188هـ) نے اس قول کا رد کیا کہ روح معدوم ہو جاتی ہے لیکن اصلا روح کو عرض کہنا معتزلہ کا کہنا تھا جو عذاب قبر میں اختلاف کر رہے تھے کہ یہ روح کو ہوتا ہے یا نہیں لہذا انہوں نے اس کو جسم کہا جس کا عرض ہے لیکن یہ کہہ کر انہوں نے اس کو معدوم کر دیا جس کا رد ابن حزم نے کیا لیکن اس بحث میں روح عرض ہے کا فلسفہ ابن تیمیہ اور ابن قیم اور السفاريني الحنبلي ( نے قبول کر لیا جو آج تک چلا ا رہا ہے

[/EXPAND]

[کیا مرنے کے بعد روح کا جسد عنصری سے تعلق قائم ہو جاتا ہے ؟]

جواب

اصل میں قرآن میں اور (ضعیف) روایات میں تفاوت ہے جس کی بنا پر موت کی تعریف میں ہی جھگڑا ہے

موت روح کی جسم سے مکمل علیحدگی ہے
یہ تعریف عام ہے اور قرآن کے مطابق ہے
ابانة ألروح عن الجسد
مفردات القرآن از راغب الاصفہانی

لیکن جب لوگوں نے روایات کو دیکھا تو وہ ان کی تطبیق قرآن سے نہ کر سکے اور انہوں نے بنیادی تعریف کہ موت روح کی جسد سے علیحدگی ہے کو رد کیا
بعض نے یہ رائے لی کہ روح جسد میں لوٹا دی گئی اور قیامت تک قبرستان میں رہتی ہے جیسے امام ابن عبد البر
بعض نے کہا روح قیامت تک جسد سے الگ ہو گئی جیسے امام ابن حزم اور وہ علماء جو روح کے لئے جسد کے قائل تھے
بعض نے کہا روح کا جسم سے تعلق ہو جاتا ہے مثلا امام ابن تیمیہ اور ابن حجر

متکلمین میں بھی اختلاف ہوا مثلا قاضی الباقلانی کا قول ہے – المسالِك في شرح مُوَطَّأ مالك از القاضي محمد المعافري الاشبيلي المالكي (المتوفى: 543هـ) کہتے ہیں

وبهذه المسألة تعلّق القاضي أبو بكر بن الطّيّب بأنّ الرُّوح عرض، فقال: والدّليل عليه أنّه لا ينفصل عن البَدَنِ إلَّا بجُزْءٍ منه يقول به، وهذا الجزء المذكور في حديث أبي هريرة: “كُلُّ ابْنِ آدَمَ تَأْكلُهُ الأَرْضُ، إلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ” الحديث، فدلّ بهذا أنّه ليس بمُعْدَمٍ، ولا في الوجود شيء يَفْنَى ؛ لأنّه إنّ كان فَنِيَ في حقِّنا فهو في حقِّه موجودٌ مرئيٌّ معلومٌ حقيقةً، وعلى هذا الحال يقع السُّؤال في القبر والجواب، ويعرض عليه المقعد بالغَدَاةِ والعشيِّ، ويعلّق من شَجَرِ الجنّة
اور اس مسئلہ میں قاضی ابو بکر بن الطیب الباقلانی نے تعلق کیا ہے کہ روح عرض ہے پس کہا اس کی دلیل ہے کہ یہ بدن سے (مکمل) الگ نہیں ہوتی سوائے اس کے ایک جز کے جس سے یہ بولتا ہے اور یہ جز حدیث ابو ہریرہ میں مذکور ہے ہر بنی آدم کو زمین کھا جائے گی سوائے عجب الذنب کے پس یہ دلیل ہے کہ کہ روح معدوم نہیں ہے اورنہ اس کے وجود میں کوئی چیز فنا ہوئی کیونکہ …. اسی حالت پر سوال قبر اور جواب ہوتا ہے ہے صبح شام ٹھکانہ پیش ہوتا ہے اور یہ جنت کے درخت سے معلق ہے

اسی طرح مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح از ملا علي القاري (المتوفى: 1014هـ) لکھتے ہیں
وَلَا شَكَّ أَنَّ الْجُزْءَ الَّذِي يَتَعَلَّقُ بِهِ الرُّوحُ لَا يَبْلَى، لَا سِيَّمَا عَجَبُ الذَّنَبِ،
اور اس میں شک نہیں کہ ایک جز جس سے روح کا تعلق باقی رہتا ہے وہ ختم نہیں ہوتا خاص طور پر عجب الذنب سے

الكوراني نے وضاحت کی – الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري از أحمد بن إسماعيل بن عثمان بن محمد الكوراني الشافعي ثم الحنفي المتوفى 893 هـ کہتے ہیں
وقد يقال: إنه يتعلق بالجزء الأصلي الذي بقي معه من أول العمر إلى آخره، وهو الذي يركب منه الجسم في النشاة الأولى. ومنه يركب في النشأة الأخرى. وفي رواية البخاري ومسلم: أن ذلك عجب الذنب.
کہا جاتا ہے کہ روح ایک اصلی جز سے تعلق کرتی ہے جو باقی ہے اس کے ساتھ اول عمر سے آخری تک اور یہ وہ ہے جس پر جسم چلتا ہے پہلی تخلیق سے اور اسی پر بعد میں اٹھے گا اور بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ بے شک یہ عجب الذنب ہے

الکورانی یہ بھی کہتے ہیں کہ دوسری رائے ہے کہ
فإن النفس الناطقة مجردة ليست بحاتة في البدن. وهذا مختار الغزالي والراغب والقاضي أبي زيد.
بے شک اکیلا نفس ناطقہ (روح) بدن کا عنصر (و جز) نہیں ہے اور یہ (مذھب) مختار (مناسب و قابل قبول) ہے غزالی اور راغب اور قاضی ابوزید کے مطابق

یعنی روح کا تعلق بدن سے نہیں بن سکتا دونوں الگ ہیں

اپ نے جو اقتباس پیش کیا ہے یہ متکلمین کے ایک گروہ کی رائے تھی کہ روح جسم میں عجب الذنب سے تعلق کرتی ہے
یہ گروہ اب معدوم ہے اس اقتباس میں پوری تشریح اسی رائے کی بنیاد پر کی گئی ہے

لگتا ہے لوگ اس مسئلہ میں ہاتھ پیر مارتے انہی بوسیدہ نظریات میں روح پھونک رہے ہیں جو ایک عرصہ ہوا تاریخ میں کھو چکے تھے

روح جسم سے مکمل الگ ہو جاتی ہے یہی نفس ہے جو حیات جدید اور خلق جدید پر واپس ڈالا جائے گا
قرآن کہتا ہے توفی ہوا روح قبض ہوئی اور اخراج نفس ہوا لیکن یہ لوگ کہہ رہے ہیں  اخراج ہوا ہی نہیں روح عجب الذنب میں سمٹ گئی
گویا فرشتے خالی ہاتھ لوٹ گئے

اصلا یہ قول ان لوگوں کا تراشیدہ ہے جو حیات فی القبر کے شیدائی ہیں جو اولیاء الله اور انبیاء کی وفات کو تسلیم نہیں کر سکے ہیں اور حیات فی القبر کو ماننے والے گمراہ لوگ ہیں

وفات النبی کے روز کسی صحابی کو یہ باطل فلسفہ نہیں سوجھا کہ عمر سے کہتا کہ اے عمر کیوں مسجد میں شور کرتے ہو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح تو انکی عجب الذنب میں ہی رہ گئی فرشتے خالی ہاتھ لوٹ چکے ہیں لیکن ہم تک علم آ چکا کہ جو محمد کا پجاری تھا وہ جان لے کہ محمد کو موت آ چکی اور الله الحی القیوم ہے

سلیمان علیہ السلام کو موت آئی ان لوگوں کے قول کی روشنی میں ان کی روح بھی عجب الذنب میں پھنس گئی فرشتے خالی ہاتھ لوٹ گئے جنات لیکن صحیح عقیدہ رکھتے تھے کہ سلیمان کی روح اب جسد میں نہیں اور قرآن نے بھی انکی تائید کی کہ ہاں تم اگر غیب کو جانتے تو سمجھ لیتے کہ سلیمان وفات پا چکے

قرآن نص قطعی ہے اور حجت ہے اس کے مقابلے پر اخبار احاد کی غلط تاویل کر کے اپنے گمراہ نظریات کو تراشنا ایک غلط بات ہے

ایک وقت تھا جب غیر مقلدین سلفی عقیدہ کو ایسے پیش کرتے تھے کہ گویا وہ حرف آخر ہوں اور ان پر آسمان سے کوئی سند آئی ہو
لیکن اب چند سالوں میں ہم دیکھ رہے ہیں وہ کتابیں پڑھ کر نئے فلسفے بھگار رہے ہیں کوئی کرامیہ کے عقیدہ کو صحیح کہتا ہے تو کوئی خوراج والی رائے رکھتا ہے اور تو اور کوئی قاضی الباقلانی کی رائے تک ا گیا ہے جن پر ابن تیمیہ جرح کرتے رہے ہیں
یعنی اب واپس اشاعرہ کے علماء کی کتاب سے نظریہ سرقه کر کے اس کو خالص رائے پر کھڑا کرنے کے بعد یہ مطالبہ کرنا کہ اس کو تسلیم کیا جائے عجب بات ہے

ہم نے اس مسئلہ جو رائے اختیار کی ہے اس سے قرآن و احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جبکہ دوسری آراء میں یہ ممکن نہیں ہے
جو چاہے قرآن و حدیث کا تقابل کر کے جان لے

قرآن کہتا ہے
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ
بلا شبہ ہم جانتے ہیں جو زمین ان کے جسموں میں سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس محفوظ کتاب ہے

حدیث میں ہے کہ انسان کا جسم زمین کھا جاتی ہے سوائے عجب الذنب کے-
اس میں کوئی دلیل نہیں کہ یہ عجب الذنب زندہ ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالی قرآن میں خاص طور پر ذکر کرتے ہیں کہ وہ ہڈی کو زندہ کریں گے

یہ لوگ کہتے ہیں  میت جس و عقل رکھتی ہے جبکہ یہ بات بھی خلاف قرآن ہے
قرآن کہتا ہے زندہ و مردہ برابر نہیں اور اپ مردوں کو نہیں سنا سکتے الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے

اس میں بھی ہے جس کو چاہتا ہے سنواتا ہے لیکن اقتباس میں اس خصوص کو ختم کر کے عموم کا دعوی کیا گیا ہے

رسول الله صلي الله عليہ وسلم کے قول کہ جو مرا فقد قَامَت قِيَامَته اس پر اسکي قيامت قائم ہوئي پر بحث کرتے ہوئے ابن حزم (المتوفى: 456هـ) کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل ميں لکھتے ہيں

قَالَ أَبُو مُحَمَّد وَإِنَّمَا عَنى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِهَذَا الْقيام الْمَوْت فَقَط بعد ذَلِك إِلَى يَوْم الْبَعْث كَمَا قَالَ عز وَجل {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} فنص تَعَالَى على أَن الْبَعْث يَوْم الْقِيَامَة بعد الْمَوْت بِلَفْظَة ثمَّ الَّتِي هِيَ للمهلة وَهَكَذَا أخبر عز وَجل عَن قَوْلهم يَوْم الْقِيَامَة {يا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} وَأَنه يَوْم مِقْدَاره خَمْسُونَ ألف سنة وَأَنه يحيي الْعِظَام وَيبْعَث من فِي الْقُبُور فِي مَوَاضِع كَثِيرَة من الْقُرْآن وبرهان ضَرُورِيّ وَهُوَ أَن الْجنَّة وَالنَّار موضعان ومكانان وكل مَوضِع وَمَكَان ومساحة متناهية بِحُدُودِهِ وبالبرهان الَّذِي قدمْنَاهُ على وجوب تناهي الإجسام وتناهى كل مَا لَهُ عدد وَيَقُول الله تَعَالَى {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} فَلَو لم يكن لتولد الْخلق نِهَايَة لكانوا أبدا يحدثُونَ بِلَا آخر وَقد علمنَا أَن مصيرهم الْجنَّة أَو النَّار ومحال مُمْتَنع غير مُمكن أَن يسع مَا لَا نِهَايَة لَهُ فيماله نِهَايَة من الماكن فَوَجَبَ ضَرُورَة أَن لِلْخلقِ نِهَايَة فَإِذا ذَلِك وَاجِب فقد وَجب تناهى عَالم الذَّر والتناسل ضَرُورَة وَإِنَّمَا كلامنا هَذَا مَعَ من يُؤمن بِالْقُرْآنِ وبنبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَادّعى الْإِسْلَام وَأما من أنكر الْإِسْلَام فكلامنا مَعَه على مَا رتبناه فِي ديواننا هَذَا من النَّقْض على أهل الْإِلْحَاد حَتَّى تثبت نبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَصِحَّة مَا جَاءَ بِهِ فنرجع إِلَيْهِ بعد التَّنَازُع وَبِاللَّهِ تَعَالَى التَّوْفِيق وَقد نَص الله تَعَالَى على أَن الْعِظَام يُعِيدهَا ويحيها كَمَا كَانَت أول مرّة وَأما اللَّحْم فَإِنَّمَا هُوَ كسْوَة كَمَا قَالَ {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين}

امام ابن حزم نے کہا کہ بے شک رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے خبر دي قيام سے مراد فقط موت ہے کيونکہ اب اس کو يوم بعث پر اٹھايا جائے گا جيسا الله تعالي نے کہا {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} پھر تم کو قيامت کے دن اٹھايا جائے گا پس نص کي الله تعالي نے ان الفاظ سے کہ زندہ ہونا ہو گا قيامت کے دن موت کے بعد يعني يہ ايک ڈيڈ لائن ہے اور اسي طرح الله نے خبر دي قيامت پر اپنے قول سے {يَا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} ہائے بربادي کس نے ہميں اس نيند کي جگہ سے اٹھايا اور اس دن کي مقدار پچاس ہزار سال کي ہے اور بے شک اس نے خبر دي قرآن ميں اور برہان ضروري سے کثير مقامات پر کہ وہ ہڈيوں کو زندہ کرے گا اور جو قبروں ميں ہيں انکو جي بخشے گا – جنت و جہنم دو جگہيں ہيں اور مکان ہيں اور ہر مکان کي ايک حدود اور انتھي ہوتي ہے اور وہ برہان جس کا ہم نے ذکر کيا واجب کرتا ہے کہ اس ميں اجسام لا متناہي نہ ہوں اور گنے جا سکتے ہوں اور الله کا قول ہے {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} وہ جنت جس کي چوڑائي آسمانوں اور زمين کے برابر ہے اور …. پس ضروري ہے کہ مخلوق کي انتھي ہو … اور بے شک اللہ تعالي نے نص دي کہ ہڈيوں کو واپس شروع کيا جائے گا اور انکو زندہ کيا جائے گا جيسا پہلي دفعہ تھا اور جو گوشت ہے تو وہ تو اس ہڈي پر غلاف ہے جيسا الله نے کہا {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين} اور بے شک ہم نے انسان کو خلق کيا مٹي سے پھر اس کا نطفہ ايک ٹہرنے والي جگہ کيا

ابن حزم بار بار الله تعالي کے قول کي ياد دہاني کرا رہے ہيں کہ موت کے بعد اجسام ہڈيوں ميں بدل جائيں گے اور زندہ بھي ہڈي کو کيا جائے گا پھر اس پر گوشت کا غلاف آئے گا لہذا يہ ظاہر ہے کان يا آلات سماعت تو گوشت کے ھوتے ہيں جب وہ ہي معدوم ہو جائيں تو انسان کيسے سنے گا

عجب الذنب ایک ہڈی ہے جو باقی رہے گی لیکن بے جان و بے روح رہے گی جس طرح ایک بیج بے جان ہوتا ہے
یہ الله کا فعل ہے جو بے جان میں سے زندہ کو نکآلتا ہے

روح عالم بالا میں رہے گی جیسا صحیح مسلم کی حدیث میں ہے

[/EXPAND]
 

عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف

کیا مردے سنتے ہیں ؟  اس طرح کے رسالے بعض علماء چھاپتے ہیں اور عوام کو باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مردے نہیں سنتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علماء اس  انبوہ میں شامل ہیں جن کے نزدیک نہ  صرف مردے سنتے ہیں  بلکہ ان کے نزدیک مردے اتنے پاور فل ہیں کہ قبر پر کھڑے لوگوں سے مانوس بھی ہو سکتے ہیں

اس قبیل کے علماء قبر پرستوں  کو ان کے عقائد پر سند جواز دیتے ہیں –قبروں پر جانے کا ایک  مقصد صاحب قبر کو سنانا ہوتا ہے کہ وہ عرضداشت رب العالمین تک پہنچا دیں گے –

اب قرآن میں اگر ہو کہ

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ  سوره النمل ٨٠ آیت

اے نبی آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پلٹ کر جائیں

اسی طرح قرآن میں اگر ہو

 وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [فاطر: 22

اور زندہ مردہ برابر نہیں بے شک الله جس کو چاہے سنا دےاور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو سنانے والے نہیں

ان آیات میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ کفار کو ایمان کی طرف نہیں لا سکتے یہ سب الله کے اختیار میں ہے

تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے  اس کا مطلب مجازی لینا ہو گا کہ آپ کفار کو نہیں سنا سکتے لیکن قبر میں پڑے مردوں کو سنا سکتے ہیں- جبکہ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جب مثال بھی دیتا ہے تو حقیقت بر مبنی ہوتی ہے

ابن الجوزي كتاب السر المصون (بحوالہ الفروع  از ابن مفلح ) میں کہتے ہیں

 الذي يوجبه القرآن والنظر أن الميت لا يسمع ولا يحس قال تعالى وما أنت بمسمع من في القبور سورة فاطر 22 ومعلوم أن آلات الحس قد فقدت

جو چیز قرآن و (نقد و) نظر سے واجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے – الله تعالی کہتے ہیں اور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو نہیں سنا سکتے سوره فاطر ٢٢ اور یہ معلوم ہے کہ سننے کے آلات (یعنی کان) ضائع ہو چکے ہوتے ہیں

سماع الموتی کی سب سے اہم دلیل،  قلیب بدر کے مردوں کا سماع ہے- جنگ بدر میں فتح کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار کی لاشیں ایک کنواں میں پھینک دی جائیں تین دن بعد آپ اس مقام پر گئے اور کنواں  کے اوپر آپ نے ٢٤ سرداران قریش کو پکارآ اس وقت عمر رضی الله عنہ نے کہ

  يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَكَلَّمَ مِنْ أَجْسَادٍ، لَا أَرْوَاحَ لَهَا

 یا رسول الله آپ ایسے اجسام سے مخاطب ہیں جن میں ارواح نہیں؟

 رسول الله نے فرمایا

إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ

بے شک یہ سن رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں

عائشہ رضی الله عنہآ سماع الموتی کی انکاری تھیں اور کہتیں تھیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ یہ سنتے ہیں اصل میں علم ہونا ہے

اور ایسا وہ کیوں نہ کہتیں جبکہ قرآن میں ہے

ابراہیم علیہ السلام نے بتوں سے کلام کیا اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں ؟

حدیث میں ہے عمر رضی الله عنہ نے حجر الاسود سے کلام کیا

ابن عمر رضی الله عنہ نے ابن زبیر رضی الله عنہ کی سولی پر لٹکتی لاش سے کلام کیا اور اسماء رضی الله عنہا سے کہا صبر کریں بے شک ارواح الله کے پاس ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مردہ بیٹے سے کلام کیا

وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے

فرط جذبات میں مردوں سے زندہ مخاطب ہو سکتا ہے لیکن اس میں اس کا مقصد مردے کو سنانا نہیں ہوتا – امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر کوئی قسم کھا لے کہ میں کسی سے کلام نہ کروں گا اور مرنے کے بعد اس کے لاشے سے کلام کر بیٹھا تو اس کی قسم نہ ٹوٹے کی

ابن رجب کتاب أهوال  القبور میں  قبول کرتے  ہیں

قال الحافظ ابن رجب:  وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء

اور عائشہ (رضی الله عنہا) سے موافقت کی ہے بہت سے علماء نے مردوں کے سننے کی نفی میں

واضح رہے کہ الله کی قدرت و منشا میں بحث نہیں ہے وہ تو جو چاہے کر سکتا ہے سوال انسانوں کا ہے کہ کیا وہ اپنی بات مردوں کو سنا سکتے ہیں کہ نہیں

قرآن میں ہے

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سوره فاطر ٢٢

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں، بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ انہیں ، جو قبروں میں ہیں، سنانے والے نہیں

یعنی انسان قبر والوں کو نہیں سنا سکتا اللہ چاہے تو ایسا ممکن ہے لہذا اسی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک قلیب بدر کا واقعہ ایک معجزہ تھا

البانی کتاب آیات البینات از نعمان الوسی کی تعلیق میں کہتے ہیں

قلت : ولذلك أورده الخطيب التبريزي في ” باب المعجزات ” من ” المشكاة “ج 3 رقم 5938

میں کہتا ہوں اسی لئے خطیب التبریزی نے مشکاہ میں اس (قلیب بدر والے واقعہ) کو المعجزات کے باب میں ذکر کیا ہے

سماع الموتی کے دلائل کا تضاد

سماع الموتی کے قائلین کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین کے بعد چاپ سنتے ہیں اس سلسلے میں انبوہ غیر مقلدین کی جانب سے کہا جاتا ہے :”  یہ ایک استثناء ہے”- جبکہ یہ استثناء تو تمام مردوں کے لئے بولا جا رہا ہے تو مخصوص کیسے ہوا

ان میں سے بعض   لوگوں کی جانب سے کہا جاتا ہے :”جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے” لیکن پھر یہی لوگ عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے منسوب وصیت بھی پیش کرتے ہیں جس کے مطابق انہوں نے کہا کہ مجھ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر اتنی دیر رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے تاکہ میں تم لوگوں سے مانوس ہو جاؤں -گویا ان لوگوں کو خود بھی نہیں پتا کہ ان کے اس نام نہاد  استثناء میں کیا کیا شامل ہے اور اسکی حدود کیا ہیں

الشِّنقيطي   ایک وہابی عالم تھے ١٩٧٤ میں وفات ہوئی – ان کی آراء کو الجموع البهية للعقيدة السلفية  الَّتِي ذكرهَا الْعَلامَة الشِّنقيطي مُحَمَّد الْأمين بن مُحَمَّد الْمُخْتَار الجَكَنِي  فِي تَفْسِيره أضواء الْبَيَان میں جمع کیا گیا  جس کو  أبو المنذر محمود بن محمد بن مصطفى بن عبد اللطيف المنياوي نے جمع کیا ہے اور  مكتبة ابن عباس، مصر نے چھاپہ ہے

اپنی ایک تقریر میں مسئلہ سماع الموتی پر جرات دکھائی اور ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کے حوالے سے انہوں نے   کہا

الشِّنقيطي  هَل يسمع الْمَوْتَى؟ کیا  مردے سنتے ہیں کے سلسلے میں کہتے ہیں

وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.

أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے  اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی  جنہوں نے  ان کی اتبآع کی ہے

الشِّنقيطي   سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں

 إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة

عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ  ضرورت کے تحت  دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے  

وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ 

ابو جابر دامانوی دین الخالص میں  اکابر پرستی میں  مبتلا ہو کر  اپنے بت کوبچانے کے لئے لکھتے ہیں

دامانوی عائشہ ابن تیمیہ

جوچیز دامانوی صاحب  کو سمجھ نہیں آئی وہ الشنقیطی صاحب کو آئی اور اس پر ہی ڈاکٹر عثمانی نے جرح کی ہے

فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ عائشہ رضی الله عنہا وہ عقیدہ رکھتی تھیں جو الله اور اس کے رسول کے قول سے الگ تھا

موصوف گویا کہنا چاہتے ہیں کہ قول نبوی سن کر بھی عائشہ رضی الله عنہا نے جو تاویل کی وہ غلط تھی جبکہ ام المومنین رضی الله عنہا جو فقہاء مدینہ کی استاد ہیں ان کے فہم پر مبنی   اس تاویل پر  اعتراض سات صدیوں تک علمائے اسلام نے

نہیں کیا یہاں تک کہ ابن تیمیہ کا جنم ہوا

Real Islam  facebook page & Associated pages plagiarism 

[do not copy paste stuff without due credit]

لنک

حیات النبی فی القبر کا مسئلہ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

امت کے ولی ابو بکر رضی الله عنہ کہتے ہیں

 ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا  قد مات  -صحیح بخاری

 سن لو! جو شخص محمد  (صلی الله علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو (جان لے کہ) بلا شبہ محمد  فوت ہو گئے

عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک   روایت میں مروی ہے کہ

لقد مات رسول اللہ ۔صحیح مسلم

 یقیناً رسول اللہ فوت ہو گئے

انبیاء ، شہداء سے افضل ہیں اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انبیاء جنت میں ہیں شہداء بھی جنت میں ہی ہیں کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے چند لمحہ قبل قرآن کی آیت پڑھی

ان لوگوں کے ساتھ جن پر انعام ہوا- انبیاء ، صدیقین اور شہداء

بعض علماء  اشکال پیش کرتے ہیں کہ انبیاء و شہداء جنت میں کیسے ہو سکتے ہیں حتی کہ ان میں سے بعض کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی اسی مدینہ والی قبر میں ہیں

قبر میں حیات النبی کے قائلین کچھ روایات پیش کرتے ہیں

امام ابویعلی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو الجہم الا زرق بن علی نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے مستلم بن سعید نے بیان کیا۔ وہ حجاج سے اور وہ ثابت بنانی سے اور وہ حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا الانبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں

 ( شفاالسقام ص134) حیات الانبیاء للبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔  ابن حجر عسقلانی کہتے  ہیں و صححہ البیہقی امام بیہقی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتح الباری جلد ۶ ص352علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری  لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کہتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے  انس بن مالک  رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180۔

اصلا روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی حجاج غیر واضح ہے انہی میں سے بعض لوگوں نے جن کے نام اوپر لکھے ہیں اس کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے مثلا لسان المیزان از ابن حجر میں راوی کا نام الگ ہے اور فتح الباری میں الگ ان سب کے نزدیک اس راوی کا نام الگ الگ ہے اور اس کا سماع واقعی ثابت البنانی سے ہے ثابت نہیں ہے- سب سے پہلے اسکی تصحیح امام البیہقی نے کی ہے اس پر تفصیلا بحث سوالات کے سیکشن میں ہے

دیکھئے

کہا جاتا ہے انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس کی کوئی صحیح حدیث ہے ؟

یہ روایت نماز کی اہمیت پر بصرہ میں گھڑی گئی اس کی سند کا راوی حجاج مجھول ہے جس کو بصرہ کا بتایا جاتا ہے اور اس سے نیچے ثابت البنانی بھی بصرہ کے ہیں

قبرستان میں نماز حرام ہے اور یہ فقہ میں موجود ہے تو اس میں پڑھی گئی نماز کیسے  قبول ہو گی ایسی نماز شریعت میں حرام ہے اور طریقت میں عین دین ہے لہذا صوفی منش بیہقی کی پسندیدہ بنی

یہ دور تھا جب تصوف اور حدیث اپس میں مل رہے تھے اس کا روی مستلم بن سعید ہے اس کے لئے تہذیب الکمال میں ہے

وَقَال الْحَسَن بْن علي الخلال عَنْ يزيد بْن هارون، مكث المستلم بْن سَعِيد أربعين سنة لا يضع جنبه إلى الأرض. قال: وسمعته يقول: لم أشرب الماء منذ خمسة وأربعين يوما.

اور الحسن بن علی الخلال نےیزید بن ہارون سے روایت کیا کہ یزید کہتے ہیں مستلم نے چالیس سال تک زمین پر پہلو نہیں لگایا اور میں نے ان سے سنا کہتے تھے میں نے ٤٥ دن سے پانی نہیں پیا

یعنی مستلم ایک سادھو اور جوگی تھی سخت مشقتیں کرتے اور بصرہ کے جملہ محدثین ان کی روایات نقل کر کے اپنے تئیں دین کی خدمت کر رہے تھے

یہ لوگ مندرجہ ذیل روایت بھی پیش کرتے ہیں

امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب  نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ ابوالدراد  رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ  نے ارشاد فر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ آپ کی موت کے بعد ؟ آپ نے فرمایا الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے جسموں کو کھائے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے

ابن ماجہ 119)  ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات، التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔ حافظ منذری   الترغيب والترهيب لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297 علامہ عزیزی لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔ اسی طرح زرقانی ، سمہووی، ملاعلی قاری، شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، نیل الاوطار جلد5ص 264، عون المعبود جلد ۱ص405۔

عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ  کا سماع ابو الدرداء سے نہیں ہے اور اس کو مرسل کہا جاتا ہے

راوی ثقہ ہوں لیکن ان کا سماع نہ ہو تو روایت ضعیف ہی ہوتی ہے یہ سادہ اصول علم حدیث کی تمام کتب میں ہےابن حجر خود تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں

زيد بن أيمن. روى عن عبادة بن نسي. وعنه سعيد بن أبي هلال وذكره ابن حبان في الثقات روى له ابن ماجة حديثا واحدا في فضل الصلاة على النبي صلى الله عليه وآله وسلم1. قلت رجاله ثقات لكن قال البخاري زيد بن أيمن عن عبادة بن نسي مرسل.

زید بن ایمن جو سے روایت کرتا ہے اور ان سے سعید بن ابی ہلال اس کا ذکر ابن حبان نے ثقات میں کیا ہے ابن ماجہ نے ان سے روایت کی ہے ایک حدیث جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود سے متعلق ہے میں کہتا ہوں اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن امام بخاری کہتے ہیں زید بن ایمان اور وہ عبادہ سے مرسل ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

زيد بن أيمن [ق .
عن عبادة بن نسى.
عن أبي الدرداء، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الانبياء، فنبي الله حى يرزق.
روى عنه سعيد بن أبي هلال فقط، لكن ذكره ابن حبان في الثقات على قاعدته

زید بن ایمان ان سے عبادہ کی روایت اور ان سے ابو درداء کی کہ  رسول الله نے فرمایا کہ الله نے حرام کر دیا ہے زمیں پر کہ انبیاء کے جسموں کو کہئے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے ان سے اس کو فقط سعید نے روایت کیا ہے لیکن ابن حبان نے اپنے قاعدے کے مطابق اس کو ثقات میں شمار کر دیا ہے

ابن حبان پر تساہل کا زور تھا اس کی طرف الذھبی نے اشارہ دیا ہے

. البوصيري “مصباح الزجاجة” میں کہتے ہیں

هذا إسناد رجاله ثقات إلا أنه منقطع في موضعين: عبادة بن نسي روايته عن أبي الدرداء مرسلة؛

اس روایت کی اسناد میں ثقہ رجال ہیں لیکن یہ دو مقام پر منقطع ہے عبادہ بن نسی کی ابو درداء سے روایت مرسل ہے

ابن کثیر تفسیر  میں سوره الاحزاب پر بحث میں  اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِيهِ انْقِطَاعٌ بَيْنَ عُبَادَةَ بْنِ نُسِيٍّ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فَإِنَّهُ لَمْ يُدْرِكْهُ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

یہ حدیث غریب ہے اس سند سے اس میں انقطاع ہے عبادہ اور ابی الدرداء کے درمیان کیونکہ انکی ملاقات نہ ہوئی

یہ اقوال بھی ہیں جو واضح کرتے ہیں روایت منقطع ہے

اسی سند سے تفسیر الطبری کی ایک اور روایت ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: ثني عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا عَلَيَّ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ يَوْمٌ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ

ابو الدردا رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر کثرت سے جمعہ کے دن درود پڑھو کیونکہ یہ وہ دن ہے جو یوم مشہود ہے فرشتے دیکھتے ہیں

یہ روایت بھی مرسل ہے ضعیف ہے اور کیا فرشتے عام دنوں میں نہیں ریکارڈ کرتے

قائلین حیات النبی صحیح مسلم کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَنَا أَکْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ   رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تمام انبیاء سے زیادہ میرے پیروکار ہوں گے اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔

 اِسے امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

  عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتَفْتِحُ فَيَقُوْلُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُوْلُ: بِکَ أُمِرْتُ لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَکَ  رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ حُمَيْدٍ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب في قول النبي صلی الله عليه واله وسلم : أنا أوّل النّاس يشفع في الجنّة

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: روزِ محشر میں جنت کے دروازے پر آ کر دستک دوں گا، دربانِ جنت دریافت کرے گا: آپ کون ہیں؟ تو میں کہوں گا: میں محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہوں، وہ کہے گا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے جنت کا دروازہ کسی اور کے لیے نہ کھولوں۔

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو عوانہ اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔.

جو غیر مقلدین اس حدیث کو پیش کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ حدیث دال ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابھی بھی مدینہ والی قبر میں ہی ہیں اور ان کی قبر جنت کے باغ میں سے ایک ہے- یہی بعض  وہابی علماء کا نظریہ ہے جو قرآن و احادیث صحیحہ کے یکسر خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ وہابی و سلفی علماء ابن تیمیہ کی تقلید میں سماع الموتی کے قائل ہیں (بشمول ابن کثیر، ابن حجرو غیرھم ) جبکہ غیر مقلدین کے مطابق یہ گمراہی ہے

البانی سماع الموتی کے انکاری لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں روح لوٹائے جانے کے قائل ہیں

کتاب  موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني «موسوعة تحتوي على أكثر من  عملاً ودراسة حول العلامة الألباني وتراثه الخالد  از مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية وتحقيق التراث والترجمة، صنعاء – اليمن کے مطابق البانی سے سوال ہوا کہ کیا رسول الله زندہ ہیں- البانی کہتے ہیں ان کا جسم قائم ہے اور

al-bani-1546-front

قال: «إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء» ,أي: أنا كسائر الأنبياء جسدي في القبر حي طري, ولكن اصطفاني ربي عز وجل بخصلة أخرى أنه كلما سلم علي مسلمون رد الله إلي روحي فأرد عليه السلام, وهذا الحديث وهو ثابت فيه دلاله على أن الرسول عليه السلام خلاف ما يتوهم كثير من العامة, بل وفيهم بعض الخاصة وهي أن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – لا يسمع سلام المسلمين عليه, وإنما كما جاء في الحديث الصحيح: «إن لله ملائكة سياحين, يبلغوني عن أمتي السلام» , إن لله ملائكة سياحين: يعني طوافين على المسلمين, فكلما سمعوا مسلماً يصلي على النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – بلغوه بذلك وهو لا يسمع؛ لأن الميت لا يسمع, انفصل عن هذه الحياة الدنيا ومتعلقاتها كلها, ولكن الله عز وجل اصطفى نبيه عليه السلام فيما ذكرنا من الحياة ومن تمكينه بإعادة روحه إلى جسده, ورد السلام على المسلمين عليه, ومن ذلك أيضاً أن هناك ملائكةً يبلغونه السلام فكلما سلموا عليه من فلان هو رد عليهم السلام.  الهدى والنور” (268/ 08: 22: 00)

al-bani-1546

رسول  الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے اجسام کو کھائے – یعنی کہ میں تمام انبیاء  کے جسموں کی طرح قبر میں تازہ رہوں گا – لیکن الله نے مجھے چن لیا ایک دوسری خصوصیت کے لئے کہ جب مسلمان مجھ پر سلام کہیں گے تو الله میری روح کو لوٹا دے گا اور میں جواب دوں گا اور یہ حدیث ثابت ہے دلیل ہے کہ اس کے خلاف جس پر بہت سوں کو وہم ہے – بلکہ اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہے وہ یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کا سلام نہیں سنتے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ الله کے فرشتے ہیں جو  سلام لاتے ہیں یعنی الله کے سیاح فرشتے ہیں جو مسلمانوں میں پھرتے رہتے ہیں پس جب وہ کسی کو سلام کہتے سنتے ہیں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک لاتے ہیں اور رسول الله اس کو خود سن نہیں پاتے – کیونکہ میت نہیں سنتی – وہ دنیا اور اس کے متعلقات سے کٹی ہوتی ہے لیکن الله نے اپنے نبی کو چنا جس کا ہم نے ذکر کیا کہ روح کو جسم میں جگہ ملتی ہے روح لوٹانے جانے پر اور مسلمانوں کے  سلام کا جواب دینے کے لئے  اور ساتھ ہی فرشتے ہیں جو سلام پہنچاتے ہیں پس جب فلاں سلام کہتا ہے اس روح کو لوٹا دیا جاتا ہے

البانی کی احمقانہ منطق دیکھیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم روح لوٹانے پر سن نہیں سکتے لیکن بول سکتے ہیں

 بقول سراج اورنگ آبادی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

علم حدیث عقل سے عاری ہو تو یہ نتیجہ نکلتا ہے

المناوي  المتوفی ١٠٣١ ھ اس کے خلاف کہتے ہیں

 يعني ردّ علىَّ نطقي، لأنه – صلَّى الله عليه وسلم – حي على الدوام، وروحه لا تفارقه أبداً

 المناوي کہتے ہیں : یعنی بولنے کی صلاحیت  لوٹائی جاتی ہے ، بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل 

 زندہ ہیں اور روح جسد سے الگ نہیں

المناوی نے امام سیوطی  (المتوفى: 911هـ) کا قول نقل کیا ہےسیوطی الحاوی للفتاوی میں کہتے روح لوٹانے والی حدیث سے

حاوی الفتاوی فرنٹ

حاوی الفتاوی ١٥١png

 يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ عَلَى الدَّوَامِ

اخذ کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم دائمی زندہ ہیں

وہابی عالم ابی بطين  کتاب  رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين  کہتے ہیں

الحديث المشهور: “ما من مسلم يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام” 1؛ فهذا يدل على أن روحه صلى الله عليه وسلم ليست دائمة في قبره.
ومعرفة الميت زائره ليس مختصا به صلى الله عليه وسلم

حدیث مشھور ہے کہ کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس کا جواب دینے کے لئے الله میری روح نہ لوٹا دے پس یہ دلیل  ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح مسلسل قبر میں نہیں اور میت کا زائر کو جاننا رسول الله کے لئے خاص نہیں

وہابی عالم ابی بطين  کتاب تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس  کہتے ہیں

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس front

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس 119

 جیسا ابو داود نے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کوئی مسلم نہیں جو مجھ کو سلام کرے اور اللہ میری روح نہ لوٹا دے جواب پلٹنے کے لئے پس یہ دلیل ہے کہ روح شریف ان کے بدن میں دائما نہیں ہے بلکہ اعلیٰ علیین میں ہے اور اس کا بدن سے کنکشن ہے جس کی حقیقت الله کو پتا ہے نہ اس میں حس سے نہ عقل اور نہ یہ ان کے لئے خاص ہے

یعنی  ہر میت زائر کو جانتی ہے یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں ہے

ابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٩ میں لکھتے ہیں

فتح الباري ج ٧ فرونت

فتح الباري ج ٧ ص ٣٦

 إِنَّ حَيَاتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْر لايعقبها مَوْتٌ بَلْ يَسْتَمِرُّ حَيًّا وَالْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ 

بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر میں زندگی پر موت نہیں اتی، بلکہ آپ مسلسل زندہ ہیں اور(تمام) انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں

ان کے شاگرد السخاوی کتاب القول البديع في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ  ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي  میں کہتے ہیں

ساخاوي 1

يؤخذ من هذه الأحاديث أنه – صلى الله عليه وسلم – حي على الدوام وذلك أنه
محال عادة أن يخلو الوجود كله من واحد يسلم عليه في ليل ونهار

نحن نؤمن ونصدق بأنه – صلى الله عليه وسلم – حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا

ساخاوي ٢

ان احادیث سے اخذ کیا جاتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور یہ دن و رات  ہر ایک آن پر  سلام کہہ رہا ہے لہذا ان کا وجود روح سے  خالی نہیں – ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، قبر میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے جسد شریف کو زمیں نہیں کھاتی اور اس پر اجماع ہے

رزق کا قبر میں دیا جانا دنیاوی حیات جیسا ہے جس کے دیوبندی قائل ہیں اور غیر مقلدین انکار کرتے ہیں

مفتی بن باز کہتے ہیں

https://binbaz.org.sa/fatwas/49/هل-الرسول-ﷺ-حي-في-قبره-ام-لا

قد صرح الكثيرون من أهل السنة بأن النبي صلى الله عليه وسلم حي في قبره حياة برزخية لا يعلم كنهها وكيفيتها إلا الله سبحانه، وليست من جنس حياة أهل الدنيا بل هي نوع آخر يحصل بها له صلى الله عليه وسلم الإحساس بالنعيم، ويسمع بها سلام المسلم عليه عندما يرد الله عليه روحه ذلك الوقت

اکثر اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ جس کی کیفیت صرف الله ہی جانتا ہے اور یہ دنیا کی زندگی جیسی نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی طرح کی ہے جس سے صلی الله علیہ وسلم کو راحت کا احساس ہوتا ہے اور اس سے سلام سنتے ہیں اور اس وقت الله اپ کی روح لوٹا دیتا ہے

كتاب  الدرر السنية في الأجوبة النجدية از   عبد الرحمن بن محمد بن قاسم کے مطابق محمد بن الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ عبد الرحمن کہتے ہیں

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ j1front

ونعتقد أن رتبته صلى الله عليه وسلم أعلى رتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية، أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنْزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه،

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ

اور ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا رتبہ مخلوق میں  علی اطلاق سب سے اعلی ہے اور بے شک وہ قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ , جو شہداء کی زندگی سے بلند ہے جس پر نصوص ہیں تنزیل میں (یعنی  قرآن میں ) کہ جب وہ (رسول الله ) افضل ہیں (شہداء سے) بلا شک تو،  بے شک وہ  سلام سنتے ہیں جب کوئی مسلم سلام کہتا ہے ان پر اور ایسی زندگی جو علم کی متقاضی ہو، تصرف چاہتی ہو، تدبیر کے حرکت چاہتی ہو، تو وہ ان صلی الله علیہ وسلم میں نہیں ہے

خوب ایک کہتا ہے نبی سلام نہیں سنتے دوسرا کہتا ہے سنتے ہیں

اس کتاب ج ١٢ ص  ١٧٨ کے مطابق نجدی علماء مانتے ہیں

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ j12-front

ولم يرد حديث صحيح بأنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ٢

کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا کہ آپ’ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں

لیکن شہید سے تقابل کرکے یہ استخراج کیا گیا

اس کا استخرآج شہداء کی زندگی سے کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انبیاء سے کم تر ہیں لہذا انبیاء قبروں میں  زندہ ہونے چاہییں

أصول الإيمان از المؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) تحقيق: باسم فيصل الجوابرة لناشر: وزارة الشؤون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد – المملكة العربية السعودية الطبعة: الخامسة، 1420هـ میں ہے

والذي نعتقده أن مرتبَة نبينا محمد صَلَّى اللَّه عليه وسَلَّم أعلى مراتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه

ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ مخلوق میں على الإطلاق سب سے اعلی ہے
اور وہ قبر میں زندہ ہیں حیات برزخی کے ساتھ جو حیات شہداء سے بلند ہے اس پر قرآن میں نصوص ہیں پس جب وہ افضل ہیں جس میں کوئی شک نہیں تو بلاشبہ وہ سلام سنتے ہیں جب کوئی سلام کہے

 کتاب  تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس میں نجدی عالم أبابطين کہتے ہیں

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس front

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس 118

قال ابن القيم: لم يرد حديث صحيح أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره

ابن قیم کہتے ہیں کسی صحیح حدیث میں نہیں کہ رسول الله قبر میں زندہ ہوں

یہ الفاظ ابن قیم کی کسی کتاب میں نہیں ملے اگرچہ ان کے استاد موسی علیہ السلام کے لئے لکھتے ہیں

وَأَمَّا كَوْنُهُ رَأَى مُوسَى قَائِمًا يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ وَرَآهُ فِي السَّمَاءِ أَيْضًا فَهَذَا لَا مُنَافَاةَ بَيْنَهُمَا فَإِنَّ أَمْرَ الْأَرْوَاحِ مِنْ جِنْس أَمْرِ الْمَلَائِكَةِ. فِي اللَّحْظَةِ الْوَاحِدَةِ تَصْعَدُ وَتَهْبِطُ كَالْمَلَكِ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالْبَدَنِ

مجموع الفتاوی از ابن تیمیہ ج ٤ ص ٣٢٩ پر

اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ رسول الله نے موسی کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کو آسمان پر بھی دیکھا تو اس میں کوئی فرق نہیں کیونکہ روحیں فرشتوں کے امر کی جنس سے ہیں ایک لحظہ میں چڑھتی اترتی ہیں جیسا کہ فرشتہ اور بدن ایسا نہیں ہے

یعنی انبیاء جنت میں بھی ہیں اور دنیا کی قبروں میں بھی ان کی روحیں فرشتوں کی طرح آنا فانا اترتی چڑھتی ہیں اور ان کی روحیں بدن میں جاتی نکلتی ہیں

ابن تیمیہ زیارت قبر نبی کے لئے سفر کو بدعت کہتے تھے لیکن یہ مانتے تھے کہ قبر پر پڑھا جانے والا سلام نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں لہذا وہ  کتاب  قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق میں کہتے تھے

qaida- alazemah -ibn temiah front

qaida- alazemah -ibn temiah 57

فمقصودُهُ صلى الله عليه وسلم بقوله: «مَا مِنْ رَجُلٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ (4) » بيان حياتِه، وأنه  يَسمع السلام من القريب، ويبلَّغ السلامَ من البعيد، ليس مقصودُهُ أمر الأمة بأن يأتوا إلى القبر ليسلموا عليه عند قبره

پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس پر الله میری روح اس کو جواب دینے کے لئے لوٹا نہ دے ،  یہ کہنے کا مقصد ان کی زندگی تھا اور بے شک وہ قریب کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا ان کو پہنچایا جاتا ہے اس کو کہتے کا مقصد یہ نہ تھا کہ امت کو حکم دیں کہ وہ قبر پر آ کر ہی سلام کہے

اسی روایت کا کتاب قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة میں ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں

وعلى هذا الحديث اعتمد الأئمة في السلام عليه عند قبره، صلوات الله وسلامه عليه.

اور اس حدیث پر ائمہ اسلام نے اعتماد کیا ہے کہ سلام قبر پر کہا جائے 

ابن تیمیہ کے مخالفین مثلا السبکی اپنی کتاب  شفاء السقام میں آیت پیش کرتے   ہیں

یا ایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فوق صوت النبی…….. الخ (پارہ26 ۔الحجرة

اے ایمان والوں اپنی آواز کو رسول اللہ کی آواز سے بلند نہ کرو 

السبکی کے مطابق وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابل ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس میں زندہ ہیں

شفا السقام ١

۔  ابوبکر الصدیق سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  کے سامنے بلند آواز کرنا جائز نہیں نہ زندگی میں نہ حالت میت میں  اور عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہ  خبردار رسول الله کو تکلیف نہ دو اور  علی بن ابی طالب رضی الله عنہ  نے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے ایسا الحسینی نے روایت کیا اخبار مدینہ میں اور تمام دلیلیں ہیں کہ وہ رسول الله کو زندہ دیکھتے تھے

  کتاب  الدرة الثمينة في أخبار المدينة از  محب الدين أبو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن المعروف بابن النجار (المتوفى: 643هـ) میں عائشہ  اور علی رضی الله عنہما کی روایت کی سند ہے

أنبأنا يحيى بن أسعد بن بوش، عن أبي علي الحداد، عن أبي نعيم الحافظ، عن جعفر الخلدي، أنبأنا أبو يزيد المخزومي، حدثنا الزبير بن بكار، حدثنا محمد بن الحسن قال: حدثني غير واحد، منهم عبد العزيز بن أبي حازم، ونوفل بن عمارة قالوا: إن عائشة رضي الله عنها كانت تسمع صوت الوتد والمسمار يضرب في بعض الدور المطنبة بمسجدالنبي صلى الله عليه وسلم، فترسل إليهم: أن لا تؤذوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما عمل علي بن أبي طالب رضي الله عنه مصراعي داره إلا بالمناصع توقياً لذلك.

اس کی سند منقطع ہے ایک سے زائد نے روایت کیا کون ہیں پتا نہیں ہے لہذا السبکی کی دونوں روایات ضعیف ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے خدیجہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ ان کے لئے جنت میں گھر ہے جس میں شور نہ ہو گا

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امہات المومنین جو دنیا و آخرت میں رسول الله کی ازواج ہیں وہ جنت میں ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں جہاں پر وقت شور ہی شور ہے اور مومن کا قید خانہ ہے اس میں رسول الله ابھی تک ہوں

اصل میں یہ امت کا غلو ہے اور  غم کی  نفسیاتی کیفیت ہے کہ اپنے نبی کی وفات اس کو قبول نہیں ہو رہی ایسی کیفیت عمر رضی الله عنہ پر بھی چند گھنٹوں رہی لیکن زائل ہو گئی تھی

اب صورت حال یہ ہوئی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم قبر میں مسلسل زندہ ہیں روح جسد سے الگ نہیں محدث  ابن حجراور السبکی

رسول الله صلی الله  علیہ وسلم کو قبر میں رزق دیا جاتا ہے محدث  السخاوی

رسول الله صلی الله  علیہ وسلم کی روح ہر وقت قبر میں نہیں  نجدی مفتی ابا بطین

 رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم  قبر میں سنتے بھی ہیں سعودی مفتی بن باز، محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح جسد میں اتی ہے لیکن سنتے نہیں بولتے ہیں البانی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں قوت نطق دی جاتی ہے المناوی

رسول اللہ کی قبر میں زندگی پر کوئی صحیح حدیث نہیں  ابا بطین

رسول الله صلی الله علیہ وسلم (اور دیگر انبیاء ) کی روح قبر میں بدن میں آنا فانا اتی جاتی رہتی ہیں ابن تیمیہ

یعنی  ایک طرف تو کہا جا رہا ہے کہ رسول الله کی وفات ہوئی دوسری طرف ان میں عود روح بھی کرایا جا رہا ہے اس طرح متضاد روایات میں ایک نرالی تطبیق پیدا کی جاتی ہے جو  التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ   یا دور کی کوڑی کی شکل ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ  خرج رسول اللہ من الدنیا صحیح بخاری

    رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  دنیا سے نکل  گئے 

واضح رہے کہ سلام کہنے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب کی جاتی ہے جبکہ وہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ابو ہریرہ خود رسول الله کی روح دنیا سے نکل جانے کے قائل ہیں

ایک طرف تو علماء کہتے ہیں کہ رسول الله کی قبر میں زندگی برزخی ہے دوسری طرف ان کو قبر میں نماز بھی پڑھواتے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں ہے کہ انبیاء جنتوں میں ہیں- شب معراج وہیں ملاقات ہوئی اور جنت میں موسی و آدم کے کلام کا ذکر بھی احادیث میں ہے خود زندہ نبی عیسیٰ علیہ السلام بھی جنت میں ہیں – مسلم کی اوپر والی جنت کا دروازہ کھولنے والی حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر روز محشر الله کا خاص انعام ہے جہاں تمام بنی نوع آدم کے سامنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے- صلی الله علیہ وسلم

musalmano-ka-aqdiah

Azab Al-Qabr

qaff-4

 Azab al-Qabr

بسم الله الرحمن الرحيم

No doubt it is a fact that there would be a torment or pleasure after the death. However the majority of Muslims now believe that this would happen in the earthly abode of dead body commonly called grave. The concept of Azab-al-Qabr  is clearly explained in Quran and Sahih ahadith that everyone would experience one death in this earth and that  the soul once taken out of body would not be returned to the body till the day of resurrection. The body meanwhile  would disintegrates and degenerates into dust. The torment or pleasure of any kind would be experience by soul in a new body.

Some scholars have made up a belief that the torment from death till resurrection happens in this earthly grave. First the soul would be returned to body in grave for questioning and in case of wrong outcome the body would experience hell fire in grave and soul would be taken back to Hell.  There is no valid hadith for this belief and in reality this belief is conjured from the mixture of non-authentic narrations, as will be explained in this treatise.


The purpose of grave is to hide the dead as body would go into disintegration. It would rot and consumed by the insects and finally goes to dust.  In Quran this purpose is first explained when  Qabeel (son of Prophet Adam peace be upon him) killed his brother.  In surah Al-Maidah (5:27-31) we are informed that:

 

[note color=”#BEF781″]

And (O Muhammad ) recite to them (the Jews) the story of the two sons of Adam [Habil (Abel) and Qabil (Cain)] in truth; when each offered a sacrifice (to Allah), it was accepted from the one but not from the other. The latter said to the former: “I will surely kill you. ” The former said: “Verily, Allah accepts only from those who are Al-Muttaqun (the pious – see V.2:2).” . “If you do stretch your hand against me to kill me, I shall never stretch my hand against you to kill you, for I fear Allah; the Lord of the ‘Alamin (mankind, jinns, and all that exists).” “Verily, I intend to let you draw my sin on yourself as well as yours, then you will be one of the dwellers of the Fire, and that is the recompense of the Zalimun (polytheists and wrong-doers).” So the Nafs (self) of the other (latter one) encouraged him and made fair-seeming to him the murder of his brother; he murdered him and became one of the losers.

Then Allah sent a crow who scratched the ground to show him to hide the dead body of his brother. He (the murderer) said: “Woe to me! Am I not even able to be as this crow and to hide the dead body of my brother?” Then he became one of those who regretted. (5:27-31)

 [/note]

Prophet also explained that all bodies would be disintegrated. Imam Bukhari , juz 16, pg 333, chapter  باب ( يَوْمَ يُنْفَخُ فِى الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا ) زُمَرًا reported that:

[note color=”#CEECF5″]

 حَدَّثَنِى مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِى صَالِحٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ – رضى الله عنه – قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – « مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ » . قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ . قَالَ أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ . قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ . قَالَ « ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً . فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنَ الإِنْسَانِ شَىْءٌ إِلاَّ يَبْلَى إِلاَّ عَظْمًا وَاحِدًا وَهْوَ عَجْبُ الذَّنَبِ ، وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ »

Abu Huraira – may Allah be pleased with him – said the Messenger of Allah – peace be upon him said- «What between forty Al-Nafkhateen (two blowings of Conch) ». (Inquirer asked)  Forty days? he said can’t say this. Forty months? said can’t say this. Forty years? said can’t say this. Abu Huraira said  (I heard from Prophet that) «Then God will send down water from the sky and they (humans) grow like (plant) grows_ There would be  nothing in human but fret only one bone (remains) that is the tailbone, and on it rides the creation on the Day of Resurrection »

 [/note]

Bukhari has showed that all human body would be consumed by Earth except the tailbone.  This shows that the body is nothing with out a soul. The earth even consume the bodies of Holy Prophets as informed in narration of Musnad Abi-Yala, juz 13, pg 189:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أبو هشام الرفاعي محمد بن يزيد حدثنا ابن فضيل عن يونس بن عمرو عن أبي بردة : عن أبي موسى قال : أتى النبي – صلى الله عليه و سلم – أعرابيا فأكرمه فقال له : ائتنا فأتاه فقال رسول الله – صلى الله عليه و سلم – : سل حاجتك فقال : ناقة نركبها وأعنزا يحلبها أهلي فقال رسول الله – صلى الله عليه و سلم – : عجزتم أن تكونوا مثل عجوز بني إسرائيل ؟ قال : إن موسى لما سار ببني إسرائيل من مصر ضلوا الطريق فقال : ما هذا ؟ فقال علماؤهم : إن يوسف لما حضره الموت أخذ علينا موثقا من الله أن لا نخرج من مصر حتى ننقل عظامه معنا قال : فمن يعلم موضع قبره ؟ قال : عجوز من بني إسرائيل فبعث إليها فأتته فقال : دليني على قبر يوسف قالت : حتى تعطيني حكمي قال : ما حكمك ؟ قالت : أكون معك في الجنة فكره أن يعطيها ذلك فأوحى الله إليه أن أعطها حكمها فانطلقت بهم إلى بحيرة : موضع مستنقع ماء فقالت : أنضبوا هذا الماء فأنضبوا قالت : احتفروا واستخرجوا عظام يوسف فلما أقلوها إلى الأرض إذا الطريق مثل ضوء النهار

 ….Prophet said:  When Moses exited along  Beni Israel from Egypt  he strayed path and said: What is this? Scholars said: Prophet Joseph  has took us an oath in God that we would not go out of Egypt, unless we  take his bones with us.  Moses said: Who knows where his  (Joseph’s) grave is?  They said: An elderly woman  of the children of Israel (knew about it), he (Moses) reached her and said: Inform me about the grave of  Joseph.  She said: Give me a verdict (Promise) He inquired: What’s your verdict (Promise)? She said: I (want to be) with you in paradise. He abhorred to give this promise to her until  God revealed to him (Moses) to give her this verdict. (Finally) They reached with them to a  Lake: The place of swamp water, she said: take out  this water. They took out the water  and extracted the bones of Joseph when bones reached to the ground the road was (visible) like daylight.

[/note]

This hadith clearly  indicate the even the Prophets bodies would be disintegrated by earth.  Quran informs us that Prophet Bodies would not last forever. Allah informed us in Quran, surah Al-Anbiyah  (21:8)

[note color=”#BEF781″]

وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ

And We did not create them (the Messengers, with) bodies that ate not food, nor were they (last) forever

[/note]

Therefore all bodies would be disintegrated irrespective of Prophet, righteous person or evil doer. There might be some exceptions but that could be due to climatic conditions and weather, which is temporary effect. Bodies may also survive due to embalming or mummification procedures which are purely scientific methods of preservation.  But even these procedures may help for some period of time and finally the bodies disintegrate and dust (humans) become dust!

 

Before we go on and continue our discussion on Azab al-Qabr it would be necessary to first understand the concept of death in Quran.

 

1. In surah az-Zumar (39:42) it is informed that:

[note color=”#BEF781″]

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ 42

>>It is Allah Who takes away the souls at the time of their death, and those that die not during their sleep. He keeps those (souls) for which He has ordained death and sends the rest for a term appointed. Verily, in this are signs for a people who think deeply. (39 : 42)

(Dr. Muhammad Taqi-ud-Din Al-Hilali, Ph.D. & Dr. Muhammad Muhsin Khan translation)

[/note]

 

2. In surah al-Anam (6:60-61) it is explained that:

[note color=”#BEF781″]

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (60) وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ويُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ 61

>>He it is Who gathereth you at night and knoweth that which ye commit by day. Then He raiseth you again to life therein, that the term appointed (for you) may be accomplished. And afterward unto Him is your return. Then He will proclaim unto you what ye used to do.

He is the Omnipotent over His slaves. He sendeth guardians over you until, when death cometh unto one of you, Our messengers receive him, and they neglect not.

(Pickthall Translation)

>>It is He, Who takes your souls by night (when you are asleep), and has knowledge of all that you have done by day, then he raises (wakes) you up again that a term appointed (your life period) be fulfilled, then in the end unto Him will be your return. Then He will inform you what you used to do.  He is the Irresistible, Supreme over His slaves, and He sends guardians (angels guarding and writing all of one’s good and bad deeds) over you , until when death approaches one of you, Our Messengers (angel of death and his assistants) take his soul, and they never neglect their duty.

(Dr. Muhammad Taqi-ud-Din Al-Hilali, Ph.D. & Dr. Muhammad Muhsin Khan translation)

[/note]

There are two important words in these verses. One is Tawaffa and another one is Rasala.

Twaffa  (تَوَفَّى) in Arabic  means taking some thing. In Quran it is used when God informed us that on the day of Judgement He Almighty would reward us completely. There the words Twaffa kullu Nafas are used. Hence the word Twaffa  does not always mean death. Also  God said to Prophet Isa:

[note color=”#BEF781″]

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ

When Allah said : O Isa I would take you and lift you towards me.

 [/note]

Here the word مُتَوَفِّيكَ is used, which does not necessarily means death. Therefore in the same sense the word تَوَفَّى Tawaffa is used in chapter 6 and 39 for the sleep. The sleeping person has all kind of vital signs i.e. breathing, sweating, dreaming etc.  The soul is seized or held completely in the body. Sleep could be called the minor death in this sense. Death as a phenomenon involves the complete hold of soul. After death all vital signs will be absent.

Another important word is  Rasala which has two meanings one is sending and another is releasing.  Bukhari Hadith (juz 1, pg 4) explained this that when the angel arrived in the cave of Hira and asked Prophet to read.

[note color=”#CEECF5″]

فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ قلت ما أنا بقارىء

He (angel) took me and (squeezed) until he reached my limit and then released me and said read, I said, I am not a reader!

 [/note]

These two examples help us to understand the meaning of the verses of (6:60-61) and (39:42).

The soul is seized in the body at the time of death and sleep. Allah released the soul of living and does not return the soul of death. The words إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا also indicate that unlike sleep at death the task is done via angels.

Some people try to  insert confusion in the meaning of Death and Sleep. According to them the sleeping phenomenon is like the death phenomenon and accordingly a person experiences thousands of deaths when he or she sleeps over his or her life time.  This is totally an ignorant and deviated understanding of these verses and concocted to fulfil some ulterior motives.

 

The body would feel any kind of torment until there is a soul in it. Allah has revealed in Quran that the people of Hell would cry for death and ask Malik- the Manager of Hell to grant them death.

[note color=”#BEF781″]

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَى وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ 56

They will never taste death therein except the first death (of this world), and He will save them from the torment of the blazing Fire (surah al-Dukkhan)

 

لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا 14

Exclaim not today for one destruction, but exclaim for many destructions.

(surah Furqan)

وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ

 

But those who disbelieve, (in the Oneness of Allah – Islamic Monotheism) for them will be the Fire of Hell. Neither it will have a complete killing effect on them so that they die, nor shall its torment be lightened for them. Thus do We requite every disbeliever! ( Fatir 36)

[/note]

These verses clearly indicate that death would eliminate all sense of torment or bliss.

Quran explicitly inform us that each breathing person would experience two deaths and two lives. Quran says in surah Al-Baqarh (2:28)

[note color=”#BEF781″]

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

How can you disbelieve in Allah? Seeing that you were dead and He gave you life. Then He will give you death, then again will bring you to life (on the Day of Resurrection) and then unto Him you will return.

 [/note]

Further it is explained that people of the hell would call their Lord ( Al-Ghafir 40:11)

 

[note color=”#BEF781″]

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ

 

They will say: “Our Lord! You have made us to die twice (i.e. we were dead in the loins of our fathers and dead after our deaths in this world), and You have given us life twice (i.e. life when we were born and life when we are Resurrected)! Now we confess our sins, then is there any way to get out (of the Fire)?”

 [/note]

Tibiri explained this in his exegesis  on Quran  جامع البيان في تأويل القرآن  as:

حدثني يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا هُشيم، عن حُصين، عن أبي مالك، في قوله:”أمتَّنا اثنتين وأحييتنا اثنتين”، قال: كانوا أمواتًا فأحياهم الله، ثم أماتهم، ثم أحياهم

Abi Malik  Al –Ghafari Al-Kofi said for verse You have made us to die and You have given us life twice that they were dead then Allah bestowed them life then they would be dead and then raised (again). ( Tafseer Al-Tibiri )

 

This shows that each person would experience two deaths and two lives:

 

  • First Death: is the realm of non-existence
  • First Life: This earthly life now
  • Second Death: The death experienced by a breathing person in this world
  • Second Life: is the next life which would start on the Day of Judgement

In  Surah Al-Abbasa  Allah informs us that every person would get a grave :

[note color=”#BEF781″]

قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ (17) مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (18) مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ (19) ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ (20) ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (21) ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنْشَرَهُ 22

Be cursed (the disbelieving) man! How ungrateful he is! From what thing did He create him? From Nutfah (male and female semen drops) He created him, and then set him in due proportion;  Then He makes the Path easy for him;. Then He causes him to die, and puts him in his grave; Then, when it is His Will, He will resurrect him (again).(80:17-22)

 [/note]

The above verses describe the acts of God with humans. As they go through different stages from conception till resurrection. All humans would experience these stages except few, like Jesus son of Mary born with Immaculate Conception without male intervention and also there were stories in Quran on the resurrection of a person before the final day of Judgement, which actually indicate the omnipotence of Almighty Allah. An exception is not a rule rather it’s a miracle.  Therefore in the above verses it is described that every person would get an abode by Allah commonly called grave. All humans would experiences these stages and hence also received a Qabr!

 

Those who believe in torment in this earthly grave say that Qabr or grave is made in the earth for the body as Allah commanded his Prophet peace be upon him  in surah Taubah, that he should not stand at the grave of Abdullah bin Ubai for funeral prayer.

 

[note color=”#BEF781″]

And never (O Muhammad ) pray (funeral prayer) for any of them (hypocrites) who dies, nor stand at his grave. Certainly they disbelieved in Allah and His Messenger, and died while they were Fasiqun (rebellious, – disobedient to Allah and His Messenger (9: 84)

[/note]

Obviously the dead would be placed in earth as instructed to us by Allah in surah al- Maidah (5:27-31). However this is not the place where the body would experience any pleasure or torture.  It is not necessary that the Azab al-Qabr must be executed in the very grave of person. The term Azab al-Qabr is used as it’s a normal human practice that the dead are buried.

 

Scholar Ibn-Aqeel said (Talbis- Iblis by Ibn-Jouzi pg 106):

فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار

So in fact  what had been  reported on the  bliss and agony of the deceased (one must) know that that  al-Idafa (of al-Qabr) refers to the bodies and the graves like an adjective (as if it is meant to be) said (that)  person in grave- (Actually )The soul  that was in this body is enjoying the bounty of  Heaven  (or ) tormented in  hell fire.

 

The statement of Ibn-Aqeel is self explanatory. The term Azab al-Qabr is used for the torment after the death till resurrection as a reference only. It is not necessary that torment must be executed in grave.

Quran informs us about the torment afflicted on the Pharaoh and his army  in surah Younis 90-92.

 

[note color=”#BEF781″]

وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آَمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آَمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (90) آَلْآَنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (91) فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آَيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آَيَاتِنَا لَغَافِلُونَ 92

And We took the Children of Israel across the sea, and Fir’aun (Pharaoh) with his hosts followed them in oppression and enmity, till when drowning overtook him, he said: “I believe that none has the right to be worshipped but  He, in Whom the Children of Israel believe, and I am one of the Muslims”. Now (you believe) while you refused to believe before and you were one of the evil-doers.  So this day We shall deliver your (dead) body (out from the sea) that you may be a sign to those who come after you! And verily, many among mankind are heedless of Our Ayat “

 [/note]

Further in surah Ghafir (45-46)  Allah said that:

[note color=”#BEF781″]

 

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ (45) النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (46

So Allah saved him from the evils that they plotted (against him), while an evil torment encompassed Fir’aun’s (Pharaoh) people. The Fire; they are exposed to it, morning and afternoon, and on the Day when the Hour will be established (it will be said to the angels): “Cause Fir’aun’s (Pharaoh) people to enter the severest torment!”

 [/note]

Also it is stated  for the drowned nation of Prophet Noah, that:

 

[note color=”#BEF781″]

مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا 25

Because of their sins they were drowned, then were made to enter the Fire, and they found none to help them instead of Allah.

[/note]

Both of these nations were drowned in water. None of them got the so-called grave as a final resting place instead we are informed that as soon as they were drowned the torment of Fire is started.  Naturally torment has not happened here in earth, so then where it is ensuing?

 

Normally the scholar who support believe the returning of soul in the earthly also present the above verses as  evidence of torment for dead before day of Judgement. We know that not every person gets  the grave as some bodies are burned on pyre, some are scavenged by birds and some are drowned in the  sea.  Then how come a person receive this torment (Azab al-Qabr) if he hasn’t got the earthly grave?

Further evidence that this torment does not happen in this earthly grave is reflected by the following narration.

Bukhari Juz 1, pg 165, chapter   – باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد   reported that:

[note color=”#CEECF5″]

18 – حدثنا مسدد قال حدثنا عبد الوارث عن أبي التياح عن أنس قال : قدم النبي صلى الله عليه و سلم المدينة فنزل أعلى المدينة في حي يقال لهم بنو عمرو بن عوف فأقام النبي صلى الله عليه و سلم فيهم أربع عشرة ليلة ثم أرسل إلى بني النجار فجاؤوا متقلدي السيوف كأني أنظر إلى النبي صلى الله عليه و سلم على راحلته وأبو بكر ردفه وملأ بني النجار حوله حتى ألقى بفناء أبي أيوب وكان يحب أن يصلي حيث أدركته الصلاة ويصلي في مرابض الغنم وأنه أمر ببناء المسجد فأرسل إلى ملأ من بني النجار فقال ( يا بني النجار ثامنوني بحائطكم هذا ) . قالو لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله فقال أنس فكان فيه ما أقول لكم قبور المشركين وفيه خرب وفيه نخل فأمر النبي صلى الله عليه و سلم بقبور المشركين فنشبت ثم بالخرب فسويت وبالنخل فقطع فصفوا النخل قبلة المسجد وجعلوا عضادتيه الحجارة وجعلوا ينقلون الصخر وهم يرتجزون والنبي صلى الله عليه و سلم معهم وهو يقول اللهم لا خير إلا خير الآخرة * فاغفر للأنصار والمهاجرة

Narrated Anas: When the Prophet arrived Medina he dismounted at ‘Awali-i-Medina amongst a tribe called Banu ‘Amr bin ‘Auf. He stayed there For fourteen nights. Then he sent for Bani An-Najjar and they came armed with their swords. As if I am looking (just now) as the Prophet was sitting over his Rahila (Mount) with Abu Bakr riding behind him and all Banu An-Najjar around him till he dismounted at the courtyard of Abu Aiyub’s house. The Prophet loved to pray wherever the time for the prayer was due even at sheep-folds. Later on he ordered that a mosque should be built and sent for some people of Banu-An-Najjar and said, “O Banu An-Najjar! Suggest to me the price of this (walled) piece of land of yours.” They replied, “No! By Allah! We do not demand its price except from Allah.” Anas added: There were graves of pagans in it and some of it was unleveled and there were some date-palm trees in it. The Prophet ordered that the graves of the pagans be dug out and the unleveled land be level led and the date-palm trees be cut down . (So all that was done). They aligned these cut date-palm trees towards the Qibla of the mosque (as a wall) and they also built two stone side-walls (of the mosque). His companions brought the stones while reciting some poetic verses. The Prophet was with them and he kept on saying, “There is no goodness except that of the Hereafter, O Allah! So please forgive the Ansars and the emigrants. “

[/note]

The graves of idolaters were destroyed, which indicate that there was no torment or punishment in those graves, otherwise Prophet would not have done so.

Quran informed us that there is Burzakh (barrier) between the soul and this world.

 

[note color=”#BEF781″]

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ 100

Until, when death comes to one of them (those who join partners with Allah), he says: “My Lord! Send me back,  “So that I may do good in that which I have left behind!” No! It is but a word that he speaks, and behind them is Barzakh (a barrier) until the Day when they will be resurrected.

[/note]

The conversation between the soul and Allah Almighty is reported in above verses. Where the soul would like to go back? The answer to this question is: Obviously back to Erath!

 

Scholars have coined the name Al-Burzakh to refer to the realm where the souls would remain from death till resurrection.  Ibn-Hajar Asqallani writes in his exegeses on Sahih Bukhari,  titled Fathul Bari  under the discussion on verse   قَوْله :  وَقَوْله تَعَالَى  وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْن    (juz 4, pg 443):

 

قَالَ الْقُرْطُبِيّ : الْجُمْهُور عَلَى أَنَّ هَذَا الْعَرْض يَكُون فِي الْبَرْزَخ ، وَهُوَ حُجَّة فِي تَثْبِيت عَذَاب الْقَبْر

Al-Qurtubi said: the Majority takes that it (tormet to Aal-Firoun) happen in al-Burzakh , and is the proof of  torment of the grave

 

In one hadith in Sahih Bukhari it is reported that Prophet Moses and Prophet Adam had an argument (Volume 8, Book 77, Number 611).

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Abu Huraira:  The Prophet said, “Adam and Moses argued with each other. Moses said to Adam. ‘O Adam! You are our father who disappointed us and turned us out of Paradise.’ Then Adam said to him, ‘O Moses! Allah favored you with His talk (talked to you directly) and He wrote (the Torah) for you with His Own Hand. Do you blame me for action which Allah had written in my fate forty years before my creation?’ So Adam confuted Moses, Adam confuted Moses,” the Prophet added, repeating the Statement three times.

[/note]

Question arises that  when and where this discussion happened? Ibn Hajar in Fathul Bari said that (juz 18/ pg 461)

أَوْ كَانَ ذَلِكَ بَعْد وَفَاة مُوسَى فَالْتَقَيَا فِي الْبَرْزَخ

.. or that could be after the death of Moses so they both met in al-Burzakh

 

Also Ibn- Jauzi proposed that (Fathul Bari juz 4,, pg 443)

وَذَكَرَ اِبْن الْجَوْزِيّ اِحْتِمَال اِلْتِقَائِهِمَا فِي الْبَرْزَخ

Ibn Al-jauzi said possible met both in al-Burzakh

 

Ibn- Qutabah said in Taweel Mukhtalif ul hadith juz 1 pg 43

قال أبو محمد: ونحن نقول: إنه إذا جاز في المعقول وصح في النظر وبالكتاب والخبر إن الله تعالى يبعث من في القبور بعد أن تكون الأجساد قد بليت والعظام قد رمت جاز أيضاً في المعقول وصح في النظر وبالكتاب والخبر إنهم يعذبون بعد الممات في البرزخ. فأما الكتاب فإن الله تعالى يقول: ” النار يعرضون عليها غدواً وعشياً ويوم تقوم الساعة أدخلوا آل فرعون اشد العذاب ” فهم يعرضون بعد مماتهم على النار غدواً وعشياً قبل يوم القيامة ويوم القيامة يدخلون أشد العذاب والله عز وجل يقول: ” ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتاً بل أحياء عند ربهم يرزقون فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم إلا خوف عليهم ولا هم يحزنون ” وهذا شيء خص الله تعالى به شهداء بدر رحمة الله عليهم

Abu Muhammad said: we say: that in  reasonable and true look and (we know from) book and news that God  (will) resurrect people in the graves after the flesh has worn off and the bones disintegrated and (we also know from) reasonable consideration in the book and the news that they were tortured after their death in Burzakh. And in book Allah Almighty said The Fire; they are exposed to it, morning and afternoon, and on the Day when the Hour will be established (it will be said to the angels): “Cause Fir’aun’s (Pharaoh) people to enter the severest torment and He said Think not of those who are killed in the Way of Allah as dead. Nay, they are alive, with their Lord, and they have provision. They rejoice in what Allah has bestowed upon them of His Bounty, rejoicing for the sake of those who have not yet joined them, but are left behind (not yet martyred) that on them no fear shall come, nor shall they grieve. And this  is something that Allah has singled out for martyrs of Badr may Allah mercy on them

These evidences clearly show that scholars had considered the Burzakh as a realm where torment could be afflicted and Prophets could talk each other.

 

Some scholar now claim that Burzakh is a figment of imagination. However they fail to  understand that its only a term referring to the realm where soul would remain till resurrection. According to them the words رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ indicate that the dead person would like to come back to earth and can do good deeds only in world and not in grave, therefore,  these verses have nothing against the returning of the soul to dead.

 

However the same group of scholars who believe in returning of soul to the grave claim that a pious person may recite Quran in grave and may  still does good deeds. They claim (on the basis on non-authentic ahadith) that after burial soul comes back to dead body and it says to  angels,  let me say my prayers. Is it not the case that Prophet instructed his Ummah (Bukhari Volume 1, Book 8, Number 424) :

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا مسدد قال حدثنا يحيى عن عبيد الله قال أخبرني نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال  :  اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا 

Narrated Ibn ‘Umar: The Prophet had said, “Offer some of your prayers (Nawafil) at home, and do not take your houses as graves.”

[/note]

The Prophet informed his Ummah that there are no prayers in grave.

A question naturally arises that how the torment is afflicted if it does not happen in grave? There are several evidences that the soul is transferred to another body which experience all these afflictions.

 

 

Evidence 1: Souls with cheeks and head?

It is reported in Bukhari  باب ما قيل في أولاد المشركين: juz 1/pg 465

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا موسى بن إسماعيل حدثنا جرير بن حازم حدثنا أبو رجاء عن سمرة بن جندب قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا صلى صلاة اقبل علينا بوجهه فقال ( من رأى منكم الليلة رؤيا ) . قال فإن رأى أحد قصها فيقول ( ما شاء الله ) . فسألنا يوما فقال ( هل رأى أحد منكم رؤيا ) . قلنا لا قال ( لكني رأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي فأخرجاني إلى الأرض المقدسة فإذا ردل جالس ورجل قائم بيده كلوب من حديد ) قال بعض أصحابنا عن موسى  إنه يدخل ذلك الكوب في شدقه حتى يبلغ قفاه ثم يفعل بشدقه الآخر مثل ذلك ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله . قلت ما هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على رجل مضطجع على قفاه ورجل قائم على رأسه بفهر أو صخرة فيشدخ بها رأسه فإذا ضربه تدهده الحجر فانطلق إليه ليأخذه فلا يرجع إلى هذا حتى يلتئم رأسه وعاد رأسه كما هو فعاد إليه فضربه قلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا إلى ثقب مثل التنور أعلاه ضيق وأسفله واسع يتوقد تحته نارا فإذا اقترب ارتفعوا حتى كادوا أن يخرجوا فإذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراة فقلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم فيه رجل قائم وعلى وسط النهر – قال يزيد ووهب ابن جرير عن جرير بن حازم – وعلى شط النهر رجل بين يديه حجارة فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه فرده حيث كان فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر فيرجع كما كان فقلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى انتهيا إلى روضة خضراء فيها شجرة عظيمة وفي أصلها شيخ وصبيان وإذا رجل قريب من الشجرة بين يديه نار يوقدها فصعدا بي في الشجرة وأدخلاني دارا لم أر قط أحسن منها فيها رجال شيوخ وشباب ونساء وصبيان ثم أخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دارا هي أحسن وأفضل فيها شيوخ وشباب قلت طوفتماني الليلة فأخبراني عما رأيت . قالا نعم أما الذي رايته يشق شدقه فكذاب يحدث بالكذبة فتحمل عنه حتى تبلغ الآفاق فيصنع به إلى يوم القيامة والذي رأيته يشدخ رأسه فرجل علمه الله القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل فيه بالنهار يفعل به إلى يوم القيامة والذي رأيته في الثقب فهم الزناة والذي رأيته في النهر آكلوا الربا والشيخ في أصل الشجرة إبراهيم عليه السلام والصبيان حوله فأولاد الناس والذي يوقد النار مالك خازن النار والدار الأولى التي دخلت دار عامة المؤمنين وأما هذه الدار فدار الشهداء وأنا جبريل وهذا مكيائيل فارفع رأسك فرفعت رأسي فإذا فوقي مثل السحاب قالا ذاك منزلك قلت دعاني أدخل منزلي قالا إنه بقي لك عمر لم تستكمله فلو استكملت أتيت منزلك 

 

Narrated Samura bin Jundab:

Whenever the Prophet finished the (morning) prayer, he would face us and ask, “Who amongst you had a dream last night?” So if anyone had seen a dream he would narrate it. The Prophet would say: “Ma sha’a-llah” (An Arabic maxim meaning literally, ‘What Allah wished,’ and it indicates a good omen.) One day, he asked us whether anyone of us had seen a dream. We replied in the negative. The Prophet said, “But I had seen (a dream) last night that two men came to me, caught hold of my hands, and took me to the Sacred Land. There, I saw a person sitting and another standing with an iron hook in his hand pushing it inside the mouth of the former till it reached the jaw-bone, and then tore off one side of his cheek, and then did the same with the other side; in the mean-time the first side of his cheek became normal again and then he repeated the same operation again. I said, ‘What is this?’ They told me to proceed on and we went on till we came to a man Lying flat on his back, and another man standing at his head carrying a stone or a piece of rock, and crushing the head of the Lying man, with that stone. Whenever he struck him, the stone rolled away. The man went to pick it up and by the time he returned to him, the crushed head had returned to its normal state and the man came back and struck him again (and so on). I said, ‘Who is this?’ They told me to proceed on; so we proceeded on and passed by a hole like an oven; with a narrow top and wide bottom, and the fire was kindling underneath that hole. Whenever the fire-flame went up, the people were lifted up to such an extent that they about to get out of it, and whenever the fire got quieter, the people went down into it, and there were naked men and women in it. I said, ‘Who is this?’ They told me to proceed on. So we proceeded on till we reached a river of blood and a man was in it, and another man was standing at its bank with stones in front of him, facing the man standing in the river. Whenever the man in the river wanted to come out, the other one threw a stone in his mouth and caused him to retreat to his original position; and so whenever he wanted to come out the other would throw a stone in his mouth, and he would retreat to his original position. I asked, ‘What is this?’ They told me to proceed on and we did so till we reached a well-flourished green garden having a huge tree and near its root was sitting an old man with some children. (I saw) Another man near the tree with fire in front of him and he was kindling it up. Then they (i.e. my two companions) made me climb up the tree and made me enter a house, better than which I have ever seen. In it were some old men and young men, women and children. Then they took me out of this house and made me climb up the tree and made me enter another house that was better and superior (to the first) containing old and young people. I said to them (i.e. my two companions), ‘You have made me ramble all the night. Tell me all about that I have seen.’ They said, ‘Yes. As for the one whose cheek you saw being torn away, he was a liar and he used to tell lies, and the people would report those lies on his authority till they spread all over the world. So, he will be punished like that till the Day of Resurrection. The one whose head you saw being crushed is the one whom Allah had given the knowledge of Quran  but he used to sleep at night and did not use to act upon it  by day; and so this punishment will go on till the Day of Resurrection. And those you saw in the hole (like oven) were adulterers. And those you saw in the river of blood were those dealing in Riba (usury). And the old man who was sitting at the base of the tree was Abraham and the little children around him were the offspring of the people. And the one who was kindling the fire was Malik, the gate-keeper of the Hell-fire. And the first house in which you have gone was the house of the common believers, and the second house was of the martyrs. I am Gabriel and this is Michael. Raise your head.’ I raised my head and saw a thing like a cloud over me. They said, ‘That is your place.’ I said, ‘Let me enter my place.’ They said, ‘You still have some life which you have not yet completed, and when you complete (that remaining portion of your life) you will then enter your place.’ “

[/note]

This hadith explicitly  indicate that there is torment both collectively (like for adulterers) and individually (like for the Quran scholar and the liar) and the words يفعل به إلى يوم القيامة indicate that it would happen till day of resurrection.  Those who believe that the torment would happen only in grave claim that it’s a dream of Prophet and it needs interpretation which is not reported. Unfortunately they do not see the fallacy of their  claim as we are informed that Prophet has described  the dream in palpable manner and this particular dream was not metaphoric in nature.  In hadith literature we come across two kinds of prophetic dreams. One kind of dreams are metaphoric and for that in the same hadith we can find the interpretation. In another kinds of dreams the message is clear and no interpretation is demanded by the companions of Prophet. There were dreams of Prophet which were metaphoric and the dream was  different from prophetic interpretation and reality. In fact there were dreams  of Prophet which were clear and vivid and there are many examples of these kind of dreams in ahadith. For example Prophet saw in his dream that in Lailatul-Qadr, he would be prostrating in muddy waters and that happened exactly as it is. Similarly Prophet saw a dream in which he saw himself doing circumambulations the Kabbah. Prophet took it a direct revelation and set out for Umrah but pagans prevented him to enter Makkah, later Allah revealed that (in surah al-Fatah):

[note color=”#BEF781″]

لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آَمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا (27)

Indeed Allah shall fulfil the true vision which He showed to His Messenger  [i.e. the Prophet  saw a dream that he has entered Makkah along with his companions, having their (head) hair shaved and cut short] in very truth. Certainly, you shall enter Al-Masjid-al-Haram; if Allah wills, secure, (some) having your heads shaved, and (some) having your head hair cut short, having no fear. He knew what you knew not, and He granted besides that a near victory.

 [/note]

The present narration also reports the same kind of dream and that is why no interpretation is asked by the companions of Prophet. What is indicated in this hadith is that the new bodies are given to souls for the affliction of torment.

Ibn Hajar said in explanation of this narration (Fath ul Bari juz 20, pg 52)

. وَفِيهِ أَنَّ بَعْض الْعُصَاة يُعَذَّبُونَ فِي الْبَرْزَخ

And the narration has showed that some sinners will be punished in the Burzakh

 

Evidence 2: Intestines of soul?

 

Imam Bukhari reported in Sahih 11 – باب إذا انفلتت الدابة في الصلاة juz 1, pg 406:

[note color=”#CEECF5″]

1154 – حدثنا محمد بن مقاتل أخبرنا عبد الله أخبرنا يونس عن الزهري عن عروة قال : قالت عائشة خسفت الشمس فقام النبي صلى الله عليه و سلم فقرأ سورة طويلة ثم ركع فأطال ثم رفع رأسه ثم استفتح بسورة أخرى ثم ركع حين قضاها وسجد ثم فعل ذلك في الثانية ثم قال ( إنهما آيتان من آيات الله فإذا رأيتم ذلم فصلوا حتى يفرج عنكم لقد رأيت في مقامي هذا كل شيء وعدته حتى لقد رأيت أريد أن آخذ قطفا من الجنة حين رأيتموني جعلت أتقدم ولقد رأيت جهنم يحطم بعضها بعضا حين رأيتموني تأخرت ورأيت فيها عمرو بن لحي وهو الذي سيب السوائب )

Narrated ‘Aisha:

Once the sun eclipsed and Allah’s Apostle stood up for the prayer and recited a very long Sura and when bowed for a long while and then raised his head and started reciting another Sura. Then he bowed, and after finishing, he prostrated and did the same in the second Raka and then said, “These (lunar and solar eclipses) are two of the signs of Allah and if you see them, pray till the eclipse is over. No doubt, while standing at this place I saw everything promised to me by Allah and I saw (Paradise) and I wanted to pluck a bunch (of grapes) there from, at the time when you saw me stepping forward. No doubt, I saw Hell with its different parts destroying each other when you saw me retreating and in it I saw ‘Amr bin Luhai who started the tradition of freeing animals (set them free) in the name of idols.”

[/note]

Also reported by Bukhari in  باب  ما جعل الله من بحيرة ولا سائبة ولا وصيلة ولا حام  juz 4, pg 1691

[note color=”#CEECF5″]

4348 – حدثني محمد بن أبي يعقوب أبو عبد الله الكرماني حدثنا حسان ابن إبراهيم حدثنا يونس عن الزهري عن عروة أن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم  رأيت جهنم يحطم بعضها بعضا ورأيت عمرا يجر قصبه وهو أول من سيب السوائب 

Narrated Aisha:  Allah’s Apostle said, “I saw Hell and its different portions were consuming each other and saw ‘Amr dragging his intestines (in it), and he was the first person to establish the tradition of letting animals loose (for the idols).”

[/note]

In this report clearly a sign of new body are present. Amr bin Luhai is dragging his intestines in Hell. The soul does not have intestines. It’s a sign of a body.

 

Evidence 3: Bird’s flight or soul’s flight?

 

It is reported in Sahih Muslim  chapter باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة وأنهم أحياء عند ربهم يرزقون juz 3, pg 1502

 

[note color=”#CEECF5″]

 ( 1887 ) حدثنا يحيى بن يحيى وأبو بكر بن أبي شيبة كلاهما عن أبي معاوية ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير وعيسى بن يونس جميعا عن الأعمش ح وحدثنا محمد بن عبدالله بن نمير ( واللفظ له ) حدثنا أسباط وأبو معاوية قالا حدثنا الأعمش عن عبدالله بن مرة عن مسروق قال سألنا عبدالله ( هو ابن مسعود ) عن هذه الآية { ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون } [ 3 / آل عمران / 169 ] قال أما إنا سألنا عن ذلك فقال  أرواحهم في جوف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تأوي إلى تلك القناديل فاطلع إليهم ربهم اطلاعة فقال هل تشتهون شيئا ؟ قالوا أي شيء نشتهي ؟ ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا ففعل ذلك بهم ثلاث مرات فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا قالوا يا رب نريد أن ترد أرواحنا في أجسادنا حتى نقتل في سبيلك مرة أخرى فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا 

Masrooq said: We asked Abdullah (ibn Masood) about the verse Think not of those who are killed in the Way of Allah as dead. Nay, they are alive, with their Lord, and they have provision. He said  Indeed we asked Prophet about this he said: Souls are in Green bird, they have chandeliers hanging to the Holy Throne. They go in Paradise where they wants and then return  to the chandeliers,  Their Lord asked them and  said: Do ye desire anything? They replied (O Lord) anything we need! we go out in paradise where we want. Their Lord asked them same  three times.  When they  saw that Lord  would not leave asking them,  they said, O Lord, we want that our souls be returned  into our bodies until we kill for the Way (of Allah) again. When He (Allah) saw that they need nothing, He stopped asking them.

[/note]

It is reported in Bukhari باب مناقب جعفر بن أبي طالب الهاشمي رضي الله عنه juz 3, pg 1360

[note color=”#CEECF5″]

حدثني عمرو بن علي حدثنا يزيد بن هارون أخبرنا إسماعيل ابن أبي خالد عن الشعبي  : أن ابن عمر رضي الله عنهما كان إذا سلم على ابن جعفر قال السلام عليك يا ابن ذي الجناحين

 Narrated Ash-Sha’bi: Whenever Ibn ‘Umar greeted Ibn Jafar, he used to say: “As-salamu-‘Alaika (i.e. Peace be on you) O son of Dhul-Janahain (son of the two-winged person).”

[/note]

The martyrs got new bodies which can fly. Scholars which do not believe in the new bodies say that green birds for the martyrs are like aeroplanes. Their souls sit into these flying creatures. However the wordابن ذي الجناحين  clearly contradict these assumptions. The wings are given to  companion Jafar and that is why he is called the two-winged one.  Jafar was martyred in war of Mauta which occurred in 8 AH.

 

Evidence 4: Milk sucking soul?

 

It is reported in Bukhari باب ما قيل في أولاد المسلمين   juz 1  pg 465

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أبو الوليد حدثما شعبة عن عدي بن ثابت  : أنه سمع البراء رضي الله عنه قال لما توفي إبراهيم عليه السلام قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( إن له مرضعا في الجنة )                        

 Narrated Al-Bara: When Ibrahim (the son of the Prophet) died, Allah’s Apostle said, “There is a wet nurse for him in Paradise

 [/note]

Further Prophet informed that his son Ibrahim goes to heaven where he has a body which could enjoy milk! Does the soul need milk?

 

Evidence 5 : Azab al-Qabr even before burial?

It is reported in Sahih Bukhari  Volume 2, Book 23, Number 376   that:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله بن يوسف أخبرنا مالك عن عبد الله بن أبي بكر عن أبيه عن عمرة بنت عبد الرحمن أنها أخبرته  : أنها سمعت عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه و سلم قالت إنما مر رسول الله صلى الله عليه و سلم على يهودية يبكي عليها أهلها فقال  إنهم يبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها         

 

Narrated ‘Aisha:  (the wife of the Prophet) Once Allah’s Apostle passed by a Jewess whose relatives were weeping over her. He said, “They are weeping over her and she is being tortured in her grave.”

[/note]

In Sahih  Muslim juz 2, pg 643, chapter  باب الميت يعذب ببكاء أهله عليه  it is reported that:

[note color=”#CEECF5″]

وحدثنا قتيبة بن سعيد عن مالك بن أنس فيما قرئ عليه عن عبدالله بن أبي بكر عن أبيه عن عمرة بنت عبدالرحمن أنها أخبرته أنها سمعت عائشة وذكر لها أن عبدالله بن عمر يقول  : إن الميت ليعذب ببكاء الحي فقالت عائشة يغفر الله لأبي عبدالرحمن أما أنه لم يكذب ولكنه نسى أو أخطأ إنما مر رسول الله صلى الله عليه و سلم على يهودية يبكى عليها فقال إنهم ليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها

 

Narrated ‘Aisha (the wife of the Prophet) when if is reported to her that Abdullah ibn Umer said Indeed dead would be tormented for the weeping of the living (relatives), so she said May Allah forgive Abi Abdur-Rehman (Abdullah ibn Umer) he is not a liar but did mistake or forgot actually  Allah’s Apostle once  passed by a Jewess whose relatives were weeping over her. He said, “They are weeping over her and she is being tortured in her grave.”

[/note]

Both of these narrations clearly indicate that the Jewess was not even buried but she was tormented due to weeping of her relatives. This indicate that the word Qabr in Prophet’s era actually refers to the abode in Burzakh.

The faction of scholars which believe in the returning of the soul to dead claim that  the narrators of  this  narration mistakenly dropped the word grave. Prophet had actually passed by the grave of a Jewess. To support their argument they present the narrations from  Musnad Ahmed juz 2, pg 38, Sunnan Nisai juz 1, pg 262, Sunann Abi Dawood juz 3, pg 163 etc. However they forget that they themselves claim that any thing narrated by the narrators of Sahiheen is authentic. Are they not digressing from their previous claim?

In fact this narration is heard by eight people with the  sanad (chain) of Hassham bin Urwa from Urwa from ‘Aisha with some variation of words.  The most trustworthy among these eight narrators is Hammad bin Zaid, a very famous Imam of Jarah and Tadeel. He reported that the Prophet passed by the Jannaza (funeral bier) of a  Jew!

Muslim juz 2 pg 642 chapter باب الميت يعذب ببكاء أهله عليه reported:

[note color=”#CEECF5″]

وحدثنا خلف بن هشام وأبو الربيع الزهراني جميعا عن حماد قال خلف حدثنا حماد بن زيد عن هشام بن عروة عن أبيه قال : ذكر عند عائشة قول ابن عمر الميت يعذب ببكاء أهله عليه فقالت رحم الله أبا عبدالرحمن سمع شيئا فلم يحفظه إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه و سلم جنازة يهودي وهم يبكون عليه فقال أنتم تبكون وإنه ليعذب

When Aisha was informed about the statement of  Ibn Umer that dead are tortured due to crying of relatives, she said O Allah ,  Send your mercy on  Abu Abdul Rahman, he heard  something which now he remembered not. In fact Messenger of Allah PBUH passed by  the  funeral  bier of a Jew and they were crying so he  said you weep for him and he is being  tortured.

[/note]

This another narration of Muslim shows that the Jew was not even buried. The issue is not whether the dead person was male or female, the issue is whether he or she was buried or  still on the surface.

The narration which is presented for the support of wide held belief that the torment actually occur in the earthly grave is attributed to Byra bin Azib, a  companion of Prophet peace be upon him. This  narration is reported in Musnad Ahmed, juz4 , pg, 287; Abi Dawood juz 13, pg 494;  Ibn Abi Shibah juz 3,pg 310, Hakim juz 1, pg 37 etc with some variations in text:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا أبو معاوية قال ثنا الأعمش عن منهال بن عمرو عن زاذان عن البراء بن عازب قال : خرجنا مع النبي صلى الله عليه و سلم في جنازة رجل من الأنصار فانتهينا إلى القبر ولما يلحد فجلس رسول الله صلى الله عليه و سلم وجلسنا حوله وكأن على رءوسنا الطير وفي يده عود ينكت في الأرض فرفع رأسه فقال استعيذوا بالله من عذاب القبر مرتين أو ثلاثا ثم قال ان العبد المؤمن إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه ملائكة من السماء بيض الوجوه كأن وجوههم الشمس معهم كفن من أكفان الجنة وحنوط من حنوط الجنة حتى يجلسوا منه مد البصر ثم يجئ ملك الموت عليه السلام حتى يجلس عند رأسه فيقول أيتها النفس الطيبة أخرجي إلى مغفرة من الله ورضوان قال فتخرج تسيل كما تسيل القطرة من في السقاء فيأخذها فإذا أخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى يأخذوها فيجعلوها في ذلك الكفن وفي ذلك الحنوط ويخرج منها كأطيب نفحة مسك وجدت على وجه الأرض قال فيصعدون بها فلا يمرون يعنى بها على ملأ من الملائكة الا قالوا ما هذا الروح الطيب فيقولون فلان بن فلان بأحسن أسمائه التي كانوا يسمونه بها في الدنيا حتى ينتهوا بها إلى السماء الدنيا فيستفتحون له فيفتح لهم فيشيعه من كل سماء مقربوها إلى السماء التي تليها حتى ينتهى به إلى السماء السابعة فيقول الله عز و جل اكتبوا كتاب عبدي في عليين وأعيدوه إلى الأرض فإني منها خلقتهم وفيها أعيدهم ومنها أخرجهم تارة أخرى قال فتعاد روحه في جسده فيأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول ربي الله فيقولان له ما دينك فيقول ديني الإسلام فيقولان له ما هذا الرجل الذي بعث فيكم فيقول هو رسول الله صلى الله عليه و سلم فيقولان له وما علمك فيقول قرأت كتاب الله فآمنت به وصدقت فينادى مناد في السماء ان صدق عبدي فافرشوه من الجنة وألبسوه من الجنة وافتحوا له بابا إلى الجنة قال فيأتيه من روحها وطيبها ويفسح له في قبره مد بصره قال ويأتيه رجل حسن الوجه حسن الثياب طيب الريح فيقول أبشر بالذي يسرك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول له من أنت فوجهك الوجه يجئ بالخير فيقول أنا عملك الصالح فيقول رب أقم الساعة حتى أرجع إلى أهلي وما لي قال وان العبد الكافر إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه من السماء ملائكة سود الوجوه معهم المسوح فيجلسون منه مد البصر ثم يجئ ملك الموت حتى يجلس عند رأسه فيقول أيتها النفس الخبيثة أخرجي إلى سخط من الله وغضب قال فتفرق في جسده فينتزعها كما ينتزع السفود من الصوف المبلول فيأخذها فإذا أخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى يجعلوها في تلك المسوح ويخرج منها كأنتن ريح جيفة وجدت على وجه الأرض فيصعدون بها فلا يمرون بها على ملأ من الملائكة الا قالوا ما هذا الروح الخبيث فيقولون فلان بن فلان بأقبح أسمائه التي كان يسمى بها في الدنيا حتى ينتهى به إلى السماء الدنيا فيستفتح له فلا يفتح له ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه و سلم { لا تفتح لهم أبواب السماء ولا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط } فيقول الله عز و جل اكتبوا كتابه في سجين في الأرض السفلى فتطرح روحه طرحا ثم قرأ { ومن يشرك بالله فكأنما خر من السماء فتخطفه الطير أو تهوي به الريح في مكان سحيق } فتعاد روحه في جسده ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان له ما دينك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان له ما هذا الرجل الذي بعث فيكم فيقول هاه هاه لا أدري فينادى مناد من السماء ان كذب فافرشوا له من النار وافتحوا له بابا إلى النار فيأتيه من حرها وسمومها ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه ويأتيه رجل قبيح الوجه قبيح الثياب منتن الريح فيقول أبشر بالذي يسوءك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول من أنت فوجهك الوجه يجئ بالشر فيقول أنا عملك الخبيث فيقول رب لا تقم الساعة

 

In some narrations there is an addition that

فيقيض له أصم أبكم معه مرزبة ولو ضرب بها فيل صار ترابا أو قال رميما فيضربه ضربة تسمعها الخلائق إلا الثقلين ثم تعاد فيه الروح فيضربه ضربة أخرى

 

Byra bin Azib reported that we went out with the Prophet, peace be upon him at the funeral of a man from Ansar so we arrived at the grave and it was not ready; Messenger of Allah peace be upon him sat and we sat around him as if birds are over our heads and in his hands was a twig   through which he was engraving on ground. He raised his head and said:  Ask forgiveness of Allah from the torment of the grave two or three times and then said that for the righteous  person at  the interruption of this world and the beginning of the Hereafter, came down the angels from heaven with bright faces as if their faces are sun. With them is a shroud of Paradise and shrouds of musk of musk of paradise, they sit until the range of sight.  Then arrive the Angel of Death, peace be upon him until sits at his (righteous person’s) head and says, O good soul come out towards the forgiveness of God and His happiness.  He said: It come out flowing like flowing drop from waterskin , he (angel) takes the souls  and it does not remain with him for an eye blink and the souls is taken from him by (other) angels. Then they  adorn the soul  with the heavenly attire and engulfed it into heavenly scent. A scent then erupts from the souls which smelled better than the Musk fragrances of the earth.

 Prophet said: The angels (carrying soul) ascend towards heaven. As they passes by the schools of angels (already in heaven), Angels inquired: Which pious soul is this? They are told that he is that son of that. They utter his (dead person) most worthy name through which he is called at earth. Angels take him to the heaven and request that the doors of heaven be opened for it and doors are opened. Afterwards the angels of presence of each sky would accompany this soul until they reach the seventh sky.

Allah says:  Inscribe the book of my slave in Illiyen and return him to the earth as by it,  I have created them  and to which I would return them and  brought them out at another time

 (Prophet) Said:  so the soul is returned in the body, and comes two angels to him which sat him. They also ask him:  Who is your Lord?  He says my Lord is Allah. They ask him:  What is your faith? He says: Islam is my faith. They ask: Who was the person sent among you? He says: He (Muhammad PBUH) is the prophet. They inquire: How do you come to know all about it? He says: I read the book of Allah, believed in it and attested it.  A voice then comes from the sky: My slave spoke truth so laid the floor of Heavens for him, adorned him in heavenly attire and open the door of heaven for him.

Said: The fragrance of heavens started reaching him and his grave is extended till the eye-sight.

(Prophet) Said: After that comes a handsome person, perfumed and beautifully dressed. He comes to the righteous person, with these bounties remain blissful, these are the tidings for you, this is the day promised to you. Righteous person inquires Who are you?  Your face is like blessings achieved.  He says: I am your good deed. Then the righteous person prayed that O Lord establish the day of Judgement, so that I may return to my family.

Prophet said: When the infidel leave this world and about to enter in hereafter, come the angels  from heavens with black faces with jute rug. They sat with the distance till reaches eye slight. After that comes the angel of Death which sit close to his head and says O evil soul come out towards the wrath of God  and His anger. Said: The soul then spreads inside the body, Angel of death then dragged it out like iron spike is taken out from the  wool. As soon as angel of death took hold of the soul, come other angels and with in an eye blink took it from his hands and fold it into jute rug.  From it (souls) erupts the most vicious of smells.

Angels take it and ascend upwards, as they passes by schools of angels, they inquire: Which evil soul is this?  Angels call the worst name of it, through which he was famous at the earth. Until they reach the first sky and asked for the door to be opened but it is not allowed. Prophet then recited this verse: The doors of sky would not be opened for them until the camel goes through the passage of needle.

 

Then Allah orders: Inscribe his name in Sijjeen, which is the under-world.

 

Then the soul is thrown down and Prophet recited verse whoever assigns partners to Allah, it is as if he had fallen from the sky, and the birds had snatched him, or the wind had thrown him to a far off place… Then his soul is returned to body and arrive two angels which sat him and ask: Who is your Lord? He says alas I know it not. They ask: What is your faith? He says: Alas I know it not. They ask: Who was the person sent among you? He says: Alas I have no knowledge.

Then resound a voice from heaven He lied so laid the blanket of fire – open a door of Hell. So come to him the heat of hell fire and its stench. The grave is so squeezed that his ribs engraved into one another. Then comes a man with hideous face and squalidly dressed with stench erupting from him. He comes and said I want to give you the tidings of things which would make you sad. This the day- promised to you!  Infidel inquired: Who are you, with such a hideous face full of evilness? He says:  I am your evil deeds. On that he cried:  O Lord Let not the Time (day of judgement) come!

 

(additional part in some books)

.. Then appointed on him a deaf or  mute with mace , that if he would strike the Elephant it would  became mud or said dust,  the strikes  a blow  which is  heard by all the  creatures except Humans & Jinns and  then returned the soul (again to body)  it strikes another blow.

[/note]

Endorsement of this narration by Al-Hakim (died 405 A.H.): Al-Hakim Al-Nishabori committed a mistake in endorsing this narration in his compilation Mustadrak Al-Hakim. Mustaddrak Al-Hakim is replete with such mistakes and scholars over the ages have indicated these mistakes.  Al-Hakim was a prolific author and has written many books. Mustaddark is a book which according to Al-Hakim contains narrations which both Imam Bukhari and Imam Muslims have not included in their Sahih or Jamah. Al-Hakim assuming that he understood the rules of selection of Sahih narrations by Bukhari and Muslim, complied the Mustadrak. At several places he has written “on the conditions of both (Bukhari & Muslim) but they have not reported it” i.e. the said narration is fulfilling the conditions of Bukhari and Muslims but they have not included those in Sahiheen.

 

Such endorsements of Hakim are criticized by major scholars over the years see Nasb-ur-Raya by Zalai, Tazkira tul-Huffaz by Dahabi, Meezan Al-Ateedal by Dahabi, Lisan al-Meezan by Ibn-Hajar etc.

 

Al-Hakim said for the narration of Byra bin azib from Zazzan that (Mustadrak , juz 1, pg 51):

 

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين فقد احتجا جميعا بالمنهال بن عمرو و زاذان أبي عمر الكندي و في هذا الحديث فوائد كثيرة لأهل السنة و قمع للمبتدعة و لم يخرجاه بطوله

 

This narration is sahih on the conditions of both Sheiks (i.e. Bukhari & Muslim) as both have taken narrations from Minhal bin Amr and Zazzan Abi Umer Al-Kindi and it has many benefits  for Ahl-Sunnah and suppression for heretics but have not included it due to its length

 

Endorsement of this narration by  Al- Dahabi (died 748 A.H.): Dahabi has written in his noting over Mustadrak  (see juz 1, pg 51) that:

 

تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرطهما فقد احتجا بالمنهال

Noting of Dahabi in Talkhees: As per their standards and they both (Bukhari & Muslim) have taken narrations from Minhal

 

This is a mistake from Dahabi, as Muslim has not taken any narration from Minhal bin Amr. So the statement of Dahabi is incorrect.

 

Dahabi has written Seer-Allam Al-Nabla and Tarikh Islam after the compilation of his noting on Mustadrak. As he indicated that elsewhere.

 

Dahabi writes in Tarikh al-Islam Juz 1,  2942

. وفي بعض ذلك موضوعات قد أعلمت بها لما اختصرت هذا ” المستدرك ” ونبهت على ذلك

And for these issues I have informed in my synopsis of this Mustadark and alerted (the reader)

 In Seer Allam, Juz 17, pg 175 he writes:

وبكل حال فهو كتاب مفيد قد اختصرته،

And in all respect that book (Mustadrak) is a useful book I have shortened it and …

 

Thus it is clear from these excerpts that Talkhis over Mustadrak was compiled before the thorough work of Seer Allam and Tahrikh al-Islam

 

Therefore the endorsement of Dahabi for the Minhal narration as quoted above could not be taken seriously. In this later work he himself refuted this narration, as mentioned earlier from the references of Seer-Allam and Tahrikh Islam.

 

Dahabi said in Seer Aallam ( juz 5, pg 184 ) compiled after his noting on Mustadrak:

قلت: حديثه في شأن القبر بطوله فيه نكارة وغرابة، يرويه عن زاذان عن البراء

I say: his lengthy narration regarding grave has Nikkarat (against established hadith) and Gharabat (uniquness), which he narrates from Zazzan from Byra

Dahabi has refuted this narration in his later work and in a way cleared his position.

Endorsement of this narration by Al-Baihaqui (died 458 AH): Al- Baihaqui had compiled  a book on the narrations of Azab-al-Qabr. As such the book is compiled against the Mu’tazilah. Mu’tazilah was the speculative theology that flourished in Basra and Baghdad. Mu’tazilah theological school is traced back to Wāṣil ibn ʿAṭāʾ (699–749) who was the student of al-Ḥasan al-Baṣri.  Mu’tazilah were the stalwart opposer of the idea that there would be any torment in grave. It was the kind of aberrant  school indulged in philosophical details of Islamic thought and believe. They were the fore-runners of the so-called created-Quran (Khalq-al-Quran) dogma in era of Abbāsid caliph al-Maʾmūn.

 

Baihaqui has compiled a book titled إثبات عذاب القبر in which he has included 240 narrations about the torment in grave.  Baihaqui has not given any of his opinions on the narration weaknesses as he did for his book on issue of  recitation of Fatiah behind the Imam. Baihaqui said in this book:

 

قال عمرو في حديثه عن منهال عن زاذان عن البراء عن النبي صلى الله عليه وسلم فيقيض له أصم أبكم معه مرزبة ولو ضرب بها فيل صار ترابا أو قال رميما فيضربه ضربة تسمعها الخلائق إلا الثقلين ثم تعاد فيه الروح فيضربه ضربة أخرى هذا حديث كبير صحيح الإسناد رواه جماعة من الأئمة الثقات عن الأعمش وأخرجه أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني في كتاب السنن

Amr said in narration:  from Minhal from Zazzan from Byra from Prophet then appointed on him a deaf or  mute with mace , that if he would strike the Elephant it would  became mud or said dust,  the strikes  a blow  which is  heard by all the  creatures except Humans & Jinns and  then returned the soul (again to body)  it strikes another blow.

This is a well known hadith with sahih chain of narrators and narrated by a group of authentic scholars from Al-Amash and it is reported by Abu Dawood Sulemain bin Al-Ashas Al-Sijistani in his Kitab on Sunnan.

 

Baihaqui thus supported this narration.

Narration of Byra bin Azib is against Quran:

It would be necessary to analyse what is stated in narration instead of accepting it on its face value.

Confusion over Illiyen & Sijjen:

It is stated in narration that God commanded that:

 

Inscribe the book of my slave in Illiyen and return him to the earth  …Inscribe his name in Sijjeen, which is the under-world.

 

Sijjin as an under-world has no basis in Quran and Sahih Ahadith.  God Almighty  informed us in his glorious book that Sijjin is a register not a place.

[note color=”#BEF781″]

كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ (7) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَرْقُومٌ 

Nay! Truly, the Record (writing of the deeds) of the Fujjar (disbelievers, sinners, evil-doers and wicked) is (preserved) in Sijjin. And what will make you know what Sijjin is? A Register inscribed.

[/note]

Likewise Illiyen is the record of righteous people.

[note color=”#BEF781″]

كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ (18) وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (20) يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ 

Nay! Verily, the Record (writing of the deeds) of Al-Abrar (the pious who fear Allah and avoid evil), is (preserved) in ‘Illiyyun. And what will make you know what ‘Illiyyun is? A Register inscribed. To which bear witness those nearest (to Allah, i.e. the angels).

 [/note]

Unfortunately the group of scholars who claim that Zazzan narration from Byra bin Azib’snarration is authentic also sometimes claim that it is the name of place!

 

Doors of sky would not be opened for Infidels

It is claimed in narration that when the angels ascend with soul of evil-doer then:

 

Until they reach the first sky and asked for the door to be opened but it is not allowed. Prophet then recited this verse: The doors of sky would not be opened for them until the camel goes through the passage of needle.

 

If this is the rule that door of sky would not be opened for a soul then why the same group of scholars (which believe in the returning of soul to dead body)  claim that the soul after questioning in grave goes back to Hell!  Does it mean that camel has crossed the passage of the needle? Actually there is a contradiction between their believe and what narrators are portraying. Narrators (Minhal bin Amr and Zazzan) would like to stress that souls after death remain in earth irrespective of whether the person is righteous or infidel.

 

Complications due to Additional text:

 

What these narrators are purporting is that the soul return to body does not happens only one times, rather it is an on going process. As reported in the Idafa:

 

.. Then appointed on him a deaf or  mute with mace , that if he would strike the Elephant it would  became mud or said dust,  the strikes  a blow  which is  heard by all the  creatures except Humans & Jinns and  then returned the soul (again to body)  it strikes another blow.

 

Since this (Idafa) addition is against the widespread belief that soul would be returned to the body in grave only once. It was necessary to refute it some how. Therefore the newly emerged so-called Salafi followers claim that this addition (Idafa) is not authentic. However  their predecessors like Ibn-Tammiah quoted this addition twice in his Fatawah. Ibn-Qayyam quoted this addition in Kitab-ur-Ruh and the recent era scholar Nasiruddin Al-Bani declared this Idafa authentic.

 

 

Recently a group called Ahl-Hadith in Pakistan has refuted this Idafa claiming that it is not valid (see Al-Musnad fi Azab al-Qabr by Muhammad Arshad Kamal pg 152). However Mr. Arshad Kamal has blatantly used the endorsement of Baihaqui, Ibn-Qayyam, Al-Bani etc. (see Al-Musnad fi Azab al-Qabr by Muhammad Arshad Kamal pg 150-151) and hid the fact that these scholars consider this addition also authentic.

 

This Idafa is declared authentic  by many scholars like

S. # Scholar Book Juz/ Volume page
1 Al-Baihaqui Isbat Azab Al-Qabr 1 39
2 Ibn- Tammiah Majmu’a Fatawah 4 289
3 Ibn-Qayyam Kitab ar-Ruh 1 48
4 Ibn- Tammiah Mjumu’a Fatawah 1 349
5 Nasiruddin Al-Bani Sahih Targheeb wal- Tarheeb 3 219
6 Nasiruddin Al-Bani Ehkam ul- Janaiz 1 159
7 Nasiruddin al-Bani Mishtaak Al-Masabih 1 28

 

 

Imam Al-Dolabi has informed us in his work titled Al-Kuna-wal-Asma  (juz 4- pg 404) that the Zazzan was among the Shiites.

أخبرني محمد بن إبراهيم بن هاشم ، عن أبيه ، عن محمد بن عمر قال : « زاذان أبو عمر الفارسي مولى لكندة ، أدرك عمر ، وكان من أصحاب عبد الله ، وكان من شيعة علي ، هلك في سلطان عبد الملك

Muhammad bin Umer (Al-Waqidi) said that Zazzan Abu Umer Al-Farisi Maula Kindah found (the era of) Umer and was among the people of Abdullah (ibn Masood) and was from Shiites of Ali, died in the regime of Sultan Abdul-Malik

 

The statement of Al-Waqidi  is a historical record. Further,  Ibn- Hajar said in Taqreeb al-Tahzeeb (juz 1, pg 307)

زاذان أبو عمر الكندي البزاز ويكنى أبا عبد الله أيضا صدوق يرسل وفيه شيعية من الثانية مات سنة اثنتين وثمانين

Zazzan Abu Umer al-Kindi Al-Bazzaz and nicknamed Aba Abdullah also is Sudooq some times commit Irsal and has Shiite inclination died in year eighty two.

 

Ibn-Hajar and Dolabi both informed about the Shiite connection of Zazzan. The group of scholar which support the believe of returning of the soul into dead claim that Ibn-Hajar was influenced by Al- Waqidi. However there are evidences which support the inclination of Zazzan towards Shia’ism. Further it would be interesting to know that Ibn-Hajar has quoted Muhammad bin Umer Al-Waqidi  more than 200 times in Tahzeeb al-Tahzeeb only. This basically reflects the acceptance of Waqidi in keeping the record of history.

 

Now here the narrations reported by Zazzan which reflect his Shitte tendencies:

 

1.  It is reported  in  Fazail Sahabah compiled by Imam Ahmed (juz 2 pg 472) that:

حدثنا عبد الله ، قثنا أبي ، قثنا ابن نمير ، نا عبد الملك ، عن أبي عبد الرحيم الكندي ، عن زاذان أبي عمر قال : سمعت عليا في الرحبة  وهو ينشد الناس : من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم وهو يقول ما قال ؟ فقام ثلاثة عشر رجلا فشهدوا أنهم سمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول : « من كنت مولاه فعلي مولاه ، اللهم وال من والاه ، وعاد من عاداه »

Zazzan said: I heard Ali  in Al-Rahbah and he was preaching: Who saw the Messenger of Allah peace be upon him on the Ghadeer Khum?  He said what he said? Stood thirteen men and bear witness that  they heard the Messenger of Allah, peace be upon him, he said: «If I  am the friend of someone Ali is his friend O  Allah,  take as friend one who take him as friend and take as enemy one who takes him as enemy»

 

2. Also reported in Fazail Sahabah by Imam Ahmed (juz 3 pg 3) that:

حدثنا عبد الله قال : وجدت في كتاب أبي بخط يده وأظنني قد سمعته منه ، نا وكيع ، عن شريك ، عن عثمان أبي اليقظان ، عن زاذان ، عن علي قال : مثلي في هذه الأمة كمثل عيسى ابن مريم ، أحبته طائفة  وأفرطت في حبه فهلكت ، وأبغضته  طائفة ، وأفرطت في بغضه فهلكت ، وأحبته طائفة فاقتصدت في حبه فنجت

Zazzan narrated from Ali that he (Ali) said: I am in this nation, like a  Jesus, son of Mary, A part of it  loved him ,and deviated in excessive  love and angered a party and exhibited excess in abhorrence (against me) ..

 3.  It is reported in Hadith Abi Fazl Azzuhri ( juz 1 pg 107) that:

أخبركم أبو الفضل الزهري ، نا إبراهيم ، نا صالح بن مالك ، نا أبو الصباح عبد الغفور ، نا أبو هاشم الرماني ، عن زاذان ، قال : حدثتنا عائشة أم المؤمنين ، قالت : أهدت إلي امرأة مسكينة هدية ، فلم أقبلها منها رحمة لها ، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : « ألا قبلتيها منها وكافأتيها فلا ترى أنك حقرتيها ، تواضعي يا عائشة ، فإن الله يحب المتواضعين ، ويبغض المتكبرين »

Zazzan narrated  that Aisha ( Mother of Believers) narrated to them; She said: A poor woman has donated a gift; I had not accepted it as a token of mercy, I informed this to the Messenger of Allah peace be upon him and he said: «  Why you have not accepted that and it would have been enough to show that you  do not see her as inferior , Oh Aisha,  Be humble, God loves humble  and hates the proud!

The above narrations are the examples of Shiite tendencies of Zazzan. Not only that he is considered as an authentic narrator in Shiite literature like Usool-al-Kafi etc. Dr. Bashshar Awwad Al-Maroof have indicated that narrations form  Zazzan is quoted in Shiite literature like  الكافي في القضاء والاحكام: 6، باب: النوادر 19 حديث رقم 12،  and also in another book titled

 والتهذيب: باب من الزيادات في القضايا والاحكام، حديث رقم 804).

Now the Shitte belief on the life in graves from Al-Kafi

Chapter 112
Climbing over the grave of the Holy Prophet (s.a) prohibited
H , Ch. 112, h 1
A number of our people has narrated from Ahmad ibn Muhammad al-Barqi from Ja‘far ibn al- Muthanna al-Khatib who has said the following. “I was in Madina when the roof over the grave of the Holy Prophet (s.a) had crumbled down and the workers were climbing up and down (for repairs). We were a group and said to our people, “Who has an appointment with abu ‘Abdallah (a.s.)?” Mihran ibn abu Nasr said, “I have an appointment with the Imam (a. s.).” ’Isma‘il ibn ‘Ammar al-Sayrafi said, “I have an appointment with the Imam (a.s.).” I said to them, “Ask the Imam (a.s.) if it is permissible to climb up and look on to the grave of the Holy Prophet (s.a).” Next day we met them and we all came together. ’Isma‘il said, “We asked your question and he said this. “I do not like anyone to climb over him and I do not feel safe for anyone whose eye sight may go away because of catching sight of something that cause him such loss or see him standing in prayer or see him with anyone of his wives.”

 

In the era of compilation of books of ahadith i.e. Sahih Bukhari, Sahih Muslim,  Gama-al-Tirmidhi, Sunan Abi Dawood, Sunnan Ibn-Maja, Sunan Nisai already several kind of heresies and deviated sects were present including Shiites, Khawarij, Mutazalites etc.

 

Scholars of hadith then developed the rules to write someone’s narration now known as Ilm-ul-Hadith (Knowledge of Hadith). One of its principal is that one should reject the narration if it supports the heretic believes of the narrator.

 

Qazi Abdul Wahab (القاضي عبد الوهاب) said (Tadreeb-ur-Ravi juz1,pg6) :

قال: لا يُؤخذ العلم عن أربعة, ويُؤخذ عمَّن سِوَاهم: لا يُؤخذ عن مُبتدع يدعو إلى بِدْعته

Do not take Ilm from four and take from others, (first) Do not take it from Heretic which call you to his heresy…

Uqdmah Ibn-Salah (pg 22):

تقبل روايته إذا لم يكن داعية، ولا تقبل إذا كان داعية إلى بدعتة، وهذا مذهب الكثير أو الأكثر من العلماء.

(Some scholar say) accept the narration if he is not heretic, and do not accept narration if he lead towards his heresy and this is the way followed by many or many of our scholars

 

There are several such quotations. The conclusion is that in case the narration is supporting some deviated faith, it should be rejected!

 

Although Minhal and Zazzan are narrators in Sahih Bukhari and Muslim but both avoided the narration of Byra bin Azib about the returning of soul to the dead body.  Life in an earthly grave is an established Shiite faith. Both Zazzan and Minhal being Shiite have exhibited their faith in this narration.

 

Dahabi said in Seer-Allam Al-Nublah juz 1, pg 59:

قال الذهبي: فلقائل أن يقول: كيف ساغ توثيق مبتدع وحد الثقة العدالة والاتقان ؟ فكيف يكون عدلا من هو صاحب بدعة ؟ وجوابه: ان البدعة على ضربين: فبدعة صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق. فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة.  ثم بدعة كبرى، كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة.

 

Al-Dhahabi said: If the inquirer ask : how goes documenting heretic’s narration along with  his  trustworthiness, justice and confidence on narrator? How could he do justice if he is a  heretic? And the answer is : that the heresey is of two kinds:

Minor Heresey: Like Shi’ism or  Shiism without excess and distortion, and this has occurred with many of the Tabaeen and their followers in religion with piety and honesty.   If a we reject the narration (on these grounds ) then a lot of prophetic Athar would vanish, and this is an obvious spoil! Then ( there is) major heresy,  like Rifdh as a total rejection and extremism, and degradation of  Abu Bakr and ‘ Umar (RA), this sort of narrators  does not deserve dignity and writing of narrations.

 

 

The narrator of this so-called hadith, Minhal bin Amr is also considered as one having heretic believes. Imam Jozjani reported in his work Ahwal-ur-Rejal

 

قال إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني المنهال بن عمرو سيء المذهب وقد جرى حديثه

!Jozjani said: Minhal bin Amr – bad faith (heretic) but his narrations are in circulation

Abdurrehman bin Yahyah al-Muallami al-Yamani (العلامة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني) writes in his work titled , التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل  juz 1 pg 150 that:

 

وقد تتبعت كثيراً من كلام الجوزجاني في المتشيعين فلم أجده متجاوزاً الحد ، وإنما الرجل لما فيه من النصب يرى التشيع مذهباً سيئاً وبدعة ضلالة وزيغاً عن الحق وخذلانا ، فيطلق على المتشيعين ما يقضيه اعتقاده كقوله  زائغ عن القصد – سيء المذهب  ونحو ذلك ،

And many have tracked the statements of Jozjani for the shitte (narrators) but did not find them exceeding the limit, but the man (i.e. Imam Jozjani) because of the Nasab sees the Shi’ism as followers of  bad (heretic) doctrine and going astray and elusive on the right and disappointment, the application of term سيء المذهب  on Shiites is what is deserved to them due to  their faith ((digressing on intent-bad doctrine)), etc.

 

Dahabi has quoted in Meezan al-Atedal  (juz 4/ pg 192) the following statements

وقال الحاكم: غمزه يحيى بن سعيد.

And Hakim said: Yahyah bin Saeed reduced him

وكذا تكلم فيه ابن حزم، ولم يحتج بحديثه الطويل  في فتان القبر.

and Ibn- Hazm said likewise and has rejected his long narration on questioning in grave

Ibn- Hajar said in Taqreeb Al-Tahzeeb, juz 2, pg 216

المنهال بن عمرو الأسدي مولاهم الكوفي صدوق ربما وهم من الخامسة

Minhal bin Amr Al-Asadi … is Sadooq some times confused, belongs to fifth category

For the fifth category Ibn-Hajar described in Taqreeb Al-Tahzee

الخامسة: من قصر عن الرابعة قليلاً، وإليه الإشارة بصدوق سيء الحفظ، أو صدوق يهم، أو له أوهام، أو يخطئ، أو تغير بأخرة ويلتحق بذلك من رمي بنوع من البدعة، كالتشيع والقدر، والنصب، والإرجاء، والتجهم، مع بيان الداعية من غيره.

Fifth: which are reduced from forth and they are indicated by words Sadooque, bad memory or with Sadooque confused, Sadooque has confusions or commit mistakes or had amnesia in late age and afflicted with heresy like Shiite, Qadr, Nasb, Irja, Tahhajum with description of their heresy etc.

 Bukhari  has reported two narrations from Minhal, one is about  a supplication and at another place the chain is quoted to support the main narration. Muslim has not reported any narration from Minhal bin Amr.

Rejection of this narration by Ibn-Habban (died 354 AH):

Ibn- Habban said in his Sahih ibn Habban juz 7 pg 374- [ 387]

قال أبو حاتم رحمة الله عليه خبر الأعمش عن المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سمعه الأعمشعن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو وزاذان لم يسمعه من البراء فلذلك لم أخرجه

Abu Hatim may blessings of Allah be on him said: The report of Al-Amash from Minhal bin Amr from Zazzan from Byra, heard Al-Amash (actually) from Hasan bin Ammara from Minhal bin Amr and (further) Zazzan has not listened (anything) from Byra, that’s why I haven’t recorded

Rejection of this narration by Ibn-Hazm (died 456 AH):

ولم يرو أحد أن في عذاب القبر رد الروح إلى الجسد الا المنهال بن عمرو وليس بالقوى

(Al-Muhalli, juz 1, pg 22)

None had reported that the soul would be returned to body for torment in grave except Minhal bin Amr and he is not a stalwart (قوى) narrator.

 

Rejection of this narration by Al-Dahabi (died 748 AH):

Al-Dahabi said in Tahrik Al- Islam juz 1, pg 894 that:

قلت : تفرد بحديث منكر ونكير عن زاذان عن البراء

I say: he has Tafarud (unique in reporting)  the  hadith on Munkr and Nakeer from Zazzan from Byra

In spite of these refutations there are clear opposition from the other faction of scholars like Hakim, Baihaqui, Ibn-Tammiah and  Ibn-Qayyam.

Dahabi declared that the narration of Byra bin Azib contains Nakarat which indicate that it is against the authentic hadith.

It is reported in Sahih Muslim, باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه juz 4, pg 2202 that:

[note color=”#CEECF5″]

( 2872 ) حدثني عبيدالله بن عمر القواريري حدثنا حماد بن زيد حدثنا بديل عن عبدالله بن شقيق عن أبي هريرة  : قال إذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها  قال حماد فذكر من طيب ريحها وذكر المسك قال ويقول أهل السماء روح طيبة جاءت من قبل الأرض صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه فينطلق به إلى ربه عز و جل ثم يقول انطلقوا به إلى آخر الأجل  قال وإن الكافر إذا خرجت روحه – قال حماد وذكر من نتنها وذكر لعنا – ويقول أهل السماء روح خبيثة جاءت من قبل الأرض قال فيقال انطلقوا به إلى آخر الأجل  قال أبو هريرة فرد رسول الله صلى الله عليه و سلم ريطة كانت عليه على أنفه هكذا

Abu Hurrirah said: As the soul of righteous man comes out then comes two angels in front of him and ascend him upwards. Hammad said then he talked about the scent and smell of musk and people of heaven said: A pious soul comes from Earth blessings of Allah be on you and the body which you have grown. Then angels take it to Lord All mighty and then (it is commanded) Take it till the final term.  (Abu Hurrairah) said: and the Infidel when his soul comes out – Hammad said he talked about the stench and curse over it- and said: The people of heaven said: A wicked soul comes from Earth and (it is commanded) Take it till the final term.  Abu Hurrirah said then Prophet peace be upon him covered his nose like this (i.e. to indicate the wicked soul’s stench)

[/note]

This narration of Sahih Muslim clearly denounces what is stated in Byra bin Azib narration. The soul of Infidel also goes to heaven neither it is returned to body in grave nor there is the wrong application that soul of infidel would not go to heaven until the camel crosses the needle passage!

The actual process of dying is stated in Talmud. Following are the two excerpts taken from a book written by a Jewish scholar Abraham Cohen:

The actual process of dying is described in this manner:’ When a person’s end comes to depart from the world, the angle of death appears to take away his soul (Neshamah). The Neshemah is like a vein full of blood, and it has small viens which are dispersed through out the body. The angel of death grasps the top of this vien and extracts it. From the body of righteous person he extracts it gently, a though drawing a hair out of milk; but from the body of wicked person it is like whirling waters at the entrance of canal or, as other say, like taking thorns out of ball of wool which tear backwards. As soon as this is extracted the person dies and the spirit issues forth and settles on his nose until the body decays. When this happens it cries and weeps before the holy one blessed be he, saying lord of the universe! Whither I am being led? Immediately (the angel) Dumah takes and conducts him to the court of death among the spirits. If he had been righteous it is proclaimed before him, Clear a place for such a righteous man and he proceeds stage by stage until he beholds the presence of Shechinah’ (Midrash to Ps. Xi.7; 51b,52 a) [from Everyman’s Talmud by Abraham Cohen Page 74, Schoken Books, 1995 ]

 

Also :

The opinion generally adopted was that the soul rejoined to the body for the purpose of judgement and it is expressed in this statement: ‘ throughout 12 months (after death in Gehinnom) the body exists and soul ascends and descends, after 12 months the body ceases to exist and soul ascends without descending’ (Shab. 152b et seq.). [from Everyman’s Talmud  Pg 376]

 

Now Zazzan’s description of dying process is:

When the infidel leave this world and about to enter in hereafter, come the angels  from heavens with black faces with jute rug. They sat with the distance till reaches eye slight. After that comes the angel of Death which sit close to his head and says O evil soul come out towards the wrath of God  and His anger. Said: The soul then spreads inside the body, Angel of death then dragged it out like iron spike is taken out from the  wool. As soon as angel of death took hold of the soul, come other angels and with in an eye blink took it from his hands and fold it into jute rug.  From it (souls) erupts the most vicious of smells.

Angels take it and ascend upwards,…

 

The reader might be surprised to read this. What a similarity the talmudic passage has with Zazzan’s narration! One in Hebrew and one in Arabic. Reader must know that in the Talmudic era, this text is only available to Jewish scholars. It shows that there is a fabric of truth in saying that there are Jewish traces in Shiite thought of Zazzan and his student Minhal.

 

This is a very important question. As same band of scholars which believe in returning of the soul in grave,  forcefully portray it as a well established rule i.e. if Sheikhain ( Imam Bukhari and Imam Muslim) have reported from some  narrators  then it means that these narrators of Sahihain are trustworthy and all the Jirah against them becomes invalid. (see Al-Musnad fil Azab al-Qabr by Muhammad Arshad Kamal pg 154)

 

This statement has no basis and  acceptance among the hadith scholars. Mubarakbouri explained in Toffa-tul-Ahwazi,  Juz 1, pg 253:

 

وَأَمَّا قَوْلُ الْهَيْثَمِيِّ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ فَلَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّتِهِ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مُدَلِّسٌ وَرَوَاهُ بِالْعَنْعَنَةِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مُخْتَلِطٌ وَرَوَاهُ عَنْهُ صَاحِبُهُ بَعْدَ اِخْتِلَاطِهِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ لَمْ يُدْرِكْ مَنْ رَوَاهُ عَنْهُ أَوْ يَكُونَ فِيهِ عِلَّةٌ أَوْ شُذُوذٌ ، قَالَ الْحَافِظُ الزَّيْلَعِيُّ فِي نَصْبِ الرَّايَةِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ الْجَهْرِ بِالْبَسْمَلَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ ثِقَةِ الرِّجَالِ صِحَّةُ الْحَدِيثِ حَتَّى يَنْتَفِيَ مِنْهُ الشُّذُوذُ وَالْعِلَّةُ ، وَقَالَ الْحَافِظُ اِبْنُ حَجَرٍ فِي التَّلْخِيصِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ حَدِيثِ بَيْعِ الْعِينَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِ الْحَدِيثِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا اِنْتَهَى

 

And the statement of  Haithami that the narrators are trustworthy (siqa), does not  indicate the correctness of narration, due to the possibility that it could have Mudlis narrator reporting with عَنْعَنَةِ or could have a narrator with amnesia and he reports from the people, which he heard after this or it could have narrator which haven’t met or it could have narrators with Illah  or shuzzoz. Hafiz Zailai says in Nasb-ur-Riaya under discussion on some narrations related to saying of Bismillah loudly, that the authenticty of the narrators does not ensure the authenticity of hadith until it is cleared from shuzooz and Illah. And hafiz Ibn-Hajar says on synopsis of discussion on some narration of trade that the trustworthiness (siqah)  of narrators does not ensure that report is authentic.

 

Ibn-Hajar says in Nukat Ibn-Salah pg 22

قلت : ولا يلزم في كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحاً ، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة

I say: The presence of narrator of Al-Sahih in the chain of a report does not ensure that the report of these narrators is authentic, due to the possibility of Shuzzoz or Illah.

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

The verses related to torment of fire for Pharoah and his army and also for Noah’s nation are revealed in Makkah.  Bukhari  (Volume 4, Book 52, Number 182) reported that during war of Al-Ahzab (i.e. the clans) Prophet peace be upon him said  :

 

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا يزيد أخبرنا هشام عن محمد عن عبيدة عن علي رضي الله عنه قال النبي صلى الله عليه و سلم  حدثني عبد الرحمن حدثنا يحيى بن سعيد حدثنا هشام قال حدثنا محمد عن عبيدة عن علي رضي الله عنه  : أن النبي صلى الله عليه و سلم قال يوم الخندق ( حبسونا عن الصلاة الوسطى حتى غابت الشمس ملأ الله قبورهم وبيوتهم أو أجوافهم – شك يحيى – نارا )

Narrated ‘Ali:

Allah’s Apostle said on the day of the battle of Trench they prevented us from performing the prayer (i.e. ‘Asr) till the sun set.  O Allah! Fill their graves and houses or bellies – forgot (narrator) Yahyah –  with fire.

[/note]

War of Trench took place in Zil-Qaadah 5 A.H. This indicates that the torment of grave for pagans was well known at that time. Also note that the pagans who were killed in war of Trench were not even buried. Were there graves of pagans in war zone?  This again indicates that the word قبورهم  (graves) is referred to abode in Burzakh.

 

The torment on dead believers due to their sins is revealed to Prophet peace be upon him while his stay in Medinah.   It is reported  in Bukhari Volume 2, Book 18, Number 153:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Al-Mughira bin Shu’ba:

“The sun eclipsed in the life-time of Allah’s Apostle on the day when (his son) Ibrahim died. So the people said that the sun had eclipsed because of the death of Ibrahim. Allah’s Apostle said, “The sun and the moon do not eclipse because of the death or life (i.e. birth) of some-one. When you see the eclipse pray and invoke Allah.”

[/note]

Further in the eclipse prayer khutbah, Prophet peace be upon him informed the believers about the Azab al-Qabr for Muslims. It is reported in Bukhari  Volume 2, Book 18, Number 159 that:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated ‘Amra bint ‘Abdur-Rahman:

A Jewess came to ask ‘Aisha (the wife of the Prophet) about something. She said to her, “May Allah give you refuge from the punishment of the grave.” So ‘Aisha ‘ asked Allah’s Apostle “Would the people be punished in their graves?” Allah’s Apostle after seeking refuge with Allah from the punishment of the grave (and thus replied in the affirmative). Then one day, Allah’s Apostle rode to go to some place but the sun eclipsed. He returned in the forenoon and passed through the rear of the dwellings (of his wives) and stood for the (eclipse) prayer, and the people stood behind him. He stood up for a long period and then performed a prolonged bowing which was shorter than the first bowing. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up (for the second Raka) for a long while but the standing was shorter than that of the first Raka. Then he performed a prolonged bowing which was shorter than the first one. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up for a long time but shorter than the first. Then he performed a prolonged bowing but shorter than the first. Then he raised his head and prostrated and finished the prayer and (then delivered the sermon and) said as much as Allah wished. And then he ordered the people to seek refuge with Allah from the punishment of the grave.

[/note]

It is reported in Bukhari Volume 1, Book 3, Number 86 that:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Asma:

I came to ‘Aisha while she was praying, and said to her, “What has happened to the people?” She pointed out towards the sky. (I looked towards the mosque), and saw the people offering the prayer. Aisha said, “Subhan Allah.” I said to her, “Is there a sign?” She nodded with her head meaning, “Yes.” I, too, then stood (for the prayer of eclipse) till I became (nearly) unconscious and later on I poured water on my head. After the prayer, the Prophet praised and glorified Allah and then said,

“Just now at this place I have seen what I have never seen before, including Paradise and Hell. No doubt it has been inspired to me that you will be put to trials in your graves and these trials will be like the trials of Masiah-ad-Dajjal or nearly like it (the sub narrator is not sure which expression Asma’ used). You will be asked, ‘What do you know about this man (the Prophet Muhammad)?’ Then the faithful believer (or Asma’ said a similar word) will reply, ‘He is Muhammad Allah’s Apostle who had come to us with clear evidences and guidance and so we accepted his teachings and followed him. And he is Muhammad.’ And he will repeat it thrice. Then the angels will say to him, ‘Sleep in peace as we have come to know that you were a faithful believer.’ On the other hand, a hypocrite or a doubtful person will reply, ‘I do not know, but I heard the people saying something and so I said it.’ (the same). “

[/note]

From these ahadith it is clear that the torment of grave for Muslims is revealed to Prophet on the day of death of his son Ibrahim. Ibrahim (son of Prophet) died in 10 AH. It is reported that on his death’s day solar eclipse has occurred, which people thought that occurred due to Prophet’s son’s demise.  On that day the Prophet informed the Ummah about the trial of grave.

 

Based on this evidence from Sahih Bukhari we would now analyze different narrations normally quoted in support of Azab al-Qabr in worldly grave.

 

Extension of grave of Abi-Salma (RA):

 

It is reported by Muslim that companion of Prophet Abi Salamh died and Prophet prayed for him

[note color=”#CEECF5″]

( 920 ) حدثني زهير بن حرب حدثنا معاوية بن عمرو حدثنا أبو إسحاق الفزاري عن خالد الحذاء عن أبي قلابة عن قبيصة بن ذؤيب عن أم سلمة قالت  : دخل رسول الله صلى الله عليه و سلم على أبي سلمة وقد شق بصره فأغمضه ثم قال إن الروح إذا قبض تبعه البصر فضج ناس من أهله فقال لاتدعوا على أنفسكم إلا بخير فإن الملائكة يؤمنون على ما يقولون ثم قال اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين واخلفه في عقبه في الغابرين واغفر لنا وله يا رب العالمين وافسح له في قبره ونور له فيه

Umm Salama reported: The Messenger of Allah came to Abu Salama (as he died). His eyes were open. He closed them, and then said: When the soul is taken away the sight follows it. Some of the people of his family wept and wailed. So he said: Do not supplicate for yourselves anything but good, for angels say “Amen” to what you say. He then said: O Allah, forgive Abu Salama, raise his degree among those who are rightly guided, grant him a successor in his descendants who remain. Forgive us and him, O Lord of the Universe, and make his grave spacious, and grant him light in it.

[/note]

Abi Salmah died in 4 A.H. due to wounds afflicted in Uhud. This shows that the Qabr and its expansion was well known before 10 A.H. Further Abi Salamh was not yet buried but the Prophet prayed for his grave expansion, as if, Abi salamah is already buried. This shows that the Qabr is the abode in Burzakh.

 

 

Saad bin Muaz and Azab al-Qabr ?

 

A notable companion of Prophet is Saad bin Muaz. He died due to wounds afflicted in Khandaq (5 AH) . Scholar who believe that soul is returned to dead in grave claim that grave has squeezed Saad bin Muaz. (sunnan Nisai, chapter ضَمَّةُ الْقَبْرِ وَضَغْطَتُه)

 

[note color=”#CEECF5″]

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « هَذَا الَّذِى تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْشُ وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلاَئِكَةِ لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ

Ibn-Umer narrated that Prophet peace be upon him said: He is the person for whom the Throne moved and the doors of Heaven opened and seventy thousand angels visited and also indeed it (grave) squeezed then it (torment) is released.

[/note]

Sadly this narration is also reported by same faction of scholars who believe in returning of the soul to dead  as an  evidence of Azab al-Qabr. Saad bin Muaz, may Allah be pleased with him, was a glorious companion of the Prophet peace be upon him, If he had died due to wounds afflicted to him in war with pagans  then  he is a martyr,  and Paradise would be his final abode. Chronologically speaking Prophet doesn’t know about the Azab al-Qabr  for Muslims before 10 A.H. then how could he say this? Therefore on these technical fallacies this narration could not be accepted on the surface value.

 

It is reported in Sahih Muslim chapter باب كون الإسلام يهدم ما قبله وكذا الهجرة والحج

[note color=”#CEECF5″]

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِىُّ وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِىُّ وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ كُلُّهُمْ عَنْ أَبِى عَاصِمٍ – وَاللَّفْظُ لاِبْنِ الْمُثَنَّى – حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ – يَعْنِى أَبَا عَاصِمٍ – قَالَ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ حَدَّثَنِى يَزِيدُ بْنُ أَبِى حَبِيبٍ عَنِ ابْنِ شَمَاسَةَ الْمَهْرِىِّ قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِى سِيَاقَةِ الْمَوْتِ. فَبَكَى طَوِيلاً وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْجِدَارِ فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ يَا أَبَتَاهُ أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِكَذَا أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم………….. فَإِذَا دَفَنْتُمُونِى فَشُنُّوا عَلَىَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِى قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّى.

 

Abur-Rehaman bin Shamasa Al-Mahri said: We attended Amr Ibn al-‘ Aas and he was about to expire. He wept for a long time and turned his face towards wall (i.e. not looking at narrator). His son said O father how was your partnership with Messenger of Allah peace be upon him-  (then he talked about the his Jahaliah days)……(finally Amr said)  When you bury me in the dust then wait on my grave, as much as, you slaughter a camel and  divide the meat and I feel comfortable with you and see what shall I reply to angels of my Lord.

[/note]

It is informed that Amir bin Abi Aas was in state of وَهُوَ فِى سِيَاقَةِ الْمَوْتِ (about to expire). In that state sometimes people say things which are not clear and palpable. This narration only shows that Amir bin Abi Aas has said something on his death bed which is not instructed to us by Messenger of Allah and hence is an innovation in Islam. As a companion he could not command us to do such an act.  One scholar of recent era محمد بن صالح العثيمين said, when asked about this narration مجموعة أسئلة تهم الأسرة المسلمة Juz 219, pg 35):

هذا أوصى به عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه ـ فقال: «أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها»، لكن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرشد إليه الأمة، ولم يفعله الصحابة ـ رضي الله عنهم ـ فيما نعلم

This was  willed  by Amr bin Al-Aas  may Allah be pleased with him, he said wait on my grave  of as much as you slaughter a camel and  divide the meat, but Neither the Prophet  guided  the Ummah, nor  his companions  did that as we know…

 

It is reported in Bukhari that

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عياش حدثنا عبد الأعلى حدثنا سعيد قال وقال لي خليفة حدثنا ابن زريع حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال  : ( العبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه و سلم ؟ فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال انظر إلى مقعدك في النار أبدلك الله به مقعدا من الجنة ) . قال النبي صلى الله عليه و سلم ( فيراهما جميعا وأما الكافر أو المنافق فيقول لا أدري كنت أقول ما يقول الناس . فيقال لا دريت ولا تليت ثم يضرب بطرقة من حديد ضربة بين أذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين

Narrated Anas:

The Prophet said, “When the slave (of Allah) is laid in his grave and his companions went away, until, Indeed he hears the foot steps, arrive two angels to him and make him sit and ask him: What did you use to say about this man, Muhammad ? He will say: I testify that he is Allah’s slave and His Apostle. Then it will be said to him, ‘Look at your place in the Hell-Fire. Allah has given you a place in Paradise instead of it.’ ” The Prophet added, “The dead person will see both his places. But a non-believer or a hypocrite will say to the angels, ‘I do not know, but I used to say what the people used to say! It will be said to him, ‘Neither did you know nor did you take the guidance (by reciting the Quran).’ Then he will be hit with an iron hammer between his two ears, and he will cry and that cry will be heard by whatever approaches him except human beings and jinns.”

[/note]

The interpretation of this hadith in accordance with Quran is that the footsteps are that of angels not the people who had just buried him.

Al-Zain bin Al-Muneer (الزَّيْن بْن الْمُنِير) said (Sharah Ibn-Hajar, juz 4 pg 401 )

وَكَأَنَّهُ اِقْتَطَعَ مَا هُوَ مِنْ سَمَاع الْآدَمِيِّينَ مِنْ سَمَاع مَا هُوَ مِنْ الْمَلَائِكَة

And like hear from  Angels  (footsteps) like what (he used to) hear from humans’ (footsteps)

 

Also, Al-Muhlab said (Sharah Ibn- Battal, juz 5, pg 355)  that word  من يليه إلا الثقلين  (which  approaches him except humans and jinns) actually mean   هم الملائكة الذين يلون فتنته the angels which came for questioning. Therefore the only logical interpretation of this narration is that the dead hear the footsteps of angels, they question him and in case of wrong answer torture it and this cry is heard by angels themselves.

Unfortunately the scholars who believe in returning of the soul also claim that this narration is about the hearing of footsteps of people, not of angels. However they themselves claim that Amr bin Abi Al-Aas will is also in accordance with Quran i.e. When you bury me in the dust then wait on my grave, as much as, you slaughter a camel and  divide the meat and I feel comfortable with you and see what shall I reply to angels of my Lord.  The narration of footsteps and that of will of Amr bin Abi al-Aas are both contradictory. One claims that the dead would hear when people who have buried it would be leaving, whereas, another one claims that the dead even knows who is standing at the grave and questions of angels are replied in the presence of people, who have just buried it!

It is reported in Bukhari (also mention earlier) that

[note color=”#CEECF5″]

Narrated ‘Amra bint ‘Abdur-Rahman:  A Jewess came to ask ‘Aisha (the wife of the Prophet) about something. She said to her, “May Allah give you refuge from the punishment of the grave.” So ‘Aisha ‘ asked Allah’s Apostle “Would the people be punished in their graves?” Allah’s Apostle after seeking refuge with Allah from the punishment of the grave (and thus replied in the affirmative). Then one day, Allah’s Apostle rode to go to some place but the sun eclipsed. He returned in the forenoon and passed through the rear of the dwellings (of his wives) and stood for the (eclipse) prayer, and the people stood behind him. He stood up for a long period and then performed a prolonged bowing which was shorter than the first bowing. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up (for the second Raka) for a long while but the standing was shorter than that of the first Raka. Then he performed a prolonged bowing which was shorter than the first one. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up for a long time but shorter than the first. Then he performed a prolonged bowing but shorter than the first. Then he raised his head and prostrated and finished the prayer and (then delivered the sermon and) said as much as Allah wished. And then he ordered the people to seek refuge with Allah from the punishment of the grave.

[/note]

Also reported in Bukhari (Volume 8, Book 75, Number 377)

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا جرير عن منصور عن أبي وائل عن مسروق عن عائشة قالت : دخلت علي عجوزان من عجز يهود المدينة فقالتا لي إن أهل القبور يعذبون في قبورهم فكذبتهما ولم أنعم أن أصدقهما فخرجتا ودخل علي النبي صلى الله عليه و سلم فقلت له يا رسول الله إن عجوزين وذكرت له فقال لي ( صدقتا إنهم يعذبون عذابا تسمعه البهائم كلها ) . فما رأيته بعد في صلاة إلا تعوذ من عذاب القبر

Narrated ‘Aisha:

Two old ladies from among the Jewish ladies entered upon me and said’ “The dead are punished in their graves,” but I thought they were telling a lie and did not believe them in the beginning. When they went away and the Prophet entered upon me, I said, “O Allah’s Apostle! Two old ladies..” and told him the whole story. He said, “They told the truth; the dead are really punished, to the extent that all the animals hear (the sound resulting from) their punishment.” Since then I always saw him seeking refuge with Allah from the punishment of the grave in his prayers.

[/note]

The narration is actually a short version of what reported in the long narration.  The narrators have shortened many things. First in the short version it is reported, as if, Aisha may Allah be pleased with her was unaware of Azab al-qabr completely, in spite, of the fact that all verses related to Azab al-Qabr are already revealed in Quran and from the context of this event it is clear that this incident took place in year 10 A.H. In the long version the situation is different, there the Jewess warned her against Azab al-Qabr and at that moment there was no information for the punishment of grave for Muslims as such.

The second issue is that the Prophet has immediately endorsed what Jewess had said although we know that there was a time lapse between the revelation of punishment of grave for Muslims to Prophet and this conversation of  Aisha (may Allah be pleased with her) and Jewess. It is reported in Sahih Muslim chapter باب استحباب التعوذ من عذاب القبر

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا هارون بن سعيد وحرملة بن يحيى ( قال هارون حدثنا وقال حرملة أخبرنا ابن وهب ) أخبرني يونس ابن يزيد عن ابن شهاب قال حدثني عروة بن الزبير أن عائشة قالت  : دخل على رسول الله صلى الله عليه و سلم وعندي امرأة من اليهود وهي تقول هل شعرت أنكم تفتنون في القبور ؟ قالت فارتاع رسول الله صلى الله عليه و سلم وقال إنما تفتن يهود قالت عائشة فلبثنا ليالي ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم هل شعرت أنه أوحي إلي أنكم تفتنون في القبور ؟ قالت عائشة فسمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم بعد يستعيذ من عذاب القبر

Narrated Aisah:  Entered (in house) the Messenger of Allah peace be upon him  and a Jewish woman was with me and She (Jewess) said  have you ever realised that  you would be questioned  in graves? (Aisha) She said  Messenger of Allah peace be upon him is horrified by this and said but Jews would be tormented She (Aisah) said after that lapsed some nights and then Messenger of Allah peace be upon him  said Have you realised that I have been revealed that you (people) will be questioned in the graves? She (Aisha) said from then on I heard the Messenger of Allah peace be upon him seek refuge from the torment of the grave

[/note]

The words in long  narration in  Bukhari ( After that one day) and narration in  Muslim  (after that lapsed some nights) indicate that there was a time lapse involved before the revelation of torment in grave for Muslims.

Considering all these ahadith it is clear that narrators (of short narration of Bukhari) have shortened themselves the long narration reported in Muslim and Bukhari and thus committed a mistake in understanding. On the other hand this is the only narration in Bukhari which suggests that all animals hear the torment in grave.    If for a moment we assume that dead are punished in graves in this world then this world is full of dead from Prophet Adam peace be upon him till today. Animals might be hearing the torture of dead and for any moment hear the billions of cries, screams and shrieks. Therefore as such it should be a norm for them however following narration contradicts it completely.

 

It is reported in Muslim chapter باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه

[note color=”#CEECF5″]

 

حدثنا يحيى بن أيوب وأبو بكر بن أبي شيبة جميعا عن ابن علية قال ابن أيوب حدثنا ابن علية قال وأخبرنا سعيد الجريري عن أبي نضرة عن أبي سعيد الخدري عن زيد بن ثابت قال أبو سعيد ولم أشهده من النبي صلى الله عليه و سلم ولكن حدثنيه زيد بن ثابت قال  : بينما النبي صلى الله عليه و سلم في حائط لبني النجار على بغلة له ونحن معه إذ حادت به فكادت تلقيه وإذا أقبر ستة أو خمسة أو أربعة ( قال كذا كان يقول الجريري ) فقال من يعرف أصحاب هذه الأقبر ؟ فقال رجل أنا قال فمتى مات هؤلاء ؟ قال ماتوا في الإشراك فقال إن هذه الأمة تبتلى في قبورها فلولا أن لا تدافنوا لدعوت لله أن يسمعكم من عذاب القبر الذي أسمع منه ثم أقبل علينا بوجهه فقال تعوذوا بالله من عذاب النار قالوا نعوذ بالله من عذاب النار فقال تعوذوا بالله من عذاب القبر قالوا نعوذ بالله من عذاب القبر قال تعوذوا بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن قالوا نعوذ بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن قال تعوذوا بالله من فتنة الدجال قالوا نعوذ بالله من فتنة الدجال

Narrated Zaid bin Thabit: Prophet peace and blessings on him was riding a mule, moving along the wall of Bani al-Najjar and we (walking ) with him, that his mule shied and he (Prophet) was about to be demounted and there were graves of six or five or four (as stated by al-Jariri) so he asked who knows about people of these graves? One person said I know. He (Prophet) asked when they died? Said died in polytheism (as their belief) so Prophet said:  Indeed this Ummah would be questioned in their graves as it is not (the case) that you would not bury your dead I  call God to hear you from the torment of the grave, which I heard from them.  He then looked at us and said Seek the protection of Allah from the torment of the fire we said we seek refuge with Allah from the torment of the fire, said Seek the protection of Allah from the torment of the grave we said  we seek refuge with Allah from the torment of the grave said Seek the protection of God from the temptations and hidden We said we seek refuge with Allah from temptations and hidden Said Seek the protection of God from Dajjal Fitnah  we said We seek refuge of  Allaah from Dajjal Fitnah.

[/note]

It is extracted from this hadith the torment was actually happening in these graves otherwise Prophet peace be upon him could not have said so.  Before discussion on this narration it would interesting to remind the reader that Prophet himself had exhumed the pagans from the very site of Masjid un Nabi and destroyed the graves as mentioned earlier. The prophetic duty was to inculcate the fear of Allah in hearts of  his Ummah and these words only reflect that intention. Some times in Arabic the negation is bought earlier to stress the importance of what would be said following for example.

It is reported in Musnad Abi Yala, juz  5, pg 248 that Prophet said:

[note color=”#CEECF5″]

فلولا أن لا تدافنوا  لأخبرتكم بملئكم من أهل النار حتى تفرقوهم ، عند الموت ، ولو أمرت أن أفعل لفعلت

it is not (the case) that you would not bury your dead I  would have informed you about those who would fill into Hell Fire among you until you get separated (from them) on death,  if I had been commanded to do so I might have done so

[/note]

It is reported that Muslims would not bury the people of Hell among them, if they knew about them. This narration shows that the torment in grave has nothing to do with graves. Both narrations (of Muslim and Abi-Yala)  start with phrase فلولا أن لا تدافنوا but convey opposite meaning. The phrase is thus not conveying that torment in graves actually occur in very grave of a person.

A similar style is present in Quran where Allah Almighty has instructed us that

[note color=”#BEF781″]

فلا تموتن إلا وأنتم مسلمون

then die not except in the Faith of Islam (2:132)

[/note]

Ibn-Manzoor says in Lisan-al-Arab, juz 2, pg 90:

قال أَبو إِسحق إِن قال قائل كيف ينهاهم عن الموت وهم إِنما يُماتون ؟ قيل إِنما وقع هذا على سعة الكلام وما تُكْثِرُ العربُ استعمالَه قال والمعنى الزَمُوا الإِسلام

Abu Ishaq said if the inquirer ask, how one may escape from death and in fact they are died (not themselves)? Said it occurs due to extent of speech and used extensively by Arabs in their language and meaning is make Islam compulsory

It is reported in Bukhari, Book 8, Volume 73, Hadith 78: Good Manners and Form:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Ibn ‘Abbas: Allah’s Apostle passed by two graves and said, “Both of them (persons in the grave) are being tortured, and they are not being tortured for a major sin. This one used not to save himself from being soiled with his urine, and the other used to go about with calumnies (among the people to rouse hostilities, e.g., one goes to a person and tells him that so-and-so says about him such-and-such evil things). The Prophet then asked for a green leaf of a date-palm tree, split it into two pieces and planted one on each grave and said, “It is hoped that their punishment may be abated till those two pieces of the leaf get dried.”

[/note]

 

This narration doesn’t prove that the punishment was actually happening in those graves. The words are they are tortured. It is like if go and visit CairoMuseum and we see the mummy of  one of the Pharoah and say that Allah has informed that these were tortured in Hell fire. By these statement no one would extract that Hell is some where in Cairo.

Further it is also reported that one day Prophet was sitting among his companions and suddenly they heard a loud voice. Prophet asked do you know where comes this loud voice. Companions said Only Allah and his Messenger peace be upon him knows about it. Prophet said it the stone which is dropped in Hell seventy years ago, and now it reached its bottom. Does this shows that Hell is somewhere near Medinah? Surely not!

 

The present treatise is only an effort to guide the reader towards the concept of Azab al-Qabr in Quran and authentic ahadith.   There is a plethora of weak narrations on this topic. In fact some of these narrations were concocted to inculcate fear of Allah in hearts and abhorrence from World, as claimed by the narrators. Interested reader may see the books written on Duafa (weak narrators),  Majroheen  and Kazzab (liars).

The concept of returning of soul of dead was never been the part of Muslim belief until the appearance of Imam Ahmed bin Hanbal in political sphere. He got public fame due to his stance on Created Quran doctrine of Mu’tazilites. His student Mussadad bin Musarhad wrote a letter to him and ask him about the belief which a Muslims have due to the wide spread speculative theology of Mu’tazilites. Imam Ahmed wrote a letter which is preserved in its content form  in many books, including the famous Tabqat al-Hanabla. Imam Ahmed instructed that one must

 

والإيمان بمنكر ونكير وعذاب القبر والإيمان بملك الموت يقبض الأرواح ثم ترد في الأجساد في القبور فيسألون عن الإيمان والتوحيد

طبقات الحنابلة كاملاً  لابي يعلى الحنبلي( Juz 1, pg 314)

belief on Munkar & Nakeer  and  torment in grave and believe in angel of death that caught the souls then return them  in the bodies in the graves, asking about faith and tawheed

 

As a Muslim it is important that we bring our believes in accordance with Holy Quran. May Allah send his blessings on our last Prophet Muhammad peace be upon him and guide us towards his mercy and Heavens and save us from Azab al-Qabr and Hell  Fire. Amen

Hearing of Dead

fatir-22

Hearing of the Dead

بسم الله الرحمن الرحيم

Allah has informed his Messenger peace be upon him that (Al-Naml, 80)

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ

Verily, you cannot make the dead to hear (i.e. benefit them and similarly the disbelievers), nor can you make the deaf to hear the call, when they flee, turning their backs.

It is told that these pagans of Makkah would not give heed to your call towards monotheism, as if, they are dead.

After the demise of Taba-Tabbayeen this concept started mushrooming in the Muslims societies  that their  Prophet, Aulliah Allah (Friends of Allah or saints) and finally all dead Muslims can hear and even say reply to breathing humans on surface of earth. The people in grave are not really dead, as Prophet has commanded us to say Salam whenever we enter the graveyard and that prayer demands that these so-called dead people are living and have sense to reply to us. During the period of Mongol invasion on Muslims, this practice of calling dead and belief that the holy people are living in graves become so prevalent that a the then scholar  Ibn- Tamiyah (728 A.H.) said in his Fatwa al-Kubra juz 3 pg  412

فَهَذِهِ النُّصُوصُ وَأَمْثَالُهَا تُبَيِّنُ أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ فِي الْجُمْلَةِ كَلَامَ الْحَيِّ وَلَا يَجِبُ أَنْ يَكُونَ السَّمْعُ لَهُ دَائِمًا ، بَلْ قَدْ يَسْمَعُ فِي حَالٍ دُونَ حَالٍ كَمَا قَدْ يُعْرَضُ لِلْحَيِّ فَإِنَّهُ قَدْ يَسْمَعُ أَحْيَانًا خِطَابَ مَنْ يُخَاطِبُهُ ، وَقَدْ لَا يَسْمَعُ لِعَارِضٍ يَعْرِضُ لَهُ ، وَهَذَا السَّمْعُ سَمْعُ إدْرَاكٍ ، لَيْسَ يَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ جَزَاءٌ ، وَلَا هُوَ السَّمْعُ الْمَنْفِيُّ بِقَوْلِهِ : { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى } فَإِنَّ الْمُرَادَ بِذَلِكَ سَمْعُ الْقُبُورِ وَالِامْتِثَالِ .

These evidences and similar show that the dead hear the living and it is not necessary that this hearing is permanent but it hears as the living can. It may sometimes hear the address of one who called … and this hearing is hearing with senses and not entails the reward, Nor there is absence of  hearing due to: {you don’t hear the dead}, which intents the hearing of graves and similar.

 

This reflects that by the year 700 A.H., the concept of hearing of dead has become a well established belief of some of the Muslims. The same point of view is then followed by Ibn-Qayyam (d. 751 A.H.), Ibn Katheer (d. 774 AH) and many others.

The earliest of Muslims do not believe in hearing of dead.  It is reported in Tafseer Tibri, juz 20 , pg 459 that

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة( إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ) كذلك الكافر لا يسمع، ولا ينتفع بما يسمع.

Qattadah said: (Verily, Allah makes whom He will hear, but you cannot make hear those who are in graves), like this infidel does not hear and what he hears would not help him.

 

Qattadah, a Tabyee (companion of disciple of Prophet) , has indicated his belief that he does not belief in hearing of dead so he said likewise infidel does not hear.

For scholars who believe in hearing of the dead, the narration of Badr Well is evidence.

It is reported in Bukhari Volume 5, Book 59, Number 314:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Abu Talha:

On the day of Badr, the Prophet ordered that the corpses of twenty four leaders of Quraish should be thrown into one of the dirty dry wells of Badr. (It was a habit of the Prophet that whenever he conquered some people, he used to stay at the battle-field for three nights. So, on the third day of the battle of Badr, he ordered that his she-camel be saddled, then he set out, and his companions followed him saying among themselves.” “Definitely he (i.e. the Prophet) is proceeding for some great purpose.” When he halted at the edge of the well, he addressed the corpses of the Quraish infidels by their names and their fathers’ names, “O so-and-so, son of so-and-so and O so-and-so, son of so-and-so! Would it have pleased you if you had obeyed Allah and His Apostle? We have found true what our Lord promised us. Have you too found true what your Lord promised you? “‘Umar said, “O Allah’s Apostle! You are speaking to bodies that have no souls!” Allah’s Apostle said, “By Him in Whose Hand Muhammad’s soul is, you do not hear, what I say better than they do.” (Qatada said, “Allah brought them to life (again) to let them hear him, to reprimand them and slight them and take revenge over them and caused them to feel remorseful and regretful.”)

[/note]

Also reported in Bukhari that Volume 5, Book 59, Number 317:

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Ibn Umar: The Prophet stood at the well of Badr (which contained the corpses of the pagans) and said, “Have you found true what your lord promised you?” Then he further said, “They now hear what I say.” This was mentioned before ‘Aisha and she said, “But the Prophet said, ‘Now they know very well that what I used to tell them was the truth.’ Then she recited (the Holy Verse):– “You cannot make the dead hear… …till the end of Verse).” (30.52)

[/note]

 

Ibn-Umer may Allah be pleased with him and Qatada both interpreted this incident as a special event. For them the hearing of dead is not a norm. Further this is the only incident of hearing of dead in which difference of opinion is reported between  Ibn-Umer and Aisah  may Allah be pleased with both of them. Ibn-Umer thought that this incident is special whereas Aishha may Allah pleased with her, said this speech was nothing but exhibited that the pagans got the knowledge of what Prophet used to tell them.

Al-Nawawi (d. 676 AH) views on this narration

Al-Nawawi (676 A.H) said in al-Majmoo juz 17 pg 224, that if someone quote the incident of well of Badr

قلنا تلك معجزة للنبى صلى الله عليه وسلم، لان الله رد إليهم أرواحهم حتى يسمعوا كلام النبي صلى الله عليه وسلم، لان الاصل أن الميت لا يسمع

We say it was the miracle of Messenger of Allah peace be on him, because Allah has returned their souls until they heard the speech of Prophet, as the reality is that the dead do not hear

 

Hafiz Ibn-Rajab (d. 795 AH) views on narration

It is quoted in book Al-Ayat al-Bayyanat  by a recent scholar, Al-Bani that Ibn-Rajab said in his work أهوال القبور:

قال الحافظ ابن رجب:  وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء

Hafiz Ibn-Rajab said: and agreed with Aisha in negation of hearing of the dead a group of scholars

Al-Bani views on this narration

A recent scholar, Al-Bani said in Al-Ayat al-Bayyanat pg 48

قلت : ولذلك أورده الخطيب التبريزي في ” باب المعجزات ” من ” المشكاة “ج 3 رقم 5938

I (Al-Bani) say: and that is why Khateeb al-Tibrazi brought this narration (of Badr Well)  in chapter on miracles in (his compilation) al-Mishkaat, juz 3, raqam 5938

 

So there were only two interpretations of this event. One group said that it’s a miracle (like Ibn-Umer & Qattadah) and other said that its knowledge (like Aisha peace be upon her).  On the contrary some people extracted a third opinion from this (like Ibn-Tammiyah, Ibn-Qayyam, Ibn-Katheer, Al-Subki etc) that it is neither miracle nor knowledge but a norm. All dead people can hear.  Some say time to time and some claim all the time.

Ibn-Katheer (d. 774 AH) view on narration of well of Badr

Ibn-Katheer (774 AH) said in his Tafseer juz 3, pg 579

وقد استدلت أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها بهذه الاية { إنك لا تسمع الموتى } على توهيم عبد الله بن عمر في روايته مخاطبة النبي صلى الله عليه و سلم القتلى الذين ألقوا في قليب بدر بعد ثلاثة أيام ……  والصحيح عند العلماء رواية عبد الله بن عمر لما لها من الشواهد على صحتها من وجوه كثيرة من أشهر ذلك ما رواه ابن عبد البر مصححا له عن ابن عباس مرفوعا [ ما من أحد يمر بقبر أخيه المسلم كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا رد الله عليه روحه حتى يرد عليه السلام ]

And argued Aisah, mother of believers may Allah be pleased with her, from the verse Verily, you cannot make the dead to hear, on the confusion regarding speech of Messenger of Allah, to the killed ones (pagans) which were thrown into the well of Badr, after three days …. But authentic among our scholars is the narration of Abdullah ibn Umer and it has many evidences due to there majority and famous among these is what had been reported by Ibn-Abul Barr and authenticated by him, (narrated)  from Ibn-Abbas that Whenever you pass by the grave of other Muslim bother which he used to recognize in the world and say Salam to him, he( person in grave)  would reply to you

[note color=”#CEECF5″]

مَا مِنْ أَحَد يَمُرّ عَلَى قَبْر أَخِيهِ الْمُؤْمِن وَفِي رِوَايَة بِقَبْرِ الرَّجُل كَانَ يَعْرِفهُ فِي الدُّنْيَا فَيُسَلِّم عَلَيْهِ إِلَّا عَرَفَهُ وَرَدَّ عَلَيْهِ

إِذَا مَرَّ الرَّجُل بِقَبْر يَعْرِفهُ فَيُسَلِّم عَلَيْهِ السَّلَام وَعَرَفَهُ وَإِذَا مَرَّ بِقَبْر لَا يَعْرِفهُ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَام

ما من أحد يمر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام.

إذا مر الرجل بقبر يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام وعرفه وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام

Meaning of above narrations is:

 

When you pass by the grave of other Muslim bother and say Salam he( person in grave)  would reply to you

[/note]

Narration of  Aisha

The narration from Aisha may Allah be pleased with her is  reported by  Ibn-Abi Dunya (ابن أبي الدنيا)  in  his book كتاب القبور but it has narrator Abdullah bin Sama’an   (عبد الله بن سمعان) whose full name is

عبد الله بن أبي زياد بن سليمان بن سمعان,

and who is a Kazzab (liar) narrator (see Tahzeen al-Tahzeeb, Al-Mezan al-Atedal).

Narration of Abi Hurrairah

 

Abu Hurrira’s narration is also reported by Ibn-Abi Dunya which contains Muhammad bin Qudamah al-Jowhari and Hashsham bin Saad both are  considered weak in hadith literature (see Mezan al-Atedal and Tahzeeb al-Tahzeeb)

Narration of Ibn- Abbas

In Al-Istazkar  (الاستذكار) by Abdul Barr, it is reported with sanad

[note color=”#CEECF5″]

قال حدثنا بشر بن بكير عن الأوزاعي عن عطاء عن عبيد بن عمير عن بن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( ( ما من أحد مر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام ) )

[/note]

Ibn-Hajar said in Taqreeb al Tahzeeb, juz 1 , pg 646 عبيد بن عمير مولى بن عباس مجهول من الرابعة

Similarly the narrator بشر بن بكير  is Majhool (unknown).

Allama-Alosi said in Rooh al-Ma’ani , juz 21, pg 57

وقيل في حديث إبن عبدالبر : إن عبدالحق وإن قال إسناده صحيح إلا أن الحافظ إبن رجب تعقبه وقال : إنه ضعيف بل منكر

And it is said for hadith (reported by) Ibn Abdul Barr: and indeed although Abdul Haque said its sanad is authentic but Hafiz Ibn-Rajab has tracked it and said: It is not only weak but Munkar narration.

 

Unfortunately scholar kept quoting this narration and state that it is authenticated on authority of  Ibn-Abdul Barr.  Finally one scholar spoke out  (فتاوى الإسلام سؤال وجواب, juz 1, pg 6298)

فقد بحث أهل العلم عن هذا الحديث المعلق فلم يجدوه مسندا في كتاب ، وكل من يذكره ينقله عن تعليق الحافظ ابن عبد البر ، فهو في الأصل حديث ضعيف ، إلاأن بعض أهل العلم صححه تبعا للحافظ ابن عبد البر الذي علقه وصححه .

.. so discussed scholars this Muallaque narration which is not found in connected state in any book, and all those who had quoted it had referred Hafiz Ibn Abul Barr, and in reality the hadith is weak. In fact this authenticated by some scholars as like Ibn- Abul Barr who had quoted it Muallaq and authenticated it

It is reported in Bukhari that

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عياش حدثنا عبد الأعلى حدثنا سعيد قال وقال لي خليفة حدثنا ابن زريع حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال  : ( العبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه و سلم ؟ فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال انظر إلى مقعدك في النار أبدلك الله به مقعدا من الجنة ) . قال النبي صلى الله عليه و سلم ( فيراهما جميعا وأما الكافر أو المنافق فيقول لا أدري كنت أقول ما يقول الناس . فيقال لا دريت ولا تليت ثم يضرب بطرقة من حديد ضربة بين أذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين

Narrated Anas:

The Prophet said, “When the slave (of Allah) is laid in his grave and his companions went away, until, Indeed he hears the footsteps, arrive two angels to him and make him sit and ask him: What did you use to say about this man, Muhammad ? He will say: I testify that he is Allah’s slave and His Apostle. Then it will be said to him, ‘Look at your place in the Hell-Fire. Allah has given you a place in Paradise instead of it.’ ” The Prophet added, “The dead person will see both his places. But a non-believer or a hypocrite will say to the angels, ‘I do not know, but I used to say what the people used to say! It will be said to him, ‘Neither did you know nor did you take the guidance (by reciting the Quran).’ Then he will be hit with an iron hammer between his two ears, and he will cry and that cry will be heard by whatever approaches him except human beings and jinns.”

[/note]

Qattadah (d. 118AH) did not believe in hearing of dead but he reported that dead would hear the foot steps? A question arises whose footsteps are these. The interpretation of this hadith in accordance with Quran is that the footsteps are that of angels not the people who had just buried him. This whole session is executed in Burzakh.

Al-Zain bin Al-Muneer (الزَّيْن بْن الْمُنِير) said (Sharah Ibn-Hajar, juz 4 pg 401 )

وَكَأَنَّهُ اِقْتَطَعَ مَا هُوَ مِنْ سَمَاع الْآدَمِيِّينَ مِنْ سَمَاع مَا هُوَ مِنْ الْمَلَائِكَة

And like hear from  Angels  (footsteps) like what (he used to) hear from humans’ (footsteps)

Also, Al-Muhlab said (Sharah Ibn- Battal, juz 5, pg 355)  that word  من يليه إلا الثقلين  (which  approaches him except humans and jinns) actually mean   هم الملائكة الذين يلون فتنته the angels which came for questioning. Therefore the only logical interpretation of this narration is that the dead hear the footsteps of angels, they question him and in case of wrong answer torture it and this cry is heard by angels themselves.

Qattadah said (Sahih Bukhari, juz 1, pg 462) that

قال قتادة وذكر لنا أنه يفسح في قبره

We are informed that his grave would be widened

As seen above Qattadah did not believe in hearing of dead. He took the speech of Prophet at Badr’s Well as a miracle of Prophet and he also said that the grave is widened. If dead does not listen then how it would reply at the time of questioning. Further the widening demands seeing. It is therefore also clear from these narrations that according to Qattadah the questing and widening is not related to this grave in earth but rather it is executed somewhere else.

Some people claim that in the shorter version of this narration the angels are not mentioned and it is said that the dead hear the footsteps as people are departing. The scholar which do not believe in the returning of the soul of dead say against this argument that in Sahih Bukhari it is reported completely with chain

قال لي خليفة حدثنا ابن زريع حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس رضي الله عنه عن النبي

In Sahih Muslim, Sunnan Abi Dawood  and Nisai the narration is shortened by the narrators who have heard from Yazid bin Zuraiy and Abdul Wahab bin Atta. It is always the rule that the complete version of the hadith would be used for understanding instead of the shortened version, done by the Shuyukh of Muslims and Abi Dawood.

Ibn-Tammiyah said in his Fatwah juz 1, pg 349

وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَذَا مُوَافِقٌ لِهَذَا فَكَيْفَ يَدْفَعُ ذَلِكَ ؟ وَمِنْ الْعُلَمَاءِ مَنْ قَالَ : إنَّ الْمَيِّتَ فِي قَبْرِهِ لَا يَسْمَعُ مَا دَامَ مَيِّتًا كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ .

And this proved from Sahih  Bukhari and Muslim and others that the dead body hears the footsteps of people returning and it is in agreement then how could it be repelled (i.e. ignored). And there are scholars which say : The dead in the grave do not hear, as long as it is dead, like (what) Aisah said

From the words of Ibn-Tammiyah it is clear that there were scholars who abhor the idea of hearing of dead and Ibn-Tammiyah counted Aisah, Mother of Believers among those scholars.  

It is reported in Sahih Muslim, chapter  باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها

 

Narrated Aisah (may Allah pleased with her)  that Prophet peace be upon him instructed the Muslims to say prayer of blessings on their dead when they go to graveyard.

[note color=”#CEECF5″]

السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون

May blessings of Allah be on the homes of believers and Muslims, and may His mercy be on those who have departed early and on those who would come later and I will soon join you insha-Allah

[/note]

It is claimed by some scholars (like Ibn-Katheer ) that this prayer is like an address, which indicate that the dead in graves would understand this and reply. On the contrary the group of scholars who believe that dead cannot hear, say that this is a prayer like we address but it does not mean that dead would hear as well.  Note that this narration is reported by Aisha peace be upon her, and she did not believe in hearing of dead.

It is reported by Dahabi in Tahrikh al-Islam, juz 1, pg 642 that Ibn-Umer was informed about the arrival of Asma in mosque, after the crucifixion of Ibn-Zubair

وقال حميد بن زنجويه : ثنا ابن أبي عباد ثنا سفيان بن أبي عيينة عن منصور بن عبد الرحمن عن أمه قالت : قيل لابن عمر أن أسماء في ناحية المسجد وذلك حين قتل ابن الزبير وهو مصلوب فمال إليها فقال : إن هذه الجثث ليست بشيء وإنما الأرواح عند الله فاتقي الله وعليك بالصبر

It was said to Ibn ‘ Umar that Asma is in the mosque, while Ibn al-Zubayr was killed and crucified, so he said to her: that these corpses are nothing and indeed the souls are with Allah, so fear Allah and you have to be patient

Ibn-Umer talked with the crucified body of Abdullah bin Zubair (Sahih Muslim, juz 4 , pg 1971)

عبدالله بن عمر فوقف عليه فقال السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا

Ibn-Umer stopped by and said Salam to you O Aba Khubaib, Salam to you O Aba Khubaib, O Aba Khubaib by Allah I warned you from doing this, by Allah I warned you from doing this, by Allah I warned you from doing this

This shows that Ibn-Umer talked with the soul-less dead body and he did not believe that Ibn-Zubair  is actually hearing the speech and he said السلام عليك .

Scholars who believe in hearing of dead then present the following narration, reported by Ibn Abi Sheba, juz 3, pg 27

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبيد الله بن موسى عن بن أبي ذئب عن قرة عن عامر بن سعد عن أبيه أنه كان يرجع من ضيعته فيمر بقبور الشهداء فيقول السلام عليكم وانا بكم للاحقون ثم يقول لأصحابه ألا تسلمون على الشهداء فيردون عليكم

His father was returning from his farm,  and he passed by the graves of the martyrs, said peace and blessings of  Allah  and we shall meet soon then he said to his companions why don’t you say salam to  martyrs so that they respond to you.

 [/note]

In this narration, the narrator قرة is unknown. This is the only narration in whole hadith literature with this chain and that makes this narration Gharib (isolated) and weak. Ibn Abi Zaib (159 AH) is although a siqa narrator but Ahmed said (Tahzeeb al-Kamal juz 25 pg 630)

 ابن أبي ذئب كان لا يبالي عن من يحدث

Ibn Abi Zaib does not care from whom he is narrating

The scholars who believe in returning of the soul, claim that the narrator قرة   full name is

قرةبن خالد السدوسي but they present no evidence for this.

 

The purpose of visiting graveyard is to remind oneself the fact that one day we all go there. But when we go there it is taught that we say Salam to them. But that is not the purpose but the Adab or protocol. Also, to send Salam to Martyrs it is not necessary to go to graves, as it is reported by Bukhari inVolume 1, Book 12, Number 794:

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Shaqiq bin Salama: ‘Abdullah said, “Whenever we prayed behind the Prophet we used to recite (in sitting) ‘Peace be on Gabriel, Michael, peace be on so and so. Once Allah’s Apostle looked back at us and said, ‘Allah Himself is As-Salam (Peace), and if anyone of you prays then he should say, All the compliments, prayers and good things are due to Allah: peace be on you, O Prophet and Allah’s mercy and blessings be on you. Peace be on us an on the true pious slaves of Allah. If you say that, it will be for all the slaves in the heaven and the earth. I testify that none has the right to be worshipped but Allah and I also testify that Muhammad is His slave and His Apostle).”

[/note]

It is reported in Musnad Abi-Yalah (juz 6 , pg 84) that

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ ، أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ : وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ ، لَيَنْزِلَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلا ، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ ، وَلَيُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَيْنِ ، وَلَيُذْهِبَنَّ الشَّحْنَاءَ ، وَلَيُعْرَضَنَّ عَلَيْهِ الْمَالُ فَلا يَقْبَلُهُ ، ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ لأُجِيبَنَّهُ

Abu Hurrairah said that I heard Messenger of Allah peace be upon him said: By Being (Allah) in whose hands the life of Abi Qasim (Prophet himself) is Indeed Jesus son of Mary would descend (from sky) as a  fair and a just Imam. He would  break the Cross and kill the pig, and rectify the relations  and hostility would vanish and money would be offered to him but he would not accept it and then when he stands on my grave (for prayer of blessing he would )say O Muhammad  (and) I would reply (to him)!

[/note]

This narration is reported by   أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ who is a controversial narrator, some  hadith scholars have endorsed his narration but others have rejected him as well.

 

Ibn- Moin and Ibn- Addi called him ضعيف (Mezal al-Ateedal, juz 1, pg 612)

Ibn- Shaheen called him  ضعيف in his work  تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين juz 1, pg 75)

A similar kind of  hadith is also reported by Imam Muslim in his Sahih with chain

 

أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ

 

where it does not contains the addition (i.e. he stands on my grave and say O Muhammad I would reply). It is therefore an addition done by narrator Abi Sakhar أَبِي صَخْرٍ  .

It is reported by Dahabi in Mezan al-Atedal in discussion on narrator Muhammad bin Marwan:

[note color=”#CEECF5″]

العلاء بن عمرو الحنفي، حدثنا محمد بن مروان، عن الاعمش، عن أبى صالح، عن أبى هريرة – مرفوعا: من صلى على عند قبري سمعته، ومن صلى على نائيا بلغته

Narrated Abu Hurraira:  I hear the one who say Salam to me near my grave, and who say it far from me, his Salam is conveyed to me.

[/note]

The narrator محمد بن مروان is a liar Dahabi says تركوه واتهمه بعضهم بالكذب. Narrations are not taken and some (scholars ) have blamed him for lies.  Uqaili said in Doafa Uqaili, juz 4 pg 136 after quoting this narration

لا أصل له من حديث الأعمش وليس بمحفوظ ولا يتابعه إلا من هو دونه

It has no source from Aamash and not a saved narration and no one else followed except those who are of similar kind

 

Ibn-Hajar said in Fathul-Bari juz 10  pg 243

وَأَخْرَجَهُ أَبُو الشَّيْخ فِي ” كِتَاب الثَّوَاب ” بِسَنَد جَيِّد بِلَفْظِ ” مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْد قَبْرِي سَمِعْته ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا بُلِّغْته

And Abu Sheikh has brought it in Kitab al-Sawab with good chain[1] and with words I hear the one who say Salam to me near my grave, and who say it far from me, his Salam is conveyed to me.

It is stated in Aoon al-Mabood juz 4 pg 242

[note color=”#CEECF5″]

وَأَخْرَجَ أَبُو الشَّيْخ فِي كِتَاب الصَّلَاة عَلَى النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ آلِهِ وَسَلَّمَ : حَدَّثَنَا عَبْد الرَّحْمَن بْن أَحْمَد الْأَعْرَج حَدَّثَنَا  الحسين بْن الصَّبَّاح حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَة حَدَّثَنَا الْأَعْمَش عَنْ أَبِي صَالِح عَنْ أَبِي هُرَيْرَة قَالَ قَالَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْد قَبْرِي سَمِعْته ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ مِنْ بَعِيد أُبْلِغْته ، قَالَ اِبْن الْقَيِّم فِي جَلَاء الْأَفْهَام : وَهَذَا الْحَدِيث غَرِيب جِدًّا .

And Abu Sheikh has brought it in Kitab-al-Salat ala al-Nabi : (quoted sanad) .. Ibn-Qayyam said in Jilla al-Ifham and this narration is very Gharib

[/note]

In Jila-al-Ifham the sanad is

وقال أبو الشيخ في كتاب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم : حدثنا عبد الرحمن بن أحمد الأعرج ، حدثنا الحسين بن الصباح ، حدثنا أبو معاوية ،حدثنا الأعمش ،عن أبي صالح ، عن أبي هريرة –

 

The word Ghharib indicate that no one else report this narration. As such there is no evidence that this narration is available to early scholars of hadith. A natural question is then why it is kept so secret that no one knows about this chain except Abu Sheikh ?  Even Ibn-Qayyam who is an stalwart supporter of hearing of death said that narration is very Gharib.

 

Both in Jilla al-Ifham and Aaon al-Mabood the name of narrator is Hussian bin As-Sabah, who is an  unknown narrator.  Further Aamash has heard this narration from Abi Salah. Which Abi Salah is this?  Aamash is Mudlis narrator and it is sometimes necessary to know from where Mudlish narrator has heard the report. Further the narration with use of عَنْ  from Mudlis narrator is not acceptable. Abu Zara’ al-Dimishqui said (pg 230) said Ahmed said:

وأبو صالح الذي روى عنه الأعمش: سميع

Ahmed said  and Abu Salah from whom Amash narrates (is) Sami

 

His name is Sami al-Ziyyat Al-Kofi. Ibn-Hajar (d 852 AH) said  for him in Taqreeb al-Tahzeeb  مقبول من السادسة  Maqbool in sixth category.

Sixth category contains the narrators which are lowest in authentication.

السادسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ ” مقبول ” حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.

Sixth: one from which there are very few reports of hadith, and it is not proved that his hadith would be rejected due to this and it is connoted with the word Maqbool when there is a support(ing narration) and otherwise weak-in-hadith

 

As this narration has no other supporting narration it would be necessary to reject it instead of taking it as an article of faith.

Now some views about the book, from which this narration is reported. Ibn-Tammiyah said in Majmoo Al-Fatawah juz 1, pg 252 for Abu al-Sheik (d. 369 AH)

رواه أبو الشيخ الأصبهانى فى كتاب فضائل الأعمال وفى هذا الكتاب أحاديث كثيرة كذب موضوعة

Abu Sheikh Al-Isbahani has narrated this in  in book Fazail al-Aamal and in this book there are many narrations which are lies and manufactured narrations.

Dahabi said (Seer al-Allam al-Nubla juz 16 pg 279  يملا تصانيفه بالواهيات  Filled his books with Wahiyyat.

A scholar of recent era, Al-Bani said(Al-Ayat al-Bayyenat pg 80)

وأما حديث ” من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته ” فهو موضوع كما قال شيخ الإسلام ابن تيمية في ” مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 ) وقد خرجته في ” الضعيفة ” ( 203 ) . ولم أجد دليلا على سماعه صلى الله عليه وسلم سلام من سلم عند قبره وحديث أبي داود ليس صريحا في ذلك فلا أدري من أين أخذ ابن تيمية قوله ( 27 / 384 ) : أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

And the hadith من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته is concocted as said by Ibn Tammiyah in Majmoo al-Fatawah (27/241) and I brought it in Al-Daifa and I do not got the proof of hearing of Salam by Prophet near his grave .. ….and I do not know from where got Ibn-Tammiyah that he said (27/384) Indeed (Prophet) peace be upon him hear the Salam when uttered nearby (his grave)

 

Further now in front of  Prophet’s burial place a verse is written:

[note color=”#BEF781″]

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ 

O you who believe! Raise not your voices above the voice of the Prophet (), nor speak aloud to him in talk as you speak aloud to one another, lest your deeds may be rendered fruitless while you perceive not.

 [/note]

The underlying belief is that the Prophet is alive  in grave however this is wrong as Prophet is alive in Paradise.  One must exhibit dignity and respect whenever his name is uttered but he is not at  his grave.

 

An important issue in Islamic jurisprudence is that if someone took an oath that he would not talk to some person and assuming that this person is dead now and he goes to burial and talks to that person, then would that act annul hi/bs oath? Also if someone takes an oath that he would not talk to his friend and if he does so his marriage become invalid, now if the same person talks with the dead body of his friend then this would not annul his marriage.

 

1. It is reported in al-Mabsoot, juz 10, pg 407

فَإِنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ الْكَلَامِ الْإِفْهَامُ وَذَلِكَ لَا يَحْصُلُ بَعْدَ الْمَوْتِ

And the speech (to dead) requires the understanding and that is not possible after death.

 

2. It is reported in حاشية رد المحتار, juz 4 pg 148

وأما الكلام فلان المقصود منه الافهام والموت ينافيه

And the speech (to dead) requires the understanding and the death rules it out.

 

3. Al-Nawawi (676 A.H) said in al-Majmoo juz 17 pg 224[1]

وان كلمته وهو ميت لم تطلق، لان الميت لا يكلم.

And if he speak with it and he is dead, he would not be divorced as the dead do not talk

 

Also he said that if someone quote the incident of well of Badr

قلنا تلك معجزة للنبى صلى الله عليه وسلم، لان الله رد إليهم أرواحهم حتى يسمعوا كلام النبي صلى الله عليه وسلم، لان الاصل أن الميت لا يسمع.

We say it was the miracle of Messenger of Allah peace be on him, because Allah has returned their souls until they heard he speech of Prophet, as the reality is that the dead do not hear

 

4. It is written in  الفروع لابن مفلح  juz 3, pg 348 that Ibn-Jawzi (597 AH) said

وَقَالَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي كِتَابِهِ السِّرِّ الْمَصُونِ : الَّذِي يُوجِبُهُ الْقُرْآنُ وَالنَّظَرُ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَسْمَعُ وَلَا يُحِسُّ

Ibn Jawzi said in book Sir al-Mason: It is validated by the Quran and the consideration that the dead do not hear and sense 

 

 

The final conclusion is that the hearing of dead is not a valid belief. It is against Quran and even Mother of Believer Aisha hold the belief that dead does not hear.

 

As a Muslim it is important that we bring our believes in accordance with Holy Quran. May Allah send his blessings on our last Prophet Muhammad peace be upon him and guide us towards his mercy and Heavens and save us from Azab al-Qabr and Hell  Fire. Amen

 

 


[1] Although he said complete opposite in his Sharah Al-Muslim