ابن سبا نے اس امت میں عقیدہ رجعت کو پھیلایا (جس کو فرقوں نے عود روح کے نام پر قبول کیا ہوا ہے ) ساتھ ہی ابن سبا نے اس عقیدہ کا بھی پرچار کیا کہ قرآن کہتا ہے تمام انبیاء پر ایمان لانا ہے تو پھر ہم کیوں بنی اسرائیلی انبیاء کو نہ مانیں اور ان کی کتب کو قرآن پر ترجیج دیں مثلا داود علیہ السلام کی نسل میں جو انبیاء آئے
اور وہ جو الله پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر وہ سچے ہیں
ابن سبا کے نزدیک صرف زبان کا اقرار نہیں بلکہ ایمان کامل نہ ہو گا جب تک ان سابقہ انبیاء کے حکم پر عمل نہ کیا جائے – ابن سبا کے نزدیک قرآن کی بہت سی آیات دو مخالف الوحی کی موجودگی میں نہیں چلے گی مثلا قرآن میں ہے کہ حدود میں گواہ لاو – لیکن ابن سبا کے نزدیک یہ حکم داود علیہ السلام نے نہیں کیا ہے لہذا یہ گواہ طلب کرنا غیر ضروری ہوا – افسوس اس قسم کی سوچ کے چند اقوال اہل تشیع کی کتب میں در کر آئے ہیں
اہل تشیع کی کتاب كلمات الإمام الحسين (ع) الشيخ الشريفي ، مختصر بصائر الدرجات- الحسن بن سليمان الحليي میں ہے حدثنا إبراهيم بن هاشم، عن محمد بن خالد البرقي، عن ابن سنان أو غيره، عن بشير، عن حمران، عن جعيد الهمداني ممن خرج مع الحسين عليه السلام بكربلا، قال: فقلت للحسين عليه السلام جعلت فداك بأي شئ تحكمون. قال [عليه السلام]: يا جعيد نحكم بحكم آل داود، فإذا عيينا عن شئ تلقانا به روح القدس
جعيد الهمداني جو امام حسین علیہ السلام کے خروج کربلا میں ساتھ نکلے تھے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام حسین سے پوچھا کہ آپ کس بات کا حکم کرتے ہیں ؟ حسین نے فرمایا ہم ائمہ ال داود کے حکم پر حکم کرتے ہیں- جب ہم کسی چیز کو تلاش کرتے ہیں تو ہم پر روح القدس سے القا کیا جاتا ہے
معلوم ہوا کہ سبائیوں کے نزدیک حسین رضی اللہ عنہ قرآن کی سر بلندی کے لئے نہیں بلکہ شریعت داودی کی سر بلندی کے لئے خروج کر رہے تھے – جعيد الهمداني کا تذکرہ اہل سنت کی کتب میں موجود نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے یہ کوئی مجہول تھا
اہل تشیع کی کتاب الخرائج والجرائح از قطب الدين الراوندي میں امام ابو عبد اللہ کے کشف یا خواب کا ذکر ہے
وعن محمد بن عيسى بن عبيد ، عن صفوان بن يحيى ، عن أبي علي الخراساني ، عن أبان بن تغلب ، عن أبي عبدالله عليه السلام قال : كأني بطائر أبيض فوق الحجر ، فيخرج من تحته رجل يحكم بين الناس بحكم آل داود وسليمان ، ولايبتغي بينة أبان بن تغلب نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں میں ایک سفید پرندہ پر ہوں چٹان پر اور میرے قدم سے نکلا جو لوگوں پر حکم کرے گا ال داود و سلیمان کی طرح اور شہادت طلب نہیں کرے گا
شیعوں کی معجم أحاديث المهدي میں ہے
سيأتي من مسجدكم هذا يعني مكة ثلثمائة وثلث ( ثلاثة ) عشر رجلا ، يعلم أهل مكة أنه لم يلدهم آبائهم ولا أجدادهم ، عليهم السيوف مكتوب على كل سيف كلمة تفتح ألف كلمة ، تبعث الريح فتنادي بكل واد : هذا المهدي هذا المهدي ، يقضي بقضاء آل داود ولا يسأل عليه بينة
مسجد الحرام پر ٣٣٠ مرد آئیں گے جن کو اہل مکہ جانتے ہوں گے کہ یہ ان کے باپوں و دادا کی اولاد نہیں ان پر تلواریں ہوں گی جن پر ایک کلمہ لکھا ہو گا – اس کلمہ سے ہزار کلمے اور کھلیں گے ایک ہوا آئی گی جس سے وادی گونجے گی کہ یہ المہدی ہے یہ المہدی ہے یہ ال داود کے مطابق فیصلہ کرے گا اور گواہی طلب نہیں کرے گا
محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، عن محمد بن سنان ، عن أبان قال : سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول : – كما في رواية بصائر الدرجات الاولى . الارشاد : ص 365 – 366 – مرسلا ، عن عبدالله بن عجلان ، عنه عليه السلام ، إذا قام قائم آل محمد صلي الله عليه وآله حكم بين الناس بحكم داود عليه السلام لا يحتاج إلى بينة ، يلهمه الله تعالى فيحكم بعلمه ، ويخبر كل قوم بما استبطنوه ، ويعرف وليه من عدوه بالتوسم ، قال الله سبحانه : إن في ذلك لآيات للمتوسمين وإنها لبسبيل مقيم ” .
جب ال محمد قائم ہوں گے وہ لوگوں کے درمیان داود کے حکم پر حکم کریں گے ان کو شہادت کی ضرورت نہ ہو گی
مدعا یہ ہے کہ امام المہدی شریعت محمدی کے تحت فیصلہ کرنے کے پابند نہ ہوں گے بلکہ چونکہ قرآن میں تمام انبیاء کو ماننے کا ذکر ہے تو وہ اس میں شریعت داود پر عمل کریں گے
ابن سبا کا یہ تصور اصل میں داودی نسل سے مسیح کا تصور ہے جس کے یہودی منتظر تھے اور ان کے نزدیک اصلی مسیح کا ظہور نہیں ہوا ہے –
صحیح عقیدہ یہ ہے کہ ہم صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و شریعت کی اتباع کریں گے -سابقہ انبیاء کی شریعتون کو ہم مانتے ہیں کہ من جانب الله تھیں لیکن وقتی و محدود علاقوں کے لئے تھیں – شریعت محمدی تمام عالم کے لئے ہے
ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے شریعت محمدی تمام عالم کے لئے ہے کے موضوع پر لکھا ہے سابقہ انبیاء پر ایمان کا مطلب ان کی شریعتوں پر بلا دلیل سنت محمد (ص) عمل نہیں ہے
راقم کہتا ہے عثمانی صاحب نے اس کا انکار نہیں کیا ہے کہ تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے بلکہ مراد انکار اس سنت انبیاء کا ہے جس کی تائید سنت محمد میں نہ ہو – جہاں تک انبیاء سابقہ کی کتب کا تعلق ہے تو ان میں تین میں تحریف ہوئی یعنی توریت زبور اور انجیل میں ان کتب میں زبور داود علیہ السلام کی کتاب ہے اور اس کو اہل کتاب نے اشعار کی کتاب بنا دیا ہے جس میں جا بجا اصف بن برخیاہ نامی شخص کے اضافہ بھی ہیں – اصف ایک شخص تھا جس کوحشر اول سے قبل اشوریوں نے غلام بنایا لیکن شیعہ کہتے ہیں وہ علی رضی اللہ عنہ تھے اس دور میں اصف کے جسم سے جانے جاتے تھے
.مجھ سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھ کو معمر اور یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر چہرہ پر باربار ڈال لیتے پھر جب شدت بڑھتی تو اسے ہٹا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں فرمایا تھا، اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کو ان کے کئے سے ڈرانا چاہتے تھے۔
عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ نے کہا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے کہا اے الله ميري قبر کو بت مت بنا – الله کا غضب پڑھتا ہے اس قوم پر جو اپنے انبياء کي قبروں کو مسجد بنا دے
سن ٣٢٥ بعد مسیح کی بات ہے، قیصر روم کونستینٹین [1]کی والدہ فلاویہ اولیا ہیلینا آگسٹا[2] نے عیسائی مبلغ یسوبئوس [3]کو طلب کیا اور نصرانی دھرم کی حقانیت جاننے کے لئے شواہد طلب کیے- کونستینٹین نے اپنی والدہ کو نصرانی دھرم سے متعلق آثار جمع کرنے پر مقرر کیا یا بالفاظ دیگر ان کو آرکیالوجی کی وزارت کا قلمدان دیا گیا اور اس سب کام میں اس قدر جلدی کی وجہ یہ تھی کہ مملکت کے حکمران طبقہ نے متھرا دھرم[4] چھوڑ کر نصرانی دھرم قبول کر لیا تھا اور اب اس کو عوام میں بھی استوار کرنا تھا لہذا راتوں رات روم میں بیچ شہر میں موجود جوپیٹر یا مشتری کے مندر کو ایک عیسائی عبادت گاہ میں تبدیل کیا گیا اس کے علاوہ یہی کام دیگر اہم شہروں یعنی دمشق اور یروشلم میں بھی کرنے تھے – لیکن ایک مشکل درپیش تھی کہ کن کن مندروں اور مقامات کو گرجا گھروں میں تبدیل کیا جائے؟ اسی کام کو کرنے کا کونستینٹین کی والدہ ہیلینا نے بیڑا اٹھا لیا اور عیسائی مبلغ یسوبئوس کو ایک مختصر مدت میں ساری مملکت میں اس قسم کے آثار جمع کرنے کا حکم دیا جن سے دین نصرانیت کی سچائی ظاہر ہو-
عیسائی مبلغ یسوبئوس نے نصرانیت کی تاریخ پر کتاب بھی لکھی اور بتایا کہ ہیلینا کس قدر مذہبی تھیں[5] – یہ یسوبئوس ہی تھے جنہوں نے کونستینٹین کے سامنے نصرانیوں کا عیسیٰ کی الوہیت پر اختلاف پیش کیا اور سن ٣٢٥ ب م میں بادشاہ نے فریقین کا مدعا سننے کے بعد تثلیث [6]کے عقیدے کو پسند کیا اور اس کو نصرانی دھرم قرار دیا گیا- واضح رہے کہ کونستینٹین ابھی ایک کافر بت پرست ہی تھا کہ اس کی سربراہی میں نصرانی دھرم کا یہ اہم فیصلہ کیا گیا – کچھ عرصہ بعد بادشاہ کونستینٹین نے خود بھی اس مذھب کو قبول کر لیا-
بحر الحال، یسوبئوس نے راتوں رات کافی کچھ برآمد کر ڈالا جن میں انبیاء کی قبریں، عیسیٰ کی پیدائش اور تدفین کا مقام ،اصلی صلیب، یحیی علیہ السلام کے سر کا مقام، وہ مقام جہاں ہابیل قتل ہوا، کوہ طور، بھڑکتا شجر جو موسی کا دکھایا گیا اور عیسیٰ کے ٹوکرے جن میں مچھلیوں والا معجزہ ہوا تھا وغیرہ شامل تھے – یہودی جو فارس یا بابل میں تھے وہ بھی بعض انبیاء سے منسوب قبروں کو پوجتے تھے مثلا دانیال کی قبر وغیرہ- ان مقامات کو فورا مقدس قرار دیا گیا اور یروشلم واپس دنیا کا ایک اہم تفریحی اور مذہبی مقام بن گیا جہاں ایک میوزیم کی طرح تمام اہم چیزیں لوگوں کو دین مسیحیت کی حقانیت کی طرح بلاتی تھیں- یسوبئوس سے قبل ان مقامات کوکوئی جانتا تک نہیں تھا اور نہ ہی کوئی تاریخی شواہد اس پر تھے اور نہ ہی یہودی اور عیسائیوں میں یہ مشہور تھے- مسلمان آج اپنی تفسیروں ،میگزین اور فلموں میں انہی مقامات کو دکھاتے ہیں جو در حققت یسوبئوس کی دریافت تھے- سن ١٧ ہجری میں مسلمان عمر رضی الله عنہ کے دور میں ان علاقوں میں داخل ہوئے اور ان عیسائی و یہودی مذہبی مقامات کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا – یہاں تک کہ نبو امیہ کا دور آیا – خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور میں ان میں سے بعض مقامات کو مسجد قرار دیا گیا مثلا جامع الاموی دمشق جس میں مشہور تھا کہ اس میں یحیی علیہ السلام کا سر دفن ہے -اس سے قبل اس مقام پر الحداد کا مندر تھا پھر مشتری کا مندر بنا اور جس کو یسوبئوس کی دریافت پر یحیی علیہ السلام کے سر کا مدفن کہا گیا- اسی مقام پر نصرانیوں نے ایک گرجا بنا دیا اور اس میں ان کی عبادت ہونے لگی تھی – کہا جاتا ہے کہ جب مسلمان دمشق میں داخل ہوئے تو شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے اس کے ایک حصے میں مسلمان اپنی عبادت کرتے رہے جو جنوب شرقی حصے میں ایک چھوٹا سا مصلی تھا – لیکن مکمل گرجا پر عیسائیوں کا ہی کنٹرول تھا وقت کے ساتھ کافی لوگ مسلمان ہوئے اور ولید بن عبد الملک کے دور میں اس پر مسلمانوں نے مکمل قبضہ کیا-
مسجد دمشق جامع بنی امیہ میں یحیی علیہ السلام سے منسوب مقام
https://www.youtube.com/watch?v=kf6B1cKJFKg
ولید بن عبد الملک بن مروان کی تعمیرات
ولید نے کافی تعمیراتی کام کروایے ، لیکن ان سب کو اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا گیا – اگر ان کے سامنے یہ سب ہوتا تو وہ اس کو پسند نہ کرتے-وقت کے ساتھ مسلمانوں نے ان مقامات پر قبضہ کرنا شروع کیا جو بنیادی طور پر یسوبئوس کی دریافت تھے اور وہی قبریں جن سے دور رہنے کا فرمان نبوی تھا ان کو اس امت میں واپس آباد کیا گیا-
ابن بطوطہ المتوفی ٧٧٩ ھ کتاب تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار میں لکھتے ہیں
وفي وسط المسجد قبر زكرياء عليه السلام ، وعليه تابوت معترض بين أسطوانتين مكسو بثوب حرير أسود معلّم فيه مكتوب بالأبيض:” يا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى
اور مسجد کے وسط میں زکریا علیہ السلام کی قبر ہے اور تابوت ہے دو ستونوں کے درمیان جس پر کالا ریشمی کپڑا ہے اس پر لکھا ہے سفید رنگ میں یا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى
کہیں اس کو یحیی علیہ السلام کی قبر کہا جاتا ہے کہیں اس کو زکریا علیہ السلام کی قبر کہا جاتا ہے بعض کتاب میں اس کو هود علیہ السلام کی قبر بھی کہا گیا ہے- کتاب فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ) کے مطابق
أخبرنا عبد الرحمن بن عمر حدثنا الحسن بن حبيب حدثنا أحمد بن المعلى حدثنا أبو التقي الحمصي حدثنا الوليد بن مسلم قال لما أمر الوليد بن عبد الملك ببناء مسجد دمشق كان سليمان بن عبد الملك هو القيم عليه مع الصناع فوجدوا في حائط المسجد القبلي لوح من حجر فيه كتاب نقش فأتوا به الوليد بن عبد الملك فبعث به إلى الروم فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى العبرانيين فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى من كان بدمشق من بقية الأشبان فلم يقدر أحد على أن يستخرجه فدلوه على وهب بن منبه فبعث إليه فلما قدم عليه أخبروه بموضع ذلك الحجر الذي وجدوه في ذلك الحائط ويقال إن ذلك الحائط من بناء هود النبي عليه السلام وفيه قبره
ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ جب ولید بن عبد الملک نے مسجد دمشق بنانے کا ارادہ کیا تو سلیمان بن عبد الملک اس پر مقرر کیا جو کاریگروں کا کام دیکھتے تھے اور ان کو ایک پتھر کی لوح ملی مسجد کے صحن سے جس پر نقش تھے اور اس کو ولید بن عبد الملک کو دکھایا گیا جس نے اس کو روم بھجوایا ان سے بھی حل نہ ہوا پھر یہودیوں کو دکھایا ان سے بھی حل نہ ہوا پھر دمشق کے بقیہ افراد کو دکھایا اور کوئی بھی اس کے حل پر قادر نہ ہوا پس اس کو وھب بن منبہ پر پیش کیا انہوں نے کہا کہ یہ دیوار هود کے دور کی ہے اور یہاں صحن میں ان کی قبر ہے
الغرض صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین اس مقام کو گرجا کے طور پر ہی جانتے تھے اور ایسی مسجد جس میں جمعہ ہو کے لئے یہ جگہ معروف نہ تھی-
مینار بنانا ایک عیسائی روایت تھی، جس میں راہب اس کے اوپر بیٹھتے اور عبادت کرتے اور باقی لوگوں کو اوپر انے کی اجازت نہیں ہوتی تھی- کتاب أخبار وحكايات لأبي الحسن الغساني از محمد بن الفيض بن محمد بن الفياض أبو الحسن ويقال أبو الفيض الغساني (المتوفى: 315هـ) کی ایک مقطوع روایت ہے
يَحْيَى بْنِ يحي کہتے ہیں کہ جب الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ نے کنِيسَةِ مَرْيُحَنَّا کو گرانے کا ارادہ کیا اور اس کی جگہ مسجد کو بنانے کا تو وہ کنِيسَةِ میں آئے اور مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ پر چڑھے جو السَّاعَاتِ کے نام سے معروف ہے جن میں راہب نُوبِيٌّ تھا … پس عیسائی بڑھییوں نے کہا اے امیر المومنین ہم خوف زدہ ہیں کہ ہم کو کوئی برائی نہ پہنچے پس ولید نے کہا تم سب ڈرتے ہو اوزار لاؤ پھر محراب الْمَذْبَحِ پر گئے اور وہاں ضرب لگائی جس پر بہت اثر ہوا پھر مسلمان چڑھے اور انہوں نے ضرب لگائی اور اس کو گرایا اور ولید نے عیسائیوں کو کنِيسَةِ کی جگہ….. دوسرا مقام دیا
بنو امیہ کا مقصد قبر پرستی نہیں تھا – ان کا مقصد سیاسی تھا کہ عیسائیوں کو ان کے معبد خانوں سے بے دخل کرنا تھا کیونکہ وہ شہروں کے بیچ میں تھے اور اہم مقامات پر تھے – لیکن انہوں نے ان عیسائیوں کے اقوال پر ان کو انبیاء کی قبریں مان لیا اور ان کو مسجد میں بدل دیا گیا – جو مقامات یسوبئوس نے دریافت کیے تھے ان کو بغیر تحقیق کے قبول کر لیا گیا جبکہ نہ کوئی حدیث تھی نہ حکم رسول- اگلی صدیوں میں ان مقامات کو قبولیت عامہ مل گئی – تاریخ بیت المقدس نامی کتاب میں جو ابن جوزی تصنیف ہے اس میں مصنف نے بتایا ہے یہاں کس کس کی قبر ہے جو روایت بلا سند کے مطابق جبریل علیہ السلام نے بتایا
هذا قبر أبراهيم، هذا قبر سارة، هذا قبر إسحاق، هذا قبر ربعة، هذا قبر يعقوب، هذا قبر زوجته
انہی قبروں کو یہود و نصاری نے آباد کر رکھا تھا جن پر کوئی دلیل نہیں تھی -اب انہی قبروں کو مسلمانوں نے آباد کر رکھا ہے اور تصور قائم رکھا ہوا کہ یہاں عیسیٰ کا نزول ہو گا – ایسی جگہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول کیوں ہو گا جہاں انبیاء کی قبریں کو پوجا کی گئی ہو اور ابھی تک یہ مزارات وہاں موجود ہیں
جامع مسجد الاموی کا مینار جو بقول ابن کثیر سن ٧٤١ ھ میں سفید پتھر سے بنا یا گیا
مسجد دمشق وہی مقام ہے جو انبیاء کی قبروں سے منسوب ہے اور یہاں اصلا ایک چرچ تھا جس کو بنو امیہ نے مسجد بنا دیا – فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ) میں ہے
وأخبرنا تمام قال: حدثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ المعلى حدثنا القاسم بن عثمان قال: سمعت الوليد بن مسلم وسأله رجل يا أبا العباس أين بلغك رأس يحيى بن زكريا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بلغني أنه ثم وأشار بيده إلى العمود المسفط الرابع من الركن الشرقي.
ولید بن مسلم نے ایک شخص کے سوال پر کہ یحیی کا سر (مسجد دمشق میں ) کہاں ہے کہا کہ مجھ تک پہنچا پھر ہاتھ سے چوتھے ستون کی طرف رکن شرقی کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ہے
یکایک یہ دریافتیں شاید دمشق کی اہمیت بڑھانے کے لئے تھیں کہ امت دمشق کو بھی مقدس سمجھے اور وہاں جا کر ان مقامات کو دیکھے[7]، جبکہ موطا ور بخاری و مسلم میں انبیاء کی ان نام نہاد قبروں کا وجود و خبر تک نہیں
عیسیٰ دمشق میں نازل ہوں گے
عیسیٰ علیہ السلام اپنے نزول پر کہاں ظاہر ہوں گے اس پر نصرانیوں کا اختلاف ہے – ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام دمشق میں ظاہر ہوں گے – پروٹسٹنٹ فرقے کے بقول یروشلم میں اور کیتھولک فرقے کے مطابق روم میں-
مسیح کی آمد ثانی کو نصرانی
Parousia, the Second Coming of Christ
کہتے ہیں– شام، لبنان ، اردن فلسطین میں آج بھی ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ کا زور ہے اور وہاں کے تمام قدیم چرچ اسی فرقہ کے کنٹرول میں ہیں –
یسعیاہ باب ١٧ میں ہے
An oracle concerning Damascus.
Behold, Damascus will cease to be a city
and will become a heap of ruins
اور دمشق پر پیشنگوئی ہے کہ خبردار دمشق شہر نہ رہے گا اور کھنڈر بن جائے گا
اس آیت کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ کی آمد سے پہلے دمشق جنگ سے اجڑا ہو گا –
نصرانی کہتے ہیں کہ عیسیٰ صلیب پر فوت ہوئے اور دوبارہ زندہ ہوئے اور دمشق کے رستے میں لوگوں پر ظاہر ہوئے – ان کے جھوٹے رسول پاول نے خبر دی کہ دمشق کے رستہ میں عیسیٰ نے حکم دیا کہ جاو تبلیغ کرو- پاول کے بقول پہلی بار زندہ مسیح دمشق کے رستے میں ظاہر ہوا – عرب نصرانیوں جن کی اکثریت
Eastern Orthodox Church
کی ہے ان میں یہ بات مشہور چلی آئی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے – اس کی وجہ یہ ہے کہ صلیب کے بعد سینٹ پال کے بقول اس نے دمشق کے راستہ میں سب سے پہلے جی اٹھنے والے مسیح کو دیکھا تھا – اس بنا پر عرب نصرانی اس کے منتظر ہیں کہ آمد ثانی پر بھی عیسیٰ دمشق کے پاس ظاہر ہوں گے – ایسٹرن آرتھوڈوکس نصرانی کہتے ہیں کہ دمشق میں نزول ثانی کے بعد عیسیٰ فاتحانہ انداز میں گھوڑے کی سواری کر کے یروشلم میں داخل ہوں گے – مسجد الاقصی جائیں گے وہاں یہود یا تو آپ کو مسیح تسلیم کر لیں گے یا قتل ہوں گے – اس کو بائبل کی کتب یرمیاہ و زکریا سے اخذ کیا گیا ہے – چند سال پہلے پوپ بینی ڈکٹ
Pope Benedict
نے جب دمشق کا دورہ کیا تو ویٹی کن کے ایک کارندے نے اخباری نمائندوں کو اس کی یہی وجہ بتائی کہ یہ نصرانی روایات ہیں کہ عیسیٰ نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے جس کو راقم نے خود ایک ڈوکومینٹری میں سنا-
مسلمانوں میں مشہور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول صدر دمشق میں جامع مسجد الاموی پر ہو گا جس کا مینار سفید ہے – البتہ دور بنو امیہ کی مشہور جامع الاموی کا مینار سفید نہیں تھا – کتاب النهاية في الفتن والملاحم میں ابن کثیر کا کہنا ہے
وقد جدد بناء المنارة في زماننا في سنة إحدى وأربعين وسبعمائة من حجارة بيض ، وكان بناؤها من أموال النصارى الذين حرقوا المنارة التي كانت مكانها ، اس مینار کی تجدید کی گئی ہمارے دور میں سن ٧٤١ ھ میں کہ اس کو سفید پتھر کا کیا گیا اور اس کو اس مال سے بنایا گیا جو نصرانییوں کا تھا جنہوں نے اصل مینار کو جلا دیا جو پہلے یہاں تھا
کتاب البداية والنهاية ج ١٣ / ص ١٧٥ پر ابن کثیر نے لکھا
وفي ليلة الأحد الخامس والعشرين من رجب وقع حريق بالمنارة الشرقية فأحرق جميع حشوها وكانت سلالمها سقالات من خشب وهلك للناس ودائع كثيرة كانت فيها وسلم الله الجامع وله الحمد وقدم السلطان بعد أيام إلى دمشق فأمر بإعادتها كما كانت قلت ثم احترقت وسقطت بالكلية بعد سنة أربعين وسبعمائة وأعيدت عمارتها أحسن مما كانت ولله الحمد وبقيت حينئذ المنارة البيضاء الشرقية بدمشق كما نطق به الحديث في نزول عيسى عليه السلام عليها
اور اتوار رجب کی ٢٥ تاریخ کو شرقی مینار میں اگ لگی اور یہ سب جل گیا بس اس کے کچھ لکڑی کے ڈنڈے رہ گئے … اور اللہ نے مسجد کو بچا لیا اس کا شکر ہے اور سلطان چند روز بعد دمشق تشریف لائے اور انہوں نے اس کی تعمیر نو کا حکم کیا جیسا یہ پہلے تھا – میں کہتا ہوں یہ جلا اور تمام گر گیا تھا پھر سن ٧٤١ ھ کے بعد اور اسکی تعمیر نو کی گئی اچھی طرح و للہ لحمد اور اب یہ باقی ہے سفید مینار کے طور پر جیسا حدیث نزول عیسیٰ میں بولا گیا ہے
تفسیر ابن کثیر میں ابن کثیر کا قول ہے
وفيها دلالة على صفة نزوله ومكانه ، من أنه بالشام ، بل بدمشق ، عند المنارة الشرقية ، وأن ذلك يكون عند إقامة الصلاة للصبح وقد بنيت في هذه الأعصار ، في سنة إحدى وأربعين وسبعمائة منارة للجامع الأموي بيضاء ، من حجارة منحوتة ، عوضا عن المنارة التي هدمت بسبب الحريق المنسوب إلى صنيع النصارى – عليهم لعائن الله المتتابعة إلى يوم القيامة – وكان أكثر عمارتها من أموالهم ، وقويت الظنون أنها هي التي ينزل عليها [ المسيح ] عيسى ابن مريم ، عليه السلام
ان روایات سے عیسیٰ کے نزول کی صفت اور مکان کا معلوم ہوا کہ وہ شام میں ہے بلکہ دمشق میں ہے سفید مینار کے پاس اور یہ ہو سکتا ہے نماز فجر کے وقت اور عصر حاضر میں سن ٧٤١ ھ میں جامع الاموی کا مینار سفید کیا گیا اس پتھر کو لیا گیا جو فن صناعی میں استعمال ہوتا ہے – اس سے مینار کو بنایا گیا جو منسوب ہے کہ نصرانییوں کی حرکت سے جلا ان پر اللہ کی متعدد لعنت ہو قیامت تک اور اکثر تعمیر ان کے ہی اموال سے کی گئی اور ان گمانوں کو تقویت ملی کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا اس پر نزول ہو گا
ابن کثیر کے اقوال سے معلوم ہوا کہ اصل مینار لکڑی کا تھا جو جل گیا لیکن بعد میں یہ سمجھتے ہوئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اس مسجد پر ہو گا اس کو سفید پتھر کا کیا گیا
راقم کہتا ہے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اس مقام پر ممکن نہیں جہاں انبیاء کی قبروں پر مسجد ہو
——————————–
[1] Constantine I full name Flavius Valerius Aurelius Constantius Herculius Augustus (272 – 337 AD) age 65
عبد الملک بن مروان اور ولید بن عبد الملک کی جانب سے یہ یہ سب عبد اللہ ابن زبیر رضی الله عنہ کی مخالفت میں کیا گیا تاکہ لوگ مکہ و مدینہ کے سفر کی بجائے دمشق میں ہی رہیں اور اس کو بھی ایک مقدس مقام سمجھیں – اس پر بحث مولف کی کتاب روایات المہدی تاریخ اور جرح و تعدیل کے میزان میں کی گئی ہے
راقم سن ٢٠٠٠ ع سے روایات مہدی و مسیح پر تحقیق کر رہا ہے – راقم اپنی تحقیقات کو حرف آخر نہیں کہتا بلکہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جہت میں مزید باب کھلیں گے اگر مسئلہ مہدی پر غیر جانبداری سے تحقیق ہو- افسوس امام ابن خلدون نے مسئلہ پر کلام کیا تھا لیکن ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا – یہ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ اپنے عبقری اذہان کی ناقدری کرتے ہیں – اس کتاب کو ٢٠١٥ میں اس ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا- کتاب میں صرف اہل سنت کے نظریہ مہدی پر غور کیا گیا ہے جس کو بعض لوگ عقیدہ سمجھ رہے ہیں – نظریہ مہدی کے پس پردہ کیا مذہبی و سیاسی افکار ہیں ؟ ان پر غور کیا گیا ہے – اس کی جڑیں وہ احادیث و آثار ہیں جو محدثین نے اپنی کتابوں میں سب سے آخر میں نقل کیں -کتاب میں تاریخی حقائق کے میزان پر روایات مہدی کا جانچا گیا ہے – اس سلسلے میں رہنمائی جرح و تعدیل کی کتب سے ملتی ہے کہ متقدمین محدثین اس سلسلے میں کسی بھی مرفوع قول نبوی کو صحیح نہیں قرار دیتے تھے مثلا امام وکیع بن جراح اور عبد الرحمان بن المہدی وغیرہ
عصر حاضر میں شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد پر ایک گروہ مدینہ میں مہدی تلاش کر رہا ہے اور اپنا مخالف کوئی اصفہانی فارسی دجال بتاتا ہے – دوسری طرف شیعہ ہیں جنہوں نے امام مہدی کو مافوق الفطرت قرار دے دیا ہے جو ابھی تک اپنے غار میں ہیں
مسلمانوں میں اس بنا پر مشرق وسطی کا پورا خطہ خون کی ہولی میں نہا رہا ہے – اپنی سیاست کی بساط احادیث رسول و اہل بیت کے نام پر بچھا کر نوجوانوں کو شطرنج کے مہروں کی طرف جنگ و جدل میں دھکیلا جا رہا ہے – داعش اور اس قبیل کی فسادی تنظیموں نے عراق میں خلافت بھی بنا لی ہے اور ابھی نا معلوم کتنی معصوم مسلمان لڑکیوں کو خلیفہ کی مخالفت کے جرم میں لونڈی بنایا جا رہا ہو گا ؟ پتا نہیں کس کا سر کاٹا جا رہا ہو گا ؟ اور دلیل روایت سے لی جا رہی ہو گی – اب یہ تو ظاہر فساد ہے اور پس پردہ معصوم بنے یہ علماء ہیں جو چپ سادھے لونڈی کو کھنگالنے والی روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں کہ اس کو سر بازار کھول کر دیکھا جا سکتا ہے – افسوس شام کے عرب محقق البانی اس طرح کی روایات کو صحیح الاسنا د کہہ گئے ہیں – شام کے فضائل پر کتابیں جو لوگ بھول چلے تھے البانی نے ان پر تعلیق لکھی– اور نهایة العالم (عالم کا اختتام ) نام کی کتب نے لوگوں کو اس طرف لگا دیا کہ قرب قیامت ہے ، مہدی انے والا ہے – ساتھ ہی مدخلیت (ربیع المدخلی سے منسوب تکفیری سوچ) مدینہ سے نکلی جو ایک وبا کی طرح عربوں میں پھیلی اور مصر سے یہ تکفیری سوچ عرب سے ہوتی اسامہ بن لادن کے ساتھ افغانستان پہنچی اور ایک وبا کی طرح عالم اسلام میں پھیلی
اب ایک کے بعد ایک مہدی آ رہے ہیں اور آئیں گے
ایک عام مسلمان آخر کیا کرے – مسئلہ کے حل کے لئے کہاں جائے؟ مسجدوں میں محراب و منبر سے نظریہ مہدی کی تبلیغ کی جاتی ہے اور دعوی کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے کی تمام احادیث صحیح ہیں – ہر بدلتی صدی میں قائلین ظہور مہدی کے تضاد لا تعداد ہیں مثلا ایک روایت جو ثوبان رضی الله عنہ سے مروی ہے اس کے مطابق عرب کے مشرق سے ، خراسان سے جھنڈے آئیں گے اور ان میں الله کا خلیفہ المہدی ہو گا – اس روایت کو متقدمیں محدثین رد کرتے تھے – لیکن بعد میں لوگ آئے جنہوں نے علم چھپایا اور اس روایت کو صحیح کہا – اس کے بعد خراسان میں طالبان آ گئے – مخالف حلقوں میں اب ثوبان والی روایت ضعیف قرار پائی اور واپس وہی محدثین کی آراء پیش کرنے لگ گئے کہ یہ روایت صحیح نہیں – ام سلمہ رضی الله عنہا سے مروی ایک حدیث ہے کہ تین خلفاء کے بیٹوں میں فساد ہو گا وغیرہ (اس کی تفصیل کتاب میں ہے) اس کو البانی نے ضعیف کہا تھا لیکن اس کو صحیح مان کر کتابوں میں پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ حوثی نکل آئے اب واپس البانی کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ یہ ضعیف تھی – اس طرح مہدی و مسیح کے نام پر سیاست جاری ہے جس میں علماء پس پردہ کام کر رہے ہیں
راقم کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کاش یہ علماء دیدہ بینا کے ساتھ اس ظلم سے کنارہ کشی کرتے
اے کاش
ہمارے گراں قدر ناقدین نے ہماری توجہ چند کتب کی طرف کرائی ہے – ایک عبد العليم البستوي کتاب الاحاديث الواردة في المهدي في ميزان الجرح والتعديل ہے جو مدینہ یونیورسٹی میں ایک مقالہ کے طور پر لکھی گئی تھی اور دوسری کتاب مہدی علیہ السلام سے متعلق صحیح عقیدہ میں عبد الہادی عبد الخالق مدنی جو سعودی عرب میں الاحسا ء سے چھپی ہے – اس کے علاوہ اردو میں اس مسئلہ مہدی پر جو کتب ہیں ان سے بھی استفادہ کیا گیا ہے – لہذا محقیقن کی آراء کو کتاب هذا میں حواشی میں اور بعض مقام پر متن میں شامل کر دیا گیا ہے تاکہ قارئین کے آگے صرف ہماری رائے ہی نہ ہو تو وہ پوری دیانت سے جو راقم کہنا چاہتا ہے اس کو سمجھ سکیں
الله مومنوں کا حامی و ناصر ہو اور ان کو شر اور فتنہ مہدی و دجال سے محفوظ رکھے
قرن اول میں امت میں ایک عقیدہ پھیلایا گیا جس کو عقیدہ الرجعة یا رجعت کہا جاتا ہے – اس عقیدے کے اہل سنت انکاری ہیں اور شیعہ اقراری ہیں- عقیدہ الرجعة کیا ہے کتب شیعہ سے سمجھتے ہیں
سوره البقرہ کی آیت ألم تر إلى الذين خرجوا من ديارهم وهم ألوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم أحياهم إن الله لذو فضل على الناس ولكن أكثر الناس لا يشكرون(243) پر بحث کرتے ہوئے شیعہ عالم أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي المتوفی ٤٦٠ ھ تفسیر التبيان في تفسير القرآن میں لکھتے ہیں
وفي الاية دليل على من أنكر عذاب القبر والرجعة معا، لان الاحياء في القبر، وفي الرجعة مثل إحياء هؤلاء الذين أحياهم للعبرة.
اور اس آیت میں دلیل ہے اس پر جو عذاب قبر کا اور رجعت کا انکار کرے کیونکہ قبر میں زندہ ہونا اور رجعت میں ان کی مثل ہے جن (کا ذکر آیت میں ہے جن کو) کو عبرت کے لئے زندہ کیا گیا
آیت فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم ألا خوف عليهم ولاهم يحزنون(170) کی تفسیر میں أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ لکھتے ہیں
وفي الآية دليل على أن الرجعة إلى دار الدنيا جائزة لاقوام مخصوصين
اور اس آیت میں دلیل ہے کہ دار دنیا میں مخصوص اقوام کی رجعت جائز ہے
آیت ثمَّ بَعَثْنَكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكمْ تَشكُرُونَ(56) کی تفسیر میں شیعہ عالم تفسیر میں تفسير مجمع البيان لکھتے ہیں
و استدل قوم من أصحابنا بهذه الآية على جواز الرجعة و قول من قال إن الرجعة لا تجوز إلا في زمن النبي (صلى الله عليه وآله وسلّم) ليكون معجزا له و دلالة على نبوته باطل لأن عندنا بل عند أكثر الأمة يجوز إظهار المعجزات على أيدي الأئمة و الأولياء و الأدلة على ذلك مذكورة في كتب الأصول
اور ہمارے اصحاب کی ایک قوم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے رجعت کے جواز پر اور کہا کہ جس نے کہا رجعت جائز نہیں ہے سوائے دور نبوی صلی الله علیہ و الہ وسلم کے کہ وہ معجزہ ہوتا ان کی نبوت کی دلیل پر تو یہ باطل قول ہے کیونکہ ہمارے اکثر ائمہ اور اولیاء کے ہاتھ پر معجزات کا ظہور جائز ہے جس پر دلائل مذکورہ کتب اصول میں موجود ہیں
ائمہ شیعہ کے مطابق الرجعة کا ایک خاص وقت ہے جس کا انکار لوگوں نے کیا کیونکہ وہ اس کی تاویل تک نہیں پہنچ سکے
قرآن کی آیت ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام لوگوں کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں اور اہل تشیع کے مطابق صرف ان دشمنان اہل بیت کو ملی ہیں جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا
تفسیر نور ثقلین از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق
وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة
علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے
اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کو زندہ کرے گا
حزقی ایل کی کتاب میں رجعت کا ذکر ہے کہ یہود کو کس طرح جی بخشا جائے گا
Behold I will open your graves and raise you from your graves, My people; and I will bring you into the Land of Israel. You shall know that I am G‑d when I open your graves and when I revive you from your graves, My people. I shall put My spirit into you and you will live, and I will place you upon your land, and you will know that I, G‑d, have spoken and done, says G‑d.” (Ezekiel 37:12-14)
خبردار میں تمہاری قبریں کھول دوں گا اور تم کو جی بخشوں گا میرے لوگ! اور میں تم کو ارض مقدس لاؤں گا
تم جان لو گے کہ میں ہی الله ہوں میں قبروں کو کھولوں گا
آور تم کو ان میں سے اٹھاؤں گا میرے لوگ ! میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا
اور تم زندہ ہو گے اور میں تم کو تمہاری زمین پر رکھوں گا اور تم جان لو گے کہ میں رب نے جو کہا پورا کیا
ان آیات کی بنیاد پر یہود کہتے ہیں کہ مسیح مردوں کو بھی زندہ کرے گا اور یہی عقیدہ اہل تشیع کا بھی ہے جس کی قلمیں قرانی آیات میں لگائی گئیں تاکہ اس عقیدہ کو ایک اسلامی عقیدہ ثابت کیا جا سکے
لہذا قرن اول میں یہ عقیدہ شیعوں میں پھیل چکا تھا اور اہل سنت اس کا انکار کرتے تھے کہ رجعت ہو گی البتہ کچھ شیعہ عناصر نے اس کو بیان کیا جو کوفہ کے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کے شاگرد تھے- اب اپ کبری صغری کو ملائیں – ابن سبا عثمان رضی الله عنہ کے دور میں یمن سے حجاز آیا اپنا عقیدہ پھیلانے لگا اور وہاں سے مصر اور عراق میں آیا- اسی دوران ابن مسعود کی وفات ہوئی عثمان کی شہادت ہوئی اور علی خلیفہ ہوئے – تاریخ دمشق کے مطابق وہاں کوفیوں میں ابن سبا بھی تھا جس نے ایک دن مجمع میں علی سے کہا
انت انت
تو، تو ہے
یعنی تو اے علی رب العالمین ہے – اس کی وضاحت کے لئے ویب سائٹ پر کتاب مجمع البحرین دیکھیں
کتاب رجال ابن داود از ابن داوود الحلي کے مطابق
عبدالله بن سبا ي (جخ) رجع إلى الكفر وأظهر الغلو (كش) كان يدعي النبوة وأن عليا عليه السلام هو الله، فاستتابه عليه السلام (ثلاثة أيام) فلم يرجع فأحرقه في النار في جملة سبعين رجلا ادعوا فيه ذلك
عبد الله بن سبا ان ستر میں تھا جن کو جلا دیا گیا
الکشی کہتے ہیں امام جعفر نے کہا
أن عبدالله بن سبأ كان يدعي النبوة ويزعم أن أمير المؤمنين ( عليه السلام ) هو الله
ابن سبا نبوت کا مدعی تھا اور دعوی کرتا تھا کہ علی وہ الله ہیں
کتاب خلاصة الاقوال از الحسن بن يوسف بن علي بن المطهر الحلي کے مطابق
عبدالله بن سبا بالسين المهملة والباء المنقطة تحتها نقطة واحده غال ملعون حرقه أميرالمؤمنين عليه السلام بالنار كان يزعم أن عليا عليه السلام إله وأنه نبي لعنه الله.
عبد الله بن سبا کو علی نے جلوا دیا کیونکہ اس نے ان کو الہ کہا
بعض مستشرقین نے یہودی سازش کی چھپانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس ابن سبا کی حکایت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ ضعیف ہے اس کے بعد شیعہ حضرات بہت خوش ہوئے اور اپنے ائمہ پر جھوٹ گھڑنے کا اتہام لگا دیا جو ابن سبا کا ذکر کرتے آئے ہیں – اہل سنت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ سے بعض روایات ابن سبا سے متعلق لی گئی ہیں لیکن کیا کتب شیعہ میں ابن سبا کی تمام خبریں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ کی سند سے ہیں ؟ نہیں ان کے مختلف راوی ہیں جو ثقہ سمھجے جاتے ہیں اور متقدمیں شیعہ ابن سبا کو ایک حقیقی شخص سمجھتے آئے ہیں- اس کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں ٢٠ سے ٣٠ راوی ایسے ہیں جو کھلم کھلا اپنے اپ کو سبائی کہتے ہیں یا محدثین إن کو السبئية یا السبائية مين شمأر کرتے ہیں یا وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں – جن میں سے بعض سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ سے پہلے کے ہیں
السبئية سے متعلق روایات کو محمد بن حنفیہ کے بیٹے علی بن محمد بن علی نے جمع کیا تھا یعنی علی رضی الله عنہ کے پوتے نے اس کی خبر امام فسوی المعروفة والتاريخ میں دیتے ہیں
وكان عَبد الله جمع أحاديث السبئية
اور عبد الله نے السبئية کی روایات جمع کیں
مورخین کے نزدیک السبئية سے مراد وہ قبائل بھی ہیں جو یمن میں آباد تھے اور وہیں سے ابن سبا کا تعلق تھاجو یمن سے کوفہ پہنچا اور مورخین کے مطابق اس کی ماں کالی تھی – یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ یہ اصلی یہودی بھی نہیں تھا کیونکہ یہود کے مطابق کالے لوگ اصلی یہود نہیں اگرچہ اتھوپیا میں کالے یہودی ہیں لیکن باقی یہودی ان کو اصل نہیں مانتے دوسرا یہود میں نسل باپ سے نہیں ماں سے چلتی ہے
قرن اول میں کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں شیعہ زاذان ہیں جو عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی وفات کے بعد اب اصحاب علی میں سے ہیں، وہ روایت کرتے ہیں کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان سے پہلے، نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے
اس روایت کو زاذان سے ایک اور متعصب شیعہ المنھال بن عمرو روایت کرتا ہے یا عدی بن ثابت روایت کرتا ہے یہ بھی شیعہ ہیں
اس طرح ابن سبا کے عقیدہ رجعت کا اسلامی عقیدہ کے طور پر ظہور ہوتا ہے اور اب اہل سنت میں بھی مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے- عود روح کی روایت کے مطابق روح آسمان پر نہیں جا سکتی لھذا وہ قبر میں ہی رہتی ہے گویا اب صرف انتظار ہے کہ الساعہ (وہ گھڑی) کب ہو گئی – اہل سنت جب اس روایت کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں اس میں الساعہ سے مراد روز محشر ہے جبکہ الساعہ سے مراد رجعت ہے اسی لئے امام المہدی کو القائم کہا جاتا ہے جو صحیح غلط کا فیصلہ کریں گے اور انتقام لیں گے
شیعہ کتب کے مطابق ابوحمزہ ثمالي کہتے ہیں: میں نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا: اے فرزند رسول کیا آپ سارے ائمہ قائم بالحق نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں؟ میں نے عرض کیا: تو پھر صرف امام مہدی کیوں القائم قرار دیئے گئے ہیں اور صرف امام مہدی کو ہی کیوں القائم کہا جاتا ہے؟ فرمایا: جب میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو کائنات کے فرشتوں کے رونے کی صدائیں بلند ہوئیں اور سارے فرشتے بارگاہ الہی میں شدت سے روئے اور عرض کیا: پروردگارا کیا آپ بہترین بندے اور اشرف مخلوقات کے فرزند اور مخلوقات میں پسندیدہ ترین ہستی کے قاتلوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دے گا؟ اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی کہ: میرے فرشتوں پرسکون ہوجاؤ۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ ان سے انتقام لونگا خواہ یہ انتقال طویل زمانے گذرنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو؛ اس کے بعد اللہ تعالی نے فرشتوں کو امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے آنے والے ائمہ کا دیدار کرایا تو فرشتے مسرور ہوئے اور سب نے اچانک دیکھا کہ ائمہ میں سے ایک امام کھڑے ہوئے ہیں اور نماز ادا کررہے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرشتوں سے خطاب کرکے فرمایا: میں اس القائم کے ذریعے ان سے انتقام لوں گا
اس طرح عقیدہ عود روح ابن سبا کے دور میں ہی کوفہ میں شیعان علی میں پھیل چکا تھا – یہ ایک خفیہ تحریک تھی علی رضی الله عنہ کو بھی اس تحریک کا احساس دیر سے ہوا جب ابن سبا نے کھلم کھلا ان کو مجمع میں رب العالمین کہا- علی نے اس کے اصحاب کو مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا اور بعض اور کو جلا ڈالا – جس کی خبر، علی کے گورنر ، ابن عباس رضی الله عنہ کو بصرہ میں ہوئی لیکن دیر ہو چکی تھی ابن عباس نے کہا اس عمل سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا تھا
الغرض عقیدہ رجعت اور عقیدہ عود روح ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں- اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں
مرجان مصطفى سالم الجوهري المتوفی ١٤٣٦ ھ / ٢٠١٥ جس كا قلمي نام أبو عمرو عبد الحکیم حسان تھا اس نے کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان لکھی جس میں اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا – اس شخص نے اہرام مصر اور آثار قدیمہ کو منہدم کرنے کا فتوی دیا یہ مصر میں قید میں ٢٠١٥ میں ہلاک ہوا – یہ كلية أصول الدين جامعہ ازہر کا طالب علم تھا اور بعد میں افغانستان میں ملا عمر کا استاد تھا – یہ یمن سے افغانستان منتقل ہوا اور سلفی جہادی سوچ رکھتا تھا- اس شخص نے جماعة الجهاد الإسلامي کی بنیاد رکھی اور حکمرانوں کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے مزاحمت کے دوران معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا – سن ٢٠٠٣ میں اس کی سوچ کا علمبردار اسامہ بن لادن تھا جس کو سفید گھوڑے پر سوار دکھایا جاتا یا گویا وہ افغانوں کا مہدی تھا جو قدیم خراسان سے ظاہر ہونے کو تھا – ان کے پشتبان طالبان اس کے سحر میں گرفتار تھے جو اپنے آپ کو انہی جھوٹی موضوع روایات کا محور سمجھ رہے تھے جو ظہور مہدی کے حوالے سے ہیں جن کو سلفی و دیوبندی حضرات نے تعویذ کی طرح گلے میں ڈال رکھا ہے سلفی جہادی ابن تیمیہ کی متشدد سوچ سے ابھرنے والی تنظیمیں ہیں جن کی پشت پر بہت سے عرب علماء ہیں اور ان کے ہتھیار کے طور پر برصغیر و افغانستان کے مسلمان ردعمل ظاہر کرتے ہیں – دوسری طرف برصغیر کے دیوبندی حلقوں میں بھی امام مہدی کا چرچا تھا یہاں سرفراز خان صفدر اپنی کتاب توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام میں لکھ رہے تھے کہ طالبان نما مخلوق مسیح علیہ السلام کے ساتھ خواب میں دیکھی- مفتی شامزی نے بھی امام مہدی پر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں کیا موضوع روایت ہوتی کیا مدلس راوی ہوتا ہے ان کو اس سے کوئی سرورکار نہ تھا – بس ایک تلاطم روایات تھا جس میں صحیح اور غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز مٹ چکی تھی- الغرض مدرسوں میں ایک کلائمیکس کا وقت تھا علماء کا سرور دیکھنے والا تھا اور نوک قلم سے جھلک رہا تھا
لیکن افسوس ایک عفریت اپنے عقب سے نکلنے کو تھا- شوق جہاد میں نظر و فکر کے تجزیے رخصت پر جا چکے تھے اور مہدی آخر الزمان کی رن میں آمد کے نوبت کے شور میں سلفی و دیوبندی عوام واپس سنن اربع کی کتب کو کھنگال کر روایات مہدی جمع کررہی تھیں
کہتے ہیں جب کسی چیز کا وقت نہ ہو اور اس کا انتظار کیا جائے تو اس کا ردعمل ختم نہیں ہوتا ہمارے لئے اہل کتاب کی تاریخ تھی کہ کس طرح ہر دور میں مسیح کا انتظار کرتے رہے اور اصلی تک کو قتل کرنے کے در پے ہوئے کہ علماء کی رائے اصلی مسیح کی رائے سے موافقت نہ رکھتی تھی – علمائے یہود نے اس کا حل نکالا کہ الله کو مجبور کر دو کہ مسیح کو بھیجے لہذا جنگ کی اگ بھڑکاو – جنگ ہو گی مسیح آئے گا (جس کے لئے الله قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اس کو بجھا دیتا ہے) – یہی انداز ان جہادی گروہوں کا ہوا کہ جہاد کرو مہدی آئے گا گویا ایک شعر پر ایمان لائے کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے – جبکہ یہ شعر ہی غلط ہے یہ شاعرانہ بات ہے وحی الہی نہیں-
علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں
سن ٧٠ کی دہائی میں مطووں کی فوج میں سے ایک، محمد بن عبد الله القحطانی کو خیال آیا کہ میں مہدی ہوں ایک جماعت کثیر کو لیا حرم پر قابض ہوا اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے جہنم واصل ہوا – اس کے ساتھ جن علماء کا اٹھنا بیٹھنا تھا ان کو بچا لیا گیا کچھ واپس برصغیر بھی پہنچے- اس وقت اس دبی چنگاری کو بجھا دیا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن سلفی علماء اپنے من پسند لوگوں کو بچا لے گئے- ایک عالم عبد الله بن زيد آل محمود المتوفی ١٤١٧ ھ نے سچ بولتے ہوئے المہدی کی روایات کو کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر میں رد کیا اور صاف کہا کہ یہ ایک اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد سلفی سوچ واپس متحرک ہوئی اور عبد العزيز بن عبد الله بن باز کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ) نے اپنی کتاب الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر میں عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا اور اگر آپ کتاب دیکھیں تو ٤١١ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کوئی علمی بات نہیں ایک منقطع روایت کو دس سے اوپر دفعہ لکھا گیا ہے کہ اس کی سند جید ہے – افسوس درس حدیث دینے والے چوٹی کے علماء میں اتنی قابلیت نہیں کہ ایک دفعہ ہی سند چیک کر لیں بھلا کیا روایت ہے سنئے مسند الحارث بن أبي أسامة کی روایت ہے
حدثنا إسماعيل بن عبد الكريم، حدثنا إبراهيم بن عقيل، عن أبيه، عن وهب بن منبه، عن جابر -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «ينزل عيسى ابن مريم، فيقول أميرهم المهدي: تعال صلِّ بنا، فيقول: لا، إن بعضهم أمير بعض، تكرمة الله لهذه الأمة
جابر رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک عیسیٰ ابن مریم نازل ہونگے اور ان سے امیر المہدی کہیں گے آ جائیں نماز پڑھائیں پس وہ کہیں گے نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں اللہ نے اس امت کی تکریم کی ہے
یہ روایت منقطع ہے- کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل کے مطابق
وهب بن منبه قال بن معين لم يلق جابر بن عبد الله
وهب بن منبه کے لئے ابن معين کہتے ہیں ان کی ملاقات جابر بن عبد الله سے نہیں ہوئی
اس کتاب میں ابن معین کہتے ہیں وھب کی روایت ابن جابر سے ایک کتاب سے تھی ، یہ بھی کہا ان کے پاس ایک صحیفہ تھا
هو صحيفة ليست بشيء
وہ صحیفہ کوئی چیز نہیں
حمود بن عبد الله اس کتاب میں بس یہی راگ لاپتے رہے کہ ابن قیم اس کا ذکر کتاب المنار المنيف میں کرتے ہیں کہتے ہیں وهذا إسناد جيد اس کی سند جید ہے – مسلک پرستی یہ نہیں تو اور کیا ہے
انہی حلقوں میں ایک رجحان مدخلیت بھی ہے- یعنی اس سلسلے میں اس قدر لٹریچر آ موجود ہوا ہے کہ الہی توبہ جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ایڈونچرازم کا درس ہے – تکفیر ہے – مغربی ملکوں میں پڑھنا حرام ہے، ان کی سیر حرام ہے، ان میں جانا حرام ہے – ضابطہ اخلاق اور تہذیب کا عملا جنازہ ہی اٹھا دیا گیا ہے اور ہر جانب سے نئے افکار کو پیش کیا جا رہا ہے کسی کو شام میں اب سفیانی نظر آ رہا ہے (یہ بھی ضعیف روایت ہے ) – ایک اور بات جو ان گروہوں میں مشترک ہے وہ ہے کفار و اہل کتاب سے دوستی کی بحث
اب ہم پوچھتے ہیں
ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا
کیا آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا
جب مسلمان کا دوسروں سے معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں
اہل کتاب سے شادی ہو سکتی ہے دوستی نہیں! مطلب آپ بات سمجھ نہ پائے
بقول حافظ
چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطاست
سخن شناس نئی ، دلبرا، خطا اینجاست
بعض آیات کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا
ایک اور کتاب دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار یا الولاہ و البراء از صالح بن الفوزان میں بھی اسی خارجی طرز کا انداز ہے موصوف غیر مسلموں کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے حتی کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو کاتب کی نوکری تک نہ دی جائے (صفحہ ١٨ اور ١٩)- جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بنو امیہ کے خلفاء نے اہل کتاب کو اپنی بیرو کریسی میں شامل کیا انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا لیکن یہ روایت بیہقی شعب ایمان کی ہے
اسباط بن نصر روایت کرتا ہے سماک سے وہ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ سے وہ ابو موسی سے کہ عمر رضی الله عنہ نے ان کے نصرانی کاتب پر تعجب کیا اور دلیل میں سوره ممتحنہ اور المائدہ کی آیات سنائی
اسکی سند میں سماک بن حرب کا تفرد ہے کتاب المختلطين از العلائي کے مطابق وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن حجة
نسائی کہتے ہیں جس میں یہ منفرد ہو وہ حجت نہیں ہے دوم اسباط بن نصر خود ایک ضعیف راوی ہے
صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩) ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں
اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے
اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے
ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی
اصل میں اس قبیل کے علماء کا غلطی یہ ہے کہ آیات کو جو مشرکین مکہ کے لئے تھیں ان کو آج کل کے اہل کتاب پر لگا دیتے ہیں اور جو احکام اہل کتاب کے لئے تھے ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں اور جو ان کی نہ سنے اس کو منافق قرار دے دیتے ہیں اور مسند رسالت پر براجمان ہونے کی کوشش میں ہیں اگرچہ زبان سے اس کے انکاری ہیں لیکن وہ عمل جو خالص وحی الہی سے ہی ممکن ہیں ان کی تلقین کرتے پھرتے ہیں مثلا کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے اختلاف ہوا تو اس پر مرتد کا فتوی جڑنا ، ان کی بیویوں کو علیحدگی کا حکم دینا ، ان کے حمل گروانا ، پھر معاشی بائیکاٹ اور کوئی انکی پارٹی کا جوان مرد عامی ذہین اٹھ کر ایسے صحیح العقیدہ مخالفین کو قتل کر دے تو اس گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا
اس خوف و دہشت میں رہنے والے علماء جس تفسیاتی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اسی میں اپنے معتقدین کو بھی مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ دین تو نصیحت کا نام ہے کچھ اور نہیں
مشرکین مکہ کا دھرم ختم ہوا تو وہ ایک فطری عمل تھا- اس پر نوشتہ دیوار آ چکا تھا لوگ جوق در جوق اسلام میں آ رہے تھے پرانے مندروں کے بچے کچھے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان کے بت توڑے اور مندر ڈھا دیے گئے لیکن یہ صرف عرب میں ہوا- مسلمانوں نے مصر فتح کیا لیکن فرعونوں کی مورتیاں آج تک باقی رہیں – کسی من چلے کو خیال نہ آیا کہ ان تو توڑا جائے- یہ آج ان سلفی علماء کو ہی خیال کیوں آیا؟ بدھآ کے بتوں تو نہیں توڑا گیا اور عباسی خلافت تک آتش کدہ نوبہار البوزی میں اگ جلتی رہی – ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کو اسی وقت بجھا دیا جاتا
مدینہ کی سیاست ایک وقتی نوعیت کی چیز تھی- جس میں منافق اور یہود کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ تھا جس میں ان کا مقصد تھا کہ رسول الله کو کسی طرح مشرکین مکہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے اور ہم واپس مدینہ کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس کا منصوبہ الگ تھا اس تناظر میں آیات نازل ہوئیں کہ جس نے رسول الله کی مخالفت کی وہ منافق ہے اور کافر سے درپردہ دوستی سے منع کیا گیا وہ دور گزر گیا
امت مسلمہ اتنی وسیع ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس کو کوئی ختم نہ کر سکے گا لہذا علماء کو چاہیے اس نفسیاتی خوف سے باہر نکلیں اور تہذیب کے دائرے میں بین المذآھب ڈائلاگ کرنا سیکھیں