Category Archives: مھدی -Imam Al-Mahdi

مباحث متعلقه خروج امام مہدی

نام کی تصحیح
کتاب میں نام غلطی سے محمد یوسف لکھا گیا تھا جس کی تصحیح کر دی گئی ہے – مولف کا نام حافظ محمد ظفر اقبال ہے

راقم نظریہ مہدی کو بنو حسن و بنو عباس کی ایجاد کہتا ہے اور اس پر سیر حاصل بحث اپنی سابقہ کتاب “روایات ظہور مہدی جرح و تعدیل کے میزان میں “میں کر چکا ہے –امام مہدی سے متعلق کافی مواد کتب اہل سنت میں موجود ہے اور چند سالوں بعد کوئی اور کتاب چھپ جاتی ہے جس میں سنی امام مہدی کا تذکرہ نئی شان سے بیان ہوا ہوتا ہے – حال میں ایک کتاب عقیدہ امام مہدی کے حوالے سے شائع ہوئی ہے، جس کا عنوان ہے اسلام میں امام مہدی کا تصور – یہ جناب
حافظ محمد ظفر اقبال صاحب کی تالیف ہے اور اس کتاب میں بہت سے حوالہ جات علماء کی آراء کے ساتھ بیان ہوئے ہیں –
حافظ محمد ظفر اقبال صاحب کی کتاب میں پیش کردہ چند روایات پر راقم کا تحقیقی موقف پیش خدمت ہے

ابو حنیفه کا امام المھدی کی مدد کرنا

امام مہدی کا مکمل نام محمد بن عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب ہے – آپ نے بنو عباس کے دور میں خروج کیا اور قتل ہوئے انہی سے متعلق روایات کتب صحاح ستہ میں موجود ہیں کہ یہ امام مہدی ہیں وغیرہ اس پر تفصیلی کتاب کتب کے سیکشن میں موجود ہے -محمد المہدی کے بھائی ابراہیم  تھے – محمد نے مدنیہ میں خروج کیا اور قتل ہوئے اور ان کے چند ایام بعد بصرہ میں ابراہیم بن عبد اللہ نے خروج کیا –

بعض لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ فتنہ خروج امام المھدی میں مبتلا ہوئے – ابراہیم و محمد بن عبد اللہ المہدی کے حق میں شور و جدل کرتے تھے – اس کا ذکر ضعیف اسناد سے ہم تک پہنچا ہے -راقم کی تحقیق میں یہ قصے مخالفین کی گھرنٹ ہیں اس پروپیگنڈا سے بعض احناف بھی متاثر ہوئے ہیں

مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه از الذهبي (المتوفى: 748هـ) میں ہے
قالَ عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ: حَدَّثَنِي أَبُو نُعَيْمٍ، سَمِعْتُ زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَجْهَرُ فِي أَمْرِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جَهْرًا شَدِيدًا، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ حَتَّى نُؤْتَى فَتُوضَعَ فِي أَعْنَاقِنَا الْحِبَالُ، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: فَغَدَوْتُ أُرِيدُ أَبَا حَنِيفَةَ، فَلَقِيتُهُ رَاكِبًا يُرِيدُ وَدَاعَ عِيسَى بْنِ مُوسَى قَدْ كَادَ وَجْهُهُ يَسْوَدُّ، فَقَدِمَ بَغْدَادَ فَأُدْخِلَ
عَلَى الْمَنْصُورِ

ابو نعیم نے کہا میں نے سنا زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ کہہ رہے تھے ابو حنیفہ ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے امر پر شدید بلند آواز میں بات کر رہے تھے پس میں (زفر ) نے کہا و اللہ آپ جو بھی خواہش کر لیں لیکن جب رسیاں گردنوں میں ڈالی جائیں گی تو ہماری گردنوں میں بھی ہوں گی- ابو نعیم نے کہا پس چند دن ہوئے میں ابو حنیفہ نے ملنا چاہا تو ان سے چلتے چلتے ملاقات ہو گی وہ عِيسَى بْنِ مُوسَى کو وداع کرنا چاہتے تھے ان کا چہرہ سیاہ ہو رہا تھا بغداد پہنچے اور منصور کے پاس گئے

راقم کہتا ہے یہ ابو نعیم کا کذب ہے جس کا ذکر محدثین نے کیا ہے کہ ابو نعیم احناف کی مخالفت میں قصے گھڑتا تھا – تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
وقال العباس بن مصعب: نعيم بن حماد الفارض وضع كُتُبًا في الرّدّ على أبي حنيفة،
العباس بن مصعب نے کہا نعیم بن حماد نے ابو حنیفہ کے رد میں کتاب بنائی
جزء فيه مسائل أبي جعفر محمد بن عثمان بن أبي شيبة عن شيوخه في مسائل في الجرح والتعديل از أبو جعفر محمد بن عثمان بن أبي شيبة العبسي مولاهم الكوفي (المتوفى: 297هـ) میں ہے کہ
وسمعت ابي يقول سالت ابا نعيم يا ابا نعيم من هؤلاء الذين تركتهم من اهل الكوفة كانو يرون السيف والخروج على السلطان فقال على رأسهم ابو حنيفة وكان مرجئا يرى السيف ثم قال ابو نعيم حدثني عمار بن رزيق قال كان ابو حنيفة يكتب الى ابراهيم بن عبد الله بالبصرة يساله القدوم الى الكوفة ويوعده نصره
محمد بن عثمان بن أبي شيبة نے کہا میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے ابو نعیم سے سوال کیا کہ اے ابو نعیم وہ کون ہیں جن کو اہل کوفہ نے اس پر ترک کر دیا کہ وہ لوگ تلوار نکالنے اور حاکم کے خروج کے قائل تھے ؟ پس ابو نعیم نے کہا ان کا سردار ابو حنیفہ تھا

اور یہ مرجئ تھا تلوار نکالنے والا پھر ابو نعیم نے کہا مجھ کو عمار بن رزيق نے روایت کیا کہ ابو حنیفہ نے ابراھیم بن عبد اللہ کو بصرہ کی طرف خط لکھ کر کوفہ انے کی دعوت دی اور اس کی مدد کا وعدہ کیا
محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر عبد اللہ بن احمد بن حنبل کا قول ہے کہ یہ کذاب ہے – ابن خراش کا کہنا ہے کہ یہ كان يضع الحديث حدیث گھڑتا ہے- عمار بن رزيق پر أبو الفضل أحمد بن علي بن عمرو البيكندي البخاري کا کہنا ہے کہ یہ رافضی تھا اس کا ذکر الذھبی نے میزان میں کیا ہے- عمار کا قول بھی عجیب و غریب ہے -مرجئہ کے نزدیک ایمان ختم نہیں ہوتا اور یہ خوارج سے الگ تھے جن کے نزدیک ایمان ختم ہو جاتا ہے اسی وجہ سے خوارج اور بعض محدثین کے نزدیک  گناہ کبیرہ والا حاکم قتل کیا جا سکتا ہے – عمار بن زریق کو بینادی معلومات نہیں ہیں کہ مرجئہ کا خروج پر موقف نہیں تھا

المعرفة والتاريخ 2/ 277. میں ہے
قال يعقوب بن سُفيان: سمعت محمد بن عبد الله بن نمير يذكر عن عمار بن رزيق، وكان من علماء أهل الكوفة. قال: إذا سئلت عن شيء فلم يبن عندك فانظر ما قال أبو حنيفة فخالفه فإنك تصيب
ابن نمیر نے عمار بن رزيق کا یعقوب بن سفیان سے ذکر کیا کہ اگر یہ تم سے کوئی سوال کرے جو سمجھ میں نہ آئے تو دیکھو ابو حنیفہ (اس مسئلہ میں ) کیا کہتے ہیں، پس اس (عمار) کی مخالفت کرو ، تم (مسئلہ کی) سمجھ پا لو گے

معلوم ہوا کہ اگر محمد بن ابی شیبہ اور ابو نعیم نے جھوٹ نہیں بولا تو عمار بن زریق تعصب عصری میں اول فول بولتے رہتے تھے- تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے

قَالَ خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ: صَلَّى إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعِيدَ بِالنَّاسِ أَرْبَعًا، وَخَرَجَ مَعَهُ أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَعَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، وَهُشَيْمٌ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي طَائِفَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَلَمْ يَخْرُجْ مَعَهُ شُعْبَةُ، وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يُجَاهِرُ فِي أَمْرِهِ وَيَأْمُرُ بِالْخُرُوجِ.
خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ نے کہا ابراھیم بن عبد اللہ نے عید کی بدھ کے دن لوگوں کے ساتھ عید کی اور اس کے ساتھ (محدثین میں سے ) اَبُو خَالِدٍ الأَحْمَر ، عِيسَى بْنُ يُونس عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، هُشَيْمٌ اور يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ تھے اور امام شُعْبَةُ نہ نکلے اور ابو حنیفہ کھلم کھلا اس کے امر میں بولتے اور اس کےساتھ خروج کا حکم کرتے تھے

اسی کتاب میں ہے
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ: خَرَجَ مَعَ إِبْرَاهِيمَ خَلْقٌ، وَجَمِيعُ أَهْلِ وَاسِطٍ، وَابْنَا هُشَيْمٍ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطَّحَّانُ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَغَيْرُهُمْ.
واسط کے محدثین نے بھی ابراہیم کے ساتھ خروج کیا اور اس فتنہ میں مبتلا ہوئے

الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم از أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
قَالَ أَبُو يَعْقُوبَ وَنا الْعَبَّاسُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَزَّازُ قَالَ نَا مُحَمَّد بن عُثْمَان بن أَبُو شيبَة قَالَ نَا بشر بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا نُعَيْمٍ يَقُولُ سَمِعْتُ زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَجْهَرُ بِالْكَلامِ أَيَّامَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جِهَارًا شَدِيدًا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ أَوْ تُوضَعُ الْحِبَالُ فِي أَعْنَاقِنَا فَلَمْ نَلْبَثْ أَنْ جَاءَ كِتَابُ ابى حَفْص إِلَى عِيسَى بْنِ مُوسَى أَنِ احْمِلْ أَبَا حَنِيفَةَ إِلَى بَغْدَادَ قَالَ فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ فَرَأَيْتُهُ رَاكِبًا عَلَى بَغْلَةٍ وَقَدْ صَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّهُ مسيح قَالَ فَحمل إِلَى بِبَغْدَاد فَعَاشَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا قَالَ فَيَقُولُونَ إِنَّهُ سَقَاهُ وَذَلِكَ فِي سَنَةِ خَمْسِينَ وَمِائَةٍ وَمَاتَ أَبُو حنيفَة وَهُوَ ابْن سبعين سنة

محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کذاب نے روایت کیا کہ زفر کہتے کہ ابو حنیفہ نے ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے دور میں شور کیا پس میں نے کہا جو خواہش کر لیں اللہ کی قسم رسی ہماری گردن میں ہو گی پس زیادہ نہ گذرا کہ ابو حفص کا خط گورنر عیسیٰ کے پاس آیا کہ ابو حنیفہ کو بغداد لاو پس ان کو تلاش کیا تو وہ اپنے خچر پر سوار چل رہے تھے اور ان کا چہرہ مسیح جیسا تھا پس ان کو بغداد لے جایا گیا وہاں پندرہ دن زندہ رہے- کہا کہتے ہیں ان کو (زہر) پلایا گیا اور یہ سن ١٥٠ ہجری تھا اور ابو حنیفہ کی وفات ہوئی وہ ستر سال کے تھے
راقم کہتا ہے سند میں بشر بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ مجہول ہے اور یہاں ابو حنیفہ کا چہرہ سیاہ سے مسیح جیسا کر دیا گیا ہے

الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم از أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
قَالَ ونا أَبُو الْقَاسِم عبيد الله بْنُ أَحْمَدَ الْبَزَّازُ قَالَ نَا أَبِي قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي عِمْرَانَ يَقُولُ سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْوَلِيدِ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا يُوسُفَ يَقُولُ إِنَّمَا كَانَ غَيْظُ الْمَنْصُورِ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ مَعَ مَعْرِفَتِهِ بِفَضْلِهِ أَنَّهُ لَمَّا خَرَجَ إِبْرَاهِيمُ بن عبد الله بْنِ حَسَنٍ بِالْبَصْرَةِ ذُكِرَ لَهُ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ وَالأَعْمَشَ يُخَاطِبَانِهِ مِنَ الْكُوفَةِ فَكَتَبَ الْمَنْصُورُ كِتَابَيْنِ عَلَى لِسَانِهِ أَحَدُهُمَا إِلَى الأَعْمَشِ وَالآخَرُ إِلَى أَبى حنيفَة من ابراهيم بن عبد الله بن حَسَنٍ وَبَعَثَ بِهِمَا مَعَ مَنْ يَثِقُ بِهِ فَلَمَّا قَرَأَ الاعمش الْكتاب أَخَذَهُ مِنَ الرَّجُلِ وَقَرَأَهُ ثُمَّ قَامَ فَأَطْعَمَهُ الشَّاةَ وَالرَّجُلُ يَنْظُرُ فَقَالَ لَهُ مَا أَرَدْتَ بِهَذَا قَالَ قُلْ لَهُ أَنْتَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَأَنْتُمْ كُلُّكُمْ لَهُ أَحْبَابٌ وَالسَّلامُ وَأما أَبُو حنيفَة فَقبل الْكتاب وَأجَاب عَنهُ فَلم يزل فِي نَفْسِ أَبِي جَعْفَرٍ حَتَّى فَعَلَ بِهِ مَا فعل

بشر بن ولید نے کہا اس نے امام ابو یوسف کو کہتے سنا کہ خلیفہ منصور کو ابو حنیفہ پر غصہ آیا کہ وہ ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے ساتھ خروج میں کیوں نکلے اور ذکر کیا کہ ابو حنیفہ اور اعمش یہ کوفہ میں تقریر کرتے پس خلیفہ منصور نے ان کی زبان میں ان دونوں ابو حنیفہ اور اعمش کو لکھا
اس قول کی سند میں بشر بن الوليد بن خالد بن الوليد الكندى الفقيه المتوفی ٢٣٨ ھ پر کافی جرح بھی کتب میں موجود ہے
وكان شيخًا منحرفًا عن محمد بن الحسن
یہ امام محمد سے منحرف ہو گئے تھے
اور یہ مختلط بھی ہو گئے تھے
قال السليمانى: منكر الحديث. وقال الآجرى: سألت أبا داود: بشر بن الوليد ثقة؟ قال: لا

موسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة «من القرن الأول إلى المعاصرين مع دراسة لعقائدهم وشيء  من طرائفهم» جمع وإعداد: وليد بن أحمد الحسين الزبيري، إياد بن عبد اللطيف القيسي، مصطفى بن قحطان الحبيب، بشير بن جواد القيسي، عماد بن محمد البغدادي میں محقق لکھتے ہیں
وإن العنوان الذي عنون به الخطيب لهذه الأخبار وهو: “ذكر ما حكي عن أبي حنيفة من رأيه في الخروج على السلطان”، فيه تهويل ومبالغة، وتعميم وإبهام فليس في الأخبار التي ساقها تحت هذا العنوان، ما يفيد أن أبا حنيفة كان يدعو للثورة على الخلفاء، أو أنه أعلن هذا، وجُلُّ ما في هذه الأخبار، أن أبا إسحاق الفزاري، ادعى أن أبا حنيفة أفتى أخاه في الخروج لمؤازرة إبراهيم بن عبد الله الطالبي عندما استفتاه في ذلك
خطیب بغدادی نے جو عنوان قائم کیا ہے کہ ذکر اس حکایت کا کہ ابو حنیفہ کی سلطان کے خلاف خروج کی رائے تھی تو اس میں مبالغہ آمیزی اور عامیانہ پن اور ابہام ہے اور اس عنوان کے تحت جو ذکر کیا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس میں ہو کہ ابو حنیفہ نے خلفاء پر بدلہ لینے کی پکار کی ہو یا اس کا اعلان کیا ہو اور فی جملہ ان خبروں میں ہے کہ ابو اسحاق نے دعوی کیا ہے کہ ابو حنیفہ نے اس کے بھائی کو ابراہیم بن عبد اللہ کی مدد کے لئے خروج کا فتوی دیا جب ان سے اس پر فتوی طلب کیا گیا
خطیب بغدادی کا حوالہ ہے
أخبرني علي بن أحمد الرزاز، أخبرنا علي بن محمد بن سعيد الموصلي، قال: حدثنا الحسن بن الوضاح المؤدب، حدثنا مسلم بن أبي مسلم الحرقي، حدثنا أبو إسحاق الفزاري قال: سمعت سفيان الثوري والأوزاعي يقولان: ما وُلدَ في الإِسلام مولود أشأم على هذه الأمة من أبي حنيفة، وكان أبو حنيفة مرجئًا يرى السيف. قال لي يومًا: يا أبا إسحاق أين تسكن؟ قلت: المصيصة، قال: لو ذهبت حيث ذهب أخوك كان خيرًا. قال: وكان أخو أبي إسحاق خرج مع المبيضة على المسودة، فقتل
سند میں مسلم بن ابی مسلم الحرقي مجہول ہے

مہر نبوت کی خبر

کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسم اطہر پر پیٹھ پر کبوتری کے انڈے برابر ایک مسا  تھا اس پر بال بھی تھے – اس کو مہر نبوت کا نام دیا گیا – آج ہم اس سے  متعلق روایات کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ کن راویوں نے اس کو بیان کیا ہے

جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایات

طبقات ابن سعد میں ہے

ذِكْرُ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ الَّذِي كَانَ بَيْنَ كَتِفَيْ رَسُولِ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ وَالْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالا: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سماك أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ

وَصَفَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ: وَرَأَيْتُ خَاتَمَهُ عِنْدَ كَتِفَيْهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ تُشْبِهُ جِسْمَهُ.

سماک بن حرب نے کہا اس نے جابر رضی الله عنہ سے سنا کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا وصف بیان کیا کہا میں نے ان کے شانوں کے پاس مہر دیکھی جو کبوتری کے انڈے جیسی تھی

قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سِمَاكٍ.حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ قَالَ: رَأَيْتُ الْخَاتَمَ الَّذِي

فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – سَلْعَةً مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ.

جابر بن سمرہ نے کہا انہوں نے وہ مہر دیکھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسم پر تھی اس کی جنس کبوتری کے انڈے جیسی تھی

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ: نَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ

عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَأَنَّهُ بَيْضَةٌ.

سماک نے کہا جابر نے کہا میں نے دیکھی وہ مہر جو رسول الله  کی پیٹھ پر تھی جیسے کہ کوئی انڈا ہو

صحیح مسلم میں ہے

حديث:1583و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاکٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ وَکَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ وَکَانَ کَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ قَالَ لَا بَلْ کَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَکَانَ مُسْتَدِيرًا وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ کَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ يُشْبِهُ جَسَدَهُ

 جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک اور داڑھی مبارک کا اگلا حصہ سفید ہوگیا تھا اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیل لگاتے تو سفیدی ظاہر نہ ہوتی اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک کے بال پراگندہ ہوتے تو سفیدی ظاہر ہوجاتی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک کے بال بہت گھنے تھے ایک آدمی کہنے لگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس تلوار کی طرح ہے – جابر (رض) کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس سورج اور چاند کی طرح گولائی مائل تھا اور میں نے مہر نبوت آپ کے کندھے مبارک کے پاس دیکھی جس طرح کہ کبوتر کا انڈہ اور اس کا رنگ آپ کے جسم مبارک کے مشابہ تھا۔

حديث:1584حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاکٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ خَاتَمًا فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَأَنَّهُ بَيْضَةُ حَمَامٍ

جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پشت مبارک میں مہر نبوت دیکھی جیسا کہ کبوتر کا انڈا۔

حديث:1585و حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سِمَاکٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ

ان تمام کی اسناد میں سماک بن حرب کا تفرد ہے جس کا کہنا ہے کہ یہ کبوتر کے انڈے برابر مسا تھا

احمد کہتے ہیں سماک مضطرب الحدیث ہے

قال أبو طالب أحمد بن حميد: قلت لأحمد بن حنبل: سماك بن حرب مضطرب الحديث؟ قال: نعم. «الجرح والتعديل

قال يعقوب بن سفيان: قال أحمد بن حنبل: حديث سماك بن حرب مضطرب. «المعرفة والتاريخ

کتاب  ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از الذھبی کے مطابق

كان شعبة يضعفه وقال ابن المبارك ضعيف الحديث

امام شعبة اس کی تضعیف کرتے اور ابن مبارک اس کو ضعیف الحدیث قرار دیتے

سماک کا انتقال بنو امیہ کے آخری دور میں هشام بن عبد الملك کے دور میں ہوا

أَبِي رمثة رضی الله عنہ سے منسوب روایات

طبقات ابن سعد میں ہے

[أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ. أَخْبَرَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ. أَخْبَرَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ عَنْ أَبِي رمثة قال: قال لي رسول الله. ص: يَا أَبَا رِمْثَةَ ادْنُ مِنِّي امْسَحْ ظَهْرِي. فَدَنَوْتُ فَمَسَحَتْ ظَهْرَهُ ثُمَّ وَضَعَتْ أَصَابِعِي عَلَى الْخَاتَمِ فَغَمَزْتُهَا. قُلْنَا لَهُ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعْرٌ مُجْتَمِعٌ عِنْدَ كَتِفَيْهِ] .

عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے أَبِي رمثة سے روایت کیا کہ کہا مجھ سے رسول الله نے کہا اے أَبِي رمثة میری پیٹھ کو صاف کرو میں ایسا کیا تو میں نے پیٹھ مبارک کو چھوا پھر میری انگلی اس مہر پر لگی تو میں نے اس کو دبایا- ہم نے کہا یہ

مہر کیا تھی؟ کہا کچھ بال جمع تھے ان  کے شانوں کے پاس

سند میں  الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ،  امام احمد کے نزدیک یثبج الحدیث  ہے

 عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے بیان کیا کہ یہ بال تھے – یہی الفاظ ا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے ایک دوسرے صحابی سے بھی منسوب کیے ہیں

طبقات ابن سعد میں ہے

[أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ وَهِشَامٌ أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَسَعْدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالُوا: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ. حَدَّثَنِي إِيَادُ بْنُ لَقِيطٍ عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: فَنَظَرَ أَبِي إِلَى مِثْلِ السِّلْعَةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كَأَطَبِّ الرِّجَالِ أَلا أُعَالِجُهَا لَكَ؟ فَقَالَ: لا. طَبِيبُهَا الَّذِي خَلَقَهَا] .

إِيَادُ بْنُ لَقِيطٍ نے أَبِي رِمْثَةَ سے روایت کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  کے پاس گیا

تو میرے باپ نے ایک چیز شانوں پر دیکھی تو کہا یا رسول الله میں لوگوں کا طبیب جیسا ہوں کیا اس کا علاج نہ کر دوں ؟ فرمایا : نہیں اس کا علاج وہ کرے گا جس نے اس کو خلق کیا

اس سند میں عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ  المتوفی ١٦٩ ھ ہے جس کو البزار نے ضعیف کہا ہے

[أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِيُّ. حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِذَا فِي كَتِفِهِ مِثْلَ بَعْرَةِ الْبَعِيرِ أَوْ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ.

فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلا أُدَاوِيكَ مِنْهَا؟ فَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ نَتَطَبَّبُ. فَقَالَ: يُدَاوِيهَا الَّذِي وَضَعَهَا]

عَاصِمٍ نے أَبِي رِمْثَةَ سے روایت کیا کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم پاس پہنچا  تو ان کے  شانے پر اونٹ کی آنکھ یا کبوتری کے انڈے جیسی تھی تو میں کہا اے رسول الله یہ کیا ہے اس کی دوا اپ کیوں نہیں لیتے ؟ میں اپنے گھر والوں کا طبیب ہوں پس فرمایا اس کو دوا دے گا جس نے اس کو بنایا

سند میں عاصم بن بهْدلة اور حماد بن سلمہ دونوں مختلط ہوئے ہیں

قرہ سے منسوب روایات

طبقات ابن سعد میں ہے

أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ. أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُشَيْرٍ. حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي رَهْطٍ مِنْ مُزَيْنَةَ فبايعته وإن قميصه لمطلق ثم أدخلت يدي فِي جَيْبِ قَمِيصِهِ فَمَسِسْتُ الْخَاتَمَ.

مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ نے اپنے باپ سے روایت کیا کہا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچا ایک مزینہ کے گروہ کے ساتھ ان کی ہم نے بیعت کی .. پھر میں نے ان کی قمیص کی جیب میں ہاتھ داخل کر کے انکی مہر کو

چھوا

اس کی سند  میں قرہ بن آیاس ہیں

کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق

قرة بن إياس والد معاوية بن قرة أنكر شعبة أن يكون له صحبة والجمهور أثبتوا له الصحبة والرواية

قرة بن إياس …..   شعبہ نے انکار کیا ہے کہ یہ صحابی تھے اور جمہور کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ صحابی ہیں

امام شعبہ کی اس رائے کی وجہ احمد العلل میں بتاتے ہیں

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدَّثنا سليمان ابو داود، عن شعبة، عن معاوية -يعني ابن قرة – قال: كان أبي يحدثنا عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، فلا أدري سمع منه، أو حدث عنه

عبد الله بن احمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے شعبہ ہے انہوں نے معاویہ سے روایت کیا کہ

میرے باپ قرہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے پس میں نہیں جانتا کہ انہوں نے سنا تھا یا صرف ان

کی بات بیان کرتے تھے

جب معاویہ بن قرہ کو خود ہی شک ہو کہ باپ نے واقعی رسول الله سے سنا بھی تھا یا نہیں تو آج ہم اس کو کیسے قبول کر لیں؟

لہذا روایت ضعیف  ہے

عبد الله بن سرجس سے منسوب روایات

[أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ وَخَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ. أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسٍ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَهُوَ جَالِسٌ فِي أَصْحَابِهِ. فَدُرْتُ مِنْ خَلْفِهِ فَعَرَفَ الَّذِي أُرِيدُهُ. فَأَلْقَى الرِّدَاءَ عَنْ ظَهْرِهِ. فَنَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ عَلَى بَعْضِ الْكَتِفِ مِثْلَ الْجُمْعِ. قَالَ حَمَّادٌ: جُمْعُ الْكَفِّ. وَجَمَعَ حَمَّادٌ كَفَّهُ وَضَمَّ أَصَابِعَهُ. حَوْلَهُ خِيلانٌ كَأَنَّهَا الثَّآلِيلُ. ثُمَّ جِئْتُ فَاسْتَقْبَلْتُهُ فَقُلْتُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: وَلَكَ! فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَسْتَغْفِرُ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ وَلَكُمْ. وَتَلا الآيَةَ: «وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِناتِ» محمد: 19. هَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ.

عَاصِمٌ الأَحْوَلُ نے عبد الله بن سرجس سے روایت کیا کہا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچا وہ اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے میں ان کے پیچھے آیا تو وہ جان گئے میں کیا چاہتا ہوں پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے پیٹھ پر سے چادر ہٹا دی تو میں نے وہ مہر دیکھی جو شانوں میں سے بعض پر تھی جیسے جمع ہو – حماد نے کہا جیسے مٹھی جمع ہوتی ہے اور حماد نے انگلیاں بند کر کے مٹھی بنائی – اس کے گرد ایسا تھا جیسے مسے ہوں – پھر میں ان کے سامنے آیا اور میں نے کہا الله اپ کی مغفرت کرے یا رسول الله ! فرمایا اور تمہاری بھی مغفرت کرے – ان سے بعض قوم نے کہا  رسول الله نے تمہاری مغفرت مانگی ؟ کہا ہاں تمھاری بھی ! اور تلاوت کیا اور اپنے لیے استغفار کرو اور مومنوں اور مومنات کے لئے  سورہ محمد – ایسا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ نے کہا

عبد الله بن سرجس کی سند سے دیگر کتب میں بھی ہے مثلا

صحیح مسلم

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ – رضي الله عنه – قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَأَكَلْتُ مَعَهُ خُبْزًا وَلَحْمًا أَوْ قَالَ ثَرِيدًا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ أَسْتَغْفَرَ لَكَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ نَعَمْ وَلَكَ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ) قَالَ ثُمَّ دُرْتُ خَلْفَهُ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عِنْدَ نَاغِضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى (9) جُمْعًا (10) عَلَيْهِ خِيلَانٌ (11) كَأَمْثَالِ الثَّآلِيلِ. (م 7/ 86 – 87)

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَرْجِسَ، قَالَ: ” تَرَوْنَ هَذَا الشَّيْخَ، يَعْنِي نَفْسَهُ، كَلَّمْتُ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكَلْتُ مَعَهُ، وَرَأَيْتُ الْعَلَامَةَ الَّتِي بَيْنَ كَتِفَيْهِ، وَهِيَ فِي طَرَفِ نُغْضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى، كَأَنَّهُ جُمْعٌ، يَعْنِي الْكَفَّ الْمُجْتَمِعَ، وَقَالَ بِيَدِهِ فَقَبَضَهَا عَلَيْهِ، خِيلَانٌ كَهَيْئَةِ الثَّآلِيلِ ” (2)

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ: «أَنَّهُ رَأَى الْخَاتَمَ الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صُحْبَةٌ» (حم) 20774

– حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عِيسَى أَبُو بِشْرٍ الرَّاسِبِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ أَبُو زَيْدٍ الْقَيْسِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، أَنَّهُ قَالَ: «قَدْ رَأَى عَبْدُ اللَّهِ

بْنُ سَرْجِسَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ تَكُنْ لَهُ صُحْبَةٌ» (حم) 20779

لیکن امام احمد کا کہنا ہے عبد الله بن سرجس صحابی نہیں اس نے رسول الله کو صرف دیکھا سنا نہیں

السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ سے منسوب روایات

صحیح  بخاری میں ہے

6352 – حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنِ الجَعْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ، «فَمَسَحَ رَأْسِي، وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الحَجَلَةِ»

السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ نے کہا میں اپنی خالہ کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا پس  انہوں نے کہا یا رسول الله میرے بھانجے کو مرگی ہے پس اپ نے میرے سر کا مسح کیا اور برکت کی دعا کی پھر وضو کیا پس میں نے وضو کا پانی پیا پھر میں ان کی پیٹھ  پیچھے کھڑا ہوا تو دیکھا وہاں ایک مہر تھی زِرِّ الحَجَلَةِ کا ابھار  ہو

یہی روایت کتاب  الشريعة از أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے

وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي حَسَّانَ الْأَنْمَاطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ , فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ , ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ , ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ مِثْلِ زِرِّ الْحَجَلَةِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا “

ان دونوں کی سند میں الجعد بن عبد الرحمن بن أوس أبو زيد الكندي ہے اور امام علی المدینی کا کہنا ہے کہ امام مالک اس سے کچھ روایت نہ کرتے تھے

كذا ذكره أبو الوليد الباجي في كتاب «التعديل والتجريح» وقال: قال علي ابن المديني: لم يرو عنه مالك بن أنس شيئا.

اس حدیث کے الفاظ غیر واضح ہیں – صحیح بخاری میں ہے

، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحُجْلَةُ:‏‏‏‏ مِنْ حُجَلِ الْفَرَسِ الَّذِي بَيْنَ عَيْنَيْهِ

محمد بن عبیداللہ نے کہا کہ«حجلة» ، «حجل الفرس» سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں جو اس کی دونوں

آنکھوں کے بیچ میں ہوتی ہے۔

اس سے کچھ واضح نہیں ہوا کہ  یہ مہر یا مسا کس قسم کا تھا

اس کے برعکس دلائل النبوه از بیہقی اور شرح السنہ از بغوی میں ہے

وَحَكَى أَبُو سُلَيْمَانَ ” عَنْ بَعْضِهِمْ: أَنَّ رِزَّ الْحَجَلَةِ: بَيْضُ الْحَجَلِ

ان الفاظ کا مطلب مادہ پرندے کا انڈا ہے

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے منسوب روایات

 مسند احمد میں ہے

– حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ، حَدَّثَنَا أَبُو لَيْلَى، قَالَ أَبِي: ” سَمَّاهُ سُرَيْجٌ: عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَيْسَرَةَ الْخُرَاسَانِيَّ “، عَنْ عَتَّابٍ الْبَكْرِيِّ قَالَ: كُنَّا نُجَالِسُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ بِالْمَدِينَةِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَانَ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، فَقَالَ: بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ، «هَكَذَا لَحْمٌ نَاشِزٌ بَيْنَ كَتِفَيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (حم) 11656

عَتَّابٍ الْبَكْرِيِّ  نے کہا ہم ابو سعید الخدری کے ساتھ  مدینہ میں مجلس کرتے پس ان سے پوچھتے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مہر نبوت پر جو ان کے شانوں کے درمیان تھی –پس انہوں نے کہا شہادت کی انگلی کی طرح – اس کا گوشت تھا کندھوں کے درمیان

عَتَّابٍ الْبَكْرِيِّ ، ابن حجر کے نزدیک مقبول ہے ایسا وہ مجہول  کہنے کی بجائے کہتے ہیں – البتہ روایت میں ہے کہ یہ انگلی کی طرح گوشت تھا

ابو زید عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ رضی الله عنہ سے منسوب روایات

مسند احمد میں ہے

– حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَزْرَةُ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْتَرِبْ مِنِّي»، فَاقْتَرَبْتُ مِنْهُ، فَقَالَ: «أَدْخِلْ يَدَكَ فَامْسَحْ ظَهْرِي»، قَالَ: فَأَدْخَلْتُ يَدِي فِي قَمِيصِهِ، فَمَسَحْتُ ظَهْرَهُ، فَوَقَعَ خَاتَمُ

النُّبُوَّةِ بَيْنَ إِصْبَعَيَّ، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ، فَقَالَ: «شَعَرَاتٌ بَيْنَ كَتِفَيْهِ» (حم) 20732

عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے کہا ابو زید نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے کہا میرے پاس آو – پس میں ان کے پاس گیا – اپ نے فرمایا اپنا ہاتھ داخل کرو اور میری کمر کو مسح کرو – پس میں نے قمیص میں ہاتھ داخل کیا اپ کی پیٹھ کا مسح کیا تو میرا ہاتھ پڑا مہر النبوت پر جو انگلی کے  بیچ میں آئی – پس میں نے اس مہر نبوت پر سوال کیا – پس اپ نے فرمایا یہ بال ہیں کندھوں کے درمیان

– حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَهِيكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا زَيْدٍ عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ قَالَ: «رَأَيْتُ الْخَاتَمَ

الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرَجُلٍ قَالَ بِإِصْبَعِهِ الثَّالِثَةِ هَكَذَا، فَمَسَحْتُهُ بِيَدِي» (حم) 22882

أَبَا نَهِيكٍ عثمان بن نهيك الأزدي الفراهيدي کہتے عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ نے کہا میں نے وہ مہر دیکھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے شانوں کے درمیان تھی  جیسا کہ ایک آدمی نے اپنی تیسری انگلی سے اس طرح کہا، میں نے اسے ہاتھ سے چھوا

سند میں عثمان بن نهيك الأزدي الفراهيدي  مجہول ہے

– حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا زَيْدٍ ادْنُ مِنِّي، وَامْسَحْ ظَهْرِي». وَكَشَفَ ظَهْرَهُ، فَمَسَحْتُ ظَهْرَهُ، وَجَعَلْتُ الْخَاتَمَ بَيْنَ أَصَابِعِي. قَالَ: فَغَمَزْتُهَا. قَالَ فَقِيلَ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعَرٌمُجْتَمِعٌ عَلَى كَتِفِه. (حم) 22889

– أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي عَاصِمٍ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ الْيَشْكُرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “ادْنُ مِنِّي فَامْسَحْ ظَهْرِي”. قَالَ: فَكَشَفْتُ عَنْ ظَهْرِهِ، وَجَعَلْتُ الْخَاتَمَ بَيْنَ أُصْبُعِي فَغَمَزْتُهَا،

قِيلَ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعْرٌ مُجْتَمِعٌ عَلَى كَتِفِهِ (رقم طبعة با وزير: 6267) , (حب) 6300 [قال الألباني]: صحيح – “المختصر” (31/ 17).

عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے ابو زید کا قول بیان کیا کہ مہر اصل میں بال جمع  تھے

سلمان الفارسی رضی الله عنہ کی روایت

مسند احمد میں سلمان کے ایمان لانے کے قصے کی روایت ہے

وَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ، فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، فَقُلْتُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ

میں ان کے پیچھے کھڑا ہوا اس پر سے چادر کو ہٹایا تو کہا میں گواہی دیتا ہوں اپ نبی ہیں

سند ضعیف  ہے – سند میں  أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ ہے  جس کی توثیق نہیں ملی

طبرانی میں ہے سلمان نے خبر دی

فَإِنَّهُ النَّبِيُّ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمَ النُّبُوَّةِ

یہ نبی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی اور اس کی نشانی یہ ہے کہ ان کے شانوں کے درمیان نبوت کی مہر ہے

سند میں السَّلْمُ بْنُ الصَّلْتِ  مجہول ہے

طبرانی الکبیر میں ہے سلامة العجلي نے کہا سلمان نے خبر دی

بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ

ان کے شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے

لسان المیزان از ابن حجر کے مطابق سلامہ مجہول ہے

طبرانی الکبیر اور مستدرک الحاکم  میں ہےعبد الله بن عبد القدوس نے أَبُو الطُّفَيْلِ کی سند سے روایت کیا کہ  سلمان نے خبر دی

فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، فَقُلْتُ: اللهُ أَكْبَرُ، هَذِهِ وَاحِدَةٌ،

جب نظر ختم نبوت پر گئی جو شانوں کے درمیان تھی میں بولا الله اکبر یہ وہی ہے

سند میں عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ  سخت ضعیف راوی ہے

معلوم ہوا کہ اس قسم کا کوئی اہل کتاب کا قول تھا

دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَالَ: كُنْتُ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ مِنْ أَهْلِ أَصْبَهَانَ …. وَإِنَّ فِيهِ عَلَامَاتٍ لَا تَخْفَى: بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ

سلمان نے خبر دی کہ وہ فارس اصفہان کے ہیں … انہوں نے رسول الله کی علامت جو چھپی نہیں تھیں دیکھیں کہ ان کے شانوں کے درمیان مہر  نبوت ہے

سند میں أحمد بن عبد الجبار بن محمد العطاردي الكوفي  ضعیف ہے جو مدلس بھی ہے

ابن عباس رضی الله عنہ  کی روایت

دلائل النبوه از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ مَحْبُوبٍ الدَّهَّانُ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ، عَنِ الْكَلْبِيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ حَبْرًا مِنْ أَحْبَارِ الْيَهُودِ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَكَانَ قَارِئًا لِلْتَوْرَاةِ فَوَافَقَهُ وَهُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ يُوسُفَ كَمَا أُنْزِلَتْ عَلَى مُوسَى فِي التَّوْرَاةِ فَقَالَ لَهُ الْحَبْرُ: يَا مُحَمَّدُ، مَنْ عَلَّمَكَهَا؟ قَالَ: «اللهُ عَلَّمَنِيهَا» ، قَالَ: فَتَعَجَّبَ الْحَبْرُ لِمَا سَمِعَ مِنْهُ فَرَجَعَ إِلَى الْيَهُودِ، فَقَالَ لَهُمْ: أَتَعْلَمُونَ وَاللهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَا أُنْزِلَ فِي التَّوْرَاةِ، قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى دَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ وَنَظَرُوا إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ فَجَعَلُوا يَسْتَمِعُونَ إِلَى قِرَاءَتِهِ لِسُورَةِ يُوسُفَ، فَتَعَجَّبُوا مِنْهُ وَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، مَنْ عَلَّمَكَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَّمَنِيهَا اللهُ» ، وَنَزَلَ: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} [يوسف: 7] . يَقُولُ لِمَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرِهِمْ وَأَرَادَ أَنْ يَعْلَمَ عِلْمَهُمْ، فَأَسْلَمَ الْقَوْمُ عِنْدَ ذَلِكَ

الْكَلْبِيّ نے ْ أَبِي صَالِحٍ سے روایت کیا کہ ابن عباس نے کہا علمائے یہود میں سے ایک عالم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس  ایک روز آیا اور وہ توریت کی قرات کرتا تھا  لہذا جانتا تھا اور رسول الله اس وقت سورہ یوسف قرات کر رہے تھے جیسی موسی پر توریت میں نازل ہوئی – پس حبر یہود نے کہا اے محمد کس نے یہ سکھائی؟ اپ نے فرمایا الله نے – یہودی  حیران ہوا جب اس نے سورت سنی پھر یہود کے پاس گیا اور ان سے کہا کیا تم کو معلوم بھی ہے الله کی قسم محمد تو قرآن میں قرات کرتا ہے ایسا ہی توریت میں ہے – پس ایک گروہ یہود اپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور ان کو صفت سے پہچان گیا اور ان کی مہر کو دیکھا جو شانوں کے درمیان تھی  پس وہ سورہ یوسف سننے لگے اور حیران ہوتے رہے اور بولے اے محمد کس نے سکھائی؟ اپ نے فرمایا الله نے سکھائی

اس کی سند الکلبی کی وجہ سے ضعیف ہے

الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ رضی الله عنہ  کی روایت

طبرانی الکبیر میں روایت ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُدَ الْمَكِّيُّ، ثنا النُّعْمَانُ بْنُ شِبْلٍ الْبَاهِلِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ قَالَا: ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُخَرِّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي أُمُّ بَكْرِ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ: مَرَّ بِي يَهُودِيٌّ وَأَنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ فَوَقَعَ ثَوْبُهُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فِي ظَهْرِهِ» ، فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: ارْفَعْ ثَوْبَهُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَذَهَبْتُ أَرْفَعُ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ظَهْرِهِ «فَنَفَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِيَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ»

 أُمُّ بَكْرِ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ ایک یہودی گزرا اور میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے تھا اور رسول الله وضو کر رہے تھے تو کمر پر سے کپڑا تھا اور وہاں نبوت کی مہر تھی- پس یہودی بولا اس کپڑے کو ہٹاو- پس میں رسول الله کے پاس گیا ان کی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹا دیا – پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک چلو پانی کا میرے منہ پر مارا

سند ضعیف ہے أُمُّ بَكْرِ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ راویہ  مجہول ہے

أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدٍ کی روایت

طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا مَسْعَدَةُ بْنُ سَعْدٍ الْعَطَّارُ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّقْرِ السُّكَّرِيُّ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، ثنا بَكَّارُ بْنُ جَارَسْتَ، ثنا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدٍ، قَالَتْ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ

اس کی سند ضعیف ہے – سند میں بَكَّارُ بْنُ جَارَسْتَ  جس کو لین الحدیث کہا جاتا ہے

مستدرک الحاکم میں بھی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ، ثنا خَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ، عَنْ عَمِّهِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَكْبَرِ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ وَمَعَهُ ابْنَتُهُ أُمُّ خَالِدٍ، فَجَاءَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا قَمِيصٌ أَصْفَرُ وَقَدْ أَعْجَبَ الْجَارِيَةَ قَمِيصُهَا، وَقَدْ كَانَتْ فَهِمَتْ بَعْضَ كَلَامِ الْحَبَشَةِ فَرَاطَنَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَلَامِ الْحَبَشَةِ سَنَهْ سَنَهْ وَهِيَ بِالْحَبَشَةِ حَسَنٌ حَسَنٌ، ثُمَّ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْلِي وأَخْلِقِي، أَبْلِي وأَخْلِقِي» قَالَ: فَأَبْلَتْ وَاللَّهِ، ثُمَّ أَخْلَقَتْ، ثُمَّ مَالَتْ إِلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَتْ يَدَهَا عَلَى مَوْضِعِ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَأَخَذَهَا أَبُوهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهَا» صَحِيحُ الْإِسْنَادِ قَدِ اتَّفَقَ الشَّيْخَانِ عَلَى إِخْرَاجِ أَحَادِيثَ لِإِسْحَاقَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ آبَائِهِ وَعُمُوَمَتِهِ، وَهَذِهِ أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ الَّتِي حَمَلَهَا أَبُوهَا صَغِيرَةً إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَحِبَتْ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَوَتْ عَنْهُ

اس کی سند کو الذھبی نے تلخیص میں  منقطع قرار دیا ہے

علی رضی الله عنہ کی روایت

ترمذی کی ایک مشہور حدیث شمائل پر ہے

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنِ الحُسَيْنِ بْنِ أَبِي حَلِيمَةَ مِنْ قَصْرِ الأَحْنَفِ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ المَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ، إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ وَلَا بِالقَصِيرِ المُتَرَدِّدِ وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ القَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ بِالجَعْدِ القَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ كَانَ جَعْدًا رَجِلًا وَلَمْ يَكُنْ بِالمُطَهَّمِ، وَلَا بِالمُكَلْثَمِ، وَكَانَ فِي الوَجْهِ تَدْوِيرٌ، أَبْيَضُ مُشْرَبٌ، أَدْعَجُ العَيْنَيْنِ، أَهْدَبُ الأَشْفَارِ، جَلِيلُ المُشَاشِ، وَالكَتَدِ، أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ شَثْنُ الكَفَّيْنِ وَالقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ، وَإِذَا التَفَتَ التَفَتَ مَعًا، بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، أَجْوَدُ النَّاسِ صَدْرًا، وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً، وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيكَةً، وَأَكْرَمُهُمْ عِشْرَةً، مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ، يَقُولُ نَاعِتُهُ: لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ “: «هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ». قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: سَمِعْتُ الأَصْمَعِيَّ، يَقُولُ فِي تَفْسِيرِ صِفَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: المُمَّغِطُ الذَّاهِبُ طُولًا. وَسَمِعْتُ أَعْرَابِيًّا يَقُولُ فِي كَلَامِهِ: تَمَغَّطَ فِي نُشَّابَتِهِ أَيْ مَدَّهَا مَدًّا شَدِيدًا. وَأَمَّا المُتَرَدِّدُ: فَالدَّاخِلُ بَعْضُهُ فِي بَعْضٍ قِصَرًا. وَأَمَّا القَطَطُ. فَالشَّدِيدُ الجُعُودَةِ، وَالرَّجِلُ الَّذِي فِي شَعْرِهِ حُجُونَةٌ أَيْ: يَنْحَنِي قَلِيلًا. [ص:600] وَأَمَّا المُطَهَّمُ، فَالبَادِنُ الكَثِيرُ اللَّحْمِ. وَأَمَّا المُكَلْثَمُ: فَالمُدَوَّرُ الوَجْهِ. وَأَمَّا المُشْرَبُ: فَهُوَ الَّذِي فِي بَيَاضِهِ حُمْرَةٌ. وَالأَدْعَجُ: الشَّدِيدُ سَوَادِ العَيْنِ، وَالأَهْدَبُ، الطَّوِيلُ الأَشْفَارِ، وَالكَتَدُ، مُجْتَمَعُ الكَتِفَيْنِ، وَهُوَ الكَاهِلُ. وَالمَسْرُبَةُ، هُوَ الشَّعْرُ الدَّقِيقُ الَّذِي هُوَ كَأَنَّهُ قَضِيبٌ مِنَ الصَّدْرِ إِلَى السُّرَّةِ. وَالشَّثْنُ: الغَلِيظُ الأَصَابِعِ مِنَ الكَفَّيْنِ وَالقَدَمَيْنِ. وَالتَّقَلُّعُ: أَنْ يَمْشِيَ بِقُوَّةٍ. وَالصَّبَبُ: الحُدُورُ، نَقُولُ: انْحَدَرْنَا فِي صَبُوبٍ وَصَبَبٍ. وَقَوْلُهُ:جَلِيلُ المُشَاشِ، يُرِيدُ رُءُوسَ المَنَاكِبِ. وَالعِشْرَةُ: الصُّحْبَةُ، وَالعَشِيرُ: الصَّاحِبُ. وَالبَدِيهَةُ: المُفَاجَأَةُ، يُقَالُ بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ: أَيْ فَجَأْتُهُ

علی رضی اللہ عنہ نے (نبی  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے) فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آخری نبی ہیں۔

اگرچہ اس کو صحیح کہہ دیا جاتا ہے جبکہ اس کی سند منقطع ہے – جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

إبراهيم بن محمد بن الحنيفة عن جده علي رضي الله عنه قال أبو زرعة مرسل

ابراہیم بن محمد کی اپنے دادا علی سے روایت مرسل ہے

ابراہیم المَهدِيُ مِنّا أَهلَ البَيتِ والی روایت کے بھی راوی ہیں – اس تناظر میں قابل غور ہے کہ یہ مہر نبوت کا ذکر کرتے ہیں

عائشہ رضی الله عنہا کی روایت

دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا قَالَتْ: ” كَانَ مِنْ صِفَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،…. کَانَ وَاسِعَ الظَّهْرِ، بَيْنَ کَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

6: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /362، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 /304.

  عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ   نبی   صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پشتِ اقدس کشادہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی۔

اس کی سند صَبِيحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْفَرَغَانِيُّ  کی وجہ سے ضعیف ہے جو صَاحِبُ مَنَاكِيرَ مشہور ہے

أَبِي مُوسَى رضی الله عنہ کی روایت

دلائل النبوه از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ طَلْحَةُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الصَّقْرِ الْبَغْدَادِيُّ، بِهَا قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى الْآدَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّامِ،… لَمْ يَمُرَّ بِشَجَرَةٍ وَلَا حَجَرٍ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ، خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فِي أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلُ التُّفَّاحَةِ

نصرانی رَّاهِبُ نے کہا  رسول الله  کسی درخت یا یا پتھر کے پاس سے نہ گزرتے لیکن وہ سب ان کو سجدہ کرتے اور یہ سجدہ نبی کو ہی کرتے ہیں اور میں ان کو پہچانتا ہوں مہر نبوت سے جو شانوں  پر سیب جیسی ہے

سند میں عبد الرحمن بن غزوان  ، أبو نوح، قراد ہے جو منکرات بیان کرتا ہے اس روایت کا متن بھی منکر ہے کیونکہ سورہ حج میں ہے درخت و شجر صرف الله کو سجدہ کرتے ہیں.

یہاں بیان ہوا کہ بچپن میں ہی مہر اس قدر بڑی تھی کہ گویا سیب ہو

ابن اسحاق کی روایت

دلائل النبوه از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ : وَكَانَ أَبُو طَالِبٍ هُوَ الَّذِي يَلِي أَمْرَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ جَدِّهِ، كَانَ إِلَيْهِ وَمَعَهُ , ثُمَّ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ خَرَجَ فِي رَكْبٍ إِلَى الشَّامِ تَاجِرًا…. فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُهُ فَيُوَافِقُ ذَلِكَ مَا عِنْدَ بَحِيرَاءَ مِنْ صِفَتِهِ , ثُمَّ نَظَرَ إِلَى ظَهْرِهِ فَرَأَى خَاتَمَ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عَلَى مَوْضِعِهِ مِنْ صِفَتِهِ الَّتِي عِنْدَهُ

بَحِيرَاءَ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کمر کو دیکھا ان کے شانوں کے درمیان اس مقام پر جس کی صفت اس کے پاس (پہلے سے) تھی

یہ سند منقطع ہے – ابن اسحٰق سے لے کر ابو طالب تک کوئی راوی نہیں

مہر نبوت پر  کیا لکھا تھا؟

بعض روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس مہر پر محمد رسول الله لکھا تھا – اس کو محدثین عصر نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن قابل غور ہے کہ اس ابھار کو  مہر نبوت کیوں کہا گیا؟ کس طرح یہ نبوت کا نشان تھا؟

 صحیح ابن حبان میں ہے

أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ الْفَتْحِ بْنِ سَالِمٍ الْمُرَبَّعِيُّ (2) الْعَابِدُ، بِسَمَرْقَنْدَ، حَدَّثَنَا رَجَاءُ بْنُ مُرَجًّى الْحَافِظُ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَاضِي سَمَرْقَنْدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «كَانَ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ الْبُنْدُقَةِ مِنْ لَحْمٍ عَلَيْهِ، مَكْتُوبٌ مُحَمَّدُ رَسُولِ اللَّهِ

موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان از أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي (المتوفى: 807هـ) میں ہے

 أنبأنا نصر بن الفتح بن سالم (1) المربعي (2) العابد بسمرقند، حدثنا رجاء بن مُرَجَّى الحافظ، حدثنا إسحاق بن إبراهيم قاضي سمرقند، حدثنا ابن جريج، عن عطاء. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ خَاتَمُ النُبُوَّةِ في ظَهْرِ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- مِثْلَ

الْبُنْدُقَةِ  مِنْ لَحْمٍ عَلَيْهِ مُكْتُوبٌ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله” (1).

قُلْتُ: اخْتَلَطَ عَلَى بَعْضِ الرُّوَاةِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ بِالخَاتَمِ الَّذِي كَانَ يَخْتِمُ بِهِ الْكُتُبَ.

ابن عمر سے مروی ہے کہ اس مہر پر محمد رسول الله لکھ تھا

ہیثمی نے کہا میں کہتا ہوں اس میں بعض راویوں نے ملا دیا ہے اس مہر (جسم والی)  کو اس مہر سے جس کو تحریر میں استعمال کیا

قابل غور ہے امام المہدی یعنی محمد بن عبد اللہ بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب المعروف نفس الزکیہ کو بھی

صاحب الخال کہا جاتا تھا یعنی مسے  والا یا تل والا

 مقاتل الطالبيين  از أبو الفرج اصبہانی یعنی  علي بن الحسين بن محمد بن احمد بن الهيثم بن عبد الرحمن ابن مروان بن عبد الله بن مروان  میں روایت ہے

حدثني محمد بن إسماعيل بن جعفر الجعفري عن امه رقية بنت موسى بن عبدالله بن الحسن بن الحسن عن سعيد ابن عقبة الجهني – وكان عبدالله بن الحسن اخذه منها فكان في حجره – قال.ولد محمد وبين كتفيه خال اسود كهيئة البيضة عظيما فكان يقال له.المهدي

سعيد ابن عقبة الجهني نے بیان کیا کہ عبد الله بن الحسن ان سے (بات) لیتے – وہ اپنے  حجرے میں  تھے کہا محمد بن عبد الله المہدی پیدا ہوا تو اس کے شانوں کے درمیان ایک کالا  مسا تھا جیسے بڑا انڈا  ہو اس کو   المہدی کہا جاتا

مہر نبوت کی خبر معروف اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے بیان نہیں کی نہ ہی امہات المومنین رضی الله عنہم نے اس کی خبر دی – مزید براں جن لوگوں کا اس کی روایات میں تفرد ہے وہ بعد کے ہیں اور ان کے بیانات میں تضاد بہت ہے

سنن نسائی کی روایت ہے

الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ مُزَاحِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «خَرَجَ مِنَ الْجِعِرَّانَةِ لَيْلًا فَنَظَرْتُ إِلَى ظَهْرِهِ كَأَنَّهُ سَبِيكَةُ فِضَّةٍ فَاعْتَمَرَ وَأَصْبَحَ بِهَا كَبَائِتٍ

 مخرش کعبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ   نبی   صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات کو مقام جعرانہ سے نکلے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیٹھ مبارک کی طرف دیکھا تو اُسے خالص سفید چاندی کی طرح چمکتا ہوا پایا، پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عمرہ ادا فرمایا۔

یعنی پیٹھ مبارک پر  کوئی انڈے جیسی یا اونٹ کی آنکھ جیسی یا بالوں کا گچھا یا سیب جیسی غدود نما کوئی  چیز نہیں تھی

گمان غالب ہے کہ مہدی کی تحریک جو ١٢٠ ہجری کے بعد برپا ہوئی اس میں محمد المہدی کی تائید میں مہر نبوت کو بطور ایک نشانی بیان کیا گیا تاکہ عوام الناس کو یہ بتایا جائے کہ اس  المہدی کے جسم پر بھی وہی نشان ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسم اطہر پر تھا

و الله اعلم

غلغلہ مہدی ، جہادی اور علماء ٢

کتاب  روایات ظہور مہدی

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

راقم  سن ٢٠٠٠ ع  سے  روایات مہدی و مسیح پر  تحقیق کر رہا ہے –  راقم اپنی تحقیقات کو حرف آخر نہیں کہتا بلکہ  یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جہت میں مزید باب کھلیں گے اگر  مسئلہ مہدی پر   غیر جانبداری سے تحقیق ہو- افسوس   امام ابن خلدون    نے مسئلہ  پر کلام کیا تھا لیکن ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا – یہ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ اپنے عبقری اذہان کی ناقدری کرتے ہیں –   اس کتاب کو ٢٠١٥ میں اس ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا-  کتاب میں صرف  اہل سنت    کے  نظریہ مہدی  پر غور کیا گیا  ہے جس کو بعض لوگ عقیدہ سمجھ رہے ہیں –      نظریہ مہدی  کے پس پردہ کیا    مذہبی  و سیاسی   افکار ہیں ؟ ان پر غور کیا گیا ہے –     اس     کی جڑیں     وہ    احادیث  و آثار ہیں جو محدثین نے اپنی کتابوں میں سب سے آخر میں نقل کیں -کتاب  میں    تاریخی حقائق  کے میزان پر   روایات مہدی کا جانچا  گیا ہے –   اس سلسلے میں  رہنمائی  جرح و تعدیل کی کتب سے   ملتی ہے کہ متقدمین محدثین اس سلسلے میں کسی بھی مرفوع قول  نبوی کو صحیح نہیں قرار دیتے تھے مثلا  امام وکیع بن جراح  اور عبد الرحمان بن المہدی    وغیرہ

عصر حاضر میں    شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد پر ایک گروہ   مدینہ میں مہدی تلاش کر رہا ہے اور اپنا مخالف   کوئی اصفہانی فارسی  دجال بتاتا  ہے – دوسری طرف شیعہ ہیں  جنہوں نے  امام مہدی کو   مافوق الفطرت  قرار دے دیا ہے جو ابھی تک اپنے غار میں ہیں

 مسلمانوں میں اس بنا پر مشرق وسطی کا پورا خطہ  خون کی ہولی میں نہا رہا ہے –   اپنی سیاست کی بساط  احادیث رسول  و اہل بیت کے نام پر بچھا  کر  نوجوانوں کو شطرنج   کے  مہروں کی طرف  جنگ و جدل میں   دھکیلا  جا رہا  ہے –    داعش اور اس قبیل کی فسادی تنظیموں نے عراق میں خلافت  بھی بنا لی ہے اور ابھی  نا معلوم کتنی معصوم مسلمان لڑکیوں کو  خلیفہ  کی مخالفت کے جرم میں لونڈی بنایا جا رہا ہو گا ؟       پتا نہیں کس کا سر کاٹا جا رہا ہو گا ؟ اور دلیل  روایت سے لی جا رہی  ہو گی –  اب یہ تو ظاہر فساد ہے اور پس پردہ  معصوم بنے یہ علماء ہیں جو چپ سادھے   لونڈی کو کھنگالنے   والی  روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں کہ اس کو سر بازار  کھول کر دیکھا جا سکتا ہے – افسوس   شام کے عرب محقق  البانی اس طرح کی   روایات کو صحیح الاسنا د کہہ گئے ہیں –  شام کے فضائل پر کتابیں   جو لوگ بھول چلے تھے  البانی    نے   ان پر  تعلیق لکھی–  اور نهایة العالم      (عالم کا اختتام ) نام کی کتب نے  لوگوں کو اس طرف لگا دیا کہ  قرب قیامت ہے ، مہدی انے والا ہے –   ساتھ ہی  مدخلیت   (ربیع المدخلی سے منسوب تکفیری سوچ)   مدینہ سے نکلی  جو ایک وبا کی طرح  عربوں میں پھیلی  اور  مصر سے  یہ  تکفیری سوچ  عرب سے ہوتی  اسامہ بن لادن کے ساتھ افغانستان پہنچی اور ایک وبا کی طرح عالم   اسلام میں پھیلی

اب  ایک کے بعد ایک مہدی آ رہے ہیں اور آئیں  گے

 ایک عام مسلمان آخر کیا کرے – مسئلہ کے  حل کے لئے کہاں جائے؟     مسجدوں میں  محراب و منبر سے  نظریہ مہدی کی تبلیغ کی جاتی ہے   اور دعوی کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے کی تمام احادیث صحیح ہیں –  ہر بدلتی صدی میں    قائلین   ظہور مہدی کے تضاد لا تعداد  ہیں  مثلا  ایک روایت جو  ثوبان رضی الله عنہ سے مروی ہے اس کے مطابق  عرب کے مشرق سے   ، خراسان سے جھنڈے آئیں گے اور   ان میں الله کا خلیفہ المہدی ہو گا – اس روایت کو متقدمیں محدثین رد کرتے تھے –  لیکن   بعد میں  لوگ آئے   جنہوں نے علم چھپایا اور   اس روایت کو صحیح کہا – اس کے بعد خراسان میں طالبان آ گئے – مخالف  حلقوں میں  اب ثوبان والی روایت ضعیف قرار پائی  اور واپس وہی محدثین  کی آراء پیش کرنے لگ گئے کہ یہ روایت صحیح نہیں –  ام سلمہ رضی الله عنہا سے مروی  ایک حدیث ہے کہ تین خلفاء کے بیٹوں میں فساد ہو گا  وغیرہ  (اس کی تفصیل کتاب میں ہے)  اس کو البانی نے ضعیف کہا تھا   لیکن   اس کو صحیح مان کر  کتابوں میں پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ حوثی نکل آئے اب  واپس البانی  کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ یہ ضعیف تھی –   اس طرح    مہدی و مسیح کے نام پر سیاست جاری ہے جس میں علماء پس پردہ کام کر رہے ہیں

راقم کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کاش یہ علماء  دیدہ بینا  کے ساتھ اس ظلم سے کنارہ کشی کرتے

اے کاش

ہمارے گراں قدر ناقدین نے ہماری توجہ چند کتب کی طرف کرائی ہے  – ایک عبد العليم البستوي کتاب  الاحاديث الواردة في المهدي في ميزان الجرح والتعديل ہے   جو مدینہ یونیورسٹی   میں ایک مقالہ کے طور پر لکھی گئی تھی  اور دوسری   کتاب مہدی علیہ السلام سے متعلق صحیح عقیدہ میں عبد الہادی  عبد الخالق مدنی   جو سعودی عرب میں  الاحسا  ء  سے  چھپی ہے –  اس کے علاوہ اردو میں اس مسئلہ مہدی پر جو کتب ہیں ان سے بھی استفادہ کیا گیا ہے –  لہذا   محقیقن کی آراء کو    کتاب هذا   میں  حواشی میں  اور بعض مقام پر متن میں  شامل کر دیا گیا ہے  تاکہ  قارئین کے  آگے     صرف ہماری رائے ہی نہ ہو  تو وہ پوری دیانت سے جو راقم  کہنا چاہتا ہے اس کو سمجھ سکیں

الله مومنوں کا حامی و ناصر ہو اور ان کو شر  اور فتنہ مہدی و دجال سے محفوظ رکھے

امین

ابو شہریار

٢٠١٧


غلغلہ مہدی، جہادی اورعلماء

مرجان مصطفى سالم الجوهري المتوفی ١٤٣٦ ھ   / ٢٠١٥ جس كا قلمي نام أبو عمرو عبد الحکیم حسان تھا اس نے کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان  لکھی  جس میں   اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا – اس شخص نے اہرام مصر اور آثار قدیمہ کو منہدم کرنے کا فتوی دیا یہ مصر  میں قید   میں ٢٠١٥ میں  ہلاک ہوا – یہ كلية أصول الدين جامعہ ازہر کا طالب علم تھا اور بعد میں افغانستان میں  ملا عمر کا استاد تھا – یہ یمن سے افغانستان منتقل ہوا اور سلفی جہادی سوچ رکھتا تھا-  اس شخص نے جماعة الجهاد الإسلامي کی بنیاد رکھی اور حکمرانوں کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے مزاحمت کے دوران معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا – سن ٢٠٠٣ میں  اس کی سوچ کا علمبردار اسامہ بن لادن تھا  جس کو سفید گھوڑے پر سوار دکھایا جاتا یا گویا وہ افغانوں کا مہدی تھا جو قدیم خراسان سے ظاہر ہونے کو تھا – ان کے پشتبان طالبان اس کے سحر میں گرفتار تھے جو  اپنے آپ کو انہی جھوٹی موضوع روایات کا محور سمجھ رہے تھے جو ظہور مہدی کے حوالے سے ہیں جن کو  سلفی و دیوبندی حضرات نے تعویذ کی طرح گلے میں ڈال رکھا ہے سلفی جہادی ابن تیمیہ کی متشدد سوچ سے ابھرنے والی تنظیمیں ہیں جن کی پشت پر بہت سے عرب علماء ہیں اور ان کے ہتھیار کے طور پر برصغیر و افغانستان  کے مسلمان ردعمل ظاہر کرتے ہیں – دوسری طرف برصغیر کے دیوبندی حلقوں میں بھی امام مہدی کا چرچا تھا یہاں سرفراز خان صفدر اپنی کتاب توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام میں  لکھ رہے تھے کہ طالبان نما مخلوق مسیح علیہ السلام کے ساتھ خواب میں دیکھی- مفتی شامزی  نے بھی امام مہدی پر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں کیا موضوع روایت ہوتی کیا مدلس راوی ہوتا ہے ان کو اس سے کوئی سرورکار نہ تھا – بس ایک تلاطم روایات تھا جس میں صحیح اور غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز مٹ چکی تھی- الغرض مدرسوں میں ایک کلائمیکس کا وقت تھا علماء کا سرور دیکھنے والا تھا اور نوک قلم سے جھلک رہا تھا

لیکن افسوس ایک عفریت اپنے عقب سے نکلنے کو تھا- شوق جہاد میں نظر و فکر  کے تجزیے رخصت پر جا چکے تھے  اور مہدی آخر الزمان کی رن میں آمد کے نوبت کے شور میں  سلفی و دیوبندی عوام واپس سنن اربع کی کتب کو کھنگال کر روایات مہدی جمع  کررہی تھیں

کہتے ہیں جب کسی چیز کا وقت نہ ہو اور اس کا انتظار کیا جائے تو اس کا ردعمل ختم نہیں ہوتا ہمارے لئے اہل کتاب کی تاریخ تھی کہ کس طرح ہر دور میں مسیح کا انتظار کرتے رہے اور اصلی تک کو قتل کرنے کے در پے ہوئے کہ علماء کی رائے  اصلی مسیح کی رائے سے موافقت نہ رکھتی تھی – علمائے یہود نے اس کا حل نکالا کہ الله کو مجبور کر دو کہ مسیح کو بھیجے لہذا جنگ کی اگ بھڑکاو – جنگ ہو گی مسیح آئے گا (جس کے لئے الله قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اس کو بجھا دیتا ہے) – یہی انداز ان جہادی گروہوں کا ہوا کہ  جہاد کرو مہدی آئے گا گویا ایک شعر پر ایمان لائے کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے – جبکہ یہ شعر ہی غلط ہے یہ شاعرانہ بات ہے وحی الہی نہیں-

علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں

سن ٧٠ کی دہائی میں مطووں کی فوج میں سے ایک،  محمد بن عبد الله القحطانی کو خیال آیا کہ میں مہدی ہوں ایک جماعت کثیر کو لیا حرم پر قابض ہوا اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے  جہنم واصل ہوا – اس کے ساتھ جن علماء کا اٹھنا بیٹھنا تھا ان کو بچا لیا گیا  کچھ واپس برصغیر بھی پہنچے- اس وقت اس دبی چنگاری کو بجھا دیا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن سلفی علماء اپنے من پسند لوگوں کو بچا لے گئے- ایک عالم  عبد الله بن زيد آل محمود  المتوفی ١٤١٧ ھ  نے   سچ بولتے ہوئے  المہدی کی روایات کو  کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر  میں رد کیا    اور صاف  کہا کہ یہ ایک  اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد سلفی سوچ واپس متحرک ہوئی اور  عبد العزيز بن عبد الله بن باز کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ)  نے اپنی کتاب   الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر   میں  عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور  رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا اور اگر آپ کتاب دیکھیں تو ٤١١ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کوئی علمی بات نہیں ایک منقطع روایت کو دس سے اوپر دفعہ لکھا گیا ہے کہ اس کی سند جید ہے – افسوس درس حدیث دینے والے  چوٹی کے علماء  میں اتنی قابلیت نہیں کہ ایک دفعہ ہی سند چیک کر لیں بھلا کیا روایت ہے سنئے مسند الحارث بن أبي أسامة  کی روایت ہے

حدثنا إسماعيل بن عبد الكريم، حدثنا إبراهيم بن عقيل، عن أبيه، عن وهب بن منبه، عن جابر -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «ينزل عيسى ابن مريم، فيقول أميرهم المهدي: تعال صلِّ بنا، فيقول: لا، إن بعضهم أمير بعض، تكرمة الله لهذه الأمة

جابر رضي الله عنه  سے  مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا  بے شک عیسیٰ ابن مریم  نازل ہونگے اور ان سے امیر المہدی کہیں گے   آ جائیں نماز پڑھائیں پس وہ کہیں گے نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں اللہ نے اس امت کی تکریم کی ہے

یہ روایت  منقطع ہے- کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل   کے مطابق

وهب بن منبه قال بن معين لم يلق جابر بن عبد الله

وهب بن منبه  کے لئے ابن معين  کہتے ہیں ان کی ملاقات جابر بن عبد الله سے نہیں ہوئی

اس کتاب میں ابن معین کہتے ہیں وھب  کی روایت ابن جابر سے ایک کتاب سے تھی ، یہ بھی کہا ان کے پاس ایک صحیفہ تھا

 هو صحيفة ليست بشيء

وہ صحیفہ کوئی چیز نہیں

حمود بن عبد الله اس  کتاب میں بس یہی راگ لاپتے رہے  کہ ابن قیم  اس کا ذکر کتاب  المنار المنيف   میں کرتے ہیں کہتے ہیں وهذا إسناد جيد اس کی سند جید ہے – مسلک پرستی یہ نہیں تو اور کیا ہے

انہی حلقوں میں ایک رجحان مدخلیت بھی ہے- یعنی اس سلسلے میں اس قدر لٹریچر آ موجود ہوا ہے کہ الہی توبہ جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ایڈونچرازم کا درس ہے – تکفیر ہے –  مغربی ملکوں میں پڑھنا حرام ہے، ان کی سیر حرام ہے، ان میں جانا حرام ہے – ضابطہ اخلاق اور تہذیب کا  عملا جنازہ ہی اٹھا دیا گیا ہے اور ہر جانب سے نئے  افکار کو پیش کیا جا رہا ہے کسی کو شام میں اب سفیانی نظر آ رہا ہے (یہ بھی ضعیف روایت ہے ) –  ایک اور بات جو ان گروہوں میں مشترک ہے وہ ہے کفار و اہل کتاب سے دوستی کی بحث

اب ہم پوچھتے ہیں

ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح  بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا

کیا  آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے  کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا

جب مسلمان کا دوسروں سے معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا

عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ  اہل کتاب میں سے تھیں

اہل کتاب سے شادی ہو سکتی ہے دوستی نہیں! مطلب آپ بات سمجھ نہ پائے

بقول حافظ

چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطاست

سخن شناس نئی ، دلبرا، خطا اینجاست

  بعض آیات  کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام  کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا

ایک اور کتاب دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار یا الولاہ و البراء از صالح  بن الفوزان میں بھی اسی خارجی طرز کا انداز ہے موصوف غیر مسلموں کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے حتی کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو کاتب کی نوکری تک نہ دی جائے (صفحہ ١٨ اور ١٩)- جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بنو امیہ کے خلفاء نے اہل کتاب کو اپنی بیرو کریسی میں شامل کیا انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا لیکن   یہ روایت بیہقی شعب ایمان کی   ہے

أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيُّ بِالْكُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ دُحَيْمٌ , نا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ , نا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ , عَنْ أَسْبَاطٍ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ , عَنْ أَبِي مُوسَى , فِي كَاتِبٍ لَهُ نَصْرَانِيٍّ عَجِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ كِتَابِهِ , فَقَالَ: إِنَّهُ نَصْرَانِيٌّ قَالَ أَبُو مُوسَى: فَانْتَهَرَنِي وَضَرَبَ فَخِذِي وَقَالَ: ”   أَخْرِجْهُ ” وَقَرَأَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] , وَقَالَ: {لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51] , قَالَ أَبُو مُوسَى: وَاللهِ مَا تَوَلَّيْتُهُ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ , قَالَ: ” أَمَا وَجَدْتَ فِي أَهْلِ الْإِسْلَامِ مَنْ يَكْتُبُ لَكَ لَا تُدْنِهِمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللهُ , وَلَا تَأْمَنْهُمْ إِذَا خَانَهُمُ اللهُ , وَلَا تُعِزَّهُمْ بَعْدَ إِذْ أَذَلَّهُمُ اللهُ

 اسباط بن نصر  روایت کرتا ہے سماک سے  وہ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ سے وہ ابو موسی سے کہ عمر رضی الله عنہ نے ان کے نصرانی کاتب پر تعجب کیا اور دلیل میں سوره ممتحنہ اور المائدہ کی آیات سنائی

اسکی سند میں سماک بن حرب کا تفرد ہے کتاب المختلطين از  العلائي  کے مطابق وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن حجة

نسائی کہتے ہیں جس میں یہ منفرد ہو وہ حجت نہیں ہے  دوم اسباط بن نصر  خود ایک ضعیف راوی ہے

صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩)  ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں

اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک  تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے

اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے

ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ  کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم  سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی

اصل میں اس قبیل کے علماء کا غلطی یہ ہے کہ آیات کو جو مشرکین مکہ کے لئے تھیں ان کو آج کل کے اہل کتاب پر لگا دیتے ہیں اور جو احکام اہل کتاب کے لئے تھے  ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں اور جو ان کی نہ سنے اس کو منافق قرار دے دیتے ہیں اور مسند رسالت پر براجمان ہونے کی کوشش میں ہیں اگرچہ زبان سے اس کے انکاری ہیں لیکن وہ عمل جو خالص وحی الہی سے ہی ممکن ہیں ان کی تلقین کرتے پھرتے ہیں مثلا کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے اختلاف ہوا تو اس پر مرتد کا فتوی جڑنا ، ان کی بیویوں کو علیحدگی کا حکم دینا ، ان کے حمل گروانا ، پھر معاشی بائیکاٹ اور کوئی  انکی پارٹی کا جوان مرد عامی ذہین اٹھ کر ایسے صحیح العقیدہ  مخالفین کو قتل کر دے تو اس گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا

اس خوف و دہشت میں رہنے والے علماء جس تفسیاتی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اسی میں اپنے معتقدین کو بھی مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ دین تو نصیحت کا نام ہے کچھ اور نہیں

مشرکین مکہ کا دھرم ختم ہوا تو وہ ایک فطری عمل تھا-  اس پر نوشتہ دیوار آ چکا تھا لوگ جوق در جوق اسلام میں آ رہے تھے پرانے مندروں کے بچے کچھے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان کے بت توڑے اور مندر ڈھا دیے گئے لیکن یہ صرف عرب میں ہوا- مسلمانوں نے مصر فتح کیا لیکن فرعونوں کی مورتیاں آج تک باقی رہیں – کسی من چلے کو خیال نہ آیا کہ ان تو توڑا جائے- یہ آج ان سلفی علماء کو ہی خیال کیوں آیا؟ بدھآ کے بتوں تو نہیں توڑا گیا اور عباسی خلافت تک آتش کدہ نوبہار البوزی میں اگ جلتی رہی – ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کو اسی وقت بجھا دیا جاتا

مدینہ کی سیاست ایک وقتی نوعیت کی چیز تھی- جس میں منافق اور یہود کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ تھا جس میں ان کا مقصد تھا کہ رسول الله کو کسی طرح مشرکین مکہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے اور ہم واپس مدینہ کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس کا منصوبہ الگ تھا اس تناظر میں آیات نازل ہوئیں کہ جس نے رسول الله کی مخالفت کی وہ منافق ہے اور کافر سے درپردہ دوستی سے منع کیا گیا وہ دور گزر گیا

امت مسلمہ اتنی وسیع ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس کو کوئی ختم نہ کر سکے گا لہذا علماء کو چاہیے اس نفسیاتی خوف سے باہر نکلیں  اور تہذیب کے دائرے میں  بین المذآھب ڈائلاگ کرنا سیکھیں