212 Downloads
کتاب ڈونلوڈ کرنے کے لئے پہلے کنڈیشن والے باکس پر کلک کریں پھر ڈونلوڈ بٹن کو کلک کریں
قصہ مختصر
حسن رضی اللہ عنہ نے سن ٤١ ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس شرط پر خلافت سونپ دی کہ خلافت معاویہ کی وفات پر حسن پر واپس لوٹ آئے گی – اللہ کو منظور ہوا کہ حسن کی وفات ، معاویہ سے پہلے ہو گئی اور یہ معائدہ ختم ہو گیا – معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزدہ کر دیا – اس پر بعض اصاغر صحابہ مثلا حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو اعتراض ہوا کیونکہ یہ خلیفہ بننے کے متمنی تھے- اکابر اصحاب رسول نے بیعت یزید کر لی لیکن حسین اور ابن زبیر نے توقف کی راہ لی – اس دوران پانچ ماہ گذر گئے اور یزید کی جانب سے کوئی سرزنش نہ کی گئی – لیکن اس کے بعد حسین اپنے عزیز و اقارب اور رفقاء کو لے کر ببانگ دھل مدینہ سے عراق گئے کہ وہ وہاں اپنی خلافت قائم کریں گے – بنو امیہ کی حکومت نے ان کو نہیں روکا یہاں تک کہ حسین کے کزن مسلم بن عقیل کوفہ میں بلوا میں گرفتار ہوئے اور حسین کے ہمدرد روپوش ہو گئے – حسین نے کوفہ کا ارادہ ترک کیا اور شمال کا رخ کیا یہاں تک کہ ٤٠ میل دور کربلا پہنچے – حسین شہید ہوئے اور ان کے ساتھی بھی ، صرف امام زین العابدین بچ گئے جن کو کسی شیعہ نے بے ہوش کیا اور جب ان کو ہوش آیا تو وہ دمشق میں تھے – اسی دوران کربلا میں حسین کا سر گورنر ابن زیاد پر پیش ہوا اور ابن زیاد نے حسین کی تعریف کی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی – دمشق سے زین العابدین کو مدینہ واپس بھیج دیا گیا – اس واقعہ کے ایک سال بعد ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں خروج کیا اور مکہ کی طرف فرار ہوئے جب حکومت نے مدینہ کا کنٹرول واپس حاصل کیا – سو سال بعد ابو مخنف نام کے ایک قصہ گو نے مقتل حسین کی داستان رقم کی اور اس میں وہ لوگوں کو قتل حسین اور ابن زبیر کی واردات سناتا تھا – اسی طرح اور قصہ گو بھی کر رہے تھے – حسین اور ابن زبیر کے قصوں کو سن ٢٠٠ ہجری کے بعد امام طبری نے اپنی تاریخ میں جمع کیا
سن ٦٠ ہجری میں نواسہ رسول ، حسین رضی اللہ عنہ اپنے شیعوں (یعنی حمایتیوں ) کے ایک امیر و امام تھے جو کوفہ و عراق میں موجود تھے – وہ عراق میں اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن اس کوشش میں شہید ہو گئے – حسین بن ابی طالب (پیدائش سن ٤ ھ ) کی شہادت محرم کی دس راتیں گرزنے کے بعد سن ٦١ ہجری بمطابق دس اکتوبر سن ٦٨٠ ع اتوار کے دن ہوئی –
مقتل حسین پر سب سے اول کتاب متروک محدث و اخباری ابو مخنف لوط بن یحیی الأزدي المتوفی ١٥٧ ھ کی کتاب ہے – ابو مخنف کی کتاب مقتل حسین کا اصل نسخہ دنیا میں موجود نہیں ہے لیکن اسی کی رویات بعد میں تاریخ طبری میں جا بجا نقل ہوئی ہیں – اہل سنت میں تاریخ ابن کثیر ، تاریخ اسلام از امام الذھبی ، ابن اثیر کی الکامل بہت پیش کی جاتی ہیں – انہی کتب میں بیان کردہ روایات کو ملا جلا کر آجکل مکمل قصے بنا دیے جاتے ہیں – امام طبری نے اپنی تاریخ میں اسناد دیں ہیں اور اس میں یزید و معاویہ پر قابل اعتراض مواد ابو مخنف متروک کی سند سے ہے – البتہ الکامل از اثیر اور ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ میں سندیں نہیں دی گئیں اور روایات کو ضعیف و موضوع کی تہذیب کے بغیر ملا کر لکھ دیا گیا ہے – افسوس اس بد احتیاطی کی وجہ سے یہ کتب لائق اعتبار نہیں ہیں – ابن خلدون نے ان لوگوں کا شمار لکیر کے فقیروں میں کیا ہے – علامہ لکھتے ہیں
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے قلم بند کردئے لیکن بعد میں آنے والے بن بلائے نالائقوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملا دیے ، اوہام و ذاتی خیالات بھر دئے – اسی طرح کمزور منقولہ اور خود تراشیدہ روایات تاریخ میں بھر دیں – بعد میں آنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے، جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم و کاست ہم تک پہنچا دئے – انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ … بے پر کی اڑائی ہوئی باتوں کا رد کیا اور نہ معقول جواب دیا
چونکہ لوگ مجبور ہیں کہ جرح و تعدیل نہیں کر سکتے لہذا انہی تواریخ کو پڑھ کر پریشان ہو جاتے ہیں – ان کو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ابن کثیر ایک محدث تھے لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنی تاریخ پر کتاب البدایہ میں انہوں نے روایات پر جرح و تعدیل نہیں کی ہے جس طرح وہ درکار تھی – عام لوگ ان کتب کو پڑھ کر اس طرح منکر و معلول و منقطع روایات کو بھی سر آنکھوں پر بیٹھا دیتے ہیں – رہی سہی کسر البانی نے پوری کر دی ہے جس نے بغض معاویہ کی کوئی روایت نہیں جس کی تصحیح یا تحسین نہ کی ہو – پھر اہل حدیث مقلدوں کا ایک لشکر ہے جو یو ٹیوب پر رافضیوں کی ڈفلی بجا رہا ہے – فرقوں کے ان اعمال سیاہ کو دیکھ کر راقم نے محسوس کیا کہ صحیح تاریخ مرتب کی جائے – الحمد للہ اس حوالے سے کتاب المشاجرت و المشاحنات کافی پسند کی گئی
قتل حسین پر کتب جذباتیت سے بھر پور ہیں – اکثر بحث اس پر ہی مذکور ہوتی ہے کہ یزید بن معاویہ (پیدائش٢٣ یا ٢٥ ھ – وفات صفر سن ٦٤ ہجری )نے قتل کا حکم دیا تھا یا نہیں دیا تھا – اس پر بحث کم ہوتی ہے کہ حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما میں جو معائدہ ہوا وہ کیا تھا – اس کی شقوں پر کیا اختلاف ہوا ؟ علی رضی اللہ عنہ کا خروج کرنے والے پر کیا حکم ہے ؟ ان سوالات سے بچ کر خروج حسین پر کلام کرنا عبث مشقت ہے
بعض افسانہ سازوں نے تحقیق کے نام پر گمان کیا ہے کہ حسین کوفہ اپنے شیعوں کو سمجھانے گئے تھے یا کوفہ کا دورہ کر رہے تھے – راقم کہتا ہے یہ خیال آرائی بالکل لغو ہے – حسین کوفہ میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور سن ٦١ میں بلا شبہ اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن افسوس وہ عصبیت جمع نہ کر پائے جو ان ساتھ لڑتی اور مدد کرتی – حسین کا قتل حکومت بنو امیہ کی ایماء پر کیا گیا تھا یا نہیں یہ صحیح سند سے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی صحیح طور پر معلوم ہے کہ قاتلین حسین کون لوگ تھے – البتہ یہ معروف ہے کہ حسین شہید ہوئے ، ان کے قافلہ کے بچنے والے افراد دمشق شام لے جائے گئے اور پھر مدینہ منتقل کیے گئے –
خروج حسین کے حوالے سے امت میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے – اہل تشیع میں سے بعض کے نزدیک قتل حسین اصل میں طلقاء (مکہ کے نو مسلموں ) کا بدلہ عداوت تھا جو وہ بنو ہاشم سے لے رہے تھے – یہ بات احمقانہ ہے کیونکہ بدر کے مشرک مقتولین کے ساتھ ہر قریشی و انصاری نے قتال کیا تھا یہ کوئی بنو ہاشم یا بنو امیہ کی جنگ نہیں تھی مومنوں اور کفار کی جنگ تھی – اہل تشیع کے نزدیک خلیفہ کا تقرر کرنا اللہ کا کام ہے اور اہل تشیع کے نزدیک حسین کا بطور خلیفہ تقرر اللہ تعالی نے کیا تھا – اس عقیدے کو عقیدہ امامت کہا جاتا ہے البتہ اس کی منصوص دلیل قرآن میں نہیں ہے – اہل سنت اس میں ان سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جمہور جس کو خلیفہ مقرر کر دیں وہی خلیفہ ہے ، منصف خلافت وھبی یا من جانب اللہ نہیں ہے – اہل سنت میں سے بعض کے نزدیک قتل حسین کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی – تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ محض غالیوں کی روایات و تصورات ہیں –
اہل تشیع میں تمام کا اور اہل سنت میں سے بعض کا موقف ہے کہ معاویہ (رضی اللہ عنہ ) ایک ظالم حاکم تھے ، ان کی حکومت بادشاہت تھی ، حق پر نہیں تھی – ان کے مطابق معاویہ کی بھنبھوڑ کھا نے والی سلطنت کی خبر حدیث میں دی گئی تھی اور معاویہ کے گورنر حرام خور تھے – ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اہل بیت کو خمس (مال غنیمت میں پانچواں حصہ ) وقت پر نہیں دیا جاتا تھا – راقم کہتا ہے ان اقوال پر غور کرنے سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ خمس کا مال اسی صورت مال حلال بنتا ہے جب دین حق کی خاطر جنگ کی گئی ہو – اب جب معاویہ اور ان کے اہلکار ظالم تھے اور ان کی جنگیں حق کے لئے نہیں تھی تو ان کی پروسٹی ممالک سے جنگیں ظلم و جبر ہی ہوئیں لہذا ان جنگوں سے حاصل شدہ مال غنیمت اور پھر اس کا خمس بھی مال حرام ہوا – لیکن ہم جانتے ہیں کہ حسن و حسين نے معاویہ سے مال خمس لیا جس سے ظاہر ہے کہ معاویہ حق پر تھے اور ان کی جانب سے کی جانے والی جنگیں بھی حق پر تھیں –
زیر نظر کتاب اصلا راقم کی کتاب المشاجرات و المشاحنات (قرن اول کی جنگیں ) کے چند چنیدہ مباحث ہیں جن کو ضروری اضافہ جات کے بعد افادہ عامہ کی غرض سے یہاں جمع کیا گیا ہے – کتاب میں مصادر اہل سنت کے علاوہ مصادر اہل تشیع کو بھی ملا کر جذباتیت سے الگ ہو کر ایک سنجیدہ بحث کی گئی ہے – کتاب میں قتل حسین اور منکرات یزید سے متعلق روایات پر جرح و تعدیل پیش کی گئی ہے تاکہ تحقیق کرنے والے اس مقام سے آگے جا سکیں-
ابو شہر یار
٢٠٢٠