ام المومنین کا نکاح 7
اسماء بنت ابی بکر کی عمر کا ذکر 10
ابن الدغنہ کے واقعہ کی چشم دید گواہ 11
طلحہ رضی اللہ عنہ شادی کے متمنی ؟ 13
ام المومنین کا نکاح پہلے ہوا تھا ؟ 15
ام المومنین کا بلوغت پر قول 16
جنگ بدر کے واقعہ سے دلیل 19
حدیث اسامہ سے دلیل 20
احادیث میں ہشام بن عروہ کا تفرد ہے ؟ 21
غیر موجودگی والی روایات 24
واقعہ افک 26
تمنا عمادی کے اعتراضات 31
اہل تشیع کا موقف 36
واقعہ افک پر خوارج کی آراء 38
حمنہ بنت جحش کا کردار 39
ام المومنین کی عظمت و برکت 44
ازواج النبی سے سے تعلقات 49
نبی کا شہد حرام کرنا 51
وفات النبی اور عائشہ رضی اللہ عنہا 65
قرآن کے ساتھ حادثہ 68
حجرہ میں تین چاند گرنے والا خواب 78
وفات النبی کی وجہ زہر ؟ 83
وفات ابو بکر رضی اللہ عنہ 85
مقتل عثمان اور جنگ جمل 87
لن يفلح قوم ولواأمرهم إمرأة 103
حواب کے کتے بھونکیں گے 107
پہلی روایت 108
دوسری روایت 114
تیسری روایت 116
چوتھی روایت 119
پانچویں روایت 120
پانچویں صدی سے قبل اس روایت کی کوئی حیثیت نہیں تھی 123
حواب بنی عامر کا تالاب نہیں تھا 125
لشکر عائشہ بصرہ پہنچنے پر 128
لشکر علی کی ساخت 129
قصاص کا مطالبہ 143
المصنف ابن ابی شیبه کی روایات 145
عائشہ (رض) کی سواری کو قتل کر دیا گیا 169
حالت افسوس کے فرضی قصے 174
امیر المومنین کو قتل کی دھمکی 177
وفات ام المومنین 179
اہل شام کا ام المومنین پر تنقید کرنا ؟ 181
اعتقادی مباحث 183
لا النبی بعدی کا مطلب 183
معراج ایک خواب تھا ؟ 186
میت پر اس کے اہل کا رونا 188
قلیب بدر پر موقف 199
کیا اللہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ؟ 201
سماع الموتی پر موقف 215
عذاب قبر کی روایات 221
وفات شدہ لوگوں سے پردہ کرنا 230
معراج پر دیدار الہی کے حوالے سے موقف 245
فقہی مباحث 248
نامحرم کو دودھ پلانا 248
غلام سے پردہ نہ کرنا 257
غسل کے حوالے سے روایت 259
قول نبوی پر تبصرہ کیا ؟ 261
حالت حیض کے حوالے سے 262
امہات المومنین کی حیات مسلمان عورتوں کے لئے مشعل راہ ہے – عائشہ رضی اللہ عنہا کی سیرت اور ان کے اعتقاد و فقہ سے متعلق مباحث کو جمع کیا گیا ہے – امہات المومنین کا درجہ تمام مومنوں کے لئے ماں والا ہے بلکہ حقیقت میں ایک ماں سے بڑھ کر ہے کیونکہ ایک ماں کا شوہر باپ ہوتا ہے لیکن ام المومنین کے شوہر اس امت کے نبی ہیں –
راقم نے اس کتاب کی ضرورت محسوس کی جب دیکھا کہ اہل سنت میں سے بعض رافضی پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے ہیں اور کھل کر ام المومنین پر تنقید کر رہے ہیں –ان کو لگتا ہے کہ جنگ جمل و صفین ابھی بھی جاری ہے جبکہ ڈیڑھ ہزار سال قبل صرف دو دن میں یہ جنگیں ختم ہو گئیں تھیں – منحوس لوگوں نے ان جنگوں سے متعلق جھوٹ گھڑا ، محدثین نے جمع کیا ، متاخرین نے سر کا تاج بنا دیا – افسوس جہلاء خود اب حواب کے کتوں کی طرح بھونک رہے ہیں –
عائشہ رضی اللہ عنہا فقہائے مدینہ کی استاد ہیں اور اعتقادی مسائل میں ان کی حکمت مومنوں کے لئے مشعل راہ ہے – آپ کی ہی عظمت ہے کہ سماع الموتی کا رد کرنے والوں کو ہمت ملی ہے – قبر پرستی کے خلاف آواز بلند ہوئی ہے
یہ ام المومنین کا ہی فیض ہے کہ مومن عورتوں کو معلوم ہوا کہ وہ جنگ میں شرکت بھی کر سکتی ہیں ورنہ اس سے قبل اسلام میں اس کی مثال نہیں تھی – یہ ان کی برکت ہے کہ پانی نہ ملے تو تیمم کیا جا سکتا ہے – یہ ان کی شان ہے کہ قرآن میں ان کو معصوم ، رجس سے پاک قرار دیا گیا ہے
ابو شہر یار
٢٠٢٠
پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔
جو بڑا زور آور ہے پس وہ قائم ہوا
ذُوْ مِرَّةٍ فَاسْتَوٰى
٦
اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)
اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھا
وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى
٧
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔
پھر نزدیک ہوا پھر معلق ہوا۔
ثُـمَّ دَنَا فَتَدَلّـٰى
٨
پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)
پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم۔
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى
٩
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی
پھر اس نے اللہ کے بندے کے دل میں القا کیا جو کچھ القا کیا دل نے۔
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى
١٠
جو دیکھا تھا اس کو جھوٹ دل نے نہ کیا ۔
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى
١١
پھر جو کچھ اس نے دیکھا تم اس میں جھگڑتے ہو۔
اَفَتُمَارُوْنَهٝ عَلٰى مَا يَرٰى
١٢
اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔
وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَـةً اُخْرٰى
١٣
سدرۃ المنتہٰی کے پاس۔
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى
١٤
جس کے پاس جنت الماوٰی ہے۔
عِنْدَهَا جَنَّـةُ الْمَاْوٰى
١٥
سورہ تکویر میں ہے
اِنَّهٝ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ (19) بے شک یہ قرآن ایک معزز رسول کا لایا ہوا ہے۔ ذِىْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِى الْعَرْشِ مَكِيْنٍ (20) جو بڑا طاقتور ہے عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے۔ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ (21) وہاں کا سردار امانت دار ہے۔ وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُـوْنٍ (22) اور تمہارا رفیق (رسول) کوئی دیوانہ نہیں ہے۔ وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ (23) اور اس نے اس (فرشتہ) کو (آسمان کے) کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔
معلوم ہوا کہ جبریل کو دو بار دیکھا ایک افق مبین پر پھر دوسری بار سِدْرَةِ الْمُنْـتَهٰى پر جس کا ذکر سورہ نجم میں کیا گیا کہ اس نے اسی ذات کو دو بار دیکھا ہے
امام بخاری نے ابن مسعود اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا قول بیان کیا کہ قاب قوسین میں ذکر جبریل علیہ السلام کا ہے لیکن صحیح بخاری کے آخر میں کتاب التوحید میں امام بخاری نے شریک بن عبد الله کی سند سے روایت لا کر اپنا ایک اور موقف بتایا ہے کہ سورہ نجم کی آیات میں قاب قوسین میں قریب آنے سے مراد الله تعالی کا ذکر ہے
۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی
البانی کا قول ہے
لكن هذه الجملة من جملة ما أُنكر على شريك هذا مما تفرد به عن جماهير الثقات الذين رووا حديث المعراج، ولم ينسبوا الدنو والتدلي لله تبارك وتعالى
لیکن یہ وہ جملہ ہے جس کی وجہ سے شریک کی حدیث کا انکار کیا جاتا ہے کہ جمہور ثقات کے مقابلے میں شریک کا اس حدیث معراج میں تفرد ہے اور دنو (نیچے انے ) اور تدلی (معلق ہونے ) کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جاتی
اغلبا امام بخاری کا مقصد ہے کہ اللہ تعالی خواب میں قریب آئے اور جبریل حقیقت میں قریب آئے پھر الوحی کی اگرچہ اللہ کو دیکھا نہیں کیونکہ الصحیح میں دوسرے مقام پر عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث نقل کی ہے کہ اللہ تعالی کو نہیں دیکھا بلکہ جبریل کو دیکھا – و اللہ اعلم
راقم کے نزدیک یہ امام بخاری کی غلطی ہے شریک کی روایت صحیح نہیں منکر و منفرد ہے
امام مسلم کا موقف
امام مسلم کا موقف ہے کہ قاب قوسین سے مراد جبریل کا اصلی شکل میں قریب آنا ہے زمین میں افق پر اور پھر سدرہ المنتہی کے پاس
اہل تشیع کے قدماء کے مطابق قاب قوسین سے مراد حجاب عظمت کے نور کا قریب آنا ہے – الکافی از کلینی میں ہے
عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن القاسم بن محمد الجوهري، عن علي بن أبي حمزة قال: سأل أبوبصير أبا عبدالله عليه السلام وأنا حاضر فقال: جعلت فداك كم عرج برسول الله صلى الله عليه وآله؟ فقال: مرتين فأوقفه جبرئيل موقفا فقال له: مكانك يا محمد فلقد وقفت موقفا ما وقفه ملك قط ولا نبي، إن ربك يصلي فقال: يا جبرئيل وكيف يصلي؟ قال: يقول: سبوح قدوس أنا رب الملائكة و الروح، سبقت رحمتي غضبي، فقال: اللهم عفوك عفوك، قال: وكان كما قال الله ” قاب قوسين أو أدنى “، فقال له أبوبصير: جعلت فداك ما قاب قوسين أو أدنى؟ قال: ما بين سيتها(1) إلى رأسها فقال: كان بينهما حجاب يتلالا يخفق(2) ولا أعلمه إلا وقد قال: زبرجد، فنظر في مثل سم الابرة(3) إلى ما شاء الله من نور العظمة، فقال الله تبارك وتعالى: يا محمد، قال: لبيك ربي قال: من لامتك من بعدك؟ قال: الله أعلم قال: علي بن أبي طالب أمير المؤمنين وسيد المسلمين وقائد الغر المحجلين(4) قال ثم قال أبوعبدالله لابي بصير: يا أبا محمد والله ما جاء ت ولاية علي عليه السلام من الارض ولكن جاء ت من السماء مشافهة.
أبوبصير نے امام جعفر سے سوال کیا اور میں علی بن ابی حمزہ سن رہا تھا کہ رسول الله صلى الله عليه وآله کو کتنی بار معراج ہوئی؟ فرمایا دو بار[1] جن میں جبریل نے ان کو روکا اور کہا یہ مکان ہے اے محمد اس مقام پر رکیں یہاں اس سے قبل کوئی نبی اور فرشتہ نہیں رکا ہے اپ کا رب نماز پڑھ رہا ہے تو رسول الله صلى الله عليه وآله نے جبریل سے پوچھا کیسے نماز پڑھ رہا ہے ؟ جبریل نے کہا وہ کہتا ہے میں پاک ہوں قدوس ہوں میں فرشتوں اور الروح کا رب ہوں میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی – پس رسول الله صلى الله عليه وآله نے کہا اے الله میں اپ کی مغفرت چاہتا ہوں – (امام جعفر نے) کہا : پھر جیسا الله نے ذکر کیا ہے دو کمانوں جتنا یا اس سے بھی کم- ابو بصیر نے کہا : میں اپنے اپ کو اپ پر قربان کروں! یہ دو کمانوں جتنا یا اس سے بھی کم کیا ہے ؟ فرمایا یہ ان کے “سيت” اور سر کے درمیان تھا اور کہا ایک حجاب تھا جو ہل رہا تھا اور میں اس سے زیادہ نہیں جانتا یہ زبرجد کا تھا پس انہوں (رسول الله صلى الله عليه وآله) نے سوئی کی نوک جتنا سے لے کر جو الله نے چاہا اتنا نور عظمت دیکھا – پس الله تبارک و تعالی نے فرمایا : اے محمد – رسول الله صلى الله عليه وآله نے کہا لبیک میرے رب – اللہ تعالی نے کہا تیرے بعد تیری امت میں کون ہے ؟ رسول الله صلى الله عليه وآله نے کہا علي بن أبي طالب أمير المؤمنين وسيد المسلمين وقائد الغر المحجلين – پھر امام جعفر نے کہا علی کی ولایت زمین میں نہیں بلکہ آسمان میں صاف الفاظ میں آئی
لسان العرب از ابن منظور میں ہے وطاقُ الْقَوْسِ: سِيَتُها کمان کی محراب کو سیت کہتے ہیں –
كتاب العين از أبو عبد الرحمن الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) میں ہے
ويَدُ القَوْسِ: سِيَتُها کمان پکڑنے کا دستہ
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کمان اس کی “سیت” پکڑے ہوتے اور اس کو آسمان یا عالم بالا کی طرف کیا ہوتا تو حجاب “سیت” سے بھی نیچے آ گیا تھا اور اس میں سے نور عظمت دیکھا
بحار الأنوار از ملا باقر مجلسی میں ہے
محمد بن العباس، عن أحمد بن محمد النوفلي، عن أحمد بن هلال، عن ابن محبوب، عن ابن بكير، عن حمران قال: سألت أبا جعفر (عليه السلام) عن قول الله عزوجل في كتابه: ” ثم دنافتدلى * فكان قاب قوسين أو أدنى ” فقال: أدنى الله محمدا منه، فلم يكن بينه وبينه إلا قنص لؤلؤ فيه فراش (3)، يتلالا فاري صورة، فقيل له: يا محمد أتعرف هذه الصورة ؟ فقال: نعم هذه صورة علي بن أبي طالب، فأوحى الله إليه أن زوجة فاطمة واتخذه وصيا
امام جعفر نے کہا جب الله تعالی اور رسول الله کے درمیان دو کمان سے بھی کم رہ گیا تو ان کو صورتیں دکھائی گئیں اور پوچھا کیا ان کو پہچانتے ہو ؟ فرمایا ہاں یہ علی کی صورت ہے پھر الوحی کی کہ ان کی بیوی فاطمہ ہوں گی اور علی کی وصیت کرنا
تفسیر فرات میں ہے
فرات قال: حدثنا جعفر بن أحمد معنعنا [ عن عباد بن صهيب عن جعفر بن محمد عن أبيه ] عن علي بن الحسين: عن فاطمة [ بنت محمد.أ، ب.عليهم السلام.ر ] قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: لما عرج بي إلى السماء فصرت إلى سدرة المنتهى (فكان قاب قوسين أو أدنى) فرأيته بقلبي ولم أره بعيني، سمعت الاذان قالوا: شهدنا وأقررنا، قال: واشهدوا يا ملائكتي وسكان سماواتي وأرضي وحملة عرشي بأن عليا وليي وولي رسولي وولي المؤمنين.قالوا: شهدنا وأقررنا
عباد بن صهيب نے روایت کیا …. فاطمہ سے انھوں نے اپنے باپ نبی صلی الله علیہ و الہ سے کہ جب میں آسمان پر بلند ہوا تو سدرہ المنتہی تک گیا پس وہ دو کمانوں سے بھی کم پر قریب آیا میں نے اس کو قلب سے دیکھا آنکھ سے نہ دیکھا اور کانوں نے سنا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے اور الله نے کہا اے فرشتوں گواہ ہو جاؤ اور اے آسمان کے باسیوں اور زمین کے اور عرش کو اٹھانے والے کہ علی میرے ولی ہیں اور رسول اور مومنوں کے – ان سب نے کہا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے
راقم کہتا ہے سند میں عباد بن صهيب ہے جو اہل سنت میں متروک ہے اور شیعوں میں ثقہ ہے
شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی (بحار الأنوار / جزء 3 / صفحة ٣١٥ ) میں روایت ہے
ع: أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن ابن محبوب، عن مالك بن عيينة (2) عن حبيب السجستاني قال: سألت أبا جعفرعليه السلام عن قوله عزوجل: ” ثم دنى فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى فأوحى إلى عبدهاقرأ: ثم دنى فتدانا فكان قاب قوسين أو أدنى، فأوحى الله إلى عبده يعني رسول الله صلى الله عليه وآله ما أوحى، يا حبيب إن رسول الله صلى الله عليه وآله لما فتح مكة أتعب نفسه في عبادة الله عزوجل والشكر لنعمه في الطواف بالبيت وكان علي عليه السلام معه فلما غشيهم الليل انطلقا إلى الصفا والمروة يريدان السعي، قال: فلما هبطا من الصفا إلى المروة وصارا في الوادي دون العلم الذي رأيت غشيهما من السماء نور فأضاءت هما جبال مكة، وخسأت أبصارهما، (1) قال: ففزعا لذلك فزعا شديدا، قال: فمضى رسول الله صلى الله عليه وآله حتى ارتفع من الوادي، وتبعه علي عليه السلام فرفع رسول الله صلى الله عليه وآله رأسه إلى السماء فإذا هو برمانتين على رأسه، قال: فتناولهما رسول الله صلى الله عليه وآله فأوحى الله عزوجل إلى محمد: يا محمد إنها من قطف الجنة فلا يأكل منها إلا أنت ووصيك علي بن أبي طالب عليه السلام، قال: فأكل رسول الله صلى الله عليه وآله إحديهما، وأكل علي عليه السلام الاخرى ثم أوحى الله عزوجل إلى محمد صلى الله عليه وآله ما أوحى. قال أبو جعفر عليه السلام: يا حبيب ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” يعني عندها وافا به جبرئيل حين صعد إلى السماء، قال: فلما انتهى إلى محل السدرة وقف جبرئيل دونها وقال: يا محمد إن هذا موقفي الذي وضعني الله عزوجل فيه، ولن أقدر على أن أتقدمه، ولكن امض أنت أمامك إلى السدرة، فوقف عندها، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله إلى السدرة وتخلف جبرئيل عليه السلام، قال أبو جعفر عليه السلام: إنما سميت سدرة المنتهى لان أعمال أهل الارض تصعد بها الملائكة الحفظة إلى محل السدرة، و الحفظة الكرام البررة دون السدرة يكتبون ما ترفع إليهم الملائكة من أعمال العباد في الارض، قال: فينتهون بها إلى محل السدرة، قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وآله فرأى أغصانها تحت العرش وحوله، قال: فتجلى لمحمد صلى الله عليه وآله نور الجبار عزوجل، فلما غشي محمدا صلى الله عليه وآله النور شخص ببصره، وارتعدت فرائصه، قال: فشد الله عزوجل لمحمد قلبه و قوى له بصره حتى رأى من آيات ربه ما رأى، وذلك قول الله عزوجل: ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” قال يعني الموافاة، قال: فرأي محمد صلى الله عليه وآله ما رأى ببصره من آيات ربه الكبرى، يعني أكبر الآيات
حبيب السجستاني کہتے ہیں میں نے امام جعفر سے (سورہ النجم) پر سوال کیا اپ نے فرمایا الله تعالی نے نبی صلی الله علیہ وسلم پر الوحی کی … یعنی سدرہ المنتہی کے پاس جبریل وہاں آسمان پر چڑھے سدرہ کے پاس اور کہا جب سدرہ کے مقام پر پہنچے تو رک گئے اور کہا اے محمد یہ میرے رکنے کا مقام ہے جو الله تعالی نے میرے لئے بنایا ہے اور میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ آگے جا سکوں لیکن اپ سدرہ سے آگے جائیے اور وہاں رک جائیں- امام جعفر نے کہا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے سدرہ سے اور جبریل کو پیچھے چھوڑ دیا … پس وہاں عرش کے نیچے دیکھا اور اس کے گرد پس وہاں محمد صلی الله علیہ و الہ پر نور جبار تجلی ہوا جس سے اپ پر نیند طاری ہوئی … پس الله تعالی نے اپ کا دل مضبوط کیا اور بصارت قوی کی یہاں تک کہ اپ نے آیات الله دیکھیں جو دیکھیں
یعنی اہل تشیع کے ہاں یہ بات قبول کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے اور وہاں خاص الوحی ہوئی جس میں علی کا ذکر تھا – خیال رہے کہ سند میں مالك بن عيينة ایک مجھول ہے جس کا ذکر کتب رجال شیعہ میں نہیں ملا
شیعہ علامہ جوادی کا ترجمہ و جدید شرح
جدید شروحات میں ان اقوال کو رد کیا گیا ہے مثلا علامہ جوادی کا ترجمہ و شرح ہے
ابن مليكہ بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى مكہ ميں فوت ہو گئى اور ہم اس كى نماز جنازہ ميں شركت كے ليے گئے، اور وہاں ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ عنہم بھى موجود تھے اور ميں ان دونوں كے درميان بيٹھا ہوا تھا كہ گھر سے آواز آنے لگى تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے عمرو بن عثمان كو كہا كيا تم رونے سے منع نہيں كرتے ؟ كيونكہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر عذاب ديا جاتا ہے تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا عمر رضى اللہ تعالى عنہ بھى بعض ایسا کہا كرتے تھے، پھر انہوں نے بيان كيا كہ ….. جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو خنجر سے زخمى كيا گيا تو صہيب روتے ہوئے ان كے پاس آئے اور وہ يہ كلمات كہہ رہے تھے ہائے ميرے بھائى، ہائے ميرے دوست تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ اسے كہنے لگے اے صہيب كيا تم مجھ پر روہ رہے اور حالانكہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ديا جاتا ہے
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ وفات پا گئے تو ميں نے اس كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ذكر كيا تو وہ فرمانے لگيں اللہ تعالى عمر رضى اللہ عنہ پر رحم فرمائے، اللہ كى قسم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بيان نہيں فرمايا كہ تھا کہ مومن كو اس كے گھر والوں كے رونے كى وجہ سے عذاب ديا جاتا ہے بلکہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يقينا اللہ تعالى كافر كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر زيادہ عذاب ديتا ہے اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا تمہارے ليے قرآن كافى ہےاور كوئى بھى كسى دوسرے شخص كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگا . ابن ابى مليكہ كہتے ہيں اللہ كى قسم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے بھی كچھ (اعتراض میں ) نہ كہا
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد میں أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى 463هـ) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول پر لکھا ہے
جہاں تک انکار عائشہ کا تعلق ہے جو انہوں نے ابن عمر کے قول کا کیا ہے تو اس کی وجوہات کو ان سے روایت کیا گیا ہے جس میں ہے وہ جو ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے انہوں نے ابن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کو اس کے گھر والوں کے رونے پر عذاب دیا جاتا ہے اور اس قول کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا پس عائشہ نے کہا ابن عمر کو وہم ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک یہودی پر ہوا پس آپ نے فرمایا اس قبر کے صاحب کو عذاب دیا جا رہا ہے اس کے اہل رو رہے تھے اور ایوب نے ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنِ الْقَاسِمِ کی سند سے روایت کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ان سے روایت کیا ہے جو جھوٹے نہیں ہیں یعنی عمر اور ان کے بیٹے لیکن سننے میں غلطی ہو جاتی ہے – ابن عبد البر نے کہا انکار عائشہ میں کوئی چیز نہیں ہے (یعنی کوئی دلیل نہیں ) اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے توقف کیا ان مسائل میں جن میں عائشہ ان سے نزاع کرتی ہیں اور انہوں نے کوئی رجوع نہ کیا اور یہ ثابت ہے جو ابن عمر نے سنا اور یہ واجب ہے جس پر وہ پہلے تھے
ابن حجر فتح الباری ج 3 ص ١٥٤ پر قرطبی کے قول کا ذکر کرتے ہیں جس کو پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کس قدر بے باک تھے یہ نام نہاد علماء جن کے نزدیک فہم ام المومنین رضی اللہ عنہا کا کوئی درجہ نہ تھا
القرطبى كہتے ہيں : عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا انكار كرنا اور راوى پر غلطى اور بھولنے كا حكم لگانا، يا يہ كہ اس نے كلام كا بعض حصہ سنا ہے اور باقى حصہ نہيں سنا، يہ بعيد ہے، كيونكہ صحابہ كرام ميں سے اس معنى كو روايت كرنے والے بہت ہيں، اور وہ بالجزم روايت كرتے ہيں، تو اس كى نفى كوئى وجہ اور گنجائش نہيں، اور پھر اس كو صحيح چيز پر محمول كرنا بھى ممكن ہے انتہى
المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود از محمود محمد خطاب السبكي میں ہے میت کو رونے پر عذاب ہوتا ہے پر ابن قیم کا کہنا ہے
قال ابن القيم إنكار عائشة رضي الله تعالى عنها لذلك بعد رواية الثقات لا يعوّل عليه, فإنهم قد يحضرون ما لا تحضره ويشهدون ما تغيب عنه واحتمال السهو والغلط بعيد جدًا اهـ ابن قیم نے کہا ثقات کی روایات کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس پر انکار معتبر نہیں ہے کیونکہ ثقات وہاں موجود تھے جہاں عائشہ موجود نہیں تھیں اور انہوں نے دیکھا جو عائشہ رضی اللہ عنہا پر چھپا رہا اور غلطی اور سہو کا احتمال بہت بعید ہے
راقم کہتا ہے اصحاب رسول میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہی نہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو جاننے کے بعد بھی اپنی رائے رکھی ہو لہذا قرطبی ،ابن عبد البر اور ابن قیم کا قول باطل ہے اور بلا دلیل ہے
قرآن میں موجود ہے کہ محشر میں کوئی بھی کسی اور کا بو جھ اٹھانے پر تیار نہ ہو گا لیکن قرآن میں یہ بھی موجود ہے کہ کفار پر ان کے متتبعین کے گناہوں کا بوجھ ڈال دیا جائے گا – سوره عنكبوت میں ہے
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ( 12 ) عنكبوت – اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہ اُٹھالیں گے۔ حالانکہ وہ اُن کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اُٹھانے والے نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں
وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ( 13 ) عنكبوت اور یہ اپنے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور (لوگوں کے) بوجھ بھی۔ اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن اُن کی اُن سے ضرور پرسش ہوگی
عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول اس آیت کے تحت بھی صحیح ہے کیونکہ انہوں نے اصحاب رسول کے لئے اصلا بولا ہے کہ اصحاب رسول کو ان کے اہل کے عمل کا عذاب نہیں جائے گا اور ساتھ ہی یہودی پر اہل کے عمل کا بوجھ کا اثبات کیا ہے – یعنی یہ میت کی تربیت کا معاملہ ہے کہ اس نے اپنے اہل کو کیا حکم دیا تھا اگر یہ حکم دیا کہ اس پر رویا جائے تو اس میت کو عذاب ہو گا اور اگر یہ حکم دیا کہ مجھ پر مت رونا تو عذاب نہ ہو گا
اسيد بن ابو اسيد، موسى بن ابو موسى اشعرى سے بيان كرتے ہيں اور موسى اپنے باپ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا زندہ كے رونے سے ميت كو عذاب ديا جاتا ہے، جب زندہ كہتے ہيں ہائے ميرے بازو، ہائے ميرے پہنانے والے، ہائے ميرى مدد كرنے والے، ہائے ميرے پہاڑ، اور اس طرح كے جملے تو اسے شدت سے كھينچ كر كہا جاتا ہے تو اس طرح تھا ؟ تو ايسا تھا ؟ اسيد كہتے ہيں ميں نے كہا سبحان اللہ اللہ تعالى تو يہ فرماتا ہے اور كوئى بھى كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائےگا .تو وہ كہنے لگے تيرے ليے افسوس ميں تجھے بتا رہا ہوں كہ مجھے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث بيان كى ہے،
تو كيا تيرے خيال ميں ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ باندھا ہے يا تو يہ سمجھتا ہے كہ ميں نے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ پر جھوٹ بولا ہے ؟
سند میں موسى بن أبى موسى الأشعرى ، الكوفى مجہول الحال ہے جس کو صرف ابن حبان نے حسب روایت ثقات میں شمار کیا ہے سند لائق اعتبار نہیں ہے
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا عبد اللہ بن رواحہ رضى اللہ تعالى عنہ پر بے ہوشى طارى ہوئى تو ان كى بہن نے رونا شروع كر ديا اور كہنے لگى ہائے ميرے پہاڑ اور اسى طرح اس نے كئى اور بھى صفات شمار كي اور جب انہيں ہوش آيا تو وہ كہنے لگے تو نے جو كچھ بھى كہا تو مجھے يہ كہا گيا كيا تو اس طرح كا تھا – اور جب وہ فوت ہوئے تو پھر ان كى بہن ان پر نہيں روئى
اس روایت کے متن میں ابہام ہے کہ ان الفاظ پر طنز کیا گیا یا اثبات میں کہا گیا کہ ہاں عبد اللہ بن رواحہ ایک اعلام (پہاڑ) کی طرح تھے -سندا اس میں محمد بن فضيل بن غزوان ہے جس پر ابن سعد کا کہنا ہے کہ بعضهم لا يحتج به بعض محدثین اس سے دلیل نہیں لیتے
قيلة بنت مخرمة کی سند سے ایک روایت المعجم الكبير از طبرانی میں ہے
رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا كيا تم پر غلبہ پا ليا جاتا ہے كہ تم ميں كوئى ايك اپنے ساتھى كے ساتھ دنيا ميں اچھا اور بہتر سلوك كرے، اور جب وہ مر جائے تو انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى جان ہے تم ميں سے كوئى ايك روتا ہے تو اپنے ساتھى پر آنسو بہاتا ہے، تو اے اللہ كے بندو اپنے فوت شدگان كو عذاب سے دوچار مت كرو
اس سند میں عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَّانٍ، أَبُو الْجُنَيْدِ الْعَنْبَرِيُّ البصري کا تفرد ہے جو مجہول الحال ہے اس کی دادی دحيبة بنت عليبة العنبرية یا صفية بنت عليبة بھی مجہول الحال ہیں
بعض سلفی علماء نے ان احادیث کی وجہ سے عرض عمل کا عقیدہ اختیار کیا ہے کہ میت کو اپنے ورثاء کی حرکتوں کا علم ہوتا ہے – میت کو علم ہوتا ہے کون اس پر رو رہا ہے جس سے میت کو دکھ ہوتا ہے
مجموع فتاوى ابن عثيمين (17/408) کے مطابق وہابی عالم ابن عثيمين سے درج ذيل سوال كيا گيا ما معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه ) ؟ فأجاب :” معناه أن الميت إذا بكى أهله عليه فإنه يعلم بذلك ويتألم ، وليس المعنى أن الله يعاقبه بذلك لأن الله تعالى يقول : ( وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ) والعذاب لا يلزم أن يكون عقوبة ألم تر إلى قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن السفر قطعة من العذاب ) والسفر ليس بعقوبة ، لكن يتأذى به الإنسان ويتعب ، وهكذا الميت إذا بكى أهله عليه فإنه يتألم ويتعب من ذلك ، وإن كان هذا ليس بعقوبة من الله عز وجل له ، وهذا التفسير للحديث تفسير واضح صريح ، ولا يرد عليه إشكال ، ولا يحتاج أن يقال : هذا فيمن أوصى بالنياحة ، أو فيمن كان عادة أهله النياحة ولم ينههم عند موته ، بل نقول : إن الإنسان يعذب بالشيء ولا يتضرر به ” انتهى
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى كيا ہے ؟
يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ہوتا ہے
ابن عثيمين کا جواب تھا کہ اس کا مطلب ہے
جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں تو اسے اس كا علم ہوتا اور اس سے اسے تكليف ہوتى ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى ميت كو اس كى سزا ديتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے: كوئى بھى جان كسى دوسرى جان كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .عذاب سے يہ لازم نہيں آتا كہ اسے سزا ہوتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے “حالانكہ سفر كوئى سزا نہيں، ليكن اس سے انسان كو تكليف ہوتى ہے اور تھك جاتا ہے، تو اسى طرح جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں اسے اس سے تكليف ہوتى ہے اور وہ تھک جاتا ہے، اگرچہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے اسے سزا نہيں ہے.حديث كى يہ شرح واضح اور صريح ہے، اور اس پر كوئى اشكال وارد نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس شرح ميں يہ ضرورت ہے كہ كہا جائے كہ يہ اس شخص كے متعلق ہے جو نوحہ كرنے كى وصيت كرے، يا پھر اس شخص كے متعلق ہے جن كى عادت نوحہ كرنا ہو، اور وہ مرتے وقت انہيں نوحہ كرنے سے منع نہ كرے، بلكہ ہم تو يہ كہتے ہيں: انسان كو كسى چيز كے ساتھ عذاب ہوتا ہے ليكن اسے اس سے كوئى ضرر بھى نہيں پہنچتا ” انتہى. ——–
راقم کہتا ہے کہ میت تو لاشعور ہوتی ہے جس کو اپنے ارد گرد ہونے والے عمل کا پتا تک نہیں ہوتا
راقم کہتا ہے کہ ایک یہودی جو زندگی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا تھا وہ مر گیا لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف تھا اس پر جہنم ثبت ہو گئی – اب گھر والے اس پر رو رہے تھے اور نبی علیہ السلام کا اس کے گھر کے پاس سے گذر ہوا تو فرمایا یہ اس کی موت پر رو رہے ہیں اور اس کو عذاب ہو رہا ہے – اس میں مقصد یہ بتایا نہیں ہے کہ رونے پر میت کو عذاب ہوتا ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اہل کتاب کا مرنے والا جہنمی ہے چاہے گھر والوں کے ساتھ حسن عمل رکھتا ہو
ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه کے ساتھ رہا۔ میں نے خود سنا کہ وہ یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا
بنی اسرائیل کی قیادت ان کے انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنا دیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، اُن کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو اور ان کے حق اطاعت کو پورا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی رعیت کے متعلق اُن سے سوال کرے گا
دوسری طرف بعض نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے قول منسوب کیا کہ وہ اپنے شاگردوں کو کہتیں لا تقولوا لا النبی بعدی یہ نہ کہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا
راقم کو ام المو منین سے منسوب اس قول کی دو سندیں ملی ہیں – مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
راقم کہتا ہے اس کی سند میں انقطاع ہے جرير بن حازم کا عائشة رضي الله عنها سے سماع نہیں ہے۔ کتب حدیث میں جریر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بعض اوقات دو دو راوی ہیں مثلا جرير بن حَازِم عَن يحيى بن سعيد عَن عُرْوَة عَن عَائِشَة
اور جہاں تک عائشہ کے قول کا تعلق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء کہو یہ مت کہو ان کے بعد نبی نہیں تو ان کا مذھب ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام پر اور یہ اس قول سے متناقص نہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد نبی نہیں
ہم کہتے ہیں یہ قول عائشہ رضی اللہ عنہا ثابت ہی نہیں لہذا اس کو دلیل میں پیش نہیں کیا جا سکتا
فرقوں کا دعوی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں اس سلسلے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں قلیب بدر کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے لا علم تھیں کہ مردے سنتے ہیں
وہابی عالم الشِّنقيطي سوال (هَل يسمع الْمَوْتَى؟) کیا مردے سنتے ہیں کے جواب میں کہتے ہیں
أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی جنہوں نے ان کی اتبآع کی ہے
الشِّنقيطي سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں
إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة
عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ضرورت کے تحت دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے
وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
دوسری طرف فرقے دعوی کرتے ہیں کہ قبرستان میں جو دعا کی جاتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور یہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں – افسوس اس سے یہ لوگ ثابت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ اللہ کی قدرت پر بھی صحیح نہیں تھا ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالی وہ سب جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں – ان کی دلیل صحیح مسلم کی ایک منکر روایت ہے
حديث 2249 حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَی ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَی قَالَ قَالَتْ لَمَّا کَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَائَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَی فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی جَائَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَکِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْئَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْکِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْکِ وَلَمْ يَکُنْ يَدْخُلُ عَلَيْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَکِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ کَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ ترجمہ ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر بن مطلب، محمد بن قیس، حضرت محمد بن قیس (رض) بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں ہم نے گمان کیا کہ وہ ماں سے اپنی جننے والی ماں مراد لے رہے ہیں ہم نے کہا کیوں نہیں فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنی ہی دیر ٹھہرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو آہستہ سے بند کردیا میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوڑے تو میں بھی دوڑی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچے تو میں بھی پہنچی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے میں نے کہا کچھ نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بتا دو رونہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی فرمایا میں اپنے آگے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینے پر مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق داب لے گا فرماتی ہیں: (کیا ) جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں –فرمایاکہ جبرائیل میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی جبرائیل نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کیسے کہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ) کہو سلام ہے ایماندار گھر والوں پر اور مسلمانوں پر اللہ ہم سے آگے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔
تبصرہ فرقه پرست یہ دعوی کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا
قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔
اس منکر روایت سے ان کے نزدیک ثابت ہوتا ہے کہ فقہائے مدینہ کی استاذ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا یہ بات تک نہیں جانتی تھیں کہ اللہ تعالی ہر اس چیز کو جانتا ھے جو لوگ چھپاتے ہیں ۔ قابل غور ہے یہ ایمان کی بنیادی بات ہے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تو خود قرآن کو شادی سے پہلے یاد کر رہی تھیں اور قرآن ان کے گھر سے متصل مسجد النبی میں دن و رات پڑھا جاتا تھا۔
یہ روایت آخری دور کی بتائی جاتی ہے جبکہ اس کا متن منکر ہے اس سے یہ تک نکلتا ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے نبی کی جاسوسی کی ان کا پیچھا رات کے اندھیرے میں کیا
سند میں عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة مجہول ہے اس کو امام مسلم نے قبول کیا ہے لہذا ابن حجر نے اس کومقبول کہا ہے۔
الذھبی نے میزان میں کہا فعبد الله بن كثير السهمى لا يعرف إلا من رواية ابن جريج عنه، وما رأيت أحدا وثقه ففيه جهالة. عبد الله نہیں جانا جاتا اس سے صرف ابن جریج نے روایت کیا ہے اور کسی اور ثقہ نے میرے خیال میں روایت نہیں کیا ہے اور اس میں جہالت ہے یعنی مجہول ہے۔
اور تاریخ اسلام میں کہا ، وهو فلا يكاد يُعْرَف إلا فِي حديثٍ واحد سَنَدُهُ مضطَّرب، وهو حديث عَائِشَةَ فِي استغفاره لأهل البَقيع اس کی کوئی حدیث معلوم نہیں سوائے ایک مضطرب روایت کے جس میں عائشہ رضی الله عنہا سے اہل بقیع پر استغفار کا ذکر ہے۔
فرقے کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی شاہد حدیث سنن نسائی ٢٠٢٣٩ ہے
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، يَقُولُ پھر روایت دی جس کا ترجمہ ہے
محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ(عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی، اور گھر میں داخل ہو گئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہو گئے، آپ نے پوچھا “عائشہ! تجھے کیا ہو گیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں؟” میں نے کہا کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا “تو مجھے بتا دے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتا دے گی”، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتا دی تو آپ نے فرمایا “وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی”، میں نے عرض کیا جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا “کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ظلم کریں گے”، میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتا دے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں”، میں نے پوچھا اللہ کے رسول! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» “سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے(دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں”
تبصرہ
سندا یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سند کو شعیب نے ضعیف کہا ہے
شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے إسناد ضعيف- اس کی اسناد ضعیف ہیں۔
شعیب کی تحقیق کے مطابق سنن نسائی کی سند میں عبد الله بن أبي مليكة کا نام غلطی ہے – صحیح ابن حبان ٧١١٠ میں اسی سند سے ہے أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى بْنِ مُجَاشِعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَصَّارُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَثِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ
اور یہ اصلا عبد الله بن كثير ہی ہے جو ایک مجہول ہے۔
نسائی نے اس سند کو اس طرح بھی لکھا ہے اخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ اور اپنی دوسری کتاب سنن الکبری میں کہا خَالَفَهُ حَجَّاجٌ فَقَالَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ
حجاج نے ان کی مخالفت کی اور کہا بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ
یعنی نسائی کے نزدیک یہ غلطی حَجَّاجَ کی وجہ سے آئی ہے۔ – حجاج ثقہ ہیں لیکن عبد اللہ سند میں دیکھ کر ان کو مغالطہ ہوا کہ یہ عبد اللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ہیں جبکہ وہ عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة تھا
سنن نسائی کی اس روایت میں الٹا لکھا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا قُلْتُ مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام صحیح مسلم کی روایت کے تحت لگایا گیا ہے اس روایت میں اس کا رد ہے۔ یہاں عائشہ اپنے صحیح عقیدے کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ صحیح مسلم میں وہ صحیح عقیدے سے ناواقف ہیں اور سوال کر رہی ہیں۔
قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔
اس طرح یہ حدیث صحیح مسلم سے الگ ہے۔
سنن نسائی میں اس کے بعد کچھ اور روایات بھی ہیں مثلا
حدیث نمبر: 2040أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَلَبِسَ ثِيَابَهُ، ثُمَّ خَرَجَ، قَالَتْ: فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي بَرِيرَةَ تَتْبَعُهُ فَتَبِعَتْهُ، حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَوَقَفَ فِي أَدْنَاهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقِفَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَسَبَقَتْهُ بَرِيرَةُ فَأَخْبَرَتْنِي، فَلَمْ أَذْكُرْ لَهُ شَيْئًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: “إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أَهْلِ الْبَقِيعِ لِأُصَلِّيَ عَلَيْهِمْ”. ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنا کپڑا پہنا پھر (باہر) نکل گئے، تو میں نے اپنی لونڈی بریرہ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے پیچھے جائے، چنانچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئی یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع پہنچے، تو اس کے قریب کھڑے رہے جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے کھڑا رکھنا چاہا، پھر آپ پلٹے تو بریرہ آپ سے پہلے پلٹ کر آ گئی، اور اس نے مجھے بتایا، لیکن میں نے آپ سے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ صبح کیا، تو میں نے آپ کو ساری باتیں بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے اہل بقیع کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ میں ان کے حق میں دعا کروں”۔
تبصرہ یہ متنا شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رات کے وقت بھی لونڈی ام المومنین کے پاس تھی جبکہ یہ ممکن نہیں کہ آمد النبی کے بعد کوئی حجرہ عائشہ میں رہ جائے یہ متن بھی صحیح مسلم کی حدیث کے خلاف ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاسوسی ایک لونڈی کر رہی ہے جس کو اپنی مالکہ کا خوف ہے لیکن اللہ کا خوف نہیں ہے
سنن نسائی کی ایک تیسری روایت میں ہے
حدیث نمبر: 2041أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَتْ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَخْرُجُ فِي آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ: “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا وَإِيَّاكُمْ مُتَوَاعِدُونَ غَدًا أَوْ مُوَاكِلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ” .ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد» “اے مومن گھر (قبرستان) والو! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے والے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما”۔
تبصرہ یہ متن بھی غلط و شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ جب بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری اتی تو اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع جاتے ہر رات قبرستان جانا دیگر روایات سے معلوم ہے کہ نہیں تھا
لب لباب یہ ہوا کہ صحیح مسلم کی روایت منکر ہے اور اسی روایت کو شب برات میں قبرستان جانے کی دلیل پر پیش کیا جاتا ہے
محشر میں بعض علماء کی سخت پکڑ ہو گی – ام المومنین رضی اللہ عنہا پر الزام مہنگا پڑے گا
جب تم اسے اپنی زبانوں سے نکالنے لگے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہنی شروع کردی جس کا تمہیں علم بھی نہ تھا اور تم نے اسے ہلکی بات سمجھ لیا تھا، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے۔
وہابی عالم لکھتے ہیں
یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور اس لا علمی پر یہ کافر نہیں ہوئیں شیخ اسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں اس حدیث پر یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ؟ پس اس کا سوال انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا ہاں اور یہ دلیل ہے ہے کہ وہ عائشہ اسکو نہیں جانتی تھیں اور ان کو معرفت نہیں تھی کہ اللہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اس لئے کافر نہیں تھیں
ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٤١٢ پر بحث کی ہے اور سنن نسائی کی روایت کے الفاظ نقل کیے ہیں
البتہ صحیح مسلم میں متن میں نعم کے لفظ کو ام المومنین کے الفاظ کے ساتھ مربوط رکھا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نعم کا لفظ ام المومنین کے جملے کا حصہ ہے – لیکن راوی کا مدعا اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کہنا ہے جیسا کہ مختلف کتب احادیث میں متن میں دیکھ کر جانا جا سکتا ہے مثلا سنن نسائی ، سنن الکبری ، مسند احمد وغیرہ
یعنی اس جملے کو سوالیہ انداز میں کئی راویوں نے بیان کیا ہے
راوی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ کا سیاسی مدعا
راوی کا مدعا یہ ہے کہ آخری دور نبوی تک ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو شک تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور رات کے اندھیرے میں ماریہ قبطیہ سے ملنے گئے ہوں گے اور اس نے سورہ التحریم کی آیت کو ملا کر ایک قصہ گھڑا ہے
سورہ التحریم میں موجود ہے دو امہات المومنین (حدیث کے مطابق عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا) نے مل کر ایک فیصلہ کیا ( حدیث کے مطابق ماریہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے جب بھی نبی آئین آئیں تو بولیں گی کہ شہد کی بو آ رہی ہے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جانا چھوڑ دیں گے) البتہ اس کی خبر نبی کو اللہ نے دے دی تو کوئی ایک ام المومنین بولیں کس نے خبر دی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اور جب نبی نے چھپا کر اپنی کسی بیوی سے ایک بات کہہ دی، اور پھر جب اس بیوی نے وہ بات بتا دی اور اللہ نے اس کو نبی پر ظاہر کر دیا تو نبی نے اس میں سے کچھ بات جتلا دی اور کچھ ٹال دی، پس جب پیغمبر نے اس کو وہ بات جتلا دی تو بولی آپ کو کس نے یہ بات بتا دی، آپ نے فرمایا مجھے خدائے علیم و خبیر نے یہ بات بتلائی۔
راوی نے اس آیت کا استعمال کر کے قصہ گھڑا کہ باوجود اس کے کہ نبی کو الله خبر کر دیتا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا پھر بھی جاسوسی کرتی ہیں کہ ممکن ہے نبی ان کی باری کے دن ماریہ کے ہاں گئے ہوں اور پھر لا علمی کا اظہار کیا کہ جو لوگ چھپاتے ہیں کیا اس کو اللہ جانتا ہے ؟ اس طرح یہ روایت تنقیص عائشہ سے محمول ہے
ماریہ والا واقعہ کب ہوا معلوم نہیں ہے جس میں شہد رسول اللہ نے اپنے اوپر حرام کیا البتہ شہدائے احد کے لئے بقیع جانا بالکل آخری دور کی بات ہے – اس طرح راوی کا مقصد یہ ہے کہ بیان کیا جائے کہ آخری ایام تک ام المومنین عائشہ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے شک و شبہ کا شکار رہیں
أبي الهياج الأسدي کہتے ہیں کہ مجھ سے عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ نے کہا: کیا میں تم کو اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کے لئے رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے مجھے بھیجا؟ کوئی تصویر نہ چھوڑوں جس کو مٹا دوں اور کوئی قبر جس کو برابر نہ کر دوں
امت میں اسی شرک کے خوف کی وجہ سے عائشہ رضی الله تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی تدفین حجرہ میں کی گئی (صحیح البخاری
شیعوں کی کتاب کی روایت ہے کہ صفحہ 528 الكافي از الكليني – ج 6
عدة من أصحابنا ، عن سهل بن زياد ، عن جعفر بن محمد الأشعري ، عن ابن القداح
عن أبي عبد الله عليه السلام قال : قال أمير المؤمنين عليه السلام بعثني رسول الله صلى الله عليه وآله في هدم القبور وكسر الصور
أبي عبد الله عليه السلام بیان کرتے ہیں کہ أمير المؤمنين (علی) عليه السلام کہتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وآله نے مجھے بھیجا کہ قبروں کو منہدم کر دوں اور تصویریں توڑ دوں
یہی بات وسائل الشيعة (الإسلامية) از الحر العاملي ج ٢ میں اور جامع أحاديث الشيعة لسيد البروجردي ج ٣ بیان ہوئی ہے
گنبد الخضراء کو ایک اسلامی سمبل سمجھا جانے لگا ہے حالانکہ اس کا دین میں کوئی مقام نہیں
ڈاکٹر عثمانی نے مزار یا میلے میں لکھا تھا
مکمل اقتباس وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى از علي بن عبد الله بن أحمد الحسني الشافعي، نور الدين أبو الحسن السمهودي (المتوفى: 911هـ) میں ہے القبة الزرقاء أما القبة المذكورة فاعلم أنه لم يكن قبل حريق المسجد الشريف الأول وما بعده على الحجرة الشريفة قبة، بل كان حول ما يوازي حجرة النبي صلّى الله عليه وسلّم في سطح المسجد حظير مقدار نصف قامة مبنيا بالآجر تمييزا للحجرة الشريفة عن بقية سطح المسجد، كما ذكره ابن النجار وغيره، واتمر ذلك إلى سنة ثمان وسبعين وستمائة في أيام الملك المنصور قلاوون الصالحى، فعملت تلك القبة، وهي مربعة من أسفلها مثمنة من أعلاها بأخشاب أقيمت على رؤوس السواري، وسمر عليها ألواح من خشب، ومن فوقها ألواح الرصاص، وفيها طاقة إذا أبصر الشخص منها رأى سقف المسجد الأسفل الذي فيه الطابق، وعليه المشمع المتقدم ذكره، وحول هذه القبة على سقف المسجد ألواح رصاص مفروشة فيما قرب منها، ويحيط به وبالقبة درابزين من الخشب جعل مكان الحظير الآجر، وتحته أيضا بين السقفين شباك خشب يحكيه محيط بالسقف الذي فيه الطابق، وعليه المشمع المتقدم ذكره، ولم أر في كلام مؤرخي المدينة تعرض لمن تولى عمل هذه القبة. ورأيت في «الطالع السعيد الجامع أسماء الفضلاء والرواة بأعلى الصعيد» في ترجمة الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي الربعي ناظر قوص أنه بنى على الضريح النبوي هذه القبة المذكورة، قال: وقصد خيرا وتحصيل ثواب، وقال بعضهم: أساء الأدب بعلو النجارين ودق الحطب، قال: وفي تلك السنة وقع بينه وبين بعض الولاة كلام، فوصل مرسوم بضرب الكمال، فضرب، فكان من يقول إنه أساء الأدب [يقول:] إن هذا مجازاة له، وصادره الأمير علم الدين الشجاعي، وخرب داره، وأخذ رخامها وخزائنها، ويقال: إنهم بالمدرسة المنصورية اه. قبه الزرقاء نیلا گنبد – جہاں تک اس گنبد کا تعلق ہے تو جان لو کہ مسجد شریف میں آگ لگنے سے پہلے یہ نہ تھا اور اس کے بعد بھی حجرہ شریفہ پر کوئی گنبد نہ تھا ، بلکہ حجرہ النبی کو باقی مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے ادھے قد کی مقدار ایک منڈھیر بنی ہوئی تھی سطح مسجد پر جیسا ابن النجار اور دیگر نے ذکر کیا ہے اور یہ منڈھیر الملك المنصور قلاوون الصالحى کے ایام سن ٦٧٨ ھ تک باقی رہی -پس الملك المنصور قلاوون الصالحى نے اس گنبد کو بنایا اور یہ نیچے سے چوکور تھا اوپر سے آٹھ پرتوں میں تھا، اصلا لکڑی کا تھا اور اس پر لیڈ کی دھات کی پرتین لگی ہوئی تھیں اور اس میں (کھڑکی یا ) طاق تھا اس میں سے کوئی جھانکتا تو نیچے مسجد کی چھت پر نظر پڑتی اور اس گنبد کے گرد مسجد کی چھت پر بھی لیڈ کی پرت تھی اور یہ پرتین اس پر پھیلی ہوئی تھی اور گنبد کے گرد اس مقام پر جہاں مٹی کی انٹین تھیں، لکڑی کا ہتھا (ہنڈریل) بھی تھا اور ان سب کے نیچے دو چھتوں کے درمیان (یعنی مسجد النبی کی چھت اور حجرہ مطہرہ کی چھت) ایک کھڑکی ہے لکڑی کی … اور مجھ کو مدینہ کے کسی مورخ کے کلام میں نہیں ملا کہ اس نے متولییوں کے تعمیر کردہ اس گنبد پر کسی اور کے تعرض کا ذکر کیا ہو – میں نے الطالع السعيد الجامع أسماء الفضلاء والرواة بأعلى الصعيد میں الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي الربعي ناظر قوص کے ترجمہ میں دیکھا کہ اس نے الضريح (یعنی حجرہ کے گرد جالی ) پر اس قبہ کو بنایا اور کہا کہ یہ بھلائی کا قصد و ارادہ ہے اور ثواب حاصل کرنا ہے – اس پر بعض نے کہا اس تعمیر میں بے ادبی ہے کہ بڑھئی کا کام کرنے والوں کو حجرہ سے اوپر کیا جائے اور ان کے ہتھوڑے کی آواز بے ادبی ہے -کہا اسی سال الكمال أحمد بن البرهان اور لوگوں کا اس پر کلام (بحث و مباحثہ) ہوا اور پھر (مملوک امراء کی طرف سے ) حکم ملا کہ الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي کو کوڑے لگائے جائیں – الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي کو کوڑے لگے- پس اس پر بعض کہتے یہ اس بے ادبی کی وجہ سے سب ہوا یا کہتے یہ اس کے عمل کی جزا ہے اور یہ حکم الأمير علم الدين الشجاعي نے صادر کیا اور انہوں نے الكمال أحمد بن البرهان عبد القوي کا گھر برباد کیا اورگھر پر لگے سنگ مرمر کو اکھاڑ دیا اور اس کے خزانے کو لیا اور کہتے ہیں اب یہ سب مدرسہ المنصوریہ میں ہے
لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس قبہ کی تعمیر سے مسجد النبی میں شور ہو گا اور بڑھئی حجرہ کے اوپر چلے جائیں گے یہ بے ادبی ہے ، لیکن الکمال احمد نے نہیں سنا اور پھر بھی تعمیر کی- بعد میں عوامی بحث کو ختم کرنے مملوک حاکم نے اس امیر کو معزول کر دیا اور سزا الگ دی جبکہ یہ سارا عمل ان کے علم میں تھا اور انہوں نے ہونے دیا – افسوس آج لوگ اس گنبد کو سبز رنگ کرنے اس پر چڑھتے ہیں پھر کئی سال تک سال سعودی توسیعی پلان و تعمیرات کی وجہ سے مسجد النبی کی زمین لرزتی رہی ہے
فصول من تاريخ المدينة المنورة جو علي حافظ کی کتاب ہے
اور شركة المدينة للطباعة والنشر نے اس کو سن ١٤١٧ ھ میں چھاپا ہے اسکے مطابق
لم تكن على الحجرة المطهرة قبة، وكان في سطح المسجد على ما يوازي الحجرة حظير من الآجر بمقدار نصف قامة تمييزاً للحجرة عن بقية سطح المسجد. والسلطان قلاوون الصالحي هو أول من أحدث على الحجرة الشريفة قبة، فقد عملها سنَة 678 هـ، مربَّعة من أسفلها، مثمنة من أعلاها بأخشاب، أقيمت على رؤوس السواري المحيطة بالحجرة، وسمَّر عليها ألواحاً من الخشب، وصفَّحها بألواح الرصاص، وجعل محل حظير الآجر حظيراً من خشب. وجددت القبة زمن الناصر حسن بن محمد قلاوون، ثم اختلت ألواح الرصاص عن موضعها، وجددت، وأحكمت أيام الأشرف شعبان بن حسين بن محمد سنة 765 هـ، وحصل بها خلل، وأصلحت زمن السلطان قايتباي سنة 881هـ. وقد احترقت المقصورة والقبة في حريق المسجد النبوي الثاني سنة 886 هـ، وفي عهد السلطان قايتباي سنة 887هـ جددت القبة، وأسست لها دعائم عظيمة في أرض المسجد النبوي، وبنيت بالآجر بارتفاع متناه،….بعد ما تم بناء القبة بالصورة الموضحة: تشققت من أعاليها، ولما لم يُجدِ الترميم فيها: أمر السلطان قايتباي بهدم أعاليها، وأعيدت محكمة البناء بالجبس الأبيض، فتمت محكمةً، متقنةً سنة 892 هـ. وفي سنة 1253هـ صدر أمر السلطان عبد الحميد العثماني بصبغ القبة المذكورة باللون الأخضر، وهو أول من صبغ القبة بالأخضر، ثم لم يزل يجدد صبغها بالأخضر كلما احتاجت لذلك إلى يومنا هذا. وسميت بالقبة الخضراء بعد صبغها بالأخضر، وكانت تعرف بالبيضاء، والفيحاء، والزرقاء” انتهى.
حجرہ مطهرہ پر کوئی گنبد نہ تھا، اور حجرہ مطهرہ کو باقی مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے سطح مسجد سے آدھے قد کی مقدار تک ایک منڈھیر بنی ہوئی تھی. اور سلطان قلاوون الصالحي وہ پہلا شخص ہے جس نے حجرہ مطهرہ پر سن 678 هـ (بمطابق 1279ء میں آج سے ٧٣٤ سال پہلے)، میں گنبد بنایا، جو نیچے سے چکور تھا ، اوپر سے آٹھ حصوں میں تھا جو لکڑی کےتھے. … پھر اس کی الناصر حسن بن محمد قلاوون کے زمانے میں تجدید ہوئی. .. پھر سن 765 هـ، میں الأشرف شعبان بن حسين بن محمد کے زمانے میں پھر اس میں خرابی ہوئی اور السلطان قايتباي کے دور میں سن 881هـ میں اس کی اصلاح ہوئی. پھر سن 886 هـ میں اور السلطان قايتباي کے دور میں مسجد النبی میں آگ میں گنبد جل گیا. اور سن 887هـ میں اور السلطان قايتباي ہی کے دور میں اس کو دوبارہ بنایا گیا…. سن 892 ھ میں اس کو سفید رنگ کیا گیا … سن 1253هـ میں السلطان عبد الحميد العثماني نے حکم دیا اور اس کو موجودہ شکل میں سبز رنگ دیا گیا. … اور یہ گنبد البيضاء (سفید)، الفيحاء ، والزرقاء (نیلا) کے ناموں سے بھی مشھور رہا
سعودی عرب کے مفتی عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) اپنے فتویٰ میں کہتے ہیں جو کتاب فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى میں چھپاہے اور اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء نے چھاپا ہے
لأن بناء أولئك الناس القبة على قبره صلى الله عليه وسلم حرام يأثم فاعله
ان لوگوں کا قبر نبی صلى الله عليه وسلم پر گنبد بنانا حرام کام تھا اس کا گناہ اس کے بنانے والوں کے سرہے
محمد صالح المنجد کتاب القسم العربي من موقع (الإسلام، سؤال وجواب) میں کہتے ہیں کہ
وقد أنكر أهل العلم المحققين – قديماً وحديثاً – بناء تلك القبة، وتلوينها، وكل ذلك لما يعلمونه من سد الشريعة لأبواب كثيرة خشية الوقوع في الشرك.
قدیم محققین اہل علم نے شرک کے دروازون کو روکنے کے لیے اس گنبد کے بنانے کا رد کیا ہے
بيان الحكم في القبة الخضراء على قبره عليه الصلاة والسلام : نبی صلی الله علیہ وسلم کی قبر پر گنبد الخضراء کا حکم میں سعودی عرب کے مفتی عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) اپنے فتویٰ جو کتاب فتاوى نور على الدرب ج ٢ ص ٣٣٢ میں چھپا ہے میں کہتے ہیں کہ
لا شك أنه غلط منه، وجهل منه، ولم يكن هذا في عهد النبي – صلى الله عليه وسلم – ولا في عهد أصحابه ولا في عهد القرون المفضلة، وإنما حدث في القرون المتأخرة التي كثر فيها الجهل، وقل فيها العلم وكثرت فيها البدع، فلا ينبغي أن يغتر بذلك
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غلطی ہے اور جھل ہے، اور یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں نہ تھا، نہ ہی صحابہ کے دور میں تھا ، نہ ہی قرون اولی میں تھا، اور بے شک اس کو بعد میں آنے والے زمانے میں بنایا گیا جس میں جھل کی کثرت تھی اور علم کی کمی تھی اور بدعت کی کثرت تھی پس یہ جائز نہیں کہ اس سے دھوکہ کھایا جائے
ج٢ ص ٣٣٩ مزید کہتے ہیں
وأما هذه القبة فهي موضوعة متأخرة من جهل بعض الأمراء، فإذا أزيلت فلا بأس بذلك، بل هذا حق لكن قد لا يتحمل هذا بعض الجهلة، وقد يظنون بمن أزالها بأنه يس على حق، وأنه مبغض للنبي عليه الصلاة والسلام،
اور یہ جو گنبد ہے تو یہ بعد میں انے والوں بعض امراء کے جھل کی وجہ سے بنا، اگر اس کو گرایا جائے تو کوئی برائی نہیں، بلکہ یہی حق ہے لیکن کچھ جاہل لوگ ایسا نہیں لیتے، اور گمان کرتے ہیں کہ اس کے ہٹانے کو حق نہیں سمجھتے اور اس کو النبي عليه الصلاة والسلام سے نفرت کا اظھار سمجھتے ہیں
مزید کہتے ہیں
وإنما تركت من أجل خوف القالة والفتنة
اور بےشک اس کو (جھلاء کی) بکواس اور فتنہ کے خوف سے چھوڑ دیا گیاہے
آخر ان کے احبار اور ربی کیوں ان کو گناہ کی بات سے نہیں روکتے اور حرام کھاتے ہیں بہت برا ہے جو یہ کرتے ہیں
غیر مقلدین کی محبوب شخصیت ابن تیمیہ (المتوفى: 728هـ) کی ، سلطان قلاوون الصالحي کے دور کے بعد وفات ہوئی لیکن جہاں موصوف نے اور قبوں (گںبدوں) کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور قبر رسول کی زیارت کے غرض سے کیے جانے والے سفر کو بدعت کہا وہاں اس گنبد پر ایک لفظ نہ کہا
ان کے ہونہار شاگرد ابن قیّم (المتوفى: 751هـ ) نے بھی کچھ نہ کہا اور یہی پالیسی اب تک چلی آ رہی ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
کہا جاتا ہے شروع میں وہابی علماء اس گنبد کو گرانا چاہیتے تھے کہ برصغیر کے علماء کا ایک وفد عرب گیا وہاں بحث میں اس حدیث کو دلیل بنایا گیا
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا) صحيح بخاري: کتاب: حج کے مسائل کا بيان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کي بناءکا بيان)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبي نے بيان کيا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے بيان کيا، ان سے ابن شہاب نے بيان کيا، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن محمد بن ابي بکر نے انہيں خبردي، انہيں عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے خبردي اور انہيں نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي پاک بيوي حضرت عائشہ صديقہ رضي اللہ عنہا نے کہ آنحضور صلي اللہ نے ان سے فرمايا کہ تجھے معلوم ہے جب تيري قوم نے کعبہ کي تعمير کي تو بنياد ابراہيم کو چھوڑ ديا تھا ميں نے عرض کيا يارسول اللہ ! پھر آپ بنياد ابراہيم پر اس کو کيوں نہيں بنا ديتے؟ آپ نے فرمايا کہ اگر تمہاري قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزديک نہ ہوتا تو ميں بے شک ايسا کرديتا عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے کہا کہ اگر عائشہ صديقہ رضي اللہ عنہا نے يہ بات رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے سني ہے ( اور يقينا حضرت عائشہ رضي اللہ عنہ سچي ہيں ) تو ميں سمجھتا ہو ں يہي وجہ تھي جو نبي صلي اللہ عليہ وسلم حطيم سے متصل جو ديواروں کے کونے ہيں ان کو نہيں چومتے تھے کيونکہ خانہ کعبہ ابراہيمي بنيادوں پر پورا نہ ہواتھا
صحیح مسلم کی حدیث ہے حَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مَخْرَمَةَ ح وَحَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِى بَكْرِ بْنِ أَبِى قُحَافَةَ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ – أَوْ قَالَ بِكُفْرٍ – لأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالأَرْضِ وَلأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ اگر تمہاری قوم عہد جاہلیت کے قریب نہ ہوتی یا کہا کفر کے تو میں کعبہ کا خزانہ الله کی راہ میں صدقه کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین کے پاس کرتا کہ اس میں جانے کے لئے کوئی پتھر (بطور سیڑھی کے) استعمال نہیں کرتا
سند ميں عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ( المتوفی ٦٣ ھ واقعہ حرہ) مجہول ہے- صحيح بخاري کي ايک روايت ميں سند ميں عبد الله بن محمد بن أبي بكر الصديق ہے جن کي متقدمين ميں کوئي توثيق نہيں کرتا صرف ابن حبان نے ثقہ قرار ديا ہے – راقم کے علم ميں ان کي صرف تعمير کعبہ پر ايک روايت ذخيرہ کتب ميں ہے- اس راوي کو مجہول الحال کے درجہ پر رکھنا چاہيے
يہ کيسے ممکن ہے کہ رسول الله نے دين ميں کچھ عام اصحاب مہاجرین و انصار سے چھپا ديا ہو – پھر خود عائشہ رضي الله عنہا کا قول ہے کہ جس نے يہ کہا کہ اپ صلي الله عليہ وسلم نے دين کي کوئي بات چھپا دي اس نے جھوٹ باندھا
وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ شَيئاً مِمَا أنْزِلَ إِليهِ مِنَ الوَحْي فَقَدْ كَذَبَ اور جس نے يہ کہا کہ جو اپ صلي الله عليہ وسلم پر نازل ہوا الوحي ميں سے اس کو چھپا ديا اس نے کذب کہا
راقم تعمیر کعبہ والی روايت کومبہم قرار دیتا ہے کہ يہ روايت سننے سمجھنے ميں راويوں کو کوئي غلطي ہوئي ہے خود عائشہ رضي الله عنہا کا قول اس کے خلاف کہ نبي صلي الله عليہ وسلم نے کچھ نہيں چھپايا جبکہ روايت کہہ رہي ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس تعمیر کی بات امت پر چھپا دی
وہابی علماء کا موقف گنبد پربدلتا رہتا ہے اب وہ اس گنبد کو بچانا چاہتے ہیں
فرحت ہاشمی وہابی عالمہ کا کہنا ہے کہ گنبد خضراء مسجد النبی کا حصہ ہے جبکہ یہ دعوی غلط ہے – گنبد خضراء قبر النبی کا گنبد ہے نہ کہ مسجد النبی کا اور قبر النبی حجرہ عائشہ میں ہے جو کبھی بھی مسجد النبی کا حصہ نہیں رہی
تاریخ سے معلوم ہے کہ مسجد النبی میں اگ لگی اور اس کی چھت جل گئی یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم جن کے جسد اطہر میں فرقوں کے مطابق ہر وقت روح مطہر موجود ہوتی ہے ان کے اوپر موجود چھت جل رہی تھی لیکن انہوں نے روکا نہیں- کیا یہ ان فرقوں کے عقائد کا تضاد نہیں !راقم کہتا ہے اس اگ کو الله کی جانب سے بھیجا گیا لیکن امت اس اشارہ غیبی کو نہ سمجھ سکی
وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى از السمهودي (المتوفى: 911هـ) میں ہے
قال المؤرخون: احترق المسجد النبوي ليلة الجمعة أول شهر رمضان من سنة أربع وخمسين وستمائة في أول الليل،
مورخ کہتے ہیں کہ مسجد النبی میں جمعہ کی رات رمضان کی پہلی رات اگ لگی سن ٦٥٤ ھ میں
قال المؤرخون: ثم دبت النار في السقف بسرعة آخذة قبله، وأعجلت الناس عن إطفائها بعد أن نزل أمير المدينة فاجتمع معه غالب أهل المدينة فلم يقدروا على قطعها، وما كان إلا أقل من القليل حتى استولى الحريق على جميع سقف المسجد الشريف واحترق جميعه حتى لم تبق خشبة واحدة.
،مورخین کہتے ہیں اگ مسجد کی چھت پر پھیل گئی اور اس نے قبلہ کو بھی پکڑ لیا اور لوگوں نے اس کو بجھانے کی جلدی کی …. لیکن اس پر قادر نہ ہوئے سوائے تھوڑے کے اور تمام مسجد کی چھت اس اگ کی لپیٹ میں آ گئی – سب جل گیا حتی کہ ایک لکڑی بھی نہ بچی
غور کریں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے جھوٹوں نے خبر دی کہ وہ اپنے جسد کو بچانے کے لئے – بادشاہ کے خواب میں آئے لیکن اس لگنے والی اگ کی خبر اب انہوں نے کسی کو پیشگی نہ دی- یہ واقعہ سن ٥٥٧ ھ کا ہے یہ اصلا نور الدین زنگی المتوفي ٥٦٩ ھ کا خود ساختہ خوف تھا کہ عیسائی جسد اطہر کو چرا لیں گے جبکہ جب وہ سرنگ سے وہاں پہنچتے تو تین اجسام پاتے اس میں سے کون سا نبی کا ہے اور کون سا عمر و ابو بکر کا ہے وہ معلوم نہیں کر سکتے تھے- نور الدین کو سیاسی محاذ پر سلطان ایوبی سے خطرہ تھا – نور الدین اور صلاح الدین میں اختلافات ہو گئے تھے اور ایوبی نے صلیبی جنگوں میں شرکت بھی چھوڑ دی تھی یہاں تک کہ نور الدین کی وفات کے بعد صلاح الدین نے اس کی بیوہ سے شادی کر لی اور نورالدین کے بیٹے کا صلاح الدین نے تختہ الٹ دیا
علی حافظ نے ذکر کیا کہ مسجد میں دوسری بار بھی اگ لگی
وقد احترقت المقصورة والقبة في حريق المسجد النبوي الثاني سنة 886 هـ،
جس میں مقصورہ اور گنبد بھی جل گیا
مسجد النبی میں اگ ٦٥٤ اور ھ٨٨٦ میں لگی یعنی نور الدین والے واقعہ کے سالوں بعد
پہلی اگ میں صرف چھت جلی لیکن دوسری میں گنبد تک جل گیا افسوس اس کو پھر بھی نہ سمجھا گیا اور اس پر ایک نیا گنبد بنا دیا گیا
کفار پر عذاب قبر کی خبر مکی دور میں دی گئی جب ال فرعون اور قوم نوح کا قرآن میں ذکر ہوا لیکن مدینہ پہنچ کر بھی مومن پر عذاب قبر کا عقیدہ نہیں تھا – نہ یہ اصحاب بدر کے علم میں تھا نہ اصحاب احد کے بلکہ آخری دور میں وفات سے چار ماہ پہلے مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی
بخاری اور مسلم میں عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مروی روایات میں یہ آیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے گھر دو یہودی عورتیں آئیں، انہوں نے عذاب قبر کا تذکرہ کیا، نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی اور مسلم کی روایت کے مطابق کہا یہ یہود کے لئے ہے پھر فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ کچھ راتوں بعد اپ نے فرمایا أَمَا شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ کیا تمہیں شعور ہوا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم کو قبروں میں ازمایا جائے گا –
صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کا بیان ۔ حدیث 1314
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی قَالَ هَارُونُ حَدَّثَنَا وَقَالَ حَرْمَلَةُ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ مِنْ الْيَهُودِ وَهِيَ تَقُولُ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ فَارْتَاعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّمَا تُفْتَنُ يَهُودُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ يَسْتَعِيذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ہارون بن سعید، حرملہ بن یحیی، ہارون، حرملہ، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ کیا تم جانتی ہو کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر کانپ اٹھے اور فرمایا کہ یہودی آزمائے جائیں گے -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چند راتیں ٹھہرے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتی ہو کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی -عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے رہے۔
—–
عمرۃ’ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عائذا باللّٰہ من ذٰلک ۔ میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر ایک دن آپ صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر (اس دن) سورج کو گرہن لگ گیا۔ (آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا انی قد رایتکم تفتنون فی القبور کفتنۃ الدجال … اسمع رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بعد ذالک یتعوذ من عذاب النار و عذاب القبر بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح۔ … میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں: فقال ما شاء اللّٰہ ان یقول ثم امرھم ان یتعوذوا من عذاب القبر پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا فرمایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قبرکے عذاب سے پناہ مانگیں۔
صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد۱صفحہ ۱۴۳عربی ح:۱۰۴۹۔ صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱صفحہ۲۹۷عربی ح:۲۰۹۸
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے) ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔
حدیث نمبر: 1043
صحیح بخاری جلد 2
سوال یہ ہے کہ ابراہیم کی وفات کس دن ہوئی؟
ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں قول پیش کیا ہے
وذكر الواقدي: أن إبراهيم ابن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مات يوم الثلاثاء لعشر ليالٍ خلون من شهر ربيع الأول سنة عشر ودفن بالبقيع،
اور واقدی نے ذکر کیا بے شک ابراہیم بن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیر کے روز ربیع الاول میں دس رات کم دس ہجری میں وفات ہوئی
انساب کے ماہر ابن حزم الأندلسي القرطبي (المتوفى: 456هـ) کتاب جمهرة أنساب العرب میں لکھتے ہیں
ومات إبراهيم قبل موت النبي صلى الله عليه وسلم، بأربعة أشهر؛ ودفن بالبقيع
اور ابراہیم کی وفات نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے چار ماہ پہلے ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئے
یعنی ذیقعد میں ١٠ ہجری میں وفات ہوئی اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی
صحیح مسلم میں ہے: عمرو نے کہا: جب ابراہیم کی وفات ہوئی تو رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے کہا: بے شک ابراہیم میرا بیٹا ہے اور وہ دودھ پیتے بچے کی عمر میں مرا ہے اور بے شک اس کے لئے دودھ پلانے والی ہے جو جنت میں اس کی رضاعت پوری کرائے گی
یعنی مومن کے لئے عقیدہ یہ تھا کہ اسکو عذاب نہیں ہوتا اور روح فورا جنت میں جاتی ہے جہاں اس کو ایک ایسا جسم ملتا ہے جو دودھ پی سکتا ہے اس کے لئے عذاب کی کوئی خبر نہیں تھی
بخاری و مسلم کی ہی بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو ابراہیم کی وفات والے دن ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز کے دوران مومن کے لئے عذاب قبر سے مطلع کیا گیا. مشرک عمرو ابن لحیی الخزاعی جو مر چکا تھا اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھاتے ہوئے بیداری میں دیکھا جو دس ہجری کا واقعہ ہے نہ صرف عمرو (ابن لحیی الخزاعی) کو دیکھا بلکہ اپ جہنم کی تپش کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور ایک موقعہ پر جنت میں سے انگور کا خوشہ لینے کے لئے آگے بھی بڑھے ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک عورت کو بھی دیکھا جس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور بھوک پیاس کی وجہ سے وہ بلی مر گئی. اس کی تفصیل بخاری و مسلم میں کسوف کی روایات میں دیکھی جا سکتی ہیں
لہذا انہی ایام میں جبکہ یہودی عورتوں نے مومنوں پر عذاب قبر کا ذکر کیا ابراہیم پسر نبی کی بھی وفات ہوئی اور سورج گرہن کے دن مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی –
اس کے بعد چار ماہ کی قلیل مدت ہے جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجه الوداع کیا اور غدیر خم کا واقعہ ہوا پھر آپ مدینہ پہنچے اور بالاخر صفر کے مہینے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہونا شروع ہوئی اور ربیع الاول میں وفات ہوئی-
عذاب قبر کی روایات تعداد میں اتنی زیادہ ہیں کہ چار ماہ کی قلیل مدت اس کے تمام مسائل اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار- اس میں تطبیق کی صورت نہیں ہے –
ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں
وقال الحافظ بن تَيْمِيَةَ فِي كِتَابِ التَّوَسُّلِ وَالْوَسِيلَةِ … وَأَنَّهُ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ
ابن تیمیہ کتاب التوسل و الوسیله میں کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے صرف ایک بار گرھن کی نماز پڑھی جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی
یہی بات مبارک پوری نے مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں دہرائی ہے ج ٥ ص١٢٨ پر
وأنه لم يصل الكسوف إلا مرة واحدة يوم مات إبراهيم
اور بلا شبہ گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ اس روز جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی
حاشية السندي على سنن النسائي میں ابن کثیر کے حوالے سے لکھتے ہیں
فَإِن رَسُول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُصَلِّ الْكُسُوفَ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً بِالْمَدِينَةِ فِي الْمَسْجِدِ هَذَا
بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گرہن نہیں ملا سوائے ایک دفعہ مدینہ میں اس مسجد (النبی) میں
تيسير العلام شرح عمدة الأحكام میں البسام لکھتے ہیں
أن الخسوف لم يقع إلا مرة واحدة في زمن النبي صلى الله عليه وسلم
بے شک گرہن نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں
محمد بن صالح بن محمد العثيمين شرح ریاض الصالحین میں لکھتے ہیں
إن الكسوف لم يقع في عهد النبي صلي الله عليه وسلم إلا مرة واحدة
بے شک گرہن واقع نہیں ہوا عہد نبوی میں سوائے ایک دفعہ
سلفی مقلد اہل حدیث عالم ابو جابر دامانوی عذاب قبر الناشر مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی میں لکھتے ہیں
بخاری و مسلم کی تفصیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیہ کے عذاب قبر کے ذکر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذا ب قبر کی تفصیلات صلوۃ کسوف کے بعد بتائیں اور سورج کو گرہن ۱۰ ھ میں لگا تھااور اسی دن آپ کے صاحبزادے جناب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات بھی ہوئی تھی ۔ گویا آپ کو بھی اسی سال عذاب قبر کا تفصیلی علم ہوا اور آپ نے اپنی امت کو اس اہم مسئلہ سے آگاہ فرمایا۔ مسند احمد کی حدیث جسے حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے جس میں ہے کہ شروع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا تھا حدیث کے الفاظ یہ ہیں: کَذَّبَتْ یَہُوْدُ وَھُمْ عَلَی اﷲِ عَزَّ وَ جَلَّ کَذِبٌ لَا عَذَابَ دَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (مسند احمد ج ۶ ص ۸۱، فتح الباری ج ۳ ص ۲۳۶) ’’یہود نے جھوٹ کہا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹی بات کہی ہے کیونکہ قیامت سے قبل کوئی بھی عذاب نہیں ہے‘‘ ۔ لیکن کچھ دنوں بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے عذاب قبر کی حقیقت کا پتہ چلا تو آپ بے حد غمگین تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا: فَاِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌ ’’بے شک قبر کا عذاب حق ہے‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے: (اے عائشہ) کیا تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبروں میں آزمائش ہو گی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس دن سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز میں) عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب استحباب التعوذ من عذاب القبر (حدیث نمبر ۱۳۱۹) مسند احمد ج۶ ص ۸۹)۔
لہذا ایک طرف چار ماہ کی قلیل مدت اور دوسری طرف عذاب قبر کی روایات کا انبار اب بس ایک ہی رستہ تھا کہ عائشہ رضی الله عنہا کو کہا جائے کہ وہ عقائد بھول جاتی تھیں
ایک عرب محقق عکاشہ عبد المنان کتاب المسند الصحیح فی عذاب القبر و نعیمہ میں لکھتے ہیں
اور جو ظاہر ہے یہودی بوڑھی عورتوں کے واقعہ اور عائشہ رضی الله عنہا کے انکار (عذاب قبر) سے کہ بے شک وہ بھول گئیں جو ان سے پہلے بیان ہوا تھا پس جب انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ بلند کیے اور عذاب سے پناہ مانگی – پس نبی صلی الله علیہ وسلم کا عائشہ رضی الله عنہا کو جواب دلالت کرتا ہے کہ وحی رسول الله کے دل میں تھی وہ نہیں بھولے تھے جیسا کہ الله نے خبر دی ہم تم پر پڑھیں گے تم نہیں بھول پاؤ کے (سوره الآعلی) اور جہاں تک عائشہ کا تعلق ہے تو وہ بے شک بھول گئیں جیسے اور بشر اور یہ کوئی عیب نہیں ہے
اور دوسری وجہ ہے : وہ دور جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عذاب قبر کے وجود کی خبر دینے کے لئے وحی نہیں آئی اس کے بعد آپ کو بتایا گیا یہودیوں کے کلام کا اور عائشہ رضی الله عنہآ کی خبر کا پس آپ نے جواب دیا آوروں کی بجائے یہود کے اثبات میں یہاں تک کہ وحی آئی اور خبر دی گئی کہ یہ حق ہے ہر میت اسکی مستحق ہے پس اسکی خبر لوگوں کو باہر نکل کر دی جو وحی ہوئی تھی و الله آعلم
یہ تاویل سراسر لغو ہے اور ذہن سازی ہے – عائشہ رضی الله عنہا اگر عذاب قبر جیسے مسئلہ کو بھول گئیں تو پتا نہیں دین کا کتنا حصہ بھول گئی ہوں؟ صحیح مسلم کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی لیکن کئی راتوں کے بعد عائشہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ عذاب ہوتا ہے – یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مومن پر عذاب قبر کی خبر دس ہجری میں دی گئی اس سے قبل اس کا ذکر نہیں تھا
کیا مردے سنتے ہیں ؟ اس طرح کے رسالے بعض علماء چھاپتے ہیں اور عوام کو باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مردے نہیں سنتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علماء اس انبوہ میں شامل ہیں جن کے نزدیک نہ صرف مردے سنتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک مردے اتنے پاور فل ہیں کہ قبر پر کھڑے لوگوں سے مانوس بھی ہو سکتے ہیں
اس قبیل کے علماء قبر پرستوں کو ان کے عقائد پر سند جواز دیتے ہیں –قبروں پر جانے کا ایک مقصد صاحب قبر کو سنانا ہوتا ہے کہ وہ عرضداشت رب العالمین تک پہنچا دیں گے –
اور زندہ مردہ برابر نہیں بے شک الله جس کو چاہے سنا دےاور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو سنانے والے نہیں
ان آیات میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ کفار کو ایمان کی طرف نہیں لا سکتے یہ سب الله کے اختیار میں ہے
تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے اس کا مطلب مجازی لینا ہو گا کہ آپ کفار کو نہیں سنا سکتے لیکن قبر میں پڑے مردوں کو سنا سکتے ہیں- جبکہ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جب مثال بھی دیتا ہے تو حقیقت بر مبنی ہوتی ہے
ابن الجوزي كتاب السر المصون (بحوالہ الفروع از ابن مفلح ) میں کہتے ہیں
الذي يوجبه القرآن والنظر أن الميت لا يسمع ولا يحس قال تعالى وما أنت بمسمع من في القبور سورة فاطر 22 ومعلوم أن آلات الحس قد فقدت
جو چیز قرآن و (نقد و) نظر سے واجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے – الله تعالی کہتے ہیں اور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو نہیں سنا سکتے سوره فاطر ٢٢ اور یہ معلوم ہے کہ سننے کے آلات (یعنی کان) ضائع ہو چکے ہوتے ہیں
سماع الموتی کی سب سے اہم دلیل، قلیب بدر کے مردوں کا سماع ہے- جنگ بدر میں فتح کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار کی لاشیں ایک کنواں میں پھینک دی جائیں تین دن بعد آپ اس مقام پر گئے اور کنواں کے اوپر آپ نے ٢٤ سرداران قریش کو پکارآ اس وقت عمر رضی الله عنہ نے کہ
یا رسول الله آپ ایسے اجسام سے مخاطب ہیں جن میں ارواح نہیں؟
رسول الله نے فرمایا
إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ
بے شک یہ سن رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں
عائشہ رضی الله عنہآ سماع الموتی کی انکاری تھیں اور کہتیں تھیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ یہ سنتے ہیں اصل میں علم ہونا ہے
اور ایسا وہ کیوں نہ کہتیں جبکہ قرآن میں ہے
ابراہیم علیہ السلام نے بتوں سے کلام کیا اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں ؟
حدیث میں ہے عمر رضی الله عنہ نے حجر الاسود سے کلام کیا
ابن عمر رضی الله عنہ نے ابن زبیر رضی الله عنہ کی سولی پر لٹکتی لاش سے کلام کیا اور اسماء رضی الله عنہا سے کہا صبر کریں بے شک ارواح الله کے پاس ہیں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مردہ بیٹے سے کلام کیا
وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے
فرط جذبات میں مردوں سے زندہ مخاطب ہو سکتا ہے لیکن اس میں اس کا مقصد مردے کو سنانا نہیں ہوتا – امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر کوئی قسم کھا لے کہ میں کسی سے کلام نہ کروں گا اور مرنے کے بعد اس کے لاشے سے کلام کر بیٹھا تو اس کی قسم نہ ٹوٹے کی
ابن رجب کتاب أهوال القبور میں قبول کرتے ہیں
قال الحافظ ابن رجب: وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء
اور عائشہ (رضی الله عنہا) سے موافقت کی ہے بہت سے علماء نے مردوں کے سننے کی نفی میں
واضح رہے کہ الله کی قدرت و منشا میں بحث نہیں ہے وہ تو جو چاہے کر سکتا ہے سوال انسانوں کا ہے کہ کیا وہ اپنی بات مردوں کو سنا سکتے ہیں کہ نہیں
اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں، بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ انہیں ، جو قبروں میں ہیں، سنانے والے نہیں
یعنی انسان قبر والوں کو نہیں سنا سکتا اللہ چاہے تو ایسا ممکن ہے لہذا اسی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک قلیب بدر کا واقعہ ایک معجزہ تھا
البانی کتاب آیات البینات از نعمان الوسی کی تعلیق میں کہتے ہیں
قلت : ولذلك أورده الخطيب التبريزي في ” باب المعجزات ” من ” المشكاة “ج 3 رقم 5938
میں کہتا ہوں اسی لئے خطیب التبریزی نے مشکاہ میں اس (قلیب بدر والے واقعہ) کو المعجزات کے باب میں ذکر کیا ہے
سماع الموتی کے دلائل کا تضاد
سماع الموتی کے قائلین کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین کے بعد چاپ سنتے ہیں اس سلسلے میں انبوہ غیر مقلدین کی جانب سے کہا جاتا ہے :” یہ ایک استثناء ہے”- جبکہ یہ استثناء تو تمام مردوں کے لئے بولا جا رہا ہے تو مخصوص کیسے ہوا
ان میں سے بعض لوگوں کی جانب سے کہا جاتا ہے :”جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے” لیکن پھر یہی لوگ عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے منسوب وصیت بھی پیش کرتے ہیں جس کے مطابق انہوں نے کہا کہ مجھ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر اتنی دیر رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے تاکہ میں تم لوگوں سے مانوس ہو جاؤں -گویا ان لوگوں کو خود بھی نہیں پتا کہ ان کے اس نام نہاد استثناء میں کیا کیا شامل ہے اور اسکی حدود کیا ہیں
الشِّنقيطي ایک وہابی عالم تھے ١٩٧٤ میں وفات ہوئی – ان کی آراء کو الجموع البهية للعقيدة السلفية الَّتِي ذكرهَا الْعَلامَة الشِّنقيطي مُحَمَّد الْأمين بن مُحَمَّد الْمُخْتَار الجَكَنِي فِي تَفْسِيره أضواء الْبَيَان میں جمع کیا گیا جس کو أبو المنذر محمود بن محمد بن مصطفى بن عبد اللطيف المنياوي نے جمع کیا ہے اور مكتبة ابن عباس، مصر نے چھاپہ ہے
اپنی ایک تقریر میں مسئلہ سماع الموتی پر جرات دکھائی اور ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کے حوالے سے انہوں نے کہا
الشِّنقيطي هَل يسمع الْمَوْتَى؟ کیا مردے سنتے ہیں کے سلسلے میں کہتے ہیں
أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی جنہوں نے ان کی اتبآع کی ہے
الشِّنقيطي سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں
إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة
عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ضرورت کے تحت دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے
وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
ابو جابر دامانوی دین الخالص میں اکابر پرستی میں مبتلا ہو کر اپنے بت کوبچانے کے لئے لکھتے ہیں
جوچیز دامانوی صاحب کو سمجھ نہیں آئی وہ الشنقیطی صاحب کو آئی اور اس پر ہی ڈاکٹر عثمانی نے جرح کی ہے
غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ عائشہ رضی الله عنہا وہ عقیدہ رکھتی تھیں جو الله اور اس کے رسول کے قول سے الگ تھا
موصوف گویا کہنا چاہتے ہیں کہ قول نبوی سن کر بھی عائشہ رضی الله عنہا نے جو تاویل کی وہ غلط تھی جبکہ ام المومنین رضی الله عنہا جو فقہاء مدینہ کی استاد ہیں ان کے فہم پر مبنی اس تاویل پر اعتراض سات صدیوں تک علمائے اسلام نے
نہیں کیا یہاں تک کہ ابن تیمیہ کا جنم ہوا
Real Islam facebook page & Associated pages plagiarism