اہل کتاب ميں يہود کے علماء کا موقف ہے کہ دانيال ايک صوفي تھا نبي و رسول نہيں تھا جبکہ نصراني اس کو رسول کا درجہ ديتے ہيں – نصرانييوں کي يہ روايت مسلمانوں نے قبول کر لي کہ دانيال کوئي نبي تھا – البتہ بائبل میں موجود کتاب دانيال ميں تاريخ کي غلطياں ہيں – جس شخص نے اس کتاب کو گھڑا اس نے بادشاہوں کے نام تک غلط لکھے ہيں ان کے ادوار بھي غلط بيان کيے ہيں لہذا اب اہل کتاب بھي يہ کہہ رہے ہيں کہ کتاب دانيال ايک گھڑي ہوئي کتاب ہے
دانیال کے نام سے بہت سی اور کتب بھی ہیں جن کو گھڑی ہوئی قرار دیا گیا ہے – ان میں سے ایک کتاب سے مسلمانوں کا سابقہ دور عمر رضی اللہ عنہ ميں ہوا جب فارس سے جنگ کے دوران ايک لاش ملي جس پر ايک کتاب رکھي ہوئي تھي – جنگ ميں شامل بصري ابو العاليہ نے بتايا کہ اس کو لگا يہ کوئي نبي دانيال ہے – راقم کہتا ہے يہ مغالطہ بصريوں کو اپني لا علمي سے ہوا کيونکہ جب فارسيوں سے پوچھا گيا کہ يہ شخص کب مرا تو انہوں نے تين سو سال بتايا اور يہ معلوم ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم اور عيسي عليہ السلام کے بيچ يہود پر کوئي نبي مبعوث نہيں ہوا – ليکن تاريخ سے لا علم لوگوں نے اس لاش کو نبي کي ميت قرار ديا اور ملنے والي کتاب کو دانيال کی کتاب قرار ديا – راقم کہتا ہے نہ تو يہ لاش کسي نبي کي تھي نہ يہ کتاب کوئي منزل من اللہ تھي – ابو عاليہ نے ليکن خبر دي
فأخذنا المصحف فحملنا إلى عمر بن الخطاب فدعا له كعباً فنسخه بالعربية فأنا أول رل من العرب قرأته مثلما أقرأ القرآن هذا فقلت لأبي العالية: ما كان فيه ؟ فقال سيرتكم وأموركن ولحون كلامكم وما هو كائن بعد
ہم نے وہ مصحف اٹھا کر اميرالمومنين عمر کے پاس پہنچا ديا عمر نے کعب الاحبار کو طلب کيا اور کعب نے اس کو عربي ميں لکھ ديا ابوالعاليہ نے کہا ميں پہلا شخص تھا جس نے وہ صحيفہ پڑھا- أبي خلدة بن دينار نے ابوالعاليہ سے پوچھا کہ اس صحيفے ميں کيا لکھا تھا؟ کہا: تمہاري سب سيرت تمہارے تمام امور اور تمہارے کلام کے لہجے تک اور جو کچھ آئندہ پيش آنے والا ہے
دلائل النبوه از بيہقي
ابوالعاليہ اور اس کے قبيل کے غير محتاط لوگوں نے اس کتاب کے مندرجات کو پھيلانا شروع کر ديا
اب اپ تصوير کا دوسرا رخ ديکھيں- مصنف عبد الرزاق ميں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ قَالَ: كَانَ يَقُولُ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ يَطْلُبُ كُتُبَ دَانْيَالَ، وَذَاكَ الضِّرْبَ، فَجَاءَ فِيهِ كِتَابٌ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنْ يُرْفَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا أَدْرِي فِيمَا رُفِعْتُ؟ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى عُمَرَ عَلَاهُ بِالدِّرَّةِ، ثُمَّ جَعَلَ يَقْرَأُ عَلَيْهِ {الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ} [يوسف: 1]، حَتَّى بَلَغَ {الْغَافِلِينَ} [يوسف: 3] قَالَ: «فَعَرَفْتُ مَا يُرِيدُ»، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي، فَوَاللَّهِ مَا أَدَعُ عِنْدِي شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْكُتُبِ إِلَّا حَرَقْتُهُ قَالَ: ثُمَّ تَرَكَهُ
إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ نے کہا کوفہ ميں ايک رجل ہوتا تھا جو دانيال کي کتابيں مانگتا تھا … پس عمر رضي الله عنہ کا خط آيا کہ اس( کے پاس) سے اٹھ جاؤ – پس اس شخص نے کہا کيا معلوم کيا اٹھا؟ پس جب عمر کے پاس گيا اس کو عمر نے درے لگائے پھر { الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ} [يوسف: 1]، حَتَّى بَلَغَ {الْغَافِلِينَ} [يوسف: 3] قرات کي اور کہا پس تو جان گيا ميں کيا چاہ رہا تھا- اس نے کہا امير المومنين مجھے جانے ديں الله کو قسم ميں اس کتاب کو جلا دوں گا کہا پس انہوں نے اس کو چھوڑ ا
عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الرَّبَابِ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ: ” كُنْتُ فِي الْخَيْلِ الَّذِينَ افْتَتَحُوا تُسْتَرَ، وَكُنْتُ عَلَى الْقَبْضِ فِي نَفَرٍ مَعَيْ، فَجَاءَنَا رَجُلٌ بِجَوْنَةٍ، فَقَالَ: تَبِيعُونِي مَا فِي هَذِهِ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ ذَهَبًا، أَوْ فِضَّةَ، أَوْ كِتَابَ اللَّهِ قَالَ: فَإِنَّهُ بَعْضُ مَا تَقُولُونَ، فِيهَا كِتَابٌ مِنْ كُتُبِ اللَّهِ قَالَ: فَفَتَحُوا الْجَوْنَةَ فَإِذَا فِيهَا كِتَابُ دَانِيَالَ فَوَهَبُوهُ لِلرَّجُلِ، وَبَاعُوا الْجَوْنَةَ بِدِرْهَمَيْنِ قَالَ: فَذَكَرُوا أَنَّ ذَلِكَ الرَّجُلَ أَسْلَمَ حِينَ قَرَأَ الْكِتَابَ ”
أَبِي الرَّبَابِ الْقُشَيْرِيِّ نے کہا ميں گھوڑے پر تھا جب تستر فتح ہوا اور ميں ايک نفر پر قابض تھا پس ايک آدمي آيا اور کہا ميرے ساتھ آؤ يہ تحرير کيا ہے ہم نے کہا ہاں خبر دار يہ تو سونا (کتاب پر لگا) ہے يا چاندي ہے يا کوئي کتاب الله ہے کہا پس انہوں نے کہا يہ کتاب الله ميں سے کوئي ايک ہے پس تحرير کو کھولا تو ديکھا دانيال کي کتاب ہے پس وہ شخص ڈر گيا اور اس تحرير کو دو درہم ميں فروخت کر ديا اور کہا وہ شخص مسلمان ہو گيا
دانيال سے منسوب وہ کتاب بازار ميں کوڑي کے دام بيچ دي گئي اور بعد ميں جو بھي اس قسم کا کوئي مصحف پڑھتا اس کو درے لگتے اور ان کو جلا دينے کا حکم تھا- دوسري طرف لوگ بيان کرتے رہے کہ عمر رضي الله عنہ نے اس کے ترجمہ کا کعب کو کہا اور ابو عاليہ نے اس کو پڑھا – ابو عاليہ کے نزديک اس ميں مسلمانوں کے اختلاف کا ذکر تھا ؟ يا للعجب – ابو عاليہ ايک نمبر کے چھوڑو انسان تھے – انہوں نے دعوي کيا کہ يہ اس کتاب دانيال کا ترجمہ عمر رضي الله عنہ کے حکم پر کعب الاحبار نے کيا جو انہوں نے سب سے پہلے پڑھا اور جانا کہ اس امت محمد ميں کيا کيا فتنے ہوں گے – راقم کہتا ہے يہ سازش ہے کہ اھل کتاب کے قرب قيامت کو اسلام کے قرب قيامت سے ملا ديا جائے – ابو عاليہ ياد رہے يہ واقعہ غرانيق کے بھي راوي ہيں يعني رسول الله صلي اللہ عليہ وسلم الصادق و الامين پر قراني آيات ميں شيطاني القا کي روايت بھي کرتے تھے- يہ ان کے علم کے مصادر ہيں
بہر حال عمر رضي اللہ عنہ کے سخت آڈر کي بنا پر کعب الاحبار اس کتاب کو لے کر شام بھاگ گئے اور وہاں انہوں نے اس کتاب کي روايات کو پھيلانا شروع کر ديا جن ميں سے بہت سي اب کتاب الفتن نعيم بن حماد ميں ہيں اور اس کا عنقريب ترجمہ اردو ميں انے والا ہے جو مزيد گمراہي کا سبب بنے گا
کعب احبار اور ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ چونکہ سابقہ اہل کتاب ميں سے تھے ان کے اپس ميں اچھے مراسم تھے اور تبادلہ خيالات ہوتا رہتا تھا – بہت سي باتيں جو کعب سے ابو ہريرہ کو مليں ان کو جب لوگوں کو انہوں نے بتايا تو لوگ ان کو حديث رسول سمجھ بٹھے – اس کا ذکر امام مسلم نے اپني کتاب التميز ميں کيا ہے
حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حديث ميں حفاظت کرو – الله کي قسم ! ہم ديکھتے ابو ہريرہ کي مجالس ميں کہ وہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم سے روايت کرتے اور وہ (باتيں) کعب ( کي ہوتيں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روايت کرتے جو حديثيں رسول الله سے ہوتيں
اس بنا پر اکابر تابعين صحابي ابو ہريرہ کي تمام روايات نہيں ليتے تھے – احمد العلل ميں کہتے ہيں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .
احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھيم النخعي حديث کے بدلے حديث ليتے – وہ حديث لاتے – اعمش نے کہا پس انہوں نے لکھا جو ميں نے ابو صالح عن ابو ہريرہ سے روايت کيا – اعمش نے کہا : ابراھيم النخعي، ابوہريرہ کي
احاديث ميں چيزوں کو ترک کر ديتے
بہر حال کعب احبار اور پھر ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ نے اسلام ميں اسرائيليات کو متعارف کرايا اور يہ خاص کر فتن کے باب ميں ہوا – اس حوالے سے ايک غزوہ ہند کا ذکر آجکل بہت زور و شور سے سننے ميں آ رہا ہے – ہند کا ذکر بائبل ميں صرف دو مقام پر ہے اور صرف کتاب استار ميں ہے کہ فارس کي مملکيت ہند ميں بھي تھي – ليکن کعب احبار تک نے ہند سے جنگ کا ذکر کيا ہے جو اسي کتاب کا اثر لگتا ہے جو فتح فارس ميں ملي تھي
کتاب الفتن از نعيم ميں ہے
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: «يَبْعَثُ مَلِكٌ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ جَيْشًا إِلَى الْهِنْدِ فَيَفْتَحُهَا، فَيَطَئُوا أَرْضَ الْهِنْدِ، وَيَأْخُذُوا كُنُوزَهَا، فَيُصَيِّرُهُ ذَلِكَ الْمَلِكُ حِلْيَةً لَبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَيُقْدِمُ عَلَيْهِ ذَلِكَ الْجَيْشُ بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مُغَلَّلِينَ، وَيُفْتَحُ لَهُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَيَكُونُ مَقَامُهُمْ فِي الْهِنْدِ إِلَى خُرُوجِ الدَّجَّالِ» کعب نے کہا کہ بيت المقدس کے بادشاہ کي جانب سے ہندوستان کي جانب لشکر روانہ کيا جائے گا پس ہند کو پامال کيا جائے گا اور اس کے خزانوں پر قبضہ کريں گے اور اس سے بيت المقدس کو سجائيں گے وہ لشکر ہند کے بادشاہوں کو بيڑيوں ميں جکڑ
کر لائے گا اور مشرق و مغرب فتح کرے گا اور دجال کا خروج ہو گا
اس کي سند ميں الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ اور کعب کے درميان مجھول راوي ہے جس کا نام تک نہيں ليا گيا-
يہي بات ابو ہريرہ سے بھي مروي ہے
کتاب الفتن از نعيم بن حماد کي روايت ہے
حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ بَعْضِ الْمَشْيَخَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ الْهِنْدَ، فَقَالَ: «لَيَغْزُوَنَّ الْهِنْدَ لَكُمْ جَيْشٌ، يَفْتَحُ الله عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِهِمْ مُغَلَّلِينَ بِالسَّلَاسِلِ، يَغْفِرُ الله ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ حِينَ
يَنْصَرِفُونَ فَيَجِدُونَ ابْنَ مَرْيَمَ بِالشَّامِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلْكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِفٍ لِي وَتَالِدٍ وَغَزَوْتُهَا، فَإِذَا فَتْحَ الله عَلَيْنَا وَانْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ، يَقْدَمُ الشَّامَ فَيَجِدُ فِيهَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرُهُ أَنِّي قَدْ صَحِبْتُكَ يَا رَسُولَ الله، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ»
بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيد ، صَفْوَانَ سے وہ اپنے بعض مشائخ سے وہ ابو ہريرہ رضي الله عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ
ضرور تمہارا ايک لشکر الھند سے جنگ کرے گا الله ان مجاہدين کو فتح عطا کرے گا حتي کہ وہ ان ہندووں کے بادشاہوں کو بيڑيوں ميں جکڑ کر لائيں گے اور الله ان کي مغفرت کرے گا پھر جب مسلمان واپس جائيں گے تو عيسي ابن مريم کو شام ميں پائيں گے- ابو بريرہ نے کہا اگر ميں نے اس جنگ کو پايا تو نيا، پرانا مال سب بيچ کر اس ميں شامل ہوں گا پس جب الله فتح دے گا اور ہم واپس ہوں گے تو ميں عيسي کو شام ميں پاؤں گا اس پر ميں با شوق ان کو بتاؤں گا کہ ميں اے رسول الله آپ کے ساتھ تھا- اس پر رسول الله صلي الله عليہ وسلم مسکرائے اور ہنسے اور کہا بہت مشکل مشکل
بقية بن الوليد بن صائد مدلس ہيں جو ضعيف اور مجھول راويوں سے روايت کرنے پر بدنام ہيں اس ميں بھي عن سے روايت کرتے ہيں اور کتاب المدلسن کے مطابق تدليس التسوية تک کرتے ہيں يعني استاد کے استاد تک کو ہڑپ کر جاتے ہيں صَفْوَانَ کا اتا پتا نہيں جس سے يہ سن کر بتا رہے ہيں اور وہ اپنے مشائخ کا نام تک نہيں ليتے
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث ہے
أخبرنا يحيى بن يحيى أنا إسماعيل بن عياش عن صفوان بن عمرو السكسكي عن شيخ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما الهند فقال ليغزون جيش لكم الهند فيفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوك السند مغلغلين في السلاسل فيغفر الله لهم ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون المسيح بن مريم بالشام قال أبو هريرة رضي الله عنه فإن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارد وتالد لي وغزوتها فإذا فتح الله علينا انصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيلقى المسيح بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه ( نمبر 462)
صفوان بن عمرو السكسكي نے ایک شیخ (مجہول) سے وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہندوستان کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ ایک لشکر ہندوستان میں جہاد کرے گا اور اللہ انہیں فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ ، سندھ کے بادشاہوں کو وہ زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہ معاف فرما دے گا، پھر وہ پلٹیں گے تو شام میں حضرت عیسی علیہ السلام کو پائیں گے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر میں اس وقت ہوا تو اپنا سب کچھ بیچ کر اس میں شریک ہوں گا۔ اگر اللہ نے ہمیں فتح دی اور ہم واپس آئے تو میں آزاد ابوہریرہ ہو کر شام آؤں گا۔ میں سب سے زیادہ لالچی ہوں کہ وہاں حضرت عیسی بن مریم علیہ الصلوۃ والسلام سے ملوں۔
اس کی سند میں مجہول شیخ ہے
کتاب الفتن از نعيم ميں اس کو مجہول الحال لوگوں کي سند سے بھي اس کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے منسوب کيا گيا ہے
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَغْزُو قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي الْهِنْدَ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مَغْلُولِينَ فِي السَّلَاسِلِ، فَيَغْفِرُ اللَّهُ لَهُمْ ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ إِلَى الشَّامِ، فَيَجِدُونَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِالشَّامِ»
صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو نے کسي سے روايت کيا اس نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے روايت کيا ميري امت کي ايک قوم ہند سے جنگ کرے گي اللہ ان کو فتح ديا گا يہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو بيڑيوں ميں لائيں گے اللہ ان کے گناہ معاف کر دے گا پھر يہ شام کي طرف پلٹيں گے تو وہاں عيسي ابن مريم کو پائيں گے
مسند احمد کي روايت ہے
حدثنا هُشيم عن سَيَّار عن جَبْر بن عَبِيدَة عن أبي هريرة، قال: وعدَناِ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في غزوة الهند، فإن اسْتُشْهِدْتُ كنتُ من خير الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المُحَرَّرَةُ.
جَبْر بن عَبِيدَة ، أبي هريرة سے روايت کرتے ہيں رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے غزوہ ہند کا وعدہ کيا پس اگر اس کو پاؤ تو ميں سب سے بہتر شہداء ميں سے ہوں گا
الذھبي کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين ميں کہتے ہيں جبر بن عبيدة، أو جبير: عن أبي هريرة، مجهول
ابن حجر کا قول ہے
“لا يعرف”. “اللسان” (8/ 246). نہیں جان سکا
احمد شاکر نے اس روايت کو صحيح کہا ہے ليکن انہوں نے اس کي کوئي بھي مظبوط دليل نہيں دي بلکہ يہ راوي مجھول ہے اس کي نہ توثيق ہے نہ جرح اور ايسے راويوں کو مجھول ہي کہا جاتا ہے اس کي مثاليں اتني زيادہ ہيں کہ بے حساب – لہذا يہ روايت صحيح نہيں – الباني اور شعيب الأرناؤوط بھي اس کو ضعيف الإسناد کہتے ہيں اسي راوي کي سند سے سنن الکبري نسائي ، مستدرک حاکم، سنن الکبري البيہقي بَابُ مَا جَاءَ فِي قِتَالِ الْهِنْدِ ميں روايت ہوئي ہے
تہذیب التہذیب از ابن حجر میں ہے
جبر بن عبيدة الشاعر روى عن أبي هريرة وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند الحديث روى عنه سيار أبو الحكم وقال بعضهم جبير بن عبيدة قلت هذا وقع في بعض النسخ من كتاب الجهاد من النسائي حكاه بن عساكر وذكره الجمهور بإسكان الباء قرأت بخط الذهبي لا يعرف من ذا والخبر منكر انتهى وذكره بن حبان في الثقات
ابن حجر نے کہا میں نے الذھبی کی تحریر دیکھی کہ میں اس کو نہیں جانتا اور یہ خبر (کتاب الجہاد والی ) منکر ہے
مسند احمد کي روايت ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا الْبَرَاءُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى السِّنْدِ وَالْهِنْدِ، فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَاكَ، وَإِنْ أَنَا فَذَكَرَ كَلِمَةً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِي مِنَ النَّارِ
ابو ھريرہ کہتے ہيں ميرے دوست رسول الله نے مجھے بتايا کہ اس امت ميں سند اور ہند کي طرف روانگي ہو گي اگر کوئي اس کو پائے تو ٹھيک اور اگر واپس پلٹ آئے تو ميں ابو بريرہ ايک محرر ہوں گا جس کو الله جہنم سے آزاد کر دے گا
شعيب الأرناؤوط اس کو إسناده ضعيف کہتے ہيں
کتاب الجہاد از ابن ابي عاصم ميں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ – وَكَانَ مِنْ نُسَّاكِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ – قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُبَيْهٍ مَوْلَى صَفِيَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَإِنْ أُدْرِكْهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي، فَإِنْ قُتِلْتُ كُنْتُ كَأَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ»
كِنَانَةَ بْنِ نُبَيْهٍ مَوْلَى صَفِيَّةَ پر ابن حجر نے لکھا ہے “التهذيب “: ذكره الأزدي في “الضعفاء ” اور کہا : لا يقوم إسناده حديثه.
سنن نسائي ميں انہي سندوں کو الباني نے ضعيف الإسناد قرار ديا ہے
یہ تو تھیں غزوہ ہند سے متعلق کعب احبار اور ابو ہریرہ کی روایات – اب ہم چند سندوں کا ذکر کریں گے جو شامی راویوں الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي، من أهل حمص المتوفی ١٩٣ ھ اور بقية بن الوليد بن صائد الحمصى المتوفی ١٩٧ هـ نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب کی ہیں -یعنی اس سند میں اہل حمص شام کا تفرد ہے
طبراني کتاب الکبير ميں حديث نقل کرتے ہيں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ
ح
وَحَدَّثَنَا خَيْرُ بْنُ عَرَفَةَ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، ثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيُّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا الله مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ،
وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ثوبان رضي الله عنہ روايت کرتے ہيں کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ميري امت کے دو گروہ ہيں جن کو الله اگ سے بچائے گا ايک وہ جو ہند سے لڑے گا اور دوسرا وہ جو عيسي ابن مريم کے ساتھ ہو گا
ثوبان المتوفي 54 ھ نبي صلي الله عليہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ، ان کو ثوبان النَّبَوِيُّ رضي الله عنہ کہا جاتا ہے- يہ شام ميں رملہ ميں مقيم رہے کتاب سير الاعلام النبلاء کے مطابق
وَقَالَ مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ: سَكَنَ الرَّمْلَةَ، وَلَهُ بِهَا دَارٌ، وَلَمْ يُعْقِبْ، وَكَانَ مِنْ نَاحِيَةِ اليَمَنِ.
اور مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ کہتے ہيں يہ الرَّمْلَةَ ميں رہے جہاں ان کا گھر تھا اور واپس نہيں گئے اور يہ يمني تھے – تاريخ الکبير از امام بخاري کے مطابق ثوبان رضي الله عنہ سے سننے کا دعوي کرنے والے عَبد الأَعلى بْنُ عَدِي، البَهرانِيّ، قَاضِي حِمص ہيں جو١٠٤ ھ ميں فوت ہوئے ہيں – ان کي توثيق متقدمين ميں سے صرف ابن حبان نے کي ہے ان سے سننے والے لقمان بن عامر الوصابى يا الأوصابى المتوفي 120 ھ ہيں ان کا درجہ صدوق کا جو ثقاہت کا ادني درجہ ہے- ہے اور أبو حاتم کہتے ہيں يكتب حديثه ان کي حديث لکھ لي جائے – عموما يہ الفاظ اس وقت بولے جاتے ہيں جب راوي کي توثيق اور ضيف ہونے پر کوئي رائے نہ ہو اور ان کے ساتھ ايسا ہي معاملہ ہے – ان سے سنے والے مُحَمَّد بْن الوليد الزُّبَيْدِيُّ المتوفي 149 ھ ہيں جو ثقہ ہيں- اور الجراح بن مليح حمصی ہے جو ضعیف ہے
الباني نے الصحيحہ ميں سنن نسائي کي سند کا ذکر کر کے اس سند کو صحيح قرار ديا ہے
عن بقية بن الوليد حدثنا عبد الله بن سالم وأبو بكر بن الوليد الزبيدي عن محمد بن الوليد الزبيدي عن لقمان بن عامر الوصابي عن عبد الأعلى بن عدي البهراني عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم.
الباني کا کہنا ہے کہ يہاں دو راوي ہيں جو مقرونا روايت کر رہے ہيں ايک ثقہ ہے اور ايک مجہول ہے
وهذا إسناد جيد رجاله ثقات غير أبي بكر الزبيدي فهو مجهول الحال لكنهمقرون هنا مع عبد الله بن سالم وهو الأشعري الحمصي، ثقة من رجال البخاري.
اس کے بعد الباني نے اس طرق کو صحيحہ 1934 ميں درج کر کے اس کو صحيح قرار ديا ہے – اسي طرح اس کو صحيح الجامع ح (4012) ميں صحيح قرار ديا ہے – الباني نے سنن نسائي ح 3175 کے تحت اس کو صحيح قرار ديا ہے – شعيب
الأرنؤوط نے مسند احمد کي تعليق ميں اس سند کو حسن قرار ديا ہے
راقم کہتا ہے يہ طرق اشکال سے خالي نہيں ہے
مسند الشاميين کي سند ہے
ثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ
اور سنن نسائي کي سند ہے
بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ أَخِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ،
سب سے پہلے تو بقية بن الوليد بن صائد الحمصى المتوفی ١٩٧ هـ کا حدثني يا حدثنا کہنا بھي شک سے خالي نہيں ہے
کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدي کے مطابق
أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ يقُول: مَن، قَال: إِنَّ بَقِيَّةَ، قَال: حَدَّثَنا فَقَدْ كَذَبَ مَا قَالَ بَقِيَّةُ قَطُّ إِلا، حَدَّثني فلان
أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ کہتے جو يہ کہے کہ بقيہ نے کہا حدثنا وہ جھوٹ ہے بقيہ نے کبھي بھي يہ نہيں بولا بلکہ کہتا حدثني فلاں
يعني بقيہ اپنے اپ کو محدث کا خاص شاگرد باور کراتا کہ اس نے مجمع ميں نہيں بلکہ خاص شيخ نے اس کو سنائي
بقيہ کو ثقہ بھي کہا گيا اور بے کار شخص بھي کہا گيا ہے
عقيلي کہتے ہيں يہ کوئي چيز نہيں
بيہقي کہتے ہيں وقد أجمعوا على أن بقية ليس بحجة وفيه نظر اس پر اجماع ہے کہ اس کي روايت حجت نہيں اور اس پر نظر ہے
ابن حزم نے بھی اس کو ضعيف کہا ہے
أبو بكر بن الوليد بن عامر الزبيدى الشامى، ابن حجر کے مطابق مجہول الحال ہے – اصل ميں يہ روايت بقيہ نے اسي مجہول سے لي ہے اورابو بکر نے اس کو اپنے بھائي محمد بن الوليد الزبيدى سے روايت کيا ہے – الباني کا کہنا ہے کہ بقيہ کو يہ عبد اللہ بن سالم سے بھي ملي ہے – امام احمد کا قول ہے
وقال أحمد بن الحسن الترمذي: سمعت أحمد بن حنبل، رحمه الله، يقول: توهمت أن بقية لا يحدث المناكر إلا عن المجاهيل فإذا هو يحدث المناكير عن المشاهير، فعلمت من أين أتي. «المجروحون لابن حبان» 1/191.
احمد بن حسن نے کہا ميں نے احمد کو کہتے سنا مجھ کو وہم ہوا کہ بقيہ صرف مجھول راويوں سے مناکير روايت کرتا ہے پس جب يہ ثقات سے بھي منکر روايت کرے تو جان لو کہ کہاں سے يہ آئي ہے
يعني بقيہ نے ثقات سے بھي منکر روايت بيان کي ہيں اور اصلا یہ مجہول راوی سے لی گئی روایات ہیں
يہ روايت امام ابن ابي حاتم کے نزديک بھي قابل قبول نہيں ہو سکتي – کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدي کے مطابق
حَدَّثني عَبد المؤمن بن أحمد بن حوثرة، حَدَّثَنا أَبُو حاتم الرازي، قالَ: سَألتُ أبا مسهر عَن حديث لبقية فَقَالَ احذر أحاديث بَقِيَّة وكن منها عَلَى تقية فإنها غير نقية.
أَبُو حاتم الرازي نے کہا ميں نے أبا مسهر سے بقيہ کي روايات کے بارے ميں پوچھا کہا ان سے دور رہو ہو سکتا ہے اس ميں تقيہ ہو کيونکہ يہ صاف (دل) نہ تھا
کتاب الجہاد از ابن ابي عاصم ميں ہے
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ الْبَهْرَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الْبَهْرَانِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ، عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى عِيسَى»
اس سند ميں بقيہ نہيں ہے اور اسي طرح مسند الشاميين ميں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيُّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ان دو سندوں میں الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي، من أهل حمص المتوفی ١٩٣ ھ ہے – اسی نام کا ایک راوی الجراح بن مليح بن عدى بن فرس المتوفی ١٩٦ ھ اور بھی ہے جو سخت ضعیف ہے
المتفق والمفترق للخطيب البغدادي میں ہے کہ اس نام کے دو لوگ ہیں
الجراح بن مليح بن عَدي بن فارس، أبو وكيع الرُّؤاسي. من أهل الكوفة
الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي، من أهل حمص
یہاں شامی حمص والا راوی ہے – جس کا ذکر بقول مغلطاي ، أبو العرب القيراني نے الضعفاء میں کیا ہے
بعض کے بقول أبو حاتم اس کو صالح الحديث کہتے ہیں جبکہ راقم کو یہ تعدیل نہیں ملی بلکہ کتاب جرح و تعدیل میں اس پر ابی حاتم کی تعدیل نہیں ہے – ابن ابی حاتم نے کہا امام ابن مَعِين نے کہا : لا أَعْرِفُهُ میں اس کو نہیں جانتا
ابو حاتم جب صالح الحدیث کہیں تو اس کا مطلب ثقہ کہنا نہیں ہوتا کیونکہ بعض اوقات وہ اس کو صدوق کہہ کر يكتب حديثه ولا يحتج به بھی کہہ دیتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھ لو دلیل مت لینا
راقم کہتا ہے یہ کوئی مجہول راوی ہے
ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت میں ہے کہ وہ لشکر جو ہند میں لڑے گا جب وہ فتح کے بعد واپس شام آئے گا تو وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول ہو چکا ہو گا – اس روایت میں دجال کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے – جبکہ دجال کے حوالے سے احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ عرب کے مشرق سے نکلے گا اور ہر شہر کو پامال کرے گا سوائے مدینہ کے – ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت میں جو لشکر ہند میں ہے اس کو دجال کی کوئی خبر نہیں ہے – اس طرح ابہام موجود ہے کہ دجال اس ہند پر لشکر کشی کے وقت کہاں ہے ؟ نہ شامی لشکر کو خبر ہے جو شام سے ہند جہاد کے لئے پہنچا ہوا ہے ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت اس طرح غیر واضح ہے اور شاذ بھی ہے
لب لباب ہے کہ غزوہ ہند والی روایات کعب احبار کے اقوال ہیں جو اس کو اغلبا گھڑی ہوئی کتاب دانیال سے ملے – اس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے شامی راویوں نے منسوب کیا ہے اور بعض نے اس کو ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا
سوال یہ ہے کہ یہود ہندوستان پر حملہ کا کیوں سوچ رہے تھے اگر یہ سب دانیاال سے منسوب کتاب میں لکھا گیا ؟ راقم سمجھتا ہے کہ یہودی جو فارس میں آباد تھے وہ اپنے عقائد کو فارسی سوچ پر ڈھال رہے تھے جس طرح انہوں نے توریت میں سے ابلیس کا تذکرہ ختم کر دیا تھا – فارس میں یہود کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی – فارسیوں اور ہنود میں بنتی نہیں تھی اور ان کے اپس میں جھگڑے ہوتے رہتے تھے لہذا ممکن ہے کہ کسی جنگ کا پلان بنایا گیا اور دانیال سے منسوب کیا گیا لیکن اسی دوران مسلمانوں نے فارس فتح کر لیا
قابل غور ہے کہ مجہول راویوں کو چھوڑ کر روایات میں اہل شام حمص کا تفرد ہے
الحكم بن نافع البهرانى ، أبو اليمان الحمصى المتوفی ٢٢٢ ھ ، صفوان بن عمرو السكسكي الحِمْصِيُّ المتوفی ١٥٥ ھ ، الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي المتوفی ١٩٣ ھ، بقية بن الوليد بن صائد الحمصى المتوفی ١٩٧ ھ ہجری، عبد الله بن سالم الحمصي، عَبد الأَعلى بْنُ عَدِي، البَهرانِيّ، قَاضِي حِمص المتوفی ١٠٤ ھ یہ سب شامی ہیں – اس جنگ کی خبر صرف اہل حمص کو معلوم ہے لیکن کسی اور مقام پر ان روایتوں کو روایت نہیں کیا گیا
امام بخاری و مسلم و ابن خزیمہ و ابن حبان کے نزدیک غزوہ ہند کی خبروں میں سے کوئی بھی سند اس قدر مضبوط نہیں تھی کہ صحیح کے درجہ تک جاتیں لہذا ان میں سے کسی نے بھی اس کو اپنی صحیح میں درج نہیں کیا
دور نبوی میں ہند سے مراد وہ علاقہ تھا جو فارس اور خراسان کے بعد مشرق میں اتا ہے اصلا ہندو تہذیب کا علاقہ سندھ کا ہے جہاں سے ہندو مت کا آغاز ہوا اور سب سے قدیم تہذیبوں میں یہیں موئین جو ڈرو لاڑکانہ میں اس کے اثار موجود ہیں – اس وقت ہندو سرسوتی اور اندر کی پوجا کرتے تھے لیکن بعد میں انے والے آرین لوگوں نے ان دیوتاوں کی اہمیت کو کم کر دیا – سرسوتی دریا سوکھ گیا اور اندر کا دریا سکندر کے لشکر نے انڈس بنا دیا-اس سے معرب ہو کر عربی میں یہ الہند بن گیا-علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان گئے لیکن کسی جھڑپ میں قیقان نام کے مقام پر جو دعوی کیا گیا ہے کہ آج سندھ میں ہے اس میں شہید ہو گئے۔ (فتوح البلدان ،ج:3/ص:531) – باقاعدہ ہند پر لشکر کشی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں ہوئی جب سپہ سالار محمد بن قاسم رحمہ اللہ علیہ نے پہلا حملہ ہند پر کیا ان کے راجہ کو قتل کیا- اگر ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح سمجھا جائے تو اس خبر کی ایک بات کی عملی شکل پوری ہوئی کہ محمد بن قاسم کا لشکر جنتی بن گیا دوسرا جنتی لشکر اب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہو گا
و اللہ اعلم
بعض لا علم لوگوں نے دعوی کیا کہ محمد بن قاسم نے تو سندھ پر حملہ کیا تھا نہ کہ ہند پر – اس حماقت کا رد ٨٠٠ سال پہلے ہی ہو چکا ہے – الكامل في التاريخ از ابن الأثير (المتوفى: 630هـ) میں ہے کہ محمد بن قاسم کو الہند پر لشکر کے ساتھ بھیجا گیا اور اہل ہند کافر تھے
وَفِي أَيَّامِهِ خَرَجَ الْمُسْلِمُونَ عَنْ بِلَادِ الْهِنْدِ وَرَفَضُوا مَرَاكِزَهُمْ، ثُمَّ وُلِّيَ الْحَكَمُ بْنُ عَوَّامٍ الْكَلْبِيُّ، وَقَدْ كَفَرَ أَهْلُ الْهِنْدِ إِلَّا أَهْلَ قَصَّةَ، فَبَنَى مَدِينَةً سَمَّاهَا الْمَحْفُوظَةَ، وَجَعَلَهَا مَأْوَى الْمُسْلِمِينَ، وَكَانَ مَعَهُ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ، وَكَانَ يُفَوِّضُ إِلَيْهِ عَظِيمَ الْأُمُورِ، فَأَغْزَاهُ مِنَ
الْمَحْفُوظَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ وَقَدْ ظَفِرَ أَمَرَهُ فَبَنَى مَدِينَةً وَسَمَّاهَا الْمَنْصُورَةَ
محمد بن قاسم نے ہند پر حملہ کیا تھا اور سندھ اس کا علاقہ تھا
امام الذھبی نے آٹھویں صدی ہجری میں محمود غزنوی (357ھ – ۔421ھ) کا ذکر کرتے ہوئے لکھا
وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات
اس نے اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا اور ان کے بہت سے شہر فتح کیے اور ایک مشہور بت سوم ناتھ کو توڑا
ابن کثیر نے البداية والنهاية میں لکھا ہے
وَقَدْ غَزَا الْمُسْلِمُونَ الْهِنْدَ فِي أَيَّامِ مُعَاوِيَةَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ … وَقَدْ غَزَا الْمَلِكُ الْكَبِيرُ الْجَلِيلُ مَحْمُودُ بْنُ سُبُكْتِكِينَ، صَاحِبُ غَزْنَةَ، فِي حدود أربعمائة، بلاد الهند فدخل فِيهَا وَقَتَلَ وَأَسَرَ وَسَبَى وَغَنِمَ وَدَخَلَ السُّومَنَاتَ وكسر الند الأعظم الّذي يعبدونه
مسلمانوں نے ہند پر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں سن ٤٤ ھ میں غزوہ کیا … اور سلطان محمود نے سن ٤٠٠ ہجری میں ہند کے شہروں میں سومنات پر حملہ کیا
شذرات الذهب في أخبار من ذهب از عبد الحي بن أحمد بن محمد ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ میں ہے
وتوفي في غزوة الهند- في الرّجعة بالبحر- الرّبيع بن صبيح البصري صاحب الحسن
اور غزوہ ہند میں سمندر میں الرّبيع بن صبيح البصري صاحب الحسن کی وفات ہوئی
اس کا ذکر الذہبی نے العبر في خبر من غبر میں بھی کیا ہے یعنی الذھبی کے نزدیک یہ غزوہ ہند ہو چکا ہے
سوم ناتھ پر شوا لنگم تھا اور یہ ان بارہ مندوں میں ایک خاص تھا جہاں ہندؤں کے بقول کائنات کی ابتداء کے وقت اگ کا ستون بنا تھا – اس کے علاوہ بلوچستان بھی ہندو مندروں سے بھرا پڑا تھا – بلوچستان میں ہنگلاج ماتا کا مندر جس کو نانی مندر بھی کہا جاتا ہے یہ ایک قدیم مندر ہے اور یہ بقول ہندؤں کے ان کی دیوی کی آسمان سے گرنے والی لاش کا ٹکڑا ہے جب ستی نے خود کو بھسم کیا تھا – یعنی سندھ ہو یا بلوچستان اس کو تاریخی طور پر ہند سے الگ علاقہ قرار نہیں دیا جا سکتا جس کا ذکر احادیث میں ہے- -ہندو مت کو بطور مذھب ہندو خود عربوں کی آمد سے قبل نہیں کہتے تھے وہ اپنے مذھب کو ویدانت کہتے تھے – عربوں نے ان کو ہندی کہا جس کی بنا پر یہ نام برصغیر کی عوام میں مقبول ہو گیا یہاں تک کہ محدثین جو بر صغیر میں گزرے ہیں وہ تک اپنے آپ کو ہندی لکھتے تھے- یعنی ہندی ایک خغرافیائی نام تھا، مذھب کا نام نہیں تھا -وقت کے ساتھ ویدانت یا سناتن دھرم (قدیم مذھب ) کے قائل ہندی لوگوں نے اس لفظ کو مذہبی ٹائٹل کے طور پر قبول کر لیا اور اب یہ اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں- لفظ ہندو خود ہندوؤں کی کسی قدیم مذہبی کتاب میں موجود نہیں ہے – یہ محص علاقائی لفظ ہے اور سندھ و پنجاب اس کا علاقہ تھا
مسئلہ یہاں یہ ہے کہ قدیم ہند کی حدود ہندو احادیث و مسلمانوں کی تاریخ سے نہیں لین گے – وہ اس کو اپنی کتب سے سمجھ رہے ہیں – ہم افغانستان کو ہند نہیں کہتے ہیں جبکہ ہندوؤں کے مطابق افغانستان تک ہندو تہذیب کا علاقہ تھا اور قندھار اصل میں گندھار ہے جس کا ذکر مہا بھارت میں بھی ہے – وقت کے ساتھ وہاں کے لوگ بدھ مت میں بدلے – بدھ خود ہندوؤں کے نزدیک ہندو ہی ہے کوئی الگ مذھب نہیں ہے – یہاں تک کہ وہ اس کو وشنو کا اوتار کہتے ہیں
راقم کو سننے کو ملا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ کو غزوہ اس لئے کہتے ہیں کہ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں شریک ہوں گے جبکہ یہ عربی سے لا علم ہیں -عربی میں غزوہ اس کو کہا جاتا ہے جس میں تلوار سے قتال کیا جائے – مسلمان مورخین نے فارس کی جنگ جو دور عمر میں ہوئی اس کو بھی غزوہ لکھا ہے – لیکن یہ لوگ دعوی کر رہے ہیں نبی علیہ السلام اپنے مثالی جسم کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہوں گے- حدیث محشر میں ذکر ہے کہ بعض امتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ہٹا لئے جائیں گے اس کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے اے رب یہ امتی ہیں یا اصحابی ہیں لیکن کہا جائے گا آپ کو معلوم نہیں انہوں نے کیا گل کھلائے ہیں – اگر رسول اللہ خود امت کی جنگوں میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر ان کا علم الغیب سے واقف ہونا ثابت ہوتا ہے – جو جھل کا قول ہے
تصوف کے دلدادہ لوگوں نے ایک اسلامی ناسٹرا ڈیمس کی شکل صوفی نعمت اللہ شاہ ولی سے منسوب شاعرانہ کشف کو حقیقت سمجھنا شروع کر دیا ہے – دیو بندی و تبلیغی صوفی حلقوں میں اس دیوان کو بڑی داد و تحسین مل رہی ہے جبکہ یہ دیوان ایران میں پہلی بار چھپا جس کی جدید طباعت کی گئی ہے لنک – سن ١٩٧٢ میں حافظ محمد سرور نظامی نے اس کی طرف مزید اشعار منسوب کیے دیکھئے لنک– اہل حدیث نے شمارہ محدث لاہور میں بھی ان پر تحقیق پیش کی اور جو نتیجہ تھا وہ پیش کیا کہ یہ تمام اشعار جو بر صغیر سے متعلق ہیں جعلی ہیں
لنک
افسوس ان وضعی اشعار کو جدید دانشور، ٹی وی اور اخبار کے مراسلوں میں بھی پیش کر رہے ہیں اور ہر مشہور ٹی وی چینل کے اینکروں کے مینول کا حصہ بنے ہوئے ہیں
خبردار مستقبل کا لائحہ عمل ایک کمزور خبر کی بنیاد پر بنانا یا کسی صوفی کے کشف کی بنیاد پر رکھنا یا اسٹریٹجی میں معجزات کا انتظار کرنا غیر دانشمندی ہے
=================================================
صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا الحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ»
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ دو گروہ لڑیں گے جن کا ایک ہی دعوی ہو گا
دوسری صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے
فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ
ان میں عظیم قتال ہو گا
وَتَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ
ان میں عظیم قتال ہو گا
بعض شارحین نے اس جنگ کو علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مشاجرات سے ملایا ہے جبکہ وہ کوئی عظیم قتال نہیں تھے کچھ مسلمان شہید ہوئے تھے ایسا نہیں کہ عظیم قتال ہوا ہو- راقم اس رائے سے موافقت نہیں رکھتا – علی و معاویہ کا دعوی ایک نہیں تھا – معاویہ کا مطالبہ قصاص عثمان کا تھا اور علی کی جانب سے اس کا مسلسل انکار تھا – ان دونوں کا دعوی ایک نہیں تھا
صحیح مسلم میں اس پر باب ہے باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض امت میں بعض کی بعض کے سبب ہلاکت
دوسری صحیح بخاری کی حدیث میں اس روایت میں ہے کہ اس کے بعد تیس دجال نکلیں گے جو نبوت کا دعوی کریں گے
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ، دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبًا مِنْ ثَلاَثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ
قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ دو گروہوں میں عظیم قتال ہو گا ان کا دعوی ایک ہو گا اور قیامت قائم نہ ہو گی کہ دجال کذابوں کو تیس کے قریب نکالا جائے گا جن میں ہر ایک رسول اللہ ہونے کا دعوی کرے گا
اس جنگ میں دنیا دو گروہوں میں بٹ جائے گی اور گھمسان کی جنگ ہو گی اور دونوں طرف مسلمان بھی ہوں گے یعنی دنیا کے دو گروہ ہیں محض مسلمانوں کے دو گروہ نہیں ہیں – اس حدیث کو محض مسلمانوں کی آپس میں جنگ پر محدود کرنا حدیث کے متن میں اضافہ ہے
اس جنگ کے بعد دجالوں کے خروج کی خبر ہے – ان میں سب سے بڑا دجال ، دجال اکبر ایک ساتھ دو دعوی کرے گا کہ وہ مومن ہے ، وہ نعوذ باللہ اوتار ہے – راقم سمجھتا ہے دجال کوئی ہندومت متاثر لیکن مسلمان نام کا شخص ہو گا جس کی مدد یہود و ہنود کر رہے ہوں گے اس طرح ان تمام روایات میں تطبیق ہو جاتی ہے جو خروج دجال سے متعلق ہیں ، مشرق سے فتنہ کے نکلنے سے متعلق ہیں
و اللہ اعلم
==============
لبیک غزواتل الھند
راقم کی نظر سے یہ اشتہار گزرا – خیال آیا کہ کوئی نیا فرشتہ غزواتل مسلمانوں نے دریافت کیا ہے – غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ غزوہ الھند لکھا گیا ہے
اب جس قدر یہ اردو و عربی کے لحاظ سے غلط ہے اسی قدر آپ ان روایات کو بھی لے لیں نہ راوی مشہور نہ کلام معروف