جدید جہمیوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا ہے کہ صفات اللہ کا پرتو اس کے انبیاء عیسیٰ و سلیمان عليهما السلام میں ظاہر ہوا – عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے أور سليمان ہواؤں کو چلاتے تھے لہذا اللہ نے ان صفات کو اپنی مخلوق عیسیٰ وسليمان کو دے دیا- جمهي لوگ اس قول کو إس طرح بيان کرتے ہیں : “ اللہ کی صفت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوئی “ –
جدید جہمیوں کے بقول یہ سب کرنا اللہ کے حکم سے ہوا یعنی مخلوق میں صفت باری کا ان کو عکس نظر آ رہا ہے اور اپنے اس باطل عقیدے کو الجھی ہوئی عبارات کے ذریعہ وہاٹس اپپ کے ذریعے سے گردش میں لاتے رہے –
اس سے قبل انہی لوگوں نے دجال کے حوالے سے یہ عقیدہ پھیلایا کہ دجال کو قوت من جانب اللہ ملے گی کہ مردوں کو زندہ کرے اور اس حوالے سے ان لوگوں نے راقم سے بہت بحثیں کی – راقم نے اس وقت بھی وضاحت کی تھی کہ انبیا کو معجزہ ملنے کا مطلب قوت النبی ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کا فعل ہے – نبی تو صرف خبر کرتا ہے کہ ایسا ایسا ہو گا اور پھر وہ من جانب اللہ ہو جاتا ہے – اسی طرح معجزہ صرف حق کے اثبات کے لئے ہوتا ہے – کفر کے اثبات پر نہیں ہوتا
جہمیوں کا قول سننے کو مل رہا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کی صفت صوفیا کے ہاتھ پر ظاہر نہیں ہوتیں لیکن نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو سکتیں ہیں اور اس کا ایک نیا نام ان لوگوں نے معجزاتی صفت رکھ دیا اور پھر کہا کہ قرآن بھی مخلوق ہے – ظلمات بعضها فوق بعض
اس گمراہی کے سد باب کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے ایک تحریر “نشانی “ پہلے سے اس ویب سائٹ پر موجود ہے
قرن دوم میں انکار حدیث سے منسلک ایک فرقہ معتزلہ تھا اس کے بعض سرخیل کو عباسی خلافت میں قرب خلیفہ ملا اور انہوں نے ایک کلامی مسئلہ گھڑا – اس مسئلہ کے مطابق قرآن ، کلام اللہ نہیں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کی مد میں سے ہے
اس فرقہ کے خلاف اہل سنت کے علماء کھڑے ہوئے اور انہوں نے اس عقیدے کا صریح رد کیا – ان کا رد کرنے والوں میں امام بخاری پیش پیش تھے اور امام بخاری نے ضروری سمجھا کہ اس پر باقاعدہ ایک کتاب تالیف کریں جس کا نام انہوں نے رکھا
خلق الافعال العباد
بندوں کے عمل کی تخلیق
امام بخاری کے نزدیک قرآن یہ الوحی ہے اور الوحی مخلوق نہیں البتہ قرآن کی قرات مخلوق ہے
امام بخاری نے اس کتاب میں بار بار اس قول کی تکرار کی ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے – کتاب کا آغاز ہی اس جملے سے کیا
باب : اہل علم نے معطلہ کے حوالے سے کیا ذکر کیا جو کلام اللہ کو بدلنا چاھتے ہیں
سفیان نے کہا میں اپنے شیوخ سے ملا جن میں عمرو بن دینار بھی ہیں سب کہتے ہیں قرآن کلام اللہ ہے اور مخلوق نہیں ہے
امام بخاری نے امام ابن مبارک کا قول نقل کیا
ابن مبارک نے کہا جو یہ کہے کہ قرآن کی آیت اننی آنا اللہ لا الہ الا انا مخلوق ہے تو وہ کافر ہے اور مخلوق کے لئے جائز نہیں کہ ایسا کہے
صحیح بخاری میں حدیث ہے
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد، عن ابيه، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما من الانبياء نبي إلا اعطي من الآيات ما مثله، اومن او آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي، فارجو اني اكثرهم تابعا يوم القيامة”.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو نشانیاں نہ دی گئی ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا یا انسان ایمان لائے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو الله نے میری طرف کی (یعنی قرآن ) ، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے
بعض جاہلوں نے اس روایت سے اخذ کیا ہے کہ معجزہ مخلوق ہے جبکہ اس روایت میں سرے سے ایسا کچھ بھی نہیں ہے – قرآن اپنی بلاغت کی بنا پر معجزہ ہے- اس کی سی سورت آج تک کوئی نہیں بنا سکا – اس کو حفظ کیا جا سکتا ہے – دنیا کی دوسری کتب کے لئے یہ ممکن نہیں ہے – یہ سب نشانیاں ہیں کہ قرآن من جانب اللہ ہے – اور اللہ اس الوحی کے ذریعہ سے نازل کیے جانے والے قرآن کی حفاظت کر رہا ہے
قابل غور ہے کہ الوحی تو تمام انبیاء و رسل پر کی گئی ہے – بغیر الوحی کے کوئی بھی نبی و رسول کہلا ہی نہیں سکتا – یہاں بتایا گیا ہے پچھلے انبیاء کی نشانیاں ان کے دور تک ہی تھیں لیکن ہمارے رسول پر الوحی کی جانے والی کتاب قیامت تک رہے گی اور موجب ہدایت رہے گی – اس طرح یہ ایک عظیم نشانی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی تھے
اس حدیث سے کند ذہن لوگوں نے اخذ کیا ہے کہ اس حدیث میں قرآن کو مخلوق کہا گیا ہے – حاشا للہ – ایسا ہرگز نہیں ہے – قرآن الوحی ہوا تمام امت کو ملا اور ہم اس کی تلاوت کرتے ہیں تو اس طرح یہ کتاب یا روشن آیات ہمارے گھروں میں بھی پڑھی جاتی ہیں یعنی اللہ کی یہ نشانی گھر گھر آ گئی ہے کہ وہ حق و باطل کو جان سکتے ہیں
پس منظر
قصہ مختصر چند سال قبل محمد حنیف نے ایک تحریر شائع کی جس میں اس نے دعوی کیا کہ اللہ تعالی نے اپنی صفت
عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کر دی ملاحظہ ہو اس پر حنیف کی اہل حق کی جانب سے پکڑ کی گئی کہ یہ سب شرک کے دفاع کی باتیں ہیں – اللہ کی صفات میں کوئی شریک نہیں-اس پر محمد حنیف اور اس کے بعض حواریوں نے اس صفت باری تعالی کی یہ تاویل کرنا شروع کر دی کہ صفات باری کو ہی مخلوق قرار دینا شروع کر دیا اور بعض نے صفت کے لفظ کو لغوی صفت کہنا شروع کر دیا کہ یہ محض عیسیٰ کی صفت ہے – جبکہ جس طرح اس قوت الاحیاء الموتی پر تبصرہ کیا گیا ہے اس کو اللہ کا خاص فیصلہ بنا پر پیش کیا ہے کہ اللہ جو چاہے رہے اور یہاں تک کہ اپنی صفت کسی کو دے دے تو اس پر اللہ سے سوال نہیں کیا جا سکتا ، اس سے ظاہر ہے حنیف اینڈ کمپنی کا مدعا تھا کہ اللہ تعالی کی صفت الحی انہوں نے عیسیٰ کو دے دی تھی – یاد رہے کہ اسی قسم کا عقیدہ بریلویوں کا ہے کہ اللہ تعالی نے علم غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا ہے اور اگر وہ بھی اس کو اللہ کی مرضی قرار دے کر بات ختم کرتے ہیں
اللہ تعالی بلا شبہ جو چاہے کرے لیکن اس نے سورہ کہف میں کہا ہے
ولا يشرك في حكمه أحدا
وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا
اور یہ بھی بتایا کہ عیسیٰ کا مردوں کا زندہ کرنا اصل میں اللہ کا حکم ہے
اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے
یعنی معجزہ اصل میں اللہ کے حکم سے ہے اور یہ انبیاء کی قوت نہیں کہ کچھ بھی کر سکیں
اس پر محمد حنیف کے جدید کٹر حواری سعید احمد نے یہ عقیدہ لیا کہ کہ قرن دوم کے فرقے معتزلہ کا عقیدہ صحیح تھا اور تمام معجزات انبیاء کو بھی انبیاء کا عمل کہنا شروع کر دیا گویا کہ اللہ تعالی نے ان کو یہ اخیتار تفویض کر دیا ہو- اس طرح رافضی مفوضہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے اماموں کے پاس زمین کا کنٹرول ہے اسی طرح کا عقیدہ بنایا گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوت سے مردوں کو زندگی بخشی
سعید معتزلی کے چیلے آصف خان الجہمی جدید نے موقف اپنایا کہ کہ حنیف نے توبہ کی ہے
جبکہ حنیف مردار ہو چکا ہے اور اس کی کوئی توبہ معلوم نہیں ہے – جہمی اصف کے گھر کی گواہی اس میں شامل ہے کہ توبہ کا کوئی لفظ معلوم نہیں ہے – حنیف نے اپنے الفاظ کی تاویل کر کے اپنے شرک کو چھپایا ہے اور اسی پر مومنوں کو اعتراض ہے شرک کی تاویل نہیں کی جا سکتی –
جھمی اصف نے اپنی دلیل میں امام بخاری کا ذکر کیا
اسی قسم کا سوال جب ڈاکٹر عثمانی سے ہوا تھا کہ انہوں نے تمام ان محدثین پر فتوی کیوں نہیں لگایا جنہوں نے عود روح کی روایت لکھی ہے تو ان کا جوابا کہنا تھا
کیا امام بخاری نے کہیں لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ اس ادب مفرد کی روایت پر ہے ؟ ہرگز نہیں
اس حوالے سے ایک معتزلی جدید سعید احمد کی تقریر پر راقم کی رائے پوچھی گئی جس میں اس شخص نے اہل سنت سے الگ اپنے معتزلی عقائد کا برملا اظہار کیا اور ان پر شدت اختیار کی
سعید احمد کی معتزلی تقریر پر تبصرہ
سعید نے کہا 2:40 الله اپنی صفت دیتا ہے تو اللہ صوفی میں حلول کرتا ہے
١٦:٢٨ اللہ اپنی صفت کسی کو نہیں دیتا – دینے کا طلب ہے کہ اس نے اپنا وجود دے دیا
تبصرہ
یہ کسی بھی تصوف کی کتاب میں نہیں ہے – صوفیا کے نزدیک تو اللہ مخلوق میں موجود ہے جس کو وحدت الوجود کہتے ہیں
اور اس میں تمام مخلوق شامل ہے – سعید لوگوں کی ذہن سازی کر رہا ہے کہ اگر ہم عقیدہ رکھیں کہ اللہ صفت مخلوق (عیسیٰ ) کو دیتا ہے تو اس قول کو قبول کرنے سے ہم مشرک نہ ہوں گے کیونکہ صوفیا کا مذھب ہمارے مذھب سے الگ ہے
سعید نے کہا
12:30 اللہ کی صفت کا مقابلہ مخلوق سے نہیں کیا جا سکتا ١٦:٠٠ اللہ کا سمیع و بصیر ہونا
تبصرہ
یہ ڈوج دے رہا ہے کیونکہ اللہ ایک انسان کی طرح سمیع و بصیر نہیں ہے
اللہ نے اپنے اپ کو
السمیع و البصیر
کہا ہے
اللہ نے اپنے اپ کو العلی بھی کہا ہے
اور علی ایک صحابی کا نام بھی ہے
لیکن ال عربی میں جب اتا ہے تو وہ اس کو باقی اسماء سے الگ کر دیتا ہے
اس کا مقصد یہ کہنے کا یہ ہے کہ اس موقف ہے کہ اللہ الحیی نے اپنی مردہ کرنے کی ایک صفت کو مخلوق کی شکل میں عیسیٰ کو دے دیا – اس طرح اس کے نزدیک سورہ المائدہ کی آیت کی تاویل ہو جاتی ہے کہ
وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِىْ
اور جب تم نے مردوں کو نکالا میرے اذن سے
سعید نے کہا
١٧:٠٠ حنیف نے لکھا کہ اللہ تعالی نے عیسیٰ کو صفت دی تو حنیف کو اس میں مغالطہ ہوا وہ معجزے کو اللہ کی صفت سمجھا معجزے اللہ کی صفت نہیں ہے معجزہ اللہ خلق کرتا ہے
تبصرہ
معجزہ غیر اللہ کی صفت ممکن نہیں ہے
وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہ اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے
یعنی معجزہ صرف اللہ کے حکم سے ہی ممکن ہے
جو چیز صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں وہی اللہ کی صفت کہی جاتی ہے
اگر معجزہ اللہ کے حکم سے نہیں تو اس کا مطلب ہے معجزہ اللہ نے نہیں بلکہ انبیاء نے کیا اور انبیاء سے کہیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ سب کمالات ان کی کاوش سے ہوئے ہیں
سعید نے کہا
١٩:٠٠ معجزہ اللہ کی صفت نہیں ہے معجزہ کو اللہ کی صفت کہنا شرک ہے معجزہ اللہ کی خلق ہیں
تبصرہ
معجزہ کا لفظ قرآن و حدیث میں نہیں ہے معجزہ کی تعریف ہے
اللہ کا ایسا فعل جو قانون قدرت سے الگ ہو اتنا بڑا ہو کہ انسانی عقل کو معلوم ہو کہ انسان کے بس میں نہیں ہے
اس کو معجزہ کہتے ہیں
سانپ کو لکڑی میں واپس بدلنا موسی کا عمل ہے یا یہ اللہ کا حکم ہے ؟ ظاہر ہے یہ اللہ کے حکم سے ہے
جب یہ عظیم بات حکم اللہ کی وجہ سے ہو تو اس کام کو مخلوق کا عمل نہ کہا جائے گا
اس کو اللہ تعالی کی نشانی کہا جائے گا
سعید نے کہا
١٩:٢٥ اللہ نے موسی کو نو نشانی عطا کیں
٢٩:٢٥ معجزہ اللہ کا فعل ہے اور فعل کیا ہے اللہ کا امر
کن فیکون ہے
تبصرہ
سورہ الاسرا میں ہے
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ ءَايَٰتٍ بَيِّنَٰتٍۢ ہم نے موسی کو نو نشانیاں دیں
عطا کا لفظ عربی کا ہے لیکن قرآن میں آیت اللہ دینے پر یہ نہیں آیا – عطا کا ترجمہ کر سکتے ہیں
ایسا دینا کہ اس پر مکمل کنٹرول اس شخص کا ہو جائے جس کو عطا ہوا
لیکن یہاں لفظ ءَاتَيْنَا ہے جس کو مطلب دینا ہے لیکن یہ عطا کے مفہوم پر نہیں ہے- یہ
dedicate
کے مفہوم پر ہے
یعنی یہ نو نشان ال فرعون کے لئے ہیں ان کو دیکھائی جائیں گی – موسی کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
اور یہ بات ال فرعون کو بھی معلوم تھی وہ کہتے موسی اپنے رب سے دعا کر
یعنی قرآن میں واضح کیا گیا کہ موسی کا ان آیت پر کوئی کنٹرول نہیں تھا
جو بھی تھا وہ اللہ کے حکم سے ہو رہا تھا
لہذا ان نو نشان کی اابتداء اللہ کے امر یعنی حکم سے ہوتا ہے
اگر معجزہ اللہ کا امر ہے کن فیکون ہے تو یہ اللہ کا حکم ہے جو غیر مخلوق ہے
یہ تو بنیادی بحث ہے جو کام صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں کوئی حکم صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں تو وہ غیر اللہ کی صفت نہیں ہے
بحث اس پر ہوئی چاہے کہ کس طرح ہوا ؟ تو ظاہر ہے معجزہ الله کے امر و حکم سے ہوا
اس کے نتیجے میں اگر کچھ نیا خلق ہوا تو وہ مخلوق ہے
مثلا موسی کا عصا سانپ بن گیا تو سانپ مخلوق ہے
لیکن سانپ معجزہ نہیں ہے – لاٹھی کا سانپ میں کے وجود میں بدلنا معجزہ ہے
یہی اللہ کی نشانی ہے کہ اس نے حکم دیا اور لکڑی ایک زندہ شی میں بدل گئی
اینڈ پروڈکٹ سانپ ہے لیکن ہم اینڈ پروڈکٹ کو نہیں دیکھ رہے ہم تو اس کمال کو معجزہ کہتے ہیں یا
process
کو معجزہ کہتے ہیں
اگر کوئی جاہل
process
کی بجائے
اینڈ پروڈکٹ
یعنی سانپ کو معجزہ کہے
تو اس سے سوال کیا جائے کہ سانپ تو انسان پالتے ہیں ہندو ان کو دودھ پلاتے ہیں
یہ ال فرعون کے پاس بھی ہوں گے
تو سانپ کو معجزہ کس نے کہا ہے
کوئی متکلم و محقق نہیں گزرا جس نے اینڈ میں ببنے والی مخلوق کو معجزہ کہا ہو
بعض اوقات معجزہ ہوا اور کوئی نئے چیز نہیں بنتی مثلا انسان مرا – عیسیٰ نے اللہ کے حکم سے زندہ کر دیا
اب اس کو عیسیٰ کا معجزہ اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ ان کی قوم کو اللہ کا یہ کمال و معجزہ و آیت دکھائی گئی
نہ کہ عیسیٰ کو قوت الاحیا الموتی مل گئی – اسی طرح اللہ نے چاند کو توڑا اور پھر جوڑا – اس میں کوئی نیا نہیں بنا – لیکن یہ جو سب ہوا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہیں ہوا بلکہ انہوں نے بس اس بات کی پیشگی خبر قریش کو کی –
جو بھی شخص معجزہ کو محض مخلوق کے تحت لے گا وہ گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی کرے گا
قرآن میں لفظ آیت بولا گیا ہے – متکلمین نے انسانوں کو سمجھانے معجزہ کا لفظ استعمال کیا ہے
یعنی عقل کو عجز یا کمزور کرنے والا اللہ کا فعل و حکم
اس میں اللہ خلق و حکم دونوں کرتا ہے
اللہ کے رسول صرف اس کی خبر کرتے ہیں کہ فلاں پہاڑ سے اوٹنی نکلے گی
یعنی چٹان ، گوشت و خون میں بدلے گی
اس میں پہاڑ کو حکم کیا جا رہا ہے گوشت میں بدلے
نتیجتا اینڈ پروڈکٹ اوٹنی نکلتی ہے
تبدیلی کا عمل ہے جو پہاڑ نے کیا
انسانی عقل عاجز ہو گی
اس کو ہم معجزہ کہہ رہے ہیں
قرآن اس کو آیت اللہ کہتا ہے
بس اتنا ہمارے لئے کافی ہے
سعید نے کہا ٢٩:٣٠ پورے قرآن میں معجزے کو کہیں نہیں لکھا کہ یہ اللہ کی صفت ہے
تبصرہ
صفت کا لفظ غیر قرانی غیر قریشی ہے
امام ابن حزم کے مطابق اس کا استعمال بھی حرام ہے
ہم کو اسماء اللہ کا بتایا گیا ہے اور جو کام صرف اللہ کرتا ہو وہی اس کا اسم ہے
قرآن میں ہے قل إنما الآيات عند الله سورہ الانعام کہو آیات اللہ (معجزات)، اللہ کی طرف سے ہیں
جن باتوں کو نسبت صرف اللہ کی طرف ہو وہ اس کا اسم ہیں
اور یہ اللہ کے نام
القادر کے تحت ہے
کہ وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے
نبی یا مخلوق جو چاہتی نہیں کر سکتی ٠ ان کو حکم رب کا انتظار کرنا پڑتا ہے
لہذا یہ بے تکی تان کرنا کہ قرآن میں معجزہ کو صفت نہیں کھا گیا معنی چست؟ قرآن میں نہ تو صفت کا لفظ ہے
نہ معجزے کا لہذا ان دونوں کو ہٹا کر اگر سمجھیں تو یہ سب اسما الحسنی نے تحت سمجھنا ہو گا کہ اصل میں اللہ القادر ہے
وہ نبی کی قوم کو اپنی نشانی دکھاتا ہے
ایک چیز کو دوسری سے بدل کر
یا مردہ کو زندہ کر کے
وغیرہ
سعید نے کہا ٣٤:٠٠ پورے قرآن میں اللہ کے اذن کی definition نہیں ہے تو ہم کیسے اس پر بحث کریں گے ؟
تبصرہ
تو سعید کیوں معجزے پر بحث کر رہا ہے
جو ہے ہی اللہ کے اذن کے تحت ؟
سعید نے کہا ٣٩:٠٠
اللہ نے قرآن کو عربی زبان میں بنایا ہے یعنی اللہ نے عربی میں قرآن تخلیق کیا ہے
اللہ نے اپنے کلام کو عربی میں کنورٹ کر کے نازل کیا
تبصرہ
بلا شبہ زبان مخلوق ہے
لیکن جب اللہ اس زبان میں کلام کرے تو وہ کلام، کلام اللہ ہے
اور مخلوق نہیں ہے
سعید کے مطابق قرآن مخلوق کی مد میں ہے
اب یہ ایک عظیم مسئلہ ہے امام بخاری نے اس پر مکمل کتاب لکھی
خلق افعال العباد
کہ قرآن کلام الله ہے غیر مخلوق ہے
اس کی تلاوت جو انسان یا نبی یا فرشتہ کرتا ہے وہ مخلوق ہے
جو تمام زبانوں کو جانتا ہے یعنی اللہ ، اس کو
convert
کرنے کی خبر سعید کو کس نے دی
یعنی اللہ نے کسی ایسی زبان میں کلام کیا جو صرف اس کو معلوم تھی پھر اس نے اس کو عربی میں
convert
کیا
یہ سب علم غیب کی بات ہے یہ قرآن و حدیث میں نہیں
میری سمجھ سے باہر ہے کہ علم غیب پر نکتہ سنجی سے کیا فائدہ ہے
سعید نے کہا
40:٠٠ اللہ نے اپنا کلام لوح محفوظ میں اتارا ہے ہم تک جو کلام اللہ پہنچا وہ مخلوق ہے
اللہ اعبرانی نہیں بولتا
ہر نبی اپنی زبان بولتا تھا لیکن اللہ کوئی اور زبان میں کلام کرتا ہے پھر ان کو convert کر کے بیان کرتا ہے
تبصرہ
یہ بات تو ظاہر ہے کہ زبانیں الگ الگ ہیں لیکن کیا اللہ عربی میں کلام نہیں کرتا ؟ اس کی خبر سعید کو کس نے دی
یہ ضرورت سے زائد کلام ہے جس پر ہم بات نہیں کرتے کیونکہ یہ علم ہماری بساط سے باہر ہے
اللہ ہر زبان میں کلام کر سکتا ہے
اس جاہل کو کس نے خبر دی کہ لوح میں کسی ایسی زبان میں لکھا ہے جس کو کوئی نہیں جانتا ہے؟
لوح محفوظ میں جو کلام اللہ ہے وہ سعید کے نزدیک غیر مخلوق ہوا
سعید کے فلسفے کا یہ جھول ہے کہ لوح جو مخلوق ہے اس میں درج قرآن اس کے نزدیک غیر مخلوق ہے اور جو زمینی کاغذ میں لکھا ہے وہ کلام اللہ نہیں بلکہ کونورٹڈ یا ترجمہ شدہ ہے
قرآن سورہ ال عمران آیت ٤٩ میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ مریم علیہ السلام کو فرشتوں نے بتایا
اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا ، ( وہ لوگوں سے کہے گا ) میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لایا ہوں میں تمہارے سامنے مٹی سے ایک پر ندے کی شکل بناتا ہوں ، پھر اس میں پھونک مارتاہوں تووہ اللہ کے حکم سے واقعی پر ندہ بن جاتا ہے نیزمیں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور کو ڑھی کو ٹھیک کرتا ہوں اور مرُدوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو سب تمہیں بتلا دیتاہوں اگر تم ایمان لانے والے ہو تو تمہارے لئے ان باتوں میں نشانی ہے
اس آیت سے بعض لوگوں نو دلیل لی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قوت مل گئی تھی وہ یہ تمام کام خود ہی کر لیتے ہیں – ان لوگوں نے نزدیک نشانی لانے یا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی بعض صفات میں انبیاء کو اختیار دے دیا تھا کہ قوت الاحیاء الموتی کے حامل تھے – اس کو سن کر خیال اتا ہے کہ بر صغیر کے بریلوی فرقے کی کسی کتاب نے ان لوگوں نے یہ سب اخذ کیا ہے – راقم کو معلوم ہے کہ اپنی سابقہ زندگی میں یہ لوگ اسی فرقے سے تھے اور وہاں سے ہی اس قسم کے عقائد دین میں داخل کر رہے ہیں – بریلوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو زندہ کر دیتے تھے ان کو اس کا اختیار مل گیا تھا – یہ اختیار و عطائی علم غیب کی سوچ البتہ سعید المعتزلی سے منسلک لوگوں میں در کر آئی ہے کی یاد اتی ہے – بس فرق اتنا ہے کہ اپنی لفاظی سے یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ یہ علم غیب کی عطا یر مردوں کو زندہ کرنے کی قوت اللہ تعالی نے عیسیٰ علیہ السلام کو دان کر دی تھی
اس طرح اپنے گھڑے باطل عقائد پر قرانی آیت پیش کرتے ہیں کہ عیسیٰ تو واقعی اس قدرت و اختیار کے مالک تھے جبکہ قرآن میں اس آیت کی تشریح سورہ المائدہ ١١٠ کے مقام پر اس طرح کی
جب اللہ کہے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! میرا احسان یاد کر جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہوا ہے، جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی، تو لوگوں سے بات کرتا تھا گود میں اور ادھیڑ عمر میں، اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائی، اور جب تو مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے بناتا تھا پھر تو اس میں پھونک مارتا تھا تب وہ میرے حکم سے اڑنے والا ہو جاتا تھا، اور مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، اور جب مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا جب تو ان کے پاس نشانیاں لے کر آیا پھر جو ان میں کافر تھے وہ کہنے لگے کہ یہ تو بس صریح جادو ہے
ان کے نبی نے کہا کہ اس کی مملکت کی علامت یہ ہے کہ اس میں تابوت تم کو واپس ملے گا جس میں تمھارے رب کی طرف سے سکون ہے
یہ عبرت کے لئے بھی استعمال ہوا ہے
والآية كذلك العبرة، كما قال تعالى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (7)} يوسف: 7، أي أمور وعبر مختلفة.
یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں سائل کے لئے نشان (عبرت) ہے
یہ معجزہ کے لئے بھی ہے
وتطلق الآية على المعجزة، قال تعالى: {وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (50)} المؤمنون: 50.
اور ہم نے ابن مریم اور اس کے بیٹے کو نشانی بنا دیا
یعنی مریم بن شوہر کے ماں بن گئیں اور عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہو گئے – یہ اہل کتاب مومنوں کے لئے حیرت کی وجہ تھی کہ یہ نہ ممکن تھا لیکن ہوا
اور عربی میں یہ جماعت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ويراد بها الجماعة: يقال: خرج القوم بآيتهم أي: بجماعاتهم
آیت مطلب نشان ، علامات ، عجائب ہیں – متاخرین نے اس کا ایک نام معجزہ بھی کر دیا ہے اور اردو میں یہ اکثر استعمال ہوتا ہے
اب سوال یہ ہے کہ نشانی قوت النبی ہے یا اللہ کے حکم سے ہے ؟ تو قرآن میں اس کا واضح جواب ہے کہ انبیاء میں کسی کو یہ اختیار نہ تھا کہ نشانی لا سکتا اور عیسیٰ سے بھی یہ کہا گیا کہ یہ باذن اللہ یعنی اللہ کے حکم ہو رہا ہے – سورہ المائدہ کی آیت سے یہ بالکل واضح ہے کہ مردے کو زندہ کرنا عیسیٰ کا خود کا ذاتی عمل نہ تھا کہ اس کو قوت عیسیٰ کہا جا سکے
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کفار پر مٹی پھینکی اور وہ بھکر گیا بھاگ گیا – اللہ تعالی نے تبصرہ میں فرمایا
وما رميت اذ رميت ولكن الله رمى
وہ مٹی تم نے نہیں پھینکی ، جب پھینکی تھی بلکہ وہ اللہ نے پھینکی تھی
رسول اللہ صلی اللہ کا یہ معجزہ تھا کہ مسلمانوں نے دیکھا کہ انہوں نے مٹی پھینکی اور کافر بھاگ گئے لیکن اللہ نے اس عمل کو اپنی طرف منسوب کیا – اس طرح ہم کو تعلیم دی گئی کہ معجزات انبیاء اصل میں سب اللہ کے حکم سے ہو رہے ہیں بظاہر تو لگ رہا ہے موسی نے عصا مارا لیکن اصل میں موسی کا اس میں کوئی کمال نہیں اللہ کی جانب سے سمندر کو حکم ملا اور وہ پھٹ گیا
اس طرح ہم انبیاء کو ملنے والی آیات کی شرح کرتے ہیں
ولقد آتینا موسی تسع آیات بینات۔ سورۃ بنی اسرائیل ایۃ 101. ۔ اور یقینا ہم نے موسیٰ کو نو واضح نشانیاں دیں
اس آیت سے بعض فاتر العقل لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ موسی علیہ السلام کو ان نو نشانوں کو کرنے کی قوت مل گئی تھی – وہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکتے تھے ، طوفان لا سکتے تھے – ہاتھ چمکا سکتے تھے – سمندر پھاڑ سکتے تھے
جبکہ اللہ تعالی نے ان نو نشانیوں کو قرآن میں قوت موسی کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کو کرشمہ الہی کے طور کر پیان کیا ہے
اس فاتر العقل شخص نے کہا
موسیٰ علیہ السلام کا عصا معجزاتی تھا اور یہ مخلوق ہے اسکا سانپ بن جانا اژدھا بن جانا معجزہ ہے اور مخلوق ہے۔
راقم کہتا ہے موسی کا عصا ، سانپ یقینا مخلوق ہیں لیکن یہ قوت نہ تو عصا میں ہے نہ موسی میں کہ اپنے عصا کو سانپ بنا سکیں
اس فاتر العقل شخص نے مزید کہا
معجزہ مخلوق پر ظاھرو رونما ہوتا ہے۔ یاد رکھیں اللہ کی الوہی صفات مخلوقات پر ظاھر و رونما نہیں ہوتیں
راقم اس پر کہتا ہے کہ معجزہ یقینا اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور مخلوق پر ظاہر بھی ہوتا ہے – اللہ الخالق ہے جو چاہے خلق کرے اور یہ صفت تمام مخلوق دیکھ سکتی ہے – ہر وقت اس زمین میں کچھ خلق ہو رہا ہے – اللہ کی صفت الخالق ہونا ہے اور یہ صفت خلاقیت مخلوق پر عیاں ہے
پھر فرشتے اللہ تعالی سے کلام کرتے ہیں ، اس کا حکم سنتے ہیں – اللہ تو السمیع و البصیر ہے اور فرشتے باوجود مخلوق ہونے کے اس صفت کو جانتے ہیں – لہذا یہ جملہ کہ اللہ تعالی کی صفات مخلوق نہیں ظاہر ہوتیں سمجھ سے باہر ہے – یاد رہے کہ عیسیٰ بھی اللہ کا معجزہ ہیں مخلوق نے ان کو دیکھا سنا اور ان سے تعلیم حاصل کی
معجزہ قوت انبیاء نہیں اور نہ اس کو اس پر قدرت و اختیار حاصل تھا – اصل قدرت و اختیار اللہ تعالی کے پاس ہے