Category Archives: فقہ – Fiqah – Religious Discourses

فقہی مسالک  ممنوع  ہیں ؟

عام  بول چال   میں مذھب  کا  مطلب دین  لیا  جاتا ہے  لیکن   فقہ کی کتب  میں مذھب  کا  مطلب  فقہ  کے چار اماموں  میں سے کسی  ایک امام کی اتباع  کرنا  ہے – یعنی اس امام سے منسوب  فقہ پر منبی طریقے  سے  نماز  پڑھنا ، طلاق  و  وراثت وغیرہ  کا فیصلہ  کرنا –  اس طرح  الگ  الگ  منہج  پر  لوگ ایک ہی امام کے متبع  یا ایک ہی  مذھب  پر ہو سکتے ہیں

عملی مسائل  میں اختلاف  رائے  کی دین  میں اجازت ہے – فقہی مسائل  میں اصحاب  رسول تک  میں اختلاف  موجود تھا – اس کو غیر شرعی  کہنے والا  جاہل  ہے – یہ معلوم تھا کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا  ہے  اور یہ بھی معلوم  تھا کہ  مسلسل نہیں کیا ہے –    لہذا بعض  شہروں  میں فقہ صحابہ کی وجہ سے سجدوں  تک میں رفع الیدین  کیا جاتا تھا  اور بعض شہروں  میں سرے سے ہی نہیں  کیا جاتا تھا – اصحاب رسول  میں کوئی کسی کو اس پر  نہیں روکتا ٹوکتا  تھا

قرن  دوم  میں  البتہ  اس پر محدثین  کا  اختلاف  واقع  ہو چکا  تھا – امام ترمذی  کے نزدیک  کوفہ   میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے   طریقہ  کے تحت نماز  پڑھنا    “بھی ” درست  تھا کہ رفع الیدین نہیں کیا  جاتا تھا  –  امام  بخاری  سختی سے رفع الیدین  کے قائل تھے  اور  اس کا پر چار کرتے تھے –  راقم  نے جب  بھی ڈاکٹر عثمانی کے پیچھے نماز پڑھی  انہوں نے وہ    امام بخاری  کی طرح  نہیں بلکہ  کوفہ کے مذھب کے تحت پڑھی جبکہ وہ صحیح بخاری  کا درس دینے والے تھے –  کہنے کا مقصد ہے کہ فقہ  میں اختلاف  موجب عذاب نہیں ہے ، یہ مسلمانوں  پر سہولت  ہے  جو عمل پسند ہو کر سکتے ہیں

فقہی مذہب یا عملی مسائل   میں  حنبلی ، شافعی ، مالکی ،  حنفی   ان  میں کسی ایک کو اختیار کرنا  شرعا  ممنوع  نہیں ہے –  جو امر  ضروری ہے   وہ یہ کہ اس کو دیکھا جائے کہ کہیں  ایسا  نہ ہو  کہ ایک آدمی دین  میں سہولت  کے نام پر  جب چاہے  آسانی والا راستہ لے – مثلا کوئی اپنی بیوی کی تین طلاق ایک ہی وقت میں دے اور پھر غیر مقلدوں کی طرح کہے کہ وہ صحیح مسلم کی  (منکر ) روایت پر عمل  پیرا  ہے، تین طلاق  نہیں ہوئیں اور  بعد  میں یہی شخص  حنفی طریقہ  پر  کوئی عمل کرے تو  تو ایسا شخص  مضل ہے،  یہ شریعت سے  کھلواڑ کر رہا   ہے – اس  کا دعوی  غیر  تقلیدی  محض  ایک دھوکہ ہے

معلوم  ہوا کہ نہ تو منہج  بری  چیز  ہے نہ  فقہی مذھب  بری  چیز  ہے –  جو  بات  نا پسندیدہ  ہے وہ اعتقادی  اختلاف  ہے – اسی سے فرقہ  بنتا ہے –  اعتقاد  میں اختلاف  کرنے کی صورت  میں فرقہ  آٹومیٹک  بن جاتا ہے – ظاہر  ہے  الگ الگ عقیدہ پر قائم  لوگوں کو  ایک گروہ  نہیں قرار دیا جا سکتا – البتہ ان  گروہوں کے  مجموعہ کو  اسلامی  کتب  میں اکثر اوقات  ایک لیا جاتا ہے – مثلا  اہل سنت  کے متعدد فرقے ہیں – متکلمین  ان کو ایک ہی چھت  کے تحت ذکر  کرتے ہیں – امام  ابو حسن اشعری کی مقالات الاسلامیین  دیکھی  جا سکتی ہے ، جس  میں وہ  اہل سنت ، روافض  اور خوارج   کا عقائد میں تقابل کرتے ہیں  – رافضیوں  کے آپس  میں بہت سے اعتقادی  اختلاف ہیں لیکن  ان سب کو  کتب  اہل سنت  میں  محض شیعہ کہہ دیا   جاتا ہے – یہی انداز  کتب اہل سنت  میں خوارج کے فرقوں  کے حوالے سے ہے – ان فرقوں  کی تحلیل نفسی  بر  جگہ نہیں کی جاتی کہ  لوگوں کو الگ الگ کر کے سمجھایا جائے کہ یہ راوی یا شخص  شیعہ  ہے تو کون سا شیعہ ہے –

اہل سنت سے  مراد  وہ  فرقے ہیں جو دینی مسائل میں   ابو  بکر  و عمر و عثمان  رضی اللہ عنہم  کی سنت کو درست سمجھتے ہیں   یعنی   ابو  بکر  ، عمر  ،  عثمان کے کیے گئے  فیصلے ان کی نگاہ میں درست ہیں – خوارج و شیعہ  ان کو قابل قبول نہیں جانتے

اس طرح  کسی فرقہ کو محض  اہل سنت  میں سے قرار دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ صحیح عقیدے پر بھی ہے – آج صوفی فرقے ہوں یا  غیر  صوفی فرقے ہوں  دونوں اپنے آپ کو اہل سنت  میں سے قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ  نہ شیعہ ہیں نہ خارجی ہیں  – اس  حد  تو ان کی بات قابل قبول  ہے  –  لیکن  تفصیل  میں جانے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اہل سنت  میں اعتقادی  اختلافات بہت  شدید نوعیت  کے ہیں – اسی وجہ سے آج ان کی درسگاہیں ، مساجد  الگ کی گئی ہیں

ڈاکٹر  عثمانی  رحمہ اللہ علیہ   آخری  عمر  تک   فقہ  حنفی  کے طریقہ  پر  نمازیں پڑھاتے  تھے  اور اسی فقہ کے تحت  فروع میں  حکم کرتے تھے  مثلا یہ فاتحہ  خلف الامام  کے  خلاف فتوی دیتے   تھے   جبکہ امام  بخاری  کا مذھب امام  کے پیچھے  مقتدی کا   فاتحہ پڑھنے  پر ہے –  ڈاکٹر  عثمانی  رحمہ اللہ علیہ  علمی  حلقوں  میں  حنفی  مذھب  پر  جانے جاتے  تھے  – امام ابو  حنیفہ کی اتباع   مذھب و عقیدے  دونوں  میں  کرتے  تھے – کتاب  ایمان  خالص قسط دوم  میں  انہوں نے کئی  مرتبہ اپنے آپ کو فخر  سے امام  ابو حنیفہ  کے عقیدے  پر بتایا ہے –   راقم ان کی نماز  و فتووں سے واقف  ہے کہ وہ بھی  فقہ  حنفی  کے تحت  دیے گئے ہیں – فروعی مسائل  میں عثمانی صاحب  نہ تو  امام شافعی کی پیروی  کرتے تھے نہ امام مالک کی نہ امام  بخاری کی  – اس کی وجہ یہ تھی  کہ وہ خود ملتان  کے   حنفی  مدرسہ سے فارغ التحصیل  تھے  اور  فروع  میں ان کا  حنفی فرقوں  سے کوئی اختلاف نہ تھا

ان کی وفات کے بعد  بعض  غیر سنجیدہ مقرروں  نے جو غیر مقلدین کی  سوچ سے متاثر  ہوئے انہوں  بیان کرنا شروع کیا کہ  اسلام میں نہ کوئی حنفی ہوتا ہے،  نہ مالکی ہوتا ہے، نہ شافعی  ہوتا ہے ، نہ جنبلی ہوتا ہے   بلکہ صرف مسلم  ہوتا ہے – یہ قول  سطحیت پر ،   نا  سمجھی پر  منبی  تھا –  مذھب اربعہ  کو  خلاف اسلام کسی نے قرار نہیں دیا  – نہ ڈاکٹر عثمانی نے کہیں  لکھا  ہے کہ  وہ ان  فقہی  آراء یا  تقلید امام ابو حنیفہ   کے خلاف ہیں

 

کیا ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے؟

137 Downloads

ایمان میں کمی و زیادتی کا قول

گناہ کبیرہ کرنے والا فاسق ہے یا کافر ہے ؟ اس سوال پر محدثین و فقہاء کا اختلاف چلا آ رہا ہے – راقم کے نزدیک گناہ کا تعلق ایمان سے نہیں ہے – یہ بحث بہت اہم ہے کیونکہ القاعدہ و داعش لٹریچر میں بعض محدثین کے اقوال سے دلیل لی جاتی ہے

اس  کتاب میں مزید مباحث  ہیں مثلا  تارک نماز کی تکفیر اور  منگول مسلمانوں  کی تکفیر   غلط کی گئی   تھی

 

یہ سوال اس امت میں سن ١٥٠ ہجری کے  بعد پیدا ہوا –  يه بحث اس طرح شروع ہوتی ہے کہ خوارج کے نزدیک بعض صحابہ گناہ کبیرہ کے مرتکب تھے لہذا ان میں ایمان ختم تھا  – اس پر امام ابو حنیفہ کی رائے لوگوں سے منقول ہے کہ ایمان زبان سے اقرار کا نام ہے  گناہ سے ایمان کم نہیں ہوتا – الإرجاء کا مذھب اسی سے نکلتا ہے کہ صحابہ میں ایمان کم نہیں ہوا وہ جہنمی نہیں ہیں بلکہ گناہ کبیرہ والے بھی ایمان والے ہی ہیں ایمان زیادہ تو ہو سکتا ہے کم نہیں ہوتا – اس پر بھی بہت سی احادیث ہیں مثلا ایک فاحشہ جو مومن تھی کتے کو پانی پلاتی ہے جنت میں جاتی ہے – ایک سو لوگوں کا قاتل جنت میں جاتا ہے وغیرہ وغیرہ

سوره توبه میں ہے
{فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا} [التوبة: 124]  پس ان کے ایمان میں اضافہ ہوا
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا – پس جو ایمان لائے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا
وزدناهم هدى  [١٨:١٣]  اور انکی ہدایت میں اضافہ ہوا
بعض فرقوں نے ایمان میں کمی و زیادتی کا نظریہ ان ہی آیات سے استنباط کر کے نکالا اور بعض احادیث سے اس پر دلیل لی
راقم کے نزدیک ایمان پڑھنے سے مراد قلبی اطمننان ہے یا ہدایت ہے جیسے لوگ ایمان لے اتے ہیں لیکن ہدایت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اسی طرح قرآن میں ہدایت بڑھنے اور ایمان و اطمننان بڑھنے کو ساتھ بیان کیا گیا ہے –  ابراہیم علیہ السلام الله پر ایمان لائے لیکن قلبی اطمننان میں اضافہ کے لئے الله سے سوال کیا کہ میت کو زندہ کیسے کرے گا

قرآن میں ہے  وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [محمد: 17] انکی  ہدایت  میں اضافہ ہوا

اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کے دور میں اس بحث کا ذکر نہیں ملتا نہ ہی ایمان میں کمی پر کوئی صریح حدیث ہے – خوارج کی رائے تھی کہ  ایمان میں عمل داخل ہے لہذا جو گناہ کبیرہ کرتے ہیں وہ جہنمی ہیں – خوارج کا فرقہ الأزارقة  تكفير أصحاب الذنوب تمام گناہ والوں کی تکفیر کا قائل تھا   –  الصفرية  فرقہ کفریہ اعمال والوں کے قتل کا قائل تھا –   خوارج  کے فرقے اباضیہ میں بعض کی رائے میں ایمان کم اور زیادہ ہو جاتا ہے  اور بعض اباضیہ  کے نزدیک گناہ کبیرہ والے فاسق ہیں جو کافر ہیں – خوارج کے نزدیک علی اور عثمان رضی الله عنہ گناہ کبیرہ کی وجہ سے ہی واجب القتل بنتے ہیں –

سن ١٥٠ ہجری کے بعد معتزلہ نے منزل بین المنزلتیں کی بحث چھیڑی کہ گناہ کبیرہ والے نہ ایمان والے ہیں نہ کفر والے  وہ بیچ میں ہیں– اس سے اس پر بحث کا باب کھل گیا

مُعَاذٌ بن جبل رضی الله عنہ  کی وفات عثمان رضی الله عنہ سے بھی پہلے ہوئی لیکن ان سے بھی اس مسئلہ پر بحث منسوب کر دی گئی ہے  کتاب السنة از أبو بكر  الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ) کی روایت ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: ثنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَمِسْعَرٍ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاذٌ:  اجْلِسُوا بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً

مُعَاذٌ بن جبل رضی الله عنہ نے الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ سے کہا ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ہم کچھ ساعت ایمان لے آئیں

بیہقی کی شعب ایمان میں اس روایت میں اضافہ ہے کہ  قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ لِأَصْحَابِهِ – مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ نے اپنے اصحاب سے کہا – اس   میں صحابی ایک تابعی سے کہہ رہے ہیں گویا تابعی ، صحابی سے بڑھ کر ہے – سندا اس میں مِسْعَر بن کدام ہیں جو خود مرجیہ ہیں

 شعب ایمان البیہقی میں اس طرح کا قول عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، حدثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ شِبَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ أَنَّهُ قَالَ: ” اجْلِسُوا بِنَا نَزْدَدْ إِيمَانًا

ابن مسعود رضی الله عنہ نے علقمہ سے کہا ہمارے ساتھ بیٹھو تاکہ ایمان میں اضافہ ہو

اس کی سند مظبوط نہیں سند میں  شباك الضبي ہے  جو مدلس ہے عن سے روایت کرتا ہے

 مصنف ابن ابی شیبہ میں عمر رضی الله عنہ کا قول ہے

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ مِمَّا يَأْخُذُ بِيَدِ الرَّجُلِ وَالرَّجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَيَقُولُ: «قُمْ بِنَا نَزْدَدْ إِيمَانًا»

 عمر بن الخطاب رضی الله عنہ  نے اپنے اصحاب سے کہا آ جاؤ ہم ایمان بڑھائیں پس الله عز و جل کا ذکر کریں

سند میں زُبَيْدُ بنُ الحَارِثِ اليَامِيُّ الكُوْفِيُّ ہیں جو زر بن حبیش سے روایت کر رہے ہیں  اس کی سند حسن ہے

بعض محدثین ایمان میں کمی ہے قائل نہیں ہیں اور بعض ہیں جو ایمان میں کمی و زیادتی کے قائل ہیں – ان گروہوں میں اس پر مختلف ارا ہیں جن میں بعض متشدد ہیں

پہلا گروہ کہتا ہے  : ایمان  نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا  ہے

اول ایمان بنیادی ایمانیات کے قبول کا نام ہے جیسے
الله واحد احد ہے
محمد بن عبد الله رسول الله – صلی الله علیہ وسلم –  ہیں
فرشتے، جنات، جنت، جہنم موجود ہیں
قرآن، توریت، زبو،ر انجیل کتب سماوی ہیں

اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں اتی جب تک آدمی ان کا انکار نہ کرے لہذا ایمان تصديق ہے
اگر وہ انکار کرے تو مسلمان ہی نہیں رہے گا لہذا ایمان نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے کیونکہ یہ قلبی کیفیت ہے

امام ابو حنیفہ کے لئے  اس  رائے کو بیان کیا جاتا ہے (العقيدة الطحاوية) – امت میں امام ابو حنیفہ نے فقہ پر بہت محنت کی ہے لہذا اس رائے کو جہمیہ سے منسوب کرنا اور کہنا کہ امام ابو حنیفہ عمل کے خلاف تھے ، مسلکی تعصب ہے – تفسیر فتح الرحمن في تفسير القرآن از  مجير الدين بن محمد العليمي المقدسي الحنبلي (المتوفى: 927 هـ) کے مطابق

فقال أبو حنيفة: لا يزيد ولا ينقص، ولا استثناء فيه

ابو حنیفہ کہتے ہیں ایمان نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے اور اس میں کوئی نہیں الاستثناء ہے

كتاب أصول الدين از  جمال الدين أحمد بن محمد بن سعيد الغزنوي الحنفي (المتوفى: 593هـ) کے مطابق

الْإِيمَان لَا يزِيد وَلَا ينقص بانضمام الطَّاعَات إِلَيْهِ وَلَا ينتقص بارتكاب الْمعاصِي لِأَن الْإِيمَان عبارَة عَن التَّصْدِيق وَالْإِقْرَار

 ایمان نہ بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے طَّاعَات کو اس سے ملانے سے نہ کم ہوتا ہے گناہ کا ارتکاب کرنے سے کیونکہ ایمان عبارت ہے تصدیق و اقرار سے

اس رائے کہ تحت ایمان میں کوئی استثنا نہیں ہے یا تو شخص کافر ہے یا مومن – یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک یا تو شخص مومن ہے یا کافر ہے بیچ میں کوئی چیز نہیں جیسا کہ المعتزلہ کا دعوی تھا  – الْأَشَاعِرَةِ کے علماء مثلا أبو المعالي الجويني  المتوفی ٤٧٨ ھ  جن کو امام الحرمین  کہا جاتا ہے ان کی رائے میں بھی ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ بڑھتا ہے  یہی علامة الآلوسي کہتے ہیں – بعض متعصب اہل سنت نے  ان علماء کے موقف کو  خوارج کا موقف قرار دے دیا ہے مثلا السفاريني   الحنبلي نے العقيدة میں یہ دعوی کیا ہے  جو کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے بلکہ خوارج تو  گناہ کبیرہ والے کو کافر کہتے ہیں

دوسرا گروہ کہتا ہے  : ایمان میں اضافہ اور کمی ہوتی ہے   

محدثین کا ایک دوسرا  گروہ کہتا ہے  ایمان میں اضافہ ہوتا ہے گناہ کرتے وقت ایمان کم ہوتا ہے مثلا امام احمد،   ابن حبان وغیرہ-  محدثین کا یہ گروہ کہتا  ہے الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، يَزِيدُ وَيَنْقُصُ –  ایمان میں  قول اور عمل بھی شامل ہے  جو زیادہ وکم ہوتا ہے – ان محدثین کے بقول اگر کوئی عمل نہ کرے تو اس میں ایمان کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ معدوم ہو جاتا ہے –    امام احمد اور ان کے ہمنوا ایمان میں گھٹنے کے قائل تھے جو قرآن سے ثابت نہیں ہے  بلکہ صرف بعض روایات سے ان کو استنباط کیا گیا ہے –

اس موقف پر صحیح مسلم سے روایت پیش کی جاتی ہے

 مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ
اگر کوئی برائی دیکھے تو اس کو ہاتھ سے روکے نہیں تو زبان سے نہیں تو دل میں برآ ہی سمجھے اور یہ ایمان میں سب سے کمزور ہے

یہ روایت امر و بالمعروف کے لئے مشھور ہے لیکن اس میں واضح نہیں ہے اگر کوئی برائی کو دیکھے اور خلیفہ اس کو نہ سنے تو وہ کیا کرے ؟ صبر کرے یا پھر خلیفہ کا ہی قتل کرے   جیسا خوارج نے کیا-  راقم کے نزدیک یہ روایت حاکم سے متعلق ہے عام افراد کے لئے نہیں ہے- بطور عام آدمی ہم تعاون فی البر کریں گے،  نیکی کا حکم کریں گے،  برائی سے منع کریں گے لیکن اس کو بطور فرد روک نہیں سکتےمثلا آج ہر گلی نکڑ پر شرک ہورہا ہے جو سب سے بری چیز ہے لیکن اس کو بزور بازو حاکم ہی روک سکتا ہے عام آدمی نہیں

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے کہ خیبر والے دن ایک شخص جان باری سے لڑ رہا تھا لوگوں نے اس کے مرنے پر کہا یہ جنتی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس پر غنیمت میں چادر چوری کرنے کی وجہ سے اگ چھائی ہوئی ہے
ابن حبان اس پر کہتے ہیں
فِي هَذَا الْخَبَرِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْإِيمَانَ يَزِيدُ بِالطَّاعَةَ وَيَنْقُصُ بِالْمَعْصِيَةِ
اس خبر میں دلیل ہے کہ ایمان اطاعت سے بڑھتا اور گناہ سے کم ہوتا جاتا ہے

لیکن اس پر بھی بحث ہے کہ کیا یہ شخص واقعی ایمان والا تھا یا یہ غنیمت کے لالچ میں دکھاوے کے لئے لڑ رہا تھا کیونکہ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منادی کرائی  کہ جنت میں صرف مومن جائے گآ

لیکن اسی گروہ میں ایک متشدد رائے بھی ہے – ان میں سے بعض محدثین کہتے تھے کہ گناہ کرتے کرتے ایمان نام کی چیز ہی نہیں رہتی – اس بحث کا آغاز ایک روایت سے ہوتا ہے

 ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہمآ کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
لاَ يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَشْرَبُ الخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ
زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں نہ شرابی شراب پیتے وقت اور نہ چور چوری کرتے وقت
اس روایت میں اضافہ ہے وَالتَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ اس کے توبہ ظاہر کرنی ہو گی
سنن نسائی میں اس میں اضافہ ہے فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ کہ ایسا شخص کے گلے سے اسلام کا حلقہ نکل جاتا ہے البتہ البانی نے اس کو منکر کہا ہے
مصنف عبد الرزاق میں ہے قَالَ مَعْمَرٌ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ إِذَا فَعَلَ ذَلِكَ زَالَ مِنْهُ الْإِيمَانُ قَالَ: يَقُولُ: الْإِيمَانُ كَالظِّلِّ
معمر نے کہا کہ ابن طاوس نے کہا ان کے باپ نے کہا کہ اگر وہ یہ افعال کرے تو ایمان زائل ہو جاتا ہے اور کہا وہ کہتے ایمان سائے کی طرح ہے

الشریعہ لاآجری کے مطابق  امام سفیان ابن عیینہ سے پوچھا گیا  الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ؟ قَالَ ” أَلَيْسَ تَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ ؟ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ ، قِيلَ : يَنْقُصُ ؟ قَالَ : لَيْسَ شَيْءٌ يَزِيدُ إِلا وَهُوَ يَنْقُصُ
کیا ایمان میں کمی اور بیشی ہوتی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟   فَزادَهُم إيمـنًا  اس نے ان کے ایمان میں اِضافہ کردیا  پھر ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایمان کم بھی ہوتا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جس چیز میں زیادتی واقع ہوتی ہے، اس میں کمی بھی واقع ہوتی ہے

لیکن یہ آخری قول  جس چیز میں زیادتی واقع ہوتی ہے، اس میں کمی بھی واقع ہوتی ہے  خالصتا قیاس ہے جس کے خلاف خود قرآن ہے کہ اس میں کمی کا ذکر ہی نہیں ہے

غیر مقلد محب الله شاہ راشدی فتوی میں یہی بات کہتے ہیں ملاحظه ہو

Rasidia-234

یعنی  خالص قیاس کیا گیا  جبکہ نص صرف بڑھنے پر ہے – قرآن میں ایمان کو قول طیب کہا گیا ہے اس کو ایک درخت کہا گیا اور حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم میں اس کی مثال کھجور کے درخت سے دی گئی جس میں یہ خوبی ہے کہ صرف بڑھتا ہی ہے اس کا سائز چھوٹا نہیں ہوتا تو پھر ایمان کم کیسے ہو سکتا ہے قرآن کی مثال بھی سچی   ہوتی ہے – لہذا یہ قیاس باطل ہے

البیہقی شعب الایمان میں اس روایت پر  لکھتے ہیں
وَإِنَّمَا أَرَادَ – وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ – وَهُوَ مُؤْمِنٌ مُطْلَقُ الْإِيمَانِ لَكِنَّهُ نَاقِصُ الْإِيمَانِ بِمَا ارْتَكَبَ مِنَ الْكَبِيرَةِ وَتَرَكَ الِانْزِجَارَ عَنْهَا، وَلَا يُوجِبُ ذَلِكَ تَكْفِيرًا بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ
اور والله أَعْلَمُ ان کا ارادہ ہے کہ اس مومن میں مطلق ایمان تو ہے لیکن ایمان میں نقص ہے اس گنآہ کے ارتکاب سے اور اس پر جو ڈراوا ہے اس کو ترک کرنے سے اور اس پر الله عزوجل کی تکفیر واجب نہیں ہوتی

یہ محدثین ہی کے اسی گروہ کا اپس میں اختلاف ہے-

بعض محدثین مثلا إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ نے اس میں متشدد رویہ اختیار کیا اور کہنا شروع کیا يَنْقُصُ حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ کہ ایمان گھٹتا جاتا ہے حتی کہ اس میں کوئی چیز نہیں رہتی- کتاب السنة از ابو بکر الخلال کے مطابق امام ابن مبارک اور إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ  کا قول تھا ایمان معدوم  ہو جاتا ہے – معجم ابن الأعرابي  اور الإبانة الكبرى لابن بطة  اور شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از ابو قاسم اللالكائي     کے مطابق   یہی موقف سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ کا تھا – یہ موقف نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے-

راقم اس کے خلاف ہے اگر ایسا ہو  تو گناہ کبیرہ والوں پر صرف ارتاد کی حد لگے گی  اور اس سے  خوارج کا موقف صحیح ثابت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض سلفی جہادی تنظیموں نے زمانہ حال میں اس موقف کو پسند کیا ہے اور ان میں اور خوارج میں کوئی تفریق ممکن نہیں رہی ہے

 أبو الحسن علي بن محمد بن علي بن محمد بن الحسن البسيوي الأزدي ایک خارجی عالم  تھے کتاب جامع أبي الحسن البسيوي ، وزارة التراث القومي والثقافة، تحقيق سليمان بابزيز میں  کہتے ہیں

فقد بيَّنا ما قلنا من آيات القرآن ما يَدُلّ عَلَى ما روينا أنَّ الفاسق كافر، وأن ما قالت المعتزلة: “إن الفاسق لا مؤمن ولا كافر”، وما قالت الحشوية والمرجئة هو من الخطإ، والحقُّ ما أيَّده القرآن، وهو الدليل والبرهان.

پس  ہم نے واضح  کیا  جو ہم نے  قرانی آیات کہا کہ یہ  دلالت کرتی ہیں   اس پر جو ہم نے روایت کیا کہ فاسق کافر ہے اور وہ نہیں جو المعتزلة نے کہا کہ فاسق نہ مومن ہے نہ کافر اور نہ وہ جو الحشوية اور المرجئة نے کہا کہ وہ خطا کار ہے اور حق کی تائید قرآن سے ہے جو دلیل و برہان ہے

الخلال کے مطابق   امام إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ کہتے گناہ کبیرہ والے میں ایمان نام کی چیز ہی نہیں رہتی  اور البیہقی کے بقول اس کے ایمان میں نقص ہے یا کمی ہے  – خوارج کی رائے میں بھی گناہ کبیرہ والوں میں ایمان معدوم ہو جاتا ہے

بلکہ مسند اسحاق بن راھویہ میں اس کا الٹا قول ہے

 وَقَالَ شَيْبَانُ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا تَقُولُ فِيمَنْ يَزْنِي وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ وَنَحْوَ هَذَا، أَمُؤْمِنٌ هُوَ؟ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: لَا أُخْرِجُهُ مِنَ الْإِيمَانِ

شیبان نے ابن مبارک سے کہا اے ابو عبد الرحمان اپ کیا کہتے ہیں جو شراب  پیے اور زنا کرے اور اسی طرح کے کام کیا وہ مومن ہے ؟ ابن مبارک نے کہا یہ اس کو ایمان سے خارج نہیں کرتے

 

تیسرا گروہ کہتا ہے :  ایمان کم نہیں ہوتا صرف بڑھتا ہے

اس میں محدثین ہیں جن کو الْإِرْجَاءِ کی رائے والے یا  الْمُرْجِئَةِ کہا جاتا ہے

 إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنْ مَنْ قَالَ: الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ؟ قَالَ:  هَذَا بَرِيءٌ مِنَ الْإِرْجَاءِ
امام احمد سے سوال ہوا اس کے بارے میں جو کہے کہ ایمان بڑھتا ہے، کم ہوتا ہے  – انہوں نے کہا یہ الْإِرْجَاءِ سے بَرِيءٌ (پاک) ہیں

یعنی مرجىء  اس قول کے مخالف تھے ان سے منسوب مشھور قول ہے يزِيد وَلَا ينقص ایمان بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا

بہت سے مشھور محدثین مرجىء   تھے یعنی ان کے نزدیک ایمان کم نہیں ہوتا صرف بڑھتا ہے مثلا امام احمد نے الْمُرْجِئَةِ میں قيس بن مُسلم المتوفی ١٢٠ ھ ،علقمة بن مرْثَد الکوفی المتوفی ١٢٠ ھ ،عَمْرو بن مرّة المتوفی 116 ھ اور مسعربن کدام الکوفی ١٥٥ ھ کو شمار کیا – عراق میں اہل حران میں سے عبد الكريم الجزري، خصيف بن عبد الرحمن الجزري المتوفی ١٤٠ ھ ، سالم بن عجلان الأفطس المتوفی 132 ھ ، علي بن بذيمة المتوفی ١٣٦ ھ (ان میں شیعیت تھی) کو امام احمد نے الْمُرْجِئَةِ میں شمار کیا – اس کے علاوہ کوفہ کے محمد بن أبان الجعفي المتوفی ١٧٠ ھ کو ان میں شمار کیا – المَدَائِنِ کے  محدث  شَبَابَةُ بنُ سَوَّارٍ کو الْمُرْجِئَةُ میں شمار کیا  – امام ابو حنیفہ کے لئے بھی کی رائے کو بیان کیا جاتا ہے –  ابو بکر الخلال کے مطابق امام احمد  الْمُرْجِئَةُ  کی رائے کو قَوْلٌ خَبِيثٌ کہتے تھے-

چوتھا گروہ ایمان بڑھتا ہے اور کم پر توقف ہے یعنی کوئی رائے نہیں  ہے

عمدہ القاری ج ١ ص ١٠٧ میں عینی نے قول پیش کیا ہے

قَالَ الدَّاودِيّ سُئِلَ مَالك عَن نقص الْإِيمَان وَقَالَ قد ذكر الله تَعَالَى زِيَادَته فِي الْقُرْآن وَتوقف عَن نَقصه وَقَالَ لَو نقص لذهب كُله

الدَّاودِيّ نے  کہا :  امام مالک سے سوال ہوا کہ ایمان کم ہوتا ہے ؟ فرمایا الله تعالی نے اضافہ کا ذکر کیا ہے قرآن میں اور کمی پر توقف کیا ہے اور کہا اگر یہ جائے تو سب جائے گا

ترتیب المدارک کے مطابق

وقال القاضي عياض:  قال ابن القاسم: كان مالك يقول: الإيمان يزيد، وتوقف عن النقصان

القاضي عياض کہتے ہیں ابن قاسم نے کہا امام مالک کہا کرتے کہ ایمان بڑھ جاتا ہے اور کم ہونے پر توقف ہے

کتاب حاشية العدوي على شرح كفاية الطالب الرباني از : أبو الحسن الصعيدي العدوي   (المتوفى: 1189هـ) کے مطابق قسطلانی کہتے ہیں

وَأَمَّا تَوَقُّفُ مَالِكٍ عَنْ الْقَوْلِ بِنُقْصَانِهِ فَخَشْيَةَ أَنْ يُتَأَوَّلَ عَلَيْهِ مُوَافَقَةُ الْخَوَارِجِ

اور امام مالک نے جو ایمان کم ہونے پر توقف کا قول کہا ہے تو ان کو ڈر تھا کہ کہیں ان کی بات خوارج سے موافقت اختیار نہ کر جائے

ابن تیمیہ  الفتاوی ج ٧ ص ٥٠٦ کہتے ہیں

وكان بعض الفقهاء من أتابع التابعين لم يوافقوا في إطلاق النقصان عليه. لأنهم وجدوا ذكر الزيادة في القرآن، ولم يجدوا ذكر النقص، وهذا إحدى الروايتين عن مالك

اور تبع التابعين میں سے بعض فقہا ایمان پر کمی کا اطلاق نہیں کرتے کیونکہ وہ قرآن میں بڑھنے کا ذکر پاتے ہیں اور اس میں کمی کا ذکر نہیں ہے اور اسی طرح کی ایک روایت امام مالک سے بھی ہے

یعنی کم ہونے کا قرآن میں ذکر ہی نہیں ہے –

کتاب المقدمات الممهدات از  أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ) کے مطابق مرنے سے قبل امام مالک نے اس رائے سے رجوع کر لیا تھا  جس کو  عبد الله بن نافع الصائغ سے منسوب کیا جاتا ہے کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از    الذهبي (المتوفى: 748هـ) کے مطابق     صاحب مالك قال أحمد لم يكن في الحديث بذاك امام احمد کہتے ہیں اس کی حدیث ایسی مناسب نہیں – الاجری کہتے ہیں ابو داود نے کہا  احمد نے کہا : ثم دخله بأخره شك ابن نافع آخری عمر میں امام مالک کے اقوال کے حوالے سے شک کا شکار تھے

    عبد الرزاق سے منسوب ایک قول  ہے

قال عبدالرزاق:  سمعت معمراً وسفيان الثوري ومالك بن أنس، وابن جريج وسفيان بن عيينة يقولون: الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص

عبدالرزاق آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے – أبو حاتم الرازي کہتے ہیں انکی حدیث يكتب حديثه ولا يحتج به لکھ لو دلیل نہ لو –  کتاب المختلطين از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق سن ٢٠٠ کے بعد عبدالرزاق   کی روایت صحیح نہیں ہے

البیہقی سنن میں روایت  لکھتے ہیں

سمعت مالك بن أنس وحماد بن زيد.. وجميع من حملت عنهم العلم يقولون: الإيمان قول وعمل ويزيد وينقص

اسکی سند میں  سويد بن سعيد الحدثاني ہیں جو اختلاط کا شکار تھے اور مدلس بھی ہیں

الخلال السنہ میں أبي عثمان سعيد بن داود بن أبي زنبر الزنبري کی سند سے امام مالک کا قول پیش کرتے ہیں
قال كان مالك يقول: “الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص

امام مالک کہا کرتے کہ ایمان قول و عمل ہے بڑھتا کم ہوتا ہے

دارقطنی  کہتے ہیں سعيد بن داود الزنبري ضعيف ہے اور امام مالک کے حوالے سے منفرد اقوال کہتا ہے

الخلال کتاب السنہ میں ابن نافع کے حوالے سے امام مالک کا قول پیش کرتے ہیں کہ وہ کہتے ایمان کم ہوتا ہے اس کی سند میں  زَكَرِيَّا بْنُ الْفَرَجِ ہے جو مجھول ہے

کتاب  شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از أبو القاسم هبة الله اللالكائي (المتوفى: 418هـ)  میں امام مالک سے إسحاق بن محمد الفروي کی  سند سے قول منسوب کیا گیا  ہے –  إسحاق بن محمد الفروي   کو امام نسائی ضعیف کہتے ہیں اور الدارقطني متروک کہتے ہیں

الغرض امام مالک سے منسوب دو آراء ہیں جن میں مالکی فقہا نے اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ وہ ایمان میں کمی کے قائل نہیں تھے اور حنابلہ نے ان سے کمی والی روایات منسوب کی ہیں جن کی اسناد میں ضعف ہے

امام بخاری  بھی ایمان میں کمی کے قائل نہیں لگتے –  انہوں نے صحیح میں روایت پیش کی
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ شَرِبَ الخَمْرَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا، حُرِمَهَا فِي الآخِرَةِ
ابن عمر رضی الله عنہ کی روایت جو کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو شراب پینے دنیا میں اور توبہ نہ کرے اس پر یہ آخرت میں حرام ہو گی

اس روایت میں اضافہ بھی ہے

مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا وَلَمْ يَتُبْ، لَمْ يَشْرَبْهَا فِي الْآخِرَةِ , وَإِنْ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ

وہ جنت میں بھی داخل ہو جائے تو شراب اس پر حرام ہو گی

البانی الصَّحِيحَة: 2634  میں اس کو صحیح کہتے ہیں اور ذیادت کو زيادة جيدة کہتے ہیں

یعنی ابو ہریرہ اور ابن عباس کی روایت میں تھا شرابی مومن نہیں اس سے توبہ کرائی جائے اور اس ابن عمر کی روایت سے ثابت ہوا وہ مومن ہی تھا  اس پر آخرت میں شراب حرام ہو گی
اِبْن الْعَرَبِيّ کہتے ہیں  کہ شراب اور ریشم حرام والی حدیثوں سے ظاہر ہے کہ وہ اس کو جنت میں نہیں ملیں گی

ظَاهِرُ الْحَدِيثَيْنِ أَنَّهُ لَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ فِي الْجَنَّة

  مسند الموطأ للجوهري از  أَبُو القَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ مُحَمَّدٍ الغَافِقِيُّ، الجَوْهَرِيُّ المالكي (المتوفى: 381هـ) کہتے ہیں

قِيلِ: وَإِنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَنْسَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا حَتَّى لا يَشْتَهِيهَا

اور کہا جاتا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو گا لیکن اس کو بھلا دیا جائے گا اور اس کو خواہش نہ ہو گی

لیکن جو لوگ گناہ کبیرہ  کرنے والے میں ایمان کی کمی کے قائل ہیں انہوں نے اس سے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے مثلا البغوي (المتوفى: 516هـ)  کتاب شرح السنة میں کہتے ہیں وعيدٌ بِأَنَّهُ لَا يدْخل الْجنّة  یہ شخص جنت میں نہیں جائے گا

ابو قاسم اللالكائي المتوفی ٤١٨ ھ  کی کتاب السنه میں امام بخاری سے ایک قول منسوب کیا ہے جس کو ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کر کے دعوی کیا ہے کہ اس کی سند ان کے مطابق صحیح ہے کہ امام بخاری نے کہا

لَقِيتُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفِ رَجُلٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ بِالْأَمْصَارِ , فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ يَخْتَلِفُ فِي أَنَّ الْإِيمَانَ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، وَيَزِيدُ وَيَنْقُص

میں نے (مختلف) شہروں میں ایک ہزار سے زائد علماے زمانہ سے ملاقات کی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایمان کے قول و عمل ہونے اور اس کے کم و زیادہ ہونے میں اختلاف نہیں کرتا تھا

کتاب  شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از أبو القاسم هبة الله اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی سند ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ الْهَرَوِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا  مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ مُوسَى الْجُرْجَانِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبُخَارِيَّ بِالشَّاشِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ: ” لَقِيتُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ

اسکی سند میں أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ مُوسَى الْجُرْجَانِيُّ مجھول الحال ہے –  سند میں أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبُخَارِيَّ  بھی ہیں جو کتاب محاسن الإسلام وشرائع الإسلام   کے مصنف ہیں  لیکن وہ اپنی کتاب میں ایمان کی کمی زیادتی پر ایک لفظ نہیں کہتے – اس کے علاوہ  جو بات  امام بخاری نے اپنی سب سے اہم کتاب جامع الصحیح میں نہیں لکھی وہ ان کے کان میں پھونک دی ہوئی عجیب بات ہے – لہذا یہ قول جو امام بخاری سے منسوب ہے ثابت نہیں ہے

امام بخاری نے صحیح كتاب الحيض، باب 6: ترك الحائض الصوم میں روایت پیش کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں کے لئے فرمایا

مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ

باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا

بعض علماء مثلا ابن العثيمين  (کتاب تفسير الفاتحة والبقرة) نے اس سے ایمان میں کمی ہونے کا قول لیا ہے جبکہ یہ بات عورتوں کے لئے عام ہے کہ ان کو  حيض اتا ہے جو ایمان میں کمی نہیں ہے بلکہ دین میں ان پر کمی ہے کہ وہ روزہ اور نماز اس حالت میں  پڑھیں

روایت زانی، زنا کرتے وقت مومن نہیں وغیرہ کے حوالے سے یہ بات موجود ہے کہ خود محدثین کو اس روایت کی تفسیر نہیں پہنچی  – العلل دارقطنی میں ہے کہ زانی والی روایت پر
قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ عَنْ تَفْسِيرِ هَذَا الْحَدِيثِ فَنَفَرَ.

امام الْأَوْزَاعِيُّ نے کہا : میں نے امام الزہری سے اس کی تفسیر پوچھ تو وہ بھاگ لئے
اسی میں ہے کہ الْأَوْزَاعِيُّ نے پوچھا
فَقُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ مُؤْمِنًا فَمَهْ؟ قَالَ: فَنَفَرَ عَنْ ذَلِكَ
میں نے الزہری سے پوچھا اگر مومن نہیں رہا تو پھر کیا تھا ؟ پس الزہری چلے گئے

یعنی امام الزہری نے امام مالک کی طرح توقف کا موقف اختیار کیا  اور گمان غالب ہے یہی امام الْأَوْزَاعِيُّ  کا بھی موقف ہو گا

الغرض یہ محدثین کا اختلاف ہے

بعض کہتے ہیں (مثلا البیہقی، ابن حبان ) کم ہو جاتا ہے ختم نہیں ہوتا
بعض کہتے ہیں (مثلا سفیان ابن عیینہ ) ایمان کم ہوتے ہوتے معدوم ہو جاتا ہے
بعض کہتے ہیں (مثلا امام الزہری) گناہ کے وقت پتا نہیں مومن تھا یا نہیں اس سوال سے فرار کرتے ہیں

بعض کے نزدیک (مثلا امام مالک)  قرآن میں اس پر صریحا کمی کا ذکر نہیں ہے -امام بخاری روایات لاتے ہیں جن میں گناہ کبیرہ والے بغیر توبہ کیے جنت میں جاتے ہیں

کتم علم کی اہل سنت کی دلیل

قرآن میں کتم علم الوحی  پر سخت وعید ہے

اِنَّ الَّـذِيْنَ يَكْـتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْـهُـدٰى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِى الْكِتَابِ ۙ اُولٰٓئِكَ يَلْعَنُهُـمُ اللّـٰهُ وَيَلْعَنُهُـمُ اللَّاعِنُـوْنَ (159 

بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں کہ ہم نے ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کر دیا، یہی لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

اِلَّا الَّـذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُـوْا فَـاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَيْـهِـمْ ۚ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْـمُ (160 

مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی اور ظاہر کر دیا پس یہی لوگ ہیں کہ میں ان کی توبہ قبول کرتا ہوں، اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہوں

مسند احمد کی ایک سند سے معلوم ہوا ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے معاذ سے الوحی غیر متلو میں  ایک حدیث کو سنا تھا

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَيْنَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مِنْ غَرَائِبِ حَدِيثِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: نَعَمْ، كُنْتُ رِدْفَهُ عَلَى حِمَارٍ قَالَ: فَقَالَ: ” يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ ” قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: ” هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ ” قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: ” إِنَّ حَقَّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ” قَالَ: ثُمَّ قَالَ: ” يَا مُعَاذُ ” قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: ” هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟ ” قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: ” أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا معاذ ہمارے پاس پہنچے تو ہم نے کہا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب و غریب حدیث بیان کیجیے – معاذ نے کہا اچھا میں رسول اللہ کے گدھے کا ردیف تھا  یعنی ساتھ چل رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کیا تم کو معلوم ہے اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟  میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے   کہ بندے صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ شریک نہ کریں – پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں کا حق اللہ تعالی پر کیا ہے  اگر وہ یہ کریں ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتا ہے – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حق یہ ہے کہ وہ ان کو عذاب نہ دے 

یہ متن وہ ہے جس انس رضی اللہ عنہ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا   لیکن اس حدیث کو چھپایا جائے گا اس  کا اضافہ کسی نے انس سے  بیان  کیا  تھا -تقیہ سے منع کرنے والے اہل سنت کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ دین میں کتم علم یا  علم کی باتیں چھپائی جا سکتی ہیں اس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: «مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ»، قَالَ: أَلاَ أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: «لاَ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا»
انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا مجھ سے ذکر کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ ( یقیناً ) جنت میں داخل ہو گا، معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔

راقم کہتا ہے اس حدیث کا آخری حصہ منکر المتن  ہے- ایسی بات چھپانا جس کا تعلق اخروی فلاح سے ہو انبیاء کی سنت نہیں  

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ؟» قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا» قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ أَنْ يَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا يُعَذِّبَهُمْ» ، قَالَ مَعْمَرٌ، فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: «دَعْهُمْ يَعْمَلُوا»

معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا پس آپ نے فرمایا کہ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو – پھر آپ نے فرمایا کیا تو جانتا ہے بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے اگر وہ ایسا کریں ؟ آپ نے خود ہی جواب دیا کہ وہ ان کی مغفرت کرے ان کو عذاب نہ دے – معمر نے کہا اس حدیث میں کہ معاذ نے کہا میں نے کہا یا رسول اللہ میں لوگوں کو بشارت نہ دے دوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو عمل کرنے دو

اسی طرح مصنف عبد الرزاق میں ہے جو امام بخاری کے مشائخ کے استاد ہیں یعنی یہ روایت بخاری کو ملنے سے پہلے امام عبد الرزاق کو ملی تھی اور ان کی کتاب المصنف میں اس کا متن بھی الگ ہے – معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی روایت میں مسدد نے سمجھنے میں غلطی کی ہے – لوگوں کو عمل کرنے دو کا مطلب یہ تھا کہ بعد میں بتا دینا فوری ضرورت نہیں ہے – اس کو چھپا دینا مراد نہیں تھا

صحیح بخاری میں یہ واقعہ ایک دوسری سند سے ہے کہ معاذ اس علم کی بات کو چھپاتے رہے اور  وفات سے قبل بتایا کہ علم ختم نہ ہو جائے وأخبر بها معاذ عند موته تَأَثُّمًا

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «يَا مُعَاذُ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلاَثًا، قَالَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ [ص:38] مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ»، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَلاَ أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا؟ قَالَ: «إِذًا يَتَّكِلُوا» وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا
معاذ نے کہا میں نے کہا یا رسول اللہ میں لوگوں کو خبر نہ دے دوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اسی پر تکیہ کر لیں گے ! اور معاذ نے موت کے وقت کتمان حق کے ڈر سے اس حدیث کا بتایا

سند میں مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، ہے جس کو ابن حجر کہتے ہیں وہم ہوتا ہے – ابن معین کہتے ہیں اس کی حدیث دلیل نہیں ہے
قال الآجُريُّ: قلتُ لأبي داود: معاذ بن هشام عندك حجة؟ قال: أكره أن أقول شيئًا، كان يحيى لا يرضاه.
قال أبو عبيد (الآجُريُّ): لا أدري مَنْ يحيى، يحيى بن معين، أو يحيى القَطَّان. وأظنه يحيى القَطَّان. “سؤالاته” 3/ 263 و 264.
الاجری نے کہا میں نے ابو داود سے معاذ بن ہشام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس پر کچھ کہنے سے کراہت کی اور کہا یحیی اس کو پسند نہیں کرتے تھے … میرا خیال ہے امام یحیی بن سعید القطان مراد تھے
قال ابن أبي خيثمة: سئل يحيى بن معين عن معاذ بن هشام فقال: ليس بذاك القوي
ابن معین نے کہا ایسا کوئی قوی راوی نہیں ہے

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وفات طاعون عمواس میں اردن کے مضافات میں سن 18 ہجری میں ہوئی – انس رضی اللہ عنہ وہاں اس وقت موجود نہیں تھے- جہاں طاعون پھیلا ہو وہاں جانا منع ہے –انس رضی اللہ عنہ نے اس روایت کو خود معاذ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا بلکہ کہا مجھ سے ذکر کیا کسی نے خبر دی

مختصر صحیح بخاری میں البانی نے تعلیق میں لکھا ہے

لأن أنساً كان بالمدينة حين مات معاذ بالشام

انس مدینہ میں تھے جب معاذ کی شام میں وفات  ہوئی

اور صحیح بخاری کی حدیث جو راقم نے سب سے اوپر لکھی ہے اس میں ہے کہ انس نے کہا

قَالَ: ذُكِرَ لِي  مجھ سے ذکر کیا گیا 

معلوم ہوا کہ انس رضی اللہ عنہ نے روایت  کا آخری حصہ خود معاذ سے  نہیں سنا تھا بلکہ کسی نے ان سے ذکر کیا جس کا نام انہوں نے نہیں لیا کہ کون تھا  جس نے اضافہ کیا کہ نبی کا حکم تھا  لوگوں سے ذکر مت کرو وہ اس پر بھروسہ کریں گے

مسند احمد میں یہ قتادہ کی سند ہے کہ لوگ اس بات پر بھروسہ کر لیں گے
حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، حَدَّثَهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «لَا يَشْهَدُ عَبْدٌ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ يَمُوتُ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ» قَالَ: قُلْتُ [ص:336]: أَفَلَا أُحَدِّثُ النَّاسَ؟ قَالَ: «لَا، إِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلُوا عَلَيْهِ»
قتادہ مدلس نے عنعنہ سے روایت کیا ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: أَخْبَرَنَا مَنْ شَهِدَ مُعَاذًا حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ. يَقُولُ: اكْشِفُوا عَنِّي سَجْفَ الْقُبَّةِ أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مَرَّةً: أُخْبِرُكُمْ بِشَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ إِلَّا أَنْ تَتَّكِلُوا سَمِعْتُهُ يَقُولُ: ” مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ يَقِينًا مِنْ قَلْبِهِ، لَمْ يَدْخُلِ النَّارَ،

عمرو بن دینار نے کہا میں نے جابر بن عبد اللہ سے سنا کہا ہم کو اس نے خبر دی جس نے مُعَاذً کو ان کی وفات پر پایا کہ وہ کہہ رہے تھے میں تم کو ایک چیز کی خبر کرتا ہوں جس کو میں نے رسول اللہ سے سنا تھا مجھے کسی بات نے منع نہ کیا کہ اس کو تم سے بیان کروں سوائے اس کے کہ تم اس پر حدیث پر تکیہ کر لیتے- مُعَاذً نے پھر حدیث بیان کی

اس روایت کو شعیب نے صحیح کہا ہے – اس روایت میں تاثر دیا گیا  ہے کہ معاذ نے اس کو صرف اپنے بعض شامی شاگردوں کو نہیں سنایا تھا اور مدعا کہ تم اس متن پر تکیہ کر لیتے حدیث رسول نہیں تھے صرف مُعَاذً کا گمان تھا

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّهُ إِذْ حُضِرَ قَالَ: أَدْخِلُوا عَلَيَّ النَّاسَ فَأُدْخِلُوا عَلَيْهِ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا جَعَلَهُ اللهُ فِي الْجَنَّةِ ” وَمَا كُنْتُ أُحَدِّثُكُمُوهُ، إِلَّا عِنْدَ الْمَوْتِ وَالشَّهِيدُ عَلَى ذَلِكَ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَأَتَوْا أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي وَمَا كَانَ يُحَدِّثُكُمْ بِهِ إِلَّا عِنْدَ مَوْتِهِ
أَبِي صَالِحٍ نے مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ سے روایت کیا جب وہ حضوری پر تھے کہا لوگوں کو یہاں داخل کرو پس لوگ جمع ہوئے مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ نے کہا میں نے رسول اللہ سے سنا تھا جس کو موت آئی کہ شرک نہ کرتا ہو اللہ اس کو جنت میں کرے گا اور یہ حدیث میں نے نہیں سنائی سوائے موت پر اور اس کے گواہ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ ہیں پس عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ آئے اور فرمایا سچ کہا بھائی آپ نے میں (بھی) اس کو روایت نہیں کرتا سوائے موت پر

راقم کہتا ہے سند منقطع ہے – أبو صالح ذكوان السمان کا سماع نہ معاذ المتوفی ١٨ ھ  سے ہے نہ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ المتوفی ٣٢  سے ہے

البتہ غالبا یہ قول کہ اس حدیث کو چھپایا جائے انس رضی اللہ عنہ  کو أبو صالح ذكوان السمان سے ملا ہو گا کیونکہ انس مدینہ میں تھے اور معاذ شام میں

بعض راوی نے یہ بھی بیان کر دیا کہ اس حدیث کو انس نے بھی نبی سے سنا تھا جس پر محدث ابن خزیمہ نے جرح کی

ایمان ابن مندہ میں ہے
وَأَنْبَأَ أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، وَعَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، قَالَا: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ثَنَا التَّيْمِيُّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاذٍ: وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ
ابن مندہ کا قول ہے کہ انس نے یہ حدیث معاذ سے نہیں سنی

ایسا ہی قول ابن حجر کا فتح الباری میں ہے – راقم کہتا ہے حدیث سنی لیکن اس کا آخر إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا کہ لوگ اس پر تکیہ کر لیں گے (اس کو چھپایا جائے) انس نے نہیں سنا ان سے کسی نے بیان کیا

توحید ابن خزیمہ میں مختلف مقام پر ابن خزیمہ  اس روایت کا ذکر ہے

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: أَخْبَرَنا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيِّ فَقَالَ أَنَسٌ: فَجَاءَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الْأَنْصَارِيُّ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: مَاذَا قَالَ لَكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ» فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَنَسٌ: فَقُلْتُ أَذْهَبُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلُهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَتَاهُ، فَسَأَلَهُ فَقَالَ: «صَدَقَ مُعَاذٌ، صَدَقَ مُعَاذٌ، صَدَقَ مُعَاذٌ، ثَلَاثًا»
سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ نے بیان کیا کہ میں انس بن مالک کے ساتھ تھا – انس نے کہا کہ معاذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آئے میں نے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو ؟ معاذ نے کہا میں رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے پاس سے آ رہا ہوں – میں نے پوچھا کیا فرمایا رسول اللہ نے ؟ معاذ نے کہا کہ رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس نے شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی اله نہیں مخلص ہو کر وہ جنت میں داخل ہوا – میں نے کہا کیا تم نے سنا تھا ؟ معاذ نے کہا ہاں – انس نے کہا چلو رسول اللہ کے پاس ان سے سوال کرتے ہیں – معاذ نے کہا ہاں چلو ، پس ہم رسول اللہ کے پاس پہنچے اور اس حدیث پر سوال کیا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاذ نے سچ کہا تین بار

قَالَ أَبُو بَكْرٍ قَرَأْتُ عَلَى بُنْدَارٍ أَنَّ ابْنَ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَهُمْ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ صَدَقَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقَةُ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ آلِ أَبِي الْأَحْوَصِ كَذَا كَانَ فِي الْكِتَابِ عِلْمِي وَرَوَى سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ، وَأَنَا أَبْرَأُ مِنْ عُهْدَةِ هَذَا الْخَبَرِ، عَنْ أَنَسٍ فَأَخْطَأَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، فَزَعَمَ أَنَّ أَنَسًا سَمِعَ هَذَا الْخَبَرَ مِنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، ثُمَّ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن خزیمہ نے کہا میں نے امام بندار پر پڑھا کہ روایت کیا
ابْنَ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَهُمْ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ صَدَقَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ
ابن خزیمہ نے کہا … سلمہ بن وردان میں اس کی خبر کے عہد سے بریء ہوں کیونکہ اس نے انس سے روایت میں غلطی کی ہے – پس دعوی کیا ہے کہ انس نے اس حدیث کومُعَاذِ سے سنا پھر نبی صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے

اسی طرح اہل سنت کے بعض لوگوں نے تقیہ کی دلیل صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی لی ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ: فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا البُلْعُومُ
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی عبدالحمید ) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے

یہ روایت ایک ہی سند سے اتی ہے
عَنْ ابْنِ أبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ, فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ.
اول اس میں ابْنِ أبِي ذِئْبٍ، ہے جو مدلس ہے  اس روایت کی تمام اسناد میںاس کا عنعنہ ہے
دوم سعید المقبری ہے جو آخری عمر میں مختلط تھا اور اس دور میں اس کی محدثین کہتے ہیں وہی روایت صحیح ہے جو لیث کے طرق سے ہوں

سوم یہ متن مشکوک ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا ہو- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو تو روایات سنانے کا اتنا شوق تھا کہ ایک حدیث میں ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا کہ گویا لسٹ بنا دی روایات کی- اور پھر امام مسلم کہتے ہیں کعب الاحبار کے اقوال ملا دیے
حدیث رسول میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کا دوسروں کا (مثلا کعب احبار ) یا اپنا قول ملا دینے کا ذکر خود محدثین و محققین نے کیا ہے

شاتم رسول کی سزا کا اختلاف

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

ایک مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر محبت نہ کرے –  رسول الله صلی الله علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق اور ظرف کا نمونہ تھے اور کسی کو بھی آپ نے اپنی زندگی میں آیذآ نہ دی-

سن ٢٠٠ ہجری کے آس پاس فقہاء میں ایک بحث نے جنم لیا کہ ذمی یا اہل کتاب جو اہل اسلام کے ساتھ ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریں ان کی کیا سزا ہے – اس پر فقہاء کا اختلاف ہوا

صحيح بخاري حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: مَرَّ يَهُودِيٌّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَعَلَيْكَ» فَقَالَ رَسُولُ   اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَتَدْرُونَ مَا يَقُولُ؟ قَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ نَقْتُلُهُ؟ قَالَ: ” لاَ، إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الكِتَابِ، فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ

انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس گزرا بولا تم پر موت ہو پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا تم پر بھی

لوگوں نے کہا یا رسول الله اس کو قتل کر دیں آپ نے کہا نہیں

اگر تم کو اہل کتاب سلام کہیں تو بولو تم پر بھی

امام  بخاری  نے اس روایت کو باب بَابُ قَتْلِ الخَوَارِجِ وَالمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَيْهِمْ میں بیان کیا ہے یعنی خوارج اور ملحدوں کا قتل اتمام حجت کے بعد

اسی طرح اس کا بَابُ إِذَا عَرَّضَ الذِّمِّيُّ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَرِّحْ میں ذکر کیا باب جب ذمی   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے

امام الشافعی کی رائے میں اگر کوئی اہل کتاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے تو وہ عہد توڑتا ہے اس کا خون مباح ہو جاتا ہے – امام  بخاری کی رائے اس کے خلاف ہے-

کتاب  رد المحتار على الدر المختار از ابن عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) کے مطابق قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لَا يُنْقَضُ

عَهْدُهُ ابو حنیفہ کہتے ہیں اس سے عہد نہیں ٹوٹتا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله کے مطابق

سَمِعت ابي يَقُول فِيمَن سبّ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ تضرب عُنُقه

میں نے اپنے باپ کو سنا کہ جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے اس کی گردن مار دو

کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق أبو يعقوب المروزي کہتے ہیں إسحاق بن راهويه کہتے ہیں شاتم رسول کو

 قال إسحاق: إذا عرض بعيب النبي صلى الله عليه وسلم قام مقام الشتم، يُقتل، إذا لم يكن ذاك منه سهواً

قتل کیا جائے گا – اگر غلطی سے نہیں ہوا

یعنی اسحاق بن رهویہ نے گنجائش رکھی ہے کہ شاتم رسول اگر غلطی سے کر بیٹھا ہے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا

غیر مقلدین اور وہابیوں  کے امام ابن تیمیہ نے کتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول ج ١ ص ٥٥٨  میں امام احمد کی رائے کو ترجیح دی  جو أحكام أهل الملل میں ابو بکر الخلال سے نقل کی گئی ہے کہ امام احمد نے کہا

كل من شتم النبي صلى الله عليه وسلم مسلما كان أو كافرا فعليه القتل

ہر کوئی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے چاہے مسلمان ہو یا کافر اس پر قتل ہے

احناف کی فقہ کی کتاب  البحر الرائق شرح كنز الدقائق از ابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) کے مطابق

وَمِمَّنْ صَرَّحَ بِقَبُولِ تَوْبَتِهِ عِنْدَنَا الْإِمَامُ السُّبْكِيُّ فِي السَّيْفِ الْمَسْلُولِ وَقَالَ إنَّهُ لَمْ يَجِدْ لِلْحَنَفِيَّةِ إلَّا قَبُولَ التَّوْبَةِ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ فِي إسْقَاطِهِ الْقَتْلَ قَالُوا هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَالِكٍ وَنُقِلَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

اور  ہم میں سے جنہوں نے اس کی صرآحت کی ہے کہ (شاتم رسول کی)  توبہ قبول ہوتی ہے ان میں امام سبکی ہیں کتاب السَّيْفِ الْمَسْلُولِ میں اور کہا ہے کہ ان کو احناف میں کوئی نہ ملا سوائے توبہ کی قبولیت کے کہ قبول توبہ  سے  شاتم النبی کے قتل کا حکم ختم ہو جاتا ہے جو اہل کوفہ اور امام مالک  کا مذھب ہے اور ابو بکر رضی الله عنہ سے نقل کیا گیا ہے

احناف کی فقہ کی کتاب مختصر القدوري في الفقه الحنفي   از أحمد بن محمد بن أحمد بن جعفر بن حمدان أبو الحسين القدوري (المتوفى: 428هـ) کے مطابق

ومن امتنع من أداء الجزية أو قتل مسلما أو سب النبي عليه الصلاة والسلام أو زنى بمسلمة لم ينقض عهده ولا ينتقض العهد إلا بأن يلحق بدار الحرب أو يغلبوا على موضع فيحاربونا

اور جو جزیہ نہ دے اور مسلمان کا قتل کرے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے یا مسلمان سے زنا کرے تو اس سے عہد ختم نہیں ہوتا اور یہ عہد نہیں ٹوٹتا سوائے اس کے کہ وہ دار الحرب سے مل جائے اور کسی مقام پر غلبہ پا کر مسلمانوں سے  جنگ کرے

 اسی طرح کا قول حنفی فقہ کی  کتاب العناية شرح الهداية میں ہے

 امت میں شتم رسول کی سزا کا اختلاف شروع سے چلا آ رہا ہے اس میں کسی ایک رائے کو ہی مرجوع قرار نہیں دیا جا سکتا اور عجیب بات ہے کہ آج لوگوں نے قرآن کی آیات تک اس کے حوالے سے بیان کرنا شروع کر دی ہیں

جن سے ظاہر ہے کہ سیاق و سباق سے نکال کر آیات کو اپنے مدعآ میں پیش کیا گیا ہے ورنہ فقہاء کا اختلاف کیوں ہے

شتم رسول یا سب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر قتل کرنے کے لئے جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں

کعب بن اشرف کا قتل

دلائل النبوه البیہقی، سنن ابی داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ، حَدَّثَهُمْ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَحَدَ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ يَهْجُو النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ، مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُشْرِكُونَ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ، وَالْيَهُودُ وَكَانُوا يُؤْذُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ، فَأَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ بِالصَّبْرِ وَالْعَفْوِ، فَفِيهِمْ أَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [آل عمران: 186] الْآيَةَ، فَلَمَّا أَبَى كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رَهْطًا يَقْتُلُونَهُ،

 کعب بن اشرف یہودی شاعر تھا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا۔ اور اپنے شعروں میں قریش کے کافروں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف بھڑکاتا تھا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ملے جلے لوگ تھے۔   ان میں مسلمان بھی تھے جنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت نے جمع کردیا تھا

اور مشرکین بھی تھے جو بت پرست  تھے  اور اُن میں یہودی بھی تھے جو ہتھیاروں او رقلعوں کے مالک تھے اور وہ اوس و خزرج قبائل کے حلیف تھے۔  رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی جب مدینہ تشریف آوری ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے سب لوگوں کی اصلاح کا ارادہ فرمایا۔ایک آدمی مسلمان ہوتا تو اس کا باپ مشرک ہوتا۔ کوئی دوسرا مسلمان ہوتا تو اس کابھائی مشرک ہوتا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی آمد مبارک پرمشرکین اور یہودانِ مدینہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کرام کو شدید قسم کی اذیت سے دوچار کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اس پر صبر و تحمل اور ان سے درگزر کرنے کا حکم دیا۔

ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی  وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [آل عمران: 186] الْآيَةَ

اور بلاشبہ آپ ضرور ان سے سنیں گے جن کو آپ سے پہلے کتاب دی گئی

پھر جب کعب بن اشرف نے بغاوت کی تو آپ نے سعد بن معاذ کو حکم دیا کہ کسی کو بھیجیں جو اسکو قتل کرے

اسکی سند میں أبو اليمان الحكم بن نافع البهرانى الحمصى   جو شُعَيْبِ بنِ أَبِي حَمْزَةَ  سے روایت کر رہے ہیں  جن کے لئے الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ: عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، قَالَ: لَمْ يَسْمَعْ أَبُو اليَمَانِ مِنْ شُعَيْبٍ إِلاَّ حَدِيْثاً وَاحِداً، وَالبَاقِي إِجَازَةً

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ نے أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ سے روایت کیا انہوں نے کہا ابو اليَمَانِ نے شُعَيْبٍ سے صرف ایک ہی حدیث روایت کی اور باقی اجازہ ہے

   تهذيب الكمال کے مطابق احمد کہتے ہیں

فَكَانَ وَلَدُ شُعَيْبٍ يَقُوْلُ: إِنَّ أَبَا اليَمَانِ جَاءنِي، فَأَخَذَ كُتُبَ شُعَيْبٍ مِنِّي بَعْدُ، وَهُوَ يَقُوْلُ: أَخْبَرَنَا.  فَكَأَنَّهُ اسْتَحَلَّ ذَلِكَ، بِأَنْ سَمِعَ شُعَيْباً يَقُوْلُ لِقَوْمٍ: ارْوُوْهُ عَنِّي.

قَالَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ: سَمِعْتُ أَبَا اليَمَانِ يَقُوْلُ: قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: كَيْفَ سَمِعْتَ الكُتُبَ مِنْ شُعَيْبٍ؟ قُلْتُ: قَرَأْتُ عَلَيْهِ بَعْضَهُ، وَبَعْضُهُ قَرَأَهُ عَلَيَّ، وَبَعْضُهُ أَجَازَ لِي، وَبَعْضُهُ مُنَاوَلَةً. قَالَ: فَقَالَ فِي كُلِّهِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ

شُعَيْبٍ کے بیٹے کہتے تھے کہ أَبَا اليَمَانِ میرے پاس آیا اور مجھ سے والد کی کتب لیں اور کہنے لگا اخبرنا!  پس اس نے اس کو جائز سمجھا اور میرے والد ایک قوم سے کہتے یہ مجھ سے روایت (کیسے)  کرتا ہے

إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ نے کہا میں نے أَبَا اليَمَانِ کو کہتے سنا وہ کہتے مجھ سے امام احمد نے کہا تم شُعَيْبٍ سے کتاب کیسے سنتے ہو ؟ میں نے کہا بعض میں اس پر پڑھتا ہوں اور بعض وہ مجھ کو سناتا ہے اور بعض کی اس نے اجازت دی اور بعض کا مناولہ کہا میں نے  اس سب پر کہا اخبرنا شُعَيْبٌ

یعنی أَبَا اليَمَانِ الحكم بن نافع اس کا کھلم کھلا اقرار کرتے تھے کہ ہر بات جس پر وہ اخبرنا شُعَيْبٌ کہتے ہیں اس میں سے ہر حدیث ان کی سنی ہوئی نہیں ہے

روایت تاریخ کے مطابق غلط ہے – صحیحین میں کعب کی قتل کی وجوہات نہیں بیان ہوئیں –  ابن اسحاق کی سیرت کے مطابق کعب مدینہ کا باسی نہ تھا اس کی ننھیال مدینہ میں تھی اور اس کے ہمدرد اس کے ساتھ تھے کعب کا باپ قبیلہ بنی طی کا تھا جو مدینہ کے شمال میں تھا  لیکن کعب ایک یہودی سیٹھ تھا اور عرب میں سفر کرتا اور قبائل کو مدینہ پر حملہ کے لئے اکساتا یہاں تک کہ اس نے عباس رضی الله عنہ کی بیوی نبی صلی الله علیہ وسلم کی مومنہ چچی لبابہ الکبری رضی الله عنہآ کے لئے بیہودہ شاعری کی

لہذا کعب کا قتل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہجو پر نہیں بلکہ فتنہ پردازی کرنے پر ہوا تھا

کعب کے واقعہ کا شتم رسول سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک خاص حکم تھا جو فتنہ اور مدینہ کی سلامتی کے لئے لیا گیا تھا

ابو رافع کا قتل

محمد بن اسحٰق  سیرت میں لکھتے ہیں

ولما انقضی شأن الخندق وأمر بنی قریظة وکان سلام بن أبي الحقیق وهو أبو رافع فیمن حزب الأحزاب علی رسول الله صلی الله علیہ وسلم وکانت الأوس قبل أحد قتلت کعب بن الأشرف في عداوته لرسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وتحریضه علیه استأذنت الخزرج رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم في قتل سلام بن أبي الحقیق وھو بخیبر فأذن لھم.

جب غزوۂ خندق اور بنو قریظہ کے یہود کامعاملہ پورا ہوگیا – ابو رافع  سلام بن ابی الحقیق یہودی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے  خلاف اتحادیوں کو جمع کیا تھا۔ اُحد سے پہلے اَوس قبیلے کےلوگوں نے کعب بن اشرف کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی عداوت اور لوگوں کی وجہ سےقتل کیا تھا توخزرج والوں نے ابورافع یہودی کے قتل کی اجازت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے طلب کی اور اس وقت ابو رافع خیبر میں تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت دی۔

اس واقعہ کا بھی سب و شتم کرنے سے تعلق نہیں ہے یہ بھی ایک خاص حکم ہے جو بطور حاکم نبی صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ کی سلامتی کے لئے دیا

ایک ام ولد کا قتل

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی اُمّ ولد تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی۔ وہ نابینا صحابی اسے منع کرتے لیکن وہ باز نہ آتی تھی۔…. ایک رات جب وہ نبی   صلی  الله علیہ وسلم کی بدگوئی کرنے لگی تو اُس نے برچھا پکڑا تو اسے اس کے پیٹ پر رکھ دیا اور اُس پر اپنا بوجھ ڈالا اور اسےقتل کردیا۔ جب یہ بات نبی کریم صلی  الله علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:

 ألا اشهدوا إن دمها هدر 

 خبردار، گواہ ہوجاؤ اس لونڈی کا خون ضائع و رائیگاں ہے

سنن أبي داود (4361)، سنن النسائي (4075)،سنن الدارقطني‎ المطالب العالیة (2046)، إتحاف الخيرة المھرة للبوصیری

البانی اس حدیث کے بارے  میں   إرواء الغلیل میں  کہتے  ہیں: إسنادہ صحیح علی شرط مسلم   اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔  امام حاکم کہتے ہیں هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مسلم کی شرط پر لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی –

امام حاکم تصحیح حدیث میں غلطیاں کرنے پر مشھور و معروف ہیں یہاں تک کہ انبیاء پر وسیلہ کی وسیلہ کی تہمت لگاتے اور رفض میں علی کو تمام صحابہ سے افضل قرار  دینے والی روایات  کو بھی صحیح کہتے  تھے

إس كي سند میں عثمان الشحام العدوى ہے –  جس کے لئے امام یحییٰ القطان  کہتے ہیں

يعرف وينكر ولم يكن عندي بذاك

اس کو پہچانا اور انکار کیا جاتا ہے اور میرے نزدیک ایسا (مظبوط) نہیں

میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے :  نسائی خود کہتے ہیں قال النسائي: ليس بالقوى. میرے نزدیک قوی نہیں

جس راوی کی روایت نسائی خود کہیں مظبوط نہیں اس کو علماء آج انکی ہی کتاب سے نقل کر کے کیسے  صحیح قرار دے  سکتے ہیں

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق

قال أبو أحمد الحاكم: عثمان بن مسلم أبو سلمة الشحام ليس بالمتين عندهم.

أبو أحمد الحاكم کہتے ہیں : عثمان محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں ہے

الغرض بعض محدثین اس کو ثقہ کہتے ہیں لیکن حلال و حرام  میں اس کی روایت مظبوط نہیں وہ بھی جب اس بنیاد پر قتل کا فتوی دیا جا رہا ہو- عصر حاضر کے علماء میں سے شعَيب الأرنؤوط ، سنن ابو داود پر اپنی تحقیق میں  کہتے ہیں

إسناده قوي من أجل عثمان الشحام، فهو صدوق لا بأس به وباقي رجاله ثقات.

عثمان الشحام کی وجہ سے اس روایت کی اسناد قوی ہیں کیونکہ وہ صدوق ہے اس میں کوئی برائی نہیں اور باقی رجال ثقہ ہیں

یعنی جو راوی متقدمین  محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں  تھا وہ آج معتبر ہو چلا ہے

ایک صحابی کا بہن کو قتل کرنا

معرفہ صحابہ از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْخَلَّالُ، ثنا ابْنُ كَاسِبٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ السَّلَمَ بْنَ يَزِيدَ، وَيَزِيدَ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَاهُ عَنْ عُمَيْرِ بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ أُخْتٌ، فَكَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آذَتْهُ فِيهِ وَشَتَمَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مُشْرِكَةً، فَاشْتَمَلَ لَهَا يَوْمًا عَلَى السَّيْفِ، ثُمَّ أَتَاهَا فَوَضَعَهُ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا، فَقَامَ بَنُوهَا وَصَاحُوا وَقَالُوا: قَدْ عَلِمْنَا مَنْ قَتَلَهَا، أَفَيَقْتُلُ أَمَّنَا وَهَؤُلَاءِ قَوْمٌ لَهُمْ آبَاءٌ، وَأُمَّهَاتٌ مُشْرِكُونَ؟ فَلَمَّا خَافَ عُمَيْرٌ أَنْ يَقْتُلُوا غَيْرَ قَاتِلِهَا ذَهَبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: «أَقَتَلْتَ أُخْتَكَ؟» ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «وَلِمَ؟» ، قَالَ: إِنَّهَا كَانَتْ تُؤْذِينِي فِيكَ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِيهَا فَسَأَلَهُمْ، فَسَمَّوْا غَيْرَ قَاتِلِهَا، فَأَخْبَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ، وَأَهْدَرَ دَمَهَا، قَالُوا: سَمْعًا وَطَاعَةً

 عمیر بن اُمیہ کی ایک بہن تھی اور عمیر جب نبی صلی الله علیہ وسلم  کی طرف جاتے تو وہ اُنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے تکلیف دیتی اور نبی   صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور وہ مشرکہ تھی۔ اُنہوں نے ایک دن تلوار اُٹھائی پھر اپنی  بہن کے پاس آئے، اسے تلوار کا وار کرکے قتل کردیا۔ اس کے بیٹے اُٹھے، اُنہوں نے چیخ و پکار کی اور کہنے لگے کہ ہمیں معلوم ہے، کس نے اسے قتل کیا ہے؟ کیا ہمیں امن و امان دے کرقتل کیا گیا ہے؟ اور اس قوم کے آباء و اجداد اور مائیں مشرک ہیں۔ جب عمیر کو یہ خوف لاحق ہوا کہ وہ اپنی ماں کے بدلے میں کسی کو ناجائز قتل کردیں گے تو وہ نبی کریم صلی  الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کوخبر دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

  أقتلت أختك

کیا تم نے اپنی بہن کوقتل کیا ہے۔

 انہوں نے کہا ہاں۔آپ صلی الله علیہ وسلمنے کہا:   ولم؟   تم نے اسے کیوں قتل کیا

 تو اُنہوں نے کہا:    إنها کانت تؤذینی فیك      یہ مجھے آپ کے بارے میں تکلیف دیتی تھی۔

 تو نبی صلی الله علیہ وسلمنےاس کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا تو اُنہوں نے کسی اور کو قاتل بنایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلمنے ان کو خبر دی اور اس کا خون رائیگاں قراردیا تو اُنہوں نے کہا: ہم نے سنا اور مان لیا

الإصابة  ، المعجم الکبیر از طبرانی،  مجمع الزوائد, أسد الغابة‎‎

اسکی سند میں يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب کا تفرد ہے  –  کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ا بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) کے مطابق

قال النسائي يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب ليس بشَيْءٍ

نسائی کہتے ہیں يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب کوئی چیز نہیں

کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی  کے مطابق

أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں ضَعِيْفُ الحَدِيْثِ

بخاری نے صحیح میں ایک یعقوب سے روایت لی اور لوگوں کا گمان ہے کہ یہ يَعْقُوب غير مَنْسُوب اصل میں ابْن حميد بن كاسب ہے دیکھئے الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از أحمد بن محمد بن الحسين بن الحسن، أبو نصر البخاري الكلاباذي – اس بنیاد پر یعقوب ابْن حميد بن كاسب کو صحیح بخاری کا راوی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ائمہ حدیث اس پر متفق نہیں ہیں

اس روایت میں عُمَيْرِ بْنِ أُمَيَّةَ نامی ایک صحابی کا ذکر ہے جو صرف اسی روایت سے جانے جاتے ہیں- یہ واقعی صحابی بھی تھے یا نہیں کسی اور دلیل سے ثابت نہیں-

ایک یہودیہ کا قتل

سنن ابو داود اور سنن الکبری البیہقی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، «أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ، فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ، فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا

ایک یہودیہ عورت نبی صلی الله علیہ وسلم  کو گالیاں دیا کرتی اور آپ کے بارے میں نازیبا کلمات کہا کرتی تھی۔ ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئی تو اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے اس کا خون باطل قرار دیا۔

اس روایت کے بارے میں  إرواء الغلیل میں   البانی  کہتے ہیں   إسناده صحیح علی شرط الشیخین  اس کی سند بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن بعد میں اس قول سے رجوع کرتے ہیں اور کتاب صحيح وضعيف سنن أبي داود

 میں کہتے ہیں ضعيف الإسناد

کتاب  الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما از ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) کے مطابق كَذَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُد  إِسْنَاده مُنْقَطع اسطرح ابو داود نے روایت کیا ہے اسناد منقطع ہیں

حد قتل صرف مرتکب ِتوہین رسالت کے لیے

سنن الکبری البیہقی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ، نا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، نا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، عَنْ أَبِي السَّوَّارِ، عَنْ  أَبِي بَرْزَةَ، أَنَّ رَجُلًا، سَبَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: ” أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 ابو برزہ کہتے ہیں ایک شخص نے ابو بکر رضی الله عنہ کو گالی دی -میں نے کہا یا خلیفہ رسول آپ کی اجازت ہو تو گردن مار دوں؟  ابو بکر رضی الله عنہ  نے کہا لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یہ حد رسول الله کے بعد کسی کے لئے نہیں

ایک اور روایت میں ہے   لا والله ما کانت لبشر بعد محمد صلی الله علیہ وسلم

الله کی قسم   رسول الله کے بعد یہ کسی  بشر کے لئے نہیں

سنن أبي داؤد    سنن النسائي   ‎‎ السنن الکبری للنسائي

میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق ابن معین اس کی سند میں توبہ العنبری کی تضعیف کرتے ہیں

یہ روایت مستدرک الحاکم میں بھی ہے لیکن الذھبی تلخيص میں اس پر سکوت کرتے ہیں جس سے ظاہر سے وہ اس کی صحت پر مطمئن نہ تھے

یہ روایت مبہم ہے- ابو بکر رضی الله عنہ کس بات پر ناراض تھے واضح نہیں- اور کسی کا اسطرح دخل در معقولات کرنا بے ادبی ہے –  الفاظ لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا مطلب ہے ایسا حکم دینا صرف رسول الله کا حق ہے –  صحیح  بخاری کی  حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہودی جو کہتا تھا تم پر موت ہو اس کو قتل کرنے سے منع کیا

 ایک  عیسائی کو سزا

سنن الکبری بیہقی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَارِسِيُّ , أنبأ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَصْفَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ فَارِسٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: قَالَ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ: ثنا الْمُبَارَكُ، أنبأ حَرْمَلَةُ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، أَنَّ عَرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ مَرَّ بِهِ نَصْرَانِيٌّ فَدَعَاهُ إِلَى الْإِسْلَامِ , فَتَنَاوَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَهُ , فَرَفَعَ عَرَفَةُ يَدَهُ فَدَقَّ أَنْفَهُ , فَرُفِعَ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ , فَقَالَ عَمْرٌو: أَعْطَيْنَاهُمُ الْعَهْدَ. فَقَالَ عَرَفَةُ: مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَكُونَ أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ يُظْهِرُوا شَتْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِنَّمَا أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ نُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ كَنَائِسِهِمْ , يَقُولُونَ فِيهَا مَا بَدَا لَهُمْ , وَأَنْ لَا نُحَمِّلَهُمْ مَا لَا يَطِيقُونَ , وَإِنْ أَرَادَهُمْ عَدُوٌّ قَاتَلْنَاهُمْ مِنْ وَرَائِهِمْ , وَنُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ أَحْكَامِهِمْ , إِلَّا أَنْ يَأْتُوا رَاضِينَ بِأَحْكَامِنَا , فَنَحْكُمَ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِ اللهِ وَحُكْمِ رَسُولِهِ , وَإِنْ غَيَّبُوا عَنَّا لَمْ نَعْرِضْ لَهُمْ فِيهَا. قَالَ عَمْرٌو: صَدَقْتَ وَكَانَ عَرَفَةُ لَهُ صُحْبَةٌ

كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ  کہتے ہیں کہ َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کے پاس سے ایک عیسائی گزرا تو اُنہوں نے اسے اسلام کی دعوت پیش کی تو اُس عیسائی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی اہانت کی۔ َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور اس کی ناک پھوڑ دی ۔ یہ مقدمه عمرو بن العاص کے پاس لایا گیا تو عمرو نے کہا  ہم نے ان کو عہد و پیمان دیا ہے (یعنی ان کی حفاظت ہم پر لازم ہے) َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ نے کہا اللہ کی پناہ! ہم ان کو اس بات پر عہد و پیمان دیں کہ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر سب و شتم کا اظہار کریں۔ ہم نے ان کو اس بات کا عہد دیا ہے کہ ہم اُنہیں ان کے گرجا گھروں میں چھوڑ دیں وہ اپنے گرجا گھروں میں جو کہنا ہے کہیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالیں اوراگر کوئی دشمن ان کا قصد کرے تو ہم ان کے پیچھے ان سے لڑائی لڑیں اور اُنہیں ان کے احکامات پر چھوڑ دیں، اِلا یہ کہ وہ ہمارے احکامات پر راضی ہوکر آئیں تو ہم ان کے درمیان اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں اوراگر وہ ہم سے غائب ہوں تو ہم ان کے پیچھے نہ پڑیں۔   عمرو بن العاص نے فرمایا: صدقتَ تم نے سچ کہا – (بیہقی نے کہا) اور عَرَفَةُ صحابی ہیں

سند میں كعب بن علقمة بن كعب التنوخى  المصری ہیں – بخاری نے تاریخ الکبیر میں نام لکھا ہے نہ جرح کی نہ تعدیل – صرف ابن حبان نے  ثقآت میں ذکر کیا ہے – بخاری نے الأدب المفرد  میں روایت لکھی ہے ایسے رویوں کا مجھول سمجھا جاتا ہے جن پر نہ جرح ہو نہ تعدیل ہو

عرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کا صحابی ہونا واضح نہیں – لہذا دونوں مجھول راوی ہیں –روایت کے آخر میں بیہقی نے کہا ہے عَرَفَةُ صحابی ہیں لیکن ابن حجر الإصابة في تمييز الصحابة میں کہتے ہیں   ذكره ابن قانع، وابن حبّان ان کا ابن قانع اور ابن حبان نے ذکر کیا ہے – آبن  قانِع  المتوفی ٣٥١ ھ کتاب معجم الصحابة میں ان کا ذکر کرتے ہیں –  اس سے قبل کسی نے ان کو صحابی قرار نہ دیا – بہت سے لوگوں کو اس بنیاد پر صحابی نہیں کہا گیا کہ انہوں نے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دور دیکھا ان سے کچھ سنا نہیں- عرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کے بارے میں تو یہ بھی نہیں پتا کہ واقعی دور نبوی بھی پایا تھا یا نہیں-  ایک روایت کے مطابق جو جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد

 میں ہے عرفہ نے حجہ الوداع کے وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا لیکن اس کو البانی ضعیف کہتے ہیں

علی رضی الله عنہ کی روایت

ایک اور روایت ہے جو مجمع الزوائد ،میں ہے

عَنْ عَلِيٍّ – يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ” «مَنْ سَبَّ الْأَنْبِيَاءَ قُتِلَ، وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي جُلِدَ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ وَالْأَوْسَطِ عَنْ شَيْخِهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيِّ رَمَاهُ النَّسَائِيُّ بِالْكَذِبِ.

علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو انبیاء کو گالی دے قتل کر دو اور جو میرے اصحاب کو گالی دے اسے کوڑے مارو

اس کو طبرانی نے الصغیر اور الاوسط میں اپنے شیخ عبید الله سے روایت کیا جن کو  نسائی نے جھوٹ بولنے پر پھینک دیا  ہے

عمیر بن عدی رضی الله عنہ کی روایت

مسند الشهاب از أبو عبد الله محمد بن سلامة بن جعفر بن علي بن حكمون القضاعي المصري (المتوفى: 454هـ) کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ أَبُو طَاهِرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدُونٍ الْمَوْصِلِيُّ، قَدِمَ عَلَيْنَا، أبنا أَبُو الْحَسَنِ، عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْحَرْبِيُّ الْحَنْبَلِيُّ السُّكَّرِيُّ، ثنا أَبُو الْفَضْلِ، جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الْجُرْجَرَائِيُّ بِهَا، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلَاءِ الشَّامِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ اللَّخْمِيُّ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي خَطْمَةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِجَاءٍ لَهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ ذَلِكَ، وَقَالَ: «مَنْ لِي بِهَا؟» فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهَا: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَتْ تَمَّارَةٌ تَبِيعُ التَّمْرَ، قَالَ: فَأَتَاهَا أَجْوَدَ مِنْ هَذَا قَالَ: فَدَخَلَتِ التُّرْبَةَ، قَالَ: وَدَخَلَ خَلْفَهَا، فَنَظَرَ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَلَمْ يَرَ إِلَّا خِوَانًا، قَالَ: فَعَلَا بِهِ رَأْسَهَا حَتَّى دَمَغَهَا بِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ كَفَيْتُكَهَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَأَرْسَلَهَا مَثَلًا

اس سند میں مجالد بن سعید ہے جو ضعیف ہے –  ابن عدی ، ابن جوزی اور البانی کے مطابق روایت موضوع ہے جس کو محمد بن الحجاج اللَّخمي نے گھڑا ہے

دوسری سند ہے

أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ التُّسْتَرِيُّ، وَذُو النُّونِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا نا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَسْكَرِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، نا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، أنا الْوَاقِدِيُّ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَتْ عَصْمَاءُ بِنْتُ مَرْوَانَ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَكَانَ زَوْجُهَا يَزِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ حِصْنٍ الْخَطْمِيُّ، وَكَانَتْ تُحَرِّضُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَتُؤْذِيهِمْ، وَتَقُولُ الشِّعْرَ، فَجَعَلَ عُمَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ نَذْرًا أَنَّهُ لَئِنْ رَدَّ اللَّهُ رَسُولَهُ سَالِمًا مِنْ بَدْرٍ لَيَقْتُلَنَّهَا، قَالَ: فَعَدَا عَلَيْهَا عُمَيْرٌ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَقَتَلَهَا، ثُمَّ لَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى مَعَهُ الصُّبْحَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَصَفَّحُهُمْ إِذَا قَامَ يَدْخُلُ مَنْزِلَهُ، فَقَالَ لِعُمَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ: «قَتَلْتَ عَصْمَاءَ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ فِي قَتْلِهَا شَيْءٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَهِيَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اس کی سند میں َعبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ اور ان کا باپ دونوں مجھول ہیں ،  لگتا ہے یہ غلطی ہے،  کیونکہ ایک راوی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ الْفُضَيْلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ عَدِيِّ کے نام کا ہے

سند میں واقدی ہے جو ضعیف ہے

تہذیب التہذیب از ابن حجر کے مطابق امام احمد کہتے ہیں الْحَارِثِ بْنِ الْفُضَيْلِ

ليس بمحفوظ الحديث  حدیث میں محفوظ نہیں

ليس بمحمود الحديث حدیث میں قابل تعریف نہیں

عمیر بن عدی نے ایک گستاخ عورت کو قتل کیا اسکی خبر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ہوئی

آپ نے فرمایا

لا ينتطح فيها عنزان

اس میں دو بکریوں کے سینگ بھی نہیں الجھیں گے

یعنی اس میں کسی کو اختلاف نہ ہو گا

لیکن جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں محدثین اس کو ایک موضوع روایت کہتے ہیں

بنی قریظہ کی عورت کا قتل

مسند احمد کی راویت ہے

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: لَمْ يَقْتُلْ مِنْ نِسَائِهِمْ إِلَّا امْرَأَةً وَاحِدَةً. قَالَتْ: وَاللَّهِ إِنَّهَا لَعِنْدِي تَحَدَّثُ مَعِي، تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا، «وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ رِجَالَهُمْ بِالسُّوقِ» ، إِذْ هَتَفَ هَاتِفٌ بِاسْمِهَا: أَيْنَ فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: أَنَا وَاللَّهِ، قَالَتْ: قُلْتُ: وَيْلَكِ، وَمَا لَكِ؟ قَالَتْ: أُقْتَلُ. قَالَتْ: قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَتْ: حَدَثٌ أَحْدَثْتُهُ. قَالَتْ: فَانْطُلِقَ بِهَا، فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَنْسَى عَجَبِي مِنْ طِيبِ نَفْسِهَا، وَكَثْرَةِ ضَحِكِهَا وَقَدْ عَرَفَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ

عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ عورتوں میں سے کسی کا قتل نہ ہوا سوائے ایک عورت کے جو گستاخ تھی

اسکی تمام اسناد میں محمّد بن اسحاق ہے جو ضعیف ہے اور احمد کہتے ہیں اس سے حلال و حرام کی روایت نہیں لینی چاہیے

مصنف عبد الرزاق کی روایت

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ. . . أَوْ قَالَ: أَلْفَيْنِ أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَسُبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَكْفِينِي عَدُوِّي؟» فَخَرَجَ إِلَيْهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَقَتَلَهَا

مصنف عبد الرزاق کے نسخہ میں الفاظ مکمل نقل نہیں ہوئے  أبو نعيم نے  معرفة الصحابة (6/ 3162) میں اس کا مکمل متن و سند نقل کیا ہے :
حدثنا أحمد بن محمد بن يوسف، ثنا عبد الله بن محمد البغوي، ثنا زهير بن محمد، ثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن سماك بن الفضل، عن عروة بن محمد، عن رجل  من بلقين، قال: كانت امرأة تسب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «من يكفيني عدوتي، فخرج خالد بن الوليد فقتلها

سماك بن الفضل روایت کرتے ہیں  عروة بن محمد سے وہ  بلقين میں سے ایک شخص سے کہ ایک عورت تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کون میری مدد کرتا ہے میری دشمن کے لئے پس خالد بن ولید نکلے اور اس کو قتل کر دیا

اسکی سند میں عروة بْن مُحَمَّد بْن عطية السعدي الجشمي ہیں جن کو  سُلَيْمان بن عبد الملك اور عُمَر بْن عبد العزيز اور يزيد بن عبد الملك نے يمن پر عامل مقرر کیا تھا – عروہ ایک مجھول سے روایت نقل کر رہے ہیں جس کا نام و نسب نہیں پتا

لیکن پانچویں صدی کی کتاب المحلی از ابن حزم کی روایت ہے

وَحَدَّثَنَا حُمَامٌ نا عَبَّاسُ بْنُ أَصْبَغَ نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَيْمَنَ نا أَبُو مُحَمَّدٍ حَبِيبٌ الْبُخَارِيُّ – هُوَ صَاحِبُ أَبِي ثَوْرٍ ثِقَةٌ مَشْهُورٌ – نا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ سَمِعْت عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ: ” دَخَلْت عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ لِي: أَتَعْرِفُ حَدِيثًا مُسْنَدًا فِيمَنْ سَبَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – فَيُقْتَلُ؟ قُلْت: نَعَمْ، فَذَكَرْت لَهُ حَدِيثَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ ” رَجُلٍ ” مِنْ بُلْقِينَ قَالَ «كَانَ رَجُلٌ يَشْتُمُ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ -: مَنْ يَكْفِينِي عَدُوًّا لِي؟ فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَنَا فَبَعَثَهُ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – إلَيْهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ: لَيْسَ هَذَا مُسْنَدًا، هُوَ عَنْ رَجُلٍ؟ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِهَذَا يُعْرَفُ هَذَا الرَّجُلُ وَهُوَ اسْمُهُ، قَدْ أَتَى النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَبَايَعَهُ، وَهُوَ مَشْهُورٌ مَعْرُوفٌ؟ قَالَ: فَأَمَرَ لِي بِأَلْفِ دِينَارٍ؟»

علی المدینی کو کہتے محمد بن سہل نے سنا کہ میں (علی المدینی) امیر المومنین (المامون) کے پاس داخل ہوا انہوں نے پوچھا :کیا آپ کو کوئی مسند روایت پتا ہے جس میں نبی کی گستاخی پر قتل کی سزا ہو؟ میں نے کہا جی ؛ پس ان سے حدیث ذکر کی کہ عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے سماک سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے بلقین کے رجل سے روایت کیا کہ … امیر المومنین نے کہا اس میں تو روایت عن رجل سے ہے مسند کیسے ہوئی؟ میں نے کہا اے امیر المومنین اس رجل کا نام ہی ایسے لیا جاتا تھا اور یہی اسکا نام ہے یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور انکی بیعت کی اور یہ مشھور و معروف ہیں پس امیر المومنین نے ہزار دینار عطا کیے

ابن حزم کہتے ہیں

 هَذَا حَدِيثٌ مُسْنَدٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ عَبْدُ الرَّزَّاقِ كَمَا ذَكَرَهُ، وَهَذَا رَجُلٌ مِنْ الصَّحَابَةِ مَعْرُوفٌ اسْمُهُ الَّذِي سَمَّاهُ بِهِ أَهْلُهُ ” رَجُلٌ ” مِنْ بُلْقِينَ.

یہ حدیث مسند ہے صحیح ہے اس کو علی بن المدینی نے روایت کیا ہے عبد الرزاق سے جیسا کہ ذکر کیا اور یہ  رجل صحابہ میں سے ہے جن کو انکے گھر والوں نے ایسا نام دیا کہ بلقین کا آدمی

یہ سب اگر آپ نے پڑھ لیا ہے تو سنئے یہ سب غلط ہے اور اس کی وجوہ یہ ہیں

اول محدثین اور عباسی خلفاء میں باپ مارے کا بیر تھا وہ ایک دوسرے کو پسند نہ کرتے تھے اور معتزلی عقائد رکھتے تھے

دوم محدثین کی خلق قرآن کے مسئلہ پر سخت جانچ پڑتال کی جاتی – امام احمد کو علی المدینی کے دور کے ہیں ان کو کوڑے بھی لگے

سوم عبّاسی خلفاء نے اہل رائے والے علماء کو قاضی کے منصب دیے  – محدثین کی عزت افزائی کا ان کو کوئی شوق نہ تھا یہی وجہ تھی کہ محدثین اور اہل رائے میں ایک مخاصمت جنم لے چکی تھی

لہذا عباسی خلفاء کے اہل رائے والے قاضی امام ابو حنیفہ ، امام یوسف اور امام محمد کا فتوی یہ تھا کہ ذمی شاتم کو قتل نہیں کیا جائے گا – امیر المومنین المأمون  نے انعام سے نوازا اور حدیث کو ایک طرح علی المدینی نے بیچ دیا – ایسا ممکن نہیں محدثین حدیث سنانے کے پیسے نہ لیتے تھے

اب رجل من بلقین کا قبول کرنا بھی ایک فرضی داستان ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ رجل من بلقین ایک صحابی ہے اور  صحابہ کلھم عدول ہیں لہذا روایت درست ہے لیکن اس بنیاد پر تو ہر وہ روایت درست مان لینی چاہیے جس میں دور نبوی کے لوگوں کا لقاء ثابت نہ ہو

اب غور سے پڑھیں اسی کتاب المحلی میں ابن حزم ایک دوسرے مسئلہ پر لکھتے ہیں

رُوِّينَاهُ مِنْ طَرِيقِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ «عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ أَحَدٌ أَحَقُّ بِشَيْءٍ مِنْ الْمَغْنَمِ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَ: لَا، حَتَّى السَّهْمُ يَأْخُذُهُ أَحَدُكُمْ مِنْ جَنْبِهِ فَلَيْسَ أَحَقَّ مِنْ أَخِيهِ بِهِ» . قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: هَذَا عَنْ رَجُلٍ مَجْهُولٍ لَا يُدْرَى أَصَدَقَ فِي ادِّعَائِهِ الصُّحْبَةَ أَمْ لَا؟

اور ہم سے روایت کیا گیا ہے حماد بن سلمہ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ «عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِينَ کے طرق سے …. ابن حزم کہتے ہیں یہ رجل مجھول ہے – نہیں پتا کہ اس کا دعوی صحابی ہونا سچا بھی ہے یا نہیں

یعنی ایک ہی کتاب میں رجل من بلقین کو مجھول کہہ کر رد کیا اور جب اس کی شاتم رسول کی روایت آئی تو سب بھول بھال گئے

یہ روایت ان علماء میں چلتی رہی جو قتل کا فتوی دیتے تھے یہاں تک کہ ابن حجر نے  الإصابة في تمييز الصحابة
میں لکھا کہ اوپر امیر المومنین المامون والآ قصہ جس کو ابن حزم صحیح کہہ گئے ہیں  کذب ہے کتاب میں ابن حجر نے لکھآ

قلت: محمد بن سهل ما عرفته، وفي طبقته محمد بن سهل العطار رماه الدارقطنيّ بالوضع وقال: ناقض ابن حزم

میں کہتا ہوں کہ محمد بن سہل نہیں جانا جاتا اور اس طبقہ میں محمد بن سهل العطار ہے جس کو دارقطنی نے حدیث وضع کرنے پر پھینک دیا ہے اور یہ ابن حزم کی غلطی ہے

الغرض روایات مظبوط نہیں اور فقہاء باوجود قرآن پڑھنے کے اس مسئلہ میں ایک رائے نہیں لہذا آج یہ کہنا کہ اس عمل کی سزا پر اجماع ہے  غلط قول ہے

عمر بغیر پوچھے قتل کرتے رهتے

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے

أخبرنا يونس بن عبد الأعلى قراءة، أنبأ ابن وهب، أخبرني عبد الله بن لهيعة عن أبي الأسود قال: اختصم رجلان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقضى بينهما، فقال الذي قضى عليه: ردنا إلى عمر بن الخطاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، انطلقا إلى عمر، فلما أتيا عمر قال الرجل: يا ابن الخطاب قضى لي رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا، فقال: ردنا إلى عمر حتى أخرج إليكما فأقضي بينكما، فخرج إليهما، مشتملا على سيفه فضرب الذي قال: ردنا إلى عمر فقتله، وأدبر الآخر فارا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، قتل عمر والله صاحبي ولو ما أني أعجزته لقتلني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما كنت أظن أن يجترئ عمر على قتل مؤمنين، فأنزل الله تعالى فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما فهدر دم ذلك الرجل وبرئ عمر من قتله، فكره الله أن يسن ذلك بعد، فقال: «ولو أنا كتبنا عليهم أن اقتلوا أنفسكم أو اخرجوا من دياركم ما فعلوه إلا قليل منهم» إلى قوله: وأشد تثبيتا

یونس بن عبد الاعلیٰ عبدللہ بن وھب سے روایت کرتے ہیں کہ ابن الہیعہ نے انہیں ابو الاسود سے نقل کرتے ہوئے خبر دی: دو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے آپ نے ان کے درمیان فیصلہ فرمایا جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا ہم کو حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے؟ دونوں عمر ؓکے پاس چلے جب عمر ؓ کے پاس آئے تو ایک آدمی نے کہا اے ابن خطاب میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرما دیا ہے اس معاملہ میں اس نے کہا ہم عمر ؓ کے پاس جائیں گے تو ہم آپ کے پاس آگئے عمر ؓ نے پوچھا (اس آدمی سے) کہا ایسے ہی ہے؟ اس نے کہا ہاں عمر ؓ نے فرمایا اپنی جگہ پر رہو یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آؤں تمہارے درمیان فیصلہ کروں حضرت عمر اپنی تلوار لے کر آئے اس پر تلوار سے وار کیا جس نے کہا تھا کہ ہم عمر کے پاس جائیں گے اور اس کو قتل کردیا اور دوسرا پیٹھ پھیر کر بھاگا اور رسول اللہ ﷺ سے آکر کہا یا رسول اللہ اللہ کی قسم عمر ؓ نے میرے ساتھی کو قتل کردیا اگر میں بھی وہاں رکا رہتا تو وہ مجھے بھی قتل کردیتے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرا گمان یہ نہیں تھا۔ کہ عمر ؓ ایمان والوں کو قتل کی جرات کریں گے تو اس پر یہ آیت اتری لفظ آیت ’’ فلا وربک لا یؤمنون‘‘ تو اس آدمی کا خون باطل ہوگیا اور عمر ؓ اس کے قتل سے بری ہوگئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں اس طریقہ کو ناپسند کیا تو بعد والی آیات نازل فرمائیں اور فرمایا لفظ آیت ’’ ولو انا کتبنا علیہم ان اقتلوا انفسکم‘‘ سے لے کر ’’واشد تثبیتا‘‘ تک

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا (66)
جواب

یہ روایت منکر ہے

تعزیری احکام صرف حاکم کا حق ہے اور دور نبوی میں قتل کا حکم صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کر سکتے ہیں – کوئی اور نہیں

محمد الأمين بن عبد الله الأرمي العلوي الهرري الشافعی کتاب تفسير حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن میں کہتے ہیں
وهذا مرسل غريب في إسناده ابن لهيعة.
یہ روایت مرسل ہے عجیب و منفرد ہے اس کی سند میں ابن لهيعة ہے

ابن کثیر تفسیر میں اس قصے کو نقل کر کے کہتے ہیں
وَهُوَ أثر غريب مُرْسَلٌ، وَابْنُ لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ
یہ اثر عجیب ہے مرسل ہے اور ابْنُ لَهِيعَةَ ضعیف ہے

محاسن التأويل میں المؤلف: محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ) کہتے ہیں
وهو أثر غريب مرسل. وابن لهيعة ضعيف

اس راوی پر محدثین کا اختلاف رہا ہے – بعض نے مطلقا ضعیف کہا ہے بعض نے کہا کہ اگر ابن المبارك وابن وهب والمقري اس سے روایت کریں تو لکھ لو
اس طرح اس قصے کو قبول کرنے والے کہتے ہیں ابن وھب نے روایت کیا ہے لہذا قبول کیا جائے گا
لیکن یہ قول اس وقت لیا جاتا ہے جب اختلاط کا خطرہ ہو کیونکہ عبد الله بن لهيعة آخری عمر میں مختلط تھا اور اس نے اپنی کتابیں بھی جلا دیں تھیں
——
موصوف مدلس بھی ہیں اور یہ جرح اس سند پر بھی ہے اس کو کوئی رد نہیں کر سکتا
ابن سعد نے طبقات میں بحث کو سمیٹا ہے کہ
إنه كان ضعيفاً
یہ ضعیف ہی ہے

ابن ابی حاتم جن کی تفسیر میں یہ قصہ ہے ان کے باپ کا کہنا تھا
وأبو حاتم: أمره مضطرب،
عبد الله بن لهيعة کا کام مضطرب ہے

روایت میں شیعیت ہے

اس کو رافضی الکلبی نے بھی روایت کیا ہے
قال الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس: نزلت في رجل من المنافقين يقال له بشر كان بينه وبين يهودي خصومة، فقال اليهودي: انطلق بنا إلى محمد، وقال المنافق: بل نأتي كعب بن الأشرف -وهو الذي سماه الله تعالى الطاغوت- فأبى اليهودي إلا أن يخاصمه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رأى المنافق ذلك “أتى معه” النبي صلى الله عليه وسلم واختصما إليه فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم لليهودي فلما خرجا من عنده لزمه المنافق وقال: ننطلق إلى عمر بن الخطاب فأقبلا إلى عمر، فقال اليهودي: اختصمت أنا وهذا إلى محمد فقضى لي عليه فلم يرض بقضائه وزعم أنه مخاصم إليك وتعلق بي فجئت معه، فقال عمر للمنافق: أكذلك؟ فقال: نعم فقال لهما: رويدكما حتى أخرج إليكما فدخل عمر البيت وأخذ السيف فاشتمل عليه ثم خرج إليهما فضرب به المنافق حتى برد وقال: هكذا أقضي بين من لم يرض بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهرب اليهودي، ونزلت هذه الآية وقال جبريل عليه السلام: إن عمر فرق بين الحق والباطل فسمي الفاروق.
الکلبی ابو صالح سے اور ابو صالح ابن عبّاسؓ سے روایت کرتے ہیں: یہ آیت بشر نامی ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئی۔ بشر اور ایک یہودی کے مابین جھگڑا ہوا۔ یہودی نے کہا چلو آؤ محمد کے پاس فیصلہ کے لئے چلیں۔ منافق نے کہا نہیں بلکہ ہم کعب بن اشرف یہودی – جسے اللہ تعالی نے طاغوت کا نام دیا – کے پاس چلیں۔ یہودی نے فیصلہ کروانے سے ہی انکار کیا مگر یہ کہ جھگڑے کا فیصلہ رسول اللہ سے کروایا جائے۔ جب منافق نے یہ دیکھا تو وہ اس کے ساتھ نبی ﷺ کے کی طرف چل دیا اور دونوں نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ وہ دونوں جب آپ کے پاس سے نکلے تو منافق نے عمر بن خطابؓ کے پاس چلنے پر اصرار کیا اور وہ دونوں عمر ؓکے پاس پہنچے۔ یہودی نے کہا، میں اور یہ شخص اپنا جھگڑا محمد کے پاس لے کر گئے اور محمد نے میرے حق میں اور اس کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ چنانچہ یہ ان کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور آپ کے پاس آنے کا کہا تو میں آپ اس کے ساتھ آپ کی طرف آیا۔ عمر ؓنے منافق سے پوچھا، ‘کیا یہی معاملہ ہے؟’ اس نے کہا، ‘جی ہاں۔’ عمرؓ نے ان دونوں سے کہا تم دونوں میری واپسی کا انتظار کرو۔ عمر ؓ اپنے گھر گئے، اپنی تلوار اٹھائی اور واپس ان دونوں کے پاس لوٹے اور منافق پر وار کیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: “جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کے لئے میرا یہی فیصلہ ہے۔” یہ دیکھ کر یہودی بھاگ گیا۔ اس پر یہ آیت (النساء ٦٥) نازل ہوئی اور جبریل علیہ السلام نے کہا: بے شک عمر ؓنے حق اور باطل کے درمیان فرق کر دیا اور انہوں نے آپ کا نام “الفاروق” رکھا

اور ابن الہیعہ نے اغلبا تدلیس کی ہے کیونکہ ابی الاسود سے لے کر عمر رضی الله عنہ یا کسی صحابی تک سند نہیں ہے

الكَلْبِيُّ مُحَمَّدُ بنُ السَّائِبِ بنِ بِشْرٍ المتوفي ١٤٦ اور ابن الہیعہ المتوفی ١٧٤ کے ہیں دونوں پر شیعت کا اثر تھا – روایت کو عمر رضی الله عنہ کی تنقیص میں بیان کیا گیا کہ وہ حکم نبوی انے سے قبل ہی اپنی چلاتے تھے

ابن خطل کا قتل

حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو ابن خطل کعبہ کے پردے میں چھپ گیا آپ نے حکم دیا اس کو وہیں قتل کر دیا جائے

ابو داود کہتے ہیں أَبُو بَرْزَةَ رضی الله عنہ  نے  اس کا قتل کیا اور امام مالک کا قول ہے کہ اس روز رسول الله احرام میں نہ تھے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے کالا عمامہ باندھا ہوا تھا یعنی سر بھی ڈھکا ہوا تھا

کیونکہ احرام کی حالت میں قتل حرام ہے اس لئے فقہاء میں اس پر بحث ہوتی ہے کہ کیا حرم میں بغیر احرام داخل ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟  یہ عمل الله کی خاص اجازت سے ہوا

اب بحث یہ ہے کہ ابن خطل کا قتل کیوں ہوا ؟  کتاب الشريعة از الآجُرِّيُّ کے مطابق علی رضی الله عنہ کا قول ہے

كَانَ ابْنُ خَطَلٍ يَكْتُبُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابن خطل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے لکھتا تھا

یعنی ابن خطل  ایک کاتب تھا جو مرتد ہو گیا تھا اور چونکہ مرتد کا قتل ہوتا ہے اس لئے اس کا قتل ہوا یہ گناہ تمام دیگر گناہوں پر سبقت لے گیا ورنہ مکہ میں تو سب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف تھے

کتاب  شرح السنة از البغوي  کے مطابق

أَنَّ ابْنَ خَطْلٍ كَانَ بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهٍ مَعَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَمَّرَ الْأَنْصَارِيَّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، وَثَبَ عَلَى الْأَنْصَارِيِّ، فَقَتَلَهُ، وَذَهَبَ بِمَالِهِ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِهِ لِخِيَانَتِهِ.

ابن خطل کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک کام سے ایک انصاری صحابی کے ساتھ  بھیجا اور انصاری کو امیر کیا پس جب وہ رستہ میں تھے ابن خطل نے انصاری پر قابو پایا اور ان کو قتل  کر کے مال لے بھاگا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا قتل خیانت کرنے پر کیا

اہل مکہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نام رکھے ہوئے تھے بعض ان کو

ابن ابی کبشہ کہتے (سیرت ابن اسحاق)  یعنی ابی کبشہ کا بیٹا جو ایک ستارہ پرست تھا اور الشعری کا پجاری تھا یعنی عربوں کے نزدیک لا دین تھا

بعض اہل مکہ ان کو مذمم کہتے (مسند احمد، صحیح بخاری) یعنی وہ جو قابل مذمت ہو

صحیح بخاری کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا

أَلاَ تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ، يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ

کیا تم کو حیرت نہیں ہوتی کہ کس طرح الله نے قریش کی گالیوں کو ہٹایا اور ان کی لعنت کو؟ کہ وہ ایک مذمم کو گالی دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں اور میں محمد ہوں

یعنی الله میری تعریف کر رہا ہے اور قریش الله سے دعائیں کر رہے ہیں کہ مجھ پر لعنت ہو

 آپ صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ان تمام گالی دینے والوں کو معاف کر دیا

—-

معالم السنن میں خطابی کہتے ہیں

وحكي، عَن أبي حنيفة أنه قاله لا يقتل الذمي بشتم النبي صلى الله عليه وسلم ما هم عليه من الشرك أعظم.

اور امام ابو حنیفہ سے حکایت کیا گیا ہے کہ ذمی کو گالی دینے پر قتل نہیں کیا جائے گا ان پر پہلے سے شرک  (کا گناہ) ہے جو بڑا ہے

یعنی جب شرک جسے گناہ پر ان کو قتل نہیں کیا جاتا تو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دینے  پر کیسے کیا جا سکتا ہے؟

امام ابو حنیفہ کی رائے کی تائید صحیح البخاری کی حدیث سے ہوتی ہے

ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ اللَّهُ: «كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِي، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ [ص:20] إِيَّايَ فَزَعَمَ أَنِّي لاَ أَقْدِرُ أَنْ أُعِيدَهُ كَمَا كَانَ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ، فَقَوْلُهُ لِي وَلَدٌ، فَسُبْحَانِي أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا»

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالی کہتا ہے

ابن آدم نے میری تکذیب کی اور اس کے لئے یہ مقام نہیں

اور مجھ کو گالی دی …. یہ کہہ کر کہ میرا بیٹا ہے جبکہ میں پاک ہوں کہ کسی کو بیٹے کے  طور پر لوں

آجکل بعض جھلا کہتے پھرتے ہیں کہ شاتم رسول ذمی کی سزا پر بحث نہ کی جائے کیونکہ یہ دین دار اور دنیا پرست لوگوں کا جھگڑا ہے لیکن ان جھلا نے امام ابو حنیفہ رحمہ الله علیہ تک کو دنیا دار طبقہ میں ملا دیا ہے

ناطقہ سربہ گریباں خامہ انگشت

گانے والیوں کو سزا

ابن تیمیہ نے اپنی کتاب  الصارم المسلول على شاتم الرسول میں ایک قصہ نقل کیا ہے

فمن ذلك ما ذكره سيف بن عمر التميمي في كتاب “الردة والفتوح” عن شيوخه قال: “ورفع إلى المهاجر يعني المهاجر بن أبي أمية وكان أميرا على اليمامة ونواحيها امرأتان مغنيتان غنت إحداهما بشتم النبي صلى الله عليه وسلم فقطع يدها ونزع ثنيتيها وغنت الأخرى بهجاء المسلمين فقطع يدها ونزع ثنيتيها فكتب إليه أبو بكر: بلغني الذي سرت به في المرأة التي تغنت وزمرت بشتم النبي صلى الله عليه وسلم فلولا ما قد سبقتني لأمرتك بقتلها لأن حد الأنبياء ليس يشبه الحدود فمن تعاطى ذلك من مسلم فهو مرتد أو معاهد فهو محارب غادر”.

  سيف بن عمر التميمی نے اپنی کتاب “الردة والفتوح” میں اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے کہ   المهاجر بن أبي أمية جو یمامہ پر امیر تھے وہاں دو عورتیں ان پر پیش مقدمے میں ہوئیں جو گاتی اور ہجو رسول کرتی تھیں –  المهاجر بن أبي أمية نے  اس کے ہاتھ کاٹ دیئے اور اس کے اگلے دانت نکال دیئے۔  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے اسے یہ سزانہ دی ہوتی تو تمہیں حکم دیتاکہ اس عورت کو قتل کردو۔کیونکہ انبیاء کرام کی گستاخی کی حددوسرے لوگوں کی(گستاخی کی) حدود کے مشابہ نہیں ہوتی ۔

سيف بن عمر التميمي  سے تعزیری احکام نہیں لئے جا سکتے یہ حدیث میں متروک ہے البتہ تاریخ میں قبول کیا جاتا ہے – دوم اس کی کتب معدوم ہیں اور سیف کے شیوخ بھی پارسا نہیں کہ اس قسم کی سخت سزا اس کی سند سے لی جائے

راہب کا قتل

ابن تیمیہ نے اپنی کتاب  الصارم المسلول على شاتم الرسول میں ایک قصہ نقل کیا ہے

ومن ذلك ما استدل به الإمام أحمد ورواه عنه هشيم: ثنا حصين عمن حدثه عن ابن عمر قال: مر به راهب فقيل له: هذا يسب النبي صلى الله عليه وسلم فقال ابن عمر: “لو سمعته لقتلته إنا لم نعطهم الذمة على أن يسبوا نبينا صلى الله عليه وسلم”.
ورواه أيضا من حديث الثوري عن حصين عن الشيخ أن ابن عمر أصلت على راهب سب النبي صلى الله عليه وسلم بالسيف وقال: “إنا لم نصالحهم على سب النبي صلى الله عليه وسلم”.

اور اسی سے استدلال  امام احمد نے  کیا ہے جو انہوں نے  هشيم: ثنا حصين عمن حدثه عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا کہ  عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک (عیسائی) راہب گزرا جس کے بارے میں لوگوں نے کہا کہ یہ حضوراکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتاہے – عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں اس سے گستاخانہ کلمات سن لیتاتو اس کی گردن اڑادیتا۔ ہم گستاخ رسول کی تعظیم نہیں کرتے – اور ایسا ہی روایت کیا گیا ہے  حديث الثوري عن حصين عن الشيخ أن ابن عمر

راقم کہتا ہے دونوں سندیں مخدوش ہیں مجہول لوگوں کی خبریں ہیں

علی کا حکم قتل کر دو

اہل سنت کہتے ہیں علی کا حکم تھا کہ شاتم رسول کو قتل کر دو – اس پر روایت پیش کرتے ہیں

مصنف عبد الرزاق میں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، 9708 – عَنِ ابْنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَلِيًّا قَالَ: فِيمَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُضْرَبُ عُنُقُهُ»
عبدالرزاق ، ابْنِ التَّيْمِيِّ سے روایت کرتے ہیں وہ باپ سے کہ علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جو شخص رسول الله کی طرف جھوٹ منسوب کرے اسے قتل کردیاجائے گا۔
(مصنف عبدالرزاق حدیث ٩٧٠٨ نمبر)

محدثین نے اس حکم پر عمل نہیں کیا اور متروک اور وضاع یعنی حدیث گھڑنے والوں کی روایات جمع کی ہیں ان میں کسی کو بھی قتل نہیں کیا گیا
سوال یہ ہے کہ جھوٹی احادیث بنانے والا تو معتوب ہے تو سنانے والا کیوں نہیں جیسا کہ آجکل عام ہو چکا ہے

نصرانی کا قتل

مصنف عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَخْبَرَنِي أَبِي: أَنَّ أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى خَرَجَ إِلَى عَدَنٍ فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ النَّصَارَى سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَشَارَ فِيهِ فَأَشَارَ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ الصَّنَعَانِيُّ أَنْ يَقْتُلَهُ “، فَقَتَلَهُ، وَرَوَى لَهُ فِي ذَلِكَ حَدِيثًا قَالَ: وَكَانَ قَدْ لَقِيَ عُمَرَ وَسَمِعَ مِنْهُ عِلْمًا كَثِيرًا قَالَ: فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَيُّوبُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ، أَوْ إِلَى الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، فَكَتَبَ يُحَسِّنُ ذَلِكَ

عبد الرزاق نے کہا ان کو ان کے باپ نے خبر دی کہ َيُّوبَ بْنَ يَحْيَى عدن کے لئے نکلے تو ان پر پیش ہوا کہ آدمی نصرانی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دیتا تھا پس انہوں نے اس پر اشارہ طلب کیا اور عبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ الصَّنَعَانِيُّ نے کہا اس کو قتل کر دو پس وہ قتل کیا گیا اور اس حدیث میں روایت کیا گیا ہے کہا ان کو عمر سے ملاقات ہے اور ان سے کثیر علم لیا کہا پس َ أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى نے عبد الملک بن مروان کو خط لکھا یا الولید کی طرف اور اس نے کہا اچھا کیا

راقم کہتا ہے أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى مجہول ہے

 علی نے گستاخِ رسولؐ کی زبان کاٹ دی

اہل تشیع کی کتب میں ایک دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے

رسول الله کے مدنی دور میں کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔ اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے رسول الله کے سامنے پھینک دیا- رسول اللہ نے حکم دیا: اس کی زبان کاٹ دو۔ بعض صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟  رسول الله نے فرمایا: نہیں، تم نہیں اور علی کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو – علی بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے اور قنبر کو حکم دیا: جا کر میرا اونٹ لے آئیں اونٹ آیا علی نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیے اور اس کو اونٹ پہ بیٹھایا، پھر فرمایا: تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لونگا- اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ، علی نے تو رسول اللہ کی نافرمانی کی – رسول الله کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: یا رسول اللہ آپ نے کہا تھا زبان کاٹ دو، اور علی نے اس گستاخ شاعر کو 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا رسول الله مسکرائے اور فرمایا علی میری بات سمجھ گئے – افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی – وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ: یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو ،علی نے تو کاٹی ہی نہیں – اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شاعر وضو کررہا ہے- پھر وہ مسجد میں جا کر جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے: یا رسول الله آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں اور یوں ہوا کہ علی نے گستاخ رسول کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔

مختصرا یہ واقعہ کتاب دعائم الإسلام – القاضي النعمان المغربي – ج 2 – ص 323 میں بیان ہوا ہے
وعنه ( ع ) أنه قال : جاء شاعر إلى النبي ( صلع ) فسأله
وأطرأه ( 1 ) ، فقال بعض أصحابه : قم معه فاقطع لسانه . فخرج ثم رجع
فقال : يا رسول الله ، أقطع لسانه ؟ قال : إنما أمرتك أن تقطع لسانه
بالعطاء .

کتاب  شرح أصول الكافي از  مولي محمد صالح المازندراني میں پر لکھا ہے

ويختلف الناس في فهم القرآن ومثاله ما روي أن شاعرا مدح النبي (صلى الله عليه وآله) فقال لبعض أصحابه: إقطع لسانه. والظاهر منه قطع اللسان بالسكين لكن القرينة العقلية تدل على عدم كونه مرادا ولم يفهمه الصحابي حتى دله غيره بأن المراد الإحسان إلى الشاعر فان الإحسان يقطع اللسان إذ لا يأمر النبي (صلى الله عليه وآله) بقطع اللسان 

اور لوگوں کا فہم قرآن پر اختلاف ہوا اور اس کی مثال ہے جو روایت کیا جاتا ہے کہ ایک شاعر نے (گستاخانہ) مدح النبی صلی الله علیہ و اله کی پس بعض اصحاب نے کہا اس کی زبان کاٹ دو اور ظاہر مفہوم ہے کہ چھری سے زبان کاٹ دو لیکن عقلی قرینہ دلالت کرتا ہے کہ یھاں اس سے یہ مراد نہیں ہے اور صحابی اس کو سمجھ نہ سکے یہاں تک کہ دوسروں نے دلیل دی کہ اس سے مراد شاعر پر احسان ہے کیونکہ احسان زبان کاٹ دیتا ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ و اله نے  قطع زبان کا حکم نہیں کیا تھا

الغرض شاتم رسول اگر غیر مسلم ہے تو اس  کے قتل پر کوئی صحیح حدیث نہیں اور جن لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے مثلا کعب بن اشرف وغیرہ ان کا قتل اس تناظر میں نہیں ہوا بلکہ مدینہ کی سلامتی لے لئے کیا گیا تھا

طائفہ منصورہ کیا ہے ؟

 ایک مغالطہ ہے جو  مشہور ہے – لوگ اپنے آپ کو طائفہ منصورہ بھی قرار دیتے ہیں جبکہ اس کی احادیث کے متن میں سخت اضطراب ہے – اس کے فہم پر اصحاب رسول اور محدثین کی آراء بھی متصادم ہیں – راقم اس حوالے سے صرف اصحاب رسول  کے فہم کو درجہ قبولیت دیتا ہے

صحیح مسلم

صحیح بخاری

صحیح مسلم کی ایک  اور  حدیث دیکھئے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزَالُ أَهْلُ الْغَرْبِ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»

سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اہل مغرب حق پر غالب رہیں گے انکو زوال نہ ہو گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو

 ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻭﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ اﻟﺸﺎﻋﺮ، ﻗﺎﻻ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺃﺑﻮ اﻟﺰﺑﻴﺮ، ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ: «ﻻ ﺗﺰاﻝ ﻃﺎﺋﻔﺔ ﻣﻦ ﺃﻣﺘﻲ ﻳﻘﺎﺗﻠﻮﻥ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﻖ ﻇﺎﻫﺮﻳﻦ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ»

ابو زبیر نے کہا کہ جابر رضی الله عنہ سے سنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا ایک گروہ میری امت کا حق پر لڑے گا غالب رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے

بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کو سنا انہوں نے ہم کو خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا الله جس کو خیر دینا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ کا علم دیتا ہے  اور بے شک میں (علم) باٹنے والا ہوں اور الله (علم) عطا کرنے والا ہے اور یہ امت الله کے کام سے نہیں ہٹے گی  الله کے امر پر قائم رہے گی اس کو اس کی مخالفت کرنے والے نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے

روایت کی تاویلات

اسسے مراد محدثین ہیں

اس سے مراد مغرب والے ہیں

یعنی افریقہ والے

اس سے مراد شام والے ہیں

مدینہ و عرب کا شمال

احمد بن حنبل  (241-164ھ)   سے منسوب قول   معرفۃ علوم الحدیث     از   حاکم    ابن البيع (المتوفى: 405هـ) میں  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ بِمِصْرَ، ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، ثنا شُعْبَةُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمُ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ» سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْآدَمِيَّ بِمَكَّةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ هَارُونَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: وَسُئِلَ عَنْ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: «إِنْ لَمْ تَكُنْ هَذِهِ الطَّائِفَةُ الْمَنْصُورَةُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ فَلَا أَدْرِي مَنْ هُمْ

اگر یہ طائفہ منصورہ اہل حدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔

 

امام بخاری خود صحیح میں باب میں لکھتے ہیں

باب قَوْلِ النبيِّ – صلى الله عليه وسلم -: “لاَ تَزَالُ طَائفَةٌ مِنْ أُمَّتي ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”، وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ ایک میری امت میں گروہ زوال کا شکار نہ ہو گا غالب رہیں گے حق پر اور قتال کریں گے اور اس سے مراد اہل علم ہیں

 

کتاب تهذيب الأسماء واللغات از امام النووی میں ہے النووی کہتے ہیں

ففى الصحيحين أن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: “لا تزال طائفة من أمتى ظاهرين على الحق لا يضرهم خذلان من خذلهم” (2) . وجملة العلماء أو جمهورهم على أنهم حملة العلم

اس حدیث سے مراد اہل علم ہیں

 

محقق محمد فؤاد عبد الباقي کتاب المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم میں صحیح مسلم کی تعلیق میں  لکھتے ہیں

قال علي بن المديني المراد بأهل الغرب العرب

امام علی المدینی نے کہ اہل مغرب سے مراد عرب کے مغرب والے ہیں

 

کتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله  کے مطابق امام احمد سے سوال ہوا

وسئل عن: حديث النبي – صلى الله عليه وسلم -: «لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله. وهم على ذلك» .

قال: هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم. كل من قاتل المشركين، فهو على الحق. «سؤالاته» (2041)

حدیث رسول کہ میری امت کا گروہ حق پر غالب رہے گا انکو مخالفین نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا حکم آ جائے تو یہ کون ہیں ؟ امام احمد نے کہا یہ اہل مغرب ہیں جو روم سے قتال کر رہے ہیں جو بھی مشرکین سے قتال کرے وہ حق پر ہے

 

 

کتاب  مناقب الشام وأهله (ص 79) میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

لغة أهل مدينته في “أهل الغرب” أنهم أهل الشام

لغت اہل مدینہ میں اہل غرب سے مراد اہل شام ہیں

 

محدثین تو عرب میں یمن میں ایران میں عراق میں شام میں سب مقامات پر تھے

گویا ان محدثین کے نزدیک اس روایت کا تعلق کسی خاص ملک سے نہیں تھا

احمد اور علی المدینی کا قول ہے کہ یہ عرب کے مغرب میں روم سے قتال کرنے والے مسلمان ہیں یعنی مصر و لیبیا والے

معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ ان کے دور  کے اہل شام ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے قریش کی عربی میں گفتگو کی ہے جس میں مغرب سے مراد شمال نہیں ہے – ابن تیمیہ کی بے سروپا نکتہ سنجی کی کوئی حیثیت  نہیں

شام  جزیرہ العرب کے شمال میں ہے – عرب کے مغرب میں افریقہ ہے یعنی مصر سوڈان حبشہ نوبیا وغیرہ- اس  خغرافیائی حقیقت کو صرف نظر کر کے بعض لا علم علماء نے مغرب والی حدیث کو شام سے ملا دیا ہے – اس سے یہ معاملہ اور  الجھ جاتا ہے – الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية  میں سخاوی  لکھتے ہیں

أخرجه أبو يعلى والطبراني في الأوسط من حديث أبي صالح الخولاني عن أبي هريرة رضي الله عنه بلفظ: “لا تزال عصابة من أمتي يقاتلون على أبواب دمشق وعلى أبواب بيت المقدس وما حوله لا يضرهم خذلان من خذلهم”. الحديث – وعند مسلم من حديث أبي عثمان عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه بلفظ: “لا يزال أهل الغرب ظاهرين على الحق حتى تقوم الساعة” وذكر يعقوب بن شيبة عن علي بن المديني: إن المراد بالغرب الدلو، أي العرب بفتحتين، لأنهم أصحابها، لا يستقي بها أحد غيرهم، وقال غيره: المراد بالغرب أهل القوة والاجتهاد في الاجتهاد، يقال: في لسان غَرْب بفتح ثم سكون، أي حدة. قال شيخنا رحمه الله: ويمكن الجمع بين الأخبار، بأن المراد قوم يكونون ببيت المقدس وهي شامية ويستقون بالدلو، ويكون لهم قوة في جهاد العدو، وحدة وجد. انتهى.

اور ابو یعلی  اور طبرانی نے اوسط میں حدیث ابو صالح خولانی کی  ان کی ابو ہریرہ  کی سند سے تخریج کی ہے  جس میں الفاظ ہیں   امت میں ایک گروہ    دمشق کے دروازوں  پر قتال کرتا رہے گا  اور بیت المقدس کے درازوں  پر  اور اس کے گرد  – ان کو  گرانے والے نقصان  نہ دے  پائیں گے –  اور   صحیح مسلم میں    حدیث ہے سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ  عنہ کی  اہل  غرب کو  زوال نہ ہو گا حق پر غالب  رہیں گے یہاں تک کہ قیامت برپا ہو- اور یعقوب بن شیبہ نے امام المدینی    کے حوالے سے ذکر کیا کہ غرب سے مراد   الدلو   (پانی کی ترسیل کرنے والے) ہیں یعنی عرب … کہ وہ  اس کے اصحاب ہیں  ان   سے پانی لیا جاتا ہے   اور دوسروں نے کہا  غرب سے مراد قوت والے ہیں اجتہاد والے – … ہمارے  شیخ   (ابن حجر )  کہتے ہیں    اور ان دونوں روایات  کو اس طرح ملایا جا سکتا ہے کہ اس سے مرد قوم ہے  جو بیت المقدس کی ہے اور یہ شامی ہیں اور دلو سے پانی پلاتے ہیں  اور یہ قوت والے ہیں جہاد میں  اپنے دشمن پر

البانی   الصحيحة (2/ 690) میں لکھتے ہیں

 وأعلم أن المراد بأهل الغرب في هذا الحديث أهل الشام

اور جان لو کہ  اہل غرب سے مراد  اس حدیث میں اہل شام ہیں

راقم کہتا ہے کیسے جان لیں کہ شمال اور مغرب کیا ایک ہیں ؟  سلفی علماء مدینہ کے مشرق میں نجد کو شمال میں عراق سے ملا دیتے ہیں یعنی ان کے نزدیک حدیث نجد میں  مشرق اور شمال ایک ہیں اور یہاں طائفہ منصورہ میں مغرب اور شمال ایک کر رہے ہیں – ان کو علم خغرافیہ پڑھنے کی اشد ضرورت ہے – جس شخص نے سفر کیے ہیں کعبه کی سمت میں نماز پڑھی ہو وہ کیا اس طرح سمتوں میں غلطی کرے گا ؟  یقینا یہ اپنے اپنے مولویوں کی آراء کو بچانا ہے

متضاد آراء

ائمہ
شام میں ایک گروہ

وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ

معاویہ رضی الله عنہ

صحیح مسلم صحیح بخاری

  اہل علم

 

ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”،

وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ

امام بخاری
روم سے قتال کرنے والے –

هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم.

امام احمد
اہل مغرب / اہل حدیث / أهل الغرب العرب

امام علی المدینی

دوسری طرف نیشاپور میں   امام  أَبُو زُرْعَةَ   اور  امام ابو حاتم   دونوں اس روایت کو منکر کہتے تھے- علل  ابن ابی حاتم میں ہے

عَنْ معاوية، عن النبيِّ (ص) قَالَ: لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي … . قَالَ أَبِي: فأنكرتُ ذَلِكَ، وأنكَرَه أَبُو زُرْعَةَ

وأعلمُ أَنَّ الحديثَ مُنكَرٌ  – جان لو یہ حدیث منکر ہے

سوال ہے اہل علم یا محدثین غلبہ میں کب رہے؟    اہل حدیث  یعنی     محدثین بھی اس حدیث کا مصداق نہیں ہیں  –   محدثین  کی تو خوب تذلیل ہوئی – امام احمد کو کوڑے لگے-  امام بخاری کو شہر نکالا ملا کسمہ پرسی میں شہر سے باہر ہلاک ہوئے-  محدثین کی عوام میں کوئی قدر و منزلت نہیں    عوام  نے کبھی   بھی حکومت  کے خلاف  لب کشانی نہیں کی   اور  بنو عباس کی   معتزلی حکومت   محدثین  کی مخالف رہی- محدثین  نے الٹا   عباسی خلفاء  کو  امیر المومنین  کہہ کر ہی مخاطب کیا ہے[1]

اس روایت کے بعض متن میں ہے کہ وہ شام والے ہیں یا کہا قیامت تک ہوں گے-  معلوم  ہے کہ صلیبی نصرانییوں   نے دو سو سال قبضہ شام پر کیا-  انگریر نے قبضہ کیا اور اب اس کے ایک جز پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور باقی پر نصیری فرقے کا قبضہ ہے لہذا یہ روایت قیامت تک کے حوالے سے ہے ہی نہیں-  راقم  کہتا  ہے ا س روایت  کے جس متن میں بھی قیامت کا ذکر ہو اس کی سند میں علت  ملی  ہے-

حقائق کو مد نظر رکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس طائفہ منصورہ کا تعلق بارہ خلفاء سے تھا جو الله کا حکم تھا  کہ  ایمان پھیلے گا اس کے مخالف مشرک و اہل کتاب اس کو پھیلنے سے نہیں روک سکیں گے – اور ان بارہ خلفاء کے ساتھ لڑنے والے طائفہ منصورہ تھے-

شام پر   سن ١٣١  ھ  میں  بنو عباس نے حملہ کیا اس وقت بارہ خلفاء گزر چکے تھے اور   طائفہ منصورہ معدوم ہو چکا تھا-   اس روایت کی شرح  میں    اس کا مصداق  اہل علم یا محدثین کہنا نہایت سطحی بات ہے – ایک گروہ کا ذکر ہے جو حق پر رہے گا اس کے مخالف اس کو نہیں گرا سکیں گے اور ساتھ ہی   دوسری احادیث  میں ہے   بارہ  خلفاء گزریں گے جن کو کوئی نقصان نہ دے سکے گا-  طائفہ منصورہ  اصل میں ان خلفاء کا مددگار گروہ تھا –

یہ خلفاء بیشتر بنو امیہ کے ہوئے جن کے ہمدرد اہل شام تھے اسی بنا پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے بنی کہ یہ اہل شام ہیں جن کو مخالف (اہل کتاب و مشرک ) گرا نہ سکیں گے- صحیح سند سے بخاری کی روایت ہے

طائفہ منصورہ والی روایت کو آجکل   جیسا منہ ویسی بات کی طرح ہر کوئی اس کو اپنے اوپر فٹ کر دیتا ہے

جہادی کہتے ہیں یہ ہمارے لئے ہے

شامی کہتے ہیں ہمارے لئے ہے

فرقہ اہل حدیث کہتے ہیں ہمارے لئے ہے

صوفی کہتے ہیں ہمارے لئے ہے- یاد رہے کہ شام و یروشلم میں انبیاء کی قبروں پر امت معتکف ہے

اگر ہم فی الوقت ابو حاتم اور ابو زرعہ کی رائے اس حدیث پر چھوڑ کر امام بخاری کی صحیح کی حدیث کو لیں تو اس کی ایک تاویل ممکن ہے جس پر متن کو  صحیح سمجھا جا سکتا ہے – صحیح بخاری کی روایت ہے

 حَدَّثَنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کو سنا انہوں نے ہم کو خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا الله جس کو خیر دینا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ کا علم دیتا ہے  اور بے شک میں (علم) باٹنے والا ہوں اور الله (علم) عطا کرنے والا ہے اور یہ امت الله کے کام سے نہیں ہٹے گی  الله کے امر پر قائم رہے گی اس کو اس کی مخالفت کرنے والے نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے

راقم سمجھتا ہے کہ یہ روایت کنڈیشن ہے نہ کہ خبر – یعنی یہ امت غالب رہے گی اس کے مخالف اس کو نقصان نہ دے سکیں گے جب تک یہ امر الله پر قائم رہیں گے-  ایسا ١٢ خلفاء کا دور تھا شام میں – اس کے بعد مسلمانوں کی خلافت کی اینٹ بنو عباس نے بجا دی- اس کے بعد منگولوں نے اس کے بعد انگریزوں نے-   یاد رہے کہ محدثین کے نزدیک عباسی خلفاء صحیح عقیدہ پر نہ تھے-

روایت میں ہے اس امت اپنے مقام سے نہ ہٹے گی یہاں تک کہ الله کا امر آئے  اس میں امر کو قیامت لینے سے مفہوم بدل جاتا ہے-  لیکن اگر امر کو الله کا عذاب کا حکم لیا جائے تو کوئی اشکال نہیں رہتا   یعنی ترجمہ ہو گا

وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

یہ امت اپنے مقام سے نہ ہٹے گی الله کے حکم پر قائم (خلافت کھڑی) رہے گی – اس کے مخالف اس کو نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله (کے عذاب) کا حکم آئے

عذاب  یعنی اغیار  کا امت کے وسائل پر کنٹرول  اور  ان پر جنگوں کا مسلط کرنا  –

 

الغرض معلوم ہو گیا کہ معاویہ رضی الله عنہ نے اس حدیث سے مراد اگر اہل شام لئے ہیں تو وہ وقتی بات تھی قیامت تک اس سے مراد نہیں تھی اور آج حقیقت حال بھی یہی ہے – البتہ فرقوں نے اپنے استحکام کے لئے معاویہ رضی الله عنہ کی بات کو رد کیا مثلا فرقہ اہل حدیث نے  ابن عبدالھادی المقدسی کی کتاب فضائل شام کا ترجمہ کیا تو اس میں اس حدیث کی تعلیق پر ص  ٥١ سے ٥٣  پر لکھا

اس طرح نہایت بے باکی سے معاویہ رضی الله عنہ کے قول  کو رد کیا کہ اس حدیث کا مفہوم عام ہے خاص نہیں ہے

راقم کہتا ہے بقول اھل حدیث  دین میں فہم صحابہ اگر فہم سلف سے ٹکرا جائے تو اصول یہ  ہے کہ فہم صحابہ کو حجت حاصل ہو گی لیکن یہاں وہ خود اس اصول کو توڑ رہے ہیں –  دور معاویہ میں حدیث بیان کرنے والے اس کو سمجھنے والے اصحاب تمام بلاد میں موجود تھے گویا اہل علم ہر مقام پر تھے لیکن پھر بھی معاویہ رضی الله عنہ نے اس حدیث کے مفہوم کو صرف شام پر خاص کیا ہے – لہذا اس کی صرف ایک ہی صحیح تاویل ہے کہ روایت  اصل میں ان بارہ خلفاء سے متعلق ہے جو  پے در پے قریش میں سے بنے اور ان کو ان کے مخالفین زد نہ  پہنچا سکے

صحیح مسلم

 بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ»

وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ وَهُوَ ابْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، ذَكَرَ حَدِيثًا رَوَاهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ أَسْمَعْهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِنْبَرِهِ حَدِيثًا غَيْرَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَلَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ، إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جس کو چاہتا ہے دین کی سمجھ دیتا ہے مسلمانوں میں سے ایک گروہ حق پر قتال کرتا رہے گا اپنے دشمن پر غلبہ رکھے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے

تبصرہ

سند میں جعفر بن برقان  ضعیف ہے

قال ابن خزيمة لا يحتج به اس سے دلیل مت لینا

ذكره العقيلي وأبو القاسم البلخي في جملة «الضعفاء». اس کا ذکر ضعیف راویوں میں کیا گیا ہے

قال الساجي: عنده مناكير اس کے پاس منکر روایات ہیں

 أبو داود: وكان يخطئ على الزهري، وكان أميا

ابو داود نے کہا یہ امی تھا یعنی ان پڑھ تھا

محدثین نے کہا ہے کہ اس کی احادیث جو زہری سے ہوں ان میں غلطی ہوتی ہے

راقم کہتا ہے جو روایت زہری سے نہ ہو اس میں بھی غلطی کرے گا کیونکہ غلطی کرنا کوئی سوئچ نہیں  کہ غیر زہری سے روایت کے وقت بند تھا اور زہری سے روایت کے وقت اون تھا

=============================================================

[1]

صحيح بخاري کی روایت ہے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُهْلِكُ النَّاسَ هَذَا الحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ» قَالَ: مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ

مجھ سے محمد بن عبدالرحيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابومعمر اسماعيل بن ابراہيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابواسامہ نے بيان کيا ، کہا ہم سے شعبہ نے بيان کيا ، ان سے ابوالتياح نے ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہريرہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : اس قريش کا یہ محلہ لوگوں کو ہلاک وبرباد کردے گا ? صحابہ نے عرض کيا : اس وقت کے ليے آپ ہميں کيا حکم کرتے ہيں ؟ نبی صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : کاش لوگ ان سے الگ رہتے ? محمود بن غيلان نے بيان کيا کہ ہم سے ابوداود طيالسي نے بيان کيا ، کہا ہم کو شعبہ نے خبردي ، انہيں ابوالتياح نے ، انہوں نے ابوزرعہ سے سنا

مسند احمد میں امام احمد اس کو منکر کہتے ہیں

حدثنا محمَّد بن جعفر، حدثنا شُعبة، عن أبي التَّيَّاح، قال: سمعت أبا زُرعة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، قال: “يُهلكُ أمتي هذا الحيُّ من قريبٌ”، قالوا: في تأمُرُنا يا رسول الله؟، قال: “لو أن الناس اعتزلوهم”. [قال عبد الله بن أحمد]: وقال  أبي- في مرضه الذي  مات فيه: اضرب على هذا الحديث، فإنه خلافُ الأحاديث عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، يعني قوله: “اسمعوا وأطيعوا واصبروا”.

ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کو یہ محلہ جلد ہی ہلاک کرے گا ہم نے پوچھا آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں اے رسول الله ! فرمایا کاش کہ لوگ ان سے الگ رہتے عبد الله بن احمد کہتے ہیں  میں نے اپنے باپ سے اس حالت مرض میں (اس روایت کے بارے میں) پوچھا جس میں ان کی وفات ہوئی احمد نے کہا اس حدیث کو مارو کیونکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف ہے یعنی سمع و اطاعت کرو اور صبر کرو

 

إن أمتي لا تجتمع على ضلالة؟

ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

إن أمتي لا تجتمع على ضلالة

میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی

 اس روایت کو امام بخاری رد کرتے ہیں ترمذی میں ہے کہ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کا راوی  سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هَذَا مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، منکر الحدیث ہے

 اس روایت کو  امام عقیلی  ضعفا الکبیر میں يَحْيَى بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْمَكْفُوفُ صَاحِبُ بُهَيَّةَ سے روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام ابن معین کہتے ہیں کوئی شئے نہیں

مستدرک الحاکم کی روایت ہے کہ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی

حَدَّثَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ السَّكَنِ الْوَاسِطِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا مُبَارَكٌ أَبُو سُحَيْمٍ، مَوْلَى عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَأَلَ رَبَّهُ أَرْبَعًا: «سَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَمُوتَ جُوعًا فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَجْتَمِعُوا عَلَى ضَلَالَةٍ فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَرْتَدُّوا كُفَّارًا فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَغْلِبَهُمْ عَدُوٌّ لَهُمْ فَيَسْتَبِيحَ بَأْسَهُمْ فَأُعْطِيَ ذَلِكَ، وَسَأَلَ رَبَّهُ أَنْ لَا يَكُونَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَلَمْ يُعْطَ ذَلِكَ» . «أَمَّا مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا يَمْشِي فِي مِثْلِ هَذَا الْكِتَابِ، لَكِنِّي ذَكَرْتُهُ اضْطِرَارًا. الْحَدِيثُ الثَّالِثُ فِي حُجَّةِ الْعُلَمَاءِ بِأَنَّ الْإِجْمَاعَ حُجَّةٌ»

انس بن مالک رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب سے چار چیزیں طلب کیں انہوں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میں بھوکا نہ وفات پاؤں پس عطا کیا گیا اور رب سے سوال کیا کہ کہ یہ (امت) گمراہی پر جمع نہ ہو پس یہ عطا کیا گیا اور انہوں نے سوال کیا کہ ان پر دشمن غالب نہ آئے … پس یہ عطا کیا گیا   اور یہ دعا کی کہ ان میں تیر نہ چلیں پس یہ عطا نہیں کیا گیا

امام حاکم لکھتے ہیں اس کتاب میں مُبَارَكُ بْنُ  سُحَيْمٍ کا ذکر نہیں چلنا چاہئے لیکن اضطرارا اس کا ذکر کیا  جو علماء کےلئے حجت ہے کہ اجماع حجت ہے.

افسوس امت پر یہ وقت آ گیا کہ گھٹیا سے گھٹیا راوی پیش کیا گیا  اس کی سند میں مُبَارَكُ بْنُ  سُحَيْمٍ ہے جو متروک ہے آخر امام الحاکم کو ایسی روایات لکھتے کی کیا ضرورت پیش ا گئی کہ ردی کی نذر کی جانے والی روایات ان کو اپنے مدّعا میں پیش کرنی پڑھ رہی ہیں

 مستدرک کی دوسری روایت ہے

مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ

جو جماعت سے علیحدہ ہوا بالشت برابر پس نے اسلام کو گلے میں سے نکال دیا

امام الحاکم اس کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں

خَالِدُ بْنُ وُهْبَانَ لَمْ يُجْرَحُ فِي رِوَايَاتِهِ وَهُوَ تَابِعِيٌّ مَعْرُوفٌ

خَالِدُ بْنُ وُهْبَانَ کسی نے ان پر ان کی روایات کی وجہ سے جرح نہیں کی اور وہ معروف تَابِعِيٌّ ہیں

الذہبی میزان میں  ان معروف تَابِعِيٌّ کو لکھتے ہیں

خالد بن وهبان [د] . عن أبي ذر مجهول.

مستدرک کی تیسری روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ بَالَوَيْهِ، ثنا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ وَكَانَ يُسَمَّى قُرَيْشَ الْيَمَنِ وَكَانَ مِنَ الْعَابِدِينَ الْمُجْتَهِدِينَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ» . قَالَ الْحَاكِمُ: «فَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ الْعَدَنِيُّ هَذَا قَدْ عَدَّلَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ إِمَامُ أَهْلِ الْيَمَنِ وَتَعْدِيلُهُ حُجَّةٌ

ابن عباس رضی اللّہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرےگا کبھی بھی اور الله کا ہاتھ جماعت پر ہے  امام حاکم نے کہا پس ابراہیم بن میمون عدنی ہے اس کی تعدیل عبد الرزاق نے کی ہے اور تعریف کی ہے اور عبد الرزاق اہل یمن کے امام ہیں اور ان کی تعدیل حجت ہے 

اس کی سند میں إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ ہے جس کے متعلق عبد الرزاق کی تعدیل ہے لیکن

قال الميموني: قال أبو عبد الله: إبراهيم بن ميمون، لا نعرفه.

 الميموني کہتے ہیں میں نے  أبو عبد الله (احمد) سے پوچھا: إبراهيم بن ميمون، (کہا) نہیں جانتا

ابن ابی حاتم کہتے ہیں ان کے باپ نے کہا لا يحتج به نا قابل احتجاج

طبرانی معجم الکبیر کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مَرْزُوقٍ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»

ابن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی کبھی بھی پس تمہارے لئے جماعت ہے کیونکہ الله کا ہاتھ جماعت پر ہے

اس کی سند میں مرزوق الباهلى ، أبو بكر البصرى ، مولى طلحة بن عبد الرحمن الباهلى ہے جن کو ابن حبان ثقات میں لائے ہیں اور کہا ہے يخطىء غلطی کرتے ہیں ابن حجر ان کو ثقاہت کا سب سے ادنی درجہ صدوق دیتے ہیں

 الغرض امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی صحیح کے درجے کی روایت نہیں اور نہ ہی امام بخاری اور امام مسلم   کے معیار کی ہے

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ امت شرک نہ کرے گی اور بخاری کی روایت پیش کرتے ہیں

وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي

اور الله کی قسم مجھے اس کا خوف نہیں کہ تم شرک کرو گے

یہ روایت صحیح ہے لیکن اس کو اس کے سیاق و سباق میں ہی سمجھا جا سکتا ہے

بخاری میں یہ حدیث عقبہ بن عامر رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہآخری ایام میں  نبی صلی الله علیہ  وسلم ایک روز  پہلے اصحاب کے ساتھ مقام احد گئے اورشہداء کے لئے دعا  کی پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور  یہ  الفاظ فرمائے

یہ الفاظ صحابہ کے لئے مخصوص ہیں نہ کہ ساری امت کے  لئے . اگر نبی صلی الله علیہ وسلم امت کے حوالے سے بالکل مطمین ہوتے تو وہ یہ نہ کہتے کہ اس امت میں لوگ ہوں گے جن کے  حلق سے قرآن نیچے نہ اترے گا وہ یہ نہ کہتے کہ ایمان اجنبی ہو جائے گا وہ یہ نہ کہتے کہ بہتر فرقے جہنم کی نذر ہوں گے

دين میں عقل و فکر کی اہمیت

 کیا عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے ؟

اسلام کو دین فطرت کہا جاتا ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ما مِنْ موْلودٍ إلا يولَدُ على الفِطرةِ

ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے

فطرت انسان میں  جبلی قوت دی گئی ہیں ان میں حواس خمسہ رکھے گئے ہیں – جس میں قرآن میں بار بار سمع و الابصار کا ذکر ہے کہ مشرک اس کو استمعال نہیں کرتے اور اس کی وجہ قرآن کہتا ہے کہ یہ اندھے نہیں ان کے دل اندھے ہیں- یعنی جو لوگ الله کی دی ہوئی نعمتوں کو حق کی تلاش کے لئے استمعال نہیں کرتے ان کے قلوب پر زنگ آ جاتا ہے وہ اگرچہ آنکھوں سے بینا ہیں لیکن ان میں عقل و سمجھ مفقود ہے لہذا قرآن میں الله تبارک و تعالی کہتے ہیں

فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ   النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ

یہ الله کی (دی ہوئی) فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو خلق کیا ہے ، الله کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں

یعنی ہر انسان اس فطرت پر پیدا ہو رہا ہے جس میں تعقل و فکر کر کے وہ الله کو پا سکتا ہے

هود عليه السلام نے اپنی قوم سے کہا جب انکی قوم نے گمراہی پر اصرار کیا

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ

 بلا شبہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے رجس و غضب واقع ہو چکا ہے

سوره الانعام میں کہا

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

پس الله جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اور جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو گھٹتا ہوا تنگ کرتا ہے  گویا کہ وہ آسمان کی طرف جا رہا ہو – اس طرح الله گندگی ڈالتا ہے ان پر جو ایمان نہیں لاتے

سوره یونس میں کہا

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (100)

اور نفس کے لئے نہیں ہے کہ ایمان لائے سوائے الله کے اذن سے اور وہ گندگی ڈالتا ہے ان پر جو عقل سے کام نہیں لیتے

یعنی عقل استمعال نہ کرنے کی وجہ سے جب و فطرت سے ہٹے تو الله نے ان پر رجس یا گندگی ڈال دی جس نے ان کو قبر پرستی اصنام پرستی اکابر پرستی کی لعنت میں مبتلا کیا اور وہ اس کے جواز کے فتوے دینے لگے اس میں کتاب الله اور حدیث کا درس دینے والے بھی تھے لیکن الله نے اہل کتاب کے علماء کے لئے کہا کہ ان پر گدھوں کی طرح کتابیں لدھی ہیں ان کو پڑھتے ہیں لیکن رجس سے نہیں نکل پا رہے –  عقل و فراست ہی تفقہ فی الدین ہے کہ روایت کو آگے کرنے حدثنا و اخبرنا کہنے والے تو بہت ہیں لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس  میں تفقہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے

عقل کتنی بے کار شی ہے اس پر ارشد کمال کتاب عذاب قبر ص ١٨٢ میں لکھتے ہیں

aqel-baykar

یقینا  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فہم و فراست سب سے بلند ہے لیکن کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ  کی آراء یا سلمان فارسی کی آراء یا اذان  کے سلسلے میں اصحاب رسول کی آراء نہیں سنیں- پھر ایک حدیث ضعیف ہو یا موضوع  ہو اور اپ لوگ مسلسل اصرار کرتے رہیں کہ یہی فہم دین ہے تو یہ سب ہم ماننے سے رہے

صحیح بخاری تک کی احادیث پر محدثین اعتراض کرتے رہے ہیں مثلا کتاب التوحید صحیح بخاری کی معراج کی روایت ہے جس کا راوی شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ  ہے

الذھبی میزان میں کہتے ہیں

ووهاه ابن حزم لاجل حديثه في الاسراء

ابن حزم نے اسکو ضعیف قرار دیا  ہے اس کی حدیث معراج کی وجہ سے

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں

وَهُوَ رَاوِي حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ وَانْفَرَدَ فِيهِ بِأَلْفَاظٍ غَرِيبَةٍ

اور یہ راوی ہے حدیث معراج کا جس میں یہ منفرد ہے اور اس کے الفاظ عجیب و غریب ہیں

سیر الاعلام النبلاء  میں الذھبی  کہتے ہیں

وَفِي حَدِيْثِ الإِسْرَاءِ مِنْ طَرِيْقِه أَلْفَاظٌ، لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهَا، وَذَلِكَ فِي صَحِيْحِ البُخَارِيِّ

اور معراج والی حدیث میں جو الفاظ ہیں انکی متابعت کوئی نہیں کرتا اور یہ صحیح البخاری میں ہے

یعنی غرابت کی وجہ سے اس روایت کو علماء رد کر رہے ہیں

اسی طرح صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَيَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ، فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا»

سعید بن ابی ہلال روایت کرتا ہے زید بن اسلم سے وہ عطا سے وہ ابی سعید سے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سنا انہوں نے فرمایا ہمارا رب اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا

قرآن میں آیت يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ [القلم: 42]  جس روز پنڈلی کھل جائے گی –  عربی زبان کے علماء کے مطابق یہ الفاظ شدت وقوعہ میں بولے جاتے ہیں کہ محشر میں سختی ہو گی-  مصطفی البغاء تعلیق صحیح بخاری میں لکھتے ہیں

هذا الكلام عبارة عن شدة الأمر يوم القيامة للحساب والجزاء والعرب تقول لمن وقع في أمر يحتاج إلى اجتهاد ومعاناة شمر عن ساقه وتقول للحرب إذا اشتدت كشفت عن ساقها

یہ کلام عبارت ہے روز محشر کی شدت سے حساب اور جزا  کی وجہ سے اور عرب ایسا کہتے ہیں اس کام کے لئے جس میں اجتہاد ہو…  اور جنگ کے لئے کہتے ہیں جب یہ شدت اختیار کرے گی تو  پنڈلی کھل جائے گی

لیکن بعض علماء نے اس روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے پنڈلی کو الله کی صفت ذات بنا دیا

ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) نے کتاب  التوضيح لشرح الجامع الصحيح میں لکھا

هذا يدل -والله أعلم- أن الله تعالى عرف المؤمنين على ألسنة الرسل يوم القيامة أو على ألسنة الملائكة المتلقين لهم بالبشرى، أن الله تعالى قد جعل لكم علامة تجليه لكم الساق

اور یہ دلیل ہے کہ و الله اعلم … کہ الله تعالی   تمہارے لئے ایک علامت کرے گا کہ تجلی  کرے گا پنڈلی کی

ابن جوزی اپنی کتاب دفع  شبه ألتشبھة  میں لکھتے ہیں کہ قاضی ابو یعلی نے اس قسم کی روایات سے یہ نکالا کہ الله کی پنڈلی اس کی صفت ذات ہے

ابن جوزی -ساق

یہاں تک کہ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَوَقَعَ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ وَهُوَ مِنْ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَأَخْرَجَهَا الْإِسْمَاعِيلِيُّ كَذَلِكَ ثُمَّ قَالَ فِي قَوْلِهِ عَنْ سَاقِهِ نَكِرَةٌ ثُمَّ أَخْرَجَهُ مِنْ طَرِيقِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ بِلَفْظ يكْشف عَن سَاق قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيُّ هَذِهِ أَصَحُّ لِمُوَافَقَتِهَا لَفْظَ الْقُرْآنِ فِي الْجُمْلَةِ لَا يُظَنُّ أَنَّ اللَّهَ ذُو أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ مُشَابَهَةِ الْمَخْلُوقِينَ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء

اور صحیح بخاری میں اس مقام پر ہے يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ کہ ہمارا رب اپنی پنڈلی کو کھولے گا اور یہ روایت ہے سعید بن ابی ہلال کی عن زید بن اسلم کی سند سے پس اس کی تخریج کی ہے الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے اسی طرح پھر کہا ہے اپنی پنڈلی پر یہ نَكِرَةٌ ہے پھر اس کی تخریج کی حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ  کے طرق سے  اور الفاظ ہیں يكْشف عَن سَاق اور الْإِسْمَاعِيلِيُّ نے کہا یہ زیادہ صحیح ہے جو قرآن کی موافقت میں ہے فی جملہ – نا گمان کرو کہ الله   أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ  والا ہے  کیونکہ یہ مخلوق سے مشابہت کا قول ہے الله تعالی اس سے بلند ہے  اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے

یعنی صحیح بخاری کی اس روایت کا متن صحیح نقل نہیں ہوا اس متن میں سعید بن ابی ہلال نے غلطی کی

ارشد کمال کتاب عذاب القبر میں  لکھتے ہیں

ڈاکٹر عثمانی ارشد

ڈاکٹر عثمانی نے صحیح بخاری کی کسی روایت کو اپنی کتابوں میں ضعیف نہیں کہا بلکہ جہاں تک ممکن ہوا بظاہر متصادم روایات کی انہوں نے  تاویل کی ہے لیکن ان سے قبل انے والے علماء  اس مقام پر نہیں رکے بلکہ کھل کر صحیح کی روایت کو غلط بھی کہا جس کی سر دست دو مثالیں اوپر دی ہیں

امت میں قبر پرستی کو سند جواز دینے والے علماء نے آج یہ لکھنا شروع کر دیا ہے کہ دینی معاملات میں عقل کو معیار نہیں بنایا جا سکتا – تشابھت قلوبھم – ان کے اور اہل کتاب کے علماء کی تان یہیں آ کر ٹوٹی کہ اگر ہم غور و فکر کریں تو علمانے اسباط یا سلف  کے  اقوال غلط ہو جاتے ہیں – اسی فرقہ پرستی سے دین میں منع کیا گیا تھا کہ جب حق عقل و فکر کے میزان میں کتاب الله کی  تائید  میں آ جائے تو پھر اس کو قبول کر لینا چاہیئے

اس قبیل کے علمائے سوء کی جانب سے علی رضی الله کا ایک قول پیش کیا جاتا ہے

علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ دین کا دارومدار رائے (اور عقل) پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اوپر مسح کرنے سے اور بلاشبہ میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں کے اوپر مسح کیا کرتے تھے۔(رواہ ابو دائود‘والدارمی معناہ ‘ مشکوٰۃ ص ۵۴

ہم کہتے ہیں  کیا رائے ہمیشہ عقل سے نکلتی ہے ؟ رائے تو نصوص سے بھی اتی ہے اور عقل و فکر سے دانش سے فقہ سے سب سے اتی ہے – یہ قول سنن دارمی  اور ابی داود کا ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ، وَقَدْ «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ

رائے کا لفظ صحابہ کے دور میں مستعمل نہیں تھا لہذا یہ متن منکر ہے اس میں ابی اسحاق ہے جو مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے-  اس کی سند میں  الأعمش ہے جو مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے

العلل دارقطنی میں اس روایت کی اسناد و متن پر بحث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رائے کا لفظ الاعمش کی سند میں ہے
وَاخْتَلَفُوا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ فَقَالَ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ فِيهِ لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ.
وَقَالَ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ فِيهِ كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ أَعَلَاهُمَا
وَتَابَعَهُمَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ وَإِسْرَائِيلُ عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ.
وَالصَّحِيحُ مِنْ ذَلِكَ قَوْلُ مَنْ قَالَ: كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْخُفَّيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُمَا.

لہذا رائے (یا غیر مقلدین کے بقول عقل) کا لفظ جو اس روایت میں بیان ہوا ہے وہ دارقطنی کے بقولصحیح روایت نہیں ہے بلکہ صحیح وہ ہے جس میں رائے کا لفظ نہیں ہے

کتاب الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم کے مطابق

قال علي إنما ذكره يحيى على أن الأعمش كان مضطربا في حديث أبي إسحاق.

علی المدینی نے ذکر کیا کہ یحیی القطان کے حوالے سے کہ اعمش  مضطرب ہے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ، وَأَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، فَقَالُوا بِالرَّأْيِ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

عبد الله بن عمرو بن العآص رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا بنی اسرائیل کا امر معتدل رہا یہاں تک کہ ان میں الْمُوَلَّدُونَ پیدا کرنے والے بڑھے اور فاحشہ کی اولادیں  پس انہوں نے رائے سے کلام کیا گمراہ ہوئے اور  گمراہ کیا

ابن ماجه كي اس روایت کو شعيب الأرنؤوط ، محمد فؤاد عبد الباقي اور البانی  ضعیف کہتے ہیں

یہ روایت مسند البزار میں بھی ایک دوسری سند سے ہے

وَأَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى بَدَا فِيهِمْ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، فَأَفْتَوْا بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» . وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ: عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، إِلَّا قَيْسٌ، وَرَوَاهُ غَيْرُ قَيْسٍ مُرْسَلًا

اس میں قیس بن الربیع ہے جس پر محدثین کی جرح ہے یہ ایک جاہل تھا اور ائمہ اہل رائے  کی شان میں سب و شتم کرتا تھا وكِيع  اس کی تضعیف کرتے تھے اور جب اس کا ذکر ہوتا کہتے الله المستعان- امام احمد کہتے ہیں منکرات بیان کرتا تھا

مسند دارمی میں هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  اسکو ابن زبیر رضی الله عنہ کا قول کہا گیا ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ – هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ-، عَنْ هِشَامٍ- هُوَ ابْنُ عُرْوَةَ-، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: مَا زَالَ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلاً لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الأُمَمِ, أَبْنَاءُ النِّسَاءِ الَّتِي سَبَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ مِنْ غَيْرِهِمْ، فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَأَضَلُّوهُمْ.

مصنف ابن ابی شیبہ میں هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  اس کو عبد الله بن عمرو بن العآص کا قول کہا گیا ہے

وَكِيعٌ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمْ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ , فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

ان دونوں میں ہشام بن عروه کا تفرد ہے اور یہ روایات انہوں نے کوفہ میں بیان کی ہیں اور کبھی اسکو ابن زبیر کا قول کہا ہے کبھی اسکو عبد الله کا قول – محدثین نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ اچھا نہیں رہا تھا – رائے کا لفظ بولنے میں بھی  ان کا تفرد ہے

کتاب  السنن المأثورة للشافعي  از إسماعيل بن يحيى بن إسماعيل، أبو إبراهيم المزني (المتوفى: 264هـ) میں اس کو عمر بن عبد العزیز کا قول کہا گیا ہے

وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُؤَمَّلٍ الْمَخْزُومِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْصِنٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَنَّهُ قَالَ: ” لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسْتَقِيمًا حَتَّى حَدَّثَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

اسکی سند میں عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُؤَمَّلٍ الْمَخْزُومِيَّ خود ایک مجھول ہے

مسند ابی یعلی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْهُذَيْلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحِمَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعْمَلُ هَذِهِ الْأُمَّةُ بُرْهَةً بِكِتَابِ اللَّهِ، ثُمَّ تَعْمَلُ بُرْهَةً بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، ثُمَّ تَعْمَلُ بِالرَّأْيِ، فَإِذَا عَمِلُوا بِالرَّأْيِ فَقَدْ ضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

أَبِي هُرَيْرَةَ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت ایک دور تک کتاب الله پر عمل کرے گی پھر ایک دور سنت رسول پر پھر جب یہ رائے پر عمل کرے گی  تو گمراہ ہو گی اور کرے گی

اس کی سند میں عثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ ہے جو کذاب اور متروک ہے

کتاب  أمالي ابن بشران – الجزء الثاني از  أبو القاسم عبد الملك  البغدادي (المتوفى: 430هـ) کی روایت ہے

وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: ” ثَلاثَةٌ لا يُقْبَلُ مَعَهُنَّ عَمَلٌ: الشِّرْكُ , وَالْكُفْرُ , وَالرَّأْيُ “.  قَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا الرَّأْيُ؟ قَالَ: «تَدَعُ كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ وَتَعْمَلُ بِالرَّأْيِ

الأَعْمَشِ نے عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ سے روایت کیا اس نے زر سے اس نے علی رضی الله عنہ سے کہ تین  کے ساتھ عمل قبول نہیں ہوتا شرک اور کفر اور رائے ہم نے کہا اے امیر المومنین یہ رائے کیا ہے کہا تم کو کتاب الله اور سنت کی طرف بلایا جائے اور تم رائے پر عمل کرو

روایت کے الفاظ کہ لوگوں نے پوچھا یہ رائے کیا ہے ظاہر کرتا ہے کہ اس دور میں یہ لفظ مستعمل نہ تھا اور یہ ہی بات اس روایت کے رد کے لئے کافی ہے – اسنادی حیثیت میں اس میں الأَعْمَشِ کا عنعنہ ہے اور عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ خود مفرط شیعہ ہے

سنن دارقطنی کی روایت ہے

نا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , نا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ , نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَرِيكٍ , نا أَبِي , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , قَالَ:  «إِيَّاكُمْ وَأَصْحَابَ الرَّأْيِ فَإِنَّهُمْ أَعْدَاءَ السُّنَنِ أَعْيَتْهُمُ الْأَحَادِيثُ أَنْ يَحْفَظُوهَا فَقَالُوا بِالرَّأْيِ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

مُجَالِدٍ بن سعید، الشَّعْبِيِّ سے ، وہ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ سے وہ عمر رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب رائے سے بچو کیونکہ یہ سنت کے دشمن ہیں – احادیث میں ملوث  ہیں کہ انکو یاد کریں پھر رائے سے بولیں گمراہ ہوں اور کریں

اسکی سند میں مُجَالِدُ بنُ سَعِيْدِ بنِ عُمَيْرِ بنِ بِسْطَامَ الهَمْدَانِيُّ المتوفی ١٤٤ ھ  ہے

 أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں لاَ يُحْتَجُّ بِهِ اس سے دلیل نہ لی جائے

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں اس کی حدیث: لَهُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ أَحَادِيْثُ صَالِحَةٌ  صالح ہیں

أَبُو سَعِيْدٍ الأَشَجُّ اس کو  شِيْعِيٌّ یعنی شیعہ کہتے ہیں

الميموني کہتے ہیں ابو عبدللہ کہتے ہیں

 قال أبو عبد الله: مجالد عن الشعبي وغيره، ضعيف الحديث. «سؤالاته» احمد کہتے ہیں مجالد کی الشعبي سے روایت ضعیف ہے

ابن سعد کہتے ہیں  كان ضعيفا في الحديث، حدیث میں ضعیف ہے

المجروحین میں ابن حبان کہتے ہیں كان رديء الحفظ يقلب الأسانيد ويرفع، ردی حافظہ اور اسناد تبدیل کرنا اور انکو اونچا کرنا  کام تھا

ابن حبان نے صحیح میں اس سے کوئی روایت نہیں لی

ابن حبان المجروحین میں لکھتے ہیں کہ امام الشافعی نے کہا  وَالْحَدِيثُ عَنْ مُجَالِدٍ يُجَالِدُ الْحَدِيثَ

اور مجالد   يُجَالِدُ الْحَدِيثَ ہے یعنی اس سے روایت کرنا حدیث کو کوڑے مارنے کے مترادف ہے

صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ  : حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

امام مالک ، هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، سے وہ اپنے باپ سے وہ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ  سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله اس علم کو قبض یکایک نہیں کرے گا … بلکہ علماء کو قبض کرے گا یہاں تک کہ کوئی عالم نہ رہے گا لہذا لوگ جہلاء کو سردار بنا لیں گے ان سے سوال کریں گے وہ فتوی دیں گے بغیر علم کے، پس گمراہ ہوں گے اور کریں گے

یہ روایت ہشام بن عروہ نے مدینہ میں بیان کی ہے  – صحیح ابن حبان  اور مسند احمد کے مطابق  بصرہ اور کوفہ میں اس میں اضافہ کیا مثلا حماد بن زید اور وَكِيعٌ بنُ الجَرَّاحِ بنِ مَلِيْحِ  کہتے ہیں ہشام نے کہا:

وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعُلَمَاءَ بِعِلْمِهِمْ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ

لیکن الله علماء کو انکے علم کے ساتھ قبض کرے گا یہاں تک کہ ایک بھی عالم باقی نہ رہے گا

مسند احمد کے مطابق کوفہ میں یحیی کہتے ہیں اور طبرانی کے مطابق ابن عيينة کہتے ہیں  ہشام نے کہا حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا یہاں تک کہ کوئی عالم نہیں رہے گا

صحیح مسلم میں  جرير بن عبد الحميد الضبي کوفی عن هِشَامٍ بْنُ عُرْوَةَ کی سند سے  عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ کی یہی روایت ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ اللهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

ہشام بْنِ عُرْوَةَ نے یہ روایت کوفہ میں بیان کی ہے یہاں پر رائے کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ بغیر علم فتوی دیں گے

صحیح بخاری میں بهز بن أسد العمى أبو الأسود البصرى کی روایت میں ہے کہ ہشام نے بصرہ میں بغیر علم کی بجائے  کہا فَيُفْتُونَ بِرَأْيِهِمْ وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے

محدثین کے مطابق ہشام بْنِ عُرْوَةَ نے عراق میں روایات آخری عمر میں بیان کیں جب ان کا حافظہ اتنا اچھا نہیں تھا اسی وجہ امام مالک ان کی عراق میں بیان کردہ روایات سے راضی نہیں تھے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

عبد الرحمن بن خراش: كان مالك لا يرضاه، نقم عليه حديثه لاهل العراق

بحر کیف رائے بغیر علم صحیح نہیں ہے جو ظاہر ہے نہایت منطقی بات ہے- جو اس کا ارتکاب کرے جاہل ہے لیکن رائے اگر منبی بر علم ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے لہذا اس روایت کو مطلقا اہل رائے کے خلاف پیش کرنا نری جہالت ہے

سنن نسائی میں ہے

باب: اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5399
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ “إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَسْنَا هُنَالِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ”. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہٰذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آ پڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب(قرآن) میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو ۱؎، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو، نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیئے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث بہت اچھی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۳۹۹) (صحیح الإسناد)

دوسری روایت ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحٍ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ يَسْأَلُهُ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ، «أَنْ اقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَقْضِ بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ شِئْتَ فَتَقَدَّمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَتَأَخَّرْ، وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ»

شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے انہیں ایک خط لکھا تو انہوں نے لکھا: فیصلہ کرو اس کے مطابق جو کتاب اللہ(قرآن) میں ہے، اور اگر وہ کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو سنت رسول (حدیث) کے مطابق، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول (حدیث)میں تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا تھا، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اور نہ ہی نیک لوگوں کا کوئی فیصلہ ہو تو اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (اور اپنی عقل سے کام لے کر فیصلہ کرو) اور اگر چاہو تو پیچھے رہو (فیصلہ نہ کرو) اور میں پیچھے رہنے ہی کو تمہارے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ والسلام علیکم۔

الألباني: صحيح الإسناد موقوف

واضح رہے ک انہی محدثین میں سے بہت سے اہل رائے کے امام ابو حنیفہ کی بات کو بغور سنتے

کتاب  سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين میں ابن جنید کہتے ہیں

 قلت ليحيى بن معين: ترى أن ينظر الرجل في شيء من الرأي؟ فقال: «أي رأي؟» ، قلت: رأي الشافعي وأبي حنيفة، فقال: «ما أرى لمسلم أن ينظر في رأي الشافعي، ينظر في رأي أبي حنيفة أحب إلي من أن ينظر في رأي الشافعي

میں نے ابن معین سے کہا اپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو رائے کے کو دیکھے؟ انہوں نے پوچھا کس کی رائے؟ کہا شافعی یا ابو حنیفہ! ابن معین نے کہا میرے مطابق مسلمان  کے لئے  شافعی کی رائے میں کچھ (برائی) نہیں اور ابو حنیفہ کی رائے جاننا میرے لئے شافعی کی رائے سے زیادہ محبوب ہے

اسی کتاب میں ابن معین یحیی بن سعید کی بات نقل کرتے ہیں

وسمعت يحيى يقول: «سمعت يحيى بن سعيد يقول: أنا لا أكذب الله، ربما بلغنا الشيء من قول أبي حنيفة، فنستحسنه فنأخذ به

یحیی کہتے ہیں بے شک میں جھوٹ نہیں کہتا بعض اوقات ہم کو ابو حنیفہ کی بات ملتی ہے اس کو پسند کرتے ہیں اور لیتے ہیں

معلوم ہوا کہ ابو حنیفہ  کی آراء کو محدثین  یحیی ابن معین اور  یحیی بن سعید القطان قبول کرتے تھے

امام  الشافعي بھی رائے اور قیاس لینے کے قائل تھے – کتاب الأم  میں امام  الشافعي (المتوفى: 204هـ) لکھتے ہیں

وَالْعِلْمُ مِنْ وَجْهَيْنِ اتِّبَاعٌ، أَوْ اسْتِنْبَاطٌ وَالِاتِّبَاعُ اتِّبَاعُ كِتَابٍ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَسُنَّةٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ فَقَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفِنَا لَا نَعْلَمُ لَهُ مُخَالِفًا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَقِيَاسٍ عَلَى قَوْلِ عَامَّةٍ مِنْ سَلَفٍ لَا مُخَالِفَ لَهُ وَلَا يَجُوزُ الْقَوْلُ إلَّا بِالْقِيَاسِ وَإِذَا قَاسَ مَنْ لَهُ الْقِيَاسُ فَاخْتَلَفُوا وَسِعَ كُلًّا أَنْ يَقُولَ بِمَبْلَغِ اجْتِهَادِهِ وَلَمْ يَسَعْهُ اتِّبَاعُ غَيْرِهِ فِيمَا أَدَّى إلَيْهِ اجْتِهَادُهُ بِخِلَافِهِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ

اور علم کے دو رخ ہیں اتباع ہے یا استنباط ہے- اتباع ،  کتاب الله کی اتباع ہے اور اگر اس میں نہ ہو تو پھر سنت اور اگر اس میں نہ ہو تو ہم وہ کہیں گے جو ہم سے پہلے گزرنے والوں نے  کہا اس میں ہم انکی مخالفت نہیں جانتے، پس اگر اس میں بھی نہ تو ہم پھر کتاب الله پر قیاس کریں گے ، اگر  کتاب الله  پر نہیں تو سنت رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  پر قیاس کریں گے – اوراگر سنت رسول  پر نہیں تو بیشتر سلف نے جو کہا ہو اس پر قیاس کریں گے اس میں انکی مخالفت نہیں کریں گے اور قول جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ قیاس ہو اور جب قیاس ہو تو  (اپس میں مسلمان) اختلاف بھی کریں گے  اس سب میں وسعت ہے کہ ہم ان کے اجتہاد  کی پہنچ اور اتباع کی کوشش پر بات  کریں کہ یہ پیروی نہ کر سکے  جو لے جاتا ہے اس کے خلاف  اجتہاد پر والله اعلم

امام الشافعی قیاس اور اجتہاد کو ایک ہی سمجھتے ہیں – اسی طرح کتاب الام میں لکھتے ہیں

  إنَّ مَنْ حَكَمَ أَوْ أَفْتَى بِخَيْرٍ لَازِمٍ أَوْ قِيَاسٍ عَلَيْهِ فَقَدْ أَدَّى مَا عَلَيْهِ وَحَكَمَ وَأَفْتَى مِنْ حَيْثُ أُمِرَ فَكَانَ فِي النَّصِّ مُؤَدَّيَا مَا أُمِرَ بِهِ نَصًّا وَفِي الْقِيَاسِ مُؤَدِّيًا مَا أُمِرَ بِهِ اجْتِهَادًا وَكَانَ مُطِيعًا لِلَّهِ فِي الْأَمْرَيْنِ.  ثُمَّ لِرَسُولِهِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَمَرَهُمْ بِطَاعَةِ اللَّهِ ثُمَّ رَسُولِهِ  ، ثُمَّ الِاجْتِهَادِ فَيُرْوَى «أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاذٍ بِمَ تَقْضِي؟ قَالَ بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ قَالَ أَجْتَهِدُ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -» وَقَالَ: «إذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ  – وَإِنْ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ» فَأَعْلَمَ أَنَّ لِلْحَاكِمِ الِاجْتِهَادَ وَالْمَقِيسَ فِي مَوْضِعِ الْحُكْمِ

امام الشافعی کہتے ہیں جو فیصلہ کرے یا فتوی دے خیر کو لازم کرے، یا اس پر قیاس کرے تو اس معاملہ میں بھی خیر کو لازم کرے۔اس طرح اس نے اس کو وہ پورا کیا جو اس پر لازم تھا کہ فیصلہ اور قیاس کرتا ہے جیسا کہ حکم ہے تو وہ نص جس پر قیاس کیا گیا ہے وہ نص مودیا ہے۔یا جس پر اجتہاد کیا ہے تو وہ قیاس مودیا ہے یہ ان معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی اطاعت اور پھر اسکے رسول کی اطاعت اور اس کے بعد اس پر اجتہاد کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ مروی ہے کہ آپ نے معاذ بن جبل سے فرمایا کس پر فیصلہ کرو گے تو انہوں نے جواب دیا اللہ کی کتاب پر۔آپ نے فرمایا اگر وہ اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو ؟ معاذ نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق۔اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر اس میں بھی نہ ملے تو کیا کرو گے۔انہوں نے جواب دیا اجتہاد کروں گا۔اس پر اللہ کے نبی نے کہا الحمد للہ ۔اور معاذ کی اس بات کی اللہ کے نبی نے موافقت فرمائی۔اور کہا جب کوئی حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ صحیح ہو تو اس کو دوھرا اجر ہے اور اگر اس میں غلطی ہوجائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر تو ہے ہی۔ جان لو کہ حاکم کے اجتہاد اور قیاس کا درجہ حکم کا ہے۔

امام الشافعی تو باقاعدہ وہی معاذ بن جبل والی روایت سے دلیل لے رہے ہیں جس کو منکر کہتے اہل حدیث نہیں تھکتے اور طرفہ تماشہ ہے کہ اپنے اپ کو سلف کا متبع کہتے ہیں امام الشافعی نے سنت رسول سے دلیل لی اور اس میں اہل رائے کی موافقت کی ہے

غیر مقلدین کے  شمارہ ١٩٤ محدث سن ١٩٩٣  میں مضمون  امام بخاری اور الجامع الصحیح چھپا اس میں محقق محمد عبدہ الفلاح  لکھتے ہیں

امام بخاری نے استخراج مسائل اور استنباط کے ذریعہ قوانین نقلیہ کو قواعد عقلیہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور دوسرے الفاظ میں ان کو معیار عقل پر پرکھا ہے جسے درایت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

عصر حاضر کے محقق بشارعواد معروف کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مقدمہ میں لکھتے ہیں

وقد وجدنا الذهبي بعد ذلك لا يقتصر على أسلوب واحد في النقد، بل يتوسل بكل ممكن يوصله إلى الحقيقة، فنقد السند والمتن، واستعمل عقله في رد كثير من الروايات.

اور ہم نے پایا ہے کہ الذھبی نے اس کے بعد  تنقید  میں ایک اسلوب ہی نہیں لیا بلکہ اس تنقید کو حقیقت سے ملایا ہے پس سند و متن پر تنقید کی ہے اور عقل کا استمعال کیا ہے کثیر روایات کے رد کے لئے

معلوم ہوا عقل سے احادیث کو پرکھنا بھی محدثین کا اصول ہے جس کا انکاری یہ غیر مقلدین کا ٹولہ ہے

الغرض دین میں عقل کی اہمیت ہے اس کو شجر ممنوعہ قرار نہیں دیا گیا – عقل کو رائے والی احادیث سے ملا کر دینی معاملات میں یہ کہنا کہ عقل معیار نہیں بن سکتی ،  نری جہالت ہے – حقیقت میں یہ قول خود  ایک رائے ہے

امت کے بدلتے اجماع

فقہ  کی اصطلاح میں اجماع کسی معاملہ پر امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ کے اتفاق کرنے کو کہتے ہیں۔  اصول کی کتابوں میں ہے  رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اہلِ حل و عقد کے کسی معاملہ میں اتفاق کا نام اجماع ہے۔

کہتے ہیں اجماع امت کا انکار کفر ہے

اس کے لئے سوره النساء کی آیت ١١٥  پیش کی جاتی ہے

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے،  بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

اجماع پر ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٣٤١ لکھتے ہیں

الطَّرِيقُ الرَّابِعُ: الْإِجْمَاعُ وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ بَيْنَ عَامَّةِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ الْفُقَهَاءِ وَالصُّوفِيَّةِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ وَالْكَلَامِ وَغَيْرِهِمْ فِي الْجُمْلَةِ وَأَنْكَرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْبِدَعِ مِنْ الْمُعْتَزِلَةِ وَالشِّيعَةِ لَكِنَّ الْمَعْلُومَ مِنْهُ هُوَ مَا كَانَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ وَأَمَّا مَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَعَذَّرَ الْعِلْمُ بِهِ غَالِبًا وَلِهَذَا اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا يُذْكَرُ مِنْ الإجماعات الْحَادِثَةِ بَعْدَ الصَّحَابَةِ وَاخْتَلَفَ فِي مَسَائِلَ مِنْهُ كَإِجْمَاعِ التَّابِعِينَ عَلَى أَحَدِ قَوْلَيْ الصَّحَابَةِ وَالْإِجْمَاعِ الَّذِي لَمْ يَنْقَرِضُ عَصْرُ أَهْلِهِ حَتَّى خَالَفَهُمْ بَعْضُهُمْ وَالْإِجْمَاعِ السكوتي وَغَيْرِ ذَلِكَ.

اجماع  پر عام مسلمانوں میں سے فقہاء اور صوفیاء اور اہل حدیث اور اہل کلام اور دیگر بھی سب متفق ہیں  اور اس کا انکار اہل بدعت نے کیا ہے  الْمُعْتَزِلَةِ وَالشِّيعَةِ  نے

یقینا مسلمانوں کی راہ چھوڑنا گمراہی ہے لیکن یہ اصل صحیح العقیدہ مسلمانوں کی بات ہے آج جس قسم کے قبر پرست، پیر پرست مسلمان ہیں کیا ان کا اجماع حجت ہے؟ یقینا یہ بات غلط ہے

اس لئے اگر کوئی اجماع ، امت میں حجت ہے ، تو وہ صرف اجماع صحابہ ہے

فقہی مسائل میں اجماع تو رہنے دیں عقائد تک میں اجماع کا انکار موجود ہے مثلا کہا جاتا ہے

جمہور کا اس بارے میں یہ مذہب ہے کہ اجماع حجت ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا واجب ہے۔ اس مسئلہ میں نظام طوسی،  شیعہ اور خوارج نے جمہور کی مخالفت کی ہے۔بحوالہ  کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر

یہاں بطور امثال چند اجماع نقل کیے جاتے ہیں جن کا انکار کیا گیا ہے

اجماع امت ١ : خضر علیہ السلام زندہ ہیں

محدث ابن الصلاح المتوفي 643 ھ (بحوالہ فتح الباري از ابن حجر) کہتے ہيں

وَقَالَ بن الصَّلَاحِ هُوَ حَيٌّ عِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ

خضر جمہور علماء کے نزديک اب بھي زندہ ہيں

امام النووي المتوفي 676 ھ شرح صحيح مسلم ميں لکھتے ہيں

جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّهُ حَيٌّ مَوْجُودٌ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَذَلِكَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ عِنْدَ الصُّوفِيَّةِ وَأَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ

جمہور علماء کے نزديک وہ زندہ ہيں اور ہمارے ساتھ موجود ہيں اور يہ بات صوفيہ اور أَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ ميں متفق ہے

کتاب شذرات الذهب في أخبار من ذهب از ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ) کے مطابق

قيل: كان ملكا وقيل بشرا وهو الصحيح، ثم قيل: إنه عبد صالح ليس بنبيّ وقيل: بل نبيّ هو الصحيح. والصحيح عندنا أنه حيّ، وأنه يجوز أن يقف على باب أحدنا مستعطيا له، أو غير ذلك.

کہا جاتا ہے وہ (خضر) فرشتہ تھے اور کہا جاتا ہے بشر تھے اور يہ صحيح ہے پھر کہا جاتا ہے کہ وہ ايک صالح بندے تھے نبي نہيں تھے اور يہ صحيح ہے اور ہمارے نزديک يہ صحيح ہے کہ وہ زندہ ہيں اور يہ بھي جائز ہے کہ کسي کے در پر رکيں اور ديں يا اسي طرح ديگر

شيعوں کے نزديک بھي خضر زندہ ہيں

ابن کثیر اس اجماع کا تفسیر میں انکار کرتے ہیں  اور اسی طرح ابن تیمیہ اور ان سے متاثر لوگ یعنی غیر مقلدین اور وہابی حضرات

اجماع امت ٢ : مردہ اپنے زائر کو پہچانتا ہے

آبن قيم کہتے ہيں اس پر اجماع ہے. ابن قيّم کتاب الروح ميں لکھتے ہيں

وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ

اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ ميّت قبر پر زيارت کے لئے آنے والے کو پہچانتي ہے اور خوش ہوتي ہے

ابن قیم کتاب اعلام الموقعین، ج ۱، ص ۳۰۔ میں امام الشافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں

حجتِ شرعیہ صرف اللہ کی کتاب، سنتِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ کا اجماع ہے۔ علم کے تین درجات ہیں کتاب حدیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم اور اس مسئلہ میں ائمہ کا اجماع جس کے بارے میں کوئی نصِ شرعی موجود نہیں ہے۔

غیر مقلدین ، مردوں کے زائر کو پہچاننے کے  عقیدے پر اجماع کا انکار کرتے ہیں جبکہ وہابیوں کی اکثریت اس کی قائل ہے

اجماع امت ٣ وہ زمین کا حصہ جو جسد نبوی کو چھو رہا ہے کعبہ سے افضل ہے

کتاب شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية  از الزرقاني المالكي (المتوفى: 1122هـ) میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت پر لکھا گیا

وأجمعوا على أن الموضع الذي ضمَّ أعضاءه الشريفة -صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض، حتى موضع الكعبة، كما قاله ابن عساكر والباجي والقاضي عياض، بل نقل التاج السبكي كما ذكره السيد السمهودي في “فضائل المدينة”, عن ابن عقيل الحنبلي: إنها أفضل من العرش، وصرَّح الفاكهاني بتفضيلها على السماوات

اور اس پر اجماع ہے کہ وہ مقام جوأعضاءه الشريفة  سے ملے ہوئے ہیں صلی الله علیہ وسلم کے  وہ افضل ہیں باقی زمین سے حتی کہ کعبه سے بھی جیسا کہ ابن عساکر اور الباجی اور قاضی عیآض نے کہا بلکہ التاج السبکی کہتے ہیں کہ  السيد السمهودي نے کتاب میں ابن عقیل حنبلی سے نقل کیا ہے کہ یہ تو عرش سے بھی افضل ہے اورالفاكهاني  نے صرآحت کی ہے کہ سات آسمانوں سے بھی افضل ہے

محدث سخاوی کتاب التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفةالمؤلف: شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن  أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) میں لکھتے ہیں

فلنرجع للنبذة الأخرى في الإشارة بألخص عبارة لما الاهتمام باستحضاره للزائر منهم وللسائر الساري في القربات التي بها يلم مما يتعلق بالمدينة الشريفة وجهاتها المبهجة المنيفة كأسمائها وارتفعت لدون مائة عند المجد منها زيادة على ثلثيها وأفضليتها على مكة وقد ذهب لكل من القولين جماعة مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة بل على العرش فيما صرح به ابن عقيل من الحنابلة
وہ ٹکڑا جو نبي صلي الله عليہ وسلم سے ملا ہوا ہے اسکي افضليت پر اجماع ہے حتي کہ کعبه سے بھي افضل ہے جو اصل شہر مدينہ سے فضليت ميں زيادہ ہے بلکہ عرش سے بھي بڑھ کر جيسا حنابلہ ميں ابن عقيل نے کہا ہے

  کتاب بدائع الفوائد از  محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية المتوفى: 751ھ کے مطابق

فائدة: هل حجرة النبي صلى الله عليه وسلم أفضل أم الكعبة؟
قال ابن عقيل: “سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي صلى الله عليه وسلم الكعبة فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش
وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح

فائدہ کیا حجرہ نبی صلی الله علیہ وسلم کعبہ سے افضل ہے؟

ابن عقیل نے کہا ایک سائل نے مجھ سے پوچھا کہ ان میں کون افضل ہے حجرہ نبی یا کعبہ؟ میں نے کہا اگر تم کہنا چاہتے ہو کہ کمرہ ؟ تو کعبہ افضل ہے لیکن اگر ارادہ ہے کہ جو اس میں ہے تو الله کی قسم نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے نہ جنت عدن نہ افلاک کے مدار کیونکہ حجرہ میں جسد ہے اگر اس کا وزن کرو تو دونوں جہان سے بھی بڑھ جائے

تمام دیوبندی اس اجماع کا اقرار کرتے ہیں لیکن غیر مقلدین اس عقیدہ پر جرح کرتے ہیں

اجماع امت ٤ قبر نبی میں رزق دیا جانا

ابن حجر کے شاگرد السخاوی کتاب القول البديع في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي

میں کہتے ہیں

يؤخذ من هذه الأحاديث أنه – صلى الله عليه وسلم – حي على الدوام وذلك أنه محال عادة أن يخلو الوجود كله من واحد يسلم عليه في ليل ونهار نحن نؤمن ونصدق بأنه – صلى الله عليه وسلم – حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا

ان احادیث سے اخذ کیا جاتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور یہ دن و رات ہر ایک آن پر سلام کہہ رہا ہے لہذا ان کا وجود روح سے خالی نہیں – ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، قبر میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے جسد شریف کو زمیں نہیں کھاتی اور اس پر اجماع ہے

رزق کا قبر میں دیا جانا دنیاوی حیات جیسا ہے جس کے دیوبندی قائل ہیں اور غیر مقلدین انکار کرتے ہیں

امام سخاوی کے بقول اس اجماعی عقیدہ کو امت نے اختیار کیا ہے

المہند میں ہے

اجماع امت ٥ : مقلد اندھے جیسا ہے

 ابن قیم  القصیدۃ النونیۃ میں لکھتے ہیں

إذ أجمع العلماء أن مقلدا للناس والأعمى هما أخوان والعلم معرفة الهدى بدليله ما ذاك والتقليد مستويان

علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر

اس امت میں مجتہدین کے  مقلد ہی زیادہ ہیں غیر مقلدین کی کبھی بھی کثرت نہ تھی تو گویا امت اندھی قرار پائی 

اجماع امت ٦ : اجماع صحابہ رضی الله عنھم کا انکار

اس امت کا سب سے اہم اجماع تھا جب وفات النبی پر اختلاف ہوا اور عمر رضی الله عنہ نے اس کا انکار کیا پھر ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے اس پر خطبہ دیا اور تمام صحابہ نے وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کا عقیدہ قبول کیا

افسوس امت میں اس کا بھی صریح انکار کر کے رسول الله کو قبر النبی میں زندہ کی صفت دی گئی ہے لہذا ایک اہل حدیث عالم کہتے ہیں

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع والی بات تو …..اس وقت ابھی رسول اللہ ﷺ قبر میں داخل ہی نہیں کیے گئے تھے، پھر وہ اجماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی موت اور دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر تھا

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

یعنی ان عالم کے مطابق اجماع تو تدفین سے پہلے ہوا اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہو گئے

دیوبندی کہتے ہیں کہ روح نبوی جسد مبارک سے نکلی ہی نہیں بلکہ قلب میں سمٹ گئی

گویا فرشتے خالی لوٹ گئے

امام بیہقی کتاب الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث  میں لکھتے ہیں

 وَالْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ بَعْدَمَا قُبِضُوا رُدَّتْ إِلَيْهِمْ أَرْوَاحُهُمْ فَهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ

اور انبیاء علیھم السلام کی روحیں قبض ہونے کے بعد واپس لوٹا دی گئیں اور اب وہ شہید کی طرح اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں

بیہقی کیا  کہہ رہے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں شاید ان کے نزدیک روحیں قبض ہونے کے بعد فرشتے زمیں و آسمان میں بھٹکتے رہے پتا نہ کر پائے کہ ان کو کہاں رکھیں لہذا واپس قبروں میں انبیاء کے جسد میں ہی روحیں واپس ڈال دی گئیں

آپ دیکھ سکتے ہیں  اس قسم کے اقوال جن  پر اجماع کا دعوی نقل کیا گیا ہے

یہ  امثال پیش کی گئی ہیں کہ امت کا حقیقت میں کسی بھی بات پر اجماع نہیں ہے بلکہ یہ اجماع کے تمام دعوے غلط ہیں اور اس کا دعوی کرنے کا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی ان گمراہ عقائد پر جرح نہ کرے

اجماع امت ٧: زیارت قبر نبوی 

امت کا ساتویں صدی تک اس پر اجماع تھا کہ قبر النبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی جائے گی

قاضی عیاض اس کا دعوی کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى میں کرتے ہیں

وَزِيَارَةُ قَبْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ الْمُسْلِمِينَ مُجْمَعٌ عَلَيْهَا، وَفَضِيلَةٌ  مُرَغَّبٌ فيها.

اور قبر  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی زیارت کرنا مسلمانوں میں سنت میں سے ایک سنت ہے اس پریہ جمع ہیں  اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں

ملا علی القاری شرح الشفا میں کہتے ہیں

زيارة قبره عليه ألسلام سنة من سنن المسلمين مجمع عليها أي مجتمع علي كونها سنة و فضيلة مرغب فيها

قبر نبوی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت مسلمانوں کی سنت میں سے ایک ہے اس پر جمع ہیں یعنی اس پر اجتماع ہے کہ یہ سنت ہے اور اس کی فضیلت کی طرف راغب ہیں

لیکن آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ اس اجماع کے انکاری تھے اور انہوں نے اس پر کتاب تصنیف کی

ابن تیمیہ کو اس بنا پر بدعتی قرار دیا جاتا ہے –

دار العلوم دیوبند کے چھپنے والے رسالہ دار العلوم میں تبریز عالم لکھتے ہیں

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Rauza%20Rasul%20SAW_MDU_7-8_July&Aug_16.pdf

إعلاء السنن  کے مولف  ظفر أحمد العثماني التهانوي ہیں اور محقق  محمد تقي عثماني ہیں

حاشیہ میں لکھا ہے

کسی سے بھی اس  (قبر نبوی کی زیارت) کا انکار منقول نہیں ہے کیونکہ اس پر اجماع ہے

اجماع امت ٨ : اہل حدیث کا لقب آجکل اپنے لئے استعمال کرنا جائز ہے 

مسلک پرستوں کا حال یہ ہے کہ اپنے فرقوں کے نام تک پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں مثلا زبیر علی از مقالات الحدیث ص ٤٥٨ میں محب الله شاہ حاشیہ میں لکھتے ہیں

تمام محدثین سے اس مرکب اضافی کا استعمال منقول ہی نہیں نہ تمام سلف کا اس پر اجماع ہے

اجماع امت ٩ : علم ہیت و رویت کا استمعال نہیں کیا جائے گا

فتح الباری ج ٤ ص ١٢٧ پر ابن حجر لکھتے ہیں

قَالَ الْبَاجِيُّ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ الصَّالح حجَّة عَلَيْهِم وَقَالَ بن بَزِيزَةَ وَهُوَ مَذْهَبٌ بَاطِلٌ فَقَدْ نَهَتِ الشَّرِيعَةُ عَنِ الْخَوْضِ فِي عِلْمِ النُّجُومِ لِأَنَّهَا حَدْسٌ وَتَخْمِينٌ لَيْسَ فِيهَا قَطْعٌ وَلَا ظَنٌّ غَالِبٌ

الباجی نے کہا کہ سلف صالح کا اجماع حجت ہے .. اور شریعت میں علم نجوم سے لو لگانا منع ہے کتونکہ یہ ظن و تخمین ہے اس میں کوئی قطعی چیز نہیں اور نہ ظن غالب ہے

ابن تيميہ نے مجموع الفتاوى ( 25 / 132 – 133 ) ميں علماء كا اتفاق بيان كيا ہے كہ رمضان اور عيد وغيرہ كے ثبوت ميں فلكى حساب پر اعتماد كرنا جائز نہيں

لیکن اس اجماع کا انکار بھی آج کل موجود ہے جب عرب ممالک میں اسلامی کلینڈر سال شروع ہونے سے پہلے ہی جاری کر دیا جاتا ہے سرکاری چھٹیاں اس کی بنیاد پر پہلے سے بتا دی جاتی ہیں یہاں تک کہ یہ کلنڈر کئی ممالک تک میں مستعمل ہے

اجماع امت ١٠ : روحیں قبرستانوں میں رہتی ہیں

عبد البر المتوفی ٤٦٣ ھ کا عقیدہ تھا کہ روحیں قبرستان میں ہی قیامت تک رہتی ہیں اسی بنا پر صوفیا قبر پر مراقبہ کر کے کشف قبور کرتے ہیں

ابن حجر عسقلانی اپنے خط میں کہتے ہیں جو  کتاب الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع  کے ساتھ چھپا ہے  خط الشيخ العسقلاني میں لکھتے ہیں

ما معرفَة الْمَيِّت بِمن يزروه وسماعه كَلَامه فَهُوَ مُفَرع عَن مَسْأَلَة مَشْهُورَة وَهِي أَيْن مُسْتَقر الْأَرْوَاح بعد الْمَوْت فجمهور أهل الحَدِيث عل أَن الْأَرْوَاح على أقنية قبورها نَقله ابْن عبد الْبر وَغَيره

جمہور اہل حدیث کا مذھب ہے کہ ارواح قبرستان میں ہیں جس کو ابن عبد البر اور دوسروں نے نقل کیا ہے

لیکن اس جمہور کے مذھب کو بھی فرقے چھوڑ چکے ہیں فرقہ اہل حدیث آج کل سن ٢٠٠٠ سے کہہ رہا ہے کہ روحیں صرف چند سوالات کے لئے قبر میں اتی ہیں پھر واپس نہیں آتیں

اجماع امت ١١ : یزید بن معاویہ پر لعنت کی جائے

کتاب فیض القدیر میں المناوی نے لکھا

أطلق جمع محققون حل لعن يزيد به حتى قال التفتازاني: الحق أن رضى يزيد بقتل الحسين وإهانته أهل البيت مما تواتر معناه وإن كان تفاصيله آحادا فنحن لا نتوقف في شأنه بل في إيمانه لعنة الله عليه وعلى أنصاره وأعوانه

جمیع محققین  نے یزید پر لعنت کرنے کے حلال ہونے کا اطلاق کیا ہے یہاں تک کہ تفتازانی نے کہا حق یہ ہے کہ تواتر معنوی سے آیا ہے کہ یزید قتل حسین پر اور اہانت اہل بیت پر  راضی تھا اور  .. ہم اس پر توقف نہیں کریں گے کہ اس پر اور اس کے مدد گاروں پر لعنت کریں

اس کے برعکس محدث ابن الصلاح کہتے ہیں

لم يصح عندنا أنه أمر بقتله – أي الحسين رضي الله عنه – ، والمحفوظ أن الآمر بقتاله المفضي إلى قتله – كرمه الله – إنما هو عبيد الله بن زياد والي العراق إذ ذاك

ہمارے ( محدثین)  کے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ یزید نے قتل حسین کا حکم کیا ہو

ابن تیمیہ کہتے ہیں

إن يزيد بن معاوية لم يأمر بقتل الحسين باتفاق أهل النقل

اہل نقل کا اتفاق ہے کہ یزید نے قتل حسین کا حکم نہیں کیا

غزالی کہتے ہیں

هذا لم يثبت أصلاً فلا يجوز أن يقال إنه قتله

یہ اصلا ثابت نہیں کہ پس کسی کے لئے جائز نہیں کہ کہے کہ یزید نے قتل کرنے کا کہا

اجماع امت ١٢ : جو  کہے محمد صلی الله علیہ وسلم  وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے

امام ابن تیمیہ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ

ومن قال أن النبى صلى الله عليه و سلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر بإتفاق المسلمين

مجموع فتاوى شيخ الإسلام أحمد بن تيمية جلد 8 صفحہ 283 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف

ترجمہ: اور جس نے کہا کہ   النبى صلى الله عليه و سلم وحی نازل ہونے سے پہلے سے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتقاق ( اجماع ) ہے

 دوسری طرف   تصوف میں ایک بحث ہے جس کو الحقيقة المحمدية کہا جاتا ہے اس پر ابن عربی نے اپنی کتب میں بحث کی ہے اور مقصد یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پہلی مخلوق ہیں

برصغیر میں مجدد الف ثانی نے اپنے رسائل میں اس کو بطور دلائل پیش کیا ہے
جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مخلوق اول کہا جاتا ہے تو پھر نور محمدی کا ذکر ہوتا ہے

ظاہر ہے ابن تیمیہ متصوفین کا رد کر رہے ہیں لیکن ان کا نام نہیں لے رہے

اجماع امت ١٣ : علی اپنی جنگوں میں حق پر تھے؟

آج کل کے حنابلہ جو وہابی ہیں اس قول کو واضح انداز میں نہیں کہتے کہ علی جنگوں میں حق پر تھے

یہ قول کہ علی رضی الله عنہ کا موقف صحیح تھا اور ان سے لڑنے والے اجتہادی غلطی کر رہے تھے یہ قول ابن جوزی کے ہم عصر حنابلہ کا تھا اور یہ قول ان میں چلا آ رہا تھا جو جنبلی صوفی السفاريني النابلسي نے بھی پیش کیا

وَقَدِ اتَّفَقَ أَهْلُ الْحَقِّ أَنَّ الْمُصِيبَ فِي تِلْكَ الْحُرُوبِ وَالتَّنَازُعِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ – رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ – مِنْ غَيْرِ شَكٍّ وَلَا تَدَافُعٍ

اور اہل حق کا اتفاق ہے کہ ان جنگوں میں حق پر اور امیر المومنین علی رضی الله عنہ تھے

شوافع میں النووی نے ساتویں صدی میں اس کو پیش کیا اور الطيبي (743هـ) نے آٹھویں صدی میں سيوطي نے نویں صدی میں
وإن كان علي رضي الله عنه هو المحق المصيب في تلك الحروب. هذا مذهب أهل السنة

احناف میں ملا علی قاری نے گیارہویں صدی میں پیش کیا
وَكَانَ عَلِيٌّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – هُوَ الْمُحِقُّ الْمُصِيبُ فِي تِلْكَ الْحُرُوبِ، وَهَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ

البتہ علی (الْمُحِقُّ الْمُصِيبُ) جنگوں میں حق پر تھے یہ قول اہل سنت میں چھٹی صدی سے پہلے نہیں ملتا
بلکہ تیسری صدی میں ان اختلافات پر توقف کی رائے تھی اور بعض کا انداز علی پر جرح کا بھی تھا مثال
امام جوزجانی نصب کے لئے مشھور ہیں اسی طرح اور محدثین بھی علی رضی الله عنہ پر جرح کرتے تھے

کتاب  الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة  میں أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي السعدي الأنصاري، شهاب الدين شيخ الإسلام، أبو العباس (المتوفى: 974هـ ) لکھتے ہیں

قلت الْإِجْمَاع حجَّة على كل أحد وَإِن لم يعرف مُسْتَنده لِأَن الله عصم هَذِه الْأمة من أَن تَجْتَمِع على ضَلَالَة وَيدل لذَلِك بل يُصَرح بِهِ قَوْله تَعَالَى وَيتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ نوله مَا تولى ونصله جَهَنَّم وَسَاءَتْ مصيرا النِّسَاء 115 وَقد أَجمعُوا أَيْضا على استحقاقهم الْخلَافَة على هَذَا التَّرْتِيب لَكِن هَذَا قَطْعِيّ كَمَا مر بأدلته مَبْسُوطا فَإِن قلت لم لم يكن التَّفْضِيل بَينهم على هَذَا التَّرْتِيب قَطْعِيا أَيْضا حَتَّى عِنْد غير الْأَشْعَرِيّ للْإِجْمَاع عَلَيْهِ قلت أما بَين عُثْمَان وَعلي فَوَاضِح للْخلاف فِيهِ كَمَا تقدم وَأما بَين أبي بكر ثمَّ عمر ثمَّ غَيرهمَا فَهُوَ وَإِن أَجمعُوا عَلَيْهِ إِلَّا أَن فِي كَون الْإِجْمَاع حجَّة قَطْعِيَّة خلاف فَالَّذِي عَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ أَنه حجَّة قَطْعِيَّة مُطلقًا فَيقدم على الْأَدِلَّة كلهَا وَلَا يُعَارضهُ دَلِيل أصلا وَيكفر أَو يبدع ويضلل مخالفه وَقَالَ الإِمَام الرَّازِيّ والآمدي إِنَّه ظَنِّي مُطلقًا وَالْحق فِي ذَلِك التَّفْضِيل فَمَا اتّفق عَلَيْهِ المعتبرون حجَّة قَطْعِيَّة وَمَا اخْتلفُوا كالإجماع السكوتي وَالْإِجْمَاع الَّذِي ندر مخالفه فَهُوَ ظَنِّي وَقد علمت مِمَّا قَرّرته لَك أَن هَذَا الْإِجْمَاع لَهُ مُخَالف نَادِر فَهُوَ وَإِن لم يعْتد بِهِ فِي الْإِجْمَاع على مَا فِيهِ من الْخلاف فِي مَحَله لكنه يُورث انحطاطه عَن الْإِجْمَاع الَّذِي لَا مُخَالف لَهُ فَالْأول ظَنِّي وَهَذَا قَطْعِيّ وَبِهَذَا يتَرَجَّح مَا قَالَه غير الْأَشْعَرِيّ من أَن الْإِجْمَاع هُنَا ظَنِّي لِأَنَّهُ اللَّائِق بِمَا قَرَّرْنَاهُ من أَن الْحق عِنْد الْأُصُولِيِّينَ التَّفْضِيل الْمَذْكُور وَكَانَ الْأَشْعَرِيّ من الْأَكْثَرين الْقَائِلين بِأَنَّهُ قَطْعِيّ مُطلقًا

میں کہتا ہوں کہ اجماع ہر ایک کے لیے حجت ہےاگرچہ کہ اس سے استناد نہ کیا جاتا ہو۔کیونکہ اللہ تعالٰی نے اس امت کو گمراہی پر جمع ہونے سے بچایا ہے۔ اسپر دلالت کرتا ہے بلکہ صراحت کرتا ہے اللہ تعالٰی کا فرمان ( نساء آیت 115 )خلافت کے استحقاق اور اس کی ترتیب پر بھی یقینا  اجماع قطعی ہے جیسا کہ اس کے مضبوط دلائل پہلے بیان ہوئے ہیں۔اگر میں کہوں ( یا تم کہو ) کہ خلافت کی ترتیب میں افضلیت قطعی نہیں ہے جبکہ غیر اشعریوں کے نزدیک اس پر اجماع ہے ۔ میں کہتا ہوں عثمان اور علی کے درمیان یہ معاملہ برعکس ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ۔ اور ابوبکر پھر عمر اور پھر ان دونوں کے علاوہ کا معاملہ ہے اس پر اجماع ہے سوائے اس سے کہ جو اجماع حجت قطعی کے خلاف ہو پس یہی معاملہ ہے اکثر کا کہ وہ اسے قطعی حجت مانتے ہیں ۔ اس کے تمام دلائل گزرچکے ۔ اور اس کے خلاف اصلا  کوئی دلیل نہیں ہے ۔ مکفرہ بدعتی اور گمراہ فرقے اس کے مخالف ہیں ۔ امام رازی اور آمدی کے نزدیک یہ مطلق ظنی ہے ۔ تفضیل کے معاملہ میں حق تو وہی ہے کہ جس پر قابل اعتبار لوگوں کا اتفاق ہے کہ یہ حجت قطعی ہے ۔انکا اختلاف نہیں جیسا کہ اجماع سکوتی اور وہ اجماع جس کی تھوڑی مخالفت کی گئی وہ ظنی ہے ۔ تم نے جان لیا جو کہ تمھارے لیے قرار وقعی ہے کہ وہ اجماع جس کی تھوڑی مخالفت کی گئی ہو وہ اس اس اجماع سے باہر نہیں جس کی اس کی جگہ موقع پر کوئی مخالفت نہ کی گئی ہو ۔ لیکن اجماع سے مخالفت یا اس سے ہٹنے کا معاملہ توارث ہوا ہو ۔ بنا بریں پہلا ظنی اور یہ والا قطعی ہے ۔ اس وجہ سے راجح وہ ہے جو غیر اشعریوں کا کہنا ہے کہ یہ والا اجماع ظنی ہے ۔ بہتر ہے اور ہمارے لیے موقر ہے کہ حق اصولیوں کے نزدیک مذکورہ تفضیل کے مسئلہ پر ہے اور اشعریوں کی اکثریت اس کی قائل ہے کہ یہ قطعی اور مطلق ہے ۔

الفاظ خلافت کی ترتیب میں افضلیت قطعی نہیں ہے جبکہ غیر اشعریوں کے نزدیک اس پر اجماع ہے قابل غور ہیں

یعنی عثمان کے پہلے خلیفہ ہونے سے وہ علی سے افضل نہیں

اجماع امت ١٤ : صحیح بخاری و مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں؟

أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)  اپنی کتاب المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج میں لکھتے ہیں کہ

اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول وكتاب البخاري أصحهما

علماء  الله ان پر رحم کرے کا اجماع ہے کہ سب سے صحیح کتاب قرآن کے بعد دو صحیح ہیں صحیح بخاری و مسلم اور امت نے ان کو تلقھا بالقبول کیا ہے اور امام بخاری کی کتاب ان دو میں صحیح ہے

http://shamela.ws/browse.php/book-1711#page-14

النووی مزید کہتے ہوں

وقد قال امام الحرمين لو حلف انسان بطلاق امرأته أن ما في كتابي البخاري ومسلم مما حكما بصحته مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لما ألزمته الطلاق ولا حنثته لاجماع علماء المسلمين

http://shamela.ws/browse.php/book-1711#page-19

اور بے شک امام الحرمین نے کہا کہ اگر کوئی انسان قسم کھا لے   صحیح بخاری و مسلم میں قول نبوی کی صحت پر  تو اس کو طلاق نہ ہو گی اور نہ نکاح ٹوٹے گا کہ یہ علماء مسلمین کا اجماع ہے

أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن إبراهيم بن أبي بكر ابن خلكان البرمكي الإربلي (المتوفى: 681هـ)اپنی کتاب وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان میں لکھتے ہیں کہ

وقال الحافظ أبو علي النيسابوري: ما تحت أديم السماء أصح من كتاب مسلم في علم الحديث

http://shamela.ws/browse.php/book-1000#page-2192

الحافظ أبو علي النيسابوري نے کہا : آسمان تلے علم حدیث میں صحیح مسلم سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں

امام ذھبی اپنی کتاب تذكرة الحفاظ = طبقات الحفاظ للذهبي میں لکھتے ہیں کہ

قال زكريا الساجي: كتاب الله أصل الإسلام وسنن أبي داود عهد الإسلام

http://shamela.ws/browse.php/book-1583#page-424

اور آگے جا کر لکھتے ہیں کہ

ومن كان في بيته هذا الكتاب -يعني الجامع- فكأنما في بيته نبي يتكلم

http://shamela.ws/browse.php/book-1583#page-450

——–

اسی طرح صطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ) اپنی کتاب كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون میں لکھتے ہیں کہ

وهو الثاني من الكتاب الستة، وأحد الصحيحين، اللذين هما أصح الكتب بعد كتاب الله العزيز

http://shamela.ws/browse.php/book-2118#page-4118

 

أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس اپنی کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں کہ

وقال الذهبي في تاريخ الإسلام: وأما جامع البخاري الصحيح فأجلّ كتب الإسلام وأفضلها بعد كتاب الله تعالى

http://shamela.ws/browse.php/book-21715#page-29

لیکن آج علمائے   ہی کہہ رہے ہیں کہ صحیح بخاری و مسلم میں ضعیف احادیث ہیں مثلا

البانی الضعیفہ ج ٣ ص ٤٦٥  پر کہتے ہیں  کہ کوئی معترض کہے

إن الألباني قد طعن في ” صحيح البخاري ” وضعف حديثه، فقد تبين لكل ذي بصيرة
أنني لم أحكم عقلي أورأيي كما يفعل أهل الأهواء قديما وحديثا، وإنما تمسكت
بما قاله العلماء في هذا الراوي وما تقتضيه قواعدهم في هذا العلم الشريف
ومصطلحه من رد حديث الضعيف، وبخاصة إذا خالف الثقة. والله ولي التوفيق.

بے شک البانی نے صحیح البخاری پر طعن کیا ہے اور اسکی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے تو پس ہر دیدہ بینا پر واضح ہے کہ میں نے عقل اور رائے سے یہ حکم نہیں لگآیا جیسا کہ قدیم و جدید اہل الهواء کا عمل ہے میں نے تو اس پر تمسک کیا ہے جو علماء نے اس راوی پر کہا ہے اور جو اس علم حدیث اور اس کے مصطلح کے قواعد  کا رد حدیث ضعیف کے حوالے سے تقاضہ ہے ، خاص کر جب ثقہ کی مخالف ہوں والله الولی التوفیق

البانی نے ہی صحیح مسلم کی متعدد روایات کو بھی ضعیف قرار دیا ہے

اس کی تفصیل اس ویب سائٹ کے سوالات کے سیکشن میں علم حدیث میں ہے

یہ کیسا اجماع ہے جس کا انکار بھی ہے ؟

اجماع امت ١٥ جنازہ میں چار تکبیرات دی جائیں

 نووی  نے شرح صحیح مسلم میں لکھا
دل الإجماع على نسخ هذا الحديث لأن ابن عبد البر وغيره نقلوا الإجماع على أنه لا يكبر اليوم إلا أربعا ، وهذا دليل على أنهم أجمعوا بعد زيد بن أرقم ، والأصح أن الإجماع يصح من الخلاف (شرح مسلم
ابن عبدالبر وغیرہ نے اس بات پہ اجماع نقل کیا ہے کہ اس وقت صرف چار تکبیرات کہی جائے گی ، یہ اس بات پہ دلیل ہے کہ زید بن ارقم کے بعد اس پہ اجماع کرلیا گیا اور صحیح بات یہ ہے کہ اختلاف سے اجماع صحیح ہوتا ہے ۔

دوسری طرف امام ترمذی سنن الترمذی، باب ماجاء فی التکبیر علی الجنازۃ  نجاشی والی روایت جس میں چار تکبیر کا ذکر ہے اسے بیان کرکے لکھتے ہیں کہ اسی حدیث پر  اصحاب رسول کا عمل ہے اور دیگر اہل علم کا بھی کہ جنازہ کی تکبیرات چار ہیں ۔ یہ قول سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن المبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق وغیرھم کا ہے ۔

اگر اس پر اجماع ہے تو وہ اہل علم جو اس پر عمل نہیں کرتے ان کا ایمان ہے یا نہیں ؟ کیونکہ ترمذی نے کہا دیگر اہل علم کا عمل ہے سب کا نہیں کہا – دوم جب حدیث موجود ہے کہ تکبیر چار ہیں تو اس پر اجماع کی کیا ضرورت تھی

اجماع امت ١٦ مُعْتَزِلَةِ کفار ہیں

کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة از ابن قیم

الْمُعْتَزِلَةِ الَّذِينَ اتَّفَقَ السَّلَفُ عَلَى تَكْفِيرِهِمْ

مُعْتَزِلَةِ جن کی تکفیر پر سلف کا اتفاق ہے

کتاب رد المحتار على الدر المختار از  ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) کے مطابق

وأنت خبير بأن الصحيح في المعتزلة والرافضة وغيرهم من المبتدعة أنه لا يحكم بكفرهم

اور تم کو معلوم ہے کہ المعتزلة اور رافضیوں اور دیگر بدعتوں  کے حوالے سے صحیح یہ ہے  کہ ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا گیا

اجماع امت ١٧ : غیر الله کو سجدہ کرنا حرام ہے 

ابن تیمیہ فتوی میں کہتے ہیں

وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى: أَنَّ السُّجُودَ لِغَيْرِ اللَّهِ مُحَرَّمٌ

اور مسلمان اس پر جمع ہیں کہ غیر الله کو سجدہ حرام ہے

مجموع الفتاوى (4/358) میں

دوسری طرف صوفیاء میں آج تک مروج ہے

اجماع امت ١٨  : آخری تشہد میں درود پڑھنا فرض نہیں ہے 

غلام مصطفی امن پوری مضمون  درود کے فرض ہونے کے مواقع میں لکھتے ہیں کہ بعض  کا اس پر بھی اجماع کا دعوی ہے جو صحیح نہیں

 اجماع امت  ١٩   :     تین  طلاق     ایک ہی  وقت میں واقع  ہو جاتی ہے  

 محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري کتاب  الإجماع میں لکھتے ہیں

وأجمعوا على أنه إن قال لها: أنت طالق ثلاثا إلا ثلاثا، أنها تطلق ثلاثا

اور اس پر اجماع ہے کہ اگر کہہ دے  تجھ کو تین طلاق ہے  تو تین طلاق ہو گئیں

وأجمعوا على أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثًا: أنها لا تحل له إلا بعد زوج غيره على ما جاء به حديث النبي صلى الله عليه وسلم، وانفرد سعيد بن المسيب، فقال: أن تزوجها تزويجًا صحيحًا لا تريد به إحلالا؛ فلا بأس أن يتزوجها الأول

اس پر اجماع  ہے کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے تو وہ کے لئے حلال نہیں الا یہ کہ وہ عورت کسی اور سے  کرے  جیسا حدیث میں ہے

الإقناع في مسائل الإجماع میں  علي بن محمد بن عبد الملك الكتامي الحميري الفاسي، أبو الحسن ابن القطان (المتوفى: 628هـ) فرماتے ہیں

 وأن قال: أنت طالق ثلاثًا أنها تطلق ثلاثًا

اور اگر مرد کہہ دے تجھ کو تین طلاق  تو عورت پر تین طلاق واقع ہو گئیں

اس اجماع   کا انکار  غیر مقلد  کرتے ہیں   جس  کا ذکر   سب  کرتے رهتے ہیں [1]

[1]

موسوعة الإجماع في الفقه الإسلامي

إعداد: د. أسامة بن سعيد القحطاني، د. علي بن عبد العزيز بن أحمد الخضير، د. ظافر بن حسن العمري، د. فيصل بن محمد الوعلان، د. فهد بن صالح بن محمد اللحيدان، د. صالح بن عبيد الحربي، د. صالح بن ناعم العمري، د. عزيز بن فرحان بن محمد الحبلاني العنزي، د. محمد بن معيض آل دواس الشهراني، د. عبد الله بن سعد بن عبد العزيز المحارب، د. عادل بن محمد العبيسي

الناشر: دار الفضيلة للنشر والتوزيع، الرياض – المملكة العربية السعودية

إذا طلق الرجل امرأته ثلاث طلقات متواليات، فيقع الطلاق ثلاثًا، ونقل الإجماع على ذلك جمع من أهل العلم• من نقل الإجماع:

1 – ابن المنذر (318 هـ) حيث قال: “وأجمعوا أن من طلق زوجته أكثر من ثلاث، أن

ثلاثًا منه تحرمها عليه” (2).

2 – ابن عبد البر (463 هـ) حيث قال: “أما وقوع الثلاث تطليقات مجتمعات بكلمة واحدة، فالفقهاء مختلفون في هيئة وقوعها كذلك، هل تقع للسنة أم لا؟ مع إجماعهم على أنها لازمة لمن أوقعها” (3). وقال أيضًا: “. . . وقوع الثلاث مجتمعات غير متفرقات، ولزومها، وهو ما لا خلاف فيه بين أئمة الفتوى بالأمصار، وهو المأثور عن جمهور السلف” (4). وقال أيضًا: “. . . الطلاق الثلاث مجتمعات لا يقعن لسُنّة. . . وهم مع ذلك يلزمونه ذلك الطلاق، ويحرمون به امرأته، إلا بعد زوج، كما لو أوقعها متفرقات عند الجميع” (5).

3 – ابن العربي (546 هـ) حيث قال: “. . . وليس معناه ما يتوهمه المبتدعة والجهّال من أن طلاق الثلاث إذا قالها الرجل في كلمة لا يلزم، وقد ضربت شرق الأرض وغربها، فما رأيت ولا سمعت أحدًا يقول ذلك إلا الشيعة الخارجين عن الإسلام” (1).

4 – ابن هبيرة (560 هـ) حيث قال: “واتفقوا على أن الطلاق الثلاث بكلمة واحدة، أو بكلمات في حالة واحدة، أو في طهر واحد يقع؛ ولم يختلفوا في ذلك” (2).

5 – الكاساني (587 هـ) حيث قال: “وروينا عن عمر -رضي اللَّه عنه- أنه كان لا يؤتى برجل قد طلق امرأته ثلاثًا إلا أوجعه ضربًا، وأجاز ذلك عليه، وكانت قضاياه بمحضر من الصحابة -رضي اللَّه عنهم-، فيكون إجماعًا منهم على ذلك” (3).

6 – ابن قدامة (620 هـ) حيث قال: “وجملة ذلك أن الرجل إذا قال لامرأته: أنت طالق ثلاثًا، فهي ثلاث، وإن نوى واحدة، لا نعلم فيه خلافًا” (4).

7 – القرطبي (671 هـ) حيث قال: “واتفق أئمة الفتوى على لزوم إيقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة، وهو قول جمهور السلف” (5).

8 – ابن جزي (741 هـ) حيث قال: “الطلاق الرجعي والبائن، فأما البائن، فهو في أربعة مواضع: وهي طلاق غير المدخول بها، وطلاق الخلع، والطلاق بالثلاث، فهذه الثلاثة بائنة اتفاقًا، . . . ” (6). وقال أيضًا: “وتنفذ الثلاث، سواء طلقها واحدة بعد واحدة اتفاقًا، أو جمع الثلاث في كلمة واحدة” (7).

9 – قاضي صفد (بعد 780 هـ) حيث قال: “اتفق الأئمة على أن الطلاق في الحيض لمدخول بها، أو في طهر جامع فيه محرّم؛ إلا أنه يقع، وكذلك جمع الطلاق الثلاث يحرم ويقع” (8).

10 – ابن حجر (852 هـ) حيث قال: “فالراجح في الموضعين تحريم المتعة، وإيقاع الثلاث للإجماع الذي انعقد في عهد عمر على ذلك، ولا يحفظ أن أحدًا في عهد عمر خالفه في واحدة منهما، وقد دل إجماعهم على وجود ناسخ، وإن كان خفي عن بعضهم قبل ذلك حتى ظهر لجميعهم في عهد عمر، فالمخالف بعد هذا الإجماع منابذ له، والجمهور على عدم اعتبار من أحدث الاختلاف بعد الاتفاق” (9).

١١

 – العيني (855 هـ) حيث قال: “لما خاطب عمر الصحابة بذلك فلم يقع منهم إنكار، صار إجماعًا” (1).

12 – ابن الهمام (861 هـ) حيث قال: “إجماعهم ظاهر، فإنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر -رضي اللَّه عنه- حين أمضى الثلاث” (2).

13 – ابن نجيم (970 هـ) حيث قال: “ولا حاجة إلى الاشتغال بالأدلة على رد قول من أنكر وقوع الثلاث جملة؛ لأنه مخالف للإجماع” (3).

14 – ابن عابدين (1252 هـ) فذكره، كما قال ابن الهمام (4).

15 – ابن قاسم (1392 هـ) حيث قال: “من طلق زوجته ثلاثًا بكلمة واحدة، وقعت الثلاث، وهو مذهب الأئمة الأربعة، وجماهير العلماء، . . . وحكى ابن رشد إجماع علماء الأمصار على أن الطلاق بلفظ الثلاث حكمه حكم الطلقة الثالثة” (5).

  • الموافقون على الإجماع: ما ذكره الجمهور من الإجماع على أن الرجل إذا طلق ثلاث تطليقات مجتمعات، وقعت ثلاثًا وافق عليه ابن حزم (6). وهو قول الثوري، وابن أبي ليلى، والأوزاعي، والليث، وعثمان البتي، والحسن بن حي، وإسحاق، وأبي ثور

=====================

اجماع کی بحث اھل علم کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں

کیونکہ کہا جاتا ھے کہ عود روح کا عقیدہ امت کا اجماعی عقیدہ ھے لیکن اس کا انکار ابن حزم المتوفی ٤٦٥ه  کرتے ھیں جنھوں نے مراتب الاجماع کے عنوان سے کتاب لکھی جو آج تک اجماع کے حوالے سے ایک انساکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ھے

جو  شخص اجماع کی اھمیت پر کتاب لکھے اور عود روح کے عقیدے کا انکار کرے اس کی یقینا کوئی تو وجہ ھے