محرم کی آمد ہے اور امت پر اس ماہ میں اصحاب رسول و صالحین پر شب و شتم جائز ہو جاتا ہے- علماء و ذاکرین دل کھول کر بھڑاس نکالتے ہیں – ان پیشہ وروں کی اصلاح تو نا ممکن ہے لیکن ہم نے حسب موقعہ محرم کی مناسبت سے اصحاب رسول اور ان کی اولاد کے لئے ایک چارج شیٹ تیار کی ہے تاکہ ہمارے قارئین ان مقدمات کو سمجھ سکیں
یہ لسٹ ہماری نہیں ہے غیر مقلدین کی ایک ویب سائٹ سے لی ہے – افسوس رافضیوں کو کیا کوسین – اہل سنن اور سلف کے متبع ہی اس میں اس قدر مشغول ہیں کہ کسی اور کا کیا شکوہ کریں
غیر مقلدین کی سرخ لسٹ دیکھتے ہیں اور اس پر ہم تبصرہ کریں گے
لسٹ ہے
اول : عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے۔ صحیح بخاری کتاب العیدین
دوم: نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں صحیح بخاری و صحیح مسلم
سوم: حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا سنن نسائی
چہارم : علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا سنن ابو داود ،مسند احمد
پنجم: سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین پر عمل ختم ہوتا جا رہا تھا۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ
ششم : زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا مصنف ابن ابی شیبہ ، اروء الغلیل للالبانی
ہفتم : ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا بخاری ، مسلم ،ابوداود
ہشتم: محرمات سے نکاح ہوا
نہم: یزید شرابی تھا
دھم: یزید کتوں اور بندروں سے کھیلتا تھا
اول : عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے۔ صحیح بخاری کتاب العیدین
صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدٌ بن أسلم عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى، فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلاَةُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ، وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ، فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ، فَإِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ، أَوْ يَأْمُرَ بِشَيْءٍ أَمَرَ بِهِ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ وَهْوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُرِيدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ فَجَبَذَنِي فَارْتَفَعَ، فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلاَةِ، فَقُلْتُ لَهُ: غَيَّرْتُمْ وَاللَّهِ. فَقَالَ: يا أَبَا سَعِيدٍ، قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ. فَقُلْتُ مَا أَعْلَمُ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا لاَ أَعْلَمُ. فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ”.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ جاتے اور سب سے پہلے عید نماز پڑھاتے اور سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے اور نیکی کا حکم دیتے، پھر اس کے بعد اگر کسی مہم پر صحابہ کرام کو روانہ کرنا ہوتا تو افراد چن کر روانہ کر دیتے، یا کسی کام کا حکم دینا ہوتا تو حکم دے کر گھروں کی جانب واپس روانہ ہوتے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : لوگوں کا اسی پر عمل جاری و ساری رہا ، یہاں تک کہ میں مدینہ کے گورنر مروان کے ساتھ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر عید گاہ گیا ، جب ہم عید گاہ پہنچے تو وہاں کثیر بن صلت نے منبر بنایا ہوا تھا، تو مروان نے نماز سے قبل منبر پر چڑھنا چاہا تو میں نے اس کے کپڑے سے کھینچا، تو مروان اپنا کپڑا چھڑوا کر منبر پر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے لوگوں سے خطاب کیا، اس پر میں [ابو سعید] نے کہا: اللہ کی قسم ! تم نے دین بدل دیا ہے تو مروان نے کہا: ابو سعید جو باتیں تم جانتے ہو [ان کا دور ]اب نہیں رہا
ابو سعید نے جواب دیا: اللہ کی قسم جو باتیں میرے علم میں ہیں وہ ان سے کہیں بہتر ہیں جو میرے علم میں نہیں ہیں
مروان نے کہا: لوگ نماز کے بعد ہمارے خطاب کیلیے بیٹھتے نہیں تھے، اس لیے میں نے اپنے خطاب کو ہی نماز سے پہلے کر دیا
اس میں معاویہ رضی الله عنہ کا قصور کیا ہے اس دور میں کوئی ان کو ایس ایم ایس میسج بھیج کر بتا دیتا کہ مدینہ میں مروان نے ایسا کیا تو وہ اس کو روک دیتے اور کیا یہ خطبہ سننے سے بچنے کے لیے لوگ چلے گئے یہ کیا صحیح تھا ؟ اگر یہ لوگ عید کا خطبہ نہیں سننا چاہتے تھے تو یہ تو واجب نماز تھی – فرض جمعہ میں کیا ہوتا تھا اس پر کتب خاموش ہیں کون کون اس خطبہ جمعہ کو چھوڑتا تھا ؟
اسنادی نکات : روایت عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ المتوفی ٧٤ ھ کی سند سے ہے
محدثین کے مطابق یہ سماع صحیح ہے البتہ ثقات ابن حبان میں ہے
عِيَاض بْن عَبْد الله يروي عَن أَبِيه عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ روى عَنهُ سَلمَة بْن كهيل وَلَيْسَ هَذَا بِابْن أبي سرح
عِيَاض بْن عَبْد الله جو اپنے باپ سے وہ ابو سعید سے روایت کرنا ہے وہ ابن ابی سرح نہیں ہے
مسئلہ یہ ہے کہ عِيَاض بْن عَبْد الله کا سماع ابو سعید سے اگر ہے تو مدینہ میں ہی دیگر اصحاب نبی مثلا جابر بن عبد الله سے کیوں نہیں ہے جبکہ یہ بھی ایک ہی دور کے مدنی اصحاب رسول ہیں دوسری طرف محدثین میں سے بعض نے کہا ہے یہ مکہ کے ہیں
وقال ابن يونس:عياض بن عبد الله بن سعد بن أبى سرح ولد بمكة، ثم قدم مصر، فكان مع أبيه، ثم خرج إلى مكة، فلم يزل بها حتى مات
ابن یونس نے کہا عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح مکہ میں پیدا ہوا پھر باپ کے ساتھ مصر گیا پھر مکہ لوٹا اور وہیں رکے یہاں تک کہ وفات ہوئی
جبکہ تاریخ الکبیر امام بخاری میں ہے يُعَدُّ فِي أهل المَدِينة ان کاشمار اہل مدینہ میں ہے – ثقات ابن حبان میں ہے عِدَادُهُ فِي أهل الْمَدِينَة ان کا شماراہل مدینہ میں ہے
راقم کو عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح کی جابر رضی الله عنہ سے کوئی مسند روایت نہیں ملی
عِياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح کا ابو سعید رضی الله عنہ سے روایت کرنا اور جابر رضی الله عنہ سے روایت نہ کرنا عجیب بات ہے جبکہ جابر رضی الله عنہ کی وفات کہا جاتا ہے ٧٨ میں ہوئی ہے
—————
مصنف عبد الرزاق کی روایت 5644 ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا رَأَى النَّاسَ يَنْقُصُونَ فَلَمَّا صَلَّى حَبَسَهُمْ فِي الْخُطْبَةِ».
يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ کہتے ہیں کہ عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ دینا عمر رضی الله عنہ نے شروع کیا جب دیکھا کہ لوگ کم ہونے لگے ہیں
یہی بات یوسف نے عثمان رضی الله عنہ کے لئے بھی بولی
اور امام الزہری کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ نے اس کو شروع کیا
معمر کہتے ہیں ان کو پہنچا کہ عثمان اپنی خلافت کے آخری دور میں ایسا کرتے تھے
ابن حجر فتح الباری ج ٢ ص ٤٥٠ میں لکھتے ہیں کہ نماز عید سے پہلے خطبہ عثمان بھی دیتے تھے
وَسَيَأْتِي فِي الْبَابِ الَّذِي بَعْدَهُ أَنَّ عُثْمَانَ فَعَلَ ذَلِكَ أَيْضًا لَكِنْ لِعِلَّةٍ أُخْرَى
اور آگے باب میں ہے کہ عثمان بھی ایسا کرتے تھے لیکن اس کی وجہ اور ہے
کتاب : كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از محمَّد الخَضِر بن سيد عبد الله بن أحمد الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق عید کی نماز سے پہلے خطبہ دینا
وقيل بل سبقه إليه عثمان؛ لأنه رأى ناسًا لم يدركوا الصلاة فصار يقدم الخطبة رواه ابن المنذر بإسناد صحيح إلى الحسن البصري
عثمان نے کیا کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ لوگ نماز میں نہیں آ رہے پس خطبہ کو پہلے کیا اس کو ابن المنذر نے صحیح اسناد سے حسن بصری سے روایت کیا ہے
ابو مسعود عقبة بن عمرو بن ثعلبة رضی الله عنہ کی وفات ٣٩ یا ٤٠ ہجری میں ہوئی اور مصنف عبد الرزاق کی روایت 5648 ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ يَقُولُ: «خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ – أَوْ أَضْحَى – هُوَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي مَسْعُودٍ حَتَّى أَفْضَيْنَا إِلَى الْمُصَلَّى، فَإِذَا كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ الْكِنْدِيُّ قَدْ بَنَى لِمَرْوَانَ مِنْبَرًا مِنْ لَبِنٍ وَطِينٍ، فَعَدَلَ مَرْوَانُ إِلَى الْمِنْبَرِ حَتَّى حَاذَى بِهِ فَجَاذَبْتُهُ لِيَبْدَأَ بِالصَّلَاةِ»، فَقَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، تُرِكَ مَا تَعْلَمُ، فَقَالَ: كَلَّا وَرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَا تَأْتُونَ بِخَيْرٍ مِمَّا نَعْلَمُ ثُمَّ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ
عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْح کہتے ہیں کہ ابو سعید سے سنا کہ میں مروان کے ساتھ یوم فطر یا عید الاضحی پر نکلا اور میرے اور مروان کے درمیان ابی مسعود تھے یہاں تک کہ نماز کی جگہ پہنچے پس کثیر بن الصلت نے مروان کے لئے ایک منبر بنوایا ہوا تھا جس پر مروان چڑھا پھر اس پر سے نماز کے لئے اٹھا پس کہا اے ابو سعید چھوڑ دیا جس کو تم جانتے تھے اس پر ابو سعید نے کہا ہرگز نہیں مشارق و مغارب کے رب کی قسم تم اس خیر تک نہیں پہنچو گے جس کو ہم جانتے ہیں – پھر خطبہ شروع کیا
عینی عمدہ القاری میں لکھتے ہیں
وَزَاد عبد الرَّزَّاق عَن دَاوُد ابْن قيس وَهُوَ بيني وَبَين أبي مَسْعُود، يَعْنِي: عقبَة بن عَمْرو الْأنْصَارِيّ
ابی مسعود سے مراد عقبَة بن عَمْرو الْأنْصَارِيّ ہیں
کثیر بن صلت کے لئے ابن سعد طبقات میں واقدی کے حوالے سے لکھتے ہیں
وَلَهُ دَارٌ بِالْمَدِينَةِ كَبِيرَةٌ فِي الْمُصَلَّى وَقِبْلَةُ الْمُصَلَّى فِي الْعِيدَيْنِ إِلَيْهَا.
ان کا ایک بڑا گھر مدینہ میں تھا مصلی کے ساتھ اور اس میں عیدیں کے لئے مصلی کا قبلہ تھا
یہ روایت المسنَد الصَّحيح المُخَرّج عَلى صَحِيح مُسلم از أبو عَوانة يَعقُوب بن إسحَاق الإسفرَايينيّ (المتوفى 316 هـ) میں بھی ہے جہاں اس میں ابی مسعود صحابی کا ذکر ہے
سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی کہتے ہیں
قال المدائني وغيره: تُوُفيّ سنة أربعين. وقال خليفة تُوُفيّ قبل الأربعين وقال الواقدي: مات في آخر خلافة معاوية بالمدينة.
المدائني اور دیگر نے کہا کہ ان کی وفات ٤٠ ھ میں ہوئی اور خلیفہ نے کہا ٤٠ سے بھی پہلے اور واقدی نے کہا کہ معاویہ کی خلافت میں مدینہ میں
ابن حبان ، مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں کہتے ہیں
مات بالكوفة في خلافة على بن أبى طالب وكان عليها واليا له
ان کی وفات کوفہ میں علی رضی الله عنہ کی خلافت میں ہوئی ان کی طرف سے وہاں کے والی تھے
الأعلام میں الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) کہتے ہیں ابی مسعود : ونزل الكوفة. وكان من أصحاب علي، فاستخلفه عليها لما سار إلى صفين (انظر عوف بن الحارث) وتوفي فيها کی وفات کوفہ میں ہوئی
جمہور محدثین و مورخین کے مطابق ابی مسعود رضی الله عنہ کی وفات دور علی میں کوفہ میں ہوئی
یعنی ابی مسعود تو کوفہ میں دور علی میں وفات پا گئے تو اب وہ مروان کا دور کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ دور معاویہ کا ہے ہی نہیں – یہ دور عثمان کا ہو گا جب مروان کو کسی بنا پر امیر مقرر کیا گیا ہو گا اور مروان اور ابی مسعود اور ابو سعید الخدری نے ساتھ نماز پڑھی
اگرچہ متاخرین شارحیین نے جمہور کا قول چھوڑ کر واقدی کے قول پر اعتماد کیا ہے اور دعوی کیا ہے ابی مسعود نے معاویہ کے دور میں وفات پائی
راقم کہتا ہے واقدی کا منفرد قول جمہور کے مقابلے پر شاذ ہے ابی مسعود کا انتقال دور علی میں ہوا
عثمان رضی الله عنہ کے دور میں جمعہ کی نماز بازار میں ہوتی تھی کیونکہ لوگ زیادہ تھے – اسی طرح عید کی واجب نماز میں ابن منذر کے بقول انہوں نے خطبہ پہلے دیا کہ لوگ جمع ہو لیں
راقم کی رائے میں روایت میں ابی مسعود کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ یہ دور معاویہ کا واقعہ ہے ہی نہیں
شیعہ عالم کتاب الدرجات الرفيعة- السيد علي ابن معصوم ، عقبة بن عمرو رضی الله عنہ پر کہتے ہیں
وقال أبو عمرو كان قد نزل الكوفة وسكنها واستخلفه على في خروجه إلى صفين. ومات سنة احدى أو اثنتين أو أربعين والله أعلم
ابو عمر نے کہا کہ یہ کوفہ آئے اور اس میں رکے اور علی نے ان کو صفین جاتے وقت امیر کوفہ کیا اور یہ سن ٤٢ یا ٤١ میں مرے
یعنی شیعوں اور سنیوں کے بقول عقبة بن عمرو رضی الله عنہ دور معاویہ سے پہلے دور حسن میں انتقال کر گئے تھے
تو پھر راقم کہتا ہے کھینچ تان کر کے اس روایت کو دور معاویہ تک کیسے لایا جا سکتا ہے؟
سن ٣١ ہجری کا واقعہ ہے جو صحیح البخاری میں ہی ہے
حدیث نمبر: 3717حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، قَالَ: أَصَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رُعَافٌ شَدِيدٌ سَنَةَ الرُّعَافِ حَتَّى حَبَسَهُ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصَى فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ: “اسْتَخْلِفْ، قَالَ: وَقَالُوهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ فَسَكَتَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ أَحْسِبُهُ الْحَارِثَ، فَقَالَ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: عُثْمَانُ وَقَالُوا، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ هُوَ فَسَكَتَ، قَالَ: فَلَعَلَّهُمْ قَالُوا الزُّبَيْرَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُ لَخَيْرُهُمْ مَا عَلِمْتُ وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”.ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ مجھے مروان بن حکم نے خبر دی کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اس سال عثمان رضی اللہ عنہ کو اتنی سخت نکسیر پھوٹی کہ آپ حج کے لیے بھی نہ جا سکے، اور (زندگی سے مایوس ہو کر) وصیت بھی کر دی، پھر ان کی خدمت میں قریش کے ایک صاحب گئے اور کہا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنا دیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: کیا یہ سب کی خواہش ہے، انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کسے بناؤں؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے،۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ بنا دیں، آپ نے ان سے بھی پوچھا کیا یہ سب کی خواہش ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: لوگوں کی رائے کس کے لیے ہے؟ اس پر وہ بھی خاموش ہو گئے، تو آپ نے خود فرمایا: غالباً زبیر کی طرف لوگوں کا رجحان ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے علم کے مطابق بھی وہی ان میں سب سے بہتر ہیں اور بلاشبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں بھی ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔
یعنی یہ خطبہ کو پہلے کرنے کا واقعہ عثمان رضی الله عنہ کی بیماری کی وجہ سے پیش آیا جس میں اپ حج پر نہ جا سکے اور اتنے بیمار ہوئے کہ وصیت تک کر دی- عقبة بن عمرو بن ثعلبة الخزرجي، أبو مسعود البدري کی وجہ سے یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ دور عثمان کا ہے اور مدینہ کا ہے تو خطبہ عید دینا عثمان رضی الله عنہ کا کام ہے مروان کا نہیں ہے – مروان کا یہ کام کرنا بطور علت ہے جس کی وجہ نکسیر پھوٹنے کی بیماری ہے اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہو سکتی
مصنف عبد الرزاق میں ہے
ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا رَأَى النَّاسَ يَنْقُصُونَ فَلَمَّا صَلَّى حَبَسَهُمْ فِي الْخُطْبَةِ».
یوسف نے کہا جس نے عید کی نماز میں خطبہ پہلے کیا وہ عمر ہیں جب دیکھا کہ لوگ کم ہو گئے ہیں
تاریخ أبي زرعة الدمشقي میں ہے
حدثنا خلف بن هشام المقرئ قال: حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال: غدوت مع يوسف بن عبد الله بن سلام في يوم عيد، فقلت له: كيف كانت الصلاة على عهد عمر ؟ قال: كان يبدأ بالخطبة، قبل الصلاة ـ
يحيى بن سعيد نے کہا میں نے يوسف بن عبد الله بن سلام کے ساتھ عید کے دن پوچھا کہ عہد عمر میں عید کی نماز کیسی تھی ؟ کہا عمر بن خطاب خطبہ دیتے نماز عید سے پہلے
ان آثار کو محدثین نے غریب یعنی منفرد کہا ہے لیکن اس کو رد نہیں کیا کیونکہ سند میں کوئی ایسی علت نہیں کہ ان کو غیر صحیح قرار دیا جائے – معلوم ہوا کہ عموم یہ ہے کہ نماز پہلے پھر خطبہ دیا جاتا تھا لیکن کسی وجہ سے اس کو آگے پیچھے عمر رضی الله عنہ نے کیا ہے عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی کیا ہے
الأوسط از ابن المنذر میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ، قَالَ: ثنا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يُصَلُّونَ ثُمَّ يَخْطُبُونَ، فَلَمَّا كَثُرَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ عُثْمَانَ رَأَى أَنَّهُمْ لَا يُدْرِكُونَ الصَّلَاةَ خَطَبَ ثُمَّ صَلَّى
حسن بصری نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں ابی بکر کے دور میں عمر کے دور میں عثمان کے دور میں نماز ہوتی پھر خطبہ لیکن جب لوگ زیادہ ہوئے دور عثمان میں تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ نماز کو نہیں پاتے تو انہوں نے خطبہ کیا پھر نماز
یعنی لوگوں کو اتے اتے وقت لگتا اور نماز چھوٹ جاتی لہذا آسانی کی وجہ سے ہوا – بہر حال حسن بصری نے ان تمام ادوار کو نہیں دیکھا لہذا کسی نے ان کو خبر دی ہو گی اس کے برعکس یوسف نے ان ادوار کو دیکھا ہے
کتاب الام میں شافعی نے جو روایت دی وہ ہے
أخبرنا الرَّبِيعُ قال أخبرنا الشَّافِعِيُّ قال أخبرنا إبْرَاهِيمُ قال حدثني دَاوُد بن الْحُصَيْنِ عن عبد اللَّهِ بن يَزِيدَ الْخِطْمِيِّ أَنَّ النبي صلى اللَّهُ عليه وسلم وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَانُوا يَبْتَدِئُونَ بِالصَّلَاةِ قبل الْخُطْبَةِ حتى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فَقَدَّمَ الْخُطْبَةَ.
رسول الله، ابو بکر عمر اور عثمان سب نماز کے بعد خطبہ عید دیتے لیکن جب معاویہ آئے تو انہوں نے خطبہ پہلے کر دیا
راقم کہتا ہے اس کی سند میں إبراهيم بن أبي يحيى الأسلمي ہے جو متروك الحديث ہے
فتح الباری میں ابن حجر نے لکھا ہے
وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ عُثْمَانُ فَعَلَ ذَلِكَ أَحْيَانًا بِخِلَافِ مَرْوَانَ فَوَاظَبَ عَلَيْهِ فَلِذَلِكَ نُسِبَ إِلَيْهِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ مِثْلُ فِعْلِ عُثْمَانَ قَالَ عِيَاضٌ وَمَنْ تَبِعَهُ لَا يَصِحُّ عَنْهُ وَفِيمَا قَالُوهُ نَظَرٌ لِأَنَّ عَبْدَ الرَّزَّاقِ وبن أبي شيبَة روياه جَمِيعًا عَن بن عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ وَهَذَا إِسْنَاد صَحِيح
اور احتمال ہے اس طرح خطبہ پہلے کرنا عثمان رضی الله عنہ نے کبھی کبھی کیا ہے … اور روایت کیا گیا ہے کہ ایسا عمر نے بھی کیا ہے اور قاضی عِيَاضٌ اور ان کی اتباع کرنے والوں نے کہا ہے یہ صحیح نہیں اس پر نظر ہے اور مصنف عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ میں دونوں نے اس کو .. یوسف بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ کی سند سے روایت کیا ہے اور یہ سند صحیح ہے
أبو العبَّاس أحمَدُ بنُ الشيخِ کتاب المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم میں کہتے ہیں
وقد رُوِيَ أنَّ أوَّلَ مَنْ فعل ذلك عمر بن الخَطَّاب ، وقيل : عثمان ، وقيل : عَمَّار ، وقيل : ابن الزبير ، وقيل : معاوية ـ رضى الله عنهم ـ … فإنْ صحَّ عن واحدٍ مِنْ هؤلاء أنَّه قدَّم ذلك ، فلعلَّه إنما فعل ؛ لمَا رأى من انصرافِ الناسِ عن الخُطْبة ، تاركين لسماعها مستعجلين ، ، أو ليدرك الصلاَة مَنْ تأخَّر وبَعُدَ منزلُهُ.
اور روایت کیا گیا ہے سب سے عید کی نماز کرنا بھر خطبہ دینا عمر نے کیا اور کہا جاتا ہے عثمان نے کیا اور کہا جاتا ہے عمار نے کیا اور کہا جاتا ہے ابن زبیر نے کیا اور کہا جاتا ہے معاویہ نے کیا پس اگر یہ ان سب سے صحیح ہیں جن کا ذکر کیا تو ہو سکتا ہے انہوں نے ایسا کیا ہو جب دیکھا کہ لوگ خطبہ پر جا رہے ہیں اور جلدی میں خطبہ نہیں سن رہے اور نماز میں دیر کر رہے ہیں
راقم کہتا ہے اگر کوئی بیماری عام ہو یا کوئی اور وجہ ہو مثلا قحط وغیرہ تو ایسا کیا جا سکتا ہے
دوم: نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں صحیح بخاری و صحیح مسلم
معاویہ و یزید پر یہ الزام ثابت نہیں ہے یہ عبد الملک بن مروان کے دور کا ذکر ہے کہ اس میں کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف نماز وقت پر نہیں پڑھاتا تھا
صحیح میں ہے
وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ الحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ، عَامَ نَزَلَ بِابْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَيْفَ تَصْنَعُ فِي المَوْقِفِ يَوْمَ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ: «إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَهَجِّرْ بِالصَّلاَةِ يَوْمَ عَرَفَةَ»، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: «صَدَقَ، إِنَّهُمْ كَانُوا يَجْمَعُونَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالعَصْرِ فِي السُّنَّةِ»، فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: أَفَعَلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ سَالِمٌ: «وَهَلْ تَتَّبِعُونَ فِي ذَلِكَ إِلَّا سُنَّتَهُ»
حجاج بن یوسف کو یوم عرفہ میں نماز میں جمع کرنا بتایا گیا
بعض روایات میں ہے کہ وہ نماز لیٹ کرتا تھا لیکن ان میں ایک راوی کا تفرد ہے
مسند ابو داود الطیالسی کی روایت ہے کہ حجاج نماز میں تاخیر کرتا جس پر محمد بن عمرو بن الحسن نے جابر بن عبد الله سے سوال کیا
ثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، قال: سمعت محمد بن عمرو بن الحسن يقول: لما قدم الحجاج بن يوسف كان يؤخر الصلاة، فسألنا جابر بن عبد الله عن وقت الصلاة، فقال: كان رسول الله – عليه السلام – يصلي الظهر بالهجير أو حين تزول، ويصلي العصر والشمس مرتفعة، ويصلي المغرب حين تغرب الشمس، ويصلي العشاء يؤخر أحيانًا ويعجل أحيانًا، إذا اجتمع الناس عَجَّل، وإذا تأخروا أَخَّر، وكان يصلي الصبح بغلس أو قال: كانوا يصلونها بغلس قال أبو داود: هكذا قال شعبة.
مسند دارمی میں ہے
أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ فِي زَمَنِ الْحَجَّاجِ – وَكَانَ يُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ – فَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِيُّ صَلى الله عَليهِ وسَلم يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ, وَالْعَصْرَ,
صحیح مسلم میں ہے
وَحَدَّثَنَاهُ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ الْحَجَّاجُ يُؤَخِّرُ الصَّلَوَاتِ، فَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بِمِثْلِ حَدِيثِ غُنْدَرٍ
ان تمام میں سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف کا تفرد ہے جو امام مالک کے نزدیک متروک ہے
امام بخاری نے اسی کی سند سے باب وقتِ المغرب میں اس کو روایت کیا ہے لیکن اس میں یہ الفاظ کہ حجاج نماز لیٹ کرتا تھا بیان نہیں کیے جس کا مطلب ہے یہ الفاظ ان کے نزدیک غیر محفوظ تھے
عن محمد بن عمْرو بن الحسن بن علي قال: قدِم الحَجَّاج فسألْنا جابرَ بن عبدِ اللهِ [عن صلاة النبي – صلى الله عليه وسلم] فقالَ: كان النبيُّ – صلى الله عليه وسلم – يصَلي الظهرَ بالهاجرةِ، والعصرَ والشمسُ نقيَّةٌ، والمغربَ إذا وَجبتْ، والعشاءَ أحياناً وأحياناً؛ إذا رآهم اجتمَعوا عجَّل، وإذا رآهُمْ أبطَؤا أخَّر، والصبحَ كانوا أو كانَ النبيُّ – صلى الله عليه وسلم – يصَليها بغلَسٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کی وفات معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں ٥٩ ہجری میں ہوئی سنن نسائی میں ایک حدیث ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ما صلَّيتُ وراءَ أحدٍ أشبَهَ صلاةً برسولِ اللَّهِ من فلانٍ ، فصلَّينا وراءَ ذلِكَ الإنسانِ وَكانَ يطيلُ الأوليينِ منَ الظُّهرِ ، ويخفِّفُ في الأخريينِ ، ويخفِّفُ في العصرِ ، ويقرأُ في المغربِ بقصارِ المفصَّلِ ، ويقرأُ في العشاءِ ب الشَّمسِ وضحاها وأشباهِها . ويقرأُ في الصُّبحِ ، بسورتينِ طويلتين(صحيح النسائي:982)
میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو فلاں شخص سے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاتا ہو۔ ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا تھا اور آخری وہ ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ عصر کی نماز بھی ہلکی پڑھاتا تھا۔ وہ مغرب کی نماز میں چھوٹی مفصل سورتیں پڑھتا تھا اورعشاء کی نماز میں (والشمس وضحھا) اور اس جیسی سورتیں پڑھتا تھا۔ اور صبح کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھتا تھا۔
بنو امیہ کے گورنروں کے پیچھے نماز پڑھنے والے ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی یہ شہادت کافی ہے
معاویہ رضی الله عنہ نے مدینہ پر عتبہ کو پھر سعید بن ابی العاص کو پھر مروان بن الحکم کو گورنر مقرر کیا یہ تمام اموی ہیں اور اغلبا ان تین میں سے کسی ایک کی نماز پر ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی رائے ہے کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جیسی تھی
بعض اہل سنت نے اس میں شخص سے مراد عمر بن عبد العزیز کو لیا ہے جبکہ ان کی پیدائش سن ٦١ ہجری کی ہے یعنی ابوہریرہ رضی الله عنہ کی وفات کے بعد پیدائش ہوئی ہے
سوم: حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا سنن نسائی
کیا معاویہ رضی الله تعالی عنہ نے سنت رسول کو بدلا
امام نسائی نے سنن میں، ابن خزیمہ نے صحیح میں ،امام حاکم مستدرک میں یہ روایت بیان کی اور کہا هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ کہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی روایت ہے کہ
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عرفات میں ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ تھا انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا وجہ کے کہ لوگ لبیک نہیں کہہ رہے؟ میں نے کہا کہ لوگ معاویہ سے خوف زدہ ہیں. پھر ابن عبّاس باہر آئے لبیک کہا اور کہا کہ علی سے بغض کی وجہ سے انہوں نے سنت رسول ترک کر دی
سند ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟ قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ
اس کی سند میں منہال بن عمرو ہے جس کو امام جوزجانی سی المذہب یعنی بد عقیدہ کہتے ہیں اور یہ الفاظ جوزجانی شیعہ راویوں کے لئے کہتے ہیں
اس روایت کو البانی صحيح الإسناد کہتے ہیں بعض لوگوں کے بقول یہ روایت خالد بن مخلد القطواني المتوفی ٢١٣ ھ شیعہ کی وجہ سے صحیح نہیں جس کی وفات خلیفہ مامون کے دور میں ہوئی ہے حالانکہ اس کی سند میں قرن اول کے راوی المنھال کا تفرد اہم ہے ظاہر قرن سوم کے شخص کا تفرد تو بعد میں آئے گا
یہی راوی منہال بن عمرو روایت کرتا تھا کہ
علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا
أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ
میں عبد الله ہوں اور رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور میں سب سے بڑا صدیق ہوں، اس کا دعوی میرے بعد کوئی نہیں کرے گا سوائے كَذَّابٌ کے
امت آج تک صرف ابو بکر صدیق کو ہی صدیق کہتی آئی ہے جب کہ یہ راوی کہتا ہے کہ علی سب سے بڑے صدیق ہیں
چہارم : علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا سنن ابو داود ،مسند احمد
جس وقت معاویہ و حسن رضی الله عنہما میں معاہدہ ہوا تو اس کی شق تھی کہ خلافت قبول کرنے کے بعد علی رضی الله عنہ پر کوئی تنقید ہماری یعنی اہل بیت کے سامنے نہیں ہو گی – چونکہ حسن رضی الله عنہ بہت سمجھ دار تھے اور جانتے تھے کہ اقتدار جب منتقل کر دیں گے تو فتنہ پرداز لوگ اس قسم کی باتیں کر سکتے ہیں لہذا انہوں نے اس کو ایک شق بنا دیا اور اس پر عمل ہوا کہ علی رضی الله عنہ کی تنقیص نہیں کی جاتی تھی
معاویہ رضی الله عنہ کے گورنر صحابی رسول الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کے لئے ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں لکھا ہے
وَكَانَ إِذْ كَانَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ عَلَى الْكُوفَةِ إِذَا ذَكَرَ عَلِيًّا فِي خُطْبَتِهِ يَتَنَقَّصُهُ بَعْدَ مَدْحِ عُثْمَانَ
اور الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کوفہ میں خطبہ میں عثمان رضی الله عنہ کی تعریف کے بعد علی رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے تھے
اس روایت میں گالیاں دینے کا ذکر نہیں دوم اس کی سند ابن کثیر دیتے ہیں
وَقَدْ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنِي الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ. قَالَ قَالَ سَلْمَانُ لِحُجْرٍ
اس کی سند کمزور ہے أَبِي إِسْحَاقَ السبيعي ایک کوفی شیعہ مدلس راوی ہے جس نے اس کو پھیلایا ہے
اسی کی ایک دوسری روایت ہے جو ابو عبداللہ الْجَدَلِيّ سے سنی ہے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الله الْجَدَلِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ الله، أَوْ سُبْحَانَ الله، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ عَلِيًّا، فَقَدْ سَبَّنِي
ابو عبداللہ الْجَدَلِيِّ نے ہم سے بیان کیا کہ میں ام سلمہ کے پاس گیا تو آپ نے مجھے فرمایا، کیا تم میں رسول اللہ کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ میں نے کہا معاذاللہ یا سبحان اللہ یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔
ابن حجر کہتے ہیں ابو عبداللہ الْجَدَلِيّ ثقة رمى بالتشيع ثقہ ہیں لیکن شیعیت سے متصف ہیں
طبقات ابن سعد کے مطابق
كان شديد التشيع. ويزعمون أنه كان على شرطة المختار
یہ شدید شیعہ تھے اور دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ مختار ثقفی کے پہرے دار تھے
قال الجوزجاني: كان صاحب راية المختار
الجوزجاني کہتے ہیں یہ المختار کا جھنڈا اٹھانے والوں میں سے ہیں
کذاب مختار کے ان صاحب کی بات اصحاب رسول کے لئے کس طرح قبول کی جا سکتی ہے
مسند احمد کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنِ الْحَجَّاجِ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ، عَمِّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ: نَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مِنْ عَلِيٍّ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: قَدْ عَلِمْتَ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى» ، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ؟
زید بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں: مغیرہ بن شُعْبَةَ نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دی، تو اس پر زید بن ارقم کھڑے ہو گئے اور کہا: تمہیں علم ہے کہ رسول ص نے مردہ لوگوں کو گالیاں دینے سے منع کیا ہے، تو پھر تم علی ابن ابی طالب پر کیوں سب کر رہے ہو جب کہ وہ وفات پا چکے ہیں؟
اس کی سند میں حجاج ابن أيوب مولى بني ثعلبة ہے جس کا حال مجھول ہے
مستدرک الحاکم میں اس کی دوسری سند ہے جس کو حاکم صحیح کہتے ہیں
عمرو بن محمد بن أبي رزين الخزاعي، عن شعبة، عن مسعر، عن زياد بن علاقة، عن عمه قطبة بن مالك
لیکن اس کی مخالف حدیث مسند احمد میں موجود ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ سَبِّ الْأَمْوَاتِ
الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مردوں کو برا کہنے سے منع کیا ہے
ایک طرف تو وہ خود یہ حدیث بیان کریں اور پھر اس پر عمل نہ کریں ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے
سنن ابو داود کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ حُصَيْنٌ: أَخْبَرَنَا عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ مُعَاوِيَةُ مِنَ الْكُوفَةِ، اسْتَعْمَلَ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، قَالَ: فَأَقَامَ خُطَبَاءَ يَقَعُونَ فِي عَلِيٍّ، قَالَ: وَأَنَا إِلَى جَنْبِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: فَغَضِبَ فَقَامَ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَتَبِعْتُهُ فَقَالَ: أَلا تَرَى إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة (مسند احمد رقم 1644 سنن ابوداؤد رقم 4650)
جب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو مغیرہ بن شعبۃ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کیا اس پر سعید بن زید رضی اللہ عنہ غصہ میں اپنا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا اور کہا کیا اس ظالم شخص کو نہیں دیکھا جو کسی کے لیے ایک جنتی شخص کو لعنت دے رہا ہے۔
اس کی سند منقطع ہے النسائي فضائل الصحابہ میں اس روایت کو پیش کرتے اور کہتے ہیں
هِلَال بن يسَاف لم يسمعهُ من عبد الله بن ظَالِم
هِلَال بن يسَاف نے عبد الله بن ظَالِم سے نہیں سنا
محدثین کے مطابق ان دونوں کے درمیان ابن حيان ہے جس کو میزان الاعتدال میں الذھبی نے مجھول قرار دیا ہے
ابن حيان [س] .عن عبد الله بن ظالم – لا يعرف.
مسلم کی بھی ایک روایت ہے
عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
سعد بن ابی وقاص کے بیٹے عامر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ نے سعد کو (ایک ) حکم دیا پس معاویہ نے کہا کہ آپ کو کس چیز نے روکا ہے کہ آپ ابو تراب [علی] پر سب و شتم نہ کریں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب میں اُن تین ارشادات نبوی کو یاد کرتا ہوں جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے علی کے متعلق فرمائے تھے تو میں ہرگز ان پر سب و شتم نہیں کر سکتا۔ ان تین مناقب میں سے اگر ایک منقبت بھی میرے حق میں ہوتی تو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی
اس کی سند میں بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ہے جن کے لئے امام بخاری کہتے ہیں
في حديثه بعض النظر
اس کی بعض حدیثیں نظر میں ہیں
بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ہی وہ راوی ہے جو روایت کرتا ہے کہ
وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي»
جب آیت نازل ہوئی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی فاطمہ حسن حسین کو بلایا اور کہا اے الله یہ میرے اہل بیت ہیں
امام بخاری اس روایت کے راوی پر جرح کرتے ہیں لیکن امام مسلم اس کو صحیح میں لکھتے ہیں
فيہ نظر بخاری کی جرح کا انداز ہے- ابن حجر کی رائے میں اس نام کے دو لوگ ہیں ایک ثقہ اور ایک ضعیف لیکن بخاری کے نزدیک دونوں ایک ہی ہیں اور انہوں نے اس سے صحیح میں کچھ نہیں لکھا- مسلم نے بھی تین روایات لکھی ہیں جن میں سے دو میں علی پر سب و شتم کا ذکر ہے اور یہی سند دی ہے
ابن کثیر لکھتے ہیں
وقال أبو زرعة الدمشقي: ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال: لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص.فقال: يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك.قال: فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه.فقال: أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ؟والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ((إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ؟))أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر: ((لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار)) (ج/ص: 7/377)أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج.
ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ رسول الله نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب آپ غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو اپ نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول الله کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور اپ کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔
یہ روایت تاریخ کے مطابق غلط ہے اول تاریخ ابو زرعہ الدمشقی میں یہ موجود نہیں دوم سعد آخری وقت تک معاویہ کے ساتھ رہے سوم اس کی سند میں مدلس محمد بن اسحاق ہے جو عن سے روایت کرتا ہے چہارم معاویہ نے حج کے خطبہ میں علی پر سب و شتم کیوں نہیں کیا یہ موقعہ ہاتھ سے کیوں جانے دیا؟
ابن ماجہ کی بھی ایک روایت ہے
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعدوقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
اس کی سند میں عبد الرحمن بن سابط و قيل ابن عبد الله بن سابط المتوفی ١١٨ ھ ہیں جن کو ا بن حجر کہتے ہیں ثقة كثير الإرسال – کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل کے مطابق
وقال يحيى بن معين لم يسمع من سعد بن أبي وقاص
یحیی بن معین کہتے ہیں انہوں نے سعد بن أبي وقاص سے نہیں سنا
ابن ماجہ کی اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں جبکہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے
الغرض معاویہ یا مغیرہ رضی الله عنہ کا علی رضی الله عنہ پر سب و شتم ثابت نہیں ہے البتہ مروان کے دور میں بعض شر پسند یہ کرتے تھے مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا
ال مروان میں سے ایک شخص نے سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنہ المتوفی ٨٨ ھ کے سامنے علی رضی الله عنہ پر لعنت کی جس پر انہوں نے اس کو نا پسند کیا
مورخین ابن اثیر ابن کثیر نے انہی روایات کو اپس میں ملا کر جرح و تعدیل پر غور کیے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ باقاعدہ معاویہ رضی الله عنہ اس کو کرواتے تھے جو صحیح نہیں ہے
پنجم: سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین پر عمل ختم ہوتا جا رہا تھا۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ
البانی کتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها جلد اول ص ٨٢٣ پر معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ووفاة النبي صلى الله عليه وسلم كانت في شهر ربيع الأول سنة إحدى عشرة هجرية، وإلى عام ثلاثين سنة كان إصلاح ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم الحسن بن على السيد بين فئتين من المؤمنين بنزوله عن الأمر عام واحد وأربعين في شهر جمادى الآخرة، وسمي عام الجماعة لاجتماع الناس على معاوية، وهو أول الملوك، وفي الحديث الذي رواه مسلم: سيكون خلافة نبوة ورحمة، ثم يكون ملك ورحمة، ثم يكون ملك وجبرية، ثم يكون ملك عضوض
نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ربيع الأول میں ١١ ہجری میں ہوئی اور تیسوں سال میں اصلاح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے حسن بن علی سردار سے ہوئی کہ مومنوں کے گروہوں میں ایک امر پر اتفاق ہوا ٤١ ہجری جمادى الآخرة کے مہینہ میں اور اس کو عام الجماعة کا نام ملا کیونکہ لوگوں کا اجماع معاویہ پر ہوا اور وہ پہلا بادشاہ تھا اور مسلم کی حدیث جو انہوں نے روایت کی اس میں ہے پس خلافت نبوت و رحمت ہو گی پھر بادشاہت و رحمت ہو گی پھر بادشاہت و جبر ہو گا پھر ریاست بھنبھوڑنے والی ہو گی
البانی نے غلط کہا ایسی کوئی حدیث صحیح مسلم میں نہیں ہے
بھنبھوڑنے والی ریاست والی حدیث ہے
معجم ابن الأعرابي از أبو سعيد بن الأعرابي البصري الصوفي (المتوفى: 340هـ) اور طبرانی الکبیر کی روایت ہے
نا زَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الصَّايِغُ، نا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُكْلِيُّ، نا الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ الْغَنَوِيُّ، نا مُهَنَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْعَبْسِيُّ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتُمُ الْيَوْمَ فِي نُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ كَذَا وَكَذَا مُلُوكًا عَضُوضًا، يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَيَلْبَسُونَ الْحَرِيرَ، وَفِي ذَلِكَ يُنْصَرُونَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ
حُذَيْفَةَ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آج تم پر نبوت و رحمت ہے پھر خلافت و رحمت ہو گی پھر ایسا ویسا ہو گا پھر ایسا ایسا ہو گا بادشاہت بھنبھوڑنے والی ہو گی جو شراب پئیں گے اور ریشم پہنیں گے
اس کی سند میں مهند بن هشام القيسي الكوفي ہے جو مجھول ہے اس کو طبرانی کی سند میں العلاء بن المنهال نے ثقہ کہا ہے جبکہ اس کا حال نا معلوم ہے
خود العلاء بن المنهال کے لئے امام العقيلي کہتے ہیں : لا يتابع عليه اس کی روایات کی متابعت نہیں ہے
امام الذہبی نے ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں العلاء بن المنهال کے لئے کہا ہے فيه جهالة اس میں جہالت ہے یعنی یہ مجھول ہے
جبکہ أبو زرعة الرازي اور عجلی نے اس کو ثقہ کہا ہے
اسطرح العلاء بن المنهال تو مختلف فیہ ہو گیا اور یہ جس مُهَنَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْعَبْسِيُّ کو ثقہ کہتا ہے وہ مجھول ہے
ششم : زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا مصنف ابن ابی شیبہ ، اروء الغلیل از البانی
إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل میں البانی نے صدقه فطر کی ایک روایت پر ح ٨٤٧ کے تحت بحث کی ہے
كنا نخرج زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعا من طعام , أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر , أو صاعا من زبيب , أو صاعا من أقط
پھر اس پر کہا کہ ترمذی میں اضافہ کے کہ ابو سعید نے وہ نہ کیا جو معاویہ نے کہا
فلما جاء معاوية , وجاءت السمراء قال: أرى مدا من هذا يعدل مدين – زاد الترمذى: من تمر. – قال: فأخذ الناس بذلك , قال أبو سعيد: فلا أزال
75- بَابُ صَاعٍ مِنْ زَبِيبٍ:باب: صدقہ فطر میں منقیٰ بھی ایک صاع دینا چاہیےحدیث نمبر:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ ، سَمِعَ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَكِيمٍ الْعَدَنِيَّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ: حَدَّثَنِيعِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ ، فَلَمَّا جَاءَ مُعَاوِيَةُ وَجَاءَتْ السَّمْرَاءُ، قَالَ: أُرَى مُدًّا مِنْ هَذَا يَعْدِلُ مُدَّيْنِ
.ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے یزید بن ابی حکیم عدنی سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے
یعنی معاویہ نے دوسرے اناج میں ایک کی بجائے دو صاع نکالنے کا حکم دیا جو ایک سے زیادہ ہے ظاہر ہے یہ صدقه میں اضافہ ہے نہ کہ کمی
صحیح مسلم اور دیگر کتب میں ہے معاویہ نے کہا
إنى أرى أن مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر. فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «فَأَمَّا أَنَا فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ، أَبَدًا مَا عِشْتُ
میں دیکھتا ہوں کہ گیہوں کے شام کے دو مد، کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں – پس لوگوں نے ایسا کیا لیکن میں نے اس چیز کو نہیں چوڑا جو میں نکالتا تھا جب تک میں زندہ ہوں
اس کا مطلب ہے کہ شام میں مد کا جو پیمانہ چل رہا تھا وہ حجاز کے مد کے پیمانے سے بڑا تھا وہ مدینہ کے صاع کے برابر نہ تھا اس لئے معاویہ جو شام سے آئے تھے ان کے قافلہ کے پاس شامی صاع ہونگے اور انہوں نے اس کو ناپتے ہوئے یہ حکم کیا کہ نیا صاع خریدنے کی بجائے اگر ہم پیمانہ کے تناسب کو لیں تو دو شامی مد، حجاز کے ایک صاع کے برابر ہے
مبارک پوری تحفہ الاحوذی میں لکھتے ہیں
تَنْبِيهٌ اعْلَمْ أَنَّ الصَّاعَ صَاعَانِ حِجَازِيٌّ وَعِرَاقِيٌّ فَالصَّاعُ الْحِجَازِيُّ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثُ رِطْلٍ وَالْعِرَاقِيُّ ثَمَانِيَةُ أَرْطَالٍ وَإِنَّمَا يُقَالُ لَهُ الْعِرَاقِيُّ لِأَنَّهُ كَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي بِلَادِ الْعِرَاقِ مِثْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهَا وَهُوَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّاعُ الْحَجَّاجِيُّ لِأَنَّهُ أَبْرَزَهُ الْحَجَّاجُ الْوَالِي وَأَمَّا الصَّاعُ الْحِجَازِيُّ فَكَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي بِلَادِ الْحِجَازِ وَهُوَ الصَّاعُ الَّذِي كَانَ مُسْتَعْمَلًا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ كَانُوا يُخْرِجُونَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ فِي عَهْدِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُو يُوسُفَ وَالْجُمْهُورُ وَهُوَ الْحَقُّ
تَنْبِيهٌ جان لو لہ صاع دو ہیں ایک حجازی ہے اور عراقی ہے – پس حجازی صاع پانچ أَرْطَالٍ یا تین أَرْطَالٍ کا ہے – اور عراقی صاع آٹھ أَرْطَالٍ کا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عراق کے شہروں میں مثلا کوفہ اور دیگر میں جو صاع چلتا ہے اس کو حجاجی کہا جاتا ہے اور جہاں تک حجازی صاع کا تعلق ہے جو حجاز کے شہروں میں استمعال ہوتا ہے تو وہ وہ صاع ہے کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں چلتا تھا جس سے صدقه فطر نکالا جاتا تھا دور نبوی میں اور ایسا امام مالک ، الشافعی اور احمد اور یوسف اور جمہور کا کہنا ہے جو حق ہے
عراق كا صأع حجأز سے بڑا ہے – اور اسی طرح شام کا صاع کا پیمانہ الگ تھا
اگر یہ بات تھی تو پھر ابو سعید نے کیوں نہیں کیا ؟ ابو سعید نے اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کو محبوب رکھتے تھے کہ وہی کریں جو انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اور تناسب والی بات کو باقی اصحاب نے سمجھ پر قبول کر لیا
عمدہ القاری میں علامہ عینی لکھتے ہیں
وَقَالَ النَّوَوِيّ: هَذَا الحَدِيث مُعْتَمد أبي حنيفَة، قَالَ بِأَنَّهُ فعل صَحَابِيّ، وَقد خَالفه أَبُو سعيد وَغَيره من الصَّحَابَة مِمَّن هُوَ أطول صُحْبَة مِنْهُ وَأعلم بِحَال النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَقد أخبر مُعَاوِيَة بِأَنَّهُ رَأْي رَآهُ، لَا قَول سَمعه من النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، قُلْنَا: إِن قَوْله: فعل صَحَابِيّ، لَا يمْنَع لِأَنَّهُ قد وَافقه غَيره من الصَّحَابَة الجم الْغَفِير بِدَلِيل قَوْله فِي الحَدِيث: فَأخذ النَّاس بذلك، وَلَفظ النَّاس للْعُمُوم، فَكَانَ إِجْمَاعًا. وَلَا تضر مُخَالفَة أبي سعيد لذَلِك بقوله: أما أَنا فَلَا أَزَال أخرجه، لِأَنَّهُ لَا يقْدَح فِي الْإِجْمَاع، سِيمَا إِذا كَانَ فِيهِ الْخُلَفَاء الْأَرْبَعَة، أَو نقُول: أَرَادَ الزِّيَادَة على قدر الْوَاجِب تَطَوّعا.
امام نووی نے کہا : اس حدیث پر امام ابو حنیفہ نے اعتماد کیا ہے اور کہا یہ صحابی (معاویہ) کا فعل ہے اور ان کی مخالفت کی ہے ابو سعید نے اور دوسرے اصحاب نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے اور بے شک معاویہ نے خبر دی کہ وہ دیکھتے ہیں نہ کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اس پر سنا- (عینی نے کہا) ہم (جوابا) کہتے ہیں کہ ان (امام ابو حنیفہ) کا کہنا کہ صحابی کا فعل ہے اس سے منع نہیں کرتا کیونکہ اس میں معاویہ کی موافقت اصحاب رسول کے جم غفیر نے کی ہے اس میں دلیل حدیث ہے کہ اس کو لوگوں نے لیا اور لفظ الناس عموم ہے کہ اس پر اجماع ہوا اور ابو سعید کی مخالفت سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اس قول پر کہ جہاں تک میں ہوں تو میں اس (صدقه فطر) کو نکالوں گا جیسا نکالتا تھا کیونکہ انہوں نے اس اجماع پر قدح نہیں کیا خاص طور…. اس میں ارادہ ہے کہ جو مقدار واجب نفلی تھی اس سے زائد دیا گیا
ہفتم : ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا بخاری ، مسلم ،ابوداود
البانی صاحب کتاب سلسلہ احادیث الصحیحہ میں ایک روایت کے شاہد پر دلیل دیتے ہیں
كما في تفسير ابن كثير (4/159) – عن عبد الله البهي قال:
إني لفي المسجد حين خطب مروان فقال: إن الله تعالى قد أرى أمير المؤمنين
في (يزيد) رأياً حسناً وأن يستخلفه، فقد استخلف أبو بكر عمر- رضي الله عنهما-. فقال عبد الرحمن بن أبي بكر- رضي الله عنهما-: أهرقلية؟! إن أبا بكر- رضي الله عنه- ما جعلها في أحد من ولده، وأحد من أهل بيته، ولا جعلها معاوية إلا رحمة وكرامة لولده! فقال مروان: ألست الذي قال لوالديه: (أفٍّ لكما) ؟ فقال
عبد الرحمن: ألست يا مروان! ابن اللعين الذي لعن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أباك؟! قال: وسمعتهما عائشة- رضي الله عنها-، فقالت: يا مروان! أنت القائل لعبد الرحمنكذا وكذا؟! كذبت! ما فيه نزلت، ولكن نزلت في فلان بن فلان. ثم انتحب
مروان (!) ثم نزل عن المنبر حتى أتى باب حجرتها، فجعل يكلمها حتى انصرف. قلت: سكت عنه ابن كثير، وهو إسناد صحيح.
جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ
عبداللہ بہی نے کہا کہ ہم مسجد میں تھے جب مروان نے خطبہ دیا کہ اللہ نے معاویہ کو یزید کے بارے میں اچھی رائے دی ہے، کہ وہ انہیں اپنا خلیفہ بنائے جیسے ابو بکر نے عمر کو خلیفہ بنایا۔ عبدالرحمن بن ابو بکر نے کہا کہ کیا ہرقل کے مطابق؟ ابوبکر نے اپنی اولاد میں کسی کو نہیں بنایا نہ اپنے گھر والوں میں، معاویہ اپنی اولاد پر رحمت و کرامت کر رہا ہے۔ مروان نے کہا کہ تہمارے لیے یہ آیت آئی ہے۔ اس پر عبدالرحمن نے کہا یہ اے مروان! کیا تم لعنتی کے بیٹے نہیں جس کے باپ پر اللہ کے رسول نے لعنت کی؟ یہ عائشہ رضی الله عنہا نے سنا تو انہوں نے کہا کہ اے مروان! تم عبدالرحمن کے لیے فلان فلان چیز کے قائل ہو؟ تم نے جھوٹ بولا، یہ فلان فلان کے لیے نازل ہوئی۔ مروان نیچے اترا جلدی سے، اور آپ کے حجرے پر آیا، کچھ بولا اور پھر چلا گیا۔
میں البانی یہ کہتا ہوں کہ ابن کثیر اس پر چپ رہے ہیں، مگر یہ سند صحیح ہے
عبد الله البھی کا عائشہ رضی الله عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے کتاب جامع التحصیل کے مطابق امام احمد کے نزدیک ان کا سماع نہیں ہے
عبد الله البهي سئل أحمد بن حنبل هل سمع من عائشة رضي الله عنها قال ما أرى في هذا شيئا إنما يروي عن عروة
اہم سوال ہے کہ کیا علی رضی الله عنہ نے ہرقل کی سنت پر عمل نہ کیا؟
معاویہ پر اصحاب رسول کو رشوت دینے کا بھی الزام ہے- طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے
أَخْبَرَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَعَثَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ بِمِائَةِ أَلْفٍ. فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُبَايِعَ لِيَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: أَرَى ذَاكَ أَرَادَ. إِنَّ دِينِي عِنْدِي إِذًا لَرَخِيصٌ
نافع نے کہا معاویہ نے ابن عمر کی طرف ایک لاکھ بھیجے پس جب یزید کی بیعت کا ارادہ کیا ابن عمر نے کہا میں دیکھتا ہوں معاویہ کا یہ مقصد تھا – میرادین تو سستا ہو گیا
راقم کہتا ہے اس کی سند میں بصری مدلس ایوب سختیانی ہے اور سند کمزور ہے
ہشتم : محرمات سے نکاح ہوا
تاریخ الطبری دار التراث – بيروت ج ٥ ص ٤٨٠ کے مطابق
قَالَ لوط: وَحَدَّثَنِي أَيْضًا مُحَمَّد بن عَبْدِ الْعَزِيزِ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عوف ورجع المنذر من عِنْدَ يَزِيد بن مُعَاوِيَة، فقدم عَلَى عُبَيْد اللَّهِ بن زياد الْبَصْرَة… فأتى أهل الْمَدِينَة، فكان فيمن يحرض الناس عَلَى يَزِيد، وَكَانَ من قوله يَوْمَئِذٍ: إن يَزِيد وَاللَّهِ لقد أجازني بمائة ألف درهم، وإنه لا يمنعني مَا صنع إلي أن أخبركم خبره، وأصدقكم عنه، وَاللَّهِ إنه ليشرب الخمر، وإنه ليسكر حَتَّى يدع الصَّلاة
منذربن الزبیر اہل مدینہ کے پاس آئے تو یہ ان لوگوں میں سے تھے جو لوگوں کو یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔ اور یہ اس دن کہتے تھے : اللہ کی قسم ! یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم دئے، لیکن اس نے مجھ پر جو نوازش کی ہے وہ مجھے اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ میں تمہیں اس کی خبر بتلاؤں اور اس کے متعلق سچ بیان کردوں ۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یزید شرابی ہے اور شراب کے نشے میں نماز بھی چھوڑ دیتا ہے
أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے
وقال الدارقطني: ضعيف
وقال يحيى بن معين: ((ليس بثقة)). وقال مرةً أخرى: ((ليس بشيء)). ثقه نہیں ، کوئی چیز نہیں
وقال ابن عدي: ((شيعي محترق، صاحب أخبارهم)) اگ لگانے والا شیعہ ہے
الطبقات الكبرى ، دار الكتب العلمية – بيروت، ج ٥ ص ٤٩ میں ہے
اخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيم عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَعَنْ غَيْرِهِمْ أَيْضًا. كُلٌّ قَدْ حَدَّثَنِي. قَالُوا: لَمَّا وَثَبَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيَالِيَ الحرة فأخرجوا بَنِي أُمَيَّةَ عَنِ الْمَدِينَةِ وَأَظْهَرُوا عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَخِلافَهُ أَجْمَعُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ فَأَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَيْهِ فَبَايَعَهُمْ عَلَى الْمَوْتِ وَقَالَ: يَا قَوْمُ اتَّقُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لا شريك له. فو الله مَا خَرَجْنَا عَلَى يَزِيدَ حَتَّى خِفْنَا أَنْ نُرْمَى بِالْحِجَارَةِ مِنَ السَّمَاءِ. إِنَّ رَجُلا يَنْكِحُ الأُمَّهَاتِ وَالْبَنَاتَ وَالأَخَوَاتِ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَدَعُ الصَّلاةَ
جب اہل مدینہ نے حرہ کے موقع پر فساد کیا، بنوامیہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ، یزید کے عیوب کا پرچار اس کی مخالفت کی تو لوگوں نے عبداللہ بن حنظلہ کے پاس آکر اپنے معاملات انہیں سونپ دئے ۔ عبداللہ بن حنظلہ نے ان سے موت پر بیعت کی اور کہا: اے لوگو ! اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو ! اللہ کی قسم ہم نے یزید کے خلاف تبھی خروج کیا ہے جب ہمیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پر کہیں آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے کہ ایک آدمی ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور نماز چھوڑتا ہے
اس کی سند میں أبو عبد الله، محمد بن عمر بن واقد، الواقدي ، الأسلمي مولاهم، المدني ہیں. الواقدی قاضي بغداد تھے عبد الله بن بريدة، الأسلمي کے آزاد کردہ غلام تھے سن ٢٠٧ ھ میں وفات ہوئی انکو محدثین متروك مع سعة علمه یعنی اپنی علمی وسعت کے باوجود متروک ہیں کہتے ہیں
الواقدي کٹر شیعہ ہیں اس وجہ سے انکی روایت نہیں لی جا سکتی ورنہ تاریخ اور جرح و تعدیل کی کتابوں میں انکے اقوال راویوں کی وفات کے حوالے سے قابل قبول ہیں اگر یہ کسی کو شیعہ کہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ بھی کٹر شیعہ ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَادٍ الأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … أَنْ ذَكَرَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. فَقَالَ: إِنِّي خَرَجْتُ كَرْهًا بِبَيْعَةِ هَذَا الرَّجُلِ. وَقَدْ كَانَ مِنَ الْقَضَاءِ وَالْقَدَرِ خُرُوجِي إِلَيْهِ. رَجُلٌ يَشْرَبُ الْخَمْرَ وَيَنْكِحُ الْحُرُمَ
معقل بن سنان نے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کا ذکر کیا اور کہا: میں اس شخص کی بیعت سے کراہت کی وجہ سے نکلا ہوں ، اور اس کی طرف جانا ،قضاو قدر میں تھا ۔یہ ایسا آدمی ہے جو شراب پیتا ہے ، محرمات سے نکاح کرتا ہے
اسکی سند میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَاد ہے جو مجھول ہے دوسرے الواقدی شیعہ بھی ہے
وہ کون کون سی محرم عورتیں تھیں جن کا اس سے نکاح تھا ان کی لسٹ ہے کسی کے پاس ہے تو پیش کرے
انہوں نے جو بچے جنے ان کے کیا نام تھے کسی نسب کی کتاب میں ہیں؟
نہم: یزید شرابی تھا
تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 220 و تاريخ طبرى، ج 6، ص 170. ابن اثير در كامل (ج 3، ص 503-505) کے مطابق یزید بندروں سے کھیلتا تھا
ابن اثیراور طبری نے لکھا کہ ابو مخنف نے روایت کیا حسن نے کہا
قَالَ أَبُو مخنف: عن الصقعب بن زهير، عن الْحَسَن، قَالَ: أربع خصال كن فِي مُعَاوِيَة، لو لَمْ يَكُنْ فِيهِ منهن إلا واحدة لكانت موبقة: انتزاؤه عَلَى هَذِهِ الأمة بالسفهاء حَتَّى ابتزها أمرها بغير مشورة مِنْهُمْ وفيهم بقايا الصحابة وذو الفضيلة، واستخلافه ابنه بعده سكيرا خميرا، يلبس الحرير ويضرب بالطنابير،
یزید ریشم پہنتا ہے اور شرابی ہے
أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے
دھم: یزید کتوں اور بندروں سے کھیلتا تھا
المنتظم في تاريخ الأمم والملوك میں ابن جوزی نے لکھا
عبد الله بن حنظلة الغسيل، والمنذر بن الزبير نے کہا
ويلعب بالكلاب
یہ کتوں سے کھیلتا ہے
سند میں واقدی ہے
تاریخ طبری ج ١٠ ص ٦٠ پر ہے معاویہ نے اپنے بیٹے کی خلافت پر بلایا
ودعاؤه عباد الله الى ابنه يزيد المتكبر الخمير، صاحب الديوك والفهود والقرود
جو متکبر شرابی تھا مرغوں، چیتوں اور بندروں والا
یہ تمام اقوال نہایت کمزور سندوں سے ہیں – لیکن اگر مان لیں صحیح ہیں تو اس میں کیا برائی ہے ؟ یزید کو چڑیا گھر کا شوق ہو گا- آج ساری دنیا چڑیا گھر جا جا کر دیکھ رہی ہے اگر نہ جائے تو مسلمانوں کا خلیفه نہ جائے
کیا اصحاب کہف کا کتا نہیں تھا؟
شکار کے لئے کتوں کو پالنا جائز ہے اس کا ذکر احادیث میں ہے
حسن و حسین رضی الله عنہما بھی کتوں سے کھیلتے تھے سنن ابو داود کی حسن حدیث ہے
حدَّثنا أبو صالحٍ محبوبُ بنُ موسى، حدَّثنا أبو إسحاق الفزَاريُّ، عن يونَس بن أبي إسحاق، عن مجاهدٍ
حَدّثنا أبو هُريرة، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: أتاني جبريلُ عليه السلام، فقال لي: أتيتُكَ البارحَةَ فلم يمنعْني أن أكونَ دخلتُ إلا أنَّه كانَ على الباب تماثيلُ، وكان في البيت قِرَامُ سِتْرٍ فيه تماثيلُ، وكان في البيت كلْبٌ، فَمُرْ برأسِ التِّمثَالِ الذي على بابِ البيت يقْطَعُ فيصيرُ كهيئةِ الشجرة، ومُرْ بالسِّترِ، فليُقْطَع، فيُجعَلُ منه وسادَتَان مَنبوذتانِ تُوطآن، ومُرْ بالكلب فليُخرَج” ففعل رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -، وإذا الكلبُ لحَسَنٍ أو حُسين كان تحتَ نَضَدٍ لهم، فأمر به فأخْرِجَ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میرے پاس جبرائیل علیہ السلام نے آ کر کہا: میں کل رات آپ کے پاس آیا تھا لیکن اندر نہ آنے کی وجہ صرف وہ تصویریں رہیں جو آپ کے دروازے پر تھیں اور آپ کے گھر میں (دروازے پر)ایک منقش پردہ تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں، اور گھر میں کتا بھی تھا تو آپ کہہ دیں کہ گھر میں جو تصویریں ہوں ان کا سر کاٹ دیں تاکہ وہ درخت کی شکل کی ہو جائیں، اور پردے کو پھاڑ کر اس کے دو غالیچے بنا لیں تاکہ وہ بچھا کر پیروں سے روندے جائیں اور حکم دیں کہ کتے کو باہر نکال دیا جائے”، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا، اسی دوران حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کا کتا ان کے تخت کے نیچے بیٹھا نظر آیا، آپ نے حکم دیا تو وہ بھی باہر نکال دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نضد» چارپائی کی شکل کی ایک چیز ہے جس پر کپڑے رکھے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب ۴۴ (۲۸۰۶)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۶۰ (۵۳۶۷)،
تلك عشرة كاملة
جھگڑا کیا ہوا ؟
معاویہ اور حسین رضی الله عنہما میں اختلافات حسن رضی الله عنہ کی وفات کے بعد ہوئے جس میں فریقین نے ایک دوسرے سے کلام نہیں کیا اور اختلاف اندر ہی اندر بڑھتا رہا
حسن و معاویہ رضی الله عنہما میں جو معائدہ ہوا اس کی شقیں تھیں
بحوالہ عمرو بن غرامة العمروي محقق تاریخ دمشق دار الفكر
أن يعمل معاوية بالمؤمنين بكتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه وآله وسلم وسيرة الخلفاء الصالحين من بعده
معاویہ مومنوں کے ساتھ کتاب الله اور سنت النبی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق عمل کریں گے اور ان کے بعد انے والے صالح خلفاء کی سیرت کے مطابق
المدائني کی سند سے شیعہ مورخ ابن أبي الحديد کتاب شرح النهج 4 / 8 میں لکھا ہے کہ کتاب الله اور سنت نبی پر عمل کا عہد ہوا فتح الباري کے مطابق سیرت خلفاء صالحین پر عمل کا عہد ہوا
ليس لمعاوية أن يعهد لاحد من بعده عهدابل يكون الامر من بعده شورى بين المسلمين
معاویہ کسی کو بھی جانشین مقرر نہیں کریں گے اور ان کے بعد معاملہ مسلمانوں کی شوری کے پاس ہو گا
المدائني کہتا ہے یہ عہد بھی ہوا کہ معاویہ کسی کو جانشیں نہ کریں گے
أن يكون الامر للحسن من بعده
امر خلافت معاویہ کے بعد حسن کو ملے گا
تاريخ الخلفاء للسيوطي ص 194 والاصابة 2 / 12 – 13 کے مطابق یہ عہد ہوا کہ خلافت واپس حسن کو ملے گی معاویہ کی وفات کے بعد
أن لا يشتم عليا وهو يسمع
ابن اثیر کے مطابق حسن کے سامنے علی پر شتم نہ ہو گا کہ وہ سن رہے ہوں
اور شیعہ کتاب مقاتل الطالبيين کے مطابق
أن يترك سب أمير المؤمنين والقنوت عليه بالصلاة
علی پر نماز میں قنوت پڑھنا بند ہو گا اور ان کو گالی دینا بند ہو گا
تاریخ طبری 6 / 92 کے مطابق حسن و حسین کو مال ملے گا
يسلم ما في بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف للحسن وله خراج دارابجرد
خمسة آلاف ألف کوفہ کے بیت المال سے حسن کو دیے جائیں گے اور دار ابجرد کا خراج بھی
اور الاخبار الطوال ص 218 أبو حنيفة الدينوري کے مطابق ان کے بھائی حسین کو
أن يحمل لاخيه الحسين في كل عام ألفي الف
ہر سال حسین کو ٢٠٠٠ ملیں گے
اپ دیکھ سکتے ہیں ان شقوں میں تضاد ہے امیر المومنین حسن رضی الله عنہ جب معاویہ سے معائدہ کر رہے تھے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ پہلے انتقال کر جائیں گے یا قتل یا شہید ہوں گے کیونکہ انہوں نے اس پر عھد کیا کہ امر خلافت واپس ان کو ملے گا- متاخرین شیعہ نے اس معائدہ میں اضافہ کیا کہ معاویہ کی موت پر یہ مسئلہ شوری طے کرے گی جبکہ شوری کا کوئی رول قابل قبول نہیں ہے کیونکہ خلافت واپس حسن پر لوٹ اتی جس سے ظاہر ہے کہ اصل عھد تھا کہ خلافت حسن کو واپس ملے گی- أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني المتوفی ٢٢٤ ھ کا قول منفرد ہے یہ بات ان کے حوالے سے شیعہ و سنی کتابوں میں ہے ان سے قبل کسی نے اس کو بیان نہیں کیا
حسن رضی الله عنہ کی سن ٥٠ ھجری میں وفات ہوئی – سن ٥١ ہجری میں یزید بن معاویہ نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کر کے امّت میں اپنی امیر کی صلاحیتوں کو منوا لیا – اس حملے میں جلیل القدر اصحاب رسول بھی ساتھ تھے – سن ٥١ ھجری میں معاویہ رضی الله عنہ نے یزید کی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور اس وقت عائشہ رضی الله عنہا حیات تھیں جن کی وفات معاویہ رضی الله عنہ کی وفات سات تین یا سات سال پہلے ہوئی ہے گویا کم از کم یزید کی بیعت کی دعوت تین سال تک دی جاتی رہی اور حسین رضی الله عنہ نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ وہ کسی معائدہ کی خلاف ورزی نہیں کر رہے تھے حسن کی وفات ہو چکی تھی لہذا امر خلافت ان کو نہیں لوٹ سکتا تھا معاویہ فیصلہ کرنے میں آزاد تھے اور انہوں نے امت کو اس پر سوچنے کا پورا موقعہ دیا کہ کسی کو اختلاف ہو تو پیش کرے- حسین رضی الله عنہ کو یہ بات پسند نہ آئی لیکن انہوں نے اپنی مخالفت کا اظہار بھی نہیں کیا یہاں تک کہ کوفہ کے ان کے حامیوں نے ان کو خط لکھ کر کوفہ بلوایا اور جب بات ظاہر کی اس وقت تک دیر ہو چکی تھی یزید امیر تھے اور حسین کے لئے وہ اقتدار نہیں چھوڑ سکتے تھے کیونکہ وہ اسی طرح خلیفہ ہوئے جس طرح علی نے حسن کو خلیفہ کیا تھا جو حسین کے باپ علی کی سنت تھی اور سنت علی پر چلنا بھی عھد کی شق تھا جیسا تاریخ میں ہے
اس لئے یہ جھگڑا بڑھا اور اگلے ١٥٠ سال تک بنو ہاشم خلفاء کے خلاف خروج کرتے رہے جن میں کچھ اولاد حسن میں سے ہیں کچھ اولاد حسین میں سے ہیں کچھ عباس رضی الله عنہ کی اولاد میں سے ہیں یعنی ہر ٢٠ سال بعد ایک خروج ہوا اور یہاں تک کہ عباسی خلافت تک میں خروج ہوتے رہے جبکہ دونوں بنو ہاشم ہی تھے- ان تمام خروج میں کامیابی صرف بنو عباس کو ہوئی جو سنی عقیدہ رکھنے والے بنو ہاشم تھے اور ان کی شادیان شیعہ عقیدہ کے حامل بنو ہاشم میں بھی ہوئیں- بہت سے راوی جو الکافی کے راوی ہیں وہ بنو عباس کے درباری تھے مثلا عبد الله بن سنان، ان کے کاتب یا خزانچی تھے- اس طرح شیعہ و سنی دونوں اسلامی خلافت میں اپنے اپنے اختلاف کے ساتھ جیتے رہے اس دوران بعض سیاسی خروج سے خود اثنا عشری شیعہ بھی پریشان ہوئے اور ان کی حمایت نہیں کی مثلا قرامطہ اسماعیلی شیعہ تھے لیکن بہت متشدد اور گمراہ تھے جنہوں نے حجر اسود کو اکھاڑ کر کوفہ پہنچایا ، ان سے اسماعیلی شیعہ جو مصر میں تھے وہ بھی نا خوش تھے
الغرض ایک واقعہ جو ٦١ ہجری میں ہوا اس کو اس طرح بیان کرتے رہنا کہ گویا اہل بیت اور غیر اہل بیت ہر وقت جھگرتے رہے تاریخ کو مسخ کرنا ہے