فرقہ اہل حدیث و سلفی وہابی فرقوں میں تعویذ کے جواز پر شدید اختلاف موجود ہے -پاکستانی اہل حدیث میں سے ایک کثیر تعداد تعویذ کو لٹکاتی ہے اس کو عین توحید سمجھتی ہے اور دوسری طرف سمندر پار جزیرہ عرب میں عبد الوہاب النجدی نے کتاب التوحید میں اس کو شرک قرار دیا تھا – اس اختلاف کو چھپا کر رکھا جاتا تھا یہاں تک کہ عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے کتاب تعویذات کا شرک مرتب کی اور عوام میں بانٹی –
عثمانی صاحب نے روایت پیش کی
اس کے بعد سے آج تک اہل حدیث کی جانب سے ہر سال تعویذ پر تحقیق ہو رہی ہے اور نت نئے انکشافات سامنے اتے رہتے ہیں – مثلا بعض اھل حدیث محققین کی جانب سے تعویذ کے جواز پر جوابا کہا جا رہا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تعویذ کے خلاف احادیث تمام کی تمام ضعیف ہیں
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت
سنن ابو داود ح 3883 میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ» [ص:10] قَالَتْ: قُلْتُ: لِمَ تَقُولُ هَذَا؟ وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: “جھاڑ پھونک (منتر) گنڈا(تعویذ) اور تولہ شرک ہیں” عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی میری آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے آتی تھی تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو میرا درد بند ہو جاتا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: یہ کام تو شیطان ہی کا تھا وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ چھوتا تھا تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو وہ اس سے رک جاتا تھا، تیرے لیے تو بس ویسا ہی کہنا کافی تھا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «ذهب الباس رب الناس اشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» “لوگوں کے رب! بیماری کو دور فرما، شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہ رہنے دے”۔
نوٹ : اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے اور حاکم نے بھی صحیح قرار دیا ہے – امام الذھبی نے موافقت کی ہے
اعتراض اہل حدیث جدید کا کہنا ہے کہ یہ متن منکر ہے -یہودی سے اصحاب رسول کا دم کرانا منکر روایت ہے
جواب
قال الربيع بن سليمان ، تلميذ الشافعي :
” سَأَلْت الشَّافِعِيَّ عن الرُّقْيَةِ ؟ فقال : لاَ بَأْسَ أَنْ يرقى الرَّجُلُ بِكِتَابِ اللَّهِ ، وما يَعْرِفُ من ذِكْرِ اللَّهِ .
قُلْت : أيرقى أَهْلُ الْكِتَابِ الْمُسْلِمِينَ ؟
فقال : نعم ؛ إذَا رَقُوا بِمَا يُعْرَفُ من كِتَابِ اللَّهِ ، أو ذِكْرِ اللَّهِ .
فَقُلْت : وما الْحُجَّةُ في ذلك ؟
قال : غَيْرُ حُجَّةٍ ؛ فَأَمَّا رِوَايَةُ صَاحِبِنَا وَصَاحِبِك ـ يعني : الإمام مالكا رحمه الله ـ ؛ فإن مَالِكًا أخبرنا عن يحيى بن سَعِيدٍ عن عَمْرَةَ بِنْتِ عبد الرحمن أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دخل على عَائِشَةَ وَهِيَ تَشْتَكِي وَيَهُودِيَّةٌ تَرْقِيهَا فقال أبو بَكْرٍ أرقيها بِكِتَابِ اللَّهِ ” انتهى .
“الأم” للشافعي (7/228)
الربيع بن سليمان نے امام شافعی سے پوچھا دم کرنےپر امام شافعی نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں کہ کتاب اللہ سے دم کیا جائے اور جو اللہ کا ذکر معلوم ہو اس سے
میں الربيع بن سليمان نے کہا کیا اہل کتاب مسلمانوں کو دم کر سکتے ہیں ؟
امام شافعی نے فرمایا ہاں – جب وہ کتاب اللہ میں جو جانتے ہوں اس سے دم کریں یا اللہ کے ذکر سے
میں نے کہا اس کی دلیل کیا ہے ؟
امام شافعی نے فرمایا ہمارے اور تمھارے امام مالک صاحب رحمہ اللہ کی روایت ہے – امام مالک نے خبر دی یحییٰ بن سعید سے انہوں نے عمرہ سے روایت کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر داخل ہوئے تو یہودیہ ان کو دم کر رہی تھی پس ابو بکر نے کہا کتاب اللہ سے دم کرو
امام محمد نے بھی اسی روایت سے دلیل لی ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهِيَ تَشْتَكِي، وَيَهُودِيَّةٌ تَرْقِيهَا، فَقَالَ: «ارْقِيهَا بِكِتَابِ اللَّهِ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالرُّقَى بِمَا كَانَ فِي الْقُرْآنِ، وَمَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ، فَأَمَّا مَا كَانَ لا يُعْرَفُ مِنْ كَلامٍ، فَلا يَنْبَغِي أَنْ يُرْقَى بِهِ
ہم اسی روایت کو لیتے ہیں کہ قرآن سے دم کرنے میں برائی نہیں ہے جس میں الله کا ذکر ہو جہاں تک وہ کلام ہے جو جانا نہیں جاتا اس سے دم نہیں کرنا چاہیے
معلوم ہوا کہ امام مالک، امام شافعی اور احناف میں اہل کتاب سے دم کرا سکتے ہیں
وہابی مفتی ابن باز سے سوال ہوا : هل تجوز رقية النصراني واليهودي للمسلم؟
کیا نصرانی و یہودی کا رقیہ مسلم کے لئے ہے ؟
فأجاب: إذا لم يكن من أهل الحرابة، وكانت من الرقية الشرعية، فلا بأس بذلك
پس جواب دیا اگر حربی نہیں ہے اور رقیہ شرعی ہے تو برائی نہیں ہے
راقم کہتا ہے کہ صحیح بات ہے کہ شرک پر اگر دل مطمئن ہو جائے تو کفر کا فتوی لگتا ہے – یہاں ابن مسعود رضی الله عنہ کی بیوی نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو شرک ہو صرف دم کرایا تھا
اہل حدیث مبشر ربانی دور کی کوڑی لاتے ہیں مبشر ربانی کتاب مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط ص ٢٩٥ میں لکھتے ہیں
راقم کہتا ہے اس حدیث میں کہیں نہیں ہے کہ زینب زوجہ ابن مسعود شرک کی مرتکب تھیں تو اس پر حاشیہ آرائی غیر مناسب ہے – دین میں اہل کتاب سے دم کرا سکتے ہیں – ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اصل میں شرکیہ دم سے منع کیا ہے جو ان کی بیوی نے سمجھا کہ ابن مسعود اس وقت دم کو مطلق حرام کہہ رہے ہیں (جبکہ ابن مسعود کا مدعا الگ ہے ) – زوجہ ابن مسعود کا سوال یہ صرف وضاحت و اشکال والا معاملہ ہے
اس کا ایک ترجمہ مبشر ربانی نے اسی کتاب میں پیش کیا ہے
اس روایت کے متن میں ہے کہ یہودیہ دم کرنے میں مشغول تھی کہ ابن مسعود پہنچ گئے اور اس تانت کو توڑ دیا
اس میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ زوجہ ابن مسعود مشرکہ تھیں
اعتراض : اعمش اس میں مدلس ہے اور سند عن سے ہے
جواب
صحیح بخاری میں اعمش نے حدثنی کے ساتھ روایت کیا ہوا ہے سماع ثابت ہے
اور اہل حدیث کا اصول ہے کہ اگر ایک ہی سند میں سماع کی تصریح مل جائے تو سماع ہوتا ہے
تدلیس کا خطرہ ختم ہو جاتا ہے
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ” قَالَ أَبُو لَهَبٍ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ اليَوْمِ فَنَزَلَتْ: {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ} [المسد: 1] “
وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا [ص:35] الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَزَلَ رَمَضَانُ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَكَانَ مَنْ أَطْعَمَ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا تَرَكَ الصَّوْمَ مِمَّنْ يُطِيقُهُ، وَرُخِّصَ لَهُمْ فِي ذَلِكَ، فَنَسَخَتْهَا: {وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} [البقرة: 184] فَأُمِرُوا بِالصَّوْمِ
یہاں اعمش نے عمرو بن مرہ سے تحدیث کے ساتھ روایت کیا ہے
مستدرک حاکم 7505 میں یہی روایت اس سند سے بھی ہے
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزَّاهِدُ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ، ثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ قَيْسِ بْنِ السَّكَنِ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى امْرَأَةٍ فَرَأَى عَلَيْهَا حِرْزًا مِنَ الْحُمْرَةِ فَقَطَعَهُ قَطْعًا عَنِيفًا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الشِّرْكِ أَغْنِيَاءُ وَقَالَ: كَانَ مِمَّا حَفِظْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتَّوْلِيَةَ مِنَ الشِّرْكِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
7505 – صحيح
یہاں الذھبی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے
اعتراض کیا جاتا ہے
مستدرک حاکم 7505 کی سند میں أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ مجہول ہے
جواب
مجہول نہیں ہے
تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
أحمد بن مهران بن المنذر، أبو جعفر الهمذاني القطان. [الوفاة: 261 – 270 ه]
سَمِعَ: محمد بن عبد الله الأنصاري، وعثمان بن الهيثم المؤذن، والقعنبي.
وَعَنْهُ: علي بن مهروية القزويني.
قال أبو حاتم: صدوق.
الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة از ابن قُطْلُوْبَغَا میں ہے
أحمد بن مهران بن المنذر القَطَّان الهَمَذَاني، أبو جعفر.
قال ابن أبي حاتم (1): سمع أبي في كتابه كتاب «الموطأ» عن القعنبي، روى عن عثمان بن الهيثم، وعبد الله بن رجاء، وحسن بن موسى الأشيب، والأنصاري، وهو صدوق.
اعتراض
مستدرک حاکم کی سند میں اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق ضعیف ہے
جواب
إِسْرَائِيل بن يُونُس بن أبي إِسْحَاق صحیح بخاری کا راوی ہے اور اس کی ہر روایت اہل حدیث کے اصول پر صحیح متصور ہو گی
ہمارے نزدیک اس متن میں اس کا تفرد نہیں ہے لہذا حدیث اپنی جگہ قائم ہے اس کی اصل ہے
اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں کہ مسند احمد میں اس روایت کی سند ضعیف ہے
مسند احمد
٣٦٠٥
حَدَّثَنَا (1) جَرِيرٌ، عَنْ الرُّكَيْنِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: ” كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ عَشْرَ خِلَالٍ: تَخَتُّمَ الذَّهَبِ، وَجَرَّ الْإِزَارِ، وَالصُّفْرَةَ – يَعْنِي الْخَلُوقَ -، وَتَغْيِيرَ الشَّيْبِ – قَالَ جَرِيرٌ: إِنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ (2) نَتْفَهُ – وَعَزْلَ الْمَاءِ عَنْ مَحِلِّهِ، وَالرُّقَى إِلَّا بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَفَسَادَ الصَّبِيِّ غَيْرَ (3) مُحَرِّمِهِ، وَعَقْدَ التَّمَائِمِ، وَالتَّبَرُّجَ بِالزِّينَةِ لِغَيْرِ مَحِلِّهَا، وَالضَّرْبَ بِالْكِعَابِ
جواب اگرچہ مسند کے محقق شعیب نے اس کو منکر ہے لیکن احمد شاکر کا کہنا ہے روایت صحیح ہے
إسناده صحيح، الركين: هو ابن الربيع، سبق توثيقه 868. القاسم بن حسان العامري:
ثقة: وثقه أحمد بن صالح، وذكره ابن حبان في ثقات التابعين، وذكر البخاري في الكبير 4/ 1/ 161 اسمه فقط، ولم يذكر عنه شيئَاً. وترجمه ابن أبي حاتم في الجرح والتعديل 3/ 2/ 108 فلم يذكر عنه جرحاً. عبد الرحمن بن حرملة الكوفي: ذكره ابن حبان في الثفات، وذكره البخاري في الضعفاء21 قال: “عبد الرحمن بن حرملة عن ابن مسعود، روى عنه القاسم بن حسان، لا يصح حديثه”. والحديث رواه أبو داود 4: 143 – 144 من طريق المعتمر عن الركين. قال المنذري: “وأخرجه النسائي، وفي إسناده قاسم بن حسان الكوفي عن عبد الرحمن بن حرملة، قال البخاري: القاسم بن
حسان: سمع من زيد بن ثابت وعن عمه عبد الرحمن بن حرملة، وروى عنه الركين ابن الربيع، لم يصح حديثه في الكوفيين. قال علي بن المديني حديث ابن مسعود أن النبي – صلى الله عليه وسلم – كان يكره عشر خلال: هذا حديث كوفي، وفى إسناده من لا يعرف. وقال =
ابن المديني أيضاً: عبد الرحمن بن حرملة: روى عنه قاسم بن حسان، لا أعلم رُوي عن عبد الرحمن هذا شيء من هذا الطريق، ولا نعرفه من أصحاب عبد الله. وقال عبد الرحمن بن أبي حاتم. سألت أبي عنه؟، فقال: ليس بحديثه بأس، وإنما روى حديثاً واحداً، ما يمكن أن يعتبر به، ولم أسمع أحداً ينكره أو يطعن عليه، وأدخله البخاري في كتاب الضعفاء، وقال أبي: يحوَّل منه”. والذي نقله المنذري عن البخاري في شأن القاسم بن حسان لا أدري من أين جاء به، فإنه لم يذكر في التاريخ الكبير إلا اسمه فقط. كما قلنا، ثم لم يترجمه في الصغير، ولم يذكره في الضعفاء. وأخشى أن يكون المنذري وهم فأخطأ، فنقل كلام ابن أبي حاتم بمعناه منسوباً للبخاري. وأنا أظن أن قول البخاري في عبد الرحمن بن حرملة “لا يصح حديثه” إنما مرده إلى أنه لم يعرف شيئَاً عن القاسم بن حسان، فلم يصح عنده لذلك حديث عمه عبد الرحمن. (فائدة): قال أبو داود، بعد أن روى هذا الحديث: “انفرد بإسناد هذا الحديث أهل البصرة”!، وهو خطأ عجيب، فإن رواته كلهم كوفيون. ليس فيهم بصري!. تفسير جرير “تغير الشيب” بأنه نتفه، هو الصحيح، وبذلك في شه ابن الأثير، وقال “فإن تغيير لونه قد أمر به في غير حديث”. “وفساد الصبي” إلخ: قال ابن الأثير: “هو أن يطأ المرأة المرضع، فإذا حملت فسد لبنها، وكان من ذلك فساد الصبي، ويسمى الغيلة. أقوله غير محرمه: أي أنه كرهه ولم يبلغ حد التحريم”. وانظر معالم السنن 4: 213.
اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں کہ طبرانی کی سند ضعیف ہے
طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ الضَّبِّيُّ، ثنا أَبُو إِسْرَائِيلَ الْمُلَائِيُّ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرِو، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ، دَخَلَ عَلَى بَعْضِ أُمَّهَاتِ أَوْلَادِهِ فَرَأَى فِي عُنُقِهَا تَمِيمَةً، فَلَوى السَّيْرَ حَتَّى قَطَعَهُ، وَقَالَ: «أَفِي بُيُوتِي الشِّرْكُ؟» ثُمَّ قَالَ: «التَّمَائِمُ، وَالرُّقَى، وَالتُّوَلَةُ شِرْكٌ، أَوْ طَرَفٌ مِنَ الشِّرْكِ»
ان کا اعتراض ہے کہ اس سند میں أَبُو إِسْرَائِيلَ الْمُلَائِيُّ منکر الحدیث ہے
جواب ابو اسرئیل إسماعيل بن خليفة العبسي أبو إسرائيل الملائي، الكوفي ایک غالی شیعہ ہے اور بعض محدثین نے اس کو غلو کی بنا پر ترک کیا ہے
بدعتی کی روایت غیر غلو کی صورت قبول کی جاتی تھی
عبد اللہ نے باپ امام احمد سے اس پر سوال کیا تو کہا
قلت: إن بعض من قال: هو ضعيف. قال: لا، خالف في أحاديث
میں نے کہا بعض کہتے ہیں یہ ضعیف ہے ؟ احمد نے کہا نہیں
– یہ بعض احادیث میں اختلاف کرتا ہے
اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں طبرانی کی یہ سند بھی ضعیف ہے
طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، أَوْ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، – شَكَّ مَعْمَرٌ – قَالَ: رَأَى ابْنُ مَسْعُودٍ، فِي عُنُقِ امْرَأَتِهِ خَرَزًا قَدْ تَعَلَّقَتْهُ مِنَ الْحُمْرَةِ فَقَطَعَهُ، وَقَالَ: «إِنَّ آلَ عَبْدِ اللهِ لَأَغْنِيَاءُ عَنِ الشِّرْكِ»
ان کا کہنا ہے کہ اس سند میں زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ مجہول ہے
جواب
قال البرقاني: سمعت أبا الحسن الدَّارَقُطْنِيّ يقول زياد بن أبي مريم، روى عنه عبد الكريم الجزري، حراني، ثقة.
دارقطنی کے نزدیک یہ ثقہ ہے
قال العجلي: جزري تابعي ثقةٌ
ابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور اس قول میں منفرد نہیں ہے
معلوم ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح ہے – اس کی اسناد میں سے بعض صحیح ہیں بعض حسن ہیں اور روایت کا اصل ہے
عقبہ بن عامر کی روایات
مسند احمد
١٧٤٢٢
17422
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ، عَنْ دُخَيْنٍ الْحَجْرِيِّ،
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَيْهِ رَهْطٌ، فَبَايَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، بَايَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا؟ قَالَ: ” إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً ” فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَطَعَهَا، فَبَايَعَهُ، وَقَالَ: ” مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ
اس پر اہل حدیث کا اعتراض ہے کہ اس میں راوی دخين بن عامر الحجرى ، أبو ليلى المصرى مجہول ہے
جواب
يعقوب بن سفيان ،ابن حبان، ابن حجر ، الذھبی نے دخين بن عامر الحجري کو ثقہ قرار دیا ہے
البانی نے سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها ح 492 اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
احمد شاکر نے بھی صحیح کہا ہے
شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد کا حکم ہے کہ اس روایت کی اسناد قوی ہیں
إسناده قوي
تعویذ کی محبت میں گرفتار اہل حدیث کہتے ہیں يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ کی منفرد روایت ضعیف ہے
جواب
یزید بن ابی منصور پر کوئی کلمہ جرح معلوم نہیں ہے اور اس کی تعدیل کا ذکر محدثین نے کیا ہے
لہذا یہ دعوی کہ اس کی منفرد روایت ضعیف ہے قابل رد ہے
معلوم ہوا کہ روایات صحیح ہیں – ان احادیث کو خود اہل حدیث اور سلفی فرقہ کا ایک کثیر گروہ صحیح کہتا ہے