Category Archives: طائفة وفرق – Sects and Cults

islamic cluts

یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے

لا تنظر إلى من قال بل أنظر إلى ما قيل

یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہا جا رہا ہے

لا تنظروا الیٰ من قال، انظروا الیٰ ما قال

کہا جاتا ہے کہ امیر المومنین  علی رضی اللہ عنہ نے  کہا کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے – اس کی اسناد جمع کی جانی چاہیے تھیں   کہ دیکھا جائے اس قول کا علی پر بہتان کس نے باندھا  ہے،  کیونکہ یہ قول علی ممکن نہیں ہے – یہ قرآن کے حکم  خبر فاسق   کی تحقیق کرو (سورہ الحجرات) سے براہ راست متصادم  ہے

حیرت کی بات یہ ہے مصادر اہل تشیع میں یہ قول سندا کہیں بھی بیان نہیں ہوا – كتاب غُرر الحِكم ودُرر الكلم، للقاضي ناصح الدين أبي الفتح عبد الواحد بن محمَّد التميمي الآمدي (ت: 550 للهجرة)، میں اس کو بلا سند علی سے منسوب  کیا گیا ہے

اور اہل سنت کی کتب میں کہا جاتا ہے ابن السمعاني نے   اپنی کتاب الدلائل اور تاریخ  میں اس کا ذکر کیا ہے البتہ یہ کتاب مفقود ہیں

  کتاب  الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة المؤلف: مرعي بن يوسف بن أبى بكر بن أحمد الكرمى المقدسي الحنبلى (المتوفى: 1033هـ) کے مطابق  یہ قول علی ہے لیکن اس میں بھی کوئی  سند نہیں دی

سن چھ  ہجری تک اہل تشیع میں  مکمل  جرح و تعدیل شروع   نہیں ہو سکی تھی لہذا علم  اسماء الرجال سے جان چھڑانے  کے لئے یہ قول ایجاد  کیا گیا  کہ  اہل بیت سے منسوب کچھ بھی مل جائے اس کو مستند مان لو – یہ مت دیکھو  کون (کذاب  یا جاہل)   کہہ رہا ہے  بلکہ صرف متن پسند آ جائے تو اس کو قبول کر لو

کسی کے پاس علی سے منسوب  اس قول کی سند ہو تو برائے  مہربانی  یہاں پیش کرے

جھمی عقائد اور امام البخاری

104 Downloads

جدید جہمیوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا ہے کہ صفات اللہ کا پرتو اس کے انبیاء عیسیٰ و سلیمان عليهما السلام میں ظاہر ہوا – عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے أور سليمان ہواؤں کو چلاتے تھے لہذا اللہ نے ان صفات کو اپنی مخلوق عیسیٰ وسليمان کو دے دیا- جمهي لوگ اس قول کو إس طرح بيان کرتے ہیں : “ اللہ کی صفت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوئی “ –
جدید جہمیوں کے بقول یہ سب کرنا اللہ کے حکم سے ہوا یعنی مخلوق میں صفت باری کا ان کو عکس نظر آ رہا ہے اور اپنے اس باطل عقیدے کو الجھی ہوئی عبارات کے ذریعہ وہاٹس اپپ کے ذریعے سے گردش میں لاتے رہے –
اس سے قبل انہی لوگوں نے دجال کے حوالے سے یہ عقیدہ پھیلایا کہ دجال کو قوت من جانب اللہ ملے گی کہ مردوں کو زندہ کرے اور اس حوالے سے ان لوگوں نے راقم سے بہت بحثیں کی – راقم نے اس وقت بھی وضاحت کی تھی کہ انبیا کو معجزہ ملنے کا مطلب قوت النبی ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کا فعل ہے – نبی تو صرف خبر کرتا ہے کہ ایسا ایسا ہو گا اور پھر وہ من جانب اللہ ہو جاتا ہے – اسی طرح معجزہ صرف حق کے اثبات کے لئے ہوتا ہے – کفر کے اثبات پر نہیں ہوتا

جہمیوں کا قول سننے کو مل رہا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کی صفت صوفیا کے ہاتھ پر ظاہر نہیں ہوتیں لیکن نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو سکتیں ہیں اور اس کا ایک نیا نام ان لوگوں نے معجزاتی صفت رکھ دیا اور پھر کہا کہ قرآن بھی مخلوق ہے – ظلمات بعضها فوق بعض

اس گمراہی کے سد باب کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے ایک تحریر “نشانی “ پہلے سے اس ویب سائٹ پر موجود ہے

ابو شہریار
رمضان ١٤٤٥

ذو القرنین   فرشتہ  ہے  یا انسان

ساحل عدیم  نے اپنی پورٹل   تھیوری  میں  ایک بار ذکر  کیا کہ ذو القرنین  انسان  تھا  پھر  ایک دوسری تقریر  میں ذکر  کیا کہ وہ  فرشتہ تھا- راقم نے دونوں  روایات  کا تعاقب  کیا  اور  جو اسناد ملی وہ  مخدوش ہیں

 

عمر  رضی  اللہ عنہ  کا قول ذو القرنین   فرشتہ ہے

العظمة از أبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ)

علی رضی   اللہ  عنہ  کا قول  ذو  القرنین   صالح  بندہ ہے

مشکل اثار  از طحاوی

 قَالَ سَلَمَةُ: عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ فَقَالَ: «مَلِكٌ مَسَحَ الْأَرْضَ مِنْ تَحْتِهَا بِالْأَسْبَابِ» قَالَ [ص:1480] خَالِدٌ: وَسَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَجُلًا يَقُولُ: يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «اللَّهُمَّ غَفْرًا، أَمَا رَضِيتُمْ أَنْ تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ حَتَّى تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْمَلَائِكَةِ؟»  

خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ نے ذکر  کیا  کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم سے ذو القرنین  پر   سوال ہوا    پس  فرمایا    بادشاہ  جس   نے زمین کو  نیچے  سے چھوا      اسباب  کے ساتھ  

اور  خالد  نے ذکر کیا کہ عمر   رضی  اللہ عنہ نے  ایک شخص کو کہتے  سنا   کہہ رہا   تھا   اے  ذو  القرنین –   پس  عمر  نے    کہا  اے اللہ  اس کو معاف  کر  ،  کیا  تم اس  پر  راضی  نہیں  ہو  کہ   انبیاء  کے ناموں  پر نام  رکھو     یہاں  تک کہ   اب  تم  لوگ  فرشتوں  کے ناموں   پر آ   گئے  ہو

 

 

راقم   کہتا  ہے سند  منقطع  ہے –  خالد بن معدان الحمصي  کا  سماع  عمر  سے ثابت  نہیں ہے

عن أبي الطفيل قال: قام عليّ على المنبر فقال: سلوني قبل أن تسألوني ولن تسألوا بعدي مثلي، فقام إليه ابن الكوا فقال: ما كان ذو القرنين أملكًا كان أم نبيًا؟ قال: لم يكن ملكًا ولا نبيًا ولكنه كان عبدًا صالحًا

 

علی رضی اللہ عنہ سے  سوال  ہوا کہ ذو القرنین  کون تھے، نبی  یا فرشتہ  ؟  علی  نے  کہا   نہ   نبی  نہ  فرشتہ    بلکہ    صالح  بندے   تھے  

 

سند ضعیف  ہے  – سند  میں  ابو  طفیل   پر  بعض  محدثین  کا  کہنا  ہےحل   کہ  یہ  صحابی  نہیں  کیسانیہ   فرقہ  کا  بدعتی  ہے

تفسیر ابی حاتم کی  روایت  ہے

 عَنْ الأحوص بن حكيم عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ ذي القرنين فقال: «هُوَ ملك مسح الأَرْض بالإحسان

الأحوص بن حكيم  نے اپنے باپ سے روایت  کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   جب  ذو القرنین   پر سوال  ہوا  :   وہ  ایک  بادشاہ  ہے  جس  نے  زمین  کو احسان  سے چھوا

امام احمد  کہتے ہیں کہ انوہں نے   سے روایت  لکھی پھر ان کو جلا  دیا

وقال ابن هانىء: سألت أبا عبد الله عن الأحوص بن حكيم؟ فقال: ضعيف لا يسوى حديثه شيئًا. قال أبو عبد الله: كان له عندي شيء فخرقته

 وقال النسائي: ضعيف. (الضعفاء والمتروكون) 62.

  وقال الدارقطني: منكر الحديث. (الضعفاء والمتروكون)

تفسیر  ابی حاتم  میں ہے

حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ ثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عِلْبَاءِ بْنِ أَحْمَرَ: أَنَّ ذَا الْقَرْنَيْنِ قَدِمَ مَكَّةَ، فَوَجَدَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ يَبْنِيَانِ قَوَاعِدَ الْبَيْتِ مِنْ خمسة أجبل. فقال لهما: ما لكما وَلأَرْضِي؟ فَقَالَ: نَحْنُ عَبْدَانِ مَأْمُورَانِ أُمِرْنَا بِبِنَاءِ هَذِهِ الْكَعْبَةِ. قَالَ: فَهَاتَا بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَا تَدَّعِيَانِ؟ فَقَامَتْ خَمْسَةُ أَكْبُشٍ، فَقُلْنَ: نَحْنُ نَشْهَدُ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ عَبْدَانَ مَأْمُورَانِ أُمِرَا بِبِنَاءِ الْكَعْبَةِ.  فَقَالَ: قَدْ رَضِيتُ وَسَلَّمْتُ ثُمَّ مَضَى.

عِلْبَاءِ بْنِ أَحْمَرَ نے  کہا  ذو القرنین    مکہ    پہنچے   وہاں  ابراہیم و  اسمعیل کو پایا   جو  بیت  اللہ کو  تعمیر   کر رہے  تھے

سند  میں  عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ  ہے  جس  پر  السليماني کا کہنا  ہے : فيه نظر  اس پر نظر  ہے

ذو القرنین ،شہر مرو اور دلیل رسالت نبوی

مرو  سینٹرل  ایشیا  کا ایک  شہر ہوا  کرتا   تھا

مسند احمد کی حدیث   ہے

 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، حَدَّثَنَا أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَخِي سَهْلُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ بُرَيْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” سَتَكُونُ بَعْدِي بُعُوثٌ كَثِيرَةٌ، فَكُونُوا فِي بَعْثِ خُرَاسَانَ، ثُمَّ انْزِلُوا مَدِينَةَ مَرْوَ؛ فَإِنَّهُ بَنَاهَا ذُو الْقَرْنَيْنِ، وَدَعَا لَهَا بِالْبَرَكَةِ، وَلَا يَضُرُّ أَهْلَهَا سُوءٌ

بریدہ رضی اللہ عنہ سے  مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا   میرے  بعد   بہت سے لشکر   ہوں  گے   تو تم  خراسان   کے لشکر میں  ہو جانا   پھر  شہر  مرو  میں  اترنا  کیونکہ  اس کو  ذوالقرنین  نے بسایا   تھا    اور اس کی  برکت کی دعا   کی   تھی ، اس  شہر   کے رہنے  والوں   کو  کوئی     برائی    نقصان  نہ دے     گی

   امام  الذھبی   میزان  الاعتدال  میں   سند   کے راوی    أوس بن عبد الله بن بريدة المروزي  پر  لکھتے  ہیں

قال البخاري: فيه نظر.

وقال الدارقطني: متروك.

پھر  اس کی اسی    مرو    کے حوالے سے   روایت  کا ذکر کر کے  کہا  یہ منکر  ہے

فمن حديثه، عن أخيه سهل، عن أبيه، عن جده: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ستبعث بعدى بعوث، فكونوا في بعث خراسان، ثم انزلوا كورة يقال لها مرو، ثم اسكنوا مدينتها، فإن ذا القرنين بناها ودعا لها بالبركة، لا يصيب أهلها سوء.

قلت: هذا منكر.

محدث   الساجی   کہتے   ہیں   قال الساجي  : منكر الحديث

وقال النسائي: ليس بثقة. (الضعفاء والمتروكون) 59.

امام احمد  نے بھی اس کو منکر  حدیث  قرار  دیا ہے – ابن  قدامہ   لکھتے ہیں

حديث بُرَيْدَةَ بن الحصيب -رضي اللَّه عنه-: “سَتَكُونُ بَعْدِي بُعُوثٌ كَثِيرَةٌ، فَكُونُوا فِي بَعْثِ خُرَاسَانَ، ثُمَّ انْزِلُوا مَدِينَةَ مَرْوَ، فَإِنَّهُ بَنَاهَا ذُو القَرْنَيْنِ وَدَعَا لَهَا بِالْبَرَكَةِ، وَلَا يَضُرُّ أَهْلَهَا سُوءٌ”

قال الإمام أحمد: هذا حديث منكر

اس   روایت کی ایک  اور سند  بھی ہے  –  ابن  جوزی   کتاب   العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں  دوسری  سند دیتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الْمُوَحِّدُ قَالَ نا هَنَّادُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ النَّسَفِيُّ قَالَ أنا الْقَاضِي أبو البكر أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ نا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ مَحْمُودِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَحْمُودِيُّ قَالَ نا مُحَمَّدُ بْنُ عُمْرَانَ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ نا هُدْبَةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ نا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ نا نوح ابْنَ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:”يَا بُرَيْدَةُ إِنَّهُ سَتُفْتَحُ بَعْدِي الْفُتُوحُ وَيُبْعَثُ بَعْدِي الْبُعُوثُ فَإِذَا بُعِثَ فَكُنْ فِي بَعْثِ أَهْلِ خُرَاسَانَ فَإِذَا بُعِثَ مِنْهَا فَكُنْ فِي بَعْثِ مَرْوَ فَإِذَا أَتَيْتَهَا فَاسْكُنْ مَدِينَتَهَا فَإِنَّهُمْ لا يُصِيبُهُمْ ضِيقٌ وَلا سُوءٌ مَا بَقَوْا.

ابن جوزی تبصرہ  کرتے ہیں

وَفِي الطَّرِيقِ الثَّانِي نُوحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ يَحْيَى لَيْسَ بِشَيْءٍ ولا يكتب حديثه وقال الدارقطني: مَتْرُوكٌ.

اس  دوسری سند میں  راوی نُوحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ   ہے    امام   یحیی    کہتے ہیں  یہ کوئی چیز   نہیں – اس کی حدیث  مت لکو  اور دارقطنی   کہتے ہیں   متروک  ہے

اس  روایت کی ایک تیسری سند بھی ہے –  مجمع الزوائد میں ہے

[بَابُ مَا جَاءَ فِي خُرَاسَانَ وَمَرْوَ]

16683 – عَنْ بِرَيْدَةَ قَالَ: «سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: ” سَيَكُونُ بَعْدِي بُعُوثٌ كَثِيرَةٌ، فَكُونُوا فِي بَعْثِ خُرَاسَانَ، ثُمَّ انْزِلُوا مَدِينَةَ مَرْوَ ; فَإِنَّهُ بَنَاهَا ذُو الْقَرْنَيْنِ، وَدَعَا لِأَهْلِهَا بِالْبَرَكَةِ، وَلَا يَضُرُّ أَهْلَهَا سُوءٌ» “.

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْأَوْسَطِ بِنَحْوِهِ، وَفِي إِسْنَادِ أَحْمَدَ وَالْأَوْسَطِ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَفِي إِسْنَادِ الْكَبِيرِ حُسَامُ بْنُ مِصَكٍّ، وَهُمَا مُجْمَعٌ عَلَى ضَعْفِهِمَا.

الهيثمي  کہتے ہیں کہ اس کی سند میں  حُسَامُ بْنُ مِصَكٍّ ہے اور اس کی تضعیف پر اجماع ہے

حیرت  کہ محض  اس  سند کو دیکھ  کر ابن حجر  نے اس  روایت کو حسن  کہہ دیا ہے – لیکن  ابن عراق  کتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة  میں لکھتے ہیں

وَقد حسن هَذَا الحَدِيث الْحَافِظ أَبُو الْفضل شَيخنَا لأجل الْمُتَابَعَة، وَفِيه نظر فَإِن حساما لَيْسَ من قبيل من يحسن الحَدِيث بمتابعته

اس روایت کو حسن قرار دینے پر نظر  ہے کیونکہ حسام  اس قبیل کے راویوں  میں سے نہیں کہ متابعت میں اس کی روایت کو حسن کہہ دیا  جائے

امام بیہقی   نے اپنی جلد بازی  میں    اس  روایت  کا شمار نبوت کے    دلائل   میں   کیا تھا

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَتُبْعَثُ بُعُوثٌ فَكُنْ فِي بَعْثٍ يَأْتِي خُرَاسَانَ، ثُمَّ اسْكُنْ مَدِينَةَ مَرْوَ. فَإِنَّهُ بَنَاهَا ذُو الْقَرْنَيْنِ وَدَعَا لَهَا بِالْبَرَكَةِ، وَقَالَ: لَا يُصِيبُ أَهْلَهَا سُوءٌ

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم   ہے کہ  مرو کے اہل کو کوئی  نقصان نہ دے پائے  گا

دوسری  طرف  تاریخ سے معلوم  ہے کہ  منگول  تاتار  کے حملوں میں  مرو شہر تباہ  ہو گیا اور آج تک غیر آباد ہے

گیارویں   سے بارہویں  عیسیوی  صدی کے آس پاس شہر  مرو اپنے عروج پر پہنچ گیا ، عظیم سلجوق سلطنت کا دارالحکومت بن گیا اور ممکنہ طور پر پانچ لاکھ تک کی آبادی کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک بن گیا۔ یہ اسلامی تعلیم اور ثقافت میں اپنی نمایاں خدمات کے لئے مشہور تھا۔ تاہم ، اس شہر کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا جب اسے 1221 میں منگولوں نے تباہ کردیا ، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا اور  یہ آباد نہ رہ سکا ۔

القرآن کلام اللہ غیر مخلوق

قران   اللہ کا کلام  ہے  اور  متعدد   بار  قرآن  میں   آیات کو کلام اللہ کہا گیا  ہے – کلام اللہ تعالی   کرتا ہے  تو کسی بھی زبان میں  کر سکتا ہے –  مثلا  موسی علیہ السلام سے  کلام  کیا  تو  یا تو وہ  ال فرعون کی زبان تھی یا بنی اسرائیل کی زبان تھی  کیونکہ دونوں سے ہی موسی علیہ السلام  واقف  تھے

معتزلہ  نے یہ  موقف  لیا کہ اللہ تعالی کلام نہیں  کرتا کیونکہ  کلام  کرنا  ان کے  نزدیک انسانوں  کا یا مخلوق کا کام ہے اور   اسی طرح  حواس خمسہ والی کوئی  صفت نہیں رکھتا  یعنی  نہ وہ سنتا ہے نہ وہ دیکھتا ہے بس وہ علم رکھتا ہے  اس بنا پر انہوں نے السمیع  و البصیر  والی  آیات  کو بھی بدلنا شروع کر دیا تھا

اسی سے ملتا جلتا  موقف   آجکل  بعض  لوگوں نے باطل موقف  اپنا لیا ہے کہ  قرآن   الوحی  ہے مخلوق  ہے

اس  پر ان لوگوں  کا رد کیا  گیا  تو انہوں نے یہ شوشہ  گھڑا  کہ امام  بخاری  کا عقیدہ  یہ تھا کہ قرآن  مخلوق ہے – یہ صریح  کذب ہے اور تاریخ کو  اپنے مقصد کے  لئے  مسخ کرنا ہے اور ساتھ ہی ظاہر  کرتا ہے کہ ان لوگوں  کو اس کا علم  نہیں کہ  یہ انکشاف کسی  شارح حدیث کو بھی نہیں ہوا کہ  امام  بخاری  کا عقیدہ   قرآن کو مخلوق  کہنے  کا ہے

 – –  صدیوں  سے یہ  معروف چلا آ رہا ہے کہ امام بخاری  قرآن کو غیر مخلوق کہتے  تھے

اس بات کو تنظیم  سے چھپنے والے لٹریچر میں بھی بیان کیا گیا ہے دیکھئے واتقوا اللہ

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/09/WattaqullahQist06-part2.pdf

 

صفحہ 24 دیکھیں

اس  بات سے  کہ امام الذھلی کے نام  پر تدلیس  کی گئی ہے تو یہ ظاہر  کرتا ہے کہ صحیح  بخاری امام بخاری کی آخری  تصنیف  ہے

اور وہ بات  جس پر نیشاپور  جھگڑا ہوا  وہ  یہی تھا کہ امام بخاری کے نزدیک  قرآن  اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور  اس کی تلاوت  مخلوق ہے

امام   بخاری  نے کہیں  نہیں لکھا کہ انہوں نے اپنی پچھلی  کتب سے رجوع کر لیا ہے-  ساتھ  ہی ڈاکٹر عثمانی  کی کوئی ایسی  تحریر  و تقریر نہیں جس میں  ہو  کہ ان کی تحقیق کے مطابق  امام  بخاری  نے  اپنی  تمام کتب سے رجوع  کر لیا تھا سوائے صحیح البخاری کے – اگر ایسا  ڈاکٹر  صاحب  کا موقف  ہوتا تو  ان کے جائز نہ تھا کہ اپنی کتاب ایمان خالص دوم  میں  تاریخ الکبیر از  امام  بخاری  کے حوالے دیتے جو صحیح   البخاری سے  پہلے کی کتاب ہے

فرق  صرف اتنا ہے کہ صحیح  میں وہ روایات جو  امام بخاری کے نزدیک صحیح السند ہیں  جبکہ دیگر  کتب میں ضعیف و صحیح دونوں طرح کی ہیں –  حبل اللہ شمارہ سات میں ڈاکٹر  شفیق  کو جواب دیتے  عثمانی نے لکھا

اس  کی وضاحت ڈاکٹر صاحب  نے اس طرح کی کہ اگر امام بخاری  نے  کوئی ضعیف روایت کسی کتاب میں لکھ دی ہے  البتہ  اس پر ان کا عقیدہ ثابت   نہیں ہے تو محض سندا  روایت  بیان کرنے کی وجہ سے ان کا رد و کفر  نہیں ہو گا فتوی نہیں لگے گا – البتہ  کتاب خلق الافعال  العباد  میں   امام بخاری نے  متعدد بار  کہا ہے قرآن غیر مخلوق ہے

امام  ابو عبداللہ  البخاری  نے کہا :  قرآن کی حرکات ، اس کی آواز قرات اور اس کو حاصل کرنا اور اس کو لکھنا یہ مخلوق ہے – پس جہاں تک قرآن  متلو مبین جو مصحف میں ہے  لکھا ہوا اور مکتوب ہے اور دلوں میں ہے وہ کلام اللہ ہے خلق شدہ نہیں ہے  – اللہ تعالی نے کہا : بلکہ یہ آیات واضح ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن کو علم دیا گیا ہے

اپنی کتاب  خلق افعال  میں امام بخاری نت باب قائم کیا اور لکھا

بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ يَسْتَعِيذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ لَا بِكَلَامِ غَيْرِهِ وَقَالَ نُعَيْمٌ: «لَا يُسْتعَاذُ بِالْمَخْلُوقِ، وَلَا بِكَلَامِ الْعِبَادِ وَالْجِنِّ وَالْإِنْسِ، وَالْمَلَائِكَةِ وَفِي هَذَا دَلِيلٌ أَنَّ كَلَامَ اللَّهِ غَيْرُ مَخْلُوقٍ، وَأَنَّ سِوَاهُ مَخْلُوقٌ»

باب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے کلمات سے  پناہ مانگی  ہے  نہ کہ کسی  اور کلام سے اور نعیم  نے  کہا  مخلوق  پر نہیں ہے کہ بندوں یا جنات یا انس یا فرشتوں کے  کلام سے  پناہ طلب کرے اور یہ دلیل  ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ہے  اور اس کے سوا مخلوق ہے

اسی طرح  امام بخاری نے مزید لکھا

اور بے شک اللہ تعالی  پکارتا ہے آواز سے جس  کو دور والا بھی سنتا ہے جیسا  قریب والا سنتا ہے  اور کسی غیر اللہ کے کلام میں ایسا نہیں ہے  – امام  ابو عبد اللہ بخاری نے کہا :  اور یہ دلیل  ہے کہ اللہ کی آواز مخلوق جیسی نہیں اور فرشتے اس کی اوز سے غش  کھا  کر گر جاتے ہیں مخلوق کی آواز  ایسی نہیں

 امام بخاری  نے  کہا: اگر تیرا دعوی ہے کہ تو اللہ کا کلام لوگوں کو اس طرح سناتا ہے جیسا اللہ نے اپنا کلام موسی کو سنایا (اللہ تعالیٰ نے موسی سے کہا کہ بے شک میں تیرا رب ہوں) تو یہ رب ہونے کا دعوی ہے جبکہ تو فرق نہ کرے اپنی قرأت اور اللہ کے کلام کے درمیان

امام   بخاری  تاریخ  الکبیر  میں  لکھتے  ہیں

سَمِعَ سُفْيَانَ بْن عُيَينة، قَالَ: أدركتُ مشيختنا، منذ سبعين سنة، منهم عَمرو بْن دينار، يَقُولُون: القرآن كلام اللَّه، وَلَيْسَ بمخلوقٍ.

سَمِعَ مُعاوية بْن عَمّار، عَنْ جَعفر بْن مُحَمد، قَالَ: القرآن كلام اللهِ، لَيْسَ بمخلوقٍ

اب کسی کے نزدیک امام  بخاری  کے تمام جملے  کفر ہیں تو اس کو امام بخاری  پر فتوی دینا  ہو  گا کیونکہ الفاظ  قرآن غیر مخلوق سے رجوع   کے الفاظ امام بخاری سے منقول نہیں ہیں

راقم  کہتا ہے کہ امام  بخاری کا عقیدہ خلق قرآن کے حوالے سے  درست  منہج پر ہے اور اسی کو اہل سنت نے قبول کیا ہے – باقی اس کے مخالف  اہل سنت میں نہ کوئی گروہ رہا ہے نہ عالم گزرا ہے لہذا یہ   کہنا کہ قرآن کے منزل میں اللہ الفاظ اور الوحی  جو جبریل لائے  وہ مخلوق کا کلام ہے  جھمیہ و معتزلہ   کا مذھب  ہے

جھمی  جاہل  سعید  اور اس کے چیلے اصف  خان کو کوئی روایت  ملی ہے تو یہ  ہے

صحیح بخاری میں حدیث ہے

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ  پیروی کرنے والے میرے ہوں گے

اس روایت میں کہاں ہے کہ  قرآن  مخلوق ہے؟؟؟؟؟؟؟

پھر دوبارہ نگاہ کر تیری طرف نگاہ ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔

اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ نہیں ہے کہ منزل  من اللہ  کتاب کو مخلوق کہا جائے – پھر مزید یہ کہ  ان لوگوں کے نزدیک   خبر واحد صحیح سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا

قَالَ حُذَيْفَةُ: مَنْ احْتَجَّ بِالقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ

حُذَيْفَةُ رضی اللہ عنہ  نے کہا جس نے قرآن سے دلیل لی وہ فلاح پا گیا

راقم کہتا ہے قرآن سے دلیل پیش کی جائے  کہ قرآن  مخلوق ہے  و أمر صعب

امام أبي موسى الأشعري (المتوفى: 324هـ) کتاب الإبانة عن أصول الديانة میں کہتے ہیں

ومن قال: إن القرآن غير مخلوق، وإن من قال بخلقه كافر من العلماء، وحملة الآثار، ونقلة الأخبار، وهم لا يحصون كثرة، ومنهم: حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد
بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون، وغيرهم

اور وہ جنہوں نےکہا قرآن غیر مخلوق ہے اور اس کومخلوق  کہنے والا کافر ہے ان میں علماء ہیں جو آثار بیان کرتے ہیں اور خبریں اور ان علماء کی تعداد بے شمار ہے اور ان میں ہیں حماد، والثوري وعبد العزيز بن أبي سلمة، ومالك بن أنس رضي الله عنه، والشافعي رضي الله عنه وأصحابه، وأبو حنيفة، وأحمد بن حنبل، ومالك رضي الله عنهم، والليث بن سعد رضي الله عنه، وسفيان بن عيينة، وهشام، وعيسى بن يونس، وجعفر ابن غياث، وسعيد بن عامر، وعبد الرحمن بن مهدي، وأبو بكر بن عياش، ووكيع، وأبو عاصم النبيل، ويعلى بن عبيد، ومحمد بن يوسف، وبشر ابن الفضل، وعبد الله بن داود، وسلام بن أبي مطيع، وابن المبارك، وعلي بن عاصم، وأحمد بن يونس، وأبو نعيم، وقبيصة بن عقبة، وسليمان بن داود، وأبو عبيد القاسم بن سلام، ويزيد بن هارون اور دیگر

نہ صرف یہ کہ  امام   بخاری   کا مذھب  قرآن کو غیر  مخلوق  کہنے  کا ہے  بلکہ یہی  مذھب امام ابو حنیفہ  اور امام مالک کا بھی ہے

حنفی فقہ کی کتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق جس کا حوالہ ڈاکٹر عثمانی نے بھی دیا ہے جس کے مؤلف: زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) وہ لکھتے ہیں

الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ تَعَالَى غَيْرُ مَخْلُوقٍ وَلَا مُحْدَثٍ     قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے نہ بنایا گیا ہے

جوابا  جھمی  نے کہا

جھمی جلد ( ننگے  جمہی )    نے   یہ  اگلا  کہ  امام   بخاری  کا عقیدہ غلط  بتایا  جا رہا ہے  انہوں  نے قرآن کو نشانی  کہا ہے

جبکہ اس  جھمی جاہل کو  یہ تک معلوم نہیں کہ قرآن  کا ایک ایک جملہ  اللہ تعالی نے خود  آیت  یعنی نشانی  کہا ہے اور اس کو کلام  اللہ بھی کہا ہے اور اس کو  عربی میں  اپنا کلام  بھی کہا ہے

یقینا قرآن  ایک   معجزہ  ہے اور  اللہ کی نشانی  ہے اس کا کلام ہے –  لیکن قرآن   مخلوق ہے؟   ایسا اللہ تعالی یا اس کے رسول نے   کہیں نہیں  کہا    یہی وجہ ہے  کہ جمہی اور  معتزلی  عقائد  دنیا سے معدوم  ہوئے  کیونکہ   ان کے پاس قرآن سے کوئی دلیل نہیں   تھی  جس سے ثابت  کر سکیں  کہ    آسمان سے نازل  ہونے  والا اللہ کا کلام  مخلوق ہے

قرآن کی تو یہ صفت  ہے کہ اگر  پہاڑ  پر نازل  ہو  جاتا تو  وہ اللہ کے خوف  سے  لرز جاتا – کیا  کسی  مخلوق کا ایسا اثر  ہے پہاڑ   پر ؟  ہرگز  نہیں  یہ اللہ  تعالی کے کلام کی ہی صفت  ہے    کسی  مخلوق کی یہ صفت  نہیں

جمہی نے  کہا

سورہ الاسراء میں ارشاد  باری ہے

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْـــَٔلْ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اِذْ جَاۤءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا

اس میں کہاں  لکھا  ہے کہ یہ نشانیاں موسی  کا کمال  تھا ؟  جو بات ہی اللہ کے حکم سے ہو رہی ہو  اس کو مخلوق  کا عمل  کیسے کہا جا سکتا ہے ؟ کیا موسی علیہ السلام کے علم میں تھا کہ وہ جب چاہے نشانی لا سکتے ہیں ؟ ایسا تو خود موسی کے علم میں نہیں   جو یہ جھمی کا دعوی ہے

معجزہ  وہ نشانی  ہے جو کافر کو دکھائی  جاتی ہے  جس طرح آفاق و انفس کو بھی نشانی کہا جاتا ہے  اسی طرح یہ بھی ایک اللہ کے وجود کی نشانی ہے – بعض  جاہل جہمیوں  نے  عطائی  عقیدہ اختیار  کر لیا ہے  کہ اللہ نے اپنی  معجزہ  کرنے کی صفت یعنی  القادر میں سے کچھ حصہ  انبیاء کو دے دیا ہے – لفظ   نشانی سے جھمی  نے  یہ اخذ  کر لیا ہے کہ  انبیاء کا عمل ہے ان کا ذاتی کرشمہ ہے جو صریح جھل و افتری ہے

جاہل  جھمی  نے  نہ صرف دیدہ  دلیری سے  امام  بخاری کو  ہم عقیدہ قرار دیا اورتو اور ڈاکٹر عثمانی  پر بھی  جھوٹا الزام  لگا دیا کہ ان کا عقیدہ صحیح احادیث پر منبی نہیں تھا  – جھمی  نے کہا

در حالنکہ   ڈاکٹر  عثمانی  نے  لکھا

ڈاکٹر صاحب  نے نہ صرف  اخبار  احاد  یعنی صحیح  روایات سے دلیل لی بلکہ اس سے  برزخی جسم  کے عقیدے  کا  پرچار  بھی کیا اور اس پر صحیح مسلم کی حدیث بھی پیش کی –  قابل غور ہے کہ  جھمی نے برزخی جسم کے عقیدے  پر کافی تکرار کی تھی اور اس کوعقیدہ  ماننے سے انکار  کر دیا تھا

عقیدہ وہی ہے جس کا انسان  پرچار کرتا ہے -افسوس اس شخص نے  گمراہی  پھیلائی اور  عثمانی صاحب کو حدیث رسول کا مخالف بنا پر پیش کیا – کتنی ہی صحیح احادیث ہیں جو  سنن سعید بن منصور میں ہیں ، مسند ابو یعلی  میں ہیں لیکن اس  جھمی کے بقول  عثمانی صاحب نے ان صحیح احادیث پر اپنا عقیدہ استوار نہ کیا تھا – یہ کذب صریح ہے اور آنکھوں میں دھول جھوکنے  کے مترادف  ہے

عثمانی صاحب اگر صحیح احادیث پر عقیدہ نہیں رکھتے تھے وہ یہ نہ کہتے

کیا  خبر واحد  کا انکار کرنے والا  کافر ہے  ؟   صحیح احادیث جو  ڈاکٹر عثمانی نے اپنی کتاب میں پیش کی ہیں وہ  اخبار  احاد ہیں   – اگر ان کا انکار جائز ہے تو ان کا انکار  کرنے والے   لوگ  کافر کیسے  ہوئے ؟

اس سے قبل جھمی  نے اپنے  متعدد عقائد  کا اظہار کیا  مزید  دیکھئے

قدمونی قدمونی پر ایک نظر

ایک معتزلی کی تقریر پر تبصرہ ‏

قرن دوم میں   انکار حدیث سے منسلک ایک فرقہ معتزلہ  تھا   اس کے بعض سرخیل کو عباسی خلافت  میں قرب خلیفہ ملا اور انہوں نے ایک کلامی  مسئلہ  گھڑا – اس مسئلہ   کے مطابق  قرآن  ، کلام اللہ نہیں بلکہ   اللہ تعالی کی  مخلوق کی مد میں سے ہے

اس فرقہ کے خلاف اہل سنت کے علماء کھڑے ہوئے اور انہوں نے اس عقیدے کا صریح رد کیا – ان کا رد کرنے والوں میں امام بخاری پیش پیش تھے اور امام بخاری نے ضروری سمجھا کہ اس پر باقاعدہ ایک کتاب تالیف کریں جس کا نام انہوں نے رکھا

خلق الافعال العباد

بندوں کے عمل کی تخلیق

امام بخاری کے نزدیک  قرآن   یہ الوحی ہے اور الوحی مخلوق نہیں  البتہ  قرآن کی قرات  مخلوق ہے

امام  بخاری  نے  اس کتاب میں  بار بار  اس قول کی  تکرار کی ہے کہ قرآن  مخلوق نہیں ہے – کتاب  کا آغاز ہی  اس جملے سے کیا

باب : اہل  علم  نے  معطلہ کے  حوالے سے  کیا ذکر کیا  جو  کلام  اللہ کو  بدلنا چاھتے ہیں

سفیان  نے  کہا  میں  اپنے شیوخ سے ملا جن میں  عمرو بن دینار بھی ہیں سب  کہتے  ہیں قرآن کلام اللہ ہے اور مخلوق نہیں ہے

امام بخاری  نے امام  ابن مبارک  کا قول  نقل کیا

ابن مبارک  نے  کہا  جو یہ کہے کہ   قرآن کی آیت  اننی  آنا اللہ لا الہ الا انا مخلوق ہے تو وہ کافر  ہے اور  مخلوق  کے لئے جائز نہیں کہ ایسا کہے

صحیح بخاری میں حدیث ہے

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ  پیروی کرنے والے میرے ہوں گے

بعض جاہلوں نے اس روایت سے اخذ کیا ہے کہ معجزہ مخلوق ہے جبکہ اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ بھی نہیں ہے – قرآن اپنی بلاغت کی بنا پر معجزہ ہے- اس کی سی سورت آج تک کوئی نہیں بنا سکا – اس کو حفظ کیا جا سکتا ہے – دنیا کی دوسری کتب کے لئے یہ ممکن نہیں ہے – یہ سب نشانیاں ہیں کہ قرآن من جانب اللہ ہے – اور اللہ اس الوحی کے ذریعہ  سے نازل کیے جانے والے قرآن  کی حفاظت کر رہا ہے

قابل غور ہے کہ الوحی تو تمام انبیاء و رسل  پر کی گئی ہے – بغیر الوحی کے کوئی بھی نبی و رسول کہلا ہی نہیں سکتا – یہاں بتایا گیا ہے  پچھلے  انبیاء کی نشانیاں ان کے دور تک ہی تھیں لیکن   ہمارے رسول پر  الوحی   کی جانے والی کتاب  قیامت تک رہے گی اور موجب ہدایت رہے گی – اس طرح یہ ایک عظیم نشانی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی تھے

اس حدیث سے کند ذہن  لوگوں نے اخذ  کیا ہے کہ  اس حدیث  میں قرآن کو مخلوق کہا گیا ہے – حاشا للہ – ایسا ہرگز نہیں ہے – قرآن  الوحی ہوا تمام امت کو ملا  اور ہم اس کی تلاوت کرتے ہیں تو اس طرح یہ کتاب یا روشن آیات ہمارے  گھروں میں بھی پڑھی جاتی ہیں یعنی اللہ کی یہ نشانی  گھر گھر آ گئی ہے کہ وہ حق و باطل کو جان سکتے ہیں

 

پس منظر

قصہ مختصر چند سال قبل محمد حنیف نے ایک تحریر شائع کی جس میں اس نے دعوی کیا کہ اللہ تعالی نے  اپنی صفت

عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کر دی ملاحظہ ہو اس پر حنیف کی اہل حق کی جانب سے پکڑ کی گئی کہ  یہ سب شرک کے دفاع کی باتیں ہیں  –  اللہ کی صفات میں کوئی شریک نہیں-اس پر محمد حنیف اور اس کے بعض  حواریوں نے اس صفت باری تعالی کی یہ تاویل کرنا شروع کر دی کہ صفات باری کو ہی مخلوق قرار دینا شروع کر دیا اور بعض نے صفت  کے لفظ  کو لغوی صفت کہنا شروع کر دیا کہ یہ محض عیسیٰ کی  صفت  ہے – جبکہ جس طرح اس قوت الاحیاء الموتی پر تبصرہ کیا گیا ہے اس کو اللہ کا خاص  فیصلہ بنا پر پیش کیا ہے کہ اللہ جو چاہے رہے اور یہاں تک کہ اپنی صفت کسی کو دے دے تو اس پر اللہ سے سوال نہیں کیا جا سکتا ، اس سے ظاہر ہے حنیف اینڈ کمپنی کا مدعا تھا کہ اللہ تعالی کی صفت الحی انہوں نے عیسیٰ کو دے دی تھی –  یاد رہے  کہ اسی قسم کا عقیدہ بریلویوں کا ہے کہ اللہ تعالی نے علم غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا ہے  اور اگر وہ بھی اس کو اللہ کی مرضی قرار دے کر بات ختم کرتے ہیں

اللہ تعالی بلا شبہ جو چاہے کرے لیکن اس نے سورہ کہف میں  کہا ہے

ولا يشرك في حكمه أحدا

وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا

اور یہ بھی بتایا کہ عیسیٰ کا مردوں کا زندہ کرنا اصل میں اللہ کا حکم ہے

وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ

اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

یعنی معجزہ اصل میں اللہ کے حکم سے ہے  اور یہ انبیاء کی قوت نہیں کہ کچھ بھی کر سکیں

اس پر محمد حنیف کے جدید  کٹر حواری سعید احمد نے یہ  عقیدہ لیا کہ کہ قرن دوم کے فرقے معتزلہ کا عقیدہ  صحیح تھا اور تمام معجزات انبیاء کو بھی انبیاء کا عمل کہنا شروع کر دیا گویا کہ اللہ تعالی نے ان کو یہ اخیتار تفویض کر دیا ہو-  اس طرح رافضی مفوضہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے اماموں کے پاس زمین کا کنٹرول ہے اسی طرح کا عقیدہ بنایا گیا  کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوت سے  مردوں کو زندگی بخشی

سعید معتزلی کے چیلے آصف خان الجہمی جدید  نے موقف اپنایا کہ کہ  حنیف  نے توبہ کی  ہے

جبکہ حنیف مردار ہو  چکا ہے اور اس کی کوئی توبہ معلوم نہیں ہے – جہمی اصف کے گھر کی گواہی اس میں شامل ہے کہ توبہ کا کوئی  لفظ معلوم نہیں ہے – حنیف نے اپنے الفاظ کی تاویل کر کے اپنے شرک کو چھپایا ہے اور اسی پر مومنوں  کو اعتراض ہے شرک کی تاویل نہیں کی جا سکتی –

جھمی  اصف  نے   اپنی دلیل میں امام بخاری  کا   ذکر کیا

اسی قسم کا سوال جب  ڈاکٹر عثمانی سے ہوا تھا کہ انہوں نے تمام ان محدثین پر فتوی کیوں نہیں لگایا جنہوں نے عود روح کی روایت لکھی  ہے تو ان  کا جوابا کہنا تھا

کیا امام بخاری نے کہیں  لکھا ہے  کہ ان کا عقیدہ  اس ادب مفرد  کی  روایت پر ہے ؟ ہرگز نہیں

اس حوالے سے ایک  معتزلی  جدید سعید احمد کی تقریر پر راقم کی رائے پوچھی گئی  جس میں اس شخص نے اہل سنت سے الگ  اپنے معتزلی  عقائد کا برملا اظہار کیا اور ان پر شدت اختیار کی

سعید   احمد     کی    معتزلی  تقریر پر تبصرہ

سعید نے کہا
2:40
الله اپنی صفت دیتا ہے تو اللہ صوفی میں حلول کرتا ہے

١٦:٢٨
اللہ اپنی صفت کسی کو نہیں دیتا – دینے کا طلب ہے کہ اس نے اپنا وجود دے دیا

تبصرہ
یہ کسی بھی تصوف کی کتاب میں نہیں ہے – صوفیا کے نزدیک تو اللہ مخلوق میں موجود ہے جس کو وحدت الوجود کہتے ہیں
اور اس میں تمام مخلوق شامل ہے – سعید لوگوں کی ذہن سازی کر رہا ہے کہ اگر ہم عقیدہ رکھیں کہ اللہ صفت مخلوق (عیسیٰ ) کو دیتا ہے تو اس قول کو قبول کرنے سے ہم مشرک نہ ہوں گے کیونکہ صوفیا کا مذھب ہمارے مذھب سے الگ ہے

سعید نے کہا

12:30
اللہ کی صفت کا مقابلہ مخلوق سے نہیں کیا جا سکتا
١٦:٠٠
اللہ کا سمیع و بصیر ہونا

تبصرہ

یہ ڈوج دے رہا ہے کیونکہ اللہ ایک انسان کی طرح سمیع و بصیر نہیں ہے
اللہ نے اپنے اپ کو
السمیع و البصیر
کہا ہے

اللہ نے اپنے اپ کو العلی بھی کہا ہے
اور علی ایک صحابی کا نام بھی ہے

لیکن ال عربی میں جب اتا ہے تو وہ اس کو باقی اسماء سے الگ کر دیتا ہے

اس  کا مقصد یہ  کہنے   کا یہ ہے کہ  اس موقف ہے کہ اللہ الحیی  نے اپنی  مردہ کرنے کی  ایک  صفت   کو مخلوق کی  شکل میں عیسیٰ کو دے دیا –  اس طرح اس کے نزدیک   سورہ المائدہ کی  آیت کی تاویل  ہو جاتی ہے کہ

وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِىْ

اور جب تم نے مردوں  کو  نکالا   میرے   اذن   سے

سعید نے کہا

١٧:٠٠
حنیف نے لکھا کہ اللہ تعالی نے عیسیٰ کو صفت دی تو حنیف کو اس میں مغالطہ ہوا وہ معجزے کو اللہ کی صفت سمجھا
معجزے اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ اللہ خلق کرتا ہے

تبصرہ

معجزہ غیر اللہ کی صفت ممکن نہیں ہے

وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ
اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

یعنی معجزہ صرف اللہ کے حکم سے ہی ممکن ہے
جو چیز صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں وہی اللہ کی صفت کہی جاتی ہے
اگر معجزہ اللہ کے حکم سے نہیں تو اس کا مطلب ہے معجزہ اللہ نے نہیں بلکہ انبیاء نے کیا اور انبیاء سے کہیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ سب کمالات ان کی کاوش سے ہوئے ہیں

سعید نے کہا

١٩:٠٠
معجزہ اللہ کی صفت نہیں ہے
معجزہ کو اللہ کی صفت کہنا شرک ہے
معجزہ اللہ کی خلق ہیں

تبصرہ

معجزہ کا لفظ قرآن و حدیث میں نہیں ہے معجزہ کی تعریف ہے
اللہ کا ایسا فعل جو قانون قدرت سے الگ ہو اتنا بڑا ہو کہ انسانی عقل کو معلوم ہو کہ انسان کے بس میں نہیں ہے
اس کو معجزہ کہتے ہیں

سانپ کو لکڑی میں واپس بدلنا موسی کا عمل ہے یا یہ اللہ کا حکم ہے ؟ ظاہر ہے یہ اللہ کے حکم سے ہے
جب یہ عظیم بات حکم اللہ کی وجہ سے ہو تو اس کام کو مخلوق کا عمل نہ کہا جائے گا
اس کو اللہ تعالی کی نشانی کہا جائے گا

سعید نے کہا

١٩:٢٥
اللہ نے موسی کو نو نشانی عطا کیں

٢٩:٢٥
معجزہ اللہ کا فعل ہے اور فعل کیا ہے
اللہ کا امر

کن فیکون ہے

تبصرہ
سورہ الاسرا میں ہے

وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ ءَايَٰتٍ بَيِّنَٰتٍۢ
ہم نے موسی کو نو نشانیاں دیں

عطا کا لفظ عربی کا ہے لیکن قرآن میں آیت اللہ دینے پر یہ نہیں آیا – عطا کا ترجمہ کر سکتے ہیں
ایسا دینا کہ اس پر مکمل کنٹرول اس شخص کا ہو جائے جس کو عطا ہوا
لیکن یہاں لفظ ءَاتَيْنَا ہے جس کو مطلب دینا ہے  لیکن یہ عطا کے مفہوم پر نہیں ہے- یہ
dedicate
کے مفہوم پر ہے

یعنی یہ نو نشان ال فرعون کے لئے ہیں ان کو دیکھائی  جائیں گی –   موسی کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
اور یہ بات ال فرعون کو بھی معلوم تھی وہ کہتے موسی اپنے رب سے دعا کر
یعنی قرآن میں واضح کیا گیا کہ موسی کا ان آیت پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
جو بھی تھا وہ اللہ کے حکم سے ہو رہا تھا
لہذا ان نو نشان کی اابتداء اللہ کے امر یعنی حکم سے ہوتا ہے

اگر معجزہ اللہ کا امر ہے کن فیکون ہے تو یہ اللہ کا حکم ہے جو غیر مخلوق ہے

یہ تو بنیادی بحث ہے جو کام صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں کوئی حکم صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں  تو وہ غیر اللہ کی صفت نہیں ہے

بحث اس پر ہوئی چاہے کہ کس طرح ہوا ؟ تو ظاہر ہے معجزہ الله کے امر و حکم سے ہوا

اس کے نتیجے میں اگر کچھ نیا خلق ہوا تو وہ مخلوق ہے
مثلا موسی کا عصا سانپ بن گیا تو سانپ مخلوق ہے

لیکن سانپ معجزہ نہیں ہے – لاٹھی کا سانپ میں کے وجود میں بدلنا معجزہ ہے

یہی اللہ کی نشانی ہے کہ اس نے حکم دیا اور لکڑی ایک زندہ شی میں بدل گئی
اینڈ پروڈکٹ سانپ ہے لیکن ہم اینڈ پروڈکٹ کو نہیں دیکھ رہے ہم تو اس کمال کو معجزہ کہتے ہیں یا
process
کو معجزہ کہتے ہیں

اگر کوئی جاہل
process
کی بجائے
اینڈ پروڈکٹ
یعنی سانپ کو معجزہ کہے
تو اس سے سوال کیا جائے کہ سانپ تو انسان پالتے ہیں ہندو ان کو دودھ پلاتے ہیں
یہ ال فرعون کے پاس بھی ہوں گے
تو سانپ کو معجزہ کس نے کہا ہے
کوئی متکلم و محقق نہیں گزرا جس نے اینڈ میں ببنے والی مخلوق کو معجزہ کہا ہو

بعض اوقات معجزہ ہوا اور کوئی نئے چیز نہیں بنتی مثلا انسان مرا – عیسیٰ نے اللہ کے حکم سے زندہ کر دیا
اب اس کو عیسیٰ کا معجزہ اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ ان کی قوم کو اللہ کا یہ کمال و معجزہ و آیت دکھائی گئی
نہ کہ عیسیٰ کو قوت الاحیا الموتی مل گئی – اسی طرح اللہ نے چاند کو توڑا  اور پھر جوڑا   – اس میں کوئی  نیا نہیں بنا –  لیکن یہ جو سب ہوا یہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہیں ہوا  بلکہ انہوں نے  بس اس بات کی پیشگی خبر  قریش  کو کی –

جو بھی شخص معجزہ کو  محض   مخلوق  کے تحت لے گا وہ گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی کرے گا

قرآن میں لفظ آیت بولا گیا ہے – متکلمین نے انسانوں کو سمجھانے معجزہ کا لفظ استعمال کیا ہے
یعنی عقل کو عجز یا کمزور کرنے والا اللہ کا فعل و حکم
اس میں اللہ خلق و حکم دونوں کرتا ہے

اللہ کے رسول صرف اس کی خبر کرتے ہیں کہ فلاں پہاڑ سے اوٹنی نکلے گی
یعنی چٹان ، گوشت و خون میں بدلے گی
اس میں پہاڑ کو حکم کیا جا رہا ہے گوشت میں بدلے
نتیجتا اینڈ پروڈکٹ اوٹنی نکلتی ہے

تبدیلی کا عمل ہے جو پہاڑ نے کیا
انسانی عقل عاجز ہو گی
اس    کو ہم معجزہ کہہ رہے ہیں

قرآن اس کو آیت اللہ کہتا ہے
بس اتنا ہمارے لئے کافی ہے

سعید نے کہا
٢٩:٣٠
پورے قرآن میں معجزے کو کہیں نہیں لکھا کہ یہ اللہ کی صفت ہے

تبصرہ
صفت کا لفظ غیر قرانی غیر قریشی ہے
امام ابن حزم کے مطابق اس کا استعمال بھی حرام ہے

ہم کو اسماء اللہ کا بتایا گیا ہے اور جو کام صرف اللہ کرتا ہو وہی اس کا اسم ہے
قرآن میں ہے
قل إنما الآيات عند الله
سورہ الانعام
کہو آیات اللہ (معجزات)، اللہ کی طرف سے ہیں

جن باتوں کو نسبت صرف اللہ کی طرف ہو وہ اس کا اسم ہیں
اور یہ اللہ کے نام
القادر کے تحت ہے
کہ وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے

نبی یا مخلوق جو چاہتی نہیں کر سکتی ٠ ان کو حکم رب کا انتظار کرنا پڑتا ہے

لہذا یہ بے تکی تان کرنا کہ قرآن میں معجزہ کو صفت نہیں کھا گیا معنی چست؟ قرآن میں نہ تو صفت کا لفظ ہے
نہ معجزے کا لہذا ان دونوں کو ہٹا کر اگر سمجھیں تو یہ سب اسما الحسنی نے تحت سمجھنا ہو گا کہ اصل میں اللہ القادر ہے
وہ نبی کی قوم کو اپنی نشانی دکھاتا ہے
ایک چیز کو دوسری سے بدل کر
یا مردہ کو زندہ کر کے
وغیرہ

سعید نے کہا
٣٤:٠٠
پورے قرآن میں اللہ کے اذن کی definition
نہیں ہے
تو ہم کیسے اس پر بحث کریں گے ؟

تبصرہ
تو سعید کیوں معجزے پر بحث کر رہا ہے
جو ہے ہی اللہ کے اذن کے تحت ؟

سعید نے کہا
٣٩:٠٠

اللہ نے قرآن کو عربی زبان میں بنایا ہے
یعنی اللہ نے عربی میں قرآن تخلیق کیا ہے

اللہ نے اپنے کلام کو عربی میں کنورٹ کر کے نازل کیا

تبصرہ
بلا شبہ زبان مخلوق ہے
لیکن جب اللہ اس زبان میں کلام کرے تو وہ کلام، کلام اللہ ہے
اور مخلوق نہیں ہے

سعید کے مطابق قرآن مخلوق کی مد میں ہے
اب یہ ایک عظیم مسئلہ ہے امام بخاری نے اس پر مکمل کتاب لکھی
خلق افعال العباد
کہ قرآن کلام الله ہے غیر مخلوق ہے
اس کی تلاوت جو انسان یا نبی یا فرشتہ کرتا ہے وہ مخلوق ہے

جو تمام زبانوں کو جانتا ہے یعنی اللہ ، اس کو
convert
کرنے کی خبر سعید کو کس نے دی
یعنی اللہ نے کسی ایسی زبان میں کلام کیا جو صرف اس کو معلوم تھی پھر اس نے اس کو عربی میں
convert
کیا
یہ سب علم غیب کی بات ہے یہ قرآن و حدیث میں نہیں

میری سمجھ سے باہر ہے کہ علم غیب پر نکتہ سنجی سے کیا فائدہ ہے

سعید نے کہا

40:٠٠
اللہ نے اپنا کلام لوح محفوظ میں اتارا ہے
ہم تک جو کلام اللہ پہنچا وہ مخلوق ہے

اللہ اعبرانی نہیں بولتا

ہر نبی اپنی زبان بولتا تھا لیکن اللہ کوئی اور زبان میں کلام کرتا ہے
پھر ان کو
convert
کر کے
بیان کرتا ہے

تبصرہ

یہ بات تو ظاہر ہے کہ زبانیں الگ الگ ہیں لیکن کیا اللہ عربی میں کلام نہیں کرتا ؟ اس کی خبر سعید کو کس نے دی
یہ ضرورت سے زائد کلام ہے جس پر ہم بات نہیں کرتے کیونکہ یہ علم ہماری بساط سے باہر ہے

اللہ ہر زبان میں کلام کر سکتا ہے
اس جاہل کو کس نے خبر دی کہ لوح میں کسی ایسی زبان میں لکھا ہے جس کو کوئی نہیں جانتا ہے؟

لوح محفوظ میں جو کلام اللہ ہے وہ سعید کے نزدیک غیر مخلوق ہوا

سعید کے فلسفے کا یہ جھول ہے کہ لوح جو مخلوق ہے اس میں درج قرآن اس کے نزدیک غیر مخلوق ہے اور جو زمینی کاغذ میں لکھا ہے وہ کلام اللہ نہیں بلکہ کونورٹڈ  یا ترجمہ شدہ ہے

قرآن سورہ ال عمران آیت ٤٩  میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ مریم علیہ السلام  کو فرشتوں نے بتایا

وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا ، ( وہ لوگوں سے کہے گا ) میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لایا ہوں میں تمہارے سامنے مٹی سے ایک پر ندے کی شکل بناتا ہوں ، پھر اس میں پھونک مارتاہوں تووہ اللہ کے حکم سے واقعی پر ندہ بن جاتا ہے نیزمیں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور کو ڑھی کو ٹھیک کرتا ہوں اور مرُدوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو سب تمہیں بتلا دیتاہوں اگر تم ایمان لانے والے ہو تو تمہارے لئے ان باتوں میں نشانی ہے

اس آیت سے بعض لوگوں نو دلیل لی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قوت مل گئی تھی وہ یہ تمام کام خود ہی کر لیتے ہیں – ان لوگوں نے نزدیک نشانی لانے یا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی بعض صفات میں انبیاء کو اختیار دے دیا تھا کہ قوت الاحیاء الموتی کے حامل تھے – اس کو سن کر  خیال  اتا ہے کہ بر صغیر کے بریلوی فرقے کی کسی کتاب نے ان لوگوں نے یہ سب اخذ کیا ہے – راقم کو معلوم ہے کہ اپنی سابقہ زندگی میں یہ لوگ اسی فرقے سے تھے اور وہاں سے ہی اس قسم کے عقائد دین میں داخل کر رہے ہیں –  بریلوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو زندہ کر دیتے تھے  ان کو اس کا اختیار مل گیا تھا – یہ اختیار و عطائی  علم غیب کی سوچ البتہ   سعید   المعتزلی  سے منسلک  لوگوں میں در کر آئی ہے  کی یاد اتی ہے – بس فرق اتنا ہے کہ اپنی لفاظی سے یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ  یہ علم غیب کی عطا یر مردوں کو زندہ کرنے کی قوت اللہ تعالی نے عیسیٰ علیہ السلام کو دان کر دی تھی

اس طرح اپنے گھڑے باطل عقائد پر قرانی آیت پیش کرتے ہیں کہ عیسیٰ تو واقعی اس قدرت و اختیار کے مالک تھے جبکہ قرآن میں اس آیت کی تشریح سورہ المائدہ  ١١٠ کے مقام پر  اس طرح کی

اِذْ قَالَ اللّـٰهُ يَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَـمَ اذْكُرْ نِعْمَتِىْ عَلَيْكَ وَعَلٰى وَالِـدَتِكَۘ اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِۖ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِى الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْاِنْجِيْلَ ۖ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْـرِ بِاِذْنِىْ فَـتَنْفُخُ فِيْـهَا فَتَكُـوْنُ طَيْـرًا بِاِذْنِىْ ۖ وَتُبْـرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْـرَصَ بِاِذْنِىْ ۖ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِىْ ۖ وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَـهُـمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْـهُـمْ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ 

جب اللہ کہے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! میرا احسان یاد کر جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہوا ہے، جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی، تو لوگوں سے بات کرتا تھا گود میں اور ادھیڑ عمر میں، اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائی، اور جب تو مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے بناتا تھا پھر تو اس میں پھونک مارتا تھا تب وہ میرے حکم سے اڑنے والا ہو جاتا تھا، اور مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، اور جب مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا جب تو ان کے پاس نشانیاں لے کر آیا پھر جو ان میں کافر تھے وہ کہنے لگے کہ یہ تو بس صریح جادو ہے

آیت کے قرآن میں کئی مطلب ہیں

یہ علامت کے لئے بھی اتا ہے

قوله تعالى: {وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ} البقرة: 248.

ان کے نبی نے کہا کہ اس کی مملکت کی علامت یہ ہے کہ اس میں تابوت تم کو واپس ملے گا جس میں تمھارے رب کی طرف سے  سکون ہے

یہ عبرت کے لئے بھی استعمال ہوا ہے
والآية كذلك العبرة، كما قال تعالى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (7)} يوسف: 7، أي أمور وعبر مختلفة.

یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں سائل کے لئے نشان (عبرت) ہے

یہ معجزہ کے لئے بھی ہے
وتطلق الآية على المعجزة، قال تعالى: {وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (50)} المؤمنون: 50.

اور ہم نے ابن مریم اور اس کے بیٹے کو نشانی بنا دیا

یعنی مریم بن شوہر کے ماں بن گئیں اور عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہو گئے   – یہ اہل کتاب مومنوں کے لئے حیرت کی وجہ تھی کہ یہ نہ ممکن تھا لیکن ہوا

یہ زمینی عجائب کے لئے بھی ہے

وآيات الله أي: عجائبه: وهي الآيات الكونية والدلائل، المقصودة في قوله تعالى: {وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (4)} الجاثية: 4، وقوله سبحانه: {سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ} فصلت: 53.

اور عربی میں یہ  جماعت کے لئے بھی استعمال ہوتا  ہے  ويراد بها الجماعة: يقال: خرج القوم بآيتهم أي: بجماعاتهم

آیت مطلب نشان ، علامات ، عجائب  ہیں – متاخرین نے اس کا ایک نام معجزہ بھی کر دیا ہے اور اردو میں یہ اکثر استعمال ہوتا ہے

اب سوال یہ ہے کہ نشانی قوت النبی ہے یا اللہ کے حکم سے ہے ؟ تو قرآن میں اس کا واضح جواب ہے کہ انبیاء میں کسی کو یہ اختیار نہ تھا کہ نشانی لا سکتا اور عیسیٰ سے بھی یہ کہا گیا کہ یہ باذن اللہ یعنی اللہ کے حکم ہو رہا ہے – سورہ المائدہ کی آیت  سے یہ بالکل واضح ہے کہ مردے کو زندہ کرنا  عیسیٰ کا خود کا  ذاتی عمل نہ تھا کہ اس کو قوت عیسیٰ کہا جا سکے

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کفار پر مٹی پھینکی اور وہ بھکر گیا بھاگ گیا – اللہ تعالی نے تبصرہ میں فرمایا

وما رميت اذ رميت ولكن الله رمى

وہ مٹی تم نے نہیں پھینکی ، جب پھینکی تھی بلکہ وہ اللہ نے پھینکی تھی

رسول اللہ صلی اللہ کا یہ معجزہ تھا کہ مسلمانوں نے دیکھا کہ انہوں نے مٹی پھینکی  اور کافر بھاگ گئے لیکن اللہ نے اس عمل کو اپنی طرف منسوب کیا – اس طرح ہم کو تعلیم دی گئی کہ معجزات انبیاء اصل میں سب اللہ کے حکم سے ہو رہے ہیں بظاہر تو لگ رہا ہے موسی نے عصا مارا  لیکن اصل میں موسی کا اس میں کوئی کمال نہیں  اللہ کی جانب سے سمندر کو حکم ملا اور وہ پھٹ گیا

اس طرح ہم انبیاء کو ملنے والی آیات کی شرح کرتے ہیں

ولقد آتینا موسی تسع آیات بینات۔ سورۃ بنی اسرائیل ایۃ 101.  ۔ اور یقینا ہم نے موسیٰ کو نو واضح نشانیاں دیں

اس آیت سے بعض فاتر العقل لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ موسی علیہ السلام کو ان نو نشانوں کو کرنے کی قوت مل گئی تھی – وہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکتے تھے ، طوفان لا سکتے تھے – ہاتھ چمکا سکتے تھے – سمندر پھاڑ سکتے تھے

جبکہ اللہ تعالی نے ان نو نشانیوں کو قرآن میں قوت موسی کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کو  کرشمہ الہی کے طور کر پیان کیا ہے

اس فاتر العقل شخص نے کہا

موسیٰ علیہ السلام کا عصا معجزاتی تھا اور یہ مخلوق ہے اسکا سانپ بن جانا اژدھا بن جانا معجزہ ہے اور مخلوق ہے۔

راقم کہتا ہے موسی کا عصا ، سانپ یقینا مخلوق ہیں لیکن یہ قوت نہ تو عصا میں ہے نہ موسی میں کہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکیں

اس فاتر العقل شخص نے مزید کہا

معجزہ مخلوق پر ظاھرو رونما ہوتا ہے۔ یاد رکھیں اللہ کی الوہی صفات مخلوقات پر ظاھر و رونما نہیں ہوتیں

راقم اس پر کہتا ہے کہ معجزہ  یقینا اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور مخلوق پر ظاہر بھی ہوتا ہے – اللہ الخالق ہے جو چاہے خلق کرے اور یہ صفت تمام مخلوق دیکھ سکتی ہے  – ہر وقت اس زمین میں کچھ  خلق ہو رہا ہے – اللہ کی صفت الخالق ہونا ہے اور یہ صفت خلاقیت مخلوق  پر عیاں ہے

پھر فرشتے اللہ تعالی سے کلام کرتے ہیں ، اس کا حکم سنتے ہیں –   اللہ تو السمیع و البصیر ہے اور فرشتے باوجود مخلوق ہونے کے اس صفت کو جانتے ہیں –  لہذا یہ جملہ کہ اللہ تعالی کی صفات مخلوق نہیں ظاہر ہوتیں سمجھ سے باہر ہے – یاد رہے کہ عیسیٰ بھی اللہ کا معجزہ ہیں مخلوق نے ان کو دیکھا سنا اور ان سے تعلیم حاصل کی

معجزہ  قوت انبیاء نہیں اور نہ اس کو اس پر قدرت و اختیار حاصل تھا – اصل قدرت و اختیار اللہ تعالی کے پاس ہے

مزید  وضاحت  اس  مضمون میں ہے

نشانی کی حقیقت

ساحل عدیم کی پورٹل تھیوری

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس کتاب میں آیات ہیں جو متشابھات ہیں اور اہل علم ان پر ایمان رکھتے ہیں ان کی صحیح تاویل کا علم صرف اللہ کو ہے

سورہ الطلاق کی آخری آیات

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} قَالَ: لَوْ حَدَّثْتُكُمْ بِتَفْسِيرِهَا لَكَفَرْتُمْ وَكُفْرُكُمْ تَكْذِيبُكُمْ بِهَا
ابن عباس رضی الله عنہ نے اللہ تعالی کے قول پر کہا سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ سات آسمان اور سات زمین ان کی جیسی پر کہا اگر اس کی تفسیر کروں تو تم کفر کرو گے

اس کی سند میں إبراهيم بن مهاجر البجلي الكوفي ہے جس پر امام القطان و امام نسائی کا کہنا ہے
عن طارق بن شهاب ونحوه قال القطان لم يكن بالقوي وكذا قال النسائي
یہ قوی نہیں

حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: ثنا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ الْقُمِّيُّ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ [ص:79] {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} الْآيَةُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا يُؤَمِّنُكَ أَنْ أُخْبِرَكَ بِهَا فَتَكْفُرَ

سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ابن عباس سے ایک شخص نے کہا کہ اللہ کے قول
سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ سات آسمان اور سات زمین ان کی جیسی
کا کیا مطلب ہے

پس ابن عباس نے فرمایا تم اس پر ایمان نہ لاؤ گے اگر اس کی خبر کروں

وفي «كتاب الصريفيني»: قال ابن منده: ليس بقوي في سعيد بن جبير

ابن مندہ کا قول ہے کہ راوی جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ ، سعید بن جبیر سے روایت میں قوی نہیں ہے

نوٹ سات زمین موجود ہیں ان پر ایمان ہے لیکن یہ  قرآن میںموجود نہیں کہ ان تک انسان جا کر واپس زمین پر بھی آ جاتے ہیں

سورہ کہف میں سببا کا مطلب ؟

ساحل عدیم صاحب کی  پورٹل تھیوری کی دوسری بڑی دلیل  سورہ کہف کی آیات ہیں جن میں سببا کا لفظ ہے

سبب کا لفظ ہم اردو میں بھی بولتے ہیں اور اس کا مطلب ہے وجہ یا رخ یا جانب یا سرا

اس کا کیا سبب ہے  یعنی اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا سرا دیں ؟ اس کا رخ بتائیں ؟ ان تمام جملوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس مسئلہ کو اس جانب ، رخ سے سمجھا جائے اس حوالے سے کوئی سرا ملے – عربی  میں بھی اس لفظ کے یہی مطلب ہیں

إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا (84) فَأَتْبَعَ سَبَبًا (85)

ہم نے اس کو زمین میں بادشاہت دی اور اس کو ہر چیز کا سرا دیا

پھر اس نے اس سرے  کو فالو کرنا شروع کیا

یہاں کہا جا رہا ہے کہ ذو القرنین کو کوئی نشان یا سرا ملا اور انہوں نے اس پر کھوج کی کہ سفر کیا

تفسیر طبری میں ہے

حدثني عليّ، قال ثنا عبد الله، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) يقول: علما

ابن عباس نے فرمایا  ہم نے اس کو ہر چیز پر سبب دیا ، فرمایا یعنی علم دیا

اس پر متعدد تفسیری اقول ہیں
– حدثنا القاسم، قال ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جريج، قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) قال: علم كلّ شيء.
حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) علما.
حُدثت عن الحسين، قال: سمعت أبا معاذ يقول: ثنا عبيد، قال: سمعت الضحاك يقول في قوله (وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا) يقول: علما.

ان سب کا کہنا ہے کہ یہ سبب یہاں علم  دیا جانا ہے

اس حوالے سے ساحل عدیم صاحب کو جو روایت سب سے پسند آئی ہے وہ تفسیر طبری میں ہے

حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد، في قوله (فاتَّبَعَ سَبَبا) قال: هذه الآن سبب الطرق (1) كما قال فرعون (يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الأسْبَابَ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ) قال: طرق السماوات

 عبد الرحمان بن زید بن اسلم نے  قول (فاتَّبَعَ سَبَبا) پر کہا   کہ یہ وہی سبب ہے جیسا فرعون نے کہا تھا اے ہامان میرے لئے ایک صرح بنالو  جس سے میں آسمانوں نے اسباب کو دیکھوں – کہا یہ آسمان کے رستے ہیں

امام بخاری اپنی کتاب تاریخ الکبیر میں  عَبد الرَّحمَن بْن زَيد بْن أَسلَم پر  کہتے ہیں

ضَعَّفَهُ عليٌّ جِدًّا.

امام علی المدینی اس کی شدید تضعیف کرتے تھے

امام الذھبی اپنی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين
میں ذکر کرتے ہیں

عبد الرحمن بن زيد بن أسلم: ضعفه أحمد بن حنبل، والدارقطني

امام احمد و دارقطنی فی اس کی ضعیف کہتے ہیں

المعلمی  کتاب التغليق میں کہتے ہیں أولاد زيد بن أسلم ضعفاء  زید بن اسلم کی تمام اولاد ضعیف ہے

قال النسائي: ضعيف مدني. “الضعفاء والمتروكون

لب لباب ہوا کہ یہ تفسیری قول  کہ ذو القرنین کا سبب وہی ہے جس کا فرعون نے ذکر کیا وہ قول ہی ضعیف ہے

سورہ النمل میں ہے کہ سلیمان نے ملکہ سبا سے کہا ادْخُلِي الصَّرْحَ  عمارت میں داخل ہو

فرعون نے عمارت بنانے کا حکم دیا  نہ کہ ہامان کو پورٹل کھولنے کا حکم دیا

فرعون نے کہا کہ وہ آسمان میں  کوئی نشان دیکھے کہ اللہ بھی وہاں سے زمین کو کنٹرول کر رہا ہے

ال فرعون اللہ کے وجود کے انکاری نہیں تھے – سورہ المومن میں ہے ال فر عون سمجھتے تھے کہ یوسف کے بعد مصر میں اللہ کا کوئی اور نبی نہ آئے گا – یعنی وہ اللہ کو جانتے تھے لیکن بحث اس میں تھی کہ کیا اللہ تعالی  زمین کے قریب ہے یا دیگر اجرام فلکی  – ان کے نزدیک زمین کے قریب اجرام فلکی زمین پر اثر رکھتے تھے نہ کہ دور آسمانوں سے باہر کا کوئی رب  – لہذا فرعون نے ہامان سے کہا کہ کوئی مینار  بنا دو دیکھوں کہ ستاروں کے سوا بھی  کوئی اور مصر پر اثر کر سکتا ہو

دیکھا جا سکتا ہے کہ عبد الرحمان بن اسلم کی تفسیری رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے  جس سے ثابت کیا جا رہا ہے کہ تابعین کے نزدیک زمین پر پورٹل کھلتے تھے اور اصحاب کہف ، یاجوج و ماجوج ، ذوالقرنین و دجال تمام پورٹل سے اتے جاتے رہے ہیں

عَيْنٍ حَمِئَةٍ پر ساحل عدیم کا تصور

سورہ کہف کی آیت ہے ذو القرنین ایسی جگہ پہنچا جہاں

حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ

یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب کی جگہ پہنچا تو پایا اس کو کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہوتے ہوئے

طبری نے ذکر کیا کہ اس آیت میں اختلاف قرات موجود ہے

فقرأه بعض قراء المدينة والبصرة (فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ) بمعنى: أنها تغرب في عين ماء ذات حمأة، وقرأته جماعة من قراء المدينة، وعامَّة قرّاء   الكوفة (فِي عَيْنٍ حامِيَةٍ (يعني أنها تغرب في عين ماء حارّة.

مدینہ و بصرہ کے قاری قرات کرتے ہیں  فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ یعنی کیچڑ کا چشمہ  اور  کوفہ میں  جماعت  نے قرات کی  عَيْنٍ حامِيَةٍ  یعنی سورج کھولتے پانی میں غروب ہو رہا تھا

ساحل عدیم کا خیال ہے کہ عَيْنٍ کا مطلب عربی میں آنکھ ہے اور  حَمِئَةٍ  گرم ہے لہذا یہ  آتشی آنکھ بن گئی  گویا کہ ایک گول پورٹل بنا گیا

عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ (المطفّفين – 28)

مقربین عین سے پئیں ہے

یعنی چشموں سے

اللہ تعالی نے موسی سے کہا

فإنك باعيننا

تم ہماری آنکھوں میں تھے

یعنی موسی تم پر ہماری نظر ہے

عین کا لفظ  چشمہ کے لئے  ہے – آنکھ پر اس کا اطلاق مجازی ہے کیونکہ آنکھ سے انسؤ یا پانی اتا ہے

دابه ألأرض  بر تصور

دابه ألأرض پر ساحل عدیم کا قول ہے کہ یہ زمین کا جانور بھی اسی زمین سے نہیں بلکہ کسی اور سیارہ سے آئے گا

ساحل عدیم کے نزدیک دجال کا گدھا ہے جو ٹائم ٹریول کرتا ہے  جبکہ اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں

ان تمام تصورات کو بنانے کا مقصد ساحل عدیم کے نزدیک یہ ہے کہ روایتوں میں ہے کہ سورہ کہف فتنہ دجال سے بچائے گی –  راقم کہتا ہے  تحقیق سے ثابت کہ سورہ کہف مانع دجال  والی روایات  میں ہابمی اضطراب موجود ہے – اور مضطرب روایات پر عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا

مزید تفصیل کے لئے دیکھینے کتاب

ساحل صاحب  کی تھیوری میں مسائل یہ ہیں کہ وہ معجزہ کو   انبیا  کے  ساتھ ساتھ   دجال سے منسوب کر رہے ہیں کہ دجال کسی اور

سیارہ سے آئے گا – اس تصور سے گمراہی پھیلنے کا  خطرہ ہے

==========================================================================

 

In the Quran, Allah Almighty has said that there are verses in this book that are ambiguous, and those who are well-versed in knowledge have faith in them. Only Allah has the knowledge of their true interpretation.

The last verses of Surah At-Talaq:

Narrated by ‘Amr ibn ‘Ali: Wakī’ narrated from Al-A’mash, who narrated from Ibrahim ibn Muhajir, who narrated from Mujahid, who narrated from Ibn ‘Abbas regarding the statement of Allah: “Seven heavens and of the earth the like thereof.” Ibn ‘Abbas said: “If I were to explain it to you, you would disbelieve, and your disbelief would be similar to the denial of it.”

Ibrahim ibn Muhajir, the narrator in the chain, is mentioned by Imam Al-Qutayni and Imam An-Nasa’i. They said he was not reliable.

Narrated by Ibn Humaid: Yahya ibn Ya’qub narrated from Ja’far ibn Abi Al-Mughira that Sa’id ibn Jubayr said: A man asked Ibn ‘Abbas about the verse: “It is Allah who created seven heavens and of the earth, the like of them.” The man asked, “What does it mean?” So Ibn ‘Abbas said, “What makes you think that I would tell you its meaning, and then you would disbelieve?”

In the book “Kitab As-Sarifini,” Ibn Mandah said: Sa’id ibn Jubayr is not reliable.

Note: The existence of seven heavens is confirmed, and people have faith in them. However, it is not mentioned in the Quran that humans can travel to these heavens and return to Earth.

Meaning of word Sabab

The word “sabab” in Surah Al-Kahf has different interpretations. Saahil Adim Sahib’s second major evidence for his portal theory is based on the verses of Surah Al-Kahf that contain the word “sabab.”

In Urdu, we also use the word “sabab,” which means cause, direction, side, or path. All these phrases convey the same meaning that the issue should be understood from a certain direction or perspective without deviating. In Arabic, the same meanings are associated with this word.

The verses in Surah Al-Kahf (18:84-85) state: “Indeed, We established him upon the earth, and We gave him [the means of] everything as a sabab. Then he followed a sabab.”

Here it is mentioned that Zul-Qarnain was given dominion over the earth and he was provided with the means for everything. Then he followed a path or direction.

According to the Tafsir of Tabari, Ibn Abbas said that it means they were given knowledge of everything.

There are various interpretations regarding this:

– Qasim narrated from Al-Husayn, who narrated from Hujaj, who narrated from Ibn Jurayj, regarding the statement of Allah: “And We gave him [the means of] everything as a sabab.” He said: “Knowledge of everything.”
– Muhammad bin Sa’d narrated from his father, who narrated from his uncle, who narrated from his father, who narrated from Ibn Abbas: “And We gave him [the means of] everything as a sabab” means knowledge.
– It is mentioned that Abu Mu’adh said: “Ubayd narrated to me, he said: ‘I heard Dahhak saying about the statement of Allah: “And We gave him [the means of] everything as a sabab” – he said: “Knowledge of the paths of the heavens.”‘

These narrations suggest that the meaning here is knowledge.

Saahil Adim Sahib prefers the interpretation mentioned in Tabari’s Tafsir.

According to Imam Bukhari in his book “Tarikh al-Kabir,” Ali said that Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam is extremely weak.

Imam Ali Al-Madini also considered him very weak.

Imam Ath-Tha’labi mentioned in his book “Diyar Al-Ifta’ Wal-Matrookin” that the children of Zaid bin Aslam are weak.

Al-Nasai said: “Weak in Madinan narrations” (Al-Du’afa’ Wal-Matrookin).

It can be concluded that the interpretation by Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam holds no authority, and it is a weak opinion to link the portals mentioned in Surah Al-Kahf with the idea of people traveling through them.

In Surah An-Naml, it is mentioned that Solomon addressed the Queen of Sheba and said, “Enter the palace.” It was a command to enter a building, not to open a portal. Pharaoh commanded the construction of a building, not the opening of a portal through Haman.

Pharaoh asked for a tower to be built so that he could see signs beyond the stars and observe their influence on Egypt. Pharaoh and his people did not deny the existence of Allah; rather, their debate was whether Allah was near the Earth or if celestial bodies close to the Earth had an influence. They believed that the celestial bodies had an impact on the Earth, not that there was a god beyond the distant heavens. Therefore, Pharaoh instructed Haman to build a tower to observe the stars and their effects on Egypt.

It can be observed that the interpretation provided by Abdul Rahman bin Zaid bin Aslam does not hold any significant authority. It cannot be considered as conclusive evidence to support the notion that portals were opened on Earth during the time of the Companions, allowing the people of the Cave, Ya’juj and Ma’juj, Dhul-Qarnayn, or the Dajjal to pass through them.

The idea of portals enabling such travel is not supported by strong and reliable evidence from the Qur’an or authentic Hadith sources. It is important to rely on sound scholarly interpretations and established sources of Islamic knowledge when considering these matters.

Meaning of Aynin hami’ah:

The concept of “عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (aynin hami’ah) according to Sahil Adim is found in the verse of Surah Al-Kahf where it is mentioned that Dhu al-Qarnayn reached a place where “حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (until he reached the setting of the sun, he found it [as if] setting in a muddy spring). It is stated that when he reached the place of the sunset, he found it setting in a spring of murky water.

Tabari mentioned that there is a difference in the recitation of this verse. Some readers in Medina and Basra recite “فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ” (in a muddy spring) in the sense that the sun appeared to set in a spring of hot water. And a group of readers in Medina and the majority of readers in Kufa recite it as “فِي عَيْنٍ حَامِيَةٍ” (in a hot spring), meaning that the sun appeared to set in hot water.

According to the recitation of Medina and Basra, it means a muddy spring, and according to the recitation of Kufa, it means the setting of the sun in water that is being heated. Sahil Adim suggests that the meaning of “عَيْنٍ” (ayn) in Arabic is an eye, and “حَمِئَةٍ” (hami’ah) means hot. So it is as if an fiery eye was formed, like a round portal.

In Surah Al-Mutaffifin (83:28), it is mentioned “عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ” (A spring from which those near [to Allah] drink). Here, the term “مُقَرَّبُونَ” (those near [to Allah]) is drinking from the spring.

It means through their eyes.

Allah has said to Musa (Moses) “فإنك باعيننا” (For you are in our sight). Meaning, “you were in our eyes.”

The term “عَيْنٌ” (ayn) refers to a spring, but it is metaphorically used for an eye because the eye is a means of perceiving water or moisture.

Regarding the creature “دابة ألأرض” (Dabbah al-Ardh), Sahil Adim suggests that it is mentioned that this creature will not come from the same earth but from another planet.

According to Sahil Adim, near the coast, there is a misconception that the creature of Dajjal is a donkey-like animal that engages in time travel. However, there is no authentic hadith to support this.

The purpose of creating all these concepts by Sahil Adim is to convey the narrations that Surah Al-Kahf will protect from the trials of the Dajjal (the Antichrist). This Site Author states that there is significant uncertainty regarding the authenticity of the narrations that consider Surah Al-Kahf as a safeguard against the Dajjal. Through research, it has been established that there is ambiguity present in these narrations, and a belief cannot be formed based on uncertain narrations.

 

امام الباقر اور امام ابو حنیفہ کا فرضی مناظرہ ‏

بعض  لوگوں نے امام باقر اور امام ابو حنیفہ کا فرضی مناظرہ بیان کیا ہے اس کو شیعہ و اہل سنت کی  کتب میں ایک جیسی  سند سے بیان کیا جاتا ہے مثلا

  شیعہ کتاب   الكافي میں ہے

عن عيسى بن عبد الله القرشيّ قال: (دخل أبو حنيفة على أبي عبد الله، فقال له: يا أبا حنيفة بلغني أنَّك تقيس؟ قال: نعم. قال: لا تَقِسْ، فإنَّ أوَّلَ منْ قاس إبليس حين قال خلقتني مِنْ نار وخلقتَه مِنْ طين، فقاس ما بين النَّار والطِّين، ولو قاس نوريَّة آدم بنوريَّة النَّار لعرف فضل ما بين النُّورَيْن وصفاء أحدهما).

وجاء في الكافي أيضا عن أبي حنيفة:

(استأذنت عليه (أي الصَّادق) فحجبني، وجاءه قوم مِنْ أهل الكوفة واستأذنوا فأذن لهم، فدخلت معهم، فلمَّا صِرتُ عندَه قُلْتُ يابن رسول الله لو أرسلْتَ إلى أهل الكوفة فنهيتهم أن يشتموا أصحاب محمَّد صلَّى الله عليه وسلَّم، فإنِّي تركتُ فيها أكثر مِنْ عشرة آلاف يشتمونهم فقال: لا يقبلون منِّي.
فقُلْتُ: ومَنْ لا يقبل منك، وأنت ابن رسول الله؟!
فقال الصَّادق: أنت أوَّل مَنْ لا يقبل منِّي. دَخَلْتَ داري بغير إذني، وجلست بغير أمري، وتكلَّمْتَ بغير رأيي، وقد بلغني أنَّك تقول بالقياس.
فقلت: نعم أقول.
فقال: ويحك يا نعمان، أوَّل من قاس إبليس حين أُمِرَ بالسُّجود لآدم فأبى، وقال خلقتني مِنْ نار وخلقته من طين، أيُّهما أكبر يا نعمان القتل أم الزِّنى قلت القتل.
قال: فلِمَ جعل الله في القتل شاهدين وفي الزِّنى أربعة، أيقاس لك هذا؟
قلت: لا.
قال فأيُّهما أكبر البول أو المنيّ؟ قلت البول. قال فلِمَ أَمَرَ الله في البول بالوضوء وفي المنيِّ بالغسل، أيقاس لك هذا؟ قلت: لا.
قال: فأيُّما أكبر الصَّلاة أم الصَّوم؟. قلت الصَّلاة، قال: فَلِمَ وجَبَ على الحائض أنْ تقضي الصَّوم ولا تقضي الصَّلاة، أيقاس لك هذا.
قُلْتُ: لا.
قال: فأيُّهما أضعف المرأة أم الرَّجُل؟ قلت: المرأة. قال فَلِمَ جَعَلَ الله تعالى في الميراث سهمين، وللمرأة سهما أيقاس ذلك؟ قلت: لا.
قال: وقد بلغني أنَّك تقرأ آية من كتاب الله تعالى، وهي: لَتُسْألُنَّ يومئذٍ عن النَّعيم، إنَّه الطَّعام الطَّيِّب والماء البارد في اليوم الصَّائف.
قلْتُ نعم. قال: لو دعاك رجل وأطعمك طعاما طَيِّبا وسقاك ماءً بارِدًا، ثمَّ امتنَّ به عليك، ما كُنْتَ تنسِبُه، قُلْتُ: البخل، قال: أفتبَخِّلُ الله علينا قُلْتُ فما هو. قال حبّنا أهل).
هذه الرِّواية لم يُسنِدها الكليني إلاَّ إلى أبي حنيفة، ومِنْ حقِّنا أن نوازن بينها وبين المرويّ عن أبي حنيفة رضي الله عنه في مناقبه، إنَّ المرويَّ عن أبي حنيفة في كتب مناقبه أنَّ المناقشة كانت بينه وبين الباقر، وأنَّ أبا حنيفة هو الَّذي أورد مسألة المقايسة بين البول والمنيّ، ومسألة الصَّلاة والصَّوم والحيض، ومسألة ميراث الأنثى وميراث الذَّكَر، وأوردها على أنَّه في قياسه لا يكذب على رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم، وأنَّه إنَّما يقيس إذا لم يكن نصّ، فحيث كان النَّصّ فإنَّه يحترمه.
وما دامت الرِّواية مسندة إلى أبي حنيفة، فإنَّا نقبل كلام الرّواة عنه، لأنَّهم أعلم به، ولأنّ الكليني ليس في درجة أبي حنيفة في الفقه، إذ قد أسند إلى الصَّادق رضي الله عنه ما أجمع الإماميَّة في الماضي والحاضر على أنَّه مكذوب على الصَّادق وهو الخاصّ بالقرءان.
ومهما يكن مقدار النِّسبة فإنَّ المشهور عن الباقر والصَّادق رضي الله عنهما أنَّهما استنكرا الاجتهاد بالقياس الَّذي اشتهر به أبو حنيفة.”
سند میں عيسى بن عبد الله القرشيّ  ہے اہل تشیع میں مجہول ہے

اس پر نہ جرح ہے نہ  تعدیل ہے

ابن عدی الکامل میں کہتے ہیں

عِيسَى بْنُ عَبد اللَّهِ بْنِ سليمان القرشي العسقلاني.

ضعيف يسرق الحديث.

یہ حدیث چور ہے

اہل سنت کی کتاب الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي میں ہے

أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ زِرْقَوَيْهِ , أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍ الْخُتَّلِيُّ , نا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ , نا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيِّ , عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ , قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ؛ وَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاعِظُ , – وَاللَّفْظُ لَهُ – أنا أَبُو حَفْصٍ , عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ بِمَكَّةَ , نا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , نا أَبُو الْوَلِيدِ الْقُرَشِيُّ , نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ , حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرٍ , نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرِّبْعِيُّ , قَالَ: قَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو , حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ , وَكُنْتُ لَهُ صَدِيقًا , ثُمَّ أَقْبَلْتُ عَلَى جَعْفَرٍ , وَقُلْتُ: أُمْتَعَ اللَّهُ بِكَ , هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ لَهُ فِقْهٌ وَعَقْلٌ , فَقَالَ لِي جَعْفَرٌ: لَعَلَّهُ الَّذِي يَقِيسُ الدِّينَ بِرَأْيِهِ , ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: «أَهُوَ النُّعْمَانُ؟» قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرِّبْعِيُّ , وَلَمْ أَعْرِفِ اسْمَهُ إِلَّا ذَلِكَ الْيَوْمَ – فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِيفَةَ: نَعَمْ أَصْلَحَكَ اللَّهُ , فَقَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: ” اتَّقِ اللَّهَ , وَلَا تَقِسِ الدِّينَ بِرَأْيِكَ , فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ , إِذْ أَمَرَهُ اللَّهُ بِالسُّجُودِ لِآدَمَ , فَقَالَ: أَنَا خَيْرُ مِنْهُ , خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: هَلْ تُحْسِنُ أَنَّ تقيسَ رَأْسَكَ مِنْ جَسَدِكَ؟ ” فَقَالَ لَهُ: لَا – وَفِي حَدِيثِ ابْنِ رِزْقَوَيْهِ: نَعَمْ – , فَقَالَ لَهُ: «أَخْبِرْنِي عَنِ الْمُلُوحَةِ فِي الْعَيْنَيْنِ , وَعَنِ الْمَرَارَةِ فِي الْأُذُنَيْنِ , وَعَنِ [ص:465] الْمَاءِ فِي الْمِنْخَرَيْنِ , وَعَنِ الْعُذُوبَةِ فِي الشَّفَتَيْنِ , لِأَيِّ شَيْءٍ جُعِلَ ذَلِكَ؟» قَالَ: لَا أَدْرِي قَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ الْعَيْنَيْنِ فَجَعَلَهُمَا شَحْمَتَيْنِ , وَجَعَلَ الْمُلُوحَةَ فِيهِمَا مَنًّا مِنْهُ عَلَى ابْنِ آدَمُ , وَلَوْلَا ذَلِكَ لَذَابَتَا فَذَهَبَتَا , وَجَعَلَ الْمَرَارَةَ فِي الْأُذُنَيْنِ مَنًّا مِنْهُ عَلَيْهِ , وَلَوْلَا ذَلِكَ لَهَجَمَتِ الدَّوَابُّ فَأَكَلَتْ دِمَاغَهُ , وَجَعَلَ الْمَاءَ فِي الْمِنْخَرَيْنِ لِيَصْعَدَ مِنْهُ النَّفَسُ وَيَنْزِلَ , وَتَجِدُ مِنَ الرِّيحِ الطَّيِّبَةِ وَمِنَ الرِّيحِ الرَّدِيئَةِ , وَجَعَلَ الْعُذُوبَةَ فِي الشَّفَتَيْنِ لِيَعْلَمَ ابْنُ آدَمَ مَطْعَمَهُ وَمَشْرَبَهُ» , ثُمَّ قَالَ لِأَبِي حَنِيفَةَ: «أَخْبِرْنِي عَنْ كَلِمَةٍ أَوَّلُهَا شِرْكٌ وَآخِرُهَا إِيمَانٌ؟» قَالَ: لَا أَدْرِي , فَقَالَ جَعْفَرٌ: ” لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَلَوْ قَالَ: لَا إِلَهَ ثُمَّ أَمْسَكَ كَانَ مُشْرِكًا , فَهَذِهِ كَلِمَةٌ أَوَّلُهَا شِرْكٌ وَآخِرُهَا إِيمَانٌ ” , ثُمَّ قَالَ لَهُ: ” وَيْحَكَ أَيُّهَا أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ: قَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ أَوِ الزِّنَا؟ ” قَالَ: لَا , بَلْ قَتْلُ النَّفْسِ قَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ رَضِيَ فِي قَتْلِ النَّفْسِ بِشَاهِدَيْنِ , وَلَمْ يَقْبَلْ فِي الزِّنَا إِلَّا أَرْبَعَةً , فَكَيْفَ يَقُومُ لَكَ قِيَاسٌ؟» ثُمَّ قَالَ: «أَيُّهُمَا أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ الصَّوْمُ أَمِ الصَّلَاةُ؟» قَالَ: لَا , بَلِ الصَّلَاةُ قَالَ: ” فَمَا بَالُ الْمَرْأَةِ إِذَا حَاضَتْ تَقْضِي الصَّوْمَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ؟ اتَّقِ اللَّهَ يَا عَبْدَ اللَّهِ وَلَا تَقِسْ , فَإِنَّا نَقِفُ غَدًا نَحْنُ وَأَنْتَ وَمَنْ خَالَفَنَا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى , فَنَقُولُ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَتَقُولُ أَنْتَ وَأَصْحَابُكَ سَمِعْنَا وَرَأَيْنَا , [ص:466] فَيَفْعَلُ اللَّهُ تَعَالَى بِنَا وَبِكُمْ مَا يَشَاءُ “

یہاں سند میں مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرِّبْعِيُّ  مجہول ہے

    أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصفهاني المتوفَّى سنة 430هـ –  کی كتاب حِليَة الأولياء وطبقات الأصفياء” ج3، ص196-   میں ہے

حدّثنا عبد الله بن محمّد ثنا الحسن بن محمّد ثنا سعيد بن عنبسة ثنا عمرو بن جميع. قال: دخلت على جعفر بن محمّد أنا وابن أبي ليلى وأبو حنيفة. وحدّثنا محمّد بن عليّ بن حبيش حدّثنا أحمد بن زنجويه حدّثنا هشام بن عمّار حدّثنا محمّد بن عبد الله القرشيّ بمصر ثنا عبد الله بن شبرمة. قال: دخلت أنا وأبو حنيفة على جعفر بن محمّد. فقال لابن أبي ليلى: من هذا معك؟ قال: هذا رجل له بصر ونفاذ في أمر الدّين. قال: لعلَّه يقيس أمر الدِّين برأيه. قال: نعم! قال فقال جعفر لأبي حنيفة: ما اسمك؟ قال: نعمان. قال: يا نعمان هل قِسْت رأسك بعد؟ قال: كيف أقيس رأسي؟! قال: ما أراك تحسن شيئا، هل علمت ما الملوحة في العينين، والمرارة في الأذنين، والحرارة في المنخرين والعذوبة في الشّفتين. قال: لا! قال: ما أراك تحسن شيئا، قال: فهل علمت كلمة أوّلها كفر وآخرها إيمان. فقال ابن أبي ليلى: يا ابن رسول الله أَخْبِرْنا بهذه الأشياء الّتي سألته عنها. فقال: أخبرني أبي عن جدّي أنّ رسول الله صلّى الله عليه وسلّم قال ((إنّ الله تعالى بمنّه وفضله ورحمته جعل لابن آدم الملوحة في العينين لأنّهما شحمتان ولولا ذلك لذابتا، وإنّ الله تعالى بمنّه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل المرارة في الأذنين حجابا من الدّوابّ فإن دخلت الرّأس دابّة والتمست إلى الدّماغ فإذا ذاقت المرارة التمست الخروج، وإنّ الله تعالى بمنِّه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل الحرارة في المنخرين يستنشق بهما الرِّيح ولولا ذلك لأنتن الدِّماغ، وإنَّ الله تعالى بمنِّه وكرمه ورحمته لابن آدم جعل العذوبة في الشّفتين يجد بهما استطعام كلّ شيء ويسمع النّاس بها حلاوة منطقه)). قال: فأَخْبِرْني عن الكلمة الّتي أوّلها كفر وآخرها إيمان. فقال: إذا قال العبد لا إله فقد كفر فإذا قال إلاّ الله فهو إيمان. ثمّ أقبل على أبي حنيفة فقال: يا نعمان حدّثني أبي عن جدّي أنّ رسول الله صلّى الله عليه وسلّم قال: ((أوّل مَنْ قاس أمر الدّين برأيه إبليس. قال الله تعالى له اسجد لآدم فقال: (أنا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين) فمن قاس الدّين برأيه قرنه الله تعالى يوم القيامة بإبليس لأنَّه اتّبعه بالقياس)). زاد ابن شبرمة في حديثه. ثمّ قال جعفر: أيّهما أعظم الصّلاة أم الصّوم؟ قال: الصّلاة. قال: فما بال الحائض تقضي الصّوم ولا تقضي الصّلاة. فكيف ويحك يقوم لك قياسك! اتّق الله ولا تقس الدّين برأيك.

سند میں  عمرو بن جميع الكوفي ہے جس پر کذب و حدیث گھڑنے کا الزام ہے

المعلمی کہتے ہیں

“الفوائد” (ص 343): “أحد الهلكى، أحاديثه موضوعة كان يتهم بوضعها”.

 قال ابن عدي: متهم بالوضع.

دوسری سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَنْبَسَةَ، ثَنَا عَمْرُو بْنُ جُمَيْعٍ قَالَ: ” دَخَلْتُ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَا وَابْنُ أَبِي لَيْلَى، وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُبَيْشٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زَنْجُوَيْهِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْقُرَشِيُّ بِمِصْرَ , ثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ شُبْرُمَةَ قَالَ:

مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ مجہول ہے

خطیب بغدادی کی الفقيه والمتفقه میں  سند ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُمَحِيُّ، بِمَكَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرَّبَعِيُّ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ فَقَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: ” اتَّقِ اللَّهَ، وَلَا تَقِسِ الدِّينَ بِرَأْيِكَ، فَإِنَّا نَقِفُ غَدًا، نَحْنُ وَأَنْتَ وَمَنْ خَلْفَنَا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ تَعَالَى، فَنَقُولُ: قَالَ اللَّهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ أَنْتَ وَأَصْحَابُكَ: سَمِعْنَا وَرَأَيْنَا. فَيَفْعَلُ اللَّهُ بِنَا وَبِكُمْ مَا يَشَاءُ “

مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ مجہول ہے

أخبار القضاة از وَكِيع میں ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْن سعيد الزهري، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الوليد الدمشقي، قال: حَدَّثَنِي عمي مُحَمَّد بْن عَبْد اللهِ بْن بكار، قال: حَدَّثَنِي سليمان بْن جعفر ابن إبراهيم بْن علي بْن عَبْد اللهِ بْن جعفر بْن أبي طالب، وأمر علي بْن عَبْد اللهِ بْن جعفر، زينب بنت علي بْن أبي طالب، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن عَبْد اللهِ الزهري فقال: حَدَّثَنَا ابن شُبْرُمَةَ، قال: دخلت أنا وأَبُوْحَنِيْفَةَ على جعفر بْن مُحَمَّد فسلمت عليه، وكنت له صديقاً ثم أقبلت على جعفر

فقلت: أمتع الله بك هَذَا رجل من أهل العراق له فقه، وعقل؛ فَقَالَ: جعفر: لعله الذي يقيس الدين برأيه، ثم أقبل علَيَّ فَقَالَ: النعمان بْن ثابت؟ فَقَالَ: أَبُوْحَنِيْفَةَ: نعم، أصلحك الله! فقال: اتق الله ولا تقس الدين برأيك، فإن أول من قاس إبليس إِذ أمره الله بالسجود لآدم؛ فقال: {أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ [الأعراف: 12} ثم قَالَ: له جعفر: هَلْ تحسن أن تقيس رأسك من جسدك ? فقال: لا؛ قال: فأَخْبَرَنِي عَن الملوحة في العينين، وعن المرارة في الأذنين، وعن الماء في المنخرين، وعن العذوبة في الشفتين، لأي شيء جعل ذلك ?
قال: لا أدري.
قَالَ: جعفر: الله عز وجل خلق العينين فجعلهما شحمتين، وجعل الملوحة فيها ضناً منه على ابن آدم ولولا ذلك لذابتا، فذهبتا، وجعل المرارة في الأذنين ضناً منه عليه، ولولا ذلك لهجمت الدواب، فأكلت دماغه، وجعل الماء في المنخرين ليصمد التنفس، وينزل ويجد منه الريح الطيبة من الريح الرديئة، وجعل العذوبة في الشفتين ليجد ابن آدم طعم لذة مطعمه ومشربه.
ثم قَالَ: له جعفر: أَخْبَرَنِي عَن كلمة أولها شرك، وآخرها إيمان.
قَالَ: لا أدري ?
قَالَ: لا إله إِلَّا الله،
ثم قَالَ لَهُ: أيما أعظم عند الله قتل النفس أو الزنا ?
قال: لا، قتل النفس
قَالَ: له جعفر: إن الله عز وجل قد رضى في قتل النفس بشاهدين ولم يقبل في الزنا إِلَّا بأربعة.
ثم قال: أيما أعظم عند الله الصوم أم الصلاة؟
قال: لا بل الصلاة؛ قال: فما بال
المرأة إِذَا حاضت تقضي الصيام، ولا تقضي الصلاة، اتق الله يا عَبْد اللهِ إنا نقف نحن وأنت غداً ومن خالفنا بين يدي الله جل وعز، فنقول: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ عليه السلام: ويقول أنت وأصحابك: قَالَ: سمعنا ورأينا، ففعل بنا وبكم ما يشاء.

سند میں سليمان بْن جعفر ابن إبراهيم   اور محمد بن  عبد اللہ بن بکار  دو مجہول ہیں

الأخبار الموفقيات للزبير بن بكار از  الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي الأسدي المكي (المتوفى: 256هـ)  میں ہے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأُمُّ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرِ أُمُّ جَعْفَرٍ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأُمُّهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنِ يَحْيَى الرَّبَعِيُّ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شُبْرَمَةَ ” دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، فَسَلَّمْتُ، وَكُنْتُ لَهُ صَدِيقًا، ثُمَّ أَقْبَلْتُ عَلَى جَعْفَرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَمْتَعَ اللَّهُ بِكَ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، لَهُ فِقْهٌ وَعِلْمٌ.

فَقَالَ لِي جَعْفَرٌ: لَعَلَّهُ الَّذِي يَقِيسُ الدِّينَ بِرَأْيِهِ.

ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: هُوَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ؟ قَالَ: وَلَمْ أَعْرِفِ اسْمَهُ إِلا ذَلِكَ الْيَوْمَ.

قَالَ: فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: نَعَمْ، أَصْلَحَكَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: اتَّقِ اللَّهَ وَلا تَقِسِ الدِّينَ بِرَأْيِكَ، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ، إِذْ أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِالسِّجُودِ لآدَمَ، فَقَالَ: {أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ} [الأعراف: 12 ٍ] ثُمَّ قَالَ لَهُ جَعْفَرٌ: هَلْ تُحْسِنُ أَنْ تَقِيسَ رَأْسَكَ مِنْ جَسَدِكَ؟ فَقَالَ: لا، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ الْمُلُوحَةِ فِي الْعَيْنَيْنِ، وَعَنِ الْمَرَارَةِ فِي الأُذُنَيْنِ، وَعَنِ الْمَاءِ فِي الْمِنْخَرَيْنِ، وَعَنِ الْعُذُوبَةِ فِي الشَّفَتَيْنِ لأَيِّ شَيْءٍ جُعِلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: لا أَدْرِي.

سند میں سليمان بْن جعفر ابن إبراهيم   اور محمد بن  عبد اللہ بن بکار  دو مجہول ہیں

اس طرح یہ قصہ مجہول مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ   اور سليمان بْن جعفر ابن إبراهيم  اور  عيسى بن عبد الله القرشيّ   کی سندوں سے ہے

امام جعفر یا باقر سے منسوب قول ہے

وَلَا تَقِسِ الدِّينَ بِرَأْيِكَ , فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ , إِذْ أَمَرَهُ اللَّهُ بِالسُّجُودِ لِآدَمَ
اپنی رائے سے قیاس مت کرو کیونکہ سب سے اول ابلیس نے قیاس کیا تھا جب اس کو آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا

راقم کہتا ہے کہ قول امام جعفر و باقر پر جھوٹ ہے کیونکہ سب سے اول فرشتوں نے قیاس کیا جب انہوں نے خلیفہ فی الارض پر کہا کہ یہ تو خون بہائے گا
انسان پر انہوں نے قیاس کیا اور یہ قیاس غلط نہ تھا ایسا ہی ہو رہا

اللہ تعالی نے فرشتوں کو رد نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ میرا علم تم سے زیادہ ہے

اس طرح قیاس کو رد کیا گیا بلکہ اس کو الوحی کے تابع کیا گیا

امام جعفر و باقر نے پوچھا روزہ افضل ہے یا نماز ؟

راقم کہتا ہے کہ یہ قول بھی غیر ضروری منسوب ہے کیونکہ عبادات کی افضلیت ان کی قبولیت سے منسلک ہے جس کا کسی کو علم نہیں
اس طرح نہ روزہ افضل ہے نہ نماز دونوں عبادت ہیں

امام جعفر و باقر نے پوچھا قتل نفس بڑا گناہ ہے یا زنا ؟

راقم کہتا ہے یہ قول بھی غیر ضروری ہے کیونکہ دونوں گناہ کبیرہ ہیں اور اللہ جس گناہ کو نہ بخشے وہی اہم بن جائے گا

اس قسم کے فرضی قصوں کو بیان کر کے امام ابو حنیفہ کو جاہل یا کم علم بتایا جاتا تھا جبکہ فقه فی دین بحث میں جیت جانا اہم نہیں ہیے – فقه تو یہ ہے کہ عمل اللہ کے ہاں درجہ قبولیت پا لے

امام ابو حنیفہ کی فقہ میں قیاس کی اہمیت ہے کیونکہ جدید مسائل میں قیاس ہی کیا جاتا ہے
اور قدیم میں حدیث مشہور کو لیا جانا چاہیے نہ کہ کسی بھی قول کو قول نبوی سمجھ کر اس پر چلنا شروع کر دیا جائے

یہی وجہ ہے کہ عقائد میں اختلاف پیدا ہوئے جب ہر قسم کی روایات کو حدیث رسول سمجھا جانے لگا

 

==============================================================================

 

Some people have attributed a fabricated sermon to Imam Baqir and Imam Abu Hanifa. It is mentioned in both Shia and Sunni books with a similar chain of narration. For example, it is found in the Shia book Al-Kafi:

“Isa ibn Abdullah al-Qurashi narrated: Abu Hanifa entered upon Abu Abdullah (Imam Baqir), and he said to him, ‘O Abu Hanifa, I have heard that you engage in qiyas (analogical reasoning).’ Abu Hanifa replied, ‘Yes.’ Abu Abdullah said, ‘Do not engage in qiyas. Verily, the first one to engage in qiyas was Iblis (Satan) when he said, ‘You created me from fire and created him from clay,’ and he compared between fire and clay. If he had compared my light (Adam) with the light of fire, he would have recognized the superiority between the two lights and the clarity of one over the other.'”

It is also mentioned in Al-Kafi about Abu Hanifa:

“I sought permission from (Imam) Sadiq, but he prevented me. Then a group of people from Kufa sought permission, and he granted them permission. I entered with them. When I was near him (Imam Sadiq), I said, ‘O son of the Messenger of Allah, if you were to send to the people of Kufa and forbid them from insulting the companions of Muhammad (peace be upon him), as I have left more than ten thousand people there insulting them.’ He (Imam Sadiq) said, ‘They do not accept from me.’ I said, ‘Who does not accept from you, while you are the son of the Messenger of Allah?’ He (Imam Sadiq) said, ‘You are the first one who does not accept from me. You entered my house without my permission, sat without my command, and spoke without my consent. And it has reached me that you engage in qiyas (analogical reasoning).’ I said, ‘Yes, I engage in it.’ He said, ‘Woe to you, O Nu’man (Abu Hanifa). The first one to engage in qiyas was Iblis when he refused to prostrate to Adam and said, ‘You created me from fire and created him from clay.’ Which one is greater, O Nu’man, murder or adultery?’ I said, ‘Murder.’ He said, ‘Then why did Allah appoint two witnesses for murder and four witnesses for adultery? Does this qiyas apply to you?’ I said, ‘No.’ He said, ‘Which one is greater, prayer or fasting?’ I said, ‘Prayer.’ He said, ‘Then why is it obligatory for a menstruating woman to make up the missed fasting days but not the missed prayers? Does this qiyas apply to you?’ I said, ‘No.’ He said, ‘Which one is weaker, a woman or a man?’ I said, ‘A woman.’ He said, ‘Then why did Allah divide the inheritance into two shares for a woman and two shares for a man? Does this qiyas apply to you?’ I said, ‘No.’ He said, ‘I have also heard that you recite a verse from the Book of Allah, which is, ‘Verily, on that Day they will be asked about the delights. Indeed, it is the food of the righteous and the cold water on a scorching day.’ I said, ‘Yes.’ He said, ‘If a man invited you and served you good food and gave you cold water, and then he granted you a favor, would you attribute it to stinginess?’ I said, ‘

The chain of narration includes Isa ibn Abdullah al-Qurashi, who is unknown among the Shia. There is neither criticism nor praise for him.

Ibn Adi al-Kamil mentioned:
“Isa ibn Abdullah ibn Sulayman al-Qurashi al-Asqalani.
Weak, steals hadith.”

This narration is considered fabricated.


The book “Al-Faqih wa al-Mutafaqqih” by Al-Khatib al-Baghdadi is mentioned in the Ahl Sunnah literature.

In the chain of narration, Muhammad ibn Yahya al-Rib’i is unknown.

Abu Nu’aim Ahmad ibn Abdullah al-Isfahani, who passed away in 430 AH, mentioned this incident in his book “Hilyat al-Awliya’ wa Tabaqat al-Asfiya,” Volume 3, page 196.

Abdullah ibn Muhammad informed us, narrating from Al-Hasan ibn Muhammad, who narrated from Saeed ibn Anbasa, who narrated from Amr ibn Jumi’ah, who said: “I entered upon Ja’far ibn Muhammad along with Ibn Abi Layla and Abu Hanifa. Muhammad ibn Ali ibn Hubaysh narrated to us, narrating from Ahmad ibn Zanjawayh, narrating from Hisham ibn Ammar, narrating from Muhammad ibn Abdullah al-Qurashi in Egypt, narrating from Abdullah ibn Shabruma. He said: ‘I entered upon Ja’far ibn Muhammad along with Abu Hanifa. Ibn Abi Layla asked him, ‘Who is this man with you?’ He replied, ‘This is a man who possesses knowledge and understanding in matters of religion.’ Ibn Abi Layla said, ‘Perhaps he makes his own opinion a criterion in religious matters.’ Ja’far replied, ‘Yes!’ Then Ja’far said to Abu Hanifa, ‘What is your name?’ He replied, ‘Nu’man.’ Ja’far said, ‘O Nu’man, have you measured your head?’ Abu Hanifa asked, ‘How can I measure my head?’ Ja’far said, ‘I don’t see that you possess any knowledge. Do you know about the saltiness in the eyes, the bitterness in the ears, the fluid in the nostrils, and the sweetness in the lips? What purpose were these created for?’ Abu Hanifa replied, ‘No.’ Ja’far said, ‘I don’t see that you possess any knowledge. Do you know a word whose beginning is disbelief and its end is faith?’ Abu Hanifa said, ‘I don’t know.’ Ja’far said, ‘It is “La ilaha illallah” (There is no god but Allah). If one says “La ilaha” and stops there, he is a disbeliever. This word has disbelief as its beginning and faith as its end.’ Then Ja’far said, ‘Woe to you! What do you consider greater in the sight of Allah, the killing of a soul that Allah has forbidden or adultery?’ Abu Hanifa replied, ‘No, rather the killing of a soul.’ Ja’far said, ‘Allah has made killing a soul permissible with two witnesses, but He accepts only four witnesses in cases of adultery. How can you make an analogy then?’ Then Ja’far asked, ‘Which is greater in the sight of Allah, fasting or prayer?’ Abu Hanifa replied, ‘No, rather prayer.’ Ja’far said, ‘Then what about a menstruating woman who makes up for the missed fasts but does not make up for missed prayers? Fear Allah, O Abdullah, and do not make analogies. For tomorrow, we, you, and those who oppose us will stand before Allah, blessed and exalted. We will say, “Allah said” and “The Messenger of Allah, peace be upon him, said,” and you and your companions will say, “We heard and we saw.” Allah will do with us and you as

He wills.'”

In this narration, Amr ibn Jumi’ah al-Kufi is mentioned, who is accused of fabricating and narrating false hadiths.

Al-Mu’allimi said in his book “Al-Fawaid” (p. 343): “One of the ruined ones, his hadiths are fabricated, and he was accused of fabricating them.”

Ibn Adi mentioned: “Accused of fabrication.”


This is another chain of narrators. It says:

“Narrated to us Abdullah ibn Muhammad, from Al-Hasan ibn Muhammad, from Sa’id ibn Anbasah, from Amr ibn Jumay’ from Abdullah ibn Shubrumah who said: ‘I entered upon Ja’far ibn Muhammad along with me were Ibn Abi Layla, Abu Hanifa, and Muhammad ibn Ali ibn Hubaysh. Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar al-Qurashi is unknown (majhool).

It is mentioned in Al-Faqih wal-Mutafaqqih by Khateeb Baghdadi and also in Akhbar al-Qudat by Al-Waqidi.

In this chain of narrators, the narrator Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar al-Qurashi is mentioned as unknown (majhool).

The second narration states:

“Narrated to us Abdul Malik ibn Muhammad ibn Abdullah ibn Bishran, he said: Narrated to us Umar ibn Muhammad al-Jumahi from Mecca, he said: Narrated to us Ali ibn Abdul Aziz, he said: Narrated to us Abu al-Walid al-Qurashi, he said: Narrated to us Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar al-Qurashi, he said: Narrated to me Suleiman ibn Ja’far ibn Ibrahim ibn Ali ibn Abdullah ibn Ja’far ibn Abu Talib, and Ali ibn Abdullah ibn Ja’far ordered Zaynab bint Ali ibn Abu Talib, she said: Narrated to us Muhammad ibn Abdullah al-Zuhri, he said: Narrated to us Ibn Shubrumah, he said: ‘I and Abu Hanifa entered upon Ja’far ibn Muhammad ibn Ali, and Ja’far said to him: ‘Fear Allah and do not measure the religion based on your opinion. Tomorrow we will stand, you, us, and those who came before us, in the presence of Allah the Almighty, and we will say: Allah said, the Messenger of Allah (peace be upon him) said, and you and your companions will say: We heard and we obeyed. Allah will then do with us and with you as He wills.”

In this chain of narrators, Suleiman ibn Ja’far ibn Ibrahim ibn Ali ibn Abdullah ibn Ja’far ibn Abu Talib and Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar al-Qurashi are mentioned as unknown (majhool).

It’s important to note that the presence of unknown narrators (majhool) in the chain means that their identities and reliability have not been established. This may affect the strength and credibility of the chain of narration.


The book “Al-Akhbar al-Mufawwadat” by Az-Zubair ibn Bakkar is attributed to Az-Zubair ibn Bakkar ibn Abdullah al-Qurashi al-Asadi al-Makki (d. 256 AH).

The narration begins with Muhammad ibn Abdullah al-Qurashi, who said: Suleiman ibn Ja’far ibn Ibrahim ibn Muhammad ibn Abdullah ibn Ja’far ibn Abu Talib, and the mother of Ali ibn Abdullah ibn Ja’far, Zaynab bint Ali ibn Abu Talib, and her mother Fatimah bint Rasulullah (peace be upon them) narrated to me. Muhammad ibn Yahya ar-Rabai said: Ibn Shubrumah told me that “I and Abu Hanifa entered upon Ja’far ibn Muhammad ibn Ali, and I greeted him. I was a friend to him. Then I approached Ja’far and said to him, ‘May Allah bless you. This is a man from the people of Iraq who has knowledge and understanding.’

Ja’far replied to me, ‘Perhaps he is the one who measures the religion based on his opinion.

Then he approached me and asked, ‘Is he Nu’man ibn Thabit?’ I replied, ‘Yes, may Allah guide you.’ Ja’far said to him, ‘Fear Allah and do not measure the religion based on your opinion. Indeed, the first one who measured was Iblis when Allah commanded him to prostrate to Adam, and he said, “I am better than him. You created me from fire and created him from clay” [Al-A’raf: 12].’ Then Ja’far said to him, ‘Do you think it is right to measure your head based on your body?’ He replied, ‘No.’ Ja’far then asked him about the saltiness in the eyes, bitterness in the ears, water in the nostrils, and sweetness in the lips, and for what purpose were they made?’ He replied, ‘I don’t know.’

In this narration, Suleiman ibn Ja’far ibn Ibrahim and Muhammad ibn Abdullah ibn Bakkar are mentioned as unknown (majhool).

It is mentioned that this story is attributed to Imam Ja’far or Baqir.

Regarding the statement, “Do not measure the religion based on your opinion, for indeed the first one who measured was Iblis when Allah commanded him to prostrate to Adam,” this site author (the narrator) says that this statement falsely attributes the saying to Imam Ja’far or Baqir. The first one who measured was the angels when they said about the successor on earth, “Will you place therein one who will cause corruption and shed blood?” Humans are also engaged in reasoning, and this reasoning is not incorrect; it is happening as it should.

Allah did not reject the angels’ statement; instead, He said, “Indeed, I know that which you do not know” [Al-Baqarah: 30].

In this way, reasoning was not rejected; rather, it was made subject to divine revelation.

Imam Ja’far or Baqir asked, “Is fasting superior or prayer?” this site author says that this statement is also unnecessary because the superiority of acts of worship is based on their acceptance, and no one knows which act is more acceptable. Therefore, neither fasting nor prayer is superior; both are acts of worship.

Imam Ja’far or Baqir asked, “Is killing a soul a major sin or adultery?” this site author says that this statement is also unnecessary because both are major sins, and which sin becomes more important is determined by whether Allah forgives it. Thus, it is not appropriate to give importance to such fictional stories; rather, the importance should be given to the acceptance of actions in the presence of Allah.

Imam Abu Hanifa’s understanding of jurisprudence includes the importance of reasoning because in contemporary issues, reasoning is applied. And in the past, famous hadiths should be taken into account, not any statement should be considered a saying of the Prophet and followed blindly.

This is the reason why there were differences in beliefs when all kinds of traditions were considered the saying of the Prophet.

 

محمد بن قاسم اور مرزا جہلمی کا دعوی جھل

ایک نیم سنی مرزا جہلمی  نے دعوی کیا کہ محمد بن قاسم سندھ اس لئے آیا تھا کہ اہل بیت کا  پیچھا کر کے ان کو قتل کرے – نیم سنی علی مرزا نے دعوی کیا کہ عمر بن عبد العزیز کے دور میں محمد بن قاسم کو قید کیا گیا اور اسی دوران   محمد بن قاسم  کا انتقال ہو گیا

7:28

پر مرزا نے دعوی کیا کہ

حجاج بن یووصف کے ظلموں کی ایک داستان تھی ، لوگ تنگ تھے -… (الولید بن عبد الملک بن مروان) نے وصیت کی تھی کہ ولید کے بعد خلیفہ بنے گا اس کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبد الملک ، لیکن ولید کو بھی لالچ آ گئی کیونکہ یہ تو ہے ہی لالچی دور جب یزید کے ابا جی (یعنی معاویہ) کو لالچ آ گئی کہ میرا بیٹا خلیفہ بنے تو ولید بن عبد الملک تو صحابی بھی نہیں اس کو لالچ نہ آئے کہ میرا بچہ (خلیفہ ) بنے حالنکہ وہ خود بھی اس وصیت پر خلیفہ بنا تھا جو اس کے ابے نے کی ہوئی تھی – تو سارے گورنروں سے اس نے بیعت لے لی کہ میرے مرنے کے بعد میرا بیٹا خلیفہ بنے گا – ایک گورنر تھا جس نے نے انکار کر دیا اور وہ تھے  عمر بن عبد العزیز  ، وہ اس وقت حجاز کے گورنر تھے اور  حجاج بن یوسف کوفے کا گورنر تھا – عمر بن عبد العزیز کو جیل میں ڈلوا دیا ولید بن عبد الملک نے لیکن وہ عمر ہر دل عزیز شخصیت تھے اس لئے اس وقت پروٹسٹ ہوئے  تھوڑے بہت اور معاملہ انہوں نے ڈیلے کیا – اسی ڈیلے کرنے کے دوران اچانک الولید کی ڈیتھ ہو گئی ، وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا – اور الٹیمٹلی اس کا کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبد الملک خلیفہ بن گیا – سلیمان بن عبد الملک جیسے ہی خلیفہ بنا اس کو یہ احسان  یاد تھا کہ عمر بن عبد العزیز کی وجہ سے میں خلیفہ بنا ہوں … عمر بن عبد العزیز ان کا بہنوئی بھی لگتا تھا …. تو جب وہ خلیفہ بن گئے سلیمان بن عبد الملک ، تو سب سے پہلے عمر بن عبد العزیز کو آزاد کروایا گیا – عمر بن عبد العزیز نے کہا جی سب سے بڑا کلپرٹ ہے  حجاج بن یوسف – اس نے ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے – صحابہ کو قتل کروایا ہے – … سلیمان نے پہلا ایگزیکٹو آڈر کیا کہ حجاج نام کے جتنے  بندے ہیں … کسی بھی حکومتی عہدے پر ہیں ساورں کو جیل میں ڈالو – … اور ان حجاج نامی لوگوں کے تمام رشتہ داروں کو جیل میں ڈالو – جو محمد بن قاسم جو بھتیجا تھا اس کو بھی پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا – یہ تھی ریزن –

راقم کہتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ ان کو تاریخ کا علم نہیں –  علم حدیث میں موجود ہے کہ جب جھوٹے راویوں نے روایات بیان کیں تو انہوں نے تاریخ وفات سے مدد لی –

 حجاج بن یوسف کی وفات کسی مرض کی وجہ سے گھر میں ہوئی أنساب الشرف، ج 12، ص 353 میں وفات کا تذکرہ موجود ہے کہ حجاج بن یوسف کی وفات ہوئی تو لونڈی بھی روئی –

حجاج بن یوسف کی وفات رمضان أو شوال سنة ٩٥ ہجری میں ہوئی اور یہ ولید  بن  عبد الملک   کی خلا فت ختم ہونے سے ایک سال پہلے کا واقعہ ہے – اسی سال محمد بن قاسم کی بھی وفات تاریخ میں موجود ہے

حجاج بن یوسف کے حوالے سے علی مرزا نے دعوی کیا کہ وہ اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کو قتل کرواتا تھا جبکہ اس کی بھی کوئی دلیل نہیں –

محمد بن قاسم الثقفي رحمة الله عليه كي وفاة سن ٩٥ ہجری میں ہوئی  اور یہ عمر بن عبد العزیز کی خلافت سے پہلے ہوئی – سلیمان بن عبد المک کی خلافت تو خود محمد بن قاسم کی وفات کے  ایک  سال بعد شروع ہوتی ہے – اس طرح یہ تمام قصہ جو علی مرزا نے بیان کسی بے بنیاد دعوی سے کم نہیں –

عرصۂ خلافت خلیفہ
٦٥  سے  ٨٦ عبد الملک بن  مروان
٨٦  سے  ٩٦ ولید  بن  عبد الملک
٩٦  سے   ٩٩ سلیمان  بن  عبد  الملک
 ٩٩  سے  ١٠١ عمر  بن  عبد العزیز
١٠١  سے  ١٠٥ یزید  بن  عبد الملک بن  مروان

اسی طرح یہ  دعوی کہ سن ٩٠ ہجری میں ہی اہل بیت کو راجہ دہر نے پناہ دی – اس پر بھی کوئی دلیل تاریخ میں موجود نہیں ہے – ال علی کے خروج کرنے والوں نے اہل بیت بنو عباس  سے بچنے کے لئے سندھ کا رخ ضرور کیا تھا اور یہ بنو امیہ کے بعد ہوا ہے

بنو عباس کے دور میں ال علی میں سے  حسن رضی اللہ عنہ کے پڑ پڑ پوتے نے خروج کیا  جس کا نام محمد بن عبد اللہ المہدی تھا اس کا اہل بیت یعنی بنو عباس نے قتل کیا کیونکہ یہ ان کی خلافت کا انکاری تھا – امام محمد بن عبد المہدی المتوفی ١٤٥ ھ کے قتل  کے بعد ان کے  بیٹے الاشتر  عبد اللہ بن محمد  مدینہ سے نکل کر  کوفہ پہنچے اور وہاں سے بصرہ اور پھر سندھ  کا راستہ  لیا  –  مقاتل  الطالبین از  ابو فرج اصفہانی میں ہے

وعبد الله الأشتر بن محمد «3» بن عبد الله ابن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب وأمه أم سلمة بنت محمد بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب.

كان عبد الله بن محمد بن مسعدة المعلم أخرجه بعد قتل أبيه إلى بلد

الهند «1» فقتل بها، ووجه برأسه إلى أبي جعفر المنصور

عبد اللہ الاشتر اپنے باپ کے قتل کے بعد ھند بھاگ گیا وہاں قتل ہوا اور اس کا سر ابو جعفر منصور کو بھیجا گیا

اس میں اختلاف  ہے کہ  عبد اللہ الاشتر  کا قتل کس مقام پر ہوا بعض نے سندھ کہا ہے بعض نے کابل کہا ہے

کراچی میں عبد اللہ شاہ  غازی  کا مزار بعض  کے بقول عبد اللہ الاشتر  کا ہے – مقاتل طالبین میں ہے کہ عبد اللہ کا سر  خلیفہ ابو  جعفر  کے پاس بھیجا گیا تھا  یعنی اس کا جسم کابل  یا سندھ میں ہی چھوڑ دیا گیا تھا – تاریخ معصومی کی تعلیقات میں عمر بن محمد داؤد پوتہ صاحب کا خیال ہے کہ یہ قبر عبیداللہ بن نبہان کی ہے جو لشکر ابن قاسم  میں تھے

اہل بیت کو راجہ داہر نے پناہ دی ہوئی تھی اس قسم کی کوئی راویات تاریخ اسلام میں موجود نہیں ہے

طاہر القادری نے دعوی کیا کہ سندھ سے  لوگ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچے  اور پھر پانچ صحابی سندھ گئے – اسی قسم کا دعوی مرزا نے بھی دہرایا

 https://www.youtube.com/watch?v=3ir-esZijIU

الإصابة في تمييز الصحابة میں ابن حجر نے ذکر کیا

روى أبو موسى في «الذيل» من طريق بشر «2» بن أحمد الأسفرايني صاحب يحيى بن يحيى النيسابورىّ، حدثنا مكي بن أحمد البردعيّ، سمعت إسحاق بن إبراهيم الطّوسيّ يقول: هو ابن سبع وتسعين سنة، قال: رأيت سرباتك ملك الهند في بلدة تسمى قنّوج «3» – بقاف ونون ثقيلة وواو ساكنة وبعدها جيم، وقيل ميم بدل النّون، فقلت له: كم أتى عليك من السنين؟ قال: سبعمائة «4» وخمس وعشرون سنة.

وزعم أنّ النّبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم أنفذ إليه حذيفة وأسامة وصهيبا يدعونه إلى الإسلام فأجاب وأسلم، وقبل كتاب النّبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم.

قال الذّهبيّ في التّجريد «5» : هذا كذب واضح

ابو موسی نے الذیل میں  ذکر کیا کہ  مكي بن أحمد البردعيّ نے اسحاق بن ابراہیم سے سنا  ہے کہ میں نے   کے راجہ  سرباتک   سے ملاقات کی اس کا کہنا تھا کہ آپ علیہ السلام نے اس کی طرف   صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے   حذیفہ،  اسامہ اور   صہیب رضی اللہ عنہم کو دعوتِ اسلام کا خط دے کر بھیجا تھا تو میں نے اسلام قبول کیا اور نامہ مبارک کو بوسہ دیا۔

ابن حجر عسقلانی ٰ نے الاصابۃ میں اس  روایت  کو نقل کرنے کے بعد  الذہبی   کا اس روایت کے بارے میں یہ قول نقل کیا۔  ھذا کذب واضح  یہ صریح جھوٹ ہے

اسی طرح بعض نے ایک آدمی رتن الہندی کا ذکر کیا –

امام الذھبی نے میزان میں  لکھا ہے

رتن الهندي . وما أدراك ما رتن! شيخ دجال بلا ريب. ظهر بعد الستمائة فادعى الصحبة، والصحابة لا يكذبون. وهذا جريء على الله ورسوله ، وقد الفت في أمره جزءا. وقد قيل: أنه مات سنة اثنتين وثلاثين وستمائة. ومع كونه كذابا فقد كذبوا عليه جملة كبيرة من أسمج الكذب والمحال

رتن الہندی  اور معلوم نہیں کہ یہ رتن کیا ہے – بلا شبہ یہ بڈھا ایک دجال تھا – یہ سن ٦٠٠ ہجری کے بعد ظاہر ہوا اور اس نے کہا یہ صحابی ہے

اس طرح مستند قول یہی ہے کہ اسلام بر صغیر میں محمد بن قاسم رحمہ اللہ علیہ کی وجہ سے آیا

ذو القرنین کا سفر

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں روایت نقل کی

وَفِي الْمُخْتَارَةِ لِلْحَافِظِ الضِّيَاءِ الْمُقَدِّسِيِّ مِنْ طَرِيقِ قُتَيْبَةَ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ ذي القرنين كيف بلغ المشرق والمغرب؟ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ سَخَّرَ لَهُ السَّحَابَ وَقَدَّرَ له الأسباب وبسط له اليد.

حَبِيبِ بْنِ حِمَاز نے کہا میں علی رضی اللہ عنہ  کے پاس تھا جب ایک شخص نے سوال کیا کہ ذو القرنین مشرق و مغرب تک کیسے پہنچے ؟ علی نے کہا سبحان اللہ ، اللہ تعالی نے ان کے لیے بادل کو مسخر کیا اور اسباب پر قدرت دی اور ان کے ہاتھ کو پھیلایا

الْمُخْتَارَةِ  میں المقدسی کی مکمل سند ہے

 أَخْبَرَنَا عبد الْمعز بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَرَوِيُّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ بِهَا قُلْتُ لَهُ أَخْبَرَكُمْ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ الْفُضَيْلِ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنْتَ تَسْمَعُ أَنَا مُحَلِّمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الضَّبِّيُّ أَنَا الْخَلِيلُ بْنُ أَحْمَدَ السِّجْزِيُّ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ السَّرَّاجُ ثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ كَيْفَ بَلَغَ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ وَمُدَّتْ لَهُ الأَسْبَابُ وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ فَقَالَ أَزِيدُكَ قَالَ فَسَكَتَ الرَّجُلُ وَسَكَتَ عَلِيٌّ

 راقم کو اس کی مزید اسناد ملیں

تفسیر عبد الرزاق ح 1706  میں ہے

قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ – أَخْبَرَنِي إِسْرَائِيلُ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ الْأَسَدِيِّ , قَالَ: أَتَى رَجُلٌ فَسَأَلَ عَلِيًّا وَأَنَا عِنْدَهُ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ , فَقَالَ: «هُوَ عَبْدٌ صَالِحٌ نَاصِحٌ لِلَّهِ , فَأَطَاعَ اللَّهَ فَسَخَّرَ لَهُ السَّحَابَ فَحَمَلَهُ عَلَيْهِ , وَمَدَّ لَهُ فِي الْأَسْبَابِ وَبَسَطَ لَهُ فِي النُّورِ» , ثُمَّ قَالَ: «أَيَسُرُّكَ يَا رَجُلُ أَنْ أَزِيدَكَ , فَسَكَتَ الرَّجُلُ وَجَلَسَ»

حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ نے کہا ایک آدمی آیا اور اس نے علی سے ذو القرنین پر  سوال کیا اور میں ان کے پاس تھا ، پس علی نے اس  شخص سے  کہا وہ نیک آدمی تھے نصحت کرتے تھے اللہ کی اطاعت کرتے پس اللہ نے بادل کو ان کے لئے مسخر کیا جو ان کو اٹھاتا تھا اور اسباب کو ان کے لئے پھیلایا اور روشی و نور کو پھیلایا  پھر کہا کیا تم خوش ہو کہ میں نے اس کو زیادہ کر کے بتایا پس وہ آدمی چپ رہا اور بیٹھ گیا

جزء من حديث أبي حفص عمر بن أحمد ابن شاهين عن شيوخه از  ابن شاهين (المتوفى: 385هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْبَاغَنْدِيُّ، نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، نا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَائِدَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ: كَيْفَ بَلَغَ ذُو الْقَرْنَيْنِ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ؟ فَقَالَ عَلِيُّ: «سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ، وَمُدَّتْ لَهُ الْأَسْبَابُ، وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ»

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ، قَالَ: قِيلَ لِعَلِيٍّ: كَيْفَ بَلَغَ ذُو الْقَرْنَيْنِ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ، قَالَ: «سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ، وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ، وَمُدَّ لَهُ الْأَسْبَابُ»، ثُمَّ قَالَ: «أَزِيدُكَ؟» قَالَ: حَسْبِي

حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ نے کہا میں نے علی سے پوچھا کہ ذو القرنین کیسے مشرق ق مغرب تک پہنچے ؟ علی نے کہا  ان کے لئے بادل کو مسخر کیا گیا اور نور کو پھیلایا گیا اور سبب تک ان کو لے جایا گیا – علی کہا اور زیادہ بتاؤں؟ کہا : اتنا  کافی ہے

ابن اسحٰق نے   سیرت میں ذکر کیا

نا يونس عن عمرو بن ثابت عن سماك بن حرب عن رجل من بني أسد قال:

سأل رجل علياً: أرأيت ذا القرنين كيف استطاع أن يبلغ المشرق والمغرب؟

فقال: سخر له السحاب ومد له في الأسباب وبسط له النور فكان الليل والنهار عليه سواء.

سماک نے بنی اسد کے ایک آدمی کی سند سے روایت کیا کہا ایک آدمی نے علی سے سوال کیا  کیا تم نے ذو القرنین کو دیکھا کیسے وہ مشرق و مسغرب تک پہنچ گیا ؟ علی نے کہا اس کے لئے  بادل کو مسخر کیا اور اسباب تک پہنچے اور نور ان کے لئے پھیلایا  پس ان کے لئے دن و رات برابر تھے

ان تمام میں سماک بن حرب کا تفرد ہے

 ابن المبارك: سماك ضعيف في الحديث

 وقال صالح بن محمَّد البغداديُّ: يُضَعَّف

من رواية زكريا بن عدي عن ابن المبارك عن الثوري أنه قال: سماك بن حرب ضعيف

 وقال أبو طالب عن أحمد: مضطرب الحديث

وقال أحمد بن سعد بن أبي مريم عن يحيى بن معين: ثقة، وكان شعبة يضعِّفه

امام احمد ، امام ابن مبارک ، امام صالح اور امام ثوری کے نزدیک سماک ضعیف ہے

ابن اسحٰق نے   سیرت میں  ایک دوسری روایت دی

نا يونس عن بسام مولى علي بن أبي الطفيل قال: قام علي بن أبي طالب على المنبر فقال: سلوني قبل ألا تسألوني ولن تسألوا بعدي مثلي؛ فقام ابن الكواء   فقال: يا أمير المؤمنين ما ذو القرنين، أنبي أو ملك؟ فقال: ليس بملك ولا نبي ولكن كان عبداً صالحاً أحب الله فأحبه وناصح الله بنصحه فضرب على قرنه الأيمن فمات ثم بعثه، ثم ضرب على قرنه الأيسر فمات وفيكم مثله.

بسام مولى علي بن أبي الطفيل نے کہا علی منبر پر کھڑے تھے پس کہا مجھ سے سوال کرو قبل اس کے سوال نہ کر پاؤ اور نہ مجھ سا کو ملے گا جس سے سوال کرو – پس ابن الكواء کھڑا ہوا اور کہا اے امیر المومنین یہ ذو القرنین کون ہے نبی ہے یا بادشاہ ہے ؟ پس علی نے کہا نہ بادشاہ ہے نہ نبی لیکن نیک بندے تھے اللہ   سے محبت کرتے تھے پس اللہ ان سے محبت کرتا تھا  اور وہ اللہ کے لئے نصیحت کرتے تھے – پس انہوں نے سیدھے سینگ پر ضرب  لگائی پس موت ہوئی پھر زندہ ہوئے ، پھر الٹے سینگ پر ضرب کی پس موت ہوئی اور تم لوگوں کے پاس ذو القرنین کے جیسا ایک ہے

سند میں بسام مولى علي بن أبي الطفيل  مجہول الحال ہے  کسی محدث نے اس کیا ذکر نہیں کیا

شرح مشکل الاثار از طحاوی میں ہے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ دَاوُدَ الْخُرَيْبِيُّ , عَنْ بِسَامٍّ الصَّيْرَفِيِّ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: ” سَلُونِي قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلُونِي , وَلَنْ تَسْأَلُوا بَعْدِي مِثْلِي ” فَقَامَ إِلَيْهِ ابْنُ الْكَوَّاءِ فَقَالَ: مَا كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ , أَمَلَكٌ كَانَ أَوْ نَبِيٌّ؟ قَالَ: ” لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا وَلَا مَلَكًا , وَلَكِنَّهُ كَانَ عَبْدًا صَالِحًا , أَحَبَّ اللهَ فَأَحَبَّهُ , وَنَاصَحَ اللهَ فَنَصَحَهُ , ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْمَنِ فَمَاتَ , ثُمَّ بَعَثَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ , ثُمَّ ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْسَرِ فَمَاتَ , وَفِيكُمْ مِثْلُهُ

بِسَامٍّ الصَّيْرَفِيِّ  نے  أَبِي الطُّفَيْلِ سے روایت کیا کہ علی کھڑے ہوئے منبر پر اور کہا سوال کرو قبل کہ سوال نہ کر پاؤ نہ سوال کر پاؤ میرے جیسے کسی اور سے – پس ابْنُ الْكَوَّاءِ  کھڑا ہوا اور کہا یہ ذو القرنین بادشاہ تھے یا نبی ؟ علی نے کہا نہ نبی نہ بادشاہ  لیکن عبد صالح ، اللہ سے محبت کی پس اللہ نے ان سے محبت کی  ، اور اللہ کے لئے نصیحت کی  پس سیدھے سینگ پر ضرب لگائی تو ان کی موت ہوئی پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا پھر انہوں نے الٹے ہاتھ پر سینگ کو مارا تو ان کی موت ہوئی ، اور تمھارے پاس ان کے جیسا ہے

سند میں بسام بن عبد الله، أبو الحسن الصيرفي الأسدي الكوفي یا بسَّام بن عبد الرحمن الصيرفي الكوفي  ہے – امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کے پاس مرسل روایات ہیں

قال البخاري: عنده مراسيل

امام طحاوی نے ذکر کیا کہ

 وَمِمَّنْ كَانَ يَذْهَبُ إِلَى هَذَا الْقَوْلِ أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَامٍ حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَنْهُ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَحَدَّثَنِي عَلِيٌّ

أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَامٍ  نے اسی طرح روایت کیا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ سے جس نے علی سے روایت کیا

ان روایات کی اسناد میں ابو طفیل ہے جو آخری عمر میں دجال مختار ثقفی کے لشکر میں تہے اس کا جھنڈا اٹھاتے تھے

تاریخ دمشق کی روایت ہے کہ

قال سيف بن وهب: دخلت شعب ابن عامر على أبي الطفيل عامر بن واثلة، قال: فإذا شيخ كبير قد وقع حاجبه على عينيه، قال: فقلت له: أحب أن تحدثني بحديث سمعته من علي ليس بينك وبينه أحد؛ قال: أحدثك به إن شاء الله، وتجدني له حافظاً: أقبل علي يتخطى رقاب الناس بالكوفة، حتى صعد المنبر، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: يا أيها الناس، سلوني قبل أن تفقدوني، فوالله ما بين لوحي المصحف آية تخفى علي، فيم أنزلت ولا أين نزلت، ولا ما عنى بها؛ والله لا تلقون أحداً يحدثكم ذلك بعدي حتى تلقوا نبيكم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قال: فقام رجل يتخطى رقاب الناس، فنادى: يا أمير المؤمنين، قال: فقال علي: ما أراك بمسترشد، أو ما أنت مسترشد، قال: يا أمير المؤمنين؛ حدثني عن قول الله عز وجل: ” والذاريات ذرواً “؟ قال: الرياح، ويلك، قال: ” فالحاملات وقراً “؟ قال: السحاب ويلك، قال: ” فالجاريات يسراً “؟ قال: السفن ويلك، قال: ” فالمدبرات أمراً “؟ قال: الملائكة ويلك، قال: يا أمير المؤمنين، أخبرني عن قول الله عز وجل: ” والبيت المعمور، والسقف المرفوع “؟ قال: ويلك بيت في ست سماوات، يدخله كل يوم سبعون ألف ملك لا يعودون إليه إلى يوم القيامة، وهو الضراح، وهو حذاء الكعبة من السماء؛ قال: يا أمير المؤمنين؛ حدثني عن قول الله عز وجل: ” ألم تر إلى الذين بدلوا نعمة الله كفراً وأحلوا قومهم دار البوار، جهنم “؟ قال: ويلك ظلمة قريش، قال: يا أمير المؤمنين! حدثني عن قول الله عز وجل: ” قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالاً الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا “؟ قال: ويلك منهم أهل حروراء، قال: يا أمير المؤمنين، حدثني عن ذي القرنين، أنبياً كان أو رسولاً؟ قال: لم يكن نبياً ولا رسولاً ولكنه عبد ناصح الله عز وجل، فناصحه الله عز وجل وأحب الله فأحبه الله، وإنه دعا قومه إلى الله فضربوه على قرنه فهلك، فغبر زماناً، ثم بعثه الله عز وجل فدعاهم إلى الله عز وجل، فضربوه على قرنه الآخر، فهلك فذلك قرناه.

 شعب ابن عامر آیا اور على أبي الطفيل عامر بن واثلة کے گھر داخل ہوا اور اس وقت ان کی نظر پر پردہ آ گیا تھا پس میں نے ان سے کہا علی کی کوئی بات بیان کریں جس میں نہ اپ اور ان کے درمیان کوئی نہ ہو پس على أبي الطفيل عامر بن واثلة نے کہا ہاں میں بیان کروں گا إن شاء الله اور تم مجھ کو یاد رکھنے والا پاؤ گے : علی لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے اور منبر پر چڑھ گئے پس اللہ کی تعریف کی اور کہا  … پھر ایک شخص اٹھا سوال کیا کہ ذو القرنین کون تھا ؟ نبی یا بادشاہ ؟ علی نے کہا نہ نبی نہ بادشاہ لیکن عبد صالح  اور یہ اللہ سے محبت کرتے اور الله ان سے اور انہوں نے اپنی قوم کو پکارا جس نے ان کے قرن پر ضرب لگائی اور یہ ہلاک ہوئے پھر ایک زمانہ گذر گیا پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا انہوں نے اللہ کی طرف پکارا اور ان کے دوسرے سینگ پر ضرب لگی اور یہ ہلاک ہو گئے پس یہ ان کے سینگ تھے

سند میں سيف بن وهب ہے  جو ضعیف ہے

 قال أحمد: ضعيف الحديث، وقال يحيى: هالك، وقال النسائي: ليس بثقة.

ابن السكن اور امام احمد کے نزدیک ابو طفیل صحابی نہیں ہے

 سَمعت أبا عَبْد الله محمد بن يَعْقُوبَ الأخرم وسُئل: لم ترك البخاري حديث عامر بن وائلة؟ فقال: لأنه كان يُفرط في التشيع.

امام بخاری نے اس کی احادیث نہیں لیں کیونکہ یہ شیعت میں بڑھا ہوا تھا

 وقال ابن المديني: قلت لجَرير بن عَبْد الحميد: أكان مغيرة يكره الروايةَ عن أبي الطُفيل؟ قال: نعَم.

جریر بن عبد الحمید  نے کہا مغیرہ ان روایات کا انکار کرتے جو ابو طفیل بیان کرتا – امام علی بن المديني  نے کہا ہاں

الأعلام از الزركلي  میں ہے

خرج على بني أمية مع المختار الثقفي، مطالبا بدم الحسين.

ابو طفیل نے بنو امیہ کے خلاف  خروج کیا

راقم کہتا ہے یعنی  اس نے خلیفہ عبد الملک یا مروان کے دور میں خروج کیا

دجال اور یاجوج ماجوج ایلین ہیں ؟؟

السلام علیکم

اس ویڈیو پر رائے درکار  ہے

و علیکم السلام

قرآن قریش کی عربی میں نازل ہوا ہے اور دور نبوی میں ایلین مخلوق کا کوئی تصور نہیں تھا لہذا قرانی الفاظ کا وہی مطلب لیا جائے گا جو دور نبوی میں رائج تھا

ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا

سورہ کہف ٩٢

عربی میں سبب کے بہت سے مفہوم ہیں – سبب کہتے ہیں رسی کو جو چھت سے لٹک رہی ہو
في حديث عوف بن مالك: “أَنَّه رأَى في المنامِ كأنّ سَبَباً دُلِّىَ من السَّماء
صحابی نے خواب میں (سبب ) دیکھا کہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف آ رہی ہے اس کو رسول اللہ نے جب چھوڑا تو ابو بکر نے پکڑا
وأرى “سببا” وأصلا إلى السماء
دیکھا سببا رسی کو جس کی جڑ آسمان میں تھی
یہاں رسی کو سبب کہا ہے

سورہ حج میں ہے
مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ
جو کوئی (منافق) یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ دینا و آخرت میں اس (رسول) کی مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر رسی ڈال کر (اپنے گلے کو) کاٹ دے

یہاں سبب کا مطلب رسی ہے

سوره غافر المومن میں ہے
أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ
فرعون نے کہا ہامان سے کہ کوئی بلند عمارت بناو کہ میں آسمانوں میں کوئی اشارہ پاؤں اور موسی کے رب کو جانوں

یہاں اسباب یا اشارہ پانے کے لئے اس نے ٹاور بنانے کا حکم کیا

سورت قصص ٣٨ میں ہے
فَاجْعَلْ لِي صَرْحاً
میرے لئے ٹاور بناو

آیات کو ملا کر سمجھا جا سکتا ہے کہ فرعون کوئی مینار یا ٹاور بنوانے کا حکم کر رہا تھا جس پر چڑھ کر موسی کے رب کا سبب پاوں
اس اشارہ لینے کو کو قرآن میں اسباب کہا گیا ہے

ذو القرنین کے قصے میں سورہ کہف میں ہے

إِنَّا مَكَّنَّا لَهُۥ فِى ٱلْأَرْضِ وَءَاتَيْنَـٰهُ مِن كُلِّ شَىْءٍۢ سَبَبًۭا
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
تم نے اس کو زمین پر تمکنت دی تھی اور اس کو ہر چیز پر سبب (اشارہ ) دیا تھا
پھر اس نے ایک سبب (اشارہ) کو فالو کیا

میں سمجھتا ہوں کہ شاہ ذو القرنین کو اللہ نے قوت و علم دیا کہ چیز دیکھ کر وہ اس کی حکمت جان جاتے تھے
اب چونکہ ان کا پلان تھا کہ تمام زمین پر جہاں تک ہو سکے وہ توحید کو قائم کریں وہ اس مقام سے آئی چیز دیکھ کر اشارہ پاتے اور پھر سفر کرتے وہاں تک جاتے
اور سبب یا اشارہ کو فالو کرتے اگرچہ ان علاقوں میں پہلے کبھی نہ گئے تھے

شاہ ذو القرنین کو تین اشارات ملے ایک کی وجہ سے مشرق تک کا سفر کیا
ایک سے مغرب تک کا سفر کیا
اور ایک کی وجہ سے یاجوج ماجوج کے علاقے تک کا سفر کیا

و اللہ اعلم

سبب کو انگلش میں
lead
ملنا کہہ سکتے ہیں
مثلا ہم کہتے ہیں
He got the lead and solved the problem

یا اردو میں کہتے ہیں کو سرا مل گیا اور مسئلہ حل ہو گیا
رسی کا سرا ہوتا ہے

اس طرح عربی کا سبب یا اردو کا سرا ایک ہے


یاجوج ماجوج کے حوالے سے میرا علم کہتا ہے کہ وہ انسان نہیں ہیں ایلین بھی نہیں ہیںزمیں کے اندر ہی کوئی الگ مخلوق ہے جو سو رہی ہے ، نکلنے پر انسانوں کو قتل کرے گی اور حشر برپا ہو جائے گا

راقم کی  کتاب  یاجوج ماجوج پر دیکھیں

عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صحیحین میں روایات موجود ہیں جن کے مطابق عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا – بعض محققین نے اس روایت سے یہ نکالا کہ عمار کا قتل لشکر معاویہ نے کیا اور اس طرح وہ ایک باغی تھے – اس بات کا آعادہ کئی لوگوں نے کیا جن میں  البانی بھی ہیں

راقم نے ان تمام روایات کو اپنی کتاب قرن اول کی جنگوں میں رد کیا اور محدث فورم کے اہل حدیث مولویوں نے راقم کی تحقیق پر جدل کیا   – حال ہی میں اہل حدیث مولوی حافظ زبیر احمد نے   اپنی تحقیق پیش کی جس سے راقم کے موقف کو تقویت ملی ہے – زبیر نے ان  روایات کو متن کے تحت مضطرب قرار دیا

اہل حدیث کو درکار ہے کہ وہ تاریخ کے ساتھ ساتھ عقائد میں بھی تحقیقی انداز اختیار کریں

 

مکمل کتاب اس لنک سے داؤن لوڈ کریں

الصابئين اور حنیف مذھب

صابئی   / الصابئين/ الصابئون

Sabians

کے نزدیک ان  کا مذھب  شیث بن آدم  و نوح  علیھما السلام  سے آتا ہے- آجکل یہ عراق میں آباد ہیں  – صابئیوں کے ہاں بہتا   پانی (الماء  الجاری ) زندگی ہے لہذا یہ مقدس نہروں دجلہ و فرات کے پاس رہتے ہیں –   صابئی کہتے ہیں کہ ان کے مذھب   کا نام صبغ    سے تھا یعنی پانی میں پبتسمہ دینا  لیکن  غلط العام میں  یہ بدل کر  صابئی  ہو گیا – بعض مفسرین نے کہا کہ لفظ   صابئ  کا تعلق اولاد ادریس سے ہے

  متوشلخ بن إدريس عليه الصلاة والسلام، وكان علي الحنيفية الأولى

 یہ ادریس علیہ السلام  کی نبوت کے بھی قائل ہیں –  کہا جاتا  ہی کہ ان کے نزدیک  آخری پیغمبر یحیی علیہ السلام   تھے اور آخری منزل من اللہ کتاب زبور ہے – یہ  لوگ عراق  میں آج بھی  آباد ہیں – صابئی  مذھب کی اصل تحاریر  نبطی زبان  میں ہیں البتہ ان کے تراجم عربی میں موجود ہیں  –   صابئی اپنے عقائد کو سر   عام  بیان  نہیں کرتے یعنی  ان کے   مذھب قبول کروانے والی مشنریاں/ تبلیغی گروہ   نہیں ہیں  جیسی اسلام و نصرانیت  میں ہیں

آجکل  صابئیوں   کو

Mandaeism

المندائية بھی کہا جاتا ہے – ان کی مقدس کتاب کا نام کنز اربا

Ginza Rba

   ہے جو  آرامی میں ہے

  https://www.youtube.com/watch?v=IC06iY2KHJE

صابئیوں  یا المندائية ‏ کے نزدیک صوم صغیر ہے کہ  تیس دن تک کسی بھی  ذی روح  پر مبنی کھانا  نہیں کھاتے-  تین وقت کی  نماز   (اشراق  ، ظہر اور مغرب)   پڑھتے ہیں  جو وضو کے بعد پڑھی جاتی ہے جس میں صرف قیام و سجود ہوتا ہے – ان کا قبلہ قطب شمالی ہے  – یہ    اپنے اپ کو نصرانیوں سے الگ کرتے ہیں  اور ہر ہفتہ کے دن بپتمسہ   لیتے ہیں –  اللہ کو واحد کہتے ہیں  – آجکل  یہ عراق میں ہی آباد ہیں-

ابتداء  کے حساب سے الصابئين کا آغاز مصر سے ہوتا ہے – وہاں ادریس علیہ السلام کی  نبوت پر ایمان لانے والے موحد اصل میں الصابئين تھے – یہ بت پرستی کے خلاف تھے – اس طرح  صابئی   اور  حنیف  لوگوں  میں مماثلت تھی – دونوں موحد تھے اور بت پرستی کے خلاف تھے  – السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير از شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) میں ہے

 وما سموا صابئين إلا لأنهم صبأوا عن الأديان كلها أي  خرجوا

صابئين  کو نام دیا گیا کیونکہ انہوں نے ادیان سے  صبأوا  کیا یعنی ان سب ادیان  سے نکل گئے

حنیف مذھب والے کسی بھی دین پر نہیں تھے – یہ موحد تھے  – اس وجہ سے ان میں اور صابئين   میں مماثلت تھی

مصر میں  الصابئين  کا ایک فرقہ گمراہ ہوا اور اس نے  اللہ تعالی  کے ساتھ نجوم کی پرستش شروع کر دی -غرائب التفسير وعجائب التأويل از  محمود بن حمزة بن نصر، أبو القاسم برهان الدين الكرماني، ويعرف بتاج القراء (المتوفى: نحو 505هـ) میں  ہے

كان فرعون يتعاطى مذهب الصابئين، وإنهم يعبدون النجوم

فرعون ،الصابئين کے مذھب  پر چلتا تھا اور یہ ستاروں کی پوجا کرتے تھے

یہاں تک کہ انہوں نے سمجھا کہ کائنات کو کئی الہ  کنٹرول کر رہے ہیں – ال فرعون  نے اللہ کو الہ موسی  کہا   اور کہتے کہ دعا کرو کہ یہ وبا ہٹا دے-  اس طرح  ال فرعون   اللہ  تعالی کے وجود و قدرت کے قائل تھے البتہ یہ باقی الصابئين   و حنیف گروہوں   سے الگ ہو چکے تھے- اس طرح دربار فرعون  مصر میں  حنیف عقیدہ والے تھے جن میں سورہ مومن کا رجل مومن بھی  تھا جو مصلحتا  تقیہ کر رہا تھا –   ال فرعون   کو خوب  معلوم تھا کہ موسی (علیہ السلام )  سے پہلے  مصر میں  یوسف (علیہ السلام ) بھی اللہ کا نبی تھا-

صابئیوں کو روحانیون  بھی کہا  جاتا تھا – راقم سمجھتا ہے  کہ ال فرعون اسی عقیدہ پر تھے   – یہ عقیدہ  رکھتے ہیں کہ جو  چیز بھی  آسمان  میں ہے اور زمین پر آتی ہے اس کی روح ہے مثلا  شہاب  یا قوس قزح یا ستاروں و سیاروں میں روح ہے اور  اہرام مصر  انبیاء کی قبروں کے اوپر  تعمیر کیے  گئے  ہیں- حنیف مذھب والے اس قسم کا تصور نہیں رکھتے تھے کہ ستاروں سے روح زمین پر آتی ہے  – آجکل کے صابئی اپنے عقیدہ کو مشرکوں سے الگ کرتے خود کو موحد  کہتے ہیں –

 صابئیوں  کی ایک بستی تستر  یا شوشتر فارس  میں بھی آباد تھی –   البیرونی  کی الاثار  الباقیہ   کے مطابق یہ  یہودی قبائل تھے جو غلام بنا کر  بابل  لائے  گئے تھے  ،  وہاں یہ جادو و کہانت سے متاثر  ہوئے ،  اصل توریت کو کھو بیٹھے – البیرونی   نے اس طرح تمام صابئیوں   کو مشرک کہہ دیا ہے ،  راقم  اس رائے سے متفق نہیں ہے  –

صابئیوں  پر  اہل سنت کے پاس  تحریری  معلومات  کا مصدر  صرف  ایک کتاب  ہے   جس کا نام ہے

الفلاحة النبطية   یا   الزراعة النبطية

 The Nabataean Agriculture

ہے – جو  أبو بكر أحمد بن علي بن قيس  المعروف  ابن وحشية النبطي کی تالیف ہے- کہا  جاتا  ہے کہ یہ سن ٢٩١ ھ  میں لکھی گئی تھی –  یہ کتاب   صلاح الدین  ایوبی  کے   طبیب   یہودی  حبر    میمونید

Maimonides

کے پاس بھی تھی اور اس نے بھی اس کے حوالے  اپنی کتب میں دیے ہیں – ابن وحشیہ  کے دور  میں یہ  الحران  میں آباد  تھے اور ان کو نبطی  مذھب  کہا  جاتا تھا – تب سے لے کر آج تک  صرف ان پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی – صرف شهرستاتی و ابن حزم نے سرسری تبصرے کیے ہیں- ابن وحشیہ کے مطابق صابئی  کہتے ہیں کہ ہیکل سلیمانی کے مقام    پر ایک مندر  تعمیر  انبیاء سے  پہلے سے موجود  تھا  جو  مریخ  کا مندر  تھا  اور طاموز

Tammùz /  Dumuzid

 کا بت اس میں نصب  تھا  جو  انات ( عربي  دیوی المناة)  کا عاشق  تھا [1]

موسوعة الملل والأديان میں  عَلوي بن عبد القادر السقاف نے ذکر کیا کہ

وقد أفتى أبو سعيد الاصطخري بأن لا تقبل الجزية منهم  ونازعه في ذلك جماعة من الفقهاء.

 أبو سعيد الاصطخري نے فتوی دیا کہ صابئیوں کا جزیہ قبول نہیں جس پر  فقہاء کی ایک جماعت نے اس پر اس سے جھگڑا گیا

دَرْجُ الدُّرر في تَفِسيِر الآيِ والسُّوَر از  أبو بكر عبد القاهر بن عبد الرحمن بن محمد الفارسي الأصل، الجرجاني الدار (المتوفى: 471هـ) میں ہے

والصّابئون: أهل كتاب عند أبي حنيفة تحلّ مناكحتهم وذبائحهم

صابئی   ‏، امام ابو حنیفہ کے نزدیک اہل کتاب ہیں ان سے نکاح اور ان کا ذبیحہ  حلال ہے

امام شافعی کا موقف عجیب و غریب ہے – ان کے نزدیک یہ اہل کتاب ہیں لیکن ذبیحہ  حلال نہیں ہے

مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه از  إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) میں ہے

قال إسحاق: لا بأس بذبائح الصابئين لأنهم طائفة من أهل الكتاب

 إسحاق بن راهويه نے کہا الصابئين  کے ذبیحہ میں کوئی برائی نہیں یہ اہل کتاب کا ایک طائفہ ہیں

کتاب غرائب التفسير وعجائب التأويل از  محمود بن حمزة بن نصر، أبو القاسم برهان الدين الكرماني، ويعرف بتاج القراء (المتوفى: نحو 505هـ) میں ہے

والصابئون مقدمون على النصارى في الزمان، لأنهم كانوا قبلهم

صابئی   ، نصرانیوں سے بھی پہلے کے ہیں

أخرج ابْن أبي حَاتِم عَن أبي الزِّنَاد قَالَ: الصابئون قَالَ: الصابئون مِمَّا يَلِي الْعرَاق وهم بكوثى يُؤمنُونَ بالنبيين كلهم

 أبي الزِّنَاد نے کہا صابئی    عراق میں كوثى میں ہیں اور یہ تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں

كوثى  اصل میں ابراھیم علیہ السلام  کا شہر ہے

قرآن سورہ الحج میں ہے

الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ

اس میں صلوات  بعض  مفسرین  کے   مطابق مَسَاجِد الصابئين ہیں

[1]

The Last Pagans of Iraq: Ibn Wahshiyya And His Nabatean Agriculture (Islamic History and Civilization) (Islamic History & Civilization)  –  Jaakko Hameen-Anttila ، Brill Academic Publishers  June 1, 2006

 

==========================================================================

Sabi’een / Sabians

The religion of the Sabians is derived from the teachings of Seth, son of Adam, and Noah (peace be upon them). Nowadays, they are mainly found in Iraq. Sabians consider water to be a source of life, so they reside near the sacred rivers Tigris and Euphrates. They claim that the name of their religion was originally ‘Sabgha,’ which means ‘to immerse in water,’ but over time it changed to ‘Sabian.’ Some scholars suggest that the term ‘Sabian’ is derived from the descendants of Idris (Enoch).

They also believe in the prophet-hood of Idris (peace be upon him) and claim that the last prophet among them was Yahya (John the Baptist, peace be upon him), and the final divine scripture they recognize is the Psalms (Zabur). Sabians still exist in Iraq today. The original texts of Sabian religion are in their native language, but translations are available in Arabic.

Sabians do not openly propagate their beliefs or engage in missionary activities like Islam and Christianity.

Currently, Sabians are also known as Mandaeans. Their sacred scripture is called the Ginza Rba, written in Mandaic, an Aramaic dialect.

Sabians or Mandaeans observe a minor fast, abstaining from food associated with living beings for thirty days. They perform three daily prayers (Ishraq, Zuhr, and Maghrib) that are recited after ablution, consisting only of standing and prostration. Their qibla is the northern pole. They differentiate themselves from Christians and commemorate Baptism every Sunday. They believe in the oneness of Allah and are primarily concentrated in Iraq.

According to historical accounts, the Sabians originated from Egypt, where they were originally monotheists who believed in the prophet-hood of Idris. They opposed idolatry, similar to the Hanif religion. Both groups were monotheistic and opposed idol worship. Al-Siraj al-Muneer fi al-I’anah ‘ala Ma’rifat Ba’di Ma’ani Kalami Rabbina al-Hakeem al-Khabeer by Shams al-Din Muhammad ibn Ahmad al-Khatib al-Sharbini (d. 977 AH) contains information on this matter.

Pharaoh followed the religion of the Sabians, and they worshiped the stars. Pharaoh called Allah the God of Moses and asked him to pray for the removal of the plague. Although Pharaoh acknowledged the existence and power of Allah, he had separated himself from the other Sabian and Hanif groups. Thus, in the court of Pharaoh, there were Hanif believers, including a man who disguised his faith (mentioned in Surah al-Mumineen). Pharaoh was well aware that Musa (Moses, peace be upon him) was not the first prophet in Egypt, as Yusuf (Joseph, peace be upon him) had also been a prophet of Allah.

Sabians were also known as spiritualists, and this author hold opinion  that Pharaohs of Egypt  had similar beliefs. They believe that anything in the sky or on the earth possesses a soul. For example, celestial bodies like meteors, rainbows, stars, and planets have souls, and the pyramids of Egypt were constructed over the graves of the prophets. Hanif believers did not hold such beliefs that the soul descends from the stars to the earth. Nowadays, Sabians dissociate themselves from polytheists and identify as monotheists.

There was also a Sabian community settled in Tuster or Shushtar, Persia. Al-Biruni’s Al-Athar al-Baqiyah confirms that they were Jewish.

بیت المقدس کی ایک حدیث

قصہ مختصر
حدیث رسول ہے کہ میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا اس کو زوال نہ ہو گا حتی کہ اللہ کا امر آئے
اس حدیث میں لاحقے لگائے گئے – بعض راویوں نے اضافہ کیا کہ اہل شام و اہل بیت المقدس غالب رہیں گے – آج کل کے فلسطین کے  سیاسی حالات میں اس موضوع اضافہ کا ذکر پھر شروع ہو چلا ہے – قابل غور ہے کہ شام و ارض مقدس  پر صلیبی نصرانی، یہودی ، نصیری ادیان  کو اللہ نے غالب کیا اور مسلمانوں کو آزمائش میں ڈالا ان کو ملغوب کیا – اس طرح ہم کو بتایا گیا کہ یہ حدیث صحیح تھی لیکن اس حدیث کا تعلق شروع کے صرف بارہ خلفاء سے تھا اور امر اللہ یعنی اللہ  کے حکم سے مراد  مسلمانوں کے زوال کا حکم تھا

مسند احمد  میں عبد اللہ بن احمد  کا اضافہ ہے ح ٢٢٣٢٠  میں ہے

 قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ: حَدَّثَنِي مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ السَّيْبَانِيِّ (4) وَاسْمُهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:    لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الدِّينِ ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأْوَاءَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ   . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَأَيْنَ هُمْ؟ قَالَ:    بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ

أَبِي أُمَامَةَ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے فرمایا  میری امت میں ایک گروہ رہے گا جو اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا ، ان پر غالب رہے گا ، اس کو مخالف  نقصان نہ دے سکیں گے سوائے اس کے کہ جو ان کو غم ملے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے اور وہ اسی صورت حال میں رہیں گے  – ہم نے کہا   یا رسول  اللہ یہ کہاں

ہیں ؟  فرمایا بیت المقدس میں اور اس کے مضافات میںسند میں   عمرو بن عبد الله السَّيْباني الحضرمي  مجہول ہے

مجمع الزوائد  میں ہیثمی  نے کہا

وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ

اس کے رجال  ثقات ہیں

اس کی وجہ یہ ہے کہ عجلی اور ابن حبان نے مجہول کو بھی ثقہ قرار دیا ہے  – اس طرح اس روایت کو قبول کرنے والے  کی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے  جبکہ یہ متن صحیح نہیں

 قال الذهبي في   الميزان  : ما علمت روى عنه سوى يحيى بن أبي عمرو.

وقال في   الديوان  : مجهول.

وقال في   المغني  : لا يعرف.

قال الذهبي في   ديوان الضعفاء   (رقم: 3188)   تابعيٌّ مجهولٌ

بعض کتاب میں اس قسم کا متن  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ہے –  أبو يعلى والطبراني في الأوسط  میں  أبي هريرة رضي الله عنه سے منسوب ہے

حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ دِمَشْقَ، وَمَا حَوْلَهُ وَعَلَى أَبْوَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ، لَا يَضُرُّهُمْ خُذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ»

طبرانی نے لکھا ہے

 لم يروه عن عامر الأحول إلا الوليد بن عباد، تفرد به إسماعيل بن عياش. وقال ابن عدي: وهذا الحديث بهذا اللفظ ليس يرويه غير ابن عياش عن الوليد بن عباد

سند میں الوليد بن عباد  مجہول ہے –  الهيثمي نے اس کو  رجاله ثقات   المجمع 10/ 60 – 61 بول دیا ہے جبکہ اسی کتاب میں دوسرے مقام پر  ایک دوسری حدیث پر کہا  وفيه الوليد بن عباد وهو مجهول   المجمع 7/ 288 یہ مجہول ہے  -اسی طرح يعقوب بن سفيان کی کتاب   المعرفة   (2/ 298) میں طرق  ہے

عن محمد بن عبد العزيز الرَّمْلي ثنا عباد بن عباد أبو عتبة عن أبي زرعة عن أبي وعلة -شيخ من عك– قال: قدم علينا كريب من مصر يريد معاوية، فزرناه، فقال: ما أدري عدد ما حدثني مُرّة البهزي في خلاء وفي جماعة أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول:   لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من ناوأهم، وهم كالإناء بين الأكلة حتى يأتي أمر الله عز وجل وهم كذلك

فقلنا: يا رسول الله، من هم؟ وأين هم؟ قال:   بأكناف بيت المقدس

طبرانی اور تاریخ دمشق از ابن عساکر میں ہے

أنا أبو بكر محمد بن عبد الله بن ريذة (4) أنا أبو القاسم سليمان بن أحمد الطبراني نا حصين بن وهب الأرسوفي نا زكريا بن نافع الأرسوفي نا عباد بن عباد الرملي عن أبي زرعة السيباني عن أبي زرعة الوعلاني عن كريب السحولي حدثني مرة البهزي أنه سمع رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من ناوأهم وهم كالأناس (5) الآكلة حتى يأتي أمر الله وهم كذلك قلنا يا رسول الله وأين هم قال بأكناف بيت المقدس

اس طرق میں  یہ متن  أبو وعلة یا  أبي زرعة الوعلاني کی سند سے ہے – یہ بھی مجہول ہے

اس طرح یہ تمام طرق  ضعیف ہیں  البتہ فلسطین کے   عرب ان کو پیش کر کے دعوی کرتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی علمی گروہ نہیں بلکہ محض  بیت المقدس میں رہنے والے  عرب ہیں جو کسی بھی فرقے کے ہو سکتے ہیں

یہ روایت ضعیف  و شامی  مجہولین کی روایت کردہ ہیں

===================
مزید تفصیل کے لئے کتاب بلا عنوان دیکھیں

194 Downloads

تحقیق روایت الدبيلة

قصہ مختصر
ایک رافضی صفت شخص نے ذکر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث بیان کی جس میں منافقوں پر دبیلہ پھوڑا نکلنے کا ذکر کیا – اسنادی حیثیت میں یہ حدیث سند میں اضطراب رکھتی ہے اور بعض محدثین کے اقوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں راوی کا ادراج ہے  حسب عادت رافضی نے دعوی جڑ دیا کہ وہ اصحاب رسول جن کی وفات دبیلہ سے ہوئی وہ سب منافق تھے – راقم نے غور کیا کہ دبیلہ سے مراد وہ دانہ ہے جو طاعون میں نکلتا ہے اور طاعون سے معاذ بن جبل ، ابو درداء اور بلال رضی اللہ عنہما کی وفات ہو اور اس میں بغل میں دانہ دبیلہ نکلتا ہے – صحابی رسول معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات دبیلہ سے ہوئی
اس سے ظاہر ہوا کہ کسی بیماری میں وفات ہو جانا عذاب الہی نہیں الا یہ کہ اس کو خاص اس شخص کے لئے بیان کیا جائے مثلا سامری کو موسی نے بددعا دی کہ تو کہتا پھرے گا مجھے مت چھونا – یہ دعا راقم سمجھتا ہے یقینا سامری کو لگ گئی ہو گی

صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ» لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ
أَبِي نَضْرَةَ نے قيس بن عباد أبو عبد الله الضبعي القيسي البصري سے روایت کیا کہ میں نے عمار سے کہا تم نے اپنا کیا کرایا دیکھا جو تم نے علی کے معاملے میں کیا , تمہاری کیا رائے ہے یا کوئی عہد دیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ؟ عمار نے کہا رسول اللہ نے ہم سے کوئی عہد ایسا نہ لیا جو دوسروں سے نہ لیا ہو لیکن حذیفہ نے حدیث بیان کی : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ، آٹھ ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہ ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے ان میں سے آٹھ کے لئے دبیلہ کافی ہوگا
اور باقی چار ، (أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ نے کہا ) یاد نہیں امام شعبہ نے کیا روایت کیا تھا

مسند احمد میں اسی سند سے ہے
ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ، سِرَاجٌ مِنْ نَارٍ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ حَتَّى يَنْجُمَ فِي صُدُورِهِمْ
ان منافقوں کے کندھوں سے اگ کا شعلہ ظاہر ہوگا یہاں تک کہ ان کی چھاتیاں توڑ کر نکل جائے گا۔

مسند البزار میں ہے
قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، قَالَ: قُلْنَا لِعَمَّارٍ، أَرَأَيْتَ قِتَالَكُمْ؟ أَرَأْيٌ رَأَيْتُمُوهُ فَإِنَّ الرَّأْيَ يُخْطِيءُ
قیس نے عمار سے پوچھا کہ کیا تم اپنے اپنا قتال ان سے دیکھا کیا ، تم غلط رائے پر تھے

الجمع بين الصحيحين میں أبو محمد عبد الحق بن عبد الرحمن الإشبيلي (المتوفى: 582 هـ) کہتے ہیں
قَال الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ: لَمْ أَحْفَظْ مَا قَال شُعْبَةُ فِيهِمْ
اسود بن عامر کو یاد نہیں رہا کہ باقی چار کے بارے میں شعبہ نے کیا کہا

بحث

اس روایت کے متن میں کافی الفاظ میں شک موجود ہے کہ آخر میں میں گمان کرتا ہوں کس کا قول ہے – اس روایت میں محدثین کا اختلاف اس پر ہے کہ آگے کا کلام کس کا ہے ؟ مسند احمد اور مسند ابو یعلی میں حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَجَّاجٌ کی سند سے ہے
قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ: «إِنَّ فِي أُمَّتِي اثْنَيْ عَشَرَ مُنَافِقًا
مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَر نے کہا امام شعبہ نے گمان کیا کہ حُذَيْفَةُ نے روایت کیا کہ اصحاب رسول میں ١٢ منافق ہیں

مسند ابو یعلی میں حَدَّثَنَا الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ کی سند سے ہے
غندر نے کہا قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ
امام شعبہ نے گمان کیا کہ حُذَيْفَةُ نے روایت کیا کہ اصحاب رسول میں ١٢ منافق ہیں

صحیح مسلم میں مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، کی سند سے ہے
قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ، وَقَالَ غُنْدَرٌ أُرَاهُ
محمد بن جعفر نے کہا : شعبہ نے کہا : میں گمان کرتا ہوں کہ حُذَيْفَةُ نے روایت کیا ، اور غندر نے کہا میں دیکھتا ہوں

الجمع بين الصحيحين میں أبو محمد عبد الحق بن عبد الرحمن الإشبيلي (المتوفى: 582 هـ) کہتے ہیں
شك شعبة في هذا الحديث هل هو عَنْ عمَّارٍ عَنِ النَّبِي – صلى الله عليه وسلم -، أَوْ عَنْ عمَّارٍ عَنْ حُذَيفَة عَنِ النَّبِي – صلى الله عليه وسلم -. ولم يخرج البخاري هذا الحديث.
اس حدیث میں شعبہ کو شک ہے کہ کیا یہ حدیث عمار نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے روایت کی یا عمار نے حُذَيفَة نے انہوں نے نبی صلى الله عليه وسلم سے روایت کی

امام شعبہ جب یہ حدیث سناتے تو خود شک میں آ جاتے کہ کس نے کس کی بات بیان کی ، پھر اپنے گمان کو پیش کرتے کہ اغلبا یہ حُذَيْفَةُ نے کہا ہو گا کہ اصحاب رسول میں ١٢ منافق ہیں – امام ابو حاتم کا موقف ہے کہ گمان ہے کے الفاظ قیس کے ہی ہیں جن کو لوگ امام شعبہ کا کلام سمجھ رہے ہیں – علل ابن ابی حاتم میں ہے
وسمعتُ أَبِي وسُئِلَ (1) عَنْ حديثِ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَة (2) ، عَنْ قَيْس بْنِ عُبَادٍ؛ قَالَ: قُلْتُ لعمَّار بْنِ يَاسِرٍ: أرأيتُم قِتَالَكُمْ، أَرَأْيٌ رَأَيْتُمُوهُ؛ فإنَّ الرأيَ يُخطِئ ويُصيب، أو عَهْدٌ عَهِدَهُ إليكم النبيُّ (ص) ؟ … ، وَفِي آخِرِ الْحَدِيثِ قَالَ – وأحسَبُه -: حدَّثني حُذَيفة: أنَّ النبيَّ (ص) قَالَ: فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا؟
فَقَالَ: هَذَا يقولُهُ قَيْس بن عُبَادٍ، عن حُذَيفة، وليس كلُّ إنسانٍ يَقُولُهُ
ابن ابی حاتم نے کہا میں نے اپنے باپ سے سوال کیا حدیث قَتَادَةَ کی أَبِي نَضْرَةَ سے ان کی قَيْسٍ بن عباد سے کہ میں نے عمار سے کہا تم اپنے قتال کو کیسا دیکھتے ہو تمہاری رائے غلطی کی تھی یا کوئی رسول اللہ سے عہد کر رکھا تھا ؟ اور دوسری حدیث میں ہے کہ کہا : انہوں نے گمان کیا کہ حُذَيفة نے روایت کیا کہ نبی نے فرمایا کہ میری امت میں ١٢ منافق ہیں ؟
امام ابو حاتم نے فرمایا یہ قَيْسٍ بن عباد نے بیان کیا ہے حُذَيفة سے روایت میں اور ایسا سب انسان نہیں کہتے

اس کا مطلب ہے کہ امام ابو حاتم نے نزدیک اس حدیث کے متن میں کلام قیس بن عباد مل گیا ہے – اس کو ادراج کہتے ہیں – دیگر راوی خود شک کے ساتھ بیان کرتے تھے کہ یہ شاید حذیفہ نے کہا ہو – متن میں اشکال موجود ہے کہ راوی کا ادراج ہے اور وأحسَبُه (گمان ہے ) کہنے والا قیس ہے نہ کہ صحابی حُذَيفة کا ادراج ہے

قیس بن عباد کو امام الذھبی نے تاریخ اسلام میں شِيعِيٌّ قرار دیا ہے – قیس نے خلیفہ عبد الملک کے خلاف خروج بھی کیا اور حجاج نے گردن اڑا دی – بقول ابو مخنف یہ عثمان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دے رہا تھا

ابن حزم نے المحلى میں اس سلسلے میں ایک روایت کو کذب قرار دیا
أما حديث حذيفة فساقط: لأنه من طريق الوليد بن جميع – وهو هالك – ولا نراه يعلم من وضع الحديث فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر، وعمر وعثمان، وطلحة، وسعد بن أبي وقاص – رضي الله عنهم – أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله وسلم وإلقاءه من العقبة في تبوك – وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالى واضعه – فسقط التعلق به – والحمد لله رب العالمين
اور جہاں تک حذيفة کی حدیث کا تعلق ہے پس ساقط ہے – وہ الوليد بن جميع (الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ) کے طرق سے روایت ہے جو ہلاک کرنے والا راوی ہے اور ہم نہیں دیکھتے کہ جان سکیں کہ اس کو کس نے گھڑا ہے (سوائے اسی کے ) کیونکہ اس نے روایت کی ہیں خبریں جن میں ہے کہ ابو بکر اور عمر اور عثمان اور طلحہ اور سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور ان سے عقبہ تبوک میں ملے اور یہ بات کذب ہے گھڑی ہوئی ہے

اب ہم دیکھتے ہیں کہ الوليد بن جميع کے طرق سے روایت امام مسلم نے بیان کی ہے
أَبُو أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ؟ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللهِ كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ قَالَ فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: أَخْبِرْهُ إِذْ سَأَلَكَ، قَالَ: كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَإِنْ كُنْتَ مِنْهُمْ فَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ، وَأَشْهَدُ بِاللهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، وَعَذَرَ ثَلَاثَةً، قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ، وَقَدْ كَانَ فِي حَرَّةٍ فَمَشَى فَقَالَ: «إِنَّ الْمَاءَ قَلِيلٌ، فَلَا يَسْبِقْنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ» فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوهُ، فَلَعَنَهُمْ يَوْمَئِذٍ
: زہیر بن حرب، ابواحمد کوفی ولید بن جمیع ،ابوطفیل سے روایت ہے کہ اہل عقبہ (گھاٹی والوں ) میں سے ایک آدمی اور حذیفہ (رض) کے درمیان عام لوگوں کی طرح جھگڑا ہوا تو انہوں نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ بتاؤ اصحاب عقبہ کتنے تھے (حذیفہ (رض) سے) لوگوں نے کہا آپ ان کے سوال کا جواب دیں جو انہوں نے آپ سے کیا ہے حذیفہ (رض) نے کہا ہم کو خبر دی جاتی تھی کہ وہ چودہ تھے اور اگر تم بھی انہیں میں سے ہو تو وہ پندرہ ہوجائیں گے میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ ایسے تھے جنہوں نے دنیا کی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے رضامندی کے لئے جہاد کیا۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں الولید بن جمیع کہتا ہے کہ عقبہ والے (گھاٹی والوں ) شخص أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ تھے جن سے حُذَيْفَةَ کا جھگڑا ہوا تھا گویا اس نے ان کو منافق قرار دیا نعوذ باللہ
الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ حُذَيْفَةَ وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ , فَقَالَ: أُنْشِدُكَ بِاللَّهِ , كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: فَأَخْبِرْهُ فَقَدْ سَأَلَكَ , فَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ: قَدْ كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ , فَقَالَ حُذَيْفَةُ: ” وَإِنْ كُنْتُ فِيهِمْ فَقَدْ كَانُوا خَمْسَةَ عَشَرَ , أَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حِزْبُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ , وَعُذِرَ ثَلَاثَةٌ , قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا عَلِمْنَا مَا يُرِيدُ الْقَوْمُ “

یہ واقعہ معجم طبرانی میں اور مسند البزار میں ولید بن جمیع کی سند سے آیا ہے
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْعَقَبَةَ فَلَا تَأْخُذُوهَا فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ، وَعَمَّارٌ يَسُوقُ، وَحُذَيْفَةُ يَقُودُ بِهِ فَإِذَا هُمْ بِرَوَاحِلَ عَلَيْهَا قَوْمٌ مُتَلَثِّمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُدْ قُدْ، وَيَا عَمَّارُ سُقْ سُقْ» ، فَأَقْبَلَ عَمَّارٌ عَلَى الْقَوْمِ فَضَرَبَ وُجُوهَ رَوَاحِلِهِمْ فَلَمَّا هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَقَبَةِ قَالَ: ” يَا عَمَّارُ، قَدْ عَرَفْتُ الْقَوْمَ، أَوْ قَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّةَ الْقَوْمِ أَوِ الرَّوَاحِلِ أَتَدْرِي مَا أَرَادَ الْقَوْمُ؟ “، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَرَادُوا أَنْ يَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے کہا جب جنگ تبوک ہوئی اپ صلی الله علیہ وسلم نے منادی کا حکم دیا کہ وہ گھاٹی میں سے جائیں گے کوئی اور اس میں سے نہ گزرے پس اپ گھاٹی میں سے گزرے اور عمار اونٹنی ہانک رہے تھے اور اس کی نکیل پکڑے تھے کہ ایک قوم ڈھاٹے باندھے آئی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمار کو حکم کیا پس عمار آگے بڑھے اور ان کے چہروں پر ضربیں لگائیں نکیل سے پس جب اس گھاٹی سے اترے اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اے عمار کیا تم ان کو جانتے ہو؟ یہ کیا چاہتے تھے ؟ میں نے کہا الله اور اس کا رسول جانتے ہیں فرمایا:یہ ہمیں (گھاٹی میں ) دھکیلنا چاہتے تھے

صفی الرحمٰن مبارکپوری نے اپنی کتاب ” الرحیق المختوم ” میں اس واقعہ کو صحیح سمجھتے ہوئے بیان کیا ہے
ورجع الجيش الإسلامي من تبوك مظفرين منصورين، لم ينالوا كيدا، وكفى الله المؤمنين القتال، وفي الطريق عند عقبة حاول اثنا عشر رجلا من المنافقين الفتك بالنبي صلى الله عليه وسلم، وذلك أنه حينما كان يمر بتلك العقبة كان معه عمار يقود بزمام ناقته، وحذيفة بن اليمان يسوقها، وأخذ الناس ببطن الوادي، فانتهز أولئك المنافقون هذه الفرصة، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحباه يسيران إذ سمعوا وكزة القوم من ورائهم، قد غشوه وهم ملتثمون، فبعث حذيفة فضرب وجوه رواحلهم بمحجن كان معه، فأرعبهم الله، فأسرعوا في الفرار حتى لحقوا بالقوم، وأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بأسمائهم، وبما هموا به، فلذلك كان حذيفة يسمى بصاحب سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفي ذلك يقول الله تعالى: وَهَمُّوا بِما لَمْ يَنالُوا.
اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے

الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ نے بعض روایات میں ان اصحاب رسول کے نام لئے ہیں جو جلیل القدر ہیں اس کی یہ روایت ابن حزم تک پہنچیں اور انہوں نے اس کو کذب قرار دیا

قال العقيلي: فِي حديثه اضطراب.
وقال ابْن حبّان: فحش تفرُّده.

امام مسلم نے حُذَيْفَةَ اور ایک شخص کے جھگڑے کی جو روایت نقل کی ہے اسمیں الولید کا تفرد ہے
کتاب التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل از ابن کثیر کےمطابق
قال الحاكم : لو لم يذكره مسلم في صحيحه كان أولى
امام حاکم نے کہا اگر مسلم نے اس کا صحیح میں ذکر نہ کیا ہوتا تو وہ اولی تھا

گھاٹی والا واقعہ ساقط الاعتبار ہے

دلائل النبوه میں بیہقی نے روایت کیا
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَصْبَعِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: ” كُنْتُ آخِذًا بِخِطَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقُودُ بِهِ وَعَمَّارٌ يَسُوقُهُ أَوْ أَنَا أَسُوقُهُ وَعَمَّارٌ يَقُودُهُ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَقَبَةِ فَإِذَا أَنَا بِاثْنَىْ عَشَرَ رَاكِبًا قَدِ [ص:261] اعْتَرَضُوهُ فِيهَا قَالَ: فَأَنْبَهْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِمْ فَصَرَخَ بِهِمْ فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ عَرَفْتُمُ الْقَوْمَ؟» قُلْنَا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ كَانُوا مُتَلَثِّمِينَ وَلَكِنَّا قَدْ عَرَفْنَا الرِّكَابَ قَالَ: «هَؤُلَاءِ الْمُنَافِقُونَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهَلْ تَدْرُونَ مَا أَرَادُوا؟» قُلْنَا: لَا قَالَ: «أَرَادُوا أَنْ يَزْحَمُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ فَيُلْقُوهُ مِنْهَا» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ أَوَلَا تَبْعَثُ إِلَى عَشَائِرِهِمْ حَتَّى يَبْعَثَ إِلَيْكَ كُلُّ قَوْمٍ بِرَأْسِ صَاحِبِهِمْ قَالَ: «لَا أَكْرَهُ أَنْ تَحَدَّثَ الْعَرَبُ بَيْنَهَا أَنَّ مُحَمَّدًا قَاتَلَ بِقَوْمٍ حَتَّى إِذَا أَظْهَرَهُ اللهُ بِهِمْ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ يَقْتُلُهُمْ» ثُمَّ قَالَ: «اللهُمَّ ارْمِهِمْ بِالدُّبَيْلَةِ» . قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الدُّبَيْلَةُ قَالَ: «شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يَقَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَهْلِكُ»
سند منقطع ہے
جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے
سعيد بن فيروز أبو البختري الطائي كثير الإرسال عن عمر وعلي وابن مسعود وحذيفة وغيرهم رضي الله عنهم
أبو البختري الطائي یہ حذيفة سے ارسال کرتا ہے
اس کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے بھی نہیں ہے امام احمد کا قول ہے کہ اس نے علی سے نہیں سنا – حذيفة رضی اللہ عنہ المتوفی ٣٦ ھ کی وفات تو عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی پہلے کی ہے
المعجم الأوسط از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ، نا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: إِنِّي لَآخِذٌ بِزِمَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقُودُهُ، وَعَمَّارٌ يَسُوقُ بِهِ، أَوْ عَمَّارٌ يَقُودَهُ، وَأَنَا أَسُوقُ بِهِ، إِذِ اسْتَقْبَلَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مُتَلَثِّمِينَ قَالَ: «هَؤُلَاءِ الْمُنَافِقُونَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ» . قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَبْعَثُ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَتَقْتُلَهُ، فَقَالَ: «أَكْرَهُ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَكْفِيَنهُمْ بِالدُّبَيْلَةِ» ، قُلْنَا: وَمَا الدُّبَيْلَةُ؟ قَالَ: «شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يُوضَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَقْتُلُهُ»
راوی عبد الله بن سَلِمة پر خود عمرو بن مرة کا قول ہے : كان يحدثنا فنعرف وننكر كان قد كبر. ہم ان سے روایت کرتے تو انکار کرتے یا روایت لے لیتے
عبد اللہ آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: كان عبد اللَّه بن سلمة قد كبر، فكان يحدثنا فتعرف وتنكر.
شعبہ نے ذکر کیا کہ عمرو نے جب سنا اس وقت تک عبد اللہ بوڑھے ہو چکے تھے پس حدیث سن کر انکار کرتے یا لیتے
یہ سند اس طرح مضبوط نہیں رہتی

بارہ منافق کون تھے ؟

طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: ” تَسْمِيَةُ أَصْحَابِ الْعَقَبَةِ:
الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ نے گھاٹی والے لوگوں پر ذکر کے کہ ان میں تھے

مُعْتِبُ بْنُ قُشَيْرِ بْنِ مُلَيْلٍ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ شَهِدَ بَدْرًا، وَهُوَ الَّذِي قَالَ: يَعِدُنَا مُحَمَّدٌ كُنُوزَ كِسْرَى وَقَيْصَرَ، وَأَحَدُنَا لَا يَأْمَنُ عَلَى خَلَائِهِ. وَهُوَ الَّذِي قَالَ: لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا ” قَالَ الزُّبَيْرُ: ” وَهُوَ الَّذِي شَهِدَ عَلَيْهِ الزُّبَيْرُ بِهَذَا الْكَلَامِ.

وَدِيعَةُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَهُوَ الَّذِي قَالَ: إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ ونَلْعَبُ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ: مَالِي أَرَى قُرَّاءَنَا هَؤُلَاءِ أَرْغَبَنَا بُطُونًا وأَجْبَنَنَا عِنْدَ اللِّقَاءِ.

وَجِدُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نَبِيلِ بْنِ الْحَارِثِ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا مُحَمَّدُ، مَنْ هَذَا الْأَسْوَدُ كَثِيرٌ شَعْرُهُ، عَيْنَاهُ كَأَنَّهُمَا قِدْرَانِ مِنْ صُفْرٍ، يَنْظُرُ بِعَيْنَيْ شَيْطَانٍ، وَكَبِدُهُ كَبِدُ حِمَارٍ، يُخْبِرُ الْمُنَافِقِينَ بِخَبَرِكَ، وَهُوَ الْمُجْتَرُّ بِخُرْئِهِ؟

وَالْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ الطَّائِيُّ، حَلِيفٌ لِبَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَهُوَ الَّذِي سَبَقَ إِلَى الْوَشَلِ الَّذِي نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَمَسَّهُ أَحَدٌ، فَاسْتَقَى مِنْهُ.

وَأَوْسُ بْنُ قَيْظِيٍّ، وَهُوَ مِنْ بَنِي حَارِثَةَ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ: إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ، وَهُوَ جَدُّ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ،

وَالْجَلَّاسُ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ الصَّامِتِ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَبَلَغَنَا أَنَّهُ تَابَ بَعْدَ ذَلِكَ.

وَسَعْدُ بْنُ زُرَارَةَ مِنْ بَنِي مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ، وَهُوَ الْمُدَخِّنُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَصْغَرَهُمْ سِنًّا وَأَخْبَثَهُمْ.

وَقَيْسُ بْنُ قَهْدٍ مِنْ بَنِي مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ.

وَسُوَيْدٌ

وَدَاعِسٌ، وَهُمَا مِنْ بَنِي بَلْحُبْلى وَهُمَا مِمَّنَ جَهَّزَ ابْنُ أُبَيٍّ فِي تَبُوكَ يُخَذِّلَانِ النَّاسَ.

وَقَيْسُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ،

وَزَيْدُ بْنُ اللَّصِيتِ، وَكَانَ مِنْ يَهُودِ قَيْنُقَاعَ، فَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ، وَفِيهِ غِشُّ الْيَهُودِ، وَنِفَاقُ مَنْ نَافَقَ.

وَسَلَامَةُ بْنُ الْحُمَامِ، مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ، فَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ “

زبیر بن بکار کے مطابق یہ منافق تھے

ابن هشام نے السيرة (4: 143) میں ان بارہ منافقوں کے نام لئے ہیں جنہوں نے جنگ تبوک سے واپس آنے پر اپ کو مسجد ضرار انے کی دعوت دی
فقال: وكان الذين بنوه اثنا عشر رجلا:
خذام بن خالد من بني عبيد بن زيد أَحَدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ ومن داره أخرج مسجد الشقاق
وثعلبة بن حاطب من بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ
ومعتب بن قشير من بني ضبيعة بن زيد
وأبو حبيبة بن الأعزر من بني ضبيعة ابن زيد
وعباد بن حنيف أخو سهل بن حنيف مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عوف
وجارية بن عامر وابناه
مجمع بن جارية
وزيد بن جارية
ونبتل بن الحرث من بني ضبيعة
وبحزج من بني ضبيعة و
بجاد بن عثمان من بني ضبيعة
ووديعة بن ثابت وهو من بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ رهط أبي لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ.

یہ وہ بارہ منافق ہیں جن کے اغلبا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی حذيفة رضی اللہ عنہ سے ذکر کیے

الدبيلة کا ذکر

شیعہ کتاب الکافی کی روایت ہے
علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن النوفلي، عن السكوني، عن جعفر، عن آبائه عليهم السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله لاإله إلا هو ليدفع بالصدقة الداء و الدبيلة
امام جعفر نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ بلا شبہ خدا جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں وہ ہر بیماری و الدبيلة کو صدقه سے ہٹا دیتا ہے

قال الفيروز آبادي: الدبل: الطاعون
الفيروز آبادي نے کہا الدبل سے طاعون مراد ہے
الدبيله : الطاعون ، ودمل يظهر في الجوف ويقتل صاحبه غالبا . ( مجمع البحرين ـ دبل ـ 5 : 369 ) ہ
قال ابن الاثير: ذات الجنب: هي الدبيلة
ابن اثیر کا کہنا ہے ذات الجنب ہی الدبيلة ہے

طاعون سے معاذ بن جبل ، ابو درداء وغیرہ کی وفات ہوئی ہے اور اہل سنت میں طاعون میں مرنے والے کو حدیث نبوی کی وجہ سے شہید کا درجہ دیا جاتا ہے

کتاب معارف از ابن قتیبہ میں ہے
وولى «معاوية» الخلافة عشرين سنة إلا شهرا. وتوفى ب «دمشق» سنة ستين. وهو ابن اثنتين وثمانين سنة.
وقال ابن إسحاق: مات وله ثمان وسبعون سنة. وكانت علّته الناقبات «2» [1]- يعنى: الدّبيلة [2] .
ابن اسحاق نے ذکر کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات الدّبيلة سے ہوئی

خروج حسین سنجیدہ تحقیق

212 Downloads

کتاب  ڈونلوڈ  کرنے کے  لئے پہلے   کنڈیشن والے باکس پر کلک کریں پھر  ڈونلوڈ بٹن کو کلک کریں 

قصہ مختصر

حسن رضی اللہ عنہ نے سن ٤١ ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس شرط پر خلافت سونپ دی کہ خلافت معاویہ کی وفات پر حسن پر واپس لوٹ آئے گی – اللہ کو منظور ہوا کہ حسن کی وفات ، معاویہ سے پہلے ہو گئی اور یہ معائدہ ختم ہو گیا – معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزدہ کر دیا – اس پر بعض اصاغر صحابہ مثلا حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو اعتراض ہوا کیونکہ یہ خلیفہ بننے کے متمنی تھے- اکابر اصحاب رسول نے بیعت یزید کر لی لیکن حسین اور ابن زبیر نے توقف کی راہ لی – اس دوران پانچ ماہ گذر گئے اور یزید کی جانب سے کوئی سرزنش نہ کی گئی – لیکن اس کے بعد حسین اپنے عزیز و اقارب اور رفقاء کو لے کر ببانگ دھل مدینہ سے عراق گئے کہ وہ وہاں اپنی خلافت قائم کریں گے – بنو امیہ کی حکومت نے ان کو نہیں روکا یہاں تک کہ حسین کے کزن مسلم بن عقیل کوفہ میں بلوا میں گرفتار ہوئے اور حسین کے ہمدرد روپوش ہو گئے – حسین نے کوفہ کا ارادہ ترک کیا اور شمال کا رخ کیا یہاں تک کہ ٤٠ میل دور کربلا پہنچے – حسین شہید ہوئے اور ان کے ساتھی بھی ، صرف امام زین العابدین بچ گئے جن کو کسی شیعہ نے بے ہوش کیا اور جب ان کو ہوش آیا تو وہ دمشق میں تھے – اسی دوران کربلا میں حسین کا سر گورنر ابن زیاد پر پیش ہوا اور ابن زیاد نے حسین کی تعریف کی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی – دمشق سے زین العابدین کو مدینہ واپس بھیج دیا گیا – اس واقعہ کے ایک سال بعد ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں خروج کیا اور مکہ کی طرف فرار ہوئے جب حکومت نے مدینہ کا کنٹرول واپس حاصل کیا – سو سال بعد ابو مخنف نام کے ایک قصہ گو نے مقتل حسین کی داستان رقم کی اور اس میں وہ لوگوں کو قتل حسین اور ابن زبیر کی واردات سناتا تھا – اسی طرح اور قصہ گو بھی کر رہے تھے – حسین اور ابن زبیر کے قصوں کو سن ٢٠٠ ہجری کے بعد امام طبری نے اپنی تاریخ میں جمع کیا

 

سن ٦٠ ہجری میں نواسہ رسول ، حسین رضی اللہ عنہ اپنے شیعوں (یعنی حمایتیوں ) کے ایک امیر و امام تھے جو کوفہ و عراق میں موجود تھے – وہ عراق میں اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن اس کوشش میں شہید ہو گئے – حسین بن ابی طالب (پیدائش سن ٤ ھ ) کی شہادت محرم کی دس راتیں گرزنے کے بعد سن ٦١ ہجری بمطابق دس اکتوبر سن ٦٨٠ ع اتوار کے دن ہوئی –

مقتل حسین پر سب سے اول کتاب متروک محدث و اخباری ابو مخنف لوط بن یحیی الأزدي المتوفی ١٥٧ ھ کی کتاب ہے – ابو مخنف کی کتاب مقتل حسین کا اصل نسخہ دنیا میں موجود نہیں ہے لیکن اسی کی رویات بعد میں تاریخ طبری میں جا بجا نقل ہوئی ہیں – اہل سنت میں تاریخ ابن کثیر ، تاریخ اسلام از امام الذھبی ، ابن اثیر کی الکامل بہت پیش کی جاتی ہیں – انہی کتب میں بیان کردہ روایات کو ملا جلا کر آجکل مکمل قصے بنا دیے جاتے ہیں – امام طبری نے اپنی تاریخ میں اسناد دیں ہیں اور اس میں یزید و معاویہ پر قابل اعتراض مواد ابو مخنف متروک کی سند سے ہے – البتہ الکامل از اثیر اور ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ میں سندیں نہیں دی گئیں اور روایات کو ضعیف و موضوع کی تہذیب کے بغیر ملا کر لکھ دیا گیا ہے – افسوس اس بد احتیاطی کی وجہ سے یہ کتب لائق اعتبار نہیں ہیں – ابن خلدون نے ان لوگوں کا شمار لکیر کے فقیروں میں کیا ہے – علامہ لکھتے ہیں

ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے قلم بند کردئے لیکن بعد میں آنے والے بن بلائے نالائقوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملا دیے ، اوہام و ذاتی خیالات بھر دئے – اسی طرح کمزور منقولہ اور خود تراشیدہ روایات تاریخ میں بھر دیں – بعد میں آنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے، جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم و کاست ہم تک پہنچا دئے – انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ … بے پر کی اڑائی ہوئی باتوں کا رد کیا اور نہ معقول جواب دیا

چونکہ لوگ مجبور ہیں کہ جرح و تعدیل نہیں کر سکتے لہذا انہی تواریخ کو پڑھ کر پریشان ہو جاتے ہیں – ان کو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ابن کثیر ایک محدث تھے لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنی تاریخ پر کتاب البدایہ میں انہوں نے روایات پر جرح و تعدیل نہیں کی ہے جس طرح وہ درکار تھی – عام لوگ ان کتب کو پڑھ کر اس طرح منکر و معلول و منقطع روایات کو بھی سر آنکھوں پر بیٹھا دیتے ہیں – رہی سہی کسر البانی نے پوری کر دی ہے جس نے بغض معاویہ کی کوئی روایت نہیں جس کی تصحیح یا تحسین نہ کی ہو – پھر اہل حدیث مقلدوں کا ایک لشکر ہے جو یو ٹیوب پر رافضیوں کی ڈفلی بجا رہا ہے – فرقوں کے ان اعمال سیاہ کو دیکھ کر راقم نے محسوس کیا کہ صحیح تاریخ مرتب کی جائے – الحمد للہ اس حوالے سے کتاب المشاجرت و المشاحنات کافی پسند کی گئی

قتل حسین پر کتب جذباتیت سے بھر پور ہیں – اکثر بحث اس پر ہی مذکور ہوتی ہے کہ یزید بن معاویہ (پیدائش٢٣ یا ٢٥ ھ – وفات صفر سن ٦٤ ہجری )نے قتل کا حکم دیا تھا یا نہیں دیا تھا – اس پر بحث کم ہوتی ہے کہ حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما میں جو معائدہ ہوا وہ کیا تھا – اس کی شقوں پر کیا اختلاف ہوا ؟ علی رضی اللہ عنہ کا خروج کرنے والے پر کیا حکم ہے ؟ ان سوالات سے بچ کر خروج حسین پر کلام کرنا عبث مشقت ہے

بعض افسانہ سازوں نے تحقیق کے نام پر گمان کیا ہے کہ حسین کوفہ اپنے شیعوں کو سمجھانے گئے تھے یا کوفہ کا دورہ کر رہے تھے – راقم کہتا ہے یہ خیال آرائی بالکل لغو ہے – حسین کوفہ میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور سن ٦١ میں بلا شبہ اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن افسوس وہ عصبیت جمع نہ کر پائے جو ان ساتھ لڑتی اور مدد کرتی – حسین کا قتل حکومت بنو امیہ کی ایماء پر کیا گیا تھا یا نہیں یہ صحیح سند سے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی صحیح طور پر معلوم ہے کہ قاتلین حسین کون لوگ تھے – البتہ یہ معروف ہے کہ حسین شہید ہوئے ، ان کے قافلہ کے بچنے والے افراد دمشق شام لے جائے گئے اور پھر مدینہ منتقل کیے گئے –

خروج حسین کے حوالے سے امت میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے – اہل تشیع میں سے بعض کے نزدیک قتل حسین اصل میں طلقاء (مکہ کے نو مسلموں ) کا بدلہ عداوت تھا جو وہ بنو ہاشم سے لے رہے تھے – یہ بات احمقانہ ہے کیونکہ بدر کے مشرک مقتولین کے ساتھ ہر قریشی و انصاری نے قتال کیا تھا یہ کوئی بنو ہاشم یا بنو امیہ کی جنگ نہیں تھی مومنوں اور کفار کی جنگ تھی – اہل تشیع کے نزدیک خلیفہ کا تقرر کرنا اللہ کا کام ہے اور اہل تشیع کے نزدیک حسین کا بطور خلیفہ تقرر اللہ تعالی نے کیا تھا – اس عقیدے کو عقیدہ امامت کہا جاتا ہے البتہ اس کی منصوص دلیل قرآن میں نہیں ہے – اہل سنت اس میں ان سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جمہور جس کو خلیفہ مقرر کر دیں وہی خلیفہ ہے ، منصف خلافت وھبی یا من جانب اللہ نہیں ہے – اہل سنت میں سے بعض کے نزدیک قتل حسین کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی – تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ محض غالیوں کی روایات و تصورات ہیں –

اہل تشیع میں تمام کا اور اہل سنت میں سے بعض کا موقف ہے کہ معاویہ (رضی اللہ عنہ ) ایک ظالم حاکم تھے ، ان کی حکومت بادشاہت تھی ، حق پر نہیں تھی – ان کے مطابق معاویہ کی بھنبھوڑ کھا نے والی سلطنت کی خبر حدیث میں دی گئی تھی اور معاویہ کے گورنر حرام خور تھے – ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اہل بیت کو خمس (مال غنیمت میں پانچواں حصہ ) وقت پر نہیں دیا جاتا تھا – راقم کہتا ہے ان اقوال پر غور کرنے سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ خمس کا مال اسی صورت مال حلال بنتا ہے جب دین حق کی خاطر جنگ کی گئی ہو – اب جب معاویہ اور ان کے اہلکار ظالم تھے اور ان کی جنگیں حق کے لئے نہیں تھی تو ان کی پروسٹی ممالک سے جنگیں ظلم و جبر ہی ہوئیں لہذا ان جنگوں سے حاصل شدہ مال غنیمت اور پھر اس کا خمس بھی مال حرام ہوا – لیکن ہم جانتے ہیں کہ حسن و حسين نے معاویہ سے مال خمس لیا جس سے ظاہر ہے کہ معاویہ حق پر تھے اور ان کی جانب سے کی جانے والی جنگیں بھی حق پر تھیں –

زیر نظر کتاب اصلا راقم کی کتاب المشاجرات و المشاحنات (قرن اول کی جنگیں ) کے چند چنیدہ مباحث ہیں جن کو ضروری اضافہ جات کے بعد افادہ عامہ کی غرض سے یہاں جمع کیا گیا ہے – کتاب میں مصادر اہل سنت کے علاوہ مصادر اہل تشیع کو بھی ملا کر جذباتیت سے الگ ہو کر ایک سنجیدہ بحث کی گئی ہے – کتاب میں قتل حسین اور منکرات یزید سے متعلق روایات پر جرح و تعدیل پیش کی گئی ہے تاکہ تحقیق کرنے والے اس مقام سے آگے جا سکیں-
ابو شہر یار
٢٠٢٠

قرون ثلاثہ کے مشہور ظاہری فرقے

اس کتاب میں قرون ثلاثہ (سن ٣٥ ھ – ٣٠٠ ھ ) کے ظاہری فرقوں (غیر باطنی فرقوں ) میں سے فرقہ خوارج اول ، روافض ، زیدی فرقہ ، فرقہ معتزلہ کے پیش کردہ مسئلہ خلق القرآن وغیرہ کا متاخرین کی آراء کے ساتھ ذکر ہے – ساتھ ہی منہج المرجئہ کے موقف بھی ذکر ہے جو اہل سنت میں فرقہ نہیں ایک رجحان و منہج تھا

فہم سلف دین میں حجت نہیں

فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ اٹھویں صدی کے ائمہ مثلا ابن تیمیہ و ابن کثیر و ابن قیم سلف ہیں اور وہ سلف کے مذھب پر ہیں – راقم کہتا ہے سلف سے دین لینے کا کوئی حکم قرآن و حدیث میں نہیں ہے – دین میں کتاب اللہ و حدیث کے بعد صرف اصحاب رسول و تابعین کے اقوال کی اہمیت ہے

   بد ترین مثالوں میں سے ایک  مثال یہ ہے کہ ان علماء کے نزدیک معاویہ رضی الله عنہ خلفاء راشدین کی صف سے خارج ہیں – ان کو یہ فرقے بادشاہ قرار دیتے ہیں گویا کہ دین میں بادشاہ کا منصب کوئی معیوب بات ہو- قرآن میں سلیمان و داود و طالوت کو ملک یعنی بادشاہ ہی قرار دیا گیا ہے- رسول   صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ایک اور چیز کو بھی لازم پکڑنے کا حکم فرما رہے ہیں اور وہ دوسری چیز جماعت، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے – یہ ناممکن ہے کہ کاتب الوحی کو یا سفیر اسلام معاویہ جن کی تربیت رسول صلی الله علیہ وسلم نے کی ہو وہ راشد یا ہدایت یافتہ نہ ہوں بلکہ ان فرقوں کے تیسری اور آٹھویں صدی کے مولوی ہوں – حدیث معلوم ہے کہ دین کا کوئی کام جو غیرصحابی کرے اس کا محشر میں وہ وزن نہ اٹھے گا جو ایک صحابی کے عمل سے اٹھے گا- تو پھر کس طرح نام نہاد سلف کا فہم اصحاب رسول کے فہم سے بڑھ کر ہے ؟

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح طور پر فرماتے ہیں :

 وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء : ١١٥)

اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ بری جگہ ہے۔

بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے (جہنم میں جانے کا سبب) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ مؤمنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی بیان کیا ہے۔ یہ بات (مؤمنوں کی راہ) یعنی جمہور اصحاب رسول کا ذکر  یہاں کیوں لایا گیا ؟  صرف یہ گوش گزار کرانے کے لئے اجماع صحابہ ہی اصل حجت ہے ، بعد کے مولویوں کے فتوے  ہرگز اس زمرے میں نہیں آتے –  معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کے سال کو عام الجماعہ کہا جاتا ہے یعنی وہ سال جس میں تمام امت پھر جمع ہوئی- 

پھران سلفی بدعتی فرقوں کی جرات و غرور  کا یہ عالم ہے کہ  یہ اصحاب  رسول اللہ  تک کو غلط عقیدہ پر  قرار دے دیتے ہیں  یا کہتے ہیں وہ صحیح عقائد  بھول  جاتے تھے 

فرقہ خوارج پر اہل سنت کا اضطراب

اہل سنت  میں خوارج  کے حوالے سے سخت  خلجان  پایا جاتا ہے – ہر صدی میں ان کے حوالے سے نت نئے خیالات کا اظہار  کتب اہل سنت  میں  ملتا ہے – عصر  حاضر  کے دہشت گردوں کو  بھی  خوارج کہا  جانے لگا ہے –  اصل  خوارج کا اصحاب رسول سے عقائد  میں کوئی اختلاف  نہیں تھا  محض  معاملات  پر تھا  لیکن یہ اختلاف  بڑھ  کر قتال  تک چلا گیا تھا –  – اس وجہ سے اصحاب رسول  نے کبھی بھی خوارج کی تکفیر  نہیں کی

متاخرین خوارج نے اہل سنت سے عقیدہ  و منہج میں اختلاف  کیا ہے – یہ فرقہ معدوم  نہیں ہے جیسا  کہ مغالطہ  اہل سنت دیتے ہیں –  آجکل  خوارج کی اکثریت  تیونس  لیبیا اور عمان میں  ہے جہاں ان کی حکومتیں رہی ہیں   یا  ہیں

لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ

سورہ الحجرات کي آيات ہيں

بِسْمِ اللّـهِ الرَّحْـمنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـهِ وَرَسُوْلِـه وَاتَّقُوا اللّـهَ اِنَّ اللّـهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ (1)
اے ايمان والو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـه بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (2)
اے ايمان والو اپني آوازيں نبي کي آواز سے بلند نہ کيا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کيا کرو جيسا کہ تم ايک دوسرے سے کيا کرتے ہو
کہيں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائيں اور تمہيں خبر بھي نہ ہو
اِنَّ الَّـذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَـهُـمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّـهِ اُولئِكَ الَّـذِيْنَ امْتَحَنَ اللّـهُ قُلُوْبَـهُـمْ لِلتَّقْوى لَـهُـمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِـيْمٌ (3)
بے شک جو لوگ اپني آوازيں رسول اللہ کے حضور دھيمي کر ليتے ہيں يہي لوگ ہيں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پرہيزگاري کے ليے جانچ ليا ہے ان
کے ليے بخشش اور بڑا اجر ہے
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَكْثَرُهُـمْ لَا يَعْقِلُوْنَ (4)
بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہيں اکثر ان ميں سے عقل نہيں رکھتے
وَلَوْ اَنَّـهُـمْ صَبَـرُوْا حَتّـى تَخْرُجَ اِلَيْـهِـمْ لَكَانَ خَيْـرًا لَّـهُـمْ وَاللّـهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ (5)
اور اگر وہ صبر کرتے يہاں تک کہ آپ ان کے پاس سے نکل کر آتے تو ان کے ليے بہتر ہوتا اور اللہ بخشنے والا نہايت رحم والا ہے

ان آيات ميں بتايا جا رہا ہے کہ لوگ حجرات النبي کے باہر جمع ہو جاتے اور شور کرتے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم باہر تشريف لائيں-اس عمل پر تنبيہ کي گئي کہ اگر آئندہ ايسا کيا تو عمل فنا ہو جائيں گے اور معلوم تک نہ ہو گا – صحيح بخاري ميں اس کے برعکس بيان کيا گيا ہے
کہ حجرات النبي کے باہر نہيں بلکہ عين نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے شيخين کا جھگڑا ہوا اور اور وہ اپني اپني چلانے کي کوشش کر رہے تھے – حديث بيان کي جاتي ہے

حَدَّثَني إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُمْ: «أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرِ القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ عُمَرُ: بَلْ أَمِّرِ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلاَفِي قَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُقَدِّمُوا} [الحجرات: 1] حَتَّى انْقَضَتْ , (خ) 4367
ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے بيان کيا کہ ابن زبير رضي اللہ عنہ نے ان کو خبر دي کہ نبو تميم کا وفد نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں پہنچا – ابو بکر رضي اللہ عنہ نے کہا القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ کو ان کا امير کريں ، عمر رضي اللہ عنہ نے کہا بلکہ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ کو ان کا امير کريں ،- ابو بکر نے کہا عمر تم تو ميرے خلاف ہي بات کرنا ، عمر نے کہا ميں نے تمہاري مخالفت کا ارادہ نہيں کيا پس اس ميں کلام ہوا اور آواز بلند ہو گئي پس يہ آيت نازل ہوئي
اے مومنوں رسول اللہ کے سامنے پيش قدمي مت کرو

واقعہ بيان کيا جاتا ہے کہ وفد ميں ميں دو صحابي الأقرع بْن حابس التميمي المُجاشِعِي اور القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ تھے
ابن ابي مليکہ نے کہا کہ اس وفد کي آمد کے موقعہ پر امير کے انتخاب پر ابو بکر اور عمر کي بحث ہوئي اور بات شور تک پہنچي تو حکم نازل ہوا کہ رسول کي موجودگي ميں پيش قدمي مت کرو – راوي ابن ابي مليکہ سے يہ قصہ نافع بن عمر الجمحي اور ابن جريج نے نقل کيا ہے نافع بن عمر پر ابن سعد کا قول ہے کہ ثقہ ہے مگر اس ميں کوئي چيز ہے قال ابن سعد ثقة فيه شيء – دوسرا راوي ابن جريج مدلس ہے اور اس قصہ کي تمام اسناد ميں اس کا عنعنہ ہے – يعني يہ روايت صحيح کے درجہ کي نہيں سمجھي جا سکتي

ترمذي نے اس کے تحت لکھا ہے کہ
قَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ مُرْسَلاً وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
بعض نے اس قصہ کو بيان کيا ہے کہ ابن ابي مليکہ اس قصہ کو مرسل بيان کرتا تھا اور اس روايت کي سند کو ابن زبير تک نہيں لاتا تھا

راقم کہتا ہے بہت ممکن ہے ابن ابي مليکہ کو ابن زبير سے يہ قصہ نہيں ملا بلکہ کسي اور سے ملا اور بعد ميں راويوں نے اس کي سند کو بلند کيا اور اس کو ابن زبير کا بيان کردہ قصہ بنا ديا

دوسري طرف صحيح مسلم کي حديث ہے کہ جب يہ آيت نازل ہوئي (رسول اللہ کي موجودگي ميں آواز بلند مت کرو ) تو انصاري موذن ثابت بن قيس
کا ذکر ہوا کہ ان کو لگا ہے کہ آيت ان کے بارے ميں ہے – اس حديث ميں سعد بن معاذ رضي اللہ عنہ کا بھي ذکر ہے جن کي وفات جنگ خندق پر ہوئي جو سن 3 يا 4 ہجري کا واقعہ ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ} [الحجرات: 2] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ جَلَسَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ فِي بَيْتِهِ وَقَالَ: أَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ: «يَا أَبَا عَمْرٍو مَا شَأْنُ ثَابِتٍ؟ اشْتَكَى؟» قَالَ سَعْدٌ: إِنَّهُ لَجَارِي وَمَا عَلِمْتُ لَهُ بِشَكْوَى قَالَ: فَأَتَاهُ سَعْدٌ فَذَكَرَ لَهُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ثَابِتٌ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي مِنْ أَرْفَعِكُمْ صَوْتًا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ»
انس بن مالک نے کہا جب آيت نازل ہوئي اے ايمان والوں اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو آخر تک تو ثابت بن قيس رضي اللہ عنہ (جو موذن تھے ) گھر جا کر بيٹھ گئے اور کہنے لگے ميں جہنمي ہوں … رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے يہ نوٹ کيا کہ قيس موجود نہيں سعد سے پوچھا کہ ابو عمرو ثابت کا کيا حال ہے ؟ سعد بن معاذ نے کہا وہ ميرے پڑوسي ہيں اور مجھ کو کسي شکوہ کا علم نہيں پس سعد قيس کے ہاں پہنچے اور قول رسول کا ذکر کيا – ثابت نے کہا آيت نازل ہوئي ہے کہ اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو ميں تو جہنمي ہو گيا پس اس کا ذکر نبي سے کيا گيا آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا وہ جنتي ہے

اس روايت کي بنا پر صحيح بخاري کي روايت کو صحيح نہيں سمجھا جا سکتا کيونکہ اس کے تحت آيات کا نزول غزوہ خندق سے بھي پہلے ہوا اور تاريخا وفد بنو تميم کي آمد اس غزوہ کے بعد ہي ممکن ہے کيونکہ بنو تميم عرب ميں مدينہ کے مشرق ميں تھے جہاں آجکل رياض ہے اور وہاں سے مدينہ تک رستے ميں مشرکين کے قبائل تھے لہذا وہاں سے کثیر تعداد میں لوگوں کا مسجد النبی تک آنا ممکن نہیں تھا  – متن قرآن ميں موجود ہے کہ لوگ جن کو تنبيہ کي گئي وہ حجرات النبي کے باہر سے پکارا کرتے تھے وہ نبي کے سامنے شور و غل نہيں کر رہے تھے

مشکل الاثار از طحاوي کي روايت ہے جس کے مطابق سورہ حجرات کي پہلي آيت کا تعلق عبادات سے ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ شُعَيْبٍ الْكَيْسَانِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي فِي إمْلَاءِ أَبِي يُوسُفَ عَلَيْهِمْ , عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ عَنْ حِبَالِ بْنِ رُفَيْدَةَ عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ عَرَفَةَ وَالنَّاسُ يَسْأَلُونَ يَرَوْنَ أَنَّهُ يَوْمُ النَّحْرِ فَقَالَتْ لِجَارِيَةٍ لَهَا: ” أَخْرِجِي لِمَسْرُوقٍ سَوِيقًا وَحَلِّيهِ فَلَوْلَا أَنِّي صَائِمَةٌ لَذُقْتُهُ ” فَقَالَ لَهَا: أَصُمْتِ هَذَا الْيَوْمَ وَهُوَ يُشَكُّ فِيهِ؟ فَقَالَتْ: ” نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] كَانَ قَوْمٌ يَتَقَدَّمُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّوْمِ وَفِيمَا أَشَبَهَهُ , فَنُهُوا عَنْ ذَلِكَ

عائشہ رضي اللہ عنہا کے شاگرد مسروق نے روايت کيا کہ ام المومنين نے بيان کيا کہ ايک قوم تھي جو روزے اور اسي قسم کي عبادات ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم پر پيش قدمي کرتي اس آيت {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] کے ذريعہ سے ان کو اس (بدعتي ) عمل سے منع کيا گيا

طبراني ميں ہے
فَقَالَتْ: إِنَّ نَاسًا كَانُوا يَتَقَدَّمُونَ الشَّهْرَ، فَيَصُومُونَ قَبْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
عائشہ رضي اللہ عنہا نے فرمايا لوگ (رمضان کا ) مہينہ انے سے پہلے روزے رکھتے کہ رسول اللہ سے بھي پہلے روزے رکھ ليتے

شيعہ تفسير طوسي ميں ہے
وقال الحسن: ذبح قوم قبل صلاة العيد يوم النحر، فأمروا باعادة ذبيحة اخرى
حسن بصري نے کہا لوگ رسول اللہ سے پہلے عيد ميں ذبح کرتے پس ان کو حکم ديا گيا کہ دوبارہ ذبح کرو ، نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد

شيعہ تفسير طبرسي ميں ہے
نزل قوله « يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم » إلى قوله « غفور رحيم » في وفد تميم و هم عطارد بن حاجب بن زرارة في أشراف من بني تميم منهم الأقرع بن حابس و الزبرقان بن بدر و عمرو بن الأهتم و قيس بن عاصم في وفد عظيم فلما دخلوا المسجد نادوا رسول الله (صلى الله عليهوآلهوسلّم) من وراء الحجرات أن اخرج إلينا يا محمد

آيت آواز بلند مت کرو ، يہ نازل ہوئي وفد بنو تميم کي آمد پر اور اس ميں عطارد بن حاجب بن زرارة تھا جو بنو تميم کے معزز لوگ تھے جن ميں الأقرع بن حابس اور الزبرقان بن بدر اور عمرو بن الأهتم اور قيس بن عاصم بھي تھے – يہ ايک عظيم وفد تھا پس جب يہ مسجد النبي ميں داخل ہوئے انہوں نے پکارنا شروع کر ديا حجرات النبي کے پيچھے سے اے محمد باہر نکلو

راقم کہتا ہے يہ تفسير اس حد تک  متن قرآن سے مطابقت رکھتي ہے کہ حجرات سے باہر لوگ پکار رہے تھے اور آيت کے شان نزول کا ابو بکر يا عمر سے کوئي تعلق نہيں ہے

الکافي از کليني ميں تدفين حسن رضي اللہ عنہ کا ذکر ہے حسين رضي اللہ عنہا نے ام المومنين رضي اللہ عنہا کي شان اقدس ميں طنزيہ جملے بولے اور اس آيت کا ذکر کيا ليکن يہ نہيں کہا کہ يہ آيات ابو بکر کے لئے نازل ہوئي

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن بكر بن صالح [قال الكليني] وعدة من أصحابنا، عن ابن زياد، عن محمد بن سليمان الديلمي، عن هارون بن الجهم، عن محمد ابن مسلم قال سمعت ابا جفعر عليه السلام يقول …. وبهذا الاسناد، عن سهل، عن محمد بن سليمان، عن هارون بن الجهم، عن محمد بن مسلم قال: سمعت أبا جعفر عليه السلام يقول …. فقال لها الحسين بن علي صلوات الله عليهما … قال الله عزوجل ” يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ” ولعمري لقد ضربت أنت لابيك وفاروقه عند اذن رسول الله صلى الله عليه وآله المعاول، وقال الله عزوجل ” إن الذين يغضون أصواتهم عند رسول الله اولئك الذين امتحن الله قلوبهم للتقوى(1) ” ولعمري لقد أدخل أبوك وفاروقه على رسول الله صلى الله عليه وآله بقربهما منه الاذى،

راقم کہتا ہے کہ اسکي سند ضعيف بھي ہے – شيعہ علماء رجال کے مطابق اس کي سند ضعيف ہے -شيعہ کتاب رجال طوسي کے مطابق اس سند ميں محمد بن سليمان الديلمي بصري ضعيف ہے مشايخ الثقات- غلام رضا عرفانيان ميں بھي اس راوي کو ضعيف قرار ديا گيا ہے

غور طلب ہے کہ شيعوں نے جو سن 300 ہجري تک کے ہيں ان ميں کسي نے سورہ حجرات کي ابتدائي آيات کے شان نزول ميں يہ ذکر نہيں کيا جو صحيح بخاري کي روايت ميں بيان ہوا کہ شيخين رضي اللہ عنہما کا جھگڑا نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے ہوااور آيات نازل ہوئيں

راقم اس تحقيق کے تحت صحيح بخاري کي اس منکر روايت کو رد کرتا ہے

مقتل حسین کی خبریں

شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو

جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو

مرزا سلامت علی دبیر

 آہ  وہی ہوا جس کا ڈر تھا

حسین اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے  لیکن اب عراق میں وہ اکیلے تھے – ان کے ہمدرد دغا دے کر بھاگ چکے تھے – مسلم بن عقیل قتل ہو چکے تھے – حسین اس وقت  کس طرح  اب واپس مدینہ جاتے وہ سخت  مشکل میں تھے اور اہل بیت حسین ان کی طرف دیکھ رہے تھے – وہ غلام بننے کے لئے تیار نہ تھے اور ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت کرنا ان کے نزدیک غلامی کے مترادف تھا – وہ صرف یزید سے جا کر بات کرنا چاہتے تھے اور اغلبا  دمشق کی طرف جا رہے تھے

تاریخ طبری ج ٥ ص ٣٩٢ میں ہے

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ على ع كَتَبَ إِلَيْهِ أَهْلُ الْكُوفَةِ…. قَالَ حصين: فَحَدَّثَنِي هلال بن يساف أن ابن زياد أمر بأخذ مَا بين واقصة إِلَى طريق الشام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يدعون أحدا يلج وَلا أحدا يخرج، فأقبل الْحُسَيْن وَلا يشعر بشيء حَتَّى لقي الأعراب، فسألهم، فَقَالُوا:  لا وَاللَّهِ مَا ندري، غير أنا لا نستطيع أن نلج وَلا نخرج، قَالَ: فانطلق يسير نحو طريق الشام نحو يَزِيد، فلقيته الخيول بكربلاء، فنزل يناشدهم اللَّه والإسلام، قَالَ: وَكَانَ بعث إِلَيْهِ عُمَر بن سَعْدٍ وشمر بن ذي الجوشن وحصين ابن نميم، فناشدهم الْحُسَيْن اللَّه والإسلام أن يسيروه إِلَى أَمِير الْمُؤْمِنِينَ، فيضع يده فِي يده، فَقَالُوا: لا إلا عَلَى حكم ابن زياد

حصين بن عبد الرحمن السلمى ، أبو الهذيل الكوفى المتوفی ١٣٦ ھ نے أَبَو الْحَسَنِ هلال بن يساف  الأشجعي  سے روایت کیا کہا ابن زیاد نے حکم کیا کہ واقصة جو شام کے راستہ پر ہے اور پھر بصرہ کا رستہ ہے اس پر پہرہ رکھا جائے نہ کسی کو گزرنے دیا جائے نہ نکلنے – حسین آگے بڑھے ان کو اس چیز کا پتا نہیں تھا یہاں کہ بدوؤں سے ملے- ان سے پوچھا- بدوؤں نے کہا ہم کو پتا نہیں الله کی قسم  آگے نہیں جا سکتے نہ نکل سکتے ہیں – پس حسین نے شام کا راستہ لیا یزید کی طرف – ان کی كربلاء پر گھڑ سواروں سے ملاقات ہوئی پس حسین ان  گھڑ سواروں  کو اسلام اور اللہ کی نصیحت کرنے لگے- حسین کے پاس عُمَر بن سَعْدٍ اور شمر بن ذيالجوشن  اور حصين ابن نميم کو بھیجا گیا   حسین ان کو اسلام اور اللہ کی نصیحت کرنے لگے کہ اگر وہ امیر المومنین تک لے  حسین کو لے جائیں  تو اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیں گے- عُمَر بن سَعْدٍ اور شمر بن ذي الجوشن  اور حصين ابن نميم نے کہا نہیں الا یہ کہ  عبید اللہ  بن زیاد ایسا حکم کرے

اس کی سند  میں ثقات ہیں  البتہ أَبَو الْحَسَنِ هلال بن يساف  الأشجعي مدلس ہے اور اس  روایت میں واضح نہیں کہ یہ تمام خبر اس کو کس نے دی – أَبَو الْحَسَنِ هلال بن يساف  الأشجعي   کا لشکر حسین میں شامل ہونا معلوم نہیں ہے نہ حسین سے اس کے سماع کا معلوم   ہے البتہ محدثین کے مطابق اس نے علی کو دیکھا ہے سنا نہیں ہے

حسین  کے قاتل صحیح سند سے معلوم نہیں ہیں اگر ہم وقتی تسلیم کریں کہ حکومت نے قتل کیا تو اس پر  ایک اور روایت ہے جو تاریخ طبری کی ہے حسین کو کہا جاتا ہے کہ آپشن دیا گیا کہ وہ عبید الله بن زیاد کے ہاتھ پر آ کر بیعت کریں انہوں نے انکار کیا اس میں بلوا ہوا اور وہ قتل ہوئے

سند ہے

 حديث عمار الدهني عن أبي جَعْفَر فَحَدَّثَنِي زكرياء بن يَحْيَى الضرير، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن جناب المصيصي قَالَ:

حَدَّثَنَا خَالِد بن يَزِيدَ بن عَبْدِ اللَّهِ الْقَسْرِيّ قَالَ:  حَدَّثَنَا عمار الدهني قَالَ قلت لأبي جَعْفَر: حَدَّثَنِي عن مقتل الْحُسَيْن حَتَّى كأني حضرته،

راقم کہتا ہے اس سند میں  زكريا بن يحيى بن أيوب الضرير ہے جس کو ہیثمی نے کہا ہے  لم أعرفه نہیں جانتا اور خطیب بغدادی نے اس کا ذکر کیا ہے جرح تعدیل نہیں کی ہے لہذا یہ مجہول الحال ہے – یہ روایت ضعیف ہے لیکن اہل سنت کے مورخین کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے آٹھویں صدی کے الذھبی نے اس کو محلہ صدق کہہ دیا ہے جبکہ متقدمین محدثین کے نزدیک یہ مجہول  ہے – بہر حال اس کا متن ہے

  قَالَ لَهُ الْحُسَيْن: اختر واحدة من ثلاث: إما أن تدعوني فأنصرف من حَيْثُ جئت، وإما أن تدعوني فأذهب إِلَى يَزِيد، وإما أن تدعوني فألحق بالثغور، فقبل ذَلِكَ عمر، فكتب إِلَيْهِ عُبَيْد اللَّهِ: لا وَلا كرامة حَتَّى يضع يده فِي يدي!] [فَقَالَ لَهُ الْحُسَيْن: لا وَاللَّهِ لا يكون ذَلِكَ أبدا] [، فقاتله فقتل أَصْحَاب الْحُسَيْن كلهم، وفيهم بضعة عشر شابا من أهل بيته

حسین نے کہا ان تین میں سے کوئی ایک چیز لو یا تو مجھے چھوڑو میں جہاں جا رہا ہوں جانے دو

یا مجھے یزید کے پاس جانے دو ، یا سرحد پر  جانے دو-  اس کو عمر بن سعد نے تسلیم کر لیا اور ابن زیاد کو خط لکھا- اس نے جواب دیا ہرگز نہیں اس کی کوئی عزت نہیں اس کو میرے ہاتھ پر بیعت کرنی ہو گی- حسین نے جواب دیا الله کی قسم کبھی بھی نہیں

یعنی حسین رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور    بیعت کو مسترد کر دیا جس پر لڑائی چھڑ گئی

حسین یزید تک کیوں جانا چاہتے تھے یہ بھی واضح نہیں  جب وہ بیعت کے لئے تیار ہی نہیں – حسین سرحد پر اس لئے جانا چاھتے تھے کہ وہ ملک بدری اختیار کریں – بیعت  ہمیشہ گورنر کے ہاتھ پر ہوتی ہے الا یہ کہ   خلیفہ سامنے ہو لہذا حسین کا ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت سے انکار اصل میں بیعت یزید سے مسلسل انکار ہے

تاریخ طبری میں تضاد بہت ہے مثلا ایک اور روایت ہے

حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَبِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: بَلَغَنَا

ع

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ

ان دو سندوں سے طبری نے قتل حسین پر کلام شروع کیا ہے پھر ایک مقام پر تاریخ میں لکھا

قَالَ الحصين – قَالَ: وَحَدَّثَنِي سعد بن عبيدة، قَالَ: إنا لمستنقعون فِي الماء مع عُمَر بن سَعْد، إذ أتاه رجل فساره وَقَالَ لَهُ: قَدْ بعث إليك ابن زياد جويرية بن بدر التميمي، وأمره إن لم تقاتل القوم أن يضرب عنقك، قَالَ: فوثب إِلَى فرسه فركبه، ثُمَّ دعا سلاحه فلبسه، وإنه عَلَى فرسه، فنهض بِالنَّاسِ إِلَيْهِم فقاتلوهم، فجيء برأس الْحُسَيْن إِلَى ابن زياد، فوضع بين يديه، فجعل ينكت بقضيبه، ويقول: إن أبا عَبْد اللَّهِ قَدْ كَانَ شمط، قَالَ: وجيء بنسائه وبناته وأهله، وَكَانَ أحسن شَيْء صنعه أن أمر لهن بمنزل فِي مكان معتزل، وأجرى عليهن رزقا، وأمر لهن بنفقة وكسوة قَالَ: فانطلق غلامان مِنْهُمْ لعبد اللَّه بن جَعْفَر- أو ابن ابن جَعْفَر- فأتيا رجلا من طيئ فلجأ إِلَيْهِ، فضرب أعناقهما، وجاء برءوسهما حَتَّى وضعهما بين يدي ابن زياد، قَالَ: فهم بضرب عنقه، وأمر بداره فهدمت.

حصین نے بیان کیا کہ  أبو حمزة، سعد بن عبيدة، السلمي، الكوفي نے بیان کیا

ہم عمر بن سعد کے ساتھ پانی میں نہا رہے تھے کہ اچانک اس کے پاس ایک شخص آیا اور اس سے سرگوشی کی اور اس نے اسے کہا ابن زیاد نے تمہاری طرف جويرية بن بدر التميمي کو بھیجا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ اگر تو نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ نہ کی تو وہ تجھے قتل کر دے راوی بیان کرتا ہے کہ وہ اٹھا اور اپنے گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر سوار ہو گیا پھر اس نے اپنے ہتھیار منگوا کر پہنے اور اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور وہ لوگوں کے ساتھ ان کی طرف گیا اور انہوں نے ان کے ساتھ جنگ کی اور حسین رضی اللہ عنہ کا سر ابن زیاد کے پاس لاکر اس کے سامنے رکھا گیا اور وہ اپنی چھڑی کو اپ کی ناک پر رکھ کر کہنے لگا بلاشبہ ابو عبداللہ سیا و سفید بالوں والے ہیں، راوی بیان کرتا ہے اور اپ کی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل کو بھی لایا گیا راوی بیان کرتا ہے اس نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ ان کے لیے ایک فرد گاہ کا حکم دیا جوا ایک الگ تھلگ جگہ پر تھی اور ان کی رسد جاری کر دی اور ان کے لئے لباس اور اخراجات کا حکم دیا ان میں سے دو لڑکوں نے جو عبداللہ بن جعفر یا ابن ابی جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے آکر طی قبیلہ کے ایک شخص کی پناہ لی تو اس نے ان دونوں کو قتل کر دیا اور ان دونوں کے سر لا کر ابن زیاد کے سامنے رکھ دیئے ابن زیاد نے بھی اسے قتل کرنے کا اردہ کر لیا اور اس کے حکم سے اس کے گھر کو منہدم کردیا گیا۔

حصين بن عبد الرحمن السلمى ، أبو الهذيل الكوفى ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں مختلط تھے

یہاں قتل کا قصہ الگ ہے اور سارا ملبہ عمر بن سعد پر ڈالا گیا ہے

اس سے پہلے جو روایت تھی اس میں تھا کہ  مذاکرات ہو رہے تھے وہ ناکام ہوئے پھر حسین  نے ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت سے انکار کیا اس پر بلوہ ہوا قتل ہوئے لیکن اب دوسری روایت میں یہاں متن الگ ہے اب سب تالاب میں نہا رہے ہیں ان کو خروج حسین سے کوئی مسئلہ نہیں کہ ابن زیاد قتل کی دھمکی  دیتا ہے اور حسین کو قتل کیا جاتا ہے کوئی مذاکرات نہیں ہوتے نہ حسین کوئی شرائط رکھتے ہیں

سعد بن عبيدة أبو حمزة السلمي ثقہ ہیں لیکن یہ خود خوارج کی رائے رکھتے تھے

کتاب  إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از  مغلطاي میں ہے

وقد تكلم في مذهبه ونسب إلى رأي الخوارج، وبسبب ذلك تكلم في نقله وروايته، وقد قيل إنه رجع عن ذلك.

أبو حمزة، سعد بن عبيدة، السلمي، الكوفي جو خارجی تھے وہ لشکر شام میں شامل تھے قاتلین حسین کے ساتھ؟ ایسا ممکن نہیں کیونکہ بنو امیہ اور خوارج کی کبھی نہیں بنی اور أبو حمزة، سعد بن عبيدة، السلمي، الكوفي کی روایت سیاسی عصبیت کی مثال لگتی ہے

کربلاء   العطش پیاس

معجم البلدان أز  شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومي الحموي (المتوفى: 626هـ) میں ہے

 الطف: طف الفرات أي الشاطئ، والطف: أرض من ضاحية الكوفة في طريق البرية فيها كان مقتل الحسين ابن علي، رضي الله عنه، وهي أرض بادية قريبة من الريف فيها عدة عيون ماء جارية،

الطف فرات کا ساحل ہے – یہ کوفہ کی جانب کا بری علاقہ ہے جو مقتل حسین ہے اور یہ آبادی کا مقام ہے جہاں بہت سے

چشمے ہیں

حسین کا قتل الطف  کربلاء میں ہوا اور یہاں سے قریبی مغربی  جھیل ملح تک کافی فاصلہ ہے – شہر کربلاء میں بھی چشموں کی اتنی کثرت نہیں ہے کہ حسین پانی حاصل کر پاتے

فرات کا ساحل الطف کے مشرق میں ہے جو کربلاء  سے ١٩ کلو میٹر دور ہے – جو ظاہر ہے بہت دور ہے – الطف کربلاء میں ہے

جغرافیہ بتا رہا ہے کہ حسین کے پاس پانی تک رسائی نہیں تھی

یزید کی فتح کی خبر  

تاریخ الطبري میں ہے

قَالَ أَبُو مخنف: حَدَّثَنِي سُلَيْمَان بن أبي راشد، عن حميد بن مسلم، قَالَ: دعاني عُمَر بن سَعْد فسرحني إِلَى أهله لأبشرهم بفتح اللَّه عَلَيْهِ وبعافيته، فأقبلت حَتَّى أتيت أهله، فأعلمتهم ذَلِكَ، ثُمَّ أقبلت حَتَّى أدخل فأجد ابن زياد قَدْ جلس لِلنَّاسِ، وأجد الوفد قَدْ قدموا عَلَيْهِ، فأدخلهم، وأذن لِلنَّاسِ، فدخلت فيمن دخل، فإذا رأس الْحُسَيْن موضوع بين يديه، وإذا هُوَ ينكت بقضيب بين ثنيتيه ساعة، فلما رآه زَيْد بن أَرْقَمَ: لا ينجم عن نكته بالقضيب، قَالَ لَهُ: اعل بهذا القضيب عن هاتين الثنيتين، فو الذى لا إله غيره لقد رأيت شفتي رَسُول الله ص عَلَى هاتين الشفتين يقبلهما، ثُمَّ انفضخ الشيخ يبكي، فَقَالَ لَهُ ابن زياد: أبكى اللَّه عينيك! فو الله لولا أنك شيخ قَدْ خرفت وذهب عقلك لضربت عنقك

حمید بن مسلم کہتا ہے ابن سعد نے مجھے بلا کر اپنے اہل و عیال کے پاس بھیجا کہ کو خوش خبری سناؤں کہ اللہ نے فتح دی …. واپس آیا تو دیکھا ابن زیاد لوگوں سے ملنے دربار میں بیٹھا ہے اور تہنیت دینے لوگ ا رہے ہیں … میں بھی اندر گیا گیا دیکھتا ہوں کہ حسین کا سر سامنے ہے اور ابن زیاد اپنی چھڑی سے حسین  کے دانتوں کو کھٹکھٹاتا رہا-  زید بن ارقم نے کہا اس کو دانتوں سے ہٹا وحدہ لا شریک کی قسم رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو میں نے دیکھا اپنے ہونٹ ان دانتوں پر رکھ کر پیار کرتے تھے اور یہ کہنا تھا کہ سب بوڑھے لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے – ابن زیاد نے کہا الله تجھ کو رولائے تو بڈھا ہوا اور تیری عقل جاتی رہی واللہ میں تیری گردن ہی مار دیتا

اول اس کا راوی ابو مخنف سخت جھوٹا اگ لگانے والا شیعہ مشھور ہے

المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري میں تاریخ طبری کے محقق أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کہتے ہیں   اس کی سند میں دو مجھول ہیں

سليمان بن أبي راشد، الأزدي، من السادسة، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
سلیمان بن ابی راشد میں اس کو نہیں جانتا نہ اس کا ترجمہ ملا

دوسرے راوی پر کہتے ہیں
حميد بن مسلم، الأزدي – وقيل: الأسدي -، من الرابعة، من أصحاب المختار بن أبي عبيد، الثقفي، الكذاب، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
حمید بن مسلم کہا جاتا ہے اسدی ہے یہ مختار ثقفی کے اصحاب میں سے ہے اس کا ترجمہ نہیں ملا نہ اس کو جان سکا

علی بن حسین کا اغوا کیا جانا

الذھبی نے الْمَدَائِنِيُّ  کے حوالے سے کتاب تاریخ الاسلام میں  لکھا ہے

وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ دَخَلْنَا الْكُوفَةَ، فَلَقِيَنَا رَجُلٌ، فَدَخَلْنَا مَنْزِلَهُ، فَأَلْحَفْنَا، فَنِمْتُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِحِسِّ الْخَيْلِ فِي الْأَزِقَّةِ، فَحَمَلْنَا إِلَى يَزِيدَ، فَدَمَعَتْ عَيْنُهُ حِينَ رَآنَا، وَأَعْطَانَا مَا شِئْنَا وَقَالَ: إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي قَوْمِكَ أُمُورٌ، فَلَا تَدْخُلَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَا كَانَ، كَتَبَ مَعَ مُسْلِمِ بْنِ عُقْبَةَ كِتَابًا فِيهِ أَمَانِي، فَلَمَّا فَرَغَ مُسْلِمٌ مِنَ الْحَرَّةِ بَعَثَ إِلَيَّ، فَجِئْتُهُ وَقَدْ كَتَبْتُ وَصِيَّتِي، فَرَمَى إِلَيَّ بِالْكِتَابِ، فَإِذَا فِيهِ: اسْتَوْصِ بِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ خَيْرًا، وَإِنْ دَخَلَ مَعَهُمْ، فِي أَمْرِهِمْ فَأَمِّنْهُ وَاعْفُ عَنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ فَقَدْ أَصَابَ وَأَحْسَنَ

عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ نے کہا جب حسین قتل کر دیے گئے تب ہم کوفہ میں داخل ہوئے تو ایک شخص سے ملے جس نے ہم کو اپنے مکان میں داخل کیا اس نے سونے کا انتظام کیا ، میں سو گیا پھر آنکھ کھلی تو گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سے پس ہم کو لاد کر یزید کے پاس پہنچا دیا گیا- جب یزید نے ہم کو دیکھا وہ رو دیے اور جو ہم نے مانگا ہم کو دیا اور پھر کہا کہ اب کچھ اور کام آپ کی  قوم سے   ہوں گے اپ اس میں مشغول مت ہونا – پس جب اہل مدینہ کے ساتھ ہوا جو ہوا – یزید نے مسلم بن عقبہ کو امان نامہ لکھ کر دیا مسلم جب حرہ سے فارغ ہوا وہ میرے پاس پہنچا اس نے وہ تحریر میری جانب پھینکی اس میں تھا عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ کے ساتھ خیر سے پیش آنا اور اگر کے پاس جاؤ اس  امر (بغاوت) کے حوالے سے تو ان کو امن دینا اور معاف کرنا اور اگر یہ ان  (باغیوں) کے ساتھ نہیں تو یہ ٹھیک ہے اچھا ہے

اس کی سند صحیح ہے – یہ واقعی درست ہے کہ تو اس کا مطلب ہے کہ علی بن حسین کو اغوا کیا گیا اور دمشق لے جایا گیا  جہاں مذاکرات کے بعد ان کو رہا کیا گیا

دربار یزید میں راس حسین کی آمد 

المعجم الكبير از طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنْبَاعِ رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ الْمِصْرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: أَبَى الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنْ يُسْتَأْسَرَ، فَقاتَلُوهُ فَقَتَلُوهُ، وَقَتَلُوا ابْنَيْهِ وَأَصْحَابَهُ الَّذِينَ قَاتَلُوا مِنْهُ بِمَكَانٍ يُقَالُ لَهُ الطَّفُّ، وَانْطُلِقَ بِعَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، وَفَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ، وَسُكَيْنَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ إِلَى عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زِيَادٍ، وَعَلِيٌّ يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ قَدْ بَلَغَ، فَبَعَثَ بِهِمْ إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَأَمَرَ بِسُكَيْنَةَ فَجَعَلَهَا خَلْفَ سَرِيرِهِ لِئَلَّا تَرَى رَأْسَ أَبِيهَا وَذَوِي قَرابَتِهَا، وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي غُلٍّ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، فَضَرَبَ عَلَى ثَنِيَّتَيِ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ:

[البحر الطويل] نُفَلِّقُ هَامًا مِنْ رِجَالٍ أَحِبَّةٍ … إِلَيْنَا وَهُمْ كَانُوا أَعَقَّ وَأَظْلَمَا

فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ} [الحديد: 22] . فَثَقُلَ عَلَى يَزِيدَ أَنْ يَتَمَثَّلَ بِبَيْتِ شِعْرٍ، وَتَلَا عَلِيٌّ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ يَزِيدُ: بَلْ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ويَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ. فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: «أَمَا وَاللهِ لَوْ رَآنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَغْلُولِينَ لَأَحَبَّ أَنْ يُخَلِّيَنَا مِنَ الْغُلِّ» . قَالَ: صَدَقْتَ، فَخَلُّوهُمْ مِنَ الْغُلِّ. قَالَ: «وَلَوْ وَقَفْنَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بُعْدٍ لَأَحَبَّ أَنْ يُقَرِّبَنَا» . قَالَ: صَدَقْتَ، فَقَرِّبُوهُمْ. فَجَعَلَتْ فَاطِمَةُ وَسُكَيْنَةُ يَتَطَاوَلَانِ لِتَرَيَا رَأْسَ أَبِيهِمَا، وَجَعَلَ يَزِيدُ يَتَطَاوَلُ فِي مَجْلِسِهِ لِيَسْتُرَ عَنْهُمَا رَأْسَ

لیث بن سعد نے کہا حسین نے غلام بننے سے انکار کیا پس  قتال کیا اور  وہ قتل ہوئے  اور ان کے ساتھ ان کے بیٹے اور اصحاب قتل ہوئے جنہوں نے ان کے ساتھ قتال کیا اس مقام پر جس کو الطف کہا جاتا ہے   اور علی بن حسین ، فاطمہ بنت حسین ، سکینہ بیت حسین کو عبید الله بن زیاد کے پاس لے جایا گیا اور علی ان دنوں لڑکے تھے جیسا پہنچا ہے پس ان کو یزید بن معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا اور یزید نے حکم کیا سکینہ کو یہ ان کے تخت کے پیچھے کھڑی ہوں تاکہ اپنے باپ اور اقارب کے سر نیزوں پر دیکھ سکیں اور علی بن حسین بیڑی میں جکڑے تھے …. انہوں نے آیت پڑھی

 مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ} [الحديد: 22] .

اور جو مصیبت بھی زمین میں اور تمھارے اوپر آتی ہے وہ کتاب میں لکھی ہوئی ہے قبل اس کے کہ وہ پہنچے یہ اللہ پر آسان ہے – … یزید نے آیت پڑھی

بَلْ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ويَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ.

یہ تمھارے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے اور اکثر کو وہ معاف کرتا ہے

علی بن حسین نے کہا سچ کہا الله کی قسم اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہم کو اس طرح بیڑیوں میں دیکھتے تو پسند کرتے کہ ان کو ہم سے ہٹا دیں – یزید نے کہا سچ کہا پس اس نے حکم کیا ان کو ہٹاؤ

علی نے کہا و الله اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہمارے پاس اتے تو وہ ہم کو اپنے سے قریب کرتے

یزید نے کہا سچ کہا – پس ان کو قریب کیا اور فاطمہ اور سکینہ کے لئے جو رکھا تھا کہ وہ اپنے باپ کو سر دیکھ لیں ان کو چھپا دینے کا حکم کیا

لیث بن سعد امام مالک کے ہم عصر ہیں مصری ہیں اور انہوں نے یزید کا دور نہیں پایا

ابن جوزی نے اپنی کتاب الرد على المتعصب العنيد المانع من ذمّ يزيد صفحہ 57 پر ایک روایت درج کی ہے جو اس طرح ہے

قال ابن الجوزي : أنبأ عبد الوهاب بن المبارك ، قال : أنبأ أبو الحسين بن عبد الجبار ، قال : أنبأ الحسين بن علي الطناجيري ، ثنا خالد بن خداش ، قال : ثنا حماد بن زيد ، عن جميل بن مرة ، عن أبي الوَضِي ، قال : نُحرتْ الإبل التي حُمل عليها رأس الحسين وأصحابه فلم يستطيعوا أكلها ، كانت لحومها أمرّ من الصبر.

فلما وصلت الرؤوس إلى يزيد جلس ودعا بأشراف أهل الشام فأجلسهم حوله ، ثم وضع الرأس بين يديه ، وجعل ينكت بالقضيب على فيه ، ويقول :

نفلق هاماً ، من رجال أعزَّةٍ … علينا ، وهم كانوا أعقّ وأظلما

ابن جوزی نے ابو وضی سے روایت کی کہ جن اونٹوں پر امام حسین کے مبارک سر، اور ان کے اصحاب کو لے جایا گیا، جب انہیں ذبح کیا گیا، تو کوئی نہ کھا سکا۔ اور جب وہ مبارک سر یزید  کو ملا، تو اس نے اہل شام کے بڑے لوگوں کو بلایا، اور مبارک سر کو ہاتھوں میں رکھ کر چھڑی سے مارنے لگا

اس کی سند میں  أبو الوضيئ  عباد بن نسيب  ہے جو اصل میں مجہول الحال ہے – اس کو متاخرین میں ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے لیکن اس پر جرح و تعدیل کے الفاظ نہیں ملے

اس واقعہ کی سند بھی منقطع ہے کیونکہ أبو الوضيئ  عباد بن نسيب  نے خبر نہیں دی کہ اس کو یہ سب کس نے بتایا –  أبو الوضيئ  عباد بن نسيب ، علی کی پولیس میں کام کرتا تھا- دربار یزید میں اس کو فورا دھر لیا جاتا کہ یہ یہاں کیا کر رہا ہے

یزید کا مکہ پر حملہ

 مورخین کہتے ہیں یزید بن معاویہ نے مکہ پر حملہ   کیا تھا- راقم کہتا ہے  بلکہ یہ مورخین کی بکواس ہے ادھر ادھر کے واقعات ملا کر سب یزید کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں-  یزید بن معاویہ چار سال خلیفہ رہے اور ٦٤ ہجری میں وفات ہوئی ان کے بعد ان کے بیٹے خلیفہ ہوئے لیکن خلافت سے دست بر دار ہو گئے اور مروان بن عبد الملک خلیفہ ہوئے شام میں اس دوران ابن زبیر خلیفہ ہوئے حجاز میں- لیکن مورخ یزید کے بارے میں بات کرتے کرتے کعبہ پر حملہ کی بات کرتے ہیں جبکہ حملہ مکہ پر ابن زبیر کے دور میں ہوا

کہا جاتا ہے مسلم بن عقبہ کا مکہ پہنچنے سے پہلے انتقال ہوا اور الحصين بن نمير بن نائل، أبو عبد الرحمن الكندي السكونيّ المتوفی ٦٧ ھ کو امیر کر کے بھیجا گیا جبکہ یزید تو ٦٤ میں مر چکا تھا اور یہ دور عبد الملک کی خلافت کا ہے اس نے ابن زبیر سے نپٹنے کے لئے لشکر بھیجا تھا نہ کہ یزید نے

یہ سب تاریخی خلط ملط شروع سے چلا آ رہا ہے مثلا کتاب المعارف از ابن قتیبہ میں ہے

ثم سار «مسلم بن عقبة» إلى «مكة» ، وتوفى بالطريق، ولم يصل، فدفن ب «قديد» وولى الجيش «الحصين بن نمير السّكونى» ، فمضى بالجيش، وحاصروا «عبد الله بن الزبير» ، وأحرقت «الكعبة» حتى انهدم جدارها، وسقط سقفها، وأتاهم الخبر بموت «يزيد» ، فانكفئوا راجعين إلى «الشام» . … فكانت ولاية «يزيد» ثلاث سنين وشهورا. وهلك ب «حوّارين» – من عمل «دمشق» – سنة أربع وستين،
پھر یزید نے مسلم بن عقبہ کو مکہ بھیجا لیکن یہ راستہ میں مر گیا اور قدید میں دفن ہوا اور لشکر کی ولایت الحصين بن نمير السّكونى» کو ملی اس نے ابن زبیر کا محاصرہ کر لیا اور کعبہ کو جلا دیا یہاں تک کہ اسکی دیوارین منہدم ہو گئیں اور چھت گر گئی پس وہاں یزید کی موت کی خبر پہنچی …

افسوس یہ تاریخی گاربیج یا کوڑا ہے اس قول میں تاریخ کی کوئی تہذیب نہیں ہے نہ ابن قتیبہ کو سمجھ ہے کہ کیا بکواس لکھ رہے ہیں – ابن قتیبہ کی جہالت دیکھیں ابن زبیر سن ٧٣ میں مرے اور یزید سن ٦٤ میں لیکن یہ دس سالوں کو اس طرح ایک سطر میں ملا دیا ہے کہ پڑھنے والے کو لگے کہ یہ سب کام یزید نے کیا ہے

یہ تاریخی خلط ملط تاریخ طبری میں بھی ہے جس کی سند میں الکلبی اور ابو مخنف ہیں – دونوں نے یہ دس سالوں کو ملا کر اس طرح بیان کیا ہے کہ گویا ابن زبیر کا قتل یزید کے دور میں ہوا ہو
تاریخ طبری میں ہے
مسلم بن عُقْبَةَ ورمي الكعبة وإحراقها رجع الحديث إِلَى أبي مخنف قَالَ: حَتَّى إذا انتهى إِلَى المشلل- ويقال إِلَى قفا المشلل- نزل بِهِ الموت، وَذَلِكَ فِي آخر المحرم من سنة أربع وستين، فدعا حصين بن نمير السكوني فَقَالَ له: يا بن برذعة الحمار، أما وَاللَّهِ لو كَانَ هَذَا الأمر إلي مَا وليتك هَذَا الجند، ولكن أَمِير الْمُؤْمِنِينَ ولاك بعدي، وليس لأمر أَمِير الْمُؤْمِنِينَ مرد، خذ عني أربعا: أسرع السير، وعجل الوقاع، وعم الأخبار، وَلا تمكن قرشيا من أذنك ثُمَّ إنه مات، فدفن بقفا المشلل.قَالَ هِشَام بن مُحَمَّد الكلبي: وذكر عوانة أن مسلم بن عُقْبَةَ شخص يريد ابن الزُّبَيْر، حَتَّى إذا بلغ ثنية هرشا نزل بِهِ الموت، فبعث إِلَى رءوس الأجناد، فَقَالَ: إن أَمِير الْمُؤْمِنِينَ عهد إلي إن حدث بي حدث الموت أن أستخلف عَلَيْكُمْ حصين بن نمير السكوني، وَاللَّهِ لو كَانَ الأمر إلي مَا فعلت، ولكن أكره معصية أمر أَمِير الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَ الموت، ثُمَّ دعا بِهِ فَقَالَ: انظر يَا برذعة الحمار فاحفظ مَا أوصيك بِهِ، عم الأخبار، وَلا ترع سمعك قريشا أبدا، وَلا تردن أهل الشام، عن عدوهم، وَلا تقيمن إلا ثلاثا حَتَّى تناجز ابن الزُّبَيْر الفاسق، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إني لم أعمل عملا قط بعد شِهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عبده ورسوله أحب إلي من قتلي أهل الْمَدِينَة، وَلا أرجي عندي فِي الآخرة ثُمَّ قَالَ لبني مرة: زراعتي الَّتِي بحوران صدقة عَلَى مرة، وما أغلقت عَلَيْهِ فلانة بابها فهو لها- يعني أم ولده- ثُمَّ مات.ولما مات خرج حصين بن نمير بِالنَّاسِ، فقدم عَلَى ابن الزُّبَيْر مكة وَقَدْ بايعه أهلها وأهل الحجاز.

اس تاریخی گاربج کو المنتظم في تاريخ الأمم والملوك از جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597 هـ) میں بھی دہرایا گیا ہے

ابن جوزی کہتے ہیں تاریخ کے علماء کہتے ہیں
قال علماء السير [2] : لما فرغ مسلم بن عقبة من قتال أهل المدينة وإنهاب جنده أموالهم ثلاثا، شخص بمن معه من الجند متوجها نحو مكة، وخلف على المدينة روح بن زنباع الجذامي.
وقيل: خلف عمرو بن محرز الأشجعي.
فسار ابن عقبة حتى إذا انتهى إلى فقا/ المشلل [3] نزل به الموت، وذلك في آخر المحرم سنة أربع وستين، فدعا حصين بن نمير السكوني، فقال له: يا برذعة الحمار [4] ، أما لو كان هذا الأمر إلي ما وليتك هذا الجند، ولكن أمير المؤمنين ولاك بعدي، وليس لأمره مترك [5] ، أسرع المسير، ولا تؤخر ابن الزبير ثلاثا حتى تناجزه، ثم قال: اللَّهمّ إني لم أعمل عملا قط بعد شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله

علماء تاریخ کہتے ہیں کہ جب مسلم بن عقبہ اہل مدینہ کے قتال سے فارغ ہوا اور اس کی فوج نے تین دن لوٹ مار کی تو اس نے روح بن زنباع الجذامي یا خلف عمرو بن محرز الأشجعي کو مدینہ میں چھوڑا اور مسلم بن عقبہ نکلا یہاں تک کہ المشلل تک پہنچا کہ موت نازل ہوئی اور یہ محرم سن ٦٤ کا آخری دور تھا پس اس نے حصين بن نمير کو پکارا اور  کو کہا اے گدھے کو چرانے والے میں نے  اس لشکر کی ولایت تم کو نہیں  دی  بلکہ  میرے بعد یہ امیر المومنین نے تم کو دی ہے اور یہ کام نہیں چھوڑنا ہے جلدی جاؤ اور ابن زبیر  کو تین دن کی  تاخیر دینا حتی کہ وہ قبول کرے  پھر کہا اے اللہ میں نے کوئی عمل نہ کیا لیکن  لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله کی شہادت کے بعد

حاشیہ میں محقق محمد عبد القادر عطا، مصطفى عبد القادر عطا لکھتے ہیں یہ سب ابو مخنف کی سند سے آیا ہے
ورد في تاريخ الطبري 5/ 496 عن أبي مخنف

حسین رضی الله عنہ کی شہادت ٦١ ھ میں ہوئی
سن ٦٠ سے ٦٤ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کی خلافت ہے – یزید  کی سن  ٦٤ میں وفات ہوئی 
سن ٦٤ ھ معاویہ بن یزید خلافت سے دستبردار ہوئے
سن ٦٤ سے ٧٣ تک  عبد الله بن زبیر کی خلافت  حجاز میں ہے

سن ٦٤ سے ٦٥ تک مروان بن حکم کی خلافت شام میں ہے
سن ٦٥ سے ٨٦ عبد الملک بن مروان کی خلافت ہے

طبری نے ابو مخنف کی سند سے لکھا ہے کہ مسلم بن عقبہ نے مرتے وقت دعا کی
اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ أَعْمَلْ عَمَلًا قَطُّ بَعْدَ الشَّهَادَتَيْنِ
اے الله میں نے کاش یہ عمل نہیں کیا ہوتا

ابو مخنف نے اس کی سند نہیں دی نہ اس دور یعنی ٦١ ہجری میں اس نے سانس لیا

افسوس اسی سب کو ملا جلا کر ابن کثیر نے بھی البدایہ میں لکھا ہے- راقم کہتا ہے  یزید ٦٤ میں مرا اور ابن زبیر سن ٧٣ میں قتل ہوئے- دس سال کو ایک ہی سانس میں بیان کرنا اور دیگر خلفاء کا نام تک نہ لینا نہایت مغالطہ آمیز ہے – راقم کو یقین ہے کہ کسی بھی مولوی نے  جو یزید پر کلام کرے اس نے ان واقعات کا تاریخی تضاد نہیں دیکھا ہے-  صحیح یہ ہے کہ سن ٧٣ میں حجاج بن یوسف نے ابن زبیر پر حملہ کیا جس میں کعبہ جلا تھا نہ کہ یزید نے یہ حکم کیا

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا) صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ (کی عمارت )کو گرا کر (نئی )تعمیر کرنا)

3245 .

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: لَمَّا احْتَرَقَ الْبَيْتُ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، حِينَ غَزَاهَا أَهْلُ الشَّامِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ، تَرَكَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَتَّى قَدِمَ النَّاسُ الْمَوْسِمَ يُرِيدُ أَنْ يُجَرِّئَهُمْ – أَوْ يُحَرِّبَهُمْ – عَلَى أَهْلِ الشَّامِ، فَلَمَّا صَدَرَ النَّاسُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي الْكَعْبَةِ، أَنْقُضُهَا ثُمَّ أَبْنِي بِنَاءَهَا؟ أَوْ أُصْلِحُ مَا وَهَى مِنْهَا؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنِّي قَدْ فُرِقَ لِي رَأْيٌ فِيهَا، أَرَى أَنْ تُصْلِحَ مَا وَهَى مِنْهَا، وَتَدَعَ بَيْتًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهِ، وَأَحْجَارًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهَا، وَبُعِثَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: ” لَوْ كَانَ أَحَدُكُمُ احْتَرَقَ بَيْتُهُ، مَا رَضِيَ حَتَّى يُجِدَّهُ، فَكَيْفَ بَيْتُ رَبِّكُمْ؟ إِنِّي مُسْتَخِيرٌ رَبِّي ثَلَاثًا، ثُمَّ عَازِمٌ عَلَى أَمْرِي، فَلَمَّا مَضَى الثَّلَاثُ أَجْمَعَ رَأْيَهُ عَلَى أَنْ يَنْقُضَهَا، فَتَحَامَاهُ النَّاسُ أَنْ يَنْزِلَ بِأَوَّلِ النَّاسِ يَصْعَدُ فِيهِ أَمْرٌ مِنَ السَّمَاءِ، حَتَّى صَعِدَهُ رَجُلٌ، فَأَلْقَى مِنْهُ حِجَارَةً، فَلَمَّا لَمْ يَرَهُ النَّاسُ أَصَابَهُ شَيْءٌ تَتَابَعُوا فَنَقَضُوهُ حَتَّى بَلَغُوا بِهِ الْأَرْضَ، فَجَعَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَعْمِدَةً، فَسَتَّرَ عَلَيْهَا السُّتُورَ حَتَّى ارْتَفَعَ بِنَاؤُهُ، وَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: إِنِّي سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْلَا أَنَّ النَّاسَ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ، وَلَيْسَ عِنْدِي مِنَ النَّفَقَةِ مَا يُقَوِّي عَلَى بِنَائِهِ، لَكُنْتُ أَدْخَلْتُ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ خَمْسَ أَذْرُعٍ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ، وَبَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ»، قَالَ: «فَأَنَا الْيَوْمَ أَجِدُ مَا أُنْفِقُ، وَلَسْتُ أَخَافُ النَّاسَ»، قَالَ: ” فَزَادَ فِيهِ خَمْسَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ حَتَّى أَبْدَى أُسًّا نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَبَنَى عَلَيْهِ الْبِنَاءَ وَكَانَ طُولُ الْكَعْبَةِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا زَادَ فِيهِ اسْتَقْصَرَهُ، فَزَادَ فِي طُولِهِ عَشْرَ أَذْرُعٍ، وَجَعَلَ لَهُ بَابَيْنِ: أَحَدُهُمَا يُدْخَلُ مِنْهُ، وَالْآخَرُ يُخْرَجُ مِنْهُ “. فَلَمَّا قُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ كَتَبَ الْحَجَّاجُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُخْبِرُهُ بِذَلِكَ وَيُخْبِرُهُ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ قَدْ وَضَعَ الْبِنَاءَ عَلَى أُسٍّ نَظَرَ إِلَيْهِ الْعُدُولُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِكِ: إِنَّا لَسْنَا مِنْ تَلْطِيخِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي شَيْءٍ، أَمَّا مَا زَادَ فِي طُولِهِ فَأَقِرَّهُ، وَأَمَّا مَا زَادَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ فَرُدَّهُ إِلَى بِنَائِهِ، وَسُدَّ الْبَابَ الَّذِي فَتَحَهُ، فَنَقَضَهُ وَأَعَادَهُ إِلَى بِنَائِهِ

عطا ء سے روایت ہے انھوں نے کہا یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر ) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا تو اس کی جو حالت تھی سو تھی ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے (اسی حالت پر) رہنے دیا حتیٰ کہ حج کے مو سم میں لو گ (مکہ) آنے لگے وہ چا ہتے تھے کہ انھیں ہمت دلا ئیں  یا اہل شام کے خلاف جنگ پر ابھا ریں ۔۔۔جب لو گ آئے تو انھوں نے کہا اے لوگو! مجھے کعبہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے گرا کر (از سر نو ) اس کی عمارت بنا دوں یا اس کا جو حصہ بو سیدہ ہو چکا ہے صرف اس کی مرمت کرا دوں ؟ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میرے سامنے ایک رائے واضح ہو ئی ہے میری را ئے یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ کمزور ہو گیا ہے آپ اس می مرمت کرا دیں اور بیت اللہ کو (اسی طرح باقی ) رہنے دیں جس پر لو گ اسلا م لا ئے اور ان پتھروں کو (باقی چھوڑ دیں) جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو ئی ،اس پر ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر تم میں سے کسی کا اپنا گھر جل جا ئے تو وہ اس وقت تک راضی نہیں ہو تا جب تک کہ اسے نیا (نہ ) بنا لے تو تمھا رے رب کے گھر کا کیا ہو؟ میں تین دن اپنے رب سے استخارہ کروں گا پھر اپنے کام کا پختہ عزم کروں گا ۔ جب تین دن گزر گئے تو انھوں نے اپنی را ئے پختہ کر لی کہ اسے گرا دیں تو لو گ (اس ڈرسے) اس سے بچنے لگے کہ جو شخص اس (عمارت ) پر سب سے پہلے چڑھے گا اس پر آسمان سے کو ئی آفت نازل ہو جا ئے گی یہاں تک کہ ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس سے ایک پتھر گرادیا جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ نہیں ہوا تو لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (گرا نے لگے )حتیٰ کہ اسے زمین تک پہنچا دیا ۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند (عارضی) ستون بنا ئے اور پردے ان پر لٹکا دیے یہاں تک کہ اس کی عمارت بلند ہو گئی ۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے سنا بلا شبہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :” اگر لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہ ہوتا اور میرے پاس اتنا مال بھی نہیں جو اس کی تعمیر (مکمل کرنے ) میں میرا معاون ہو تو میں حطیم سے پانچ ہاتھ (زمین ) اس میں ضرور شامل کرتا اور اس کا ایک (ایسا ) دروازہ بنا تا جس سے لوگ اندر داخل ہو تے اور ایک دروازہ (ایسا بنا تا ) جس سے باہر نکلتے ۔ (ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا آج میرے پاس اتنا مال ہے جو خرچ کرسکتا ہوں اور مجھے لوگوں کا خوف بھی نہیں (عطاء نے) کہا تو انھوں نے حطیم سے پانچ ہاتھ اس میں شامل کیے (کھدا ئی کی) حتیٰ کہ انھوں نے ابرا ہیمی) بنیا د کو ظاہر کر دیا لوگوں نے بھی اسے دیکھا اس کے بعد انھوں نے اس پر عمارت بنا ئی کعبہ کا طول (اونچا ئی ) اٹھا رہ ہاتھ تھی (یہ اس طرح ہو ئی کہ ) جب انھوں نے (حطیم کی طرف سے) اس میں اضافہ کر دیا تو (پھر )انھیں (پہلی اونچا ئی ) کم محسوس ہو ئی چنانچہ انھوں نے اس کی اونچا ئی میں دس ہاتھ کا اضافہ کر دیا اور اس کے دروازے بنائے ایک میں سے اندر دا خلہ ہو تا تھا اور دوسرے سے باہر نکلا جا تا تھا جب ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل کر دیے گئے تو حجاج نے عبد الملک بن مروان کو اطلا ع دیتے ہو ئے خط لکھا اور اسے خبر دی کہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تعمیر اس (ابرا ہیمی) بنیا دوں پر استورکی جسے اہل مکہ کے معتبر (عدول) لوگوں نے (خود) دیکھا عبد الملک نے اسے لکھا ۔ہمارا ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ردو بدل سے کو ئی تعلق نہیں البتہ انھوں نے اس کی اونچائی میں جو اضافہ کیا ہے اسے بر قرار رہنے دو اور جو انھوں نے حطیم کی طرف سے اس میں اضافہ کیا ہے اسے (ختم کر کے ) اس کی سابقہ بنیا د پر لوٹا دو اور اس دروازے کو بند کر دو جو انھوں نے کھو لا ہے چنانچہ اس نے اسے گرادیا اس کی (پچھلی ) بنیاد پر لو ٹا دیا ۔

 سند ہے
حَدَّثَنا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ 
اس کو صرف اس سند سے امام مسلم نے بیان کیا ہے کوئی اور نقل نہیں کرتا

 یہ روایت تاریخا کچھ صحیح کچھ غلط ہے

غلط اس روایت کا شروع کا حصہ ہے “ یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر ) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا ” -صحیح  یہ ہے کہ کعبه ابن زبیر کی موت پر جلا جب اس میں   ابن زبیر  کے ساتھ چالیس پچاس  لوگ   داخل ہوئے اور کعبہ کو اندر سے بند کر لیا – شامی لشکر نے اس پر  جوابا حملہ کیا اور کعبہ پر پتھر برسائے جس سے اس کی چھت منہدم ہو گئی اور اگ بھڑک گئی- اس میں کعبہ کا کسوہ جل گیا- حیرت ہے کہ شارحین میں کسی نے اس جملہ ” یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر ) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا ” کی شرح نہیں کی
باقی حصہ صحیح ہے کہ ابن زبیر نے اس کو تعمیر کیا لیکن اس مخصوص روایت میں تقدیم و تاخیر ہے جس سے تاریخ سے  تضاد جنم لیتا ہے- یہ روایت ان وجوہات کی بنا پر قابل رد و معلول ہے

تاریخ ابو زرعہ دمشقی میں ہے

وَكَانَتِ الْحَرَّةُ يَوْمَ الْأَرْبَعَاءِ لِلَيْلَتَيْنِ بَقِيَتَا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ.

حرہ کا واقعہ بدھ ، سن ٦٣ ہجری میں ذو الحجہ کی آخری چند راتوں میں ہوا

تعجيل المنفعة میں ہے
کعبہ کو ابن زبیر کے دور میں جمادى الآخرة ٦٤ ھ میں گرایا گیا اور دوبارہ بنایا گیا جس میں حطیم کو اس میں شامل کر دیا گیا اس کے بعد مخالفین نے ابن زبیر کو قتل کرنے کے لئے کعبہ پر پتھر برسائے کیونکہ ابن زبیر نے اپنے اپ کو اس میں بند کر لیا تھا کعبہ ٹوٹا اور دوبارہ تعمیر ہوا (تعجيل المنفعة صـ453) جس میں حطیم کو واپس نکال دیا گیا

اس سے معلوم ہوا کہ واقعہ حرہ (سن ٦٣ ہجری) کے بعد سن ٦٤ ھ کے حج سے پہلے پہلے کعبه کی مستطیل نما تعمیر کی گئی

شہادت حسین کی خبریں

 شہادت حسین کی خبریں جرح و تعدیل کے میزان میں

حسین رضی الله عنہ کی شہادت یزید بن معاویہ کے دور میں ہوئی جو خلافت کا قضیہ تھا – حسین اپنی خلافت کوفہ میں قائم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ سپورٹ حاصل نہ کر پائے جو ان کی خلافت کو برقرار بھی رکھ سکے – لہذا انہوں نے اغلبا آخری لمحات میں خلافت کے ارادے کو ترک کیا اور اپنے قافلے کا رخ کوفہ کی بجائے شمال کی طرف موڑ دیا – یہاں تک کہ کوفہ سے ٤٠ میل دور کربلا پہنچ گئے اور یہیں شہید ہوئے جس پر امت ابھی تک غمگین ہے

قاتلین حسین پر الله کی مار ہو

أهل سنت کہتے ہیں خلیفہ کے خلاف خروج کرنا حرام ہے- ہر خروج کا مطلب قتال بالسیف ہے

خروج و فساد کی حد قرآن میں موجود ہے

اِنَّمَا جَزَآءُ الَّـذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَيَسْعَوْنَ فِى الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوٓا اَوْ يُصَلَّبُـوٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْـهِـمْ وَاَرْجُلُـهُـمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۚ ذٰلِكَ لَـهُـمْ خِزْىٌ فِى الـدُّنْيَا ۖ وَلَـهُـمْ فِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْـمٌ (33)
ان کی یہی سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے ہیں یہ کہ انہیں قتل کیا جائے یا وہ سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت ان کے لیے دنیا میں ہے، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

یہ فساد برپا کرنے کی سزا ہے وہ جو خروج کرے اس کے ساتھ یہی کیا گیا اب چاہے کوئی بھی ہو

بنو امیہ اور بنو عباس نے اسی حد کو جاری کیا ہے ہر خروج کرنے والے کا قتل ہوا ہے ان کو قتل یا سولی دی گئی ہے
معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجر بن عدی پر خارجی کی حد جاری کی ہے اس کو قتل کیا ہے

اسی آیت کے تحت علی نے بھی اپنی خلافت میں ایک شخص کو سولی دی اور ائمہ اہل تشیع کے مطابق حاکم  اس کے تحت  الگ الگ حکم کر سکتا ہے

قال: ذلك إلى الامام إن شاء قطع وإن شاء صلب وإن شاء نفى وإن شاء قتل، قلت: النفي إلى أين؟ قال: ينفى من مصر إلى مصر آخر، وقال: إن عليا عليه السلام نفى رجلين من الكوفة إلى البصرة.

الکافی از کلینی باب حد المحارب

جب خلیفہ کی بیعت لی جا چکی ہو اور اس پر ٦ ماہ بھی گزر چکے ہوں تو خروج پھر وہ خروج ہے جس میں حد لگ جائے گی
حسین نے ٦ ماہ کے بعد خروج کیا ہے

افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سب حسین کے ساتھ ہوا انہوں نے اپنی طاقت و عصبیت کے غلط اندازے لگائے اور پھنس گئے

ابن عباس حبر امت کو اس کا اندازا تھا کہ حسین کا اقدام کس قدر غیر سنجیدہ ہے

– المعجم الكبير از طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اسْتَأْذَنَنِي حُسَيْنٌ فِي الْخُرُوجِ، فَقُلْتُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي أَوْ بِكَ لَشَبَكْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ. قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ أَنْ قَالَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي حَرَمُ اللهِ وَرَسُولِهِ» . قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ
(الطبرانی کبیر رقم2859 )
طَاوُسٍ، ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسین نے مجھ سے خروج پر اجازت مانگی میں نے کہا اگر یہ نہ ہوتا کہ میں تمہارا استهزأ کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سر (کے بالوں) کو پکڑتا (یعنی زبردستی روکتا ) – حسین نے کہا تو (گویا) اپ نے اس (امر خلافت) سے مجھ کو دور کیا – اگر میں اس اور اس جگہ قتل ہو جاؤں تو یہ مجھے محبوب ہے کہ میں اس کو حلال کروں جس کو اللہ اور رسول نے حرام کیا ہے – ابن عباس نے کہا تو یہ تو پھر تم نے خود ہی ان کو پیچھے لگوایا
تاریخ الاسلام از الذھبی کے محقق عمر عبد السلام التدمري کہتے ہیں أخرجه الطبراني (2782) رقم (2859) ورجاله ثقات، وهم رجال الصحيح.

اسی جیسی روایت اخبار مکہ الفاکھی کی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: اسْتَشَارَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقُلْتُ لَهُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي وَبِكَ لَنَشَبْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ، قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ بِأَنْ قَالَ: ” لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي مَكَّةُ “، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: فَذَاكَ الَّذِي سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ ثُمَّ حَلَفَ طَاوُسٌ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ تَعْظِيمًا لِلْمَحَارِمِ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ لَبَكَيْتُ
ابن عبّاس رضی الله عنہ نے کہا حسین نے مجھے عراق کی طرف اپنے خروج پر اشارہ دیا – میں نے کہا اگر ایسا نہ ہو کہ میں کم تر کر رہا ہوں میں اپنے ہاتھ سے تمہارا سر پکڑتا – حسین نے جواب میں کہا: اگر میں وہاں یا وہاں قتل ہو جاؤں تو یہ مجھ کو اس سے محبوب ہے کہ میں مکہ کو حلال کر دوں- ابن عباس نے کہا تم نے پھر تم نے خود ہی ان کو پیچھے لگوایا – طاوس نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ ابن عباس سے بڑھ کر رشتہ داروں کی تعظیم کوئی کرتا ہو اور اگر میں چاہوں تو اس پر ہی روؤں

ان روایات میں سلی ہے جو عربی میں کھال اتارنے یا غلاف اتارنے پر بولا جاتا ہے – لسان عرب ج ١٤ ص ٣٦٩ میں ہے السَّلَى سَلى الشاةِ – بکری کی کھال اتاری جائے – سلّى نفسه کا مطلب اپنے اپ کو مشغول کرنا بھی ہو سکتا ہے- اس طرح سَلَّى بِنَفْسِي عَنْهُ کا مطلب ہو گا ان کو اپنے آپ میں مشغول کروایا یہ اردو میں کہہ لیں ان کو اپنے پیچھے لگوایا – یعنی اہل بیت کے بڑوں نے بھی حسین رضی الله عنہ کو سمجھایا

البدایہ و النہایہ از ابن کثیر اور تاريخ دمشق از ابن عساکر میں ایک روایت ہے جس میں ہے حسین نے ابن عباس سے اس کلام کے بعد کہا
إنّك شيخ قد كبُرتَ (مختصر تاريخ دمشق ، لابن منظور . (7 /142
بے شک ابن عباس تم اب بوڑھے ہو چکے ہو

یعنی حسین سوچ سمجھ کر نکلے اور واپس انے کا کوئی پلان نہ تھا اس لئے سب گھر والوں کو لے کر چلے گئے

 حسین اقتدار چاہتے تھے اسلام میں یہ کوئی برائی نہیں ہے – لیکن ٹیکنیکل غلطی ہے جب  موقعہ گزر جائے تو خلافت کا دعوی نہیں کیا جاتا

حسین اقتدار حاصل نہ کر سکے اسی لئے  ابن سبا  کے پیرو کاروں نے رجعت کا عقیدہ دیا کہ جو ابھی  مر گئے وہ  مستقبل زندہ ہوں گے واپس آئیں  گے بقول شاعر

حسین کو زندہ تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

ہم تک جو خبریں آئیں ہیں ان کو جرح و تعدیل کے میزان میں پرکھنا ضروری ہے

امت نواسوں کو قتل کرے گی

مسند احمد ج ١ ص ٨٥ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَارَ مَعَ عَلِيٍّ، وَكَانَ صَاحِبَ مِطْهَرَتِهِ، فَلَمَّا حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ، فَنَادَى عَلِيٌّ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، بِشَطِّ الْفُرَاتِ قُلْتُ: وَمَاذَا قَالَ؟، دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَغْضَبَكَ أَحَدٌ، مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ؟ قَالَ: «بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ» قَالَ: فَقَالَ: «هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ أُشِمَّكَ مِنْ تُرْبَتِهِ؟» قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. فَمَدَّ يَدَهُ، فَقَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ فَأَعْطَانِيهَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا

علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے آپ کو ناراض کردیا ہے ؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بلکہ میرے پاس ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا۔

سند میں عَبْدِ الله بْنِ نُجَيٍّ ہے جس کے امام بخاری فیہ نظر کہتے ہیں

اسی الفاظ سے ابن عدی کہتے ہیں من الحديث وأخباره فيها نظر اپنی حدیث اور خبر میں

فیہ نظر ہے

فیہ نظر محدثین جرح کے لئے بولتے ہیں

ایک رافضی لکھتے ہیں

جہاں تک یہ کہنا کہ فیہ نظر جرح کے لیے استعمال ہوتی ہے یہ بھی یاد رکھیں کہ جرح اگر مفسر نہ ہو، تو تعدیل کو اہمیت دی جاتی ہے یعنی آپ صرف کسی کو ضعیف بھی کہہ دیں،تو فائدہ تب ہی دے گا جب آپ وجہ بھی بیان کریں کہ کیوں ضعیف ہے۔ آیا حافظہ ٹھیک نہیں، جھوٹ بولتا ہےآخر وجہ کیا ہے اسے جرح مفسر کہتے ہیں

دیکھتے ہیں کہ کیا فیہ نظر کو جرح غیر مفسر کہا جاتا ہے

السیوطی کتاب تدريب الراوي میں وضاحت کرتے ہیں

تنبيهات الأول البخاري يطلق فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه

پہلی تنبیہ بخاری اگرکسی راوی پر فیه نظر کا اطلاق کریں اور سكتوا عنه کہیں تو مراد حدیث ترک کرنا ہے

کتاب التنكيل از الشيخ المعلمي کے مطابق

وكلمة فيه نظر معدودة من أشد الجرح في اصطلاح البخاري

اور کلمہ فیہ نظر بخاری کی شدید جرح کی چند اصطلاح میں سے ہے

اللكنوي کتاب الرفع والتكميل في الجرح والتعديل میں اس پر کہتے ہیں

فيه نظر: يدل على أنه متهم عنده ولا كذلك عند غيره

فیہ نظر دلالت کرتا ہے کہ راوی بخاری کے نزدیک متہم ہے اور دوسروں کے نزدیک ایسا نہیں

رافضی کہتے ہیں إس کو فلاں اہل سنت کے امام نے ثقہ کہا ہے! سوال ہے کیا اہل تشیع علماء میں راویوں پر اختلاف نہیں ہے اگر کوئی مجروح ہے تو کیا سب کے نزدیک مجروح ہے؟ یا ثقہ ہے تو کیا سب کے نزدیک ثقہ ہے؟

رافضی لکھتے ہیں

علامہ شوکانی نے اپنی کتاب در السحابہ، ص 297 پر لکھا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں

شوکانی ایک وقت تھا جب زیدیہ سے تعلق رکھتے تھے اسی دور میں انہوں نے در السحابہ لکھی تھی

البانی الصحیحہ میں لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد ضعيف، نجي والد عبد الله لا يدرى من هو كما قال الذهبي ولم
يوثقه غير ابن حبان وابنه أشهر منه، فمن صحح هذا الإسناد فقد وهم.

میں کہتا ہوں اس کی اسناد ضعیف ہیں نجی والد عبد الله کا پتا نہیں کون ہے جیسا کہ الذھبی نے کہا ہے اور اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے اور اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشھور ہے اور جس کسی نے بھی اس کی تصحیح کی اس کو اس پر وہم ہے

البانی اس کے بعد اس کی چھ اسناد دیتے ہیں اور ان پر جرح کرتے ہیں اور آخر میں اس روایت کوصحیح (لغیرہ) بھی کہہ دیتے ہیں

کتاب أعيان الشيعة – السيد محسن الأمين – ج 4 – ص ٥٣ پر ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے شیعہ عالم محسن آمین لکھتے ہیں

قلت إنما رواه عن علي رجل مجهول يقال له عبد الله بن نجي

،میں کہتا ہوں اس کو علی سے ایک مجھول شخص نے روایت کیا ہے جس کو عبد الله بن نجی کہا جاتا ہے

محسن امین کی بات صحیح ہے کہ اہل تشیع کے ہاں یہ مجھول ہے اس کا ترجمہ تک معجم رجال الحديث از الخوئی میں نہیں

تاریخ دمشق ابن عساکر کی ایک اور روایت ہے

أخبرنا أبو بكر محمد بن الحسين نا أبو الحسين بن المهتدي أنا أبو الحسن علي بن عمر الحربي نا أحمد بن الحسن بن عبد الجبار نا عبد الرحمن يعني ابن صالح الأزدي نا أبو بكر بن عياش عن موسى بن عقبة عن داود قال قالت أم سلمة دخل الحسين على رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ففزع فقالت أم سلمة ما لك يا رسول الله قال إن جبريل أخبرني أن ابني هذا يقتل وأنه اشتد غضب الله على من يقتله

ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی

اس کی سند میں موسى بن عقبة ہے جو ثقہ ہیں لیکن مدلس. داود مجھول ہے جس سے یہ روایت نقل کر رہے ہیں

معجم الکبیر طبرانی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْحِمَّانِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا ذَاتَ يَوْمٍ فِي بَيْتِي، فَقَالَ: «لَا يَدْخُلْ عَلَيَّ أَحَدٌ» . فَانْتَظَرْتُ فَدَخَلَ الْحُسَيْنُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَسَمِعْتُ نَشِيجَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي، فَاطَّلَعْتُ فَإِذَا حُسَيْنٌ فِي حِجْرِهِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَهُوَ يَبْكِي، فَقُلْتُ: وَاللهِ مَا عَلِمْتُ حِينَ دَخَلَ، فَقَالَ: ” إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ مَعَنَا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: تُحِبُّهُ؟ قُلْتُ: أَمَّا مِنَ الدُّنْيَا فَنَعَمْ. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُ هَذَا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا كَرْبَلَاءُ “. فَتَنَاوَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ تُرْبَتِهَا، فَأَرَاهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُحِيطَ بِحُسَينٍ حِينَ قُتِلَ، قَالَ: مَا اسْمُ هَذِهِ الْأَرْضِ؟ قَالُوا: كَرْبَلَاءُ. قَالَ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، أَرْضُ كَرْبٍ وَبَلَاءٍ

جبریل نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کربلا کی مٹی دکھائی اور اس کو کرب و بلا کی زمیں کہا

اس کی سند میں عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَب ہے جو مجھول ہے

خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پریشانی میں دیکھنا 

مسند احمد کی روایت ہے

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں

اسکی سند کا راوی عمار بن أبي عمار مولى بني هاشم مختلف فیہ ہے کتاب اکمال مغلطائی میں ہے

وقال البخاري: أكثر من روى عنه أهل البصرة…و لا یتابع علیہ

ابن حبان مشاہیر میں کہتے ہیں

وكان يهم في الشئ بعد الشئ

اسکو بات بے بات وہم ہوتا ہے

ابو داود کہتے ہیں شعبہ نے اس سے روایت لی لیکن کہا

وكان لا يصحح لي

میرے نزدیک صحیح نہیں

یحیی بن سعید کہتے ہیں شعبہ نے صرف ایک روایت اس سے لی

امام مسلم نےاس سےصرف ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم مکہ میں کتنے عرصے رہے

ام المومنین نے جنوں کا نوحہ سنا

طبرانی روایت کرتے ہیں کہ عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ کہتا ہے کہ

حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ: عَنْ عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ؛ سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ سَمِعْتُ الجِنَّ يَبكِيْنَ عَلَى حُسَيْنٍ، وَتَنُوحُ عَلَيْهِ

عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ نے کہا: میں نے ام سلمہ کو کہتے  سنا انہوں نے کہا  میں نے ایک جن کو سنا جو حسین پر رو رہے تھا اور  نوحہ کر رہا تھا

جبکہ ام سلمہ تو حسین کی شہادت سے پہلے وفات پا چکی ہیں

خود عمار کی ایک روایت جو صحیح مسلم میں ہے اس پر روافض جرح کرتے ہیں کہ اس میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم مکہ میں ١٥ سال رہے اور ان میں آٹھ سال تک کسی کو نہ دیکھا صرف روشنی دیکھتے رہے

جب صحیحین پر جرح کرنی ہوتی ہے تو روافض خود عمار بن ابی عمار کی روایت پیش کر دیتے ہیں اور جب وہ جنات کی خبریں دیتا ہے تو قبول کرتے ہیں

آسمان سے خون کی بارش ہونا

الأمالي – الشيخ الطوسي – ص 330
أخبرنا ابن خشيش ، قال : أخبرنا الحسين بن الحسن ، قال : حدثنا محمد بن دليل ، قال : حدثنا علي بن سهل ، قال : حدثنا مؤمل ، عن حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار ، قال : أمطرت السماء يوم قتل الحسين ( عليه السلام ) دما عبيط

شیخ الطوسی روایت کرتے ہیں کہ عمار بن ابی عمار کہتا ہے کہ قتل حسین کے دن آسمان سے تازہ خون کی بارش ہوئی

خون کی بارش کا ذکر اہل سنت کی صحاح ستہ کی کسی کتاب میں نہیں ہے عمار بن ابی عمار کی یہ قصہ گوئی ہے

عمار بن ابی عمار تو مدینہ میں تھا خون کی بارش ساری دنیا میں ہوئی؟ کہاں کہاں ہوئی؟ کس کس نے بیان کیا

مدینہ کا کوئی اور شخص اس کو نقل نہیں کرتا اگر کوفہ میں ہوئی تو اس کا فائدہ اس سے تو تمام شواہد مٹ گئے کس نے قتل کیا خون جب ہر طرف ہو گا تو مقتل کا نشان باقی نہ رہا

اتنا اہم ماحولیاتی تغیر اور اس خون سے جو فقہی مسائل پیدا ہوئے اور پینے کا پانی قابل استمعال نہ رہا اس پر کتب خاموش ہیں

لیکن لوگوں کو قصے پسند ہیں سن رہے ہیں اور قبول کر رہے ہیں

امت نے  کر بلا پر قتل کیا جیسا خبر تھی 

تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے

أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو عمر محمد بن العباس أنا أبو الحسن أحمد بن معروف أنا الحسين بن الفهم أنا محمد بن سعد أنا محمد بن عبد الله الأنصاري نا قرة بن خالد أخبرني عامر بن عبد الواحد عن شهر بن حوشب قال أنا لعند أم سلمة زوج النبي (صلى الله عليه وسلم) قال فسمعنا صارخة فأقبلت حتى انتهيت إلى أم سلمة فقالت قتل الحسين قالت قد فعلوها ملأ الله بيوتهم أو قبورهم عليهم نارا ووقعت مغشيا عليها وقمنا

شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے پاس موجود تھا۔ میں نے حسین کی شہادت کی خبر سنی تو ام سلمہ کو بتایا ۔(کہ سیدنا حسینؓ شہید ہوگئے ہیں) انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے یہ کام کردیاہے، اللہ ان کے گھروں یا قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ اور وہ (غم کی شدت سے ) بیہوش ہوگئی

سند میں شہر بن حوشب ہے اس پر بحث آ رہی ہے

تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے

أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي إملاء ح

وأخبرنا أبو نصر بن رضوان وأبو غالب أحمد بن الحسن وأبو محمد عبد الله بن محمد قالوا أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو بكر بن مالك أنا إبراهيم بن عبد الله نا حجاج نا حماد عن أبان عن شهر بن حوشب عن أم سلمة قالت كان جبريل عند النبي (صلى الله عليه وسلم) والحسين معي فبكى فتركته فدنا من النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال جبريل أتحبه يا محمد فقال نعم قال جبرائيل إن أمتك ستقتله وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها فأراه إياه فإذا الأرض يقال لها كربلا

شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا

ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے

النَّسَائِيُّ اپنی کتاب الضعفاء والمتروكون میں کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں .

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.

أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے .

يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ کہتے ہیں.

عَبْدِ اللهِ بنِ عَوْنٍ، قَالَ: إِنَّ شَهْراً تَرَكُوْهُ اس کو متروک کہتے ہیں

الذھبی کہتے ہیں اس کی حدیث حسن ہے اگر متن صحیح ہو اور اگر متن صحیح نہ ہو تو اس سے دور رہا جائے کیونکہ یہ ایک احمق مغرور تھا

الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں اس پر لکھتے ہیں

قُلْتُ: مَنْ فَعَلَهُ لِيُعِزَّ الدِّيْنَ، وَيُرْغِمَ المُنَافِقِيْنَ، وَيَتَوَاضَعَ مَعَ ذَلِكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ، وَيَحْمَدَ رَبَّ العَالِمِيْنَ، فَحَسَنٌ، وَمَنْ فَعَلَهُ بَذْخاً وَتِيْهاً وَفَخْراً، أَذَلَّهُ اللهُ وَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَإِنْ عُوْتِبَ وَوُعِظِ، فَكَابَرَ، وَادَّعَى أَنَّهُ لَيْسَ بِمُخْتَالٍ وَلاَ تَيَّاهٍ، فَأَعْرِضْ عَنْهُ، فَإِنَّهُ أَحْمَقٌ مَغْرُوْرٌ بِنَفْسِهِ.

اس سے سنن اربعا اور مسلم نے مقرونا روایت لی ہے

کتاب رجال صحیح مسلم از ابن مَنْجُويَه (المتوفى: 428هـ) کے مطابق

مسلم نے صرف ایک روایت کہ کھمبی ، من میں سے ہے لی ہے

طبرانی الکبیر میں قول ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ فِيمَنْ قَتَلَ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ، ثُمَّ غُفِرَ لِي، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَمُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْظُرَ فِي وَجْهِي

ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا:اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنہوں نے حسین بن علی کو قتل (شہید) کیا، پھر میری مغفرت کردی جاتی ، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گزرنے سے شرم کرتا کہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں۔

اس کی سند میں مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ ہے – الأزدي اس کو منكر الحديث کہتے ہیں ابن حجر صدوق کہتے ہیں

اسکی سند میں سعيد بن خثيم بن رشد الهلالى ہے جس ابن حجر ، صدوق رمى بالتشيع له أغاليط شیعیت میں مبتلا اور غلطیوں سے پر ہے ، کہتے ہیں

سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ، أَبُو مَعْمَرٍ الْهِلالِيُّ الْكُوفِيّ اور اس کے استاد خالد دونوں کوالازدی نے منکر الحدیث کہا ہے
دیکھئے ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين از الذھبی

راویوں کا ہر قول نہیں لیا جاتا یہی وجہ ہے ابن عدی کہتے ہیں
سعيد بن خثيم الهلالي: قال الأزدي: منكر الحديث، وقال ابن عدي: مقدار ما يرويه غير محفوظ.
بہت کچھ جو سعید روایت کرتا ہے غیر محفوظ ہے

سند میں محمد بن عثمان بن أبي شيبة بھی ہے جس کو کذاب تک کہا گیا ہے دیکھئے میزان الاعتدال
از الذھبی
عبد الله بن أحمد بن حنبل فقال: كذاب.
وقال ابن خراش: كان يضع الحديث.
وقال مطين: هو عصا موسى تلقف ما يأفكون.
وقال الدارقطني: يقال إنه أخذ كتاب غير محدث

بحر الحال اس روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ ابراہیم کا قول ہے کوئی حدیث رسول نہیں ہے، ان کا قتل حسین سے کوئی تعلق نہ تھا

مشخیۃ ابراہیم بن طہمان کی روایت ہے

عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِيَ فَقَالَ: «لَا يَدْخُلُ عَلَيَّ أَحَدٌ فَسَمِعْتُ صَوْتًا، فَدَخَلْتُ، فَإِذَا عِنْدَهُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ وَإِذَا هُوَ حَزِينٌ، أَوْ قَالَتْ: يَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا لَكَ تَبْكِي يَا رَسُولَ ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي جِبْرِيلُ أَنَّ أُمَّتِي تَقْتُلُ هَذَا بَعْدِي فَقُلْتُ وَمَنْ يَقْتُلُهُ؟ فَتَنَاوَلَ مَدَرَةً، فَقَالَ:» أَهْلُ هَذِهِ الْمَدَرَةِ تَقْتُلُهُ “

ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس حسین بن علی موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی

سند میں عَبد الرحمن بن إسحاق (عَبد الرحمن بن إسحاق، وَهو عباد بن إسحاق وعباد لقب مديني) ہے جس کے لئے کتاب الكامل في ضعفاء الرجال کے ابن عدی مطابق

يَحْيى بن سَعِيد، قالَ: سَألتُ عن عَبد الرحمن بن إسحاق بالمدينة فلم أرهم يحمدونه.

یحیی بن سعید کہتے ہیں عبد الرحمان بن اسحاق کے بارے میں اہل مدینہ سے سوال کیا لیکن ایسا کوئی نہ تھا جو اس کی تعریف کرے

طبقات ابن سعد کے محقق محمد بن صامل السلمي جو مكتبة الصديق – الطائف اس روایت کے لئے کہتے ہیں

إسناده ضعيف.

معرفة الصحابة از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ حَسَّانَ، ثنا عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «اسْتَأْذَنَ مَلَكُ الْقَطْرِ أَنْ يَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُذِنَ لَهُ فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَةَ» احْفَظِي عَلَيْنَا الْبَابَ، لَا يَدْخُلَنَّ أَحَدٌ ” قَالَ: فَجَاءَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، فَوَثَبَ حَتَّى دَخَلَ، فَجَعَلَ يَقْعُدُ عَلَى مَنْكِبَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ الْمَلَكُ: أَتُحِبُّهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ» قَالَ: فَإِنَّ فِي أُمَّتِكَ مَنْ يَقْتُلُهُ، وَإِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ الْمَكَانَ الَّذِي يُقْتَلُ فِيهِ، قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ، فَأَرَاهُ تُرَابًا أَحْمَرَ، فَأَخَذَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ، فَصَرَّتْهُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهَا، قَالَ: كُنَّا نَسْمَعُ أَنَّهُ يُقْتَلُ بِكَرْبَلَاءَ

عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ کہتا ہے ہم سے ثابت نے بیان کیا وہ کہتے ہیں ان سے انس بن مالک رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ بارش کے فرشتے نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس انے کی اجازت مانگی پس اس کو اجازت دی اس نے ام سلمہ سے کہا کہ دروازہ کی حفاظت کریں کہ کوئی داخل نہ ہو پس حسین آ گئے اور اندر داخل ہوئے اور رسول الله کے شانے پر بیٹھ بھی گئے تو فرشتہ بولا کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں رسول الله نے کہا ہاں فرشتہ بولا اپ کی امت میں سے کچھ اس کا قتل کر دیں گے اور اگر آپ چاہیں تو اس مکان کو دکھا دوں جہاں یہ قتل ہونگے اس نے ہاتھ پر ضرب لگائی اور سرخ مٹی آپ نے دیکھی جس کو ام سلمہ نے سمیٹ کر اپنے کپڑے میں رکھا کہا ہم سنتے تھے کہ یہ کربلا میں قتل ہونگے

سند میں عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ ہے جس کو محدثین ضعیف کہتے ہیں الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

قال البخاري: ربما يضطرب في حديثه.
وقال أحمد: له مناكير.
وقال أبو حاتم: يكتب حديثه ولا يحتج به.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال أبو داود: ليس بذاك.
وقال أبو زرعة: لا بأس به.

البانی نے بھی اس کی روایت کو ضعیف کہا ہے مثلا ایک دوسری روایت پر الصحیحہ ج 5 ص ١٦٦ میں لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد ضعيف
، عمارة بن زاذان صدوق سيء الحفظ

میں کہتا ہوں اس کی اسناد ضعیف ہیں اس میں عمارة بن زاذان ہے جو صدوق برے حافظہ والا ہے

اس مخصوص کربلا والی روایت کو البانی الصحیحہ میں ذکر کرتے ہیں

قلت: ورجاله ثقات غير عمارة هذا قال الحافظ: ” صدوق كثير الخطأ “. وقال
الهيثمي: ” رواه أحمد وأبو يعلى والبزار والطبراني بأسانيد وفيها عمارة بن
زاذان وثقه جماعة وفيه ضعف وبقية رجال أبي يعلى رجال الصحيح “.

میں کہتا ہوں اس کے رجال ثقہ ہیں سوائے عمارہ کے ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہے غلطیاں کرتاہے اور ہیثمی کہتے ہیں اس کو امام احمد ابو یعلی البزار اور الطبرانی نے جن اسانید سے روایت کیا ہے ان میں عمارہ ہے جن کو ایک جماعت نے ثقہ کہا ہے اور اس میں کمزوری ہے اور باقی رجال ابی یعلی کے رجال ہیں

البانی مبہم انداز میں اس کو رد کر رہے ہیں لیکن التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں کھل کراس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیں

صحيح لغيره

جبکہ دوسری تمام روایات کا ضعیف ہونا اوپر واضح کیا گیا ہے لہذا یہ صحیح الغیرہ نہیں ضعیف ہے

ام سلمہ رضي الله عنہا کي اوپر دي تمام احاديث ضعيف ہيں کيونکہ ان کي وفات حسين کي شہادت سے پہلے ہو گئي تھي
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَزِينٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعْنِي فِي المَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ ، قَالَ: “شَهِدْتُ قَتْلَ الحُسَيْنِ آنِفًا” هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

سلمی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے . کا سر اور ریش مبارک گرد آلود تھی.میں نے عرض کی ، یارسول ،آپ کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ رسول الله نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسین کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

ترمذی اور مستدرک الحاکم میں یہ روایت نقل ہوئی ہے

اس کی سند میں سَلْمَى الْبَكْرِيَّةِ ہیں

تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں مبارکپوری لکھتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ لِجَهَالَةِ سَلْمَى

سَلْمَى کے مجھول ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے

کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق

وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ

اور ام سلمہ کی وفات ٥٩ ھ میں ہوئی

تاریخ کے مطابق حسین کی شہادت سن ٦١ ہجری میں ہوئی

ام سلمہ رضی الله عنہا کی وفات

ایک رافضی لکھتے ہیں

اب مستند روایات تو یہ کہہ رہی ہے کہ بی بی ام سلمہ اس وقت موجود تھیں، اور یہ ناصبی یہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ جناب وہ تو پہلے انتقال کر چکی تھیں

ڈھول ہم ہی نہیں شیعان بھی پیٹ رہے ہیں دیکھیں اور وجد میں آئیں

المعارف از ابن قتیبہ کے مطابق

وتوفيت «أم سلمة» سنة تسع وخمسين، بعد «عائشة» بسنة وأيام.

ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں عائشہ کے ایک سال بعد یا کچھ دن بعد وفات ہوئی

کتاب جمل من أنساب الأشراف از أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ) کے مطابق
وتوفيت أم سلمة فِي شوال سنة تسع وخمسين، ودفنت بالبقيع
ام سلمہ کی وفات شوال ٥٩ ھ میں ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئیں

طبقات ابن سعد کے مطابق واقدی کہتا ہے ام سلمہ رضی الله عنہا کی وفات ٥٩ ھ ہے
طبقات ابن سعد ” 4 / 340، 341

ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی جو خود حسین سے پہلے انتقال کر گئے

ابن قتیبہ واقدی اور البَلَاذُري کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کا میلان شیعیت کی طرف تھا حسن اتفاق ہے ان سب کا ام سلمہ کی وفات پر اجماع ہے کہ وہ ٥٩ ھ میں حسین سے پہلے وفات پا چکی ہیں

کتاب تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير از ابن جوزی کے مطابق
فَتزَوج رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أم سَلمَة فِي لَيَال بَقينَ من شَوَّال سنة أَربع وَتوفيت سنة تسع وَخمسين وَقيل سنة ثِنْتَيْنِ وَسِتِّينَ وَالْأول أصح

پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا سن 4 ھ میں شوال میں کچھ راتیں کم اور ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی اور کہا جاتا ہے سن ٦٢ ھ میں اور پہلا قول صحیح ہے

ابن حبان ثقات میں کہتے ہیں
وَمَاتَتْ أم سَلمَة سنة تسع وَخمسين
ام سلمہ ٥٩ ھ میں وفات ہوئی

الباجی کہتے ہیں کتاب التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح
توفيت فِي شَوَّال سنة تسع وَخمسين فصلى عَلَيْهَا أَبُو هُرَيْرَ

ان کی وفات شوال سن ٥٩ ھ میں ہوئی ابو ہریرہ نے نماز پڑھائی

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

وَقَالَ بَعْضُهُمْ: تُوُفِّيَتْ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ، وَهُوَ غَلَطٌ، لِأَنَّ فِي «صَحِيحِ مُسْلِمٍ» أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ صَفْوَانَ دَخَلَ عَلَيْهَا فِي خِلافَةِ يَزِيدَ
اور بعض نے کہا ان کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی اور یہ غلط ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ عبد الله بن صفوان ان کے پاس داخل ہوا یزید کی خلافت کے دور میں

اسی کتاب میں [حَوَادِثُ] سَنَة تسع وخمسين میں الذھبی لکھتے ہیں
وَيُقَالُ: توفيت فِيهَا أم سلمة، وتأتي سَنَة إحدى وستين
اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ام سلمہ کی وفات ہوئی اور آگے آئے گا کہ سن ٦١ ھ میں ہوئی

یہ الذھبی کی غلطی ہے صحیح مسلم کی معلول روایت میں ہے کہ راویوں نے ان سے ابن زبیر کے دور میں پوچھا جو ٦٤ ھ سے شروع ہوتا ہے

ابن اثیر الکامل میں لکھتے ہیں
وَمَاتَتْ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ، وَقِيلَ: بَعْدَ قَتْلِ الْحُسَيْنِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
اور ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی اور کہا جاتا ہے حسین کے قتل کے بعد ہوئی

ابن کثیر البداية والنهاية میں لکھتے ہیں
وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فِي ذِي الْقِعْدَةِ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ
البیہقی نے روایت کیا ہے کہ ام سلمہ کی وفات ذیقعدہ سن ٥٩ ھ میں ہوئی
اسی کتاب میں ابن کثیر لکھتے ہیں
قَالَ الْوَاقِدِيُّ: تُوُفِّيَتْ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ وَصَلَّى عَلَيْهَا أَبُو هُرَيْرَةَ.
وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ: تُوُفِّيَتْ فِي أيَّام يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ.
قُلْتُ: وَالْأَحَادِيثُ الْمُتَقَدِّمَةُ فِي مَقْتَلِ الْحُسَيْنِ تَدُلُّ عَلَى أَنَّهَا عَاشَتْ إِلَى مَا بَعْدَ مَقْتَلِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

واقدی کہتا ہے ام سلمہ کی وفات سن ٥٩ ھ میں ہوئی ابو ہریرہ نے نماز پڑھائی
ابن ابی خیثمہ کہتا ہے ان کی وفات یزید کے دور میں ہوئی
میں کہتا ہوں اور شروع کی احادیث جو مقتل حسین کے بارے میں ہیں ان سے دلالت ہوتی ہے کہ یہ ان کے قتل کے بعد بھی زندہ رہیں

قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ام سلمہ کی وفات کے حوالے سے موقف ان روایات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بدلا گیا جبکہ یہ خود تاریخ کے مطابق غلط ہیں

ایک رافضی جھوٹ کھلتا دیکھ کر اس قدر گھبرا کر لکھتے ہیں

اب یہ مستند روایت بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ بی بی ام سلمہ امام حسین کی شہادت کے وقت موجود تھیں۔ کسی کو اگر اس پر اعتراض ہے، تو اسے کوئی مستند روایت پیش کرنی ہو گی جو یہ ثابت کر سکے کہ ان کا اس وقت انتقال ہو چکا تھا۔ صرف مولویوں کی رائے پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں

لیکن خود اوپر دی گئی احادیث کی تصحیح کے لئے خود مولویوں شیخ شعیب الارناؤط ، احمد شاکر ، البانی کے اقوال پیش کرتے ہیں

ابن قتیبہ واقدی اور البَلَاذُري کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کا میلان شیعیت کی طرف تھا حسن اتفاق ہے ان سب کا ام سلمہ کی وفات پر اجماع ہے کہ وہ ٥٩ ھ میں حسین سے پہلے وفات پا چکی ہیں

ام۔ سلمہ کی وفات کی خبر سند سے ھی ان مورخین نے بیان کی ھ

ہماری نہیں تو اپنے شیعوں کی ہی مان لیں

خیران کےلینے اور دینے کے باٹ الگ الگ ہیں

خود ہی غور کریں اور عقل سلیم استعمال کریں

ام سلمہ خواب میں دیکھتی ہیں یا جن بتاتا ہے- کتنے راوی ان کی حالت نیند میں ان کے پاس ہی بیٹھے ہیں! ام المومنین پر جھوٹ بولنے والوں پر الله کی مار

ام المومنین کی خواب گاہ میں یہ منحوس داخل کیسے ہوئے؟

قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں – اسناد دین ہیں لہذا محدثین کی جرح کو قبول کرنا چاہیے -نہ کہ محبوب راویوں کو بچانے کے چکر میں تاریخ کو ہی مسخ کر دیا جائے

بہت سے محققین نے ان روایات کو صحیح کہا ہے مثلا البانی صاحب اور صرف ثقاہت کے الفاظ نقل کیے ہیں اس صورت میں یہ روایات صحیح سمجھی جاتی ہیں لیکن اس قدر جھوٹ آپ دیکھ سکتے ہیں ام سملہ سو رہی ہیں راوی ان کے پاس بیٹھے ہیں ان کو جن بتاتے ہیں وہ خواب میں دیکھتی ہیں وغیرہ وغیرہ

یہ راوی حسین کے ساتھ کوفہ کیوں نہ گئے کیا امام وقت کی مدد ان پر فرض نہ تھی؟

عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسیٰ انسانیت کے گناہوں کی وجہ سے جان بوجھ کر سولی چڑھا کچھ اسی نوعیت کا عقیدہ ان راویوں نے بھی پیش کیا ہے کہ حسین کو خبر تھی وہ کوفہ میں قتل ہونگے اور وہ خود وہاں چل کر گئے- ظاہر ہے اسلام میں خودکشی حرام ہے اور اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کی کربلا میں شہادت کی خبر دے دی تھی اور وہ اس کو جانتے ہوئے بھی وہاں گئے

بلکہ ان سب خبروں کے باوجود علی نے مدینہ چھوڑ کر کربلا کے پاس جا کر اپنا دار الخلافہ بنایا

الکافی کی روایت ہے

[5115] 7 – الكليني، عن علي، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن عبد الله بن سنان قال سمعت أبا عبد الله (عليه السلام) يقول: ثلاث هن فخر المؤمن وزينة في الدنيا والآخرة: الصلاة في الليل ويأسه مما في أيدي الناس وولايته الامام من آل محمد (صلى الله عليه وآله وسلم). قال: وثلاثة هم شرار الخلق ابتلى بهم خيار الخلق: أبو سفيان أحدهم قاتل رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) وعاداه ومعاوية قاتل عليا (عليه السلام) وعاداه ويزيد بن معاوية لعنه الله قاتل الحسين بن علي (عليهما السلام) وعاداه حتى قتله (1).

امام جعفر الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تین چیزیں مومن کے لیے دنیا و آخرت میں زینت ہیں: رات کو نماز پڑھنا، جو لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اس سے دوری رکھنا، اور اہل بیت کے امام کی ولایت۔ اور تین ایسے شریر ترین لوگ ہیں کہ جن سے سب سے بہترین لوگوں کا ابتلا/آزمائش میں ڈالا گیا: ابو سفیان کے جس نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے جنگ کی اور دشمنی رکھی، معاویہ کہ جس نے علی سے جنگ کی، اور دشمنی رکھی، اور یزید جس پر اللہ کی لعنت ہو، حسین سے لڑا، ان سے دشمنی رکھی حتی کہ قتل کر دیا

اس روایت کے راوی عبد الله بن سنان بن طریف کے لئے النجاشی لکھتے ہیں

9 – عبد الله بن سنان بن طريف :
قال النجاشي : ” عبد الله بن سنان بن طريف مولى بني هاشم ، يقال مولى
بني أبي طالب ، ويقال مولى بني العباس . كان خازنا للمنصور والمهدي والهادي
والرشيد ، كوفي ، ثقة ، من أصحابنا ، جليل لا يطعن عليه في شئ ، روى عن أبي
عبد الله ( عليه السلام ) ، وقيل روى عن أبي الحسن موسى ، وليس بثبت . له كتاب
الصلاة الذي يعرف بعمل يوم وليلة ، وكتاب الصلاة الكبير ، وكتاب في سائر
الأبواب من الحلال والحرام ، روى هذه الكتب عنه جماعات من أصحابنا لعظمه
في الطائفة ، وثقته وجلالته .

عبد الله بن سنان بن طريف مولى بني هاشم بنی ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں اور کہا جاتا ہے بنو عباس کے آزاد کردہ غلام تھے اور یہ عباسی خلیفہ المنصور کے المہدی کے الہادی کے اور الرشید کے خزانچی تھے کوفی اور ثقہ تھے قابل قدر ہمارے اصحاب میں سے کسی نے ان کو برا نہ کہا عبد الله علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ابی حسن موسی سے اور یہ ثابت نہیں ہے ان کی ایک کتاب الصلاه ہے جو دن و رات کے عمل کے لئے جانی جاتی ہے اور کتاب الصلاه کبیر ہے

عبد الله بن سنان نے چار خلفاء کے لئے کام کیا لیکن اس نام کے شخص کا تاریخ میں ذکر نہیں ملتا لیکن شیعہ روایات ایسی ہی ہیں

المنصور کا دور ١٣٦ ہجری سے شروع ہوتا ہے اور ہارون الرشید کا دور ١٩٢ ہجری پر ختم ہوتا ہے

جو شخص چار خلفاء کے لئے ایک اہم عہدے پر ہو اور اس کا ذکر تاریخ میں نہ ہو تو اس کو کیا کہا جائے

اثنا العشری شیعوں کا کہنا ہے کہ بنو عبّاس ان پر ظلم کرتے تھے لیکن یہاں تو خود ان کے مطابق عبد الله بن سنان ان کے خزانچی تھے جو الکافی کے راوی ہیں؟

سوچیں اور سبائی سوچ سےنکلیں

الله حسین پر اور ان کی ال پر رحم کرے

معاویہ و یزید کے خلاف چارج شیٹ

محرم کی آمد ہے اور امت پر اس ماہ میں اصحاب رسول و صالحین پر شب و شتم جائز ہو جاتا ہے- علماء و ذاکرین دل کھول کر بھڑاس نکالتے ہیں – ان پیشہ وروں کی اصلاح تو نا ممکن ہے لیکن ہم نے حسب موقعہ محرم کی مناسبت سے اصحاب رسول اور ان کی اولاد کے لئے ایک چارج شیٹ تیار کی ہے تاکہ ہمارے قارئین ان مقدمات کو سمجھ سکیں

یہ لسٹ ہماری نہیں ہے غیر مقلدین کی  ایک  ویب سائٹ سے لی ہے – افسوس رافضیوں کو کیا کوسین – اہل سنن اور  سلف کے متبع ہی اس میں اس قدر مشغول ہیں کہ کسی اور کا کیا شکوہ کریں

غیر مقلدین کی  سرخ لسٹ دیکھتے ہیں اور اس پر ہم تبصرہ کریں گے

لسٹ ہے

اول : عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے۔ صحیح بخاری کتاب العیدین
دوم: نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں صحیح بخاری و صحیح مسلم
سوم: حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا سنن نسائی
چہارم : علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا سنن ابو داود ،مسند احمد
پنجم: سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین پر عمل ختم ہوتا جا رہا تھا۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ
ششم : زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا مصنف ابن ابی شیبہ ، اروء الغلیل للالبانی
ہفتم : ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا بخاری ، مسلم ،ابوداود
ہشتم: محرمات سے نکاح ہوا
نہم: یزید شرابی تھا
دھم: یزید کتوں اور بندروں سے کھیلتا تھا

اول  : عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے۔ صحیح بخاری کتاب العیدین

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدٌ بن أسلم عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى، فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلاَةُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ، وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ، فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ، فَإِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ، أَوْ يَأْمُرَ بِشَيْءٍ أَمَرَ بِهِ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ وَهْوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُرِيدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ فَجَبَذَنِي فَارْتَفَعَ، فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلاَةِ، فَقُلْتُ لَهُ: غَيَّرْتُمْ وَاللَّهِ. فَقَالَ: يا أَبَا سَعِيدٍ، قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ. فَقُلْتُ مَا أَعْلَمُ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا لاَ أَعْلَمُ. فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ”.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عید  الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ جاتے اور سب سے پہلے عید نماز پڑھاتے  اور سلام پھیرنے کے بعد  لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں  وعظ و نصیحت فرماتے اور نیکی کا حکم دیتے، پھر اس کے بعد اگر کسی مہم پر صحابہ کرام کو روانہ کرنا ہوتا تو افراد چن کر روانہ کر دیتے، یا کسی کام کا حکم دینا ہوتا تو حکم دے کر گھروں کی جانب واپس روانہ ہوتے  ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : لوگوں کا اسی پر عمل جاری و ساری رہا ، یہاں تک کہ میں مدینہ کے گورنر مروان کے ساتھ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر عید گاہ گیا  ، جب ہم عید گاہ پہنچے تو وہاں کثیر بن صلت نے منبر بنایا ہوا تھا، تو مروان نے نماز سے قبل منبر پر چڑھنا چاہا  تو میں نے اس کے کپڑے سے کھینچا، تو مروان اپنا کپڑا چھڑوا کر منبر پر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے لوگوں سے خطاب کیا، اس  پر میں [ابو سعید] نے کہا:  اللہ کی قسم ! تم نے دین بدل دیا ہے   تو مروان نے کہا:  ابو سعید  جو باتیں تم جانتے ہو [ان کا دور ]اب نہیں رہا
ابو سعید نے جواب دیا:  اللہ کی قسم  جو باتیں میرے علم میں ہیں وہ ان سے کہیں بہتر ہیں جو میرے علم میں نہیں ہیں
مروان نے کہا:  لوگ نماز کے بعد ہمارے خطاب کیلیے بیٹھتے  نہیں تھے، اس لیے میں نے اپنے خطاب کو ہی نماز سے پہلے کر دیا

اس میں معاویہ رضی الله عنہ کا قصور کیا ہے اس دور میں کوئی ان کو ایس ایم ایس میسج بھیج کر بتا دیتا کہ مدینہ میں مروان نے ایسا کیا تو وہ اس کو روک دیتے اور کیا یہ خطبہ سننے سے بچنے کے لیے لوگ چلے گئے یہ کیا صحیح تھا ؟ اگر یہ لوگ عید کا خطبہ نہیں سننا چاہتے تھے تو یہ تو واجب نماز تھی – فرض جمعہ میں کیا ہوتا تھا اس پر کتب خاموش ہیں کون کون اس خطبہ  جمعہ کو چھوڑتا تھا ؟

اسنادی نکات : روایت عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ  المتوفی ٧٤ ھ کی سند سے ہے

محدثین کے مطابق یہ سماع صحیح ہے البتہ ثقات ابن حبان میں ہے

عِيَاض بْن عَبْد الله يروي عَن أَبِيه عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ روى عَنهُ سَلمَة بْن كهيل وَلَيْسَ هَذَا بِابْن أبي سرح

عِيَاض بْن عَبْد الله جو اپنے باپ سے وہ ابو سعید سے روایت کرنا ہے وہ ابن ابی سرح نہیں ہے

مسئلہ یہ ہے کہ عِيَاض بْن عَبْد الله کا سماع ابو سعید سے اگر ہے تو مدینہ میں ہی دیگر اصحاب نبی مثلا جابر بن عبد الله سے کیوں نہیں ہے جبکہ یہ بھی ایک ہی دور کے مدنی اصحاب رسول ہیں دوسری طرف محدثین میں سے بعض  نے کہا ہے یہ مکہ کے ہیں

وقال ابن يونس:عياض بن عبد الله بن سعد بن أبى سرح   ولد بمكة، ثم قدم مصر، فكان مع أبيه، ثم خرج إلى مكة، فلم يزل بها حتى مات

ابن یونس  نے کہا عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح مکہ میں پیدا ہوا پھر باپ کے ساتھ مصر گیا پھر مکہ لوٹا اور وہیں  رکے یہاں تک کہ وفات ہوئی

جبکہ تاریخ الکبیر امام بخاری میں  ہے يُعَدُّ فِي أهل المَدِينة ان کاشمار اہل مدینہ میں ہے – ثقات ابن حبان میں ہے  عِدَادُهُ فِي أهل الْمَدِينَة ان کا شماراہل مدینہ میں ہے

راقم کو عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح کی جابر رضی الله عنہ سے کوئی مسند روایت نہیں ملی

عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح کا ابو سعید رضی الله عنہ سے روایت کرنا اور جابر رضی الله عنہ  سے روایت  نہ کرنا عجیب بات ہے جبکہ جابر رضی الله عنہ کی وفات کہا جاتا ہے ٧٨  میں ہوئی ہے

—————

مصنف عبد الرزاق کی روایت  5644  ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا رَأَى النَّاسَ يَنْقُصُونَ فَلَمَّا صَلَّى حَبَسَهُمْ فِي الْخُطْبَةِ».

يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ کہتے ہیں کہ عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ دینا عمر رضی الله عنہ نے شروع کیا  جب دیکھا کہ لوگ کم ہونے لگے ہیں

یہی بات یوسف نے عثمان رضی الله عنہ کے لئے بھی بولی

اور امام الزہری کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ  نے اس کو شروع کیا

معمر کہتے ہیں ان کو پہنچا کہ عثمان اپنی خلافت کے آخری دور میں ایسا کرتے تھے

ابن حجر فتح الباری ج ٢ ص ٤٥٠ میں لکھتے ہیں کہ نماز عید سے پہلے خطبہ عثمان بھی دیتے تھے

وَسَيَأْتِي فِي الْبَابِ الَّذِي بَعْدَهُ أَنَّ عُثْمَانَ فَعَلَ ذَلِكَ أَيْضًا لَكِنْ لِعِلَّةٍ أُخْرَى

اور آگے باب میں ہے کہ عثمان بھی ایسا کرتے تھے لیکن اس کی وجہ اور ہے

کتاب : كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از محمَّد الخَضِر بن سيد عبد الله بن أحمد الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق عید کی نماز سے پہلے خطبہ دینا

وقيل بل سبقه إليه عثمان؛ لأنه رأى ناسًا لم يدركوا الصلاة فصار يقدم الخطبة رواه ابن المنذر بإسناد صحيح إلى الحسن البصري

عثمان نے کیا کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ لوگ نماز میں نہیں آ رہے پس خطبہ کو پہلے کیا اس کو ابن المنذر نے صحیح اسناد سے حسن بصری سے روایت کیا ہے

ابو مسعود عقبة بن عمرو بن ثعلبة  رضی الله عنہ کی وفات ٣٩ یا ٤٠ ہجری میں ہوئی اور مصنف عبد الرزاق کی روایت 5648  ہے

 عَبْدُ الرَّزَّاقِ،   عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ يَقُولُ: «خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ – أَوْ أَضْحَى – هُوَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي مَسْعُودٍ حَتَّى أَفْضَيْنَا إِلَى الْمُصَلَّى، فَإِذَا كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ الْكِنْدِيُّ قَدْ بَنَى لِمَرْوَانَ مِنْبَرًا مِنْ لَبِنٍ وَطِينٍ، فَعَدَلَ مَرْوَانُ إِلَى الْمِنْبَرِ حَتَّى حَاذَى بِهِ فَجَاذَبْتُهُ لِيَبْدَأَ بِالصَّلَاةِ»، فَقَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، تُرِكَ مَا تَعْلَمُ، فَقَالَ: كَلَّا وَرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَا تَأْتُونَ بِخَيْرٍ مِمَّا نَعْلَمُ ثُمَّ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ

عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْح کہتے ہیں کہ ابو سعید سے سنا کہ میں مروان کے ساتھ یوم فطر یا عید الاضحی پر نکلا اور میرے اور مروان کے درمیان ابی مسعود تھے یہاں تک کہ نماز کی جگہ پہنچے پس کثیر بن الصلت نے مروان کے لئے ایک منبر بنوایا ہوا تھا جس پر مروان چڑھا پھر اس پر سے نماز کے لئے اٹھا  پس کہا اے ابو سعید چھوڑ دیا جس کو تم جانتے تھے اس پر ابو سعید نے کہا ہرگز نہیں مشارق و مغارب کے رب کی قسم تم اس خیر تک نہیں پہنچو گے جس کو ہم جانتے ہیں – پھر خطبہ شروع کیا

عینی عمدہ القاری میں لکھتے ہیں

وَزَاد عبد الرَّزَّاق عَن دَاوُد ابْن قيس وَهُوَ بيني وَبَين أبي مَسْعُود، يَعْنِي: عقبَة بن عَمْرو الْأنْصَارِيّ

ابی مسعود سے مراد عقبَة بن عَمْرو الْأنْصَارِيّ  ہیں

کثیر بن صلت کے لئے ابن سعد طبقات میں واقدی کے حوالے سے لکھتے ہیں

وَلَهُ دَارٌ بِالْمَدِينَةِ كَبِيرَةٌ فِي الْمُصَلَّى وَقِبْلَةُ الْمُصَلَّى فِي الْعِيدَيْنِ إِلَيْهَا.

ان کا ایک بڑا گھر مدینہ میں تھا مصلی کے ساتھ اور اس میں عیدیں کے لئے مصلی کا قبلہ تھا

یہ روایت المسنَد الصَّحيح المُخَرّج عَلى صَحِيح مُسلم از  أبو عَوانة يَعقُوب بن إسحَاق الإسفرَايينيّ (المتوفى 316 هـ) میں بھی ہے جہاں اس میں ابی مسعود صحابی کا ذکر ہے

سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی کہتے ہیں

قال المدائني وغيره: تُوُفيّ سنة أربعين. وقال خليفة تُوُفيّ قبل الأربعين وقال الواقدي: مات في آخر خلافة معاوية بالمدينة.

المدائني اور دیگر نے کہا کہ ان کی وفات ٤٠ ھ میں ہوئی اور خلیفہ نے کہا ٤٠ سے بھی پہلے  اور واقدی نے کہا کہ معاویہ کی خلافت میں مدینہ میں

ابن حبان ، مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار   میں کہتے ہیں

مات بالكوفة في خلافة على بن أبى طالب وكان عليها واليا له

ان کی وفات کوفہ میں علی رضی الله عنہ کی خلافت میں ہوئی ان کی طرف سے وہاں کے والی تھے

الأعلام میں  الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) کہتے  ہیں ابی مسعود : ونزل الكوفة. وكان من أصحاب علي،  فاستخلفه عليها لما سار إلى صفين (انظر عوف بن الحارث) وتوفي فيها  کی وفات کوفہ میں ہوئی

جمہور محدثین و مورخین کے مطابق ابی مسعود رضی الله عنہ کی وفات دور علی میں کوفہ میں ہوئی

یعنی ابی مسعود تو کوفہ میں دور علی میں وفات پا گئے تو اب وہ مروان کا دور کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ دور معاویہ کا ہے ہی نہیں – یہ دور عثمان کا ہو گا جب مروان کو کسی بنا پر امیر مقرر کیا گیا ہو گا   اور مروان اور ابی مسعود اور ابو سعید الخدری نے ساتھ نماز پڑھی

 اگرچہ متاخرین  شارحیین نے جمہور کا قول چھوڑ کر  واقدی کے قول پر اعتماد کیا ہے  اور دعوی کیا ہے  ابی مسعود نے  معاویہ کے دور میں وفات پائی

راقم کہتا ہے واقدی کا  منفرد قول  جمہور کے مقابلے پر شاذ ہے ابی مسعود کا انتقال دور علی میں ہوا

عثمان رضی الله عنہ کے دور میں جمعہ کی نماز بازار میں ہوتی تھی کیونکہ لوگ زیادہ تھے – اسی طرح عید کی واجب نماز میں ابن منذر کے بقول انہوں نے خطبہ پہلے دیا کہ لوگ جمع ہو لیں

راقم کی رائے میں روایت میں ابی مسعود کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ یہ دور معاویہ کا واقعہ ہے ہی نہیں

شیعہ عالم کتاب الدرجات الرفيعة- السيد علي ابن معصوم ، عقبة بن عمرو رضی الله عنہ پر کہتے ہیں
وقال أبو عمرو كان قد نزل الكوفة وسكنها واستخلفه على في خروجه إلى صفين. ومات سنة احدى أو اثنتين أو أربعين والله أعلم
ابو عمر نے کہا کہ یہ کوفہ آئے اور اس میں رکے اور علی نے ان کو صفین جاتے وقت امیر کوفہ کیا اور یہ سن ٤٢ یا ٤١ میں مرے

یعنی شیعوں اور سنیوں کے بقول عقبة بن عمرو رضی الله عنہ دور معاویہ سے پہلے دور حسن میں انتقال کر گئے تھے
تو پھر راقم کہتا ہے کھینچ تان کر کے اس روایت کو دور معاویہ تک کیسے لایا جا سکتا ہے؟

سن ٣١ ہجری کا واقعہ ہے جو صحیح البخاری میں ہی ہے

حدیث نمبر: 3717حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَصَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رُعَافٌ شَدِيدٌ سَنَةَ الرُّعَافِ حَتَّى حَبَسَهُ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصَى فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “اسْتَخْلِفْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالُوهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَنْ فَسَكَتَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ أَحْسِبُهُ الْحَارِثَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اسْتَخْلِفْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عُثْمَانُ وَقَالُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَنْ هُوَ فَسَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَعَلَّهُمْ قَالُوا الزُّبَيْرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُ لَخَيْرُهُمْ مَا عَلِمْتُ وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”.ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ مجھے مروان بن حکم نے خبر دی کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اس سال عثمان رضی اللہ عنہ کو اتنی سخت نکسیر پھوٹی کہ آپ حج کے لیے بھی نہ جا سکے، اور (زندگی سے مایوس ہو کر) وصیت بھی کر دی، پھر ان کی خدمت میں قریش کے ایک صاحب گئے اور کہا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنا دیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: کیا یہ سب کی خواہش ہے، انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کسے بناؤں؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے،۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ بنا دیں، آپ نے ان سے بھی پوچھا کیا یہ سب کی خواہش ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: لوگوں کی رائے کس کے لیے ہے؟ اس پر وہ بھی خاموش ہو گئے، تو آپ نے خود فرمایا: غالباً زبیر کی طرف لوگوں کا رجحان ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے علم کے مطابق بھی وہی ان میں سب سے بہتر ہیں اور بلاشبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں بھی ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔

یعنی یہ خطبہ کو پہلے کرنے  کا واقعہ عثمان رضی الله عنہ کی بیماری کی وجہ سے پیش آیا جس میں اپ حج پر نہ جا سکے اور اتنے بیمار ہوئے کہ وصیت تک کر دی-  عقبة بن عمرو بن ثعلبة الخزرجي، أبو مسعود البدري کی وجہ سے یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ دور عثمان کا ہے اور مدینہ کا ہے تو خطبہ عید دینا عثمان رضی الله عنہ کا کام ہے مروان کا نہیں ہے – مروان کا یہ کام کرنا بطور علت ہے جس کی وجہ نکسیر پھوٹنے کی بیماری ہے اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہو سکتی

مصنف عبد الرزاق میں ہے
ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا رَأَى النَّاسَ يَنْقُصُونَ فَلَمَّا صَلَّى حَبَسَهُمْ فِي الْخُطْبَةِ».
یوسف نے کہا جس نے عید کی نماز میں خطبہ پہلے کیا وہ عمر ہیں جب دیکھا کہ لوگ کم ہو گئے ہیں

تاریخ أبي زرعة الدمشقي میں ہے
حدثنا خلف بن هشام المقرئ قال: حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال: غدوت مع يوسف بن عبد الله بن سلام في يوم عيد، فقلت له: كيف كانت الصلاة على عهد عمر ؟ قال: كان يبدأ بالخطبة، قبل الصلاة ـ

يحيى بن سعيد  نے کہا میں نے يوسف بن عبد الله بن سلام کے ساتھ عید کے دن پوچھا کہ عہد عمر میں عید کی نماز کیسی تھی ؟ کہا عمر بن خطاب خطبہ دیتے  نماز عید سے پہلے

ان آثار کو محدثین نے غریب یعنی منفرد کہا ہے لیکن اس کو رد نہیں کیا کیونکہ سند میں کوئی ایسی علت نہیں کہ ان کو غیر صحیح قرار دیا جائے –  معلوم ہوا کہ عموم یہ ہے کہ نماز پہلے پھر  خطبہ دیا جاتا تھا لیکن کسی وجہ سے اس کو آگے پیچھے عمر رضی الله عنہ نے کیا ہے عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی کیا ہے

الأوسط از ابن المنذر میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ، قَالَ: ثنا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يُصَلُّونَ ثُمَّ يَخْطُبُونَ، فَلَمَّا كَثُرَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ عُثْمَانَ رَأَى أَنَّهُمْ لَا يُدْرِكُونَ الصَّلَاةَ خَطَبَ ثُمَّ صَلَّى
حسن بصری نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں ابی بکر کے دور میں عمر کے دور میں عثمان کے دور میں نماز ہوتی پھر خطبہ لیکن جب لوگ زیادہ ہوئے دور عثمان میں تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ نماز کو نہیں پاتے تو انہوں نے خطبہ کیا پھر نماز

یعنی لوگوں کو اتے اتے وقت لگتا اور نماز چھوٹ جاتی لہذا آسانی کی وجہ سے ہوا – بہر حال حسن بصری نے ان تمام ادوار کو نہیں دیکھا لہذا کسی نے ان کو خبر دی ہو گی اس کے برعکس یوسف نے ان ادوار کو دیکھا ہے

کتاب الام میں شافعی نے جو روایت دی وہ ہے
أخبرنا الرَّبِيعُ قال أخبرنا الشَّافِعِيُّ قال أخبرنا إبْرَاهِيمُ قال حدثني دَاوُد بن الْحُصَيْنِ عن عبد اللَّهِ بن يَزِيدَ الْخِطْمِيِّ أَنَّ النبي صلى اللَّهُ عليه وسلم وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَانُوا يَبْتَدِئُونَ بِالصَّلَاةِ قبل الْخُطْبَةِ حتى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فَقَدَّمَ الْخُطْبَةَ.
رسول الله، ابو بکر عمر اور عثمان سب نماز کے بعد خطبہ عید دیتے لیکن جب معاویہ آئے تو انہوں نے خطبہ پہلے کر دیا

راقم کہتا ہے اس کی سند میں إبراهيم بن أبي يحيى الأسلمي ہے جو متروك الحديث ہے

فتح الباری میں ابن حجر نے لکھا ہے
وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ عُثْمَانُ فَعَلَ ذَلِكَ أَحْيَانًا بِخِلَافِ مَرْوَانَ فَوَاظَبَ عَلَيْهِ فَلِذَلِكَ نُسِبَ إِلَيْهِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ مِثْلُ فِعْلِ عُثْمَانَ قَالَ عِيَاضٌ وَمَنْ تَبِعَهُ لَا يَصِحُّ عَنْهُ وَفِيمَا قَالُوهُ نَظَرٌ لِأَنَّ عَبْدَ الرَّزَّاقِ وبن أبي شيبَة روياه جَمِيعًا عَن بن عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ وَهَذَا إِسْنَاد صَحِيح
اور احتمال ہے اس طرح خطبہ پہلے کرنا عثمان رضی الله عنہ نے کبھی کبھی کیا ہے … اور روایت کیا گیا ہے کہ ایسا عمر نے بھی کیا ہے اور قاضی عِيَاضٌ اور ان کی اتباع کرنے والوں نے کہا ہے یہ صحیح نہیں اس پر نظر ہے اور مصنف عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ میں دونوں نے اس کو .. یوسف بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ  کی سند سے روایت کیا ہے اور یہ سند صحیح ہے

أبو العبَّاس أحمَدُ بنُ الشيخِ کتاب المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم میں کہتے ہیں
وقد رُوِيَ أنَّ أوَّلَ مَنْ فعل ذلك عمر بن الخَطَّاب ، وقيل : عثمان ، وقيل : عَمَّار ، وقيل : ابن الزبير ، وقيل : معاوية ـ رضى الله عنهم ـ … فإنْ صحَّ عن واحدٍ مِنْ هؤلاء أنَّه قدَّم ذلك ، فلعلَّه إنما فعل ؛ لمَا رأى من انصرافِ الناسِ عن الخُطْبة ، تاركين لسماعها مستعجلين ، ، أو ليدرك الصلاَة مَنْ تأخَّر وبَعُدَ منزلُهُ.
اور روایت کیا گیا ہے سب سے عید کی نماز کرنا بھر خطبہ دینا عمر نے کیا اور کہا جاتا ہے عثمان نے کیا اور کہا جاتا ہے عمار نے کیا اور کہا جاتا ہے ابن زبیر نے کیا اور کہا جاتا ہے معاویہ نے کیا پس اگر یہ ان سب سے صحیح ہیں جن کا ذکر کیا تو ہو سکتا ہے انہوں نے ایسا کیا ہو جب دیکھا کہ لوگ خطبہ پر جا رہے ہیں اور جلدی میں خطبہ نہیں سن رہے اور نماز میں دیر کر رہے ہیں

راقم کہتا ہے اگر کوئی بیماری عام ہو یا کوئی اور وجہ ہو مثلا قحط وغیرہ تو ایسا کیا جا سکتا ہے

دوم:  نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں  صحیح بخاری و صحیح مسلم

معاویہ و یزید پر یہ الزام ثابت نہیں ہے یہ عبد الملک بن مروان کے دور کا ذکر ہے کہ اس میں کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف نماز وقت پر نہیں پڑھاتا تھا

صحیح میں ہے

وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ الحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ، عَامَ نَزَلَ بِابْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَيْفَ تَصْنَعُ فِي المَوْقِفِ يَوْمَ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ: «إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَهَجِّرْ بِالصَّلاَةِ يَوْمَ عَرَفَةَ»، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: «صَدَقَ، إِنَّهُمْ كَانُوا يَجْمَعُونَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالعَصْرِ فِي السُّنَّةِ»، فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: أَفَعَلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ: «وَهَلْ تَتَّبِعُونَ فِي ذَلِكَ إِلَّا سُنَّتَهُ»

حجاج بن یوسف کو یوم عرفہ میں نماز میں جمع کرنا بتایا گیا

بعض روایات میں ہے کہ وہ نماز لیٹ کرتا تھا لیکن ان میں ایک راوی کا تفرد ہے

مسند ابو داود الطیالسی کی روایت ہے کہ حجاج نماز میں تاخیر کرتا جس پر محمد بن عمرو بن الحسن نے جابر بن عبد الله سے سوال کیا

ثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، قال: سمعت محمد بن عمرو بن الحسن يقول:  لما قدم الحجاج بن يوسف كان يؤخر الصلاة، فسألنا جابر بن عبد الله عن وقت الصلاة، فقال: كان رسول الله – عليه السلام – يصلي الظهر بالهجير أو حين تزول، ويصلي العصر والشمس مرتفعة، ويصلي المغرب حين تغرب الشمس، ويصلي العشاء يؤخر أحيانًا ويعجل أحيانًا، إذا اجتمع الناس عَجَّل، وإذا تأخروا أَخَّر، وكان يصلي الصبح بغلس أو قال: كانوا يصلونها بغلس  قال أبو داود: هكذا قال شعبة.

مسند دارمی میں ہے

أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ فِي زَمَنِ الْحَجَّاجِ – وَكَانَ يُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ – فَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِيُّ صَلى الله عَليهِ وسَلم يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ, وَالْعَصْرَ,

صحیح مسلم میں ہے

وَحَدَّثَنَاهُ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ الْحَجَّاجُ يُؤَخِّرُ الصَّلَوَاتِ، فَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بِمِثْلِ حَدِيثِ غُنْدَرٍ

ان تمام میں سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف کا تفرد ہے جو امام مالک کے نزدیک متروک ہے

امام بخاری نے اسی کی سند سے باب وقتِ المغرب میں اس کو روایت کیا ہے لیکن اس میں یہ الفاظ کہ حجاج نماز لیٹ کرتا تھا بیان نہیں کیے جس کا مطلب ہے یہ الفاظ ان کے نزدیک غیر محفوظ تھے

عن محمد بن عمْرو بن الحسن بن علي قال: قدِم الحَجَّاج فسألْنا جابرَ بن عبدِ اللهِ [عن صلاة النبي – صلى الله عليه وسلم] فقالَ:  كان النبيُّ – صلى الله عليه وسلم – يصَلي الظهرَ بالهاجرةِ، والعصرَ والشمسُ نقيَّةٌ، والمغربَ إذا وَجبتْ، والعشاءَ أحياناً وأحياناً؛ إذا رآهم اجتمَعوا عجَّل، وإذا رآهُمْ أبطَؤا أخَّر، والصبحَ كانوا أو كانَ النبيُّ – صلى الله عليه وسلم – يصَليها بغلَسٍ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کی وفات معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں ٥٩ ہجری میں ہوئی سنن نسائی میں ایک حدیث ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ما صلَّيتُ وراءَ أحدٍ أشبَهَ صلاةً برسولِ اللَّهِ من فلانٍ ، فصلَّينا وراءَ ذلِكَ الإنسانِ وَكانَ يطيلُ الأوليينِ منَ الظُّهرِ ، ويخفِّفُ في الأخريينِ ، ويخفِّفُ في العصرِ ، ويقرأُ في المغربِ بقصارِ المفصَّلِ ، ويقرأُ في العشاءِ ب الشَّمسِ وضحاها وأشباهِها . ويقرأُ في الصُّبحِ ، بسورتينِ طويلتين(صحيح النسائي:982)
میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو فلاں شخص سے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاتا ہو۔ ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا تھا اور آخری وہ ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ عصر کی نماز بھی ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ مغرب کی نماز میں چھوٹی مفصل سورتیں پڑھتا تھا اورعشاء کی نماز میں (والشمس وضحھا) اور اس جیسی سورتیں پڑھتا تھا۔ اور صبح کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھتا تھا۔

بنو امیہ کے گورنروں کے پیچھے نماز پڑھنے والے ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی یہ شہادت کافی ہے

معاویہ رضی الله عنہ نے مدینہ پر عتبہ کو پھر سعید بن ابی العاص کو پھر مروان بن الحکم کو گورنر مقرر کیا یہ تمام اموی ہیں اور اغلبا ان تین میں سے کسی ایک کی نماز پر ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی رائے ہے کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جیسی تھی

بعض  اہل سنت نے اس میں شخص سے مراد عمر بن عبد العزیز کو لیا ہے جبکہ ان کی پیدائش سن ٦١ ہجری کی ہے یعنی ابوہریرہ رضی الله عنہ کی وفات کے بعد پیدائش ہوئی ہے

سوم: حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا سنن نسائی

 کیا معاویہ رضی الله تعالی عنہ نے سنت رسول کو بدلا

امام نسائی نے سنن میں، ابن خزیمہ نے صحیح میں ،امام حاکم مستدرک میں  یہ روایت  بیان کی اور کہا هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ  کہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی روایت ہے کہ

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عرفات میں ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ تھا انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا وجہ کے کہ لوگ لبیک نہیں کہہ رہے؟ میں نے کہا کہ لوگ معاویہ سے خوف زدہ ہیں. پھر ابن عبّاس باہر آئے لبیک کہا اور کہا کہ علی سے بغض کی وجہ سے انہوں  نے سنت رسول ترک کر دی

سند ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ:  مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟   قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ:  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ

اس کی سند میں منہال بن عمرو ہے جس کو امام جوزجانی سی المذہب یعنی بد عقیدہ کہتے ہیں اور یہ الفاظ جوزجانی شیعہ راویوں کے لئے کہتے ہیں

اس روایت کو البانی  صحيح الإسناد کہتے ہیں بعض لوگوں کے بقول یہ روایت  خالد بن مخلد القطواني المتوفی ٢١٣ ھ  شیعہ کی وجہ سے صحیح نہیں جس کی وفات خلیفہ مامون کے دور میں ہوئی ہے حالانکہ اس کی سند میں قرن اول کے راوی المنھال کا تفرد اہم ہے ظاہر قرن سوم کے شخص کا تفرد  تو بعد میں آئے  گا

یہی راوی منہال بن عمرو روایت کرتا تھا کہ

علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا

أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ

میں عبد الله ہوں اور رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور میں سب سے بڑا صدیق ہوں، اس کا دعوی میرے بعد کوئی نہیں کرے گا سوائے كَذَّابٌ کے

امت آج تک صرف ابو بکر صدیق کو ہی صدیق کہتی آئی ہے جب کہ یہ راوی کہتا ہے کہ علی سب سے بڑے صدیق ہیں

چہارم : علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا سنن ابو داود ،مسند احمد

جس وقت معاویہ و حسن رضی الله عنہما میں معاہدہ ہوا تو اس کی شق تھی کہ خلافت قبول کرنے کے بعد علی رضی الله عنہ پر کوئی تنقید ہماری یعنی اہل بیت کے سامنے نہیں ہو گی – چونکہ حسن رضی الله عنہ بہت سمجھ دار تھے اور جانتے تھے کہ اقتدار جب منتقل کر دیں گے تو فتنہ پرداز لوگ اس قسم کی  باتیں کر سکتے ہیں لہذا انہوں نے اس کو ایک شق بنا دیا اور اس پر عمل ہوا کہ علی رضی الله عنہ کی تنقیص نہیں کی جاتی تھی

معاویہ رضی الله عنہ کے گورنر صحابی رسول الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کے لئے ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں لکھا ہے

وَكَانَ إِذْ كَانَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ عَلَى الْكُوفَةِ إِذَا ذَكَرَ عَلِيًّا فِي خُطْبَتِهِ يَتَنَقَّصُهُ بَعْدَ مَدْحِ عُثْمَانَ

اور الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کوفہ میں خطبہ میں عثمان رضی الله عنہ کی تعریف کے بعد علی رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے تھے

اس روایت میں گالیاں دینے کا ذکر نہیں دوم اس کی سند ابن کثیر دیتے ہیں

وَقَدْ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنِي الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ. قَالَ قَالَ سَلْمَانُ لِحُجْرٍ

اس کی سند کمزور ہے أَبِي إِسْحَاقَ السبيعي ایک کوفی شیعہ مدلس راوی ہے جس  نے اس کو پھیلایا ہے

اسی کی ایک دوسری روایت ہے جو ابو عبداللہ الْجَدَلِيّ سے سنی ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي  إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الله الْجَدَلِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ الله، أَوْ سُبْحَانَ الله، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ عَلِيًّا، فَقَدْ سَبَّنِي

ابو عبداللہ الْجَدَلِيِّ نے ہم سے بیان کیا کہ میں ام سلمہ کے پاس گیا تو آپ نے مجھے فرمایا، کیا تم میں رسول اللہ  کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ میں نے کہا معاذاللہ یا سبحان اللہ یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا  آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ  کو فرماتے سنا ہے جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔

ابن حجر کہتے ہیں ابو عبداللہ الْجَدَلِيّ  ثقة رمى بالتشيع ثقہ ہیں لیکن شیعیت سے متصف ہیں

طبقات ابن سعد کے مطابق

كان شديد التشيع. ويزعمون أنه كان على شرطة المختار

یہ شدید شیعہ تھے اور دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ مختار ثقفی کے پہرے دار تھے

قال الجوزجاني: كان صاحب راية المختار

الجوزجاني کہتے ہیں یہ  المختار کا جھنڈا اٹھانے والوں میں سے ہیں

کذاب مختار کے ان صاحب کی بات اصحاب رسول کے لئے کس طرح قبول کی جا سکتی ہے

مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنِ الْحَجَّاجِ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ، عَمِّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ: نَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مِنْ عَلِيٍّ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: قَدْ عَلِمْتَ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى» ، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ؟

زید بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں: مغیرہ بن شُعْبَةَ نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دی، تو اس پر زید بن ارقم کھڑے ہو گئے اور کہا:  تمہیں علم ہے کہ رسول ص نے مردہ لوگوں کو گالیاں دینے سے منع کیا ہے، تو پھر تم علی ابن ابی طالب پر کیوں سب کر رہے ہو جب کہ وہ وفات پا چکے ہیں؟

اس کی سند میں حجاج ابن أيوب مولى بني ثعلبة ہے جس کا حال مجھول ہے

مستدرک الحاکم میں اس کی دوسری سند ہے جس کو حاکم صحیح کہتے ہیں

عمرو بن محمد بن أبي رزين الخزاعي، عن شعبة، عن مسعر، عن زياد بن علاقة، عن عمه قطبة بن مالك

لیکن اس کی مخالف حدیث مسند احمد میں موجود ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:   نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ سَبِّ الْأَمْوَاتِ

الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مردوں کو برا کہنے سے منع کیا ہے

ایک طرف تو وہ خود یہ حدیث بیان کریں اور پھر اس پر عمل نہ کریں ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے

سنن ابو داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ حُصَيْنٌ: أَخْبَرَنَا عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ مُعَاوِيَةُ مِنَ الْكُوفَةِ، اسْتَعْمَلَ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، قَالَ: فَأَقَامَ خُطَبَاءَ يَقَعُونَ فِي عَلِيٍّ، قَالَ: وَأَنَا إِلَى جَنْبِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: فَغَضِبَ فَقَامَ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَتَبِعْتُهُ فَقَالَ: أَلا تَرَى إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة (مسند احمد رقم 1644 سنن ابوداؤد رقم 4650)
جب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو مغیرہ بن شعبۃ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کیا اس پر سعید بن زید رضی اللہ عنہ غصہ میں اپنا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا اور کہا کیا اس ظالم شخص کو نہیں دیکھا جو کسی کے لیے ایک جنتی شخص کو لعنت دے رہا ہے۔

اس کی سند منقطع ہے النسائي  فضائل الصحابہ میں اس روایت کو پیش کرتے اور کہتے ہیں

هِلَال بن يسَاف لم يسمعهُ من عبد الله بن ظَالِم

هِلَال بن يسَاف نے عبد الله بن ظَالِم سے نہیں سنا

محدثین کے مطابق ان دونوں کے درمیان ابن حيان ہے جس کو میزان الاعتدال میں الذھبی نے مجھول قرار دیا ہے

ابن حيان [س] .عن عبد الله بن ظالم – لا يعرف.

مسلم کی بھی ایک روایت ہے

عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔

سعد بن ابی وقاص کے بیٹے عامر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ نے سعد کو (ایک ) حکم دیا پس معاویہ نے  کہا کہ آپ کو کس چیز نے روکا ہے کہ آپ ابو تراب [علی] پر سب و شتم نہ کریں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب میں اُن تین ارشادات نبوی کو یاد کرتا ہوں جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے علی کے متعلق فرمائے تھے تو میں ہرگز ان پر سب و شتم نہیں کر سکتا۔ ان تین مناقب میں سے اگر ایک منقبت بھی میرے حق میں ہوتی تو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی

اس کی سند میں بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ہے  جن کے لئے امام بخاری کہتے ہیں

في حديثه بعض النظر

اس کی بعض حدیثیں نظر میں ہیں

بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ہی وہ راوی ہے جو روایت کرتا ہے کہ

وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي»

جب آیت نازل ہوئی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی فاطمہ حسن حسین کو بلایا اور کہا اے الله یہ میرے اہل بیت ہیں

امام بخاری اس روایت کے راوی پر جرح کرتے ہیں لیکن امام مسلم اس کو صحیح میں لکھتے ہیں

فيہ نظر بخاری کی جرح کا انداز ہے-  ابن حجر کی رائے میں اس نام کے دو لوگ ہیں ایک ثقہ اور ایک ضعیف لیکن بخاری کے نزدیک دونوں ایک ہی ہیں اور انہوں نے اس سے صحیح میں کچھ نہیں لکھا-  مسلم نے بھی تین روایات لکھی ہیں جن میں سے دو میں علی پر سب و شتم کا ذکر ہے اور یہی سند دی ہے

ابن کثیر لکھتے ہیں

وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ‏(‏‏(‏إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ‏؟‏‏)‏‏)‏أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر‏:‏ ‏(‏‏(‏لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار‏)‏‏)‏ ‏(‏ج/ص‏:‏ 7/377‏)‏أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.‏

ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا:  آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ رسول الله نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب آپ  غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو اپ نے  خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ  میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں  یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول الله  کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور اپ کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔

یہ روایت تاریخ کے مطابق غلط ہے اول تاریخ ابو زرعہ الدمشقی میں یہ موجود نہیں دوم سعد آخری وقت تک معاویہ کے ساتھ رہے سوم اس کی سند میں مدلس محمد بن اسحاق ہے جو عن سے روایت کرتا ہے چہارم معاویہ نے حج کے خطبہ میں علی پر سب و شتم کیوں نہیں کیا یہ موقعہ ہاتھ سے کیوں جانے دیا؟

 ابن ماجہ کی بھی ایک روایت ہے

حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعدوقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله

حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔

اس کی سند میں عبد الرحمن بن سابط و قيل ابن عبد الله بن سابط  المتوفی ١١٨ ھ ہیں جن کو ا بن حجر کہتے ہیں  ثقة كثير الإرسال –  کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل کے مطابق

  وقال يحيى بن معين لم يسمع من سعد بن أبي وقاص

یحیی بن معین کہتے ہیں انہوں نے  سعد بن أبي وقاص  سے نہیں سنا

ابن ماجہ کی اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں جبکہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے

الغرض معاویہ یا مغیرہ رضی الله عنہ کا علی رضی الله عنہ پر سب و شتم ثابت نہیں ہے البتہ مروان کے دور میں بعض شر پسند یہ کرتے تھے مسلم کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا

ال مروان میں سے ایک شخص نے سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنہ المتوفی ٨٨ ھ  کے سامنے علی رضی الله عنہ پر لعنت کی جس پر انہوں نے اس کو نا پسند کیا

مورخین ابن اثیر ابن کثیر نے انہی روایات کو اپس میں ملا کر جرح و تعدیل پر غور کیے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ باقاعدہ معاویہ رضی الله عنہ اس کو کرواتے تھے جو صحیح نہیں ہے

پنجم:  سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین پر عمل ختم ہوتا جا رہا تھا۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ

البانی کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها جلد اول ص  ٨٢٣ پر معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں

ووفاة النبي صلى الله عليه وسلم كانت في شهر ربيع الأول سنة إحدى عشرة هجرية، وإلى عام ثلاثين سنة كان إصلاح ابن رسول الله صلى الله عليه  وسلم  الحسن بن على السيد بين فئتين من المؤمنين بنزوله عن الأمر عام واحد وأربعين في شهر جمادى الآخرة، وسمي عام الجماعة لاجتماع الناس على معاوية، وهو أول الملوك، وفي الحديث الذي رواه مسلم:   سيكون خلافة نبوة ورحمة، ثم يكون ملك ورحمة، ثم يكون ملك وجبرية، ثم يكون ملك عضوض

نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ربيع الأول میں ١١ ہجری میں ہوئی اور تیسوں سال میں اصلاح  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے حسن بن علی سردار سے ہوئی کہ مومنوں کے گروہوں میں ایک امر پر اتفاق ہوا ٤١ ہجری جمادى الآخرة کے مہینہ میں اور اس کو عام الجماعة کا نام ملا کیونکہ لوگوں کا اجماع معاویہ پر ہوا اور وہ پہلا بادشاہ تھا اور مسلم کی حدیث جو انہوں نے روایت کی اس میں ہے پس خلافت نبوت و رحمت ہو گی پھر بادشاہت و رحمت ہو گی پھر بادشاہت و جبر ہو گا پھر ریاست بھنبھوڑنے والی ہو گی

البانی نے غلط کہا ایسی کوئی حدیث صحیح مسلم میں نہیں ہے

بھنبھوڑنے والی ریاست والی حدیث ہے

معجم ابن الأعرابي از أبو سعيد بن الأعرابي البصري الصوفي (المتوفى: 340هـ) اور طبرانی الکبیر  کی روایت ہے

نا زَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الصَّايِغُ، نا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُكْلِيُّ،  نا الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ الْغَنَوِيُّ، نا مُهَنَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْعَبْسِيُّ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتُمُ الْيَوْمَ فِي نُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا مُلُوكًا عَضُوضًا، يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَيَلْبَسُونَ الْحَرِيرَ، وَفِي ذَلِكَ يُنْصَرُونَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ

حُذَيْفَةَ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آج تم پر نبوت و رحمت ہے پھر خلافت و رحمت ہو گی پھر ایسا ویسا ہو گا پھر ایسا ایسا ہو گا  بادشاہت بھنبھوڑنے والی ہو گی جو شراب پئیں گے اور ریشم پہنیں گے

اس کی سند میں مهند بن هشام القيسي الكوفي ہے جو مجھول ہے اس کو طبرانی کی سند میں العلاء بن المنهال نے ثقہ کہا ہے جبکہ اس کا حال نا معلوم ہے

خود العلاء بن المنهال کے لئے امام العقيلي کہتے ہیں : لا يتابع عليه اس کی روایات کی متابعت نہیں ہے

امام الذہبی نے ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں العلاء بن المنهال کے لئے کہا ہے فيه جهالة اس میں جہالت ہے یعنی یہ مجھول ہے

جبکہ أبو زرعة الرازي اور عجلی نے اس کو ثقہ کہا ہے

اسطرح العلاء بن المنهال تو مختلف فیہ ہو گیا اور یہ جس مُهَنَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْعَبْسِيُّ کو ثقہ کہتا ہے وہ مجھول ہے

ششم : زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا مصنف ابن ابی شیبہ ، اروء الغلیل از البانی 

إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل میں البانی نے صدقه فطر کی ایک روایت پر ح ٨٤٧ کے تحت بحث کی ہے

كنا نخرج زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعا من طعام , أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر , أو صاعا من زبيب , أو صاعا من أقط

پھر اس پر کہا  کہ ترمذی میں اضافہ کے کہ ابو سعید نے وہ نہ کیا جو معاویہ نے کہا

فلما جاء معاوية , وجاءت السمراء قال:   أرى مدا من هذا يعدل مدين   – زاد الترمذى: من تمر. – قال: فأخذ الناس بذلك , قال أبو سعيد: فلا أزال

75- بَابُ صَاعٍ مِنْ زَبِيبٍ:باب: صدقہ فطر میں منقیٰ بھی ایک صاع دینا چاہیےحدیث نمبر:

  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَكِيمٍ الْعَدَنِيَّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِيعِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَاءَ مُعَاوِيَةُ وَجَاءَتْ السَّمْرَاءُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُرَى مُدًّا مِنْ هَذَا يَعْدِلُ مُدَّيْنِ

.ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے یزید بن ابی حکیم عدنی سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے

یعنی معاویہ نے دوسرے اناج میں ایک کی بجائے دو صاع نکالنے کا حکم دیا جو ایک سے زیادہ ہے ظاہر ہے یہ صدقه میں اضافہ ہے نہ کہ کمی

صحیح مسلم اور دیگر کتب میں ہے معاویہ نے کہا

إنى أرى أن مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر. فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «فَأَمَّا أَنَا فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ، أَبَدًا مَا عِشْتُ

میں دیکھتا ہوں کہ  گیہوں کے شام کے دو مد،  کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں – پس لوگوں نے ایسا کیا لیکن میں نے اس چیز کو نہیں چوڑا جو میں نکالتا تھا جب تک میں زندہ ہوں

اس کا مطلب ہے کہ شام میں مد کا جو پیمانہ چل رہا تھا وہ حجاز کے مد کے  پیمانے سے بڑا  تھا وہ مدینہ کے صاع کے برابر نہ تھا  اس لئے معاویہ جو شام سے آئے تھے ان کے قافلہ کے پاس شامی صاع ہونگے اور انہوں نے اس کو ناپتے ہوئے یہ حکم کیا کہ نیا صاع خریدنے کی بجائے اگر ہم پیمانہ کے تناسب کو لیں تو دو شامی مد، حجاز کے ایک صاع کے برابر ہے

مبارک پوری تحفہ الاحوذی میں لکھتے ہیں

تَنْبِيهٌ اعْلَمْ أَنَّ الصَّاعَ صَاعَانِ حِجَازِيٌّ وَعِرَاقِيٌّ فَالصَّاعُ الْحِجَازِيُّ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثُ رِطْلٍ وَالْعِرَاقِيُّ ثَمَانِيَةُ أَرْطَالٍ وَإِنَّمَا يُقَالُ لَهُ الْعِرَاقِيُّ لِأَنَّهُ كَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي بِلَادِ الْعِرَاقِ مِثْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهَا وَهُوَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّاعُ الْحَجَّاجِيُّ لِأَنَّهُ أَبْرَزَهُ الْحَجَّاجُ الْوَالِي وَأَمَّا الصَّاعُ الْحِجَازِيُّ فَكَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي بِلَادِ الْحِجَازِ وَهُوَ الصَّاعُ الَّذِي كَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ كَانُوا يُخْرِجُونَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ فِي عَهْدِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُو يُوسُفَ وَالْجُمْهُورُ وَهُوَ الْحَقُّ

تَنْبِيهٌ جان لو لہ صاع دو ہیں ایک حجازی ہے اور عراقی ہے – پس حجازی صاع پانچ أَرْطَالٍ یا تین أَرْطَالٍ کا ہے – اور عراقی صاع آٹھ أَرْطَالٍ کا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عراق کے شہروں میں مثلا کوفہ اور دیگر میں جو صاع چلتا ہے اس کو حجاجی کہا جاتا ہے اور جہاں تک حجازی صاع کا تعلق ہے جو حجاز کے شہروں میں استمعال ہوتا ہے تو وہ وہ صاع ہے کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں چلتا تھا جس سے صدقه فطر نکالا جاتا تھا دور نبوی میں اور ایسا امام مالک ، الشافعی اور احمد اور یوسف اور جمہور کا کہنا ہے جو حق ہے

عراق كا صأع حجأز سے بڑا ہے – اور اسی طرح شام کا صاع کا پیمانہ الگ تھا

اگر یہ بات تھی تو پھر ابو سعید نے کیوں نہیں کیا ؟ ابو سعید نے اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کو محبوب رکھتے تھے کہ وہی کریں جو انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اور تناسب والی بات کو باقی اصحاب نے سمجھ پر قبول کر لیا

عمدہ القاری میں علامہ عینی لکھتے ہیں

وَقَالَ النَّوَوِيّ: هَذَا الحَدِيث مُعْتَمد أبي حنيفَة، قَالَ بِأَنَّهُ فعل صَحَابِيّ، وَقد خَالفه أَبُو سعيد وَغَيره من الصَّحَابَة مِمَّن هُوَ أطول صُحْبَة مِنْهُ وَأعلم بِحَال النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَقد أخبر مُعَاوِيَة بِأَنَّهُ رَأْي رَآهُ، لَا قَول سَمعه من النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، قُلْنَا: إِن قَوْله: فعل صَحَابِيّ، لَا يمْنَع لِأَنَّهُ قد وَافقه غَيره من الصَّحَابَة الجم الْغَفِير بِدَلِيل قَوْله فِي الحَدِيث: فَأخذ النَّاس بذلك، وَلَفظ النَّاس للْعُمُوم، فَكَانَ إِجْمَاعًا. وَلَا تضر مُخَالفَة أبي سعيد لذَلِك بقوله: أما أَنا فَلَا أَزَال أخرجه، لِأَنَّهُ لَا يقْدَح فِي الْإِجْمَاع، سِيمَا إِذا كَانَ فِيهِ الْخُلَفَاء الْأَرْبَعَة، أَو نقُول: أَرَادَ الزِّيَادَة على قدر الْوَاجِب تَطَوّعا.

امام نووی  نے کہا : اس حدیث پر امام ابو حنیفہ  نے اعتماد کیا ہے اور کہا یہ صحابی (معاویہ) کا فعل ہے اور ان کی مخالفت کی ہے ابو سعید نے اور دوسرے اصحاب نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے اور بے شک معاویہ نے خبر دی کہ وہ دیکھتے ہیں نہ کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اس پر سنا- (عینی نے کہا) ہم (جوابا) کہتے ہیں  کہ ان (امام ابو حنیفہ) کا کہنا کہ صحابی کا فعل ہے اس سے منع نہیں کرتا کیونکہ اس میں معاویہ کی موافقت اصحاب رسول کے جم غفیر نے کی ہے اس میں دلیل حدیث ہے کہ اس کو لوگوں نے لیا اور لفظ الناس عموم ہے کہ اس پر اجماع ہوا اور ابو سعید کی مخالفت سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اس قول پر کہ   جہاں تک میں ہوں تو میں اس (صدقه فطر) کو نکالوں گا جیسا نکالتا تھا   کیونکہ انہوں نے اس اجماع پر قدح نہیں کیا خاص طور…. اس میں ارادہ ہے کہ جو مقدار واجب نفلی تھی اس سے زائد دیا گیا

ہفتم : ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا  بخاری ، مسلم ،ابوداود

البانی صاحب کتاب سلسلہ احادیث الصحیحہ میں ایک روایت کے شاہد پر دلیل دیتے ہیں

كما في  تفسير ابن كثير  (4/159) – عن عبد الله البهي قال:
إني لفي المسجد حين خطب مروان فقال: إن الله تعالى قد أرى أمير المؤمنين
في (يزيد) رأياً حسناً وأن يستخلفه، فقد استخلف أبو بكر عمر- رضي الله عنهما-. فقال عبد الرحمن بن أبي بكر- رضي الله  عنهما-: أهرقلية؟! إن أبا بكر- رضي الله عنه- ما جعلها في أحد من ولده، وأحد من أهل بيته، ولا جعلها معاوية  إلا رحمة وكرامة لولده! فقال مروان: ألست الذي قال لوالديه: (أفٍّ لكما) ؟ فقال

عبد الرحمن: ألست يا مروان! ابن اللعين الذي لعن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أباك؟! قال: وسمعتهما عائشة- رضي الله عنها-، فقالت: يا مروان! أنت القائل لعبد الرحمنكذا وكذا؟! كذبت! ما فيه نزلت، ولكن نزلت في فلان بن فلان. ثم انتحب
مروان (!) ثم نزل عن المنبر حتى أتى باب حجرتها، فجعل يكلمها حتى انصرف. قلت: سكت عنه ابن كثير، وهو إسناد صحيح.

 جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ

عبداللہ بہی نے کہا کہ ہم مسجد میں تھے جب مروان نے خطبہ دیا کہ اللہ نے معاویہ کو یزید کے بارے میں اچھی رائے دی ہے، کہ وہ انہیں اپنا خلیفہ بنائے جیسے ابو بکر نے عمر کو خلیفہ بنایا۔ عبدالرحمن بن ابو بکر نے کہا کہ کیا ہرقل  کے مطابق؟ ابوبکر نے اپنی اولاد میں کسی کو نہیں بنایا نہ اپنے گھر والوں میں، معاویہ اپنی اولاد پر رحمت و کرامت کر رہا ہے۔ مروان نے کہا کہ تہمارے لیے یہ آیت آئی ہے۔ اس پر عبدالرحمن نے کہا یہ اے مروان! کیا تم لعنتی کے بیٹے نہیں جس کے باپ پر اللہ کے رسول نے لعنت کی؟ یہ عائشہ رضی الله عنہا نے سنا تو انہوں نے کہا کہ اے مروان! تم عبدالرحمن کے لیے فلان فلان چیز کے قائل ہو؟ تم نے جھوٹ بولا، یہ فلان فلان کے لیے نازل ہوئی۔ مروان نیچے اترا جلدی سے، اور آپ کے حجرے پر آیا، کچھ بولا اور پھر چلا گیا۔ 

میں البانی یہ کہتا ہوں کہ ابن کثیر اس پر چپ رہے ہیں، مگر یہ سند صحیح ہے

عبد الله البھی کا عائشہ رضی الله عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے کتاب جامع التحصیل کے مطابق امام احمد کے نزدیک ان کا سماع نہیں ہے

عبد الله البهي سئل أحمد بن حنبل هل سمع من عائشة رضي الله عنها قال ما أرى في هذا شيئا إنما يروي عن عروة

اہم سوال ہے کہ کیا علی رضی الله عنہ نے ہرقل کی سنت پر عمل نہ کیا؟

معاویہ پر اصحاب رسول کو رشوت دینے کا بھی الزام ہے- طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے

أَخْبَرَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَعَثَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ بِمِائَةِ أَلْفٍ. فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُبَايِعَ لِيَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: أَرَى ذَاكَ أَرَادَ. إِنَّ دِينِي عِنْدِي إِذًا لَرَخِيصٌ

نافع نے کہا معاویہ نے ابن عمر کی طرف ایک لاکھ بھیجے پس جب یزید کی بیعت کا ارادہ کیا ابن عمر نے کہا میں دیکھتا ہوں معاویہ کا یہ مقصد تھا – میرادین تو سستا ہو گیا

راقم کہتا ہے اس کی سند میں بصری مدلس ایوب سختیانی ہے اور سند کمزور ہے

ہشتم : محرمات سے نکاح ہوا

تاریخ الطبری دار التراث – بيروت ج ٥ ص ٤٨٠  کے مطابق

 قَالَ لوط: وَحَدَّثَنِي أَيْضًا مُحَمَّد بن عَبْدِ الْعَزِيزِ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عوف ورجع المنذر من عِنْدَ يَزِيد بن مُعَاوِيَة، فقدم عَلَى عُبَيْد اللَّهِ بن زياد الْبَصْرَة… فأتى أهل الْمَدِينَة، فكان فيمن يحرض الناس عَلَى يَزِيد، وَكَانَ من قوله يَوْمَئِذٍ: إن يَزِيد وَاللَّهِ لقد أجازني بمائة ألف درهم، وإنه لا يمنعني مَا صنع إلي أن أخبركم خبره، وأصدقكم عنه، وَاللَّهِ إنه ليشرب الخمر، وإنه ليسكر حَتَّى يدع الصَّلاة

منذربن الزبیر اہل مدینہ کے پاس آئے تو یہ ان لوگوں میں سے تھے جو لوگوں کو یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔ اور یہ اس دن کہتے تھے : اللہ کی قسم ! یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم دئے، لیکن اس نے مجھ پر جو نوازش کی ہے وہ مجھے اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ میں تمہیں اس کی خبر بتلاؤں اور اس کے متعلق سچ بیان کردوں ۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یزید شرابی ہے اور شراب کے نشے میں نماز بھی چھوڑ دیتا ہے

أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے

وقال الدارقطني: ضعيف

 وقال يحيى بن معين: ((ليس بثقة)). وقال مرةً أخرى: ((ليس بشيء)). ثقه نہیں ، کوئی چیز نہیں

وقال ابن عدي: ((شيعي محترق، صاحب أخبارهم)) اگ لگانے والا شیعہ ہے

 الطبقات الكبرى ، دار الكتب العلمية – بيروت، ج ٥ ص ٤٩ میں ہے

اخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيم عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَعَنْ غَيْرِهِمْ أَيْضًا. كُلٌّ قَدْ حَدَّثَنِي. قَالُوا: لَمَّا وَثَبَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيَالِيَ الحرة فأخرجوا بَنِي أُمَيَّةَ عَنِ الْمَدِينَةِ وَأَظْهَرُوا عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَخِلافَهُ أَجْمَعُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ فَأَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَيْهِ فَبَايَعَهُمْ عَلَى الْمَوْتِ وَقَالَ: يَا قَوْمُ اتَّقُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لا شريك له. فو الله مَا خَرَجْنَا عَلَى يَزِيدَ حَتَّى خِفْنَا أَنْ نُرْمَى بِالْحِجَارَةِ مِنَ السَّمَاءِ. إِنَّ رَجُلا يَنْكِحُ الأُمَّهَاتِ وَالْبَنَاتَ وَالأَخَوَاتِ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَدَعُ الصَّلاةَ

جب اہل مدینہ نے حرہ کے موقع پر فساد کیا، بنوامیہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ، یزید کے عیوب کا پرچار  اس کی مخالفت کی تو لوگوں نے عبداللہ بن حنظلہ کے پاس آکر اپنے معاملات انہیں سونپ دئے ۔ عبداللہ بن حنظلہ نے ان سے موت پر بیعت کی اور کہا: اے لوگو ! اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو ! اللہ کی قسم ہم نے یزید کے خلاف تبھی خروج کیا ہے جب ہمیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پر کہیں آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے کہ ایک آدمی ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور نماز چھوڑتا ہے

اس کی سند میں  أبو عبد الله، محمد بن عمر بن واقد، الواقدي ، الأسلمي مولاهم، المدني ہیں. الواقدی  قاضي بغداد تھے عبد الله بن بريدة، الأسلمي کے آزاد کردہ غلام تھے سن ٢٠٧ ھ میں وفات ہوئی  انکو محدثین متروك مع سعة علمه یعنی اپنی علمی وسعت کے باوجود متروک ہیں کہتے ہیں

الواقدي کٹر شیعہ ہیں اس وجہ سے انکی روایت  نہیں لی جا سکتی ورنہ تاریخ اور جرح و تعدیل کی کتابوں میں انکے اقوال راویوں کی وفات کے حوالے سے قابل قبول ہیں اگر یہ کسی کو شیعہ کہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ بھی کٹر شیعہ ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَادٍ الأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … أَنْ ذَكَرَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. فَقَالَ: إِنِّي خَرَجْتُ كَرْهًا بِبَيْعَةِ هَذَا الرَّجُلِ. وَقَدْ كَانَ مِنَ الْقَضَاءِ وَالْقَدَرِ خُرُوجِي إِلَيْهِ. رَجُلٌ يَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَنْكِحُ الْحُرُمَ

معقل بن سنان نے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کا ذکر کیا اور کہا: میں اس شخص کی بیعت سے کراہت کی وجہ سے نکلا ہوں ، اور اس کی طرف جانا ،قضاو قدر میں تھا ۔یہ ایسا آدمی ہے جو شراب پیتا ہے ، محرمات سے نکاح کرتا ہے

اسکی سند میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَاد ہے جو مجھول ہے دوسرے الواقدی شیعہ بھی ہے

 وہ کون کون سی محرم عورتیں تھیں جن کا اس سے نکاح تھا ان کی لسٹ ہے کسی کے پاس ہے تو پیش کرے
انہوں نے جو بچے جنے ان کے کیا نام تھے کسی نسب کی کتاب میں ہیں؟

نہم:  یزید شرابی تھا 

تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 220 و تاريخ طبرى، ج 6، ص 170. ابن اثير در كامل (ج 3، ص 503-505) کے مطابق یزید بندروں سے کھیلتا تھا

ابن اثیراور طبری  نے لکھا  کہ ابو مخنف نے روایت کیا حسن نے کہا

قَالَ أَبُو مخنف: عن الصقعب بن زهير، عن الْحَسَن، قَالَ: أربع خصال كن فِي مُعَاوِيَة، لو لَمْ يَكُنْ فِيهِ منهن إلا واحدة لكانت موبقة: انتزاؤه عَلَى هَذِهِ الأمة بالسفهاء حَتَّى ابتزها أمرها بغير مشورة مِنْهُمْ وفيهم بقايا الصحابة وذو الفضيلة، واستخلافه ابنه بعده سكيرا خميرا، يلبس الحرير ويضرب بالطنابير،

یزید ریشم پہنتا ہے اور شرابی ہے

 أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے

دھم:  یزید کتوں اور بندروں سے کھیلتا تھا

المنتظم في تاريخ الأمم والملوك میں ابن جوزی نے لکھا

عبد الله بن حنظلة الغسيل، والمنذر بن الزبير نے کہا

ويلعب بالكلاب

یہ کتوں سے کھیلتا ہے

سند میں واقدی ہے

تاریخ طبری ج ١٠ ص ٦٠ پر ہے معاویہ نے اپنے بیٹے کی خلافت پر بلایا

ودعاؤه عباد الله الى ابنه يزيد المتكبر الخمير، صاحب الديوك والفهود والقرود

جو متکبر شرابی تھا  مرغوں، چیتوں اور بندروں والا

یہ تمام اقوال نہایت کمزور سندوں سے ہیں – لیکن اگر مان لیں صحیح ہیں تو اس میں کیا برائی ہے ؟  یزید کو چڑیا گھر کا شوق ہو گا- آج ساری دنیا چڑیا گھر جا جا کر دیکھ رہی ہے اگر نہ جائے تو مسلمانوں کا خلیفه نہ جائے

کیا اصحاب کہف کا کتا نہیں تھا؟

شکار کے لئے کتوں کو پالنا  جائز ہے اس کا ذکر احادیث میں ہے

حسن و حسین رضی الله عنہما بھی کتوں سے کھیلتے تھے سنن ابو داود کی حسن حدیث ہے

حدَّثنا أبو صالحٍ محبوبُ بنُ موسى، حدَّثنا أبو إسحاق الفزَاريُّ، عن يونَس بن أبي إسحاق، عن مجاهدٍ
حَدّثنا أبو هُريرة، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: أتاني جبريلُ عليه السلام، فقال لي: أتيتُكَ البارحَةَ فلم يمنعْني أن أكونَ دخلتُ إلا أنَّه كانَ على الباب تماثيلُ، وكان في البيت قِرَامُ سِتْرٍ فيه تماثيلُ، وكان في البيت كلْبٌ، فَمُرْ برأسِ التِّمثَالِ الذي على بابِ البيت يقْطَعُ فيصيرُ كهيئةِ الشجرة، ومُرْ بالسِّترِ، فليُقْطَع، فيُجعَلُ منه وسادَتَان مَنبوذتانِ تُوطآن، ومُرْ بالكلب فليُخرَج” ففعل رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -، وإذا الكلبُ لحَسَنٍ أو حُسين كان تحتَ نَضَدٍ لهم، فأمر به فأخْرِجَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میرے پاس جبرائیل علیہ السلام نے آ کر کہا: میں کل رات آپ کے پاس آیا تھا لیکن اندر نہ آنے کی وجہ صرف وہ تصویریں رہیں جو آپ کے دروازے پر تھیں اور آپ کے گھر میں (دروازے پر)ایک منقش پردہ تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں، اور گھر میں کتا بھی تھا تو آپ کہہ دیں کہ گھر میں جو تصویریں ہوں ان کا سر کاٹ دیں تاکہ وہ درخت کی شکل کی ہو جائیں، اور پردے کو پھاڑ کر اس کے دو غالیچے بنا لیں تاکہ وہ بچھا کر پیروں سے روندے جائیں اور حکم دیں کہ کتے کو باہر نکال دیا جائے”، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا، اسی دوران حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کا کتا ان کے تخت کے نیچے بیٹھا نظر آیا، آپ نے حکم دیا تو وہ بھی باہر نکال دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نضد» چارپائی کی شکل کی ایک چیز ہے جس پر کپڑے رکھے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب ۴۴ (۲۸۰۶)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۶۰ (۵۳۶۷)،

تلك عشرة كاملة

جھگڑا کیا ہوا ؟

معاویہ اور حسین رضی الله عنہما میں اختلافات حسن رضی الله عنہ کی وفات کے بعد ہوئے جس میں فریقین نے ایک دوسرے سے کلام نہیں کیا اور اختلاف اندر ہی اندر بڑھتا رہا

حسن و معاویہ رضی الله عنہما میں  جو معائدہ ہوا اس کی شقیں تھیں

بحوالہ  عمرو بن غرامة العمروي محقق تاریخ دمشق دار الفكر

 أن يعمل معاوية بالمؤمنين بكتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه وآله وسلم وسيرة الخلفاء الصالحين من بعده

معاویہ مومنوں کے ساتھ کتاب الله اور سنت النبی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق عمل کریں گے اور ان کے بعد انے والے صالح خلفاء کی سیرت کے مطابق

المدائني کی سند سے شیعہ مورخ ابن أبي الحديد کتاب شرح النهج 4 / 8 میں لکھا ہے کہ کتاب الله اور سنت نبی پر عمل کا عہد ہوا  فتح الباري کے مطابق سیرت خلفاء صالحین پر عمل کا عہد ہوا

ليس لمعاوية أن يعهد لاحد من بعده عهدابل يكون الامر من بعده شورى بين المسلمين

معاویہ کسی کو بھی جانشین مقرر نہیں کریں گے اور ان کے بعد معاملہ مسلمانوں کی شوری کے پاس ہو گا

المدائني کہتا ہے یہ عہد بھی ہوا کہ معاویہ کسی کو جانشیں نہ کریں گے

 أن يكون الامر للحسن من بعده

امر خلافت معاویہ کے بعد حسن کو ملے گا

تاريخ الخلفاء للسيوطي ص 194 والاصابة 2 / 12 – 13 کے مطابق یہ عہد ہوا کہ خلافت واپس حسن کو ملے گی معاویہ کی وفات کے بعد

 أن لا يشتم عليا وهو يسمع

ابن اثیر کے مطابق حسن کے سامنے علی پر شتم نہ ہو گا کہ وہ سن رہے ہوں

اور شیعہ کتاب  مقاتل الطالبيين کے مطابق

أن يترك سب أمير المؤمنين والقنوت عليه بالصلاة 

علی پر نماز میں قنوت پڑھنا بند ہو گا اور ان کو گالی دینا بند ہو گا

تاریخ طبری   6 / 92 کے مطابق حسن و حسین کو مال ملے گا

 يسلم ما في بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف للحسن وله خراج دارابجرد 

خمسة آلاف ألف کوفہ کے بیت المال سے حسن کو دیے جائیں گے اور دار ابجرد کا خراج بھی

اور الاخبار الطوال ص 218 أبو حنيفة الدينوري  کے مطابق ان کے بھائی حسین کو

أن يحمل لاخيه الحسين في كل عام ألفي الف

ہر سال  حسین کو ٢٠٠٠ ملیں گے

اپ دیکھ سکتے ہیں ان شقوں میں تضاد ہے امیر المومنین حسن رضی الله عنہ جب معاویہ سے معائدہ کر رہے تھے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ پہلے انتقال کر جائیں گے یا قتل یا شہید ہوں گے کیونکہ انہوں نے اس پر عھد کیا کہ امر خلافت واپس ان کو ملے گا- متاخرین شیعہ نے اس معائدہ میں اضافہ کیا کہ معاویہ کی موت پر یہ مسئلہ شوری طے کرے گی جبکہ شوری کا کوئی رول قابل قبول نہیں ہے کیونکہ خلافت واپس حسن پر لوٹ اتی جس سے ظاہر ہے کہ اصل عھد تھا کہ خلافت حسن کو واپس ملے گی-  أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني المتوفی ٢٢٤ ھ کا قول منفرد  ہے یہ بات ان کے حوالے سے شیعہ و سنی کتابوں میں ہے ان سے قبل کسی نے اس کو بیان نہیں کیا

حسن رضی الله عنہ کی سن ٥٠ ھجری میں وفات ہوئی – سن ٥١ ہجری میں یزید بن معاویہ نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کر کے امّت میں اپنی امیر کی صلاحیتوں کو منوا لیا – اس حملے میں جلیل القدر اصحاب رسول بھی ساتھ تھے – سن ٥١ ھجری میں معاویہ رضی الله عنہ نے یزید کی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور اس وقت عائشہ رضی الله عنہا حیات تھیں جن کی وفات معاویہ رضی الله عنہ کی وفات سات تین یا سات سال پہلے ہوئی ہے گویا کم از کم یزید کی بیعت کی دعوت تین سال تک دی جاتی رہی اور حسین رضی الله عنہ نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ وہ کسی معائدہ کی خلاف ورزی نہیں کر رہے تھے حسن کی وفات ہو چکی تھی لہذا امر خلافت ان کو نہیں لوٹ سکتا تھا  معاویہ فیصلہ کرنے میں آزاد تھے اور انہوں نے امت کو اس پر سوچنے کا پورا موقعہ دیا کہ کسی کو اختلاف ہو تو پیش کرے- حسین رضی الله عنہ کو یہ بات پسند نہ آئی لیکن انہوں نے اپنی مخالفت کا اظہار بھی نہیں کیا یہاں تک کہ کوفہ کے ان کے حامیوں نے ان کو خط لکھ کر کوفہ بلوایا اور جب بات ظاہر کی اس وقت تک دیر ہو چکی تھی یزید امیر تھے اور حسین  کے لئے وہ اقتدار نہیں چھوڑ سکتے تھے کیونکہ وہ اسی طرح خلیفہ ہوئے جس طرح علی نے حسن کو خلیفہ کیا تھا جو حسین کے باپ علی کی سنت تھی اور سنت علی پر  چلنا بھی عھد کی شق تھا جیسا  تاریخ میں ہے

اس لئے یہ جھگڑا بڑھا اور اگلے ١٥٠ سال تک بنو ہاشم خلفاء کے خلاف خروج کرتے رہے جن میں کچھ اولاد حسن میں سے ہیں کچھ اولاد حسین میں سے ہیں کچھ عباس رضی الله عنہ کی اولاد میں سے ہیں یعنی ہر ٢٠ سال بعد ایک خروج ہوا اور یہاں تک کہ عباسی خلافت تک میں خروج ہوتے رہے جبکہ دونوں بنو ہاشم ہی تھے- ان تمام  خروج میں کامیابی صرف بنو عباس کو ہوئی جو سنی عقیدہ رکھنے والے بنو ہاشم  تھے اور ان کی شادیان شیعہ عقیدہ کے حامل بنو ہاشم میں بھی ہوئیں- بہت سے راوی جو الکافی کے راوی ہیں وہ بنو عباس کے درباری تھے مثلا عبد الله بن سنان، ان کے کاتب یا خزانچی  تھے- اس طرح شیعہ و سنی دونوں اسلامی خلافت میں اپنے اپنے اختلاف کے ساتھ جیتے رہے اس دوران بعض سیاسی خروج سے خود اثنا عشری شیعہ بھی پریشان ہوئے اور ان کی حمایت نہیں کی مثلا قرامطہ اسماعیلی شیعہ تھے لیکن بہت متشدد اور گمراہ تھے جنہوں نے حجر اسود کو اکھاڑ کر کوفہ پہنچایا ،  ان سے اسماعیلی شیعہ جو مصر میں تھے وہ بھی نا خوش تھے

الغرض ایک واقعہ جو ٦١ ہجری میں ہوا اس  کو اس طرح بیان کرتے  رہنا کہ گویا اہل بیت اور غیر اہل بیت ہر وقت جھگرتے رہے تاریخ کو مسخ کرنا ہے