Category Archives: ایمانیات – Aqaid

ذي القرنين  أفريدون سے  سكندر تک

ارنسٹ والس بج  ایک مغربی  تاریخ دان تھے اور قدیم کتب کا ترجمہ کرنے میں ماہر تھے مثلا انہوں نے اہرام مصر کی دیواروں پر موجود عبارت کا ترجمہ کیا اسی طرح ایک کتاب ان کو ملی جو سکندر کے سفر نامے پر تھی اور اس  کے دو نسخنے ہیں –  والس نے اس نسخے کا ترجمہ کیا جو سریانی  کی زبان میں تھا-  سریانی زبان والا نسخہ میں  کہانی کا ایک  حصہ جو ہماری دلچپسی کا ہے اس میں ہے کہ مصر اسکندریہ میں  سکندر ایک جنگ کا اردہ کرتا ہے اور خدا سے مدد مانگتا ہے

And king Alexander bowed himself and did reverence, saying, “0 God, Lord of kings and judges, thou who settest up kings and destroyest their power, I know in my mind that thou hast exalted me above all kings, and thou hast made me horns upon my head, wherewith I might thrust down the kingdoms of the world۔

اور شاہ سکندر نے سجدہ کیا اور کہا اے رب مالک الملک والقضآة  جو بادشاہ کرتا ہے اور انکی قوت کو تباہ کرتا ہے مجھے اپنے نفس میں خبر ہے آپ نے مجھ کو تمام بادشاہوں پر بلند کیا اور آپ نے میرے سر پر سینگ کیے جس سے میں بادشاہتوں کو دھکیل دیتا ہوں

The History of Alexander the Great,  Being the Syriac Version of the Pseudo-Callisthenes,

Volume 1″,page 146, The University Press, 1889.  By Ernest A. Wallis Budge

یہاں والس ایک نوٹ لگاتے ہیں

wallis-note

دو سینگوں والا ایک مشھور لقب ہے سکندر کا اتھوپیا کے مسودہ میں ہے …. دو سینگ – قرآن سوره 18 – کچھ کہتے ہیں کہ قرآن میں اس سے مراد سکندر ہے جبکہ دوسرے کہتے ہیں ابراہیم کا ہم عصر ہے جو فارس کا بادشاہ تھا اور کچھ یمن کے بادشاہ کو کہتے ہیں

حکایت کے مطابق سکندر  مصر کے لوہاروں کو لیتا ہے اور عراق سے ہوتا ہوا ارمنینا تک جاتا ہے اور وہاں ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے قریب جنت ہے اور وہ سمندر، جھیل اور نہروں میں گھری ہے

wallis-2

اے بادشاہ ہم اور ہمارے اجداد اس پہاڑ پر نہیں چڑھ پاتے اور یہ ایک سرحد کے طور ہمارے اور دیگر قوموں کے بیچ ہے سکندر نے پوچھا اس پہاڑ کے اندر تم کس قوم کو دیکھتے ہو ؟ بوڑھے نے کہا  “ھن” کو – سکندر نے پوچھا ان کے بادشاہ کون ہیں ؟ بوڑھے نے کہا یاجوج اور ماجوج اور نوال جو جافث کی نسل سے ہیں اور جج اورتیمروں اور تمروں اور یکشفر اور سلگادو اور نسلک اور معرفل اور کوزہ ھن کے شاہ ہیں – سکندر نے پوچھا یہ دیکھنے میں کیسے ہیں کیا پہنتے ہیں کیا بولتے ہیں؟

سریانی میں سکندر کی اس کہانی میں یاجوج ماجوج کو بہت سے بادشاہوں میں سے  چند  بتایا گے ہے جو نہ صرف بائبل کے خلاف ہے بلکہ قرآن  کے بھی خلاف ہے –

 سکندر اپنی فوج سے کہتا ہے

wallis-3

سکندر نے اپنی فوج سے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہمیں اس جگہ کوئی عظیم کام کرنا چاہیے ؟ فوج نے کہا جیسا آپ کا حکم سکندر نے کہا ایک دروازہ اس درہ کے بیچ بناؤ جس سے اس کو پاٹ دیں – اور سکندر نے 3 ہزار آدمی اس کام پر لگا دیے اور انہوں نے آٹے کی طرح لوہا اور تانبہ گوندھ دیا جس سے دروازہ بنا ….

والس یہاں نوٹ لکھتے ہیں

wallis-4

یہ گزرگاہ یا درہ وہی ہے .. جس کو ترک

 Demir Kapija

کہتے تھے  –

 دمیر کاپیا کا مطلب ہے آہنی دروازہ –

Demir Kapija

میسی ڈونیا (مقدونیہ) کے علاقے میں ایک جگہ کا نام ہے نہ کہ ارمنینا میں

بحر الحال اس کتاب کے قصے سے  بعض مستشرقین  کو اشتباہ ہوا کہ یہ وہی دیوار ہے جس کا قرآن میں  ذی القرنین کے قصے میں ذکر ہے

سفرنامہ سکندر پر کتاب کا  ایک دوسرا نسخہ بھی ہے جو ارمیننا کی زبان کا ہے

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

Translated from the Armenian Version  with an Introduction by

Albert Mugrdich Wolohojian

COLUMBIA UNIVERSITY PRESS New York and London 1969

دوسرا  نسخہ میں جو ارمنینا کا ہے اس میں سرے سے اس   دیوار کے قصے کا ذکر ہی نہیں کہ سکندر نے آرمینا میں کچھ بنوایا بھی تھا یا نہیں – اس کے علاوہ یاجوج و ماجوج کا ذکر بھی نہیں ہے

لاطینی سیاح مارکو پولو کے بقول انہوں نے بھی سد سکندری

Rampart of Alexander

کو دیکھا

The Travels of Marco Polo: The Complete Yule-Cordier Edition By Marco Polo, Sir Henry Yule, Henri Cordier

ہینری کوردئر اس پر تبصرہ کرتے ہیں  کہ یہ مفروضہ کہ تاتار ، یاجوج و ماجوج ہیں ، سد سکندری  کو دیوار چین سے ملانے کا سبب بنا – یعنی مارکو پولو دیوار چین کو سد سکندری سمجھ بیٹھا

لیکن وہاں ایک اور دلچسپ حوالہ دیتے ہیں

henry-marco-1

ریکولڈ مونٹکرو دو دلیل دیتے ہیں جس سے یہود  کو تاتاریوں سے ملایا گیا ہے جن کو سکندر نے دیوار سے بند کیا ایک یہ کہ تاتاری سکندر کے نام سے ہی نفرت کرتے ہیں اور وہ اس کو سن نہیں سکتے اور دوسرا یہ کہ ان کی تحریر بابل جیسی ہے جو سریانی کی طرح ہے  لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہود کی اس سے کوئی مماثلت نہیں ہے اور ان کو شریعت کا پتا نہیں ہے

پس ظاہر ہوا کہ  جان بوجھ کر اتھوپیا کے عیسائیوں  نے یہود کی مخالفت میں اس کتاب

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

کو گھڑا

اسلام سے قبل  عیسائیوں اور یہود میں بنتی نہیں تھی – اس دور چپقلش میں عیسائیوں  نے یہ کتاب گھڑی جس میں اپنی  مذہبی آراء کو یہود کے خلاف استمعال کیا – اس کے لئے انہوں نے سکندر کا کردار چنا – وجہ یہ تھی کہ یہود بابل کے غلام تھے پھر فارس  نے بابل پر قبضہ کیا اور یہود کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دی یہود نے اپنی حکومت وہاں بنا لی لیکن سکندر کے بعد یونانیوں نے یہود کو غلام بنا لیا- یہود میں اس پر یونان  مخالف جذبات پیدا ہوئے اور وہ فارس کی طرف دیکھتے کہ کوئی ائے اور ان کو بچائے –

عیسیٰ علیہ السلام کے بعد یہود اور نصاری میں خوب جگھڑے ہوئے اور بالاخر عیسائیوں  نے یہود کے مخالف کے طور پر سکندر کے اوپر ایک فرضی داستان گھڑی – سکندر ایک بت پرست مشرک تھا لیکن عیسائیوں  نے اس کو کہانی میں الہ پرست   قرار دیا – اس کو مسیح کا منتظر دکھایا جو یروشلم کو مسیح کے حوالے کرے اور یہود کا مذاق اڑایا کہ سکندر نے  ایک  دیوار بنا کر ان وحشی یہود کو باقی دنیا سے الگ کر دیا

واضح رہے کہ بائبل کی کتاب  حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور ماجوج قوم ہے – لیکن عیسائیوں  نے ارمیننا کے “ھن” قوم کے  بادشاہوں میں ماجوج کو بھی ایک بادشاہ قرار دے دیا اس طرح یاجوج و ماجوج قوموں کی بجائے بادشاہوں کے نام بنا دیے- اتھوپیا کے عیسائیوں  نے سکندر کو ایک افریقی گینڈے کی طرح تشبیہ دی جو اپنے سینگوں سے مخالف حکومتوں کو دھکیلتا ہے-

نزول قرآن کے دور میں  یہود بھی یہی کہتے ہونگے کہ ذو القرنین سکندر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود کو بخوبی پتا تھا کہ سکندر کا یاجوج ماجوج سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب سکندر پیدا بھی نہیں ہوا تھا حزقی ایل جو بابل میں غلام تھے وہ یاجوج ماجوج کا تذکرہ اپنی کتاب میں کر چکے تھے – تاریخ کے مطابق  سکندر کے یہود سے اچھے تعلقات تھے یہاں تک کہ یہود نے اس کی اجازت سے کوہ گزیرم پر موجود یروشلم مخالف  سامرہ کے یہودیوں کی عبادت گاہ کو مسمار کیا اور وہاں موجود   اس فرقے کا قتل عام کیا – گویا سکندر یروشلم پہنچ کر مسیحا کے لئے گدی چھوڑنے کی بجائے خود یہود سے دوستی کر چکا تھا – عیسائیوں  کا  اس کتاب کو گھڑنا یہود کے لئے نہ تھا بلکہ وہ اپنے ہی ہم مسلک عیسائیوں  کو جھوٹی کہانیاں سنا کر تسلیاں دے رہے تھے

اب  اس سوال کی طرف  توجہ کرتے ہیں کہ ذوالقرنین کس دور میں گذرا- بابل کی غلامی کے دور میں یہود اس کی شخصیت سے واقف ہوئے جب نہ کورش تھا ن سکندر لہذا یہ  ان دونوں سے قبل گزرنے والی کوئی شخصیت ہے-

قدیم مورخین کے مطابق ذو القرنین  افریدوں

Fereydun

Faridon

Fereydoun

ہے جس کا ذکر قدیم فارس کی

Proto- Iranian

داستانوں میں ہے یعنی یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو تاریخ لکھے جانے سے پہلے کا دور ہے یہی وجہ ہے کہ اس پر معلومات کم تھیں اور یہود و نصاری میں اس شخصیت پر جھگڑا تھا کہ کون ہے

فریدوں کی ایک تصویر ١٩ صدی میں بنائی گئی جس میں اس کے ہاتھ میں عصآ ہے جس پر دو سینگ ہیں

https://en.wikipedia.org/wiki/Fereydun

 یقینا مصور کے پاس اس پر کوئی معلومات تھیں جس کی بنا پر افریدوں کو دو سینگوں کے ساتھ دکھایا گیا

اس سب تفصیل کو بٹاتے کا مقصد ہے کہ بعض مستشرقین  نے اس مذکورہ کتاب کو قرآن کی سوره الکھف کا منبع قرار دیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گویا ذو القرنین کا قصہ اصلا اس کتاب کا سرقه ہے

http://wikiislam.net/wiki/Dhul-Qarnayn_and_the_Alexander_Romance#Early_Jewish_Legends

سوره کہف ، حکایات سکندر  سے گھڑنے کی بات کس قدر احمقانہ ہے اس کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے خود اہل کتاب   نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ذو القرنین پر سوال کیا تھا – انکو عیسائیوں  کی یہود مخالف تحاریر کا بھی علم تھا اور اگر مذکورہ بالا  سکندر پر کتاب اس وقت  موجود تھی تو یقینا اس کا بھی یہود و نصاری کو  علم ہو گا

اول  قرآن نے یاجوج ماجوج کو قوم قرار دیا نہ کہ بادشاہ

دوم قرآن نے یاجوج ماجوج کو یہود قرار نہیں دیا

سوم ذو القرنین کو سکندر نہیں کہا حالانکہ  سکندر جیسا مشہور حاکم  قرار دینا نہایت آسان تھا

واللہ اعلم

حمورابی کوڈ اور توریت

کیا  توریت کے  احکام اصلا حمورابی  کے احکام کا چربہ ہیں ؟ بعض لوگ کہتے ہیں  موسی علیہ السلام  ایک فرضی کردار ہے کیونکہ قدیم تاریخ  میں ان کا ذکر نہیں اور آرکیالوجی سے بھی کچھ دریافت نہیں ہوا

جواب

حمورابی  نے میسوپوتما یا بابل  پر ١٧٩٢ سے ١٧٥٠  تک ٤٢ سال  حکومت کی یعنی عیسیٰ سے 18 صدیوں پہلے- حمورابی کے ٣٥٠ سال بعد پیدا ہونے والے بنی اسرائیلی نبی موسی علیہ السلام  یہودی روایات کے مطابق  ١٣٩٣ ق م میں پیدا ہوئے اور ١٢٧٣ ق م میں وفات پا گئے

حمورابی کوڈ ٣٠٠ قوانین پر مشتمل  ایک تحریر ہے جو  ستون پر درج  ہے جس کے تین مختلف ٹکڑے تھے ان hamurabiCodeکو سوس ایران  کے شہر سے فرانسیسی محققین نے دریافت کیا – ستون پر حمورابی بابلی  خدائے سما و ارض شمس کے سامنے ہاتھ باندہے کھڑا ہے اور احکام لے رہا ہے –

 حمورابی کا کوڈ بابلی عقیدے کے مطابق خدا شمس کا عطا کردہ ہے نہ کہ حمورابی کی ذاتی کاوش لہذا یہ بابل کا الہامیادب ہے –  توریت کے احکام الله تعالی یا یہوی کے عطا کردہ ہیں – بعض احکام میں مماثلت ہے مثلا

حمورابی کوڈ توریت کے احکام 
 ١٢٩ اور ١٤ زنا اور اغوا  خروج باب ٢١ آیت ١٠ ، لاوی باب ٢٠  آیت ١٦
١٩٦ آنکھ کے بدلے آنکھ لاوی باب ٢١ آیات ٢٣ تا ٢٥
٢٠٦ خروج باب ٢١ آیت  ١٨ تا ١٩

شروع میں کہا گیا کہ  توریت حمورابی کے قوانین کا ایک چربہ ہے لیکن اب اس   تھیوری کو رد کر دیا گیا ہے اس کی وجہ ہے تین چار کے علاوہ حمورابی کوڈ میں سخت سزایں  توریت سے زیادہ ہیں مثلا   چوری کی سزا ١٠  سے ٣٠ گنا مال واپس دینا بصورت دیگر قتل ہے- توریت میں ایسا نہیں ہے – اس میں سخت قوانین ہیں لیکن حمورابی  کوڈ اس سے بھی سخت ہے

جو چیز ایک دور میں قبولیت عامہ اختیار کر لے اس کو معروف کہا جاتا ہے اور ابراہیمی ادیان میں اسی معروف پر بھی عمل ہوتا ہے اور یہی قانونی شکل لیتا ہے – حمورابی کوڈ یا توریت ایک ایسے دور میں ہیں جن میں معاشروں کی بقا کے لئے سخت قوانین کو اپنانا ضروری تھا اور یہی اس دور میں انسانی ذہن کے لئے قابل قبول تھا – ملحدین کہہ سکتے ہیں کہ موسی کو دشت میں بنی اسرائیل پر کنٹرول کے لئے سخت قوانین درکار تھے لیکن بابل  کے کشادہ و فارغ البال  ملک میں اس قسم کے سخت احکام کیوں  لگائے گئے ؟ اس کے جواب میں یہی مضمر ہے کہ اس دور میں قبولیت عامہ اسی جیسے قواینن کو تھی  لہذا چند قوانین میں مماثلت اصلا نقل یا سرقه نہیں

موسی علیہ السلام پر فراعنہ مصر کی تحریریں خاموش ہیں-  نہ کتبوں پر کچھ ملا نہ تابوتوں پر نہ دیواروں پر نہ کھنڈرووں میں ان کے بارے میں کچھ ملا – ایسا کیوں ہوا ؟ اس کا جواب ہے کہ  موسی ایک فرد ہیں اور فرعونوں کے خاندان سے نہیں – کیا فراعنہ مصر کے علاوہ  کسی اور شخصیت کا ذکر  ملا؟  نہیں ملا – کیونکہ بادشاہتوں میں رویل فیملی ہی کی اہمیت ہوتی ہے اور مخالفین کا ذکر نہیں ہوتا الا یہ کہ وہ کوئی مشھور بادشاہ ہو- موسی علیہ السلام ایک غریب و غلام قوم کے شخص تھے  ان کا نام و نسب فرآعنہ مصر کیوں لکھواتے؟  کہا جاتا ہے  یونانی مورخ ہیروڈوٹس

Herodotus

  جو تاریخ مصر میں طاق تھے انہوں بھی موسی کا ذکر نہیں کیا- لیکن کیا ہیروڈوٹس   جو ٤٨٤ ق م میں پیدا ہوئے کیا تمام مصر کی تاریخ لکھ گئے یا صرف اپنے زمانے کی ہی لکھ پائے اور ان یونانی مورخین نے جو تاریخی غلطیاں کی ہیں ان کا ذکر ہم کیوں بھول جاتے ہیں ؟ ہیروڈوٹس کو جھوٹ کا باپ بھی کہا جاتا ہے – اس کے بقول ایران میں لومڑی کے سائز کی چونٹی ہوتی ہے جو سونا  پھیلاتی ہیں جب زمین میں سوراخ کرتی ہیں تاریخ کتاب 3 اقتباس ١٠٢  تا ١٠٥ – اسی قسم  کے  قول  کو مفسرین نے سوره  النمل میں سلیمان علیہ السلام سے کلام کرنے والی چیونٹی کی  تفسیر  کے لئے استمعال کیا (ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں أَوْرَدَ ابْنُ عَسَاكِرَ مِنْ طَرِيقِ إِسْحَاقَ بْنِ بِشْرٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ اسْمَ هَذِهِ النَّمْلَةِ حَرَسُ، وَأَنَّهَا مِنْ قَبِيلَةٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو الشَّيْصَانِ، وأنها كانت عرجاء، وكانت بقدر الذئب ابن عساکر نے اسحاق بن بشر عن سعید عن قتادہ عن حسن کی سند سے روایت کیا ہے کہ وہ چیونٹی لومڑی کے سائز کی تھی- یہ ابن کثیر کی غلطی ہے کیونکہ اس کی سند میں اسحاق بن بشر ہے جو قصہ گو ہے اور ضعیف ہے بلکہ محدثین کہتے ہیں موضوعآت بیان کرتا ہے)–  بابل اور مصر کے حوالے سے موصوف نے کافی زمین و آسمان کے قلابے ملائے اور ارکیلوجی سے ثابت ہوا کہ یہ سب فرضی قصے تھے – لق و دق  میسوپوتما کے شہروں کو ٹروپیکل جزیروں کی شکل میں پیش کرنا انہی کا فن تھا – بحر الحال قصہ مختصر بندر کی بلا طویلے کے سر کا مقولہ مشھور ہے –

pyramids

آرکیالوجی سے ثابت ہو چکا ہے کہ مصر میں غلامی زوروں پر تھی اور تقریبا تمام دنیا میں ہی غلامی تھی – بعض عرب مفکروں مثلا دکتور نديم عبد الشافى السيار نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مصر میں بنی اسرائیل غلام نہیں تھے اور قدماء فراعنہ مصر موحد تھے –  مصر پر تحقیق کرنے والے مغربی محققین کے خیال میں صرف ایک فرعون بنام اخناتوں

Akhenaten

میں اس عقیدے کا اثر تھا اس کی موت کے بعد اس کی تصویریں مقابر و مندروں میں توڑی گئیں اور اس کی توحید یہ تھی کہ صرف  اتان  دیوتا کی پوجا ہو – اس سے پہلے اوربعد میں کسی فرعون کے لئے یہ عقیدہ نہیں ملتا-  الغرض اگر کسی ممی کے سر کی ہڈی پردراڑ ہو تو محققین اس پر پوری قتل کی کہانی بنا دیتے ہیں اور یہ مصر پر تحقیق کا انداز ہے اس میں کوئی چیز حتمی نہیں ہے بلکہ تھیوری ہے – ایک نشان سے رائی کا پربت بنا دیا جاتا ہے- قدیم تاریخ لکھنے سے بھی پہلے کی باتیں ثابت نہ ہوں تو ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا – دوم جتنی بھی قدیم تاریخیں ہیں  وہ سب بائبل سے لی گئی ہیں زمین کی عمر یہود کے مطابق ٦٠٠٠ سال کے قریب  ہے  لہذآ جو بھی واقعہ قدیم دور کا بتایا جاتا ہے وہ اسی مدت کے اندر کا ہی ہوتا ہے اس کی وجہ ہے کہ مغربی محققین چاہے ملحد ہوں یا لا دین یا بے دین یا عقیدہ رکھنے والے ان  کے پاس قدیم تحریروں میں بائبل ہی ایک ذریعہ ہے جس سے  یہ تمام تواریخ مقرر کی گئی ہیں- لہذا  جملہ معترضہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیا انصاف ہے کہ بائبل کے نام نہاد مصنف موسی   کو فرضی کہا جائے اور ان کی کتاب سے قدیم تاریخ مقرر کی جاتی ہے- قدیم مصر کی تواریخ

Manetho

سے منسوب ہے جو 3 قبل مسیح کا ایک مصری پروہیت  تھا اور کہا جاتا ہے  فراعنہ مصر کے دین پر تھا – اس دور میں آرکیالوجی نہیں تھی لیکن اس کی مقرر کردہ تاریخ میں کھینچ تان کر کے اس کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ ایک مستند ذریعہ ہو- کہنے کا مقصد ہے جس چیز میں خود جھول ہو اس کی بنیاد پر الہامی کتب کو رد کرنا سفیہانہ عمل ہے

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

السنہ شمارہ ٤٩ تا ٥٤ ذی الحجہ ١٤٣٣ جمادی اولی الموافق نومبر ٢٠١٢ تا اپریل ٢٠١٣ نظر سے گزرا اس کے مباحث کافی اہم  تھے – بظاہر  سلف کے صحیح عقیدہ پر بات کا  آغاز کیا گیا لیکن السنہ شمارہ میں مضمون “مردوں کا دیکھنا اور سلام سننا”  از ابو سعید سلفی میں غیر محسوس انداز میں ان عقائد پر جرح کی گئی جو سلف سے تسلیم شدہ ہیں مثلا مردوں کا زائر کو پہچاننے  اور سلام کا جواب دینے کا عقیدہ – اس مضمون میں انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ تمام روایات جو سلف اپنی کتب میں مردہ کے علم کے  اثبات پر پیش کرتے ہیں ان پر جرح کی گئی – ضروری ہے کہ دیکھیں کہ اس سلسلے میں  شیخ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کیا عقیدہ بیان کرتے تھے

مزید تفصیل کے لئے ڈاؤن لوڈ کریں

منکرین نزول مسیح کے دلائل کا بطلان

کیا حسن رضی الله عنہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے ؟

جواب

طبقات از ابن سعد کی روایت ہے

: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالا: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ   …..  وَلَقَدْ قُبِضَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُرِجَ فِيهَا بِرُوحِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ لَيْلَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ.

أَبِي إِسْحَاقَ  مدلس عن سے روایت کرتے ہوئے هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ کا قول نقل کر رہا ہے کہ اس نے حسن رضی الله عنہ کا علی رضی الله عنہ کی شہادت پر خطبہ سنا اس میں انہوں نے کہا

بے شک علی کی جان قبض ہوئی اسی رات جس رات اپنی روح کے ساتھ عیسیٰ  بلند ہوئے  یعنی ٢٧ رمضان کو

اس کی  سند میں هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ہے جس پر محدثین کی جرح ہے

 النسائي: ليس بالقوي. قوی نہیں ہے  ابن خراش: ضعيف،  أبو حاتم: شبيه بالمجهول. مجھول جیسا ہے

سوال  معتزلہ کا نظریہ رفع عیسیٰ پر کیا تھا؟

جواب

قرآن کی سوره ال عمران کی آیت إِذْ قالَ اللَّهُ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَّ  کی تفسیر ، الزمخشري جار الله (المتوفى: 538هـ) الكشاف میں کرتے ہیں

إنى عاصمك  من أن يقتلك الكفار ومؤخرك إلى أجل كتبته لك. ومميتك حتف أنفك لا قتيلا بأيديهم وَرافِعُكَ إِلَيَّ إلى سمائي ومقرّ ملائكتي

میں تجھے بچاؤں گا کہ  کفار تجھ کو قتل کریں  اور اسکو تمہارے لئے  موخر کردوں گا جو لکھ دیا ہے اور موت دوں گا تیری موت کے وقت نہ کہ ان کے ہاتھ سے قتل کرواؤں گا اور تم کو اٹھاؤں گا اپنے آسمان کی طرف اور فرشتوں کے ساتھ مقام کروں گا

الزمخشري کا قول مبہم ہے کہ الله نے اگر عیسیٰ کو بچا لیا تو کب کہاں کیسے موت دی اور ان کو آسمان  کی طرف  کب  اٹھایا گیا لہذا وہ مزید غیر مبہم باتیں کرتے ہیں

وقيل: مميتك في وقتك بعد النزول من السماء ورافعك الآن: وقيل: متوفى نفسك بالنوم

اور کہا جاتا ہے موت دوں گا تمہارے (مقدر شدہ) وقت پر آسمان میں انے کے بعد،  اور تم کو رفع کروں گا – اور کہا جاتا ہے تم کو نیند میں موت دوں گا

یعنی معتزلہ کی کوئی ایک رائے نہیں تھی کیونکہ وہ نزول عیسیٰ کی روایات قبول نہیں کرتے تھے ان کے پاس میدان صاف تھا جتنی چاہتے قیاس ارائیاں کر سکتے تھے

عصر حاضر کے مصری معتزلہ جدید مثلا محمد متولي الشعراوي (المتوفى: 1418هـ)  نے عقیدہ اختیار کیا کہ عیسیٰ کی وفات ہو چکی ہے- محمد رشيد بن علي رضا   (المتوفى: 1354هـ) نے تفسیر المنار میں لکھا

 إِنِّي مُمِيتُكَ وَجَاعِلُكَ بَعْدَ الْمَوْتِ فِي مَكَانٍ رَفِيعٍ عِنْدِي

میں تجھے موت دوں گا اور موت کے بعد ایک مکان رفیع میں کروں گا

محمد بن أحمد بن مصطفى بن أحمد المعروف بأبي زهرة (المتوفى: 1394هـ) اپنی تفسیر زهرة التفاسير  میں کہتے ہیں

ففريق من العلماء وهم الأقل عددا، أجروا قوله تعالى في الآية الكريمة التي نتكلم في معناها على ظاهرها وأولوا ما عداها، ففسروا قوله تعالى: (إِنِّي مُتَوَفِيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ) بمعنى مميتك ورافع منزلتك وروحك إليّ، فالله سبحانه وتعالى توفاه كما يتوفى الأنفس كلها، ورفع روحه كما يرفع أرواح النبيين إليه.

علماء کا ایک فریق جو تعداد میں بہت کم ہیں انہوں نے الله تعالی کے قول کہا کہ ہم ظاہری معنوں پر بات کریں گے  پس انہوں نے تفسیر کی کہ قول  (إِنِّي مُتَوَفِيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ) سے مراد موت دوں گا ہے اور رفع منزلت آ  روح کا  الله کی طرف  پس الله نے انکو وفات دی جیسی ہر نفس کو دیتا ہے اور ان کی روح کا رفع ہوا جیسے باقی نبیوں کی روحوں کا ہوا

اسی تفسیر میں  (بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ)  پر لکھا فيه إشارة إلى معنى الكرامة والإعزاز والحماية اس میں اشارہ ہے کہ انکی تکریم ہو گی اور اعزاز و حمایت ہو گی

اسی طرح سر سید،   ابو الکلام آزاد،  عبید اللہ سندھی   نے بھی نزول مسیح کا انکار کیا

ان سب  نزول عیسیٰ کے انکاریوں میں جو  چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ یہ ان علاقوں کے محققین  ہیں جو غلام بنائے گئے اور ایک ہی دور کے ہیں یا  قریب کے ہیں

سوال کیا حسن بصری بھی عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں؟

جواب

یہ قول تفسیر از أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ)  میں ہے سند ہے

حَدَّثَنَا النجار، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْد الرزاق، عَنْ معمر، عَنْ الحسن، فِي قوله: {إِنِّي مُتَوَفِّيكَ} قَالَ   متوفيك فِي الأرض

معمر ، حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ الله تعالی کا قول کہا میں تجھ کو زمین میں موت دوں گا

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ)  کے مطابق

وقال أحمد بن حنبل لم يسمع من الحسن ولم يره بينهما رجل ويقال إنه عمرو بن عبيد

اور امام احمد کہتے ہیں معمر نے حسن سے نہیں سنا نہ دیکھا اور کہا جاتا ہے کہ انکے اور حسن کے بیچ کوئی آدمی ہے کہا جاتا ہے عمرو بن عبید ہے

افسوس عمرو بن عبید رئیس معتزلہ  سے  مدلس معمربن راشد  روایت لیتے تھے

اسی کتاب میں ایک دوسرا قول بھی ہے

حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنَا محمد بْن يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا محمد بْن يوسف، قَالَ: حَدَّثَنَا محرز، قَالَ: سألت الحسن عَنْ قول الله عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا} قَالَ ” عِيسَى مرفوع عِنْد الرب تبارك وتعالى، ثُمَّ ينزل قبل يَوْم الْقِيَامَةِ

محرز ، أَبو إِسرائِيل کہتے ہیں میں نے حسن بصری سے آیت إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا پر پوچھا  کہا عیسیٰ کو رب تعالی کی طرف اٹھا لیا گیا پھر وہ اتریں گے قیامت کے دن سے پہلے

محرز پر جرح و تعدیل کی کتب خاموش ہیں

سوال کیا امام مالک عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے؟

جواب  کتاب  المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز از ابن عطية الأندلسي المحاربي (المتوفى: 542هـ) میں ایک قول ہے

قال مالك في جامع العتبية: مات عيسى وهو ابن ثلاث وثلاثين سنة

أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ)  نے کہا

قوله ومات ابن ثلاث وثلاثين سنة، معناه خرج من الدنيا ورفع إلى الله عز وجل وهو في هذا السن، …. وسينزل في آخر الزمان على ما تواترت به الآثار

اور مالک کا قول کہ وہ مرے تو سن ٣٣ کے تھے اسکا معنی ہے دنیا سے نکلے اور ان کا رفع ہوا الله کی طرف تو اس عمر کے تھے … اور وہ واپس نازل ہوں گے آخری زمانے میں جس پر تواتر سے آثار ہیں

  ابْنُ رُشْدٍ نے یہ بھی کہا

 ويحتمل أن يكون معنى قوله: {بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ} [النساء: 158] أي رفع روحه إليه بعد أن مات ويحييه في آخر الزمان فينزله إلى الأرض على ما جاءت به الآثار، فيكون قول مالك على هذا ومات وهو ابن ثلاث وثلاثين سنة على الحقيقة لا على المجاز، وبالله التوفيق.

اور ایک احتمال یہ ہے کہ قول {بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ} [النساء: 158] کا مطلب ہے کہ انکی روح کے درجات بلند ہوئے انکی موت کے بعد اور وہ زندہ ہیں آخری زمانے تک پس پھر نازل ہوں گے زمین پر جس پر آثار آ چکے ہیں یعنی احادیث تو ہو سکتا ہے امام مالک کا یہ قول کہ وہ ٣٣ سال کے ہو کر مر گئے سے مراد حقیقت ہو نہ کہ مجاز

یعنی چونکہ نزول عیسیٰ قیامت کی نشانی ہے معجزہ ہے تو ممکن ہے عیسیٰ کی وفات کے باوجود انکو واپس بھیجا جائے جیسا کہ احادیث میں ہے

منکرین نزول مسیح صرف ادھی پونی بات پیش کر کے اپنا مدعآ ثابت کرتے ہیں

دوم یہ کتاب  جامع العتبية مفقود ہے اور اغلبا اس میں امام مالک کے اس قول کی سند بھی نہیں ہو گی کیونکہ کسی نے بھی اسکو سند سے پیش نہیں کیا ہے لہذا امام مالک سے قول ثابت نہیں ہے

سوال  ان اقوال کی اسناد کیسی ہیں

حضرت عیسیٰ بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے ۔ (کنزالعمال جلد ۶ صفحہ ۱۲۰ از علاؤالدین علی المتقی ۔ دائرہ المعارف النظامیہ ۔ حیدرآباد ۱۳۱۲ھ)

اگر حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیرچارہ نہ ہوتا ۔ (الیواقیت والجواہر صفحہ ۲۲ از علامہ عبدالوہاب شعرانی مطبع ازہریہ مصر ، مطبع سوم ، ۱۳۲۱ھ)

ایک اور روایت میں ہے ۔ اگرحضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔(شرح فقہ اکبر مصری صفحہ ۱۱۲ از حضرت امام علی القاری مطبوعہ ۱۳۷۵ھ)

آنحضرت ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرے گامگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔ (اسباب النزول صفحہ ۵۳ از حضرت ابوالحسن الواحدی طبع اولیٰ ۱۹۵۹ء مطبع مصطفی البابی مصر)

جواب

کتاب  الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية از السخاوي (المتوفى: 902 هـ)  میں روایت

وإن عيسى عاش عشرين ومائة سنة اور بے شک عیسیٰ ١٢٠ سال زندہ رہے پر لکھتے ہیں

وهو غريب جدًا، ولذا قال ابن عساكر: الصحيح أن عيسى لم يبلغ هذا العمر، وإنما أراد مدة مقامه في أمته،

اور یہ بہت غریب ہے اور اس لئے ابن عساکر نے کہا صحیح ہے کہ عیسیٰ اس عمر تک نہیں پہنچے اور ان کا ارادہ انکی امت کے ساتھ مدت اقامت کا ہے

کتاب  المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ از ابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کے مطابق

أخرجه يعقوب بن سفيان كما في البداية والنهاية 2/ 95، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني 5/ (2970) عن عمر بن الخطاب السجستاني، والطحاوي في شرح المشكل 1/ (146)، 5/ (1937) عن يوسف بن يزيد، والطبرانى في الكبير 22/ 416 عن يحيى بن أيوب العلاف  أربعتهم عن سعيد ابن أبي مريم، عن نافع بن يزيد، حدَّثني عمارة بن غزية عن محمد بن عبد الله بن عمرو بن عثمان، عن أمّه فاطمة بنت الحسن حدَّثته عن عائشة.

وهذا إسناد لين محمد بن عبد الله بن عمرو، وهو الديباج لين الحديث كما في ترجمته في تهذيب الكمال 25/ 516.

اور اس کی اسناد کمزور ہیں محمد بن عبد الله بن عمرو الديباج لين الحديث ہے

وأخرجه البزّار كما في الكشف 2/ 846 عن سعيد ابن أبي مريم، والدولابي في الذرية الظاهرة رقم 186 عن عثمان بن سعيد.

كلاهما عن ابن لهيعة عن جعفر بن ربيعة، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عنها.

وعبد الله هذا لم أعرفه وعند الدولابي عبد الملك وعبد الله بن لهيعة ضعيف

اور اس میں عبد الله کا مجھے پتا نہیں ہے اور عبد الله بن لهيعة ضعيف ہے.

ثانيًا عن يزيد بن زياد، ولفظه: لم يكن نبي إلَّا عاش نصف عمر أخيه الذي قبله، عاش عيسى ابن مريم مائة وخمسة وعشرين سنة، وهذه اثنتان وستون سنة.

أخرجه ابن سعد 2/ 194، أخبرنا هاشم بن القاسم، أخبرنا أبو معشر عن يزيد بن زياد به، وهذا على إرساله ضعيف الإِسناد. نجيح السعدي أبو معشر ضعيف واختلط.

دوسری یزید بن زیاد سے ہے اور اس میں لفظ  …. عیسیٰ ١٢٥ سال زندہ رہے ہے اور یہ ہے ٦٢ سال

ابو معشر کا ارسال ہے جو ضعیف اور مختلط تھا

 دوسری روایت

اگر حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیرچارہ نہ ہوتا ۔ (الیواقیت والجواہر صفحہ ۲۲ از علامہ عبدالوہاب شعرانی مطبع ازہریہ مصر ، مطبع سوم ، ۱۳۲۱ھ)

ایک اور روایت میں ہے ۔ اگرحضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔(شرح فقہ اکبر مصری صفحہ ۱۱۲ از حضرت امام علی القاری مطبوعہ ۱۳۷۵ھ)

لو كان موسى وعيسى حيَّينِ؛ لما وسعهما إلا اتباعي

جواب

تفسیر ابن کثیر میں ہے

وفي بعض الأحاديث: «لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِي» فَالرَّسُولُ مُحَمَّدٌ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ دَائِمًا إِلَى يَوْمِ الدِّينِ

اسی طرح تفسیر البحر المحيط في التفسير از أبو حيان   الأندلسي (المتوفى: 745هـ) میں یہ لکھا ہے

روایت کسی بھی حدیث کی کتاب میں عیسیٰ  و موسی کے الفاظ  سے نہیں ہے ابن کثیر نے اغلبا ابو حیان کی تفسیر سے ان الفاظ کو سرقه کیا لیکن کہتے ہیں نقل کے لئے بھی عقل درکار ہے یہ مثال آپ کے لئے ہے

تیسری روایت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے  نے نجران کے عیسائیوں کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرے گامگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔ (اسباب النزول صفحہ ۵۳ از حضرت ابوالحسن الواحدی طبع اولیٰ ۱۹۵۹ء مطبع مصطفی البابی مصر)

جواب کتاب  أسباب نزول القرآن از  الواحدي، النيسابوري، الشافعي (المتوفى: 468هـ) میں الفاظ ہیں کہ مفسرین کہتے ہیں اور پھر الواحدی بلا سند ایک اقتباس لکھتے ہیں جس میں ہے رسول الله نے نصاری سے کہا

قَالَ: “أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَبَّنَا حَيٌّ لَا يَمُوتُ، وأن عيسى أتى عَلَيْهِ الْفَنَاءُ؟ ” قَالُوا: بَلَى

کیا تم کو پتا نہیں کہ ہمارا رب زندہ ہے اسکو موت نہیں ہے اور عیسیٰ (جن کو تم رب سمجھ رہے ہو) پر فنا آئی ؟ انہوں نے کہا ایسا ہے

ان الفاظ کی سند نہیں ہے لیکن واضح ہے کہ نصاری کے بقول عیسیٰ نے صلیب پر جان دی اور ان پر موت طاری ہوئی اس کو دلیل بناتے ہوئے ان کے غلط عقائد  پر جرح ہو رہی ہے

جنات

جواب

قرآن كا فیصلہ ہےإنه يراكم هو وقبيله من حيث لا ترونهم إنا جعلنا الشياطين أولياء للذين لا يؤمنون ( 27

بے شک یہ (ابلیس) اور اس کا گروہ تمہیں دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے

اس کے برعکس ابن تیمیہ فتاوی میں کہتے ہیں

إذْ وُجُودُهُمْ ثَابِتٌ بِطُرُقِ كَثِيرَةٍ غَيْرِ دَلَالَةِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ فَإِنَّ مِنْ النَّاسِ مَنْ رَآهُمْ وَفِيهِمْ مَنْ رَأَى مَنْ رَآهُمْ وَثَبَتَ ذَلِكَ عِنْدَهُ بِالْخَبَرِ وَالْيَقِينِ. وَمِنْ النَّاسِ مَنْ كَلَّمَهُمْ وَكَلَّمُوهُ وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَأْمُرُهُمْ وَيَنْهَاهُمْ وَيَتَصَرَّفُ فِيهِمْ: وَهَذَا يَكُونُ لِلصَّالِحِينَ وَغَيْرِ الصَّالِحِينَ

ان  (جنات) کا وجود کتاب سنت کے علاوہ بھی بہت سے طرق سے ثابت ہے کیونکہ لوگوں میں سے کچھ نے ان کو دیکھا ہے — کچھ نے کلام کیا ہے

اس کے برعکس امام الشافعی کا قول ہے

من زعم من أهل العدالة أنّه يرى الـجن ردّت شهادته

جس نے اہل عدالت میں سے یہ دعوی کیا کہ اس نے جن دیکھا تو اس کی شہادت رد کر دو

بحوالہ مناقب امام الشافعی

حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ نے شیطان کو انسانی چور کی صورت دیکھا نہ کہ اس کی اصلی شکل میں – آیت الکرسی کی فضلت کے حوالے سے یہ مخصوص حدیث متنا منکر ہے – اس کی سند ہے عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

اور اس میں عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو کا تفرد ہے  جو بصری ہے

قال الساجي: صدوق، ذكر عند أحمد بن حنبل، فأومأ إلى أنه ليس بثبت، وهو من الأصاغر الذين حدثوا عن ابن جريج وعوف، ولم يحدث عنه. «تهذيب التهذيب» 7/ (312) .

الساجی نے کہا  .. میں نے امام احمد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کو غیر مضبوط قرار دیا اور کہا یہ الأصاغر میں سے ہے جو عوف سے روایت کرتا ہے

دارقطنی نے اس کو كثير الخطأ قرار دیا ہے اور بندار اس کی حدیث نہیں لکھتے تھے    الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات از ابن  الكيال (المتوفى: 929هـ) کے مطابق آخری عمر میں یہ مختلط بھی تھا

قال أبو حاتم: صدوق غير انه بأخرة كان يتلقن ما يلقن

ابو حاتم نے کہا صدوق ہے لیکن آخر میں جو بھی ملتا اس کو بیان کر دیتا

اسی طرح  الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط از  المؤلف: برهان الدين الحلبي أبو الوفا   (المتوفى: 841هـ) میں بھی اس کو مختلط لکھا گیا ہے

آیت الکرسی کی فضیلت  کے حوالے سے حدیث بیان کرنے میں اس کا تفرد ہے اور اس کا متن منکر ہے

قابل غور ہے کہ امام بخاری نے حدثنا یا اخبرنا سے یہ روایت نہیں لی بلکہ  وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو سے لی  ہے اور محدثین کا کہنا یہ اس وجہ سے ہے جب ان کو سند پر کچھ احتمال ہو تو ایسا کرتے ہیں – راقم کے نزدیک یہ مذاکرے کی بات ہے اس لئے قال لنا ہے اور ممکن ہے امام بخاری نے شاگرد کو سنائی ہو اور صحیح الجامع کے متن میں سے ہے یہ امام کی مراد نہ ہو – صحیح میں ایک روایت پر امام بخاری نے کہا  وقال لي علي بن عبد اللَّه –  جب امام بخاری و قال لنا یا قال لی کہتے ہیں تو اس کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے
منذری کا کہنا ہے
فقال: وقال لي علي بن عبد اللَّه -يعني ابن المديني- فذكره- وهذه عادته فيما لم يكن على شرطه،

امام بخاری نے کہا ہے : مجھ سے کہا امام علی یعنی ابن المدینی نے اور ذکر کیا اور یہ ان کی عادت ہے کہ جب روایت ان کی شرط پر نہیں ہوتی

یعنی یہ آیت الکرسی والی روایت جامع الصحیح کی وہ روایت نہیں جو امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے – البتہ لوگوں نے اس کو ایسی صحیح سمجھ لیا ہے کہ گویا اس میں سب ثابت ہے

اس کی سند میں  عوف بن أبى جميلة  بھی ہے جو بصری ہے لیکن

قال بندار كان قدريا رافضيا شيطانا

بندار کہتے قدری رافضی شیطان ہے

محمد بن بشار بن عثمان  أبو بكر العبدي البصري بندار المتوفی ٢٥٢ ھ کے نزدیک اس کی سند میں دونوں بصری متروک ہیں  – بندار خود بھی بصری ہیں اور اہل شہر  بصرہ کی اس منفرد روایت کو رد کرتے تھے

باقی بعض لوگوں کا انبیاء کے دیکھنے سے دلیل لینا صحیح نہیں کیونکہ ان کو جو دکھایا جاتا ہے وہ ان کے لئے خاص ہے

وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ

طاعون  دشمن جنوں کی سوئی ہے

 الجامع الصغیر و قال البانی صحیح

جواب
منکر ہے
طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن إِبْرَاهِيمَ بن يَزْدَادَ الطَّبَرَانِيُّ الْخَطِيبُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بن أَيُّوبَ النَّصِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ النَّصِيبِيُّ ، عَنْ بِشْرِ بن حَكَمٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : فَنَاءُ أُمَّتِي فِي الطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ ، قُلْنَا : قَدْ عَرَفْنَا الطَّعْنَ فَمَا الطَّاعُونُ ؟ ، قَالَ : وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ ، وَفِي كُلٍّ شَهَادَةٌ ، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، إِلا بِشْرٌ ، وَلا عَنْ بِشْرٍ ، إِلا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ
سند میں إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ضعیف ہے
——مسند احمد میں اور دیگر کتاب میں ابو موسی رضی الله عنہ سے منسوب ہےدارقطنی نے علل میں بحث کی ہے
وسئل عن حديث كردوس عن المغيرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال قال فناء أمتي بالطاعون والطعن فقال يرويه زياد بن علاقة واختلف عنه
فرواه أبو أحمد الزبيري عن الثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن المغيرةورواه إسماعيل بن زكريا عن مسعر والثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن أبي موسىورواه وكيع عن الثوري ورواه أبو بكر النهشلي عن زياد بن علاقة عن أسامة بن شريك عن أبي موسىورواه أبو حنيفة عن زياد بن علاقة عن عبد الله بن الحارث عن أبي موسىورواه سعاد بن سليمان عن زياد بن علاقة عن يزيد بن الحارث عن أبي موسىورواه أبو شيبة إبراهيم بن عثمان عن زياد بن علاقة عن اثنى عشر رجلا من بني ثعلبة عن أبي موسىورواه الحكم بن عتيبة عن زياد بن علاقة عن رجل من قومه لم يسمه عن أبي موسى
زياد بن علاقة نے اس کو چھ لوگوں سے سنا ہے اور سند بدلتا رہا ہے اور یہ بھی کہا بني ثعلبة کے ١٢ لوگوں سے سنا

ثم قال الدارقطني: والاختلافُ فيه من قِبَلِ زياد بن علاقة، ويُشبه أن يكون حَفِظَهُ عن جماعة، فمرةً يرويه عن ذا، ومرة يرويه عن ذا.
دارقطنی نے کہا اس میں اختلاف زياد بن علاقة کی وجہ سے ہے اور لگتا ہے کہ اس نے اس کو ایک جماعت سے حفظ کیا ہے تو کبھی کچھ نام لیا کبھی کچھ لیا

 شعيب الأرنؤوط نے مسند احمد میں اس کو کوئی حکم نہیں لگایا
لیکن حسين سليم أسد نے مسند ابو یعلی میں اس کو ضعیف کہا ہے

زياد بن علاقة بن مالك الثعلبي کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن بد مذھب بھی کہا گیا ہےقال أبو الفتح الأزدي: سيئ المذهب
شیطان کا کام بیماری نازل کرنا نہیں ہے – اہل کتاب کو اس طرح کا ابہام ہے کہ بیماری شیطان کی طرف سے ہوتی ہے لہذا وہ شیطان کے نام پر ایک بھیڑ جبل المنتر سے نیچے پھینکتے تھے اس کو

Goat of Atonement

کہا جاتا ہے
جنات اگر بیماری نازل کرتے ہیں تو ظاہر ہے لوگ ان کے نام نذر بھی کریں گےراقم کو علم ہے کہ مسلمان بھی جنات کو خوش کرنے کے لئے بعض علاقوں میں ایسا کرتے ہیں

جواب اس پر کوئی واضح دلیل نہیں ایک روایت پیش کی جاتی ہے
اَلْجِنُّ ثَلَاثَۃُاَصْنَافٍ: صِنْفٌ یَطِیْرُفِیْ الْھَوَآءِ وَصِنْفٌ حَیَّاتٌ وَّکِلَابٌ وَصِنْفٌ یَحُلُّوْنَ وَیَظْعَنُوْنَ۔
جنات تین قسم کے ہوتے ہیں۔  ایک قسم وہ ہے جو ہوا میں اڑتے ہیں ایک وہ ہے جو سانپوں اور کتوں کی شکل میں ظاہرہوتے ہیں   اور ایک قسم وہ ہے جو  ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں

 (طبرانی ،حاکم ، بیھقی : باب الا سماء والصفات)

میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

اس کی سند میں معاوية بن صالح   ہیں امام یحیی القطان اس سے خوش نہ تھے الذھبی کہتے ہیں وكان يحيى القطان يتعنت  -ولا يرضاه.  وقال أبو حاتم: لا يحتج به اور ابو حاتم اس کو ناقابل دلیل کہتے ہیں

اس کے علاوہ ایک روایت پیش کی جاتی ہے

ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  فرمایا : اِنَّ بِالْمَدِیْنَۃِجِنًّا قَدْاَسْلَمُوْافَاِذَارَاَیْتُمْ مِّنْ ھٰذِہِ الْھَوَامِّ شَیْءًا فَأْذَنُوْہُ ثَلَاثًافَاِنْ بَدَالَکُمْ فَاقْتُلُوْہُ
مدینہ منورہ میں کچھ جنات مسلمان ہوگئے ہیں۔ لہذاتم اگر گھر میں کوئی سانپ دیکھوتو اسے تین بارمتنبہ  کرو اگر پھر بھی ظاہر ہوتو اسے مارڈالو۔(مسلم شریف : کتاب السلام ،سنن ابی داود ۔کتاب الادب ، موطأ امام مالک : کتاب الاستیذان )۔

روایت میں جنا کا لفظ ہے جس سے مراد سانپ ہیں نہ کہ جنات

صحیح مسلم کی روایت میں ہے

إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم شيئا منها فحرجوا عليها ثلاثا فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر

ان گھروں میں سانپ ہیں لہذا جب تم دیکھو تو ان کو تین دن دو اگر نہیں جائیں تو قتل کر دو کیونکہ یہ کافر ہیں

ابن منظور لسان العرب میں کہتے ہیں کہ عوامر  سے مراد ہے العَوامِرُ الحيّات التي تكون في البيوت  یعنی وہ سانپ جو گھروں میں ہوتے ہیں اسی طرح جنا سے مراد بھی سانپ ہیں مثلا قرآن میں ہے کہ موسی کا عصآ تَهْتَزُّ كأَنها جانٌّ ایک سانپ کی طرح ہلنے لگا

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ جنات سانپ بن جاتے ہیں صحیح نہیں ابن حبان صحیح میں اس روایت پر باپ قائم کرتے ہیں

ذكر الأمر بقتل المرء الحيه إذا راها في داره بعد إعلامه إياها ثلاثة أيام

ذکر کہ آدمی سانپ کو قتل کر دے جب اس کو خبردار کرنے کے تین دن بعد گھر میں دیکھے

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

اَلْکَلْبُ الْاَسْوَدُشَیْطَانٌ کالا کتا شیطان ہوتاہے۔

صحیح مسلم : کتاب الصلوۃ ، سنن ابی داود : کتاب الصلوہ ، سنن الترمذی : کتاب الصید ، سنن نسائی : کتاب القبلۃ ، سنن ابن ماجۃ : کتاب الاقامۃ ، مسند احمد

ابو الوفا ابن عقیل کتاب الفنون میں اس پر کہتے ہیں

 هذا على طريق التشبيه لها بالشياطين، لأن الكلب الأسود أشرّ الكلاب وأقلعها نفعاً، والإبل تشبه الجن في صعوبتها وصولتها، كما يقال: فلان شيطان ؛ إذا كان صعباً شريراً

اس کا مقصد شیاطین سے  تشبیہ ہے کہ کالا کتا کتوں میں سب سے برا ہوتا ہے اور اس کافائدہ کم ہے اور اسی طرح اونٹ کو تشبیہ دی جاتی ہے کہ جن کی طرح مشقت اٹھا سکتا ہے جیسے کہ کوئی کہے یہ تو شیطان ہے

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: ” إِنَّ الشَّيْطَانَ لِيَتَمَثَّلُ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ، فَيُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مِنَ الْكَذِبِ، فَيَتَفَرَّقُونَ، فَيَقُولُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ: سَمِعْتُ رَجُلًا أَعْرِفُ وَجْهَهُ، وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُهُ يُحَدِّثُ “

عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے ، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ ( پر مبنی ) کوئی حدیث سناتا ہے ، پھر وہ بکھر جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے : میں نے ایک آدمی سے ( حدیث ) سنی ہے ، میں اس کا چہرہ تو پہنچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا ، وہ حدیث سنا رہا تھا ۔

میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے
عامر بن عبدة [م، ق] البجلي. عداده في التابعين. فيه جهالة. له عن ابن مسعود. تفرد عنه المسيب بن رافع.
سند میں عامر بن عبدة مجہول ہے

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ مُحَمَّدٍ يَعْنِي الْخَطَّابِيَّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلًا خَرَجَ فَتَبِعَهُ رَجُلانِ، وَرَجُلٌ يَتْلُوهُمَا، يَقُولُ: ارْجِعَا، قَالَ: فَرَجَعَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: إِنَّ هَذَيْنِ شَيْطَانَانِ، وَإِنِّي لَمْ أَزَلْ بِهِمَا حَتَّى رَدَدْتُهُمَا، فَإِذَا أَتَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ، وَأَعْلِمْهُ أَنَّا فِي جَمْعِ صَدَقَاتِنَا، وَلَوْ كَانَتْ تَصْلُحُ لَهُ، لَأَرْسَلْنَا بِهَا إِلَيْهِ، قَالَ: ” فَنَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عِنْدَ ذَلِكَ عَنِ الْخَلْوَةِ “

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی خیبر سے نکلا، دو آدمی اس کے پیچھے چل پڑے اور ایک ان دونوں کے پیچھے۔ (آخری آدمی) ان دو سے کہتا رہا: لوٹ آؤ،لوٹ آؤ۔ (یہاں تک کہ) انہیں لوٹا دیا، پھر وہ پہلے آدمی کو جا ملا اور اسے کہا: یہ دو شیطان تھے، میں ان کو پھسلاتا رہا، حتیٰ کہ ان کو واپس کر دیا۔ جب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچے تو آپ کو میرا سلام دینا اور بتلانا کہ میں ادھر زکوۃ جمع کر رہا ہوں، اگر وہ آپ کے لیے مناسب ہوں تو ہم بھیج دیں گے۔ جب وہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو سارا واقعہ بیان کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلوت سے منع کر دیا۔

أخرجه الحاكم (2 / 102) والبيهقي في ” الدلائل ” (2 / 2 / 229 / 2) وكذا
البزار في ” مسنده ” (رقم 2022 – كشف الأستار) من طريقين عن عبيد الله بن
عمرو الرقي عن عبد الكريم عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما

اس کی سند میں عبد الكريم بن مالك الجزري. جس کی توثیق کرنے میں ابن حبان کو تردد تھا
الذھبی کہتے ہیں ابن حبان نے اس سے دلیل لینے میں توقف کیا ہے
.
توقف في الاحتجاج به ابن حبان،

دوسری طرف عالم یہ ہے کہ ابن حبان مجہول تک کو ثقہ کہتے ہیں
قال أبو أحمد الحاكم: ليس بالحافظ عندهم.
وفي ” كتاب الساجي ” عن يحيى بن معين: ضعيف

وَعَنْ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ – رضي الله عنه – قَالَ: كَانَ عُمَرُ – رضي الله عنه – يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَصْلِحُوا عَلَيْكُمْ مَثَاوِيكُمْ (1) وَأَخِيفُوا هَذِهِ الْجِنَّانَ (2) قَبْلَ أَنْ تُخِيفَكُمْ، فَإِنَّهُ لَنْ يَبْدُوَ لَكُمْ مُسْلِمُوهَا، وَإِنَّا وَاللهِ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ عَادَيْنَاهُنَّ.
صَحْيح الْأَدَبِ الْمُفْرَد

اس کی سند میں زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ہے جو اپنے باپ سے منکرات نقل کرتا ہے

سیرت  اور  کتب  تفسیر میں ایک روایت ہے کہ  غزوۂ بدر کے موقعہ پر شیطان ایک عرب سردار سراقۃ بن مالک کی شکل میں مشرکینِ مکہ کے پاس آیا اس کو سوره انفعال کی آیت کے سلسلے میں پیش کیا جاتا ہے

اور یاد کرو جب شیطان نے ان (مشرکین مکہ ) کے لئے ان کے (برے ) اعمال کو خوبصورت بناکر پیش کیا اور کہا : آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتااور یہ کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں ۔(الانفال : ۴۸)۔

اور دوسری آیات ہیں

جب دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آراء ہوئیں تووہ (شیطان ) الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا اور کہنے لگا میرا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، میں وہ دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھ رہے اور میں اللہ سے ڈررہا ہوں۔

شیطان انسان کو اکساہٹ اور وسوسہ سے گمراہ کرتا ہے

لیکن سندآ یہ قصہ ثابت نہیں ہے

تفسير طبری میں اسکی سند ہے

حدثني المثنى قال، حدثنا عبد الله بن صالح قال، حدثني معاوية، عن علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس

 جبکہ علی بن ابی طلحہ کا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں دیکھئے جامع التحصیل اور میزان الاعتدال

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

علي بن أبي طلحة قال دحيم لم يسمع التفسير من بن عباس وقال أبو حاتم علي بن أبي طلحة عن بن عباس مرسل

علی بن ابی طلحہ  –  دحیم کہتے ہیں اس نے ابن عباس سے تفسیر نہیں سنی اور ابو حاتم کہتے ہیں علی بن ابی طلحہ ابن عبّاس سے مرسل ہے

معلوم ہوا روایت ضعیف ہے

کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قتل پر اکسانے کے لئے شیطان فَلَمَّا دَخَلُوا الدَّارَ اعْتَرَضَهُمُ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ رَجُلٍ جَمِيلٍ ایک خوبصورت مرد کی صورت بن کر آیا بعض نے لکھا ہے نجدی شیخ کی صورت آیا اس کو البیہقی نے سندآ دلائل النبوه میں نقل کیا ہے جہاں اس کی سند ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

 عبد الله بن أبي نجيح يسار المكي ذكره بن المديني فيمن لم يلق أحدا من الصحابة رضي الله عنهم وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد

 عبد الله بن أبي نجيح يسار المكي علی  بن المديني  نے ان کا ذکر کیا ہے کہ ان کی کسی بھی صحابی رضي الله عنهم سے ملاقات نہیں ہوئی اور  إبراهيم بن الجنيد کہتے ہیں میں نے يحيى بن معين سے کہا کہ  يحيى بن سعيد يعني القطان دعوی کرتے تھے ابن أبي نجيح نے مجاہد سے تفسیر نہیں سنی  ..

یہ بھی ضعیف ہے

الغرض شیطان یا جنات کا کسی مرئی صورت میں آنا صحیح ثابت نہیں ہے

عمر رضی الله عنہ کو ایک کاہن نے بتایا کہ اس پر جنیہ آئی اور وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی  لیکن اس روایت میں یہ نہیں کہ کاہن نے اس کو دیکھا بھی تھا بلکہ آواز سے بھی گھبراہٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے شیطان کو چور کی صورت دیکھا جو ایک مخصوص واقعہ ہے

یہ حدیث کتب ستہ میں صرف صحیح بخاری میں ہے اور اس کی سند میں عوف بن ابی جمیلہ الاعرابی کا تفرد ہے جو مختلف فیہ ہے اور امام بخاری نے اس کو صحیح میں تین مقام پر نقل کیا ہے

جواب اس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ کچھ ضعیف روایات سے یہ استنباط کیا گیا ہے

مسند احمد اور مسند ابی یعلی کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو بھیجا کہ جا کر عزی کا مندر ڈھا دیں وہاں سے ایک برہنہ عورت نکلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تِلْكَ الْعُزَّى یہ عزی تھی

اس کی سند میں ابو طفیل  عَامِرُ بنُ وَاثِلَةَ الكِنَانِيُّ ہے جن کا سماع رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت  نہیں ہے اور صحابی ہونے میں بھی بعض کو اختلاف ہے

امام احمد کے مطابق

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو سعيد مولى بني هاشم. قال: حدثني مهدي بن عمران المازني. قال: سمعت أبا الطفيل، وسئل هل رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم -؟ قال: نعم، قيل: فهل كلمته؟ قال: لا. «العلل» (5822) .

ابو طفیل  عَامِرُ بنُ وَاثِلَةَ الكِنَانِيُّ نے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کوئی بات چیت نہیں ہوئی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت  عَامِرُ بنُ وَاثِلَةَ  آٹھ سال کے تھے تاریخ الکبیر از بخاری کے مطابق

 أدركتُ ثمان سنين من حياة رَسُول اللهِ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم،

کتاب الأعلام از الزركلي  کے مطابق یہ مختار ثقفی کذآب (جس کو مصعب بن زبیر نے جہنم واصل کیا) کے ساتھ بھی مل گئے تھے

 ثم خرج على بني أمية مع المختار الثقفي

دارقطنی العل میں کہتے ہیں قال الدَّارَقُطْنِيّ: أبو الطفيل رأى النبي – صلى الله عليه وسلم – وصحبه، فأما السماع فالله أعلم

أبو الطفيل نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا تھا اور اور ان کی صحبت میں رہے لیکن جہاں تک سماع کا تعلق ہے تو وہ الله کو پتا ہے

ابو طفیل سے سننے والے  الوليد بن جميع ابن عبد الله بن جميع الزهري الكوفي ہیں جو مختلف فیہ ہیں بعض نے ثقہ کہا ہے لیکن ابن حبان جو خود متساہل ہیں ان کو کہتے ہیں

 فحش تفرده فبطل الاحتجاج به.

اس کا تفرد فحش ہے اس سے دلیل باطل ہے

یہاں عزی ایک عورت ہونے  والی روایت میں اس کا تفرد ہے  ان وجوہات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ثابت نہیں ہے

دوسری حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نائلہ جو عربوں کی دیوی تھی اس کو بھی ایک عورت کہا

کتاب أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار از الأزرقي  کے مطابق رسول الله نے فرمایا

تِلْكَ نَائِلَةُ، قَدْ أَيِسَتْ أَنْ تُعْبَدَ بِبِلَادِكُمْ أَبَدًا

یہ نائلہ اس سے مایوس ہے کہ اس شہر میں واپس اس کی پوجا ہو

گویا نائلہ کوئی زندہ جن  ہے اس کی سند میں مجھول راوی ہیں سند ہے حَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ، عَنِ الْوَاقِدِيِّ، عَنْ أَشْيَاخِهِ  یعنی واقدی اپنے بعض شیوخ سے روایت کرتے ہیں الذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں اس روایت کو کہتے ہیں  مُنْقَطِعٌ

ج  ٢ ص٥٥٤  پر

لہذا یہ بات صحیح نہیں کہ جنات عورتوں کی صورت میں مشرکین کو گمراہ کرتے تھے

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

علامہ كمال الدين الدميري (المتوفى: 808هـ) اپنی کتاب حياة الحيوان الكبرى میں أسد الغابة کے حوالے سے لکھتے ہیں:

عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال: «كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خارجا من جبال مكة، إذ أقبل شيخ يتوكأ على عكازه فقال النبي صلى الله عليه وسلم مشية جني ونغمته، قال: أجل فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من أي الجن؟
قال أنا هامة بن الهيم أو ابن هيم بن لاقيس بن ابليس. فقال: لا أرى بينك وبينه إلا أبوين قال: أجل. قال كم أتى عليك؟ قال أكلت الدنيا إلا أقلها، كنت ليالي قتل قابيل هابيل غلاما ابن أعوام، فكنت أتشوف على الآكام وأورش بين الأنام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بئس العمل؟ فقال يا رسول الله دعني من العتب فإني ممن آمن بنوح وتبت على يديه وإني عاتبته في دعوته فبكى وأبكاني وقال: إني والله لمن النادمين وأعوذ بالله أن أكون من الجاهلين ولقيت هودا وآمنت به، ولقيت ابراهيم وكنت معه في النار إذ ألقي فيها، وكنت مع يوسف إذ ألقي في الجب، فسبقته إلى قعره ولقيت شعيبا وموسى، ولقيت عيسى بن مريم، فقال لي: إن لقيت محمدا فاقرئه مني السلام وقد بلغت رسالته، وآمنت بك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على عيسى وعليك السلام، ما حاجتك يا هامة قال: إن موسى علمني التوراة، وعيسى علمني الإنجيل، فعلمني القرآن. فعلمه». وفي رواية أنه صلى الله عليه وسلم علمه عشر سور من القرآن وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينعه إلينا فلا نراه، والله أعلم، إلا حيا
(حیوۃ الحيوان، باب الجيم: الجن)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے باہر (دور) نکلا۔ یکایک ایک بوڑھے شخص سے سامنا ہوا جس نے اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا رکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی چال ڈھال اور آواز جنوں کی سی ہے۔ اس نے کہا ہاں! (آپ کا اندازہ صحیح ہے). تو نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تم جنوں کے کس گروہ سے ہو. اس نے کہا: میرا نام ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتوں کا فاصلہ دیکھ رہا ہوں. اس نے کہا: ہاں! (آپ کی بات درست ہے). پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عمر دنیا کی عمر سے کچھ سال ہی کم ہوگی۔ جس رات قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا ان دنوں میری عمر چند برس کی تھی۔ میں پہاڑوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیا کرتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت برا عمل تھا۔ اس جن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ملامت نہ فرمائیے کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور انکے ہاتھوں توبہ کرلی تھی۔ اور دعوت (دین) کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد وہ جن خود بھی رویا اور ہمیں بھی رلایا۔ اس جن نے کہا اللہ کی قسم میں بہت شرمندہ ہوں اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ اور میں نے حضرت ہود علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان پر ایمان لایا۔ اور (اسی طرح) میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے اس کنویں میں پہنچ گیا تھا۔ (اسی طرح) میں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی. اور (اسی طرح) میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی. اور حضرت عیسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تمہاری ملاقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو ان کو میری طرف سے سلام کہنا۔ چنانچہ میں نے انکا پیغام پہنچا دیا اور میں آپ پر ایمان لایا.
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام پر سلام ہو اور تجھ پر بھی سلام ہو۔ اے ہامہ تیری کیا حاجت ہے؟ اس جن نے عرض کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے تورات سکھائی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مجھے انجیل سکھائی تھی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قران مجید کی تعلیم دی.
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قرآن کی دس سورتیں سکھائی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ۔ لیکن (اس واقعہ کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہامہ کے بارے میں پھر کچھ نہیں فرمایا۔ ہم سمجھتے ہیں -واللہ اعلم- وہ زندہ ہے.

جواب

ابن ابی الدنیا پہلے شخص ہیں جو اس کو هواتف الجنان میں بیان کرتے ہیں
وہاں سند محمد بن عبد الله بن المثنى الأنصاري جن کو ابو داود کہتے ہیں تغير تغيرا شديدا بہت تغیر کا شکار تھے
ان صاحب کو جنات سے کچھ زیادہ ہی لگاؤ تھا لہذا ان کی ایک اور روایت بھی ہے جس میں یہ جن چڑھنے کا ذکر کرتے ہیں

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے

حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك ) قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد

عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو نماز پڑھنے میں مشکل ہوتی اس کا ذکر نبی صلی الله وسلم سے کیا تو اپ میرے سینے ضرب لگائی اور کہا نکل اے الله کے دشمن ! ایسا تین دفعہ کیا … اس کے بعد نماز میں کوئی مشکل نہ ہوئی

ان دونوں کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ہے جو کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوئے
جنات سے خوف زدہ عصر حاضر کے علماء نے ان روایات کو صحیح قرار دے دیا ہے

————-

بحر کیف ابلیس کے رشتہ دار والی یہ روایت ابن عمر رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے جس کا ذکر گھڑی ہوئی روایت کی حیثیت سے کیا جاتا ہے

امام عقیلی اس راوی کا ذکر منکر الحدیث کے طور پر کرتے ہیں
قَالَ ابْن حبَان: الْأنْصَارِيّ يروي عَن الثِّقَات مَا لَيْسَ من حَدِيثهمْ.
ابن حبان کہتے ہیں یہ ثقات سے وہ روایت کرتے ہیں جو انکی حدیث میں نہیں ہوتا

اگرچہ سو سال پہلے امام عقیلی اس روایت کوالضعفاء میں رد کر چکے ہیں اس روایت کا دور دورہ پھر شروع ہوتا ہے
سن ٤٠٠ ہجری کے بعد مسلمانوں کو یہ مرض لاحق ہوا کہ کسی بھی طرح اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کو تمام انبیاء سے افضل بنایا جائے
چنانچہ دلائل النبوه نام سے لأبي نعيم الأصبهاني اور البیہقی نے کتب لکھیں ان میں ضعیف و موضوع روایات کی بھر مار کر دی
ان کو صوفیاء نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایسی دو نمبر کتابوں کا بڑا چرچا ہوا
لأبي نعيم الأصبهاني اپنی کتاب میں باب باندھتا ہے
الْقَوْلُ فِيمَا أُوتِيَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَإِنْ قِيلَ: فَإِنَّ سُلَيْمَانَ قَدْ أُعْطِيَ مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ. قُلْنَا: إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُعْطِيَ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَأَبَاهَا وَرَدَّهَا اخْتِيَارًا لِلتَّقَلُّلِ وَالرِّضَا بِالْقُوتِ وَاسْتِصْغَارًا لَهَا بِحَذَافِيرِهَا وَإِيثَارًا لِمَرْتَبَتِهِ وَرِفْعَتِهِ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى
اگر کوئی کہے کہ سلیمان کو ایسی بادشاہت ملی جو کسی کو نہ ملی ان کے بعد تو ہم کہیں گے کہ بے شک محمد صلی الله علیہ وسلم کو زمیں کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں لیکن انہوں نے وہ رد کیں اختیارا
اس کے بعد موصوف جنات کے قصے بیان کرتے ہیں جن میں سے ایک یہ ابلیس کی اولاد کا بھی ہے

یہ صرف غلو ہے اور داد ملنی چاہیے محدثین کی کھال میں ان صوفیوں کو یعنی ابو نعیم کو جنہوں نے یہ رطب و یابس جمع کیا
وہاں اسناد میں أَبُو مَعْشَرٍ الْمَدَنِيُّ ہے جو نافع سے اور وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں
اسی طرح یہ سعید المقبری سے بھی روایت کرتا ہے

العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق
سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث

الموضوعات میں ڈیڑھ سو سال بعد ابن جوزی اس کو گھڑی ہوئی کہتے ہیں

ابن جوزی کے ٧٠ سال بعد تفسير القرطبي ج ١٦ ص ٢١٥ میں امام قرطبی نے اس روایت سے دلیل لی کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ابلیس کے پڑ پوتے کو قرآن کی سورتیں سکھائیں
وعلمه سورة” إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ” [الواقعة: 1] و” الْمُرْسَلاتِ” [المرسلات: 1] و” عَمَّ يَتَساءَلُونَ” [النبأ: 1] و” إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ” [التكوير: 1] و” الْحَمْدُ” [الفاتحة: 1] و” المعوذتين” [الفلق: 1 – والناس: 1]

اسلام علیکم
(ان الشيطن يجرى من الانسان مجرى الدم.. بخارى و مسلم)
كيا اے روایت اس بات کا دلیل ہے کہ جن انسان کے جسم مے داخل ہو سکتا ہے؟

جواب

و علیکم السلام

بہت سے علماء کے نزدیک یہ دلیل ہے کہ جن انسان میں داخل ہو جاتا ہے – راقم کی رائے میں ایسا نہیں ہے – اس حدیث کے سیاق و سباق میں ہے کہ ایک رات نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی بیوی صفية بنت حيي رضي الله عنها کے ساتھ نکلے جبکہ اپ معتكف بھی تھے اور کچھ انصاری صحابہ نے ان کو دیکھا اور تیزی سے جانے لگے- تو آپ نے کہا یہ میری بیوی ہیں اور کہا کہ شیطان انسان میں ایسے دوڑتا ہے (یعنی انسان کو ایسے بہکآتا ہے) کہ اس کے خوں میں ہوں

تفصیل کے لئے دیکھیے
⇑ آسیب چڑھنا
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/

کتاب العرف الشذي شرح سنن الترمذي از محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ) کے مطابق
قال الغزالي: إن الشيطان يدخل في جوف الإنسان، وقال ابن حزم: إنه لا يدخل
غزالی نے کہا شیطان انسان کے پیٹ میں داخل ہو جاتا ہے اور ابن حزم نے کہا نہیں ہوتا
محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي کے مطابق غزالی کی رائے صحیح ہے

کتاب التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ از محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني کے مطابق
(إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم) هو على ظاهره وإن الله تعالى جعل له قدرة ولطافة جسم يلج بواطن ابن آدم، وقيل: أنه مجاز عن كثرة إغوائه ووسوسته فكأنه لا يفارق الإنسان كما لا يفارقه دمه، وقيل: إنه يلقي وسوسته في المسام فتصل الوسوسة إلى القلب،
شیطان انسان میں ایسا دوڑتا ہے جیسے خون اور یہ ظاہر پر ہے کہ الله نے اس میں قدرت کی ہے اس کے جسم کی لطافت کی بنا پر ابن آدم کے پیٹ میں گزر جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مجاز ہے اس کی کثرت وسوسہ کی وجہ سے کہ انسان کو جس طرح خون سے الگ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شیطان کو بھی

کتاب شرح الطيبي على مشكاة المصابيح از شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743هـ) کے مطابق
والمعنى: أن الشيطان يتمكن في إغواء الإنسان وإضلاله تمكنا تاما، ويتصرف فيه تصرفا لا مزيد فيه.
وعلى الثاني: يجوز أن يكون حقيقة، فإنا لا ننكر أن الله قادر على أن يخلق أجساما لطيفة يسري في بدن الإنسان سريان الدم فيه
اس کا معنی ہے کہ شیطان تمکن پاتا ہے انسان کے اغوا پر اور اس کی مکمل گمراہی پر … اور دوسرا کہنا ہے کہ جائز ہے کہ یہ حقیقت ہو

کتاب مطالع الأنوار على صحاح الآثار از ابن قرقول (المتوفى: 569هـ) کے مطابق
قوله: “الشَّيْطَانُ يَجْرِي مِنَ ابن آدمَ مَجْرى الدَّمِ” (1) قيل: علي ظاهره.
وقيل: بل هو مثل (2) لتسلطه وغلبته لا أنه يتخلل جسمه، والله أعلم.
قول کہ شیطان انسان میں خون کی طرح دوڑتا ہے کہا جاتا ہے ظاہر (مفہوم) ہے اور کہا جاتا ہے کہ بلکہ مثال ہے کہ اس پر تسلط اور غلبہ پاتا ہے نہ کہ جسم میں خلل کرتا ہے و اللہ اعلم

کتاب إِكمَالُ المُعْلِمِ بفَوَائِدِ مُسْلِم از قاضی عياض بن موسى بن عياض بن عمرون اليحصبي السبتي، أبو الفضل (المتوفى: 544هـ) کے مطابق
قيل: هو على ظاهره، فإن الله جعل له قوة وقدرة فى الجرى فى باطن الإنسان فى مجارى دمه، وقيل: هذا على الاستعارة لكثرة إغوائه ووسوسته، فكأنه لا يفارق الإنسان كما لا يفارقه دمه.
کہا جاتا ہے یہ ظاہر پر ہے کیونکہ اللہ نے اس کے قدرت کی ہے کہ انسان بطن میں دوڑے …. اور کہا جاتا ہے یہ الاستعارة ہے کہ وہ انسان سے الگ نہیں ہوتا جیسے خون

البانی  کی ناقص تحقیق ہے    کبھی شیطان انسان کی شکل اختیار کرتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے ، گرچہ مومن اور صالح آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھیں : سلسلہ الاحادیث الصحیحہ 2918)

الغرض اس میں دو آراء چلی ا رہی ہیں
راقم اس کو مثال اور الاستعارة کہتا ہے ظاہر نہیں مانتا

جواب

بعض احادیث میں انسانوں کو شیطان کہا گیا ہے مثلا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص سترہ کی جانب نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی بندہ تمھارے اور سترہ کے درمیان سے گزرنا چاہے تو تم اس کو روکو، اگر وہ نہ رکے تو اس سے لڑائی کرو کیونکہ وہ شیطان ہے
[بخاری، کتاب الصلاۃ، باب یردالمصلی من مر بین یدیہ، حدیث: ۵۰۹]

یہ حدیث صحیح مفھوم سے نقل نہیں ہوئی اس کو سن کر ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا نے بتایا کہ

لقد رأيت النبي عليه السلام يصلي وإني لبينه وبين القبلة

میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا وہ نماز پڑھتے تھے اور میں ان کے اور قبلے کے درمیان ہوتی تھی

اسی  طرح بعض روایات میں ہے کہ کالا کتا یا اونٹ  شیطان ہے

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کالا کتا “شیطان ” ہے۔
[صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب قدر ما یستر المصلی، حدیث: ۵۱۰]

قال أبو الوفاء ابن عقيل  هذا على طريق التشبيه لها بالشياطين، لأن الكلب الأسود أشرّ الكلاب وأقلعها نفعاً، والإبل تشبه الجن في صعوبتها وصولتها، كما يقال: فلان شيطان ؛ إذا كان صعباً شريراً

ابن عقیل کہتے ہیں یہ تشبیہ ہے شیطان سے کیونکہ کالا کتا کتوں میں سب سے شری ہوتا ہے اس کا فائدہ کم ہے اور اونٹ کو جن سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ مشقت اٹھاتا ہے

ابن حبان صحیح  میں کہتے ہیں

قال أبو حاتم قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين أراد به أن معها الشياطين وهكذا قوله صلى الله عليه وسلم فليدرأه ما استطاع فإن أبى فليقاتله فإنه شيطان ثم قال في خبر صدقة بن يسار عن بن عمر فليقاتله فإن معه القرين ذكر البيان بأن قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين لفظة أطلقها على المجاورة لا على الحقيقة

نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ اونٹ کو شیاطین سے خلق کیا گیا ہے تو ان کا مقصد ہے وہ شیطان کے ساتھ ہے (یعنی شیطان اونٹوں کے بیچ چھپتے ہیں) اور اسی طرح کا قول ہے کہ ( نماز میں آگے سے گزرنے والے کو) ہاتھ سے روکے اگر نہ رکے تو لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے پھر کہا اس خبر میں جو صدقه بن یسار سے ان کی ابن عمر سے روایت ہے  … پس یہ الفاظ مجاز ہیں نہ کہ حقیقت

صحيح مسلم كي روایت ہے

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً، فَأَتَى امْرَأَتَهُ زَيْنَبَ، وَهِيَ تَمْعَسُ مَنِيئَةً لَهَا، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ، وَتُدْبِرُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ، فَإِذَا أَبْصَرَ أَحَدُكُمُ امْرَأَةً فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ يَرُدُّ مَا فِي نَفْسِهِ»،

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت شیطان کی صورت میں آتی جاتی ہے، جب تم میں سے کوئی ایک کسی عورت کو دیکھے تو وہ اپنے اہل کو آئے ۔ یہ عمل اس کے دل میں داخل شدہ خیالات کو ختم کردے گا۔
[صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب ندب من رأی امراۃ فوقعت فی نفسہ أن یأتی أھلہ، حدیث: ۱۴۰۳]

یہ روایت صحیح نہیں ہے یہ ابوزبیر مدلس کی سند سے ہے اور محدثین کہتے ہیں کہ ان کی لیث بن سعد کی سند سے ہی روایت لی جائے امام مسلم نے اس اصول کو نہیں مانا جس کی وجہ سے صحیح مسلم میں اس قسم کی بعض عجوبہ روایات ہیں

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ يُحَنِّسَ، مَوْلَى مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ إِذْ عَرَضَ شَاعِرٌ يُنْشِدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذُوا الشَّيْطَانَ، أَوْ أَمْسِكُوا الشَّيْطَانَ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا»

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول الہ ﷺ کے ساتھ “عرج” نامی جگہ سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے آیا۔ وہ شعر گوئی کررہا تھا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: شیطان کو پکڑ یا اس شیطان کو روکو، تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے پیٹ کو پیپ کے ساتھ بھر لے جو اس کی آنتوں کو کاٹ کے رکھ دے ، یہ اس کے لیے اشعار یاد کرنے سے بہتر ہے۔
[مسلم ، کتاب الشعر، بابٌ، حدیث: ۲۲۵۹]

اس روایت میں بھی شیطان کا لفظ مجاز پر ہے

سنن ابو داود اور صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں کبوتر سے کھیلنے پر شیطان کہا گیا ہے

حدَّثنا موسى بنُ إسماعيل، حدَّثنا حماد، عن محمَّد بن عمرو، عن أبي سلمة عن أبي هريرة، أن رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم – رأى رجلاً يَتبَعُ حمامةً، فقال: “شيطان يَتبَعُ شيطانةً”

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کبوتری کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: شیطان ، شیطانہ (یعنی کبوتری) کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔
[ابوداؤد، کتاب الأدب، باب فی اللعب بالحمام، حدیث: ۴۹۴۰]

اس کی سند میں  محمَّد بن عمرو ابن علقمة بن وقاص ہے جو حسن الحدیث ہے اس کی روایت اگر منفرد ہو تو رد کی جائے گی –  کسی پاک جانور کو شیطان کہنا منکر روایت ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے چیزوں کا عیب دار نام رکھنے سے منع کیا ہے

ابن حبان صحیح میں  کہتے ہیں

 وَإِطْلَاقُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَ الشَّيْطَانِ عَلَى الْحَمَامَةِ لِلْمُجَاوَرَةِ، وَلِأَنَّ الْفِعْلَ مِنَ الْعَاصِي بِلَعِبِهَا تَعَدَّاهُ إِلَيْهَا

اور کبوتری پر شیطان کا نام کا اطلاق قربت کے طور ہے کہ اس سے  بہت کھیلنے  والا  فعلا گناہ گار  ہے

الذھبی  کتاب سیر الاعلام النبلاء ج ٣ ص ١٤١ میں مُحَمَّدُ بنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ  کی سند سے ایک روایت نقل کرتے ہیں اور لکھتے ہیں

فِي إِسْنَادِهِ مُحَمَّدٌ لاَ يُحْتَجُّ بِهِ وَفِي بَعْضِهِ نَكَارَةٌ بَيِّنَةٌ

اس کی سند میں محمد ہے جو  نہ قابل احتجاج   اور اس میں بعض جگہ واضح نکارت ہے

لہذا یہ کبوتری والی روایت منکر ہے

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ الطُّفَاوِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحَدُكُمْ يُخْبِرُ بِمَا صَنَعَ بِأَهْلِهِ؟ وَعَسَى إِحْدَاكُنَّ أَنْ تُخْبِرَ بِمَا صَنَعَ بِهَا زَوْجُهَا» فَقَامَتِ امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُمْ لَيَفْعَلُونَ، وَإِنَّهُنَّ لَيَفْعَلْنَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَثَلِ ذَلِكَ؟ مَثَلُ ذَلِكَ كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ لَقِيَ شَيْطَانَةً، فَوَقَعَ عَلَيْهَا فِي الطَّرِيقِ، وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا، وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ

سول اللہ ﷺ نے فرمایا: “شاید کہ تم میں سے کوئی ایک اس کو لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہو جو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور شایدکہ تم (عورتوں )میں سے کوئی ایک بھی ایسا کرتی ہے۔ تو ایک سیاہ رنگ کی عورت کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: “اے اللہ کے رسول ﷺ! مرد بھی اور عورتیں بھی ایسا کرتی ہیں ۔” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “ان کی مثال اس شیطان کی طرح ہے جو شیطانہ سے راستہ میں اپنی حاجت کو پورا کرے اور لوگ دیکھ رہے ہوں۔

الطُّفَاوِيِّ صحابی ہیں یا نہیں اس میں اختلاف ہے

 المنذر بن مالك أبو نضرة العبدي  کا سماع بھی تمام اصحاب رسول سے نہیں جن سے یہ روایت کرتے ہیں لہذا یہ تدلیس کرتے ہیں الجریری آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے ان علتوں کی بنا پر یہ روایت صحیح نہیں ہے

مسند احمد میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ السَّرَّاجُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَهْرًا، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ قُعُودٌ عِنْدَهُ فَقَالَ: ” لَعَلَّ رَجُلًا يَقُولُ: مَا يَفْعَلُ بِأَهْلِهِ، وَلَعَلَّ امْرَأَةً تُخْبِرُ بِمَا فَعَلَتْ مَعَ زَوْجِهَا فَأَرَمَّ الْقَوْمُ ” فَقُلْتُ: إِي وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُنَّ لَيَقُلْنَ وَإِنَّهُمْ لَيَفْعَلُونَقَالَ: ” فَلَا تَفْعَلُوا فَإِنَّمَا مِثْلُ ذَلِكَ مِثْلُ الشَّيْطَانُ  لَقِيَ شَيْطَانَةً فِي طَرِيقٍ فَغَشِيَهَا وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون کہتے ہیں سند ضعیف ہے

مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ حَاتِمٍ أَبُو سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، قَالَ: قُلْتُ: لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَنْبَشٍ التَّمِيمِيِّ، وَكَانَ كَبِيرًا، أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ كَادَتْهُ الشَّيَاطِينُ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّيَاطِينَ تَحَدَّرَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَوْدِيَةِ، وَالشِّعَابِ، وَفِيهِمْ شَيْطَانٌ بِيَدِهِ شُعْلَةُ نَارٍ، يُرِيدُ أَنْ يُحْرِقَ بِهَا وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَبَطَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ قُلْ، قَالَ: ” مَا أَقُولُ؟ ” قَالَ: ” قُلْ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، وَذَرَأَ وَبَرَأَ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا، وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ، يَا رَحْمَنُ “، قَالَ: فَطَفِئَتْ نَارُهُمْ، وَهَزَمَهُمُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى

أَبُو التَّيَّاحِ کہتے  ہیں میں نے  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَنْبَشٍ  سے  کہا  اور وہ بوڑھے تھے کہ اپ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پایا ؟ انہوں نے کہا ہاں – میں نے پوچھا کہ اس رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا جس میں شیاطین نے کروائی   کی ؟ انہوں نے کہا  اس رات …. شیطانوں نے حملہ کیا … اور ان میں ابلیس بھی تھا جس کے ہاتھ میں اگ تھی وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چہرے کو جلانا چاہتا تھا پس جبریل نازل ہوئے اور کہا اے محمد کہو  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کیا؟ جبریل علیہ السلام نے کہا بولو ….

اس کی سند میں  جعفر بن سليمان: وهو الضبعي کا تفرد ہے جو مظبوط نہیں ہے

بخاری کہتے ہیں اس کی روایت پر نظر ہے

 شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں یہ   إسناده ضعيف سند ضعیف ہے

حدیث کی بعض کتب میں یہ روایت  المسيب بن واضح اور  مصعب بن شيبة بن جبير بن شيبة  کی سند سے بھی ہے جو  دونوں ضعیف ہیں

جواب

کتاب المعجم الأوسط اور المعجم الكبير  از الطبراني  کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ السَّامِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْحَيَّاتُ مَسْخُ الْجِنِّ، كَمَا مُسِخَتِ الْقِرَدَةُ وَالْخَنَازِيرُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ»

عکرمہ نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سانپ مسخ جن ہیں جیسے سور و بندر مسخ شدہ بنی اسرائیل ہیں

صحیح ابن حبان میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى بعسكر مكرم حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بن الْمُخْتَار حَدَّثَنَا خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “الْحَيَّات مسخ الْجِنّ كَمَا مسخت الْخَنَازِير والقردة” قلت وَقد تقدم الْأَمر بقتل الْحَيَّة وَالْعَقْرَب فِي الصَّلَاة

عکرمہ نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سانپ مسخ جن ہیں جیسے سور و بندر مسخ شدہ ہیں

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الله حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَيَّاتُ مَسْخُ الْجِنِّ»

عکرمہ نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سانپ مسخ جن ہیں

 شعيب الأرنؤوط  کہتے ہیں موقوف صحیح ہے

العلل میں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ ابو زرعة نے کہا

قال ابن أبي حاتم: سمعت أبا زرعة يقول: هذا الحديث هو موقوف، لا يرفعه إلا عبدُ العزيز بن المختار، ولا بأس بحديثه.

یہ حدیث موقوف ہے اس کو مرفوع صرف عبدُ العزيز بن المختار نے کیا ہے جس کی حدیث میں برائی نہیں ہے

البانی نے اس کو صحیحہ میں نقل کیا ہے کہتے ہیں

واعلم أن الحديث لَا يعني أن الحيات الموجودة الآن هي من الجن الممسوخ، وإنما يعني أن الجن وقع فيهم مسخٌ إلى الحيات , كما وقع في اليهود مسْخُهُم قردة وخنازير، ولكنهم لم ينسلوا كما في الحديث الصحيح: ” إن الله لم يجعل لمسخ نسلا ولا عقبا، وقد كانت القردة والخنازير قبل ذلك

اور جان لو کہ اس حدیث میں وہ سانپ مراد نہیں ہیں جو ابھی ہیں کہ وہ مسخ شدہ جن ہیں بلکہ مطلب ہے کہ یہ جن تھے جن کو مسخ کر کے سانپ کر دیا گیا جیسا یہود کو مسخ کر کے بندر و سور بنا دیا گیا تھا لیکن ان کی نسل نہ چلی جیسا صحیح حدیث میں ہے کہ بے شک الله نے ان کی نسل نہ کی نہ کوئی ان میں چھوڑا اور بندر و سور تو ان سے پہلے بھی تھے

راقم کہتا ہے یہ روایت سرے سے صحیح ہے ہی نہیں اور البانی کی تشریح روایت کے الفاظ کے خلاف ہے کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ آج جو سانپ ہیں وہ الگ ہیں بلکہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ آج بھی جو سانپ ہیں وہ جن تھے

روایت خالد الْحَذَّاءِ کی غلط سلط روایات میں سے ہے

خالد بن مهران الحذاء بصری مدلس ہے اور آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے
یہ مختلف فیہ ہے میزان الاعتدال کے مطابق
قال أحمد: ثبت.
وقال ابن معين والنسائي: ثقة.
وأما أبو حاتم فقال: لا يحتج به.
احمداور ابن معین اور نسائی نے ثقہ کہا ہے جبکہ ابی حاتم کہتے کہ یہ نہ قابل دلیل ہے
یعنی بغداد والوں نے ثقہ کہا ہے

اس کے شہر کے لوگ یعنی بصریوں  میں حماد بن زید ،  ابن علية اور شعبہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اسی طرح نیشاپور والوں نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے

وقال يحيى بن آدم: قُلْتُ لِحَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ: مَا لِخَالِدٍ الْحَذَّاءِ فِي حَدِيثِهِ؟ قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا قَدْمَةً مِنَ الشَّامِ، فَكَأَنَّا أَنْكَرْنَا حِفْظَهُ.
بصرہ کے حماد بن زید کہتے کہ خالد جب شام سے آیا تو ہم نے اس کے حافظہ کا انکار کیا

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق
قال شعبة: خالد يشك في حديث عكرمة عن ابن عباس
شعبہ نے کہا کہ خالد کو عکرمہ کی ان کی ابن عباس سے حدیث پر شک رہتا تھا

جواب

بعض لوگ یہ موقف رکھتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کلام میں مجاز کا استعارہ کا استعمال نہیں کرتے تھے لہذا انہوں نے بہت سی احادیث کو ظاہر پر لیا ہے مثلا
نماز میں شیطان کا صف میں بکری کی طرح گھسنا
اذان پر شیطان کا گوز مار کر بھاگنا
جمائی پر شیطان کا منہ میں گھسنا
شیطان کا انسان کے ساتھ کھانا
شیطان کا کان میں پیشاب کرنا
شیطان کا گرہ لگانا
وغیرہ

اسی طرح اسماء و صفات میں الله تعالی سے متعلق جو بھی حدیث میں ہے اس کو بھی ظاہر پر لیتے ہیں
اس طرح ان میں اور ہم میں فرق اتا ہے ہم انہی کو کلام کا انداز، مجاز اور استعارہ قرار دیتے ہیں

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول الله وہ عربی بولتے تھے جو ان کے ماحول کے لوگ نہیں بولتے تھے یعنی اصحاب رسول تو کلام میں مجاز و استعارہ استعمال کریں لیکن رسول الله نہ کریں؟

ان لوگوں نے جب شروحات لکھیں تو ہر چیز اصل بن گئی کوئی چیز مجاز نہ رہی
یہاں تک کہ یہ لوگ اس کے بھی قائل ہوئے کہ شیطان اور عورت اپس میں زنا کرتے ہیں ان سے بچے بھی ہوتے ہیں مثلا امام ابن تیمیہ اس کے قائل ہیں

⇑ امام ابن تیمیہ اور جنات کی دنیا
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/

[EXPAND  کیا جنات کے جانور ہیں ؟ روایت میں ہے ]

Sahih Muslim Hadees # 1007

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلْقَمَةَ هَلْ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ شَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: فَقَالَ عَلْقَمَةُ، أَنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقُلْتُ: هَلْ شَهِدَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: لَا وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَفَقَدْنَاهُ فَالْتَمَسْنَاهُ فِي الْأَوْدِيَةِ وَالشِّعَابِ. فَقُلْنَا: اسْتُطِيرَ أَوِ اغْتِيلَ. قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا هُوَ جَاءٍ مِنْ قِبَلَ حِرَاءٍ. قَالَ: فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ فَقَدْنَاكَ فَطَلَبْنَاكَ فَلَمْ نَجِدْكَ فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ. فَقَالَ: «أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ» قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ وَسَأَلُوهُ الزَّادَ فَقَالَ: لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا طَعَامُ إِخْوَانِكُمْ»

۔ عبد الاعلیٰ نے داؤد سے اور انہوں نے عامر ( بن شراحیل ) سے روایت کی ، کہا : میں نے علقمہ سے پوچھا : کیا جنوں ( سے ملاقات ) کی رات عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ رسول اللہ کے ساتھ تھے؟ کہا : علقمہ نے جواب دیا : میں نے خود ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے پوچھا : کیا آپ لوگوں میں سے کوئی لیلۃ الجن میں رسول اللہﷺ کے ساتھ موجود تھا؟ انہوں نے کہا : نہیں ، لیکن ایک رات ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے تو ہم نے آپ کو گم پایا ، ہم نے آپ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا ، ( آپ نہ ملے ) تو ہم نے کہا کہ آپ کو اڑا لیا گیا ہے یا آپ کو بے خبری میں قتل کر دیا گیا ہے ، کہا : ہم نے بدترین رات گزاری جو کسی قوم نے ( کبھی ) گزاری ہو گی ۔ جب ہم نے صبح کی تو اچانک دیکھا کہ آپ حراء کی طرف سے تشریف لا رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہم نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کوگم پایا تو آپ کی تلاش شروع کر دی لیکن آپ نہ ملے ، اس لیے ہم نے وہ بدترین رات گزاری جو کوئی قوم ( کبھی ) گزار سکتی ہے ۔ اس پر آپ نے فرمایا : میرے پاس جنوں کی طرف سے دعوت دینے والا آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور میں نے ان کے سامنت قرآن کی قراءت کی ۔ انہوں نے کہا : پھر آپ ( ﷺ ) ہمیں لے کر گئے اور ہمیں ان کے نقوش قدم اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے ۔ جنوں نے آپ سے زاد ( خوراک ) کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تمہارے لیے ہر وہ ہڈی ہے جس ( کے جانور ) پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور تمہارے ہاتھ لگ جائے ، ( اس پر لگا ہوا ) گوشت جتنا زیادہ سے زیادہ ہو اور ( ہر نرم قدموں والے اونٹ اور کٹے سموں والے ) جانور کی لید تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ۔
پھر رسول اللہﷺ نے ( انسانوں سے ) فرمایا : تم ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کیا کرو کیونکہ یہ دونوں ( دین میں ) تمہارے بھائیوں ( جنوں اور ان کے جانوروں ) کا کھانا ہیں ۔ ‘

جواب
یہ روایت مضطرب ہے اور البانی نے اس کا شمار الضعیفہ میں کیا ہے

قال الألباني في الضعيفة (3/ 133) ح1038: حديث: ” لَكُمْ (يعني الجن) كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا , وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ “. أخرجه مسلم 150 – (450) (2/ 36) , وابن خزيمة في ” صحيحه ” (رقم 82) , والبيهقي (1/ 108 – 109) , ضعيف

قلت: ووجه المخالفة أن ظاهره أن العظم والروثة زاد وطعام للجن أنفسهم، وليس شيء من ذلك لدوابهم

البانی نے کہا یہ جن کے کھانے ہیں ان کے جانور کے نہیں ہیں

[/EXPAND]

دم اور تعویذ

ایک صاحب کہتے ہیں

پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے بے شمار علوم ایسے ہیں جو انسان کے نفع کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ انسان ان سے حسب ضرورت استفادہ کرسکتا ہے۔ دین اس وقت ان علوم میں مداخلت کرتا ہے جب ان میں کوئی اخلاقی یا شرعی قباحت پائی جائے۔ جیسے میڈیا سائنسز ایک نیوٹرل علم ہے جس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے پر مذہب کا کوئی مقدمہ نہیں۔ اگر یہ علم انسانوں کو نقصان پہنچانے میں استعمال ہو اور اس سے محض فحاشی و عریانیت اور مادہ پرستی ہی کو فروغ مل رہا ہو تو مذہب مداخلت کرکے اس کے استعمال پر قدغن لگاسکتا اور اسے جزوی طور پر ممنوع کرسکتا ہے۔
میرے فہم کے مطابق کچھ ایسا ہی معاملہ نفسی علوم کا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ علم سحر کی حیثیت سےیہود اور کچھ مشرکین کے پاس تھا ۔ چونکہ کسی پیغمبر کی بعثت کو ایک طویل عرصہ گذرچکا تھا اس لئے ان علوم پر بھی شیاطین کا قبضہ تھا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح معاشرہ اور تطہیر کا کام کیا تو اس علم پر بھی خاص طور پر توجہ دی۔ اس زمانے میں تعویذ ، گنڈے اور دیگر چیزیں مشرکانہ نجاست رکھتی تھیں اس لئے انہیں ممنوع اور حرام قرار دے دیا گیا۔ اصل علت یا وجہ جادو یا شرک تھا تعویذ کا استعمال نہ تھا۔
اس کی بہترین مثال تصویر ہے۔ تصویریں اس زمانے میں بنائی ہی شرک کی نیت سے جاتی تھیں اس لئے جاندار کی تصویر بنانا ممنوع کردیا گیا۔ لیکن بعد میں جب تصویروں میں علت نہیں رہی تو علما نے اسے جائز قرار دے دیا۔ یہی معاملہ تعویذ گنڈوں کےساتھ بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تعویذ وغیرہ کا براہ راست دین سے کوئی تعلق نہیں اور یہ نفسی علوم کا ایک طریقہ اور ٹول ہے۔ چنانچہ اگر کوئی تعویذ شرکیہ نجاستوں سے پاک ہے تو اس پر وہی حکم لگے گا جو دم درود یا دیگر روحانی علوم پر لگتا ہے۔

جواب

ہمارے علماء کے نزدیک وہ کیا ذرائع ہیں جن سے وہ اہل کتاب یا یہود کے بارے میں معلومات لیتے ہیں اگر آپ تحقیق کریں تو معلوم ہو گا کہ کتب حدیث اور ابن اسحاق کی کتب یا واقدی کی کتب ہیں جو اسلامی نقطہ نگاہ سے لکھی گئی ہیں اور بسا اوقات ان کتابوں کو پڑھتے ہوئے مفروضے بھی قائم کر لئے جاتے ہیں مثلا یہ کہ یہود عزیر کو الله کا بیٹا کہتے تھے تو یقینا عزیر الله کا کوئی نبی ہو گا اور پھر عزیر علیہ السلام لکھنا بھی شروع کر دیا اور اس کے نام پر اپنے بچوں کے نام بھی رکھنے شروع کر دے – اس کے بر عکس ابی داود کی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ عزیر نبی تھا یا نہیں – اسی طرح جب تعویذ کی بات ہوتی ہے تو اس کو جادو شرک سے ملا دیتے ہیں جبکہ اس پر کوئی دلیل نہیں دوم اہل کتاب یہود کو مسلسل شرک کرنے والا کہتے ہیں – یہ علماء کی آراء اب اس قدر جڑ پکڑ چکی ہیں کہ ان کو ہی حقیقت سمجھا جاتا ہے اور آزادنہ تحقیق مفقود ہے-
یہود کو جاننے کے لئے علماء میں یہود کی کتب پڑھنے کا کوئی رجحان نہیں اور چونکہ ان کے بارے میں معلومات ناقص ہیں لہذا مفروضوں پر عمارت قائم کر لیتے ہیں –تعویذ کے سسلے میں تلمود کو دیکھا جائے جو رسول الله کے دور میں اور ان کے بعد تک مرتب ہوئی ہے اور اس میں علمائے یہود کے فتوی جمع ہیں اس کو آپ فتاوی علمائے یہود کہہ سکتے ہیں – تلمود ظاہر ہے ایک وسیع کام ہے اور اپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس میں تعویز پر بھی بحث ہے
یہود کا تعویذ کلام الہی پر مبنی ہوتا ہے جو ہو سکتا ہے شرک سے پاک ہو اور تلمود میں ایسے تعویذ بتائے گئے ہیں جن میں توریت کی آیات ہیں اور شرک سے پاک ہیں – بعض یہودی علم اعداد بھی استعمال کرتے ہیں جو جادو کی ایک قسم ہے جو بابل سے آئی ہے لہذا یہ ممکن ہے کہ شرکیہ تعویذ بھی ہوں – الغرض دونوں طرح کے تعویذ یہودی استعمال کرتے تھے- رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تعویذ کو مطلقا منع کیا اس میں کلام الہی والے کا استثنا نہیں ہے
اس پر بات کو گھمایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس طرح شرکیہ دم منع ہیں اور بعد میں دم کی اجازت دی گئی اسی طرح غیر شرکیہ تعویذ کر سکتے ہیں- لیکن دم دعا ہے اور تعویذ ایک عمل ہے دونوں میں فرق ہے جس میں اس کو لٹکایا جاتا ہے- کلام الہی صرف جہنم کی اگ سے بچانے کے لئے اترا ہے کسی دنیاوی ضرر سے بچانے کے لئے نہیں- ورنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی انگلی زخمی نہ ہوئی دانت پر احد کے دن ضرب نہ لگتی-

جواب نہیں سوره الفاتحہ دم نہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سوره الفاتحہ سے دم نہیں کیا- آخری وقت تک آپ صلی الله علیہ وسلم معوذتین  سے دم کرتے رہے اور یہی عائشہ رضی الله عنہا نے مرض وفات میں کیا

ایک روایت میں ہے کہ صحابہ ایک سفر میں تھے اور انہوں نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور قبیلہ والوں سے کھانے پینے کو مانگا جس کا انہوں نے انکار کر دیا اتفاق سے ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا اور وہ علاج یا ٹوٹکا پوچھنے صحابہ کے پاس بھی آئے جس پر ایک صحابی نے  (اپنی طرف سے) سوره الفاتحہ سے دم کر دیا اور وہ سردار ٹھیک کو گیا واپس آ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سب بتایا گیا تو آپ نے کہا تم کو کیسے پتا کہ سوره الفاتحہ دم ہے؟

یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا حکم نہ تھا – مزید یہ کہ نہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے، نہ صحابہ نے، سوره الفاتحہ سے  بعد میں دم  کیا

خارجہ بن صلت تمیمی رضی اللہ عنہ کے چچا سے مروی ہے : وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا ۔ پھر

آپ ﷺ کے پاس سے واپس لوٹ گئے ۔ ان کا گذر ایک قوم کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک آدمی جنوں کی وجہ سے لوہے سے بندھا تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ بتلایا گیا ہے کہ تمہارے ساتھی (نبی ﷺ) نے بھلائی لایاہے ۔ تو کیا آپ کے پاس کچھ ہے جس کے ذریعہ آپ اس کا علاج کرسکیں ؟ تو میں نے اس پرسورہ فاتحہ کے ذریعہ دم کردیا ۔ پس ٹھیک ہوگیاتو انہوں نے مجھے ایک سو بکریاں دی ۔ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی ۔ پس آپ نے کہا: کیا یہی تھا۔ مسدد نے کہا دوسری جگہ ہے : کیا اس کے علاوہ بھی پڑھا تھا؟ تو میں نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا: اسے لے لو۔ میری عمر کی قسم ! جس نے باطل دم کے ذریعہ کھایا(اس کا بوجھ اور گناہ اس پر ہے)، تو نے تو صحیح دم کے ذریعہ کھایا(تم پر کوئی گناہ نہیں)۔

جواب

اس روایت میں خارجہ بن صلت کے چچا کا صحابی ہونا ثابت نہیں کیونکہ یہ واحد روایت ہے جس سے اس کے بارے میں پتا چلا کہ خارجہ کا چچا صحابی تھا علم حدیث کا اصول ہے کہ صحابی مجھول الاسم نہیں ہونا چاہئے اور معروف ہونا چاہیے
بہت سے لوگوں کی روایات اس بنیاد پر مرسل قرار دی گئیں ہیں کہ انہوں نے رسول الله کو دیکھا کچھ سنا نہیں

ایک اور مسئلہ اس میں یہ ہے کہ مسند احمد میں اس کی سند
خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ، قَالَ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ: عَنْ عَمِّهِ
کے مطابق خارجہ بن صلت نے ایک مجہول الحال یحیی التمیمی سے اس نے ان کے چچا سے سنا تھا

لہذا ابو داود کی سند منقطع بھی ہے

سوم آپ نے خارجہ کو رضی الله عنہ لکھا ہے یعنی آپ نے اس کو صحابی کر دیا
ابو نعیم معرفہ الصحابہ میں کہتے ہیں
خَارِجَةُ بْنُ الصَّلْتِ عِدَادُهُ فِي الْكُوفِيِّينَ زَعَمَ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ أَنَّهُ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَرَهُ , حَدِيثُهُ عِنْدَ الشَّعْبِيِّ
خارجہ بن صلت کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے بعض متاخرین کا دعوی ہے کہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پایا لیکن دیکھا نہیں اور اس کی حدیث شعبی سے ہے

یعنی یہ صحابی کب سے ہو گئے بہت سے بہت تابعی ہیں

لہذا یہ ضعیف روایت ہے

جواب

صحیح بخاری کی حدیث ہے

عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ كَانَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَاقَةٌ‏.‏ قَالَ وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ وَأَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَتْ نَاقَةٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تُسَمَّى الْعَضْبَاءَ، وَكَانَتْ لاَ تُسْبَقُ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ لَهُ فَسَبَقَهَا، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَقَالُوا سُبِقَتِ الْعَضْبَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لاَ يَرْفَعَ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ وَضَعَهُ

انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام ” عضباء “ تھا ( کوئی جانور دوڑ میں ) اس سے آگے نہیں بڑھ پاتا تھا ۔ پھر ایک اعرابی اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے آگے بڑھ گیا ۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بڑا شاق گزرا اور کہنے لگے کہ افسوس عضباء پیچھے رہ گئی ۔ رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ لازم کر لیا ہے کہ جب دنیا میں وہ کسی چیز کو بڑھاتا ہے تو اسے وہ گھٹاتا بھی ہے ۔

آپ دیکھیں اس میں نظر لگنے کا عمل ہے- صحابہ کی نظر، رسول الله کی اونٹنی، کو لگ گئی کہ اتنی بہتر تھی لیکن وہ رفتار میں  کم پڑ گئی- یہی عرف عام میں نظر لگنا ہے کہ ہر وہ چیز جس پر انسانوں کا تصور ہو جائے کہ بہت خوبی والی ہے اس میں عیب آ جاتا ہے کیوں کہ  کسی بھی عیب سے پاک صرف الله کی ذات ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا
نظر بد حق ہے
(بخاری/5740, مسلم/2188)

جواب

یہ بدعت ہے

لیکن بعض علماء ایسا کرتے تھے مثلا امام ابن تیمیہ کتاب إيضاح الدلالة في عموم الرسالة میں لکھتے ہیں

ibn-temiah-zafran

قال عبد الله بن أحمد بن حنبل – قال أبي : حدثنا أسود بن عامر بإسناده بمعناه وقال يكتب في إناء نظيف

فيسقى … قال عبد الله رأيت أبي يكتب للمرأة في حام أو شئ نظيف

عبد الله بن احمد کہتے ہیں میرے باپ نے کہا ہم سے اسود نے روایت کیا….. اور کہا اور وہ صاف برتن پر لکھتے اور پھر پیتے عبد الله کہتے ہیں میرے باپ بارک چیز یا صاف چیز پر لکھتے

ابن تیمیہ اس کی تائید میں کہتے ہیں

يجوز أن يكتب للمصاب وغيره شئ من كتاب الله وذكره بالمداد المباح – ويسقى

اور یہ جائز ہے کہ مصیبت زدہ کے لئے کتاب الله اور ذکر کو مباح روشنائی سے لکھے اور پی لے

اس کو ابن قیم نے بھی کتاب  زاد المعاد میں جائز کہا ہے

بن باز فتوی میں کہتے ہیں

http://aliftaweb.org/Urdo/Pages/PermanentCommittee.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=130&PageNo=1&BookID=3

اور جہاں تک کاغذ یا تختی یا پلیٹ پر قرآنی آیات یا مکمل سورت لکھنے، اور پھر اس کو زعفران یا پانی سے دھو کر برکت، یا علم سے استفادہ یا آمدنی کے وسائل کی فراوانی، یا صحت وعافیت وغیرہ کی امید اس دھلے پانی کو پینے کا سوال ہے، تو اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اس طرح اپنے لئے یا کسی اور کے لئے کیا ہو، اور نہ آپ نے اپنے صحابہ میں کسی کو اس طرح کرنے کی اجازت دی ہے، اور نہ آپ نے اپنی امت کو اس میں چھوٹ دی ہے، جب کہ اس طرح کئے جانے کے بہت سے اسباب موجود تھے، نیز ہمارے علم کے مطابق صحابہ رضی الله عنهم سے منقول صحیح اقوال میں کسی سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے اس طرح کیا ہے اور کسی کو اس کی چھوٹ دی ہے، اس مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اس کام کو چھوڑنا ہی بہتر ہے،

ہمارے نزدیک بن باز کی بات درست ہے کہ یہ بدعت ہے اور اس میں امام احمد اور ابن تیمیہ مبتلا رہے ہیں

جواب

حدیث میں آتا ہے کہ

«نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم  أَنْ یُّتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاء أَوْ یُنْفَخَ فِیْهِ  “صحيح الجامع ” (6820

نبی صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ پانی میں سانس لیا جائے یا اس میں پھونک ماری جائے۔

کہا جاتا ہے کہ عام پینے والے پانی میں سانس لینا یا اس میں پھونک مارنے کی ممانعت ہے لیکن جس پانی پر دم کرنا ہو وہ مستثنی ہے ، یعنی دم کرتے وقت پانی پر پھونک مار سکتے ہیں۔ لیکن اس حدیث میں اس میں کوئی تخصیص بیان  نہیں ہوئی لہذا حکم  ممانعت عام ہے – پانی پر پھونکنا یا عرف عام میں دم کرنا منع ہے

بعض کا اصرار ہے کہ جائز ہے ان کی دلیل ہے کہ  سنن ابی داود  باب ما جاء في الرقى  کی حدیث ہے

حدَّثنا أحمدُ بنُ صالح وابنُ السرحِ -قال أحمدُ: حدَّثنا ابن وهب، وقال ابن السرح: أخبرنا ابنُ وهب- حدَّثنا داودُ بنُ عبدِ الرحمن، عن عمرو ابنِ يحيى، عن يوسفَ بنِ محمد -وقال ابن صالح: محمدُ بنُ يوسف بن ثابت ابنِ قيس بنِ شماس- عن أبيهِ عن جَدِّه، عن رسولِ الله – صلَّى الله عليه وسلم – أنه دخلَ على ثابتِ بنِ قيس -قال أحمدُ: وهو مريض- فقالَ: “اكْشِفِ البَاْسَ ربَّ النَّاسِ، عن ثابت بنِ قيس بنِ شمَّاس” ثم أخذ تراباً من بُطحانَ فجعله في قَدَحٍ، ثم نَفَثَ عليه بماءِ، ثم صبَّه عليهِ

احمد بن صالح نے اور ابن السرح نے روایت کیا کہا احمد نے کہا حدثنا ابن وھب اور ابن   السرح نے کہا اخبرنا ابن وھب- داود بن عبد الرحمان نے عمرو بن یحیی سے روایت کیا انہوں نے یوسف بن محمد سے روایت  کیا ، اور ابن صالح نے کہا انہوں نے محمد بن یوسف بن قیس بن شماس سے انہوں نے  اپنے باپ سے ، اپنے دادا سے روایت کیا  کہ نبی صلی الله علیہ وسلم، ثابتِ بنِ قيس کے پاس داخل ہوئے-  احمد کہتے ہیں: وہ مریض تھے، پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: اے انسانوں کے رب ! تکلیف کو دور کر، ثابت بن قیس پر سے،  پھر بُطحانَ کی مٹی لی اس کو ایک  قدح میں ڈالا، پھر اس میں پانی پر پھونکا ، پھر اس کو ان کے سر پر انڈیلا

اس روایت کو پانی پر دم کرنے کی دلیل پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اس کی سند ضعیف ہے اس روایت  پر تعلیق میں شعَيب الأرنؤوط اور محَمَّد كامِل قره بللي  لکھتے ہیں

إسناده ضعيف لجهالة يوسف بن محمد بن ثابت بن قيس بن شماس

اس کی اسناد يوسف بن محمد بن ثابت بن قيس بن شماس کے مجھول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں

البانی اس کو ضعیف الاسناد کہتے ہیں اور ابن حجر فتح الباری میں اس روایت کو حسن کہتے ہیں جو ان کی ناقص تحقیق ہے

ابو داود سنن  میں کہتے ہیں  قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «قَالَ ابْنُ السَّرْحِ يُوسُفُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الصَّوَابُ

 ابن السرح نے یوسف  بن محمّد  کہا ہے جو صواب ہے

یہ واحد روایت ہے جس میں پانی پر دم کا ذکر ہے لیکن جب راوی ہی مجھول ہے تو دلیل نہیں بن سکتی

وہابی مفتی  عبدالعزیز بن باز  اسی حدیث کی بنیاد پر کہتے  ہیں

لا حرج في الرقية بالماء ثم يشرب منه المريض أو يغتسل به، كل هذا لا بأس به، الرقى تكون على المريض بالنفث عليه، وتكون في ماء يشربه المريض أو يتروَّش به، كل هذا لا بأس به، فقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رقى ثابت بن قيس بن شماس في ماء ثم صبه عليه، فإذا رقى الإنسان أخاه في ماء ثم شرب منه أو صبه عليه يرجى فيه العافية والشفاء، وإذا قرأ على نفسه على العضو المريض في يده أو رجله أو صدره ونفث عليه ودعا له بالشفاء هذا كله حسن.
http://www.binbaz.org.sa/noor/8858

پانی سے دم میں حرج نہیں ہے جب یہ پانی مریض کو  پلایا جائے یا اس پانی سے غسل دیا جائے اس سب میں کوئی برائی نہیں ہے –  دم مریض پر پھونکنے سے بھی ہوتا ہے اور پانی پر بھی جس کو مریض کو پلایا جاتا ہے یا اس پر بہایا جاتا ہے اس سب میں کوئی برائی نہیں ہے – پس یہ ثابت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے آپ (صلی الله علیہ وسلم)  نے قیس بن ثابت (رضی الله عنہ ) پر پانی سے دم کیا   پھر ان پر انڈیلا –  پس اگر انسان پر اس کے بھائی  پینے کے پانی پر دم کریں یا  پانی پر دم کریں جس کو انڈیلا جائے تو اس میں عافیت و شفا کی امید ہے اور اگروہ خود پڑھیں  یا مریض کے عضو پر  جیسے ہاتھ ، پیر یا سینہ اور اس پر پھونک دیں  اور شفا کی دعا کریں تو یہ سب اچھا ہے

راقم کہتا ہے ابن باز نے ضعیف حدیث سے دلیل لی ہے

بخاری نے تاریخ الکبیر میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس میں پانی پر دم کرنے کے الفاظ نہیں ہیں

ایک دوسری روایت بھی پانی پر دم کرنے کے لئے پیش کی جاتی ہے جس کو البانی صحیحہ میں نقل کرتے ہیں

علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک لگا دیا‘ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نبی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے‘ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور آپ اس ڈنک زدہ جگہ کو نمک آمیز پانی میں برابر ڈبوتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا

معجم الصغير الطبرانی میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَشْنَانِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْروٍ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ

اول اس کی سند میں المنھال بن عمرو ہے جو امام  شعبہ کے نزدیک متروک  ہے- بعض کے نزدیک ثقہ ہے لیکن المنھال،  محمّد بن الحنفیہ سے کتاب الدعا از الطبرانی میں ایک روایت  نقل کرتا ہے

 حَدَّثَنَا الْمِقْدَامُ بْنُ دَاوُدَ الْمِصْرِيُّ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، ثنا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُعَلِّمُكَ رُقْيَةً رَقَانِي بِهَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» قَالَ: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَعَلَّمَهُ بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ، وَاللَّهُ يَشْفِيكَ مِنْ كُلِّ دَاءٍ يُؤْذِيكَ، خُذْهَا فَلْتُهْنِيكَ “

منہال بن عمرو، محمّد بن الحنفیہ سے  روایت کرتا ہے وہ عمار رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور وہ بیمار تھے پس ان سے رسول الله نے کہا کہ میں تم کو ایک دم سکھاؤں جس سے جبریل نے مجھے دم کیا کہا ضرور یا رسول الله پس آپ صلی الله علیہ وسلم نے سکھایا الله کے نام سے تم کو دم کرتا ہوں اور الله ہی تم کو ہر ایذا سے شفا دیتا  ہے اس کویاد کر لو اور اپنے اوپر جھاڑو

نبی صلی الله علیہ وسلم تو دم  دعا سے کر رہے ہیں اور اس میں پانی کا ذکر بھی نہیں

دوم مُطَرِّفُ بنُ طَرِيْفٍ الكُوْفِيُّ المتوفی ١٤١ ھ  ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے

اس میں بھی پانی پر براہ راست دم نہیں کیا گیا بلکہ دم ڈنک کی جگہ کو کیا جا رہا ہے

پانی پر دم کی دلیل میں یہ احادیث بھی پیش کی جاتی ہیں

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتے اور معوذات پڑھ کر اپنے جسم پر دونوں ہاتھوں کو مل لیتے۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 1269

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبتک اس میں کوئی شرک نہ ہو ۔ صحیح مسلم : ۲۲۰

حالانکہ یہ بھی ہاتھوں سے دم کرنا ہے نہ کہ کسی پینے والی چیز پر دم کرنا لہذا پانی پر دم کرنے کی دلیل نہیں ہے

الغرض پانی پر دم کرنا حدیث سے  ثابت نہیں لہذا ایک بدعت ہے جو نصاری کے ہاں رائج ہے جس کو ہولی واٹر کہا جاتا ہے-  سن ٤٠٠ ب م میں اس کی نصرانی کتب میں حوالہ ملتا ہے

http://en.wikipedia.org/wiki/Holy_water

گویا یہ عمل نصاری کے ہاں نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے سے معروف و مشھور چلا آ رہا ہے

عجب تماشہ ہے کہ دیوبندی اور بریلوی پانی پر دم کرنے کی اجرت لیتے ہیں اور اہل حدیث اس کو رد کرتے ہیں لیکن یہ تضاد ہے کیونکہ دینی امور پر اجرت کی دلیل ایک دم والے واقعہ سے ہی لی جاتی ہے

امام بخاری الصحيح  میں ابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الغَنَمِ روایت کرتے ہیں کہ

ابن عباس اور ابو سعید الخدری رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی الله علیہ وسلم کے کچھ اصحاب سفر میں تھے – دوران سفر انہوں نے اک قبیلے کے پاس پڑاؤ کیا – صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے ان کو مہمان تسلیم کریں  لیکن قبیلہ والوں نے صاف انکار کر دیا – ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا

قبیلہ والوں نے اصحاب رسول سے  ہی علاج کے لئے مدد طلب کی جس پر ایک صحابی نے سوره الفاتحہ  پڑھ کر سردار کو دم کیا اور وہ اچھا بھی ہو گیا – انہوں نے تیس بکریاں بھی لے لیں – صحابہ نے اس پر کراہت کا اظہا ر کیا اور مدینہ پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے قصہ سننے کے بعد کہا  

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

جواب

النووی  ’’ المجموع شرح المہذب ‘‘ میں لکھتے ہیں
 وروى البيهقي بإسناد صحيح عن سعيد بن المسيب أنه كان يأمر بتعليق القرآن وقال لا بأس به قال البيهقي هذا كله راجع إلى ما قلنا إنه إن رقى بما لا يعرف أو على ما كانت عليه الجاهلية من إضافة العافية إلى الرقى لم يجز وإن رقى بكتاب الله أو بما يعرف من ذكر الله تعالى متبركا به وهو يرى نزول الشفاء من الله تعالى فلا بأس به‘‘۔

اور بیہقی نے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے سعيد بن المسيب سے کہ وہ قرآن کو لٹکانے کا حکم کرتے تھے اور کہا اس میں کوئی برائی نہیں ہے بیہقی نے کہا یہ سب جاتا ہے اس بات پر جو ہم نے کی کہ جب دم کیا جائے اس سے جس کا پتا نہ ہو یا ان سے جن سے جاہلیت میں عافیت لی جاتی تھی تو وہ جائز نہیں ہے لیکن اگر دم کیا جائے کتاب الله سے اس ذکر الہی سے جس کو جانتے ہوں تو وہ متبرک ہے اور وہ اس میں شفا کا نزول دیکھتے ہیں، الله کی طرف سے، پس اس میں کوئی برائی نہیں

سنن الکبری البیہقی میں ہے

 أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَأَلَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ عَنِ الرُّقَى وَتَعْلِيقِ الْكُتُبِ، فَقَالَ: كَانَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ يَأْمُرُ بِتَعْلِيقِ الْقُرْآنِ وَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ. قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: وَهَذَا كُلُّهُ يَرْجِعُ إِلَى مَا قُلْنَا مِنْ أَنَّهُ إِنْ رَقَى بِمَا لَا يُعْرَفُ أَوْ عَلَى مَا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ إِضَافَةِ الْعَافِيَةِ إِلَى الرُّقَى لَمْ يَجُزْ , وَإِنْ رَقَى بِكِتَابِ اللهِ أَوْ بِمَا يَعْرِفُ مِنْ ذِكْرِ اللهِ مُتَبَرِّكًا بِهِ وَهُوَ يَرَى نُزُولَ الشِّفَاءِ مِنَ اللهِ تَعَالَى فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ

نافع بن یزید ( الكلاعي أبو يزيد المصري المتوفی ١٦٨ ھ یا کوئی مجھول)  نے یحیی بن سعید المتوفی ١٩٨ ھ  سے دم اور تعویذ پر سوال کیا انہوں نے کہا کہ سعید بن المسیب قرآن لٹکانے کا حکم کرتے تھے – یہ روایت ہی منقطع ہے کیونکہ یحیی بن سعید سے ابن مسیب تک کی سند نہیں ہے اس کے علاوہ نافع بن یزید خود یحیی سے کافی بڑے ہیں ان کا سوال کرنا بھی عجیب لگ رہا ہے

بیہقی نے جس روایت کو صحیح کہہ دیا ہے وہ اصل  میں مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ»

ابو بکر کہتے ہیں ہم سے عقبہ بن خالد نے روایت کیا انہوں سے شعبہ سے انہوں نے أَبِي عِصْمَةَ  سے کہا میں نے سعید بن المسیب سے تعویذ کے بارے میں پوچھا  پس کہا اگر چمڑے میں ہو تو کوئی برائی نہیں ہے

اس کی سند میں ابو عصمہ راوی ہیں  احمد العلل میں کہتے ہیں

 وقد روى شعبة، عن أبي عصمة، عن رجل، عن ابن المسيب، في التعويذ. «العلل» (1460) .

اور بے شک شعبہ نے ابی عصمہ سے انہوں کسی آدمی سے اس نے ابن مسیب سے تعویذ پر روایت کیا ہے

 ابو عصمہ عن رجل عن ابن المسیب سے تعویذ کی روایت کرتے ہیں

معلوم ہوا کہ اس روایت میں مجھول راوی ہے لہذا ابن مسیب سے منسوب یہ قول ثابت نہیں ہے

نوح بن أبي مريم، أبو عصمة المروزي، القرشي مولاهم ایک ضعیف راوی ہے جو مناکیر بیان کرنے کے لئے مشھور ہے

جواب

 كتاب الفروع  از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی  صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا  الخلال کہتے ہیں اور امام احمد  تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

إسحاق بن منصور بن بهرام أبو يعقوب الكوسج کی وفات ٢٥١ ھ میں ہوئی اور ان کے مطابق امام احمد قرانی تعویذ نہیں کرتے تھے

أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق المتوفی ٢٧٥ ھ  کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا

سوال ہے کہ اگر قرانی تعویذ نہیں تھا تمیمہ تھا تو کس نوعیت کا تھا؟

ایک اہل  حدیث عالم تمیمہ کی وضاحت کرتے ہیں

مشہور و معروف لغت دان مجد الدین فیرزآبادی القاموس المحیط میں لکھتے ہیں

والتمیم التام الخلق ، والشدید ، وجمع تمیمة کا لتمائم لخرزة رقطاء تنظم فی السیر ، ثم یعقد فی العنق

تمیمہ کا لفظ دھاری دار کرزہ ومنکہ جو چمڑے کی تندی میں پرولیا جاتا، پھر گردن میں باندھ دیا جاتا ہے پر بولا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس قسم کے خرزات و منکوں ، کوڈوں اور گھک منکوں کے لٹکانے کو شرک قرار دے رہے ہیں نہ کہ کاغذوں یا چمڑوں میں لکھے ہوئے کتاب و سنت کے کلمات لٹکانے کو۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

  امام احمد ہی کے  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی،  جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَةالتعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

امام احمد کا نقطہ نظر وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا گیا اور وہ تعویذ لکھنے لگے گھر والوں یا اہل بیت کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے

جواب

ایک وقت تھا جب اس امّت کا چار دانگ عالم میں رعب تھا – ایمان کا نور تھا – علماء نفس پرست اور شکم پرور نہ تھے – اگر کسی کا خوف تھا تو وہ صرف الہ واحد کا تھا – کسی بھی نقصان اور تکلیف کو با ذن الله سمجھا جاتا تھا – آج جو اس امت کا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے – ایک مشکل اور پریشان حال کیفیت ہے – اغیار تو اغیار خود ہم مذہب بھی مارتے ہیں – الغرض ہر طرف ایک بے کلی و بے بسی کی سی کیفیت ہے-  سب سے افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ  ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ  یہ امّت قوم یونس کی طرح الله کی طرف پلٹی اور اس سے لو لگاتی ، اس امّت کے سواد ا عظم نے یہ مان لیا ہے کہ  مصیبت  میں الله کے بجاے دوسروں کو پکارا جائے الله کے علاوہ غیر الله کی خوشنودی حاصل کی جائے اور الله  کے کلام اور اسما الحسنیٰ  کو گلے میں لٹکایا جائے – الله کے کلام کو پانی پر پھونکا جائے – امّت کے ان عجیب و غریب  اعمال کی اصلاح کی ذمہ داری علماء کی تھی – شومئی  قسمت  علماء نے تو خود اس گمراہی کو بڑوھتی  دی ہے اور اس امّت کی قد آور شخصیات نے نہ صرف تعویذ سے متعلق عقائد کو محراب و منبر سے بیان کیا ہے بلکہ اس کے جائز ہونے پر فتوے اور کتابیں لکھیں ہیں-

تعویذ

تعویذ کا مطلب ہے جس کے ذریعے پناہ لی جائے – عرف عام میں اس سے مراد ہوتا ہے کہ قرآنی یا غیر قرآنی آیات پر مشتمل ورق کو چمڑے میں سی کر گلے یا جسم کے کسی اور جز میں باندھا جائے -تعویذ کسی صورت جسم سے علیحدہ نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ اسی حالت میں بیت الخلا ء بھی جاتے ہیں – نا پاکی کی حالت میں بھی یہ جسم پر لٹکا ہوتا ہے

گنڈا 

دھاگے پر کلمات پڑھنے کے بعد جسم سے باندھا جاتا ہے – یہ طریقہ ہندووں کے ہاں مروج ہے اور بر صغیر میں معروف ہے

حالانکہ سوره الفلق میں گرہ لگا کر پھونکنے والیوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے

تولہ

محبت کا تعویذ جو سحر کی ایک قسم ہے

واضح رہے کہ الله کے نبی کا واضح حکم ہے کہ

إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ  سنن ابی داود

بے شک منتر اور  تعویذ اور توله شرک ہیں

ابن قتیبہ کہتے ہیں  کہ محدث   أبي عبيد جنہوں نے احادیث کے مشکل الفاظ پر کتاب لکھی ہے ان کے مطابق  حدیث کے لفظ  التَّمَائِمَ سے مراد  تعویذ ہے جو گلے میں لٹکایا جائے

قال أبو محمد ابن قتيبة في إصلاح الغلط ص 54: وهذا يدل أن التمائم عند أبي عبيد المعاذات التي يكتب فيها وتعلق

یہی نقطۂ نظر عربی زبان کے معروف محقق الخليل الفراهيدي  کا ہے جو اپنی کتاب کتاب العین میں لکھتے ہیں

التميمة: قلادة من سيور، وربما جعلت العوذة التي تعلق في أعناق الصبيان

التميمة: کانٹوں کا قلادہ ، اورہو سکتا ہے کہ بنایا جائے ایک بچانے والی شے جس کو بچوں کے گلے میں لٹکایا جائے

عصر حاضر کے اک محقق ناصر الدین  البانی اپنی تالیف الصحیحہ میں تبصرہ کرتے ہیں کہ

التمائم : جمع تميمة واصلها خرزات تعلقها العرب على رأس الولد لدفع العين ثم توسعوا فيها فسموا بها كل عوذة . ومن ذلك تعليق نعل الفرس أو الخرز الأزرق وغيره . والأرجح أنه يدخل في المنع أيضا الحجب إذا كانت من القرآن أو الأدعية الثابت

التمائم : تميمة کی جمع ہے اور اصلاً گھونگھے ہیں جو عرب اپنے اولاد کے سروں پر دفع نظر بد کے لیے لٹکاتے تھے پھر اس میں وسعت ہوئی اور یہ نام ہوا ہر اس چیز کا جس کے ذریعے پناہ لی جائے – اور اس میں شامل ہے گھوڑے کی نعل اور نیلے گھونگھے اور راجح ہے کہ منع میں شامل ہے حفاظت چاہے قرآن سے ہو یا ثابت دعاؤں سے

معلوم ہوا کہ قدیم محدثین اور موجودہ محققین سب اس پر متفق ہیں کہ تعویذ سے مراد قرآنی تعویذ بھی ہیں – ان واضح نصوص کے باوجود کچھ حضرات کا اصرار ہے کہ تميمة  کے مفہوم  کو صرف گھونگوں اور کانٹوں تک ہی محدود کر دیا جائے -حالانکہ ان کے پاس اس محدودیت کی نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی برہان – حقیقت میں یہ مطالبہ محبوب شخصیا ت کے دفاع کے لیے کیا جاتا ہے-

امام احمد بن حنبل امّت کی مشہور شخصیت ہیں – معتزلہ کی فلسفیا نہ  موشگافیوں کے خلاف تقریباً تمام محدثین تھے لیکن ساکن بغداد ہونے کی وجہ سے عباسی خلفاء کی خاص توجہ ان پر مذکور رہی – امام احمد اپنے موقف پر ڈٹے رہے – اس بنا پر اپنے زمانے میں بہت  مشہور ہوۓ اور  پھر  اسی شہرت کے  سحر کے زیر اثر امام بخاری کو بد عقیده تک قرار دیا-

امّت کو امام احمد کی شحصیت پرستی سے نکلنے  کے لئے امام بخاری نے کتاب  خلق أفعال العباد لکھی جس   میں     نہ  صرف  معتزلہ  بلکہ  امام  احمد  کے  موقف  سے  ہٹ  کر  وضاحت  کی گئی

امام بخاری نے امام احمد کا نام   صرف  چار مقام پر صحیح بخاری میں لکھا اور وہ بھی امام احمد کی  سطحی  علمیت کو ظاہر کرنے کے لئے – گھر کے بھیدی امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة  میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق

میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں

یہاں شخص سے مراد امام بخاری میں کیونکہ یہ ان ہی کا موقف تھا کا الفاظ قرآن مخلوق ہیں لیکن قرآن الله کا کلام غیر مخلوق ہے

    امام احمد نے خلق القرآن کے اپنے موقف میں وسعت پیدا کی اور بات یہاں تک پہنچی  کہ قرآن کی آیات کودھو دھو کر پیا جائے اور با وجود یہ کہ یہ ایک بدعت تھی انہوں نے ہی اس شجر کی آبیاری کی-  امام احمد ہی کے  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی،  جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَةالتعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

امام احمد کا دفاع کرنے والوں نے ایک عجیب و غریب موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ امام احمد تعویذ نہیں  بتا سکتے ہیں کیونکہ  اپنی مسند احمد میں وہ خود تعویذ کے رد میں روایات بیان کرتے ہیں – شخصیت پرستی بھی بری شے ہے جو عقل سلب کر لیتی ہے . امام احمد نے مسند کو ہر طرح کے رطب و یابس سے بھر دیا ہے-  ان کا سارا زور ایک ضخیم مسند لکھنے پر ہی رہا  ہے جس میں ہر طرح کی روایات ہیں – دیکھا یہ جاتا ہے کہ آیا محدث نے اس پر عقیدہ بنایا ہے یا نہیں

ابی داوود مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني میں کہتے ہیں کہ میں نے

رَأَيْتُ عَلَى ابْنٍ لِأَحْمَدَ، وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أَدِيم

میں نے احمد کے بیٹے جبکہ وہ چھوٹے تھے ایک    چمڑے کا  تَمِيمَةً  (تعویذ ) گلے میں دیکھا

كتاب الفروع ومعه تصحيح الفروع لعلاء الدين علي بن سليمان المرداوي میں صاحب کتاب بتاتے ہیں کہ
وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ

میمونی کہتے ہیں کہ میں نے سنا جس نے احمد سے تعویذ کے بارے میں سوال کیا   آفت نازل ہونے کے بعد

پس انہوں نے کہا : امید ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں

قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ
الخلال کہتے ہیں: احمد بخار کے لئے تعویذ  لکھتے تھے آفت آنے کے بعد،        اور کراہت کرتے تھے  آفت آنے سے پہلے  تعویذ     لٹکانے پر

بیہقی سنن الکبریٰ میں عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:

لَيْسَتْ التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ قَبْلَ الْبَلَاءِ إنَّمَا التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ بَعْدَ الْبَلَاءِ لِتَدْفَعَ بِهِ الْمَقَادِيرَ

تعویذ نہیں جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت کے بعد دفع کے لئے لٹکایا جائے

اس کے برعکس حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں

وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «لَيْسَتِ التَّمِيمَةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ بَعْدَ الْبَلَاءِ، إِنَّمَا التَّمِيمةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ قَبْلَ الْبَلَاءِ

عائشہ رضی الله روایت کرتی ہیں کہ تعویذ نہیں جو آفت کے بعد  لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت سے پہلے  لٹکایا جائے

اس روایت کی صحت کی بحث سے قطع نظر جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ امام احمد کا عمل   کسی بھی طرح  درست نہیں   تھا-  امام احمد کی دیکھا دیکھی    

امام ابن تیمیہ نے فتویٰ دیا کہ تعویذ جائز ہے  فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ١٩ ص ٦٤ -٦٥

عبد القادر جیلانی نے غنیہ الطالبین میں امام احمد کے حوالے سے بخار کا تعویذ لکھا

شاہ ولی الله نے قول الجمیل میں میں اصحاب کہف کے  ناموں پر مبنی تعویذ پیش کیا

امّت کی ان جیسی  قد آور شخصیات نے جب تعویذ لکھے تو پھر کوئی اور کیوں نہ لکھے؟ – لہذا اہل حدیث حضرت نے  بھی اس گمراہی کو  پھیلانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا –    سوال یہ ہے کہ کس صحابی نے گلے میں تعویذ  لٹکاے ؟ کس نبی نے تعویذ پہنا ؟    اور جس نبی پر قرآن نازل ہوا کیا اس کے دانت شہید نہ ہوۓ ؟

واضح رہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دم کرنے کی اجازت دی تھی کیونکہ دم دعا کے مترادف ہے  لہذا وہ دم جن میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں ان کی اجازت دی گئی ہے-    اس کے برعکس تعویذ ایک شے ہے جو لٹکائی جاتی ہے-   تعویذ اگر اسی ہی کارگر شے ہوتا تو الله کے نبی نے بتایا بھی ہوتا  جبکہ  اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم سے قولی حدیث میں اس کی ممانعت آ رہی ہے-

جواب

اس روایت میں دو صحابیوں کا ذکر ہے عامر بن ربیعہ اور سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ  رضی الله عنہم کا

قصہ  کے دو ورژن ہیں

عامر بن ربیعہ کے خاندان کا ورژن

مسند ابو یعلی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ هِنْدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَسَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ نَلْتَمِسُ الْخَمْرَ، فَوَجَدْنَا خَمْرًا وَغَدِيرًا، وَكَانَ أَحَدُنَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَغْتَسِلَ وَأَحَدٌ يَرَاهُ [ص:153]، فَاسْتَتَرَ مِنِّي، فَنَزَعَ جُبَّةً عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَاءَ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ , فَأَصَبْتُهُ مِنْهَا بِعَيْنٍ، فَدَعَوْتُهُ، فَلَمْ يُجِبْنِي، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ فَضَرَبَ صَدْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَذْهِبْ حَرَّهَا وَبَرْدَهَا، وَوَصَبَهَا»، ثُمَّ قَالَ: «قُمْ»، فَقَامَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ نَفْسِهِ أَوْ مَالِهِ أَوْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ بِالْبَرَكَةِ، فَإِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ»

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ هِنْدِ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: انْطَلَقَ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ وَسَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ يُرِيدَانِ الْغُسْلَ، قَالَ: فَانْطَلَقَا يَلْتَمِسَانِ الْخَمَرَ، قَالَ: فَوَضَعَ عَامِرٌ جُبَّةً كَانَتْ عَلَيْهِ مِنْ [ص:466] صُوفٍ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، فَأَصَبْتُهُ بِعَيْنِي، فَنَزَلَ الْمَاءَ يَغْتَسِلُ، قَالَ: فَسَمِعْتُ لَهُ فِي الْمَاءِ فَرْقَعَةً فَأَتَيْتُهُ، فَنَادَيْتُهُ ثَلَاثًا فَلَمْ يُجِبْنِي، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ: فَجَاءَ يَمْشِي فَخَاضَ الْمَاءَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ سَاقَيْهِ، قَالَ: فَضَرَبَ صَدْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ حَرَّهَا، وَبَرْدَهَا، وَوَصَبَهَا» قَالَ: فَقَامَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِيهِ، أَوْ مِنْ نَفْسِهِ، أَوْ مِنْ مَالِهِ مَا يُعْجِبُهُ، فَلْيُبَرِّكْهُ فَإِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ

اس میں دھون کا ذکر نہیں ہے صرف دعا کا ذکر ہے

سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ کے خاندان کا ورژن

یہ موطآ  تحقیق محمد مصطفى الأعظمي میں ہے

مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ؛ [ق: 170 – ب] أَنَّهُ قَالَ: رَأَى عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ، سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ يَغْتَسِلُ. فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ وَلاَ جِلْدَ مُخَبَّأَةٍ. فَلُبِطَ بِسَهْلٍ. [ص: 58 – ب] فَأُتِيَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ. هَلْ لَكَ فِي سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ؟ وَاللهِ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ. فَقَالَ: «هَلْ تَتَّهِمُونَ بِهِ (1) أَحَداً؟» قَالُوا: نَتَّهِمُ عَامِرَ بْنَ رَبِيعَةَ. قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللهِ (2) صلى الله عليه وسلم عَامِراً، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ. وَقَالَ: «عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ أَلاَّ بَرَّكْتَ. اغْتَسِلْ لَهُ». فَغَسَلَ عَامِرٌ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ (3)، وَمِرْفَقَيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ، وَأَطْرَافَ رِجْلَيْهِ، وَدَاخِلَةَ إِزَارِهِ، فِي قَدَحٍ. ثُمَّ صُبَّ عَلَيْهِ. فَرَاحَ سَهْلٌ مَعَ النَّاسِ، لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.

موطآ میں دھون کا ذکر  ابو مصعب الزہری کی سند سے  ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ بن أنس، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ أبا أمامة، يَقُولُ: اغْتَسَلَ أَبِي، سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، بِالْخَرَّارِ فَنَزَعَ جُبَّةً كَانَتْ عَلَيْهِ، وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ يَنْظُرُ، قَالَ: وَكَانَ سَهْلٌ رَجُلًا أَبْيَضَ حَسَنَ الْجِلْدِ، قَالَ: فَقَالَ عَامِرُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ وَلاَ جِلْدَ عَذْرَاءَ، فَوُعِكَ سَهْلٌ مَكَانَهُ، وَاشْتَدَّ وَعْكُهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم فَأُخْبِرَ أَنَّ سَهْلًا وُعِكَ، وَأَنَّهُ غَيْرُ رَائِحٍ مَعَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم فَأَخْبَرَهُ سَهْلٌ بِالَّذِي كَانَ مِنْ شأن عَامِرٍ بن ربيعة، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم: عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ أَلَّا بَرَّكْتَ إِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ، تَوَضَّأْ لَهُ، فَتَوَضَّأَ لَهُ، فَرَاحَ سَهْلٌ بن حنيف مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.

طحاوی نے مشکل الآثار میں دونوں ورژن ملا کر دو الگ واقعات کہا ہے اور دھون کو منسوخ عمل کہا ہے

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَفِي هَذَا الْحَدِيثِ اكْتَفَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَهْلٍ بِالدُّعَاءِ وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ أَمْرُهُ عَامِرًا بِالِاغْتِسَالِ لَهُ , وَقَدْ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ جَمَعَهُمَا لَهُ جَمِيعًا , وَقَدْ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ كَانَ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَدْرَكَ سَهْلًا فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِنْ عَامِرٍ مَا أَدْرَكَهُ مِنْهُ , فَفَعَلَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مَا فَعَلَ فِيهَا مِنْ دُعَاءٍ , وَمِنْ أَمْرٍ بِاغْتِسَالٍ , وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ الِاغْتِسَالُ كَانَ , ثُمَّ نُسِخَ بِغَيْرِهِ

اغلبا یہ عمل منسوخ ہے و الله اعلم

غلو | وسیلہ | عرض اعمال

[کیا  کہنا صحیح الله ، اس کا رسول جو چاہیں یا الله چاہے پھر اس کا رسول چاہے ؟]

جواب

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم مَا شَائَ االله وَشِئْتَ فَقَالَ لَه النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم أَجَعَلْتَنِي وَالله عَدْلًا بَلْ مَا شَائَ الله وَحْدَحه
احمد بن حنبل، المسند، 1: 214، رقم: 1839، موسسۃ قرطبۃ، مصر
ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا جو اﷲ چاہے اور آپ چاہیں ۔ نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کیا تو مجھے اور اﷲ کو برابر کر رہا ہے ؟ یوں کہو جو اکیلے اﷲ نے چاہا۔
یہ صحيح لغيره روایت ہے یعنی مسند احمد کی سند ضعیف ہے لیکن متن دیگر صحیح سند سے معلوم ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا حَلَفَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَقُلْ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ شِئْتَ
ابن ماجه، السنن، 1: 684، رقم: 2117، دار الفکر بیروت
عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی قسم کھائے تو یوں نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں بلکہ یوں کہے جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں۔
سند ضعیف ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ قُتَيْلَةَ بِنْتِ صَيْفِيٍّ الْجُهَنِيَّةِ قَالَتْ: أَتَى حَبْرٌ مِنَ الْأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تُشْرِكُونَ، قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَا ذَاكَ؟»، قَالَ: تَقُولُونَ إِذَا حَلَفْتُمْ وَالْكَعْبَةِ، قَالَتْ: فَأَمْهَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّهُ قَدْ قَالَ: فَمَنْ حَلَفَ فَلْيَحْلِفْ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ “، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَجْعَلُونَ لِلَّهِ نِدًّا، قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَا ذَاكَ؟»، قَالَ: تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، قَالَ: فَأَمْهَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ: «إِنَّهُ قَدْ قَالَ، فَمَنْ قَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ فَلْيَفْصِلْ بَيْنَهُمَا ثُمَّ شِئْتَ» (حم) 27093
قُتَیْلَہ بنت صیفی جُہینْہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ یہودیوں کا ایک بڑا عالم بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم تم بہت اچھے لوگ ہو اگر شرک نہ کرو۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اﷲ وہ کیا ہے؟ اس نے کہا تم لوگ قسم اٹھاتے وقت بولتے ہو ’کعبہ کی قسم‘ کھاتی ہیں: نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ وقت خاموش رہنے کے بعد فرمایا کہ اس یہودی نے یہ کہا ہے۔ لہذا جو (مسلمان) قسم اٹھائے ’رب کعبہ‘ کی اٹھائے پھر یہودی عالم بولا اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم تم بہت اچھے لوگ ہواگر اﷲ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ۔آپ نے فرمایا: سبحان اﷲ وہ کیا؟ کہنے لگا تم (مسلمان) کہتے ہو جو اﷲ چاہے
اور آپ چاہیں ۔اس پرنبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا کہ اس یہودی نے یہ کہا ہے ۔اب جو کہے ماشاء اﷲ دونوں میں فاصلہ رکھ کر کہے پھر آپ چاہیں۔

یہ روایت منقطع ہے جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں ہے
عبد الله بن يسار آخر قال عثمان بن سعيد سألت يحيى بن معين عن عبد الله بن يسار الذي يروي منصور عنه عن حذيفة لا تقولوا ما شاء الله ألقي حذيفة قال لا أعلمه قلت وروي أيضا عن علي رضي الله عنه فيكون أيضا مرسلا
عثمان نے امام ابن معین سے عبد الله بن يسار پر سوال کیا جو حذيفة سے روایت کرتا ہے لا تقولوا ما شاء الله – اس نے اس روایت کو حذيفة پر ڈالا ابن معین نے کہا نہیں جانتا اور اسنے اس کو علی سے بھی روایت کیا ہے تو یہ بھی مرسل ہے

ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَأَى فِي النَّوْمِ أَنَّهُ لَقِيَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلَا أَنَّكُمْ تُشْرِكُونَ، تَقُولُونَ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ مُحَمَّدٌ، وَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ” أَمَا وَاللَّهِ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْرِفُهَا لَكُمْ، قُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ شَاءَ مُحَمَّدٌ “، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ، أَخِي عَائِشَةَ لِأُمِّهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ
__________

لہذا خواب والی روایت صحیح ہے جو ابن ماجہ میں ہے
اور اس کی تائید صحیح مسلم کی روایت سے بھی ہوتی ہے

صحيح مسلم، كتاب الجمعة، باب تخيف الصلاة والخطبة : 870۔ نسائي، كتاب النكاح، باب ما يكره من الخطبة : 3281۔ ابوداؤد، كتاب الصلاة، باب الرجل يخطب على قوس : 1099۔ كتاب الادب : 4981۔ مسند احمد : 4/ 256۔ بيهقي : 1/ 86، 3/ 216۔ مستدرك حاكم : 1/ 289]

حَدَّثَنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّ رَجُلًا خَطَبَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا، فَقَدْ غَوَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ، قُلْ: وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ “. قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: فَقَدْ غَوِي

اس میں ہے کہ ایک ضمیر میں جمع کرنے سے منع کیا
——–
اس کی مخالف حدیث ابو داود میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سکھایا اس میں مذکور ہے :
حدَّثنا محمدُ بنُ بشارٍ، حدَّثنا أبو عاصم، حدَّثنا عِمران، عن قتادةَ، عن عبدِ ربه، عن أبي عياض
عن ابنِ مسعود: أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – كان إذا تشهدَ، ذكر نحوه، قال بعد قوله: “ورسوله”: “أرسله بالحق بشيراً ونذيراً بين يدي الساعة، من يطع الله ورسوله فقد رَشَدَ، ومن يعصهما فإنه لا يَضُرُّ إلا نفسَه، ولا يَضُرُّ الله شيئاً

اس کی سند میں أبي عياض مجھول ہے – البانی نے اس کو ضعیف کہا ہے

[/EXPAND]

[کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ انبیاء و فرشتے نبی صلی الله علیہ وسلم کے غلام ہیں ؟]

جواب

جواب
سوره ال عمران میں ہے
وإذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به ولتنصرنه قال أأقررتم وأخذتم على ذلكم إصري قالوا أقررنا قال فاشهدوا وأنا معكم من الشاهدين ( 81 ) فمن تولى بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون
انبیاء کو ایک دوسرے کا مدد گار کہا گیا ہے غلام تو یہ صرف الله کے ہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم کی جب جنت میں انبیاء سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور عبد صالح کہا مالک یا آقا نہیں کہا

 فرشتے بھی الله کے غلام ہیں – رسول الله صلی الله علیہ وسلم بہت سے موقعوں پر فرشتوں کو پہچان نہ سکے یہاں تک کہ ان کو خبر دی گئی کہ یہ فرشتے ہیں
مثلا
خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو دو شخص آ کر  لے گئے ان کو بہشت میں ان کا مقام دکھایا گیا
آخر میں بتایا گیا کہ یہ جبریل اور یہ میکایل ہیں

غلام کے لئے جائز نہیں کہ آقا کو اپنے اپ کو ظاہر نہ کرے

ظاہر ہے یہ سب بحکم الہی ہوا جس کے سب غلام ہیں

[/EXPAND]

[یا رسول الله اور یا علی کہنا کیا شرک ہے ؟ اس کے کیا دلائل ہیں کہ یہ پکار کی جا سکتی ہے ؟]

جواب

مختصرا انبیاء و اولیاء کی وفات ہو چکی ہے وہ دار فانی سے جا چکے ہیں ان کو ان کی زندگی میں قریب سے بطور خطاب و کلام پکارا گیا انہوں نے جواب دیا – دور سے کوئی پکارے تو یہ نہیں سن سکتے تھے مثلا کوئی مکہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پکارتا ہے تو اس کی خبر مدینہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نہیں تھی – بالکل ایک بشر کی طرح وہ ان اخبار سے بے خبر تھے الا یہ کہ الله خود خبر دے
——–

جو لوگ رسول الله کو پکارتے ہیں ان کے نزدیک وہ سن سکتے ہیں اور مدد کرتے ہیں یہ مقام صرف الله کا ہے وہی سنتا و جانتا ہے – اور کسی حدیث و آیات میں نہیں کہ رسول الله کو ایسا کوئی اختیار دیا گیا تھا
بعض کہتے ہیں مثلا شیعہ کہ یہ ان کے علماء کے نزدیک وسیلہ ہے
بعض کہتے ہیں کہ درود پہنچتا ہے اور جو درود نبی نے سکھایا اس میں خطاب کا صغیہ ہے
بعض بے سند روایات اور صوفیوں کے قصے بھی ہیں

بریلوی دلیل
نبی اکرم صلی اللہ اپنے چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عزوہ احد میں شہادت پر اس قدر روئے کہ انہیں ساری زندگی اتنی شدت سے روتے نہیں دیکھا گیا۔ پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے :
يا حمزة يا عم رسول الله اسد الله واسد رسوله يا حمزة يا فاعل الخيرات! يا حمزة ياکاشف الکربات يا ذاب عن وجه رسول الله.
(المواهب اللدينه، 1 : 212)
نبی علیہ الصلوۃ والسلام اپنے وفات شدہ چچا سے فرما رہے ہیں یا کاشف الکربات (اے تکالیف کو دور کرنے والے)۔

راقم کہتا ہے اس کی سند کہیں نہیں ملی لہذا دلیل نہیں لی جا سکتی

شیعہ کی دلیل
http://www.erfan.ir/urdu/67540.html
شیخ عباس قمی المعروف “محدث قمی” رحمة اللہ علیہ نے اپنی مشہور زمانہ اور زندہ جاوید کتاب دعاء “مفاتیح الجنان” (جنت کی کنجیاں) میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت امام زمانہ ولی العصر بقیةاللہ الاعظم سلام اللہ علیہ و علی آبائہ الطیبین الطاہرین، نے ایک شخص کو اس دعا کی تعلیم دی جو اسیر تھا اور وہ اسیری سے رہا ہو گیا۔ یہ دعاء کفعمی کی کتاب بلدالامین سے نقل ہوئی ہے۔ شیعہ کے نزدیک یہ یا محمد (ص) اور یا علی (ع) کہنا بعنوان وسیلہ الی اللہ، جائز ہے۔
دعائے فَرَج:
الهی عظم البلاء و برح الخفاء وانکشف الغطاء و انقطع الرجاء وضاقت الارض و منعت السماء و انت المستعان و الیک المشتکی و علیک المعول فی الشدة و الرخا اللهم صل علی محمد و آل محمد اولی الامر الذین فرحت علینا طاعتهم و عرفتنا بذلک منزلتهم ففرج عنا بحقهم فرجا عاجلا فریبا کلمح البصر او هو اقرب یا محمد یا علی یا علی یا محمد اکفیانی فانکما کافیان و انصرانی فانکما ناصران یا مولانا یا صاحب الزمان الغوث الغوث ادرکنی ادرکنی الساعه الساعه الساعه العجل العجل العجل یا ارحم الراحمین بحق محمد و اله الطاهرین۔

راقم کہتا ہے اس کتاب میں لکھا ہے
قال الكفعمي في البلد الامين: هذا دعاء صاحِب الامر (عليه السلام) وقد علّمه سجيناً فأطلق سراحه
یہ صاحِب الامر کی دعا ہے جو انہوں نے جیل میں سکھائی
گیارہویں امام الحَسنِ العَسكرىِّ سے اس کو منسوب کیا گیا ہے
لیکن اس قول کی کوئی سند نہیں ہے جیل میں ظاہر ہے کسی سے ملاقات کیا ہوئی ہو گی؟

اسی طرح شیعوں میں ایک نظم ہے جس کو ناد علی کہا جاتا ہے اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ اس میں پکار کا حکم ہے

راقم کہتا ہے
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ یوم احد میں رسول الله نے فرمایا
قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَحَدَّثَنِي بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ ابْنَ أَبِي نَجِيحٍ قَالَ: نَادَى مُنَادٍ يَوْمَ أُحُدٍ:
لَا سَيْفَ إلَّا ذُو الْفَقَارِ، وَلَا فَتَى إلَّا عَلِيٌّ
کوئی تلوار نہیں سوائے ذو الفقار کے کوئی جوان نہیں سوائے علی کے
بحار الأنوار / جزء 20 / صفحة[ 73 ] از مجلسی میں ہے اس قول پر فرشتوں کو حیرت ہوئی کہ کس نے یہ کہا
بتایا گیا یہ جبریل کا قول ہے
فقد تعجبت الملائكة، أما علمت أن جبرئيل قال في ذلك اليوم وهو يعرج إلى السماء: لا
سيف إلا ذو الفقار، ولا فتى إلا علي.

وعن عكرمة، عن علي عليه السلام قال قال لي
النبي صلى الله عليه وآله يوم احد: أما تسمع مديحك في السماء ؟ إن ملكا اسمه رضوان
ينادي: لا سيف إلا ذو الفقار، ولا فتى إلا علي. قال: ويقال: إن النبي صلى الله عليه
وآله نودي في هذا اليوم: ناد عليا مظهر العجائب * تجده عونا لك في النوائب كل غم
وهم سينجلي * بولايتك يا علي يا علي يا علي
اور عکرمہ نے علی سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ و الہ نے احد کے دن کہا کیا تم نے آسمان میں اپنی تعریف سنی ؟ وہاں ایک فرشتہ رضوان ہے اس نے پکارا کوئی تلوار نہیں سوائے ذو الفقار کے کوئی جوان نہیں سوائے علی کے اور فرمایا اس نے کہا
ناد عليا مظهر العجائب *
تجده عونا لك في النوائب
كل غموهم سينجلي *
بولايتك يا علي يا علي يا علي
علی کو پکارو جو عجائبات کا مظہر ہے
تم اس کو مدد گار پاؤ گے اپنی مشکل میں
تمام غم اس سے حل ہوں گے
تمھاری ولایت سے اے علی علی علی

عکرمہ خارجی سوچ کا حامل تھا جو تقیہ کرتا تھا لیکن عکرمہ سے لے کر مجلسی تک سند نہیں ہے

الانتباہ فی سلاسل الاولیاء میں درج ہے کہ شاہ ولی اللہ خرقہ ابو طاہر کردی کے ہاتھ سے پہنا جس نے اُس عمل کی اجازت دی جو جواہر خمسہ میں ہیں

اسی جواہر خمسہ میں دعائے سیفی کی ترکیب میں لکھا ہے

ناد علی ہفت بار یا سہ بار یا یک بار بخواند وآں ایں است

ناد علیاً مظہر العجائب
تجدہ عونالک فی نوائب
کل ھم وغم سینجلی
بولایتک یا علی یاعلی یاعلی

https://www.islamimehfil.com/topic/23459-نادِ-علی-کرّم-اللّٰہ-وجھہ-کے-بارے-درست-معلومات-بمع-حوالہ-چاہئے/

بریلوی فرقہ کہتا ہے اس کو پڑھنا جائز ہے
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2918/نادِ-علی-کیا-ہے/

https://www.dawateislami.net/bookslibrary/1454/page/837
————-
یعنی بریلوی اور شیعہ دونوں نے بے سند اقوال سے اتنا بڑا شرک کرنے کی دلیل لے لی ہے جبکہ اسناد معلوم نہیں کون کس نے سنا کوئی خبر نہیں

نماز میں تشہد میں اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه پڑھا جاتا ہے اس کا مقصد بھی سنانا نہیں نہ یہ پکار ہے یہ تو دعا ہے
لیکن اس مفہوم کو صوفیوں نے بدلا غزالی نے لکھا
واحضر فی قلبک النبي صلي الله عليه وآله وسلم وشخصه الکريم، وقُلْ : سَلَامٌ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. وليصدق أملک في أنه يبلغه و يرد عليک ما هو أوفٰي منه.

’’(اے نمازی! پہلے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریم شخصیت اور ذاتِ مقدسہ کو اپنے دل میں حاضر کر پھر کہہ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. تیری امید اور آرزو اس معاملہ میں مبنی پر صدق و اخلاص ہونی چاہیے کہ تیرا سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہیں۔‘‘

غزالی، إحياء علوم الدين، 1 : 151

راقم کہتا ہے گویا درود نبی پر پیش ہوتا ہے اور روایات میں ہے دور والا پہنچا دیا جاتا ہے اس کو دلیل بناتے ہوئے یا نبی کی پکار کا جواز لیا گیا ہے جو اصل میں یا نبی سلام علیک تھا لیکن مختصر ہو کر یا نبی ہو گیا
یہ روایات ضعیف ہیں

ابن قیم نے کتاب الكلم الطيب میں ذکر کیا

في الرجل إذا خدرت
عن الهيثم بن حنش قال: كنا عند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، فخدرت رجله فقال له رجل: اذكر أحب الناس إليك، فقال: يا محمد، فكأنما نشط من عقال

الهيثم بن حنش نے کہا کہ ابن عمر کے پاس ایک شخص کی ٹانگ سن ہو گئی انہوں نے کہا اس شخص کو یاد کرو جو لوگوں میں سب سے محبوب ہو اس نے کہا اے محمد

ابن قیم نے کتاب الکلم الطیب میں اس روایت کا ان اذکار میں ذکر کیا ہے جو ایک مسلم کو کرنے چاہیے ہیں

اسی طرح کتاب  الوابل الصيب من الكلم الطيب میں اس روایت کا ذکر کیا

یہ تو علماء نے جواز کے فتوے دیے اس طرح نبی کو پکارا اور وسیلہ بنا لیا گیا جبکہ روایات ضعیف ہیں بے سند ہیں
قرآن کے خلاف ہیں

ایک اور دلیل
بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ اَخِيْهِ کَانَ اللّٰهُ فِی حَاجته وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةَ مِنْ کُرْب يوم الْقيامة.
’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا‘‘۔

کہا جاتا ہے یہ کیسسے ممکن ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم امتی کی مدد نہ کریں
قبر سے باہر انے کا نظریہ یہیں سے لیا گیا ہے کہ بزرگان دین و انبیاء قبروں سے باہر آ کر مدد کرتے ہیں
یہ دلیل قیاس پر ہے

جبکہ انبیاء تو زمین پر گر جاتے ہیں جیسے سلیمان علیہ السلام کا جسد گرا جنوں نے دیکھا وہ قبر سے باہر کھڑے نہیں رہ سکتے

قرآن میں صرف الله کو پکارنے کا حکم ہے اور اس کے ساتھ کسی کو پاور فل ماننا
لا حول و لا قوه الا باللہ
کا انکار ہے

[/EXPAND]

[حنبلی علماء کا غیر الله سے توسل لینا کیا ثابت ہے ؟]

جواب

تاریخ بغداد باب ما ذكر في مقابر بغداد المخصوصة بالعلماء والزهاد از خطیب بغدادی میں ہے ابو علی الخلال جن کا ذکر خطیب نے صاحب أَحْمَد بْن حنبل کے نام سے کیا ہے ان کے بارے میں بتایا کہ

أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو مُحَمَّد الْحَسَن بْن الحسين بْن مُحَمَّد بْن رامين الإستراباذي، قَالَ: أَخبرنا أَحْمَد بْن جعفر بْن حمدان القطيعي، قَالَ: سمعت الْحَسَن بْن إِبْرَاهِيمَ أبا عَلِيّ الخلال، يقول: ما همني أمر فقصدت قبر مُوسَى بْن جعفر، فتوسلت به إلا سهل الله تعالى لي ما أحب.

القطيعي، نے کہا میں نے ابو علی الخلال کو کہتے سنا جب کسی امر میں الجھ جاتا ہوں تو قبر موسی بن جعفر پر جاتا ہوں ان کا توسل لیتا ہوں

اس کی سند صحیح ہے

ذهبی کتا ب سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب
اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے

الذھبی، سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٣٤٣ پر اس با ت کی تا ئید کرتے ہیں

يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله، دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة

احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے

امام احمد صوفیوں کے مدح تھے اور ان کے شاگرد ابراہیم الحربی صوفی معروف الکرخی کی قبر کو تریاق المجرب کہتے تھے

[/EXPAND]

[وسیلہ لینے سے کیا مراد ہے ؟]

الله تعالی تو جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے

الله تعالی نبی پر درود بھیجتا ہے

جواب

وسیلہ کی بعض شکلیں جائز ہیں اور بعض شرک ہیں

صورت حال : اپ ایک مشکل میں ہیں کافی دن سے الله کو براہ راست پکار رہی ہیں لیکن مشکل حل نہیں ہوئی اب اپ وسیلہ کرنے کا سوچتی ہیں

قسم اول : اپ ایک زندہ بزرگ سے درخواست کرتی ہیں کہ اپ کے لئے دعا کرے یہ جائز ہے
قرآن میں ہے

قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
بنی یعقوب نے کہا اے ابا جان ہمارے گناہوں کی معافی کے لئے دعا کریں ہم خطا کار تھے – میں تمھارے لئے دعا کروں گا اپنے رب سے وہ بہت غفور و رحیم ہے

قسم دوم : اپ کی مشکل ابھی بھی حل نہیں ہوئی اب اپ ایک مردہ بزرگ کی قبر پر جا کر ان سے دعا کی درخواست کرتی ہیں
یہاں سے عقیدہ کا اضطراب شروع ہوتا ہے کیونکہ اپ ایک مردہ کو پکار رہی ہیں جبکہ اپ خود کہتی ہیں کہ الله جس کو چاہتا ہے سنواتا ہے تو اپ کو کیسے معلوم ہوا کہ الله اس مردہ کو سنوانا چاہ رہا ہے
پھر اگر اپ اس مردہ کو مردہ نہیں سمجھتیں تو اپ ایک زندہ مقبور سے کلام کر رہی ہیں تو اس آیت سے دلیل نہیں لے سکتیں کیونکہ آیت مردوں کے بارے میں ہے نہ کہ زندوں سے متعلق ہے
پھر آیت کا سیاق و سباق تو کفار سے متعلق ہے جبکہ اپ تو کسی فوت شدہ مسلم کی قبر پر گئی ہوں گی

قسم ثالث: اپ کی مشکل اب بھی حل نہیں ہوئی- اب اپ نہ تو کسی قبر تک جاتی ہیں نہ کسی زندہ بزرگ سے درخواست کرتی ہیں بلکہ الله پر زور زبردستی والے انداز میں نبی کا صدقے میں اہل بیت کے صدقے میں کے الفاظ استمعال کرتی ہیں تو یہ صریح شرک ہے کیونکہ الله صمد ہے اس پر کسی کا حق نہیں جس کو جتایا جا سکے یا اس کے فصلے کو بدلا جا سکے
خود نبی صلی الله علیہ وسلم کا بیٹا ان کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا
——-

الله صلی کرتا ہے یعنی سلامتی نازل کرتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ الله سے نبی کی جاہ و حشمت کا واسطہ دے کر مانگا جا سکتا ہے

[/EXPAND]

[ابن کثیر تفسیر میں کہتے ہیں مردہ رشتہ داروں پر زندہ رشتہ داروں کے اعمال پیش ہوتے ہیں کیا یہ بات صحیح حدیث میں ہے ؟]

جواب

سوره التوبہ کی آیت ١٠٥ ہے

وقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى الله عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلى عالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

یہ آیت غزوہ تبوک کے تناظر میں نازل ہوئی تھی .ایسے لوگ جو متساہل یا منافق تھے ان کو کہا جا رہا ہے کہ الله، اس کا رسول اور عام مومنین تمہارے اعمال کا مشاہدہ کریں گے کہ تم لوگ واقعی سنجیدہ ہو یا بہانے بناتے ہو اور جان لو کہ واپس الله عالم الغیب کی طرف ہی پلٹنا ہے

ان اعمال میں مسجد آنا، زکواة دینا وغیرہ شامل ہے جو مشاھدے میں آ سکیں. مقصد یہ ہے اب منافقین کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھی جائے گی پہلے جیسی چھوٹ ختم ہو گئی

شیعوں نے اس آیت کے مفھوم میں وسعت پیدا کی اور روایت بیان کر دی

عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں:“ میں نے حضرت امام رضا ﴿ع﴾ کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمائیے۔ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ کیا میں دعا نہیں کرتا ھوں؟ خدا کی قسم آپ کے اعمال ہر روز وشب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، لہذا ہر ناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں”۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ﴿ع﴾ کا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جب امام ﴿ع﴾ میرے تعجب کے بارے میں آگاہ ھوئے تو مجھ سے مخاطب ھوکر فر مایا:“ کیا آپ خداوند متعال کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، جہاں پر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:“ وقل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون” اور اس کے بعد فرمایا:“ خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابی طالب ﴿ع﴾ ہیں الکافی ج1، ص ‏219، ح‏  ٤

ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں  کہتے ہیں

قَدْ وَرَدَ: أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْيَاءِ تُعرَض عَلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَقْرِبَاءِ وَالْعَشَائِرِ فِي الْبَرْزَخِ

بے شک یہ آیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر البرزخ میں پیش ہوتے ہیں

خالصتا شیعوں کا عقیدہ لے کر اہل سنت میں پھیلایا گیا کیونکہ آیت  کا یہ مفھوم  شیعہ کی معتمد علیہ کتاب الکافی سے لیا گیا ہے

ابن کثیر شاید وہ پہلے مفسر ہیں جنہوں نے سوره توبہ کی آیت سے یہ اسخراج کیا ہے کہ رشتہ داروں پر اعمال پیش ہوتے ہیں ان سے پہلے یہ تفسیر کرنے کی، سوائے شیعہ حضرات کے ، کسی کی ہمت نہ ہوئی

 ابن کثیر تفسیر ج ٣ ص ٤٤٠ میں یہ بھی  لکھتے ہیں

اس باب میں صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) سے بہت سے آثار و روایات مروی ہیں- حضرت عبداللہ ابن رواحۃ کے انصاری رشتہ داروں میں سے ایک فرمایا کرتے تھے :اللّٰہم انی اعوذ بک من عمل اخزیٰ بہ عند عبداللّٰہ بن رواحۃ،اے اللہ میں ایسے عمل سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس سے عبداللہ بن رواحہ کی نگاہ میں میری رسوائی ہو

ابن تیمیہ فتوی میں لکھتے ہیں

ولما کانت اعمال الاحیاء تعرض علی الموتٰی کان ابوالدرداء یقول اللّٰہم انی اعوذ بک ان اعمل عملاً اخزیٰ بہٖ عند عبداللّٰہ ابن رواحۃ-(مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ٢٤ ، ص ٣١٨)

چونکہ زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کیے جاتے ہیں اس لیے ابو درداء  فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے عمل سے جس سے عبداللہ ابن رواحۃ کی نظر میں میری رسوائی ہو

 ابن حجر عسقلانی  فتح الباری (ج ۸، ص١٤٩ ) میں لکھتے ہیں

قَالَ الْخَطَّابِيُّ زَعَمَ بَعْضُ مَنْ لَا يُعَدُّ فِي أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَا كَرْبَ عَلَى أَبِيكِ بَعْدَ الْيَوْمِ أَنَّ كَرْبَهُ كَانَ شَفَقَةً عَلَى أُمَّتِهِ لِمَا عَلِمَ مِنْ وُقُوعِ الْفِتَنِ وَالِاخْتِلَافِ وَهَذَا لَيْسَ بِشَيْءٍ لِأَنَّهُ كَانَ يَلْزَمُ أَنْ تَنْقَطِعَ شَفَقَتُهُ عَلَى أُمَّتِهِ بِمَوْتِهِ وَالْوَاقِعُ أَنَّهَا بَاقِيَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لِأَنَّهُ مَبْعُوثٌ إِلَى مَنْ جَاءَ بَعْدَهُ وَأَعْمَالُهُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِ

خطابی نے کہا  کہ نبی علیہ السلام نے فاطمہ سے وفات سے کچھ پہلے کھا تھا کہ لا کرب علی ابیک بعد الیوم (یعنی اے فاطمہ تمہارے والد کو آج کے دن کے بعد اب کوئی تکلیف نہیں ہوگی) بعض وہ لوگ جن کا شمار اہل علم میں نہیں ہوتا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہنبی صلی الله علیہ وسلم  کو علم دیا گیا تھا کہ ان کے بعد ان کی امت میں فتنے اور اختلافات پیدا ہوں گے، امت پر شفقت و محبت کی وجہ سے آپ کو اس کی فکر رہتی تھی، یہ فکر آپ کی تکلیف کا باعث تھی اب چونکہ آپ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں لہٰذا آپ کی یہ فکر بھی دور ہو رہی ہے، اس حدیث میں تکلیف سے یہی مراد ہے، حالانکہ یہ بالکل بے سروپا  بات ہے، اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ امت پر نبی کی شفقت و محبت آپ کی وفات کے ساتھ ہی منقطع اور ختم ہو جائے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی امت پر آپ کی شفقت و محبت قیامت تک باقی ہے، کیونکہ آپ ان لوگوں کے لیے بھی مبعوث کیے گئے ہیں جو آپ کے بعد آئیں گے اور ان کے اعمال آپ پر پیش کیے جائیں گے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے جب اس باطل عقیدے پر چوٹ کی تو وَانْصُرُوا (مدد کرو) کی  پکار اس طرح بلند ہوئی

خواجہ محمد قاسم کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں

qasim-ibnkaseer

قارئین آپ بھی ہماری طرح متحر ہونگے کہ روایت کی سندی حثیت کی تحقیق کی بجائے یہ کیا کیفیت ہے کہ ضعیف روایت کو مانا جائے گا  ورنہ صحابہ پر فتوی لگنا چاہیے. قاسم صاحب کی اس عبارت سے علم حدیث، جرح و تعدیل کی تمام کتب آتش بغض میں بھسم ہو گئیں

یہ روایت المنامات  از ابن أبي الدنيا سے لی گئی ہے. ابن أبي الدنيا کی کتب ، احادیث کے ذخیرہ کی کمزور ترین روایات کا مجموعہ ہے. اس کی سند ہے

حدثنا أبو بكر ، ثني محمد بن الحسين ، ثنا علي بن الحسن بن شقيق ، ثنا عبد الله بن المبارك ، عن صفوان بن عمرو ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، أن أبا الدرداء ، كان يقول : « إن أعمالكم تعرض على موتاكم فيسرون ويساءون » وكان أبو الدرداء ، يقول عند ذلك : « اللهم إني أعوذ بك أن أعمل عملا يخزى به عبد الله بن رواحة

الذهبی کتاب العبر في خبر من غبر میں لکھتے ہیں

 عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة

عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي ہیں اپنے باپ سے بہت سی روایات کی ہیں اور میں نہیں جانتا ان کی صحابہ سے کوئی روایت اور انہوں نے صحابہ کو دیکھا ہے

ابن ماكولا کتاب الإكمال میں لکھتے ہیں

جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير.

جبير بن نفير قدیم تابعين میں سے ہیں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن جبير بن نفير ہیں

معلوم ہوا کہ یہ روایت متصل نہیں. عبد الرحمن بن جبير بن نفير کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کے باپ خود تابعی ہیں

دوسری روایت

حاکم نے مستدرک میں (ج ۴/ص : ۳۴۲ ) روایت بیان کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقَارِئُ، قَالَا: ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، ثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أُدَىٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا يَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا، فَاللَّهَ  فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا …. لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں

الذهبی کہتے ہیں فيه مجهولان  اس میں مجھول راوی ہیں

تیسری روایت 

طبرانی معجم کبیرج ٤ ص  ۱۲۹اور معجم اوسط ج ١، ص  ٥٤ روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ الرَّبِيعِ بْنِ طَارِقٍ، ثنا مَسْلَمَةُ بْنُ عُلَيٍّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَلَامَةَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيَّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنِ إِذَا قُبِضَتْ تَلَقَّاهَا مِنْ أَهْلِ الرَّحْمَةِ مِنْ عَبَادِ اللهِ كَمَا تَلْقَوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَيَقُولُونَ: انْظُرُوا صَاحِبَكُمْ يَسْتَرِيحُ، فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ فِي كَرْبٍ شَدِيدٍ، ثُمَّ يَسْأَلُونَهُ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟، وَمَا فَعَلَتْ فُلَانَةُ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ؟ فَإِذَا سَأَلُوهُ عَنِ الرَّجُلِ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ، فَيَقُولُ: أَيْهَاتَ قَدْ مَاتَ ذَاكَ قَبْلِي، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، ذُهِبَتْ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ فَبِئْسَتِ الْأُمُّ وَبِئْسَتِ الْمُرَبِّيَةُ ” قَالَ: ” وَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا، وَقَالُوا: اللهُمَّ هَذَا فَضْلُكَ وَرَحْمَتُكَ فَأَتْمِمْ نِعْمَتَكَ عَلَيْهِ، وَأَمِتْهُ عَلَيْهَا وَيُعْرَضُ عَلَيْهِمْ عَمَلُ الْمُسِيءِ، فَيَقُولُونَ: اللهُمَّ أَلْهِمْهُ عَمَلًا صَالِحًا تَرْضَى بِهِ عَنْهُ وتُقَرِّبُهُ إِلَيْكَ “.

روایت کے الفاظ ہیں

وان اعمالکم تعرض علی اقاربکم وعشائرکم فان کان خیراً فرحوا واستبشروا وقالوا اللّٰھم ھٰذا فضلک ورحمتک فأتمم نعمتک علیہ ویعرض علیہم عمل المسئی فیقولون اللّٰہم الہمہ عملا صالحاً ترضٰی بہٖ عنہ و تقربہ الیک

ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

 تمہارے اعمال تمہارے  عزیز و اقارب پر پیش کیےجاتے ہیں، اگر وہ اعمال اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ تیرا فضل و رحمت ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کا اتمام فرما دے اور جب ان پر برے عمل پیش کیے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما جس سے تو اس سے راضی ہو جائے اور تیری قربت حاصل ہو

 الہیثمی مجمع الزوائد میں اس روایت پر کہتے ہیں کہ اس کی سند میں مسلمہ بن علی ہے اور وہ ضعیف ہے

رشتہ داروں پر اعمال پیش ہونے کی کوئی ایک روایت بھی سندا صحیح نہیں لیکن اس کو عقیدے کا حصہ بنایا گیا

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں

zubair-amal-paish

اہل حدیث حضرات ابھی تک حدیث کی صحت پر متفق نہیں

ابن قیم سنن ابی داود پر اپنے حاشیہ تهذيب سنن أبي داود وإيضاح علله ومشكلاته  میں کہتے ہیں

وَلَا رَيْب أَنَّ الْمَيِّت يَسْمَع بُكَاء الْحَيّ وَيَسْمَع قَرْع نِعَالهمْ وَتُعْرَض عَلَيْهِ أعمال أقاربه الأحياء

اور کوئی شک نہیں کہ میت زندوں کا رونا اور ان کے قدموں کی چاپ سنتی ہے اور اس پر زندہ رشتہ داروں کے  اعمال پیش ہوتے ہیں

الله اس شرک سے نکلنے کی توفیق دے

[/EXPAND]

[کیا درود نبی صلی الله علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے؟ ]

جواب

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا جعفر بن إبراهيم ، من ولد ذي الجناحين ، قال : حدثنا علي بن عمر ، عن أبيه ، عن علي بن حسين ، أنه رأى رجلا يجيء إلى فرجة كانت عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فيدخل فيها فيدعو ، فنهاه ، فقال : ألا أحدثكم حديثا سمعته من أبي ، عن جدي ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : « لا تتخذوا قبري عيدا ، ولا بيوتكم قبورا ، فإن تسليمكم يبلغني أينما كنتم »

علی زین العابدین رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر کے پاس ایک سوراخ کے پاس آکر اس میں داخل ہوتا ہے اور دعا کرتا ہے ، چنانچہ اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا: کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ سناوں جو میں نے اپنے باپ سے سنی ہے اور میرے باپ نے میرے دادا سے سنی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری قبر کو عید [میلہ گاہ] نہ بناو اور جہاں کہیں بھی رہو مجھ پر سلام پڑھو تمھارا سلام مجھ تک پہنچ جائے گا۔

یہ روایت صحیح نہیں ہے اس میں ہے کہ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خلل پیدا ہوا کہ حتی کہ ایک اتنا بڑا گڑھا ہو گیا کہ شخص اس میں داخل ہو جاتا اور اس نقص کی طرف کسی کی توجہ نہ ہوئی ایسا کسی بھی حدیث یا تاریخی روایت میں نہیں لہذا ضعیف ہے

ہیثمی نے اس پر لکھا ہے

رواه أبو يعلى وفيه جعفر بن إبراهيم الجعفري ذكره ابن أبي حاتم ولم يذكر فيه جرحاً وبقية رجاله ثقات

اس کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس میں جعفر بن ابراہیم ہے جس کا ذکر ابن اب حاتم نے کیا ہے اور اس پر جرح نہیں کی باقی راوی ثقہ ہیں

یعنی یہ جعفر مجھول ہے

[/EXPAND]

[سوره النسا کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول الله کا وسیلہ پکڑا جا سکتا ہے اور یہ الله کی عطا ہے اس وجہ سے نبی کو شفیع المذنبن کہا جاتا ہے دوا کھانا بھی تو وسیلہ ہے اسی طرح رسول الله کا  لعاب دھن ]

جواب

یہ سورہ النساء کی آیت ٦٤ ہے

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا

ابن کثیر نے تفسیر میں ایک باطل روایت لکھی ہے
وَقَدْ ذَكَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الشَّيْخُ أَبُو نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِي كِتَابِهِ الشَّامِلِ الْحِكَايَةَ الْمَشْهُورَةَ عَنْ الْعُتْبِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ اللَّهَ يَقُولُ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحِيماً

ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ نے اس جھوٹی روایت کو اپنی تفسیر میں لکھ کر اپنی بد عقیدتی کا اظہار کیا ان سے قبل شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عبد الهادي المقدسي الحنبلي المتوفی ٧٤٤ ھ اس کو کتاب الصارم المنكي في الرد على السبكي میں رد کر چکے تھے

اس روایت کو امام النووی نے بھی صحیح مان کر لکھا ہے

آیت کا تعلق منافقین کی جنگ میں شرکت نہ کرنے سے ہے کہ ان کی حیلہ سازی کے باوجود اگر وہ الله سے معافی مانگیں تو الله معاف کر دے گا لیکن سوره التوبہ میں یہ بات ختم ہوئی جب منافق کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا اور کہا کہ اب معافی ختم
ان آیات کا سیاق و سباق ہے

الله نے حکم دیا ہے کہ اس سے براہ راست طلب کیا جائے کسی کے وسیلہ کا حکم نہیں دیا نہ یہ قرآن میں کسی کے لئے ہے بلکہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے باپ سے کہتے ہیں کہ ہمارے لئے دعائیں کریں وہ چاھتے تو ابراہیم اور اسحاق و اسمعیل کا وسیلہ پکڑ سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا

الله ہر ایک سے بے پرواہ ہے اس کی شان یہ ہے کہ انسان صرف اس سے مانگے یہی انبیاء کا عمل تھا

دوا کھانا اور لعاب دھن کے معجزہ کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں

الله نے بیماری کی شفا نازل کی ہے جو اس نے کیمکل میں رکھی ہے اور انسان ان کیمکل کو کھا لے تو اس کو شفا ہوتی ہے اس پر سب سے زیادہ تحقیق پرانے زمانے میں ہندووں نے کی جو آریو وید کے نام سے مشھور ہے ان سے یہ علم یونان کو منتقل ہوا – یہ سب مشرک اقوام تھیں جنہوں نے تجربات سے کیمکل دریافت کیے اور دیکھا کس چیز میں شفا ہے کس میں نہیں

اس سب کو لکھنے کا مقصد ہے کہ اردو میں محاورہ ہے
اگن کے بچے کھجور میں بتانا
یعنی کہیں کی بات کہیں منڈنا – دوا اور شفا کا وسیلہ کے عقیدے سے کوئی ربط نہیں ہے اور خارج عن بحث بات ہے

لعآب دھن تو رسول الله کا معجزہ تھا اور معجزہ الله کا خاص حکم ہوتا ہے اس کا وسیلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے

دنیا کے بہت سے کام ہمیں کرنا ہوں تو وہ کام کسی کے ذریعہ ہوتا ہے
بہت سے کام ہم خود کر لیتے ہیں مثلا کھانا کھانا ناک سنکنا وغیرہ کیا اس میں کوئی وسیلہ ہے ؟ کوئی نہیں ہے

بعض لوگ کوئی دوا نہیں لیتے صرف الله سے دعآ کرتے ہیں اور شفا پاتے ہیں مثلا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں اتنا عرصۂ رہے کوئی وسیلہ نہ لیا تو نکل آئے لیکن جب الله کا حکم ہوا دعائیں تو وہ کافی عرصہ کرتے رہے یعنی ایک زندہ نبی تک کی دعآ پوری نہیں ہوئی اس کو بھی ٹائم لگا تو ایک عام آدمی جو نبی کا وسیلہ لگا رہا ہے اس کو کوئی فائدہ نہیں

امام ابو حنیفہ کا فتوی ہے کہ بحق فلاں کہنے پر اگ کا عذاب ہو گا

فقه حنفي كي كتاب هدايه از المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ) مين ہے
ويكره أن يقول الرجل في دعائه بحق فلان أو بحق أنبياؤك ورسلك”؛ لأنه لا حق للمخلوق على الخالق.
اور کراہت کی جاتی ہے کہ آدمی دعا میں بحق فلاں کہے یا بحق انبیاء اور رسول کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں

[/EXPAND]

[کیا امام حاکم کا عقیدہ وسیلہ میں صحیح تھا؟ کیا مستدرک میں روایات پر ان کی تصحیح قابل قبول ہے ؟]

جواب  أَبَا إِسْمَاعِيْل عَبْدَ اللهِ بنَ مُحَمَّدٍ الهَرَوِيَّ  محدث    ابو عبدللہ محمّد بن عبدللہ   حاکم النیشابوری      صاحب المستدرک کے لئے کہتے ہیں     رَافضيٌّ خَبِيْث   ( سیر الاعلام النبلاء ج ١٢، ص ٥٧٦، دار الحديث- القاهرة    ).    الذھبی  کہتے ہیں   قُلْتُ: كَلاَّ لَيْسَ هُوَ رافضيًّا، بل يتشيِّع.  یہ رافضی تو نہیں لیکن شیعیت رکھتے تھے

عقائد میں حاکم صاحب مستدرک  صحیح منہج پر نہیں تھے وہ انبیاء پر وسیلے کی تہمت لگاتے تھے جیسا کہ انہوں نے مستدرک میں آدم علیہ السلام  کی دعا نبی علیہ السلام کے وسیلے سے قبول ہوئی روایت کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے

حالانکہ ان کی سند میں متکلم فیہ راوی ہے اس پر اپنی کتاب المدخل میں خود  اس پر جرح کی  ہے  بعض محدثین ابن حجر کی رائے میں مستدرک لکھتے وقت  ان کی  دماغی حالت صحیح نہیں تھی اور اسی آخری وقت میں انہوں نے مستدرک لکھی ہے

لہذا مستدرک میں حاکم کی تصحیح  قبول نہیں کی جاتی

[/EXPAND]

[ابن کثیر کے نزدیک قبر نبی پر جا کر مدد مانگی جا سکتی ہے ؟]

جواب ابن کثیر اپنی کتاب : البداية والنهاية ج ٧ ص ٩١ اور ٩٢  میں روایت نقل کرتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ اللَّهَ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنام فقال: ايت عمر فأقره منى السلام وأخبرهم أنهم مسقون، وقل له عليك بالكيس الْكَيْسَ. فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَ عُمَرَ فَقَالَ: يَا رب ما آلوا إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.

ابن-کثیر

إس كي سند ضعیف ہے اعمش مدلس عن سے روایت کر رہا ہے جبکہ امام مالک سے عمر رضی الله عنہ تک سند نہیں ہے ابو صالح غیر واضح ہے افسوس ابن کثیر اتنی علتوں کے باوجود اس کو صحیح کہتے ہیں جبکہ قبر پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سننا ثابت نہیں

لہذا ابن کثیر کی بد عقیدگی کی نشانی ہے

[/EXPAND]

[محدث ابن حبان قبروں سے فیض لینے کے قائل تھے ؟]

 ابن حبان المتوفی  ٣٥٤ ھ   اپنی صحیح میں روایت کرتے  ہیں

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ سُرَيْجٍ النَّقَّالُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا مَرَرْتُمْ بِقُبُورِنَا وَقُبُورِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّهُمْ فِي النَّارِ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب تم ہماری (اہل اسلام) اور اہل الْجَاهِلِيَّةِ کی قبروں پر سے گزرتے ہو تو پس ان کو خبر دو کہ وہ اگ والے ہیں

البانی کتاب التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں  کہتے ہیں صحيح اور اسی طرح – «الصحيحة» (18)، «أحكام الجنائز» (252) میں اس کو صحیح قرار دیتے ہیں

ibn-habban-title

ibn-habbanj2pg220

جبکہ شعيب الأرنؤوط کتاب الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان   پر اپنی تعلیق میں کہتے ہیں

إسناده ضعيف جداً، الحارث بن سريج قال ابن معين. ليس شيء، وقال النسائي. ليس بثقة، وقال ابن عدي: ضعيف يسرق الحديث، وشيخه يحيي بن اليمان كثير الخط.

اس کی سند بہت ضعیف ہے اس میں الحارث بن سريج ہے جس کو ابن معین کوئی چیز نہیں کہتے ہیں نسائی کہتے ہیں ثقہ نہیں ہے اور ابن عدی کہتے ہیں ضعیف حدیث چوری کرتا تھا اور اس کا شیخ يحيي بن اليمان  بہت غلطیاں کرتا تھا

ابن حبان اس حدیث پر صحیح ابن حبان میں حاشیہ لکھتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَرَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْخَبَرِ الْمُسْلِمَ إِذَا مَرَّ بِقَبْرِ غَيْرِ الْمُسْلِمِ، أَنْ يَحْمَدَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا عَلَى هِدَايَتِهِ إِيَّاهُ الْإِسْلَامَ، بِلَفْظِ الْأَمْرِ بِالْإِخْبَارِ إِيَّاهُ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، إِذْ مُحَالٌ أَنْ يُخَاطَبَ مَنْ قَدْ بَلِيَ بِمَا لَا يَقْبَلُ عَنِ الْمُخَاطِبِ بِمَا يُخَاطِبُهُ بِهِ

  نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا اس حدیث میں کہ جب کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کی قبر پر سے گزرے تو الله کی تعریف کرے اس ہدایت پر جو اس نے اسلام سے دی اور حکم کے الفاظ جو اس حدیث میں ہیں کہ وہ اگ میں سے ہیں سے یہ محال ہے کہ ان  کو مخاطب کیا جائے جو بے شک (اتنے) گل سڑ گئے ہوں کہ  خطاب کرنے والے (کی اس بات ) کو قبول نہ کر سکتے ہوں جس پر ان کو مخاطب کیا گیا ہے

ابن حبان کے حساب سے ایسا خطاب نبی صلی الله علیہ وسلم نے سکھایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے سمجھنے اور سننے کے قابل  ہیں اس ضعیف روایت کو اپنی صحیح  میں بھی لکھتے ہیں اس سے بھی عجیب بات ہے کہ مردوں کے نہ سننے کے قائل البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں جبکہ سندا یہ روایت کمزور ہے

ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل  تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

 قبروں سے فیض حاصل کرنے اور مردوں کے سننے کے ابن حبان قائل تھے

کہا جاتا ہے کہ ابن حبان  صالحین کی قبروں کی زیارت کے وقت کودعاء کی قبولیت کاوقت سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا کسی حدیث میں نہیں لہذا یہ بدعت ہوئی اور پھر ان کا مردوں کے سننے کا عقیدہ اس بات کو اور الجھا دیتا ہے

ذهبی   کتا ب  سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب 
 اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ  معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے

الذھبی، سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٣٤٣ پر اس با ت کی تا ئید کرتے ہیں

يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

  ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

اس پر شعيب الأرناؤوط  تعلیق میں لکھتے ہیں

هذا الكلام لا يسلم لقائله، إذ كيف يكون قبر أحد من الاموات الصالحين ترياقا ودواءا للاحياء، وليس ثمة نص من كتاب الله يدل على خصوصية الدعاء عند قبر ما من القبور، ولم يأمر به النبي صلى الله عليه وسلم، ولا سنه لامته، ولا فعله أحد من الصحابة والتابعين لهم بإحسان، ولا استحسنه أحد من أئمة المسلمين الذين يقتدى بقولهم، بل ثبت النهي عن قصد قبور الأنبياء والصالحين لاجل الصلاة والدعاء عندها

ایسا کلام قائل کے لئے مناسب نہیں کیونکہ کسی نیک شخص کی قبر کیسے تریاق یا دوا زندوں کے لئے ہو سکتی ہے ؟اور اس پر ایک رتی بھی کتاب الله میں دلیل نہیں کہ کوئی خصوصیت نکلتی ہو قبروں کے پاس دعا کی اور ایسا نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم نہیں کیا اور امت کو کہا اور نہ صحابہ نے نہ التابعين  نے ایسا کیا نہ ائمہ مسلمین نے اس کو مستحسن کہا جن کے قول کی اقتدہ کی جاتی ہے، بلکہ  دعا یا نماز کے لئے  انبیاء والصالحين  کی قبروں (کے سفر ) کے قصد  کی ممانعت ثابت ہے

امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله،  دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة

احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے

امام احمد صوفیوں کے مدح  تھے اور ان  کے شاگرد ابراہیم الحربی صوفی معروف الکرخی کی قبر کو تریاق المجرب کہتے تھے

امت  میں احبار اور رہبان  کی تمیز کا دور اب  ختم ہو رہا ہے (تیسری صدی ہجری کا اختتام) اور  اپس میں اشتراک کا دور شروع ہو گیا ہے اب حدود  واضح نہیں رہیں گی اور محدثین صوفیوں کے مدح نظر آنا شروع ہوں گے اور صوفی منش  اور زہاد لوگ محدث بنیں  گے بات زہد سے نقل کر عقیدے کی خرابی کا سبب بنے گی

ہمارے نزدیک  مردوں کے سننے کا عقیدہ اور قبروں سے فیض حاصل کرنا گمراہی ہے

اللہ ہم سب کو ہدایت دے

[/EXPAND]

[امام النووی نے اپنی کتاب میں ایک اعرابی کے قبر نبی پر دعا کرنے اور نبی کو وسیلہ بنانے والی روایت کی تحسین کی ہے کیا یہ کرنا صحیح عقیدہ ہے؟]

جواب

ڈاکٹر عثمانی کتاب مزار یا میلے میں لکھتے ہیں کہ توسل سے متعلق روایات بے اصل ہیں

mazar1

فقہ حنفی میں توسل  حرام ہے – ڈاکٹر عثمانی حوالہ دیتے ہیں

mazar2

افسوس محدثین میں سے کچھ  توسل یا وسیلہ  کے قائل تھے

امام النووی ساتویں صدی کے محدث ہیں- انہوں نے صحیح مسلم کی شرح لکھی ہے، اس کے علاوہ ریاض الصالحین کے نام سے ان کی ایک کتاب مشھور ہے جس میں صحیح و ضعیف روایات کو ملا جلا کر مختلف عنوانات کے تحت لکھا گیا ہے- اسی طرح ان کا فقہ شافعی پر بھی کام ہے- اپنی فقہ سے متعلق کتاب میں نووی نے زیارت قبر نبوی کے آداب لکھے ہیں، جن کو پڑھ کر آج بھی زیارت حج و عمرہ اور مدینہ کی کتب ترتیب دی جاتی ہیں-

امام النووی  قبر کے پاس سماع کے قائل  تھے کتاب کتاب المجموع شرح المهذب میں لکھتے ہیں

قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إلَّا رَدَّ الله عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ) رَوَاهُ أَبُو دَاوُد بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا 

ایسا کوئی نہیں کہ مجھے سلام کہے اور الله میری روح نہ لوٹا دے یہاں تک کہ میں سلام پلٹ کر کہوں

اس کو ابو داود نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے

ہمارے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں لیکن امام النووی اسی کی بنیاد پر قبر کے پاس درود و سلام کے قائل تھے

امام نووی المتوفى: 676هـ  کتاب المجموع شرح المهذب   میں لکھتے ہیں

ثُمَّ يَأْتِي الْقَبْرَ الْكَرِيمَ فَيَسْتَدْبِرُ الْقِبْلَةَ وَيَسْتَقْبِلُ جِدَارَ الْقَبْرِ وَيُبْعِدُ مِنْ رَأْسِ الْقَبْرِ نَحْوَ أَرْبَعِ أَذْرُعٍ وَيَجْعَلُ الْقِنْدِيلَ الَّذِي فِي الْقِبْلَةِ عِنْدَ الْقَبْرِ عَلَى رَأْسِهِ وَيَقِفُ نَاظِرًا إلَى أَسْفَلِ مَا يَسْتَقْبِلُهُ مِنْ جِدَارِ الْقَبْرِ غَاضَّ الطَّرْفِ فِي مَقَامِ الْهَيْبَةِ وَالْإِجْلَالِ فَارِغَ الْقَلْبِ مِنْ عَلَائِقِ الدُّنْيَا مُسْتَحْضِرًا فِي قَلْبِهِ جَلَالَةَ مَوْقِفِهِ وَمَنْزِلَةَ مَنْ هُوَ بِحَضْرَتِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ وَلَا يَرْفَعُ صَوْتَهُ بَلْ يَقْصِدُ فَيَقُولُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْك يَا نَبِيَّ الله السَّلَامُ عَلَيْك يَا خِيرَةَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْك يا حبيب الله السلام عيك يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ السَّلَامُ عَلَيْك يَا خَيْرَ  الْخَلَائِقِ أَجْمَعِينَ السَّلَامُ عَلَيْك وَعَلَى آلِكَ وَأَهْلِ بَيْتِك وَأَزْوَاجِك وَأَصْحَابِك أَجْمَعِينَ السَّلَامُ عليك وعلى سائر النبيين وجميع عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ جَزَاك الله يَا رَسُولَ الله عَنَّا أَفْضَلَ مَا جَزَى نَبِيًّا وَرَسُولًا عَنْ أُمَّتِهِ وَصَلَّى عَلَيْك كُلَّمَا ذَكَرَك ذَاكِرٌ وَغَفَلَ عَنْ ذِكْرِك غَافِلٌ أَفْضَلَ وَأَكْمَلَ مَا صَلَّى عَلَى أَحَدٍ مِنْ  الْخَلْقِ أَجْمَعِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّك عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَخِيرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ وَأَشْهَدُ أَنَّك بَلَّغْت الرِّسَالَةَ وَأَدَّيْت الْأَمَانَةَ وَنَصَحْت الْأُمَّةَ وَجَاهَدْت فِي الله حَقَّ جِهَادِهِ اللَّهُمَّ آتِهِ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ وَآتِهِ نِهَايَةَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْأَلَهُ السَّائِلُونَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ

وَمَنْ طَالَ عَلَيْهِ هَذَا كُلُّهُ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِهِ وَأَقَلُّهُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رسول الله صلى الله عليك وَسَلَّمَ

پھر قبر کریم کے پاس آئے، قبلہ پیٹھ کی جانب رکھے اور سامنے قبر کی دیوار کو اور قبر کی اٹھان سے چار ہاتھ دور رہے اور قندیل جو قبلہ کی طرف ہے وہ سر پر ہو اور نظر نیچے رکھے قبر کے پاس اور نظر مقام ہیبت و جلال سے نیچے ہو اور دل دنیا و مافیھا سے دور اپنے قلب میں اس مقام کی جلالت کو حاضر رکھتے ہوئے اور….، پھر سلام کرے  اور آواز بلند نہ ہو بلکہ دھیمی ہو، پس کہے

السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ الله

السَّلَامُ عَلَيْك يَا نَبِيَّ الله

 السَّلَامُ عَلَيْك يَا خِيرَةَ الله

السَّلَامُ عَلَيْك يا حبيب الله

السلام عيك يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ

السَّلَامُ عَلَيْك يَا خَيْرَ  الْخَلَائِقِ أَجْمَعِينَ

 السَّلَامُ عَلَيْك وَعَلَى آلِكَ وَأَهْلِ بَيْتِك وَأَزْوَاجِك وَأَصْحَابِك أَجْمَعِينَ

 السَّلَامُ عليك وعلى سائر النبيين وجميع عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ

جَزَاك الله يَا رَسُولَ الله عَنَّا أَفْضَلَ مَا جَزَى نَبِيًّا وَرَسُولًا عَنْ أُمَّتِهِ

 وَصَلَّى عَلَيْك كُلَّمَا ذَكَرَك ذَاكِرٌ وَغَفَلَ عَنْ ذِكْرِك غَافِلٌ

 أَفْضَلَ وَأَكْمَلَ مَا صَلَّى عَلَى أَحَدٍ مِنْ  الْخَلْقِ أَجْمَعِينَ

 أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّك عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

 وَخِيرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ وَأَشْهَدُ أَنَّك بَلَّغْت الرِّسَالَةَ وَأَدَّيْت الْأَمَانَةَ

 وَنَصَحْت الْأُمَّةَ وَجَاهَدْت فِي الله حَقَّ جِهَادِهِ

اللَّهُمَّ آتِهِ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ وَآتِهِ نِهَايَةَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْأَلَهُ السَّائِلُونَ

 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ

وَمَنْ طَالَ عَلَيْهِ هَذَا كُلُّهُ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِهِ وَأَقَلُّهُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رسول الله صلى الله عليك وَسَلَّمَ

اس کے بعد امام النووی کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر پر بھی سلام پڑھے

فَيَقُولُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا أَبَا بَكْرٍ صَفِيَّ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَانِيَهُ فِي الْغَارِ

 جَزَاك الله عَنْ أُمَّةِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا

ثُمَّ يَتَأَخَّرُ إلَى صَوْبِ يَمِينِهِ قَدْرَ ذِرَاعٍ لِلسَّلَامِ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ الله عَنْهُ وَيَقُولُ

 السَّلَامُ عَلَيْك يَا عُمَرُ الَّذِي أَعَزَّ الله بِهِ الْإِسْلَامَ جَزَاك الله عَنْ أُمَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّىالله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا

اس کے بعد امام النووی کہتے ہیں

ثُمَّ يَرْجِعُ إلَى مَوْقِفِهِ الْأَوَّلِ قُبَالَةَ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَتَوَسَّلُ بِهِ فِي حَقِّ نَفْسِهِ وَيَسْتَشْفِعُ بِهِ إلَى رَبِّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَمِنْ أَحْسَنِ مَا يَقُولُ مَا حَكَاهُ الْمَاوَرْدِيُّ وَالْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ وَسَائِرُ أَصْحَابِنَا عَنْ الْعُتْبِيِّ مُسْتَحْسِنِينَ لَهُ قَالَ (كُنْت جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ الله سَمِعْت الله يَقُولُ (وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما) وَقَدْ جِئْتُك مُسْتَغْفِرًا مِنْ ذَنْبِي

مُسْتَشْفِعًا بِك إلَى رَبِّي ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ

* يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنْت بِالْقَاعِ أَعْظَمُهُ

* فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ الْقَاعُ وَالْأَكَمُ نَفْسِي الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاكِنُهُ

* فِيهِ الْعَفَافُ وَفِيهِ الْجُودُ وَالْكَرَمُ ثُمَّ انْصَرَفَ فَحَمَلَتْنِي عَيْنَايَ

فَرَأَيْت النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ فَقَالَ يَا عُتْبِيُّ الْحَقْ الْأَعْرَابِيَّ فَبَشِّرْهُ بِأَنَّ الله تَعَالَى قَدْ غَفَرَ لَهُ

پھر سلام کے بعد واپس جائے اول موقف پر کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہو اور ان سے توسل کرے اپنے لئے اور ان کی شفاعت کے ذریعہ اپنے رب  الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى سے طلب کرے- اور اور کیا خوب الْمَاوَرْدِيُّ اور وَالْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ اور ہمارے تمام اصحاب  .. نے حکایت نقل کی ہے کہ میں قبر رسول کے پاس بیٹھا تھا پس ایک اعرابی آیا اور کہا السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ الله، الله کا کہا سنا  وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما،  پس میں آیا ہوں مغفرت مانگتے ہوئے اپنے گناہوں سے اپنے رب کے حضور پس اس نے اشعار کہے

اے بہترین انسان کہ جس کا پیکر اس سرزمین میں دفن ہے اور جس کے عطر و خوشبو سے اس سرزمین کی بلندی اور پستی معطر ہوگئی ہے، میری جان ایسی زمین پر قربان کہ جسے آپ نے انتخاب کیا اور اس میں عفت و جود وکرم پوشیدہ ہوگیا ہے۔

  پس نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا انہوں نے فرمآیا  الله نے تجھے بخش دیا

افسوس اس روایت ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں سوره النساء میں نقل کر دیا ہے جو گمراہی پھیلا رہا ہے

وَقَدْ ذَكَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الشَّيْخُ أَبُو نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِي كِتَابِهِ الشَّامِلِ الْحِكَايَةَ الْمَشْهُورَةَ عَنْ الْعُتْبِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ الله، سَمِعْتُ الله يَقُولُ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا الله تَوَّاباً رَحِيماً وَقَدْ جِئْتُكَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِي مُسْتَشْفِعًا بك إلى ربي. ثم أنشأ يقول: [البسيط] يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ أَعْظُمُهُ … فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ الْقَاعُ وَالْأَكَمُ
نَفْسِي الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاكِنُهُ … فِيهِ الْعَفَافُ وَفِيهِ الْجُودُ وَالْكَرَمُ
ثُمَّ انْصَرَفَ الْأَعْرَابِيُّ، فَغَلَبَتْنِي عَيْنِي فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ يَا عُتْبِيُّ، الْحَقِ الْأَعْرَابِيَّ فَبَشِّرْهُ أَنَّ الله قَدْ غَفَرَ لَهُ» .

بعض بزرگان مانند شیخ ابو نصر صباغ نے اس مشہور داستان کو عتبی سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی داخل ہوا اور کہا: ”السلام علیک یا رسول اللہ

النووی کہتے ہیں

لَا يَجُوزُ أَنْ يُطَافَ بِقَبْرِهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُكْرَهُ إلْصَاقُ الظُّهْرِ وَالْبَطْنِ بِجِدَارِ الْقَبْرِ قَالَهُ أَبُو عُبَيْدِ الله الْحَلِيمِيُّ وَغَيْرُهُ قَالُوا وَيُكْرَهُ مَسْحُهُ بِالْيَدِ وَتَقْبِيلُهُ

یہ جائز نہیں کہ قبر صلی الله علیہ وسلم کا طواف کیا جائے اور کراہت کی ہے کہ پیٹھ یا  پیٹ کو قبر کی دیوار سے لگائے اور أَبُو عُبَيْدِ الله الْحَلِيمِيُّ اور دوسرے کہتے ہیں کہ کراہت کرتے ہیں کہ قبر کو ہاتھ سے مس کیا جائے یا اس کو چوما جائے

ایک دوسرے محدث امام احمد کا نقطہ نظر الگ تھا

عبد الله بن احمد کتاب العلل ومعرفة الرجال میں اپنے باپ امام احمد کی رائے پیش کرتے ہیں

سَأَلته عَن الرجل يمس مِنْبَر النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ويتبرك بمسه ويقبله وَيفْعل بالقبر مثل ذَلِك أَو نَحْو هَذَا يُرِيد بذلك التَّقَرُّب إِلَى الله جلّ وَعز فَقَالَ لَا بَأْس بذلك

میں نے باپ سے سوال کیا اس شخص کے بارے میں جو رسول الله کا منبر چھوئے اور اس سے تبرک حاصل کرے اور اس کو چومے اور ایسا ہی قبر سے کرے اور اس سے الله کا تقرب حاصل کرے پس انہوں نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں

افسوس

قبر پر درود و سلام پڑھنا ان کو چومنا اور پھر ان سے توسل لینا اور نبی کا خواب میں آنا

یہ سب  سلف کے اہل حدیث کہہ رہے ہیں

 یہ سب غلط ہوا جو بھی ہوا

لہذا توحید  کی کھلی دعوت دی جائے اور بتایا جائے کہ جو ہوا سو ہوا اس سب سے توبہ کرو

[/EXPAND]

[کیا امام احمد نبی کا وسیلہ دعاووں میں لیتے تھے ؟]

جواب

كتاب الفروع ومعه تصحيح الفروع لعلاء الدين علي بن سليمان المرداوي  کے مطابق

قَالَ أَحْمَدُ فِي مَنْسَكِهِ الَّذِي كَتَبَهُ لِلْمَرُّوذِيِّ: إنَّهُ يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دُعَائِهِ

احمد نے مَنْسَكِهِ میں کہا جو انہوں نے المروزی کے لئے لکھی کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعائیں کرتے ہیں

 کتاب  الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف از  علاء الدين أبو الحسن علي بن سليمان المرداوي الدمشقي الصالحي الحنبلي کے مطابق

قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: الْمَرُّوذِيُّ يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي دُعَائِهِ وَجَزَمَ بِهِ فِي الْمُسْتَوْعِبِ

امام احمد نے کہا المروزی کو کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو وسیلہ لیں دعاووں میں

اسی طرح کتاب  كشاف القناع عن متن الإقناع از  منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى کے مطابق بھی وسیلہ جائز ہے

واضح رہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ دعا کرنے کی درخواست کرتے تھے لیکن وفات النبی کے بعد دعا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا وسلیہ غلط عمل ہے

لہذا حنابلہ کے ہاں یہ تلقھا بالقبول کا درجہ رکھتا تھا

اس تحریر “مَنْسَكِهِ ” کو چھپا دیا گیا ہے اور اب اس کا ذکر نہیں کیا جاتا

امام احمد کے وسیلہ کے قول کا ذکر عبد الوہاب النجدی نے اپنے فتوی تک میں کیا ہے

wasilah-ahmed-najdi

دسواں مسئلہ – علماء اسلام کا قول ہے کہ دعائے استسقاء میں نیکوکاروں کا وسیلہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور امام احمد فرماتے ہیں: صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینا چاہئے ، اسی کے ساتھ ان علماء نے صراحت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی بھی مخلوق سے مدد طلب کرنا درست نہیں ، لہٰذا (مدد طلب کرنے اور وسیلہ لینے کے درمیان) فرق بلکل واضح ہے اور ہم جو مسئلہ بیان کر رہے ہیں ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ، بعض صالحین توسل کو جائز قرار دیتے ہیں ، تو یہ ایک فقہی مسئلہ ہے ، اگرچہ ہمارے نزدیک صحیح قول جمہور کا ہے کہ توسل مکروہ ہے ، مگر وسیلہ لینے والوں کو ہم غلط بھی نہیں کہتے ، کیونکہ اجتہادی مسائل میں انکار و اعتراض کی گنجائش نہیں ہے – (مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / فتاویٰ و مسائل ، جلد ٤ ، صفحہ ٦٨)

البانی کتاب التوسل أنواعه وأحكامه میں اعتراف کرتے ہیں کہ امام احمد نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینے  کو جائز کیا ہے

فأجاز الإمام أحمد التوسل بالرسول صلى الله عليه وسلم وحده فقط، وأجاز غيره كالإمام الشوكاني التوسل به وبغيره من الأنبياء والصالحين

پس امام احمد نے صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینے  کو جائز قرار دیا ہے اور دیگر نے جیسے امام شوکانی نے انبیاء و صالحین سے اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے وسیلہ لینے کو جائز کیا ہے

مجموع فتاوى میں ابن تيمية، الجزء الأول، ص 347   پر کہتے ہیں

وَرَأَيْت فِي فَتَاوِي الْفَقِيهِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ قَالَ: لَا يَجُوزُ أَنْ يُتَوَسَّلَ إلَى اللَّهِ بِأَحَدِ مِنْ خَلْقِهِ إلَّا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إنْ صَحَّ حَدِيثُ الْأَعْمَى: فَلَمْ يُعْرَفْ صِحَّتُهُ – ثُمَّ رَأَيْت عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ وَغَيْرِهِمَا مِنْ الْعُلَمَاءِ أَنَّهُمْ قَالُوا: لَا يَجُوزُ الْإِقْسَامُ عَلَى اللَّهِ بِأَحَدٍ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ وَرَأَيْت فِي كَلَامِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَنَّهُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں نے فَتَاوِي الْفَقِيهِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ میں دیکھا کہ کہا کسی کے لئے جائز نہیں کہ مخلوق میں سے کسی کا وسیلہ لے سوائے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اگر اندھے والی حدیث صحیح ہے – اس کی صحت کا علم بھی نہیں ہے – پھر میں نے دیکھا کہ ابو حنیفہ نے اور ابو یوسف نے اور دیگر علماء نے کہ وہ کہتے ہیں کسی کے لئے جائز نہیں کہ ان (وسیلہ کی اقسام کو انبیاء میں سے کسی کی بھی الله کے لئے جائز کرتے ہوں اور میں نے امام احمد کا کلام دیکھا کہ وہ جائز کرتے ہیں

یہ دلائل ثابت کرتے ہیں کہ امام احمد توسل کے قائل تھے جبکہ یہ بدعت اور شرک ہے

[/EXPAND]

[کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم دوسرے انبیاء کے وسیلہ دعا کرتے تھے ؟]

جواب ایک روایت ہے جو المعجم الكبير  طبرانی اور حلية الأولياء وطبقات الأصفياء اور  مجمع الزوائد ومنبع الفوائد

میں نقل ہوئی ہے اس کے مطابق علی رضی الله عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد کی وفات پر صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی

اللهُ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، اغْفِرْ لِأُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ أَسَدٍ، ولَقِّنْهَا حُجَّتَها، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مُدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي فَإِنَّكَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

اے الله جو زندہ کرتا ہے مردہ کرتا ہے جو زندہ ہے اور جس کو موت نہیں ہے مغفرت کر میری ماں فاطمہ بنت اسد کی اور ان کی قبر وسیع کر اس حق پر جو انبیاء کا ہے اور پچھلے انبیاء کا ہے کہ آپ رحم کرنے والے ہیں

یہ روایت ایک ہی راوی رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ  سے آئی ہے جو ضعیف ہے

 الدَّارَقُطْنِيّ کہتے ہیں : كان ضعيفًا في الحديث، سكن مصر.  حدیث میں ضعیف ہے مصر کا باسی تھا «المؤتلف والمختلف

ابن عدي کہتے ہیں: ضعيف

ابن ماكولا کہتے ہیں : ضعفوه سكن مصر ضعیف ہے مصر کا باسی تھا

امام حاکم نے ثقہ کہا ہے لیکن جمہور کے مقابلے پر ان کی تعدیل کلعدم ہے

مخلوق کا الله پر کوئی حق نہیں بلکہ الله الصمد الله سب سے بے نیاز ہے چاہے فرشتے ہوں یا انبیاء ہوں

[/EXPAND]

[کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سایہ تھا ؟]

جواب

اس دنیا کی جو بھی شی نظر اتی ہے اس کے پیچھے روشنی کا انعکاس کارفرما ہے روشی ٹھوس جسم پر پڑتی ہے اور پلٹ کر دیکھنے والے کی نگاہ تک جاتی ہے جب ایسا ہو تو اس جسم کا سایہ بننا لازمی ہے لہذا اس سے کوئی بھی ٹھوس جسم نہیں بچا البتہ مادہ کی دوسری حالت گیس کا سایہ نظر نہیں اتا  جیسے ہوا کا سایہ  نظر نہیں اتا کیونکہ اس میں ایٹم دور ہیں اور روشنی گزر جاتی ہے

 صحیح ابن خزیمہ کی صحیح سند سے روایت ہے

 نا بَحْرُ بْنُ نَصْرِ بْنِ سَابَقٍ الْخَوْلَانِيُّ، نا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ فِي الصَّلَاةِ مَدَّ يَدَهُ، ثُمَّ أَخَّرَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتَ فِي صَلَاتِكَ هَذِهِ مَا لَمْ تَصْنَعْ فِي صَلَاةٍ قَبْلَهَا قَالَ: «إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ قَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ، وَرَأَيْتُ فِيهَا. . . . قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ، حَبُّهَا كَالدُّبَّاءِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْهَا، فَأُوحِيَ إِلَيْهَا أَنِ اسْتَأْخِرِي، فَاسْتَأْخَرَتْ، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ حَتَّى رَأَيْتُ ظِلِّيَ وَظِلَّكُمْ، فَأَوْمَأْتُ إِلَيْكُمْ أَنِ اسْتَأْخَرُوا، فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَقِرَّهُمْ، فَإِنَّكَ أَسْلَمْتَ وَأَسْلَمُوا، وَهَاجَرْتَ وَهَاجَرُوا، وَجَاهَدْتَ وَجَاهَدُوا، فَلَمْ أَرَ لِي عَلَيْكُمْ فَضْلًا إِلَّا بِالنُّبُوَّةِ» 

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے ساتھ ہم نے صبح کی نماز پڑھی پھر نماز کے دوران انہوں نے باتھ کو آگے کیا پھر پیچھے پس ہم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ آپ نے نماز میں کیا کیا  جو اس سے پہلے نہیں کیا – فرمایا میں نے جنت دیکھی اور اس میں لٹکتے پھل دیکھے … پس ارادہ کیا کہ اس کو لوں تو وحی کی گئی کہ چھوڑ کروں لہٰذا چھوڑ دیا  پھر جہنم پیش کی گئی یہاں تک (روشنی میں)  میں نے اپنآ سایہ اور تمھارے سائے تک دیکھے

الذھبی نے اسکو صحیح کہا ہے روایت دلیل ہے کہ رسول الله کا سایہ تھا

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نور سے فرشتوں کو تخلیق کیا گیا صحیح بخاری میں فرشتوں کے سایہ کا ذکر ہے

عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَبْكِي، وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَوْنِي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لاَ تَبْكِيهِ – أَوْ: مَا تَبْكِيهِ – مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ “[صحيح البخاري 5/ 102 رقم 4080 ]۔

جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کہتے ہیں میرے والد کا قتل شہادت ہوئی میں رونے لگا اور ان کے چہرے پر سے کپڑا ہٹاتا  پس اصحاب رسول نے منع کیا لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع نہ کیا اور کہا مت رو فرشتوں نے ان پراپنے پروں  سایہ کرنا نہ چھوڑا یہاں تک کہ بلند ہوئے

یعنی انکی روح کی پرواز تک فرشتے ان پر پروں سے سایہ کیے رہے

بعض علماء نے غلو کا عقیدہ اختیار کیا مثلا   زرقاني (المتوفى1122 ) نے کہا
روى ابن المبارك وابن الجوزي، عن ابن عباس: لم يكن للنبي -صلى الله عليه وسلم- ظل، ولم يقم مع الشمس قط إلا غلب ضوؤه ضوء الشمس، ولم يقم مع سراج قط إلا غلب ضوء السراج[شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 5/ 525]۔

ابن مبارک اور ابن جوزی نے روایت کیا ہے ابن عباس سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا اور نبی مبارک سورج کے ساتھ کبھی کھڑے نہ ہوئے الا یہ کہ نبی کی روشنی سورج سے بڑھ کر ہوتی یا چراغ کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے کہ نبی کی روشی چراغ سے بڑھ کر ہوتی

الزرقاني (المتوفى1122) نے نقل کیا
وقال ابن سبع: كان -صلى الله عليه وسلم- نورًا، فكان إذا مشى في الشمس أو القمر لا يظهر له ظل”؛ لأن النور لا ظلَّ له[شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 5/ 525]۔

أبو ربيع سليمان ابن سبع نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نور تھے پس جب چلتے سورج یا چاند کی روشنی میں تو ان کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کیونکہ نور کا سایہ نہیں ہوتا

کتاب المواهب اللدنية بالمنح المحمدية  از أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) کے مطابق

 ولم يكن له- صلى الله عليه وسلم- ظل فى شمس ولا قمر رواه الترمذى الحكيم عن ذكوان

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاند میں اس کو حکیم الترمذی نے ذکوان سے روایت کیا ہے 

حکیم الترمذی ایک صوفی تھا اس کی کتاب نوادر میں یہ قول نہیں ملا البتہ سیوطی نے الخصائص الکبری میں اس کی سند دی ہے

عبد الرحمن بن قيس الزعفراني عن عبد الملك بن عبد الله بن الوليد عن ذكوان ان رسول الله  لم يكن يرى له ظل في شمس ولا قمر ولا أثر قضاء حاجة

اس  کی سند میں   عبدالرحمن بن قیس زعفرانی ہے جو احادیث گھڑتا تھا

المواھب میں ایک اور قول بھی ہے

رواه البيهقى، ولم يقع له ظل على الأرض، ولا رؤى له ظل فى شمس ولا قمر. ويشهد له أنه- صلى الله عليه وسلم- لما سأل الله تعالى أن يجعل فى جميع أعضائه وجهاته نورا، ختم بقوله: «واجعلنى نورا»

البیہقی نے روایت کیا ہے کہ ان کا سایہ زمین پر نہیں اتا نہ ان کا سایہ سورج میں دیکھا گیا نہ چاند میں اور اس کی شہادت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب الله سے دعا کرتے تو وہ مانگتے کہ ان کے تمام  جسم میں نور ہو جائے اور کہتے اور مجھ میں نور کر دے

یہ دعا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تمام امت کو سکھائی اور اس کو رات کی نماز میں پڑھا جاتا  ہے  آج تک یہ دعا کسی بھی مومن کی قبول نہیں ہوئی؟  ظاہر ہے یہ بلا دلیل ہے اور نور قلبی ایمان ہے

افسوس عقل سلیم سے عاری علماء اس قول کو بیان کر گئے ورنہ کیا رات میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر نہ کیا  کسی صحابی نے اس قسم کا محیر العقول معجزہ نقل نہ کیا

مخلوق میں سایہ ہونا خوبی ہے الله اس کو اپنی  الوہیت کی نشانی کہتا ہے اور سورج اس پر دلیل ہے

سوره الرعد میں ہے

لِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ١٥
اور (سات) آسمانوں اور زمین میں جو  ہیں مرضی اور بغیر مرضی سے اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتی ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔

سوره النحل میں ہے

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ٤٨
کیا انہوں نے جو  اللہ نے خلق کیا ان  میں کسی کو نہیں دیکھا کہ ان کے سائے دائیں اور بائیں گرتے ہیں الله کے لئے سجدے میں اور وہ کم ترکیے گئے ہیں

الله سایہ ہونے کو مخلوق کی شان کہتا ہے لیکن ان غلو پسندوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ رسول الله میں نہیں تھا جو ان کا کھلا کذب و افتراء ہے جس کو کوئی دلیل نہیں اور مخلوق کو خالق سے ملانے کی کوشش ہے

کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سایہ اس لئے نہیں بننے دیا گیا کہ کہیں کسی بے ادب کا پیر سایہ مبارک پر نہ پڑھ جائے

اس قول کو  نسفی نے  تفسیر مدارک ج ٢ ص ٤٩٢ میں سوره النور کی تفسیر میں نقل کیا ہے

 وقال عثمان إن الله ما أوقع ظلم على الأرض لئلا يضع إنسان قدمه على ذلك الظل فلما لم يمكن أحداً من وضع القدم على ظلك

 عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ الله عزوجل نے آپ کا سایہ زمین پر پڑنے نہیں دیا تاکہ اس پر کسی انسان کا قدم نہ پڑ جائے۔

لیکن خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر مشرکین مکہ نے اوجڑی ڈالی ان  کے دانت پر سر پر ضرب لگائی جسد مبارک  ان کی دی گئی تکلیف کو بشری شان سے برداشت کرتا رہا

نسفی کا  عثمان رضی الله عنہ سے منسوب قول بلا سند ہے

ایک اور دلیل بھی پیش کی جاتی ہے

عن الحسن بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنھما قال سألت خالی ھند بن ابی ھالۃ(ربیب النبی ﷺ) وکان وصافاً عن حلیۃ النبی ﷺ وانا اشتھی ان یصف لی منھا شیئاً اتعلق بہٖ فقال کان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فخما مفخماً یتلا لؤ وجھہٗ تلا لؤ القمر لیلۃ البدر۔
(شمائل ترمذی، ص۲)
ترجمہ۔ سیدنا امام حسن بن علی کہتے ہیں  کہ میں نے اپنے ماموں (نبی ﷺ کے ربیب) ہند بنی ابی ہالہ سے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بہترین وصاف تھے، نبی  حلیہ مبارکہ دریافت کیا، میرا دل چاہتا تھا کہ وہ حلیہ مقدسہ سے کچھ بیان کریں اور میں اس سے پوری طرح متعارف ہو جائوں، توانہوں نے فرمایا  عظیم اور معظم تھے، آپ کا چہرۂ انور ایسا چمکتا اور روشنی دیتا تھا جیسے چودہویں رات میں چاند چمکتا ہے

دلائل النبوہ ابو نعیم میں اس کی سند ہے

 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ: ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: ثنا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ النَّهْدِيُّ وَثنا أَبُو بَكْرٍ الطَّلْحِيُّ قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُزَنِيُّ قَالَ: ثنا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: ثنا جَمِيعُ بْنُ عُمَيْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ بِمَكَّةَ عَنِ ابْنِ أَبِي هَالَةَ التَّمِيمِيِّ [ص:628] عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ التَّمِيمِيَّ وَكَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَنِّي أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا أَتَعَلَّقُ بِهِ فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخْمًا مُفَخَّمًا يَتَلَأْلَأُ وَجْهُهُ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ

اس میں ایک مجھول شخص حسن بن علی سے روایت کر رہا ہے لہذا ضعیف روایت ہے

[/EXPAND]

[قبروں سے فیض پر دیوبندیوں کی پیش کردہ روایات پر سوال ہے]

در محتار میں مطلب فِي زِيَارَة الْقُبُور کے باب میں ہے
رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانَ يَأْتِي قُبُورَ الشُّهَدَاءِ بِأُحُدٍ عَلَى رَأْسِ كُلِّ حَوْلٍ
تاریخ ابن شبہ میں اس کی سند ہے
قال أَبُو غَسَّانَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيِّ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِي قُبُورَ الشُّهَدَاءِ بِأُحُدٍ عَلَى رَأْسِ كُلِّ حَوْلٍ ، فيقول : سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ سورة الرعد آية 24 ، قال : وَجَاءَهَا أَبُو بَكْرٍ ، ثُمَّ عُمَرُ ، ثُمَّ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، فَلَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، حَاجًّا ، جَاءَهُمْ قال : وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَاجَهَ الشِّعْبَ ، قال : ” سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ”
روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں نہیں ملی
اس کی سند میں عباد بن ابی صالح ہے
الذھبی میزان میں کہتے ہیں
قال علي بن المديني: ليس بشئ. کوئی چیز نہیں
وقال ابن حبان: لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد اس کی منفرد روایت سے احتجاج نہ کیا جائے
صحیح مسلم کے مطابق صرف سال وفات میں اپ آخری ایام میں احد کے شہداء کی قبور پر گئے

————-

حضرت مالک دار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ ایک صحابی نبی کریمﷺ کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا۔ یارسولﷺ آپ اپنی امت کے لئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، حدیث نمبر 32002، مکتبہ الرشد، ریاض، سعودی عرب)

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ، قَالَ: أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ: ” ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْكَ الْكَيْسُ، عَلَيْكَ الْكَيْسُ “، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ
الْأَعْمَشِ مدلس عن سے روایت کر رہا ہے ضعیف ہے
ابن حجر حسب روایت اپنی ناقص تحقیق فتح الباری میں پیش کرتے ہیں کہتے ہیں

وروى بن أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ عَنْ مَالِكٍ الدَّارِيِّ وَكَانَ خَازِنُ عُمَرَ قَالَ أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ
لَهُ ائْتِ عُمَرَ الْحَدِيثَ وَقَدْ رَوَى سَيْفٌ فِي الْفُتُوحِ أَنَّ الَّذِي رَأَى الْمَنَامَ الْمَذْكُورَ هُوَ بِلَالُ بْنُ الْحَارِثِ الْمُزَنِيُّ أَحَدُ الصَّحَابَةِ وَظَهَرَ بِهَذَا كُلِّهِ مُنَاسَبَةُ التَّرْجَمَةِ لِأَصْلِ هَذِهِ الْقِصَّةِ أَيْضًا وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ
یہ روایت صحیح ہے

مسند الفاروق میں ابن کثیر اس کو پیش کر کے کہتے ہیں
هذا إسناد جيد قوي
اس کی سند اچھی بہت قوی ہے
مالك الدَّار ایک مجہول شخص ہے افسوس ابن حجر اور ابن کثیر نے وسیلہ کی بد عقیدتی پھیلا دی ہے

البيهقي نے اس کو دلائل النبوة 7 / 47 میں باب ما جاؤ في رؤية النبي صلى الله عليه وسلم في المنام ذکر کیا ہے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا جا سکتا ہے

کتاب المجالسة وجواهر العلم از أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) کے مطابق
قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْمَالِكِيُّ: مَالِكُ الدَّارِ هَذَا هُوَ مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، وَسُمِّيَ مَالِكُ الدَّارِ، لِأَنَّ عُمَرَ وَلَّاهُ دَارَ الصَّدَقَةِ
امام بخاری کہتے ہیں
مَالِكُ بنُ أَوْسٍ، قَالَ بَعْضُهُم: لَهُ صُحْبَةٌ، وَلاَ يَصِحُّ
یہ صحابی نہیں ہے

طبقات ابن سعد کے مطابق مالک الدار اصل میں مالك بن عياض الدار مولى عمر ہیں
ابن أبي حاتم نے الجرح میں اور امام بخاری نے تاریخ الکبیر اس پر سکوت کیا ہے جو مجھول راویوں کے ساتھ کا معاملہ ہے
المنذري (المتوفى: 656هـ) کتاب الترغيب والترهيب من الحديث الشريف میں مالک الدار اور عمر رضی الله عنہ کی ایک دوسری روایت پر لکھتے ہیں
وَمَالك الدَّار لَا أعرفهُ
اور مالک الدار کو نہیں جانتا

الهيثمي في ((مجمع الزوائد)) (3/ 127): مالك الدار لم أعرفه
ہیثمی بھی یہی کہتے ہیں

نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار از الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) کے مطابق
ابن المديني مالک الدار کو مجهول کہتے ہیں

یعنی احناف متقدمین میں یہ مالک الدار مجھول ہے
————
حضرت دائود بن صالح سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی کریمﷺ کی مزارِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے تو اس (مروان) نے کہا: کیا تو جانتا ہے کہ توکیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تودیکھا وہ صحابی رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ اور انہوں نے جواب دیا۔ ہاں میں جانتا ہوں۔ میں رسول اﷲﷺ کے پاس آیا ہوں ’’لم ات الحجر‘‘ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر 23646، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت )

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: أَقْبَلَ مَرْوَانُ يَوْمًا فَوَجَدَ رَجُلًا وَاضِعًا وَجْهَهُ عَلَى الْقَبْرِ، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُو أَيُّوبَ، فَقَالَ: نَعَمْ، جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَبْكُوا عَلَى الدِّينِ إِذَا وَلِيَهُ أَهْلُهُ، وَلَكِنْ ابْكُوا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ»

اسکی سند میں داود بن صالح ہے کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج الحنفي (المتوفى: 762هـ) کے مطابق
ذكره العقيلي وابن الجاورد في «جملة الضعفاء».
وخرج الحاكم حديثه في «المستدرك».
وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الثقات حتى كأنه متعمد لها.
یہ ضعیف راویوں میں سے ہے

مغلطاي حنفی ہیں یہاں بھی متقدمین احناف اس روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں
———-

تاریخ بغداد کی امام شافعی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو عَبْد اللَّهِ الْحُسَيْنُ بْن عَلِيّ بْن مُحَمَّد الصيمري قال أنبأنا عمر بن إبراهيم قال نبأنا عَلِيّ بْن ميمون قَالَ: سمعت الشافعي يقول: إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إِلَى قبره في كل يوم- يَعْنِي زائرا- فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إِلَى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى
کہ میں امام ابو حنیفہ کی قبر پر جاتا تھا

سند میں عُمَر بْن إسحاق بْن إِبْرَاهِيمَ مجھول ہے
علی بن میمون الرقی ایک صاحب ہیں لیکن امام الشافعی کے اصحاب میں سے نہیں ہیں
————
محدث ابن خزیمہ کا امام موسی کی قبر کی زیارت کا حوالہ نہیں ملا اغلبا یہ غلطی ہے یہ بات امام ابن حبان کی ہے وہ قبر امام پر جاتے تھے
⇓ محدث ابن حبان قبروں سے فیض لینے کے قائل تھے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/عرض-اعمال/

محدثین میں قبروں سے فیض حاصل کرنے کی بدعت تیسری اورچوتھی صدی میں شروع ہوئی

قبروں کے پاس جا کر دعائیں کرنے سے ان کی قبولیت پر شریعت میں کوئی رتی دلیل نہیں بلکہ اس پر دلائل تار عنکبوت ہیں

[/EXPAND]

[تفسیر طبری کے مطابق خضر علم الغیب رکھتے تھے]

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ خضر ایک ایسے شخص تھے جس کو علم غیب پتا تھا

 وكان رجلا يعلم علم الغيب

جواب

سند ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال: ثنا ابن إسحاق، عن الحسن بن عمارة، عن الحكم بن عتيبة، عن سعيد بن جبير، قال: جلست فأسْنَدَ ابن عباس

اس روایت کی سند میں الحسن بن عمارة  بن المضرب البجلي مولاهم، أبو محمد الكوفي الفقيه، قاضي بغداد المتوفی ١٥٣ ھ ہے

شعبہ کہتے ہیں کذاب ہے اور محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک متروک ہے

میزان الاعتدال في نقد الرجال از الذہبی  کے مطابق

 روى الحسن بن عمارة أحاديث عن الحكم، فسألنا [الحكم]  عنها، فقال: ما سمعت منها شيئا.

حسن بن عمارہ نے الحکم سے روایت  کیا پھر ہم نے ان روایات کے بارے میں الحکم سے پوچھا تو انہوں نے کہا اس نے مجھ سے کچھ نہ سنا

اور کہا وقال أحمد بن سعيد الدارمي: حدثنا النضر بن شميل، حدثنا شعبة، قال: أفادني الحسن بن عمارة عن الحكم سبعين حديثاً، فلم يكن لها أصل

حسن بن عمارہ نے الحکم بن عتيبة سے ستر احادیث روایت کیں جن کا کوئی اصل نہیں ہے

حیرت ہے کہ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو تفسیر میں بلا جرح نقل کیا ہے اور السيوطي نے الدر المنثور  میں اس روایت کو بیان کیا ہے

[/EXPAND]

[امہات المومنین پیش ہوتی ہیں یہ عقیدہ کیسے بنا]

جواب

یہ عقیدہ اس طرح بنا کہ ابن فورک المتوفی ٤٠٦ ھ جو امام بیہقی کے استاد تھے ایک متکلم تھے ان کی بحث ہوئی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نبی ہیں یا نبی تھے اس کلامی بحث کا انجام اس پر ہوا کہ یہ عقیدہ بنایا گیا کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ رسول الله کی وفات ہوئی تو یہ گویا ان کی نبوت کا انکار ہو جائے گا کہ رسول الله نبی نہیں رہے گویا موت ان متکمین کے نزدیک تمام خوبیوں کی ختم کرنے والی ہے لہذا انہوں نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ رسول الله قبر میں مسلسل زندہ ہی ہیں وہ زندہ ہیں اس لئے رسول بھی رہیں گے لہذا ان کی نبوت قیامت تک ہے

دوسرا عقیدہ یہ بنا کہ قرآن میں ہے کہ ازواج النبی رسول الله کی بیویاں ہیں جن کے بعد وہ اور نکاح نہیں کر سکتے لہذا یہ ازواج بھی حیات سے متصف ہیں اور مسلسل زندہ ہیں
اب چونکہ دونوں زندہ ہیں اور نبی اور ان کی ازواج کا نکاح بھی ہے تو وہ قبر میں ملاقات بھی کرتے ہیں

یہ اس بحث کا ایک کلامی نتیجہ تھا جس کو لوگوں نے قبول کر لیا اور اہل طریقت اور شریعت کا حیات النبی فی القبر پر عقیدہ بن گیا

برصغیر میں اس عقیدہ کو احمد رضا خان صاحب نے پیش کیا
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی حیات حقیقی،حسی،دنیاوی ہے ۔ان پر تصدیق وعدہ الٰہیہ کے لئے محض ایک آن کو موت طاری ہوتی ہے، پھر فورا اُن کو ویسے ہی حیات عطا فرما دی جاتی ہے۔ اس حیات پر وہی احکام دنیویہ ہیں۔ان کا ترکہ نہیں بانٹا جائے گا ،ان کی ازواج کو نکاح حرام نیز ازواج مطہرات پر عدت نہیں ہے وہ اپنی قبور میں کھاتے پیتے اور نماز پڑھتے ہیں،بلکہ سیدی محمد عبدالباقی زرقانی یہ فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں ، وہ اُن سے شب باشی کرتے ہیں ” (ملفوظات حصہ سوم صفہ 362)۔(
———–

راقم کہتا ہے بعض زاویے شروع سے ہی غلط ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر سوچ کے پیمانے بھی غلط ہوتے ہیں اور اگر بنیاد ٹیڑھی ہو تو عمارت بھی سیدھی نہیں رہتی نبوت کو موت سے ختم نہیں کیا جا سکتا یہ سمجھنا کہ ایک نبی کا منصب نبوت موت پر ختم ہوا غلط ہے اصلا انبیاء کی جو ڈیوٹی تھی وہ قومی تھی سوائے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کہ ان کی نبوت و رسالت آخری اور تمام انسانیت کے لئے تھی مثلا جب عالم بالا میں برزخ میں رسول الله کی ملاقات فوت شدہ انبیاء سے معراج پر ہوتی ہے تو اپ صلی الله علیہ وسلم ان کو نبی ہی کہتے ہیں یہ کلامی بحث جنت میں معراج پر نہیں چھڑی کہ یہ انبیاء جو فوت ہوئے اب یہ نبی کیسے ہیں
لہذا متکلمین کا نبوت کو موت سے منسلک کرنا ہی سرے سے غلط تھا

[/EXPAND]

[رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو شارع مجاز کہا جا سکتا ہے ؟ کہا جاتا ہے ]

آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے شارعِ مُجاز بناکر پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دینے کا اختیاربھی عطا فرمایا ہے ،چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ”سنو!مجھے کتاب عطافرمائی گئی ہے اور اُس کی مثل (یعنی میری سنت)بھی اُس کے ساتھ ہے،سنو!قریب ہے کہ ایک شخص پیٹ بھرا ہوا اپنی مَسند پر ٹیک لگائے ہوگا (اور)کہے گا:اس کتاب (قرآن)کو لازم پکڑو،پس جو کچھ تم اس میں حلال پائو ،اُسے حلال جانو اور جو کچھ تم اِس میں حرام پائو، اُسے حرام جانو،سنو!میںتمہارے لیے پالتو گدھے اور کُچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں کو حرام قرار دیتا ہوں ،(ابودائود:4604)‘‘۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں ،جن کی حرمت کا ذکر قرآنِ مجید میں نہیں ہے ، مگر میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور یہ اختیار قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے –

جواب

یہ روایت صحیح ہے

پالتو گدھوں کا گوشت جنگ خیبر پر ممنوع قرار دیا گیا اور روایات کے مطابق اس روز کھانے میں صرف ان کی ممانعت کا حکم ہوا لہذا ظاہر ہے کہ یہ قول نبوی جو اپ نے پیش کیا اس کے بعد کا ہے
فتح خیبر سن ٦ یا ٧ ہجری میں ہوئی اس سے قبل سن ٢ ہجری کی سوره بقرہ میں حکم آ چکا تھا کہ طیب چیزیں کھاؤ مسلمانوں کا خیبر میں گدھوں کو پکانا ظاہر کرتا ہے کہ چونکہ جنگی حالت تھی ان کو اشتباہ تھا کہ یہ حرام نہیں جبکہ یہ حرام تھے لہذا ان کو ذبح کر کے پکا بھی لیا یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خبر ہوئی اور اپ نے اس سے منع کیا یہاں تک کہ برتن بھی تڑوا دیے گئے

جانوروں کی حرمت توریت میں بھی ہے جس کے مطابق گدھے حرام ہیں اور وہ جانور جو کچلیوں سے شکار کرتے ہیں حرام ہیں لہذا یہ حرمت حدیث سے نہیں ہے یہ تو قرآن سے بھی پہلے رسول الله سے بھی پہلے توریت سے چلی آ رہی ہے تمام انبیاء کا دین اسلام ہے جس میں ان چیزوں کی حرمت پہلے سے ہے

توریت میں حکم ہے
you shall not eat this out of those that regurgitate the cud and out of those that have a (undivided) hoof
تم پر حرام ہے کہ کھاؤ ان جانوروں کو جو جگالی کرتے ہیں اور ان میں سے جن کا کھر جڑا ہے

گدھے کا کھر بیچ سے ٹوٹا نہیں ہے لہذا توریت کے مطابق حرام ہے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا واپس اعادہ کیا ہے ظاہر ہے اس دور میں توریت عبرانی میں تھی اور احبار اس کو چھپا کر رکھتے تھے لہذا مسلمان اس توریت کے کھانے کے احکام سے لا علم تھے لیکن رسول الله کو من جانب الله علم تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو براہ راست وہی علم دیا گیا جو توریت میں پہلے بیان ہو چکا تھا

لہذا یہ کہنا کہ رسول الله کو شارع مجاز کیا گیا الفاظ صحیح نہیں ہیں شریعت ساز تو الله ہی ہے اسی کا حکم چلتا ہے اور جو رسول الله حکم کرتے ہیں وہ بھی الوحی کے تحت ہوتے ہیں

ان جانوروں کی حرمت کا حکم کتاب الله قرآن اور توریت دونوں میں ہے یعنی یہ طیب نہیں لیکن چونکہ یہ قرآن کا استخراجی حکم بنتا ہے لہذا رسول الله نے فرمایا کہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ کتاب الله سے نہیں لیا گیا لیکن جیسا ہم نے وضاحت کی یہ احکام کتاب الله یعنی توریت سے لیا گیا اور اپ صلی الله علیہ وسلم نے اسی حکم کا اعادہ کیا

[/EXPAND]

[کچھ لوگ یہ عیقدہ رکھتے ہیں کہ حضور صلی الله وسلم کو چیزوں کو حرام اور حلال کرنے کا اختیار تھا ]

جواب

راقم کے نزدیک اس کی دلیل نہیں ہے رسول الله الوحی کے تابع عمل و حکم کرتے ہیں جو من جانب الله ہے لہذا بہت سے احکام حدیث میں ہیں ان کی بنیاد پر رسول الله کو شارع نہیں کہا جاتا کیونکہ شریعت الله کی ہے
—————-
سوره الاعراف میں ہے
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (157
جو اس رسول النبی الامی کی اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر یہ توریت و انجیل میں پاتے ہیں جو ان کو معروف کا حکم کرتا ہے اور منکر سے روکتا ہے اور طیبات کو حلال کرتا ہے اور خبیت کو حرام کرتا ہے اور بوجھ اور زنجیروں کو اتارنے والا ہے پس جو اس پر رسول پر ایمان لائے اور اس کی مدد کی اور نصرت کی اور اس نور کی اتباع کی جو اس کے ساتھ ہے تو یہ مفلح ہیں
——————–
اس پر کہا جاتا ہے رسول الله کو یہ حثیت حاصل تھی کہ طیب کو حلال کریں کہا جاتا ہے کہ اگر چیز طیب ہو تو اس کو حلال کیوں گیا گیا وہ تو سب کو پتا تھی اسی طرح خبیث بھی سب کو پتا ہو گی تو اس کو رسول الله کے کہنے پر حرام کیا گیا ؟ یہ انداز بریلوی فرقہ کا ہے
https://www.facebook.com/video.php?v=641054195967611&permPage=1
اس کا جواب ہے کہ یہ آیات اہل کتاب کے بارے میں ہے جو کہتے تھے کہ اونٹ حرام ہے جو یہ نبی کھاتا ہے اور توریت میں اونٹ ایک حرام جانور ہے یہ وہ زنجیر تھی جو اہل کتاب نے اپنے اوپر ڈالی ہوئی تھی اونٹ کا گوشت طیب تھا اس کو حلال الله نے کیا لیکن چونکہ رسول الله کی نبوت و رسالت میں یہود و نصاری کو شک ہے اس کو ایک نشانی کے طور پر پیش کیا گیا کہ یہ نبی جو طیب ہے اسی کو حلال کر رہا ہے کیونکہ اونٹ کا گوشت تو یعقوب نے بھی کھایا ہے اسی طرح حرام جن چیزوں کو کیا ان میں سور ہے جس کو نصرانی کھا رہے تھے جو تھا ہی اصلا خبیث

[/EXPAND]

[نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر نور نکلا جس سے عراق و شام روشن ہو گئے؟]

تحقیق درکار ہے

خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )
خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )

اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ: (1545)(سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ:

(1545)

جواب

ابن اسحاق امام مالک کے ہم عصر ہیں اور واقدی امام احمد کے دونوں میں 60 سال کا فرق ہے اس دور میں غلو مسلمانوں میں شروع ہو چکا تھا ان کو کسی طرح یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے نبی سب سے افضل ہیں
اس میں راقم کو کوئی شک نہیں ہے لیکن ان مسلمانوں نے جو طریقه اختیار کیا وہ صحیح نہیں تھا مثلا اہل کتاب نے جو جھوٹی باتیں مشھور کر رکھی تھیں ان کی ان مسلموں نے ایسی تاویل کی کہ یہ باتیں اسلام کے حق میں ہو جائیں یہ روایات پرو پیگنڈا کا ایک نہایت منفی انداز تھا مثلا اہل کتاب میں مشھور تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دوران سفر کسی نسطوری نصرانی سے علم لیا جس کے بعد نبوت کا دعوی کیا یہ کتب آج چھپ چکی ہیں ابن اسحاق نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا اور وہ بھی اس طرح کہ نسطوری راہب بحیرہ سے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بچپن میں ملاقات کا واقعہ بیان کیا جو کذب تھا
نصرانی راہب کو نسطوری اس لیے بیان کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کتھلویک یا آرتھوڈوکس چرچ کا نہیں تھا ان دونوں کا مخالف تھا

اسی طرح انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا

اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں

شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن  کو  بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ  بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ

سند میں  سعيد بن سويد شام حمص کا ہے  میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

امام  البخاري: لا يتابع في حديثه.

امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی

البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

یہ حدیث ہم نہیں جانتے  کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے

یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا

صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے  اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے

راقم کہتا ہے روایت  چاہے  سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے

[/EXPAND]

[کیا حجرہ عائشہ رضی الله عنہا کو مزار کہا جا سکتا  ؟ یہ صحیح بخاری میں ہے ]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ التَّمَّارِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا”. حَدَّثَنَا فَرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ “لَمَّا سَقَطَ عَلَيْهِمُ الْحَائِطُ فِي زَمَانِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَخَذُوا فِي بِنَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ فَفَزِعُوا،‏‏‏‏ وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ”.

ہم سے محمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی) دیوار گری اور لوگ اسے (زیادہ اونچی) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں اللہ گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔

جواب

ابنِ منظور افریقی المتوفی ٧١١ ھ کتاب  لسان العرب میں  لکھتے ہیں

وَالمَزَارُ موضع الزيارة.

مزار سے مراد زیارت کرنے کا مقام ہے۔

ابن منظور إفريقي، لسان العرب، 4 : 333

کتاب  المصباح المنير في غريب الشرح الكبير  المؤلف: أحمد بن محمد بن علي الفيومي ثم الحموي، أبو العباس (المتوفى: نحو 770هـ) کے مطابق

 وَالْمَزَارُ يَكُونُ مَصْدَرًا وَمَوْضِعُ الزِّيَارَةِ وَالزِّيَارَةُ فِي الْعُرْفِ قَصْدُ الْمَزُورِ إكْرَامًا لَهُ وَاسْتِئْنَاسًا بِهِ.

مزار مصدر ہے اور زیارت کا مقام ہے اور اس سے مراد زیارت کرنے والے کا قصد اکرام ہے

اسی سے زَائِر کا لفظ  ہے جس کا معنی ہے : زیارت کے لئے جانے والا شخص یا ملاقاتی۔

حجرہ عائشہ رضی الله عنہا کو دور اصحاب رسول میں مزار نہیں کہا گیا جبکہ یہ عربی کا لفظ ہے

مزار کا لفظ آٹھویں صدی سے پہلے عربی میں نہیں ملتا قرون ثلاثہ میں تو کہیں بھی یہ لفظ موجود نہیں

امیر المومنین الولید نے لہذا مزار کی تعمیر نہیں کی تھی بلکہ حجرہ عائشہ کی تعمیر نو کی تھی تاکہ اس کو مظبوط کیا جا سکے

قبر نبی مرجع الخلائق نہیں تھی  عائشہ رضی الله عنہا کے بعد ان کے بھانجے عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ اور ان کے بعد خبیب بن عبد الله بن زبیر اس کے متولی تھے  خبیب کے قتل کے بعد الولید کے حکم پر عمر بن عبد العزیز نے اس حجرہ کی تعمیر کی تاکہ اس کو مخالفین کا گھڑ بننے سے بچایا جا سکے اور ال زبیر کو اس سے نکالا گیا

لہذا اس حجرہ میں نہ اس سے قبل نہ اس کے بعد کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا جس کو زیارت کہا جائے یہ تاریخ سے ثابت ہے

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني میں ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عبد الله بن دینار المتوفی ١٢٧ ھ نے کہا کہ ابن عمر جب سفر کا ارادہ کرتے اور سفر سے اتے تو قبر نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتے اور وہاں درود پڑھتے اور دعا کرتے پھر جاتے

امام محمد نے کہا : اس طرح  یہ ہونا چاہیے کہ  جب وہ مدینہ جاتے ہوں کہ قبر نبی صلی الله علیہ وسلم پر اتے ہوں

امام محمد نے ایسا کہا کیونکہ ابن عمر رضی الله عنہ مدینہ سے مکہ منتقل ہو گئے تھے

موطا کی اور اسناد  عن: معن والقعنبي، وابن بكير، وأبي مصعب. وقال ابن وهب میں ہے ثم يدعو لأبي بكر وعمر

پھر ابن عمر رضی الله عنہ ، ابو بکر اور عمر کے لئے دعا کرتے

یہ عمل تمام اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کا نہیں تھا صرف ابن عمر رضی الله عنہ کا تھا

کیا یہ زیارت ملاقات ہے ؟  نہیں یہ تو دعا ہے جس کی ضرورت ابن عمر کے مطابق شیخین کو ہے

لہذا زیارت جو بریلوی فرقہ کے ذہن میں ہے وہ اس  روایت نہیں ہے جس میں اہل قبور سے فیض لیا جاتا ہے ان سے بپتائیں بیان کی جاتی ہیں الٹا یہاں تو ان کے لئے دعا کی جا رہی ہے جو شریعت میں معلوم ہے

[/EXPAND]

[ذوالقرنین کون تھے ؟ اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنی ؟]

جواب

سوال : ذو القرنین کون تھے ؟ نبی یا پیغمبر؟
جواب : قرآن میں ان کا بطور حاکم ذکر ہے جو الله کی جانب سے ہدایت پا رہے تھے ان کا دور ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے یہاں تک کہ تاریخ لکھنے سے بھی قبل کا ہے
انہوں نے دیوار بنائی اور الله نے ان کو خبر دی کہ یہ قیامت تک رہے گی لیکن حتمی طور پر ہم کو خبر نہیں کہ واقعی نبی تھے یا نہیں
مستدرک الحاکم کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
وَمَا أَدْرِي ذُو الْقَرْنَيْنِ نَبِيًّا كَانَ أَمْ لَا
میں نہیں جانتا کہ ذوالقرنین نبی تھے یا نہیں

——–
سوال: سوره کہف میں ہے کہ میری زندگی رہی تو اصحاب کہف کے غار پر مسجد بناو گا اس سے حوالہ لیا جاتا ہے کہ دربار بنانا یا قبر سے تبرک لینا جائز ہے
قرآن میں ذکر ہے تو کیوں نہیں بنا سکتے

جواب : قرآن میں سوره کہف میں ہے جب لوگوں نے اصحاب کہف کو دریافت کر لیا اور ان کے غار پر پہنچ کر یہ دیکھ لیا تو
فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا (21)
انہوں نے کہا یہاں دیوار بنا کر (غار کا دھانہ پاٹ دو) ان کا رب ان کے بارے میں جانتا ہے- ان پر جو غلبہ رکھتے تھے انہوں نے کہا ہم اس مقام کو مسجد کے طور پر اختیار کریں گے

یہ قرآن میں ان کا اختلاف بیان ہوا کہ لوگ حکمران کا مذھب اختیار کر لیتے ہیں ورنہ رائے عامہ تھی کہ غار کو بند کر دیا جائے لیکن انہوں نے اس مقام کو مسجد بنا دیا یعنی چرچ – یہ روایت قدیم نصرانییوں میں چلی آئی ہے کہ چرچ اسی مقام پر بنایا جاتا ہے جہاں کوئی بزرگ دفن ہو – ہم کو معلوم ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس چیز سے منع کیا
مزید تفصیل کے لئے کتاب دیکھیں

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/11/مجمع-البحرین.pdf
صفحہ ٢٢ یا ٢٤ پر

مسجد مطلب جہاں سجدہ ہو لہذا حدیث میں چرچ کو بھی مسجد کہا گیا ہے-
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
الله کی لعنت ہو یہود و نصاری پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا دیا

آج کل بھی روم میں سنت پیٹر برگ میں پوپ پیٹر کی قبر کو سجدہ کرتا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=eAJi3q01TUM

پوپ کے آگے اصل میں پطرس کی قبر ہے

اصحاب کہف کا واقعہ ان لوگوں کے ساتھ ہوا جو دوبارہ زندہ ہونے پر شک کر رہے تھے- یہ مسلمان نہیں تھے –
پہلا بادشاہ یونانی و رومی مذھب کا تھا
Roman emperor Decius, around 250 AD
اور دوسرا نصرانی
Theodosius II
کہا جاتا ہے
اس وقت نصرانی تھے لیکن ان میں تثلیث کا عقیدہ بھی تھا اور الوہیت عیسیٰ کا بھی تھا اس میں ان کا اختلاف تھا کہ عیسیٰ کب الوہی ہوا
یہ بادشاہ نصرانی نسطور راھب سے متاثر تھا جو مریم کو والدہ اله کہتا تھا

نصرانی اصحاب کہف کو
the Seven Sleepers of Ephesus
کے نام سے جانتے ہیں

[/EXPAND]

[نور محمدی کو سب سے پہلے خلق کیا گیا؟]
جواب

متن ہے
“أول ما خلق الله نور نبيك يا جابر
اے جابر الله نے سب سے پہلے تمھارے نبی کا نور خلق کیا

سند دی جاتی
عبدالرزق عن معمر عن ابن المنکدر عن جابر

  یہ روایت مصنف عبد الرزق کی کہی جاتی ہے – ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہ اس کتاب میں میں نہیں تھی پھر کسی صوفی دور میں اس کو اس کے کسی نسخہ میں شامل کیا گیا

راقم کے نزدیک یہ امکان بعید ہے

دیگر روایات میں یہ بھی ہے
إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ
سب سے پہلے قلم بنا

ایک اور میں ہے
إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى الْعَقْلُ
سب سے پہلے عقل بنی

ایک میں ہے
أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْقَلَمُ وَالْحُوتُ ,
سب سے پہلے ایک قلم و مچھلی بنی

راقم اس قسم کی بے سروپا بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن بریلوی ذہن کی سطح پر آ کر کچھ کلام کرتا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کو نور کا ثابت کرنے کے لئے اس کو پیش کیا جاتا ہے لیکن صحیح مسلم میں ہے نور بدھ کو خلق ہوا اور فرشتے نور سے بنے
پھر نوری فرشتوں نے خاکی آدم کو سجدہ کیا اس طرح خاک کی اہمیت نور اور اگ (ابلیس کا عنصر) دونوں سے بلند ہو گئی

ابلیس کو صرف عناصر اربعہ کی خبر تھی ہوا – اگ پانی اور زمین اسی میں اس کا ذہن چلا اور بہک کیا – نور عنصر نہیں اگ کا مظہر ہے – اگ جلتی ہے تو نور نکلتا ہے لہذا اگ کو نور سے پہلے خلق کیا گیا ہو گا اور اگ سے ابلیس بنا

نبی کو نور کا کہنے کے بعد یہ لوگ الله تعالی کو نور کہتے ہیں جبکہ الله اپنی مخلوق کی طرح نہیں ہے –
نور الله کی مخلوق ہے کیونکہ یہ جعل یا خلق ہوا

——
یہ روایت اصلا اہل تشیع کی ہے
في البحار، عن رياض الجنان لفضل الله بن محمود الفارسي: عن جابر بن عبد الله قال: قلت لرسول الله (صلى الله عليه وآله): أول شئ خلق الله تعالى ما هو ؟ فقال: نور نبيك يا جابر، خلقه ثم خلق منه كل خير
جس میں سند کو بدل کر اس کو مصنف عبد الرزاق میں لکھا گیا ہے

———
أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) نے اس روایت کا ذکر کتاب المواهب اللدنية بالمنح المحمدية
میں کیا ہے
وروى عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله الأنصارى قال: قلت يا رسول الله، بأبى أنت وأمى، أخبرنى عن أول شىء خلقه الله تعالى قبل الأشياء. قال: يا جابر، إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره،
اس سے پہلے اغلبا کسی نے اس روایت کو بیان نہیں کیا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دسویں صدی میں اس روایت کااندراج مصنف عبد الرزاق میں کیا گیا

مستدرک حاکم میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، إِمْلَاءً، ثنا هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ، ثنا جَنْدَلُ بْنُ وَالِقٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَا عِيسَى آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَكَهُ مِنْ أُمَّتِكَ أَنْ يُؤْمِنُوا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَى الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَكَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولٌ اللَّهِ فَسَكَنَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”

ابن عباس نے کہا الله نے عیسیٰ پر الوحی کی و لو لا محمد ما خلقت آدم ، ولولا محمد ما خلقت الجنة والنار
اور اگر محمد نہ ہوتے تو جنت و جہنم خلق نہ ہوتے
سند میں جندل بن والق بن هجرس التغلبي أبو علي الكوفي ہے امام مسلم اس کو «الكنى» میں متروك الحديث کہتے ہیں

ابن عباس کو عیسیٰ علیہ السلام پر ہونے والی الوحی کا علم کیسے ہوا؟

میزان میں الذہبی کہتے ہیں
عمرو بن أوس.
يجهل حاله.
أتى بخبر منكر.
أخرجه الحاكم في مستدركه، وأظنه موضوعا من طريق جندل بن والق.
حدثنا عمرو بن أوس، حدثنا سعيد عن أبي عروبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن ابن عباس، قال: أوحى الله إلى عيسى آمن بمحمد، فلولاه ما خلقت آدم ولا الجنة ولا النار … الحديث.

سند کا دوسرا راوی عمرو بن اوس مجھول ہے منکر خبر لایا ہے کہ اگر محمد نہ ہوتے تو آدم و جنت و جہنم نہ ہوتے

[/EXPAND]

حیات بعد الموت

[آپ کی رائے میں عقیدہ عود روح شیعوں نے گھڑا اس کی وجہ کیا تھی ؟]

عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ایک شخص بنام عبدللہ بن سبا اسلام میں ظاہر ہوا اس نے دین میں شیعہ عقیدے کی بنیاد ڈالی اور نئی تشریحات کو فروغ دیا

الشھرستانی  اپنی کتاب الملل و النحل ص ٥٠ پر لکھتے ہیں

 السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.

السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ:  تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو  مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا ۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی ( اللہ ان سے راضی ہو) ۔ اور وہ (ابن سبا)  ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی  کی امامت کے لئے بات پھیلآئی ۔ اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے اور انتقال نہیں کر گئے ۔ اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی ۔ اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ  زمین ظلم سے بھری ہے۔ اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا۔ اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے ۔ اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں

ابن اثیر الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٨ پر لکھتے ہیں

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم…

 عبداللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا  پھربصرة پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ھو سکا.  اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس ائے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے. اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا. پھر اس نے کہا : ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمّد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا. اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے  لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو

رجعت کا عقیدہ شیعہ مذھب کی جڑ ہے اور اس کے بنا ساری خدائی بےکار ہے. ابن سبا کو اسلام میں موت و حیات کے عقیدے کا پتا تھا  جس کے مطابق زندگی دو دفعہ ہے اور موت بھی دو دفعہ. اس کی بنیاد  قرآن کی آیات ہیں

سورہ غافر میں ہے

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِي

وہ (کافر) کہیں  گےاے رب تو نے دو زندگیاں دیں اور دو موتیں دیں ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پس یہاں (جہنم ) سے نکلنے کا کوئی رستہ ہے

ابن سبا نے اس عقیدے پر حملہ کیا اور ان آیات کو رجعت کی طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں جب خلفاء کے خلاف خروج ہو گا تو ہم مر بھی گئے تو دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمارے دشمن دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونگے. اس آیت کا شیعہ تفاسیر میں یہی مفھوم لکھا ہے اور اہل سنت جو مفھوم بیان کرتے ہیں وہ شیعہ کے نزدیک اہل سنت کی  عربی کی  غلط سمجھ بوجھ ہے

رجعت کے عقیدہ کو اہل سنت میں استوار کرنے کے لئے دو زندگیوں اور دو موتوں والی آیات کو ذھن سے نکالنا ضروری تھا. اس کے لئے عود روح کی روایت بنائی گئیں کہ ایک دفعہ مردے میں موت کا مفھوم ختم ہو جائے تو پھر میدان صاف ہے. آہستہ آہستہ اہل سنت مردے کے سننے اور مستقبل میں کسی مبارزت طلبی پر قبر سے باہر نکلنے کا عقیدہ اختیار کر ہی لیں گے

 لہذا عود روح  کی روایات شیعہ راویوں  زاذان، المنھال بن عمرو، عدی بن ثابت، عمرو بن ثابت نے اصحاب رسول کی طرف منسوب کیں اور بالاخر یہ راوی کم از کم اس بات میں کامیاب ہوئے کہ دو موتوں اور دو  زندگیوں کا اصول ذہن سے محو ہو گیا

جب بھی دو موتوں اور دو  زندگیوں  والی آیات پر بات کی جاتی ہے تو خود سنی ہونے کے دعویدار کہتے ہیں  کیا کیجئے گا قرآن میں  تو خود تین زندگیوں والی آیات موجود ہیں  کہ الله نے قوم موسی کو زندہ کیا عیسی نے زندہ کیا وغیرہ ، گویا با الفاظ دیگر روایات نے ان آیات کو منسوخ کر دیا یا نعوذ باللہ، قرآن غیر ذی عوج میں صاف بات نہیں کہی گئی

 کبھی کہتے ہیں کہ موت نیند ہے انسان زندگی میں سینکڑوں دفعہ سوتا ہے  اور لا تعداد موتوں سے ہمکنار ہوتا ہے یعنی وہی سبائی سوچ کے تسلط میں قرآن میں تضاد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے. افسوس تمہاری سوچ پر اور افسوس تمہاری عقل پر

الغرض سبائی سوچ کامیاب ہوئی اور امام احمد اپنی ضخیم مسند میں موجود بدعتی روایات ضعیفہ  پر ایمان لائے اور فتوی دینے لگے کہ ایمانیات میں سے ہے کہ

والإيمان بمنكر ونكير وعذاب القبر والإيمان بملك الموت يقبض الأرواح ثم ترد في الأجساد في القبور فيسألون عن الإيمان والتوحيد

 ایمان  لاو منکر نکیر اور عذاب قبر پر اور موت کے فرشتے پر کہ وہ روحوں کو قبض کرتا ہے پھر جسموں میں لوٹاتا ہے قبروں میں  پس سوال کیا جاتا ہے ایمان اور توحید پر

بحوالہ طبقات الحنابلة كاملاً  لابي يعلى الحنبلي

وہ یہ بھی کہنے لگے

كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس

بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے

بحوالہ كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت

 امام احمد  جمعہ کی اس مخصوص ساعت میں یہ مانتے تھے کہ مردہ قبر سے باہر والے کو پہچانتا ہے

عود روح کے امام احمد کے عقیدے کو  بظاہر شیعہ مخالف دمشقی عالم ابن تیمیہ بھی  یہ مان گئے  اور فتوی میں کہا کہ امام احمد کے یہ الفاظ  امت کے نزدیک تلقاها بالقبول کے درجے میں ہیں یعنی قبولیت کے درجے پر ہیں

ابن تیمیہ نے لکھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں اور حسین و یزید کے معرکے میں خالی مسجد  النبی میں قبر سے  اذان دیتے رہے

وہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم میں لکھتے ہیں

وكان سعيد ين المسيب في أيام الحرة يسمع الأذان من قبر رسول الله صلى الله عليه و سلم في أوقات الصلوات وكان المسجد قد خلا فلم يبقى غيره

اور  سعيد ين المسيب ایام الحرہ میں اوقات نماز  قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم سے اذان کی آواز سن کر معلوم کرتے تھے اور مسجد (النبی) میں کوئی نہ تھا  اور وہ با لکل خالی تھی

!بس کسر ہی رہ گی ، نبی  صلی الله علیہ وسلم قبر سے نہ  نکلے .شاید  رجعت کا وقت نہیں آیا تھا

اب تو عقیدے کا بگاڑ سر چڑھ کر بولا. ارواح کا قبروں میں اترنا اور چڑھنا شروع ہوا . روحوں نے اپنی تدفین کا مشاہدہ کیا. زندوں کے اعمال مرودں کو دکھائے جانے لگے نبی کی قبر پر بنے گنبد پر لب سی لئے گئے اور کسی نے اس پر کلام کیا تو ان کی آواز کو فتووں کی گھن گرج سے پست کر دیا گیا

[/EXPAND]

[ڈاکٹر عثمانی صاحب نے البرزخ کو مقام بتایا ہے جبکہ اہل حدیث اس کو دنیا میں ہی مانتے ہیں اس میں کیا صحیح ہے ؟]

لغوی طور پر برزخ سے مراد آڑ ہے جیسا قرآن میں ہے کہ دو سمندر اپس میں نہیں ملتے کیونکہ ان کے درمیان برزخ ہے سوره الرحمان میں ہے

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ  بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِيَانِ

البرزخ سے مراد عالم ارواح ہے

اصطلاحا البرزخ سے مراد عالم ارواح ہے

قرآن کی سوره المومنون کی ٩٩ اور ١٠٠ آیات ہیں

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

یہاں تک کہ ان میں جب کسی کو موت اتی ہے تو کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دے تاکہ صالح اعمال کروں ہرگز نہیں یہ تو صرف ایک قول ہے جو کہہ رہا ہے اور اب ان کے درمیان (برزخ ) آڑ حائل ہے  یہاں تک کہ ان کو دوبارہ اٹھایا جائے

قرآن کی آیت ہے کہ جس ذی روح پر موت کا فیصلہ ہوتا ہے اس کی روح روک لی جاتی  ہے جس کو امساک روح کہا جاتا ہے

وہ مقام جہاں روح کو رکھا جاتا ہے اس کو  آڑ کی نسبت سے البرزخ کہا  گیا ہے

البرزخ کی اصطلاح  بہت قدیم ہے ، ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦،  ابن جریر الطبری ٣١٠ ھ،  ابن حزم المتوفی ٤٥٧ ھ، ابن الجوزی  المتوفی ٥٩٧ ھ   نے اس کو استعمال کیا ہے . اس کو اردو میں ہم عالم ارواح کہتے ہیں. اسی مفھوم میں ڈاکٹر عثمانی نے بھی اس کو استعمال کیا ہے.

ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦ ھ کتاب تأويل مختلف الحديث میں لکھتے ہیں

وَنَحْنُ نَقُولُ: إِنَّهُ إِذَا جَازَ فِي الْمَعْقُولِ، وَصَحَّ فِي النَّظَرِ، وَبِالْكِتَابِ وَالْخَبَرِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ، بَعْدَ أَنْ تَكُونَ الْأَجْسَادُ قَدْ بَلِيَتْ، وَالْعِظَامُ قَدْ رَمَّتْ1، جَازَ أَيْضًا فِي الْمَعْقُولِ، وَصَحَّ فِي النَّظَرِ، وَبِالْكِتَابِ وَالْخَبَرِ، أَنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ بَعْدَ الْمَمَاتِ فِي الْبَرْزَخِ.

ابو محمّد ابن قتیبہ نے کہا  اور ہم کہتے ہیں   بے شک  عقلی لحاظ سے اور صحیح النظر اور کتاب الله اور خبر (حدیث رسول ) سے پتا چلا ہے کہ بے شک الله تعالیٰ ان جسموں کو جو قبروں میں ہیں گلنے سڑنے اور ہڈیاں بننے کے بعد ان کو اٹھائے گا جب وہ مٹی ہو جائیں گے اور صحیح النظر اور کتاب الله اور خبر (حدیث رسول ) سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ان کو البرزخ میں عذاب دیا جائے گا

 ابن جریر الطبری المتوفی ٣١٠ ھ  سورہ بقرہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں اگر کوئی سوال کرے

وإذا كانت الأخبار بذلك متظاهرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما الذي خُصَّ به القتيل في سبيل الله، مما لم يعم به سائر البشر غيره من الحياة، وسائرُ الكفار والمؤمنين غيرُه أحياءٌ في البرزخ، أما الكفار فمعذبون فيه بالمعيشة الضنك، وأما المؤمنون فمنعَّمون بالروح والريحان ونَسيم الجنان؟

اور  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان کے لئے خاص  ہے جو الله کی راہ میں قتل ہوئے  تو کیا  سارے انسان  بشمول کفار اور مومنین  سب البرزخ میں زندہ ہیں

یعنی  سوال یہ ہے کہ شہداء برزخ میں ہیں  تو دیگر انسان وہاں کیسے  ہو سکتے ہیں

اس سوال کا جواب الطبری دیتے ہیں

أَنَّهُمْ مَرْزُوقُونَ مِنْ مَآكِلِ الْجَنَّةِ وَمَطَاعِمِهَا فِي بَرْزَخِهِمْ قَبْلَ بَعْثِهِمْ، وَمُنَعَّمُونَ بِالَّذِي يَنْعَمُ بِهِ دَاخِلُوها بَعْدِ الْبَعْثِ مِنْ سَائِرِ الْبَشَرِ مِنْ لَذِيذِ مَطَاعِمِهَا الَّذِي لَمْ يُطْعِمْهَا اللَّهُ أَحَدًا غَيْرَهُمْ فِي بَرْزَخِهِ قَبْلَ بَعْثِهِ

شہداء کو جنت کے کھانے  انکی برزخ ہی میں ملیں گے زندہ ہونے سے پہلے،  اور وہ نعمتوں سے مستفیض ہونگے دوسرے لوگوں سے پہلے اور لذیذ کھانوں سے،  جن کوالله  کسی بھی بشر کو نہ  چکھائے  گا برزخ میں ،  زندہ ہونے سے پہلے

الطبری کی تفصیل سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک سب ارواح البرزخ میں ہیں اگزچہ شہداء ان سے بہتر حالت اور نعمت پا رہے ہیں

 ابن حزم المتوفی ٤٥٦ ھ  قبر میں عود روح کے انکاری ہیں اور البرزخ کی اصطلاح عالم ارواح کے لئے استمعال کرتے ہیں.   اور عذاب کو صرف روح پر مانتے ہیں. ڈاکٹر عثمانی اس  بات میں ان سے متفق ہیں

 کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل  میں لکھتے ہیں

ثمَّ ينقلنا بِالْمَوْتِ الثَّانِي الَّذِي هُوَ فِرَاق الْأَنْفس للأجساد ثَانِيَة إِلَى البرزخ الَّذِي تقيم فِيهِ الْأَنْفس إِلَى يَوْم الْقِيَامَة وتعود أجسامنا تُرَابا

پس الله ہم کو دوسری موت کے بعد جو نفس کی جسم سے علیحدگی ہے ہم کو برزخ میں منتقل کر دے گا اور ہمارے جسم مٹی میں لوٹائے گا

 فيبلوهم الله عز وَجل فِي الدُّنْيَا كَمَا شَاءَ ثمَّ يتوفاها فترجع إِلَى البرزخ الَّذِي رَآهَا فِيهِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لَيْلَة أسرى بِهِ عِنْد سَمَاء الدُّنْيَا أَرْوَاح أهل السَّعَادَة عَن يَمِين آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وأرواح أهل الشقاوة وَعَن يسَاره عَلَيْهِ السَّلَام

پس الله ہم کو آزمائے گا دینا میں جیسا چاہے گا پھر موت دے گا اور برزخ میں لوٹائے گا جس کو اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دکھایا تھا معراج کی رات کہ نیک لوگوں کی ارواح آدم علیہ السلام کی دائیں طرف اور بد بختوں کی بائیں طرف تھیں

ابن حزم صاف لفظوں میں البرزخ کو ایک عالم کہتے ہیں

ابن کثیر  المتوفی ٧٧٤ ھ تفسیر ج ١ ص ١٤٢ میں لکھتے ہیں

وَقَوْلُهُ تَعَالَى: {وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ} يُخْبِرُ تَعَالَى أَنَّ الشُّهَدَاءَ فِي بَرْزَخِهِمْ أَحْيَاءٌ يُرْزَقُونَ كَمَا جَاءَ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ: ” إِنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طيور خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَاطَّلَعَ عليهم ربك اطلاعة فقال: ماذا تبغون؟ قالوا: يَا رَبَّنَا وَأَيُّ شَيْءٍ نَبْغِي وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ؟ ثُمَّ عاد عليهم بِمِثْلِ هَذَا فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَا يُتْرَكُونَ من أن يسألوا، قالو: نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّنَا إِلَى الدَّارِ الدُّنْيَا فَنُقَاتِلَ فِي سَبِيلِكَ حَتَّى نُقْتَلَ فِيكَ مَرَّةً أُخرى – لما يرون من ثواب الشاهدة – فَيَقُولُ الرَّبُّ جَلَّ جَلَالُهُ: إِنِّي كَتَبْتُ أَنَّهُمْ إليها لا يرجعون” وَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ تَعْلَقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهُ الله إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ» فَفِيهِ دَلَالَةٌ لِعُمُومِ الْمُؤْمِنِينَ أَيْضًا وَإِنْ كَانَ الشُّهَدَاءُ قَدْ خُصِّصُوا بِالذِّكْرِ فِي الْقُرْآنِ تَشْرِيفًا لَهُمْ وَتَكْرِيمًا وَتَعْظِيمًا.

 اور الله تعالی کا قول  (وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ) پس الله نے خبر دی کہ بے شک شہداء اپنی برزخ میں ہیں زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں آیا ہے بے شک شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ہیں جس میں وہ جنت کی سیر کرتے ہیں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں پھر واپس قندیل میں جو عرش سے لٹک رہے ہیں ان میں اتے ہیں

ابن کثیر البرزخ کو شہداء کی جنت کہتے ہیں

ابن کثیر تفسیر سوره بنی اسرائیل یا الاسراء آیت ١٥ تا ١٧ میں سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے حوالے سے لکھتے ہیں جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ  مشرکین کے کم عمری میں انتقال کرنے والے بچے جنت میں ہیں

وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ سَمُرَةَ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ رَأَى مع إبراهيم عليه السلام أَوْلَادَ الْمُسْلِمِينَ وَأَوْلَادَ الْمُشْرِكِينَ، وَبِمَا تَقَدَّمَ فِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ عَنْ حَسْنَاءَ عَنْ عَمِّهَا أَنَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:«وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ» وَهَذَا اسْتِدْلَالٌ صَحِيحٌ، وَلَكِنْ أَحَادِيثُ الِامْتِحَانِ أَخَصُّ مِنْهُ. فَمَنْ عَلِمَ الله مِنْهُ أَنَّهُ يُطِيعُ جَعَلَ رُوحَهُ فِي الْبَرْزَخِ مَعَ إِبْرَاهِيمَ وَأَوْلَادِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِينَ مَاتُوا عَلَى الْفِطْرَةِ

اور انہوں نے احتجاج کیا ہے حدیث سَمُرَةَ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا  مسلمانوں اور مشرکین کی اولادوں کو إبراهيم عليه السلام کے ساتھ اور …. پس الله نے علم دیا کہ ان کی روحوں کو برزخ میں ابرهیم اور مسلمانوں کی اولاد کے ساتھ کیا، جن کی موت فطرت پر ہوئی

الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء ج ٧ ص ٥٧٠ میں لکھتے ہیں

وَمِنْ ذَلِكَ اجْتِمَاعُ آدَمَ وَمُوْسَى لَمَّا احْتَجَّ عَلَيْهِ مُوْسَى، وَحَجَّهُ آدَمُ بِالعِلْمِ السَّابِقِ، كَانَ اجْتِمَاعُهُمَا حَقّاً، وَهُمَا فِي عَالِمِ البَرْزَخِ، وَكَذَلِكَ نَبِيُّنَا -صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَخبَرَ أَنَّهُ رَأَى فِي السَّمَاوَاتِ آدَمَ، وَمُوْسَى،وَإِبْرَاهِيْمَ، وَإِدْرِيْسَ، وَعِيْسَى، وَسَلَّمَ عَلَيْهِم، وَطَالَتْ مُحَاوَرَتُهُ مع مُوْسَى، هَذَا كُلُّه حَقٌّ، وَالَّذِي مِنْهُم لَمْ يَذُقِ المَوْتَ بَعْدُ، هُوَ عِيْسَى -عَلَيْهِ السَّلاَمُ- فَقَدْ تَبَرْهَنَ لَكَ أَنَّ نَبِيَّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اور اس میں آدم و موسی کا اجتماع ہوا جب موسی نے اس سے بحث کی لیکن آدم علم سابق کی وجہ سے کامیاب رہے اور ان کا یہ اجتماع حق ہے اور وہ عالم البرزخ میں تھے اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے آسمانوں پر آدم موسی ابراہیم ادریس عیسی وسلم علیھم کو دیکھا اور موسی کے ساتھ دور گزارا یہ سب حق ہے اور ان میں عیسی علیہ السلام بھی تھے جنہوں نے ابھی موت نہیں چکھی پس اس سب کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے واضح کیا

اس سب وضاحت سے الذہبی نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ البرزخ ایک عالم ہے

الذہبی شہداء کے لئے کہتے ہیں

وَهَؤُلاَءِ حَيَاتُهُم الآنَ الَّتِي فِي عَالِمِ البَرْزَخِ حَقٌّ

ان کی زندگی اس وقت عالم البرزخ میں حق ہے

نبی  صلی الله علیہ وسلم کے لئے کہتے ہیں

وَهُوَ حَيٌّ فِي لَحْدِهِ، حَيَاةَ مِثْلِهِ فِي البَرزَخِ

وہ اپنی قبر میں زندہ ہیں، زندگی جو البرزخ کی مثل ہے

الذھبی قبر میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے قائل ہیں   ان کے نزدیک سب انبیاء اور شہداء البرزخ میں ہیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم اسی نوعیت کی زندگی کے ساتھ قبر میں جو ایک غلط عقیدہ ہے البتہ ان کے نزدیک البرزخ ایک مقام ہے جو دنیا سے الگ ہے

ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ کتاب تفسير القرآن الكريم   میں ال فرعون پر عذاب پر  لکھتے ہیں

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَعَشِيًّا فهذا في البرزخ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ فهذا في القيامة الكبرى.

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَعَشِيًّا پس یہ  البرزخ میں ہے  وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ پس یہ قیامت میں ہوگا.

ابن قیّم اپنی کتاب  روضة المحبين ونزهة المشتاقين میں  سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت پر لکھتے ہیں کہ

  فأما سبيل الزنى فأسوأ سبيل ومقيل أهلها في الجحيم شر مقيل ومستقر أرواحهم في البرزخ في تنور من نار يأتيهم لهبها من تحتهم فإذا أتاهم اللهب ضجوا وارتفعوا ثم يعودون إلى موضعهم فهم هكذا إلى يوم القيامة كما رآهم النبي صلى الله عليه وسلم في منامه ورؤيا الأنبياء وحي لا شك فيها

پس زنا کا راستہ بہت برا راستہ ہے اور اس کے کرنے والے جہنم میں ہیں برا مقام ہے اور ان کی روحیں البرزخ میں تنور میں آگ میں ہیں جس کی لپٹیں ان کو نیچے سے آتی ہیں پھر وہ واپس اپنی جگہ آتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن تک ہو گا جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو نیند میں خواب میں دکھایا گیا جو وحی تھی جس میں کوئی شک نہیں

ابن قیم البرزخ میں عذاب اجتماعی بتاتے ہیں جو حدیث کے مطابق ہے

ابن قیم کتاب الروح میں الْمُعْتَزلَة کا موقف لکھتے ہیں

من يَقُول إِن البرزخ لَيْسَ فِيهِ نعيم وَلَا عَذَاب بل لَا يكون ذَلِك حَتَّى تَقول السَّاعَة الْكُبْرَى كَمَا يَقُول ذَلِك من يَقُوله من الْمُعْتَزلَة وَنَحْوهم مِمَّن يُنكر عَذَاب الْقَبْر ونعيمه بِنَاء على أَن الرّوح لَا تبقى بعد فِرَاق الْبدن

جو یہ کہے کہ البرزخ میں نہ راحت ہے نہ عذاب بلکہ یہ قیامت قائم ہونے تک نہیں ہو گا  ایسا جیسا الْمُعْتَزلَة اور انکے جیسے  کہتے ہیں جو عذاب القبر کا انکار کرتے ہیں اور روح کے جسم سے نکلنے کے بعد اسکی بقا کے انکاری ہیں

معلوم ہوا کہ اصل عذاب البرزخ کا ہے جو ایک علیحدہ مقام ہے

ابن تیمیہ فتوی میں کہتے ہیں

فِي سُورَة الْمُؤمن وَهُوَ قَوْله {وحاق بآل فِرْعَوْن سوء الْعَذَاب النَّار يعرضون عَلَيْهَا غدوا وعشيا وَيَوْم تقوم السَّاعَة أدخلُوا آل فِرْعَوْن أَشد الْعَذَاب} وَهَذَا إِخْبَار عَن فِرْعَوْن وَقَومه أَنه حاق بهم سوء الْعَذَاب فِي البرزخ وَأَنَّهُمْ فِي الْقِيَامَة يدْخلُونَ أَشد ا/bلْعَذَاب وَهَذِه الْآيَة أحد مَا اسْتدلَّ بِهِ الْعلمَاء على عَذَاب البرزخ

سوره المومن اور الله کا قول {وحاق بآل فِرْعَوْن سوء الْعَذَاب النَّار يعرضون عَلَيْهَا غدوا وعشيا وَيَوْم تقوم السَّاعَة أدخلُوا آل فِرْعَوْن أَشد الْعَذَاب}  اور فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں خبر ہے کہ ان کو بد ترین عذاب البرزخ میں دیا جا رہا ہے اور قیامت کے دن شدید عذاب میں داخل کیا جائے گا اور اس آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے عذاب البرزخ پر

ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) شرح العقيدة الطحاوية میں لکھتے ہیں

فَإِنَّهُمْ لَمَّا بَذَلُوا أَبْدَانَهَمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى أَتْلَفَهَا أَعْدَاؤُهُ فِيهِ، أَعَاضَهُمْ مِنْهَا فِي الْبَرْزَخِ أَبْدَانًا خَيْرًا مِنْهَا، تَكُونُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيَكُونُ تَنَعُّمُهَا بِوَاسِطَةِ تِلْكَ الْأَبْدَانِ، أَكْمَلَ مِنْ تَنَعُّمِ الْأَرْوَاحِ الْمُجَرَّدَةِ عَنْهَا

پس جب انہوں (شہداء) نے اپنے جسم الله کے لئے لگا دیے حتیٰ کہ ان کے دشمنوں نے ان پر زخم لگانے، ان کو البرزخ میں اس سے بہتر جسم دیے گئے جو قیامت تک ہونگے، اور وہ نعمتیں ان بدنوں  کے واسطے سے حاصل کریں گے، جو مجرد ارواح سے حاصل کرنے سے زیادہ کامل شکل ہے

ڈاکٹر عثمانی کے علاوہ یہ سب عالم ارواح کوالبرزخ کہتے ہیں جیسا کہ حوالے اوپر دیے گئے ہیں

 ابن أبي العز الحنفي کہہ رہے ہیں کہ شہداء کے نئے اجسام ہیں جن سے وہ نعمت حاصل کرتے ہیں جو صرف روحوں کے رزق حاصل کرنے سے بہتر ہے یہ فرقہ اہل سنت و اہل حدیث کے موجودہ عقیدے کے خلاف ہے دونوں فرقے کہتے ہیں کہ شہداء کے سبز پرندے ان کے ہوائی جہاز ہیں جن میں وہ جنت کی سیر کرتے ہیں دیکھئے تسکین الصدور از سرفراز صفدر اور ابو جابر دامانوی کی کتب

خیال رہے کہ ابن تیمیہ ابن قیم اور ابن کثیر کا عقیدہ فرقہ اہل حدیث کے موجودہ عقیدے سے الگ ہے

ابن تیمیہ  المتوفی ٧٢٨ ھ ،ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ، ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ اور ابن حجرالمتوفی ٨٥٢ ھ (سب ابن حزم کے بعد کے ہیں)، روح کا اصل مقام البرزخ مانتے ہیں جو عالم ارواح ہے . یہ سب روح پر عذاب، البرزخ میں مانتے ہیں اور اس کا اثر قبر میں بھی مانتے ہیں اس تمام عذاب کو جو البرزخ میں ہو یا روح کے تعلق و اتصال  سے  قبر میں ہو ، اس کو وہ عذاب القبر یا عذاب البرزخ کہتے ہیں .  روح کا جسد سے مسلسل تعلق مانتے ہیں جس میں آنا فانا روح قبر میں اتی ہے اور جاتی ہے اس کی مثال وہ سورج اور اسکی شعاوں سے دیتے ہیں. ان کے نزدیک عود روح استثنائی نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے دیکھئے کتاب الروح از ابن قیم المتوفی ٧٥١ ھ

یہ لوگ جب  البرزخ بولتے ہیں تو اس سے مراد عالم ارواح ہوتا ہے

تفسيرابن كثيرسوره غافر میں ابن کثیر لکھتے ہیں

أنَّ الْآيَةَ دَلَّتْ عَلَى عَرْضِ الْأَرْوَاحِ إِلَى النَّارِ غُدُوًّا وَعَشِيًّا فِي الْبَرْزَخِ، وَلَيْسَ فِيهَا دَلَالَةٌ عَلَى اتِّصَالِ تَأَلُّمِهَا بِأَجْسَادِهَا فِي الْقُبُورِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ ذَلِكَ مُخْتَصًّا بِالرُّوحِ، فَأَمَّا حُصُولُ ذَلِكَ لِلْجَسَدِ وَتَأَلُّمُهُ بِسَبَبِهِ، فَلَمْ يَدُلَّ عَلَيْهِ إِلَّا السُّنَّةُ فِي الْأَحَادِيثِ

بے شک یہ آیت دلالت کرتی ہے ارواح کی آگ پر پیشی پر صبح و شام کو البرزخ میں،  اور اس میں یہ دلیل نہیں کہ یہ عذاب ان کے اجساد سے جو قبروں میں ہیں متصل ھو جاتا ہے، پس اس (عذاب) کا جسد کو پہنچنا اور اس کے عذاب میں ہونے پر احادیث دلالت کرتی  ہیں 

ابن کثیر واضح کر رہے ہیں کہ قرآن میں عذاب البرزخ کا ذکر ہے اور اس کا تعلق قبر سے نہیں بتایا گیا البتہ یہ احادیث میں ہے ہمارے نزدیک یہ اس وجہ ہے کہ احادیث کا صحیح مدعا نہیں سمجھا گیا اور ان کا رخ دنیاوی قبر کی طرف موڑ دیا گیا. قرآن میں  کفار پر عذاب النار یا عذاب جہنم کا ذکر ہے جس کو عذاب البرزخ یا عذاب قبر کہا جاتا ہے.

مومنوں پر عذاب  کا علم ١٠ ہجری میں سورج گرہن میں  دیا گیا   جس روز ام المومنین مارية القبطية  رضی الله تعالی عنہ اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم انتقال کر گئے(١٦ ربیع الاول ١٠ ہجری بحوالہ اہل بیت کا مختصر تعارف از ابو ریحان علامہ ضیاء الرحمان فاروقی ).  لہذا مومنوں پر عذاب قبر کی تمام روایات اس سے بعد کی ہیں جو ایک نہایت مختصر مدت  تقریبا ایک سال ہے  (نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ١٢ ربیع الاول 11 ہجری کی ہے ) اس کے برعکس اگر اس مسئلہ پر تمام صحیح (و ضعیف) روایات اکٹھی کی جائیں جیسا کہ ارشد کمال نے المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے تو اس سے گمان ہوتا ہے کہ ساری مدنی زندگی میں صرف اسی مسئلہ پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے گفتگو  کی

برزخ کی  زندگی  سے مراد قبر ہے

 البرزخ کے مفہوم میں تبدیلی ابن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ)  نے کی. ان سے پہلے اس کو عالم ارواح کے لئے استعمال کیا جاتا تھا. انہوں نے البرزخ کے مفھوم میں  عالم ارواح اور دیناوی قبر دونوں کو شامل کر دیا گیا . ابن عبد الھادی  اپنی کتاب الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي میں ایک نئی اصطلاح متعارف کراتے ہیں

وليعلم أن رد الروح (إلى البدن)  وعودها إلى الجسد بعد الموت لا يقتضي استمرارها فيه، ولا يستلزم حياة أخرى قبل يوم النشور نظير الحياة المعهودة، بل إعادة الروح إلى الجسد في البرزخ إعادة برزخية، لا تزيل عن الميت اسم الموت

اور جان لو کہ جسم میں موت کے بعد عود روح  ہونے سے ضروری نہیں کہ تسلسل ہو – اور اس سے دوسری زندگی بھی لازم نہیں آتی …بلکہ یہ ایک برزخی زندگی ہے  جس سے میت پر موت کا نام زائل نہیں ہوتا

 یہ مفہوم نص قرآنی سے متصادم ہے

اس کے بعد اسلامی کتب میں قبر میں  حیات برزخی کی اصطلاح انبیاء اور شہداء سے لے کر عام مردوں تک کے لئے استعمال ہونے  لگی لہذا یہ ایک لچک دار  آصطلاح بنا دی گئی جس میں عالم ارواح اور قبر دونوں کا مفھوم تھا

 اہل حدیث فرقہ اور پرویز اور اب کرامیہ 

علامہ پرویز کی ایک صفت تھی کہ قرآن کی کسی بھی بات کو وہ اصطلاح نہیں مانتے تھے بلکہ ہر بات لغت سے دیکھتے تھے چاہے نماز ہو یا روزہ ، جن ہوں یا فرشتے ایک سے بڑھ کر ایک تاویل انہوں نے کی . کچھ اسی طرز پر آج کل اہل حدیث فرقہ کی جانب سے تحقیق ہو رہی ہے اور انہوں نے بھی لغت پڑھ کر البرزخ کو صرف ایک کیفیت ماننا شروع کر دیا ہے نہ کہ ایک مقام

ابو جابر دامانوی  کتاب عذاب قبرکی حقیقت  میں  لکھتے ہیں

برزخ کسی مقام کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک آڑ یا پردہ ہے۔ پردہ سے مراد یہاں دنیاوی پردہ نہیں ہے جیسا کہ بعض کوتاہ فہموں کو غلط فہمی ہوئی ہے بلکہ یہ ایک ایسا مضبوط پردہ اور آڑ ہے کہ جسے کراس کرنا انسانی بس سے باہر ہے البتہ یہ پردہ قیامت کے دن دور ہو جائے گا

مقام حیرت ہے کہ ابو جابر کے مدح سرا  اور ان کی عذاب قبر سے متعلق کتابوں پر پیش لفظ لکھنے والے زبیر علی زئی  حدیث  ہر چیز تقدیر سے ہے حتیٰ کہ عاجزی اور دانائی بھی تقدیر سے ہے  کی شرح میں  لکھتے ہیں

وعن أبي ھریرۃ، قال : قال رسول اللہ ﷺ
((احتج آدم و موسیٰ عند ربھما ، فحج آدم موسیٰ؛ قال موسیٰ: أنت آدم الذي خلقک اللہ بیدہ، ونفخ فیک من روحہ، و أسجد لک ملائکتہ، وأسکنک في جنتہ، ثم أھبطت الناس بخطیئتک إلی الأرض؟ قال آدم أنت موسی الذي اصطفاک اللہ برسالتہ و بکلامہ، و أعطاک الألواح فیھا تبیانُ کل شئ، وقربک نجیاً، فبکم و جدت اللہ کتب التوراۃ قبل أن أخلق؟ قال موسیٰ: بأربعین عاماً. قال آدم: فھل و جدت فیھا “وَعَصٰی آدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی”؟ قال: نعم، قال : أفتلو مُني علیٰ أن علمتُ عملاً کتبہ اللہ عليَّ أن أعملہ قبل أن یخلقني بأربعین سنۃ؟ قال رسول اللہ ﷺ فحجَّ آدمُ موسیٰ.)) رواہ مسلم
(سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے پاس (آسمانوں پر عالم ارواح میں) بحث و مباحثہ کیا تو آدم (علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام)پر غالب ہوئے ۔ موسیٰ(علیہ السلام) نے (آدم علیہ السلام سے ) کہا : آپ وہ آدم ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی (پیدا کردہ) روح پھونکی اور آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا پھر آپ نے اپنی غلطی کی وجہ سے لوگوں کو (جنت سے ) زمین پر اتار دیا ؟
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا: تم وہ موسیٰ ہو جسے اللہ نے اپنی رسالت اور کلام کے ساتھ چُنا اور تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے اور تمہیں سر گوشی کے لئے (اللہ نے) اپنے قریب کیا، پس تمہارے نزدیک میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے اللہ نے تورات لکھی؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا: چالیس سال پہلے۔
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا : کیا تم نے اس میں یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ “اور آدم نے اپنے رب کے حکم کو ٹالا تو وہ پھسل گئے “؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا : جی ہاں ، (آدم علیہ السلام نے )کہا : کیا تم مجھے اس عمل پر ملامت کرتے ہو جو میری پیدائش سے چالیس سال پہلے اللہ نے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پس آدم(علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام) پر غالب ہوئے۔ (صحیح مسلم: ۲۶۵۲/۱۵ ۶۷۴۴)

فقہ الحدیث:
آدم(علیہ السلام) اور موسیٰ(علیہ السلام) کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہواتھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی ۱۹۵؁ھ) نے اس مناظرے والی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم او رموسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی ؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشیدؒ سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کردیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ (دیکھئے کتاب المعرفۃ و التاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ۱۸۱/۲ ، ۱۸۲ و سندہ صحیح ، تاریخ بغداد ۲۴۳/۵ و سندہ صحیح)

قارئیں خط کشیدہ الفاظ کو دیکھیں عالم البرزخ اب آسمان میں واپس آ گیا ہے

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

برزخ کسی مقام یا جگہ کا نام ہے یا برزخ صرف آڑ (پردہ) کو کہتے ہیں؟ اگر برزخ آڑ کے علاوہ کسی جگہ یا مقام کا نام ہے تو اس کے دلائل پیش کئے جائیں۔ اور اگر برزخی عثمانی اپنے اس دعویٰ پر کوئی دلیل پیش نہ کر سکیں تو سمجھ لیں کہ وہ جھوٹے ہیں۔

لیکن ہم سے پہلے اپنے ممدوح زبیر علی سے پوچھ لیتے تو اچھا ہوتا ورنہ اوپر دلائل دے دینے گئے ہیں

رفیق طاہر صاحب، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

انہیں آیا ت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرنے کے بعد جہاں انسان کا جسد وروح رہتے ہیں اسی کا نام برزخ ہے ۔ اور روح چونکہ نظر نہیں آتی جبکہ جسم نظر آتا ہے , تو ہم مرنے والے کے جسم کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جس جگہ وہ موجود ہے وہی اسکے لیے برزخ ہے ۔ یعنی برزخ کوئی آسمان میں مقام نہیں بلکہ مرنے کے بعد انسان کا جسم جس جگہ بھی ہوتا ہے وہ اپنی روح سمیت ہوتا ہے اور وہی مقام اسکے لیے برزخ ہے ۔

ارشد کمال کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

arshad-57

ایک اہل حدیث عالم کہتا ہے برزخ مقام نہیں. دوسرا کہتا ہے  مقام ہے. تیسرا کہتا ہے کیفیت ہے یہاں تک کہ تدفین سے پہلے بھی وہ برزخ میں ہے

ارشد کمال  السيوطي کا حوالہ دے رہے ہیں دیکھئے  السيوطي کیا کہتے ہیں اس مسئلہ میں

 السيوطي کتاب  الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج میں ابن رجب کے حوالے سے لکھتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظ زين الدّين بن رَجَب فِي كتاب أهوال الْقُبُور الْفرق بَين حَيَاة الشُّهَدَاء وَغَيرهم من الْمُؤمنِينَ من وَجْهَيْن أَحدهمَا أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء يخلق لهاأجساد وَهِي الطير الَّتِي تكون فِي حواصلها ليكمل بذلك نعيمها وَيكون أكمل من نعيم الْأَرْوَاح الْمُجَرَّدَة عَن الأجساد فَإِن الشُّهَدَاء بذلوا أَجْسَادهم للْقَتْل فِي سَبِيل الله فعوضوا عَنْهَا بِهَذِهِ الأجساد فِي البرزخ

اور الْحَافِظ زين الدّين بن رَجَب كتاب أهوال الْقُبُور میں کہتے ہیں اور حیات شہداء اور عام مومنین کی زندگی میں فرق دو وجہ سے ہے کہ اول ارواح شہداء کے لئے جسم بنائے گئے ہیں اور وہ پرندے ہیں  جن کے پیٹوں میں وہ ہیں کہ وہ ان نعمتوں کی تکمیل  کرتے ہیں اور یہ مجرد ارواح کی نعمتوں سے اکمل ہے  کیونکہ شہداء نے اپنے جسموں پر زخم سہے الله کی راہ میں قتل ہوئے پس ان کو یہ جسم برزخ میں دے گئے

   البرزخ بطور مقام ہونے کا فرقہ اہل حدیث  آج کل انکاری بنا ہوا  ہے. روح پر عذاب کو عذاب الجھنم کہتا ہے اوربے روح لاش پر عذاب کو عذاب قبر کہتا ہے.لاش بلا روح پر عذاب کو متقدمین گمراہی کہتے ہیں دیکھئے شرح مسلم النووی المتوفی ٦٧٦ ھ

شاید انہوں نے سوچا ہے کہ

نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری

لہذا البرزخ کی ایسی تاویل کرو کہ سارے مسئلے سلجھ جائیں اس طرز پر انہوں نے جو عقیدہ اختیار کیا ہے وہ ایک بدعتی عقیدہ ہے جس کو سلف میں فرقہ کرامیہ نے اختیار کیا ہوا تھا

دیکھئے اپنے اپ کو سلف کے عقیدے پر کہنے والے کہاں تک سلفی ہیں بلکہ دین میں بدعتی عقیدے پھیلا رہے ہیں

 رفیق طاہر صاحب تحقیقی مقالہ بنام اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ  میں لکھتے ہیں

اشکال :
روحیں قیامت کے دن ہی اپنے جسموں سے ملیں گی , کیونکہ اللہ تعالى نے قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے ” وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ(التکویر: 7) ” اور جب روحیں (اپنے جسموں سے) ملا دی جائیں گی ۔
جواب :
مذکورہ بالا آیت میں بھی خاص تلبیس سے کام لیا گیا ہے ۔ کیونکہ آیت میں مذکور نفوس سے مراد روحیں نہیں بلکہ روح وجسد کے مجموعہ انسان ہیں , یعنی آیت کا معنى ہے جس دن انسانوں کو جمع کیا جائے گا ۔اور لفظ “نفس” کا حقیقی معنى “روح وجسد کا مجموعہ ” ہی ہے , اور صرف روح اسکا مجازی معنى ہے ۔ اور علم اصول میں یہ بات مسلم ہے کہ جب تک حقیقی معنى مراد لیا جا سکتا ہو اس وقت تک مجازی معنى مراد نہیں لیا جاسکتا ہے , یا دوسرے لفظوں میں ہر کلمہ کو اسکے حقیقی معنى پر ہی محمول کیا جائے گا الا کہ کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جو اسے حقیقت سے مجاز کی طرف لے جائے ۔ اور یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے جو اسکے مجازی معنى پر دلالت کرے ۔
ثانیا : اگر یہاں لفظ “نفوس” کا معنى “روح” کر لیا جائے تو پھر ترجمہ یہ بنے گا ” اور جب روحیں اکٹھی کی جائیں گی ” ۔ جبکہ یہ معنى اہل اسلام کے متفقہ عقائد کے خلاف ہے

پتا چلا کہ نفوس کا مطلب روح اہل اسلام کے متفقہ عقیدے کے خلاف ہے

موصوف کا ترجمہ کہ روحیں بھی غلط ہے  زوج کا مطلب جوڑنا ہے ہے یعنی روحیں جوڑی جائیں گی کوئی عام عرب کا بدو  بھی اس کو سنے گا تو سمجھ جائے گا کہ روحیں جسموں سے جوڑی جائیں گی

آج سے کچھ سال پہلے ١٩٧٦،  تک فرقہ اہل حدیث کا  متفقہ عقیدہ تھا

فتاوی علمائے حدیث ج ٩ میں ہے

موت کا مطلب

فتاویٰ علمائے حدیث جو  مسلک اہل حدیث کے کئی بڑے  علماء کے  فتوی کا مجموعہ ہے  اس میں نفوس کا مطلب روح ہے جو اہل اسلام کے متفقہ عقیدے کے خلاف  ہے رفیق طاہر ان دونوں باتوں کے انکاری ہیں بدن سے جان نکالنے کو وہ موت نہیں مانتے

 اب قارئین اپ کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ اگر اپ تعبیر یا اصطلاحات کا مطلب اس طرح بدل دیں تو سلف کی عبارات سے اپ جو نتائج نکالیں گے وہ صحیح کیسے ہو سکتے ہیں البرزخ کی اصطلاح ابن حزم بھی استعمال کرتے ہیں اور عقیدہ عود روح کے  دشمن ہیں

البرزخ کی کمزور آڑ

کہا جاتا ہے

برزخ ایسی آڑ ہے جس کو کراس کرنا نا ممکن ہے

 لیکن اس آڑ کو جراثیم، کیڑے  اور دیگر جانور پار کرتے ہیں میت کو کھا جاتے ہیں میت مٹی میں تبدیل ہو جاتی ہے یہ کوئی عقلی اعتراض نہیں بلکہ عام مشاہدہ ہے

صحیح عقیدہ

 البرزخ ،عالم ارواح ہے جس میں روحیں رکھی جاتی ہیں اور بدن جو دنیاوی  قبروں میں ہیں گل سڑ جاتے ہیں

[/EXPAND]

[کیا عائشہ (رض) مسلسل پردہ میں رہتیں]

امام احمد مسند میں روایت بیان کرتے ہیں

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حماد بن أسامة قال أنا هشام عن أبيه عن عائشة قالت : كنت أدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبي فاضع ثوبي فأقول إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر معهم فوالله ما دخلت إلا وأنا مشدودة على ثيابي حياء من عمر

حماد بن أسامة (ابو أسامة المتوفی ٢٠١ ھ ) بیان کرتے ہیں کہ ان سے هشام بن عروہ بیان کرتے ہیں ، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہآ نے فرمایا میں گھر میں داخل ہوتی تھی جس میں  نبی صلی الله علیہ وسلم اور میرے باپ  مدفون ہیں، پس میں (اپنے اپ سے) کہتی یہ تو میرے شوہر اور باپ ہیں پس کپڑا لیتی (بطور حجاب) لیکن جب سے عمرکی انکے ساتھ تدفین ہوئی ہے ،الله کی قسم! میں داخل نہیں ہوتی لیکن اپنے کپڑے سے چمٹی رہتی ہوں ،عمر سے شرم کی وجہ سے

امام احمد کے علاوہ اس کو حاکم المستدرک ٣ ص٦٣، ابن سعد، الطبقات ج٢ ص٢٩٤ ، ابن شبة، تاريخ المدينة ج٣ص ١٦٢ ، الخلال ، السنة ص 297 میں روایت کرتے ہیں  حماد بن أسامة کے تفرد کے ساتھ

اس روایت کا مفہوم ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ، عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی حجرے میں تدفین کے بعد ہر وقت اپنا حجاب لیتیں  کیونکہ انکو عمر سے شرم اتی تھی

اس روایت میں عمررضی الله تعالی عنہ کے تصرف کا ذکر ہے کہ وہ بعد وفات،  قبر کی مٹی کی  دبیزتہہ سے باہر بھی دیکھ لیتے تھے اس روایت کا مطلب ہے  کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ، نعوذباللہ، مردے کے قبر سے باہر دیکھنے کی قائل تھیں

اس روایت میں حماد بن اسامہ کا تفرد ہے

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال  کے مطابق

قال أبو داود: قال وكيع: نهيت أبا أسامة أن يستعير الكتب وكان دفن كتبه.

ابو داود کہتے ہیں وكيع نے کہا میں نے أبا أسامة کو (دوسروں کی حدیث کی) کتابیں مستعار لینے سے منع کیا اور اس نے  اپنی کتابیں دفن کر دیں تھیں

عموما راوی اپنی کتابیں دفن کرتے یا جلاتے کیونکہ ان کو یہ یاد نہیں رہتا تھا کہ انہوں نے کیا کیا غلط روایت کر دیا ہے پھر پشیمانی ہوتی تو ایسا کام کرتے مثلا ابو اسامہ اور ابن لھیعة وغیرہ

اسکی وجہ شاید تدلیس کا مرض ہو

کتاب   المدلسین از ابن العراقي (المتوفى: 826هـ)  کے مطابق

حماد بن أسامة أبو أسامة الكوفي الحافظ قال الأزدي: قال المعيطي: كان كثير التدليس ثم بعد تركه

حماد بن أسامة أبو أسامة الكوفي الحافظ ہیں الأزدي کہتے ہیں کہ  المعيطي کہتے ہیں یہ بہت تدلیس کرتے پھر اس کو ترک کر دیا

 کتاب تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس از ابن حجر کے مطابق

كان كثير التدليس ثم رجع عنه

بہت تدلیس کرتے پھر اس کو کرنا چھوڑ دیا

صحیحین میں  حماد بن أسامة  موجود ہیں  جن کے بارے میں ظاہر ہے کہ امام مسلم اور امام بخاری نے تحقیق کی ہے لیکن زیر بحث روایت صحیحین میں نہیں

محدثین کے مطابق روایت کے سارے راوی ثقہ بھی ہوں تو روایت شاذ ہو سکتی ہے

کہا جاتا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے

 امام حاکم اس کو مستدرک میں روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين

یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے

امام الذھبی نے اس پر سکوت کیا ہے

محدثین کے نزدیک ابو اسامہ کی ساری روایات صحیح نہیں ہیں

يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) کتاب المعرفة والتاريخ  میں لکھتے ہیں

قَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: كَانَ أَبُو أُسَامَةَ  ِذَا رَأَى عَائِشَةَ فِي الْكِتَابِ حَكَّهَا فَلَيْتَهُ لَا يَكُونُ إِفْرَاطٌ فِي الْوَجْهِ الْآخَرِ.

سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ يُوهِنُ أَبَا أُسَامَةَ، ثُمَّ قَالَ يُعْجَبُ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمَعْرِفَتِهِ بِأَبِي أُسَامَةَ ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ

عمر بن حفص بن غیاث المتوفی ٢٢٢ ھ  کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا  ابو اسامہ جب کتاب میں عائشہ لکھا دیکھتا تو اس کو مسخ کر دیتا یہاں تک کہ اس ( روایت) میں پھر کسی  دوسری جانب سے اتنا افراط نہیں آ پآتا  

يعقوب بن سفيان کہتے ہیں میں نے مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ کو سنا وہ ابو اسامہ کو کمزور قرار دیتے تھے  پھر کہا مجھے (مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ کو) ابی بکر بن ابی شیبہ پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس ابو اسامہ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے روایت لیتے ہیں

عمر بن حفص بن غياث المتوفی ٢٢٢ ھ ، ابو اسامہ کے ہم عصر ہیں. زیر بحث روایت  بھی اپنے  متن میں غیر واضح  اور افراط کے ساتھ ہے .  محدثین ایسی روایات کے لئے منکر المتن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں

ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي)  میں ایک روایت پر لکھتے ہیں

وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي.

اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو  ابْن عَيَّاش  سے سوائے سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي کے کوئی روایت نہیں کرتا

ہمارے نزدیک عائشہ رضی الله تعالی عنہا کی حجرے میں  مسلسل حالت حجاب میں رہنے والی روایت منکر المتن ہے جس کو حماد بن اسامہ کے سوا کوئی اور روایت نہیں کرتا

پہلی شرح

اس روایت کا مطلب، روایت پرست اس طرح سمجھاتے ہیں  کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی پنڈلی پر سے کپڑا ہٹا ہوا تھا ابو بکر اور عمر آئے لیکن اپ نے نہیں چھپایا لیکن جب عثمان آئے تو اپ نے چھپا لیا اور کہا میں اس سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں. یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب نبی صلی الله علیہ وسلم ، ابو بکر، عمر، عثمان رضی الله عنہم سب زندہ تھے. اس روایت کو عثمان رضی الله تعالی عنہ کی

منقبت میں تو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن زیر بحث روایت سے اسکا کوئی تعلق نہیں

دوسری شرح

ایک دوسری روایت بھی تفہیم میں  پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے امہات المومینن  رضی اللہ تعالی عنہا کو نابینا صحابی ابن مکتوم رضی الله تعالی عنہ  سے پردے کا حکم دیا احْتَجِبَا مِنْهُ ان سے حجاب کرو اس کو نسائی ابو داود نے روایت کیا ہے

نسائی کی سند ہے

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَبْهَانَ، مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ

نسائی کہتے ہیں

قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: مَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْ نَبْهَانَ غَيْرَ الزُّهْرِيِّ

ہم نہیں جانتے کہ نَبْهَانَ سے سوائے الزُّهْرِيِّ کے کسی نے روایت کیا ہو

کتاب ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين از الذھبی   کے مطابق

نبهان، كاتب أم سلمة: قال ابن حزم: مجهول: روى عنه الزهري.

نبهان، ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کے کاتب تھے ابن حزم کہتے ہیں مجھول ہے الزهري ان  سے روایت کرتے ہیں

ابن عبد البر  کہتے ہیں نبهان مجهول لا يُعرف إلا برواية الزهري عنه هذا الحديث، نبهان مجھول ہے اور صرف اسی روایت سے جانا جاتا ہے

کتاب المغني لابن قدامة  کے مطابق

فَأَمَّا حَدِيثُ نَبْهَانَ فَقَالَ أَحْمَدُ: نَبْهَانُ رَوَى حَدِيثَيْنِ عَجِيبَيْنِ. يَعْنِي هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَدِيثَ: «إذَا كَانَ لِإِحْدَاكُنَّ مُكَاتَبٌ، فَلْتَحْتَجِبْ مِنْهُ» وَكَأَنَّهُ أَشَارَ إلَى ضَعْفِ حَدِيثِهِ

پس جہاں تک نَبْهَانَ کی حدیث کا تعلق ہے تو احمد کہتے ہیں کہ نَبْهَانَ نے دو عجیب حدیثیں روایت کی ہیں یہ (ابن مکتوم سے پردہ) والی اور…پس انہوں نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا

البانی اور شعيب الأرناؤوط  اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں

لہذا یہ دونوں روایت اس زیر بحث روایت کی شرح میں پیش نہیں کی جا سکتیں

اس روایت پر حکم

یہ روایت منکر المتن ہے

اول زیر بحث روایت میں عائشہ رضی الله تعالی عنہ کا ایک مدفون میت سے حیا کرنے کا ذکر ہے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا  ایک فقیہہ تھیں اور ان کے مطابق میت نہیں سنتی تو وہ میت کے دیکھنے کی قائل کیسے ہو سکتی ہیں وہ بھی قبر میں مدفون میت

دوم یہ  انسانی بساط سے باہر ہے کہ مسلسل حجاب میں رہا جائے. یہ نا ممکنات میں سے ہے. خیال رہے کہ امہات المومنین چہرے کو بھی پردے میں رکھتی تھیں

 اہل شعور اس روایت کو اپنے اوپر منطبق کر کے سوچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چھوٹے سے حجرہ میں مسلسل چہرے کے پردے میں رہا جائے

سوم عائشہ رضی الله تعالی عنہآ کی وفات ٥٧ ھ میں ہوئی. عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت ٢٣ ھ میں ہوئی. اس پردے والی ابو اسامہ کی روایت کو درست مآنا جائے تو اسکا مطلب ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا  ٣٤ سال حجرے میں پردے میں  رہیں یعنی ٣٤ سال تک گھر کے اندر اور باہر پردہ میں رہیں

چہارم عائشہ رضی الله تعالی عنہا کو اس تکلیف میں دیکھ کر کسی نے ان کو دوسرے حجرے میں منتقل ہونے کا مشورہ بھی نہیں دیا. انسانی ضروریات کے تحت لباس تبدیل کرنا کیسے ہوتا ہو گا ؟ کسی حدیث میں نہیں اتا کہ وہ اس وجہ سے دوسری امہات المومنین کے حجرے میں جاتی ہوں کیونکہ تدفین تو حجرہ عائشہ میں تھی

بحر الحال یہ روایت غیر منطقی ہے اورایک ایسے عمل کا بتارہی ہے جو مسلسل دن و رات ٣٤ سال کیا گیا اور یہ انسانی بساط سے باہر کا اقدام ہے

کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال میں سماع الموتی پر خاور بٹ صاحب لکھتے ہیں

عجیب بات ہے کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک مردہ سن نہیں سکتا لیکن دیکھ سکتا ہے اور عائشہ رضی الله تعالی عنہ کے حوالے سے اس زیر بحث  ضعیف روایت کو صحیح کہنے والے بہت سے اہل حدیث علماء ہیں

الله ہم سب کو ہدایت دے

روایت کے مسلکی دفاع کا  ایک اور انداز

 مسلک پرست روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے سنن ابو داود کی روایت پیش کرتے ہیں

 حدَّثنا أحمدُ بن صالح، حدَّثنا ابنُ أبي فُدَيك، أخبرني عَمرو بن عثمانَ بن هانىء عن القاسمِ، قال: دخلتُ على عائشةَ، فقلتُ: يا أُمَّهْ، اكشفِي لي عن قبرِ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- وصاحبَيه، فكشفتْ لي عن ثلاثةِ قُبورٍ، لا مُشْرِفةِ ولا لاطِئةٍ، مَبْطوحةٍ بِبَطحاءِ العَرْصة الحمراء

قاسم کہتے ہیں میں عائشہ رضی الله عنہا کے پاس داخل ہوا ان سے کہا

اماں جان مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے دو صاحبوں کی قبریں دکھائیں، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے میرے لئے تین قبروں پر سے  پردہ ہٹایا

اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے کہ

 ان تین قبروں (کے حجرہ ) کا دروازہ کھولا

حالانکہ اس روایت میں کہیں نہیں کہ کوئی دروازہ بھی تھا. دوم البانی اس کو ضعیف کہتے ہیں کیونکہ اس کا راوی عَمرو بن عثمانَ بن هانىء مستور ہے

ایک ضعیف روایت کو بچانے کے لئے ایک دوسری ضعیف روایت سے استدلال باطل ہے کہتے ہیں

 مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

مسلک پرست عائشہ رضی الله عنہا کی مسلسل پردہ والی روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ مکان جس میں وہ رہتیں تھیں اور جس میں نماز پڑھتیں تھیں الگ الگ تھے اس سلسلے میں ان کی دلیل، الطبقات ابن سعد کی یہ روایت ہے

أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ يَقُولُ: قُسِمَ بَيْتُ عَائِشَةَ بِاثْنَيْنِ: قِسْمٌ كَانَ فِيهِ الْقَبْرُ. وَقِسْمٌ كَانَ تَكُونُ فِيهِ عَائِشَةُ. وَبَيْنَهُمَا حَائِطٌ. فَكَانَتْ عَائِشَةُ رُبَّمَا دَخَلَتْ حَيْثُ الْقَبْرُ فُضُلا. فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ لَمْ تَدْخُلْهُ إلا وهي جامعة عليها ثيابها

موسی بن داود کہتے ہیں امام مالک کہتے ہیں ام المومنین رضی اللہ عنہا کا گھر دو حصوں پر مشتمل تھا ایک میں قبر تھی اور ایک میں عائشہ رضی الله عنہ خود  (رہتیں) تھیں… پس جب عمر اس میں دفن ہوئے تو وہ دوسرے حصے میں نہیں جاتیں الا یہ کہ کپڑا لے کر

اس کی سند میں  مُوسى  بن داود الضَّبيُّ، أبو عبد الله الطَّرَسُوسيُّ المتوفی ٢١٧ ھ ہے جس کو کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی کے مطابق  أبو حاتم کہتے ہیں   في حديثه اضطراب. اس کی حدیث میں اضطراب ہوتا ہے. مسلم نے اس کی روایت کتاب الصلاه میں ایک جگہ لی ہے . اس سے عقیدے میں روایت نہیں لی گئی.

میزان الاعتدال کے مطابق  الكوفي ثم البغدادي یہ کوفی تھے پھر بغدادی اور کتاب تاریخ بغداد کے مطابق كوفي الأصل سكن بَغْدَاد  یہ اصلا کوفی تھے پھر بغداد منتقل ہوئے

الطبقات الکبری از ابن سعد کے مطابق

وَكَانَ قَدْ نَزَلَ بَغْدَادَ، ثُمَّ وَلِيَ قَضَاءَ طَرَسُوسَ، فَخَرَج إِلَى مَا هُنَاكَ، فَلَمْ يَزَلْ قَاضِيًا بِهَا إِلَى  أَنْ مَاتَ بِهَا

یہ بغداد پھنچے پھر طَرَسُوسَ کے قاضی ہوئے  پھر …..وہاں کے قاضی رہے اور وہیں وفات ہوئی

امام مالک  المتوفی ١٧٩ ھ سے مدینہ جا کر کب روایت سنی لہذا یہ روایت منقطع ہے

یہ امام مالک کا قول نقل کرتے ہیں  جو ان کی موطا تک میں موجود نہیں ہے اور یہ کسی صحابی کا قول بھی نہیں لہذا دلیل کیسے ہو گیا؟

مسلک پرستوں کی طرف سے مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت بھی پیش کی جاتی ہے

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِي مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ

محمد بن اسحاق ، فاطمه بنت محمد سے وہ عمرہ سے وہ عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ کے دفن کر دئے جانے کا علم بدھ کی رات کے آخر میں کھدائی کے آوزاروں کی آواز سے ہوا

اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ عائشہ  رضی اللہ عنہا اس کمرہ میں نہیں تھیں جس میں  نبی صلی الله علیہ وسلم کو دفن کیا گیا گویا ایک چھوٹے سے حجرے میں اب دو حجرے بنا دے گئے وہ بھی ایسے  کہ ایک  حجرے میں جو کچھ ہو رہا ہو وہ  دوسرے حجرے والے کو  علم نہ ہو سکے حتی کہ کھدال کی آواز آئے اگر اس روایت کو دلیل سمجھا جائے تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ  وفات النبی کے روز ہی دو حجرے  تھے جبکہ  دوسری روایت کے مطابق دو حجرے عمر رضی الله عنہ کی تدفین کے بعد ہوئے

افسوس اس کی سند بھی ضعیف ہے محمد بن اسحاق مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے فاطمہ بنت محمّد ہے جواصل میں فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدِ بْنِ عِمَارَةَ  ہے. کہا جاتا ہے کہ اس نام کی عبد الله بن ابی بکر کی بیوی تھی لیکن جو بھی ہو ان کا حال مجھول ہے

الطبقات الکبری از ابن سعد کی ایک روایت پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ الْمَدَنِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَغَيْرِهِمَا عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَنْصَارِيَّةِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا زِلْتُ أَضَعُ خِمَارِي وَأَتَفَضَّلُ فِي ثِيَابِي فِي بَيْتِي حَتَّى دُفِنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِيهِ. فَلَمْ أَزَلْ مُتَحَفِّظَةً فِي ثِيَابِي حَتَّى بَنَيْتُ بَيْنِي وَبَيْنِ الْقُبُورِ جِدَارًا فَتَفَضَّلْتُ بَعْدُ

اس کی سند میں عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ الْمَدَنِيُّ ہے جس کو احمد ضعیف الحدیث  (موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله) کہتے ہیں اس روایت کے مطابق عمر رضی الله عنہ کی وفات کے بعد حجرہ میں دیوار بنائی گئی

الطبقات الکبری کی ایک اور سند بھی پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ. أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ تَكْشِفُ قِنَاعَهَا حَيْثُ دفن أبوها مع رسول الله فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ تَقَنَّعَتْ فَلَمْ تَطْرَحِ الْقِنَاعَ

عثمان بن ابراہیم کہتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہ عمر کی تدفین کے بعد شدت کرتیں اور نقاب نہ ہٹاتیں

اس کی سند میں عبد الرحمن بن عُثْمَانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبِ الحاطبيُّ المدنيُّ  ہے جس کے لئے ابو حاتم کہتے ہیں

قال أبو حاتم: ضعيف الحديث يهولني كثرة ما يُسْند

ابو حاتم کہتے ہیں ضعیف الحدیث ہے

بحوالہ تاریخ الاسلام از الذہبی

 ایک اشکال پیدا کرتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہا اس حجرے میں کیسے رہ سکتی ہیں جس میں قبریں ہوں

 اور وہ نماز کہاں  پڑھتیں تھیں تو اس کا جواب ہے کہ صحیح بخاری کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک وقت تھا جب  حجرہ بہت چھوٹا تھا کہ  جب رات کو نبی صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھتے اور  سجدہ کرنے لگتے تو عائشہ رضی الله عنہا اپنے پیر سمیٹ لیتیں  لیکن مرض وفات کی روایات  قرطاس اور دوا پلانے والی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حجرہ کو وسیع کیا گیا تھا جس میں کافی  افراد آ سکتے تھے قبروں کو باقی حجرے سے الگ کرنے کے لئے یقینا کوئی دبیز پردہ یا چق یا  لکڑی کی دیوار  ہو گی

وہابی عالم  صالح بن عبد العزيز بن محمد بن إبراهيم آل الشيخ  درس میں کہتے ہیں بحوالہ التمهيد لشرح كتاب التوحيد

ولما دفن عمر – رضي الله عنه – تركت الحجرة رضي الله عنها، ثم أغلقت الحجرة، فلم يكن ثم باب فيها يدخل منه إليها وإنما كانت فيها نافذة صغيرة، ولم تكن الغرفة كما هو معلوم مبنية من حجر، ولا من بناء مجصص، وإنما كانت من البناء الذي كان في عهده عليه الصلاة والسلام؛ من خشب ونحو ذلك

پس جب عمر رضی الله عنہ دفن ہوئے تو اپ (عائشہ) رضی الله عنہا نے حجرہ چھوڑ دیا پھر اس حجرے کو بند کر دیا پس اس میں کوئی دروازہ نہیں تھا جس سے داخل ہوں بلکہ ایک چھوٹی سی کھڑکی (یا دریچہ) تھا. اور یہ حجرہ نہ پتھر کا تھا نہ چونے کا بلکہ یہ لکٹری کا تھا جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں ہوتا تھا

صالح بن عبد العزيز کے مطابق تو دو حجرے عمر رضی الله عنہ کی تدفین پر ہوئے اور ان کے درمیان دروازہ ہی نہیں تھا بلکہ کھڑکی تھی  لہذاوہ اس  سے دوسرے حجرے میں میں داخل کیسے ہوتیں ؟

 حجرہ اور قبر مطہرہ کے درمیان لکڑی کی دیوار تھی جس میں صرف ایک دریچہ تھا لہذا عائشہ رضی الله عنہا یا

کسی اور کا قبروں پر داخل ہونا ثابت نہیں ہوتا

عائشہ  رضی الله عنہا کے مسلسل پردہ والی روایت کے مطابق انہوں نے حجرہ نہیں چھوڑا تھا بلکہ جب

عمر رضی الله عنہ کی تدفین ہوئی تو  اس کو گھر ہی کہتیں ہیں اور وہ داخل پردہ میں ہوتیں  جبکہ اس کا دفاع کرنے والوں کے مطابق اب دو حجرے ہو چکے ہیں.  اگر دو حجرے تھے تو وہ تو داخل ہی اس حجرے میں ہوتی ہوں گی جس میں قبر سرے سے ہے ہی نہیں تو پردے کی ضرروت؟ یہ روایت کسی بھی زاویے سے  صحیح نہیں

اب یہ بھی دیکھئے

عائشہ رضی الله عنہا کے مسلسل پردہ والی روایت  سے دلیل لیتے ہوئے تھذیب الکال کے مولف  امام المزی کہا کرتے تھے

قال شيخنا الحافظ عماد الدين بن كثير ووجه هذا ما قاله شيخنا الإمام أبو الحجاج المزي أن الشهداء كالأحياء في قبورهم و هذه أرفع درجة فيهم

حافظ ابن کثیر کہتے ہیں اسی وجہ  سے ہمارے شیخ المزی کہتے ہیں کہ شہداء  اپنی قبروں میں زندوں کی طرح ہیں اور یہ ان کا بلند درجہ ہے

الإجابة فيما استدركته عائشة على الصحابة للإمام الزركشي 

منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى (المتوفى: 1051هـ)  اپنی کتاب كشاف القناع عن متن الإقناع  میں لکھتے ہیں

قَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ: وَاسْتَفَاضَتْ الْآثَارُ بِمَعْرِفَةِ الْمَيِّتِ بِأَحْوَالِ أَهْلِهِ وَأَصْحَابِهِ فِي الدُّنْيَا وَأَنَّ ذَلِكَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ وَجَاءَتْ الْآثَارُ بِأَنَّهُ يَرَى أَيْضًا وَبِأَنَّهُ يَدْرِي بِمَا فُعِلَ عِنْدَهُ وَيُسَرُّ بِمَا كَانَ حَسَنًا وَيَتَأَلَّمُ بِمَا كَانَ قَبِيحًا وَكَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُولُ ” اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِك أَنْ أَعْمَلَ عَمَلًا أُجْزَى بِهِ عِنْدَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَوَاحَةَ وَكَانَ ابْنَ عَمِّهِ وَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ عِنْدَ عَائِشَةَ كَانَتْ تَسْتَتِرُ مِنْهُ، وَتَقُولُ ” إنَّمَا كَانَ أَبِي وَزَوْجِي فَأَمَّا عُمَرُ فَأَجْنَبِيٌّ ” وَيَعْرِفُ الْمَيِّتُ زَائِرَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَهُ أَحْمَدُ.

ابن تیمیہ کہتے ہیں اور جو اثار ہیں ان سے معلوم ہوتا ہےکہ میت اپنے احوال سے اور دنیا میں اصحاب سے با خبر ہوتی ہے اور اس پر (زندوں کا عمل) پیش ہوتا ہے اور وہ دیکھتی اور جانتی ہے جو کام اس کے پاس ہو اور اس میں سے جو اچھا ہے اس پر خوش ہوتی اور اس میں سے جو برا ہو اس پر الم محسوس کرتی ہے اور ابو الدرداء کہتے تھے اے الله میں پناہ مانگتا ہوں اس عمل سے جس سے میں عبد الرحمان بن رَوَاحَةَ  کے آگے شرمندہ ہوں اور وہ ان کے چچا زاد تھے اور جب عمر دفن ہوئے تو عائشہ ان سے پردہ کرتیں اور کہتیں کہ یہ تو میرے باپ اور شوہر تھے لیکن عمر تو اجنبی ہیں اور امام احمد کہتے ہیں کہ میت زائر کو جمعہ کے دن طلوع سورج سے پہلے پہچانتی ہے

البهوتى حنابلہ کے مشھور امام ہیں

افسوس اس روایت سے قبر پرستی ہی پھیلی ہے

ضعیف روایات کو محدثین نے  اپنی کتابوں میں صحیح سمجھ کر نہیں لکھا بلکہ انہوں نے ایسا کہیں دعوی نہیں کیا جو بھی وہ روایت کریں سب صحیح سمجھا جائے اگر کسی کو پتا ہو تو پیش کرے

بہتر یہی ہے کہ محدثین جو کہہ گئے ہیں اس کو تسلیم کر لیا جائے

يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسی الفسوی ، ابو يوسف (المتوفى: 277هـ) کتاب المعرفة والتاريخ میں لکھتے ہیں کہ:

قَالَ : عُمَرُ : سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ : كَانَ أَبُو أُسَامَةَ إِذَا رَأَى عَائِشَةَ فِي الْكِتَابِ حَكَّهَا فَلَيْتَهُ لَا يَكُونُ إِفْرَاطٌ فِي الْوَجْهِ الْآخَرِ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ يُوهِنُ أَبَا أُسَامَةَ ، ثُمَّ قَالَ : يُعْجَبُ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمَعْرِفَتِهِ بِأَبِي أُسَامَةَ ، ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ

عمر بن حفص بن غیاث (المتوفی: ٢٢٢ ھ) کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا ابو اسامہ جب کتاب میں عائشہ لکھا دیکھتا تو اس کو مسخ کر دیتا یہاں تک کہ اس (روایت) میں پھر کسی دوسری جانب سے اتنا افراط نہیں آ پاتا يعقوب بن سفيان کہتے ہیں میں نے محمد بن عبد الله بن نمير کو سنا وہ ابو اسامہ کو کمزور قرار دیتے تھے پھر کہا مجھے (محمد بن عبد اللهِ بن نمير کو) ابی بکر بن ابی شیبہ پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس ابو اسامہ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے روایت لیتے ہیں –

 (المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان: مَا جَاءَ فِي الْكُوفَةِ)

جس کو یہ روایت پسند ہو وہ سن لے کہ ہماری ماں عائشہ رضی الله عنہا ایک مجتہد تھیں وہ صحابہ تک کے اقوال قرآن پر پرکھ کر رد و قبول کرتی تھیں لہذا وہ مردہ میت سے شرم کیسے کر سکتیں ہیں؟

[/EXPAND]

[کیا چوپائے عذاب قبرسنتے ہیں ]

بخاری و مسلم میں روایات سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو ابراہیم کی وفات والے دن ١٠ ہجری میں سورج گرہن کی نماز کے دوران، عذاب قبر سے مطلع کیا گیا. اس کی جو روایات بخاری اور مسلم میں ہیں ان میں ایک مشکل بھی ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مروی ان روایات میں یہ آیا ہے کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کے گھر دو یہودی عورتیں آئیں، انہوں نے عذاب قبر کا تذکرہ کیا، نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی اور مسلم کی روایت کے مطابق کہا یہ  یہود کے لئے ہے پھر فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ کچھ راتوں بعد اپ نے فرمایا أَمَا شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ کیا تمہیں شعور ہوا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم کو قبروں میں ارمایا جائے گا

اس کے برعکس ایک دوسری روایت جو مسروق سے مروی ہے اس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے یہودی عورتوں کی فورا تصدیق کی اور اس میں اضافہ بھی ہے کہ تمام چوپائے عذاب سنتے ہیں

مسروق کی حدیث ہے

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔

اس کے بر خلاف صحیحین کی دیگر روایات میں ہے

عمرۃ’ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ  عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عائذا باللّٰہ من ذٰلک ۔ میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر ایک دن آپ  صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر (اس دن) سورج کو گرہن لگ گیا۔ (آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
انی قد رایتکم تفتنون فی القبور کفتنۃ الدجال … اسمع رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بعد ذالک یتعوذ من عذاب النار و عذاب القبر
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح۔ … میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فقال ما شاء اللّٰہ ان یقول ثم امرھم ان یتعوذوا من عذاب القبر
پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا فرمایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قبرکے عذاب سے پناہ مانگیں۔

صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد۱صفحہ ۱۴۳عربی ح:۱۰۴۹۔ صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱صفحہ۲۹۷عربی ح:۲۰۹۸

یہ دونوں متضاد روایات ہیں .مسروق کی روایت  میں نبی صلی الله علیہ وسلم عذاب کی قورا تصدیق کرتے ہیں جبکہ دوسری میں کچھ دنوں بعد

 وہ روایات جو صحیح میں ہوں چاہے بخاری کی ہوں یا مسلم کی اور باہم متصادم ہوں ان پر متقدمین  محدثین حدیث مشکل کا حکم لگا کر بحث کر چکے ہیں .کتاب  شرح مشكل الآثار از أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوي (المتوفى: 321هـ)  بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَفْعِهِ: أَنَّ النَّاسَ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ لَمَّا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ بَعْدَ قَوْلِ الْيَهُودِيَّةِ لِعَائِشَةَ: ” أَعَاذَكِ اللهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ میں  الطحاوی لکھتے ہیں

وَكَمَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَنْصُورٍ الْبَالِسِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عَجَائِزِ يَهُودَ الْمَدِينَةِ،  فَقَالَتَا لِي: إِنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا، وَلَمْ أُصَدِّقْهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ دَخَلَتَا عَلَيَّ، فَزَعَمَتَا أَنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ، فَقَالَ: ” صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ لَيُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ كُلُّهَا ” فَقَالَتْ عَائِشَةُ: ” فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي صَلَاةٍ، إِلَّا يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

جیسا کہ روایت کیا ہے حسن بن عبدللہ بن منصور … عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ کہ انہوں نے فرمایا میرے پاس مدینہ کی دو بوڑھی یہودن آئیں  انہوں نے کہا بے شک اہل قبور کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے اس پر میں نے نہ ان کی تکذیب کی نہ تصدیق پس جب وہ دونوں نکلیں نبی صلی الله علیہ وسلم داخل ہوئے میں نے کہا اے رسول الله ان بوڑھی عورتوں نے جو آئیں تھیں نے  دعوی کیا ہے کہ  اہل قبور کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  سچ کہا بے شک انکو عذاب ہوتا ہے جس کو چوپائے سنتے ہیں پس عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے کہا اس کے بعد میں نے ہر نماز میں عذاب قبر سے پناہ مانگتے سنا 

اس کے بعد الطحاوي نے بخاری اور مسلم کی دوسری روایات پیش کی ہیں جن میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فورا یہودی عورتوں کی تصدیق نہیں کی. مسلم کی روایت میں تو باقاعدہ کچھ راتیں گزرنے کے بعد کے الفاظ ہیں

الطحاوي کہتے ہیں

أَنَّا قَدُ تَأَمَّلْنَا حَدِيثَ عَمْرَةَ الَّذِي بَدَأْنَا بِذِكْرِهِ فِي هَذَا الْبَابِ، عَنْ عَائِشَةَ، فَوَجَدْنَا غَيْرَ وَاحِدٍ مِنَ الرُّوَاةِ عَنْ عَائِشَةَ، قَدْ خَالَفُوهَا عَنْهَا، فَمِنْهُمْ مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ

جب ہم  عمرہ کی عائشہ رضی الله تعالی عنہا  حدیث جس سے ہم نے اس باب میں  بات شروع کی تھی اس پر تامل کرتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ ایک سے زائد راویوں نے اس کو عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے روایت کیا ہے جن کی مخالفت مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ  نے کی ہے

آخر میں الطحاوي  فیصلہ دیتے ہیں

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَكَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا قَدْ دَلَّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ دَفَعَ ذَلِكَ فِي الْبَدْءِ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ، ثُمَّ أُوحِيَ إِلَيْهِ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَرَجَعَ إِلَى التَّصْدِيقِ بِذَلِكَ، وَالِاسْتِعَاذَةِ مِنْهُ، وَفِي هَذَا مَا قَدْ دَلَّ عَلَى مُوَافَقَةِ عُرْوَةَ عَمْرَةَ عَلَى مَا رَوَتْ مِنْ ذَلِكَ عَنْ عَائِشَةَ، وَكَانَ هَذَا عِنْدَنَا وَاللهُ أَعْلَمُ أَوْلَى بِمَا رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ مِمَّا رَوَاهُ مَسْرُوقٌ، وَذَكْوَانُ عَنْهَا، لِأَنَّ فِي هَذَا تَقَدُّمَ دَفْعِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِثْبَاتَهُ إِيَّاهُ بَعْدَ ذَلِكَ فَكَانَ الَّذِي كَانَ عِنْدَ مَسْرُوقٍ، وَذَكْوَانَ فِي ذَلِكَ، هُوَ الْأَمْرُ الثَّانِي، وَكَانَ الَّذِي كَانَ عِنْدَ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، الْأَمْرَ الْأَوَّلَ وَالْأَمْرَ الثَّانِي، فَكَانَا بِذَلِكَ أَوْلَى، وَكَانَا بِمَا حَفِظَا مِنْ ذَلِكَ، قَدْ حَفِظَا مَا قَصَّرَ مَسْرُوقٌ، وَذَكْوَانُ عَنْ حِفْظِهِ، وَاللهَ نَسْأَلُهُ التَّوْفِيقَ

ابو جعفر نے کہا پس اس حدیث میں دلیل ہے کہ بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وحی انے سے پہلے  اس کا رد کیا کہ ان کو قبروں میں فتنہ میں مبتلا کیا جائے گا. پھر جب وحی  آئی کہ بے شک ان کو قبروں میں فتنہ میں مبتلا کیا جائے گا تو اپ نے اس کی تصدیق کی اور اس سے پناہ مانگی اور اس میں دلیل ہے کہ عروہ اور عمرہ نے عائشہ رضی الله عنہا سے جو پایا ( سنا) اس (بیان) میں اپس میں  موافقت ہے . یہ  ہمارے لئے زیادہ اولی بات ہے وَاللهُ أَعْلَمُ،  اس سے جو مسروق اور وَذَكْوَانُ  نے  ان سے روایت کیا ہے …. پس دیگر رآویوں نے یاد رکھا جو  مسروق نے مختصر کر دیا جو انہوں نے یاد کیا

اس تمام بحث سے معلوم ہوا مسروق نے اس کو غلط روایت کر دیا ہے .   الفاظ  إِنَّهُمْ لَيُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ كُلُّهَا  ان کو عذاب ہوتا ہے جس کو تمام چوپائے سنتے ہیں صرف مسروق  ہی بیان کرتے ہیں

 الطحاوي  کے مطابق مسروق اس روایت کو صحیح یاد نہ رکھ سکے  چونکہ ان کی روایت میں اور علتیں بھی ہیں لہذا عقیدے میں وہ کارگر نہیں اس بنیاد پر  چوپائے کے عذاب کے سنے کوایک عموم نہیں مانا جا سکتا

آجکل اس حوالے سے کافی الجھاؤ اہل حدیث حضرات نے پیدا کر دیا ہے جب ان سے اس مسئلہ میں بات ہوتی ہے وہ یہ باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عذاب ایک غیب کا معاملہ ہے لیکن پھر اس کو چوپایوں کو بھی سنواتے ہیں

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

بلی کی بصارت انسان کی نسبت بہت زیادہ ہے اور وہ اندھیرے میں دیکھ سکتی ہے۔ چوپایوں کے سونگھنے، سننے اور محسوس کرنے کی حس انسان سے کہیں زیادہ ہے۔ لہٰذا وہ عذاب قبر سن سکتے ہیں جیسا کہ آجکل موبائل فون کی ٹرانسمیشن انتہائی زیادہ ہے جو کہ انسانی سماعت سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ٹرانسمیشن انسانی کان تو نہیں سن سکتا لیکن موبائل فون اُس کو سن لیتا ہے اور پھر اُسی ٹرانسمیشن کو انسانی سماعت کے مطابق ڈھال کر ہمیں سنا دیتا ہے۔

موصوف سائنسی چوپائے پیش کر رہے ہیں اور غیب میں نقب لگا رہے ہیں

الله تعالی قرآن میں کہتا ہے غیب تو اسکو تو زمیں و آسمان میں کوئی نہیں جانتا سوائے الله کے

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا الله 

قرآن میں ہے کہ پہاڑ الله کی تسبیح کرتے ہیں اس تسبیح کو کرنے والا پہاڑ جانتا ہے یا الله.  اسی طرح درخت و پہاڑ وغیرہ سجدہ کرتے ہیں اس کی کیفیت کو کرنے والا پہاڑ جانتا ہے یا الله، لیکن اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا. عذاب قبر کے لئے  عود روح کے قائلین کہتے ہیں عذاب و چیخ کو معذب مردہ  جانتا ہے ، چوپائے بھی سنتے  ہیں، تو یہ غیب کیسے رہا ! لہذا یہ دلیل نہیں بنتی

ابو جابر دامانوی  کتاب عذاب قبر میں مفتی محمد شفیع صاحب  کے حوالے سے غیب کی تعریف کرتے ہیں

لفظ غیب لغت میں ایسی چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے جو نہ بدیہی طور پر انسان کو معلوم ہوں اور نہ انسان کے حواس خمسہ اس کا پتہ لگا سکیں۔یعنی نہ وہ آنکھ سے نظر آئیں نہ کان سے سنائی دیں نہ ناک سے سونگھ کر یا زبان سے چکھ کر ان کا علم ہو سکے اور نہ ہاتھ پھیر کر ان کو معلوم کیا جا سکے۔قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ان کا علم بداہت عقل اور حواس خمسہ کے ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات بھی آ جاتی ہیں۔تقدیری امور‘ جنت ودوزخ کے حالات ‘قیامت اور اس میں پیش آنے والے واقعات بھی‘ فرشتے ‘ تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقین بھی جس کی تفصیل اسی سورہ بقرہ کے ختم پر امن الرسول میں بیان کی گئی ہے گویا یہاں ایمان مجمل کا بیان ہو ا ہے۔اور آخری آیت میں ایمان مفصل کا۔ تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہو گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایات و تعلیمات لے کر آئے ہیں ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا‘ شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو۔جمہور اہل اسلام کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے (عقیدہ طحاوی ‘ عقائد نسفی وغیرہ

سوال ہے کہ کیا غیب صرف انسانوں کے لئے ہے چرند پرند ،چوپائیوں، درندوں کے لئے نہیں

اگر یہ معاملہ صرف الله اور تکوینی امور پر اس کی طرف سے مقرر کردہ فرشتوں تک محدود ہوتا تو یہ بات قبل غور ہوتی لیکن جب اس میں چوپائے بھی شامل ہو جائیں تو یہ اب عموم ہو گیا کیونکہ سب چوپائے سنیں گے اور یہ غیب نہیں رہا

 مشرکین پر عذاب کی خبر نبی صلی الله علیہ وسلم کو مکہ میں ہی دی گئی کیونکہ قرآن کی عذاب البزرخ کی آیت مکی ہیں لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس کی خبر تھی. مسلم کی ایک روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  بنو نجار کے ایک باغ میں قبروں کے پاس سے گزرے جہاں اپ کا خچر بدکا اور اپ صلی الله علیہ وسلم نے ان قبروں کے بارے میں پوچھا ، اپ کو بتایا گیا کہ یہ مشرک تھے. اپ صلی الله علیہ وسلم  نے خبر دی کہ  ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے. خچر بدکنے کا واقعہ عموم سے الگ ہے کیونکہ خچر قبرستان میں چرتے رہتے ہیں لیکن نہیں بدکتے .  بخاری میں ایک دوسری  روایت ہے کہ بنو نجارہی کے ایک مقام پر اپ نے مشرکین کی قبریں اکھڑ وا دیں اور وہاں اب مسجد النبی ہے اس تاریخی پس منظر میں یہ واضح ہے کہ عذاب اگر ارضی قبر میں ہوتا تو اس مقام پر نہ ہی مسجد النبی ہوتی نہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کو کھدواتے اور کسی اور مقام پر جا کر مسجد النبی کی تعمیر کرتے.خوب یاد رکھیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو مشرکین پر عذاب قبر کی خبر  مکّہ میں ہو چکی ہے لیکن پھر بھی قبرین کھدواتے ہیں

جہاں تک خچر بدکنے کا تعلق ہے تو وہ ایک خاص واقعہ ہے جو پھر کبھی پیش نہیں آیا . اپ صلی الله علیہ وسلم کو عذاب سنوایا گیا نہ کہ دکھایا گیا یہ ایسے ہی ہے ہم قاہرہ کے عجائب گھر جائیں اور کہیں کہ ان فرعونیوں پر  عذاب ہو رہا ہے  جس سے ظاہر ہے کوئی یہ نہیں سمجھے گا کہ یہیں عجائب گھر میں ہو رہا ہے

الطحآوی کی تحقیق اس سلسے میں صحیح ہے کہ  مسروق نے جو حدیث بیان کی ہے اس کو انہوں نے صحیح یاد نہیں رکھا

اس سلسلے میں قرع نعال یعنی جوتیوں کی چاپ والی روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ جب فرشتے مارتے ہیں تو

( فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَّسْمَعُھَا مَنْ یَّلِیْہِ غَیْرُ الثَّقَلَیْنِ (بخاری مسلم

پس وہ (کافر اس مار سے) چیختا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز انسانوں اور جنوں کےعلاوہ پاس والے  سنتے ہیں۔

بخاری کے شارح ابن بطال کہتے ہیں کہ الفاظ یَّسْمَعُھَا مَنْ یَّلِیْہِ غَیْرُ الثَّقَلَیْنِ سے مراد

هم الملائكة الذين يلون فتنته

فرشتے ہیں جو فتنہ (سوال) قبر کے لئے ہوتے ہیں وہی اس چیچ کو سنتے ہیں

دوم اگر یہ مان لیا جائے کہ چیخ کو جن و انس کے علاوہ سب سنتے ہیں تو اس میں چرند پرند حشرات ارض بلی کتے سب شامل ہو جائیں گے اور اس کو صرف چوپایوں تک محدود کرنے کی کوئی تخصیص نہیں رہے گی سوم یہ علم غیب کی بات بھی نہیں ہو گی

اگر عذاب اسی دنیا کی قبر میں ہوتا تو پرندے اپنے گھونسلے قبرستان میں نہیں بناتے ہوں گے کیونکہ وہ بہت حساس مخلوق ہے جبکہ عام مشاہدہ اس کا رد کرتا ہے

آجکل ایک نیا شوشہ قبر پرستوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ دو طرح کے چوپائے ہوتے ہیں ایک شہری جو ہارن کی آواز سے بھی نہیں ڈرتے، دوسرے دیہاتی جو فورا چونک جاتے ہیں لیکن کیا عذاب قبر جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی سن لے تو مردہ ہی نہ دفنائے اسقدر بے ضرر ہے کہ شہری چوپائے قبرستان میں چرتے ہیں اور عذاب الہی سے لا علم رہتے ہیں پرسکوں انداز میں گھانس چرتے رہتے  ہیں

کہا جاتا ہے کہ عذاب فرشتے دنیا کی قبر میں میت پر کرتے ہیں  جس کو چوپائے  سنتے ہیں لیکن قرآن کہتا ہے

َامْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا

کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وه تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیاده بھٹکے ہوئے

اللہ ہم سب کو ہدایت دے

[/EXPAND]

[کیا میت زائر کو پہچانتی ہے]

ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے  کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ ( میت) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے

 اس روایت کی تمام اسناد جمع کی گئی ہیں تاکہ قارئین دیکھ سکھیں کہ امت پر کیا ستم ڈھایا گیا ہے

أبي هريرة رضي الله عنه سے منسوب  روایت

اس روایت کو ابن حبان نے المجروحين (2/ 58) میں ،الرازی نے تمام الفوائد (1/ 63)، خطیب البغدادي نے  تاريخ بغداد (6/ 137) میں، ابن عساكر نے  تاريخ دمشق (10/ 380) ، (27/ 65) میں ، اور ابن الجوزي نے “العلل المتناهية” (2/ 911) میں بیان کیا ہے اور یہ سب اس کو ایک ہی  طريق الربيع بن سليمان المرادي، عن بشر بن بكر، عن عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة  سے روایت کرتے ہیں

الذهبی کتاب سير أعلام النبلاء  ج ١٢ ص ٥٩٠ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا الرَّبِيْعُ بنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ زَيْدِ بنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُرُّ عَلَى قَبْرِ رَجُلٍ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ، إِلاَّ عَرَفَهُ، وَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ) .

غَرِيْبٌ وَمَعَ ضَعْفِهِ فَفِيْهِ انقطَاعٌ، مَا عَلِمْنَا زَيْداً سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ

 ابی هُرَيْرَةَ رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے  کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ ( میت) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے  غریب روایت ہے اور ضعیف ہے کیونکہ اس میں انقطاع ہے ہم نہیں جانتے کہ زید نے أَبِي هُرَيْرَةَ سے سنا ھو

ابن جوزی  اپنی کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية   میں  جو انہوں نے واہیات احادیث پر لکھی ہے کہتے ہیں حديث لا يصلح وقد أجمعوا على تضعيف عَبْد الرحمن

حدیث صحیح نہیں ہے اور بے شک عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ زَيْدِ بنِ أَسْلَمَ کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے

 ابن القیم کتاب الروح کے مطابق  ابن ابی الدنیا کتاب القبور كتاب الْقُبُور بَاب معرفَة الْمَوْتَى بزيارة الْأَحْيَاء  میں اس کو ابی هُرَيْرَةَ کا قول کہتے ہیں

حدثنا محمد بن قدامة الجوهري، حدثنا معن بن عيسى القزاز، حدثنا هشام بن سعد، حدثنا زيد بن أسلم، عن أبي هريرة – رضي الله عنه – قال: “إذا مر الرجل بقبر أخيه يعرفه فسلم عليه ردَّ عليه السلام وعرفه، وإذا مرَّ بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام

اس کی سند میں هشام بن سعد ، ضعیف راوی ہے ابن عدي کہتے ہیں  مع ضعفه يكتب حديثه

ابن عدی کہتے ہیں ان کے  ضعف کے ساتھ روایت لکھ لی جائے  جبکہ ابن معين کہتے ہیں  كان يحيى القطان لا يحدث عنه  یحییٰ القطان اس سے حدیث روایت نہیں کرتے

عائشہ رضي الله عنها سے منسوب روایت

ابن القیم کتاب الروح کے مطابق  ابن ابی الدنیا کتاب القبور كتاب الْقُبُور بَاب معرفَة الْمَوْتَى بزيارة الْأَحْيَاء  میں عَائِشَة رضى الله تَعَالَى عَنْهَا سے مروی روایت پیش کرتے ہیں

حَدثنَا مُحَمَّد بن عون حَدثنَا يحيى بن يمَان عَن عبد الله بن سمْعَان عَن زيد بن أسلم عَن عَائِشَة رضى الله تَعَالَى عَنْهَا قَالَت قَالَ رَسُول الله مَا من رجل يزور قبر أَخِيه وَيجْلس عِنْده إِلَّا استأنس بِهِ ورد عَلَيْهِ حَتَّى يقوم

اس کی سند میں عبد الله بن سمعان راوی ہے

العراقی  المغني عن حمل الأسفار في الأسفار، في تخريج ما في الإحياء من الأخبار  میں اس روایت کو بیان کرنے کے بعد  اس راوی کے لئے  لکھتے ہیں  وَلم أَقف عَلَى حَاله میں اس کے حال سے واقف نہ ہو سکا

ابن حجر لسان المیزان میں عبد الله بن سمعان [احتمال أن يكون عبد الله بن زياد بن سمعان] کے ترجمے میں  لکھتے ہیں

كره شيخي العراقي في تخريج الإحياء في حديث عائشة: ما من رجل يزور قبر أخيه ويجلس عنده إلا استأنس به ورد عليه حتى يقوم.

أخرجه ابن أبي الدنيا في كتاب القبور وفي سنده عبد الله بن سمعان لا أعرف حاله.

قلت: يحرر لاحتمال أن يكون هو المخرج له في بعض الكتب وهو عبد الله بن زياد بن سمعان ينسب إلى جده كثيرا وهو أحد الضعفاء.

شیخ العراقی نے الإحياء کی تخریج میں عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے روایت کر کے اس روایت سے کراہت کی ہے اس کو ابن  أبي الدنيا نے كتاب القبور میں عبد الله بن سمعان کی سند سے روایت کیا ہے جس کا حال پتا نہیں

میں کہتا ہوں  اس کا احتمال ہے کہ  ان (ابن ابی الدنیا) کی بعض کتابوں میں یہ عبد اللہ بن زیاد بن سمان  اپنے دادا کی طرف منسوب ہے اور کمزورراویوں میں سے ہے ۔

ابن عبّاس رضي الله عنه  سے منسوب روایت

 ابن عبد البر اس کو کتاب  الاستذكار میں روایت کرتے ہیں

قال حدثنا بشر بن بكير عن الأوزاعي عن عطاء عن عبيد بن عمير عن بن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ما من أحد مر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام

ابن حجر تہذیب التہذیب میں سند کے ایک  راوی عبيد بن عمير مولى بن عباس  کو مجهول کہتے ہیں . علامہ الوسی روح المعانی میں لکھتے ہیں

 إلا أن الحافظ إبن رجب تعقبه وقال : إنه ضعيف بل منكر

بے شک حافظ ابن رجب نے اس کا تعقب کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ نہ صرف ضعیف بلکہ منکر روایت ہے

سب سے افسوس ناک ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ھ  کا عمل ہے جنہوں نے اس کو کتاب  اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم میں  ابن عبد البر کی بنیاد پر صحیح قرار دیا ہے

عصر حاضر کے وہابی عالم محمد صالح المنجد القسم العربي من موقع (الإسلام، سؤال وجواب) میں فتویٰ میں کہتے ہیں

مَا مِن مُسلِمٍ يَمُرُّ عَلَى قَبرِ أَخِيهِ كَانَ يَعرِفُهُ فِي الدُّنيَا، فَيُسَلِّمُ عَلَيهِ، إِلا رَدَّ اللَّهُ عَلَيهِ رُوحَهُ حَتَّى يَرُدَّ عَلَيهِ السَّلامَ

فقد بحث أهل العلم عن هذا الحديث المعلق فلم يجدوه مسندا في كتاب ، وكل من يذكره ينقله عن تعليق الحافظ ابن عبد البر ، فهو في الأصل حديث ضعيف

پس بے شک بعض اہل علم اس معلق حدیث پر بحث کی ہے اور یہ سندا کسی کتاب میں نہ مل سکی اور جس کسی نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے اس نے الحافظ ابن عبد البر کی  تعليق کا حوالہ دیا ہے جبکہ اصل میں حدیث ضعیف ہے

الغرض اس روایت کے تمام طرق ضعیف ہیں اور آج ہم ان کو ضعیف قرار نہیں دے رہے بلکہ یہ سب کتابوں میں ہزار سال پہلے سے موجود ہے لیکن اس روایت کو درست قرار دیا گیا اور بد عقیدگی کو پھیلایا گیا

امام احمد اور گمراہی

امام احمد کہتے تھے

كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس

بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے

بحوالہ كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت

کہا جاتا ہے کہ  ابن تیمیہ کہتے ہیں یہ کتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل ، المؤلفہ  عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي نے اپنے فہم پر لکھی ہے

ابن تیمیہ کتاب درء تعارض العقل والنقل میں بتاتے ہیں کہ امام البیہقی کتاب اعتقاد أحمد جو أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي کو درس میں استمعال کرتے تھے

ولما صنف أبو بكر البيهقي كتابه في مناقب الإمام أحمد – وأبو بكر البيهقي موافق لابن البقلاني في أصوله – ذكر أبو بكر اعتقاد أحمد الذي صفنه أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي، وهو مشابه لأصول القاضي أبي بكر، وقد حكى عنه: أنه كان إذا درس مسألة الكلام على أصول ابن كلاب والأشعري يقول: (هذا الذي ذكره أبوالحسن أشرحه لكم وأنا لم تتبين لي هذه المسألة) فكان يحكى عنه الوقف فيها، إذ له في عدة من المسائل

اور جب ابو بکر البیہقی نے کتاب مناقب امام احمد لکھی اور ابو بکر البیہقی اصول میں  ابن الباقلاني سے موافقت کرتے ہیں اسکا ذکر ابو بکر البیہقی نے ذکر کیا کتاب اعتقاد أحمد کا جو أبو الفضل عبد الواحد بن أبي الحسن التميمي کی تصنیف ہے اور اصولوں میں قاضی ابو بکر کے مشابہ ہے اور ان سے بات بیان کی  جاتی ہے کہ جب وہ مسئلہ کلام میں ابن کلاب اور الأشعري کے اصول پر درس دیتے، کہتے ایسا ذکر کیا ابو الحسن نے جس کی شرح میں نے تمہارے لئے کی

ابن تیمیہ فتوی ج ٤ ص ١٦٧  میں لکھتے ہیں

وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِ الْمَائِلِينَ إلَيْهِمْ التَّمِيمِيُّونَ: أَبُو الْحَسَنِ التَّمِيمِيُّ وَابْنُهُ وَابْنُ ابْنِهِ وَنَحْوُهُمْ؛ وَكَانَ بَيْنَ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ وَبَيْنَ الْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ بْنِ الْبَاقِلَانِي مِنْ الْمَوَدَّةِ وَالصُّحْبَةِ مَا هُوَ مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ. وَلِهَذَا اعْتَمَدَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ البيهقي فِي كِتَابِهِ الَّذِي صَنَّفَهُ فِي مَنَاقِبِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ – لَمَّا ذَكَرَ اعْتِقَادَهُ – اعْتَمَدَ عَلَى مَا نَقَلَهُ مِنْ كَلَامِ أَبِي الْفَضْلِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ. وَلَهُ فِي هَذَا الْبَابِ مُصَنَّفٌ ذَكَرَ فِيهِ مِنْ اعْتِقَادِ أَحْمَدَ مَا فَهِمَهُ؛ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَلْفَاظَهُ وَإِنَّمَا ذَكَرَ جُمَلَ الِاعْتِقَادِ بِلَفْظِ نَفْسِهِ وَجَعَلَ يَقُولُ: ” وَكَانَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ “. وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ يُصَنِّفُ

كِتَابًا فِي الْفِقْهِ عَلَى رَأْيِ بَعْضِ الْأَئِمَّةِ وَيَذْكُرُ مَذْهَبَهُ بِحَسَبِ مَا فَهِمَهُ وَرَآهُ وَإِنْ كَانَ غَيْرُهُ بِمَذْهَبِ ذَلِكَ الْإِمَامِ أَعْلَمَ مِنْهُ بِأَلْفَاظِهِ وَأَفْهَمَ لِمَقَاصِدِهِ

امام أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ کے عقائد کی طرف سب سے زیادہ تَّمِيمِيُّونَ میں سے أَبُو الْحَسَنِ التَّمِيمِيُّ اور ان کے بیٹے اور پوتے اور اسی طرح کے دیگر  ہوئے اور أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ  اور َ الْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ بْنِ الْبَاقِلَانِي میں بہت مودت اور اٹھنا بیٹھنا تھا اور اس کے لئے مشھور تھے اور اسی لئے امام البیہقی نے کتاب  جو مَنَاقِبِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ میں  لکھی تو انہوں نے أَبِي الْفَضْلِ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ کی کتاب  پر اعتماد کیا ہے  جو انہوں نے امام احمد کے اعْتِقَادِ پر لکھی تھی  اور اس میں مصنف نے وہ اعْتِقَادِ ذکر کیے ہیں جو ان کے فہم کے مطابق امام احمد کے ہیں اور اس میں الفاظ نقل نہیں ہیں اور انہوں نے اجمالا الِاعْتِقَادِ لکھے ہیں اپنے الفاظ میں اور کہا ہے اور ابو عبداللہ .. اس کا مقام فقہ میں اماموں کی رائے نقل کرنے جیسا ہے اور مذبب  کا ذکر فہم پر مبنی ہے  اور اگر امام کا مذھب ہوتا تو الفاظ کے ساتھ لوگوں نے نقل کیا ہوتا اور اس کا مقصد سمجھا ہوتا

عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ المتوفی ٤١٠ ھ  اورابن الباقلانی  المتوفی ٤٠٢ ھ اشعری عقائد رکھتے تھے اور انکو امام احمد کا عقیدہ بھی بتاتے تھے ابن تیمیہ کو اعتراض اس پر ہے کہ اشعری عقائد امام احمد سے منسوب کیوں کیے جا رہے ہیں وہ صرف  اس کا رد کر رہے ہیں .  بیہقی  بھی ابن البا قلانی سے متاثر تھے . بیہقی نے امام احمد کے مناقب میں عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ کی کتاب الاعتقاد استمعال کی کیونکہ  وہ ابن الباقلانی سے متاثر  تھے

ابن تیمیہ کے مطابق عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ التَّمِيمِيِّ  نے اپنے فہم پر اس کتاب کو مرتب کیا ہے. ابن تیمیہ نے مطلقا اس کتاب کو رد نہیں کیا  دوئم یہ صرف ابن تیمیہ غیر مقلد کی رائے ہے جبکہ حنبلی مسلک میں کتاب معروف ہے لہذا ابن تیمیہ کی بات ناقابل قبول ہے

  جہاں تک مردہ کا زائر کو پہچاننے کا تعلق ہے اس کو ابن تیمیہ  بھی مانتے ہیں

امام ابن تیمیہ اور گمراہی

ابن تیمیہ فتوی الفتاوى الكبرى لابن تيمية ج ٣ ص ٤٢  میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا عِلْمُ الْمَيِّتِ بِالْحَيِّ إذَا زَارَهُ، وَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَفِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ، إلَّا عَرَفَهُ، وَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ» . قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: ثَبَتَ ذَلِكَ عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَصَحَّحَهُ عَبْدُ الْحَقِّ صَاحِبُ الْأَحْكَامِ

اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ میت زندہ کی زیارت سے کو جانتی ہے اور سلام کرتی ہے تو اس پر ابن عبّاس کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

 جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے  کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ ( میت) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے

 ابن مبارک کہتے ہیں یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس کو صحیح کہا ہے عبد الحق صاحب الاحکام نے

کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال میں مسئلہ سماع الموتی پر خاور بٹ صاحب لکھتے ہیں

افسوس اہل حدیث  شیخ ابن تیمیہ کی بد عقیدگی کا ذکر بھول جاتے ہیں اور غریب دیوبندیوں اور بریلویوں کا نام لے لے کر بد عقیدہ بتاتے ہیں .الله اس دو رخی سے بچاۓ

امام ابن قیم اور گمراہی

 ابن قیم کہتے ہیں اس پر اجماع ہے.  ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

 وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ

 اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے

ابن حجر عسقلانی اور گمراہی 

ابن حجر کتاب  الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع / ويليه أسئلة من خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں

 إِن الْمَيِّت يعرف من يزوره وَيسمع من يقْرَأ عِنْده إِذْ لَا مَانع من ذَلِك

بے شک میت زیارت کرنے والے کو جانتی ہے اور قرات سنتی ہے اس میں کوئی بات مانع نہیں ہے

قارئیں فیصلہ کیجئے کہ کیا اس دجل کا شکار ہوتے رہیں گے کہ نام نہاد اہل علم گمراہ نہیں تھے

[/EXPAND]

[برزخی جسم کیا ہے کہا جاتا ہے ١٤٠٠ سو سال میں ایسا کسی عالم نے نہیں کہا بلکہ یہ غلام احمد قادیانی دجال کا دعوی تھا حقیقت کیا ہے ؟]

جواب یہ بات ان نام نہاد سند یافتہ جہلا کی ہے جنہوں نے اس دین کو ایک پیشہ بنا دیا ہے

ایک اہل حدیث عالم لکھتے ہیں کہ حدیث میں اتا ہے کہ

صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۳۰۷/ حدیث مرفوع
۶۳۰۷۔ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهٗ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجٰی عَمَلٍ عَمِلْتَهٗ عِنْدَکَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْفَعَةً فَإِنِّي سَمِعْتُ اللَّيْلَةَ خَشْفَ نَعْلَيْکَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ قَالَ بِلَالٌ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا فِي الْإِسْلَامِ أَرْجٰی عِنْدِي مَنْفَعَةً مِنْ أَنِّي لَا أَتَطَهَّرُ طُهُورًا تَامًّا فِي سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذٰلِکَ الطُّهُورِ مَا کَتَبَ اللہُ لِي أَنْ أُصَلِّيَ۔

 عبید بن یعیش، محمد بن علاء ہمدانی، ابواسامہ، ابو حیان۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر بواسطہ اپنے والد، ابوحیان تیمی، یحیی بن سعید، ابو زرعہ،  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  بلال رضی اللہ عنہ سے صبح کی نماز کے وقت فرمایا: اے بلال !تو مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہو اور جس کے نفع کی تجھے زیادہ امید ہو؟ کیونکہ آج رات میں نے جنت میں اپنے سامنے تیرے قدموں کی آواز سنی ہے،  بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے اسلام میں کوئی ایسا عمل نہیں کیا کہ جس کے نفع کی مجھے زیادہ امید ہو ،سوائے اس کے کہ جب بھی میں رات یا دن کے وقت کامل طریقے سے وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے جس قدر اللہ نے میرے مقدر میں لکھا ہوتا ہے نماز پڑھ لیتا ہوں۔”

 اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  بلال رضی اللہ عنہ کہ قدم کی آواز آپ نے جنت میں سنی، اس عبارت سے یہ دلیل پکڑنا صحیح نہیں کہ اس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک نیا جسم عطا کر کہ جنت میں پہنچا دیا گیا تھا،
ایسے ہی اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ہے کہ
میں نے دیکھا کہ عمرو (ابن لحی الخزاعی) اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا۔ وہ پہلا شخص (عرب) ہے جس نےبتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی

لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ یہ دو علیحدہ روایات ہیں ایک خواب ہے اور ایک جہنم کا فی الحقیقت نظارہ ہے

  نبی صلی الله  علیہ وسلم نے خواب دیکھا اور اسمیں بلال رضی الله تعالی  عنہ کو دیکھا اور پھر صبح اس بارے میں انکو بتایا یہ بات ظاہر ہے کہ مستقبل کی بات ہے کیونکہ بلال زندہ تھے . اس کے بر عکس  عمرو  ابن لحی الخزاعی  جو مر چکا تھا اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھاتے ہوئے  بیداری میں دیکھا جو دس ہجری کا واقعہ ہے نہ صرف عمرو (ابن لحی الخزاعی) کو دیکھا بلکہ اپ جہنم کی تپش کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور ایک موقعہ پر جنت میں سے انگور کا خوشہ لینے کے لئے آگے بھی بڑھے  ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک عورت کو بھی دیکھا جس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور بھوک پیاس کی وجہ سے وہ بلی مر گئی.   اس کی تفصیل بخاری و مسلم میں کسوف کی روایات میں دیکھی جا سکتی ہیں

لہذا ایک خواب  ہے جس میں مستقبل کی خبر ہے اور دوسرا فی الحقیقت جہنم کا براہ راست منظر ہے اوردونوں میں فرق ہے

اب اگر یہ براہ راست منظر  تھا تو پھر ظاہر ہے کہ حدیث میں عمرو (ابن لحی الخزاعی) کا جسم بتایا گیا جس کی آنتیں تھیں اور روح کی آنتیں نہیں ہوتیں

اس حدیث سے جان چھڑانا مشکل ہے لہذا گول مول جواب دینا اب ایک عام بات ہے

توضیح الاحکام میں زبیر علی زئی کہتے ہیں

tozeh-547

اہل حدیث کا آجکل ٢٠١٤ میں موقف ہے کہ برزخ قبر میں ہی ہوتی ہے واضح رہے کہ یہ موقف پہلے نہیں تھا

عمرو بن لحی دنیا کی قبر میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہیں دیکھا . سائل نے سوال کچھ کیا جواب گول مول آیا

اہل حدیث حضرات حدیث کا واضح متن رد کرکے کہتے ہیں کہ برزخی جسم قیاسی ہیں

دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

موصوف کا خیال ہے کہ اس قبر میں کس طرح جنت اور جہنم پیش کی جا سکتی ہے چونکہ یہ بات ان کے ذہن سے ٹکراتی ہے اس لئے وہ اس کا انکار کر دیتے ہیں حالانکہ ہم نے بخاری و مسلم کے حوالے سے عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت بھی پیش کی ہے کہ میت پر صبح و شام جنت اور جہنم کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس روایت کو موصوف نے بھی توحید خالص دوسری قسط ص۳۳ پر پیش کیا ہے جیسا کہ صحیح احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ بلاشبہ میت پر اس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم پیش کیا جاتا ہے۔ ہم اس کی وضاحت ایک اور طرح سے کرتے ہیں۔ چنانچہ جناب عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ :۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہو گیا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں طویل قیام فرمایا۔ (اس حدیث میں یہ بھی ہے )صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کی حالت میں ) ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ کھڑے ہوئے کسی چیز کو پکڑنے کا ارادہ کررہے تھے پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ پیچھے کی جانب ہٹ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک میں نے جنت کو دیکھا اور اس کے ایک درخت سے انگور کا خوشہ توڑنے کا ارادہ کیا تھا۔ اگر میں اس خوشہ کو توڑ لیتا تو بلاشبہ تم جب تک دنیا میں رہتے اس میں سے کھاتے پھر میں نے دوزخ کو دیکھا اور آج کے دن کے برابر کوئی منظر ایسا خوفناک میری نظر سے نہیں گزرا اس (جہنم)میں میں نے عورتوں کو زیادہ پایا…‘‘۔
بخاری و مسلم کی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنت اور جہنم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز کی حالت میں پیش کیا گیا اور جنت تو اسقدر قریب آ گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسمیں سے انگور کا خوشہ توڑنے کا ارادہ بھی کر لیا تھا۔ جب جنت و جہنم مصلے پر پیش ہو سکتی ہیں (حالانکہ صحابہ کرام ؓ نے انہیں نہیں دیکھا تھا) تو قبر میں کیوں پیش نہیں ہو سکتی۔اصل بات ایمان کی ہے جو شخص غیب پر ایمان رکھے گا تو وہ لازماً ان حقیقتوں کو تسلیم کرے گا اور جو شخص بن دیکھے ایمان کا قائل ہی نہ ہو تو بہرحال آج نہیں تو کل وہ ضرور ان تمام حقائق پر ایمان لے آئے گا مگر اس وقت وہ ایمان اسے فائدہ نہیں دے گا۔مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں عُرِضَتْ عَلَی النَّارُ۔ یعنی مجھ پر جہنم پیش کی گئی (مشکوٰۃ ص۴۵۶) اس واقعہ کو عائشہ ؓ اور اسماء بنت ابی بکر بھی بیان کرتی ہیں اور جسمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد پہلی مرتبہ عذاب قبر کا تذکرہ فرمایا جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

جنت و جہنم اگر روز پیش کی جائے تو اس واقعہ کی کیا اہمیت ہاں دینا میں یہ ایک دفعہ ہوا جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی اسی لئے اس کی اہمیت ہے. دوسرے اس دن پہلی دفعہ عذاب قبر کا بتایا گیا تو ظاہر ہے اسی کا منظر البرزخ سے دکھایا گیا نہ کہ دنیا کی کی کسی قبرکا

دامانوی عذاب القبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

موصوف نے پانچویں دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی پیش کی ہے کہ ان کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے لیکن جیسا کہ واضح کیا گیا ہے کہ قیاس سے کوئی چیز ثابت نہیں کی جا سکتی بلکہ ایسا قیاس، قیاس مع الفارق ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔

معلوم ہوا برزخ مقام نہیں زمانہ ہے اور برزخی جسم قیاس ہے جس کا ذکر صرف ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے

دیکھتے ہیں سچ کیا ہے

اہل حدیث عالم اسمعیل سلفی المتوفی ١٩٦٨ ع نے بھی برزخی جسد کا کتاب  مسئلہ حیات النبی میں ذکر کیا

ismael-36

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت یونس علیہ السلام کو احرام باندھے شتر سوار تلبیہ کہتے سنا دجال کوبحالت احرام کے لیے جاتے دیکھا عمروبن لحئ کو جہنم میں دیکھا یہ برزخی اجسام ہیں اور کشفی رویت ہیں

یہ بھی لکھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے معراج پر انبیاء کی امامت کی اور انبیاء برزخی جسموں کے ساتھ تھے

دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی

hayat-nabi-slafi

مولانا اسمعیل سلفی  کتاب مسئلہ حیات النبی میں علامہ الوسی کا مسلک لکھتے ہیں

barzakh-tibri

دیکھئے  مسلک ہے کہ شہدا کا برزخ میں جسم ہے جو دنیا سے ملتا جلتا ہو گا

الوسی باقاعدہ برزخی جسم کا لفظ استمعال کرتے ہیں مولانا سلفی ترجمہ کرتے ہیں

alosi-2

ارواح کا تعلق برزخی جسم سے ہے جو بدن کثیف (یعنی مردہ جسد جو قبر میں ہے) سے الگ ہے

 ابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٠٩ میں واقعہ معراج پر لکھتے ہیں

وَأَمَّا الَّذِينَ صَلَّوْا مَعَهُ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَيَحْتَمِلُ الْأَرْوَاحَ خَاصَّةً وَيَحْتَمِلُ الْأَجْسَادَ بِأَرْوَاحِهَا

اور بیت المقدس میں وہ انبیاء جنہوں نے نماز ادا کی ان کے بارے میں احتمال ہے وہ ارواح تھیں اور احتمال ہے کہ جسم تھے انکی روحوں کے ساتھ

یہ کون سے علماء تھے جو ابن حجر سے پہلے گزرے ہیں اور ان کے مطابق انبیاء جنت سے اپنے برزخی اجسام کے ساتھ زمین پر اترے تھے کیا یہ علماء ڈاکٹر عثمانی کی تحریک سے تعلق رکھتے تھے

یا ہو سکتا ہے یہ قادیانی ہوں جیسا کہ اپ کا خیال ہے. ابن حجر نے بھی اس  کو رد نہیں کیا .کیا وہ بھی قادیانی تھے ؟

ابن رجب الحنبلی الجامع لتفسير الإمام ابن رجب الحنبلي میں لکھتے ہیں کہ

وممن رجَّح هذا القولَ – أعني السؤالَ والنعيمَ والعذابَ للروح خاصةً – من أصحابِنا ابنُ عقيلٍ وأبو الفرج ابن الجوزيِّ. في بعضِ تصانيفِهما. واستدلَّ ابنُ عقيلٍ بأنَّ أرواحَ المؤمنينَ تنعمُ في حواصلِ طيرٍ خضرٍ، وأرواح الكافرينَ تعذَّب في حواصلِ طيرٍ سودٍ، وهذه الأجسادُ تبْلَى فدلَّ ذلك على أنَّ الأرواحَ تعذبُ وتنعمُ في أجسادٍ أخرَ

اور جو اس قول کی طرف گئے ہیں یعنی کہ سوال و جواب راحت و عذاب صرف روح سے ہوتا ہے ان میں ہمارے اصحاب ابن عقیل اور أبو الفرج ابن الجوزيِّ. ہیں اپنی بعض تصنیف میں اور ابن عقیل نے استدلال کیا ہے کہ مومنین کی ارواح سبز پرندوں میں نعمتیں پاتی ہیں اور کافروں کی ارواح کو کالے پرندوں میں عذاب ہوتا ہے اور یہ اجساد (جو دنیاوی قبر میں ہیں ) تو گل سڑ جاتے ہیں پس یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے

ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) شرح العقيدة الطحاوية میں لکھتے ہیں

فَإِنَّهُمْ لَمَّا بَذَلُوا أَبْدَانَهَمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى أَتْلَفَهَا أَعْدَاؤُهُ فِيهِ، أَعَاضَهُمْ مِنْهَا فِي الْبَرْزَخِ أَبْدَانًا خَيْرًا مِنْهَا، تَكُونُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيَكُونُ تَنَعُّمُهَا بِوَاسِطَةِ تِلْكَ الْأَبْدَانِ، أَكْمَلَ مِنْ تَنَعُّمِ الْأَرْوَاحِ الْمُجَرَّدَةِ عَنْهَا

پس جب انہوں (شہداء) نے اپنے جسم الله کے لئے لگا دیے حتیٰ کہ ان کے دشمنوں نے ان پر زخم لگانے، ان کو البرزخ میں اس سے بہتر جسم دیے گئے جو قیامت تک ہونگے، اور وہ نعمتیں ان بدنوں سے حاصل کریں گے، جو مجرد ارواح سے حاصل کرنے سے زیادہ کامل شکل ہے

کیا یہ تناسخ ہے

دامانوی صاحب اس کو تناسخ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں کہ برزخی جسم آواگون ہے

سید قاسم محمود صاحب تناسخ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آواگون! جون بدلنا بقول مولانا اشرف علی تھانوی ایک بدن سے دوسرے بدن کی طرف نفس ناطقہ کا انتقال۔

ہندوستان میں اس اعتقاد کے لوگ عام ہیں۔ بقول البیرونی ’’جس طرح شہادت بہ کلمہ اخلاص مسلمانوں کے ایمان کا شعار ہے، تثلیث علامت نصرانیت ہے اور سبت منانا علامت یہودیت اسی طرح تناسخ ہندو مذہب کی نمایاں علامت ہے‘‘۔ موصوف مزید لکھتے ہیں: ’’عقیدہ تناسخ روح کے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کے معنی میں متعدد شیعی فرقوں میں بھی پایا جاتا ہے‘‘۔ موصوف آخر میں لکھتے ہیں: ’’تناسخ کا عقیدہ ہندومت اور مسلمانوں کے علاوہ بدھ مت، قدیم یونانیوں اور دنیا کے دیگر مذاہب و اقوام کے ہاں بھی پایا جاتاہے۔ اسلام کی صحیح تعلیمات اس عقیدے کی مخالف ہیں اور واضح طور پر اس کی تردید کرتی ہیں‘‘۔ (شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص۵۳۴)

برزخی قبر کی طرح تناسخ کا عقیدہ بھی ہندوؤں کے علاوہ متصوفین یا مسلمانوں کے بعض فرقوں شیعہ وغیرہ میں پایا جاتا ہے اور وہاں سے ڈاکٹر موصوف نے اس عقیدہ کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا
فاعتبروا یا اولی الابصار

۔

تناسخ  کا تعلق اسی دنیا میں ایک جسم چھوڑ کر دوسرے میں جانا ہے جب کہ احادیث میں یہ معاملہ عالم ارواح یا برزخ کا ہے لہذا  اس کا اس سے کیا تعلق. تناسخ دیگر ادیان میں اسی دنیا میں ہوتا ہے  دوئم ڈاکٹر عثمانی ١٤٠٠ سال میں پہلی شخصیت نہیں جو یہ کہہ رہی ہے ابن عقیل  او ابن جوزی کا بھی یہی نظریہ  ہے اوپر دے گئے حوالہ جات دیکھے جا سکتے ہیں.  ہماری طرح ، ابن جوزی بھی اسی دنیا میں تناسخ  ارواح کے سخت خلاف ہیں. اس کے لئے کتاب تلبیس ابلیس دیکھی جا سکتی ہے. لیکن جب ارواح کے لئے عالم البرزخ  میں نئے جسموں کی بات اتی ہے تو صيد الخاطر میں لکھتے ہیں

 وقوله: “فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ” دليل على أن النفوس لا تنال لذة إلا بواسطة، إن كانت تلك اللذة لذة مطعم أو مشرب، فأما لذات المعارف والعلوم، فيجوز أن تنالها بذاتها مع عدم الوسائط

اور قول کہ (شہداء کی ارواح) سبز پرندوں کے پیٹوں میں (ہیں) تو یہ دلیل ہے کہ بے شک ارواح لذّت نہیں لیتیں الا یہ کہ کوئی واسطہ ہو اگر یہ لذّت کھانے پینے کی ہو، لیکن اگر یہ معارف و معرفت کی لذتیں ہوں تو جائز ہے کہ یہ لذّتیں واسطے کے بغیر لی جائیں

نعمان الوسی المتوفی ١٢٧٠ ھ تفسیر روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني میں لکھتے ہیں

 وعندي أن الحياة في البرزخ ثابتة لكل من يموت من شهيد وغيره، وأن الأرواح- وإن كانت جواهر قائمة بأنفسها- مغايرة لما يحس به من البدن لكن لا مانع من تعلقها ببدن برزخي مغاير لهذا البدن الكثيف، وليس ذلك من التناسخ الذي ذهب إليه أهل الضلال

اور میرے نزدیک البرزخ میں زندگی ثابت ہے ہر ایک شہید کے لئے اور دوسروں کے لئے بھی اور اگرچہ روح ایک جوہر قائم ہے  جو اس محسوس دنیاوی بدن سے الگ ہے لیکن روح  کا ایک دوسرے برزخی بدن سے تعلق ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے جو بدن کثیف (مردہ لاش جو قبر میں ہے) سے الگ ہے اور یہ تناسخ نہیں جس کی طرف گمراہ لوگوں کا مذھب ہے 

ابن أبي العز الحنفي، الأذرعي الصالحي الدمشقي (المتوفى: 792هـ) شرح العقيدة الطحاوية میں لکھتے ہیں

فَإِنَّهُمْ لَمَّا بَذَلُوا أَبْدَانَهَمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى أَتْلَفَهَا أَعْدَاؤُهُ فِيهِ، أَعَاضَهُمْ مِنْهَا فِي الْبَرْزَخِ أَبْدَانًا خَيْرًا مِنْهَا، تَكُونُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيَكُونُ تَنَعُّمُهَا بِوَاسِطَةِ تِلْكَ الْأَبْدَانِ، أَكْمَلَ مِنْ تَنَعُّمِ الْأَرْوَاحِ الْمُجَرَّدَةِ عَنْهَا

پس جب انہوں (شہداء) نے اپنے جسم الله کے لئے لگا دیے حتیٰ کہ ان کے دشمنوں نے ان پر زخم لگانے، ان کو البرزخ میں اس سے بہتر جسم دیے گئے جو قیامت تک ہونگے، اور وہ نعمتیں ان بدنوں سے حاصل کریں گے، جو مجرد ارواح سے حاصل کرنے سے زیادہ کامل شکل ہے

 اصل میں ارواح کے نئے اجسام  ابن تیمیہ اینڈ کمپنی کا نظریہ نہیں اسی وجہ سے دل کو نہیں بھا رہا کیونکہ  اب انہی کی کہی ہوئی باتوں کو صحیح ثابت کیا جاتا ہے . ابن جوزی المتوفی ٥٩٧ ھ ، ابن عقیل المتوفی ٥١٣ ھ    ابن تیمیہ سے پہلے گزرے ہیں

قابل غور ہے کہ ابن عقیل اور ابن جوزی حنبلی ہیں اور آج کل کے وہابی اور انکے خوشہ چین اہل حدیث برزخی جسم کے متقدمین کے عقیدے  کو چھپاتے  ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ گویا یہ چند سال پہلے گزرنے والے ڈاکٹر عثمانی کی ایجاد ہے . یہ پروپیگنڈا بھی کرتے ہیں کہ یہ قادیانی دجال کا عقیدہ  تھا لیکن اسی پنجاب میں عالم اسمعیل سلفی بھی گزرے ہیں ان کا عقیدہ بیان نہیں کرتے

مولانا ثناء الله امرتسری  فتاوی ثنائیہ صفحہ 292  میں جواب دیتے ہیں

ثناء جسم

روح جب اپنے مقام میں جاتی ہے تو اسکو اس کے لائق جسم مل جاتا ہے اس جسم کے ساتھ عذاب یا راحت بھوگتی ہے یہ کون کہہ رہا ہے ڈاکٹر عثمانی یا  مشھور اہل حدیث عالم

دامانوی صاحب ان اجسام کو قیاس کی بنیاد پر تمثیلی کہتے ہیں اور دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

تمثیلی جسم دامانوی

یہ کیسے پتا چلا کہ یہ اجسام تمثیلی تھے اس قیاس کی دلیل کیا ہے ؟

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

برزخی اجسام کا ثبوت؟ حدیث میں یہ وضاحت موجود ہو کہ قبض روح کے بعد ارواح کو برزخی اجسام میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ جس طرح کہ روح کے قبض ہونے کا ذکر واضح طور پر قرآن و حدیث میں موجود ہے، اسی طرح ارواح کے دوبارہ نئے برزخی اجسام میں ڈالے جانے کا ذکر بھی کسی حدیث سے واضح کیا جائے۔ اور اگر وہ ایسا ثبوت پیش نہ کر سکیں تو سمجھ لیں کہ وہ جھوٹے ہیں

اسی جسم کو بعض لوگ مثالی جسم بولتے ہیں مثلا مولانا ثناء الله فتوی میں کہتے ہیں

ثناء عالم مثال

اب یہ نہیں کہیے گا کہ مولانا ثناء الله امرتسری قادیانی تھے کیونکہ یہ سن ١٩٣٤ اور ١٩٣٢  میں جواب دے  گئے ہیں

 سن ١٩٧٢ میں اس فتوی کو احسنالہی ظہیر کی نگرانی میں شائع کیا گیا اس وقت تک ڈاکٹر عثمانی تحقیق کر رہے تھے اور ہماری طرف سے برزخی جسم کا عقیدہ پیش  نہیں کیا گیا تھا

غیر مقلدین کے شمارہ محدث سن ١٩٨٤ میں مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی مضمون میں عبد الرحمان کیلانی لکھتے ہیں

موت کے بعد شہداء اور عام انسانوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ شہداء کو جنت میں سبز پرندوں کا جسم عطا ہوتا ہے اور یہ جسم حقیقی اور مستقل ہوتا ہے 

ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں اوپر دے گئے تمام علماء پر بہ جنبش قلم کفر کا فتوی لگاتے ہیں

arshd-Baryakh

افسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ سے بغض نے ان کو کس مقام پر لا کھڑا کیا ہے

ہمارا مشورہ ہے کہ حضرت پہلے اپنی کتابیں تو ٹھیک طرح پڑھ لیں اس کے بعد مبارزت طلبی کیجئے گا

ابو جابر اپنے مضمون  دو زندگیاں اور دو موتیں میں لکھتے ہیں

موصوف کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد ہر انسان کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے جسے موصوف برزخی جسم قرار دیتے ہیں اور روح کو اس جسم میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس مکمل انسان کو قیامت تک راحت یا عذاب کے مراحل سے گزارا جاتا ہے ۔ عذاب کے نتیجے میں یہ جسم ریزہ ریزہ بھی ہوجاتا ہے اور پھر جب یہ جسم دوبارہ درست ہوجاتا ہے تو اس جسم میں دوبارہ روح کو ڈال دیاجاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ بار بار اعادۂ روح ہوتا رہتا ہے اور ثواب و عذاب کا یہ سلسلہ قیامت تک رہتا ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جسم چاہے نیا ہو یا پرانا ، برزخی ہو یا عنصری ، اگر روح اس میں ڈال دی جائے تو یہ ایک زندہ انسان ہوجائے گا اور مرنے والے کو ایک کامل و مکمل زندگی حاصل ہوجائے گی اور جب قیامت آئے گی تو پھر نیا جسم فوت ہوجائے گا اور پرانا جسم دوبارہ زندہ ہوجائے گا ۔ موصوف کی اس وضاحت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ موصوف میت (مردہ) کے عذاب کے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ کے عذاب کے قائل ہیں اور مرنے کے بعد ان کے بقول روح کو ایک نئے جسم کے ساتھ زندگی دی جاتی ہے ۔

قارئیں اپ نے دیکھا کہ کس طرح تلبیس کی گئی موصوف لکھتے ہیں جسم چاہے نیا ہو یا پرانا برزخی ہو یا عنصری اگر اس میں روح آئے تو ایک زندہ انسان ہے یہ سراسر دھوکہ و فریب ہے اور حق میں تلبیس ہے مولانا ثنا اللہ امرتسری کہہ رہے ہیں روح کو نیا جسم ملتا ہے  اسمعیل سلفی کہہ رہے ہیں روح کو نیا جسم ملتا ہے نعمان الوسی کہہ رہے ہیں نیا جسم ملتا ہے یہی ڈاکٹر عثمانی کہہ رہے ہیں اور یہ نیا جسم جسد عنصری نہیں جو گل سڑ جاتا ہے لہذا دو زندگی اور دو موتوں والا جسم الگ ہے اور برزخی جسم الگ ایک عالم ارواح میں ہے اور ایک عالم ارضی میں

ڈاکٹر عثمانی تو صاف لکھ رہے ہیں

ثابت ہوا کہ ان کو کوئی دوسرا قیامت تک باقی رہنے والا عذاب برداشت کرنے والا جسم دیا گیا ہے ۔ جسدِ عنصری وہ بہرحال نہیں ہے

ابو جابر اسی مضمون میں دوسرا اعتراض  لکھتے ہیں

 پھر حیرت اس بات پر ہے کہ جرائم جسم عنصری کرے اور عذاب نئے برزخی جسم کو دیا جائے !!! یہ کیا بوالعجبی ہے اور کیا جہالت ہے ؟؟

یہ بھی غلط اعتراض ہے  مسلم کی حدیث میں اتا ہے کہ روز محشر انسان کا جسم مختلف ہو گا

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ آپ کے قد کی لمبائی  ساٹھ ہاتھ تھی۔ آدم کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا، اس (فرشتوں کی) جماعت کو سلام کرو‘ اور سنو کیا جواب ملتا ہے ۔ جو جواب ملے وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا جواب ہوگا۔ وہاں فرشتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔آدم علیہ السلام اس جماعت کے پاس گئے اور انھیں مخاطب کر کے ” السلام علیکم “کہا ۔ فرشتوں نے جواب میں ”السلام علیک و رحمتہ اللہ“کہا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انھوں نے ”ورحمة اللہ “ کا اضافہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید کہا کہ جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی شکل پر ہوگا اور اس کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا لیکن آدم علیہ السلام کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی

ہمارا یا اپ کا قد ساٹھ ہاتھ نہیں لیکن اس دنیا کے نیک لوگ جنت میں ساٹھ ہاتھ قد کے ساتھ داخل ہونگے

اب کافر کا جہنمی جسم دیکھئے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی ( یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے)۔

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔

ان احادیث سے پتا چلا کہ جنتی اور جہنمیوں کے اجسام اس دنیا جیسے نہیں بلکہ بہت بڑے ہونگے

دوسری طرف یہ جہنمی اجسام مسلسل تبدیل ہونگے اور ان پر نئی کھال آئے گی

قرآن ہی میں ہے کہ جہنمیوں کو آگ کا عذاب ہو گا اور جب ان کی کھالیں جلیں گی تو نئی کھالیں آ جائیں گی – اس طرح تو ان نئی کھالوں نے کون سے گناہ کے جو ان کو جلایا جائے گا – جس طرح یہ نئی کھالیں عذاب چکھانے میں استعمال ہونگی اسی طرح برزخی جسم بھی البرزخ میں عذاب کے لئے استعمال ہو رہے ہیں

لہذا ابو جابر دامانوی کا یہ اعتراض کہ گناہ کسی جسم نے کیے اور عذاب دوسرے جسم کو ہو غلط ہے بالکل احمقانہ اور خلاف قرآن و حدیث ہے ان کو چاہیے حدیث جیسی آئی ہیں ویسی ہی مانیں نہ کہ ان پر نا عقلی والے اعتراضات کریں

ابو جابر دامانوی اسی مضمون میں لکھتے ہیں

اور قبر میں سوال و جوا ب کے وقت اعادۂ روح بھی ہوتا ہے (ابوداود : ۴۷۵۳، مسند احمد: ۱۸۵۳۴، وھو حدیث صحیح ) کیونکہ یہ انتہائی اہم سوالات ہوتے ہیں کہ جن پر میت کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے ، اس لئے اس اہم موقع پر روح کو بھی حاضر  کیاجا تا ہے لیکن روح کے اعادہ کے باوجود مرنے والا میت ہی ہوتا ہے ، اس لئے کہ دو زندگیاں یعنی دنیاوی زندگی اس کی ختم ہوچکی ہے او ر قیامت کے دن کی زندگی ابھی شروع نہیں ہوئی اور انسان اس وقت حالتِ موت میں ہوتا ہے یعنی میت ہوتاہے

یہ بھی دجل ہے کیونکہ سلف میں ابن تیمیہ ابن قیم ابن حجر عسقلانی سب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روح جسد میں اتی جاتی رہتی ہے بلکہ ابن قیم کے بقول پرندے کی طرح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے کتاب الروح میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی مردہ کو سلام کرے تو

وَلها اتِّصَال بِالْبدنِ بِحَيْثُ إِذا سلم الْمُسلم على الْمَيِّت رد الله عَلَيْهِ روحه فَيرد عَلَيْهِ السَّلَام

اور اس (روح) کا بدن سے اتصال بے اس طور سے کہ جب کوئی مسلم میت کو سلام کرے تو الله تعالی اس روح کو واپس (جسد میں) پلٹاتا ہے تاکہ سلام کا جواب دے

دامانوی صاحب اس عقیدے کو چھپاتے ہیں.  ان کے محبوب سلف کا عقیدہ ان کے موجودہ عقیدے سے الگ تھا

روح کا میت میں آنا استثنائی نہیں جو صرف ایک دفعہ ہو

باقی رہا کہ روح کو اہم سوالوں کی وجہ سے حاضر کیا جاتا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں عود روح کی روایت میں جسد سے روح نکالنے کی کوئی بات  نہیں یہی وجہ ہے کہ

ابن عبد البر  التمھید ج ١٤ ص ١٠٩ میں کہتے ہیں کہ البراء بن عازب کی روایت سے

وَقَدِ اسْتَدَلَّ بِهِ مَنْ ذَهَبَ إِلَى أَنَّ الْأَرْوَاحَ عَلَى أَفْنِيَةِ الْقُبُورِ

اور بے شک اس (زاذان والی روایت ) سے انہوں نے استدلال کیا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ ارواح قبروں کے میدانوں  (یعنی قبرستان) میں ہیں

ابن عبد البر  الاستذکار ج ٣ ص ٨٩ میں کہتے ہیں کہ

أَنَّهَا قَدْ تَكُونُ عَلَى أَفَنِيَّةِ قُبُورِهَا لَا عَلَى أَنَّهَا لَا تَرِيمُ وَلَا تُفَارِقُ أَفَنِيَّةَ الْقُبُورِ

بے شک ارواح قبرستانوں میں ہیں  اور یہ ان کو نہیں چھوڑتیں

تقسیم ہند سے پہلے اہل حدیث کا مذھب تھا کہ عود روح مسلسل ہوتا ہے ان کے نزدیک زاذان کی روایت میں ہے

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے  مطابق پہلا گرز مارنے پر جسم مٹی ہو جاتا ہے جس کو پھر بنایا جاتا ہے مبارکبوری لکھتے ہیں

فَيَصِيرُ تُرَابًا، ثُمَّ يُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ كَرَّرَ إِعَادَةَ الرُّوحِ فِي الْكَافِرِ بَيَانًا لِشِدَّةِ الْعَذَابِ

جسد مٹی ھو جاتا ہے پھر اعادہ روح ہوتا ہے تاکہ کافر پر عذاب کی شدت ھو

 اہل حدیث کے شیخ الکل قرع نعآل پر لکھتے ہیں

nazeer-murda-murda-nahi

لہذا یہ عقیدہ کہ عود روح کے بعد بھی مردہ مردہ ہوتا ہے اہل حدیث علماء کا نہیں  تھا بلکہ نو ایجاد ہے

موصوف کو چاہیے کہ ڈاکٹر عثمانی پر تنقید کی بجائے پہلے اپنے سلف کا عقیدہ تو عوام پر واضح کریں جن کے دفاع میں خم ٹھوک کر باہر نکلے ہیں

ہمارے نزدیک قرآن و صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عود روح نہیں ہوتا اور مردہ مردہ ہوتا ہے اس کا جسم گل سڑ جاتا ہے اصل عذاب روح کو دوسرے عالم میں ہوتا ہے اسی کو عذاب قبر کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن میں ال فرعون کے لئے آیا ہے

 

[/EXPAND]

[برزخ والے جسم سے روح نکال کر جب عجب الذنب میں ڈالی جائے گی تو برزخی جسم کا کیا ہو گا]

جواب

برزخی جسم کا مقصد ختم ہو جائے گا تو ممکن ہے ان کو معدوم کر دیا جائے اس کا کیا ہو گا کسی حدیث میں نہیں ہے لیکن اس کا موجود ہونا احادیث میں ہے
مسند احمد کی روایت ہے جس کو شعیب صحیح کہتے ہیں
وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، فَجَعَلْتُ أَنْفُخُ خَشْيَةَ أَنْ يَغْشَاكُمْ (2) حَرُّهَا، وَرَأَيْتُ فِيهَا سَارِقَ بَدَنَتَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَخَا بَنِي دَعْدَعٍ، سَارِقَ (3) الْحَجِيجِ، فَإِذَا فُطِنَ لَهُ قَالَ: هَذَا عَمَلُ الْمِحْجَنِ، وَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً طَوِيلَةً سَوْدَاءَ حِمْيَرِيَّةً، تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا (4) وَلَمْ تَسْقِهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، حَتَّى مَاتَتْ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر جہنم کو پیش کیا گیا … اس میں میں بَنِي دَعْدَعٍ کے بھائی کو دیکھا حاجیوں کا سامان چوری کرنے والا .. اور ایک لمبی عورت کو دیکھا جس نے بلی کو باندھ رکھا یہاں تک مر گئی
صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ یہ چوری کرنے والا کہتا ہے
وَيَقُولُ: إِنِّي لَا أَسْرِقُ، إِنَّمَا يَسْرِقُ الْمِحْجَنُ، فَرَأَيْتُهُ فِي النَّارِ مُتَّكِئًا عَلَى مِحْجَنِهِ”.
میں نے چوری نہیں کی … لیکن یہ اس لاٹھی سے ٹیک لگائے ہوئے ہے جس سے یہ چوری کرتا تھا

یہ شخص لاٹھی سامان میں اٹکا کر چوری کرتا تھا لہذا اسی لاٹھی سے جہنم میں اب بھی ٹیک لگائے ہوئے ہے

ظاہر ہے یہ جسم کی علامت ہے کہ اس کو لاٹھی پر روکا ہوا ہے

اسی طرح بلی ہے جو عورت پر جھنپٹی ہے اس کو نوچتی ہے
فَهيَ إذَا أقْبَلَتْ تَنْهَشُهَا، وَإذَا أدْبَرَتْ تَنْهَشُهَا
صحیح ابن حبان
یہ بھی برزخی جسم کی خبر ہے

اب یہ سوچنے کا مقام ہے بلی بے چاری مری تو مری جہنم میں بھی چلی گئی
مولوی کہتے ہیں برزخی جسم نہیں ہو سکتا ورنہ کرے کوئی بھرے کوئی ہو جائے گا
تو بھلا بتاو یہ بلی جہنم میں کیوں ہے ؟

http://jamiatsindh.org/ur/1514/ek-hadees-ki-tashreeh-azab-e-qabr/

[/EXPAND]

[حدیث میں اتا ہے کہ ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کو جلا دیا جائے لیکن الله نے اس کو زندہ کر دیا کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ہر شخص کو اس کی قبر میں زندہ کر دیا جاتا ہے؟]

دامانوی صاحب  خاکستر شدہ انسان کا معاملہ کے تحت لکھتے ہیں

 جناب ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص نے گناہوں کی وجہ سے اپنے نفس پر بڑی زیادتی کی تھی جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا۔

اِذَا اَنَا مِتُّ فَاحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اَطْحَنُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّوْنِیْ فِی الرِّیْحِ فَوَاﷲِ لَئِنْ قَدَرَ اﷲُ عَلَیَّ لَیُعَذِّبُنِیْ عَذَابًا مَّا عَذَّبَہٗ اَحَدًا۔

یعنی جب میں مر جائوں تو تم مجھے جلا کر میری راکھ کو پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ واللہ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر تنگی کی تو مجھے وہ ایسی سزا دے گا جو اور کسی کو اس نے نہیں دی۔ جب اس کی وفات ہوئی تو اس کے ساتھ یہی کاروائی کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس کے تمام ذرات کو جمع کر دے سو اس نے ایسا ہی کیا۔جب وہ جمع کر دیا گیا تو وہ آدمی تھا جو کھڑا کر دیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو نے یہ سب کاروائی کیوں کی؟ اس نے جواب دیا اے میرے رب تیرے ڈر کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔

(رواہ البخاری جلد ۱ ص۴۹۵ واللفظہ لہ ‘ مسلم ج۲ ص۳۵۶)

ایک روایت میں آتا ہے کہ اس نے کہا کہ میری راکھ کا آدھا حصہ خشکی میں اور آدھا دریا میں بکھیر دینا۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

(بخاری جلد ۲ ص۱۱۱۷‘مسلم جلد ۲ ص۳۵۶)

 اس حدیث سے ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ راکھ شدہ انسان کو دوبارہ بدن عنصری عطا فرماتا ہے اور پھر اس پر انعام یا عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہی معاملہ اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جسے مچھلی یا جانوروں نے کھا کر فضلہ بنا دیا ہو اس شخص کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد عذاب (قبر) اس کی میت (جسد عنصری) کو دیا جائے گا لہذا اگر اس کا جسم راکھ میں تبدیل ہو گیا اور ہوا اور پانی نے اس کے ذرات کو منتشر کر دیا تو شاید وہ عذاب سے بچ جائے گا مگر اس کا یہ خیال (کہ جسم کے راکھ میں تبدیل ہو کر منتشر ہو جانے پر وہ عذابِ قبر سے بچ جائے گا) غلط نکلا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام راکھ کو اکٹھا کر کے اسے دوبارہ انسان بنا دیا۔

 اس سے ثابت ہوا کہ جسم کے ساتھ دنیا میں کچھ ہو جائے مگرمرنے کے بعد اس کے جسم کو دوبارہ تخلیق کر کے اسے ثواب و عذاب سے دوچار کیا جاتا ہے البتہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے ہماری عقلیں اسے سمجھنے سے قاصر ہیں ہم تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں پر ایمان لاتے ہیں۔

 جواب

یہ بات  انتہائی سطحی ہے – اول ال فرعون کو جہنم میں عذاب دیا جا رہا ہے یہ قرآن سے ثابت ہے جو ارواح پر ہے –  پورا ال فرعون کا لشکر ڈوبا لیکن بچایا صرف فرعون کے جسد کو کیونکہ وہ ایک نشانی ہے – الله تعالی چاہتا تو اس شخص کی روح سے ہی کلام کر لیتا اس میں کیا قباحت ہے ؟ کیا معراج میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی انبیاء سے ملاقات نہیں ہوئی انہوں نے کلام بھی کیا – لہذا ارواح تو واپس عالم البرزخ میں جاتی  ہیں-

موصوف لکھتے ہیں

 یہ کوئی مخصوص واقعہ نہیں کہ اسے صرف اس شخص کے ساتھ خاص مانا جائے کیونکہ اس واقعہ کے خاص ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں اور نہ ہی ہم اسے اس شخص کی کرامت تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ وہ نیک انسان بھی نہیں تھا۔

خاص اور عموم کے لئے روایت میں لکھا نہیں ہوتا کہ یہ خاص واقعہ ہے اور  یہ عموم ہے یہ قرائن سے اندازہ لگایا جاتا

ہے

یہ مخصوص واقعہ ہی ہے الله کو تو ہر چیز کا علم ہے لیکن یہ اس کی رحمت ہے کہ مخلوق سے موت کے بعد کلام کرتا ہے ایک دوسری حدیث میں بھی ایک موحد کا ذکر ہے جس کی موت کے وقت عذاب اور راحت والے فرشتوں میں تکرار ہوتی ہے اور زمین کی پیمائش کرنے کا حکم دیا جاتا ہے – یہ گناہ کبیرہ کے مرتکب موحدین پر الله کی خاص رحمت کا ذکر ہے

کتاب  مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين میں ہے کہ ابن  العثيمين اس روایت پر کہتے ہیں

فهذا رجل شك في قدرة الله وفي إعادته إذا ذرى، بل اعتقد أنه لا يعاد وهذا كفر باتفاق المسلمين، لكن كان جاهلا لا يعلم ذلك، وكان مؤمنا يخاف الله أن يعاقبه فغفر له بذلك.

والمتأول من أهل الاجتهاد الحريص على متابعة الرسول، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أولى بالمغفرة من مثل هذا. ا. هـ.

وبهذا علم الفرق بين القول والقائل، وبين الفعل والفاعل، فليس كل قول أو فعل يكون فسقا أو كفرا يحكم على قائله أو فاعله بذلك، قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله ص165ج ـ35 من مجموع الفتاوى:وأصل ذلك أن المقالة التي هي كفر بالكتاب والسنة والإجماع

 پس اس شخص نے الله کی قدرت پر شک کیا اور… بلکہ اعتقاد کیا کہ اس کا معاد نہ ہو گا اور یہ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ کفر ہے لیکن یہ جاہل تھا اور اس کو اس کا پتا نہ تھا اور مومن تھا اللہ سے ڈرتا تھا  کہ اس کو پکڑ نہ لے پس اس پر اس کی مغفرت ہوئی … ابن تیمیہ  کہتے ہیں  ص165ج 35 من مجموع الفتاوى  یہ اس کا کہنا کتاب الله اور سنت اور اجماع کے مطابق کفر ہے

آپ کی اپنی ممدوح شخصیات اس کو ایک مخصوص واقعہ کہہ رہی ہیں کہ ایک  کفریہ عقیدہ رکھنے والے کو اللہ نے بخش دیا – کیا یہ عموم ہے ؟ آپ کی بات اگر درست مانی جائے تو اس طرح تو  سارے معاد کے انکاریوں کی بخشش ماننا پڑے گی-  لہذا یہ ایک مخصوص واقعہ ہی ہے اس سے زیادہ نہیں-

اب چونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ خصوص ہے تو دلیل نہیں بن سکتا اور اس سے یہ ثابت تو کہیں بھی نہیں ہوتا کہ تمام مرنے والوں کو واپس جسد عنصری  مرتے ہی دے دیا جاتا ہے

[/EXPAND]

[عمرو بن العاص کی وصیت  کو وہابی عالم  ابن العثيمين  نے بدعت کہا ہے ایسا کیوں؟]

جواب

ابن شماسہ المہری بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب عمرو بن العاص کے پاس اس وقت گئے جب کہ ان کی وفات کا وقت قریب تھا انہوں نے کہا……اور جب مجھے دفن کرنا تو اچھی طرح مٹی ڈال دینا پھر میری قبر کے چاروں طرف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے تا کہ میں تم سے انس حاصل کر سکوں اور دیکھوں کہ اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( صحیح مسلم جلد ۱ص۷۶ مسند احمد جلد ۴ ص۱۹۹)

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے اس روایت پر کتاب عذاب البرزخ میں لکھا تھا

 مسلم کی اس حدیث سے جس میں یہ ہے کہ عمرو بن العاص رضی الله عنہ پر جب سکرات موت کا عالم طاری تھا۔’’وَھُوَ فِیْ سِیَاقِ الْمُوْتِ‘‘ تو انہوں نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمرو رضی الله عنہ کو وصیت کی کہ مجھ پر مٹی دالنے اور دفنانے کے بعد کچھ دیر میری قبر کے پاس ٹھہرے رہنا تا کہ میں تمہاری موجودگی کی وجہ سے مانوس رہوں اور مجھے معلوم رہے کہ اپنے رب کے رسول (فرشتوں ) کو کیا جواب دوں۔الفاظ یہ ہیں۔’’ثُمَّ اَقِیْمُوْ احَوْلَ قَبْرِیْ قَدْرَ مَا یُنْحَرُ جُزُوْرٌ وَّیُقْسَمُ لَحْمُھَا حَتّٰی اَسْتَاْنِسَ بِکُمْ اَعْلَمُ مَاذَا اُرَاجِعُ بِہٖ رُسُلَ رَبِّیْ‘‘۔یہ سکرات الموت کے وقت کی بات ہے جیسا کہ اس حدیث کے الفاظ ہیں۔’’ وھوفی سیاق الموت‘‘ ایسے وقت کی بات جب آدمی اپنے آپے میں نہ ہو قرآن و حدیث کے نصوص کو کیسے جھٹلا سکتی ہے.. اور اس کے راوی ابو عاصم (النبیل ‘ضحاک بن مخلد) کو عقیلی اپنی کتاب الضغفاء میں لائے ہیں اور ثبوت میں یحیٰی بن سعید القطان کا قول پیش کیا ہے۔(الضعفاء للعقیلی ص۱۷۱ )میزان الاعتدال الجز الثانی ص۳۲۵۔ ۔

ڈاکٹرابوجابرعبداللہ دامانوی صاحب  اپنی تألیف  عذاب قبر میں عمرو بن العاص کی سیاق الموت والی روایت کے راوی  الضحاك بن مخلد کے لئے لکھتے ہیں

موصوف نے اپنے رسالہ حبل اللہ میں ابو عاصم النبیل کے متعلق ایک نئی تحقیق پیش کی اور میزان الاعتدال سے نقل کیا۔احد الاثبات تنا کر العضلی وذکر فی کتابہ … ابو عاصم اثبات ہی سے ایک ہے کہ عقیلی نے اسے منکر بتایا ہے اور اس کا ذکرکیا ہے اپنی کتاب (الضعفائ) میں…(حبل اللہ ص۱۰۹خاص نمبر مجلہ نمبر ۳) احد الاثبات یعنی ثبت راویوں میں سے ایک ہی اور ثبت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعلی درجہ ثقہ راوی ہیں۔ تنا کر العقیلی کا ترجمہ موصوف نے کیا کہ عقیلی نے اسے منکر بتایا ہے ۔یہ ان کی جہالت ہے اور اصول حدیث سے نا واقفی کی دلیل ہے۔ تناکرکا مطلب لم یعرف یعنی علامہ ذھبی رحمتہ اللہ علیہ بتارہے ہیں کہا ابو عاصم النبیل تو اعلی درجہ کے ثقہ ہیں لیکن امام عقیلی رحمتہ اللہ علیہ ‘انہیں نہیں پہچان سکے اور غلطی سے ان کا ذکر اپنی کتاب الضعفاء میں کر دیا ہے

اس سے قطع نظر کہ  الضحاك بن مخلد ثقہ ہے یا مجروح ہم موصوف پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ الذھبی کا تناكر العقيلي کہنے کا مقصد وہ نہیں جو دامانوی صاحب نے سمجھا ہے

الذھبی اپنی کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال ج ٢ ص٣٢٥ پر الضحاك بن مخلد کے لئے لکھتے ہیں

الضحاك بن مخلد ، أبو عاصم النبيل، أحد الاثبات تناكر العقيلي، وذكره في كتابه، ….

الضحاك بن مخلد ، أبو عاصم النبيل، اثبات میں سے ایک ہیں عقیلی نے انکار کیا اور انکا ذکر اپنی کتاب میں کیا

الذھبی کہنا چاہتے ہیں کہ الضحاك بن مخلد ثقہ ہیں لیکن عقیلی نے اسکا انکار کیا ہے

کچھ یہی انداز الذھبی نے  اپنی کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال ج ١ ص١٧٢ میں  أزهر بن سعد السمان کے ترجمے  میں اختیار کیا ہے وہاں راوی کے لئے لکھتے ہیں

ثقة مشهور.

 ثقه مشھور ہیں …

تناكر العقيلي بإيراده في كتاب الضعفاء

عقیلی نے (ثقاہت کا) انکار کیا ہے اپنی کتاب الضعفاء میں انکو شامل کر کے

دامانوی صاحب کے حساب سے ترجمہ ہونا چاہیے : عقیلی پہچان نہ سکے اپنی کتاب الضعفاء میں انکو شامل کر کے، بالکل لا یعنی جملہ ھو جاتا ہے. کتاب میں شامل کرنے کی وجہ سے پہچان نہ سکے آوٹ پٹانگ مفھوم بنتا ہے

اگر عقیلی پہچان نہ پاتے تو اس راوی کے ترجمے میں کسی اور راوی کا ذکر کرتے لیکن ایسا نہیں ہے جو باتیں عقیلی نے ان کے بارے میں لکھی ہیں وہی اور لوگوں نے بھی لکھی ہیں

لہذا درست بات یہی ہے کہ عقیلی نے انکی ثقاہت کا انکار کیا ہے جس کی طرف ڈاکٹر عثمانی نے اشارہ کیا تھا.

مزید براں تناکر کا لفظ امام شافعی نے بھی استعمال کیا ہے

معرفة السنن والآثار میں البیہقی نے امام الشافعی کا قول نقل کیا ہے کہ

وَلَا فِي الطَّلَاقِ، وَلَا الرَّجْعَةِ إِذَا تَنَاكَرَ الزَّوْجَانِ. میاں بیوی میں پہچانے کا مسئلہ تو ھو گا نہیں یہاں بھی تناکر کا مطلب پہچانا نہیں

بخاری کی حدیث میں آتا ہے

الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ

ارواح مجتمع لشکروں کی صورت میں رہتی ہیں پس جس سے التفات کرتی ہیں ان کو جانتی ہیں اور جس اختلاف کرتی ہیں اس سے متنفر ہوتی ہیں

اس کی شرح لکھنے والے مصطفى ديب البغا أستاذ الحديث وعلومه في كلية الشريعة – جامعة دمشق لکھتے ہیں

(تناكر) تنافرت في طبائعه

(تناكر) طبعا متنفر ہونا

تناکر کا مطلب یہاں بھی پہچنانا نہیں

عربی لغت معجم اللغة العربية المعاصرة میں تناکر  کا مفھوم لکھا ہے

  تناكر الزُّملاءُ: تعادَوا وتجاهل بعضُهم بعضًا

تناکر رفقائے کار:  ایک دوسرے سے دشمنی رکھنا اور ایک دوسرے کو نظر اندز کرنا

 اسی مفہوم پر تناکر علقیلی ہے کہ عقیلی نے ثقاہت کی بات کو نظر اندز کیا ہے

ثقہ ، غلطی نہیں کرتا؟

دامانوی صاحب کا ایک خود ساختہ اصول ہے کہ ثقه غلطی نہیں کرتا

حسين بن ذكوان العوذي البصري  کے لئے الذھبی سيرالاعلام میں لکھتے ہیں : وقد ذكره العقيلي في كتاب الضعفاء له بلا مستند وقال : مضطرب الحديث … قلت ( الذهبي ) : فكان ماذا؟ فليس من شرط الثقة أن لا يغلط أبدا

 عقیلی نے انکو الضعفاء میں بلاوجہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے : مضطرب الحديث میں (الذھبی) کہتا ہوں یہ کیا ہے؟ ثقہ

ہونے کی یہ شرط کہاں ہے کہ وہ کبھی غلط نہیں ھو سکتا …..

دامانوی صاحب کو تو الذھبی کی یہ بات سن کر چراغ پا ہونا چاہیے کہ یہ کیسے ھو سکتا ہے کہ راوی ثقہ ھو اور غلطی کرے. دامانوی کے خود ساختہ جرح و تعدیل کے اصول (کہ ثقہ ہر عیب  سے پاک ہے)  سے امام الذھبی نا واقف ہیں

 إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں الضحاك بن مخلد کے لئے لکھا ہے

وقال أبو زيد الأنصاري: كان أبو عاصم في حداثته ضعيف العقل

اور ابو زید انصاری کہتے ہیں ابو عاصم اپنی روایتوں میں ضعيف العقل ہیں

 یحییٰ بن سعید القطان بھی ان سے نا خوش تھے

دامانوی صاحب لکھتے ہیں

اگر عمرو بن العاصؓ نے سکرات موت میں غلط وصیت کی تھی تو ان کے صاحبزادے جناب عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ (جو خود ایک جلیل القدر اور عابد و زاہد صحابی ؓ ہیں ) کو ضرور اس غلط بات کی تردید کرنا چاہئے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا معلوم ہوا کہ ان کی وصیت کا ایک ایک لفظ بالکل صحیح اور درست تھا۔ اور یہ مشہور و معروف اصول ہے کہ ’’خاموشی رضامندی کی علامت ہوتی ہے‘‘ اور حدیث کی قسموں میں سے تقریری حدیث کا بھی یہی اصول ہے جبکہ موصوف کی جہالت ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کہتے ہیں ہاں اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ ان کے بیٹے اور دوسرے حضرات نے اس وصیت پر عمل بھی کیا۔ موصوف اس مشہور و معروف اصول سے ناواقف ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔

قاری خلیل الرحمان جاوید اپنی کتاب پہلا زینہ میں لکھتے ہیں

pehzee-190

یہ بات کس حدیث میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے یہ خلیل صاحب پر قرض ہے اور اس کا سوال روز محشر ان سے ہونا چاہیے

عصر حاضر کے ایک مشھور و معروف  وہابی عالم شیخ   محمد بن صالح العثيمين اپنے فتوی میں کہتے ہیں جو  مجموعة أسئلة تهم الأسرة المسلمة  ج ٢١٩ ص ٣٥ میں چھپا ہے کہ

هذا أوصى به عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه ـ فقال: «أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها»، لكن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرشد إليه الأمة، ولم يفعله الصحابة ـ رضي الله عنهم ـ فيما نعلم

 یہ عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه نے وصیت کی پس کہا میری قبر کے اطراف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے .. لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہ ہی اسکی نصیحت امت کو کی، نہ صحابہ رضی الله تعالی عنہم نے ایسا کیا  جیسا ہمیں پتا ہے

دامانوی صاحب نے لکھا تھا کہ

موصوف کی عادت ہے کہ وہ اپنے نظریات ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث کا سہارا لیتے ہیں اور قرآن و حدیث سے اپنا مطلب کشید کرتے ہیں حالانکہ یہ طرز استدلال باطل پرستوں کا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وَلَقَدْ قَالَ وَکِیْعٌ مَنْ طَلَبَ الْحَدِیْثَ کَمَا جَآئَ فَھُوَ صَاحِبُ سُنَّۃٍ وَمَنْ طَلَبَ الْحَدِیْثَ لِیُقَوِّیَ ھَوَاہُ فَھُوَ صَاحِبُ بِدْعَۃٍ امام وکیع فرماتے ہیں جو شخص حدیث کا مفہوم ایسا ہی لے جیسی کہ وہ ہے تو وہ اہل سنت میں سے ہے اور جو شخص اپنی خواہش نفسانی کی تقویت کے لئے حدیث کو طلب کرے (اور اپنی رائے کے مطابق اس حدیث کا مفہوم بیان کرے) تو وہ بدعتی ہے۔ (جز رفع الیدین لامام البخاری مع جلاء العینین للشیخ السید ابی محمد بدیع الدین الراشدی السندی (ص ۱۲۰)

   اب بتائے کون قرآن و حدیث سے غلط مطلب کشید کر رہا ہے؟ ان کے سلفی مسلک وہابی عالم محمد بن صالح العثيمين بھی وہی بات کہہ رہے ہیں جو ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله تعالی علیہ کہہ چکے ہیں

عبد الرحمان کیلانی کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں ص ١٣٩ اور ١٤٠ پر لکھتے ہیں

kelani-139

خواجہ محمّد قاسم کتاب تعویذ اور دم کتاب و سنت کی روشنی میں  عبدللہ بن عمرو رضی الله تعالی عنہ کے لئےلکھتے ہیں

qasim-10

خواجہ صاحب اپنی دوسری کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں کہتے ہیں

qaasim-umro2

خواجہ صاحب کا اس روایت پر عقیدہ نہیں تھا لیکن بعض اہل حدیث کو صحیح عقیدہ کہتے ہیں اس دو رنگی نے  عوام کو تو چھوڑئیے خود اہل حدیث علماء کے عقیدہ کو مضطرب کر دیا ہے

ایک نام نہاد اہل حدیث ارشد کمال کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

جب دفنانے والے کھڑے ہوں اس وقت میت نہیں سنتی

امت پر ظلم کی انتہاء ہے کہ بدعقیدگی کو پھیلایا جا رہا ہے لیکن کسی کی بھوں پر جو نہیں رینگ رہی کتنا کتمان حق ہے

مرض کی شدت میں عقل کا زوال ممکن ہے جو بشریت کا تقاضہ ہے

بخاری  باب صب النبي صلى الله عليه وسلم وضوءه على المغمى عليه کی روایت ہے

حدثنا أبو الوليد، قال: حدثنا شعبة، عن محمد بن المنكدر، قال: سمعت جابرا يقول جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، وأنا مريض لا أعقل

 محمد بن المنكدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی الله تعالی عنہ کو سنا  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم میری  عیادت کے لئے آئے اور میں مریض تھا عقل کے بغیر

جابر رضی الله تعالی عنہ خود کہہ رہے ہیں کہ وہ کوئی بات سمجھ نہیں سکتے تھے

 ڈاکٹر عثمانی کی جابر رضی الله تعالی عنہ یا عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کے سامنے کیا حثیت ہے  انسان کمزور پیدا کیا گیا  ہے لہذا یہ کہنا کہ شدت مرض میں مریض ایسی بات کہتا ہے جو صحیح نہیں ہوتی اس میں مقصد ان صحابی کی تنقیص نہیں بلکہ بشریت ہے

اس وصیت کے حوالے سے یہ حدیث پیش کی جاتی ہے

فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن العبد ليعمل، فيما يرى الناس، عمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار، ويعمل فيما يرى الناس، عمل أهل النار وهو من أهل الجنة، وإنما الأعمال بخواتيمها

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے

اس کے علاوہ قرآن میں ہے

فلا تموتن إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

  تمہیں موت نہ آئے مگر تم مسلم ہو 

اگر عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کی موت ان الفاظ پر ہوئی تو گویا بدعت پر ہوئی  تو یہ خلاف قرآن ہو جاتا ہے .حالانکہ یہ آعتراض سطحی   ہے

حدیث میں الفاظ اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے اتے ہیں  اس خاتمہ کی شرح نبی صلی الله علیہ وسلم نے خود کی ہے

   بخاری کی حدیث میں اتا ہے کہ

عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أحب لقاء الله أحب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه. فقلت: يا نبي الله أكراهية الموت؟ فكلنا نكره الموت. فقال: ليس كذلك، ولكن المؤمن إذا بشر برحمة الله ورضوانه وجنته أحب لقاء الله فأحب الله لقاءه، وإن الكافر إذا بشر بعذاب الله وسخطه كره لقاء الله وكره الله لقاءه.

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو الله سے ملاقات کو پسند کرتا ہے الله بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو الله سے ملنے سے کراہت کرتا ہے الله بھی اس سے ملاقات سے کراہت کرتا ہے پس عائشہ رضی الله تعالی  عنہا نے پوچھا اے رسول الله موت سے کراہت ہم سب موت سے کراہت کرتے ہیں پس کہا ایسا نہیں ہے لیکن جب مومن کو الله کی رحمت اس کی خوشنودی اور جنت  کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ الله سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور اللہ بھی اس کو پسند کرتا ہے اور بے شک کافر کو جب  الله کی ناراضگی اور عذاب کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ الله سے ملاقات پر کراہت کرتا ہے اور الله بھی کراہت کرتا ہے

   جن کے ایمان کی گواہی قرآن دیتا ہے ان کے بارے میں ہمارا ایمان  ہے کہ وہ جنتی ہیں . جہاں تک  حدیث النبی اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے کا تعلق ہے تو وہ تو ہم جیسوں کے لئے ہے نہ کہ صحابہ رضوان الله علیھم کے لئے

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کا اجتہاد تھا کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

عن عثمان بن عفان قال:‏‏‏‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم ” إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال:‏‏‏‏ استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال ” .
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح (تحفة الأشراف: ۸۹۴۰

یہ روایت صحیح نہیں منکر ہے سنن ابو داود میں اسکی سند ہے

حدَّثنا إبراهيمُ بن موسى الرازيُّ، حدَّثنا هشامٌ -يعني: ابن يوسف-، عن عبدِ الله بن بَحِير، عن هانىء مولى عثمانَ
عن عثمان بن عفان،

عثمان رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے اس راوی عبد الله بن بحیر  أبو وائل القاص  اليمانى الصنعانى کے لئے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

وقال ابن حبان: يروى العجائب التي كأنها معمولة، لا يحتج به

اور ابن حبان کہتے ہیں یہ عجائب روایت کرتا ہے  جو ان کا معمول تھا ، اس سے احتجاج نہ کیا جائے

الذھبی تاریخ الاسلام میں کہتے ہیں

فِيهِ ضَعْفٌ

ان میں کمزوریہے

یہ بھی کہتے ہیں

وله غرائب

غریب روایات بیان کرتے ہیں

الذھبی اپنی دوسری کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں ان کو منکر الحدیث بھی کہتے ہیں

الذھبی تاریخ الاسلام میں یہ رائے   رکھتے ہیں کہ یہ

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، الصَّنعائيّ، الْقَاصُّ -د. ت. ق- وَهِمَ مَنْ قَالَ: هُوَ ابْنُ بَحِيرِ بْنِ رَيْسَانَ

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، الصَّنعائيّ، الْقَاصُّ ہے  (جس سے ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت لی ہے ) اور وہم ہے جس   نے کہا کہ یہ  ابْنُ بَحِيرِ بْنِ رَيْسَان ہے

الذہبی یہ بھی کہتے  ہیں کہ ہمارے شیخ (کو وہم ہوآ) کہتے ہیں

قَالَ شَيْخُنَا فِي تَهْذِيبِهِ: وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرِ بْنِ رَيْسَانَ الْمُرَادِيُّ، أَبُو وَائِلٍ الصَّنعانيّ.

ہمارے شیخ  (المزی ) نے تہذیب  (الکمال) میں (ایسا)  کہا

ابن ماکولا کہتے ہیں

ابْنُ مَاكُولا  الکمال میں کہتے ہیں  : عبد اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ

عبد الله بن (عِيسَى بن ) بحير بن ريسان ہے ،اس کی نسبت  دادا  کی طرف ہے

یعنی وہ دادا کے نام سے مشھور ہے

الذھبی کے نزدیک محدثین (ابن حبان، المزی وغیرہ ) کو وہم ہوا اور انہوں نے اس کو دو الگ راوی سمجھ لیا

الذھبی اس کی وجہ کتاب المغني في الضعفاء میں ترجمہ عبد الله بن بحير الصَّنْعَانِيّ الْقَاص  میں لکھتے ہیں

وَلَيْسَ هُوَ ابْن بحير بن ريسان فان بحير بن ريسان غزا الْمغرب زمن مُعَاوِيَة وَسكن مصر وروى عَن عبَادَة بن الصَّامِت وَعمر دهرا حَتَّى لقِيه ابْن لَهِيعَة وَبكر بن مُضر وَقَالَ ابْن مَا كولا فِي شيخ عبد الرَّزَّاق أَنا أَحْسبهُ عبد الله بن عِيسَى بن بحير نسب إِلَى جده وكنيته أَبُو وَائِل قلت لَهُ مَنَاكِير

اور یہ ابن بحیر بن ريسان نہیں کیونکہ عبد الله  ابن بحیر بن ريسان نے مغرب میں جہاد کیا مُعَاوِيَة کے زمانے میں اور  عبَادَة بن الصَّامِت سے روایت کیا اور عمر کا ایک حصہ گزارا حتی کہ ابن لَهِيعَة سے ملاقات ہوئی اور بکر بن مُضر سے اور ….. (عبد الله بن بحير الصَّنْعَانِيّ الْقَاص) شيخ عبد الرَّزَّاق کے لئے میں  سمجھتا ہوں کہ یہ عبد الله بن عِيسَى بن بحير ہے جس کی نسبت دادا کی طرف ہے اور کنیت أَبُو وَائِل ہے میں کہتا ہوں ان کے پاس  منکر روایات ہیں

اس روایت کے دفاع میں کہا جاتا ہے  کہ  البانی صاحب نے کتاب احکام الجنائز میں  اس کو صحیح کہا ہے اور امام الحاکم اور الذھبی  نے بھی

albani-abdullah-bin-buhair

حالانکہ امام الحاکم کی تصحیح کون مانتا ہے ان پر محدثین کی شدید جرح ہے .وہ تو اس روایت تک کو صحیح کہتے ہیں جس میں آدم  علیہ السلام پر وسیلہ کے شرک کی تہمت لگائی گئی ہے

الذھبی نے اس روایت پر تلخیص مستدرک میں سکوت کیا ہے نہ کہ تصحیح اور الذھبی کی اس راوی کے بارے میں رائے اوپر دیکھ سکتے ہیں

البانی صاحب صرف یہ دیکھتے ہیں اس کو ابن حجر یآ کوئی اور، صحیح کہتا ہے یا نہیں ، پھر وہ اپنی کتابوں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ  الذھبی  غلط تھے یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں

عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے الفاظ کا ترجمہ کیا جاتا ہے

حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ))یعنی میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا تاکہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو اور میں فرشتوں کو صحیح جواب دے سکوں ۔۔

حالانکہ أستأنس  کا یہ ترجمہ صحیح نہیں أستأنس کا مطلب مانوس ہونا ہی  ہے  أستأنس کا ترجمہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو کرنا غلط ہے

بخاری کی عبدللہ بن سلام سے متعلق حدیث ہے

 قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فِي نَاسٍ، فِيهِمْ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فِي وَجْهِهِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزُ فِيهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ فَاتَّبَعْتُهُ، فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، وَدَخَلْتُ، فَتَحَدَّثْنَا، فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ قُلْتُ لَهُ

قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں لوگوں کے ساتھ تھا بعض ان میں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم بھی تھے پس ایک شخص آیا جس کے چہرے پر خشوع تھا لوگوں نے کہا یہ اہل جنت میں سے ہے …. (اس کے بعد قیس عبدللہ بن سلام سے ملے) حتی کہ وہ (أستأنس)  مانوس ہوئے

الله ہم کو ہدایت دے

 

[/EXPAND]

[قبر کی وسعت اور تنگی والی روایات پر ڈاکٹر عثمانی کی رائے میں عالم البرزخ ہے اس کی وضاحت کر دیں؟]

جواب

 ارشد کمال اپنی کتاب المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

arshad-182

ذوالجبادین رضی اللہ عنہ ، نبی صلی الله علیہ وسلم کے صحابی ہیں جو غزوہ تبوک میں شریک ہوئے لیکن جب  تبوک پہنچے تو بخار میں مبتلا ہو گئے اور اسی بخار میں ان کی وفات ہو گئی۔ . تبوک کا واقعہ ٨ ہجری میں ہوا تھا. مسند البزاز کے مطابق،  ذوالبجادین کی تدفین کے بعد نبی صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی

فَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَمْسَيْتُ عَنْهُ رَاضِيًا فَارْضَ عَنْهُ

یا اللہ! میں ذوالجبادین سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہوجا۔

دامانوی صاحب نے دین الخالص قسط اول میں اس روایت کو پیش کرتے تھے کہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ ذو البجا دینؓ کی قبر پر دیکھا  جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دفن سے

فارغ ہوئے تو قبلہ روہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی

اس کے بعد اپنی دوسری کتاب عذاب القبر میں اسکو پھر دہرایا

رَأیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ قَبْرِ عَبْدِاﷲِ ذِی الْبِجَادَیْنِ …… فَلَمَّا فَرَغَ عَنْ دَفْنِہٖ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ رَافِعًا یَّدَیْہِ (صحیح ابی عوانہ، فتح الباری ج ۱۱ ص ۱۲۲ بحوالہ الکلام الموزون ص ۱۳۳ مصنفہ سید لعل شاہ بخاری منہاج المسلمین ص ۴۵۷ مصنفہ مسعود احمد)

 ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ ذو البجا دینؓ کی قبر پر دیکھا (اس طویل حدیث میں یہ بھی ہے کہ ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ روہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی‘‘۔

 جناب عبد اللہ ذوالبجادین المزنی رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک کے دوران فوت ہوئے تھے اور ان کے دفن کا مفصل واقعہ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ج ۳ ص ۱۲۵ رقم ۱۷۱۰) لابن عبدالبر اور البدایۃ والنھایۃ (ج ۵ ص ۱۸) لابن کثیر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہی سے موجود ہے۔

دامانوی صاحب ایک زمانے تک اس کو دلیل کے طور پر پیش کرتے رہے کہ ارضی قبر ہی میں راحت و عذاب ہوتا ہے پھر  کئی سال گزرے دامانوی صاحب کی تحقیق  نے ایک نیا رخ لیا. انکشاف ھوا کہ ١٠ ہجری میں ابراہیم رضی الله تعالی عنہ کی وفات والے دن   نبی صلی الله علیہ وسلم کو مومن کے لئے  عذاب قبر کا علم دیا گیا

دامانوی صاحب لکھتے ہیں

ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دعا بھی اس سلسلہ میں آئی ہے ۔

 ام سلمہ رضی اللہ عنہ کہتیں کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں (موت کے وقت )پتھرا گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے ان کی آنکھیں بند کیں اور پھر فرمایا جب روح قبض کی جاتی ہے تو اس کی بینائی بھی روح کے ساتھ چلی جاتی ہے ۔ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے یہ سن کر سمجھ گئے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا اور وہ رونے چلانے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے نفسوں پر بھلائی کے سوا اور کوئی دعا نہ کرو اس لئے کہ اس وقت جو کچھ تمہاری زبان سے نکلتا ہے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 ’’ اے اللہ ! ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو بخش دے اور ان کا مرتبہ بلند فرما کر ان لوگوں میں ان کو شامل فرما دے جن کو راہ مستقیم دکھائی گئی ہے اور ان کے پسماندگان کی کارسازی فرما اور اے تمام جہانوں کے پروردگار ہم کو اور ان کو بخش دے اور ان کی قبر میں کشادگی فرما اور اس کو (انور سے) منورکر دے۔

 اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے لئے قبر کو کشادہ کرنے اور قبر کونور سے منور کر دینے کی دعا فرمائی ۔ثابت ہوا کہ مومن کی قبر کو اللہ تعالیٰ نور سے منور فرما دیتا ہے اور کافر یا مافق کی قبر ظلمت سے بھر دی جاتی ہے اور اسے تنگ کر دیا جاتا ہے مگر موصوف کو یہ بات تسلیم نہیں چنانچہ لکھتے ہیں۔

 ’’ اسی طرح ’’ قرع نعال‘‘ کی بخاری کی حدیث میں قتادہ کا یہ اضافہ کہ : وذکرلنا انہ یفسح لہ فی قبرہ۔(ہم سے ذکر کیا گیا کہ اس کی (مومن کی)قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے ‘سے یہی دنیاوی قبر مراد لینا صحیح نہیں ہے اس زمین کے حدود اربعہ میں تغیر کی گنجائش کہاں‘‘۔(عذاب قبر ص۱۸

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے درست کہا تھا.

ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات ٤ ہجری میں ہوئی. اس وقت تک مومن کے لئے کسی عذاب و راحت قبر کا کوئی تصور نہ تھا.  لہذا جس وسعت و تنگی قبر کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس وقت تک نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس کے بارے میں بتایا نہیں گیا تھا

چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں. قبر کی وسعت اسی وقت اہم ہے جب اس کی تنگی کا تصور پہلے سے موجود ھو.

اب یہ کون سی قبر ہے جو وسیع ھو گی ؟ یہ کوئی دنیاوی قبر تو نہیں

دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

قبر کی وسعت اور تنگی کے متعلق بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں یہ اور بات ہے کہ موصوف ان سب کو نہ ماننے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔موصوف چاہتے ہیں کہ قبر میں راحت یا عذاب کے جو مناظر پیش آتے ہیں وہ سب ان کو نظر آنے چاہئیں ورنہ وہ ان پر ایمان لانے کے ئے تیار نہیں۔تو ہم ان کو ضمانت دیتے ہیں کہ جب وہ قبر میں اتارے جائیں گے تو ان شاء اللہ تمام مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور انہیں عین الیقین حاصل ہو جائے گا ۔البتہ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے وہ ہم ابھی عرض کرتے ہیں مگر پہلے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعے کے متعلق کچھ عرض کریں گے۔موصوف نے جو مسنداحمد کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ منکر ہے تو بلاشبہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی محمود بن محمد بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموع ضعیف ہیں۔(مرعاۃ جلد ۱ ص۲۳۱) مگر جناب اس سلسلہ میں صحیح احادیث بھی موجود ہیں اور مسند احمد پر نکارت کا الزام لگا کہ دوسری صحیح احادیث سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ہے چنانچہ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:۔

 ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ) وہ شخص ہے جس کے لئے عرض نے حرکت کی اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ستر ہزار فرشتے (ان کے جنازے میں) حاضر ہوئے ۔ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی اور پھر کشادہ ہو گئی‘‘۔

 یہ حدیث صحیح ہے اور قبر کی وسعت اور تنگی سے متعلق نص صریح ہے ۔

’یہ بھی لکھا

جناب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے دفن کے دن ان کی قبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اگر کوئی شخص فتنہ قبر یا قبر کے معاملے سے نجات پا سکتا تو البتہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ضرور نجات پاتے اور ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی پھر ان پر کشادہ کر دی گئی‘‘۔(طبرانی ۔اس حدیث کے تام راوی ثقہ ہیں)(مجمع الزوائد ص۴۷)۔

غزوہ خندق ٥ ہجری میں ہوئی. اس وقت تک عذاب القبر کا بتایا نہیں گیا تھا. لہذا یہ فاش غلطی ہوئی. کون سی قبر دبوچ رہی ہے جبکہ عذاب کی خبر نہیں

ارشد کمال ، المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

arshad-190-saadbinmuad

دامانوی صاحب جس واقعہ کی تصحیح پر جان نثار کر رہے ہیں. ہونہار شاگرد اسی کو سراسر جھوٹی من گھڑت بات قرار دے رہا ہے.  ان قلابازیوں کے باوجود کوئی غیر مقلد پوچھنے والا نہیں کہ یہ سب کیا ہے

[/EXPAND]

[البرزخ پر متقدمین علماءکی کیا رائے تھی کیا ان کے نزدیک یہ کوئی عالم تھا یا کیفیت تھا؟]

جواب

لغوی طور پر برزخ سے مراد آڑ ہے جیسا قرآن میں ہے کہ دو سمندر اپس میں نہیں ملتے کیونکہ ان کے درمیان برزخ ہے سوره الرحمان میں ہے

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ  بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِيَانِ

البرزخ سے مراد عالم ارواح ہے

قرآن کی سوره المومنون کی ٩٩ اور ١٠٠ آیات ہیں

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

یہاں تک کہ ان میں جب کسی کو موت اتی ہے تو کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دے تاکہ صالح اعمال کروں ہرگز نہیں یہ تو صرف ایک قول ہے جو کہہ رہا ہے اور اب ان کے درمیان برزخ حائل ہے  یہاں تک کہ ان کو دوبارہ اٹھایا جائے

اصطلاحا اس سے مراد عالم ارواح ہے.  البرزخ کی اصطلاح  بہت قدیم ہے ، ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦،  ابن جریر الطبری ٣١٠ ھ،  ابن حزم المتوفی ٤٥٧ ھ، ابن الجوزی  المتوفی ٥٩٧ ھ ، ابن رجب الحنبلي المتوفی ٧٩٥ ھ ھ  نے اس کو استعمال کیا ہے . اس کو اردو میں ہم عالم ارواح کہتے ہیں. اسی مفھوم میں ڈاکٹر عثمانی نے بھی اس کو استعمال کیا ہے.

ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦ ھ کتاب تأويل مختلف الحديث میں لکھتے ہیں

وَنَحْنُ نَقُولُ: إِنَّهُ إِذَا جَازَ فِي الْمَعْقُولِ، وَصَحَّ فِي النَّظَرِ، وَبِالْكِتَابِ وَالْخَبَرِ أَنَّ الله تَعَالَى يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ، بَعْدَ أَنْ تَكُونَ الْأَجْسَادُ قَدْ بَلِيَتْ، وَالْعِظَامُ قَدْ رَمَّتْ1، جَازَ أَيْضًا فِي الْمَعْقُولِ، وَصَحَّ فِي النَّظَرِ، وَبِالْكِتَابِ وَالْخَبَرِ، أَنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ بَعْدَ الْمَمَاتِ فِي الْبَرْزَخِ.

ابو محمّد ابن قتیبہ نے کہا  اور ہم کہتے ہیں   بے شک  عقلی لحاظ سے اور صحیح النظر اور کتاب الله اور خبر (حدیث رسول ) سے پتا چلا ہے کہ بے شک الله تعالیٰ ان جسموں کو جو قبروں میں ہیں گلنے سڑنے اور ہڈیاں بننے کے بعد ان کو اٹھائے گا جب وہ مٹی ہو جائیں گے اور صحیح النظر اور کتاب الله اور خبر (حدیث رسول ) سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ان کو البرزخ میں عذاب دیا جائے گا

ابن جریر الطبری المتوفی ٣١٠ ھ  سورہ بقرہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں اگر کوئی سوال کرے کہ

وإذا كانت الأخبار بذلك متظاهرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما الذي خُصَّ به القتيل في سبيل الله، مما لم يعم به سائر البشر غيره من الحياة، وسائرُ الكفار والمؤمنين غيرُه أحياءٌ في البرزخ، أما الكفار فمعذبون فيه بالمعيشة الضنك، وأما المؤمنون فمنعَّمون بالروح والريحان ونَسيم الجنان؟

اور  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان کے لئے خاص  ہے جو الله کی راہ میں قتل ہوئے  ان کو سارے انسانوں  بشمول کفار اور مومنوں پر کہنا کہ وہ سب البرزخ میں زندہ ہیں مناسب  نہیں ہے

اس سوال کا جواب الطبری دیتے ہیں

أَنَّهُمْ مَرْزُوقُونَ مِنْ مَآكِلِ الْجَنَّةِ وَمَطَاعِمِهَا فِي بَرْزَخِهِمْ قَبْلَ بَعْثِهِمْ، وَمُنَعَّمُونَ بِالَّذِي يَنْعَمُ بِهِ دَاخِلُوها بَعْدِ الْبَعْثِ مِنْ سَائِرِ الْبَشَرِ مِنْ لَذِيذِ مَطَاعِمِهَا الَّذِي لَمْ يُطْعِمْهَا اللَّهُ أَحَدًا غَيْرَهُمْ فِي بَرْزَخِهِ قَبْلَ بَعْثِهِ

شہداء کو جنت کے کھانے  انکی برزخ ہی میں ملیں گے زندہ ہونے سے پہلے،  اور وہ نعمتوں سے مستفیض ہونگے دوسرے لوگوں سے پہلے اور لذیذ کھانوں سے،  جن کو کسی بھی بشر نے  چکھا نہ ہو گا برزخ میں ،  زندہ ہونے سے پہلے

ابن حزم المتوفی ٤٥٦ ھ  قبر میں عذاب کے انکاری ہیں اور البرزخ کی اصطلاح عالم ارواح کے لئے استمعال کرتے ہیں.   اور عذاب کو صرف روح پر مانتے ہیں. ڈاکٹر عثمانی اس  بات میں ان سے متفق ہیں

کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل  میں لکھتے ہیں

ثمَّ ينقلنا بِالْمَوْتِ الثَّانِي الَّذِي هُوَ فِرَاق الْأَنْفس للأجساد ثَانِيَة إِلَى البرزخ الَّذِي تقيم فِيهِ الْأَنْفس إِلَى يَوْم الْقِيَامَة وتعود أجسامنا تُرَابا

پس الله ہم کو دوسری موت کے بعد جو نفس کی جسم سے علیحدگی ہے ہم کو برزخ میں منتقل کر دے گا اور ہمارے جسم مٹی میں لوٹائے گا

فيبلوهم الله عز وَجل فِي الدُّنْيَا كَمَا شَاءَ ثمَّ يتوفاها فترجع إِلَى البرزخ الَّذِي رَآهَا فِيهِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لَيْلَة أسرى بِهِ عِنْد سَمَاء الدُّنْيَا أَرْوَاح أهل السَّعَادَة عَن يَمِين آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وأرواح أهل الشقاوة وَعَن يسَاره عَلَيْهِ السَّلَام

پس الله ہم کو آزمائے گا دینا میں جیسا چاہے گا پھر موت دے گا اور برزخ میں لوٹائے گا جس کو اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دکھایا تھا معراج کی رات کہ نیک لوگوں کی ارواح آدم علیہ السلام کی دائیں طرف اور بد بختوں کی بائیں طرف تھیں

ابن کثیر  المتوفی ٧٧٤ ھ تفسیر ج ١ ص ١٤٢ میں لکھتے ہیں

وَقَوْلُهُ تَعَالَى: {وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ الله أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ} يُخْبِرُ تَعَالَى أَنَّ الشُّهَدَاءَ فِي بَرْزَخِهِمْ أَحْيَاءٌ يُرْزَقُونَ كَمَا جَاءَ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ: ” إِنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طيور خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَاطَّلَعَ عليهم ربك اطلاعة فقال: ماذا تبغون؟ قالوا: يَا رَبَّنَا وَأَيُّ شَيْءٍ نَبْغِي وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ؟ ثُمَّ عاد عليهم بِمِثْلِ هَذَا فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَا يُتْرَكُونَ من أن يسألوا، قالو: نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّنَا إِلَى الدَّارِ الدُّنْيَا فَنُقَاتِلَ فِي سَبِيلِكَ حَتَّى نُقْتَلَ فِيكَ مَرَّةً أُخرى – لما يرون من ثواب الشاهدة – فَيَقُولُ الرَّبُّ جَلَّ جَلَالُهُ: إِنِّي كَتَبْتُ أَنَّهُمْ إليها لا يرجعون” وَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ تَعْلَقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهُ اللَّهُ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ» فَفِيهِ دَلَالَةٌ لِعُمُومِ الْمُؤْمِنِينَ أَيْضًا وَإِنْ كَانَ الشُّهَدَاءُ قَدْ خُصِّصُوا بِالذِّكْرِ فِي الْقُرْآنِ تَشْرِيفًا لَهُمْ وَتَكْرِيمًا وَتَعْظِيمًا.

 اور الله تعالی کا قول  پس الله نے خبر دی کہ بے شک شہداء اپنی برزخ میں ہیں زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں آیا ہے بے شک شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ہیں جس میں وہ جنت کی سیر کرتے ہیں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں پھر واپس قندیل میں جو عرش سے لٹک رہے ہیں ان میں اتے ہیں

محمد بن علي الصابوني زمانہ حال کے ایک عالم ہیں مکہ میں عالم تھے قرآن کی تفسیر  صفوة التفاسير میں لکھتے ہیں

الجمع للتعظيم {لعلي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ} أي لكي أعمل صالحاً فيما ضيَّعت من عمري {كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا} {كَلاَّ} كلمةُ ردع وزجر أي لا رجوع إِلى الدنيافليرتدع عن ذلك فإِن طلبه للرعة كلام لا فائدة فيه ولا جدوى منه وهو ذاهبٌ أدراج الرياح {وَمِن وَرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ} أي وأمامهم حاجزٌ يمنعهم عن الرجوع إِلى الدنيا – هو عالم البرزخ – الذي يحول بينهم وبين الرجعة يلبثون فيه إِلى يوم القيامة

سوره المومنون کی آیت میں بزرخ سے مراد عالم البرزخ ہے

ایک دوسرے وہابی  عالم فيصل بن عبد العزيز بن فيصل ابن حمد المبارك الحريملي النجدي (المتوفى: 1376هـ)  کتاب  توفيق الرحمن في دروس القرآن  میں  لکھتے ہیں

وقوله تعالى: {أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ} كما كلم موسى عليه الصلاة والسلام فإنه سأل الرؤية بعد التكليم فحجب عنها؛ وفي الصحيح أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال جابر بن عبد الله رضي الله عنهما: «ما كلم الله أحدًا إلا من وراء حجاب، وإنه كلم أباك كفاحًا» . كذا جاء في الحديث؛ وكان قد قتل يوم أحد، ولكن هذا في عالم البرزخ؛

الله تعالی کا قول کہ جس طرح موسی سے کلام کیا کہ انہوں نے دیکھنے کی خواہش کی کلام کے بعد پس اللہ حجاب میں رہے اور صحیح میں ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جابر رضی الله تعالی عنہ سے الله نے کلام کیا حجاب کے بغیر اور  ایسا حدیث میں ہے وہ احد کے دن قتل ہوئے لیکن یہ عالم البرزخ میں ہوا

ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ کتاب تفسير القرآن الكريم   میں ال فرعون پر عذاب پر  لکھتے ہیں

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَعَشِيًّا فهذا في البرزخ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ فهذا في القيامة الكبرى.

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَعَشِيًّا پس یہ  البرزخ میں ہے  وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ پس یہ قیامت میں ہوگا.

ابن قیّم اپنی کتاب  روضة المحبين ونزهة المشتاقين میں  سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت پر لکھتے ہیں کہ

 فأما سبيل الزنى فأسوأ سبيل ومقيل أهلها في الجحيم شر مقيل ومستقر أرواحهم في البرزخ في تنور من نار يأتيهم لهبها من تحتهم فإذا أتاهم اللهب ضجوا وارتفعوا ثم يعودون إلى موضعهم فهم هكذا إلى يوم القيامة كما رآهم النبي صلى الله عليه وسلم في منامه ورؤيا الأنبياء وحي لا شك فيها

پس زنا کا راستہ بہت برا راستہ ہے اور اس کے کرنے والے جہنم میں ہیں برا مقام ہے اور ان کی روحیں البرزخ میں تنور میں آگ میں ہیں جس کی لپٹیں ان کو نیچے سے آتی ہیں پھر وہ واپس اپنی جگہ آتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن تک ہو گا جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو نیند میں خواب میں دکھایا گیا جو وحی تھی جس میں کوئی شک نہیں

ڈاکٹر عثمانی کے علاوہ ابن حزم ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن حجر سب عالم ارواح کو البرزخ کہتے ہیں جیسا کہ حوالے اوپر دیے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ ابن قیم اور ابن کثیر کا عقیدہ فرقہ اہل حدیث کے موجودہ عقیدے سے الگ ہے

ابن تیمیہ  المتوفی ٧٢٨ ھ ،ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ، ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ اور ابن حجرالمتوفی ٨٥٢ ھ (سب ابن حزم کے بعد کے ہیں)، روح کا اصل مقام البرزخ مانتے ہیں جو عالم ارواح ہے . یہ سب روح پر عذاب البرزخ میں مانتے ہیں اور اس کا اثر قبر میں بھی مانتے ہیں اس تمام عذاب کو جو البرزخ میں ہو یا روح کے تعلق سے  قبر میں ہو ، اس کو وہ عذاب القبر کہتے ہیں .  روح کا جسد سے مسلسل تعلق مانتے ہیں جس میں آنا فانا روح قبر میں اتی ہے اور جاتی ہے اس کی مثال وہ سورج اور اسکی شعاوں سے دیتے ہیں دیکھئے کتاب الروح از ابن قیم المتوفی ٧٥١ ھ

برزخ کی  زندگی  سے مراد قبر ہے

البرزخ کے مفہوم میں تبدیلی ابن تیمیہ کے معاصریں نے کی. ابن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ)  نے کی ان سے پہلے اس کو عالم ارواح کے لئے استعمال کیا جاتا تھا. انہوں نے البرزخ کے مفھوم میں  عالم ارواح اور دیناوی قبر دونوں کو شامل کر دیا گیا . ابن عبد الھادی  اپنی کتاب الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي میں ایک نئی اصطلاح متعارف کراتے ہیں

وليعلم أن رد الروح (إلى البدن)  وعودها إلى الجسد بعد الموت لا يقتضي استمرارها فيه، ولا يستلزم حياة أخرى قبل يوم النشور نظير الحياة المعهودة، بل إعادة الروح إلى الجسد في البرزخ إعادة برزخية، لا تزيل عن الميت اسم الموت

اور جان لو کہ جسم میں موت کے بعد عود روح  ہونے سے ضروری نہیں کہ تسلسل ہو – اور اس سے دوسری زندگی بھی لازم نہیں آتی …بلکہ یہ ایک برزخی زندگی ہے  جس سے میت پر موت کا نام زائل نہیں ہوتا

 یہ مفہوم نص قرآنی سے متصادم ہے

اہل حدیث فرقہ اور پرویز

علامہ پرویز کی ایک صفت تھی کہ قرآن کی کسی بھی بات کو وہ اصطلاح نہیں مانتے تھے بلکہ ہر بات لغت سے دیکھتے تھے چاہے نماز ہو یا روزہ ، جن ہوں یا فرشتے ایک سے بڑھ کر ایک تاویل انہوں نے کی . کچھ اسی طرز پر آج کل اہل حدیث فرقہ کی جانب سے تحقیق ہو رہی ہے اور انہوں نے بھی لغت پڑھ کر البرزخ کو صرف ایک کیفیت ماننا شروع کر دیا ہے نہ کہ ایک مقام

موجودہ فرقہ اہل حدیث البرزخ کو بطور مقام ہونے   کا انکار کرتا ہے . برزخ کو قبر میں  ایک کیفیت بتاتا ہے اور عام مردوں کی بلا روح لاشوں پر عذاب بتاتا ہے. البرزخ بطور مقام ہونے کا فرقہ اہل حدیث  آج کل انکاری بنا ہوا  ہے. روح پر عذاب کو عذاب الجھنم کہتا ہے اوربے روح لاش پر عذاب کو عذاب قبر کہتا ہے.لاش بلا روح پر عذاب کو متقدمین گمراہی کہتے ہیں دیکھئے شرح مسلم النووی المتوفی ٦٧٦ ھ

شاید انہوں نے سوچا ہے کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری لہذا البرزخ کی ایسی تاویل کرو کہ سارے مسئلے سلجھ جائیں اس طرز پر انہوں نے جو عقیدہ اختیار کیا ہے وہ ایک بدعتی عقیدہ ہے جس کو سلف میں فرقہ کرامیہ نے اختیار کیا ہوا تھا

[/EXPAND]

[سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی روایت کی فرقہ پرستوں کی طرف سے تاویلیں کی جاتی ہیں ان کا کیسے رد کیا جائے]

جواب

samrah

اس روایت  کے واضح الفاظ کی باطل تاویلات کی جاتی ہیں

 اعتراض: ابو جابر دامانوی ، عذاب قبرکی حقیقت  میں لکھتے ہیں کہ ارض مقدس سے مراد بیت المقدس ہے . لکھتے ہیں

تیسری دلیل موصوف نے سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت کی پیش کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں ارض مقدس کی طرف لے جایا گیا۔ موصوف نے لکھا ہے: ’’اور مجھے باہر نکال کر ایک ارض مقدس کی طرف لے گئے‘‘۔ ارض مقدس سے مراد بیت المقدس ہے۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے:

یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ الله لَــکُمْ (المائدۃ:۲۱

 ’اے میری قوم تم ارض مقدسہ میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے‘‘۔

 صحیح بخاری میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی موت کے واقعہ میں ان کی دعا کے یہ الفاظ ہیں

 فسأل الله ان یدنیہ من الارض المقدسۃ رمیۃ بحجر

پس موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اسے ارض مقدسہ کے قریب کر دے ایک پتھر پھینکنے کے فاصلہ  تک (بخاری کتاب الجنائز باب(۶۸) حدیث:۱۳۳۹

 امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے

باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ او نحوھا

جو شخص ارض مقدسہ میں یا اس جیسی جگہ میں دفن ہونا پسند کرے۔

 قرآن و حدیث کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ ارض مقدسہ سے مراد بیت المقدس کا علاقہ ہے لیکن موصوف نے حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے ارض مقدس کو نکرہ بنا دیا اور ارض مقدس کا ترجمہ ’’ایک ارض مقدس‘‘ کیا۔ گویا موصوف کے نزدیک ارض مقدس اور بھی ہیں۔اور ممکن ہے کہ موصوف کے نزدیک ارض مقدس سے برزخی ارض مقدس مراد ہو۔

دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

مگر اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ آپ کو الارض المقدس میں لے جایا گیا جہاں مختلف مناظر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا اور یہ تمام واقعات آپ نے زمین ہی ملاحظہ فرماتے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ قبر کا عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے

رفیق طاہر، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

یہ واقعہ خواب کا ہے اور کیا ہے کہ دو بندے آپ کے پاس آئے۔ ”فاخرجاني الی الارض المقدسة“ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ اب کوئی پوچھے کہ ارض کا معنی آسمانوں والا گھر کرنا ، یہ دین کی خدمت ہے؟ یہ کون سی فقاہت ہے؟ نبی فرمارہے ہیں کہ وہ مجھے لے کر ارض مقدسہ کی طرف گئے۔ واقعہ بھی خواب کا ہے ، اور لے کر کہاں جارہے ہیں؟ ”الى الارض المقدسة“ ارض مقدسہ کی طرف۔ اور وہاں پر نبی نے اوپر اپنا گھر دیکھا اور کہا گیا کہ یہ آپ کا گھر ہے۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ آسمانوں والے گھر میں ہیں۔ یا للعجب! بڑی عجیب اور حیرانی کی بات ہے۔یہ اعتراض بھی ان کا حدیث کے شروع والے الفاظ پڑھتے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اور ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔

جواب: قرآن ہی میں جنت کے لئے ارض کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے

{وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْض نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّة حَيْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ} [الزمر: 74].کہ جنّتی کہیں گے کہ الله کا شکر جس نے ارض کا وارث بنایا جنّت میں جہاں جانا چاہیں جا سکتے ہیں

یہ بھی ہے

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ

اور بے شک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد  لکھ دیا کہ بے شک ارض کے وارث صالح بندے ہونگے

معلوم ہوا کہ جنّت کو بھی ارض کہا گیا ہے اور جنّت سے زیادہ مقدس کیا ہے 

کتاب مشكاة المصابيح كتاب الرُّؤْيَا فصل الاول میں بھی سمرہ کی روایت موجود ہے اس میں الفاظ الارض المقدسہ ہیں اور عذاب کے لئے کہا گیا ہے

 فَيُصْنَعُ بِهِ مَا تَرَى إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ

ایسا روز قیامت تک ہو گا

فتاوی اہل  حدیث  ج ٥ ص ٤٢٩ جو مارچ ١٩٧٦ میں شائع ہوا تھا اس میں یہی حوالہ موجود ہے اور  ارض مقدس سے مراد  عالم بالا لیا گیا  ہے

سمرہ اہل حدیث فتوی

اعتراض: رفیق طاہر صاحب، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

اور پھر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے کہا “إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوْ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ” یقینا آپکی کچھ عمر باقی ہے اگرآپ وہ پوری کر لیں گے تو آپ اپنے گھر میں آ جائیں گے۔ مرنے کے بعد ہی اخروی گھر جنت یا جہنم میں انسان جاتا ہے ۔ لیکن فورا بعد یا کچھ دیر بعد ‘ اسکا کوئی تذکرہ اس حدیث میں موجود ہی نہیں ہے ۔

اس کے برعکس ابو جابر دامانوی کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

جناب سمرہ بن ـجذب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خواب بیان فرماتے ہیں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں اپنا گھر دکھایا جاتا ہے آگے کے الفاظ یہ ہیں (جناب جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ :۔

 ذرا اپنا سر اوپر اٹھائیے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنا سر اٹھایا تو میں نے اپنے سر کے اوپر ایک بادل سا دیکھا ۔ان دونوں نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے گھر میں داخل ہو جائوں ۔ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا نہیں کیا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پورا کر لین تو اپنے اس گھر میں آ جائیں گے ۔ (صحیح و بخاری ‘عذاب قبر ص

 ان احادیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں کا جنت میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔

 جواب: ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء سے تو کوئی سوال جواب قبر میں نہیں ہوتا لہذا کچھ دیر یا فورا بعد کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.

نبی صلی الله علیہ وسلم کو اسی ارض مقدس میں بادل جیسا ان کا اخروی مقام دکھایا گیا. کیا نبی صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں بادل میں ہیں ؟ اگر ارض مقدس سے مراد بیت المقدس ہے تو پھر اس بادل کو بھی اس دنیا میں مانیں

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں کسی بھی نبی کی روح نہیں بلکہ وہ سب جنّت میں ہیں

اہل حدیث کا مغالطہ دیکھیں کہ ایک ہی روایت ہے اور ایک ہی ارض مقدس ہے لیکن اس کو پلٹ پلٹ کر کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ. کبھی یہی مقام زمین پر ہوتا ہے اور کبھی یہی جنت بنتا ہے

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتا ہے

zubair-tozeeh-167

اعتراض: رفیق طاہر صاحب، اعادہ روح اور عذاب قبر وبرزخ میں لکھتے ہیں

اسی طرح وہ ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ جی دنیا کے سارے زانی مرد اور عورتیں نبیﷺ نے ان کو ایک تنور میں دیکھا کہ ان کو عذاب ہورہا تھا معراج کی رات ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث میں یہ لفظ ہیں ہی نہیں کہ پوری دنیا کے زانی اور زانیات ایک ہی تنور میں موجود تھے۔یہ الفاظ حدیث میں کہیں پر بھی نہیں آتے۔ وہ اشکال بنا کر پیش کرتے ہیں، اشکال کے الفاظ پر غور کریں۔ اشکال یہ پیش کرتے ہیں کہ پوری دنیا کے زناۃ اور زانیات ایک ہی تنور کے اند ر تھے اور ان کو عذاب ہورہا تھا تو یہ الفاظ حدیث کے اندر موجود نہیں ہیں۔ یہ بہتان ہےاللہ کےر سولﷺ پر۔

جواب: یہ کس نے کہہ دیا کہ یہ سب معراج کی رات ھو رہا تھا.  یہ بھی سمرہ بن جندب کی روایت کا ہی حصہ ہے جس میں خواب میں یہ سب دکھایا گیا. انبیا کا خواب وحی ہے

 ابن قیّم اپنی کتاب  روضة المحبين ونزهة المشتاقين میں لکھتے ہیں کہ

 فأما سبيل الزنى فأسوأ سبيل ومقيل أهلها في الجحيم شر مقيل ومستقر أرواحهم في البرزخ في تنور من نار يأتيهم لهبها من تحتهم فإذا أتاهم اللهب ضجوا وارتفعوا ثم يعودون إلى موضعهم فهم هكذا إلى يوم القيامة كما رآهم النبي صلى الله عليه وسلم في منامه ورؤيا الأنبياء وحي لا شك فيها

پس زنا کا راستہ بہت برا راستہ ہے اور اس کے کرنے والے جہنم میں ہیں برا مقام ہے اور ان کی روحیں البرزخ میں تنور میں آگ میں ہیں جس کی لپٹیں ان کو نیچے سے آتی ہیں پھر وہ واپس اپنی جگہ آتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن تک ہو گا جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو نیند میں خواب میں دکھایا گیا جو وحی تھی جس میں کوئی شک نہیں

سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے لئے کتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور میں السيوطي لکھتے ہیں

قَالَ الْعلمَاء هَذَا نَص صَرِيح فِي عَذَاب البرزخ فَإِن رُؤْيا الْأَنْبِيَاء وَحي مُطَابق فِي نفس الْأَمر وَقد قَالَ يفعل بِهِ إِلَى يَوْم الْقِيَامَة

علماء کہتے ہیں یہ نص صریح ہے عذاب البرزخ پر کیونکہ انبیاء کا خواب وحی ہے جو نفس امر کےمطابق ہے اور بے شک کہا کہ ایسا قیامت تک ھو گا

اعتراض: دامانوی صاحب ، عذاب قبرکی حقیقت  میں لکھتے ہیں

قرآن و حدیث کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ ارض مقدسہ سے مراد بیت المقدس کا علاقہ ہے لیکن موصوف نے حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے ارض مقدس کو نکرہ بنا دیا اور ارض مقدس کا ترجمہ ’’ایک ارض مقدس‘‘ کیا۔ گویا موصوف کے نزدیک ارض مقدس اور بھی ہیں۔اور ممکن ہے کہ موصوف کے نزدیک ارض مقدس سے برزخی ارض مقدس مراد ہو۔

 اس تفصیلی حدیث میں کچھ لوگوں کو عذاب میں مبتلا ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا اور عذاب کا یہ سلسلہ زمین سے شروع ہوا اور یہ ارواح کے عذاب کے مختلف مناظر تھے جس کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگ ان جرائم کا ارتکاب کرنے سے پرہیز کریں۔

دامانوی صاحب عذاب قبر کی حقیقت  میں یہ بھی لکھتے ہیں

اس حدیث میں دینی احکامات پر عمل نہ کرنے والے کے متعلق بتایا گیا ہے کہ یہ سزائیں انہیں قیامت تک ملتی رہیں گی۔ اس حدیث سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان اشخاص کی ارواح کو جہنم میں عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا

دامانوی صاحب  عذاب قبر کی حقیقت میں یہ بھی لکھتے ہیں

ان واقعات کا تعلق عام عذاب سے ہے خاص عذاب القبر سے نہیں عام عذاب کا مطلب یہ ہے کہ یہ ارواح کے عذاب کے مشاہدات تھے اور روح کے جہنم میں مبتلائے عذاب ہونے کے مشاہدات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائے گئے اور صلوٰۃ الکسوف کے دوران یہ مشاہدہ بھی کرایا گیا۔

دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں لکھتے ہیں

مگر اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ آپ کو الارض المقدس میں لے جایا گیا جہاں مختلف مناظر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا اور یہ تمام واقعات آپ نے زمین ہی ملاحظہ فرماتے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ قبر کا عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے

 جواب: دامانوی صاحب کتنے کنفیوژن کا شکار ہیں قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں. ان کا عقیدہ ہے کہ عذاب القبر جسد کو ہوتا ہے اور عذاب جہنم روح کو. لیکن سمرہ بن جندب کی روایت میں ارض کو بیت المقدس کہتے ہیں اور عذاب کو روح پر کہ رہے ہیں

پہلے کہا کہ سمرہ کی روایت عذاب قبر کی دلیل ہے پھر کچھ سال بعد دوسری کتاب لکھی اس میں کہا یہ عذاب الارواح کی دلیل ہے

جس زمانے میں دامانوی صاحب نے دین الخالص لکھی تھی اس وقت یہی روایت ان کے خیال میں غیر واضح تھی وہ کہتے تھے کہ حامل قرآن تو پیدا ہی نہیں ہوا اور یہ کہنا چاہتے تھے کہ روایت اپنے متن میں واضح نہیں

رفیق طاہر یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ روح پر عذاب ہو سکتا ہے یا اس روایت کی کوئی عملی شکل بھی ہے کیونکہ وہ اس کو خواب کہہ کر جان چھڑانا چاہتے ہیں

اعتراض: ابو جابر دامانوی عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

اس حدیث میں کسی مقام پر بھی برزخی اجسام اور برزخی قبروں کے الفاظ ذکر نہیں کئے گئے ہیں

جواب: اس روایت میں بیان ہونے والے عذابات کو عالم برزخ میں مانا گیا ہے

ابن حجر فتح الباری جد ٢٠ ص ٥٢ پر سمرہ بن جندب کی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں

. وَفِيهِ أَنَّ بَعْض الْعُصَاة يُعَذَّبُونَ فِي الْبَرْزَخ

اور اس (روایت) میں بعض گناہ گاروں کا ذکر ہے جنھیں  البرزخ میں عذاب دیا جا رہا تھا

 السيوطي کتاب  الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج میں لکھتے ہیں

عَن سَمُرَة بن جُنْدُب قَالَ كَانَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا صلى الصُّبْح أقبل عَلَيْهِم بِوَجْهِهِ فَقَالَ هَل رأى أحد مِنْك البارحة رُؤْيا هَذَا مُخْتَصر من حَدِيث طَوِيل وَبعده وَأَنه قَالَ لنا ذَات غَدَاة إِنَّه أَتَانِي اللَّيْلَة آتيان فَقَالَا لي انْطلق فَذكر حَدِيثا طَويلا فِيهِ جمل من أَحْوَال الْمَوْتَى فِي البرزخ وَقد أخرج البُخَارِيّ بِتَمَامِهِ

سَمُرَة بن جُنْدُب سے مروی ہے کہ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم جب صبح کی نماز پڑھتے تو ہماری طرف رخ کرتے  اور پوچھتے کہ کیا تم میں سے کل کسی نے خواب دیکھا ہے  یہ  ایک طویل حدیث کا اختصار ہے …جس میں احوال الموتی کا اجمال ہے البرزخ میں اور اس کو بخاری نے مکمل بیان کیا ہے

اعتراض: ابو جابر دامانوی صاحب  عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے

سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث بیان فرمائی جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باغ میں ایک بڑے درخت کے نیچے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا اور ان کے ساتھ اولاد الناس (لوگوں کی اولاد) بھی دیکھی۔ اور اس کی مزید وضاحت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التعبیر باب ۴۸ میں کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جو بچے تھے ان میں اولاد المشرکین بھی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! اُن کے ساتھ اولاد مشرکین بھی تھی۔ اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان فرما کر اولادِ مشرکین کا مسئلہ بھی حل فرما دیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو اس حدیث پر باب نہیں باندھا تو ممکن ہے کہ ان کا اِرادہ ہو کہ وہ اس پر کوئی باب قائم کریں گے مگر اس کا اُنہیں موقع نہ مل سکا۔ اب موصوف کو چاہیئے کہ وہ صحیح بخاری کی شرح کا کام شروع کر دیں اور اس حدیث پر ایک باب القبور فی البرزخ کا اضافہ کر دیں، کیونکہ فتح الباری تو موصوف کے نزدیک ایسی شرح ہے جسے اگر نہ لکھا جاتا تو مناسب تھا۔

جواب: مشرکین کی اولادیں اور ابراہیم علیہ السلام کیا بیت المقدس میں تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ جنّت کا کوئی حصہ تھا جس طرح نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کو معراج کی رات جنت میں دیکھا تھا. اس عالم ارواح کو متقدمین نے البرزخ کا نام دیا

ابن کثیر تفسیر سوره بنی اسرائیل یا الاسراء آیت ١٥ تا ١٧ میں لکھتے ہیں

وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ سَمُرَةَ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ رَأَى مع إبراهيم عليه السلام أَوْلَادَ الْمُسْلِمِينَ وَأَوْلَادَ الْمُشْرِكِينَ، وَبِمَا تَقَدَّمَ فِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ عَنْ حَسْنَاءَ عَنْ عَمِّهَا أَنَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:«وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ» وَهَذَا اسْتِدْلَالٌ صَحِيحٌ، وَلَكِنْ أَحَادِيثُ الِامْتِحَانِ أَخَصُّ مِنْهُ. فَمَنْ عَلِمَ الله مِنْهُ أَنَّهُ يُطِيعُ جَعَلَ رُوحَهُ فِي الْبَرْزَخِ مَعَ إِبْرَاهِيمَ وَأَوْلَادِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِينَ مَاتُوا عَلَى الْفِطْرَةِ

اور انہوں نے احتجاج کیا ہے حدیث سَمُرَةَ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا  مسلمانوں اور مشرکین کی اولادوں کو إبراهيم عليه السلام کے ساتھ اور …. پس الله نے علم دیا کہ ان کی روحوں کو برزخ میں ابرهیم اور مسلمانوں کی اولاد کے ساتھ کیا، جن کی موت فطرت پر ہوئی

اعتراض: عموما اہل حدیث حضرات، سمرہ بن جندب کی روایت اور واقعہ معراج کو ایک ساتھ بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ دو الگ واقعات ہیں.  اور جابر دامانوی عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

معراج کا واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں پیش آچکا تھا اور معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نافرمان انسانوں کو عذاب دیئے جانے کے کچھ مشاہدات بھی کرائے گئے تھے جیسا کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نافرمانوں کو مبتلائے عذاب دیکھا تھا

جواب: معراج ، مکہ میں ہوئی جبکہ سمرہ بن جندب والی روایت میں جو خواب بیان ہوا ہے وہ آخری دور کا ہے لہذا ان دونوں کو ملا کر کیوں بیان کیا جا رہا ہے؟ معراج جسمانی تھی نہ کہ خواب.

 کتاب تهذيب الأسماء واللغات از النووی کے مطابق سمرہ چھوٹے تھے کہ والد کا انتقال ہوا اور ان کی والدہ مدینہ لے آئیں. مزید یہ کہ مومنین پر عذاب کا علم دس ہجری میں دیا گیا لہذا یہ روایت دس ہجری کے بعد کی ہے

اعتراض اس روایت میں کہیں بھی البرزخ کا ذکر نہیں جس کو ڈاکٹر عثمانی نے بیان کیا ہے

جواب   البرزخ کی اصطلاح  بہت قدیم ہے ابن قتیبہ المتوفی ٢٧٦ ھ،  ابن حزم المتوفی ٤٥٧ ھ، ابن الجوزی  المتوفی ٥٩٧ ھ ، ابن رجب الحنبلي المتوفی ٧٩٥ ھ،   نے اس کو استعمال کیا ہے . اس کو اردو میں ہم عالم ارواح کہتے ہیں

اسی مفھوم میں ڈاکٹر عثمانی نے بھی اس کو استعمال کیا ہے.

ڈاکٹر عثمانی کے علاوہ ابن حزم ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن حجر سب عالم ارواح کو البرزخ کہتے ہیں جیسا کہ حوالے اوپر دیے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ ابن قیم اور ابن کثیر کا عقیدہ فرقہ اہل حدیث کے موجودہ عقیدے سے الگ ہے

نئے قارئین کے لئے ہم وضاحت کر دیں کہ

ابن حزم المتوفی ٤٥٦ ھ  قبر میں عود روح کے انکاری ہیں اور البرزخ  اور قبر کی اصطلاح عالم ارواح کے لئے استمعال کرتے ہیں اور وہیں عذاب قبر مانتے ہیں . ڈاکٹر عثمانی اس  بات میں ان سے متفق ہیں

 ابن تیمیہ  المتوفی ٧٢٨ ھ ،ابن قیم  المتوفی ٧٥١ ھ، ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ھ اور ابن حجرالمتوفی ٨٥٢ ھ (سب ابن حزم کے بعد کے ہیں)، روح کا اصل مقام البرزخ مانتے ہیں جو عالم ارواح ہے . یہ سب روح پر عذاب البرزخ میں مانتے ہیں اور اس کا اثر قبر میں بھی مانتے ہیں اس تمام عذاب کو جو البرزخ میں ہو یا روح کے تعلق سے  قبر میں ہو ، اس کو وہ عذاب القبر کہتے ہیں .  روح کا جسد سے مسلسل تعلق مانتے ہیں جس میں آنا فانا روح قبر میں اتی ہے اور جاتی ہے اس کی مثال وہ سورج اور اسکی شعاوں سے دیتے ہیں دیکھئے کتاب الروح از ابن قیم المتوفی ٧٥١ ھ

موجودہ فرقہ اہل حدیث البرزخ کو بطور مقام ہونے   کا انکار کرتا ہے . برزخ کو قبر میں  ایک کیفیت بتاتا ہے اور عام مردوں کی بلا روح لاشوں پر عذاب بتاتا ہے. البرزخ بطور مقام ہونے کا فرقہ اہل حدیث  آج کل انکاری بنا ہوا  ہے. روح پر عذاب کو عذاب الجھنم کہتا ہے اوربے روح لاش پر عذاب کو عذاب قبر کہتا ہے.لاش بلا روح پر عذاب کو متقدمین گمراہی کہتے ہیں دیکھئے شرح مسلم النووی المتوفی ٦٧٦ ھ

باقی اہل سنت کے فرقے عذاب قبر میں زندہ بدن  پر مانتے ہیں جس میں روح مسلسل رہتی ہے دیکھئے الاستذکار از  ابن عبد البر المتوفی ٤٦٣ ھ

ابن حجر عسقلانی اپنے خط میں کہتے ہیں جو  کتاب الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع  کے ساتھ چھپا ہے  خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں

ما معرفَة الْمَيِّت بِمن يزروه وسماعه كَلَامه فَهُوَ مُفَرع عَن مَسْأَلَة مَشْهُورَة وَهِي أَيْن مُسْتَقر الْأَرْوَاح بعد الْمَوْت فجمهور أهل الحَدِيث عل أَن الْأَرْوَاح على أقنية قبورها نَقله ابْن عبد الْبر وَغَيره

جمہور اہل حدیث کا مذھب ہے کہ ارواح قبرستان میں ہیں جس کو ابن عبد البر اور دوسروں نے نقل کیا ہے

ابن حجر اپنی رائے دیتے ہیں

وَالَّذِي تَقْتَضِيه ظواهر الْأَحَادِيث الصَّحِيحَة أَن أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين وَلَكِن لكل مِنْهُمَا اتِّصَال بجسدها 

لیکن احادیث صحیحہ کا ظاہر جو تقاضہ کرتا ہے اس کے حساب سے مومنوں کی روحیں  عليين میں اور کافروں کی روحیں  سِجِّين میں ہیں لیکن ان سب کا جسد سے اتصال (کنکشن ) ہے

[/EXPAND]

[ایک کتاب المسند فی عذاب القبر میں دعوی کیا گیا ہے کہ السیوطی کے نزدیک برزخ ایک کفیت ہے کیا یہ بات درست ہے؟]

جواب

حال ہی میں عذاب القبر کے مسئلے پر ایک کتاب بنام المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال شائع ہوئی ہے. کتاب کے پہلے صفحے پر عرض المولف میں مولف لکھتے ہیں

عالم آخرت کے دو مرحلے ہیں ایک عالم برزخ یعنی موت سے لے کے حساب و کتاب کے لیے دوبارہ اٹھائے جانے تک اور دوسرا مرحلہ دوبارہ اٹھائے جانے یعنی عالم حشر سے شروع ھو گا. عالم برزخ میں ملنے والی سزا کو عذاب القبر کہا جاتا ہے اس لئے کہ ایک تو مردوں کا قبروں میں دفن ہونا  اغلب و اکثر ہے جیسا علامہ جلال الدین السیوطی فرماتے ہیں. علماء نے فرمایا کہ عذاب قبر عذاب برزخ ہی (کا نام) ہے اسے قبر کی طرف منسوب اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ (مردوں کا قبروں میں دفن ہونا) اغلب و اکثر ہے

ارشد کمال صاحب البرزخ سے کیا مراد لیتے ہیں یہ وہ اپنی کتاب عذاب القبر میں بیان کر چکے ہیں کہ

 

ارشد کمال صاحب نےالسيوطي  کی عذاب القبر کی تعریف ، شرح صدور کے حوالے سے لکھی ہے. لیکن مطلب براری کے لئے عالم برزخ کو ایک دورکی طرح پیش کیا ہے جبکہ السيوطي اس کو ایک مقام کے طور پر لیتے ہیں

السيوطي (المتوفى:٩١١ ھ) کتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور میں لکھتے ہیں کہ معتزلہ نے مرنے کے بعد روح کے باقی رہنے کا انکار کیا لیکن اہل علم نے اس کا رد کیا. السيوطي لکھتے ہیں

قَالَ سَحْنُون بن سعيد وَغَيره هَذَا قَول أهل الْبدع والنصوص الْكَثِيرَة الدَّالَّة على بَقَاء الْأَرْوَاح بعد مفارقتها للأبدان ترد ذَلِك وتبطله وَالْفرق بَين حَيَاة الشُّهَدَاء وَغَيرهم من الْمُؤمنِينَ الَّذين أَرْوَاحهم فِي الْجنَّة من وَجْهَيْن أَحدهمَا أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء تخلق لَهَا أجساد وَهِي الطير الَّتِي تكون فِي حواصلها ليكمل بذلك نعيمها وَيكون أكمل من نعيم الْأَرْوَاح الْمُجَرَّدَة عَن الأجساد فَإِن الشُّهَدَاء بذلوا أَجْسَادهم للْقَتْل فِي سَبِيل الله فعوضعوا عَنْهَا بِهَذِهِ الأجساد فِي البرزخ وَالثَّانِي أَنهم يرْزقُونَ من الْجنَّة وَغَيرهم لم يثبت فِي حَقه مثل ذَلِك

سَحْنُون بن سعيد اور دیگر کہتے ہیں کہ یہ اہل بدعت کا قول ہے اور بدن سے جدائی کے بعد، روح کی بقاء پر کثیر نصوص دلالت کرتے ہیں ، جو اس قول کو رد کرتے ہیں اور حیات شہداء اور عام مومنین کی زندگی میں جن کی روحیں جنت میں ہیں فرق دو وجہ سے ہے کہ اول ارواح شہداء کے لئے جسم بنائے گئے ہیں اور وہ پرندے ہیں  جن کے پیٹوں میں وہ ہیں کہ وہ ان نعمتوں کی تکمیل  کرتے ہیں اور یہ مجرد ارواح کی نعمتوں سے اکمل ہے  کیونکہ شہداء نے اپنے جسموں پر زخم سہے الله کی راہ میں قتل ہوئے پس ان کو یہ جسم برزخ میں دے گئے اور دوئم ان کو جنّت میں کھانا بھی ملتا ہے اور دوسروں پر یہ ثابت نہیں

 السيوطي کتاب  الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج میں ابن رجب کے حوالے سے لکھتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظ زين الدّين بن رَجَب فِي كتاب أهوال الْقُبُور الْفرق بَين حَيَاة الشُّهَدَاء وَغَيرهم من الْمُؤمنِينَ من وَجْهَيْن أَحدهمَا أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء يخلق لهاأجساد وَهِي الطير الَّتِي تكون فِي حواصلها ليكمل بذلك نعيمها وَيكون أكمل من نعيم الْأَرْوَاح الْمُجَرَّدَة عَن الأجساد فَإِن الشُّهَدَاء بذلوا أَجْسَادهم للْقَتْل فِي سَبِيل الله فعوضوا عَنْهَا بِهَذِهِ الأجساد فِي البرزخ

اور الْحَافِظ زين الدّين بن رَجَب كتاب أهوال الْقُبُور میں کہتے ہیں اور حیات شہداء اور عام مومنین کی زندگی میں فرق دو وجہ سے ہے کہ اول ارواح شہداء کے لئے جسم بنائے گئے ہیں اور وہ پرندے ہیں  جن کے پیٹوں میں وہ ہیں کہ وہ ان نعمتوں کی تکمیل  کرتے ہیں اور یہ مجرد ارواح کی نعمتوں سے اکمل ہے  کیونکہ شہداء نے اپنے جسموں پر زخم سہے الله کی راہ میں قتل ہوئے پس ان کو یہ جسم برزخ میں دے گئے

 شہداء کے لئے برزخی جسم پر واضح نصوص کو السيوطي بھی مانتے ہیں. ارشد کمال ان کا اس انداز میں مذاق اڑاتے ہیں

almasnad-96

دامانوی دین الخالص میں لکھتے ہیں

برزخی جسم دامانوی

احادیث کے واضح متن کو رد کرنے کے لئے قادیانی دجال کا حوالہ انہی کو مبارک ھو. ہمارا ایمان تواحادیث صحیحہ پر ہے

قادیانی دجال سن ١٩٠٨ ع میں جہنم رسید ہوا اس کے بعد اہل حدیث عالم اسمعیل سلفی  المتوفی ١٩٦٨ ع نے بھی برزخی جسد کا  کتاب حیات النبی میں ذکر کیا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت یونس علیہ السلام کو احرام باندھے شتر سوار تلبیہ کہتے سنا دجال کوبحالت احرام کے لیے جاتے دیکھا عمروبن لحئ کو جہنم میں دیکھا یہ برزخی اجسام ہیں اور کشفی رویت ہیں

یہ بھی لکھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے معراج پر انبیاء کی امامت کی اور انبیاء برزخی جسموں کے ساتھ تھے

دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی

 ان سے بھی پہلے ابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٠٩ میں  واقعہ معراج پر لکھتے ہیں

وَأَمَّا الَّذِينَ صَلَّوْا مَعَهُ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَيَحْتَمِلُ الْأَرْوَاحَ خَاصَّةً وَيَحْتَمِلُ الْأَجْسَادَ بِأَرْوَاحِهَا

اور بیت المقدس میں وہ انبیاء جنہوں نے نماز ادا کی ان کے بارے  میں احتمال ہے وہ ارواح تھیں اور احتمال ہے کہ جسم تھے انکی روحوں کے ساتھ

اگر کسی دجال نے کوئی صحیح حدیث نقل کی یا اس کی شرح کی تو کیا وہ بات غلط ہو جائے گی جوش  مخالفت میں آدمی کو اپنے آپے میں رہنا چاہئے

عجیب بات یہ ہے کہ موصوف خود روایت پیش کرتے ہیں کہ یہ پرندے جنت میں کھاتے بھی ہیں اور آیت وہ بتاتے ہیں جس میں شہید کے رزق کا ذکر ہے نہ کہ انکے ہوائی جہازوں کا. المسند فی عذاب القبر میں لکھتے ہیں

بخاری میں سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت  میں تفصیل سے ارواح پر برزخی اجساد میں عذاب کا ذکر آیا ہے

سمرہ بن جندب رضی الله تعالی عنہ کی روایت کے لئے کتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور میں السيوطي لکھتے ہیں

قَالَ الْعلمَاء هَذَا نَص صَرِيح فِي عَذَاب البرزخ فَإِن رُؤْيا الْأَنْبِيَاء وَحي مُطَابق فِي نفس الْأَمر وَقد قَالَ يفعل بِهِ إِلَى يَوْم الْقِيَامَة

علماء کہتے ہیں یہ نص صریح ہے عذاب البرزخ پر کیونکہ انبیاء کا خواب وحی ہے جو نفس امر کے مطابق ہے اور بے شک کہا کہ ایسا قیامت تک ھو گا

 السيوطي کتاب  الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج میں لکھتے ہیں

عَن سَمُرَة بن جُنْدُب قَالَ كَانَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا صلى الصُّبْح أقبل عَلَيْهِم بِوَجْهِهِ فَقَالَ هَل رأى أحد مِنْك البارحة رُؤْيا هَذَا مُخْتَصر من حَدِيث طَوِيل وَبعده وَأَنه قَالَ لنا ذَات غَدَاة إِنَّه أَتَانِي اللَّيْلَة آتيان فَقَالَا لي انْطلق فَذكر حَدِيثا طَويلا فِيهِ جمل من أَحْوَال الْمَوْتَى فِي البرزخ وَقد أخرج البُخَارِيّ بِتَمَامِهِ

سَمُرَة بن جُنْدُب سے مروی ہے کہ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم جب صبح کی نماز پڑھتے تو ہماری طرف رخ کرتے  اور پوچھتے کہ کیا تم میں سے کل کسی نے خواب دیکھا ہے  یہ  ایک طویل حدیث کا اختصار ہے …جس میں احوال الموتی کا اجمال ہے البرزخ میں اور اس کو بخاری نے مکمل بیان کیا ہے

 البرزخ پر سَمُرَة بن جُنْدُب رضی الله تعالی عنہ کی روایت کو ارشد کمال نے اپنی تالیف بنام المسند فی عذاب القبر میں سرے سے پیش ہی نہیں کیا

اب ہم واپس السيوطي کے اس قول کی طرف آتے ہیں جس کا حوالہ ارشد کمال نے دیا ہے

السيوطي کتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور میں لکھتے ہیں

قَالَ الْعلمَاء عَذَاب الْقَبْر هُوَ عَذَاب البرزخ أضيف إِلَى الْقَبْر لِأَنَّهُ الْغَالِب وَإِلَّا فَكل ميت وَإِذا أَرَادَ الله تَعَالَى تعذيبه ناله مَا أَرَادَ بِهِ قبر أَو لم يقبر وَلَو صلب أَو غرق فِي الْبَحْر أَو أَكلته الدَّوَابّ أَو حرق حَتَّى صَار رَمَادا أَو ذري فِي الرّيح وَمحله الرّوح وَالْبدن جَمِيعًا بِاتِّفَاق أهل السّنة وَكَذَا القَوْل فِي النَّعيم

علماء نے فرمایا کہ عذاب قبر عذاب برزخ ہی (کا نام) ہے اسے قبر کی طرف منسوب اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ (مردوں کا قبروں میں دفن ہونا) اغلب و اکثر ہے اور اگر الله ان کو عذاب دینا چاہے  تو اس کے لئے قبر نہیں چاہیے  اگر قبر نہ دی جائے ، اگر صلیب دی جائے یا سمندر میں غرق ھو یا جانور کھا جائیں یا آگ میں جلایا جائے حتیٰ کہ راکھ بن جائے یا  ہوا اڑا دے  تو بھی عذاب بدن و روح کو ھو گا یہ قول بِاتِّفَاق أهل السّنة ہے  اسی طرح راحت بھی

السيوطي کے اقوال سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک بھی برزخ مقام ہے نہ کہ صرف ایک کیفیت. افسوس کہ اس طرح کے خلط مبحث سے ارشد کمال کی کتابیں پر ہیں

ابن رجب اور السیوطی دونوں جسد اور روح پر عذاب کے قائلین میں سے ہیں لیکن البرزخ کو مقام مانتے ہیں اس وجہ سے ہم نے ان کو پیش کیا ہے ورنہ ہمارا عقیدہ ہے کہ عود روح کا عقیدہ باطل ہے اور جسد عذاب محسوس نہیں کرتا

ارشد کمال کتاب عذاب القبر کے صفحہ ١٠٦ اور ١٠٧ پر لکھتے ہیں

arshd-Baryakh

اگر شہداء کی ارواح سبز پرندوں میں ہوائی جہاز کی طرح سیر کرتی ہیں تو بھلا بتائے ال فرعون کیا جھنم کی سیر کرتے ہیں؟ واضح ہے کہ یہ نئے اجساد البرزخ میں ہیں نہ کہ قبر میں

سوال یہ ہے کہ جب ال فرعون کو ان کالے پرندوں  میں بیٹھا کر جہنم کی سیر کرائی جاتی ہے تو پھر کرے کوئی بھرے کوئی کا سوال کیوں پیدا نہیں ہوتا؟

[/EXPAND]

[کہا جاتا ہے انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس کی کوئی صحیح حدیث ہے ؟]

أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : انبیاءاپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں

البانی اپنی کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها  میں لکھتے ہیں

فقد أورده الذهبي في ” الميزان ” وقال: ” نكرة، ما روى عنه – فيما أعلم – سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه عن أنس في أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون. رواه البيهقي “. لكن تعقبه الحافظ في ” اللسان “، فقال عقبه: ” وإنما هو حجاج بن أبي زياد الأسود يعرف بزق العسل ” وهو بصري كان ينزل القسامل

پس بے شک  اس کو الذهبي  میزان میں لے کر آئے ہیں اور کہا ہے منکرہے جو روایت کیا ہے -یہ علم ہوا ہے کہ سوائے مستلم بن سعيد کے کوئی اور اس کو روایت نہیں کرتا ،پس ایک منکر خبر انس سے روایت کرتا ہے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں- اسکو البيهقي نے (بھی ) روایت کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں اس کا تعاقب کیا ہے پس اس روایت کے بعد کہا ہے بے شک یہ  حجاج بن أبي زياد الأسود ہے جوزق العسل سے معروف ہے اور بصری ہے

 البزاز المتوفى: ھ٢٩٢ کہتے ہیں

حَدَّثنا رزق الله بن موسى، حَدَّثنا الحسن بن قتيبة، حَدَّثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَن الحَجَّاج، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس؛ أَن رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ.

وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس إلاَّ الْحَجَّاجُ، ولاَ عَن الْحَجَّاجِ إلاَّ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، ولاَ نعلمُ رَوَى الْحَجَّاجُ، عَنْ ثابتٍ، إلاَّ هذا الحديث.

اور یہ حدیث اس کو ہم نہیں جانتے کہ روایت کیا ہو سوائے  الْحَجَّاجُ نے اور اس سے الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ نے

 معلوم ہوا کہ یہ راوی الحَجَّاج الصَّوَّافَ ہے نہ کہ حجاج بن أبي زياد الأسود

ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَأَخْرَجَهُ الْبَزَّارُ لَكِنْ وَقَعَ عِنْدَهُ عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ وَهُوَ وَهْمٌ وَالصَّوَابُ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ

اس کی تخریج الْبَزَّارُ نے کی ہے لیکن اس میں حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ہے جو وہم ہے اور مناسب ہے کہ یہ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ ہے

اگرچہ ابن حجر کے بعد لوگوں نے اس روایت کو حسن ، صحیح کہا ہے لیکن انہوں نے راوی کی وضاحت نہیں کی کہ کون سا ہے کبھی یہی راوی الْحجَّاج بن الْأسود  بن جاتا ہے جیسے طبقات الشافعية الكبرى ، البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبيراور لسان الميزان میں

اس روایت کے دفاع میں بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کی سند میں راوی ججاج بن الاسود کو حماد بن سلمہ حجاج الاسود بولتے تھے

ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ کتاب الثقات میں لکھتے ہیں

 حجاج بن أبي زِيَاد الْأسود من أهل الْبَصْرَة كَانَ ينزل القسامل بهَا يروي عَن أبي نَضرة وَجَابِر بن زيد روى عَنهُ عِيسَى بْن يُونُس وَجَرِير بن حَازِم وَهُوَ الَّذِي يحدث عَنهُ حَمَّاد بن سَلمَة وَيَقُول حَدثنَا حجاج الْأسود

حجاج بن أبي زِيَاد الْأسود أهل الْبَصْرَة میں سے ہیں .. ان سے حَمَّاد بن سَلمَة نے روایت کیا ہے اور کہا ہے حَدثنَا حجاج الْأسود

 ایک اور راوی حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف کے لئے ابن حبان لکھتے ہیں

حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف كنيته أَبُو الصَّلْت مولى التَّوْأَمَة بنت أُميَّة بن خلف وَاسم أبي عُثْمَان ميسرَة وَقد قيل إِن اسْم أبي عُثْمَان سَالم يروي عَن أبي الزبير وَيحيى بن أَبى كثير روى عَنهُ حَمَّاد بْن سَلمَة والبصريون مَاتَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةٍ وَكَانَ متقنا

حجاج بن أبي عُثْمَان الصَّواف ان کی کنیت أَبُو الصَّلْت ہے . ان سے حَمَّاد بْن سَلمَة اور بصریوں نے روایت کیا ہے ، سن ١٤٣ ھ میں وفات ہوئی

اول روایت أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون حَمَّاد بن سَلمَة کی سند سے نقل نہیں ہوئی بلکہ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ نے حجاج سے سنی ہے

دوئم اس کی سند میں ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ہیں اور حَمَّاد بن سَلمَة کی ان سے بہت سی روایات مروی ہیں لیکن یہ والی نہیں

سوم ذھبی اس روایت کو منکر کہتے ہیں یعنی اس روایت کا متن کا صحیح حدیث کے خلاف ہے

اس بحث کا لب لباب ہے کہ ابن حجر کی تصحیح نہ صرف مشکوک ہے بلکہ راوی کی نامکمل تحقیق پر مبنی ہے ابن حجر نے بیہقی کی اس روایت کی تصحیح کا حوالہ بھی دیا ہے  لیکن بیہقی نے جس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اس کی سند میں الْحجَّاج بن الْأسود   ہے نہ کہ حجاج بن أبي زياد الأسود. دوم ابن حجر باربار اس موقف تبدیل کرتے ہیں لسان المیزان میں اس روایت کو منکر کہتے ہیں اور فتح الباری میں صحیح ! جو عجیب بات ہے

اس روایت کی تصحیح کرنے والے  حضرات راوی کو ایک دوسرے  کی تصحیح کی بنیاد پر صحیح قرار دیتے رہے لیکن افسوس راوی کے بارے میں کوئی ایک رائے نہیں. پہلے یہ تو ثابت ہو کہ یہ کون راوی ہے پھر اس کی صحت و سقم کا سوال ہو گا – لیکن چونکہ یہ واضح نہیں لہذا یہ روایت مجھول راوی کی وجہ سے ضعیف ہے – کیا ایسی عجوبہ سند والی روایت، جس کا راوی مبہم ہو اس سے عقیدے کا اثبات کیا جائے گا

محب راشدی فتاوی راشدیہ میں لکھتے ہیں

rashdi-anbiya-qabor

دوسری سند

بیہقی نے کتاب حياة الأنبياء في قبورهم میں اس کو ایک دوسری سند سے بھی پیش کیا ہے

أخبرناه أبو عثمان الإمام ، رحمه الله أنبأ زاهر بن أحمد ، ثنا أبو جعفر محمد بن معاذ الماليني ، ثنا الحسين بن الحسن ، ثنا مؤمل ، ثنا عبيد الله بن أبي حميد الهذلي ، عن أبي المليح ، عن أنس بن مالك، قال : « الأنبياء في قبورهم أحياء يصلون

 اس کے ایک راوی کے لئے عقیلی کہتے ہیں

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب عن أبي المليح قال يحيى هو كوفي ضعيف الحديث

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب ، أبي المليح سے  يحيى کہتے ہیں كوفي ہے ضعيف الحديث ہے

بخاری اس کو منکر الحدیث کہتے ہیں

ابو نعیم اصبہانی کتاب ضعفاء میں کہتے ہیں

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي يحدث عنه مكي بن إبراهيم يروي عن أبي المليح وعطاء بالمناكير لا شئ

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي اس ہے  مكي بن إبراهيم روایت کرتا ہے جو  أبي المليح  اورعطاء سے منکر روایات نقل کرتا ہے کوئی چیز نہیں

بیہقی کی سند میں یہی ضعیف راوی ہیں. ایسے منکر الحدیث راویوں سے اس اہم عقیدہ کا اثبات شرم انگیز ہے

افسوس بیہقی نے امت پر بہت ستم ڈھایا ہے

اہل حدیث علماء کا سابقہ  موقف

اسمعیل سلفی کتاب مسئلہ حیات النبی میں لکھتے ہیں

anbiya-qabor-ismaelsalafi

فتاوی اہل حدیث ج ٥ میں ہے

sanaiyah-murda

افسوس آجکل کے اہل حدیث فرقہ کے علماء اس سے سارے انبیاء کی دنیا کی قبر میں زندگی ثابت کرتے ہیں اسمعیل سلفی تو اس کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ کسی عقیدہ کی بنیاد اس پر رکھی جائے

معلوم ہوا کہ آجکل کے فرقہ اہل حدیث اور دیوبندیوں کے عقائد ایک  ہو گئے ہیں

فتاوی اہل حدیث ج  ٥ ص ٤٢٧  کے مطابق تمام مومن کی روحیں جنت میں ہیں

موسی قبر میں فتویٰ اہل حدیث

یہ کیا انصاف ہے انبیاء کو تو  دنیا کی قبروں میں  رکھا جائے اور ان کے متبعین جنت میں لطف اٹھائیں

موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا

طرفہ تماشہ ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی انبیاء کو قبروں میں زندہ کرنے لےلئے ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں معراج کی رات نماز پڑھتے دیکھا. حالانکہ معراج کی رات الله کی نشانی ہے ایک معجزہ ہے جو ایک عام واقعہ نہیں. اصول یہ ہے کہ معجزہ دلیل نہیں بن سکتا تو اس کو پیش کرنا چہ معنی

بخاری کی حدیث ہے کہ جب ملک الموت موسی علیہ السلام کی روح قبض کرنے آیا تو انہوں نے اس کو تھپڑ مار دیا اگر ان کو پتا ہوتا کہ میں اسی دینا کی قبر میں نماز پڑھتا رہوں گا تو وہ ایسا نہ کرتے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ موسی اور آدم علیھما السلام کا تقدیر کے بارے میں کلام ہوا متقدمین شآرحیں نے اس کو عالم البرزخ میں بتایا ہے اگر موسی قبر میں ہیں تو آدم کی ان سے کیسے ملاقات ہو گئی

اس روایت میں بیان ہو رہا ہے کہ انبیاء قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اس کے برعکس صحیح بخاری میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ

  اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا

اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ

اگر قبر میں نماز پڑھی جاتی ہے تو صحیح بخاری کی حدیث کا کیا مفہوم رہ جائے گا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول میں تضاد ممکن نہیں لہذا الذهبي کی بات درست ہے کہ روایت  انبیاءاپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے

[/EXPAND]

[کہا جاتا ہے الانبيأ احياء في قبورهم یصلون  انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس ضعیف روایت کو البانی صاحب كس دلیل سے صحيح کہا ہے؟ اور کیوں کہا ہے؟؟]

الانبيأ احياء في قبورهم یصلون
سلسله احادیث الصحیحه ج۲ص۱۸۷شماره۶۲۱

جواب

البانی اس پر وہی فلسفہ بھگارتے ہیں جو چلا ا رہا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اور بندہ ایجاد ہے
الصحیحہ (2/ 190،178) میں اس پر کہتے ہیں
اعلم أن الحياة التي أثبتها هذا الحديث للأنبياء عليهم الصلاة والسلام، إنما هي حياة برزخية، ليست من حياة الدنيا في شيء،
جان لو اس روایت میں انبیاء کی جس زندگی کا اثبات کیا گیا ہے یہ برزخی زندگی ہے جس میں دنیا کی زندگی کی کوئی چیز نہیں

الصحیحہ میں امام الذھبی کی اس روایت پر جرح پیش کرنے کے بعد البانی کہتے ہیں
قلت: ويتلخص منه أن حجاجا هذا ثقة بلا خلاف وأن الذهبي توهم أنه غيره فلم يعرفه ولذلك استنكر حديثه، ،
میں کہتا ہوں خلاصہ ہے کہ یہ حجاج ثقہ ہے اس میں اختلاف نہیں اور بے شک الذھبی کو وہم ہوا کہ یہ کوئی اور ہے پس اس کو نہ پہچانا اور اس وجہ سے اس روایت کو منکر قرار دیا

————

راقم کہتا ہے اس روایت کی تمام اسناد میں ایک راوی حجاج بلا ولدیت کے آیا ہے جس کے باپ کا نام یہ لوگ بدلتے رہتے ہیں ابن حجر اس کا نام فتح الباری میں الگ لیتے ہیں الذھبی میزان میں الگ اور سبکی شفاء السقام میں الگ- اس طرح کی روایت جس میں راوی مبہم ہو اس پر عقیدہ بنانا اندھیرے میں تیر چلانا ہے
حیات فی القبر کی بہت سی روایات بصریوں کی ایجاد ہیں جن میں یہ والی بھی ہے مثلا موسی کا قبر میں نماز پڑھنا بھی صرف بصری بیان کرتے ہیں اور اصحاب رسول میں سے انبیاء کا قبروں میں نماز پڑھنا اور موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا صرف انس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں جو بصرہ میں کچھ عرصہ رہے ان سے بصریوں نے سنا اور ان سے بہت سے ضعیف روایات منسوب کی گئیں

جب عقیدہ پر روایت میں خاص شہر کا تفرد ا جائے تو وہ مشکوک ہے کیونکہ عقیدہ کی بات سب کو بیان کرنی چاہیے
قال أبو حنيفة اترك قولي بقول الصحابة الّا بقول ثلثة منهم أبو هريرة وانس بن مالك وسمرة بن جندب رضی الله عنهم
روضة العلماء ونزهة الفضلاء (المخطوطة) – علي بن يحيى بن محمد، أبو الحسن الزندويستي الحنفي (المتوفى: 382هـ)
امام ابو حنیفہ نے کہا میرا قول صحابہ کے قول کے مقابل ہو تو اس کو ترک کر دو سوائے تین اصحاب کے ایک ابو ہریرہ دوسرے انس بن مالک اور تیسرے سمرہ بن جندب

اس کی وجہ ابو حنیفہ بتاتے ہیں
فقيل له في ذلك، فقال:
أما انس: فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، فكان يستفی من علقمة، وأنا لا أقلد علقمة، فكيف اقلد من يستفی من علقمة.
واما أبو هريرة فكان يروي كل ما بلغه وسمعه من غير أن يتأمل في المعنی ومن غير أن يعرف الناسخ والمنسوخ.
واما سمرة بن جندب، فقد بلغني عنه أمر ساءني، والذي بلغه عنه أنه كان يتوسع في الاشربة المسكرة سوی الخمر فلم يقلدهم في فتواهم.
اما في ما رووا عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، فياخذ برواتهم؛ لأن كل واحد منهم موثوق به في ما يروي.
https://archive.org/stream/hanafi_04_201507/01#page/n181/mode/2up
صفحه 183 – 186 جلد 01 شرح أدب القاضي للخصاف الحنفي (المتوفى: 261هـ) عمر بن عبد العزيز ابن مازة الحنفي المعروف بالصدر الشهيد (المتوفى: 536هـ)- وزارة الأوقاف العراقية – مطبعة الإرشاد، بغداد

ان سے اس پر پوچھا گیا تو ابو حنیفہ نے کہا : جہاں تک انس ہیں تو مجھ تک پہنچا ہے کہ آخری عمر میں وہ اختلاط کا شکار تھے پس علقمہ سے پوچھتے اور میں علقمہ کی تقلید نہیں کرتا تو پھر اس کی کیوں کروں جو علقمہ سے پوچھے اور جہاں تک ابو ہریرہ ہیں تو یہ ہر چیز بیان کر دیتے ہیں جو پہنچی اور سنی ہو اس کے معنی پر غور کیے بغیر اور نہ ناسخ و منسوخ کو سمجھتے ہوئے
——-
اور اسی طرح کا قول ہے
قال: أقلد جميع الصحابة إلا ثلاثة منهم أنس بن مالك، وأبو هريرة، وسمرة بن جندب رضى الله عنهم. أما أنس فقد بلغني أنه اختلط عقله في آخر عمره، وكان يستفتي من علقمة، وإنما لا أقلد علقمة فكيف أقلد من يستفتي علقمة، وأما أبو هريرة فإنه لم يكن من أئمة الفتوى، بل كان من الرواة فيما كان يروى لا يتأمل في المعنى، وكان لا يعرف الناسخ والمنسوخ، ولأجل ذلك حجر عليه عمر رضي الله عنه، عن الفتوى في آخر عمره، وأما سمرة بن جندب فقد بلغني عنه أمر يتأبى، والذي بلغ عنه، إنه كان يتوسع في الأشربة المسكرة سوى الخمر، وكان يتدلك في الحمام بالخمر، فلم نقلدهم في فتواهم لهذا، أما فيما روي عن النبي عليه السلام أنه كان يأخذ بروايتهم، لأن كل واحد موثوق به فيما يروي.

المحيط البرهاني في الفقه النعماني فقه الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه
المؤلف: أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (المتوفى: 616هـ)

ابو حنیفہ نے کہا .. اصحاب رسول کی تقلید ہو گی سوائے انس اور ابو ہریرہ اور سمرہ کے کہ … انس آخری عمر میں مختلط تھے اور علقمہ سے پوچھتے تھے

مزید
https://archive.org/stream/fqh12/113#page/n199/mode/2up

———————

یہ احناف کی فقہ کی کتابیں ہیں جب عمل میں ان اصحاب کی منفرد روایت نہیں لی جا رہی تو عقیدہ میں منفرد روایت قبول کیسے کر لی جائے
لہذا انس رضی الله عنہ سے منسوب روایت جو صرف بصری روایت کریں مشکوک ہے
یہ جملہ معترضہ ہے

روایت کو انس رضی الله عنہ سے ثابت بن أسلم البنانى ، أبو محمد البصرى المتوفی ١٠٠ ہجری نے روایت کیا ہے راقم کہتا ہے اس میں انس رضی الله عنہ سے منکر روایت کرنے میں ثابت البنانی البصری کی غلطی کے علاوہ ان راویوں کی غلطی بھی ہے جنہوں نے مجھول سے روایت کیا ہے
اس قسم کی روایات عراق میں پھیلنے کی وجہ زہد تھا ان پر خوارج کے حملہ ہوتے تھے اور وہ دنیا سے بے زار ہو کر روحانیت کی تلاش میں قبروں کی طرف متوجہ ہو رہے تھے دیگر شہروں میں اس قنوطیت کا اثر نہ تھا

اب سند دیکھیں مسند ابو یعلی میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الْأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ

اس میں الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ہے جو مجھول حجاج سے روایت کرتا ہے البزار (المتوفى: 292هـ) کہتے ہیں اس میں اس کا تفرد ہے
وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس إلاَّ الْحَجَّاجُ، ولاَ عَن الْحَجَّاجِ إلاَّ الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، ولاَ نعلمُ رَوَى الْحَجَّاجُ، عَنْ ثابتٍ، إلاَّ هذا الحديث.
الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ واسط کا ہے یہ جوگی بن چکا تھا

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال
المؤلف: مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ)
کے مطابق

وعن يزيد بن هارون ذكروا أنه لم يضع جنبه منذ أربعين عاما، فظننت أنه يعني بالليل، فقيل لي: ولا بالنهار. وعن أصبغ بن يزيد قال: قال لي مستلم: لي اليوم سبعون يوما لم أشرب ماء
یزید بن ہارون سے روایت ہے کہ مستلم نے چالیس سال تک پہلو نہیں لگایا پس گمان کیا کہ رات میں لیکن مجھ سے کہا گیا دن میں بھی اور اصبع سے روایت ہے کہ مجھ سے مستلم نے کہا ستر دن سے پانی نہیں پیا

—-
اب اپ فیصلہ کریں جو بدعتی شخص ستر دن پانی نہ پئے اس کی دماغی حالت ایسی ہو گی کہ اس کی بیان کردہ منفرد روایت پر عقیدہ رکھا جائے؟

[/EXPAND]

[کیا قبر آخرت کی پہلی منزل ہے؟]

جواب

عبد الله بن بحیر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ہانی مولی عثمان رضی الله تعالی عنہ سے سنا کہ بیان کرتے ہیں کہ

كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَيُقَالُ لَهُ قَدْ تَذْكُرُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ فَلَا تَبْكِي، وَتَبْكِي مِنْ هَذَا فَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ» وَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ»

عثمان رضی الله تعالی عنہ جب قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ھوجاتی … اور کہتے کہ بے شک الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے …

یہ روایت مسند احمد، مستدرک الحاکم میں بیان ہوئی ہے اس کے ایک راوی عبد الله بن بحیر کے لئے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

وقال ابن حبان: يروى العجائب التي كأنها معمولة، لا يحتج به،     اور ابن حبان کہتے ہیں یہ عجائب روایت کرتا ہے اس سے احتجاج نہ کیا جائے

الذھبی تاریخ الاسلام میں کہتے ہیں  فِيهِ ضَعْفٌ،  ان میں کمزوری ہے

یہ بھی کہتے ہیں  وله غرائب  غریب روایات بیان کرتے ہیں

الذھبی اپنی دوسری کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں ان کو منکر الحدیث بھی

کہتے ہیں

سندا تو روایت ہے ہی کمزور اس کا متن بھی درایت کے مطابق درست نہیں

عائشہ رضی الله تعالی عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے پہلے  انہوں نے مسواک چبا کر نبی صلی الله علیہوسلم کو دی .آپ کہتی ہیں کہ اس کے بعد آپ کی وفات ہوئی اور الله نے آخرت کے دن میرا اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا لعاب ایک جگہ جمع کر دیا

موطا کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی

تُوُفِّيَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ، وَدُفِنَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ

وفات پیر کے دن ہوئی اور تدفین منگل کو ہوئی

معلوم ہوا کہ آخرت کا پہلا دن خروج نفس کا ہے نہ کہ تدفین کا

لہذا قبر آخرت کی پہلی منزل کیسے ہوئی؟

[/EXPAND]

[کیا یہ روایت درست ہے ؟]

جواب

ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر صفحہ  ٥٦ سے ٥٨ پر محمد بن عمرو عن ابی سلمہ عن ابو ہریرہ کی سند سے آئی ہوئی ایک روایت پیش کرتے  ہیں

arshad-56

arshad-57

جوزجانی احوال الرجل میں کہتے ہیں

محمد بن عمرو بن علقمة ليس بقوي الحديث ويشتهى حديثه

محمد بن عمرو بن علقمة حدیث میں  قوی نہیں اور ان کی حدیث پسند کی جاتی ہے

ابن ابی  خیثمہ کتاب تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں کہ يَحْيَى بن معین کہتے ہیں

لم يزل الناس يتقون حديث مُحَمَّد بن عَمْرو [ق/142/ب] قيل له: وما علة ذلك؟ قَالَ: كان مُحَمَّد بن عَمْرو يحدث مرة عن أبي سلمة بالشيء رأيه، ثم يحدِّث به مرة أخرى عن أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ

لوگ مسلسل مُحَمَّد بن عَمْرو کی روایت سے بچتے رہے  .. پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے کہا مُحَمَّد بن عَمْرو کبھی روایت ابی سلمہ سے بیان کرتے اور کبھی ابی سلمہ عن ابی ھریرہ سے

علي بن الْمَدِيْنِيّ کہتے ہیں

سألت يَحْيَى بن سعيد، عن مُحَمَّد بن عمرو، وكيف هو؟ قَالَ: تريد العفو أو تشدد؟ قلت: بل أشدد، قَالَ: ليس هو ممن تُريد

يَحْيَى بن سعيد سے مُحَمَّد بن عمرو کے بارے میں سوال ہوا  کہ کیسا ہے بولے نرمی والی بات ہے یا سختی والی بولے نہیں سختی والی یہ وہ نہیں جو تم کو چاہیے

 ذھبی اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

قُلْتُ: صَدَقَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ لَيْسَ هو مثل يحيى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، وَحَدِيثُهُ صَالِحٌ.

ذھبی کہتے ہیں: يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ سچ کہتے ہیں اور یہ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الانصاری جیسا نہیں اس کی حدیث صالح ہے

ابن الجوزی کتاب الضعفاء والمتروكون میں لکھتے ہیں

وَقَالَ السَّعْدِيّ لَيْسَ بِقَوي

السَّعْدِيّ  کہتے ہیں لَيْسَ بِقَوي قوی نہیں

بخاری نے اصول میں کوئی بھی روایت محمد بن عمرو عن ابی سلمہ عن ابو ھریرہ کی سند سے بیان نہیں کیں بلکہ شاہد کے طور پر  صرف دو جگہ بَابُ جَهْرِ المَأْمُومِ بِالتَّأْمِينِ اور  بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا} [النساء: 125] میں صرف  سند دی ہے. امام مسلم نے بھی شاہد کے طور پر بَابُ اسْتِحْبَابِ تَحْسِينِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ میں ان کی سند پیش کی ہے نہ کہ مکمل روایت.  لہذا بخاری و مسلم کا اصول ہے کہ ان کی روایت شاہد کے طور پر غیر عقیدہ میں پیش کی جا سکتی ہے

اس کے باوجود کہ ائمہ حدیث نے اس راوی کے حوالے سے اتنی احتیاط برتی ہے لوگوں نے ان کی روایات کو عقیدے میں بھی لے لیا ہے جو کہ صریحا  ائمہ حدیث کے موقف کے خلاف ہے

ہیثمی اور البانی نے بھی روایت کو حسن قرار دیا ہے . کیا حسن روایت پر عقیدہ استوار کیا جا سکتا ہے؟

[/EXPAND]

[آعآدہ روح کے لئے  کعب بن مالک کی روایت اور ابن مسعود رضی الله عنہما کی روایت سے رد ہوتا ہے ؟ میت کو عذاب کا عقیدہ کب اختیار کیا گیا؟]

حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھے ک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا

حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرض کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388

جواب

ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی حدیث اور کعب رضی الله عنہ کا قول جو آپ نے پیش کیا وہ اس کی دلیل ہے کہ چاہے عام آدمی ہو یا خاص شخص ، اسکی روح واپس جسد میں نہیں اتی- ابن مسعودجلیل القدر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں جن کے لئے ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگر کسی کو قرآن سیکھنا ہے تو ان سے سیکھیے -تمام صحابہ کا نام نہیں لیا گیا جبکہ تمام رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سیکھتے تھے مثلا ایک استاد کہتا ہے کہ فلاں مضمون میں میرا وہ شاگرد اچھا ہے
اسی طرح جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ عود روح نہیں ہوتا تو پھر اس کو قبول کیا جانا چاہیے

قرآن میں عود روح کا ذکر نہیں ہے جو اس کے قائل ہیں وہ کتاب الله کے خلاف کہتے ہیں
جیسا آپ نے مانا ہے

عود روح کی حدیث جن لوگوں سے مروی ہے ان میں ہر سند میں شیعہ ہیں مثلازاذان ، المنھال بن عمرو عدی بن ثابت اور یونس بن خباب ان چار میں سے دو تو ضرور کسی ایک سند میں ہیں

الذھبی کہتے ہیں اس میں غرابت و نکارت ہے سیر الاعلام النبلاء
ابن حبان صحیح میں باقاعدہ اس کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ یہ روایت اس قابل نہیں کہ لکھی جائے
امام شعبہ اس کے راوی المنھال کو متروک سمجھتے تھے
ابن حزم اس کو ضعیف کہتے ہیں

لیکن ان علماء کے مخالف علماء اس کو صحیح قرار دے کر ایمان کا حصہ بناتے ہیں آپ خود اس کے متن کا قرآن سے تقابل کریں اور فیصلہ کریں یہ سب کس طرح صحیح ہے قرآن مخالف رجعت کے عقیدے کی روایت ہے جس کو شیعوں نے پھیلایا ہے
سب سے پہلی تصحیح اس کی امام الحاکم نے کی ہے جو ابن حزم کے ہم عصر ہیں یعنی ایک نیشاپور ایران میں اس کو صحیح کہتا تھا اور دوسرا اندلس میں اس کو پرلے درجے کی ضعیف روایت

ان علماء سے قبل ضعیف ہی کہا جاتا تھا مثلا چوتھی صدی کے ابن حبان- ان سے قبل اس کی تصحیح کسی سے پاس نہ ملی
آٹھویں صدی تک جا کر یہ عقیدے کی ایک اہم روایت بنی اور علماء نے اس کو تقریبا ہر عذاب قبر کی کتاب میں لکھا اور مردہ میں روح کو ڈالا کیونکہ ان کے نزدیک بے روح، بے جان، لا شعور تھا مثلا ساتویں صدی کے امام النووی تو کہتے تھے جو یہ مانے کہ بلا روح جسد پر عذاب ہوا وہ اہل سنت نہیں
دیکھئے شرح المسلم

وہ شخص جس نے بلا روح جسد کا عقیدہ پھیلایا وہ ایک بدعتی ابو عبدالله محمد بن کرام سجستانی نیشابوری تھا
اس کی کوکھ سے کرامیہ فرقہ نکلا اور آج عذاب قبر میں اہل حدیث اسی کے مقلد ہیں اس کی رائے میں بلا روح جسد کو عذاب ہوتا تھا اس سے قبل کسی کی یہ رائے نہیں
اب ان نام نہاد اہل حدیثوں کو روایت میں المیت کا لفظ مل گیا کہ میت کو عذاب ہوتا ہے یعنی وہی ابو عبدالله محمد بن کرام سجستانی نیشابوری کا عقیدہ انہوں نے پھیلایا اور اس کی تبلیغ شروع کی تقسیم ہند سے قبل ان کے علماء اس کے قائل نہ تھے دیکھئے فتاوی اہل حدیث

المیت جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ایک ذات ہوتی ہے کیونکہ موت انے پر انسان تقسیم ہو چکا ایک جسد دوسری روح
روح ہم نہیں دیکھتے لہذا زبان و ادب میں اس کا حوالہ نہیں دیا جاتا بلکہ جسد جو ٹھوس ہوتا ہے اسی کو میت کہا جاتا
لیکن اس یہ مطلب نہیں کہ اگر اس کی روح کے لئے کچھ کہنا ہو تو خاص روح کا لفظ بولا جائے گا

ہم اردو میں کہتے ہیں جب کوئی مرتا ہے :

وہ ہم کو چھوڑ کر چلے گئے

جبکہ میت سامنے ہوتی ہے تو سننے والا جانتا ہے کہ اس وقت روح کی بات ہو رہی ہے نہ کہ جسد کی

حدیث میں اتا ہے العبد کو عذاب ہوتا ہے اس کو کہا جاتا ہے تو نے نہ جانا نہ سنا
تو اس سے بھی مراد روح ہی ہے

کیا یہ قول زبان کے لہذا سے درست نہیں ؟ زبان و ادب میں جو گنجائش ہے اس کو سمجھتے ہوئے حدیث کی تطبیق قرآن سے ہو جاتی ہے

عود روح کے قائلین  مبہم بحثین کر کے ثابت کرتے ہیں کہ میت یعنی مردہ جسم کو عذاب ہوتا ہے
جو قرآن سے ثابت نہیں

پھر مردہ جو سنتا نہیں وہ چیخیں مارتا ہے وہ جو چیخ مارتا ہے کیا وہ خود اس کو سنتا ہے ؟
کہتے ہیں (صحیح بخاری کی ایک معلول حدیث دیکھئے مشکل الاثآر از امام الطحآوی) چیخ چوپائے سنتے ہیں یعنی چوپائے ہر وقت اس عذاب کو سن رہے ہیں کھانس کھا رہے ہیں فضا سے محظوظ ہو رہے ہیں بچے جن رہے ہیں دودھ دے رہے ہیں گویا یہ عذاب اور درد ناک چیخیں ان کو کوئی ضرر اور نفسیاتی اثر نہیں کرتیں-
ہر لحظہ اس زمین سے جس میں اربوں کھربوں جہنمی دفن ہیں ان کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں اور چوپایوں پر کوئی اثر نہیں؟
عذاب الہی ہے یا کیا ہے ؟

خود غور کریں کیا اصل ایمان ہے …. کیا دھرم ہے ؟

الله ہم کو اور ان کو ہدایت دے

[/EXPAND]

[کیا متقدمین مفسرین سماع الموتی کے قائل تھے اور متاخرین مثلا مودودی صاحب اور عبد الوہاب النجدی سماع الموتی کے انکاری ہیں ؟]

جواب

مودودی صاحب سماع کے انکاری نہیں اس کے لئے رسائل و مسائل دیکھئے- ان کے نزدیک مردہ کی روح ہو سکتا ہے قبر میں نہ ہو اور اس کو پکارا جا رہا ہو – لیکن یہ کہنے کا مقصد یہ نہی ہے کہ مردہ نہیں سن سکتا
http://www.rasailomasail.net/5128.html

محمد بن عبدالوہاب کے نزدیک مردے سنتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ امام ابن تیمیہ کا ہے اور دونوں علماء سماع الموتی کے قائل ہیں
https://books.google.com.bn/books?id=RNJLCwAAQBAJ&pg=PT363&lpg=PT363&dq=سماع+الموتى+عبدالوهاب&source=bl&ots=clZK71oZ-h&sig=jVy1sXU60XEJvdZIIxdw0UnUHbU&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwidvq-Ws4_LAhUDsJQKHVfyDyUQ6AEIGjAA#v=onepage&q=%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%B9%20%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D8%AA%D9%89%20%D8%B9%D8%A8%D8%AF%D8%A7%D9%84%D9%88%D9%87%D8%A7%D8%A8&f=false

صفحه ٣٦٤ پر النجدی کہتے ہیں کہ مردے کا سننا صورت حال پر مبنی ہے
مقید بحال دون حال لا فی جمیع حالاتہ

كتاب الآيات البينات في عدم سماع الأموات على مذهب الحنفية السادات أز الوسی كي مطابق
وَتبين أَيْضا مِنْهُ مُوَافقَة ابْن جرير الطَّبَرِيّ الْمُجْتَهد وَغَيره للحنفية فِي عدم السماع لِأَنَّهُ لما نفى الْحَيَاة فَمن الأولى أَن يَنْفِي السماع أَيْضا كَمَا لَا يخفى على كل ذِي فهم غير متصعب فَلَا تغفل

أور إس بحث سے واضح ہو جاتا ہے کہ ابن جریر الطبری اور احناف کا عدم سماع کا موقف سے مراد ہے کہ جب انہوں نے زندگی کی نفی کی تو سماع الموتی کی نفی بھی ہوئی جو مخفی نہیں کسی بھی ذی فہم اور تعصب سے عاری شخص پر

ابن جریر الطبری کس دور کے ہیں ؟ کیا یہ متاخرین میں سے ہیں – سارا مقدمہ یہیں فوت ہو جاتا ہے نعمان الوسی بھی مفسر قرآن ہیں یہ بھی سماع الموتی کے انکاری ہیں
ابن حزم بھی انکاری ہیں
حنابلہ میں القَاضِي أَبُو يعلى بھی انکاری ہیں
ابن الجوزی بھی انکاری ہیں
متعدد احناف متقدمین انکاری ہیں
سماع الموتی کی انکاری تو عائشہ رضی الله عنہا بھی ہیں امت کی سب سے بڑی فقیہ
جس کے قائل سماع الموتی کے قائل بھی ہیں
ابن تیمیہ فتوی ج ١ ص ٣٤٩ میں لکھتے ہیں

وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَذَا مُوَافِقٌ لِهَذَا فَكَيْفَ يَدْفَعُ ذَلِكَ ؟ وَمِنْ الْعُلَمَاءِ مَنْ قَالَ : إنَّ الْمَيِّتَ فِي قَبْرِهِ لَا يَسْمَعُ مَا دَامَ مَيِّتًا كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ

اور بے شک صحیحین سے یہ ثابت ہے اور دیگر کتب سے بے شک میت جوتوں کی چاپ سنتی ہے جب دفنانے والے پلٹتے ہیں پس یہ موافق ہے اس (سننے ) سے لہذا اس کو کیسے رد کریں؟ اور ایسے علماء بھی ہیں جو کہتے ہیں : بے شک میت قبر میں نہیں سنتی جب تک کہ وہ مردہ ہے جیسے کہ عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا

ابن رجب الحنبلی کتاب میں لکھتے ہیں
قال الحافظ ابن رجب: وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء
اور عائشہ رضی الله عنہآ سے انکار سماع میں موافقت بہت سے علماء نے کی ہے

عربی کی شد بد، عائشہ رضی الله عنہآ سے زیادہ کس کو ہو سکتی ہے؟ لہذا یہ بحث بھی بے وزن ہے

بلفرض یہ مان لیا جائے کہ مردے سنتے ہیں، تو اب اس کا فائدہ کیا ہے؟ لوگ اگر جا کر قبر پر مردوں کو بول بھی دیں تو آگے اس کا فائدہ
اس کی دلیل کہاں ہے کہ یہ مردے الله سے بھی کلام کرتے رہتے ہیں؟ لہذا یہ بحث اس طرح ختم نہیں ہوتی اس کے لئے ایک مصنوعی نظم کا عقیدہ اپنانا ہوتا ہے جس پر ١٠ سے ١٥ ضعیف روایات پر عقیدہ بنایا ہوتا ہے کہ

مردہ میں عود روح ہوا ،
مردہ نے سنا
مردہ کی روح واپس آسمان میں گئی
وہاں رب سے ہم کلام ہوئی
واپس آ کر جسد میں بھی گئی تاکہ یہ سلسلہ چلے
جبکہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں

[/EXPAND]

[اہل حدیث علماء کہتے ہیں مردہ عود روح کے بعد بھی مردہ ہے اور چاپ سننا استثنائی معاملہ ہے آپ کی کیا رائے ہے؟]

جواب

بعض جھل مرکب علماء نے یہ قول اختیار کیا ہے جو اصل میں ہمارے اعتراض کا جواب نہ بن پڑنے پر انہوں نے زمانہ حال میں اختیار کیا ہے کہ عود روح کے بعد بھی مردہ مردہ ہے زندہ نہیں اس میں ابو جابر دامانوی وغیرہم ہیں

لیکن حقیقت میں اہل حدیث غیر مقلد ہیں اور دین میں ان کا ارتقاء جاری ہے نہ صرف عمل میں بلکہ عقائد میں بھی

البانی کتاب آیات البینات از نعمآن الوسی پر تقریظ میں لکھتے ہیں

albani-qra-naal

مولوی نزیر حسین لکھتے ہیں

nazeer-murda-murda-nahi

سن ٢٠٠٠ کے لگ بھگ کافی سوچ بچار کر کے اہل حدیث علماء نے ایک نیا عقیدہ اختیار کیا اور اس کی تبلیغ شروع کی

اس میں ان کے سر خیل ابو جابر دامانوی ہیں انہوں نے بتایا کہ عود روح ہونے پر مردہ کو مردہ ہی کہو

گویا اپنے سلف سے کٹ کر انہوں نے ایک نیا موقف گھڑا اور آج کل اس کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے وہ متقدمین سے چلا آ رہا ہو

[/EXPAND]

[صحیح مسلم کی موسی علیہ السلام کی قبر میں نماز پڑھنے والی روایت کی کیا اسنادی حثیت ہے]

جواب

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات ایک سرخ ٹیلے کے پاس قبر میں دیکھا اور اس میں ہے وہ نماز پڑھ رہے تھے

جواب

صحیح بخاری میں  أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ موسی علیہ السلام کی قبر ارض مقدس کے رخ پر سرخ ٹیلے کے پاس ہے

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات ایک الكثيبِ الأَحمر  سرخ ٹیلے کے پاس قبر میں دیکھا اور اس میں ہے وہ نماز پڑھ رہے تھے

یہ روایت حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ البصری ، وَسُلَيْمَانَ سليمان بن طرخان التَّيْمِيِّ البصری ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ کی  سند سے آئی ہے- یعنی سليمان بن طرخان التيمى البصری اور ثابت البنانی البصری دونوں سے یہ منقول ہے

کتاب  المعجم الأوسط  از الطبراني  میں اس کی  ایک سند ابو سعید الخدری سے بھی ہے لیکن وہ ضعیف ہے

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ مُحَمَّدٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، نا صِلَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي مَرَرْتُ بِمُوسَى وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ»

لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَوْفٍ إِلَّا صِلَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، تَفَرَّدَ بِهِ: مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ

صِلَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ نے بیان کیا کہ عَوْفٌ الأَعْرَابِيُّ البصری نے عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ کی سند سے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات ایک الكثيبِ الأَحمر  سرخ ٹیلے کے پاس قبر میں دیکھا اور اس میں ہے وہ نماز پڑھ رہے تھے

امام بخاری تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں

صِلَة بْن سُليمان.  لَيْسَ بذلك القوي.

قَالَ أَبو الأَسود: حدَّثنا صِلَة بْن سُليمان، أَبو زَيد الواسِطِيّ، سَمِعَ عَوفًا، مُرسلٌ.

صِلَة بْن سُليمان قوی نہیں ابو الاسود نے کہا عوف سے سنا (پر) مرسل ہے

اس سلسلے کی صحیح سمجھے جانے والی روایت سليمان بن طرخان التيمى المتوفی ١٤٣ ھ اور  ثابت بن أسلم البنانى المتوفي ١٢٣ ھ یا ١٢٧ھ  کی سند سے ہے یہ دونوں بصرہ کے ہیں اور ایک طرح اس میں بصریوں  کا تفرد بنتا ہے کیونکہ اس کی کوئی اور صحیح سند نہیں ہے بلکہ ضعیف والی بھی  ایک بصری عوف الأَعْرَابِيُّ  سے ہے  یعنی یہ موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا صرف بصریوں نے روایت کیا ہے انس رضی الله عنہ کے دیگر شاگرد اور اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم اس کو بیان نہیں کرتے- کسی ایک ہی علاقہ میں روایت کا پروان چڑھنا عجیب بات ہے جبکہ یہ عقیدہ کی بات ہے

بحر الحال چونکہ یہ روایت ایک خاص معجزاتی رات کے حوالے سے ہے– امام مسلم نے اس کو فضائل موسی علیہ السلام میں سے سمجھا ہے اور فضائل کسی ذات پر مخصوص ہوتے ہیں اگر تمام پر مانا جائے تو خصوصیت ختم ہو جائے گی لہذا قرین قیاس ہے کہ امام مسلم اس کو صرف موسی علیہ السلام کا ایک خاص واقعہ کہنا چاہتے ہیں ورنہ اس کو فضائل انبیاء میں سب کے باب میں لکھا جانا چاہیے تھا- اب جب یہ خاص ہے تو دلیل نہ رہا کیونکہ یہ کوئی عموم نہیں

ابن حبان اس کے قائل تھے کہ یہ خاص ہے لیکن ان کے نزدیک موسی علیہ السلام کو زندہ کیا گیا  چناچہ ابن حبان صحیح میں تبصرہ میں  کہتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا قَادِرٌ عَلَى مَا يَشَاءُ، رُبَّمَا يَعِدُ الشَّيْءَ لِوَقْتٍ مَعْلُومٍ، ثُمَّ يَقْضِي كَوْنَ بَعْضِ ذَلِكَ الشَّيْءِ قَبْلَ مَجِيءِ ذَلِكَ الْوَقْتِ، كَوَعْدِهِ إِحْيَاءَ الْمَوْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَجَعْلِهِ مَحْدُودًا، ثُمَّ قَضَى كَوْنَ مِثْلِهِ فِي بَعْضِ الْأَحْوَالِ، مِثْلَ مَنْ ذَكَرَهُ اللَّهُ وَجَعَلَهُ اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا فِي كِتَابِهِ، حَيْثُ يَقُولُ: {أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ} إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَكَإِحْيَاءِ اللَّهِ جَلَّ وَعَلَا لِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ بَعْضَ الْأَمْوَاتِ، فَلَمَّا صَحَّ وجودُ كَوْنِ هَذِهِ الْحَالَةِ فِي الْبَشَرِ، إِذَا أَرَادَهُ اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَمْ يُنْكَرْ أَنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا أَحْيَا مُوسَى فِي قَبْرِهِ حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، وَذَاكَ أَنَّ قَبْرَ مُوسَى بِمُدَّيْنِ بَيْنَ الْمَدِينَةِ وَبَيْنَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَرَآهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو فِي قَبْرِهِ إِذِ الصَّلَاةُ دُعَاءٌ، فَلَمَّا دَخَلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ وَأُسْرِيَ بِهِ، أُسْرِيَ بِمُوسَى حَتَّى رَآهُ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ

ابو حاتم ابن حبان کہتے ہیں الله جل و علا جو چاہے کرنے پر قادر ہے ، کبھی وہ چیز کو گنتا ہے ایک مقررہ وقت کے لئے اور حکم کرتا ہے کسی چیز پر قبل از وقت جسے مردوں کو زندہ کرنے کا وعدہ قیامت کے دن اور اس کو محدود کرتا ہے پھر اسی طرح کا حکم کرتا ہے جیسا اس نے کتاب میں ذکر کیا ہے {أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ} اور اسی طرح الله کا عیسیٰ کے لئے مردوں کو زندہ کرنا پس جب بشر کی اس حالت کی خبر صحیح ہے اور الله نے اس کا ارادہ قیامت سے پہلے کیا تو اس کا انکار نہیں کریں گے کہ الله نے موسی کو قبر میں زندہ کیا معراج کی رات پر جب رسول الله ان پر گزرے اور یہ موسی کی قبر مدینہ اور بیت المقدس کے درمیان ہے پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہوں قبر میں دعائیں کرتے دیکھا پس جب بیت المقدس میں داخل ہوئے تو معراج ہوئی تو موسی کو بھی ہوئی اور ان کو چھٹے آسمان پر دیکھا

لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا  سوال پیدا ہوا کہ موسی علیہ السلام کس طرح قبر میں، بیت المقدس میں اور چھٹے آسمان پر تھے – بہت سے لوگوں نے مثلا السبکی اور  ابن تیمیہ نے اس سے یہ نکالا کہ روح سریع الحرکت ہوتی ہے لہذا موسی علیہ السلام،  براق کے بغیر یکایک ایک مقام سے دوسرے مقام تک چلے گئے-

امام بخاری اس کے برعکس اس موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنے والی روایت کو صحیح میں نہیں لکھتے اور روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا گھر کو قبریں نہ بناو ان میں نماز پڑھو یعنی قبر میں نماز نہیں ہے –

یہ روایت  حماد بن سلمہ کے علاوہ دیگر رآویوں سے اس طرح بھی آئی ہے

مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ

میں موسی پر گزرا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے

 قبر میں یعنی برزخ میں  ان کو ان کے مقام میں دیکھا

یہ رائے  ابن حزم کی ہے ابن حزم الملل و النحل میں  لکھتے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے شب معراج میں موسی علیہ السلام کو انکی قبر میں کھڑے نماز پڑھتے دیکھا آپ نے یہ بھی خبر دی کہ آپ نے انھیں چھٹے یا ساتویں آسمان میں دیکھا کوئی شک نہیں کہ آپ نے محض انکی روح دیکھی ان کا جسم بلا شبہ خاک میں پوشیدہ ہے لہذا اس بنا پر روح کا مقام قبر کہلاتا ہے وہیں اس پر عذاب ہوتا ہے اور وہیں  اس سے سوال ہوتا ہے جہاں وہ ہوتی ہے

موسی علیہ السلام صاحب شریعت و کتاب نبی تھے آج کی رات نماز کے بارے میں ان سے گفتگو بھی ہونی ہے لہذا ان کی نماز کا طریقہ دکھایا گیا جو برزخ میں دیکھا گیا

  الفاظ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ یا سرخ ٹیلہ صرف حماد بن سلمہ بن دينار کی سند سے آئے ہیں اور یہ الفاظ اشارہ کرتے ہیں کہ قبر زمین میں تھی اب یہ بات ہے تو ممکن ہے یہ حماد بن سلمہ البصری کی غلطی ہو کیونکہ آخری عمر میں حماد بن سلمہ  اختلاط کا شکار تھے- امام بخاری کو ان سے خطرہ تھا لہذا ان سے کوئی روایت نہیں لی –  ابن سعد کہتے ہیں ثقة كثير الحديث وربما حدث بالحديث المنكر، حماد ثقہ ہیں لیکن کبھی منکر روایت بھی بیان کرتے ہیں

الغرض روایت ایک خاص واقعہ کے بارے میں ہے- لہذا دلیل نہیں

دوم اس میں سرخ ٹیلے کے الفاظ میں حماد بن سلمہ البصری کا تفرد ہے جو اختلاط کا شکار تھے

سوم حماد بن سلمہ کی کوئی بھی روایت امام بخاری نے نہیں لکھی

طبقات ابن سعد کے مطابق اس روایت کے راوی ثابت البنانی دعا کرتے تھے

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ: إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا الصَّلاةَ فِي قَبْرِهِ فَأَعْطِنِي الصَّلاةَ فِي قَبْرِي

کہ اے الله اگر تو نے کسی کو قبر میں نماز کی اجازت دی تو مجھے بھی یہ دے

اگر موسی علیہ السلام قبر میں نماز پڑھتے ہوتے تو ثابت کہتے جس طرح موسی کو دی اسی طرح مجھے بھی دے لیکن وہ کہتے ہیں اگر کسی کو یہ چیز ملی

[/EXPAND]

[کیا مردہ کفار کا گوشت سانپ کھا جاتا ہے ؟]

جواب

یہ ایک معلول روایت میں بیان ہوا ہے

کتاب المسند فی عذاب القبر ص ١٨٩ پر ارشد کمال روایت پیش کرتے ہیں کہ

arshad-189

بیہقی کی اثبات عذاب القبر کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبُو سَعِيدٍ قَالَا: ثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ، نَا مُحَمَّدٌ، نَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «إِنَّ الْكَافِرَ يُسَلَّطُ عَلَيْهِ فِي قَبْرِهِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ، فَيَأْكُلُ لَحْمَهُ مِنْ رَأْسِهِ إِلَى رِجْلِهِ ثُمَّ يُكْسَى اللَّحْمُ فَيَأْكُلُ مِنْ رِجْلِهِ إِلَى رَأْسِهِ، فَهَذَا مَكْرٌ لَكَ

سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں یقیناً کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھا مسلط کر دیا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک اس کا گوشت کھاتا رہتا ہے – پھر اس پر دوبارہ گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جسے وہ دوبارہ پاؤں سے سر تک کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک) جاری رہے گا

یہ روایت  مصنف ابن ابی شیبہ اور عبدللہ بن احمد کی کتاب السنہ میں بھی  روایت کی گئی ہے

اس کی سند میں  جَرِيْرُ بنُ حَازِمِ بنِ زَيْدِ بنِ عَبْدِ اللهِ بنِ شُجَاعٍ الأَزْدِيُّ ہیں جو ثقہ ہیں لیکن اختلاط کا شکار ہو گئے تھے

یہ  عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ سے سنی ہوئی جَرِيْرُ بنُ حَازِمِ کی واحد روایت ہے

کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط کے مطابق

 فحجبه أولاده فلم يسمع منه أحد في حال اختلاطه وقال أبو حاتم تغير قبل موته بسنة.

جب اختلاط ہوا تو انکی اولاد نے چھپا دیا پس کسی نے ان سے نہیں سنا اور ابو حاتم کہتے ہیں موت سے ایک سال پہلے تغیر ہو گیا

اس کے باوجود کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق   کے مطابق

ابن معین کہتے ہیں ابن معين وهو في قتادة ضعيف ، قتادہ سے روایت کرنے میں ضعیف ہیں

سوالات المروذي  کے مطابق

وقال المروذي: سألته (يعني أبا عبد الله) عن جرير بن حازم. فقال: في بعض حديثه شيء وليس به بأس

میں نے امام احمد سے جرير بن حازم کے بارے میں پوچھا ، کہا اس کی احادیث میں کوئی چیز ہے اور ان میں بذات خود برائی نہیں

تهذيب التهذيب از ابن حجر کے مطابق

مهنى بن يحيى، عن أحمد: جرير، كثير الغلط

مهنى بن يحيى، احمد سے نقل کرتے ہیں کہ جریر کافی غلطیاں کرتے تھے

کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال  کے مطابق  بخاری کہتے ہیں

وقال البخاري: ربما يهم في الشئ.

ان کو کبھی کبھی وہم ہو جاتا

وقال الأثرم: قال أحمد: جرير بن حازم، حدث بالوهم بمصر ولم يكن يحفظ

الأثرم کہتے ہیں احمد کہتے ہیں کہ جریر کو مصر میں روایات میں وہم ہوا ہے  اور یہ یاد نہ رکھ سکے

الغرض جریر ثقه ہیں اور ان کی روایات جو بخاری و مسلم میں ہیں صحیح ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر کتب کی روایات بھی صحیح سمجھی جائیں

جریر کا عبدللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ سے سماع بھی مشکوک ہے کیونکہ

ابو داوود کی سند ہے

حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ،

الجامع أبو محمد عبد الله بن وهب بن مسلم المصري القرشي (المتوفى: 197هـ) کی سند ہے

جرير بن حازم والحارث ابن نبهان، عن أيوب السختياني، عن ابن أبي مليكة، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم؛

سنن دارقطنی کی سند ہے

نا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ

جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ اور عبدللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ کے درمیان أيوب ابن أبي تميمة السختياتي ہیں جو اس زیر بحث اژدھا والی روایت میں مفقود ہے

اغلبا جریر نے اختلاط کی حالت میں اس کو بیان کیا ہو گا کیونکہ انہوں نے عبدللہ بن ملیکہ سے براہ راست نہیں سنا لیکن یہ واحد رویت ہے جو وہ عبدللہ ابن ملیکہ سے نقل کر رہے ہیں

اس کی مثال بھی ہے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں  احمد کے بیٹے کہتے ہیں

حَدثنِي أبي قَالَ سَمِعت عَفَّان يَقُول اجْتمع جرير بن حَازِم وَحَمَّاد بن زيد فَجعل جرير بن حَازِم يَقُول سَمِعت مُحَمَّدًا سَمِعت شريحا فَجعل حَمَّاد يَقُول يَا أَبَا النَّضر عَن مُحَمَّد عَن شُرَيْح عَن مُحَمَّد عَن شُرَيْح

 میرے باپ نے بیان کیا کہ میں نے عفان کو سنا کہ جریر بن حازم اور حَمَّاد بن زيد جمع ہوئے تو  جرير بن حَازِم نے کہا سَمِعت مُحَمَّدًا سَمِعت شريحا  اس پر  حَمَّاد بن زيد نے کہا  اے أَبَا النَّضر عَن مُحَمَّد عَن شُرَيْح عَن مُحَمَّد عَن شُرَيْح 

یعنی جریر نے  تحدث کے الفاظ کا لحاظ نہ رکھا  انہوں نے سمعت بول دیا جس کی تصحیح حماد بن زید نےکی

اس روایت میں بھی جریر نے کہا ہے جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ

جو اوپر دے گئے حوالوں سے واضح ہے کہ غلطی ہے کیونکہ انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے نہیں سنا

بخاری و مسلم کے راوی خطاء سے پاک ہیں

غیر مقلدین کا ایک خود ساختہ اصول ہے کہ ثقه غلطی نہیں کرتا جس کی بنا پر علم حدیث میں انہوں نے ضعیف روایات تک کو حسن و  صحیح قرار دے دیا ہے

یہ لوگ اپنی سادگی میں پوچھتے ہیں کہ

آپ کے بقول بخاری کے راوی ضعیف وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو آپ پھر بھی اس کی روایات نقل کیوں کرتے ہیں ؟

اس کا جواب ابن حجر النکت میں دیتے ہیں

قلت : ولا يلزم في كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحاً ، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة

میں کہتا ہوں اور کسی روایت کی اسناد میں اگر صحیح کا راوی ہو تو اس سے وہ حدیث صحیح نہیں ہو جاتی کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ اس میں شذوذ یا علت ہو

حسين بن ذكوان العوذي البصري  کے لئے الذھبی ، سيرالاعلام میں لکھتے ہیں

 وقد ذكره العقيلي في كتاب الضعفاء له بلا مستند وقال : مضطرب الحديث … قلت ( الذهبي ) : فكان ماذا؟ فليس من شرط الثقة أن لا يغلط أبدا

 عقیلی نے انکو الضعفاء میں بلاوجہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے : مضطرب الحديث میں (الذھبی) کہتا ہوں یہ کیا ہے؟ ثقہ ہونے کی یہ شرط کہاں ہے کہ وہ کبھی غلط نہیں ھو سکتا

الذھبی کتاب الموقظة في علم مصطلح الحديث میں لکھتے ہیں

وليس مِن حَدِّ الثقةِ أنَّهُ لا يَغلَطُ ولا يُخطِئ

اور ثقه کی حد میں یہ نہیں کہ غلطی نہ کرے اور خطاء نہ کرے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

ليس من شرط الثقة أن يكون معصوما من الخطايا والخطأ “الميزان 2/ 231

یہ روایت شاذ ہے

امام بخاری  کی صحیح کی اس روایت سے اسمیں شذوز کا اندازہ ہو جاتا ہے

صحیح  بخاری ، کتاب التفسیر ، باب : سورۃ عم یتسالون(نبأ) کی تفسیر کا بیان

بَاب : يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا زُمَرًا

 باب : اس دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم فوج در فوج چلے آؤ گے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ قَالَ ثُمَّ يُنْزِلُ اللہُ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُونَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

 ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان (کی مدت) چالیس ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ساتھیوں نے پوچھا کیا اس سے چالیس دن مراد ہیں؟ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا ، لوگوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہے؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر پوچھا کیا چالیس سال؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر کہا کہ اللہ آسمان سے بارش برسائے گا تو اس سے مردے جی اٹھیں گے جس طرح سبزہ (بارش) سے اگتا ہے ، انسانی جسم کے تمام حصے سڑجاتے ہیں مگر عجب الذنب کی ہڈی (باقی رہتی ہے) اور اسی سے قیامت کے دن اس (انسان) کی ترکیب ہوگی

 الله تعالی  سوره ق میں کہتا ہے  کہ

قد علمنا ما تنقص الأرض منهم وعندنا كتاب حفيظ

بے شک ہم جانتے ہیں جو زمین ان  (کے جسموں) میں سے کھاتی ہے اور ہمارے پاس کتاب حفیظ ہے

اب بتائیں کیا کریں اس واضح نصوص کو جھٹلا دیں کہ کسی راوی کی چند روایات امام بخاری اور امام مسلم نے لکھ لی ہیں جب کہ انہوں نے یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ یہ راوی معصوم عن الخطاء ہیں اوران بیان کردہ ہر

 روایت صحیح ہے

ایک طرف تو صحیح بخاری کی ابو ھریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی اوپر والی روایت ہے دوسری طرف ان سے منسوب یہ روایت بھی پیش کی جاتی ہے

 ابوہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وإن کان من أھل الشک قال: لا أدري سمعت الناس یقولون شیئا فقلتہ فیقال لہ: علی الشک حییتَ وعلیہ متَّ وعلیہ تُبعث۔ ثم یفتح لہ باب إلی النار وتسلط علیہ عقارب وتنانین لو نفخ أحدھم علی الدنیا ما أنبتت شیئا تنھشہ وتؤمر الأرض فتنضم علیہ حتی تختلف أضلاعہ

اور مردہ  شک کرنے والوں میں سے ہو تو وہ (فرشتوں کے سوالوں کے جواب میں ) کہتا ہے: میں نہیں جانتا۔ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تھا اور میں نے بھی وہی بات کہی۔ اسے کہا جاتا ہے کہ شک پرتوزندہ رہا، شک پر ہی تیری موت ہوئی اور شک پر ہی تو دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔پھر اس کی قبر کے لئے جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس پر اس قدر زہریلے بچھو اور اژدہا مسلط کردیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک زمین پرپھونک مار دے تو کوئی چیز پیدا نہ ہو۔ چنانچہ وہ بچھو اور اژدہے اسے کاٹتے رہتے ہیں ۔ زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس پر تنگ ہوجا، چنانچہ (زمین اس پراس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ) اسکی ایک طرف کی پسلیاں دوسری پسلیوں میں دھنس جاتی ہیں

المعجم الأوسط از طبرانی  کی اس روایت  کی سند میں  ابْنُ لَهِيعَةَ  ہے جو سخت ضعیف راوی ہے اور دوسرے اس میں موسى بن جبير الأنصارى ، المدنى ، الحذاء ہے جس کو ابن حجر مستور کہتے ہیں . ایسی مبہم روایت کہ اژدہا پھونک مار دے اور کچھ  نہ اگے نہ پنپ سکے  اس دنیا کا معاملہ تو نہیں ہو سکتا  یہاں  اس دنیا میں مغرب میں سینکڑوں قبرستان باغ  و چمن معلوم ہوتے ہیں . آپ کا عقیدہ اگر ایسی روایت پر ہے تو اس سے تو یہود و نصاری کا عذاب سے محفوظ ہونا ثابت ہوتا ہے

[/EXPAND]

[بعض علماء کے مطابق سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو بھی قبر نے دبوچہ تھا ؟ کیا اس کی اسناد صحیح ہیں؟]

ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

ان صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ (جو بہت ہی بلند پایہ صحابی ہیں)پر دفن کے وقت قبر تنگ ہو گئی تھی مگر پھر ہمیشہ کے لئے کشادہ کر دی گئی اور ان پر قبر کی تنگی کی وجہ یہ تھی کہ پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط کے سلسلہ میں ان سے کوتاہی سرزدہو جایا کرتی تھی۔امام البہیقی رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ امیہ بن عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے بعض افراد سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد موجود ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس سلسلہ میں دریافت کیا توا نہوں نے ارشاد فرمایا کہ وہ پیشاب سے پاکیزگی کے سلسلہ میں کچھ کمی کیا کرتے تھے ۔ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ طبقات الکبریٰ میں بسند (اخبر شبابۃ بن سواداخبرنی ابو معتر عن سعید المقبری) روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دفن کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی قبر کی تنگی اور دبانے سے بچتا تو سعد رضی اللہ عنہ ضرور بچ جاتے۔حالانکہ انہیں پیشاب کے اثر کی وجہ سے (یعنی جو بے احتیاطی سے پیشاب کرنے میں چھینٹیں پڑ جاتی ہیں ان کی وجہ سے) اس طرح دبایا کہ ان کی ادھر کی پسلیاں ادھر ہو گئیں۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج۱ص۲۳۲۔اس واقعہ کی پوری تفصیل طبقات ابن سعد‘ مرعاۃ المفاتیح ‘کتاب الروح اور سنن البہیقی وغیرہ میں موجود ہے۔

روایات کے مطابق سعد رضی الله عنہ کو قبر کے دبوچنے کا واقعہ عین تدفین کے قورا بعد پیش آیا

مسند احمد کی جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کی روایت ہے

جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِينَ تُوُفِّيَ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ، سَبَّحَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَبَّحْنَا طَوِيلًا، ثُمَّ كَبَّرَ فَكَبَّرْنَا، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ الله، لِمَ سَبَّحْتَ؟ ثُمَّ كَبَّرْتَ؟ قَالَ: «لَقَدْ تَضَايَقَ عَلَى هَذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتَّى فَرَّجَهُ الله عَنْهُ

جابر کہتے ہیں ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جس دن سعد کی وفات ہوئی پس جب نبی نے ان کی نماز جنازہ پڑھ لی ان کو قبر میں رکھا اور اس کو ہموار کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله کی پاکی بیان کی بہت دیر تک پھر تکبیر کہی پس پوچھا گیا اے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپ نے تسبیح کیوں کی تھی کہا کہا بے شک تنگی ہوئی اس صالح بندے پر اس کی قبر میں پھر  الله نے اس کو فراخ کیا

معجم طبرانی کی ابن عباس رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ سعد رضی الله عنہ پر یہ عذاب تدفین پر ہوا

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مِقْلَاصٍ، ثنا أَبِي، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُما، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ دُفِنَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَى قَبْرِهِ قَالَ: «لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ لَنَجَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ رُخِّيَ عَنْهُ

سعد رضی الله عنہ پر عذاب کی یہ خبر سنن النسائی میں بھی ہے جس کو البانی صحیح کہتے ہیں اور الصحیحہ میں اس کے طرق نقل کر کے اس عذاب کی خبر کو صحیح کہتے ہیں

سعد بن معاذ رضی الله عنہ کی شہادت غزوہ خندق ٥ ہجری میں ہوئی. اس وقت تک مومن پر  عذاب القبر کا بتایا نہیں گیا. مومن پر عذاب قبر کی خبر سن ١٠ ہجری میں دی گئی جیسا کہ بخاری کتاب الکسوف میں بیان ہوا ہے لہذا یہ روایت صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے

سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ اہل جنت میں ہیں.  شہید تو الله کی بارگاہ میں سب سے مقرب ہوتے ہیں ان کے گناہ تو خوں کا پہلا قطرہ گرنے پر ہی معاف ہو جاتے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ایک  رومال نبی صلی الله علیہ وسلم کو تحفتا پیش کیا گیا . صحابہ کو حیرانگی ہوئی کہ کتنا اچھا رومال ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

والذي نفسي بيده لمناديل سعد بن معاذ في الجنة خير منها

اور وہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے سعد بن معاذ کا رومال جنت میں اس سے بہتر ہے

معلوم ہوا سعد بن معاذ رضی الله عنہ تو جنت میں ہیں اور ان پر نعوذ باللہ عذاب قبر کیوں ہو گا

ابن حجر کتاب فتح الباری ج ١ ص ٣٢٠ میں لکھتے ہیں

وَمَا حَكَاهُ الْقُرْطُبِيُّ فِي التَّذْكِرَةِ وَضَعَّفَهُ عَنْ بَعْضِهِمْ أَنَّ أَحَدَهُمَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَهُوَ قَوْلٌ بَاطِلٌ لَا يَنْبَغِي ذِكْرُهُ إِلَّا مَقْرُونًا بِبَيَانِهِ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى بُطْلَانِ الْحِكَايَةِ الْمَذْكُورَةِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَضَرَ دَفْنَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ كَمَا ثَبَتَ فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ وَأَمَّا قِصَّةُ الْمَقْبُورَيْنِ فَفِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ عِنْدَ أَحْمَدَ أَنَّهُ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُمْ مَنْ دَفَنْتُمُ الْيَوْم هَا هُنَا فَدَلَّ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَحْضُرْهُمَا وَإِنَّمَا ذَكَرْتُ هَذَا ذَبًّا عَنْ هَذَا السَّيِّدِ الَّذِي سَمَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيِّدًا وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ وَقَالَ إِنَّ حُكْمَهُ قد وَافق حُكْمَ الله وَقَالَ إِنَّ عَرْشَ الرَّحْمَنِ اهْتَزَّ لِمَوْتِهِ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنْ مَنَاقِبِهِ الْجَلِيلَةِ خَشْيَةَ أَنْ يَغْتَرَّ نَاقِصُ الْعِلْمِ بِمَا ذَكَرَهُ الْقُرْطُبِيُّ فَيَعْتَقِدَ صِحَّةَ ذَلِكَ وَهُوَ بَاطِلٌ

اور القرطبی نے کتاب التذکرہ میں جو حکایت کیا ہے اور اس میں سے بعض کو ضعیف کہا ہے جن میں سے ایک  سعد بن معاذ رضی للہ عنہ (کے بارے میں ہے) پس وہ سب باطل ہے اس کا ذکر نہیں کیا جانا چاہئے سوائے مقرؤنا اور جو چیز اس حکایت مذکورہ کے بطلان  پر بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کو سعد بن معاد کے دفن پر کہا جبکہ الْمَقْبُورَيْنِ والا قصہ جو  حدیث  ابو امامہ جو (مسند) احمد میں اس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ  آج تم نے ادھر کس کو دفن کیا؟ پس یہ دلیل ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کے ساتھ (سعد کی) تدفین پر نہیں تھے اور بے شک ان لوگوں (قرطبی وغیرہ) نے اس کو اس سید (سعد رضی اللہ عنہ) کی تنقیص میں ذکر کیا ہے جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے  سردار کہا اور اپنے صحابہ کو کہا کہ سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ اورکہا کہ انکا حکم الله کےحکم کے مطابق ہے اور کہا کہ بےشک رحمان کا عرش ان کی موت پر ہلا اور اسی طرح کے دیگر مناقب جلیلہ  ذکر کے پس ڈر ہے کہ کوئی ناقص علم غلطی پر ا جائے اور ان کو صحیح کہے اور یہ (روایت) باطل ہے 

سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو قبر نے دبوچا دو وجہ سے صحیح نہیں

اول یہ واقعہ سن ٥ ہجری میں پیش آیا جبکہ مومن پر عذاب قبر کا سن ١٠ ہجری میں بتایا گیا

دوم ابن حجر کے مطابق اس تدفین کے موقعہ پر اپ صلی الله علیہ وسلم موجود نہیں تھے جبکہ سعد پر عذاب کی روایت کے مطابق اپ صلی الله عالیہ وسلم نے ہی نماز جنازہ پڑھائی اور اسی تدفین کے موقعہ پر عذاب ہوا

الله کا شکر ہے کہ حال ہی میں ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں اس کو بالاخر رد کرتے ہیں

اللہ ہم سب کو ہدایت دے

[/EXPAND]

[حدیث میں ہے کہ میت کو اس کے اہل کے رونے پر عذاب  جبکہ آپ کہتے ہیں عذاب روح کو ہوتا ہے ؟]

صحیح مسلم کی روایت ہے

حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقالت: رحم الله أبا عبد الرحمن، سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: «أنتم تبكون، وإنه ليعذب»

حماد بن زيد کہتے ہیں ہم سے هشام بن عروة نے بیان کیا ان سے انکے باپ نے کہا عائشہ رضی الله تعالی عنہا کے سامنے ابن عمر رضی الله تعالی عنہ کی بات کا ذکر ہوا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، پس اس پر آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا الله رحم کرے ابو عبد الرحمان پر انہوں نے سنا لیکن یاد نہ رکھ سکے. بے شک الله کے نبی صلی الله علیہ  وسلم ایک یہودی کے جنازہ پر  گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے اپ نے فرمایا یہ اس پر روتے ہیں اور اس کو عذاب دیا جا رہا ہے

یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور بالکل واضح ہے کہ میت پر عذاب ہو رہا تھا  تدفین سے پہلے

صحیح مسلم کی اس روایت کو اہل حدیث حضرات سنن ابی داود، مسند احمد وغیرہ کی روایات سے رد کرتے ہیں.

ایک اہل حدیث عالم  ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

 ڈاکٹر موصوف ….لکھتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک یہودی (عورت) پر گذرے۔ بریکٹ میں لکھتے ہیں (قبر پر نہیں) یعنی حدیث لکھنے میں بھی جھوٹ بول رہے ہیں اور دھوکا دینا چاہتے ہیں اور شروع شروع میں موصوف نے اس حدیث پر اسٹیکر بھی شائع کیا تھا کہ عذاب ارضی قبر میں نہیں بلکہ برزخی قبر میں ہوتا ہے اور جب ان کی گرفت کی گئی تو سارے اسٹیکر غائب ہو گئے۔ اس حدیث کا سیاق کیا ہے اور ڈاکٹر موصوف اس سے کیا مسئلہ ثابت کرنے کے درپے ہے اور پھر یہ اصول ہے کہ ایک حدیث کی وضاحت دوسری حدیث کرتی ہے۔ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے جس پس منظر میں یہ بات بیان کی ہے اسے محدثین نے مختلف سندوں سے ذکر کیا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے جواب میں بیان کی تھی:

ان المیت لیعذب فی قبرہ ببکائِ اھلہ (علیہ) (بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل:۳۹۷۸۔ مسلم ۹۳۲

’بیشک البتہ میت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اس کے اہل کے اس پر رونے کے سبب سے۔

 اس حدیث میں میت اور قبر دونوں الفاظ موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کو اسکی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا انکار نہیں کیا بلکہ انکا موقف یہ تھا کہ نوحہ کی وجہ سے مومن کو عذاب نہیں ہوتا بلکہ کافر کے عذاب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ لَیَزِیْدُ الْکَافِرَ عَذَابًا بِبُکَائِ اَھْلِہٖ عَلَیْہِ

 اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب میں زیادتی کر دیتا ہے، اس کے گھر والوں کے اُس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے۔ (دیکھئے بخاری:۱۲۸۸) ۔

 اور دوسری روایت میں انہوں نے ذکر کیا کہ دراصل یہ بات نبی ﷺ نے یہودیہ کے متعلق فرمائی تھی۔ ایک اور روایت میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ الفاظ مروی ہیں:

انما مر النبی ﷺ علی قبر فقال ان صاحب ھذا لیعذب و اھلہ یبکون علیہ (مسند احمد ۲/۳۸، ابوداود مع عون المعبود ۳/۱۶۳، النسائی ۱/۲۶۲)

 ’’رسول اللہ ﷺ ایک قبر پر سے گذرے پس فرمایا کہ بے شک اس صاحب (قبر) کو عذاب دیا جارہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں‘‘۔

 

ایک دوسرے اہل حدیث عالم لکھتے ہیں

سنن ابی داود میں یہی حدیث مکمل تفصیل کے ساتھ بسند صحیح موجود ہے

حدثنا هناد بن السري، ‏‏‏‏عن عبدة، ‏‏‏‏وأبي، ‏‏‏‏معاوية – المعنى – عن هشام بن عروة، ‏‏‏‏عن أبيه، ‏‏‏‏عن ابن عمر، ‏‏‏‏قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم “‏إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه “‏‏.‏ فذكر ذلك لعائشة فقالت وهل – تعني ابن عمر – إنما مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبر فقال “‏إن صاحب هذا ليعذب وأهله يبكون عليه “‏‏.‏ ثم قرأت ‏‏‏‏{ولا تزر وازرة وزر أخرى ‏}‏ قال عن أبي معاوية على قبر يهودي ‏‏

 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“ یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کی گئی، تو انہوں نے کہا: (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھول گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تھے، تو فرمایا تھا ”بیشک یہ قبر والا عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت پڑھی «ولا تزر وازرة وزر أخرى»”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“ ہناد نے ابومعاویہ سے روایت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کی قبر کےپس سے گزرے تھے۔)

 لھذا یہ ایک ہی واقعہ ہے جسے راویوں کے اختصار نے آپ کےلئے معمہ بنادیا ،اور آپ اس اختصار پر خوابوں کامحل بنانے لگے

جواب

افسوس صحیحین کی روایات بھی اہل حدیث کے نزدیک مکمل نہیں

هشام بن عروة سے اس روایت کو سننے والے آٹھ راوی ہیں

١. عبدة بن سليمان  نسائي، مسند أحمد، أبي داود میں روایت ہے اور  قبر پر گزرنے کے الفاظ  ہیں

٢. أبو معاويه أبي داود میں روایت ہے  قبر پر گزرے کے الفاظ ہیں

٣. حماد بن سلمة   سے مسند أحمد میں روایت ہے  قبر پر گزرے  کے الفاظ ہیں

٤. حماد بن زيد صحيح مسلم ،  سنن الکبریٰ بیہقی ، مسند أبي یعلی میں روایت ہے   جنازے پر گزرنے کے الفاظ ہیں

٥. همام الأزدي يحيي بن دينار   مسند احمد میں روایت ہے ، قبر میں عذاب کے الفاظ ہیں

٦. وكيع بن جراح سے  صحيح مسلم میں روایت ہے الفاظ ہیں إنه ليعذب بذنبه و إن أهله ليبكون عليه الآن ، قبر یا جنازہ کے الفاظ نہیں

٧. أبو اسامة صحيح بخاري میں روایت ہے الفاظ ہیں  إنه ليعذب بذنبه و إن أهله ليبكون عليه الآن ، قبر یا جنازہ کے الفاظ نہیں

٨. عبدالله بن نمير مسند أحمد میں روایت ہے الفاظ ہیں قبر یا جنازہ کے الفاظ نہیں

تین راویوں عبدالله بن نمير، أبو اسامة، وكيع بن جراح  نے نہ قبر کا ذکر کیا، نہ جنازہ کا لہذا معاملہ بقیہ راویوں پر آ گیا

عبدة بن سليمان، أبو معاويه، حماد بن سلمة   نے قبر پر گزرنے کا ذکر کیا ہے اور ان کی مخالفت کی ہے حماد بن زيد نے

اب محدثین اس بارے میں کیا کہتے ہیں دیکھتے ہیں

أبي زرعة الرازي کے الفاظ کتاب أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية  نقل ہوئے ہیں

حماد بن زيد أثبت من حماد بن سلمة بكثير، أصح حديثاً وأتقن

حماد بن زيد ،حماد بن سلمة سے بہت زیادہ مظبوط راوی ہیں انکی حدیث زیادہ صحیح اور أتقان (قابل یقین) والی ہیں

سوالات الجنید میں ہے کہ یحییٰ ابن معین سے سوال ہوا

حماد بن سلمة أحب إليك أو حماد بن زيد؟ فقال يحيى: حماد بن زيد أحفظ

حماد بن سلمة  اپ کو پسند ہے یا حماد بن زيد پس یحییٰ نے کہا حماد بن زيد یاد رکھنے والے ہیں

 کتاب تہذیب التہذیب کے مطابق

وقال محمد بن المنهال الضرير سمعت يزيد بن زريع وسئل ما تقول في حماد بن زيد وحماد بن سلمة أيهما أثبت قال حماد بن زيد

محمد بن المنهال الضرير کہتے ہیں میں نے سنا يزيد بن زريع سے سوال ہوا کہ اپ کیا کہتے ہیں کون زیادہ ثبت ہے حماد بن زيد یا حماد بن سلمة کہا حماد بن زيد

 عبدة بن سليمان أبو محمد الكلابي الكوفي اور محمد بن خازم أبو معاوية الضرير  بھی ثقه ہیں لیکن حماد بن زيد بن درهم الأزدي  ان دونوں سے زیادہ ثقه  ہیں

وقال الخليلي ثقة متفق عليه رضيه الأئمة قال والمعتمد في حديث يرويه حماد ويخالفه غيره

الخليلي کہتے ہیں حماد بن زيد  بالاتفاق ثقه ہیں ائمہ ان سے راضی ہیں اور حدیث جس کو یہ روایت کریں اور دوسرے انکی مخالفت کریں تو اس  میں  حماد بن زيد قابل اعتماد ہیں

بخاری میں یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی ہے

حَدَّثَنا عَبْدُ الله بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا: سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ الله عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يَبْكِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا، فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا»

اس روایت کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم یہودیہ پر سے گزرے تھے (تدفین سے پہلے) جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے

لہذا مسلم کی روایت نسائی اور ابی داود کی روایت سے  زیادہ قابل اعتبار ہے   جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے جنازہ پر گزرنے کے الفاظ ہیں  اور اس کی تائید صحیح بخاری کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ میت کی تدفین نہیں ہوتی تھی لیکن عذاب قبر ہو رہا تھا . عذاب کا شروع ہونا تدفین کے لئے ضروری نہیں  کیونکہ روح فرشتے لے کر جا چکے

مسند ابی یعلی  اور ابی داود کی سند میں عبدہ بن سلیمان ہیں وہ روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ». فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ: وَهَلْ تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ فَقَالَ: «إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ لَيُعَذَّبُ وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ» ثُمَّ قَرَأَتْ هَذِهِ الْآيَةَ {وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام: 164]

نبی صلی الله علیہ وسلم قبر پر گزرے اور کہا إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ لَيُعَذَّبُ  اس قبر کے صاحب کو عذاب ہو رہا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ اسی قبر میں عذاب ہو رہا ہے

ابن جوزی کتاب تلبیس ابلیس میں عذاب قبر کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہیں

فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار

پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ  سے تعريفا   قبروں اور اجساد کی طرف  (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش  میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف  میں

 صاحب قبر کے الفاظ واضح کر رہے ہیں کہ عذاب دنیاوی قبر میں نہیں ہو رہا تھا

اللہ تعالی اس بات کا پابند نہیں کہ وہ اس وقت تک عذاب شروع نہ کرے جب تک ہم میت کی تدفین نہیں کرتے

صحیح مسلم  کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ کِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ يَحْيَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ إِنَّهُ أَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا مُتَقَلِّدِينَ بِسُيُوفِهِمْ قَالَ فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَکْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّی أَلْقَی بِفِنَائِ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ فَکَانَ رَسُولُ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ قَالَ فَأَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِکُمْ هَذَا قَالُوا لَا وَالله لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَی الله قَالَ أَنَسٌ فَکَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ کَانَ فِيهِ نَخْلٌ وَقُبُورُ الْمُشْرِکِينَ وَخِرَبٌ فَأَمَرَ رَسُولُ الله صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّخْلِ فَقُطِعَ وَبِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ قَالَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةً وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً قَالَ فَکَانُوا يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُمْ يَقُولُونَ اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْفَانْصُرْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ

یحیی بن یحیی، شیبان بن فروخ، عبدالوارث، یحیی، عبدالوارث ابن سعید، ابی تیاح، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے اور شہر کے بالائی علاقہ کے ایک محلہ میں تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں چودہ راتیں قیام فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو نجار کو بلوایا وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے حاضر ہوئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور بنو نجار آپ کے ارد گرد تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوایوب کے گھر کے صحن میں اترے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں نماز کا وقت پاتے وہیں نماز پڑھ لیتے تھے یہاں تک کہ بکریوں کے باڑہ میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور بنو نجار کو بلوایا جب وہ آئے تو فرمایا تم اپنا باغ مجھے فروخت کر دو انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس باغ کی قیمت نہیں لیں گے ہم اس کا معاوضہ صرف اللہ تعالی سے چاہتے ہیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس باغ میں جو چیزیں تھیں انہیں میں بتاتا ہوں اس میں کچھ کھجوروں کے درخت، مشرکین کی قبریں اور کھنڈرات تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دئے گئے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں اور کھنڈرات ہموار کر دئیے گئے اور کہجور کی لکڑیاں قبلہ کی طرف گاڑھ دی گئیں اور اس کے دونوں طرف پتھر لگا دئیے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رجزیہ کلمات پڑھ رہے تھے۔ اے اللہ! بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کی قبریں اکھاڑ دیں اس پر کہا جاتا ہے کہ اس روایت میں یہ نہیں کہ

قبریں اکھاڑ کر پھینکنے کا مطلب یہ نہیں کہ 6 فٹ کھود کر مردہ نکال کر باہر پھینک دیا، بلکہ اس کا مقصد ان پر بنے قبے اکھاڑ کر ہموار کرنا ہے، تاکہ نماز ادا کی جا  سکے

کیا علمی نکتہ سنجی ہے گویا ابھی تک مسجد النبی میں مشرکوں کے جسم دفن ہیں. نبی صلی الله علیہ وسلم انکے اصحاب سب ان قبروں پر نماز پڑھتے رہے ؟  ایسی مسجد میں تو نماز ہی نہیں ہو سکتی جہاں قبر ہو

بخاری کی روایت میں الفاظ فأمر النبي صلى الله عليه و سلم بقبور المشركين فنشبت   ہیں

نبش کھود کر کسی چیز کو نکالنا ہی ہے نہ کہ پس اوپر سے سطح ہموار کرنا

ایک دوسری روایت  میں ہے کہ عروہ کہتے تھے کہ وہ بقیع میں دفن ہونا نہیں چاہتے  تھے کہ ان کی وجہ سے کسی اور کی قبر کھودی جائے کہتے تھے کہ

وَإِمَّا صَالِحٌ فَلَا أُحِبُّ أَنْ تُنْبَشَ لِي عِظَامُهُ

اور اگر وہ صالح ہے تو میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میرے لئے اس کی ہڈیاں کھودی جائیں

یہاں بھی نبش کا لفظ ہے

الله سمجھنے کی توفیق دے

[/EXPAND]

[قرع النعال والی روایت پر سوال ہے ]

ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے کہ بخاری کی حدیث میں ہے

’اَلْعَبْدُ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَ تُوُلِّیَ وَ ذَھَبَ اَصْحَابُہٗ حَتّٰی اِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ فَاَقْعَدَاہُ‘‘جب بندہ قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر اُن کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے آجاتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں

جبکہ مسلم کی حدیث میں آتا ہے

 إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا

بے شک میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ جوتیوں کی چاپ سنتی ہے جب وہ پلٹتے ہیں

اس کی تطبیق کس طرح ممکن ہے؟

جواب

محدثين جب روايات بیان کرتے ہیں تو بعض دفعہ روایت میں الفاظ کم بھی کر دیتے ہیں اور بعض بڑھا بھی دیتے ہیں

اس کی بہت کی مثالیں ہیں مثلا کسوف کا واقعہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے  گرہن کی نماز پڑھانی-  اس میں رکعات کا اختلاف ہے کہ کتنی تھیں-  جمہور علماء کی رائے میں ایک ہی دفعہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھی ہے لیکن بخاری مسلم میں ہی اس کی مختلف روایات ہیں جن میں رکعات کی تعداد میں اختلاف ہے

ان مسائل میں تمام طرق اکھٹے کر کے دیکھا جاتا ہے کہ کس نے کیا کہا اور کس نے مکمل بیان کیا اور کس نے مختصر کیا- اصول یہ ہے کہ صحیح السند روایت جو مطول ہو اس سے استنباط کیا جاتا ہے

یہی اس قرع النعال والی روایت کا معاملہ ہے اس کے تمام طرق اکھٹے کیے جائیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ

مسلم کے استاد  مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِيرُ نے اس قرع النعال والی روایت کو کو مختصر کر دیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کو يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ سے سنا ہے – امام بخاری نے يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ کی سند سے اس کو مکمل بیان کیا ہے- اسی طرح نسائی نے بھی اس   کو يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ کی سند سے مختصرا بیان کیا ہے

عجلي  الثقات میں کہتے ہیں

قَالَ أَحْمَد العِجْلِيّ: بصْريٌّ ثقة، لَم يكن لَهُ كتاب. قلتُ لَهُ: لك كتاب؟ قَالَ: كتابي صدري

مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِير بصری ثقہ ہیں لیکن ان کے پاس کتاب نہ تھی (یعنی لکھتے نہ تھے) میں نے ان سے کہا کیا کتاب ہے ؟ بولے کتاب میرا سینہ ہے

ظاہر ہے یہ اختصار اسی وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اس کو اپنے حافظہ کی بنیاد پر روایت کیا نہ کہ کتاب سے

یہی روایت سنن ابی داود میں عَبْدُ الْوَهَّابِ ابْنَ عَطَاءٍ نے مختصر کر دی ہے جنہوں نے اس کو سعید بن ابی عروبہ سے روایت کیا ہے – امام بخاری،  امام  ابی داود کے استاد عَبْدُ الْوَهَّابِ ابْنَ عَطَاءٍ  کو  لَيْسَ بِالقَوِيِّ کہتے ہیں سیر الاعلا م النبلاء از الذھبی – امام مسلم اور امام احمد نے اس روایت  کو سعید بن ابی عروبہ کی سند سے ہی  مطول روایت کیا ہے جس میں فرشتوں کی چاپ کا ذکر ہے

لہذا مطول کو چھوڑ کر مختصر سے دلیل لینا صحیح نہیں – لیکن مطلب براری کے لئے لوگوں کو صحیح بات بتانے کے بجائے ان کو گمراہ کیا جاتا ہے

قرع النعال والی روایت میں ایک میں قبر کی وسعت کا بھی ذکر ہے

البانی،   المنذری کی مختصر صحيح مسلم پر تعلیق میں کہتے ہیں

قلت: الحديث دون الفسح في القبر من رواية قتادة عن أنس رضي الله عنه، وأما الفسح فهو من روايته مرسلا، وكذلك وقع في “البخاري” وأحمد (3/ 126) وعندهما زيادة بلفظ

میں کہتا ہوں حدیث میں قبر کو وسیع کرنا قتادہ کی انس رضی الله عنہ کی روایت میں ہے اور جہاں تک اس کا تعلق ہے یہ مرسل روایت کیا گیا ہے اور ایسا بخاری اور احمد میں ہے اور ان میں ان الفاظ کی زیادت ہے

اسی کتاب میں البانی نے متن میں کہا ہے کہ   زاد في رواية: إذا انصرفوا اس نے روایت میں ذیادت کی کہ جب وہ جاتے ہیں

معلوم ہوا کہ البانی اس کو جانتے ہیں کہ  الفاظ إذا انصرفوا  اور اسناد میں نہیں اور زیادت ہیں

اس کو اور رخ سے بھی دیکھیں امام احمد باوجود  یہ کہ قر ع النعال والی روایت کو مسند میں روایت کرتے ہیں لیکن جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت پر  عمل نہیں کرتے اور قبرستان میں داخل ہونے سے پہلے جوتیاں اتارنے کا حکم کرتے تھے ظاہر ہے نہ جوتیاں ہوں گی نہ ان کی چاپ کا سوال اٹھے گا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله  کے مطابق

وَقَالَ أبي يخلع نَعْلَيْه فِي الْمَقَابِر

میرے باپ (احمد ) کہتے ہیں قبرستان میں نعل اتار دو

 وَكَانَ يَأْمر بخلع النِّعَال فِي الْمَقَابِر

امام احمد حکم دیتےتھے کہ قبرستان میں  نعل اتار دو

رَأَيْت ابي اذا اراد ان يدْخل الْمَقَابِر خلع نَعْلَيْه وَرُبمَا رَأَيْته يُرِيد ان يذهب الى الْجِنَازَة وَرُبمَا لبس خفيه اكثر ذَلِك وَينْزع نَعْلَيْه

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ جب قبرستان میں داخل ہوتے تو جوتے اتار دیتے

امام احمد کے بیٹے کتاب العلل ومعرفة الرجال میں لکھتے ہیں

رَأَيْت أبي إِذا دخل الْمَقَابِر يخلع نَعْلَيْه فَقلت لَهُ إِلَى أَي شَيْء تذْهب فَقَالَ إِلَى حَدِيث بشير بن الخصاصية

میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ قبرستان میں اتے تو جوتے اتارتے پس میں نے کہا کس بنا پر اس کو کیا؟ انہوں نے کہا حدیث بشیر بن الخصاصية  سے لیا

 ابی داود کتاب میں لکھتے ہیں

رَأَيْتُ أَحْمَدَ إِذَا تَبِعَ جِنَازَةً فَقَرِبَ مِنَ الْمَقَابِرِ خَلَعَ نَعْلَيْهِ

میں نے احمد کو دیکھا جب وہ جنازہ کے پیچھے قبرستان کے پاس پہنچتے تو جوتے اتار دیتے

کتاب  مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق امام احمد

فلما سلم خلع نعليه ودخل المقابر في طريق [عامية] 2 مشياً على القبور حتى بلغ القبر

پس جب (نماز جنازہ سے)  سلام پھرنے کے بعد جوتے اتارتے اور قبرستان میں داخل ہوتے  حتی کہ قبر تک پہنچتے

امام احمد کا عمل قرع النعال والی روایت پر نہیں بلکہ  بشیر بن الخصاصية   کی روایت پر تھا جو ابو داود نے بَابُ الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ میں  روایت کی ہے جس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ قرع النعال سے زیادہ صحیح روایت تھی ورنہ اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر عمل کیوں تھا

  ابن قدامة  المغني  ج 2 ص ٤٢١ میں کہتے ہیں
قال الإمام أحمد رحمه الله  إسناد حديث بشير بن الخصاصية جيد أَذْهَبُ إلَيْهِ، إلَّا مِنْ عِلَّةٍ

امام احمد کہتے ہیں بشير بن الخصاصية والی حدیث کی اسناد جید ہیں اسی پر مذھب ہے سوائے اس کے کہ کوئی علت ہو

 [/EXPAND]

[حدیث میں ہے تم دفنانا چھوڑ دو اگر عذاب قبر سن لو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب ارضی قبرمیں ہے؟]

جواب

عربی زبان میں جملة الشرط کی ابتداء إنْ – إذا – لَو کے الفاظ سے ہوتی ہے.  لو کا لفظ جملہ الشرط میں استمعال ہوتا ہے جسے  کہ

لو كُنتُ غَنياً لساعَدتُ الكَثيرَ من الفُقَراء

اگر میں غنی ہوتا ، تو بہت سے غریبوں کی مدد کرتا

قرآن میں یونس علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ

فلولا أنه كان من المسبحين للبث في بطنه إلي يوم يُبْعَثُونَ

پس اگر بے شک یہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، تو اس (مچھلی) کے پیٹ میں ہی تا قیامت رہتے

حدیث میں اتا ہے

عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ قَالَ كَذَا كَانَ يَقُولُ الْجُرَيْرِيُّ فَقَالَ مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَائِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ  

صحیح مسلم کتاب الجنۃباب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار علیہ واثبات عذاب القبر والتعوذ منہ(حدیث نمبر ۷۲۱۳)مشکوۃ ص ۲۵
زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ (ایک بار) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اچانک خچر بد کا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا دے ناگہاں پانچ، چھ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان قبروں کے اندر جو لوگ ہیں کوئی ان کو جانتا ہے؟ ایک شخص نے کہا میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس حال میں مرے ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا شرک کی حالت میں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے
پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ تم دفن نہ کرو گے، میں الله سے دعا کرتا کہ تم کو عذاب القبر سنوا دے جو  میں اس میں سے سنتا ہوں

صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں

فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ

پس اگر ایسا (گمان )نہ ہوتا کہ تم دفن  کرنا چھوڑ دو  گے، میں الله سے دعا کرتا کہ تم کو عذاب القبر سنوا دے جو  میں اس میں سے سنتا ہوں

اس کا مفہوم  یہ ہے کہ اگر تم  اپنے مردوں کو دفن نہ کرو گے (اور ان کو جلانا وغیرہ شروع کر دو گے  )  تو میں الله سے دعا کرتا  کہ تم کو عذاب سنوا دے

ایک مفہوم  یہ بھی لیا جا سکتا ہے اگر میت  کی روح کو البرزخ میں ہونے والا عذاب سن لو   تو تم اتنے دہشت زدہ ھو جاؤ کہ میت کے جسد کے پاس بھی نہ پھٹکو یہاں تک کہ اس کو دفن بھی نہ کرو

 قائلین عود روح  اس کا ترجمہ اپنے مفہوم  پر کرتے ہیں

اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر سنا دے جسطرح کہ میں سنتا ہوں۔ 

مسلم  کی روایت کا مفہوم   قائلین عود روح کے نزدیک یہ ہے اگر عذاب اس ارضی قبر میں نہیں ہوتا تو ایسا نہیں کہا جاتا حالانکہ اس کا مطلب یہ بھی ھو جاتا ہے کہ اگر کوئی میت کو دفن نہ کرے تو میت عذاب سے بچ  جائے گی؟ چونکہ یہ مہمل بات ھو جاتی ہے لہذا یہ اس کا مفہوم  نہیں ھو سکتا-    عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا تو عذاب سنوانے کی بات نہ کی جاتی  بلکہ عذاب دکھانے کی بات کی جاتی کیونکہ قبریں سامنے تھیں

منافقین کے حوالے سے  مسند ابی یعلی کی روایت  کے الفاظ ہیں

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَزَالُ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ آمِنَيْنِ حَتَّى تَرُدُّوهُمْ، عَنْ دِينِهِمْ كِفَاءَ رَحِمِنَا» قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي الْجَنَّةِ أَنَا أَمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «فِي الْجَنَّةِ» ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ آخَرُ فَقَالَ: أَفِي الْجَنَّةِ أَمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «فِي النَّارِ» ثُمَّ قَالَ: «اسْكُتُوا عَنِّي مَا سَكَتُّ عَنْكُمْ  فلولا أن لا تدافنوا  لأخبرتكم بملئكم من أهل النار حتى تفرقوهم  عند الموت

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا … پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ تم دفن نہ کرو گے، تو میں تم کو خبر دیتا تم میں سے اہل النار کے بارے میں حتیٰ کہ تم ان سے موت پر  علیحدہ ھو

مسلم کی طرح اس روایت میں  بھی یہی ہے کہ تم دفن نہ کرو گے ، یعنی تم کو ان منافق لوگوں سے اتنی نفرت ھو گی کہ تم ان کو قبر ہی نہ دو گے

ان  دونوں روایتوں کے الفاظ پر غور کریں کہ عذاب کا تعلق تدفین سے نہیں  –  یعنی منافقین کا علم ہونے پر اصحاب رسول ان کو دفن ہی نہ کرتے- کیا اس  سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عذاب اس دنیا کی قبر میں نہیں ہوتا

اگر نبی صلی الله علیہ وسلم نے اصحاب رسول کو بتایا تھا کہ عذاب اسی ارضی قبر میں ہے اور پھر وہ منافق کا بھی بتا دیتے تو ان کو ڈر تھا کہ اصحاب رسول ان منافقوں کو دفن ہی نہ کرتے

اگر عذاب اسی ارضی قبر میں ہے تو اصحاب رسول ضرور منافق کو دفن کرتے اور کوئی خدشہ نہ رہتا کہ یہ دفن نہ کریں گے
اس پر غور کریں

چونکہ مسند ابی یعلی کی روایت سے قائلین عود روح کے عقیدے پر زک پڑتی ہے انہوں نے اسکو ضعیف کہا ہے

اسکی سند ہے

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ

ضعیف  ہونے   کی دلیل میں  کہا جاتا ہے اس کی سند  میں  لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ ہے  –  مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ کی لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ سے روایت کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے مثلا سنن ابن ماجہ ح ٢٣٠  –

کتاب الجرح و التعدیل از ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)  (4/48 رقم 207 کے مطابق سعید بن عامر میں بھی کوئی برائی نہیں ہے

سعيد بن عامر روى عن ابن عمر روى عنه ليث بن أبي سليم سمعت أبي يقول ذلك حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال: لا يعرف.
حدثنا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق [الهروي – 1] فيما كتب إلى نا عثمان بن سعيد قال: سألت يحيى بن معين قلت: سعيد ابن عامر الذي روى عن ابن عمر من هو؟ قال: ليس به باس.

سعید بن عامر جس نے ابن عمر سے روایت کیا ہے اور سعید سے لیث نے …… میں نے اپنے باپ سے سنا کہ میں اسکو نہیں جانتا  ……اور یحیی ابن معین سے اس پر سوال کا تو انہوں نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں

یعنی اگرچہ میرے باپ سعید  بن عامرکو پہچان نہ سکے لیکن  ابن معین کے نزدیک وہ مجھول نہ تھے بلکہ انکی روایت میں کوئی برائی نہیں

یعنی مسند ابی یعلی کی یہ روایت صحیح ہے اور اس پر جو اعتراض تھا وہ یحیی ابن معین کا قول پیش کر کے ابن ابی –

یعنی مسند ابی یعلی کی یہ روایت صحیح ہے اور اس پر جو اعتراض تھا وہ یحیی ابن معین کا قول پیش کر کے ابن ابی

 حاتم نے دور کر دیا

 پتا نہیں کس دل گردے کے مالک ہیں وہ لوگ جو عذاب اسی ارضی قبر میں مانتے ہیں اور پھر انہی قبروں  کے پاس گزرتے ہیں . قبرستان میں جہاں یہ پتا بھی  نہ ھو کہ کس قبر میں ابھی اس وقت عذاب کا دور گزر رہا ہے وہاں لوگ پاس جا کر کھڑے ھو جاتے ہیں

[/EXPAND]

آپ سے ایک سوال ہے کہ اگر قرآن واحایث کےبیان سے ہم صرف اور صر ف یہی زمینی گڑھا ( قبر) مراد لیں اور عقیدہ بنالیں کہ عذاب قبر اسی زمینی گڑ ھے میں ہوتا پے تو پھر بڑی بڑی سرکش اور نافرمان قومیں جسیے قوم نوح .قوم عاد .قوم ثمود .قوم شعیب. قوم لوط .وغیرہ کو زمینی گڑھوں میں دفن ہی نہیں کیا گیا. کیاوہ عذاب قبر سے محفوظ رہے?]

جواب

عذاب کی خبر قرآن کی مکی سورتوں میں دی گئی مثلا قوم نوح یا قوم فرعون اس وقت تک قبر میں کسی بھی عذاب کی روایت نہیں ملتی بلکہ مدینہ پہنچنے پر مسجد النبی کی جگہ پر موجود مشرکین کی قبریں کھود دی گئیں
اس کا تعلق عالم بالا سے لیا جاتا رہا اور قرآن میں بھی اس کو النار یعنی جہنم کی اگ پر پیش ہونا کہا گیا ہے جو ظاہر ہے اس دنیا کا حصہ نہیں ہے

جن قوموں کو تباہ کیا گیا ان کی قبریں نہیں ہیں سوائے ایک شخص ابو رغال کے جو عذاب کے وقت حدود حرم میں تھا لہذا بچ گیا لیکن جیسے ہی حرم کی حدود سے نکلا ایک آسمان سے پتھر گرا اور اس کو ہلاک کر دیا گیا – ایک حدیث کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم سفر میں تھے تو کہا یہاں ابو رغآل کی قبر ہے کھود کر سونا نکال لو! سو صحابہ نے کھودا اور عذاب قبر وہاں نہیں تھا بلکہ سونا تھا اس کو لیا

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ بُجَيْرِ بْنِ أَبِي بُجَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: “أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَمَرُّوا عَلَى قَبْرِ أَبِي رِغَالٍ وَهُوَ أَبُو ثَقِيفٍ وَهُوَ امْرُؤٌ مِنْ ثَمُودَ، مَنْزِلُهُ بِحَرَّاءَ، فَلَمَّا أَهْلَكَ اللَّهُ قَوْمَهُ بِمَا أَهْلَكَهُمْ بِهِ مَنَعَهُ لِمَكَانِهِ مِنَ الْحَرَمِ، وَأَنَّهُ خَرَجَ حَتَّى إِذَا بَلَغَ هَاهُنَا مَاتَ، فَدُفِنَ مَعَهُ غُصْنٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَابْتَدَرْنَا، فَاسْتَخْرَجْنَاهُ”

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قوم ثمود کے شخص ابو رغال کی قبر کھودنے کا حکم دیا اور اس ثمودی کی قبر سے سونا نکلا
امام المزی اس کو حديث حسن عزيز کہتے ہیں- البانی ضعیف کہتے ہیں ان کی بنیاد بُجَيْرِ بْنِ أَبي بُجَيْرٍ پر ہے کہ یہ مہجول ہے
ابن حبان بھی اسکو صحیح کہتے ہیں اور صحیح میں ذکر کرتے ہیں

طحاوی مشکل الاثار میں اس کو صحیح مانتے ہوئے اس پر تبصرہ کرتے ہیں اور امام النسانی کا قول پیش کرتے ہیں پھر کہتے ہیں
فَكَانَ جَوَابُنَا لَهُ فِي ذَلِكَ بِتَوْفِيقِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَوْنِهِ: أَنَّهُ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ مَسْكَنُهُ فِي الْحَرَمِ , وَكَانَ مَعَ ثَمُودَ فِي الْمَوَاضِعِ الَّتِي كَانَتْ فِيهِ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ مِنْ مَعَاصِي اللهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَالْخُرُوجِ عَنْ أَمْرِهِ , فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْوَعِيدُ مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَخَافَ أَنْ يَلْحَقَهُ ذَلِكَ بِالْمَكَانِ الَّذِي هُوَ بِهِ , لَجَأَ إِلَى مَسْكَنِهِ فِي الْحَرَمِ , فَدَخَلَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْحَرَمَ فَمَنَعَهُ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ , عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِصَّةِ [ص:374] أَبِي رِغَالٍ أَيْضًا مَا يُوَافِقُ مَا فِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي دَاوُدَ مِمَّا ذَكَرْنَا.
یعنی طحاوی اس کو صحیح مانتے ہیں ورنہ کہتے ضعیف ہے اور رد کرتے

چونکہ اس سے مسلک پرستوں کے عقیدہ کا رد ہوتا ہے انکی کوشش رہی کہ اس روایت کو رد کریں ابن کثیر میدان میں کودے اور تفسیر میں لکھا
قال ابنُ كثير في “تفسيره” 3/ 440، وقال: وعلى هذا يُخشى أن يكون وهم في رفع هذا الحديث، وإنما يكونُ من كلام عبد الله بن عمرو، مما أخذه من الزاملتين، ثم قال: قال شيخنا أبر الحجاج [يعني المزي]، بعد أن عرضتُ عليه ذلك: وهذا محتمل، والله أعلم.
اور خطرہ ہے کہ یہ حدیث رفع کی گئی ہے اور ہو سکتا ہے یہ عبد الله بن عمرو کا کلام ہو جس کو انہوں نے اونٹنیوں پی سے لیا پھر کہا ہمارے شیخ المزی پر یہ بات پیش کی گئی انہوں نے کہا ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو

افسوس ایک صحابی پر اہل کتاب کی کتب چوری کرنے کا الزام ابن کثیر نے متعدد بار لگایا
اور المزی جو خود تہذیب الکمال میں اس روایت کو ضعیف نہیں کہتے وہ کیسے اس رائے سے متفق ہو سکتے ہیں
لہذا یہ روایت ضعیف نہیں ہے

خود بخاری کی حدیث میں مشرکین کی قبریں کھودنے کا ذکر ہے جس میں عذاب نہیں نکلا
لہذا زمینی گھڑا تو میت کی ستر پوشی کے لئے ہے کہ اس کو گلتا سڑتا دیکھ کر انسان کو گھن ائے گی اور کوئی اس کا مقصد نہیں ہے

اہل حدیث اور بریلوی ایک ہی جیسی روایات مانتے ہیں صرف نتائج کا فرق ہے-دونوں فرقے

عود روح کے قائل ہیں
میت کو قدموں کی چاپ سنواتے ہیں
انبیاء کی قبروں کی حیات کے قائل ہیں

اس لئے ان کے نتائج میں فرق ممکن نہیں اصل مسئلہ یہ روایات خود ہیں جو ہیں ہی ضعیف

[/EXPAND]

[وہابیوں اور اہل حدیث کے عقائد میں روح کے حوالے سے کیا  اختلاف ہے ؟ ]

جواب

مفتی بن باز سے سوال ہوا کہ قبض روح کے بعد روح کہاں جاتی ہے ؟ بن باز کہتے ہیں

http://www.binbaz.org.sa/noor/1495

روح المؤمن ترفع إلى الجنة، ثم ترد إلى الله -سبحانه وتعالى-، ثم ترد إلى جسدها للسؤال، ثم بعد ذلك جاء الحديث أنها تكون في الجنة، طائر يعلق بشجر الجنة، روح المؤمن ويردها الله إلى جسدها إذا شاء -سبحانه وتعالى-، أما روح الكافر تغلق عنها أبواب السماء، وتطرح طرحاً إلى الأرض وترجع إلى جسدها للسؤال، وتعذب في قبرها مع الجسد، نسأل الله العافية، أما روح المؤمن فإنها تنعم في الجنة، وترجع إلى جسدها إذا شاء الله، وترجع إليه أول ما يوضع في القبر حتى يسأل، كما جاء في ذلك الأحاديث الصحيحة عن رسول الله -عليه الصلاة والسلام-: (والمؤمن إذا خرجت الروح منه يخرج منها كأطيب ريح، يحسه الملائكة ويقولون ما هذه الروح الطيبة؟، ثم تفتح لها أبواب السماء حتى تصل إلى الله، فيقول الله لها: ردوها إلى عبدي فإني منها خلقتهم، وفيها أعيدهم، فتعاد روحه إلى الجسد ويسأل)، ثم جاءت الأحاديث بأن هذه الروح تكون في الجنة بشبه طائر بشكل طائر تعلق في أسفل الجنة، وأرواح الشهداء في أجواف طير خضر؟ أما روح المؤمنين فهي نفسها تكون طائر، كما روى ذلك أحمد وغيره بإسناد صحيح عن كعب بن مالك -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-. جزاكم الله خيراً

مومن کی روح بلند ہوتی ہے جنت کی طرف پھر اس کو الله تعالی کی طرف لے جاتے ہیں پھر اس کو جسم میں سوال کے لئے لوٹاتے ہیں پھر اس کے بعد حدیث میں اتا ہے یہ جنت میں جاتی ہے ایک پرندے کی طرح جنت کے درخت پر لٹکتی ہے  الله ،مومن کی روح کو جسم میں لوٹاتا ہے جب وہ چاہتا ہے اور جہاں تک کافر کی روح کا تعلق ہے اس پر آسمان کے دروازے بند ہو  جاتے ہیں اور اس کو پھینکا جاتا ہے زمین کی طرف اور جسم کو لوٹایا جاتا ہے سوال کے لئے اور قبر میں عذاب کے لئے جیسا کہ حدیث  صحیحہ میں آیا ہے  اور مومن کی روح جب نکلتی ہے اس میں سے ایک خوشبو نکلتی ہے اس کو فرشتے محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کیسی عمدہ خوشبو ہے پھر آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں یہاں تک کہ الله سے ملتی ہے اس سے اللہ کہتا ہے لوٹا دو میرے بندے کو اس سے میں نے ان کو تخلیق کیا ہے اور اس میں ہی لوٹا دوں گا پس روح جسد میں لوٹا دی جاتی ہے پھر سوال ہوتا ہے پھر احادیث میں آیا ہے یہ روح جنت میں ایک پرندے کی شکل میں جنت کے نیچے لٹکتی ہے اور شہیدوں کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں؟ اور مومنین کی ارواح تو یہ فی نفس ایک پرندہ ہی ہے جیسا کہ احمد نے صحیح اسناد کے ساتھ کعب رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے الله بہترین جزا دے

بن باز کہہ رہے ہیں کہ مومن کی روح تو جب جب الله چاہتا ہے جنت سے قبر میں لوٹا دیتا ہے  جبکہ اہل حدیث اس کو ایک استثنا کہہ کر صرف ایک ہی بار کے لئے محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں

یہی عقیدہ وہابیوں کا رسول الله کے حوالے سے ہے کہ جسد نبوی میں ایک مرتبہ نہیں  بلکہ ان پچھلی  ١٤ صدیوں میں ہر روز دن میں کئی مرتبہ روح ڈالی اور نکالی جاتی ہے

وہابیوں کے مطابق نہ صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم بلکہ عام شخص بھی عود روح کے بعد قبر میں سنتے ہیں جبکہ اس عقیدہ پر اہل حدیث دیوبندیوں اور بریلویوں پر گمراہ ہونے کا فتوی دیتے ہیں

[/EXPAND]

[عذاب قبر سے متعلق چند سوالات ہیں؟ ]

(۱)یہ ٹھیک ہے کہ ان احادیث میں روح کا جسم سے علیحدہ اور جنت میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔مگر کیا جنت کے اس مقام کو نبی ﷺ نے قبر قرار دیا ہے؟
(۲)قرآن وحدیث میں جہاں بھی ’’میت‘‘کے الفاظ ہیں(اور میت ہم سب جانتے ہیں کہ مردے کو کہا جاتا ہے جس کی روح پرواز کر جاتی ہے،مگر جسم ہمارے سامنے ہی ہوتا ہے جسے ہم دفناتے یا کفناتے ہیں) ان میں سے اکثر کے ساتھ ’’قبر‘‘کے الفاظ بھی ہیں یا ’’قبر کے احکام‘‘بھی مووجود ہیں مثلا دفنانا ،ان پر بیٹھنے کی ممانعت،انکی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا،انہیں پکا نہ بنانا۔وغیرہ وغیرہ۔۔اب اگر آپ جنت کے اس روح والے مقام کو’’قبر ‘‘قرار دے لیں گے توپھر اس کے احکام بھی بتانے پڑیں گے!؟
(۳)بعض ارواح کا مسکن عرش کے نیچے قندیل اور بعض کا جنت کے درخت ہیں تو کیا آپ ’’درخت‘‘ اور ’’قندیل‘‘کو ’’قبر ‘‘سمجھتے ہیں؟
(۴)کیا آپ ایک بھی آیت یا حدیث دکھا سکتے ہیں جس میں اس مقام کو نبی ﷺ نے’’قبر‘‘کہا ہو یا تشبیہ دی ہو قبر سے؟
(۵)جو احادیث آپ نے پیسٹ کی ہیں ان میں ’’قبر ‘‘کے الفاظ کہاں ہیں؟

جواب

اصل میں یہ بحث دو باتوں پر ہے

اول زمینی قبر کا کیا مقصد ہے؟
دوم عذاب قبر کہاں ہوتا ہے؟

زمینی قبر جس کو عرف عام میں قبر کہا جاتا ہے یہ میت یا جسد کا مقام ہے جہاں اس کو رکھا جاتا ہے تاکہ جسد مٹی میں تبدیل ہو جائے
اس جسد میں سے جان کی رمق نہیں ہوتی اور ہڈی میں بھی جان نہیں ہوتی
الله تعالی قرآن میں کہتے ہیں کہ وہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا

رسول الله صلي الله عليہ وسلم کے قول کہ جو مرا  فقد قَامَت قِيَامَته اس پر اسکي قيامت قائم ہوئي پر بحث کرتے ہوئے ابن حزم  (المتوفى: 456هـ) کتاب  الفصل في الملل والأهواء والنحل  ميں لکھتے ہيں

قَالَ أَبُو مُحَمَّد وَإِنَّمَا عَنى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِهَذَا الْقيام الْمَوْت فَقَط بعد ذَلِك إِلَى يَوْم الْبَعْث كَمَا قَالَ عز وَجل {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} فنص تَعَالَى على أَن الْبَعْث يَوْم الْقِيَامَة بعد الْمَوْت بِلَفْظَة ثمَّ الَّتِي هِيَ للمهلة وَهَكَذَا أخبر عز وَجل عَن قَوْلهم يَوْم الْقِيَامَة {يا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} وَأَنه يَوْم مِقْدَاره خَمْسُونَ ألف سنة وَأَنه يحيي الْعِظَام وَيبْعَث من فِي الْقُبُور فِي مَوَاضِع كَثِيرَة من الْقُرْآن وبرهان ضَرُورِيّ وَهُوَ أَن الْجنَّة وَالنَّار موضعان ومكانان وكل مَوضِع وَمَكَان ومساحة متناهية بِحُدُودِهِ وبالبرهان الَّذِي قدمْنَاهُ على وجوب تناهي الإجسام وتناهى كل مَا لَهُ عدد وَيَقُول الله تَعَالَى {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} فَلَو لم يكن لتولد الْخلق نِهَايَة لكانوا أبدا يحدثُونَ بِلَا آخر وَقد علمنَا أَن مصيرهم الْجنَّة أَو النَّار ومحال مُمْتَنع غير مُمكن أَن يسع مَا لَا نِهَايَة لَهُ فيماله نِهَايَة من الماكن فَوَجَبَ ضَرُورَة أَن لِلْخلقِ نِهَايَة فَإِذا ذَلِك وَاجِب فقد وَجب تناهى عَالم الذَّر والتناسل ضَرُورَة وَإِنَّمَا كلامنا هَذَا مَعَ من يُؤمن بِالْقُرْآنِ وبنبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَادّعى الْإِسْلَام وَأما من أنكر الْإِسْلَام فكلامنا مَعَه على مَا رتبناه فِي ديواننا هَذَا من النَّقْض على أهل الْإِلْحَاد حَتَّى تثبت نبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَصِحَّة مَا جَاءَ بِهِ فنرجع إِلَيْهِ بعد التَّنَازُع وَبِاللَّهِ تَعَالَى التَّوْفِيق وَقد نَص الله تَعَالَى على أَن الْعِظَام يُعِيدهَا ويحيها كَمَا كَانَت أول مرّة وَأما اللَّحْم فَإِنَّمَا هُوَ كسْوَة كَمَا قَالَ {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين}

امام ابن حزم نے کہا کہ بے شک رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے خبر دي قيام سے مراد فقط موت ہے کيونکہ اب اس کو يوم بعث پر اٹھايا جائے گا جيسا الله تعالي نے کہا {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون}  پھر تم کو قيامت کے دن اٹھايا جائے گا پس نص کي الله تعالي نے ان الفاظ سے کہ زندہ ہونا ہو گا قيامت کے دن موت کے بعد يعني يہ ايک ڈيڈ لائن ہے اور اسي طرح الله نے خبر دي قيامت پر اپنے قول سے  {يَا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا}  ہائے بربادي کس نے ہميں اس نيند کي جگہ سے اٹھايا  اور اس دن کي مقدار پچاس ہزار سال کي ہے اور بے شک اس نے خبر دي قرآن ميں اور برہان ضروري سے کثير مقامات پر کہ وہ ہڈيوں کو زندہ کرے گا اور جو قبروں ميں ہيں انکو جي بخشے گا  –  جنت و جہنم دو جگہيں ہيں اور مکان ہيں اور ہر مکان کي ايک حدود اور انتھي ہوتي ہے اور وہ برہان جس کا ہم نے ذکر کيا واجب کرتا ہے کہ اس ميں اجسام لا متناہي نہ ہوں اور گنے جا سکتے ہوں اور الله کا قول ہے {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض}   وہ جنت جس کي چوڑائي آسمانوں اور زمين کے برابر ہے اور ….  پس ضروري ہے کہ مخلوق کي انتھي ہو  … اور بے شک اللہ تعالي نے نص دي کہ ہڈيوں کو واپس شروع کيا جائے گا اور انکو زندہ کيا جائے گا جيسا پہلي دفعہ تھا اور جو گوشت ہے تو وہ تو اس ہڈي پر غلاف ہے جيسا الله نے کہا   {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين} اور بے شک ہم نے انسان کو خلق کيا مٹي سے پھر اس کا نطفہ ايک ٹہرنے والي جگہ کيا

ابن حزم بار بار الله تعالي کے قول کي ياد دہاني کرا رہے ہيں کہ موت کے بعد اجسام ہڈيوں ميں بدل جائيں گے اور زندہ بھي ہڈي کو کيا جائے گا پھر اس پر گوشت کا غلاف آئے گا لہذا يہ ظاہر ہے کان يا آلات سماعت تو گوشت کے ھوتے ہيں جب وہ ہي معدوم ہو جائيں تو انسان کيسے سنے گا

اس لئے قبر کا مقصد صرف یہی ہے کہ جسم کو مٹی مٹی کیا جائے اور ستر پوشی ہو ورنہ اس جسم کو جانور کھا جائیں گے

دوم دوسرا سوال ہے کہ عذاب قبر کہاں ہوتا ہے تو اس پر اہل سنت شروع سے دو رائے رہے ہیں ایک یہ کہ یہ البرزخ میں ہوتا ہے جو عالم بالا میں ہے دوسرا گروہ کہتا ہے یہ اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے
ہمارا تعلق اس گروہ سے ہےجو یہ کہتا ہے کہ یہ اس دنیا میں نہیں ہوتا – اس پر علماء کہتے ہیں

ابن الجوزی اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں کہ
فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار
پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ سے تعريفا (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف میں
امام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور
اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا
ابن حزم الأندلسي القرطبي الظاهري (المتوفى: 456هـ) اپنی کتاب المحلى بالآثار میں لکھتے ہیں کہ
وَلَمْ يَرْوِ أَحَدٌ أَنَّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ رَدَّ الرُّوحِ إلَى الْجَسَدِ إلَّا الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو، وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ
اور کسی نے یہ روایت نہیں کیا کہ عذاب القبر میں روح جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے سوائے الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو کے اور وہ قوی نہیں
اپنی دوسری کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں لکھتے ہیں کہ
لِأَن فتْنَة الْقَبْر وعذابه وَالْمَسْأَلَة إِنَّمَا هِيَ للروح فَقَط بعد فِرَاقه للجسد إِثْر ذَلِك قبر أَو لم يقبر
بے شک فتنہ قبر اور عذاب اور سوال فقط روح سے ہوتا ہے جسم سے علیحدہ ہونے کے بعد چاہے اس کو قبر ملے یا نہ ملے
ابن الخراط (المتوفى: 581هـ) کتاب العاقبة في ذكر الموت میں لکھتے ہیں
وَقد ضرب بعض الْعلمَاء لتعذيب الرّوح مثلا بالنائم فَإِن روحه تتنعم أَو تتعذب والجسد لَا يحس بِشَيْء من ذَلِك
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ روح کو عذاب ہوتا ہے مثلا سونے والے کی طرح پس اس کی روح منعم یامعذب ہوتی ہے اور جسد کوئی شے محسوس نہیں کرتا اس میں سے

محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ) کتاب العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں لکھتے ہیں
ثم لأهل السنة قولان؛ قيل: إن العذاب للروح فقط، وقيل: للروح والجسد والمشهور الثاني
پھر اہل السنہ ہے دو قول ہیں: کہتے ہیں کہ عذاب صرف روح کو ہے اور کہتے ہیں روح و جسد کو ہے اور دوسرا قول مشھور ہے

(۱)یہ ٹھیک ہے کہ ان احادیث میں روح کا جسم سے علیحدہ اور جنت میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔مگر کیا جنت کے اس مقام کو نبی ﷺ نے قبر قرار دیا ہے؟

حدیث میں یہ لفظ اس طرح نہیں آیا لیکن قرآن میں سوره عبس میں انسان پر گزرنے والے ادوار کا ذکر ہے اس میں تمام انسانوں کے لئے قبر کا ذکر ہے

(۲)قرآن وحدیث میں جہاں بھی ’’میت‘‘کے الفاظ ہیں(اور میت ہم سب جانتے ہیں کہ مردے کو کہا جاتا ہے جس کی روح پرواز کر جاتی ہے،مگر جسم ہمارے سامنے ہی ہوتا ہے جسے ہم دفناتے یا کفناتے ہیں) ان میں سے اکثر کے ساتھ ’’قبر‘‘کے الفاظ بھی ہیں یا ’’قبر کے احکام‘‘بھی مووجود ہیں مثلا دفنانا ،ان پر بیٹھنے کی ممانعت،انکی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا،انہیں پکا نہ بنانا۔وغیرہ وغیرہ۔۔اب اگر آپ جنت کے اس روح والے مقام کو’’قبر ‘‘قرار دے لیں گے توپھر اس کے احکام بھی بتانے پڑیں گے!؟
جواب
قبر سے مراد زمین کا مقام ہے اگر جسد کی بات ہو اور اس سے مراد روح کا مقام ہے
احکام صرف اس دنیا پر لاگو ہوتے ہیں عالم بالا تک انسان جا ہی نہیں سکتے تو اس کے احکام کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لہذا حدیث میں جب احکام المیت کا ذکر ہے تو ص سے مراد دنیا کا مقام ہی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں لہذا یہ نزآع کا مقام نہیں

(۳)بعض ارواح کا مسکن عرش کے نیچے قندیل اور بعض کا جنت کے درخت ہیں تو کیا آپ ’’درخت‘‘ اور ’’قندیل‘‘کو ’’قبر ‘‘سمجھتے ہیں؟
جواب یہ تمام مقامات روح کے لئے اس کی قبر ہی ہیں

(۴)کیا آپ ایک بھی آیت یا حدیث دکھا سکتے ہیں جس میں اس مقام کو نبی ﷺ نے’’قبر‘‘کہا ہو یا تشبیہ دی ہو قبر سے؟
(۵)جو احادیث آپ نے پیسٹ کی ہیں ان میں ’’قبر ‘‘کے الفاظ کہاں ہیں؟
ہم اس کے لئے روایت پیش کرتے ہیں

صحیح مسلم کی روایت ہے

حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقالت: رحم الله أبا عبد الرحمن، سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: «أنتم تبكون، وإنه ليعذب»

حماد بن زيد کہتے ہیں ہم سے هشام بن عروة نے بیان کیا ان سے انکے باپ نے کہا عائشہ رضی الله تعالی عنہا کے سامنے ابن عمر رضی الله تعالی عنہ کی بات کا ذکر ہوا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، پس اس پر آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا الله رحم کرے ابو عبد الرحمان پر انہوں نے سنا لیکن یاد نہ رکھ سکے. بے شک الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم ایک یہودی کے جنازہ پر گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے اپ نے فرمایا یہ اس پر روتے ہیں اور اس کو عذاب دیا جا رہا ہے

بخاری میں یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی ہے

حَدَّثَنا عَبْدُ الله بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا: سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ الله عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يَبْكِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا، فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا»

اس روایت کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم یہودیہ پر سے گزرے تھے (تدفین سے پہلے) جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اسکو اسکی قبر میں عذاب ہو رہا ہے جبکہ وہ میت ابھی دفن بھی نہیں ہوئی تھی

[/EXPAND]

[روایت اکثر عذاب قبر پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے کیا صحیح ہے ؟ ]

جواب

ارشد کمال کتاب المسند فی عذاب القبر میں روایت پیش کرتے ہیں

ارشد-بول

یہ روایت کتب حدیث میں  الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے ہے

کتاب العلل از الترمذی کے مطابق

سَأَلْتُ مُحَمَّدًا ….. قُلْتُ لَهُ فَحَدِيثُ أَبِي عَوَانَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا، كَيْفَ هُوَ؟ قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ , وَهَذَا غَيْرُ ذَاكَ الْحَدِيثِ

امام بخاری سے سوال کیا کہ پیشاب کے بارے میں حدِيثُ أَبِي عَوَانَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کیسی ہے ؟ انہوں نے  کہا صحیح ہے

لیکن کتاب العلل از الترمذی  کی سند نہیں ہے اور یہ  کتاب ثابت نہیں ہے

اس کے برعکس  کتاب العلل از ابن ابی حاتم کے مطابق

قال ابن أبي حاتم: سالت أبي عن حديث رواه عفان، عن أبي عوانة، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وعلى آله وَسَلَّمَ قال: ((أكثر عذاب القبر في البول)) . قال أبي: هذا حديث باطل يعني رفعه

ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے حدیث جو عفان، عن أبي عوانة، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وعلى آله وَسَلَّمَ کی سند سے ہے کہ اکثر عذاب قبر پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کھا یہ حدیث باطل ہے یعنی رفع کی گئی ہے

[/EXPAND]

[ابن عباس رضی الله عنہ کی تدفین کے وقت ایک پرندہ ظاہر ہوا؟ ]

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی وفات سے متعلق ایک روایت کی تحقیق مطلوب ہے

کیا ان روایات کی سند صحیح ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فوت ہوئے تو ان کے کفن میں ایک سفید رنگ کا پرندہ گھس گیا اور پہر واپس نہیں آیا اور ان کی قبر میں سے ان آیات کی تلاوت کی آواز بھی سنی گئی { يا أيتها النفس المطمئنة } { ارجعي إلى ربك راضية مرضية } { فادخلي في عبادي } { و ادخلي جنتي }؟

جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات میں ذکر ہے:
و أخبرني محمد بن يعقوب ثنا محمد بن إسحاق ثنا الفضل بن إسحاق الدوري ثنا مروان بن شجاع عن سالم بن عجلان عن سعيد بن جبير قال : مات ابن عباس بالطائف فشهدت جنازته فجاء طير لم ير على خلقته و دخل في نعشه فنظرنا و تأملنا هل يخرج فلم ير أنه خرج من نعشه فلما دفن تليت هذه الآية على شفير القبر و لا يدري من تلاها { يا أيتها النفس المطمئنة } { ارجعي إلى ربك راضية مرضية } { فادخلي في عبادي } { و ادخلي جنتي } قال : و ذكر إسماعيل بن علي و عيسى بن علي أنه طير أبيض
حدثنا إسماعيل بن محمد الفضل ثنا جدي ثنا سنيد بن داود ثنا محمد بن فضيل حدثني أجلح بن عبد الله عن أبي الزبير قال شهدت جنازة عبد الله بن عباس رضى الله تعالى عنهما بالطائف فرأيت طيرا أبيض جاء حتى دخل تحت الثوب فلم يزحزح بعد

سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا:ابن عباس رضی اللہ عنہما طائف میں فوت ہوئے اور میں آپ کے جنازے میں موجود تھا،پھر ایک بے مثال اور اجنبی قسم کا پرندہ آکر آپ کی چارپائی یا تابوت میں داخل ہوکر غائب ہوگیا اور اسے کسی نے باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھا۔پھر جب آپ کو دفن کیا گیا تو قبر کے ایک کنارے پر یہ غیبی آواز سنی گئی:اے مطمئن روح!اپنے رب کی طرف راضی مرضی حالت میں واپس جاو،پھر میرے بندوں میں شامل ہوجاو اور جنت میں داخل ہوجاو۔/سورۃ الفجر٢٨-٢٩

(فضائل صحابہ للامام احمد:١٨٧٩،وسندہ حسن،المعجم الکبیر للطبرانی ٢٩٠/١٠ح١٠٥٨١،المستدرک للحاکم

٥٤٣/٣-٥٤٤ح٦٣١٢،دلائل النبوۃ للمستغفری ٦٣٤/٢ح٤٤٥)

کتاب الاربعین للشیخ الاسلام ابن تیمیہ بتحقیق حافظ زبیر علی زئی،صفحہ ١٢٥-١٢٦

جواب

اسکی سند میں مَرْوَانُ بنُ شُجَاعٍ الأُمَوِيُّ ہے جن کی حیثیت مختلف فیہ ہے
أَبُو حَاتِمٍ: کہتے ہیں حجت نہیں ہے
قال ابن حبان: يروي المقلوبات عن الثقات.
ابن حبان کہتے ہیں مقلوبات ثقات کے حوالے سے بیان کرتے ہیں

دوسری کی ایک سند میں فرات بن سائب ہے جس پر بھی جرح ہے
مصنف ابن ابی شیبہ کی سند میں شعيب بن يَسَار، مولى ابن عباس. ہے جس کا حال معلوم نہیں ہے

[/EXPAND]

[عود روح کی روایت اور غیر مقلدین کی جرح و تعدیل]

musnad ahmed ki riwayat rooh ko lotana

مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 479

براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصاری کے جنازے میں نکلے ہم قبر کے قریب پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے پھر سر اٹھا کر فرمایا اللہ سے عذاب قبر سے بچنے کے لئے پناہ مانگو، دو تین مرتبہ فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بندہ مؤمن جب دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے آس پاس سے روشن چہروں والے ہوتے ہیں آتے ہیں ان کے پاس جنت کا کفن اور جنت کی حنوط ہوتی ہے تاحد نگاہ وہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے نفس مطمئنہ ! اللہ کی مغفرت اور خوشنودی کی طرف نکل چل چنانچہ اس کی روح اس بہہ کر نکل جاتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہہ جاتا ہے ملک الموت اسے پکڑ لیتے ہیں اور دوسرے فرشتے پلک جھپکنے کی مقدار بھی اس کی روح کو ملک الموت کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ ان سے لے کر اسے اس کفن لپیٹ کر اس پر اپنی لائی ہوئی حنوط مل دیتے ہیں اور اس کے جسم سے ایسی خوشبو آتی ہے جیسے مشک کا ایک خوشگوار جھونکا جو زمین پر محسوس ہوسکے ۔ پھر فرشتے اس روح کو لے کر اوپر چڑھ جاتے ہیں اور فرشتوں کے جس گروہ پر بھی ان کا گذر ہوتا ہے وہ گروہ پوچھتا ہے کہ یہ پاکیزہ روح کون ہے؟ وہ جواب میں اس کا وہ بہترین نام بتاتے ہیں جس سے دنیا میں لوگ اسے پکارتے تھے حتی کہ وہ اسے لے کر آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں اور دروازے کھلواتے ہیں جب دروازہ کھلتا ہے تو ہر آسمان کے فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں اگلے آسمان تک اسے چھوڑ کر آتے ہیں اور اس طرح وہ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کانامہ اعمال ” علیین ” میں لکھ دو اور اسے واپس زمین کی طرف لے جاؤ کیونکہ میں نے اپنے بندوں کو زمین کی مٹی ہی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا۔چنانچہ اس کی روح جسم میں واپس لوٹادی جاتی ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا علم کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ، اس پر آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت کا بستر بچھادو اسے جنت کا لباس پہنادو اور اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ کھول دو چنانچہ اسے جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی رہتیں ہیں اور تاحدنگاہ اس کی قبر وسیع کردی جاتی ہے اور اس کے پاس ایک خوبصورت لباس اور انتہائی عمدہ خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تمہیں خوشخبری مبارک ہو یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ اس سے پوچھتاے کہ تم کون ہو؟ کہ تمہارا چہرہ ہی خیر کا پتہ دیتا ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں اس پر وہ کہتا ہے کہ پروردگار! قیامت ابھی قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور مال میں واپس لوٹ جاؤں ۔ اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت يآکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے ” اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال ” سجین ” میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔ ” پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہائے افسوس ! مجھے کچھ پتہ نہیں ، وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ وہ کون شخص تھا جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے اور آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول دو چنانچہ وہاں کی گرمی اور لو اسے پہنچنے لگتی ہے اور اس پر قبر تنگ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے پاس ایک بدصورت آدمی گندے کپڑے پہن کر آتا ہے جس سے بدبو آرہی ہوتی ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تجھے خوشخبری مبارک ہویہ وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ پوچھتا ہے کہ تو کون ہے ؟ کہ تیرے چہرے ہی سے شر کی خبر معلوم ہوتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیراگندہ عمل ہوں تو اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سست اور اس کی نافرمانی کے کاموں میں چست تھا لہٰذا اللہ نے تجھے برا بدلہ دیاہے پھر اس پرا ایک ایسے فرشتے کو مسلط کردیا جاتا ہے جواندھا، گونگا اور بہرا ہو اس کے ہاتھ میں اتنا بڑا گرز ہوتا ہے کہ اگر کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے اور وہ اس گرز سے اسے ایک ضرب لگاتا ہے اور وہ ریزہ ریزہ جاتا ہے پھر اللہ اسے پہلے والی حالت پر لوٹادیتا ہے پھر وہ اسے ایک اور ضرب لگاتا ہے جس سے وہ اتنی زور سے چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ساری مخلوق اسے سنتی ہے پھر اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور آگ کا فرش بچھادیا جاتاہے۔گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے –

اس کی سند میں المنھال بن عمرو کا تفرد ہے

qurbani-sanabli-2

غیر مقلدین : عقیدے میں بد احتیاطی اور عمل میں اتنی محنت!  المنھال کی روایت پر قربانی نہیں کر رہے لیکن اپنے ایمان کو قربان کر رہے ہیں

[/EXPAND]

[کیا قبر میں میت پر اس کا عمل مجسم ہوتا ہے]

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے بے شک وہ سنتی ہے ان کی جوتیوں کی چاپ جب وہ پلٹتے ہیں اس سے پس اگر مومن ہو تو نماز اس کے سر ہوتی ہے اور روزہ ہو تو دائیں اور زکات اس کے بائیں اور نیک کام جیسے صدقه صلہرحمی معروف اور احسان لوگوں پر اس کے پیروں پر ہوتے ہیں
پھر سر کی طرف سے نماز بولتی ہے مجھ سے (نامہ اعمال میں) کیا داخل کیا …(اسی طرح تمام اعمال بولتے ہیں)

اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرٍو يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ

ابن حبان کی اس روایت پر شعيب الأرنؤوط اور حسين سليم أسد الدّاراني حکم لگاتے ہیں
إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو
مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ کی وجہ سے اسناد حسن ہیں

حسن روایت پر عقیدہ نہیں بنایا جاتا ان کو فضائل میں پیش کیا جاتا ہے

قبر میں فتنہ سے متعلق بعض راویوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے بہت سی متضاد روایات منسوب کی ہیں
ان میں ہیں

⇑ ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے منسوب روایت
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/
اس کی سند ہے مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
اس راوی کے مطابق الله تعالی کسی آسمان پر ہے نعوذ باللہ جہاں روح کو پہنچا دیا جاتا ہے

سنن نسائی میں قتادہ مدلس کے عنعنہ کے ساتھ دوسری روایت ہے
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا حُضِرَ الْمُؤْمِنُ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ بِحَرِيرَةٍ بَيْضَاءَ فَيَقُولُونَ: اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيًّا عَنْكِ إِلَى رَوْحِ اللَّهِ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ، فَتَخْرُجُ كَأَطْيَبِ رِيحِ الْمِسْكِ، حَتَّى أَنَّهُ لَيُنَاوِلُهُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا أَطْيَبَ هَذِهِ الرِّيحَ الَّتِي جَاءَتْكُمْ مِنَ الْأَرْضِ، فَيَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِغَائِبِهِ يَقْدَمُ عَلَيْهِ، فَيَسْأَلُونَهُ: مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ فَيَقُولُونَ: دَعُوهُ فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا، فَإِذَا قَالَ: أَمَا أَتَاكُمْ؟ قَالُوا: ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا احْتُضِرَ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ بِمِسْحٍ فَيَقُولُونَ: اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَتَخْرُجُ كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ، حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ الْأَرْضِ، فَيَقُولُونَ: مَا أَنْتَنَ هَذِهِ الرِّيحَ حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْكُفَّارِ

اس میں ہے روح کو باب ارض پر لے کر جاتے ہیں جہاں کفار ہیں

اوپر والی تمام ضعیف روایات ہیں
———————
اس کے بر عکس صحیح مسلم کی روایت ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
: عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو – ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

اس کے مطابق روح کو واپس قبر میں نہیں ڈالا جا رہا جیسا کہ بعض راوی ابو ہریرہ سے منسوب کرتے ہیں اور یہ صحیح روایت ہے

صحیح مسلم کی اس روایت کا ترجمہ بھی تبدیل کیا جاتا ہے اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے
آخری وقت کے لئے سجین کی طرف لے چلو
جبکہ سجیین کا لفظ عربی متن میں نہیں ہے

[/EXPAND]

[مومن کی روح قیامت تک جنت میں رہے گی کی کیا دلیل ہے]

المنتخب من مسند عبد بن حميد میں ہے کہ کعب بن مالک أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، کہ جب ان کی وفات کا وقت تھا اور مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ مُبَشِّرٍ لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَهُوَ شَاكٍ: اقْرَأْ عَلَى ابْنِي السَّلَامَ، تَعْنِي مُبَشِّرًا، فَقَالَ: يَغْفِرُ اللهُ لَكِ يَا أُمَّ مُبَشِّرٍ، أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُسْلِمِ طَيْرٌ تَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ” قَالَتْ: صَدَقْتَ، فَأَسْتَغْفِرُ اللهَ
أم بشر بنت البراء بن معرور آئیں اور کعب سے کہا میرے (فوت شدہ) بیٹے کو سلام کہیے گا (یعنی جنت جب ملاقات ہو) اس پر کعب نے کہا الله تمہاری مغفرت کرے کیا تم نے سنا نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلم کی روح ، پرندہ ہے جنت کے درخت پر لٹکتی ہے یہاں تک کہ روز محشر الله اسکو اس کے جسد میں لوٹا دے ام مبشر نے کہا سچ کہا میں الله سے مغفرت طلب کرتی ہوں

اس کی سند صحیح ہے

[/EXPAND]

[کیا مردہ کھاٹ پر بولتا ہے چلو چلو یعنی وہ زندہ ہوتا ہے]

صحیح بخاری
كتاب الجنائز
باب: باب قول الميت وهو على الجنازة قدموني:
باب: نیک میت چارپائی پر کہتا ہے کہ مجھے آگے بڑھائے چلو (جلد دفناؤ)
حدیث نمبر: 1316
حدثنا عبد الله بن يوسف حدثنا الليث حدثنا سعيد عن ابيه انه سمع ابا سعيد الخدري رضي الله عنه ، قال:‏‏‏‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم ، يقول:‏‏‏‏ ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على اعناقهم فإن كانت صالحة قالت:‏‏‏‏ قدموني وإن كانت غير صالحة قالت لاهلها:‏‏‏‏ يا ويلها اين يذهبون بها ، يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان ولو سمع الإنسان لصعق “.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد (کیسان) نے اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سوا ہر اللہ کہ مخلوق سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بیہوش ہو جائے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1316)

جواب

روایت جس پر اپ نے سوال کیا ہے یہ قدمونی قدمونی والی روایت ہے

یہ روایت سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني کی سند سے ہے اور بخاری میں نامکمل ہے
قال شعبة: ساء بعد ما كبر.
شعبہ کہتے ہیں بوڑھے ہوئے تو خراب ہوئے
وقال محمد بن سعد: ثقة إلا أنه اختلط قبل موته بأربع سنين.
ابن سعد کہتے ہیں موت سے چار سال قبل اختلاط کا شکار تھے

سعید بن ابی سعید کے والد کا نام ابو سعید كيسان المقبری المتوفی ١٠٠ ھ ہے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق
وفي كتاب الباجي عن ابن المديني: قال ابن عجلان: كانت عنده أحاديث سندها عن رجال عن أبي هريرة فاختلطت عليه فجعلها كلها عن أبي هريرة.
الباجی کی کتاب میں ابن المدینی سے ہے کہ ابن عجلان نے کہا ان کے پاس احادیث تھیں جو رجال عن ابو ہریرہ سے تھیں پس جب اختلاط ہوا تو انہوں نے تمام کو عن ابوہریرہ کر دیا

قال يحيى القطان: “سمعتُ محمد بن عجلان يقولُ: كان سعيدٌ المقبري يُحَدِّث عن أبيه عن أبي هريرة، وعن رجل عن أبي هريرة، فاختلط عليَّ فجعلتها كلها عن أبي هريرة الميزان: (3/645)
یحیی القطان کہتے ہیں میں نے ابن عجلان کو سنا کہ سعید المقبری اپنے باپ سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے اور سعید ایک آدمی سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتا لیکن جب سعید کو اختلاط ہوا تو سعید المقبری نے ان تمام روایات کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

ان سے دو سندوں سے یہ روایت آئی ہے
ایک ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ کی سند سے اور الليث بن سعد کی سند سے

العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) کے مطابق ایک روایت ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے
اس کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے ہیں
عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص) : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ
ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے

یعنی سعید المقبری کی باپ سے ان کی ابو ہریرہ سے روایت منکر بھی کہی گئی ہے

الطبقات الكبرى از محمد بن سعد (المتوفى: 230هـ) میں اس کا متن ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، وَأَسْرِعُوا بِي إِسْرَاعًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي. وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَتِي أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي ”

ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، نے المقبری سے روایت کیا انہوں نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو بستر پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو بستر پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

یعنی یہ روایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی وفات کی ہے جس میں انہوں نے اپنے اوپر اس قول نبی کو ثبت کیا
اس کو روایت کرنے میں سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي کا تفرد ہے جو اختلاط کا شکار ہوئے
کبھی یہ اس کو مولی عبد الرحمان سے روایت کرتے ہیں کبھی اپنے باپ سے اور اس کی طرف محدثین نے اشارہ کیا کہ انہوں نے اختلاط میں بھول کر تمام کو اپنے باپ سے منسوب کر دیا
لہذا اس روایت میں اشتباہ آ گیا کہ کیا یہ واقعی ابو ہریرہ نے کہا بھی یا نہیں

لہذا راقم کو نہیں معلوم یہ واقعی قول نبی ہے یا نہیں کیونکہ محدثین میں سے بعض نے ان کی روایات کو رد کر دیا ہے جس کی مثال اوپر دی گئی ہے

ڈاکٹر عثمانی نے نزدیک اس کی یہ تاویل ممکن ہے کہ میت کو جنازے پر رکھا گیا اور میت ابھی دفن بھی نہیں ہوئی جبکہ حیات فی القبر کے لئے عود روح ضروری ہے جس کی منکر روایت میں قبر میں عود روح کا ذکر ہے لہذا یہ روایت نہ تو ہماری دلیل ہے نہ حیات فی القبر والوں کی

[/EXPAND]

[نبی صلی الله علیہ وسلم نے میت پر عذاب بتلایا ھے جبکہ ڈاکٹر عثمانی نے میت پر عذاب کا انکار کیا ھے]

جواب

اپ کا سوال بہت اہم ہے

الله تعالی نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ اس کی کتاب کی اتباع کی جائے اور اس کے رسول کا حکم چلے گا کسی عثمانی کی اتباع کی قرآن میں کوئی سند نہیں ہے
لہذا ہر مسلم پر فرض ہے کہ کتاب الله پر اپنا عقیدہ جانچ لے یہ قرآن کا حکم ہے

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى الله والرسول إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بالله واليوم الآخر ذلك خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً
پس کسی بات میں تمہارا تنازع ہو جائے تو اس کو الله اور اس کے رسول کی طرف پلٹ دو اگر تم الله روز آخرت پر ایمان والے ہو یہ خیر ہے اور اچھی تاویل ہے
سورة النساء آية [59

اور کہا
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فحكمه إلى الله
اور جس چیز میں بھی اختلاف کرو تو حکم الله ہی کا ہے

اور کہا
بَلْ كَذَّبُواْ بِمَا لَمْ يُحِيطُواْ بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ
بلکہ انہوں نے انکار کیا اس کا احاطہ ان کا علم نہ کر سکا اور اس کی تاویل ان تک نہ پہنچی

اور کہا
مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ
ہم سے کتاب میں (وضاحت پر) کوئی چیز نہیں رہ گئی

اور کہا
تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ
ہر چیز کی اس میں وضاحت ہے

اپ نے حیات فی قبر کے مسئلہ پر سوال کیا ہے جو عقیدہ کا ایک اہم مسئلہ ہے لہذا اس کو کتاب الله پر پیش کریں کہیں بھی حیات فی القبر کی دلیل نہیں ملتی
لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں شہداء کی حیات کا ذکر ہے کہ ان کو مردہ مت کہو لیکن وہ ان آیات کا سیاق و سباق نہیں دیکھتے صرف ایک آیت لی اور اس کو اپنی مرضی کامعنی پہنا دیا
یہ آیت منافقین کے اس قول کے رد میں نازل ہوئی تھی کہ بے چارے مسلمان اپنے نبی کے چکر میں جنگوں میں ہلاک ہو گئے ہمارے ساتھ مدینہ میں ہی رهتے تو بچ گئے ہوتے
یہ بات قرآن کہتا ہے انہوں نے بولی اور الله نے کہا نہیں اگر ان
کی موت کا وقت ہوتا تو کہیں بھی ہوتے ہلاک ہوتے اور جو میدان میں شہید ہوئے وہ معدوم نہیں ہوے وہ زندہ ہیں الله کے پاس رزق پا رہے ہیں
مسلمانوں کا تو پہلے سے یہ عقیدہ تھا کہ مریں گے تو جنت میں جائیں گے یہ منافقین کی حماقت تھی جو ایسا کہہ رہے تھے کیونکہ وہ الله کے رسول اور آخرت کے انکاری تھے
ان پر حجت تمام کی گئی کہ جو مرے ہیں وہ الله کے پاس رزق پا رہے ہیں

صحیح مسلم کی مسروق کی حدیث میں اسکی وضاحت ا گئی کہ یہ شہداء اپنی قبروں میں نہیں انکی ارواح الله کے عرش کے نیچے ہیں

اس کے علاوہ ایک عام مومن کے لئے بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر ہے کہ اس کی روح جنت کے درخت پر معلق ہے
لہذا قرآن میں مکمل وضاحت ہے کہ یہ ارواح جنت میں ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف جہنم میں ہیں

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (13) وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ
سورة الانفطار
بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہیں اور فاجر جہنم میں قیامت کے روز اس میں جلیں گے

اسی طرح موسی علیہ السلام کے مخالف جہنم میں ہیں پورا ال فرعون کا لشکر جہنم میں اگ پر پیش ہو رہا ہے جو ڈوب کر مرا

الله تعالی نے خبر دی کہ نوح علیہ السلام نے پوری دنیا کو بد دعا دے دی کہ ایک کافر بچ نہ پائے

الله کا غضب بھڑک گیا اس نے پوری زمین کو پھاڑ ڈالا اور آسمان سے پانی گرنا شروع ہوا
فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ

هم نے آسمان کے دروازے کھول دیے نہروں جیسے پانی کے ساتھ

آسمان کے دروازے کھلے ہیں کفار مر رہے ہیں اور روحیں جلدی جلدی جہنم میں ڈالی جا رہی ہیں

زمین پر اس وقت پانی ہی پانی ہے

وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا

اور ہم نے زمیں کو پھآڑ کر چشموں میں بدل دیا

یعنی قبریں ختم کسی کی بھی قبر نہ رہی نہ آدم علیہ السلام نہ ود کی نہ سواع کی نہ یغوث کی نہ نسر کی جو صالح تھے اور نہ کفار کی سب کی لاشیں پانی میں زندہ بھی مر رہے ہیں اور مردہ بھی تیر رہے ہیں

آدم کیا قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ؟ نہیں وہ تو جنت میں تھے ان کا جسم مٹی ہو چکا ہو گا یا اگر جسد تھا بھی تو وہ بھی اسی پانی میں تھا جس سے پوری زمین کو بھرا جا رہا تھا

ان صاف ظاہر بصیرت کے بعد مردے میں عود روح کا عقیدہ رکھنا ایک باطل عقیدہ ہے اس کی دلیل نہ قرآن میں ہے نہ صحیح احادیث میں

صاف کھلے الفاظ میں عود روح کا ذکر ہونا چاہیے کیونکہ یہی زندگی ہے یہ راویوں کو بھی پتا ہے اور حدیث لکھنے والوں کو بھی تبھی تو وہ عود روح کی بات کر رہے ہیں

یہ قبر کی زندگی ایک نئی زندگی ہے اس کو انسان محسوس نہی کر سکتا یہ سب فلسفہ ٤٠٠ ہجری کا ہے اس سے قبل کوئی اس قسم کی وہمی باتیں نہیں کرتا لیکن علماء نے اپنا عقیدہ لیا کن کتابوں سے ہم بتاتے ہیں
أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کتاب الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع / ويليه أسئلة من خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں
أما روح الْمَيِّت ففارقت جسده فراقا كليا لَكِن يبْقى لَهَا بِهِ اتِّصَال مَا بِهِ يَقع إِدْرَاك لبدن الْمُؤمن التَّنْعِيم وَإِدْرَاك الْكَافِر التعذيب لِأَن النَّعيم يَقع لروح هَذَا وَالْعَذَاب يَقع لروح هَذَا وَيدْرك ذَلِك الْبدن على مَا هُوَ الْمَذْهَب الْمُرَجح عِنْد أهل السّنة فَهُوَ أَن النَّعيم وَالْعَذَاب فِي البرزخ يَقع على الرّوح والجسد وَذهب فريق مِنْهُم على أَنه يَقع على الرّوح فَقَط فقد وَردت آثَار كتبت فِي منامات عديدة تبلغ التَّوَاتُر الْمَعْنَوِيّ فِي تَقْوِيَة الْمَذْهَب الرَّاجِح أورد مِنْهَا الْكثير أَبُو بكر بن أبي الدُّنْيَا فِي كتاب الْقُبُور وَأَبُو عَبْد اللَّهِ بْن مَنْدَه فِي كتاب الرّوح وَذكر الْكثير مِنْهَا ابْن عبد الْبر فِي الاستذكار وَعبد الْحق فِي الْعَاقِبَة وَغَيرهم وَهِي إِن كَانَت لَا تنهض للحجة لَكِنَّهَا مِمَّا تصلح أَن يرجح بِهِ وَإِذا تقرر ذَلِك فَمن قَالَ إِن النَّعيم أَو الْعَذَاب يَقع على الرّوح وَالْبدن مَعًا يَقُول إِن الْمَيِّت يعرف من يزوره وَيسمع من يقْرَأ عِنْده إِذْ لَا مَانع من ذَلِك وَمن قَالَ إِن النَّعيم أَو الْعَذَاب يَقع على الرّوح فَقَط وَلَا يمْنَع ذَلِك أَيْضا إِلَّا من زعم مِنْهُم أَن الْأَرْوَاح المعذبة مَشْغُولَة بِمَا فِيهِ والأرواح المنعمة مَشْغُولَة بِمَا فِيهِ فقد ذهب إِلَى ذَلِك طوائف من النَّاس وَالْمَشْهُور خِلَافه وَسَنذكر فِي السُّؤَال الرَّابِع أَشْيَاء تقَوِّي الْمَذْهَب الرَّاجِح وَالله الْمُوفق
پس جہاں تک میت کی روح کا تعلق ہے تو وہ کلی طور پر جسم سے الگ ہو جاتی ہے لیکن اس کا جسم سے کنکشن باقی رہ جاتا ہے جس سے اگر مومن ہو تو راحت کا احساس ہوتا ہے اور کافر کو عذاب کا ادرک ہوتا ہے کیونکہ بے شک راحت روح کو ہوتی ہے اور عذاب بھی روح کو ہوتا ہے اور بدن اس کا ادرک کرتا ہے جو مذھب راجح ہے اہل سنت کے ہاں کہ عذاب و راحت البرزخ میں روح کو اور جسد کو ہوتا ہے اور ایک فریق کا مذھب ہے کہ صرف روح کو ہوتا ہے لیکن مذھب راجح کو تقویت ملتی ہے ان اثار سے جو نیند کے حوالے سے تواتر کو پہنچے ہوئے ہیں اور کچھ روایات جن کو ابن ابی دنیا نے کتاب القبور میں اور ابو عبداللہ ابن مندہ نے کتاب الروح میں اور ان میں سے بہت سوں کو ابن عبد البر نے الاستذكار میں اور عبد الحق نے کتاب الْعَاقِبَة میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہیں کہ … بے شک عذاب و راحت روح اور اس کے ساتھ بدن کو ہوتا ہے کہا ہے کہ بے شک میت اپنے زائر کو جانتی ہے اور اپنے پاس قرات سنتی ہے اور اسمیں کچھ مانع نہیں ہے اور جس نے کہا یہ کہ صرف روح کو عذاب و راحت ہوتی ہے تو اس کو ماننے میں بھی کچھ مانع نہیں سوائے اس کے کہ ارواح عذاب میں ہیں اور یا راحت میں مشغول ہیں اور اس طرف ایک خلقت کا مذھب ہے اور مشھور اس کے خلاف ہے
راجح مذھب کس طرح کی کمزور روایات کے بل پر کھڑا کیا گیا ہے اپ دیکھ سکتے ہیں ابن ابی الدنیا اور کتاب الْعَاقِبَة الاستذکار وغیرہ . راجح مذھب اصل میں کمزور روایات کے بل پر گھڑا گیا ہے اور اسی عینک سے صحیح روایات کی غلط تعبیر کی گئی ہے

ابن ابی دنیا کی کتب یا الْعَاقِبَة یا الاستذکار میں ضعیف روایات ہیں اس پر عقیدہ بنا کر صحیح روایت کی قرآن سے تطبیق دینے کی بجائے اس کو ضعیف روایات سے سمجھا گیا

صحیح بخاری و مسلم کی کسی روایت میں عود روح کا ذکر نہیں ہے میت سے سوال و جواب کا ذکر ہے جو ڈاکٹر عثمانی کی رائے میں حدیث کا صحیح منشا نہ سمجھنے کی بنا پر ہے اس میں جس مقام پر سوال جواب ہو رہا ہے وہ دنیا کی قبر نہیں البرزخ ہے

یہ قول قرآن کے مطابق ہے

کیا صحیح بخاری کی یہ روایت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے ؟ علماء کہتے ہیں کہ احادیث ظن غالب ہیں قرآن کی طرح قطعی نہیں ہیں کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ راوی کا حافظہ خراب ہوتا ہے اس کو اختلاط ہو سکتا ہے اس کو وہم ہو سکتا ہے اس کی یادداشت پر فرق پڑ سکتا ہے
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایسا کوئی حکم نہیں کر سکتے جو قرآن کے خلاف ہو
لہذا اپ صلی الله علیہ وسلم جو کہا اس کو سمجھنا ضروری ہے – اس میں یاد رکھنا چاہیے عقیدے میں روایت وہی صحیح ہے جو قرآن کی آیات کے موافق ہو نہ کہ ان کو رد کرنے والی
ہاں عمل میں قرآن مکمل وضاحت نہیں کرتا صرف حکم کرتا ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم عمل کر کے سکھاتے تھے

——— جوتوں کی چاپ والی روایت—————–
ہمارے پاس شواہد آ چکے ہیں کہ قرع النعال تمام محدثین کی نگاہ میں صحیح روایت نہیں ہے مثلا امام احمد اس پر عمل نہیں کرتے اگرچہ وہ اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے اس روایت کے مطابق دفنانے والے قبر کے پاس جوتیاں پہن کر چل رہے ہیں جن پر دعوی کیا گیا ہے کہ وہ مردہ سنتا ہے جبکہ امام احمد کا حکم تھا کہ جوتیاں اتار دو
یعنی امام احمد باوجود یہ کہ قرع النعال والی روایت کو جانتے ہیں وہ ابوداود کی بشیر بن خصاصہ والی روایت پر عمل کرتے تھے

اب اگر یہ روایت بعض کے نزدیک صحیح تھی تو وہ کیا اس سے واقعی مردے کا سننا لیتے تھے ؟ اس کا جواب نہیں ہے کیونکہ روایت کی تاویل کی جاتی رہی ہے

تیسری صدی کے امام احمد اس روایت پر عمل نہیں کرتے

پانچویں صدی کے لوگ کہتے تھے کہ اس میں مردہ زندہ ہو کر سننے لگتا ہے
طبقات حنابلہ از قاضی ابی یعلی

پانچویں صدی کے حنبلی ابن جوزی کہتے ہیں میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے

چھٹی صدی میں امام البغوی (المتوفى: 516هـ) کتاب شرح السنہ میں لکھتے ہیں کہ میت چاپ کو محسوس کرتی ہے
إِنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ حِسَّ النِّعَالِ» فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْمَشْيِ فِي النِّعَالِ بِحَضْرَةِ الْقُبُورِ، وَبَيْنَ ظَهْرَانَيْهَا
بغوی کہتے ہیں کہ قول بے شک میت چاپ محسوس کرتی ہے اس میں دلیل ہے چپل پہن کر قبروں کے پاس چلنے کے جواز کی اور ان کے درمیان

١٩٨٠ تک غیر مقلدین کہتے تھے کہ مردہ روح لوٹانے پر زندہ ہو جاتا ہے

آج لوگ کہنے لگے ہیں کہ اس میں مردہ زندہ نہیں ہوتا
غیر مقلدین

یعنی اس روایت میں ابہام ہے تبھی تو اس کی تاویل میں بحث چل رہی ہے

ہم وہی کہتے ہیں امام ابن جوزی اور ابن حزم نے کہا میت نہ سنتی نہ محسوس کرتی ہے
اور امام ابو حنیفہ نے کہا میت فہم نہیں رکھتی جو فقہ میں طلاق کا معروف مسئلہ ہے کہ کوئی کسی سے قسم کھائے کہ تجھ سے کلام کروں تو میری بیوی کو طلاق اور اس سے مرنے کے بعد کلام کر بیٹھا تو طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ میت نہ سنتی ہے نہ سمجھتی ہے

——–اس میں تفرد ہے —–
قرع النعال والی روایت میں بصریوں کا تفرد ہے
أبو معاوية شيبان بن عبد الرحمن النحوى ، البصرى المتوفی 164 هـ نے اس کو روایت کیا ہے
قال أبو حاتم وحده يكتب حديثه ولا يحتج به
ابو حاتم کہتے ہیں اس کی حدیث لکھ لی جائے دلیل نہ لی جائے
امام مسلم اس کو اس سند سے لکھتے ہیں

اس کو سعيد بن أبي عروبة المتوفی ١٥٦ ھ نے بھی روایت کیا ہے اور اس سند سے امام بخاری لکھتے ہیں
قال يحيى بن معين: اختلط سعيد بعد هزيمة إبراهيم بن عبد الله سنة اثنين وأربعين ومائة ومات هو سنة ست وخمسين
ابن معین کہتے ہیں سعید بن ابی عروبہ ، ابراہیم بن عبد الله کی ہزیمت میں سن ١٤٢ میں مختلط ہو گئے اوروہ ٥٦ سال کی عمر میں فوت ہوئے

یعنی سعید ١٤ سال اختلاط کا شکار رہے لیکن یہ غلطی ہے خروج ١٤٥ میں ہوا لہذا ١١ سال اختلاط کا شکار رہے
ایک دوسرے قول کے مطابق سليمان بن طرخان التيمي المتوفی 143 ه کی تدفین میں ابن ابی عروبہ نے کہا یہ سليمان بن طرخان کون ہے؟ جس پر محدثین نے کہا سعید بن ابی عروبہ کا دماغ چل گیا ہے لہذا یہ ١٣ سال اختلاط کا شکار رہے

اس دوران ان سے بعض محدثین نے سنا جن میں وہ راوی ہیں جو قرع النعال والی روایت بھی بیان کرتے ہیں
یہ ایک فنی بات ہے جس پر شارحین بحث نہیں کرتے کیونکہ وہ بخاری کی حدیث پر جرح کرنا نہیں چاھتے

سوال ہے کہ عقیدہ کی اتنی اہم روایت میں بصریوں کا تفرد کیوں ہے؟ انس رضی اللہ عنہ سے اس کو صرف بصریوں نے کیوں سنا ؟ حالانکہ وہ مدینہ میں رہے شام میں اور عراق کے دوسرے شہروں میں بھی گئے؟

——–

ان شواہد کی روشی میں راقم اپنے اپ کو کوئی ایسی بات عقیدہ میں قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا جس میں راویوں نے گربڑ کی ہو یا اس میں کسی خاص شہر کا تفرد ہو یا جو قرآن کے خلاف ہو

یہ راقم کی رائے ہے ڈاکٹر عثمانی کی اس پر الگ ہے ان کے نزدیک روایت صحیح ہے اور اس کی تاویل کی ہے جو اپ کتاب عذاب البرزخ میں دیکھ سکتے ہیں

لہذا الله کے بندوں کتاب الله پر عقیدہ بنا لو قیامت میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کا سوال نہیں ہو گا کتاب الله کا سوال ہو گا
راویوں کی غلطیاں ان کی غلطیاں ہیں ان کو اپنے سر مت لیں الله ان کو معاف کر دے گا کیونکہ جو بیماری میں بھول گیا اس کی خطا نہیں لیکن جو پورے ہوش میں جان کر کتاب الله کو چھوڑ گیا اس کے پاس کیا جواب ہو گا؟

إس وقت جب هم جان لیں گے کہ
لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إلا من رحم
آج اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں سوائے اس کے جس پر وہ رحم کرے

الله برے حساب سے ہم سب کو بچا لے

[/EXPAND]

[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان زمینی قبروں پر تہنی کو گا ڑنا اس بات کی  دلیل ہے کہ انہیں اسی قبر میں عذا ب دیا جا تا تھا]

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مختلف انداز میں عذاب قبر سے متعارف کرایا گیا
قرآن میں کفار پر عذاب قبر کی خبر دی گئی جو مکی دور کی سورتیں ہیں مثلا سوره یونس سوره الفصلت وغیرہ

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ: «يَهُودُ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا» وَقَالَ النَّضْرُ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَوْنٌ، سَمِعْتُ أَبِي، سَمِعْتُ البَرَاءَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
نبي صلی الله علیہ وسلم نکلے اور سورج غروب ہو چکا تھا پس اپ نے ایک آواز سنی اپ نے کہا یہود کو قبروں میں عذاب ہو رہا ہے

اس روایت کے مطابق کوئی قبرستان نہیں ہے صرف اپ گھر سے نکلے ہیں کہ آواز سنا دی گئی
قبر پرست اس روایت میں اضافہ کرتے ہیں کہ اپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ سے نکلے حالانکہ جب بھی حدیث میں خرج النبی آئے اور مقام کا تعین نہ ہو تو اس سے مراد گھر ہی ہوتا ہے

الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري میں کرمانی کہتے ہیں
أن صوت الميت من العذاب يسمعها غير الثقلين فكيف سمع ذلك؟ قلت هو في الضجة المخصوصة وهذا غيرها أو سماع رسول الله صلى الله عليه وسلّم على سبيل المعجزة.
میت کی چیخ عذاب سے اس کا غیر ثقلین کیسے سن لیتے ہیں ؟ میں کرمانی کہتا ہوں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اور دیگر کا سننا معجزہ ہے

اس مخصوص روایت میں یہ ہے ہی نہیں کہ آواز دیگر نے بھی سنی اس میں صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سننا بیان ہوا ہے

طبرانی میں اس روایت پر ہے
خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَمَعِي كُوزٌ مِنْ مَاءٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ
کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رفع حاجت کے لئے گھر سے نکلے تھے

————-

مدینہ میں وفات سے چار ماہ قبل مومن پر عذاب قبر کی خبر دی گئی ہے جس میں بہت سی روایات اس سے متعلق کتب میں ہیں
مثلا صحیح بخاری میں ہے

ایک موقعہ پر اپ صحابہ کے ساتھ تھے تو دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا اپ نے ان پر ایک ایک ٹہنی لگا دی
ظاہر ہے عالم بالا جا کر عذاب کم نہیں کرا سکتے تھے ٹہنی لگانا بھی بطور وعظ و نصیحت تھا
اپ کے بعد اکابر صحابہ میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا کہ قبرستان گیا ہو اور ٹہنی لگائی ہو
البتہ بریلوی فرقہ نے اسی روایت سے قبر پر پھولوں کی چادر کی دلیل لے لی ہے
——

عبد الله بن ابی کی قبر ہو یا کسی اور کی یہ تمام اسی عالم ارضی میں ہیں جس میں ان کی لاشیں گل سڑ رہی ہیں مٹی مٹی ہو رہی ہیں لیکن عالم بالا میں ان کی روحیں عذاب سے گزر رہی ہیں جو روح کا مقام ہے

ابن الجوزی اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں لکھتے ہیں کہ
فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار
پس یہ جو آیا ہے میت پر نعمت اور عذاب کا تو جان لو کہ (القبر کا ) اضافہ سے تعريفا (نہ کہ حقیقا ) قبروں اور اجساد کی طرف (اشارہ ) ملتا ہے جیسے کہا جائے کہ صاحب القبر کی روح کو جو اس جسد میں تھی جنت کی نعمتوں سے عیش میں (یا ) آگ کے عذاب سے تکلیف میں ہے

یعنی عذاب قبر تو ایک تعریفی مرکب ہے جس میں قبر کی اضافت ہے یہ ابن جوزی کی رائے ہے

ہمارے لئے شہداء احد کی مثال ہے انہوں نے واپس جسموں میں عود کرنا اور جہاد کرنے کی دعا کی لیکن الله نے اس کو قبول نہیں کیا
ان کے اجسام ان کی قبروں میں ہیں لیکن روحیں عرش سے لٹکتی قندیلوں میں ہیں جہاں وہ راحت پاتے ہیں

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی روح ایک پرندے کی طرح جنت کے درخت سے لٹکتی رہے گی یہاں تک کہ الله اس کو اس کے جسد میں لوٹا دے

ابن حزم کہتے ہیں روح جس مقام پر ہے وہی اس کی قبر ہے – اسی رائے سے برزخی قبر کی ترکیب نکلتی ہے
اب اپ چاہیں تو ابن جوزی کی طرح عذاب قبر کو مرکب اضافی کہیں یا ابن حزم کی طرح ایک عالم بالا میں ہونے والا عذاب
راقم کے نزدیک دونوں قول صحیح ہیں اور یہ مذھب مختار ہے

غیر مقلدین اور دیوبندیوں بریلویوں کے ہاں عذاب قبر میں خود اپس میں بہت اختلافات ہیں وہ عذاب قبر کی دلیل قرآن سے لیتے ہیں لیکن قرآن میں جو وہ دلائل دیتے ہیں ان سے عذاب قبر ثابت نہیں ہوتا مثلا ال فرعون پر عذاب النار ہے جو جہنم میں ہے اس پر ارشد کمال المسند میں کالے پرندوں کی روایت دیتے ہیں لیکن کتاب عذاب قبر میں اس عذاب کو عذاب قبر ماننے سے انکار کرتے ہیں
ابن کثیر تفسیر میں ال فرعون پر عذاب کو میت سے اتصال ماننے سے انکار کرتے ہیں

تفسيرابن كثيرسوره غافر میں ابن کثیر لکھتے ہیں
أنَّ الْآيَةَ دَلَّتْ عَلَى عَرْضِ الْأَرْوَاحِ إِلَى النَّارِ غُدُوًّا وَعَشِيًّا فِي الْبَرْزَخِ، وَلَيْسَ فِيهَا دَلَالَةٌ عَلَى اتِّصَالِ تَأَلُّمِهَا بِأَجْسَادِهَا فِي الْقُبُورِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ ذَلِكَ مُخْتَصًّا بِالرُّوحِ، فَأَمَّا حُصُولُ ذَلِكَ لِلْجَسَدِ وَتَأَلُّمُهُ بِسَبَبِهِ، فَلَمْ يَدُلَّ عَلَيْهِ إِلَّا السُّنَّةُ فِي الْأَحَادِيثِ
بے شک یہ آیت دلالت کرتی ہے ارواح کی آگ پر پیشی پر صبح و شام کو البرزخ میں، اور اس میں یہ دلیل نہیں کہ یہ عذاب ان کے اجساد سے جو قبروں میں ہیں متصل ھو جاتا ہے، پس اس (عذاب) کا جسد کو پہنچنا اور اس کے عذاب میں ہونے پر احادیث دلالت کرتی ہیں

یعنی عذاب قبر میت کو ہوتا ہے قرآن میں کہیں بیان ہی نہیں ہوا
اپ اس کو غور سے پڑھیں یہ ایک نہایت اہم اقرار ہے جس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے

[/EXPAND]

[رو ح کےمتعلق مختلف تصوّرات پر سوال ہے  ]

:اس بار ے میں شئر کرنا چاہوں گا۔۔انسان کی پیدائش جس سپرم سے ہوتی ہے اس میں جسم بننے سے پہلے زندگی موجود ہوتی ہے ،لیکن رو ح انسان کے مکمل ہو جانے کے بعد اس میں ڈالی جاتی ہے۔اس لئےرو ح انسانی زندگی اور موت کا حصّہ نہیں ہے۔
۔اسی طر ح جب موت آتی ہے تو جسم سے رو ح کے الگ ہونے کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں۔جہاں کہیں نفس کو موت آنے کا ذکر آتا ہے،علماء کرام اُس کا معنٰے رو ح قبض کرنا یا ہونا کر دیتے ہیں۔حالانکہ رو ح الگ چیز ہے اور نفس الگ

کیا یہ صحیح ہے

جواب

اس سوال میں سائنس کو ملا دیا گیا ہے

مثال ایک جسم میں دو روحیں
ایک حاملہ عورت میں دو روحیں ہوتی ہے ایک اس کی جو اس کے پورے جسم میں سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے
اور دوسری وہ روح جو اس کے رحم میں بچے میں ہوتی ہے
یہ دونوں روحیں ایک کے اندر ایک کی طرح ہوتی ہیں ان کو جدا نہیں کر سکتے لیکن اگر عورت مر جائے تو بچہ پھر بھی زندہ ہوتا ہے اور پیٹ کاٹ کر نکالا جا سکتا ہے

مثال دوم
مرد کا جسم یا عورت کا جسم یا کسی بھی جاندار کا جسم کئی قسم کے جراثیم اور لئے ہوئے ہوتا ہے جو انسان کے مرنے کے بعد بھی اس میں ہوتے ہیں اور جسم کو گھلا دیتے ہیں انسان جسم معدوم ہو جاتا ہے اور یہ جراثیم مٹی میں کھاد میں چلے جاتے ہیں

مثال سوم
مرد کے جسم میں اسپرم ہوتا ہے جب وہ اس کے نطفہ کی صورت مرد سے علحدہ ہوا تو وہ مرد کی روح کے دائرۂ سے نکل کر عورت کی روح کے دائرۂ میں داخل ہو جاتا ہے
اسپرم خود ایک زندہ جرثومہ ہے اس کو بقا کے لئے غذا چاہیے جو اس کو مرد یا عورت کے جسم سے ملتی ہے
اگر یہ اسپرم جسم میں داخل نہ ہو اور باہر گر جائے تو یہ کسی روح کے دائرۂ کار میں نہیں رہتا لیکن پھر بھی ١٢ گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے
اس کو لیب میں اسٹور بھی کر لیا جاتا ہے

=============

اس تمام کا روح نفس سے کوئی تعلق نہیں ہے
عربی میں روح اور نفس متبادل الفاظ ہیں ہر متنفس میں روح ہے جو نفخت روحی کے وقت آدم میں آئی اور آدم کا جسد سانس لینے لگا اسی پر اس کو نفس کہا جاتا ہے
اصلا روح یا نفس عبرانی الفاظ ہیں اور ان کے ہاں بھی یہ متبادل الفاظ ہیں ان کا الگ کوئی مفھوم نہیں ہے

اپ نے لکھا سوره الانعام ٩٣ آیت

اسی طر ح جب موت آتی ہے تو جسم سے رو ح کے الگ ہونے کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں
جبکہ قرآن میں ہے
ولو ترى إذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطوا أيديهم أخرجوا أنفسكم اليوم تجزون عذاب الهون

فرشتے کہتے ہیں اپنا نفس نکالو

حدیث صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
: عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو – ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

======

موت اصلا روح کی جسد سے علیحدگی ہے

روایت میں آتا ہے کہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اسما رضی الله تعالیٰ عنہا سے کہا جب وہ مسجد الحرام کے صحن میں تھیں اور ابن زبیر رضی الله تعالیٰ عنہ کی لاش سولی پر تھی
إن هذه الجثث ليست بشيء وإنما الأرواح عند الله فاتقي الله وعليك بالصبر
بے شک یہ لاشہ کوئی شے نہیں اور بے شک ارواح الله کے پاس ہیں پس الله سے ڈریں اور اس پر صبر کریں

فتاوی علمائے حدیث ج ٩ میں سوره تکویر کی آیت کا ترجمہ ہے
جب جانیں بدنوں سے ملائی جائیں گی

یہی قول راغب الاصفہانی کا مفردات القرآن میں ہے

راغب الأصفهانى (المتوفى: 502ھ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں لکھتے ہیں کہ
وقوله: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] فعبارة عن زوال القوّة الحيوانيَّة وإبانة الرُّوح عن الجسد
اور (الله تعالیٰ کا ) قول : كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] پس یہ عبارت ہے قوت حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے

[/EXPAND]

[کیا(العبد)کا لفظ صرف روح کیلے استعمال ھوسکتاہے؟]

جواب

و علیکم السلام
العبد کا لفظ قرآن میں فرشتوں کے لئے استمعال ہوا ہے اور انسانوں کے لئے بھی
العبد کا مطلب غلامی کرنے والا
انسان روح سے پہلے بشر ہے اس میں روح اتی ہے اس کے بعد یا تو عبد کافر ہے یا عبد شکور ہے

قرآن میں الله تعالی کہتے ہیں
وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّکورُ
اور بہت کم میرے غلام (عبد) شکر کرنے والے ہیں

یعنی انسان جو ناشکرے ہیں وہ بھی عبد ہیں

بعض قبر پرست دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ قرآن میں جب معراج کا ذکر اتا ہے تو آیت ہے
سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى
پاک ہے وہ ہستی جو لے گئی اپنے عبد کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی

چونکہ معراج جسمانی تھی لہذا ان کے مطابق عبد کا لفظ کا مطلب ہے روح و جسم کا مجموعہ ہے یہ ان کی دلیل ہے لیکن یہ دلیل بودی ہے
یقینا معراج جسمانی تھی لیکن عبد کا مطلب صرف غلام ہے

أنبياء جن سے معراج کی رات ملاقات ہوئی ان سب کے چہرے نقش تک سے پتا چل رہا تھا کہ کس علاقے کے ہیں

صحیح بخاری کی روایت ہے
وَذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، فَقَالَ: ” مُوسَى آدَمُ، طُوَالٌ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَقَالَ: عِيسَى جَعْدٌ مَرْبُوعٌ ”
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے معراج کی رات موسی کو دیکھا لمبے قد کے تھے جیسے شَنُوءَةَ کے مرد ہوتے ہیں اور عیسیٰ متوسط (قد) گھنگھریالے (بالوں والے) تھے

ہم جانتے ہیں کہ انبیاء جنت میں اپنے حقیقی جسموں کے ساتھ نہیں ان کے اجسام قبرووں میں ہیں – انبیاء وہاں اپنے برزخی اجسام کے ساتھ تھے
روح کی شکل کا قرآن میں ذکر نہیں اس کو نفخ کیا جاتا ہے پھونکا جاتا ہے
الله نے آدم کے لئے کہا
نفخت فيه من روحي
پس جب میں اس میں اپنی روح پھونک دوں

روح کے لئے نسمہ کا لفظ بھی عربی میں بولا جاتا ہے جو احادیث میں بھی ہے اصلا نسمہ یا روح کے الفاظ عبرانی ہیں

احادیث میں جو صورت بتائی گئی ہے ان کے مطابق روح کو ایک دوسرے جسم میں ڈالا جاتا ہے جو انسانی جسم کے مماثل ہے لیکن یہ عذاب کو صورت میں تباہ نہیں ہوتا مسلسل بنتا بگڑتا رہتا ہے
عذاب قبر و جہنم سے الله کی پناہ

[/EXPAND]

[برھوت کیا ہے ؟ ]

جواب

یہ لفظ اہل تشیع کی کتب میں ملتا ہے جس میں اصبغ بن بناتہ نام کا ایک یمنی جو کوفہ میں اصحاب علی میں سے تھا وہ بیان کرتا ہے کہ علی نے کہا کہ کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

برھوت عربوں میں ایک معروف مقام تھا اور ہے یہ ایک سوراخ ہے جو یمن میں ہے دیکھنے میں کنواں نما ہے اغلبا یہ کسی شہاب ثاقب کی وجہ سے وہاں پیدا ہوا ہے کسی دور میں حضر الموت اور یمن میں شہاب ثاقب گرے جن سے وہاں اس قسم کے گھڑے موجود ہیں لیکن برھوت بہت بڑا اور گھیرا ہے

علی سے منسوب قول ہے

شر بئر في الأرض برهوت

برھوت سب سے شری کنواں زمین پر ہے

کتاب  المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام از  الدكتور جواد علي (المتوفى: 1408هـ) کے مطابق

“بئر برهوت”التي تقع في الوادي الرئيسي للسبعة الأودية

برھوت کا کنواں جو سات وادیوں میں سے سب سے بڑی  میں واقع ہے

کتاب غريب الحديث في بحار الانوار از    حسين الحسني البيرجندي کے مطابق علی نے کہا کفار کی روحیں

وادٍ باليمن يقال له : بَرَهُوت ، وهو من أودية جهنّم

ایک یمن میں ایک وادی میں ہیں جس کو برھوت کہا جاتا ہے جو جہنم کی وادیوں میں سے ہے

یہود کے مطابق جہنم زمین میں ہے اور اغلبا یہ یہود کی رائے ہو گی کہ برھوت جہنم کا منہ ہے یہ مقام سمندر کے پاس ہے اور تلمود کے مطابق جہنم کا ایک منہ سمندر میں گھلتا ہے  یمن سے یہ رائے کوفہ پہنچی اور علی سے اس کو منسوب کیا گیا

برھوت کا اثر عبد الوہاب النجدی پر بھی تھا اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

کتاب   حلية الأولياء وطبقات الأصفياء میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، ثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمَنْعِيِّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرْكَانِيُّ، ثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: لَقِيَ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ عَبْدَ اللهِ بْنَ سَلَّامٍ قَالَ: «إِنْ مُتَّ قَبْلِي فَأَخْبِرْنِي مَا تَلْقَى، وَإِنْ مُتُّ قَبْلَكَ أُخْبِرْكَ»، قَالَ: فَمَاتَ سَلْمَانُ فَرَآهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلَّامٍ فَقَالَ: كَيْفَ أَنْتَ يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ؟ قَالَ: «بِخَيْرٍ»، قَالَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ وَجَدْتَ أَفْضَلَ؟ قَالَ: «وَجَدْتُ التَّوَكُّلَ شَيْئًا عَجِيبًا

اس میں أَبُو مَعْشَرٍ ضعیف ہے

راقم کہتا ہے وہابیوں اور شیعوں کے ڈانڈے برھوت پر مل جاتے ہیں

معلوم ہوا کہ نجدیوں کا عقیدہ ہے کہ روحیں کوئی قید نہیں ہیں بلکہ دنیا میں اتی جاتی رہتی ہیں اگر نہیں آتیں تو برصغیر میں بریلویوں کے گھر

[/EXPAND]

[کیا روح جسم ہے حدیث میں اس کا ذکر ہے کہ میثاق ازل پر چیونٹی جیسا تھا ]

“روح” اللہ کو دیکھ چکی ہے۔ ہماری روح ازل میں اللہ کی آواز سن چکی ہے۔ ہماری روح نے فیصلہ کر کے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جی ہاں ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔ اب جب ہم انسان کی تخلیق کا تذکرہ کرتے ہیں یا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر دو باتیں ہوتی ہیں۔

۱۔ مادی جسم
۲۔ روحانی جسم

روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے اللہ کی آواز سن چکی ہے۔ اگر ہم مادی جسم سے آزاد ہو کر یا جسمانی پردے کے اندر داخل ہو کر روح کا تعارف حاصل کر لیں تو ازل میں داخل ہو سکتے ہیں۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔۔۔۔۔۔

جس نے اپنے نفس(روح) کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

جواب

اول جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا کوئی حدیث نبوی نہیں ہے یہ قول مشھور ہے
https://www.islamic-belief.net/innovations-in-islam/mysticism-in-muslims-belief/gnothi-seauton/

دوم روح کا جسم ہوتا ہے کی کوئی دلیل نہیں ہے قرآن اس کو نفخ پھونک کہتا ہے گویا یہ مانند ہوا ہے حدیث میں بھی اس کو جب فرشتہ لاتا ہے تو نفخ کرتا ہے

==========

روح کو جسم کہا گیا اور اس کو عربی میں عرض کہا جاتا تھا کہ اس کی
width
ہے یعنی یہ کوئی ٹھوس جسم ہے
اس رائے کو بعض متکلمین نے پیش کیا جبکہ اس کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں اس کے بعد اس کو ان علماء نے بیان کیا جو عذاب قبر میں جسم اور روح پر الگ الگ عذاب کے قائل تھے اور برزخی جسم کے انکاری تھے – یہ تھیوری بہت پھیلی اور علماء نے اس کو پسند کیا

راقم کہتا ہے یہ علماء خطاء کا شکار ہوئے کیونکہ اس کی دلیل نہیں ہے
==========

دلیل میں میثاق ازل کی مثال دی گئی کہ الله تعالی نے مخلوق کو چیونٹویوں کی مانند پھیلایا اور پھر میثاق لیا اس کی دلیل مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا هَيْثَمٌ – وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْهُ – قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” خَلَقَ اللهُ آدَمَ حِينَ خَلَقَهُ، فَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُمْنَى، فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً بَيْضَاءَ، كَأَنَّهُمُ الذَّرُّ، وَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُسْرَى، فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً سَوْدَاءَ كَأَنَّهُمُ الْحُمَمُ، فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَمِينِهِ: إِلَى الْجَنَّةِ، وَلَا أُبَالِي وَقَالَ: لِلَّذِي فِي كَفِّهِ (2) الْيُسْرَى: إِلَى النَّارِ وَلَا أُبَالِي ”

جبکہ شعيب الأرنؤوط اس کو ضعیف کہتے ہیں

میثاق ازل کی کیفیت پر راقم کے علم میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے
============

کتاب الروح میں ابن قیم نے اس فلسفہ کو پھیلایا کہ روح عرض ہے یعنی جسم کی طرح چوڑائی رکھتی ہے
اس کی دلیل میں ضعیف روایات سے استنباط کیا گیا

ابن قیم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
قَالَ شَيخنَا وَلَيْسَ هَذَا مثلا مطابقا فَإِن نفس الشَّمْس لَا تنزل من السَّمَاء والشعاع الَّذِي على الأَرْض لَيْسَ هُوَ الشَّمْس وَلَا صفتهَا بل هُوَ عرض حصل بِسَبَب الشَّمْس والجرم الْمُقَابل لَهَا وَالروح نَفسهَا تصعد
ہمارے شیخ (ابن تیمیہ) کہتے ہیں …. بلکہ روح عرض ہے …. اور روح خود چڑھتی ہے

اسی کتاب میں اعتراف کرتے ہیں کہ روح کو عرض کہنا متکمین کا قول ہے
عرض من أَعْرَاض الْبدن وَهُوَ الْحَيَاة وَهَذَا قَول ابْن الباقلانى وَمن تبعه وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو الْهُذيْل العلاف النَّفس عرض من الْأَعْرَاض
روح عرضوں میں سے ایک عرض ہے -یہ قول ابن الباقلانی اور ان کی اتباع کرنے والوں کا ہے اور ایسا ہی ابو الھذیل العلاف المتوفی ٢٣٥ ھ (امام المعتزلہ) کا کہنا ہے

یعنی روح کو عرض کہنا سب سے پہلے معتزلہ نے شروع کیا -ایک دفعہ روح کو عرض مان لیا گیا تو پھر اس کو ایک جسم بھی کہا جانے لگا

ابن أبي العز کتاب شرح العقيدة الطحاوية میں کہتے ہیں
إِنَّ النَّفْسَ عَرَضٌ مِنْ أَعْرَاضِ الْبَدَنِ، كَحَيَاتِهِ وَإِدْرَاكِهِ! وَقَوْلُهُمْ مُخَالِفٌ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
نفس بدن کے عرضوں میں سے ایک عرض ہے اسی حیات و ادرک جیسا ! یہ قول کتاب و سنت کے مخالف ہے

حافظ بن أحمد بن علي الحكمي (المتوفى : 1377هـ) کتاب معارج القبول بشرح سلم الوصول إلى علم الأصول میں لکھتے ہیں
أَنَّ مَذْهَبَ الْجَهْمِ فِي الرُّوحِ هُوَ مَذْهَبُ الْفَلَاسِفَةِ الْحَائِرِينَ, أَنَّ الرُّوحَ لَيْسَتْ شَيْئًا يَقُومُ بِنَفْسِهِ بَلْ عَرَضٌ وَالْعَرَضُ فِي اصْطِلَاحِهِمْ هُوَ مَا لَا يَسْتَقِلُّ وَلَا يَسْتَقِرُّ, فَمَنْزِلَةُ الرُّوحِ عِنْدَهُمْ مِنَ الْجَسَدِ
جھم کا مذھب روح میں پریشان خیال الْفَلَاسِفَةِ کا ہے کہ روح اپنے اپ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ عرض ہے اور عرض ان کی اصطلاح میں وہ ہے جو رکا نہ رہے پس روح کا مقام ان کے نزدیک جسد جیسا ہے

روح کو عرض کیوں کہا اس کا جواب السفاريني الحنبلي (المتوفى: 1188هـ) کتاب لوامع الأنوار البهية میں کہتے ہیں
قَالَ الرُّوحُ عَرَضٌ كَسَائِرِ أَعْرَاضِ الْجِسْمِ، وَهَؤُلَاءِ عِنْدَهُمْ أَنَّ الْجِسْمَ إِذَا مَاتَ عُدِمَتْ رُوحُهُ فَلَا تُعَذَّبُ وَلَا تُنَعَّمُ وَإِنَّمَا يُعَذَّبُ وَيُنَعَّمُ الْجَسَدُ إِذَا شَاءَ اللَّهُ تَعْذِيبَهُ وَتَنْعِيمَهُ رَدَّ إِلَيْهِ الْحَيَاةَ فِي وَقْتٍ يُرِيدُ تَنْعِيمَهُ وَتَعْذِيبَهُ
کہا روح دوسرے جسموں کی طرح عرض ہے اور ان سب کے نزدیک جسم اگر مر جائے روح معدوم ہوتی ہے پس اس کو عذاب نہیں ہوتا نہ نعمت ملتی ہے بلکہ یہ سب جسد کو ہوتا ہے جب الله چاہتا ہے اس کو عذاب اور نعمت دیتا ہے اس کو زندگی لوٹا دیتا ہے جب اس کو عذاب و نعمت ہوتی ہے

لہذا السفاريني الحنبلي (المتوفى: 1188هـ) نے اس قول کا رد کیا کہ روح معدوم ہو جاتی ہے لیکن اصلا روح کو عرض کہنا معتزلہ کا کہنا تھا جو عذاب قبر میں اختلاف کر رہے تھے کہ یہ روح کو ہوتا ہے یا نہیں لہذا انہوں نے اس کو جسم کہا جس کا عرض ہے لیکن یہ کہہ کر انہوں نے اس کو معدوم کر دیا جس کا رد ابن حزم نے کیا لیکن اس بحث میں روح عرض ہے کا فلسفہ ابن تیمیہ اور ابن قیم اور السفاريني الحنبلي ( نے قبول کر لیا جو آج تک چلا ا رہا ہے

[/EXPAND]

[کیا مرنے کے بعد روح کا جسد عنصری سے تعلق قائم ہو جاتا ہے ؟]

جواب

اصل میں قرآن میں اور (ضعیف) روایات میں تفاوت ہے جس کی بنا پر موت کی تعریف میں ہی جھگڑا ہے

موت روح کی جسم سے مکمل علیحدگی ہے
یہ تعریف عام ہے اور قرآن کے مطابق ہے
ابانة ألروح عن الجسد
مفردات القرآن از راغب الاصفہانی

لیکن جب لوگوں نے روایات کو دیکھا تو وہ ان کی تطبیق قرآن سے نہ کر سکے اور انہوں نے بنیادی تعریف کہ موت روح کی جسد سے علیحدگی ہے کو رد کیا
بعض نے یہ رائے لی کہ روح جسد میں لوٹا دی گئی اور قیامت تک قبرستان میں رہتی ہے جیسے امام ابن عبد البر
بعض نے کہا روح قیامت تک جسد سے الگ ہو گئی جیسے امام ابن حزم اور وہ علماء جو روح کے لئے جسد کے قائل تھے
بعض نے کہا روح کا جسم سے تعلق ہو جاتا ہے مثلا امام ابن تیمیہ اور ابن حجر

متکلمین میں بھی اختلاف ہوا مثلا قاضی الباقلانی کا قول ہے – المسالِك في شرح مُوَطَّأ مالك از القاضي محمد المعافري الاشبيلي المالكي (المتوفى: 543هـ) کہتے ہیں

وبهذه المسألة تعلّق القاضي أبو بكر بن الطّيّب بأنّ الرُّوح عرض، فقال: والدّليل عليه أنّه لا ينفصل عن البَدَنِ إلَّا بجُزْءٍ منه يقول به، وهذا الجزء المذكور في حديث أبي هريرة: “كُلُّ ابْنِ آدَمَ تَأْكلُهُ الأَرْضُ، إلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ” الحديث، فدلّ بهذا أنّه ليس بمُعْدَمٍ، ولا في الوجود شيء يَفْنَى ؛ لأنّه إنّ كان فَنِيَ في حقِّنا فهو في حقِّه موجودٌ مرئيٌّ معلومٌ حقيقةً، وعلى هذا الحال يقع السُّؤال في القبر والجواب، ويعرض عليه المقعد بالغَدَاةِ والعشيِّ، ويعلّق من شَجَرِ الجنّة
اور اس مسئلہ میں قاضی ابو بکر بن الطیب الباقلانی نے تعلق کیا ہے کہ روح عرض ہے پس کہا اس کی دلیل ہے کہ یہ بدن سے (مکمل) الگ نہیں ہوتی سوائے اس کے ایک جز کے جس سے یہ بولتا ہے اور یہ جز حدیث ابو ہریرہ میں مذکور ہے ہر بنی آدم کو زمین کھا جائے گی سوائے عجب الذنب کے پس یہ دلیل ہے کہ کہ روح معدوم نہیں ہے اورنہ اس کے وجود میں کوئی چیز فنا ہوئی کیونکہ …. اسی حالت پر سوال قبر اور جواب ہوتا ہے ہے صبح شام ٹھکانہ پیش ہوتا ہے اور یہ جنت کے درخت سے معلق ہے

اسی طرح مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح از ملا علي القاري (المتوفى: 1014هـ) لکھتے ہیں
وَلَا شَكَّ أَنَّ الْجُزْءَ الَّذِي يَتَعَلَّقُ بِهِ الرُّوحُ لَا يَبْلَى، لَا سِيَّمَا عَجَبُ الذَّنَبِ،
اور اس میں شک نہیں کہ ایک جز جس سے روح کا تعلق باقی رہتا ہے وہ ختم نہیں ہوتا خاص طور پر عجب الذنب سے

الكوراني نے وضاحت کی – الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري از أحمد بن إسماعيل بن عثمان بن محمد الكوراني الشافعي ثم الحنفي المتوفى 893 هـ کہتے ہیں
وقد يقال: إنه يتعلق بالجزء الأصلي الذي بقي معه من أول العمر إلى آخره، وهو الذي يركب منه الجسم في النشاة الأولى. ومنه يركب في النشأة الأخرى. وفي رواية البخاري ومسلم: أن ذلك عجب الذنب.
کہا جاتا ہے کہ روح ایک اصلی جز سے تعلق کرتی ہے جو باقی ہے اس کے ساتھ اول عمر سے آخری تک اور یہ وہ ہے جس پر جسم چلتا ہے پہلی تخلیق سے اور اسی پر بعد میں اٹھے گا اور بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ بے شک یہ عجب الذنب ہے

الکورانی یہ بھی کہتے ہیں کہ دوسری رائے ہے کہ
فإن النفس الناطقة مجردة ليست بحاتة في البدن. وهذا مختار الغزالي والراغب والقاضي أبي زيد.
بے شک اکیلا نفس ناطقہ (روح) بدن کا عنصر (و جز) نہیں ہے اور یہ (مذھب) مختار (مناسب و قابل قبول) ہے غزالی اور راغب اور قاضی ابوزید کے مطابق

یعنی روح کا تعلق بدن سے نہیں بن سکتا دونوں الگ ہیں

اپ نے جو اقتباس پیش کیا ہے یہ متکلمین کے ایک گروہ کی رائے تھی کہ روح جسم میں عجب الذنب سے تعلق کرتی ہے
یہ گروہ اب معدوم ہے اس اقتباس میں پوری تشریح اسی رائے کی بنیاد پر کی گئی ہے

لگتا ہے لوگ اس مسئلہ میں ہاتھ پیر مارتے انہی بوسیدہ نظریات میں روح پھونک رہے ہیں جو ایک عرصہ ہوا تاریخ میں کھو چکے تھے

روح جسم سے مکمل الگ ہو جاتی ہے یہی نفس ہے جو حیات جدید اور خلق جدید پر واپس ڈالا جائے گا
قرآن کہتا ہے توفی ہوا روح قبض ہوئی اور اخراج نفس ہوا لیکن یہ لوگ کہہ رہے ہیں  اخراج ہوا ہی نہیں روح عجب الذنب میں سمٹ گئی
گویا فرشتے خالی ہاتھ لوٹ گئے

اصلا یہ قول ان لوگوں کا تراشیدہ ہے جو حیات فی القبر کے شیدائی ہیں جو اولیاء الله اور انبیاء کی وفات کو تسلیم نہیں کر سکے ہیں اور حیات فی القبر کو ماننے والے گمراہ لوگ ہیں

وفات النبی کے روز کسی صحابی کو یہ باطل فلسفہ نہیں سوجھا کہ عمر سے کہتا کہ اے عمر کیوں مسجد میں شور کرتے ہو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح تو انکی عجب الذنب میں ہی رہ گئی فرشتے خالی ہاتھ لوٹ چکے ہیں لیکن ہم تک علم آ چکا کہ جو محمد کا پجاری تھا وہ جان لے کہ محمد کو موت آ چکی اور الله الحی القیوم ہے

سلیمان علیہ السلام کو موت آئی ان لوگوں کے قول کی روشنی میں ان کی روح بھی عجب الذنب میں پھنس گئی فرشتے خالی ہاتھ لوٹ گئے جنات لیکن صحیح عقیدہ رکھتے تھے کہ سلیمان کی روح اب جسد میں نہیں اور قرآن نے بھی انکی تائید کی کہ ہاں تم اگر غیب کو جانتے تو سمجھ لیتے کہ سلیمان وفات پا چکے

قرآن نص قطعی ہے اور حجت ہے اس کے مقابلے پر اخبار احاد کی غلط تاویل کر کے اپنے گمراہ نظریات کو تراشنا ایک غلط بات ہے

ایک وقت تھا جب غیر مقلدین سلفی عقیدہ کو ایسے پیش کرتے تھے کہ گویا وہ حرف آخر ہوں اور ان پر آسمان سے کوئی سند آئی ہو
لیکن اب چند سالوں میں ہم دیکھ رہے ہیں وہ کتابیں پڑھ کر نئے فلسفے بھگار رہے ہیں کوئی کرامیہ کے عقیدہ کو صحیح کہتا ہے تو کوئی خوراج والی رائے رکھتا ہے اور تو اور کوئی قاضی الباقلانی کی رائے تک ا گیا ہے جن پر ابن تیمیہ جرح کرتے رہے ہیں
یعنی اب واپس اشاعرہ کے علماء کی کتاب سے نظریہ سرقه کر کے اس کو خالص رائے پر کھڑا کرنے کے بعد یہ مطالبہ کرنا کہ اس کو تسلیم کیا جائے عجب بات ہے

ہم نے اس مسئلہ جو رائے اختیار کی ہے اس سے قرآن و احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جبکہ دوسری آراء میں یہ ممکن نہیں ہے
جو چاہے قرآن و حدیث کا تقابل کر کے جان لے

قرآن کہتا ہے
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ
بلا شبہ ہم جانتے ہیں جو زمین ان کے جسموں میں سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس محفوظ کتاب ہے

حدیث میں ہے کہ انسان کا جسم زمین کھا جاتی ہے سوائے عجب الذنب کے-
اس میں کوئی دلیل نہیں کہ یہ عجب الذنب زندہ ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالی قرآن میں خاص طور پر ذکر کرتے ہیں کہ وہ ہڈی کو زندہ کریں گے

یہ لوگ کہتے ہیں  میت جس و عقل رکھتی ہے جبکہ یہ بات بھی خلاف قرآن ہے
قرآن کہتا ہے زندہ و مردہ برابر نہیں اور اپ مردوں کو نہیں سنا سکتے الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے

اس میں بھی ہے جس کو چاہتا ہے سنواتا ہے لیکن اقتباس میں اس خصوص کو ختم کر کے عموم کا دعوی کیا گیا ہے

رسول الله صلي الله عليہ وسلم کے قول کہ جو مرا فقد قَامَت قِيَامَته اس پر اسکي قيامت قائم ہوئي پر بحث کرتے ہوئے ابن حزم (المتوفى: 456هـ) کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل ميں لکھتے ہيں

قَالَ أَبُو مُحَمَّد وَإِنَّمَا عَنى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِهَذَا الْقيام الْمَوْت فَقَط بعد ذَلِك إِلَى يَوْم الْبَعْث كَمَا قَالَ عز وَجل {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} فنص تَعَالَى على أَن الْبَعْث يَوْم الْقِيَامَة بعد الْمَوْت بِلَفْظَة ثمَّ الَّتِي هِيَ للمهلة وَهَكَذَا أخبر عز وَجل عَن قَوْلهم يَوْم الْقِيَامَة {يا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} وَأَنه يَوْم مِقْدَاره خَمْسُونَ ألف سنة وَأَنه يحيي الْعِظَام وَيبْعَث من فِي الْقُبُور فِي مَوَاضِع كَثِيرَة من الْقُرْآن وبرهان ضَرُورِيّ وَهُوَ أَن الْجنَّة وَالنَّار موضعان ومكانان وكل مَوضِع وَمَكَان ومساحة متناهية بِحُدُودِهِ وبالبرهان الَّذِي قدمْنَاهُ على وجوب تناهي الإجسام وتناهى كل مَا لَهُ عدد وَيَقُول الله تَعَالَى {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} فَلَو لم يكن لتولد الْخلق نِهَايَة لكانوا أبدا يحدثُونَ بِلَا آخر وَقد علمنَا أَن مصيرهم الْجنَّة أَو النَّار ومحال مُمْتَنع غير مُمكن أَن يسع مَا لَا نِهَايَة لَهُ فيماله نِهَايَة من الماكن فَوَجَبَ ضَرُورَة أَن لِلْخلقِ نِهَايَة فَإِذا ذَلِك وَاجِب فقد وَجب تناهى عَالم الذَّر والتناسل ضَرُورَة وَإِنَّمَا كلامنا هَذَا مَعَ من يُؤمن بِالْقُرْآنِ وبنبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَادّعى الْإِسْلَام وَأما من أنكر الْإِسْلَام فكلامنا مَعَه على مَا رتبناه فِي ديواننا هَذَا من النَّقْض على أهل الْإِلْحَاد حَتَّى تثبت نبوة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَصِحَّة مَا جَاءَ بِهِ فنرجع إِلَيْهِ بعد التَّنَازُع وَبِاللَّهِ تَعَالَى التَّوْفِيق وَقد نَص الله تَعَالَى على أَن الْعِظَام يُعِيدهَا ويحيها كَمَا كَانَت أول مرّة وَأما اللَّحْم فَإِنَّمَا هُوَ كسْوَة كَمَا قَالَ {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين}

امام ابن حزم نے کہا کہ بے شک رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے خبر دي قيام سے مراد فقط موت ہے کيونکہ اب اس کو يوم بعث پر اٹھايا جائے گا جيسا الله تعالي نے کہا {ثمَّ إِنَّكُم يَوْم الْقِيَامَة تبعثون} پھر تم کو قيامت کے دن اٹھايا جائے گا پس نص کي الله تعالي نے ان الفاظ سے کہ زندہ ہونا ہو گا قيامت کے دن موت کے بعد يعني يہ ايک ڈيڈ لائن ہے اور اسي طرح الله نے خبر دي قيامت پر اپنے قول سے {يَا ويلنا من بعثنَا من مرقدنا هَذَا} ہائے بربادي کس نے ہميں اس نيند کي جگہ سے اٹھايا اور اس دن کي مقدار پچاس ہزار سال کي ہے اور بے شک اس نے خبر دي قرآن ميں اور برہان ضروري سے کثير مقامات پر کہ وہ ہڈيوں کو زندہ کرے گا اور جو قبروں ميں ہيں انکو جي بخشے گا – جنت و جہنم دو جگہيں ہيں اور مکان ہيں اور ہر مکان کي ايک حدود اور انتھي ہوتي ہے اور وہ برہان جس کا ہم نے ذکر کيا واجب کرتا ہے کہ اس ميں اجسام لا متناہي نہ ہوں اور گنے جا سکتے ہوں اور الله کا قول ہے {وجنة عرضهَا السَّمَاوَات وَالْأَرْض} وہ جنت جس کي چوڑائي آسمانوں اور زمين کے برابر ہے اور …. پس ضروري ہے کہ مخلوق کي انتھي ہو … اور بے شک اللہ تعالي نے نص دي کہ ہڈيوں کو واپس شروع کيا جائے گا اور انکو زندہ کيا جائے گا جيسا پہلي دفعہ تھا اور جو گوشت ہے تو وہ تو اس ہڈي پر غلاف ہے جيسا الله نے کہا {وَلَقَد خلقنَا الْإِنْسَان من سلالة من طين ثمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَة فِي قَرَار مكين} اور بے شک ہم نے انسان کو خلق کيا مٹي سے پھر اس کا نطفہ ايک ٹہرنے والي جگہ کيا

ابن حزم بار بار الله تعالي کے قول کي ياد دہاني کرا رہے ہيں کہ موت کے بعد اجسام ہڈيوں ميں بدل جائيں گے اور زندہ بھي ہڈي کو کيا جائے گا پھر اس پر گوشت کا غلاف آئے گا لہذا يہ ظاہر ہے کان يا آلات سماعت تو گوشت کے ھوتے ہيں جب وہ ہي معدوم ہو جائيں تو انسان کيسے سنے گا

عجب الذنب ایک ہڈی ہے جو باقی رہے گی لیکن بے جان و بے روح رہے گی جس طرح ایک بیج بے جان ہوتا ہے
یہ الله کا فعل ہے جو بے جان میں سے زندہ کو نکآلتا ہے

روح عالم بالا میں رہے گی جیسا صحیح مسلم کی حدیث میں ہے

[/EXPAND]

 

اہل تشیع اور دجال

عموما اہل تشیع  دجال کی روایات بیان نہیں کرتے لہذا یہاں ان کی کتب کی کچھ روایات نقل کی جاتی ہیں تاکہ دیکھیں کہ اس کے بارے میں ان کی کیا آراء ہیں

الكافي – از  الكليني – ج 8 – ص 296 – 297 کی روایت ہے

حمید بن زياد ، عن الحسن بن محمد الكندي ، عن غير واحد من أصحابه عن أبان بن عثمان ، عن أبي جعفر الأحول : والفضيل بن يسار ، عن زكريا النقاض ( 4 ) . عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : سمعته يقول : الناس صاروا بعد رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) بمنزلة من اتبع هارون ( عليه السلام ) ومن اتبع العجل وإن أبا بكر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) ( 5 ) إلا القرآن ‹ صفحة 297 › وإن عمر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإن عثمان دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإنه ليس من أحد يدعو إلى أن يخرج الدجال إلا سيجد من يبايعه ومن رفع راية ضلال [ – ة ] فصاحبها طاغوت .

زكريا النقاض  ، ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابی جعفر علیہ السلام کو سنا کہہ رہے تھے لوگ رسول الله صلى الله عليه وآله  کے بعد ہو گئے اس کے ساتھ جس کی منزلت ان کی سی تھی جنہوں نے ہارون کی اتباع کی اور (دوسرا گروہ) ان کی جنہوں نے گوسالہ پرستی کی اور ابو بکر نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (ابو بکر کی اتباع کی)  اور عمر نے پکارا تو علی نے انکار کیا  سوائے قرآن کے لئے (عمر کی اتباع کی)  اور عثمان نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (عثمان کی اتباع کی)  اور ایسا کوئی نہ ہو گا کہ وہ دجال کے لئے پکارے  تو وہ خود ان میں  سے ہو جائے گا  جوگمراہی کا جھنڈا اٹھائے ہوں اور طاغوت کے  ساتھی ہوں

الأمالي – از الصدوق – ص 345 – 347 کی روایت ہے

حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق ( رحمه الله ) ، قال : حدثنا عبد العزيز ابن يحيى الجلودي ، قال : [ حدثنا محمد بن عطية ، قال : حدثنا عبد الله بن عمرو بن سعيد البصري ، قال : حدثنا ] ( 3 ) هشام بن جعفر ، عن حماد ، عن عبد الله بن سليمان ( 4 ) ، وكان قارئا للكتب ، قال : قرأت في الإنجيل : يا عيسى ، جد في أمري ولا ‹ صفحة 346 › تهزل ، واسمع وأطع ، يا بن الطاهرة الطهر البكر البتول ، أتيت ( 1 ) من غير فحل ، أنا خلقتك آية للعالمين ، فإياي فاعبد ، وعلي فتوكل ، خذ الكتاب بقوة ، فسر لأهل سوريا السريانية ، وبلغ من بين يديك أني أنا الله الدائم الذي لا أزول ، صدقوا النبي ( صلى الله عليه وآله ) الأمي صاحب الجمل والمدرعة ( 2 ) والتاج – وهي العمامة – والنعلين والهراوة – وهي القضيب – الأنجل العينين ( 3 ) ، الصلت الجبين ( 4 ) ، الواضح ( 5 ) الخدين ، الأقنى الانف ، المفجل ( 6 ) الثنايا ، كأن عنقه إبريق فضة ، كأن الذهب يجري في تراقيه ، له شعرات من صدره إلى سرته ، ليس على بطنه ولا على صدره شعر ، أسمر اللون ، دقيق المسربة ( 7 ) ، شثن ( 8 ) الكف والقدم ، إذا التفت التفت جميعا ، وإذا مشى كأنما يتقلع ( 9 ) من الصخرة وينحدر من صبب ( 10 ) ، وإذا جاء مع القوم بذهم ( 11 ) ، عرقه في وجهه كاللؤلؤ ، وريح المسك ينفح منه ، لم ير قبله مثله ولا بعده ، طيب الريح ، نكاح النساء ذو النسل القليل ، إنما نسله من مباركة لها بيت في الجنة ، لا صخب فيه ولا نصب ، يكفلها في آخر الزمان كما كفل زكريا أمك ، لها فرخان مستشهدان ، كلامه القرآن ، ودينه الاسلام ، وأنا السلام ، طوبى لمن أدرك زمانه ، وشهد أيامه ، وسمع كلامه . ‹ صفحة 347 › قال عيسى ( عليه السلام ) : يا رب ، وما طوبى ؟ قال : شجرة في الجنة ، أنا غرستها ، تظل الجنان ، أصلها من رضوان ، ماؤها من تسنيم ، برده برد الكافور ، وطعمه طعم الزنجبيل ، من يشرب من تلك العين شربة لا يظلما بعدها أبدا . فقال عيسى ( عليه السلام ) : اللهم اسقني منها . قال : حرام – يا عيسى – على البشر أن يشربوا منها حتى يشرب ذلك النبي ، وحرام على الأمم أن يشربوا منها حتى تشرب أمة ذلك النبي ، أرفعك إلي ثم أهبطك في آخر الزمان لترى من أمة ذلك النبي العجائب ، ولتعينهم على العين الدجال ، أهبطك في وقت الصلاة لتصلي معهم إنهم أمة مرحومة

عبد الله بن سليمان جو کتب سماوی کو پڑھنے والے تھے کہتے ہیں میں نے انجیل میں پڑھا … عیسیٰ نے الله سے کہا اے رب یہ طوبی کیا ہے ؟ کہا جنت کا درخت ہے  اس کا پانی تسنیم ہے اس کی ٹھنڈک کافور جیسی ہے اور کھانا زنجبیل جیسا ہے اور جو اس چشمہ سے پی لے اس کو پیاس نہ لگے گی کبھی بھی عیسیٰ نے کہا اے الله مجھے پلا دے فرمایا حرام ہے اے عیسیٰ کہ کوئی اس میں سے بشر پئے جب تک اس کو النبی (محمد) نہ پئے اور اس کی امت پر حرام ہے حتی کہ انکا النبی نہ پئے- میں تجھ کو اٹھا لوں گا پھر واپس آخری زمانے میں تیرا هبوط ہو گا کہ تم اس النبی العجائب کی امت دیکھو گے اور اس امت کی لعین دجال کے مقابلے میں مدد کرو گے اور تمہارا هبوط نماز کے وقت ہو گا کہ تم اس رحمت والی امت کے ساتھ نماز پڑھو

انجیل میں  طوبی کا کہیں نہیں لکھا عبد بن سلیمان کو یہ انجیل کہاں سے ملی پتا نہیں

الخصال – از الصدوق – ص 431 – 432 کی روایت ہے

عن أبي الطفيل ( 2 ) ، عن حذيفة بن أسيد قال : اطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وآله من غرفة له ونحن نتذاكر الساعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لا تقوم الساعة حتى تكون عشر آيات : الدجال ، والدخان ، وطلوع الشمس من مغربها ، ودابة الأرض ، و يأجوع ومأجوج ، وثلاث خسوف : خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة ‹ صفحة 432 › العرب ، ونار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر ، تنزل معهم إذا نزلوا وتقيل معهم إذا قالوا . عشر خصال جمعها الله عز وجل لنبيه وأهل بيته صلوات الله عليهم

حذيفة بن أسيد کہتے ہیں ان کو رسول الله صلى الله عليه وآله نے خبر دی اپنے  غرفة میں  اور ہم وہاں قیامت کا ذکر کر رہے تھے  رسول الله صلى الله عليه وآله  نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ہوں دجال دھواں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا  دابه الارض یاجوج اور ماجوج  تین خسوف مغرب مشرق اور عرب میں اور اگ جو عدن کی تہہ سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف جمع کرے گی

ثواب الأعمال – از الصدوق – ص 54  کی روایت ہے

 ومن صام من رجب أربعة أيام عوفي من البلايا كلها من الجنون والجذام والبرص وفتنة الدجال واجبر من عذاب القبر

 جس نے رجب کے چار دن کے  روزے رکھے  وہ اس کو بچائیں گے جنون سے جذام سے برص سے اور دجال کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے بھی

الأمالي – از الصدوق – ص 681

 حدثنا محمد بن علي ماجيلويه ( رحمه الله ) ، قال : حدثني عمي محمد ابن أبي القاسم ، قال : حدثني محمد بن علي الكوفي ، عن المفضل بن صالح الأسدي ، عن محمد بن مروان ، عن أبي عبد الله الصادق ، عن أبيه ، عن آبائه ( عليهم السلام ) ، قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يوم القيامة يهوديا . قيل : يا رسول الله ، وإن شهد الشهادتين ؟ قال : نعم ، فإنما احتجز بهاتين الكلمتين عن سفك دمه ، أو يؤدي الجزية عن يد وهو صاغر . ثم قال : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يهوديا . قيل : فكيف ، يا رسول الله ؟ قال : إن أدرك الدجال آمن به

أبي عبد الله الصادق اپنے باپ اور ان کے اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا اے رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) اور اگر وہ دو شہادتیں دے دے  فرمایا ہاں ….   رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے پھر فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا کیسے اے رسول الله ؟ فرمایا جب وہ دجال کو پائے گا تو اس پر ایمان لائے گا

یہ روایت دلیل ہوئی کہ دجال یہودی ہو گا اس کو ذہن میں رکھیں ابھی نیچے اس پر بحث آ رہی ہے

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 14 – ص 348

 وبإسناده عن الحسين بن سعيد ، عن صفوان وابن فضال ، عن ابن بكير ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : ذكر الدجال فقال : لا يبقى ( 1 ) منهل إلا وطأه إلا مكة والمدينة ، فإن على كل ثقب من أثقابها ( 2 ) ملكا يحفظها من الطاعون والدجال

أبي عبد الله عليه السلام نے فرمایا اور انہوں نے دجال کا ذکر کیا پس فرمایا اس سے کوئی (شہر) نہ بچے گا کہ جو  اس کا مطیع نہ ہو سوائے مکہ مدینہ کے کہ  اس کے ہر گھڑے اور خندق میں فرشتہ ہو گا اور وہاں دجال اور طاعون نہ آ سکے گا

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 16 – ص 179

وفي ( صفات الشيعة ) عن محمد بن موسى بن المتوكل ، ( عن محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، ) ( 1 ) عن الحسن بن علي الخزاز قال : سمعت الرضا ( عليه السلام ) يقول : إن ممن ينتحل مودتنا أهل البيت من هو أشد فتنة على شيعتنا من الدجال ، فقلت : بماذا ؟ قال : بموالاة أعدائنا ، ومعاداة أوليائنا إنه إذا كان كذلك اختلط الحق بالباطل ، واشتبه الامر فلم يعرف مؤمن من منافق

الحسن بن علي الخزاز کہتے ہیں انہوں نے امام الرضا علیہ السلام کو سنا انہوں نے کہا جس کے اندر ہماری محبت ہو وہ اس دجال کے فتنہ میں اس پر بہت سخت ہو گا میں نے پوچھا ایسا کیوں؟ فرمایا ہمارے دشمنوں سے دوستی کی وجہ سے اور ہمارے دوستوں سے عداوت رکھنے کی وجہ سے سو جب ایسا ہو تو حق و باطل مل جائے گا اور امر مشتبہ ہو جائے گا لہذا مومن اور منافق پہچان نہ سکیں گے

یہ روایات اہل تشیع  کی کتب کی ہیں – ان میں اہم بات ہے کہ امام مہدی کا ذکر ہی نہیں حالانکہ امام مہدی اور  عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر شیعہ اور سنی ایک ساتھ بیان کرتے ہیں- اہل تشیع نے اس کا حل نکالا کہ صرف امام مہدی کا ذکر کرو- دجال کی روایات وہ مجلس میں بیان نہیں کرتے اور اس میں ایک عام شیعہ کا تصور ہے کہ قرب قیامت میں صرف امام مہدی آئیں گے اور سنی ختم ہو جائیں گے صرف شیعہ رہ جائیں گے لیکن یہاں روایات میں ہے کہ اہل بیت کے دشمن دجال کی تمیز کھو دیں گے اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی کے بعد انے والے دجال کے وقت تک اہل بیت کے دشمن ہوں- یہ تضاد ہے جو امام مہدی اور خروج دجال کے حوالے سے ان کی کتب میں پایا جاتا ہے

عصر حاضر کے شیعہ محققین اور شارحین نے ایک نئی شخصیت سفیانی کو دجال سے ملا دیا ہے – سفیانی ایک شخص بتایا جاتا ہے جو ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل سے ہے اس کا نام عثمان بن عنبسہ  لیا جاتا ہے اور اس  کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ روم سے آئے گا اس کا چہرہ سرخ اور انکھیں نیلی ہوں گی اور گلے میں صلیب ہو گی (صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص651۔  نعمانی، الغیبة، ترجمه: جواد غفاری، ص435۔  طوسی، الغیبة، بصیرتی، قم، ص278۔   مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص205) –

سفیانی کے لئے شیعہ کتب میں  کچھ روایات میں ہے

وخروج السفياني براية خضراء وصليب من ذهب» (مختصر بصائر الدرجات للحسن بن سليمان الحلي: ص199

سفیانی کا خروج سبز جھنڈے اور سونے کی صلیب کے ساتھ ہے

وعن بشير بن غالب قال: يقبل السفياني من بلاد الروم منتصرا في عنقه صليب وهو صاحب القوم) (كتاب الغيبة للشيخ الطوسي: ص463

سفیانی بلاد روم سے مدد لے گا گلے میں صلیب ہو گی اور اس قوم میں سے ہو گا

السفياني… لم يعبد الله قط ولم ير مكة ولا المدينة قط» (بحار الأنوار للعلامة المجلسي: ج52، ص254

سفیانی الله کی عبادت نہ کبھی کرے گا نہ مکہ دیکھے گا نہ مدینہ

یعنی سفیانی ایک نصرانی ہو گا  اللہ کی عبادت نہ کرتا ہو گا اور روم کی مدد لے گا اور انہی میں سے ہو  گا

یہ روایات الکافی کی نہیں ہیں – الکافی میں دجال سے متعلق  اس قسم کی کوئی روایت نہیں

اس کے برعکس اہل سنت کے مطابق دجال ایک گھنگھریالے بال والا ہو گا اس کی شکل عربوں میں حجازیوں جیسی ہو گی اور ایک انکھ پھولنے والے انگور جیسی ابلی پڑ رہی ہو گی- گویا دجال اہل سنت بد صورت ہو گا اور دجال اہل تشیع کے ہاں نیلی آنکھوں والا رومیوں جیسا ( اغلبا حسین) ہو گا

اب ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل کے لوگ کب روم منتقل ہوئے الله کو پتا ہے اور وہاں سے ایک خالص عربی نام  عثمان بن عنبسہ  کے ساتھ اس کا خروج بھی عجیب بات ہے – دوم سفیانی کے گلے میں صلیب بھی ہے یعنی اگر سفیانی دجال ہے تو اہل تشیع کا دجال اب عیسائیوں میں سے ہے اور اہل سنت اس کو یہودی بتاتے ہیں یہ بھی اختلاف اہم ہے

سفیانی کی حقیقت – کتب شیعہ میں

تاریخ کے مطابق  السفیانی   سے مراد  يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان  جو   معاویہ رضی الله عنہ کے پڑ پوتے ہیں  انہوں نے دمشق  میں بنو امیہ کے آخری دور میں  خروج کیا-

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٦٤ – ٢٦٥

 عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد ، عن عثمان بن عيسى ، عن بكر بن محمد ، عن سدير قال : قال أبو عبد الله ( عليه السلام ) : يا سدير ألزم بيتك وكن حلسا من  أحلاسه  واسكن ما سكن الليل والنهار فإذا بلغك أن السفياني قد خرج فارحل إلينا ولو على رجلك

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اے سدير اپنے گھر میں رہو .. پس جب السفیانی کی خبر آئے تو ہمارے طرف سفر کرو چاہے چل کر آنا پڑے

تبصرہ السفیانی سے مراد ایک اموی ہیں جو ابو سفیان رضی الله تعالی عنہ کے پڑ پڑ پوتے ہیں. تاریخ الیعقوبی از الیعقوبی المتوفی ٢٨٤ ھ کے مطابق

وخرج أبو محمد السفياني، وهو يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان، بما لديه……… ، وكان ذلك سنة ١٣٣ ھ

اور ابو محمد السفیانی کا خروج ہوا اور وہ ہیں اور یہ سن ١٣٣ ھ میں ہوا-   امام جعفر المتوفی ١٤٨ ھ کے دور میں السفیانی کا خروج ہو چکا تھا

السفیانی کا خروج ہو گیا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٠٩

 علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن محبوب عن إسحاق بن عمار ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : لا ترون ما تحبون حتى يختلف بنو فلان  فيما بينهم فإذا اختلفوا طمع الناس وتفرقت الكلمة وخرج السفياني

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا کیا تم دیکھتے نہیں جو تم کو پسند ہے کہ بنو فلاں میں جو ان کے پاس ہے اس پر اختلاف ہوا ، پس جب اختلاف ہوا لوگوں کا لالچ بڑھا اور وہ بکھر گئے اور السفیانی کا خروج ہوا

تبصرہ    بنو فلاں سے مراد بنو امیہ ہیں جن میں آپس میں خلافت پر  پھوٹ پڑھ گئی تھی. امام جعفر کے مطابق السفیانی کا خروج ہو گیا ہے یہ دور ١٢٦ سے ١٣٣ ھ کا  ہے

السفیانی  کو قتل کر دیا جائے گا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٣٣١

حميد بن زياد ، عن أبي العباس عبيد الله بن أحمد الدهقان ، عن علي ابن الحسن الطاطري ، عن محمد بن زياد بياع السابري ، عن أبان ، عن صباح بن سيابة عن المعلى بن خنيس قال : ذهبت بكتاب عبد السلام بن نعيم وسدير وكتب غير واحد إلى أبي عبد الله ( عليه السلام ) حين ظهرت المسودة قبل أن يظهر ولد العباس بأنا قد قدرنا أن يؤول هذا الامر إليك فما ترى ؟ قال : فضرب بالكتب الأرض ثم قال : أف أف ما أنا لهؤلاء بإمام أما يعلمون أنه إنما يقتل السفياني

جب (بنو عبّاس سے پہلے) المسودہ  ظاہر ہوئے  (ابو عبدللہ سے بذریعہ خط ان کی رائے پوچھی گئی تو) انہوں نے خط زمین پر پھینک دیا پھر أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اف اف کیا میں ان لوگوں کے نزدیک امام نہیں،   کیا ان کو پتا نہیں کہ  یہی تو السفیانی کو قتل کریں گے

تبصرہ      حاشیہ میں المسودہ سے مراد أصحاب أبي مسلم المروزي لکھا ہے جو درست ہے ابو مسلم خراسانی کالے کپڑے اور کالے پگڑیاں باندھ کر نکلے تھے .امام جعفر کا گمان درست ثابت ہوا السفیانی کو قتل کیا گیا

المھدی کا اعلان

بحارالانوارج۲۵ص۹۱۱ص٨٤   میں روایت ہے  ،    ابوبصیر ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں

 راوی: میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں،قائم علیہ السلام کا خروج کب ہوگا؟

 امام جعفر صادق:اے ابامحمد!ہم اہل بیت علیہ السلام اس وقت کو متعین نہیں کرتے،آپ نے فرمایا کہ وقت مقرر کر دینے والے جھوٹے ہیں، لیکن اے ابومحمد قائم کے خروج سے پہلے پانچ کام ہوں گے

 ماہ رمضان میں آسمان سے نداءآئے گی  سفیانی کاخروج ہوگا  ، خراسانی کا خروج ہوگا،   نفس ذکیہ کاقتل ہوگا  بیداءمیں زمین دھنس جائے گی۔

راوی: میں نے پوچھا کس طرح نداءآئے گی؟

 امام علیہ السلام:حضرت قائم علیہ السلام کا نام اور آپ کے باپ کے نام کےساتھ لیا جائے گا اور اسی طرح اعلان ہوگا   فلاں کا فلاں بیٹا قائم آل محمد علیہم السلام ہیں، ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو، اللہ کی کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں بچے گی کہ جس میں روح ہے مگر یہ کہ وہ اس آواز کو سنے گی سویا ہوا اس آواز سے جاگ جائے گا اور اپنے گھر کے صحن میں دوڑ کر آ جائے گا اور پردہ والی عورت اپنے پردے سے باہر نکل آئے گی، قائم علیہ السلامیہ آواز سن کر خروج فرمائیں گے یہ آوازجبرئیل علیہ السلام کی ہوگی

تبصرہ ابو مسلم خراسانی کا خروج ہو گیا اور محمّد بن عبدللہ المھدی نفس الزکیہ کا بھی خروج ہو چکا. ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رویوں کا گمان تھا کہ   حسین  کی نسل سے  المہدی ظاہر ہونے والا ہے-  لیکن دو نشانیاں  رمضان  میں آسمان سے نداء  اور  بیدا میں زمین کا دھنسنا نہیں ہوا-

 یہ تمام نشانیاں    ایک ساتھ ظاہر ہونی تھیں  لیکن نہیں ہوئیں

سفیانی کو اہل تشیع کا اب دجال کہنا سراسر غلط ہے اور اوپر والی روایت کو جو دجال سے متعلق تھیں ان میں زبر دستی اپنی رائے کو شامل کرنے کے مترادف ہے

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية نام کے ابو سفیان رضی الله عنہ کے ایک پوتے تھے جو اپنے زمانے میں ایک معتدل شخصیت تھے اور قبول عامہ ایسی تھی کہ لوگ ثآلث مقرر کرتے تھے

ابن حزم نے کتاب  جمهرة أنساب العرب  میں لکھا ہے

أراد أهل الأردن القيام به باسم الخلافة، إذ قام مروان: أمه زينب بنت الزبير بن العوام

اہل اردن نے ارادہ کیا تھا  کہ مروان کے قیام (خلافت) پر ان کے نام پر خلافت قائم کرنے کا – ان کی والدہ کا نام زينب بنت الزبير بن العوام ہے

کتاب نسب قريش از أبو عبد الله الزبيري (المتوفى: 236هـ) کے مطابق کے والد عنبسة بن عمرو بن عثمان بن عفان ہیں

اغلبا شیعان کو خطرہ تھا کہ کہیں اہل اردن (جن میں ممکن ہے عیسائی ہوں ) کہیں اس شخص کے لئے خلافت  قائم نہ کر دیں – یہ ابو سفیان رضی الله عنہ کی اولاد میں سے بھی ہیں لہذا اس بنیاد پر عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية کے خلاف روایات بنا دی گئیں – عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية تو انتقال کر گئے لیکن روایات شیعوں کے پاس رہ گئیں

عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ کی خلافت مکہ سے بصرہ تک تھی اور عبد الملک کی شام میں دونوں میں رابطہ کے فرائض عثمان بن عنبسة  انجام دیتے تھے کیونکہ عثمان بن عنبسة دونوں کے رشتہ دار تھے عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ عثمان بن عنبسة کے ماموں تھے

یعنی  اہل تشیع جس السفیانی کا انتظار کر رہے ہیں وہ گزر چکا  ہے چاہے يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہوں یا عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية ہوں

الله ہم سب کو ہدایت دے

توریت کے تین حکم

مدینہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے مد مقابل ٹھیٹھ مولوی تھے جنہوں نے دین کو پیشہ بنا رکھا تھا اور کتاب الله یعنی توریت کو چھپایا جاتا اور اس کے مقابلے پر اپنا مسلک و روایت پیش کی جاتی – مدینے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم حاکم تھے اور کئی موقعوں پر آپ نے یہود کو دین کی طرف بلایا اور صحیح بخاری کے مطابق ان کے مدارس بھی گئے

صحیح بخاری کی حدیث ہے

أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي المَسْجِدِ، خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ»، فَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ المِدْرَاسِ فَقَالَ:  أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ہم مسجد میں تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نکلے اور کہا یہود کی طرف چلو پس ہم نکلے یہاں تک کہ بیت المدارس پہنچے پس آپ نے فرمایا اسلام قبول کرو امان ملے گا اور جان لو کہ زمین الله اور اس کے رسول کے لئے ہے

ہمارے راویات پسند علماء کی غلطی ہے کہ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ سابقہ شریعت منسوخ ہے جبکہ قرآن سوره المائدہ میں  اہل کتاب کو کہتا ہے

قل ياأهل الكتاب لستم على شيء حتى تقيموا التوراة والإنجيل وما أنزل إليكم من ربكم وليزيدن كثيرا منهم ما أنزل إليك من ربك طغيانا وكفرا فلا تأس على القوم الكافرين

کہو اے اہل کتاب تم کوئی چیز نہیں جب تک تم توریت و انجیل کو قائم نہیں کرتے اور وہ جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے ان کی سر کشی و بغاوت میں ہی اضافہ ہوا – پس انکاریوں  کی حالت پر افسوس نہ کرو

یعنی قرآن میں یہ واضح ہے کہ توریت و انجیل اہل کتاب کو پتا ہے لیکن اس کو چھپاتے ہیں اور اس کو قائم نہیں کرتے-

یہ بحث  کہ اصل توریت کیا ہے اس کے لئے اس  ویب سائٹ پر کتاب

In Search of Hidden Torah

دیکھئے

اس میں اہل کتاب کی کتب اور قرآن و حدیث کا تقابل کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اصل  توریت کتاب  استثنا کے باب ١٢ یا ٢٦ میں ہے جس کا اقرار اہل کتاب آج کر رہے ہیں کہ اس کی عبرانی باقی توریت سے الگ  ہے – اس کو انگریزی میں

Book of Deuteronomy

کہا جاتا ہے – عجیب بات ہے جب بھی قرآن کہتا ہے ہم نے توریت میں یہ حکم دیا تو وہ استثنا کے اسی باب ١٢ یا ٢٦ میں موجود ہے جو آہل ایمان کے لئے نشانی ہے

تورات کا ایک حکم – رجم  کی سزا

نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس   یہودیوں کے زنا کا مقدمہ پیش ہوا –  یہود نے اس کی سزا گدھے پر بٹھا کر منہ کالا کرنا بتائی –   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت لانے اور اسکو پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : میں تورات ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ چنانچہ (اُس یہودی اور یہودیہ کے بارے میں) حکم دیا گیا اور وہ دونوں سنگ سار کر دیے گئے

تورات کتاب استثنا باب ٢٢ کی آیت  ٢٠  اگر کوئی شادی شدہ مرد اپنی بیوی میں باکرہ ہونے کی علامت نہ پائے تو ایسی عورت کو سنگسار کر دو

استنسنا2121

یہودیوں میں توریت پر فقہی مباحث جاری تھے اور اس مجموعے کو تلمود کہا جاتا ہے اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں یروشلم اور بابل میں کام جاری تھا تلمود کے مطابق( سات) بڑے گناہوں  کی سزا کوڑے ہے اور قتل یا رجم نہیں کیونکہ زنا کی سزا کے لئے دو گواہ ہونے چاہییں – اگردو گواہ مرد و عورت کو حالت زنا میں دیکھیں اور بولیں الگ ہو جاؤ اور وہ زانی الگ ہو جائیں تو توریت کا حکم نہیں لگے گا -یہ علماء کا فتوی تھا جو تلمود میں ہے-  لیکن مدنیہ والے ان سے بھی ایک ہاتھ آگے تھے انہوں نے فتوی دیا کہ صرف گدھے پر منہ کالا کر کے بیٹھا دو- نہ کوڑے کی سزا دے رہے تھے جو تلمود میں ہے،  نہ رجم کر رہے تھے جو توریت میں ہے

تفصیل کے لئے  کتاب دیکھئے

The Religious and Spiritual Life of the Jews of Medina
By Haggai Mazuz, Brill Publisher, 2014

صحیح مسلم کی ایک مدلس الْأَعْمَشِ کی عن سے  روایت میں ہے مَجْلُودًا   کہ ان یہودیوں کو کوڑے بھی مارے گئے لیکن  یہ روایت غریب اور شاذ  ہے کوڑے مارنے کا  مجموعہ کتب حدیث میں کہیں اور  ذکر نہیں ہے جس حدیث میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہے وہاں صرف منہ کالا کرنا اور گدھے پر بیٹھانا لکھا ہے

رجم کا یہ حکم توریت سے لیا گیا اور اخلاقا یہ ممکن نہیں کہ یہودیوں کے زانی کو تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم توریت کا حوالہ دے کر رجم کا حکم دیں اور مسلمانوں کو بچا لیں لہذا  شادی شدہ مسلمان زانی کے لئے یہی حکم جاری ہوا

عینی عمدہ القاری میں لکھتے ہیں کہ بعض معتزلہ اور خوارج نے  رجم کی سزا کا انکار کیا – اسی طرح بعض اہل سنت کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس سلسلے میں انے والی صحیح و ضعیف روایات کو ملا کر ان پر تبصرہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان تمام روایات میں اضطراب ہے –   دوسری طرف روایت پسند علماء نے رجم کی ایک ایک روایت کو صحیح کہہ دیا جس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے اور الجھ گیا – عصر حاضر میں   مصری علماء مثلا محمد الصادق عرجون نے رجم  کی روایات پر جرح کی  – اسی طرح برصغیر میں جاوید احمد غامدی نے اس سزا کو واپس موضوع بحث بنایا اور اس پر اپنی کتاب میزان میں تبصرہ کیا اور اپنی ویب سائٹ پر اس سسلے کی ضعیف و صحیح روایات باہم ملا کر ان پر تبصرہ کر دیا-

غامدي صاحب رجم کی سزا کو مانتے ہیں کہ یہ دی جا سکتی ہے لیکن اس کی دلیل وہ سوره المائدہ سے لیتے ہیں کہ جو لوگ بغاوت کریں اور فساد کریں ان کو سولی دی جائے، ملک بدر کیا جائے، ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دے جائیں –

سوره المائدہ کی آیت ٣٣ ہے

بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا زمین سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے

اس طرح غامدی صاحب رجم کی سزا کو فساد فی الارض کے زمرے میں یا لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ  لے کرموقف رکھتے ہیں کہ حاکم وقت چاہے تو یہ سزا دے سکتا ہے اس کا تعلق خاص شادی شدہ زانی کے لئے نہیں بلکہ اس موقف کے تحت غیر شادی شدہ کو بھی رجم کی سزا دی جا سکتی ہے اگر وہ غنڈہ ہو اور زنا بالجبر کرتا ہو- اس کے لئے ان کی تحاریر دیکھی جا سکتی ہیں – لیکن اس موقف میں کئی خامیاں ہیں اول سوره المائدہ کی آیات قرآن كي سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے جس میں  اليوم أكملت لكم دينكم   کی آیت بھی ہے – قرطبی کہتے ہیں سوره المائدہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے (الهداية إلى بلوغ النهاية في علم معاني القرآن وتفسيره)- کہا جاتا ہے مَا نَزَلَ لَيْسَ فِيهَا مَنْسُوخٌ اس میں سے کچھ منسوخ نہیں ہے (تفسیر القرطبی) –  محمد سيد طنطاوي التفسير الوسيط للقرآن الكريم میں کہتے ہیں أن سورة المائدة من آخر القرآن نزولا بے شک سوره المائدہ قرآن میں سب سے آخر میں نازل ہوئی – سوره المائدہ کی آیات حجه الوداع پر مکمل ہوئیں یعنی ١٠ ہجری میں اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی –  اب مسئلہ یہ اٹھتا ہے دور نبوی میں جن افراد کو رجم کی سزا دی گئی وہ سب ظاہر ہے اس سوره المائدہ کے نزول کے بعد ہی دی گئی ہو گی تو اس ایک سال میں اتنے سارے لوگوں کو رجم کیا گیا – مدینہ میں ایسی کیا ہیجانی کیفیت تھی کہ حجه الوداع کے بعد اتنی زنا بالجبر کی کروائیاں ہو رہی تھیں اس کی تہہ میں کیا تحریک پوشیدہ تھی ؟ غامدی صاحب اس سب کو گول کر جاتے ہیں اور چونکہ ایک عام آدمی اس سب سے لا علم ہے وہ ان کی تحقیق کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا ہے  اور اس پر ان کی تحقیق کا جھول واضح نہیں ہوتا – دوم سوره النور  میں جو زانی کی سزا ہے اور بقول غامدی صاحب  ” چنانچہ یہ آیت بھی اِس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، اُس کے جرم کی انتہائی سزا قرآن مجید کی رو سے سو کوڑے ہی ہے ۔ قرآن کی اِن دونوں آیات میں سے سورۂ نور کی آیت ۸ کے بارے میں کوئی دوسری رائے ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی ” (برہان از جاوید غامدی)  – یعنی غامدی صاحب کے نزدیک  سوره النور کی آیات  کا تعلق  شادی شدہ یا غیر شادی شدہ دونوں سے ہے – سوال ہے کیا اس کا  حکم  سوره المائدہ کی آیت سے منسوخ ہے ؟  اپنی مختلف تحاریر میں اس سے خوبصورتی سے کترا جاتے ہیں

غامدی صاحب کی پیش کردہ روایات مندرجہ ذیل ہیں جن سب کو صحیح سمجھتے ہوئے انہوں نے ان میں اضطراب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے

رجم کی ضعیف روایات

مسند احمد کی روایت ہے

 عن الشعبی ان علیاً جلد شراحۃ یوم الخمیس ورجمھا یوم الجمعۃ وقال: اجلدھا بکتاب اللّٰہ وارجمھا بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.(احمد، رقم ۸۳۹) ’

 شعبی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے شراحہ نامی عورت کو جمعرات کے دن کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن اُسے رجم کرا دیا اور فرمایا: میں نے اِسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سنگ سار کرتا ہوں۔‘‘

کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

عامر بن شراحيل الشعبي أحد الأئمة روى عن علي رضي الله عنه…..وهو لا يكتفي بمجرد إمكان اللقاء

عامر بن شراحيل الشعبي ائمہ میں سے ایک ہیں علی سے روایت کرتے ہیں اور…. یہ امکان لقاء کی بنیاد پر مجردا صحیح نہیں

یعنی شعبی کا سماع علی رضی الله عنہ سے مشکوک ہے

دوسری ضعیف روایت

 سنن ابو داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى الْبَزَّازُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، «أَنَّ رَجُلًا زَنَى بِامْرَأَةٍ فَلَمْ يَعْلَمْ بِإِحْصَانِهِ، فَجُلِدَ، ثُمَّ عَلِمَ بِإِحْصَانِهِ، فَرُجِمَ

 عن جابر ان رجلاً زنیٰ بامراۃ، فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجلد الحد، ثم اخبر انہ محصن فامر بہ فرجم.(ابوداؤد، رقم ۴۴۳۸)

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

کہ ایک شخص نے کسی عورت کے ساتھ بدکاری کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں سزا کا حکم دیا ۔ چنانچہ اُسے کوڑے لگائے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ محصن (شادی شدہ) ہے تو حکم دیا گیا اور اُسے رجم کر دیا گیا۔

اس کی سند میں محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مدلس ہے –  کتاب التبيين لأسماء المدلسين از  ابن العجمي کے مطابق   مشهور بالتدليس یہ تدلیس کے لئے مشھور ہے- البانی اس  روایت کو ضعیف کہتے ہیں

تیسری ضعیف روایت

طبقات الکبری از ابن سعد کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي هشام بن عاصم بن الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ حَمْزَةَ بْنِ سِنَانٍ كَانَ قَدْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَدِمَ الْمَدِينَةَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنْ يَرْجِعَ إِلَى بَادِيَتِهِ فَأَذِنَ لَهُ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالضَّبُّوعَةِ عَلَى بُرَيْدٍ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى الْمَحَجَّةِ إِلَى مَكَّةَ لَقِيَ جارية من العرب وضيئة فنزعه الشَّيْطَانُ حَتَّى أَصَابَهَا وَلَمْ يَكُنْ أُحْصِنَ. ثُمَّ نَدِمَ فَأَتَى النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَأَخْبَرَهُ فَأَقَامَ عَلَيْهِ الْحَدَّ. أَمَرَ رَجُلا أَنْ يَجْلِدَهُ بَيْنَ الْجِلْدَيْنِ بِسَوْطٍ قَدْ رُكِبَ بِهِ ولان.

عمرو بن حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں حاضر تھے ۔ وہ مدینہ آئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت چاہی کہ اپنے بادیہ کی طرف لوٹ جائیں۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی تو نکلے، یہاں تک کہ جب مدینہ سے مکہ کی طرف راستے کے درمیان ایک منزل ضبوعہ پہنچے تو عرب کی ایک خوب صورت لونڈی سے ملاقات ہوئی۔ شیطان نے اکسایا تو اُس سے زنا کر بیٹھے اور اُس وقت وہ محصن نہ تھے۔ پھر نادم ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو بتایا۔ چنانچہ آپ نے اُن پر حد جاری کر دی

اس نسخہ میں اس روایت کی سند میں غلطی ہے کتاب تلخيص المتشابه في الرسم از  الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ)  کے مطابق اصل میں راوی يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ الأَسْلَمِيُّ الْمَدِينِيُّ ہے جو  الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ سے روایت کرتا ہے اور یحیی سے مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ نے  كِتَابِ الْمَغَازِي میں روایت لکھی ہے- لہذا یہی راوی ہے جس سے واقدی نے روایت کیا اور ان سے ابن سعد نے – اب  چاہے یہ يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ  ہو یا هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ  – دونوں کا حال مجھول ہے

لہذا روایت ضعیف ہے

چوتھی ضعیف روایت

سنن ابو داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ الْبُرْدِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ فَيَّاضٍ الْأَبْنَاوِيِّ، عَنْ خَلَّادِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ  ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ” أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَكْرِ بْنِ لَيْثٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَرَّ أَنَّهُ زَنَى بِامْرَأَةٍ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَجَلَدَهُ مِائَةً، وَكَانَ بِكْرًا، ثُمَّ سَأَلَهُ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمَرْأَةِ، فَقَالَتْ: كَذَبَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَلَدَهُ حَدَّ الْفِرْيَةِ ثَمَانِينَ “

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلۂ بکر بن لیث کا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے چار مرتبہ اقرار کیا کہ اُس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے ۔ وہ کنوارا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سو کوڑے لگوائے ۔ پھر اُس سے عورت کے خلاف ثبوت چاہا تو اُس بی بی نے کہا : اللہ کی قسم ، اِس نے جھوٹ بولا ہے ، یا رسول اللہ ۔ اِس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے قذف کے اسی کوڑے لگوائے

البانی اس  روایت کو منکر کہتے ہیں

پانچویں ضعیف روایت

أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ , أَنَّهُ بَلَغَهُ , أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أُتِيَ بِامْرَأَةٍ قَدْ وَلَدَتْ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ , فَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُرْجَمَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: لَيْسَ ذَلِكَ عَلَيْهَا ,وقد قال اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ: {وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاَثُونَ شَهْرًا} , وَقَالَ: {وفصاله في عامين} وقال: {وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ} قال: والرضاعة أربعة وعشرون شهراً والْحَمْلُ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فأمر بها عُثْمَانُ أن ترد , فَوَجَدَت قَدْ رُجِمَتْ

ایک عورت نے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں شادی کے بعد چھ ماہ میں بچا جنا – اس کا مقدمہ عثمان رضی الله عنہ پر پیش ہوا انہوں نے اس کو رجم کرا دیا –  بعد میں جب ان کو سمجھایا گیا کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے تو انہوں نے حکم واپس لیا لیکن اس وقت تک عورت رجم کی جا چکی تھی

موطآ امام مالک کی روایت ہے کہ امام مالک کو یہ بات پہنچی ہے – امام مالک نے اس کی سند نہیں دی لہذا یہ بھی ایک ضعیف روایت ہے- اگر اس کو صحیح مانا جائے تو خلیفہ اور اس کی شوری کی اجتماعی غلطی ہے جبکہ اس میں جلیل القدر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم شامل ہیں  اور ان سے یہ غلطی ممکن نہیں

چھٹی ضعیف روایت

مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے جو مسروق کا قول ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: «الْبِكْرَانِ يُجْلَدَانِ أَوْ يُنْفَيَانِ، وَالثَّيِّبَانِ يُرْجَمَانِ وَلَا يُجْلَدَانِ، وَالشَّيْخَانِ يُجْلَدَانِ وَيُرْجَمَانِ

کنوارے زانی کی سزا سو کوڑے اور جلا وطنی ہے۔ شادی شدہ زانی کو صرف رجم کی سزا دی جائے گی اور بوڑھے زانیوں کو پہلے کوڑے مارے جائیں گے او ر اِس کے بعد رجم کیا جائے گا

یہ نہ مرفوع حدیث ہے نہ موقوف قول صحابی ہے نہ مرسل روایت ہے – یہ ایک تابعی کا قول ہے- دلیل نہیں بن سکتا

ساتویں روایت ہے

صحیح مسلم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَالرَّجْمُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے لو ، مجھ سے لو ،مجھ سے لو ، زانیہ عورتوں کے معاملے میں اللہ نے ان کے لئے رستہ نکالا (جو حکم نازل کرنے کا وعدہ کیا تھا، وہ نازل فرما دیا )۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیرشادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ مرد کی شادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور رجم

اسکی سند میں الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ ہیں  جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں – اس روایت کا کوئی اور طرق نہیں ملا اور دیگر روایات کے خلاف ہے لہذا ضعیف ہے

  مسند الإمام الشافعي  میں اس روایت پر ہے

وَقَدْ حَدَّثَنِي الثِّقَةُ: أنَّ الحَسَنَ كانَ يَدْخُلُ بَيْنَهُ وبينَ عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي

اور ایک ثقہ نے بتایا کہ حسن بصری اپنے اور عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي کے درمیان ایک دوسرے شخص کو داخل کرتے تھے

مسند البزار میں ہے

 وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ  الْحَسَنِ، عَنْ عُبَادَةَ مُرْسَلًا

اور ایک سے زیادہ نے اس کو حسن بصری سے انہوں نے  عبادہ سے مرسل  روایت  کیا ہے

یعنی صحیح مسلم کی یہ روایت ضعیف ہے اور اس کو صحیح میں لکھنا امام مسلم کی غلطی ہے ان  کے ہم عصر علماء اس کو مرسل کہتے تھے

اب ان تمام روایات سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا یا ان کو صحیح روایات کے ساتھ ملا کر خلط مبحث کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ یہ  ہیں ہی ضعیف  روایات – غامدی صاحب نے ان ضعیف روایات کو صحیح سے ملا کر ایک کھچڑی بنا دی ہے اور پھر اس طرح تمام روایات پر جرح کرکے  آن روایات میں اضطراب ثابت کیا جاتا ہے – حقیقیت میں اوپر والی روایات ضعیف ہیں

رجم سے  متعلق  بعض صحیح روایات

سنن النسائی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا يَحِلُّ دَمَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: زَانٍ مِحْصَنٌ يُرْجَمُ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا فَيُقْتَلُ، أَوْ رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ لِيُحَارِبَ اللهَ عَزَّ وَجَلّ وَرَسُولَهُ فَيُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کا خون صرف تین صورتوں میں حلال ہے : ایک شادی شدہ زانی  اُسے رجم کیا جائے گا۔ دوسرے وہ شخص جس نے کسی کو جان بوجھ کر قتل کیا ہو، اُسے اس شخص کے قصاص میں قتل کیا جائے گا ۔ تیسرے وہ شخص جو اسلام چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول سے آمادۂ جنگ ہو ، اُسے قتل کیا

جائے گا یا سولی دی جائے گی یا وہ جلا وطن کر دیا جائے گا

البانی اس کو صحیح کہتے ہیں

نتیجہ :  ایک شادی شدہ زانی  رجم کیا جائے گا۔

صحیح بخاری کی روایت ہے

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ اور زین بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے ان میں سے ایک نے کہا ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے دوسرے نے کہا ہاں یا رسول اللہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے اور مجھ کو واقعہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔اس نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدوری کرتا تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا ۔میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی۔پھر میں نے علماء سے مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگساری کی سزا اس کی عورت کو ملے گی (اس لئے کہ وہ شادی شدہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سن کر فرمایا۔خبردار قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔تیری لونڈی اور تیری بکریاں تجھ کو واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انیس! تو اس عورت کے پاس جا اگر وہ جرم کا اقرار کرے تو اس کو سنگسار کر دے چنانچہ عورت نے اقرار کیا اور انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر دیا۔(بخاری و مسلم)

روایت اپنے متن میں بالکل واضح ہے کہ شادی شدہ عورت  کو رجم کر دیا گیا اور شریعت کا حکم آگے پیچھے کرنے کے جرم میں  کنوارے آدمی کو سو کوڑے کے ساتھ جلا وطن بھی کیا گیا – غامدی صاحب  نے اس کو تفتیش کا کیس بنا کر بیانات و شواہد کا  مطالبہ کیا ہے جو صرف اور صرف خلط مبحث ہے اور اس بحث سے روایت میں جو بیان ہوا ہے اس پر کیا اثر پڑتا ہے ؟  غیر شادی شدہ نے ایک شادی شدہ کے ساتھ زنا کیا – مجرم کے باپ نے معاملہ ڈیل میں تبدیل کیا لیکن بلاخر مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک پہنچا – یہ کس قسم کا خاندان تھا یا یہ کوئی سازش تھی یہ غیر ضروری سوالات ہیں کیونکہ یہ اعتراض تو کسی بھی مقدمہ پر ہو سکتا ہے

نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو کوڑے مارے جائیں گے اور اگر ڈیل کرنے کی کوشش کرے تو جلا وطن بھی کیاجائے گا

يه روایت دلیل ہے کہ  اگر کوئی غیر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے بدکاری کا ارتکاب کرے تو اُس کی سزا  غیر شادی شدہ کے لئے کوڑے  ہونی چاہیے

لیکن اگر   شادی شدہ مرد یا عورت  غیر شادی شدہ مرد یا  عورت سے زنا کرے تو شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا

موطأ  اور بخاری كي ایک   روایت

امام مالک ، امام یحییٰ بن سعید سے وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے کہا

قَالَ:  إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ». أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ. فَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ: زَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى لَكَتَبْتُهَا – الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ – فَإِنَّا قَدْ قَرَأْنَاهَا

قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ:، قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: «فَمَا انْسَلَخَ ذُو الْحِجَّةِ حَتَّى قُتِلَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ» قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: قَوْلُهُ الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ يَعْنِي: «الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ

تم آیت رجم کا انکار کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے بچو۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے والے کہیں کہ ہم تو اللہ کی کتاب میں دو سزاؤں (تازیانہ اور رجم) کا ذکر کہیں نہیں پاتے ۔ بے شک ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا او ر ہم نے بھی ۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، مجھے اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کر دیا تو میں یہ آیت : الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ  ’’بوڑھے زانی اور بوڑھی زانیہ کو لازماً رجم کردو ، قرآن مجید میں لکھ دیتا، اِس لیے کہ ہم نے یہ آیت خود تلاوت کی ہے ۔

امام مالک نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ سعید بن المسیب نے کہا  الشَّيْخُ وَالشَّيْخَة  سے مراد الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ   (شادی شدہ زانی) ہے – یہ ادبی انداز ہے کہ انداز ہے کہ بڈھا یا بڈھی کو رجم کرو اس میں یہ مستمر ہے کہ وہ شادی شدہ ہیں –

موطا کی  روایت  کی سند کا مسئلہ ہے کہ اس میں سعید بن المسیب کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از العلائي (المتوفى: 761هـ)  کے مطابق

قال يحيى القطان سعيد بن المسيب عن عمر رضي الله عنه مرسل

یحیی بن سعید جو اس روایت کے ایک راوی ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب کی عمر رضی الله عنہ سے روایت مرسل ہے

کیونکہ سعید بن المسیب  ، عمر رضی الله عنہ کے دور میں پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کو دیکھا  کچھ سنا نہیں

شاید اسی وجہ سے امام بخاری نے یہ روایت ایک دوسری سند سے دی ہے – امام بخاری اس کو عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کی سند سے صحیح میں دو جگہ لکھا ہے

(عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ) بے شک ، اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور اُن پر اپنی کتاب نازل کی۔ اُس میں آیت رجم بھی تھی ۔ چنانچہ ہم نے اُسے پڑھا اور سمجھا اور یاد کیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی بنا پررجم کیا اور اُن کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ کہنے والے کہیں گے کہ ہم تو رجم کی آیت اللہ کی کتاب میں کہیں نہیں پاتے اور اِس طرح اللہ کے نازل کردہ ایک فرض کو چھوڑ کر گم راہ ہوں گے ۔ یاد رکھو، رجم اللہ کی کتاب میں ہر اُس مرد و عورت پر واجب ہے جو شادی کے بعد زنا کرے

نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا

غامدی صاحب نے الشیخ اور الشیخہ سے ایک بوڑھا اور بوڑھی لیا اور اس کو ایک مہمل بات قرار دیا ہے – حالانکہ جب بات زنا کے  تناظر میں ہو تو اس کو سمجھنا مشکل نہیں – مثلا آج الشیخ کا لفظ علماء کے لئے عرب ملکوں میں عام ہے کسی کو الشیخ بولا جائے تو وہ ہو سکتا ہے کوئی امیر آدمی ہو یا عالم ہو یا قبیلہ کا سردار ہو- آج سیدنا کا لفظ انبیاء کے ساتھ استعمال ہونے لگا ہے خود غامدی صاحب بھی کرتے ہیں لیکن سو سال پہلے اس طرف انبیاء کے ساتھ سیدنا نہیں لکھا جاتا تھا – اسی طرح  علم حدیث کے قدیم قلمی نسخوں  میں کہیں بھی انبیاء کے ناموں کے ساتھ صلی الله علیہ وسلم یا علیہ السلام نہیں لکھا ملتا لیکن آج جو نئی کتب چھپ رہی ہیں ان میں یہ لاحقہ عام ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں الشیخ ایک عمر رسیده اور منجھے ہوئے شخص کے لئے بولا جاتا تھا اور عربوں میں ایسے لوگ  عموما شادی شدہ ہی ہوتے تھے-   قرآن میں شیخآ کا لفظ ہے جس کو سارہ علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کے لئے استعمال کیا  (سوره الهود)– الشيخ كبير كا لفظ يعقوب عليه السلام  کے لئے سوره یوسف میں ہے  اور شیخ مدین سسر موسی کے لئے سوره قصص میں ہے – اور سوره الغآفر میں شیوخا کا لفظ ہے –  یعنی بعض کا  یہ کہنا کہ شیخ کا لفظ غیر قرانی ہے اور مخمل میں ٹآٹ کا پیوند ہے صحیح نہیں –  الشیخ و الشیخہ کے حوالے سے   کتب شیعہ مثلا  تهذيب الأحكام للطوسي 8/195، الاستبصار ً 3/377، اور وسائل الشيعة از آلحر العاملي 15/610  میں بھی روایت ہے جس کو بعض متقدمین شیعہ جمع القرآن پر اعتراض کے حوالے سے پیش کرتے ہیں اس میں بما قضيا الشهوة کے الفاظ بھی ہیں – ان کے اس پرو پگندے سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے یہ حل نکالا کہ اس روایت کا انکار کر دیا جائے – اور اسی وجہ سے اس پر بحث کا باب کھل گیا اور دور قدیم سے ابھی تک اس میں ایک خلجان پایا جاتا ہے – فقہاء نے اس کا حل یہ دیا کہ آیت منسوخ ہوئی اور اس کا حکم باقی ہے –  اہل تشیع کے مطابق امام جعفر اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے الشيخ والشيخة فارجموهما البتة بما قضيا الشهوة  اور رجم کا حکم دیتے یعنی رجم کی سزا کا حکم ان کے ہاں بھی ہے – اہل تشیع کا جمع القرآن پر اعتراض غیر منطقی ہے کیونکہ قرآن ابو بکر رضی الله عنہ  نے جمع ضرور کیا لیکن وہ عثمان رضی الله عنہ  کے دور تک تقسیم نہیں ہوا تھا – عمر رضی الله عنہ کے دور میں بھی جو قرآن پڑھا جاتا تھا  اس کا کوئی ایک نسخہ نہ تھا مختلف قرات تھیں اور یہ قرات  علی اور عمر رضی الله عنہما اس وقت تک کر رہے تھے جس سے ظاہر ہے کہ یہ آیت نہ علی کی قرات میں تھی نہ عمر کی-  سوال اٹھتا ہے کہ شیعوں نے اس قرات کو کب اور کیوں چھوڑا اگر یہ علی رضی الله عنہ  اور اہل بیت کی قرات تھی؟ اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے اور امام جعفر کو تو پتا ہو گا کہ اصلی قرآن کیا ہے تو ایک دفعہ ہی اس کو املا کرا دیتے – انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا

بخاری کی اس حدیث میں  کسی علت کا علم نہیں ہے لہذا اس کو رد نہیں کیا جاتا – ممکن ہے رجم کی یہ آیت ہو اور منسوخ ہو گئی ہو ایسا دوسری آیات میں بھی ہوا ہے – لیکن یہاں اس کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھ سکتے ہیں

اگر کوئی رجم کی سزا  کو توریت کے تناظر میں سمجھے تو مسئلہ فورا حل ہو جاتا ہے کہ یہ حکم یہود کے لئے  توریت سے لیا گیا اور ایسا ممکن نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے  یہود پر سخت سزا اور مسلمانوں پر کم تر سزا نافذ کی جاتی –  سوال اٹھتا ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ شادی شدہ یہودی نے شادی شدہ مسلمان سے پہلے زنا کیا اور مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پیش ہوا؟  مدینہ میں یہود کے تین  بڑےقبائل تھے دو نکال دے گئے – تسرے قبیلہ بنو قريظة کے مردوں  کو قتل کیا گیا جس کا ذکر آ رہا ہے یہ سب سن ٥ ہجری ميں ہوا –  ایک روایت کے مطابق یہود نے جب زنا کی اپنی خود ساختہ سزا کو   نافذ کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان  کو کہا   کہ توریت لاو اور پڑھو تو ان کے ایک  عالم عَبْدَ اللهِ  ابْنَ صُورِيَا نے اس کو پڑھا  اور آیات پر ہاتھ رکھ کر اسکو چھپایا (مسند الحميدي، مسند أحمد، صحیح ابن حبان، شرح مشکل الآثار، البداية والنهاية ) –   سیرت  ابن اسحٰق  اور البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق یہ اس وقت عرب میں یہود کا سب سے بڑا عالم تھا  اور بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ الْفِطْيَوْنِ  میں سے تھا –- سنن الکبری البیہقی  کے مطابق اس توریت کو پڑھنے والے واقعہ کے وقت ابن صوریا کے ساتھ بنی قریظہ والے تھے – ایک دوسری روایت کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلے جن کو رجم کا حکم دیا وہ یہودی تھے (مصنف عبد الرزاق)- ان تمام شواہد کی روشنی میں واضح ہے کہ یہود پر رجم کی حد سن ٥ ہجری یا اس سے قبل لگی اور یہ مدینہ میں سب سے پہلے یہود پر لگی

توریت کا دوسرا حکم – عہد شکنی کی سزا

جنگ خندق میں بنو قریظہ  کی عہد شکنی کے معآملے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  نے سعد بن معاذ رضی الله عنہ پر فیصلہ چھوڑا – انہوں نے عہد شکنی کی سزا تجویز کی کہ  جس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بادشاہ کا فیصلہ دیا یعنی الله کا فیصلہ-

توریت کتاب استثنآ باب ٢٠ آیات ١٠  تا  ١٤ ہے

استنسنا٢٠١٣

صحیح مسلم کی روایات ہیں

۔ و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی وَابْنُ بَشَّارٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ نَزَلَ أَهْلُ قُرَيْظَةَ عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی سَعْدٍ فَأَتَاهُ عَلٰی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا قَرِيبًا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلٰی سَيِّدِکُمْ أَوْ خَيْرِکُمْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هٰٓؤُلَآءِ نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِکَ قَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ وَتَسْبِي ذُرِّيَّتَهُمْ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ اللہِ وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ وَلَمْ يَذْکُرْ ابْنُ الْمُثَنّٰی وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ۔

 ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، ابوبکر، غندر، شعبہ، سعد بن ابراہیم ابوامامہ، سہل بن حنیف،   ابوسعید رضی اللہ عنہ خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو قریظہ والوں نے   سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر اتر آنے کی رضا مندی کا اظہار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   ، سعد رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر حاضر ہوئے، جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا اپنے سردار یا اپنے افضل ترین کی طرف اٹھو، پھر فرمایا یہ لوگ تمہارے فیصلہ پر اترے ہیں سعد رضی اللہ عنہ نے کہا ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور ان کی اولاد کو قیدی بنالیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے حکم کے مطابق ہی فیصلہ کیا ہے اور کبھی فرمایا تم نے بادشاہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے، ابن مثنی نے بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کو ذکر نہیں کیا۔

مسلم کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ سعد نے  کہا کہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیں اور ان کے مال کو تقسیم کر لیں

انکار حدیث کے رد میں کہا جاتا ہے کہ یہ سزا قرآن میں نہیں لہذا یہ حدیث میں ہے جو وحی خفی یا غیر متلو کی مثال

 ہے یہ ہمارے علماء کی غلطی ہے اصلا یہ سزا توریت کی ہے – وحی غیر متلو تو تب بنتی جب یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تجویز کی ہوتی اور ہم اسکو قرآن میں نہ پاتے – یہ تو سعد کی تجویز کردہ سزا ہے اور توریت سے مطابقت رکھتی ہے اسی لئے کہا گیا کہ تم نے بادشاہ یعنی الله کے فیصلے کے مطابق حکم دیا-  سعد بن معآذ مدینہ کے قبیلہ کے سردار تھے اور یہود کا قبیلہ بھی ان کو سردار مانتا تھا

توریت کا تیسرا حکم – ارتاد کی سزا

توریت کا حکم ہے کہ مرتد کی سزا موت ہے- مرتد کے حوالے سے  غامدی صاحب  کا موقف یہ ہے کہ یہ سزا صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور کے مرتدین کے  لئے تھی جو مشرک تھے  ،اس کے بعد کسی شخص کو ارتداد کی یہ سزا نہیں دی جاسکتی ۔[برھان ،ص:۱۴۲،۱۴۳]۔ لیکن یہ دعوی بلا دلیل ہے – توریت کا انکار ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین(اسلام) تبدیل کرے اس کو قتل کردو

غامدی صاحب لکھتے ہیں

ارتداد کی سزا کا یہ مسئلہ محض ایک حدیث کا مدعا نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ابن عباس کی روایت سے یہ حدیث بخاری میں اِس طرح نقل ہوئی ہے – جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اُسے قتل کردو۔ ہمارے فقہا اِسے بالعموم ایک حکم عام قرار دیتے ہیں جس کا اطلاق اُن کے نزدیک اُن سب لوگوں پرہوتا ہے جوزمانۂ رسالت سے لے کر قیامت تک اِس زمین پر کہیں بھی اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں گے۔اُن کی راے کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنی آزادانہ مرضی سے کفر اختیار کرے گا، اُسے اِس حدیث کی رو سے لازماً قتل کردیا جائے گا۔اِس معاملے میں اُن کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہے تو بس یہ کہ قتل سے پہلے اِسے توبہ کی مہلت دی جائے گی یا نہیں اور اگر دی جائے گی تو اُس کی مدت کیا ہونی چاہیے۔فقہاے احناف، البتہ عورت کو اِس حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔اُن کے علاوہ باقی تمام فقہا اِس بات پر متفق ہیں کہ ہر مرتد کی سزا،خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اسلامی شریعت میں قتل ہی ہے۔ لیکن فقہا کی یہ راے محل نظر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو، بے شک ثابت ہے، مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا، بلکہ صرف اُنھی لوگوں کے ساتھ خاص تھا جن پر آپ نے براہ راست اتمام حجت کیا اور جن کے لیے قرآن مجید میں ’مشرکین‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

غامدی صاحب کی رائے میں اس سزا کو مشرکین پر لگایا گیا کیونکہ ان پر اتمام حجت ہو گیا تھا – لیکن کیا اہل کتاب پر اتمام حجت ہونے سے رہ گیا ظاہر ہے جس کو بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر پہنچی اس پر اتمام حجت ہو گیا اور سوره البقرہ میں اس کا مکمل بیان ہے کہ اتمام حجت میں یہود شامل ہیں

اصل میں ارتاد کی سزا کا  تعلق اصلا اہل کتاب سے ہے –  اہل کتاب  کی اسٹریٹجی تھی کہ صبح کو ایمان لاو اور شام کو کافر ہو جاؤ غامدی صاحب سوره ال عمران کی آیات ٨٢ تا ٨٤ کا ترجمہ کرتے ہیں

اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمانوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے ، اُس پر صبح ایمان لاؤ اورشام کو اُس کا انکار کردیا کر و تاکہ وہ بھی برگشتہ ہوں۔ اور اپنے مذہب والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانا کرو ۔۔۔ اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر ) کہ ہدایت تو اصل میں اللہ کی ہدایت ہے ۔۔۔ (اِس لیے کسی کی بات نہ مانا کرو کہ ) مبادا اِس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جو تمھیں ملی ہے یا تم سے وہ تمھارے پروردگار کے حضور میں حجت کرسکیں۔ اِن سے کہہ دو کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جسے چاہتا ہے عطاکردیتا ہے اوراللہ بڑی وسعت اوربڑے علم والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کرلیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

اس رجحان کو روکنے کے لئے حکم نبوی تھا کہ جو دین بدلے اس کو قتل کر دو –  یہود کے مطابق اسی حکم کی  بنیاد پر عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا فتوی دیا گیا تھا کہ اس نے  (نعوذ باللہ) ابن الله ہونے کا دعوی کیا ہے (جو اصلا یہود کا اتہام ہے) – توریت کی   استثنا کے باب ١٣ کی آیات ٦ تا ١٠ ہے

استنسنا١٣٦

ارتاد پر مشرکین اور اہل کتاب کا قتل ہوا  مثلا یمن میں جب معآذ بن جبل  رضی الله عنہ پہنچے تو دیکھا ایسا ایک مقدمہ مرتد یہودی پر چل رہا ہے انہوں نے کہا میں گھوڑے سے نہ اتروں گا جب تک اس کا قتل نہ ہو

یہودی تعداد میں کم تھے لہذا ان میں قتل کی سزا عملا ختم ہو چکی تھی  وہ توریت کی ان آیات پر عمل نہ کرنا چاہتے تھے اور قرآن نے سوره المائدہ میں اہل کتاب  کو کہا کہ جو الله کا حکم نافذ نہ کرے وہ کافر ہے وہ ظالم ہے وہ فاسق ہے

لہذا رجم ہو یا عہد شکنی ہو یا ارتاد ہو ان سب کا  حکم توریت سے لیا گیا اور اسی کو اسلام میں جاری رکھا گیا – کیا یہ منبی بر انصاف تھا کہ ان سخت حدوں کو اہل کتاب پر تو لگایا جائے لیکن اہل اسلام کو بچا لیا جائے؟ سوچئے

و سلام على من اتبع الهدى

جادو، برج، فرشتےاورمحدثین

بابل میں جادو کا بہت زور تھا اور اس طرف اہل کتاب کا میلان ہوا اس کا ذکر قرآن میں سوره البقرہ میں موجود ہے

وہاں غلامی کے دور کے ایک شخص حزقی ایل نے دیکھا کہ

ezekiel-2

++====================================================

ezekiel-3

ezekiel-4

ترجمہ جیو لنک ریسورس کنسلٹنٹ بار اول ٢٠١٠

اس پورے مکاشفہ میں اہم بات یہ ہے

حزقی ایل باب ١: ٢٦ میں لکھتے ہیں

וּמִמַּעַל, לָרָקִיעַ אֲשֶׁר עַל-רֹאשָׁם, כְּמַרְאֵה אֶבֶן-סַפִּיר, דְּמוּת כִּסֵּא; וְעַל, דְּמוּת הַכִּסֵּא, דְּמוּת כְּמַרְאֵה אָדָם עָלָיו, מִלְמָעְלָה

اور آسمان سے اوپر جو ان کے سروں پر تھا  ایک عرش تھا جیسا کہ نیلم کا پتھر ہوتا ہے اور اس عرش نما پر ایک انسان نما  تخت افروز تھا

یہودیت تصوف میں ان آیات کا مفہوم اللہ کے حوالے سے لیا جاتا ہے اور مرکبہ کو عرش ہی سمجھا جاتا ہے جو بادلوں اوربجلی کی کڑک میں  ہے

 الله ، مرکبہ پر  تھا جس کو چار فرشتے اٹھاتے ہیں اور وہ بادل میں ہے فرشتوں کی شکلوں کے بارے میں ہے کہ ان میں سے

ایک چہرہ بیل جیسا

ایک انسان جیسا

ایک شیر جیسا

ایک عقاب جیسا تھا

اگلی صدیوں میں جب یہود نے بیت الفا  کی عبادت گاہ تعمیر کی تو اس کے فرش پر بارہ برج بھی بناۓ

buni-circle

https://en.wikipedia.org/wiki/Beth_Alpha

اس تصویر میں جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ چار چہرے ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی ہیں

ایک برج انسان جیسا (برج دلو) ہے اس کے متوازی ایک برج (اسد) شیر جیسا  ہے

ایک برج  بیل جیسا (برج ثور) اور اسکے متوازی برج بچھو  (عقرب) جیسا  ہے

دیو ملائی آسٹرولوجی یا علم نجوم پر ایک کتاب کے مطابق

Scorpio also holds out the promise of ressurection of returning to light; thus Scorpio is regarded as sign of transformation. And certainly it is scorpio that has always been associated with occult wisdom. Some astrologers have imagined scorpio as a fourfold process – from angry scorpion into introspective lizard (the underworld sojourn) to doaring eagle (rebirth) to whitewinged dove (Holy Spirit). (pg 312)

Babylonian linked this (scorpion) sign with the deadly scorpion they also linked it with eagle, as is clear in vision of Ezekiel. (pg 312)

Mythic Astrology: Archetypal Powers in the Horoscope  

By Ariel Guttman, Gail Guttman, Kenneth Johnson

بچھو  دوبارہ زندگی، روشی کی طرف پلٹنے کی نوید رکھتا ہے لہذا بچھو کو تبدیلی کا نشان کہا جاتا ہے …… اور اسی بچھو کو  چھپکلی (قبر کی زندگی) یا عقاب سے(دوبارہ زندگی) اور سفید پروالی فاختہ (روح القدس) سے  تبدیل کیا گیا صفحہ ٣١٢

بابلیوں نے اس (برج والے) نشان کو زہریلے بچھو سے ملایا اور اسی کو عقاب سے بھی ملایا جیسا کہ حزقی ایل کے مکاشفہ سے ظاہر ہے

اس اقتباس کے مطابق  ایک برج کو بابل میں بچھو (عقرب) یا عقاب سے بدلا جاتا رہا ہے اور جیسا کہ اوپر والی تصویر سے ظاہر ہے  اسی کو یہودیوں نے اپنی عبادت گاہ میں بنایا

اب دیکھیں محدثین کے کہہ رہے ہیں

کتاب نقض الإمام أبي سعيد على المريسي العنيد  از عثمان بن سعید میں ایک مقطوع حدیث نقل ہوئی ہے جو کتاب حزقی ایل کی  آیت ١٠ کی نقل ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ثنا حَمَّادٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، قَالَ : ” حَمَلَةُ الْعَرْشِ مِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ الْإِنْسَانِ ، وَمِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ النِّسْرِ ، وَمِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ الثَّوْرِ ، وَمِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ الْأَسَدِ

عروه کہتے ہیں کہ عرش کو جنہوں نے اٹھایا ہوا ہے ان میں انسانی صورت والے ہیں اور عقاب کی صورت والے اور بیل کی صورت والے اور شیر کی صورت والے

ابن ابی شیبہ کی  کتاب العرش  کی روایت ہے

حدثنا : علي بن مكتف بن بكر التميمي ، حدثنا : يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، عن أبيه ، عن محمد بن إسحاق ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن أبي ربيعة ، عن عبد الله بن أبي سلمة قال : أرسل إبن عمر (ر) إلى إبن عباس (ر) يسأله : هل رأى محمد ربه ؟ فأرسل إليه إبن عباس : أن نعم ، قال : فرد عليه إبن عمر رسوله أن كيف رآه ؟ ، قال : رآه في روضة خضراء ، روضة من الفردوس دونه فراش من ذهب ، على سرير من ذهب يحمله أربعة من الملائكة ، ملك في صورة رجل ، وملك في صورة ثور ، وملك في صورة أسد ، وملك في صورة نسر.

عبد الله بن أبي سلمة کہتے ہیں کہ  ابن عمر نے ابن عباس کے پاس بھیجا کہ کیا نبی نے الله کو دیکھا؟ ابن عباس نے کہا ہاں دیکھا. اس پر ابن عمر نے اس کو رد کیا اور کہا کیسے؟ ابن عباس نے کہا الله  کو سبز باغ میں دیکھا،  فردوس کے باغ میں جس میں سونے کا فرش تھا اور ایک تخت تھا سونے کا جس کو چار فرشتوں نے اٹھایا ہوا تھا، ایک کی شکل انسان جیسی، ایک کی بیل جیسی ،ایک کی شیر جیسی ،ایک کی عقاب جیسی تھی

اس سند سے عبدللہ بن احمد بھی کتاب السنہ میں روایت کرتے ہیں، إبن خزيمة – التوحيد – باب ذكر الأخبار المأثورة میں ، البيهقي – الأسماء والصفات – باب ما جاء في العرش والكرسي میں، الآجري – الشريعة میں روایت کرتے ہیں

اس کی سند میں محمد بن إسحاق بن يسار کا تفرد ہے جس کو امام مالک دجالوں میں سے ایک دجال کہتے  ہیں

ابن  الجوزی اس کو کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ وَقَدْ كَذَّبَهُ مَالِكٌ وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ.

یہ حدیث صحیح نہیں اس میں محمد بن اسحاق کا تفرد ہے اور اس کو امام مالک اور ھشام بن عروہ جھوٹا کہتے ہیں

ابن کثیر سوره غافر کی آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں

 رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (8) وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9)
يخبر تعالى عن الملائكة المقربين من حَمَلة العرش الأربعة، ومن حوله من الكروبيين، بأنهم يسبحون بحمد ربهم

الله نے خبر دی ان چار مقربین فرشتوں کے بارے میں جنہوں نے عرش کو اٹھایا ہوا ہے اور اس کے ارد گرد کروبیں کے بارے میں کہ وہ الله کی تسبیح کرتے ہیں اس کی تعریف کے ساتھ ……ہ

اس کے بعد ابن کثیر ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں محمد بن اسحاق ہے اور کے کچھ اشعار نقل ہوئے ہیں جن  میں آدمی، بیل، شیر اور عقاب کا ذکر ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کہتے ہیں سچ کہا

 وقد قال الإمام أحمد: حدثنا عبد الله بن محمد -هو ابن أبي شيبة -حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن إسحاق، عن يعقوب بن عتبة، عن عكرمة عن ابن عباس [رضي الله عنه]  أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صَدّق أمية في شيء من شعره، فقال:

رَجُلٌ وَثَور تَحْتَ رِجْل يَمينه … وَالنَّسْرُ للأخْرَى وَلَيْثٌ مُرْصَدُ …فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “صدق”..

اس کے بعد ابن کثیر  کہتے ہیں

وهذا إسناد جيد: وهو يقتضي أن حملة العرش اليوم أربعة، فإذا كان يوم القيامة كانوا ثمانية

اس کی سند جید ہے عرش کو چار فرشتوں نے آج اٹھایا ہوا ہے پس جب قیامت ہو گی تو آٹھ اٹھائے ہوں گے

یعنی ابن کثیر کے نزدیک یہ جانوروں کے منہ والے فرشتے جو برجوں کی شکل تھے اصل میں فرشتے ہیں

کتاب  بحر الفوائد المشهور بمعاني الأخبار ازالكلاباذي  الحنفي (المتوفى: 380هـ) کے مطابق

وَقِيلَ فِي حَمَلَةِ الْعَرْشِ إِنَّهُمْ أَمْلَاكٌ أَحَدُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْإِنْسَانِ، يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ فِي أَرْزَاقِهِمْ، وَالثَّانِي عَلَى صُورَةِ النَّسْرِ يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ فِي أَرْزَاقِ الطَّيْرِ، وَالثَّالِثُ عَلَى صُورَةِ الْأَسَدِ يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي أَرْزَاقِ الْبَهَائِمِ وَدَفْعِ الْأَذَى عَنْهُمْ، وَالرَّابِعُ عَلَى صُورَةِ الثَّوْرِ يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي أَرْزَاقِ الْبَهَائِمِ، وَدَفْعِ الْأَذَى عَنْهُمْ يُصَدِّقُ ذَلِكَ

کہا جاتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک انسان کی شکل کا ہے جو الله سےانسانوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے دوسرا عقاب کی شکل کا ہے جو پرندوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے تیسرا شیر کی شکل کا ہے جو درندوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے چوتھا بیل کی شکل کا ہے جو چوپایوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے

ایک اور روایت ہے ایک روز یہود رسول اللہﷺ کے پاس آئے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقْبَلَتْ يَهُودُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا أَبَا القَاسِمِ، أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا هُوَ؟ قَالَ: مَلَكٌ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ مَعَهُ مَخَارِيقُ مِنْ نَارٍ يَسُوقُ بِهَا السَّحَابَ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ فَقَالُوا: فَمَا هَذَا الصَّوْتُ الَّذِي نَسْمَعُ؟ قَالَ: زَجْرَةٌ بِالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَهُ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى حَيْثُ أُمِرَ قَالُوا: صَدَقْتَ

 اور چند باتیں دریافت کرنے لگے کہ اے ابوالقاسم! رعد کون ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: رعد اس فرشتے کا نام ہے جو بادلوں کو چلانے پر مقرر ہے اور کڑک اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کو ہانکنے کے وقت اس فرشتے کے منہ سے نکلتی ہے ۔ اس فرشتے کے پاس آگ کے کوڑے ہیں جن سے وہ بادلوں کو ہانکتا ہے۔ یہ چمک (بجلی) اسی کی آواز ہے

ترمذی اس کو حسن اور احمد شاکر اور البانی  صحیح کہتے ہیں جبکہ یہ حزقی ایل کی کتاب سے مماثلت رکھتی ہے

سند میں  بكير بن شهاب الدامغانى ہے جس کو ابن حجر اور ابن عدی منکر الحدیث کہتے ہیں

کتاب  بغية النقاد از ابن المواق (المتوفى: 642 هـ)  کے مطابق یہ روایت    وليست بصحيحة صحیح نہیں ہے

سوال ہے کہ یہ آثار کیوں پھیلائے گئے؟ اس پر کوئی تحقیق نہیں کرتا –  ان احادیث و آثار کو صحیح کہنے والے محدثین صرف سند دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہے جبکہ یہ اصلا بابل کا جادو تھا

محدثین سند سے چلتے تھے اور اس میں ان کا منہج قبول عامہ والا تھا کہ کسی کی روایت اگر قبول ہوتی ہو تو اس کو ثقہ کہا جاتا لیکن یہ علم بھی غلطی سے پاک نہیں اور اس میں بھی خطا ممکن ہے کیونکہ انسانی علم محدود ہے

عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف

کیا مردے سنتے ہیں ؟  اس طرح کے رسالے بعض علماء چھاپتے ہیں اور عوام کو باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مردے نہیں سنتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علماء اس  انبوہ میں شامل ہیں جن کے نزدیک نہ  صرف مردے سنتے ہیں  بلکہ ان کے نزدیک مردے اتنے پاور فل ہیں کہ قبر پر کھڑے لوگوں سے مانوس بھی ہو سکتے ہیں

اس قبیل کے علماء قبر پرستوں  کو ان کے عقائد پر سند جواز دیتے ہیں –قبروں پر جانے کا ایک  مقصد صاحب قبر کو سنانا ہوتا ہے کہ وہ عرضداشت رب العالمین تک پہنچا دیں گے –

اب قرآن میں اگر ہو کہ

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ  سوره النمل ٨٠ آیت

اے نبی آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پلٹ کر جائیں

اسی طرح قرآن میں اگر ہو

 وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [فاطر: 22

اور زندہ مردہ برابر نہیں بے شک الله جس کو چاہے سنا دےاور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو سنانے والے نہیں

ان آیات میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ کفار کو ایمان کی طرف نہیں لا سکتے یہ سب الله کے اختیار میں ہے

تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے  اس کا مطلب مجازی لینا ہو گا کہ آپ کفار کو نہیں سنا سکتے لیکن قبر میں پڑے مردوں کو سنا سکتے ہیں- جبکہ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جب مثال بھی دیتا ہے تو حقیقت بر مبنی ہوتی ہے

ابن الجوزي كتاب السر المصون (بحوالہ الفروع  از ابن مفلح ) میں کہتے ہیں

 الذي يوجبه القرآن والنظر أن الميت لا يسمع ولا يحس قال تعالى وما أنت بمسمع من في القبور سورة فاطر 22 ومعلوم أن آلات الحس قد فقدت

جو چیز قرآن و (نقد و) نظر سے واجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے – الله تعالی کہتے ہیں اور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو نہیں سنا سکتے سوره فاطر ٢٢ اور یہ معلوم ہے کہ سننے کے آلات (یعنی کان) ضائع ہو چکے ہوتے ہیں

سماع الموتی کی سب سے اہم دلیل،  قلیب بدر کے مردوں کا سماع ہے- جنگ بدر میں فتح کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار کی لاشیں ایک کنواں میں پھینک دی جائیں تین دن بعد آپ اس مقام پر گئے اور کنواں  کے اوپر آپ نے ٢٤ سرداران قریش کو پکارآ اس وقت عمر رضی الله عنہ نے کہ

  يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَكَلَّمَ مِنْ أَجْسَادٍ، لَا أَرْوَاحَ لَهَا

 یا رسول الله آپ ایسے اجسام سے مخاطب ہیں جن میں ارواح نہیں؟

 رسول الله نے فرمایا

إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ

بے شک یہ سن رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں

عائشہ رضی الله عنہآ سماع الموتی کی انکاری تھیں اور کہتیں تھیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ یہ سنتے ہیں اصل میں علم ہونا ہے

اور ایسا وہ کیوں نہ کہتیں جبکہ قرآن میں ہے

ابراہیم علیہ السلام نے بتوں سے کلام کیا اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں ؟

حدیث میں ہے عمر رضی الله عنہ نے حجر الاسود سے کلام کیا

ابن عمر رضی الله عنہ نے ابن زبیر رضی الله عنہ کی سولی پر لٹکتی لاش سے کلام کیا اور اسماء رضی الله عنہا سے کہا صبر کریں بے شک ارواح الله کے پاس ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مردہ بیٹے سے کلام کیا

وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے

فرط جذبات میں مردوں سے زندہ مخاطب ہو سکتا ہے لیکن اس میں اس کا مقصد مردے کو سنانا نہیں ہوتا – امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر کوئی قسم کھا لے کہ میں کسی سے کلام نہ کروں گا اور مرنے کے بعد اس کے لاشے سے کلام کر بیٹھا تو اس کی قسم نہ ٹوٹے کی

ابن رجب کتاب أهوال  القبور میں  قبول کرتے  ہیں

قال الحافظ ابن رجب:  وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء

اور عائشہ (رضی الله عنہا) سے موافقت کی ہے بہت سے علماء نے مردوں کے سننے کی نفی میں

واضح رہے کہ الله کی قدرت و منشا میں بحث نہیں ہے وہ تو جو چاہے کر سکتا ہے سوال انسانوں کا ہے کہ کیا وہ اپنی بات مردوں کو سنا سکتے ہیں کہ نہیں

قرآن میں ہے

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سوره فاطر ٢٢

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں، بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ انہیں ، جو قبروں میں ہیں، سنانے والے نہیں

یعنی انسان قبر والوں کو نہیں سنا سکتا اللہ چاہے تو ایسا ممکن ہے لہذا اسی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک قلیب بدر کا واقعہ ایک معجزہ تھا

البانی کتاب آیات البینات از نعمان الوسی کی تعلیق میں کہتے ہیں

قلت : ولذلك أورده الخطيب التبريزي في ” باب المعجزات ” من ” المشكاة “ج 3 رقم 5938

میں کہتا ہوں اسی لئے خطیب التبریزی نے مشکاہ میں اس (قلیب بدر والے واقعہ) کو المعجزات کے باب میں ذکر کیا ہے

سماع الموتی کے دلائل کا تضاد

سماع الموتی کے قائلین کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین کے بعد چاپ سنتے ہیں اس سلسلے میں انبوہ غیر مقلدین کی جانب سے کہا جاتا ہے :”  یہ ایک استثناء ہے”- جبکہ یہ استثناء تو تمام مردوں کے لئے بولا جا رہا ہے تو مخصوص کیسے ہوا

ان میں سے بعض   لوگوں کی جانب سے کہا جاتا ہے :”جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے” لیکن پھر یہی لوگ عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے منسوب وصیت بھی پیش کرتے ہیں جس کے مطابق انہوں نے کہا کہ مجھ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر اتنی دیر رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے تاکہ میں تم لوگوں سے مانوس ہو جاؤں -گویا ان لوگوں کو خود بھی نہیں پتا کہ ان کے اس نام نہاد  استثناء میں کیا کیا شامل ہے اور اسکی حدود کیا ہیں

الشِّنقيطي   ایک وہابی عالم تھے ١٩٧٤ میں وفات ہوئی – ان کی آراء کو الجموع البهية للعقيدة السلفية  الَّتِي ذكرهَا الْعَلامَة الشِّنقيطي مُحَمَّد الْأمين بن مُحَمَّد الْمُخْتَار الجَكَنِي  فِي تَفْسِيره أضواء الْبَيَان میں جمع کیا گیا  جس کو  أبو المنذر محمود بن محمد بن مصطفى بن عبد اللطيف المنياوي نے جمع کیا ہے اور  مكتبة ابن عباس، مصر نے چھاپہ ہے

اپنی ایک تقریر میں مسئلہ سماع الموتی پر جرات دکھائی اور ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کے حوالے سے انہوں نے   کہا

الشِّنقيطي  هَل يسمع الْمَوْتَى؟ کیا  مردے سنتے ہیں کے سلسلے میں کہتے ہیں

وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.

أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے  اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی  جنہوں نے  ان کی اتبآع کی ہے

الشِّنقيطي   سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں

 إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة

عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ  ضرورت کے تحت  دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے  

وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ 

ابو جابر دامانوی دین الخالص میں  اکابر پرستی میں  مبتلا ہو کر  اپنے بت کوبچانے کے لئے لکھتے ہیں

دامانوی عائشہ ابن تیمیہ

جوچیز دامانوی صاحب  کو سمجھ نہیں آئی وہ الشنقیطی صاحب کو آئی اور اس پر ہی ڈاکٹر عثمانی نے جرح کی ہے

فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ عائشہ رضی الله عنہا وہ عقیدہ رکھتی تھیں جو الله اور اس کے رسول کے قول سے الگ تھا

موصوف گویا کہنا چاہتے ہیں کہ قول نبوی سن کر بھی عائشہ رضی الله عنہا نے جو تاویل کی وہ غلط تھی جبکہ ام المومنین رضی الله عنہا جو فقہاء مدینہ کی استاد ہیں ان کے فہم پر مبنی   اس تاویل پر  اعتراض سات صدیوں تک علمائے اسلام نے

نہیں کیا یہاں تک کہ ابن تیمیہ کا جنم ہوا

Real Islam  facebook page & Associated pages plagiarism 

[do not copy paste stuff without due credit]

لنک

قرآن اور قرات عشرہ

قرآن کے حوالے سے ایک مسلم کو علم ہونا چاہیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ على سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فاقرؤوا منه ما تَيَسَّرَ
قرآن سات حروف پر نازل ہوا جیسا آسان ہو پڑھو صحیح البخاری

اس کی تعبیر و تشریح کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے لیکن احادیث میں ہے کہ اس کی بنا پر قرآن کی بعض قرات دوسری سے الگ محسوس ہوتی تھیں یہاں تک کہ ایک موقع پر عمر رضی الله عنہ نے ایک دوسرے صحابی کو برا بھلا کہا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھی پیش کیا اپ نے دونوں کی الگ الگ قرات سنی اور دونوں کو صحیح قرار دیا

قرآن کو دور صدیقی میں مصحف کی صورت میں جمع کیا گیا کیونکہ یہ ایک کتاب کی صورت میں نہ تھا

تلفظ اور لحن کے مسئلہ پر عثمان رضی الله عنہ نے قرآن کو واپس ایک کیا اور نہ صرف مصحف ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کو لیا بلکہ بعد میں کوئی اعتراض نہ کرے زید بن ثابت رضی الله عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ مسجد النبی میں بیٹھ کر ہر آیت پر دو گواہیاں طلب کرو کہ وہ گواہی دیں کہ قرآن کا حصہ ہیں –  لہذا نہایت احتیاط سے جمع ہوا

اس خط کو خط حجازی کہا جاتا ہے جو زیر زبر کے بغیر تھا جو اپ نیچے دیکھ سکتے ہیں کہ اصل میں نقطۂ اور اعراب نہیں تھے

قرآن کے قدیم ترین نسخے ١٩٧٢ میں صنعا یمن سے ملے ہیں

سناء

قرآن مصحف کی صورت نہیں پھیلا تھا وہ قرات سے مسلم علاقوں تک پہنچا تھا لہذا تلاوت کرنا سب کو اتا تھا اور اس کو حفظ کیا جاتا تھا لیکن جب مصحف میں لکھا گیا تو نقطے لگائے گئے جو ایک روایت  کے مطابق علی رضی الله عنہ کا خیال تھا اور دوسری  کے مطابق عبد الملک کا خیال تھا

قرطبی لکھتے ہیں

عبدالملک مروان نے مصحف کے حروف کو متشکل کرنے اور ان پر نقطے لگانے کا حکم دیا ، اس نے اس کام کے لیے حجاج بن یوسف کو شہر واسط سے  فارغ کیا (تاکہ اعراب کا کام صحیح طور پر ہو)  ۔اس نے بہت محنت و لگن سے اس کام کو انجام دیا اور اس میں احزاب کا اضافہ کیا اس وقت حجاج عراق کا گورنر تھا ۔ اس نے حسن اور یحیی ابن یعمر کے ذمہ  یہ کام لگایا ، اس کے بعد واسط میں ایک کتاب لکھی ، جس میں قراءت کے متعلق مختلف روایات کو جمع کیا ، بڑے عرصہ تک لوگ اس کتاب پر عمل کرتے رہے ، حتی کہ ابن مجاہدنے قراءت میں ایک کتاب لکھی

تفسیر القرطبی

 ابن خلکان لکھتے ہیں

ابوالاسود الدولی وہ پہلے شخص ہیں ، جنہوں نے سب سے پہلے علم نحو کو وضع کیا ، علی رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا کہ  کلام کی کل تین قسمیں ہیں : اسم ، فعل اور حرف، اور فرمایا : اس پر تم قواعد تحریر کرو ،

وفیات الاعیان از ابن خلکان

اعراب اور بعض اوقات نقطے لال رنگ سے لگائے گئے تھے اور متن کالی سیاہی سے لکھا جاتا تھا تاکہ واضح کیا جائے کہ نئی چیز کیا ہے

اب یہخط،  خط کوفی کہلایا

تشکیل١

https://ar.wikipedia.org/wiki/مخطوطات_صنعاء#/media/File:Sanaa_-_manuscript_Surat_al_Maida.jpg

قرآن پر اعراب کا لگنا  سامی زبانوں میں ایک ترقی تھی کیونکہ آج تک عبرانی بغیر نقطوں اور اعراب کے لکھی جاتی ہے اس کے برعکس عرب مسلمانوں نے نقطے اور اعراب کو داخل کیا اور قرآن میں جو تلفظ کے مسائل تھے ان کو دور کیا یہاں تک کہ اختلاف معنی نہ ہوا

ابن تیمیہ فتوی ج 3 ص ٤٠٢ میں لکھتے ہیں

تشکیل2

مسلمانوں نے (قرآن) مصحف (کی صورت) لکھا اور نقطے نہ  لگآنا اور اور(تشکیل) اعراب نہ لگانا جائز تھا کیونکہ صحابہ نے اپنے مصحف نقطوں اور اعراب کے بغیر لکھے تھے کیونکہ وہ عرب تھے اور لحن (لہجوں میں اختلاف) نہ کرتے تھے- اور ایسے تھے یہ مصاحف جو عثمان نے بھیجے اور تابعین کے دور تک تھے- پھر کھڑا ہوا لحن (لہجوں میں اختلاف)  کا مسئلہ لہذا مصاحف پر نقطے لگائے گئے اور نقطوں کو لال لکھا، پھر ان کو حروف کی طرح ہی لکھا جانے لگا (یعنی جس سیاہی میں خط ہوتا اسی میں نقطے) پس علماء کا تنازع ہوا اس پر کراہت کے حوالے سے جو امام احمد کا اس کے خلاف  آیا ہے الله رحم کرے، اور دیگر علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے کیونکہ یہ بدعت ہے، اور کہا جاتا ہے کہ وہ کراہت نہ کرتے تھے کیونکہ اس کی ضرورت تھی، اور کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے نقطوں سے بغیر اعراب کے  

مخطوطات صنعاء کی دو باتیں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں اول یہ اس وقت قرآن کے سب سے قدیم نسخوں میں سے ہے دوم اس میں عبد الله ابن مسعود کی قرات ہے جس پر یمن میں قرآن پڑھا جاتا تھا اور سوم اس پر دو تحریریں ہیں ایک کو مٹا کر دوسری کو لکھا گیا ہے

سناء٣

https://ar.wikipedia.org/wiki/مخطوطات_صنعاء#/media/File:Qur%27anic_Manuscript_-_3_-_Hijazi_script.jpg

چونکہ ایک مخصوص فرقہ کی جانب سے قرآن کے حوالے سے متضاد بیان اتے رہتے ہیں کہ اس کو دور اول میں تبدیل کیا گیا تھا لہذا اس میں تمام دنیا کی دلچسپی پیدا ہوئی اور ہارورڈ اور ستانفورڈ یونیورسٹی نے ان مخطوطات کو حاصل کیا اور ان پر سائنسی انداز میں تحقیق کی نہ صرف نچلی تحریر پڑھی بلکہ کاربن ڈیٹنگ بھی ہوئی

سوچا یہ جا رہا تھا کہ نچلی تحریر میں کوئی دوسرآ قرآن ہو گا جس کو مٹا کر حکم عثمان پر نیا قرآن لکھا گیا

الغرض  جو نتائج نکلے وہ  اچھے تھے

اول نسخے دور صحابہ  کے ہیں

 دوم نسخوں کی نچلی تحریر آج کے قرآن سے الگ نہیں اور ان میں نقطے اور اعراب نہیں ہیں

مخطوطات صنعاء پر محقیقین لکھتے ہیں

In any case, textual criticism suggests that the standard version is the most faithful representation, among the known codices, of the Quran as recited by the Prophet.

کسی بھی صورت میں تحریری تنقید بتاتی ہے کہ جو سٹندرد قرآن ہے وہ بہت ایمان و احتیاط کے ساتھ لکھا گیا ہے جیسا کہ رسول نے اس کی تلاوت کی

Behnam Sadeghi and Uwe Bergmann, The Codex of a Companion of the Prophet and the Qur’a n of the Prophet, Arabica 57 (2010) 343-436, Brill Publisher.

قابل غور ہے کہ یہ تحقیق امریکا کی  یونیورسٹیز میں ہوئی ہے جس کے لئے اہل اسلام کو ان کی تعریف کرنی چاہیے کیونکہ تحقیق کا اصول ہے کہ اس کو کسی بھی تعصب سے الگ ہو کر کیا جائے- مذہبی اورمسلکی تعصب بعض اوقات انسان کے اندر سمجھنے کی صلاحیت کم کر دیتا ہے

دس متواتر قراتیں

قرآن کی قرات بہت سے صحابہ تابعین اور تبع تابعین سے ہم تک آئی ہے جس کو دس متواتر قرات کہا جاتا ہے

سوره الفاتحہ کی دس قرات یو ٹیوب پر اس طرح موجود ہیں

اہل مدینہ کی قرات

نافع بن عبد الرحمن بن أبي نعيم المدني  المتوفی ١٦٩ ھ  ان کی قرات کی سند ابی بن کعب اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما تک جاتی ہے

ان کی قرات کی سند قالون سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=jjbu_5eKZKE

اور

ورش سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=vaXUaw_rXbo

https://archive.org/details/mos7af_warch_maghribi_by_Morocco-Islamic.com

افریقہ کے ممالک میں ان کی قرات پر قرآن پڑھا جاتا ہے

نافع حدیث میں ضعیف ہیں اور امام احمد کہتے ہیں

قال أبو طالب: سألت أحمد، يعني ابن حنبل، عن نافع بن عبد الرحمن، قال: كان يؤخذ عنه القراءة، وليس في الحديث بشيء. «الجرح والتعديل» 8/ (2089)

ان سے قرات لی جائے اور حدیث میں کوئی چیز نہیں

أبو جعفر يزيد بن القعقاع المدني المتوفی ١٣٠ ھ کی قرات ابن عبّاس، ابو ہریرہ اور عیاش بن ابی ربیعہ رضی الله عنہما سے ہے

ان کی قرات کی سند عيسى بن وردان المدني، أبو الحارث الحذاء سے ہم تک آئی  ہے

https://www.youtube.com/watch?v=lM-Apn5gmco

اور

ابن جمّاز سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=1rNqqFmsVwM

أهل مكة کی قرات

عبد الله بن كثير الداري المكي المتوفي ١٢٠ هجرة کی قرات مجاهد و درباس مولى ابن عباس سے ہے

ان کی قرات البزي   کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=jmaN5GM3M6U

ان کی قرات  قنبل  کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=ubZXRYrfdw0

العلل میں امام احمد ان کے لئے کہتے ہیں

ذكرا أنهما عرضا على درباس مولى ابن عباس، وقرأ درباس على عبد الله بن عباس، وقرأ عبد الله بن عباس على أصحاب النبي – صلى الله عليه وسلم -. «العلل» (408) .

ان سب نے قرات کو درباس مولی ابن عباس پر پیش کیا اور درباس نے ابن عباس پر اور ابن عباس نے اصحاب رسول پر پیش کیا

اہل شام کی قرات

عبد الله بن عامر اليحصبي الشامي المتوفی ١١٨ ھ کی قرات کی سند  ابو الدرداء رضی الله عنہ تک جاتی ہے

یہ  قاضي دمشق في أيام الوليد بن عبد الملك، وإمام مسجد دمشق، ورئيس أهل المسجد تھے

ان کی قرات کی سند هشام بن عمار  اور

https://www.youtube.com/watch?v=oDHGFedU9ws

  ابن ذكوان سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=5YA7qBOYewo

اہل بصرہ کی قرات

أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی قرات کی سند سعید بن جبیر اور مجاہد تک جاتی ہے

ان کی سند  حفص بن عمر بن عبد العزيز  الدوري  سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=g4rhOizucAU

اور

 السوسي   سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=q_IGe7x_Wqo

مندرجہ ذیل لنک سے اس قرات پر مصحف دیکھا جا سکتا ہے

https://upload.wikimedia.org/wikisource/ar/8/8b/المصحف_برواية_السوسي_عن_أبي_عمرو.pdf

يعقوب بن اسحاق الحضرمي البصری المتوفی ٢٠٥ ھ کی قرات  عاصم بن ابی النجود سے ہے

ان کی قرات کی سند رويس سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=W2XubMdqPT4

اور

أبو الحسن الهذلي سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=7AUyY7Eor4A

اہل کوفہ کی قرات

عاصم بن أبي النَّجود الأسدي الكوفي المتوفی  ١٢٥ ھ  کی سند علی بن ابی طالب اور زر بن حبیش کی سند سے  ابن مسعود رضی الله عنہما تک جاتی ہے

ان کی قرات کی سند حفص بن سلیمان الاسدی سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=ve4K3TV-kU4

اور

شعبة سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=zB4Jr4FcLH8

ان کی قرات سب سے مشھور ہے

عاصم حدیث میں ضعیف ہیں لیکن قرات کے امام ہیں

حمزة  بن حبيب الزيات المتوفي ١٥٦ هجره کی قرات الاعمش سے ہے

ان کی قرات  خلف بن هشام المتوفي ٢٢٩ هجرة  کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=mbDfcBJzy_U

أحمد العلل میں کہتے ہیں

 قال المروذي: قال أبو عبد الله: حمزة الزيات، ثقة في الحديث، ولكني أكره قراءته. «سؤالاته» (191

مروزی کہتے ہیں امام احمد نے کھا حمزہ حدیث میں ثقہ ہیں لیکن ان کی قرات سے کراہت کرتا ہوں

تہذیب التہذیب کے مطابق سلمة بن شبيب کہتے ہیں امام احمد ایسے قاری کے پیچھے نماز پڑھنے ہی میں کراہت کرتے

أبو الحسن علي بن حمزة الكسائي النحوي الكوفي المتوفی ١٨٩ ھ   کی سند صحابی رسول أبي حيوة شريح بن يزيد رضی الله عنہ تک جاتی ہے

ان کی قرات أبو الحارث الليث بن خالد البغدادي  سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=2nWEPXNxoFM

اور

حفص بن عمر الدوري،

https://www.youtube.com/watch?v=g2tRx7Prom0

اہل بغداد کی قرات

خلف بن ہشام اصل میں المفضل الضبی الكوفي المتوفي ١٧٨ هجري کی قرات ہے

ان کی قرات اسحاق بن ابراہیم اور  ادریس بن عبد الکریم کی سند سے آئی ہے

خلف ،  حمزة  بن حبيب الزيات المتوفي  كي قرات كي راوي بھی ہیں

الغرض ان  قراتوں میں جو اختلاف ہے صوتی ہے معنوی نہیں ہے لیکن یہ تبدیلی سات حروف میں تنزیل کی طرف اشارہ دیتی ہے

——————————————————————————————————-

مختلف قرات پر قرآن یہاں سے پڑھ سکتے ہیں

http://www.nquran.com/index.php?group=othm_view&rewaya=24&sora_no=1

حیات النبی فی القبر کا مسئلہ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

امت کے ولی ابو بکر رضی الله عنہ کہتے ہیں

 ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا  قد مات  -صحیح بخاری

 سن لو! جو شخص محمد  (صلی الله علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو (جان لے کہ) بلا شبہ محمد  فوت ہو گئے

عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک   روایت میں مروی ہے کہ

لقد مات رسول اللہ ۔صحیح مسلم

 یقیناً رسول اللہ فوت ہو گئے

انبیاء ، شہداء سے افضل ہیں اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انبیاء جنت میں ہیں شہداء بھی جنت میں ہی ہیں کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے چند لمحہ قبل قرآن کی آیت پڑھی

ان لوگوں کے ساتھ جن پر انعام ہوا- انبیاء ، صدیقین اور شہداء

بعض علماء  اشکال پیش کرتے ہیں کہ انبیاء و شہداء جنت میں کیسے ہو سکتے ہیں حتی کہ ان میں سے بعض کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی اسی مدینہ والی قبر میں ہیں

قبر میں حیات النبی کے قائلین کچھ روایات پیش کرتے ہیں

امام ابویعلی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو الجہم الا زرق بن علی نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے مستلم بن سعید نے بیان کیا۔ وہ حجاج سے اور وہ ثابت بنانی سے اور وہ حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا الانبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں

 ( شفاالسقام ص134) حیات الانبیاء للبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔  ابن حجر عسقلانی کہتے  ہیں و صححہ البیہقی امام بیہقی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتح الباری جلد ۶ ص352علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری  لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کہتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے  انس بن مالک  رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180۔

اصلا روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی حجاج غیر واضح ہے انہی میں سے بعض لوگوں نے جن کے نام اوپر لکھے ہیں اس کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے مثلا لسان المیزان از ابن حجر میں راوی کا نام الگ ہے اور فتح الباری میں الگ ان سب کے نزدیک اس راوی کا نام الگ الگ ہے اور اس کا سماع واقعی ثابت البنانی سے ہے ثابت نہیں ہے- سب سے پہلے اسکی تصحیح امام البیہقی نے کی ہے اس پر تفصیلا بحث سوالات کے سیکشن میں ہے

دیکھئے

کہا جاتا ہے انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس کی کوئی صحیح حدیث ہے ؟

یہ روایت نماز کی اہمیت پر بصرہ میں گھڑی گئی اس کی سند کا راوی حجاج مجھول ہے جس کو بصرہ کا بتایا جاتا ہے اور اس سے نیچے ثابت البنانی بھی بصرہ کے ہیں

قبرستان میں نماز حرام ہے اور یہ فقہ میں موجود ہے تو اس میں پڑھی گئی نماز کیسے  قبول ہو گی ایسی نماز شریعت میں حرام ہے اور طریقت میں عین دین ہے لہذا صوفی منش بیہقی کی پسندیدہ بنی

یہ دور تھا جب تصوف اور حدیث اپس میں مل رہے تھے اس کا روی مستلم بن سعید ہے اس کے لئے تہذیب الکمال میں ہے

وَقَال الْحَسَن بْن علي الخلال عَنْ يزيد بْن هارون، مكث المستلم بْن سَعِيد أربعين سنة لا يضع جنبه إلى الأرض. قال: وسمعته يقول: لم أشرب الماء منذ خمسة وأربعين يوما.

اور الحسن بن علی الخلال نےیزید بن ہارون سے روایت کیا کہ یزید کہتے ہیں مستلم نے چالیس سال تک زمین پر پہلو نہیں لگایا اور میں نے ان سے سنا کہتے تھے میں نے ٤٥ دن سے پانی نہیں پیا

یعنی مستلم ایک سادھو اور جوگی تھی سخت مشقتیں کرتے اور بصرہ کے جملہ محدثین ان کی روایات نقل کر کے اپنے تئیں دین کی خدمت کر رہے تھے

یہ لوگ مندرجہ ذیل روایت بھی پیش کرتے ہیں

امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب  نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ ابوالدراد  رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ  نے ارشاد فر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ آپ کی موت کے بعد ؟ آپ نے فرمایا الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے جسموں کو کھائے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے

ابن ماجہ 119)  ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات، التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔ حافظ منذری   الترغيب والترهيب لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297 علامہ عزیزی لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔ اسی طرح زرقانی ، سمہووی، ملاعلی قاری، شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، نیل الاوطار جلد5ص 264، عون المعبود جلد ۱ص405۔

عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ  کا سماع ابو الدرداء سے نہیں ہے اور اس کو مرسل کہا جاتا ہے

راوی ثقہ ہوں لیکن ان کا سماع نہ ہو تو روایت ضعیف ہی ہوتی ہے یہ سادہ اصول علم حدیث کی تمام کتب میں ہےابن حجر خود تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں

زيد بن أيمن. روى عن عبادة بن نسي. وعنه سعيد بن أبي هلال وذكره ابن حبان في الثقات روى له ابن ماجة حديثا واحدا في فضل الصلاة على النبي صلى الله عليه وآله وسلم1. قلت رجاله ثقات لكن قال البخاري زيد بن أيمن عن عبادة بن نسي مرسل.

زید بن ایمن جو سے روایت کرتا ہے اور ان سے سعید بن ابی ہلال اس کا ذکر ابن حبان نے ثقات میں کیا ہے ابن ماجہ نے ان سے روایت کی ہے ایک حدیث جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود سے متعلق ہے میں کہتا ہوں اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن امام بخاری کہتے ہیں زید بن ایمان اور وہ عبادہ سے مرسل ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

زيد بن أيمن [ق .
عن عبادة بن نسى.
عن أبي الدرداء، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الانبياء، فنبي الله حى يرزق.
روى عنه سعيد بن أبي هلال فقط، لكن ذكره ابن حبان في الثقات على قاعدته

زید بن ایمان ان سے عبادہ کی روایت اور ان سے ابو درداء کی کہ  رسول الله نے فرمایا کہ الله نے حرام کر دیا ہے زمیں پر کہ انبیاء کے جسموں کو کہئے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے ان سے اس کو فقط سعید نے روایت کیا ہے لیکن ابن حبان نے اپنے قاعدے کے مطابق اس کو ثقات میں شمار کر دیا ہے

ابن حبان پر تساہل کا زور تھا اس کی طرف الذھبی نے اشارہ دیا ہے

. البوصيري “مصباح الزجاجة” میں کہتے ہیں

هذا إسناد رجاله ثقات إلا أنه منقطع في موضعين: عبادة بن نسي روايته عن أبي الدرداء مرسلة؛

اس روایت کی اسناد میں ثقہ رجال ہیں لیکن یہ دو مقام پر منقطع ہے عبادہ بن نسی کی ابو درداء سے روایت مرسل ہے

ابن کثیر تفسیر  میں سوره الاحزاب پر بحث میں  اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِيهِ انْقِطَاعٌ بَيْنَ عُبَادَةَ بْنِ نُسِيٍّ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فَإِنَّهُ لَمْ يُدْرِكْهُ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

یہ حدیث غریب ہے اس سند سے اس میں انقطاع ہے عبادہ اور ابی الدرداء کے درمیان کیونکہ انکی ملاقات نہ ہوئی

یہ اقوال بھی ہیں جو واضح کرتے ہیں روایت منقطع ہے

اسی سند سے تفسیر الطبری کی ایک اور روایت ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: ثني عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا عَلَيَّ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ يَوْمٌ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ

ابو الدردا رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر کثرت سے جمعہ کے دن درود پڑھو کیونکہ یہ وہ دن ہے جو یوم مشہود ہے فرشتے دیکھتے ہیں

یہ روایت بھی مرسل ہے ضعیف ہے اور کیا فرشتے عام دنوں میں نہیں ریکارڈ کرتے

قائلین حیات النبی صحیح مسلم کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَنَا أَکْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ   رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تمام انبیاء سے زیادہ میرے پیروکار ہوں گے اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔

 اِسے امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

  عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتَفْتِحُ فَيَقُوْلُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُوْلُ: بِکَ أُمِرْتُ لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَکَ  رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ حُمَيْدٍ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب في قول النبي صلی الله عليه واله وسلم : أنا أوّل النّاس يشفع في الجنّة

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: روزِ محشر میں جنت کے دروازے پر آ کر دستک دوں گا، دربانِ جنت دریافت کرے گا: آپ کون ہیں؟ تو میں کہوں گا: میں محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہوں، وہ کہے گا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے جنت کا دروازہ کسی اور کے لیے نہ کھولوں۔

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو عوانہ اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔.

جو غیر مقلدین اس حدیث کو پیش کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ حدیث دال ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابھی بھی مدینہ والی قبر میں ہی ہیں اور ان کی قبر جنت کے باغ میں سے ایک ہے- یہی بعض  وہابی علماء کا نظریہ ہے جو قرآن و احادیث صحیحہ کے یکسر خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ وہابی و سلفی علماء ابن تیمیہ کی تقلید میں سماع الموتی کے قائل ہیں (بشمول ابن کثیر، ابن حجرو غیرھم ) جبکہ غیر مقلدین کے مطابق یہ گمراہی ہے

البانی سماع الموتی کے انکاری لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں روح لوٹائے جانے کے قائل ہیں

کتاب  موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني «موسوعة تحتوي على أكثر من  عملاً ودراسة حول العلامة الألباني وتراثه الخالد  از مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية وتحقيق التراث والترجمة، صنعاء – اليمن کے مطابق البانی سے سوال ہوا کہ کیا رسول الله زندہ ہیں- البانی کہتے ہیں ان کا جسم قائم ہے اور

al-bani-1546-front

قال: «إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء» ,أي: أنا كسائر الأنبياء جسدي في القبر حي طري, ولكن اصطفاني ربي عز وجل بخصلة أخرى أنه كلما سلم علي مسلمون رد الله إلي روحي فأرد عليه السلام, وهذا الحديث وهو ثابت فيه دلاله على أن الرسول عليه السلام خلاف ما يتوهم كثير من العامة, بل وفيهم بعض الخاصة وهي أن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – لا يسمع سلام المسلمين عليه, وإنما كما جاء في الحديث الصحيح: «إن لله ملائكة سياحين, يبلغوني عن أمتي السلام» , إن لله ملائكة سياحين: يعني طوافين على المسلمين, فكلما سمعوا مسلماً يصلي على النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – بلغوه بذلك وهو لا يسمع؛ لأن الميت لا يسمع, انفصل عن هذه الحياة الدنيا ومتعلقاتها كلها, ولكن الله عز وجل اصطفى نبيه عليه السلام فيما ذكرنا من الحياة ومن تمكينه بإعادة روحه إلى جسده, ورد السلام على المسلمين عليه, ومن ذلك أيضاً أن هناك ملائكةً يبلغونه السلام فكلما سلموا عليه من فلان هو رد عليهم السلام.  الهدى والنور” (268/ 08: 22: 00)

al-bani-1546

رسول  الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے اجسام کو کھائے – یعنی کہ میں تمام انبیاء  کے جسموں کی طرح قبر میں تازہ رہوں گا – لیکن الله نے مجھے چن لیا ایک دوسری خصوصیت کے لئے کہ جب مسلمان مجھ پر سلام کہیں گے تو الله میری روح کو لوٹا دے گا اور میں جواب دوں گا اور یہ حدیث ثابت ہے دلیل ہے کہ اس کے خلاف جس پر بہت سوں کو وہم ہے – بلکہ اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہے وہ یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کا سلام نہیں سنتے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ الله کے فرشتے ہیں جو  سلام لاتے ہیں یعنی الله کے سیاح فرشتے ہیں جو مسلمانوں میں پھرتے رہتے ہیں پس جب وہ کسی کو سلام کہتے سنتے ہیں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک لاتے ہیں اور رسول الله اس کو خود سن نہیں پاتے – کیونکہ میت نہیں سنتی – وہ دنیا اور اس کے متعلقات سے کٹی ہوتی ہے لیکن الله نے اپنے نبی کو چنا جس کا ہم نے ذکر کیا کہ روح کو جسم میں جگہ ملتی ہے روح لوٹانے جانے پر اور مسلمانوں کے  سلام کا جواب دینے کے لئے  اور ساتھ ہی فرشتے ہیں جو سلام پہنچاتے ہیں پس جب فلاں سلام کہتا ہے اس روح کو لوٹا دیا جاتا ہے

البانی کی احمقانہ منطق دیکھیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم روح لوٹانے پر سن نہیں سکتے لیکن بول سکتے ہیں

 بقول سراج اورنگ آبادی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

علم حدیث عقل سے عاری ہو تو یہ نتیجہ نکلتا ہے

المناوي  المتوفی ١٠٣١ ھ اس کے خلاف کہتے ہیں

 يعني ردّ علىَّ نطقي، لأنه – صلَّى الله عليه وسلم – حي على الدوام، وروحه لا تفارقه أبداً

 المناوي کہتے ہیں : یعنی بولنے کی صلاحیت  لوٹائی جاتی ہے ، بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل 

 زندہ ہیں اور روح جسد سے الگ نہیں

المناوی نے امام سیوطی  (المتوفى: 911هـ) کا قول نقل کیا ہےسیوطی الحاوی للفتاوی میں کہتے روح لوٹانے والی حدیث سے

حاوی الفتاوی فرنٹ

حاوی الفتاوی ١٥١png

 يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ عَلَى الدَّوَامِ

اخذ کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم دائمی زندہ ہیں

وہابی عالم ابی بطين  کتاب  رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين  کہتے ہیں

الحديث المشهور: “ما من مسلم يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام” 1؛ فهذا يدل على أن روحه صلى الله عليه وسلم ليست دائمة في قبره.
ومعرفة الميت زائره ليس مختصا به صلى الله عليه وسلم

حدیث مشھور ہے کہ کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس کا جواب دینے کے لئے الله میری روح نہ لوٹا دے پس یہ دلیل  ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح مسلسل قبر میں نہیں اور میت کا زائر کو جاننا رسول الله کے لئے خاص نہیں

وہابی عالم ابی بطين  کتاب تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس  کہتے ہیں

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس front

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس 119

 جیسا ابو داود نے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کوئی مسلم نہیں جو مجھ کو سلام کرے اور اللہ میری روح نہ لوٹا دے جواب پلٹنے کے لئے پس یہ دلیل ہے کہ روح شریف ان کے بدن میں دائما نہیں ہے بلکہ اعلیٰ علیین میں ہے اور اس کا بدن سے کنکشن ہے جس کی حقیقت الله کو پتا ہے نہ اس میں حس سے نہ عقل اور نہ یہ ان کے لئے خاص ہے

یعنی  ہر میت زائر کو جانتی ہے یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں ہے

ابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٩ میں لکھتے ہیں

فتح الباري ج ٧ فرونت

فتح الباري ج ٧ ص ٣٦

 إِنَّ حَيَاتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْر لايعقبها مَوْتٌ بَلْ يَسْتَمِرُّ حَيًّا وَالْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ 

بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر میں زندگی پر موت نہیں اتی، بلکہ آپ مسلسل زندہ ہیں اور(تمام) انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں

ان کے شاگرد السخاوی کتاب القول البديع في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ  ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي  میں کہتے ہیں

ساخاوي 1

يؤخذ من هذه الأحاديث أنه – صلى الله عليه وسلم – حي على الدوام وذلك أنه
محال عادة أن يخلو الوجود كله من واحد يسلم عليه في ليل ونهار

نحن نؤمن ونصدق بأنه – صلى الله عليه وسلم – حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا

ساخاوي ٢

ان احادیث سے اخذ کیا جاتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور یہ دن و رات  ہر ایک آن پر  سلام کہہ رہا ہے لہذا ان کا وجود روح سے  خالی نہیں – ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، قبر میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے جسد شریف کو زمیں نہیں کھاتی اور اس پر اجماع ہے

رزق کا قبر میں دیا جانا دنیاوی حیات جیسا ہے جس کے دیوبندی قائل ہیں اور غیر مقلدین انکار کرتے ہیں

مفتی بن باز کہتے ہیں

https://binbaz.org.sa/fatwas/49/هل-الرسول-ﷺ-حي-في-قبره-ام-لا

قد صرح الكثيرون من أهل السنة بأن النبي صلى الله عليه وسلم حي في قبره حياة برزخية لا يعلم كنهها وكيفيتها إلا الله سبحانه، وليست من جنس حياة أهل الدنيا بل هي نوع آخر يحصل بها له صلى الله عليه وسلم الإحساس بالنعيم، ويسمع بها سلام المسلم عليه عندما يرد الله عليه روحه ذلك الوقت

اکثر اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ جس کی کیفیت صرف الله ہی جانتا ہے اور یہ دنیا کی زندگی جیسی نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی طرح کی ہے جس سے صلی الله علیہ وسلم کو راحت کا احساس ہوتا ہے اور اس سے سلام سنتے ہیں اور اس وقت الله اپ کی روح لوٹا دیتا ہے

كتاب  الدرر السنية في الأجوبة النجدية از   عبد الرحمن بن محمد بن قاسم کے مطابق محمد بن الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ عبد الرحمن کہتے ہیں

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ j1front

ونعتقد أن رتبته صلى الله عليه وسلم أعلى رتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية، أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنْزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه،

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ

اور ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا رتبہ مخلوق میں  علی اطلاق سب سے اعلی ہے اور بے شک وہ قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ , جو شہداء کی زندگی سے بلند ہے جس پر نصوص ہیں تنزیل میں (یعنی  قرآن میں ) کہ جب وہ (رسول الله ) افضل ہیں (شہداء سے) بلا شک تو،  بے شک وہ  سلام سنتے ہیں جب کوئی مسلم سلام کہتا ہے ان پر اور ایسی زندگی جو علم کی متقاضی ہو، تصرف چاہتی ہو، تدبیر کے حرکت چاہتی ہو، تو وہ ان صلی الله علیہ وسلم میں نہیں ہے

خوب ایک کہتا ہے نبی سلام نہیں سنتے دوسرا کہتا ہے سنتے ہیں

اس کتاب ج ١٢ ص  ١٧٨ کے مطابق نجدی علماء مانتے ہیں

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ j12-front

ولم يرد حديث صحيح بأنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ٢

کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا کہ آپ’ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں

لیکن شہید سے تقابل کرکے یہ استخراج کیا گیا

اس کا استخرآج شہداء کی زندگی سے کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انبیاء سے کم تر ہیں لہذا انبیاء قبروں میں  زندہ ہونے چاہییں

أصول الإيمان از المؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) تحقيق: باسم فيصل الجوابرة لناشر: وزارة الشؤون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد – المملكة العربية السعودية الطبعة: الخامسة، 1420هـ میں ہے

والذي نعتقده أن مرتبَة نبينا محمد صَلَّى اللَّه عليه وسَلَّم أعلى مراتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه

ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ مخلوق میں على الإطلاق سب سے اعلی ہے
اور وہ قبر میں زندہ ہیں حیات برزخی کے ساتھ جو حیات شہداء سے بلند ہے اس پر قرآن میں نصوص ہیں پس جب وہ افضل ہیں جس میں کوئی شک نہیں تو بلاشبہ وہ سلام سنتے ہیں جب کوئی سلام کہے

 کتاب  تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس میں نجدی عالم أبابطين کہتے ہیں

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس front

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس 118

قال ابن القيم: لم يرد حديث صحيح أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره

ابن قیم کہتے ہیں کسی صحیح حدیث میں نہیں کہ رسول الله قبر میں زندہ ہوں

یہ الفاظ ابن قیم کی کسی کتاب میں نہیں ملے اگرچہ ان کے استاد موسی علیہ السلام کے لئے لکھتے ہیں

وَأَمَّا كَوْنُهُ رَأَى مُوسَى قَائِمًا يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ وَرَآهُ فِي السَّمَاءِ أَيْضًا فَهَذَا لَا مُنَافَاةَ بَيْنَهُمَا فَإِنَّ أَمْرَ الْأَرْوَاحِ مِنْ جِنْس أَمْرِ الْمَلَائِكَةِ. فِي اللَّحْظَةِ الْوَاحِدَةِ تَصْعَدُ وَتَهْبِطُ كَالْمَلَكِ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالْبَدَنِ

مجموع الفتاوی از ابن تیمیہ ج ٤ ص ٣٢٩ پر

اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ رسول الله نے موسی کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کو آسمان پر بھی دیکھا تو اس میں کوئی فرق نہیں کیونکہ روحیں فرشتوں کے امر کی جنس سے ہیں ایک لحظہ میں چڑھتی اترتی ہیں جیسا کہ فرشتہ اور بدن ایسا نہیں ہے

یعنی انبیاء جنت میں بھی ہیں اور دنیا کی قبروں میں بھی ان کی روحیں فرشتوں کی طرح آنا فانا اترتی چڑھتی ہیں اور ان کی روحیں بدن میں جاتی نکلتی ہیں

ابن تیمیہ زیارت قبر نبی کے لئے سفر کو بدعت کہتے تھے لیکن یہ مانتے تھے کہ قبر پر پڑھا جانے والا سلام نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں لہذا وہ  کتاب  قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق میں کہتے تھے

qaida- alazemah -ibn temiah front

qaida- alazemah -ibn temiah 57

فمقصودُهُ صلى الله عليه وسلم بقوله: «مَا مِنْ رَجُلٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ (4) » بيان حياتِه، وأنه  يَسمع السلام من القريب، ويبلَّغ السلامَ من البعيد، ليس مقصودُهُ أمر الأمة بأن يأتوا إلى القبر ليسلموا عليه عند قبره

پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس پر الله میری روح اس کو جواب دینے کے لئے لوٹا نہ دے ،  یہ کہنے کا مقصد ان کی زندگی تھا اور بے شک وہ قریب کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا ان کو پہنچایا جاتا ہے اس کو کہتے کا مقصد یہ نہ تھا کہ امت کو حکم دیں کہ وہ قبر پر آ کر ہی سلام کہے

اسی روایت کا کتاب قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة میں ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں

وعلى هذا الحديث اعتمد الأئمة في السلام عليه عند قبره، صلوات الله وسلامه عليه.

اور اس حدیث پر ائمہ اسلام نے اعتماد کیا ہے کہ سلام قبر پر کہا جائے 

ابن تیمیہ کے مخالفین مثلا السبکی اپنی کتاب  شفاء السقام میں آیت پیش کرتے   ہیں

یا ایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فوق صوت النبی…….. الخ (پارہ26 ۔الحجرة

اے ایمان والوں اپنی آواز کو رسول اللہ کی آواز سے بلند نہ کرو 

السبکی کے مطابق وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابل ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس میں زندہ ہیں

شفا السقام ١

۔  ابوبکر الصدیق سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  کے سامنے بلند آواز کرنا جائز نہیں نہ زندگی میں نہ حالت میت میں  اور عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہ  خبردار رسول الله کو تکلیف نہ دو اور  علی بن ابی طالب رضی الله عنہ  نے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے ایسا الحسینی نے روایت کیا اخبار مدینہ میں اور تمام دلیلیں ہیں کہ وہ رسول الله کو زندہ دیکھتے تھے

  کتاب  الدرة الثمينة في أخبار المدينة از  محب الدين أبو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن المعروف بابن النجار (المتوفى: 643هـ) میں عائشہ  اور علی رضی الله عنہما کی روایت کی سند ہے

أنبأنا يحيى بن أسعد بن بوش، عن أبي علي الحداد، عن أبي نعيم الحافظ، عن جعفر الخلدي، أنبأنا أبو يزيد المخزومي، حدثنا الزبير بن بكار، حدثنا محمد بن الحسن قال: حدثني غير واحد، منهم عبد العزيز بن أبي حازم، ونوفل بن عمارة قالوا: إن عائشة رضي الله عنها كانت تسمع صوت الوتد والمسمار يضرب في بعض الدور المطنبة بمسجدالنبي صلى الله عليه وسلم، فترسل إليهم: أن لا تؤذوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما عمل علي بن أبي طالب رضي الله عنه مصراعي داره إلا بالمناصع توقياً لذلك.

اس کی سند منقطع ہے ایک سے زائد نے روایت کیا کون ہیں پتا نہیں ہے لہذا السبکی کی دونوں روایات ضعیف ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے خدیجہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ ان کے لئے جنت میں گھر ہے جس میں شور نہ ہو گا

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امہات المومنین جو دنیا و آخرت میں رسول الله کی ازواج ہیں وہ جنت میں ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں جہاں پر وقت شور ہی شور ہے اور مومن کا قید خانہ ہے اس میں رسول الله ابھی تک ہوں

اصل میں یہ امت کا غلو ہے اور  غم کی  نفسیاتی کیفیت ہے کہ اپنے نبی کی وفات اس کو قبول نہیں ہو رہی ایسی کیفیت عمر رضی الله عنہ پر بھی چند گھنٹوں رہی لیکن زائل ہو گئی تھی

اب صورت حال یہ ہوئی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم قبر میں مسلسل زندہ ہیں روح جسد سے الگ نہیں محدث  ابن حجراور السبکی

رسول الله صلی الله  علیہ وسلم کو قبر میں رزق دیا جاتا ہے محدث  السخاوی

رسول الله صلی الله  علیہ وسلم کی روح ہر وقت قبر میں نہیں  نجدی مفتی ابا بطین

 رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم  قبر میں سنتے بھی ہیں سعودی مفتی بن باز، محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح جسد میں اتی ہے لیکن سنتے نہیں بولتے ہیں البانی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں قوت نطق دی جاتی ہے المناوی

رسول اللہ کی قبر میں زندگی پر کوئی صحیح حدیث نہیں  ابا بطین

رسول الله صلی الله علیہ وسلم (اور دیگر انبیاء ) کی روح قبر میں بدن میں آنا فانا اتی جاتی رہتی ہیں ابن تیمیہ

یعنی  ایک طرف تو کہا جا رہا ہے کہ رسول الله کی وفات ہوئی دوسری طرف ان میں عود روح بھی کرایا جا رہا ہے اس طرح متضاد روایات میں ایک نرالی تطبیق پیدا کی جاتی ہے جو  التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ   یا دور کی کوڑی کی شکل ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ  خرج رسول اللہ من الدنیا صحیح بخاری

    رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  دنیا سے نکل  گئے 

واضح رہے کہ سلام کہنے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب کی جاتی ہے جبکہ وہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ابو ہریرہ خود رسول الله کی روح دنیا سے نکل جانے کے قائل ہیں

ایک طرف تو علماء کہتے ہیں کہ رسول الله کی قبر میں زندگی برزخی ہے دوسری طرف ان کو قبر میں نماز بھی پڑھواتے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں ہے کہ انبیاء جنتوں میں ہیں- شب معراج وہیں ملاقات ہوئی اور جنت میں موسی و آدم کے کلام کا ذکر بھی احادیث میں ہے خود زندہ نبی عیسیٰ علیہ السلام بھی جنت میں ہیں – مسلم کی اوپر والی جنت کا دروازہ کھولنے والی حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر روز محشر الله کا خاص انعام ہے جہاں تمام بنی نوع آدم کے سامنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے- صلی الله علیہ وسلم

musalmano-ka-aqdiah

فرشتوں کا سلام پہنچانا اور غیر مقلدین

فرقہ غیر مقلدین سے منسلک ایک ویب سائٹ

kitabosunnat.com

پر کتاب دیکھنے کو ملی کتاب تبلیغی نصاب کے رد میں تھی اور اس کا عنوان تھا تبلیغی نصاب کا جائزہ قرآن و حدیث کی نظر میں از محمد منیر

زاذان  صحابی رسول  عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت نقل کرتا ہے

  إنّ لله ملائكة سیّاحین في الأرض یبلغوني من أمتی السلام

بے شک الله کے سیاح فرشتے ہیں زمین پر جو میری امت کا سلام لاتے ہیں

یہاں اس کی تصحیح کرنے والے علماء کی لسٹ دیں تو کافی طویل ہو گا اس کے لئے کتابچہ عرض اعمال کی روایات دیکھیں جو ہماری اس ویب سائٹ پر موجود ہے

محمد منیر لکھتے ہیں

muneer-arz-amal-tableeghi

ان اقتباسات میں تبلیغی بھائیوں کی بجائے اہل حدیث بھائیوں بھی پڑھا جائے تو ٹھیک ہے کیونکہ عرض اعمال

اہل حدیث کا بھی عقیدہ ہے

یہ ایک اچھی بات ہے کہ اہل حدیث بھائی تصویر کے دونوں رخ اپنی ویب سائٹ پر رکھتے ہیں تاکہ تقلید کا کوئی شکار نہ ہو الله ہم سب کو ہدایت دے

ابراہیمی ادیان میں شیطان کا تصور

یہودیوں کی کتب میں شیطان کا تصور محدود ہے – اس کو ایک فرشتہ سمجھا جاتا ہے – لفظ شیطان  توریت میں نہیں ہے – موجودہ یہود کے بعض فرقوں کے نزدیک  نفس امارہ کو ہی شیطان سے ملا دیا گیا ہے اور شیطان بطور ایک الگ ذات کوئی وجود نہیں رکھتا- یہود کے دیگر  فرقوں کے نزدیک شیطان  فرشتہ ہے اور یہود کے نزدیک الله کا دشمن نہیں بلکہ الله کا مدد گار ہے

اگر آپ توریت کا تقابل قرآن سے کریں تو انکشاف ہو گا کہ آدم علیہ السلام  کو فرشتوں کا سجدہ، توریت میں موجود نہیں بلکہ ایک سانپ کو مثبت شخصیت کے طور پر دکھایا گیا ہے الله تعالی نے انسان کو تخلیق کیا اس کو شجر علم سے —   دور رکھا لیکن سانپ  چاہتا تھا کہ انسان علم  حاصل کرے لہذا اس کو شجر علم کی حقیقت بتا دی

گویا الله علم نہیں دینا چاہتا تھا شیطان یا سانپ  نے انسان کی علم حاصل کرنے میں مدد کی اور اس کو شجر ممنوعہ کی حقیقت بتا دی اس کے بر خلاف قرآن میں ہے کہ الله تعالی نے تخلیق آدم کے بعد ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان کو اسماء  کا علم فرشتوں سے زیادہ تھا

یعنی توریت میں  شیطان کو سانپ کر دیا اور شجر ممنوعہ کو شجر علم کر دیا اور اسی سانپ کو جنت میں بھی پہنچا دیا

تصویروں میں اس علم کو سیب کی صورت دکھایا جاتا ہے  جو سانپ نے حوا علیہ السلام کو دیا اور انہوں نے آدم علیہ السلام کو- زمانہ حال ہی میں ایک مشھور کمپنی نے اس سیب کواپنا لوگو بھی بنا لیا ہے

شیطان سانپ

Apple-logo1

توریت کی  کتاب الاستثنا کے باب ١٦ کی آیات ہیں

ہارون کو بنی اسرائیلیوں کے لئے دو بکرے گناہ کی قربانی کے طور پر اور ایک مینڈھا جلانے کی قربانی کے لئے لینا چاہئے ۔

٦

اس لئے ہارون ایک بیل کو اپنے گناہ کی قربانی کے لئے اپنے اور اپنے خاندان کے کفّارے کے لئے قربانی کے طور پر پیش کرے گا ۔

٧

” اُس کے بعد ہارون دو بکرے کو لیگا اور اسے خیمہٴ اجتماع کے دروازے پر خدا وند کے سامنے لائے گا ۔

٨

پھر ہارون دونوں بکروں کے لئے قرعہ ~ ڈ الے گا ۔ ایک خدا وند کے لئے اور دوسرے عزازیل کے لئے

٩

” تب ہارون قرعہ ڈال کر چُنے گئے بکرے کو خدا وند کے لئے گناہ کی قربانی کے طور پر قربانی دیگا ۔

١٠

لیکن قرعہ ڈال کر عزازیل کے لئے چُنا گیا بکرا خدا وند کے سامنے زندہ لایا جانا چاہئے ۔ تب یہ بکرا ریگستان میں عزازیل کے پاس کفّارہ دینے کے لئے بھیجا جائے گا ۔

١١

تب ہارون اپنے لائے ہوئے بیل کو گناہ کی قربانی کے طور سے چڑھا ئے گا ۔ اس طرح سے ہارون اپنے اور اپنے خاندان کے لئے کفّارہ ادا کریگا ۔ ہارون بیل کو اپنے لئے گناہ کی قربانی کے طور پر ذبح کرے گا ۔

عزازیل کے لئے بیابان میں بکرا چھوڑا جائے گا  جو  غیر الله کی نذر ہے اور اس کی تہمت ہارون علیہ السلام پر لگائی جا رہی ہے

بعض اہل کتاب عزازیل کا ترجمہ کر دیتے ہیں اور اس کو کفارہ کا بکرا کہتے ہیں – اس بکرے کا انتخاب دوسرے ہیکل کے دور میں  اقلام پھینک کر کیا جاتا تھا – تلمود کے مطابق اس بکرے کو پہاڑ پر لے جایا جاتا اور پھر کھائی میں دھکیل دیا جاتا تھا

اس طرح یہ عزازیل کی عبادت ہوئی- یہاں اس مقام پر یہ وضاحت نہیں کہ عزازیل سے  شیطان ہی مراد ہے

اس کی بنیاد پرشیطان کی منظر کشی ایسے پیروں سے کی جاتی جس میں بکرے کے پیر دکھائے جاتے ہیں

بعض دیگر یہودی کتب میں شیطان کا لفظ موجود ہے

کتاب زکریا  باب ٣ میں ہے کہ شیطان نے امام القدس کی مخالفت کی – یہ زکریا جن کو نبی کہا جاتا ہے ، دوسرے ہیکل کے دور کے ہیں اور عزیر مخالف ہیں ان کا ہی قتل مقدس اور قربان گاہ کے درمیان ہوا جن کا  ذکر انجیل متی میں ہے- یہ قرآن کے زکریا علیہ السلام نہیں جو مریم علیہ السلام کے کفیل تھے

آیات ہیں

اِس کے بعد رب نے مجھے رویا میں امامِ اعظم یشوع کو دکھایا۔ وہ رب کے فرشتے کے سامنے کھڑے تھے ، اور شیطان ان پر الزام لگانے کے لئے اُس کے دائیں ہاتھ کھڑا ہو گیا تھا۔

رب نے شیطان سے فرمایا، ”اے شیطان، رب تجھے ملامت کرتا ہے! رب جس نے یروشلم کو چن لیا وہ تجھے ڈانٹتا ہے! یہ آدمی تو بال بال بچ گیا ہے، اُس لکڑی کی طرح جو بھڑکتی آگ میں سے چھین لی گئی ہے۔“

ایک کتاب جو ایوب علیہ السلام سے منسوب ہے اس کی آیت ہے

الله نے شیطان سے پوچھا تو کہاں سے آ رہا ہے ؟ شیطان نے کہا زمین کی سیر سے ہر کام جو اس میں ہو اس کو دیکھتا ہوں

یہود کے نزدیک شیطان کا مقصد یہود کی آزمائش ہے لیکن اس کا نتیجہ ان کے حق میں ہوتا ہے یعنی یہود الله کی نگاہ میں سر خرو ہوتے ہیں

یسعیاہ نبی  (جن کا دور پہلے ہیکل کا کہا جاتا ہے اور عیسیٰ سے  ٨ صدیاں قبل گزرے ہیں ) کی کتاب میں ہے

یسعیاہ ٤٥  باب ٧ کی آیت ہے

میں ہی خالق نور و ظلمات ہوں اور میں ہی وہ ذات  ہوں جو برباد کرتی ہے

اس آیت سے بعض نصرانی علماء استخراج کرتے ہیں کہ اس میں ظلمت سے مراد شیطان ہے

موجودہ علماء یہود و نصاری کہتے ہیں کہ یسعیاہ کی کتاب تین حصوں میں لکھی گئی ہے پہلے ہیکل کی تباہی سے پہلے اوربعد تک اس پر کام ہوا ہے

اب  سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیطان  کا وہ تصور جو قرآن میں ہے اور وہی حق ہے تو اس کو توریت میں کیوں تبدیل کیوں کیا گیا اور لفظ شیطان سرے سے توریت  موجود ہی نہیں؟

اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل کو فارس کے لوگوں نے واپس یروشلم بھیجا تھا تاکہ وہ واپس  مسجد سلیمان بنا لیں- فارس کے مذھب میں اہرمن و یزداں کا تصور تھا- جس میں اہرمن کو خدائے شر کہا جاتا تھا لہٰذا اگر توریت جیسی اہم کتاب ، جس کو عزیر اور نحمیاہ لکھوا رہے تھے، میں سے شیطان کا ذکر ہوتا تو اس کو اہرمن سمجھا جاتا لہذا شیطان کا لفظ ہی نکال دیا گیا اور شیطان سانپ بن گیا

اس کے اثرات اردو زبان میں بھی ہیں آج بھی مشیت یزدانی کا لفظ بولا جاتا ہے- یزداں جو آتش پرستوں کا خدائے خیر تھا

دوسرے ہیکل کے دور میں یہود کا اختلاف بڑھا اور ان میں سامرہ کا فرقہ نکلا اور شیطان کے تصور میں تبدیلی آئی

نصرانی مذھب میں  شیطان کا تصور بہت بڑا ہے لوگوں کو دنیا میں بادشاہ بنواتا ہے ( انجیل لوقا)  انسان میں جانور میں حلول کر جاتا ہے (انجیل متی، لوقا ، مرقس)- انجیل یوحنا میں  شیطان کا جسد میں داخل ہونا نہیں بیان کیا گیا – شیطان ایک فرشتہ ہی ہے  جو جنت کا سانپ تھا –

بہرحال اناجیل اربع اور پال کی کتب میں شیطان کا تصور موجود ہے اور اس کو ایک طاقت ور کردار دیا گیا ہے

اسلام کا تصور ہے کہ شیطان جن ہے جو الله کا باغی ہے اور وہ نفس امارہ نہیں اور فرشتہ بھی نہیں- اس کا مقصد انسان کو گمراہ کرنا ہے اور علم دینا اس کا کام نہیں الله کا ہے- لہذا ہر طرح کا علم چاہے خیر کا ہو یا شر کا الله ہی کی جانب سے ہے لیکن اس کا مقصد انسان کی آزمائش ہے

قرآن کہتا ہے کہ بابل میں یہود سحر کا علم حاصل کرتے تھے جو ان کی آزمائش تھا آیات ہیں

واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون

اور  (یہود) لگے اس  (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان  نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر!  لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو-  اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں،  آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا

سحر کا علم ان کو فرشتوں هاروت وماروت  سے ملا  تھا لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ فتنہ ہے لیکن اپنی سابقہ حرکتوں کو توجیہ دینے کے لئے انہوں نے تمام علوم کا مخزن چاہے ( شرک و سحر ہی کیوں نہ ہو ) سانپ کو قراردیا کیونکہ یہ سب اس شجر علم میں چھپا تھا جو جنت عدن کے بیچوں بیچ تھا

لہذا اہل کتاب میں الجھاؤ پیدا ہو گیا کہ ایک طرف تو سانپ  توریت کے مطابق علم دے رہا ہے دوسری طرف انجیل میں یہی سانپ شیطان بن کر لوگوں کو گمراہ کر رہا  ہے ان میں حلول کر رہا ہے

سانپ سے یہود کی محبت بھی عجیب رہی کتاب گنتی باب ٢١ کے مطابق الله تعالی بنی اسرائیل پر ناراض ہوا جبکہ وہ مصر سے باہر دشت میں تھے

snake-number-21موسی علیہ السلام پر بت بنانے کی یہ تہمت تو لگی ہی سانپ میں کوئی نہ کوئی چکر ضرور ہے یہ بات بھی دماغ میں ڈال دی گئی

اس مورت کی پوجا بھی ہونے لگی کتاب سلاطین دوم باب ١٨ میں ہے

snake-2kings18

اسی سانپ کو عیسی کی تاثر مسیحائی سے بھی ملا دیا  گیا اور طب کا نشان سمجھا جاتا ہے

serpent

اسکلپئوس ایک یونانی خدا تھا جس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی پر سانپ لپٹا ہوا تھا اس کو طب کا خدا سمجھا جاتا تھا اسی نشان کو

اپنایا گیا ہے

ascilepius

دو سانپ ایک لاٹھی پر اور اپس میں لپٹے ہوئے یونانی دیوتا ہرمس کا نشان ہے اس کو آج کل لیں دیں یا بزنس کا نشان کہا جاتا

ہے جس کو ایک بینک نے بھی پسند کیا

standard-chartred

اسی طرح ایک آرڈر آف ڈریگن بھی بنا جو ترکوں کی یورپ کی طرف پیش قدمی کو روک رہا تھا

Order of the Dragon

dragon1

ڈریگن بھی ایک تخیلاتی مخلوق ہے جو زمیں اور اگ سے نکلا ہے یہ  کچھ اور نہیں اڑنے والا  اژدھا یا سانپ ہے کیونکہ ابلیس اڑتا ہے اور اس کو سانپ بھی کہا

جاتا  ہے اور تقریبا ساری دنیا میں اس کو ایک زمانے میں کسی نہ کسی مقام پر پوجا جاتا تھا

کہا جاتا ہے کہ یہ مخلوق معدوم ہے لیکن آج تک ڈراموں اور فلموں میں اس کو مثبت انداز میں دکھایا جاتا ہے

ڈریگن اصل میں ابلیس ہی کی شکل ہے جس کو  اس کے شائقین مثبت انداز میں پیش کرتے ہیں

اب  اس تصور کا اختتام بہت ممکن ہے ایسے ہو کہ ایک دابّه الارض زمیں کا جانور نکلے اور شرک کی بجائے الوہیت کا علم دے

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآَيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ

پس جب ان پر ہمارا قول واقع ہو گا ہم ان کے لئے زمین سے جانور نکالیں گے جو کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پرایمان نہیں لاتے

شوکانی اور قرطبی ابن عبّاس سے منسوب ایک قول نقل کرتے ہیں کہ  دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ سے مراد

أنها الثعبان المشرف على جدار الكعبة

ایک عظیم اژدھا ہو گا جو کعبہ کی دیوار سے نکلے گا

لیکن یہ آخری وقت ہو گا

اب اس کے بعد کوئی نیکی نیکی نہ رہے گی اور کوئی ایمان قبول نہ ہو گا

عقیدہ عرض اعمال کا ارتقاء

قرآن الله تعالی کی طرف سے ہے اور ان تمام عقائد کی وضاحت کرتا جو ایک انسان کی اخروی فلاح کے لئے ہوں

افسوس !

عقائد میں اضافے کیے جاتے رہے صوفیا ہوں یا محدثین دونوں نے روایات کی بنیاد پر اضافے کیے ہیں

قرآن کہتا ہے

أَفَمَنۡ هُوَ قَآٮِٕمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ‌ۗ وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ۔
تو کیا جو (اللہ) ہر متنفس کے اعمال کا نگراں (ونگہباں) ہے (وہ تمہارے معبودوں کی طرح بےعلم وبےخبر ہوسکتا ہے) اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں۔ سورة الرعد ۳۳

يَعۡلَمُ مَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَفۡسٍ۬‌ۗ۔
ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ سورة الرعد٤۲

وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِۦ خَبِيرَۢا بَصِيرً۬ا
اور تمہارا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے اور دیکھنے کیلئے کافی ہے۔ سورة بنی اسرائیل۱۷

وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ
اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔ سورة البقرہ۲۱۰

وَإِلَيۡهِ يُرۡجَعُ ٱلۡأَمۡرُ كُلُّهُ ۥ
اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے۔ سورة ھود ۱۲۳

وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ سورة الحج ٤۱

وَإِلَى ٱللَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور (سب)کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے ۔ سورة لقمان۲۲

أَلَآ إِلَى ٱللَّهِ تَصِيرُ ٱلۡأُمُورُ
دیکھو سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوں گے ۔ سورة الشوریٰ۵۳

اس کے برعکس رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت پیش کی جاتی ہے
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے

اس روایت کو اگر درست تسلیم کیا جائے تواس سے یہ نکلتا ہے

اول عرض اعمال قبر میں انبیاء پر ہوتا ہے

دوم رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جمعہ کے دن قبر میں عمل پیش ہوتا ہے

سوم انبیاء کے اجسام محفوظ رہیں گے

چہارم درود رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر  زندگی میں بھی پیش ہو رہا تھا صحابہ کو اشکال وفات کےبعد والے دور پر ہوا

بعض علماء ایسی روایات کو سنتے ہی وجد میں آ گئے اور تصحیح کر بیٹھے مثلا

البانی کتاب صحیح ابی داود میں  ابن ابی حاتم کا قول پیش کرتے ہیں

وقد أعِل الحديث بعلة غريبة، ذكرها ابن أبي حاتم في “العلل ” (1/197) ،  وخلاصة كلامه: أن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر- وهو شامي- لم يحدتْ عنه  أحد من أهل العراق- كالجعفي-، وأن الذي يروي عنه أبو أسامة وحسين الجعفي واحد، وهو عبد الرحمن بن يزيد بن تميم، وهو ضعيف؛ وعبد الرحمن بن يزيد بن  جابر ثقة، وهذا الحديث منكر، لا أعلم أحداً رواه غير حسين الجعفي!  قلت: ويعني: أنه أخطأ في قوله: عبد الرحمن بن يزيد بن جابر؛ وإنما هو:  عبد الرحمن بن يزيد بن تميم؛ الضعيف! وهذه علة واهية كما ترى؛ لأن الجعفي ثقة اتفاقاً؛ فكيف يجوز تخطئته لمجرد عدم العلم بأن أحداً من العراقيين لم يحدِّث عن ابن جابر؟! وما المانع من أن يكون الجعفي العرافي قد سمع من ابن جابر حين لزل هذا البصرة قبل أن يتحول إلى دمشق، كما جاء في ترجمته؟! وتفرد الثقه بالحديث لا يقدح؛ إلا أدْ يثبت خَطَأهُ كماهو معلوم.

اور بے شک اس پر ایک انوکھی علت بیان کی جاتی ہے جس کا ذکر ابن ابی حاتم نے العلل 1/ ١٩٧ میں کیا اور خلاصہ کلام ہے کہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر جو شامی ہے اس سے کسی عراقی نے روایت نہیں کی جیسے یہ الجعفی  – اور وہ جس سے  ابو اسامہ اور  حسين الجعفي روایت کرتے ہیں وہ اصل میں عبد الرحمن بن يزيد بن تميم  ہے جو ضعیف ہے جبکہ عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ثقہ ہے اور یہ حدیث منکر ہے جس کو سوائے حسین کے کوئی روایت نہیں کرتا

البانی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اور اس کا مطلب ہوا کہ اس حسين الجعفي    نے عبد الرحمن بن يزيد بن جابر بولنے میں غلطی کی اور وہ عبد الرحمن بن يزيد بن تميم تھا جو ضعیف ہے (حد ہو گئی) اور ابی حاتم کی پیش کردہ علت واہیات ہے جیسے کہ دیکھا کیونکہ یہ الجعفي  ثقہ بالاتفاق ہے اور یہ کیسے جائز ہے کہ ایک لا علمی پر مجرد غلطی کہا جائے کہ کسی عراقی نے ابن جابر سے روایت نہیں کیا ہے؟ اور اس میں کچھ مانع نہیں کہ عراقی الجعفي  نے ابن جابر سے سنا ہو جب بصرہ گئے دمشق سے پہلے جیسا کہ ان کے ترجمہ میں ہے اور ثقہ کا تفرد حدیث میں مقدوح نہیں

البانی کا مقصد ہے کہ حسين الجعفي  جو کوفی تھا ممکن ہے کبھی بصرہ میں اس کی ملاقات عبد الرحمان بن یزید بن جابر سے ہوئی ہو- ایسے ممکنات کو دلیل بناتے ہوئے البانی اس کی تصحیح کے لئے بے چین ہیں اور حد ہے کہ ائمہ حدیث ابی حاتم تک پر جرح کر رہے ہیں اور ان کے قول کو واھی کہہ رہے ہیں- باقی امام بخاری کی رائے بھی ابی حاتم والی ہی ہے اس کو خوبصورتی سے گول کر گئے

البانی کے عقائد پر کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني  کے مطابق البانی  اس روایت کی دلیل پر ایک دوسری روایت بھی پیش کرتے ہیں

ولعل مما يشير إلى ذلك قوله صلى الله عليه وسلم: “ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام”   وعلى كل حال فإن حقيقتها لا يدريها إلا الله سبحانه وتعالى، ولذلك فلا يجوز قياس الحياة البرزخية أو الحياة الأخروية على الحياة الدنيوية

اور ہو سکتا ہے کہ اسی بات پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے  قول  میں اشارہ دیا گیا کہ   تم میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام پڑھے اور الله میری روح کو نہ لوٹا دے اور ہر حال میں حقیقت الله ہی جانتا ہے اور اس لئے یہ جائز نہیں کہ حیات برزخی یا اخروی کو دنیاوی پر قیاس کیا جائے

سلام بولنے پر روح لوٹانے والی روایت کو اہل حدیث علماء خواجہ محمّد قاسم اور زبیر علی زئی رد کرتے ہیں جبکہ البانی اسی کو دلیل میں پیش کر رہے ہیں –  ابن کثیر تفسیر میں سورہ الاحزاب  میں اس سلام پر روح لوٹائے جانے والی روایت کو صحیح کہتے ہیں اور دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں

وَمِنْ ذَلِكَ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ الصَّلَاةُ والسلام عليه عند زيارة قبره صلى الله عليه وسلم

اور اس لئے یہ مستحب ہے کہ  زيارة قبر نبی صلى الله عليه وسلم  کے وقت  الصَّلَاةُ والسلام کہے

عرض اعمال والی روایت کو صحیح کہنے والے ابو داود کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اس پر سکوت کیا ہے اور ان سے منسوب ایک خط میں انہوں نے کہا کہ قد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح  جس پر بھی میں سکوت کروں وہ صحیح سمجھی جائے –اس کے برعکس البانی اس قول کو خاطر میں نہیں لاتے اور پوری ایک کتاب ضیف ابو داود تالیف کر بیٹھے جس میں اکثر وہ روایات ہیں جن پر ابو داود کا سکوت ہے

سوال یہ ہے کہ یہ تضاد کیوں ہے عقیدے کی ضعیف سے ضعیف روایت پر ابو داود کے سکوت کا حوالہ دینا اور قبول کرنا اور  عمل میں انہی کو رد کرنا

عرض اعمال والی درود پیش ہونے والی روایت پر ابن حبان کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کو صحیح میں لکھا ہے – ابن حبان چوتھی صدی ہجری کے محدث ہیں ان سے ایک   صدی قبل بخاری اور ابی حاتم اس روایت کو معلول قرار دے چکے تھے لیکن وہ اس کی تصحیح کر بیٹھے – اس کی وجہ ابن حبان کا اپنا عقیدہ ہے کہ قبروں کے پاس دعائیں قبول ہوتی ہیں اور ابن حبان سماع الموتی کے قائل تھے

 ابن حبان المتوفی  ٣٥٤ ھ   اپنی صحیح میں روایت کرتے  ہیں

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ سُرَيْجٍ النَّقَّالُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا مَرَرْتُمْ بِقُبُورِنَا وَقُبُورِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّهُمْ فِي النَّارِ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب تم ہماری (اہل اسلام) اور اہل الْجَاهِلِيَّةِ کی قبروں پر سے گزرتے ہو تو پس ان کو خبر دو کہ وہ اگ والے ہیں

البانی کتاب التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں  کہتے ہیں صحيح اور اسی طرح – «الصحيحة» (18)، «أحكام الجنائز» (252) میں اس کو صحیح قرار دیتے ہیں

ابن حبان اس حدیث پر صحیح ابن حبان میں حاشیہ لکھتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَرَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْخَبَرِ الْمُسْلِمَ إِذَا مَرَّ بِقَبْرِ غَيْرِ الْمُسْلِمِ، أَنْ يَحْمَدَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا عَلَى هِدَايَتِهِ إِيَّاهُ الْإِسْلَامَ، بِلَفْظِ الْأَمْرِ بِالْإِخْبَارِ إِيَّاهُ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، إِذْ مُحَالٌ أَنْ يُخَاطَبَ مَنْ قَدْ بَلِيَ بِمَا لَا يَقْبَلُ عَنِ الْمُخَاطِبِ بِمَا يُخَاطِبُهُ بِهِ

  نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا اس حدیث میں کہ جب کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کی قبر پر سے گزرے تو الله کی تعریف کرے اس ہدایت پر جو اس نے اسلام سے دی اور حکم کے الفاظ جو اس حدیث میں ہیں کہ وہ اگ میں سے ہیں سے یہ محال ہے کہ ان  کو مخاطب کیا جائے جو بے شک (اتنے) گل سڑ گئے ہوں کہ  خطاب کرنے والے (کی اس بات ) کو قبول نہ کر سکتے ہوں جس پر ان کو مخاطب کیا گیا ہے

ابن حبان کے حساب سے ایسا خطاب نبی صلی الله علیہ وسلم نے سکھایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے سمجھنے اور سننے کے قابل  ہیں اس ضعیف روایت کو اپنی صحیح  میں بھی لکھتے ہیں اس سے بھی عجیب بات ہے کہ مردوں کے نہ سننے کے قائل البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں جبکہ سندا یہ روایت کمزور ہے

ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل  تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتی

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

 قبروں سے فیض حاصل کرنے اور مردوں کے سننے کے ابن حبان قائل تھے

شیعہ اماموں کی قبروں سے اہلسنت کے محدثین کا فیض حاصل کرنا کسی شیعہ نے لکھا ہوتا تو سب رافضی کہہ کر رد کر دیتے لیکن یہ ابن حبان خود لکھ رہے ہیں – اس ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے وہ صحیح ابن حبان میں عرض اعمال کی روایت کی تصحیح کر گئے

عرض اعمال والی  روایت کو پانچویں صدی کے  امام حاکم نے بھی صحیح قرار دیا اور شیخین کی شرط پر کہا جبکہ بخاری تاریخ الکبیر اور الصغیر میں اس روایت کے راوی حسین الجعفی پر بات کر چکے ہیں – امام حاکم خود شیعیت کی طرف مائل ہوئے اور حدیث طیر کو صحیح کہتے تھے کہ علی سب صحابہ سے افضل ہیں

چوتھی صدی کے امام دارقطنی (المتوفى: 385هـ) بھی حرم علی الازض والی روایت کی تصحیح کر گئے حالانکہ اپنی کتاب العلل میں ایک روایت پر لکھتے ہیں

وَرَوَاهُ أَبُو أُسَامَةَ، فَقَالَ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ وَوَهِمَ فِي نَسَبِهِ، وَإِنَّمَا هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ تَمِيمٍ

اور اس کو ابو اسامہ نے روایت کیا ہے اور کہا ہے عبد الرحمان بن یزید بن جابر اور اس کے نسب میں وہم کیا اور یہ تو بے شک عبد الرحمان بن یزید بن تمیم ہے

یعنی دارقطنی یہ مان رہے ہیں کوفی ابو اسامہ نے عبد الرحمن بن یزید  کے نسب میں غلطی کی لیکن اس کو حسین الجعفی کے لئے نہیں کہتے جو بالکل یہی غلطی کر رہا ہے

آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ اور ابن قیم نے ایسی روایات کی بھرپور تائید کی

حسين بن علي الجعفي صحيح بخاري کے راوی ہیں لیکن امام بخاری کے نزدیک ان کی تمام روایات صحیح نہیں ہیں اور یہ غلطی نسب میں کر گئے ہیں اور عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کو ابن جابر کہہ گئے

حسین بن علی الجعفي کے لئے ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں

وَكَانَ مَأْلَفًا لِأَهْلِ الْقُرْآنِ وَأَهْلِ الْخَيْرِ

اور یہ اہل قرآن اور اہل خیر کی طرف مائل تھے

الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ کہتے ہیں

وَكَانَ رَاهِبَ أَهْلِ الكُوْفَةِ.

اور یہ اہل کوفہ کے راھب تھے

اور يَحْيَى بنُ يَحْيَى التَّمِيْمِيُّ  کے مطابق

إِنْ كَانَ بَقِيَ مِنَ الأَبْدَالِ أَحَدٌ، فَحُسَيْنٌ الجُعْفِيُّ

اگر ابدال میں سے کوئی رہ گیا ہے تو وہ  حُسَيْنٌ الجُعْفِيُّ ہیں

صحیح مسلم کے مقدمے میں امام مسلم  لکھتے ہیں کہ اہل خیر کے بارے میں ائمہ محدثین کی رائے اچھی نہیں تھی

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَفَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ»   قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ: فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ: عَنْ أَبِيهِ، «لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ». قَالَ مُسْلِمٌ: ” يَقُولُ: يَجْرِي الْكَذِبُ عَلَى لِسَانِهِمْ، وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْكَذِبَ

حسین بن علی  الجعفی کا روایت میں غلطی کرنا ان کا اہل خیر کی طرف مائل ہونا اور لوگوں کا ان کو ابدال کہنا اور راہب کوفہ کہنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ زہد کی طرف مائل تھے اور روایت جب عبد الرحمان بن یزید بن تمیم سے سنی تو اس قدر پسند آئی کہ اس کے متن اور عبد الرحمان سے اس کا پورا نسب تک نہ جانا اور بیان کر دی

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات محدثین نے صرف ان کے لئے کی ہے نہیں ائمہ محدثین تو نسب میں غلطیاں بہت سے راویوں سے منسوب کرتے ہیں جس کے لئے کتب تک موجود ہیں لہذا بخاری  اور ابی حاتم جیسے پائے کے محدثین کی رائے کو لفاظی کر کے رد نہیں کیا جا سکتا

الوحی

Questions answered by Abu Shahiryar

توریت

جواب

بھائی یہ کسی جاہل کی بات ہے

الله تعالی نے قرآن میں سوره الاعلی فرمایا
إن هذا لفي الصحف الأولى صحف إبراهيم وموسى
یہ پچھلے صحف میں بھی تھا موسی و ابراہیم کے مصحف میں

اسی طرح کہا
وآتينا داود زبورا
اور داود کو زبور دی
النساء ١٦٣ میں

و کتبنا له فى الألواح من کل شىء موعظة)
اور ہم نے موسی کے لئے الواح پر نصحت کی ہر چیز لکھ دی
الاعراف آیت ١٤٥ میں

توریت الله تعالی نے اپنی قدرت سے لکھی کہ کلام الہی کے الفاظ الواح پر ظاہر ہوتے گئے اس میں کسی فرشتہ کا ذکر نہیں ملتا کہ اس نے لکھا

پھر قرآن عربی میں ہے اور انبیاء میں عربی بولنے والے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ہمیں علم ہے باقی کی زبان بھی الگ ہیں

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ، فَقَرَأَهُ عَلَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ وَقَالَ: «أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً، لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ، أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ مُوسَى كَانَ حَيًّا، مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي

جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ  عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ اپنے باتھوں میں اہل کتاب کی کوئی تحریر لے کر آئے ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے اس کو پڑھا اپ صلی الله علیہ وسلم غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ  اے ابن الخطاب! کیا تم لوگوں کو تردد اور اضطراب میں ڈالنا چاہتے ہو ۔ وہ ذات جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک  میں ایک پاکیزہ چمکدارشریعت تمہارے لئے لایا ہوں  تم ان سے  سوال نہ کرو جس کی وہ  تمہیں سچی خبردیں پھر تم تکذیب کرو یا باطل کہیں اور تم تصدیق کر بیٹھو. وہ ذات جس کے باتھ میں میری جان ہے  اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کا اتباع کرتے تو تم ضرور گمراہ ہوجاتے۔

شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں  إسناده ضعيف اسکی اسناد ضعیف ہیں

یہ روایت متن کی تبدیلی کے ساتھ عَبْدِ الله بْنِ ثَابِتٍ سے بھی  مروی ہے سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ ثَابِتٍ

سنن دارمی کے مطابق یہ کتاب جو عمر رضی الله تعالی عنہ پڑھ رہے تھے التَّوْرَاةِ تھی سند ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ

مسند احمد کے علاوہ بَيْهَقِيُّ كِتَابِ شُعَبِ الْإِيمَانِ میں اس کو مجالد کی سند سے نقل کرتے ہیں

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں مبارکبوری لکھتے ہیں

فقد روي نحو عن ابن عباس عند أحمد وابن ماجه، وعن جابر عند ابن حبان، وعن عبد الله بن ثابت عند أحمد وابن سعد والحاكم في الكنى، والطبراني في الكبير، والبيهقي في شعب الإيمان

پس اسی طرح ابن عباس کی سند سے احمد اور ابن ماجہ نے اور جابر کی سند سے ابن حبان نے اور عبد الله بن ثابت سے احمد اور ابن سعد نے اور الحاکم نے لکنی میں اور طبرانی نے کبیر میں اور بیہقی نے شعب الإيمان  میں روایت کیا ہے

اس روایت کی تمام اسناد میں  راوی مُجَالِدُ بنُ سَعِيْدِ بنِ عُمَيْرِ بنِ بِسْطَامَ الهَمْدَانِيُّ المتوفی ١٤٤ ھ کا تفرد ہے

 أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں لاَ يُحْتَجُّ بِهِ اس سے دلیل نہ لی جائے

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں اس کی حدیث: لَهُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ أَحَادِيْثُ صَالِحَةٌ  صالح ہیں

أَبُو سَعِيْدٍ الأَشَجُّ اس کو  شِيْعِيٌّ یعنی شیعہ کہتے ہیں

الميموني کہتے ہیں ابو عبدللہ کہتے ہیں

 قال أبو عبد الله: مجالد عن الشعبي وغيره، ضعيف الحديث. «سؤالاته» احمد کہتے ہیں مجالد کی الشعبي سے روایت ضعیف ہے

ابن سعد کہتے ہیں  كان ضعيفا في الحديث، حدیث میں ضعیف ہے

المجروحین میں ابن حبان کہتے ہیں كان رديء الحفظ يقلب الأسانيد ويرفع، ردی حافظہ اور اسناد تبدیل کرنا اور انکو اونچا کرنا  کام تھا

ابن حبان نے صحیح میں اس سے کوئی روایت نہیں لی

ابن حبان المجروحین میں لکھتے ہیں کہ امام الشافعی نے کہا

وَالْحَدِيثُ عَنْ مُجَالِدٍ يُجَالِدُ الْحَدِيثَ

اور مجالد   يُجَالِدُ الْحَدِيثَ ہے

 ابن حبان راوی مجالد بن سعید کی ایک مخدوش روایت المجروحین میں نقل کرتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِم رَوَى مُجَالِدٌ عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَرَوْنَ أَعْلَى عِلِّيِّينَ كَمَا تَرَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ فِي السَّمَاءِ

ابی سعید الخدری رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرماتا کہ بے شک اہل جنت أَعْلَى عِلِّيِّينَ کو ایسے دیکھتے ہیں جسے آسمان میں تارہ

محدثین کے نزدیک اس مجروح روایت کو دلیل بناتے ہوئے ابو جابر دامانوی نے دین الخالص قسط اول میں لکھا تھا

سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں

قارئین جس روایت کو محدثین راوی پر جرح میں پیش کر رہے ہیں فرقہ اہل حدیث اس کو دلیل میں پیش کر رہا ہے کیسا تضاد ہے. یہ ایک اعتراض تھا

مجالد کی کوئی روایت صحیح ابن حبان میں نہیں

بحر الحال مجالد کو دارقطنی ليس بثقة   ثقه نہیں کہتے ہیں

بخاری تاریخ الکبیر  میں لکھتے ہیں

كَانَ يَحيى القَطّان يُضَعِّفُهُ. يَحيى القَطّان اسکی تضعیف کرتے تھے

وكَانَ ابْن مَهديّ لا يروي عنه. ابْن مَهديّ اس سے روایت نہیں کرتے تھے

ابن حجر کہتے ہیں

ليس بالقوى و قد تغير فى آخر عمره

قوی نہیں اور آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا

نسائی کہتے ہیں ثقه ہے اور ليس بالقوى قوی نہیں  بھی کہتے ہیں

امام مسلم نے صحیح میں الشّعبِيّ کی سند سے الطَّلَاق میں صرف ایک روایت نقل کی  ہے. امام مسلم نے اس کی سند اس طرح پیش کی ہے

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، وَحُصَيْنٌ، وَمُغِيرَةُ، وَأَشْعَثُ، وَمُجَالِدٌ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، وَدَاوُدُ، كُلُّهُمْ عَنِ الشَّعْبِيِّ،

یعنی سات راویوں بشمول َمُجَالِدٌ  نے طلاق کی ایک روایت الشَّعْبِيِّ  سے نقل کی ہے

بس صرف یہی روایت ہے جس پر اس کو صحیح مسلم کا راوی گردانا جاتا ہے

حیرت ہے کہ  عرب علماء میں شعيب الأرناؤوط  کے علاوہ عصر حاضر میں کوئی اس روایت کو ضعیف نہیں کہتا بلکہ سب شوق سے اس کو فتووں میں لکھتے ہیں

 اس بحث کا لب لباب ہے کہ  مجالد کی کتب سماوی کے بارے میں روایت منکر ہے

بخاری کی روایت ہے کہ ابن عبّاس کہتے ہیں

يا معشر المسلمين، كيف تسألون أهل الكتاب عن شيء، وكتابكم الذي أنزل الله على نبيكم صلى الله عليه وسلم أحدث الأخبار بالله، محضا لم يشب، وقد حدثكم الله: أن أهل الكتاب قد بدلوا من كتب الله وغيروا، فكتبوا بأيديهم الكتب، قالوا: هو من عند الله ليشتروا بذلك ثمنا قليلا، أولا ينهاكم ما جاءكم من العلم عن مسألتهم؟ فلا والله، ما رأينا رجلا منهم يسألكم عن الذي أنزل عليكم

اے مسلمانوں تم اہل کتاب سے کیسے سوال کر لیتے ہو ان چیزوں پر ان کا ذکر الله نے اس کتاب میں کیا ہے جو اس نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم پر نازل کی ہے … اور اللہ نے تم کو بتا دیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب بدلی اور اپنے ہاتھ سے لکھا اور کہا کہ یہ وہ ہیں جنہوں نے اس کو جو ان کے پاس ہے اس کو قلیل قیمت پر بیچ دیا-  میں تم کو کیوں نہ منع کروں ان مسائل میں ان سے سوال کرنے سے جن کا علم تم کو آ چکا ہے- اللہ کی قسم میں نہیں دیکھتا کہ وہ تم سے سوال کرتے ہو جو تم پر نازل ہوا ہے

  ابن عبّاس  کی بات سے ظاہر ہے کہ یہ ان نو مسلموں کے لئے ہے جن کی تربیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کی تھی اور وہ یہود و نصاری سے ان مسائل میں سوال کر رہے تھے جن کی وضاحت قران میں کی جا چکی ہے – ان میں کعب الاحبار تھے جو عمر کے دور میں ایمان لائے لیکن ابن عباس ان کے بیٹے نوف البکالی کو ابن عباس کذاب کہتے تھے

کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العنکبوت  آیت ٥١ میں فرمایا ہے کہ

أوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ

ان کو کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو ان پر پڑھی جاتی ہے

لیکن اس آیت کی یہ تفسیر نہیں ابن کثیر مقدمہ میں لکھتے ہیں

وَمَعْنَى ذَلِكَ: أو لم يَكْفِهِمْ آيَةٌ دَالَّةٌ عَلَى صِدْقِكَ إِنْزَالُنَا الْقُرْآنَ عَلَيْكَ وَأَنْتَ رَجُلٌ أُمِّيٌّ

اور اس کا معنی ہے أو لم يَكْفِهِمْ آيَةٌ دال ہے کہ قرآن الله نے نازل کیا ہے اور اپ ایک امی رسول ہیں

 قرآن میں النَّحْلِ ٤٣ یہ بھی ہے

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

اور ہم نے اپ سے پہلے جن رسولوں کو بھیجا وہ سب مرد تھے ہم ان پر وحی کرتے تھے  پس اہل ذکر سے پوچھ لو اگرتم (لوگوں) کو معلوم نہیں ہے

عربوں کو کہا جا رہا ہے کہ اہل کتاب سے پوچھ لو یہی تفسیر ابن عباس سے نقل کی گئی ہے. تفسیر ابن کثیر کے مطابق  مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ الْمُرَادَ بِأَهْلِ الذِّكْرِ: أَهْلُ الْكِتَابِ

تفسیر ابن ابی حاتم  ج ٧ ص ٢٨٨٤ کے مطابق

يَعْنِي فاسألوا أَهْل الذكر والكتب الماضية

پس اہل کتاب سے پوچھو اور کتب ماضی سے رجوع کرو

عَنْ ابْنِ عباس فسئلوا أَهْل الذِّكْرِ يَعْنِي مشركي قريش، إِنَّ محمدًا رسول الله في التوراة والإنجيل

سعید بن جبیر کہتے ہیں یہ عبدللہ بن سلام اور اہل توریت کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے

عن سعيد بن جبير في قوله: فسئلوا أَهْل الذِّكْرِ قَالَ: نَزَلَتْ فِي عَبْد اللَّهِ بْنِ سَلامٍ ونفر مِنَ اهْل التوراة

ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک اور روایت ہے جو بخاری روایت کرتے

 اہل کتاب (یہودی) تورات کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے ہیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تم تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو : آمنا بالله وما أنزل إليناہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی صحيح بخاري

   اب ان کتب کا تمام زبانوں میں ترجمہ ہو چکا  ہے لہذا یہ مسئلہ نہیں ہو گا بلکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں صحابہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر عبرانی سیکھ لی تھی  جس کا مقصد خط و کتابت تھا

 بخاری میں  نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے

بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدا، فليتبوأ مقعده من النار

‫ پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک آیت ہی ہو اور روایت کرو بنی اسرائیل سے اس میں کوئی حرج نہیں اور جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔

صحيح بخاري ، كتاب احاديث الانبياء ، باب : ما ذكر عن بني اسرائيل

اسرائیلیات اورسابقہ کتب سماوی میں فرق رکھنا ضروری ہے ان دونوں میں وہ چیزیں جو قرآن و حدیث سے متفق ہوں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ان کا مقصد احقاق حق اور تبین ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ،قرآن میں خود کئی جگہ توریت و انجیل کا  حوالہ دیا گیا ہے

قرآن سے متعلق

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ وحی کا بیان ۔ حدیث 3

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کس طرح شروع ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے تم پر وحی بھیجی جس طرح حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد پیغمبروں پر وحی بھیجی ۔
راوی: یحیی بن بکیر , لیث , عقیل , ابن شہاب , عروہ بن زبیر, عائشہ

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ قَالَ أَخْبَرَ نَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَائُ وَکَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَائٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَی خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّی جَائَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَالَ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَی خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّی ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَی نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ کَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيکَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّی أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ فَيَکْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَی فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَی فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَی مُوسَی يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَکُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَائَنِي بِحِرَائٍ جَالِسٌ عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ فَرُعِبْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّر وَثِيَا بَکَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ وَأَبُو صَالِحٍ وَتَابَعَهُ هِلَالُ بْنُ رَدَّادٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَقَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ بَوَادِرُهُ
یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنی شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے، جو بحالت نیند آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھتے تھے، چنانچہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا، پھر تنہائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبت ہونے لگی اور غار حرا میں تنہا رہنے لگے اور قبل اس کے کہ گھر والوں کے پاس آنے کا شوق ہو وہاں تحنث کیا کرتے، تحنث سے مراد کئی راتیں عبادت کرنا ہے اور اس کے لئے توشہ ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آتے اور اسی طرح توشہ لے جاتے، یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے، حق آیا، چنانچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ، آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور زور سے دبایا، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دہرایا اس حال میں کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا چنانچہ آپ حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔چنانچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے، ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تھا، بیان کر دیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا، اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لئے بند ہوگیا، ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ جابر بن عبداللہ انصاری وحی کے رکنے کی حدیث بیان کر رہے تھے، تو اس حدیث میں بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرما رہے تھے کہ ایک بار میں جا رہا تھا تو آسمان سے ایک آواز سنی، نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ تھا، جو میرے پاس حرا میں آیا تھا ، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور واپس لوٹ کر میں نے کہا مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (يٰا اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ Ą وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ Ǽ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ Ć ) اے کمبل اوڑھنے والے اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے ، پھر وحی کا سلسلہ گرم ہوگیا اور لگاتار آنے لگی۔ عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے اس کے متابع حدیث بیان کی ہے اور ہلال بن رواد نے زہری سے متابعت کی ہے، یونس اور معمر نے فوادہ کی جگہ بوادرہ بیان کیا۔========

==========

بھائی یہ احادیث صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں بھی آئ ہیں – ان کیسےتاویل کریں گے

صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 409

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

راوی: زہیر بن حرب , ولید , ابن مسلم , اوزاعی , یحیی
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَی يَقُولُ سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ فَقُلْتُ أَوْ اقْرَأْ فَقَالَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ فَقُلْتُ أَوْ اقْرَأْ قَالَ جَابِرٌ أُحَدِّثُکُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَائٍ شَهْرًا فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِيتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا هُوَ عَلَی الْعَرْشِ فِي الْهَوَائِ يَعْنِي جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخَذَتْنِي رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِي فَدَثَّرُونِي فَصَبُّوا عَلَيَّ مَائً فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِيَابَکَ فَطَهِّرْ

زہیر بن حرب، ولید، ابن مسلم، اوزاعی، یحیی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کی سب سے پہلے کون سی آیات نازل ہوئیں فرمایا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ) تو وہ کہنے لگے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کونسی آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے فرمایا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ) تو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیان کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں ایک مہینہ تک ٹھہرا رہا جب میری ٹھہر نے کی مدت ختم ہوگئی تو میں وادی میں اتر کر چلنے لگا تو مجھے آوازی دی گئی میں نے اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد پھر آواز دی گئی اور میں نے نظر ڈالی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد مجھے پھر آواز دی گئی اور میں نے اپنا سر اٹھایا تو ہوا میں ایک درخت پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا مجھ پر اس مشاہدہ سے کپکپی طاری ہوگئی اور میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آکر کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور مجھ پر پانی ڈالا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ) 74۔ المدثر : 1)

=======

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2137

تفسیر سورت مدثر ابن عباس نے کہا عسیر بمعنے شدید سخت دشوار اور قسورہ کے معنی ہیں آدمیوں کا شور و غوغا اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس کا معنی شیر ہے اور ہر سخت چیز قسورہ ہے مسنتفرۃ خوفزدہ ہو کر بھاگنے والے۔
راوی: یحیی , وکیع , علی ابن مبارک , یحیی بن ابی کثیر

حَدَّثَنَا يَحْيَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَکِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُلْتُ يَقُولُونَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ ذَلِکَ وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ فَقَالَ جَابِرٌ لَا أُحَدِّثُکَ إِلَّا مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَائٍ فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ أَمَامِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا وَنَظَرْتُ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَائً بَارِدًا قَالَ فَدَثَّرُونِي وَصَبُّوا عَلَيَّ مَائً بَارِدًا قَالَ فَنَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ
یحیی ، وکیع، علی ابن مبارک، یحیی بن ابی کثیر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن کی کون سی آیت نازل ہوئی؟ تو انہوں نے کہا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔قُمْ فَاَنْذِرْ) 74۔ المدثر : 1۔2) نازل ہوئی میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ) سب سے پہلے نازل ہوئی تو ابوسلمہ نے کہا میں نے جابر بن عبداللہ سے اس کے متعلق پوچھا اور میں نے وہی کہا جو تم نے کہا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں تم سے وہی بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حرا میں گوشہ نشین تھا جب میں نے گوشہ نشینی کی مدت کو پورا کرلیا تو میں وہاں سے اترا تو میں پکارا گیا ایک آواز سنی میں نے اپنی دائیں طرف دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ میں نے اپنے بائیں طرف دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھایا تو ایک چیز دیکھی پھر میں خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا تو میں نے کہا مجھ کو کمبل اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی بہاؤ آپ نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھے کمبل اڑھائے اور مجھ پر ٹھنڈا پانی بہایا پھر آیت (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔قُمْ فَاَنْذِرْ) 74۔ المدثر : 1۔2) نازل ہوئی

جواب

پہلی الوحی الاقرا کی آیات ہیں

جابر رضی الله عنہ نے اس کا مطلق انکار نہیں کیا کہ سوره الاقرا پہلی نہیں انہوں نے واقعہ کا اگلا حصہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا اور جو سنا وہ بیان کیا
عائشہ رضی اللہ عنہا نے واقعہ کا اگلا پچھلا دونوں حصوں کو سنا لہذا مکمل روایت کیا

پہلی اور دوسری الوحی میں مدت بہت تھی اس کو فَتْرة کہا جاتا ہے
یہ بات کہ مدثر الوحی ہوئی يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ بصری نے أَبَا سَلمَة بن عبد الرَّحْمَن بنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ سے روایت کیا انہوں نے جابر رضی الله عنہ سے روایت کیا
جابر وفات النبی کے وقت چھوٹے تھے یہاں تک کہ یہ خود ایک صحابیہ ام مبشر رضی الله عنہا سے روایات لیتے ہیں جو زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ رضی الله عنہ کی بیوی تھیں
یہاں تک کہ ام مبشر بھی ام المومنین حفصہ رضی الله عنہا سے جَابِرٍ، عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ، عَنْ حَفْصَةَ روایت کرتی ہیں

یعنی جابر رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا لیکن اتنا نہیں جتنا امہات المومنین رضی الله عنہما نے

یہاں تک کہ اصحاب رسول کو جب اپس میں کسی قول پر اشکال ہوتا کہ قول نبوی ہے یا نہیں تو وہ خود ام المومنین سے رجوع کرتے تھے

لہذا عمر مرتبہ اور علم کے حساب سے عائشہ رضی الله عنہا کی بات کو درجہ قبولیت حاصل ہے دوسرے اپ خود پڑھیں کہ ام المومنین نے جو دوسری الوحی کا ذکر کیا ہے جابر رضی الله عنہ نے صرف اتنا حصہ سنا تھا

محمّد بن اسحاق بن یسار وہ راوی ہے جو عائشہ رضی الله تعالی عنہا پر الزام لگاتا ہے کہ قرآن کی کچھ آیات بکری کھا گئی اس میں اس کا تفرد ہے. ان کے لئے ثقه سے لے کر دجال تک کے الفاظ ملتے ہیں اور شیعت سے بھی ان کی سوچ پراگندہ ہے

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ الله – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ، دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا.

ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے روایت ہے رجم کی آیت اتری اور بڑے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی اور یہ دونوں آیتیں ایک صحیفہ پر لکھی تھیں میرے بستر کے تلے جب نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی وفات میں مشغو ل تھے بکری آئی اور وہ صحیفہ کھا گئی

شعیب الأرنؤوط تحقیق میں لکھتے ہیں

لا يصح، تفرد به محمَّد بن إسحاق -وهو المطلبي- وفي متنه نكارة. عبد الله بن أبي بكر: هو ابن محمَّد بن عمرو بن حزم.

وأخرجه أحمد (٢٦٣١٦)، وأبو يعلى (٤٥٨٧)، والطبراني في “الأوسط” (٧٨٠٥)، والدارقطني (٤٣٧٦) من طريق محمَّد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي بكر، بهذا الإسناد.

صحیح نہیں اس میں محمد بن إسحاق (بن يسار بن خيار المديني أبو بكر أبو عبد الله) کا تفرد ہے اور وہ المطلبي ہے اور اس روایت کے متن میں نکارت ہے. عبد الله بن أبي بكر، وہ ابن محمَّد بن عمرو بن حزم ہیں اور اس روایت کی تخریج احمد (٢٦٣١٦)، اور أبو يعلى (٤٥٨٧)، اورالطبراني نے “الأوسط” (٧٨٠٥)، اور الدارقطني (٤٣٧٦) نے محمَّد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي بکر کے طرق سے کی ہے

الزمخشري (المتوفى: 538هـ) کتاب الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل میں لکھتے ہیں

وأمّا ما يحكى: أن تلك الزيادة كانت في صحيفة في بيت عائشة رضى الله عنها فأكلتها الداجن فمن تأليفات الملاحدة والروافض

اور یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اضافہ ایک صحیفے میں عائشہ رضی الله تعالی عنہا کے گھر میں تھا اور اس کو بکری کھا گئی تو یہ ملاحدہ اور روافض کی تالیف ہے

الذہبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں امام محدثین یحییٰ بن سعید القطان ، محمد بن اسحاق سے روایت نہیں کرتے تھے

وقال ابْن معين: كَانَ يحيى القطَّان لا يَرْضَى ابْن إِسْحَاق، ولا يروي عَنْهُ.

روایت احمقآنہ ہے کیونکہ اگر ایسی آیات ہوتیں وہ تلاوت سے آگے جاتیں ان کا ایک ہی تحریری نسخہ نہیں ہو سکتا تھا

اس کے علاوہ یہی محمد بن اسحاق بیان کرتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت عائشہ رضی الله عنہآ نے اپنا چہرہ پر ہاتھ مارے

مسند احمد اور مسند ابی یعلی کی حدیث ہے

 حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مِهْرَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي، وَفِي بَيْتِي لَمْ أَظْلِمْ فِيهِ أَحَدًا. فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي أَنَّ «رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَهُوَ فِي حِجْرِي، ثُمَّ وَضَعْتُ رَأْسَهُ عَلَى وِسَادَةٍ وَقُمْتُ أَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَاءِ وَأَضْرِبُ وَجْهِي

 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادٍ، قَالَ [ص:369]: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: «مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَحْرِي، وَنَحْرِي وَفِي دَوْلَتِي، لَمْ أَظْلِمْ فِيهِ أَحَدًا، فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قُبِضَ وَهُوَ فِي حِجْرِي، ثُمَّ وَضَعْتُ رَأْسَهُ عَلَى وِسَادَةٍ، وَقُمْتُ أَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَاءِ، وَأَضْرِبُ وَجْهِي

اروا الغلیل میں البانی اس کو حسن کہتے ہیں

عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی میرے گلے  کے پاس اور وہ میری  جاگیر میں تھے کسی پر ظلم نہ کیا  اور یہ میری سفاہت و نا تجربہ کاری ہے کہ  رسول الله کی جان قبض ہوئی اوروہ میرے حجرے میں تھے ، میں نے ان کا سر تکیہ پر رکھا اور میں عورتوں کے ساتھ کھڑی ہوئی  اپنے چہرے پر مارا

یہ روایت بھی محمد بن اسحاق بیان کرتا ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا کے خلاف

روایت بعد کی پیدا وار ہے کیونکہ عربی میں  دَوْلَتِي (جاگیر) کا لفظ عباسی دور خلافت میں سب سے پہلے استمعال ہوا

اس کی سند میں يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ہے جس سے بخاری و مسلم نے روایت نہیں لی ہے

حجرہ عائشہ میں رسول الله کی وفات ہوئی اور وہیں تدفین ہوئی تو ابن اسحاق کا کہنا

وتشاغَلنا بمَوته، دخلَ داجنٌ فأكلها

ہم انکی موت میں مشغول ہوئے اور بکری آ کر آیات کھا گئی

کیسے صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو کسی بھی وقت خالی نہ رہا ہو گا

قال أبو بکر کَانَ فِی کِتَابِ أَبِی: حَدَّثَنَا رَجُلٌ، فَسَأَلْتُ أَبِی: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ صُهَیْبٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِی جَمِیلَةَ، أَنَّ الْحَجَّاجَ بْنَ یُوسُفَ، غَیَّرَ فِی مُصْحَفِ عُثْمَانَ أَحَدَ عَشَرَ حَرْفًا قَالَ: کَانَتْ فِی الْبَقَرَةِ (لَمْ یَتَسَنَّ وَانْظُرْ) فَغَیَّرَهَا {لَمْ یَتَسَنَّهْ} [البقرة: 259] بِالْهَاءِ، وَکَانَتْ فِی الْمَائِدَةِ (شَرِیعَةً وَمِنْهَاجًا) فَغَیَّرَهُ {شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا} [المائدة: 48] ، وَکَانَتْ فِی یُونُسَ (هُوَ الَّذِی یَنْشُرُکُمْ) فَغَیَّرَهُ {یُسَیِّرُکُمْ} [یونس: 22] ، وَکَانَتْ فِی یُوسُفَ (أَنَا آتِیکُمُ بِتَأْوِیلِهِ) فَغَیَّرَهَا {أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِهِ} [یوسف: 45] ، وَکَانَتْ فِی الْمُؤْمِنِینَ (سَیَقُولُونَ لِلَّهِ لِلَّهِ لِلَّهِ) ثَلَاثَتُهُنَّ، فَجَعَلَ الْآخَرَیْنِ (اللَّهُ اللَّهُ) ، وَکَانَ فِی الشُّعَرَاءِ فِی قِصَّةِ نُوحٍ (مِنَ الْمُخْرَجِینَ) ، وَفِی قِصَّةِ لُوطٍ (مِنَ الْمَرْجُومِینَ) ، فَغَیَّرَ قِصَّةَ نُوحٍ {مِنَ الْمَرْجُومِینَ} [الشعراء: 116] ، وَقِصَّةَ لُوطٍ {مِنَ الْمُخْرَجِینَ} [الشعراء: 167] ، وَکَانَتْ فِی الزُّخْرُفِ (نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَعَائِشَهُمْ) فَغَیَّرَهَا {مَعِیشَتَهُمْ} [الزخرف: 32] ، وَکَانَتْ فِی الَّذِینَ کَفَرُوا (مِنْ مَاءٍ غَیْرِ یَسِنٍ) فَغَیَّرَهَا {مِنْ مَاءٍ غَیْرِ آسِنٍ} [محمد: 15] ، وَکَانَتْ فِی الْحَدِیدِ (فَالَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَاتَّقَوْا لَهُمْ أَجْرٌ کَبِیرٌ) فَغَیَّرَهَا {مِنْکُمْ وَأَنْفَقُوا} [الحدید: 7] ، وَکَانَتْ فِی إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ (وَمَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِظَنِینٍ) فَغَیَّرَهَا {بِضَنِینٍ} {التکویر: 24}

المصاحف لابن ابی داود

جواب

عوف بن أبى جميلة سن ٦٠ یا ٦١ میں پیدا ہوئے
قال بندار كان قدريا رافضيا شيطانا
بندار نے کہا یہ قدری رافضی شیطان تھے

حجاج بن یوسف ٩٥ ہجری میں ہلاک ہوئے

——–
روایت میں انقطاع ہے کیونکہ عوف بن أبى جميلة نے یہ نہیں بتایا کہ ان کو کس نے خبر کی کہ قرآن میں ایسا لکھا تھا لیکن حجاج نے بدلا
یہ روایت متروک ہے عباد بن صهيب أبو بكر الكليبي بصري متروک الحدیث ہے

ابو داود سجستانی کہتے ہیں کہ اپنی کتاب سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل میں کہتے ہیں کہ

سألت أبا دَاوُد عَن عَبّاد بْن صُهَيب3 فَقَالَ: “كَانَ قدرياً صدوقًا”

————–

الحافظ أبو عبد الله شمس الدين الذهبي اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ

عَوْفُ بنُ أَبِی جَمِیْلَةَ أَبُو سَهْلٍ الأَعْرَابِیُّ : الإِمَامُ، الحَافِظُ، أَبُو سَهْلٍ الأَعْرَابِیُّ، البَصْرِیُّ، وَلَمْ یَکُنْ أَعْرَابِیاً، بَلْ شُهِرَ بِهِ.

عَوْفُ بنُ أَبِی جَمِیْلَةَ کو کس نے یہ خبر دی یہ سوال ہے ؟
کیونکہ قرآن میں یہ تبدیلی کب کی گئی ؟ اور کیا یہ قرات شام و حجاز و عراق ہر جگہ ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/قرآن-اور-قرات-عشرہ/

————

عباد بن صهيب اکثر محدثین کے نزدیک متروک ہے – متروک اتنی بڑی جرح ہے کہ ثقاہت کا ادنی درجہ صدوق اب کچھ نہیں

جواب سوره کہف الله تعالی نے اہل کتاب کے کچھ سوالات کے جوابات کے سلسے میں نازل کی ہے

اہل کتاب کے سوالات تو ہم تک نہیں پہنچے  لیکن تاریخ کی کتب میں اس پر کچھ  وضاحت ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہود کا ان شخصیات و قوموں پر اختلاف تھا یہود کے نزدیک

اول موسی و خضر والے واقعہ میں موسی بن عمران علیہ السلام نہیں کوئی اور ہے

دوم خضر، ذی القرنین کے ساتھی تھے اور انہوں نے آب حیات پیا ہوا تھا

–  سوم ذی القرنین  پر بھی اختلاف ہے کہ کون  ہے؟ بائبل میں ان کا تذکرہ نہیں ہے

چہارم یاجوج ماجوج کون  ہیں ؟ حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور ماجوج قوم ہے

کتاب   البدء والتاريخ از  المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ) کے مطابق

زعم وهب أن اسم الخضر بليا بن ملكان بن بالغ بن عابر بن ارفخشد بن سام بن نوح وكان أبوه ملكا وقال قوم الخضر بن عاميل من ولد إبراهيم وفي كتاب أبي حذيفة أن ارميا هو الخضر صاحب موسى وكان الله أخّر نبوّته إلى أن بعثه نبيا زمن ناشية الملك قبل أن يغزو نصر بيت المقدس وكثير من الناس يزعمون أنه كان مع ذي القرنين وزيراً له وابن خالته وروى عن ابن عباس رضي الله عنه أن الخضر هو اليسع وإنما سمي خضرا لأنه لما شرب من عين الجنة لم يدع قدمه بالأرض إلا اخضر ما حوله فهذا الاختلاف في الخضر قالوا وهو لم يمت لأنه أعطى الخلد إلى النفخة الأولى موكل بالبحار ويغيث المضطرين واختلفوا في موسى الذي طلبه فقيل هو موسى بن عمران وقال أهل التوراة أنّه موسى بن منشا  ابن يوسف بن يعقوب وكان نبيا قبل موسى بن عمران [2] كان قد قصّ الله خبرهما في القرآن المجيد عز من قائل وَإِذْ قال مُوسى لِفَتاهُ لا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُباً 18: 60 إلى آخر القصة وقد ذكرتهما بمعانيها ودعاويها في المعاني،،،

وھب بن منبہ نے دعوی کیا کہ خضر کا نام  بليا بن ملكان بن بالغ بن عابر بن ارفخشد بن سام بن نوح ہے اور ان کا باپ ایک بادشاہ تھا اور ایک قوم نے کہا خضر بن عاميل (نام تھا) ابراہیم کی اولاد میں اور ابی حذیفه کی کتاب میں ہے کہ ارمیا  ہی خضر ہے جو موسی کے صاحب تھے اور الله نے ان کی نبوت کو موخر کیا ….یہاں تک کہ انہوں نے بیت المقدس کی نصرت کی اور بہت سے لوگوں نے دعوی کیا کہ وہ ذی القرنین کے ساتھ تھے اور اس کے وزیر تھے اور ان کے خالہ زاد بھائی تھے اور ابن عبّاس رضی الله عنہ سے روایت کیا جاتا ہے کہ الخضر ہی الیسع ہیں اور ان کو خضر اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنت کی نہر میں سے پیا تھا اور ان کے قدم زمین پر پڑنے سے اس کے ارد گرد سبزہ ہوتا ہے تو یہ اختلاف ہے خضر سے متعلق  اور کہا جاتا ہے ان کی موت نہیں ہوئی کیونکہ ان کو صور میں پھونکنے تک زندگی حاصل ہے  موکل سمندر پر ہیں اور مضطر کی دعا سنتے ہیں اور ان کے بارے  میں اختلاف ہے کہ موسی نے جن کو طلب کیا تھا پس کہا جاتا ہے کہ وہ موسی بن عمران ہیں اور اہل توریت کہتے ہیں وہ موسى بن منشا  ابن يوسف بن يعقوب  جو موسی بن عمران سے قبل نبی تھے جن کے قصے کی خبر الله نے قرآن میں دی ہے کہا وَإِذْ قالمُوسى لِفَتاهُ لا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُباً 18: 60  سے آخر تک

کتاب  المنتظم فی تاريخ الأمم والملوك از ابن الجوزی (المتوفى: 597هـ) کے مطابق

الخضر قَدْ كَانَ قبل موسى، قَالَ الطبري : كَانَ فِي أَيَّام أفريدُونَ الْمَلِك بْن أثفيان. قَالَ: وقيل: إنه كَانَ عَلَى مقدمة ذي الْقَرْنَيْنِ الأكبر، الَّذِي كَانَ أَيَّام إِبْرَاهِيم.

وذي الْقَرْنَيْنِ عِنْدَ قوم هُوَ أفريدُونَ، وزعم بَعْضهم أَنَّهُ من ولد من كَانَ آمن بالخليل عَلَيْهِ السَّلام، وهاجر مَعَهُ من أرض بابل.

وَقَالَ عَبْد الله بْن شوذب: الخضر من ولد فارس .

وَقَالَ ابْن إِسْحَاق: هُوَ من سبط هَارُون بْن عمران.

وقول من قَالَ: إنه كَانَ فِي زمان أفريدُونَ أَكْثَر من ألف سَنَة، والخضر قديم إلا أَنَّهُ لما كَانَ ذكره لَمْ ينبغ إلا في زمان موسى ذكرناه هاهنا.

خضر موسی سے قبل تھے طبری کہتے ہیں یہ شاہ (ایران) افریدوں بن أثفيان کے دور میں تھے اور کہا  : کہا جاتا ہے کہ ذی القرنین کے سالار تھے جو ابراہیم کے دور میں تھے

اور ذی القرنین ایک قوم کے نزدیک افریدوں ہے اور ان میں بعض کا دعوی ہے کہ وہ ابراہیم پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہجرت کی بابل میں اور  عَبْد اللَّهِ بْن شوذب کہتے ہیں خضر فارس میں پیدا ہوئے اور محمد بن اسحاق کہتے ہیں وہ ہارون بن عمران کی نسل میں سے ہیں اور جو کہتے ہیں کہ ذی القرنین افریدوں کے دور میں تھے تو وہ ہزار سال سے زیادہ ہے اور خضر تو پرانے ہیں پس جب ان کا اس میں دور ذکر ہوتا ہے تو ان کو موسی کے دور تک نہیں پہنچاتا

کتاب الکامل از ابن الأثير (المتوفى: 630هـ) کے مطابق

قَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ: إِنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ هُوَ مُوسَى بْنُ مَنْشَى بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ، وَالْحَدِيثُ الصَّحِيحُ عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ هُوَ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ عَلَى مَا نَذْكُرُهُ. وَكَانَ الْخَضِرُ مِمَّنْ كَانَ أَيَّامَ أَفْرِيدُونَ الْمَلِكِ بْنِ أَثْغِيَانَ فِي قَوْلِ عُلَمَاءِ أَهْلِ الْكُتُبِ الْأُوَلِ قَبْلَ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ.

وَقِيلَ: إِنَّهُ بَلَغَ مَعَ ذِي الْقَرْنَيْنِ الْأَكْبَرِ الَّذِي كَانَ فِي أَيَّامِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ، وَإِنَّهُ بَلَغَ مَعَ ذِي الْقَرْنَيْنِ نَهْرَ الْحَيَاةِ فَشَرِبَ مِنْ مَائِهِ وَلَا يَعْلَمُ ذُو الْقَرْنَيْنِ وَمَنْ مَعَهُ، فَخُلِّدَ وَهُوَ حَيٌّ عِنْدَهُمْ إِلَى الْآنِ.

وَزَعَمَ بَعْضُهُمْ: أَنَّهُ كَانَ مِنْ وَلَدِ مَنْ آمَنَ مَعَ إِبْرَاهِيمَ، وَهَاجَرَ مَعَهُ، وَاسْمُهُ بَلْيَا بْنُ مَلْكَانَ بْنِ فَالَغَ بْنِ عَابِرِ بْنِ شَالَخَ بْنِ أَرْفَخْشَذَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوحٍ، وَكَانَ أَبُوهُ مَلِكًا عَظِيمًا. وَقَالَ آخَرُونَ: ذُو الْقَرْنَيْنِ الَّذِي كَانَ عَلَى عَهْدِ إِبْرَاهِيمَ أَفْرِيدُونُ بْنُ أَثْغِيَانَ، وَعَلَى

مَقْدَمَتِهِ كَانَ الْخَضِرُ.

اہل کتاب کہتے ہیں موسی جو خضر کے صاحب تھے وہ مُوسَى بْنُ مَنْشَى بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ تھے اور صحیح حدیث میں ہے کہ موسی جو خضر کےصاحب تھے وہ موسی بن عمران ہیں …  اورخضر جوشاہ افریدوں کے دور میں تھے جیسا اہل کتاب کے علماء کا قول ہے تو وہ تو موسی بن عمران سے پہلے کے ہیں

اور کہا جاتا ہے خضر ذی القرنین  الاکبر کے ساتھ تھے  جو ابراہیم کے دور میں تھے اور وہ ذی القرنین کے ساتھ آب حیات تک پہنچے اور انہوں نے اس میں سے پیا  ، ذی القرنین اور ان کے ساتھ والوں کو پتا نہیں تھا، پس خضر کو حیات جاویداں ملی اور وہ زندہ ہیں اب بھی

اور بعض نے دعوی کیا کہ وہ ان ایمان والوں کی اولاد میں سے ہیں جو ابراہیم پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہجرت کی اور ان کا نام بَلْيَا بْنُ مَلْكَانَ بْنِ فَالَغَ بْنِ عَابِرِ بْنِ شَالَخَ بْنِ أَرْفَخْشَذَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوحٍ ہے اور ان کے باپ ایک عظیم بادشاہ تھے اور دوسرے کہتے ہیں ذی القرنین جو ابراہیم کے دور میں تھے أَفْرِيدُونُ بْنُ أَثْغِيَانَ تھے اور ان کے سالار خضر تھے

کتاب  البداية والنهاية از ابن کثیر (المتوفى: 774هـ) کے مطابق

قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكِتَابِ إِنَّ مُوسَى هَذَا الَّذِي رَحَلَ إِلَى الْخَضِرِ هُوَ مُوسَى بْنُ مِيشَا بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ وَتَابَعَهُمْ عَلَى ذَلِكَ بَعْضُ مَنْ يَأْخُذُ مِنْ صُحُفِهِمْ وَيَنْقُلُ عَنْ كُتُبِهِمْ مِنْهُمْ نَوْفُ بْنُ فَضَالَةَ الْحِمْيَرِيُّ الشَّامِيُّ الْبِكَالِيُّ. وَيُقَالُ إِنَّهُ دِمَشْقِيٌّ وَكَانَتْ أُمُّهُ زَوْجَةَ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَالصَّحِيحُ الَّذِي دَلَّ عَلَيْهِ ظَاهِرُ سِيَاقِ الْقُرْآنِ وَنَصُّ الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ الصَّرِيحِ الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ أَنَّهُ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ صَاحِبُ بَنِي إِسْرَائِيلَ. قَالَ الْبُخَارِيُّ حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عمر بْنُ دِينَارٍ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ.

بعض اہل کتاب کہتے ہیں کہ موسی جنہوں نے خضر کے ساتھ سفر کیا وہ مُوسَى بْنُ مِيشَا بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ ہیں اور اس قول کی اتباع جو کرتے ہیں جو ان کے کچھ صحف لیتے ہیں اور ان کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں جن میں نَوْفُ بْنُ فَضَالَةَ الْحِمْيَرِيُّ الشَّامِيُّ الْبِكَالِيُّ ہیں اور ان کو دمشقی بھی کہا جاتا ہے اور ان کی ماں کعب الاحبار کی بیوی تھیں …. سعید بن جبیر نے ابن عبّاس سے  کہا نوف البکالی کہتا ہے کہ موسی جو صاحب الخضر تھے وہ بنی اسرئیل والے موسی نہیں ہیں ابن عبّاس نے کہا جھوٹ بولتا ہے الله کا دشمن

الكامل از ابن اثیر میں ذكر ملك أفريدون میں اثیر لکھتے ہیں

وهو أفريدون بن أثغيان ، وهو من ولد جم شيد . وقد زعم بعض نسابة الفرس أن نوحا هو أفريدون الذي قهر الضحاك ، وسلبه ملكه ، وزعم بعضهم أن أفريدون هو ذو القرنين صاحب إبراهيم الذي ذكره الله في كلامه العزيز ، وإنما ذكرته في هذا الموضع لأن قصته في أولاده الثلاثة شبيهة بقصةنوح على ما سيأتي ولحسن سيرته ، وهلاك الضحاك على يديه ، ولأنه قيل إن هلاك الضحاك كان على يد نوح . اور فارس کے بعض نسب والوں نے دعوی کیا کہ نوح ہی افریدوں ہے جن کی جنگ الضحاك سے ہوئی تھی اور وہ  أفريدون بن أثغيان  ہیں جو جمشید کی اولاد میں سے ہیں اور ان سے ملک چھنا اور بعض نے دعوی کیا کہ افریدوں ذی القرنین ہیں جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے …

وأما باقي نسابة الفرس فإنهم ينسبون أفريدون إلى جم شيد الملك. اور بقیہ نسب فارس والوں نے افریدوں کی نسبت جمشید سے کی ہے

اس بحث کا لب لباب ہے

اس اختلاف  میں جو چیز ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ موسی و خضر ہم عصر ہیں- خضر انسان تھے- قرآن کے مطابق  موسی علیہ السلام صاحب تورات ہیں کوئی اور نہیں – ذی القرنین اور خضر ہم عصر نہیں، بلکہ ذی القرنین ایک بہت قدیم بادشاہ ہیں جب تاریخ لکھنے کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا-  قدیم ایرانی و فارسی نساب  نے  ذی القرنین کو شاہ افریدوں کہا گیا ہے جن کا ذکر قدیم فارس کی داستانوں میں ملتا ہے- یہودی شاید بابل کی غلامی کے دور میں ان سے واقف ہوئے

سکندر ، ذی القرنین نہیں جیسا کہ بعض مفسرین کا دعوی ہے -سکندر تو موسی علیہ السلام  کے بھی بعد کا ہے جبکہ ذی القرنین کا دور شاید ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے- بعض لوگوں نے ذی القرنین کی دیوار کو دیوار چین سے بھی نسبت دی ہے جو  سن ٢٢٠ سے ٢٠٦ قبل مسیح میں بنی ہے- لھذا ذی القرنین اور سکندر ایک نہیں ہیں- ابو الکلام آزاد کی تحقیق کے مطابق ذی القرنین سے مراد قدیم ایرانی بادشاہ  کوروش ہے جن کا دور ٥٣٩ سے ٥٣٠ قبل مسیح تھا لیکن یہ بھی بعد کے ہیں اور ذی القرنین نہیں ہیں یہ مغالطہ اس لئے ہوا کہ کوروش اور سنکندر دونوں کو سینگ والے تاج پہنے قدیم سکوں میں دکھایا گیا ہے سکندر نے بھی فارس میں سکونت اختیار کی اور وہ خالص بت پرست تھا  اور کوروش   قدیم اہرمن و یزدان والا دھرم رکھتا تھا – قرآن کے مطابق ذی القرنین مسلمان اور موحد تھا

کوروش اور سکندر دونوں کو قدیم سکوں  افریدوں سے نسبت دینے کے لئے سینگوں والا تاج پہنے دکھایا گیا  کیونکہ افریدوں کو ایک عادل شاہ کہا جاتا ہے

عرب جغرافیہ دان اور یاجوج ماجوج

عرب جغرافیہ دانوں نے زمین کو سات  نصف دائروں یا اقلیم  میں تقسیم کیا  شمال کی جانب علاقہ جہاں کے بارے میں معلومات نہیں تھیں وہ یاجوج ماجوج کا مسکن تھا اس سے نیچے  کا علاقہ جافث کی نسل یعنی نوح کی نسل سمجھا جاتا تھا جن میں چین کے لوگ ترک ، بلغار، الخزر، الن ، مغار، سلاوو، فرانک لوگ شامل تھے- بحيرة خوارزم، سیحون اور جیحوں کے دریا بھی اسی اقلیم میں ہیں- الخزر ایک یہودی ریاست تھی جو عباسیوں کے دور میں بھی موجود تھی اور اس کے پاس کے مسلمان علاقے اس کو خراج بھی دیتے تھے

یاجوج ماجوج بھی بائبل کے مطابق جافث کی نسل سے ہیں – ان کے اور باقی انسانوں کے درمیان  بلند پہاڑ حائل ہیں اور ایک دیوار جو ذی القرنین نے بنائی موجودہ بنی آدم اور ان کے درمیان حائل ہے

أبو عبد الله أحمد بن محمد بن إسحاق الهمداني المعروف بابن الفقيه (ت 365)  نے اس دیوار کا تذکرہ کتاب البلدان میں کیا ہے کتاب المسالك والممالك جو  أبي القاسم عبيد الله بن عبد الله المعروف بابن خرداذبه المتوفى  300 هـ کی تالیف ہے اس میں ذکر ہے کہ ایک شخص سلام الترجمان ، الخليفة الواثق (227- 232 هـ)  کے حکم پر   سد يأجوج ومأجوج تک گیا

ہارون رشید کے پوتے خلیفہ واثق ٨٤٢ سے ٨٤٧ ع نے ایک روز سن ٨٤٢ ع میں خواب دیکھا کہ سد ذی القرنین ٹوٹ گئی ہے انہوں نے اس کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے  ایک ہوشیارشخص سلام کو جو تیس زبانوں میں طاق تھے صورت حال جاننے کے لئے بھیجا – سلام ٨٤٤ع میں واپس آئے اور تمام واقعات کتاب کی صورت میں لکھے جن کو ابن الفقيه نے ان سے سن کر اپنی کتاب میں لکھا –

بحر الحال ہمارے نزدیک یہ قصہ گوئی صرف خلیفہ کی خواہش پر ہوئی کیونکہ ایک طویل سفر کے بعد سلام ترجمان کو کچھ تو عجیب و غریب بیان کرنا ہی تھا

قرآن کے مطابق یاجوج ماجوج قومیں ہیں

سد ذی القرنین قیامت کی نشانی ہے اسی وقت ظاہر ہو گی

هذا رحمة من ربي فإذا جاء وعد ربي جعله دكاء وكان وعد ربي حقا

اس میں کافی اختلاف ہے
اول: اصحاب رسول کہتے ہیں حکمران یا امراء ہیں

دوم بعض تابعین کے اقوال ہیں کہ اس سے مراد حاکم ہیں اور بعض کہتے ہیں اہل علم و فقہ ہیں- یہ اختلاف کی وجہ سے ہوا یہاں تک کہ ابن زبیر تک سے ابن عباس کا اختلاف ہوا اور ابن عباس کو مکہ چھوڑنا پڑا -گویا اولو الامر کی اطاعت ابن عباس نے نہیں کی ان کا ابن زبیر سے اختلاف ہوا – ابن زبیر نے ابن عباس کو اندھا کہا
صحیح مسلم
لیکن ابن عباس رضی الله عنہ نے پھر بھی آیات کا مفہوم نہ بدلا
تفسیر طبری میں ہے
حدثنا الحسن بن الصباح البزار قال، حدثنا حجاج بن محمد، عن ابن جريج قال، أخبرني يعلى بن مسلم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس أنه قال:”يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم”، نزلت في رجل بعثه النبي صلى الله عليه وسلم على سرية
ابن عباس نے کہا یہ آیت ایک شخص کے سلسلے میں اتری جس کو سریہ پر بھیجا گیا تھا
احمد شاکر کے مطابق سند میں ثقات ہیں
معلوم ہوا کہ ابن عباس کا موقف صحیح سند سے یہی ہے کہ اس آیت میں حکمران مراد ہیں

سوم امام بخاری کا صحیح میں موقف ہے کہ اس سے مراد اہل علم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ صحیح نہیں
==================================

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أُمَرَاءُ السَّرَايَا.
ابو ہریرہ نے کہا اس سے مراد سریہ کے امیر ہیں

سریہ یعنی جنگی جھڑپ جس میں نبی نے شرکت نہیں کی
——–
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
حَدَّثَنَا أَبِي ثنا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فِي هَذِهِ الآيَةِ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أُولِي الْخَيْرِ.
جابر بن عبدالله نے کہا یہ نیک لوگ ہیں
سند میں عبد الله بن محمد بن عقیل ضعیف ہے
قال أبو حاتم و عدة : لين الحديث ، و قال ابن خزيمة : لا أحتج به
اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی
حدیث میں کمزور ہے
————
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ: وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ يَعْنِي: أَهْلَ الْفِقْهِ وَالدِّينِ، وَأَهْلَ طَاعَةِ اللَّهِ الَّذِينَ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ مَعَانِيَ دِينِهِمْ ويأمرونهم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُوهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَأَوْجَبَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ طَاعَتَهُمْ عَلَى الْعِبَادِ.
ابن عباس نے کہا یہ اہل فقہ اور دین ہیں اور اہل اطاعت ہیں
سند میں عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ کا ابن عباس سے سماع نہیں ہے

تفسیر طبری میں ہے
حدثنا الحسن بن الصباح البزار قال، حدثنا حجاج بن محمد، عن ابن جريج قال، أخبرني يعلى بن مسلم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس أنه قال:”يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم”، نزلت في رجل بعثه النبي صلى الله عليه وسلم على سرية
ابن عباس نے کہا یہ آیت ایک شخص کے سلسلے میں اتری جس کو سریہ پر بھیجا گیا تھا
احمد شاکر کے مطابق سند میں ثقات ہیں
—————
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَوْلَهُ: وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أولوا الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ. وَرُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ، وَالْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَعَطَاءٍ وَإِبْرَاهِيمَ نَحْوُ ذَلِكَ.
مجاہد اور بہت سوں نے کہا کہ یہ اہل علم و فقہ ہیں

اس طرح کے بہت سے اقوال ابن أبي نجيح نے مجاہد سے منسوب کیے ہیں
وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد
محدثین کا کہنا ہے کہ ابن أبي نجيح کا سماع مجاہد سے نہیں ہے

حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبد الرزاق قال، أخبرنا معمر، عن الحسن في قوله:”وأولي الأمر منكم”، قال: هم العلماء.
حسن بصری نے کہا اہل علم ہیں
معمر نے حسن سے روایت کیا ہے
وقال أحمد بن حنبل لم يسمع من الحسن
سند منقطع ہے
تفسیر طبری میں ہے
حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع، عن أبي العالية في قوله:”وأولي الأمر منكم”، قال: هم أهل العلم، ألا ترى أنه يقول: (وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الأمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ) [سورة النساء: 83] ابو عالیہ نے کہا اس سے مراد اہل علم ہیں کیا تم دیکھتے نہیں کہ قول ہے
اور اس کو الله کے رسول اور اولی الامر کی طرف لوٹا دو کہ وہ جان سکیں

یہ تابعین کے اقوال ہیں
—–

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْحَضْرَمِيُّ بِحَضْرَمَوْتَ، ثنا الْخَصِيبُ بْنُ نَاصِحٍ، ثنا الْمُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أُولِي الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ وَالْعَقْلِ وَالرَّأْيِ.
حسن بصری نے کہا اہل علم و فقہ و عقل و رائے ہیں
سند میں مبارک ضعیف ہے

تفسیر طبری میں ہے
حدثني يونس قال، أخبرنا ابن وهب قال، قال ابن زيد في قوله: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ) قال: قال أبي: هم السلاطين. وقرأ ابن زيد: (تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ) [سورة آل عمران: 26] ، وإنما نقول: هم العلماء الذي يُطيفون على السلطان، (1) ألا ترى أنه أمرهم فبدأ بهم، بالولاة فقال (2) “إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها”؟ و”الأمانات”، هي الفيء الذي استأمنهم على جمعه وقَسْمه، والصدقات التي استأمنهم على جمعها وقسمها =”وإذا حكمتم بين الناس أن تحكموا بالعدل” الآية كلها. فأمر بهذا الولاة. ثم أقبل علينا نحن فقال: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ) .
ابن زید نے کہا میرے باپ نے کہا یہ سلاطین ہیں اور ابن زید نے آیت قرات کی اور کہا یہ کہتے ہیں یہ علماء ہیں جو سلطان کے تحت ہوں کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کے حکم شروع ہوتے ہیں ولاة سے الله تعالی نے فرمایا الله تم کو امانات ادا کرنے کا حکم کرتا ہے اور امانات یہ الفيء کی قسم میں ہے جس کو جمع و تقسیم کیا جاتا ہے اور صدقات جس پر یہ لوگ مامور ہیں اور کہا جب لوگوں کے درمیان حکم کرو تو عدل کرو پس اس طرح الولاة کا حکم ہوا

=========

راقم کہتا ہے کہ اس سے مراد حکمران ہی ہیں لیکن بہت سے تابعین جو ابن زبیر کے دور خلافت میں تھے وہ ابن عباس کو پسند کرتے تھے اور انہوں نے ابن عباس سے علم لیا اور کہنا شروع کیا کہ ان آیات سے مراد حکمران نہیں اہل علم ہیں یعنی ابن عباس – اسی طرح ابن زبیر کے بعد بنو امیہ کا دور ہوا تو بھی یہ حجاج کو پسند نہ کرتے اور اس قسم کے فتوی دیتے تھے
جبکہ آیت واضح ہے کہ امراء مراد ہیں

=========
امام بخاری نے جماعت کے مفھوم کو اہل اقتدار کی اطاعت سے نکال کر اہل علم کی طرف کیا لہذا امام بخاری صحیح میں باب قائم کرتے ہیں
باب قوله تعالى: {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] وما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بلزوم الجماعة، وهم أهل العلم
اور الله کا قول {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم کہ جماعت کو
پکڑو اور وہ اہل علم ہیں
یعنی اہل اقتدار یا اولوالامر کی اطاعت سے نکال کر اس کو علماء کی اطاعت قرار دیا
اس کی دوسری مثال صحیح میں ہی ہے جہاں امام بخاری باب قائم کرتے ہیں
باب إذا اجتهد العامل أو الحاكم، فأخطأ خلاف الرسول من غير علم، فحكمه مردود لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
باب کہ جب گورنر یا حاکم اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے خلاف رسول بغیر علم کہے تو وہ قول مردود ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کی بنا پر کہ جس نے ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ رد ہے
امام بخاری صحیح میں باب قول الله تعالى: {وأمرهم شورى بينهم میں لکھتے ہیں
ورأى أبو بكر قتال من منع الزكاة، فقال عمر: كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوا: لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ” فقال أبو بكر: والله لأقاتلن من فرق بين ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم «ثم تابعه بعد عمر فلم يلتفت أبو بكر إلى مشورة إذ كان عنده حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم في الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة وأرادوا تبديل الدين وأحكامه» وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من بدل دينه فاقتلوه
اور ابو بکر نے زکات کے انکاریوں سے قتال کیا اور عمر نے کہا آپ کیسے قتال کر سکتے ہیں لوگوں سے اور بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا
الہ الا اللہ نہ کہہ دیں اور جب کہہ دیں تو ان کا خوں اور مال مجھ سے بچ گئے سوائے حق کے اور ان کا حساب الله کے ذمے ہے پس ابو بکر نے کہا کہ الله کی قسم میں قتال کروں گا جو اس چیز میں فرق کرے جس پر رسول للہ نے جمع کیا پھر عمر ان کے تابع ہوئے اور ابو بکر نے ان سے مشورہ نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس رسول الله کا حکم تھا ان کے لئے جو فرق کریں نماز اور زکات میں اور دین کو تبدیل کریں اور اس کے احکام کو اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو دین بدلے اس کو قتل کرو

===========
امام بخاری کے نزدیک ان قبائل نے دین کو تبدیل کیا اور اس وجہ سے مرتد قرار پائے
امام بخاری نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا کیونکہ ان کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ خلق قرآن غلط تھا انہوں نے اس پر کتاب خلق الافعال العباد بھی لکھی اور کہا جو خلق قرآن کا موقف رکھے وہ جھمی ہے اس کے پیچھے نماز نہیں ہو گی

امت کے شروع کے خلفاء مثلا خلفاء جو اصحاب رسول ہیں اہل علم میں سے ہیں- ابو بکر بطور حاکم فیصلہ کر سکتے ہیں

لیکن محدثین نے لگتا ہے اس کو خلط ملط کر دیا ابو بکر کو خلیفہ کم اہل علم لے لیا اور سمجھا کہ اہل علم بھی وہ فیصلے کر سکتے ہیں جو حاکم کرتا ہے
اس لطیف فرق میں تفریق نہ کرنے کی وجہ سے علماء نے حکومت کے معاملات میں مداخلت کرنا شروع کر دی

راقم کے نزدیک اس آیت کے مفہوم کو بدلنا صحیح نہیں جو الله نے کہہ دیا وہ ظاہر ہے حکمران ہیں – ان سے اختلاف ایک الگ بحث ہے لیکن مفہوم بدل کر اس کو اہل علم کی طرف موڑنا صحیح نہیں ہے

یاد رہے علماء صرف فتوی دے سکتے ہیں لیکن گورنمنٹ احکام کو نافذ کرتی ہے اور حد قائم کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے
صدقات جمع کرنے ان کو تقسیم کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے
اگر آیت کا مفہوم اسطرح بدل تو پھر قرآن کے باقی احکام کو نافذ کون کرے گا – اس پر بھی علماء کو لیا جائے گا – علماء کا زکواة کھانا حلال ہو جاتا ہے ان کا قتل و ارتاد کے فتوی دینا جائز ہو جاتا ہے – حکومت کے ہوتے نجی حکومت قائم کرنا جائز ہو جاتا ہے
یہ فساد فی الارض کی طرف لے کر جائے گا

اگرچہ طبری نے تفسیر میں ہر طرح کے اقوال جمع کیے ہیں لیکن وہ خود آیت وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الأمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ کی تفسیر میں کہتے ہیں

قال أبو جعفر: وأولى الأقوال في ذلك بالصواب، قول من قال: هم الأمراء والولاة = لصحة الأخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأمر بطاعة الأئمة والولاة فيما كان [لله] طاعةً، وللمسلمين مصلحة،
اور اولی اقوال اس سلسلے جو ٹھیک ہیں وہ وہ ہیں جن میں ہے کہ یہ امراء اور ولات ہیں ان خبروں کی صحت کی بنا پر جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ ائمہ اور الولاة کی اطاعت کرو جس میں الله کی اطاعت ہو اور مسلمانوں کی اصلاح ہو

قال أبو جعفر: يعني جل ثناؤه بقوله:”ولو ردوه”، الأمر الذي نالهم من عدوهم [والمسلمين] ، إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وإلى أولي أمرهم يعني وإلى أمرائهم
طبری نے کہا الله کا قول کہ اس کو لوٹاو یعنی حکم .. رسول الله کی طرف اور اولی امر کی طرف یعنی امراء کی طرف

جواب

محدث ابن الصلاح المتوفی ٦٤٣ ھ  (بحوالہ فتح الباری از ابن حجر) کہتے ہیں

وَقَالَ بن الصَّلَاحِ هُوَ حَيٌّ عِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ

خضر جمہور علماء کے نزدیک اب بھی زندہ ہیں

امام النووی  المتوفی ٦٧٦ ھ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں

جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّهُ حَيٌّ مَوْجُودٌ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَذَلِكَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ عِنْدَ الصُّوفِيَّةِ وَأَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ

جمہور علماء کے نزدیک وہ زندہ ہیں اور ہمارے ساتھ موجود ہیں اور یہ بات صوفیہ اور أَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ  میں متفق ہے

کتاب شذرات الذهب في أخبار من ذهب از ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ) کے مطابق

قيل: كان ملكا وقيل بشرا وهو الصحيح، ثم قيل: إنه عبد صالح ليس بنبيّ وقيل: بل نبيّ هو الصحيح. والصحيح عندنا أنه حيّ، وأنه يجوز أن يقف على باب أحدنا مستعطيا له، أو غير ذلك.

کہا جاتا ہے وہ (خضر) فرشتہ تھے اور کہا جاتا ہے بشر تھے اور یہ صحیح ہے پھر کہا جاتا ہے کہ وہ ایک صالح بندے تھے نبی نہیں تھے اور یہ صحیح ہے اور ہمارے نزدیک یہ صحیح ہے کہ وہ زندہ ہیں اور یہ بھی جائز ہے کہ کسی کے در پر رکیں اور دیں یا اسی طرح دیگر

شیعوں کے نزدیک  بھی خضر زندہ ہیں

کتاب  ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر از  عبد الرحمن بن محمد بن محمد، ابن خلدون أبو زيد، ولي الدين الحضرمي الإشبيلي (المتوفى: 808هـ) کے مطابق

ومنهم من يقول إنّ كمال الإمام لا يكون لغيره فإذا مات انتقلت روحه إلى إمام آخر ليكون فيه ذلك الكمال وهو قول بالتّناسخ ومن هؤلاء الغلاة من يقف عند واحد من الأئمّة لا يتجاوزه إلى غيره بحسب من يعيّن لذلك عندهم وهؤلاء هم الواقفيّة فبعضهم يقول هو حيّ لم يمت إلّا أنّه غائب عن أعين النّاس ويستشهدون لذلك بقصّة الخضر

اور ان شیعوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ بے شک امام کے کمالات کسی اور کے لئے نہیں پس جب وہ مرتے ہیں ان کی روحیں دوسرے امام میں جاتی ہیں اور یہ قول التناسخ ہے اور ان غالیوں میں سے … بعض کہتے ہیں کہ وہ مرے نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہیں اور اس پر دلیل قصہ خضر سے لیتے ہیں

ابن کثیر کتاب  البداية والنهاية میں لکھتے ہیں کہ خضر  کی وفات ہو چکی ہے جو مناسب ہے

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَءَأَقْرَرْتُمْ} [آل عمران: 81

فَأَخَذَ الله مِيثَاقَ كُلِّ نَبِيٍّ عَلَى أَنْ يُؤْمِنَ بِمَنْ يَجِيءُ بَعْدَهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، وَيَنْصُرُهُ، فَلَوْ كَانَ الْخَضِرُ حَيًّا فِي زَمَانِهِ، لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِّبَاعُهُ، وَالِاجْتِمَاعُ بِهِ، وَالْقِيَامُ بِنَصْرِهِ

اگر خضر زندہ ہوتے کو نبی علیہ السلام کی مدد کرتے

ابو اسحاق  إبراهيم بن سفيان جو صحیح مسلم کے ایک راوی ہیں ان کے مطابق خضر زندہ ہیں اور دجال جس شخص کو قتل نہ کر سکے گا وہ خضر ہوں گے

امام مسلم نے صحیح میں  روایت لکھی

 – (2938) حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ، وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ – وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، وَالسِّيَاقُ لِعَبْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا – يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ – حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنِ الدَّجَّالِ، فَكَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا، قَالَ: ” يَأْتِي، وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ، فَيَنْتَهِي إِلَى بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ – أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ – فَيَقُولُ لَهُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ، فَيَقُولُ الدَّجَّالُ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا، ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ، أَتَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ؟ فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ، فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ: وَاللهِ مَا كُنْتُ فِيكَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ – قَالَ: فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ – أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ “، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: «يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَامُ»

یعنی امام ابو اسحاق کے نزدیک خضر ابھی تک  زندہ ہیں

الكتاب: شرح الطيبي على مشكاة المصابيح المسمى بـ (الكاشف عن حقائق السنن)
المؤلف: شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743هـ)
کے مطابق

قوله: ((خير الناس)) ((حس)): قال معمر: بلغني أن الرجل الذي يقتله الدجال الخضر عليه السلام.
بہترین انسانوں میں سے معمر نے کہا ہم تک پہنچا ہے یہ شخص خضر ہوں گے

إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري
المؤلف: أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ)
الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية، مصر
کے مطابق

فيخرج إليه) من المدينة (يومئذٍ رجل هو خير الناس أو من خير الناس) قيل هو الخضر (فيقول: أشهد أنك الدجال الذي حدّثنا رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- حديثه)
کہا جاتا ہے یہ خضر ہوں گے

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) نے یہی قول لکھا ہے
قَوْله: فَيخرج إِلَيْهِ رجل قيل هُوَ الْخضر، عَلَيْهِ السَّلَام.

کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح از ملا قاری میں اس روایت کی شرح میں لکھا ہے
وَتَقَدَّمَ أَنَّهُ الْخَضِرُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ

کتاب الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري از الكوراني میں ہے
فيقتله ثم يحييه فيقول: والله ما كنت فيك أشد بصيرة مني اليوم) أي في هذه الساعة، وذلك لأنه وجد العلامات التي ذكرها رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، قيل: ذلك الرجل هو الخضر والله أعلم

راقم اس قول کو قبول نہیں کرتا

القسطلاني کی کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري کا ہے جس میں ابن حجر کی بات پیش کی گئی ہے
=========
وقال ابن العربي: سمعت من يقول إن الذي يقتله الدجال هو الخضر وهذه دعوى لا برهان لها. قال الحافظ ابن حجر: قد يتمسك من قاله بما أخرجه ابن حبان في صحيحه من حديث أبي عبيدة بن الجراح رفعه في ذكر الدجال لعله يدركه بعض من رآني أو سمع كلامي الحديث ويعكر عليه قوله في رواية لمسلم شاب ممتلئ شبابًا ويمكن أن يجُاب بأن من جملة خصائص الخضر أن لا يزال شابًّا ويحتاج إلى دليل
ابن العربی نے کہا میں نے سنا جس نے کہا کہ یہ شخص جس کو دجال قتل نہ کر سکے گا خضر
ہوں گے اور اس دعوی کی کوئی برہان نہیں ہے اور ابن حجر نے کہا بلا شبہ اس میں تمسک کیا ہے اس پر جو ابن حبان نے صحیح میں حدیث ابو عبیدہ بن الجراح تخریج کی ہے جس میں ذکر دجال ہے کہ ہو سکتا ہے بعض اس کو پائیں جنہوں نے نے مجھ کو دیکھا یا کلام سنا الحدیث
اور روایت میں آ رہا ہے ایک مسلم جوان جوانی سے بھر پور اور ممکن ہے اس کا جواب دیا ہو کہ یہ خصائص خضر کے ہیں کہ ان کی جوانی کو زوال نہیں ہے لیکن اس پر دلیل درکار ہے

==========

راقم کہتا ہے
صحیح ابن حبان کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ الدَّجَّالَ، وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ”، قَالَ: فَوَصَفَهُ لَنَا، وَقَالَ: “لَعَلَّهُ أَنْ يُدْرِكَهُ بَعْضُ مَنْ رَآنِي، أَوْ سَمِعَ كَلَامِي”، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ مثلها اليوم؟ فقال: “أو خير
أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا کہ بے شک مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا الا یہ کہ اس نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا اور میں تم کو ڈراتا ہوں -… ہو سکتا ہے اس کو بعض پائیں جنہوں نے مجھ کو دیکھا یا میرا کلام سنا

یعنی اقتباس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے محدثین نے اس رائے کا استخراج اس طرح کیا ہو کہ صحیح ابن حبان کی اوپر والی حدیث کے مطابق ان کے نزدیک خضر نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا کلام سنا اور پھر ان کی ملاقات دجال سے ہوئی کیونکہ خضر علیہ السلام کی جوانی کو زوال نہیں ہے – اس رائے کو ابن حجر نے رد کیا ہے کہ خضر کی جوانی کو زوال نہیں پر دلیل نہیں ہے لیکن انہوں نے اس بات کو رد نہیں کیا کہ محدثین یا سلف نے ایسا کوئی موقف نہیں رکھا تھا

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢٩ میں خضر کی زندگی پر کہتے ہیں جب سوال ہوا
هَلْ هُوَ حَيٌّ إلَى الْآنَ وَإِنْ كَانَ حَيًّا فَمَا تَقُولُونَ فِيمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: ” {لَوْ كَانَ حَيًّا لَزَارَنِي} ” هَلْ هَذَا الْحَدِيثُ صَحِيحٌ أَمْ لَا؟

کیا یہ اب تک زندہ ہیں؟ اور اگر زندہ ہیں تو کیا فرماتے ہیں اس قول پر جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے جس میں فرمایا اگر زندہ ہوتے تو ملتے – کیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں؟

ابن تیمیہ نے جواب دیا
وَأَمَّا حَيَاتُهُ: فَهُوَ حَيٌّ. وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ لَا أَصْلَ لَهُ وَلَا يُعْرَفُ لَهُ إسْنَادٌ بَلْ الْمَرْوِيُّ فِي مُسْنَدِ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِ: أَنَّهُ اجْتَمَعَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ قَالَ إنَّهُ لَمْ يَجْتَمِعْ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ قَالَ مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ فَإِنَّهُ مِنْ الْعِلْمِ الَّذِي لَا يُحَاطُ بِهِ. وَمَنْ احْتَجَّ عَلَى وَفَاتِهِ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” {أَرَأَيْتُكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ فَإِنَّهُ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ لَا يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مِمَّنْ هُوَ عَلَيْهَا الْيَوْمَ أَحَدٌ} ” فَلَا حُجَّةَ فِيهِ فَإِنَّهُ يُمْكِنُ أَنْ يَكُونَ الْخَضِرُ إذْ ذَاكَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ. وَلِأَنَّ الدَّجَّالَ – وَكَذَلِكَ الْجَسَّاسَةُ – الصَّحِيحُ أَنَّهُ كَانَ حَيًّا مَوْجُودًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بَاقٍ إلَى الْيَوْمِ لَمْ يَخْرُجْ وَكَانَ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ. فَمَا كَانَ مِنْ الْجَوَابِ عَنْهُ كَانَ هُوَ الْجَوَابَ عَنْ الْخَضِرِ وَهُوَ أَنْ يَكُونَ لَفْظُ الْأَرْضِ لَمْ يَدْخُلْ فِي هَذَا الْخَبَرِ أَوْ يَكُونُ أَرَادَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآدَمِيِّينَ الْمَعْرُوفِينَ وَأَمَّا مَنْ خَرَجَ عَنْ الْعَادَةِ فَلَمْ يَدْخُلْ فِي الْعُمُومِ

جہاں تک ان کی حیات کا تعلق ہے تو وہ زندہ ہیں- … اور جس نے خضر کی وفات پر نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول سے دلیل لی کہ اس رات جو سطح زمیں پر زندہ ہے وہ سو سال پورا ہونے پر نہ ہو گا اس میں ان کے لئے حجت نہیں ہے یہ تبھی ممکن ہے کہ جب خضر (اس وقت) سطح زمیں پر ہی ہوں اور بے شک دجال اور جساسہ صحیح ہے کہ یہ زندہ موجود ہیں عہد نبوی میں اس دن تک جزیرہ میں ہیں اس سے نہیں نکلے ہیں جو سمندر کے جزیروں میں سے ہے – پس جو جواب اس پر ہے وہی ہمارا جواب خضر پر ہے کہ اس خبر ({لَوْ كَانَ حَيًّا لَزَارَنِي}) میں زمین کا لفظ نہیں ہے اور ہو سکتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کی مراد مشھور لوگ ہوں اور جو عادت سے الگ ہو اس کو عموم میں شمار نہیں کیا جاتا

یعنی ابن تیمیہ خضر کے زندہ ہونے کے قائل تھے لیکن ابن قیم نے المنار المنيف میں لکھا ہے
وَسُئِلَ عَنْهُ شَيْخُ الإِسْلامِ ابْنُ تَيْمِيَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَالَ: “لَوْ كَانَ الْخَضِرُ حَيًّا لَوَجِبَ عَلَيْهِ أَنْ يَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُجَاهِدُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَيَتَعَلَّمُ مِنْهُ وَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ: “اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلَكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ لا تُعْبَدْ فِي الأَرْضِ” وكانوا ثلاث مئة وَثَلاثَةِ عَشَرَ رَجُلا مَعْرُوفِينَ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ فَأَيْنَ كَانَ الْخَضِرُ حِينَئِذٍ؟
اور میں نے شیخ ابن تیمیہ سے سوال کیا انہوں نے کہا اگر خضر زندہ ہوتے ان پر واجب ہوتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں اور بدر کے دن رسول الله نے فرمایا اے الله اگر اس گروہ کو آج ہلاک کر دیا گیا تو تیری عبادت کوئی نہ کرے گا اور وہ ٣١٣ معروف مرد تھے جن کے نام اور ان کے باپوں کے اور قبائل کے نام معلوم ہیں تو اس وقت خضر کہاں تھے؟

یعنی ابن قیم کے مطابق ابن تیمیہ خضر کی وفات کے قائل تھے

یہ تضاد رائے کب ہوا ؟ کیا ابن قیم نے جھوٹ باندھا یا سمجھنے میں ان سے غلطی ہوئی یا ابن تیمیہ نے اپنے موقف سے رجوع کیا واضح نہیں ہے

سورہ المائدہ کی آیت ٥٥ ہے

إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون

بے شک الله تمہارا دوست ہے  اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں، الزكاة دیتے ہیں اور وہ جو رکوع کرتے ہیں

تفسیر الطبری کے مطابق یہ  آیت عبادہ بن صامت جو بنی عوف سے تھے  کے لئے اتری تھی

تفسير البغوي کے مطابق

  روي عن ابن عباس رضي الله عنهما أنها نزلت في عبادة بن الصامت وعبد الله بن أبي بن سلول حين تبرأ عبادة من اليهود ، وقال : أتولى الله ورسوله والذين آمنوا ، فنزل فيهم من قوله : ” ياأيها الذين آمنوا لا تتخذوا اليهود والنصارى أولياء ” ، إلى قوله : ” إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا ” يعني عبادة بن الصامت وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم . وقال جابر بن عبد الله : جاء عبد الله بن سلام إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إن قومنا قريظة والنضير قد هجرونا وفارقونا وأقسموا أن لا يجالسونا ، فنزلت هذه الآية ، فقرأها عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : ” يا رسول الله رضينا بالله وبرسوله وبالمؤمنين أولياء ” . وعلى هذا التأويل أراد بقوله : ( وهم راكعون ) [ ص: 73 ] صلاة التطوع بالليل والنهار ، قاله ابن عباس رضي الله عنهما .

ابن عبّاس نے روایت کیا ہے کہ یہ عبادہ بن صامت اور  عبد الله بن أبي بن سلول کے لئے نازل ہوئیں جو مسلمان تھے لیکن یہود ان سے اسلام لانے کی بنا پر الجھتے تھے

تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم  کی ایک ضعیف روایت کے مطابق یہ علی کے لئے نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے نماز میں انگوٹھی صدقه کی

 حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنِ أَبُو نُعَيْمٍ الأَحْوَلُ، ثنا مُوسَى بْنُ قَيْسٍ الْحَضْرَمِيُّ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ قَالَ: تَصَدَّقَ عَلِيٌّ بِخَاتَمِهِ وَهُوَ رَاكِعٌ فَنَزَلَتْ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون

اس کی سند میں  موسى بن قيس الحضرمى ہے جس کو

 صدوق ، شیعیت  کا الزام ہے ابن حجر :  صدوق رمى بالتشيع

قال العقيلي: من الغلاة في الرفض کہتے ہیں رافضی غالیوں میں سے  کہتے ہیں

ایک دوسری سند ہے

 حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ، ثنا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ فِي قَوْلِهِ: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ الله ورسوله والذين آمنوا قَالَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.

اس میں   عُقْبَةَ بْنِ أَبِي حَكِيم  مجھول ہے

 تیسری سند ہے

 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، ثنا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو حَفْصٍ عَنِ السُّدِّيِّ قَوْلَهُ: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا قَالَ: هُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَعَلِيٌّ مِنْهُمْ

اس میں إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى ہے

ابن حجر :  صدوق يهم و رمى بالتشيع

الذهبي  وَكَانَ مِنْ شِيعَةِ الكُوْفَةِ  وَقِيْلَ: كَانَ غَالِياً.

اس میں  بھی شیعیت ہے اور غالی ہے

 حالت نماز میں صدقه کرنے کا مطلب ہے نماز میں خشوع کو چھوڑنا، ادھر ادھر دیکھنا، پھر انگوٹھی کا اتارنا اور اس انداز میں دینا کہ لینے والا اس کو صدقه بھی سمجھے- سب اس کو عمل کثیر بنا دیتے ہیں جو نماز کو باطل کرنے کے لئے کافی ہے – ظاہر ہے جس نماز میں سلام کرنا تک منع ہے اس میں صدقه کرنا کیسے قابل ستائش ہو سکتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ جب کوئی دلیل نہ ملی تو غالیوں نے اس قسم کی روایات بیان کیں

جواب یہ آیت سے واضح ہے کہ اس سے مراد دنیا نہیں جنت ہے تبھی عند ربھم کہا گیا ہے

سوره ال عمران کی آیات ہیں

وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ الله أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (169) فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ الله مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (170

اور وہ لوگ جو الله کی راہ میں قتل ہوئے  (شہداء) ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس (نعمتوں میں سے) کھاتے ہیں،  خوش ہیں،  جو انہیں الله کی طرف سے فضل میں ملا ہے اور استبشار کرتے ہیں ان کے بارے میں جو ان سے ابھی نہیں ملے ہیں (یعنی دنیا میں جو رفقائے کار تھے) ، نہ ان کو کوئی خوف ہے نہ ہی وہ غم کرتےہیں

ان آیات میں بتایا گیا ہے وہ لوگ جو الله کے لئے قتل ہو رہے ہیں وہ معدوم نہیں ہو رہے ان کے اجسام  گھائل ہوۓ ہوں یا ان کا مثلہ کیا گیا ھو کہ جسد ہی نہ رہا ھو لیکن وہ اب  الله کی دی ہوئی خاص نعمتوں کو  پا رہے  ہیں اور جنت میں ہیں

شہداء کہاں ہیں؟ مسلم کی  حدیث میں اس کی وضاحت آتی ہے کہ اب وہ رحمان کے عرش کے نیچے قندیلوں میں ہیں اور سبز پرندوں میں ہیں

ان آیات اور حدیث میں آئی ہوئی اس شرح کا یکسر انکار کر کے کہا جاتا ہے شہداء ان زمینی گھڑوں میں زندہ ہیں

شہید کو تو فورا جنت میں داخل کیا جاتا ہے سوره یٰسین میں ہے کہ انبیاء کی دعوت کی تصدیق کرنے والے کا قتل ہوتا ہے اور اس کو جنت میں پہنچا دیا جاتا ہے

قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قالَ يا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ (26) بِما غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ

کہا گیا :جنت میں داخل ہو جا، اس نے کہا: اے کاش میری قوم جان لیتی کہ کس چیز پر میرے رب نے مغفرت کی اور مجھے مکرمین میں شامل کر دیا

معلوم ہوا کہ شہداء تو جنت میں ہیں

سوره نساء کی آیت ٦٩  میں ہے

مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ الله عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا

ان لوگوں کے ساتھ جن پر الله نے انعام کیا نبیوں صدیقین شہداء صالحین

 بخاری کی حدیث میں اتا ہے کہ ہر نبی کو اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو دنیا لے یا آخرت.  جب نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا وقت آیا تو عائشہ رضی الله تعالی عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم  نے یہی آیت پڑھی

فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ، يَقُولُ: {مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ الله عَلَيْهِمْ} [النساء: 69] الآيَةَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ

پس اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے  (دنیا  کی رفاقت چھوڑنے کا) فیصلہ کر لیا

آخر ایسا کیوں نہ ہوتا کہ لا عیش الا عیش الاخره (کوئی زندگی نہیں سوائے آخرت کی زندگی کے) کہنے والا نبی دنیا میں رہنا پسند کرتا

کیا اس کے بعد بھی  ایسا ہو سکتا ہے الله کے نبی اسی مدینہ والی قبر ہی میں زندہ ہوں ؟ نہیں ہرگز نہیں

ثناء الله امرتسری فتوی دیتے ہیں

sanaiyah-murda

اسمعیل سلفی کتاب مسئلہ حیات النبی میں شہداء کی برزخی زندگی کی وضاحت ابن جریر کے حوالے سے کرتے ہیں

barzakh-tibri

عبدالرحمان کیلانی کتاب روح عذاب القبر اور سماع الموتی میں صفحہ ١٠٠ پر لکھتے ہیں

kelani-100قرآن کی آیت میں بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ  کہا گیا ہے اور مسلم کی حدیث میں مکمل وضاحت بھی آ گئی ہے اس کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں  ہے

لہذا عبد الرحمان کیلانی کی یہ بات نامکمل اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتا ہے

tozeh-168

انبیاء اور شہداء جنت میں ہیں یہاں تک تو بات صحیح ہے اس کے بعد الجھی ہوئی تقریر سمجھ سےباہر ہے اگر وہ جنت میں ہیں تو پھر قبر میں کیسے زندہ ہیں دنیاوی اور برزخی  کی بحث بالکل غیر واضح ہے

افسوس ایک نبی کی وفات ہوئی اس کی امت کے سب سے اہم ولی نے اس کو مردہ قرار دیا سب نے دفنا دیا لیکن یہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی قبر میں رکھا گیا زندہ ہو گئے ان پر امت کے اعمال پیش ہونے لگے اور وہ قبر سے اذان دینے لگ گئے، وہ سلام کا جواب دینے لگ گئے

یہ بد عقیدگی نہیں تو اور کیا ہے

جواب

قرآن کی سوره المومنون کی ٩٩ اور ١٠٠ آیات ہیں

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

یہاں تک کہ ان میں جب کسی کو موت اتی ہے تو کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دے تاکہ صالح اعمال کروں ہرگز نہیں یہ تو صرف ایک قول ہے جو کہہ رہا ہے اور اب ان کے درمیان برزخ حائل ہے  یہاں تک کہ ان کو دوبارہ اٹھایا جائے

اس کا مفھوم ہے کہ اب موت کے بعد اس دنیاوی جسد میں قیامت تک روح نہیں آ سکتی اور اس دنیا اور روح کے درمیان آڑ ہے

المسند فی عذاب القبر ص ٨٦ پر ارشد کمال لکھتے ہیں

arshd-86

لیکن ص ١٦٦ پر لکھتے ہیں

arshad-166

کیا یہ اپنی ہی کہی ہوئی بات کا رد نہیں؟

رفیق طاہر لکھتے ہیں

الله تعالى کا فرمان ہے ” حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ” یعنی “حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے “۔ اس آیت مبارکہ میں ” أَحَدَهُمُ ” سے مراد وہ زندہ سلامت انسان ہے جو فاسق و فاجر ہے ۔ اور اس بارہ میں “نام نہاد مسلمین” سمیت کسی بھی ذی شعور کو اختلاف نہیں ہے ۔اور بات بھی طے شدہ ہے کہ مرنے سے قبل وہ روح وجسد کا مجموعہ تھا , نہ صرف روح یا صرف جسم !۔یعنی ” أَحَدَهُمُ ” سے مراد روح وجسم کا مجموعہ ہے ۔ اور اس ” أَحَدَهُمُ “کے روح وجسم کا مجموعہ ہونے پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ۔اسی متفق علیہ بات کو ذہن نشیں کرنے کے بعد ہم چلتے ہی اسی آیت کے اگلے حصہ کی طرف اور وہ ہے ” قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ” یعنی “وہ کہتا ہے اے میرے رب مجھے لوٹا دو” ۔ یعنی مرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ مجھے لوٹا دیا جائے ۔ اب یہاں ” نام نہاد مسلمین” نے تلبیس سے کام لیا اور یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح کہتی ہے کہ مجھے واپس میرے جسم میں لوٹا دو ۔ جبکہ اللہ تعالى نے فرمایا ہے ” قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ” (وہ کہتا ہے کہ مجھے لوٹا دو ) یہ نہیں کہا کہ ” قَالَ رُوْحُہُ رَبِّ ارْجِعُونِ ” (اسکی روح کہتی ہے کہ مجھے لوٹاؤ) ۔ بات انتہائی سادہ سی ہے کہ اللہ کے فرمان ” قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ” میں لفظ “قال” کا مرجع “احدہم” ہے ۔ یعنی جسے موت آئی تھی وہی کہہ رہا کہ مجھے لوٹاؤ ۔ اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ موت روح وجسد کے مجموعہ کو آئی تھی ۔ سو مرنے کے بعد روح وجسد کا مجموعہ ہی کہتا ہے کہ مجھے لوٹاؤ ۔ یعنی وہ دنیا میں لوٹ کر نیک اعمال کرنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔ لہذا اس آیت سے ہی یہ بات ثابت ہوئی کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح اسکے جسم میں لوٹتی ہے اور روح وجسد کا مجموعہ اللہ تعالى سے دوبارہ دنیا میں جانے کا مطالبہ کرتا ہے , لیکن اسکا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا جائے گا ۔بلکہ اس مرنے والے (روح وجسد کے مجموعہ) اور دنیا میں لوٹ جانے کے درمیان قیامت تک کے لیے ایک برزخ (آڑ اور رکاوٹ) ہے ۔

قرآن کی ایک صفت ہے کہ اس میں باطل داخل نہیں ھو سکتا

لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ   سوره فصلت
باطل نہ تو اسکے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے , یہ بہت ہی باحکمت اور تعریف کیے گئے کی طرف سے نازل شدہ ہے

قرآن ہی میں ہے کہ مرنے والے کی روح روک لی جاتی ہے امساک روح کا کیا مفہوم رہ جائے گا اگر  اس تشریح کو مان لیا جائے

 رفیق طاہر صاحب کہتے ہیں روح کا امساک تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ قبر میں آ جاتی ہے اور اگرچہ جسد مٹی مٹی ہو جاتا ہے لیکن قیامت تک قبر میں صرف روح اور عجب الذنب رہ جاتی ہے

أبو بكر الجزائري کی کتاب أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير جو مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية سے چھپی ہے اس میں اس میں ان آیات کی تشریح اس طرح کی گئی ہے

أي رأى ملك الموت وأعوانه وقد حضروا لقبض روحه {قال رب ارجعون1} أي أخروا موتي كي أعمل صالحاً فيما تركت العمل فيه بالصلاح، وفيما ضيعت من واجبات قال تعالى رداً عليه {كلا} 2 أي لا رجوع أبداً، {إنها كلمة هو قائلها} لا فائدة منها ولا نفع فيها، {ومن ورائهم برزخ} أي حاجز مانع من العودة إلى الحياة وهو أيام الدنيا كلها حتى إذا انقضت عادوا إلى الحياة، ولكن ليست حياة عمل وإصلاح ولكنها حياة حساب وجزاء هذا معنى قوله: {ومن ورائهم برزخ إلى يوم يبعثون}

یعنی موت کے فرشتے  اور اس کے مددگاروں کو دیکھتا ہے جو اس کی روح  قبض کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں کہتا ہے اے رب واپس بھیج دے یعنی موت کو موخر کر دے تاکہ نیک عمل کر لے جس کو چھوڑ دیا .. الله تعالی رد کرتا ہے کہ ہرگز نہیں یعنی کوئی لوٹانا کبھی بھی نہیں ہو گا  بے شک یہ ایک صرف قول ہے جس کا فائدہ نہیں نفع نہیں اور ان کے پیچھے آڑ ہے یعنی رکاوٹ جو مانع ہے عود  زندگی کے لئے جو دنیا کے ایام تھے یہاں تک کہ یہ ختم ہو تو زندگی کی طرف عود ہو لیکن یہ حیات عمل اور اصلاح کی زندگی نہیں بلکہ یہ تو حساب اور جزا کی زندگی ہے اور یہ معنی ہے قول اور ان کے پیچھے برزخ حائل ہو واپس زندہ ہونے تک

اس وضاحت سے واضح ہے کہ ان حنبلی عالم کے نزدیک یہ مکالمہ قبر میں نہیں بلکہ اسی دنیا میں ہوتا ہے

قرآن کی سوره الانعام کی ٩٣  آیت ہے

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُوأَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ

فرشتے جان نکلتے وقت اخراج نفس کرتے ہیں

پھر سوره تکویر میں کہا

وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (التکویر: 7) اور جب روحیں (اپنے جسموں سے) ملا دی جائیں گی

وہی نفس جس کو سوره الانعام  کی آیت ٩٣ کے مطابق جسد سے نکالا گیا تھا اس کو واپس ڈالا جا رہا ہے

رفیق طاہر لکھتے ہیں

ثُمَّ ‘تھوڑے سے وقفے کے بعد’ أَمَاتَهُ ‘ اس کو موت دی۔’ فَ ‘ موت دینے کے فوراً بعد ’ أَقْبَرَهُ‘ اس کو قبر دے دی۔تو نتیجہ کیا نکلا کہ مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر بھی ہو، چاہے وہ چارپائی پر پڑا ہو، چاہے زمین کے نیچے دبا دیا گیا ہو، چاہے ریزہ ریزہ ہوگیا ہو، جل کر راکھ ہوجائے، وہ اس کی قبر ہے۔مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوگی ، وہ اس کےلیے قبر ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: ’ ثُمَّ أَمَاتَهُ ‘ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو موت دی” فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21]“ پھر ا س کو قبر بھی دی۔تو برزخی قبر جس کو وہ لوگ جو عذاب قبر کے منکر نہیں ہیں ، مانتے ہیں کہ قبر کے اندر عذاب ہوتا ہے ، لیکن کہتےہیں کہ اس قبر میں نہیں بلکہ اوپر والی قبرمیں  … تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ تونہیں کہا: ’فاقبر روحہ‘ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، ۔ جس کو اللہ نے موت دی ہے اسی کو اللہ نے قبر دی ہے۔روح وجسم کے مجموعے کو ، ایک انسان کو ، تو قبر بھی اکیلی روح کو نہیں، اکیلے جسم کو نہیں۔ ’فاقبرروحہ‘ ’فاقبر جسدہ‘ اللہ نے نہیں کہا کہ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، یا اللہ نے اس کے جسم کو قبر دی۔کیا کہا ہے: ” ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] “ اللہ نے اس روح وجسم کے مجموعے کو ، حضرت انسان کو موت دی اور پھر اسی روح وجسم کے مجموعے کو قبر بھی عطا کی ہے۔تو اسی ایک آیت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ مرنے کے فوراً بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوتی ہے وہ اس کےلیے قبر ہے۔

یہاں مشکل یہ ہے کہ رفیق طاہر صاحب موت کا مفھوم واضح نہیں کرتے موت میں تو روح جسد سے نکل لی جاتی ہے تو جس شخصیت کو موت اتی ہے وہ خود دو میں تقسیم ہو جاتا ہے ایک اس کا جسد جو دنیا میں ہے اور ایک اس کی روح جس کو فرشتے نکال کر لیے جا چکے ہیں اب اگر انسان قبر میں رکھیں گے تو صرف دنیاوی جسد کو وہ بھی وقفے کے بعد  لہذا جس قبر کو مرنے کے فورا بعد دیا گیا ہے وہ قبر اس دنیا میں نہیں

رفیق طاہر موت پر لکھتے ہیں

اور قرآن مجید میں ہی اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ بندے کے جسم میں روح ہوتی ہے اور بندہ مردہ ہوتا ہے۔لہٰذا یہ تعریف کرنا موت کی کہ روح کا جسم سے نکل جانا موت ہے ، یہ تعریف ہی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں بیان فرمایا ہے: ” اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا “ اللہ روحوں کو نکال لیتا ہے ، موت کے وقت بھی نکال لیتا ہے اور نیند کے وقت بھی نکال لیتا ہے۔ نیند کے وقت اللہ روح کو کیا کرتا ہے ، نکال لیتا ہے۔ اچھا ! سوئے ہوئے کو مردہ کہتے ہو یا زندہ؟زندہ ہی مانتے ہیں ناں سارے؟اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ اس کے اندر روح کوئی نہیں۔ اللہ نے روح کو نکال لیا ہے ، پھر اللہ سوئے ہوئے کی روح کو نکال لیتا ہے اور حالت نیند میں جس کو موت دینی ہوتی ہے ، اس کی روح کو تھوڑی دیر کےلیے روک لیتا ہے۔ جس کو موت نہیں دینی ہوتی ، اس کی روح کو واپس جسم میں لوٹا دیتا ہے ، جس میں روح واپس آتی ہے تو بندہ جاگ جاتا ہے، بیدا رہوجاتا ہے۔ یعنی نیند کی حالت میں بندے کے اندر روح نہیں ہوتی، اللہ روح کو نکال لیتا ہے۔ لیکن کیا وہ مردہ ہے؟ نہیں۔ ساری کائنات اس کو زندہ مانتی ہے کہ یہ زندہ ہے، مردہ نہیں ہے۔ لہٰذا موت کی یہ تعریف کرنا کہ روح جسم سے نکل جائے تو موت ہوتی ہے ، غلط قرار پاتی ہے۔ موت کی یہ صحیح تعریف نہیں ہے۔ صحیح تعریف موت کی کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں دی ہے۔: ” أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء [النحل : 21] “ مردہ ہیں، زندہ نہیں۔ یہ موت کی تعریف ہےکہ دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے

توفی کا مطلب قبض کرنا ہے نہ کہ نکالنا

راغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ) اپنی کتاب المفردات في غريب القرآن میں لکھتے ہیں

وقوله: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] فعبارة عن زوال القوّة الحيوانيَّة وإبانة الرُّوح عن الجسد

اور (الله تعالیٰ کا ) قول : : كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ [آل عمران/ 185] پس یہ عبارت ہے قوت حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے

ابن تیمیہ اپنی کتاب أمراض القلب وشفاؤها میں موت الْمُثبت کے بارے میں لکھتے ہیں

هُوَ فِرَاق الرّوح الْبدن وہ روح اور بدن کی فراقت ہے

ابن تیمیہ کتاب الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح میں لکھتے ہیں

وَكَذَلِكَ سَلَفُ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتُهَا يَعْرِفُونَ وُجُودَ النَّفْسِ الَّتِي هِيَ رُوحُ الْإِنْسَانِ الَّتِي تُفَارِقُ بَدَنَهُ حِينَ الْمَوْتِ

اور اسی طرح سلف امت اورائمہ وجود نفس کو مانتے ہیں جو روح انسان ہے جو موت کے وقت بدن سے علیحدہ ہوتی ہے

الله نے کہا

{الله يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42]

الله نفس کو قبض کرتا ہے موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نیند کے وقت
اور دوسرے مقام پر کہا
{حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ} [الأنعام: 61]

 یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت اتی ہے ہمارے فرشتے ان کو قبض کرتے ہیں اور چوکتے نہیں

روح اور جسم کے مجموعے کو موت آئی  لیکن قبض صرف روح یا نفس ہوئی یہاں پر تَوَفَّتْهُ کی ضمیر أَحَدَكُمُ  کی  طرف ہے لیکن توفی صرف روح ہوئی جسد کو اس دنیا میں ہی چھوڑ دیا گیا

اس آیت کی روشنی میں سوره المومنون کی آیت کو سمجھا جا سکتا ہے

قرآن میں ہے

فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ (83) وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ (84) وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ (85) فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ (86) تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (87

پھر کیوں نہیں (روح کو واپس لوٹا لیتے) جب وہ (پرواز کرنے کے لئے) حلق تک آپہنچتی ہے

اور تم اس وقت دیکھتے ہی رہ جاتے ہو

اور ہم اس (مرنے والے) سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم (ہمیں) دیکھتے نہیں ہو

پھر کیوں نہیں (ایسا کر سکتے) اگر تم کسی کی مِلک و اختیار میں نہیں ہو

کہ اس (رُوح) کو واپس پھیر لو اگر تم سچّے ہو

یہاں پر روح کا لفظ نہیں لیکن قرآن کے سیاق و سبق سے واضح ہے کہ یہ سب روح کے بارے میں ہے

اور کہا

{قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ} [السجدة: 11]

کہو تم کو موت کا فرشتہ قبض کرے  گا جو تم پر مقرر ہے اور پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے

مرنے والا الله کے پاس پہنچ جاتا ہے جبکہ اس کا جسد اسی دنیا میں رہ جاتا ہے موت کے فرشتے نے قبض کی کو کیا نفس کو یا جسد کو اگر آپ اس پر غور کریں گے تو آپ کو یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے

دوئم عود روح جس روایت پر جان نثار کر رہے ہیں خود اس میں موت کی وضاحت کی گئی ہے کہ

زاذان کی روایت جس کا رفیق طاہر ترجمہ کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

پھر فرمایا “جب مؤمن دنیا سے رخصت اور آخرت کے سفر پر گامزن ہوتا ہے تو اسکے پاس ایسے سفید چہروں والے فرشتے آسمان سے اترتے ہیں گویا کہ انکے چہرے سورج ہیں , انکے پاس جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبو میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے , حتى کہ وہ اسکی تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں , پھر ملک الموت آتا ہے اور اسکے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے ” اے پاک جان اللہ کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف نکل چل ” آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تو وہ ایسے بہہ کر نکلتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے قطرہ بہتا ہے , تو وہ اسے پکڑ لیتا ہے , اور جونہی وہ اسے پکڑتا وہ (دیگر فرشتے) پل بھر بھی اسکے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے لے لیتے ہیں اور اس کفن اور خوشبو میں ڈال دیتے ہیں۔

عود روح کی روایت میں موت کا یہ مفھوم غلط ہے تو اس کو کیوں مانتے ہیں؟

اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ موصوف روح جسم میں آنے کو زندگی مانتے ہیں لیکن اس کے نکلنے کو موت ماننے کے لئے تیار نہیں موصوف لکھتے ہیں

اسی طرح ایک بہت بڑا اعتراض وہ یہ بنا کرپیش کرتے ہیں کہ اگر قبر والی زندگی کو مان لیا جائے توتین زندگیا ں اور تین موتیں ہوجاتی ہیں۔حالانکہ الہ نے قرآن میں کہا ہے کہ دو زندگیاں اور دوموتیں ہیں۔ بات صرف وہی ہے کہ سمجھ نہیں آئی۔ سمجھے کا قصور ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے ۔کہاں پر؟ ماں کے پیٹ میں۔ روح جب جسم کے اندر ڈالی جاتی ہے ، اس وقت بچہ کہاں ہوتا ہے؟ ماں کے پیٹ میں۔ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے کہ اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے، وہ مخصوص مدت پوری کرنے کے بعد پیٹ سے باہر آجاتا ہے۔

موصوف یہ بھی لکھتے ہیں

اللہ نے کہیں بھی یہ نہیں کہاکہ روح قیامت کے دن ڈالی جاتی ہے، یا روح قیامت کے دن ڈالی جائے گی، اس سے پہلے نہیں۔

افسوس کہ پورے قرآن کا مفھوم ہی بدل کے رکھ دیا ہے صرف عود روح والی روایت کے لئے جس کو اہل علم رد کر چکے ہیں . کیا قرآن میں یہ نہیں

ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ تُبْعَثُونَ (16

پھر اس کے بعد تمہیں موت آ کر رہے گی پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن زندہ کیے جاؤ گے

اس بحث کا لب لباب یہ ہے کہ سوره المومنون کی آیت کے الفاظ اے رب واپس بھیج دے کی تین تشریحات ہیں

اول روح فرشتے نکال کر الله کے پاس لے جاتے ہیں اور روح الله سے کہتی ہے کہ واپس لوٹا دے

دوئم انسان موت کے فرشتے کو دیکھ کر کہتا ہے کہ موت کو موخر کر دے

سوئم روح قبر میں لوٹنے کے بعد کہتی ہے کہ واپس دنیا میں بھیج دے

ہمارا عقیدہ ہے کہ دوئم اور سوئم تشریحات درست نہیں کیونکہ روح اس میں دنیا میں ہی ہے لہذا ارْجِعُونِ  لوٹانے کا کوئی مفھوم رہتا ہی نہیں

جواب

عود روح کے  قائلین کا یہ دعوی ہے کہ اعادہ روح قبر میں سوال و جواب کے لئے ہوتا ہے اور پھر واپس روح کو جنت و جہنم میں بھیج دیا جاتا ہے اس کے حوالے سے  وہ جو روایت پیش کرتے ہیں جس کو اہل علم نے منکر بتایا ہے لیکن پسند اپنی اپنی ہوتی ہے

رفیق طاہر،  زاذان کی عود روح والی روایت کے دفاع  میں لکھتے ہیں

اب بد آدمی جو ہوتا ہے ، یہ ذرا قابل غور بات ہے۔عثمانیوں کا کیا عقیدہ ہے کہ عذاب وثواب اس زمین والی قبر میں نہیں بلکہ آسمانوں والی قبر میں ہوتا ہے ، اس بات کا بڑا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، اب دیکھتے جائیے گا کہ ہوتا کیا ہے۔ اور جو بد آدمی  ہے اس کی روح کو نکالا جاتا ہے، شدت کے ساتھ ، سختی کے ساتھ ، بدبودار ٹاٹ کے اندر اس کو لپیٹا جاتا ہے۔ اور اس کو آسمانوں پر لے جایا جاتا ہے، آسمانوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے ، لیکن دروازہ آسمان کا نہیں کھلتا۔ ساتھ ہی نبی نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کردی۔ کہ یہ ظالم لوگ ” لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء “ ان کےلیےآسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ ” وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ “یہ جنت میں بھی نہ جائیں گے ” حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ [الأعراف : 40] “ حتی کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل ہوجائے۔جب تک اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل نہیں ہوجاتا تب تک نہ توا  ن کےلیے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی یہ جنت میں داخل ہوسکیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ تو کہہ رہے ہیں کہ ظالموں کےلیے آسمان کے دروازے کھولے ہی نہیں جائیں گے ، قرآن ہے یہ۔ اور نبی نے بتایا ہے ، دلیل قرآن کی آیت پڑھ کر سنائی ہے۔ مسند احمد کے اندر یہ روایت تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ آسمان کے دروازے تو کھلے ہی نہیں تم کس آسمانی قبر میں اسے عذاب دے رہے ہو؟کہیں آسمانی قبر میں عذاب دے کر تم نے سوئی کے سوراخ میں سے اونٹ کو داخل تو نہیں کردیا؟ اللہ کے قرآن کی آیت کے منکر تو نہیں ہوگئے کہیں ؟  دوسروں پر کفر کے فتووں کی توپ چلانے والے ذرا خود ہوش کے ناخن لیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں: ” لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ “ دونوں کام نہیں ہوسکتے۔نہ آسمان کے دروازے کھلیں اور نہ یہ جنت میں جائیں۔ ” حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ “پھر نبی فرمارہے ہیں کہ اس کی روح کو وہیں سے پھینک دیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی آپ نے ایک اور آیت پڑھ دی۔ ” فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاء “ کافروں کی مثال اللہ نے قرآن میں بھی بیان کی ہے۔ کہ یہ ایسا ہے کہ گویا آسمان سے گرا ہے۔ ” فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ “ یا پرندوں نے اسے اچکا ہے ” أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ [الحج : 31] “ یا ویران دور کی جگہ پر اس کو ہوا لے کر پہنچ جاتی ہے۔ اپنے عقیدے کی دلیل کےلیے نبی نے آیت پڑھی ہے۔ ”فتعاد روحہ فی جسدہ“ اس کی روح اس کے جسم کے اندر لوٹا دی جاتی ہے۔

جواب

قرآن کی جس آیت کو راویوں نے اس منکر روایت میں پرویا ہے وہ سوره الاعراف کی آیت ٤٠ ہے

إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ

بے شک جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر جائے اور اسی طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیتے ہیں

  قال أبو عبد الله سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري الكوفي (المتوفى: 161هـ)  في تفسيره : سفيان عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ بن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ لا تفتح لهم أبواب السماء لقول ولا عمل .

 سفیان ثوری اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ  کہتے ہیں:  آسمان کے دروازے نہ کھلیں گے سے مراد قول اور عمل  (کی پذیرائی نہ ہونا) ہے

 و قال  محمد علي الصابوني في تفسيره  صفوة التفاسير : {لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السمآء} كناةي عن عدم قبول العمل، فلا يقبل لهم دعاء أو عمل.

الصابوني تفسير  صفوة التفاسير میں کہتے ہیں : یہ الفاظ عدم قبول عمل پر کنایہ ہیں، پس نہ انکی دعا قبول ھو گی نہ عمل

 و في  تفسير الطبري : حَدَّثَنِي الْمُثَنَّى قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: ثني مُعَاوِيَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ} [الأعراف: 40] يَعْنِي: «لَا يَصْعَدُ إِلَى اللَّهِ مِنْ عَمَلِهِمْ شَيْءٌ». و أيضا عن  مجاهد : حَدَّثَنَا ابْنُ وَكِيعٍ، قَالَ: ثنا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ} [الأعراف: 40] قَالَ: «لَا يَصْعَدُ لَهُمْ كَلَامٌ وَلَا عَمَلٌ». و أيضا عن إبراهيم النخعي : حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الضَّبِّيُّ، قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: ثنا شَرِيكٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، فِي قَوْلِهِ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ} [الأعراف: 40] ، قَالَ: «لَا يَرْتَفِعُ لَهُمْ عَمَلٌ وَلَا دُعَاءٌ».

تفسیر طبری میں ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ ان کے عمل میں سے کوئی بھی شے الله کی طرف نہ اٹھے گی اور مجاہد کہتے ہیں آسمان کے دروازے نہ کھلیں گے سے مراد ہے کہ  نہ کلام اوپر جائے گا نہ عمل اور ابراہیم النخعي کہتے ہیں نہ عمل اوپر جائے گا نہ  ان کی پکار

یہ تفسیر کہ آسمان کے دروازے نہ کھلیں گے سے مراد روح کا اوپر نہ جانا ہے صرف شیعہ راویوں مثلا زاذان، منہال بن عمرو، عدی بن ثابت، عمرو بن ثابت ، السُّدِّيِّ  یعنی إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبي كريمة نے بیان کیا ہے

قرآن کی سوره الحج کی آیت ٣١ کوبھی متن میں پرویا گیا ہے

وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ

اور جس نے الله کے ساتھ شرک کیا پس یہ ایسا ہے کہ آسمان سے گرے اور پرندے اچک لیں یا اندھی کس بیابان میں پھینک دے

اس آیت میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ شرک ایسا جرم ہے کہ آسمان  سے گر کر پاش پاش ھو جائے یا پرندے کھا جائیں اور اندھی اڑا دے کہ کوئی نشانی باقی نہ رہے

 لیکن راویوں نے اس آیت کو اپنے مدعا میں بیان کیا ہے لہذا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ روح اسی ارضی قبر میں ہی رہے گی قیامت تک

مستدرک الحاکم کی ایک روایت میں عبد الله بن سلام رضی الله عنہ کا قول ہے

، وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ

بے شک جنت آسمان میں اور جہنم زمین میں ہے

یہ ایک شاذ روایت ہے  قرآن میں ہے کہ جنت و جہنم کے درمیان اعراف ہے  جو بلند مقام ہے اگر جہنم اس زمیں میں ہے تو یہ زمین فانی نہیں

قرآن میں سوره القمر میں  ہے کہ الله نے قوم نوح کو عذاب دیا اور ان کو پانی میں ڈبو دیا

 فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ

هم نے آسمان کے دروازے کھول دیے نہروں جیسے پانی کے ساتھ

آسمان کے دروازے کھلے ہیں کفار مر رہے ہیں اور روحیں جلدی جلدی جہنم میں ڈالی جا رہی ہیں

زمین پر اس وقت پانی  ہی پانی ہے

 وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا

اور ہم نے زمیں کو پھآڑ کر چشموں میں بدل دیا

یعنی قبریں ختم کسی کی بھی قبر نہ رہی

عود روح کے قائلین  کا عقیدہ ہے کہ سوره الاعراف کی  آیت  ٤٠میں کنایہ نہیں بلکہ اصول بیان کیا گیا ہے

 لیکن عود روح کے قائلین نے ابھی تک خود بھی نہیں سمجھا کہ زاذان کی عود روح والی روایت ان کے عقیدے کے خلاف ہے. روح قبر میں ہی رہے گی کیونکہ آسمان کے دروازے اب کافر کی روح کے لئے نہیں کھل سکتے جبکہ وہ یہ عقیدہ پیش کرتے ہیں کہ عود روح تھوڑی دیر ہوتا ہے پھر روح جہنم میں جاتی ہے

دامانوی ، عذاب قبر کی حقیقت میں لکھتے ہیں

روح کے قبض ہونے اور قبر کے سوال و جواب کے بعد کافر و منافق اور نافرمان کی روح کو جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ عذاب سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔ یہی عذاب جہنم ہے اور اس کی میت کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اور یہ عذاب قبر ہے۔ اور جب قیامت قائم ہو گی تو عذابِ قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذابِ جہنم باقی رہ جائے گا

سوال یہ ہے کہ اب روح  جہنم میں کیسے پہنچ گئی؟

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں لکھتے ہیں

فيبلوهم الله عز وَجل فِي الدُّنْيَا كَمَا شَاءَ ثمَّ يتوفاها فترجع إِلَى البرزخ الَّذِي رَآهَا فِيهِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لَيْلَة أسرى بِهِ عِنْد سَمَاء الدُّنْيَا أَرْوَاح أهل السَّعَادَة عَن يَمِين آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وأرواح أهل الشقاوة وَعَن يسَاره عَلَيْهِ السَّلَام

پس الله عزوجل ان (انسانوں) کو دنیا میں آزماتا ہے پھر موت دیتا ہے اور البرزخ میں پلٹاتا ہے جس کو اس نے  رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کو معراج کی رات دکھایا تھا کہ آسمان دنیا پر اہل سعادت کی ارواح آدم  عَلَيْهِ الصَّلَاة

وَالسَّلَام کے دائیں جانب اور اہل شقاوت کی ارواح ، آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام کی بائیں طرف تھیں.

امام مسلم  باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منہ میں روایت کرتے ہیں

و في صحيح المسلم رواية عن أبي هريرة : قال وإن الكافر إذا خرجت روحه – قال حماد وذكر من نتنها وذكر لعنا – ويقول أهل السماء روح خبيثة جاءت من قبل الأرض قال فيقال انطلقوا به إلى آخر الأجل  .

ابی ھریرہ رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ

بے شک جب کافر کی روح نکلتی ہے  …  اہل السماء کہتے ہیں خبیث روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے پس کہا: کہتے ہیں اس کو آخری اجل (قیامت) تک کے لئے لے جاؤ

مسلم کی روایت سے واضح ہے کہ جہنم  ، زمین میں نہیں بلکہ آسمان میں ہے . سوره الذاريات آیت ٢٢ میں ہے

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ

اور آسمان میں ہی تمہارا رزق ہے اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے

زاذان کی روایت کے مطابق مومن کی روح بھی آسمان پر نہیں رہتی بلکہ الله تعالی حکم دیتے ہیں

وأعيدوه إلى الأرض فإني منها خلقتهم وفيها أعيدهم ومنها أخرجهم تارة أخرى

اس روح کو زمین کی طرف پلٹ دو پس میں نے ان کو اس سے تخلیق کیا ہے اور اسی میں لوٹاؤں گا اوراسی سے دوسری بار نکالوں گا

مومن کی روح قبر میں کہتی ہے فيقول رب أقم الساعة حتى أرجع إلى أهلي وما لي

 اے رب قیامت قائم کر تاکہ میں اپنے اہل و مال سے ملوں

اس روایت میں یہ کہیں بھی نہیں کہ روح کو واپس جسد سے نکالا جائے گا اور جنت یا جہنم میں لے جایا جائے گا جہاں ممکن ہے کہ اس کی ملاقات اپنے اہل سے ھو لیکن روح قبر میں ہی رہ جاتی ہے قیامت تک کے لئے

ابن عبد البر  التمھید ج ١٤ ص ١٠٩ میں کہتے ہیں کہ البراء بن عازب کی روایت سے

وَقَدِ اسْتَدَلَّ بِهِ مَنْ ذَهَبَ إِلَى أَنَّ الْأَرْوَاحَ عَلَى أَفْنِيَةِ الْقُبُورِ

اور بے شک اس سے انہوں نے استدلال کیا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ ارواح قبروں کے میدانوں میں (قبرستان) ہیں

ابن عبد البر  الاستذکار ج ٣ ص ٨٩ میں کہتے ہیں کہ

أَنَّهَا قَدْ تَكُونُ عَلَى أَفَنِيَّةِ قُبُورِهَا لَا عَلَى أَنَّهَا لَا تَرِيمُ وَلَا تُفَارِقُ أَفَنِيَّةَ الْقُبُورِ

بے شک ارواح قبرستانوں میں ہیں  اور یہ ان کو نہیں چھوڑتیں

زاذان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ

عود روح کے بعدجسد پر عذاب ہوتا ہے اورایک اندھا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے جو جسد کو مارتا ہے کہ اس میں سے روح نکل جاتی ہے اور پھر دوبارہ اعادہ روح ہوتا ہے

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق

(فَيَصِيرُ تُرَابًا، ثُمَّ يُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ) كَرَّرَ إِعَادَةَ الرُّوحِ فِي الْكَافِرِ بَيَانًا لِشِدَّةِ الْعَذَابِ

جسد مٹی ھو جاتا ہے پھر اعادہ روح ہوتا ہے تاکہ کافر پر عذاب کی شدت ھو

یعنی روح جسد سے نکلتی اور واپس عود کرتی رہتی ہے

السیوطی کتاب قوت المغتذي على جامع الترمذي  میں لکھتے ہیں

إذ روح غير الشهيد ممن يؤخر للحساب لا يدخل الجنة عند مفارقتها للبدن فقد ورد: ” أرواح المؤمنين على أفنية قُبُورهم “.

اگر روح غیر شہید کی ھو جس پر حساب موخر ہے ، وہ جنّت میں جسم چھوڑنے پر داخل نہیں ہوتی جیسا کہ آیا ہے مومنین کی ارواح قبرستانوں کے میدان میں ہیں

أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)   کتاب المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج میں لکھتے ہیں

 الْمُعَذَّبُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ الْجَسَدُ بِعَيْنِهِ أَوْ بَعْضُهُ بَعْدَ إِعَادَةِ الرُّوحِ إِلَيْهِ أَوْ إِلَى جُزْءٍ مِنْهُ وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إِعَادَةُ الرُّوحِ قَالَ أَصْحَابُنَا هَذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ الْأَلَمَ وَالْإِحْسَاسَ إِنَّمَا يَكُونُ فِي الْحَيِّ

معذب ، اہل السنت کے نزدیک جسد بعینہ ہے یا اس کے بعض حصے اس میں إِعَادَةِ الرُّوحِ ہونے کے بعد اور اس کی مخالفت کی ہے محمّد بن جریر اور عبدللہ بن کرام اور ایک گروہ نے اور کہا کہ إِعَادَةِ الرُّوحِ عذاب کی شرط نہیں. ہمارے اصحاب کہتے ہیں یہ فاسد قول ہے بے شک الم و احساس زندہ کے لئے ہے

اس کا مطلب یہ ہوا کہ إِعَادَةِ الرُّوحِ کوئی استثنائی معامله نہیں بلکہ روح جسد ہی میں رہتی ہے

أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الديوبندي (المتوفى: 1353هـ)کتاب فيض الباري على صحيح البخاري میں لکھتے ہیں

 فإن البدنَ بدون الروح جمادٌ لا حِرَاكَ له، والرُّوحُ بدون البدن معطَّلةٌ عن الأفعال، فاحتاج أحدُهما إلى الآخر، فلمَّا اشتركا في الكَسْبِ اشتركا في الأجر، أو الوِزْرِ أيضًا

بدن بغیر روح کے ایک جمادی چیز ہے جس میں حرکت نہیں ہوتی اور روح بغیر بدن کے عمل سے خالی ہے ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا محتاج ہے پس جب کسب عمل میں یہ دونوں شریک ہیں تو اجر میں بھی شریک ہونے چاہیے ہیں

اس بحث کا لب لباب ہے کہ  زاذان کی منکر روایت سے جو نتائج نکلتے ہیں اس پر عود روح کے قائلین خود متفق نہیں دوئم یہ روایت نہ صرف متن میں غیر واضح  ہے  بلکہ قرآن و احادیث صحیحہ کے خلاف بھیہے یہی وجہ ہے کہ الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں اس روایت کے لئے کہتے ہیں

حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ

 المنھال بن عمرو کی قبر کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے

الذہبی کے ہم عصر ابن تیمیہ نے اس کے بر عکس اس روایت کا دفاع کیا اور ابن قیم نے کتاب الروح میں اس کو عقیدے کی کلید بنا دیا

  جواب

بخاری کی حدیث ہے

کتاب تفسیر قرآن، سورۃ تبت یدا ابی لھب وتب: حدیث نمبر 4973

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ‏}‏ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ ‏”‏ يَا صَبَاحَاهْ ‏”‏‏.‏ فَقَالُوا مَنْ هَذَا، فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ‏.‏ فَقَالَ ‏”‏ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلاً تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ‏”‏‏.‏ قَالُوا مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ‏”‏‏.‏ قَالَ أَبُو لَهَبٍ تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلاَّ لِهَذَا ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ ‏{‏تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ‏}‏ وَقَدْ تَبَّ هَكَذَا قَرَأَهَا الأَعْمَشُ يَوْمَئِذٍ‏.‏

ترجمہ: ہم سے یوسف بن موسٰی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا ہم سے عمرو بن مرہ نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباسؓ سے، انہوں نے کہا جب (سورہ شعراء کی) یہ آیت اتری وَ اَنذِر عَشِیرَتَکَ الاَقرَبِینَ وَرَھطَکَ مِنھُمُ المُخلِصِینَ تو رسول اللہﷺ (مکہ سے) باہر نکلے۔ صفا پہاڑ پر چڑھ گئے۔ وہاں پکارا ارے لوگو ہوشیار ہو جاؤ۔ مکہ والے کہنے لگے یہ کون ہے۔ وہ سب (رسول اللہﷺ کے پاس جا کر) جمع ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا بتاؤ تو سہی اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ دشمن کے سوار اس پہاڑ کے تلے سے نکلنے والے ہیں تو تم میری بات سچ مانو گے۔ انہوں نے کہا (بیشک) کیونکہ ہم نے آپؐ کو آج تک کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا (چناچہ اسی وجہ سے آپؐ کو صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا)۔ آپؐ نے فرمایا۔ تو پھر میری بات سنو میں تم کو آگے آنے والے قیامت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ یہ سن کو ابو لہب مردود کہنے لگا ارے تو تباہ ہو تو نے ہم کو اس لئے جمع کیا تھا (نا حق پریشان کیا) ۔ آخر آپؐ اٹھ کھڑے ہوئےاور اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ سورت اتاری تَبَّت یَدَا اَبِی لَھَبٍ ۔ اعمش نے یو ں پڑھا ہے وَ قَد تَبَّ جس دن یہ حدیث روایت کی۔

بخاری کی اس روایت کے راوی آعمش ہیں

کتاب ایمان از ابن مندہ میں اس روایت کے بعد ہے کہ الفاظ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ کے لئے محدث آعمش نے کہا
قَالَ الْأَعْمَشُ: وَهَكَذَا هِيَ فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ: فَقَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَيْهِ كَذْبَةٍ. قَالَ: وَهَذِهِ هِيَ قِرَاءَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَقِرَاءَتُهُ فِي مُصْحَفِهِ عَلَى هَذَا
آعمش نے کہا کہ ایسا ہی قرات ابن مسعود رضی الله عنہ میں تھا أَبُو أُسَامَةَ نے کہا کہ ہم ان آعمش کو جھوٹا نہیں سمجھتے انہوں (آعمش) نے کہا کہ ایسا ہی ابن مسعود کے مصحف میں تھا
النووی شرح المسلم میں  کہتے ہیں
الظاهر أن هذا كان قرآنا أنزل ثم نسخت تلاوته ولم تقع هذه الزيادة في روايات البخاري
ظاہر ہے یہ قرآن میں نازل ہوئی پھر اس کی تلاوت منسوخ ہوئی اور یہ بخاری میں روایت ہوئی

راقم کی رائے میں یہ آیت نہیں بلکہ تشریح ہے کیونکہ سوره الشعراء کی آیت تھی اپنے گھر والوں کو ڈراؤ اس کے بعد تشریح لکھی گئی کہ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ان میں سے خلوص والوں کو جمع کرو

عثمان رضی الله عنہ کے حکم پر جب مصحف جلائے گئے اس وقت علی اور ابن مسعود کے مصحف نہیں جلائے گئے تھے یا کہہ لیں انہوں نے ایسا نہیں کیا صحابہ آیات کے ساتھ ہی شرح لکھ لیتے تھے عائشہ رضی الله عنہا کے لئے اتا ہے کہ انہوں نے مصحف لکھنے کا حکم دیا لیکن کہا کہ جب قرآن کی آیت حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ایے تو اس میں العصر کا اضافہ لکھ دینا لهذا بہت سے مصحف میں تشریحی اضافے موجود رہے

دوم قرآن کی دس قرات ہیں اور سب الگ ہیں (معنوی طور سے سب ایک ہیں الفاظ کی تبدیلی ہے) برصغیر اور مشرق وسطی میں عاصم بن ابی النجود کی قرات ہے – کوفہ اور یمن میں قرات عبد الله ابن مسعود اور معآذ بن جبل مشھور تھی اور آعمش بھی کوفی ہیں اور عاصم کے شاگرد ہیں لہذا ان کو تشریحی الفاظ سے مغالطہ ہوا کہ گویا یہ قرات کا حصہ ہیں ہم تک جو قرات آئی ہے اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں لہذا یہ اضافہ تشریحی ہے

کتاب فصل الخطاب في تحريف كتاب رب الأرباب – الشيخ حسين النوري الطبرسي کے مطابق ورهطك منهم المخلصين. سے مراد ہیں
قال علي وحمزة وجعفر والحسن والحسين وآل محمد صلوات الله عليهم خاصة.
حالانکہ چچا حمزہ تو اس دعوت ذی عشرہ کے بہت بعد ایمان لائے- حسن حسین پیدا نہ ہوئے تھے اور چچا عباس رضی الله عنہ کا تو ذکر ہی نہیں اور چچا ابی طالب تو آخری وقت تک ایمان نہ لائے ان کا ذکر بھی نہیں ، چچاابو لھب کا قرآن میں ہے وہ کافر مرا

اب اگر الفاظ تشریحی ہیں تو ان سے کیا مراد ہے بات یہ ہے کہ ایک خاندان میں سینکڑوں لوگ ہوتے ہیں دعوت توحید کس کو دی جائے اس کی وضاحت ہے کہ چند مخلص لوگوں کو دو جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے گمان کے مطابق ایمان لا سکتے تھے لیکن ان پر اس وقت خاندان میں بزرگ افراد میں کوئی بھی ایمان نہ لایا جبکہ واضح ہے کہ یہ دعوت سب سے پہلے انہی کے لئے تھی فتح الباری از ابن حجر کے مطابق واقدی کا قول ہے کہ ٤٥ لوگوں کی دعوت کی گئی
ابن اسحاق اور بیہقی کے مطابق صرف چالیس لوگ تھے
انذار تو کافر و مسلم دونوں کے لئے ہے اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس دعوت میں اپنی بیٹی فاطمہ کو الله کے عذاب سے ڈرایا کہ اے فاطمہ اپنے آپ کو عذاب الله سے بچاؤ
يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ وَيَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ

ایک اور زاویہ: کہا جاتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دعوت کی جس کو دعوت ذی عشیرہ کہا جاتا ہے اس میں خاندان والوں کو جمع کیا اس کے بعد توحید کی دعوت دی اور کوئی نہ تھا جو ایمان لاتا صرف ایک بچہ علی رضی الله عنہ تھے جو ایمان لائے
لیکن اسی بخاری کی وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ والی روایت میں ہے کسی دعوت کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم صفا پر کھڑے ہوئے اور تمام قریش کو ڈرایا جس پر ابو لھب نے برا بھلا کہا اور سوره لھب نازل ہوئی

لہذا تاریخ کی کتب کے مطابق ایک دعوت ہوئی جس میں خاندان والے تھے جبکہ صحیحین کے مطابق کوئی دعوت نہ ہوئی اب جب دعوت ہی نہیں ہوئی تو علی کا بچپن میں ایمان لانا ثابت نہیں ہوتا
یہ ایسا ہے کہ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ والی روایت کو مانا جائے تو دعوت ذی عشیره ثابت نہیں ہوتی

جواب

ابن کثیر کی کتاب البداية والنهاية  دیکھی اس میں وہ عبد الله بن عمرو کی روایت پر کہتے ہیں

وَرَفْعُهُ فِيهِ نَكَارَةٌ، لَعَلَّهُ مِنَ الزَّامِلَتَيْنِ اللَّتَيْنِ أَصَابَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَ الْيَرْمُوكِ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَكَانَ يُحَدِّثُ مِنْهُمَا أَشْيَاءَ غَرَائِبَ.

اور اس میں نکارت کو بلند کیا ہے لگتا ہے ان اونٹنیوں والی کتب جو  اہل کتاب میں سے تھیں جو ان کے ہاتھ لگیں یوم یرموک میں  پس اس سے غریب چیزیں روایت کرتے

اس بات کو سات دفعہ کتاب میں ابن کثیر نے لکھا ہے جس سے صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم سے ان کے بغض کا اندازہ ہوتا ہے

اس کتاب البداية والنهاية میں ابن کثیر ج ٢ ص ٢٩٩ کہتے ہیں کہ انکی روایات

وكان فيهما إسرائيليات يحدث منها وَفِيهِمَا مُنْكَرَاتٌ وَغَرَائِبُ.

ان  إسرائيليات میں سے تھیں جن کو عبد اللہ روایت کرتے اور ان میں منکرات اور غریب روایات تھیں

جن روایات پر ابن کثیر نے عبد الله بن عمرو پر إسرائيليات بیان کرنے کا الزام لگآیا ہے وہ سات روایات ہیں ان   سات  روایات کو

رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ  ( منکرات روایت کرنے کے لئے مشھور ہے قال البخارى : عنده مناكير)  نے

 مُجَاهِدٍ  ( سماع میں اختلاف ہے  اختلف في روايته عن عبد الله بن عمرو فقيل لم يسمع منه جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از  العلائي (المتوفى: 761هـ) )  نے

   وهب بن جابر  الخيوانى  (  مجھول ہے دیکھئے میزان الآعتدال از الذھبی) نے

حيي بن عبد الله بن شريح المعافري   (ضعیف) نے   روایت کیا ہے جو یا تو  ضیف  ہیں یا مجھول ہیں یا منکر روایت بیان کرنے کے لئے مشھور ہیں  تو عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کا کیا قصور ہے

تفسیر ابن کثیر میں سوره العمران ، الانعام میں بھی اس کو دہرایا

إنه من مفردات ابن لهيعة ، وهو ضعيف ، والأشبه – والله أعلم – أن يكون موقوفاً على عبد الله بن عمرو بن العاص ، ويكون من الزاملتين اللتين أصابها يوم اليرموك

بے شک اس میں ابن لهيعة کا تفرد ہے جو ضعیف ہے اور مجھ کو شبہ ہے الله کو پتا ہے کہ یہ روایت عبد الله بن عمرو بن موقوف ہے ہو سکتا ہے یہ ان میں سے  جو   دو اونٹنیوں پر لدی ہوئی تھیں

راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے

موطآ امام مالک کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ” كَانَ فِيمَا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْقُرْآنِ: عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ  مَعْلُومَاتٍ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُنَّ مِمَّا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ

امام مالک نے خبر دی انکو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ  نے خبر دی انکو عمرہ نے انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کیا کہ   اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے

جواب

امام مالک کی سند سے یہ صحیح مسلم، سنن النسائی، سنن ابی داود وغیرہ میں روایت ہوئی ہے  صرف امام بخاری نے اس کو درج نہیں کیا ہے

فقہاء کی ایک جماعت اس روایت کو صحیح کہتی اور دلیل لیتی ہے اور ایک جماعت رد کرتی ہے اسی طرح اہل تشیع بھی اس کو رد کرتے ہیں

کتاب  الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير  از الجورقاني (المتوفى: 543هـ) کے مطابق

وَقَدْ أَخَذَ بِهَذَا الْحَدِيثِ قَوْمٌ مِنَ الْفُقَهَاءِ مِنْهُمْ: الشَّافِعِيُّ وَإِسْحَاقُ وَغَيْرُهُمَا،  وَجَعَلُوا الْخَمْسَ حَدًّا بَيْنَ مَا يُحَرِّمُ وَبَيْنَ مَا لَا يُحَرِّمُ

اور اس حدیث کے فقہاء کی ایک قوم نے اخذ کیا ہے جن میں شافعی اور اسحاق اور دیگر ہیں کہ پانچ بار کی حد ہے جس سے حرمت اور غیر  حرمت ہوتی ہے-  یعنی   شوافع میں  پانچ بار دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ہو جائے گی- کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه   از   أبو يعقوب المروزي الكوسج (المتوفى: 251هـ)  کے مطابق امام احمد کہتے تھے إن ذهب ذاهب إلى خمس رضعات لم أعبه اگر وہ پانچ رضعات  تک جائے تو کوئی عیب نہیں ہے- لیکن بعد میں حنابلہ میں اس مسئلہ میں کئی رائے ہوئیں مثلا ابن قدامہ کتاب الهادي  یا عمدة الحازم  میں کہتے ہیں وَاخْتَلَفَ أَصْحَابُنَا في حَدِّ الرَّضْعَةِ اور ہمارے اصحاب کا حد رضاعت میں اختلاف ہے-  امام مالک کے بیان کردہ عائشہ رضی الله عنہا کے  اثر کے نیچے موطآ میں  لکھا ہے وليس العمل على هذا اور اس پر(مسلمانوں کا) عمل نہیں ہے-

  شعيب الأرنؤوط کتاب الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان میں اس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیں

قال الإمام البغوي في (شرح السنة) 9/81: اختلف أهل العلم فيما تثبت به الحرمة من الرضاع، فذهب جماعة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى أنه لا تثبت بأقل من خمس رضعات متفرقات، وبه كانت تفتي عائشة وبعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، وهو قول عبد الله بن الزبير، وإليه ذهب الشافعي وإسحاق، وقال أحمد: إن ذهب ذاهب إلى قول عائشة في خمس رضعات، فهو مذهب قوي، وذهب أكثر أهل العلم على أن قليل الرضاع وكثيره محرّم، يروى ذلك عن ابن عباس، وابن عمر، وبه قال سعيد بن المسيِّب، وعروة بن الزبير، والزهري، وهو قول سفيان الثوري، ومالك، والأوزاعي، وعبد الله بن المبارك، ووكيع، وأصحاب الرأي، وذهب أبو عبيد، وأبو ثور، وداود إلى أنه لا يحرم أقل من ثلاث رضعات، لقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَا تحرِّم المصَّة ولا المصتان”، ويحكى عن بعضهم أن التحريم لا يقع بأقل من عشر رضعات، وهو قول شاذ

امام البغوي شرح السنة میں کہتے ہیں اہل علم کا اختلاف ہے کہ حرمت رضاعت میں کیا ثابت ہے پس ایک اصحاب رسول کی جماعت کا  اور دیگر کا مذھب ہے کہ پانچ  مختلف رضعات  سے کم بار پر حرمت ثابت نہیں ہوتی اور اسی پر عائشہ اور بعض ازواج نبی فتوی دیتیں تھیں اور یہی قول ہے عبد الله بن زبیر کا اور اس پر مذھب ہے شافعی کا اسحاق کا اور امام احمد کہتے ہیں اگر میں جاؤں تو قول عائشہ پر جاؤں گا کہ حرمت پانچ رضعات پر ہے اور یہ مذھب قوی ہے اور اکثر اہل علم کا مذھب ہے کہ چاہے کم ہو یا زیادہ حرمت ہو جاتی ہے جو روایت کیا جاتا ہے ابن عباس و ابن عمر سے اور ایسا ہی سعید بن مسیب اور عروہ نے امام الزہری نے  کہا یہ قول ہے سفیان ثوری کا مالک کا الأوزاعي کا عبد الله بن مبارک کا وکیع کا اصحاب رائے کا –  ابو عبید، ابو ثور اور  داود  کا مذھب ہے  کہ حرمت نہیں ہوتی تین  رضعات  سے کم پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قول کے مطابق ایک دو بار چوسنے پر حرمت نہیں ہے اور بعض کی طرف سے بیان کیا گیا ہے کہ دس رضعات سے کم پر حرمت نہیں ہوتی اور یہ قول شاذ ہے

بعض احناف متقدمین  کے نزدیک  عائشہ رضی الله عنہا کی صحیح مسلم کی روایت معلول ہے اور کتاب شرح مشكل الآثار  میں امام ابو جعفر طحاوی کہتے ہیں

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَهَذَا مِمَّنْ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ كَمَا ذَكَرْنَا غَيْرَ عَبْدِ [ص:312] اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ عِنْدَنَا وَهْمٌ مِنْهُ , أَعْنِي: مَا فِيهِ مِمَّا حَكَاهُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا , أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ وَهُوَ مِمَّا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ لَوْ كَانَ كَذَلِكَ لَكَانَ كَسَائِرِ الْقُرْآنِ , وَلَجَازَ أَنْ يُقْرَأَ بِهِ فِي الصَّلَوَاتِ وَحَاشَ لِلَّهِ أَنْ يَكُونَ كَذَلِكَ , أَوْ يَكُونَ قَدْ بَقِيَ مِنَ الْقُرْآنِ مَا لَيْسَ فِي الْمَصَاحِفِ الَّتِي قَامَتْ بِهَا الْحُجَّةُ عَلَيْنَا , وَكَانَ مَنْ كَفَرَ [ص:313] بِحَرْفٍ مِمَّا فِيهَا كَافِرًا , وَلَكَانَ لَوْ بَقِيَ مِنَ الْقُرْآنِ غَيْرُ مَا فِيهَا لَجَازَ أَنْ يَكُونَ مَا فِيهَا مَنْسُوخًا لَا يَجِبُ الْعَمَلُ بِهِ , وَمَا لَيْسَ فِيهَا نَاسِخٌ يَجِبُ الْعَمَلُ بِهِ , وَفِي ذَلِكَ ارْتِفَاعُ وُجُوبِ الْعَمَلِ بِمَا فِي أَيْدِينَا , مِمَّا هُوَ الْقُرْآنُ عِنْدَنَا , وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا الْقَوْلِ وَمِمَّنْ يَقُولُهُ.

امام طحآوی کہتے ہیں؛ اور ہم نہیں جانتے اس کو کسی نے روایت کیا ہو سوائے عبد الله بن ابی بکر کے اور یہ انکا وہم ہے – کافی ہے جو عائشہ رضی الله عنہا سے حکایت کیا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور وہ قرآن میں جو تھا اس کی تلاوت کرتے تھے اور اگر ایسا (کچھ قرآن میں) ہوتا تو تمام قرآن ( کے نسخوں ) میں ایسا ہوتا اور جائز ہوتا کہ اس کو پنج وقتہ نماز میں بھی پڑھا جائے اور حاشا للہ ایسا نہیں ہے اور…. اور جو اس کے ایک حرف کا بھی انکار کرے کافر ہے اور اگر قرآن میں جو باقی ہے یہ سب نہیں ہے تو یہ  (عمل) منسوخ ہے اس پر عمل نہیں رہا اور اس میں جو ناسخ ہے اس پر عمل واجب ہے اور اس  بات سے اس قرآن پر  جو ہاتھوں میں ہے عمل  اٹھ جاتا ہے اور ہم الله سے اس قول پر پناہ مانگتے ہیں اور جو بھی ایسا کہے

یعنی امام طحآوی  اور احناف متقدمین سرے سے اس روایت کو صحیح ہی نہیں سمجھتے

  شعيب الأرنؤوط کتاب الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان میں اس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیں

وقول عائشة: فَتُوُفِّيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ فيما يقرأ في القرآن: أرادت به قرب عهد النسخ من وفات رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كان بعض من لم يبلغه النسخ يقرؤه على الرسم الأول، لأن النسخ لا يتصور بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويجوز بقاء الحكم مع نسخ التلاوة كالرجم في الزنى حكمه باق مع ارتفاع التلاوة في القرآن، لأن الحكم يثبت بأخبار الآحاد، ويجب العمل به، والقرآن لا يثبت بأخبار الآحاد، فلم يجز كِتبته بين الدفتين

اور عائشہ کا قول : پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور یہ قرآن میں تلاوت کی جاتی تھیں تو انکا  مقصد ہے کہ وفات النبی سے قبل اس دور میں جب نسخ کا دور تھا یہاں تک کہ بعض کو انکی منسوخیت نہیں پہنچی تو وہ اس کو رسم اول پر کی تلاوت کرتے رہے کیونکہ نسخ کا تصور رسول الله کے بعد متصور نہیں ہے اور یہ جائز ہے کہ حکم باقی رہے اور تلاوت منسوخ ہو جائے جیسے کہ رجم میں ہوا کہ اس کا حکم باقی ہے اور تلاوت قرآن میں سے اٹھ گئی ہے کیونکہ حکم ثابت ہے اخبار احاد سے اور اس پر عمل واجب ہے اور قرآن اخبار احاد سے ثابت نہیں ہوتا لہذا اس حکم کا   دفتیں میں لکھنا جائز نہیں

 شعيب الأرنؤوط نے اس  کے برعکس اس روایت کو صحیح کہا ہے اور اس کی تاویل کی ہے

اہل تشیع کے نزدیک روایت کی حیثیت

کتاب  الخلاف – الطوسي – ج 5 – ص 97 – 98 کے مطابق

. وروي عن النبي عليه السلام أنه قال : الرضاعة من المجاعة   يعني : ما سد الجوع . وقال عليه السلام : الرضاع ما أنبت اللحم وشد العظم   . وروى سفيان بن عيينة ، عن هشام بن عروة ، عن أبيه ، عن عبد الله بن الزبير : أن النبي عليه السلام قال : لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الرضعة ولا الرضعتان  . وروي عن عائشة أنها قالت : كان فيما أنزل الله في القرآن أن عشر رضعات معلومات يحرمن ، ثم نسخن بخمس معلومات ، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وآله وهي مما يقرأ من القرآن   . ووجه الدلالة أنها أخبرت أن عشر رضعات كان فيما أنزله ، وقولها : ( ثم نسخن بخمس رضعات ) قولها ، ولا خلاف أنه لا يقبل قول الراوي أنه نسخ ‹ صفحة 98 › كذا لكذا إلا أن يبين ما نسخه ، لينظر فيه هل هو نسخ أم لا ؟

اور روایت کیا گیا ہے نبی علیہ السلام سے کہ رضاعت  المجاعة  میں ہے یعنی بھوک مٹانے پر اور آپ علیہ السلام نے فرمایا رضاعت ہے جس پر گوشت پنپے اور ہڈی مظبوط ہو اور سفيان بن عيينة ، عن هشام بن عروة ، عن أبيه ، عن عبد الله بن الزبير سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا حرمت نہیں ہوتی ایک دو بار  چوسنے سے  اور عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے   اور وجہ دلیل یہ ہے کہ دس بار پلانے کی آیت نازل ہوئی تھی اور ان کا قول کہ پھر پانچ سے منسوخ ہوئی اور اس میں اختلاف نہیں کہ راوی کا قول قبول نہیں کیا جائے گا  جب وہ کہے یہ اور یہ  منسوخ ہے اور واضح نہ کرے کہ کیا نسخ ہے کہ دیکھیں کہ کیا یہ منسوخ تھا بھی یا نہیں

یعنی اہل تشیع اس عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کو قبول ہی نہیں کرتے –  ان کے ہاں کوئی حد رضاعت پر نہیں ملتی – اہل تشیع کے بعض جہلاء  نے اس روایت سے قرآن پر اعتراضات کیے ہیں جبکہ انکی اپنی کتب شاہد ہیں کہ یہ روایت ان کے ہاں قبول نہیں کی جاتی

بڑے آدمی کا حکم

سنن الکبری البیہقی میں ہے

كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا تَأْمُرُ بَنَاتِ أَخِيهَا أَنْ يُرْضِعْنَ مَنْ أَحَبَّتْ عَائِشَةُ أَنْ يَرَاهَا وَيَدْخُلُ عَلَيْهَا خَمْسَ رَضَعَاتٍ فَيَدْخُلُ عَلَيْهَا وَأَبَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخِلْنَ عَلَيْهِنَّ مِنَ النَّاسِ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ حَتَّى يُرْضِعْنَ فِي الْمَهْدِ وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا وَاللهِ مَا نَرَى لَعَلَّهَا رُخْصَةٌ لِسَالِمٍ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دُونَ النَّاسِ

  عائشہ رضی الله عنہا اپنی بھتیجیوں کو حکم کرتیں کہ وہ (کسی شخص کو) پانچ بار  دودھ پلا دیں جس کو وہ چاہتییں کہ ان کے پاس آئیں اور حجرہ میں داخل ہوں ، پس وہ داخل ہوتے اور ام سلمہ اور باقی ازواج رسول اس پر کہتیں کہ یہ رضاعت تو پالنے (پنگوڑے)  میں ( پیدائش سے دو سال کی مدت) ہی ہو سکتی ہے اور عائشہ سے کہتیں کہ ہم نہیں سمجھتیں کہ یہ رخصت سالم کے سوا رسول الله نے کسی اور کو دی

 یہ الفاظ سنن الکبری از البیہقی، مسند احمد اور سنن ابو داود میں  بیان ہوئے ہیں-  یہ  اضافہ راوی  امام الزہری یا عروہ بن زبیر  کا جملہ ہے- یہ اضافہ باقی راوی بیان  نہیں کرتے

 سنن الکبری از البیہقی کی سند   الليث بن سعد عن عقيل بن خالد الأيلي  عَنِ ابْنِ شِهَابٍ سے  ہے

کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال  از الذھبی  کے مطابق

وقال أحمد بن حنبل: ذكر عند يحيى القطان إبراهيم بن سعد وعقيل، فجعل كأنه يضعفهما

احمد کہتے ہیں يحيى القطان سے عقیل اور ابراہیم بن سعد کا ذکر ہوا انہوں نے ایسا کیا کہ گویا  دونوں ضعیف  ہیں

ابو داود  میں بھی یہ اضافہ بیان ہوا ہے جہاں اسکی  سند میں  عنبسة بن خالد الأموي ہے امام احمد کہتے

أي شئ خرج علينا من عنبسة؟ هل روى عنه غير أحمد بن صالح

کوئی سی ایسی چیز ہے جو عنبسة نے بیان کی اور اس سے احمد بن صالح کے سوا اور کون ہے جو روایت کرے؟

يحيى بن بكير عنبسة  کو مجنون أحمق کہتے ہیں (ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی ) اور تاریخ الاسلام از الذھبی کے مطابق یحیی بن بکیر کہتے ما كَانَ أهلا للأخذ عَنْهُ اس قابل نہیں کہ اس سے اخذ کیا جائے

یہ اضافہ  مسند احمد میں ابن أخي الزهري کی سند سے بھی آیا  ہے جس کا نام  محمد بن عبد الله بن مسلم ہے  جو  مختلف فيه ہے  ابن معين   اس کو ضعیف کہتے ہیں اور  المروذي کے مطابق امام احمد ضعیف گردانتے تھے

یعنی  عائشہ رضی الله عنہا سے منسوب یہ عمل صرف امام الزہری کی سند سے ہے جو تین راویوں نے بیان کیا ہے اور تینوں اتنے مظبوط نہیں کہ اس کو قبول کیا جائے – البتہ لوگوں نے اس اضافہ  کو شروحات میں بیان کیا ہے اس کی تاویلات کی ہیں  لیکن یہ اضافہ اوٹ پٹانگ قسم کی بات ہے –

صحيح بخارى و مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں  رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرے ہاں تشريف لائے تو ميرے پاس ايك شخص بيٹھا ہوا تھا آپ نے فرمايا  عائشہ يہ كون ہے ؟  تو ميں نے عرض كيا: يہ ميرا رضاعى بھائى ہے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا

اے عائشہ ديكھو كہ تمہارے بھائى كون ہيں، كيونكہ رضاعت بھوك سے ہوتى ہے

جب عائشہ رضی الله عنہ خود روایت کریں کہ رضاعت بھوک سے ہے تو ایک بڑی عمر کےشخص کے لئے اس کا حکم کیسے کر سکتی ہیں؟

رضاعت کی شرائط بچے کی دو سال کے عمر کے اندر کی ہے اس کے بعد ممکن نہیں ہے یہی فتوی ابن مسعود رضی الله عنہ سے مصنف عبد الرزاق میں بیان ہوا ہے

جواب
کعبه  الله کی   وجہ سے سال کے چار ماہ حرمت والے ہیں کیونکہ ان کا تعلق حج سے ہے  صحیح بخاری کے مطابق یہ چار ماہ ذو القعدةِ، وذو الحجّةِ، والمحرّمِ، ورجبُ ہیں کیونکہ  ذو القعدةِ، وذو الحجّةِ، والمحرّمِ  میں حج کا سفر اور حج ہوتا ہے اور رجب میں عمرہ کیا جاتا ہے

یہ مہینے  عربوں میں معروف تھے اور ہر شخص کے علم میں انکی حرمت تھی لیکن مشرکین خود  انکی پاسداری نہیں کرتے تھے  وہ مہینوں کو النسی سے بدل دیتے تھے  لہذا  جو حرمت وقت کی قید میں بندھی ہے وہ انسانی ہاتھوں میں تبدیل ہوتی رہی تھی – رسول اللہ صلی الله عالیہ وسلم کی  مدینہ آمد پر  ان مہینوں کی  حرمت کی پابندی وقتی ہٹا دی گئی

سوره البقرہ میں ہے

 يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ  قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ  وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّـهِ  وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ  وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا
ترجمہ:آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور الله کے راستہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس میں سے نکالنا الله کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر ان کا بس چلے۔

سوره البقرہ سن ٢ ہجری میں نازل ہوئی ہے  اس میں گنجائش پر بحث ہے کہ حرمت والے مہینے میں قتال کیوں جائز  کیا جا سکتا ہے- اس کا جواب دیا گیا کہ  مشرکین مکہ   کسی قاعدے کا احترام نہیں کر رہے لہذا اس ایسا کیا جا رہا ہے لیکن ان مہینوں کی حرمت مسلمہ ہے

آیات میں مضمر ہے کہ وقت انے پر اس حکم  کو تبدیل کیا جائے گا

لہذا  بعد میں سن 9 ہجری کے ذو الحجہ میں  ان مہینوں میں قتال  پر پابندی لگا دی گئی  کیونکہ مکہ فتح ہوا اور مشرکین کا نظم باقی نہ رہا لہذا واپس وہی نظم الہی حدود حرم پر نافذ کر دیا گیا

سوره التوبہ میں ہے

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ
بے شک اللہ کے ہاں ١٢ ماہ ہیں جس دن سے الله نے زمیں و آسمان کو خلق کیا ان میں چار حرمت والے ہیں

سوره المائدہ قرآن کی آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے جو دس ہجری میں نازل ہوئی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّـهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا  وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا  وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا  وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ  وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖإِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿ المائدة٢﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو اور نہ حرمت والے مہینے کو اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو اور نہ ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ حرمت والے گھر کی طرف آنے والوں کو جو اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی ڈھونڈتے ہیں اور جب تم احرام کھول دو پھر شکار کرو اور تمہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں نیک کام اور پرہیز گاری پر مدد کرو اورگناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے۔

سوره التوبہ سن 9 ہجری میں حج کے موقعہ پر  نازل ہوئی ہے لہذا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان مہینوں میں لشکر کشی  پر لوگوں کو 9 ہجری  تک  بھیجا – کتاب الأغصان الندية شرح الخلاصة البهية بترتيب أحداث السيرة النبوية از أبو أسماء محمد بن طه کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ٧٣ لشکر کشیاں کیں

سَرَايا الرَّسُولِ -صلى الله عليه وسلم- وهي ثلاث وسبعون سريةً:

1 – سرية حمزة بن عبد المطلب إلي سيف البحر في رمضان من السنة الأولي للهجرة.

2 – سرية عبيدة بن الحارث إلى بطن رابغ في شوال من السنة الأولى للهجرة.

3 – سرية سعد بن أبي وقاص إلى الخرار في ذي القعدة من السنة الأولى للهجرة.

——————  دوسری ہجری ———————————————

4 – سرية سعد بن أبي وقاص إلى حي من كنانة في رجب من السنة الثانية للهجرة.

5 – سرية عبد الله بن جحش إلى نخلة في رجب من السنة الثانية للهجرة.

6 – سرية عمير بن عدي لقتل عصماء بنت مروان في رمضان من السنة الثانية للهجرة.

7 – سرية سالم بن عمير إلى أبي عفك اليهودي في شوال من السنة الثانية للهجرة.

——————  تیسری ہجری ———————————————

8 – سرية محمَّد بن مسلمة لقتل كعب بن الأشراف في ربيع الأول من السنة الثالثة للهجرة.

9 – سرية زيد بن حارثة إلى القردة في جمادى الآخرة من السنة الثالثة للهجرة.

——————  چوتھی ہجری ———————————————

10 – سرية أبي سلمة إلى طليحة الأسدي في المحرم من السنة الرابعة للهجرة.

11 – سرية عبد الله بن أنيس إلى خالد الهذلي في المحرم من السنة الرابعة للهجرة.

12 – سرية الرجيعِ في صفر من السنة الرابعة للهجرة.

13 – سرية بئر معونة في صفر من السنة الرابعة للهجرة.

14 – سرية عمرو بن أمية لقتل أبي سفيان في السنة الرابعة للهجرة.

——————  پانچویں ہجری ———————————————

15 – سرية عبد الله بن عتيك لقتل أبي رافع سلام بن أبي الحقيق اليهودي في ذي الحجة من السنة الخامسة للهجرة.

——————  چھٹی ہجری ———————————————

16 – سرية محمد بن مسلمة إلى القرطاء في المحرم من السنة السادسة للهجرة.

17 – سرية عكاشة إلى الغمر في ربيع الأول من السنة السادسة للهجرة.

18 – سرية محمد بن مسلمة إلى ذي القصة في ربيع الآخر من السنة السادسة للهجرة.

19 – سرية أبي عبيدة إلى ذي القصة في ربيع الآخر من السنة السادسة للهجرة.

20 – سرية زيد بن حارثة إلى بني سليم بالجموم في ربيع الآخر من السنة السادسة للهجرة.

21 – سرية زيد بن حارثة إلى العيص في جمادى الأولى من السنة السادسة للهجرة.

22 – سرية زيد بن حارثة إلى الطرف في جمادى الآخرة من السنة  السادسة للهجرة.

23 – سرية زيد بن حارثة إلى حسمى في جمادى الآخرة من السنة السادسة للهجرة.

24 – سرية زيد بن حارثة إلى وادي القرى في رجب من السنة السادسة للهجرة.

25 – سرية عبد الرحمن بن عوف إلى دومة الجندل في شعبان من السنة السادسة للهجرة.

26 – سرية علي بن أبي طالب إلى فدك في شعبان من السنة السادسة للهجرة.

27 – سرية زيد بن حارثة إلى أم قرفة في رمضان من السنة السادسة للهجرة.

28 – سرية عبد الله بن رواحة إلى أسير بن زارم في شوال من السنة السادسة للهجرة.

29 – سرية كرز بن جابر إلى العرنيين في شوال من السنة السادسة للهجرة.

30 – سرية الخبط في السنة السادسة للهجرة.

31 – سرية بني عبس في السنة السادسة للهجرة.

——————  ساتویں ہجری ———————————————

32 – سرية أبان بن سعيد قبل نجد في السنة السابعة للهجرة.

33 – سرية غالب بن عبد الله الليثي إلى بني ثعلبة في صفرٍ من السنة السابعة للهجرة.

34 – سرية أبي بكر إلى بني فزارة بنجدٍ في شعبان من السنة السابعة للهجرة.

35 – سرية عمر بن الخطاب إلى تربة في شعبان من السنة السابعة للهجرة.

36 – سرية بشير بن سعدٍ إلى بني مرة بفدك في شعبان من السنة السابعة للهجرة.

37 – سرية غالب بن عبد الله الليثي إلى الميفعة في رمضان من السنة السابعة للهجرة.

38 – سرية بشير بن سعد إلى يمن وجبار في شوال من السنة السابعة للهجرة.

39 – سرية أبي العوجاء السلمي إلى بني سليم في ذي الحجة من السنة السابعة للهجرة.

——————  آٹھویں ہجری ———————————————

40 – سرية غالب بن عبد الله الليثي إلى بني الملوح بالكديد في صفر من السنة الثامنة للهجرة.

41 – سرية غالب بن عبد الله الليثي إلى فدك في صفر من السنة الثامنة للهجرة.

42 – سرية شجاع بن وهب الأسدي إلى بني عامر في ربيع الأول من السنة الثامنة للهجرة.

43 – سرية كعب بن عمير الغفاري إلى ذات أطلاح في ربيع الأول من السنة الثامنة للهجرة.

44 – سرية زيد بن حارثة إلى مدين في السنة الثامنة للهجرة.

45 – سرية مؤتة في جمادى الأولى من السنة الثامنة للهجرة.

46 – سرية ذات السلاسل في جمادى الآخرة من السنة الثامنة للهجرة.

47 – سرية أبي قتادة إلى خضرة في شعبان من السنة الثامنة للهجرة.

48 – سرية أبي حدردٍ إلى الغابة في شعبان من السنة الثامنة للهجرة.

49 – سرية أبي قتادة إلى إضمٍ في رمضان من السنة الثامنة للهجرة.

50 – سرية أسامة بن زيد إلى الحرقات في السنة الثامنة للهجرة.

51 – سرية خالد بن الوليد لهدم العُزى في رمضان من السنة الثامنة للهجرة.

52 – سرية عمرو بن العاص لهدم سواع في رمضان من السنة الثامنة للهجرة.

53 – سرية سعد بن زيد الأشهلي لهدم مناة في رمضان من السنة الثامنة للهجرة.

54 – سرية خالد بن الوليد إلى بني جذيمة في شوال من السنة الثامنة للهجرة.

55 – سرية قيس بن سعد بن عبادة إلى صُداءٍ في السنة الثامنة للهجرة.

56 – سرية أوطاس في شوال من السنة الثامنة للهجرة.

57 – سرية الطفيل بن عمرو الدوسي لهدم ذي الكفين في شوال من السنة الثامنة للهجرة.

——————  نویں ہجری ———————————————

58- سرية عيينة بن حصن إلى بني تميم في المحرم من السنة التاسعة للهجرة.

59 – سرية قطبة بن عامر إلى خثعم في صفر من السنة التاسعة للهجرة.

60 – سرية الضحاك بن سفيان إلى القرطاء في ربيع الأول من السنة التاسعة للهجرة.

61 – سرية علقمة بن مجزر إلى الأحباش بجدة في ربيع الآخر من السنة التاسعة للهجرة.

62 – سرية علي بن أبي طالب لهدم الفلس في ربيع الآخر من السنة التاسعة للهجرة.

63 – سرية عكاشة بن محصن إلى الجناب في ربيع الآخر من السنة التاسعة للهجرة.

64 – سرية طلحة بن عبيد الله لحرق بيت سويلم اليهودي في رجب من السنة التاسعة للهجرة.

65 – سرية خالد بن الوليد إلى أكيدر ملك دومة في رجب من السنة التاسعة للهجرة.

66 – سرية خالد بن الوليد إلى خثعم في السنة التاسعة للهجرة.

67 – سرية أبي سفيان والمغيرة بن شعبة لهدم اللات في رمضان من السنة التاسعة للهجرة.

68 – سرية خالد بن سعيد بن العاص إلى اليمن في السنة التاسعة للهجرة.

—- نو ہجری کے بعد — ذو القعدةِ، وذو الحجّةِ، والمحرّمِ، ورجبُ – کی حرمت کا حکم نافذ العمل ———-

69 – سرية خالد بن الوليد إلى بني عبد المدان بنجران في ربيع الأول من السنة العاشرة للهجرة.

70 – سريةٌ إلى رعية السحيمي في السنة العاشرة للهجرة.

71 – سيرة علي بن أبي طالب إلى اليمن في رمضان من السنة العاشرة من الهجرة.

72 – سرية جرير بن عبد الله البجلي لهدم ذي الخلصة في رمضان من السنة العاشرة للهجرة.

73 – سرية زيد بن حارثة إلى البلقاء بالشام في صفر من السنة الحادية عشر للهجرة.

جب مشرکین کا نظم  حدود حرم پر  باقی نہ رہا تو  واپس وہی نظم الہی حدود حرم پر نافذ کر دیا گیا جو شروع سے حکم تھا کہ چار مہینوں کی حرمت قائم کی جائے

قیامت کے دن کی طوالت کو بیان کرتے ہوئے قرآن سورۃ الحج میں بیان کر رہا ہے کہ

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَ‌بِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
﴿47﴾

ترجمہ: اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور خدا اپنا وعدہ ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ اور بےشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔

سورۃ السجدۃ میں بیان ہے کہ:

يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْ‌ضِ ثُمَّ يَعْرُ‌جُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿سورۃ السجدۃ:5﴾
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا۔

ان دونوں آیات کے مقابلے میں اب ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیں:

تَعْرُ‌جُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ

(سورۃ المعارج: 4)

فرشتے اور اہلِ ایمان کی روحیں اس کے پاس چڑھ کر جاتی ہیں (اور وہ عذاب) اس دن ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے.

سورۃ الحج اور سورۃ السجدۃ کی آیات میں تو قیامت کا دن ایک ہزار برس کا قرار دیا جا رہا ہے لیکن سورۃ المعارج کی آیت میں قیامت کی طوالت پچاس ہزار سال کے برابر بیان کی جارہی ہے،گویا قیامت کے دن کو قرآن کو ایک مقام (سورۃ الحج: 47، اور السجدۃ:5) پر ایک ہزار سال کے برابر بیان کر رہا ہے اور دوسرے مقام (سورۃ المعارج: 5) پر پچاس ہزار سال کے برابر قرار دے دیا۔

پلیز اس کی وضاحت کر دیں
الله آپ کو جزایۓ خیر دے امین

جواب
پہلی آیت ہے

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَ‌بِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
﴿47﴾

ترجمہ: اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور الله اپنا وعدہ ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ اور بےشک تمہارے رب کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔

یہاں الله کے نزدیک ایک یوم کی مقدار انسانی نسبت پر کی گئی ہے کہ
الله کے نزدیک ایک دن = انسان کے ہزار سال
برابر ہے

سورۃ السجدۃ میں بیان ہے کہ:

يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْ‌ضِ ثُمَّ يَعْرُ‌جُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿سورۃ السجدۃ:5﴾
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (تدبیری حکم پر نتیجہ) اوپر جاتا ہے اس کی طرف ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہے ۔

یہاں پر اس کا ترجمہ صحیح کیا گیا ہے کہ جو بھی الله کا حکم ہوتا ہے وہ آسمان سے زمین کی طرف اتا ہے یا واپس اس کا حکم اوپر جاتا ہے جو اگر انسان سفر کرے تو ہزار سال برابر ہے

تیسری آیت ہے

تَعْرُ‌جُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ

(سورۃ المعارج: 4)

فرشتے اورالروح اس کے پاس چڑھ جاتے ہیں اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے.

اوپر ترجمہ غلط ہے الروح سے مراد ایک واحد الروح ہے جو جبریل ہیں نہ کہ اہل ایمان کی روحیں دوم اس میں قیامت کا ذکر نہیں ہے

یعنی جہاں سے حکم زمین پر اتا ہے وہ مقام اس سے پہلے اتا ہے جہاں تک فرشتے جاتے ہیں

ان تینوں آیات میں کہیں بھی قیامت کا ذکر نہیں ہے پہلی آیت میں صرف عذاب کا ذکر ہے جو مرتے ہی شروع ہو جاتا ہے

ابو عبید قاسم اس پر ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہ سے کسی نے یہ سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ میں کتاب الله پر وہ نہیں بول سکتا جس کا علم نہ ہو

قال أبو عبيد: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن أيوب، عن ابن أبي مليكة، قال: سأل رجل ابن عباس عن: يوم كان مقداره ألف سنة؟.
فقال له ابن عباس: فما يوم كان مقداره خمسين ألف سنة؟.
فقال الرجل: إنما سألتك لتحدثني!.
فقال ابن عباس: هما يومان ذكرهما الله في كتابه، الله أعلم بهما.
فكَرِهَ أن يقول في كتاب الله ما لا يعلم.

اس کی سند میں ایوب السختیانی ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہے ہیں

تفسیر بغوی میں سوره الحج کی تفسیر میں لکھا ہے
[سورة الحج (22) : الآيات 52 الى 53] وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آياتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ (53)
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ، الْآيَةَ.
«1467» قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْمُفَسِّرِينَ: لَمَّا رَأَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَلِّي قَوْمِهِ عَنْهُ وَشَقَّ عَلَيْهِ مَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ عَمَّا جَاءَهُمْ بِهِ مِنَ اللَّهِ تَمَنَّى فِي نَفْسِهِ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنَ اللَّهِ مَا يُقَارِبُ بَيْنَهُ
وَبَيْنَ قَوْمِهِ لِحِرْصِهِ عَلَى إِيمَانِهِمْ، فكان يوما في مجلس لقريش فأنزل الله تعالى سورة والنجم فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ: أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَناةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى (20) [النجم: 19- 20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ بِمَا كَانَ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ وَيَتَمَنَّاهُ: تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى، فَلَمَّا سَمِعَتْ قُرَيْشٌ ذَلِكَ فَرِحُوا بِهِ وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِرَاءَتِهِ، فَقَرَأَ السُّورَةَ كُلَّهَا وَسَجَدَ فِي آخِرِ السُّورَةِ فَسَجَدَ الْمُسْلِمُونَ بِسُجُودِهِ وَسَجَدَ جَمِيعُ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَلَمْ يَبْقَ فِي الْمَسْجِدِ مُؤْمِنٌ وَلَا كَافِرٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَأَبُو أُحَيْحَةَ سَعِيدُ بْنُ العاصِ فَإِنَّهُمَا أَخَذَا حَفْنَةً مِنَ الْبَطْحَاءِ وَرَفَعَاهَا إِلَى جَبْهَتَيْهِمَا وَسَجَدَا عَلَيْهَا لِأَنَّهُمَا كَانَا شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَلَمْ يَسْتَطِيعَا السُّجُودَ، وَتَفَرَّقَتْ قُرَيْشٌ وَقَدْ سَرَّهُمْ مَا سَمِعُوا مِنْ ذِكْرِ آلِهَتِهِمْ وَيَقُولُونَ قَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدٌ آلِهَتَنَا بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ، وَقَالُوا قَدْ عَرَفْنَا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَيَخْلُقُ وَيَرْزُقُ وَلَكِنَّ آلِهَتَنَا هذه تشفع لنا عنده، فإن جعل لها محمد نَصِيبًا فَنَحْنُ مَعَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَاذَا صَنَعْتَ لَقَدْ تَلَوْتَ عَلَى النَّاسِ مَا لَمْ آتِكَ بِهِ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَحَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزْنًا شَدِيدًا وَخَافَ من الله خوفا كبيرا [1] فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ يُعَزِّيهِ وَكَانَ بِهِ رَحِيمًا، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَنْ كَانَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَلَغَهُمْ سُجُودُ قُرَيْشٍ. وَقِيلَ: [قد] [2] أَسْلَمَتْ قُرَيْشٌ وَأَهْلُ مَكَّةَ فَرَجَعَ أَكْثَرُهُمْ إِلَى عَشَائِرِهِمْ، وَقَالُوا: هُمْ أَحَبُّ إِلَيْنَا حَتَّى إِذَا دَنَوْا مِنْ مَكَّةَ بَلَغَهُمْ أَنَّ الَّذِي كَانُوا تُحَدَّثُوا بِهِ [3] مِنْ إِسْلَامِ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ بَاطِلًا فَلَمْ يَدْخُلْ أَحَدٌ إِلَّا بِجِوَارٍ أَوْ مُسْتَخْفِيًا فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَالَتْ قُرَيْشٌ: نَدِمَ مُحَمَّدٌ عَلَى مَا ذَكَرَ مِنْ مَنْزِلَةِ آلِهَتِنَا عِنْدَ اللَّهِ فَغَيَّرَ ذَلِكَ وَكَانَ الْحَرْفَانِ اللَّذَانِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَا فِي فَمِ كُلِّ مُشْرِكٍ فَازْدَادُوا شَرًّا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ، وَشِدَّةً عَلَى مَنْ أَسْلَمَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَهُوَ الَّذِي يَأْتِيهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ عَيَانًا، وَلَا نَبِيٍّ، وَهُوَ الَّذِي تَكُونُ نُبُوَّتُهُ إِلْهَامًا أو مناما، فكل رَسُولٍ نَبِيٌّ، وَلَيْسَ كُلُّ نَبِيٍّ رَسُولًا. إِلَّا إِذَا تَمَنَّى، قَالَ بَعْضُهُمْ: أَيْ: أَحَبَّ شَيْئًا وَاشْتَهَاهُ وحدّث به نفسه مما لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ في أمنيته يعني مُرَادِهِ. وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِذَا حَدَّثَ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي حديثه ما وجد إِلَيْهِ سَبِيلًا، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا تَمَنَّى أَنْ يُؤْمِنَ بِهِ قومه ولم يتمنى ذَلِكَ نَبِيٌّ إِلَّا أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ مَا يَرْضَى بِهِ قَوْمُهُ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ.

عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ چاہت تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے افراٴیتم اللات و العزیٰ و مناة الثالثة الاخریٰ تو شیطان نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی ﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو آپ صلی الله علیہ وسلم بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو رحم آیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾

لنک

http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=51&surano=22&ayano=52

جواب

جواب یہ واقعہ اپنے اضطراب کے ساتھ کئی اور تفاسیر میں بھی بیان ہوا ہے مثلا

تفسير مقاتل بن سليمان المتوفی ١٥٠ ھ
تفسير يحيى بن سلام المتوفی ٢٠٠ ھ
تفسیر الطبری ٣١٠ ھ
تفسیر ابن أبي زَمَنِين المتوفی ٣٩٩ ھ
تفسیر الثعلبي، أبو إسحاق المتوفى ٤٢٧ھ

تفسیر بغوی

ان آیات کے الفاظ عربوں میں مشهور تھے اور یہ دیویوں کا بھجن تھے
فَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى وَإِنَّهَا لِمَنَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى
یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے

لہذا یہ کوئی ایسی آیات نہ تھی جو مشرکین نہ سنتے ہوں

ابن كثير الدمشقي نے اور الألوسي اس واقعہ کا انکار کیا اور ابن حجر المصري نے اس کا استقرار اور ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ اس کا کوئی اصل تھا جس پر البانی نے ابن حجر عسقلانی پر جرح کی ہے
ابن تیمیہ نے اس کی تاویل کی ہے اپنے فتاوی ج ١٠ ص ٢٩١ میں کہتے ہیں
قَالَ هَذَا أَلْقَاهُ الشَّيْطَانُ فِي مَسَامِعِهِمْ وَلَمْ يَلْفِظْ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ شیطان کا القا تھا مشرکین کے کانوں پر اور یہ رسول الله کے الفاظ نہ تھے
الذھبی نے سير أعلام النبلاء ج 1 ص 149 پر اس کا ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی ہے

الزمخشري معتزلی نے الکشاف میں اس کو بیان کیا ہے کوئی جرح نہیں کی
دكتور عمر عبد السلام التدمري تاريخ ألإسلام از الذھبی پر اپنی تعلیق میں لکھتے ہیں
وقال الحافظ البيهقي في دلائل النبوّة 2/ 62: هذه القصة غير ثابتة من جهة النقل. وبيّن جرح رواتها وطعن حملة العلم فيهم. وفي «البحر» أنّ هذه القصة سئل عنها محمد بن إسحاق صاحب «السيرة» فقال: هذا من وضع الزنادقة. وقال أبو منصور الماتريديّ: الصّواب أنّ قوله «تلك الغرانيق إلخ» من جملة إيحاء الشيطان إلى أوليائه من الزّنادقة، والرسالة بريئة من هذه الرواية.
وقال القاضي عياض في الشفاء 2/ 28: يكفيك أنّ هذا الحديث لم يخرجه أحد من أهل الصّحة، ولا رواه ثقة بسند سليم متصل، مع ضعف نقلته، واضطراب رواياته، وانقطاع إسناده، واختلاف كلماته.
وقد فصّل القاضي عياض عدم صحّة هذه الرواية من عدّة وجوه يحسن مراجعتها. في كتابه الشفاء 2/ 116- 123، وانظر تفسير القرطبي 12/ 82، والنويري في نهاية الأرب 16/ 235- 241.
بیہقی نے دلائل النبوه میں کہا ہے یہ قصہ غیر ثابت ہے نقلی لحاظ سے اور البحر از أبو حيان میں ہے کہ ابن اسحاق سے اس قصہ پر سوال ہوا تو کہا یہ زنادقه کا گھڑا ہوا ہے اور ابو منصور ماتریدی کہتے ہیں ٹھیک یہ قول ہے کہ تلک الغرانیق کا قول شیطان کی اپنے اولیاء پر وحی ہے اور قاضی عیاض کہتے ہیں یہی کافی ہے کہ اہل صحت میں سے کسی نے اس کی تخریج نہیں کی نہ اس کے راوی متصل سند ہیں ثقاہت کے ساتھ پھر انکا نقل میں کمزور ہونا ہے اور روایات کا اضطراب ہے اور اسناد میں انقطاع ہے اور کلمات کا اختلاف ہے انتھی

اس پورے قصے کو محمد بن قيس بن مخرمة اور محمد بن کعب سے محمد بن السائب بن بشر الکلبی المتوفی ١٤٦ ھ منسوب کرتا ہے اسی طرح أبي العالية البصرى المتوفی ٩٣ ھ، السدی کوفی مَولَى قَيس بْن مَخرَمَة المتوفی ١٢٧ ھ ، قتادہ بصری المتوفی ١١٨ ھ نے بھی اس پر تبصرے کیے ہیں اس کے علاوہ اس کو عثمان بن الأسود مکی المتوفی ١٥٠ھ ، عن سعيد بن جبير المتوفی ٩٥ ھ ، عن ابن عباس کی سند سے بھی بیان کیا گیا ہے مثلا اسباب النزول الواحدی میں اور ابن مردويه میں
اسی طرح أبي بشر جعفر بن إياس بصری المتوفی ١٢٦ ھ کی سند سے یہ سعید بن جبیر کا مرسل قول ہے

لہذا سب سے پہلے اس واقعہ کا ذکر بصریوں مثلا رفيع بْن مهران بصري المعروف بأبي العالية الرياحي المتوفی ٩٠ یا ٩٣ ھ نے مرسل روایت کیا ہے اور قتادہ البصری المتوفی ١١٨ھ نے روایت کیا ہے  – قتادہ خود بھی أَبُو الْعَالِيَةِ البصری کے شاگرد ہیں دونوں مدلس ہیں -ایک طرف تو بصرہ میں اس کو قتادہ بیان کرتے ہیں دوسری طرف مکہ میں سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ  بھی ابن عباس سے اس کو روایت  کرتے ہیں-  یعنی لگ بھگ سن ٨٠ ھ کے بعد اس قصہ کا دور شروع ہوا اور اس کا گڑھ بصرہ تھا وہاں سے یہ مکہ پہنچا اور اس کو ابن عباس رضی الله سے منسوب کیا گیا ہے

کتاب المعرفۃ والتاریخ: 2/148  از الفسوی کے مطابق شعبہ نے کہا

لم يسمع قتادة من أبي العالية إلا ثلاثة أشياء. قلت ليحيى عدها، قال قول على رضي الله عنه القضاه ثلاثة، وحديث: لا صلاه بعد العصر، وحديث يونس بن متى.

قتادہ نے ابی العالیہ سے صرف تین چیزیں سنیں میں نے یحیی سے کہا ان کو گن دیجیے کہا علی رضی الله عنہ کا قول فیصلوں کے بارے میں اور حدیث کہ عصر کے بعد نماز نہیں اور حدیث یونس بن متی

یعنی بصرہ میں  اس روایت کا منبع قتادہ ہوئے جو  اس کا ذکر کرتے ہیں یہ سخت مدلس تھے اور روایت جس سے سن لیں اس کا نام بعض اوقات نہیں لیتے

امام یحیی بن معین نے فرمایا: “لم يلق سَعِيد بن جبير، ولا مجاهدا ولا سُلَيْمان بن يسار” قتادہ نے سعید بن جبیر، مجاہد، اور سلیمان بن یسار میں سے کسی کو نہیں پایا۔ سوالات ابن الجنید: ص 26

یعنی سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ کو یہ روایت قتادہ سے نہیں ملی

اس کی دو سندیں ہیں

أَبِي بِشْرٍ بصری  ( جعفر بن إياس، وهو ابن أبي وَحْشِيَّة المتوفی ١٢٤ ھ )، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

المعجم الكبير از طبرانی اور  مسند البزار

اور

عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ المکی المتوفی ١٤٧ ھ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

یعنی ایک بصری اور ایک مکی نے اس روایت کو سعید بن جبیر سے منسوب کیا ہے اس میں جعفر بن ایاس کو محدثین ثقہ کہتے ہیں اور عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ کو بھی ثقہ کہتے ہیں

یعنی محدثین کے مطابق اس روایت کا بار سعید بن جبیر نے اٹھا لیا  کیونکہ اس کی سند میں ثقات ہیں ابن عباس رضی الله عنہ کے شاگردوں میں اس کو صرف سعید بن جبیر ہی روایت کرتے ہیں

حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو قتل کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید یہ روایت ہے

روایت پسندی صحیح نہیں ہے  سنن دارمی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا يُخَالِفُ هَذَا، قَالَ: «لَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَرِّضُ فِيهِ بِكِتَابِ اللَّهِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مِنْكَ»

سعید بن جبیر  نے ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہہ دیا : قرآن میں اس کےخلاف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا : میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو اس کے خلاف اللہ کی کتاب پیش کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر جانتے تھے۔

آج علماء یہی کہہ رہے ہیں کہ غرانیق والی روایت باوجود یہ کہ سعید بن جبیر سے ثقات نے روایت کی ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس کے خلاف موجود ہے کہ رسول الله سے غلطی نہیں ہو سکتی لہٰذا راقم کہتا ہے اس قسم کی روایات کا بار راویوں پر ہے

البانی نے نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق میں اس کی  اسناد کو جمع کیا اور کہا  ہے کہ تمام ضعیف ہیں بلکہ موضوع ہیں – علماء جو اس روایت کے خلاف ہیں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قتادہ یا سعید بن جبیر نے اس قسم کی فضول روایت کیوں بیان کی

سوره حج کی آیات مدنی ہیں اور سوره النجم مکی سوره ہے ظاہر ہے اتنے طویل عرصے کے بعد اس پر تبصرہ کوئی معنی نہیں رکھتا

سوره الحج کی آیات ہے

وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

جو ہماری نشانیوں کو ناکام  کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ جہنم کے لوگ ہیں اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی نبی و رسول نہ بھیجا سوائے اس کے کہ جب  وہ تمنا  (خواہش) کرے تو شیطان  اس کی تمنا میں  اپنا القا ڈالے  پھر ہم مستحکم کرتے ہیں اپنی نشانیوں کو اور الله بہت جاننے والا حکمت والا ہے تاکہ شیطان نے جو القا کیا ہے اس کو ان لوگوں کے لئے فتنہ بنا دے جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دلوں کی کاٹ بنا  دے اور بے شک ظالم لوگوں کے لئے علیحدگی  کی  دوری ہے

یعنی ہر نبی و رسول کی خواہش میں شیطان نے اپنی خواہش ملانے کی کوشش کی اور الله نے اپنی نشانیوں کو اثبات عطا کیا آیات کا سیاق و سباق ہے کہ مدینہ میں مسلمانوں کو مشرکین مکہ سے قتال کی اجازت دی گئی ہے مشرکین عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور الله اپنی نشانیوں کو مستحکم کر رہا ہے کہ اس نے رسول الله کو پہلے ہی  خبر دی تھی کہ الله انکی مدد کرے گا لیکن رسول کی خواہش تھی کہ سارے مشرکین مسلمان ہو جائیں شیطان نے اس تمنا کو بڑھاوا دیا اورالله نے اس تمنا  میں شیطانی القا کو ختم کر دیا اور ظالم لوگ یعنی منافقین کے دلوں کا روگ بنا دیآ

انبیاء میں خواہش و تمنا ہوتی ہے کہ کوئی شخص ایمان لے آئے لیکن وہ بد نصیب نہیں لاتا مثلا نوح علیہ السلام کا بیٹا یا ابو جھل وغیرہ جن پر انبیاء کو خواہش تھی کہ ایمان لائیں لیکن نہیں لائے یہی القا شیطانی ہے کہ الله کہتا ہے وہ باطل کی کمر توڑ دے گا لیکن نبی کو خواہش ہوتی کہ سب ایمان لائیں

جواب

طبری کی ایک روایت کے مطابق یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کاتب تھے پس جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم انکو املا کراتے تو کہتے سمیعآ علیما لیکن یہ لکھ دیتے علیما حکیما اور جب رسول الله کہتے علیما حکیما یہ لکھ دیتے سمیعا علیما- (لیکن رسول اللہ بعد میں اس پر کوئی اعتراض نہ کرتے) پس عبد الله کو اس پر شک ہوا اور وہ کافر ہو گیا

اس روایت کی سند میں اسباط بن نصر اور السدی ہے- دونوں سخت ضعیف ہیں

ان کا ایک قصہ مفسرین نے سوره المومنون کے لئے لکھا ہے جو مکی سوره ہے کہ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جب و لقد خلقنا الانسان من سلالہ من طین  نازل ہوئی اور اس آیت تک پہنچے ثم انشاناہ خلقا آخر عبد الله کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا فتبارک الله احسن الخالقین – اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا اس کو لکھ دو – عبد الله نے اس وقت تو لکھ دیا لیکن شک میں آ گیا کہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) تو جو میں لقمہ دیتا ہوں اسکو ہی وحی بنا دیتے ہیں

آپ دیکھ سکتے ہیں کس قدر بکواس  اور لچر بات کی گئی ہے نہ صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے بلکہ ایک صحابی کے لئے بھی- افسوس مفسرین نے اس بات کو تفسیر میں لکھا ہے مثلا بیضآوی وغیرہ نے ، امام حاکم صاحب مستدرک نے، طبری نے-

سنن ابو داود میں انکے  قصہ میں ہے کہ  فتح مکہ کے روز جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تو عثمان رضی الله عنہ اپنے اس رضاعی بھائی عبد اللہ کو لائے اور رسول الله سے درخواست کی کہ اس سے بھی بیعت لے لیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا- عثمان کے تین بار اصرار پر آپ نے بیعت لے لی- اور پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم میں کوئی عقل مند نہ تھا جو اس کو برداشت نہ کر پاتا اور اس عبد الله کا قتل کرتا؟ اصحاب نے کہا یا رسول الله ہم کو آپ کے دل کا حال معلوم نہیں آپ آنکھ سے اشارہ کر دیتے – رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ رسول الله کے لئے مناسب نہیں کہ دھوکہ والے آنکھ ہو

اس کی سند میں اسباط بن نصر اور السدی ہے دونوں ضعیف ہیں

 النسائي: كِتَابُ المُحَارَبَة (بَابٌ الْحُكْمُ فِي الْمُرْتَدِّ) سنن نسائی: کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان

(باب: مرتد کا حکم)

4072 .

أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُفَضَّلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ قَالَ: زَعَمَ السُّدِّيُّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ: «اقْتُلُوهُمْ، وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ»، فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِكَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَاسْتَبَقَ إِلَيْهِ سَعِيدُ بْنُ حُرَيْثٍ وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَسَبَقَ سَعِيدٌ عَمَّارًا، وَكَانَ أَشَبَّ الرَّجُلَيْنِ فَقَتَلَهُ، وَأَمَّا مَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ فَأَدْرَكَهُ النَّاسُ فِي السُّوقِ فَقَتَلُوهُ، وَأَمَّا عِكْرِمَةُ فَرَكِبَ الْبَحْرَ، فَأَصَابَتْهُمْ عَاصِفٌ، فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِينَةِ: أَخْلِصُوا، فَإِنَّ آلِهَتَكُمْ لَا تُغْنِي عَنْكُمْ شَيْئًا هَاهُنَا. فَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَاللَّهِ لَئِنْ لَمْ يُنَجِّنِي مِنَ الْبَحْرِ إِلَّا الْإِخْلَاصُ، لَا يُنَجِّينِي فِي الْبَرِّ غَيْرُهُ، اللَّهُمَّ إِنَّ لَكَ عَلَيَّ عَهْدًا، إِنْ أَنْتَ عَافَيْتَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ أَنْ آتِيَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَضَعَ يَدِي فِي يَدِهِ، فَلَأَجِدَنَّهُ عَفُوًّا كَرِيمًا، فَجَاءَ فَأَسْلَمَ، وَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ، فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ، جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى، فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ» فَقَالُوا: وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِكَ، هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ؟ قَالَ: «إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ»

حکم : صحیح 4072

حضرت مصعب بن سعد اپنے والد محترم (حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیان فرماتے ہیں: جس دن مکہ مکرمہ فتح ہوا، رسول اللہﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا تمام لوگوں کو امان دے دی۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم ان کو کعبہ شریف کے پردوں سے لٹکا وہا پائو، تب بھی قتل کر دو۔‘‘ (وہ چار مرد یہ تھے:) عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔ عبداللہ بن خطل کعبے کے پردوں سے لٹکا ہوا پایا گیا۔ حضرت سعید بن حریث اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی طرف لپکے۔ سعید عمار سے پہلے پہنچ گئے کیونکہ وہ عمار کی نسبت جوان تھے۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں پکڑ لیا اور قتل کر دیا۔ عکرمہ بھاگ کر سمندر میں کشتی پر سوار ہو گیا۔ بہت تیز ہوا چل پڑی۔ (کشتی طوفان میں پھنس گئی۔) کشتی والے کہنے لگے: اب خالص اللہ تعالیٰ کو پکارو کیونکہ تمہارے معبود (بت وغیرہ) یہاں (طوفان میں) تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔ عکرمہ نے کہا: اگر سمندر میں خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنے کے علاوہ نجات نہیں تو خشکی میں بھی خالص اللہ تعالیٰ کو پکارے بغیر نجات نہیں مل سکتی۔ اے اللہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھے اس مصیبت سے، جس میں میں پھنس چکا ہوں، بچا لے تو میں ضرور حضرت محمدﷺ کے پاس جا کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ میں انہیں بہت زیادہ معاف کرنے والا اور احسان کرنے والا پائوں گا۔ پھر وہ آئے اور مسلمان ہو گئے۔ باقی رہا عبداللہ بن ابی سرح! تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چھپ گیا۔ جب رسول اللہﷺ نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو حضرت عثمان اسے لے کر آئے حتیٰ کہ اسے بالکل آپ کے پاس کھڑا کر دیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! عبداللہ سے بیعت لے لیں۔ آپ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگے۔ تین بار حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہی گزارش کی۔ آپ ہر دفعہ (عملاً) انکار فرما رہے تھے۔ آخر تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی، پھر آپ اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تم میں کوئی سمجھ دار شخص نہیں تھا کہ جب تم دیکھ رہے تھے کہ میں نے اس کی بیعت لینے سے ہاتھ روک رکھا ہے تو کوئی شخص اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کے دل میں کیا ہے؟ آپ آنکھ سے ہلکا سا اشارہ فرما دیتے۔ آپ نے فرمایا: ’’نبی کے لائق نہیں کہ اس کی آنکھ خائن ہو۔‘‘

اوپر دی گئی تمام روایات   چار راویوں کا بیان کردہ  قصہ ہیں  جن میں ہیں

پہلی سند :  إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى المتوفی ١٢٧ ھ سے اسباط بن نصر کی روایت

اسباط بن نصر  – ابن معين اور   أبو نعيم اسکو ضعیف کہتے ہیں – النسائي ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں – کتاب  الجرح و التعدیل کے مطابق

حرب بن إسماعيل: قلت لأحمد: أسباط بن نصر الكوفي، الذي يروي عن السدي، كيف حديثه؟ قال: ما أدري، وكأنه ضعفه.

حرب بن إسماعيل نے احمد سے پوچھا کہ اسباط بن نصر جو السدی سے روایت کرتا ہے اس کی حدیث کیسی ہے ؟ احمد نے کہا کیا پتا گویا کہ اس کو ضعیف گردانآ

اسباط کا استاد  إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى المتوفی ١٢٧ ھ  ہے

  الشَّعْبِيَّ  اس کے لئے کہتے

إِنَّ إِسْمَاعِيْلَ قَدْ أُعْطِيَ حَظّاً مِنَ الجَهْلِ بِالقُرْآنِ

نے شک السدی کو قرآن پر جھل بکنے کا ایک حصہ عطا کیا گیا ہے

أبو حاتم کہتے ہیں  لا يحتج بقوله اس کے قول سے دلیل نہ لی جائے

دوسری سند : حازم بن عطاء، أبو خلف الأعمى کی روایت

حازم بن عطاء، أبو خلف الأعمى – ابی حاتم کہتے ہیں منكر الحديث، ليس بالقوي منکر حدیث ہے قوی نہیں ہے – الذھبی کہتے ہیں ضعفوه اس کی تضعیف کی گئی ہے- يحيى بن معين اس کو کذاب کہتے ہیں – ابن حجر متروک کہتے ہیں

تیسری سند: شرحبیل بن سعد المدنی المتوفی ١٢٣ ھ کی روایت

شرحبیل بن سعد المدنی المتوفی ١٢٣ ھ – ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وليس يحتج به اس قابل نہیں کہ دلیل لی جائے –    أبو حاتم ضعيف الحديث کہتے ہیں – الدارقطني بھی ضعيف کہتے ہیں – یحیی ابن معین بھی ضعیف کہتے ہیں – امام مالک ليس بثقة کہتے ہیں – يحيى القطان کہتے ہیں ہم اس سے کچھ روایت نہیں کرتے – ابن الجارود: ليس بشيء، ضعيف، کوئی چیز نہیں ضعیف ہے اور  أبو العرب وابن السكن والبلخي والعقيلي  نے  الضعفاء میں شمار کیا ہے –  الساجي ضعيف کہتے ہیں

ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے-  امام حاکم نے اس احمق کی روایت مستدرک میں لکھ کر “دینی خدمت” کی

سوره المومنون مکی سوره ہے اور مورخین کے بقول ابن ابی السرح کا ارتاد مدینہ میں ہوا  جس سے ظاہر ہے یہ سب بکواس ہے

چوتھی سند

سنن النسائي 4074 : كِتَابُ المُحَارَبَة (بَابُ تَوْبَةِ الْمُرْتَدِّ) سنن نسائی: کتاب: کافروں سے لڑائی اور جنگ کا بیان باب: مرتد کی توبہ  قبول ہو سکتی ہے

. أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فِي سُورَةِ النَّحْلِ: {مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ} [النحل: 106] إِلَى قَوْلِهِ {لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ} [النحل: 106] فَنُسِخَ، وَاسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ: {ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ} [النحل: 110] «وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ الَّذِي كَانَ عَلَى مِصْرَ كَانَ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَزَلَّهُ الشَّيْطَانُ، فَلَحِقَ بِالْكُفَّارِ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سورہ نحل کی آیت: {مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ …} ’’جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جس پر جبر کیا گیا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا، لیکن جس نے کفر کے لیے اپنا سینہ کھول دیا (راضی خوشی کفر کیا) تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ پھر اسے منسوخ کر دیا گیا، یعنی اس سے یہ مستثنیٰ کر لیا گیا۔ {ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا …} ’’پھر تیرا رب ان لوگوں کو جنہوں نے آزمائش میں پڑنے کے بعد ہجرت کی، پھر جہاد کیا اور صبر کیا (ثابت قدم رہے) بے شک آپ کا رب ان (آزمائشوں) کے بعد (ان لوگوں کو) بہت معاف فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اس سے مراد عبداللہ بن سعد بن ابو سرح ہیں جو (بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں) مصر کے گورنر رہے۔ رسول اللہﷺ کے لیے (وحی و خطوط وغیرہ) لکھا کرتے تھے۔ شیطان نے انہیں پھسلا دیا اور وہ کافروں سے جا ملے۔ فتح مکہ کے دن آپ نے ان کے قتل کا حکم جاری فرما دیا لیکن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کیل یے پناہ مانگی تو رسول اللہﷺ نے انہیں پناہ دے دی (اور ان کا اسلام قبول کر لیا

یہ روایت صحیح نہیں  کیونکہ اس میں سوره النحل کی مکی سوره میں آیات  میں ناسخ و منسوخ قرار دیا گیا ہے

ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَصَبَرُوْٓا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

النحل آیت ١١٠ ہے

سند میں عَلِيُّ بنُ الحُسَيْنِ بنِ وَاقِدٍ أَبُو الحَسَنِ المَرْوَزِيُّ  ہے جس کو  أَبُو حَاتِمٍ: ضَعِيْفُ الحَدِيْثِ کہا ہے

الحُسَيْنِ بنِ وَاقِدٍ مدلس بھی ہے اور یہاں عنعنہ ہے

روایت کا سیاسی مقصد

روایت اصلا عثمان رضی الله عنہ پر الزام لگانے کے لئے گھڑی گئی ہے – عثمان رضی الله عنہ  اور عبد الله بن سعد بن ابی السرح رضی الله عنہ رضاعی بھائی تھے – عبد الله رضی الله عنہ  کو عثمان رضی الله عنہ  نے اپنے دور خلافت میں مصر کا گورنر مقرر کیا- مصر ایک زرخیز علاقہ تھا اور وہاں سے کافی مال اتا تھا اس پر بہت سوں کی نظر تھی- عثمان رضی الله عنہ نے اپنے لے پالک محمد بن ابی حذیفہ کو عبد الله رضی الله عنہ کا نائب بنا کر مصر بھیجا – وہاں عبد الله کی غیر موجودگی میں  محمد نے ” بغاوت ” کی اور خود سب کنٹرول میں لیا-  عثمان رضی الله عنہ نے علی کے سوتیلے  بیٹے محمد بن ابی بکر  کو محمد بن ابی حذیفہ کی جگہ بھیجا  کیونکہ دونوں دوست تھے اور ممکن تھا یہ مسئلہ حل ہو جاتا لیکن نمک حرام ابن ابی حذیفہ نے ابن ابی بکر کو کہا کہ عثمان نے تمہارے قتل کا آرڈر بھیجا ہے -اس کے بعد  دونوں اس جھوٹے الزام کی آڑ میں مدینہ پر چڑھ دوڑارے اور عثمان رضی الله عنہ  کا قتل کیا – عبد الله رضی الله عنہ اس وقت مصر میں نہیں تھے جب ان کو اس بغآوت کا علم ہوا وہ شام چلے گئے اور کسی بھی جنگ میں حصہ نہ لیا اور شام میں ہی وفات پا گئے

  سن ١٠٠ ہجری کے پاس جا کر اس سارے بلوے کو سند جواز دینے کے لئے یہ روایآت بنا دی گئیں کہ عثمان رضی الله عنہ کے رضاعی بھائی تو مرتد تھے-  تاریخآ نبی صلی الله علیہ وسلم نے مرتدین کا قتل ہی کرایا مثلا ابن حنطل مرتد کو  فتح مکہ پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ قتل کرنے کا حکم دیا-  اگر ایسا ہوتا تو صحیح سندوں سے یہ  ہم تک ١٠٠ ہجری سے پہلے ہی آ جاتا

جواب

سوره الاحزاب قرآن کی ایک اہم سورہ ہے اس میں جنگ خندق پر بحث ہے اس میں پردے کا حکم ہے اس میں زینب
بنت جحش سے نکاح کا حکم ہے
زينب بنت جحش رضی الله عنہا سے شادی کے حوالے سے کتاب جمل من أنساب الأشراف میں بلاذری نے لکھا ہے
ويقال إنه تزوجها رجوعه من غزاة المريسيع، وكانت المريسيع فِي شعبان سنة خمس. ويقال إنه تزوجها في سنة ثلاث
اور کہا جاتا ہے ان سے نکاح کیا غزوۂ مُرَیسیع سے واپس پر اور غزوۂ مُرَیسیع شعبان سن ٥ ہجری میں ہوا اور کہا جاتا ہے سن 3 ہجری میں کیا

واقعہ افک غزوہ بنی مصطلق یا غزوۂ مُرَیسیع سے واپسی پر پیش آیا جو٥ ہجری میں ہوا اس وقت تک پردے کی آیات نازل ہو چکی تھیں جیسا کہ بخاری کی حدیث میں ہے اور یہ حکم سوره الاحزاب کا ہی ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن ٥ میں نکاح کیا ہو کیونکہ زینب سے نکاح کا حکم بھی سوره الاحزاب میں ہے

سوره الاحزاب کی ابتدائی آیات میں ہی پہلے زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کا حکم ہے –
زینب بنت جحش سے نکاح کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعوت دی جس میں بعض حضرات زیادہ دیر رہے اور رسول الله نے ان کو جانے کا بھی نہیں کہا – صحیح بخاری کی روایت کے مطابق
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذِهِ الآيَةِ: آيَةِ الحِجَابِ ” لَمَّا أُهْدِيَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ مَعَهُ فِي البَيْتِ صَنَعَ طَعَامًا وَدَعَا القَوْمَ، فَقَعَدُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ ثُمَّ يَرْجِعُ، وَهُمْ قُعُودٌ يَتَحَدَّثُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ} [الأحزاب: 53] إِلَى قَوْلِهِ {مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [الأحزاب: 53] فَضُرِبَ الحِجَابُ وَقَامَ القَوْمُ ”
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب گئے تو دیکھا گھر میں لوگ ہیں پس آپ کو حیا آئی اور آپ چلے گئے اور الله نے حجاب کی آیت نازل کی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ

السندی کہتے ہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن 3 ہجری میں نکاح کیا
زينب بنت جحش، أمُّ المؤمنين رضي الله عنها، هي أَسَدِيَّةٌ، تزوَّجها النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سنة ثلاث
غزوة الأحزاب ، غزوة بني المصطلق سے پہلے ہوا کیونکہ سن ٥ میں غزوة بني المصطلق ہوا تھا
لہذا امہات المومنین کو پردے کے جو احکام سوره الاحزاب میں دیے گئے وہ سن 3 میں دیے گئے ہیں نہ کہ سن ٥ ہجری میں

اسی میں یہ آیت ہے کہ الله نے تم پر سے رجس کو دور کر دیا ہے
اس وقت تک حسین رضی الله عنہ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی – نسب قريش از أبو عبد الله الزبيري (المتوفى: 236هـ) کے مطابق
والحسين بن علي، ويكنى أبا عبد الله؛ وولد لخمس لخمس ليال خلون من شعبان سنة أربع من الهجرة
حسین بن علی سن ٤ ہجری میں شعبان میں پانچ راتیں کم پیدا ہوئے

لہذا یہ روایت جو حدیث کساء یا چادر والی روایت کے نام سے مشھور ہے صحیح نہیں ہے منکر ہے

جی یہ بات ابن مسعود رضی الله عنہ کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، ح وَحَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، قُلْتُ: يَا أَبَا المُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ أُبَيٌّ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي: «قِيلَ لِي فَقُلْتُ» قَالَ: فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ کہتے ہیں میں نے ابی بن کعب سے پوچھا کہ اپ کے بھائی ابن مسعود ایسا ایسا کہتے ہیں ابی نے کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس پر سوال کیا تھا انہوں نے کہا کہو کہ میں نے کہا – پس ہم وہ کہتے ہیں جیسا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا

اس روایت میں زر بن حبیش کا تفرد ہے اور علماء نے اس کو رد کر دیا ہے ابن حزم کہتے ہیں یہ بات جھوٹ ہے یعنی صحیح بخاری کی یہ روایت کذب ہے

ابن حزم المحلی میں کہتے ہیں
وكل ما روي عن ابن مسعود من أن المعوذتين وأم القرآن لم تكن في مصحفه، فكذب موضوع لا يصح،
ہر وہ بات جس میں روایت کیا گیا ہو کہ ابن مسعود المعوذتين کو مصحف کا حصہ نہیں مانتے تھے کذب ہے موضوع ہے صحیح نہیں ہے

النووي في “شرح المهذب” 3/396 میں کہتے ہیں
أجمع المسلمون على أن المعوذتين والفاتحة وسائر السُّور المكتوبة في المصحف قُرآن، وأن من جحد شيئاً منه كفر، وما نُقِل عن ابن مسعود في الفاتحة والمعوذتين باطل ليس بصحيح عنه.
جو المعوذتين کو قرآن میں نہ مانے کافر ہے اور جو ابن مسعود کے حوالے سے نقل کیا جاتا ہے باطل ہے صحیح نہیں ہے

کتاب الام از شافعی میں ہے

أخبرنا حفص عن الأعمش عن إبراهيم عن عبد الرحمن بن يزيد قال : كان عبد الله يكره أن يقرأ القرآن في أقل من ثلاث ، وهم يستحبون أن يقرأ في أقل من ثلاث أخبرنا وكيع عن سفيان الثوري عن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن يزيد قال : رأيت عبد الله يحك المعوذتين من المصحف ويقول : لا تخلطوا به ما ليس منه وهم يروون { عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قرأ بهما في صلاة الصبح } وهما مكتوبتان في المصحف الذي جمع على عهد أبي بكر ثم كان عند عمر ثم عند حفصة ثم جمع عثمان عليه الناس ، وهما من كتاب الله عز وجل وأنا أحب أن أقرأ بهما في صلاتي .

سند قابل قبول ہے

مسند حمیدی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ، وَعَاصِمُ ابْنُ بَهْدَلَةَ أَنَّهُمَا سَمِعَا زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ عَنِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَحْكِيهِمَا مِنَ الْمُصْحَفِ قَالَ إِنِّي سَأَلَتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قِيلَ لِي «قُلْ» فَقُلْتُ: فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ، وَعَاصِمُ ابْنُ بَهْدَلَةَ دونوں زر بن حبیش سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعود الْمُعَوِّذَتَيْنِ کو مصحف سے مٹا دیتے

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں الفاظ ہیں
قُلْتُ لِأُبَيٍّ: إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ لَا يَكْتُبُ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي مُصْحَفِهِ
زر نے ابی سے کہا بے شک ابن مسعود الْمُعَوِّذَتَيْنِ کو مصحف میں نہیں لکھتے تھے

یہ بات ابن سیرین بھی کہتے ہیں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: «كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ لَا يَكْتُبُ الْمُعَوِّذَتَيْنِ»

صحیح ابن حبان میں ہے
إِنّهما ليستا من القرآن، فلا تجعلوا فيه ما ليس منه
ابن مسعود کہتے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہیں پس اس میں شامل نہ کرو جو اس میں نہ ہو

الهيثمي کتاب موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان میں اس روایت پر کہتے ہیں
قلت فِي إِسْنَاده عَاصِم بن أبي النجُود وَقد ضعف.
میں کہتا ہوں اس کی اسناد میں عاصم ہیں جو ضعیف ہیں

بہرحال یہ روایت ایک مشکل ہے کیونکہ حدیث نبوی کے مطابق اگر کسی کو قرآن سیکھنا ہو تو ابن مسعود سے سیکھے اور دوسری مشکل یہ ہے کہ عاصم بن ابی النجود کی قرات پر قرآن پڑھا جاتا ہے جس کی سند علی اور ابی بن کعب تک جاتی ہے
عاصم قرات کے امام ہیں لیکن حدیث میں ضعیف ہیں

اغلبا ابن مسعود ان کو دعا سمجھتے تھے نہ کہ قرآن کی سورتیں لیکن جمہور اصحاب رسول اس کو پڑھتے تھے اور قرآن کی سورت ہی سمجھتے تھے

شیعہ عالم الطباطبائي تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں

أقول: و في هذا المعنى روايات كثيرة من طرق الفريقين على أن هناك تواترا قطعيا من عامة المنتحلين بالإسلام على كونهما من القرآن، و قد استشكل بعض المنكرين لإعجاز القرآن أنه لو كان معجزا في بلاغته لم يختلف في كون السورتين من القرآن مثل ابن مسعود، و أجيب بأن التواتر القطعي كاف في ذلك على أنه لم ينقل عنه أحد أنه قال بعدم نزولهما على النبي (صلى الله عليه وآله وسلم) أو قال بعدم كونهما معجزتين في بلاغتهما بل قال بعدم كونهما جزء من القرآن و هو محجوج بالتواتر.

میں الطباطبائي کہتا ہوں: ان معنوں کی بہت سی روایات دونوں فریقین (اہل سنت و اہل تشیع) کے پاس ہیں اور وہاں تواتر قطعی سے ہے کہ یہ قرآن میں سے ہیں (بخلاف اس کے ) جو اسلام کے حوالے سے فریبی کہتے ہیں اور بعض اعجاز قرآن کے منکرین کا کہنا ہے اگر قرآن کی بلاغت کوئی معجزہ ہوتا تو پھر  ابن مسعود کی مثال ہے کہ (وہ ان کو سورتیں نہیں کہتے) اور اس کا جواب ہے کہ تواتر قطعی  کافی ہے اس کے لئے

«الذی خلق السماوات والارض و ما بینهما فی ستةایام ثم الستوی علی العرش الرحمن فاسال به خبیرا »
الفرقان ۵۹
اس آيت کا اور سورۃ فصلت كا آيات ٩/١٠/١١/١٢ جمع اور تطبیق کیسے کریے پلیز و ضاحت کردے
جزاکم الله خیرا

جواب

الله تعالی نے سوره فرقان میں کہا
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے بیچ ہے چھ دن میں خلق کیا پھر عرش پر مستوی ہوا

اور سوره فصلت میں جو تفصیل ہے اس کے مطابق

دو دن میں زمین اور اس کے پہاڑ سوره فصلت ٩ سے ١٠
(یعنی مٹی ، تحت الثری کا لاوا چٹانیں اور پہاڑ)

تیسرا چوتھا پانچواں اور چھٹا دن

تیسرے دن کو ملا کے اگلے چار دن میں زمین کا سب سامان معیشت سوره فصلت ١٠
اور ساتھ ہی ان چار دنوں میں سے دو دن میں سات آسمان بنائے سوره فصلت ١١

(یعنی افلاک اور زمینی نباتات جو سورج پر منحصر ہیں یہ سب ملا کر چار دن میں بنے)

———–

نوٹ
یاد رہے کہ سائنس کے مطابق پودے اور درخت سورج کی روشنی چاہتے ہیں اس لئے آسمان میں سورج اور زمین پر بناتات کا ایک بہت گہرا تعلق ہے ان کو ایک ساتھ بنایا گیا
سورج اور زمین کا فاصلہ اور زمین کا ٢٣ ڈگری کا جھکاؤ بہت اہم ہے تھوڑی سی تبدیلی کی صورت میں تمام بناتات بھسم ہو جائیں گی

عن ابو سعید الخدری قال: اصبنا نسأ من بیسی أوطاس لهن أذواج فکر هنا أن نقع علیهن و لهن أذواج فسألنا النبی فنزلت و المحصنات…..سوره نسأ آیت ۲۴
تفسیر طبری جلد ۵/مسلم،نسایی،ابوداود
کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

یہ روایت ترمذی مسند احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ البَتِّيُّ، عَنْ أَبِي الخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَ: أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ وَلَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ: ” {وَالمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ} [النساء: 24] ”

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جنگ اوطاس میں ہمیں کچھ ایسی قیدی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر ان کی قوم میں موجود تھے، تو لوگوں نے اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، اس پر آیت «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ثوری نے عثمان بتی سے اور عثمان بتی نے ابوالخلیل سے اور ابوالخلیل نے ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی، ۳-
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں علقمہ سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔ (جب کہ پچھلی سند میں ہے) اور میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس حدیث میں ابوعلقمہ کا ذکر کیا ہو سوائے ہمام کے، ۴- ابوالخلیل کا نام صالح بن ابی مریم ہے۔

صحیح مسلم میں ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ” أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بَعَثَ جَيْشًا إِلَى أَوْطَاسَ، فَلَقُوا عَدُوًّا، فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ، وَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا، فَكَأَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ} [النساء: 24]، أَيْ: فَهُنَّ لَكُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ

اور سنن ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ،‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”بَعَثَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بَعْثًا إِلَى أَوْطَاسَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقُوا عَدُوَّهُمْ فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ وَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا، ‏‏‏‏‏‏فَكَأَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي ذَلِكَ:‏‏‏‏ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 24، ‏‏‏‏‏‏أَيْ فَهُنَّ لَهُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ”.
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے دن مقام اوطاس کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تو وہ لشکر اپنے دشمنوں سے ملے، ان سے جنگ کی، اور جنگ میں ان پر غالب رہے، اور انہیں قیدی عورتیں ہاتھ لگیں، تو ان کے شوہروں کے مشرک ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کرام نے ان سے جماع کرنے میں حرج جانا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں یہ آیت نازل فرمائی: «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» “اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں” (سورۃ النساء: ۲۴) تو وہ ان کے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت ختم ہو جائے۔

سنن نسائی میں ہے
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر اوطاس کی طرف بھیجا ۱؎ وہاں ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو گئی، اور انہوں نے دشمن کا بڑا خون خرابہ کیا، اور ان پر غالب آ گئے، انہیں ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر مشرکین میں رہ گئے تھے، چنانچہ مسلمانوں نے ان قیدی باندیوں سے صحبت کرنا مناسب نہ سمجھا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» “اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں” (النساء: ۲۴) یعنی یہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت پوری ہو جائے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۹ (۱۴۵۶)، سنن ابی داود/النکاح ۴۵ (۲۱۵۵)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النسائ۵ (۳۰۱۷)، (تحفة الأشراف: ۴۴۳۴) (صحیح)

البانی اور شعَيب الأرنؤوط اس کو صحیح کہتے ہیں امام ترمذی حسن کہتے ہیں اس کی سعید بن ابی عروبہ عن قتادہ والی سند صحیح سمجھی گئی ہے

راقم کہتا ہے اس روایت کی سند معلول ہے اس میں علت ہے سند میں یزید بن زریع ہیں جنہوں نے سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ سے اختلاط میں سنا ہے

ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں

وقال ابن السكن كان يزيد بن زريع يقول اختلط سعيد في الطاعون يعني سنة 132 وكان القطان ينكر ذلك ويقول إنما اختلط قبل الهزيمة قلت والجمع بين القولين ما قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به الاختلاط سنة “133” ولم يستحكم ولم يطبق به وأستمر على ذلك ثم استحكم به أخيرا

اور ابن السکن کہتے ہیں یزید بن زریع نے کہا سعید بن ابی عروبہ کو اختلاط طاعون پر سن ١٣٢ میں ہوا اور القطان نے اس کا انکار کیا اور کہا ہزیمت پر ہوا اور ان اقوال میں اس طرح جمع ممکن ہے جو البزار نے کہا کہ ان کے اختلاط کی ابتداء سن ١٣٣ میں ہوئی لیکن مستحکم نہ تھی اور اس میں استحکام ہوتا گیا یہاں تک کہ آخر میں مستحکم ہو گیا

ابن حجر کے مطابق سن ١٣٣ میں سعید کو اختلاط شروع ہو چکا تھا اور کلابازی کے مطابق سن ١٣٩ ھ میں ابن زریع نے سنا

الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از أبو نصر البخاري الكلاباذي (المتوفى: 398هـ) کے مطابق

وَقَالَ الْغلابِي نَا ابْن حَنْبَل قَالَ نَا يزِيد قَالَ مر بِنَا سعيد بن أبي عرُوبَة قبل سنة 39 فسمعنا مِنْهُ

الْغلابِي کہتے ہیں ابن حنبل نے کہا ہم سے یزید نے بیان کیا کہ سعید ہمارے پاس ١٣٩ ھ سے پہلے گزرے جب ہم نے سنا

یعنی یزید کا سماع ١٣٣ سے ١٣٩ کے درمیان بھی ہے جو سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ کا عالم اختلاط ہے

===================
طحاوی مشکل الآثار میں اس کو پیش کرتے ہیں پھر کہتے ہیں اس آیت کے مفھوم پر اصحاب رسول کا اختلاف ہے
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَقَدْ كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي الْمُحْصَنَاتِ الْمُرَادَاتِ بِمَا ذُكِرَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ مَنْ هُنَّ؟ فَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي ذَلِكَ:

اور اصحاب رسول نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ اس میں الْمُحْصَنَاتِ سے کون مراد ہے پس علی اور ابن مسعود رضی الله عنہما نے روایت کیا ہے

قَدْ حَدَّثَنَا أَبُو شُرَيْحٍ، وَابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ} [النساء: 24] ، قَالَ عَلِيٌّ: ” الْمُشْرِكَاتُ إِذَا سُبِينَ حَلَلْنَ بِهِ ” وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: ” الْمُشْرِكَاتُ وَالْمُسْلِمَاتُ ” قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَكَانَ تَأْوِيلُ هَذِهِ الْآيَةِ عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمُحْصَنَاتُ الْمَسْبِيَّاتُ الْمَمْلُوكَاتُ بِالسِّبَاءِ، وَكَانَ عِنْدَ ابْنِ مَسْعُودٍ [ص:75] عَلَى اللَّاتِي طَرَأَتْ عَلَيْهِنَّ الْإِمْلَاكُ مِنَ الْإِمَاءِ بِالسِّبَاءِ وَبِمَا سِوَاهُ، وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ يَقُولُ: بَيْعُ الْأَمَةِ طَلَاقُهَا، وَقَدْ تَابَعَهُ عَلَى ذَلِكَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابن مسعود سے روایت ہے کہ اس آیت میں الْمُحْصَنَاتِ سے مراد مشرکہ عورتیں اور مسلمان عورتیں ہیں
اور علی سے مروی ہے کہ یہاں مشرکہ ہیں جب وہ حلال ہو جائیں

ابن عباس کہتے ہیں
فَكَانَ الْمُحْصَنَاتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ الْمُرَادَاتُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ هُنَّ الْأَرْبَعُ اللَّاتِي يَحْلِلْنَ لِلرَّجُلِ
اس میں وہ عورتیں ہیں جو آدمی کے لئے چار ہیں

یعنی ایک مرد چار شادیاں کر سکتا ہے اگر اس کی ابھی چار بیویاں ہیں تو وہ مزید نہیں لے سکتا

اس کے بعد طحاوی نے اس میں علی رضی الله عنہ کا قول پسند کیا ہے

اور نہیں ہے کسی نبی کی شان یہ شان کہ خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا اور لے کرآئے گا (اپنے ہمراہ) خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دن پھر پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا

(آل عمران آیت 161)

اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ 599 پر لکھا ہے ابن عباس سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے مال غنیمت سے ایک چادر گم ہو گئی تو صحابہ کرام نے گمان کیا کہ شاید حضور نے یہ چادر لے لی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر مائی

جواب

تفسیر ابن کثیر کا اقتباس ہے

وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْمُسَيَّبُ بْنُ وَاضِحٍ، حَدَّثَنَا أبو إسحاق الفزاري عن سفيان بن خَصِيفٍ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَقَدُوا قَطِيفَةً يَوْمَ بَدْرٍ فَقَالُوا: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَما كانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ أَيْ يخون.
وقال ابن جرى «2» : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا خَصِيفٌ، حَدَّثَنَا مِقْسَمٌ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ وَما كانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ نَزَلَتْ فِي قَطِيفَةٍ حَمْرَاءَ فُقِدَتْ يَوْمَ بَدْرٍ، فقال بعض الناس: لعل رسول الله أخذها، فَأَكْثَرُوا فِي ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَما كانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَكَذَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ جَمِيعًا عَنْ قُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِيَادٍ بِهِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ خَصِيفٍ، عَنْ مِقْسَمٍ يَعْنِي مُرْسَلًا.

ان روایات کی سند مظبوط نہیں ہے خُصَيْفُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مختلف فیہ ہے اس کا تفرد ہے بعض نے اس کو ثقہ کہا ہے لیکن

الامام أحمد ضعيف الحديث
وقال النسائي ليس بالقوي
ونقل ابن أبي حاتم عن يحيى بن سعيد أنه قال: كنا تلك الأيام نتجنب حديث خصيف وما كتبت عن خصيف بالكوفة شيئا إنما كتبت عن خصيف بأخرة وكان يحيى يضعف خصيفا.

یہ راوی آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھا لہذا اس روایت سے دلیل نہیں لی جا سکتی

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

﴿67﴾

اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا بےشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

شعیوں کے مطابق یہ آیت غدیر میں نازل ہوئی اور اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا حکم تھا۔

ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ (سنہ2 ھجری ) کا ہے۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا: جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آگیا، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی ۔

(سنن ترمذي:3046، قال الشيخ الألباني:صحیح)

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ آیت آخری دنوں کی ہے ۔ تو پھر اس حدیث کی تطبیق یا تاویل کیسے ہوگی۔

جواب

اہل سنت کے مطابق الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہادر اور نڈر تھے لیکن روافض کے نزدیک ایسا نہیں تھا ان کے نزدیک علی کی امامت کا حکم معراج پر دیا گیا لیکن رسول الله نے اس کو امت پر پیش نہیں کیا اس کے بعد آخری دور میں حجه الوداع سب سے اہم موقعہ تھا کہ یہ کیا جاتا لیکن وہاں بھی اعلان نہ کیا یہاں تک کہ الله تعالی نے حکم کیا اور غدیر خم پر واپس جانے والے قافلے کو رکنے کا حکم دیا گیا اور عجلت میں علی کے بارے میں تقریر کی جس کی روایات ہم تک پہنچی ہیں
اہل سنت کے مطابق غدیر خم پر علی پر معترض اصحاب رسول جو یمن سے انے تھے ان کی تالیف کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے تقریر کی
اہل تشیع کے مطابق علی کی امامت و وصی ہونے پر نص ظاہر ہوئی کہ مولی کہہ دیا

دما دم مست قلندر کی طرح شیعہ حضرات نے اس روایت کے اتنے طرق پیش کیے کہ یہ حد تواتر تک جا پہنچے لیکن اہل سنت پھر بھی مان کے نہیں دیے
کتاب تذکرہ الحفاظ میں الذہبی کہتے ہیں کہ
اس کے کثرت طرق نے مجھے ششدر کر دیا

محدثین نے کہا کہ اس کا پھیلنا ہی اس کا ضعیف ہونا ہے
نصب الراية لأحاديث الهداية از الزيلعي (المتوفى: 762هـ) نے کہا
وَحَدِيثِ: مَنْ كُنْت مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ3، بَلْ قَدْ لَا يُزِيدُ الْحَدِيثَ كَثْرَةُ الطُّرُقِ إلَّا ضَعْفًا
اور حدیث میں جس کا دوست اس کا علی دوست بلکہ اس نے کثرت طرق ہونے نے اس کے ضعف میں اضافہ کیا

اب ایک ہی رستہ رہا کہ ثابت کیا جائے کہ قران میں اس پر آیت ہے لہذا ڈھونڈ ڈھانڈ کے سوره المائدہ کی یہ آیت ملی
اس آیت کا سیاق و سباق اہل کتاب کے حوالے سے ہے انہی کا ذکر ہے

سوره المائدہ سن ٩ ہجری کی ہے حج ١٠ ہجری میں ہوا
گویا سوره المائدہ کی یہ آیت ایک سال بعد آئی جس میں خود علی کا ذکر نہیں ہے

تفسیر المنار میں رشید رضا کہتے ہیں
وَقَدِ اخْتَلَفَ مُفَسِّرُو السَّلَفِ فِي وَقْتِ نُزُولِ هَذِهِ الْآيَةِ، فَرَوَى ابْنُ مَرْدَوَيْهِ، وَالضِّيَاءُ فِي الْمُخْتَارَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبُو الشَّيْخِ، عَنِ الْحُسْنِ، وَعَبْدِ بْنِ حُمَيْدٍ، وَابْنِ جَرِيرٍ، وَابْنِ أَبِي حَاتِمٍ، وَأَبُو الشَّيْخِ، عَنْ مُجَاهِدٍ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي أَوَائِلِ الْإِسْلَامِ وَبَدْءِ الْعَهْدِ بِالتَّبْلِيغِ الْعَامِّ، وَكَأَنَّهَا عَلَى هَذَا الْقَوْلِ وُضِعَتْ فِي آخِرِ سُورَةٍ مَدَنِيَّةٍ لِلتَّذْكِيرِ بِأَوَّلِ الْعَهْدِ بِالدَّعْوَةِ فِي آخِرِ الْعَهْدِ بِهَا، وَرَوَى ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ، وَابْنُ مَرْدَوَيْهِ، وَابْنُ عَسَاكِرَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّهَا نَزَلَتْ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ فِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. وَرَوَتِ الشِّيعَةُ عَنِ الْإِمَامِ مُحَمَّدٍ الْبَاقِرِ أَنَّ الْمُرَادَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ النَّصُّ عَلَى خِلَافَةِ عَلِيٍّ بَعْدَهُ، وَأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخَافُ أَنْ يَشُقَّ ذَلِكَ عَلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ، فَشَجَّعَهُ اللهُ تَعَالَى بِهَذِهِ الْآيَةِ.

اور سلف میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ آیت (يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ) کب نزول ہوئی پس ابن مردویہ اور الضیاء المختارہ میں ابن عباس سے مروی ہے اور ابو الشیخ میں حسن سے اور تفسیر عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ میں مجاہد سے جو دلالت کرتا ہے کہ یہ اسلام کے شروع میں نازل ہوئی … اور پھر یاد دہانی کے کے آخری مدنی سورت میں بھی اس کو نازل کیا گیا … اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابو سعید الخدری سے روایت کیا ہے کہ یہ غدیر خم پر علی کے لئے نازل ہوئی – اور شیعوں نے روایت کیا امام الباقر سے کہ اس میں بما انزل الیہ سے مراد علی کی خلافت پر نص ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم خوف زدہ رہتے کہ ان کے بعض اصحاب پر یہ گراں گزرے گا پس اللہ نے ان کو اس آیت سے حوصلہ دیا

کتاب تفسیر الحدیث از دروزة محمد عزت کے مطابق
فقد روى الطبرسي المفسر الشيعي عن الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس وعن جابر بن عبد الله أن الله أمر رسوله بتنصيب علي رضي الله عنه إماما بعده، فتخوّف أن يقول الناس إنه حابى ابن عمه فأنزل الله الآية فأعلن النبي بعد نزولها في غدير خمّ ولاية علي

اور الطبرسی شیعہ مفسر نے عن الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس وعن جابر بن عبد الله کی سند سے روایت کیا ہے کہ الله نے رسول الله کو حکم کیا کہ علی کو اپنے بعد امام مقرر کر دیں، پس وہ خوف زدہ ہوئے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنے چچا زاد کو مقرر کیا پس الله نے آیت نازل کی اور اس آیت کے نزول کے بعد نبی نے علی کی ولایت پر اعلان کیا غدیر خم پر

یہ روایات خود شیعہ مثلا الکلبی وغیرہ کی سند سے ہیں لہذا یہ تفسیری اقوال اہل سنت میں رواج نہ پا سکے اور ان کو ہمیشہ مخالف کا جذباتی پروپگنڈا ہی سمجھا گیا ہے

اگر ایسا ہوتا تو صحیح اسناد سے یہ بات پہنچ جاتی

دوم ابو سعید الخدری اور جابر بن عبد الله رضی الله عنہما جو من کنت مولاہ کے راوی تھے انہوں نے ال علی کو کبھی بھی امامت و خلافت کا حق دار نہ سمجھا بلکہ یزید بن معاویہ کی بیعت کی

سوره المائدہ کی آیت اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي حجه الوداع پر آئی یعنی دین مکمل ہوا اس کی بنیادی تعلیمات پہنچ گئیں اب یہ عجیب بات نہیں کہ امت کو امامت جیسے اہم عقیدہ کا پتا ہی نہیں اور دین مکمل ہو گیا؟

الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا
يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (3)
زانی سے نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ اور زانیہ سے نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور مومنوں پر یہ حرام ہیں

جواب
کتاب الناسخ والمنسوخ في القرآن العزيز وما فيه من الفرائض والسنن از أبو عُبيد القاسم بن سلاّم بن عبد الله الهروي البغدادي (المتوفى: 224هـ) کے مطابق
فَكَانَتِ الْآيَةُ عِنْدَ بَعْضِهِمْ مَنْسُوخَةً لَا يُعْمَلُ بِهَا وعِنْدَ آخَرِينَ مُحْكَمَةً مَعْمُولًا بِهَا
یہ آیت بعض کے نزدیک منسوخ ہیں ان پر عمل نہیں ہے اور متاخرین کے نزدیک محکم ہیں ان پر عمل ہے

کتاب الناسخ والمنسوخ از أبو جعفر النَّحَّاس أحمد بن محمد بن إسماعيل بن يونس المرادي النحوي (المتوفى: 338هـ) کے مطابق منسوخ کا قول سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ کا ہے اور نسخ آیت {وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى} [النور: 32] ہے

لہذا وہ کہتے ہیں
وَهَذَا الْقَوْلُ الَّذِي عَلَيْهِ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ وَأَهْلِ الْفُتْيَا يَقُولُونَ: إِنَّ مَنْ زَنَا بِامْرَأَةٍ فَلَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا وَلِغَيْرِهِ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ، وَسَالِمٍ، وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، وَعَطَاءٍ، وَطَاوُسٍ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، رَوَى عَنْهُ ابْنُ وَهْبٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يَزْنِي بِامْرَأَةٍ ثُمَّ يُرِيدُ نِكَاحَهَا، قَالَ ذَلِكَ لَهُ بَعْدَ أَنْ تَسْتَبْرِئَ مِنْ وَطْئِهَا وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ [ص:583] وَقَالَ الشَّافِعِيُّ فِي الْآيَةِ الْقَوْلُ فِيهَا كَمَا قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ إِنَّهَا مَنْسُوخَةٌ وَمِمَّنْ قَالَ بِالْقَوْلِ الثَّانِي: إِنَّ النِّكَاحَ هَاهُنَا الْوَطْءُ ابْنُ عَبَّاسٍ

امام الشافعی کا قول بھی اس کے منسوخ ہونے پر ہے

کیا کوئی جنت یا جہنم میں داخل ہونے کے بعد باہر آسکتا ہے؟اورکفار کے رفاہی کاموں کا کیا حکم ہے؟

سورہ “ہود” کی آیت نمبر (106، 107) کے مطابق جہنمی ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے، اور کبھی باہر نہیں نکل پائیں گے، جبکہ میں نے “صحیح بخاری “میں پڑھا ہے کہ کچھ جہنمیوں پر اللہ تعالی احسان کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل کردیگا ، اس لئے کہ ان کے دل میں کچھ نہ کچھ ایمان ہوگا، تو ان دونوں میں سے کون سی بات ٹھیک ہے؟

جواب

سوره الھود میں آیات ہیں

فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ (107)

جو شقی ہیں وہ اگ میں ہوں گے وہاں ان کے لئے زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ ہے
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین باقی ہیں الا یہ کہ تمہارا رب کچھ چاہے بے شک وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

شقی سے مراد مشرک و کافر ہیں
———-

میں نے “صحیح بخاری “میں پڑھا ہے کہ کچھ جہنمیوں پر اللہ تعالی احسان کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل کردیگا ، اس لئے کہ ان کے دل میں کچھ نہ کچھ ایمان ہوگا

یعنی یہ ایمان والے مومن ہوں گے چاہے کم ایمان ہی ہو ان کو نکال لیا جائے گا کیونکہ یہ شقی نہیں ہوں گے

و الله اعلم

ایک تفسیر میں تھا کہ:الاحزاب آیت ۳۳ ( یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت) یہ صرف علی،فاطمه،اور امام حسن اور امام حسین کے لئے ہے- ازواج رسول الله کے لئے نہیں ہے کیونکہ اگر ازواج رسول الله کے لئے ہوتا تو ضمیر مونث [عنکن] ہوتا تا کہ سیاق و سباق تھیک بنتا
پلیز وضاحت کردے
جزاکم اللہ خیرا

جواب

قرآن نے سارہ علیہ السلام کو اہل بیت کہا ہے
سوره الھود میں ہے
قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
فرشتوں نے کہا تم الله کے حکم پر تعجب کرتی ہو الله کی رحمت و برکت ہے تم پر اے اہل بیت بے شک وہ حمید و مجید ہے

یعنی ایک عورت بھی اہل بیت میں سے ہیں

یہ سادہ عربی ہے ہم کہتے ہیں گھر والی یا گھر والے تو کیا اس میں بیوی شامل نہیں ہوتی ؟

مونث کے لئے جمع کا صیغہ بھی اتا ہے
یرید الله لیذهب عنگم الرجس اهل البیت
عنکم میں جمع کا صیغہ ہے

بعض اوقات دو پر بھی جمع کا صیغہ اتا ہے
{وهل أتاك نبأ الخصم إذ تسوروا المحراب} (ص:21)
اور کیا تم کو خبر پہنچی جھگڑے گی جب وہ محراب میں چڑھ آئے

ابن عاشور التحریر و التنویر میں لکھتے ہیں
وأكثر استعمال العرب وأفصحه في ذلك أن يعبروا بلفظ الجمع مضافاً إلى اسم المثنى لأن صيغة الجمع قد تطلق على الاثنين في الكلام فهما يتعاوران
اور عرب اکثر استمعال میں اور فصاحت کرتے ہوئے عبارت کرتے ہیں لفظ جمع سے جو مضاف ہوتا ہے اسم المثنی پر کیونکہ جمع کا صیغہ کا اطلاق تثنیہ پر کلام میں ہوتا ہے

اسی طرح قرآن میں ہے
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا
چور اور چورنی کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں

یہاں دو ہیں چور اور چورنی لیکن أَيْدِيَهُمَا میں جمع ہے

یعنی دو کے لئے جمع کا صیغہ استمعال ہوتا ہے اب چاہے یہ مرد ہوں یا عورتیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس آیت کے نزول کے وقت یہ ازواج تھیں
سودہ بنت زمعہ رضی الله عنہا
عائشہ رضی الله عنہا
حفصہ بنت عمر رضی الله عنہا
زينب بنت جحش رضی الله عنہا

یہ چار امہات ہیں ان پر جمع کا صیغہ بولا جا سکتا ہے

سوره الاحزاب قرآن کی ایک اہم سورہ ہے اس میں جنگ خندق پر بحث ہے اس میں پردے کا حکم ہے اس میں زینب
بنت جحش سے نکاح کا حکم ہے
زينب بنت جحش رضی الله عنہا سے شادی کے حوالے سے کتاب جمل من أنساب الأشراف میں بلاذری نے لکھا ہے
ويقال إنه تزوجها رجوعه من غزاة المريسيع، وكانت المريسيع فِي شعبان سنة خمس. ويقال إنه تزوجها في سنة ثلاث
اور کہا جاتا ہے ان سے نکاح کیا غزوۂ مُرَیسیع سے واپس پر اور غزوۂ مُرَیسیع شعبان سن ٥ ہجری میں ہوا اور کہا جاتا ہے سن 3 ہجری میں کیا
السندی کہتے ہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن 3 ہجری میں نکاح کیا

راقم کی تحقیق ہے کہ یہ آیت سن ٣ ہجری سے ٤ ہجری کے درمیان نازل ہوئی کیونکہ اس میں پردہ کی آیات ہیں جو زینب رضی الله عنہا سے نکاح کے بعد آئی ہیں

زینب بنت جحش سے نکاح کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعوت دی جس میں بعض حضرات زیادہ دیر رہے اور رسول الله نے ان کو جانے کا بھی نہیں کہا – صحیح بخاری کی روایت کے مطابق
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذِهِ الآيَةِ: آيَةِ الحِجَابِ ” لَمَّا أُهْدِيَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ مَعَهُ فِي البَيْتِ صَنَعَ طَعَامًا وَدَعَا القَوْمَ، فَقَعَدُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ ثُمَّ يَرْجِعُ، وَهُمْ قُعُودٌ يَتَحَدَّثُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ} [الأحزاب: 53] إِلَى قَوْلِهِ {مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [الأحزاب: 53] فَضُرِبَ الحِجَابُ وَقَامَ القَوْمُ ”
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب گئے تو دیکھا گھر میں لوگ ہیں پس آپ کو حیا آئی اور آپ چلے گئے اور الله نے حجاب کی آیت نازل کی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ

السندی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ سن ٣ میں ہے

کتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب از ابن عبد البر کے مطابق
زينب بنت جحش زوج رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے نکاح سن ٣ میں ہوا
وَقَالَ أَبُو عبيدة: إنه تزوجها فِي سنة ثلاث من التاريخ

جواب

سوره بقرہ کی آیت ١٠٢ ہے

واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون

اور  (یہود) لگے اس  (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان  نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر!  لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو-  اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں،  آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا

اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت عالم لوگ بھی جہالت کا  مظاہرہ کرتے ہیں

غیر مقلد عالم ثنا الله امرتسری تفسیر میں ترجمہ کرتے ہیں

غیر مقلدین کے شیخ عرب و عجم محمد بدیع الدین راشدی نے اس پر باقاعدہ کتاب لکھی ہے

http://kitabosunnat.com/kutub-library/qissa-haroot-o-maroot-aur-jadoo-ki-haqiqat

یہ غلطی عربی بولنے والے قرطبی نے بھی کی اور قرآن میں معنوی تحریف کی

اس کتاب  میں  محمد بدیع الدین راشدی نے قرطبی کا حوالہ دیا

یہاں غیر مقلدین کے شیخ عرب و عجم راشدی اور ثناء الله  کا ترجمہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس قدر  لغت عرب سے لا علم ہیں

سوال ہے کہ یہ ترجمے  عربیت کے کن اصولوں کی بنیاد پر کیے گئے ہیں ؟

امام حاکم نے اپنی مستدرک ، 2/535 پر ایک روایت درج کی ہے

3822 – أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ النَّخَعِيُّ، أَنْبَأَ عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ، ثنا شَرِيكٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} [الطلاق: 12] قَالَ: سَبْعَ أَرَضِينَ فِي كُلِّ أَرْضٍ نَبِيٌّ كَنَبِيِّكُمْ وَآدَمُ كآدمَ، وَنُوحٌ كَنُوحٍ، وَإِبْرَاهِيمُ كَإِبْرَاهِيمَ، وَعِيسَى كَعِيسَى «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 3822 – صحيح

ابن عباس نے سورہ طلاق کی 12ویں آیت کے تفسیر میں فرمایا کہ 7 زمین ہیں، اور ہر زمین میں تمہارے نبی کی مانند نبی ہے، آدم کی مانند آدم ہے، نوح کی مانند نوح ہے، ابراہیم کی مانند ابراہیم ہے، عیسی کی مانند عیسی ہے۔
امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اگرچہ لکھی نہیں گئی
علامہ الذھبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے

یہ روایت بیہقی نے اپنی کتاب الاسماء و الصفات، 2/267 پر بھی درج کی ہے۔ نیز اس سے ملتی جلتی روایت اگلے صفحے پر درج کی ہے

832 – وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسَ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} [الطلاق: 12] قَالَ: فِي كُلِّ أَرْضٍ نَحْوَ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ. إِسْنَادُ هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا صَحِيحٌ، وَهُوَ شَاذُّ بِمُرَّةَ، لَا أَعْلَمُ لِأَبِي الضُّحَى عَلَيْهِ مُتَابِعًا وَاللَّهُ أَعْلَمُ

یعنی ابن عباس نے اس آیت کی ضمن میں فرمایا کہ ہر زمین پر ابراہیم علیہ السلام کی مانند نبی ہے۔

بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ سند ابن عباس تک صحیح ہے تاہم انہوں نے اسے شاذ قرار دیا کہ مرۃ کے علاوہ کسی نے ابی ضحی سے اس کی متابعت میں روایت بیان نہیں کی

یاد رہے کہ یہ روایت تفسیر طبری، 23/469 پر بھی درج ہے۔ اور وہاں ایک اور روایت بھی ملتی ہے

حدثنا عمرو بن عليّ، قال: ثنا وكيع، قال: ثنا الأعمش، عن إبراهيم بن مهاجر، عن مجاهد، عن ابن عباس، في قوله: (اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الأرْضِ مِثْلَهُنَّ) قال: لو حدثتكم بتفسيرها لكفرتم وكفركم تكذيبكم بها.

ابن عباس نے فرمایا کہ اگر میں اس کی تفسیر تمہیں بیان کروں تو تم کفر کرو گے، اور کفر یہ ہے کہ تم اس کی تکذیب کرو گے

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ابن کثیر نے البدایہ و النھایہ، طبع دارالفکر، 1/21 پر اس کے بارے میں کیا درج کیا ہے

فرماتے ہیں کہ

وَهَكَذَا مَا يَذْكُرُهُ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَتَلَقَّاهُ عَنْهُمْ طَائِفَةٌ مِنْ عُلَمَائِنَا مِنْ أَنَّ هَذِهِ الْأَرْضَ مِنْ تُرَابٍ وَالَّتِي تَحْتَهَا مِنْ حَدِيدٍ وَالْأُخْرَى مِنْ حِجَارَةٍ مِنْ كِبْرِيتٍ وَالْأُخْرَى مِنْ كَذَا فَكُلُّ هَذَا إِذَا لَمْ يُخْبَرْ بِهِ وَيَصِحَّ سَنَدُهُ إِلَى مَعْصُومٍ فَهُوَ مَرْدُودٌ عَلَى قَائِلِهِ. وَهَكَذَا الْأَثَرُ الْمَرْوِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ فِي كُلِّ أَرْضٍ مِنَ الْخَلْقِ مِثْلُ مَا فِي هذه حَتَّى آدَمَ كَآدَمِكُمْ وَإِبْرَاهِيمَ كَإِبْرَاهِيمِكُمْ فَهَذَا ذَكَرَهُ ابْنُ جَرِيرٍ مُخْتَصَرًا وَاسْتَقْصَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْأَسْمَاءِ وَالصِّفَاتِ وَهُوَ مَحْمُولٌ إِنْ صَحَّ نَقْلُهُ عَنْهُ على أنه أخذه ابن عباس رضى الله عنه عَنِ الْإِسْرَائِيلِيَّاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ اہل کتاب میں کثیر لوگوں نے بیان کیا اور ہمارے علمائ میں ایک گروہ ان سے ملا کہ زمین کی ایک تہہ مٹی کی ہے، اس کے نیچے لوہے کی ہے، اس کے نیچے پتھروں کی وغیرہ ۔ اب اگر اس کی خبر ہمیں معصوم نے نہیں دی اور ان تک سند صحیح نہیں ہے، تو یہ مردود قول ہے۔ اسی طرح کی ایک روایت ابن عباس سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہر وہ زمین جو اس طرح سے بنائی گئی ہے، اسی کی مانند ہے حتی کہ آدم آدم کی مانند، ابراہیم ابراہیم کی مانند۔ یہ ابن جریر نے مختصر صورت میں درج کی اور بیہقی نے الاسماء و الصفات میں- اور اگر یہ روایت ابن عباس سے صحیح ہے تو ہم اسے اس پر محمول کریں گے کہ یہ ابن عباس نے اسرائیلیات سے اخذ کی ہے۔

جواب

راقم نے اپنی زندگی میں اہل کتاب کی کسی کتاب میں یہ قول نہیں دیکھا لہذا ابھی اس کو اسرائیلیات نہیں کہا جا سکتا

یہ قول متشابھات جیسا ہے اس کو مان لینے سے ہمارے دین میں کوئی فرق نہیں اتا نہ انکار کرنے سے اتا ہے
اللہ تعالی نے بہت سی باتیں محشر کے لئے چھوڑ دی ہیں کیونکہ ہم سب نہیں سمجھ اور جان سکتے
ہم آیات کو مانتے ہیں اس سے زیادہ ہماری سمجھ سے بالا ہے

ہماری کہکشاں
milky way
ہے

اس کے علاوہ عالم میں کہاں کہاں زندگی ہے ہم کو معلوم نہیں ہے اگر ایسا ہے تو کمال ہے
الله کر سکتا ہے

ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج 10، ص 3241-3242 پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں پورا واقعہ تو نقل نہیں کریں گے، جتنا ہمارے موضوع سے متعلق ہے، وہی ترجمہ کریں گے
فرماتے ہیں کہ

قَوْلُهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
18355 – وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَرَادَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ فَأَعْطَى الْجَرَادَةَ خَاتَمَهُ وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ، وَكَانَتْ أَحَبَّ نِسَائِهِ إِلَيْهِ فَجَاءَ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهَا: هَاتِي خَاتَمِي فَأَعْطَتْهُ فَلَمَّا لَبِسَهُ دَانَتْ لَهُ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَالشَّيَاطِينُ، فَلَمَّا خَرَجَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْخَلَاءِ قال لها: هَاتِي خَاتَمِي فَقَالَتْ: قَدْ أَعْطَيْتُهُ سُلَيْمَانَ قَالَ: أَنَا سُلَيْمَانُ قَالَتْ: كَذَبْتَ لَسْتَ سُلَيْمَانَ فَجَعَلَ لَا يَأْتِي أَحَدًا يَقُولُ: أَنَا سُلَيْمَانُ إِلا كَذَّبَهُ حَتَّى جَعَلَ الصِّبْيَانُ يَرْمُونَهُ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَامَ الشَّيْطَانُ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ.
فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدَّ عَلَى سليمان عليه السلام سلطانه ألْقَى فِي قُلُوبِ النَّاسِ إِنْكَارَ ذَلِكَ الشَّيْطَانِ فَأَرْسَلُوا إِلَى نِسَاءِ «1» سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَقَالُوا لهن أيكون من سليمان شيء؟ قلنا: نَعَمْ إِنَّهُ يَأْتِينَا وَنَحْنُ حُيَّضٌ، وَمَا كَانَ يَأْتِينَا قَبْلَ ذَلِكَ

قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام بیت الخلاء میں جاتے، اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے، جو کہ ان کی بیوی تھی، اور سب سے عزیز تھی۔ شیطان حضرت سلیمان کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے میری انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی، تو سب جن و انس و شیطان اس کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نکلے، تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیمان کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیمان ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم سلیمان نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیمان ہوں، اور ان کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا- جب اللہ نے اس بات کا ارادہ کیا کہ حضرت سلیمان کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیمان میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب وہ ہمارے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔

یہی واقعہ ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر، ج 7، ص 59-60 میں درج کیا ہے۔ سند کے بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ

إسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما قَوِيٌّ، وَلَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَلَقَّاهُ ابْنُ عباس رضي الله عنهما إِنْ صَحَّ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ طائفة لا يعتقدون نبوة سليمان عليه الصلاة والسلام فَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا كَانَ فِي هذا السِّيَاقِ مُنْكَرَاتٌ مِنْ أَشَدِّهَا ذِكْرُ النِّسَاءِ فَإِنَّ المشهور عن مجاهد وغير واحد من أئمة السلف أَنَّ ذَلِكَ الْجِنِّيَّ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَى نِسَاءِ سليمان بل عصمهن الله عز وجل منه تشريفا وتكريما لنبيه عليه السلام. وَقَدْ رُوِيَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ مُطَوَّلَةً عَنْ جَمَاعَةٍ من السلف رضي الله عنهم كَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَجَمَاعَةٍ آخَرِينَ وَكُلُّهَا مُتَلَقَّاةٌ مِنْ قَصَصِ أَهْلِ الْكِتَابِ، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.

اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حضرت سلیمان کی نبوت کا منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر ائمہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور شرف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ سلف میں ایک جماعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت، زید بن اسلم، اور بعد کی ایک جماعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے ملا

جواب

تفسیر ابن حاتم ٩٠٠ صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355 ہے جس پر وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں تصرف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟

کتاب
: الدخيل في التفسير
كود المادة: GUQR5333
المرحلة: ماجستير
المؤلف: مناهج جامعة المدينة العالمية
الناشر: جامعة المدينة العالمية

کے مطابق

اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضًا ما قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن حسين، قال: حدثنا محمد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة وعلي بن محمد، قال: حدثنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الأعمش، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله – تعال ى-: {وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ}، قال: أراد سليمان -عليه الصلاة والسلام- أن يدخل الخلاء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها

اس کی سند میں المنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے

جواب

وہ من لم یحکم کی آیات یہود و نصاری کے تناظر میں ہیں کہ یہ حکم کرتے وقت وہ نہیں کرتے جو الله کا ہے
خاص کر توحید کے معاملے میں
————
سوره المائدہ آیت ٥٠ میں ہے
آپ ان کے درمیان اس (فرمان) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور آپ ان سے بچتے رہیں کہیں وہ آپ کو ان بعض (احکام) سے جو اللہ نے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں پھیر (نہ) دیں، پھر اگر وہ (آپ کے فیصلہ سے) روگردانی کریں تو آپ جان لیں کہ بس اﷲ ان کے بعض گناہوں کے باعث انہیں سزا دینا چاہتا ہے، اور لوگوں میں سے اکثر نافرمان (ہوتے) ہیں
———–
یعنی اہل کتاب کی خواہش پر فیصلہ نہ کرو

مستدرک الحاکم کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَوْصِلِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّهُ ” لَيْسَ بِالْكُفْرِ الَّذِي يَذْهَبُونَ إِلَيْهِ إِنَّهُ لَيْسَ كُفْرًا يَنْقِلُ عَنِ الْمِلَّةِ {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} [المائدة: 44] كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ
ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا : جو اس طرف گئے (اغلبا خوارج مراد ہیں) یہ کفر نہیں- یہ کفر نہیں جو ان کو ملت سے نکالا جائے
اور وہ جو الله کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کریں وہ کافر ہیں
کفر (امیر)، کفر(باللہ) سے الگ ہے

سفیان ثوری کی تفسیر کے مطابق ابن عباس اس آیت پر کہتے
قال: هي كفره، وليس كمن كفر بالله واليوم الآخر
یہ انکار تو ہے لیکن الله اور یوم آخرت کے انکار جیسا نہیں ہے

تفسیر عبد الرزاق میں ہے
عبد الرزاق في “تفسيره” (1 / 191) عن معمر، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: سئل ابن عباس عن قوله: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ الله فأولئك هم الكافرون} ، قال: هي كفر، قال ابن طاوس: وليس كمن كفر بالله وملائكته وكتبه ورسله.
ابن عباس سے اس آیت پر سوال ہوا کہا یہ کفر ہے- ابن طاوس نے کہا لیکن الله اور اس کی کتابوں اور فرشتوں کا کفر کرنے جیسا نہیں ہے

خوارج کہتے تھے کہ جس نے قرآن کی کسی آیت پر اجتہادی غلطی کی وہ بھی کافر ہے اور اس آیت کو لگاتے اس میں مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس آیت کو اصحاب رسول پر لگا رہے تھے جن کے ایمان پر قرآن گواہ ہے – اصحاب رسول نے بردباری کا مظاہرہ کیا اور اس پر کہا کہ خوارج کافر نہیں ہیں وہ امیر یعنی علی کی اطاعت سے خارجی ہیں لیکن ان کا یہ انکار ، کفر نہیں ہے
یا کیہہ لیں ابن عباس کے نزدیک خوارج کافر نہیں تھے
اور یہاں تک کہ کوئی غلط موقف اپنا لے لیکن الله ، اس کی کتاب ، قبلہ ، رسولوں اور فرشتوں کا اقراری ہو تو کافر نہیں تھا

خیال رہے کہ سن ٣٧ ہجری میں خوارج اور اصحاب رسول میں عقیدے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ معاملات پر تھا جو بگڑ کر تاویل قرآن کا اختلاف بن گیا

بیہقی نے نہ جانے کس طرح اس کو صفات و اسماء کی بحث بنا دیا

سنن الکبری بیہقی نے اس قول پر لکھا ہے
قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: ” فَكَأَنَّهُمْ أَرَادُوا بِتَكْفِيرِهِمْ مَا ذَهَبُوا إِلَيْهِ مِنْ نَفْيِ هَذِهِ الصِّفَاتِ الَّتِي أَثْبَتَهَا اللهُ تَعَالَى لِنَفْسِهِ وَجُحُودِهِمْ لَهَا بِتَأْوِيلٍ بَعِيدٍ , مَعَ اعْتِقَادِهِمْ إِثْبَاتَ مَا أَثْبَتَ اللهُ تَعَالَى , فَعَدَلُوا عَنِ الظَّاهِرِ بِتَأْوِيلٍ , فَلَمْ يَخْرُجُوا بِهِ عَنِ الْمِلَّةِ وَإِنْ كَانَ التَّأْوِيلُ خَطَأً , كَمَا لَمْ يَخْرُجْ مَنْ أَنْكَرَ إِثْبَاتَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي الْمَصَاحِفِ كَسَائِرِ السُّوَرِ مِنَ الْمِلَّةِ
قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: ” فَكَأَنَّهُمْ أَرَادُوا بِتَكْفِيرِهِمْ مَا ذَهَبُوا إِلَيْهِ مِنْ نَفْيِ هَذِهِ الصِّفَاتِ الَّتِي أَثْبَتَهَا اللهُ تَعَالَى لِنَفْسِهِ وَجُحُودِهِمْ لَهَا بِتَأْوِيلٍ بَعِيدٍ , مَعَ اعْتِقَادِهِمْ إِثْبَاتَ مَا أَثْبَتَ اللهُ تَعَالَى , فَعَدَلُوا عَنِ الظَّاهِرِ بِتَأْوِيلٍ , فَلَمْ يَخْرُجُوا بِهِ عَنِ الْمِلَّةِ وَإِنْ كَانَ التَّأْوِيلُ خَطَأً , كَمَا لَمْ يَخْرُجْ مَنْ أَنْكَرَ إِثْبَاتَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي الْمَصَاحِفِ كَسَائِرِ السُّوَرِ مِنَ الْمِلَّةِ

پس وہ لوگ ان کی تکفیر کا ارادہ رکھتے تھے ان کے لئے جو اس طرف گئے کہ صفات کی نفی کرتے جو الله نے اپنے لئے ثابت کی ہیں اور ان کی تاویل بعید پر اس عقیدے کے ساتھ کہ جو الله نے ثابت کیا ہے اس کو مانیں … پس (ابن عباس) ان کو ملت سے نہیں نکالا باوجود یہ کہ ان کی تاویل غلط تھی – ایسے ہی جو سوره فلق و الناس کا اقرار نہیں کرتے ان بھی ملت سے خارج نہیں کیا گیا

و الله اعلم

پھر اس روز جن و انس سے ان کے گناہ کا سوال نہ ہو گا
سورۃ الرحمن آیت ۳۹
حالانکه وہ دن حساب کا دن ہے
پلیز اس آیت کی کچھ وضاحت کر دیں

جواب

روز محشر الله تعالی ہر انسان کا نامہ عمل اس پر پیش کر دیں گے اور میزان میں عمل رکھ کر دکھا دیا جائے گا کہ کیا فیصلہ ہے
ہر ہر بندے سے الله تعالی سوال نہیں کریں گے

کفار کے چہرے سیاہ ہوں گے اور مومنوں کے زندہ ہونے پر سفید
کفار سے سوال ہو گا
فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
تمھارے رب کی قسم ہم ان سب سے سوال کریں گے اس پر جو انہوں نے عمل کیا
امام بخاری صحیح میں کہتے ہیں
وقال عدة من أهل العلم في قوله : ” فوربك لنسألنهم أجمعين عما كانوا يعملون ” عن لا إله إلا الله
اہل علم کہتے ہیں آیت ہم ضرور سوال کریں گے ان سب سے جو یہ عمل کرتے ہیں یہ کوئی الہ نہیں سوائے الله کے سے متعلق ہے

لہذا علماء کہتے ہیں سوره الرحمان کی آیات سے مراد صرف مومن ہیں

—-

محشر میں فیصلہ کے بعد کفار کا مذاق اڑانے کے لئے بھی سوال ہو گا
وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ
ذرا ان کو روکو ان سے سوال کرنے ہیں

و الله اعلم

——-

یا الله یا مالک الملک اپنے حساب اور سوال سے بچا آمین

4987 . حدثنا موسى بن إسماعيل، عن إبراهيم بن سعد، حدثنا ابن شهاب، عن عبيد بن السباق، أن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال أرسل إلى أبو بكر مقتل أهل اليمامة فإذا عمر بن الخطاب عنده قال أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ إن عمر أتاني فقال إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن وإني أخشى أن يستحر القتل بالقراء بالمواطن، فيذهب كثير من القرآن وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن‏.‏ قلت لعمر كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر هذا والله خير‏.‏ فلم يزل عمر يراجعني حتى شرح الله صدري لذلك، ورأيت في ذلك الذي رأى عمر‏.‏ قال زيد قال أبو بكر إنك رجل شاب عاقل لا نتهمك، وقد كنت تكتب الوحى لرسول الله صلى الله عليه وسلم فتتبع القرآن فاجمعه فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان أثقل على مما أمرني من جمع القرآن قلت كيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هو والله خير فلم يزل أبو بكر يراجعني حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر أبي بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فتتبعت القرآن أجمعه من العسب واللخاف وصدور الرجال حتى وجدت آخر سورة التوبة مع أبي خزيمة الأنصاري لم أجدها مع أحد غيره ‏{‏لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم‏}‏ حتى خاتمة براءة، فكانت الصحف عند أبي بكر حتى توفاه الله ثم عند عمر حياته ثم عند حفصة بنت عمر ـ رضى الله عنه ـ‏.‏

روایت میں عبید ابن السباق مجہول النسب راوی شامل ھے جس سے ابن شھاب زھری روایت کر رھا ھے ، ابن شہاب زھری جیسے شخص کا نام آتے ھی ھمارے محدثین کی آنکھوں پر تقدس کی پٹی چڑھ جاتی ھے اور اس کے بعد وہ جو کچھ ان کو کھلا دیتا ھے بلا حیل و حجت کھا لیتے ھیں قرآن جیسی خدا کی حفاظت میں محفوظ کتاب پر وار کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کی بات پر اعتبار کر لینا جس کے باپ دادا پردادا کا نام و نسب کسی کو پتہ نہیں ، جس کی سوائے اس روایت کے جو کہ سرے سے جھوٹی اور من گھڑت ھے ، اور دوسری روایت جو مذی سے متعلق ھے جو کہ خلاف عقل ھے ،کوئی تیسری حدیث ذخیرہ حدیث میں نہیں پائی جاتی یہ شخص ھمیشہ اس سے روایت کرتا ھے جو اس کی پیدائش سے پہلے مر چکا ھوتا ھے ،،(عبید ابن السباق پیدائش 50 ھجری بقول امام بخاری در تاریخ کبیر – تاریخ وفات زید بن ثابتؓ 48 ھجری بقول ابن حجر بقلم خود ) اس عبید ابن سباق کواس کی پیدائش سے دو سال پہلے رحمِ مادر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلوایا اور عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھے ، جنگ یمامہ کے زمانہ میں اورکہا کہ اے زید یہ عمر میرے پاس آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ جنگ میں بہت خونریزی ہوئی ہے اور بہت سے قرآن کے قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اور جنگوں میں بھِ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہ سکتا ہے جس کی وجہ سے قرآن کا بڑا ذخیرہ یا بہت زیادہ قرآن ضائع ہوجائے گا اس لئے عمر کہتا ہے کہ میں اس لئے آیا ہوں تاکہ قرآن کے جمع کا حکم دیا جائے –تو میں نے عمر کو کہا کہ میں وہ کام کیسے کروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہں کیا تو عمر نے کہا کہ یہ کام بہت ضروری ہے اور بہتر اور خیر ہے اور اس پر اصرار کرتا رہا تاکہ اللہ پاک نے اس معاملہ میں میرا سینہ کھول دیا اور شرح صدر کردیا – زید نے کہا کہ مجھے ابوبکر نے کہا کہ تو نوجوان آدمی ہے اور ہم نے تجھے کسی تہمت میں بھی ملوث نہیں پایا اور تم رسول اللہ کے لئے بھی وحی لکھتے تھے اس لئے قرآن کی تلاش کرو اور پھر اس کو جمع کرو-سو اللہ کی قسم اگر یہ لوگ مجھے پہاڑ کو ادھر ادھر کرنے کو کہتے تو مجھے اتنا بھاری نہ لگتا جتنا یہ جمع القرآن والا کام بھاری ہے- تو میں نے ان کو کہا کہ آپ یہ کام کیسے کع رہے ہو جو رسول نے نہیں کیا تو ابوبکر نے کہا کہ قسم سے یہ اچھا کام ہے اور مجھے بار بار کھتے رہے تاکہ میرا بھی شرح صدر ہوگیا پھر میں جمع قرآن کے پیچھے پڑگیا اور کھجور کے لکڑیوں، ہڈیوں ، پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کیا اور مجھے سورہ توبہ کی آخری آیت نہیں مل رہ تھی آخر وہ صرف ایک ہی صحابی ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملیں – یعنی لقد جاءکم رسول من انفسکم سے آخر سورہ تک – پھر یہ جمع کردہ صحیفے ابوبکر کے پاس رہے ان کی وفات کے بعد عمر کے پاس اور ان کی وفات کے بعد ام المومنین حفصہ بنت عمر کے پاس رہے-
۔

1- عبید ابن سباق حضرت زید بن ثابتؓ کی وفات کے دو سال بعد پیدا ھوا ھے ، امام بخاری اگر ابن شھاب کے تقدس سے ھپناٹائز نہ ھوتے اور ابن شھاب سے آگے اس کے شیخ عبید ابنِ السباق کی حقیقت پر نظر مار لیتے تو اس کے داؤ میں کبھی نہ آتے ، جبکہ خود امام بخاری اپنی تاریخ کبیر میں اس راوی کی پیدائش 50 ھجری اور وفات 118 ھجری 68 سال کی عمر میں لکھتے ھیں تو پھر وہ اپنے پیدا ھونے سے دو سال پہلے 48 ھجری میں فوت ھو جانے والے صحابی سے روایت پر لازم چونک جاتے ،، عجیب تماشہ ھے کہ اس کے ترجمے میں لوگ یہ تو لکھ دیتے ھیں کہ اس نے ام المومنین سے بھی حدیث روایت کی ھے ، جبکہ ساری امھات المومنین اس کی پیدائش سے پہلے یا بچپن میں فوت ھو گئ تھیں ،، ابن عباس روایت کا ذکر ھے مگر اس کی کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں جو ابن عباس سے مروی ھو یا امھات المومنین سے مروی ھو ، اس کے ترجمے میں یہ بڑے بڑے نام ڈالنے کا مقصد صرف اس کے شیئر کا گراف بلند کرنا مقصود ھے ، ورنہ بخاری کا راوی ھو اور ایک حدیث بیان کر کے غائب ھو جائے ، اور بعد والے اگر امام بخاری کی عظمت کی پٹی کا ایک کونا اٹھا کر ایک آنکھ سے بھی اس عبید کی حقیقت کی چھان بین کر لیتے تو کبھی قرآن پر ایک کاری وار کا ذریعہ نہ بنتے ۔

جواب

طبقات ابن سعد کے مطابق
عُبَيْدُ بْنُ السَّبَّاقِ الثَّقَفِيُّ. رَوَى عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ فِي الْمَذْيِ , وَرَوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
عُبَيْدُ بْنُ السَّبَّاقِ الثَّقَفِيُّ نے سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنہ سے الْمَذْيِ کے حوالے سے روایت کیا ہے اور ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنہ سے بھی

امام بخاری کے مطابق ام المومنین جویرہ رضی الله عنہا سے روایت ہے اور زید بن ثابت رضی الله عنہ سے بھی

ابن ابی حاتم کہتے ہیں
عبيد بن السباق روى عن اسامة بن زيد وسهل بن حنيف وابن عباس وميمونة روى عنه الزهري سمعت أبي يقول ذلك
ان اصحاب سے بھی انہوں نے روایت کیا ہے
———–

جن صاحب کی یہ تحریر ہے ان کو اعتراض اس پر ہے کہ عُبَيْدُ بْنُ السَّبَّاقِ الثَّقَفِيُّ سن ٥٠ ھ میں پیدا ہوا – بقول ان کے ایسا تاریخ الکبیر از امام بخاری میں ہے – لیکن راقم کو یہ قول تاریخ الکبیر میں نہیں ملا

———

قرآن میں ہے کہ مشورہ کرو- لیکن یہ ان معاملات میں ہے جن میں حاکم ضروری سمجھے بعض اوقات
Executive Order
جاری کیا جاتا ہے
اسی لئے امیر کی اطاعت کا حکم ہے

اولوالامر کی اطاعت کا انکار اس پر نہیں ہوتا کہ انہوں نے مشورہ تو کیا ہی نہیں

مثلا جو زکوه نہیں دیے رہے ان سے قتال ابو بکر رضی الله عنہ کا
Executive Order
ہے

اور اسی طرح جمع القرآن بھی
—————————-

موصوف نے کہا

9- اب مزید وار کیئے جا رھے ھیں تا کہ ثابت کیا جائے کہ سورتیں اور آیتیں خلفاء راشدین نے اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیں ،مثلاً ایک روایت میں کہلوایا گیا کہ جب سورہ توبہ کے آخر والی دو آیات ملیں تو عمؓر نے کہا کہ اگر یہ تین آیتیں ھوتیں تو ھم ان کی نئ سورت بنا دیتے مگر چونکہ یہ دو ھیں لہذا ان کو آخری نازل ھونے والی سورت میں رکھ دو ،، گویا عمر و ابوبکر بیٹھ کر آیتوں کی تعداد و ترتیب طے کر رھے تھے

—-

راقم کہتا ہے ایک صحیح روایت کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک ضعیف سے استدلال قائم کیوں کیا جا رہے ہے
اس کی روایت کی سند صحیح نہیں
کتاب المصاحف از ابن ابی داود کی روایت ہے
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: أَتَى الْحَارِثُ بْنُ خُزَيْمَةَ بِهَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ السُّورَةِ: {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} [التوبة: 129] إِلَى عُمَرَ فَقَالَ: مَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ: لَا أَدْرِي وَاللَّهِ إِلَّا أَنِّي أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَعَيْتُهَا وَحَفِظْتُهَا، فَقَالَ عُمَرُ: ” وَأَنَا أَشْهَدُ لَسَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ كَانَتْ ثَلَاثَ آيَاتٍ لَجَعَلْتُهَا سُورَةً عَلَى حِدَةٍ، فَانْظُرُوا سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ فَأَلْحِقُوهُمَا، فَأَلْحَقْتُهَا فِي آخِرِ بَرَاءَةَ ”
سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہے اور وہ ضعیف ہے

عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ نے کہا الْحَارِثُ بْنُ خُزَيْمَةَ دو آیات لے کر عمر کے پاس گئے وغیرہ
سوال وہی اتا ہے کہ کیا الْحَارِثُ بْنُ خُزَيْمَةَ کی وفات سے پہلے عباد نے ان سے سنا یا نہیں؟

People of Gospel

And He (Allah) will teach him (Jesus) the Book and Wisdom, (and) the Torah and the Injeel (Gospel).(Al-Imran 48)

 

CONTENDING VOICES

Comparative Study of Four Gospels 

Contending Voices in Gospels

The Gospels represent a compilation of various, often conflicting, narratives centered around the life of Prophet Essa (Jesus). This work embarks on an in-depth exploration of these narratives, identifying and analyzing both the common themes and the points of contention within the texts. By doing so, it aims to shed light on the underlying political motivations and agendas of the different Christian sects of the time.

The analysis delves into how these sects interpreted the teachings and events in the life of Jesus, highlighting the differences in their portrayals. This includes examining the distinct theological perspectives and historical contexts that influenced the writing and compilation of the Gospels. The work seeks to understand how these varying interpretations and accounts reflect the broader socio-political sense.

The analysis includes a critical examination of the narrative structures, theological emphases, and the portrayal of key events in the life of Jesus. Through this, the study aims to provide a clearer understanding of the early Christian landscape, marked by its varied interpretations of Jesus’s teachings and the resultant formation of distinct Christian denominations, each with its own ideological and theological underpinnings.

 

126 Downloads

Gospels of Jesus are perhaps most read and most debated books in the world today. Gospels represent the ancient literature of different sects. Using literature as medium, different sects purported their ideologies and believes. Four gospels are not one version, but four different versions of events, surrounding historical Jesus. They were written to be read standalone unlike the way people read them today by combing all four together. Early Christians belonged to different sects or brands; all proclaiming the association with the Jesus. The closest to Jesus were his disciples, however none of the present gospels considered authentic by Christians came from Jesus’ immediate disciples. Close study of four gospels reveal that they are not only similar at some places but they also contain contending voices.  The authors of these gospels must respond to their opponents. In three synoptic gospels it is vividly indicated that Peter or Simon’s Church was one of their opponents. It is stated in all four gospels that disciples of Jesus (most noteworthy Peter or Simon) were unintelligent people and were unclear about the  mysterious role of Jesus on earth, even though Jesus tried to explain that to them a number of times. Disciples even rejected that Jesus had resurrected after crucifixion.  In gospel of John, the disciple Thomas is shown in complete disbelief even after talking to risen Christ. Later in New Testament Literature in letters of Paul or Saul it is explained that disciples were observant of Laws of Moses. For Paul the Torah was an annulled Law and its observance after Jesus is futile. He wanted to spread his faith among Gentiles at all cost.  Both Luke and Mark were the followers of Paul and wanted to forward Pauline theories.

In the present work the contending voices of different groups in four gospels are analysed to understand the real purpose of the authors, and to put it simply, what brand of Christianity they were supporting.  In this process the Quranic Perspective is also elaborated. It is hoped that readers find this work interesting and illuminating.

Abu Shahiryar

2013

Part-I: Jesus in New Testament

The claim that the book contains the words of God is indeed an enormous claim. Billions of people could accept it as basis of their faith. They would spend lives in learning, memorizing and preaching theses words.

Jesus, perhaps most widely discussed personality ever since his birth. Jews called him imposter, Muslims called him a Prophet and Christians called him the Son of God.   The early Christians considered Jesus as a Messiah foretold in books of Prophets. He was also considered as a Prophet and some also consider him as king of Jews. After Jesus, different sects appeared who claimed to have knowledge of Jesus. Some claimed that he taught secret doctrines. Some claimed that he said things in parables to explain his teachings. These contending sects wrote the books on teachings of Jesus.  People claimed that they knew the real teachings of Jesus and wrote about his kyregma (preaching).  Some of the  books are extinct now but we know them by names like Gospel of Hebrews. Some are declared apocryphal  Peter, Mary Magdalene,  Thomas  etc and some are declared Canonical like gospel of  Mark, Mathew, Luke John, etc.

 

However all these gospels are different from each other, not only in style and sequence of events but also in their message. The conflicting gospels and there confusions forced Christians into Arian[1], Nestorian[2] and Flioque[3] controversies.  The controversies led Christians to convene councils and develop new doctrinaires like Trinity[4] for example.

 

The depiction of Jesus in these books is very important. Mathew focused on the Jesus role as Davidic Messiah, Mark placed his focus on the infusion of Divine Spirit into Jesus, Luke stressed on his adoptionist theory whereas, John stressed that Jesus was the Divine Word incarnated.

 

Book of Mathew

 

Papias of Hierapolis (c. 125–50 CE)   wrote about Mathew : “Matthew collected the oracles (logia – sayings of or about Jesus) in the Hebrew language and each one interpreted  them as best he could”[5].

Origen said:

“and first was written (the Gospel) according to Mathew, who was once a tax collector and afterwards an apostle of Christ, who published it for those whom Judaism came to believe, composed as it was in the Hebrew language”[6]

 

Recently, Michael Goulder proposed his Lectional Hypothesis that Gospel of Mathew was written by author to be recited in 64 short units around the year on every Sunday according to lunar calendar. He showed that times in Gospels starts with Passover and ends on Passover so its an all year activity[7].

Book of Mark

 

Irenaeus informed that Gospel of Mark was the gospel of the people who “separate Jesus from Christ” (Against Heresies 3.11.7).

Book of Luke

Irenaeus wrote in his discussion on four canonical gospels:

... and Luke also who was a follower of Paul put down in a book the gospel that was preached by him (Paul)[8]

Also Irenaeus wrote

Luke is a Syrian of Antioch …. Since there were already other gospels, that according to Mathew written in Judea, that according to Mark (written in) Italy, he was urged by the Holy Spirit to write his whole gospel among those in the regions of Achaea, as he indicates this in the preface that there were already other writings before him…[9]

Book of John

It is not clear when this gospel is written and to which group this gospel is supporting but what is clear is that it is not Pauline in nature, as would be exhibited in this book.

 

People started searching through text of four gospels to understand which one of them is earliest.  Naturally closer the gospel to Jesus’ times is more reliable it would be.  The traditional view among Christians is in favour of Gospel of Mathew as a first Gospel document, followed by Gospel of Mark and then Gospel of Luke.  This view is called Augustinian Hypothesis, as the Church Fathers hinted over this view in their writings. This view was held by most of Christians today.  However, Christians themselves recognized that out of these four gospels, three are quite similar in their content. In 1776, Johann Jakob Griesbach explained this in his work on Synopsis of three gospels. His work has coined the term Synoptic Gospels for the gospels of Mathew, Mark and Luke. Griesbach proposed that Mathew is a first synoptic gospel then Luke and then Mark, a hypothesis known as Griesbach Hypothesis.  Some wanted to place the Gospel of Mark as an earliest Gospel, so in 1835, Karl Lachmann argued that Mathew and Luke also contain material not present in Mark, indicating Mark’s independent writing.  In 1838, Christian Hermann Weisse proposed that there must be a document older than these gospels and probably Luke and Mathew copied from that Quelle (German word meaning Source also called Q Gospel) and Gospel of Mark.  In 1920, R. Bultmann and B.H. Streeter published their work on this concept and now it is generally called Two-document Hypothesis. Catholics supported the Augustinian hypothesis and Protestant biblical critics supported the Griesbach hypothesis.  The research is continued on these lines and recently Burton L. Mack has published the Q Gospel based on the content of Synoptic gospels.  Another important view is: if Griesbach Hypothesis is incorrect and Gospel of Mark is copied by Luke then there must be strong similarity between the two gospels. However, there are complete passages omitted by Luke. A question arises why Luke omitted those passages; was it done intentionally or was Luke using some other gospel similar to Mark’s gospel. Comparison between the two gospels indicates that there might be an earlier version of Mark’s gospel now lost. This hypothesis is called Urmarkus Hypothesis.

The quest for real historical Jesus has become a detective’s inquiry. The problem is that one has to search through four Gospels to search for the true Jesus teachings. Catholic Church declared four gospels as genuine and rest were declared apocrypha. The same trend is followed by Eastern Orthodox Church and recently emerged Protestants. The four gospels which they consider as true word of God are according to Mathew, Mark, Luke and John.

One Christian scholar writes:

The four Gospels that eventually made it into the New Testament, for example, are all anonymous, written in third person about Jesus and companions. None of them contains a first-person narrative.. or claims to be written by an eyewitness or companion of eyewitness . Why then do we call them Mathew, Mark, Luke and John? Because sometimes in second century, when proto-orthodox Christians recognized the need for apostolic authorities they attributed these books to apostles (Mathew and John) and close companions of apostles (Mark the secretary of Peter and Luke the travelling companion of Paul)[10]

 

 


[1] Arius was the priest in Alexandria, Egypt, where he taught that Jesus was a lesser entity than God the father. He was declared a heretic and his books were burned on the orders of Constantine.  To resolve the controversies due to Arius, the First Council of Nicaea was convened, which the council of Christian bishops was held in 325 AD at Nicaea, Turkey.

 

[2] Nestorious  believed that human and divine nature of Jesus were different.  Nestorius and his teachings were finally condemned and declared as heretical at the First Council of Ephesus in 431 and the Council of Chalcedon in 451. The Council of Chalcedon was a church council in 451 AD, at Chalcedon a place in modern day Turkey. The Council of Chalcedon was convened by Emperor Marcian.  The council was convened to address the heretical doctrines Nestorian Churchs are also called the Church of East, it was also one of the thriving Church during lifetime of  Prophet Muhammad peace be upon him.

 

[3] Filioque is a Latin word which means “and from the Son.” The controversy arises due to nature of Holy Spirit. Is it coming form the God or is it sprouting from son. Eastern Orthodox Church (225–300 million adherents) was a developed after schism in Catholic Church due to Filioque Controversy. Eastern Orthodox Church believed that both the Holy Spirit and the Son have their origin in the Father whereas the Catholics believed the opposite.  Eastern Orthodox Church also believed that Holy Scriptures (as interpreted and defined by church teaching in the first seven ecumenical councils) along with Holy Tradition are of equal value and importance.

 

[4] Trinity is the Christian believe also known as  the Creed of Nicaea that there are three gods, Father, Son and the Holy Spirit.  The Gnostic concept of Homoousios was used to declare that Jesus is Father are made from same substance also called consubstantial.  This belief was further reaffirmed at the First Council of Constantinople (381 AD) and the Council of Ephesus (431 AD). The concept of Trinity has become the well established believe before Prophet Muhammad peace be upon him.

[5] Turner, David L (2008), Matthew

[6] quoted in Eusebius  Hist eccl 6.25.4; LCL

[7] Mathew’s Gospel round the year by Michael D. Goulder, Published in The Gospels according to Michael Goulder,  Edited by Christopher A. Rollston,  Trinity Press International,  2002.

[8] Eusebius Hist. eccl. 5.8.3

[9] Taken from Ancient Christian Gospels by Helmut Koester, originally quoted  in Old Gospels Prologues by Heard. Luke’s gospel  is a  prologue to  the book Acts of Apostles

[10] Lost Christianities, Bart D. Ehrman, Oxford University Press, 2003, pg 235

 

We know that people in times of Jesus were waiting for a Messiah. But what kind of personality they were expecting? There were many Jewish sects in Judea and Samaria.  In biblical literature especially of Prophets, there were predictions that Messiah (Jewish king) from the Davidic line would appear.  Some even consider John the Baptist as expected Messiah (Lk 3:15).  People in times of Jesus hold the view that Jesus is Messiah and Prophet as indicated at number of places in gospels:

 

Messiah Jews in Jerusalem (Jh 7:41), people (Mk 27:29), People in Jerusalem (Jh 7:40). Jesus claimed that he is  Messiah (Jh 4:25-26); Peter called Jesus Messiah (Mk 8:29); Samaritan woman said that Jesus is Messiah known as Christ (Jh 4:25)  
Prophet Jews in Jerusalem (Jh 7:40), (Mth 21:11; 21:46), people  (Mk 27:28), People in Jerusalem (Jh 7:40); Samaritan woman (Jh 4:19); a blind man healed by Jesus (Jh 9: 17) 

 

In gospel of Mark, contrary to others gospels, Jesus instructed his disciples not to reveal his Messiah role to anyone (see Mk 8:30, 9:9, 9:30). Even he instructed people (1:44, 5:43) and demons  (3:12) not to divulge his true identity. Why so secrecy? For Mark, Jesus true identity was a Holy Secret not to be revealed till his resurrection (Mk 9:9).  This against the other synoptic gospels and gospel of John.  In John’s gospel Jesus denied in front of Sanhedrin that he taught anything in secret.

The authors of Gospels called Jesus as Son of God[1] however they created contractions in their own writings:

 

View held by authors of gospels and contradiction

Son of God In Gospel of Mark, a voice from heaven (Mk 1:11, 9:7), demons (Mk 3:11) and a pagan roman centurion  (Mk 15:39) called Jesus with this title, but no disciple claimed that for Jesus. In Gospel of Mathew, heavenly voice said this (Mth 3:17). In Gospel of Luke heavenly voice and author claim this title for Jesus but no one from Jesus era claimed this for him. Also in Gospel of John, author claim this title for Jesus but no one from Jesus era claimed this for him.  Jesus applied the title Sons of God on his followers. Only at the time of his trial at Sanhedrin Jesus said that he is Messiah, Son of God.  

The title son of God or sons of God is used in gospels for people other than Jesus as well.

Mathew wrote:

 That you may be the children of your Father which is in Heaven (Mth 5:45)

Also

That you therefore perfect, even like your Father which is in Heaven (Mth  5:48)

 John wrote:

Jesus said to them If God were your Father, you would love me for I proceeded forth and came from God; neither came I of myself, but He sent me. (Jh 8.42)

Jesus exhibited his humanness by praying to God (Mth 14:32, 26:39;  Lk 3:21, Lk 6.12,  Lk 22:44). Jesus said to Mary Magdalene that I am going back to my father and your father, my God and your God (Jh 20:17). Does it mean that Mary Magdalene was daughter of God?

Jesus was not all knowing God (Second of Trinity). He said:

But about that day or hour no one knows, not even the angels in heaven, nor the Son, but only the Father. (Mth 24:36)

So how could he be a God?

The strongest evidence which emerged from this is that in times of Jesus, his disciples called him Messiah and people in general called him prophet. Jesus himself called others sons of Father i.e. God which is an epithet for righteousness.

Gospel of Mathew

Author of Gospel of Mathew has followed the Messiah tradition. According to him Jesus was of Davidic descant. He was from the lineage of Zerrubabel  son of Shealtiel  son of Jeconiah (Mth 1:12).  It is interesting to note that biblical Prophet Jeremiah has informed that God had cursed Jeconiah and there would no king from his lineage (Jeremiah 22: 24; 36:30). Prophet Zechariah had also predicted the Davidic Messiah. Zechariah son of Berakiah son Iddo was the prophet in early SecondTemple period. Mathew has quoted  verse from book of Zechariah (Zech 9:9) in chapter 21 of his gospel. Mathew also reported that Jesus reprimanded the Jews on killing of prophets and informed that Prophet Zechariah   was brutally murdered in Temple of Solomon (Mth 23:35).  Mathew thus was a stern believer that the perdition of Davidic Messiah is still not fulfilled.

Gospel of Mark

At the time of Baptism, Holy Spirit descended into Jesus (Mk. 1:10) It is said:

 καὶ  εὐθὺς  ἀναβαίνων  ἐκ  τοῦ  ὕδατος  εἶδεν  σχιζομένους  τοὺς  οὐρανοὺς  καὶ  τὸ  πνεῦμα  ὡς  περιστερὰν  καταβαῖνον  εἰς  αὐτόν·

And straightway coming out of the water he saw the heavens tear (apart and) the Spirit, like a dove, descending into Him

 The words καταβαῖνον  εἰς  αὐτόν means descended into him.  This Spirit remained into Jesus until at cross it came out (Mk 15:34):

καὶ τῇ ὥρᾳ τῇ ἐνάτῃ ἐβόησεν ὁ Ἰησοῦς φωνῇ μεγάλῃ λέγων· Ἐλωῒ Ἐλωῒ, λιμᾶ σαβαχθανί; ὅ ἐστι μεθερμηνευόμενον, ὁ Θεός μου ὁ Θεός μου, εἰς τί με ἐγκατέλιπες;

Jesus uttered in Aramaic: Eloi Eloi lima sabachthani ? My God, My God, Why you have left me ?

Gnostics claimed using this verse that Jesus at this moment came back into his human form[2].

Finally in Mk. 15:37 it is said that  Jesus let the Spirit to leave. Mark claimed that Jesus was teaching his disciples in secrecy (Mk 4:34)

Gospel of Luke

Luke definitely believed in adoption theory. According to him Holy Spirit has guided many people before like Simon of Jerusalem (Lk 2:26).  In ancient version of Luke’s gospel, at time of Baptism, voice uttered the verse of Psalm 2:7: “you are my son, today I have begotten you”[3]. However in the latest version this verse is changed into “you are my son, in whom I am well pleased”. In Luke’s another book, Acts, same theory is placed that God adopted Jesus (Acts 13:33)[4].

As it is written in the second Psalm:

“‘You are my son; today I have become your father”

 Thus Luke quoted out of context verses to prove the divinity of Jesus.  In Luke’s version of baptism, Holy Spirit comes in physical form of dove (Lk 3:22).

Luke also claimed that Adam was Son of God (Lk 3:28).  Jesus’ wisdom increased in Luke’s gospel (2:52) because according to Luke, Jesus was not divine from very beginning but due to his righteousness God selected him as His special son. According to Luke, Adam was also son of God. Thus one has transgressed and ate from forbidden tree and other one (Jesus) attained holiness through wisdom. This is exactly what Paul was preaching[5].

Contrary to Mark’s gospel where Holy Spirit remained in Jesus body from Baptism till death on Cross, in Luke’s gospel it comes time to time on Jesus. Luke wrote (10:21)

 On that same occasion Jesus rejoiced in the Holy Spirit

 How could Jesus rejoice in Spirit now, had it filled him at the time of Baptism?

In Transfiguration story Luke wrote 9.35

 Then a voice came from the cloud, saying, “This is my Son, my Chosen One[6]. Listen to him!”

Not only that Luke quoted out of context verses of Psalm that Jesus said:

I handover my spirit into your hands[7] (Psalm 31:5)

O Father:  I handover my spirit into your hands (Luke 23: 46)

 If Jesus was God then why he had handover his spirit to Father. Are Father, Jesus and Holy Spirit not equal in power according to concept of trinity?

Gospel of John

The author of Gospel of John  (Yuhanna) claimed that Jesus had not become adopted son due to Baptism or descending of Holy Spirit (Hulul), but was god from the very beginning. John distorted the meaning of Kalimah or Word (or in Greek Logos). John started his gospel with verses(1:1-4):

 In the beginning was the Word[8], and the Word was near[9] God, and the Word was Divine[10]. This one was in the beginning with God; All things were made through him and without him was not anything created. That was created in him was life[11] and that life was the light for humankind[12].

It is said in Gospel of John that all things were made through Word[13]. After comparing several translations and Greek grammar one Christian scholar explain the verses as :

God speaks word that make things come into existence. So Word is God’s creative Power and  plan and activity[14].

In verse 1:14 John said:

And the Word became flesh, and moved his tent in among us, and we beheld his glory, the glory as of an only begotten from a Father, full of grace and truth

Thus Jesus was Word or Logos incarnated. In this way John gave Jesus an exalted place and invented the mystery, that Kalimah or Word descended in physical form. So now John added another mystery in the nature of Jesus.

These differences in the nature of Jesus Christ were the major reason of Arian Heresy[15] which eventually led Christians towards Nicene Creed, in which using the Gnostic concept of Homoousios finally Triune God is made i.e. Theory of Three gods, Father, Son and Holy Spirit called Trinity[16].

Paul Letters

Paul changed his stance from letter to letter. He issues his political or diplomatic statements like for gentiles he wrote:

Jesus was a spirit in human form (Letter to Philippians 2:7)

For Hebrews he wrote about Jesus and compared him to Melchizedek (a contemporary of Abraham, who is even holier than Jesus). Paul wrote (Hebrews 5: 7-10):

During the days of Jesus’ life on earth, he offered up prayers and petitions with fervent cries and tears to the one who could save him from death, and he was heard because of his reverent submission.  Son though he was, he learned obedience from what he suffered and, once made perfect, he became the source of eternal salvation for all who obey him and was designated by God to be high priest in the order of Melchizedek.

Paul wrote to Romans (8:26-31)

In the same way, the Spirit helps us in our weakness, for we do not know how we should pray, but the Spirit himself intercedes for us with inexpressible groanings.  And he who searches our hearts knows the mind of the Spirit, because the Spirit intercedes on behalf of the saints according to God’s will. And we know that all things work together for good for those who love God, who are called according to his purpose, because those whom he foreknew he also predestined to be conformed to the image of his Son, that his Son would be the firstborn among many brothers and sisters.  And those he predestined, he also called; and those he called, he also justified; and those he justified, he also glorified.

He even called all followers the brothers and sisters of Jesus, with Jesus being first-born. So in a way Jesus attained holiness and his followers can also attain that state.

 

[1] Numer 23:19

[2] Gospel of Philip (v.68)

[3] Lost Christianities, Bart D. Ehrman, OxfordUniversity Press, 2003

[5] Letter to Hebrews 5:7-10

[6] A footnote is added in NET Bible: Most mss, especially the later ones, have ἀγαπητός (agaphto”, “the one I love”; A C* W Ë13 33 Ï it), or ἀγαπητὸς ἐν ᾧ (ἠ)υδόκησα (agaphto” en |w (h)udokhsa, “the one I love, in whom I am well pleased”; C3 D Ψ pc) here, instead of ἐκλελεγμένος (eklelegmeno”, “the Chosen One”), but these variants are probably assimilations to Matt 17:5 and Mark 9:7. The text behind the translation also enjoys excellent support from Ì45,75 א B L Ξ (579) 892 1241 pc co. (see https://bible.org/netbible/)

[7] Actually said for King or Prophet David peace be upon him

[8] The word λόγος (Logos) in John: 1- 4, is translated as Word or Kalimah. Also means cause, reason or speech.

[9] Truth in translation, Accuracy and Bias in English translations of the New Testament by Jason David BeDuhn,  pg 129

[10] Truth in translation, Accuracy and Bias in English translations of the New Testament by Jason David BeDuhn, University Press of America, Inc., 2003; BeDuhn has showed that the correct translation is Word was Divine not the Word was God.  In almost all translation in English for this verse it is said that the Word was God. Christians rendered the meaning to imply the divinity of Jesus and translated it wrongly.  Allah said Jesus is Kalima-tullah i.e. Word of Allah. In Islam that Word means the command of Allah, which indicates His Absolute Power that He created Jesus out of nothing in the womb of Virgin Mary peace be upon her. Allah had created earlier Adam peace be upon him with command as well.

[11] Early Manuscripts and Modern Translation of New Testament by Philip Wesley Comfort, Wipf and Stock Publishers, 1990

[12] http://bibletranslation.ws/trans/johnwgrk.pdf

[13] Allah informed us about His Kalimah in Quran it is “Kun” i.e. To Be.

وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

When He decrees a matter, He only says to it : “Be!” – and it is.

[14] Truth in translation, Accuracy and Bias in English translations of the New Testament by Jason David BeDuhn, pg 129

[15] Arianism is the teaching attributed to Arius (ca. AD 250–336). According to Arius Jesus was created and not present from the very beginning. He was concerned about the relationship of God to the Jesus of Nazareth. Arius asserted that the Son of God was a subordinate entity to God the Father.  Arius was deemed as a heretic by the Ecumenical First Council of Nicaea of 325.

[16] Belief of the Trinity or Tathleth

 

It is informed in all four Gospels that Jesus lived in first Christian Century and in those days important administrative regions where Jesus moved were Judea, Galilee, Samaria and Decapolis. Pilate was ruling over Judea and can only he can order the death and Crucifixion of rebels. TemplePriesthood cannot itself crucify the rebels. But may identify the miscreants in society and handover them to Roman administration.

map-1

The itinerary Jesus followed during his preaching is an important aspect of analysis. If Synoptic gospels are similar in content then important is what the differences are. What the author wanted to communicate and one thing they have all not agreed on is itinerary of Jesus.

Gospel of Mathew

Gospel of Mathew informs that Jesus ministry started at the moment of Baptism at river Jordan (Mth 3:13) where John used to baptize his followers. John is depicted as an anchorite in desert who used to consume the things available in wilderness (Mth 3:4).  After the Baptism, Jesus, under the influence of Spirit, went to wilderness as well and then to Jerusalem for trial. Afterwards, Jesus went to Galilee (Mth 4: 12) and moved from the town of Nazareth to Capernaum. There he met  Simon also known as Peter and his brother Andreas at the Sea of Galilee. Jesus continued his preaching in Galilee for some time (Mth 4:23).  Many people followed him from Judea, Decapolis, Galilee and Jerusalem (Mth 4:25). Mathew is anti-Samaritan author so no one from Samaria followed him.

mathew

Jesus delivered a long Sermon on the mountain in Galilee.  After that he came back to Capernaum (Mth 8:5). From there he crossed the lake and went to Gergesa (Mth 8:28). There he did exorcism. Then he took the ship  to go back to his city (Nazareth) (Mth 9:1) . There he met Mathew, the tax collector. He performed several miracles there and selected twelve disciples for teaching (Mth 10:1).  One day he went to shores of Sea of Galilee (Mth 13:1) there he talked in parables, then came back to Nazareth (Mth 13:54). Again he went to Sea of Galilee and walked on water (Mth 14) crossed over and went to region of  Gennesaret  (Mth 14:34). From there he went to Tyre and Sidon (Mth 15:21) then came back to Sea of Galilee (Mth 15:29) and performed miracles there. From there he went to Caesarea Philipi  (Mth 16:13) then went to Capernaum (Mth 17:24).  From Galilee he went to borders of Judea (Mth 19) and gone to Jerusalem via Jericho (Mth 20:29). In Jerusalem he had bitter conversations with Jewish Rabbis in Temple.  Then while he was in Bethany (Mth 26:6) a woman came with perfume and pour it over Jesus. Judas meanwhile informed the Priesthood of temple who arrested him (Mth 26:47) and presented him to Caifa, The Head Priest (Mth 26:57). They handed over him to ruler Pilate (Mth 27:1) who interrogated him  (Mth 27:11). On Passover eve, Pilates asked the mob of Jews to release Jesus or Jesus Bar Abba (Mth 27:15). Jews unanimously said: Crucify Jesus, the Messiah (Mth 27:23). Finally Pilates was forced to order the crucifixion.

 

Gospel of Mark

Gospel of Mark contains one of the most complex itineraries of JesusMinistry. To explain this it is not possible to include all of it in on single map. Therefore the itinerary is divided into three maps.

 

Gospel of Mark contains not that much material as covered in other gospels even then it depicted Jesus as a fast traveller. Mark started his Gospel with the event of Baptism at river Jordan. It must be close to Jerusalem as John used to do it at river Jordan and people of Jerusalem gather there (Mk 1:4). Jesus specially came from Galilee to receive the Baptism from John (Mk 1:9).  After Baptism Jesus went to Sea of Galilee and in the course he met Peter and Andreas (Mk 1: 16).

mark-I

Jesus, Peter and Andreas went to Capernaum (Mk 1: 21).  He went into suburbs of Capernaum then went back to city (Mk 2:1) and performed miracles. Then went to lake (Mk 2: 13) and great number of people from Jerusalem, Judea,  Idumea,  Tyre. Sidon and people across river Jordan gathered around him (Mk 3:7). Jesus preached at mountain near Sea of Galilee, in plains and at shores of it. He performed miracles and exorcisms and talked in parables.  He went across the lake into the region of  Gergesa (Mk. 5:1), performed miracles and then crossed over the lake (Mk 5:21).  Then Jesus went back to his city (Nazareth) (Mk 6:1).

mark-II

From Nazareth again he went to lake, instructed his disciples to go to Bethsaida before him (Mk 6:45), but he walked over the lake and caught them in the lake and went to Gerasenes region (6:53). Jesus had bitter conversation there with Pharisees and sages of Jerusalem.

mark-III

Then he went to Bethsaida (Mk. 8:22) then he went to Caesarea Philipi (8:27). He took off from there passed through Galilee(Mk 9:30) and arrived at Capernaum (Mk. 9:33).   From there he reached the borders of Judea across river Jordan (Mk 10) and entered Jericho (Mk 10:46). From there he went to Jerusalem.

Gospel of Luke

Luke

In Luke’s gospel, Jesus was born in Bethlehem (Lk 2:8-11) and raised in Nazareth in Galilee (Lk 2:29). Parents of Jesus used to visit Jerusalem on Passover eves along with Jesus (Lk 2:41) and return to Galilee (Lk 2: 51).  John started the Baptism at river Jordan and Jesus was also there to receive Baptism (Lk 3:21). From there Jesus started his own preaching and went back to Nazareth (Lk 4:16).  Jesus went to Capernaum (Lk 4:21) and preached in many synagogues of Galilee (Lk 4:44).  Jesus preached at Lake of Gennesaret  and preached in ship of Peter (Lk 5:1).  Then he went to one city (not named) (Lk 5:12), he performed miracles.  He went to Capernaum (Lk 7:1)  and then to Nain (Lk 7:11). From there he went across the Sea of Galilee to Gergesa (8:22) and went to Bethsaida (Lk 9:11).  He gave his disciples power and authority to drive out all demons and to cure diseases (Lk 9).   From there he set off for Jerusalem (Lk 9:51). Jesus arrived at Jerusalem via Jericho.  Jesus had never been to Caesarea Philipi, Tyre and Sidon.

 

Gospel of John

John

Gospel of John informs that John the Baptist started baptizing people at river Jordan. He saw Jesus and proclaimed that Jesus is the Lamb and Son of God and also saw Holy Spirit descending on Jesus (Jh Ch 1).  Jesus went to Galilee and selected Andreas, Philip and Peter as his disciples (Jh 1:43).  Jesus was son of Joseph from Nazareth (Jh 1:46).  Then Jesus was in Cana  (Jh 2:1).  Jesus along with his brother and mother went to Capernaum and stayed there for some time (Jh 2:12). From Capernaum or Cana, Jesus went to Jerusalem (Jh. 2:13).  He went to Jerusalem (Jh 4:46)  via Samaria.  He came to a town in Samaria called Sychar (Jh 4:5). From there Jesus went to Galilee (Jh 4:43) and arrived at Cana (4:46).  From there Jesus went to Jerusalem (Jh 5:1).  There he had a bitter conversation with Jews. Afterwards he went to Tiberias in Galilee (Jh 6:1). There he cross over the Sea of Galilee and entered Capernaum (6:17).  There he preached the doctrine of eating his body and blood.  He preached in Galilee and then went to Jerusalem (Jh 7:14). Jesus crossed over the river Jordan to the place of John (Jh 10:40)[1].  From there, Jesus went to Bethany (Jh 11) to resurrect Lazarus. Jesus went to Ephraim from Bethany (Jh 11:54) and came back (Jh 12:1).  From Bethany, Jesus went to Jerusalem (Jh. 12:12).

 

 

Table: Important Cities mentioned in Gospels

City Visit & Details
Nazareth It was city of Jesus where he lived (Mth 2:23)
Bethsaida In gospels of Mark and Luke, Jesus went there. In Mathew and John, Jesus never went there. It was city of Peter, Philip and Andreas (Jh. 1.43),  (Jh. 12:21). Jesus uttered a rant against this city (Mth 11:21).
Capernaum In all four gospels, Jesus went there. Jesus uttered rant against this city (Mth 11:23).
Cana Only mentioned in Gospel of John. Nathanael was from this city
Tyre or Sidon Jesus went there in gospel of Mathew & Mark. In Mathew Jesus praised the inhabitants of city (Mth 11:21). There Jesus met a Canaanite woman (gentile) and asked for exorcism (Mth. 15:21)
Samaria Region Jesus instructed his disciples not to go to any of the city in Samaria (Mathew 10:6) Jesus stayed for two days in Samarian cities along with his disciples (John 4:27). Also John the Baptist used to baptize near Salim (city in Samaria) (Jh 3:23). Ephraim where Jesus went in the end of book of John must be a city in Samaria. According to Luke, Samaritans  accepted the Jesus message after his crucifixion and Peter and John went there to visit them (Acts 8:14) but in Jesus lifetime they not even allowed him to enter their cities (Luke 9:51-52) but Jesus healed them once (Lk 17:11-16) and persuaded others to help them (Lk 10:33). Jews called Jesus a Samaritan i.e. one with heretic faith  (Jh 8:48) 
Caesarea Philipi In gospels of Mathew and Mark, Jesus went there.  In this city people claimed that Jesus is John the Baptist, Elijah and a Prophet (Mk. 8:28)  and Jeremiah (Mathew 16:15) 
Korazin Chorazin or Korazin  was a village in northern Galilee, two and a half miles from Capernaum on a hill above the northern shore of the Sea of Galilee[1]. According to gospel of Mathew, Jesus uttered rant against this city (Mth. 11:21)
Bethany Jesus went there (John 11:54, 12:12).
Emmaus Emmaus is city seven miles from Jerusalem, People who were going to Emmaus, saw resurrected Jesus, one of them was Cleopas (Lk 24:17). Only mentioned in Gospel of Luke.

[1] It is strange that John the Baptist is now placed across the river Jordan, previously it was mentioned that John used to baptize at Salim. Compare John 3:23 with John 10:40.

 

 

 

In gospels it is informed that Jesus had twelve disciples. In gospels of Mark, Mathew and Luke the list of these twelve disciples is given. However in Gospel of John, all the names of disciples are not given. Instead there is an unknown admirer of Jesus who is introduced as the disciple whom Jesus loved. Author of Gospel of John has not uttered his name at all. In the end of his gospel, he further stated that whatever is said in this gospel is witnessed by this disciple.

 

List of Twelve Disciples

Mathew (10:2) Mark (3:16) Luke (6:12-14) John
Simon or Peter Simon or Peter  Simon or Peter Simon or Peter (Jh 1:44) 
Andreas brother of Peter Andrew Andreas Andreas (Jh 1:43) 
Jacob son of Zebedee   Jacob Son  of Zebedee  
John son of Zebedee John son of Zebedee, Boanerges, which means “sons of thunder  John Son of Zebedee  
Bartholomew Bartholomew Bartholomew 
Matthew Matthew Matthew 
Thomas Thomas Thomas Thomas or Didymus (Jh 11:16)
 James son of Alphaeus James son of Alphaeus, James son of Alphaeus  
 Simon the Zealot Simon the Zealot Simon the Zealot
    Judas son of James, Nathanael 
Philip Philip Philip (Jh 1:44)
   James son of Zebedee     
Thaddaeus Thaddaeus Thaddeus (Jh 14:22)
       
Judas Iscariot Judas Iscariot Judas Iscariot Judas Iscariot

                                                                                                                                                            

 

In gospel of John, James is not mentioned in twelve.  Peter was brought to Jesus by his brother Andrew. Nathanael, Samaritan Women at well, Man born blind, Mary Magdalene, Martha and Lazarus played important roles then disciples.  Then there are Nickodemus, Man healed at Bethesda.

 

Among the twelve disciples, Peter is depicted as most confused and unintelligent disciple of Jesus. In all four gospels it is informed that Jesus said to him that Jesus foretold Peter that at most critical moment of his mission, Peter would deny Jesus and at that moment a rooster will crow ( Mathew 26:25, Mark 14:30, Luke 22:34, John 18:27)

 

Jesus saw Peter catching fish. Peter become the disciple of Jesus and Jesus said sarcastically to Peter (Lk 5:10-11)

 

Then Jesus said to Simon, “Do not be afraid; from now on you will be catching people.

 

 

 

 

Table: Important Personalities

 

Person Description
Peter  Real name: Simon bar Jonah (Jh 1:42); Peter real name was Simon bar Jonah (Mth 16:17); Jesus gave him title:  Cephas (in John 1:42); he was follower of John the Baptist before Jesus (Jh 1:35). Peter saw Jesus three times after resurrection (Jh 21:14). Jesus inquired Peter do you really love me (Jh 21:15). Mark removed the verses of Mathew that Church of Jesus would be established on Peter.
Andreas Was real brother of Peter (Jh 1:41)
Philip Philip was from Bethsaida (Jh. 12:21) was unaware of Jesus role (Jh. 14: 8-10)
Thomas Thomas was unaware of Jesus reality (Jh 14: 5). Thomas missed the vision of resurrected Jesus (Jh. 20: 25). Eight days after resurrection, Jesus appeared again but Thomas was still sceptic (Jh. 20: 26-29)
Nathanael He was a follower of Jesus  from Cana and saw resurrected Jesus at lake  (Jh 20: 21)
Mathew He was Disciple of Jesus originally a tax collector (Mth 9:9). Mark changed him to Levi son of Alphaeus (Mark 2:14). Luke changed the name to Levi (Lk 5:27) 
Simon Iscariot He was a disciple but deceiver (Jh 6:71), (Mth 26: 14 & 47)
Mary Magdalene She was From Bethany (Jh. 11:1); It was famous that Jesus exorcised  seven demons from her (Lk 8:2; Mk 16:10). She was the first one who arrived at the grave of Jesus (Mth 28:1), (Mk 16:1),(Jh. 20:1). She claimed she had seen an angel (Mth 28:2-7).   Mary Magdalene, Mary the mother of James, and Salome saw angel after resurrection and they informed no one about this due to horror(Mk. 16:1) the Mary saw him (Mk 16:9)[1] Mary Magdalene, Joanna, Mary the mother of James were women from Galilee (Lk 23:55) were the first who arrived at grave  and saw angel (Lk 24). They informed about the missing body to others including Peter (Lk 24: 11-12) She claimed that she saw resurrected Jesus and he talked to her (Jh. 20:18).
Martha Sister of Mary Magdalene from Bethany (Jh 11:1)
Brothers of Jesus Jacob, Joseph (Mth) or Joses (Mk), Simon and Judah (Mth 13:55) (Mark 6:3) were brothers; Brothers were not believers (Jh 7:1-6); According to Jerome they were the cousin’s of Jesus[2]
Unnamed disciple Author of gospel of John has created this character in his gospel. He never told his name. But mentioned him a number of times (Jh. 13: 23). Jesus said to his mother Marry that your son is this disciple (Jh 19:26). Mary Magdalene informed this disciple first about the missing body of Jesus (Jh. 20:2) and he arrived at grave site before Peter (Jh. 20:4). He claimed that he saw Jesus at lake in Tiberias after Jesus’ resurrection (Jh. 21: 7). Jesus preferred him over Peter (Jh 21:21).  Author of gospel of John informed that this is the disciple who testifies to these things (stated in John’s gospel) and who wrote them down. (Jh.21:  24-25). 

 

 

 

In gospel of Mark, Jesus said to Peter (8:33):

But when Jesus turned and looked at his disciples, he rebuked Peter. “Get behind me, Satan!” he said. “You do not have in mind the concerns of God, but merely human concerns.”

 

In Gospel of Mathew it is informed that:

 

When they saw him, they worshiped him; but some doubted. (Math 28:17)

 

Thus in gospels it was taught that disciples were not the true believers in the divinity of Jesus; they were attached to Jesus for some unknown reason.

 

Both Luke and Mark, being followers of Paul removed the Jesus’ prediction that the Church of Jesus would be established on Peter.

 

Another important character among disciple of Jesus was called Thomas in all four gospels. It can be speculated that both Thomas and Didymos are nicknames, as they both means twin in Aramaic and Greek respectively. In Gospel of Thomas, the full name is pronounced as  Didymos Judas Thomas. So Thomas real name was Judas.  It means there were two Judas in Gospel of John, one who betrays (Judas Iscariot) and Judas, who denies the bodily resurrection of Jesus. Both of them are remembered as one in Twelve in gospel of John[3].  The Church followed by author of Gospel of Thomas also claimed that Thomas is Jesus’ twin brother[4].

 

Mother of Jesus in Gospels

Mark told that family of Jesus considered him mad. He wrote (Mk 3:21)

When his family heard about this, they went to take charge of him (to seize him), for they said, He is out of his mind.

So Mark depicted Jesus’ mother in a negative light. What motivated Mark to concoct such verses. Mark belonged to Pauline Church and its opponent was Jerusalem Church infected with Jewish Law, so   it has become necessary for Pauline church adherent to undermine Mother of Jesus.

Luke informed that Jesus birth was announced to Mary (Lk 1: 26-38):

In the sixth month of Elizabeth’s pregnancy, the angel Gabriel was sent by God to a town of Galilee called Nazareth, to a virgin engaged to a man whose name was Joseph, a descendant of David, and the virgin’s name was Mary. The angel came to her and said, “Greetings, favored one, the Lord is with you!”  But she was greatly troubled94 by his words and began to wonder about the meaning of this greeting.  So the angel said to her, “Do not be afraid,  Mary, for you have found favour  with God!  Listen: You will become pregnant and give birth to a son, and you will name him Jesus. He will be great, and will be called the Son of the Most High, and the Lord God will give him the throne of his father DavidHe will reign over the house of Jacob forever, and his kingdom will never end[5].”  Mary said to the angel, “How will this be, since I have not had sexual relations with111 a man?”  The angel replied, “The Holy Spirit will come upon you, and the power of the Most High will overshadow you. Therefore the child  to be born will be holy; he will be called the Son of God.   “And look, your relative  Elizabeth has also become pregnant with a son in her old age – although she was called barren, she is now in her sixth month!  For nothing will be impossible with God.”  So Mary said, “Yes, I am a servant  of the Lord; let this happen to me according to your word.” Then the angel departed from her.

Both Mark and Luke undermined the mother of Jesus. They wrote (Lk 8: 19-21; Mk 3:31-35):

Now Jesus’ mother and brothers came to see him, but they were not able to get near him because of the crowd.  Someone told him, “Your mother and brothers are standing outside, wanting to see you.”   He replied, “My mother and brothers are those who hear God’s word and put it into practice.”

Also he wrote (Lk 11:27-28):

As Jesus was saying these things, a woman in the crowd called out, “Blessed is the mother who gave you birth and nursed you.”  He replied, “Blessed rather are those who hear the word of God and obey it.”

John wrote about a marriage in Cana, Galilee (Jh 2:1-11) where he used harsh language for his mother.

 


[1] According to Bart D. Ehrman, the most ancient manuscript of Mark indicates that it ends on 16:8. So whatever said after that is an addition (see Lost Christianities, Oxford University Press, 2003,  pg 220)

[2] Lost Christianities by Bart D. Ehrman, Oxford University Press, 2003, pg 210

[3] Resurrection Reconsidered by Gregory Riley, Fortress Press, 1995, pg 110

[4] Stated in Book of Thomas, from Resurrection Reconsidered by Gregory Riley, Fortress Press, 1995, pg 111-112

[5] Luke gave no explanation for the abrupt death of Jesus before the fulfilment of these prophecies. Jesus never got the throne of David and had not reigned over Jews till eternity. He was never been a King. Perhaps Luke wanted to show that God had tricked Mary as in later Gospel of Luke, she is undermined and Jesus refused to accept her as his mother.

 

Power discharges

 

Paul gave title to Jesus when he wrote to Corinthians. He said  (1 Corinthians 1:24)

 

Χριστὸν θεοῦ δύναμιν καὶ θεοῦ  Christ the power of God

 

So Jesus was the Power of God.  The authors of gospels of Mark and Luke who were close followers of Paul, explained this power in strange way. It is informed in gospel of Mark that people were healed by touch of Jesus even though he was unaware of it. It is stated (Mk 5:25-34) :

 

And a woman was there who had been subject to bleeding for twelve years. She had suffered a great deal under the care of many doctors and had spent all she had, yet instead of getting better she grew worse.  When she heard about Jesus, she came up behind him in the crowd and touched his cloak, because she thought, “If I just touch his clothes, I will be healed.”  Immediately her bleeding stopped and she felt in her body that she was freed from her suffering.   At once Jesus realized that power had gone out from him[1]. He turned around in the crowd and asked, “Who touched my clothes?”  “You see the people crowding against you,” his disciples answered, “and yet you can ask, ‘Who touched me?’ ”But Jesus kept looking around to see who had done it.  Then the woman, knowing what had happened to her, came and fell at his feet and, trembling with fear, told him the whole truth.  He said to her, “Daughter, your faith has healed you. Go in peace and be freed from your suffering.”

 

 

Also in Luke it is said (Lk 6:19):

 

and the people all tried to touch him, because power was coming from him and healing them all.

 

A question could be asked that how come Jesus the supposed son of God did not know that he is about to discharge his power. He realized that once the power has gone out.

 

 

In gospels of  Mathew and John such discharges of Energy were not mentioned.

 

 

 

Healing in Mark

 

 

Mark has mentioned in his gospel a procedure of healing done by Jesus, which is not mentioned by the other three gospels. These passages are thus unique to Gospel of Marks. Mark wrote (Mk 7:31-35):

 

Then Jesus left the vicinity of Tyre and went through Sidon, down to the Sea of Galilee and into the region of the Decapolis  There some people brought to him a man who was deaf and could hardly talk, and they begged Jesus to place his hand on him. After he took him aside, away from the crowd, Jesus put his fingers into the man’s ears. Then he spit and touched the man’s tongue.  He looked up to heaven and with a deep sigh said to him, “Ephphatha!” (which means “Be opened!”). At this, the man’s ears were opened, his tongue was loosened and he began to speak plainly.

 

Also he mentioned another story (Mk 8.22-26):

 

They came to Bethsaida, and some people brought a blind man and begged Jesus to touch him.  He took the blind man by the hand and led him outside the village. When he had spit on the man’s eyes and put his hands on him, Jesus asked, “Do you see anything?” He looked up and said, “I see people; they look like trees walking around.” Once more Jesus put his hands on the man’s eyes. Then his eyes were opened, his sight was restored, and he saw everything clearly.  Jesus sent him home, saying, “Don’t even go into[a] the village.”

 

 

This story tells the reader that Jesus healings were flawed. He needs to work twice to adjust the eyesight. People who have the bad eye-sight might compare it to their visit of eye doctor, who put different lens into spectacles before finalizing the lenses. Does God perform such way? Does He Almighty not perform things perfectly in a single go.

 

 

In Gospel of John, author explained on one of the statements of Jesus that

 

By this he meant the Spirit, whom those who believed in him were later to receive. Up to that time the Spirit had not been given, since Jesus had not yet been glorified.

 

Thus the disciples were still without Holy Spirit and were unable to perform miracles. The glorification of Jesus is related to his passion and death in all gospels. Gospel of John thus differed here with Synoptic gospels where power of healing and exorcism is awarded by Jesus to his follower.

 

 

 

 


[1] In Greek Mark 5:30 the verse is:  καὶ εὐθὺς ὁ Ἰησοῦς ἐπιγνοὺς ἐν ἑαυτῷ τὴν ἐξ αὐτοῦ δύναμιν ἐξελθοῦσαν ἐπιστραφεὶς ἐν τῷ ὄχλω ἔλεγεν· τίς μου ἥψατο τῶν ἱματίων;  the word δύναμιν (dynamin) is translated as Power by translators.

 

 

Jews in times of Jesus were performing exorcism. Josephus claimed that Solomon knows about the exorcisms and he also witnessed certain Eleazar who used to perform that in his times.  Josephus wrote about Solomon in Antiquities of Jews[1]

 

God also enabled him to learn that skill which expels demons,  which is a science useful and sanative to men. He composed such incantations also by which distempers are alleviated. And he left behind him the manner of using exorcisms, by which they drive away demons, so that they never return; and this method of cure is of great force unto this day; for I have seen a certain man of my own country, whose name was Eleazar, releasing people that were demoniacal in the presence of Vespasian, and his sons, and his captains, and the whole multitude of his soldiers. The manner of the cure was this: He put a ring that had a Foot of one of those sorts mentioned by Solomon to the nostrils of the demoniac, after which he drew out the demon through his nostrils; and when the man fell down immediately, he abjured him to return into him no more, making still mention of Solomon, and reciting the incantations which he composed. And when Eleazar would persuade and demonstrate to the spectators that he had such a power, he set a little way off a cup or basin full of water, and commanded the demon, as he went out of the man, to overturn it, and thereby to let the spectators know that he had left the man;

and when this was done, the skill and wisdom of Solomon was shown very manifestly: for which reason it is, that all men may know the vastness of Solomon’s abilities, and how he was beloved of God, and that the extraordinary virtues of every kind with which this king was endowed may not be unknown to any people under the sun for this reason, I say, it is that we have proceeded to speak so largely of these matters.

 

 

Jews claimed that Jesus is possessed by demon (John 10:19)

 

The Jews who heard these words were again divided. Many of them said, “He is demon-possessed and raving mad. Why listen to him?”

 

No where in Gospel of John, Jesus performed exorcism. However in Synoptic Gospels he did that a number of times.

 

Luke wrote in Acts of Apostles (19: 13-17)

Some Jews who went around driving out evil spirits tried to invoke the name of the Lord Jesus over those who were demon-possessed. They would say, “In the name of the Jesus whom Paul preaches, I command you to come out.” Seven sons of Sceva, a Jewish chief priest, were doing this. One day the evil spirit answered them, “Jesus I know, and Paul I know about, but who are you?” Then the man who had the evil spirit jumped on them and overpowered them all. He gave them such a beating that they ran out of the house naked and bleeding. When this became known to the Jews and Greeks living in Ephesus, they were all seized with fear, and the name of the Lord Jesus was held in high honour.

 

Thus the authors of Synoptic Gospels were in competition with Jews of their times in performing of exorcisms. Luke wrote (Luke 11:24-26)

 

When an impure spirit comes out of a person, it goes through arid places seeking rest and does not find it. Then it says, ‘I will return to the house I left.’ When it arrives, it finds the house swept clean and put in order. Then it goes and takes seven other spirits more wicked than itself, and they go in and live there. And the final condition of that person is worse than the first.”

eorcism

The map above indicates the places in green where Jesus performed exorcism in Synoptic Gospels. Most of these places are surrounding Sea of Galilee. Only in Luke, in way to Jerusalem, at some places Jesus performed the exorcism. This shows that it was mainly the Galilean tradition that Jesus had performed exorcism. According to Mathew Jesus did exorcism at Nazareth, Gennesaret, Gergesa and at borders of Tyre. In Mark he did that at Gergesa, Capernaum, Caesarea Philipi. According to Luke he did that at Gennesaret, Capernaum,  Bethsaida  and in way to Jerusalem.

 

In Synoptic Gospels, Jesus also gave power to his disciples to remove the spirits and even permitted non-followers to do it (Mk 9:38-41)

 

 “Teacher,” said John, “we saw someone driving out demons in your name and we told him to stop, because he was not one of us.” “Do not stop him,” Jesus said. “For no one who does a miracle in my name can in the next moment say anything bad about me,  for whoever is not against us is for us.  Truly I tell you, anyone who gives you a cup of water in my name because you belong to the Messiah will certainly not lose their reward.

 

Mark described that why Jesus performed such exorcism (Mk 3:23-27)

 

So Jesus called them over to him and began to speak to them in parables: “How can Satan drive out Satan?  If a kingdom is divided against itself, that kingdom cannot stand.  If a house is divided against itself, that house cannot stand.  And if Satan opposes himself and is divided, he cannot stand; his end has come.  In fact, no one can enter a strong man’s house without first tying him up. Then he can plunder the strong man’s house.

 

So Mark showed that Jesus was not Satan personified. However Luke said that it is not so special Jews were also doing exorcisms. Further, Mark wanted to put his view here that sublime bodies may descend into human bodies.  He held the belief that Holy Spirit has descended into Jesus so for him the demonic possession is a proof that Holy Spirit had descended into Jesus. Luke take it differently; for him first, it is not so special, exorcism is done by Jews as well and Holy Spirit has filled other people so for him Jesus was more a righteous adopted son of God. The expression filled with Holy Spirit occurs fourteen times in New Testament and all these are written by Luke[2].

 

Other Spirits are:

 

  • Spirit of Truth only in Gospel of John (see Jh 14:17, 15:26, 16:13)

 

  • Spirit of Life or Life giving Spirit  only in Paul writings  and book of revelations (1 Corinthians 15:45; Romans 8:2; revelations 11:11)

 

  • Spirit of Grace  in Paul writings (Hebrews 10.29)

 

  • Spirit of Glory in Paul writings ( 1 Peter 4:14)

 

So along with Holy Spirit and Demon Spirits there were these above Spirits also present in times when this literature was written.

 

Luke is the most disturbed author in all four Gospels on the satanic influence in this World. He wrote (Lk 4: 5-8):

 

The devil led him up to a high place and showed him in an instant all the kingdoms of the world.  And he said to him, “I will give you all their authority and splendor; it has been given to me, and I can give it to anyone I want to.  If you worship me, it will all be yours.”

 

In other Synoptic gospels and Gospel of John this far-fetched influence of Satan is not that strong.

 

Luke informed that Jesus gave power to 72 people (in Mark only 12 disciples Mk 6:7) to perform miracles. Luke wrote ( Lk 10:17-20):

 

The seventy-two returned with joy and said, “Lord, even the demons submit to us in your name.”  He replied, “I saw Satan fall like lightning from heaven. I have given you authority to trample on snakes and scorpions and to overcome all the power of the enemy; nothing will harm you. However, do not rejoice that the spirits submit to you, but rejoice that your names are written in heaven.”

 

The demon possessing the bodies in Jesus times seems an abnormal phenomenon when one read all four Gospels. The absence of exorcism stories in gospel of John indicate that his Church was not affected by such activities.   However it was more like a speciality at Churches influenced with Pauline doctrines.


[1] in discussion on Concerning The Wife Of Solomon; Concerning His Wisdom And Riches; And Concerning What He Obtained Of Hiram For The Building Of The Temple

 

[2] Luke 1:15, 1:35, 1:41, 1:67, 4:1;  Acts 2:4, 4:8, 4:31, 6:5, 7:55, 9:17, 11:24, 13:9, 13:52

 

There were different saviour expectations circulating among Jews due to their prophetic literature like Davidic messiah, Priestly Messiah, Elijah, Son of Man etc.  About 850 years before Jesus, according to book of II Kings, chapter 2, Elijah the Prophet had ascended “into heaven” in a “chariot of fire.”  Later, in about 450 BC, Prophet Malachi received revelations that:

 

Behold, I will send you Elijah the prophet before the coming of the great and dreadful day of the LORD”  (Malachi 4:1-5)

 

Synoptic gospel author have made it clear that Elijah had returned in form of John the Baptist (Luke 1:17).

 

Then an angel of the Lord appeared to him (Zechariah ), standing at the right side of the altar of incense.  When Zechariah saw him, he was startled and was gripped with fear. But the angel said to him: “Do not be afraid, Zechariah; your prayer has been heard. Your wife Elizabeth will bear you a son, and you are to call him John.  He will be a joy and delight to you, and many will rejoice because of his birth, for he will be great in the sight of the Lord. He is never to take wine or other fermented drink, and he will be filled with the Holy Spirit even before he is born. He will bring back many of the people of Israel to the Lord their God.  And he will go on before the Lord, in the spirit and power of Elijah, to turn the hearts of the parents to their children and the disobedient to the wisdom of the righteous—to make ready a people prepared for the Lord.”

 

On the contrary the author of Gospel of John informed that John the Baptist denied that he is Elijah (John 1:21) :

 

They asked him, “Then who are you? Are you Elijah?”

 

He said, “I am not.”

 

Jews said to him then why you are baptizing people if you are not Elijah? On that John the Baptist said that he is preparing the way for Messiah.  People of John also said that John has showed no miracle (Jh 10:41)

 

There was also long before Jesus, a Jewish prophet in Babylon called Daniel who wrote about his revelations (Daniel 7:13-14):

 

As I looked on, in the night vision, one like a Son of Man was coming with the clouds of heaven; he reached the Everlasting One and was presented to him. Dominion, glory, and kingship were given to him. All peoples and nations of every language must serve him. His dominion is an everlasting dominion that shall not pass away, and his kingship, one that shall not be destroyed.”

 

The Aramaic phrase Bar (‘ě)nosh “son of man”  (translated in Hebrews as ben Adam) referred to a mysterious figure riding on the clouds in the sky. Such a figure is also mentioned in vision of another Babylonian Prophet, Ezekiel. On the bank of the Chebar River, in Tel Abib in Babylon Ezekiel saw a great vision. In the vision he saw a great chariot called Merkabah (chariot) with lights, fire and flashes. The angelic beings were surrounding the chariot (see Ezekiel 1-28).

 

And above the firmament that was over their heads was the likeness of a throne, as the appearance of a sapphire stone; and upon the likeness of the throne was a likeness as the appearance of a man upon it above

 

This figure becomes the hub of mystical speculations in the SecondTemple period. The Babylonian Jewry were expecting an angel like saviour (fly in skies like angel but looks like a man) who would come with might and glory and free them from the serfdom. The son of man term later becomes an important element of the eschatological-apocalyptic decorum among Jews of Jesus’ era.  The recently discovered dead sea scrolls also reveal that the Jews living in Qumran were expecting two Messiahs, a kingly Messiah and a priestly Messiah[1].

 

The authors of Synoptic gospels find it necessary to some how fuse this personality with Jesus.  So they fused both of these Messiah into a single figure of Jesus. Jesus is depicted not only as Messiah from Davidic lineage (as in book of Zechariah and Jeremiah) but also he is shown to have angelic appearance like in his transfiguration story (Mth 17:1-8, Mk 9:1-8, Lk 9:28-36) and thus resembles the expectation of Jews who follow the tradition of book of  Daniel and Ezekiel.

One scholar explains the Vision of Daniel as:

In the apocalyptic vision of Daniel the Macedonian kingdom is “the fourth beast ” and the “he-goat” that sprouts “horns equals to successor kings” culminating in a rampaging ruler who desecrates the Temple in Jerusalem (7:7-8,19-27; 8:15-12.20-25). Although unnamed, Alexander and Antiochus Epiphanes IV are clearly the first and the last of the series of Hellenistic rulers. That the author of Daniel was fairly well-informed about the break-up of Alexander’s kingdom and the successive rule of Ptolemies and Seleucids over Palestine is evident in a coded visionary review of the struggle between unnamed “kings of the south” and “kings of north”, once again culminating in the desecrating savagery of a northern king (11:2-39) while the historical details in the visionary account are allusive  they are coherent in recounting waves of destructive warfare between the Ptolemies and Seleucid  extending over a century in time. The “vision” further attests to the severe impact of this warfare on Judah, situated geopolitically between the warring parties, with Juda’s leaders drawn into the conflicts of aligning themselves with combatant or the other. All the allusions to Hellenistic rulers in these visions and abruptly in the hiatus between the desecration of Jerusalem Temple in 167 BCE and its restoration in 164 BCE (The Politics of Ancient Israel by Norman K. Gottwald, Westminster John Knox Press, 2001, pg 107). 

Gospel authors were not that well aware about the prophecies of book of Daniel and these connected the events of the past with Jesus mission and told that the prophecies of book of Prophets are not actually fulfilled.

Mathew describe the coming of bar enosh from clouds as (Mth 24)

So when you see standing in the holy place ‘the abomination that causes desolation, spoken of through the prophet Daniel—let the reader understand—  then let those who are in Judea flee to the mountains. …………At that time if anyone says to you, ‘Look, here is the Messiah!’ or, ‘There he is!’ do not believe it. For false messiahs and false prophets will appear and perform great signs and wonders to deceive, if possible, even the elect……… For as lightning that comes from the east is visible even in the west, so will be the coming of the Son of Man.  Wherever there is a carcass, there the vultures will gather. …… “Then will appear the sign of the Son of Man in heaven. And then all the peoples of the earth will mourn when they see the Son of Man coming on the clouds of heaven, with power and great glory. And he will send his angels with a loud trumpet call, and they will gather his elect from the four winds, from one end of the heavens to the other.

Luke and Mark described the Bar enosh as (Lk 17, Mk 13):

Then he said to his disciples, “The time is coming when you will long to see one of the days of the Son of Man, but you will not see it. People will tell you, ‘There he is!’ or ‘Here he is!’ Do not go running off after them. For the Son of Man in his day will be like the lightning, which flashes and lights up the sky from one end to the other. But first he must suffer many things and be rejected by this generation……………..“It will be just like this on the day the Son of Man is revealed. On that day no one who is on the housetop, with possessions inside, should go down to get them. Likewise, no one in the field should go back for anything.

The gospel of John did not intertwine the Daniel and Ezekiel predictions on Bar enosh in his gospel.

Bar enosh or ben Adam was the focus of mystical vision in Merkabah mysticism. The Jews were themselves unsure about the exact nature of this being so the vision of Ezekiel was forbidden to be interpreted and even if attempted then it must be done after permission and in secrecy.

Seek not out the things that are too hard for thee, neither search the things that are above thy strength. But what is commanded thee, think thereupon with reverence; for it is not needful for thee to see with thine eyes the things that are in secret[2].

 

It is estimated that Merkabah mysticism tradition started as early as from c.100 BCE to 1000 CE. Thus according to gospels, the mysticism based on bar enosh had started from 100 years before Jesus. What is left for reader imagination by gospel authors is the bar enosh ending has not occurred. Jesus rose from dead appeared to his disciples and followers in secrecy and left the world. There were no upheavals, destructions and coming of  Bar enosh from clouds in midst of flash and lightning.

 

According to Synoptic Gospels Jesus also mixed the bar enosh theme in answering to High priest during his trial, which is discussed in following chapter.

 

If we analyse the Paul words quoted by Luke in Acts of Apostle then we find close resemblance between the Paul vision and Jesus bar enosh predictions. Paul said (Acts 22)

 

About noon as I came near Damascus, suddenly a bright light from heaven flashed around me.  I fell to the ground and heard a voice say to me, ‘Saul! Saul! Why do you persecute me?’ “‘Who are you, Lord?’ I asked.  ‘I am Jesus of Nazareth, whom you are persecuting,’ he replied. My companions saw the light, but they did not understand the voice of him who was speaking to me.

 

Paul’s vision of Jesus with bright light from heaven has close resemblance with bar ensoh description of Synoptic gospels.  It can be inferred that Pauline church was indulged in bar enosh mystical speculations more than the Church followed by the author of gospel of John.

 


[1] The Messiah before Jesus by Isreal Knohl, University of California Press, 2000

[2] Book of the All-Virtuous Wisdom of Joshua ben Sira

 

It is told in gospel of Mathew that when Jesus story was proceeding towards climax that Jesus asked his disciples (Mth 16: 15-23):

He said to them, “But who do you say that I am?”  Simon Peter answered, “You are the Christ, the Son of the living God.”  And Jesus answered him, “You are blessed, Simon son of Jonah, because flesh and blood  did not reveal this to you, but my Father in heaven!  And I tell you that you are Peter, and on this rock I will build my church, and the gates of Hades will not overpower it.  I will give you the keys of the kingdom of heaven. Whatever you bind on earth will have been bound in heaven, and whatever you release on earth will have been released in heaven.” Then he instructed his disciples not to tell anyone that he was the Christ.  From that time on Jesus began to show his disciples that he must go to Jerusalem and suffer many things at the hands of the elders, chief priests, and experts in the law, and be killed, and on the third day be raised. So Peter took him aside and began to rebuke him “God forbid, Lord! This must not happen to you!” But he turned and said to Peter, “Get behind me, Satan! You are a stumbling block to me, because you are not setting your mind on God’s interests, but on man’s.”

So it is showed that disciple Peter was so insolent that he even rebuked Jesus, the true Messiah.  So first disciples agreed that Jesus is Messiah and then they rebuked him on saying that he would die on cross. What a tide of acceptance and rejection!  Then Jesus also reprimanded Peter and took his words back. Jesus first called Peter, a rock on which church would be established then in next reply he called Peter, Satan and a stumbling block, because Peter mind is focused on Mundane not on the sublime realities.

This indicates that  the disciples were against the belief of death of Messiah on cross. But gospels’ authors inserted that into there books and showed that disciples were unintelligent people and even insolent individuals.

In Jesus times, the epithet Father is used for God. Jesus said to Jews:

And call no one your ‘father’ on earth, for you have one Father, who is in heaven. (Mth 23:8)

Jews said to Jesus (Jh 8:41)

The only Father we have is God himself.

 God is addressed as the father because as father takes an active interest in affairs of his children, so do God, who takes active interest in human affairs.

Paul quoted Hosea (Letter to Romans 9: 26):

“I will call those who were not my people, ‘My people,’ and I will call her who was unloved, ‘My beloved.’” “And in the very place where it was said to them, ‘You are not my people,’  there they will be called ‘sons of the living God.’”

It is informed in gospels that at the time of inquiry in Sanhedrin, High Priest asked:

 

Mathew 26:63 The high priest said to him, “I charge you under oath by the living God, tell us if you are the Messiah, the Son of God.” Jesus said to him, “You have said it yourself. But I tell you, from now on you will see the Son of Man sitting at the right hand of the Power and coming on the clouds of heaven.”
Luke 22:67-70 If you are the Messiah, tell us.” But he said to them, “If I tell you, you will not believe,  and if I ask you, you will not answer. But from now on the Son of Man will be seated at the right hand of the power of God.” So they all said, “Are you the Son of God,  then?” He answered them, “You say that I am.”
Mark 14:61-62 Again the high priest questioned him, “Are you the Messiah, the Son of the Blessed One?”  “I am,” said Jesus, “and you will see the Son of Man sitting at the right hand of the Power and coming with the clouds of heaven.”
John 18:19- 21 The high priest questioned Jesus about his disciples and about his teaching.  Jesus replied,  “I have spoken publicly to the world. I always taught in the synagogues and in the temple courts, where all the Jewish people assemble together.  have said nothing in secret.  Why do you ask me? Ask those who heard what I said. They know what I said.”

 

For Jews, Messiah, Son of God is the title bearing political significance. It is more political then theological questioning. An expected Messiah means King of Jews and revolt against the Romans. Pilate being governor of Judea asked Jesus about his Messiah title? So according to Synoptic Gospels Roman put a plate on the Cross in which was written: King of Jews (Mth 27:37, Lk 23:38, Mk 15:26).

 

The authors of Synoptic gospels intertwined the verses of Psalm in Jesus’ reply. Psalm 110 starts with verses:

 

Here is the Lord’s (i.e. God’s) proclamation to my lord: “Sit down at my right hand until I make your enemies your footstool!” (Psalm 110:1)

 

If we assume that Synoptic gospels are correct in reporting the words of Jesus then Jesus has not expressed something blasphemous. Jews might have immediately recognized the vocabulary of Jesus borrowed from Psalms.  So, if Jesus would come with sitting on right hand of God what would be his next move?  From the context of Psalm it is clear that he would crush his enemies. It is therefore a subtle way of harassment and challenge for his opponents. Jews knew that if Jesus is left free to preach in public it could bring disastrous consequences. High Priest knew that so he changed the political questioning into theological issue. He tore his robe and twisted the reply of Jesus and cried: He uttered the blasphemy!

 

Later Jews handed over Jesus to Roman authorities and changed the theological issue back to political issue.   Pilate asked Jesus about his claim of Messiah or king of Jews. Pilate was himself not sure of Jesus crime due to confusion among Jews. So he gave an option to Jews.  It is informed in gospel of Mathew that Pilate asked the Jews: Which one shall be freed? Jesus the Messiah or  Jesus Bar-abbas (Mth 27:16-22)

 

At that time they had in custody a notorious prisoner named Jesus Barabbas[1].

 

The Jews cried that free the Barabbas and crucify Jesus (Jh 18:40)[2].

 

In Aramaic Jesus Barabbas is Jesus son of Father.  It could be speculated that the person crucified was Jesus son of Father instead of Jesus son of Mary. The news spread in masses that Jesus died and according to tradition in those days the epithet of Father was taken as  God. So news spread that Jesus son of God was crucified.

 

At what time Jesus died?  Ehrman discussed the findings of German scholar, Hermann Reimarus (1694-1767):

There are differences in Gospel accounts that cannot be reconciled. Some of these differences are minor discrepancies in details: Did Jesus die the afternoon before the Passover meal was eaten, as in John (see 9:14), or the morning afterwards, as in Mark (see 14:12,22; 15:25)? Did Joseph and ‘Mary flee to Egypt after Jesus’ birth as in Mathew (2:13-23), or did they return to Nazareth as in Luke (2:39)? Was Jarius’s daughter sick and died when he came to ask Jesus for help as in Mark (6:23,35), or had she already died, as in Mathew (9:18)? After Jesus, resurrection, did the disciples stay in Jerusalem until he had ascended into Heaven, as in Luke (24:1-52), or did they straightaway go to Galilee, as in Mathew (28:1-20)? Discrepancies like these (many of which seem minor, but which often end up being significant when examined closely) permeate the Gospel tradition[3].

 

It is informed in gospels that Jesus immediate disciples had problems in believing in his resurrection especially Peter (in gospel of Luke) and Thomas (John 20:24). Only women saw the empty tomb and then an angelic being informed that Jesus will appear in Galilee.  Among these women was Mary Magdalene. For Mary Magdalene it was informed that  She was From Bethany (Jh. 11:1); She was the first one who arrived at the grave of Jesus (Mth 28:1), (Mk 16:1),(Jh. 20:1). She claimed she had seen an angel (Mth 28:2-7).  According to Mark, Mary Magdalene, Mary the mother of James, and Salome saw angel after resurrection and they informed no one about this due to horror (Mk. 16:1) later Mary saw him (Mk 16:9)[4]. According to Luke,  Mary Magdalene, Joanna, Mary the mother of James were women from Galilee (Lk 23:55) were the first who arrived at grave  and saw angel (Lk 24). They informed about the missing body to others including Peter (Lk 24: 11-12).  She claimed that she saw resurrected Jesus and he talked to her (Jh. 20:18).

 

Thus she was one of the claimants who have seen the risen Christ, first.  Luke like Paul is against women so he showed Jesus first to two men in way to Emmaus  (Lk 24:13-35) Then Jesus appeared to disciples but they were so unsure about him (Mth 28:17)  that Jesus ate with them and showed  to them his wounds (Luke 24:43, John chapter 20 & 21)[5]

 

Paul wrote in letter to Corinthians and also Luke recorded his words in Acts

 

Paul (1 Corinthians 15:3-8) Acts (13:31 )
15:3 For I passed on to you as of first importance what I also received – that Christ died for our sins according to the scriptures, 15:4 and that he was buried, and that he was raised on the third day according to the scriptures, 15:5 and that he appeared to Cephas, then to the twelve. 15:6 Then he appeared to more than five hundred of the brothers and sisters at one time, most of whom are still alive, though some have fallen asleep.7 15:7 Then he appeared to James, then to all the apostles. 15:8 Last of all, as though to one born at the wrong time, he appeared to me also. and for many days he (Jesus) appeared to those who had accompanied him from Galilee to Jerusalem. These are now his witnesses to the people.

 

So both Paul and Luke claimed that Peter saw Jesus. In gospel of Luke it is informed that Peter saw the cloth and he was surprised that Jesus’ body is missing (Luke 24:12). Later Jesus appeared to two persons in the way to Emmaus. Meanwhile the disciples in Jerusalem were saying that Peter saw Jesus (Lk 24:34).  When and where Jesus appeared to Peter is missing in gospel of Luke. It is left on the reader’s imagination to interpret the missing link.  In book of Acts Luke said (Lk 13:31)

 

and for many days he was seen by those who had traveled with him from Galilee to Jerusalem. They are now his witnesses to our people.

In gospel of Mathew it was claimed that Jesus appeared in Galilee (Mth 28:7). Mark ended abruptly his gospel at 16:8, where he informed that only women saw Jesus and even they kept it secret. Angel instructed that Jesus would appear in Galilee (Mk 16:7).

In gospel of John it is informed that Jesus appeared to Mary Magdalene and then later in evening appeared to twelve disciples (in Jerusalem) (Jh 20:18-19).

Paul letters are older than gospel, but strangely the gospel authors’ intentionally changed the sequence of Jesus vision. According to Paul, Jesus first appeared to Peter, then twelve disciples, then 500 people, then James, then to other apostles. In gospels Jesus appeared to gathering of disciples (Jh 20:19; Lk 24:33-35; Mth 28:16)

Jesus had no issues with teleportation, however how much time Peter and disciples took to travel to Galilee is missing. Naturally there are days involved between missing body event  and vision in Galilee. Did he appeared to disciples in Jerusalem  or in Galilee (as in Mathew and Mark)?

 

Series of Events Mathew Mark Luke John 
Visit of grave site  Women Women Women Women
First appearance Women saw angel not Jesus but suddenly Jesus appeared to them (Mth 28:9)  Mary & two other women saw angel not Jesus but in later scribal addition  (in Mk 16:9) Mary saw Jesus  Two disciples in way to Emmaus Mary saw first two angels and then Jesus  (Jh 20:11-18)
Second appearance Disciples  at mountain in Galilee (disciples were confused) Appeared to eleven in Jerusalem (addition by scribes) (Jesus reprimanded the doubters) Disciples in Jerusalem (Lk 24:33)(disciples confused)  Appeared to ten disciples in Jerusalem (reprimanded the doubters) 
Third appearance Appeared to Thomas 
Fourth appearance Disciples at Sea of Galilee

Gregory J. Riley discussed the differences in Corinthians and Gospels accounts and said:

A simple comparison of the gospels and 1 Corinthians 15 shows that two traditions cannot be reconciled[6].

C.F. Evans said:

It is not simply difficulty to harmonize these traditions, but quite impossible[7]

It can easily be inferred from gospels that author of these gospels tried to answer there opponents which claimed that:

  • Jesus was not resurrected (Jh 20:25-27)
  • Had he been risen then where he is and his body is?  (Mth 28:6,  Jh 20:1)
  • And the body must have wounds (Jh 20)
  • No one saw him after alleged crucifixion (Mth 28:9,  Mark 16:14, Jh 21)
  • Anyone saw Jesus now, must have seen a (demonic) spirit  (Lk 24:40-43)
  • Where is his body (Mth 28:6, Lk 24:12)

So it has become necessary to refute these arguments and gospels were written by the opponents of disciples.

There was a belief in circulation that Jesus has not died on the Cross. Gnostics were supporting this belief. Irenaeus has mentioned about it in his work Against Heresies i-xxiv.

In words of one Christian Scholar:

 These Gospels were each written more than a full generation after the events they describe, when most, if not all, of the actors involved were dead. With due consideration given to sources and tradition inherited by the writers, the choice of what was to be included was consciously made, and reflects the events of the life of Jesus through the prism of authors’ present community concerns. The apostolic figures chosen represent focal points for their respective communities, centres of inspiration for later generations around which the spiritual ideals of each group coalesced[8].

 


[1] In New English Translation a footnote is added: Although the external evidence for the inclusion of “Jesus” before “Barabbas” (in vv. 16 and 17) is rather sparse, being restricted virtually to the Caesarean text (Θ Ë1 700* pc sys), the omission of the Lord’s name in apposition to “Barabbas” is such a strongly motivated reading that it can hardly be original. There is no good explanation for a scribe unintentionally adding ᾿Ιησοῦν (Ihsoun) before Βαραββᾶν (Barabban), especially since Barabbas is mentioned first in each verse (thus dittography is ruled out). Further, the addition of τὸν λεγόμενον Χριστόν (ton legomenon Criston, “who is called Christ”) to ᾿Ιησοῦν in v. 17 makes better sense if Barabbas is also called “Jesus” (otherwise, a mere “Jesus” would have been a sufficient appellation to distinguish the two). (https://bible.org/netbible/)

[2] In New English Translation a footnote is added:  The name Barabbas in Aramaic means “son of abba,” that is, “son of the father,” and presumably the man in question had another name (it may also have been Jesus, according to the textual variant in Matt 27:16, although this is uncertain). For the author this name held ironic significance: The crowd was asking for the release of a man called Barabbas, “son of the father,” while Jesus, who was truly the Son of the Father, was condemned to die instead.

[3] Lost Christianities, Bart D. Ehrman, OxfordUniversity Press, 2003

[4] According to Bart D. Ehrman, the most ancient manuscript of Mark indicates that it ends on 16:8. So whatever said after that is an addition (see Lost Christianities, Oxford University Press, 2003,  pg 220)

[5] Helmut Koester added a foot note in his book: John 21 is a later addition, made into fourth gospel some times after its composition at a date that can no longer be determined with any certainty ( see Ancient Christian Gospels, their History and Development by Helmut Koester  pg220)

[6] Resurrection Reconsidered by Gregory J. Riley Fortress Press, 1995 , pg 89

[7] Resurrection and New Testament by C. F. Evans, SCM Press, 1970, pg 128

[8] Resurrection Reconsidered Thomas and John in Controversy by Gregory J. Riley, Fortress Press, 1995, Pg73-74

 

Pre-Paul Milieu and Philo’s Philosophy

 

Philo, an Alexandrian Jewish philosopher, who lived before Jesus wrote about the Mamre vision of Abraham described in Genesis 18. In this vision Abrahm saw three men. Philo explained this vision as[1]:

 

XXIV. (121) Since this is not the actual truth, but in order that one may when speaking keep as close to the truth as possible, the one in the middle is the Father of the universe, who in the sacred scriptures is called by his proper name, I am that I am; and the beings on each side are those most ancient powers which are always close to the living God, one of which is called his creative power, and the other his royal power. And the creative power is God, for it is by this that he made and arranged the universe; and the royal power is the Lord, for it is fitting that the Creator should lord it over and govern the creature.  (122) Therefore, the middle person of the three, being attended by each of his powers as by body-guards, presents to the mind, which is endowed with the faculty of sight, a vision at one time of one being, and at another time of three; of one when the soul being completely purified, and having surmounted not only the multitudes of numbers, but also the number two, which is the neighbour of the unit, hastens onward to that idea which is devoid of all mixture, free from all combination, and by itself in need of nothing else whatever; and of three, when, not being as yet made perfect as to the important virtues, it is still seeking for initiation in those of less consequence, and is not able to attain to a comprehension of the living God by its own unassisted faculties without the aid of something else, but can only do so by judging of his deeds, whether as creator or as governor.  (On Abraham)

 

 

Philo also wrote about the cherubim over the Ark as:

 

XX. (97) But the ark is the depository of the laws, for in that are placed the holy oracles of God, which were given to Moses; and the covering of the ark, which is called the mercy-seat, is a foundation for two winged creatures to rest upon, which are called, in the native language of the Hebrews, cherubim, but as the Greeks would translate the word, vast knowledge and science. (98) Now some persons say, that these cherubim are the symbols of the two hemispheres, placed opposite to and fronting one another, the one beneath the earth and the other above the earth, for the whole heaven is endowed with wings. (99) But I myself should say, that what is here represented under a figure are the two most ancient and supreme powers of the divine God, namely, his creative and his kingly power; and his creative power is called God; according to which he arranged, and created, and adorned this universe, and his kingly power is called Lord, by which he rules over the beings whom he has created, and governs them with justice and firmness; (100) for he, being the only true living God, is also really the Creator of the world; since he brought things which had no existence into being; and he is also a king by nature, because no one can rule over beings that have been created more justly than he who created them. (On Life of Moses II)

 

From the Philo’s description it is clear that he has made the angels into the power of God and thus created three gods:

 

Creative Power (Creator of Universe)- Father (I am what I am) – Royal Power (Lord or Ruler)

Polytheist tendencies were brewing in Jews. Paul (Saul) was Jew himself and must knew about all these utterances of Jewish philosophers and mystics. He there consider the Jesus as a mystery of God  and preached the dualistic mystery that there are two powers in Heavens, One God and one Power of God in form of Jesus. Paul was the self-proclaimed apostle of Jesus.  Paul wrote several letters for non-Jewish people[2]. According to him, Jesus become son of God due to his righteousness and because he is the only human resurrected back to Life, unlike to normal humans who become dust. So death is an ultimate end for a human which only Jesus has escaped.  Based on this theology of his own, Paul preached the good news that if someone believes in Jesus resurrection then that person would be raised back to life and would never die.

 

Paul described Jesus as power in his letters:

who was appointed the Son-of-God-in-power[3] according to the Holy Spirit by the resurrection from the dead, Jesus Christ our Lord. (Romans 4)

 

 

Paul’s Vision of Christ

There are a lot of discrepancies in Paul’s Letters and Luke’s Description of Paul’s vision.

 

Paul said in Galatians (1:18) that he went to Jerusalem after three years of his Jesus vision:

 

But when the one who set me apart from birth and called me by his grace was pleased  to reveal his Son in me so that I could preach him among the Gentiles, I did not go to ask advice from any human being, nor did I go up to Jerusalem to see those who were apostles before me, but right away I departed to Arabia, and then returned to Damascus. Then after three years I went up to Jerusalem to visit Cephas and get information from him, and I stayed with him fifteen days.  But I saw none of the other apostles except James the Lord’s brother.

 

 

So Paul had never met twelve except James. But he met Cephas!

 

In Acts (chapter 9), Luke changed that and claimed that Paul preached at synagogues in Damascus and then went to Jerusalem and met disciples:

 

Now there was a disciple in Damascus named Ananias. The Lord said to him in a vision, “Ananias,” and he replied, “Here I am, Lord.”  Then the Lord told him, “Get up and go to the street called ‘Straight,’ and at Judas’ house look for a man from Tarsus named Saul. For he is praying, and he has seen in a vision a man named Ananias come in and place his hands on him so that he may see again.”  But Ananias replied, “Lord, I have heard from many people about this man, how much harm he has done to your saints in Jerusalem,  and here he has authority from the chief priests to imprison all who call on your name!” But the Lord said to him, “Go, because this man is my chosen instrument to carry my name before Gentiles and kings and the people of Israel. For I will show him how much he must suffer for the sake of my name.” So Ananias departed and entered the house, placed his hands on Saul and said, “Brother Saul, the Lord Jesus, who appeared to you on the road as you came here, has sent me so that you may see again and be filled with the Holy Spirit.” Immediately something like scales fell from his eyes, and he could see again. He got up and was baptized, and after taking some food, his strength returned. For several days he was with the disciples in Damascus,  and immediately he began to proclaim Jesus in the synagogues, saying, “This man is the Son of God.” All who heard him were amazed and were saying, “Is this not the man who in Jerusalem was ravaging those who call on this name, and who had come here to bring them as prisoners to the chief priests?”  But Saul became more and more capable, and was causing consternation among the Jews who lived in Damascus by proving that Jesus is the Christ. Now after some days had passed, the Jews plotted together to kill him,  but Saul learned of their plot against him. They were also watching the city gates day and night so that they could kill him.  But his disciples took him at night and let him down through an opening in the wall by lowering him in a basket. When he arrived in Jerusalem, he attempted to associate with the disciples, and they were all afraid of him, because they did not believe that he was a disciple. But Barnabas took Saul, brought him to the apostles, and related to them how he had seen the Lord on the road, that the Lord had spoken to him, and how in Damascus he had spoken out boldly in the name of Jesus.

 

 

Alan Segal writes about the Luke’s writings on Paul vision[4]:

 

The resulting Lukan portrait of Paul lacks the fire and controversy of Paul letters. Many New Testament scholars suspect that Luke entirely abandons historical accuracy

 

Alan Segal also said that (pg 7):

 

The similarity of three visions in Acts end at this point. In the first account Paul’s companions hear the voice but see nothing. In the second, they see the light but hear nothing. In the first two, Paul falls to the ground while his companions stand. In the third account they all fall to the ground. In the first two accounts Jesus tells Paul to go to Damascus to await for further orders. But in this account Paul receives directly from the revelation his commission of apostleship to gentiles: “I am Jesus whom you are persecuting. But rise and stand upon your feet; for I have appeared to you for this purpose, to appoint you to serve and bear witness to the things in which you have seen me and to those in which I will appear to you, delivering you from people and from the gentiles- to whom I send you to open their eyes that they may turn from darkness to light and from power of Satan to  God, that they may receive forgiveness of sins and a place among those who are sanctified by faith in me (Acts 26:15-18)”

 

Luke wanted to separate Paul from rest of disciples and used the term apostle for him. Paul on the other hand did not want to lose the elevated status  and claim that he too has seen the risen Christ and thus he is equally important. Luke’s resurrected Christ is more physical and mundane. In Luke’s version Jesus is shown to be walking, talking and he appeared in full flesh and bones (Lk 24:39). Paul vision of Christ is more spiritual in midst of lightening and flashes and heavenly voice. It is a different vision but more in accordance with biblical Ezekiel’s vision.

 

Clement has written Homilies in which he informed that Peter was very sarcastic on Paul’s alleged vision. Clement describes[5]:

 

And if our Jesus appeared to you also and become known in a vision and met you as angry with an enemy [recall Paul had vision while still persecuting the Christians; Acts 9], yet he has spoken only through vision and dreams or through external revelations. But can anyone be made competent to teach through a vision? And if your opinion is that is possible, why then did our teacher spend a whole year with us who were awake? How can we believe you even if he has appeared to you?… But if you were visited by him for the space of an hour and were instructed by him and thereby have become an apostle, then proclaim his words, expound what he has taught, be a friend to his apostles and do not contend with me, who am his confidant; for you have in hostility withstood me, who am  a firm rock, the formation stone of Church (Homilies 17.19)

 

 

Cephas and Paul’s Confusion?

According to Paul, Cephas[6] is not among the twelve.  He mentioned Cephas separate from twelve. Paul said in 1 Corinthians (15:5) that risen Christ appeared first to:

 

And that he (Jesus) appeared to Cephas, then to the twelve.

 

Paul considered Cephas separate from twelve. Luke knew about the confusion of Paul and that is why he wrote the biography of Paul with title of Acts of Apostles and tried to diffuse this confusion.

 

 

Paul’ Association with Jewish Priesthood

 

It is stated in Talmud:

 

“His disciples fled and scattered themselves in the kingdom; three of them [went] to Mount Ararat, three of them to Armenia, three to Rome, the others to other places, and misled the people, but wherever they took refuge, God sent his judgment upon them, and they were slain. But many among the apostates of our people went astray after him; there was strife between them and Israelites…confusion of prayers and much loss of money [for Israel]. Everywhere where the apostates caught sight of the Israelites they said to the Israelites: Ye have slain God’s anointed [messiah]! But the Israelites answered them: Ye are children of death, because ye have believed on a false prophet! Nevertheless they went not forth from the community of Israel, and there was strife and contention among them, so that Israel had no peace. When the wise men of Israel saw this they said: [it is now] thirty years since that rouge (Jesus) was put to death, [and] till now we have no peace with these misguided ones, and this hath befallen us because of the number of our sins, for it is written: They have moved Me to wrath with their not- God [They have moved Me to jealously with that which is not God]; They have provoked Me to anger with their vanities, etc.; – that is the Christians, who are not [?naught]; with a base people will I provoke them;- that is, the Ishmaelites. The wise said: How long shall the apostates profane Sabbath…and feasts, and slay one another? Let us rather seek for a wise man who may take these erring once out of the community of Israel. It is now thirty years that we have admonished them, but they have not returned to God, because they have taken it into their heads that Yeschu [Jesus] is the Messiah, and so may they go to destruction and peace be with us.   The wise men agreed on a man whose name was Elijahu, and he was very learned in the scripture, and they said to him: …We have agreed, that we will pray for thee, that thou shalt be counted as a good Israelite in the other World. Go, and do good for Israel, and remove the apostates from us, that they may go to destruction!

Elijahu went to Sanhedrin at Tiberias, to Antioch, and made proclamation through out the whole land of Israel: Whoso believeth on Yeschu let him join himself to me! Then said he to them: I am the messenger [apostle] of Yeschu, who sent me to you, and I will show you a marvel, as Yeschu did. They brought unto him a leper, and he laid his hand upon him, so that he was healed. They brought unto him a lame man, he uttered the Shem, laid his hand on him, and he was healed and stood upon his feet. Forthwith they fell down before him and said: Truly thou art the messenger of Yeschu for thou hast shown us marvels as he did. Elijahu said to them: Yeschu sendeth you his greeting and saith: I am with my Father in heaven at His right hand, until He shall take vengeance on the Jews, as David said: Sit thou on my right hand, etc. At the same hour they all lamented and added foolishness to their foolishness. Elijahu said to them: Yeschu saith to you: Whosoever will be with me in the other world, let him remove himself from the community of Israel and join himself not to them; for my Father in heaven hath already rejected them and from henceforth requireth not their service, for so said He through Isaiah: Your new moons and feast my soul hateth, etc. But Yeschu saith to you: Whosoever follow me let him profane the Sabbath, for God hateth it, but instead of it He keepeth the Sunday, for on to it God gave light to His world. And for Passover which the Israelites solemnize, keep yet it on the Feast of Resurrection, for he is risen from his grave; for the Feast of weeks, Ascension, for on to it he is ascended to heaven; for New Year, finding of the Cross; for the Great fast day [Day of atonement], the Feast of the Circumcision; for Chanuka [Feast of lights], Calendae [New year]. The foreskin is naught, circumcision is naught; whosoever will circumcise himself let him be circumcised; whosoever will not circumcise himself let him be not circumcised. Moreover, whatsoever God created in the world, from the smallest gnat to mightiest elephant, pour forth its blood upon the ground and eat it for so it is written: As the green grass have I given you all. If one of them compel you to go a mile, go with him twain; If a Jew smite you on the left side turn to him the right also; if a Jew revile you, endure it and return it not again, as Yeschu endured it; in meekness he showed himself therewith he showed also meekness as he practiced it, that ye might endure all that any should do to you. At the last judgment Yeschu will punish them, but do ye have hope according to your meekness, for so it is written: Seek ye the Lord, all ye meek of the earth, etc. Until he separated them from Israel. But Elijahu who gave them these laws, the not –good ones did it for the welfare of Israel and Christian call him Paul. After he had introduced these laws and commandments the erring ones separated themselves from Israel and strife ceased (Did Jesus Live 100 B.C; G. R. S. Mead; pp273-276)”.

Validity of Torah or Laws of Moses

Paul preached that Laws of Moses are annulled and now there are no need to follow the dietary laws.

Mark wrote that Jesus used to eat with sinners (meant gentiles or non-Jews) (Mk 2:15-17):

And it came to pass, that he was sitting at meat in his house, and many publicans and sinners sat down with Jesus and his disciples: for there were many, and they followed him.  And the scribes of the Pharisees, when they saw that he was eating with the sinners and publicans, said unto his disciples, How is it that he eateth and drinketh with publicans and sinners? And when Jesus heard it, he saith unto them, They that are whole have no need of a physician, but they that are sick: I came not to call the righteous, but sinners.

 

What defiles a person is not what he is eating. Mark wrote 7: 17-23

Don’t you know that nothing from the outside that enters a person has the power to contaminate?  That’s because it doesn’t enter into the heart but into the stomach, and it goes out into the sewer.” By saying this, Jesus declared that no food could contaminate a person in God’s sight.  “It’s what comes out of a person that contaminates someone in God’s sight,” he said.  “It’s from the inside, from the human heart, that evil thoughts come: sexual sins, thefts, murders,   adultery, greed, evil actions, deceit, unrestrained immorality, envy, insults, arrogance, and foolishness.   All these evil things come from the inside and contaminate a person in God’s sight.”

Luke has also attributed a statement to Jesus that  (Lk 16:16)

Until John, there was only the Law and the Prophets. Since then, the good news of God’s kingdom is preached, and everyone is urged to enter it.

Mathew wrote exact opposite of what is stated above. Mathew quoted the words of Jesus that

(Mth 5:17-20)

Don’t even begin to think that I have come to do away with the Law and the Prophets. I haven’t come to do away with them but to fulfill them. I say to you very seriously that as long as heaven and earth exist, neither the smallest letter nor even the smallest stroke of a pen will be erased from the Law until everything there becomes a reality.  Therefore, whoever ignores one of the least of these commands and teaches others to do the same will be called the lowest in the kingdom of heaven. But whoever keeps these commands and teaches people to keep them will be called great in the kingdom of heaven.  I say to you that unless your righteousness is greater than the righteousness of the legal experts and the Pharisees, you will never enter the kingdom of heaven.

Paul wanted to make his message acceptable to the Graeco-Roman World. The influence of Greek mythology on his addressee was very strong. The hybrid person created from God Zeus and human women is well known and these personalities were called Heroes.

In Paul’s letters,  Jesus was  depicted as a Holy person who died for the Sins of whole Humanity, but strangely in his theology only the people who believe in risen Christ would get salvation.

 


[2] Earliest copies of Paul letters date from around 200 AD.

 

[3] A footnote is added in NET Bible: sn Appointed the Son-of-God-in-power. Most translations render the Greek participle ὁρισθέντος (Jorisqentos, from ὁρίζω, Jorizw) “declared” or “designated” in order to avoid the possible interpretation that Jesus was appointed the Son of God by the resurrection. However, the Greek term ὁρίζω is used eight times in the NT, and it always has the meaning “to determine, appoint.” Paul is not saying that Jesus was appointed the “Son of God by the resurrection” but “Son-of-God-in-power by the resurrection,” as indicated by the hyphenation. He was born in weakness in human flesh (with respect to the flesh, v. 3) and he was raised with power. This is similar to Matt 28:18 where Jesus told his disciples after the resurrection, “All authority in heaven and on earth has been given to me.”

[4] Paul the Convert by Alan Segal, Yale University Press, 1990

[5] Lost Christianities, Bart D. Ehrman, Oxford University Press, 2003, pg 184

[6] Cephas in Aramaic means Rock, Cephas is translated into Greek Πετρος (Petros). So Peter or Cephas was title

Part II: Jesus in Quran

 

Vow by Mother of Marry for coming child

Allah informed us in surah Imran (father of Marry) 35-37:

(Remember) when the wife of ‘Imran[1] said: “O my Lord! I have vowed to You what (the child that) is in my womb to be dedicated for Your services, so accept this, from me. Verily, You are the All-Hearer, the All-Knowing.”  Then when she delivered her [child Maryam (Mary)], she said: “O my Lord! I have delivered a female child,” – and Allah knew better what she delivered, – “And the male is not like the female, and I have named her Maryam (Mary), and I seek refuge with You (Allah) for her and for her offspring from Satan, the outcast.” So her Lord (Allah) accepted her with goodly acceptance.

 

Zechariah become the mentor of Marry

 

Allah informed us that priests disputed each other to become the mentor Marry to help her in fulfilment of her  mother vows and even cast lots[2] to become the  mentor of Marry (Al-Imran 44)

This is a part of the news of the unseen (i.e. which Prophet has no knowledge) which We inspire you with (O Muhammad ). You were not with them, when they cast lots with their pens as to which of them should be charged with the care of Maryam (Mary); nor were you with them when they disputed.

 

Allah informed us that in surah Imran (father of Marry) 37:

He made her grow in a good manner and put her under the care of Zechariah. Every time he entered Al-Mihrab to (visit) her , he found her supplied with sustenance. He said: “O Maryam (Mary)! From where have you got this?” She said, “This is from Allah.” Verily, Allah provides sustenance to whom He wills, without limit.

Birth Announcement for John the Baptist

Allah informed us in surah Al-Imran 38-41 that Zechariah was standing in Mihrab[3]

At that time Zechariah invoked his Lord, saying: “O my Lord! Grant me from You, a good offspring. You are indeed the All-Hearer of invocation.”  Then the angels called him, while he was standing in prayer in Al-Mihrab , (saying): “Allah gives you glad tidings of Yahya (Johnanna), confirming (believing in) the Word from Allah, noble, keeping away from (illicit) sexual relations with women, a Prophet, from among the righteous.” He said: “O my Lord! How can I have a son when I am very old, and my wife is barren?” Allah said: “Thus Allah does what He wills.”  He said: “O my Lord! Make a sign for me.” Allah said: “Your sign is that you shall not speak to mankind for three days except with signals. And remember your Lord much (by praising Him again and again), and glorify (Him) in the afternoon and in the morning.”

Allah said in surah Mariam (Marry)  1-15

 Kaf- Ha-Ya-‘Ain-Sad.  A mention of the mercy of your Lord to His slave Zechariah  When he called out his Lord a call in secret,   Saying: “My Lord! Indeed my bones have grown feeble, and grey hair has spread on my head, And I have never been unblest in my invocation to You, O my Lord!  “And Verily! I fear my relatives after me, since my wife is barren. So give me from Yourself an heir,  “Who shall inherit me, and inherit (also) the posterity of Ya’qub (Jacob). And make him, my Lord, one with whom You are Well-pleased!”.  (Allah said) “O Zechariah! Verily, We give you the glad tidings of a son, His name will be Yahya (Yohanna). We have given that name to none before (him).”  He said: “My Lord! How can I have a son, when my wife is barren, and I have reached the extreme old age.”  He said: “So (it will be). Your Lord says; It is easy for Me. Certainly I have created you before, when you had been nothing!”   said: “My Lord! Appoint for me a sign.” He said: “Your sign is that you shall not speak unto mankind for three nights, though having no bodily defect.”  Then he came out to his people from Al-Mihrab, he told them by signs to glorify Allah’s Praises in the morning and in the afternoon.  (It was said to his son): “O Yahya (Johnanna)! Hold fast the Scripture [the Taurat (Torah)].” And We gave him wisdom while yet a child.  And (made him) sympathetic to men as a mercy (or a grant) from Us, and pure from sins and he was righteous,  And dutiful towards his parents, and he was neither an arrogant nor disobedient (to Allah or to his parents). And peace be on him the day he was born, the day he dies, and the day he will be raised up to life (again)!

Birth Announcement of Jesus and his birth

Also in surah Al-Imran Allah informed us that 42-49

And (remember) when the angels said: “O Maryam (Mary)! Verily, Allah has chosen you, purified you and chosen you above the women of the Worlds.  O Mary! “Submit yourself with obedience to your Lord and prostrate yourself, and bow down along with those who bow down (to God).”… (Remember) when the angels said: “O Maryam (Mary)! Verily, Allah gives you the glad tidings of a Word [“Be!” – and he was! i.e. ‘Iesa (Jesus) the son of Maryam (Mary)] from Him, his name will be the Messiah ‘Iesa (Jesus), the son of Maryam (Mary), held in honour in this world and in the Hereafter, and will be one of those who are near to Allah.”  “He will speak to the people in the cradle and in manhood, and he will be one of the righteous.”. She said: “O my Lord! How shall I have a son when no man has touched me.” He said: “So (it will be) for Allah creates what He wills. When He has decreed something, He says to it only: “Be!” and it is.  And He (Allah) will teach him [‘Iesa (Jesus)] the Book and Wisdom, (and) the Taurat (Torah) and the Injeel (Gospel).  And will make him [‘Iesa (Jesus)] a Messenger to the Children of Israel.

 

Allah said in surah Mariam (Marry)  16-26

And mention in the Book Maryam (Mary), when she withdrew in seclusion from her family to a place facing east.   She placed a screen (like curtain to screen herself) from them; then We sent to her Our Ruh [ Holy Spirit i.e. angel Gabriel], and he appeared before her in the form of a man in all respects.  She said: “Verily! I seek refuge with the Most Beneficent (God) from you, if you do fear.”  (The angel) said: “I am only a Messenger from your Lord, (to announce) to you the gift of a righteous son.”  She said: “How can I have a son, when no man has touched me, nor am I unchaste?”  He said: “So (it will be), your Lord said: ‘That is easy for Me (Allah): And (We wish) to appoint him as a sign to mankind and a mercy from Us (Allah), and it is a matter (already) decreed, (by Allah).’ ”  So she conceived him, and she withdrew with him to a far place.  And the pains of childbirth drove her to the trunk of a date-palm. She said: “Would that I had died before this, and had been forgotten and out of sight!”  Then [a voice] cried unto her from below her, saying: “Grieve not! Your Lord has provided a water stream under you; “And shake the trunk of date-palm towards you, it will let fall fresh ripe-dates upon you.”  “So eat and drink and be glad, and if you see any human being, say: ‘Verily! I have vowed a fast unto the Most Beneficent (Allah) so I shall not speak to any human being this day.'”

Marry reprimanded by people for being unchaste

Allah said in surah Mariam (Marry)  27-34

Then she brought him (the baby) to her people, carrying him. They said: “O Mary! Indeed you have brought an unheard mighty thing.  “O sister of Aaron[4]! Your father was not a man who used to commit adultery, nor your mother was an unchaste woman.” Then she pointed to him. They said: “How can we talk to one who is a child in the cradle?”  “He [Jesus] said: Verily! I am a slave of Allah, He has given me the Scripture and made me a Prophet;” “And He has made me blessed wheresoever I be, and has enjoined on me Salat (prayer), and alms, as long as I live.”  “And dutiful to my mother, and made me not arrogant, unblest.  “And Salam (peace) be upon me the day I was born, and the day I die, and the day I shall be raised alive!”  Such is ‘Iesa (Jesus), son of Maryam (Mary). (it is) a statement of truth, about which they doubt (or dispute).

Jesus taught the true monotheism

Allah informed in surah al-Imran 49-53:

 

 (Jesus said): “I have come to you with a sign from your Lord, that I design for you out of clay, as it were, the figure of a bird, and breathe into it, and it becomes a bird by Allah’s Leave; and I heal him who was born blind, and the leper, and I bring the dead to life by Allah’s Leave. And I inform you of what you eat, and what you store in your houses. Surely, therein is a sign for you, if you believe.. And I have come confirming that which was before me of the Taurat (Torah), and to make lawful to you part of what was forbidden to you, and I have come to you with a proof from your Lord. So fear Allah and obey me.  Truly! Allah is my Lord and your Lord, so worship Him (Alone). This is the Straight Path. . Then when ‘Iesa (Jesus) came to know of their disbelief, he said: “Who will be my helpers in Allah’s Cause?” A the disciples said: “We are the helpers of Allah; we believe in Allah, and bear witness that we are Muslims (i.e. we submit to Allah).”  Our Lord! We believe in what You have sent down, and we follow the Messenger [‘Iesa (Jesus)]; so write us down among those who bear witness.  

 

Jesus showed Signs

Allah informed in surah Al-Maidah  110

When Allah will say (on the Day of Resurrection). “O Jesus, son of Maryam (Mary)! Remember My Favour to you and to your mother when I supported you with Holy Spirit [Jibrael (Gabriel)] so that you spoke to the people in the cradle and in maturity; and when I taught you writing,  Wisdom, the Taurat (Torah) and the Injeel (Gospel); and when you made out of the clay, as it were, the figure of a bird, by My Permission, and you breathed into it, and it became a bird by My Permission, and you healed those born blind, and the lepers by My Permission, and when you brought forth the dead by My Permission; and when I restrained the Children of Israel from you (when they resolved to kill you) since you came unto them with clear proofs, and the disbelievers among them said: ‘This is nothing but evident magic.’ “

Disciples requested for Supper as a Sign

 Allah informed in surah Al-Maidah 111-115

 

And when I (Allah) put in the hearts of the disciples [of ‘Iesa (Jesus)] to believe in Me and My Messenger, they said: “We believe. And bear witness that we are Muslims.”. (Remember) when (the disciples) said: “O ‘Iesa (Jesus), son of Maryam (Mary)! Can your Lord send down to us a table spread (with food) from heaven?” ‘Iesa (Jesus) said: “Fear Allah, if you are indeed believers.”  They said: “We wish to eat thereof and to be stronger in Faith, and to know that you have indeed told us the truth and that we ourselves be its witnesses.”  ‘Iesa (Jesus), son of Maryam (Mary), said: “O Allah, our Lord! Send us from heaven a table spread (with food) that there may be for us – for the first and the last of us – a festival and a sign from You; and provide us sustenance, for You are the Best of sustainers.” Allah said: “I am going to send it down unto you, but if any of you after that disbelieves, then I will punish him with a torment such as I have not inflicted on anyone among (all) the Worlds “.

 Jews plotted to kill Jesus

 Allah informed in surah Imran 54-56

And they (disbelievers) plotted [to kill ‘Iesa (Jesus)], and Allah planned too. And Allah is the Best of the planners.  And (remember) when Allah said: “O ‘Iesa (Jesus)! I will take you and raise you to Myself and clear of those who disbelieve, and I will make those who follow you superior to those who disbelieve  till the Day of Resurrection. Then you will return to Me and I will judge between you in the matters in which you used to dispute.” “As to those who disbelieve, I will punish them with a severe torment in this world and in the Hereafter, and they will have no helpers.”

Jesus was not crucified and killed but saved

Allah said in surah Al-Nisa  155-159:

 

Because of their breaking the covenant, and of their rejecting the  evidences of Allah, and of their killing the Prophets unjustly, and of their saying: “Our hearts are wrapped (with coverings, i.e. we do not understand what the Messengers say)” – nay, Allah has set a seal upon their hearts because of their disbelief, so they believe not but a little. . And because of their (Jews) disbelief and uttering against Maryam (Mary) a grave false charge;  And because of their saying (in boast), “We killed Messiah ‘Iesa (Jesus), son of Maryam (Mary), the Messenger of Allah,” – but they killed him not, nor crucified him, but so it was made to appear to them, and those who differ therein are full of doubts. They have no (certain) knowledge, they follow nothing but conjecture. For surely; they killed him not.  But Allah raised him [‘Iesa (Jesus)] up (with his body and soul) unto Himself (and he is in the heavens). And Allah is Ever All-Powerful, All-Wise. And there is none of the people of the Scripture (Jews and Christians), but must believe in him  before his death. And on the Day of Resurrection, he [‘Iesa (Jesus)] will be a witness against them.

God will ask Jesus: Did you teach them the false doctrines?

Allah informed in surah Al-Maidah  116- 120

 

 And (remember) when Allah will say (on the Day of Resurrection): “O ‘Iesa (Jesus), son of Maryam (Mary)! Did you say unto men: ‘Worship me and my mother as two gods besides Allah?’ ” He will say: “Glory be to You! It was not for me to say what I had no right (to say). Had I said such a thing, You would surely have known it. You know what is in my inner-self though I do not know what is in Yours, truly, You, only You, are the All-Knower of all that is hidden and unseen.  “Never did I say to them aught except what You (Allah) did command me to say: ‘Worship Allah, my Lord and your Lord.’ And I was a witness over them while I dwelt amongst them, but when You took me up, You were the Watcher over them, and You are a Witness to all things.  “If You punish them, they are Your slaves, and if You forgive them, verily You, only You are the All-Mighty, the All-Wise .”  Allah will say: “This is a Day on which the truthful will profit from their truth: theirs are Gardens under which rivers flow (in Paradise) – they shall abide therein forever. Allah is pleased with them and they with Him. That is the great success (Paradise).. To Allah belongs the dominion of the heavens and the earth and all that is therein, and He is Able to do all things.

 

 

Allah ask Christians: Why you have not believed in Muhammad?

Allah said in Quran surah al-Imran 70-71

O people of the Scripture! (Jews and Christians): “Why do you disbelieve in the Ayat of Allah, [the Verses about Prophet Muhammad  present in the Taurat (Torah) and the Injeel (Gospel)] while you (yourselves) bear witness (to their truth).”  O people of the Scripture (Jews and Christians): “Why do you mix truth with falsehood and conceal the truth while you know?

 


[1] Aamram in Hebrew or Aramaic

[2] Mishnah informs that priests of the temple cast lots for the performance of duties. “The officials of Temple said to them, Come and cast lots to decide who among them would kill the sacrifice, who would sprinkle the blood and who would clear the altar of ashes, who would light the menorah ” (Mishnah Tamid 3.1). The room Gazith (Lots casting room) was in form of large Hall. The casting took place from the east side of it. With an elder sitting on the west. The priest stood about in a circle  and official grabbed the hat off this or that person, and by this they understood where the lot was to begin (Yoma 25a).  (from  Jesus Christ in Talmud by J. Lightfoot  published in 1658)

[3]Al-Mihrab was the place where priest was staying in Temple. Marry was staying in one of the chambers and it was not walled surrounding her, instead to separate herself a curtain or screen was place between her and  rest.  According to Mishna there were several Chambers in Temple which were used by priests.

 

[4] Sister of Aaron means that she is from the family of Aaron, it means that her father, Imran (Aamram) , was from family of Aaron. In gospel of Luke it is informed that Marry was relative of Elisabeth who was the wife of Zechariah (1:36), who was a kohen in Temple and thus must be a Levite and from family of Aaron.

Gospel had Guidance and Light

And in their footsteps, We sent ‘Iesa (Jesus), son of Maryam (Mary) , confirming the Taurat (Torah) that had come before him, and We gave him the Injeel (Gospel), in which was guidance and light and confirmation of the Taurat (Torah) that had come before it, a guidance and an admonition for God-fearing ( Quran, Al-Maidah 46)

 

Jesus spoke to the people again, saying, “I am the light of the world. Whoever follows me won’t walk in darkness but will have the light of life.” (Jh 8:12)

Parable of Sown Seed

Allah said in surah Al-Fatah 29:

Muhammad is the Messenger of Allah, and those who are with him are severe against disbelievers, and merciful among themselves. You see them bowing and falling down prostrate (in prayer), seeking Bounty from Allah and (His) Good Pleasure. The mark of them is on their faces (foreheads) from the traces of (their) prostration (during prayers). This is their description in the Taurat (Torah). But their description in the Injeel (Gospel) is like a (sown) seed which sends forth its shoot, then makes it strong, it then becomes thick, and it stands straight on its stem, delighting the sowers that He may enrage the disbelievers with them. Allah has promised those among them who believe (i.e. all those who follow Islamic Monotheism, the religion of Prophet Muhammad till the Day of Resurrection) and do righteous good deeds, forgiveness and a mighty reward (i.e. Paradise).

Jesus said to them, “I am fed by doing the will of the one who sent me and by completing his work.  Don’t you have a saying, ‘Four more months and then it’s time for harvest’? Look, I tell you: open your eyes and notice that the fields are already ripe for the harvest.  Those who harvest are receiving their pay and gathering fruit for eternal life so that those who sow and those who harvest can celebrate together.  This is a true saying, that one sows and another harvests.  I have sent you to harvest what you didn’t work hard for; others worked hard, and you will share in their hard work.” (Jh 4: 34-38)

I am the true vine, and my Father is the vineyard keeper. He removes any of my branches that don’t produce fruit, and he trims any branch that produces fruit so that it will produce even more fruit. You are already trimmed because of the word I have spoken to you.  Remain in me, and I will remain in you. A branch can’t produce fruit by itself, but must remain in the vine. Likewise, you can’t produce fruit unless you remain in me.  I am the vine; you are the branches. If you remain in me and I in you, then you will produce much fruit. Without me, you can’t do anything.  If you don’t remain in me, you will be like a branch that is thrown out and dries up. Those branches are gathered up, thrown into a fire, and burned.  If you remain in me and my words remain in you, ask for whatever you want and it will be done for you.  My Father is glorified when you produce much fruit and in this way prove that you are my disciples. (Jh 15)

 

Jesus foretold the coming of Prophet Muhammad

 Allah informed in surah Al-Saff -6:

And (remember) when ‘Iesa (Jesus), son of Maryam (Mary), said: “O Children of Israel! I am the Messenger of Allah unto you confirming the Taurat [(Torah) which came] before me, and giving glad tidings of a Messenger to come after me, whose name shall be Ahmed . But when he (Ahmed i.e. Muhammad ) came to them with clear proofs, they said: “This is plain magic.”

 

Allah said in surah Al-Araf 157:

Those who follow the Messenger, the Prophet who can neither read nor write (i.e.Muhammad) whom they find written with them in the Taurat (Torah) and the Injeel (Gospel)- he commands them for Good things; and forbids them from Bad things; he allows them as lawful  clean things and prohibits them as unlawful unclean things, he releases them from their heavy burdens, and from the fetters (bindings) that were upon them. So those who believe in him (Muhammad ), honour him, help him, and follow the light (the Qur’an) which has been sent down with him, it is they who will be successful .

 

I have spoken these things to you while I am with you.  The Companion (Advocate)[1], the Holy Spirit, whom the Father will send in my name, will teach you everything and will remind you of everything I told you. (Jh 14:25-26)

 

In Codex Syriacus the verses are without the word Holy. So παράκλητος Paraclete is  only the Spirit there, which God would send.  According to John 1:4-3, a Spirit is an epithet for a Prophet.

 

  • “When the Companion (Advocate) comes, whom I will send from the Father—the Spirit of Truth who proceeds from the Father—he will testify about me. (Jh 15:26)

 

  • I have much more to say to you, but you can’t handle it now.  However, when the Spirit of Truth comes, he will guide you in all truth. He won’t speak on his own, but will say whatever he hears and will proclaim to you what is to come.  He will glorify me, because he will take what is mine and proclaim it to you.  (Jh 16: 12-14)

In these verses it is  explained that the Holy Spirit referred in John 14:26 is actually a human also called Spirit of Truth.

Also Jesus informed that the Spirit of Truth would come after his ascension:

I assure you that it is better for you that I go away. If I don’t go away, the Companion (advocate) won’t come to you. But if I go, I will send him to you. (Jh 16:7)

 Prophet Muhammad peace be upon him  has advocated Jesus and exonerated him from the Jews propaganda that he taught false doctrines.  

Bukhari reported that narrated ‘Ubada:
The Prophet said, “If anyone testifies that None has the right to be worshiped but Allah Alone Who has no partners, and that Muhammad is His Slave and His Apostle, and that Jesus is Allah’s Slave and His Apostle and His Word which He bestowed on Mary and a Spirit created by Him, and that Paradise is true, and Hell is true, Allah will admit him into Paradise with the deeds which he had done even if those deeds were few.”

Jesus showed his aloofness from the disbelievers

Allah informed in surah Al-Maidah  116- 120

 

 And (remember) when Allah will say (on the Day of Resurrection): “O ‘Iesa (Jesus), son of Maryam (Mary)! Did you say unto men: ‘Worship me and my mother as two gods besides Allah?’ ” He will say: “Glory be to You! It was not for me to say what I had no right (to say). Had I said such a thing, You would surely have known it. You know what is in my inner-self though I do not know what is in Yours, truly, You, only You, are the All-Knower of all that is hidden and unseen.  “Never did I say to them aught except what You (Allah) did command me to say: ‘Worship Allah, my Lord and your Lord.’ And I was a witness over them while I dwelt amongst them, but when You took me up, You were the Watcher over them, and You are a Witness to all things.  “If You punish them, they are Your slaves, and if You forgive them, verily You, only You are the All-Mighty, the All-Wise .”  Allah will say: “This is a Day on which the truthful will profit from their truth: theirs are Gardens under which rivers flow (in Paradise) – they shall abide therein forever. Allah is pleased with them and they with Him. That is the great success (Paradise).. To Allah belongs the dominion of the heavens and the earth and all that is therein, and He is Able to do all things.

 

 

I’m no longer in the world, but they are in the world, even as I’m coming to you. Holy Father, watch over them in your name, the name you gave me, that they will be one just as we are one.  When I was with them, I watched over them in your name, the name you gave to me, and I kept them safe. None of them were lost, except the one who was destined for destruction, so that scripture would be fulfilled.  Now I’m coming to you and I say these things while I’m in the world so that they can share completely in my joy.  I gave your word to them and the world hated them, because they don’t belong to this world, just as I don’t belong to this world. (Jh 17:11-14)

Ascension of Jesus

Allah informed in surah Imran 54-56

And they (disbelievers) plotted [to kill ‘Iesa (Jesus)], and Allah planned too. And Allah is the Best of the planners.  And (remember) when Allah said: “O ‘Iesa (Jesus)! I will take you and raise you to Myself and clear of those who disbelieve, and I will make those who follow you superior to those who disbelieve  till the Day of Resurrection. Then you will return to Me and I will judge between you in the matters in which you used to dispute.” “As to those who disbelieve, I will punish them with a severe torment in this world and in the Hereafter, and they will have no helpers.”

Therefore, Jesus said, “I’m still with you for a little while before I go to the one who sent me. (Jh 7:33)

Jesus continued, “I’m going away. You will look for me, and you will die in your sin. Where I’m going, you can’t come.” (Jh 8:21)

 


[1] It is translated as Encourager in The New Greek-English Interlinear New Testament, Tyndale Publishers, 1990. Also a footnote is added in NET bible (https://bible.org/netbible/):  Or “Helper” or “Counselor”; Grk “Paraclete,” from the Greek word παράκλητος (paraklhto”). See the note on the word “Advocate” in v. 16 for a discussion of how this word is translated. Then the footnote on word Advocate in v. 16 says: Or “Helper” or “Counselor”; Grk “Paraclete,” from the Greek word παράκλητος (paraklhto”). Finding an appropriate English translation for παράκλητος is a very difficult task. No single English word has exactly the same range of meaning as the Greek word. “Comforter,” used by some of the older English versions, appears to be as old as Wycliffe. But today it suggests a quilt or a sympathetic mourner at a funeral. “Counselor” is adequate, but too broad, in contexts like “marriage counselor” or “camp counselor.” “Helper” or “Assistant” could also be used, but could suggest a subordinate rank. “Advocate,” the word chosen for this translation, has more forensic overtones than the Greek word does, although in John 16:5-11 a forensic context is certainly present. Because an “advocate” is someone who “advocates” or supports a position or viewpoint and since this is what the Paraclete will do for the preaching of the disciples, it was selected in spite of the drawbacks.

Say (O Muhammad ): “O people of the Scripture (Jews and Christians): Come to a word that is just between us and you, that we worship none but Allah, and that we associate no partners with Him, and that none of us shall take others as lords besides Allah. Then, if they turn away, say: “Bear witness that we are Muslims.” (Al-Imran 64)

It is explained that Jesus was actually a righteous person. He was considered Prophet and Messiah by the people of his age. His closest disciples find it hard to believe that he would die on cross and resurrect. Later  after his ascension, groups appeared who claimed that they have seen the ghost of Jesus and that ghost has appointed them as his apostles.   The authenticity of resurrection story is questioned through out the New Testament by disciples of Jesus.

It is therefore can be easily extracted from the four gospels that the true faith of Jesus was well preserved by the disciples.  However the  growing number of churches of Jesus by anti-disciple forces  had out-numbered them and slowly their teachings were vanished.

Later literature like  Letters of Paul and the stories of Acts written by Luke are merely an attempt to create an endorsing literature. Mark and Luke are Pauline in style but have differences on nature of Jesus.

Author of gospel of Mathew is non-Pauline but believe in resurrection of Jesus and validity of  laws of Moses. He  probably belonged to church of Mary Magdalene, as he was the first author who had put her in positive light compared to Luke and Mark, who considered her to be possessed by seven demons.

Author of gospel of John belonged to anti-Thomas Church.  He belonged to a church which was based on the teachings of a self-proclaimed  disciple, who might had not met Jesus in his lifetime, and that is why the ineffable name of this disciple has never been uttered in John’s gospel. Author of gospel of John probably had the copy of the gospel which contains the original  saying of Jesus (closest to Quranic description). However the interpretation inserted by author of gospel of John has put the Christians in further confusion on the nature of Jesus.

 

….and you will find the nearest in love to the believers those who say: “We are Christians.” That is because amongst them are priests and monks, and they are not proud. . And when they (who call themselves Christians) listen to what has been sent down to the Messenger (Muhammad), you see their eyes overflowing with tears because of the truth they have recognised. They say: “Our Lord! We believe; so write us down among the witnesses.  “And why should we not believe in Allah and in that which has come to us of the truth And we wish that our Lord will admit us  along with the righteous people” So because of what they said, Allah rewarded them Gardens under which rivers flow (in Paradise), they will abide therein forever. Such is the reward of good-doers.                       -(Quran, Al-Maidah 82-85)

 

 

People of Torah

 

Then, We gave Moses the Book [the Taurat (Torah)], to complete (Our Favour) upon those who would do right, and explaining all things in detail and a guidance and a mercy that they might believe in the meeting with their Lord. (Al-Anam 154)

 

IN SEARCH OF HIDDEN TORAH

A Muslim’s Inquiry into Pentateuch 

In Search of Hidden Torah

For the past 2,500 years, the Torah has been regarded as the first five books of the Old Testament. However, these writings are  the amalgamation of various  texts: Some are  the TRANSLATED words, some are the  texts added by rulers ; some passages were added by  temple priesthood. Torah today cannot be taken as TRUE WORD of God revealed  onto Moses. This work engages in a thorough investigation to discover the True Torah as revealed onto Moses. To this end, it examines verses in the Quran (which are identified as part of the  REAL Torah)  and compares them with those with modern day  Jewish Torah. Ultimately, this study suggests that the real Torah is confined to only a few chapters of the Book of Deuteronomy.

129 Downloads

Prophet Muhammad, peace be upon him was an Arab from the descendants of Prophet Abraham.  He received the word of God at age of forty in a cave near Makkah. He belonged to the family associated with the House keeping of the Holy Kabba, a temple believed to be constructed by Abraham during his travel to Arabia. Muhammad peace be upon him proclaimed that  he is the  Messenger of Allah like Abraham, David, Moses and Jesus. He taught that for success in Hereafter, one must believe that God has sent earlier the Holy Scriptures on Moses, David and Jesus.  The revelations sent on him, now called Quran claimed that the basic faith of all the Prophets was same, however, with the passage of time this message is lost. And it happened due to people in the past, who have tempered with words of God by quoting out of context verses and changing the Divine text.

Quran is not unique in claiming the textual changes of the Torah.  The biblical Prophet  Jeremiah referred to it by saying,  false pen of the scribes has made it (word of God) into a lie (Jeremiah 8:8). Also Jeremiah said: They have not heeded my words, and as for my Torah, they have spurned it (Jer 6:19). Jesus has also denounced scribes for misinterpreting the God’s word (Mathew 23). Even before Jesus and Jeremiah, the authors of Book of Kings and Book of Chronicles informed that King Josiah  (639-609 BCE)  was a devout king of Jewish people and he  acted on law with all his heart and all his soul (2 Kings 23:25 and 2 Chronicles 34: 31-32). Josiah ordered the renovations of Solomon’s Temple to fill up the crevices (2 Kings 22, 2 Chronicles 34). While people were renovating it, the Torah, revealed on Moses was discovered.  When Josiah came to know about this he tore his robe in grief. After that Josiah started his mission of Catharsis of Land. He destroyed all High Places and graves where people were practicing the deviation from Law. It is believed that the hidden text in walls of Temple was based on book of  Deuteronomy.  Thus historically there was an attempt by the Temple Priesthood to hid the book of God.  Also, in the book of Nehemiah it is informed that Ezra, the scribe recited the whole Torah in congregation with some verses, which were never heard before.  Thus there was a tendency among scribes to add into the text of Holy book of Moses.

The recent advances in Biblical research has brought Abrahamic faiths much closer. The recent research on Documentary Hypothesis by biblical scholar Richard Elliot Friedman, is very interesting.  His research is now available in books titled Who wrote the Bible? and The Bible with Sources Revealed. Friedman has proposed that the Bible especially the five Books of Moses are comprised of different writings done in different times and circumstances. These writings were created under the influence of different   political conditions and tastes. For example the details of Temple services in Bible come from Priestly Writings. Also  there are writings which have clear influence of politics of southern and northern kingdoms. Some parts of the biblical text we have today are made up of the interweaving done by the Redactor. Not only that but the last book, Deuteronomy has three different writings. Friedman has identified the Deuteronomy chapter 12 to 26 as a separate ancient writing, which is referred as  Deuteronomic Law code.

Another important recent discovery is that of the Dead Sea Scrolls (DSS). DSS  contains more than 225 biblical manuscripts, about 215 were discovered from Qumran, in region of Khirbet Qumran, near Dead Sea in  Israel between 1947 and 1956.  The manuscripts were in jars laid in eleven caves. It is still not resolved to which Jewish sect these  manuscripts were belong to. However one thing is clear that it was against the Priesthood in the Temple in Jerusalem and a community waiting anxiously for the appearance of Messiah. The manuscripts were written in Aramaic, Hebrew and Greek. The excavations further revealed the manuscripts in Wadi Murabbaat (1951-1952), Nahal Hever (1951-52 and 1960-61) and Masada (1963-65).  Through scientific methods the DSS are placed in the last two centuries BCE and the first century CE. Thus they are older than any available Bible present. DSS text quoted in this work is taken from The Dead Sea Scrolls Bible: The Oldest Known Bible Translated for the First Time into English,  by Abegg, Jr., Martin, Peter Flint, and Eugene Ulrich, published by Harper, 2002.

A theory is proposed in this book  that some of the verses in Laws of Moses were added later as an outcome of the political and religious divisions in the early Second Temple  period. In the book of Nehemiah it is informed that Ezra the scribe recited the whole Torah with verses never heard before. The information given in Book of Chronicles, Kings, Ezra, Nehemiah, Haggai and Zechariah is compared to understand the political divisions in this period.

The contents of chapters 12 to 24 of Deuteronomy is compared with Quran and Prophetic literature. The book is therefore gives reader a comparison between Torah,  Quran and Sayings of Prophet Muhammad peace be upon him.  The chapters in this work starts with an introductory chapter followed by a chapter on importance of Torah in Islam and then onwards the chapter numbers starts with  12, as in Book of Deuteronomy.  It is  hoped that readers find this investigation illuminating and interesting.

 

Abu Shahiryar

2013

There is almost a dearth of research on Biblical texts by Muslims in present era. The last noteworthy work in this field was done by  Rahmatullah Kiranvi (d.  1864 AD) by writing a book, Izhar-ul-Haque, on refutation of Christianity. But he too relied heavily on the earlier works[1].  In present era, Ahmed Dedaat,  has also followed the Izhar-ul-Haque in his speeches.  The approach followed by all these scholars is that the so-called five books of Moses or Pentateuch are changed due to textual corruption. From Islamic perspective this point of view is not incorrect, but this does not guide the readers to the True Torah of God still hidden in Bible.

 

About fourteen hundred years back, Quran claimed that Jews and Christians have tempered with the Divine text. The books of Jews were in Hebrew and Christians used Greek in liturgy and prayers.  It is informed in Hadith literature[2] that when the revelations first came on our holy Prophet peace be upon him, he went to his wife’s relative Waraqa bin Naufal, an Arab Christian who used to recite gospels in Arabic in Makkah.  Bukhari reported  that:

 

Khadija (Prophet’s wife, may Allah pleased with her) then accompanied him to her cousin Waraqa bin Naufal bin Asad bin ‘Abdul ‘Uzza, who, during the PreIslamic Period became a Christian and used to write the writing with Hebrew letters. He would write from the Gospel in Hebrew as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija said to Waraqa, “Listen to the story of your nephew, O my cousin!” Waraqa asked, “O my nephew! What have you seen?” Allah’s Apostle described whatever he had seen. Waraqa said, “This is the same one who keeps the secrets whom Allah had sent to Moses. I wish I were young and could live up to the time when your people would turn you out.” Allah’s Apostle asked, “Will they drive me out?” Waraqa replied in the affirmative and said, “Anyone (man) who came with something similar to what you have brought was treated with hostility; and if I should remain alive till the day when you will be turned out then I would support you strongly.” But after a few days Waraqa died…

 

Quran not only hinted towards scribal rendering of the Torah but it also says that it is known to the God fearing People of Scriptures. Quran says (Al-Imran 199):

 

And there are, certainly, among the people of the Scripture (Jews and Christians), those who believe in Allah and in that which has been revealed to you, and in that which has been revealed to them, humbling themselves before Allah. They do not sell the Verses of Allah for a little price, for them is a reward with their Lord. Surely, Allah is Swift in account. 

 

The true text of Torah and Injil thus was known to these God fearing people of the book.  The purpose of this work is to explore the hidden Torah in the five books of Moses.  The recent biblical scholarship and the discovery of Dead Sea Scrolls have brought us enough information that we can better understand the Quranic stance on previous scriptures.

 

Traditional view among Jewish people is that the Torah was written in Hebrew[3], called Tanakh comprising of five books. The names of each of these books are Bereshit (In  beginning; Genesis), Shemot (Names; Exodus), Vayikra (He called; Leviticus), Bamidbar (In the desert; Numbers) and Devarim (Words; Deuteronomy). In Rabbinic literature this is called Torah Shebichtav (תורה שבכתב) or written Torah. Christian called the first five books of the Hebrew Bible as the Pentateuch, a term coined in Alexandria during Greek Period.

 

Among the Judeo-Christian scholars a theory was proposed by Eduard Reuss or Wilhelm Vatke and Leopold George called the Documentary Hypothesis, also known as the Grafian Hypothesis[4]. According to this theory, it is proposed that  parts of Pentateuch  were not written till after the fall of kingdom of Judah, and that the Pentateuch  in its present form was not publicly accepted as authoritative word of God till the reformation of Ezra during early Second Temple Period.  The work on this hypothesis continued and recently it is proposed by one scholar, Richard Elliot Friedman, that the Pentateuch is comprised of ten different writings. The list of his findings based on narrative style, idioms, textual intricacies and themes;  the ten different textual trends are following[5].

 

 

J It is called J because it always referred to God by name Jahveh (pronounced Yahweh in German). This text is most likely composed from 922 to 722 BCE. The author lived in southern Kingdom of Judah.
E It is called E because the author always referred to God with name Elohim or El. The author most likely a priest lived in northern Kingdom of Israel.
RJE This author is a historian who combined the text of J and E. So called Redactor of J & E.
P The central concern of this author is Priesthood, Temple paraphernalia, sacrifices and its issues. One view is that it is composed by Jerusalem Priesthood during first temple period.
Other text Some additional text on ages, lineages and Jewish tribes like book of Numbers 33
Genesis 14 A separate independent text
Dtn Deuteronomic Law code (chapter 12 – 26)
Dtr1 Deuteronomic history addition done in reign of Josiah circa 622 BCE
Dtr2 An exilic addition 
R  Final Redactor, who did interweaving of all above texts

 

The work is significant as it is not done by a Muslim and it proposed what Islam is saying for fourteen hundred years. The identification of Deuteronomy chapter 12 to 26 as Deuteronomic Law code as an independent ancient writing is a significant finding.   Further the discovery of  Dead Sea Scrolls shed a new light on the text of Bible as a whole. It is therefore used for comparison of texts in this work[6].

Political Influence of Ezra on Torah

 

The historical records of Book of Kings, Book of Chronicles, Book of Ezra and Nehemiah are also used to understand the final redaction of these chapters.  The early second temple period is very significant as Ezra, the scribe played a pivotal role in shaping up the final text of Bible.

 

It is informed in book of Ezra that King, Cyrus allowed the Jews in Babylon to return to Jerusalem. His decree was:

 

The LORD, the God of heaven, has given me all the kingdoms of the earth and he has appointed me to build a temple for him at Jerusalem in Judah. Anyone of his people among you-may his God be with him, and let  him go up to Jerusalem in Judah and build the temple of the LORD, the  God of Israel, the God who is in Jerusalem. And the people of any place  where survivors may now be living are to provide him with silver and gold, with goods and livestock, and with freewill offerings for the temple of God in Jerusalem (Book of Ezra).

 

Table- 1: List of Persian Acahaemenid Kings[7]

Reign                     King                                       Period

539 -530               Cyrus II                                10 years

530 – 522              Cambyses II                        09 years

522 – 486              Darius                                   37 years

486 – 465              Xerxes I                                21 years

465 – 423              Artaxeres I                           42 years

 

Acting upon the Decree of Cyrus, some 42,360 Jews return to Jerusalem. The Prince of Jews was called Sheshbazzar (in Book of Ezra). The Sheshbazzar could be a non  Jew who might haven been acted as an administrator from Persian side. Zerrubabel son of Shealtiel[8] was the descendant of the King Joconiah and hence belonged to Davidic Dynasty. He was like the staff of Jesse[9] he has the chance to rule the Judeans again. The word Shealtiel sounds very similar to Shthiyl and Shathal,  meaning root plant in Hebrew.  Another important figure was Joshua son of Jehozadak[10] (as in Haggai and  Zechariah). Also known as Joshua son of Jozadak (as in Ezra). In First Book of Chronicles  we have been informed that Jehozadak was the High Priest of Temple of Solomon in Jerusalem.  This shows that Zerrubabel belonged to Davidic dynasty and the Joshua belonged to  the high priest family. This theocratic administration under the guidance of Sheshbazzar  was the first Judean administration after Babylonian Exile.

 

 

 

 

 

Table- II: Information from Books of Ezra, Nehemiah, Haggai and Zechariah

 
Date                      
539                         Cyrus II allowed the Jews in Babylon to return to Judah [Ezra 1]
536                         Zerrubabel and Joshua the priest assign duties for TempleServices [Ezra 1]
536                         Temple foundations were laid [Ezra 3]
525 – 404                Egypt under Persian Control
520                         Revelation of God comes to Prophet Haggai and Zechariah [Haggai and Zechariah]
                                 Work stopped at Temple site till the second year of reign of Darius [Ezra 4]
516                         Work on Temple completed in the sixth year of reign of Darius [Ezra 6]
516 – 458                No information, 58 year silence
458                         Ezra met Artaxeres I in 7th year of his reign and arrived Jerusalem [Ezra 7]
445                         Nehemiah comes with Persian Army to Jerusalem [Nehemiah 1]
                                 In 52 days the Wall surrounding Jerusalem completed
433                         Nehemiah visited Artaxeres I [Nehemiah 13]
 

 

From 538 to 519 B.C.E. the most of returnees were poor except some elite clan  of former king’s and high priest’s family. The High priest Joshua and Judean leader Zerrubabel allowed the people of the land and Judeans to inter-marry and many of the priest and Levites had married with the non Jewish communities in Jerusalem. The fact only revealed at the end of book of Ezra.  In Judah a strong tension had been created within the Priestly class. Some supported the marriages with local communities and some straight-away rejected them. The group dynamics has affected the religious literature in this period.

 

Two contemporary prophets in time of Zerrubabel and  Joshua son of Jehozadak were Prophet Haggai and  Prophet Zechariah. The significant revelations they received were:

 

Table III: Revelation of God to Haggai and Zechariah

In Second year of Reign of Darius year 520
Date                                      Revelation
1st day – 6th month           People say it is not the time of Construction of Temple! (Haggai chapter 1)
21st day – 7th month        People say: Temple not majestic as it was before  (Haggai chapter 2)
8th month                                God says: Return to me I will return to you (Zechariah chapter 1)
24th day -9th month        Temple foundations laid (Haggai Chapter 2)
24th day – 11th month     God says: Jerusalem constructed without walls (Zechariah chapter 1)
 
 In Fourth year of Reign of Darius year 518
Date                                      Revelation
4th day – 9th month           Zechariah chapter 7
                                                        – Pray for rain Zechariah chapter 10
                                                       – People shall mourn for whom they pierced Zechariah chapter 12

 

The prophet Haggai also mentioned the plan of God that He will shake the nations and kingdoms to support the Judean leader Zerrubabel and God has declared him as his hand signet.

 

On that day, declares the LORD Almighty, ’I will take you, my servant  Zerubbabel son of Shealtiel,’ declares the LORD, ’and I will make  you like my signet ring, for I have chosen you,’ declares the LORD  Almighty.” (Haggai 2:23).

 

Thus revolutionary tendencies were brewing in Jerusalem. At the same time another prophet Zechariah were receiving the revelations from God Almighty that He has purified the High Priest Joshua. God announces to High Priest Joshua and his companions that He is about to bring in his slave meaning the branch[11] (Zechariah 3 and 6:9-15).  Prophets Haggai and Zechariah the son of Berechiah son of Iddo were closely associated with Zerrubabel and Joshua. What happened next is mysteriously missing.  There is almost a silence of 58 years between chapters 6 and 7 in book of Ezra.  In the text of Book of Ezra further information about  Zerrubabel and Joshua is strangely absent.

 

In the early second temple period the internal strife in the Jewish community has forced the Persian Administration to intervene. They sent a priestly Scribe who has the knowledge of Law (Ezra 7:1-6). The scribe requested the authority from Acamechmanid administration (Ezra 7:6):

 

Ezra[12] was a secretary[13] with a thorough knowledge of the Law which the Lord, the God of Israel, had given to Moses. Because Ezra had the blessing of the Lord his God, the emperor gave him everything he asked  for. In the seventh year of the reign of Artaxerxes, Ezra set out from Babylonia for Jerusalem with a group of Israelites which included priests, Levites, Temple musicians, Temple guards, and workers. They left Babylonia on the first day of the first month, and with God’s help  they arrived in Jerusalem on the first day of the fifth month. Ezra had devoted his life to studying the Law of the Lord, to practicing it, and to teaching all its laws and regulations to the people of Israel. And you, Ezra, in accordance with the wisdom of your God, which  you possess, appoint magistrates and judges to administer justice to all the  people of Trans-Euphratesall who know the laws of your God. And you  are to teach any who do not know them. Whoever does not obey the law  of your God and the law of the king must surely be punished by death, banishment, confiscation of property, or imprisonment -Ezra 7:25-26

 

From the very start of his mission Ezra had the plan to replace the temple personal.   Ezra was against the marriages of leaders and TemplePriesthood with other nations. Ezra first looked for the Temple personnel (Levites) and brought them from Babylon. He enrolled 220 new personnel in Temple service[14]. In his next move[15], he handpicked Temple Priesthood for corrupting the holy seed and list them out in public and ask them to publically pronounce their confession[16].

 

Also Prophet Zechariah the son of Berechiah was brutally murdered in the precincts of HolyTemple by Jewish people themselves.  Jesus reprimanded the TemplePriesthood in Mathew 23:33-36:

 

You snakes! You brood of vipers! How will you escape being condemned to hell? Therefore I am sending you prophets and sages and teachers. Some of them you will kill and crucify; others you will flog in your synagogues and pursue from town to town.  And so upon you will come all the righteous blood that has been shed on earth, from the blood of righteous Abel to the blood of Zechariah son of Berechiah, whom you murdered between the temple and the altar.  Truly I tell you, all this will come on this generation

 

It is not clear whether Prophet Zechariah was murdered before the arrival of Ezra or after. Ezra later becomes the close associate of Nehemiah, the governor of Judah appointed by Persians.

 

The book of Nehemiah begins with a dramatic scene. A cup-bearer of the King Artaxeres in the palace Susa met with the Judeans. The Judeans narrated to the Royal cup-bearer the plight of Jews in Judah and the sorry state of holy city. We have been informed that Nehemiah had no prior knowledge of the Judeans and it seems like as if for the first time he heard the news that Jerusalem is the city with out walls with burned entrances and thresholds! Nehemiah cried and fasted.

 

There were in the 445 B.C.E. great upheavals in the Persian Empire. In Egypt in year 460 B.C.E. revolt broke out, which was put down in 455 B.C.E. In 448 B.C.E. Megabyzus, the satrap of trans-Euphrates rebelled. It means that just three years before Nehemiah met Judeans, a revolt broke out in the vicinity of Judah. It is quiet possible that some revolutionary tendencies were emerging in Judah also[17]. Nehemiah asked for the king’s permission to go to Judah to control the administration. Nehemiah’s visit of Judah looks more like an attempt to remove the then Jewish leaders from power. He arrived in Jerusalem with Army commanders and soldiers. We have been informed that he stayed in city for three days and told no body about his plans even the local Jews, priests, elites etc (Neh 2:16) were ill informed. The mission was kept in utter secrecy and at one night he inspected the city surroundings as well. No information has been given about the so called leaders of the city. Nehemiah is also very critical of former rulers and priests of the city. He denounced the rulers for heavy taxes on the population. The taxes were so high that people were mortgaging their property even selling there children into slavery. Nehemiah forced the Judean leaders and priests to take the  oath of returning what they had lent from farmers.  Further contrary to what God instructed via Zechariah that Jerusalem would be a city without walls, Nehemiah made a wall surrounding city in just 52 days, as if, he was set to construct it from beginning. This shows that there were differences between the people in land.

 

Nehemiah had benign relations with Ezra and even appointed him as the spokesman of the Judean-satrapy.  In book of Nehemiah it is informed that Ezra the scribe recited the Torah in congregation and read verses which were not heard before. The political differences between different groups caused the schism and emergence of Samaritan sect of Jews. For sake of comparison the Samaritan Deuteronomic law code is also included[18].

 

The focus in the present work is to compare the Deuteronomic Law code (in chapter 12 to 24) in its present form with the text discovered in Dead Scrolls and also to interpret the text with Quran and Prophetic saying to propose that this Law code is the actual hidden Torah. Further the content of some of the verses is explored in the light of politics of early second temple period to understand the final scribal touches done by Ezra.


[1] For example Al-Radd ‘ala ‘l-Nasara by Al-Jahiz, Abu ‘Uthman ‘Amr b. Bahr al-Fuqaymi al-Basri  (776 –d.  868).

[2] Sahih Bukhari

[3] It is reported in Bukhari Volume 9, Book 92, Number 460. that  Narrated Abu Huraira:

The people of the Book used to read the Torah in Hebrew and then explain it in Arabic to the Muslims. Allah’s Apostle said (to the Muslims). “Do not believe the people of the Book, nor disbelieve them, but say, ‘We believe in Allah and whatever is revealed to us, and whatever is revealed to you.’ ”

[4] Preface, Prolegomena to the History of Israel by W. Robertson Smith

[5] The Bible with Sources Revealed by Richard Elliot Friedman, 2003

[6] All texts of Dead Sea Scrolls is taken from The Dead Sea Scrolls Bible: The Oldest Known Bible Translated for the First Time into English,  by Abegg, Jr., Martin, Peter Flint, and Eugene Ulrich, published by Harper, 2002.

 

[7] Dates are taken from Judaism in Persian Shadow by Jon L. Berquist, Wipf & Stock Publishers, 1995

[8] Zerrubabel is even called Governor in Haggai 1:14 also the Signet of God’s hand and his Servant in Haggai  2:23;  In 1 Chronicles Zerrubabel is grandson of Shealtiel see 3:18; Also  in Pesikta de-Rab Kahana it is stated that R Aha bar Abun bar Benjamin, citing R. Abba bar R. Papi, said: Great is the power of repentance, which led God to set aside an oath even  as it led Him to set aside a decree. Whence the proof that a man’s repentance led Him to set aside the oath He made in the verse As I live, saith the Lord, though Coniah the son of Jehoiakim were the signet on a hand, yet by My right, I would pluck thee hence (Jer. 22:24)? The proof is in the verse where Scripture says [of one of Jeconiah’s descendants] In that day, saith the Lord of hosts, will I take thee, O Zerubbabel . . . the son of  Shealtiel . . . and will make thee as a signet (Haggai 2:23). And the proof that a man’s repentance led God to set aside a decree He issued in the verse Thus saith the Lord: Write ye this man childless, etc. (Jer. 22:30)?  The proof is in the verse where Scripture says, The sons of Jeconiah – the same is Asir – Shealtiel his son, etc. (1 Chron. 3:17). R. Tanhum bar Jeremiah said: Jeconiah was called Asir, ”one imprisoned,” because he  had been in prison (’asurim); and his sons called ”Shealtiel” because he was like a sapling, newly set out  (hustelah), through whom David’s line would be continued. [Pesikta de-Rab Kahana (5th c.), Yale Judaica  edition translated by William G. Braude and Israel J. Kapstein (Philadelphia: Jewish Publication Society of America, 1975)]

[9] Father of Prophet David

[10] Jehozadak was also deported to Babylon along with King Jeconiah (1 Chronicle 6:15). In this way Joshua belongs to the Bene Zadok of priestly descent

[11] Referring to Zerrubabel as he is from the branch (lineage) of David.

[12] Ezra was scribe and according to others was a priest. In some  Islamic tradition he is usually considered as a Prophet, however there is no evidence for it. Ibn Hazam and Juwaini also accused Ezra for the textual rendering of Torah. Quran also informs that Ezra was exalted by Jews like Christians did for Jesus and some even claimed that Ezra is son of God (9:30).  A Jewish scholar explain this as:

“we can deduce that the inhabitants of Hijaz during Muhammad’s time knew portions, at least, of 3 Enoch in association with the Jews. The angels over which Metatron becomes chief are identified in the Enoch traditions as the sons of God, the Bene Elohim, the Watchers, the fallen ones as the causer of the flood. In 1 Enoch, and 4 Ezra, the term Son of God can be applied to the Messiah, but most often it is applied to the righteous men, of whom Jewish tradition holds there to be no more righteous than the ones God elected to translate to heaven alive. It is easy, then, to imagine that among the Jews of the Hijaz who were apparently involved in mystical speculations associated with the Merkabah, Ezra, because of the traditions of his translation, because of his piety, and particularly because he was equated with Enoch as the Scribe of God, could be termed one of the Bene Elohim. And, of course, he would fit the description of religious leader (one of the ahbar of the Qur’an 9:31) whom the Jews had exalted.” (from A History Of The Jews Of Arabia by Gordon Darnell Newby University Of South Carolina Press, p. 59, 1988)

[13] Ezra was holding the religious affairs office for Judah in the reign of Artaxeres. Ezra was more a bureaucratic official then a Priest.

[14] Ezra 8:20

[15] About four and a half month after his arrival to Jerusalem.

[16] Ezra chapter 10

[17] Zechariah chapter 6 hinted towards the revolut. As it is instructed to cast the crowns for the coming new leadership.

Taurat or Torah  (lit. instructions) was revealed to Moses on Mount Tur (Tur-ah in Hebrew would mean towards Tur ). Allah informed us in surah Al-Araf 145-147:

 

And We wrote for him (Moses) on the Tablets the lesson to be drawn from all things and the explanation of all things (and said): Hold unto these with firmness, and enjoin your people to take the better therein. I shall show you the home of the rebellious disobedient to Allah.  I shall turn away from My verses those who behave arrogantly on the earth, without a right, and (even) if they see all the proofs, they will not believe in them. And if they see the way of righteousness, they will not adopt it as the Way, but if they see the way of error, they will adopt that way, that is because they have rejected Our  verses, and were heedless (to learn a lesson) from them.  Those who deny Our  verses and the Meeting in the Hereafter (Day of Resurrection,), vain are their deeds. Do they expect to be rewarded with anything except what they used to do?

 

 

Belief in earlier scriptures is a central faith in Islam. Allah said in surah Al-Baqarah  verse 285:

 

The Messenger (Muhammad ) believes in what has been sent down to him from his Lord, and (so do) the believers. Each one believes in Allah, His Angels, His Books, and His Messengers. They say, “We make no distinction between one another of His Messengers” – and they say, “We hear, and we obey. (We seek) Your Forgiveness, our Lord, and to You is the return (of all).”

 

Therefore a Muslim is not a Muslim if he denies the Torah and Injil.  In Prophet’s era Jews, Christians and pagans were claiming that Prophet Muhammad has copied the earlier scriptures and he is not a prophet but writing things from himself. Allah denounced this claim and informed that people of Scriptures were involved in this act.  Allah said in surah Al-Baqarah-79:

 

Then woe to those who write the Book with their own hands and then say, “This is from Allah,” to purchase with it a little price! Woe to them for what their hands have written and woe to them for that they earn thereby.

 

The scholars of Jews quote out of context verses and changed the words from their places. Allah said in surah Al-Maidah verse 13:

 

So because of their breach of their covenant, We cursed them, and made their hearts grow hard. They change the words from their (right) places and have abandoned a good part of the Message that was sent to them. And you will not cease to discover deceit in them, except a few of them. But forgive them, and overlook (their misdeeds). Verily, Allah loves good-doers.

 

 

 

Also,  Allah said in surah Al-Maidah 41:

 

O Messenger (Muhammad )! Let not those who hurry to fall into disbelief grieve you, of such who say: “We believe” with their mouths but their hearts have no faith. And of the Jews are men who listen much and eagerly to lies – listen to others who have not come to you. They change the words from their places; they say, “If you are given this, take it, but if you are not given this, then beware!” And whomsoever Allah wants to put in error, you can do nothing for him against Allah. Those are the ones whose hearts Allah does not want to purify (from disbelief and hypocrisy); for them there is a disgrace in this world, and in the Hereafter a great torment.

 

Allah said in surah Al-Imran 78:

 

And verily, among them is a party who distort the Book with their tongues (as they read), so that you may think it is from the Book, but it is not from the Book, and they say: “This is from Allah,” but it is not from Allah; and they speak a lie against Allah while they know it.

 

Allah informed that Jews still have the Torah with them. Allah said in surah Al-Maidah 43

 

But how do they come to you for decision while they have the Taurat (Torah), in which is the (plain) Decision of Allah; yet even after that, they turn away. For they are not (really) believers.

 

Also Allah said that Jews and Christians have Torah and Injeel (Gospel), but they implement it not. Allah said in surah Al-Maidah 66-68

 

And if only they had acted according to the Taurat (Torah), the Injeel (Gospel), and what has (now) been sent down to them from their Lord (the Qur’an), they would surely have gotten provision from above them and from underneath their feet. There are from among them people who are on the right course, but many of them do evil deeds. O Messenger (Muhammad )! Proclaim  which has been sent down to you from your Lord. And if you do not, then you have not conveyed His Message. Allah will protect you from mankind. Verily, Allah guides not the people who disbelieve.  Say “O people of the Scripture (Jews and Christians)! You have nothing till you act according to the Taurat (Torah), the Injeel (Gospel), and what has been sent down to you from your Lord.” Verily, that which has been sent down to you (Muhammad ) from your Lord increases in many of them their obstinate rebellion and disbelief. So be not sorrowful over the people who disbelieve.

 

It is thus the stance that the Taurat or Torah is still known to Jews, but they followed it not and  quoted out of context verses, they uttered things as if sent by God and hid the Truth.

 

Further Allah said in surah Al-Baqarah -91

 

And when it is said to them (the Jews), “Believe in what Allah has sent down,” they say, “We believe in what was sent down to us.” And they disbelieve in that which came after it, while it is the truth confirming what is with them. Say: “Why then have you killed the Prophets of Allah aforetime, if you indeed have been believers?”

 

Masoretic Deuteronomy 1 These are the laws and the judgments that you shall be watchful  to do in the land that YHWH, your fathers’ God, has given you to take possession of it, every day that you’re living on the land:[1] 2 “You shall destroy all the places where the nations that you’re dispossessing worshiped their gods there: on the high mountains and on the hills and under every lush tree. 3 And you shall demolish their altars and shatter their pillars and burn their Asherahs in fire and cut down the statues of their gods in fire and destroy their name from that place.
Dead Sea Scrolls 1 And the[se are the statutes and the ordinances which you shall be careful][2] to carry out [in the] land which the L[ORD, the God of your ancestors], has given [you to possess-all the days that you live on the earth. 2 You shall surely destroy all the places where the nations that you dispossess have served their gods: on the high mountains, and on] the hills, and under every [green tree. 3 And you shall break down their altars, and dash] their pillars [to pieces, and
b]u[rn their] Asheri[m with fire; you shall hew down the graven images of their gods]; you [shall oblite]rate their name from tha[t] place.
 
Samaritan Deuteronomy 1 These [are] the statutes and judgments, which ye shall observe to do in the land, which the LORD God of thy fathers giveth thee to possess it, all the days that ye live upon the earth.2 Ye shall utterly destroy all the places, wherein the nations which ye shall possess served their gods, upon the high mountains, and upon the hills, and under every green tree:3 And ye shall overthrow their altars, and break their pillars, and burn their groves with fire; and ye shall hew down the graven images of their gods, and destroy the names of them out of that place.

 

It is instructed in these verses that when you enter the holy land then you must not indulge yourselves into the false practices of those nations. Their places of worship should be destroyed.

 

Quran informed that  Allah instructed Moses  that you must show humility and ask forgiveness of Allah (surah Al-Araf 161-162):

 

And (remember) when it was said to them: “Dwell in this town  and eat there from wherever you wish, and say, ‘(O Allah) forgive our sins’; and enter the gate prostrate (bowing with humility). We shall forgive you your wrong-doings. We shall increase (the reward) for the good-doers.”. But those among them who did wrong changed the word that had been told to them. So We sent on them a torment from heaven in return for their wrong-doings.

 

There was cult of Mother Goddess prevailing in World at that time. Asherah in Semitic mythology was a Semitic mother goddess.  There were trees and posts dedicated to her[3].

 

It is informed that nation of Prophet Moses changed this commandment of Allah and act as wrong-doer.

Masoretic Deuteronomy 4 “you shall not do that for YHWH, your God. 5 But, rather, you shall inquire at the place that YHWH, your God, will choose from all your tribes to set His name there, to tent it. And you shall come there, 6 and bring there your burnt offerings and your sacrifices and your tithes and your hand’s donation and your vows and your contributions and the firstborn of your herd and your flock. 
Dead Sea Scrolls [4 You shall not act like  this toward the LORD your God. 5 But you are to seek the] place which the LORD [your] Go[d ch]ooses [from all your tribes to put his name there for his dwelling, and there you shall go], Ä[4] 
Samaritan Deuteronomy 4 Ye shall not do so unto the LORD your God. 5 But unto the place which the LORD your God shall choose out of all your tribes to put his name there, [even] unto his habitation shall ye seek, and thither thou shalt come 6 And thither ye shall bring your burnt offerings, and your sacrifices, and your tithes, and heave offerings of your hand, and your vows, and your freewill offerings, and the firstlings of your herds and of your flocks:

In these verses Allah instructed that you should not start worshipping at the altars of pagans. The place of Mosque would be shown to them when they enter the holy land.

 

Seven kind of offerings are explained that are permissible for Mosque or Temple service.

 

1. Burnt offerings

2. Sacrifices

3. Tithes- Ushur in Arabic i.e. one-tenth of production

4. Heave offerings- offered on special days

5. Vows- to fulfill one nazar.

6. Freewill offerings or voluntary offering

7. Firstlings of your herds- First yield from herd and field dedicated to God.

 

Muslims can understand the close parallel to these offerings in relation to Masjid-ul-Haram[5], as one cannot disrobe the Ihram[6] before doing the special sacrifice in the precinct of Holy Haram[7].

Masoretic Deuteronomy 7 And you shall eat there in front of YHWH, your God. And you shall rejoice about everything your hand has taken on, you and your households, in that YHWH, your God, has blessed you. 8 you shall not do it like everything that we’re doing
here today, each one, everything that’s right in his own eyes,
9 “because up to now you haven’t come to the resting place and to the legacy that YHWH, your
God, is giving you.
10 But when you’ll cross the Jordan and live in the land that YHWH, your God, is giving you as a legacy, and He’ll give you rest from all your enemies all around, and you’ll live securely,11  “then it shall be, the place that  YHWH, your God, will choose to tent His name there: there you shall bring everything that I command you, your burnt offerings and your sacrifices, your tithes and your hand’s donation and every choice one of your vows that you’ll  make to YHWH. 12 And you shall rejoice in front of YHWH, your God: you and your sons and your daughters and your servants and your maids and the Levite who is in your gates because he doesn’t have a portion or a legacy with you.  
Dead Sea Scrolls [11 Then to the place which the LORD you]r [God chooses to cause his name] to [dwell, you shall bring there all that I command you: your burnt offerings], and your sacrifices, [your tithes, and the heave offering of your hand, and all] your [choice vows] which you vow [to the LORD. 12 And you shall rejoice before the LORD your God: you, your sons, your daughters, your menservants, your female servants, and the Levite who is within your gates, since he has no portion or inheritance with you] Ä
Samaritan Deuteronomy 7 And there ye shall eat before the LORD your God, and ye shall rejoice in all that ye put your hands unto, ye and your households, wherein the LORD thy God hath blessed thee.8 Ye shall not do after all [the things] that we do here this day, every man whatsoever [is] right in his own eyes. 9 For ye are not as yet come to the rest and to the inheritance, which the LORD your God giveth you. 10 But [when] ye go over Jordan, and dwell in the land which the LORD your God giveth you to inherit, and [when] he giveth you rest from all your enemies round about, so that ye dwell in safety; 11  Then there shall be a place which the LORD your God shall choose to cause his name to dwell there; thither shall ye bring all that I command you; your burnt offerings, and your sacrifices, and your tithes, and the heave offering of your hand, and free will offerings, and all your choice vows which ye vow unto the LORD: 12 And ye shall rejoice before the LORD your God, ye, and your sons, and your daughters, your menservants, and your maidservants, and the Levite that [is] within your gates; forasmuch as he hath no part nor inheritance with you.

 

Masoretic Deuteronomy 13 “Watch yourself in case you would make your burnt offerings in any place that you’ll see. 14 But, rather, in the place that YHWH will choose in one of your tribes: there you shall make your burnt offerings, and there you shall do every- thing that I command you.15 Only, as much as your soul desires you may slaughter and may eat meat according to the blessing of YHWH, your God, that He has given you in all your gates. The impure and the pure may eat it: like a gazelle, like a deer. l6 Only, you shall not eat the blood. You shall spill it like water on the earth. 17 you may not eat within your gates the tithe of your grain or your wine or your oil or the first born of your herd or your flock or all your vows that youll make or your contributions or your hands donation. 18 “But, rather, you shall eat  them in front of YHWH, your God, in the place that YHWH, your God, will choose: you and your son and your daughter and your servant and your maid and the Levite who is in your gates. And you shall rejoice in front of YHWH, your God, about everything your hand has taken on. 19 Watch yourself in case you would leave the Levites, all your days in your land.   
Dead Sea Scrolls  [18 Instead you shall eat them before the LORD your God in the place which the LORD your God shall choose: you, your son], your [daug]hter, [your male servant, your female servant, and the Levite who is within] your gates; [and you shall rejoice before the LORD] your [God] in all [that you put your hand to. 19 For your own sake, be very careful] not to forsake [the Levite as long as you live in the Land….Ä
Samaritan Deuteronomy 13 Take heed to thyself that thou offer not thy burnt offerings in every place that thou seest. :14 But in the place which the LORD shall choose in one of thy tribes, there thou shalt offer thy burnt offerings, and there thou shalt do all that I command thee. 15  Notwithstanding thou mayest kill and eat flesh in all thy gates, whatsoever thy soul lusteth after, according to the blessing of the LORD thy God which he hath given thee: the unclean and the clean may eat thereof, as of the roebuck, and as of the hart.16          Only ye shall not eat the blood; ye shall pour it upon the earth as water.17           Thou mayest not eat within thy gates the tithe of thy corn, or of thy wine, or of thy oil, or the firstlings of thy herds or of thy flock, nor any of thy vows which thou vowest, nor thy freewill offerings, or heave offering of thine hands:18          But thou must eat them before the LORD thy God in the place which the LORD thy God shall choose, thou, and thy son, and thy daughter, thy manservant, and thy maidservant, and the Levite that [is] within thy gates: and thou shalt rejoice before the LORD thy God in all that thou puttest thine hands unto.19          Take heed to thyself that thou forsake not the Levite as long as thou livest upon the earth.

 

Masoretic Deuteronomy 20 “When YHWH, your God, will widen your border as He spoke to you, and you’ll say, ‘Let me eat meat,’ because your soul will desire to eat meat, you may eat meat as much as your soul desires.21 “when the place that YHWH, your God, will choose to put His name there will be far from you, then you shall slaughter from your herd and from your flock that YHWH has given you as I’ve commanded
you, and you may eat within your gates as much as your soul desires.
22 Just as a gazelle and a deer are eaten, so you shall eat it. The impure and the pure may
eat it together
. 23 Only, be strong not to eat the blood, because the blood: it’s the life; and you shall not eat the life with the meat. 24 You shall not eat it. You shall spill it like water on the earth. 25 You shall not eat it, so it will be good for you and for your children after you when you do what is right in YHWHs eyes.
Dead Sea Scrolls [22 Just as] the gazelle and [the deer are eaten, so you shall eat of them; the unclean and the clean person may eat from them alike … Ä   25 You shall not eat it, so that it may go well with you and with] your [childre]n after you, [since you will be doing what is right in the eyes of the LORD].
Samaritan Deuteronomy 20 When the LORD thy God shall enlarge thy border, as he hath promised thee, and thou shalt say, I will eat flesh, because thy soul longeth to eat flesh; thou mayest eat flesh, whatsoever thy soul lusteth after.21  If the place which the LORD thy God hath chosen to tabernacle with his name there be too far from thee, then thou shalt kill of thy herd and of thy flock, which the LORD hath given thee, as I have commanded thee, and thou shalt eat in thy gates whatsoever thy soul lusteth after.22 Even as the roebuck and the hart is eaten, so thou shalt eat them: the unclean among you and the clean shall eat [of] them alike.23 Only be sure that thou eat not the blood: for the blood [is] the life; and thou mayest not eat the life with the flesh.24 Thou shalt not eat it; thou shalt pour it upon the earth as water.25 Thou shalt not eat it; that it may go well with thee, and with thy children after thee, when thou shalt do [that which is] right in the sight of the LORD.

Allah said in surah al-Maidah 4:

They ask you (O Muhammad ) what is lawful for them (as food ). Say: “Lawful unto you are At-Tayyibat [clean animals and foods]. And those beasts and birds of prey which you have trained as hounds, training and teaching them (to catch) in the manner as directed to you by Allah; so eat of what they catch for you, but pronounce the Name of Allah over it, and fear Allah. Verily, Allah is Swift in reckoning.”

 

Masoretic Deuteronomy 26 “Only, you shall carry your holy things that you’ll have and your vows and shall come to the place that YHWH will choose. 27 And you shall do your burnt offerings, the meat and the blood, on the altar of YHWH, your God. And the blood of your sacrifices shall be spilled on the altar of YHWH, your God, and you shall eat the meat. 28 Be watchful that you listen to all these things that I command you so that it will be good for you and for your children after you forever when you’ll do what is good and right in the eyes of YHWH, your God.  
Dead Sea Scrolls 26 Take [ only yo] ur [holy things] which you have [and] your [vows], and g[o to the place which the LORD shall choose] .. Ä
Samaritan Deuteronomy 26 Only thy holy things which thou hast, and thy vows, thou shalt take, and go unto the place which the LORD shall choose.27 And thou shalt offer thy burnt offerings, the flesh and the blood, upon the altar of the LORD thy God: and the blood of thy sacrifices shall be poured out upon the altar of the LORD thy God, and thou shalt eat the flesh.28 Observe and hear and do all these words which I command thee today, that it may go well with thee, and with thy children after thee for ever, when thou doest [that which is] right and good in the sight of the LORD thy God.

 

 

Masoretic Deuteronomy 29 “When YHWH, your God, will cut off the nations that you‘re coming there to dispossess from in front of you, and you’ll dispossess them and live in their land,30 “watch yourself in case you’ll be trapped after them, after their destruction from in front of you, and in case youll inquire about their gods, saying,  ‘How did these nations serve their gods? And Ill do that– I, too.’ 31 you shall not do this for YHWH, your God, because they did every offensive thing of YHWH
that He hates for their gods, because they would also burn their sons and their daughters in fire to their gods
!
Dead Sea Scrolls  
Samaritan Deuteronomy 29 When the LORD thy God shall cut off the nations from before thee, whither thou goest to possess them, and thou succeedest them, and dwellest in their land; 30 Take heed to thyself that thou be not snared by following them, after that they be destroyed from before thee; and that thou inquire not after their gods, saying, How did these nations serve their gods? even so will I do likewise. 31 Thou shalt not do so unto the LORD thy God: for every abomination to the LORD, which he hateth, have they done unto their gods; for even their sons and their daughters they have burnt in the fire to their gods.

 


[1] Translation of Masoretic Deuteronomy is taken from Bible with sources Revealed by R.E. Friedman. Friedman has added a footnote here: Deuteronomy 12-26 is a corpus of law known as the Deuteronomic law code. It is identified by the symbol Dtn. It is an old, independent document that was used by the  Deuteronomistic historian in the Dtn edition of the work. There are passages in which the Deuteronomistic historian may have expanded on the text, but it is now difficult to separate such expansions from the core text of laws.

 

[2] The highlighted text with square brackets […] represents the areas lost in scroll due to damage.

[3] Remnants of this cult are still present in Hindus.

[4] The symbol Ä shows that the text has gap here. It is believed that the text written is lost due to worms and time.

[5] Grand Mosque in Makkah  surrounding Kabbah, the ancient temple of Abraham

[6] Ihram is a non-stitched two cloth pieces wore with the vows to visit Kabbah

[7] Haram is the holy sanctuary surrounding Kabbah and spanning over several kilometres.

 

Masoretic Deuteronomy    1 ”Everything  that I command you, you shall be watchful to do it. You shall not add onto it, and you shall not subtract from it.  2 “When a prophet or one who has a dream will get up among you and will give you a sign or a wonder,  3 and the sign or the wonder of which he spoke to you saying, ‘Let’s go after other gods,’ whom you haven’t known, ‘and let’s serve them’ -will come to pass,
Dead Sea Scrolls  [1 If there arises in your midst a prophet or a dreamer of dreams, and he gives you a sign or a won]der, 2 and if the si[gn or the wonder] takes place, [concerning which he spoke to you; and if he says, “Let us go after other gods-which you have not known-and let us serve them,” 3 YO]U [shall not li]sten t[o the words of] that prophet [or to that dreamer of dreams. For the LORD your God is testing you, to k]now whether you [love the LORD your God with all your heart and
with all your soul].
Samaritan Deuteronomy 1 What thing soever I command you today, observe to do it: thou shalt not add thereto, nor diminish from it.   2 If there arise among you a prophet, or a dreamer of dreams, and giveth thee a sign or a wonder.       3  And the sign or the wonder come to pass, whereof he spake unto thee, saying, Let us go after other gods, which thou hast not known, and let us serve them;

 

It is instructed in Torah that:

 

“When a prophet or one who has a dream will get up among you and will give you a sign or a wonder,  and the sign or the wonder of which he spoke to you saying, ‘Let’s go after other gods,’ whom you haven’t known, ‘and let’s serve them’ -will come to pass, “you shall not listen to that prophet’s words or  to that one who has the dream, because YHWH, your God, is testing you, to know whether you are loving YHWH, your God, with all your heart and with all your soul.

Prophet Muhammad is the only known, non-Jew, Prophet who claimed that God of Abraham and Moses is the true God. He is thus completely fulfilled this condition of Torah. Further Kabbah as a sanctuary established by Abraham and Ishmael was also well established.  Dead Sea Scrolls, describes Abraham’s travel to east to the Euphrates and the Persian Gulf region, then around the coast of Arabia to the Red Sea, and finally to the Sinai desert and then to his home[1].

Thus Allah or  Elah ( אֱלָהּ Aramaic word for God used in book of Ezra and Daniel, also see Deut. 32:15; 2Chr 23:15; Neh 9:17, Ez 5:1, 11; 6:14, 7:12, 19,21,23; Daniel 2:18,23,28,37,47; 3:15,6:8,13)  is worshiped at the temple at Makkah in Arabia  but with the passage of time people associated different minor deities working under Allah, like Arabs started believing that Angels are Allah’s daughters similar to Christian belief that Elah or El  has a son.

Masoretic Deuteronomy 4 “you shall not listen to that prophet’s words or  to that one who has the dream, because YHWH, your God, is testing you, to know whether you are loving YHWH, your God, with all your heart and with all your soul.  5 you shall go after YHWH, your God, and you shall fear Him, and you shall observe His commandments and listen to His voice and serve Him and cling to Him.  6 And that prophet or that one who has the dream shall be put to death, because he spoke a misrepresentation about YHWH, your God, who brought you out from the land of Egypt and who redeemed you from a house of slaves, to drive you from the way in which YHWH, your God, commanded you to go. So you shall burn away what is bad from among you.  
Dead Sea Scrolls 4 You shall walk [after the LORD] your God, and you shall ser[ve him, and listen to his voice], and cling t[o him, and fear him, and kee]p [his commandments]. 5 And that prophet or dreamer of [dreams shall be put to death, because he has spoken rebellion against the LORD your God who brought you from the land ofE]gypt and [redeemed you] from the hou[se of bondage, by drawing you
aside from the way in which the LORD your God commanded you to walk. So you are to purge the evil from your midst].
Samaritan Deuteronomy Thou shalt not hearken unto the words of that prophet, or that dreamer of dreams: for the LORD your God proveth you, to know whether ye love the LORD your God with all your heart and with all your soul. 5 Ye shall walk after the LORD your God, and fear him, and keep his commandments, and obey his voice, and ye shall serve him, and cleave unto him.:6           And that prophet, or that dreamer of dreams, shall be put to death; because he hath spoken to turn [you] away from the LORD your God, which brought you out of the land of Egypt, and redeemed you out of the house of bondage, to thrust thee out of the way which the LORD thy God commanded thee to walk in. So shalt thou put the evil away from the midst of thee.

Dream-diviner was a practice prevalent in the then Egypt[2]. In both Judaism and Islam  there is no concept of dream-diviner.  A dream-diviner is only a prophetic attribute.

Allah said in surah Ash-Shura 51-53

It is not given to any human being that Allah should speak to him unless (it be) by Inspiration, or from behind a veil, or (that) He sends a Messenger to reveal what He wills by His Leave. Verily, He is Most High, Most Wise.  And thus We have sent to you (O Muhammad ) an Inspiration of Our Command. You knew not what is the Book, nor what is Faith? But We have made it (this Qur’an) a light wherewith We guide whosoever of Our slaves We will. And verily, you (O Muhammad ) are indeed guiding (mankind) to the Straight Path.  The Path of Allah, to Whom belongs all that is in the heavens and all that is in the earth. Verily, all the matters at the end go to Allah (for decision).

 

While Moses were receiving these instructions on false prophets. An imposter by the name of  Samiri arouse among the Bene Israel and instructed them to worship  the Bull.

 Allah said in surah Al-Araf  145- 154

 And We wrote for him on the Tablets the lesson to be drawn from all things and the explanation of all things (and said): Hold unto these with firmness, and enjoin your people to take the better therein. I shall show you the home of the rebellious to Allah. I shall turn away from My signs those who behave arrogantly on the earth, without a right, and (even) if they see all the proofs, they will not believe in them. And if they see the way of righteousness, they will not adopt it as the Way, but if they see the way of error, they will adopt that way, that is because they have rejected Our verses and were heedless from them.  Those who deny Our signs and the Meeting in the Hereafter (Day of Resurrection,), vain are their deeds. Do they expect to be rewarded with anything except what they used to do?  And the people of Musa (Moses) made in his absence, out of their ornaments, the image of a calf (for worship). It had a sound (as if it was mooing). Did they not see that it could neither speak to them nor guide them to the way? They took it for worship and they were wrong-doers.  And when they regretted and saw that they had gone astray, they (repented and) said: “If our Lord have not mercy upon us and forgive us, we shall certainly be of the losers.”  And when Musa (Moses) returned to his people, angry and grieved, he said: “What an evil thing is that which you have done (i.e. worshipping the calf) during my absence. Did you hasten and go ahead as regards the matter of your Lord (you left His worship)?” And he threw down the Tablets and seized his brother by (the hair of) his head and dragged him towards him. Harun (Aaron) said: “O son of my mother! Indeed the people judged me weak and were about to kill me, so make not the enemies rejoice over me, nor put me amongst the people who are wrong-doers.”  Musa (Moses) said: “O my Lord! Forgive me and my brother, and make us enter into Your Mercy, for you are the Most Merciful of those who show mercy.”  Certainly, those who took the calf (for worship), wrath from their Lord and humiliation will come upon them in the life of this world. Thus do We recompense those who invent lies.  But those who committed evil deeds and then repented afterwards and believed, verily, your Lord after (all) that is indeed Oft-Forgiving, Most Merciful.  And when the anger of Musa (Moses) was appeased, he took up the Tablets, and in their inscription was guidance and mercy for those who fear their Lord.

 

Allah said in surah Ta-ha 85-97:

 

(Allah) said: “Verily! We have tried your people in your absence, and As-Samiri has led them astray.” Then Musa (Moses) returned to his people in a state of anger and sorrow. He said: “O my people! Did not your Lord promise you a fair promise? Did then the promise seem to you long in coming? Or did you desire that wrath should descend from your Lord on you, so you broke your promise to me (i.e disbelieving in Allah and worshipping the calf)?” They said: “We broke not the promise to you, of our own will, but we were made to carry the weight of the ornaments of the [Fir’aun’s (Pharaoh)] people, then we cast them (into the fire), and that was what As-Samiri suggested.”  Then he took out (of the fire) for them a statue of a calf which seemed to low. They said: “This is your ilah (god), and the ilah (god) of Musa (Moses), but [Musa (Moses)] has forgotten (his god).'” Did they not see that it could not return them a word (for answer), and that it had no power either to harm them or to do them good?  And Harun (Aaron) indeed had said to them beforehand: “O my people! You are being tried in this, and verily, your Lord is (Allah) the Most Beneficent, so follow me and obey my order.” They said: “We will not stop worshipping it (i.e. the calf), until Musa (Moses) returns to us.” [Musa (Moses)] said: “O Harun (Aaron)! What stopped you when you saw them going astray; “That you followed me not (according to my advice to you)? Have you then disobeyed my order?” He [Harun (Aaron)] said: “O son of my mother! Seize (me) not by my beard, nor by my head! Verily, I feared lest you should say: ‘You have caused a division among the Children of Israel, and you have not respected my word!’ ” [Musa (Moses)] said: “And what is the matter with you. O Samiri? (i.e. why did you do so?)” (Samiri) said: “I saw what they saw not, so I took a handful (of dust) from the foot print of the messenger and threw it. Thus my inner-self suggested to me.” Musa (Moses) said: “Then go away! And verily, your (punishment) in this life will be that you will say: “Touch me not; and verily (for a future torment), you have a promise that will not fail. And look at your god, to which you have been devoted. We will certainly burn it, and scatter its particles in the sea.”

 

Samri claimed that he took the dust from the footprint of Messenger i.e. of Moses  and it become so miraculous that it turned the effigy of the calf to utter sounds. Thus Samiri tried to show to Moses that he is still on his side.

 

 

Masoretic Deuteronomy 7 “When your brother, your mother’s son or your father’s son, or the wife of your bosom, or your friend who is as your own self will entice you in secret, saying, ‘Let’s go and serve other gods,’ whom you haven’t known, you and your fathers, 8 from the gods of the peoples who are all around you, those close to you or those far from you, from one end of the earth to the other end of the earth,
9 “you shall not consent to him, and you shall not listen to him, and your eye shall not pity him, and you shall not have compassion and shall not cover it up for him. 10 “But you shall kill him. Your hand shall be on him first to put him to death, and all the people’s hand thereafter. 11 “And you shall stone him with stones so he dies because he sought to drive you away from YHWH, your God, who brought you out from the land of Egypt, from a house of slaves. 12 And all Israel will hear and fear and won’t continue to do a bad thing like this among you.  
Dead Sea Scrolls  [6 If your neighbor-whether the son of ] your father [or  the son of] your [mother] or your son, or the wi[fe you cherish, or your friend] who is closest to you-[entices you] secretly, [sayin]g, “Let us g[o and serve other gods”-ones which you have not known, neither you nor] your [an]cestors, 7 from the gods of [the peoples who are around you, near you or far off from] you, from the ends of
the earth to [the other end of the earth-
8 you shall not consent to him or listen to him]. Your [eye shall not pity] him; nor shall you spare h[im or shield him, 9 but you must certainly put him to death. Your hand shall be fi]rst [upon him] to put him to death, and [afterward] the hands [of all the people. 10 You shall stone him to death with stones, because he has sought to dr]aw you aw[ay from the LORD your God who brought you out of the land of E]gypt, out of the h[ouse of
bondage. 11 Then all Israel will hear and be afraid, and] will no longer [do evil such as this is in your midst]. 12 If you hear it said concerning one of your cities which [the LORD your God
is giving you to dwell in
  
Samaritan Deuteronomy If thy brother, the son of thy father or the son of thy mother, or thy son, or thy daughter, or the wife of thy bosom, or thy friend, which [is] as thine own soul, entice thee secretly, saying, Let us go and serve other gods, which thou hast not known, thou, nor thy fathers;  8                 [Namely], of the gods of the people which [are] round about you, nigh unto thee, or far off from thee, from the [one] end of the earth even unto the [other] end of the earth; :9  Thou shalt not consent unto him, nor hearken unto him; neither shall thine eye pity him, neither shalt thou spare, neither shalt thou conceal him. 10                       But thou shalt surely kill him; thine hand shall be first upon him to put him to death, and afterwards the hand of all the people. :11 And thou shalt stone him with stones, that he die; because he hath sought to thrust thee away from the LORD thy God, which brought thee out of the land of Egypt, from the house of bondage. 12 And all Israel shall hear, and fear, and shall do no more any such wickedness as this is among you.

Similar instructions Allah gave in surah Luqman 14-15

And We have enjoined on man (to be dutiful and good) to his parents. His mother bore him in weakness and hardship upon weakness and hardship, and his weaning is in two years give thanks to Me and to your parents, unto Me is the final destination.  But if they (both) strive with you to make you join in worship with Me others that of which you have no knowledge, then obey them not, but behave with them in the world kindly, and follow the path of him who turns to Me in repentance and in obedience. Then to Me will be your return, and I shall tell you what you used to do.

Masoretic Deuteronomy 13 “When you’ll hear in one of your cities that YHWH, your God, is giving you to live there, saying, 14 ‘Good-for-nothing people have gone out from among you and driven away their city’s residents, saying: “Let’s go and serve other gods,” whom you haven’t known,’ 15 and you’ll inquire and investigate and ask well, and, here, the thing is true-this offensive thing was done among you.16you shall strike that city’s residents by the sword, completely destroying it and everything in it and its animals with the sword.  17 And you shall gather all its spoil into the middle of its square, and you shall burn the city and all its spoil in fire entirely to YHWH, your God, and it shall be a tell eternally. It shall not be rebuilt again. 18 And let nothing from the complete destruction cling in your hand, so that YHWH will turn back from His flaring anger and will give you mercy. And He’ll be merciful to you and multiply you as He swore to your fathers
19when you’ll listen to the voice of YHWH, your God, to observe all His commandments that I command you today, to do what is right in the eyes of YHWH, your God.
 
Dead Sea Scrolls  13 “Wicked men have gone out from your midst and have led the inhabitants of] their city [astray] by saying, [‘Let us go and serve other gods, which you have not known,”’ 14 then you shall make inquiries, search out and investigate thoroughly. If the charge is established that such an abhorrent thing has been done among you, 15 you must certainly punish the inhabitants of that
city with the edge of the sword, destroying it completely, everything in it and its
livestock, [with the edge of the sword …. 18 when] you list [en to the voice of the LORD your God, by keeping all] his [com]mandments wh[ich I command you this day, to do what is right
and] goocf7 [in the eyes of the LORD your God].
Samaritan Deuteronomy 13 If thou shalt hear [say] in one of thy cities, which the LORD thy God hath given thee to dwell there, saying 14 [Certain] men, the children of Belial, are gone out from among you, and have withdrawn the inhabitants of their city, saying, Let us go and serve other gods, which ye have not known; 15 Then shalt thou inquire, and make search, and ask diligently; and, behold, [if it be] truth, [and] the thing certain, [that] such abomination is wrought among you;  16 Thou shalt surely smite the inhabitants of that city with the edge of the sword, destroying it utterly, and all that [is] therein, and the cattle thereof, with the edge of the sword. 17 And thou shalt gather all the spoil of it into the midst of the street thereof, and shalt burn with fire the city, and all the spoil thereof every whit, for the LORD thy God: and it shall be an heap for ever; it shall not be built again. 18 And there shall cleave nought of the cursed thing to thine hand: that the LORD may turn from the fierceness of his anger, and shew thee mercy, and have compassion upon thee, and multiply thee, as he hath sworn unto thy fathers; 19 When thou shalt hearken to the voice of the LORD thy God, to keep all his commandments which I command thee this day, to do [that which is] right and good in the eyes of the LORD thy God.

These verses are about changing of faith from Monotheism back to Polytheism. The punishment for it is death both in Islam and Judaism.

Bukhari reported Volume 9, Book 84, Number 57:

Narrated ‘Ikrima:  Some Zanadiqa  were brought to ‘Ali and he burnt them. The news of this event, reached Ibn ‘Abbas who said, “If I had been in his place, I would not have burnt them, as Allah’s Apostle forbade it, saying, ‘Do not punish anybody with Allah’s punishment (fire).’ I would have killed them according to the statement of Allah’s Apostle, ‘Whoever changed his Islamic religion, then kill him.'”

Changing faith in ancient times was more like an act of treason.

 


[1] The Complete Dead Sea Scrolls by Geza Vermes, Genesis Apocryphon pp448-459

[2] The Torah a Modern Commentary edited by W. Gunther Plaut, Union of American Hebrew Congregation, 1981, pg 1430.

Masoretic Deuteronomy  1 “You ore children of YHWH, your God. You shall not cut yourselves and shall not make a bald place between your eyes for the dead. 2 Because you are a holy people to YHWH, your God, and YHWH has chosen you to become a treasured people to Him out of all the peoples who are on the face of the earth. 3 “you shall not eat any offensive thing.4  “This is the animal that you shall
eat: ox, lamb of sheep, and lamb of goats, 5 deer and gazelle and roebuck and  wild goat and bison and antelope and mountain sheep 6 “and every animal that  has a hoof and that has a split of hooves in two, that regurgitates cud, among  animals, you shall eat it. 7 Except you shall not eat this out of those that regurgitate the cud and out of those that have a hoof: the camel and the rock-badger
and the hare, because they regurgitate cud and do not have a hoof; they are impure to you. 8 And the pig, because it has a hoof but no cud; it is impure to you. You shall not eat from their meat, and you shall not touch their carcass.
 
Dead Sea Scrolls  1 You are the children of the LORD your God. You shall not cut yourselves, nor shave your forehead for the dead. 2 For you are a holy people to the LORD your God, and the LORD has chosen you to be] a people for his own possession [above all peoples who are on the face of the earth. 3 You shall not eat any abominable thing. 4 Thes]e are the beasts [which you may eat: the ox, the sheep, and the goat] .Ä 
Samaritan Deuteronomy 1 Ye [are] the children of the LORD your God: ye shall not cut yourselves, nor make any baldness between your eyes for the dead. 2           For thou [art] an holy people unto the LORD thy God, and the LORD God of you hath chosen thee to be a peculiar people unto himself, above all the nations that [are] upon the earth. :3 Thou shalt not eat any abominable thing. 4 And these [are] the beasts which ye shall eat: the ox, and the sheep, and the goat. 5 The hart, and the roebuck, and the fallow deer, and the wild goat, the pygarg, and the wild ox, and chamois. 6 Every beast that parteth the hoof, and cleaveth the cleft into two claws, [and] cheweth the cud among the beasts, that ye shall eat. 7 Nevertheless these ye shall not eat of them that chew the cud, or of them that divide the cloven hoof; [as] the camel, and the hare, and the coney: for they chew the cud, but divide not the hoof; [therefore] they [are] unclean unto you. 8                     And the swine, because it divideth the hoof and cloves the hoof, yet cheweth not the cud, it [is] unclean unto you: ye shall not eat of their flesh, nor touch their dead carcase.

In Islam the  land-animals who have flowing blood in them and they survive on natural vegetation like  grass and leaves, and animals which  do not prey on other animals i.e. predators are all considered clean or Kosher. This category includes animals like camel, cow, goat, buffalo, sheep, deer, etc.

In Islam All predatory animals and beasts, i.e. animals that hunt with their teeth, are considered unclean, such as a lion, cheetah, tiger, leopard, wolf, fox, dog, cat, etc. This includes also the birds of prey like eagle etc.

Further in Islam  all the non-hunter  birds who do not eat with their claws and do not prey on other animals and consume  grains and crop, are all considered Halal, such as a chicken, duck, pigeon, dove, sparrow.

So the principal is that the consumer of clean is considered as a clean animal. Locust, Camel and Hare on this principal are considered clean in Islam.

Now we analyze what is stated in the Torah verses:

 

Edible in Judaism every animal that  has a hoof and that has a split of hooves in two, that regurgitates cud Non-edible in Judaism you shall not eat this out of those that regurgitate the cud and out of those that have a (undivided)  hoof
Ox

Sheep

Goat

Deer

Gazelle

Roebuck

Wild goat

Bison

Antelope

Mountain sheep

 because they regurgitate cud and do not have a (undivided) hoof; CamelRock-badgerHare it has a hoof but no cud;  Pig
Also Kosher  in Islam Camel and Hare  are Kosher (Halal) in Islam Pig is non-Kosher in Islam

 

 

Further Allah said in surah Al-Anam 121

 

Eat not (O believers) of that (meat) on which Allah’s Name has not been pronounced (at the time of the slaughtering of the animal), for sure it is a disobedience of Allah. And certainly, the devils do inspire their friends (from mankind) to dispute with you, and if you obey them , then you would indeed be polytheists.

 

Allah instructed in Makkah, He  said in surah al-Anam:

 

141- And it is He Who produces gardens trellised and un-trellised, and date-palms, and crops of different shape and taste (its fruits and its seeds) and olives, and pomegranates, similar (in kind) and different (in taste). Eat of their fruit when they ripen, but pay the due thereof on the day of its harvest, and waste not by extravagance. Verily, He likes not those who waste by extravagance.

 

142. And of the cattle (are some) for burden  and (some are) small.  Eat of what Allah has provided for you, and follow not the footsteps of Satan. Surely he is to you an open enemy.

 

143. Eight pairs (you are allowed to  eat);  of the sheep two (male and female) , and of the goats two (male and female). Say (to pagans of Arabia): “Has He forbidden the two males or the two females, or (the young) which the wombs of the two females enclose? Inform me with knowledge if you are truthful.”

 

144. And (you are also allowed to eat) of the camels two (male and female), and of oxen two (male and female). Say (to pagans of Arabia): “Has He forbidden the two males or the two females or (the young) which the wombs of the two females enclose? Or were you present when Allah ordered you such a thing? Then who does more wrong than one who invents a lie against Allah, to lead mankind astray without knowledge. Certainly Allah guides not the people who are  wrong-doers.

 

145. Say (O Muhammad ): “I find not in that which has been inspired to me anything forbidden to be eaten by one who wishes to eat it, unless it be Maytatah (a dead animal died accidently) or blood poured forth (i.e. drink blood), or the flesh of swine (pork, etc.) for that surely is impure or  impious, (also forbidden to eat anything) that is dedicated to  others than Allah. But whosoever is forced by necessity without wilful disobedience, nor transgressing due limits, (for him) certainly, your Lord is Oft-Forgiving, Most Merciful.”

 

146. And unto those who are Jews, We forbade every (animal) with undivided hoof, and We forbade them the fat of the ox and the sheep except what adheres to their backs or their entrails, or is mixed up with a bone. Thus We recompensed them for their rebellion. And verily, We are Truthful.

 

147 If they (Jews) belie you (Muhammad ) say you: “Your Lord is the Owner of Vast Mercy, and never will His Wrath be turned back from the people who are wrong-doers.

 

Further instructions were given in Medinah:

  • Allah said in surah Al-Baqarah 173

He has forbidden you only the dead (animal which died without slaughter), and blood, and the flesh of swine, and that which is slaughtered as a scrifice for others than Allah (or has been slaughtered for idols, etc., on which Allah’s Name has not been mentioned while slaughtering). But if one is forced by necessity without wilful disobedience nor transgressing due limits, then there is no sin on him. Truly, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.

 

 

Further instructions were given later:

  • Surah Al-Maidah 3

Forbidden to you (for food) are: Al-Maytatah (the dead animals – cattle-beast not slaughtered), blood, the flesh of swine, and the meat of that which has been slaughtered as a sacrifice for others than Allah, or has been slaughtered for idols, etc., or on which Allah’s Name has not been mentioned while slaughtering, and that which has been killed by strangling, or by a violent blow, or by a headlong fall, or by the goring of horns – and that which has been (partly) eaten by a wild animal – unless you are able to slaughter it (before its death) – and that which is sacrificed (slaughtered) on An-Nusub (stone altars). (Forbidden) also is to use arrows seeking luck or decision, (all) that is Fisqun (disobedience of Allah and sin). This day, those who disbelieved have given up all hope of your religion, so fear them not, but fear Me. This day, I have perfected your religion for you, completed My Favour upon you, and have chosen for you Islam as your religion. But as for him who is forced by severe hunger, with no inclination to sin (such can eat these above-mentioned meats), then surely, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.

Masoretic Deuteronomy 9 “you shall eat this out of all that are in the water: you shall eat every one that has fins and scales. 10 And you shall not eat anyone that does not have fins and scales; it is impure to you. 11 ”And you shall eat any pure bird. 12 “And this is what you shall not eat from them: the eagle and the vulture and the black vulture  13 and the kite and the falcon by its kind 14 and every raven by its kind  15 “and the eagle owl and the night-hawk and the sea gull and the hawk by its kind, 16 “the little owl and the great owl and the white owl 17 and the pelican and the fish hawk and the cormorant 18 and the stork and the heron by its kind and the hoopoe and the bat. 19 ”And every swarming thing of flying creatures; it is impure to you. It shall not be eaten. 20 you shall eat every pure bird. 21 “you shall not eat any carcass. You shall give it to the alien who is in your gates, and he will eat it, or sell to a foreigner. Because you are a holy people to YHWH, you’re God. “You shall not cook a kid in its mother’s milk.  
Dead Sea Scrolls  [19 And all winged creeping things ar]e [unclean] to you; you shall not eat  [of them. 20 Of all clean birds you may eat. 21 You shall not eat of] anything that dies by itself. [You may give it] to the stranger [who is within your gates, so that he may eat it, or you may sell it to a foreigner]; for [yo]u a[re] a holy people [to the LORD your God. You shall not boil a kid i]n its mother’s milk.
Samaritan Deuteronomy And these ye shall eat of all that [are] in the waters: all that have fins and scales shall ye eat 10 And whatsoever hath not fins and scales ye may not eat; it [is] unclean unto you. 11 [Of] all clean birds ye shall eat. 12 But these [are they] of which ye shall not eat: the eagle, and the ossifrage, and the osprey. 13 And the glede, and the kite, and the vulture after his kind 14 And every raven after his kind 15 And the owl, and the night hawk, and the cuckoo after his kind, and the hawk after his kind 16                        And the little owl, and the osprey, and the great owl, and the swan 17               And the pelican, and the gier eagle, and the cormorant 18 And the stork, and the heron after her kind, and the lapwing, and the bat. 19 And every creeping thing that flieth [is] unclean unto you: from them it shall not be eaten. 20 [But of] all clean fowls ye may eat 21        Ye shall not eat [of] any thing that dieth of itself: thou shalt give it unto the stranger that [is] in thy gates, that he may eat it; or thou mayest sell it unto an alien: for thou [art] an holy people unto the LORD thy God. Thou shalt not seethe a kid in his mother’s milk.
Masoretic Deuteronomy 22 “You shall tithe all of your seed’s produce that comes out of the field year by year. 23 And you shall eat the tithe of your grain, your wine, and your oil and the firstborn of your herd and your flock in front of YHWH, your God, in the place that He will choose to tent His name there, so that you’ll learn to fear YHWH,  your God, all the days. 24 And if the way will be too long for you because you won’t be able to carry it because the place that YHWH, your God, will choose to set His name there will be far from you, because YHWH, your God, will bless you, 25 then you shall give it by money. And you shall enclose the money in your hand and go to the place that YHWH, your God, will choose. 26 And you shall spend the money for anything that your soul will desire: for herd and for flock and for wine and for beer and for anything that your soul will ask of you. And  you shall eat there in front of YHWH, your God, and you shall rejoice, you and your household. 27  And the Levite who is in your gates: you shall not leave him, because he doesn’t have a portion and legacy with you.   
Dead Sea Scrolls  [22 You shall indeed tithe all the increase of your seed, which comes from] the fields year [by year. 23 In the presence of the LORD your God, at the place he will choose as a dwelling for his name, you shall eat the tithe of your grain, your wine, and your oil, as well as the firstborn of your herd and flock, so that you may learn to fear the LORD your God always. 24 But if the road is too long for you, so that you are not abl]e t0 carry the tithe-since [the place] is too distant [from you,
where the LORD your God chooses to set his name when the LOR]n your God [blesses you- 25 then you shall exchange it for money, bind up the money in your hand, and go to the place which] the LORD your God [cho]oses. [26 And you shall spend the money for whatever your heart desires: for oxen, or for sheep, or for wine, or for strong drink, or for whatever yo]ur [heart desires]. Then you
shall eat there b[efore the LORn your God, and you shall rejoice, you and your household. 27 And as for the Le]vite who is within [your] ga[tes-you shall not neglect him, fo]r [he] has n[o portion or inheritance with you].
 
Samaritan Deuteronomy Thou shalt truly tithe all the increase of thy seed, that the field bringeth forth year by year.  23 And thou shalt eat before the LORD thy God, in the place which he shall choose the LORD God to place his name there, the tithe of thy corn, of thy wine, and of thine oil, and the firstlings of thy herds and of thy flocks; that thou mayest learn to fear the LORD thy God always. 24                    And if the way be too long for thee, so that thou art not able to carry it; [or] if the place be too far from thee, which the LORD thy God shall choose to set his name there, when the LORD thy God hath blessed thee. 25 Then shalt thou turn [it] into money, and bind up the money in thine hand, and shalt go unto the place which the LORD thy God shall choose. 26                     And thou shalt bestow that money for whatsoever thy soul lusteth after, for oxen, or for sheep, or for wine, or for strong drink, or for whatsoever thy soul desireth: and thou shalt eat there before the LORD thy God, and thou shalt rejoice, thou, and thine household. 27 And the Levite that [is] within thy gates; thou shalt not forsake him; for he hath no part nor inheritance with thee.

Allah said in Surah Maidah 5

Made lawful to you this day are At-Tayyibat. The food of the people of the Scripture (Jews and Christians) is lawful to you and yours is lawful to them.

Masoretic Deuteronomy  28 At the end of three years you shall bring out all the tithe of your produce in that year and leave it within your gates, 29 and  the Levite will come, because he doesn’t have a portion and legacy with you, and the alien and the orphan and the widow who are in your gates, and they shall eat and be full, so that YHWH, your God, will bless you in all your hand’s work that youll do.  
Dead Sea Scrolls  [28 At the end of every three year]s you shall bring [the full tithe of your increase in the same year, and lay it up with]in your gates. 29 And [the Levite, because he has no portion or inheritance with you, and the foreigner, the orphan and the widow who are within your gates] shall co[me, and eat and be satisfied, so that the LORD your God may bless you in all the work of your hands which you
undertake] .
 
Samaritan Deuteronomy At the end of three years thou shalt bring forth all the tithe of thine increase the same year, and shalt lay [it] up within thy gates.  29 And the Levite, (because he hath no part nor inheritance with thee,) and the stranger, and the fatherless, and the widow, which [are] within thy gates, shall come, and shall eat and be satisfied; that the LORD thy God may bless thee in all the work of thine hands which thou doest.

 

 

Masoretic Deuteronomy  1 “At the end of seven years you shall make a remission. 2 ‘And this is  the matter of the remission: every holder of a loan is to remit what he has lent his neighbor. He shall not demand it of his neighbor and his brother, because a remission for YHWH has been called. 3 you may demand it of a foreigner, but
your hand shall r
emit whatever of yours is with your brother.4  “Nonetheless.  here won’t be an indigent one among you, because YHWH will bless you in the  and that YHWH, your God, is giving you as a legacy, to take possession of it. 5 Only if you’ll listen to the voice of YHWH, your God, to be watchful to do all of  this commandment that I command you today. 6 When YHWH, your God, will have blessed you as He spoke to you, then you’ll lend to many nations, but you  won’t borrow; and you’ll dominate many nations, but they won’t dominate you.  
Dead Sea Scrolls  [1 At the end of every seven years you shall] grant a remission of debts. 2 And this is the m[anner of the remission]: every creditor [shall release] wh[at] [he has lent to his neighbor]; he shall [no]t exact it100 because [the LORD’s] remission has been proclaimed. [3 You may exact it of a foreigner, but whatever of] yours is with [your] b[rother your hand shall remit. 4 However, there shall be no p]oor [among you], for [the LORD will surely] bless [you in the land which the LORD] your God is giving [you for an inheritance to possess, 5 if only you listen fully to the voice of the L]ORD [your] Go[d, by being careful to carry out this entire commandment] which I command you [this day. 6 For the LORD your God will bless you, just a]s he promised you; [you] will lend [to many nations but not borrow, yo]u [will rule over] ma[ny natio]ns but [they shall not rule] over [you].   
Samaritan Deuteronomy  1 At the end of [every] seven years thou shalt make a release. 2 And this [is] the manner of the release: Every creditor that lendeth [ought] unto his neighbour shall release [it]; he shall not exact [it] of his neighbour, or of his brother; because it is called the LORD’s release. 3 Of a foreigner thou mayest exact [it again]: but [that] which is thine with thy brother thine hand shall release; 4 Save when there shall be no poor among you; for the LORD God shall greatly bless thee in the land which the LORD thy God giveth thee [for] an inheritance to possess it. 5 Only if thou carefully hearken unto the voice of the LORD thy God, to observe and to do all these commandments which I command thee this day.  6                 For the LORD thy God blesseth thee, as he promised thee: and thou shalt lend unto many nations, but thou shalt not borrow; and thou shalt reign over many nations, but they shall not reign over thee. 7 If there be among you a poor man of one of thy brethren within any of thy gates in thy land which the LORD thy God giveth thee, thou shalt not harden thine heart, nor shut thine hand from thy poor brother.
Masoretic Deuteronomy 7 “When there will be an indigent one among you from one of your brothers within one of your gates in your land that YHWH, your God, is giving you, you shall not fortify your heart and shall not shut your hand from your brother who is indigent. 8 But you shall open your hand to him and shall lend to him, enough for his shortage that he has. 9 Watch yourself in case there will be something good-for-nothing in your heart, saying, ‘The seventh year, the remission year, is getting close,’ and your eye will be bad toward your brother who is indigent, and you won’t give to him; and he’ll call to YHWH about you, and it will be a sin in you. 10 You shall give to him, and your heart shall not be bad when you’re giving to him, because on account of this thing YHWH, your God, will bless you in everything you do and in everything your hand has taken on. 11 “Because there won’t stop being an indigent in the land. On account of this I command you, saying: you shall open your hand to your brother, to your poor, and to your indigent in your land.  
Dead Sea Scrolls  [7 If there is among you anyone in need-a member of your community in any of your towns within the land which the LORD your God is giving you-do not be hard-hearted or tight-fisted toward your poor neighbor. 8 Rather] you shall [indeed] open your hand to him, and [shall indeed] lend [him sufficient for his need, whatever he requires]. 9 Be care[ful] lest there be a [wicked] th[ought in your heart which says], “The seventh year, the year of remis[sion, is at hand,” and your eye is hostile toward your ne]edy [neighbor], and you [giv]e nothing to
[him]. Then he may cry out [to the LORD against you, and it will be accounted as a sin to you. 10 You shall indeed giv]e to him, and [your] he[art] shall not be g[rieved when you give to him; because of this the LORD your God will bless you in all your work, and in everything you put your hand to].
Ä 
Samaritan Deuteronomy  7 If there be among you a poor man of one of thy brethren within any of thy gates in thy land which the LORD thy God giveth thee, thou shalt not harden thine heart, nor shut thine hand from thy poor brother: 8 But thou shalt open thine hand wide unto him, and shalt surely lend him sufficient for his need, [in that] which he wanteth. 9 Beware that there be not a thought in thy wicked heart, saying, The seventh year, the year of release, is at hand; and thine eye be evil against thy poor brother, and thou givest him nought; and he cry unto the LORD against thee, and it be sin unto thee. 10 Thou shalt surely give him, and in thine heart shall not be grieved when thou givest unto him: because that for this thing the LORD thy God shall bless thee in all thy works, and in all that thou puttest thine hands unto.  11 For the poor shall never cease out of the land: therefore I command thee, saying, Thou shalt open thine hand wide unto thy brother, to thy poor, and to thy needy, in thy land.
Masoretic Deuteronomy 12 “When your Hebrew brother or sister will be sold to you, then he shall work for you six years, and in the seventh year you shall let him go liberated from you. 13 And when you let him go liberated from you, you shall not let him go empty-handed. 14 You shall provide him from your flock and from your threshing floor and from your wine press; as YHWH, your God, has blessed you, you shall
give to him.
15 And you shall remember that you were a slave in the land of Egypt, and YHWH, your God, redeemed you. On account of this, I command you this thing today. 16 ”And it will be, if he’ll say to you, ‘I won’t go out from you’ because he loves you and your house, because it is good for him with you, 17 “then you shall take an awl and put it in his ear and in the door, and he shall be a slave forever to you. And you shall also do this to your maid,18 It shall not be hard in your eyes
when you let him go liberated from you, because he served you six years at twice the value of an employee, and YHWH, your God, will bless you in everything that you’ll do.
  
Dead Sea Scrolls  [14 … you shall supply him liberally from your flock, from your threshing-floor, and from your winepress; just as the L]ORDIOI your G[od has blessed] you shall give to him. 15 A[ nd you shall remember that you were a slave in the land of Egypt, and the LORD your God redeemed you; therefore] I command you to d[o this] thi[ng today. 16 And if he says to you, “I will not leave you,” becau]se he lov[es you and your house and because he fares well with you, 17 then you
shall take an awl and thrust it] through his earlobe [into the door, and he shall be your servant forever. And you shall also do the same to your female servant].
18 This will [not] seem hard [to you when you let him go free from you, for he has served you for six years, t]wice [as much as] the hire of a hired hand; [and the LORD your God will bless you] in all that you do.
 
Samaritan Deuteronomy 12 [And] if thy brother, an Hebrew man, or an Hebrew woman, be sold unto thee, and serve thee six years; then in the seventh year thou shalt let him go free from thee. 13 And when thou sendest him out free from thee, thou shalt not let him go away empty. 14                Thou shalt furnish him liberally out of thy flock, and out of thy floor, and out of thy winepress: of that wherewith the LORD thy God hath blessed thee thou shalt give unto him. 15 And thou shalt remember that thou wast a bondman in the land of Egypt, and the LORD thy God redeemed thee: therefore I command thee this thing to day. 16 And it shall be, if he say unto thee, I will not go away from thee; because he loveth thee and thine house, because he is well with thee; 17                Then thou shalt take an awl, and thrust [it] through his ear unto the door, and he shall be thy servant for ever. And also unto thy maidservant thou shalt do likewise. 18                        And it shall not seem hard unto thee, when thou sendest him away free from thee; for he hath been worth a double hired servant [to thee], in serving thee six years: and the LORD thy God shall bless thee in all that thou doest.

 

Masoretic Deuteronomy 19 “Every male firstborn that will be born in your herd and in your flock you shall consecrate to YHWH, your God. You shall not work with your ox’s firstborn, and you shall not shear your sheep’s firstborn. 20 you shall eat it in front of YHWH, your God, year by year in the place that YHWH will choose-you and your household. 21 “And if there will be an injury in it –crippled or blind, any bad
injury-you shall not sacrifice it to YHWH, your God. 22 you shall eat it within your gates-the impure and the pure together, like
a gazelle and like a deer. 23 0nly: you shall not eat its blood. You shall spill it like water on the ground.  
Dead Sea Scrolls  [19 All the firstborn males that are born of] your herd [and of your flock you shall consecrate to the LORD your God; you shall do no work with the firstborn of your herd, nor shear the firstborn of your flock] ..Ä 
Samaritan Deuteronomy
19 All the firstling males that come of thy herd and of thy flock thou shalt sanctify unto the LORD thy God: thou shalt do no work with the firstling of thy bullock, nor shear the firstling of thy sheep. 20 Thou shalt eat [it] before the LORD thy God year by year in the place which the LORD shall choose, thou and thy household. 21 And if there be [any] blemish therein, [as if it be] lame, or blind, or have any ill blemish, thou shalt not sacrifice it unto the LORD thy God. 22 Thou shalt eat it within thy gates: the unclean and the clean [person shall eat it] alike, as the roebuck, and as the hart. 23 Only thou shalt not eat the blood thereof; thou shalt pour it upon the ground as water.

 

Masoretic Deuteronomy  1 ‘Observe the month of Abib[1], and you shall make Passover for YHWH, your God, because in the month of Abib YHWH, you’re God, brought you out from Egypt at night. 2 And you shall make a Passover sacrifice to YHWH, your God, of the flock and herd, in the place that YHWH will choose to tent His name there. 3 you shall not eat leavened bread with it. Seven days you shall eat
unleavened bread, the bread of degradation, with it, because you went out from the land of Egypt in haste-so that you will remember the day you went out from the land of Egypt all the days of your life. 4 And you shall not have leaven appear within all your borders for seven days, and none of the meat that you will sacrifice in the evening on the first day shall remain until the morning. 5 you may not make the Passover sacrifice within one of your gates that YHWH, your God,
is giving you. 6 But, rather, to the place that YHWH, your God, will choose to tent His name: there you shall make the Passover sacrifice in the evening at sunset, the time when you went out from Egypt. 7 And you shall cook and eat it in the place that YHWH, your God, will choose; and you shall turn in the morning
and go to your tents.
8 Six days you shall eat unleavened bread, and on the seventh day shall be convocation to YHWH, you’re God. You shall not do work.  
Dead Sea Scrolls  [1 Observe the month of Abib and keep the Passover for the LORD your God, because in the month of Abib the LORD your God brought you out of Egypt by night. 2 And you shall sacrifice the Passover to the LORD your God, from the flock and] the herd, [in the place which the LORD chooses to make his name dwell there. 3 You shall ea]t [no] le[avened bread] with it; [for seven days you shall eat unleavened bread with it, the bread of affliction, since you came out
of the land of Egypt in haste–so that you may remember the day when you came out of the land of Egypt all the days of your life. 4 And] no [Ieaven] shall be seen with you [in all your borders for seven days; nor shall any of the meat which you sacrifice on the evening of the first day remain all night until the mo ]rning .
[5 You are not allowed to offer the Passover sacrifice within any of your towns that the LORD your God is giving you, 6 but rather at the place which the LORD] your [Go]d [chooses] to make his name to dwell there. [There you shall sacrifice the Passover at evening, at the setting of the sun, at the time when you came out] o[f Egypt]. 7 Then you shall cook and eat [it in the place which] the LORD your God [chooses; and you shall return in the morning and go to your tents. 8 For s]even days unleavened bread you shall eat, [and on the seventh day there shall be a solemn assembly to the LOR]D your Go[d]; you shall not do any [work] on it.
Samaritan Deuteronomy 1 Observe the month of Abib, and keep the passover unto the LORD thy God: for in the month of Abib the LORD thy God brought thee forth out of Egypt by night. 2                Thou shalt therefore sacrifice the passover unto the LORD thy God, of the flock and the herd, in the place which the LORD God of you shall choose to place his name there. 3 Thou shalt eat no leavened bread with it; seven days shalt thou eat unleavened bread therewith, [even] the bread of affliction; for thou camest forth out of the land of Egypt in haste: that thou mayest remember the day when thou camest forth out of the land of Egypt all the days of thy life. 4 And there shall be no leavened bread seen with thee in all thy coast seven days; neither shall there [any thing] of the flesh, which thou sacrificedst the first day between the even, remain all night until the morning.5 And thou mayest not sacrifice the passover within any of thy gates, which the LORD thy God giveth thee. 6 But in the place which the LORD thy God shall choose to place his name there, there thou shalt sacrifice the passover at even, at the going down of the sun, at the season that thou camest forth out of Egypt.  7                    And thou shalt roast and eat [it] in the place which the LORD thy God shall choose: and thou shalt turn in the morning, and go unto thy tents. 8 Six days thou shalt eat unleavened bread: and on the seventh day [shall be] a celebration to the LORD thy God: thou shalt not do any work of service [therein].

Narrated Ibn ‘Abbas:

The Prophet came to Medina and saw the Jews fasting on the day of Ashura[2]. He asked them about that. They replied, “This is a good day, the day on which Allah rescued Bani Israel from their enemy. So, Moses fasted this day.” The Prophet said, “We have more claim over Moses than you.” So, the Prophet fasted on that day and ordered (the Muslims) to fast (on that day)[3].

Narrated Abu Musa:

The day of ‘Ashura’ was considered as ‘Id (Celebration) day by the Jews. So the Prophet ordered, “I recommend you (Muslims) to fast on this day.”[4]

Narrated Ibn ‘Abbas:

When the Prophet came to Medina, he found (the Jews) fasting on the day of ‘Ashura’ (i.e. 10th of Muharram). They used to say: “This is a great day on which Allah saved Moses and drowned the folk of Pharaoh. Moses observed the fast on this day, as a sign of gratitude to Allah.” The Prophet said, “I am closer to Moses than they.” So, he observed the fast (on that day) and ordered the Muslims to fast on it[5].

Masoretic Deuteronomy 9 “you shall count seven weeks. From when the sickle begins to be in the standing grain you shall begin to count seven weeks.  10 And you shall make a Festival of Weeks for YHWH, your God, the full amount of your hand’s contribution that you can give insofar as YHWH, your God, will bless you. 11 “And you shall rejoice in front of YHWH, your God you and your son and your daughter and your servant and your maid and the Levite who is within your gates and the alien and the orphan and the widow who are among you-in the place that YHWH, your God, will choose to tent His name there. 12 And you shall remember that you were a slave in Egypt, and you shall be watchful and do these laws.  
Dead Sea Scrolls  9 You shall count off seven weeks [for yourself; from the time you begin to put the sickle to the standing grain you shall begin] to count seven weeks. 10 And you shall celebrate [the feast of weeks to the LORD your God with a gi]ft  of freewill offerings from your hand, which you shall give [in ac]cordance with how [the LORD your God blesses you; 11 and] you [shall rejoice] before the LORD your God-[yo]u, your son, [your daughter, your male servant, your female servant,
the] Levite who is within your gates, [the foreigner, the orphan, and the widow
who are] in your midst, in [the place which the ‘LORD] your God [chooses] to [make his name dwell there. 12 Remember that you were a slave in Egypt, and carefully observe these statutes] …Ä  
Samaritan Deuteronomy Seven weeks shalt thou number unto thee: begin to number the seven weeks from [such time as] thou beginnest [to put] the sickle to the corn. 10                       And thou shalt keep the feast of weeks unto the LORD thy God with a tribute of a freewill offering of thine hands, which thou shalt give [unto the LORD thy God], according as the LORD thy God hath blessed thee. 11                      And thou shalt rejoice before the LORD thy God, thou, and thy son, and thy daughter, thy manservant, and thy maidservant, and the Levite that [is] within thy gates, and the stranger, and the fatherless, and the widow, that [are] among you, in the place which the LORD thy God hath chosen to place his name there. 12 And thou shalt remember that thou wast a bondman in land of Egypt: and thou shalt observe and do these statutes.

It is believed by author that verse 9 till 17 (excluding some of  verse 16) were added by Ezra. As these days were not celebrated before Second Temple Period.

Masoretic Deuteronomy 13 “you shall make a Festival of Booths[6] seven days, when you gather from your threshing floor and from your wine press.14 And you shall rejoice on your festival- you and your son and your daughter and your servant and your maid and the Levite and the alien and the orphan and the widow who are within your gates.15  “Seven days you shall celebrate for YHWH, your God, in the place that YHWH will choose, because YHWH, your God, will bless you in all your produce and all your hands’ work, and you shall just be happy. 16 “Three times in the year every male of yours shall appear in front of YHWH, your God, in the place that He will choose: on the Festival of Unleavened Bread and on the Festival of Weeks[7] and on the Festival of Booths. And he shall not appear in front of YHWH empty-handed: 17 each according to what his hand can give, according to the blessing of YHWH, your God, that He has given you.  
Dead Sea Scrolls  
Samaritan Deuteronomy 13 Thou shalt observe the feast of tabernacles seven days, after that thou hast gathered in thy corn and thy wine. 14 And thou shalt rejoice in thy feast, thou, and thy son, and thy daughter, thy manservant, and thy maidservant, and the Levite, the stranger, and the fatherless, and the widow, that [are] within thy gates. 15                 Seven days shalt thou keep a solemn feast unto the LORD thy God in the place which the LORD God of you shall choose: because the LORD thy God shall bless thee in all thine increase, and in all the works of thine hands, therefore thou shalt surely rejoice.16 Three times in a year shall all thy males appear before the LORD thy God in the place which he shall choose; in the feast of unleavened bread, and in the feast of weeks, and in the feast of tabernacles: and they shall not appear before the LORD empty. 17  Every man [shall give] as he is able, according to the blessing of the LORD thy God which he hath given thee.

It is believed by author that Feast of Booths was added by Ezra in Law.  It is written in book of Nehemiah:

They found written in the Law, which the LORD had commanded through Moses, that the Israelites were to live in booths during the feast of the seventh month and that they should proclaim this word and spread it throughout their towns and in Jerusalem: ”Go out into the hill country  and bring back branches from olive and wild olive trees, and from myrtles, palms and shade trees, to make booths”-as it is written. So the people went out and brought back branches and built themselves booths on their own roofs, in their courtyards, in the courts of the house  of God and in the square by the Water Gate and the one by the Gate of Ephraim. The whole company that had returned from exile built  booths and lived in them. From the days of Joshua son of Nun until that day, the Israelites had not celebrated it. And their joy was very great. Day after day, from the first day to the last, Ezra read from the Book of  the Law of God. They celebrated the feast for seven days, and on the eighth day, in accordance with the regulation, there was an assembly- Nehemiah 8: 14- 19

Ezra wants the feast of Seventh month to be celebrated in Public. It is also important that this feast is ordained by God but none of the King of Jews bothered to celebrate this, not even David celebrated this.  On the contrary, according to Zechariah, this was not a day of Feast but of mourning:

 

Then the word of the LORD Almighty came to me: ”Ask all the people of the land and the priests, Have you fasted and mourned in the fifth  and seventh months for the past seventy years, was it really for me that  you fasted? And when you were eating and drinking, were you not just feasting for yourselves? Are these not the words the LORD proclaimed through the earlier prophets when Jerusalem and its surrounding towns  were at rest and prosperous, and the Negev and the western foothills  were settled?’ ” -Zechariah 7: 3 – 6

After some time in the Second Temple period, Jewish people declared some days as days of festival. Zechariah received revelations:

Again the word of the LORD Almighty came to me. This is what the LORD Almighty says: The fasts of the fourth, fifth, seventh and tenth  months will become joyful and glad  occasions and happy festivals for Judah. Therefore love truth and peace. Zechariah 8: 18

No one knows about these days as festival before Second temple period. The Judeans used to mourn on these days and later after return they changed the same days into days of celebration. We know from book of Kings and Chronicles that King Josiah was very devout and religiously observed the festivals mentioned in Book of Moses (In words of author of book of Kings and Chronicles, acted on law with all his heart and all his soul 2 Kings 23:25, 2 Chr 34: 31-32). The only festival he had celebrated was feast of unleavened bread.

The contemporary of Ezra, Prophet Zechariah claimed that the feast of booths or Tabernacle would be celebrated not only by Jews  but by all nations

Then the survivors from all the nations that have attacked Jerusalem will go up year after year to worship the King, the LORD Almighty, and to celebrate the Festival of Tabernacles.

 On the other side, Ezra wants these festivals for Jews only.

  

Masoretic Deuteronomy 18 “You shall put judges and officers in all your gates that YHWH, your God, is giving you, for your tribes, and they shall judge the people: judgment with justice. 19 you shall not bend judgment, you shall not recognize a face, and you shall not take a bribe, because bribery will blind the eyes of the wise and undermine the words of the virtuous. 20 “Justice, justice you shall pursue, so that you’ll
live, and you’ll take possession of the land that YHWH, your God, is giving you.
21 “You shall not plant an Asherah of any wood near the altar of YHWH, your God, that you will make. 22 And you shall not set up a pillar, which YHWH, your God, hates.  
Dead Sea Scrolls 21 You shall not plant for yourself [an Asherah of any kind of tree beside the altar of the LORD your God which] you shall make for yourself. 22 Neit[her shall you set up for yourself a pillar, which the LORD your God hates].
Samaritan Deuteronomy Judges and officers shalt thou make thee in all thy gates, which the LORD thy God giveth thee, throughout thy tribes: and they shall judge the people with just judgment. 19 Thou shalt not wrest judgment; and thou shalt not respect persons, neither take a gift: for a gift doth blind the eyes of the wise, and pervert the words of the righteous. 20                 That which is altogether just shalt thou follow, that thou mayest live, and inherit the land which the LORD thy God giveth thee. 21      Thou shalt not plant thee a grove of any trees near unto the altar of the LORD thy God, which thou shalt make thee. 22               Neither shalt thou set thee up [any] image; which the LORD thy God hateth.

 


[1] First month of Jewish calendar also called Nisan; As both Jews and Arabs followed lunar calendar,  the Arabic  month of Muharram  coincides with Jewish month of Abib.

[2] 10th day of first month of Muslim lunar calendar equivalent to Abib

[3] Sahih Bukhari, Volume 3, Book 31, Number 222

 

[4] Sahih Bukhari, Volume 3, Book 31, Number 223:

 

[5] Sahih Bukhari, Volume 4, Book 55, Number 609:

 

[6] Feast of Booths, Feast of Tabernacles is  celebrated on the 15th day of the month of Tishrei (seventh month), also called Sukkoth.

 

[7] Fesat of Shavuot, celebrated in month of Sivan (third month of calendar), as an  anniversary of the day when God gave the Torah to Bene Israel under MountTur. According to Wikipedia: “In the Bible, Shavuot is called the Festival of Weeks (Hebrew: חג השבועות, Ḥag ha-Shavuot, Exodus 34:22, Deuteronomy 16:10); Festival of Reaping (Hebrew: חג הקציר, Ḥag ha-Katsir, Exodus 23:16), and Day of the First Fruits (Hebrew יום הבכורים, Yom ha-Bikkurim, Numbers 28:26)”. This shows that Ezra inserted the concept of this day at several places. According to Wikipedia: “  Shavuot was thus the concluding festival of the grain harvest, just as the eighth day of Sukkot (Tabernacles) was the concluding festival of the fruit harvest. During the existence of the Temple in Jerusalem, an offering of two loaves of bread from the wheat harvest was made on Shavuot.”

Masoretic Deuteronomy 1 “You shall not sacrifice to YHWH, you, God, a bull a’ a sheep in which will be any injury, any bad thing, because that is an offensive thing of YHWH, your God. 2 “if there will be found among you, in one of your gates that YHWH, your God, is giving you, a man or woman who will do what is bad in the eyes of YHWH, your God, to violate His covenant, 3 and will go and serve other gods and bow to them and to the sun or to the moon or to any of the array of the skies,  which I did not command, 4 “and it will be told to you and you will hear it, and you  will inquire well, and, here, it is true, the thing is right, this offensive thing has  been done in Israel, 5 then you shall bring that man or that woman who did this  bad thing out to your gates, the man or the woman, and you shall stone them with stones so they die. 6 “On the word of two witnesses or three witnesses shall the one who is to die be put to death. One shall not be put to death on the word of one witness.
7 The witnesses’ hand shall be on him first to put him to death, and all the people’s hand after that. So you shall burn away what is bad from among you.
 
Dead Sea Scrolls  1 You shall not sacrifice to the LO[RD your God an ox or a sheep on which there is a blemish or an]y defect, for [that is] an abomi[nation to the LORD your God]. 2 If there is found in [your] midst-[within any of your gates which the LORD your God gives you-a man or woman who does what is evil in. the sight of the LORD your God by transgressing] his covenant, 3 and has go[ne and served other gods and worshiped them, or the sun or] the moon o[r any of the host of heaven, which I have not commanded; 4 and if this is reported to you and you have heard of it], then you shall investigate this tho[rougWy. And if it is really true, and if the matter is certain that such abomination has been committed] in Israel, 5 then [you] shall b[ring out that man or that] woman wh[o has done] this [evi]l [thing] to [your gates-that same man or woman-and you shall stone them to death with stones. 6 On the testimony of two witnesses, or of three witnesses, the one
who is to die shall be put to death; but on the testimony of one witness he shall not be put to death. 7 The hands of the witnesses shall be] the firs[t against him to put him to death, and afterward the hands of all the people. So you must purge the evil from] your [mid]st ….
Ä
Samaritan Deuteronomy 1 Thou shalt not sacrifice unto the LORD thy God [any] bullock, or sheep, wherein is blemish, [or] any evil favouredness: for that [is] an abomination unto the LORD thy God.2 If there be found among you, within any of thy gates which the LORD thy God giveth thee, man or woman, that hath wrought wickedness in the sight of the LORD thy God, in transgressing his covenant3 And hath gone and served other gods, and worshipped them, either the sun, or moon, or any of the host of heaven, which I have not commanded;4 And it be told thee, and thou hast heard [of it], and inquired diligently, and, behold, [it be] true, [and] the thing certain, [that] such abomination is wrought in Israel:5 Then shalt thou bring forth that man or that woman, which have committed that wicked thing, unto thy gates, [even] that man or that woman, and shalt stone them with stones, till they die.6 At the mouth of two witnesses, or at the mouth of three witnesses, shall he that is worthy of death be put to death; [but] at the mouth of one witness he shall not be put to death.7 The hands of the witnesses shall be first upon him to put him to death, and afterward the hands of all the people. So thou shalt put the evil away from among you.

 

Masoretic Deuteronomy 8 “lf a matter for judgment will be too daunting for you, between blood and blood, between law and law, and between injury and injury, matters of disputes in your gates, then you shall get up and go up to the place that YHWH, your God, will choose. 9 And you shall come to the Levite priests and to the judge who will be in those days, and you shall inquire, and they will tell you the matter of judgment. 10 And you shall do according to the word on the matter that they will tell you from that place that YHWH will choose, and you shall be watchful to do according to everything that they will instruct you. 11 “You shall do it according to the word of the instruction that they will give you and
according to the judgment that they will say to you. You shall not turn from the thing that they will tell you, right or left. 12 And the man who will act presumptuously, not listening to the priest who is standing to serve YHWH, your God, there, or to the judge: that man shall die. So you shall burn away what is bad from Israel. 13 And all the people will listen and fear and won’t act presumptuously any more.
 
Dead Sea Scrolls [12 And as for the man who acts presumptuously by not listening to the priest who stands to minister there before the LORD your God, or to the judge, that same] ma[n shall die. You must purge the evil from Israel. 13 And all the people shall hear and be afraid, and no longer act presumptuously].
Samaritan Deuteronomy 8  If there arise a matter too hard for thee in judgment, between blood and blood, and between plea and plea, and between stroke and stroke, [being] matters of controversy within thy gates: then shalt thou arise, and get thee up into the place which the LORD thy God shall choose;9 And thou shalt come unto the priests the Levites, and unto the judge that shall be in those days, and inquire; and they shall show thee the sentence of judgment:10 And thou shalt do according to the sentence, which they of that place which the LORD God of you shall choose shall shew thee; and thou shalt observe to do according to all that they inform thee:11 According to the sentence of the law which they shall teach thee, and according to the mouth of judgment which they shall tell thee, thou shalt do: and thou shalt not decline from the sentence which they shall shew thee, [to] the right hand, nor [to] the left.12 And the man that will do presumptuously, and will not hearken unto the priest that standeth to minister there before the LORD thy God, or unto the judge, even that man shall die: and thou shalt put away the evil from Israel.13 And all the people shall hear, and fear, and do no more presumptuously.
Masoretic Deuteronomy 14 When you’ll come to the land that YHWH, your God, is giving you, and you’ll take possession of it and live in it, and you’ll say, ‘Let me set a king over me like all the nations that are around me,’ “you shall set a king over you whom YHWH, your God, will choose! You shall set a king from among your brothers over you. You may not put a foreign man, who is not your brother, over you. 16 Only he shall not get himself many horses, and he shall not bring the people back to Egypt in order to get many horses, when YHWH has said to you, ‘You shall not go back this way ever again.’  17 And he shall not get himself many wives, so his heart will not turn away. And he shall not get himself very much silver and gold. 18 And it will be, when he sits on his kingdom’s throne,
that he shall write himself a copy of this instruction on a scroll from in front of the Levite priests.
19 And it shall be with him, and he shall read it all the days of his life, so that he will learn to fear YHWH, his God, to observe all the words of this instruction and these laws, to do them, 20 so his heart will not be elevated above his brothers, and so he will not turn from the commandment, right or left, and so he will extend days over his kingdom, he and his sons, within Israel. 
Dead Sea Scrolls [14 When you come to the land which the LORD your God] is giving you and you possess [it and dwell in it, and say, “I will set a king over me, like all the nations that are ar]ound [me,” 15 you must] inde[ed m]ake [king] ov[er you the one whom the LORD your God chooses. You shall make] king [over you one from among your countrymen]-you may not put [over you a foreigner, who is] not
your countryman. [16 Even so], he shall [not] multiply [horses] for himself, [nor cause the people to return to Egypt, with the purpose of multiplying horses; for the LORD] has said to you, [“You shall] never again [return] that [way.” 17 Nor shall he multiply wives for himself] lest [his heart] tur[n away; nor shall he] g[rea]tly [mult]iply for himself [silver and gold] . 18 And when [he sits on the throne of his kingdom, he shall write for himself a cop]y of [this] law [in] a book, in the pre[sence of the Levitical priests. 19 And it shall remain with him and he shall read] it [al]l the days of his life, so that he
may l[earn to fear the LORD his God by ke]eping all the words of this [law] and [these statutes, and by carrying them out], 20 so that [his] he[art] may not be exalted [above his countrymen, and so that he may turn not aside from the commandment to the right hand or to the left. Then] he will prolong his days [in his kingdom, both he and his children, in the midst of Israel].
Samaritan Deuteronomy 14 When thou art come unto the land which the LORD thy God giveth thee, and shalt possess it, and shalt dwell therein, and shalt say, I will set a king over me, like as all the nations that [are] about me;15 Thou shalt in any wise set [him] king over thee, whom the LORD thy God shall choose: [one] from among thy brethren shalt thou set king over thee: thou mayest not set a stranger over thee, which [is] not thy brother.16 But he shall not multiply horses to himself, nor cause the people to return to Egypt, to the end that he should multiply horses: forasmuch as the LORD hath said unto you, Ye shall henceforth return no more that way.17 Neither shall he multiply wives to himself, that his heart turn not away: neither shall he greatly multiply to himself silver and gold.18 And it shall be, when he sitteth upon the throne of his kingdom, that he shall write him a copy of this law in a book out of [that which is] before the priests the Levites:19 And it shall be with him, and he shall read therein all the days of his life: that he may learn to fear the LORD his God, to keep all the words of this law and these statutes, to do them:20 That his heart be not lifted up above his brethren, and that he turn not aside from the commandment, [to] the right hand, or [to] the left: to the end that he may prolong [his] days over throne of his kingdom, he, and his children, in the midst of Israel.

Masoretic Deuteronomy 1 ”The Levite priests, all the tribe of Levi, shall not have a portion and   legacy with Israel. They shall eat YHWH’s offerings by fire and His legacy. 2 “But he shall not have a legacy among his brothers. YHWH: He is his legacy, as He spoke to him. 3 And this shall be the rule for the priests from the people, from those who make a sacrifice, whether an ox or a sheep: he shall give the shoulder, the cheeks, and the stomach. 4 you shall give him the first of your grain, your wine, and your oil, and the first shearing of your sheep. 5 Because YHWH, you’re God, has chosen him from all your tribes to stand to serve in YHWH’s name, he and his sons, for all time. 6 ”And when a Levite will come from one of your gates, from all of Israel, where he lives, then he shall come as much as his soul desires to the place that YHWH will choose 7 and serve in the name of YHWH, his God, like all of his Levite brothers who are standing there in front of YHWH. 8 They shall eat, portion for portion, aside from his sales of patrimony.  
Dead Sea Scrolls 1 The Levitical priests, indeed all the tribe of Levi], shall h[ave] no [portion or inheritance with Israel, but shall eat the offerings of the LORD made by] fire [that are his portion]…Ä  [6 And if a Levite moves from any of your towns anywhere in Israel], wh[ ere] he is living, [and comes with all the desire of his soul to the place which the LORD chooses, 7 then he shall minister] in the name of the LORD [his] Go[d, as do all his countrymen the Levites who stand there before the LORD]. 8 They shall [have equal portions to] eat, besides what comes of the sale [of his family estate].
Samaritan Deuteronomy 1 The priests the Levites, [and] all the tribe of Levi, shall have no part nor inheritance with Israel: they shall eat the offerings of the LORD made by fire, and his inheritance.2 Therefore shall they have no inheritance among their brethren: the LORD [is] their inheritance, as he hath said unto them.3 And this shall be the priest’s due from the people, from them that offer a sacrifice, whether [it be] ox or sheep; and they shall give unto the priest the shoulder, and the two cheeks, and the maw.4 The firstfruit [also] of thy corn, of thy wine, and of thine oil, and the first of the fleece of thy sheep, shalt thou give him.5 For the LORD thy God hath chosen him out of all thy tribes, to stand to minister before the LORD God of you and to minister and to bless in the name of the LORD, him and his sons for ever.6 And if a Levite come from any of thy gates out of all Israel, where he sojourned, and come with all the desire of his mind unto the place which the LORD shall choose;7 Then he shall minister in the name of the LORD his God, as all his brethren the Levites [do], which stand there before the LORD.8 They shall have like portions to eat, and beside that which cometh of the sale of his patrimony.
Masoretic Deuteronomy 9 “When you come to the land that YHWH, your God, is giving you, you shall not learn to do like the offensive things of those nations.10  “There shall not be found among you someone who passes his son or his daughter through fire, one who practices enchantment, a soothsayer or a diviner or a sorcerer 11 or one who casts spells or who asks of a ghost or of a spirit of an acquaintance or inquires of the dead, 12 “because everyone who does these is an offensive thing of YHWH, and because of these offensive things YHWH, your God, is dispossessing them from in front of you. 13 You shall be unblemished with YHWH, your God, 14 because these nations whom you are dispossessing listen to soothsayers and enchanters, but you: YHWH, your God, has not permitted such for you.15 YHWH, your God, will raise up for you a prophet from among you, from your brothers, like me. You shall listen to him– 16 in accordance with everything that you asked from YHWH, your God, at Horeb in the day of the assembly, saying, ‘Let me not continue to hear the voice of YHWH, my God, and let me not see this big fire anymore, so I won’t die!’  
Dead Sea Scrolls  [9 When you come into the land which the LORD] your God is giving you, you sh[all not learn to imitate the abominations of those nations. 10 No one shall be found among you who makes] his son or [his daughter pass through] the fire, [one who practices] d[ivination or soothsaying, or interprets omens, or is a sorcerer, 11 or one who casts spells, or who consults ghosts or spirits, or who consults the dead].”
Samaritan Deuteronomy 9 When thou art come into the land which the LORD thy God giveth thee, thou shalt not learn to do after the abominations of those nations.10  There shall not be found among you [any one] that maketh his son or his daughter to pass through the fire, [or] that useth divination, [or] an observer of times, an enchanter, a witch11 A charmer, or a consulter with familiar spirits, a wizard, or a necromancer.12 For all that do these things [are] an abomination unto the LORD God of you: and because of these abominations the LORD thy God doth drive them out from before thee.13 Thou shalt be perfect with the LORD thy God.14 For these nations, which thou shalt possess, hearkened unto observers of times, and unto diviners: but as for thee, the LORD thy God hath not suffered thee so [to do].15 The LORD thy God will raise up unto thee a Prophet from the midst of thee, of thy brethren, like unto me; unto him ye shall hearken;16 According to all that thou desiredst of the LORD thy God in Horeb in the day of the assembly, saying, Let me not hear again the voice of the LORD my God, neither let me see this great fire any more, that I die not.

Allah said in surah Al-Araf 157:

Those who follow the Messenger, the Prophet who can neither read nor write (i.e. Muhammad ) whom they find written with them in the Taurat (Torah), – he commands them for Al-Ma’ruf (all that is established as good by human nature); and forbids them from Al-Munkar (all that is established by human nature as bad); he allows them as lawful and all good, and prohibits them as unlawful evils,, he releases them from their heavy burdens, and from the fetters (bindings) that were upon them. So those who believe in him (Muhammad ), honour him, help him, and follow the light (the Qur’an) which has been sent down with him, it is they who will be successful.

 Jesus said in John 14:16

And I will pray the Father, and he shall give you another Comforter, that he may be with you for ever,

 There were prophecies in circulation among Jewish settlers of Arabia on the appearance of Prophet in Bene Ishmael. In a recent book Seeing Islam as other saw it, it is elaborated as[1]:

The renowned second-century rabbi Simon ben Yohai is credited with a number of related apocalyptic works. The Tefillia (“Prayer”) pertains   to Crusader times in its present form, but draws indirectly upon the   Nisiarot (“Secrets”) and Midrash ‘aseret meliikhim (“Midrash of the  Ten Kings”), also ascribed to Rabbi Simon, which deal with the career  of Islam until the fall of the Umayyad dynasty and the rise of the  Abbasids respectively.” In their turn, these two, and the Secrets in particular, make use of an earlier apocalypse, seemingly contemporary with the Arab conquests.”
 At the opening of the scene we are introduced to Simon, who has been “hidden {for thirteen years} in a cave from the emperor, the king of Edom, {who had decreed destruction on Israel}.”He has been fasting and praying for a number of days, and he calls upon God to answer his prayer for enlightenment:
At once the secrets of the end and the mysteries were revealed to him, and he sat and began to expound: “And he saw the Kenite” (Numbers xxiv.21). Since he saw the kingdom of Ishmael that was coming, he began to say: “Was it not enough what the wicked kingdom of Edom has done to us, but [we deserve] the kingdom of Ishmael too?” At once Metatron, the foremost angel (sar ha-penfm), answered him and said: “Do not fear, son of man, for the Almighty only brings the kingdom of Ishmael in order to deliver you from this wicked one (Edom). He raises up over them (Ishmaelites) a prophet according to His will and He will conquer the land for them, and they will come and restore it to greatness, and a great dread will come between them and the sons of Esau.” Rabbi Simon answered him and said: “How [is it known] that they are our salvation?” He (Metatron) said to him: “Did not the prophet Isaiah say that ‘he saw a chariot with a pair of horsemen etc.’ ? Why did he put the chariot of asses before the chariot of camels when he should rather have said ‘a chariot of camels and [then] a chariot of asses,’ because when he (Ishmael, i.e. the Arabs) goes forth [to war], he rides upon on a camel, and when the kingdom will arise by his hands he rides upon an ass? [Given that he said the reverse of this]’ the chariot of asses, since he (the Messiah) rides upon an ass, shows that they (the Ishmaelites, represented by the chariot of camels) are a salvation for Israel, like the salvation of the rider on an ass (i.e. the Messiah).”
Another exegesis: Rabbi Simon used to say that he heard Rabbi Ishmael [say], when he had heard that the kingdom of Ishmael was approaching: “They will measure the land with ropes, as it is said, ‘And he shall divide the land for a price’ (Daniel xi.39). And they will make cemeteries into a pasturing place for flocks; and when one of them dies, they will bury him in whatever place they find and later plough the grave and sow thereon. Thus it is said: ‘The children of Israel shall eat their bread defiled (Ezekiel iv.13),’ because the unclean field should not be encroached upon.,, Again: “And he saw the Kenite:” and what parable did the wicked one (Balaam) take up, except that when he saw the sons of his (the Kenite’s) sons who were to arise and subject Israel, he began to rejoice and said: “Strong (etan) is your dwelling place. I see that the sons of man do not eat save according to the commandments of Etan the Ezrahite[2].
 Thus there was an expectation that the Prophet would soon appear among the Arabs.   It is stated in Quran surah 145-147  that

And even if you were to bring to the people of the Scripture (Jews and Christians) all the Ayat (proofs, evidences, verses, lessons, signs, revelations, etc.), they would not follow your Qiblah (prayer direction), nor are you going to follow their Qiblah (prayer direction). And they will not follow each other’s Qiblah (prayer direction). Verily, if you follow their desires after that which you have received of knowledge (from Allah), then indeed you will be one of the  wrong-doers, etc.  Those to whom We gave the Scripture (Jews and Christians) recognise him (Muhammad  or the Ka’bah at Makkah) as they recongise their sons. But verily, a party of them conceal the truth while they know it .  (This is) the truth from your Lord. So be you not one of those who doubt.

Bukhari Volume 4, Book 55, Number 546 reported that

Narrated Anas:

When ‘Abdullah bin Salam heard the arrival of the Prophet at Medina, he came to him and said, “I am going to ask you about three things which nobody knows except a prophet:

 What is the first portent of the Hour?

 What will be the first meal taken by the people of Paradise?

 Why does a child resemble its father, and why does it resemble its maternal uncle”

 Allah’s Apostle said, “Gabriel has just now told me of their answers.” ‘Abdullah said, “He (i.e. Gabriel), from amongst all the angels, is the enemy of the Jews.”

 Allah’s Apostle said, “The first portent of the Hour will be a fire[3] that will bring together the people from the east to the west;

 The first meal of the people of Paradise will be Extra-lobe (caudate lobe) of fish-liver[4].

 As for the resemblance of the child to its parents: If a man has sexual intercourse with his wife and gets discharge first, the child will resemble the father, and if the woman gets discharge first, the child will resemble her.”

 On that ‘Abdullah bin Salam said, “I testify that you are the Apostle of Allah.” ‘Abdullah bin Salam further said, “O Allah’s Apostle! The Jews are liars, and if they should come to know about my conversion to Islam before you ask them (about me), they would tell a lie about me.” The Jews came to Allah’s Apostle and ‘Abdullah went inside the house. Allah’s Apostle asked (the Jews), “What kind of man is ‘Abdullah bin Salam amongst you?” They replied, “He is the most learned person amongst us, and the best amongst us, and the son of the best amongst us.” Allah’s Apostle said, “What do you think if he embraces Islam (will you do as he does)?” The Jews said, “May Allah save him from it.” Then ‘Abdullah bin Salam came out in front of them saying, “I testify that None has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is the Apostle of Allah.” Thereupon they said, “He is the evilest among us, and the son of the evilest amongst us,” and continued talking badly of him.

Bukhari Volume 5, Book 59, Number 362, reported that

Narrated Ibn Umar:

Bani An-Nadir and Bani Quraiza fought (against the Prophet violating their peace treaty), so the Prophet exiled Bani An-Nadir and allowed Bani Quraiza to remain at their places (in Medina) taking nothing from them till they fought against the Prophet again). He then killed their men and distributed their women, children and property among the Muslims, but some of them came to the Prophet and he granted them safety, and they embraced Islam. He exiled all the Jews from Medina. They were the Jews of Bani Qainuqa’, the tribe of ‘Abdullah bin Salam and the Jews of Bani Haritha and all the other Jews of Medina.

Bukhari reported Volume 9, Book 87, Number 142:

Narrated ‘Abdullah bin Salam:

(In a dream) I saw myself in a garden, and there was a pillar in the middle of the garden, and there was a handhold at the top of the pillar. I was asked to climb it. I said, “I cannot.” Then a servant came and lifted up my clothes and I climbed (the pillar), and then got hold of the handhold, and I woke up while still holding it. I narrated that to the Prophet who said, “The garden symbolizes the garden of Islam, and the handhold is the firm Islamic handhold which indicates that you will be adhering firmly to Islam until you die.”

Bukhari, Volume 5, Book 58, Number 157:

Narrated Sad bin Abi Waqqas:

I have never heard the Prophet saying about anybody walking on the earth that he is from the people of Paradise except ‘Abdullah bin Salam. The following Verse was revealed concerning him: “And a witness from the children of Israel testifies that this Qur’an is true” (46.10)

Masoretic Deuteronomy 17 ”And YHWH said to me, ‘They’ve been good in what they’ve spoken.  18  I’II raise up a prophet for them from among their brothers, like you, and I’ll put my words in his mouth, and hell speak to them everything that I’ll command him. 19 And it will be: the man who won’t listen to my words that hell speak in my name, I shall require it from him! 20 Just: the prophet who will presume to speak
a thing in my name that I didn’t command him to speak, and who will speak in the name of other gods that prophet shall die. 21 “And if you’ll say in your heart, How shall we know the thing, that YHWH
didn’t speak it?!’
22 when the prophet will speak in YHWH’s name, and the thing won’t be and won’t come to pass: that is the thing that YHWH did not say.  The prophet spoke it presumptuously. You shall not be fearful of him.  
Dead Sea Scrolls  [17 Then the LORD replied to me, “They are right in what they have said. 18 I will raise for them a prophet like you from among their countrymen; I will put my words in] his mouth, and he will speak to them [all that I command him. 19 And whoever does not listen to my words which] he will speak in my name, I [will hold] that person [accountable. 20 But the prophet who presumes to speak in my name a word that] I have not commanded him to speak, [or who] speaks [in the name of other go]ds-[that prophet will die.” 21 You may say in your] he[art, “How shall we recognize the wo]rd which [the LORD has] not s[poken?” 22 When a prophet speaks in the name of the LORD, but the thing does not come
about or co]me [true], that is the mes[sage which the LORD has not spoken. The prophet has spoken it presumptuously; you shall not be afraid of him].
 
Samaritan Deuteronomy 17 And the LORD said unto me, They have well [spoken that] which they have spoken.18 I will raise them up a Prophet from among their brethren, like unto thee, and will put my words in his mouth; and he shall speak unto them all that I shall command him.19 And it shall come to pass, [that] whosoever will not hearken unto my words which he shall speak in my name, I will require [it] of him.20 But the prophet, which shall presume to speak a word in my name, which I have not commanded him to speak, or that shall speak in the name of other gods, even that prophet shall die.21 And if thou say in thine heart, How shall we know the word which the LORD hath not spoken?22 When a prophet speaketh in the name of the LORD, if the thing follow not, nor come to pass, that [is] the thing which the LORD hath not spoken, [but] the prophet hath spoken it presumptuously: thou shalt not be afraid of him.

 


[1] Seeing Islam as others saw it by Robert g. hoyland, Darwin press 1997, pg 308-310

[2]  A footnote is added in Seeing Islam as other saw it: Simon ben Yohai, Secrets, 78-79; Etan the Ezrahite appears in the Bible as a sage of the East, but was commonly identified in rabbinic writings as Abraham.

[3] Fire probably a reference to war. In Talmud a Rabbinic tradition is quoted “If you see the kingdoms contending with each other, look for foot of Messiah” (Quoted from Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Jacob Neusser, Schoken Press, 1995 pg 350). In Islamic tradition also Messiah would appear in midst of war.

[4] In Rabbinic tradition in Talmud it is said “The Holy One blessed be He created one (leviathan a huge sea animal) … and preserved its flesh in brine for the righteous in Hereafter” (Quoted from Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Jacob Neusser, Schoken Press, 1995  pg 385)

Leviathan was a huge fish created by God. Abdullah bin Salam knows about this from Rabbanic Tradition and asked about this.

Masoretic Deuteronomy   1 ”When YHWH your God will cut off the nations whose lord YHWH.  Your God, is giving you, and you’ll dispossess them and live in their cities and in their houses,2 “you shall distinguish three cities within your land that YHWH, your God, is giving you to take possession of it. 3 you shall prepare the way and divide the border of your land that YHWH, your God, will give you as a legacy into three sections, and it will be for any murderer to flee there. 4 “And this is the case of the manslayer who will flee there and live: one who will strike his neighbor without knowing, when he did not hate him from the day before yesterday; 5and one who will come with his neighbor into the forest to cut down trees, and his hand will be moved with the axe to cut down the tree, and the axe head will come off the wood and find his neighbor, and he dies. He shall flee to one of these cities and live. 6 1n case an avenger of blood will pursue the manslayer when his heart will be hot and will catch up to him because the way will be long, and he’ll strike him mortally though he does not have a sentence of death, because he did not hate him from the day before yesterday, 7 on account of this I command you, saying, You shall distinguish three cities. 
Dead Sea Scrolls  [1 When the LORD your God has destroyed the nations whose land the LORD your God is giving you, and you have driven them out and settled in their towns and in their houses, 2 you shall set apart three cities for yourself in the midst of your land, whic]h the L[oR]D [your] G[od is giving to you to possess. 3 You shall prepare the] way, and divide the bor[ders of your land which the
LORD] your [G]od [causes you to inherit] into three parts, so that [any manslayer] c[an flee there] ..
Ä 
Samaritan Deuteronomy 1 When the LORD thy God hath cut off the nations, whose land the LORD thy God giveth thee, and thou succeedest them, and dwellest in their cities, and in their houses;2  Thou shalt separate three cities for thee in the midst of thy land, which the LORD thy God giveth thee to possess it.3  Thou shalt prepare thee a way, and divide the coasts of thy land, which the LORD thy God giveth thee to inherit, into three parts, that every slayer may flee thither.4 And this [is] the case of the slayer, which shall flee thither, that he may live: Whoso killeth his neighbour ignorantly, whom he hated not in time past;5 As when a man goeth into the wood with his neighbour to hew wood, and his hand fetcheth a stroke with the axe to cut down the tree, and the head slippeth from the helve, and lighteth upon his neighbour, that he die; he shall flee unto one of those cities, and live:6 Lest the avenger of the blood pursue the slayer, while his heart is hot, and overtake him, because the way is long, and slay him; whereas he [was] not worthy of death, inasmuch as he hated him not in time past.7 Wherefore I command thee, saying, Thou shalt separate three cities for thee.

 

Masoretic Deuteronomy 8 And if YHWH, your  God, will widen your border as He swore to your fathers and will give you all the
land that He spoke to give to your fathers, 9 when you’ll observe all of this commandment to do it, that which I command you today, to love YHWH, your God, and to go in His ways every day, then you shall add three more cities to these three. 10 So innocent blood will not be spilled within your land that YHWH, your  God, is giving you as a legacy, and blood would be on you. 11 “But if there will be a man who hates his neighbor and will lie in wait for him and get up against him and strike him mortally, and he dies, and he will flee to one of these cities, 12 “then his city’s elders shall send and take him from there and put him in the hand of the avenger of blood, so he will die. 13 Your eye shall not pity him. And you shall burn away the innocent blood from Israel, and it will  be well with you.
  
Dead Sea Scrolls  [8 And] if [the LORD your God] enlar[ges your border, as he swore to your ancestors, and gives you] all the land which he prom[ised to give to your ancestors- 9 provided you keep this entire commandment by carrying it out, as I command] you today, by lov[ing the LORD your God and by walking always in his ways-then you can add thr]ee cities [more for yourself], in addition to [these] three. [10 Do this so that innocent blood might not be shed in the midst of your land which the LORD your God is giving to you for an inheritance, and so that] bloodguilt will [not] be on you. [11 But if anyone hates his neighbor and lies in wait for him, and rises up against him and strikes him so that he dies, and then flees to one] from112 these cities, [12 the elders of his city shall send and take him from there, and deliver him into the hand of the avenger of blood so that he may die]. 13 Your eye [shall not pit]y him, bu[t you shall purge the guilt of innocent
blood from Israel, so that it may go well with you].
 
Samaritan Deuteronomy   8 And if the LORD thy God enlarge thy coast, as he hath sworn unto thy fathers, and give thee all the land which he promised to give unto thy fathers;9  If thou shalt keep all these commandments to do them, which I command thee this day, to love the LORD thy God, and to walk ever in his ways; then shalt thou add three cities more for thee, beside these three:10 That innocent blood be not shed in thy land, which the LORD thy God giveth thee [for] an inheritance, and [so] blood be upon thee.11 But if any man hate his neighbour, and lie in wait for him, and rise up against him, and smite him mortally that he die, and fleeth into one of these cities:12 Then the elders of his city shall send and fetch him thence, and deliver him into the hand of the avenger of blood, that he may die.13 Thine eye shall not pity him, but thou shalt put away [the guilt of] innocent blood from Israel, that it may go well with thee.
Masoretic Deuteronomy 14 “You shall not move your neighbor’s landmark that the first ones set, in your legacy that you will have in the land that YHWH, your God, is giving you to take possession of it.  15 “One witness shall not get up against a man for any crime or for any sin, in any sin that one will commit. On the word of two witnesses or on the word of three witnesses a case shall stand up. 16 1f a malicious witness will get up against a man to testify a misrepresentation against him, 17 and the two people who have the dispute shall stand in front of YHWH, in front of the priests and the judges who will be in those days, 18  and the judges will inquire well, and, here, the witness is a lying witness, he testified a lie against his brother, 19 then you shall do to him as he schemed to do to his brother. So you shall burn away what is bad from among you. 20 And those who remain will listen and fear and won’t continue to do anything like this bad thing anymore among you. 21 And your eye shall not pity: life for life, eye for eye, tooth for tooth, hand for hand, foot for foot.  
Dead Sea Scrolls   [14 You shall not remove your neighbor’s boundary marker, which former generati]ons [have set], in your inheritance w[hich you will hold in the land that the LORD your God is giving to you to possess]. [15 A single witness shall not come forward against a person] with respect to
any iniquity or a[ny sin, in connection with any offense that he may have committed; a charge shall be sustained on the evidence of two witnesses, or on the evidence of three witnesses].
16 If [a malicious witness comes forward against anyone to accuse him of wrongdoing, 17 then both parties who have the dispute shall appear before the LORD, before the priests and the judg]es who [are in office at that time. 18 Then the judges are to conduct a thorough investigation; and] indeed, if [ the witness] proves to be a false witness [and has testified] falsely against [his] bro [ther, 19 then you shall do to him just as he had intended to do to] his [broth]er. So you must purge the evil from your midst. 20 Then the re[st will hear of this and be afraid,
and will never] again [com]mit such an evil [thing] in your mid [st. 21
Your eyes shall] show no (pity]: his life [for life, eye fo]r eye, tooth for tooth, [hand for hand], foot for foot.   
Samaritan Deuteronomy 14 Thou shalt not remove thy neighbour’s landmark, which they of old time have set in thine inheritance, which thou shalt inherit in the land that the LORD thy God giveth thee to possess it.15  One witness shall not rise up against a man for any iniquity, or for any sin, in any sin that he sinneth: at the mouth of two witnesses, or at the mouth of three witnesses, shall the matter be established.16 And if a false witness rise up against any man to testify against him [that which is] wrong;17  Then both the men, between whom the controversy [is], shall stand before the LORD, before the priests and the judges, which shall be in those days;18 And the judges shall make diligent inquisition: and, behold, [if] the witness [be] a false witness, [and] hath testified falsely against his brother;19 Then shall ye do unto him, as he had thought to have done unto his brother: so shalt thou put the evil away from among you.20 And those which remain shall hear, and fear, and shall henceforth commit no more any such evil among you.21 Thine eye shall not pity; [but] life [shall go] for life, eye for eye, tooth for tooth, hand for hand, foot for foot.

Allah said in surah Al-Maidah 44-45

Verily, We did send down the Taurat (Torah), therein was guidance and light, by which the Prophets, who submitted themselves to Allah’s Will, judged the Jews. And the rabbis and the priests for to them was entrusted the protection of Allah’s Book, and they were witnesses thereto. Therefore fear not men but fear Me (O Jews) and sell not My Verses for a miserable price. And whosoever does not judge by what Allah has revealed, such are the . disbelievers. And We ordained therein for them: “Life for life , eye for eye, nose for nose, ear for ear, tooth for tooth, and wounds equal for equal.” But if anyone remits the retaliation by way of charity, it shall be for him an expiation. And whosoever does not judge by that which Allah has revealed, such are the  wrong-doers.

 

Masoretic Deuteronomy   1 ‘When you’ II go out to war against your enemies[1] and you ‘II see horses and chariots, a people more numerous than you, you shall not fear them, because YHWH, your God, is with you, who brought you up from the land of Egypt. 2 ‘And it will be, when you approach the war that the priest shall go over and speak to the people. 3 And he shall say to them, ‘Listen, Israel, you’re approaching war against your enemies today. Let your heart not be weak. Don’t be afraid and don’t panic and don’t be scared in front of them, 4  “because YHWH, your God, is the one going with you to fight for you with your enemies, to save you.’ 5 “And the officers shall speak to the people, saying, ‘Who is a man who has built a new house and has not dedicated it? Let him go, and let him go back to his house, in case he would die in the war and another man would dedicate it.  6 And who is a man who has planted a vineyard and has not desanctified it? Let
him go, and let him go back to his house, in case he would die in the war and another man would desanctify it.
 
Dead Sea Scrolls  1 When you go out to w]ar against [your] e[nemies, and you see horses and] chariots and a people [more] numerous [than you, you shall not be afraid of them-for the LORD your God, who brought you up from the lan]d of Egypt, is with you. 2 And [when you draw near to battle, the priest shall approach and speak to the people, 3 and say t]o [them], “Hear, [0 Israel, you are drawing near today to make war against your enemies. Do not lose heart or be afraid or
panic or be in dread of them, 4 for it is the LORD your God who goes with you, to fig]ht for you against [your] enemie[s, to give you victory].” [5 Then the officers shall speak to the people, sayi]ng, “Has anyone [built a new house and not yet dedicated it? Let him go and return to his house, lest he die in the bat]tle and someone else [dedicates it. 6 And has anyone] plan[ted a
vineyard and not yet used its fruit? Let him go and retur]n to [his] ho[use, lest he die in the battle and someone else use its fruit.
  
Samaritan Deuteronomy 1 When thou goest out to battle against thine enemies, and seest horses, and chariots, and a people more than thou, be not afraid of them: for the LORD thy God [is] with thee, which brought thee up out of the land of Egypt.2  And it shall be, when ye are come nigh unto the battle, that the priest shall approach and speak unto the people3 And shall say unto them, Hear, O Israel, ye approach this day unto battle against your enemies: let not your hearts faint, fear not, and do not tremble, neither be ye terrified because of them;4 For the LORD your God [is] he that goeth with you, to fight for you against your enemies, and to save you.5 And the officers shall speak unto the people, saying, What man [is there] that hath built a new house, and hath not dedicated it? let him go and return to his house, lest he die in the battle, and another man dedicate it.6 And what man [is he] that hath planted a vineyard, and hath not [yet] eaten of it? let him [also] go and return unto his house, lest he die in the battle, and another man eat of it.

Allah informed in surah al-Baqarah  247 – 251

And their Prophet (Samuel) said to them, “Indeed Allah has appointed Talut (Saul) as a king over you.” They said, “How can he be a king over us when we are better fitted than him for the kingdom, and he has not been given enough wealth.” He said: “Verily, Allah has chosen him above you and has increased him abundantly in knowledge and stature. And Allah grants His Kingdom to whom He wills. And Allah is All-Sufficient for His creatures’ needs, All-Knower.”  And their Prophet (Samuel) said to them: Verily! The sign of His Kingdom is that there shall come to you At-Tabut (Ark of Covenant), wherein is Sakinah (peace and reassurance) from your Lord and a remnant of that which Musa (Moses) and Harun (Aaron) left behind, carried by the angels. Verily, in this is a sign for you if you are indeed believers.  Then when Talut (Saul) set out with the army, he said: “Verily! Allah will try you by a river. So whoever drinks thereof, he is not of me, and whoever tastes it not, he is of me, except him who takes (thereof) in the hollow of his hand.” Yet, they drank thereof, all, except a few of them. So when he had crossed it (the river), he and those who believed with him, they said: “We have no power this day against Jalut (Goliath) and his hosts.” But those who knew with certainty that they were to meet their Lord, said: “How often a small group overcame a mighty host by Allah’s Leave?” And Allah is with the patient ones.  And when they advanced to meet Jalut (Goliath) and his forces, they invoked: “Our Lord! Pour forth on us patience and make us victorious over the disbelieving people.”  So they routed them by Allah’s Leave and Dawud (David) killed Jalut (Goliath), and Allah gave him [Dawud (David)] the kingdom and  Wisdom, and taught him of that which He willed. And if Allah did not check one set of people by means of another, the earth would indeed be full of mischief. But Allah is full of Bounty to the worlds.

It is reported in Sahih Muslim

It has been narrated by Abu Hurrairah that Messenger of Allah peace be upon him said:
One of the Prophets made a holy war. He said to his followers: One who has married a woman and wants to consummate to his marriage but has not yet done so; another who has built a house but has not yet erected its roof; and another who has bought goats and pregnant-camel and is waiting for their  offspring will not accompany me.

 

 

Masoretic Deuteronomy  7 And who is a man who has betrothed a woman and has not taken her? Let him go, and let him go back to his house, in case he would die in the war and another man would take her.8 And the officers shall continue to speak to the people and shall say, ‘Who is a man who is afraid and weak hearted? Let him go, and go back to his house, so he won’t melt his brothers’ heart like his heart.9 And it will be, when the officers finish speaking to the people, that they shall appoint officers of the armies at the head of the people.  
Dead Sea Scrolls 7 And is anyone] en [gaged to a wom]an, and [has] not [yet married her? Let him go and return to his house, lest he die in the battle and someone else marries her.” 8 And] the judgesl16 [shall] speak [further] to the p[eople and say, “Is anyone fearful and faint-hearted? Let
him go and return to his house, lest] his neighbor’s heart [melts] like his own heart.”
9 And [when the officers have finished speaking to the people they shall appoint arm]y [commanders] at [the he]ad of the people.
Samaritan Deuteronomy 7 And what man [is there] that hath betrothed a wife, and hath not taken her? let him go and return unto his house, lest he die in the battle, and another man take her.8 And  the officers shall speak further unto the people, and they shall say, What man [is there that is] fearful and fainthearted? let him go and return unto his house, lest his brethren’s heart faint as well as his heart.9 And it shall be, when the officers have made an end of speaking unto the people, that they shall make captains of the armies to lead the people.

 

Masoretic Deuteronomy 10 “When you’ll approach a city to fight against it, then you shall call to it for peace. And it will be, if it will answer you with peace and open up to you, then it will be that all the people who are found in it shall become yours for a work-company and shall serve you. 12 And if it will not make peace with you, but it will make war with you, then you shall besiege it. 13 And YHWH, your God, will put it in your hand, and you shall strike all its males by the sword. 14 0nly, you shall take as spoil the women and the infants and the animals and everything that will be in the city, all its spoil, and you shall eat your enemies’ spoil that YHWH, your God, has given you. 15 That is what you shall do to all the cities that are very distant from you, those that are not from these nations’ cities. 16 0nly from these peoples’ cities that YHWH, your God, is giving you as a legacy shall you not let any soul live. 17 But you shall completely destroy them-the Hittite and the Amorite, the Canaanite and the Perizzite, the Hivite and the Jebusite- as YHWH, your God, has commanded you, 18so they won’t teach you to do things like all their offensive things that they did for their gods, and you’ll sin to YHWH, your God.  
Dead Sea Scrolls  10 When you approach [a city] to [fight] against it, offer terms of peace [to it]. 11 And if it accepts your terms of peace [and ope]ns its gates to you, then all the people who are foun[ d in it shall become] forced labor for you and shall serve you. 12 But if the city will not make peace wit[h you], but makes [war against you, then you shall besiege it; 13 and when] the LORD your Go[d] delivers it [into your hand], you shall kill e[very male from there with the] e[dge of the sword. 14 But] you shall take as plunder f[ or yourself the women, the children, and the cattle, and all that is in the city, all] its [sp]oil; [and you shall eat the spoil of your enemies which the LORD your God gives you. 15 This is what you are to do] to all [the cities which are very far off from you, which are not the cities of the nations nearby]. [16 But of the cities of these nations that the LORD your God is giving to yo]u as an in[heritance you shall leave alive nothing that breathes. 17 For you shall utterly destroy them-the Hittites and the Amorites, the Canaanites and the] Perizzites, and the Hi [vites, and the Jebusites-just as the LORD your God has
commanded you,
18 so that they may not teach you both to practice] all [their] abominati[ ons which they do for their gods and to sin against the LORD your God. 
Samaritan Deuteronomy 10 When thou comest nigh unto a city to fight against it, then proclaim peace unto it.11 And it shall be, if it make thee answer of peace, and open unto thee, then it shall be, [that] all the people [that is] found therein shall be tributaries unto thee, and they shall serve thee.12 And if it will make no peace with thee, but will make war against thee, then thou shalt besiege it:13 And when the LORD thy God hath delivered it into thine hands, thou shalt smite every male thereof with the edge of the sword:14 But the women, and the little ones, and the cattle, and all that is in the city, [even] all the spoil thereof, shalt thou take unto thyself; and thou shalt eat the spoil of thine enemies, which the LORD thy God hath given thee.15 Thus shalt thou do unto all the cities [which are] very far off from thee, which [are] not of the cities of these nations.16 But of the cities of these people, which the LORD thy God doth give thee [for] an inheritance, thou shalt save alive nothing that breatheth:17 But thou shalt utterly destroy them; [namely], the Canaanites, and the Amorites, and the Hittites, and the Gergashites, and the Perizzites, and the Hivites, and the Jebusites; as the LORD thy God hath commanded thee:18 That they teach you not to do after all their abominations, which they have done unto their gods; so should ye sin against the LORD your God.

 

The verses related to Eating of spoils is an addition. According to Prophet Muhammad peace be upon him it was forbidden on previous nations to eat from spoils of war (Sahih Muslim) Further the rampant killings based on nationalities could not taken seriously as Ezra and Nehemiah both were highly biased people and involvement of these nations in marriage bond with Jews of Second Temple period as discussed in Ezra chapter 9 indicate that some thing went wrong in history and that needs correction, so the verses are added that these nations should haven been extinct long ago.

Surah al-Anfaal 1:

They ask you (O Muhammad ) about the spoils of war. Say: “The spoils are for Allah and the Messenger.” So fear Allah and adjust all matters of difference among you, and obey Allah and His Messenger (Muhammad ), if you are believers.

It is instructed that

10 “When you’ll approach a city to fight against it, then you shall call to it for peace. “And it will be, if it will answer you with peace and open up to you, then it will be that all the people who are found in it shall become yours for a work-company and shall serve you. 12 And if it will not make peace with you, but it will make war with you, then you shall besiege it. 13 And YHWH, your God, will put it in your hand, and you shall strike all its males by the sword. 14 0nly, you shall take as spoil the women and the infants and the animals and everything that will be in the city, all its spoil, and you shall eat your enemies’ spoil that YHWH, your God, has given you.

In year 627 AD,  the pagans of Arabia besieged the city of Medinah. Prophet ordered the digging in of trench surrounding city and fortunately pagans were forced to flee as their supplies were over and Allah sent a severe desert storm on them.  This war is known as t he Battle of the Trench. The Jewish tribe of Banu Qurayza secretly played with pagans and found guilty of treason. Muslims besieged  the settlement and they finally agreed on the verdict of Saad bin Mu’ad, a former ally of Jews[2].

Narrated Abu Said Al-Khudri:

The people of (Banu) Quraiza agreed to accept the verdict of Saad bin Mu’adh. So the Prophet sent for Saad, and the latter came (riding) a donkey and when he approached the Mosque, the Prophet said to the Ansar, “Get up for your chief or for the best among you.” Then the Prophet said (to Saad).” These (i.e. Banu Quraiza) have agreed to accept your verdict.” Saad said, “Kill their (men) warriors and take their offspring as captives, “On that the Prophet said, “You have judged according to Allah’s Judgment,” or said, “according to the King’s judgment.”[3]

Volume 5, Book 59, Number 448:

Narrated ‘Aisha:

Saad was wounded on the day of Khandaq (i.e. Trench) when a man from Quraish, called Hibban bin Al-‘Araqa hit him (with an arrow). The man was Hibban bin Qais from (the tribe of) Bani Mais bin ‘Amir bin Lu’ai who shot an arrow at Saad’s medial arm vein (or main artery of the arm). The Prophet pitched a tent (for Saad) in the Mosque so that he might be near to the Prophet to visit. When the Prophet returned from the (battle) of Al-Khandaq (i.e. Trench) and laid down his arms and took a bath Gabriel came to him while he (i.e. Gabriel) was shaking the dust off his head, and said, “You have laid down the arms?” By Allah, I have not laid them down. Go out to them (to attack them).” The Prophet said, “Where?” Gabriel pointed towards Bani Quraiza. So Allah’s Apostle went to them (i.e. Banu Quraiza) (i.e. besieged them). They then surrendered to the Prophet’s judgment but he directed them to Sad to give his verdict concerning them. Saad said, “I give my judgment that their warriors should be killed, their women and children should be taken as captives, and their properties distributed.”

Narrated Hisham: My father informed me that ‘Aisha said, “Saad said, “O Allah! You know that there is nothing more beloved to me than to fight in Your Cause against those who disbelieved Your Apostle and turned him out (of Mecca). O Allah! I think you have put to an end the fight between us and them (i.e. Quraish infidels). And if there still remains any fight with the Quraish (infidels), then keep me alive till I fight against them for Your Sake. But if you have brought the war to an end, then let this wound burst and cause my death thereby.’ So blood gushed from the wound. There was a tent in the Mosque belonging to Banu Ghifar who were surprised by the blood flowing towards them . They said, ‘O people of the tent! What is this thing which is coming to us from your side?’ Behold! Blood was flowing profusely out of Sad’s wound. Sad then died because of that.”

 

Later it is revealed in Surah Al Maidah 33

The recompense of those who wage war against Allah and His Messenger and do mischief in the land is only that they shall be killed or crucified or their hands and their feet be cut off on the opposite sides, or be exiled from the land. That is their disgrace in this world, and a great torment is theirs in the Hereafter.

 

Saad could have ordered the expulsion of Banu Quraizah as Prophet did before with another Jewish tribe of Banu Qaynuqa. But the crime of Treason committed by Banu Quraizah was much severe than the crime of Banu Qaynuqa[4].

 

Masoretic Deuteronomy  19 “When you’ll besiege a city many days, fighting against it to capture it, you shall not destroy a tree of it, moving an axe at it, because you’ll eat from it, so you shall not cut it down; because is a tree of the field a human, to go from in  front of you in a siege?! 20 Only a tree that you’ll know that it isn’t a tree for eating: that one you may destroy and cut down so you may build a siege-work against the city that is making war with you until its fall.  
Dead Sea Scrolls  19 When you besiege] a city for a [long] tim[e, making war against it in order to take it, you shall not destroy its trees by wielding an ax against them; for you may] eat [from them], but [you shall not cut them down. For are the trees of the field people, that they should be besieged by you? 20 However, you may destroy and cut down trees that you know do not produce fruit, and use them for building siegeworks against the town that is making war with you, until it falls].
Samaritan Deuteronomy 19 When thou shalt besiege a city a long time, in making war against it to take it, thou shalt not destroy the trees thereof by forcing an axe against them: for thou mayest eat of them, and thou shalt not cut them down (for the tree of the field [is] man’s [life]) to employ [them] in the siege.  20 Only the trees which thou knowest that they [be] not trees for meat, thou shalt destroy and cut them down; and thou shalt build bulwarks against the city that maketh war with thee, until it be subdued.

 

 

It is ordered that:

 

“When you’ll besiege a city many days, fighting against it to capture it, you shall not destroy a tree of it, moving an axe at it, because you’ll eat from it, so you shall not cut it down; because is a tree of the field a human, to go from in  front of you in a siege?!

 

When Prophet Muhammad peace be upon him migrated to Medinah, he asked the Jewish tribes there to accept Islam. However the Jewish leadership declared him a false prophet and made an agreement with him that in case of attack on Medinah from any side. The people of Medinah would defend it irrespective of religious affiliations. However that treaty failed to fully materialize as they secretly passed on the messages to pagans and hypocrites of Medinah.

 

In year 625 AD, Arab tribes attacked on Medinah. The Jewish tribe of Banu Nadir helped secretly the pagans against Muslims. The pagans were defeated in this battle and Muslims surrounded the settlement. There were trees surrounding the Jewish villas and hideouts. Contrary to Torah’s order, Prophet ordered that the trees be cut down.  Prophet asked Banu Nadir to surrender and leave Medinah. While they were leaving Allah revealed that cutting of Trees was an order given by Him.

 

Allah said in surah Al-Hasr 5:

 

What you (O Muslims) cut down of the palm-trees (of the enemy), or you left them standing on their stems, it was by Leave of Allah, and in order that He might disgrace the Fasiqun (rebellious, disobedient to Allah).

 

 


[1] Friedman added that The laws of war in Deuteronomy 20 and 21 appear to be directed to the entire people who have been mustered for military service, not to a professional army. Professional  armies are claimed for biblical Israel only in the era of the monarchy. These laws therefore (1) do not appear to derive from the court and (2) appear to derive from the period before the monarchy. Thus, even if we trace the Deuteronomistic history to the period of Josiah  (and a second edition in the Babylonian exile), portions of these laws in Dtn may come  from much earlier sources. (See Who Wrote the Bible? pp. 119-122.)

 

[2] Saad ibn Mu’ad was a chief of the Banu Aus tribe in Medina, one of the non Jewish clans  settled in Medina.

[3] Sahih Bukhari, Volume 5, Book 59, Number 447

[4] In year 624 AD, Banu Qaynuqa exhibited rowdiness by making a chaste woman naked in market place and killing  a Muslim.

 

 

Masoretic Deuteronomy    1 If a corpse will be found In the land that YHWH, your God, Is giving you to take possession of it, fallen in the field, unknown who struck him, 2 “then your elders and your judges shall go out and measure to the cities that are around the corpse. 3 And it will be, the closest city to the corpse: that city’s elders shall take a heifer that has not been worked with, that has not pulled in a yoke. 4 And that city’s elders shall take the heifer down to a strongly flowing wadi that would not be worked with and would not be seeded, and they shall break the heifer’s neck there in the wadi. 5 And the priests, sons of Levi, shall  go over, because YHWH, your God, chose them to serve Him and to bless in YHWH’s name, and every dispute and every injury shall be by their word. 6 And all of that city’s elders, who are close to the corpse, shall wash their hands over the heifer whose neck was broken in the wadi. 7 And they shall testify, and they shall say, ‘Our hands did not spill this blood, and our eyes did not see it. 8 Grant atonement for your people Israel, whom you redeemed, YHWH, and don’t impute innocent blood among your people Israel.’ And for them the blood will be atoned for. 9 So you shall burn away the innocent blood from among you when you will do what is right in YHWH’s eyes.  
Dead Sea Scrolls  4… and the elder[s] of th[at)  c[ity] shall bring the heifer down [to] a valley [with running water, which has been neither plowed] no[r] sown, and they shall break [the he]ifer’s neck there in [the valley. 5 Then] t[he priests, the sons of Levi, shall com]e near; [for] the LORD [your] Go[d has ch]osen [them] to minister to him a[nd to pronounce bless lings in the name [of the LORD, and in accord]ance [with their word shall all cases of dispute and ass]ault [be settled]. 6 And all the eld[ers of tha]t [city] who are nearest to the slain man [shall wash their hands over the heifer whose neck was broken in the valley, 7 and they shall answer and say], “Our [han]ds have not shed [this] b[lood, neither have our eyes seen it]. 8  a LORD, [forgive yo]ur [people] Israel, [wh]om you have r[ede]emed, and do not allow [innocent] blood [to remain in the midst of your people Israel.” And] the bloodguilt [shall be forgi]ven them. 9 So you shall purge the blood of the
[inno]cent fr[om your midst, when you do what is right in the sight of the LORD].
 
Samaritan Deuteronomy 1 If [one] be found slain in the land which the LORD thy God giveth thee to possess it, lying in the field, [and] it be not known who hath slain him:2 Then thy elders and thy judges shall come forth, and they shall measure unto the cities which [are] round about him that is slain:3 And it shall be, [that] the city [which is] next unto the slain man, even the elders of that city shall take an heifer, which hath not been wrought with, [and] which hath not drawn in the yoke;4 And the elders of that city shall bring down the heifer unto a rough valley, which is neither eared nor sown, and shall strike off the heifer’s neck there in the valley:5 And the priests the sons of Levi shall come near; for them the LORD thy God hath chosen to minister, and to bless in the name of the LORD; and by their word shall every controversy and every stroke be [tried]:6 And all the elders of that city, [that are] next unto the slain [man], shall wash their hands over the heifer that is beheaded in the valley:7 And they shall answer and say, Our hands have not shed this blood, neither have our eyes seen [it].8 Be merciful, O LORD, unto thy people Israel, whom thou hast redeemed, and lay not innocent blood unto thy people of Israel’s charge. And the blood shall be forgiven them.9  So shalt thou put away the [guilt of] innocent blood from among you, when thou shalt do [that which is] right in the sight of the LORD.

Bukhari reported that Volume 9, Book 83, Number 20:  Narrated Ibn ‘Abbas:

For the children of Israel the punishment for crime was Al-Qisas only (i.e., the law of equality in punishment) and the payment of Blood money was not permitted as an alternate. But Allah said to this nation (Muslims): ‘O you who believe! Qisas is prescribed for you in case of murder, …..(up to) …end of the Verse. (2.178)  Ibn ‘Abbas added: Remission (forgiveness) in this Verse, means to accept the Blood-money in an intentional murder. Ibn ‘Abbas added: The Verse: ‘Then the relatives should demand Blood-money in a reasonable manner.’ (2.178) means that the demand should be reasonable and it is to be compensated with handsome gratitude

Masoretic Deuteronomy 10 “When you’ll go out to war against your enemies, and YHWH, your God, will put him in your hand, and you’ll take prisoners from him, 11 and you’ll see among the prisoners a woman with a beautiful figure, and you’ll be attracted to her and take her for yourself as a wife, 12 then you shall bring her into your house, and she shall shave her head and do her nails 13 and  take away her prisoner’s garment from on her. And she shall live in your house and shall mourn her father and her mother a month of days. And after that you may come to her and marry her, and she shall become your wife. 14 And it will be, if you don’t desire her then you shall let her go on her own, and you shall not sell her for money. You shall not get profit through her, because you degraded her.  
Dead Sea Scrolls  10 When you go out to w[ar against your enemies, and the LORD your God delivers them into your hands and you carry them away captive, 11 if you see among the] captives [a beautiful] wom[ an, and have a desire for her and wish to take her as a wife for yourself, 12 you shall bring her home to your house. Then she shall] shave [her head, trim her nails, 13 discard her captive’s garb, and live in your house a full month, mourning for her father and mother. Then you may go
in to her and be her husband, and she shall be your wife] .
Ä  
Samaritan Deuteronomy 10 When thou goest forth to war against thine enemies, and the LORD thy God hath delivered them into thine hands, and thou hast taken them captive11  And seest among the captives a beautiful woman, and hast a desire unto her, that thou wouldest have her to thy wife;12 Then thou shalt bring her home to thine house; and she shall shave her head, and pare her nails;13 And she shall put the raiment of her captivity from off her, and shall remain in thine house, and bewail her father and her mother a full month: and after that thou shalt go in unto her, and be her husband, and she shall be thy wife.14 And it shall be, if thou have no delight in her, then thou shalt let her go whither she will; but thou shalt not sell her at all for money, thou shalt not make merchandise of her, because thou hast humbled her.

Safiya was the daughter of Jewish leader Hai bin Al-Akhtab.  Narrated Bukhari Volume 5, Book 59, Number 522:

Narrated Anas bin Malik:

We arrived at Khaibar, and when Allah helped His Apostle to open the fort, the beauty of Safiya bint Huyai bin Akhtaq whose husband had been killed while she was a bride, was mentioned to Allah’s Apostle. The Prophet selected her for himself, and set out with her, and when we reached a place called Sidd-as-Sahba,’ Safiya became clean from her menses then Allah’s Apostle married her. Hais (i.e. an ‘Arabian dish) was prepared on a small leather mat. Then the Prophet said to me, “I invite the people around you.” So that was the marriage banquet of the Prophet and Safiya. Then we proceeded towards Medina, and I saw the Prophet, making for her a kind of cushion with his cloak behind him (on his camel). He then sat beside his camel and put his knee for Safiya to put her foot on, in order to ride (on the camel).

 

Also reported in Bukhari Volume 5, Book 59, Number 524:

Narrated Anas:

The Prophet stayed for three rights between Khaibar and Medina and was married to Safiya. I invited the Muslim to his marriage banquet and there was neither meat nor bread in that banquet but the Prophet ordered Bilal to spread the leather mats on which dates, dried yogurt and butter were put. The Muslims said amongst themselves, “Will she (i.e. Safiya) be one of the mothers of the believers, (i.e. one of the wives of the Prophet ) or just (a lady captive) of what his right-hand possesses” Some of them said, “If the Prophet makes her observe the veil, then she will be one of the mothers of the believers (i.e. one of the Prophet’s wives), and if he does not make her observe the veil, then she will be his lady slave.” So when he departed, he made a place for her behind him (on his and made her observe the veil.

Masoretic Deuteronomy 15 “When a man will have two wives, one loved and one hated, and they’ll give birth to children for him, the loved and the hated, and the hated will have the firstborn son, 16 then it will be, on the day that he gives what he has as a legacy to his children, he shall not be able to give a son of the loved one the birthright before the firstborn son of the hated one. 17 But he shall recognize the firstborn son of the hated one, to give him a double portion of all that he has, because he is the beginning of his might. The legal due of the firstborn is his. 18 “When a man will have a stubborn and rebellious son, not listening to his father’s voice and his mother’s voice, and they will discipline him, but he will not listen to them, 19 then his father and his mother shall take hold of him and bring him out to his city’s elders and to the gate of his place. 20 And they shall say to his city’s elders, ‘This son of ours is stubborn and rebellious, he doesn’t listen to our voice, a glutton, and a drunk.21 And all his city’s people shall batter him with stones so he dies. So you shall burn away what is bad from among you. And all Israel will listen and fear. 22 ‘And if there will be a sin bringing a sentence of death on a man, and he will be put to death, and you will hang him on a tree, 23 You shall not leave his corpse on the tree, but you shall bury him on that day, because a hanged person is an offense to God, and you shall not make impure your land that YHWH, your God, is giving you as a legacy.   
Dead Sea Scrolls  [15 If a man has two wives, one of them loved and the other unloved, and if both the loved one and the one he does not love bear him sons, the firstborn being the son of the unloved wife, 16 then on the day when] he wills [his property to his sons, he cannot make the son of the beloved wife the firstborn in preference to the unloved wife’s son, who is the actual firstborn] . Ä [22 When someone is convicted of a capital offense and is executed, and you hang him on a tree, 23 his body shall not remain all night on the tree, but you shall indeed bury him that same day. For anyone who is hanged is under God’s curse; you must not defile your land which the LORD yo]ur [God] is giving [to] you [as an inheritance].   
Samaritan Deuteronomy 15 If a man have two wives, one beloved, and another hated, and they have born him children, [both] the beloved and the hated; and [if] the firstborn son be hers that was hated:16 Then it shall be, when he maketh his sons to inherit [that] which he hath, [that] he may not make the son of the beloved firstborn before the son of the hated, [which is indeed] the firstborn:17 But he shall acknowledge the son of the hated [for] the firstborn, by giving him a double portion of all that he hath: for he [is] the beginning of his strength; and the right of the firstborn [is] his.18 If a man have a stubborn and rebellious son, which will not obey the voice of his father, or the voice of his mother, and [that], when they have chastened him, will not hearken unto them:19 Then shall his father and his mother lay hold on him, and bring him out unto the elders of his city, and unto the gate of his place;20 And they shall say unto the mortals of his city, This our son [is] stubborn and rebellious, he will not obey our voice; [he is] a glutton, and a drunkard.21 And all the men of his city shall stone him with stones, that he die: so shalt thou put evil away from among you; and all Israel shall hear, and fear.22 And if a man have committed a sin worthy of death, and he be to be put to death, and thou hang him on a tree:23 His body shall not remain all night upon the tree, but thou shalt in any wise bury him that day; (for he that is hanged [is] accursed of God;) that thy land be not defiled, which the LORD thy God giveth thee [for] an inheritance.

 

The firstborn has higher right than others. In this perspective the glorification of  Prophet Isaac son of Abraham is done only to highlight the Bene- Israel over Bene-Ishmael.

 

Masoretic Deuteronomy  1 You shall not see your brother’s ox or his sheep driven off, and you hide yourself from them. You shall bring them back to your brother. 2 And if your brother is not close to you, and you don’t know him, then you shall gather it into your house, and it shall be with you until your brother inquires about it, and you shall give it back to him. 3 And you shall do that with his ass, and you shall do that with his garment, and you shall do that with any lost thing of your brother’s that will be lost by him and you find it. You may not hide yourself. 4 you shall not see your brother’s ass or his ox falling in the road, and you hide yourself from them. You shall lift it up with him. 5 There shall not be a man’s item on a woman, and a man shall not wear a woman’s garment, because everyone who does these is an offensive thing of  YHWH, your God.  
Dead Sea Scrolls  [1 You shall not watch your neighbor’s ox or his sheep straying off and ignore them]; you shall certainly take them back [to your neighbor. 2 And if your neighbor is not near you, or if you do not know him, then you shall bring it home to your house and it shall rem]ain [with you until your neighbor looks for it; then you shall return it to him. 3 And you shall d]o [the same with his donkey],
you shall do the same [with hils [garment, and you shall do the same with every lost item of your neighbor’s, which he loses] and you find-you m[a]y not ignore it. [4 You shall not see your neighbor’s donkey or] his [ox] fallen down on the road, and ignore th[em]; you shall certainly help [him] lift [them up]. 5 A woman sh[all] not wear [a man’s clothing], nor shall a man pu[t on] a woman’s garment;  for whoever does [these things is] an abomination to the LORD your God.
 
Samaritan Deuteronomy 1 Thou shalt not see thy brother’s ox or his sheep or any animal of his go astray, and hide thyself from them: thou shalt in any case bring them again unto thy brother.2 And if thy brother [be] not nigh unto thee, or if thou know him not, then thou shalt bring it unto thine own house, and it shall be with thee until thy brother seek after it from you, and thou shalt restore it to him again.3 In like manner shalt thou do with his ass; and so shalt thou do with his raiment; and with all lost thing of thy brother’s, which he hath lost, and thou hast found, shalt thou do likewise: thou mayest not hide thyself.4 Thou shalt not see thy brother’s ass or his ox or any animal of him fall down by the way, and hide thyself from them: thou shalt surely help him to lift [them] up again.5 The woman shall not wear that which pertaineth unto a man, neither shall a man put on a woman’s garment: for all that do so [are] abomination unto the LORD thy God.
Masoretic Deuteronomy 6 When a bird’s nest will happen to be in front of you on the road in any tree or on the ground-chicks or eggs-and the mother is sitting over the chicks or over the eggs, you shall not take the mother along with the children. 7 you shall let the mother go, and you may take the children for you, so that it will be good for you, and you will extend days. 8 “When you’ll build a new house, you shall make a railing for your roof, so you won’t set blood in your house when someone will fall from it. 9 “you shall not seed your vineyard with two kinds, or else the whole of the seed that you’ll sow and the vineyard’s produce will become holy. 10 You shall not plow with an ox and an ass together. 11 “you shall not wear sha’atnez: wool and linen together. 12 “you shall make braided threads on the four corners of your apparel with which you cover yourself.  
Dead Sea Scrolls  [6 If] a bird’s nest [happens to be] before you on the road, whether in any tree or on [the ground, with fledglings or] eggs, and the mother is sittin[g o]n the fledglings or [on the eggs], you shall not take the mother [wi]th [the fledglings. 7 You shall certainly let the mother go, but you may take the fledglings for] your-self, [so that it may go well with you and you may prolong your days]. [8 When you build a new house, then you shall make a parapet around your roof, so that] you may [not] bring [bloodguilt on your house if anyone falls from it] . [9 You shall not sow your vineyard with two kinds of seed, or the wh]ol[e yield will have to be forfeited, both the seed which you have sown and the yield of the vineyard] .. Ä [12 You shall make yourself tassels on the four corners of your cloak] with [which you] cover [yourself].  
Samaritan Deuteronomy 6 If a bird’s nest chance to be before thee in the way in any tree, or on the ground, [whether they be] young ones, or eggs, and the dam sitting upon the young, or upon the eggs, thou shalt not take the dam with the young:7 [But] thou shalt in any wise let the dam go, and take the young to thee; that it may be well with thee, and [that] thou mayest prolong [thy] days.8 When thou buildest a new house, then thou shalt make a battlement for thy roof, that thou bring not blood upon thine house, if any man fall from thence.9 Thou shalt not sow thy vineyard with divers seeds: lest the fruit of thy seed which thou hast sown, and the fruit of thy vineyard, be defiled.10 Thou shalt not plow with an ox and an ass together.11 Thou shalt not wear a garment of divers sorts, [as] of woollen and linen together.12 Thou shalt make thee fringes upon the four quarters of thy vesture, wherewith thou coverest [thyself].

 

 

Masoretic Deuteronomy 13 “When a man will take a wife and come to her and then hate her, 14 and he’ll assert words of abuse toward her and bring out a bad name on her and say, ‘l took this woman, and / came close to her, and / didn’t find signs of virginity for her,’ 15 then the young woman’s father and her mother shall take and bring out the signs of the young woman’s virginity to the city’s elders at the gate.  16 ”And the young woman’s father shall say to the elders, ‘I gave my daughter to this man for a wife, and he hated her. 17 And, here, he has asserted words of abuse, saying: “l didn’t find signs of virginity for your daughter.” But these are the signs of my daughter’s virginity!’ And they shall spread out the garment in front of the city’s elders. 18 ”And that city’s elders shall take the man and discipline him.19 And they shall fine him a hundred weights of silver and give it to the young woman’s father because he brought out a bad name on a virgin of Israel. And she shall be his for a wife: he shall not be able to let her go, all his days.
Dead Sea Scrolls   [13 If any man takes a wife and goes in to her, and then spurns her, 14 and  charges sha]meful things [against he]r and gi[ves her a bad name, saying], “I married [th]is [woman), but when I lay with [her I found no evidence of h]er virgi[nity,” 15 then the] girl’s [father] and mother [shall bring] a[nd submit the evidence of the girl’s virginity] to the elder[s of the city at the gate. 16 Then the
girl’s father shall say to the elders, “I gave my daughter] to [this man as] a wife, [but he spurns her, 17 and now he has charged her with shameful things], saying, ‘[I found no evidence of] your daughter’s [virginity.’ But here is the proof of my daughter’s virginity.” Then they shall spread out the cloth] before the elder[s of the ci]ty. 18 And [the elders of that city] shall take [the man and punish him. 19 They shall fine him a hundred shekels of si]lver [and give these to the father of
the girl, because he has given a bad name to a virgin of Israel. She shall remain his wife; he may not divorce her as long as he lives].
Ä  
Samaritan Deuteronomy  13 If any man take a wife, and go in unto her, and hate her14 And give occasions of speech against her, and bring up an evil name upon her, and say, I took this woman, and when I came to her, I found her not a maid:15 Then shall the father of the damsel, and her mother, take and bring forth [the tokens of] the damsel’s virginity unto the elders of the city in the gate:16 And the damsel’s father shall say unto the elders, I gave my daughter unto this man to wife, and he hateth her;17  And, lo, he hath given occasions of speech against her, saying, I found not thy daughter a maid; and yet these [are the tokens of] my daughter’s virginity. And they shall spread the cloth before the elders of the city.18 And the elders of that city shall take that man and chastise him;19 And they shall amerce him in an hundred [shekels] of silver, and give [them] unto the father of the damsel, because he hath brought up an evil name upon a virgin of Israel: and she shall be his wife; he may not put her away all his days.

 

Masoretic Deuteronomy 20 “But if this thing was true -signs of virginity for the young woman were not found 21 then they shall take the young woman out to the entrance of her father’s house, and the people of her city shall stone her with stones so she dies, because she did a foolhardy thing in Israel, to whore at her father’s house.
So you shall burn away what is bad from among you.  
22 “If a man will be found lying with a woman who is a husband’s wife, then the two of them shall die: the man who lay with the woman, and the woman. So
you shall burn away what is bad from Israel
.  23 “If it will be that a virgin young woman will be betrothed to a man, and a  man will find her in the city and lie with her, 24 then you shall take the two of them to that city’s gate and stone them with stones so they die: the young woman on account of the fact that she did not cry out in the city, and the man on  account of the fact that he degraded his neighbor’s wife. So you shall burn away
what is bad from among you
. 25 But if the man will find the betrothed young  woman in the field, and the man will take hold of her and lie with her, then only  the man who lay with her shall die, 26  “but you shall not do a thing to the young  woman. The young woman does not have a sin deserving death, because, just as a man would get up against his neighbor and murder him: this case is like that; 27  because he found her in the field, the betrothed young woman cried out,  and there was no one to save her.  28 “If a man will find a virgin young woman who is not betrothed, and he’ll grasp her and lie with her, and they’ll be found, 29then the man who lay with  her shall give the young woman’s father fifty weights of silver, and she shall be his for a wife. Because he degraded her, he shall not be able to let her go, all his days.   
Dead Sea Scrolls  
Samaritan Deuteronomy 20 But if this thing be true, [and the tokens of] virginity be not found for the damsel.21  Then they shall bring out the damsel to the door of her father’s house, and the men of her city shall stone her with stones that she die: because she hath wrought folly in Israel, to play the whore in her father’s house: so shalt thou put evil away from among you. 22 If a man be found lying with a woman married to an husband, then they shall both of them die, [both] the man that lay with the woman, and the woman: so shalt thou put away evil from Israel. 23               If a damsel [that is] a virgin be betrothed unto an husband, and a man find her in the city, and lie with her;  24 Then ye shall bring them both out unto the gate of that city, and ye shall stone them with stones that they die; the damsel, because she cried not, [being] in the city; and the man, because he hath humbled his neighbour’s wife: so thou shalt put away evil from among you. 25 But if a man find a betrothed damsel in the field, and the man force her, and lie with her: then the man only that lay with her shall die.  26 But unto the damsel thou shalt do nothing; [there is] in the damsel no sin [worthy] of death: for as when a man riseth against his neighbour, and slayeth him, even so [is] this matter. 27 For he found her in the field, [and] the betrothed damsel cried, and [there was] none to save her. 28 If a man find a damsel [that is] a virgin, which is not betrothed, and lay hold on her, and lie with her, and they be found. 29 Then the man that lay with her shall give unto the damsel’s father fifty [shekels] of silver, and she shall be his wife; because he hath humbled her, he may not put her away all his days.

Narrated ‘Abdullah bin Umar:

The Jews brought to the Prophet a man and a woman from among them who had committed illegal sexual intercourse. The Prophet said to them, “How do you usually punish the one amongst you who has committed illegal sexual intercourse?” They replied, “We blacken their faces with coal and beat them,” He said, “Don’t you find the order of Ar-Rajm (i.e. stoning to death) in the Torah?” They replied, “We do not find anything in it.” ‘Abdullah bin Salam (after hearing this conversation) said to them. “You have told a lie! Bring here the Torah and recite it if you are truthful.” (So the Jews brought the Torah). And the religious teacher who was teaching it to them, put his hand over the Verse of Ar-Rajm and started reading what was written above and below the place hidden with his hand, but he did not read the Verse of Ar-Rajm. ‘Abdullah bin Salam removed his (i.e. the teacher’s) hand from the Verse of Ar-Rajm and said, “What is this?” So when the Jews saw that Verse, they said, “This is the Verse of Ar-Rajm.” So the Prophet ordered the two adulterers to be stoned to death, and they were stoned to death near the place where biers used to be placed near the Mosque. I saw her companion (i.e. the adulterer) bowing over her so as to protect her from the stones[1].

 

Narrated Ibn ‘Umar:

A Jew and Jewess were brought to the Prophet on a charge of committing an illegal sexual intercourse. The Prophet asked the Jews, “What do you (usually) do with them?” They said, “We blacken their faces and disgrace them.” He said, “Bring here the Torah and recite it, if you are truthful.” They (fetched it and) came and asked a one-eyed man to recite. He went on reciting till he reached a portion on which he put his hand. The Prophet said, “Lift up your hand!” He lifted his hand up and behold, there appeared the verse of Ar-Rajm (stoning of the adulterers to death). Then he said, “O Muhammad! They should be stoned to death but we conceal this Divine Law among ourselves.” Then the Prophet ordered that the two sinners be stoned to death and, and they were stoned to death, and I saw the man protecting the woman from the stones[2]. (See Hadith No. 809, Vol. 8)

 

 


[1] Sahih Bukhari, Volume 6, Book 60, Number 79

[2] Sahih Bukhari , Volume 9, Book 93, Number 633:

 

Masoretic Deuteronomy  1 man shall not take his father’s wife, so he will not expose his father’s hem. 2 One who is wounded by crushing or whose organ is cut off shall not come into YHWH’s community. 3 A bastard shall not come into YHWH’s community; even in the tenth generation one shall not come into YHWH’s community. 4 An Ammonite and a Moabite shall not come into YHWH’s community; even in the tenth generation they shall not come into YHWH’s community, forever,  Son account of the fact that they did not meet you with bread and with water on  the way when you came out from Egypt, and the fact that it hired Balaam son of Beor from Pethor of Aram Naharaim against you to curse you. 6 But YHWH, your God, was not willing to listen to Balaam, and YHWH, your God, turned the curse into a blessing for you because YHWH, your God, loved you. 7 you shall not seek their well-being or their good, all your days, forever. 8 you shall not abhor an Edomite, because he is your brother. You shall not abhor an Egyptian, because you were an alien in his land. 9 Third-qeneration children who will be born to them may come into YHWH’s community.  
Dead Sea Scrolls  [5 Yet the LORD your God would not listen to Balaam, but the LORD your God turned] the curse into a blessing [for you] becaus[ e the LORD your God loved you. 6 You shall not promote their welfare n]or their prosperity [as long as you live].  [7 You shall not despise an Edomite, since he is your countryman; you shall] not [despise an Egyptian, since you were a foreigner residing in his land]… Ä
Samaritan Deuteronomy 1 A man shall not take his father’s wife, nor discover his father’s skirt.2 He that is wounded in the stones, or hath his privy member cut off, shall not enter into the congregation of the LORD.3 A bastard shall not enter into the congregation of the LORD; even to his tenth generation shall he not enter into the congregation of the LORD.4 An Ammonite or Moabite shall not enter into the congregation of the LORD; even to their tenth generation shall they not enter into the congregation of the LORD for ever:5 Because they met you not with bread and with water in the way, when ye came forth out of Egypt; and because they hired against thee Balaam the son of Beor of Pethor of Mesopotamia, to curse thee.6 Nevertheless the LORD thy God would not hearken unto Balaam; but the LORD thy God turned the curse into a blessing unto thee, because the LORD thy God loved thee.7 Thou shalt not seek their peace nor their prosperity all thy days for ever.8 Thou shalt not abhor an Edomite; for he [is] thy brother: and thou shalt not abhor an Egyptian; because thou wast a stranger in his land.9 The children that are begotten of them shall enter into the congregation of the LORD in their third generation.

It is believed by author that the prohibition of Ammonite and a Moabite  to enter the house of God is related to marriage issues discussed in book of Ezra and Nehemiah.

 

It is informed in Book of Nehemiah that Bene Israel gathered in congregation and prayed:

 

Blessed be your glorious name, and may it be exalted above all blessing and praise. You alone are the LORD. You made the heavens, even the highest heavens, and all their starry host, the earth and all that is on it, the seas and all that is in them. You give life to everything, and the multitudes of heaven worship you. ”You are the LORD God, who chose Abram and brought him out of Ur of the Chaldeans and named him Abraham.  You found his heart faithful to you, and you made a covenant with him to give to his descendants the land of the Canaanites, Hittites, Amorites, Perizzites, Jebusites and Girgashites. You have kept your promise because you are righteous. -Nehemiah 9

 

 

Nehemiah is referring to the following verses in Genesis:

 

To your descendants I give this land, from the river of Egypt to the great river,the Euphrates the land of the Kenites, Kenizzites, Kadmonites, Hittites, Perizzites, Rephaites, Amorites, Canaanites, Girgashites and Jebusites.”. – Genesis 15:18 – 21

 

Table: Intermarriages Prohibition

Genesis 15 Deuteronomy 7 Ezra 9 Nehemiah 9
Kenites
Kenizzites
Kadmonites
Hittites Hittites Hittites Hittites
Perizzites Perizzites Perizzites Perizzites
Rephaites
Amorites Amorites Amorites Amorites
Canaanites Canaanites Canaanites Canaanites
Girgashites Girgashites Girgashites Girgashites
Jebusites Jebusites Jebusites Jebusites
Ammonites
Moabites
Egyptians
Hivites

In table above list the nations with whom inter marriages are forbidden. The column one and four  list the nations which God gifted to Abraham as reported in Genesis and Nehemiah. Column two list the nations with whom inter marriages are forbidden as commanded by God in Deuteronomy. Column three list the nations which were problematic in connections with the Priest and leaders marriages during the Second Temple period when Ezra, the scribe was controlling the affairs of Temple. We know that Abraham married an Egyptian women, Joseph married Egyptian woman and Moses married Moabite woman. At the end of book of Nehemiah, we have been informed that Nehemiah saw the Jews who had married the Ashdodites, Ammonites and Moabite women. In his anger Nehemiah pulled those Jews, even plucked out their hairs. Nehemiah mentioned the sins of Solomon in marrying unholy nations but said nothing on the marriages of Moses, Joseph and Abraham.  We can simply infer from this information that both Ezra and Nehemiah added the Amorites, Moabites, Egyptians and Ashdodites in the list of intermarriage Prohibition.

 

According to book of Nehemiah, the Eliasib (the grandson of Joshua the high priest in time of Zerrubabel) and Meshullam the son of Berekiah , the son of Meshezabel both were involved in the inter-marriage with surrounding nations and committed the sin of corrupting the holy seed. Eliasib the priest was relative of Tobiah (Neh 13:4),  and the grandson of Eliasib had married the daughter of Sanballat the Horonitte (Neh13:28). Both Tobiah and Sanballat were arch enemies of Nehemiah. No wonder that Nehemiah had removed his opponents by disparaging them on marriage issues. Not only  that Nehemiah also removed them from the temple personnel. This was the beginning of the schism in Judaism. Josephus has written in Antiquities (XI 306-312) that Manasseh the brother of high priest Jaddua married Nikaso, daughter of Sanballat, governor of Samaria. Meshullam the son of Berekiah the son of Meshezabel and Tobiah were close relatives (Nehemiah 6:17-18). Both Meshullam and Eliasb had helped Nehemiah in Wall construction project. It is clear that they were deceived in this project and Nehemiah like Ezra has not revealed his motives in beginning. Because of this politics in early second temple  period, the schism occurred. The anti-Ezra group decided to make a new temple in parallel to Jerusalem. The site they selected was the MountGerizim in  Shechem (Nablus) part of Samaria, which was under Sanballat control[1]. The Jews of Samaria were later appeared as a separate sect called Samaritan Jews[2].

 

Ezra and Nehemiah wanted to through non-Jews out of Temple. On the other side, Prophet Zechariah in the early Second Temple Period claimed that God promised that:

 

‘In those days ten men from all the nations will grasp the garment of a Jew, saying, “Let us go with you, for we have heard that God is with you. (Zech. 8:23)

 

Nehemiah made the wall surrounding city within 52 days. On the contrary Zechariah also said that God has instructed not to make Jerusalem a walled-city.

 

Jerusalem will be inhabited without walls because of the multitude of men and cattle within it.

(Zech. 2:4)

 

The voice of Zechariah was silenced by brutally killing him near Altar in Temple (Mathew 23).

 

In Gospel of John[3] a conversation is reported between the Samaritan Jewish women and the Prophet Jesus:

 

The woman saith unto him, Sir, I perceive that thou art a prophet.  Our fathers worshipped in this mountain[4]; and ye say, that in Jerusalem is the place where men ought to worship. Jesus saith unto her, Woman, believe me, the hour cometh, when ye shall neither in this mountain, nor yet at Jerusalem, worship the Father. Ye worship ye know not what: we know what we worship: for salvation is of the Jews. But the hour cometh, and now is, when the true worshippers shall worship the Father in spirit and in truth: for the Father seeketh such to worship him.    God [is] a Spirit: and they that worship him must worship [him] in spirit and in truth. The woman saith unto him, I know that Messias cometh, which is called Christ: when he is come, he will tell us all things. Jesus saith unto her, I that speak unto thee am [he].

 

Jesus thus proclaimed that neither the Jew in Jerusalem nor the Jews at MountGerizim were worshipping the God in true spirit. Samaritan woman also called Jesus Prophet and inquired about Messiah, on which Jesus said that he is the Messiah.

 

 

Masoretic Deuteronomy 10 “When you’ll go out encamped against your enemies, you shall be watchful against any bad thing. 11 If there will be among you a man who will not be pure by a night occurrence, then he shall go outside the camp. He shall not come inside the camp. 12 And it shall be: toward evening he shall wash in water, and when the sun sets he shall come inside the camp. 13 And you shall have a
location outside the camp, and you shall go out there, outside; 14 and you shall have a spade among your equipment, and it shall be, when you sit outside, that you shall dig with it, and you shall go back and cover what comes out of you. 15 Because YHWH, your God, is going within your camp, to rescue you and to put your enemies in front of you, so your camp shall be holy, so He won’t see an
exposure of something in you and turn back from you.
16″you shall not turn over to his master a slave who will seek deliverance with you from his master. 17 He shall live with you, among you, in the place that he will choose in one of your gates, where it is good for him. You shall not persecute him.

 Dead Sea Scrolls

 [10 If one of you becomes unclean because of a nocturnal emission, he is to go outside the camp and must not come within the camp. 11 But when evening arrives he shall bathe himself in water; and when] the sun [sets] he can come back wi [thin the camp].

[12 You shall also have a place outside the camp] where you can go to relieve yourself; 13 and [you shall have] a spade [among your tools, and when you sit down] outside you shall dig with it a[nd rest]ore and cover [your excrement. 14 For the LORD] your [God] walks in the midst of your camp, to sa[ve you and to deliver your enemies before you; this is why your camp shall b]e holy, so that he may not s[ee anything indecent among you and turn away from you].

15 You shall [not] ha[nd ba]ck [to his master] a sjlave who has run away from his master to you. 16 He can live with you, in your midst, in any place that he chooses in anyone of your towns, wherever he likes-you shall not oppress him]. 17 No[ne of the daughters ofIsrael] shall be [a cult prostitute, nor shall any of the sons of Israel be a cult prostitute.

 

 Samaritan Deuteronomy10 When the host goeth forth against thine enemies, then keep thee from every wicked thing.

11 If there be among you any man, that is not clean by reason of uncleanness that chanceth him by night, then shall he go abroad out of the camp, he shall not come within the camp:

12 But it shall be, he shall wash his flesh in water: and when the sun is down, he shall come into the camp [again].

13 Thou shalt have a place also without the camp, whither thou shalt go forth abroad:

14 And thou shalt have a paddle upon thy weapon; and it shall be, when thou wilt ease thyself abroad, thou shalt dig therewith, and shalt turn back and cover that which cometh from thee:

15 For the LORD thy God walketh in the midst of thy camp, to deliver thee, and to give up thine enemies before thee; therefore shall thy camp be holy: that he see no unclean thing in thee, and turn away from thee.

16 Thou shalt not deliver unto his master the servant which is escaped from his master unto thee:

17 He shall dwell with thee, [even] among you, in that place which he shall choose in one of thy gates, where it liketh him best: thou shalt not oppress him.

 

 

 

Masoretic Deuteronomy 18 “There shall not be a sacred prostitute from the daughters of Israel, and there shall not be a sacred prostitute from the sons of Israel. 19 you shall not bring the price of a prostitute or the cost of a dog to the house of YHWH, your God, for any vow, because the two of them are both an offensive thing ofYHWH. 20 “You shall not require interest for your brother: interest of money, interest of food, interest of anything that one might charge. 21 For a foreigner you may require it, but for your brother you shall not require it, so that YHWH, your God, will bless you in everything your hand has taken on, on the land to which you’re  coming to take possession of it. 22 “When you’ll make a vow to YHWH, your God, you shall not delay to fulfill it, because YHWH, your God, will require it from you, and it will be a sin in you. 23 But if you desist from vowing, that will not be a sin in you. 24 You shall watch
what comes out of your lips and do
as you vowed to YHWH, your God, the contribution that you spoke with your mouth. 25 “When you’ll come into your neighbor’s vineyard, then you may eat
grapes
as you wish, your fill; but you shall not put any into your container.26 When you’ll come into your neighbor’s standing grain, then you may pluck ears with your hand; but you shall not lift a sickle at your neighbor’s grain.

 

 Dead Sea Scrolls

 18 You shall not bring the] wages of a prostitute [or the wages of a male prostitute into the house of the LORD yo]ur [God to pay any vow; for] both of these [are an abomination to the LORD your God]. [19 You shall not charge interest to your countryman-whether interest on money, interest on food, or interest on anything that] may accrue interest. [20 You may charge interest to a foreigner, but you shall not charge interest to your countryman], so that the LORD [your God] may bless you [in all that you put your hand to in the land which you are entering] to possess. [21 When you make a vow to the LORD your God, you shall not] be slow in
paying it, for [the LORD your God will] surely [hold you responsible] and there would be [sin in you]. 22 But if you refrain [from] vowing there shall be no s[in] in you. [23 You shall be ca]reful to perform what goes forth from your lips, just as you have vowed [to the LORD your God as a freewill offeri]ng what [you] have promised with your own mouth. 24 When you go into your neighbor’s vineyard, [you may eat] your [f]ill [of grapes for yourself], but you shall not pu[t] any in your basket. 25 When you go
into your neighbor’s [standing grain], then [you may] pl[uck the ears with your hands, but you shall] n[ot] put [a sickle] to your neighbor’s standing grain.

 Samaritan Deuteronomy18 There shall be no whore of the daughters of Israel, nor a sodomite of the sons of Israel.

19  Thou shalt not bring the hire of a whore, or the price of a dog, into the house of the LORD thy God for any vow: for even both these [are] abomination unto the LORD thy God.

20  Thou shalt not lend upon usury to thy brother; usury of money, usury of victuals, usury of any thing that is lent upon usury:

21 Unto a stranger thou mayest lend upon usury; but unto thy brother thou shalt not lend upon usury: that the LORD thy God may bless thee in all that thou settest thine hands to in the land whither thou goest to possess it.

22 When thou shalt vow a vow unto the LORD thy God, thou shalt not slack to pay it: for the LORD thy God will surely require it of thee; and it would be sin in thee.

23 But if thou shalt forbear to vow, it shall be no sin in thee.

24 That which is gone out of thy lips thou shalt keep and perform; [even] a freewill offering, according as thou hast vowed unto the LORD thy God, which thou hast promised with thy mouth.

25 When thou comest into thy neighbour’s vineyard, then thou mayest eat grapes thy fill at thine own pleasure; but thou shalt not put [any] in thy vessel.

26 When thou comest into the standing corn of thy neighbour, then thou mayest pluck the ears with thine hand; but thou shalt not move a sickle unto thy neighbour’s standing corn.

Prophet said:

Bukhari, Volume 7, Book 63, Number 258:

Narrated Abu Mas’ud:

The Prophet prohibited taking the price of a dog, the earnings of a soothsayer and the money earned by prostitution

 

Allah said surah Al-Baqarah 275-276

 

So whosoever receives an admonition from his Lord and stops eating Riba (usury) shall not be punished for the past; his case is for Allah (to judge); but whoever returns [to Riba (usury)], such are the dwellers of the Fire – they will abide therein. Allah will destroy Riba (usury) and will give increase for Sadaqat (deeds of charity, alms, etc.) And Allah likes not the disbelievers, sinners.

 

Allah said in surah Al-Maidah 62-63

And you see many of them (Jews) hurrying for sin and transgression, and eating illegal things [as bribes and Riba (usury), etc.]. Evil indeed is that which they have been doing. Why do not the rabbis and the religious learned men forbid them from uttering sinful words and from eating illegal things. Evil indeed is that which they have been performing.

 

 

 


[1] In Pentateuch the region is attributed to the people who used to rape the Jews! John Hyrcanus destroyed this temple on Mt.Gerizim in second century B.C.E.

 

[2] Samaritans claim that they are from the descendants of Manasseh and Ephraim.  According to Book of Chronicles (2 Chr 34:9), Temple repairs at the time of Josiah were financed by moneys from all “the remnant of Israel” in Samaria, including from Manasseh, Ephraim and Benjamin. This indicates that before Second Temple Period they also used to worship at the Temple in Jerusalem. The schism that occurred in Nehemiah era has brought them out of Jerusalem and Samaritan Jews developed the holiness of Mount Gerizim

[3] John 4:20- 26

[4] Mount Gezirim

 

Masoretic Deuteronomy    1 When a man will take a woman and marry bet; and it will be that, if  she does not find favor in his eyes because he has found an exposure of something in her, and he will write a document of cutting-off for her and put it in her hand and let her go from his house, 2 and she will go out from his house and go
and become another man’s,  3 and the latter man will hate her and write a document of cutting-off for her and put it in her hand and let her go from his house,
or if the latter man who took her to him for a wife will die: 4 her first husband who let her go shall not be able to come back to take her to be his for a wife since she has been made impure, because that is an offensive thing in front of YHWH, and you shall not bring sin on the land that YHWH, your God, is giving you as a legacy.  
Dead Sea Scrolls  [1 If a man takes a wife and marries her, but she fin]ds [no] favor in his eyes because he has found something objectionable about her, [then he shall write her a bill of divorce and put it in her hand and] send her from his house. 2 She may then go and be [another] man’s [wife. 3 And if the latter husband who took her] to be his wife [dislikes her] and writes her a bill of divorce and puts it in her hand
and sends her from his house, [or if the latter husband] who took her to be his wife [dies], 4 her former husband, [who had sent her away], cannot take her again to be his wife after she has been defiled. For [tha]t is [an abomination] before the LORD; you shall not bring sin upon the land which the LORD your God is giving you [as an inheritance].
 
Samaritan Deuteronomy 1 When a man hath taken a wife, and known her, and married her, and it come to pass that she find no favour in his eyes, because he hath found some uncleanness in her: then let him write her a bill of divorcement, and give [it] in her hand, and send her out of his house.2 And when she is departed out of his house, she may go and be another man’s [wife].3 And [if] the latter husband hate her, and write her a bill of divorcement, and giveth [it] in her hand, and sendeth her out of his house; or if the latter husband die, which took her [to be] his wife;4 Her former husband, which sent her away, may not take her again to be his wife, after that she is defiled; for that [is] abomination before the LORD: and thou shalt not cause the land to sin, which the LORD thy God giveth thee [for] an inheritance.

 

Surah Al-Maidah 5

(Lawful to you in marriage) are chaste women from the believers and chaste women from those who were given the Scripture (Jews and Christians) before your time, when you have given their due Mahr (bridal money given by the husband to his wife at the time of marriage), desiring chastity (i.e. taking them in legal wedlock) not committing illegal sexual intercourse, nor taking them as girl-friends. And whosoever disbelieves in the Oneness of Allah and in all the other Articles of Faith [i.e. His (Allah’s), Angels, His Holy Books, His Messengers, the Day of Resurrection and Al-Qadar (Divine Preordainments)], then fruitless is his work, and in the Hereafter he will be among the losers.

 

Masoretic Deuteronomy 5 When a man will take a new wife, he shall not go out in the army and not go along with it for any matter. He shall be free at his house for one year and shall make his wife whom he has taken happy. 6 One shall not take a mill or an upper millstone as security, because he is taking one’s life as security. 7 When a man will be found stealing a person from among his brothers, from the children of Israel, so he will get profit through him and sell him, then that thief shall die. So you shall burn away what is bad from among you. 8 Be watchful with the plague of leprosy, to be very watchful and to do according to everything that the Levite priests will instruct you. You shall be watchful to do according to what I commanded them. 9 Remember what YHWH, your God, did to Miriam on the way when you were coming out from Egypt. 10 When you’ll make a loan of anything to your neighbor, you shall not come into his house to get his pledge. 11 You shall stand outside, and the man to
whom you’re lending shall bring the pledge outside to you. 12
And if he is a poor man, you shall not lie down with his pledge. 13 you shall give back the pledge to him as the sun sets, and he’ll lie down with his clothing, and he’ll bless you,  and you’ll have virtue in front of YHWH, your God.  
Dead Sea Scrolls  5 When a man takes a new wife, he shall not go out with the army, nor shall he be charged an[y duty]; for one year he shall be free at home and be happy with the wife he has marr[ied]. 6 N[o one shall tak]e [a mi]ll or an upper millstone [as a pledge]; for he would be taking a man’s life in pledge. 7 If a man is found kidn[apping any of his countrymen from the] Israel [ites,
and mi]streats him or sells him, then [that] thi[ef] shall die. [So you shall purge the evil from your midst]. 8 Guard [against an outbreak of] leprosy by taking care to observe and a[ct according to all that the Levitical priests teach you; just as] I [commanded] th[ em, so you shall take care to do. 9 Remember what the LORD your God did to Miriam along the road as you came out of Egypt].
[10 When you make your neighbor a] lo[an of any kind, you shall not go into his house to take his pledge. 11 You shall stand outside, and the man to whom you are lending] shall bring [the pledge] out t[ O you. 12 And if he is a poor man, you shall not go to sleep with his pledge in your possession; 13 you shall certainly restore to him] the pledge when the sun goes down, [so that he may sleep in his garment and bless you .. And it will be regarded as a righteous act by you before the LORD your God].  
Samaritan Deuteronomy 5 When a man hath taken a new wife, he shall not go out to war, neither shall he be charged with any business: [but] he shall be free at home one year, and shall cheer up his wife which he hath taken.6 No man shall take the nether or the upper millstone to pledge: for he taketh [a man’s] life to pledge.7 If a man be found stealing any of his brethren of the children of Israel, and maketh merchandise of him, or selleth him; then that thief shall die; and thou shalt put evil away from among you.8 Take heed in the plague of leprosy, that thou observe diligently, and do according to all the law that the priests the Levites shall teach you: as I commanded them, [so] ye shall observe to do.9  Remember what the LORD thy God did unto Miriam by the way, after that ye were come forth out of Egypt.10 When thou dost lend thy brother any thing, thou shalt not go into his house to fetch his pledge.11 Thou shalt stand abroad, and the man to whom thou dost lend shall bring out the pledge abroad unto thee.12 And if the man [be] poor, thou shalt not sleep with his pledge:13 In any case thou shalt deliver him the pledge again when the sun goeth down, that he may sleep in his own raiment, and bless thee: and it shall be righteousness unto thee before the LORD thy God.

 

Masoretic Deuteronomy 14 You shall not exploit a poor or an indigent employee, from your brothers or from your aliens who are in your land, in your gates. 15 you shall give his pay  in his day, and the sun shall not set on it-because he is poor, and he maintains  his life by it-so he won’t call against you to YHWH, and it will be a sin in you. 16 Fathers shall not be put to death for sons, and sons shall not be put to death for fathers. They shall each be put to death through his own sin. 17 you shall not bend judgment of an alien or an orphan, and you shall not
take a widow’s clothing as security.
18 And you shall remember that you were a slave in Egypt, and YHWH, your God, redeemed you from there. On account of this I command you to do this thing. 19 When you’ll reap your harvest in your field, and you’ll forget a sheaf in the field, you shall not go back to take it. It
shall be the alien’s and the orphan’s and the widows, so that YHWH, your God, will bless you in all your handswork. 20 When you’ll beat your olive trees, you shall not do a bough afterward. It shall be the aliens and the orphan’s and the widows. 21 When youll cut off grapes of your vineyard, you shall not glean afterward. It shall be the alien’s and the orphan’s and the widow‘s. 22 And you shall
remember that you were
a slave in the land of Egypt. On account of this I command you to do this thing.
Dead Sea Scrolls  14 You shall not take advantage of a hired servant who is poor and needy, [whether he is one] of [your] country[men, or of your foreigners who reside in your land in your towns. 15 You shall pay him his wages each day, before] the sun [goes down] on it, for he is poor and [sets his heart o]n [it. Otherwise he may cry to the LORD against you, and it would become s]in [in you].  16 Parent[s] shall not be put to death [for their children, nor shall children be put to death for their par]ents; each [shall be put to death] for [his own] sin. [17 You shall not pervert the justice that is due to resident aliens or to orphans, nor shall you take a] widow’s [clothi]ng [as a pledge]. 18 Remember that [you] w[ere] a slave [in Egypt, and the LORD your God redeemed you from there; therefo]re I command you to do this thing. [19 When you reap your harvest in your field, and have forgotten] a sheaf in the field, you shall not go again to retrieve it. It shall be left for the foreigner, the orphan [and the widow, so that the LORD] your God [may bless you] in all the work of your hands. 20 When you beat [your] ojlive tree, you shall not go over the boughs again]; this shall be [for the foreigner, the orph]an and the widow. 21 When you gather the grapes of your vineyard, [you shall] not [glean what is left over]. This is [for the foreigner, the orphan and the widow]. 22 And you shall remember that you were a slave in the land of Eg[ypt; therefore I command you to do this thing].
Samaritan Deuteronomy 14 Thou shalt not oppress an hired servant [that is] poor and needy, [whether he be] of thy brethren, or of thy strangers that [are] in thy land within thy gates:15 At his day thou shalt give [him] his hire, neither shall the sun go down upon it; for he [is] poor, and setteth his heart upon it: lest he cry against thee unto the LORD, and it be sin unto thee.16 The fathers shall not be put to death for the children, neither shall the children be put to death for the fathers: every man shall be put to death for his own sin.17 Thou shalt not pervert the judgment of the stranger, [nor] of the fatherless; nor take a widow’s raiment to pledge:18  But thou shalt remember that thou wast a bondman in Egypt, and the LORD thy God redeemed thee thence: therefore I command thee to do this thing.19  When thou cuttest down thine harvest in thy field, and hast forgot a sheaf in the field, thou shalt not go again to fetch it: it shall be for the stranger, for the fatherless, and for the widow: that the LORD thy God may bless thee in all the work of thine hands.20 When thou beatest thine olive tree, thou shalt not go over the boughs again: it shall be for the stranger, for the fatherless, and for the widow.21  When thou gatherest the grapes of thy vineyard, thou shalt not glean [it] afterward: it shall be for the stranger, for the fatherless, and for the widow.22 And thou shalt remember that thou wast a bondman in the land of Egypt: therefore I command thee to do this thing.

As we have analysed, the wisdom and knowledge contained in these verse of Torah are also supported by the Prophet of Islam. The Quran and Sayings of Prophet in fact revealed that Prophet had followed Torah[1] even though it was only available to selected few at that time. The Jews kept it in a scroll and recited it in Hebrew. Quran not only endorsed the Torah but in its essence it add on to the Divine Wisdom.  Muslim thus have more elaborated book then Torah and  need to go back and consult Torah was not needed.

It is explained that the Deuteronomic Law code in chapter 12 to 24 is very similar to teachings of Islam and practice of Prophet Muhammad peace be upon him. Laws of Moses discussed in Quranic verses also occur in these chapters. Even before Prophet Muhammad peace be upon him, the biblical Prophets and God fearing Jews followed these verses.

Quran says that

Say (O Muhammad ) “O people of the Scripture (Jews and Christians)! You have nothing  till you act according to the Taurat (Torah), the Injeel (Gospel), and what has (now) been sent down to you from your Lord (the Qur’an).” Verily, that which has been sent down to you (Muhammad ) from your Lord increases in many of them their obstinate rebellion and disbelief. So be not sorrowful over the people who disbelieve.

It is explained that the original Torah was not comprised of five books but was only one single book. People added text before and after the Torah’s original chapters. Not only that they added their own verses, which made Torah distinctly racial at some places.

[1] Like ruling on Adultery and Treason

 

Shiyateen – Extents & Limits

moinoon-97

Extents and Limits of Shiyateen

بسم الله الرحمن الرحيم

Pagans of Arabia used to worship Jinns[1] along with many deities. They had the belief that Jinns are the wives of Almighty and angels are His daughters.  Allah said is Quran  in surah As-Saffat:

وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ (158) سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ 159

And they have invented a kinship between Him and the jinns, but the jinns know well that they have indeed to appear (before Him) (i.e. they will be brought for accounts). Glorified is Allah! (He is Free) from what they attribute unto Him!

They were so afraid of these unseen creatures that they seek the protection from Jinns whenever they pass through a deserted valley.  The degradation of humans had made Jinns arrogant. In surah Al-Jinn it is informed that Jinn themselves were disturbed by this human act.

وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا (6)

And verily, there were men among mankind who took shelter with the masculine among the jinns, but they (jinns) increased them (mankind) in sin and disbelief.

 

Satans were inspiring the pagans against Prophet peace be upon him

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112

And so We have appointed for every Prophet enemies – Shayatin (devils) among mankind and jinns, inspiring one another with adorned speech as a delusion (or by way of deception). If your Lord had so willed, they would not have done it, so leave them alone with their fabrications.

Quran informs us that at the time of creation of Adam, Allah instructed Angels of Most High to prostrate to Adam. The purpose was to pass on the message of superiority of Bani Adam on His creations. Allah informed us (surah Saad 72- 85):

 (Remember) when your Lord said to the angels: “Truly, I am going to create man from clay”.  So when I have fashioned him and breathed into him (his) soul created by Me, then you fall down prostrate to him.”  So the angels prostrated themselves, all of them. Except Iblis (Satan) he was proud and was one of the disbelievers.  (Allah) said: “O Iblis (Satan)! What prevents you from prostrating yourself to one whom I have created with Both My Hands. Are you too proud (to fall prostrate to Adam) or are you one of the high exalted?” [Iblis (Satan)] said: “I am better than he, You created me from fire, and You created him from clay.” (Allah) said: “Then get out from here, for verily, you are outcast.   “And verily!, My Curse is on you till the Day of Recompense.”  [Iblis (Satan)] said: “My Lord! Give me then respite till the Day the (dead) are resurrected.”  (Allah) said: “Verily! You are of those allowed respite. “Till the Day of the time appointed.”  [Iblis (Satan)] said: “By Your Might, then I will surely mislead them all,  “Except Your chosen slaves amongst them (faithful, obedient, true believers of Islamic Monotheism).”  (Allah) said: “The Truth is, and the Truth I say, That I will fill Hell with you [Iblis (Satan)] and those of them (mankind) that follow you, together.”

Allah said (surah Al-isra 64-65)

And befool them gradually those whom you can among them with your voice and make assaults on them with your cavalry and your infantry, mutually share with them wealth and children and make promises to them.” But Satan promises them nothing but deceit. “Verily! My slaves, you have no authority over them. And All-Sufficient is your Lord as a Guardian

Allah informed us that Satan got the respite from Him until the Day of Judgement.  On that day Allah would address both humans and jinns ( surah Al-Anam 128)

And on the Day when He will gather them (all) together (and say): “O you assembly of jinns! Many did you mislead of men,” and their Auliya’ (friends and helpers, etc.) amongst men will say: “Our Lord! We benefited one from the other, but now we have reached our appointed term which You did appoint for us.” He will say: “The Fire be your dwelling-place, you will dwell therein forever, except as Allah may will. Certainly your Lord is All-Wise, All-Knowing.”

Allah informed us that we cannot see Jinns (Al-Araf 27)

إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ

Verily, he and Qabiluhu (his soldiers from the jinns or his tribe) see you from where you cannot see them

[1] Jinns are the beings created by Allah before the creation of humans. Like humans there are believers and non-believers among them.  According to Quran we cannot see Jinns. (literally means hidden). They were created by Allah with fire before the creation of Human race (Quran). They eat bones and dried dong (Sahih Bukhari).

 

Now we discuss the extents of satanic influences on humans.

Mind distraction from remembrance of Allah    

In surah Al-Mujadilah Allah informed us

Shaitan (Satan) has overtaken them. So he has made them forget the remembrance of Allah. They are the party of Shaitan (Satan). Verily, it is the party of Shaitan (Satan) that will be the losers!

In surah Al-Anam -68 Allah said

And when you (Muhammad ) see those who engage in a false conversation about Our Verses (of the Qur’an) by mocking at them, stay away from them till they turn to another topic. And if Shaitan (Satan) causes you to forget, then after the remembrance sit not you in the company of those people who are the Zalimun (polytheists and wrong-doers, etc.).

In surah Kahf  63 we were informed:

He said:”Do you remember when we betook ourselves to the rock? I indeed forgot the fish, none but Shaitan (Satan) made me forget to remember it. It took its course into the sea in a strange (way)!”

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 498)

Narrated Ubai bin Kab:

That he heard Allah’s Apostle saying, “(The prophet) Moses said to his attendant, “Bring us our early meal’ (18.62). The latter said, ‘Did you remember when we betook ourselves to the rock? I indeed forgot the fish and none but Satan made me forget to remember it.” (18.63) Moses did not feel tired till he had crossed the place which Allah ordered him to go to.”

It is reported in Bukhari (Volume 2, Book 22, Number 324)

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle said, “When anyone of you stands for the prayers, Satan comes and puts him in doubts till he forgets how many Rakat he has prayed. So if this happens to anyone of you, he should perform two prostrations of Sahu while sitting.

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 509)

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, “Yawning is from Satan and if anyone of you yawns, he should check his yawning as much as possible, for if anyone of you (during the act of yawning) should say: ‘Ha’, Satan will laugh at him.”

 Enticement and Provocation

 In surah Maryam 82 it is said:

See you not that We have sent the Shayatin (devils) against the disbelievers to push them to do evil.

In Surah al-Isra 53 Allah said

And say to My slaves (i.e. the true believers of Islamic Monotheism) that they should (only) say those words that are the best. (Because) Shaitan (Satan) verily, sows disagreements among them. Surely, Shaitan (Satan) is to man a plain enemy.

In Surah Qasas 15 Allah said

And he entered the city at a time of unawareness of its people, and he found there two men fighting, – one of his party (his religion – from the Children of Israel), and the other of his foes. The man of his (own) party asked him for help against his foe, so Musa (Moses) struck him with his fist and killed him. He said: “This is of Shaitan’s (Satan) doing, verily, he is a plain misleading enemy.”

It is reported in Bukhari (Volume 7, Book 62, Number 76)

Narrated Ibn ‘Umar:

Two men came from the east and delivered speeches, and the Prophet said, “Some eloquent speech has the in fluency of magic

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 502)

Narrated Sulaiman bin Surd:

While I was sitting in the company of the Prophet, two men abused each other and the face of one of them became red with anger, and his jugular veins swelled (i.e. he became furious). On that the Prophet said, “I know a word, the saying of which will cause him to relax, if he does say it. If he says: ‘I seek Refuge with Allah from Satan.’ then all is anger will go away.” Some body said to him, “The Prophet has said, ‘Seek refuge with Allah from Satan.”‘ The angry man said, “Am I mad?”

It is reported in Bukhari (Volume 8, Book 81, Number 768)

Narrated Abu Salama:

Abu Huraira said, “A man who drank wine was brought to the Prophet. The Prophet said, ‘Beat him!” Abu Huraira added, “So some of us beat him with our hands, and some with their shoes, and some with their garments (by twisting it) like a lash, and then when we finished, someone said to him, ‘May Allah disgrace you!’ On that the Prophet said, ‘Do not say so, for you are helping Satan to overpower him.’

It is reported in Bukhari (Volume 9, Book 88, Number 193)

Narrated Abu Huraira:  The Prophet said, “None of you should point out towards his Muslim brother with a weapon, for he does not know, Satan may tempt him to hit him and thus he would fall into a pit of fire (Hell)”

Devil’s intrusion in the desire of Prophet

In surah Haj 52-53

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آَيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (53)

Never sent We a messenger or a prophet before thee but when He recited (the message) Satan proposed (opposition) in respect of that which he recited thereof. But Allah abolished that which Satan proposed. Then Allah established His revelations. Allah is Knower, Wise; That He may make that which the devil proposed a temptation for those in whose hearts is a disease, and those whose hearts are hardened – Lo! the evil-doers are in open schism

Some people quote the weak narration that Prophet had included the praise of goddesses of pagans[1]. The verses only say that Prophet had recited the message of Allah but Satan tried to twist the message and Allah abolished what Satan proposed.

Satan induces confusions in mind

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 496:

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle said, “Satan comes to one of you and says, ‘Who created so-and-so? ’till he says, ‘Who has created your Lord?’ So, when he inspires such a question, one should seek refuge with Allah and give up such thoughts.”

It is reported in Bukhari (Volume 3, Book 33, Number 251:

Narrated Ali bin Al-Husain: Safiya, the wife of the Prophet told me that she went to Allah’s Apostle to visit him in the mosque while he was in Itikaf in the last ten days of Ramadan. She had a talk with him for a while, then she got up in order to return home. The Prophet accompanied her. When they reached the gate of the mosque, opposite the door of Um-Salama, two Ansari men were passing by and they greeted Allah’s Apostle . He told them: Do not run away! And said, “She is (my wife) Safiya bint Huyai.” Both of them said, “Subhan Allah, (How dare we think of any evil) O Allah’s Apostle!” And they felt it. The Prophet said (to them), “Satan reaches everywhere in the human body as blood reaches in it, (everywhere in one’s body). I was afraid lest Satan might insert an evil thought in your minds

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 510:

Narrated ‘Aisha: On the day (of the battle) of Uhud when the pagans were defeated, Satan shouted, “O slaves of Allah! Beware of the forces at your back,” and on that the Muslims of the front files fought with the Muslims of the back files (thinking they were pagans). Hudhaifa looked back to see his father “Al-Yaman,” (being attacked by the Muslims). He shouted, “O Allah’s Slaves! My father! My father!” By Allah, they did not stop till they killed him. Hudhaifa said, “May Allah forgive you.” ‘Urwa said that Hudhaifa continued to do good (invoking Allah to forgive the killer of his father till he met Allah (i.e. died).

Satan induces fear via dreams

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 513:

Narrated Abu Qatada:  The Prophet said, “A good dream is from Allah, and a bad or evil dream is from Satan; so if anyone of you has a bad dream of which he gets afraid, he should spit on his left side and should seek Refuge with Allah from its evil, for then it will not harm him.”

Satan sometimes utters the truth

Allah informed us in Quran (8:48)

And (remember) when Shaitan (Satan) made their (evil) deeds seem fair to them and said, “No one of mankind can overcome you this Day (of the battle of Badr) and verily, I am your neighbour (for each and every help).” But when the two forces came in sight of each other, he ran away and said “Verily, I have nothing to do with you. Verily! I see what you see not. Verily! I fear Allah for Allah is Severe in punishment.”

It is reported in Bukhari (Volume 3, Book 38, Number 505t:

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle deputed me to keep Sadaqat (al-Fitr) of Ramadan. A comer came and started taking handfuls of the foodstuff (of the Sadaqa) (stealthily). I took hold of him and said, “By Allah, I will take you to Allah’s Apostle .” He said, “I am needy and have many dependents, and I am in great need.” I released him, and in the morning Allah’s Apostle asked me, “What did your prisoner do yesterday?” I said, “O Allah’s Apostle! The person complained of being needy and of having many dependents, so, I pitied him and let him go.” Allah’s Apostle said, “Indeed, he told you a lie and he will be coming again.” I believed that he would show up again as Allah’s Apostle had told me that he would return. So, I waited for him watchfully. When he (showed up and) started stealing handfuls of foodstuff, I caught hold of him again and said, “I will definitely take you to Allah’s Apostle. He said, “Leave me, for I am very needy and have many dependents. I promise I will not come back again.” I pitied him and let him go.  In the morning Allah’s Apostle asked me, “What did your prisoner do.” I replied, “O Allah’s Apostle! He complained of his great need and of too many dependents, so I took pity on him and set him free.” Allah’s Apostle said, “Verily, he told you a lie and he will return.” I waited for him attentively for the third time, and when he (came and) started stealing handfuls of the foodstuff, I caught hold of him and said, “I will surely take you to Allah’s Apostle as it is the third time you promise not to return, yet you break your promise and come.” He said, “(Forgive me and) I will teach you some words with which Allah will benefit you.” I asked, “What are they?” He replied, “Whenever you go to bed, recite “Ayat-al-Kursi”– ‘Allahu la ilaha illa huwa-l-Haiy-ul Qaiyum’ till you finish the whole verse. (If you do so), Allah will appoint a guard for you who will stay with you and no satan will come near you till morning. ” So, I released him. In the morning, Allah’s Apostle asked, “What did your prisoner do yesterday?” I replied, “He claimed that he would teach me some words by which Allah will benefit me, so I let him go.” Allah’s Apostle asked, “What are they?” I replied, “He said to me, ‘Whenever you go to bed, recite Ayat-al-Kursi from the beginning to the end —- Allahu la ilaha illa huwa- Al Haiy-ul-Qaiyum—-.’ He further said to me, ‘(If you do so), Allah will appoint a guard for you who will stay with you, and no satan will come near you till morning.’ (Abu Huraira or another sub-narrator) added that they (the companions) were very keen to do good deeds. The Prophet said, “He really spoke the truth, although he is an absolute liar. Do you know whom you were talking to, these three nights, O Abu Huraira?” Abu Huraira said, “No.” He said, “It was Satan.”

 This was a special incident and in his later life Abu Hurrairah (d. 59 AH) may Allah pleased with him had never encountered Satan in physical form. Also no other companion of Prophet had seen Satan in physical form.  Abu Hurrairah may Allah pleased with him accepted Islam when Prophet peace be upon him migrated to Medinah and he stayed in the company of Prophet for three years.

 Soothsaying

Also Allah informed us that jinn are the complete different creation which can move from Earth to skies. Allah informed us surah Jinn 8-9:

And we have sought to reach the heaven; but found it filled with stern guards and flaming fires.  ‘And verily, we used to sit there in stations, to (steal) a hearing, but any who listens now will find a flaming fire watching him in ambush.

It is reported in Bukhari (Volume 2, Book 21, Number 225) in early years of Prophethood  pagans thought that Prophet is also a Soothsayer (Nazobillah)

Narrated Jundab bin ‘Abdullah :  Gabriel did not come to the Prophet (for some time) and so one of the Quraish women said, “His Satan has deserted him.” So came the Divine Revelation: “By the forenoon And by the night When it is still! Your Lord (O Muhammad) has neither Forsaken you Nor hated you.” (93.1-3)

Jinns are in close connection with soothsayers. In surah Yaseen (221-222) Allah said:

Shall I inform you (O people!) upon whom the Shayatin (devils) descend?  They descend on every lying (one who tells lies), sinful person.

 It is reported in Bukhari (In Bukhari Volume 3, Book 34, Number 439:

Narrated Abu Mas’ud Al-Ansari:  Allah’s Apostle forbade taking the price of a dog, money earned by prostitution and the earnings of a soothsayer

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 432:

Narrated ‘Aisha:  I heard Allah’s Apostle saying, “The angels descend, the clouds and mention this or that matter decreed in the Heaven. The devils listen stealthily to such a matter, come down to inspire the soothsayers with it, and the latter would add to it one-hundred lies of their own.

It is reported in Bukhari (Volume 9, Book 93, Number 650:

Narrated ‘Aisha:  Some people asked the Prophet regarding the soothsayers. He said, “They are nothing.” They said, “O Allah’s Apostle! Some of their talks come true.” The Prophet said, “That word which happens to be true is what a Jinn snatches away by stealth (from the Heaven) and pours it in the ears of his friend (the foreteller) with a sound like the cackling of a hen. The soothsayers then mix with that word, one hundred lies.”

Thus it is informed in both Quran and Hadith that soothsayers have close connections with Shayateen or devils.

Magic

Magic is a phenomenon in which Magician symbolically passes on the message to devils to affect the people minds and cause hallucinations or illusions momentarily.

Magicians against Moses

It is reported in Quran (surah Taha 65-70):

قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى (65) قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى (66)فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى (67) قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى (68) وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى (69) فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آَمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى70

They said:”O Musa (Moses)! Either you throw first or we be the first to throw?”  [Musa (Moses)] said: “Nay, throw you (first)!” Then behold, their ropes and their sticks, by their magic, appeared to him as though they moved fast.  So Musa (Moses) conceived a fear in himself. We (Allah) said: “Fear not! Surely, you will have the upper hand. “And throw that which is in your right hand! It will swallow up that which they have made. That which they have made is only a magician’s trick, and the magician will never be successful, no matter whatever amount (of skill) he may attain.”  So the magicians fell down prostrate. They said: “We believe in the Lord of Harun (Aaron) and Musa (Moses).”

قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ (115)قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ (116) وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (117) فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (118)

Al-Araf 115-118

They said: “O Musa (Moses)! Either you throw (first), or shall we have the (first) throw?”  He [Musa (Moses)] said: “Throw you (first).” So when they threw, they bewitched the eyes of the people, and struck terror into them, and they displayed a great magic.  And We inspired Musa (Moses) (saying): “Throw your stick,” and behold! It swallowed up straight away all the falsehoods which they showed.  Thus truth was confirmed, and all that they did was made of no effect.

 

It is therefore revealed that the magic caused the illusion on the mind and inculcates fear in hearts but Allah destroyed the magic and made his Prophet successful.  When magicians saw the destruction of their great magic they become shameful and prostrated to Allah Almighty.

 

Harut and Marut

In 586 BC the Babylonian king Nebuchadnezzar destroyed the Solomon’s mosque in Jerusalem and enslaved the Jews. While Jews were in Babylon they were indulged in the esoteric sciences and learned magic to separate husband and his wife. To put them in trial, Allah sent two angels Harut and Marut in Babylon to entice Bani Israel in sorcery[2].  In Surah Al-Baqarah 102-103 it is informed that:

 

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآَخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (102) وَلَوْ أَنَّهُمْ آَمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

They followed what the Shayatin  read out  about the Kingdom  of  Solomon. Solomon did not disbelieve, but the Shayatin disbelieved, teaching men magic and such things that came down at Babylon to the two angels, Harut and Marut, but neither of these two (angels) taught anyone (such things) till they had said, “We are only for trial, so disbelieve not (by learning this magic from us).” And from these (angels) people learn that by which they cause separation between man and his wife, but they could not thus harm anyone except by Allah’s Leave. And they learn that which harms them and profits them not. And indeed they knew that the buyers of it (magic) would have no share in the Hereafter. And how bad indeed was that for which they sold their ownselves, if they but knew.

 Allah has informed us that he has given Prophet Sulaiman (Solomon) a kingdom which has not given to any one after him. Allah told us in Quran surah Saad

 قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (35) فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ (36) وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ (37) وَآَخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (38) هَذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (39) وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَآَبٍ 40

He said: “My Lord! Forgive me, and bestow upon me a kingdom such as shall not belong to any other after me: Verily, You are the Bestower.”  So, We subjected to him the wind, it blew gently to his order whithersoever he willed, And also the Shayatin (devils) from the jinns (including) every kind of builder and diver,  And also others bound in fetters. [Saying of Allah to Sulaiman (Solomon)]: “This is Our gift, so spend you or withhold, no account will be asked.”  And verily, he enjoyed a near access to Us, and a good final return (Paradise).

After this prayer Allah bestowed on Solomon a kingdom in which Wind and brass were following on the orders of Prophet Solomon peace be upon him. Also he has been gifted with the powers to control demons to fulfil his needs.  In surah Saba 12-14 allah informed us:

 وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ (12) يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آَلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ (13) فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ 14 

And to Solomon (We subjected) the wind, its morning (stride from sunrise till midnoon) was a month’s (journey), and its afternoon (stride from the midday decline of the sun to sunset) was a month’s (journey i.e. in one day he could travel two months’ journey). And We caused a fount of (molten) brass to flow for him, and there were jinns that worked in front of him, by the Leave of his Lord, and whosoever of them turned aside from Our Command, We shall cause him to taste of the torment of the blazing Fire.  They worked for him what he desired, (making) high rooms, images, basins as large as reservoirs, and (cooking) cauldrons fixed (in their places). “Work you, O family of Dawud (David), with thanks!” But few of My slaves are grateful. Then when We decreed death for him [Sulaiman (Solomon)], nothing informed them (jinns) of his death except a little worm of the earth, which kept (slowly) gnawing away at his stick, so when he fell down, the jinns saw clearly that if they had known the unseen, they would not have stayed in the humiliating torment.

Also one time Solomon asked his courtiers Who would bring the throne of Queen of Saba from Yemen to Jerusalem? And according to  surah AnNamal 38-39 a Jinn offered his services:

 قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (38) قَالَ عِفْريتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آَتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ 39

He said: “O chiefs! Which of you can bring me her throne before they come to me surrendering themselves in obedience?”  An Ifrit (strong) from the jinns said: “I will bring it to you before you rise from your place (council). And verily, I am indeed strong, and trustworthy for such work.”

After Solomon’s death the sorcerers and magicians in Bani Israel claimed that the magnificent kingdom of Solomon was due to magic and sorcery.  (Naodubillah)

Lubaid bin Al-A’sam’s Magic

In the following narrations it is informed that Prophet was affected by the magic done by a Jew ‘Lubaid bin Asam.  The affect was temporary  that he began to fancy that he was doing a thing which he was not actually doing or he thought some times that he had already gone to his wives but he wasn’t.

 It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 490:

Narrated ‘Aisha:  Magic was worked on the Prophet so that he began to fancy that he was doing a thing which he was not actually doing. One day he invoked (Allah) for a long period and then said, “I feel that Allah has inspired me as how to cure myself. Two persons came to me (in my dream) and sat, one by my head and the other by my feet. One of them asked the other, “What is the ailment of this man?” The other replied, ‘He has been bewitched” The first asked, ‘Who has bewitched him?’ The other replied, ‘Lubaid bin Al-A’sam.’ The first one asked, ‘What material has he used?’ The other replied, ‘A comb, the hair gathered on it, and the outer skin of the pollen of the male date-palm.’ The first asked, ‘Where is that?’ The other replied, ‘It is in the well of Dharwan.’ ” So, the Prophet went out towards the well and then returned and said to me on his return, “Its date-palms (the date-palms near the well) are like the heads of the devils.” I asked, “Did you take out those things with which the magic was worked?” He said, “No, for I have been cured by Allah and I am afraid that this action may spread evil amongst the people.” Later on the well was filled up with earth.

 It is reported in Bukhari (Volume 7, Book 71, Number 658:

Narrated ‘Aisha:  A man called Labid bin al-A’sam from the tribe of Bani Zaraiq worked magic on Allah’s Apostle till Allah’s Apostle started imagining that he had done a thing that he had not really done. One day or one night he was with us, he invoked Allah and invoked for a long period, and then said, “O ‘Aisha! Do you know that Allah has instructed me concerning the matter I have asked him about? Two men came to me and one of them sat near my head and the other near my feet. One of them said to his companion, “What is the disease of this man?” The other replied, “He is under the effect of magic.’ The first one asked, ‘Who has worked the magic on him?’ The other replied, “Labid bin Al-A’sam.’ The first one asked, ‘What material did he use?’ The other replied, ‘A comb and the hairs stuck to it and the skin of pollen of a male date palm.’ The first one asked, ‘Where is that?’ The other replied, ‘(That is) in the well of Dharwan;’ ” So Allah’s Apostle along with some of his companions went there and came back saying, “O ‘Aisha, the color of its water is like the infusion of Henna leaves. The tops of the date-palm trees near it are like the heads of the devils.” I asked. “O Allah’s Apostle? Why did you not show it (to the people)?” He said, “Since Allah cured me, I disliked to let evil spread among the people.” Then he ordered that the well be filled up with earth.

 It is reported in Bukhari (Volume 8, Book 73, Number 89:

Narrated ‘Aisha:  The Prophet continued for such-and-such period imagining that he has slept (had sexual relations) with his wives, and in fact he did not. One day he said, to me, “O ‘Aisha! Allah has instructed me regarding a matter about which I had asked Him. There came to me two men, one of them sat near my feet and the other near my head. The one near my feet, asked the one near my head (pointing at me), ‘What is wrong with this man? The latter replied, ‘He is under the effect of magic.’ The first one asked, ‘Who had worked magic on him?’ The other replied, ‘Lubaid bin Asam.’ The first one asked, ‘What material (did he use)?’ The other replied, ‘The skin of the pollen of a male date tree with a comb and the hair stuck to it, kept under a stone in the well of Dharwan.”‘ Then the Prophet went to that well and said, “This is the same well which was shown to me in the dream. The tops of its date-palm trees look like the heads of the devils, and its water looks like the Henna infusion.” Then the Prophet ordered that those things be taken out. I said, “O Allah’s Apostle! Won’t you disclose (the magic object)?” The Prophet said, “Allah has cured me and I hate to circulate the evil among the people.” ‘Aisha added, “(The magician) Lubaid bin Asam was a man from Bani Zuraiq, an ally of the Jews.”

Some people argue that these narrations could not be authentic as we are informed in Quran that our Prophet peace be upon him was not Mas-hura i.e. under influence of magic. However they failed to realise that this was the propaganda by  the pagans who claim that the Prophet has  uttered the verses against the established Arabian religion so he must be under spell  of some kind. To degrade him pagans also called him soothsayer or poet. But this was the strategy adopted by pagans of Arabia to distract the people from Messenger of Allah. Later when Prophet migrated to Medina he was not declared under the spell by his opponents rather they knew that he was sane person and to disturb the prophetic mission they acquired the help of a Jewish sorcerer. Bukhari’s narrations inform that they failed to affect the prophetic mission and only affect they inflicted via magic is that Prophet sometimes forgot to go to his wives. From the life style of the Prophet we know that he used to go to his wives and that affect of magic must be very short otherwise his wives would have indicated that to him. In the narrations it is informed that Prophet had the self realised this matter and Allah informed him about the reality of matter through vision.

 


[1] The story of Gharaneeque is baseless. Many researchers are unanimous on this including Abu Bakr bin al-Arbi Al-Maliki in Ahkam Al-Quran and Qadhi Ayyadh in Al-Shifa and Fakaruddin Al-Radhi in Mafateeh al-Ghayb 6/193 and Al-Qurtabi in his Tafseer 12/80 and Al-Aini in Ummah-tul-Qari 9/47 and Al-Shokani in Fatah Al-Qadeer 3/247 and Al-Allosi in Rooh Al-Maani 17/160

 

[2] Some people object that how could Allah sent angels to teach something which is Sheerk, but they failed to realise that Allah is the Lord He can do what ever He likes. He sent the angels to sodomites in form of young boys to entice them.

Satan’s deception in dream and Prophetic image

It is reported in Bukhari (Volume 8, Book 73, Number 217:

Narrated Abu Huraira:  The Prophet said, “Name yourselves after me (by my name), but do not call yourselves by my Kuniya, and whoever sees me in a dream, he surely sees me, for Satan cannot impersonate me (appear in my figure). And whoever intentionally ascribes something to me falsely, he will surely take his place in the (Hell) Fire

It is reported in Bukhari (Volume 9, Book 87, Number 122:

Narrated Abu Huraira:  I heard the Prophet saying, “Whoever sees me in a dream will see me in his wakefulness, and Satan cannot imitate me in shape.” Abu ‘Abdullah said, “Ibn Sirin said, ‘Only if he sees the Prophet in his (real) shape.'”

These ahadith are only for the lifetime of Prophet, as Prophet said whoever sees me in a dream will see me in his wakefulness. Now Prophet is not among us, this is not possible. It was mainly told for the Muslims, who do not live in Medinah and have converted to Islam (in the Prophet’s life time) by the preaching of some fellow Muslim brothers. So it is informed that if they see Prophet in dream then the dream is from Allah and it would fulfil and the dreamer would visit Prophet soon.

After the demise of Prophet seeing Prophet in dream is not possible and we cannot stop Satan to appear in our dream in whatever appearance and say I am Messenger of Allah who was sent in Makkah!  How do we make sure that the person is in reality is our beloved Prophet peace be upon him? Some people say that dreamer must be very pious person  and if the Person (whom we saw in dream as a Prophet) tells us a thing of virtue than surely he must be a Messenger of Allah. On the contrary Bukhari has reported a narration that even Satan may utter truth some times.

Exorcism and Demonic Possessions?

Ibn Tammiyah[1] said in Majmoo al Fatawah juz 24, pg 276 when an inquirer asked about the demonic possessions:

فَأَجَابَ :الْحَمْدُ لِلَّهِ ، وُجُودُ الْجِنِّ ثَابِتٌ بِكِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ وَاتِّفَاقِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا . وَكَذَلِكَ دُخُولُ الْجِنِّيِّ فِي بَدَنِ الْإِنْسَانِ ثَابِتٌ بِاتِّفَاقِ أَئِمَّةِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ } وَفِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { إنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ } . وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ قُلْت لِأَبِي : إنَّ أَقْوَامًا يَقُولُونَ : إنَّ الْجِنِّيَّ لَا يَدْخُلُ فِي بَدَنِ الْمَصْرُوعِ فَقَالَ : يَا بُنَيَّ يَكْذِبُونَ هَذَا يَتَكَلَّمُ عَلَى لِسَانِهِ ..

Answered:  Praise be to  Allah, the existence of Jinn is proved from Book of Allah and Sunnah of messenger of Allah peace be upon him and the consensus of Salaf of Ummah and  scholars. And likewise entering of  the Jinn in the body of human is proved with the consensus of Ahllul sunnah wal-Jamah, Allah said Those who eat Riba (usury) will not stand except like the standing of a person beaten by Shaitan (Satan) and in Sahih (hadith) from messenger of Allah peace be upon him Satan moves everywhere in the human body as blood moves in it. And Abdullah bin Imam Ahmed bin Hambal said I asked My father that some say that the Jinn cannot enter the body of possessed person He replied O son they lied it (Jinn) speaks in their language …

The verse to which Ibn-Tammiyiah has referred is in Surah Al-Baqarah 275:

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ 

Those who eat Riba (usury) will not stand  except like the standing of a person beaten by Shaitan (Satan) leading him to insanity. That is because they say: “Trading is only like Riba (usury),” whereas Allah has permitted trading and forbidden Riba (usury). So whosoever receives an admonition from his Lord and stops eating Riba (usury) shall not be punished for the past; his case is for Allah (to judge); but whoever returns [to Riba (usury)], such are the dwellers of the Fire – they will abide therein.

The verse was revealed in Medinah, where in the early days Jewish tribes were also settled. They were the stalwart supporters of usury. It is informed that those who eat usury are so obsessed with it that they would rise against the command like as if they are possessed. It is further stated what these people would say in favour of usury as sated in verse Trading is only like Riba which also indicate that the verses are about the sane people who still like to eat usury and do argumentation.

Some people tried to extract from these verses the unlimited demonic power that the Satan can hulool (dissolve) inside human body which is totally an erroneous conclusion. For proof, they present the verses of Quran in which Allah informed us about the trial of Prophet Ayub.

In Surah Saad 41-42 Allah informed about the Prophet Ayub peace be upon him that

وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ (41) ارْكُضْ بِرِجْلِكَ هَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ 42

And remember Our slave Ayub (Job), when he invoked his Lord (saying): “Verily! Shaitan (Satan) has touched me with distress (by losing my health) and torment (by losing my wealth)!  (Allah said to him): “Strike the ground with your foot: This is a spring of water to wash in, cool and a (refreshing) drink.”

Here the touch of devil[2] does not means that Satan can inflict Prophets by only one single touch. The touch here means the affect on the mind momentarily as like anger etc. In state of anger Prophet Ayub took an oath in name of Allah which he later realised, is wrong. Allah Almighty instructed him to complete his oath and a way of fulfilling the oath is told.

In surah Alaaraf 201 Allah informed about the demonic touch as an evil thought sweeping in mind.

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (201)

Verily, those who are Al-Muttaqun (the pious – see V.2:2), when an evil thought comes to them from Shaitan (Satan), they remember (Allah), and (indeed) they then see (aright).

They also present the narration in Nisai juz 8 pg 677 which report that

أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ صَيْفِيٍّ مَوْلَى أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي الْيَسَرِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ التَّرَدِّي وَالْهَدْمِ وَالْغَرَقِ وَالْحَرِيقِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا

Abi Al-Yassr said Messenger of Allah peace be upon him said: O Allah, I seek refuge from degradation and destruction, drowning, fire and seek refuge  that flounder me Devil at the death and seek refuge to die when ran away from your way and seek refuge   to die from snake bite.

 On the words يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت  Suyuti  quoted the Al-Khattabi’s opinion in Sharah Nisai that

حَاشِيَةُ السِّيُوطِيِّ : ( وَأَعُوذ بِك أَنْ يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت ) قَالَ الْخَطَّابِيُّ هُوَ أَنْ يَسْتَوْلِي عَلَيْهِ عِنْد مُفَارَقَة الدُّنْيَا فَيُضِلّهُ وَيَحُول بَيْنه وَبَيْن التَّوْبَة

Khattabi said: That is  (Satan) captures one, when one is leaving the world,  so it misleads one and stands between  him and  the repentance

Scholars who believe in demonic possessions then present the following narrations.

Narration of Uthman bin Abi Aas

It is reported in Ibn Majah, juz 2, pg 1174

حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال  : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك )  قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد

Uthman bin Abi Al-Aas  said that When Messenger of Allah peace be upon him appointed him on Taif , it (Satan)  made displays for me during prayer until I don’t know what I have prayed. When I saw this I travelled to visit Messenger of Allah peace be upon him. He (Prophet)  said (astonishingly) Ibn Abi Al-Aas? I said Yes O Messenger of Allah He asked What happened? I said O Messenger of Allah there is display of things in my prayer until I do not know what I prayed. He said that is Satan and then I came close to him (Prophet). He sat on my breasts and then  hit my chest with his hand and spit in my mouth  and said Exit, enemy of Allah. He  did it three times.  Then he said truth lies in your deed. Uthman informed: he never had the illusions afterwards.

The narrator  محمد بن عبد الله بن المثنى بن عبد الله بن أنس بن مالك الأنصاري of above narration is although generally  considered as authentic. But in Tahzeeb ul Kamal, juz 25 , pg 542

وقال أبو داود تغير تغيرا شديدا

Abi Daood informed that He has phenomenally changed

The change probably happened at an old age. As the above narration is Shaz (i.e. against a Sahih narration reported in Sahih Muslim)

It is reported in Sahih Muslim, juz 4, pg 1728

حدثنا يحيى بن خلف الباهلي حدثنا عبدالأعلى عن سعيد الجريري عن أبي العلاء  : أن عثمان بن أبي العاص أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال يا رسول الله إن الشيطان قد حال بيني وبين صلاتي وقراءتي يلبسها علي فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم ذاك شيطان يقال له خنزب فإذا أحسسته فتعوذ بالله منه واتفل على يسارك ثلاثا فقال ففعلت ذلك فأذهبه الله عني

Abi Alla narrated that Uthman bin Abi Al-Aas came to Messenger of Allah peace be upon him and said O Messenger of Allah Indeed the Satan indulge between me and  prayer and my recitation is affected. So Messenger of Allah peace be upon him said this (is due to ) satan, called Khanzab so when you feel his presence then seek refuse of Allah from him and spit on your left thrice. He (Uthman) said I did that and Allah removed him from (disturbing) me.

The hadith of Muslim informed that on that day Uthman met Messenger of Allah peace be upon him but there was no exorcism done. Therefore Ibn-Majah narration is Shaaz and cannot be considered  authentic.

Narration of Yala bin Murrah

It is reported Musnad Ahmed, juz 4, pg 170

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الله بن نمير عن عثمان بن حكيم قال أخبرني عبد الرحمن بن عبد العزيز عن يعلى بن مرة قال : لقد رأيت من رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثا ما رآها أحد قبلي ولا يراها أحد بعدي لقد خرجت معه في سفر حتى إذا كنا ببعض الطريق مررنا بامرأة جالسة معها صبي لها فقالت يا رسول الله هذا صبي أصابه بلاء وأصابنا منه بلاء يؤخذ في اليوم ما أدري كم مرة قال ناولينيه فرفعته إليه فجعلته بينه وبين واسطة الرحل ثم فغرفاه فنفث فيه ثلاثا وقال بسم الله أنا عبد الله اخسأ عدو الله ثم ناولها إياه فقال القينا في الرجعة في هذا المكان فأخبرينا ما فعل قال فذهبنا ورجعنا فوجدناها في ذلك المكان معها شياه ثلاث فقال ما فعل صبيك فقالت والذي بعثك بالحق ما حسسنا منه شيئا حتى الساعة …..

تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده ضعيف لجهالة عبد الرحمن بن عبد العزيز

Yalla bin Murrah said: I saw Allah’s Messenger peace be upon him do three things which no one before or after me saw. I went with him on a trip. On the way we passed by a woman sitting at the roadside with a young boy. She called out O Messenger of Allah this boy is afflicted with a trial, and from him we have also been afflicted with a trial. I do not know how many times in a day he has seizures or fits Prophet said hand him over to me so she lifted him up to the prophet and he placed him between himself and the middle of the saddle. He (Prophet) opened the boy’s mouth and blew in it three times saying in the name of Allah I am the slave of Allah get out O enemy of Allah then he hand over the boy back to her and said: Meet us on our return at the same place and tell us how he has faired. We then went on and on our return we found her at the same place with three sheeps. He (Prophet) said to her: How is your son? She replied by the one who has sent  you with truth we have not detected anything unusual.

The narrator عبد الرحمن بن عبد العزيز is unknown. There is another narrator with the same name but he too is very much criticised.  In his noting Shoaib Al.Arnawat has also indicated that he is unknown narrator.

Narration of Jabir

It is reported in Masnad Darmi  juz 1, pg 22

أخبرنا عبيد الله بن موسى عن إسماعيل بن عبد الملك عن أبي الزبير عن جابر قال : خرجت مع النبي صلى الله عليه و سلم في سفر وكان لا يأتي البراز حتى يتغيب فلا يرى فنزلنا بفلاة من الأرض ليس فيها شجر ولا علم فقال يا جابر اجعل في إداوتك ماء ثم انطلق بنا قال فانطلقنا حتى لا نرى فإذا هو بشجرتين بينهما أربع أذرع فقال يا جابر انطلق إلى هذه الشجرة …………. فعرضت له امرأة معها صبي لها فقالت يا رسول الله إن ابني هذا يأخذه الشيطان كل يوم ثلاث مرار قال فتناول الصبي فجعله بينه وبين مقدم الرحل ثم قال اخسأ عدو الله أنا رسول الله صلى الله عليه و سلم اخسأ عدو الله انا رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثا ثم دفعه إليها فلما قضينا سفرنا مررنا بذلك المكان فعرضت لنا المرأة معها صبيها ومعها كبشان تسوقهما فقالت يا رسول الله اقبل مني هديتي فوالذي بعثك بالحق ما عاد إليه بعد فقال خذوا منها واحدا وردوا عليها الآخر …..

 I went out with Prophet in a trip (and we were so involved that) we passed no stool and we see no ground until we descend on a plain without trees and indications. He (Prophet) said:  O Jabir, mark  the water and quickly inform us. We set out to search until we see as if it is two trees between four arms. He said O Jabir lets go to that tree. … then came a woman with a boy and she said, ‘O Messenger of Allah, My son takes the devil every day,  three times per day. (Narrator) Said He (Prophet) took the boy and placed the boy between him and the  Rahil  and then said: Go away you O enemy of Allah, I am the Messenger of Allah (may Allah bless him and grant him peace) Go away enemy of God I am the Messenger of Allah and He (Prophet) said this  three times and then returned the boy. When we spent our journey and we passed  by the same  place came to us the same  women with her boy and with two rams and she  said, O Messenger of Allah Accept gift from me, By Allah the one who sent you with truth , he (devil) has not returned to him after  this. Prophet said, Take one of them (rams) and returned others…..

It is reported that the narrator إسماعيل بن عبد الملك  is very weak. Ibn- Addi wrote in Al-Kamil, juz 1, pg 279

علي قال سمعت يحيى بن سعيد يقول تركت إسماعيل بن عبد الملك

Ali (Al-Madini) said I heard Yahyah bin Saeed said I rejected Ismaeel bin Abdul-Malik

Therefore the narrator is Matrook and his narrations should not be considered as authentic.

It is reported in Tabarai Al-Awsat, juz 9, pg 52

– حدثنا مسعدة بن سعد ثنا إبراهيم بن المنذر نا محمد بن طلحة التيمي ثنا عبد الحكيم بن سفيان بن أبي نمر عن شريك بن عبد الله بن أبي نمر عن جابر بن عبد الله قال خرجنا في غزوة ذات الرقاع حتى إذا كنا بحرة واقم عرضت امرأة بدوية بابن لها فجاءت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالت يا رسول الله هذا ابني قد غلبني عليه الشيطان فقال ادنيه مني فأدنته منه فقال افتحي فمه ففتحته فبصق فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم قال اخسأ عدو الله وأنا رسول الله قالها ثلاث ….

The contents are similar to above narration. Tabarani said

لم يرو هذا الحديث عن شريك بن عبد الله إلا عبد الحكيم بن سفيان ، ولا عن عبد الحكيم إلا محمد بن طلحة ، تفرد به إبراهيم بن المنذر

No one reports this hadith from Shareek bin Abdullah except Abdul-Hakeem bin Sufyan and from Abdul Hakim no one except Muhammad bin Talha, Ibrahim bin Al-Mundir has Taffarud in this narration.

 The narrator Abdul Hakeem bin Sufyan is unknown. Ibn Abi Hatim has repoted in Al-Jarah wa Tadeel that this narrator reports from his father but stated nothing for the trustworthiness of him.

In  سؤالات الآجري when Al-Ajari asked Abi Dawood about the narrator Muhammad bin Talha he said

سئل أبو داود عن محمد بن طلحة فقال : يخطئ.

Asked Abu Dawood about Muhammad bin Talha said: did mistakes

This narration is weak as well.

Narration of Ume Aban

It is reported in Muajam Al-Kabeer by Tabarani juz 5 pg 275

حدثنا العباس بن الفضل الأسفاطي ثنا موسى بن إسماعيل ثنا مطر بن عبد الرحمن الأعنق حدثتني أم بان بنت الوازع عن أبيها : أن جدها الزارع انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فانطلق معه بابن له مجنون أو ابن أخت له قال جدي : فلما قدمنا على رسول الله صلى الله عليه و سلم المدينة قلت : يارسول الله إن معي ابن لي أو ابن أخت لي مجنون أتيتك به تدعو الله عز و جل له فقال : ائتني به فانطلقت به إليه وهو في الركاب فأطلقت عنه وألقيت عنه ثياب السفر وألبسته ثوبين حسنين وأخذت بيده حتى انتهيت به إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : ادنه مني اجعل ظهره مما يليني قال : فأخذ بمجامع ثوبه من أعلاه وأسفله فجعل يضرب ظهره حتى رأيت بياض إبطيه وهو يقول : اخرج عدو الله اخرج عدو الله فأقبل ينظر نظر الصحيح ليس بنظره الأول ثم أقعده رسول الله صلى الله عليه و سلم بين يديه فدعا له بماء فمسح وجهه ودعا له فلم يكن في الوفد أحد بعد دعوة رسول الله صلى الله عليه و سلم يفضل عليه

Narrated Umme Aban Al-Wazay from her father that her grandfather Al-Zari Went to the Messenger of Allah peace be upon him, and also went with him his possessed son or nephew of his grandfather. Her grandfather said: when we reach Messenger of Allah peace be upon him at Medinah and said: O Messenger of Allah I have my  possessed son or nephew  with me and we arrived here so that you pray Allah Almighty for them.  Prophet said … (took the boy and said ).. Exit O enemy of Allah,  Exit O enemy of Allah, ….

The narrator مطر بن عبد الرحمن الأعنق  is the only one narrating from Umme Abban. Dr. Bashshar Awwad wrote in his noting on Tahzeeb Al-Kamal

ذكرها الذهبي في المجهولات من ” الميزان ” بسبب تفرد مطر بالرواية عنها (4 / الترجمة 11004)، وقال ابن حجرفي ” التقريب “: مقبولة.

Dahabi has discussed her in Al-Majhoolat (unknown) narrators in Al-Meezan due to the uniqueness of reporting of Matar from her (4/ discussion 11004) and Ibn Hajar said in Taqreeb Maqbool

None of the above narrations is strong enough to be taken as Sahih.

Cohabitation

Some scholars also believe in the possibility of marriage of Jinns with humans. They present the following verse from Quran for their claim.  In surah Al-Isra 64 Allah informed that Allah had given Satan respite

اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (64)

 “And Istafziz [literally means: befool them gradually] those whom you can among them with your voice , make assaults on them with your cavalry and your infantry, mutually share with them wealth and children and make promises to them.” But Satan promises them nothing but deceit.

The correct meaning of the words وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ is not that humans can marry Jinns but refers to  adultery. There is no evidence of the marriage between Jinn and Humans, there is not a single authentic hadith on marriage between Jinn and humans and also human experience denies this. However one cannot stop the wild imagination of some people and they claim that demons can posses humans and cohabit with them (Naodubillah)

Ibn-Tammiyah said in Fatwah (Fatawah al-Kubra, juz 19 pg 40 )

وصرعهم للإنس قد يكون عن شهوة وهوى وعشق كما يتفق للإنس مع الإنس وقد يتناكح الإنس والجن ويولد بينهما ولد وهذا كثير معروف وقد ذكر العلماء ذلك وتكلموا عليه وكره أكثر العلماء مناكحة الجن وقد يكون وهو كثير أو الأكثر عن بغض ومجازاة مثل أن يؤذيهم بعض الإنس أو يظنوا أنهم يتعمدو أذاهم إما ببول على بعضهم وإما بصب ماء حار وإما بقتل بعضهم وإن كان الإنسي لا يعرف ذلك وفى الجن جهل وظلم فيعاقبونه بأكثر مما يستحقه وقد يكون عن عبث منهم وشر بمثل سفهاء الإنس 

 And the demonic possession of the human may happen due to lust, desire and love, as one human  do with other humans and Jinn and Human can marry and bear children and it is well known and many scholars discussed this and spoke about this. And abhor many scholars the marriage with Jinn. And it  (demonic possession) may happen and that is many times the reason is that they want to retaliate like if some of the  humans  have inflicted pain to them (Jinn) or they (Jinn) thought in this manner (that human hurt them intentionally) like urination (by humans) on them  or throwing hot water or have killed some of them (Jinn) even though humans did that unintentionally and Jinns are ignorant so they afflict suffering on humans more than what humans deserve and it (demonic possession) may also happen due to futility by Jinns like stupid humans do with each other….

This shows that by 700 AH, the Muslim societies were so obsessed with the spiritual world that they lack realism. Scholars who depict hidden world as mysterious were famous.

Diseases from Satan

Some scholars even believe that Satan can inflict diseases on humans!

Mensuration

It is narrated in Musnad Ahmed , juz 6, pg 439

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الملك بن عمرو قال ثنا زهير يعنى بن محمد الخرساني عن عبد الله بن محمد يعنى بن عقيل بن أبي طالب عن إبراهيم بن محمد بن طلحة عن عمه عمران بن طلحة عن أمه حمنة بنت جحش قالت ….

إنما هذه ركضة من ركضات الشيطان

Indeed this (blood of menstruation) is dripping from the drippings of Satan

 

In book تعليقة على العلل لابن أبي حاتم , Abdul Haddi wrote (juz 1, pg 63-64):

وقال ابن أبي حاتم سألت أبي عن حديث رواه ابن عقيل عن إبراهيم ابن محمد عن عمران بن طلحة عن أمه حمنة بنت جحش في الحيض فوهنه ولم يقوي إسناده

Ibn Abi Hatim said I asked my father about the hadith narrated by Ibn Aqeel from Ibrahim bin Muhammad from Imran bin Talha from his mother Hamnata bint Jahash on the mensuration, he declared it weak and said sanad is not strong.

 وبلغني عن أبي عيسى الترمذي أنه سمع محمد بن إسماعيل البخاري يقول حديث حمنة بنت جحش في المستحاضة هو حديث حسن إلا أن إبراهيم بن محمد بن طلحة هو قديم لا أدري سمع منه عبد الله بن محمد بن عقيل أم لا

It reached me from Abi Isa al-Tirmidhi that he heard from Muhammad bin Ismail Al-Bukhari that he said Hadith Hamnata bint Jahash on the menstruating woman is hadith hasan indeed Ibrahim bin Muhamad bin Talha is from earliest era,  don’t know whether he heard from Abdullah bin Muhammad bin Aqeel or not.

Therefore according to Bukhari  this narration is most likely broken. Ibn Abi Hatim has completely rejected it.

Plague

It is also claimed that plague is due to Jinns!  It is reported in Musnad Ahmed juz 4, pg 413

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا بكر بن عيسى قال ثنا أبو عوانة عن أبي بلج قال حدثناه أبو بكر بن أبي موسى الأشعري عن أبيه عبد الله بن قيس : ان النبي صلى الله عليه و سلم ذكر الطاعون فقال وخز من أعدائكم من الجن وهى شهادة المسلم

Abullah bin Qais narrated that Messenger of Allah peace be upon him talked about  plague and he said the tingling of your enemies from the Jinn and it is martyrdom for a  Muslim

It contains narrator  أبو بلج وهو الفزاري الواسطي الكبير and he is a weak narrator Bukhari called him  فيه نظر which indicate that he is a weak narrator.  So this narration is weak.

There is another narration in Musnad Ahmed juz 4, pg 395

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرحمن ثنا سفيان عن زياد بن علاقة عن رجل عن أبي موسى قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : فناء أمتي بالطعن والطاعون فقيل يا رسول الله هذا الطعن قد عرفناه فما الطاعون قال وخز أعدائكم من الجن وفي كل شهداء

Abi Musa narrated that Messenger of Allah peace be upon him said the destruction of my Ummah will be by stabbing and plague,  asked O Messenger of Allah stabbing we understood (but) what is this plague? Said it is tingling from your enemies in Jinn, and those who suffer from this are martyrs.

This narration is weak as it  contains unknown  narrator. Also narrator Zyad bin Illaqah has heard this narration from whom?  In another narration Zyad informed that unknown narrator is أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ  then in Muajjam Tabarani Alawsat (juz 2, pg 105), Zyad informed that person was يزيد بن الحارث. In Musnad al-Bazzaz (juz 4, pg 402) Zyad informed that he heard from قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ  and in same Musnad he said he heard from كُرْدُوسٍ?

Darqutini said in Illal juz 7 pg 136

وسئل عن حديث كردوس عن المغيرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال قال فناء أمتي بالطاعون والطعن فقال يرويه زياد بن علاقة واختلف عنه فرواه أبو أحمد الزبيري عن الثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن المغيرة ورواه إسماعيل بن زكريا عن مسعر والثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن أبي موسى ورواه وكيع عن الثوري ورواه أبو بكر النهشلي عن زياد بن علاقة عن أسامة بن شريك عن أبي موسى ورواه أبو حنيفة عن زياد بن علاقة عن عبد الله بن الحارث عن أبي موسى ورواه سعاد بن سليمان عن زياد بن علاقة عن يزيد بن الحارث عن أبي موسى ورواه أبو شيبة إبراهيم بن عثمان عن زياد بن علاقة عن اثنى عشر رجلا من بني ثعلبة عن أبي موسى ورواه الحكم بن عتيبة عن زياد بن علاقة عن رجل من قومه لم يسمه عن أبي موسى

And asked about the narration of Kurdos from Al-Mughaira from Messenger of Allah said that destruction of my ummah is due to stabbing and plague  ?  Darqutini said Zyad bin Illaqah narrates and there are differences so

  • narrated Abu Ahmed Al-Zubairi from Thori from Zyad bin Illaqah from Kurdos from Mughaira and
  • narrated Ismael bin Zakarya from Massar and Thoei from Zyad bin Illaqah from Kurdos from Abi Musa and
  • narrated Abu bakr Al-Nahshali from Zyad bin Illaqah from Usama bin Shareek from Abi Musa  and
  • narrated Abu Hanifa from Zyad bin Illaqah from Abdullah bin Harith from Abi Musa and
  • narrated Saad bin Salman from Zyad bin Illaqah from Yazid bin Al-Harith from Abi Musa and
  • narrated Abu sheeba Ibrahim bin uthman from Zyad bin Illaqah from tweleve men from Bani Thalaba from Abi Nusa
  • narrated Al-Kakm bin Utbah from Zyad bin Illaqah from a man not named from Abi Musa

There are six different names and 12 people of Bani Thalabah  in the narration for the person from whom Zyad heard this narration!  How could this narration be correct with this much confusion.

In Tabarani Muajjam Kabeer, juz 11, pg 93 there is another narration

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن إِبْرَاهِيمَ بن يَزْدَادَ الطَّبَرَانِيُّ الْخَطِيبُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بن أَيُّوبَ النَّصِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ النَّصِيبِيُّ ، عَنْ بِشْرِ بن حَكَمٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : فَنَاءُ أُمَّتِي فِي الطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ ، قُلْنَا : قَدْ عَرَفْنَا الطَّعْنَ فَمَا الطَّاعُونُ ؟ ، قَالَ : وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ ، وَفِي كُلٍّ شَهَادَةٌ ، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، إِلا بِشْرٌ ، وَلا عَنْ بِشْرٍ ، إِلا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ

The narrator إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ is weak as Ibn Addi and Al-Sajji called him weak (Lisan ul Meezan, juz 1, pg 20)

The conclusion is that the Jinns cannot inflict diseases on humans.

Abduction by Demons

It is reported in Sunnan Al-Kubra Baihaqui juz 7, pg 445

انا عبد الوهاب بن عطاء نا سعيد عن قتادة عن أبى نضرة عن عبد الرحمن بن أبى ليلى ان رجلا من قومه من الانصار خرج يصلى مع قومه العشاء فسبته الجن ففقد فانطلقت امرأته إلى عمر بن الخطاب رضى الله عنه فقصت عليه القصة ….

It is reported by Al-Baihaqui that in the era of Umar bin Khattab a person from Ansar is abducted by demons and for eight years he remained in custody of Jinns and finally Muslim Jinns helped in his release! The sanad contains narrator عبد الرحمن بن أبى ليلى who had never seen Umer bin Khattab then how could be he narrate an event which spans over eight years in the era of Umer bin Khattab?

It is reported in  Tahzeen ul-Kamal juz 17, pg 372  that

وقال عباس الدوري: سئل يحيى بن معين عن عبد الرحمان بن أبي ليلى عن عمر، فقال: لم يره

And Abbas al-Dauri asked Yahyah bin Moin about Abdur Rehman bin Abi Laila from Umer He said not seen him.

Therefore this is totally a baseless narration and cannot be declared as Sahih.

Satan in pysical forms

There are two views regarding the appearance of Satan in physical forms.

View 1: Jinns cannot appear in physical form

Allah informed us that we cannot see Jinns (Al-Araf 27)

إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ

Verily, he and Qabiluhu (his soldiers from the jinns or his tribe) see you from where you cannot see them

If we believe that we could see devils, demons or Satan then this would annul the meaning  of this verse completely.  Imam Shafee  have rejected  the possibility  that anyone could see the Satan[3].

Later, there are scholars who believe in the appearance of Jinns in physical forms. In the support  their claim they present narrations:

1. It is reported by Baihaqui and Hakim that

حدثنا بحر بن نصر قال ثنا ابن وهب قال ثنا معاوية بن صالح عن أبي الزاهرية عن جبير بن نفير عن أبي ثعلبة الخشني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الجن على ثلاثة أثلاث فثلث لهم أجنحة يطيرون في الهواء وثلث حيات وكلاب وثلث يحلون ويظعنون

Abu-Thaalba Al-Khashani said Prophet said Jinns are of three kinds one third of them fly with wings like birds, one third of them are snakes and dogs and one third of them are subject to wandering and roaming.

For the narrator معاوية بن صالح  , Muawiya bin Salah al-Hadrami (d 158 AH) Dahabi quoted in Meezan Al-Ateedal

وكان يحيى القطان يتعنت ولا يرضاه.

Yahyah Al-Qaatan  reaveled that he is not happy with him

وقال أبو حاتم: لا يحتج به

Abu hatim said: Do not take his narrations

Bukhari has not taken narrations from him.

Therefore this narration is weak and non authentic.

2. It is repoted in Sahih Bukhari, Volume 1, Book 9, Number 488:

Narrated Abu Salih As-Samman: I saw Abu Said Al-Khudri praying on a Friday, behind something which acted as a Sutra. A young man from Bani Abi Mu’ait, wanted to pass in front of him, but Abu Said repulsed him with a push on his chest. Finding no alternative he again tried to pass but Abu Said pushed him with a greater force. The young man abused Abu Said and went to Marwan and lodged a complaint against Abu Said and Abu Said followed the young man to Marwan who asked him, “O Abu Said! What has happened between you and the son of your brother?” Abu Sa’id said to him, “I heard the Prophet saying, ‘If anybody amongst you is praying behind something as a Sutra and somebody tries to pass in front of him, then he should repulse him and if he refuses, he should use force against him for he is a satan.’ ”

This above narration from Bukhari proves that calling some one Satan could be  a figurative speech as Abu Saeed called a young man Satan. The man who tried to pass in front of Abu Saeed was not the Satan personified nor Abu Saeed believed that otherwise he could said to Marwan that don’t listen to him  he is indeed devil personified. The prophetic words (use force against him for he is Satan) are used to indicate the person is actually enticed by the Satan.

Allah said in surah Al-Annam 112

شياطين الإنس والجن يوحي بعضهم إلى بعض زخرف القول غرورا

So word Satan is also used for humans who do mischievous acts. Ibn Habban said in his Sahih, juz 6, pg 128

قوله صلى الله عليه وسلم فإنما هو شيطان أراد به أن معه شيطانا يدله على ذلك الفعل لا أن المرء المسلم يكون شيطانا

The statement of (Messenger of Allah) peace be upon him that he is Satan, he meant that with that person (who tried to pass in front of praying peron) is Satan (i.e. guiding him) and  not that the  Muslim be a demon.

3. It is reported in Muslim that Messenger of Allah peace be upon him said that the prayer would be annulled if a donkey, women and black dog passed in front of praying person and Prophet said further black dog is Satan.

Scholar Ibn Aqeel said in his work Kitab Al-Funoon

قال أبو الوفاء ابن عقيل 

 هذا على طريق التشبيه لها بالشياطين، لأن الكلب الأسود أشرّ الكلاب وأقلعها نفعاً، والإبل تشبه الجن في صعوبتها وصولتها، كما يقال: فلان شيطان ؛ إذا كان صعباً شريراً

This is for sake of similitude as black dog is worst in all dogs and its benefit is low and similitude of camel with jinn is for sake of hard word and effort as said for someone that is Satan when he was mischievous

In Bukhari it is reported that Aisha, Mother of believers clarified this matter and said to the person who informed her about this hadith and she said you brought us (women) among dogs then she said :

لقد رأيت النبي عليه السلام يصلي وإني لبينه وبين القبلة

I saw the Prophet peace be upon him prayed  and I between him and the Qibla

This indicate that the listener has not understood completely what Prophet meant.  As stated in first narration that a person who tried to pass in front of a praying person is enticed by Satan similarly the donkey or black dog can be called Satan if pass in front of a praying person, figuratively not literally.

4. Similarly there is a narration which prohibits praying in camel pens reported by Ibn-Habban.  Ibn-Habban commented on this report in Sahih, juz 4 , pg 558 and clarified it.

قال أبو حاتم قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين أراد به أن معها الشياطين وهكذا قوله صلى الله عليه وسلم فليدرأه ما استطاع فإن أبى فليقاتله فإنه شيطان ثم قال في خبر صدقة بن يسار عن بن عمر فليقاتله فإن معه القرين ذكر البيان بأن قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين لفظة أطلقها على المجاورة لا على الحقيقة

Abu Hatim (Ibn-Habban) said: the statement of Messenger of Allah peace be upon him that they are created from Satans mean by that there stays Satan with them  and that’s the statement of Prophet…. The words they are created from Satan are the words applied figuratively and not a reality.

He further said in his Sahih, juz 4, pg 558

أعطان الإبل لأجل أنها خلقت من الشياطين لم يصل صلى الله عليه وسلم على البعير إذ محال أن لا تجوز الصلاة في المواضع التي قد يكون فيها الشيطان ثم تجوز الصلاة على الشيطان نفسه بل معنى قوله صلى الله عليه وسلم انها خلقت من الشياطين أراد به أن معها الشياطين على سبيل المجاورة والقرب

(If the discouragement from the formal prayer) in camel pens was actually due to camels being created from demons then Prophet would have not prayed on the back of a camel (while ridding it). It is impossible that a formal prayer not be allowed in areas where devil may be but allowed on devils themselves. But the words ((they are created from Satan)) mean that there are demons with them i.e. referring to  neighbouring and nearby.

In Arabic the word Satan is some times used figuratively.  In Quran Allah informed about the Tree of Zaqqom in Hell. It is said in surah As-Saffat

 

أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ (62) إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ (63) إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ (64) طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ (65) فَإِنَّهُمْ لَآَكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ (66)

 Is that (Paradise) better entertainment or the tree of Zaqqum (a horrible tree in Hell)?  Truly We have made it (as) a trail for the Zalimun (polytheists, disbelievers, wrong-doers, etc.). Verily, it is a tree that springs out of the bottom of Hell-fire, The shoots of its fruit-stalks are like the heads of Shayatin (devils);  Truly, they will eat thereof and fill their bellies therewith.

It is informed that fruits of Zaqqom would look so hideous like the heads of Shiyateen.

5. Scholar who believe in the appearance of Satan in visible form present the narration of  in Sahih Muslim, chapter killing of snakes, which report that a companion of Prophet has died due to snake bite.  Later Prophet instructed that

إن بالمدينة جنا قد أسلموا فإذا رأيتم منهم شيئا فآذنوه ثلاثة أيام فإن بدا لكم بعد ذلك فاقتلوه فإنما هو شيطان

In Medinah there are snakes who have submitted so if you see anyone from them then permit them for three days afterwards kill them as it is Satan.

This narration does not prove that جنا  were Jinns. The word جنا means snake, as snake moves and disappear quickly in bushes or stones. Also in Quran it is informed that Moses staff was

تَهْتَزُّ كأَنها جانٌّ

Slithering like a (Jann) snake

Further, calling snakes Satan is a figurative speech as in other narrations in Sahih Muslim about the same incident Prophet said kill them they are Kafir.

إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم شيئا منها فحرجوا عليها ثلاثا فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر

In these houses there are snakes so when you see them  then narrowed them (their stay in homes) to three day  if they go (then fine) else kill them as they are Kafir

In the narration, the word عوامر  is used. Ibn-Manzoor said in Lisan Al-Arab,juz 4, pg 601

العَوامِرُ الحيّات التي تكون في البيوت

Alawmer are snakes that are in homes

Snakes could be poisonous and harmful for humans so as a Muslim it is instructed that one allow them to leave if they don’t go then kill them because they could be harmful.  Imam Muslim has also brought these narrations in the chapter of killing of snakes. Ibn Haban has quoted the narration of snakes killing after three day under the chapter title

ذكر الأمر بقتل المرء الحيه إذا راها في داره بعد إعلامه إياها ثلاثة أيام

The discussion on the order of killing of snakes when seen at home after the announcement of three day period

 Even if we assume that Jinns were appearing as snakes in houses in Medinah then this was something special for Medinah only as Prophet said  إن بالمدينة جنا  Also It is reported in Sahih Muslim, chapter killing of snakes)

قال أبو لبابة الأنصاري إني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن قتل الجنان التي تكون في البيوت إلا الأبتر وذا الطفيتين فإنهما اللذان يخطفان البصر ويتتبعان ما في بطون النساء

Abu-Lubabah al-Ansari said that I heard Messenger of Allah peace be upon him and he Forbade the killing of snakes in the home except  the small, two spotted ones, as they cause the losing of the  sight and miscarriage (of fetus).

View 2: Jinns were appearing in physical form in life time of Prophet peace be upon him only

Tahavee has offered a different interpretation of killing of snakes hadith in Mushkil-ul-Athar. He commented on Abu Lubabah narration and also reported the narrated by Ibn Umer

نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل الجنان في البيوت

Forbade Messenger of Allah peace be upon him on killing of snakes in houses

 Tahavee then said

قال ففي هذه الأحاديث نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل ذوات البيوت بعد أن كان أمر بقتل الحيات كلها فكان ذلك أولى من الأحاديث الأول لأن فيها نسخ بعض ما في الأحاديث الأول ثم نظرنا في السبب الذي به كان ذلك النسخ ما هو فوجدنا

Tahavee said in these ahadith forbade the Messenger of Allah peace be upon him  from killing of house snakes previously he ordered the killing of all kinds of  snakes, if this is the earliest of ahadith then they are Naskh[4] of some of the hadiths and  then I looked for the reason of it being Naskh and  found the hadith… and then Tahavee quoted the narration of killing of snakes

 إن بالمدينة جنا قد أسلموا فإذا رأيتم منها شيئا فآذنوه ثلاثا فإن بدا لكم بعد ذلك فاقتلوه فإنما هو شيطان

Tahavee has thus declared this order of killing of all snakes as cancelled. Based on this conclusion it could be said that the appearance of Jinns in snake forms was probably for the lifetime of the Prophet and for people of Medinah only.

There are many events reported in Quran and hadith which were special and cannot be taken as norm.



[1] Ibn- Qayyam wrote that Ibn-Tammiyah also used to practice exorcism (see in Zad-Al-Maad, juz 4, pg 60).

 

[2] The word مَسَّ   touch does not necessarily means physical touch but could be affect on thought as well.

[3] We will invalidate the witness of anyone who claim to have seen  the jinn except Prophet peace be upon him (quoted by Al-Baihaqui in Manaqib AsShafaee)

[4] Naskh is a narration or verse which cancels out the earlier command called Mansookh

In surah Falaque 1-4 Allah taught us seek His protection:

Say: “I seek refuge with (Allah) the Lord of the daybreak,  “From the evil of what He has created;  “And from the evil of the darkening (night) as it comes with its darkness; (or the moon as it sets or goes away). “And from the evil of the witchcrafts when they blow in the knots,

Also in surah Nas another supplication is taught:

Say: “I seek refuge with (Allah) the Lord of mankind,  “The King of mankind, “The Ilah (God) of mankind, “From the evil of the whisperer (devil who whispers evil in the hearts of men) who withdraws (from his whispering in one’s heart after one remembers Allah) , “Who whispers in the breasts of mankind,  “Of jinns and men.”

In surah Mominoon 97-98 it is taught

And say: “My Lord! I seek refuge with You from the whisperings (suggestions) of the Shayatin (devils).  “And I seek refuge with You, My Lord! lest they may attend (or come near) me.”

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 493:

Narrated Ibn ‘Abbas:  The Prophet said, “If anyone of you, when having sexual relation with his wife, say: ‘In the name of Allah. O Allah! Protect us from Satan and prevent Satan from approaching our offspring you are going to give us,’ and if he begets a child (as a result of that relation) Satan will not harm it.

It is reported in Bukhari (Volume 7, Book 69, Number 527: Narrated Jabir bin ‘Abdullah: Allah’s Apostle said, “When night falls (or when it is evening), stop your children from going out, for the devils spread out at that time. But when an hour of the night has passed, release them and close the doors and mention Allah’s Name, for Satan does not open a closed door. Tie the mouth of your water-skin and mention Allah’s Name; cover your containers and utensils and mention Allah’s Name. Cover them even by placing something across it, and extinguish your lamps. ”

It is reported in Bukhari (Volume 8, Book 75, Number 412:

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle said,” Whoever says: “La ilaha illal-lah wahdahu la sharika lahu, lahu-l-mulk wa lahu-l-hamd wa huwa ‘ala kulli shai’in qadir,” one hundred times will get the same reward as given for manumitting ten slaves; and one hundred good deeds will be written in his accounts, and one hundred sins will be deducted from his accounts, and it (his saying) will be a shield for him from Satan on that day till night, and nobody will be able to do a better deed except the one who does more than he.”

It is reported in Bukhari (Volume 7, Book 65, Number 356:

Narrated Sad:  Allah’s Apostle said, “He who eats seven ‘Ajwa dates every morning, will not be affected by poison or magic on the day he eats them.”

On the day of Judgement Iblis would state his extents and limits as  (surah Ibrahim)

وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 22

And Shaitan (Satan) will say when the matter has been decided: “Verily, Allah promised you a promise of truth. And I too promised you, but I betrayed you. I had no authority over you except that I called you, so you responded to me. So blame me not, but blame yourselves. I cannot help you, nor can you help me. I deny your former act in associating me (Satan) as a partner with Allah (by obeying me in the life of the world). Verily, there is a painful torment for the Zalimun (polytheists and wrong-doers, etc.).”

The demons have no such powers that they cause afflictions on humans or cause convulsions or cause insanity or cause diseases rather they act in sublime way by affecting the human’s thoughts by inducing  fear, anger, enticement, desires, mind illusions and confusions.

 


 

Azab Al-Qabr

qaff-4

 Azab al-Qabr

بسم الله الرحمن الرحيم

No doubt it is a fact that there would be a torment or pleasure after the death. However the majority of Muslims now believe that this would happen in the earthly abode of dead body commonly called grave. The concept of Azab-al-Qabr  is clearly explained in Quran and Sahih ahadith that everyone would experience one death in this earth and that  the soul once taken out of body would not be returned to the body till the day of resurrection. The body meanwhile  would disintegrates and degenerates into dust. The torment or pleasure of any kind would be experience by soul in a new body.

Some scholars have made up a belief that the torment from death till resurrection happens in this earthly grave. First the soul would be returned to body in grave for questioning and in case of wrong outcome the body would experience hell fire in grave and soul would be taken back to Hell.  There is no valid hadith for this belief and in reality this belief is conjured from the mixture of non-authentic narrations, as will be explained in this treatise.

The purpose of grave is to hide the dead as body would go into disintegration. It would rot and consumed by the insects and finally goes to dust.  In Quran this purpose is first explained when  Qabeel (son of Prophet Adam peace be upon him) killed his brother.  In surah Al-Maidah (5:27-31) we are informed that:

 

[note color=”#BEF781″]

And (O Muhammad ) recite to them (the Jews) the story of the two sons of Adam [Habil (Abel) and Qabil (Cain)] in truth; when each offered a sacrifice (to Allah), it was accepted from the one but not from the other. The latter said to the former: “I will surely kill you. ” The former said: “Verily, Allah accepts only from those who are Al-Muttaqun (the pious – see V.2:2).” . “If you do stretch your hand against me to kill me, I shall never stretch my hand against you to kill you, for I fear Allah; the Lord of the ‘Alamin (mankind, jinns, and all that exists).” “Verily, I intend to let you draw my sin on yourself as well as yours, then you will be one of the dwellers of the Fire, and that is the recompense of the Zalimun (polytheists and wrong-doers).” So the Nafs (self) of the other (latter one) encouraged him and made fair-seeming to him the murder of his brother; he murdered him and became one of the losers.

Then Allah sent a crow who scratched the ground to show him to hide the dead body of his brother. He (the murderer) said: “Woe to me! Am I not even able to be as this crow and to hide the dead body of my brother?” Then he became one of those who regretted. (5:27-31)

 [/note]

Prophet also explained that all bodies would be disintegrated. Imam Bukhari , juz 16, pg 333, chapter  باب ( يَوْمَ يُنْفَخُ فِى الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا ) زُمَرًا reported that:

[note color=”#CEECF5″]

 حَدَّثَنِى مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِى صَالِحٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ – رضى الله عنه – قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – « مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ » . قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ . قَالَ أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ . قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ . قَالَ « ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً . فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنَ الإِنْسَانِ شَىْءٌ إِلاَّ يَبْلَى إِلاَّ عَظْمًا وَاحِدًا وَهْوَ عَجْبُ الذَّنَبِ ، وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ »

Abu Huraira – may Allah be pleased with him – said the Messenger of Allah – peace be upon him said- «What between forty Al-Nafkhateen (two blowings of Conch) ». (Inquirer asked)  Forty days? he said can’t say this. Forty months? said can’t say this. Forty years? said can’t say this. Abu Huraira said  (I heard from Prophet that) «Then God will send down water from the sky and they (humans) grow like (plant) grows_ There would be  nothing in human but fret only one bone (remains) that is the tailbone, and on it rides the creation on the Day of Resurrection »

 [/note]

Bukhari has showed that all human body would be consumed by Earth except the tailbone.  This shows that the body is nothing with out a soul. The earth even consume the bodies of Holy Prophets as informed in narration of Musnad Abi-Yala, juz 13, pg 189:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أبو هشام الرفاعي محمد بن يزيد حدثنا ابن فضيل عن يونس بن عمرو عن أبي بردة : عن أبي موسى قال : أتى النبي – صلى الله عليه و سلم – أعرابيا فأكرمه فقال له : ائتنا فأتاه فقال رسول الله – صلى الله عليه و سلم – : سل حاجتك فقال : ناقة نركبها وأعنزا يحلبها أهلي فقال رسول الله – صلى الله عليه و سلم – : عجزتم أن تكونوا مثل عجوز بني إسرائيل ؟ قال : إن موسى لما سار ببني إسرائيل من مصر ضلوا الطريق فقال : ما هذا ؟ فقال علماؤهم : إن يوسف لما حضره الموت أخذ علينا موثقا من الله أن لا نخرج من مصر حتى ننقل عظامه معنا قال : فمن يعلم موضع قبره ؟ قال : عجوز من بني إسرائيل فبعث إليها فأتته فقال : دليني على قبر يوسف قالت : حتى تعطيني حكمي قال : ما حكمك ؟ قالت : أكون معك في الجنة فكره أن يعطيها ذلك فأوحى الله إليه أن أعطها حكمها فانطلقت بهم إلى بحيرة : موضع مستنقع ماء فقالت : أنضبوا هذا الماء فأنضبوا قالت : احتفروا واستخرجوا عظام يوسف فلما أقلوها إلى الأرض إذا الطريق مثل ضوء النهار

 ….Prophet said:  When Moses exited along  Beni Israel from Egypt  he strayed path and said: What is this? Scholars said: Prophet Joseph  has took us an oath in God that we would not go out of Egypt, unless we  take his bones with us.  Moses said: Who knows where his  (Joseph’s) grave is?  They said: An elderly woman  of the children of Israel (knew about it), he (Moses) reached her and said: Inform me about the grave of  Joseph.  She said: Give me a verdict (Promise) He inquired: What’s your verdict (Promise)? She said: I (want to be) with you in paradise. He abhorred to give this promise to her until  God revealed to him (Moses) to give her this verdict. (Finally) They reached with them to a  Lake: The place of swamp water, she said: take out  this water. They took out the water  and extracted the bones of Joseph when bones reached to the ground the road was (visible) like daylight.

[/note]

This hadith clearly  indicate the even the Prophets bodies would be disintegrated by earth.  Quran informs us that Prophet Bodies would not last forever. Allah informed us in Quran, surah Al-Anbiyah  (21:8)

[note color=”#BEF781″]

وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ

And We did not create them (the Messengers, with) bodies that ate not food, nor were they (last) forever

[/note]

Therefore all bodies would be disintegrated irrespective of Prophet, righteous person or evil doer. There might be some exceptions but that could be due to climatic conditions and weather, which is temporary effect. Bodies may also survive due to embalming or mummification procedures which are purely scientific methods of preservation.  But even these procedures may help for some period of time and finally the bodies disintegrate and dust (humans) become dust!

 

Before we go on and continue our discussion on Azab al-Qabr it would be necessary to first understand the concept of death in Quran.

 

1. In surah az-Zumar (39:42) it is informed that:

[note color=”#BEF781″]

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ 42

>>It is Allah Who takes away the souls at the time of their death, and those that die not during their sleep. He keeps those (souls) for which He has ordained death and sends the rest for a term appointed. Verily, in this are signs for a people who think deeply. (39 : 42)

(Dr. Muhammad Taqi-ud-Din Al-Hilali, Ph.D. & Dr. Muhammad Muhsin Khan translation)

[/note]

 

2. In surah al-Anam (6:60-61) it is explained that:

[note color=”#BEF781″]

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (60) وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ويُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ 61

>>He it is Who gathereth you at night and knoweth that which ye commit by day. Then He raiseth you again to life therein, that the term appointed (for you) may be accomplished. And afterward unto Him is your return. Then He will proclaim unto you what ye used to do.

He is the Omnipotent over His slaves. He sendeth guardians over you until, when death cometh unto one of you, Our messengers receive him, and they neglect not.

(Pickthall Translation)

>>It is He, Who takes your souls by night (when you are asleep), and has knowledge of all that you have done by day, then he raises (wakes) you up again that a term appointed (your life period) be fulfilled, then in the end unto Him will be your return. Then He will inform you what you used to do.  He is the Irresistible, Supreme over His slaves, and He sends guardians (angels guarding and writing all of one’s good and bad deeds) over you , until when death approaches one of you, Our Messengers (angel of death and his assistants) take his soul, and they never neglect their duty.

(Dr. Muhammad Taqi-ud-Din Al-Hilali, Ph.D. & Dr. Muhammad Muhsin Khan translation)

[/note]

There are two important words in these verses. One is Tawaffa and another one is Rasala.

Twaffa  (تَوَفَّى) in Arabic  means taking some thing. In Quran it is used when God informed us that on the day of Judgement He Almighty would reward us completely. There the words Twaffa kullu Nafas are used. Hence the word Twaffa  does not always mean death. Also  God said to Prophet Isa:

[note color=”#BEF781″]

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ

When Allah said : O Isa I would take you and lift you towards me.

 [/note]

Here the word مُتَوَفِّيكَ is used, which does not necessarily means death. Therefore in the same sense the word تَوَفَّى Tawaffa is used in chapter 6 and 39 for the sleep. The sleeping person has all kind of vital signs i.e. breathing, sweating, dreaming etc.  The soul is seized or held completely in the body. Sleep could be called the minor death in this sense. Death as a phenomenon involves the complete hold of soul. After death all vital signs will be absent.

Another important word is  Rasala which has two meanings one is sending and another is releasing.  Bukhari Hadith (juz 1, pg 4) explained this that when the angel arrived in the cave of Hira and asked Prophet to read.

[note color=”#CEECF5″]

فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ قلت ما أنا بقارىء

He (angel) took me and (squeezed) until he reached my limit and then released me and said read, I said, I am not a reader!

 [/note]

These two examples help us to understand the meaning of the verses of (6:60-61) and (39:42).

The soul is seized in the body at the time of death and sleep. Allah released the soul of living and does not return the soul of death. The words إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا also indicate that unlike sleep at death the task is done via angels.

Some people try to  insert confusion in the meaning of Death and Sleep. According to them the sleeping phenomenon is like the death phenomenon and accordingly a person experiences thousands of deaths when he or she sleeps over his or her life time.  This is totally an ignorant and deviated understanding of these verses and concocted to fulfil some ulterior motives.

 

The body would feel any kind of torment until there is a soul in it. Allah has revealed in Quran that the people of Hell would cry for death and ask Malik- the Manager of Hell to grant them death.

[note color=”#BEF781″]

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَى وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ 56

They will never taste death therein except the first death (of this world), and He will save them from the torment of the blazing Fire (surah al-Dukkhan)

 

لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا 14

Exclaim not today for one destruction, but exclaim for many destructions.

(surah Furqan)

وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ

 

But those who disbelieve, (in the Oneness of Allah – Islamic Monotheism) for them will be the Fire of Hell. Neither it will have a complete killing effect on them so that they die, nor shall its torment be lightened for them. Thus do We requite every disbeliever! ( Fatir 36)

[/note]

These verses clearly indicate that death would eliminate all sense of torment or bliss.

Quran explicitly inform us that each breathing person would experience two deaths and two lives. Quran says in surah Al-Baqarh (2:28)

[note color=”#BEF781″]

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

How can you disbelieve in Allah? Seeing that you were dead and He gave you life. Then He will give you death, then again will bring you to life (on the Day of Resurrection) and then unto Him you will return.

 [/note]

Further it is explained that people of the hell would call their Lord ( Al-Ghafir 40:11)

 

[note color=”#BEF781″]

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ

 

They will say: “Our Lord! You have made us to die twice (i.e. we were dead in the loins of our fathers and dead after our deaths in this world), and You have given us life twice (i.e. life when we were born and life when we are Resurrected)! Now we confess our sins, then is there any way to get out (of the Fire)?”

 [/note]

Tibiri explained this in his exegesis  on Quran  جامع البيان في تأويل القرآن  as:

حدثني يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا هُشيم، عن حُصين، عن أبي مالك، في قوله:”أمتَّنا اثنتين وأحييتنا اثنتين”، قال: كانوا أمواتًا فأحياهم الله، ثم أماتهم، ثم أحياهم

Abi Malik  Al –Ghafari Al-Kofi said for verse You have made us to die and You have given us life twice that they were dead then Allah bestowed them life then they would be dead and then raised (again). ( Tafseer Al-Tibiri )

 

This shows that each person would experience two deaths and two lives:

 

  • First Death: is the realm of non-existence
  • First Life: This earthly life now
  • Second Death: The death experienced by a breathing person in this world
  • Second Life: is the next life which would start on the Day of Judgement

In  Surah Al-Abbasa  Allah informs us that every person would get a grave :

[note color=”#BEF781″]

قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ (17) مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (18) مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ (19) ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ (20) ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (21) ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنْشَرَهُ 22

Be cursed (the disbelieving) man! How ungrateful he is! From what thing did He create him? From Nutfah (male and female semen drops) He created him, and then set him in due proportion;  Then He makes the Path easy for him;. Then He causes him to die, and puts him in his grave; Then, when it is His Will, He will resurrect him (again).(80:17-22)

 [/note]

The above verses describe the acts of God with humans. As they go through different stages from conception till resurrection. All humans would experience these stages except few, like Jesus son of Mary born with Immaculate Conception without male intervention and also there were stories in Quran on the resurrection of a person before the final day of Judgement, which actually indicate the omnipotence of Almighty Allah. An exception is not a rule rather it’s a miracle.  Therefore in the above verses it is described that every person would get an abode by Allah commonly called grave. All humans would experiences these stages and hence also received a Qabr!

 

Those who believe in torment in this earthly grave say that Qabr or grave is made in the earth for the body as Allah commanded his Prophet peace be upon him  in surah Taubah, that he should not stand at the grave of Abdullah bin Ubai for funeral prayer.

 

[note color=”#BEF781″]

And never (O Muhammad ) pray (funeral prayer) for any of them (hypocrites) who dies, nor stand at his grave. Certainly they disbelieved in Allah and His Messenger, and died while they were Fasiqun (rebellious, – disobedient to Allah and His Messenger (9: 84)

[/note]

Obviously the dead would be placed in earth as instructed to us by Allah in surah al- Maidah (5:27-31). However this is not the place where the body would experience any pleasure or torture.  It is not necessary that the Azab al-Qabr must be executed in the very grave of person. The term Azab al-Qabr is used as it’s a normal human practice that the dead are buried.

 

Scholar Ibn-Aqeel said (Talbis- Iblis by Ibn-Jouzi pg 106):

فإنه لما ورد النعيم والعذاب للميت علم أن الإضافة حصلت إلى الأجساد والقبور تعريفا كأنه يقول صاحب هذا القبر الروح التي كانت في هذا الجسد منعمة بنعيم الجنة معذبة بعذاب النار

So in fact  what had been  reported on the  bliss and agony of the deceased (one must) know that that  al-Idafa (of al-Qabr) refers to the bodies and the graves like an adjective (as if it is meant to be) said (that)  person in grave- (Actually )The soul  that was in this body is enjoying the bounty of  Heaven  (or ) tormented in  hell fire.

 

The statement of Ibn-Aqeel is self explanatory. The term Azab al-Qabr is used for the torment after the death till resurrection as a reference only. It is not necessary that torment must be executed in grave.

Quran informs us about the torment afflicted on the Pharaoh and his army  in surah Younis 90-92.

 

[note color=”#BEF781″]

وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آَمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آَمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (90) آَلْآَنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (91) فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آَيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آَيَاتِنَا لَغَافِلُونَ 92

And We took the Children of Israel across the sea, and Fir’aun (Pharaoh) with his hosts followed them in oppression and enmity, till when drowning overtook him, he said: “I believe that none has the right to be worshipped but  He, in Whom the Children of Israel believe, and I am one of the Muslims”. Now (you believe) while you refused to believe before and you were one of the evil-doers.  So this day We shall deliver your (dead) body (out from the sea) that you may be a sign to those who come after you! And verily, many among mankind are heedless of Our Ayat “

 [/note]

Further in surah Ghafir (45-46)  Allah said that:

[note color=”#BEF781″]

 

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ (45) النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (46

So Allah saved him from the evils that they plotted (against him), while an evil torment encompassed Fir’aun’s (Pharaoh) people. The Fire; they are exposed to it, morning and afternoon, and on the Day when the Hour will be established (it will be said to the angels): “Cause Fir’aun’s (Pharaoh) people to enter the severest torment!”

 [/note]

Also it is stated  for the drowned nation of Prophet Noah, that:

 

[note color=”#BEF781″]

مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا 25

Because of their sins they were drowned, then were made to enter the Fire, and they found none to help them instead of Allah.

[/note]

Both of these nations were drowned in water. None of them got the so-called grave as a final resting place instead we are informed that as soon as they were drowned the torment of Fire is started.  Naturally torment has not happened here in earth, so then where it is ensuing?

 

Normally the scholar who support believe the returning of soul in the earthly also present the above verses as  evidence of torment for dead before day of Judgement. We know that not every person gets  the grave as some bodies are burned on pyre, some are scavenged by birds and some are drowned in the  sea.  Then how come a person receive this torment (Azab al-Qabr) if he hasn’t got the earthly grave?

Further evidence that this torment does not happen in this earthly grave is reflected by the following narration.

Bukhari Juz 1, pg 165, chapter   – باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد   reported that:

[note color=”#CEECF5″]

18 – حدثنا مسدد قال حدثنا عبد الوارث عن أبي التياح عن أنس قال : قدم النبي صلى الله عليه و سلم المدينة فنزل أعلى المدينة في حي يقال لهم بنو عمرو بن عوف فأقام النبي صلى الله عليه و سلم فيهم أربع عشرة ليلة ثم أرسل إلى بني النجار فجاؤوا متقلدي السيوف كأني أنظر إلى النبي صلى الله عليه و سلم على راحلته وأبو بكر ردفه وملأ بني النجار حوله حتى ألقى بفناء أبي أيوب وكان يحب أن يصلي حيث أدركته الصلاة ويصلي في مرابض الغنم وأنه أمر ببناء المسجد فأرسل إلى ملأ من بني النجار فقال ( يا بني النجار ثامنوني بحائطكم هذا ) . قالو لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله فقال أنس فكان فيه ما أقول لكم قبور المشركين وفيه خرب وفيه نخل فأمر النبي صلى الله عليه و سلم بقبور المشركين فنشبت ثم بالخرب فسويت وبالنخل فقطع فصفوا النخل قبلة المسجد وجعلوا عضادتيه الحجارة وجعلوا ينقلون الصخر وهم يرتجزون والنبي صلى الله عليه و سلم معهم وهو يقول اللهم لا خير إلا خير الآخرة * فاغفر للأنصار والمهاجرة

Narrated Anas: When the Prophet arrived Medina he dismounted at ‘Awali-i-Medina amongst a tribe called Banu ‘Amr bin ‘Auf. He stayed there For fourteen nights. Then he sent for Bani An-Najjar and they came armed with their swords. As if I am looking (just now) as the Prophet was sitting over his Rahila (Mount) with Abu Bakr riding behind him and all Banu An-Najjar around him till he dismounted at the courtyard of Abu Aiyub’s house. The Prophet loved to pray wherever the time for the prayer was due even at sheep-folds. Later on he ordered that a mosque should be built and sent for some people of Banu-An-Najjar and said, “O Banu An-Najjar! Suggest to me the price of this (walled) piece of land of yours.” They replied, “No! By Allah! We do not demand its price except from Allah.” Anas added: There were graves of pagans in it and some of it was unleveled and there were some date-palm trees in it. The Prophet ordered that the graves of the pagans be dug out and the unleveled land be level led and the date-palm trees be cut down . (So all that was done). They aligned these cut date-palm trees towards the Qibla of the mosque (as a wall) and they also built two stone side-walls (of the mosque). His companions brought the stones while reciting some poetic verses. The Prophet was with them and he kept on saying, “There is no goodness except that of the Hereafter, O Allah! So please forgive the Ansars and the emigrants. “

[/note]

The graves of idolaters were destroyed, which indicate that there was no torment or punishment in those graves, otherwise Prophet would not have done so.

Quran informed us that there is Burzakh (barrier) between the soul and this world.

 

[note color=”#BEF781″]

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ 100

Until, when death comes to one of them (those who join partners with Allah), he says: “My Lord! Send me back,  “So that I may do good in that which I have left behind!” No! It is but a word that he speaks, and behind them is Barzakh (a barrier) until the Day when they will be resurrected.

[/note]

The conversation between the soul and Allah Almighty is reported in above verses. Where the soul would like to go back? The answer to this question is: Obviously back to Erath!

 

Scholars have coined the name Al-Burzakh to refer to the realm where the souls would remain from death till resurrection.  Ibn-Hajar Asqallani writes in his exegeses on Sahih Bukhari,  titled Fathul Bari  under the discussion on verse   قَوْله :  وَقَوْله تَعَالَى  وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْن    (juz 4, pg 443):

 

قَالَ الْقُرْطُبِيّ : الْجُمْهُور عَلَى أَنَّ هَذَا الْعَرْض يَكُون فِي الْبَرْزَخ ، وَهُوَ حُجَّة فِي تَثْبِيت عَذَاب الْقَبْر

Al-Qurtubi said: the Majority takes that it (tormet to Aal-Firoun) happen in al-Burzakh , and is the proof of  torment of the grave

 

In one hadith in Sahih Bukhari it is reported that Prophet Moses and Prophet Adam had an argument (Volume 8, Book 77, Number 611).

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Abu Huraira:  The Prophet said, “Adam and Moses argued with each other. Moses said to Adam. ‘O Adam! You are our father who disappointed us and turned us out of Paradise.’ Then Adam said to him, ‘O Moses! Allah favored you with His talk (talked to you directly) and He wrote (the Torah) for you with His Own Hand. Do you blame me for action which Allah had written in my fate forty years before my creation?’ So Adam confuted Moses, Adam confuted Moses,” the Prophet added, repeating the Statement three times.

[/note]

Question arises that  when and where this discussion happened? Ibn Hajar in Fathul Bari said that (juz 18/ pg 461)

أَوْ كَانَ ذَلِكَ بَعْد وَفَاة مُوسَى فَالْتَقَيَا فِي الْبَرْزَخ

.. or that could be after the death of Moses so they both met in al-Burzakh

 

Also Ibn- Jauzi proposed that (Fathul Bari juz 4,, pg 443)

وَذَكَرَ اِبْن الْجَوْزِيّ اِحْتِمَال اِلْتِقَائِهِمَا فِي الْبَرْزَخ

Ibn Al-jauzi said possible met both in al-Burzakh

 

Ibn- Qutabah said in Taweel Mukhtalif ul hadith juz 1 pg 43

قال أبو محمد: ونحن نقول: إنه إذا جاز في المعقول وصح في النظر وبالكتاب والخبر إن الله تعالى يبعث من في القبور بعد أن تكون الأجساد قد بليت والعظام قد رمت جاز أيضاً في المعقول وصح في النظر وبالكتاب والخبر إنهم يعذبون بعد الممات في البرزخ. فأما الكتاب فإن الله تعالى يقول: ” النار يعرضون عليها غدواً وعشياً ويوم تقوم الساعة أدخلوا آل فرعون اشد العذاب ” فهم يعرضون بعد مماتهم على النار غدواً وعشياً قبل يوم القيامة ويوم القيامة يدخلون أشد العذاب والله عز وجل يقول: ” ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتاً بل أحياء عند ربهم يرزقون فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم إلا خوف عليهم ولا هم يحزنون ” وهذا شيء خص الله تعالى به شهداء بدر رحمة الله عليهم

Abu Muhammad said: we say: that in  reasonable and true look and (we know from) book and news that God  (will) resurrect people in the graves after the flesh has worn off and the bones disintegrated and (we also know from) reasonable consideration in the book and the news that they were tortured after their death in Burzakh. And in book Allah Almighty said The Fire; they are exposed to it, morning and afternoon, and on the Day when the Hour will be established (it will be said to the angels): “Cause Fir’aun’s (Pharaoh) people to enter the severest torment and He said Think not of those who are killed in the Way of Allah as dead. Nay, they are alive, with their Lord, and they have provision. They rejoice in what Allah has bestowed upon them of His Bounty, rejoicing for the sake of those who have not yet joined them, but are left behind (not yet martyred) that on them no fear shall come, nor shall they grieve. And this  is something that Allah has singled out for martyrs of Badr may Allah mercy on them

These evidences clearly show that scholars had considered the Burzakh as a realm where torment could be afflicted and Prophets could talk each other.

 

Some scholar now claim that Burzakh is a figment of imagination. However they fail to  understand that its only a term referring to the realm where soul would remain till resurrection. According to them the words رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ indicate that the dead person would like to come back to earth and can do good deeds only in world and not in grave, therefore,  these verses have nothing against the returning of the soul to dead.

 

However the same group of scholars who believe in returning of soul to the grave claim that a pious person may recite Quran in grave and may  still does good deeds. They claim (on the basis on non-authentic ahadith) that after burial soul comes back to dead body and it says to  angels,  let me say my prayers. Is it not the case that Prophet instructed his Ummah (Bukhari Volume 1, Book 8, Number 424) :

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا مسدد قال حدثنا يحيى عن عبيد الله قال أخبرني نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال  :  اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا 

Narrated Ibn ‘Umar: The Prophet had said, “Offer some of your prayers (Nawafil) at home, and do not take your houses as graves.”

[/note]

The Prophet informed his Ummah that there are no prayers in grave.

A question naturally arises that how the torment is afflicted if it does not happen in grave? There are several evidences that the soul is transferred to another body which experience all these afflictions.

 

 

Evidence 1: Souls with cheeks and head?

It is reported in Bukhari  باب ما قيل في أولاد المشركين: juz 1/pg 465

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا موسى بن إسماعيل حدثنا جرير بن حازم حدثنا أبو رجاء عن سمرة بن جندب قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا صلى صلاة اقبل علينا بوجهه فقال ( من رأى منكم الليلة رؤيا ) . قال فإن رأى أحد قصها فيقول ( ما شاء الله ) . فسألنا يوما فقال ( هل رأى أحد منكم رؤيا ) . قلنا لا قال ( لكني رأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي فأخرجاني إلى الأرض المقدسة فإذا ردل جالس ورجل قائم بيده كلوب من حديد ) قال بعض أصحابنا عن موسى  إنه يدخل ذلك الكوب في شدقه حتى يبلغ قفاه ثم يفعل بشدقه الآخر مثل ذلك ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله . قلت ما هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على رجل مضطجع على قفاه ورجل قائم على رأسه بفهر أو صخرة فيشدخ بها رأسه فإذا ضربه تدهده الحجر فانطلق إليه ليأخذه فلا يرجع إلى هذا حتى يلتئم رأسه وعاد رأسه كما هو فعاد إليه فضربه قلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا إلى ثقب مثل التنور أعلاه ضيق وأسفله واسع يتوقد تحته نارا فإذا اقترب ارتفعوا حتى كادوا أن يخرجوا فإذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراة فقلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم فيه رجل قائم وعلى وسط النهر – قال يزيد ووهب ابن جرير عن جرير بن حازم – وعلى شط النهر رجل بين يديه حجارة فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه فرده حيث كان فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر فيرجع كما كان فقلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى انتهيا إلى روضة خضراء فيها شجرة عظيمة وفي أصلها شيخ وصبيان وإذا رجل قريب من الشجرة بين يديه نار يوقدها فصعدا بي في الشجرة وأدخلاني دارا لم أر قط أحسن منها فيها رجال شيوخ وشباب ونساء وصبيان ثم أخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دارا هي أحسن وأفضل فيها شيوخ وشباب قلت طوفتماني الليلة فأخبراني عما رأيت . قالا نعم أما الذي رايته يشق شدقه فكذاب يحدث بالكذبة فتحمل عنه حتى تبلغ الآفاق فيصنع به إلى يوم القيامة والذي رأيته يشدخ رأسه فرجل علمه الله القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل فيه بالنهار يفعل به إلى يوم القيامة والذي رأيته في الثقب فهم الزناة والذي رأيته في النهر آكلوا الربا والشيخ في أصل الشجرة إبراهيم عليه السلام والصبيان حوله فأولاد الناس والذي يوقد النار مالك خازن النار والدار الأولى التي دخلت دار عامة المؤمنين وأما هذه الدار فدار الشهداء وأنا جبريل وهذا مكيائيل فارفع رأسك فرفعت رأسي فإذا فوقي مثل السحاب قالا ذاك منزلك قلت دعاني أدخل منزلي قالا إنه بقي لك عمر لم تستكمله فلو استكملت أتيت منزلك 

 

Narrated Samura bin Jundab:

Whenever the Prophet finished the (morning) prayer, he would face us and ask, “Who amongst you had a dream last night?” So if anyone had seen a dream he would narrate it. The Prophet would say: “Ma sha’a-llah” (An Arabic maxim meaning literally, ‘What Allah wished,’ and it indicates a good omen.) One day, he asked us whether anyone of us had seen a dream. We replied in the negative. The Prophet said, “But I had seen (a dream) last night that two men came to me, caught hold of my hands, and took me to the Sacred Land. There, I saw a person sitting and another standing with an iron hook in his hand pushing it inside the mouth of the former till it reached the jaw-bone, and then tore off one side of his cheek, and then did the same with the other side; in the mean-time the first side of his cheek became normal again and then he repeated the same operation again. I said, ‘What is this?’ They told me to proceed on and we went on till we came to a man Lying flat on his back, and another man standing at his head carrying a stone or a piece of rock, and crushing the head of the Lying man, with that stone. Whenever he struck him, the stone rolled away. The man went to pick it up and by the time he returned to him, the crushed head had returned to its normal state and the man came back and struck him again (and so on). I said, ‘Who is this?’ They told me to proceed on; so we proceeded on and passed by a hole like an oven; with a narrow top and wide bottom, and the fire was kindling underneath that hole. Whenever the fire-flame went up, the people were lifted up to such an extent that they about to get out of it, and whenever the fire got quieter, the people went down into it, and there were naked men and women in it. I said, ‘Who is this?’ They told me to proceed on. So we proceeded on till we reached a river of blood and a man was in it, and another man was standing at its bank with stones in front of him, facing the man standing in the river. Whenever the man in the river wanted to come out, the other one threw a stone in his mouth and caused him to retreat to his original position; and so whenever he wanted to come out the other would throw a stone in his mouth, and he would retreat to his original position. I asked, ‘What is this?’ They told me to proceed on and we did so till we reached a well-flourished green garden having a huge tree and near its root was sitting an old man with some children. (I saw) Another man near the tree with fire in front of him and he was kindling it up. Then they (i.e. my two companions) made me climb up the tree and made me enter a house, better than which I have ever seen. In it were some old men and young men, women and children. Then they took me out of this house and made me climb up the tree and made me enter another house that was better and superior (to the first) containing old and young people. I said to them (i.e. my two companions), ‘You have made me ramble all the night. Tell me all about that I have seen.’ They said, ‘Yes. As for the one whose cheek you saw being torn away, he was a liar and he used to tell lies, and the people would report those lies on his authority till they spread all over the world. So, he will be punished like that till the Day of Resurrection. The one whose head you saw being crushed is the one whom Allah had given the knowledge of Quran  but he used to sleep at night and did not use to act upon it  by day; and so this punishment will go on till the Day of Resurrection. And those you saw in the hole (like oven) were adulterers. And those you saw in the river of blood were those dealing in Riba (usury). And the old man who was sitting at the base of the tree was Abraham and the little children around him were the offspring of the people. And the one who was kindling the fire was Malik, the gate-keeper of the Hell-fire. And the first house in which you have gone was the house of the common believers, and the second house was of the martyrs. I am Gabriel and this is Michael. Raise your head.’ I raised my head and saw a thing like a cloud over me. They said, ‘That is your place.’ I said, ‘Let me enter my place.’ They said, ‘You still have some life which you have not yet completed, and when you complete (that remaining portion of your life) you will then enter your place.’ “

[/note]

This hadith explicitly  indicate that there is torment both collectively (like for adulterers) and individually (like for the Quran scholar and the liar) and the words يفعل به إلى يوم القيامة indicate that it would happen till day of resurrection.  Those who believe that the torment would happen only in grave claim that it’s a dream of Prophet and it needs interpretation which is not reported. Unfortunately they do not see the fallacy of their  claim as we are informed that Prophet has described  the dream in palpable manner and this particular dream was not metaphoric in nature.  In hadith literature we come across two kinds of prophetic dreams. One kind of dreams are metaphoric and for that in the same hadith we can find the interpretation. In another kinds of dreams the message is clear and no interpretation is demanded by the companions of Prophet. There were dreams of Prophet which were metaphoric and the dream was  different from prophetic interpretation and reality. In fact there were dreams  of Prophet which were clear and vivid and there are many examples of these kind of dreams in ahadith. For example Prophet saw in his dream that in Lailatul-Qadr, he would be prostrating in muddy waters and that happened exactly as it is. Similarly Prophet saw a dream in which he saw himself doing circumambulations the Kabbah. Prophet took it a direct revelation and set out for Umrah but pagans prevented him to enter Makkah, later Allah revealed that (in surah al-Fatah):

[note color=”#BEF781″]

لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آَمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا (27)

Indeed Allah shall fulfil the true vision which He showed to His Messenger  [i.e. the Prophet  saw a dream that he has entered Makkah along with his companions, having their (head) hair shaved and cut short] in very truth. Certainly, you shall enter Al-Masjid-al-Haram; if Allah wills, secure, (some) having your heads shaved, and (some) having your head hair cut short, having no fear. He knew what you knew not, and He granted besides that a near victory.

 [/note]

The present narration also reports the same kind of dream and that is why no interpretation is asked by the companions of Prophet. What is indicated in this hadith is that the new bodies are given to souls for the affliction of torment.

Ibn Hajar said in explanation of this narration (Fath ul Bari juz 20, pg 52)

. وَفِيهِ أَنَّ بَعْض الْعُصَاة يُعَذَّبُونَ فِي الْبَرْزَخ

And the narration has showed that some sinners will be punished in the Burzakh

 

Evidence 2: Intestines of soul?

 

Imam Bukhari reported in Sahih 11 – باب إذا انفلتت الدابة في الصلاة juz 1, pg 406:

[note color=”#CEECF5″]

1154 – حدثنا محمد بن مقاتل أخبرنا عبد الله أخبرنا يونس عن الزهري عن عروة قال : قالت عائشة خسفت الشمس فقام النبي صلى الله عليه و سلم فقرأ سورة طويلة ثم ركع فأطال ثم رفع رأسه ثم استفتح بسورة أخرى ثم ركع حين قضاها وسجد ثم فعل ذلك في الثانية ثم قال ( إنهما آيتان من آيات الله فإذا رأيتم ذلم فصلوا حتى يفرج عنكم لقد رأيت في مقامي هذا كل شيء وعدته حتى لقد رأيت أريد أن آخذ قطفا من الجنة حين رأيتموني جعلت أتقدم ولقد رأيت جهنم يحطم بعضها بعضا حين رأيتموني تأخرت ورأيت فيها عمرو بن لحي وهو الذي سيب السوائب )

Narrated ‘Aisha:

Once the sun eclipsed and Allah’s Apostle stood up for the prayer and recited a very long Sura and when bowed for a long while and then raised his head and started reciting another Sura. Then he bowed, and after finishing, he prostrated and did the same in the second Raka and then said, “These (lunar and solar eclipses) are two of the signs of Allah and if you see them, pray till the eclipse is over. No doubt, while standing at this place I saw everything promised to me by Allah and I saw (Paradise) and I wanted to pluck a bunch (of grapes) there from, at the time when you saw me stepping forward. No doubt, I saw Hell with its different parts destroying each other when you saw me retreating and in it I saw ‘Amr bin Luhai who started the tradition of freeing animals (set them free) in the name of idols.”

[/note]

Also reported by Bukhari in  باب  ما جعل الله من بحيرة ولا سائبة ولا وصيلة ولا حام  juz 4, pg 1691

[note color=”#CEECF5″]

4348 – حدثني محمد بن أبي يعقوب أبو عبد الله الكرماني حدثنا حسان ابن إبراهيم حدثنا يونس عن الزهري عن عروة أن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم  رأيت جهنم يحطم بعضها بعضا ورأيت عمرا يجر قصبه وهو أول من سيب السوائب 

Narrated Aisha:  Allah’s Apostle said, “I saw Hell and its different portions were consuming each other and saw ‘Amr dragging his intestines (in it), and he was the first person to establish the tradition of letting animals loose (for the idols).”

[/note]

In this report clearly a sign of new body are present. Amr bin Luhai is dragging his intestines in Hell. The soul does not have intestines. It’s a sign of a body.

 

Evidence 3: Bird’s flight or soul’s flight?

 

It is reported in Sahih Muslim  chapter باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة وأنهم أحياء عند ربهم يرزقون juz 3, pg 1502

 

[note color=”#CEECF5″]

 ( 1887 ) حدثنا يحيى بن يحيى وأبو بكر بن أبي شيبة كلاهما عن أبي معاوية ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير وعيسى بن يونس جميعا عن الأعمش ح وحدثنا محمد بن عبدالله بن نمير ( واللفظ له ) حدثنا أسباط وأبو معاوية قالا حدثنا الأعمش عن عبدالله بن مرة عن مسروق قال سألنا عبدالله ( هو ابن مسعود ) عن هذه الآية { ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون } [ 3 / آل عمران / 169 ] قال أما إنا سألنا عن ذلك فقال  أرواحهم في جوف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تأوي إلى تلك القناديل فاطلع إليهم ربهم اطلاعة فقال هل تشتهون شيئا ؟ قالوا أي شيء نشتهي ؟ ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا ففعل ذلك بهم ثلاث مرات فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا قالوا يا رب نريد أن ترد أرواحنا في أجسادنا حتى نقتل في سبيلك مرة أخرى فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا 

Masrooq said: We asked Abdullah (ibn Masood) about the verse Think not of those who are killed in the Way of Allah as dead. Nay, they are alive, with their Lord, and they have provision. He said  Indeed we asked Prophet about this he said: Souls are in Green bird, they have chandeliers hanging to the Holy Throne. They go in Paradise where they wants and then return  to the chandeliers,  Their Lord asked them and  said: Do ye desire anything? They replied (O Lord) anything we need! we go out in paradise where we want. Their Lord asked them same  three times.  When they  saw that Lord  would not leave asking them,  they said, O Lord, we want that our souls be returned  into our bodies until we kill for the Way (of Allah) again. When He (Allah) saw that they need nothing, He stopped asking them.

[/note]

It is reported in Bukhari باب مناقب جعفر بن أبي طالب الهاشمي رضي الله عنه juz 3, pg 1360

[note color=”#CEECF5″]

حدثني عمرو بن علي حدثنا يزيد بن هارون أخبرنا إسماعيل ابن أبي خالد عن الشعبي  : أن ابن عمر رضي الله عنهما كان إذا سلم على ابن جعفر قال السلام عليك يا ابن ذي الجناحين

 Narrated Ash-Sha’bi: Whenever Ibn ‘Umar greeted Ibn Jafar, he used to say: “As-salamu-‘Alaika (i.e. Peace be on you) O son of Dhul-Janahain (son of the two-winged person).”

[/note]

The martyrs got new bodies which can fly. Scholars which do not believe in the new bodies say that green birds for the martyrs are like aeroplanes. Their souls sit into these flying creatures. However the wordابن ذي الجناحين  clearly contradict these assumptions. The wings are given to  companion Jafar and that is why he is called the two-winged one.  Jafar was martyred in war of Mauta which occurred in 8 AH.

 

Evidence 4: Milk sucking soul?

 

It is reported in Bukhari باب ما قيل في أولاد المسلمين   juz 1  pg 465

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أبو الوليد حدثما شعبة عن عدي بن ثابت  : أنه سمع البراء رضي الله عنه قال لما توفي إبراهيم عليه السلام قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( إن له مرضعا في الجنة )                        

 Narrated Al-Bara: When Ibrahim (the son of the Prophet) died, Allah’s Apostle said, “There is a wet nurse for him in Paradise

 [/note]

Further Prophet informed that his son Ibrahim goes to heaven where he has a body which could enjoy milk! Does the soul need milk?

 

Evidence 5 : Azab al-Qabr even before burial?

It is reported in Sahih Bukhari  Volume 2, Book 23, Number 376   that:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله بن يوسف أخبرنا مالك عن عبد الله بن أبي بكر عن أبيه عن عمرة بنت عبد الرحمن أنها أخبرته  : أنها سمعت عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه و سلم قالت إنما مر رسول الله صلى الله عليه و سلم على يهودية يبكي عليها أهلها فقال  إنهم يبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها         

 

Narrated ‘Aisha:  (the wife of the Prophet) Once Allah’s Apostle passed by a Jewess whose relatives were weeping over her. He said, “They are weeping over her and she is being tortured in her grave.”

[/note]

In Sahih  Muslim juz 2, pg 643, chapter  باب الميت يعذب ببكاء أهله عليه  it is reported that:

[note color=”#CEECF5″]

وحدثنا قتيبة بن سعيد عن مالك بن أنس فيما قرئ عليه عن عبدالله بن أبي بكر عن أبيه عن عمرة بنت عبدالرحمن أنها أخبرته أنها سمعت عائشة وذكر لها أن عبدالله بن عمر يقول  : إن الميت ليعذب ببكاء الحي فقالت عائشة يغفر الله لأبي عبدالرحمن أما أنه لم يكذب ولكنه نسى أو أخطأ إنما مر رسول الله صلى الله عليه و سلم على يهودية يبكى عليها فقال إنهم ليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها

 

Narrated ‘Aisha (the wife of the Prophet) when if is reported to her that Abdullah ibn Umer said Indeed dead would be tormented for the weeping of the living (relatives), so she said May Allah forgive Abi Abdur-Rehman (Abdullah ibn Umer) he is not a liar but did mistake or forgot actually  Allah’s Apostle once  passed by a Jewess whose relatives were weeping over her. He said, “They are weeping over her and she is being tortured in her grave.”

[/note]

Both of these narrations clearly indicate that the Jewess was not even buried but she was tormented due to weeping of her relatives. This indicate that the word Qabr in Prophet’s era actually refers to the abode in Burzakh.

The faction of scholars which believe in the returning of the soul to dead claim that  the narrators of  this  narration mistakenly dropped the word grave. Prophet had actually passed by the grave of a Jewess. To support their argument they present the narrations from  Musnad Ahmed juz 2, pg 38, Sunnan Nisai juz 1, pg 262, Sunann Abi Dawood juz 3, pg 163 etc. However they forget that they themselves claim that any thing narrated by the narrators of Sahiheen is authentic. Are they not digressing from their previous claim?

In fact this narration is heard by eight people with the  sanad (chain) of Hassham bin Urwa from Urwa from ‘Aisha with some variation of words.  The most trustworthy among these eight narrators is Hammad bin Zaid, a very famous Imam of Jarah and Tadeel. He reported that the Prophet passed by the Jannaza (funeral bier) of a  Jew!

Muslim juz 2 pg 642 chapter باب الميت يعذب ببكاء أهله عليه reported:

[note color=”#CEECF5″]

وحدثنا خلف بن هشام وأبو الربيع الزهراني جميعا عن حماد قال خلف حدثنا حماد بن زيد عن هشام بن عروة عن أبيه قال : ذكر عند عائشة قول ابن عمر الميت يعذب ببكاء أهله عليه فقالت رحم الله أبا عبدالرحمن سمع شيئا فلم يحفظه إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه و سلم جنازة يهودي وهم يبكون عليه فقال أنتم تبكون وإنه ليعذب

When Aisha was informed about the statement of  Ibn Umer that dead are tortured due to crying of relatives, she said O Allah ,  Send your mercy on  Abu Abdul Rahman, he heard  something which now he remembered not. In fact Messenger of Allah PBUH passed by  the  funeral  bier of a Jew and they were crying so he  said you weep for him and he is being  tortured.

[/note]

This another narration of Muslim shows that the Jew was not even buried. The issue is not whether the dead person was male or female, the issue is whether he or she was buried or  still on the surface.

The narration which is presented for the support of wide held belief that the torment actually occur in the earthly grave is attributed to Byra bin Azib, a  companion of Prophet peace be upon him. This  narration is reported in Musnad Ahmed, juz4 , pg, 287; Abi Dawood juz 13, pg 494;  Ibn Abi Shibah juz 3,pg 310, Hakim juz 1, pg 37 etc with some variations in text:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا أبو معاوية قال ثنا الأعمش عن منهال بن عمرو عن زاذان عن البراء بن عازب قال : خرجنا مع النبي صلى الله عليه و سلم في جنازة رجل من الأنصار فانتهينا إلى القبر ولما يلحد فجلس رسول الله صلى الله عليه و سلم وجلسنا حوله وكأن على رءوسنا الطير وفي يده عود ينكت في الأرض فرفع رأسه فقال استعيذوا بالله من عذاب القبر مرتين أو ثلاثا ثم قال ان العبد المؤمن إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه ملائكة من السماء بيض الوجوه كأن وجوههم الشمس معهم كفن من أكفان الجنة وحنوط من حنوط الجنة حتى يجلسوا منه مد البصر ثم يجئ ملك الموت عليه السلام حتى يجلس عند رأسه فيقول أيتها النفس الطيبة أخرجي إلى مغفرة من الله ورضوان قال فتخرج تسيل كما تسيل القطرة من في السقاء فيأخذها فإذا أخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى يأخذوها فيجعلوها في ذلك الكفن وفي ذلك الحنوط ويخرج منها كأطيب نفحة مسك وجدت على وجه الأرض قال فيصعدون بها فلا يمرون يعنى بها على ملأ من الملائكة الا قالوا ما هذا الروح الطيب فيقولون فلان بن فلان بأحسن أسمائه التي كانوا يسمونه بها في الدنيا حتى ينتهوا بها إلى السماء الدنيا فيستفتحون له فيفتح لهم فيشيعه من كل سماء مقربوها إلى السماء التي تليها حتى ينتهى به إلى السماء السابعة فيقول الله عز و جل اكتبوا كتاب عبدي في عليين وأعيدوه إلى الأرض فإني منها خلقتهم وفيها أعيدهم ومنها أخرجهم تارة أخرى قال فتعاد روحه في جسده فيأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول ربي الله فيقولان له ما دينك فيقول ديني الإسلام فيقولان له ما هذا الرجل الذي بعث فيكم فيقول هو رسول الله صلى الله عليه و سلم فيقولان له وما علمك فيقول قرأت كتاب الله فآمنت به وصدقت فينادى مناد في السماء ان صدق عبدي فافرشوه من الجنة وألبسوه من الجنة وافتحوا له بابا إلى الجنة قال فيأتيه من روحها وطيبها ويفسح له في قبره مد بصره قال ويأتيه رجل حسن الوجه حسن الثياب طيب الريح فيقول أبشر بالذي يسرك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول له من أنت فوجهك الوجه يجئ بالخير فيقول أنا عملك الصالح فيقول رب أقم الساعة حتى أرجع إلى أهلي وما لي قال وان العبد الكافر إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه من السماء ملائكة سود الوجوه معهم المسوح فيجلسون منه مد البصر ثم يجئ ملك الموت حتى يجلس عند رأسه فيقول أيتها النفس الخبيثة أخرجي إلى سخط من الله وغضب قال فتفرق في جسده فينتزعها كما ينتزع السفود من الصوف المبلول فيأخذها فإذا أخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى يجعلوها في تلك المسوح ويخرج منها كأنتن ريح جيفة وجدت على وجه الأرض فيصعدون بها فلا يمرون بها على ملأ من الملائكة الا قالوا ما هذا الروح الخبيث فيقولون فلان بن فلان بأقبح أسمائه التي كان يسمى بها في الدنيا حتى ينتهى به إلى السماء الدنيا فيستفتح له فلا يفتح له ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه و سلم { لا تفتح لهم أبواب السماء ولا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط } فيقول الله عز و جل اكتبوا كتابه في سجين في الأرض السفلى فتطرح روحه طرحا ثم قرأ { ومن يشرك بالله فكأنما خر من السماء فتخطفه الطير أو تهوي به الريح في مكان سحيق } فتعاد روحه في جسده ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان له ما دينك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان له ما هذا الرجل الذي بعث فيكم فيقول هاه هاه لا أدري فينادى مناد من السماء ان كذب فافرشوا له من النار وافتحوا له بابا إلى النار فيأتيه من حرها وسمومها ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه ويأتيه رجل قبيح الوجه قبيح الثياب منتن الريح فيقول أبشر بالذي يسوءك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول من أنت فوجهك الوجه يجئ بالشر فيقول أنا عملك الخبيث فيقول رب لا تقم الساعة

 

In some narrations there is an addition that

فيقيض له أصم أبكم معه مرزبة ولو ضرب بها فيل صار ترابا أو قال رميما فيضربه ضربة تسمعها الخلائق إلا الثقلين ثم تعاد فيه الروح فيضربه ضربة أخرى

 

Byra bin Azib reported that we went out with the Prophet, peace be upon him at the funeral of a man from Ansar so we arrived at the grave and it was not ready; Messenger of Allah peace be upon him sat and we sat around him as if birds are over our heads and in his hands was a twig   through which he was engraving on ground. He raised his head and said:  Ask forgiveness of Allah from the torment of the grave two or three times and then said that for the righteous  person at  the interruption of this world and the beginning of the Hereafter, came down the angels from heaven with bright faces as if their faces are sun. With them is a shroud of Paradise and shrouds of musk of musk of paradise, they sit until the range of sight.  Then arrive the Angel of Death, peace be upon him until sits at his (righteous person’s) head and says, O good soul come out towards the forgiveness of God and His happiness.  He said: It come out flowing like flowing drop from waterskin , he (angel) takes the souls  and it does not remain with him for an eye blink and the souls is taken from him by (other) angels. Then they  adorn the soul  with the heavenly attire and engulfed it into heavenly scent. A scent then erupts from the souls which smelled better than the Musk fragrances of the earth.

 Prophet said: The angels (carrying soul) ascend towards heaven. As they passes by the schools of angels (already in heaven), Angels inquired: Which pious soul is this? They are told that he is that son of that. They utter his (dead person) most worthy name through which he is called at earth. Angels take him to the heaven and request that the doors of heaven be opened for it and doors are opened. Afterwards the angels of presence of each sky would accompany this soul until they reach the seventh sky.

Allah says:  Inscribe the book of my slave in Illiyen and return him to the earth as by it,  I have created them  and to which I would return them and  brought them out at another time

 (Prophet) Said:  so the soul is returned in the body, and comes two angels to him which sat him. They also ask him:  Who is your Lord?  He says my Lord is Allah. They ask him:  What is your faith? He says: Islam is my faith. They ask: Who was the person sent among you? He says: He (Muhammad PBUH) is the prophet. They inquire: How do you come to know all about it? He says: I read the book of Allah, believed in it and attested it.  A voice then comes from the sky: My slave spoke truth so laid the floor of Heavens for him, adorned him in heavenly attire and open the door of heaven for him.

Said: The fragrance of heavens started reaching him and his grave is extended till the eye-sight.

(Prophet) Said: After that comes a handsome person, perfumed and beautifully dressed. He comes to the righteous person, with these bounties remain blissful, these are the tidings for you, this is the day promised to you. Righteous person inquires Who are you?  Your face is like blessings achieved.  He says: I am your good deed. Then the righteous person prayed that O Lord establish the day of Judgement, so that I may return to my family.

Prophet said: When the infidel leave this world and about to enter in hereafter, come the angels  from heavens with black faces with jute rug. They sat with the distance till reaches eye slight. After that comes the angel of Death which sit close to his head and says O evil soul come out towards the wrath of God  and His anger. Said: The soul then spreads inside the body, Angel of death then dragged it out like iron spike is taken out from the  wool. As soon as angel of death took hold of the soul, come other angels and with in an eye blink took it from his hands and fold it into jute rug.  From it (souls) erupts the most vicious of smells.

Angels take it and ascend upwards, as they passes by schools of angels, they inquire: Which evil soul is this?  Angels call the worst name of it, through which he was famous at the earth. Until they reach the first sky and asked for the door to be opened but it is not allowed. Prophet then recited this verse: The doors of sky would not be opened for them until the camel goes through the passage of needle.

 

Then Allah orders: Inscribe his name in Sijjeen, which is the under-world.

 

Then the soul is thrown down and Prophet recited verse whoever assigns partners to Allah, it is as if he had fallen from the sky, and the birds had snatched him, or the wind had thrown him to a far off place… Then his soul is returned to body and arrive two angels which sat him and ask: Who is your Lord? He says alas I know it not. They ask: What is your faith? He says: Alas I know it not. They ask: Who was the person sent among you? He says: Alas I have no knowledge.

Then resound a voice from heaven He lied so laid the blanket of fire – open a door of Hell. So come to him the heat of hell fire and its stench. The grave is so squeezed that his ribs engraved into one another. Then comes a man with hideous face and squalidly dressed with stench erupting from him. He comes and said I want to give you the tidings of things which would make you sad. This the day- promised to you!  Infidel inquired: Who are you, with such a hideous face full of evilness? He says:  I am your evil deeds. On that he cried:  O Lord Let not the Time (day of judgement) come!

 

(additional part in some books)

.. Then appointed on him a deaf or  mute with mace , that if he would strike the Elephant it would  became mud or said dust,  the strikes  a blow  which is  heard by all the  creatures except Humans & Jinns and  then returned the soul (again to body)  it strikes another blow.

[/note]

Endorsement of this narration by Al-Hakim (died 405 A.H.): Al-Hakim Al-Nishabori committed a mistake in endorsing this narration in his compilation Mustadrak Al-Hakim. Mustaddrak Al-Hakim is replete with such mistakes and scholars over the ages have indicated these mistakes.  Al-Hakim was a prolific author and has written many books. Mustaddark is a book which according to Al-Hakim contains narrations which both Imam Bukhari and Imam Muslims have not included in their Sahih or Jamah. Al-Hakim assuming that he understood the rules of selection of Sahih narrations by Bukhari and Muslim, complied the Mustadrak. At several places he has written “on the conditions of both (Bukhari & Muslim) but they have not reported it” i.e. the said narration is fulfilling the conditions of Bukhari and Muslims but they have not included those in Sahiheen.

 

Such endorsements of Hakim are criticized by major scholars over the years see Nasb-ur-Raya by Zalai, Tazkira tul-Huffaz by Dahabi, Meezan Al-Ateedal by Dahabi, Lisan al-Meezan by Ibn-Hajar etc.

 

Al-Hakim said for the narration of Byra bin azib from Zazzan that (Mustadrak , juz 1, pg 51):

 

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين فقد احتجا جميعا بالمنهال بن عمرو و زاذان أبي عمر الكندي و في هذا الحديث فوائد كثيرة لأهل السنة و قمع للمبتدعة و لم يخرجاه بطوله

 

This narration is sahih on the conditions of both Sheiks (i.e. Bukhari & Muslim) as both have taken narrations from Minhal bin Amr and Zazzan Abi Umer Al-Kindi and it has many benefits  for Ahl-Sunnah and suppression for heretics but have not included it due to its length

 

Endorsement of this narration by  Al- Dahabi (died 748 A.H.): Dahabi has written in his noting over Mustadrak  (see juz 1, pg 51) that:

 

تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرطهما فقد احتجا بالمنهال

Noting of Dahabi in Talkhees: As per their standards and they both (Bukhari & Muslim) have taken narrations from Minhal

 

This is a mistake from Dahabi, as Muslim has not taken any narration from Minhal bin Amr. So the statement of Dahabi is incorrect.

 

Dahabi has written Seer-Allam Al-Nabla and Tarikh Islam after the compilation of his noting on Mustadrak. As he indicated that elsewhere.

 

Dahabi writes in Tarikh al-Islam Juz 1,  2942

. وفي بعض ذلك موضوعات قد أعلمت بها لما اختصرت هذا ” المستدرك ” ونبهت على ذلك

And for these issues I have informed in my synopsis of this Mustadark and alerted (the reader)

 In Seer Allam, Juz 17, pg 175 he writes:

وبكل حال فهو كتاب مفيد قد اختصرته،

And in all respect that book (Mustadrak) is a useful book I have shortened it and …

 

Thus it is clear from these excerpts that Talkhis over Mustadrak was compiled before the thorough work of Seer Allam and Tahrikh al-Islam

 

Therefore the endorsement of Dahabi for the Minhal narration as quoted above could not be taken seriously. In this later work he himself refuted this narration, as mentioned earlier from the references of Seer-Allam and Tahrikh Islam.

 

Dahabi said in Seer Aallam ( juz 5, pg 184 ) compiled after his noting on Mustadrak:

قلت: حديثه في شأن القبر بطوله فيه نكارة وغرابة، يرويه عن زاذان عن البراء

I say: his lengthy narration regarding grave has Nikkarat (against established hadith) and Gharabat (uniquness), which he narrates from Zazzan from Byra

Dahabi has refuted this narration in his later work and in a way cleared his position.

Endorsement of this narration by Al-Baihaqui (died 458 AH): Al- Baihaqui had compiled  a book on the narrations of Azab-al-Qabr. As such the book is compiled against the Mu’tazilah. Mu’tazilah was the speculative theology that flourished in Basra and Baghdad. Mu’tazilah theological school is traced back to Wāṣil ibn ʿAṭāʾ (699–749) who was the student of al-Ḥasan al-Baṣri.  Mu’tazilah were the stalwart opposer of the idea that there would be any torment in grave. It was the kind of aberrant  school indulged in philosophical details of Islamic thought and believe. They were the fore-runners of the so-called created-Quran (Khalq-al-Quran) dogma in era of Abbāsid caliph al-Maʾmūn.

 

Baihaqui has compiled a book titled إثبات عذاب القبر in which he has included 240 narrations about the torment in grave.  Baihaqui has not given any of his opinions on the narration weaknesses as he did for his book on issue of  recitation of Fatiah behind the Imam. Baihaqui said in this book:

 

قال عمرو في حديثه عن منهال عن زاذان عن البراء عن النبي صلى الله عليه وسلم فيقيض له أصم أبكم معه مرزبة ولو ضرب بها فيل صار ترابا أو قال رميما فيضربه ضربة تسمعها الخلائق إلا الثقلين ثم تعاد فيه الروح فيضربه ضربة أخرى هذا حديث كبير صحيح الإسناد رواه جماعة من الأئمة الثقات عن الأعمش وأخرجه أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني في كتاب السنن

Amr said in narration:  from Minhal from Zazzan from Byra from Prophet then appointed on him a deaf or  mute with mace , that if he would strike the Elephant it would  became mud or said dust,  the strikes  a blow  which is  heard by all the  creatures except Humans & Jinns and  then returned the soul (again to body)  it strikes another blow.

This is a well known hadith with sahih chain of narrators and narrated by a group of authentic scholars from Al-Amash and it is reported by Abu Dawood Sulemain bin Al-Ashas Al-Sijistani in his Kitab on Sunnan.

 

Baihaqui thus supported this narration.

Narration of Byra bin Azib is against Quran:

It would be necessary to analyse what is stated in narration instead of accepting it on its face value.

Confusion over Illiyen & Sijjen:

It is stated in narration that God commanded that:

 

Inscribe the book of my slave in Illiyen and return him to the earth  …Inscribe his name in Sijjeen, which is the under-world.

 

Sijjin as an under-world has no basis in Quran and Sahih Ahadith.  God Almighty  informed us in his glorious book that Sijjin is a register not a place.

[note color=”#BEF781″]

كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ (7) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَرْقُومٌ 

Nay! Truly, the Record (writing of the deeds) of the Fujjar (disbelievers, sinners, evil-doers and wicked) is (preserved) in Sijjin. And what will make you know what Sijjin is? A Register inscribed.

[/note]

Likewise Illiyen is the record of righteous people.

[note color=”#BEF781″]

كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ (18) وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (20) يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ 

Nay! Verily, the Record (writing of the deeds) of Al-Abrar (the pious who fear Allah and avoid evil), is (preserved) in ‘Illiyyun. And what will make you know what ‘Illiyyun is? A Register inscribed. To which bear witness those nearest (to Allah, i.e. the angels).

 [/note]

Unfortunately the group of scholars who claim that Zazzan narration from Byra bin Azib’snarration is authentic also sometimes claim that it is the name of place!

 

Doors of sky would not be opened for Infidels

It is claimed in narration that when the angels ascend with soul of evil-doer then:

 

Until they reach the first sky and asked for the door to be opened but it is not allowed. Prophet then recited this verse: The doors of sky would not be opened for them until the camel goes through the passage of needle.

 

If this is the rule that door of sky would not be opened for a soul then why the same group of scholars (which believe in the returning of soul to dead body)  claim that the soul after questioning in grave goes back to Hell!  Does it mean that camel has crossed the passage of the needle? Actually there is a contradiction between their believe and what narrators are portraying. Narrators (Minhal bin Amr and Zazzan) would like to stress that souls after death remain in earth irrespective of whether the person is righteous or infidel.

 

Complications due to Additional text:

 

What these narrators are purporting is that the soul return to body does not happens only one times, rather it is an on going process. As reported in the Idafa:

 

.. Then appointed on him a deaf or  mute with mace , that if he would strike the Elephant it would  became mud or said dust,  the strikes  a blow  which is  heard by all the  creatures except Humans & Jinns and  then returned the soul (again to body)  it strikes another blow.

 

Since this (Idafa) addition is against the widespread belief that soul would be returned to the body in grave only once. It was necessary to refute it some how. Therefore the newly emerged so-called Salafi followers claim that this addition (Idafa) is not authentic. However  their predecessors like Ibn-Tammiah quoted this addition twice in his Fatawah. Ibn-Qayyam quoted this addition in Kitab-ur-Ruh and the recent era scholar Nasiruddin Al-Bani declared this Idafa authentic.

 

 

Recently a group called Ahl-Hadith in Pakistan has refuted this Idafa claiming that it is not valid (see Al-Musnad fi Azab al-Qabr by Muhammad Arshad Kamal pg 152). However Mr. Arshad Kamal has blatantly used the endorsement of Baihaqui, Ibn-Qayyam, Al-Bani etc. (see Al-Musnad fi Azab al-Qabr by Muhammad Arshad Kamal pg 150-151) and hid the fact that these scholars consider this addition also authentic.

 

This Idafa is declared authentic  by many scholars like

S. # Scholar Book Juz/ Volume page
1 Al-Baihaqui Isbat Azab Al-Qabr 1 39
2 Ibn- Tammiah Majmu’a Fatawah 4 289
3 Ibn-Qayyam Kitab ar-Ruh 1 48
4 Ibn- Tammiah Mjumu’a Fatawah 1 349
5 Nasiruddin Al-Bani Sahih Targheeb wal- Tarheeb 3 219
6 Nasiruddin Al-Bani Ehkam ul- Janaiz 1 159
7 Nasiruddin al-Bani Mishtaak Al-Masabih 1 28

 

 

Imam Al-Dolabi has informed us in his work titled Al-Kuna-wal-Asma  (juz 4- pg 404) that the Zazzan was among the Shiites.

أخبرني محمد بن إبراهيم بن هاشم ، عن أبيه ، عن محمد بن عمر قال : « زاذان أبو عمر الفارسي مولى لكندة ، أدرك عمر ، وكان من أصحاب عبد الله ، وكان من شيعة علي ، هلك في سلطان عبد الملك

Muhammad bin Umer (Al-Waqidi) said that Zazzan Abu Umer Al-Farisi Maula Kindah found (the era of) Umer and was among the people of Abdullah (ibn Masood) and was from Shiites of Ali, died in the regime of Sultan Abdul-Malik

 

The statement of Al-Waqidi  is a historical record. Further,  Ibn- Hajar said in Taqreeb al-Tahzeeb (juz 1, pg 307)

زاذان أبو عمر الكندي البزاز ويكنى أبا عبد الله أيضا صدوق يرسل وفيه شيعية من الثانية مات سنة اثنتين وثمانين

Zazzan Abu Umer al-Kindi Al-Bazzaz and nicknamed Aba Abdullah also is Sudooq some times commit Irsal and has Shiite inclination died in year eighty two.

 

Ibn-Hajar and Dolabi both informed about the Shiite connection of Zazzan. The group of scholar which support the believe of returning of the soul into dead claim that Ibn-Hajar was influenced by Al- Waqidi. However there are evidences which support the inclination of Zazzan towards Shia’ism. Further it would be interesting to know that Ibn-Hajar has quoted Muhammad bin Umer Al-Waqidi  more than 200 times in Tahzeeb al-Tahzeeb only. This basically reflects the acceptance of Waqidi in keeping the record of history.

 

Now here the narrations reported by Zazzan which reflect his Shitte tendencies:

 

1.  It is reported  in  Fazail Sahabah compiled by Imam Ahmed (juz 2 pg 472) that:

حدثنا عبد الله ، قثنا أبي ، قثنا ابن نمير ، نا عبد الملك ، عن أبي عبد الرحيم الكندي ، عن زاذان أبي عمر قال : سمعت عليا في الرحبة  وهو ينشد الناس : من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم وهو يقول ما قال ؟ فقام ثلاثة عشر رجلا فشهدوا أنهم سمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول : « من كنت مولاه فعلي مولاه ، اللهم وال من والاه ، وعاد من عاداه »

Zazzan said: I heard Ali  in Al-Rahbah and he was preaching: Who saw the Messenger of Allah peace be upon him on the Ghadeer Khum?  He said what he said? Stood thirteen men and bear witness that  they heard the Messenger of Allah, peace be upon him, he said: «If I  am the friend of someone Ali is his friend O  Allah,  take as friend one who take him as friend and take as enemy one who takes him as enemy»

 

2. Also reported in Fazail Sahabah by Imam Ahmed (juz 3 pg 3) that:

حدثنا عبد الله قال : وجدت في كتاب أبي بخط يده وأظنني قد سمعته منه ، نا وكيع ، عن شريك ، عن عثمان أبي اليقظان ، عن زاذان ، عن علي قال : مثلي في هذه الأمة كمثل عيسى ابن مريم ، أحبته طائفة  وأفرطت في حبه فهلكت ، وأبغضته  طائفة ، وأفرطت في بغضه فهلكت ، وأحبته طائفة فاقتصدت في حبه فنجت

Zazzan narrated from Ali that he (Ali) said: I am in this nation, like a  Jesus, son of Mary, A part of it  loved him ,and deviated in excessive  love and angered a party and exhibited excess in abhorrence (against me) ..

 3.  It is reported in Hadith Abi Fazl Azzuhri ( juz 1 pg 107) that:

أخبركم أبو الفضل الزهري ، نا إبراهيم ، نا صالح بن مالك ، نا أبو الصباح عبد الغفور ، نا أبو هاشم الرماني ، عن زاذان ، قال : حدثتنا عائشة أم المؤمنين ، قالت : أهدت إلي امرأة مسكينة هدية ، فلم أقبلها منها رحمة لها ، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : « ألا قبلتيها منها وكافأتيها فلا ترى أنك حقرتيها ، تواضعي يا عائشة ، فإن الله يحب المتواضعين ، ويبغض المتكبرين »

Zazzan narrated  that Aisha ( Mother of Believers) narrated to them; She said: A poor woman has donated a gift; I had not accepted it as a token of mercy, I informed this to the Messenger of Allah peace be upon him and he said: «  Why you have not accepted that and it would have been enough to show that you  do not see her as inferior , Oh Aisha,  Be humble, God loves humble  and hates the proud!

The above narrations are the examples of Shiite tendencies of Zazzan. Not only that he is considered as an authentic narrator in Shiite literature like Usool-al-Kafi etc. Dr. Bashshar Awwad Al-Maroof have indicated that narrations form  Zazzan is quoted in Shiite literature like  الكافي في القضاء والاحكام: 6، باب: النوادر 19 حديث رقم 12،  and also in another book titled

 والتهذيب: باب من الزيادات في القضايا والاحكام، حديث رقم 804).

Now the Shitte belief on the life in graves from Al-Kafi

Chapter 112
Climbing over the grave of the Holy Prophet (s.a) prohibited
H , Ch. 112, h 1
A number of our people has narrated from Ahmad ibn Muhammad al-Barqi from Ja‘far ibn al- Muthanna al-Khatib who has said the following. “I was in Madina when the roof over the grave of the Holy Prophet (s.a) had crumbled down and the workers were climbing up and down (for repairs). We were a group and said to our people, “Who has an appointment with abu ‘Abdallah (a.s.)?” Mihran ibn abu Nasr said, “I have an appointment with the Imam (a. s.).” ’Isma‘il ibn ‘Ammar al-Sayrafi said, “I have an appointment with the Imam (a.s.).” I said to them, “Ask the Imam (a.s.) if it is permissible to climb up and look on to the grave of the Holy Prophet (s.a).” Next day we met them and we all came together. ’Isma‘il said, “We asked your question and he said this. “I do not like anyone to climb over him and I do not feel safe for anyone whose eye sight may go away because of catching sight of something that cause him such loss or see him standing in prayer or see him with anyone of his wives.”

 

In the era of compilation of books of ahadith i.e. Sahih Bukhari, Sahih Muslim,  Gama-al-Tirmidhi, Sunan Abi Dawood, Sunnan Ibn-Maja, Sunan Nisai already several kind of heresies and deviated sects were present including Shiites, Khawarij, Mutazalites etc.

 

Scholars of hadith then developed the rules to write someone’s narration now known as Ilm-ul-Hadith (Knowledge of Hadith). One of its principal is that one should reject the narration if it supports the heretic believes of the narrator.

 

Qazi Abdul Wahab (القاضي عبد الوهاب) said (Tadreeb-ur-Ravi juz1,pg6) :

قال: لا يُؤخذ العلم عن أربعة, ويُؤخذ عمَّن سِوَاهم: لا يُؤخذ عن مُبتدع يدعو إلى بِدْعته

Do not take Ilm from four and take from others, (first) Do not take it from Heretic which call you to his heresy…

Uqdmah Ibn-Salah (pg 22):

تقبل روايته إذا لم يكن داعية، ولا تقبل إذا كان داعية إلى بدعتة، وهذا مذهب الكثير أو الأكثر من العلماء.

(Some scholar say) accept the narration if he is not heretic, and do not accept narration if he lead towards his heresy and this is the way followed by many or many of our scholars

 

There are several such quotations. The conclusion is that in case the narration is supporting some deviated faith, it should be rejected!

 

Although Minhal and Zazzan are narrators in Sahih Bukhari and Muslim but both avoided the narration of Byra bin Azib about the returning of soul to the dead body.  Life in an earthly grave is an established Shiite faith. Both Zazzan and Minhal being Shiite have exhibited their faith in this narration.

 

Dahabi said in Seer-Allam Al-Nublah juz 1, pg 59:

قال الذهبي: فلقائل أن يقول: كيف ساغ توثيق مبتدع وحد الثقة العدالة والاتقان ؟ فكيف يكون عدلا من هو صاحب بدعة ؟ وجوابه: ان البدعة على ضربين: فبدعة صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق. فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة.  ثم بدعة كبرى، كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة.

 

Al-Dhahabi said: If the inquirer ask : how goes documenting heretic’s narration along with  his  trustworthiness, justice and confidence on narrator? How could he do justice if he is a  heretic? And the answer is : that the heresey is of two kinds:

Minor Heresey: Like Shi’ism or  Shiism without excess and distortion, and this has occurred with many of the Tabaeen and their followers in religion with piety and honesty.   If a we reject the narration (on these grounds ) then a lot of prophetic Athar would vanish, and this is an obvious spoil! Then ( there is) major heresy,  like Rifdh as a total rejection and extremism, and degradation of  Abu Bakr and ‘ Umar (RA), this sort of narrators  does not deserve dignity and writing of narrations.

 

 

The narrator of this so-called hadith, Minhal bin Amr is also considered as one having heretic believes. Imam Jozjani reported in his work Ahwal-ur-Rejal

 

قال إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني المنهال بن عمرو سيء المذهب وقد جرى حديثه

!Jozjani said: Minhal bin Amr – bad faith (heretic) but his narrations are in circulation

Abdurrehman bin Yahyah al-Muallami al-Yamani (العلامة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي العتمي اليماني) writes in his work titled , التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل  juz 1 pg 150 that:

 

وقد تتبعت كثيراً من كلام الجوزجاني في المتشيعين فلم أجده متجاوزاً الحد ، وإنما الرجل لما فيه من النصب يرى التشيع مذهباً سيئاً وبدعة ضلالة وزيغاً عن الحق وخذلانا ، فيطلق على المتشيعين ما يقضيه اعتقاده كقوله  زائغ عن القصد – سيء المذهب  ونحو ذلك ،

And many have tracked the statements of Jozjani for the shitte (narrators) but did not find them exceeding the limit, but the man (i.e. Imam Jozjani) because of the Nasab sees the Shi’ism as followers of  bad (heretic) doctrine and going astray and elusive on the right and disappointment, the application of term سيء المذهب  on Shiites is what is deserved to them due to  their faith ((digressing on intent-bad doctrine)), etc.

 

Dahabi has quoted in Meezan al-Atedal  (juz 4/ pg 192) the following statements

وقال الحاكم: غمزه يحيى بن سعيد.

And Hakim said: Yahyah bin Saeed reduced him

وكذا تكلم فيه ابن حزم، ولم يحتج بحديثه الطويل  في فتان القبر.

and Ibn- Hazm said likewise and has rejected his long narration on questioning in grave

Ibn- Hajar said in Taqreeb Al-Tahzeeb, juz 2, pg 216

المنهال بن عمرو الأسدي مولاهم الكوفي صدوق ربما وهم من الخامسة

Minhal bin Amr Al-Asadi … is Sadooq some times confused, belongs to fifth category

For the fifth category Ibn-Hajar described in Taqreeb Al-Tahzee

الخامسة: من قصر عن الرابعة قليلاً، وإليه الإشارة بصدوق سيء الحفظ، أو صدوق يهم، أو له أوهام، أو يخطئ، أو تغير بأخرة ويلتحق بذلك من رمي بنوع من البدعة، كالتشيع والقدر، والنصب، والإرجاء، والتجهم، مع بيان الداعية من غيره.

Fifth: which are reduced from forth and they are indicated by words Sadooque, bad memory or with Sadooque confused, Sadooque has confusions or commit mistakes or had amnesia in late age and afflicted with heresy like Shiite, Qadr, Nasb, Irja, Tahhajum with description of their heresy etc.

 Bukhari  has reported two narrations from Minhal, one is about  a supplication and at another place the chain is quoted to support the main narration. Muslim has not reported any narration from Minhal bin Amr.

Rejection of this narration by Ibn-Habban (died 354 AH):

Ibn- Habban said in his Sahih ibn Habban juz 7 pg 374- [ 387]

قال أبو حاتم رحمة الله عليه خبر الأعمش عن المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سمعه الأعمشعن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو وزاذان لم يسمعه من البراء فلذلك لم أخرجه

Abu Hatim may blessings of Allah be on him said: The report of Al-Amash from Minhal bin Amr from Zazzan from Byra, heard Al-Amash (actually) from Hasan bin Ammara from Minhal bin Amr and (further) Zazzan has not listened (anything) from Byra, that’s why I haven’t recorded

Rejection of this narration by Ibn-Hazm (died 456 AH):

ولم يرو أحد أن في عذاب القبر رد الروح إلى الجسد الا المنهال بن عمرو وليس بالقوى

(Al-Muhalli, juz 1, pg 22)

None had reported that the soul would be returned to body for torment in grave except Minhal bin Amr and he is not a stalwart (قوى) narrator.

 

Rejection of this narration by Al-Dahabi (died 748 AH):

Al-Dahabi said in Tahrik Al- Islam juz 1, pg 894 that:

قلت : تفرد بحديث منكر ونكير عن زاذان عن البراء

I say: he has Tafarud (unique in reporting)  the  hadith on Munkr and Nakeer from Zazzan from Byra

In spite of these refutations there are clear opposition from the other faction of scholars like Hakim, Baihaqui, Ibn-Tammiah and  Ibn-Qayyam.

Dahabi declared that the narration of Byra bin Azib contains Nakarat which indicate that it is against the authentic hadith.

It is reported in Sahih Muslim, باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه juz 4, pg 2202 that:

[note color=”#CEECF5″]

( 2872 ) حدثني عبيدالله بن عمر القواريري حدثنا حماد بن زيد حدثنا بديل عن عبدالله بن شقيق عن أبي هريرة  : قال إذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها  قال حماد فذكر من طيب ريحها وذكر المسك قال ويقول أهل السماء روح طيبة جاءت من قبل الأرض صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه فينطلق به إلى ربه عز و جل ثم يقول انطلقوا به إلى آخر الأجل  قال وإن الكافر إذا خرجت روحه – قال حماد وذكر من نتنها وذكر لعنا – ويقول أهل السماء روح خبيثة جاءت من قبل الأرض قال فيقال انطلقوا به إلى آخر الأجل  قال أبو هريرة فرد رسول الله صلى الله عليه و سلم ريطة كانت عليه على أنفه هكذا

Abu Hurrirah said: As the soul of righteous man comes out then comes two angels in front of him and ascend him upwards. Hammad said then he talked about the scent and smell of musk and people of heaven said: A pious soul comes from Earth blessings of Allah be on you and the body which you have grown. Then angels take it to Lord All mighty and then (it is commanded) Take it till the final term.  (Abu Hurrairah) said: and the Infidel when his soul comes out – Hammad said he talked about the stench and curse over it- and said: The people of heaven said: A wicked soul comes from Earth and (it is commanded) Take it till the final term.  Abu Hurrirah said then Prophet peace be upon him covered his nose like this (i.e. to indicate the wicked soul’s stench)

[/note]

This narration of Sahih Muslim clearly denounces what is stated in Byra bin Azib narration. The soul of Infidel also goes to heaven neither it is returned to body in grave nor there is the wrong application that soul of infidel would not go to heaven until the camel crosses the needle passage!

The actual process of dying is stated in Talmud. Following are the two excerpts taken from a book written by a Jewish scholar Abraham Cohen:

The actual process of dying is described in this manner:’ When a person’s end comes to depart from the world, the angle of death appears to take away his soul (Neshamah). The Neshemah is like a vein full of blood, and it has small viens which are dispersed through out the body. The angel of death grasps the top of this vien and extracts it. From the body of righteous person he extracts it gently, a though drawing a hair out of milk; but from the body of wicked person it is like whirling waters at the entrance of canal or, as other say, like taking thorns out of ball of wool which tear backwards. As soon as this is extracted the person dies and the spirit issues forth and settles on his nose until the body decays. When this happens it cries and weeps before the holy one blessed be he, saying lord of the universe! Whither I am being led? Immediately (the angel) Dumah takes and conducts him to the court of death among the spirits. If he had been righteous it is proclaimed before him, Clear a place for such a righteous man and he proceeds stage by stage until he beholds the presence of Shechinah’ (Midrash to Ps. Xi.7; 51b,52 a) [from Everyman’s Talmud by Abraham Cohen Page 74, Schoken Books, 1995 ]

 

Also :

The opinion generally adopted was that the soul rejoined to the body for the purpose of judgement and it is expressed in this statement: ‘ throughout 12 months (after death in Gehinnom) the body exists and soul ascends and descends, after 12 months the body ceases to exist and soul ascends without descending’ (Shab. 152b et seq.). [from Everyman’s Talmud  Pg 376]

 

Now Zazzan’s description of dying process is:

When the infidel leave this world and about to enter in hereafter, come the angels  from heavens with black faces with jute rug. They sat with the distance till reaches eye slight. After that comes the angel of Death which sit close to his head and says O evil soul come out towards the wrath of God  and His anger. Said: The soul then spreads inside the body, Angel of death then dragged it out like iron spike is taken out from the  wool. As soon as angel of death took hold of the soul, come other angels and with in an eye blink took it from his hands and fold it into jute rug.  From it (souls) erupts the most vicious of smells.

Angels take it and ascend upwards,…

 

The reader might be surprised to read this. What a similarity the talmudic passage has with Zazzan’s narration! One in Hebrew and one in Arabic. Reader must know that in the Talmudic era, this text is only available to Jewish scholars. It shows that there is a fabric of truth in saying that there are Jewish traces in Shiite thought of Zazzan and his student Minhal.

 

This is a very important question. As same band of scholars which believe in returning of the soul in grave,  forcefully portray it as a well established rule i.e. if Sheikhain ( Imam Bukhari and Imam Muslim) have reported from some  narrators  then it means that these narrators of Sahihain are trustworthy and all the Jirah against them becomes invalid. (see Al-Musnad fil Azab al-Qabr by Muhammad Arshad Kamal pg 154)

 

This statement has no basis and  acceptance among the hadith scholars. Mubarakbouri explained in Toffa-tul-Ahwazi,  Juz 1, pg 253:

 

وَأَمَّا قَوْلُ الْهَيْثَمِيِّ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ فَلَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّتِهِ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ مُدَلِّسٌ وَرَوَاهُ بِالْعَنْعَنَةِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مُخْتَلِطٌ وَرَوَاهُ عَنْهُ صَاحِبُهُ بَعْدَ اِخْتِلَاطِهِ أَوْ يَكُونَ فِيهِمْ مَنْ لَمْ يُدْرِكْ مَنْ رَوَاهُ عَنْهُ أَوْ يَكُونَ فِيهِ عِلَّةٌ أَوْ شُذُوذٌ ، قَالَ الْحَافِظُ الزَّيْلَعِيُّ فِي نَصْبِ الرَّايَةِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ الْجَهْرِ بِالْبَسْمَلَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ ثِقَةِ الرِّجَالِ صِحَّةُ الْحَدِيثِ حَتَّى يَنْتَفِيَ مِنْهُ الشُّذُوذُ وَالْعِلَّةُ ، وَقَالَ الْحَافِظُ اِبْنُ حَجَرٍ فِي التَّلْخِيصِ فِي الْكَلَامِ عَلَى بَعْضِ رِوَايَاتِ حَدِيثِ بَيْعِ الْعِينَةِ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِ الْحَدِيثِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا اِنْتَهَى

 

And the statement of  Haithami that the narrators are trustworthy (siqa), does not  indicate the correctness of narration, due to the possibility that it could have Mudlis narrator reporting with عَنْعَنَةِ or could have a narrator with amnesia and he reports from the people, which he heard after this or it could have narrator which haven’t met or it could have narrators with Illah  or shuzzoz. Hafiz Zailai says in Nasb-ur-Riaya under discussion on some narrations related to saying of Bismillah loudly, that the authenticty of the narrators does not ensure the authenticity of hadith until it is cleared from shuzooz and Illah. And hafiz Ibn-Hajar says on synopsis of discussion on some narration of trade that the trustworthiness (siqah)  of narrators does not ensure that report is authentic.

 

Ibn-Hajar says in Nukat Ibn-Salah pg 22

قلت : ولا يلزم في كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحاً ، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة

I say: The presence of narrator of Al-Sahih in the chain of a report does not ensure that the report of these narrators is authentic, due to the possibility of Shuzzoz or Illah.

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

The verses related to torment of fire for Pharoah and his army and also for Noah’s nation are revealed in Makkah.  Bukhari  (Volume 4, Book 52, Number 182) reported that during war of Al-Ahzab (i.e. the clans) Prophet peace be upon him said  :

 

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا يزيد أخبرنا هشام عن محمد عن عبيدة عن علي رضي الله عنه قال النبي صلى الله عليه و سلم  حدثني عبد الرحمن حدثنا يحيى بن سعيد حدثنا هشام قال حدثنا محمد عن عبيدة عن علي رضي الله عنه  : أن النبي صلى الله عليه و سلم قال يوم الخندق ( حبسونا عن الصلاة الوسطى حتى غابت الشمس ملأ الله قبورهم وبيوتهم أو أجوافهم – شك يحيى – نارا )

Narrated ‘Ali:

Allah’s Apostle said on the day of the battle of Trench they prevented us from performing the prayer (i.e. ‘Asr) till the sun set.  O Allah! Fill their graves and houses or bellies – forgot (narrator) Yahyah –  with fire.

[/note]

War of Trench took place in Zil-Qaadah 5 A.H. This indicates that the torment of grave for pagans was well known at that time. Also note that the pagans who were killed in war of Trench were not even buried. Were there graves of pagans in war zone?  This again indicates that the word قبورهم  (graves) is referred to abode in Burzakh.

 

The torment on dead believers due to their sins is revealed to Prophet peace be upon him while his stay in Medinah.   It is reported  in Bukhari Volume 2, Book 18, Number 153:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Al-Mughira bin Shu’ba:

“The sun eclipsed in the life-time of Allah’s Apostle on the day when (his son) Ibrahim died. So the people said that the sun had eclipsed because of the death of Ibrahim. Allah’s Apostle said, “The sun and the moon do not eclipse because of the death or life (i.e. birth) of some-one. When you see the eclipse pray and invoke Allah.”

[/note]

Further in the eclipse prayer khutbah, Prophet peace be upon him informed the believers about the Azab al-Qabr for Muslims. It is reported in Bukhari  Volume 2, Book 18, Number 159 that:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated ‘Amra bint ‘Abdur-Rahman:

A Jewess came to ask ‘Aisha (the wife of the Prophet) about something. She said to her, “May Allah give you refuge from the punishment of the grave.” So ‘Aisha ‘ asked Allah’s Apostle “Would the people be punished in their graves?” Allah’s Apostle after seeking refuge with Allah from the punishment of the grave (and thus replied in the affirmative). Then one day, Allah’s Apostle rode to go to some place but the sun eclipsed. He returned in the forenoon and passed through the rear of the dwellings (of his wives) and stood for the (eclipse) prayer, and the people stood behind him. He stood up for a long period and then performed a prolonged bowing which was shorter than the first bowing. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up (for the second Raka) for a long while but the standing was shorter than that of the first Raka. Then he performed a prolonged bowing which was shorter than the first one. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up for a long time but shorter than the first. Then he performed a prolonged bowing but shorter than the first. Then he raised his head and prostrated and finished the prayer and (then delivered the sermon and) said as much as Allah wished. And then he ordered the people to seek refuge with Allah from the punishment of the grave.

[/note]

It is reported in Bukhari Volume 1, Book 3, Number 86 that:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Asma:

I came to ‘Aisha while she was praying, and said to her, “What has happened to the people?” She pointed out towards the sky. (I looked towards the mosque), and saw the people offering the prayer. Aisha said, “Subhan Allah.” I said to her, “Is there a sign?” She nodded with her head meaning, “Yes.” I, too, then stood (for the prayer of eclipse) till I became (nearly) unconscious and later on I poured water on my head. After the prayer, the Prophet praised and glorified Allah and then said,

“Just now at this place I have seen what I have never seen before, including Paradise and Hell. No doubt it has been inspired to me that you will be put to trials in your graves and these trials will be like the trials of Masiah-ad-Dajjal or nearly like it (the sub narrator is not sure which expression Asma’ used). You will be asked, ‘What do you know about this man (the Prophet Muhammad)?’ Then the faithful believer (or Asma’ said a similar word) will reply, ‘He is Muhammad Allah’s Apostle who had come to us with clear evidences and guidance and so we accepted his teachings and followed him. And he is Muhammad.’ And he will repeat it thrice. Then the angels will say to him, ‘Sleep in peace as we have come to know that you were a faithful believer.’ On the other hand, a hypocrite or a doubtful person will reply, ‘I do not know, but I heard the people saying something and so I said it.’ (the same). “

[/note]

From these ahadith it is clear that the torment of grave for Muslims is revealed to Prophet on the day of death of his son Ibrahim. Ibrahim (son of Prophet) died in 10 AH. It is reported that on his death’s day solar eclipse has occurred, which people thought that occurred due to Prophet’s son’s demise.  On that day the Prophet informed the Ummah about the trial of grave.

 

Based on this evidence from Sahih Bukhari we would now analyze different narrations normally quoted in support of Azab al-Qabr in worldly grave.

 

Extension of grave of Abi-Salma (RA):

 

It is reported by Muslim that companion of Prophet Abi Salamh died and Prophet prayed for him

[note color=”#CEECF5″]

( 920 ) حدثني زهير بن حرب حدثنا معاوية بن عمرو حدثنا أبو إسحاق الفزاري عن خالد الحذاء عن أبي قلابة عن قبيصة بن ذؤيب عن أم سلمة قالت  : دخل رسول الله صلى الله عليه و سلم على أبي سلمة وقد شق بصره فأغمضه ثم قال إن الروح إذا قبض تبعه البصر فضج ناس من أهله فقال لاتدعوا على أنفسكم إلا بخير فإن الملائكة يؤمنون على ما يقولون ثم قال اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين واخلفه في عقبه في الغابرين واغفر لنا وله يا رب العالمين وافسح له في قبره ونور له فيه

Umm Salama reported: The Messenger of Allah came to Abu Salama (as he died). His eyes were open. He closed them, and then said: When the soul is taken away the sight follows it. Some of the people of his family wept and wailed. So he said: Do not supplicate for yourselves anything but good, for angels say “Amen” to what you say. He then said: O Allah, forgive Abu Salama, raise his degree among those who are rightly guided, grant him a successor in his descendants who remain. Forgive us and him, O Lord of the Universe, and make his grave spacious, and grant him light in it.

[/note]

Abi Salmah died in 4 A.H. due to wounds afflicted in Uhud. This shows that the Qabr and its expansion was well known before 10 A.H. Further Abi Salamh was not yet buried but the Prophet prayed for his grave expansion, as if, Abi salamah is already buried. This shows that the Qabr is the abode in Burzakh.

 

 

Saad bin Muaz and Azab al-Qabr ?

 

A notable companion of Prophet is Saad bin Muaz. He died due to wounds afflicted in Khandaq (5 AH) . Scholar who believe that soul is returned to dead in grave claim that grave has squeezed Saad bin Muaz. (sunnan Nisai, chapter ضَمَّةُ الْقَبْرِ وَضَغْطَتُه)

 

[note color=”#CEECF5″]

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « هَذَا الَّذِى تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْشُ وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلاَئِكَةِ لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ

Ibn-Umer narrated that Prophet peace be upon him said: He is the person for whom the Throne moved and the doors of Heaven opened and seventy thousand angels visited and also indeed it (grave) squeezed then it (torment) is released.

[/note]

Sadly this narration is also reported by same faction of scholars who believe in returning of the soul to dead  as an  evidence of Azab al-Qabr. Saad bin Muaz, may Allah be pleased with him, was a glorious companion of the Prophet peace be upon him, If he had died due to wounds afflicted to him in war with pagans  then  he is a martyr,  and Paradise would be his final abode. Chronologically speaking Prophet doesn’t know about the Azab al-Qabr  for Muslims before 10 A.H. then how could he say this? Therefore on these technical fallacies this narration could not be accepted on the surface value.

 

It is reported in Sahih Muslim chapter باب كون الإسلام يهدم ما قبله وكذا الهجرة والحج

[note color=”#CEECF5″]

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِىُّ وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِىُّ وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ كُلُّهُمْ عَنْ أَبِى عَاصِمٍ – وَاللَّفْظُ لاِبْنِ الْمُثَنَّى – حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ – يَعْنِى أَبَا عَاصِمٍ – قَالَ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ حَدَّثَنِى يَزِيدُ بْنُ أَبِى حَبِيبٍ عَنِ ابْنِ شَمَاسَةَ الْمَهْرِىِّ قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِى سِيَاقَةِ الْمَوْتِ. فَبَكَى طَوِيلاً وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْجِدَارِ فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ يَا أَبَتَاهُ أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِكَذَا أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم………….. فَإِذَا دَفَنْتُمُونِى فَشُنُّوا عَلَىَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِى قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّى.

 

Abur-Rehaman bin Shamasa Al-Mahri said: We attended Amr Ibn al-‘ Aas and he was about to expire. He wept for a long time and turned his face towards wall (i.e. not looking at narrator). His son said O father how was your partnership with Messenger of Allah peace be upon him-  (then he talked about the his Jahaliah days)……(finally Amr said)  When you bury me in the dust then wait on my grave, as much as, you slaughter a camel and  divide the meat and I feel comfortable with you and see what shall I reply to angels of my Lord.

[/note]

It is informed that Amir bin Abi Aas was in state of وَهُوَ فِى سِيَاقَةِ الْمَوْتِ (about to expire). In that state sometimes people say things which are not clear and palpable. This narration only shows that Amir bin Abi Aas has said something on his death bed which is not instructed to us by Messenger of Allah and hence is an innovation in Islam. As a companion he could not command us to do such an act.  One scholar of recent era محمد بن صالح العثيمين said, when asked about this narration مجموعة أسئلة تهم الأسرة المسلمة Juz 219, pg 35):

هذا أوصى به عمرو بن العاص ـ رضي الله عنه ـ فقال: «أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها»، لكن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرشد إليه الأمة، ولم يفعله الصحابة ـ رضي الله عنهم ـ فيما نعلم

This was  willed  by Amr bin Al-Aas  may Allah be pleased with him, he said wait on my grave  of as much as you slaughter a camel and  divide the meat, but Neither the Prophet  guided  the Ummah, nor  his companions  did that as we know…

 

It is reported in Bukhari that

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عياش حدثنا عبد الأعلى حدثنا سعيد قال وقال لي خليفة حدثنا ابن زريع حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال  : ( العبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه و سلم ؟ فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال انظر إلى مقعدك في النار أبدلك الله به مقعدا من الجنة ) . قال النبي صلى الله عليه و سلم ( فيراهما جميعا وأما الكافر أو المنافق فيقول لا أدري كنت أقول ما يقول الناس . فيقال لا دريت ولا تليت ثم يضرب بطرقة من حديد ضربة بين أذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين

Narrated Anas:

The Prophet said, “When the slave (of Allah) is laid in his grave and his companions went away, until, Indeed he hears the foot steps, arrive two angels to him and make him sit and ask him: What did you use to say about this man, Muhammad ? He will say: I testify that he is Allah’s slave and His Apostle. Then it will be said to him, ‘Look at your place in the Hell-Fire. Allah has given you a place in Paradise instead of it.’ ” The Prophet added, “The dead person will see both his places. But a non-believer or a hypocrite will say to the angels, ‘I do not know, but I used to say what the people used to say! It will be said to him, ‘Neither did you know nor did you take the guidance (by reciting the Quran).’ Then he will be hit with an iron hammer between his two ears, and he will cry and that cry will be heard by whatever approaches him except human beings and jinns.”

[/note]

The interpretation of this hadith in accordance with Quran is that the footsteps are that of angels not the people who had just buried him.

Al-Zain bin Al-Muneer (الزَّيْن بْن الْمُنِير) said (Sharah Ibn-Hajar, juz 4 pg 401 )

وَكَأَنَّهُ اِقْتَطَعَ مَا هُوَ مِنْ سَمَاع الْآدَمِيِّينَ مِنْ سَمَاع مَا هُوَ مِنْ الْمَلَائِكَة

And like hear from  Angels  (footsteps) like what (he used to) hear from humans’ (footsteps)

 

Also, Al-Muhlab said (Sharah Ibn- Battal, juz 5, pg 355)  that word  من يليه إلا الثقلين  (which  approaches him except humans and jinns) actually mean   هم الملائكة الذين يلون فتنته the angels which came for questioning. Therefore the only logical interpretation of this narration is that the dead hear the footsteps of angels, they question him and in case of wrong answer torture it and this cry is heard by angels themselves.

Unfortunately the scholars who believe in returning of the soul also claim that this narration is about the hearing of footsteps of people, not of angels. However they themselves claim that Amr bin Abi Al-Aas will is also in accordance with Quran i.e. When you bury me in the dust then wait on my grave, as much as, you slaughter a camel and  divide the meat and I feel comfortable with you and see what shall I reply to angels of my Lord.  The narration of footsteps and that of will of Amr bin Abi al-Aas are both contradictory. One claims that the dead would hear when people who have buried it would be leaving, whereas, another one claims that the dead even knows who is standing at the grave and questions of angels are replied in the presence of people, who have just buried it!

It is reported in Bukhari (also mention earlier) that

[note color=”#CEECF5″]

Narrated ‘Amra bint ‘Abdur-Rahman:  A Jewess came to ask ‘Aisha (the wife of the Prophet) about something. She said to her, “May Allah give you refuge from the punishment of the grave.” So ‘Aisha ‘ asked Allah’s Apostle “Would the people be punished in their graves?” Allah’s Apostle after seeking refuge with Allah from the punishment of the grave (and thus replied in the affirmative). Then one day, Allah’s Apostle rode to go to some place but the sun eclipsed. He returned in the forenoon and passed through the rear of the dwellings (of his wives) and stood for the (eclipse) prayer, and the people stood behind him. He stood up for a long period and then performed a prolonged bowing which was shorter than the first bowing. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up (for the second Raka) for a long while but the standing was shorter than that of the first Raka. Then he performed a prolonged bowing which was shorter than the first one. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up for a long time but shorter than the first. Then he performed a prolonged bowing but shorter than the first. Then he raised his head and prostrated and finished the prayer and (then delivered the sermon and) said as much as Allah wished. And then he ordered the people to seek refuge with Allah from the punishment of the grave.

[/note]

Also reported in Bukhari (Volume 8, Book 75, Number 377)

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا جرير عن منصور عن أبي وائل عن مسروق عن عائشة قالت : دخلت علي عجوزان من عجز يهود المدينة فقالتا لي إن أهل القبور يعذبون في قبورهم فكذبتهما ولم أنعم أن أصدقهما فخرجتا ودخل علي النبي صلى الله عليه و سلم فقلت له يا رسول الله إن عجوزين وذكرت له فقال لي ( صدقتا إنهم يعذبون عذابا تسمعه البهائم كلها ) . فما رأيته بعد في صلاة إلا تعوذ من عذاب القبر

Narrated ‘Aisha:

Two old ladies from among the Jewish ladies entered upon me and said’ “The dead are punished in their graves,” but I thought they were telling a lie and did not believe them in the beginning. When they went away and the Prophet entered upon me, I said, “O Allah’s Apostle! Two old ladies..” and told him the whole story. He said, “They told the truth; the dead are really punished, to the extent that all the animals hear (the sound resulting from) their punishment.” Since then I always saw him seeking refuge with Allah from the punishment of the grave in his prayers.

[/note]

The narration is actually a short version of what reported in the long narration.  The narrators have shortened many things. First in the short version it is reported, as if, Aisha may Allah be pleased with her was unaware of Azab al-qabr completely, in spite, of the fact that all verses related to Azab al-Qabr are already revealed in Quran and from the context of this event it is clear that this incident took place in year 10 A.H. In the long version the situation is different, there the Jewess warned her against Azab al-Qabr and at that moment there was no information for the punishment of grave for Muslims as such.

The second issue is that the Prophet has immediately endorsed what Jewess had said although we know that there was a time lapse between the revelation of punishment of grave for Muslims to Prophet and this conversation of  Aisha (may Allah be pleased with her) and Jewess. It is reported in Sahih Muslim chapter باب استحباب التعوذ من عذاب القبر

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا هارون بن سعيد وحرملة بن يحيى ( قال هارون حدثنا وقال حرملة أخبرنا ابن وهب ) أخبرني يونس ابن يزيد عن ابن شهاب قال حدثني عروة بن الزبير أن عائشة قالت  : دخل على رسول الله صلى الله عليه و سلم وعندي امرأة من اليهود وهي تقول هل شعرت أنكم تفتنون في القبور ؟ قالت فارتاع رسول الله صلى الله عليه و سلم وقال إنما تفتن يهود قالت عائشة فلبثنا ليالي ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم هل شعرت أنه أوحي إلي أنكم تفتنون في القبور ؟ قالت عائشة فسمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم بعد يستعيذ من عذاب القبر

Narrated Aisah:  Entered (in house) the Messenger of Allah peace be upon him  and a Jewish woman was with me and She (Jewess) said  have you ever realised that  you would be questioned  in graves? (Aisha) She said  Messenger of Allah peace be upon him is horrified by this and said but Jews would be tormented She (Aisah) said after that lapsed some nights and then Messenger of Allah peace be upon him  said Have you realised that I have been revealed that you (people) will be questioned in the graves? She (Aisha) said from then on I heard the Messenger of Allah peace be upon him seek refuge from the torment of the grave

[/note]

The words in long  narration in  Bukhari ( After that one day) and narration in  Muslim  (after that lapsed some nights) indicate that there was a time lapse involved before the revelation of torment in grave for Muslims.

Considering all these ahadith it is clear that narrators (of short narration of Bukhari) have shortened themselves the long narration reported in Muslim and Bukhari and thus committed a mistake in understanding. On the other hand this is the only narration in Bukhari which suggests that all animals hear the torment in grave.    If for a moment we assume that dead are punished in graves in this world then this world is full of dead from Prophet Adam peace be upon him till today. Animals might be hearing the torture of dead and for any moment hear the billions of cries, screams and shrieks. Therefore as such it should be a norm for them however following narration contradicts it completely.

 

It is reported in Muslim chapter باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه

[note color=”#CEECF5″]

 

حدثنا يحيى بن أيوب وأبو بكر بن أبي شيبة جميعا عن ابن علية قال ابن أيوب حدثنا ابن علية قال وأخبرنا سعيد الجريري عن أبي نضرة عن أبي سعيد الخدري عن زيد بن ثابت قال أبو سعيد ولم أشهده من النبي صلى الله عليه و سلم ولكن حدثنيه زيد بن ثابت قال  : بينما النبي صلى الله عليه و سلم في حائط لبني النجار على بغلة له ونحن معه إذ حادت به فكادت تلقيه وإذا أقبر ستة أو خمسة أو أربعة ( قال كذا كان يقول الجريري ) فقال من يعرف أصحاب هذه الأقبر ؟ فقال رجل أنا قال فمتى مات هؤلاء ؟ قال ماتوا في الإشراك فقال إن هذه الأمة تبتلى في قبورها فلولا أن لا تدافنوا لدعوت لله أن يسمعكم من عذاب القبر الذي أسمع منه ثم أقبل علينا بوجهه فقال تعوذوا بالله من عذاب النار قالوا نعوذ بالله من عذاب النار فقال تعوذوا بالله من عذاب القبر قالوا نعوذ بالله من عذاب القبر قال تعوذوا بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن قالوا نعوذ بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن قال تعوذوا بالله من فتنة الدجال قالوا نعوذ بالله من فتنة الدجال

Narrated Zaid bin Thabit: Prophet peace and blessings on him was riding a mule, moving along the wall of Bani al-Najjar and we (walking ) with him, that his mule shied and he (Prophet) was about to be demounted and there were graves of six or five or four (as stated by al-Jariri) so he asked who knows about people of these graves? One person said I know. He (Prophet) asked when they died? Said died in polytheism (as their belief) so Prophet said:  Indeed this Ummah would be questioned in their graves as it is not (the case) that you would not bury your dead I  call God to hear you from the torment of the grave, which I heard from them.  He then looked at us and said Seek the protection of Allah from the torment of the fire we said we seek refuge with Allah from the torment of the fire, said Seek the protection of Allah from the torment of the grave we said  we seek refuge with Allah from the torment of the grave said Seek the protection of God from the temptations and hidden We said we seek refuge with Allah from temptations and hidden Said Seek the protection of God from Dajjal Fitnah  we said We seek refuge of  Allaah from Dajjal Fitnah.

[/note]

It is extracted from this hadith the torment was actually happening in these graves otherwise Prophet peace be upon him could not have said so.  Before discussion on this narration it would interesting to remind the reader that Prophet himself had exhumed the pagans from the very site of Masjid un Nabi and destroyed the graves as mentioned earlier. The prophetic duty was to inculcate the fear of Allah in hearts of  his Ummah and these words only reflect that intention. Some times in Arabic the negation is bought earlier to stress the importance of what would be said following for example.

It is reported in Musnad Abi Yala, juz  5, pg 248 that Prophet said:

[note color=”#CEECF5″]

فلولا أن لا تدافنوا  لأخبرتكم بملئكم من أهل النار حتى تفرقوهم ، عند الموت ، ولو أمرت أن أفعل لفعلت

it is not (the case) that you would not bury your dead I  would have informed you about those who would fill into Hell Fire among you until you get separated (from them) on death,  if I had been commanded to do so I might have done so

[/note]

It is reported that Muslims would not bury the people of Hell among them, if they knew about them. This narration shows that the torment in grave has nothing to do with graves. Both narrations (of Muslim and Abi-Yala)  start with phrase فلولا أن لا تدافنوا but convey opposite meaning. The phrase is thus not conveying that torment in graves actually occur in very grave of a person.

A similar style is present in Quran where Allah Almighty has instructed us that

[note color=”#BEF781″]

فلا تموتن إلا وأنتم مسلمون

then die not except in the Faith of Islam (2:132)

[/note]

Ibn-Manzoor says in Lisan-al-Arab, juz 2, pg 90:

قال أَبو إِسحق إِن قال قائل كيف ينهاهم عن الموت وهم إِنما يُماتون ؟ قيل إِنما وقع هذا على سعة الكلام وما تُكْثِرُ العربُ استعمالَه قال والمعنى الزَمُوا الإِسلام

Abu Ishaq said if the inquirer ask, how one may escape from death and in fact they are died (not themselves)? Said it occurs due to extent of speech and used extensively by Arabs in their language and meaning is make Islam compulsory

It is reported in Bukhari, Book 8, Volume 73, Hadith 78: Good Manners and Form:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Ibn ‘Abbas: Allah’s Apostle passed by two graves and said, “Both of them (persons in the grave) are being tortured, and they are not being tortured for a major sin. This one used not to save himself from being soiled with his urine, and the other used to go about with calumnies (among the people to rouse hostilities, e.g., one goes to a person and tells him that so-and-so says about him such-and-such evil things). The Prophet then asked for a green leaf of a date-palm tree, split it into two pieces and planted one on each grave and said, “It is hoped that their punishment may be abated till those two pieces of the leaf get dried.”

[/note]

 

This narration doesn’t prove that the punishment was actually happening in those graves. The words are they are tortured. It is like if go and visit CairoMuseum and we see the mummy of  one of the Pharoah and say that Allah has informed that these were tortured in Hell fire. By these statement no one would extract that Hell is some where in Cairo.

Further it is also reported that one day Prophet was sitting among his companions and suddenly they heard a loud voice. Prophet asked do you know where comes this loud voice. Companions said Only Allah and his Messenger peace be upon him knows about it. Prophet said it the stone which is dropped in Hell seventy years ago, and now it reached its bottom. Does this shows that Hell is somewhere near Medinah? Surely not!

 

The present treatise is only an effort to guide the reader towards the concept of Azab al-Qabr in Quran and authentic ahadith.   There is a plethora of weak narrations on this topic. In fact some of these narrations were concocted to inculcate fear of Allah in hearts and abhorrence from World, as claimed by the narrators. Interested reader may see the books written on Duafa (weak narrators),  Majroheen  and Kazzab (liars).

The concept of returning of soul of dead was never been the part of Muslim belief until the appearance of Imam Ahmed bin Hanbal in political sphere. He got public fame due to his stance on Created Quran doctrine of Mu’tazilites. His student Mussadad bin Musarhad wrote a letter to him and ask him about the belief which a Muslims have due to the wide spread speculative theology of Mu’tazilites. Imam Ahmed wrote a letter which is preserved in its content form  in many books, including the famous Tabqat al-Hanabla. Imam Ahmed instructed that one must

 

والإيمان بمنكر ونكير وعذاب القبر والإيمان بملك الموت يقبض الأرواح ثم ترد في الأجساد في القبور فيسألون عن الإيمان والتوحيد

طبقات الحنابلة كاملاً  لابي يعلى الحنبلي( Juz 1, pg 314)

belief on Munkar & Nakeer  and  torment in grave and believe in angel of death that caught the souls then return them  in the bodies in the graves, asking about faith and tawheed

 

As a Muslim it is important that we bring our believes in accordance with Holy Quran. May Allah send his blessings on our last Prophet Muhammad peace be upon him and guide us towards his mercy and Heavens and save us from Azab al-Qabr and Hell  Fire. Amen

Hearing of Dead

fatir-22

Hearing of the Dead

بسم الله الرحمن الرحيم

Allah has informed his Messenger peace be upon him that (Al-Naml, 80)

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ

Verily, you cannot make the dead to hear (i.e. benefit them and similarly the disbelievers), nor can you make the deaf to hear the call, when they flee, turning their backs.

It is told that these pagans of Makkah would not give heed to your call towards monotheism, as if, they are dead.

After the demise of Taba-Tabbayeen this concept started mushrooming in the Muslims societies  that their  Prophet, Aulliah Allah (Friends of Allah or saints) and finally all dead Muslims can hear and even say reply to breathing humans on surface of earth. The people in grave are not really dead, as Prophet has commanded us to say Salam whenever we enter the graveyard and that prayer demands that these so-called dead people are living and have sense to reply to us. During the period of Mongol invasion on Muslims, this practice of calling dead and belief that the holy people are living in graves become so prevalent that a the then scholar  Ibn- Tamiyah (728 A.H.) said in his Fatwa al-Kubra juz 3 pg  412

فَهَذِهِ النُّصُوصُ وَأَمْثَالُهَا تُبَيِّنُ أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ فِي الْجُمْلَةِ كَلَامَ الْحَيِّ وَلَا يَجِبُ أَنْ يَكُونَ السَّمْعُ لَهُ دَائِمًا ، بَلْ قَدْ يَسْمَعُ فِي حَالٍ دُونَ حَالٍ كَمَا قَدْ يُعْرَضُ لِلْحَيِّ فَإِنَّهُ قَدْ يَسْمَعُ أَحْيَانًا خِطَابَ مَنْ يُخَاطِبُهُ ، وَقَدْ لَا يَسْمَعُ لِعَارِضٍ يَعْرِضُ لَهُ ، وَهَذَا السَّمْعُ سَمْعُ إدْرَاكٍ ، لَيْسَ يَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ جَزَاءٌ ، وَلَا هُوَ السَّمْعُ الْمَنْفِيُّ بِقَوْلِهِ : { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى } فَإِنَّ الْمُرَادَ بِذَلِكَ سَمْعُ الْقُبُورِ وَالِامْتِثَالِ .

These evidences and similar show that the dead hear the living and it is not necessary that this hearing is permanent but it hears as the living can. It may sometimes hear the address of one who called … and this hearing is hearing with senses and not entails the reward, Nor there is absence of  hearing due to: {you don’t hear the dead}, which intents the hearing of graves and similar.

 

This reflects that by the year 700 A.H., the concept of hearing of dead has become a well established belief of some of the Muslims. The same point of view is then followed by Ibn-Qayyam (d. 751 A.H.), Ibn Katheer (d. 774 AH) and many others.

The earliest of Muslims do not believe in hearing of dead.  It is reported in Tafseer Tibri, juz 20 , pg 459 that

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة( إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ) كذلك الكافر لا يسمع، ولا ينتفع بما يسمع.

Qattadah said: (Verily, Allah makes whom He will hear, but you cannot make hear those who are in graves), like this infidel does not hear and what he hears would not help him.

 

Qattadah, a Tabyee (companion of disciple of Prophet) , has indicated his belief that he does not belief in hearing of dead so he said likewise infidel does not hear.

For scholars who believe in hearing of the dead, the narration of Badr Well is evidence.

It is reported in Bukhari Volume 5, Book 59, Number 314:

 

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Abu Talha:

On the day of Badr, the Prophet ordered that the corpses of twenty four leaders of Quraish should be thrown into one of the dirty dry wells of Badr. (It was a habit of the Prophet that whenever he conquered some people, he used to stay at the battle-field for three nights. So, on the third day of the battle of Badr, he ordered that his she-camel be saddled, then he set out, and his companions followed him saying among themselves.” “Definitely he (i.e. the Prophet) is proceeding for some great purpose.” When he halted at the edge of the well, he addressed the corpses of the Quraish infidels by their names and their fathers’ names, “O so-and-so, son of so-and-so and O so-and-so, son of so-and-so! Would it have pleased you if you had obeyed Allah and His Apostle? We have found true what our Lord promised us. Have you too found true what your Lord promised you? “‘Umar said, “O Allah’s Apostle! You are speaking to bodies that have no souls!” Allah’s Apostle said, “By Him in Whose Hand Muhammad’s soul is, you do not hear, what I say better than they do.” (Qatada said, “Allah brought them to life (again) to let them hear him, to reprimand them and slight them and take revenge over them and caused them to feel remorseful and regretful.”)

[/note]

Also reported in Bukhari that Volume 5, Book 59, Number 317:

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Ibn Umar: The Prophet stood at the well of Badr (which contained the corpses of the pagans) and said, “Have you found true what your lord promised you?” Then he further said, “They now hear what I say.” This was mentioned before ‘Aisha and she said, “But the Prophet said, ‘Now they know very well that what I used to tell them was the truth.’ Then she recited (the Holy Verse):– “You cannot make the dead hear… …till the end of Verse).” (30.52)

[/note]

 

Ibn-Umer may Allah be pleased with him and Qatada both interpreted this incident as a special event. For them the hearing of dead is not a norm. Further this is the only incident of hearing of dead in which difference of opinion is reported between  Ibn-Umer and Aisah  may Allah be pleased with both of them. Ibn-Umer thought that this incident is special whereas Aishha may Allah pleased with her, said this speech was nothing but exhibited that the pagans got the knowledge of what Prophet used to tell them.

Al-Nawawi (d. 676 AH) views on this narration

Al-Nawawi (676 A.H) said in al-Majmoo juz 17 pg 224, that if someone quote the incident of well of Badr

قلنا تلك معجزة للنبى صلى الله عليه وسلم، لان الله رد إليهم أرواحهم حتى يسمعوا كلام النبي صلى الله عليه وسلم، لان الاصل أن الميت لا يسمع

We say it was the miracle of Messenger of Allah peace be on him, because Allah has returned their souls until they heard the speech of Prophet, as the reality is that the dead do not hear

 

Hafiz Ibn-Rajab (d. 795 AH) views on narration

It is quoted in book Al-Ayat al-Bayyanat  by a recent scholar, Al-Bani that Ibn-Rajab said in his work أهوال القبور:

قال الحافظ ابن رجب:  وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء

Hafiz Ibn-Rajab said: and agreed with Aisha in negation of hearing of the dead a group of scholars

Al-Bani views on this narration

A recent scholar, Al-Bani said in Al-Ayat al-Bayyanat pg 48

قلت : ولذلك أورده الخطيب التبريزي في ” باب المعجزات ” من ” المشكاة “ج 3 رقم 5938

I (Al-Bani) say: and that is why Khateeb al-Tibrazi brought this narration (of Badr Well)  in chapter on miracles in (his compilation) al-Mishkaat, juz 3, raqam 5938

 

So there were only two interpretations of this event. One group said that it’s a miracle (like Ibn-Umer & Qattadah) and other said that its knowledge (like Aisha peace be upon her).  On the contrary some people extracted a third opinion from this (like Ibn-Tammiyah, Ibn-Qayyam, Ibn-Katheer, Al-Subki etc) that it is neither miracle nor knowledge but a norm. All dead people can hear.  Some say time to time and some claim all the time.

Ibn-Katheer (d. 774 AH) view on narration of well of Badr

Ibn-Katheer (774 AH) said in his Tafseer juz 3, pg 579

وقد استدلت أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها بهذه الاية { إنك لا تسمع الموتى } على توهيم عبد الله بن عمر في روايته مخاطبة النبي صلى الله عليه و سلم القتلى الذين ألقوا في قليب بدر بعد ثلاثة أيام ……  والصحيح عند العلماء رواية عبد الله بن عمر لما لها من الشواهد على صحتها من وجوه كثيرة من أشهر ذلك ما رواه ابن عبد البر مصححا له عن ابن عباس مرفوعا [ ما من أحد يمر بقبر أخيه المسلم كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا رد الله عليه روحه حتى يرد عليه السلام ]

And argued Aisah, mother of believers may Allah be pleased with her, from the verse Verily, you cannot make the dead to hear, on the confusion regarding speech of Messenger of Allah, to the killed ones (pagans) which were thrown into the well of Badr, after three days …. But authentic among our scholars is the narration of Abdullah ibn Umer and it has many evidences due to there majority and famous among these is what had been reported by Ibn-Abul Barr and authenticated by him, (narrated)  from Ibn-Abbas that Whenever you pass by the grave of other Muslim bother which he used to recognize in the world and say Salam to him, he( person in grave)  would reply to you

[note color=”#CEECF5″]

مَا مِنْ أَحَد يَمُرّ عَلَى قَبْر أَخِيهِ الْمُؤْمِن وَفِي رِوَايَة بِقَبْرِ الرَّجُل كَانَ يَعْرِفهُ فِي الدُّنْيَا فَيُسَلِّم عَلَيْهِ إِلَّا عَرَفَهُ وَرَدَّ عَلَيْهِ

إِذَا مَرَّ الرَّجُل بِقَبْر يَعْرِفهُ فَيُسَلِّم عَلَيْهِ السَّلَام وَعَرَفَهُ وَإِذَا مَرَّ بِقَبْر لَا يَعْرِفهُ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَام

ما من أحد يمر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام.

إذا مر الرجل بقبر يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام وعرفه وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام

Meaning of above narrations is:

 

When you pass by the grave of other Muslim bother and say Salam he( person in grave)  would reply to you

[/note]

Narration of  Aisha

The narration from Aisha may Allah be pleased with her is  reported by  Ibn-Abi Dunya (ابن أبي الدنيا)  in  his book كتاب القبور but it has narrator Abdullah bin Sama’an   (عبد الله بن سمعان) whose full name is

عبد الله بن أبي زياد بن سليمان بن سمعان,

and who is a Kazzab (liar) narrator (see Tahzeen al-Tahzeeb, Al-Mezan al-Atedal).

Narration of Abi Hurrairah

 

Abu Hurrira’s narration is also reported by Ibn-Abi Dunya which contains Muhammad bin Qudamah al-Jowhari and Hashsham bin Saad both are  considered weak in hadith literature (see Mezan al-Atedal and Tahzeeb al-Tahzeeb)

Narration of Ibn- Abbas

In Al-Istazkar  (الاستذكار) by Abdul Barr, it is reported with sanad

[note color=”#CEECF5″]

قال حدثنا بشر بن بكير عن الأوزاعي عن عطاء عن عبيد بن عمير عن بن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( ( ما من أحد مر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام ) )

[/note]

Ibn-Hajar said in Taqreeb al Tahzeeb, juz 1 , pg 646 عبيد بن عمير مولى بن عباس مجهول من الرابعة

Similarly the narrator بشر بن بكير  is Majhool (unknown).

Allama-Alosi said in Rooh al-Ma’ani , juz 21, pg 57

وقيل في حديث إبن عبدالبر : إن عبدالحق وإن قال إسناده صحيح إلا أن الحافظ إبن رجب تعقبه وقال : إنه ضعيف بل منكر

And it is said for hadith (reported by) Ibn Abdul Barr: and indeed although Abdul Haque said its sanad is authentic but Hafiz Ibn-Rajab has tracked it and said: It is not only weak but Munkar narration.

 

Unfortunately scholar kept quoting this narration and state that it is authenticated on authority of  Ibn-Abdul Barr.  Finally one scholar spoke out  (فتاوى الإسلام سؤال وجواب, juz 1, pg 6298)

فقد بحث أهل العلم عن هذا الحديث المعلق فلم يجدوه مسندا في كتاب ، وكل من يذكره ينقله عن تعليق الحافظ ابن عبد البر ، فهو في الأصل حديث ضعيف ، إلاأن بعض أهل العلم صححه تبعا للحافظ ابن عبد البر الذي علقه وصححه .

.. so discussed scholars this Muallaque narration which is not found in connected state in any book, and all those who had quoted it had referred Hafiz Ibn Abul Barr, and in reality the hadith is weak. In fact this authenticated by some scholars as like Ibn- Abul Barr who had quoted it Muallaq and authenticated it

It is reported in Bukhari that

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عياش حدثنا عبد الأعلى حدثنا سعيد قال وقال لي خليفة حدثنا ابن زريع حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال  : ( العبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه و سلم ؟ فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال انظر إلى مقعدك في النار أبدلك الله به مقعدا من الجنة ) . قال النبي صلى الله عليه و سلم ( فيراهما جميعا وأما الكافر أو المنافق فيقول لا أدري كنت أقول ما يقول الناس . فيقال لا دريت ولا تليت ثم يضرب بطرقة من حديد ضربة بين أذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين

Narrated Anas:

The Prophet said, “When the slave (of Allah) is laid in his grave and his companions went away, until, Indeed he hears the footsteps, arrive two angels to him and make him sit and ask him: What did you use to say about this man, Muhammad ? He will say: I testify that he is Allah’s slave and His Apostle. Then it will be said to him, ‘Look at your place in the Hell-Fire. Allah has given you a place in Paradise instead of it.’ ” The Prophet added, “The dead person will see both his places. But a non-believer or a hypocrite will say to the angels, ‘I do not know, but I used to say what the people used to say! It will be said to him, ‘Neither did you know nor did you take the guidance (by reciting the Quran).’ Then he will be hit with an iron hammer between his two ears, and he will cry and that cry will be heard by whatever approaches him except human beings and jinns.”

[/note]

Qattadah (d. 118AH) did not believe in hearing of dead but he reported that dead would hear the foot steps? A question arises whose footsteps are these. The interpretation of this hadith in accordance with Quran is that the footsteps are that of angels not the people who had just buried him. This whole session is executed in Burzakh.

Al-Zain bin Al-Muneer (الزَّيْن بْن الْمُنِير) said (Sharah Ibn-Hajar, juz 4 pg 401 )

وَكَأَنَّهُ اِقْتَطَعَ مَا هُوَ مِنْ سَمَاع الْآدَمِيِّينَ مِنْ سَمَاع مَا هُوَ مِنْ الْمَلَائِكَة

And like hear from  Angels  (footsteps) like what (he used to) hear from humans’ (footsteps)

Also, Al-Muhlab said (Sharah Ibn- Battal, juz 5, pg 355)  that word  من يليه إلا الثقلين  (which  approaches him except humans and jinns) actually mean   هم الملائكة الذين يلون فتنته the angels which came for questioning. Therefore the only logical interpretation of this narration is that the dead hear the footsteps of angels, they question him and in case of wrong answer torture it and this cry is heard by angels themselves.

Qattadah said (Sahih Bukhari, juz 1, pg 462) that

قال قتادة وذكر لنا أنه يفسح في قبره

We are informed that his grave would be widened

As seen above Qattadah did not believe in hearing of dead. He took the speech of Prophet at Badr’s Well as a miracle of Prophet and he also said that the grave is widened. If dead does not listen then how it would reply at the time of questioning. Further the widening demands seeing. It is therefore also clear from these narrations that according to Qattadah the questing and widening is not related to this grave in earth but rather it is executed somewhere else.

Some people claim that in the shorter version of this narration the angels are not mentioned and it is said that the dead hear the footsteps as people are departing. The scholar which do not believe in the returning of the soul of dead say against this argument that in Sahih Bukhari it is reported completely with chain

قال لي خليفة حدثنا ابن زريع حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس رضي الله عنه عن النبي

In Sahih Muslim, Sunnan Abi Dawood  and Nisai the narration is shortened by the narrators who have heard from Yazid bin Zuraiy and Abdul Wahab bin Atta. It is always the rule that the complete version of the hadith would be used for understanding instead of the shortened version, done by the Shuyukh of Muslims and Abi Dawood.

Ibn-Tammiyah said in his Fatwah juz 1, pg 349

وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَذَا مُوَافِقٌ لِهَذَا فَكَيْفَ يَدْفَعُ ذَلِكَ ؟ وَمِنْ الْعُلَمَاءِ مَنْ قَالَ : إنَّ الْمَيِّتَ فِي قَبْرِهِ لَا يَسْمَعُ مَا دَامَ مَيِّتًا كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ .

And this proved from Sahih  Bukhari and Muslim and others that the dead body hears the footsteps of people returning and it is in agreement then how could it be repelled (i.e. ignored). And there are scholars which say : The dead in the grave do not hear, as long as it is dead, like (what) Aisah said

From the words of Ibn-Tammiyah it is clear that there were scholars who abhor the idea of hearing of dead and Ibn-Tammiyah counted Aisah, Mother of Believers among those scholars.  

It is reported in Sahih Muslim, chapter  باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها

 

Narrated Aisah (may Allah pleased with her)  that Prophet peace be upon him instructed the Muslims to say prayer of blessings on their dead when they go to graveyard.

[note color=”#CEECF5″]

السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون

May blessings of Allah be on the homes of believers and Muslims, and may His mercy be on those who have departed early and on those who would come later and I will soon join you insha-Allah

[/note]

It is claimed by some scholars (like Ibn-Katheer ) that this prayer is like an address, which indicate that the dead in graves would understand this and reply. On the contrary the group of scholars who believe that dead cannot hear, say that this is a prayer like we address but it does not mean that dead would hear as well.  Note that this narration is reported by Aisha peace be upon her, and she did not believe in hearing of dead.

It is reported by Dahabi in Tahrikh al-Islam, juz 1, pg 642 that Ibn-Umer was informed about the arrival of Asma in mosque, after the crucifixion of Ibn-Zubair

وقال حميد بن زنجويه : ثنا ابن أبي عباد ثنا سفيان بن أبي عيينة عن منصور بن عبد الرحمن عن أمه قالت : قيل لابن عمر أن أسماء في ناحية المسجد وذلك حين قتل ابن الزبير وهو مصلوب فمال إليها فقال : إن هذه الجثث ليست بشيء وإنما الأرواح عند الله فاتقي الله وعليك بالصبر

It was said to Ibn ‘ Umar that Asma is in the mosque, while Ibn al-Zubayr was killed and crucified, so he said to her: that these corpses are nothing and indeed the souls are with Allah, so fear Allah and you have to be patient

Ibn-Umer talked with the crucified body of Abdullah bin Zubair (Sahih Muslim, juz 4 , pg 1971)

عبدالله بن عمر فوقف عليه فقال السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب السلام عليك أبا خبيب أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا

Ibn-Umer stopped by and said Salam to you O Aba Khubaib, Salam to you O Aba Khubaib, O Aba Khubaib by Allah I warned you from doing this, by Allah I warned you from doing this, by Allah I warned you from doing this

This shows that Ibn-Umer talked with the soul-less dead body and he did not believe that Ibn-Zubair  is actually hearing the speech and he said السلام عليك .

Scholars who believe in hearing of dead then present the following narration, reported by Ibn Abi Sheba, juz 3, pg 27

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبيد الله بن موسى عن بن أبي ذئب عن قرة عن عامر بن سعد عن أبيه أنه كان يرجع من ضيعته فيمر بقبور الشهداء فيقول السلام عليكم وانا بكم للاحقون ثم يقول لأصحابه ألا تسلمون على الشهداء فيردون عليكم

His father was returning from his farm,  and he passed by the graves of the martyrs, said peace and blessings of  Allah  and we shall meet soon then he said to his companions why don’t you say salam to  martyrs so that they respond to you.

 [/note]

In this narration, the narrator قرة is unknown. This is the only narration in whole hadith literature with this chain and that makes this narration Gharib (isolated) and weak. Ibn Abi Zaib (159 AH) is although a siqa narrator but Ahmed said (Tahzeeb al-Kamal juz 25 pg 630)

 ابن أبي ذئب كان لا يبالي عن من يحدث

Ibn Abi Zaib does not care from whom he is narrating

The scholars who believe in returning of the soul, claim that the narrator قرة   full name is

قرةبن خالد السدوسي but they present no evidence for this.

 

The purpose of visiting graveyard is to remind oneself the fact that one day we all go there. But when we go there it is taught that we say Salam to them. But that is not the purpose but the Adab or protocol. Also, to send Salam to Martyrs it is not necessary to go to graves, as it is reported by Bukhari inVolume 1, Book 12, Number 794:

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Shaqiq bin Salama: ‘Abdullah said, “Whenever we prayed behind the Prophet we used to recite (in sitting) ‘Peace be on Gabriel, Michael, peace be on so and so. Once Allah’s Apostle looked back at us and said, ‘Allah Himself is As-Salam (Peace), and if anyone of you prays then he should say, All the compliments, prayers and good things are due to Allah: peace be on you, O Prophet and Allah’s mercy and blessings be on you. Peace be on us an on the true pious slaves of Allah. If you say that, it will be for all the slaves in the heaven and the earth. I testify that none has the right to be worshipped but Allah and I also testify that Muhammad is His slave and His Apostle).”

[/note]

It is reported in Musnad Abi-Yalah (juz 6 , pg 84) that

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ ، أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ : وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ ، لَيَنْزِلَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلا ، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ ، وَلَيُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَيْنِ ، وَلَيُذْهِبَنَّ الشَّحْنَاءَ ، وَلَيُعْرَضَنَّ عَلَيْهِ الْمَالُ فَلا يَقْبَلُهُ ، ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ لأُجِيبَنَّهُ

Abu Hurrairah said that I heard Messenger of Allah peace be upon him said: By Being (Allah) in whose hands the life of Abi Qasim (Prophet himself) is Indeed Jesus son of Mary would descend (from sky) as a  fair and a just Imam. He would  break the Cross and kill the pig, and rectify the relations  and hostility would vanish and money would be offered to him but he would not accept it and then when he stands on my grave (for prayer of blessing he would )say O Muhammad  (and) I would reply (to him)!

[/note]

This narration is reported by   أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ who is a controversial narrator, some  hadith scholars have endorsed his narration but others have rejected him as well.

 

Ibn- Moin and Ibn- Addi called him ضعيف (Mezal al-Ateedal, juz 1, pg 612)

Ibn- Shaheen called him  ضعيف in his work  تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين juz 1, pg 75)

A similar kind of  hadith is also reported by Imam Muslim in his Sahih with chain

 

أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ

 

where it does not contains the addition (i.e. he stands on my grave and say O Muhammad I would reply). It is therefore an addition done by narrator Abi Sakhar أَبِي صَخْرٍ  .

It is reported by Dahabi in Mezan al-Atedal in discussion on narrator Muhammad bin Marwan:

[note color=”#CEECF5″]

العلاء بن عمرو الحنفي، حدثنا محمد بن مروان، عن الاعمش، عن أبى صالح، عن أبى هريرة – مرفوعا: من صلى على عند قبري سمعته، ومن صلى على نائيا بلغته

Narrated Abu Hurraira:  I hear the one who say Salam to me near my grave, and who say it far from me, his Salam is conveyed to me.

[/note]

The narrator محمد بن مروان is a liar Dahabi says تركوه واتهمه بعضهم بالكذب. Narrations are not taken and some (scholars ) have blamed him for lies.  Uqaili said in Doafa Uqaili, juz 4 pg 136 after quoting this narration

لا أصل له من حديث الأعمش وليس بمحفوظ ولا يتابعه إلا من هو دونه

It has no source from Aamash and not a saved narration and no one else followed except those who are of similar kind

 

Ibn-Hajar said in Fathul-Bari juz 10  pg 243

وَأَخْرَجَهُ أَبُو الشَّيْخ فِي ” كِتَاب الثَّوَاب ” بِسَنَد جَيِّد بِلَفْظِ ” مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْد قَبْرِي سَمِعْته ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا بُلِّغْته

And Abu Sheikh has brought it in Kitab al-Sawab with good chain[1] and with words I hear the one who say Salam to me near my grave, and who say it far from me, his Salam is conveyed to me.

It is stated in Aoon al-Mabood juz 4 pg 242

[note color=”#CEECF5″]

وَأَخْرَجَ أَبُو الشَّيْخ فِي كِتَاب الصَّلَاة عَلَى النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ آلِهِ وَسَلَّمَ : حَدَّثَنَا عَبْد الرَّحْمَن بْن أَحْمَد الْأَعْرَج حَدَّثَنَا  الحسين بْن الصَّبَّاح حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَة حَدَّثَنَا الْأَعْمَش عَنْ أَبِي صَالِح عَنْ أَبِي هُرَيْرَة قَالَ قَالَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْد قَبْرِي سَمِعْته ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ مِنْ بَعِيد أُبْلِغْته ، قَالَ اِبْن الْقَيِّم فِي جَلَاء الْأَفْهَام : وَهَذَا الْحَدِيث غَرِيب جِدًّا .

And Abu Sheikh has brought it in Kitab-al-Salat ala al-Nabi : (quoted sanad) .. Ibn-Qayyam said in Jilla al-Ifham and this narration is very Gharib

[/note]

In Jila-al-Ifham the sanad is

وقال أبو الشيخ في كتاب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم : حدثنا عبد الرحمن بن أحمد الأعرج ، حدثنا الحسين بن الصباح ، حدثنا أبو معاوية ،حدثنا الأعمش ،عن أبي صالح ، عن أبي هريرة –

 

The word Ghharib indicate that no one else report this narration. As such there is no evidence that this narration is available to early scholars of hadith. A natural question is then why it is kept so secret that no one knows about this chain except Abu Sheikh ?  Even Ibn-Qayyam who is an stalwart supporter of hearing of death said that narration is very Gharib.

 

Both in Jilla al-Ifham and Aaon al-Mabood the name of narrator is Hussian bin As-Sabah, who is an  unknown narrator.  Further Aamash has heard this narration from Abi Salah. Which Abi Salah is this?  Aamash is Mudlis narrator and it is sometimes necessary to know from where Mudlish narrator has heard the report. Further the narration with use of عَنْ  from Mudlis narrator is not acceptable. Abu Zara’ al-Dimishqui said (pg 230) said Ahmed said:

وأبو صالح الذي روى عنه الأعمش: سميع

Ahmed said  and Abu Salah from whom Amash narrates (is) Sami

 

His name is Sami al-Ziyyat Al-Kofi. Ibn-Hajar (d 852 AH) said  for him in Taqreeb al-Tahzeeb  مقبول من السادسة  Maqbool in sixth category.

Sixth category contains the narrators which are lowest in authentication.

السادسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ ” مقبول ” حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.

Sixth: one from which there are very few reports of hadith, and it is not proved that his hadith would be rejected due to this and it is connoted with the word Maqbool when there is a support(ing narration) and otherwise weak-in-hadith

 

As this narration has no other supporting narration it would be necessary to reject it instead of taking it as an article of faith.

Now some views about the book, from which this narration is reported. Ibn-Tammiyah said in Majmoo Al-Fatawah juz 1, pg 252 for Abu al-Sheik (d. 369 AH)

رواه أبو الشيخ الأصبهانى فى كتاب فضائل الأعمال وفى هذا الكتاب أحاديث كثيرة كذب موضوعة

Abu Sheikh Al-Isbahani has narrated this in  in book Fazail al-Aamal and in this book there are many narrations which are lies and manufactured narrations.

Dahabi said (Seer al-Allam al-Nubla juz 16 pg 279  يملا تصانيفه بالواهيات  Filled his books with Wahiyyat.

A scholar of recent era, Al-Bani said(Al-Ayat al-Bayyenat pg 80)

وأما حديث ” من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته ” فهو موضوع كما قال شيخ الإسلام ابن تيمية في ” مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 ) وقد خرجته في ” الضعيفة ” ( 203 ) . ولم أجد دليلا على سماعه صلى الله عليه وسلم سلام من سلم عند قبره وحديث أبي داود ليس صريحا في ذلك فلا أدري من أين أخذ ابن تيمية قوله ( 27 / 384 ) : أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

And the hadith من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته is concocted as said by Ibn Tammiyah in Majmoo al-Fatawah (27/241) and I brought it in Al-Daifa and I do not got the proof of hearing of Salam by Prophet near his grave .. ….and I do not know from where got Ibn-Tammiyah that he said (27/384) Indeed (Prophet) peace be upon him hear the Salam when uttered nearby (his grave)

 

Further now in front of  Prophet’s burial place a verse is written:

[note color=”#BEF781″]

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ 

O you who believe! Raise not your voices above the voice of the Prophet (), nor speak aloud to him in talk as you speak aloud to one another, lest your deeds may be rendered fruitless while you perceive not.

 [/note]

The underlying belief is that the Prophet is alive  in grave however this is wrong as Prophet is alive in Paradise.  One must exhibit dignity and respect whenever his name is uttered but he is not at  his grave.

 

An important issue in Islamic jurisprudence is that if someone took an oath that he would not talk to some person and assuming that this person is dead now and he goes to burial and talks to that person, then would that act annul hi/bs oath? Also if someone takes an oath that he would not talk to his friend and if he does so his marriage become invalid, now if the same person talks with the dead body of his friend then this would not annul his marriage.

 

1. It is reported in al-Mabsoot, juz 10, pg 407

فَإِنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ الْكَلَامِ الْإِفْهَامُ وَذَلِكَ لَا يَحْصُلُ بَعْدَ الْمَوْتِ

And the speech (to dead) requires the understanding and that is not possible after death.

 

2. It is reported in حاشية رد المحتار, juz 4 pg 148

وأما الكلام فلان المقصود منه الافهام والموت ينافيه

And the speech (to dead) requires the understanding and the death rules it out.

 

3. Al-Nawawi (676 A.H) said in al-Majmoo juz 17 pg 224[1]

وان كلمته وهو ميت لم تطلق، لان الميت لا يكلم.

And if he speak with it and he is dead, he would not be divorced as the dead do not talk

 

Also he said that if someone quote the incident of well of Badr

قلنا تلك معجزة للنبى صلى الله عليه وسلم، لان الله رد إليهم أرواحهم حتى يسمعوا كلام النبي صلى الله عليه وسلم، لان الاصل أن الميت لا يسمع.

We say it was the miracle of Messenger of Allah peace be on him, because Allah has returned their souls until they heard he speech of Prophet, as the reality is that the dead do not hear

 

4. It is written in  الفروع لابن مفلح  juz 3, pg 348 that Ibn-Jawzi (597 AH) said

وَقَالَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي كِتَابِهِ السِّرِّ الْمَصُونِ : الَّذِي يُوجِبُهُ الْقُرْآنُ وَالنَّظَرُ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَسْمَعُ وَلَا يُحِسُّ

Ibn Jawzi said in book Sir al-Mason: It is validated by the Quran and the consideration that the dead do not hear and sense 

 

 

The final conclusion is that the hearing of dead is not a valid belief. It is against Quran and even Mother of Believer Aisha hold the belief that dead does not hear.

 

As a Muslim it is important that we bring our believes in accordance with Holy Quran. May Allah send his blessings on our last Prophet Muhammad peace be upon him and guide us towards his mercy and Heavens and save us from Azab al-Qabr and Hell  Fire. Amen

 

 


[1] Although he said complete opposite in his Sharah Al-Muslim

 

 

 

 

Presentation of Deeds

Are our deeds presented to Allah or  to his  Prophet?

بسم الله الرحمن الرحيم

Almighty Allah has informed us in his glorious book that all records goes back to Allah.  Allah says in Quran:

[note color=”#BEF781″]

وَإِلَى ٱللَّهِ تُرجَعُ ٱلأُمُور

And to Allah return all matters (for decision). [Al- Baqara 2:210]

وَإِلَيهِ يُرجَعُ ٱلأَمرُ كُلُّهُ

and to Him return all affairs (for decision). [Hud 11:123]

وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلأُمُورِ

And with Allah rests the end of (all) matters (of creatures). [Al-Hajj 22:41]

وَإِلَى ٱللَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلأُمُورِ

And to Allah return all matters for decision. [Luqman 31:22]

أَلَآ إِلَى ٱللَّهِ تَصِيرُ ٱلأُمُورُ

Verily, all matters at the end go to Allah (for decision). [Ash-Shura 42:53] 

[/note] 

It is reported in Sahih Muslim

[note color=”#CEECF5″]

Abu Huraim reported Allah’s Messenger (may peace be upon him) as saying, “The deeds of people would be presented every week on two days, viz. Monday and Thursday, and every believing servant would be granted pardon except the one in whose (heart) there is rancour against his brother and it would he said: Leave them and put them off until they are turned to reconciliation.”  (Sahih Muslim, Book #032, Hadith #6224)

[/note]

This shows that from Quran and Sahih ahadith our deeds are presented to Allah and none else. However there are narrations which speak otherwise and it is important to investigate the authenticity of these narrations.

 

This is most quoted narration and attributed to Abdullah ibn Masood may Allah be pleased with him, one of the companions of Prophet peace be upon him.

 

It is reported in Nisai, chapter بَاب السَّلَامِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

[note color=”#CEECF5″]

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ ح و أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ زَاذَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ

Zazzan reported that Abdullah ibn Masood said: Messenger of Allah peace be upon him said Indeed there are roaming angles of Allah on Earth, they transmit the Salam of my Ummah to me.

[/note]

Also it is reported in Musnand Bazzaz:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا يوسف بن موسى قال : نا عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد عن سفيان عن عبد الله بن السائب عن زاذان عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ( إن لله ملائكة سياحين يبلغوني عن أمتي السلام ) قال : وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ( حياتي خير لكم تحدثون ونحدث لكم ووفاتي خير لكم تعرض علي أعمالكم فما رأيت من خير حمدت الله عليه وما رأيت من شراستغفرت الله لكم )

Zazzan reported that Abdullah ibn Masood reported that Messenger of Allah peace be upon him said  My life is good for you that you report (ask) and I would tell you and my death is good for you , your deeds would be presented on me and I would praise Allah when I see good and I would ask Allah’s forgiveness if I notice evil.

[/note]

Both of these narrations are  reported by Zazzan,  who is a Shiite narrator, and among thousands of students of Abdullah ibn Masood he is the only narrator of this so-called ahadith.

Imam Dolabi has informed us in his work titled Al-Kuna-wal-Asma  (juz 4- pg 404) that the Zazzan was among the Shiites.

أخبرني محمد بن إبراهيم بن هاشم ، عن أبيه ، عن محمد بن عمر قال : « زاذان أبو عمر الفارسي مولى لكندة ، أدرك عمر ، وكان من أصحاب عبد الله ، وكان من شيعة علي ، هلك في سلطان عبد الملك

Muhammad bin Umer (Al-Waqidi) said that Zazzan Abu Umer Al-Farisi Maula Kindah found (the era of) Umer and was among the people of Abdullah (ibn Masood) and was from Shiites of Ali, died in the regime of Sultan Abdul-Malik

The statement of Al-Waqidi  is a historical record. Further,  Ibn- Hajar said in Taqreeb al-Tahzeeb (juz 1, pg 307)

زاذان أبو عمر الكندي البزاز ويكنى أبا عبد الله أيضا صدوق يرسل وفيه شيعية من الثانية مات سنة اثنتين وثمانين

Zazzan Abu Umer al-Kindi Al-Bazzaz and nicknamed Aba Abdullah also is Sudooq some times commit Irsal and has Shiite inclination died in year eighty two.

Ibn-Hajar and Dolabi both informed about the Shiite connection of Zazzan. The group of scholars, which support the believe of presented of deeds on Prophet, claim that Ibn-Hajar was influenced by Al- Waqidi. However there are evidences which support the inclination of Zazzan towards Shia’ism. Further it would be interesting to know that Ibn-Hajar has quoted Muhammad bin Umer Al-Waqidi  more than 200 times in Tahzeeb al-Tahzeeb only. This basically reflects the acceptance of Waqidi in keeping the record of history.

Now here  are the narrations reported by Zazzan which reflect his Shitte tendencies:

1.  It is reported  in  Fazail Sahabah compiled by Imam Ahmed (juz 2 pg 472) that:

حدثنا عبد الله ، قثنا أبي ، قثنا ابن نمير ، نا عبد الملك ، عن أبي عبد الرحيم الكندي ، عن زاذان أبي عمر قال : سمعت عليا في الرحبة  وهو ينشد الناس : من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم وهو يقول ما قال ؟ فقام ثلاثة عشر رجلا فشهدوا أنهم سمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول : « من كنت مولاه فعلي مولاه ، اللهم وال من والاه ، وعاد من عاداه »

Zazzan said: I heard Ali  in Al-Rahbah and he was preaching: Who saw the Messenger of Allah peace be upon him on the Ghadeer Khum?  He (Prophet) said what he said? Stood thirteen men and bear witness that  they heard the Messenger of Allah, peace be upon him, he said: «If I  am the friend of someone Ali is his friend O  Allah,  take as friend one who take him as friend and take as enemy one who takes him as enemy»

2. Also reported in Fazail Sahabah by Imam Ahmed (juz 3 pg 3) that:

حدثنا عبد الله قال : وجدت في كتاب أبي بخط يده وأظنني قد سمعته منه ، نا وكيع ، عن شريك ، عن عثمان أبي اليقظان ، عن زاذان ، عن علي قال : مثلي في هذه الأمة كمثل عيسى ابن مريم ، أحبته طائفة  وأفرطت في حبه فهلكت ، وأبغضته  طائفة ، وأفرطت في بغضه فهلكت ، وأحبته طائفة فاقتصدت في حبه فنجت

Narrated Zazzan from Ali that he (Ali) said: I am in this nation, like a  Jesus, son of Mary, A part of it  loved him ,and deviated in excessive  love and angered a party and exhibited excess in abhorrence (against me) ..

 3.  It is reported in Hadith Abi Fazl Azzuhri ( juz 1 pg 107) that:

أخبركم أبو الفضل الزهري ، نا إبراهيم ، نا صالح بن مالك ، نا أبو الصباح عبد الغفور ، نا أبو هاشم الرماني ، عن زاذان ، قال : حدثتنا عائشة أم المؤمنين ، قالت : أهدت إلي امرأة مسكينة هدية ، فلم أقبلها منها رحمة لها ، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : « ألا قبلتيها منها وكافأتيها فلا ترى أنك حقرتيها ، تواضعي يا عائشة ، فإن الله يحب المتواضعين ، ويبغض المتكبرين »

Narrated zazzan that Aisha, Mother of Believers narrated to them; She said: A poor woman had donated a gift (to me); I had not accepted it as a token of mercy, I informed about this to the Messenger of Allah peace be upon him and he said: «  Why you have not accepted that and it would have been enough to show that you  do not see her as inferior , Oh Aisha,  Be humble, God loves humble  and hates the proud!

 

The above narrations are the examples of Shiite tendencies of Zazzan. Not only that he is considered as an authentic narrator in Shiite literature like Usool-al-Kafi etc. Dr. Bashshar Awwad Al-Maroof have indicated that narrations form  Zazzan is quoted in Shiite literature like  الكافي في القضاء والاحكام: 6، باب: النوادر 19 حديث رقم 12،  and also in another book titled

 والتهذيب: باب من الزيادات في القضايا والاحكام، حديث رقم 804).

It is reported in Al- Kafi H 1003, Ch. 93, h 2

Muhammad ibn Yahya has narrated from  ibn al-Husayn from Musa ibn Sa‘dan from Abdallah ibn al-Qasim from al-Hassan ibn Rashid who has said the following. “I Heard abu ‘Abdallah (a.s.) say, ‘When Allah, the Most Holy, the Most High, would love to create the Imam He would command an angel to take a drink of water from under the Throne and his father to drink it and from this He creates the Imam. for the first forty days and nights in his mothers womb he would hear anything. After that he would hear the words. When he is born that angel comes and writes between his eyes, “. . .in all truth and justice, your Lord’s Word has been completed. No one can change His Words. He is All-hearing and All knowing.”  (6:115) When the preceding Imam passes away a light house made from light is prepared for him and this light house he examines the deeds of the creatures. By this means Allah establishes His authority over the creatures.”

The presentation of deeds of creation on Imams is a basic shitte belief, as indicated in the narration of Al-Kafi. Zazzan being a Shitte has spread the word to make this belief acceptable in non-Shitte circles of his era. Unfortunately the narration got acceptance in our books. Imam Bukhari and Muslim has not reported this narration in any of their books.

 

Also the narration of Zazzan is Munkar as it is against a Sahih narration reported in Bukhari  which cleared the role of roaming angels.

It is reported in Bukhari chapter باب فَضْلِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِى صَالِحٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – « إِنَّ لِلَّهِ مَلاَئِكَةً يَطُوفُونَ فِى الطُّرُقِ ، يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ . قَالَ فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا . قَالَ فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهْوَ أَعْلَمُ مِنْهُمْ مَا يَقُولُ عِبَادِى قَالُوا يَقُولُونَ يُسَبِّحُونَكَ ، وَيُكَبِّرُونَكَ ، وَيَحْمَدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ .قَالَ فَيَقُولُ هَلْ رَأَوْنِى قَالَ فَيَقُولُونَ لاَ وَاللَّهِ مَا رَأَوْكَ . قَالَ فَيَقُولُ وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِى قَالَ يَقُولُونَ لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً ، وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا ، وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا . قَالَ يَقُولُ فَمَا يَسْأَلُونِى قَالَ يَسْأَلُونَكَ الْجَنَّةَ . قَالَ يَقُولُ وَهَلْ رَأَوْهَا قَالَ يَقُولُونَ لاَ وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا . قَالَ يَقُولُ فَكَيْفَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا قَالَ يَقُولُونَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا ، وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا ، وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً . قَالَ فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ قَالَ يَقُولُونَ مِنَ النَّارِ . قَالَ يَقُولُ وَهَلْ رَأَوْهَا قَالَ يَقُولُونَ لاَ وَاللَّهِ مَا رَأَوْهَا . قَالَ يَقُولُ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا قَالَ يَقُولُونَ لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا ، وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً . قَالَ فَيَقُولُ فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّى قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ . قَالَ يَقُولُ مَلَكٌ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ فِيهِمْ فُلاَنٌ لَيْسَ مِنْهُمْ إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ . قَالَ هُمُ الْجُلَسَاءُ لاَ يَشْقى بِهِمْ جَلِيسُه ُمْ »

Narrated Abu Huraira:

Allah ‘s Apostle said, “Allah has some angels who look for those who celebrate the Praises of Allah on the roads and paths. And when they find some people celebrating the Praises of Allah, they call each other, saying, “Come to the object of your pursuit.’ ” He added, “Then the angels encircle them with their wings up to the sky of the world.” He added. “(after those people celebrated the Praises of Allah, and the angels go back), their Lord, asks them (those angels) though He knows better than them ‘What do My slaves say?’ The angels reply, ‘They say: Subhan Allah, Allahu Akbar, and Alham-du-lillah, Allah then says ‘Did they see Me?’ The angels reply, ‘No! By Allah, they didn’t see You.’ Allah says, How it would have been if they saw Me?’ The angels reply, ‘If they saw You, they would worship You more devoutly and celebrate Your Glory more deeply, and declare Your freedom from any resemblance to anything more often.’ Allah says (to the angels), ‘What do they ask Me for?’ The angels reply, ‘They ask You for Paradise.’ Allah says (to the angels), ‘Did they see it?’ The angels say, ‘No! By Allah, O Lord! They did not see it.’ Allah says, How it would have been if they saw it?’ The angels say, ‘If they saw it, they would have greater covetousness for it and would seek It with greater zeal and would have greater desire for it.’ Allah says, ‘From what do they seek refuge?’ The angels reply, ‘They seek refuge from the (Hell) Fire.’ Allah says, ‘Did they see it?’ The angels say, ‘No By Allah, O Lord! They did not see it.’ Allah says, How it would have been if they saw it?’ The angels say, ‘If they saw it they would flee from it with the extreme fleeing and would have extreme fear from it.’ Then Allah says, ‘I make you witnesses that I have forgiven them.”‘ Allah’s Apostle added, “One of the angels would say, ‘There was so-and-so amongst them, and he was not one of them, but he had just come for some need.’ Allah would say, ‘These are those people whose companions will not be reduced to misery.’

 

[/note]

A similar kind of hadith is reported by Muslim  in chapter  باب فضل مجالس الذكر and in  Tirmidhi reported in chapter  باب مَا جَاءَ أَنَّ لِلَّهِ مَلاَئِكَةً سَيَّاحِينَ فِى الأَرْضِ

This shows that there are roaming angels but they look for people praising Allah. They are not roaming to send blessing prayers to Prophet peace be upon him.

It is reported in Musnad Ahmed, juz  4, pg 8, Sunan Abi Dawood juz 3, pg 404, Sunnan Nisai juz 1, pg 101,  sunnan Ibn- Maja juz 3, pg 447 that:

[note color=”#CEECF5″]

 حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسين بن على الجعفي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن أبي أوس قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فاكثروا على من الصلاة فيه فان صلاتكم معروضة على فقالوا يا رسول الله وكيف تعرض عليك صلاتنا وقد أرمت يعنى وقد بليت قال إن الله عز و جل حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء صلوات الله عليهم 

Narrated Aus bin Abi Aus that Messenger of Allah peace be upon him said  Best of your days is Friday, on this day Adam is created and on this (day) he died and on this (day) there will  be Blowing (for day of Judgement)  and on this (day) their will be Shocks (due to day of Judgement)    so increase your prays of blessing on me on this day, as it is presented on me. We said O Messenger of Allah but how it will be presented on you when you would become dust  means you disintegrate, said: Indeed Allah has forbidden Earth to eat the bodies of prophets peace be upon them.

[/note]

The sanad (chain of narrators) is.

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسين بن على الجعفي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر

The two important narrators are Hussain bin Ali Al-Jofi and Abdur Rehman bin Yazeed bin Tammem.

Imam Bukhari has tracked this narration and state that this narration is not authentic. He said is in his work Tahreekh al-Saghir, juz 2 , pg 109

قال الوليد كان لعبد الرحمن كتاب سمعه وكتاب آخر لم يسمعه وأما أهل الكوفة فرووا عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر وهو بن يزيد بن تميم ليس بابن جابر وابن تميم منكر الحديث

 Al-Waleed said that Adbur-Rehaman had a book which he heard and a book which which he had not heard and people of Kufa have narrated from Abdur-Rehamn bin Yazeed bin Jabir but he is (actually Abur Rehaman)  bin Yazeed bin Tameem and not the Ibn-Jabir and (Abdur Rehman bin Yazeed ) Ibn Tameem is Munkar-ul-hadith.

Imam Bukhari also said is in his work Tahreekh al-Kabeer juz 5 pg 365

قال الوليد: كان عند عبد الرحمن كتاب سمعه (1) وكتاب آخر لم يسمعه

Al-Waleed said: Abdur Rehaman (bin Yazeed bin Tammem) had a book which he heard and another book which he had not heard

 

Imam Ibn-Abi Hatim said in his work Illal al-hadith juz 1, pg 19

وأمّا حُسينٌ الجُعفِيُّ : فإِنّهُ روى عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ يزِيد بنِ جابِرٍ ، عن أبِي الأشعثِ ، عن أوسِ بنِ أوسٍ ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي يومِ الجُمُعةِ ، أنّهُ قال : أفضلُ الأيّامِ : يومُ الجُمُعةِ ، فِيهِ الصّعقةُ ، وفِيهِ النّفخةُ وفِيهِ كذا وهُو حدِيثٌ مُنكرٌ ، لا أعلمُ أحدًا رواهُ غير حُسينٍ الجُعفِيِّ وأمّا عبدُ الرّحمنِ بنُ يزِيد بنِ تمِيمٍ فهُو ضعِيفُ الحدِيثِ ، وعبدُ الرّحمن بنُ يزِيد بنِ جابِرٍ ثِقةٌ.

And Hussain Al-Jofai: he narrated from Abdur Rehman bin Yazeed bin Jabir, from Abi Al-Ashath from Aus bin Aus from Messanger of Allah peace be upon him about the Friday and   repoted that  best of days is Friday, in it will be Shocks and Blowing and that and that is hadith Munkar, I know no one report it except Hussain Al-Jofai and as far as Abdur Rehman bin Yazeed bin Tameem is concerned, he is Daif-ul-hadith whereas Abdur Rehman bin Yazeed bin Jabir is trustworthy narrator.

The conclusion is that the narrator Hussain bin Ali al-Jofai has intentionally changed the name of narrator to Abdur Rehman bin Yazeed bin Jair. This slight twist in the name of narrator is done to misguide people. In fact the narrator is different and both Hussain al-Jofai and Ibn-Tameem are weak narrators. Imam Ibn Abi Hatim had even called it Munkar narration i.e. one which is against Sahih ahadith.

There are some other weak narrations reported on this issue and attributed to different companions. There analysis is as follows.

Narration of Abi Hurraira (may Allah be pleased with him)

It is reported in Musnad Ahmed juz 2, pg 367

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سريج قال ثنا عبد الله بن نافع عن بن أبي ذئب عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تتخذوا قبري عيدا ولا تجعلوا بيوتكم قبورا وحيثما كنتم فصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني

Narrated Abi Hurraira that

Messenger of Allah peace be upon him said: Do not take my grave as a place of fair and do not make your houses, graves and pray for blessings on me, from wherever you are.

[/note]

It is reported in Muajam Al-Awsat by Tabarani, juz 17 pg 339

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا موسى بن هارون ، نا مسلم بن عمرو الحذاء المديني ، نا عبد الله بن نافع ، عن ابن أبي ذئب ، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ، عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « لا تجعلوا بيوتكم قبورا ، ولا تجعلوا قبري عيدا ، وصلوا علي ، فإن صلاتكم تبلغني حيث ما كنتم » «

Narrated Abu Hurraira Messanger of Allah said:

Do not make your houses graves, and do not take my grave as a fair, and pray for blessings on me, as your prayers would reach me from wherever you are.

[/note]

Also Tabarabi said after the narration

لم يصل هذا الحديث عن ابن أبي ذئب إلا عبد الله بن نافع ، تفرد به : مسلم بن عمرو »

.. this narration does not connect with Ibn Abi Zaib but only via Abdullah bin Nafay, taffarad (only reported by) by Muslim bin Amr.

Haithami said  (Majma-e-Zawaid, juz 2, pg 292):  رواه أبو يعلى وفيه عبد الله بن نافع وهو ضعيف

… narrated by Abi Yala and it has Abdullah bin Nafay and he is a weak narrator

Narration of Ali bin Abi Talib (may Allah be pleased with him)

It is reported in Masnad Abi Yala, juz 14 pg 2

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا موسى بن محمد بن حيان ، حدثنا أبو بكر الحنفي ، حدثنا عبد الله بن نافع ، أخبرني العلاء بن عبد الرحمن قال : سمعت الحسن بن علي بن أبي طالب قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « صلوا في بيوتكم ، لا تتخذوها قبورا ، ولا تتخذوا بيتي عيدا ، صلوا علي وسلموا ، فإن صلاتكم وسلامكم يبلغني أينما كنتم »

Hassan bin Ali bin Abi Talib said that Messeneger of Allah peace be upon him said  Pray at your homes and do not take them as graves and do not take my grave as a fair, pray for blessings on me and your prayers for blessings and safety reach me wherever you are

[/note]

Also reported in Masnad Abi Yala , juz 1  pg 452; Musanif Ibn Abi Sheeba, juz 2 pg 150;

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا جعفر بن إبراهيم ، من ولد ذي الجناحين ، قال : حدثنا علي بن عمر ، عن أبيه ، عن علي بن حسين ، أنه رأى رجلا يجيء إلى فرجة كانت عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فيدخل فيها فيدعو ، فنهاه ، فقال : ألا أحدثكم حديثا سمعته من أبي ، عن جدي ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : « لا تتخذوا قبري عيدا ، ولا بيوتكم قبورا ، فإن تسليمكم يبلغني أينما كنتم »

Ali bin Hussain saw one person who reaches to the cavity near the grave of Messenger of Allah peace be upon him and entered it and called , (Hussain) forbade him and said I narrate to you what I heard from my father from grandfather from Messenger of Allah peace be upon him said Do not take your houses as grave as your prayer of blessings reach me wherever you are

[/note]

Haithami said Majam-e- Zawaid, juz 4, pg 7

رواه أبو يعلى وفيه جعفر بن إبراهيم الجعفري ذكره ابن أبي حاتم ولم يذكر فيه جرحاً وبقية رجاله ثقات

… narrated by Abi Yala and it has Jafar bin Ibrahim Al-Jafari, Ibn Abi Hatim has talked about him and has not reported any Jirah and rest of the narrators are authentic

However Ibn-Hajar  quoted this narration and said in Lisan al-Mezan, juz 1,pg 249

 فلعل إبراهيم نسبه إلى جده الأعلى جعفر إن كان الخبر لجعفر

.. probably Ibrahim  has attributed this narration to his grandfather Jafar, if this report is from Jafar.

Hence Ibn-Hajar showed his disfavour for this narration in Lisan al-Mezan. Further it mentions about فرجة كانت عند قبر  cavity in grave of Messenger of Allah peace be upon him , which is against the historical record available to us. There had never been a cavity in the grave of Prophet.

Narration of Hasan bin Ali (may Allah be pleased with him)

It is reported in Muajam Al-Kabeer by Tabarani, juz 3 pg 82

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أحمد بن رشدين المصري ثنا سعيد بن أبي مريم ثنا محمد بن جعفر أخبرني حميد بن أبي زينب : عن حسن بن حسن بن علي بن أبي طالب عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : حيث ما كنتم فصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني

Narrated Hasan bin Hasan bin Ali bin Abi Talib from his father that Messenger of Allah peace be upon him said wherever you are pray for blessings on me  as your blessings would reach me.

[/note]

In Muajam Al-Awsat juz 1 pg 371

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أحمد بن رشدين قال : نا سعيد بن أبي مريم قال : نا محمد بن جعفر قال : أخبرني حميد بن أبي زينب ، عن حسين بن حسن بن علي بن أبي طالب ، . عن أبيه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : « حيثما كنتم فصلوا علي ، فإن صلاتكم تبلغني » لا يروى هذا الحديث عن الحسن بن علي إلا بهذا الإسناد ، تفرد به : ابن أبي مريم

Narrated Hasan bin Hasan bin Ali bin Abi Talib from his father that Messenger of Allah peace be upon him said wherever you are pray for blessings on me as your prayers would reach me. No body reports this narration from Hasan bin Ali except with this chain and it is only reorted by Ibn Abi Mariam.

[/note]

 

Haithami said in Majma-e-Zawaid, juz 11, pg 29

رواه الطبراني في الكبير والأوسط وفيه حميد بن أبي زينب ولم أعرفه، وبقية رجاله رجال الصحيح.

Narrated Tabarani in Al-Awsat and it has Hameed bin Abi Zainab and I do not know him, and rest of the narrators are from Al-Sahih.

Therefore the narrations are reported by an unknown narrator and thus weak.

Narration Abi Masood Al-Ansari (may Allah be pleased with him)

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا الشيخ أبو بكر بن إسحاق الفقيه ، أنبأ أحمد بن علي الأبار ، ثنا أحمد بن عبد الرحمن بن بكار الدمشقي ، ثنا الوليد بن مسلم ، حدثني أبو رافع ، عن سعيد المقبري ، عن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « أكثروا علي الصلاة في يوم الجمعة ، فإنه ليس أحد يصلي علي يوم الجمعة إلا عرضت علي صلاته »

Abi Masood Al-Ansari said that Messenger of Allah peace be upon him said  Increase your prayer of blessings on me on Friday, in fact there is no one who would pray for blessings  on me and it would not be presented to be.

[/note]

It contains إسماعيل بن رافع who is a weak narrator.  (From Tahzibul-Kamal, juz 3 pg 85 )

Yahyah bin moin called him ضعيف Weak also called him ليس بشيء i.e. He is nothing

Ahmed bin Hanbal  and Abu Hatim said: منكر الحديث Munkar-ul-Hadith

Nisai called him siqah once but also متروك الحديث   i.e one whose narrations are rejected.

Narration of Annas (may Allah be pleased with him)

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أحمد قال : نا إسحاق قال : نا محمد بن سليمان بن أبي داود قال : نا أبو جعفر الرازي ، عن الربيع بن أنس ، عن أنس بن مالك ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « من ذكر الله ففاضت عيناه من خشية الله حتى تصيب الأرض دموعه لم يعذبه الله يوم القيامة » وقال النبي صلى الله عليه وسلم : « من صلى علي بلغتني صلاته ، وصليت عليه ، وكتبت له سوى ذلك عشر حسنات » « لم يرو هذين الحديثين عن أبي جعفر إلا محمد بن سليمان

Anas narrated that Messenger of Allah peace be upon him said: One who talks about Allah until his tears go to ground due to fear of Allah, Allah would not torment him on day of Judgement and Prophet said whoever prays on me, his prays of blessing would reach me, I pray for him  and ten good deeds would be written for him

[/note]

It contains a narrator أبو جعفر الرازي, who is a weak narrator. His name is عيسى بن ماهان and in Doafa Al-Uqaili, Uqaili said (juz 3 pg 388)

Ahmed said ليس بالقوي في الحديث Not a strong narrator

Also Ahmed  called him مضطرب الحديث (Majroheen by Ibn-Habban juz 2, pg 120)

As the severity of Sheerk increases. Reports are quoted  that our deeds are presented even on our dead relatives!

1. It is reported in Mustadrak Al-Hakim juz 6 pg 331

[note color=”#CEECF5″]

أخبرنا أبو النضر الفقيه و إبراهيم بن إسماعيل القاري قالا : ثنا عثمان بن سعيد الدارمي ثنا يحيى بن صالح الوحاظي ثنا أبو إسماعيل السكوني قال : سمعت مالك بن أدى يقول : سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما يقول و هو على المنبر : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ألا أنه لم يبق من الدنيا إلا مثل الذباب تمور في جوها فالله الله في إخوانكم من أهل القبور فإن أعمالكم تعرض عليهم

Noman bin Bashir said and he was on the pulpit that he heard Messenger of Allah peace be upon him said there remains in world but like flies on dates in Joo By Allah, your deeds are presented on your  brothers from the people of graves

[/note]

For this narration Dahabi says in Talkhis that

تعليق الذهبي قي التلخيص : فيه مجهولان

It has unknown narrators

 

2. It is reported in Musnad Abi Dawood Al-Tiyalisi juz 5 pg 250

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أبو داود قال حدثنا الصلت بن دينار عن الحسن عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ان أعمالكم تعرض على عشائركم واقربائكم في قبورهم فان كان خير استبشروا بذلك وان كان غير ذلك قالوا اللهم ان يعملوا بطاعتك

Jabir bin Abdullah narrated that Messenger of Allah peace be upon him said Indeed your deeds are presented on your family memebers and relative in graves, so on your good deeds they rejoice and on contrary (i.e. on evil deeds) they say O Allah they would (inshallah)  act in obedience.

[/note]

This narration has الصلت بن دينار  who is a very weak narrator. His real name is

الصلت بن دينار الأزدي الهنائي أبو شعيب المجنون

Ibn-Habban writes in Majroheen, juz 1 pg 376

ان أبو شعيب ممن يشتم أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم ويبغض علي بن أبي طالب وينال منه ومن أهل بيته على كثرة المناكير في روايته

Abu Shu’aib used to insult the companions of the Messenger of Allah PBUH and he hates Ali bin Abi Talib and attributed from him and his family many Munkar narrations

3. Ibn-Katheer has quoted statements of peoples from book of Ibn-Abi Dunyah in Tafseer juz 6 pg 327 and then said

وهذا باب فيه آثار كثيرة عن الصحابة. وكان بعض الأنصار من أقارب عبد الله بن رواحة يقول: اللهم إني أعوذ بك من عمل أخزى به عند عبد الله بن رواحة، كان يقول ذلك بعد أن استشهد عبد الله.

And in this chapter there are many narrations from Companions (of Prophet) and some Ansar which belong to the relatives of Abdullah bin Rawaha said: O Allah I seek your refuge  from the act which would degrade me in front of Abdullah bin Rawaha- said after death of Abdullah!

It is quoted from the book of Ibn-Abi Dunyah المنامات لابن أبي الدنيا pg 7

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أبو بكر ، ثني محمد بن الحسين ، ثنا علي بن الحسن بن شقيق ، ثنا عبد الله بن المبارك ، عن صفوان بن عمرو ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، أن أبا الدرداء ، كان يقول : « إن أعمالكم تعرض على موتاكم فيسرون ويساءون » وكان أبو الدرداء ، يقول عند ذلك : « اللهم إني أعوذ بك أن أعمل عملا يخزى به عبد الله بن رواحة »

Abdullah bin Jubair bin Nufair said that Abu Dardah said Indeed your deeds are presented on your deads so (either) they are happy (or) sad and Abu Dardah used to say:  O Allah I seek your refuge  from the act which would degrade me in front of Abdullah bin Rawaha

[/note]

Both Abdullah bin Rawahah (d 8 AH)  and Abi Darda is عويمر بن مالك (d. 32 AH) are  the companions of Prophet peace be upon him.  It is stated by Dahabi  in العبر في خبر من غبر that Ibn Abi Dunyah (d 281 AH) has heard narrations from

أبو جعفر محمد بن الحسين البرجلاني. مصنف الزهديات وشيخ ابن أبي الدنيا

Abu Jafar Muhammad bin Hussain Al-Barjalani, author of Al-Zuhudiyyat- and Sheikh of Ibn-Abi Dunyah

Muhammad bin Hussain (d. 238 AH) and his student Ibn Abi Dunyah (d 281 AH) are famous for collecting reports which are much inclined towards spiritualism.

It is a broken narration, as explained following

Dahabi said in  العبر في خبر من غبر pg 27

عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة

Abdur Rehman bin Jubair bin Nafeer Al-Hadrami narrated much from his father and others and I do not know his reports from companions of Prophet and he saw some of them.

It is stated in  الإكمال  by  ابن ماكولا  that his father is Tabayee

جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير.

Jubair bin Nufeer from the elder of Tabayeen narrated from his father and his son is Abdur Rehman bin Jubair bin Nafeer

AburRehman bin Jubair  (d. 118 AH) has heard not from companions and his narration  with companions of prophet are Mursil (i.e. narrator is missing in between). Therefore one cannot establish faith on this.

 

The narrations of presentation of our deeds on Prophet and on our dead relatives are weak.  The prayer for blessings on Prophet starts with words O Allah .  How would angels detour and take the prayers to Prophet or dead Muslims?

 

1. Is it not the case that Prophet took the oath in Hubabiyah from Muslims over the news of Uthman’s death. Uthman was not actually killed but imprisoned by pagans. Uthman could say prayer of blessings on Prophet and Roaming angels could have taken this to Prophet!

 

2. In Quran it is informed that there are Munafique in Medinah which no one knows except Allah and not even Prophet knows about them.

 

And among the bedouins round about you, some are hypocrites, and so are some among the people of Al-Madinah, they exaggerate and persist in hypocrisy, you (O Muhammad ) know them not, We know them. We shall punish them twice, and thereafter they shall be brought back to a great (horrible) torment. (9:101)

 

But if the Roaming angels bring the prayer of blessings to Prophet, he could have known about the hidden hypocrites.

 

3. In Prophet’s life time he sent 70 scholars of Quran to some community for preaching where they all were murdered deceitfully. When they were massacred they prayed to Allah OAllah inform you Prophet.  They do not need to say this had they have the belief of presentation of deeds on Prophet.

 

To get rid of these arguments the scholars who believe in presentation of deeds say that it is possible the presentation is started after the death of Prophet. But this reply doesn’t help as in the narration  it is reported that companions asked how the deeds are presented after death when body is disintegrated. Also the role of roaming angels is described without the condition that this would happened after death.

 

 

 

In this treatise it is exhibited that how the weak narrations  of presentation of Ummah deeds on Prophets and dead relatives have been taken as an article of faith by some scholars. The presentation of deeds is not a simple issue. It is basically an intrusion in the Divine attribute of Omniscience (Ilm-ul-Ghayb) i.e. Knowledge of every thing.  May Allah save us from all kinds of Sheerk  (associating others the Divine Attributes).

 

As a Muslim it is important that we bring our believes in accordance with Holy Quran. May Allah send his blessings on our last Prophet Muhammad peace be upon him and guide us towards His Mercy and Heavens and save us from Azab al-Qabr and Hell  Fire. Amen

 

Demise of Prophet

39-30

Wafat-un-Nabi

بسم الله الرحمن الرحيم

Alas, some people in this Ummah  have transgressed and deceived by the great deceiver. They claim that the attribute of Al-Hayee (which is only deserved to Allah Almighty) can now be extended to Prophets as well. Unfortunately, they present Quranic verses in support of their claim. They put forth their argument that the Quran commands us that we should not call  a  Martyr, dead.  Therefore, as Prophets are superior is status than martyrs so they must also be living and should not be pronounced dead [*].

Against this the other group of scholars say that Allah Almighty is the only being which is Al-Hayee i.e. The ever Living. Allah informed us through his book that he created Adam from dust and created prophet bodies’ which would not last forever. Allah says:

[note color=”#BEF781″]

وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ

And We did not create them (the Messengers, with) bodies that ate not food, nor were they last  forever

[/note]

Allah All Mighty told Messenger peace be upon him that:

[note color=”#BEF781″]

ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (16 

After that, surely, you will die.   Then (again), surely, you will be resurrected on the Day of Resurrection (23: 15-16)

[/note]

Also,

[note color=”#BEF781″]

إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ (30) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ (31 

Verily, you (O Muhammad ) will die and verily, they (too) will die.  Then, on the Day of Resurrection, you will be disputing before your Lord. (39:30-31)

 

[/note]

———–

Footnotes:

 [*] See طبقات الشافعية الكبرى, juz 3 , pg 264, by Taqiuddin Al-Subuki also

by Al-Samhodiخلاصة الوفا بأخبار دار المصطفىsee

It is reported in Bukhari  باب ما قيل في أولاد المشركين: juz 1/pg 465

 

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا موسى بن إسماعيل حدثنا جرير بن حازم حدثنا أبو رجاء عن سمرة بن جندب قال  : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا صلى صلاة اقبل علينا بوجهه فقال ( من رأى منكم الليلة رؤيا ) . قال فإن رأى أحد قصها فيقول ( ما شاء الله ) . فسألنا يوما فقال ( هل رأى أحد منكم رؤيا ) . قلنا لا قال ( لكني رأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي فأخرجاني إلى الأرض المقدسة فإذا ردل جالس ورجل قائم بيده كلوب من حديد ) قال بعض أصحابنا عن موسى ( إنه يدخل ذلك الكوب في شدقه حتى يبلغ قفاه ثم يفعل بشدقه الآخر مثل ذلك ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله . قلت ما هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على رجل مضطجع على قفاه ورجل قائم على رأسه بفهر أو صخرة فيشدخ بها رأسه فإذا ضربه تدهده الحجر فانطلق إليه ليأخذه فلا يرجع إلى هذا حتى يلتئم رأسه وعاد رأسه كما هو فعاد إليه فضربه قلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا إلى ثقب مثل التنور أعلاه ضيق وأسفله واسع يتوقد تحته نارا فإذا اقترب ارتفعوا حتى كادوا أن يخرجوا فإذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراة فقلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم فيه رجل قائم وعلى وسط النهر – قال يزيد ووهب ابن جرير عن جرير بن حازم – وعلى شط النهر رجل بين يديه حجارة فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه فرده حيث كان فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر فيرجع كما كان فقلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى انتهيا إلى روضة خضراء فيها شجرة عظيمة وفي أصلها شيخ وصبيان وإذا رجل قريب من الشجرة بين يديه نار يوقدها فصعدا بي في الشجرة وأدخلاني دارا لم أر قط أحسن منها فيها رجال شيوخ وشباب ونساء وصبيان ثم أخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دارا هي أحسن وأفضل فيها شيوخ وشباب قلت طوفتماني الليلة فأخبراني عما رأيت . قالا نعم أما الذي رايته يشق شدقه فكذاب يحدث بالكذبة فتحمل عنه حتى تبلغ الآفاق فيصنع به إلى يوم القيامة والذي رأيته يشدخ رأسه فرجل علمه الله القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل فيه بالنهار يفعل به إلى يوم القيامة والذي رأيته في الثقب فهم الزناة والذي رأيته في النهر آكلوا الربا والشيخ في أصل الشجرة إبراهيم عليه السلام والصبيان حوله فأولاد الناس والذي يوقد النار مالك خازن النار والدار الأولى التي دخلت دار عامة المؤمنين وأما هذه الدار فدار الشهداء وأنا جبريل وهذا مكيائيل فارفع رأسك فرفعت رأسي فإذا فوقي مثل السحاب قالا ذاك منزلك قلت دعاني أدخل منزلي قالا إنه بقي لك عمر لم تستكمله فلو استكملت أتيت منزلك )

 

Narrated Samura bin Jundab: Whenever the Prophet finished the (morning) prayer, he would face us and ask, “Who amongst you had a dream last night?” So if anyone had seen a dream he would narrate it. The Prophet would say: “Ma sha’a-llah” (An Arabic maxim meaning literally, ‘What Allah wished,’ and it indicates a good omen.) One day, he asked us whether anyone of us had seen a dream. We replied in the negative. The Prophet said, “But I had seen (a dream) last night that two men came to me, caught hold of my hands, and took me to the Sacred Land [*]. There, I saw a person sitting and another standing with an iron hook in his hand pushing it inside the mouth of the former till it reached the jaw-bone, and then tore off one side of his cheek, and then did the same with the other side; in the mean-time the first side of his cheek became normal again and then he repeated the same operation again. I said, ‘What is this?’ They told me to proceed on and we went on till we came to a man Lying flat on his back, and another man standing at his head carrying a stone or a piece of rock, and crushing the head of the Lying man, with that stone. Whenever he struck him, the stone rolled away. The man went to pick it up and by the time he returned to him, the crushed head had returned to its normal state and the man came back and struck him again (and so on). I said, ‘Who is this?’ They told me to proceed on; so we proceeded on and passed by a hole like an oven; with a narrow top and wide bottom, and the fire was kindling underneath that hole. Whenever the fire-flame went up, the people were lifted up to such an extent that they about to get out of it, and whenever the fire got quieter, the people went down into it, and there were naked men and women in it. I said, ‘Who is this?’ They told me to proceed on. So we proceeded on till we reached a river of blood and a man was in it, and another man was standing at its bank with stones in front of him, facing the man standing in the river. Whenever the man in the river wanted to come out, the other one threw a stone in his mouth and caused him to retreat to his original position; and so whenever he wanted to come out the other would throw a stone in his mouth, and he would retreat to his original position. I asked, ‘What is this?’ They told me to proceed on and we did so till we reached a well-flourished green garden having a huge tree and near its root was sitting an old man with some children. (I saw) Another man near the tree with fire in front of him and he was kindling it up. Then they (i.e. my two companions) made me climb up the tree and made me enter a house, better than which I have ever seen. In it were some old men and young men, women and children. Then they took me out of this house and made me climb up the tree and made me enter another house that was better and superior (to the first) containing old and young people. I said to them (i.e. my two companions), ‘You have made me ramble all the night. Tell me all about that I have seen.’ They said, ‘Yes. As for the one whose cheek you saw being torn away, he was a liar and he used to tell lies, and the people would report those lies on his authority till they spread all over the world. So, he will be punished like that till the Day of Resurrection. The one whose head you saw being crushed is the one whom Allah had given the knowledge of Quran (i.e. knowing it by heart) but he used to sleep at night (i.e. he did not recite it then) and did not use to act upon it (i.e. upon its orders etc.) by day; and so this punishment will go on till the Day of Resurrection. And those you saw in the hole (like oven) were adulterers (those men and women who commit illegal sexual intercourse). And those you saw in the river of blood were those dealing in Riba (usury). And the old man who was sitting at the base of the tree was Abraham and the little children around him were the offspring of the people. And the one who was kindling the fire was Malik, the gate-keeper of the Hell-fire. And the first house in which you have gone was the house of the common believers, and the second house was of the martyrs. I am Gabriel and this is Michael. Raise your head.’ I raised my head and saw a thing like a cloud over me. They said, ‘That is your place.’ I said, ‘Let me enter my place.’ They said, ‘You still have some life which you have not yet completed, and when you complete (that remaining portion of your life) you will then enter your place.’ “

[/note]

The last words of hadith clearly indicate that the Prophet is now in a dwelling in heaven. Muslim has also informed about the name of this place.

Muslim reported in chapter :

( باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم يصلي على النبي صلى الله عليه و سلم ثم يسأل الله له الوسيلة)

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا محمد بن سلمة المرادي حدثنا عبدالله بن وهب عن حيوة وسعيد بن أبي أيوب وغيرهما عن كعب بن علقمة عن عبدالرحمن بن جبير عن عبدالله بن عمرو بن العاص أنه سمع النبي صلى الله عليه و سلم يقول  : إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي فإنه من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا ثم سلوا الله لي الوسيلة فإنها منزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله وأرجو أن أكون أنا هو فمن سأل لي الوسيلة حلت له الشفاعة

Abdullah bin Amr bin al-Aa’s said that he heard the Prophet (PBUH) saying: If you hear the Muezzin, say like what he says and then pray for blessings on me, because whoever prays for blessings of Allah on me, Allah would send ten (blessings) on him,  and then ask Allah Al-Wasilah, the (lofty) place in Paradise  which no one deserves except one slave of Allah and I hope that I am that person, so whoever asked Al-Wasilah for me I would do Intercession for him

[/note]
—————-
Footnotes:
[*]The words  الأرض المقدسةdoes not mean Jerusalem. Term Bayt Al-Maqdas is used for jerusalem. Here the words are different.

Prophet has informed his companions about his demise in a khutbah and told his Ummah that he has opted for the nearness of Allah instead of this material World.  It is reported in Bukhari  chapter  (باب هِجْرَةُ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ) that:

 

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِى مَالِكٌ عَنْ أَبِى النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدٍ – يَعْنِى ابْنَ حُنَيْنٍ – عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ « إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ » . فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا . فَعَجِبْنَا لَهُ ، وَقَالَ النَّاسُ انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ ، يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ وَهْوَ يَقُولُ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا . فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – هُوَ الْمُخَيَّرَ ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ هُوَ أَعْلَمَنَا بِهِ . وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – « إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَىَّ فِى صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبَا بَكْرٍ ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً مِنْ أُمَّتِى لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ ، إِلاَّ خُلَّةَ الإِسْلاَمِ ، لاَ يَبْقَيَنَّ فِى الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلاَّ خَوْخَةُ أَبِى بَكْرٍ »

Narrated Abu Said Al-Khudri: Allah’s Apostle sat on the pulpit and said, “Allah has given one of His Slaves the choice of receiving the splendour and luxury of the worldly life whatever he likes or to accept the good (of the Hereafter) which is with Allah. So he has chosen that good which is with Allah.” On that Abu Bakr wept and said, “Our fathers and mothers be sacrificed for you.” We became astonished at this. The people said, “Look at this old man! Allah’s Apostle talks about a Slave of Allah to whom He has given the option to choose either the splendour of this worldly life or the good which is with Him, while he says. ‘our fathers and mothers be sacrifice(i for you.” But it was Allah’s Apostle who had been given option, and Abu Bakr knew it better than we. Allah’s Apostle added, “No doubt, I am indebted to Abu Bakr more than to anybody else regarding both his companionship and his wealth. And if I had to take a Khalil from my followers, I would certainly have taken Abu Bakr, but the fraternity of Islam is. sufficient. Let no door  of the Mosque remain open, except the door of Abu Bakr.”

 [/note]

Bukhari informed us that an issue had occurred on the day when Messenger of Allah, peace be upon him died.  Bukhari  has reported several narrations on this topic which indicate the belief of companions of Messenger of Allah on this issue. Also reported in Bukhari (Volume 5, Book 57, Number 19:) that:

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ – رضى الله عنها – زَوْجِ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – مَاتَ وَأَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ – قَالَ إِسْمَاعِيلُ يَعْنِى بِالْعَالِيَةِ – فَقَامَ عُمَرُ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – . قَالَتْ وَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ فِى نَفْسِى إِلاَّ ذَاكَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِىَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ . فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – فَقَبَّلَهُ قَالَ بِأَبِى أَنْتَ وَأُمِّى طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا ، وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لاَ يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا . ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ . فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُفَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ أَلاَ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَىٌّ لاَ يَمُوتُ . وَقَالَ ( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ) وَقَالَ ( وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِى اللَّهُ الشَّاكِرِينَ

Narrated ‘Aisha: (the wife of the Prophet) Allah’s Apostle died while Abu Bakr was at a place called As-Sunah (Al-‘Aliya) ‘Umar stood up and said, “By Allah! Allah’s Apostle is not dead!” ‘Umar (later on) said, “By Allah! Nothing occurred to my mind except that.” He said, “Verily! Allah will resurrect him and he will cut the hands and legs of some men.” Then Abu Bakr came and uncovered the face of Allah’s Apostle, kissed him and said, “Let my mother and father be sacrificed for you, (O Allah’s Apostle), you are good in life and in death. By Allah in Whose Hands my life is, Allah will never make you taste death twice.” Then he went out and said, “O oath-taker! Don’t be hasty.” When Abu Bakr spoke, ‘Umar sat down. Abu Bakr praised and glorified Allah and said,

No doubt! Whoever worshipped Muhammad, then Muhammad is dead, but whoever worshipped Allah, then Allah is Alive and shall never die.”

Then he recited Allah’s Statement.:– “(O Muhammad) Verily you will die, and they also will die.” (39.30) He also recited:–

“Muhammad is no more than an Apostle; and indeed many Apostles have passed away, before him, If he dies Or is killed, will you then Turn back on your heels? And he who turns back On his heels, not the least Harm will he do to Allah And Allah will give reward to those Who are grateful.” (3.144)

[/note]

The words of Abu Bakr will resound till hereafter and his verdict on this issue is: Prophet has died. This is the first consensus after the death of Prophet. Unfortunately the very consensus is now declared controversial.

The close relative to Prophet was his daughter Fatimah, may Allah be pleased with her.

 

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِىُّ – صلى الله عليه وسلم – جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ ، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ – عَلَيْهَا السَّلاَمُ – وَاكَرْبَ أَبَاهُ . فَقَالَ لَهَا « لَيْسَ عَلَى أَبِيكِ كَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ » . فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ يَا أَبَتَاهْ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ ، يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ ، يَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ . فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ – عَلَيْهَا السَّلاَمُ – يَا أَنَسُ ، أَطَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم

 

Narrated Anas: When Prophet was leaving (this World) he got unconscious – Fatmiah (saw that and ) said Father is suffering. He said to her Your father won’t suffer after this day.  When Prophet  died, she said: O’ my father,  Your  Lord  has replied to your call , O my  father you made Paradise your shelter, O  father we announce your  death to Gabriel. When Prophet was buried she – peace be on her- said   O Anas how you urged yourselves to hid or bury the Messenger of Allah peace be upon him.

[/note]

Fatimah may Allah pleased with her has expressed her belief after the death of Prophet that he has gone to Paradise.

Bukhari reported that ( Volume 4, Book 56, Number 820)

[note color=”#CEECF5″]

Narrated ‘Aisha: The Prophet in his fatal illness, called his daughter Fatima and told her a secret because of which she started weeping. Then he called her and told her another secret, and she started laughing. When I asked her about that, she replied, The Prophet told me that he would die in his fatal illness, and so I wept, but then he secretly told me that from amongst his family, I would be the first to join him, and so I laughed.”

[/note]

It is reported that Fatimah  may Allah be pleased with her died after six months. As Prophet peace be upon him told her she would be the first person in his family to meet her. Obviously she met her in Paradise.

Bukhari ( juz 21  pg 402, chapter باب  مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ) reported that:

 

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنِى يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِى سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ فِى رِجَالٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ وَهْوَ صَحِيحٌ « إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِىٌّ قَطُّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرُ » . فَلَمَّا نَزَلَ بِهِ ، وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِى ، غُشِىَ عَلَيْهِ سَاعَةً ، ثُمَّ أَفَاقَ ، فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلَى السَّقْفِ ثُمَّ قَالَ « اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الأَعْلَى » . قُلْتُ إِذًا لاَ يَخْتَارُنَا ، وَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَدِيثُ الَّذِى كَانَ يُحَدِّثُنَا بِهِ – قَالَتْ – فَكَانَتْ تِلْكَ آخِرَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا النَّبِىُّ – صلى الله عليه وسلم – قَوْلُهُ « اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الأَعْلَى »

 

Bukhari reported that

Narrated ‘Aisha: When Allah’s Apostle was healthy, he used to say, “No prophet dies till he is shown his place in Paradise, and then he is given the option (to live or die).” So when death approached him(during his illness), and while his head was on my thigh, he became unconscious for a while, and when he recovered, he fixed his eyes on the ceiling and said, “O Allah! (Let me join) the Highest Companions (see Qur’an 4:69),” I said, “So, he does not choose us.” Then I realized that it was the application of the statement he used to relate to us when he was healthy. So that was his last utterance (before he died), i.e. “O Allah! (Let me join) the Highest Companions.”

[/note]

The words of Aisha Mother of Believers  (إِذًا لاَ يَخْتَارُنَا)  are enough to indicate that the Prophet has died and opted to go to Heavens instead of this World.

It is reported in Sahih Muslim  chapter باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة وأنهم أحياء عند ربهم يرزقونjuz 3, pg 1502

 

[note color=”#CEECF5″]

  حدثنا يحيى بن يحيى وأبو بكر بن أبي شيبة كلاهما عن أبي معاوية ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير وعيسى بن يونس جميعا عن الأعمش ح وحدثنا محمد بن عبدالله بن نمير ( واللفظ له ) حدثنا أسباط وأبو معاوية قالا حدثنا الأعمش عن عبدالله بن مرة عن مسروق قال سألنا عبدالله ( هو ابن مسعود ) عن هذه الآية { ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون } [ 3 / آل عمران / 169 ] قال أما إنا سألنا عن ذلك فقال ( أرواحهم في جوف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تأوي إلى تلك القناديل فاطلع إليهم ربهم اطلاعة فقال هل تشتهون شيئا ؟ قالوا أي شيء نشتهي ؟ ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا ففعل ذلك بهم ثلاث مرات فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا قالوا يا رب نريد أن ترد أرواحنا في أجسادنا حتى نقتل في سبيلك مرة أخرى فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا )

Masrooq said: We asked Abdullah (ibn Masood) about the verse Think not of those who are killed in the Way of Allah as dead. Nay, they are alive, with their Lord, and they have provision. He said  Indeed we asked Prophet about this he said: Souls are in Green bird, they have chandeliers hanging to the Holy Throne.  They go where they wants in Paradise and then return  to the chandeliers, …. Their Lord asked them and  said: Do ye desire anything? They replied (O Lord) anything we need! we go out in paradise wherever we want. Their Lord asked them same  three times.  When they  saw that Lord  would not leave asking them,  they said, Lord, we want that our souls be returned  in our bodies until we kill for the Way again. When he saw that they need nothing. He stopped asking them.

[/note]

It is reported in Bukhari باب مناقب جعفر بن أبي طالب الهاشمي رضي الله عنه juz 3, pg 1360

[note color=”#CEECF5″]

حدثني عمرو بن علي حدثنا يزيد بن هارون أخبرنا إسماعيل ابن أبي خالد عن الشعبي  : أن ابن عمر رضي الله عنهما كان إذا سلم على ابن جعفر قال السلام عليك يا ابن ذي الجناحين

 

Narrated Ash-Sha’bi: Whenever Ibn ‘Umar greeted Ibn Jafar, he used to say: “As-salamu-‘Alaika (i.e. Peace be on you) O son of Dhul-Janahain (son of the two-winged person).”

[/note]

From these narrations it quite clear that Matyrs are alive but in Heavens where they are free to fly and enjoy. The asked their Lord to allow them to return to earth, but that request will never heard.

The belief that Martyrs are alive in their very graves was a Christian belief. One Christian scholar Robert G. Hoyland writes in this book Seeing Islam as other saw it as:

One of the most significant development in late antique Christianity was the breaking down of barrier between heaven and earth, between the divine and corporeal. And the best evidence for this conjunction was to be found at the spot where rested the body of a martyr. As the inscription stated on the grave of Saint Martin at Tours: “He is fully here, present and made plain in miracles of every kind”.  The belief in the intercessionary power of a saint’s relic gave rise to an architecture of the dead, for Christians “filled the whole earth with tombs and sepulchres,”  and also to a literature of dead, as stories circulating  about posthumous wonders worked at the shrine ot its holy occupant were gathered and set down. 

It is reported in Musnad Ahmed, juz  4, pg 8, Sunan Abi Dawood juz 3, pg 404, Sunnan Nisai juz 1, pg 101,  sunnan Ibn- Maja juz 3, pg 447 that:

 

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسين بن على الجعفي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن أبي أوس قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فاكثروا على من الصلاة فيه فان صلاتكم معروضة على فقالوا يا رسول الله وكيف تعرض عليك صلاتنا وقد أرمت يعنى وقد بليت قال إن الله عز و جل حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء صلوات الله عليهم

Narrated Aus bin Abi Aus that Messenger of Allah peace be upon him said  Best of your days is Friday, on this day Adam is created and on this (day) he died and on this (day) there will  be Blowing (for day of Judgement)  and on this (day) their will be Shocks (due to day of Judgement)    so increase your prays of blessing on me on this day, as it is presented on me. We said O Messenger of Allah but how it will be presented on you when you would become dust  means you disintegrate, said: Indeed Allah has forbidden Earth to eat the bodies of prophets peace be upon them.

[/note]

The sanad (chain of narrators) is.

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسين بن على الجعفي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر

 

The two important narrators are Hussain bin Ali Al-Jofi and Abdur Rehman bin Yazeed bin Tammem.

Imam Bukhari has tracked this narration and state that this narration is not authentic. He said is in his work Tahreekh al-Saghir, juz 2 , pg 109

قال الوليد كان لعبد الرحمن كتاب سمعه وكتاب آخر لم يسمعه وأما أهل الكوفة فرووا عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر وهو بن يزيد بن تميم ليس بابن جابر وابن تميم منكر الحديث

 Al-Waleed said that Adbur-Rehaman had a book which he heard and a book which which he had not heard and people of Kufa have narrated from Abdur-Rehamn bin Yazeed bin Jabir but he is (actually Abur Rehaman)  bin Yazeed bin Tameem and not the Ibn-Jabir and (Abdur Rehman bin Yazeed ) Ibn Tameem is Munkar-ul-hadith.

Imam Bukhari also said is in his work Tahreekh al-Kabeer juz 5 pg 365

قال الوليد: كان عند عبد الرحمن كتاب سمعه  وكتاب آخر لم يسمعه

Al-Waleed said: Abdur Rehaman (bin Yazeed bin Tammem) had a book which he heard and another book which he had not heard

Imam Darqutini said in his book Al-Illal juz 10  pg 220

ورواه أبو أسامة  فقال: عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر  ووهم في نسبه، وإنما هو عبد الرحمن بن يزيد بن تميم

and narrated Abu Usama and he said: from Abdur Rehamn bin Yazeed bin Jabir and it is an illusion in lineage, and in fact he is Abdur Rehman bin Yazeed bin Tameem.

Imam Abi Dawood said in Sawalat Al-Ajari juz 1 pg 242

سئل أبو داود عن عبد الرحمن بن يزيد بن تميم فقال : هو السلمي متروك الحديث ، حدث عنه أبو أسامة وغلط في اسمه فقال : ” انا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر السلمي ” ، وكلما جاء عن أبي أسامة ” حدثنا عبد الرحمن بن يزيد ” فهو ابن تميم.

(Al-Ajari said )I  asked Abu Dawood about Abdur Rehman bin Yazeed bin Tammem and he said he is Al-sulami Matrook ul-hadith, narrated from him Abu Usama and committed a mistake in name and (Abu Usama had) said narrated Abdur Rehman bin Yazeed bin jabir Al-Sulami, and where ever comes from Abi Usama narrated from Abdur Rehamn bin Yazeed, that is Ibn-Tammem.

Imam Ibn-Abi Hatim said in his work Illal al-hadith juz 1, pg 19

وأمّا حُسينٌ الجُعفِيُّ : فإِنّهُ روى عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ يزِيد بنِ جابِرٍ ، عن أبِي الأشعثِ ، عن أوسِ بنِ أوسٍ ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي يومِ الجُمُعةِ ، أنّهُ قال : أفضلُ الأيّامِ : يومُ الجُمُعةِ ، فِيهِ الصّعقةُ ، وفِيهِ النّفخةُ وفِيهِ كذا وهُو حدِيثٌ مُنكرٌ ، لا أعلمُ أحدًا رواهُ غير حُسينٍ الجُعفِيِّ وأمّا عبدُ الرّحمنِ بنُ يزِيد بنِ تمِيمٍ فهُو ضعِيفُ الحدِيثِ ، وعبدُ الرّحمن بنُ يزِيد بنِ جابِرٍ ثِقةٌ.

And Hussain Al-Jofai: he narrated from Abdur Rehman bin Yazeed bin Jabir, from Abi Al-Ashath from Aus bin Aus from Messanger of Allah peace be upon him about the Friday and   repoted that  best of days is Friday, in it will be Shocks and Blowing and that and that is hadith Munkar, I know no one report it except Hussain Al-Jofai and as far as Abdur Rehman bin Yazeed bin Tameem is concerned, he is Daif-ul-hadith whereas Abdur Rehman bin Yazeed bin Jabir is trustworthy narrator.

The conclusion is that the narrator Hussain bin Ali al-Jofai has intentionally changed the name of narrator to Abdur Rehman bin Yazeed bin Jair. This slight twist in the name of narrator is done to misguide people. In fact the narrator is different and both Hussain al-Jofai and Ibn-Tameem are weak narrators. Imam Ibn Abi Hatim had even called it Munkar narration i.e. one which is against Sahih ahadith.

A narration is reported in Musnad Bazzaz, Al.Fuwaid Tamam Ar-Razi, Hayat Anbiya , Tarikh Damishque etc.

In Fawaid Tamam (فوائد تمام) by ar-Razi  it is reported with sanad

[note color=”#CEECF5″]

عن حجاج بن الأسود ، عن ثابت ، عن أنس ، قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : « الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون » ..

from Hajjaj bin Al-Aswad from thabit from Annas said, Prophet peace be upon him said: Prophets are alive in their graves, they pray

[/note]

In Hayat-ul-Anbiya fi Quborihim (حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي) it is reported with sanad

ثنا المستلم بن سعيد ، عن الحجاج ، عن ثابت ، عن أنس بن مالك ، رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون »

..told us Al-Mustalim bin Saeed  from Hajjaj  from thabit from Annas said, Prophet peace be upon him said prophets are alive in their graves, they pray

 Ibn-Hajar said in Fath-u-Bari (juz 10, pg 243) that:

 

وَأَخْرَجَهُ الْبَزَّار لَكِنْ وَقَعَ عِنْده عَنْ حَجَّاج الصَّوَّاف وَهُوَ وَهْم وَالصَّوَاب الْحَجَّاج الْأَسْوَد كَمَا وَقَعَ التَّصْرِيح بِهِ فِي رِوَايَة الْبَيْهَقِيِّ وَصَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ

And Al-Bazzaz had reported it but there (in sanad) occurred (an error that) from Hajjaj As-Sawwaf and that is illusion and correct is Hujjaj Al-Aswad as occurred in narration reported by Al-Baihaqui and Al-Baihaqui has endorsed it.

Al- Dahabi said in Meezan al-Atedal (juz 1, pg 460) also Ibn-Hajar repeated it in  Lisan-ul-Meezan (juz 1, pg 276)

حجاج بن الأسود: عن ثابت البناني نكرة. ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه عن أنس: في ” إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون ” رواه البيهقي.

Hujjaj bin Al.Aswad: from Thabit Al-Bunani unknown. No one has reported from him which I know except Mustalim bin Saeed and reported a Munkar narration from Annas that Indeed Prophets are alive in their graves, they pray, reported by Al- Baihaqui

There is a lot of confusion on which Hujjaj is he? Conclusion is following:

Compiler                                      Which Hajjaj

Al-Bazzaz (292 A.H.)                   Hajjaj As-Sawwaf

Al-Baihaqui (458 A.H.)                Hajjaj bin Al-Aswad

Ibn-Hajar (852 A.H.)                    Hajjaj Al-Aswad

Al-Dahabi  (748 A.H.)                  Hajjaj bin  Al-Aswad

Therefore, most likely narrator name is  Hujjaj bin Al-Aswad and he is unknown. Apparently they are unknown narrators i.e. scholars of hadith have no data on these narrators.

In Hayat-ul-Anbiya fi Quborihim by Al-Baihaqui  (حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي) it is reported with another sanad as well.

[note color=”#CEECF5″]

أخبرناه أبو عثمان الإمام ، رحمه الله أنبأ زاهر بن أحمد ، ثنا أبو جعفر محمد بن معاذ الماليني ، ثنا الحسين بن الحسن ، ثنا مؤمل ، ثنا عبيد الله بن أبي حميد الهذلي ، عن أبي المليح ، عن أنس بن مالك، قال : « الأنبياء في قبورهم أحياء يصلون

[/note]

For one of the narrator (عبيد الله بن أبي حميد الهذلي) scholar say:

Al-Uqali said in his book, Duafa Al-Uqaili, juz 3, pg 118

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب عن أبي المليح قال يحيى هو كوفي ضعيف الحديث

Abu Nuaim Al-Isbahani said  in Kitab al-Dofa juz 1 pg 103

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي يحدث عنه مكي بن إبراهيم يروي عن أبي المليح وعطاء بالمناكير لا شئ

Ubaid ullah bin Abi Hameed Al-Huzli … reported from Abi Al-Malih and Atta with Munkir narration, he is nothing

وقال البخاري: منكر الحديث وقال: يروى عن أبى المليح عجائب وقال النسائي: متروك

Bukhari said: Munkar-ul-Hadith and said narrates from Abi-Al-Malih strange reports, and

Nisai said: Matrook.

Hence this narration has no basis then how could we establish our faith on it? How could Prophet peace be upon him  teach his Ummah such doctrine while he himself said the following

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا مسدد قال حدثنا يحيى عن عبيد الله قال أخبرني نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال  :  اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا 

Narrated Ibn ‘Umar: The Prophet had said, “Offer some of your prayers (Nawafil) at home, and do not take your houses as graves.”

[/note]

The Prophet informed his Ummah that there are no prayers in grave.

Muslim reported in chapter باب من فضائل موسى صلى الله عليه و سلم:

 

حدثنا هداب بن خالد وشيبان بن فروخ قالا حدثنا حماد بن سلمة عن ثابت البناني وسليمان التيمي عن أنس بن مالك : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال أتيت – وفي رواية هداب مررت – على موسى ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره

Narrated Aans that Messenger of Allah peace be upon him arrived at – and in narration of Haddam passed by- the grave of Moses near a red dune, on night of journey, and he    was standing and praying in his grave 

:Allah informed us in Quran in surah Al-Isra that

[note color=”#BEF781″]

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ

لِنُرِيَهُ مِنْ آَيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ 

Glorified (and Exalted) be He (Allah Who took His slave (Muhammad ) for a journey by night from Al-Masjid-al-Haram (at Makkah) to the farthest mosque (in Jerusalem), the neighbourhood whereof We have blessed, in order that We might show him (Muhammad ) of Our Ayat (proofs, evidences, lessons, signs, etc.). Verily, He is the All-Hearer, the All-Seer.

[/note]

The purpose of this night journey was to show to Prophet different Signs. During this journey Messenger of Allah peace be upon him  went to Heavens and moved from one Heaven to another until he reached Sidra-tul-Muntah (Lote Tree at utmost boundary). Allah says in Quran  (53: 13-16)

[note color=”#BEF781″]

And indeed he (Muhammad ) saw him [Jibrael (Gabriel)] at a second descent (i.e. another time).  Near Sidrat-ul-Muntaha [lote-tree of the utmost boundary (beyond which none can pass)],  Near it is the Paradise of Abode. When that covered the lote-tree which did cover it!

[/note]

Hence that was an incident of one special night. Messenger of Allah met Adam,  Jesus, John, Moses, Aaron, Joseph at different Heavens.  He even had a conversation with Moses on the number of prayers and on his advice asked Allah Almighty to ordain for a Muslim five daily prayers instead of forty.

In hadith of Muslim it is informed that Messenger of Allah peace be upon him saw Moses standing and praying in his grave. Actually that was one special event in which Messenger of Allah peace be upon him witnessed other Prophets. Muslim also reported that Messenger of Allah peace be upon him led other Prophets in pray in Jerusalem.

It is therefore an unusual event and cannot be taken as a norm. Otherwise we must also believe in the descending of Prophets from Heavens on every night and their praying in Jerusalem. Further as quoted in previous section Prophet informed his Ummah that there are no prayers in graves then how could he said a conflicting statement. Naturally the Moses act was not a norm.

It is reported in Musnad Ahmed juz 56 pg 17 that:

 

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حماد بن أسامة قال أنا هشام عن أبيه عن عائشة قالت : كنت أدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبي فاضع ثوبي فأقول إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر معهم فوالله ما دخلت إلا وأنا مشدودة على ثيابي حياء من عمر

Aisah said: I used to enter my house, in which Messenger of Allah peace be upon him and my father are  buried,  I put the dress (on only) and I say that they are my husband and father (but now) By Allah I do not enter (in my house) but I stick to my clothes (i.e. cover myself completely) due to shyness from Umer (i.e. cover herself all time)

[/note]

One of the narrators is حماد بن أسامة which had been mentioned earlier in this treatise that he had committed a mistake in name of narrator Abdur Rehman bin Yazeed bin Tameem.  Yaqoob bin Suffian writes in his famous work Marifa wal Tareekh (juz1 , pg 372):

قال عمر: سمعت أبي يقول: كان أبو أسامة: إذا رأى عائشة في الكتاب حكها فليته لا يكون افراط في الوجه الآخر… قال ابن نمير: وهو الذي يروي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ونرى إنه ليس بابن جابر المعروف، ذكر لي أنه رجل يسمى بابن جابر، فدخل فيه، وإنما هو انسان يسمى بابن جابر. قال أبو يوسف: وكأني رأيت ابن نمير يتهم أبا أسامة إنه علم ذلك وعرف ولكن تغافل عن ذلك

Umer (bin Hafs bin Ghiyyas) said I heard my father said: Whenever Abu Usama saw Aisha in a book he rubbed it (i.e. distorted the narration) and then occurred an exaggeration which may not happen from any another way.. and Ibn-Numair said: he is the person who has reported from Abdur Rehman bin Yazeed bin Jabir and we see that he is not Ibn Jabir the well known. It is reported to me that  there was a man called Ibn Jabir, and he met him , but  (in fact that is ) a person he named  himself  Ibn Jabir. Abu Yousuf said: and I saw Ibn-Numair charged Abu Usama that has the knowledge  of it and he knew about it but even than he exhibited  his unawareness intentionally.

This is a very serious charge that Abu Usama (Hammad bin Usama) had committed the name changing in sanad intentionally. The narration under consideration is also reported by Hammad bin Usamah with excessive exaggeration. The  narration is strange report about  Aisah – Mother of believers- may Allah be pleased with her.   Abu Usama is unique is reporting this narration as well.  The narration lacks logic because if the layers of dust are not enough to prevent Umer (may Allah be pleased with him) to look  people outside of his grave then where stands a piece  of cloth?

It is reported  Abi Dawood juz 6, pg 214;  in chapter باب زِيَارَةِ الْقُبُورِ  that :

 

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ »

Narrated Abi Hurraira:  Messanger of Allah peace be upon him said: No one among you says prayer of blessings for me but Allah returns my soul till I reply to it, by  (my) blessing prayer (for that person).

[/note]

This narration is reported by   أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ who is a controversial narrator, some  hadith scholars have endorsed his narration but others have rejected him as well.

Ibn- Moin and Ibn- Addi called him ضعيف (Mezal al-Ateedal, juz 1, pg 612)

Ibn- Shaheen called him ضعيف – تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين, juz 1, pg 75)

Strangely, the group of scholars who believe in life of Prophets in graves also endorse this narration.  Now question arises that if this narration is correct then it talks about the returning of the soul momentarily only and soul is returned till Prophet Peace be upon him gives his reply by prayer of blessings. Scholars, who believe in the life of Prophets in graves,  defend this narration and argue that in this world at any moment in time, someone might be saying the prayer of blessing for Prophet, so in a way he has a continues life in a grave. However this response is not useful as it is reported in narration that the soul is returned!   The word رَدَّ (return) in the narration then become totally meaningless.

It is reported in Musnad Abi-Yalah (juz 6 , pg 84) that

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ ، أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ : وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ ، لَيَنْزِلَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلا ، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ ، وَلَيُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَيْنِ ، وَلَيُذْهِبَنَّ الشَّحْنَاءَ ، وَلَيُعْرَضَنَّ عَلَيْهِ الْمَالُ فَلا يَقْبَلُهُ ، ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ لأُجِيبَنَّهُ

Abu Hurrairah said that I heard Messenger of Allah peace be upon him said: By Being (Allah) in whose hands the life of Abi Qasim (Prophet himself) is Indeed Jesus son of Mary would descend (from sky) as a  fair and a just Imam. He would  break the Cross and kill the pig, and rectify the relations  and hostility would vanish and money would be offered to him but he would not accept it and then when he stands on my grave (for prayer of blessing he would ) say O Muhammad  (and) I would reply (to him)!

[/note]

This narration is  also reported by narrator  أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ, which as explained  previously is a weak narrator.  A similar kind of  hadith is also reported by Imam Muslim in his Sahih with chain أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ where it does not contains the addition (i.e. he stands on my grave and say O Muhammad I would reply). It is therefore an addition done by narrator  أَبِي صَخْرٍ .

Prophet reply to all from grave It is reported by Dahabi in Mezan al-Atedal in discussion on narrator Muhammad bin Marwan:

[note color=”#CEECF5″]

العلاء بن عمرو الحنفي، حدثنا محمد بن مروان، عن الاعمش، عن أبى صالح، عن أبى هريرة – مرفوعا: من صلى على عند قبري سمعته، ومن صلى على نائيا بلغته.

Narrated Abu Hurraira: I hear the one who say Salam to me near my grave, and who say it far from me, his Salam is conveyed to me.

[/note]

The narrator محمد بن مروان is a liar. Dahabi says تركوه واتهمه بعضهم بالكذب. Narrations are not taken and some (scholars ) have blamed him for lies.

Uqaili said in Doafa Uqaili, juz 4 pg 136 after quoting this narration,

لا أصل له من حديث الأعمش وليس بمحفوظ ولا يتابعه إلا من هو دونه

 It has no source from Aamash and not saved narration and no one else followed except those who are of similar kind

Ibn-Tammiyah said in his book Aulliah ar Rehamn wa Aullia al-Shaitan, pg 123 and also in (اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم) pg 373, that

وكان سعيد ين المسيب في أيام الحرة يسمع الأذان من قبر رسول الله صلى الله عليه و سلم في أوقات الصلوات وكان المسجد قد خلا فلم يبقى غيره   

And Saeed bin al-Musayyab used to hear Adhan from the grave of Messenger of Allah at the prayer times and the mosque (of Prophet) was empty 

This is a baseless narration and there is no authentic report of such kind.  Dahabi has quoted this narration in Tahrikh Al-Islam juz 2, pg 253, where he informed that this narration is reported by Ibn- Al Khaithama in his Tahrik as

قال ابن خيثمة في تاريخه: ثنا لوين، ثنا عبد الحميد بن سليمان، عن أبي حازم، عن ابن المسيب قال: لو رأيتني لبالي الحرة، وما في المسجد غيري، ما يأتي وقت صلاة إلا سمعت الأذان من القبر، ثم أقيم فأصلي، وإن أهل الشام ليدخلوا المسجد زمراً فيقولون: انظروا إلى هذا الشيخ المجنون. قلت: عبد الحميد ليس بثقة.

(Saeed) Ibn Mussayab said: If you have seen me in the nights of Hirra then (you would see that) there was no one at (Prophet’s) Mosque and I came to know about the prayers time only through the Adhan call from the grave (of Prophet), then I stood and prayed and the people of Syria entered in Mosque in groups (and they saw me) and said Look at this nonsense old fellow! (Dahabi wrote ) I say: (The narrator) Adbul Hameed is not trustworthy.

Ibn-Tammiyah was the stalwart supporter of life in grave and hearing of the dead. Because of his political stances he got fame in Damascus and suburbs and he used all his influence to spread his believes and that he did through his books religious decrees and students like Ibn- Qayyam.

Allah save us from this kind of belief that his Prophet is alive in grave. This treatise showed that people have moved up on Sheerk ladder. First they believed that the bodies do not annihilate then they said that soul is returned on saying of salam and now they are saying that Prophet peace be upon him even said call of prayers not once but for many nights during fitnah of Hirra!

Lastly, this short treatise is an effort to show to Ummah the fallacies of the belief of life of Prophets in graves. This belief is a major stimulus for ignorant people to call Prophets instead of Allah for help and supplication. Hence,  some Muslims commit the deadly sin of Sheerk, for which Allah Almighty  informed us in his glorious book that it will not be forgiven.

As a Muslim it is important that we bring our believes in accordance with Holy Quran. May Allah send his blessings on our last Prophet Muhammad peace be upon him and guide us towards his mercy and Heavens and save us from Azab al-Qabr and Hell  Fire. Amen

 

Taweez or Amultes

Amulets and Protection of Allah?

بسم الله الرحمن الرحيم

Priestly service charge was an idea alien in Islam. The priests in Muslim Ummah now not only sell their religious decrees (Fatwa) but also ask for money on all kind of religious service. A vicious circle of wealth and greed is created. Strangely so-called scholars are behind its support. These people would ask money for the performance of rituals from birth to burial. In this respect Allah has revealed in Quran (9: 34) about the Jewish and Christians scholars of Arabia during the life time of Prophet peace be upon him:

[note color=”#BEF781″]

O you who believe! Verily, there are many of the Ahbar and Ruhban  who devour the wealth of mankind in falsehood, and hinder (them) from the Way of Allah.  And those who hoard up gold and silver and spend it not in the Way of Allah, – announce unto them a painful torment.

[/note]

Some Muslims have developed whole bunch of activities related to Amulets or Taweez.  If we search out the necks of Muslims we would find that there are Taweez hanging, some times coral, shells, sometimes knives and sometimes Quranic verses.  These so-called Muslims believe that these amulets and talismans protect them from evils, diseases and calamities. Allah said in Quran

And when there came to them a Messenger from Allah (i.e. Muhammad Peace be upon him ) confirming what was with them, a party of those who were given the Scripture threw away the Book of Allah behind their backs as if they did not know!  They followed what the Shayatin (devils) speak about the kingdom of Sulaiman (Solomon)… (2: 101-102)

It is reported in Sunnan Abi Dawood on the authority of companion of Prophet, Abdullah ibn Masood that He heard Messenger of Allah peace be upon him  saying:

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ عَنِ ابْنِ أَخِى زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ

 “ Charms, amulets, amulet of love is polytheism”

[/note]

Tamimah  (amulet) means any thing which is used for the protection (from evil).  In Jahalliah  the concept of Tamimah is criticized as the poet Abu Duhayb أَبُو ذُؤَيْبٍ said:

وَإِذَا الْمَنِيَّةُ أَنْشَبَتْ أَظْفَارَهَا

 أَلْفَيْتَ كُلَّ تَمِيمَةٍ لَا تَنْفَعُ

And when the death engraved her nails

I found all (kind of)  Tamimah non-beneficial

It is explained in Kitab Al Ain  by   الخليل الفراهيدي      Juz 8 pg111  that:

والتميمة: قلادة من سيور، وربما جعلت العوذة التي تعلق في أعناق الصبيان، قال: وكيف يضل العنبري ببلدة  بها قطعت عنه سيور التمائم  وفي حديث ابن مسعود: ان التمائم والرقى والتولة من الشرك

And Tamimah: Necklace of thongs, and perhaps made a protection that attached to the necks of the boys, ….  (In report from  Ibn Mas’ud: (amulets and spells and Tiwalah are polytheism)

It is claimed by some ignorant people that the amulets includes things which people hang for protection and  Quranic- Tamimah is allowed. However, Tamimah according to scholars also include the Quranic inscriptions as it is written and hanged for the sake of protection from evil and disease. The following statements are enough to prove that amulets include not only the shell and beads but also include all kinds of hangings used for protection including Quranic amulets.

1. Ibn Ubaid has written a book on  Gharib ul Hadith. Ibn Qutabah has written notes over it. On one of the comments of Ibn-Ubaid, Ibn Qutabah said:

قال أبو محمد ابن قتيبة في إصلاح الغلط ص 54: وهذا يدل أن التمائم عند أبي عبيد المعاذات التي يكتب فيها وتعلق

Ibn Qutabah says: it shows that Tamaim (amulets) to Abi Ubaid means all (kinds of) protections amulets  which are written and hanged. ( Islah Al Ghalat pg 54)

Ibn Qutabah further said: قال أبو محمد: وليست التمائم إلا الخرز Tamaim (amulets) are not only shells (or beads).

2. Qazi Abu Bakr Al Arbi says (in Sharah Al- Tirmidhi )

وَقَالَ الْقَاضِي أَبُو بَكْر الْعَرَبِيّ فِي شَرْح التِّرْمِذِيّ : تَعْلِيق الْقُرْآن لَيْسَ مِنْ طَرِيق السُّنَّة وَإِنَّمَا السُّنَّة فِيهِ الذِّكْر دُون التَّعْلِيق

The hanging of Quranic verses is not the way of Prophet and indeed his way is to read it instead of hanging it.

It is important to understand that all kinds of Taweez are impermissible where as the blessing spells which do not contain Sheerk  were allowed.  Some of the blessings spells which did not contain any polytheism were allowed by the Prophet peace be upon him . Any association with an object with the underlying belief that it can protect, is falsehood.  It is reported by Bukhari in Adab- Al Mufrad that

[note color=”#CEECF5″]

– حدثنا إسماعيل قال : حدثني ابن أبي الزناد ، عن علقمة ، عن أمه ، عن عائشة ، أنها كانت تؤتى بالصبيان إذا ولدوا ، فتدعو لهم بالبركة ، فأتيت بصبي ، فذهبت تضع وسادته ، فإذا تحت رأسه موسى  ، فسألتهم عن الموسى ، فقالوا : نجعلها من الجن ، فأخذت الموسى فرمت بها ، ونهتهم عنها وقالت : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكره الطيرة  ويبغضها ، وكانت عائشة تنهى عنها

Newborn children were brought to Aisha may Allah be pleased with her, and she would pray Allah for the blessing. Once, a child was brought to her, as she was setting pillow underneath his head she saw a razor. So She asked about it. People said: We take this for (protection from) Jinn. So Aisha took the razor and threw away it. And prevented them from this and said Indeed the Prophet disliked Tira  (prediction from bird flights) and angered over it (when practiced) and Aisha prevented that.

[/note]

Aisah, Mother of Believers, may Allah pleased with her, totally rejected the idea of placing something under pillow based on the Tira hadith she heard from Prophet thus she implied that in Islam there is no concept of Protection from things other than Allah.

There is a narration reported in Musnad Ahmed according to which:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ثنا عبد العزيز بن مسلم ثنا يزيد بن أبي منصور عن دخين الحجري عن عقبة بن عامر الجهني : ان رسول الله صلى الله عليه و سلم أقبل إليه رهط فبايع تسعة وامسك عن واحد فقالوا يا رسول الله بايعت تسعة وتركت هذاقال ان عليه تميمة فادخل يده فقطعها فبايعه وقال من علق تميمة فقد اشرك

Uqbah bin Aamir   Juhni relates that there came a group to the Prophet peace be upon him. He took oath of allegiance from nine of them and left the one remaining. (People) said O Prophet why did you have left one. (The Prophet) said: “ An amulet is over him”. (Hearing that the man) put his hand inside (his shirt) and broke the amulet. Then (the Prophet) took the oath of allegiance from him also and said “whosoever hung an amulet, committed polytheism” (Musnad Ahmed, Juz 4, page 156)

[/note]

This hadith reveals that amulets of all kinds are impermissible. Prophet could have asked whether the amulet contains holy verses (of Torah or Injil). It is reported in Tirmidhi, Juz 8,pg 145

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَدُّويَهْ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِى لَيْلَى عَنْ عِيسَى أَخِيهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ أَبِى مَعْبَدٍ الْجُهَنِىِّ أَعُودُهُ وَبِهِ حُمْرَةٌ فَقُلْنَا أَلاَ تُعَلِّقُ شَيْئًا قَالَ الْمَوْتُ أَقْرَبُ مِنْ ذَلِكَ قَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ »

… Issa said  that he went to visit Abdullah bin Ukeem Abi Mabid Al-juhni and he was suffering from Humra ( disease), so we said why don’t you hang some thing against it. He said Death is closer than that and Prophet said whoever hung anything would be assigned to that.

[/note]

The supporters of Taweez present one narration for the endorsement of their believes

[note color=”#CEECF5″]

 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ « أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ ». وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ.

Muhammad bin Ishaq reports that Amr bin  Shoaib, he from his father and he from his grand father reports that Prophet used to teach the prayer to those who would become frightened during sleep: “ I seek refuge in Allah through His perfect words from His fury and  (seek refuge) from evils of His slaves and from evil whispers of demons and their presence ”( Abi Dawood )

[/note]

There are several flaws in this narration. First it is reported

1. The narrator has further added a statement of reporter as a comment which is not the saying of Prophet peace be upon him  (Tirmidhi juz 13, pg 34):

قَالَ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِى صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِى عُنُقِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

Abdullah bin Amir used to hang this prayer in the necks of minor children.

2. Tirmidhi added that this hadith is Hasan Gharib (Unique and at the level less than Sahih) .

3. One of the narrators of this report is Amr bin Shoaib . His narrations from his father and then from his grandfather are (Tirmidhi, Juz 2, pg 65)

Tirmidhi says:

قَالَ عَلِىُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ قَالَ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عِنْدَنَا وَاهِى

Ali bin Abdullah said that and reported from Yahah bin Saeed that Indeed the reports of Amr bin Shoaib to us are useless.

4. Narrator: Muhammad bin Ishaq: The fourth  flaw in this narration is that  it contains Muhammad bin Ishaq.  In Jarah-wal-Tadeel literature one would find both positive and negative statements for Mr. Muhammad bin Ishaq, ranging from Siqah (authentic) to Dajjal (Fradulent Person).  Ibn Ishaq is a controversial narrator. It is better not to take his narrations in Halal and Haram.   Imam Malik talks about Muhammad bin Ishaq and said (Tahzeeb ul Kamal, Tarjumah Muhammad bin Ishaq):

قال مالك وذكره، فقال: دجال من الدجاجلة

Dajjal in one of the Dajjals (Most deceptive and Fradulent Person)

Imam Malik used a technical term Dajjal min Dajjajlah i.e. Dajjal in one of the Dajjals

It is reported in Musannif Ibn Abi Sheebah that

حدثنا أبو بكر قال حدثنا هشام عن مغيرة عن إبراهيم قال : كانوا يكرهون التمائم كلها ، من القرآن وغير القرآن

It is reported that Ibrahim ( Al –Nakhai) They (Companions) abhor all kinds of Taweez irrespective of Quranic or non-Quranic  ( Musanif Ibn Abi Shibah , juz 5, pg 428)

It is reported in Sharh Maani  Al-Aathar juz 5, pg 489 that

 وَقَدْ جَاءَتْ  عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آثَارٌ تَنْهَى عَنْ التَّمَائِمِ

 And it comes from  Prophet the deterrence for Tamaim

Reader now is well aware that Tamaim (amulets) or Taweez are not permissible in Islam whether based on Quranic  verses or containing the names of Holy One.

Dear Muslim, just think about what sin you are committing when you take the taweez consisting of holy verse of Quran to the toilet!  We know that Humans are sometimes not clean and they need ritual bath for performance of Salat, even in that state the hanging of Taweez comprising of Holy verses in the neck make no sense. Further Allah has bestowed Shifa (cure) for diseases in honey as we know it from Quran. Now if you hang the jar of honey in your neck will you feel better if you never eat it? You won’t. Likewise Quran is sent by Allah to be read and understood. It is not meant to be hanged in Taweez.  You would get blessings of Allah only if you read it. May Allah save us from Kufr and Sheerk. Amen

[1] Sunan Abi Dawood, Chapter باب فِى تَعْلِيقِ التَّمَائِمِ Juz 11, pg 384

[2] Pre-Islam Era

[3] Sheerk is Polytheism

[4] Nasiruddin Al-Bani said in his noting on Al-Sahihah:

التمائم : جمع تميمة واصلها خرزات تعلقها العرب على رأس الولد لدفع العين ثم توسعوا فيها فسموا بها كل عوذة . ومن ذلك تعليق نعل الفرس أو الخرز الأزرق وغيره . والأرجح أنه يدخل في المنع أيضا الحجب إذا كانت من القرآن أو الأدعية الثابتة .

Al-Tamaim: Plural Tamima and originally are beads which Arabs attach to heads of boys to prevent (evil) eye… also includes the horse shoe or blue shells. And it is likely that the ban also includes the Quran and the proven prayers

Further said ( Al-Sahihah juz 1, pg 491)

” التمائم جمع تميمة و هي الورقة التي يكتب فيها شيء من الأسماء أو الآيات و تعلق على الرأس مثلا للتبرك ” . فما لا يصح لأن التمائم عند الإطلاق إنما هي الخرزات كما سبق عن ابن الأثير ، على أنه لو سلم بهذا التأويل فلا دليل في الشرع على أن التميمة بهذا المعنى تنفع ، و لذلك جاء عن بعض السلف كراهة ذلك كما بينته في تعليقي على ” الكلم الطيب ” ( ص 44 – 45 طبع المكتب الإسلامي

” Al-Tammaim (Amulets): Plural of Tamima (amulet) collection and is the paper on which something is written. It includes the names or verses and attached to the head, for example, to seek blessing. It is not valid that the Tamimah is only beads (or shells) as previously discussed by Ibn al-Athir, ……so as shown in my comment on Al-Kalam Al-Tayyab pg 44-45”

[5] The scholars who defend this narration and argue that Tirmidhi has called this narration Hasan. Tirmidhi has introduced the term Hasan in hadith which does not mean that it is Sahih narration. Dahabi said in Meezan Al-Ateedal juz 3 pg 407

لا يعتمد العلماء على تصحيح الترمذي

Scholars do not rely on the authentication of Tirmidhi

Dahabi also said (Meezan, juz 4 pg 416 ) فلا يغتر بتحسين الترمذي، فعند المحاققة غالبها ضعاف

Not deceived by saying of Hasan by Al Tirmidhi, by us in reality most are weak

[6] Bukhari says (تاريخه الكبير: 6 / الترجمة 2578.):

وقال البخاري: رأيت أحمد بن حنبل، وعلي بن المديني، وإسحاق بن راهويه، وأبا عبيد، وعامة أصحابنا يحتجون بحديث عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، ما تركه أحد من المسلمين

Bukhari says “I have seen Ahmed bin Hambal and Ali bin Al-Madini and Ishaq bin Rahweeh and Abi Ubaid and all our people (scholars of hadith) take the hadith of Amr bin Shoaib from his father from his grandfather and no one in Muslims had left him”

In spite of these words of Bukhari in his Tareekh Al-Kabeer, Imam Bukhari has not taken any narration from Amr bin Shoaib from his father from his grand-father in his Sahih. Dahabi showed surprise in Meezan al- Atedal after this statement of Bukhari that

ومع هذا القول فما احتج به البخاري في جامعه -3 / الترجمة 6383

… and with this statement (of Bukhari) why not Bukhari has taken his narrations in Jamah (al- Sahih)?

[7] Ibn Haban explains this term is his book on Majroheen as:

وقال ابن حبان: ” دجال من الدجاجلة كان يضع الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم صراحا -المجروحين: 1 / 134

Ibn Haban says: A Dajjal from dajjals is one who concocts hadith intentionally.

Light upon Light

anam-1

Light upon Light

بسم الله الرحمن الرحيم

Some deviated sects among Muslims, claim with no evidence that Allah is based on  Noor (light). He is energy who is moving this static Universe[1]. On the contrary Allah said in Quran, surah Shura 11:

[note color=”#BEF781″]

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

There is nothing like unto Him, and He is the All-Hearer, the All-Seer.

[/note]

Allah has created the Light and Darkness. In surah Al-Anam, verse 1, Allah said:

 

[note color=”#BEF781″]

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ 

All praises and thanks be to Allah, Who (Alone) created the heavens and the earth, and originated the darkness and the light, yet those who disbelieve hold others as equal with their Lord.

[/note]

Allah is the Creator of all seen and unseen including the darkness and light. In hadith it is further explained in

Sahih Muslim, chapter باب في قوله عليه السلام نور أني أراه وفي قوله رأيت نورا

[note color=”#CEECF5″]

 حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا وكيع عن يزيد بن إبراهيم عن قتادة عن عبدالله بن شقيق عن أبي ذر قال: سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم هل رأيت ربك ؟ قال نور أنى أراه

Abdullah bin Shaqeeq narrated from Abi Dharr that he said: I asked Messenger of Allah peace be upon him, whether he has seen his Lord? He said: Light, I saw!

 حدثنا محمد بن بشار حدثنا معاذ بن هشام حدثنا أبي ح وحدثني حجاج بن الشاعر حدثنا عفان بن مسلم حدثنا همام كلاهما عن قتادة عن عبدالله بن شقيق قال قلت لأبي ذر : لو رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم لسألته فقال عن أي شيء كنت تسأله ؟ قال كنت أسأله هل رأيت ربك ؟ قال أبو ذر د سألت فقال رأيت نورا

Abdullah bin Shaqeeq said to Abi Dharr, Have  I seen Messenger of Allah peace be upon him I would have asked something? He said: What you would like to inquire about?  Said. I would have asked whether he has seen his Lord? Abu Dharr said I asked this and he (Prophet) said  I saw light.

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية حدثنا الأعمش عن عمرو بن مرة عن أبي عبيدة عن أبي موسى قال  : قام فينا رسول الله صلى الله عليه و سلم بخمس كلمات فقال إن الله عز و جل لا ينام ولا ينبغي له أن ينام يخفض القسط ويرفعه يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل حجابه النور ( وفي رواية أبي بكر النار ) لو كشفه لأحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه

Abi Musa said:  (On one occasion) Stood among us Messenger of Allah peace be upon him (i.e. addressed us) and said five things. He said: Indeed Allah does not sleep and it is not for him to sleep, (He) lowers and elevate the Balance; ascend towards him the deeds of nights before the deeds of  afternoon, and deeds of afternoon before the deeds of night, His veil is Light (and in narration of Abi Bakr bin Abi Sheeba) if it (veil) is removed, Splendor from His Countenance would scorch His Creation till His eyesight! (i.e. all His Creation)

[/note]

From these narrations it is clear that Messenger of Allah peace be upon him saw the veil which lies between Allah and His Creation and it is made up of light.

Deviated people also twist the meaning of following verse of  surah An-Noor, verse 35.

[note color=”#BEF781″]

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

Allah is the Light of the heavens and the earth. The parable of His Light is as (if there were) a niche and within it a lamp, the lamp is in glass, the glass as it were a brilliant star, lit from a blessed tree, an olive, neither of the east (i.e. neither it gets sun-rays only in the morning) nor of the west (i.e. nor it gets sun-rays only in the afternoon, but it is exposed to the sun all day long), whose oil would almost glow forth (of itself), though no fire touched it. Light upon Light! Allah guides to His Light whom He wills. And Allah sets forth parables for mankind, and Allah is All-Knower of everything.

[/note]

In this verse of surah An-Noor it is informed allegorically that it Allah who is guiding the Humanity. His Guidance is self illuminating and His Guidance does not require any other source for its elaboration. We know that His Guidance is Quran. All the earliest statements from Sahabah and Tabaeen on this verse said similar to what is stated here[2].

It is further explained in the very next verse that this Noor (light) is present in many houses, in which His Guidance is followed.

[note color=”#BEF781″]

فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآَصَالِ (36) رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (37) لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (38

In houses (mosques), which Allah has ordered to be raised (to be cleaned, and to be honoured), in them His Name is glorified in the mornings and in the afternoons or the evenings, Men whom neither trade nor sale diverts them from the Remembrance of Allah (with heart and tongue), nor from performing As-Salat (Iqamat-as-Salat), nor from giving the Zakat. They fear a Day when hearts and eyes will be overturned (from the horror of the torment of the Day of Resurrection). That Allah may reward them according to the best of their deeds, and add even more for them out of His Grace. And Allah provides without measure to whom He wills.

[/note]

So the Noor is Quran, as Allah said that O prophet, We sent you like a lamp for people. Prophet said his companions are like stars. So all such allegories are made to compare Truth (light) with Falsehood (Darkness). Allah said in surah al-Ahzab 41-43:

[note color=”#BEF781″]

 O you who believe! Remember Allah with much remembrance. And glorify His Praises morning and afternoon. He it is Who sends Salat (His blessings) on you, and His angels too (ask Allah to bless and forgive you), that He may bring you out from darkness into light. And He is Ever Most Merciful to the believers.

[/note]

Allah said in surah Al-Shura:

[note color=”#BEF781″]

And thus We have revealed to you an inspiration of Our command. You did not know what is the Book or [what is] faith, but We have made it a light by which We guide whom We will of Our servants. And indeed, [O Muhammad], you guide to a straight path

[/note]

Hence Allah is Noor in the sense that He is the source of  real Guidance, which  only comes through Him. Allah has sent us His Guidance  in form of Quran.  Allah is not a light energy or any other energy as He is the creator of all physical and metaphysical energies.  If we utter that Allah is energy then this  is Kufr, as we have made Him equivalent to  Creation

Another deviated approach of some Muslims is than to declare origin-wise Prophet as Noor.   When we call Allah and his Prophet coming out of same substance than this is basically the Gnostic[3] faith of Homoousios[4] that Allah and Jesus in substance are same.  In Sahih Muslim a hadith is reported that:

[note color=”#CEECF5″]

 Prophet peace be upon him said that angels are created from Noor (light).

[/note]

Allah commanded the Angels (beings created from Light) to prostrate to  Adam (Being created from dust), which reflects the importance of humans in Allah’s creation. Allah also exhibited to all Angels that Adam knows more names than what Angels know.

[note color=”#BEF781″]

He said, “O Adam, inform them of their names.” And when he had informed them of their names, He said, “Did I not tell you that I know the unseen [aspects] of the heavens and the earth? And I know what you reveal and what you have concealed.”

[/note]

Therefore a Human has more importance over beings created from Noor. Then is it not degradation when one claims Noor as substance of creation for Prophet?

First Council of Nicea 325 AD

Christians had fabricated the belief of Trinity in year 325 AD. It starts with words:

“We believe in one God, the Father Almighty, Maker of all things visible and invisible. And in one Lord Jesus Christ, the Son of God, begotten of the Father, Light of Light, very God of very God, begotten, not made, being of one substance with the Father (Homoousios);  By whom all things were made, Who for us men, and for our salvation, came down and was incarnate and was made man; He suffered, and the third day he rose again, ascended into heaven; From thence he shall come to judge the quick and the dead. And in the Holy Ghost. …”

My dear reader,  Jesus as Light was the Christian concept, crept into Muslims as well.

Strangely those who believe that Allah is Noor also claimed that Prophet and Saints can see Allah in a form like a human. However it is explained in Quran that it is not possible.  Why in their vision or dreams Allah is not in Noor,?

Allah said is surah Al-Anam, verse 103:

[note color=”#BEF781″]

 لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

No vision can grasp Him, but His Grasp is over all vision. He is the Most Subtle and Courteous, Well-Acquainted with all things.

[/note]

Prophets cannot see Allah

Moses insisted on seeing Allah when he was at Mount Tur. Allah informed us in surah Al-Araf, verse 143:

[note color=”#BEF781″]

وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ

And when Musa (Moses) came at the time and place appointed by Us, and his Lord spoke to him, he said: “O my Lord! Show me (Yourself), that I may look upon You.” Allah said: “You cannot see Me, but look upon the mountain if it stands still in its place then you shall see Me.” So when his Lord appeared to the mountain , He made it collapse to dust, and Musa (Moses) fell down unconscious. Then when he recovered his senses he said: “Glory be to You, I turn to You in repentance and I am the first of the believers.”

[/note]

Therefore Musa was unable to see Allah Almighty.  As the condition of vision was not fulfilled. The mountain becomes dust when Allah did his Tajali on it and Musa fainted before that when he saw the mountain turning into dust.

It is reported in Bukhari that Mother of Believers Aisha, may Allah be pleased with her totally denied the concept that Prophet saw Allah.

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الشَّعْبِىِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ – رضى الله عنها – قَالَتْ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ وَهْوَ يَقُولُ ( لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ ) وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ الْغَيْبَ فَقَدْ كَذَبَ ، وَهْوَ يَقُولُ لاَ يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلاَّ اللَّهُ

 Narrated Masrooq from Aisha may Allah be pleased with her  that she said who said that Muhammad peace be upon him saw his Lord, has lied. And she said Eyes cannot reach Him and who said that he knew Ilm-ul-Ghyab has also lied and she said No one knows Ghayb except Allah

 حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِى خَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَةَ – رضى الله عنها – يَا أُمَّتَاهْ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ – صلى الله عليه وسلم – رَبَّهُ فَقَالَتْ لَقَدْ قَفَّ شَعَرِى مِمَّا قُلْتَ ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ . ثُمَّ قَرَأَتْ ( لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ) . ( وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ) وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ ( وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ) وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ ( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ) الآيَةَ ، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ – عَلَيْهِ السَّلاَمُ – فِى صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ

Masrooq narrated that she said to Aisha may Allah be pleased with her, O Mother:  Has Muhammad peace be upon him, saw his Lord? She said: indeed my hairs are raised on what you said!  One who utters these three things to you is a liar- one who say to you that Muhammad peace be upon him saw his Lord, that one has lied. Then she recited Vision can not grasp Him, but His Grasp is over all vision,  and a Human is not that  worthy that Allah talk to him except through revelation or behind the veil- and one who said to you that he (Prophet) knew what would happen tomorrow that (person) has lied then she recited and No Nafs knows what it would do tomorrow and one who said to you that he (Prophet) hid (something from Truth) that one has lied  then she recited O Prophet  give to others what has been sent down to you from your Lord, He (Prophet) saw (angel) Gabriel may Allah’s blessings be  on him- in his form twice.

[/note]

 

It is reported that

Hadith of Ibn-Abbas:

It is reported in Tirmidhi hadith that:

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِى أَبِى عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِى قِلاَبَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاَجِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « أَتَانِى رَبِّى فِى أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّى وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى قُلْتُ رَبِّى لاَ أَدْرِى فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَىَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَىَّ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قَالَ يَا مُحَمَّدُ. فَقُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى قُلْتُ فِى الدَّرَجَاتِ وَالْكَفَّارَاتِ وَفِى نَقْلِ الأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ فِى الْمَكْرُوهَاتِ وَانْتِظَارِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الصَّلاَةِ وَمَنْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ». قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ وَفِى الْبَابِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم

Narrated Ibn Abbas that Messeneger of Allah peace be upon him said: Allah came to me in a beautiful form and said to me O Muhammad, I said  At Thy service, my Lord. He said: What these highest angels contend about? I said: I do not know. He repeated it thrice. He said: Then I saw Him put his palms between my shoulder blades till I felt the coldness of his fingers between the two sides of my chest….. (Tirmidhi said) this hadith is Hasan Gharib with this chain. (Also) Said: there is another narration in this context narrated by Muadh bin Jabal and Abdurrehaman bin Ayyish from Messenger of Allah peace be upon him.


[/note]

Also narrated in Musnad Ahmed with chain:

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرزاق أنا معمر عن أيوب عن أبي قلابة عن بن عباس ان النبي صلى الله عليه و سلم قال : أتاني ربي عز و جل الليلة في أحسن صورة أحسبه يعني في النوم

 

Ibn Abi Hatim wrote in his book Illal ul hadith (علل الحديث)

 وسألتُ أبِي عَن حدِيثٍ ؛ رواهُ معاذ بن هِشامٍ ، عن أبِيهِ ، عن قتادة ، عن أبِي قِلابة ، عن خالِدِ بنِ اللجلاج ، عنِ ابنِ عبّاس ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم : رأيتُ ربِّي عزّ وجلّ وذكر الحدِيث فِي إسباغ الوضوء ونحوه.

قال أبِي : هذا رواهُ الولِيدُ بن مُسلِم وصدقة ، عنِ ابنِ جابِر ، قال : كُنّا مع مكحولٍ فمرّ بِهِ خالِد بن اللجلاج ، فقال مكحول : يا أبا إِبراهِيم ، حدّثنا ، فقال حدّثنِي ابن عائش الحضرمي ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.

قال أبِي : وهذا أشبهُ ، وقتادة يُقال : لم يسمع من أبِي قِلابة إِلاَّ أحرفًا ، فإنه وقع إِليهِ كتابٌ من كتبِ أبِي قِلابة ، فلم يميزوا بين عَبد الرّحمنِ بن عايش ، وبين ابن عبّاس.

قال أبِي : وروى هذا الحديث جهضمُ بن عَبدِ اللهِ اليمامي ، وموسى بن خلف العمي ، عن يحيى بنِ أبِي كثِيرٍ ، عن زيدِ بنِ سلام ، عن جدِّهِ : ممطور ، عن أبِي عَبدِ الرّحمنِ السكسكي ، عن مالِكِ بنِ يخامر ، عن معاذ بن جبل ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.

قال أبِي : وهذا أشبهُ من حدِيث ابن جابِر

And I asked my father about the hadith: narrated by Muad bin Hashsham from his father from Qattadah from Abi Qallabah from Khalid bin Al-Lajjaj from Ibn Abbas from Messenger of Allah peace be upon him: I saw my Lord  and talked about the hadith on the Ablution and simililar.

My father said: This is narrated by Al-Waleed bin Muslim and Saddaqah from Ibn Jabir said: We are with Makhool and Khalid bin Al-Lajjaj passed by us, So Makhool said: O Abu-Ibrahim (Khalid bin Al-Lajjaj) narrate to us, so he (Khalid) narrated that  Ibn-Ayish Al-Hadrami  from Messenger of Allah peace be upon him.

May father said: and I liked  and  Qattadah  said:  (Khalid) has not heard a single word from Abi Qallabah, he got a book from books of Abi Qallbah and has not differentiated between Abdurrehman bin Ayish and Ibn-Abbas.

And my father said. And narrated this hadith  Jahdhum bin Abdullah Al-Yamami and Musa bin Khalf Al-Ammi from Yahyah bin Abi Katheer from Zayd bin Salam from his grandfather Mamtoor from Abi Abdurrehman Al-Saksaki from Malik bin Yukhamar from Muadh bin Jabal from Messenger of Allah. My father said  liked this one than hadith of Jabir

 

Thus Imam Ibn Abi Hatim rejected the narration of Tirmidhi narrated by Khalid bin Al-Lajjaj. He preferred hadith of Muadh.

 

Hadith of Abdurrehamn bin Aayish

Narrations from AbdurRehman bin Ayish from Prophet are not correct.

وقال أبو حاتم الرازي هو تابعي وأخطأ من قال له صحبة وقال أبو زرعة الرازي ليس بمعروف

And Abu Hatim Al-Razi said: He is Tabeyee and it’s a mistake to call him companion of Prophet and Abu Zarra Al-Razi d´said he is not well known

 

Both Ibn Abbas’s and Aburrehman bin Aayish’s narrations are weak.

 

Hadith of Muad bin Jabal

The narration from Muadh is reported in Musnad Ahmed as:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا أبو سعيد مولى بنى هاشم ثنا جهضم يعنى اليمامي ثنا يحيى يعنى بن أبي كثير ثنا زيد يعنى بن أبي سلام عن أبي سلام وهو زيد بن سلام بن أبي سلام نسبه إلى جده أنه حدثه عبد الرحمن بن عياش الحضرمي عن مالك بن يخامر أن معاذ بن جبل قال : احتبس علينا رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات غداة عن صلاة الصبح حتى كدنا نتراءى قرن الشمس فخرج رسول الله صلى الله عليه و سلم سريعا فثوب بالصلاة وصلى وتجوز في صلاته فلما سلم قال كما أنتم على مصافكم ثم أقبل إلينا فقال انى سأحدثكم ما حبسني عنكم الغداة انى قمت من الليل فصليت ما قدر لي فنعست في صلاتي حتى استيقظت فإذا انا بربى عز و جل في أحسن صورة فقال يا محمد أتدري فيم يختصم الملأ الأعلى قلت لا أدري يا رب قال يا محمد فيم يختصم الملأ الأعلى قلت لا أدري رب فرأيته وضع كفه بين كتفي حتى وجدت برد أنامله بين صدري فتجلى لي كل شيء وعرفت فقال يا محمد فيم يختصم الملا الأعلى قلت في الكفارات قال وما الكفارات قلت نقل الاقدام إلى الجمعات وجلوس في المساجد بعد الصلاة وإسباغ الوضوء عند الكريهات قال وما الدرجات قلت إطعام الطعام ولين الكلام والصلاة والناس نيام قال سل قلت اللهم انى أسألك فعل الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وأن تغفر لي وترحمني وإذا أردت فتنة في قوم فتوفني غير مفتون وأسألك حبك وحب من يحبك وحب عمل يقربنى إلى حبك وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم انها حق فادرسوها وتعلموها

Narrated Mu’adh ibn Jabal: Allah’s Messenger (peace be upon him) was detained one morning from observing the dawn prayer (in congregation) along with us till the sun had almost appeared on the horizon. He then came out hurriedly and Iqamah for prayer was observed and he conducted it (prayer) in brief form. When he had concluded the prayer by saying As-salamu alaykum wa Rahmatullah, he called out to us saying: Remain in your places as you were. Then turning to us he said: I am going to tell you what detained me from you (on account of which I could not join you in the prayer) in the morning. I got up in the night and performed ablution and observed the prayer as had been ordained for me. I dozed in my prayer till I was overcome by (sleep) and lo and lo, I found myself in the presence of my Lord, the Blessed and the Glorious, in the best form. He said: Muhammad! I said: At Thy service, my Lord. He said: What these highest angels contend about? I said: I do not know. He repeated it thrice. He said: Then I saw Him put his palms between my shoulder blades till I felt the coldness of his fingers between the two sides of my chest. Then everything was illuminated for me and I recognized everything. He said: Muhammad! I said: At Thy service, my Lord. He said: What do these high angels contend about? I said: In regard to expiations. He said: What are these? I said: Going on foot to join congregational prayers, sitting in the mosques after the prayers, performing ablution well despite difficulties. He again said: Then what do they contend? I said: In regard to the ranks. He said: What are these? I said: Providing of food, speaking gently, observing the prayer when the people are asleep. He again said to me: Beg (Your Lord) and say: O Allah, I beg of Thee (power) to do good deeds, and abandon abominable deeds, to love the poor, that Thou forgive me and show mercy to me and when Thou intendst to put people to trial Thou causes me to die unblemished and I beg of Thee Thy love and the love of one who loves Thee and the love for the deed which brings me near to Thy love. Allah’s Messenger (peace be upon him) said: It is a truth, so learn it and teach it [Sunnan Tirimdhi Volume 5 Hadis No 3235 and Ahmed as well]

 [/note]

 

Imam Darqutini wrote about hadith of Muadh in his work Illal ul hadith. علل الدارقطني- juz 6,pg54:

وسئل عن حديث مالك بن يخامر عن معاذ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال رأيت ربي في أحسن صورة فقال لي يا محمد فيم يختصم الملا الاعلى الحديث بطوله فقال ……… قال ليس فيها صحيح وكلها مضطربة

And I asked (Imam Darqutini) about the hadith of  Malik bin Yukhamir from Muadh from Messenger of Allah peace be upon him that I saw my Lord … long narration, said   [after a lengthy discussion of different chains of this narration including Muad bin Jabal narration, Daqutini said ]  none of them is Sahih and all are Mudhtarib !

 

 

Thus the narration of seeing Allah in dream is not authentic. All chains are unclear and Mudhtarib.

 

 

Intercession

qaff-16

Saints and Intercession

بسم الله الرحمن الرحيم

 

One of the deception in which Iblis had put previous nations is that the Allah is unapproachable. He is not listening to the prayers and one must seek some other means to approach him. Even today Iblis inspires people that:

Don’t you see that when you move up in a building you use stairs, so there is a medium we need. The best way to approach Allah is through the dead saints as they have acquired holiness while they lived among us. Definitely they are close to Allah and we are not. 

So intercession or Wasilah has become one of the reasons of people going to graves.  They go there with the belief that dead is hearing and if we request them they would present our prayers to our Lord.

Allah informed us in Quran that Prophet Nuh peace be upon him called his nation towards Allah and denial of Taghoot for 950 years but the nation of Prophet Noah had made up the belief that if they seek intercession of their holy-ones then Allah would listen them.

[note color=”#BEF781″]

 ”

وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آَلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا 23

And they have said: ‘You shall not leave your gods, nor shall you leave Wadd, nor Suwa’, nor Yaghuth, nor Ya’uq, nor Nasr (names of the saints);

[/note]

After the destruction of Noah’s nation, Iblis deceived the people again and inspires them about these saints. Once again the saints and holy people were worshiped as deities specially in Phoenicia (Syria).

Arabs traders bought these idols in Makkah to be placed in the holy Kaba.  Kaba being a holy sanctuary for all Arabia become the hub of all kind of activities whether political, financial or economical and religious.  Every tribe was allowed to place its idol in the Kaba. At one point in time, the Kaba contains 360 idols excluding the wall paintings of deities.

During the life time of Messenger of Allah peace be upon him, intercession was a prevalent practice.  Bukhari has reported that:

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ وَقَالَ عَطَاءٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضى الله عنهما – صَارَتِ الأَوْثَانُ الَّتِى كَانَتْ فِى قَوْمِ نُوحٍ فِى الْعَرَبِ بَعْدُ ، أَمَّا وُدٌّ كَانَتْ لِكَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ ، وَأَمَّا سُوَاعٌ كَانَتْ لِهُذَيْلٍ ، وَأَمَّا يَغُوثُ فَكَانَتْ لِمُرَادٍ ثُمَّ لِبَنِى غُطَيْفٍ بِالْجُرُفِ عِنْدَ سَبَا ، وَأَمَّا يَعُوقُ فَكَانَتْ لِهَمْدَانَ ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَكَانَتْ لِحِمْيَرَ ، لآلِ ذِى الْكَلاَعِ . أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِينَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ ، فَلَمَّا هَلَكُوا أَوْحَى الشَّيْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِمُ الَّتِى كَانُوا يَجْلِسُونَ أَنْصَابًا ، وَسَمُّوهَا بِأَسْمَائِهِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُولَئِكَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ

Ibn Abbas narrated that The idols of nation of Noah were spread among Arabs- Wadd was for  Banu-Kalb at Douma-tul-Jandal, Suwa was for  Huzail and Yagooth was for Bani Ghutaif at Jurf near Saba and Yaooque was for Hamdan and Nasr was for Himyar-from the lineage of Zil-Kala_ they were the righteous people of Noah’s nation, when they died Satan inspired their nation to erect monuments at their meeting places and named these accordingly and they did that and they (righteous people) were not worshiped until they died and the knowledge is forgotten

[/note]

Pagans of Arabia also used to worship Prophet Ibrahim and they depicted him like a soothsayer.  It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 55, Number 570) that on day of conquest of Makkah, Prophet entered the Kaba.

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Ibn Abbas: The Prophet entered the Ka’ba and found in it the pictures of (Prophet) Abraham and Mary. On that he said’ “What is the matter with them ( i.e. Quraish)? They have already heard that angels do not enter a house in which there are pictures; yet this is the picture of Abraham. And why is he depicted as practicing divination by arrows?”  

[/note]

 

So these deities were not the fictitious creatures but in fact they lived on earth and were holy people or saints. Pagans said that they are worshiping them because they do intercession to Allah. Thus for them these are not in fact really god per se but they knew that they were the holy people. Allah informed us in surah Az-Zumr, verse 3:

[note color=”#BEF781″]

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ 

Surely, the religion (i.e. the worship and the obedience) is for Allah only. And those who take Helpers  besides Him (say): “We worship them only that they may bring us near to Allah.” Verily, Allah will judge between them concerning that wherein they differ. Truly, Allah guides not him who is a liar, and a disbeliever.

[/note]

Whatever reverence pagans were showing to their deities is called worship by Allah.  For pagans, Allah was indeed the true Lord of Universe.  But, they were stuck to the religion of their fore-fathers and had no evidence that what they were claiming is truth.  Pagans claimed that these deities are our intercessors.

In surah Younis 18 it is informed that pagans say:

[note color=”#BEF781″]

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ

And they worship besides Allah things that hurt them not, nor profit them, and they say: “These are our intercessors with Allah.” Say: “Do you inform Allah of that which He knows not in the heavens and on the earth?” Glorified and Exalted be He above all that which they associate as partners with Him!

[/note]

Allah denied this in surah Al-Baqarah 186, and clearly instructed us to seek Him without intercession or a mediaries:

[note color=”#BEF781″]

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُون 

And when My slaves ask you (O Muhammad ) concerning Me, then (answer them), I am indeed near (to them by My Knowledge). I respond to the invocations of the supplicant when he calls on Me (without any mediator or intercessor). So let them obey Me and believe in Me, so that they may be led aright.

[/note]

Bani Israel too were forbidden to practice dead worship but they often departed from God’s injunctions and indulged themselves in such practices (1 Samuel 28:1). They were specifically warned in the Bible neither to offer to the dead (Deuteronomy 18: 9-12;  26:14) nor to consult the dead in an effort to learn the future (Isaiah 8:19; Isaiah 65:4). Such acts were considered grave sins by the prophets and a rebellion from God’s Will and were strongly forbidden (Deuteronomy 18: 9-14). Despite these clear warnings the Jewish book of traditions, Talmud  (200-600 A.D) [*] records numerous instances where people visited the graves and even spoke with the dead persons .

The tombs of Prophet Abraham and Sarah in Jerusalem; Ezekiel in Keffil, Iraq; Ezra in Basra, Iraq; and Daniel in Susa, Iran are few examples which are still venerated by Jews [**].

————

Footnotes:

 [*] After the second Hasr, the persecution of the Jews and the passage of time raised the possibility that the details of the oral traditions dating from Pharisaic times (536 BCE – 70 CE) would be forgotten.  Mishna was redacted 220 CE by Rabbi Yehudah haNasi  also called Yehudah the prince. Later Misha’s exegesis was written in Palestine now called Jerusalem Talmud completed around 400 AD. The second exegesis was written in Babylon or Iraq from 400 to 600 AD. In 570 AD our Prophet peace be upon him was born. Therefore the most reliable source to understand the Jewish faith in times of Prophet is Mishna and Talmud. See  Everyman’s Talmud : The Major Teachings of the Rabbinic Sages by Abraham Cohen
[**]  These tombs are also unfortunately venerated by Muslims.

A book by John Moschos[*] (ca. 550-619 AD) informs us on the prevalent practice of veneration of saints and their graves by Christian during Prophet’s lifetime. The following stories were written by John Moschos (ca. 550-619 AD) in his book Pratum Spirituale:

This story was told us by Abba Basil, priest of the monastery of the Byzantines. When I was with Abba Gregory the Patriarch at Theoupolis,  Abba Cosmas the Eunuch of the Larva of Pharon came from Jerusalem. The man was most truly a monk, orthodox and of great zeal, with no small knowledge of the scriptures. After being there a few days, the elder died. Wishing to honour his remains, the patriarch ordered that he should be buried at  a spot  in the cemetery where a Bishop lay. Two days later I came to kiss the elder’s grave a poor man stricken with paralysis was lying on the top of the tomb, begging alms of those who came into the church. When this poor man saw me making three prostrations and offering the priestly prayer, he said to me: O Abba this was indeed a great elder, sir, whom you buried here three days ago. I answered how do you know that. He told me I was paralysed for twelve years and through this elder the Lord cured me. When I am distressed, he comes and comforts me, granting me relief. And you are about to hear yet another strange thing about this elder. Ever since you buried him at night calling and saying to the bishop: Touch me not, stay away, come not near, thou heretic and enemy of Truth and of the holy catholic Church of God. Having heard this from the man cured from his paralysis, I went and repeated it to the patriarch, I besought that most holy man to let us take the body of the elder and lay it in another tomb. Then the patriarch said to me believe me my child Abba Cosmos will suffer no hurt from the heretic. This has all come about that the virtue and zeal of the elder might become known to us after his departure from this world also that the doctrine of bishop should be revealed to us so that we not hold him to have been one of the orthodox [see I].

John Moschos along with his disciple Sophronios went to  a place in Aleandria where me met a blind man, who told them the story of how he become blind:

I went into sepulcher and stripped the corpse of its all clothes except for a single shroud. As I was leaving the sepulcher, my evil  habits said to me Take the shroud too its worth the trouble. So wretch that I am I turned back and remove the shroud from the corpse, leaving it naked. At which point the dead sat up before and stretched out his hands towards me with his fingers he clawed my face and plucked out both my eyes. I cravenly left all behind and fled from the sepulcher, badly hurt and chilled with horror. Now I too have told I cam to be blind [see II].

Not only that the dead saint guide and inform about the location of his grave.

There was an anchorite in these mountains, a great man in the eyes of God who survived for many years on the natural vegetation which could be found there. He is died in a certain small cave and we did not know, for we imagined that he had gone away to another wilderness place. One night in this anchorite appeared to our present father, that good and gentle shepherd, Abba Julian, as he slept, saying to him, Take some men and go, take me up from the place where I am lying, up on the mountain called the Deer. So our father took some brethren and went up into the mountain of which he had spoken. We sought for many hours but we did not come across the remains of the anchorite. With the passage of time, the entrance to the cave in which he lay had been covered over by shrubs and snow. As we found nothing Abba said Come children Let us go down and just as we were about to return, a deer approached and came to stand still some little distance from us. She began to dig in the earth with her hooves. When our father saw this he said to us Believe me children that is where the servant of god is buried. We dug there and found his relics intact [See III] 

In one story it is informed that the church  under construction is extended to bring a grave into it on the request of dead saint.

Our holy father, Abba George…. told us: When I was about to build the church saint Kerykos at Phasaelis they dug the foundations of the church and a monk, very much an ascetic, appeared to me in my sleep. He wore a tunic of sack-cloth and on his shoulders an over garment made of rushes. In a gentle voice he said to me tell me Abba George Did it really seem just to you, sir, that after so many labour and so much endurance I should be left outside, the church you are building? Out of respect for the worth of the elder, I said to him: who in fact are you, sir? I am Peter the grazer of the Jordan. I arose at dawn and enlarged the plan of the church. As I dug I found his corpse lying there just I had seen him in my sleep. When the oratory was built I constructed a handsome monument in the right hand aisle, and there I interred him [see IV].

There was a practice among Christian that they spent forty days at grave of a saint to persuade him to do intercession for them.

I have found it written that blessed Leo who become primate of the church of the Romans, remained at the tomb of apostle Peter for forty days exercising himself in fasting and prayer invoking  the apostle Peter to intercede with God fro him that his faults might be pardoned. When forty days were fulfilled, the apostle Peter appeared to him saying I prayed for you, and your sins are forgiven except for those of ordinations. This alone will be asked of you whether you did well, or not, in the ordaining those whom you ordained [see V]

——————

Footnotes:

 [*] John Moschos (d. 619 AD/ 4 BH) was a notable monk of Christians in Prophet’s life time . John and his disciple Sophronios (65 BH- 638AD/ 17 AH), the Patriarch of Jerusalem travelled together at many places and collected the holy stories or Hakayaat of Christian Monks or ascetics. John travelled in Egypt, Syria, Palestine and Asia Minor. He collected his stories during his travels and compiled them in Greek with title Pratam Sprituale (Leimonarium or Spiritual Meadow). He died four years before migration of Prophet from Makkah to  Medinah.  In 637 AD (16 AH) Muslims conquered the Jerusalem. Sophronius toured  caliph Umar ibn al-Khattab may Allah be pleased with him  the city. During the tour of the Church of the Holy Sepulchre Sophronius  offered  Umer may Allah be pleased with him,  to pray inside the Church which he refused and opted to pray outside of Church. Christian sources informed about humility of our caliph.
[I] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 31-32
[II] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 60
[III] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 67-68
[IV] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 74-75
[V] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 122

It is clear that the Jews, pagans and Christians during the lifetime of the Prophet were venerating the saints and main reason for that was intercession. They assumed that when they go to grave and speak with the dead saint, the saint would hear and do intercession for them.

[note color=”#CEECF5″]

It is reported in Bukhari, Volume 1, Book 8, Number 427 that  Narrated ‘Aisha and ‘Abdullah bin ‘Abbas:

When the last moment of the life of Allah’s Apostle came he started putting his ‘Khamisa’ on his face and when he felt hot and short of breath he took it off his face and said, “May Allah curse the Jews and Christians for they built the places of worship at the graves of their Prophets.” The Prophet was warning (Muslims) of what those had done.

[/note]

In Quran Allah informed us that the sons of Yaqoob peace be upon him asked him to pray for them (surah Yousuf)

[note color=”#BEF781″]

قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ  قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ 

 They said: “O our father! Ask forgiveness (from Allah) for our sins, indeed we have been sinners.”  He said: “I will ask my Lord for forgiveness for you, verily He! Only He is the Oft-Forgiving, the Most Merciful.”

[/note]

The brothers of Yusuf have sinned and they asked Yaqoob peace be upon him to pray for them.  Yaqoob peace be upon him was alive at that time and he prayed for them but none of them had gone to grave of Prophet Ibrahim peace be upon him for intercession.

It is explained in the following hadith reported in Bukhari.

[note color=”#CEECF5″]

 حدثنا الحسن بن محمد قال حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري قال حدثني أبي عبد الله بن المثنى عن ثمامة بن عبد الله بن أنس عن أنس  : أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب . فقال اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا قال فيسقون

Narrated Anas that when there was famine Umer bin Khattab ask Abbas bin Abdul-Muttalib to pray for rain and said O Allah We used to beseech thee   to give us water  through our Prophet, (now) I beseech thee through the uncle of our Prophet to give us water for drinking

[/note]

And then Abbas led the prayer of Istasqah and it rained. It is there allowed to ask the saintly people to do intercession but only in their lifetime.

Those who believe in intercession from dead. Bring this verse for support of claim.

Allah instructed Prophet in surah Nisa 64 for the hypocrites:

[note color=”#BEF781″]

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا 64

We sent no Messenger, but to be obeyed by Allah’s Leave. If they (hypocrites), when they had been unjust to themselves, had come to you (Muhammad ) and begged Allah’s Forgiveness, and the Messenger had begged forgiveness for them: indeed, they would have found Allah All-Forgiving (One Who accepts repentance), Most Merciful.

[/note]

According to believers in dead’s intercession, this command is still  valid and if someone goes to Prophet’s gave and ask for intercession then this is permissible.

Against this claim the scholars who do not believe in intercession by dead say that this was an early instruction. It is reported in Bukhari, Volume 2, Book 23, Number 360 that:

[note color=”#CEECF5″]

Narrated Jabir:  The Prophet came to (the grave of) ‘Abdullah bin Ubai after his body was buried. The body was brought out and then the Prophet put his saliva over the body and clothed it in his shirt.

[/note]

But Allah didn’t accept the prayer of His Prophet and instructed him further not to  pray for hypocrites anymore.  In surah Taubah Allah said:

[note color=”#BEF781″]

وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ84

And never (O Muhammad ) pray (funeral prayer) for any of them (hypocrites) who dies, nor stand at his grave. Certainly they disbelieved in Allah and His Messenger, and died while they were Fasiqun (rebellious, – disobedient to Allah and His Messenger ).

[/note]

Also those who believe in intercession of dead, present the verse  in surah al-Maida 35 in which Allah commanded to search for Wasila or means to approach him:

[note color=”#BEF781″]

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 35

O you who believe! Do your duty to Allah and fear Him. Seek the means of approach to Him, and strive hard in His Cause as much as you can. So that you may be successful.

[/note]

It is explained in Tafseer Tibiri that means of approach are: Abi Wail and Mujahid said:

القربة في الأعمال

Nearness through deeds

Qattadah said:

تقربوا إليه بطاعته والعملِ بما يرضيه

Achieve nearness to Him through submission and acts which He likes

Also one may ask beseech Allah after remember ones good deeds. It is reported in Bukhari:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا سعيد بن أبي مريم حدثنا إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة قال أخبرني نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما  : عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال ( بينما ثلاثة نفر يتماشون أخذهم المطر فمالوا إلى غار في الجبل فانحطت على فم غارهم صخرة من الجبل فأطبقت عليهم فقال بعضهم لبعض انظروا أعمالا عملتموها لله صالحة فادعوا الله بها لعله يفرجها  فقال أحدهم اللهم إنه كان لي والدان شيخان كبيران ولي صبية صغار كنت أرعى عليهم فإذا رحت عليهم فحلبت بدأت بوالدي أسقيهما قبل ولدي وإنه نأى بي الشجر يوما فما أتيت حتى أمسيت فوجدتهما قد ناما فحلبت كما كنت أحلب فجئت بالحلاب فقمت عند رؤوسهما أكره أن أوقظهما من نومهما وأكره أن أبدأ بالصبية قبلهما والصبية يتضاغون عند قدمي فلم يزل ذلك دأبي ودأبهم حتى طلع الفجر فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا فرجة نرى منها السماء . ففرج الله لهم فرجة حتى يرون منها السماء وقال الثاني اللهم إنه كانت لي ابنة عم أحبها كأشد ما يحب الرجال النساء فطلبت إليها نفسها فأبت حتى آتيها بمائة دينار فسعيت حتى جمعت مائة دينار فلقيتها بها فلما قعدت بين رجليها قالت يا عبد الله اتق الله ولا تفتح الخاتم إلا بحقه . فقمت عنها اللهم فإن كنت تعلم أني قد فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها . ففرج لهم فرجة  وقال الآخر اللهم إني كنت استأجرت أجيرا بفرق أرز فلما قضى عمله قال أعطني حقي فعرضت عليه حقه فتركه ورغب عنه فلم أزل أزرعه حتى جمعت منه بقرا وراعيها فجاءني فقال اتق الله ولا تظلمني وأعطني حقي فقلت اذهب إلى تلك البقر وراعيها فقال اتق الله ولا تهزأ بي فقلت إني لا أهزأ بك فخذ تلك البقر وراعيها فأخذه فانطلق بها فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج ما بقي . ففرج الله عنهم 

(Bukhari, Volume 8, Book 73, Number 5: )

Narrated Ibn ‘Umar:

Allah’s Apostle said, “While three persons were traveling, they were overtaken by rain and they took shelter in a cave in a mountain. A big rock fell from the mountain over the mouth of the cave and blocked it. They said to each other. ‘Think of such good (righteous) deeds which, you did for Allah’s sake only, and invoke Allah by giving reference to those deeds so that Allah may relieve you from your difficulty. one of them said, ‘O Allah! I had my parents who were very old and I had small children for whose sake I used to work as a shepherd. When I returned to them at night and milked (the sheep), I used to start giving the milk to my parents first before giving to my children. And one day I went far away in search of a grazing place (for my sheep), and didn’t return home till late at night and found that my parents had slept. I milked (my livestock) as usual and brought the milk vessel and stood at their heads, and I disliked to wake them up from their sleep, and I also disliked to give the milk to my children before my parents though my children were crying (from hunger) at my feet.  So this state of mine and theirs continued till the day dawned. (O Allah!) If you considered that I had done that only for seeking Your pleasure, then please let there be an opening through which we can see the sky.’ So Allah made for them an opening through which they could see the sky. Then the second person said, ‘O Allah! I had a she-cousin whom I loved as much as a passionate man love a woman. I tried to seduce her but she refused till I paid her one-hundred Dinars So I worked hard till I collected one hundred Dinars and went to her with that But when I sat in between her legs (to have sexual intercourse with her), she said, ‘O Allah’s slave! Be afraid of Allah ! Do not deflower me except legally (by marriage contract). So I left her O Allah! If you considered that I had done that only for seeking Your pleasure then please let the rock move a little to have a (wider) opening.’  So Allah shifted that rock to make the opening wider for them. And the last (third) person said ‘O Allah ! I employed a laborer for wages equal to a Faraq (a certain measure: of rice, and when he had finished his job he demanded his wages, but when I presented his due to him, he gave it up and refused to take it. Then I kept on sowing that rice (several times) till managed to buy with the price of the yield, some cows and their shepherd Later on the laborer came to me an said. ‘(O Allah’s slave!) Be afraid o Allah, and do not be unjust to me an give me my due.’ I said (to him). ‘Go and take those cows and their shepherd. So he took them and went away. (So, O Allah!) If You considered that I had done that for seeking Your pleasure, then please remove the remaining part of the rock.’ And so Allah released them (from their difficulty).”

[/note]

Therefore it is informed that there are two ways of permissible intercession. One may ask a noble and righteous person to pray for him in the second approach one may  beseech Allah through calling His Mercy and referring to one own good deeds done in the past.   These are the only two ways allowed for any kind of intercession.

Blind-man narration: Scholar who believe in intercession of Prophet after his death also quote the narration of Tirmidhi:

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِى جَعْفَرٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلاً ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِى. قَالَ « إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ». قَالَ فَادْعُهُ. قَالَ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ « اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِىِّ الرَّحْمَةِ إِنِّى تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّى فِى حَاجَتِى هَذِهِ لِتُقْضَى لِى اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِىَّ ». قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِى جَعْفَرٍ وَهُوَ غَيْرُ الْخَطْمِىِّ وَعُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ هُوَ أَخُو سَهْلِ بْنِ حُنَيْف

Uthman bin Hanif narrated that  a blind man came to Messenger of Allah peace be upon him and said: Pray to Allah that He heals me. Prophet Said:  If you like I pray else you be patient  that is better for you. He said Pray. Prophet commanded him to do ablution in a good way and then (instructed blind man to) pray with this supplication: O Allah I beseech thee and (turn my) face (towards) thee through your Prophet Muhammad, the Merciful Prophet, I (turn my) face (towards) thee my Lord for the fulfilment of my need  O Allah (accept) his intercession in this.

(Tirmidhi) said: This narration is Hasan Sahih Gharib, don’t know with other sanad except this one from the hadith of Abi Jafar and he is not Al-Khutami and Uthman bin Hanif is brother of Sahal bin Hanif.

[/note]

However others say he is Abu Jafar Al-Khutami. Ibn Abi Hatim ابن أبي حاتم  has discussed this narration in Illal Hadith juz2, pg 190:

وَسَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ ، وَحَدَّثَنَا بِحَدِيثٍ : اخْتَلَفَ شُعْبَةُ وَهِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ : فَرَوَى شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ.

Ibn Habban said in Al-Majroheen in discussion on عون بن عمارة juz 2 , pg 197 that Abu Jafar is Al-Khutami:

وهو الذى روى عن روح بن القاسم عن أبى جعفر الخطمى عن أبى أمامة بن سهل بن حنيف عن عمه عمار بن حنيف: ” أن أعمى أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله علمني دعاء أدعو به يرد الله على بصرى فقال: قل: اللهم إنى أسألك وأتوجه إليك بنبيك نبى الرحمة يا محمد قد توجهت إليك  إلى ربى، اللهم شفعه في وشفعني في نفسي.

Tirmidhi had differed with conclusion of  Ibn Abi Hatim and Ibn-Habban.

Bukhari said in Tahreek Tabeer in discussion on عثمان بن حنيف الانصاري رضى الله عنه juz  6 pg 209:

قال شهاب  حدثنا حماد بن سلمة: عن ابى جعفر الخطمى عن عمارة بن خزيمة بن ثابت: عن عثمان بن حنيف اتى اعمى النبي صلى الله عليه وسلم: فقال: ادع الله تعالى ان يرد بصرى، قال: أو أدعك ؟ قال: لا، بل ادع الله، قال ثلاثا، ثم قال: توضأ وصل ركعتين وقل: ” اللهم انى اسألك وأتوجه اليك ” ففعل فردبصره، وقال على حدثنا عثمان بن عمر سمع شعبة: عن ابى جعفر المدينى سمع عمارة بن خزيمة بن ثابت: عن عثمان بن حنيف، وقال ابن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال حدثنى ابى: عن ابى جعفر يزيد بن عمير – أو – عمير بن يزيد عن ابى امامة بن سهل رضى الله عنه: عن عمه، وقال عبد المتعال بن طالب حدثنا ابن وهب عن ابى سعيد عن روح بن القاسم: عن ابى جعفر المدينى عن ابى امامة بن سهل بن حنيف: عن عمه عثمان ابن حنيف رضى الله عنه، هو المدنى، عامل عمر على العراق، بقى إلى زمن معاوية.

Bukhari cleared that people have made the narrator Abu Jafar Al-Khutami, who lived at Basra  and then quoted another sanad which indicate that Abu Jafar was from Medinah. Bukhari thus showed that there is confusion about this narrator.

The word of Bukhari   ففعل فردبصره  (so they made him a person from Basra) indicate that he meant that there is confusion in understanding who the real narrator is.

In Marifatul-Sahabah, معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني  juz 14, pg 80 it is quoted with the sanad in which it is called that Abu Jafar was Al-Madni.

حدثنا أبو عمرو ، ثنا الحسن ، ثنا أحمد بن عيسى ، ثنا ابن وهب ، أخبرني أبو سعيد واسمه شبيب بن سعيد من أهل البصرة ، عن أبي جعفر المديني ، عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف ، عن عمه عثمان بن حنيف

In Musnad Ahmed juz 37, pg 189 it is reported with sanad:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِى جَعْفَرٍ الْمَدِينِىِّ قَالَ سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ يُحَدِّثُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلاً ضَرِيراً أَتَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم

If the narrator as repoted by Abi Naeem Al-Isbahani is Abu Jafar al-Madni then he is very weak narrator.

Some say that he is  Abu Jafar Al- Khutami, if this is true  then his name is

عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب الأنصاري أبو جعفر الخطمي

But Bukhari said in Al-Kunna  that the person with name Umair bin Yazid bin Umair had the nickname Abu Jaada not Abu Jafar:

أبو جعدة الخطمي اسمه عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب بن خماشة

Ibn Hajar said in Taqreeb al-Tahzeeb in discussion on Abu-Jafar Al-Khutami, juz 8, pg 134

قلت: وقال أبو الحسن ابن المديني هو مدني قدم البصرة وليس لاهل المدينة عنه اثر ولا يعرفونه

I say:  and Abul Hasan ibn Al-Madini said he is from Medinah and arrive at Basra and there is no narration reported by people of Medinah from him and they not even recognize him

Therefore the fact of the matter is that there is a lot confusion among hadith scholars on who this person is.  It is better to discard this confusing narration.

Content wise this narration is not clear as the blind man has first ask the Prophet for prayer for him, which Prophet actually denied. Further Prophet peace be upon him instructed him to pray for himself.  It was not the sunnah of Prophet peace be upon him to instruct people to pray themselves with his name in prayer.  It is reported in Bukhari Volume 7, Book 70, Number 555:

[note color=”#CEECF5″]

Narrated ‘Ata bin Abi Rabah:  Ibn ‘Abbas said to me, “Shall I show you a woman of the people of Paradise?” I said, “Yes.” He said, “This black lady came to the Prophet and said, ‘I get attacks of epilepsy and my body becomes uncovered; please invoke Allah for me.’ The Prophet said (to her), ‘If you wish, be patient and you will have (enter) Paradise; and if you wish, I will invoke Allah to cure you.’ She said, ‘I will remain patient,’ and added, ‘but I become uncovered, so please invoke Allah for me that I may not become uncovered.’ So he invoked Allah for her.”

[/note]

It is reported in Bukhari that on the day of battle of Khaybar :

[note color=”#CEECF5″]

Allah’s Apostle asked, “Where is ‘Ali?” He was told that ‘Ali was suffering from eye-trouble, so he (Prophet)  applied saliva to his eyes and invoked Allah to cure him.

[/note]

Here Prophet had not said to the woman suffering with epilepsy to do supplication herself with formula containing his name. He prayed for her.  Similarly Prophet invoked Allah for Ali.   The blind man narration is thus against the Sahih hadith or sunnah of Prophet.

Forgiveness  of Prophet Adam due to our Prophet:

Hakim reported a narration in Mustadrak:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد بن منصور العدل ثنا أبو الحسن محمد بن إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ثنا أبو الحارث عبد الله بن مسلم الفهري ثنا إسماعيل بن مسلمة أنبأ عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه عن جده عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي فقال الله : يا آدم و كيف عرفت محمدا و لم أخلقه ؟ قال : يا رب لأنك لما خلقتني بيدك و نفخت في من روحك و رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلى أحب الخلق فقال الله :صدقت يا آدم إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك و لولا محمد ما خلقتك هذا حديث صحيح الإسناد و هو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم في هذا الكتاب تعليق الذهبي قي التلخيص : بل موضوع

Narrated Umer bin Khattab that Messenger of Allah peace be upon him said: When Adam committed the sin he said: O Lord I beseech thee with the right of Muhammad (on you) forgive me. Allah said: O Adam and how do you know about Muhammad, he is not created (yet)? Adam said: O Lord as you created me with your hand and breathed into me soul from you I raised my head and saw on the pillars of Throne written There is no God but Allah and Muhammad is His Messenger, there I knew that you did not add your name (except) with the most loved one. Allah said: You are right O Adam he  is the most loved one in creation, you called me  with his right so I forgive you and if Muhammad is not there I would not have created you! Hakim said:  This is  hadith with Sahih sanad and it is the first narration I quoted from Abdur Rehamn bin Zaid bin Aslam in this book. Dahabi said in noting:  but it is concocted (narration)

[/note]

This is a concocted narration as it is completely against Quran.  Allah informed us that there is a purpose involved in creation, He said in surah Adh-Dhariyat 56:

[note color=”#BEF781″]

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ 56

And I (Allah) created not the jinns and humans except they should worship Me (Alone).

[/note]

And in surah Al-Baqarah 37, Allah informed that the words through which Adam prayed were actually not his words, but Adam learned those from Allah:

[note color=”#BEF781″]

فَتَلَقَّى آَدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ 37

Then Adam received from his Lord Words . And his Lord pardoned him (accepted his repentance). Verily, He is the One Who forgives (accepts repentance), the Most Merciful.

[/note]

And in surah Al-Aaraf 23, Allah  informed us about those words:

[note color=”#BEF781″]

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِين 

They said: “Our Lord! We have wronged ourselves. If You forgive us not, and bestow not upon us Your Mercy, we shall certainly be of the losers

[/note]

This narration contains narrator عبد الرحمن بن زيد بن أسلم who is declare Wadda i.e. Concocts  hadiths.  The authentication of Hakim is strange as in his another book   المدخل إلى الصحيح he said:

عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه

Abdur Rehamn bin Zaid bin Aslam narrates from his father  concocted narrations and they are not hidden from those who are people of this art (ilm ul hadith) that the burden is on him.

It is stated in this narration that there is written on the Throne: Muhammad is his Messenger. Bukhari (Volume 9, Book 93, Number 501) has reported on what is written near Throne:

Narrated Abu Huraira:  The Prophet said, “When Allah created the Creation, He wrote in His Book–and He wrote (that) about Himself, and it is placed with Him on the Throne–‘Verily My Mercy overcomes My Anger.'”

Therefore the correct way to invoke Allah is through his Mercy and that is what Adam did according to Quran.  How this narration could be taken as authentic. May Allah guide us towards His Mercy and Heavens!

Dear Reader: The only kind of intercession allowed in Islam is through righteous people and beseeching Allah through good deeds. Calling Allah with the honor of Prophets,  Ahlul-bayt, mosques, Kabba and holy months is not permissible, as it is a sin of Sheerk.