Category Archives: الفتن

سامری کا مذھب ٣

قصہ مختصر
سامری نے نبی اسرائیلیوں سے دھات کے زیور لے کر ایک بچھڑے کی مورت بنائی جس میں سے آواز نکلتی تھی – قرن اول میں اس پر ابن عباس کے بعض شاگردوں نے سامری کے حوالے سے ایک عجیب قصہ بیان کیا کہ سامری کو اللہ تعالی نے بچایا جب ال فرعون بنی اسرائیل کو قتل کر رہے تھے اور جبریل نے سامری کی مدد کی – سامری بچین سے جبریل کو پہچانتا تھا لہذا جب اس نے جبریل کو سمندر پھٹنے پر دیکھا تو ان کے قدم کی مٹی لی اور اس کو بت گری میں شامل کیا – معجزھ ہوا اور بچھڑا بولنے لگا
راقم کہتا ہے یہ اسرائیلیات کی خبر ہے جو ابن جریج اور الكلبي نے ابن عباس سے منسوب کر دی ہے

قرآن سورہ طہ میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي

اس آیت کی قرات میں اختلاف بھی ہے – برواية خلف عن حَمْزَةُ و برواية َالْكِسَائِيُّ و برواية َالْأَعْمَشُ وَ برواية خَلَفٌ نے اس آیت کی قرات اس طرح کی
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ تَبْصُرُوا بہ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو تم نے نہیں دیکھا

اور رواية قالون، رواية ورش اور عاصم کی قرات میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو انہوں نے نہیں دیکھا

قرطبی نے سورہ طہ کی اس آیت کی شرح میں لکھا
وَيُقَالُ: إِنَّ أُمَّ السَّامِرِيِّ جَعَلَتْهُ حِينَ وَضَعَتْهُ فِي غَارٍ خوفا
مِنْ أَنْ يَقْتُلَهُ فِرْعَوْنُ، فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَجَعَلَ كَفَّ السَّامِرِيِّ فِي فَمِ السَّامِرِيِّ، فَرَضَعَ الْعَسَلَ وَاللَّبَنَ فَاخْتَلَفَ إِلَيْهِ فَعَرَفَهُ مِنْ حِينِئِذٍ

کہا جاتا ہے کہ سامری کی ماں نے اس کو ایک غار میں چھوڑ دیا جب اس کو جنا کہ کہیں فرعون اس کو قتل نہ کر دے پس جبریل علیہ السلام آئے اور اس کو دودھ اور شہد سے پالا – پس سامری خروج مصر کے وقت جبریل کو پہچان گیا

اسی طرح ایک اور قصہ ذکر کیا
وَيُقَالُ: إِنَّ السَّامِرِيَّ سَمِعَ كَلَامَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، حَيْثُ عَمِلَ تِمْثَالَيْنِ مِنْ شَمْعٍ أَحَدُهُمَا ثَوْرٌ وَالْآخَرُ فَرَسٌ فَأَلْقَاهُمَا فِي النِّيلِ طَلَبَ قَبْرَ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَكَانَ فِي تَابُوتٍ مِنْ حَجَرٍ فِي النِّيلِ فَأَتَى بِهِ الثَّوْرُ عَلَى قَرْنِهِ
سامری نے موسی کا کلام سنا جب وہ ایک بیل اور گھوڑے کا بت بنا رہا تھا
اس نے ان بتوں کو نیل میں ڈالا اور بیل کا بت یوسف کے پتھر کے تابوت کو سر پر اٹھائے نیل میں سے نکل آیا

السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير از شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) میں ہے
فقال ابن عباس في رواية الكلبي: إنما عرفه لأنه رباه في صغره، وحفظه من القتل حين أمر فرعون بذبح أولاد بني إسرائيل، فكانت المرأة إذا ولدت طرحت ولدها حيث لا يشعر به آل فرعون، فتأخذ الملائكة الولدان ويربونهم حتى يترعرعوا ويختلطوا بالناس، فكان السامري ممن أخذه جبريل عليه السلام، وجعل كف نفسه في فيه، وارتضع منه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فلما رآه عرفه؛ قال ابن جريح: فعلى هذا قوله: بصرت بما لم يبصروا به يعني: رأيت ما لم يروه.
کلبی کی ابن عباس سے روایت ہے کہ سامری ، جبریل کو بچپن سے جانتا تھا کیونکہ جبریل نے اس کو پالا تھا اور اس کو فرعون کے قتل سے بچایا تھا جب اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر دیا جائے – عورتیں اپنے بچوں کو پھینک دیتی تھیں کہ کہیں ال فرعون دیکھ کر قتل نہ کر دیں ، ان بچوں کو فرشتے لے جاتے اور ان کو پالتے حتی کہ یہ بڑے ہوتے اور اور لوگوں میں مل جاتے – سامری ان بچوں میں سے تھا جن کو جبریل نے پالا اور اس کو دودھ و شہد پلایا پس سامری نے ان کو پہچاننا نہ چھوڑا اور جب (خروج مصر پر ) دیکھا تب پہچان گیا
ابن جریج نے کہا پس اس کا ذکر اس قول تعالی میں ہے کہ سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو دوسروں نے نہ دیکھا

تفسیر طبری میں ہے
حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جُرَيج، قال: لما قتل فرعون الولدان قالت أمّ السامريّ: لو نحيته عني حتى لا أراه، ولا أدري قتله، فجعلته في غار، فأتى جبرائيل، فجعل كفّ نفسه في فيه، فجعل يُرضعه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فمن ثم معرفته إياه حين قال: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ)

الْحُسَيْنُ بْنَ داود (لقب سنيد ) نے حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ سے روایت کیا ہے اور انہوں نے ابن جریج سے روایت کیا –

الحسين بن داود کو سُنَيد بن داود بھی سندوں میں کہا جاتا ہے – ان پر نسائي کا قول ہے : ليس بثقة یہ ثقہ نہیں ہے
خطیب بغدادی کا قول ہے
قُلْتُ لا أعلم أي شيء غمصوا عَلَى سنيد، وقد رأيت الأكابر من أهل العلم رووا عنه، واحتجوا به، ولم أسمع عنهم فيه إِلا الخير، وقد كَانَ سنيد لَهُ معرفة بالحديث، وضبط لَهُ، فالله أعلم.
وذكره أَبُو حاتم الرَّازِيّ فِي جملة شيوخه الذين روى عنهم، وَقَالَ: بغدادي صدوق
ان کی حدیث قابل دلیل ہے اور ابو حاتم رازی کے شیوخ میں سے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ صدوق ہیں

ابن سعد نے طبقات میں حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ پر ذکر کیا
وكان ثقة كثير الحديث عن ابن جريج
یہ ثقہ ہیں اور ابن جریج سے اکثر احادیث روایت کرتے ہیں

حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ مختلط بھی ہوئے لیکن معلوم نہیں کہ سنید نے کس دور میں ان سے سنا

ابن جریج کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے لہذا اس روایت کی سند معضل یعنی ٹوٹی ہوئی ہے – البتہ جو معلوم ہوا وہ یہ کہ ابن جریج اس قصے کو لوگوں کو سناتے تھے اور کسی مقام پر ان سے اس قصے کا رد منقول نہیں ہے

دوسرا قصہ جو سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے اس کے مطابق سامری بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ
سامری گائے کی عبادت کرتا تھا اور بنی اسرائیل کی طرف سے مجاورت کرتا تھا اور یہ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
سند میں أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة- دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ مختلف فیہ راوی ہے

ان قصوں کو اس طرح ابن عباس سے منسوب کیا گیا ہے

ہند کی بربادی چین سے ہو گی؟

روزانہ جنگ کی پیشن گوئییاں کرنے والوں کی زبان سے دو، تین سال سے مسلسل ایک مکذوبہ روایت سننے میں آ رہی
ہے – اخباری کالم نگار ، دانشور ، ٹی وی اینکر وغیرہ سب بلا تحقیق سند و متن اس کو سنا رہے ہیں – اس روایت کو
مکمل سنانے کی توفیق کسی کو نہیں ہے بلکہ صرف بیان کر دیا جاتا ہے کہ حدیث نبوی ہے کہ ہند کی خرابی چین سے
ہے – راقم کہتا ہے دنیا میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کو قول نبوی بنا کر آخری جنگ کی طرح پیش کرنا دینی نقطہ
نظر سے دھوکہ دہی کے مترادف عمل ہے

اخبار پڑھ کر ان کو احادیث سے ملانے کے ماہروں میں سے ایک، ڈاکٹر اسرار احمد کے نزدیک سن ٨٠ و ٩٠ کی
دھائی میں چین والے یاجوج ماجوج تھے -اس قول کو بلا تحقیق اس دور میں سب نے بیان کرنا شروع کر دیا تھا –
راقم کہتا ہے یہ قول ان علماء کا ہے جن کا شمار راقم کے نزدیک جہلاء میں ہے

عقائد میں اٹکل پچو کرنے میں متقدمین میں امام قرطبی بھی گزرے ہیں جو ضعیف و مکذوبہ روایات کے مجموعے
تیار کرنے کے ماہر تھے – قرطبي اپنی غیر محتاط انداز میں مرتب شدہ کتاب التذکرہ میں ایک روایت کا ذکر
کرتے ہیں

ذكره أبو الفرج ابن الجوزي -رحمه اللّه- في كتاب: روضة المشتاق والطريق إلى الملك الخلاق …. حديث حذيفة بن اليمان –
رضي الله عنه- عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ويبدأ الخراب في أطراف الأرض حتى تخرب مصر. ومصر آمنة من
الخراب حتى تخرب البصرة. وخراب البصرة من العراق، وخراب مصر من جفاف النيل، وخراب مكة من الحبشة، وخراب
المدينة من الجوع، وخراب اليمن من الجراد، وخراب الأيلة من الحصار، وخراب فارس من الصعاليك، وخراب الترك من الديلم،
وخراب الديلم من الأرمن، وخراب الأرمن من الخزر، وخراب الخزر من الترك، وخراب الترك من الصواعق، وخراب السند من
الهند، وخراب الهند من الصين، وخراب الصين من الرمل، وخراب الحبشة من الرجفة، وخراب الزوراء من السفياني، وخراب
الروحاء من الخسف، وخراب العراق من القحط

ابن جوزی نے اپنی کتاب روضة المشتاق والطريق إلى الملك الخلاق میں روایت ذکر کی کہ
حذيفة بن اليمان رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین کے کناروں سے
بربادی کی ابتداء ہو گی یہاں تک کہ مصر میں بھی بربادی ہو گی -مصر میں امن آئے گا جب بصرہ عراق میں بربادی
ہو گی اور بصرہ کی بربادی عراق سے ہو گی اور مصر کی بربادی نیل کے قحط سے ہو گی اور مکہ کی حبشہ سے ہو
گی اور مدینہ کی بھوک سے ہو گی اور یمن کی ٹڈی دل سے ہو گی اور الأيلة کی بربادی محاصرے سے ہو گی اور
فارس کی الصعاليك (لٹیروں) سے ہو گی اور ترک کی بربادی الدیلم (آذربیجان ) سے ہو گی اور الدیلم (آذربیجان ) کی
بربادی آرمینیا سے ہو گی اور آرمینیا کی بربادی الخزر سے ہو گی اور الخزر کی بربادی ترکوں سے ہو گی اور
ترکوں کی بربادی بجلی گرنے سے ہو گی اور سندھ کی بربادی ہند سے ہو گی اور ہند کی بربادی چین سے ہو گی اور
چین کی بربادی الرمل (ریت ) سے ہو گی اور حبشہ کی بربادی زلزلہ سے ہو گی اور الزوراء (عراق کا قدیم شہر ) کی
سفیانی سے ہو گی اور الروحاء کی بربادی دھنسنے سے ہو گی اور عراق کی بربادی قحط سے ہو گی

اس روایت کی مکمل سند نہ تو ابن جوزی نے پیش کی ہے نہ قرطبی نے پیش کی ہے

أبو عمرو الداني نے اپنی کتاب السنن الواردة في الفتن میں اس کی سند دی ہے

عبد المنعم بن إدريس، حدثنا أبي، عن وهب بن منبه

یہ سند مقطوع ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں جاتی اور سند سخت مجروح ہے
سند میں إدريس بن سنان اليماني ہے جو سخت ضعيف ہے جیسا ابن حجر کی التقريب. میں بیان ہوا ہے
اور اس کا بیٹا عبد المنعم بھی سخت مجروح ہے امام الذهبي کا الميزان میں کہنا ہے

مشهور قصاص، ليس يعتمد عليه. تركه غير واحد، وأفصح أحمد بن حنبل فقال: كان يكذب على وهب بن منبه. وقال البخاري:
ذاهب الحديث … قال ابن حبان: يضع الحديث على أبيه وعلى غيره
مشہور قصہ گو ہے ناقابل اعتماد ہے اس کو بہت سے محدثین نے ترک کیا ہے اور احمدبن حنبل نے وضاحت کی کہ
کہا کہ یہ وھب بن منبہ پر جھوٹ بولتا ہے اور امام بخاری نے کہا حدیث سے نکلا ہوا ہے اور ابن حبان نے کہا
حدیث گھڑتا ہے

اس روایت میں مہمل کلمات ہے جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ قول نبوی نہیں ہے- روایت گھڑنے والا علم جغرافیہ سے
ناواقف تھا مثلا روایت میں ہے کہ ترک کی بربادی الدیلم (آذربیجان ) سے ہو گی- مسلمانوں کی علم خغرافیہ سے متعلق
کتب میں موجود ہے کہ الدیلم (ازربیجان ) کے علاقے میں ترک آباد تھے اور یہ انہی کا علاقہ سمجھا جاتا تھا – آج
ترکمانستان ، ازربیجان وغیرہ تک اپنے آپ کو ترک نسل کا ہی بتاتے ہیں – اگے روایت میں ہے کہ ترکوں پر
الصواعق یعنی بجلی گرے گی وہ اس میں برباد ہوں گے ، جو کیوں ہے ؟ کوئی واضح قول نہیں ہے

الخزر ایک معدوم یہودی ریاست تھی جو
Caspian Sea
کے ساتھ آباد تھی – یہ ریاست معدوم ہوئی اور اس کے بسنے والے یورپ کی طرف کوچ کر گئے تھے

روایت میں ہے بصرہ کی بربادی عراق سے ہو گی جبکہ بصرہ دور نبوی میں سے آج تک عراق کا ہی علاقہ ہے

الزوراء (عراق کا قدیم شہر ) کو بھی عراق سے الگ کر کے بتایا گیا ہے جس طرح بصرہ کو بتایا گیا تھا

عرب خغرافیہ دان  السند  میں  کابل (موجودہ افغانستان ) تک کو شمار  کرتے تھے  – اس حوالہ پر راقم کی امام  مہدی سے متعلق  کتاب  کا ضمیمہ ملاحظہ کریں

یہ سب مہمل کلام ہے اس کو کسی صورت حدیث نبوی نہیں سمجھا جا سکتا – محدثین نے اس کی سند کو مجروح قرار
دیا ہے اور متن تاریخ و جغرافیہ سے ناواقفیت کا کھلا ثبوت ہے

لیکن موجودہ دور کے تنازعات میں بعض لوگ اس مکذوبہ روایت کو بار بار قول نبوی کہہ کر پیش کر رہے ہیں ان
بھائیوں سے درخواست ہے کم از کم سند اور متن کو مکمل سمجھ تو لیں کیا کہا جا رہا ہے
نہ کہ ہمارے رسول صادق و امین سے جھوٹ منسوب کرنے لگ جائیں

عرب علماء اس روایت کو رد کر رہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ان کے خوچہ چیں اہل حدیث چپ سادھے بیٹھے ہیں

لنک

لنک

لنک

شیعہ کتاب بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٤١ – الصفحة ٣٢٥ میں ہے

مناقب ابن شهرآشوب: وأخبر عليه السلام عن خراب البلدان، روى قتادة عن سعيد بن المسيب أنه سئل أمير المؤمنين عليه
السلام عن قوله تعالى: ” وإن من قرية إلا نحن مهلكوها قبل يوم القيامة أو معذبوها ” فقال عليه السلام في خبر طويل انتخبنا
منه: تخرب سمرقند وخاخ وخوارزم وإصفهان والكوفة من الترك، وهمدان والري والديلم والطبرية والمدينة وفارس بالقحط
والجوع، ومكة من الحبشة، والبصرة والبلخ بالغرق ، والسند من الهند والهند من تبت، وتبت من الصين، ويذشجان وصاغاني
وكرمان وبعض الشام بسنابك الخيل والقتل، واليمن من الجراد، و السلطان وسجستان وبعض الشام بالريح وشامان بالطاعون،
ومرو بالرمل وهرات بالحيات، ونيسابور من قبل انقطاع النيل، وآذربيجان بسنابك الخيل والصواعق، وبخارا بالغرق والجوع،
وحلم وبغداد يصير عاليها سافلها

سعيد بن المسيب نے علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کا قول ہے
وإن من قرية إلا نحن مهلكوها قبل يوم القيامة أو معذبوها
بستیوں میں ہیں جن کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک کریں گے اور عذاب دیں گے
پس علی نے جواب دیا ایک طویل خبر میں جس کے آخر میں فرمایا
ترک برباد کریں گے سمرقند اور خاخ اور خوارزم اور إصفهان اور الكوفة کو
اور بھوک و قحط ہلاک کرے گا همدان اور الري اور الديلم اور الطبرية اور المدينة اور فارس کو
اور مکہ کو حبشہ برباد کرے گا
اور بصرہ و بلخ غرق آب ہوں گے
اور سندھ کو ہند برباد کرے گا
اور ہند کو تبت برباد کرے گا
اور تبت کو چین برباد کرے گا
اور بذشجان وصاغاني وكرمان وبعض الشام کو قتل و غارت برباد کرے گی
اور یمن کو ٹڈی دل برباد کرے گا
اور السلطان وسجستان وبعض الشام کو ہوا برباد کرے گی
اور شامان الطاعون سے ہلاک ہو گا
اور مرو ریت میں دب جائے گا
اور هرات بچھووں سے برباد ہو گا
اور نيسابور برباد گا انقطاع نيل سے پہلے اور
آذربيجان خچروں اور بجلی گرنے سے اور بخارا بھوک سے اور غرق اب ہونے سے اور حلم وبغداد کا اوپر والا نیچے
کر دیا جائے گا

یہ بھی اسی قبیل کی چربہ روایت ہے اور قتادہ مدلس کا عنعنہ موجود ہے – باوجود تلاش کے شیعہ کتب میں اس کی
مکمل سند نہیں ملی تاکہ اصل شیعہ رواة کا علم ہو سکے

سامری کا مذھب ٢

 قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ سامری دجال نے قوم موسی کو گمراہ کیا ایک بت ایجاد کیا جس میں آواز بھی  آتی تھی –  جب موسی علیہ  السلام نے اس پر سوال کیا تو سامری بولا   (سورہ طہ ٩٦) –

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي

میں نے وہ چیز دیکھی تھی جو دوسروں نے نہ دیکھی پھر میں نے رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی مٹی میں لے کر ڈال دی

وہ علماء جو استدراج کے قائل ہیں انہوں نے اس کو نقش قدم   جبریل/موسی    یا جبریل کے گھوڑے  کے   قدم    کی مٹی  کی برکت قرار دیا ہے  – دوسری طرف   وہ علماء  جو   سامری   کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے انہوں نے اس کو محض ایک جھانسہ  قرار دیا ہے اور سامری کی دھوکہ بازی   والی تقریر   اور آواز کا بچھڑے  میں پیدا ہونا  صرف    کوئی   شعبدہ بازی

سامری کا مدعا تھا کہ اس کے عمل  کو کوئی  معجزہ سمجھا جائے کہ اس نے نقش قدم کی مٹی سے  بولنے والا پتلا  خلق کر دیا –  یہاں رسول سے مراد بعض نے جبریل علیہ السلام کو لیا ہے کہ فرشتہ کی برکت سے ایسا ممکن ہوا کہ بچھڑہ بولنے لگا اور بعض نے اس کو موسی علیہ السلام کے قدم کی برکت قرار دیا ہے – اور بعض نے جبریل کے گھوڑے  کا ذکر کیا ہے –

قتادہ بصری کا قول ہے کہ جبریل کے گھوڑے کی برکت سے بچھڑہ بولنے لگا تفسیر طبری میں ہے

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة (فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ) قال: كان الله وقَّت لموسى ثلاثين ليلة ثم أتمها بعشر، فلما مضت الثلاثون قال عدوّ الله السامري: إنما أصابكم الذي أصابكم عقوبة بالحلي الذي كان معكم، فهلموا وكانت حليا تعيروها (1) من آل فرعون، فساروا وهي معهم، فقذفوها إليه، فصوّرها صورة بقرة، وكان قد صرّ في عمامته أو في ثوبه قبضة من أثر فرس جبرائيل، فقذفها مع الحليّ والصورة (فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ) فجعل يخور خوار البقر، فقال (هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى) .

حدثنا الحسن، قال: أخبرنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا معمر، عن قتادة، قال: لما استبطأ موسى قومه قال لهم السامريّ: إنما احتبس عليكم لأجل ما عندكم من الحليّ، وكانوا استعاروا حليا من آل فرعون فجمعوه فأعطوه السامريّ فصاغ منه عجلا ثم أخذ القبضة التي قبض من أثر الفرس، فرس الملك، فنبذها في جوفه، فإذا هو عجل جسد له خوار، قالوا: هذا إلهكم وإله موسى، ولكن موسى نسي ربه عندكم.

حدثني أحمد بن يوسف، قال: ثنا القاسم، قال: ثنا هشيم، عن عباد، عن قَتادة مثل ذلك بالصاد بمعنى: أخذت بأصابعي من تراب أثر فرس الرسول

یہ   قتادہ    مدلس کے اقوال  ہیں اور یہ    اس کو کس سے معلوم ہوا خبر نہیں ہے کہ جبریل   کے گھوڑے  کی برکت سے ایسا ہوا

ابن عباس   رضی اللہ عنہ  سے بھی منسوب ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال: ثني محمد بن إسحاق، عن حكيم بن جبير، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: لما قذفت بنو إسرائيل ما كان معهم من زينة آل فرعون في النار، وتكسرت، ورأى السامري أثر فرس جبرائيل عليه السلام، فأخذ ترابا من أثر حافره، ثم أقبل إلى النار فقذفه فيها، وقال: كن عجلا جسدا له خوار، فكان للبلاء والفتنة.

اس کی سند میں ابن اسحاق مدلس ہے

تفسیر طبری میں  یہ قول  مجاہد کا بھی ہے کہ جبریل کے گھوڑے  کے قدم سے ایسا ہوا

حدثني محمد بن عمرو، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا عيسى; وحدثني الحارث قال: ثنا الحسن، قال: ثنا ورقاء جميعا، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، في قول الله: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا) قال: من تحت حافر فرس جبرائيل، نبذه السامريّ على حلية بني إسرائيل، فانسبك عجلا جسدا له خوار، حفيف الريح فيه فهو خواره، والعجل: ولد البقرة

اس کی سند میں      انقطاع ہے –  جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے

وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم

 أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد وإنما أخذه من القاسم بن أبي برة

امام ابن معین نے کہا کہ یحیی القطان نے دعوی کیا کہ ابن أبي نجيح نے تفسیر مجاہد سے نہیں سنی

مستدرک حاکم میں ہے

حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْحَارِثِ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَ إِسْرَائِيلُ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو السَّلُولِيُّ، وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” لَمَّا تَعَجَّلَ مُوسَى إِلَى رَبِّهِ عَمَدَ السَّامِرِيُّ فَجَمَعَ مَا قَدَرَ عَلَيْهِ مِنَ الْحُلِيِّ، حُلِيِّ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَضَرَبَهُ عِجْلًا، ثُمَّ أَلْقَى الْقَبْضَةَ فِي جَوْفِهِ، فَإِذَا هُوَ عِجْلٌ لَهُ خُوَارٌ فَقَالَ لَهُمُ السَّامِرِيُّ: هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَقَالَ لَهُمْ هَارُونُ: يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدُكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا. فَلَمَّا أَنْ رَجَعَ مُوسَى إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَقَدْ أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ أَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ فَقَالَ لَهُ هَارُونُ مَا قَالَ فَقَالَ مُوسَى لِلسَّامِرِيِّ مَا خَطْبُكَ؟ قَالَ السَّامِرِيُّ: قَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي. قَالَ: فَعَمَدَ مُوسَى إِلَى الْعِجْلِ فَوَضَعَ عَلَيْهِ الْمَبَارِدَ فَبَرَدَهُ بِهَا وَهُوَ عَلَى شِفِّ نَهَرٍ، فَمَا شَرِبَ أَحَدٌ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ مِمَّنْ كَانَ يَعْبُدُ ذَلِكَ الْعِجْلَ إِلَّا اصْفَرَّ وَجْهُهُ مِثْلَ الذَّهَبِ، فَقَالُوا لِمُوسَى: مَا تَوْبَتُنَا؟ قَالَ يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا. فَأَخَذُوا السَّكَاكِينَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَقْتُلُ أَبَاهُ وَأَخَاهُ وَلَا يُبَالِي مَنْ قَتَلَ حَتَّى قُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى مُرْهُمْ فَلْيَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لِمَنْ قُتِلَ وَتُبْتُ عَلَى مَنْ بَقِيَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

3434 – على شرط البخاري ومسلم

علی  نے کہا  سامری نے مورت بناتے وقت اس کے پیٹ میں مٹھی بھر پھینکا تو بیل بولنے لگا

سند میں  أَبُو إِسْحَاقَ مدلس   نے   عَنْ سے روایت کیا ہے  یہ روایت تدلیس کے احتمال کی وجہ سے صحیح نہیں ہے

اس طرح یہ تمام اقوال لائق التفات نہیں  ہیں –

مستدرک حاکم میں ہے کہ بچھڑے میں آواز ہارون علیہ السلام کی دعا سے پیدا ہوئی

حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ الْجُمَحِيُّ، بِمَكَّةَ فِي دَارِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنْبَأَ سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَى هَارُونُ عَلَى السَّامِرِيِّ وَهُوَ يَصْنَعُ الْعِجْلَ، فَقَالَ لَهُ: مَا تَصْنَعُ؟ قَالَ: مَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَعْطِهِ مَا سَأَلَكَ فِي نَفْسِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ يَخُورَ فَخَارَ، وَكَانَ إِذَا سَجَدَ خَارَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ خَارَ، وَذَلِكَ بِدَعْوَةِ هَارُونَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

3251 – على شرط مسلم

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہارون  ، سامری کے پاس پہنچے تو وہ   بچھڑہ   بنا رہا تھا – پوچھا یہ کیا ہے ؟ سامری بولا  یہ وہ  ہے جو نہ نفع دے گا نہ نقصان – ہارون   علیہ السلام نے دعا کی : اے اللہ  اس کو وہ دے جو اس نے خود مانگا  ہے پس جب جا نے لگے تو کہا : اے  اللہ    میں  سوال کرتا ہوں کہ    یہ   بیل کی آواز   نکالے  جب سجدہ کرے  جب سر اٹھائے  –   اور یہ سب  ہارون کی دعا سے ہوا

راقم  کہتا ہے اس کی سند  میں       سماك بن حرب  ضعیف ہے –  احمد کے نزدیک  مضطرب الحدیث  ہے

سنن الکبری  نسائی،  مسند ابو یعلی ،   میں ایک طویل روایت میں ہے جو ابن عباس سے مروی ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَصْبَغُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أني سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ عَنْ قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: {وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا} [طه: 40]، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْفُتُونِ مَا هُوَ؟ قَالَ: اسْتَأْنِفِ النَّهَارَ يَا ابْنَ جُبَيْرٍ، فَإِنَّ لَهَا حَدِيثًا طَوِيلًا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ لِأَنْتَجِزَ مِنْهُ مَا وَعَدَنِي مِنْ حَدِيثِ الْفُتُونِ، ……….. وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَاحْتَمَلَ مَعَ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ حِينَ احْتَمَلُوا،فَقُضِيَ لَهُ أَنْ رَأَى أَثَرًا فَأَخَذَ مِنْهُ قَبْضَةً، فَمَرَّ بِهَارُونَ، فَقَالَ لَهُ هَارُونُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا سَامِرِيِّ، أَلَا تُلْقِي مَا فِي يَدِكَ؟ وَهُوَ قَابِضٌ عَلَيْهِ لَا يَرَاهُ أَحَدٌ طُوَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَذِهِ قَبْضَةٌ مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ الَّذِي جَاوَزَ بِكَمُ الْبَحْرَ، فَلَا أُلْقِيهَا بِشَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَدْعُوَ اللهَ إِذَا أَلْقِيْتُ أَنْ يَكُونَ مَا أُرِيدُ، فَأَلْقَاهَا وَدَعَا لَهُ هَارُونُ، فَقَالَ: أُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عِجْلًا، فَاجْتَمَعَ مَا كَانَ فِي الْحُفْرَةِ مِنْ مَتَاعٍ أَوْ حِلْيَةٍ أَوْ نُحَاسٍ أَوْ حَدِيدٍ، فَصَارَ عِجْلًا أَجْوَفَ لَيْسَ فِيهِ رَوْحٌ لَهُ خُوَارٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا وَاللهِ، مَا كَانَ لَهُ صَوْتٌ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَتِ الرِّيحُ تَدْخُلُ مِنْ دُبُرِهِ وَتَخْرُجُ مِنْ فِيهِ، فَكَانَ ذَلِكَ الصَّوْتُ مِنْ ذَلِكَ

ابن عباس  رضی اللہ عنہ نے کہا : سامری ان میں سے تھا جو بنی اسرائیل کے لئے  گائے کے پجاری تھے مجاور تھا اور یہ خود بنی اسرائیل  کا نہ تھا پس یہ موسی اور بنی اسرائیل کے ساتھ   (خروج مصر   کے وقت )  ہو لیا – پس یہ لکھا تھا کہ وہ نقش قدم کو دیکھے اور سامری نے اس میں سے مٹی لی اور ہارون کا اس کے پاس گذر ہوا تو انہوں نے کہا : اے سامری یہ ہاتھ میں کیا ہے پھینکو ؟ وہ اس کو مٹھی میں پکڑے تھا جس کو کوئی دیکھ نہ سکتا تھا – سامری نے کہا    اس  مٹھی میں نقش رسول ہے جب سمندر پار کیا   تھا  تب  سے میں نے  اس کو نہیں پھینکا ہے  – اس کو میں اللہ سے دعا کر کے پھینکوں گا کہ وہ ہو جائے جو میں چاہ رہا ہوں –  پس  سامری  نے پھینکا اور ہارون نے  اس   کو  دعا دی – (سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ نے پوچھا) سامری نے کہا میں چاہتا ہوں تو  بچھڑہ  کی شکل لے  پس اس  نے جمع کیا جو گڑھے میں (مٹی ) تھی   زیور، دھواں، لوہا  اور بنایا اس سے بچھڑہ جس کے اندر روح نہیں تھی لیکن آواز تھی ؟ ابن عبّاس نے کہا نہیں اللہ کی قسم اس میں آواز بھی نہیں تھی بلکہ ہوا اس کی دبر سے اندر جاتی اور نکلتی تو آواز یہ تھی

سند میں  أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة-  دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ  مختلف فیہ راوی ہے –    اس   روایت میں کئی اقوال کو ملا دیا گیا ہے مثلا   یہ مانا گیا ہے کہ سامری نے واقعی  موسی   علیہ السلام کے  قدم کی مٹی لی – یہ بھی مانا گیا ہے کہ ہارون     علیہ السلام نے دعا دی اور یہ بھی مانا گیا ہے کہ  پتلے میں  آواز کا پیدا ہونا  صرف شعبدہ تھا- اس طرح اس میں تمام اقوال کو جمع کر دیا گیا ہے – البتہ اس راوی  أصبغ بن زيد   کا معلوم ہے کہ یہ کاتب  تھا اور یہ متن   کسی اور سند سے معلوم نہیں ہے لہذا یہ روایت بھی لائق التفات نہیں ہے

قال ابن كثير: وهو موقوف من كلام ابن عباس وليس فيه مرفوع إلا قليل منه، وكأنه تلقاه ابن عباس مما أبيح نقله من الإسرائيليات عن كعب الأحبار أو غيره، وسمعت شيخنا الحافظ أبا الحجاج المزي يقول ذلك أيضاً” التفسير3/ 153

 ابن کثیر نے کہا  یہ کلام ابن عباس پر موقوف ہے اور  اس کا کچھ حصہ مرفوع بھی ہے  مگر بہت تھوڑا –  اور ابن عباس نے  گویا  کہ روایت میں  کعب   الاحبار کی  الإسرائيليات  کو نقل کر دیا ہے اور دوسروں کی  اور ہمارے شیخ  المزی      بھی ایسا ہی کہتے ہیں
بحوالہ أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري  از  نبيل بن منصور  البصارة الكويتي

روایات میں ہارون علیہ السلام کا ذکر اسرائیلیات کا اثر ہے کیونکہ یہ بنی اسرائیل کا دعوی ہے کہ بچھڑے یا عجل  کا بت ہارون نے تراشا  – توریت خروج باب ٣٢ میں اس کا   ذکر ہے

 شیعوں کی تفسیر قمی  ،  تفسیر  طبرسی  وغیرہ میں بھی  اس کو قدم    رمکہ   جبریل   یعنی جبریل کے   گھوڑے   کے پیر کی مٹی کی  برکت قرار دیا گیا ہے  جو سامری  نے سمندر پھٹنے   پر     جو   رستہ بنا اس میں سے لی تھی    (من تحت حافر رمكه جبرئيل في البحر فنبذتها يعني أمسكتها فنبذتها في جوف العجل) –  اس قول کی سند   شیعہ  تفسیروں میں موجود  نہیں ہے

راقم کہتا ہے سامری کا یہ قول محض جھانسا دینا ہے – وہ موسی علیہ السلام کو ذہنی رشوت دے رہا ہے کہ گویا ابھی قوم کے سامنے موسی تم میری بات کو اس طرح قبول کر لو     کہ تمہاری برکت سے ایسا ہوا     اور ہم دونوں آپس میں مل جاتے ہیں-موسی علیہ السلام نے اس کو فورا بد دعا دے دی-   حبل اللہ  شمارہ     ٢١        (مدیر  اعظم   خان  ، نائب مدیر  انیس الدین ) میں اسی     کو  سامری   کی نفسیاتی   چا ل    قرار دیا گیا ہے نہ کہ جبریل  علیہ السلام یا موسی یا ہارون علیہما  السلام کا کوئی معجزہ    –

راقم  کہتا ہے   ایک جم غفیر نے  سامری  کے عمل کو موسی  علیہ السلام  یا    جبریل علیہ السلام کے گھوڑے    کے سم کی برکت قرار دیا ہے اور اس کو تابعین و اصحاب رسول کا قول کہہ  کر قبول کیا ہے – اسی گروہ  کے علماء   کا کہنا ہے کہ  کفار کو معجزہ   یا استدراج  من جانب اللہ ملتا ہے –  لیکن جیسا ہم نے دیکھا  یہ نتیجہ جن  روایات کی بنیاد پر   اخذ کیا گیا ہے وہ سندا صحیح نہیں ہیں  اور متن قران میں   بھی  کسی    دھوکہ باز  کے جملے ذکر   ہونے کا  مطلب یہ نہیں ہے وہ حقیقت  حال  ہیں  کیونکہ    جو  دھوکہ باز ہو وہ   دھوکہ دھی  کے لئے کچھ بھی بول سکتا ہے

سامری کا مذھب

قرآن مجید میں قوموں کا ذکر ہے کہ کس طرح انہوں نے شرک کو ترویج دی  – ان میں امت موسی میں ایک بنی اسرائیلی کا ذکر بھی ہے جس کو سامری کہا جاتا ہے  – اس کے بارے میں خبر دی گئی کہ جب موسی جبل طور پر کتاب الله توریت حاصل کرنے گئے اس وقت ہارون کو خلیفہ کر گئے اور سامری نے  فتنہ برپا  کیا اور دعوی کیا کہ اصل رب ایک بچھڑا ہے-اس  کی صنم گری کی گئی اور بنی اسرائیلی عورتوں نے اپنے زیور سامری کو دیے کہ ان کو پگھلا کر اس مورت کو ایجاد کرے – سامری کی صناعی و کاریگری کی بدولت اس مورت کے جسد میں سے بیل کی آواز بھی  انے لگی-یہ آواز سنتے ہی بنی اسرائیلی اس کو رب مان بیٹھے اور سجدوں میں گر گئے-اس سب کا ظاہر ہے کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن   اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس کا  تعلق راقم  کے نزدیک دجال سے ہو سکتا ہے

قرآن میں ہے

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ 

أور برجوں والا آسمان

سورہ الفرقان  میں ہے

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا

بابرکت ہے جس نے آسمان کو برجوں والا بنایا اور اس میں  چراغ رکھا اور چمکتا چاند

سورہ الحجر میں ہے

 وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ

اور بے شک ہم نے آسمان میں بروج بنا دیے اور ان کو دیکھنے والوں کے لئے مزین کر دیا

قرآن میں ہے کہ خود فرعون بھی کئی معبودوں کا قائل تھا   وہ مشرک تھا   سورہ المومن یا غافر میں ہے- رجل مومن نے جب تقریر کی تو کہا تم گمان کرتے تھے کہ  الله یوسف کے بعد کوئی رسول نہ بھیجے گا- اس کا مطلب ہوا کہ فرعون کوالله اور رسالت کا علم تھا لیکن وہ مصر میں جادو گروں کے ذریعہ سیاست کر رہا تھا

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ (34)

اور بے شک اس سے قبل یوسف نشانیاں لے کر آیا تم لوگ شک میں رہے جو وہ لایا یہاں تک کہ جب وہ ہلاک ہوا تم نے کہا اب الله یہاں کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا اس طرح الله گمراہ کرتا ہے جو حد سے گزر جائے 

معلوم ہوا ال فرعون کو الله کی الوہیت کا علم تھا اور ان کے نزدیک یوسف الله کے ایک نبی تھے

سورہ الاعراف میں ہے

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَقَوْمَهٝ لِيُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِـهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُـقَتِّلُ اَبْنَـآءَهُـمْ وَنَسْتَحْيِىْ نِسَآءَهُـمْۚ وَاِنَّا فَوْقَهُـمْ قَاهِرُوْنَ (127 

اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسٰی اور اس کی قوم کو چھوٹ دیتا ہے تاکہ وہ ملک میں فساد کریں اور (موسٰی) تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے، (فرعون نے) کہا ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے، اور بے شک ہم ان پر غالب ہیں۔

یعنی ال فرعون  الله کے ساتھ ساتھ اس کائنات میں دوسرے معبودوں کا وجود بھی مانتے تھے اور اس کا ذکر سورہ الاعراف میں ہے کہ وہ الله تعالی کو بھی انسانی معملات میں مداخلت کرنے والا سمجھتے تھے

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْـهِـمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالـدَّمَ اٰيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍۖ فَاسْتَكْـبَـرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ (133)
پھر ہم نے ان پر طوفان اور ٹدی اور جوئیں اور مینڈک اور خون یہ سب کھلے کھلے معجزے بھیجے، پھر بھی انہوں نے تکبر ہی کیا اور وہ لوگ گناہگار تھے۔
وَلَمَّا وَقَـعَ عَلَيْـهِـمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يَا مُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ۖ لَئِنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُـؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُـرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ (134)
اور جب ان پر کوئی عذاب آتا تو کہتے اے موسٰی! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر جس کا اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے، اگر تو نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا تو بے شک ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْـهُـمُ الرِّجْزَ اِلٰٓى اَجَلٍ هُـمْ بَالِغُوْهُ اِذَا هُـمْ يَنْكُـثُوْنَ (135)
پھر جب ہم نے ان سے ایک مدت تک عذاب اٹھا لیا کہ انہیں اس مدت تک پہنچنا تھا اس وقت وہ عہد توڑ ڈالتے۔

یعنی ان کے نزدیک موسی و یوسف کا رب بھی زمین کے  معاملات  دیکھ سکتا  تھا اور اسی طرح ان کے اپنے اور معبود بھی

راقم سمجھتا ہے کہ یہ دوسرے معبود ان کے نزدیک آسمان کے برج یا تارے   تھے  انہی برجوں کو مصریوں نے شکلیں دے کر پوجا ہے –  مصری مذھب کے مطابق کائنات  میں ١٢ برج ہیں جو اثر زیادہ رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ جو برج ہیں وہ بھی زمیں پر اثر کرتے ہیں

یہ معلومات مصری  مندر داندرہ

Dandera zodiac

سے ملتی ہے  جس کی چھت پر  برج بنے تھے

Dendera Zodiac   in the temple complex Hathor in Dendera.

دندرہ کے مندر میں جو منظر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  کائنات کی  ابتداء کے وقت برج سرطان  سے زمین گزری

زمین کا محور ایک دائرے میں گھوم رہا ہے اس کی مدت ٢٥٩٢٠ سال ہے اور یہ مصریوں اور ہندوؤں کے علم میں ہے – ہندو اسی ٢٥٩٢٠ سال کو کئی یگوں میں ٹورتے ہیں اور اس میں بیشتر کے نزدیک ابھی کالی یگ چل رہا ہے- مزید یہ کہ ہندو کہتے ہیں کہ زمین اصل میں سورج کے گرد نہیں کسی اور ستارے کے گرد ایک بیضوی فلک میں  گھوم رہی ہے جس کو سپر سن

Super Sun

کہتے ہیں -ایک برج کی مدت ٢١٦٠ سال ہے جس کو اعیان

Aeon

کہا جاتا ہے -بہر حال زمین کے قطب کو مسلسل نظر میں رکھنے کی وجہ سے  مصری بھی  یہ جانتے تھے کہ قطب   بدل جاتا ہے  ایک دور میں قطب نسر الواقع

Vega

تھا پھر ثعبان

ہوا – ثعبان  تارہ جس برج میں  ہے اس کو مصری ایک عورت و دریائی گھوڑے کی شکل میں بناتے تھے – دندرہ کے مندر میں زوداک میں بیچ میں یہی ہے یعنی جس وقت یہ مندر بنا اس وقت ثعبان  کا تارہ قطب شمالی تھا جس کے گرد زمین گھوم رہی تھی

 آجکل زمین کا  قطب شمالی  کا تارا

Phoenice

  ہے – سفر میں اس کی اہمیت تھی  کیونکہ زمین میں سمت کا تعین اسی سے کیا جاتا تھا

بہر حال دندرہ مندر جو مصر  میں  ہے اس  میں برجوں کی آمد کا جو ذکر ہے اس کے مطابق  برج    زمیں پر اثر کرتا ہے اس کو دور یا

age

کہا جاتا ہے

سامری نے جو یہ سب ایجاد کیا تو اس کے پیچھے کیا فلسفہ چل رہا تھا اس کی رسائی میں معلوم ہوتا ہے کہ اصلا یہ مصریوں کا مذھب تھا اور اہل مصر کے نزدیک آسمان کے رب کئی تھے جو بروج تھے  اور سامری کا دور اصل میں

Age of Taurus

تھا یا برج ثور کا دور تھا جس میں  اس ثور یا بیل کی پوجا کرنے کو صحیح سمجھا جا رہا تھا

اس وقت ثعبان قطب شمالی تھا لیکن چونکہ بنی اسرائیل پر بادل رہا ان کو آسمان پر سمت کا تعین نہیں ہو سکا اور اسی طرح دشت میں ہی بھٹکتے رہے

موسی علیہ السلام نے اس صنم ثور  جس کو قرآن میں عجل (بیل) کہا گیا ہے اس کو توڑ کر پیس دیا

آجکل کا دور

Age of Aquarius

کہا جاتا ہے یعنی برج دلو کا دور جس کا برجوں کے پجاری بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے اور سن ١٩٦٩   میں ایک گانے میں اس کا ذکر بھی ہے

When the moon is in the Seventh House

And Jupiter aligns with Mars

یہ آسمانی وقوعہ  اسی سال جنوری ٢٠١٨ میں ان کے مطابق  ہوا ہے  اور اس طرح آج ہم سب برج دلو کے دور میں آ چکے  ہیں

انہی برجوں کو دجالی لوگ  پہلے بھی استعمال کرتے رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ  مسیح الدجال  بھی  اس  کواستعمال  کرے و الله اعلم